جنرل پرویز مشرف نے جو اب چشمِ بددُور صدر بھی بن گئے ہیں‘ اپنی پہلی تقریر میں جو سات نکاتی ایجنڈا قوم کے سامنے رکھا تھا‘ اس کا پہلا نکتہ ’’قومی اعتماد کی بحالی‘‘ تھا۔ قومی اعتماد کی بحالی کو اولیں ترجیح قرار دے کر درحقیقت یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ قوم مایوسی کا شکار ہے--- اگر سول اور ملٹری انٹیلی جنس کے متعدد محکمے دیانت داری سے اپنی رائے جنرل صاحب کے سامنے باقاعدہ پیش کر رہے ہوں‘ تو ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے حکمران بننے کے بعد قوم کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے‘ کمی نہیں ہوئی۔
جنرل صاحب کے سات نکاتی ایجنڈے کا دوسرا جزو ’’وفاق کی مضبوطی‘‘ تھا۔ وفاق کی مضبوطی سے مراد یہ ہے کہ وفاق کے اجزا کے طور پر تمام صوبے اپنے اپنے دائرہ کار میں خودمختار ہوں‘ ان کے آپس کے تعلقات باہمی اعتماد‘ بھائی چارے اور محبت پر استوار ہوں۔ وہ وفاقی حکومت کے زیرسایہ ہم آہنگ ہو کر مشترک مقاصد کے لیے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے صورت حال اس کے برعکس ہے۔ خشک سالی اور آبی ذخائر میں پانی کی کمی کے باعث ‘ زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی کے بحران میں صوبوںکے اختلافات بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کے ذریعے صوبوں کے مفادات کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ کبھی صوبہ پنجاب کے خلاف تین صوبے مشترکہ مفادات کی کونسل سے واک آئوٹ کرتے ہیںا ور کبھی سندھ پر پانی چوری کا الزام لگا کر پنجاب اور سرحد‘ بلوچستان کی حمایت میں اجلاس سے واک آئوٹ کرتے ہیں۔ یہ خبریں جب اخبارات کی زینت بنتی ہیں تو صوبوں کے علیحدگی پسند عناصر کی تقویت کا باعث بنتی ہیں اور وہ بھی خم ٹھونک کر میدان میں نکل آتے ہیں۔ علاقائی پریس عوامی احتجاج میں مزید تلخی گھولنے کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح وفاق کے مختلف یونٹ (صوبے) فوجی حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی کے سبب سرکاری افسران کے ذریعے آپس میں حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وفاق کی تقویت کے بجائے اس کی کمزوری کا باعث بن رہے ہیں۔
افواج پاکستان کے سربراہ اس وقت مطلق العنان صدر کی حیثیت سے ‘ تمام اختیارات کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ یہ امر بذات خود صوبوں کے اختیارات کو سلب کرنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے اور صوبوں میں بداعتمادی کا سبب بن رہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے ایجنڈے کا تیسرا نکتہ ’’معیشت کی بحالی‘‘ ہے۔ معیشت کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت گرتی ہوئی معیشت ہی ہماری سب سے بڑی کمزوری بن گئی ہے اور اس کی وجہ سے ہماری آزادی خطرے میں ہے۔ ہم خارجہ امور‘ دفاع اور معاشی پالیسیوں کے علاوہ تعلیم جیسے اہم شعبے میں بھی آزادی سے محروم ہو گئے ہیں۔ نصاب تعلیم میں نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنٹوں کی مرضی کے مطابق ردّ و بدل پر مجبور ہیں۔ دینی مدارس کے خلاف حکومت کی محاذ آرائی اور میٹرک کے نصاب سے قرآن کریم کے ترجمے کا حذف کرنا بیرونی دبائو کا ہی نتیجہ ہے۔ سرکاری ملازمین کی سالانہ کانفیڈنشل رپورٹوں سے دینی اور اخلاقی حالت اور نظریہ پاکستان سے وابستگی سے متعلق سوالوں کا اخراج بھی معنی خیز ہے اور حکومت کے رجحان میں تبدیلی کا واضح اشارہ ہے‘ جس میں نہ معلوم کس کس کا ہاتھ ہے۔ اس وقت کشمیر کے مسئلے میں بعض حکومتی حلقوں کی طرف سے لچک کے جو اشارے دیے جا رہے ہیں وہ بھی معاشی دبائو کا نتیجہ ہے۔ حکومت اپنے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود معیشت کو سنبھالا دینے میں ناکام رہی ہے اور کوئی ایسا انقلابی قدم نہیں اٹھا سکی ہے جس سے معاشی صورت حال میںکوئی حقیقی تبدیلی واقع ہو سکے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری اور قرضوں پر انحصار میں مسلسل اضافہ اس دَور کی نشانی بن گئے ہیں اور ملک پر عالمی ساہوکاروں کا تسلط مستحکم تر ہوتا جا رہا ہے۔
ایجنڈے کا چوتھا نکتہ ’’امن و امان کی بحالی‘‘ ہے لیکن دہشت گردی‘ قتل‘ ڈاکا زنی‘ چوری‘ عورتوں کی بے حرمتی اور دوسرے جرائم کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے ناجائز اسلحہ ضبط کرنے اور تعاون نہ کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینے کی محض دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اگر حکومت شہریوں سے اسلحہ لینے میں قدرے کامیابی حاصل بھی کر لیتی ہے تو یہ کامیابی امن و امان کی ضامن اس لیے نہیں ہو سکے گی کہ پیشہ ور ڈاکو اور لٹیرے کبھی بھی اپنا اسلحہ واپس نہیں کریں گے‘ اور حکومت کی کرپٹ مشینری میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اس کے ہاتھ اصل مجرموں تک پہنچ سکیں۔ اس طرح غیر مسلح ہونے کے بعد عوام بالکل ہی ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ بدامنی کے دوسرے ذرائع میں بھی‘ جیسے بے روزگاری‘ غربت اور جنسی جرائم اور تشدد پر مبنی فلمی مناظرمیں‘ جو سینما‘ ویڈیو‘ کیبل نیٹ ورک‘ انٹرنیٹ اور ڈش پر دکھائے جاتے ہیں ‘برابر اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن بھی ایسے مناظر دکھانے میں پیچھے نہیں ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کا پانچواں نکتہ ’’ریاستی اداروں کو غیر سیاسی بنانا‘‘ہے۔ اس کے برعکس خود فوج کو ایک مکمل سیاسی ادارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور سیاسی ادارے کی تمام خرابیاں اس میں سرایت کرتی جا رہی ہیں۔ جنرل صاحب کے چیف آف آرمی اسٹاف ہوتے ہوئے صدر بن جانے سے فوج سیاسی دلدل میں مزید دھنس گئی ہے اور اس سے فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کی دفاعی صلاحیت سخت مجروح ہو رہی ہے۔ سرکاری ادارے صوبوں میں علیحدگی پسند عناصر کی قیادت کر رہے ہیں اور منفی سیاست کے مرکز بن گئے ہیں۔
حکومت کے ایجنڈے کاچھٹا نکتہ ’’نچلی سطح پر اختیارات کی تقسیم‘‘ ہے۔ اختیارات کی تقسیم کے نام پر جوبلدیاتی انتخابات کرائے جا رہے ہیں‘ اس میں قومی تعمیرنو کے ادارے کے علاوہ کسی کا مشورہ شامل نہیں ہے۔ درحقیقت موجودہ حکومت کے ہاں مشورے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اصل فیصلے کور کمانڈرز کے اجلاس میں ہوتے ہیں اور کورکمانڈر فوجی ڈسپلن کے پابند ہیں۔ وہ فوجی وردی میں ہوتے ہوئے اپنے چیف سے کیسے اختلاف کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ ڈسپلن کے آداب ملحوظ رکھتے ہوئے انتہائی نرمی اور ادب سے کسی مسئلے کا دوسرا پہلو پیش کر دیا جائے۔ اصل فیصلہ تو فردِواحد ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ فوجی حکومت اور اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کا نکتہ باہم متضاد ہیں۔
فوجی حکومت کی سرشت میں اختیارات کے ارتکاز کا رویہ رچا بسا ہوتا ہے۔ اس سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ کوئی ایسا نظام رائج کرے گی جس میں حقیقی اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہو جائیں۔نئے نظام کے نام سے درحقیقت یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کے لیے ایسا شکنجہ بنایاجائے جس میں انھیں مضبوطی سے جکڑا جا سکے۔ یہ کام بین الاقوامی مالیاتی ادارے‘ مخصوص ایجنڈے کی حامل این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بلدیاتی اداروں کے ذریعے سرانجام دیں گی جن کی اصل منزل سیکولرزم‘ مغربی ثقافت کی ترویج اور عالمی مالیاتی اداروں کی حکمرانی کا قیام ہے۔ گرتی ہوئی قومی معیشت‘ غربت اور بے روزگاری اس طرح کا شکنجہ تعمیر کرنے میں مدد دیں گی۔ بہ حیثیت صدر جنرل پرویز مشرف اس شکنجے کی حفاظت پر مامور کردیے گئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں جو انتخابات ہوں گے اور جو پارلیمنٹ وجود میں آئے گی اسے مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ جنرل صاحب کے اقدامات کی توثیق کر دے۔ اس کے بغیر حکومت ان کی طرف منتقل نہیں کی جائے گی اور جنرل صاحب خود بااختیار صدر بن کر پارلیمانی طرز حکومت کو عملاً صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کروانے کی کوشش کریں گے۔
بلدیاتی اداروں کو غیر جماعتی اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہ ادارے براہِ راست این جی اوز کے ذریعے عالمی اداروں کی تحویل میں آسکیں اور ترقیاتی کاموں کے نام سے ان سے اسلامی تہذیب و تمدن کو مٹانے اور عالم گیریت کے نام سے مغربی اور ہندوانہ تمدن کو عام کرنے کا کام لیا جا سکے۔
پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کا آخری نکتہ ’’احتساب‘‘ ہے۔ اسی کے نام پر انھوں نے فوجی مداخلت کی۔ احتساب اب سیاسی بلیک میلنگ کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اگرچند چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو زیرجال کیا بھی گیا ہے تو وہ نمایشی سے زیادہ نہیں۔ بڑی بڑی مچھلیاں تو نہ صرف گرفت سے باہرہیں بلکہ عزت و اکرام کے ساتھ رہا کر دی گئی ہیں۔
اس وقت عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ رائے عامہ معلوم کرنے کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے تقریباً ۸۰ فی صد عوام ان تمام ایشوز پر جن کا احاطہ سات نکاتی ایجنڈے میں کیا گیا تھا‘ حکومت سے مایوس ہیں۔
پرویز مشرف صاحب سات نکاتی ایجنڈے میں ناکامی کے باوجود حکومت کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور اپنا شوق پورا کرنے کے لیے انتہائی بھونڈے انداز میں صدر بن بیٹھے ہیں۔ آئینی لحاظ سے ان کے لیے صدر بننا ممکن نہیں تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے کچھ نام ور ماہرین قانون بلکہ قانون کے جادوگروں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں کہ وہ ان کے لیے انتخاب اور اسمبلیوں کو بحال کیے بغیر صدر بننے اور موجودہ صدر کو فارغ کرنے کی کوئی سبیل نکال لیں۔ غالباً انھیں کوئی مہذب اور شائستہ راستہ دکھائی نہیں دیا اور انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ جس طرح فوج کے سربراہ کی حیثیت کو استعمال کر کے وہ بزور شمشیر چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے اور جس طرح اس حیثیت میں انھوں نے راتوں رات نواز شریف کو ملک بدر کر دیا تھا اور آئین‘ اور قانون ان کے راستے میں حائل نہیں ہو سکا تھا اسی طرح شب خون مار کر وہ صدر تارڑ کو فارغ کر کے خود صدر بن جائیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف کے صدر بننے سے فوج کو بھی نقصان ہوگا اور ملک کو بھی‘ لیکن پرویز مشرف صاحب کے لیے اب یہی ایک نکاتی ایجنڈا سب سے زیادہ اہم ہو گیا تھا کہ وہ کسی طرح ملک کے ایک بااختیار صدر بن جائیں۔ ان کا صدر بن جانا وفاقی پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام رائج کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔ یہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت موجودہ حکومت کو مشروط طور پر تین سال کی مہلت دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی ان شرائط میں پہلی شرط یہ ہے کہ دستور کی اسلامی دفعات اور ملک کی اسلامی نظریاتی اساس میںکسی قسم کا کوئی ردّ و بدل نہیں کیا جائے گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی میں کمی نہیں کی جائے گی۔
تیسری شرط یہ ہے کہ وفاقی پارلیمانی نظام اور صوبوں کے اختیارات کو نہیں چھیڑا جائے گا۔
ان شرائط کے ساتھ فوجی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تین سال مکمل ہونے سے قبل انتخابات کا انعقاد کرائے تاکہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء تک دستور بحال کر کے سویلین منتخب حکومت بن سکے۔
جنرل پرویز مشرف صاحب کا صدر بن جانا اور یہ کوشش کہ فوج کو ترکی کی طرح ملکی معاملات میں مستقل دستوری کرداردیا جائے اور نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کے نام پر قومی دستور میں بنیادی ترامیم کی جائیں‘ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کی خلاف ورزی ہے جس کے ذریعے اس نے تین سال تک موجودہ حکومت کو مشروط طور پر جائز قرار دیا ہے۔
ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو نظراندازکرنے کی جو رَوش پرویز مشرف صاحب کی حکومت نے اپنائی ہے ‘اس کی ایک تازہ مثال یکم جولائی سے ملک کے اندر سودی کاروبار کو غیر قانونی قرار دینے سے پہلوتہی ہے۔ سپریم کورٹ نے یکم جولائی ۲۰۰۱ء کو عملاً فیصلے کے نفاذ کے لیے حکومت کو پابند کیا تھا کہ وہ ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق بہ تدریج مختلف قدم اٹھائے تاکہ ۳۰ جون کے بعد سود کے خلافِ قانون ہو جانے کے بعد کوئی عملی مشکل یا بحران پیدا نہ ہو سکے۔ لیکن حکومت نے جان بوجھ کر مطلوبہ اقدامات کرنے سے احتراز کیا‘تاکہ عین موقع پر اسی بہانے فیصلے کو مؤخر کروا سکے کہ اس کا نفاذ فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔ یہ روش قومی مصلحت کے خلاف ہے ؟ دراصل حکمران معیشت کو سود سے پاک کرنے میں مخلص نہیں ہیں۔
معاشی پالیسی بنانے والوں کا مفاد موجودہ سودی معیشت سے وابستہ ہے۔عالمی اداروں کے یہی آلہ کار‘ قومی معیشت کو ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور بین الاقوامی معاشی اداروں کے چنگل سے آزاد کرنے کے راستے میں حائل ہیں۔ اس لیے موجودہ حکومت نے بھی یونائیٹڈ بنک کو ذریعہ بنا کر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ فی الحال حکومت سپریم کورٹ کے ا پیلیٹ بنچ سے اپنی مرضی کا فیصلہ اس لیے نہیں لے سکی کہ بنچ مکمل نہیں تھا۔اس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ بنچ نامکمل ہے اور کیس سننے کے قابل نہیں ہے۔ اس نکتے کو فاضل ججوں نے تسلیم کیا لیکن حکومت نے دبائو کے حربے استعمال کر کے ایک عالم دین کی جگہ خالی رکھتے ہوئے اس عدالتی سقم کے باوجود ایک سال کی مہلت حاصل کر لی جو عدالت کی کمزوری اور حکومت کی بدنیتی کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔
عدالتوں کی بالادستی کے بغیر کسی بھی ملک میں ایک مہذب‘ شائستہ اور جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا۔ سب سے بڑا سوال اس وقت یہی ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو ملک میں دستور‘ قانون اور قاعدے ضابطے کو نافذ کر کے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو دو مرتبہ حکومت میں آنے کے باوجود اپنی ناکامی ثابت کر چکے ہیں۔ اس وقت الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیماکریسی (ARD)کی شکل میں یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہیں۔ اگر فوجی حکومت کی ناکامی ثابت ہونے کے بعد حکومت واپس ان جماعتوں کے پاس چلی جائے تو کیا انصاف کے تقاضے پورے ہو جائیں گے۔ خود ان دو جماعتوں کا سب سے بڑا حامی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا‘ نہ عوام اس کو تسلیم کریں گے۔ اگر پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ اور فوجی حکومت مسئلے کا حل پیش نہ کر سکیں تو کیا ملک میں کوئی اور طاقت نہیں ہے۔ کیا ہماری قوم کے مستقبل میں بالکل اندھیرا اور مایوسی ہے!
یقینا ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن یہی تصورپیش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ’’ناکام ریاست‘‘ہے۔ سوال یہ ہے کیا واقعی ریاست ناکام ہے یا وہ سیکولر حکمران گروہ ناکام ہو چکا ہے جو ملک کی تشکیل سے لے کر اب تک مختلف سیاسی اور فوجی لبادوں میں ملک پر مسلط ہے‘ اور جسے سابق استعماری طاقت نے پاکستان پر حکومت کرنے کے لیے تیار کیا تھا؟آزادی کے بعد کے ساڑھے پانچ عشروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ناقابل تردید حقیقت سامنے آتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال اور قائد ملّت لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد سے ملک میں اسی ایک طبقے کا اقتدار رہا ہے۔ یہ طبقہ ایک آزاد قوم کی اُمنگوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کر سکا اور اپنے اخلاق و کردار کے حوالے سے بلند ہونے کے بجائے مسلسل زوال و انحطاط کی طرف جاتا رہا‘ یہاں تک کہ اب اس میں سَکت نہیں ہے کہ اندر سے اپنی اصلاح کر سکے۔ اب اس کی اصلاح کے لیے ایک انقلابی طاقت کی ضرورت ہے اور وہ انقلابی طاقت‘ عوامی قوت کو منظم اور متحرک کرنے سے ہی وجود میں آسکتی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ایک تازہ دم‘ دیانت دار‘ باحوصلہ قیادت اُبھر سکتی ہے جو عوام میں سے ہو اور خدا اور خلق دونوں کے سامنے اپنے کو جواب دہ سمجھتی ہو۔
پاکستانی قوم کی بہت بڑی اکثریت اس وقت ملک کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہے۔ یہ فکرمندی ان کے حبّ وطن کی ایک مثبت علامت ہے۔
اس فکرمندی کو مایوسی کی طرف لے جانے کے بجائے قوت عمل میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو محض خود پُرامید ہی نہ ہو بلکہ ذوق یقین سے سرشار ہو۔ مولانا رومؒ کے ان اشعار کو علامہ اقبال ؒ نے اپنی کتاب‘ اسرار خودی کے سرنامے کے طور پر کتاب کے پہلے صفحے پردرج کیا ہے:
دی شیخ باچراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام ودد ملولم و انسانم آرزوست
زیں ہمرہان سُست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم دستانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
ایک بزرگ چراغ لے کر شہر کی گلی کوچوں میں پھر رہے تھے کہ جعل سازوں اور فریب کاروں سے آزردہ ہوں اور ایک حقیقی انسان کی تلاش میں گردش کر رہا ہوں۔ ان درماندہ سُست رفتار ہم راہیوں سے بھی میرا دل اُچاٹ ہوگیا ہے ‘کسی شیرخدا اور کسی رستم کی داستان کی آرزو میں نکل کھڑا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ ہم نے بہتیرا تلاش کیا ہے اس طرح کے لوگ نایاب ہیں۔ اس نے کہا جو نایاب ہیں انھی کی آرزو میں پھر رہا ہوں۔
اس وقت ہمیں اس طرح کی قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کی آرزوئوں کو تازہ رکھے کہ مرگ آرزو ہی اصل میں قوموں کی موت کا سبب بنتی ہے۔ اقبال نے اس لیے اپنی کتاب ‘ زبورعجم پڑھنے والوں کو نصیحت کی ہے :
می شود پردئہ چشم پرکاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں رابنگاہے گاہے
وادیٔ عشق بسے دُور و دراز است ولے
طے شود جادئہ صد سالہ بآہے گاہے
درطلب کوش و مدہ دامن امید زدست
دولتے ہست کہ یابی سر راہے گاہے
کبھی تو ایک معمولی تنکا میری آنکھ کے لیے پردہ بن جاتا ہے‘ اور کبھی میں ایک نگاہ سے دونوں جہان دیکھ لیتا ہوں۔ تلاش و جستجو میں سرگرم رہو اور اُمید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو۔ ایسی بھی دولت ہے جو تمھیں کبھی سرراہ بھی مل جاتی ہے۔ عشق کی وادی اگرچہ بڑی وسیع اور دُور و دراز ہے لیکن کبھی کبھی سو سالہ راستہ ایک آہ میں بھی طے ہو جاتا ہے۔
اپنی کتاب‘ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کی ابتدا میں کتاب پڑھنے والوں کو یہ پیغام دیتے ہیں:
سپاہ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق
کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است
زمانہ ہیچ نداند حقیقتِ اورا
جنوں قباست کہ موزوں بقامت خرد است
بآں مقام رسیدم چو در برش کردم
طواف بام و درمن سعادت خرد است
گماں مبر کہ خرد را حساب و میزاں نیست
نگاہ بندئہ مومن قیامت خرد است
عشق کی ولایت سے تازہ افواج کی بھرتی ضروری ہو گئی ہے کہ عقل کی بغاوت سے حرم میں خطرہ نمودار ہو گیا ہے۔ زمانہ اس کی حقیقت سے کلی طور پر بے خبر ہے۔ جنون ایسی قبا ہے کہ عقل کی قامت پر بالکل ہی موزوں اور پوری ہے۔ میں عشق کے اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ جب میں نے اس کا دروازہ کھولا تو مجھ پر یہ راز کھل گیا کہ میرے بام و دَر کا طواف کرنا عقل کی سعادت ہے۔ یہ گمان نہ کر کہ خرد کے لیے حساب و میزان نہیں۔ مرد مومن کی نگاہ خرد کی قیامت ہے (یعنی اس سے خرد کی تگ و تاز کی قیمت جانچی جا سکتی ہے)۔
عشق اور خرد یا جنون اور عقل کا موازنہ اقبال کے پیغام کا ایک اہم موضوع ہے ۔ جب عقل و خرد کے حساب کتاب سے قوم کو ولولہ تازہ دینے میں انھیں مشکل پیش آتی ہے تو وہ بندئہ مومن کی ایمانی طاقت‘ اس کے عشق اور اس کے جذبۂ جنوں کو اُبھارتے ہیں۔ ایک خوب صورت رباعی میں فرماتے ہیں:
الا یاخیمگی خیمہ فروہل
کہ پیش آہنگ بیروں شدز منزل
خرد از راندن محمل فروماند
زمام خویش دادم در کف دل
خبردار ہو جائو‘ خیمے میں بیٹھنے والوں کو چھوڑ دے کہ قافلے کا پیش رَو (قافلے سے آگے چلنے والا‘ پیش آہنگ) اپنے مقام سے نکل کھڑا ہوا ہے۔ عقل بوجھ اٹھانے سے عاجز آگئی ہے۔ اس لیے اب میں نے اپنی مہار دل کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔
ہم بھی قومی لحاظ سے اس وقت ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ قوم کے ایک بڑے حصے میں پائی جانے والی ایمانی طاقت کو بروے کار لانے کی ضرورت ہے۔
اگر کسی کو اس ایمانی طاقت کی موجودگی میں شک ہے تو وہ ان ہزاروں نوجوانوں سے ملاقات کا اہتمام کرلیں جنھیں موت کی وادی سے اس پار محبوب کا چہرہ نظر آ رہا ہے۔ یہ نوجوان ہزاروں میل دشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہیں‘ بھارتی درندوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اپنی مائوں اور بہنوں کی عصمتیں بچانے اور اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ اپنے آپ کو شہادت کے لیے پیش کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ یہ نوجوان اُمت کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ جنوبی لبنان‘ فلپائن‘ ان کی فداکارانہ سرگرمیوں کی آماجگاہ ہے۔ یہ نوجوان خود ہماری پاکستانی قوم کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ رنگ و نسل اور زبان کے تفرقے سے بالاتر ہیں۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور جو قوموں کی ڈوبتی کشتیوں کو طوفانوں سے نکال کر ساحل مراد تک پہنچاتے ہیں۔
ہماری قوم کی اس ناقابل شکست قوت کے خلاف گہری سازش ہو رہی ہے۔ اسے آپس میں لڑانے کے لیے بیرونی اور اندرونی دشمن مدت سے سرگرم عمل ہیں۔ شیعہ سنی کے درمیان قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن یہ لڑائی دو چھوٹے اور مختصر گروہوں تک محدود رہی اور عوام الناس نے اس میں شامل ہونے سے گریز کیا۔ اب بریلوی دیوبندی خوں ریزی پھیلانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کی مساجد پر قبضے کا سلسلہ تو بہت عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ اب مولانا محمد سلیم قادری اور ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں کے قتل سے یہ کشیدگی ایک تشویش ناک صورت اختیار کر گئی ہے۔ کراچی میں ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر قتل اور دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا‘ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر دینی جماعتوں کے نوجوان مجاہدین کو جو میدانِ جہاد میں دشمن کے چھکے چھڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ اس تباہ کن اور بے فیض تصادم میں اُلجھا دیا گیا تو یہ پوری قوم کی بدبختی ہوگی۔
ملک و قوم کو اس روزِ بد سے بچانے کے لیے دینی قائدین کے درمیان گہرے ذاتی روابط کی ضرورت ہے۔ ذاتی روابط سے بدگمانیاں دُور ہو جاتی ہیںاور آپس میں حسن ظن کو فروغ ملتا ہے اور بہت سارے اختلافات جو بدگمانی کی پیداوار ہوتے ہیں‘ محض آپس کے گہرے رابطے اور ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنے سے رفع ہو جاتے ہیں۔ دینی جماعتوں کے کارکنوں اور ہر سطح کی قیادت کا بھی فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ روابط پیدا کرنے کے لیے پیش رفت کریں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو پہل کرنی چاہیے اور ہر سطح پر خوش گوار فضا پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الحمدللہ‘ جماعت کے کارکن پہلے ہی ہر طرح کے لسانی اور فرقہ وارانہ عصبیت سے پاک ہیں‘ لیکن آج کل کے حالات میں نہ صرف انھیں خود زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے بلکہ دینی گروہوں اور مسلکوں کے درمیان بھی ثالث بالخیر کا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہونا چاہیے۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ دینی قوتوں کو باہم لڑانے کی حکمت عملی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یورپ کی تاریخ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں اور ان دونوں فرقوں کے اندر دوسرے چھوٹے چھوٹے فرقوں(denomminations) کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ و جدال ہی کے ذریعے سیکولر قوتوںنے اپنا سیاسی مقام پیدا کیا اور بالآخرمذہب کو ریاست کی صورت گری کے کام سے بے دخل کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں انگریز سامراجی حکمرانوں نے ہندو مہاسبھا کے احیا اور شدھی کی تحریک کی پشت پناہی اور مسلمانوں میں فرقہ واریت کے فروغ کی شکل میں یہی کھیل کھیلا ۔لیکن تحریک خلافت‘ تحریک پاکستان اور تحریک اسلامی نے مسلمانوں کے اندرونی اختلاف کو دور کیا اور باہم رواداری اور مشترک اعلیٰ مقاصد کے لیے اتحاد و یک جہتی کی شاہ راہ دکھائی۔ آج پھر دشمن وہی کھیل کھیل رہا ہے۔ آج پھر دینی قوتوں کا فرض ہے کہ اس کھیل کو ناکام بنا دیں اور دین کے احیا اور شریعت کی بالادستی کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔
