آگرہ میں منعقد ہونے والی بہ ظاہر غیر نتیجہ خیز سربراہی ملاقات ایک ایسا تاریخی موڑ ثابت ہو سکتی ہے جس کے بڑے دُور رس اور فیصلہ کن اثرات صرف ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل ہی پر نہیں بلکہ پاک بھارت تعلقات‘ سارک ممالک کے مجوزہ معاشی اور ثقافتی امکانات‘ پورے ایشیا کے مستقبل کے سیاسی دروبست اور کچھ بعید نہیں کہ نئے عالمی انتظام و انصرام‘ سب پر مرتب ہوں۔ اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ اگر پاکستانی قیادت اور قوم ان ۴۸ گھنٹوں میں ہونے والے تاریخ ساز واقعات اور ان کے بعد نکھر کر سامنے آنے والے رجحانات کا صحیح صحیح تجزیہ کر کے مستقبل کے لیے موثر حکمت عملی بنانے اور اس کے مطابق کام کا نقشہ تیار کر کے اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ تاریخ‘آگرہ کو صرف اس تاج محل ہی کے واسطے سے یاد
نہ رکھے جو ساڑھے تین سو سال سے محبت‘ حسن تعمیر اور ذوق جمال کا ایک عالمی شاہکار اور برعظیم میں مسلم ثقافت اور سطوت کی لازوال یادگار ہے بلکہ یہ برعظیم کے مستقبل کے لیے ایک نئی شاہراہ کی یافت کے لیے ایک سنگ میل بھی بن جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تاشقند‘ شملہ اور لاہور اپنے اپنے طور پر اہم ہونے کے باوجود پاک بھارت تعلقات اور پاکستانی سفارت کاری کی تاریخ میں ایک گونہ پسپائی (جسے ایک حد تک ہر موقع کے مخصوص حالات کی وجہ سے ’’قابل فہم‘‘ تو سمجھا جا سکتا ہے مگر مطلوب اور قابل فخر نہیں!) کی علامت بن گئے ہیں۔ اس پس منظر میں آگرہ ایک مختلف نمونہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو کچھ ہوا اور جو امکانات اس کے جلو میں رونما ہوئے ہیں وہ ایک نئے نموزج مثالیہ (paradigm) کا نقطہ آغاز‘ ایک نئے فراز کے لیے آئینہ اور تعمیرنو کے لیے نشانِ راہ بن سکتے ہیں۔
زندہ قومیں نہ کامیابیوں پر بے قابو ہوتی ہیں اور نہ مصائب میں حواس باختہ‘ وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہیں اور ہر واقعے پر بصیرت کی نگاہ سے غوروفکر کرتی ہیں۔ وہ سیاسی حالات اور واقعات کی تحلیل اور تجزیے کا ایک ایسا اسلوب اختیار کرتی ہیں جس کی بنیاد حقیقت پسندی(realism) پر ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ان کی گرفت قومی تصورات اور مقاصد پر بڑی مضبوط رہتی ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب خالی خولی تصوریت (utopianism) اور پست ہمتی اور شکست خوردگی دونوں سے پہلو بچا کر حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور مستقبل کی تعمیر کے عزم کے ساتھ مطلوبہ سعی و جہد بھی کی جائے۔صحیح اور نتیجہ خیز حکمت عملی وہی ہے جسے اس طرح مرتب کیا جائے کہ پائوں زمین پر ہوں اور نگاہیں منزل مقصود سے نہ ہٹنے پائیں۔
ایک مدت کے بعد آگرہ میں پاکستانی قیادت نے بڑی حد تک ایک پرعزم ‘ حقیقت پسندانہ اور باوقار رویہ اختیار کیا‘ وقتی فوائد کے مقابلے میں اصل مقاصد اور اہداف کو اہمیت دی‘ قومی مفاد کے تحفظ اور اپنی ترجیحات کو اولیت دی‘ نمایشی اقدامات سے مسحور ہو جانے کی حماقت نہیں کی اور محض وقتی کامیابی اور ناکامی کے چکر سے نکل کر اصل ایشوز پر اپنی اور دنیا کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی دوسری پالیسیوں اور اقدامات سے شدید اختلاف کے باوجود ہم آگرہ حکمت عملی کو مثبت‘ مفید اور خوش آیند سمجھتے ہوئے اس کی تحسین کرتے ہیں اور انھی خطوط پر مستقبل کی راہوں کی تلاش کو وقت کی ضرورت اور قومی مفاد کا تقاضا سمجھتے ہیں۔
یہ بہت ہی نازک اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ سوال پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفاد اور ملّت اسلامیہ کے مستقبل کا ہے۔ نہ حکومت کو آگرہ کی پذیرائی کو اپنے اقتدار کے لیے جواز یا اسے طول دینے کا ذریعہ بنانا چاہیے اور نہ قوم اور خصوصیت سے تمام محب وطن اور اسلامی قوتوںکو‘ دوسرے امور میں اختلاف کے باعث‘ اہم تاریخی لمحات اور امکانات کو کسی صورت میں ضائع ہونے دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آگرہ کے نموزج مثالیہ کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں اور ان مذاکرات کا تجزیہ تمام ضروری پہلوئوں کو سامنے رکھ کر کرنا چاہتے ہیں تاکہ قوم اور اس کی قیادت کو ایک نئے آغاز کے لیے دعوت دیں اور ان تقاضوں کی طرف متوجہ کریں جس کا سبق اس ’’ناتمام کامیابی‘‘ سے ملتا ہے۔
آگرہ مذاکرات کے کئی پہلو ایسے ہیں جن کو ایک حد تک معمّا بھی کہا جاسکتا ہے اور ان ہی کھلے اور چھپے گورکھ دھندوں کی قفل کشائی کے ذریعے آگرہ ماڈل کے ضروری اجزا کی تفہیم ممکن ہے۔
لاہور اور کارگل ‘ واہگہ اور واشنگٹن‘ ۱۲ اکتوبر اور پاکستان کا حقہ پانی بند کرنے کی بھارتی اور عالمی مساعی وہ پس منظر ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ایک اور منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ ایک طرف جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھارتی قیادت سے ملنے کے لیے بے چینی کا اظہار اور دوسری طرف سے خاموشی ہی نہیں حقارت آمیزتعلّی کہ ’’فوجی حکمران سے بات نہیں کریں گے‘‘ اور ’’کارگل کے معمار کو خوش آمدید کہنے کی کوئی گنجایش نہیں‘‘۔ اس کے ساتھ جموں و کشمیر میں کچھ نئی لہریں اُبھرتی ہیں۔ ۲۴ جولائی ۲۰۰۰ء کو یکایک حزب المجاہدین کی اندرونی کمانڈ کی طرف سے غیر مشروط جنگ بندی کا دھماکا ہوتا ہے جو ۸ اگست تک سب کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے۔ بھارتی قیادت زبانی اعلانات کے باوجود اس سے کوئی بڑا فائدہ نہیں اٹھا پاتی اور یہ جنگ بندی بھارت کی طرف سے تنازع کشمیر کے اہم اور مرکزی فریق پاکستان کومذاکرات سے باہر رکھنے کی ضد میں ختم ہو جاتی ہے۔ پھر جامع مسجد دہلی کے امام رمضان المبارک میں نئی جنگ بندی کی اپیلیں کرتے ہیں اور بھارتی وزیراعظم رمضان کے نام پر ایک یک طرفہ جنگ بندی کا ڈراما رچاتے ہیں جو پانچ مہینے میں کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو جاتا ہے۔ مجاہد قوتوں کو بانٹنے اور متنازع بنانے کے لیے اس زمانے میں صرف بھارت اور کشمیری قیادت (عسکری اور سیاسی بشمول حریت کانفرنس) میں مذاکرات کے پتّے کھیلے جاتے ہیں لیکن وہ بھی غیر موثر رہتے ہیں۔
اس پورے عرصے میں جموںو کشمیر میں خون کی ندیاں بہتی رہتی ہیں اور نام نہاد جنگ بندی کے باوجود جان و مال کی تباہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مئی میں جنگ بندی تو ختم کی جاتی ہے مگر یکایک جنرل پرویز مشرف سے بات چیت شروع کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے اور چشم زدن میں نہ ’’فوجی قیادت‘‘ کا ’’نامحرم‘‘ ہونا باقی رہتا ہے اور نہ ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ سنگ راہ بنتی ہے۔ سربراہی ملاقات کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سردوگرم دونوں قسم کی بیان بازیاں ہوتی ہیں--- کبھی ’’انسانیت‘‘ کی بات ہوتی ہے اور امن کی ضرورت اور غربت کے خلاف جنگ کا وعظ دیا جاتا ہے ۔ کبھی کشمیر کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہونے کی رَٹ لگائی جاتی ہے اور کبھی اس سے بھی آگے بڑھ کر کشمیر کو ’’بھارتی قومیت کی علامت اور سالمیت کی ضرورت‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی امام جامع مسجد دہلی بھی حرکت میں آجاتے ہیں کہ ۱۵ کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا انحصار کشمیر پر بھارت کے راج میں ہے اور ملک مذہب کے نام پر ایک اورتقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کو بلانے اور ان کو ’’شملہ‘‘ اور ’’لاہور‘‘ کے راستے پر ڈالنے کی سوچی سمجھی سفارت کاری کو سمجھنا ضروری ہے۔
پاک بھارت مذاکرات کا اگر بے لاگ جائزہ لیا جائے اور ہزار سال پھیلے ہوئے مسلمان اور ہندو قیادتوں کے مذاکرات کی تاریخ کونظراندازکرتے ہوئے صرف ان ۵۴ برسوںکا مطالعہ کیا جائے تو اس میں ایک خاص اندازنظر آتا ہے۔ بھارت کی قیادت نے کبھی بھی اصل زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر دیانت اور انصاف کے ساتھ معاملہ نہیں کیا۔ ’’بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام‘‘ محض محاورہ نہیں ‘ایک تاریخی حقیقت ہے۔ چاپلوسی اور دھوکا دہی‘ ایک طرف وعدے اور عہدوپیمان‘ دوسری طرف وعدوں سے انحراف‘ وقت پڑنے پر جھک جانا اور موقع نکلتے ہی اکڑ جانا ان کا طریقہ واردات ہے۔تقسیم ملک کو ایک ہاتھ سے قبول کیا گیا اور دوسرے ہاتھ سے تقسیم کی لکیر کو مٹانے اور اکھنڈ بھارت کے خواب کی تجدید رقم کی گئی۔ بین الاقوامی قانون اور سرکاری معاہدات کی کبھی پاس داری نہیں کی گئی۔ تقسیم کے وقت جو اثاثے پاکستان کا حق تھے وہ آج تک اس کو نہیں دیے گئے۔ جموں و کشمیر کے معاملے میں بھی پہلے دن سے دھوکا‘ دوغلہ پن اور خیانت کے حربے استعمال کیے گئے اور یہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پاکستان تو پاکستان خود شیخ عبداللہ کے ساتھ بھی جسے جموں و کشمیر پر قبضے کے لیے آلہ کار بنایا گیا‘ بالکل یہی معاملہ کیا گیا اور بالآخر اسے اپنے دوست جواہر لعل نہرو کے بارے میں کہنا اور لکھنا پڑا کہ وہ کشمیر کے معاملے میں میکاولی کی سیاست پر کاربند تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن کی تائید میںناقابل تردید شہادتیں موجود ہیں ۔خود پنڈت نہرو کے اپنے بیانات اور ان کے قلم سے لکھے ہوئے نوٹس اور رودادیں شائع ہو چکی ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ Selected Works of Jawaherlal Nehru جلد ۲۸‘ آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس‘ دہلی)
نہرو اور بھارتی قیادت پہلے دن سے جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے وہ کشمیر کو حاصل نہیں کر سکتے۔ انھوں نے استصواب کو ہمیشہ صرف دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا اور آج بھی عوام کی رائے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ عین اسی وقت جب پنڈت نہرو عالمی راے عامہ سے عہدوپیمان کر رہے تھے اور خود اپنی پارلیمنٹ میں اپنی عزت کی قسم (word of honour) دے رہے تھے‘ وہ عوام کی رائے معلوم کرنے اور استصواب کروانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے ۔ انھوں نے اپنے شرکاے کار اور خود شیخ عبداللہ سے تحریری طور پر اس کا اظہار کیا اور مشورہ دیا کہ ان باتوں کو باہر نہ کہا جائے کیونکہ اس سے ہماری عالمی ساکھ خراب ہو جائے گی۔ بھارت کی سفارت کاری کو سمجھنے اور واجپائی کے جنرل پرویز مشرف پرسفارتی معاملے میں نوآموز ہونے کی پھبتی کی حقیقت کو جاننے کے لیے پنڈت نہرو سے لے کر واجپائی اور جسونت سنگھ کے دوغلے پن (duplicity)کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ کوئی بھی حکمت عملی جو خوش فہمی اور وعدوں کی متوقع پاس داری کی امید پر بنائی جائے غیرحقیقت پسندانہ ہوگی۔ صرف وہی حکمت عملی کامیاب ہو سکتی ہے جس میں نیک نیتی اور وعدوں کی پاس داری کے مفروضوں پر معاملات طے نہ کیے جائیں بلکہ اس میں خود نافذ ہونے والے طریق کار (self enforcing mechanism) موجود ہوں۔