جماعت اسلامی اس ملک کی ایک موثر اور منظم دینی سیاسی قوت ہے ۔ جب اس کے کارکن پورے اخلاص سے کسی بڑے کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو وہ اللہ کے فضل سے چل پڑتا ہے۔ اس وقت قوم کو مایوسی سے نکال کر عمل پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کتاب جہاد ہے اور بے غرض اور مخلصانہ جدوجہد کی تلقین کرتا ہے۔مایوسی سے بچانے کے لیے قرآنی حکم ہے: وَلاَ تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَیَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ o (یوسف ۱۲: ۸۷) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘۔ وَلاَ تَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل عمٰرن ۳:۱۳۹) ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ اَلاَّ تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo (حم السجدہ ۴۱:۳۰) ’’نہ ڈرو‘ نہ غم کرو ‘اور خوش ہو جائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔
قوم اس وقت ایک ایسے گروہ کے انتظار میں ہے جو میدان میں نکل کر ان کی قیادت کرے۔ گھروں اور دفتروں میں بیٹھ کر یہ توقع رکھنا درست نہیں ہے کہ قوم ہمای طرف خود بخود آجائے گی۔ اس کے لیے ہمیں ہر دروازے پردستک دینی ہے۔ ہر صاحب ایمان کو پکارنا اور ہر محب وطن کو بیدار اور متحرک کرنا ہے۔ دلوں کو جوڑنا اور سب کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ملک و قوم کو اس عذاب سے نجات دلانا ہے ‘جس میں سیکولر اشرافیہ (elites) نے اپنے بیرونی استعمار کے مفادات کی خاطر اسے جھونک دیا ہے۔
پہلے قائدین قربانی دینے کے لیے تیار ہوں گے‘ اندھیروں میں چراغ روشن کریں گے‘ پھر کارکن نکلیں گے۔ اس کے بعد قوم نکل کر ساتھ دے گی۔ جو لوگ صرف ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑا کر اندازے لگاتے ہیں ان کے اندازے ہمیشہ انقلابی قوتوں کے مقابلے میں شکست کھا جاتے ہیں۔ جب اللہ کے بھروسے پر اپنا فرض ادا کرنے کے لیے مردانِ حُر میدان میں نکلتے ہیں تو وہ اللہ کی تقدیر بن جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو دشمنوں کی یلغار سے بچانے کے لیے ان ہی مردانِ حُر کی ضرورت ہے۔ لیکن قومی بیداری کے اس کام میں ہر طبقے کے مخلص لوگوں کو ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری فوج ہم میں سے ہے۔ قوم کو اپنی فوج سے تصادم مول لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ قوم کے تمام طبقات کے بہتر لوگوں کی طرح فوج کے اندر صاحب ایمان و تقویٰ عناصر اور جہاد فی سبیل اللہ کو اپنا طریق زندگی بنانے والے عناصر کی کمی نہیں ہے۔ ملک و قوم جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے وہ لوگ اس سے بے خبر نہیں ہیں۔اگر قوم کی مخلص قیادت مل جل کر قومی نجات کے لیے حکمت و دانش کے ساتھ‘ لیکن مومنانہ بصیرت اور جرأت کے ساتھ میدان عمل میں اتر جائے گی تو یہ تمام عناصر ان کا خیر مقدم کریں گے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔
اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے‘ وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو‘ دلائل کے ساتھ ہو‘ اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے‘ تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرح مختلف نقطۂ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انھیں دیکھ کر خود رائے قائم کر سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں‘ تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہو سکتا۔ لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ اُس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اُس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے‘ اُس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے‘ اُس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے۔ سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے۔ مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو مُتَّہَم ]برباد[کر ڈالے‘ اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑ جائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔
اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے‘ بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی بدولت معاشرے کے مختلف عناصر میں باہمی عداوتیں پرورش پاتی ہیں۔ اس سے عوام دھوکے اور فریب میں مبتلا ہوتے ہیں اور اختلافی مسائل میں کوئی صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔ اس سے معاشرے کی فضا میں تکدّر پیدا ہو جاتا ہے جو تعاون و مفاہمت کے لیے نہیں بلکہ صرف تصادم و مزاحمت ہی کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ اس میں کسی شخص یا گروہ کے لیے عارضی منفعت کا کوئی پہلو ہو تو ہو‘ مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کا نقصان ہے جس سے بالآخر خود وہ لوگ بھی نہیں بچ سکتے جو اختلاف کے اس بے ہودہ طریقے کو مفید سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو‘ ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔
دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے‘ اختلافات میں رواداری ‘ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش‘ اور دوسروں کے حق رائے کو تسلیم کرنا ہے۔ کسی کا اپنی رائے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے‘ لیکن رائے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کر لینا‘ انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری رائے سے مختلف کوئی رائے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جا سکتی‘ لہٰذا جو بھی کوئی دوسری رائے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کر دیتی ہے‘ اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کر دیتی ہے‘ اور معاشرے کے مختلف عناصر کو جنھیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے‘ اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں۔ اس کا نتیجہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ ایک مدّتِ دراز تک معاشرے کے عناصر ترکیبی آپس کی کش مکش میں مبتلا رہیں اور اس وقت تک کوئی تعمیری کام نہ ہو سکے جب تک کوئی ایک عنصر باقی سب کو ختم نہ کر دے‘ یا پھر سب لڑ لڑ کر ختم ہو جائیں اور خدا کسی دوسری قوم کو تعمیر کی خدمت سونپ دے۔
بدقسمتی سے ناروا داری اور بدگمانی اور خود پسندی کا یہ مرض ہمارے ملک میں ایک وباے عام کی صورت اختیار کر چکا ہے جس سے بہت ہی کم لوگ بچے ہوئے ہیں۔ حکومت اور اس کے اربابِ اقتدار اس میں مبتلا ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اس میں مبتلا ہیں۔ مذہبی گروہ اس میں مبتلا ہیں۔اخبار نویس اس میں مبتلا ہیں۔ حتیٰ کہ بستیوں اور محلوں اور دیہات کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں تک اس کے زہریلے اثرات اتر گئے ہیں۔ اس کا مداوا صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں‘ اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیراثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعتِ ظرف کا سبق دیں۔
تیسری چیز جسے تمام اُن لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں‘ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجائے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسااوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے‘ مگر اس نفی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس حد تک وہ ناگزیرہو‘ اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کر دی جائے۔ بعض لوگ تو اس منفی کام سے آگے بڑھ کر سرے سے کوئی مثبت کام کرتے ہی نہیں‘ اور کچھ دوسرے لوگ اپنے مثبت کام کے فروغ کا انحصار اس پر سمجھتے ہیں کہ میدان میں ہر دوسرا شخص جو موجود ہے اُس کی اور اس کے کام کی پہلے مکمل نفی ہوجائے۔ یہ ایک نہایت غلط طریق کار ہے اور اس سے بڑی قباحتیں رونما ہوتی ہیں۔ اس سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے تعصبات اُبھرتے ہیں۔ اس سے عام بے اعتباری پیدا ہو جاتی ہے‘ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے عوام کو تعمیری طرز پر سوچنے کے بجائے تخریبی طرز پر سوچنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔
یہ روش خصوصیت کے ساتھ موجودہ حالت میں تو ہمارے ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھر سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے‘ کیا کچھ بنانا چاہتا ہے‘ اور کس کے ہاتھوں کیا کچھ بننے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کر سکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجائے دوسروں کا اعتمادختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگاکہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہو سکے گا اور ساری قوم بن سری ہو کر رہ جائے گی۔
ایک اور بات جسے ایک قاعدئہ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے‘ یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلّط کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے‘ اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجائے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے مفید خیال کرتا ہے‘ اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اُٹھے اور زبردستی اس کو لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش شروع کر دے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش‘ مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہو سکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے‘ خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا مال و دولت کی یا نفوذ و اثر کی‘ وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انھیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضاے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘بس طاقت کا استعمال کافی ہے۔ لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے‘ ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں‘ اور ان کو پرُامن ارتقا کے راستے سے ہٹا کر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے۔
پاکستان کے بااثر لوگ اگر واقعی اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو انھیں دھونس کے بجائے دلیل اور جبر کے ساتھ ترغیب سے کام لینے کی عادت ڈالنی چاہیے‘ اور اسی طرح پاکستان کے عام باشندے بھی اگر اپنے بدخواہ نہیں ہیں تو انھیں اس بات پر متفق ہو جانا چاہیے کہ وہ یہاں کسی کی دھونس اور زبردستی کو نہ چلنے دیں گے۔
اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملّت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہوناچاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا‘ یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا‘ یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دل چسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے۔ اس کی نہ کسی طرح مذمت کی جا سکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے۔ مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دل چسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اُتر آتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملّت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا جائے تو ملک پارہ پارہ ہو جائے اور ملّت کا شیرازہ بکھر جائے جس کے برے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر شخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جس فرقے‘ قبیلے‘ نسل ‘ زبان یا صوبے سے بھی اس کا تعلق ہو اُس کے ساتھ اُس کی دل چسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دل چسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی‘ تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہر تعصب لازماً جواب میں ایک دوسرا تعصب پیدا کر دیتا ہے‘ اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھلا اُس قوم کی خیر کیسے ہو سکتی ہے جس کے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں۔
سیاسی جماعتوں کا مطلوبہ کردار: ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحۂ عمل رکھتے ہوں انھیں منظم ہو کر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ’’ملک کی بھلائی‘‘ ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں۔ اور دوسری شرط یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی اُس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا۔ اگر ایک پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو اپنی سعی و جہد کا مرکز و محور بنا بیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا نہ کرے تو وہ سیاسی پارٹی نہیں بلکہ قزاقوں کی ٹولی ہے۔ اور اگر مختلف پارٹیاں مسابقت میں ہر طرح کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں اور مصالحت کسی اصول پر کرنے کے بجائے اختیار و اقتدار کے بٹوارے کی خاطر کیا کریں تو ان کی جنگ بھی ملک کے لیے تباہ کن ہوگی اور صلح بھی۔
یہ پانچ اصول تو وہ ہیں جن کی پابندی اگر ملک کے تمام عناصر قبول نہ کر لیں تو یہاں سرے سے وہ فضا ہی پیدا نہیں ہو سکتی جس میں نظامِ زندگی کی بنیادوں پر اتفاق ممکن ہو ‘ یا بالفرض اس طرح کا کوئی اتفاق مصنوعی طور پر واقع ہو بھی جائے تو وہ عملاً کوئی مفید نتیجہ پیدا کر سکے۔ اس کے بعد ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ بنیادیں کیا ہو سکتی ہیں جن پر ایک صحیح مصالحانہ فضا میں زیادہ سے زیادہ اتفاق کے ساتھ ملک کا نظامِ زندگی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔
ان میں ]اہم ترین بنیاد[ یہ ہے کہ قرآن و سنت کو ملک کے آیندہ نظام کے لیے منبع ہدایت اور اوّلین مآخذ قانون تسلیم کیا جائے۔ اس کو بنیادِ اتفاق ہم اس لیے قرار دیتے ہیں کہ ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور وہ اس بنیاد کے سوا کسی اور چیز پر راضی اور مطمئن نہیں ہو سکتے۔ اُن کا عقیدہ اس کا تقاضا کرتا ہے۔ ان کی تہذیب اور قومی روایات اس کا تقاضا کرتی ہیں‘ اور ان کی ماضی قریب کی تاریخ بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے۔ ان کے لیے یہ گوارا کرنا سخت مشکل بلکہ محال ہے کہ جس خدا اور جس رسول پر وہ ایمان رکھتے ہیں‘ اس کے احکام سے وہ جان بوجھ کر منہ موڑ لیں اور اس کی ہدایات کے خلاف دوسرے طریقے اور قوانین خود اپنے اختیار سے جاری کریں۔ وہ کبھی اُن طریقوں کو جاری کرنے میں سچے دل سے تعاون نہیں کر سکتے اور نہ اُن قوانین کی برضا ورغبت پیروی کر سکتے ہیں جن کو وہ عقیدۃً باطل اور غلط سمجھتے ہیں۔ ان کے اندر آزادی کا جذبہ جس چیز نے بھڑکایا اور جس چیز کی خاطر انھوں نے جان و مال اور آبرو کی ہولناک قربانیاں دیں وہ صرف یہ تھی کہ انھیں غیر اسلامی نظام زندگی کے تحت جینا گوارا نہ تھا اور وہ اسے اسلامی نظام زندگی سے بدلنا چاہتے تھے۔ اب ان سے یہ توقع کرنا بالکل بے جا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ بہ خوشی اُس اصل مقصد ہی سے دست بردار ہو جائیں گے جس کے لیے انھوں نے اتنی گراں قیمت پر آزادی خریدی ہے۔ بلاشبہ یہ ضرور ممکن ہے کہ اگر کوئی جابر طاقت زبردستی ان کے اس مقصد کے حصول میں مانع ہو جائے اور اُن پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا ضابطہ ء حیات مسلط کر دے تو وہ اُسی طرح مجبوری کے ساتھ اسے برداشت کر لیں جس طرح انگریزی تسلط واقع ہو جانے کے بعد انھوں نے اسے برداشت کیا تھا‘ لیکن جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ ایک نارضامند آبادی پر جبر سے ایک نظام مسلط کرکے اسے کامیابی کے ساتھ چلایا بھی جا سکتا ہے وہ یقینا سخت نادان ہے۔
(ترجمان القرآن‘ جولائی ۱۹۵۵ء)
اتنی بات تو قرآن مجید کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ یہ کتاب دنیا کی دوسری تمام مذہبی کتابوں سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ اس کا اسلوب ‘ اندازِ بیان اور طرز استدلال اتنا منفرد ہے کہ دوسری تمام مذہبی کتابوں کے متن اور عبارت سے قرآن مجیدکا متن اور عبارت واضح طور پر مختلف نظر آتے ہیں۔ ان امتیازی اوصاف میں ایک اہم وصف قرآن مجید کا اندازِ نزول ہے۔ اندازِ نزول کے اعتبار سے قرآن مجید اور دوسری آسمانی کتابوں میں دو اعتبار سے بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق بڑی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اتنی بنیادی اہمیت کہ اس فرق کی وجہ سے قرآن مجیدکو دوسری تمام آسمانی کتابوں پر ایک نمایاں فضیلت اور برتری حاصل ہے۔
قرآن مجیدسے پتا چلتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ پر تورات نازل فرمانے کا ارادہ کیا تو ان کو ایک ماہ کے اعتکاف کے بعد ان کو پوری کی پوری تورات تختیوں کی شکل میں لکھی ہوئی دے دی۔ حضرت موسٰی ؑ ان تختیوں کو لے کر آگئے اور اپنی قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ تختیاں سونے کی تھیں‘ کچھ کا خیال ہے کہ وہ پتھر کی تھیں۔ بہرحال ہمارے موضوع کے لحاظ سے یہ ایک غیر متعلق بات ہے۔ یہ تختیاں یعنی الواح جس چیز پر بھی لکھی گئی تھیں حضرت موسٰی ؑ کو دے دی گئیں اور انھوں نے وہ تختیاں لا کر اپنی قوم کو دے دیں۔ اس طرح قومِ موسٰی ؑ نے تورات کے پیغام کو حاصل کر لیا اور اس کو پڑھنے پڑھانے میں لگ گئے۔ وہ تختیاں طویل عرصے تک نسلاً بعد نسل بنی اسرائیل میں چلتی رہیں۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں بہت سے نشیب و فراز آتے رہے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ یہودیوں کو زبردست تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی سلطنت ختم ہوئی‘ ان کے لاکھوں آدمی موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ انھی ہنگاموں میں تورات کی تختیاں ضائع ہو گئیں اور پھر تورات دنیا سے مٹ گئی۔
یہاں تورات کی تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں‘ لیکن یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ تورات لکھی ہوئی صورت میں ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں دے دی گئی۔ یہی کیفیت نزولِ انجیل کی بھی رہی۔ جب حضرت عیسٰی ؑ پر انجیل نازل فرمائی گئی تو انجیل کو جس شکل میں حضرت عیسٰی ؑ پر نازل کیا گیا اس کی شکل قرآن مجید اور تورات دونوں سے مختلف تھی۔ انجیل کے نزول کی صورت وہ نہیں تھی جو قرآن مجید کی یا تورات کی تھی بلکہ انجیل کی حیثیت قریب قریب وہ تھی جو مسلمانوں میں حدیث قدسی کو حاصل ہے۔ حدیث قدسی علم حدیث کی اصطلاح میں اس حدیث کو کہتے ہیں جو دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور اللہ تعالیٰ ہی کا براہِ راست کلام ہو‘ حضور علیہ السلام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہو لیکن حضور علیہ السلام نے اس کو اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کلام اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں ہے تو وہ کلام پاک قرآن مجید ہے ‘اور اگر حضور علیہ السلام نے اس پیغام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہو تو وہ حدیث قدسی ہے۔ مثلاً ایک حدیث ہے جو آپ نے سنی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جب میرا بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک گزآگے بڑھتا ہوں۔ جب میرا بندہ ہلکے سے میری طرف آتا ہے تو میں لپک کر اس کی طرف بڑھتا ہوں۔ بندہ ہلکے سے میری طرف دوڑتا ہے تو میں تیز دوڑ کر اس کے پاس جاتا ہوں‘‘۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے ارشاد ہو رہا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجیدکے برعکس اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کردہ نہیں ہیں بلکہ حضور علیہ السلام کے ہیں۔
انجیل کے نزول کی کیفیت تقریباً اسی طرح کی تھی کہ اللہ رب العزت نے ایک پیغام حضرت عیسٰی ؑ کے قلب مبارک پر نازل کیا اور انھوں نے اس کو اپنے الفاظ میں انسانوں تک پہنچا دیا۔ لیکن اس کو لکھا نہیں‘ نہ حضرت عیسٰی ؑ نے کچھ تحریر کروایا‘ نہ ان کے ماننے والوں نے ان کی زندگی میں ان کے پیغام کو لکھا‘ بس زبانی ہی وہ پیغام چلتا اور پھیلتا رہا۔ وہ پیغام کتنا بڑا تھا؟ کتنا مختصر تھا؟ اگر لکھتے تو ایک کتاب بنتی یا دو کتابیں بنتیں؟ کتنے صفحے بنتے؟--- ان سب سوالات کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ نے انجیل کو قلم بند نہیں کرایا۔ اس کی روایت زبانی ہی چلتی رہی۔ لیکن بہرحال وہ کلام جتنا کچھ بھی تھا وہ ایک ہی وقت میں سارا کا سارا نازل ہو گیا۔
اس کے برعکس قرآن مجیدکے نزول کا سلسلہ اس سے بالکل مختلف انداز میں طویل عرصے تک جاری رہا۔ قرآن مجیدنجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے‘ کبھی ایک ایک لفظ‘ کبھی ایک ایک آیت‘ کبھی ایک ایک سورت کرکے ۲۳ سال کے طویل عرصے میں نازل ہوا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے کل واقعات یا تجربات (experiences) ۲۴ ہزار ہیں‘ یعنی حضور علیہ السلام پر ۲۴ ہزار مرتبہ وحی نازل ہوئی۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں ۲۴ ہزار مرتبہ کر کے قرآن مجیدکے مختلف حصے حضورؐ پر نازل ہوئے‘ اس لیے کہ مصلحت اسی بات کی متقاضی تھی کہ ان حصوں کو بار بار نازل کیا جائے۔ مثال کے طور پر روایت میں آتا ہے کہ سورہ فاتحہ کئی بار نازل ہوئی۔ ایک مرتبہ سلسلہ وحی کے بالکل آغاز میں اس کا نزول ثابت ہوتا ہے۔ پھر جب پانچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں تو یہ پھر نازل ہوئی۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں بھی ایک بار نازل کی گئی۔ خلاصہ یہ کہ بعض ایسی اہم سورتیں جو قرآن مجیدمیں بہت مہتم بالشان حیثیت رکھتی ہیں وہ ایک سے زائد مرتبہ بھی نازل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اوقات صرف ایک ہی لفظ نازل کیا گیا۔ بعض اوقات پوری سورت نازل کی گئی اور ایسی بھی مثالیں ہیں کہ بڑی لمبی لمبی سورتیں جیسے سورہ یوسف جو آدھے پارے سے زائد پر مشتمل ہے‘ ساری کی ساری ایک ہی مرتبہ ایک ہی بار کر کے نازل ہوئی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سوال کا جواب ہی وہ بنیادی امتیازی وصف اور غیر معمولی حقیقت ہے جس نے قرآن مجیدکو تمام دیگر آسمانی کتابوں کے مقابلے میں بڑی نمایاں حیثیت اور ممتاز خصوصیت عطا کی ہے۔ اس سوال پرغور کیا جائے توقرآن مجید کے نجماً نجماً (یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے) نازل کیے جانے کی متعدد حکمتیں واضح ہوتی ہیں۔ آیندہ صفحات میں ان حکمتوں میں سے چند ایک کا تذکرہ مقصود ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اپنی مشیت میں قرآن مجیدکے نزول کا فیصلہ کیا تو اس کتاب کو اس نے کسی خلا میں اُتارنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ کتاب اللہ رب العزت نے ایک زندہ ماحول میں‘ ایک زندہ معاشرے میں اور ایک ایسے وقت میں اتاری جب اللہ کے رسولؐ کی سربراہی میں دین کو قائم کرنے ‘ دین کی تبلیغ کرنے اور دین کو پھیلانے کی ایک بھرپور کوشش جاری ہونے والی تھی۔ جیسا کہ ہر صاحب علم جانتا ہے‘ اس کوشش کا مقصدانسانی زندگی کے کسی ایک پہلو کی اصلاح نہیں بلکہ زندگی کے سارے کے سارے پہلوئوں کی مکمل اصلاح تھا۔ اس تحریک اور جدوجہد کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ ایک طرف انسان کے عقائد کی اصلاح ہو‘ دوسری طرف انسان کے جذبات اوراحساسات کو مثبت جہتیں عطا ہوں۔ جہاں انسان کی ذاتی اور شخصی زندگی کے طور طریقے بدلیں وہاں انسانی معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں بھی صحت مندانہ تبدیلی آئے۔ ایک طرف تجارت و کاروبار کا انداز بدلے تو دوسری طرف اجتماعی حالات بھی بدلیں۔ جہاں معاشی حالات خیر کا رخ اختیار کریں وہاں سیاسی احوال کو بھی بہتری کے رخ پر ڈالا جائے۔ غرض زندگی کا ہر ہر پہلو اور انسان کی سرگرمیوں کا ہر ہر جز نئی اقدار کے مطابق بدل جائے۔
یہ تھا وہ عظیم الشان کام جس کے لیے قرآن مجیدکا نزول ہوا۔ حضور علیہ السلام کی رہنمائی اور سرپرستی اور صحابہ کرامؓ کی مدد اور تعاون سے یہ تاریخ ساز اور جاں گسل جدوجہد ۲۳ سال سے زیادہ مدت تک جاری رہی۔ اس پورے عرصے میں جدوجہد کے جس مرحلے پر جب اور جہاں جس رہنمائی کی ضرورت پیش آتی قرآن مجید کی آیات نازل ہو جاتیں اور ضروری رہنمائی فراہم کر دیتیں‘ اور یوں دین کی نشرواشاعت کی تمام کوششیں‘ اقامت دین کی جدوجہد اور ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل اور نزولِ قرآن کا عمل‘ یہ سب چیزیں نہ صرف بہ یک وقت جاری رہیں بلکہ ایک دوسرے کی ممد و معاون اور مکمل (بکسرالمیم)بھی رہیں۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجیدایک انقلابی اندازکی وحی یعنی revolutionary revelationہے۔ واضح رہے کہ یہاں انقلابی کا لفظ عام سیاسی مفہوم میں استعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ یہاں انقلاب سے مراد ایک ایسی ہمہ گیر تبدیلی ہے جو اس کتاب حکیم اور فرقان حمید کے نزول کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ اس انقلاب یا کامل تبدیلی کے مختلف مراحل کا ارتقا اور کتاب الٰہی کے نزول کے مختلف مدارج کی تکمیل ‘یہ دونوں عمل ایک ساتھ جاری رہے۔ جونہی اس کتاب کے نزول کی تکمیل ہوئی ویسے ہی اس ہمہ گیر تبدیلی اور انقلاب کی بھی تکمیل ہو گئی۔ گویا یہ تبدیلی جو قرآن مجیدکے ذریعے وجود میں آئی ایک مبنی بر وحی تبدیلی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’آج کے دن ہم نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا‘ تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو بطور ایک طرز ِزندگی تمھارے لیے پسند کر لیا ’’تو اس دن بلکہ اسی لمحے صحابہ کرامؓ نے یہ سمجھ لیا کہ جو کام حضور علیہ السلام کرنا چاہتے تھے وہ سارے کا سارا مکمل ہو چکا ہے اور اب حضورؐ اس دنیا سے تشریف لے جانے والے ہیں۔ خود حضور علیہ السلام نے صحابہ ؓ سے پوچھا کہ کیا میں نے امانت پہنچا دی؟ صحابہؓ نے بہ یک زبان گواہی دی کہ ہاں آپؐ نے امانت پہنچا دی۔ گویا یہ سب کام (تکمیل نزولِ قرآن ‘ تکمیل انقلاب‘ فراہمی امانت اور تکمیل دین سب) ایک ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ قرآن مجیداللہ کی آخری کتاب ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے ہے۔ جب تک روے زمین پر مسلمان اور قرآن کے نام لیوا موجود ہیں‘ اس وقت تک اللہ رب العزت نے حضورؐ کے ذریعے خبر دی ہے کہ قیامت نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ جب تک ایک فرد بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود ہے‘ اللہ کی حجت تمام ہوتی رہے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجیداور اُمت مسلمہ کا وجود لازم و ملزوم ہے۔ قرآن مجید کو مسلمانوں کی مذہبی‘ اجتماعی اور ملّی زندگی سے اس طرح مربوط اور پیوستہ کر دیا گیا ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک مسلم معاشرہ موجود ہے‘ قرآن مجید بھی موجود ہے۔ اس کے الفاظ و مفاہیم‘ اس کے کلمات و عبارات اور اس کی تعلیم ہر آنے والی نسل پہلی نسل سے حاصل کرتی رہے گی اور اس طرح یہ سلسلہ تاقیام قیامت چلتا رہے گا۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہو سکتی تھی کہ جب قرآن مجید نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جائے اور اس کی بنیاد پر آہستہ آہستہ ایک پورا ثقافتی ماحول‘ ایک پورا معاشرہ‘ ایک مکمل تہذیب اور ایک پوری اُمت کی تشکیل ہوتی جائے تاکہ وہ اُمت اس قرآن مجید کی تعلیم کو لے کر چل سکے‘ اس لیے کہ اب اسی اُمت کو آخر تک چلنا ہے۔ اب کسی پیغمبر کو نہیں آنا بلکہ صرف اُمت ہی کو یہ پیغمبرانہ کام کرنا ہے‘ لہٰذا جب تک اُمت قرآن سے تربیت یافتہ نہ ہو وہ اس کام کو لے کر آگے نہیں چل سکتی۔
اس کے برعکس سابقہ مذاہب اور سابقہ آسمانی کتابوں کو شاید اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس لیے کہ ہر نبی کے بعد ایک دوسرا نبی اس کی جگہ لینے کے لیے موجود تھا‘ وہی انسانوں کی رہنمائی کا ذمہ دار اور ان کی قیادت کے لیے کافی تھا۔ نبی کے ہوتے ہوئے اُمت کو کارِنبوت کے لیے تیار کرنا اور اُمت کو وحی الٰہی کی تعلیم میں رچا بسا دینا اور افراد ملّت کو وحی الٰہی کے رنگ میں رنگ دینا ضروری نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس اُمت کا وہ کام نہیں تھا جوحضور ختمی مرتبتؐ کی اُمت کے سپرد کیا جانا تھا۔ مگر اب جب کہ نبوت ختم ہو چکی تو جہاد بالقرآن کی یہ ذمہ داری حضور علیہ السلام کے جانشین کی حیثیت سے ساری اُمت کو انجام دینی ہے‘ اور یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ جس طرح مستخلِف (بکسراللام) خلقہ القرآن سے متصف تھا۔ اسی طرح مستخلَف (بفتح اللام) بھی کان خلقہ القرآن کی نعمت سے بہرہ یاب ہو‘ یعنی قرآن کا رنگ اس میں رچا بسا ہو اور سنت نبویؐ اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہو۔ اُمت کو قرآن مجیدکے رنگ میں رنگنے کے لیے ضروری تھا کہ یہ رنگ تھوڑا تھوڑا کر کے چڑھایا جاتا کہ رنگ پختہ ہوتاچلا جائے۔
تیسری وجہ قرآن مجیدکے آہستہ آہستہ نازل کیے جانے کی یہ ہے کہ کفار مکہ نے (جیسا کہ خود قرآن مجید میں بیان ہوا ہے) یہ اعتراض کیا تھا کہ: لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً‘ یعنی اس قرآن کو ایک ہی بار کیوں نہ اتار دیاگیا۔ اس کا جواب یہ تھا کہ: کَذٰلِکَ ج لِنُثَّبِتَ بِہٖ فُّّؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاً o (الفرقان ۲۵:۳۲)‘ یعنی ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے اتارا ہے کہ ہم اس طرح آپؐ کے دل کو مضبوط کریں‘ تقویت دیں اور اس کی وجہ سے سکون و اطمینان بخشیں اور آپؐ کو پختگی حاصل ہو‘ مزیدبرآں ہم اس کو آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کرکے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
اس آیت میں مذکورہ بالا اعتراض کے دو جواب دیے گئے ہیں اور ان دونوں جوابوں کے ذریعے دو اور حکمتیں اس بات کی بیان کی گئی ہیں کہ قرآن مجید کو آہستہ آہستہ کیوں نازل کیا گیا۔ اصل جواب سمجھنے سے پہلے ایک اور اہم بات سمجھ لینی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجیداپنی ترتیب‘ نفس مضمون اور اسلوبِ بیان کے اعتبار سے ایک بڑی منفرد کتاب ہے۔ یہ اس مفہوم میں محض قانون یا آئین کی کتاب نہیں ہے جس طرح کی قانون کی کتابیں وکیلوں کی لائبریریوں میں ہوتی ہیں۔ اگرچہ اس میں قانون کے بھی بہت سے احکام دیے گئے ہیں‘ اور دستوری اہمیت کے بہت سے اصول بھی بیان ہوئے ہیں لیکن قانونی احکام کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ قرآن مجیدمحض معاشیات کی کتاب بھی نہیں ہے۔ اگرچہ اس میں معیشت اور معاشی زندگی کے احکام بھی ہیں اور انسانوں کی تجارتی سرگرمیوں اور اقتصادی بہتری کی ہدایات بھی ہیں لیکن اور بھی بہت کچھ ہے۔ اسی طرح قرآن مجید محض فلسفہ کی کتاب بھی نہیں ہے‘ گو اس میں فلسفیانہ نوعیت کی بہت سی ہدایات بھی ہیں لیکن اس میں فلسفہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
قرآن مجید میں چونکہ انسانی زندگی کے ہر اس پہلوسے متعلق ہدایت موجود ہے جہاں انسانی عقل‘ تجربہ اور مشاہدہ ناکام ہو جاتے ہوں یا جہاں ان کے ناکام ہونے کاقوی احتمال ہو اور جہاں انسان رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہو‘ اس لیے زندگی کا کوئی اہم گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں انسان کو رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت ہو اور قرآن مجید اس میں رہنمائی نہ دیتا ہو۔ اس لیے جب بھی کوئی انسان‘ چاہے وہ ایک فرد ہو‘ یا پوری جماعت یا معاشرہ ہو‘ جب دین کی نشرواشاعت کے لیے اور اس کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرے گا تو اس کو طرح طرح کے مدارج و مراحل سے واسطہ پڑے گا۔ بعض اوقات مخالفین کی طرف سے اعتراضات کیے جائیں گے۔ بعض اوقات مشکلات اور آزمایشیں ہوں گی۔ بعض اوقات کامیابیاں ہوں گی۔ بعض اوقات ناکامیاں ہوں گی۔ کبھی قیدوبند کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی طرح طرح کی آزمایشیں آئیں گی۔ اب چونکہ ان سب مراحل کو ایک ایک کر کے آنا ہے اس لیے ان میں سے ہرچیز کے بارے میں ایک رہنمائی اور ہدایت کا دستیاب ہونا بھی ضروری ہے ‘مثلاً یہ بات کہ اگر اقامت دین کی کوشش میں قیدوبند کا نشانہ بننا پڑے تو کیا کرنا چاہیے۔ قرآن مجیدنے اس سوال کے جواب میں جہاں اور بہت سی ہدایات دیں وہاں پوری سورہ یوسف پیش کر دی کہ تمھیں اس طرح کرنا چاہیے۔ اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجیدمیں حضور علیہ السلام کی زندگی کے قریب قریب سارے ہی اہم واقعات بیان کر دیے گئے ہیں۔ غزوئہ بدر کا بھی ذکر ملتا ہے اور غزوئہ اُحد کا بھی‘ غزوئہ احزاب کا تذکرہ بھی ہے اور فتح مکّہ کا بھی۔ تبوک کے طویل اور جاں گسل سفر پر تبصرہ بھی ہے اور ہوازن کے معرکے پر بھی۔ اس طرح کارِنبوت اور کارِ دعوت کے آغاز کا بیان بھی ہے‘ درمیانی مدارج کا بھی ذکر ہے اور انتہائی مدارج کا بھی۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی زندگیوں میں یہ ساری چیزیں ایک ایک کر کے آتی رہیں گی۔ جو مسلمان حضور علیہ السلام کی پیروی میںجدوجہد کریں گے وہ ہجرت بھی کریں گے‘ ان کو جہاد کرنے کی بھی نبوت آئے گی‘ کبھی انھیں جہاد میں کامیابی ہوگی اور کبھی ناکامی ہوگی۔ کبھی بہت بڑی قوت کا سامنا کرنا پڑے گا تو کبھی چھوٹی قوت سے معرکہ آرائی ہوگی‘ کبھی محاصرہ ہوگا‘ کبھی کھیتیاں اُجڑیں گی۔ غرض یہ کہ سارے مراحل آئیں گے‘ ان سارے مراحل میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اہل ایمان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ اب یہاں تثبیت فواد یعنی دل کو مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ تمھارے دل کو تسلی رہے کہ یہ مشکل وقت تو آنا ہی تھا‘ پہلے سے معلوم تھا کہ فلاں فلاں مراحل آئیں گے۔
تقویت قلب : اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک بار معالج اپنے کسی مریض کو دوائوں کے استعمال کی تفصیل بتا کر علاج کا تین مہینے کاکورس کرائے اور اس کو پہلے سے بتا دے کہ ان دوائوں کے استعمال سے ایک مہینے کے بعد پھنسیاں نکلیں گی‘ پھر دانے نکلیں گے تو اس وقت یہ مرہم استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے استعمال سے دانے ٹھیک ہو جائیں گے۔ دو مہینے کے بعد جب اس دوا کو لگائو گے تو اس سے آنکھوں میں سرخی آجائے گی۔اس موقع پر فلاں تدبیر اختیار کرنا پڑے گی۔ تین مہینے کے بعد غنودگی کا غلبہ ہوگا تو فلاں دوا لینا پڑے گی۔ اب جس مریض کو پہلے سے ان سارے مدارج و مشکلات کا علم ہوگا اس کو ان بیماریوں کے آنے سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی‘ اسے پتا ہوگا کہ یہ سارے مدارج ایک ایک کر کے آنے والے ہیں۔ بلکہ جیسے جیسے یہ نئے نئے عوارض آتے جائیں گے ڈاکٹر پر اس کا اعتماد بڑھتا چلا جائے گا‘ اور اس کو یقین ہوتا چلا جائے گا کہ ڈاکٹر نے جو کچھ بتایا تھا وہ بالکل ٹھیک بتایا تھا‘ اور دوا کے اثرات بالکل ٹھیک اور حسب توقع ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ سب وہی مرحلے آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی مریض کو پیشگی ہی ان سب مدارج سے باخبر نہ کیا جائے تو وہ ان کے آنے سے گھبرا کر ہمت چھوڑ بیٹھے گا۔ وہ پہلے ہی مرحلے میں دانے نکلنے سے گھبرا جائے گا اور پریشان ہو کر علاج چھوڑ دے گا۔ حکیم مطلق نے بالکل اسی طرح جس طرح ایک حکیم ایک مریض کے لیے نسخہ لکھتا ہے کہ دیکھو یہ چیزیںپیش آئیں گی اور اس کا یہ یہ علاج ہوگا‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں وہ سارے مدارج پہلے ہی بتا دیے ہیں‘ تاکہ تمھارے دل کو تقویت ہو‘ اور تم مضبوطی کے ساتھ اس یقین سے اس پرقائم رہو کہ یہ سب کچھ تو آنا ہی ہے۔ یہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ آئے گا۔
قرآن مجید میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو جب طرح طرح کی آزمایشیں پیش آئیں تو مخالفین اور منافقین نے یہ کہا ’’ہم نہ کہتے تھے مت جائو ان کے ساتھ‘‘۔ مثلاً غزوہ اُحد میں بڑی آزمایش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس غزوہ میں ۷۰ صحابہؓ شہید ہو گئے‘ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا صدمہ خود حضور علیہ السلام کو دیکھنا پڑا۔ لیکن جب صحابہ کرامؓ اس کیفیت میں مدینہ منورہ واپس آئے تو منافقین نے استہزا اور تمسخر سے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بولے: ہم نہ کہتے تھے کہ جنگ نہیں کرنی چاہیے‘ ورنہ یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا۔ اس پر قرآن مجیدکی شہادت ہے کہ صحابہ کرامؓ آزردہ خاطر ہونے کے بجائے مزید پختہ عزم ہو گئے اور ان کا ایمان مزید راسخ ہوگیا۔ اسی طرح جب غزوئہ احزاب کے موقع پر منافقین نے مشکلات کا ذکر کر کے ہمت شکنی کرنی چاہی تو صحابہ کرامؓ نے جو جواب دیا وہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ اس کو قرآن مجیدمیں نقل فرما دیا۔
صحابہ کرامؓ کا جواب تھا کہ یہ تو پہلے سے ہمیں معلوم تھا‘ اللہ اور رسول نے پہلے سے بتا رکھا تھا کہ ایسا ہوگا‘ اور اللہ اور رسول کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوا کرتا۔ صحابہ کرامؓ کی تربیت ہی اس طرح کی ہوگئی تھی کہ جب بھی کوئی ایسی آزمایش سامنے آتی تھی تو بے اختیار کہہ اٹھتے تھے کہ یہ تو وہی بات ہے جو پہلے سے اللہ تعالیٰ نے بتا رکھی تھی۔ اس طرح ہر آزمایش ان کے یقین و ایمان میں اضافے اور قلب کی پختگی کا سبب بنتی تھی۔ تثبیت قلب یا دل کی مضبوطی کی خاطر حضور علیہ السلام کی زندگی کے مختلف مرحلوں کو قرآن مجیدمیں جابجا بیان کر دیا گیاہے۔ اگر قرآن مجید ایک ہی وقت میں نازل ہو جاتا تو یہ بات ممکن نہیں تھی۔ ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کو کیسے پتا چلتا کہ بدر سے متعلق آیات و احکام کو آگے چل کر کس طرح بدر اور بدر سے ملتے جلتے واقعات پرمنطبق کریں۔ یہ تو اس وقت ممکن تھا کہ جب ان آیات کو بدر کے واقعات ہی کے سیاق و سباق میں اتارا جاتا۔
پانچواں بڑا سبب قرآن مجید کو نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کا جو اِن آیات میں بتایا گیا ہے وہ یہ ہے: وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاًo (الفرقان ۲۵:۳۲)‘ یعنی اور ہم نے آہستہ آہستہ اس کو تم پر تلاوت کیا ہے‘ ترتیل کے ساتھ تم تک پہنچایا ہے۔ ترتیل کہتے ہیں کسی گفتگو کو ٹھہر ٹھہرکے‘ آہستہ آہستہ ‘ بار بار اس طرح کہنا کہ دوسرا آدمی اچھی طرح سمجھ لے اور اس کو یاد کر لے‘ اس عمل کو عربی میں ترتیل کہتے ہیں۔ قرآن مجیدپڑھنے کے لیے خود قرآن مجید میں ترتیل کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں حکم یہ دینا مقصود ہے کہ اس کتاب کو بہت آہستہ آہستہ‘ غوروفکر کے ساتھ‘ ٹھہر ٹھہر کر دوسروں تک پہنچایا جائے اور خود بھی اس کا مطالعہ کیا جائے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت میں یہ بات طے کر دی کہ اس کتاب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باقی رہنا ہے‘ اور جب تک مسلمان روے زمین پر موجود ہیں یہ کتاب بھی باقی رہے گی تو اس کی بقا اور تحفظ کے لیے وہ تمام تدبیریں اور جملہ طریقے اختیار کیے گئے جو کسی انسان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آسکتے تھے۔
یہ بالکل منفرد اور اَن ہونے طریقے تھے۔ ایسے طریقے نہ قرآن مجید سے پہلے کسی کتاب کی حفاظت کے لیے استعمال ہوئے اور نہ اس کے بعد کسی کتاب کے تحفظ کے لیے استعمال ہوئے۔ انسانیت کی تاریخ میں آج تک کوئی کتاب اس طرح محفوظ نہیں کی گئی ہے کہ اس کو انسانوں کے دلوں میں‘ دماغوں میں اور روحوں میں اس طرح اتار دیا جائے کہ وہ ان سب کا حصہ بن جائے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی‘ نہ کسی کتاب کی‘ نہ کتابچے کی ‘ اور نہ کسی رسالے کی کہ اس کوکروڑوں انسانوں نے زبانی یاد کر کے محفوظ کر لیا ہو اور نسلوں کی نسلوں نے اسے اپنے سینوں اور دلوں میں اتار لیا ہو۔پھر ہر نسل نے اگلی نسل کے کروڑوں آدمیوں تک پہنچا دیا ہو۔ یہ سارا عمل اسی وقت ممکن ہوسکتا تھا جب صحابہ کرامؓ کو یہ قرآن تھوڑا تھوڑاپہنچایا جاتا اور تھوڑا تھوڑا یاد کرایا جاتا۔ آپ کسی کو قرآن مجید حفظ کرانا چاہیں تو اس کی شکل یہ نہیں ہوتی کہ پوری کتاب اٹھا کے دے دیں کہ اس کو جا کے یاد کر لے۔ اس طرح یک بارگی کوئی یاد نہیں کر سکتا۔ اس کی سب سے آسان اور عملی شکل یہی ہوتی ہے کہ پہلے ایک آیت یاد کراتے ہیں۔ پھر دوسری آیت‘ پھر تیسری آیت۔ ہوتے ہوتے چندسال کی مدت میں پورا قرآن مجید حفظ ہو جاتا ہے۔
قرآن مجیدکو نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے ۲۳ سال کے عرصے میں نازل کرنے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ صحابہ کرامؓ کو قرآن مجیدکو یاد کرنے اور حفظ کر کے اس کو سینوں میں محفوظ کر لینے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ صحابہ کرام ؓ آہستہ آہستہ اس کو یاد کرتے چلے گئے اور جونہی قرآن مجید کا نزول مکمل ہوا‘ صحابہ کرامؓ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے تھے جن کو پورا قرآن مجیدزبانی یاد تھا۔ ان سے کہیں زیادہ تعداد میں وہ تھے جن کو قرآن مجیدکے متفرق حصے زبانی یاد تھے۔ صحابہ کرامؓ کے حفظ کرنے کی وہ کیفیت نہیں تھی جو آج ہمارے کرنے کی ہے کہ محض الفاظ رٹ لیے گئے ‘ اور جب دہرانے کا موقع آیا تو بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی اندرونی تاثر کے اسے دہرا دیا۔ صحابہ کرامؓ کے ہاں کیفیت ہی اور تھی۔ حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے صرف سورہ بقرہ کا مطالعہ کرنے میں ۱۰ سال کا عرصہ لگا۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ: تعلمنا الایمان ثم تعلمنا العلم‘ کہ پہلے ہم نے یہ سیکھا کہ ایمان کسے کہتے ہیں‘ اس کے بعد ہم نے علم حاصل کیا۔ یعنی پہلے علم کی بنیاد یعنی ایمان کو ہم نے پختگی کے ساتھ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد اس بنیاد کے اوپرہم نے قرآن مجید کے علم کی عمارت استوار کی۔ گویا علم اور ایمان صحابہ کرام ؓ کے نزدیک ایک دوسرے کے لیے تکمیل کنندہ کا درجہ رکھتے تھے‘ اور یہ دونوں چیزیں صحابہ کرامؓ کے ہاں ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ علم کے بغیر ایمان کی بنیاد کمزور رہتی ہے اور ایمان کے بغیر علم خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
بہرحال ۲۳ سال کے طویل عرصے میں صحابہ کرامؓ کی پوری نسل ایسی تیار ہو گئی جو قرآن مجید کے الفاظ کی بھی حافظ اور محافظ تھی‘ اس کے معنی کی بھی نگہبان تھی‘ اور اس کے مفاہیم پر بھی عمل پیرا تھی‘ ان کے دلوں میں‘ ان کے سینوں میں‘ ان کے دماغوں میں اور ان کی روحوں میں قرآن مجید کا متن‘ اس کا پیغام‘ اور اس کی روح سب رَچ بس چکے تھے۔ یہ سب تبھی ممکن تھا جب قرآن مجیدنجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جائے۔ یہ قرآن مجیدکے تھوڑا تھوڑا نازل کیے جانے کا پانچواں سبب ہے۔
چھٹا اہم سبب قرآن مجیدکے تھوڑا تھوڑانازل کیے جانے کا ایک اور بھی ہے‘ جس کا اشارہ خود قرآن مجید میں ملتا ہے‘ اور کچھ احادیث اور روایات سے بھی اس کی تائیدہوتی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی (جس کی تفصیلات سے ہر پڑھا لکھا مسلمان کسی حدتک واقف ہوتا ہے) تو یہ ایک نہایت غیر معمولی تجربہ تھا جس کے اثرات حضور علیہ السلام کے طبع مبارک پر بھی نمایاں طور پر محسوس ہوئے۔ یہاں تک کہ آپؐ بہت ہی گھبراہٹ اور لرزے کے عالم میں اپنے درِ اقدس تشریف لے گئے اور خاصی دیر آرام فرمانے کے بعد آپؐ کے جسم مبارک کا لرزہ ختم ہوا اور طبیعت بحال ہوئی۔ پہلی وحی کی ان تفصیلات سے کسی حد تک اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ تلقی وحی ایک نہایت غیر معمولی تجربہ ہوتا تھا جس کے واضح اثرات سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر بھی نمایاںطور پر محسوس ہوتے تھے۔ اس پہلے واقعے کے کچھ روز بعد جو وحی حضور علیہ السلام پر ابتدائی دنوں میں ہی نازل ہوئی اس میں ایک آیت ہماری اس گفتگو کے سیاق وسباق میں بڑی اہم ہے: اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاًo (المزمل ۷۳:۵) ’’ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں‘‘۔ یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ بھاری کلام کا کیا مطلب ہے؟ اور قول ثقیل سے کیا مراد ہے؟ ایک مطلب بھاری کلام کا یہ ہو سکتا ہے کہ اپنے معانی اور مفاہیم کے اعتبار سے یہ ایک بہت بھرپور اور وزنی کلام ہے۔ یقینا اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے اور اس مفہوم کے اعتبار سے قرآن مجید کے قول ثقیل ہونے میں کوئی شک نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود قرآن مجید ہی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس کا تحمل کرنا‘ اس کی تلقی کرنا (وصول کرنا) اور اس کی وصول یابی اتنا غیر معمولی تجربہ ہے کہ اس کو یک بارگی حاصل کر لینا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے‘ کوئی انسان‘ چاہے وہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں یہ بشری استطاعت نہیں رکھتا کہ قرآن کی تلقی‘ پورے کے پورے قرآن کی یک بارگی کر سکتا۔
قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اس کلام کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ خوف اور خشیت الٰہی کی کیفیت میں ریزہ ریزہ ہو جاتا (الحشر ۵۹:۲۱)۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آتا ہو کہ یہ ایک بات کہنے کا محض شاعرانہ انداز یا مبالغہ آمیز بیان ہے۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مبالغہ آمیزشاعرانہ انداز بیان نہیں ہوا کرتا۔ اللہ تعالیٰ کو شاعری کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے‘ نہ وہ شاعرانہ مبالغہ آرائی کا محتاج ہے۔ اس کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ غیر حقیقی انداز اختیار کرے۔ اس کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ عام کمزور اور محدود انسانوں کی سطح کی شاعری کی ضرورت محسوس کرے۔ یہ بالکل حقیقی اور واقعی طور پر اس نے فرمایا کہ اگر واقعی قرآن مجیدکسی پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید میں ہمارے سامنے ہے کہ جب انھوں نے ایک مرتبہ براہِ راست تجلی الٰہی کی التجا کی تو کیا منظرنامہ پیش آیا۔ اس وقت جو منظر ہوا اور جو کیفیت ہوئی وہ قرآن مجیدپڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے۔ اس لیے یہ بات بالکل قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید کا بہ یک وقت نازل کیا جانا اتنا غیر معمولی تجربہ ہوتا اور اتنی عظیم الشان کیفیت ہوتی کہ اس کا تحمل کر لینا اور اس کی تلقی کر لینا شاید اس دنیا میں کسی انسان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے حضور علیہ السلام پر وحی کا نزول ایک طویل عرصے تک جاری رہا‘ اور جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ۲۴ ہزار مرتبہ کر کے وحی الٰہی کی تکمیل آپؐ کی ذات گرامی پر ہوئی۔
کیفیت نزول وحی: حضور علیہ السلام پر جب وحی نازل ہوتی تو کیا کیفیت ہوتی تھی۔ اس کا اگرچہ کچھ اندازہ ہو تو اس سے بھی اس سوال کا جواب کسی حد تک مل سکتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ نزول وحی کی اصل کیفیت اور اس تجربے کی حقیقی نوعیت کا اندازہ کوئی شخص کر ہی نہیں سکتا۔ حضور علیہ السلام نے خود کبھی اس کو بیان نہیں فرمایا۔ اور وحی کوئی ایسی چیز ہے نہیں کہ اس کو انسانی الفاظ میں بیان کیا جا سکے‘ کیونکہ وہ تو ایک ایسا منفرد تجربہ ہے جو تمام انسانی تجربات سے بالکل ماورا ہے--- اتنا ماورا کہ اس کے لیے انسانوں کی زبانوں میں الفاظ بھی نہیں ہیں۔ انسانی زبانوں میں کوئی ایسا اسلوب بیان بھی موجود نہیں ہے جس کو اختیار کرکے اس تجربے کو بیان کیا جا سکے۔ لیکن صحابہ کرامؓ میں سے کچھ حضرات کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ باہر سے اس کیفیت کو دیکھیں جو نزول وحی کے وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جسمانی طور پر وارد ہوتی تھی۔
جب حضور علیہ السلام پر وحی نازل ہوتی تھی تو جو قریبی صحابہؓ وہاں موجود ہوتے تھے اور اس منظر کا مشاہدہ کرتے تھے انھوں نے اپنے بعض مشاہدات بیان کیے ہیں‘ جن کی نوعیت ظاہر ہے کہ حقیقی اور واقعی نہیں ہے بلکہ ان خارجی مشاہدات کی حیثیت بڑی حد تک محض ظاہری‘ خارجی بلکہ لغوی معنوں میں خالص سطحی نوعیت کی ہے۔ جس طرح سطح سمندر کا مشاہدہ کرنے والا سمندرکی گہرائیوں میں موجود تلاطم خیز طوفانوں اور موجود دنیائوں کی گہرائیوں اور گیرائیوں کا سرے سے کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا‘ اسی طرح نزول وحی کی کیفیت کو باہر سے دیکھنے والا سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اس کے ابعاد کس قدر وسیع‘ عمیق اور ہمہ گیر ہیں‘ تاہم صحابہ کرامؓ کے ان مشاہدات سے یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ نزول وحی کا تجربہ جسمانی مفہوم میں بھی کتنا مشکل‘ کتنا سخت اور کتنا غیر معمولی تھا۔ ان واقعات سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر ایک آیت یا ایک ٹکڑے کے نزول میں یہ کیفیت ہوتی تھی تو اگر کہیں پورا قرآن مجید یا اس کا بیش تر حصہ یک بارگی نازل ہو جاتا تو کیا ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا یہ اندازہ بھی بہت ہی نامکمل اور سطحی نوعیت کا ہے۔ اس طرح کا اندازہ ہم صرف ایک حد تک ہی کر سکتے ہیں‘ ممکن ہے بلکہ یقینی ہے کہ ہمارا یہ اندازہ بھی نامکمل ہی ہو۔
حضرت عائشہؓ کا مشاہدہ: اس ضمن میں صرف دو واقعات کی طرف اشارہ کرناکافی ہوگا۔ یہ واقعات جو مختلف صحابہ کرامؓ نے بیان کیے ہیں ان میں نزول وحی کے تجربے کا محض ظاہری اور جسمانی پہلو بیان کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ وہی پہلو صحابہ کرامؓ کے مشاہدے اور تجربے میں آ سکتا تھا۔ ان دونوں واقعات کو بیان کرنے سے قبل ذرا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی اس مشہور روایت پر بھی نظر ڈال لینا مفید ہوگا جس سے امام بخاری نے اپنی کتاب کا گویا آغاز کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن مجید کے بعد مسلمانوں کے نزدیک سب سے مستند کتاب ہے۔ مسلمان اس کو اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ مانتے ہیں۔ اس کتاب کا پہلا باب ہی اس بحث سے شروع ہوتا ہے جس کا عنوان ہے: باب کیف کان بدء الوحی علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ یعنی باب اس امر کے بیان میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز کیسے ہوا۔ یہیں سے صحیح بخاری شروع ہوتی ہے۔ اس باب میں جو تفصیلی روایت ہے وہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب حضور علیہ السلام پر وحی نازل ہوتی تھی تو وہ لمحہ اتنا مشکل اور اتنا سخت ہوتا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ حضورعلیہ السلام پر کوئی بڑی ہی غیر معمولی کیفیت طاری ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ مدینہ منورہ کی سرد راتوں میں آپؐ پر وحی نازل ہوتی--- اور سب جانتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی راتیں کافی سرد ہوتی ہیں‘ اور اس زمانے میں گھر گرم رکھنے (ہیٹنگ) کا کوئی نظام مدینہ میں نہیں تھا‘ نہ وہاں گھریلو حمام عام تھے اور نہ کسی قسم کے ہیٹر وہاں ہوتے تھے بلکہ سرے سے مدینہ منورہ میں مکان گرم کر کے رکھنے کا رواج ہی نہیں تھا--- ان سرد اور یخ راتوں کے بارے میں حضرت عائشہؓبیان کرتی ہیں کہ میں نے بارہا دیکھا کہ حضور علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی اور پیشانی مبارک سے پسینہ ایسے بہنے لگا جیسے کوئی فصد کھول دی گئی ہو اور اس سے خون بہتا ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جو تجربہ تھا وہ جسمانی طور پر بھی اتنا تھکا دینے والا اور اتنا غیر معمولی ہوتا تھا کہ باہر سے دیکھنے والوں تک کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ کیا کیفیت گزر رہی ہے۔