بھارت کے دوغلے پن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کے بارے میں پنڈت نہرو اور بھارتی قیادت کی حکمت عملی کو سمجھ لیا جائے۔ وہ ہر قیمت پر کشمیر پر اپنا قبضہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ استصواب رائے‘ تقسیم ریاست‘ خصوصی حیثیت (special status)سب اس کے لیے صرف ہتھکنڈے ہیں‘ مقصد یا پالیسی کے اجزا نہیں۔ اسی طرح سیزفائر (۱۹۴۸ء) ہو یا چین سے تصادم (۱۹۶۲ء) کے موقع پر پاکستان کی طرف سے کسی اقدام کی پیش بندی‘ ان سب کی حیثیت وقت گزاری اور محض کسی درپیش مشکل سے نکلنے کی کوشش سے زیادہ نہ تھی۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۴ء تک پنڈت نہرو کبھی استصواب اور کبھی مسئلے کے حل کا پختہ وعدہ کرتے رہے لیکن دراصل وہ کبھی بھی موجودہ حیثیت (status quo) سے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ جب بھی اس سے ہٹ کر کوئی بات ہوئی وہ ’’بین الاقوامی قانون‘ عالمی عہدوپیمان‘‘ بھارتی پارلیمنٹ میں عہدوپیمان‘ ہر چیز کو نظرانداز کرکے اپنی باتوں سے پھر گئے--- اور یہی وتیرہ آج تک قائم ہے۔
پنڈت نہرو ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اپنے اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے حوالے سے استصواب کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ عہد صرف آپ کی حکومت سے نہیں بلکہ کشمیر کے عوام اور دنیا سے بھی ہے۔
اس نوعیت کے دسیوں بیان پنڈت نہرو نے دیے۔ ۸ جولائی ۱۹۴۹ء کو اقرار کیا کہ "Kashmir is a world question" اور پھر ۷ اگست ۱۹۵۲ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ:
یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اگر یہ انڈیا کے علاوہ کسی دوسری قوم سے متعلق ہے تو اسے ایک بین الاقوامی مسئلہ ہونا ہی چاہیے‘ اور یہ دوسرے ملکوں سے متعلق ہے۔ یہ بین الاقوامی مسئلہ اس لیے مزید ہو جاتا ہے کہ دوسرے ملکوں کی ایک بڑی تعداد نے اس میں دل چسپی لی اور مشورے دیے… اس لیے اگرچہ کہ الحاق قانون اور حقائق کی نظروں میں مکمل ہے دوسری حقیقت بھی جس کا قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے موجود ہے‘ یعنی کشمیر کے عوام سے یا اگر آپ پسندکریں تو دنیا بھر کے عوام سے ہمارا وعدہ۔ اس الحاق کی توثیق کی جا سکتی ہے‘ اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔کشمیر کے عوام اگروہ چاہیں تو یہ کر سکتے ہیں۔
حتیٰ کہ ۱۹۶۲ء میں چین سے تصادم کے موقع پر ایوب خان‘ امریکی صدر کے نمایندے اور برطانوی سفارت کار سے مسئلے کوتیزی سے حل کرنے کا ایک بار پھر وعدہ کیا اور شیخ عبداللہ کو سفارت کاری کے لیے بیچ میں ڈالا لیکن یہ سب وقت گزاری کے لیے--- اور اب جو کاغذات شائع ہوئے ہیں ان میں صاف صاف لکھا ہے کہ ۱۹۴۷ء ہی سے نہرو کبھی بھی استصواب کے لیے تیار نہ تھے بلکہ صرف دھوکا دینے کے لیے یہ وعدے اور اعلانات کر رہے تھے۔ ۲۱ نومبر ۱۹۴۷ء کو پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کو لکھا تھا کہ وہ خود بھی استصواب کے خلاف ہیں لیکن اس کے اظہار کا بیرونی دنیا پر خصوصاً اقوام متحدہ کے حلقوں میں بہت برا اثر ہوگا۔ اس لیے میرا آپ کو ذاتی مشورہ ہوگا کہ آپ کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے استصواب کی نفی ہوتی ہو۔ یہ بات اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھی پہلے کی ہے جو نہرو کے ذہن کی حقیقی عکاس ہے۔
اقوام متحدہ کو معاملہ بھیجنے کا مشورہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے ۸ دسمبر ۱۹۴۷ء کو دیا ہے اور معاملہ وہاں
یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو پہنچا ہے۔ پاکستان نے اپنا کیس دو ہفتے بعد پیش کیا اور پنڈت نہرو نے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۸ء کو استصواب کے سلسلے میں UNCIPکی تجویز اس لیے قبول کی کہ سیزفائر ہو سکے۔ سیزفائر اس وقت بھارت کی ضرورت تھی۔
غلام محمد نے ۱۹۵۳ء میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنڈت نہرو سے کشمیر کے مسئلے پر تصفیے کی کوشش کی۔ اس موقع پر پنڈت نہرو پاکستان میں بھارت کے سفیر سی سی دیسائی کو in strict confidence لکھتے ہیں:
میں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ غلام محمد تصفیے کے لیے بے چین ہے اور اس کے لیے کچھ آگے جانے کے لیے بھی تیار ہے۔ یہ ایک خوش آیند اپروچ ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس سال موسم خزاں میں ریاست جموں و کشمیر میں استصواب کا انعقاد کیا جائے‘ سرے سے ممکن ہی نہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ دونوں فریق جزوی تبدیلیوں کے ساتھ جوں کی توں صورت حال قبول کر لیں۔ بلاشبہ اگر کوئی معاہدہ ہوا تو کئی باہمی فوائد بھی ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی فطری طور پر مجھے یہ کہنے میں بڑا تکلف ہے کہ ہم استصواب منعقد نہیں کریں گے۔ یہ وعدہ خلافی محسوس ہوگی اور میں اس کا مجرم نہیں بننا چاہتا۔
اس سے بھی پہلے دل کی بات نہرو نے ایک نہایت خفیہ خط میں شیخ عبداللہ کو ۲۵ اگست ۱۹۵۲ء کو لکھی تھی۔ اس میں اصل عزائم کا یوں اظہار کیا گیا ہے:
’’ہم فوجی اور صنعتی طاقت کی حیثیت سے پاکستان سے برتر ہیں لیکن یہ برتری اتنی بڑی نہیں ہے کہ جنگ یا جنگ کا خوف جلد نتائج پیدا کر دے۔اس لیے ہمارے قومی مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ پرامن پالیسی اختیار کریں اور اس کے ساتھ ہی اپنی طاقت میں اضافہ کریں۔ طاقت کا منبع صرف مسلح افواج نہیں بلکہ ان کی پشت پر موجود صنعتی اور اقتصادی طاقت ہے۔ جیسے جیسے ہماری طاقت میں اضافہ ہوگا‘ اور امید ہے کہ ایسا ہوگا‘ پاکستان میں ہم کو دھمکی دینے یا ڈرانے کا رجحان کم ہوتا جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ محض حالات کے دبائو کے تحت وہ ایسا حل قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے گا جسے ہم منصفانہ سمجھتے ہیں خواہ کشمیر میں یا کہیں اور‘‘--- وہ چاہتا تھا کہ ’’شیخ عبداللہ اور اس کے ساتھی واضح اور سخت رویہ رکھیں اور بنیادی مسائل کے بارے میں کوئی بحث نہ کریں۔ اگر ہمارا یہ رویہ ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اقوام متحدہ کیا سوچتی ہے یا پاکستان کیا کرتا ہے‘‘۔ (جلد ۱۹‘ ص ۳۳۰-۳۳۲)
یہ ہے بھارت کی اعلیٰ ترین قیادت کا اصل چہرہ۔ کانگریس کے پنڈت نہرو ہوں یا بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی--- ذہن‘ عزائم اور سفارت کاری کا اسلوب ایک ہی ہے۔ اسے سمجھے بغیر بھارت کی قیادت سے معاملہ کرنا اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔
جولائی ۲۰۰۱ء کے مذاکرات مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے نہیں‘ پاکستان کو ایک بار پھر بحالی اعتماد کے نمایشی کھلونوں میں اُلجھانے اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر میں تحریک مزاحمت کی کمر توڑنے اور پاکستان اور کشمیری عوام اور سیاسی اور جہادی قیادت کے درمیان بے اعتمادی اور بُعد پیدا کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے کاندھوں پر اپنے زعم میں سند جواز کی خلعت ڈال کر اور بڑے تام جھام سے ان کا استقبال کر کے انھیں بھی نوازشریف کی طرح خوش نما وعدوں اور دل فریب ثقافتی‘ سیاسی اور معاشی امکانات کے سبز باغ دکھا کر لائن آف کنٹرول پر کوئی معاملہ طے کرا لیں گے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اس جال میں پھنسنے سے انکار کر دیا اور سرزمین ہند پر ۱۴ جولائی کو پہلا قدم رکھنے سے ۱۷ جولائی نصف شب واپسی تک ایک ہی موقف رکھا کہ آئو اور جو اصل متنازعہ مسئلہ ہے اس پر بات چیت کرو ۔یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو باقی تمام معاملات بھی طے ہو جائیں گے۔ اگر اس کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو باقی سب لاحاصل ہے۔
جسے ہم آگرہ ماڈل کہتے ہیں اس کے پانچ اجزا ہیں:
۱- مقصد اور اہداف کے بارے میں ایک واضح لائن اور اسی کی روشنی میں ترجیحات کا تعین--- اصل نزاع مسئلہ جموں و کشمیر پر ہے۔ اس سے ہٹ کر کسی معاملے میں اُلجھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
۲- جموں و کشمیر کا مسئلہ محض زمینی تنازع نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی اصل حیثیت (status)کا تعین ہے جو آج تک معلق ہے۔ قانونی اور سیاسی اعتبار سے بھی اور جموں و کشمیر کے عوام کے جذبات و احساسات کے اظہار کی صورت میں بھی۔ یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کرنا ہے۔ بھارت اور پاکستان فریق مسئلہ ہیں لیکن آخری فیصلہ صرف جموں و کشمیر کے عوام ہی کو کرنا ہے۔ اس لیے ان سے مشورہ اور بالآخر انھیں فیصلے میں شریک کرنا ناگزیر ہے۔
۳- پاکستان کی کسی بھی قیادت کو یہ اختیار نہیں کہ قوم کے متفقہ تاریخی موقف سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرے یا ان کو مشورے میں شریک اور مکمل اعتماد میں لیے بغیر کوئی اقدام کرے۔ اس لیے مذاکرات سے پہلے پوری قوم کو اعتماد میں لیا گیا اور مذاکرات کے بعد ان کو پوری صورت حال سے مطلع کیا گیا۔
۴- بھارت سے معاملہ کرنے میں جہاں یہ ضروری ہے کہ وہاں کی قیادت سے بات کی جائے‘ وہیں جمہوری اصولوں اور بھارت کے اپنے دعووں کی روشنی میں ضروری ہے کہ بھارت کے عوام‘ وہاں کی صحافت‘ وہاں کے دانش ور اور پالیسی پر اثرانداز ہونے والے تمام عناصر سے بھی مکالمہ ہو۔ محض بند کمروں میں ایک دوسرے سے روایتی بات چیت کو مذاکرات کا سب کچھ (be all and end all) نہ سمجھ لیا جائے بلکہ کھلی بحث ہو‘ عوام تک پہنچا جائے اور راے عامہ کو بھی ان امور کے لیے تیار کیا جائے جن پر امن‘ ترقی اور دوستی کا انحصار ہے۔
۵- بات چیت کھلے ذہن سے ہو۔ طریق کار اور عملی اقدامات کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کے لیے آمادگی ہونی چاہیے لیکن اصل مسئلے کو پس پشت ڈال کر اور صرف ضمنی چیزوں پر ساری قوت اور وقت صرف کرنا پہلے بھی لاحاصل رہا ہے اور اب بھی غیرمفید ہوگا۔ اس لیے مرکزی مسئلے ہی کو مذاکرات کا ہدف بنایا جائے۔ اور یہ کام دلیل کی قوت سے‘ انصاف کے مطابق‘ عالمی قانون اور عہدوپیمان کا پاس کرتے ہوئے اور عوام کی مرضی کے مطابق انجام دیا جائے۔ یہ جمہوریت کی روح ہے‘ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے اور اسی طرح دیرپا امن اور مستقل دوستی کی راہیںہموار ہو سکتی ہیں۔