فتح مکّہ کے موقع پر: جن دو واقعات کا یہاں تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے ان میں سے ایک تو اس دن کا واقعہ ہے جس دن مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ اس دن حضور علیہ السلام اپنی اونٹنی پر سوار (انجیل کی زبان میں) ۱۰ہزار قدوسیوں کے جلو میں مکہ شہر میں داخل ہو رہے تھے۔ حضور علیہ السلام کی وہ اونٹنی قصوا عرب میں بہت ہی طاقت ور اونٹنی مانی جاتی تھی‘ جب بھی کوئی مقابلہ ہوتا تو وہ دوڑ میں سب سے آگے نکلتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسے خاص اہتمام کے ساتھ ہجرت کے سفر کے لیے خریدا تھا اور کئی مہینوں میں اس کو خاص خوراک کھلا پلا کر تیار کیا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اسی تاریخی اونٹنی قصوا پر سوار تھے‘ اور فاتحانہ مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے۔ ایک اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے اور جو اس کی قوت برداشت ہوتی ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں مکہ شہر بلند و بالا پہاڑیوں میں گھرا ہوا تھا اور آج بھی گھرا ہوا ہے۔ مکہ میں فوجوں کے داخلے کے لیے حضور علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کے چار پانچ دستے بنا دیے تھے‘ اور ہر دستے کو ہدایت تھی کہ مختلف راستے سے شہر میں داخل ہو۔ ایک راستہ وہ تھا جس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے دستے یعنی قلب لشکرکو داخل ہونا تھا۔ آپؐ کے ساتھ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت تھی جو پیچھے پیچھے آرہی تھی۔
حضورؐ آگے آگے اپنی اونٹنی پر سوار تشریف لے جا رہے تھے۔ اچانک لوگوں نے دیکھا کہ وہ اونٹنی رک گئی اور یک بہ یک کھڑی ہو گئی۔ پورا لشکر جو پیچھے آ رہا تھا وہ بھی رک گیا۔ لوگ خیرخبر معلوم کرنے کے لیے اتر کر آگے آئے تو دیکھا کہ اونٹنی کے پائوں لرز رہے ہیں اور اس سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا۔ ادب سے اوپر نظریں اٹھا کر دیکھا تو آپؐ پر وہ کیفیت طاری تھی جو نزول وحی کے وقت ہوا کرتی تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اونٹنی کی ٹانگیں ایسی محسوس ہو رہی ہیں جیسے کسی کمزور سی چیز پر یک بہ یک بہت سارا بوجھ لاد دیا گیا اور وہ ٹوٹنے لگے۔ ایسا لگا جیسے ابھی اونٹنی کی ٹانگیں چٹخ جائیں گی۔ اس ساری کیفیت کو اونٹنی برداشت نہیںکر سکی اور بیٹھ گئی۔ لیکن بیٹھنے کے کوئی ایک آدھ ہی لمحے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کیفیت بھی ختم ہو گئی‘ اونٹنی بھی پہلے کی طرح کھڑی ہو گئی اور چلنے لگی۔ حضور علیہ السلام نے جو صحابہ کرامؓ قریب تھے ان سے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے: وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ باطل تو مٹنے ہی والا ہے ‘‘۔ کہنے کو یہ دو جملوں کی چھوٹی سی آیت ہے لیکن اس موقع پر جو کیفیت دیکھنے والوں نے دیکھی وہ بیان کی جا چکی۔ لیکن خود حضورعلیہ السلام پر کیا گزری وہ ظاہر ہے کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور نہ اس کا کسی کو کوئی اندازہ ہو سکتا ہے۔
حضرت زیدؓ بن ثابت کا تجربہ: دوسرا واقعہ ایک صحابی کا ہے جن پر اتفاق سے خود گزری ہے اور انھوں نے اپنی گزری خود بیان کی ہے۔ ان کے بیان سے مزید اندازہ ہوتا ہے کہ نزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گزرتی ہوگی۔یہ واقعہ حضرت زید ؓبن ثابت کا ہے جو مشہور صحابی ہیں اور حضور علیہ السلام کے معاون خصوصی رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام کی بیش تر خط و کتابت حضرت زیدؓ بن ثابت ہی کیا کرتے تھے۔ کاتبان وحی میں بھی سب سے نمایاں درجہ ان ہی کا ہے۔ یہ واقعہ ہجرت کے دو ایک سال بعد کا ہے۔ ان دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مشہور اور تاریخ ساز دستور میثاق مدینہ مرتب فرما رہے تھے۔ اس ضمن میں مختلف قبائل کے نمایندوں سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری تھا۔ حضرت زیدؓ بن ثابت بطور سیکرٹری ہر اجتماع میں حاضر رہتے تھے۔ انھوں نے خود یہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ ہم ایسی ہی ایک مجلس میں جمع تھے جس میں سب لوگ چار زانو ہو کر قریب قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ غالباً جگہ کی تنگی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کا کنارا حضرت زیدؓ بن ثابت کے گھٹنے کے اوپر آیا ہوا تھا۔ (عام طور پر فرش پر جب قریب قریب بیٹھتے ہیں تو ایسا ہو جاتا ہے)۔ حضرت زیدؓ بن ثابت کہتے ہیں کہ یک بہ یک مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے گھٹنے پرکسی نے پہاڑ اٹھا کر رکھ دیا ہو۔ اس پر انھوں نے اچانک جو متوجہ ہو کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کیفیت تھی جو وحی کے نزول کے وقت ہوا کرتی تھی۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ ایک دم سے میرے گھٹنے پر اتنا بوجھ آگیا کہ مجھے ایسا لگا کہ میرا گھٹنا چورا چورا ہو کر ہڈی ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ میں نے اپنا گھٹنا حضور علیہ السلام کے گھٹنے کے نیچے سے نکالنا چاہا تو بوجھ کی وجہ سے نکال نہ سکا‘ مگر بس ایک ہی لمحے میں یہ کیفیت ختم ہو گئی اور حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن مجید میں سورہ نساء کی آیت ۹۵ یعنی لاَ یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ … وَالْمُجٰھِدْوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ … میں المومنین کے بعد غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ کا اضافہ کر دو۔
ان دو مثالوں سے واضح طور پر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ نزول قرآن مجید کا عمل ظاہری اعتبار سے بھی کتنا بھاری اور کتنا ثقیل ہوتا تھا۔ اس ثقل اور شدت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ قرآن مجید کو یک بارگی نازل کرنے کے بجائے نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جائے۔
بعض حضرات نے اس باب میں تامل کیا ہے کہ تورات‘ انجیل اور دوسری آسمانی کتابیں یک بارگی نازل کی گئی تھیں۔ انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح قرآن مجید تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا اسی طرح تورات اور انجیل بھی تھوڑی تھوڑی کر کے ہی نازل کی گئیں۔ لیکن قرآن مجیدکی متعلقہ آیات پر سرسری طور پر غور کرنے سے ہی اس رائے کی کمزوری ظاہر ہو جاتی ہے۔ سورہ اعراف (۷: ۱۵۰-۱۵۴) میں جہاں نزول تورات کا ذکر ہے وہاں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ تورات ایک دو نہیں بلکہ بہت سی تختیوں پر لکھی ہوئی حضرت موسٰی علیہ السلام کو عطا ہوئی تھی۔ ہدایت اور رحمت پر مبنی یہ نسخہ کیمیا ان تختیوں پر لکھا ہوا تھا جو حضرت موسٰی علیہ السلام طور سینا سے لے کر آئے تھے۔ بعض اہل علم نے اس امکان کا اظہار بھی کیا ہے کہ طور سینا پر حضرت موسٰی علیہ السلام کو پوری تورات کے بجائے صرف احکام عشرہ عطا فرمائے گئے تھے۔ اس ضمن میں یہ اہل علم موجودہ تورات کے رائج الوقت تراجم میں موجود اسلوب بیان سے استدلال کرتے ہیں۔ اگر یہ استدلال تھوڑی دیر کے لیے بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ احکام عشرہ پر مبنی بہت سی الواح کے بجائے کوئی چھوٹی سی لوح ہی حضرت موسٰی علیہ السلام کو دی گئی ہوگی۔ اس لیے کہ احکام عشرہ چند سطروں سے زائد نہیں ہیں اور ان کو لکھنے کے لیے ایک چھوٹی سی تختی ہی کافی ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر نہ صرف الواح (بصیغہ جمع) کا ذکر ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تختیاں محض احکام عشرہ پر مبنی نہیں تھیں بلکہ ان میں وہ پوری ہدایت الٰہی اور رحمت خداوندی موجود تھی جو تورات کا طرہ امتیاز تھی (وَفِیْ نُسْخَتِھَا ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ)۔
مزیدبرآں یہود یثرب کے اشارے پر کفار مکہ کا قرآن مجید کے یک بارگی نازل نہ کیے جانے پر اعتراض سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہودی وحی الٰہی کے نجماً نجماً نازل کیے جانے والے اسلوب سے مانوس نہ تھے۔ ان کے لیے مانوس اور مالوف اسلوب کتاب الٰہی کو یک بارگی نازل کیے جانے ہی کا تھا۔ ورنہ وہ یہ اعتراض کبھی نہ کرتے۔
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن مجید دوسری آسمانی کتابوں کے برعکس تھوڑا تھوڑا نازل کرنے میں وہ حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ تھیں جن میں سے بعض کا اوپر تذکرہ کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں نصف صدی تک کلیدی کردار ادا کرنے کے بعد امریکہ کا بہ یک بینی و دوگوش فارغ کیا جانا محض ایک اتفاقی حادثہ یا صرف ایک سیاسی واقعہ نہیں ہے۔ یہ امریکہ کے عالمی کردار کے بارے میں دنیا کے دوسرے ممالک میں پائے جانے والے احساسات کا ایک مظہر ‘ عالمی سیاست کے ابھرنے والے رجحانات کی ایک واضح علامت اور طاقت ور ملکوں کے لیے ایک غیر مبہم انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کوئی تنہا (isolated) واقعہ نہیں‘ بلکہ ایک رخ اور رجحان کا پتا دیتا ہے جس کا اظہار اقوام متحدہ ہی کے ایک دوسرے اہم ادارے نارکوٹکس کمیشن سے بھی امریکہ کی فراغت کی صورت میں بھی ہوا ہے۔ صدرامریکہ جارج بش پہلے ہی دورے پر نکلے تو انھیں موثر عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ۔ کیوبک (کینیڈا) میں تمام امریکی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس اور گوڈن برگ(سویڈن) میں ۱۵ یورپی ممالک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہونے والے عوامی مظاہرے اور ان میں اٹھائے جانے والے ایشوز‘ امریکہ پر بے اعتمادی اور اس کے سنگ دلانہ رویے اور پالیسیوں سے بے زاری کے منہ بولتے مظاہر ہیں۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ جو لاوا ایک مدت سے اندر ہی اندر پک رہا تھا وہ اب اپنے اظہار کے لیے مختلف راستے اختیار کر رہا ہے۔ جو جذبات و احساسات ایک عرصے تک خلش‘ کسک‘ انقباض‘ اور اضطراب کے مرحلے میں تھے‘ وہ اب اظہار‘ اختلاف‘ تنقید اور اس سے بھی بڑھ کر غصّے اور بغاوت کی شکلیں اختیار کر رہے ہیں۔ یہ جذبات کسی ایک ملک یا گروہ کے نہیں‘ بلکہ بڑی حد تک دنیا کے بیش تر ممالک و اقوام اور سب سے بڑھ کر عام انسانوں کے احتجاج کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ان جذبات اور ان کے پیچھے کارفرما محرکات کا جائزہ نہ لینا ایک ایسی عظیم غلطی ہے‘ جس کے صرف وہی لوگ مرتکب ہوتے ہیں جو تاریخ سے سبق لینے کو تیار نہیں ہوتے اور نوشتہ دیوار پڑھنے کی زحمت گوارا کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
امریکہ اور اس کے عالمی کردار کے بارے میں اس احتجاجی لہر کی بڑی وجہ کوئی مزاجوں میں رچی بسی امریکہ دشمنی یا مخاصمت نہیں ہے۔ یہ وہی ملک اور لوگ ہیں جو امریکہ کی طرف بڑی امیدوں سے دیکھتے تھے‘ اور اسے ایک ایسی طاقت سمجھتے تھے‘ جو خود عالمی سامراج کے خلاف لڑ کر معرض وجود میں آئی ہے‘ جو عصرحاضر میں جمہوری دستوری ریاست کے دور کا آغاز کرنے والی ہے‘ جس کی فوجوں نے تو عالمی جنگوں میں حصہ لیا ہے مگر خود جس کی سرزمین کسی عالمی جنگ کے خون سے داغ دار نہیں ہوئی ‘ جو بین الاقوامی سیاسی افق پر جمہوریت‘ حقوق انسانی اور قوموں کے حق خود ارادیت کی علم بردار بن کر جلوہ گر ہوئی۔ ایک ایسی عالمی طاقت سے اتنی مایوسی اور بے زاری اور اتنی تیزی اور شدت سے اس کا ہمہ گیر اظہار نہ کوئی اتفاقی حادثہ ہو سکتا ہے اور نہ محض کسی سازش کا شاخسانہ۔ اس کے ٹھوس اسباب اور عوامل ہونے چاہییں اور ہیں۔ ان کا سمجھنا امریکہ کی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے اور ان اقوام کے لیے بھی‘ جو احتجاج میں تو شریک ہیں لیکن ان کا مقصد حالات کی اصلاح اور عالمی تصادم کے اسباب و عوامل کا تدارک ہے‘ تاکہ دنیا جنگ و جدال اور خون خرابے سے محفوظ رہ سکے۔
انسانوں اور قوموں میں‘ طاقت کا عدم توازن اور وسائل کا غیرمتناسب وجود ایک حقیقت ہے ۔ محض اس کی وجہ سے اضطراب‘ اور تصادم ایک غیر فطری عمل ہوگا۔ لیکن فرق جب ایک قوت کی دوسروں پر بالادستی ‘ استیلا اور ان کے استحصال (exploitation)کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے تو بے زاری اضطراب اور تصادم کے دروازے کھلنے لگتے ہیں جو آخرکار ٹکرائو اور خون خرابے پر منتج ہوتے ہیں۔ یہی وہ عمل ہے جو امریکہ اور دنیا کی دوسری اقوام کے درمیان شروع ہو چکا ہے ۔ یہ عمل ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کے ایک سوپر پاور کی حیثیت سے میدان سے نکل جانے کے بعد اور بھی واضح اور تیزہو گیا ہے۔
امریکہ کے پاس مادی اور قدرتی وسائل کی اتنی بہتات ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے وہ زندگی کی تمام سہولتیں بہ افراط فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن عالمی بالادستی کا خواب‘ دنیا کی دوسری اقوام کے وسائل حیات کو اپنی گرفت میں لینے کے عزائم‘ دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے اور دوسروں پر اپنی اقدار اور نظریے کو بہ زور مسلط کرنے کے منصوبے ہی دراصل تصادم اور ٹکرائو کی جڑ ہیں۔ یہ خواہشات دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کی عالمی حکمت عملی کے اجزا بنتی جا رہی ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں آزاد دنیا کے تحفظ اور اشتراکیت دشمنی کے نام پر ان اہداف کو حاصل کرنے کی سعی کی گئی‘ لیکن سرد جنگ کے بظاہر خاتمے کے بعد سے یہ لَے اور بھی تیز ہوگئی ہے ۔ اب نئی صدی کو امریکہ کی صدی اور ساری دنیا کو امریکہ کے رنگ میں رنگنے کی مہم‘ جس کا نام عالم گیریت (globalisation)رکھا گیا ہے ان حدود میں داخل ہو گئی ہے جہاں ایک طاقت ور ملک
انا ولا غیری کے زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر طاقت ور ہونا کافی نہیں رہتا‘ بلکہ دوسروں پر اپنی طاقت کا رعب جمانا اس کا مقصد بن جاتا ہے‘ اور قوت کا نشہ کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لانے دیتا ۔ یہی وہ نازک مقام ہے‘ جہاں دوسری اقوام بھی مجبور ہوتی ہیں کہ اپنی آزادی‘ اپنی عزت اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوں اور ’کنجشک فرومایہ‘ بھی شاہین نما فرعونیت سے ٹکرلینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ آج عالمی سیاست ایک ایسے ہی نازک مرحلے کی طرف رواں دواں ہے۔
امریکہ کا واحد عالمی قوت ہونا‘ ظاہربین نگاہوں میں چاہے ایک حقیقت ہو‘ لیکن اس واحد سوپر پاور کا دوسروں پر غلبہ حاصل کرلینا اور ان کو اپنا تابع مہمل بنا لینے کی کوشش وہ خطرناک کھیل ہے ‘جس نے عالمی بساط کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ غلبہ اور جہانگیری کے یہی وہ عزائم ہیں‘ جن کے حصول کے لیے خارجہ سیاست کے ساتھ فوجی حکمت عملی اور معاشی اثراندازی کا ایک عالم گیر جال اور جاسوسی اور تخریب کاری کا ایک ہمہ پہلو نظام پوری دنیا کے لیے قائم کیا گیا ہے‘ اور اسے روز بروز زیادہ موثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا کے ۴۰ ممالک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی (تقریباً دو لاکھ سپاہی جو اعلیٰ ترین بحری اور فضائی فوجی ٹکنالوجی اور آلات حرب و ضرب سے آراستہ ہیں)‘ فوجی معاہدات‘ معاشی زنجیروں کا جال جو ریاستی اور عالمی مالیاتی و تجارتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے دام میں گرفتار کیے ہوئے ہے‘ غیر سرکاری اداروں(NGO's) کی فوج ظفرموج جو اس عالم گیر استیلا کا ہراول دستہ ہے اور جاسوسی کا نظام جو صرف سی آئی اے ہی نہیں متعدد بلاواسطہ اور بالواسطہ ایجنسیوں کے ذریعے کام کر رہا ہے--- اس نظام کے دست و بازو ہیں۔ مقابلے کے لیے کبھی اشتراکیت اور روس کا ہّوا تھا‘ تو کبھی بین الاقوامی دہشت گردی اور سرکش ریاستوں (rogue states)کا ڈرائونا خواب۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سی آئی اے کو جو مینڈیٹ سردجنگ کے زمانے میں دیا گیا تھا‘ وہی آج بھی کارفرما ہے۔ ۱۹۵۴ء میں وہائٹ ہائوس کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ:
اس کھیل کے کوئی قواعد نہیں۔ قواعد کے مطابق کھیلنے کے دیرپا امریکی تصورات پر امریکہ کی بقا کی خاطر ازسرنو غور ہونا چاہیے۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف جو طریقے استعمال کرتے ہیں ہمیں ان سے زیادہ موثر‘ سوچے سمجھے طریقوں کو ہوشیاری سے استعمال کر کے دشمن کو سبوتاژ کرنا‘ مٹانا اور تباہ کرنا سیکھنا چاہیے۔ (Brave New World Orderاز جیک نیلسن پال میر‘ ص ۴۳)
امریکہ کی موجودہ سیاسی قیادت اور چند دوسری مغربی اقوام کے کارفرما عناصر عوامی جمہوریہ چین‘ شمالی کوریا‘ اور چند مسلمان ملکوں--- ایران‘ لیبیا‘ سوڈان‘ حتیٰ کہ چند افراد مثلاً اسامہ بن لادن کو امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے ’اصل خطرہ‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس نام نہاد خطرے کے مقابلے کے لیے تباہ کن میزائلوں سے لیس فضائی ڈھال‘ محفوظ علاقوں (safe zones)اوربچائو کے لیے حملوں (prevention strikes) تک ہر چیز کے لیے نہ صرف ’’جواز‘‘ کی فضا بنا رہے ہیں‘ بلکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے ہر قیمت پر یہ سب کچھ کر گزرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
صدر کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر اور ایک مشہور یونی ورسٹی پروفیسر بریزنسکی نے اپنی تازہ کتاب The Great Chessboard میں صاف لفظوں میں کہا ہے کہ امریکہ کی خارجہ سیاست کا اصل ہدف ہونا ہی یہ چاہیے کہ اکیسویں صدی میں امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور رہے اور اس کا کوئی مدمقابل اٹھنے نہ پائے--- کم از کم پہلی ربع صدی میں تو میدان صرف امریکہ ہی کے ہاتھ میں رہنا چاہیے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’یورپ اور ایشیا دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں امریکہ کی برتری برقرار رہنی چاہیے۔ یہ ناگزیر اور لازم ہے کہ یورپ اور ایشیا میں کوئی ایسی طاقت نہ اُبھرے جو امریکہ کو چیلنج کر سکے‘‘۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو امریکہ کے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادت میں ایک قسم کی رعونت پیدا کر رہی ہے اور فطری طور پر اس رعونت سے باقی دنیا میں مایوسی اور بے زاری کی لہریں اٹھ رہی ہیں ۔صدر کلنٹن کی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے کسی تکلف اور تردد کے بغیر امریکہ کی اس ذہنیت اور اس کے عزائم کا ان الفاظ میں اعلان کیا تھا :
ہمیں طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے اس وجہ سے کہ ہم امریکہ ہیں۔ ہم نوع انسانی کے لیے ایک ناگزیر قوم ہیں۔ ہم بلند ہیں‘ ہم مستقبل میں دُور تک دیکھتے ہیں۔ (Blowback: The Costs and Consequences of American Empire) از چامیز جانسن‘ ص۲۱۷)
واحد عالمی قوت ہونے کا زعم باطل ہی وہ چیز ہے ‘جس نے امریکی قیادت میں اس رعونت اور فرعونیت کو جنم دیا ہے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال وہ الفاظ ہیں‘ جن میں اپنی حیثیت کا اظہار امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے قبرص کے تنازع کے موقع پر یونان کے سفیر سے کیا۔ یونان امریکہ کا ایک دوست ملک اور نیٹو میں اس کا رفیق کار ہے۔جب یونان کے سفیرگرانینوز گگینٹس (Geraninos Gigantes) نے امریکہ کا حکم نہ ماننے کے لیے اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ اور اپنے دستور کے حوالے سے التجا کے لہجے میں بات کی تو صدر امریکہ جانسن طیش میں آگئے اور انھوں نے گالی دے کر یونانی سفیر سے کہا : ’’بھاڑ میں جائے تمھاری پارلیمنٹ اور جہنم رسید ہو تمھارا دستور--- امریکہ ایک ہاتھی ہے اور قبرص ایک چھوٹا سا بھونگا۔ اگر یہ بھونگے ہاتھی کو تنگ کریں گے تو ہاتھی کی سونڈھ انھیں کچل دے گی۔ مسٹر سفیر! ہم بہت سارے امریکی ڈالر یونان کو دیتے ہیں۔ اگر تمھارے وزیراعظم مجھ سے جمہوریت‘ پارلیمنٹ اور دستور کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھو‘ وہ ان کی پارلیمنٹ اور ان کا دستور زیادہ دیر باقی نہیں رہیں گے‘‘۔ (بہ حوالہ I Should Have Died از فلپ ڈین‘ ۱۹۷۷ء‘ ص ۱۱۳-۱۱۸)
ذرا مختلف پس منظر میں ‘لیکن اسی ذہنیت کا مظاہرہ جنرل کولن پاول نے جو اس وقت امریکہ کے چیف آف اسٹاف تھے اور اب اس کے سیکرٹری خارجہ ہیں‘ بار بار کیا ہے۔جن دنوںامریکہ نے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پانامہ پر‘ جو ایک آزاد ملک ہے ‘فوج کشی کی‘ اس کے صدر کو اغوا کیا اور سزا دی تو اعتراض کرنے والوں کے جواب میں جنرل پاول نے کہا:
ہمیں کنکر کو اپنے دروازے سے یہ کہہ کر باہر پھینکنا ہے کہ یہاںسوپر پاور رہتی ہے۔ (Brave New World Order ص ۸۷)
پاکستان کے دو چار نیوکلیر بموں پر اپنی برہمی کا اظہار بھی امریکہ اسی ذہنیت سے کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین سے جو گفتگو جنرل پاول نے کی تھی وہ نوٹ کرنے کے لائق ہے۔ امریکہ سے حال ہی میں شائع ہونے والی جوائس ڈیوس کی کتاب Between Jihad and Salam میں ان کا انٹرویو شامل ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے:
جنرل پاول نے مجھ سے پوچھا کہ: ’’پاکستان امریکی اعتراضات اور مالی امداد ختم کر دینے کے باوجود اپنے جوہری پروگرام پر اتنا مصر کیوں ہے؟ آپ جانتی ہیں کہ یہ بم ناقابل استعمال ہیںتو آپ انھیں کیوں رکھنا چاہتی ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل‘ آپ کیوں ایٹم بم رکھتے ہیں؟ ‘‘اس نے کہا : ’’ہم کم کر رہے ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا : ’’کتنے سے کتنے‘ جنرل؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’چھ ہزار سے دو ہزار‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل ‘آپ دو ہزار بم رکھیں گے اور چاہتے ہیں کہ ہمارے جو چند برے بھلے زمین میں دفن ہیں ہم ان سے بھی فارغ ہو جائیں۔ آپ تو ہم سے خودکشی کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ ہم ایک جوہری ریاست کے پڑوس میں ہیں۔ کیا اگر کینیڈا اور میکسیکو کے پاس بم ہوں تو آپ اپنے بم ختم کر دیں گے؟ کیا آپ ایسا کریں گے؟‘‘
اس نے میری طرف دیکھا اور کہا : ’’دیکھیے سفیرصاحبہ‘ میں اخلاقیات کی بات نہیں کر رہا ہوں‘ میں آپ سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہیں اور آپ پاکستان ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل‘ آپ کا شکریہ کہ آپ نے ایمان داری سے بات کی‘‘۔
اپنے اقتدار کے نشے میں مست ہونا‘ دوسروں کو خاطر میں نہ لانا‘ ہر کسی کو اپنے مقابلے میں حقیر سمجھنا اور خودپسندی‘ تکبر اور زعم میں مبتلا ہو کر دوسروں کی تضحیک کرنے کا عمل‘ انسان کے وقار کو بڑھاتا نہیں‘ کم کرتا ہے۔ غالب نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
صدر جارج بش نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک امیدافزا بات کی تھی جسے ساری دنیا میں سراہا گیاتھا یعنی:
اگر ہم ایک مغرور قوم ہوں گے تو دنیا کے لوگ ہم سے ناراض ہوں گے ‘لیکن اگر ہم ایک منکسرالمزاج لیکن مضبوط قوم ہوں گے تو وہ ہمیں خوش آمدید کہیں گے۔
لیکن صدارت کے تخت پر براجمان ہوتے ہی ان کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ امریکی براعظم کے ممالک ہوں یا یورپ اور ترقی پذیر ممالک--- پھر وہی حکمرانی کی زبان استعمال کی جا رہی ہے۔ تنہا پرواز کا شوق اور دنیا کو اپنے مفادات اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کے عزائم کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جن کثیر قومی کارپوریشنوں کی تائید سے وہ برسرِاقتدار آئے ‘ انھی کے ایجنڈے کو پورا کرنے کو اولیت دی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کی یک طرفہ تنسیخ یا ان کی پابندیوں سے اپنے آپ کو بلاجواز آزاد کر لینے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ABM (Anti Ballistic Missile Treaty)جو ایک بین الاقوامی قانون کے تحت ایک عالمی معاہدہ ہے اور جس کے نتیجے میں ۱۹۷۲ء سے اب تک دنیا ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل کے خطرات سے بچی رہی ہے` اس سے یک طرفہ گلوخلاصی کی راہ اختیار کی جا رہی ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے عالمی سطح حرارت کے بارے میں ’’کویوٹا معاہدے‘‘ جسے کلنٹن انتظامیہ نے منظور کر لیا تھا‘ برأت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
اسلحہ کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے نام نہاد ’سرکش ریاستوں‘ کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار آجانے اور ان کے امریکہ کے خلاف استعمال کو ایک خیالی خطرہ باور کرایا جا رہا ہے۔ اس کے سدباب کے لیے روس‘ چین اور یورپی ممالک تک کو ناراض کر کے ۱۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ کے صرفے سے ایک ناقابل اعتبار ’’میزائلوں کی ڈھال‘‘ (missile sheild) بنانے کا پروگرام اختیار کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اصل فیصلہ کرنے والی قوت صرف امریکہ ہے‘ باقی ممالک کا کام فقط اس کی ہاں میں ہاں ملانا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے ماضی میں بھی امریکہ کے خلاف بے اعتمادی اور بے زاری کے جذبات پیدا کیے ہیں اور آج بھی عالمی رائے عامہ میں جو امریکہ مخالف رجحان بڑھ رہا ہے اس کے پیدا کرنے میں اس کا بڑا دخل ہے۔ یہ چیز امریکی ہیئت مقتدرہ کی ذہنیت کا ایک حصہ بن گئی ہے۔ امریکہ اپنے آپ کو ہر قانون‘ دستور‘ معاہدے اور بین الاقوامی کنونشن سے بالا سمجھتا ہے--- قانون صرف دوسروں کے لیے ہے‘ سوپر پاور کے لیے نہیں۔ جارج آرول نے روس کے آمرانہ نظام پر جو طنزیہ ناول ’’جانوروں کا باڑہ‘‘ (Animal Farm)لکھا تھا ‘اس کا یہ تاریخی جملہ جس طرح روسی آمر جوزف اسٹالن اور بریزنیف کے نظام پر صادق آتا تھا ‘ اسی طرح وہ آج امریکہ کے طرزعمل کا بھی غماز ہے:
All animals are equal, but some animals are more equal
سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور زیادہ ہی برابر ہیں!
امریکہ کے ایک سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے اس ذہنیت کا پردہ متعدد مثالیں دے کر چاک کیا ہے۔ ان کی کتاب: The Fire This Time کا اصل موضوع: ’’خلیج کی جنگ‘‘ اور اس علاقے کے بارے میں امریکی جرائم ہیں (مطبوعہ نیویارک ۱۹۹۴ء)‘ لیکن اس کتاب میں امریکہ کی وہ ذہنیت کھل کر سامنے آتی ہے جس نے عالمی سطح پر بے زاری کو فروغ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ‘ امریکہ جب چاہتاہے اپنی مرضی سے بین الاقوامی قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ روک سکے یا احتساب کرسکے:
امریکہ نے گریناڈا پر حملہ کیا‘ دیہاتوں پر بم باری کی اور افریقہ‘ ایشیا اور وسطی امریکہ کے اقوام متحدہ کے ممبروں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی حمایت کی۔ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے احتجاج تو کیے مگر کوئی عملی کارروائی نہ کی۔
۲۰ دسمبر ۱۹۸۹ء کو امریکہ نے پانامہ پر حملہ کیا۔ سیکڑوں غالباً ہزاروں افراد مارے گئے۔ یہ حملہ کویت پر عراق کے حملے سے آٹھ ماہ سے بھی پہلے ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی مذمت کی۔ کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا‘ حالانکہ امریکہ نے ان تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جن کی عراق نے کویت پر حملہ کرتے ہوئے کی تھی‘ بلکہ مغربی نصف کرّے اور پانامہ نہرکے متعدد معاہدات کی بھی خلاف ورزی کی (ص ۱۵۰)۔
امریکہ نے اس برس جب فلسطینی نسبتاً مساوی حیثیت میں معاملہ کر سکتے تھے‘ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کانفرنس نہیں ہونے دی۔ پھراقوام متحدہ سے بے نیاز ہو کر معاہدے کو اچانک بالجبر تھوپنا چاہا۔ یہ بنیادی طور پر غیر منصفانہ مذاکرات امن کے لیے کوئی امید فراہم نہیں کرتے۔
فلسطینی اپنے مذاکرات کار کا انتخاب تک نہیں کر سکتے‘ کیونکہ اسرائیل ان کے کسی منتخب فرد کو ویٹو کر سکتا ہے۔ مذاکرات کے ہر دن اسرائیلی ‘فلسطینیوں کی نئی زمین پر قبضہ کرتے ہیں‘ ان کے مکانات طاقت کے زور پر خالی کراتے ہیں اور ان کے علاقوں میں اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں۔ امریکہ نے جینوا میں حقوق انسانی کمیشن سے اپیل کی کہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کر دے (ص ۱۵۱)۔ ]یہ وہی کمیشن ہے جس سے مئی ۲۰۰۱ء میں وہ خارج ہو گیا ہے[۔
رمزے کلارک نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۲۴ اور دفعہ ۳۳ کو بالاے طاق رکھ کر محض دھونس اور دھاندلی بلکہ کھلی کھلی رشوت کے ذریعے قرارداد ۶۷۸ منظور کرائی‘ اور چارٹر کے واضح احکام (کہ اقوام متحدہ کے تحت مشترک فوج کی کمان اقوام متحدہ کے نمایندے کے پاس ہو گی) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کمان سنبھال لی۔ پھر امریکہ اور برطانیہ نے گٹھ جوڑ کر کے مسلسل من مانیاں کیں اور کر رہے ہیں۔ اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے احتجاج کے باوجود کوئی بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکا (ص ۱۵۵-۱۵۳)۔ اس پورے عرصے میں امریکہ نے چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کو کبھی رپورٹ تک نہیں دی۔ اس پورے عمل میں صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کی نہیں بلکہ خود امریکہ کے دستور کی بھی کھلی خلاف ورزی کی گئی‘ جس کے تحت کانگرس‘ جنگ کا اعلان کر سکتی ہے لیکن ایک قرارداد کے ذریعے صدر امریکہ نے اس سے یہ اختیار لے لیا اور پھر کانگرس کو اعتماد میں لیے بغیر اعلان جنگ کر دیا (ص۱۶۱- ۱۵۶)
عین اس دن جب امریکی فوجیںعراق پر حملہ کر رہی تھیں (۱۶ جنوری ۱۹۹۱) ٹیکساس سے امریکی کانگرس کے رکن ہنری گونزالیز(Henery Gonzalez) نے صدر جارج بش کے خلاف دستور کی اس خلاف ورزی پر تحریک مواخذہ پیش کر دی تھی مگر جنگ کے جنون میں وہ آگے نہ بڑھ سکی۔
امریکہ اس بات کا مدعی بھی ہے کہ امریکہ کی کانگرس کسی بھی بین الاقوامی قانون‘ یا معاہدے کو منسوخ کر سکتی ہے یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ اس کے قانون کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا لیکن وہ جس قانون یا معاہدے میںچاہے جو ترمیم‘ تبدیلی یا تحفظات کا اضافہ کر سکتی ہے۔ رمزے کلارک اس کے بارے میں لکھتا ہے :
امریکہ کے پالیسی ساز یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ کانگریس کسی بھی بین الاقوامی قانون کو نظرانداز کر سکتی ہے‘ منسوخ کر سکتی ہے‘ تبدیل کر سکتی ہے یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ یہ عالمی برادری سے ایک طرح کا اعلان آزادی ہے اور ایک تنبیہ ہے کہ وہ کسی ایسے بین الاقوامی ضابطے کا پابند نہیں ہوگا جو کانگرس کو پسند نہیں ہے۔ (ص۱۶۶)
اس طرح عالمی عدالت کے بارے میں بھی امریکہ کا رویہ خود پسندی اور اپنی بالادستی کا ہے۔ رمزے کلارک نے بتایا ہے:
جب کہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک‘ چارٹر کے تحت قائم شدہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کی پابندی کرتے ہیں‘ طاقت ور اقوام کے لیے یہ پابندی بیش تر ان کی مرضی کا معاملہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال وہ تھی‘ جب نکاراگوا کی حکومت نے امریکی جارحیت کے نقصانات کے ازالے کا دعویٰ کیا‘ امریکہ نے عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ نے نکاراگوا کو براہِ راست حملوں اور جنگی کارروائیوں کا نشانہ بنایا اور سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں ۔ ایک مصنوعی حزب اختلاف کھڑی کرنے اور جمہوری اصول و ضوابط کی تحقیر کرتے ہوئے انتخابات کو ’سرقہ‘ کرنے پر تقریباً ۴۸ ملین ڈالر خرچ کیے۔ (ص ۱۶۶‘ ۱۶۷)
امریکہ کے صدر کے بارے میں رمزے کلارک جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:
ایسا شاہی صدر جو جمہوری قوانین اور راے عامہ کا پابند نہ ہو‘ بین الاقوامی قوانین کی جیسی چاہے تعبیر کرے‘ اعلان جنگ کرنے کے اس کے من مانے فیصلوں پر کوئی قدغن نہ ہو‘ اور کسی دشمن کو تباہ کرنے کے لیے فوجی طاقت کا من مانا استعمال کرے۔
ان حالات میں عالمی امن اور بین الاقوامی قانون کا حشر کیا ہوگا اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ رمزے کلارک کے بقول:
امریکہ کے خارجہ پالیسی ساز جس بین الاقوامی قانون پر عمل کرتے ہیں‘ وہ اصول و ضوابط کا کوئی مربوط مجموعہ نہیں ہے۔ اس میں وہی ہوتا ہے جو ان کے لیے پسندیدہ ہو۔ ایسے اصول جو مکمل طور پر سیاست زدہ ہوں اور امتیازی اقدامات پر مشتمل ہوں--- امریکی حکومت کا موقف ایسی طاقت کے عزم کا عکاس ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ (ص ۱۶۸)
رمزے کلارک لیبیا اور عراق کے سربراہان مملکت کو قتل کرنے کے امریکی اقدام کو بین الاقوامی قانون (ہیگ ریگولیشن آرٹیکل۲۳) اور خود امریکی قانون (صدارتی حکم نامہ ۱۲۳۳۳) کی کھلی اور مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں کسی بھی ملک کے سربراہ کے قتل کو ‘ خواہ یہ اقدام عالم جنگ میں کیا گیا ہو‘ قانونی جرم قرار دیتے ہیں۔ (ص ۱۷۰)
یہ اسی ذہنیت کا مظہر ہے کہ امریکہ نے عالمی فوج داری عدالت کے معاہدے کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے‘ کیونکہ اس کے تحت کسی بھی ملک کے مجرم پر بین الاقوامی قانون کے تحت مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفت ہو سکتی ہے۔ جب کہ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ عدالت صرف ان مجرموں پر مقدمہ چلانے کی مجاز ہو گی‘ جنھیں امریکہ یا اس کی کانگرس مجرم قرار دے۔ نیز یہ بھی ایک امریکی دعویٰ ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت کوئی بھی مشترک فوج بنے تو اس کی سربراہی ہمیشہ امریکیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ امریکہ کی ایک سرکاری دستاویز pp-25 میں جو کلنٹن دور میں جاری کی گئی ‘ صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ:
صدر امریکی افواج پر پوری کمانڈ رکھتا ہے اور کبھی اس سے دست بردار نہیں ہوگا۔ ہر صورت حال پیش آنے پر صدر‘ سلامتی کونسل کے فیصلے کے تحت اقوام متحدہ کی کارروائی کے لیے اقوام متحدہ کے باضابطہ کنٹرول میں امریکی فوج دینے پر غور کرے گا۔ جتنا امریکہ کا فوجی کردار زیادہ ہوگا ‘اتنا ہی اس کا امکان کم ہوگا کہ امریکہ امریکی افواج پر اقوام متحدہ کی کمان پر رضامند ہو۔ ایسے امن مشن جن میں لڑائی کا امکان بھی ہو‘ ان میں امریکی افواج کی شرکت بالعموم امریکہ کی کمان اور نگرانی میں ہونا چاہیے۔ (ملاحظہ ہو کارینگی انسٹی ٹیوٹ کا رسالہ "Ethics & International Affairs جلد ۱۴‘ ص ۶۰)
یعنی متحدہ فوج ہو یا اقوام متحدہ کی مرتب کردہ مشترکہ فوج‘ کمان امریکہ کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ جنرل آئزن ہوور اور جنرل میک آرتھر سے لے کر کوسووا اور بوسنیا امن فورس تک ہر جگہ امریکہ کا اصرار رہا ہے کہ کمانڈ اس کے پاس ہو اور دوسروں نے مجبوراً امریکہ کی اس ضد کے آگے سرتسلیم خم کیا ہے۔
اس ذہن‘ ان عزائم اور ان مطالبات کے ساتھ امریکہ دنیا میں جمہوریت کا علم بردار‘ حقوق انسانی کا محافظ‘ قانون کی مساوات اور پاس داری کا داعی اور انصاف کا پرچارک بنتا ہے--- اور اسٹریجی کا ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا کو امریکہ کے وژن اور اقدار کو قبول کر لینا چاہیے۔ لیکن یہی تو وہ اصل وجہ ہے جس کی بنا پر امریکہ اور باقی دنیا میں مغائرت پیدا ہو رہی ہے اور جو دراصل سامراجیت کی روح ہے۔
امریکہ کی مشہور ٹفٹس یونی ورسٹی میں علم سیاسیات کے پروفیسر ٹونی اسمتھ نے Ethics & International Affairs کے تازہ شمارے (مئی ۱۴‘ ۲۰۰۱ء) میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ نہ امریکہ کی طاقت غیر محدود ہے اور نہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے نظام اور اقدار کو دوسروں پر مسلط کرے۔ کیونکہ یہ لبرل امپریلزم کی ایک شکل ہے جس کا کوئی جواز نہیں:
دوسرے لوگوں میں امریکی اقدار کی ترویج پر دوسرا اعتراض بھی شدید ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو ثقافت ‘ادارے اور ہیئتیں رائج ہوتی ہیں وہ شمالی امریکہ اور مغربی یورپ میں رائج انسانی حقوق اور لبرل ڈیموکریسی کی راہ میں خود مضبوط رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی طرز حیات‘ اقدار اور اداروں کو روبہ عمل لانے کی کوشش میں ناکامی کا اندیشہ ہے ۔اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت محدود ہے بلکہ اس لیے کہ بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی ان عقائد اور طریقوں میں اصلاح نہ کر سکے گا جو بنیادی طور پر امریکی طریقہ کار کے مخالف کیا۔ چین‘ مسلم دنیا یا روس کا امریکی مطالبوں کے آگے سپر ڈالنے کے لیے آمادہ ہونے کا کیا امکان ہے۔
معروف امریکی مفکر والٹر لپ مین نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ:
جب ایک قوم ساری دنیا کے نظام کو یکساں شکل دینے کی ذمہ داری خود سنبھال لے تو یہ دوسروں کو اپنے خلاف متحد ہونے کی دعوت ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اس کا امکان ہے کہ جوہری اسلحہ صدی کے اختتام سے پہلے وسیع پیمانے پر تقسیم ہو‘ یہ امریکی عوام کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خوش کن راستہ نہیں ہے۔ (بہ حوالہ Intervention & Revolutions از رچرڈ بارنیٹ‘ ۱۹۷۲ء‘ ص ۳۱۲)
رچرڈ بارنیٹ اپنی کتاب اس جملے پر ختم کرتا ہے:
امریکہ اپنی موجودہ عظیم طاقت کو دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے جس میں غریب اقوام ترقی کے من پسند راستے اختیار کر سکیں۔ مگر جب تک امریکی یہ خام خیالی نہ چھوڑ دیں کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانا ان کا حق اور فرض ہے ‘ خود امریکیوں کو بھی امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ (ایضاً ‘ ص ۳۳۲)
ہماری نگاہ میں امریکہ پر بے اعتمادی اور اس کی مخالفت کا پہلا اور سب سے اہم سبب دنیا کے ممالک میں کوئی خرابی یا مرض نہیں‘ امریکہ کا یہ زعم ہے کہ وہ واحد سوپر پاور ہے اور ہمیشہ سوپر پاور ہی رہے گا۔ اس کا حق ہے کہ دنیا اس کے سامنے جھکے وار اس کی بالادستی قبول کرے۔ دنیا اسے ایک بڑی طاقت‘ اس کے زمینی حقائق کے مطابق ضرور تسلیم کرے گی ‘مگر اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے کبھی تیار نہ ہوگی۔ وہ اس سے دوستی کا تعلق بہ خوشی رکھے گی ‘مگر غلامی اور چاکری کا مقام کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اگر امریکہ تھوڑی سی حقیقت پسندی قبول کر لے اور بالادستی اور شہنشاہی کی حکمت عملی کو ترک کر دے تو اس کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔ اگر حقوق انسانی کے کمیشن کے انتخابی نتائج سے سبق سیکھتے ہوئے وہ تکبراور رعونت کے راستے کو ترک کر دے تو دنیا اس کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔
امریکہ سے دنیا کی بیزاری کے اسباب کو سمجھنے کے لیے امریکہ کو خود اپنے رویے اور اپنے وعدوں اور عمل کے فرق پر غور کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ایک بڑی چشم کشا کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire گذشتہ برس شائع ہوئی ہے (بلوبیک سی آئی اے کی اصطلاح ہے جس کا مفہوم امریکی عوام کی لاعلمی میں کیے جانے والے اقدامات کا ردّعمل ہے۔ اس کا ترجمہ مکافات کیا جا سکتا ہے)۔ اس کا مصنف کالمیر جانسن‘ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا‘ سان ڈیاگو (امریکہ) کا پروفیسر اور جاپان پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ ہے۔ یہ کتاب امریکہ اوربرطانیہ سے بہ یک وقت مئی ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی ہے۔ مصنف امریکہ کو اپنے رویے پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور تقریباً وہی بات کہہ رہا ہے جو باقی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی زبان پر ہے:
مجھے یقین ہے کہ غیر متعلق اسلحے کے سسٹم پر ہمارے وسائل کا غیر معمولی ضیاع‘ عسکری ’’حادثوں‘‘ کا مسلسل جاری رہنا اور امریکی سفارت خانوں اور چوکیوں پر دہشت گرد حملے اکیسویں صدی میں امریکہ کی غیر رسمی سلطنت کے لیے بحران پیدا کرنے والے عناصر ہیں۔ ایسی سلطنت جو دنیا کے ہر حصے پر فوجی طاقت کے دبائو اور اپنی شرائط ‘مگر دوسروں کی قیمت ‘ امریکی سرمائے اور منڈی کو استعمال کر کے عالمی اقتصادی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ہم نے اپنے آپ کو ضمیر کی کسی خلش سے بھی آزاد کر لیا ہے ‘کہ ہم اس دنیا کے دوسرے لوگوں کو کتنے برے نظر آ رہے ہیں۔ بیش تر امریکی غالباً جانتے ہی نہیں کہ واشنگٹن کس طرح اپنی بالادستی استعمال کرتا ہے‘ کیونکہ اس سرگرمی کا کافی حصہ خفیہ طور پر یا دوسرے بہانوں کے پردے میں انجام پاتا ہے۔ بہت سوں کو یہ یقین کرنے میں دقت پیش آئے گی کہ دنیا میں ہماری حیثیت ایک سلطنت کی سی ہو گئی ہے۔ لیکن جب ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ملک خود اپنی بنائی ہوئی سلطنت کا اسیر ہو گیا ہے تو ہمارے لیے دنیا کے بہت سے واقعات کی تشریح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جاپان میں سرکاری رہنمائی اور سرپرستی میں نصف صدی تک ہونے والی ترقی کے بعد سب کچھ غلط کیوں ہو گیا ہے؟ ایک مضبوط چین کے ظہور سے کسی کو کیا نقصان ہے؟ حقوق انسانی‘ جوہری پھیلائو‘ دہشت گردی اور ماحول کے بارے میں غیر ملکیوں کو امریکی پالیسیاں تضاد اور ژولیدگی کا شکارکیوں نظر آتی ہیں؟ (ص ۷‘ ۸)
کالمیرجانسن نے امریکہ کی پچاس سالہ سیاست کا مکمل دستاویزی نظائر اور حوالوں کے ساتھ پوسٹ مارٹم کیا ہے ۔ وسطی اور جنوبی امریکہ کی ریاستوں سے لے کر ویت نام‘ چین‘ جاپان تک ایک ایک دور اور ایک ایک واقعے سے پردہ اٹھایا ہے۔ کس طرح فوج‘ سی آئی اے ‘ کثیر قومی کمپنیاں اور عالمی مالیاتی ادارے دنیا کے ہر کونے میں امریکہ کے ایما پر اور اس کے مفاد میں دوسروں کے معاملات میں دراندازیاں کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ کس طرح بین الاقوامی قانون اور ضابطوں کو پامال کیا گیا ہے‘ پوری پوری قوموں کو تباہ کیا گیا ہے۔ کن کن طریقوں سے ڈکٹیٹروں کی سرپرستی کی گئی ہے‘ کس طرح کرپشن کے آلہ کار کو استعمال کیا گیا ہے اور مخالفوں کو میدان سے ہٹایا گیا ہے۔ کن ہتھکنڈوں سے جمہوریتوں کا خون کیا گیا ہے اور من پسند فوجی اور سول کاسہ لیسوں کو مسنداقتدار پر براجمان کیا گیا ہے۔ یہ سب سیاہ داستانیں اب ان سرکاری دستاویزات سے ثابت ہوتی ہیں‘ جو رازداری کے قانون کی مدت ختم ہو جانے سے شائع کی جا رہی ہیں اور ان میں بھی ۵.۱۳ فی صد دستاویزات ایسی ہیں جو اب بھی قومی سلامتی کے نام پر روک لی گئی ہیں۔ اس ساری تفصیل کو بیان کرنے کے بعد مصنف کہتا ہے :
ان حالات میں انسانی حقوق یا دہشت گردی کے بارے میں بظاہر بہت اچھے نظر آنے والے بیانات کو بھی امریکہ کے ’گندے ہاتھ‘ ریاکارانہ بنا دیتے ہیں۔ مکافات (blow back) دوسری اقوام پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس کے گھن لگنے کے اثرات امریکہ پر سیاسی مباحث کو بے قدر کرنے اور شہریوں کو بے وقوف بنانے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں‘ اگر وہ شہری اپنے سیاسی لیڈروں کے بیانات کو سنجیدگی سے لیں۔ یہ ناگزیر نتیجہ صرف مکافات کا نہیں بلکہ خود سلطنت کا ہے۔ (ص ۱۹)
پالمیر جانسن پوری امریکی قوم کو متنبہ کرتا ہے کہ:
اپنی تعریف کی رُو سے دہشت گردی بے گناہوں کو ہدف بناتی ہے تاکہ جو حملوں سے محفوظ بیٹھے ہیں ان کی غلط کاریوں کی طرف توجہ دلائی جاسکے۔ حالیہ عشروں میں جو استعماری مہم جوئیاں ہو رہی ہیں‘ اس کی فصل اکیسویں صدی کے بے گناہ غیر متوقع تباہیوں کی صورت میں کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی بڑی حد تک ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیاکچھ کیا گیا تھا اور کیا جا رہا ہے‘ وہ اس کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے جو ان کی قوم نے عالمی منظر پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کی ہیں۔ اس سے پہلے کہ بے مہار فاتحانہ اقدامات اور پروپیگنڈے سے نقصان قابو سے باہر ہو جائے ہمیں سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد اپنے عالمی کردار پر نئے مباحثے کو اہمیت دینا چاہیے۔ (ص ۳۳)
امریکہ کو خود احتسابی کی دعوت دیتے ہوئے کالمیر جانسن یاد دلاتا ہے کہ:
امریکی افسران اور میڈیا عراق اور شمالی کوریا جیسی سرکش ریاستوں کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ہمیں خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کہیں امریکہ خود تو ایک سرکش سپرپاور نہیں بن گئی ہے۔ (ص ۲۱۶)
وہ لاس اینجلز ٹائمز کے کالم نگار ٹام پلیٹ کا ایک جملہ دہراتا ہے کہ امریکہ ایک ایسی سوپر پاور بن گئی جس کا حال یہ ہے کہ دماغ کی جگہ کروز میزائل بھرے ہیں۔
وہ امریکہ کے عوام اور قیادت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا ہے:
ہم امریکی گہرا یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں ہمارا کردار نیک ہے اور ہمارے تمام اقدامات بلاامتیاز دوسروں کی اور ہماری بھلائی کے لیے ہیں۔ جب ہمارے اقدامات کے نتیجے میں تباہی رونما ہوتی ہے تو ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ان کے محرکات بہت اچھے تھے ۔لیکن واقعات بتا رہے ہیں کہ سرد جنگ کے بعد کے عشروں میں امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کے نفاذ میں سفارت کاری‘ اقتصادی امداد‘ بین الاقوامی قانون اور کثیر جہتی اداروں پر انحصار ترک کر دیا۔ اور ساری توجہ زیادہ فوجی طاقت اور مالی ہیرپھیر میں لگا دی ہے۔ (ص ۲۱۶‘ ۲۱۷)
ان حالات کے نتیجے میں دنیا کے مظلوم اور مجبور انسان اور قومیں ہی مصائب کا شکار نہیں ‘خود امریکہ بھی ایک فوجی اقتصادی عفریت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ معاشرے میں تشدد کے رجحانات جنم لے رہے ہیں‘ معیشت کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں اور ملک وقوم بالآخر تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
بین الاقوامی سیاسیات کے پروفیسر ڈیو ڈلیکو نے لکھا ہے: ’’عالمی نظام محض غیر متوازن اور جارح طاقتوں کے عمل کی وجہ سے جو اپنے پڑوسیوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ نہیں ٹوٹتا بلکہ اس لیے بھی ٹوٹتا ہے کہ یہ طاقتیں مطابقت پیدا کرنے کے بجائے استحصالی بالادستی قائم کرتی ہیں۔ (Beyond American Hegemony ‘ ص ۱۴۲ )
میں سمجھتا ہوں کہ بیسویں صدی کے اختتام پر امریکہ پر یہ بیان ٹھیک ٹھیک منطبق ہو رہا ہے۔ اِس استحصالی بالادستی کی علامات نظر آ رہی ہیں: عوام اور حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی اجنبیت‘ اخلاقی جواز کھو دینے کے باوجود اشرافیہ کا اقتدار سے چپکے رہنا‘ عسکریت کا اظہار اور فوج کا سوسائٹی سے بُعدجس کی خدمت اس کا فریضہ ہے‘ خطرناک جبرواستبداد اور ایک اقتصادی بحران جو عالمی ہے۔ تاریخ میں ایسی کم ہی مثالیں ہیں جب بالادست طاقتوں نے اپنے زوال کو عروج سے بدل دیا ہو‘ یا اقتدار کو پرامن طور پر چھوڑ دیا ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مکافات (blowback) سے بالآخر ایک بحران پیدا ہوگا جو اچانک امریکہ کے بالادست اثرات کو ختم کر دے گا یا بے وزن کر دے گا۔(ص ۲۲۴)
جانسن کا خیال ہے کہ اس انجام سے اب بھی بچا جا سکتا ہے بشرطیکہ امریکہ کی قیادت استحصالی بالادستی کا راستہ ترک کر کے جائز اخلاقی اور سیاسی حدود کی پاس داری کا راستہ اختیار کرے اور ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر عمل کرے۔ موصوف اپنی کتاب اس پیغام پر ختم کرتے ہیں:
امریکہ کو فوجی طاقت اور اقتصادی دبائو کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے نمونہ پیش کرکے رہنمائی دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسی بات نہ غیر حقیقت پسندانہ ہے نہ انقلابی۔ سرد جنگ کے بعد کی دنیا کے لیے‘ امریکہ کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی بہبود کو اپنی استعماریت کے دعووں پر مقدم رکھے۔ بہت سے امریکی قائدین سمجھتے ہیں کہ اگر بیرون ملک امریکی اڈے بند کر دیے جائیں یا ایک چھوٹے ملک کو اپنی معیشت خود چلانے کی اجازت دی جائے تو دنیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ اگر امریکہ اپنی دم گھونٹنے والی گرفت ڈھیلی کردے تو ترقی اور بہتری کے کتنے چشمے دنیا میں پھوٹ پڑیں گے۔ انھیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ استعماری بالادستی قائم رکھنے کی ان کی کوششیں لامحالہ مکافات کی لہریں پیدا کریں گی۔ یہ کہنا ناممکن ہے کہ کھیل کب ختم ہوگا لیکن اس بارے میں کم ہی شبہ ہے کہ یہ کیسے ختم ہوگا۔
اکیسویں صدی میں عالمی سیاست بیسویں صدی کے آخری نصف کے بعد کے اثرات کے تحت ہو گی یعنی سرد جنگ کے غیر ارادی نتائج اور یہ اہم امریکی فیصلہ کہ وہ سرد جنگ کے بعد کے دور میں بھی اپنا سرد جنگ کا رویہ برقرار رکھے گا۔ امریکہ اپنے آپ کو سرد جنگ کا فاتح قرار دینا پسند کرتا ہے۔ آج سے ایک صدی بعد جب لوگ پچھلی صدی پر نظر ڈالیں گے تو زیادہ امکان ہے کہ کوئی بھی فریق فاتح نظر نہ آئے گا‘ خصوصاً اگر امریکہ اپنے موجودہ استعماری طریقوںکو اختیار کیے رکھتا ہے۔ (ص ۲۲۹)
امریکہ کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عالمی بالادستی اور سامراجی استیلا ‘ عالمی برادری اور رفاقت دونوں ساتھ ساتھ نہیںچل سکتے۔ اگر آپ قوت کے نشے میںبدمست رہیں گے‘ غلبہ اور استیلا کا کھیل کھیلیں گے‘ رعونت اور غرور کا رویہ اختیار کریں گے‘ اگر آپ دوسروں کی آزادی‘ عزت نفس اور مفادات کا خیال نہیں رکھیں گے‘ اور دوسری اقوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور عسکری اور معاشی شکنجوں میں گرفتار رکھنے کی کوشش کریں گے تو آخرکار اس کا شدید ردّعمل ہوگا۔ نہ صرف یہ کہ امن‘ دوستی‘ محبت‘تعاون سے دنیا محروم رہے گی بلکہ بے اعتمادی‘ بے زاری اور بالآخر نفرت اور تصادم کی فصل رونما ہوگی---اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ تصادم ہمیشہ طاقت ور کی فتح ہی پر منتج نہیں ہوتا۔ ہاتھی اپنی قوت کے گھمنڈ پر چیونٹی کو کچلنے کے درپے رہتا ہے لیکن جب چیونٹی ہاتھی کی سونڈھ کے اندر رسائی پا لیتی ہے تو یہ ننھا سا بھونگا (صدر جانسن کے الفاظ میں: flea) ہاتھی کو بے بس کردیتاہے ۔ اس طرح بھی انسانوں اور قوموں کی قسمتیں بدل جاتی ہیں: تلک الایام نداولھا بین الناس!