یہ پانچ اجزا مل کر آگرہ ماڈل بنتے ہیں اور تاشقند‘ شملہ اور لاہور تینوں میں جو سقم تھا اور جس کی وجہ سے وہ عملاً غیر موثر رہے اس کی تلافی کرتے ہیں۔ اگر کوئی نیا آغاز (break through)ممکن ہے تو وہ اسی طریقے سے --- اور یہی وہ چیز ہے جو واجپائی اور ان کی ٹیم کو ہضم نہ ہو سکی۔ پہلے توکچھ ضبط اور رواداری کا مظاہرہ کیا گیا لیکن پھر پارٹی کی میٹنگ اور پارلیمنٹ میں پھٹ پڑے اور شرافت‘ انسانیت اور سفارتی اور سیاسی آداب کو بالاے طاق رکھ کر جنرل پرویز مشرف کے عسکری ذہن(military mindset)‘ کمانڈوانداز سیاست‘ تاریخ اور سفارت کاری سے عدم واقفیت‘ سیاسی ناتجربہ کاری سے لے کر رخصت کے وقت ان کے چہرے کے رنگ اور خدوخال سب پر برس پڑے۔ صدر پرویز مشرف مشترک اعلامیہ تو حاصل نہ کر سکے لیکن وہ اپنی قوم‘ جموں و کشمیر کے عوام اور تحریک آزادی کے جان فروشوں اور پوری دنیا کے سامنے سرخرو ہوئے ۔ انھوں نے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ساری دنیا کی توجہ ایک بار پھر اصل مسئلے پر مرکوز کرا دی۔ اسے محض media coupقرار دینا کم ظرفی اور حقیقت سے نظریں چرانا ہے۔ آگرہ ماڈل کا اصل حاصل یہ ہے کہ:
سب کے سامنے یہ حقیقت آگئی ہے کہ مذاکرات براے مذاکرات ایک لاحاصل شے ہیں۔ نیز محض بے معنی اعلامیے نہ ماضی میں مسائل کے حل کی راہ میں معاون ہوئے ہیں نہ آج ہو سکتے ہیں۔ گذشتہ ۵۴ برسوں میں اعلیٰ سطح کے مختلف مذاکرات میں ۱۰۰ سے زیادہ اعلامیے جاری ہو چکے ہیں مگر بے فائدہ۔ آیندہ اگر مذاکرات کو کارآمد ہونا ہے تو اصل مسئلے پر بات چیت اور اس کے حل کے لیے تیار ہونا ہوگا۔
آگرہ کے دو دن میں پاکستان اور کشمیر کی جدوجہد آزادی نے جو کچھ حاصل کر لیا وہ شملہ سے لاہور تک ۳۰ برس میں حاصل نہیں ہو سکا تھا۔ مذاکرات میں پاکستان کے موقف کے بعد جن باتوں کا اب کھلے بندوں اعتراف ہو رہا ہے ان میں کشمیر کی مرکزیت‘ کشمیری عوام کا اپنے مستقبل کو طے کرنے کا حق‘ کشمیر میں بھارتی زیادتیاں سب پر گفتگو ہورہی ہے اور خود یہ سوال اٹھائے جانے لگے ہیں کہ اگر کشمیر کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا تو اقوام متحدہ میں بھارت کیوں گیا تھا‘ استصواب کی تجویز کو کیوں مانا اور کیوں اس سے فرار کی راہ اختیار کی‘ دستور میں دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۲۵۳ کی پرویژن کیوں رکھی گئی۔
بھارت کے معروف اخبارات و رسائل ہندوستان ٹائمز‘ فرنٹ لائن‘ ٹائمز آف انڈیا‘ انڈین ایکسپریس‘ کشمیر مانٹیر اور اکنامک اینڈ پولٹیکل ویکلی میں اے جی نورانی‘ نیجا چودھری‘ پرافل بدوائی‘ کے بالگوپال‘ اے این رام اور دیگر متعدد مضمون نگاروں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور بھارت کے موقف پر تیزوتند سوالات اٹھائے ہیں۔ ہندستان ٹائمز کے عوامی سروے شاہد ہیں کہ بھارت کے عوام کی ۸۱ فی صد اکثریت نے آگرہ مذاکرات کے بعد اعتراف کیا ہے کہ اصل مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔
آگرہ مذاکرات میں پاکستان کے واضح اور دو ٹوک موقف نے بھارت کی کشمیر پالیسی کے تضادات اور مغالطوں کا پردہ بالکل چاک کر دیا ہے اور یہ حقائق دنیا کے سامنے آگئے ہیں :
۱- اصل تنازع جموں و کشمیر کی ریاست کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے جسے بھارت اپنے عالمی عہدوپیمان کو یک طرفہ طور پر توڑ کر ایک نقائص سے پرُ (flawed) اور ناقابل دفاع دستاویزالحاق (instrument of accession) کے سہارے اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دینے کی رَٹ لگا رہا ہے اور جس کے خلاف جموں و کشمیر کی آبادی کی عظیم اکثریت ایک ریاست گیر تحریک مزاحمت اور جہادآزادی میں مصروف ہے۔
۲- جسے بھارت ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ قرار دیتا ہے وہ دراصل ایک عوامی جدوجہد اور قومی تحریک آزادی ہے جسے قوت کے ذریعے کچلنے کے لیے بھارت بدترین ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔اس کے نتیجے میں ۷۰ سے ۸۰ ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں‘ ہزاروں گھر اور بازار نذرآتش کر دیے گئے ہیں‘ ہزاروں خواتین کی جبری اور اجتماعی آبرویزی کی گئی ہے‘ ہزاروں افراد جیلوں میں محبوس ہیں اور لاکھوں گھربار چھوڑنے پر مجبور کیے گئے ہیں۔
۳- پاکستان کا اس جدوجہد سے گہرا تعلق ہے اور اس مسئلے میں وہ ایک شریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا اور جموں و کشمیر کے عوام کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور محض معاشی مفادات یا وقتی مصالح کی بنا پر وہ اپنے تاریخی کردار سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ پاکستان بھی امن اور معاشی ترقی کا اتنا ہی خواہش مند ہے جتنا دنیا کا کوئی دوسرا ملک‘ لیکن امن‘ انصاف کے بغیر اور معاشی ترقی ‘سیاسی آزادی‘ قومی سلامتی و وقار اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی قیمت پر گوارا نہیں کی جا سکتی۔
۴- جموں و کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا تنازع یا سیاسی و معاشی مفادات کا کھیل نہیں۔ یہ سوا کروڑ انسانوں کی آزادی اور حقوق کا مسئلہ ہے اور پاکستان کی اپنی سلامتی اور بین الاقوامی عہدوپیمان سے اس کا تعلق ہے۔ اسے اقوام متحدہ کی قراردوں‘ بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی کے مطابق طے کرنے ہی میں سب کی خیر اور فلاح ہے۔
۵- بھارت نے آج تک جس طرح اس مسئلے کو اُلجھایا اور فرار کی راہیں نکالی ہیں وہ نہ اس کے اپنے طویل المیعاد مفاد میں ہے اور نہ جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام کے لیے قابل قبول۔ جموں و کشمیر کے عوام کی بھارت سے دُوری اور نفرت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور اسے محض کسی بیرونی سازش کا شاخسا نہ کہہ کر رفع دفع نہیں کیا جا سکتا۔ اسے حقائق کا سامنا کرناہوگا اور جتنی جلدی یہ تنازع قانون‘ انصاف اور جمہوری اصولوں کے مطابق طے ہو جائے اتنا ہی سب کے لیے بہتر ہے۔ کوئی قوم‘ بہ ظاہر خواہ کتنی ہی طاقت ور اور بڑی ہو‘ کسی ایسی قوم کو مستقل اپنی محکوم نہیں رکھ سکی اورنہ رکھ سکتی ہے جو آزادی کی طلب گار اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد اور قربانی دینے کو تیار ہو۔
۶- بھارت دوسروں کو تاریخ سے ناواقفیت اور سفارت کاری کے آداب سے محرومی کا طعنہ دیتا ہے لیکن جو رویہ اس نے خود اختیار کیا ہے وہ تاریخ کے حقائق سے انحراف اور ڈپلومیسی نہیں‘ دوغلے پن اور کھلی کھلی دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے کچھ عرصے کے لیے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن یہ کاروبار مستقل نہیں چل سکتا۔ جموں و کشمیر کے عوام اپنے حقوق کے حصول کی جنگ میں قربانیاں دے چکے ہیں اور ان کے حصول کے لیے جس طرح سینہ سپر ہیں اس میں بھارت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ خوش دلی سے یا بالآخر مجبور ہو کر ان کو ان کے وہ حقوق دے جو اس نے غصب کر رکھے ہیں۔ بھارت جموں و کشمیر میں ہر اعتبار سے ایک سامراجی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی حیثیت ایک قابض قوت (occupying power)کی ہے۔ وہاں کے عوام ہی اپنے مستقبل کافیصلہ کر سکتے ہیںاور یہ حق ان کو جتنی جلد مل جائے‘ اتنی ہی جلد علاقے میں امن قائم ہو سکتا ہے اور پاک بھارت دوستی کا ایک دَور شروع ہوسکتا ہے۔
یہ وہ اثرات ہیں جو آگرہ کو ایک نئے ماڈل کا درجہ دیتے ہیں۔ اس کا یہی وہ پیغام ہے جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی چیں بہ جبیں ہے ‘ اور کے ایل ایڈوانی صاحب نے جموں میں فوج کو نئے اختیارات سے نوازا ہے۔ وہاں ڈاڈا جیسے ظالمانہ قانون کو نافذ کیا جا رہا ہے اور واجپائی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم تحریک کو قوت سے دبانے کی صلاحیت اور ہمت رکھتے ہیں۔
ان حالات میں ہم کچھ نئے خطرات کے سایے بھی اُبھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ان کا ادراک بھی ضروری ہے۔
۱- پاکستان پر امریکہ اور دوسری طاقتوں کا دبائو بڑھے گا کہ اس آزاد پالیسی سے پسپائی اختیار کرے اور بھارت کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاملہ طے کرے۔ امریکی وزارت خارجہ کی جائنٹ سیکرٹری کا حالیہ دورہ اور پاکستانی خارجہ سیکرٹری کا واشنگٹن جانا اس کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ بہت نازک مرحلہ ہے اور اس میں آگرہ ماڈل سے انحراف اور کسی بھی درجے کی پسپائی ملک کے لیے اور تحریک آزادی کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اندرون خانہ ‘ امریکہ اور بھارت سے جو بات چیت جاری ہے کہیں اس کا ایک شاخسانہ یہ بھی نہ ہو کہ مختلف انداز میں جہادی سرگرمیوں کو لگام دینے کے لیے ان کے مالی وسائل پر گرفت تنگ کی جائے۔ اندیشہ ہے کہ یہ کام بڑی چابک دستی سے اور جہاد کشمیر کی سرپرستی اور تائید کے دعووں کے ساتھ شروع کیا جائے گا تاکہ کوئی بڑا عوامی ردّعمل نہ ہو۔ اس کی حیثیت ویسی ہی ہوگی جو چور گھر میں داخل ہونے سے پہلے چند پتھر پھینک کر کرتا ہے کہ اہل خانہ بیدار ہیں یا سو رہے ہیں۔ حکومت اور قوم دونوں کے لیے اس میں بڑی آزمایش ہے اور ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کے اخلاص‘ وژن اور ہمت کے امتحان کا وقت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومت بھی کیا کارگل کی بلندی کے بعد واشنگٹن کی پسپائی کا راستہ اختیار کرے گی یا آگرہ کو سری نگر میں آزادی کے پرچم کی سربلندی تک جاری رکھے گی۔
معاشی کارڈ کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور مزید استعمال کیا جائے گا‘ معاشی پابندیوں کونرم کرنے کا دلاسہ بھی دیا جائے گا۔ یہ سب جانے بوجھے طریقے ہیں۔ حکومت کو اس دام سے بچنے اور آگرہ ماڈل کو آگے بڑھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنا چاہیے۔
۲- ہم جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے قوت کے بھرپور اور جارحانہ استعمال کے امکانات بھی دیکھ رہے ہیں۔ کھسیانی بلی صرف کھمبا ہی نہیں نوچتی--- بدن بھی نوچنے پر اتر آتی ہے اور اس کے قوی امکانات ہیں۔ کشمیر کی تحریک مزاحمت کے لیے سخت امتحان ہے اور اسے اس کے لیے ضروری تیاری اور پیش بندی کرنی چاہیے۔