ایک نہر ہے جو تیزی سے بہہ رہی ہے اور قرب و جوار کی بستیوں میں تباہی مچا رہی ہے۔ اہل بستی کو یقین ہو گیا کہ اگر بہائو کا یہی حال رہا تو سب ہی غرق ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اہل بستی کے تین گروہ ہوگئے۔
ایک گروہ نے اپنی تمام قوت اور اسباب اس کو روکنے اور بہائو کے آڑے آنے پر صرف کر دیے مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وجہ یہ تھی کہ پانی کو ایک جگہ سے روکا جاتا تو دوسری طرف سے بہہ نکلتا اور دبائو کے باعث مزید تباہی پھیل رہی تھی۔
دوسرا گروہ اس بات پر مصر تھا کہ اس کا سرچشمہ تلاش کیا جائے تاکہ اسے بند کرنے سے اس نہر کا زور کم ہو اور نقصان سے محفوظ رہا جا سکے۔ سرچشمہ مل تو گیا مگر ایک سوت بند کیا جاتا تو دوسرے سوت سے پانی خارج ہونے لگتا۔ چشمے کے ابلنے میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی اور تمام سوتوں کا بند کرنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اس گروہ کے اس اقدام سے بھی بستی والوں کے مکانات نہ بچ سکے اور نہ کھیتیاں پروان چڑھ سکیں۔
تیسرا گروہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ پہلے دونوں گروہوں کے طریقہ کار سے تو مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا‘ اس لیے اس گروہ نے نہ تو پانی روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی سوت بند کرنے کا تہیہ کیا بلکہ انھوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس پر صرف کیں کہ پانی کے اس بہائو کو حسب منشا صحیح راہ پر لگا دیا جائے۔ اور اس کوشش کو
اس طرح شروع کیا کہ نہر کا رخ بنجر زمینوں‘ قابل زراعت کھیتوں کی جانب کیا اور جگہ جگہ ضرورت کے لے پانی کے تالاب بنائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گھاس سے تمام زمین سبزہ زار ہو گئی اور اُس کے ثمرات سے تمام اہل بستی مالامال ہو گئے۔
بلاشبہ تیسرا گروہ کامیاب رہا‘ جب کہ پہلے اور دوسرے گروہ نے وقت ضائع کرنے اور بے نتیجہ محنت کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ کیا۔
ہمارا یہ احساس ہے کہ نہر کے بہائو میں دو عناصرہوتے ہیں۔ ایک تو پانی اور دوسرے اس کے ساتھ چلنے والی مٹی۔ بس یہی عناصر حضرت انسان میں بھی ہیں۔ اس تمثیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری خواہش ہے کہ قومی زندگی کے اس مرحلے پر تیسرے گروہ کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ناقابل تسخیر اور موثر شخصیت کی آگاہی حاصل کریں تاکہ دین اور دنیا کے تقاضے پورے کر سکیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاملے میں صرف مطالعے ہی سے کام نہیں لیا جائے گا بلکہ اپنی شخصیت کے ارتقا اور کامیابی کے لیے تحریری طور پر بھی منصوبہ بندی کر کے اور لائحہ عمل بنا کر کام کیا جائے گا۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے لیے وقت نکال لیتے ہیں‘ دوستوں اور رشتہ داروں سے مل لیتے ہیں مگر نہیں ملتے تو صرف ایک ذات سے‘ اور وہ ہے اپنی ذات۔ ہمیں منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کے نقطہ نظر سے اپنی ذات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۱- ٹھوس نظریہ حیات: آپ جس نظریۂ حیات کے حامل ہیں اس کی بنیادوں اور بنیادی فلسفہ اور اعتقاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔یہ اعتقاد ٹھوس ہو محض توجیہات پر مشتمل نہ ہو۔ اس نظریۂ حیات کے باعث آپ میں مقصد حیات کا سچا شعور پیدا ہو گیا ہو اور اس کی علامتیں ظاہر و باطن‘ دونوں میں اُبھر رہی ہوں۔ لوگ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں بلکہ آپ کو ہوشیار‘ بیدار مغز‘ اور اصول پرست ہونا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں‘ حق و باطل کے ساتھ بیک وقت رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ سیرت کی ان تمام کمزوریوں کا احساس کیجیے جو آپ کی ذات میں باطل کو گھسنے کا موقع دیتی ہیں۔ اپنی حیثیت کا جائزہ لیجیے اور اتنے مستحکم ہو جایئے کہ: لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول۔
۲- اصولوں کا علم اور ان پر عمل: آپ کو اپنے نظریہ حیات کا علم ہو۔ جو علم آپ نے حاصل کیا ہے اور جس تعلیم میں پیش رفت کی ہے اس کے اصولوں کا ادراک ہو‘ احساس ہو اور اس کے ساتھ ان پر عمل بھی ہو۔اصول‘ گفتگو اور بحث اپنی ذات کونمایاں کرنے کے لیے نہ ہوں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوں‘ تب ہی آپ کامیاب ہوں گے۔ سچائی اور ایمان داری‘ ہر نظریہ حیات اور مذہب کے بنیادی اصول ہیں۔ آپ لوگوں کو ان کی تعلیم دیں مگر اپنے معاملات میں اس پر عمل نہ کریں تودرحقیقت خسارے کا سودا کریں گے۔ جیسے جب جھوٹ کی گنجایش ہو تو بول دیں‘ ڈنڈی لگا کر‘ کاموں کو مؤخر کر کے‘ ٹیکس اور کسٹم میں مروجہ طریقہ کے مطابق مالی مفادات حاصل کر کے کام کر لیا جائے تو آپ فوری طور پر تو فائدہ اٹھا لیں گے بلکہ اپنے لیے مکان بھی بنا لیں گے مگر سکون حاصل نہیں ہوگا‘ اور آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس قسم کے مفادات کے حصول کے وقت ممکن ہے پانچ سو یا ہزار گز کا پلاٹ پیش نظر ہو‘ مگر عمر جوں جوں آگے بڑھتی ہے اور انسان ۲x۶ فٹ کے فلیٹ کے قریب پہنچتا ہے‘ تو اس وقت اسے ندامت ہوتی ہے۔
۳- اخلاص نیت اور اخلاص عمل: منہاج القاصدین میں علامہ ابن جوزیؒ نے بیان کیا ہے کہ ارباب بصیرت کو انوارالقرآن سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ سعادت تک پہنچنے کے لیے علم اور عبادت نہایت ضروری ہے۔ دنیا میں سب لوگ ہلاک ہو رہے ہیں مگر علم والے‘ اور سب علم والے ہلاک ہوں گے سوائے عاملین کے‘ اور سب عمل والے ہلاک ہوں گے سوائے مخلصین کے‘ اور مخلص بھی عظیم خطرے میں ہے۔
ہمارے ہاں اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اخلاص نیت کے اپنے اجر ہیں۔ نیت کے مطابق شعور کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان کو عمل کی فرصت نہیں ملتی مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نیت کا اجر مل جاتا ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نیت کا احتساب کریں۔ اس کا جائزہ لیتے رہیں اور اس میں اخلاص پیدا کرتے رہیں۔
۴- احساس ذمہ داری: اس دنیا میں ہم سب لوگ ذمہ دار ہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی انداز میں راعی ہے۔ گھر‘ خاندان‘ دفتر‘ کاروبار اور معاملات اور تنظیم کے حوالے سے ہمیں اپنی متعلقہ رعایا کا احساس کرنا ضروری ہے۔ پورے شعور کے ساتھ ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ پھر ان ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔ ذمہ داری میں اہل خانہ بھی شامل ہیں‘ دفتر کے معاملے میں ملازمت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ آپ کے ساتھیوں اور ماتحت افراد کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ سرکاری ملازم ہیں تو سرکاری وقت‘ وسائل اور خزانے کے متعلق ذمہ داریوں کا احساس اور ادایگی ضروری ہے۔ کاروباری ہیں تو اس کے تقاضوں کا شعور‘ قیمت کا تعین‘ ملازمین کی تنخواہیں اور ان کی خوش حالی‘ اس کے ساتھ ساتھ کاروبار کی ترقی اور پھیلائوکی کوشش اور معیار کا برقرار رکھنا ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بس ہر حال میں کام کا حق ادا کیجیے۔
۵- شجاعت: ضرورت اور حاجت کے وقت مصائب اورخطرات کا ثابت قدمی سے مقابلہ شجاعت کہلاتا ہے۔ جو شخص نتائج پر نگاہ رکھے اور ان کے پیش آنے سے خوف زدہ ہو مگر جب وہ سامنے آجائیں تو ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کرے تو وہ بہادر ہے‘ اور جب کوئی شخص موقع اور محل کی مناسبت سے بہترین کارگزار ثابت ہو وہ ’’شجاع‘‘ ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ خطرے میں کود ہی جائیں تو آپ بہادر ہوں گے بلکہ بہادر اس حالت میں بھی سمجھا جائے گا کہ نتیجے پر نگاہ رکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ اس خطرے کے موقع سے بچنا ہی بہتر طریقہ کار ہے اور اس کا فرض بھی اسے اس بات کا حکم دیتا ہو کہ وہ اپنے کو خطرے سے بچائے۔ درحقیقت سب سے بڑی بہادری‘ مصیبت اور سختی کے وقت دل کا اطمینان اور حاضر حواسی ہے۔ اس لیے بہادر وہ ہے کہ جب اس پر سخت وقت آئے تو اپنے اطمینان اور بیداری حواس کو نہ کھو بیٹھے بلکہ قابلیت اور ثبات قلبی سے اس کا مقابلہ کرے اور ذہنی بیداری اور مطمئن عقل کے ساتھ اس کو انجام دے۔
۶- حیا: انسان میں ایک ایسی قوت اور ملکہ ودیعت کیا گیا ہے جس سے انسان خیر کی طرف اقدام کرتا ہے اورشر سے بچنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ اس قوت یا ملکہ کا نام ’’حیا‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۱) حیا ایمان کی ایک شاخ ہے (۲) حیا خیر کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیتی۔ علامہ ماوردیؒ کہتے ہیں کہ خیروشر پوشیدہ معانی ہیں جو صرف اپنی ان علامتوں کے ذریعے ہی سے پہچانے جاتے ہیں جو ان معانی پر دلالت کرتے ہیں‘ پس خیر کی بہترین علامت حیا و شرم ہے اور شر کی علامت بے حیائی ہے۔ ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے: ’’انسان سے اس کے اخلاق کے متعلق نہ پوچھو‘ خود اس کے چہرے مہرے میں اس کے اخلاق کی شہادت موجود ہے‘‘۔
ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اے اولاد آدم! جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو تیرا جی چاہے کر۔ حیا اللہ تعالیٰ سے کی جاتی ہے‘ لوگوں سے کی جاتی ہے‘ اور اپنے نفس سے کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیا کرو اس درجے جو حیا کا حق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اللہ کی درگاہ میں ہم حیا کا صحیح حق کس طرح ادا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: سر اور جو اس میں محفوظ ہے‘ اور پیٹ اور جو اس میں محفوظ ہے ان کی حفاظت کے ذریعے‘ اور حیات دنیا کی زینت کے ترک‘ اور موت اور بدن کے گل سڑ جانے کی یاد کے ذریعے سے حیا کا صحیح حق جناب باری میں ادا ہوتا ہے۔
۷- میانہ روی و اعتدال: مقدمہ ابن خلدونسے اعتدال اور میانہ روی پر ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے۔ یہ ذمہ داران کے لیے بہت اہم ہے:
تم اپنے تما م کاموں میں میانہ روی اختیار کرو کیونکہ اس سے زیادہ نفع بخش‘ امن و حفاظت کی ذمہ دار اور فضیلت اور بزرگی کی نشانی کوئی چیز نہیں۔امور میں اعتدال ہی انسان کو بھلائی اور بزرگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور بھلائی توفیق ایزدی کی نشانی ہے‘ اور توفیق سعادت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ بلکہ خود دین و سنت رسولؐ کا قرار اسی اعتدال سے ہے اور دنیا کی اصلاح کا بھی اسی پر مدار (منحصر) ہے۔
شخصیت کیتعمیر و ترقی میں میانہ روی اور اعتدال و توازن اہم عناصر ہیں۔ یہ چیزیں مزاج کے لیے بھی ضروری ہیں‘ کام کاج کے لیے بھی‘ تعلقات اور معاملات کے لیے بھی‘ اور اخراجات کے لیے بھی۔ غرض زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر صورت میں یہ تعمیر و ترقی میں بڑی معاون ہے۔
۸- صبر و تحمل: صبر دو قسم کا ہے: ایک‘ بدنی‘ جیسے مشقت برداشت کرنا اور عبادت کے مشکل اعمال برداشت کرنا۔ دوسرا‘ نفسانی‘ یہ خواہش کے تقاضے اور طبیعت کی مرغوب چیزوں سے رُک جانا ہے۔ صبر کی یہ قسم اگر پیٹ اور شرم گاہ کی خواہش سے متعلق ہو‘ تو اس کا نام عفت ہے۔ اگر میدان جنگ میں صبر ہو‘ تو اس کا نام شجاعت ہے۔ اگر غصہ کو دبانے میںصبر ہو تو اس کا نام حلم ہے۔ اگر کسی پریشان کرنے والی مصیبت سے مقابلے میں ہو‘ تو اس کا نام فراخی ہے۔ اگر کسی معاملے کو پوشیدہ رکھنے کے متعلق ہو‘ تو اس کا نام راز کو چھپانا ہے۔ اگر زائد ضروریات سے رکنا ہو‘ تو اس کا نام زہد ہے۔ اور اگر تھوڑی سی ضروریات پر مطمئن ہونا ہو‘ تو اس کا نام قناعت ہے۔
صبروتحمل صرف مشکل وقت کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ بہتر وقت میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ بعض عارفین نے کہا ہے کہ مومن مصیبت پر صبر کر لیتا ہے اور عافیت پر صرف صدیق ہی صبر کر سکتا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا کہ تکلیفوں سے ہماری آزمایش ہوئی تو ہم نے صبر کیا لیکن جب نعمت و آسایش سے آزمایش ہوئی تو ہم صبر نہ کر سکے۔ جوانمرد صرف وہ ہے جو عافیت پر صبر کرے اور یہ صبر شکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب تک شکر کے حقوق ادا نہ ہوں صبر پورا نہیں ہوتا۔ اور نعمت میں صبر مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہاں قدرت حاصل ہوتی ہے‘ جیسے کھانا نہ ہونے کی صورت میں بھوکا زیادہ صبر کر سکتا ہے بہ نسبت لذیذ کھانا موجود ہونے کے۔
صبر کا اپنا وصف ہے کہ بقول حضرت علیؓ ’’ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور معرفت کا یہ حق ہے کہ تم اپنی تکلیف کی شکایت نہ کرو اور اپنی مصیبت کا ذکر نہ کرو‘‘۔
حکما کہتے ہیں کہ مصیبت کا چھپانا نیکی کا خزانہ ہے۔ایک آدمی نے امام احمدؒ سے پوچھا: اے ابوعبداللہ! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ نے کہا: عافیت اور بھلائی سے ہوں۔ اس نے کہا: کل رات آپ کو بخار تھا۔ تو فرمایا: میں نے جب تم سے کہہ دیا کہ میں عافیت سے ہوں تو بس کافی ہے۔ تم مجھ سے وہ بات کیوں کہلوانا چاہتے ہو جس کا زبان پر لانا مجھے پسند نہیں۔
۹- استقامت و باقاعدگی: اپنے معاملات اور اصولوںپرعمل درآمد میں استقامت اور باقاعدگی بہت جلد آپ کی شخصیت کو شاہراہ کامیابی پر گامزن کر دے گی۔ اصولوں پر عمل کا معمول بنایئے۔ اچھے اطوار اور کاموں کو استقامت کے ساتھ کیجیے‘ اور جائزہ لیتے رہیے۔ مستقل مزاجی اور باقاعدگی شخصیت کو معروف اور مقبول بناتی ہے اور ہم منظم رہتے ہیں۔
۱۰- خوفِ خدا اور خوفِ آخرت: تعمیر شخصیت کے تخلیقی عناصر میں اور ہماری رفتار کار اور استعداد کار میں اضافے کا ایک اہم ذریعہ بلکہ بنیادی ذریعہ خوفِ خدا اور خوفِ آخرت ہے۔ خدا خوفی ہمیں برے اعمال سے بچائے گی‘ وقت ضائع کرنے سے بچائے گی‘ حرام کھانے سے بچائے گی‘ لغویات میں ملوث ہونے سے بچائے گی۔ جب ہم بہت ساری گلیوں سے بچ کر صرف ایک سیدھی راہ پر آجائیں گے اور ہمارے سامنے ایک عظیم ذات کے وجود کا احساس اور اس کی صفات و قدرت کا خوف ہوگا تو پھر ہمارے لیے اس سیدھی راہ پر سیدھا اور تیز چلنا آسان ہوگا ۔ آخرت کی گھڑی ہمارا ہدف ہوگی‘ اور اس شاہراہ پر چلتے ہوئے نظریں ادھر ادھر نہیں بھٹکیں گی۔
۱۱- حکمت: حکمت علم اور اس کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔ ابن قتیبہؒ نے کہا: آدمی اس وقت تک حکیم نہیں ہوتاجب تک علم اور عمل کو جمع نہ کرے۔ حکمت‘ نفس کی اس حالت کا نام ہے جس کے ذریعے سے انسان تمام اختیاری امور میں خطا و صواب کے درمیان تمیز کرتا ہے۔ حکمت و عقل کے اعتدال سے حسن تدبیر‘ ذکاوت ذہن‘ باریک بینی‘ راست فکر اور پوشیدہ آفاتِ نفس کا فہم جیسے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔
۱۲- اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے! : ہر وقت یہ احساس رہنا چاہیے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ حسن نیت ‘ عزم اور صحیح طریقہ کار کے مطابق محنت کر کے اپنے معاملات کے نتائج اللہ کے سپرد کر دینے چاہییں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے کا احساس انسان کی نیکیوں میں اضافے اور برائیوں سے رکنے کا باعث ہوتا ہے۔ اسی احساس کے نتیجے میں اس میں غیر مرئی قوت محرکہ اور قوت عمل پیدا ہوتی ہے اور اس کے لیے حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔
۱۳- نفس سے سبقت اور احتساب: انسان پر حسد‘ حرص‘ غضب‘ شہوت اور تندی و تیزی بہت جلد غالب آجاتی ہے اور شیطان انھی راستوں سے اس پر حملہ کرتا ہے۔ بغیر تحقیق اور جلدبازی سے کام کرنا بھی اطاعت نفس ہے اور ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ یہ جذبات اور کیفیات بہت جلد غالب آجاتی ہیں۔ بدگمانی‘ بدظنی اور غلط فہمی موجودہ دور کے مسلمانوں کی بہت بڑی کمزوریاں ہیں۔ مسلمان کو ایٹمی قوت تباہ نہیں کر سکتی مگر بدگمانی تباہ کر ڈالتی ہے۔ بس اس صورت میں کنٹرول اور عقل کی ضرورت ہے۔ حقائق معلوم کرنے کی کوشش کیجیے‘ باتوں اور افواہوں پر فوری ردعمل کی ضرورت نہیں ہے۔
ع بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گرمارا
اس کے ساتھ ساتھ انسان کو روزانہ رات کو سونے سے قبل احتساب بھی کرنا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے۔ اور بقول حضرت جنید بغدادیؒ ’’تم ہروقت یہ سوچتے رہو کہ خدا سے کتنے قریب ہوئے‘ شیطان سے کتنے دُور‘ جنت سے کتنے قریب‘ اور دوزخ سے کتنے دُور‘‘۔ احتساب تحریری ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ تحریری احتساب قوت عمل پیدا کرنے میں آپ کا معاون ہوگا۔
۱۴- دعا: تعمیر شخصیت میں دعا کا اہم مقام ہے۔
دعا سب سے پہلے اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے: ’’ اے اللہ تو نے مجھے اچھی صورت میں پیدا کیا‘ اب میرے اخلاق بھی اچھے کر دے‘‘۔ دعا نفس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے‘ عزائم کی بلندیوں‘ قوتوں کی بحالی اور حالات کی سازگاری اور خوش گواری کے لیے‘ رزق حلال کے لیے‘ بہتر استعداد کے لیے‘ اچھی ٹیم کے لیے‘ سخت گیر لوگوں کے دلوں کی نرمی کے لیے بھی ہونی چاہیے۔
دعا میں یقین کی کیفیت ضروری ہے۔ کسی گائوں میں بارش نہیں ہو رہی تھی تو نماز استسقاء کا اعلان ہوا۔ گائوں والے میدان میں جمع ہو گئے۔ دیکھا گیا کہ ایک گیارہ سالہ بچی بھی اپنے ہاتھ میں چھتری لیے میدان کی طرف آرہی تھی۔ لوگوں نے کہا: بیٹی! ہم تو ابھی بارش کی دعا مانگنے جا رہے ہیں‘ تو چھتری لے کر کیوں آ رہی ہے؟ بچی نے معصومیت سے جواب دیا: جب ہم دعا مانگ کر واپس آ رہے ہوں گے اس وقت تو بارش ہو رہی ہوگی۔ بس یقین کی یہی کیفیت مطلوب ہے!
ہجرتِ حبشہ کی جو تفصیل اوپر بیان ہوئی ہے اس سے بعض اہم پہلو سامنے آتے ہیں:
۱- خصوصی حالات میں ہجرت: حبشہ ہجرت کرنے کی صحابہ کرامؓ کو اس وقت اجازت دی گئی‘ جب کہ مکّہ کی سرزمین ان کے لیے تنگ ہو گئی‘ دین پر قائم رہنا دشوار سے دشوار تر ہوگیا‘ اور دعوت کی راہیں مسدود ہو گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جس ملک میں رہتے ہیں‘ وہاں دین پر عمل کی اگر آزادی ہے ‘ دعوت کے مواقع حاصل ہیں اور اس کی راہیں کھلی ہیں تو اس ملک کو چھوڑنے یا اس سے ہجرت کا جواز ان کے لیے نہیں ہے۔ ان کی دینی ذمّہ داری ہے کہ وہ وہیں قیام کریں اور دین پر عمل کرتے ہوئے اس کی دعوت و تبلیغ اور سربلندی کی جدوجہد جاری رکھیں (تلاشِ معاش یا کسی دنیوی غرض سے کسی ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہونایا رہایش اختیار کر لینا ہجرت نہیں ہے)۔
۲- دین کی محبت کو فوقیت: ہجرت کرنے والوں نے انتہائی بے بسی اور مجبوری کی حالت میں اپنا وطن چھوڑا‘ گھر بار چھوڑا اور اپنے خویش و اقارب سے قطعِ تعلق کیا اور اجنبیت کی زندگی اختیار کی۔ کوئی
تنِ تنہا تھا‘ کوئی جوان بیوی اور ننھے اور معصوم بچے کے ساتھ تھا‘ کسی کے پاس سواری تھی‘ زیادہ تر پیدل تھے۔ تن بہ تقدیر ایک نامعلوم مستقبل کی طرف چل پڑے۔ وہ قدم قدم پر اس بات کا ثبوت فراہم کرتے چلے جا رہے تھے کہ اللہ کا دین ان کے لیے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دے سکتے ہیں۔ اسی جذبے نے انھیں دُنیا اور آخرت کی کامیابی سے ہم کنار کیا۔
۳- دارالامن کی طرف: حبشہ ایک غیر اسلامی اور عیسائی سلطنت تھی لیکن وہاں مسلمانوں کو اسلامی عقیدے پر قائم رہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی آزادی تھی۔ تبلیغ کے مواقع بھی حاصل تھے۔ اس پہلو سے وہ مہاجرین کے لیے دارالامن بن گیا۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر کسی ملک میں اسلام پر قائم رہنا سخت دشوار ہو جائے اور کوئی دارالاسلام‘ جہاں مسلمان ہجرت کر سکے‘ موجود نہ ہو‘ تو وہ کسی غیر اسلامی ملک میں جہاں دین پر عمل اور اس کی دعوت و تبلیغ کی آزادی حاصل ہو‘ ہجرت کر سکتا ہے۔
۴- حلیف غیر مسلم سے ہمدردی: نجاشی کا ایک حریف‘ سلطنت کا دعوے دار بن کر اس کے خلاف کھڑا ہوا۔ دونوں کے درمیان معرکہ آرائی کی نوبت آگئی‘ اس میں مسلمانوں کی ہمدردی نجاشی کے ساتھ تھی‘ اس لیے کہ نجاشی عدل و انصاف کا علم بردار تھا۔ ظلم و زیادتی کو صحیح نہیں سمجھتا تھا۔ اس نے مملکت میں یہ اعلان کر رکھا تھا کہ کسی شخص کو مسلمانوں پر دست درازی کی اجازت نہ ہوگی ورنہ اس پر جرمانہ عائد ہوگا۔ اس طرح نجاشی نے ان کے دین اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لیے تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس کے حریف کے بارے میں یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی تھی کہ وہ اسی طرح کا رویہ اختیار کرے گا۔ اس لیے مسلمانوں کی ہمدردی نجاشی کو حاصل تھی اور وہ اس کی کامیابی کے آرزومند تھے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو مسلمان کسی غیر اسلامی سلطنت میں رہتے ہیں انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کس فرد یا گروہ کا اقتدار اسلام کے لیے اور خود ان کے لیے بہتر اور مفید ثابت ہوگا اور جو اقتدار بہتر ہو اس کے حق میں ان کی ہمدردی ہونی چاہیے۔
۵- دعوت و تبلیغ کا نیا چیلنج: دعوت و تبلیغ کے معاملے میں ہجرتِ حبشہ ایک نیا تجربہ تھا۔ مکّہ میں مشرکین سے سابقہ تھا۔وہاں شرک کی نامعقولیت واضح کی جا رہی تھی اور توحید کے دلائل دیے جا رہے تھے۔ حبشہ میں مسلمان ایک نئی صورت حال سے دوچار تھے۔اس عیسائی مملکت میں چاروں طرف عیسائیت کا چرچا تھا اور مسیحی عقائد زیربحث تھے۔ ہجرت حبشہ سے پہلے مکّہ ہی میں سورہ مریم نازل ہو چکی تھی جس میں حضرت مریم اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی صحیح حیثیت واضح کی جا چکی تھی۔ ان کی تعلیمات بھی تفصیل سے بیان ہوئی تھیں۔ سورہ کہف میں ابن اللہ کے تصور کی تردید اور عیسائی تاریخ کے بعض واقعات‘ توحید کی دعوت اور اس پر استقامت کا ذکر تھا۔ اس طرح مہاجرین اس نئی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے پہلے سے علمی اور فکری طور پر تیار تھے۔ نجاشی کے دربار میں اس سے فائدہ اٹھایا اور اس کے مطالبے پر قرآن کی تعلیمات قرآن ہی کے الفاظ میں پیش کیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس دَور میں اور جس ماحول میں جو علمی و فکری سوالات اُبھریں اسلام کی دعوت کے لیے ان کا جواب فراہم کرنا ضروری ہے‘ ورنہ اسلام کی حقانیت ثابت نہ کی جا سکے گی اور دعوت کا حق ادا نہ ہوگا۔
۶- ایمان‘ عزم اور جرأت کی اہمیت: نجاشی اپنے دربار میں اعیانِ سلطنت اور مذہبی رہنمائوں کے ساتھ موجود تھا۔ وہ سب اسلام سے بے خبر اور عیسائیت کے ماننے والے اور اس کے علم بردار تھے۔ ان کے درمیان حضرت جعفرؓ نے ایمانی جرأت کا زبردست ثبوت دیا۔ اسلام کے عقائد‘ توحید ‘ رسالتؐ اور آخرت کے تصور اور اس کے اخلاقیات کی وضاحت کی اور حضرت عیسٰی ؑ کے بارے میں اسلام کے عقیدے کو
بے کم و کاست پیش کیا۔ اس طرح یہ ثابت کر دیا کہ نازک سے نازک حالات میں بھی دین کی ترجمانی اور اس کی تعبیر و تشریح میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے‘ حالات اور ماحول کے زیراثر اسلام کی ناقص اور نامکمل ترجمانی کی اجازت نہیں ہے۔ ان حضرات کا عزم و حوصلہ اور ایمانی جذبہ قیامت تک داعیانِ دین کے لیے نمونہ ہے۔
۷- حکمران کا قبولِ اسلام: روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی اسلام لے آئے تھے۔ متعدد واقعات سے ان کا اسلام پر ایمان و یقین‘ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور خیرخواہی کا ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے حضرت جعفرؓ کی تقریر سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنے دربار میں کہا کہ یہی وہ آخری پیغمبر ہیں جن کی بشارت انجیل میں دی گئی ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں آپؐ کی تعلیمات بالکل صحیح ہیں۔ آپؐ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے موقع ہوتا تو میں آپؐ کی خدمت میں پہنچتا اور آپؐ کے پیر دھوتا‘ لیکن مملکت پر ان کا اتنا مضبوط کنٹرول نہیں تھا کہ وہ کھل کر اسلام کا اظہار کرتے۔ حبشہ کے عوام اسے برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ جب وہاں کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان کا عقیدہ بدل گیا ہے تو وہ بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نجاشی نے حضرت جعفر ؓ اور اُن کے ساتھیوں کو اپنے پاس بلایا۔ ان کے لیے کشتیوں کا انتظام کیا اور کہا کہ آپ حضرات ان کشتیوں پر سفر کے لیے تیار رہیں۔اگر مجھے شکست ہو جائے تو جہاں چاہیں چلے جائیں۔ لیکن اگر مجھے فتح حاصل ہو تو حسب سابق یہیں قیام کریں۔ پھر ایک تحریر لکھی جس میں کلمہ ء شہادت اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ تھا اور یہ بھی تھا کہ نجاشی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ ابن مریم اللہ کے بندے ‘ اس کے رسول اور اس کی روح تھے اور اس کا کلمہ تھے جسے اس نے مریم کے اندر پھونکا تھا۔ اس تحریر کو نجاشی نے اپنی عبا کے نیچے دائیں جانب رکھ چھوڑا۔ اس کے بعد حبشہ کے باغی گروہ کے پاس پہنچا۔ وہ اس کے مقابلے کے لیے صف باندھے تیار تھے۔ اُن سے کہا: لوگو! کیا میں اس ملک پر حکومت کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں آپ ہی اس کے مستحق ہیں۔ نجاشی نے سوال کیا کہ: تم نے میرے اخلاق اور میری سیرت کیسی دیکھی؟ لوگوں نے جواب دیا: آپ بہتر سیرت کے مالک ہیں‘ لیکن آپ نے ہمارا دین ترک کر دیا ہے اور یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ اللہ کے بندے تھے۔ نجاشی نے ان سے سوال کیا کہ: حضرت عیسٰی ؑ کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ: ہم انھیں ابن اللہ سمجھتے ہیں۔ اس پر نجاشی نے عبا کے اوپر سے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا: عیسٰی ؑ ابن مریم اس سے زیادہ کچھ نہ تھے۔ (نجاشی کی مراد اس تحریر سے تھی جو ان کی عبا کے نیچے تھی لیکن مجمع نے سمجھا کہ وہ ان کے خیال کی تائید کر رہے ہیں)۔ وہ خوش اور مطمئن ہو گئے اور بغاوت ٹل گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ بات پہنچی تھی۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۳۷۸-۳۷۹۔ ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۲۸-۲۹)
۸- باحیثیت افراد کی مجبوریاں: اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایک عام آدمی ہی نہیں‘
صاحب حیثیت اور بااقتدار فرد بھی ایسے حالات میں گھر سکتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کا اعلان اور اظہار نہ کر سکے۔ شریعت پر نجاشی کس حد تک عمل کر رہے تھے‘ اس کی تفصیل نہیں ملتی۔ شریعت پر کھل کر عمل کرنا شاید اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔ اتنی بات طے ہے کہ وہ حج‘ ہجرت اور جہاد جیسے احکام پر عمل نہیں کر سکے اور اپنی مملکت میں اسلامی احکام بھی نافذ نہ کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود کفر و شرک کے ماحول میں اسلام اور مسلمانوں سے ان کی ہمدردی جاری رہی۔ مہاجرین کو اپنے ہاں جگہ دی۔ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا۔ ان کی ہر طرح حفاظت کی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر حضرت ام حبیبہ ؓ کا آپ سے نکاح کیا اور بڑے اہتمام سے رخصت کیا۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۷۵۸-۷۵۹)