۳- پاکستان میں بھی تخریب کاری میں اضافے کے خطرات نظر آ رہے ہیں۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی صورت حال میں حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ خود جہادی تحریکوں پر پابندی لگائی جائے یا کم از کم ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس سلسلے میں حکومت کے کچھ بیانات تشویش میں اضافے کا باعث ہو رہے ہیں۔ فرقہ واریت‘ خون خرابہ یا تخریب کاری کا کوئی تعلق جہاد کشمیر سے نہیں‘ یہ اس جہاد کو کمزور کرنے کی ایک بھارتی سازش کا حصہ ہیںاور اس کا مقابلہ حکومت‘ جہادی تنظیموں اور خود عوام کو کرنا چاہیے۔
۴- ہم یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ بھارت نواز لابی ایک بار پھر متحرک ہو گی اور دفاعی اخراجات‘ امن و امان کے مسائل‘ غربت اور بے روزگاری ‘ قرضوں کا بوجھ اور معاشی مشکلات کے نام پر کشمیر کے مسئلے پر سمجھوتہ اور امریکہ اور بھارت کے نقشہ کار سے ہم آہنگی کی باتیں کی جائیں گی۔ آگرہ مذاکرات نے اس لابی پر ایک ضرب لگائی تھی لیکن یہ پھر متحرک ہو رہی ہے اور سیکولر عناصر اس کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ یہ اندرونی کش مکش ملک کو کمزور کرنے اور جہاد کشمیر کو سبوتاژ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس کا تدارک ضروری ہے ۔اس کا ذریعہ تصادم نہیں صحیح قومی موقف پر پوری قوم کو متحرک کرنے کی جدوجہد ہے۔ افہام و تفہیم کے ساتھ عوامی تحرک اس چیلنج کا جواب ہے۔
ہم حکومت کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ آگرہ میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر ڈٹ جائے اور کارگل کے ساتھ جو کچھ واشنگٹن میں ہوا اس سے سبق لے اور اس سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے سارے امکانات کو ختم کر دے۔ اس کے لیے فوج اور قوم میں تعاون کی ضرورت ہے جو اسی وقت پوری طرح حاصل ہوسکتا ہے جب فوج سیاسی کردار کو جلد از جلد سمیٹے اور سرحدوں کو موجودہ اور پیش آنے والے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے یک سو ہو کر سرگرم عمل ہو جائے۔ قومی مشاورت کے ذریعے اندرونی مسائل کو حل کرنے کی طرف فوری توجہ دی جائے۔ قوم کی طاقت کا اصل منبع اللہ پر بھروسے کے بعد قومی مقاصداور اہداف پر مکمل یک جہتی کا حصول ‘اور ایمان‘ آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے قومی شعور کو بیدار کرنا اور ملی یک جہتی کا حصول ہے۔ اس کے لیے اخلاقی اور نظریاتی بیداری اور ملی مقاصد کی آبیاری وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اقبال نے اسی حقیقت کی طرف قوم کو متوجہ کیا تھا کہ ؎
حرف اس قوم کا بے سوز‘ عمل زار و زبوں
ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
اس کے ساتھ معاشی حالات کی اصلاح اور بیرونی ممالک پر انحصار میں کمی بھی ایمان‘ آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان نظریاتی‘ اخلاقی‘ عسکری اور معاشی اعتبار سے جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی وہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی تقویت کا سامان فراہم کرسکے گا۔ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں جو یک جہتی اور اعتماد باہمی آگرہ مذاکرات کے بعد رونما ہوا ہے اسے مستحکم کرنے اور ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جہادی قوتوں کی تائید کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں سیاسی جدوجہد کو موثر بنانے اور تمام سیاسی قوتوں کو ایک نکتہ یعنی بھارتی تسلط سے نجات پر جمع کرنے اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں پر پورا بھروسہ اور اعتماد ہے۔ پاکستانی قیادت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس اعتماد کو مزید ترقی دیں اور جس طرح جموں و کشمیر کا مسلمان پاکستان میں اپنا مستقبل دیکھ رہا ہے اسی طرح ہم بھی ان کو یقین دلائیں کہ وہ اس امت کے عظیم فرزندوں کی طرح اپنے معاملات کی خود اپنے عقائد‘ عزائم اور روایات کے مطابق صورت گری کر سکیں گے اور خود پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں گے۔
آگرہ ماڈل مشاورت باہمی‘ قومی مقاصد پر یکسوئی اور جرأت مندانہ استقامت‘ بیرونی دراندازیوں سے حفاظت‘ عوام پر اعتماداور اصولوں پر سمجھوتہ کاری کے اجتناب سے عبارت ہے۔ آگرہ کا پیغام یہ ہے کہ ملکی معاملات کو بھی انھی اصولوں اور بنیادوں پر طے کیا جائے اور جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی بھی انھی کے مطابق تائید و تقویت کا سامان کیا جائے۔ بھارت اور پوری دنیا کے عوام تک اپنے موقف کو دلیل اور دانش مندی سے پہنچانے اور اس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے تاکہ حکومتوں اور مفاد پرست عناصر کو عوامی دبائو کے ذریعے اہل حق کو ان کا حق ادا کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی بڑا اہم ہے اور اس کو حق کے لیے مسخرکرنا ایک اہم ہدف ہے۔ عالمی میڈیا نے کشمیر کے کاز کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت برتی ہے اور بھارت کو اس سلسلے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ اس نے دنیا سے حقائق کو چھپائے رکھا ہے۔ آگرہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میڈیا کی قوت کو مظلوموں کی مدد اور انصاف اور آزادی کے حصول کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں جتنی اہمیت سیاسی اور جہادی سرگرمیوں کی ہے اس سے کچھ کم اہمیت میڈیا کے ذریعے دنیا کی رائے عامہ کو باخبر کرنے اور متحرک کرنے کی نہیں ہے۔ ان تمام اہداف کے حصول کے لیے ایک مربوط اور مختلف جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ آگرہ کو محض ایک واقعہ نہیں رہنا چاہیے‘ اسے ایک تحریک میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے جان کی بازی لگا کر ہی اہل جموں و کشمیر کو زندگی کا پیغام دیا جا سکتا ہے--- بلکہ خود اہل پاکستان اور پوری امت مسلمہ کے لیے اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے یہی راستہ ہے: ایمان‘ اتحاد‘ قوت کا استحکام اور جہاد فی سبیل اللہ! جگر نے اس پیغام کو کتنے سادہ مگر ایمان افروز انداز میں ایک شعر میں سمو دیا ہے:
یہ مصرع کاش! نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے
دستور میںدینی نظام کے جو بنیادی اصول اس قدر طویل کش مکش کے بعد منوائے گئے ہیں اب اصل کام ان کو ملک کے نظام میں عملاً نافذ کرانا ہے اور ان کا نفاذ بہرحال قیادت کی تبدیلی پر منحصرہے۔ اس موقع پر ایک صالح قیادت صرف اسی طرح بروے کار لائی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے لائحہ عمل کے چاروں اجزا پر بہ یک وقت کام کریں اور توازُن کے ساتھ ان چاروں گوشوں میں کام کرتے ہوئے اس طرح آگے بڑھیں کہ افکار کی تعمیر و تطہیر ‘ صالح افراد کی تنظیم اور معاشرے کی اصلاح کا جتنا جتنا کام ہوتا جائے اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دین کے حامی عنصر کا نفوذ و اثر بھی بڑھتا جائے‘ اور سیاسی نظام میں حامی ٔ دین عنصر کانفوذ و اثر جتنا جتنا بڑھتا جائے اسی قدر زیادہ قوت کے ساتھ تطہیر و تعمیرافکار اور تنظیم عناصرِ صالحہ اور اصلاحِ معاشرہ کا کام انجام دیا جائے----
یہ لائحۂ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازُن پر ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کا مددگار ہے‘ اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہو جائے گی‘ اور اس کے اجزا کے درمیان توازُن برقرارنہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہو کر رہے گی۔
کامیابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت و تبلیغ جاری رکھیے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جایئے تاکہ آپ کی طاقت اُسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اُتنا ہی بڑھاتے چلے جایئے جتنی آپ کی طاقت بڑھے تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوتا جائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجیے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اُس کے مطابق واقعی تغیررُونما ہو سکے۔
ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔ اِن میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں‘ اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رُک گیا ہو‘ یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اِسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدِ حیات بنا یا ہے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل‘ ص ۱۶۶- ۱۶۷‘ ۱۹۹-۲۰۰)
خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جن جزئیات پر آپ لوگ بحثیں کرتے ہیں وہ خواہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہرحال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیا ہو۔ انبیا کی بعثت اور کتب الٰہی کی تنزیل کا مقصد ان جزئیات کو قائم کرنا نہیںہے بلکہ دین حق کو قائم کرنا ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ رہا ہے کہ خلق خدا اپنے مالک حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے۔ قانون صرف خدا کا قانون ہو‘تقویٰ صرف خدا سے ہو‘ امر صرف خدا کا مانا جائے‘ حق اور باطل کا فرق اور زندگی میں راہِ راست کی ہدایت صرف وہی مسلّم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے اور دُنیا میں اُن خرابیوں کااستیصال کیا جائے جو اللہ کو ناپسند ہیں اور ان خیرات و حسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔
یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر ہم مامور ہیں۔ اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کرلیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضب الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے ‘ اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لیے غضب الٰہی سے بچنے اور رضاے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی‘ دماغ کی ہو یا زبان کی‘ صرف اقامت دین کی سعی میں صرف کر دیں تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لایعنی افکار کا صُدور نہ ہو سکے جن میں اب تک آپ میں بہت سے لوگ مشغول ہیں۔ (دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات‘ ص ۵۲-۵۳)
یہ مدینہ طیبہ کا حال ہے جہاں آپؐ حکمران بھی ہیں‘ مال و دولت کی آمد بھی ہے‘ اموال غنیمت‘ زکوٰۃ و صدقات اور ہدیے اور تحفے بھی آرہے ہیں لیکن انھیں اپنی ذات اور گھر پر نہیں بلکہ فقرا اور مساکین اور جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کر دیا جاتا ہے۔ اپنے اخراجات کے لیے قرض لے کر گزارا ہو رہا ہے۔ آنے والا مال دوسروں کو دیا جاتا ہے اور اپنے لیے توکل اور قرض پر گزارا ہے۔ آپؐ کا نمونہ بے نظیر اور بے مثال ہے‘ سب سے حسین اور سب سے اعلیٰ نمونہ!
حق داروں کو پورا اطمینان ہے کہ حکومت سے اپنے حق کا اسی طرح مطالبہ کرسکتے ہیں جس طرح ایک عام آدمی سے۔ مشرک قرض خواہ کو بھی اطمینان ہے کہ مجھے اپنے حق کی وصولی کے لیے سخت رویہ اختیار کرنے پر کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مسلمان اپنی جگہ یہ تصور رکھتے تھے کہ حق دار اگر سخت رویہ اختیار کرتا ہے تواس کا جواب سختی سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے دینا ہے۔ اس بنا پر حضرت بلالؓ قرض کی ادایگی کے انتظام تک مدینہ سے باہر منتقل ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ حق کی بالادستی کی ایسی مثال کوئی پیش کر سکتا ہے!
مال جمع کرنے اور سمیٹ سمیٹ کر رکھنے کی چیز نہیں بلکہ مستحقین تک پہنچانے کی چیز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک مال تقسیم نہیں کر دیا گھر میں داخل نہیں ہوئے۔ اگر سیرت رسولؐ کا یہ پہلو عام مسلمانوں کی زندگی میں آجائے تو معاشرے کے لیے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔
مسلمانوں اور یہود میں دینی‘ مذہبی اور سیاسی اختلاف تھا اور ہے۔ یہود سے متعدد جنگیں بھی ہو چکی تھیں۔ ان کے علاقے میں ایک مسلمان قتل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے قتل کے واقعات کئی اور بھی پیش آئے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا مقتولوں کے ورثا یا دوسرے مسلمانوں نے کسی نے بھی یہودی پر بلوے نہیں کیے۔ کسی یہودی کو قتل نہیں کیا‘ کسی کی دکان اور مال کو نقصان نہیں پہنچایا حتیٰ کہ دیت کا مطالبہ بھی نہیں کیا حالانکہ یہ بات یقینی تھی کہ یہود کا علاقہ ہے‘ وہاں یہود کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں ہے‘ غالب گمان یہی ہے کہ یہود قاتل ہیں۔ لیکن چونکہ کوئی گواہ نہیں‘ یہود اقراری بھی نہیں‘ اس لیے بلاثبوت کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مقتول کے ورثا اور دیگر مسلمانوں نے جذبات سے مغلوب ہو کر کسی پر دھاوا نہیں بولا۔اسلام اور اُمت مسلمہ کا یہ امتیاز ہے۔ اہل کفر پہلے بھی مذہبی دیوانگی کا شکار ہوئے اور آج بھی وہ مذہبی جنون میں مبتلا ہیں۔ کہیں کوئی ہندو‘ عیسائی قتل ہو جائے اور شبہ پیدا ہو جائے کہ کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوا ہے تو پھر مسلمانوں کی خیر نہیں رہتی‘ مسلمان آبادی پر دھاوا بول دیا جاتا ہے۔ بچوں‘ عورتوں‘ ضیعفوں اور بیماروں کو‘ مسجدوں اور مدارس کو قتل و غارت گری‘ وحشت اور درندگی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی کبھی یہ بیماری آجاتی ہے لیکن یہ مذہبی دیوانگی ان میں دراصل دوسری قوموں سے آئی ہے۔ وہ بھی کبھی مسلکی اور لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کی جانوں اور مالوں کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اسلام کیا ہے؟ وہ کیا سبق دیتا ہے؟ اس کا نمونہ مذکورہ واقعہ پیش کرتا ہے۔ یہود سے شدید دشمنی کے باوجود بلاثبوت ان پر کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔
تربیت اور تعمیر شخصیت کے حوالے سے اب ہم ان عناصر کا مطالعہ کریں گے جن کا تعلّق فکرکی تربیت اور عقل سلیم سے ہے۔
الف- ایک شخص‘ گائوں سے اپنے رشتے دار کو شہر دکھانے کے لیے لے آیا۔ شہری نے اپنا مکان دکھایا۔ سب چیزیں حیران کن تھیں۔ مگر جب شہری نے اسے باتھ روم دکھایا تو اس کی حیرانی اور بھی بڑھ گئی۔ اسے وہاں کوئی بالٹی‘ ڈرم اور مٹکے وغیرہ نظر نہ آئے جن میں پانی بھرا ہوا ہو۔ وہ یہی سوچتا رہا کہ بہ ظاہر یہ لوگ اتنے ترقی یافتہ ہیں مگر بغیرپانی کے کیسے گزارا کرتے ہوں گے۔
گائوں کے شخص کے ذہن میں تہذیب و تمدّن کی ایک علامت پانی کا استعمال تھا۔ وہ اسے وہاں نظر نہیں آیا اس لیے فوراً ہی وہ حیرانی میں مبتلا ہو گیا۔ اس کی نظر ان پائپ لائنوں اورنلکوں کی طرف نہیں گئی جنھیںعقل نے سہولت کا ذریعہ بنایا کہ پانی بھرنے کی تکلیف سے انسان بچ جائے۔ بعض لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی سوچ میں گم ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا اپنا طریقۂ کار ہی سب سے بہتر ہوتا ہے‘ باقی لوگوں کو کم تر سمجھتے ہیں--- اپنی سوچ کے اس جال سے باہر آنے کی کوشش کیجیے۔
ب- ایک امریکی وسط ایشیا کے کسی علاقے میں گیا۔ وہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی تھی۔ علاقے کے باسی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ اس باشندے نے امریکی سے اپنے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا امریکہ میں یہ چیز استعمال ہوتی ہے؟اس نے جواب دیا: کہیں کہیں‘ بہت کم۔
باشندہ یہی سمجھا کہ امریکہ اتنا پس ماندہ ہے کہ وہاں روشنی کا یہ ذریعہ ابھی پہنچا ہی نہیں‘ اور اسے امریکیوں کی غربت پر افسوس بھی ہوا۔ مگر صورت حال یہ تھی کہ اس شخص نے مٹی کے تیل سے جلنے والے فانوس ہی کو ترقی کی علامت سمجھا تھا اور اسی کی امریکہ میں موجودگی کے متعلق سوال کیا تھا‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں بجلی اور توانائی کا استعمال ہو رہاتھا۔
ہم لوگوں کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے۔ ہماری بھی عجیب قسم کی کیفیت ہے۔ ہمارے اپنے ترقی کے تصورات ہیں‘انھی سے ہم دوسروں کو ناپتے ہیں۔ ہم نظارہ اور مشاہدہ نہیں کرتے‘ بس اپنے ہی قفس میں بند رہتے ہیں اور اسی کو کائنات سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اس ذہنی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کیجیے اور اقدار کو ناپنے کے پیمانے تبدیل کیجیے۔
ج- کہتے ہیں کہ جب آٹوموبائل (موٹرگاڑی) ایجاد ہوئی تو اس زمانے میں امریکہ ہی کا کوئی دیہاتی جاگیردار نیویارک شہر پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں گاڑیاں جو کہ اپنے ابتدائی مرحلے میں تھیں اور گھوڑا گاڑی سے مشابہت رکھتی تھیں‘ کافی تیزی سے سفر کر رہی تھیں۔ اس دیہاتی نے معلومات حاصل کیں کہ وہ اتنی تیز کیسے چلتی ہیں۔ لوگوں نے بتایا ‘ان میں ہارس پاور مشین لگی ہوئی ہے۔ اس شخص نے معلومات حاصل کر کے کسی فیکٹری سے ہارس پاور مشین خریدی اور اپنے دیہات آگیا‘ اور پھر اس مشین کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق گھوڑا گاڑی میں فٹ کر دیا اور اسے مع گھوڑا چلانے کی کوشش کی۔ گھوڑا اپنی عمومی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔ دیہاتی پریشان تھا کہ ہارس پاور مشین کے لگنے کے باوجود اس کی گھوڑا گاڑی میں وہ تیزی پیدا نہیں ہوئی جو کہ نیویارک میں اس کے مشاہدہ میں آئی تھی۔
وہ شخص نیویارک کی گاڑی کی ہیئت اور ترکیب کا مطالعہ نہ کر سکا کہ اس ہارس پاور مشین کو لگانے کے لیے گھوڑے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ گاڑی کے نظام میں بنیادی تبدیلی کرنی پڑتی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ گھوڑا گاڑی اور موٹرگاڑی دو مختلف نظاموں کی شکلیں ہیں۔ ایک کی چیز دوسری میں لگا کر کام نہیں چلایا جا سکتا ہے۔
کچھ یہی کیفیت ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو کہ مغرب اور امریکہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور ان کی چند چیزوں کو ہمارے معاشرے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ دونوں معاشروں کی بنیادیں بالکل مختلف ہیں۔ اس کے لیے ہمیں عقل کے استعمال کی ضرورت ہے۔
فکری طور پر شخصیت کی تعمیر کے لیے ہمیں درج ذیل عناصر کی تربیت کی ضرورت ہے:
۱- عقل انسانی: عقل انسان کے بڑے بڑے مسئلے حل کر دیتی ہے۔ ایک واقعہ ہے کہ کسی زیرتعمیر گیراج کی دیوار میں ایک سوراخ تھا۔ پرندہ سیمنٹ کی اس دیوار کے اندر سوراخ میں گر چکا تھا۔ یہ سوراخ تقریباً ۳۰ انچ گہرا‘ ۴ انچ لمبا اور ڈیڑھ انچ چوڑا تھا۔ گیراج کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدور بہت پریشان تھے کہ اس بچے پرندے کو باہر کیسے نکالیں۔
ایک ۱۰ سالہ لڑکا وہاں کسی کام سے پہنچ گیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا۔ کچھ دیر دماغ لڑانے کے بعد اس نے ریت کا ایک ڈولچہ لیا اور پھر مٹھی بھر کے آہستہ آہستہ ریت سوراخ میں گراتا گیا۔ سوراخ جیسے جیسے ریت سے بھرتا جاتا‘ بچہ اُوپر اٹھتا آتا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی کوشش کے بعد اس لڑکے کی کوشش سے بچہ باہر نکل آیا۔
اس لڑکے نے یقینا اپنے ذہن کے ذریعے بہت سارے حل تلاش کیے ہوں گے۔ اس ترکیب کے استعمال نے اسے کامیابی عطا کی۔ بے شک اس نے عقل کو استعمال کیا۔ درحقیقت عقل سلیم کا یہ استعمال بہت سارے مسائل حل کر دیتا ہے۔