حضرت جعفرؓ کا قافلہ جب روانہ ہونے لگا تو کشتیاں فراہم کیں‘ سفر کا انتظام کیا اور پورے سازوسامان کے ساتھ روانہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے رویے اور سلوک کی اطلاع دیں‘ یہ میرا ایک ساتھی (عزیز) آپ حضرات کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہا ہے۔ کلمہ ء شہادت پڑھا اور کہا کہ آپ حضرات حضورؐ سے درخواست کریں کہ وہ میری مغفرت کی دعا فرمائیں۔ خیبر پہنچنے پر نجاشی کے روانہ کردہ شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت جعفرؓ یہاں موجود ہیں‘ آپؐ ان سے دریافت فرمائیں کہ نجاشی کا رویہّ ان کے ساتھ کیسا تھا اور ان کا عقیدہ کیا ہے؟ حضرت جعفرؓ نے تفصیل بتائی اور کہا کہ وہ آپؐ پر ایمان رکھتے ہیں اور آپؐ سے دعا کی درخواست کی ہے۔ آپؐ نے وضو کیا اور تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ! نجاشی کی مغفرت فرما ۔ اس پر مسلمانوں نے آمین کہا۔ (ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۶)
نجاشی کا ۹ ہجری میں انتقال ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مدینہ میں منادی کرائی کہ حبشہ کے ایک صالح بندے کا انتقال ہو گیا ہے۔ لوگو‘ چلو اس کی نماز جنازہ پڑھو‘ اس کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: تمھارے بھائی اصحمہ (نجاشی کا نام) کا انتقال ہو گیا ہے‘ چلو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے۔ چنانچہ آپؐ لوگوں کو لے کر عیدگاہ تشریف لے گئے اور نماز پڑھی۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ آپؐ نے نجاشی کی نمازِ جنازہ اس لیے پڑھی کہ حبشہ میں ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی۔ اُن کے قریب ایسے لوگ نہیں تھے جو اسلام پر ایمان رکھتے اور نمازِ جنازہ پڑھتے ہوں۔(۱)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نجاشی کس طرح کے ماحول میں گھرے ہوئے تھے۔ اس طرح کے حالات اور ماحول میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے انھوں نے جو کچھ کیا شاید اس سے زیادہ وہ نہیں کر سکتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مجبوریوں اور معذوریوں کے ساتھ ان کے ایمان اور خلوص کی تصدیق فرمائی۔
ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور مغفرت کی دعا فرمائی۔ ان کی کامیابی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے۔
(بہ شکریہ سہ ماہی تحقیقات اسلامی‘ علی گڑھ‘ دسمبر ۲۰۰۰ء)
۱- ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۲۹-۳۰‘ غائبانہ نمازِ جنازہ پر فقہا کے درمیان اختلاف ہے ‘تفصیل کے لیے دیکھیے‘
فتح الباری: ۳/۵۴۴-۵۴۵
بیسویں صدی عیسوی کے آخری عشرے میں دنیا میں ایسی سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ عالمی نقشہ نئے سرے سے مرتب کیا گیا۔ سوویت یونین کے انہدام اور اس کے نتیجے میں سرد جنگ کے خاتمے نے دنیا میں سیاسی اور اقتصادی گروہ بندی کو نئی جہت عطا کی۔ عالمی سیاسی منظر دو قطبی سے یک قطبی شکل اختیار کر گیا۔ اس یک قطبی دنیا میں امریکہ بلاشرکت غیرے عالمی طاقت بن کر اُبھرا۔ امریکی سیاسی و انتظامی اداروں اور تحقیق و دانش کے اداروں (think tanks) نے یہ خیال عام کرنا شروع کر دیا کہ گذشتہ تاریخ اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور آیندہ جب بھی تاریخ مرتب کی جائے گی تو اس میں امریکی قیادت میں مغرب کی مرضی کو بنیادی عمل دخل ہوگا۔ ان کے دانش وروں نے تہذیبوں کا ایک مثلث بھی دنیا کے سامنے متعارف کرایا جس کے تینوں سروں پر بالترتیب عیسائی غرب‘ عالم اسلام اور چین دکھائے گئے۔ مدعا یہ تھا کہ آیندہ تہذیبوں کی جو جنگ ہوگی ان میں مذکورہ بالا تہذیبیں فریق ہوں گی۔ اس حوالے سے سیموئل ہنٹنگٹن اور فرانسس فوکویاما کی کتابوں The Clash of Civilizations(تہذیبوں کا تصادم) اور The End of History (تاریخ کا اختتام) نے کافی شہرت پائی۔
امریکہ اور عیسائی غرب نے یک قطبی دنیا کی قیادت اپنے بے پناہ وسائل اور زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے بل پر حاصل کر رکھی ہے۔ دنیا کی دیگر تہذیبوں کی طرف سے مغربی تہذیب کو کوئی خاص چیلنج ان میدانوں میں سامنے نہیں آیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خود روس اور اس کے اتحادی امریکہ کے حاشیہ بردار بن گئے۔ اس کی بڑی مثال بھارت ہے جس نے سرد جنگ کے دوران ایشیا کی طاقت کے توازن میں اپنا وزن
ہمیشہ روس کے پلڑے میں ڈالا لیکن یک قطبی دنیا میں روس کا یہ روایتی اتحادی امریکہ کا عزیز ترین دوست بن گیا ہے۔
چین پر سرد جنگ کے خاتمے کا کوئی بڑا منفی اثر مرتب نہیں ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ چین نے اپنی بے پناہ اقتصادی ترقی کے بل پر دنیا میں اپنی صلاحیت کا لوہا کافی حد تک منوا لیا۔ تاہم‘ اس عرصے میں عالم اسلام سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ اس کے واحد سیاسی ادارے یعنی اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے عالمی سیاست پر کوئی اثر مرتب نہیں کیا۔ جنگ خلیج‘ بلقان کے بحران اور چیچنیا کے تنازعے میں او آئی سی نے جو مایوس کن کردار ادا کیا اس نے عالمی سیاسی منظرنامے میں اس کو ایک بے جان سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر متعارف کرایا۔ نہ صرف اسلامی کانفرنس کی تنظیم بلکہ اسلامی دنیا کے ممالک انفرادی طور پر بھی مجموعی قومی کارکردگی‘ اقتصادی ترقی اور علمی ترقی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ چنانچہ عالمی سطح پر نئی صف بندی میں عالم اسلام عملی طور پر تماشائی بنا رہا۔ اس نئی صف بندی میں اقوام متحدہ اور اقتصادی امداد کی عالمی تنظیمیں یعنی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بنک امریکی اشارہ ابرو کے منتظر رہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ غالب تہذیبیں دنیا کو نئی اصطلاحات اور طرزِ زندگی عطا کرتی ہیں۔ اسلامی تہذیب غالب تھی تو یہ کام اس نے کیا‘ اور آج مغرب کا بول بالا ہے تو اس کا طرزِ زندگی اور اصطلاحیں باقی دنیا اپنا رہی ہے۔ ان نئی اصطلاحات اور مظاہر میں سے ایک غیر حکومتی تنظیمیں یا این جی اوز (NGO's) ہیں۔
زیرنظر مضمون میں ان تنظیموں کا تعارف‘ تاریخی پس منظر‘ پاکستان میں مقاصد اور حکمت عملی اور اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے لائحہ عمل پر گفتگو کی گئی ہے۔
این جی او ہر اس تنظیم یا ادارے کو کہتے ہیں جو متعین مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہو اور جس کے انتظامی اور مالیاتی امور حکومتی اثرات سے آزاد ہوں۔ اس عمومی تعریف کی رُو سے سیاسی جماعتیں‘ مزدور اور پیشہ ور تنظیمیں‘ تجارتی اور ثقافتی انجمنیں اور دیگر تنظیمیں فی الحقیقت غیر سرکاری تنظیمیں ہیں۔ تاہم‘ غیر سرکاری تنظیموں کے مخصوص پس منظر‘ مقاصد اور طریق کار کی روشنی میں ان کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
وہ تنظیمیں جو غیر سرکاری طور پر معاشرے کے مجموعی یا ایک مخصوص شعبے کی فلاح اور ترقی کے لیے کام کریں۔
بدلتے ہوئے حالات میں یہ تنظیمیں صرف بہبود اور ترقی میں شرکت پر اکتفا نہیں کر رہی ہیں بلکہ مفادِعامہ کے کسی بھی مسئلے پر نہ صرف یہ کہ حرکت میں آتی ہیں بلکہ محرومیت‘ استحصال‘ حقوق انسانی کی پامالی اور معاشرے کے خلاف ہونے والے ہر کام پر ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کا کام اب یہ نہیں رہا کہ قدرتی آفات میں مدد بہم پہنچائیں یا لوگوں کو ترقی کے بنیادی تصورات اور زیورتعلیم سے آراستہ کریں بلکہ اب یہ تنظیمیں سیاسی معاملات اور حکومتی پالیسیوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں ملکی قوانین‘ اقتصادی پالیسیوں اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے مخصوص نکتہ نظر کو منوانے کے لیے سڑکوں پر آنے سے بھی نہیں کتراتیں۔ اپنے دائرہ کار میں وسعت کی وجہ سے ان تنظیموںسے متعلق لوگ اپنے آپ کو این جی او کے بجائے پی آئی اوز (Public Interest Organizations) یعنی مفادِعامہ کی تنظیمیں کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
تاریخی پس منظر : این جی اوز کا تصور انیسویں صدی عیسوی کے دوران امیر صنعتی ممالک میں پروان چڑھا‘ جہاں خوش حال اور درمیانے طبقے نے اپنے ہاں کے غریب اور غیر مراعات یافتہ لوگوںکی بہبود کے لیے کام شروع کیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ وسائل پر محض امیروں کی اجارہ داری نہ رہے بلکہ اس کا ایک حصہ غریبوں کو بھی منتقل کیا جائے۔ دوسری طرف یہ سماجی کارکن سیاسی عمل کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ مزیدبرآں اس وقت کے مسائل یعنی غلاموں کی حالت زار‘ بچوں کی مشقت اور بالغ رائے دہی جیسے امور پر اپنا موقف سامنے لاتے رہے۔ مشنری اداروں کا ایک ہی مقصد تھا یعنی یہ کہ دنیا کو مشرف بہ عیسائیت کیا جائے۔ ان مشنری اداروں کے اثرات انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل میں برعظیم میں بھی نظر آنے لگے۔ آج بھی پاکستان کے ہر قابل ذکر شہر اور قصبے میں مشنری اداروں کے قائم کردہ ادارے ابھی تک کام کر رہے ہیں۔
بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں عوامی بہبود کے کام حکومتی سرپرستی میں ہوتے رہے۔ تاہم‘ مغربی ممالک میں اس حوالے سے جائزہ لیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ ریاستی سرپرستی میں بہبود کے سارے کام ممکن نہیں۔ کیونکہ ایک طرف حکومت کو بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑتے تھے اور دوسری طرف سرکاری اداروں کی خامیاں یعنی کام کرنے کی اہلیت کی کمی‘ عدم مساوات اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محرومی ان کی ناکامی کے اسباب میں شامل تھے۔ چنانچہ بہبود کے کاموں کو غیر سرکاری سطح پر انجام دینے کی روایت آگے بڑھی۔ اس مرحلے پر غیر حکومتی تنظیموں نے بہبود سے ایک قدم آگے جا کر نئے تصورات سے دنیا کو آگاہ کر دیا۔ ان جدید تصورات میں انسانی ترقی‘ شراکت اور سماجی تبدیلی جیسے اصول شامل تھے۔ آج دنیا کے کسی بھی حصے میں این جی اوز درج ذیل شعبہ جات میں سب‘ یا ان میں سے بعض میں مداخلت کرتی ہیں:
پاکستان میں این جی اوز کا ارتقا: پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد قبل از تقسیم قائم کردہ خیراتی اداروں نے اپنا کام جاری رکھا۔ ایک جائزے کے بعد حکومت پاکستان نے ان اداروں کو سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے ناکافی قرار دیا۔ اس مرحلے پر اس ضرورت کا احساس ہوا کہ سماجی خدمات کے ایک مربوط نظام کی بنیاد ڈال دی جائے۔ چنانچہ ۱۹۵۱ء میں اقوام متحدہ کے تعاون سے حکومت پاکستان نے سماجی بہبود اور امداد باہمی کا مربوط نظام متعارف کرایا۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۵۸ء تک اس کام کو وزارت ورکس اور سماجی بہبود سرانجام دیتی رہی۔ ۱۹۵۸ء میں اس مقصد کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی گئی جس کو وزارتِ محنت اور سماجی بہبود کا نام دیا گیا۔ اگلے سال ۱۹۵۹ء میں وزارتِ صحت‘ محنت اور سماجی بہبود کو یک جا کرتے ہوئے اسے ایک مرکزی سیکرٹری کے تحت کر دیا گیا۔ ۱۹۶۱ء میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے رضاکارانہ سماجی خدمات کے اداروں (Voluntary Social Welfare Services Association) کے عنوان سے ایک قانون نافذ کر دیا گیا۔ اس قانون میں سماجی اداروں کی ہیئت ترکیبی‘ مقاصد‘ دائرہ کار اور احتساب جیسے امور صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے۔ یہی قانون آج تک پاکستان میں نافذ ہے۔ ۱۹۶۲ء میں سماجی بہبود کا محکمہ صوبائی سطح پر بھی قائم کیا گیا۔ چنانچہ صوبوں میں موجودہ انتظامی ڈھانچہ وزیر سماجی بہبود‘ سیکرٹری (ان کا ماتحت عملہ)‘ نظامت سماجی بہبود اور اس کے ذیلی اداروں پر مشتمل ہے۔
۱۹۷۹ء میں افغانستان پر روسی قبضے کے بعد امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا نے جہاں جنگی سامان اور مالی و سیاسی امدادسے افغانوں کو نوازا وہاں ان ممالک سے بڑی تعداد میں رضاکار تنظیموں نے پاکستان کا رخ کیا۔ ان میں سے قابل ذکر ۵۰ تنظیمیں تھیں جو مہاجرین سے متعلق پاکستانی ادارے افغان کمشنریٹ کے ساتھ باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ تھیں۔ ان میں سے صرف چھ تنظیمیں اسلامی ممالک سے تعلق رکھتی تھیں۔ ابتدا میں ان تنظیموں نے مہاجرین کی خوراک‘ لباس اور علاج معالجے پر توجہ دی لیکن بعد میں انھوں نے افغان معاشرے میں کام شروع کیا اور مختلف امور کے بارے میں افغانوں کی رائے بنانے کی کوششیں شروع کیں‘ جن میں خواتین کے حقوق اور آبادی کی منصوبہ بندی جیسے شعبے شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانوں کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا دائرہ کار پاکستان کے اندر بھی بڑھانا شروع کر دیا اور ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں ان کے کام میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اس وقت پاکستان میں این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے پانچ قوانین نافذ ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱- رضاکار تنظیموں کی رجسٹریشن اور کنٹرول کا قانون مجریہ ۱۹۶۱ء: اس قانون کے تحت ذیل میں سے ایک یا زیادہ شعبوں میں کام کرنے والی تنظیمیں رجسٹر ہوتی ہیں:
بچوں‘ نوجوانوں‘ خواتین‘ معذوروں‘ قیدیوں‘ ناداروں‘ مریضوں اور ضعیفوں کی بہبود‘ فروغِ تعلیم‘ تفریحی امور اور سماجی تربیت۔ قانون ۱۹۶۱ء کی دیگرضروریات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے تحت رجسٹرڈ ہونے والی تنظیموں میں مسلمہ جمہوری روایات کے ذریعے عہدیداران کا باقاعدہ انتخاب کیا جاتا ہے۔
۲- سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ ۱۸۶۰ء : جو تنظیمیں اس قانون کے تحت رجسٹریشن کی خواہش مند ہوں اُن کے کارپرداز محکمہ صنعت میں موجود جوائنٹ اسٹاک کمپنیز کے رجسٹرار کے پاس درخواست جمع کراتی ہیں۔ عام طور پر اس قانون کے تحت جو تنظیمیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں وہ سائنس‘ ادب اور تعلیم کے فروغ‘ تاریخی و ثقافتی امور اور عام رفاہی کاموں میں حصہ لیتی ہیں۔ آج کل این جی اوز کی بہت بڑی تعداد اس قانون کے تحت رجسٹر ہونا پسند کرتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اس قانون میں کشش کا سبب یہ ہے کہ اس میں عہدیداروں کا انتخاب نہیں کیا جاتا بلکہ چند افراد پر مشتمل بورڈ آف ڈائرکٹرز اس کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے جو عام طور پر اساسی ارکان کے خاندان یا قرابت داروں پر مشتمل ہوتا ہے۔
۳- امداد باہمی کے اداروں کا قانون مجریہ ۱۹۲۵ء: اس قانون کے تحت رجسٹریشن کے کام کی نگرانی امداد باہمی کے رجسٹرار کرتے ہیں۔ جو تنظیمیں اس قانون کے تحت رجسٹر ہو سکتی ہیں ان میں کاشتکاروں‘ وکلا‘ اساتذہ‘ ڈاکٹر‘ صارفین‘ ہنرمند خواتین اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے متعلق این جی اوز شامل ہیں۔
۴- کمپنیوں کا آرڈی ننس مجریہ ۱۹۸۴ء: کوئی بھی ایسی تنظیم جو غیر منافع بخش ہو اور تجارت‘ سائنس‘ مذہب‘ کھیلوں‘ سماجی خدمات اور عمومی رفاہی کاموں میں دل چسپی لیتی ہو‘ وہ اس قانون کے تحت رجسٹر ہوتی ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت رجسٹریشن کا اختیار کارپوریٹ لا اتھارٹی کو حاصل ہے‘ جس نے صوبائی سطح پر یہ اختیار ڈپٹی رجسٹرار کو تفویض کر دیا ہے۔
۵- ٹرسٹ یا وقف کا قانون مجریہ ۱۸۸۲ء: قانونِ وقف کے تحت کوئی بھی وقف کا ادارہ ضلعی کچہری کے سب رجسٹرار کے پاس رجسٹر کرایا جاتا ہے۔ رجسٹرڈ وقف مذہب‘ تعلیم‘ حفظانِ صحت‘ انسانی حقوق اور مفادِعامہ کے دیگر امور جیسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا مجاز ہوتا ہے۔
پاکستان میں این جی اوز کی صحیح تعداد کا ابھی تک تعین نہیں کیا جا سکا۔ وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا پانچ قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہونے والی تنظیموں کی اس قدر زیادہ اقسام ہیں کہ ان میں سے مخصوص طریق کار کے مطابق کام کرنے والی این جی اوز کو علیحدہ کرنا خاصا مشکل ہے۔ تاہم‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میںچھوٹی بڑی این جی اوز کی تعداد ۲۰ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والی اکثر این جی اوزکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سیکولر سوچ کی علم بردار ہیں۔ ابھی تک اس حوالے سے کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا جس کے نتیجے میں انھیں اسلامی یا سیکولر بنیادوں پر تقسیم کیا جاسکے۔ تاہم‘ عمومی مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذہبی جماعتیں یا تنظیمیں عمومی طور پر (ایک خاص مفہوم میں) سماجی بہبود کے کاموں سے لاتعلق ہیں۔ چند استثنائی صورتیں ضرور ہیں لیکن وہاں بھی سرگرمیوں کا انداز لگا بندھا اور محدود نوعیت کا ہے۔ اس وقت پاکستان میں لاتعداد مغربی تنظیموں اور امداد فراہم کرنے والے اداروں (Donor Agencies)کے مقابلے میں چند ایک بین الاقوامی اسلامی این جی اوز کے دفاتر بھی قائم ہیں لیکن ان کا زیادہ تر کام یتیموں‘ بیوائوں اور ناداروں کی مدد تک محدود ہے۔ یہ تنظیمیں رجب‘ رمضان اور عیدین کے موقع پر زکوٰۃ کی تقسیم‘ افطاریوں کے اہتمام اور قربانی کا گوشت تقسیم کرنے جیسی سرگرمیوںمیں حصہ لیتی ہیں۔ نچلی سطح پر دیہاتوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ المختصر ملک کے کونے کونے میں قائم چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو تو شاید مذہبی اور سیکولر بنیادوں پر تقسیم کا علم بھی نہیں لیکن ان تنظیموں کو مالی وسائل‘ تربیت اور دیگر امداد جن بین الاقوامی اداروں سے ملتی ہیں وہ بہرحال اپنی سوچ کے لحاظ سے سیکولر ہیں۔
اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ این جی اوز کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟ اس حوالے سے پاکستان کے اندر مختلف اور انتہاپسندآرا پائی جاتی ہیں۔ ایک مکتب فکر ان تنظیموں کو تقاضاے وقت سمجھتا ہے ‘ جب کہ دوسرا زہرِقاتل۔ دونوں کے پاس اپنے موقف کے حق میں دلائل ہیں۔ اس مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
عالمی تناظر میں جب ہم عالم گیریت اور منڈی کی معیشت کے رجحانات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عالمی برادری ان تنظیموں کی ممدو معاون اور پشتی بان ہے۔ بین الاقوامی سیاسی اور مالیاتی ادارے ان کی اخلاقی اور مادی مدد پر کمربستہ ہیں۔ گذشتہ ۱۰ سال سے اقوام متحدہ کی براہِ راست نگرانی میں مختلف موضوعات پر عالمی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہی ہیں جن میں دنیا بھر کی این جی اوز اور سربراہان حکومت پہلو بہ پہلو بیٹھ کر ان مسائل کے بارے میں عالمی سطح پر پالیسی وضع کرتے رہے۔ چنانچہ ۱۹۹۲ء میں ریوڈی جینرو کی ارض سربراہ کانفرنس‘ ۱۹۹۴ء کی آبادی کانفرنس منعقدہ قاہرہ‘ کوپن ہیگن میں ۱۹۹۶ء کی سماجی سربراہ کانفرنس‘ اور اسی سال بیجنگ میں عالمی خواتین کانفرنس اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ستمبر۲۰۰۰ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا میلینیم سربراہی اجلاس تھا جس میں ریکارڈ تعداد میں سربراہان مملکت و حکومت‘ بادشاہوں اور دیگر اعلیٰ سطحی عہدیداروں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری ہوا جس پر پاکستان اور تمام اسلامی ممالک سمیت ممبر ممالک نے دستخط کیے‘ اس میں نئے ہزاریے کے لیے ایک واضح ایجنڈا پیش کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق شرکا نے غربت‘ بیماری‘ جہالت اور خوں ریز جھگڑوں کو کم کرنے‘ عالمی سطح پر جمہوریت کی کارفرمائی‘ قانون کی حکمرانی‘ انسانی حقوق اور خواتین کے مساوی درجے کے تحفظ اور تمام اقوام عالم کے مابین امن و تعاون اور ترقی کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس اعلامیے میں این جی اوز کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے: ’’نجی شعبے اور این جی اوز کے ذریعے ہم اقوام متحدہ کے خوابوں کو تعبیر دیں گے‘‘۔ چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ترقی کا جدید تصور این جی اوز کے ذریعے عام کرنے کے عمل کو اقوام متحدہ کی سند اور حمایت حاصل ہے اور اسلامی دنیا اس پورے پروگرام کی حامی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں این جی اوز کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے پہلو بہ پہلو ان تنظیموں کے خلاف آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان میں این جی اوز کے مخالفین ان پر جو الزامات لگاتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱- این جی اوز ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر ملک میں فحاشی‘ عریانیت اور مغربی ثقافت کو فروغ دے رہی ہیں۔
۲- متعدد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں عیسائیت کی تبلیغ کر رہی ہیں۔
۳- یہ تنظیمیں محسوس اور غیر محسوس انداز میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑا کر اسلام اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ مزیدبرآں یہ لوگ پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش میں شریک ہیں۔
۴- یہ انسانیت کی بھلائی کے نام پر پیسے بٹور رہی ہیں۔
۵- یہ پاکستان میں مشرقی تیمور جیسی صورت حال پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
۶-غیر سرکاری تنظیموں کو افغانستان میں طالبان حکومت کو کمزور کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
۷- پاکستان کے کمیونسٹوں نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد این جی اوز کی آڑ میں پناہ لے کر اپنا کام ایک نئے انداز سے شروع کر رکھا ہے۔
۸- پاکستان کی این جی اوز بھارت کے حق میں فضا ہموار کر کے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدات پر تیشہ چلا رہی ہیں۔
ان کے علاوہ بھی الزامات ہو سکتے ہیں تاہم درج بالا باتیں مذہبی جماعتوں کی طرف سے بالخصوص اور دیگر طبقوں کی طرف سے بالعموم تکرار کے ساتھ سامنے آتی رہی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں تو بات الزامات سے آگے بڑھ کر ایک منظم احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چنانچہ این جی اوز مخالف تحریک پچھلے سال صوبہ سرحد سے شروع ہو کر پورے ملک میں پھیل گئی جس میں تقریباً تمام مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اگرچہ اس وقت اس تحریک میں وہ شدت نہیں رہی جو گذشتہ سال تھی‘ تاہم یہ چنگاری ابھی تک بجھی نہیں اور کسی بھی وقت دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔
پس چہ باید کرد: این جی اوز کی صورت میں جو چیلنج اس وقت درپیش ہے اس کا سامنا عالمی اور قومی دونوں سطحوں پر کیا جا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اگر اسلامی دنیا اپنے وسائل کو یک جا کرتے ہوئے ترقی کا اپنا ماڈل سامنے لائے اور مغربی دنیا کی عالم گیریت کو چیلنج کرے تو یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے۔ یعنی ترقی کا مغربی ماڈل اور اسلامی ماڈل‘ یہ دونوں ماڈل اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی دنیا ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ عالم غیب سے تبدیلی کی کوئی صورت ہو تو وہ الگ بات ہے ورنہ عالم اسلام کی موجودہ کارکردگی کی روشنی میں اس کے امکانات دُور تک نظر نہیں آتے۔ نتیجہ وہی ہوگا کہ اپنا پروگرام نہ ہونے کے سبب اسلامی ممالک گلوبلائزیشن کے سیلاب کی سمت میں بہتے جا رہے ہوں گے تاوقتیکہ ان میں عالم گیریت کی تیز لہروں کی مخالف سمت میں جانے کی صلاحیت اور قوت پیدا نہ ہو۔ جب تک یہ قوت مجتمع نہیں ہوگی عالم اسلام من جملہ دیگر مغربی اصطلاحوں کے‘ این جی اوز کو ترقی کے لیے قبول کرنے پر مجبور ہوں گے۔
پاکستان میں ہمیں سنجیدگی سے اس مسئلے کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگر ہماری حکومت اقوام متحدہ کے میلینیم اجلاس میں این جی اوز کو فروغ دینے کا عہد کر چکی ہے اور ملک کے اندر پانچ مختلف قوانین کے تحت این جی اوز کی رجسٹریشن جاری ہو‘ علاوہ ازیں بین الاقوامی امدادی ادارے اپنی شرائط میں غیر سرکاری تنظیموں کو ترقی کے عمل میں شریک کرنے کا تقاضا کر رہے ہوں‘ تو ان حالات میں محبان ملّت و وطن کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ جن الزامات کا اوپر ذکر ہوا ان کو نہ تو کلی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ انھیں ۱۰۰ فی صد قبول کیا جا سکتا ہے‘ جب تک ان کی صحت کے حوالے سے تحقیقی کام نہ ہو۔
آخر میں این جی اوز کے کارپردازوں اور حکومت کی خدمت میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں:
این جی اوز کے ذمہ داران جائزہ لیں کہ جو الزامات ان پر عائد کیے جا رہے ہیں اس حوالے سے ان کی صفوں میں وہ کون سے لوگ ہیں جن کے اندر ان میں سے ایک یا زیادہ خامیاں پائی جاتی ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ تمام غیر سرکاری تنظیمیں خراب نہیں لیکن ایسی این جی اوز ضرور ہیں جن کے طرزعمل سے یہ پورا سیکٹر آج بے پناہ تنقید کی زد میں ہے۔ این جی اوز اگر اس ملک میں کام کرنے اور زیریں سطح پر ترقی کا عمل آگے بڑھانے کا دعویٰ کرتی ہیں‘تو انھیں مقامی آبادی کے عقائد اور روایات کا احترام کرنا ہوگا۔ ایسا کرنا خود ان کے مفاد میں بھی ہے اور پاکستان میں امن و سکون کے لیے بھی ضروری ہے۔
اس حوالے سے حکومت کی ذمہ داری کافی اہم ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک سے کرپشن‘ بدعنوانی‘نااہلیت ختم کرتے ہوئے ملک کو خود انحصاری اور معاشی ترقی کی منزل سے ہم کنار کر دے ۔ ایسا ہوگا تو مغربی ممالک اور ان کے مالیاتی ادارے ہم پر اپنی مرضی مسلط نہیں کریں گے۔ حکومت کو این جی اوزکے حوالے سے تصادم کی وہ کیفیت نظرانداز نہیں کرنی چاہیے جو اس وقت ان تنظیموں اور ان کے مخالفین کے درمیان موجود ہے۔ ہمارا ملک بیرونی خطرات‘ معاشی تنزل‘ فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کے اس مقام پر ہے کہ کسی نئے تصادم کا صدمہ نہیں سہہ سکتا۔ اس لیے اُسے ان عوامل کا جائزہ اور اس حوالے سے عملی اقدامات کرنے ہوں گے جو اس کش مکش کا محرک ہیں۔
حکومت کو فی الفور درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں:
۱- این جی اوز کے بارے میں قابل اعتبار اعداد و شمار شائع کیے جائیں۔
۲-رجسٹریشن کے موجودہ قوانین میں احتساب اور نگرانی کے عمل کو موثر بنایا جائے۔
۳- این جی اوز کے خلاف شکایات کا جائزہ لینے کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے۔
۴- تصادم کو روکنے کے لیے علما‘ مذہبی جماعتوں اور این جی اوز کے نمایندوں کے درمیان مذاکرات کروا کر ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے۔
ایران‘ براعظم ایشیا کے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سائرس اعظم سے لے کر رضا شاہ پہلوی تک اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کی مستقل تاریخ موجود ہے۔ اس دوران ان کے ادبیات کے حوالے سے ان کے قومی مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ایرانی اپنی تہذیب‘ تاریخی روایات اور ثقافتی اقدار کے ساتھ گہری قلبی اور ذہنی وابستگی رکھتے ہیں۔ انھوں نے جب کبھی کسی نوعیت کی تبدیلی یا انقلاب کو قبول کیا ہے تو اس کے پس منظر اور پیش منظر میں ان کی مخصوص تاریخی اور ثقافتی روایات کا عکس جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ خلافت راشدہ میں جب فتح ایران کے بعد یہ علاقے اور ان کے عوام اسلامی ریاست میں شامل ہوئے تو انھوں نے اپنے عقائد کی تبدیلی کے باوجود اپنے معتقدات میں ماضی کی تاریخی اور ثقافتی اقدار کو اپنے سے جدا نہیںہونے دیا۔
ایران اپنی تیل کی بے پناہ دولت کے باوجود عوامی سطح پر کوئی بڑا معاشی انقلاب برپا نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ تر آبادی متوسط اور مجبور نوعیت کی زندگی گزارنے کی خوگر ہے۔ حالیہ دو عشروں میں شرح خواندگی میں ایک نمایاں اضافے نے ان کے معیار زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان کی عمومی زندگی میں ذوق جمالیات کا عنصر زندگی کے ہر دائرے میں نمایاں دکھائی دے گا۔ ادب لطیف کا مطالعہ‘ پھولوں سے محبت‘ صحت اور حسن کی حفاظت کا خیال‘ گھروں میں مناسب تزئین اور کھانوں میں لذت کا عنصر‘ ان کے شخصی احوال کی ترجمانی کرتا ہے۔
دورئہ ایران کے دوران اگرچہ میرا بیشتر سفر سرکاری عہدے داروں کی رہنمائی میں گزرا مگر اس دوران جن جن اصحاب فکرونظر سے ملاقاتیں ہوئیں‘ ان سے ایران کے موجودہ احوال کو سمجھنے میں سہولت پیدا ہوئی۔
تہران میں ہوٹل آزادی سے قریب تر اور بزرگراہ شہید چمران پر واقع وسیع و عریض ایک مستقل نمایش گاہ ہے جہاں وقفے وقفے سے مختلف ملکی اور غیرملکی نمایشیں ترتیب دی جاتی ہیں۔ یہ نمایش گاہ بذات خود ایک لائق نظارہ جگہ ہے۔ اس وسیع سلسلۂ عمارات میں نمایش کے لیے تین تین منزلہ بڑے بڑے ہال تعمیر کیے گئے ہیں۔ کشادہ پارک اور ایک وسیع تر اوپن ایئرہال ہے جہاں پر تمام نمایشوں کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس میں ریستوران‘ بنک‘ مسجد اور تفریح کے بہت سے لوازم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سیکڑوں ایرانی اور غیر ملکی ناشرین کے اسٹال بڑی عمدگی سے ترتیب دیے گئے تھے۔ ایرانی کتب کے اسٹال الگ سے کئی بڑے ہالوں میں ترتیب دیے گئے تھے اور وہاں سے کتب کی خریداری میں کوئی رکاوٹ نہ تھی البتہ غیر ایرانی شائقین کے لیے غیر ایرانی پبلشرز کی کتب کی خرید کا مرحلہ ایک ہفت خواں طے کرنے کے بعد ممکن تھا۔ ایرانی قوم کے مطالعے کا ذوق بھی لائق رشک ہے۔ بلامبالغہ لاکھوں شہری‘ طلبہ اور طالبات روزانہ ان کتابوں کو خریدنے میں مصروف دکھائی دیے۔ ۱۰ روز تک صبح سے شام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخری چند دنوں میں تو بعض کتابیں ناپید ہو گئیں۔ایرانیوں کے ہاں علمِ خطاطی اور طباعت کے جمالیاتی اور فنی ذوق نے ان کے ہاں بہت قابل رشک اور بلند معیار قائم کیے ہیں۔ ان کی نصابی کتابوں اور رسائل و جرائد کی کثرت بھی ان کے علمی ذوق کی آئینہ دار ہے۔ایرانی قوم میں طالبات کا ذوق کتب بینی بالخصوص باعث حیرت ہے۔ خریداروں میں خواتین کا تناسب ۷۰ فی صد کے قریب ہے۔ ایرانی شہریوں کا یہ ذوق خواندگی ان کے روشن مستقبل کی ایک محکم ضمانت ہے۔
اس نمایش کا افتتاح صدر اسلامی جمہوریہ ایران سید محمد خاتمی نے کیا جو خود بھی بہت بڑے کتاب دوست ہیں۔ مذہبی خانوادے کے فرد ہونے کے باوصف وہ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ جناب خاتمی ایرانی کتب خانوں کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ قلم اور کتاب سے ان کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔ وہ ایک عظیم اسکالر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
شہنشاہ ایران کے زوال کے بعد ایرانی انقلاب کو اب دو عشرے گزرچکے ہیں۔ اس دوران ایران عراق جنگ کے علاوہ اور بہت سے تغیرات رونما ہوئے مگر سیاسی اور انتخابی عمل کی روایت وہاں بہت مستحکم رہی ہے۔ ایران کا آئین ۱۴ ابواب اور ۱۷۷ دفعات پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کے دستاتیر میں اپنی نوعیت کا منفرد آئین ہے۔ یہ بہ یک وقت جمہوری روایات اور شیعہ فقہ کے تصور ولایت فقیہ کے امتزاج کا آئینہ دار ہے۔اس کے آٹھویں باب کی چھ دفعات جو راہبر اور کونسل آف لیڈرشپ سے متعلق ہیں‘ ایران کی سیاست میں ایک عجیب مزاج کی حامل ہیں۔ اگر ایرانی صدر کے اختیارات اور راہبر انقلاب کے اختیارات اور انتخاب کا موازنہ کیا جائے تو چند عجیب حقائق سامنے آتے ہیں جن کو سمجھے بغیر ایرانی انتخابات اور ریاستی اداروں کی تشکیل کا مزاج سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ ایرانی صدر تو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر چار برسوں کے لیے منتخب ہوتا ہے مگر راہبر کا انتخاب مجلس خبرگان کے ذریعے ہوتا ہے اور اس مجلس کے ارکان براہِ راست انتخاب سے پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں۔ اس مجلس خبرگان کے تمام تر فیصلے شوریٰ نگہبان کی توثیق کے محتاج ہیں۔ اس شوریٰ نگہبان کی تشکیل میں عوام کے انتخابی عمل کو کوئی دخل حاصل نہیں۔ اس ادارے کی تشکیل سے تھیوکریسی کا ایک ایسا رجحان سامنے آتا ہے جس کی مثال عالم اسلام کی کسی دوسری مملکت میں دکھائی نہیں دیتی۔
ایرانی انقلاب کے قائد آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انتقال تک تو ان کے راہبر کے منصب پر کسی کے لیے تنقید یا انگشت نمائی کا موقع نہیں تھا مگر موجودہ راہبر سید علی خامنہ ای کے دَور میں ولایت فقیہ اور اختیارات کے اس توازن پر ایران کے سیاسی حلقوں میں اندیشہ ہاے دُور و درازموجود ہیں۔ ایران کے موجودہ صدر سید محمد خاتمی مئی ۱۹۹۷ء میں پہلی مرتبہ ۴۹ فی صد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ انھیں بالعموم ایران میں اصلاح پسندوں کا نمایندہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر اس بار ان کے صدارتی انتخاب میں عالمی پریس‘ ملکی اخبارات اور اصلاح پسند گروہ ان کو ملنے والے ووٹوں میں کمی کے اندازے پیش کر رہے تھے۔ مجھے اس دوران معاشرے کے چھوٹے طبقات کے افراد سے ان کے احساسات کو جانچنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ ان کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے کچھ زیادہ ہو رہی ہے۔ کیونکہ وہ قدامت پسندوں کے ماحول سے براہِ راست متعلق ہونے کے باوجود جدید تعلیم سے آراستہ اور عالمی راے عامہ کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ انھوں نے راہبرمعظم کے ساتھ مل کر ایک ایسے توازن کو برقرار رکھا ہوا ہے جو ایرانی دانش وروں کے موجودہ اضطراب میں انقلاب اسلامی کے مقاصد کے تحفظ کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ یہی باعث ہے کہ وہ اس بار ۷۷ فی صدووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ووٹوں کی یہ تعداد واضح کرتی ہے کہ ان کے ذہنی اور فکری طرزعمل کو قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں میں یکساں مقبولیت حاصل رہی ہے۔
سید محمد خاتمی کے گذشتہ دور صدارت میں نوجوان نسل میں فکری اور ثقافتی آزادی کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ مجھے آٹھ سال پیشتر کی نوجوان نسل کو بھی براہِ راست دیکھنے کا موقع ملا تھا مگر اس بار ان کے ثقافتی مظاہر سے اس تبدیلی کا صاف اندازہ ہو رہا ہے۔ موجودہ انتخابی نتائج سے قدامت پسندوں بالخصوص علما کے حلقے میں تشویش کی ایک لہر یقینا بیدار ہو گی جسے بالغ نظری اور وسیع المشربی کے ساتھ سنبھالانہ گیا تو آگے چل کر یہ لہر ایک مستقل خلیج کا روپ دھار سکتی ہے۔
ماضی کا ایران عالمی ثقافتی الیکٹرونک میڈیا کی یلغار سے متاثر ہو چکا ہے۔ عالمی ثقافتی یلغار نے ایرانی انقلاب کے روایتی احوال و ظروف میں ایک دراڑ پیدا کر دی ہے۔ ایران کے مقتدر مذہبی طبقات کو اپنے روایتی انقلاب کے تحفظ کے لیے مستقبل میں بہت کچھ سوچنے اور تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔
زیر تبصرہ کتاب‘ ہماری قومی و ملّی زندگی کے بعض حوادث کی پس پردہ کہانیوں کو بہت عمدگی سے بے نقاب کرتی ہے۔
مصنف نے پہلے حصے میں تحریک پاکستان کے ایک نوجوان اور فعال کارکن کی حیثیت سے اپنے مشاہدات اور سرگرمیوں کی تصویر پیش کی ہے۔ جب وہ قائداعظم ؒاور دیگر بہت سے قائدین سے ملاقاتوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں تو پڑھنے والا اپنے آپ کو ان واقعات کا چشم دید سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
۳۰ جولائی ۱۹۴۴ء کو لاہور میں مسلم لیگ کونسل کا سالانہ اجلاس تھا۔ حسب ضابطہ کارڈ دکھا کر ہی پنڈال میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ڈیوٹی پر موجود نوجوان نے قائداعظمؒ کو بھی کارڈ دکھائے بغیر اندر جانے سے روک دیا (ص ۵۶)۔ یہ نوجوان اس کتاب کے مصنف تھے۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے کے ایسے واقعات‘ قاری کی طبیعت میں ایک ولولہ پیدا کرتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد مصنف نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا‘ اور متعدد اہم عہدوں پر فائز رہے۔ کتاب میں انھوں نے اس روایت کو توڑا ہے‘ جس کے تحت بہت سی اہم باتیں بیان کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے کھلی آنکھوں سے واقعات کو دیکھا‘ کھلے کانوں سے واقعات کی چاپ سنی اور بیدار ذہن کے ساتھ انھیں اس آپ بیتی میں ریکارڈ کر دیا ہے۔
’’پاکستانی فوج کی قلب ماہیت‘‘ (ص ۸-۱۴۲) میں انھوں نے قیام پاکستان کے بعد کی فوجی دنیا کے مغربیت زدہ کلچر کا ذکر کیا ہے جہاں شراب اور رقص و سرود مغربی طرز حیات کے لازمی اجزا تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۲ء میں نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ٹکا خان نے فوج میں شراب کے استعمال کی ممانعت کر دی‘ مگر اس سے آگے بڑھ کر پاکستانی فوج کو نظریاتی اعتبار سے اسلامی قالب میں ڈھالنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی‘ تاآنکہ جنرل ضیاء الحق مارچ ۱۹۷۶ء میں فوج کے سربراہ مقرر ہوئے تو انھوں نے فوج کے لیے ماٹو تجویز کیا: ایمان‘ تقویٰ ‘ جہاد فی سبیل اللہ۔ اس وقت میں ہیڈ کوارٹر میں ڈائریکٹر پرسونل سروسز (DPS)تھا‘ اور فوج کا دینی شعبہ میرے زیرنگرانی تھا۔ چنانچہ مجھے جنرل ضیاء الحق نے احکام جاری کیے کہ تمام ہیڈ کوارٹروں اور یونٹوں کے صدر دروازوں اور ریڈنگ روم وغیرہ میں یہ ماٹو جلی حروف میں لکھا جائے اور فوج کے اندر ان کی اہمیت واضح کرنے کا بندوبست کیا جائے‘ تاکہ ہر افسر پر واضح ہو جائے کہ ایک اسلامی فوج کے کیا تقاضے ہوتے ہیں (ص ۱۴۲-۱۴۳)۔ اس باب میں انھوں نے ان اقدامات کی تفصیل بیان کی ہے‘ جو گیریژن کی فضا کو اسلامی کلچر سے مربوط کرنے کے لیے کیے گئے۔
۱۹۶۲ء میں مصنف کا تقرر ملٹری انٹیلی جنس میں ہوا۔ انھی دنوں ان کے انچارج جنرل نوازش ملک نے کہا کہ کمانڈر انچیف جنرل موسٰی خاں محسوس کر رہے ہیں کہ فوجی افسروں میں پیشہ ورانہ سوچ میں کمی آرہی ہے‘ وہ اس کی وجوہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے فوری طور پر انھیں مختصراً اس کی تین وجوہ سے آگاہ کیا۔ اوّل: کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد کی رہایشی اسکیموں میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی دوڑ۔ دوم: بنکوں سے قرضے لینے کی وبا۔ سوم: حاضر سروس فوجی افسروں میں پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ خالی رقبوں کو الاٹ کرانے کا کلچر۔ میں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح افسروں کی توجہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر سرمایہ کاری کی طرف مبذول ہو رہی ہے (ص ۱۵۸-۱۵۹)۔ آخر یہی ہوسِ زر ہماری قومی معیشت کی تباہی اور بربادی کا باعث بن گئی۔
ایک جگہ انھوں نے اپنے ایک ساتھی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’افسوس کہ فوج کا یہ بہادر اور قابل سپوت اپنی ناپسندیدہ ’’غیر نصابی سرگرمیوں‘‘ کی وجہ سے جنرل کے عہدے پر ترقی نہ پا سکا‘‘ (ص ۱۹۳)۔ آگے چل کر مصنف نے راز ہاے درون خانہ کے ایک شاہد کی حیثیت سے فوجی قیادت کے ایک عاقبت نااندیشانہ فیصلے کی تفصیل بیان کی ہے۔ جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء سے چند ماہ قبل پاک فضائیہ کے سربراہ نے تجویز پیش کی تھی کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں‘ ہم پاک آرمی کے کمانڈوز کو دشمن کے ]اہم جنگی[ ہوائی ڈوں پر پیراشوٹ کے ذریعے اُتار دیں گے اور یہ کمانڈوز بھارتی طیاروں اور تنصیبات کو تباہ کر کے چھپتے چھپاتے واپس آجائیں گے ۔ تمام خطرات کے باوجود جنرل ہیڈ کوارٹر نے ہاں کہہ دی۔ جنگ شروع ہوئی تو پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل نورخان نے اس تجویز پر عملی جامہ پہنانے کا تقاضا کر دیا۔ ایس ایس جی کے کمانڈر نے دبے لفظوں میں اس کی مخالفت کی‘ مگر بریگیڈیئر بلگرامی نے اس موقف کو یہ کہہ کر ردّ کر دیا کہ اس نازک لمحے پر اگر ہم نے یہ بات نہ مانی تو فضائیہ کے جذبۂ اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ چنانچہ ۱۸۰ بہترین تربیت یافتہ کمانڈوز‘ ۶ اور ۷ ستمبر کی درمیانی رات‘ پٹھان کوٹ‘ آدم پور اور بلواڑہ کے ہوائی اڈوں پر پیراشوٹوںکے ذریعے اُتار دیے گئے جو دشمن کو کوئی خاطر خواہ نقصان نہ پہنچا سکے۔ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے‘ بہت سے قیدی بنا لیے گئے۔ صرف ایک کیپٹن حضور حسنین چند ہفتوں بعد بہاول پور کے قریب سرحد عبور کر کے واپس آگئے (ص ۱۹۸-۱۹۹)۔ یہ واقعہ‘ ہمارے اس سماجی رویے پر نوحہ کناں ہے کہ ہمارے ہاں اکثر احمقانہ اقدام‘ اس ’’مجبوری‘‘ کے تحت اٹھا لیے جاتے ہیں کہ ’’لو گ کیا کہیں گے؟‘‘ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس ’’کیا کہیں گے‘‘ کے جبر کے نتیجے میں جو قیمتی جانی نقصان ہوگا‘ اس کا خون کس کی گردن پر ہوگا۔ یہ کتاب ایسی ہی عبرت آموز تفصیلات پیش کرتی ہے۔
مصنف نے سیاسی حوالے سے بھی بعض اہم انکشافات کیے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں: اگر تلہ سازش کیش صحیح تھا‘ صدر ایوب خان اس کے ملزموں میں‘ شیخ مجیب کو شخصی طور پر ملوث نہیں کرنا چاہتے تھے‘ مبادا یہ مقدمہ سیاسی ایشو بن جائے۔ مگر وزیر دفاع اے آر خاں اور گورنر مشرقی پاکستان عبدالمنعم خاں‘ مجیب سے ذاتی انتقام لینا چاہتے تھے‘ ان کے اصرار پر مجیب کا نام بھی مقدمے میں شامل کر دیا گیا۔ اس بھیانک غلطی سے مقدمے کی نوعیت سیاسی ہو گئی اور عوام کو ایوب کے خلاف بھڑکانے کا موقع مل گیا۔ (ص ۲۱۱)
آگے چل کر وہ بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۷ء میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کے دوران لاہور میں فوج کے افسروں نے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا۔ مصنف کا ذاتی خیال ہے کہ یہ سوچ نظم و ضبط کے منافی تھی۔
مصنف کی بصیرت کے نشان کتاب کے صفحات پر بکھرے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے عملی زندگی کے آغاز ہی سے اجتماعی زندگی کے معاملات میں دلچسپی لی اور سیاسی و قومی جدوجہد میں حصہ لیا۔ ظاہر ہے کہ ان کاموں میں وہی فرد حصہ لے سکتا ہے‘ جو دل دردمند رکھتا ہو۔ ہمارے خیال میں یہ کتاب اہل سیاست ‘ اہل دانش اور ان سے بڑھ کر فوجی قیادت کے لیے بصیرت کے باب وا کرتی ہے۔ سچائی کے اظہار‘ اسلوب بیان کی سادگی اور مقصدیت کے احساس نے کتاب کو دل چسپ بنا دیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)
رام پور یوپی سے شائع ہونے والے‘ خواتین اور طالبات کے رسالے حجاب کا تعارف’’کتاب نما‘‘ میں پہلے بھی آچکا ہے (مثلاً: اگست ۲۰۰۰ء)۔ بھارت کے معروف ادیب‘ نقاد اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ابن فرید اور ان کی اہلیہ امّ صہیب رسالے کو نہایت نامساعد حالات اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود‘ نیز مالی خسارہ اٹھاتے ہوئے بھی‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ ’’ایک بھرپور گھریلو رسالہ ‘‘ ہے جس میں ہر ماہ حمد و نعت کے ساتھ سیرت اور دینی تعلیمات پر مضامین اور خواتین کے فقہی مسائل‘ صحت اور طعام کے مستقل صفحات کے علاوہ ادبی و شعری حصہ بھی شامل ہوتا ہے (اصلاحی افسانے اور غزلیں وغیرہ)۔ حجاب نے وقتاً فوقتاً خاص نمبر بھی شائع کیے ہیں۔
حال ہی میں حجاب نے ’’ارشادات رسولؐ نمبر‘ خواتین سے متعلق‘‘ شائع کیا ہے۔ خواتین سے متعلق احادیث کے عنوانات کے ساتھ ایک ایک‘ ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے میں تشریح کی گئی ہے۔خواتین کے جملہ مسائل کے بارے میں ان احادیث سے بڑی جامع ہدایات ملتی ہیں۔ ۱۰ تشریحات امّ صہیب کی اور باقی تشریحات ڈاکٹر ابن فرید کے قلم سے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ادیب ہیں‘ علم نفسیات سے بھی بخوبی واقف ہیں اور دین کا فہم بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی تشریحات مختصر ہونے کے باوجود نپی تلی جامع اور موثر ہیں۔ زیادہ تر انھوں نے عصر حاضر کے تناظر میں بات کی ہے۔ حجاب‘ جو خدمت انجام دے رہا ہے اس کے پیش نظر ‘ اس کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
حکیم محمد سعید ؒکی ذات محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی اُن گنی چنی شخصیات میں سے ہیں جنھوں نے اپنے وسائل اور اختیارات کو ذاتی خواہشات کی تکمیل کے بجائے قومی اور ملّی مقاصد کے حصول اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا‘ اور عمر بھر ’’خدمت‘‘ کو اپنا شعار بنایا‘ چنانچہ وہ نیک نام کے ساتھ رخصت ہوئے اور شہادت کے مرتبۂ بلند پر فائز ہوئے۔
زیرنظر کتاب شہید حکیم ؒکے ان مصاحبوں (انٹرویوز) پر مشتمل ہے جو اخبارات اور رسائل میں چھپے۔ پہلا مصاحبہ پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوا۔ ان مصاحبوں سے حکیم صاحب کی شخصی اور نجی زندگی اور اُن کی شخصیت اور ذہن و فکر کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ساتھ ملکی‘ قومی‘ ملّی ‘ تعلیمی‘ طبّی اور انتظامی امور و مسائل پر ان کے طرزِعمل اور رویوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
حکیم صاحب نے نہایت صاف گوئی کے ساتھ اور کھرے انداز میں اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں‘ اُن کی دلچسپی بنیادی طور پر دو شعبوں سے رہی۔ ایک: طب‘ اور دوسرے: تعلیم۔ صحت کو وہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ سمجھتے تھے لیکن وہ یونانی یا مشرقی طب کی اہمیت کے ساتھ ساتھ ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھک کے بارے میں کسی تعصّب میں مبتلا نہیں تھے۔ ہاں‘ وہ یہ چاہتے تھے کہ طّب کا بڑا انحصار نباتات پر ہونا چاہیے اور ہمیں synthetic دوائیں استعمال نہیں کرنی چاہییں کیونکہ انسانی جسم پر ان کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس بات سے شاید ہی کوئی طبیب ‘ ڈاکٹر یا ہومیوپیتھ اختلاف کرے گا۔
حکیم صاحب کو اس بات کا بھی بڑا قلق تھا کہ پاکستان میں تعلیم کو نظرانداز کر کے قوم کو جاہل رکھا گیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان اور صاحبانِ اقتدار اگر پاکستان کے دوست ہوتے تو پاکستان میں اولیّت تعلیم کو حاصل ہوتی (ص ۱۰۵)۔ اسی طرح اُن کے خیال میں علماے کرام کو نفاذِ اسلام کے ساتھ تعلیمی نفاذ کی بات بھی کرنی چاہیے۔ کیونکہ ’’جب تک تعلیمی انقلاب اسلامی برپا نہیں کیا جائے گا‘ اسلامی انقلاب نہیں آئے گا‘‘ (ص ۱۰۶)۔ ان کی زندگی کی اوّلین و آخرین خواہش یہ تھی کہ وطن کے ہر انسان کو صحت اور تعلیم کی سہولت میسر ہو۔ انھیں افسوس تھا کہ ہم نے اپنے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں لوگوں کو پاکستان سے محبت کرنے کا کوئی درس نہیں دیا (ص ۱۷)۔ مرحوم کو اپنی زندگی ہی میں جو شہرت اور عزت حاصل ہوئی‘ وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے‘ کیوں؟
اشاعتی پیش کش ‘ ہمدرد کے عمدہ معیار کے مطابق ہے۔ (ر - ہ)
گذشتہ نصف صدی میں ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں نے پاکستان سے بھارت کا سفر کیا اور سیکڑوں افراد نے اس وسیع و عریض ملک کے جس حصے کا بھی سفر کیا اس کے بارے میں اپنے مشاہدات‘ تجربات اور تاثرات قلم بند کیے۔ زیرنظر سفرنامہ بھارت میں چار ہفتے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ہر سفرنامے کے مصنف کا میدانِ عمل ‘ اسلوب تحریر‘ زاویہ نگاہ اور اندازِ بیان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی لیے یہ صنف ادب زیادہ دل چسپی سے پڑھی جاتی ہے۔ سید علی اکبر‘ اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے‘ اور بنارس یونی ورسٹی ان کی مادرِ علمی رہی۔ اب بھی ان کے بعض اعزہ و اقارب وہیں مقیم ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ بھارت کے بارے میں ان کی معلومات کا دائرہ خاصا وسیع ہے‘ چنانچہ ان کے مشاہدات میں گہرائی ہے۔ لکھنؤ‘ بنارس‘ اعظم گڑھ‘ علی گڑھ‘ کلکتہ اور دہلی کے سفر کی یہ داستان دل چسپ ہے۔ اس سفرنامے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو بھارت کے دیگر سفرناموں میں نہیں ملتا اور وہ یہ کہ اس سفر میں علی اکبر صاحب بیسیوں مذہبی (خصوصاً شیعی تعلیمی) اداروں میں گئے (زیادہ تر لکھنؤ میں) جن سے متعلق کتاب میں نادر معلومات درج ہیں۔ کتاب میں ۶۰ سے زائد تصاویر بھی شامل ہیں۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
’’پرندوں کی نقل مکانی‘‘ (جون ۲۰۰۱ء) ایمان اور تحقیق کا مرقع ہے۔ اللہ کی نشانیوں سے‘ پروردگار کی صناعی اور حکمت کا جو درس ملتا ہے--- افسوس کہ انسانی ذہن اور انسانی آنکھیں ان سے بے خبر رہتے ہیں۔ عبدالرشید صدیقی نے اس مضمون کے ذریعے قدرت حق کی تخلیقی رمزوں سے قارئین کو لذت آشنا کیا۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد مضمون میں سائنس کے مجرد اعداد و شمار اور تفصیلات کو انھوں نے جس طرح اسلامی تعلیمات سے مربوط کیا ہے‘ وہ ایک مثالی نمونہ ہے۔
مجھے دو بڑے ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس وقت بھی ذہن میں یہ سوال اٹھتا تھا اور اب پھر ’’مرنے کا قانونی حق‘‘ (مئی/جون ۲۰۰۱ء) پڑھ کر تازہ ہو گیا ہے کہ ایک ایسا مریض جسے مصنوعی تنفس اور دل کی حرکت کو جاری رکھنے والی ادویات کے ذریعے زندہ رکھا جا رہا ہو اس کے علاج کے اخراجات برداشت کرنا ایک عام آدمی تو کیا ایک اعلیٰ متوسط درجے کے انسان کے لیے بھی تقریباً ناممکن ہے--- کیا ایسے شخض کو زندہ رکھنے کے لیے لواحقین کو بھاری رقم قرض پر لینی چاہیے جسے اس کی نسلیں بھی ادا کرتی رہیں؟
یہاں یہ تلخ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں میں بھی علاج کے جملہ اخراجات مریض کو برداشت کرنے پڑتے ہیں (سرکاری خرچ بھی دراصل معاشرے کے افراد کا ہی ہوتا ہے)۔ ایسے مریض سے مصنوعی آلات ہٹا لینے سے جو موت واقع ہو گی کیا وہ قتل کے زمرے میں آئے گی؟ ایسا مریض خود تودنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوتا ہے البتہ ساری جسمانی و ذہنی اذیت اس کے لواحقین کو سہنی پڑتی ہے۔
اسی طرح ایسے دائمی مریض کے متعلق کیا حکم ہوگا جو ہوش میں ہے‘دل و دماغ کام کر رہے ہیں مگر سارا دھڑ فالج زدہ اور بے جان ہے اور بحالی کی کوئی امید نہیں۔ ہمیں درپیش معاشی اور معاشرتی حالات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔
درجہ بالا اور اس سے ملتے جلتے حالات میں ہمارا ردّعمل کیا ہونا چاہیے۔ قابل عمل حل کی طرف رہنمائی اہل علم ہی کر سکتے ہیں۔
پیٹر مارسڈن کی کتاب ’’طالبان ……‘‘ پر تبصرے (جون ۲۰۰۱ء) میں تبصرہ نگار نے لکھا ہے کہ ’’غیر ملکی ناشر نے کتاب اتنے اچھے معیار پر شائع کی ہے (گو قیمتاًگراں ہے) کہ ملکی ناشرین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے‘‘۔ یہ کتاب ۱۱۶ صفحات کی ہے‘ قیمت ۲۲۵ روپے ہے‘ یعنی ایک ورق کی قیمت تقریباً چار روپے۔ ہمارے ملک میں بھی نہایت اچھے معیار پر کتب شائع ہو رہی ہیں اور قیمت اس سے ۷/۱ یا ۸/۱ رکھی جاتی ہے۔ یہ بھی لمحۂ فکریہ ہے!
رہی دوسری وجہ تو وہ غیر اسلامی تمدّنوں کا اثر ہے جس کی بدولت مسلمانوں کے ازدواجی تعلّقات میں نہ صرف بہت سے ایسے رسمیات اور وہمیات داخل ہو گئے ہیں جو اسلامی قانون ازدواج کے اصول اور اس کی اسپرٹ کے خلاف ہیں‘ بلکہ سرے سے زوجیت کا اسلامی تصور ہی ان کی ایک بڑی اکثریت کے ذہن سے محو ہوگیا ہے۔ کہیں ہندو تصور غالب آگیا ہے اور اس کا اثر یہ ہے کہ بیوی کو لونڈی اور شوہر کو آقا بلکہ دیوتا سمجھا جاتا ہے۔ نکاح کی بندش اعتقاداً نہیں تو عملاً ناقابل فسخ ہے۔ طلاق اور خلع اس قدر معیوب ہو گئے ہیں کہ جہاں ان کی ضرورت ہے وہاں بھی ان سے محض اس بنا پر احتراز کیا جاتا ہے کہ کہیں ناک نہ کٹ جائے‘ خواہ درپردہ
وہ سب کچھ کیا جائے جو درحقیقت طلاق اور خلع سے زیادہ بدتر ہے۔ طلاق کو روکنے کے لیے مہر کی مقدار اس قدر بڑھا دی گئی ہے کہ شوہر کبھی طلاق دینے کی جرأت نہ کر سکے‘ اور منافرت کی صورت میں عورت کو معلق رکھ چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔ ’’شوہر پرستی‘‘ عورت کے مفاخر اور اخلاقی فرائض میں داخل ہو گئی ہے۔ سخت سے سخت حالات میں بھی وہ محض سوسائٹی کی لعنت و ملامت کے خوف سے طلاق یا خلع کا نام زبان پر نہیں لا سکتی حتیٰ کہ اگر شوہر مر جائے تب بھی اس کا اخلاقی فرض یہ ہو گیا ہے کہ ہندو عورتوں کی طرح اس کے نام پر بیٹھی رہے۔ کیونکہ بیوہ کا نکاح ثانی ہونا نہ صرف اُس کے لیے بلکہ اس کے سارے خاندان کے لیے موجب ذلّت ہے۔
دوسری طرف جو نئی نسلیں فرنگی تہذیب سے متاثر ہوئی ہیں ان کا حال یہ ہے کہ وہ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ تو بڑے زور سے کہتے ہیں مگر وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ط ]البقرہ ۲:۲۲۸[‘پر پہنچ کر دفعتاً ان کی آواز دب جاتی ہے اور جب اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ]النساء۴:۳۴[‘ کا فقرہ ان کے سامنے آتا ہے تو ان کا بس نہیں چلتا کہ کس طرح اس آیت کو قرآن سے خارج کر دیں۔ عجیب عجیب طریقے سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں‘ اور تاویل کا اندازکہے دیتا ہے کہ وہ اپنے دل میں اس بات پر سخت شرمندہ ہیں کہ ان کے مذہب کی مقدس کتاب میں یہ آیت پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ فرنگی تہذیب نے عورت اور مرد کی مساوات کا جو صور پھونکا ہے اس سے وہ دہشت زدہ ہوگئے ہیں اور ان کے دماغوں میں ان ٹھوس اور مستحکم عقلی اصولوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی ہے جن پر اسلام نے اپنے نظام معاشرت کو قائم کیا ہے۔ (حقوق الزوجین‘ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۴‘ ۵ ‘ ۶
ربیع الآخر‘ جمادی الاولیٰ‘ جمادی الاخرہ‘ ۱۳۶۰ھ‘ جون‘ جولائی‘ اگست ۱۹۴۱ء‘ ص۱۹-۲۰)