واقعات میں آتا ہے کہ ایک شخص پیاس کے باعث بہت پریشان تھا۔ اسے کنواں نظر آیا مگر ڈول نہیں تھا۔ وہ نیچے اترا ‘ پانی پیا اور باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے زبان نکالے کھڑا ہے۔ اس شخص کو احساس ہوا کہ اسے بھی میری طرح پیاس لگی ہوگی۔ ڈول تو نہیں تھا‘ مگر اس نے عقل استعمال کی۔ نیچے اترا‘ اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھرا اور اسے منہ سے پکڑ کراُوپر لے آیا اورکتے کو پانی پلایا۔ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس نیکی کے باعث بخش دیا۔ اس شخص نے کیا کیا۔ اسے احساس تھا‘ ہمدردی ہوئی‘ اور عقل کو استعمال کیا اور کامیابی کی بشارت ہو گئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے ابتدائی زمانے میں حجراسود کا مسئلہ چادر کے ذریعے حل کر کے ایک بہت بڑی ممکنہ جنگ کو ختم کیا اور ہر ایک کومطمئن‘ شریک اور خوش کر کے سب کی جیت کا تصور دیا۔ انسان نے عقل کے استعمال سے نئی نئی غذائوں کے راز دریافت کیے‘ نئے نئے ریشوں سے لباس بنائے‘ بڑے بڑے پل‘ فلک بوس عمارتیں‘ کارخانے‘ گھر اور مختلف مقاصد کے لیے بے شمار چیزیں پیدا کر لیں۔ اس نے زمین سے معدنی چیزیں نکالیں اور انھیں لوہے‘ ایلومینیم‘ سیسے‘ تانبے‘ ٹین اور دوسری دھاتوں کی شکل دے دی۔ یہ دریافت کر لیا کہ ایندھن محفوظ طریقوں پر کیونکر جلایا جا سکتا ہے۔ عقل کے استعمال سے لاتعداد مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ نصب العین اور مقاصد زندگی کو سامنے رکھ کر اور اپنی ذات کے مفاد کو بیچ میں لائے بغیر یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے ذہن سے کام لے کر اسے عقل سلیم بنا دیں۔
۲- عقل معیار ہے: عقل سب سے بڑی بخشش ہے۔وہ اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ اسی سے نیکیوں کے اصول بنتے ہیں۔ انجام کا لحاظ کیا جاتا ہے‘ اور باریکیوں کو سمجھا جاتا اور فضائل حاصل کیے جاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ کسی شخص کے اسلام کو اس وقت تک بلند مرتبہ نہ سمجھو جب تک کہ اس کی عقل کی گرفت کو نہ پہچان لو۔ ابوزکریا ؒ کا قول ہے کہ جنت میں ہر مومن اپنی عقل کے مطابق لذت حاصل کرے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا مقولہ ہے کہ عقل (انسان کی ایک طبعی صفت ہے جو اس کی ماہیت کے ساتھ) گڑی ہوئی شے ہے۔ محاسبی ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: عقل ایک نور ہے۔ ایک تعریف یہ ہے کہ عقل ایک قوت ہے جس کے ذریعے سے معلومات کی حقیقتوں کو جدا جدا کیا جاتا ہے۔ ایک اعرابی سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس نے جواب دیا: عقل تجربات کا نچوڑ ہے جو بطور غنیمت ہاتھ لگ جائے۔ عقل فرق کو سمجھنے کا نام ہے۔ اسی عقل کا صحیح استعمال ہو اوردل میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے تو انسان تقویٰ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور یہی کیفیت حکمت کا سرچشمہ بن جاتی ہے جس سے علم و دانش کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
۳- ذہانت‘ فہم اور ذکاوت: ذہن وہ قوت ہے جو آرا حاصل کرنے کے لیے مستعد اور تیار ہوتاہے۔ فہم کی تعریف یہ ہے کہ کسی قول کو سنتے ہی اس کے معنی کا علم ہو جائے۔ ذکاوت فہم کی قوت کی تیزی کا نام ہے۔ اس کے معنی سمجھ کی پختگی کے بھی ہیں۔
۴- عقل کی تکمیل کے لیے ضروری صفات: علامہ ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں کہ کسی عاقل کی عقل پر اس کی مناسب موقع پر خاموشی اور سکون اور نیچی نظر اور برمحل حرکات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ عقل مند اپنے فیصلے میں‘ خواہ کھانے پینے کے معاملے میں یا کسی قول و فعل کے معاملے میں‘اسی امر کو اختیار کرے گا جو انجام کے اعتبار سے اعلیٰ ہوگا‘ اور جس چیز سے نقصان ہوگا اس کو ترک کر دے گا‘ اور اسی کام کی تیاری کرے گا جس کا پورا ہونا ممکن ہو۔
حضرت ابوالدرداء ؓ سے مروی ہے‘ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ کیا میں عاقل کی علامتیں بتائوں؟ وہ یہ ہیں کہ اپنے سے بڑے کے ساتھ تواضع سے پیش آئے‘ چھوٹے کو حقیر نہ سمجھے۔ اپنی گفتگو میں بڑائی کے اظہار سے بچے۔ لوگوں کے ساتھ معاشرت میں ان کے آداب معاشرت کو ملحوظ رکھے اور اپنے اور خدا کے درمیان تعلّق کو سخت اور مضبوط رکھے تو وہ عقل مند ہے۔ وہ دُنیا میں اس تعلّق کو ہر نقصان سے بچاتا ہوا پھرتا ہے۔
وہاب بن منبہ سے منقول ہے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: اے بیٹے! انسان کی عقل کامل نہیں ہوتی جب تک اس میں دس صفات نہ پیدا ہو جائیں :
مکحول سے حضرت لقمان کا یہ قول مروی ہے‘ جو انھوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ انسان کے شرف و سرداری کی بنا حسنِ عقل پر ہے ۔ جس کی عقل اعلیٰ درجے کی ہوگی وہ اس کے تمام گناہوں کو ڈھک دے گی اور اس کی تمام برائیوں کی اصلاح کر دے گی۔ اس کو رضاے الٰہی حاصل ہو جائے گی۔ کسی کا قول ہے کہ بڑائی کی بات یہ ہے کہ کسی بڑے شخص کی عقل زبان سے بڑھی ہوئی ہو‘ یہ نہیں کہ زبان عقل سے بڑھی ہوئی ہو۔
۵- مثبت انداز فکر: حسن ظن‘ خوش گمانی اور مثبت انداز فکر تعمیر و ترقی شخصیت کے لیے اہم ہیں۔فکر کا یہ انداز انسان کو مایوسی سے بچاتا ہے اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ ایک گلاس میں نصف پانی ہو اور باقی خالی ہو تو مثبت فکر انسان کے لیے وہ آدھا بھرا ہوا ہے‘ جب کہ منفی فکر انسان کے لیے آدھا خالی ہے۔ اوّل الذکر شخص کی یہ سوچ زندگی کے عمومی معاملات پر حاوی ہوتی ہے۔ وہ تلخ و نامساعد حالات میں بھی امید اور اچھائی کا پہلو تلاش کرتا ہے۔ وہ ہر مشکل کو موقع سمجھتا ہے اور اسی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔ دوسری طرف منفی فکر کا انسان عموماً قنوطیت‘ مایوسی اور احساس کمتری کا شکار رہتا ہے۔ ہر معاملے کے برے پہلو سے اس کی فکر اور قوت عمل میں کمزوری آتی ہے ‘وہ اولوالعزم نہیں رہتا۔ مثبت انداز فکر انسان میں قوت پیدا کرتا ہے۔ اس قوت کے ذریعے وہ اندھیروں میں ستاروں کی روشنی سے اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔
۶- شکر: شکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو اس کی پسندیدہ چیزوں میں استعمال کیا جائے۔ ہروہ انسان جس نے کسی چیز کو ایسے کام میں استعمال کیا جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی تو اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران (ناشکری) کی۔ شریف انسان سے رذیل کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ بہترین صلاحیتوں کے افراد سے معمولی معمولی کام لینا بھی کفرانِ نعمت ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمیں جو وسائل (انسانی اور مادّی) دیے گئے ہیں ان کا صحیح انداز سے جائزہ لیں اور ان وسائل کو ان کے اوصاف اور قوتوں اور قابلیتوں کے مطابق استعمال کریں۔ یہ شکر کی عملی کیفیت ہے۔ دل کا شکر یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کا ارادہ کرے اور تمام مخلوق کا بھلا چاہے۔ زبان کا شکر یہ ہے کہ اللہ کی تعریف کرتا رہے۔ اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا احساس کرے۔ ایک قول ہے کہ نعمت ایک جنگلی جانور ہے اسے شکر کی زنجیروں سے باندھ کر رکھو۔ مثبت اندازِ فکر ‘ حسن ظن اور شکر‘ قوت عمل پیدا کرتے ہیں۔ انھیں اپنے مزاج کا حصہ بنا لیجیے۔
۷- احساس وجود: اپنے وجود کا احساس اور اس کے تقاضوں کی سمجھ بھی ضروری ہے۔ ہر انسان سونے اور چاندی کی کانوں کی مانند ہے۔ بات اسے استعمال کرنے اور اخذ کرنے کی ہے۔ اس سے انسان صاحب زر‘ زیور اور زیرک بن سکتا ہے۔ وجود کا احساس غصے اور سختی کے ساتھ حکم دینے سے نہیں کرایا جا سکتا۔ مگر اپنے ماحول میں ہم جو کرنا چاہتے ہیں اس میں کامیابی ضروری ہے۔ ہمیں دوسروں کے سامنے فوراً جھک نہیں جانا چاہیے۔ ہماری جو معلومات ہیں اور جس چیز کو ہم صحیح سمجھتے ہیں اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ جب پھول اپنی خوشبو پھیلا سکتے ہیں‘ پانی زمین کو نرم کر سکتا ہے‘ ہوائیں پتوں کو ہلا سکتی ہیں تو پھر ہم اپنے اخلاق اور قوت نافذہ سے اپنے ارد گرد اور معاشرے میں تبدیلی کیوں نہیں لا سکتے۔ دوسری طرف اگر اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو پھر بحث‘ ہٹ دھرمی کی علامت ہے اور ایسے موقع پر اعتراف میں عظمت ہے۔
۸- تجزیاتی صلاحیت: حالات و واقعات کا تجزیہ کرنا‘ ان کے اسباب پر غور کرنا‘ نتائج کی جانب دیکھنا اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اسے آپ تجزیاتی صلاحیت کا نام دے سکتے ہیں۔ کسی بات کے مثبت اور منفی پہلو پر غور کرنا اور اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ضروری ہے۔
۹- ارادہ و عزم: اپنے ارادے اور عزم کو بلند رکھیے اور اپنے عزائم کو صالح بنایئے اور ان کی عملی تنفیذ (عمل درآمد) کی کوشش کیجیے۔ محض عزم باندھنے اور عمل نہ کرنے سے دُنیا میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ مشکلات سے ڈرنا نہیں چاہیے‘ یہ تو انسان کو بنانے کے لیے آتی ہیں۔ ناکامیوں اور اندھیروں سے گھبرانا نہیں چاہیے‘ یہ تو ستاروں کی چمک کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ شاہراہ حیات پر جب سرخ سگنل نظر آئے تو اسے ناکامی مت سمجھیے‘ چند لمحے آرام کیجیے اور سبز سگنل کا انتظار کیجیے۔ ان لمحوں میں قوت جمع کرنے کی کوشش کیجیے۔ مشکلات ہمیشہ نہیں رہتی ہیں‘ یہ تو قرب خداوندی کا باعث ہوتی ہیں۔ حبس سے مت گھبرایئے‘ یہ تو بارش کی علامت ہے۔ بس عزم کیجیے‘ اپنے مقاصد حاصل کیجیے۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے عزم کی مثال دی ہے: شام کا وقت تھا اور سورج غروب ہو رہا تھا۔ ڈوبتے ہوئے سورج نے پوچھا :ہے کوئی جو میری جگہ لے۔ کسی جھونپڑے میں ایک دِیا تھا--- وہ ٹمٹما رہا تھا۔ اس نے جواب دیا: ہاں‘ میں کوشش کروں گا۔ اس نے اس گھر کی کائنات کو روشن کر دیا۔
اپنی مقدور بھر کوشش کیجیے اور ضرور کیجیے۔ نتائج کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیکھیے۔ نیت صاف ہوگی‘ محنت صحیح رُخ پر ہوگی اور وفاداری ہوگی تو پھر نتائج تو جو مطلوب ہیں وہی آتے ہیں بلکہ اس سے بہتر‘ اور اگر کسی وجہ سے نہ بھی مل سکیں تو آخرت کو کتنی دیر ہے۔ جس کی رضا کے لیے محنت کی ہے اس کے ہاں تو اجر باقی ہے اور وہ تو اپنے ظرف کے مطابق اجر دیتا ہے ؎
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
عزم کی ایک اور تمثیل ہے کہ کسی پہاڑ سے چشمہ پھوٹا اور پھر میدان میں ندی کی صورت اختیار کر گیا۔ میدان میں ایک شخص ٹہل رہا تھا۔ وہ اس منظر سے محظوظ ہو رہا تھاکہ پانی اپنا راستہ کیسے بناتا ہے۔ اس کی نظر ندی میں بہتے ہوئے ایک بچھو پر پڑی۔ اسے اس جانور پر ترس آیا۔ اور اس نے اسے نکال لیا۔ بچھو نے اپنا کام دکھایا‘ ڈس لیا‘ اور کود کر پھر ندی میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس شخص کو پھرخیال آیا اور اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر بچھو کو نکال لیا۔ بچھونے اپنا وہی کردار دہرایا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص کو بچھو کی جان کا پھر خیال آیا۔ اس نے جان بچانے کی کوشش کی اور بچھو نے اپنا وہی رویہ اختیار کیا۔ ایک اور شخص جو اس منظر کو دیکھ رہا تھا‘ اس سے رہا نہ گیا اور اس نے کہا: ’’ارے یہ حیوان ہے‘ اپنی حیوانیت نہیں چھوڑے گا ‘تم اپنی جان کیوں ہلاکت میں ڈال رہے ہو‘‘۔ بچھو کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے شخص نے کہا:
’’جب ایک حیوان اپنی حیوانیت نہیں چھوڑ سکتا تو میں انسان اپنی انسانیت کیسے چھوڑ سکتا ہوں‘‘۔
یہ شخص اپنی انسانیت اور انسانی کردار کے بارے میں پرُعزم تھا اور اس نے عمل کر کے بھی دکھا دیا۔ ہم جس معاشرے میں ہیں وہاں درندگی‘ سفاکی‘ حیوانیت‘ بدعنوانی اور بے حیائی ہے۔ ہم جن کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں وہ احسان فراموش بن جاتے ہیں۔ ہم جن کی معاش میں مدد کرتے ہیں وہ ہمارا استحصال کردیتے ہیں۔ ہم جنھیں تربیت پرواز دیتے ہیں وہ اڑتے ہوئے ہمیں اپنے پنجوں میں جھپٹ لیتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آج کل ماحول کو دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
لیکن پھربھی فطرت انسانی کا تقاضا ہے کہ بروں کے ساتھ ہم برے نہ بنیں بلکہ اپنی انسانیت کو نہ چھوڑیں۔ مکافات عمل کا انتظار کیجیے۔زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔
۱۰- جوکھم (Risk): دنیا میں ہر کام کے کرنے میں جوکھم ہے۔ ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہم اس جوکھم کا اندازہ کر لیں اور اپنے معاملات کی تیاری اس کے مطابق کریں۔ چھٹی حِس ‘ ذہنی صلاحیتوں میں ایک اہم حِس ہے۔ قدآور شخصیات میں یہ حِس کارفرما ہوتی ہے۔
فرض کیجیے آپ سو رہے ہیں اور چولہے میں آگ روشن چھوڑ دی۔ ایک شرارہ اُڑا اور اس نے مکان کو جلا ڈالا۔ ایسی حالت میں آپ کا یہ عذر نہیں سنا جائے گا کہ ’’اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نیند کی حالت میں کس طرح چنگاریاں اور شرارے اُڑنے سے روک سکتا تھا‘‘۔ اس معاملے میں آپ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم تھا کہ آپ عنقریب سونے والے ہیں اور نیند کی تیاری کر چکے ہیں اور اس بات کا علم تھا کہ اس حالت میں حواس کا شعور معطل ہو جاتا ہے‘ اس لیے ضروری تھا کہ اپنے بیداریِ حواس کے وقت ان ذرائع کا سدباب کرتے جن کی وجہ سے نیند کے وقت یہ حادثہ پیش آیا‘ یعنی اوّل آگ بجھاتے اور پھر سوتے۔
تدبیر یہ ہے کہ اُونٹ کو کھونٹے سے باندھیں اور اس کے بعد توکل کریں۔ بغیر کھونٹے سے باندھے اُونٹ کو چھوڑ دیں گے تو یہ آپ کی نادانی ہوگی اور آپ غیر ضروری جوکھم سے اپنا اور نہ معلوم کس کس کا امتحان لینے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔
معاشیات کی تدریس و تحقیق سے طویل مدت کی گہری وابستگی کے باوجود‘ میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ معاشیات بہت اہم سہی‘ لیکن معاشیات ہی سب کچھ نہیں ہے۔ انسان صرف روٹی کھا کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ معاشی پہلو بہت اہم ہے‘ لیکن اخلاقی اور انسانی پہلو اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ دو صدیاں انسانی زندگی میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس دوران معاشی و سماجی تبدیلیاں اتنے بڑے پیمانے پر عمل میں آئی ہیں جس کی کوئی نظیر نہیں۔ مقدار اور معیار کی یہ تبدیلیاں تہذیبی اور سیاسی و معاشی قوت کے طور پر ظاہر ہوئی ہیں۔ ان کا علامتی اظہار فلک بوس عمارات کی نہ ختم ہونے والی قطاروں‘ عظیم صنعتی اداروں‘ بنکوں اور مالیاتی اداروں‘ بڑی بڑی صنعتوں‘ اوپیراہائوسوں‘ عجائب گھروں‘ بڑے بڑے اسٹیڈیم اور ائرپورٹ‘ سیٹلائٹ ٹکنالوجی کے عجائبات اور مال و دولت کے دوسرے مظاہر کی صورت میں ہوا ہے۔ ہمیں انھیں تسلیم کرنا چاہیے لیکن طاقت و قوت کے ان مظاہر کی چمک دمک سے آنکھوں کو خیرہ کرنے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ظاہر کی تہ میں جا کر انسانی معاشرے کی حقیقی صورت حال کا جائزہ لیں۔ جی ہاں‘ یہ دو صدیاں عظیم معاشی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے‘ نئے نئے علاقے دریافت ہوئے ہیں اور ان کو ترقی دی گئی ہے۔ برّی‘ بحری اور فضائی رابطے بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں زمان و مکان کے فاصلے ختم نہیں تو بہت کم ہوگئے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی ریل پیل اور فراوانی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی ‘ تعلیم اور تحقیق‘ فوجی قوت اور سیاسی برتری نے عالمی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان دو صدیوں میں انسانیت تین قسم کے معاشی تجربات سے گزری ہے‘ یعنی نظام سرمایہ داری‘ اشتراکیت اور فاشزم۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلاحی ریاست کا مخلوط معیشت کا تصورنظام سرمایہ داری کا ہی ایک مظہر ہے اور اس میں حالیہ تبدیلیاں اس نظام کی کچھ عمومی خامیوں پر قابو پانے اور جمہوری عمل کی ضرورت کے پیش نظر کی گئی ہیں۔
یہ کہانی کا ایک رُخ ہے۔ اس کا دوسرا رُخ بھی کم اہم نہیں ہے‘ بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کا تعلق انسانی جہت سے ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غیر معمولی معاشی ترقی‘ تکنیکی انقلابات اور مادی دولت کی فراوانی کے باوجود انسان کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ غربت‘ انسانی بدحالی‘ مفلوک الحالی اور بے روزگاری سے نجات حاصل نہیں ہوئی۔ جرائم‘ تشدد‘ انسانی حقوق سے محرومی‘ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ‘ بالادستی کے لیے جنگ‘ بے گناہوں اور کمزوروں پر ظلم اسی طرح کھلے عام جاری ہے۔ بیسویں صدی کی دو بڑی جنگوں میں جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہ گذشتہ ۱۵ صدیوں کی جنگوں میں ہونے والے نقصان سے زیادہ ہے۔ اگر پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء) میں ڈیڑھ کروڑ انسان لقمہ اجل بنے تو دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء)میں یہ تعداد ۵کروڑ ۱۰ لاکھ سے متجاوز تھی۔ ان جنگوں کے بعد ہونے والی ۱۲۸ علاقائی اور نسلی جنگوں نے مزید ۳ کروڑ انسانوں کو نگل لیا۔ اس دہشت گردی اور تباہی کا کوئی آخری سرا نہیں ہے۔ سالٹ (SALT)معاہدوں کے نتیجے میں خاصی کمی ہونے کے باوجود امریکہ اور روس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘ ۱۵ منٹ کے اندر اندر پوری دُنیا کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اکیلے اسرائیل کے پاس موجود گولہ و بارود کا ذخیرہ آدھی دُنیا کو تباہ کر سکتا ہے۔ نیز جنگی مشینوں کو بہتر سے بہتر کرنے اور ان میں اضافہ کرنے کا معاملہ رکتا نظر نہیں آتا۔
تمام معاشی کامیابیوں‘ مالیاتی معجزات‘ تکنیکی انقلابات اور مادی دولت کی فراوانی کے باوجود انسانیت آج بھی بنیادی مسائل سے اُسی طرح دوچار ہے۔ دُنیا کی آبادی کا ۴۰ فی صد غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے‘ ان میں سے تقریباً ۲۰ فی صد شدید غربت کا شکار ہے۔ غربت صرف تیسری دُنیا کے ممالک کا ہی مقدر نہیں ہے بلکہ دُنیا کے امیر ترین ملک امریکہ میں بھی‘ جہاں دُنیا کی آبادی کا ۸ .۵ فی صد حصہ دُنیا کی دولت کے ۲۵ فی صد کا مالک ہے‘ ہر چوتھا بچہ غربت میں آنکھ کھولتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دُنیا زیادہ نامنصفانہ‘ زیادہ استحصال زدہ اور پہلے سے زیادہ غیرمستحکم ہو گئی ہے۔ ضرورت نہیں بلکہ حرص‘ عمل کی قوت بن گئی ہے۔ ہرایک کے لیے انصاف اور ستم رسیدہ طبقات کی فلاح و بہبود اب رہنما اصول نہیں رہے ہیں۔ پرُفریب نعروں‘ مبالغہ آمیز دعووں اور جھوٹے اعداد و شمار کے پس پردہ تلخ حقائق بالکل دوسری صورت حال پیش کرتے ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اٹھارھویں صدی کے وسط اور انیسویں صدی کے آغاز پر‘ ۱۸۰۰ء میں یورپ اور امریکہ کی مجموعی خام داخلی پیداوار (GDP) دُنیا کی کل پیداوار کا تقریباً ۲۸ فی صد تھی۔ اس کے برعکس وہ ممالک جو آج تیسری دُنیا کے غریب ممالک کہلاتے ہیں‘ ان کی خام داخلی پیداوار دُنیا کی کل پیداوار کا ۷۰ فی صد تھی۔ ۱۸۰۰ء میں صرف برعظیم کی خام داخلی پیداوار دُنیا کی کل پیداوار کا ۲۰ فی صد تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دو صدیاں‘ دُنیا کے کچھ ممالک کے لیے ترقی کی‘ جب کہ دُنیا کے دوسرے حصوں کے لیے ترقی معکوس کی صدیاں تھیں۔ دُنیا کی دولت بڑے پیمانے پر منتقل ہوئی ہے۔ ورلڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۰۰ء ایک بہت ہی چونکا دینے والی صورت حال پیش کرتی ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام پر دُنیا کی کل آبادی کی ۱۸ فی صد آبادی رکھنے والے ۲۲ ترقی یافتہ ممالک دُنیا کی کل پیداوار کے ۸۷ فی صد کے مالک تھے‘ جب کہ ۸۲ فی صد آبادی رکھنے والے ۱۶۷ ممالک دُنیا کی کل پیداوار کے صرف ۱۳ فی صد پر گزارا کرنے پر مجبور تھے‘ اور اس ۸۲ فی صد آبادی کا حصہ سال بہ سال کم ہو رہا ہے۔ دُنیا کے غریب ممالک سے وسائل کی ترسیل امیرممالک کی طرف ہو رہی ہے۔ امیر ممالک کی امارت میں اور غریبوں کی غربت میں اضافہ انسانیت کے لیے بہت ہی ناخوش گوار صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس کے مستقبل کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
مجھے غلط مت سمجھیے‘ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف سازشی نظریات کی روشنی میں معاملات کو دیکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس صورت حال کی ذمہ داری کافی حد تک ہمارے اپنے کندھوں پر بھی آتی ہے‘ تاہم تاریخی حقائق اور سچائیوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ نوآبادیاتی دَور کے خوف ناک سائے میں سرمایہ داری اور اشتراکیت جیسے استحصالی اور ناانصافی پر مبنی نظام پوری دُنیا پر مسلط کیے گئے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی ترقی و قوت‘ سیاسی فتوحات ‘ جارحانہ لڑائیاں (یعنی کچھ ممالک دوسرے ممالک کو فتح کریں اور ان پراپنا تسلط جما کر وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیں) ہمیشہ ہی تاریخ کا حصہ رہی ہیں لیکن انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ صرف یورپی نوآبادیاتی دَور میں اتنے بڑے پیمانے پر وسائل اور دولت باقی دُنیا سے چند محدود خطوں میں منتقل کی گئی۔ اگر آپ جان کینیڈی کی کتاب (The Rise and Fall of Great Powers) ’’بڑی طاقتوں کا عروج و زوال‘‘ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ مغربی تاریخ دان اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ گذشتہ چند صدیوں کا سامراجی نظام ماضی کے بیرونی حکمرانوں سے بہت مختلف تھا‘ کیونکہ اس عرصے میں ہم دولت اور وسائل کی بہت بڑی مقدار میںمنتقلی اور بیرونی حکمرانوں کے فائدے کے لیے دُنیا کے وسائل کی ازسرنو تقسیم کو دیکھتے ہیں۔ نوآبادیوں کا استحصال فاتح ملک کو مالا مال کرنے کے لیے کیا گیا۔ ایسا نہ صرف زری اثاثوں‘ سونے اور دیگر فنڈز کی صورت میں کیا گیا بلکہ انسان بھی مال و جایداد کی طرح استعمال کیے گئے۔ اس کا آغاز ’’سنہری ریشے‘‘ (سنہری ریشم Golden Fleace) سے ہوا‘ اس نے مادّی وسائل کی تجارت اور منتقلی کی صورت میں ترقی پائی اور غلاموں‘ زرخرید مزدوروں اور بچوں کی تجارت کی صورت میں مضبوط ہوا اور آج عالم گیریت (Globalization)‘ آزاد روی (Liberalization) ا۳ور اداراتی قرضوں (Institutional debt)کی غلامی کی صورت میں اس کی تکمیل ہو رہی ہے۔ غلامی کی کوئی ایک صورت نہیں ہے بلکہ اس کے کئی چہرے ہیں ۔یہ طرح طرح کی صورتیں اختیار کر لیتی ہے۔
کمیونزم اور سوشلزم خود اپنی خامیوں کے بوجھ سے زمین بوس ہو چکے ہیں۔ بیرونی عوامل بھی اہم تھے‘ افغانستان کا جہاد آخری ضرب کاری تھا۔ افغانستان سے روس کی واپسی سوویت دَور کے اختتام اور اس سوویت سپرپاور کے تاروپود بکھرنے کا اعلان تھا۔ مشرقی یورپ کے ممالک کی آزادی اور سوویت سلطنت کا خاتمہ ہمارے دَور کے بڑے واقعات ہیں‘ تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ اس نظام کے داخلی تضادات اور اس کے سیاسی‘ سماجی ‘ اخلاقی اور معاشی نظاموں کی ناکامیوں نے اس کے زوال کی راہ ہموار کی۔ کمیونزم کے زوال کے نتیجے میں سرمایہ داری اور آزاد روی (لبرلزم) دُنیا کے واحد غالب نظام کے طور پراُبھر کر سامنے آئے‘ جب کہ انسانی معاشرے کے حقیقی مسائل‘ جن کی وجہ سے نظامِ سرمایہ داری کے متبادل کی تلاش میں سوشلزم اور فاشزم اُبھر کر سامنے آئے تھے‘ آج بھی اسی طرح سے موجود ہیں۔ نظام سرمایہ داری کے تضادات اسی طرح غیر حل شدہ ہیں۔ ’’تاریخ کے اختتام‘‘ اور آزاد رو نظامِ سرمایہ داری کی برتری کی باتیں بچگانہ اور کسی حقیقی بنیاد کے بغیر محض دعوے نظر آتے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری نظام کا بدنما چہرہ پہلے سے زیادہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے اور اس نظام کے خلاف عوامی مزاحمت پہلے سے زیادہ منظم ہوتی جا رہی ہے۔سیٹل‘واشنگٹن‘ پیراگ‘ ڈیووس‘ کیوٹو اور کیوبیک چند قوتوں کے ہاتھوں عالمی استحصال کے خلاف عوامی بغاوت کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔ نظام کا استحکام خطرے میں ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک میں سردبازاری کی لہریں بڑھ رہی ہیں۔ زر کی قدر میں بار بار کمی آرہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تک میں بے روزگاری خوف ناک انداز میں بڑھ رہی ہے۔ اب مستقبل اتنا تابناک نظر نہیں آتا‘ جتنا کہ بتایا گیا تھا۔
یہ سب کیسے ہوا؟ میرا یہ موقف ہے کہ ذاتی ملکیت اور کاروبار کی آزادی جیسے معاملات میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ رہے ہیں ‘کوئی نئی بات نہیں ہے‘ اور نہ نظام سرمایہ داری کی ہی پیداوار یا اس کا تحفہ ہیں‘ جیساکہ اکثر دعویٰ کیا جا تا ہے۔ نظام سرمایہ داری کا امتیاز ذاتی ملکیت کا حق‘ منافع کمانے کی ترغیب اور کاروبار کی آزادی نہیں ہے بلکہ بلاروک ٹوک ذاتی مفاد کا فلسفہ اور یہ بے بنیاد دعویٰ ہے کہ انسان صرف مالی منفعت‘ اور خود غرض منافع کمانے کے محرک سے کام کرتا ہے۔ انسان صرف ایک ’’معاشی انسان‘‘ ہے‘ یعنی ایسا انسان جو ہر وقت نفع و نقصان کی جمع و تفریق میں مشغول رہتا ہے او ریہ کہ فیصلے کرنے میں ذاتی مفاد ہی اصل کردار ادا کرتا ہے۔ ریاست کو غیر جانب دار ہونا چاہیے‘ اور معاشی معاملات میں منڈی (market)ہی کی بالادستی ہے۔ گویا کہ مفاد پرستی کا یہ فلسفہ کہ معاشیات کو اقدار سے آزاد ہونا چاہیے اور منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہی معیشت کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے جس کو تحرک ذاتی مفاد اور مسرت سے ملتا ہے۔ یہ ہیں فیصلہ کن عوامل جو نظام سرمایہ داری میں فرد کی زندگی او رمعیشت اور معاشرت کی تشکیل کرتے ہیں۔ معاشی تبدیلیوں میں’’سرمایہ‘‘ سب سے اہم‘ غالب اور رہنما کردار ادا کرتا ہے۔ جن کے پاس سرمایہ ہے وہ اس نظام میں اصل آقا ہیں۔ سرمایہ اندوزی کا انحصار بچتوں پر ہے‘ اور زیادہ بچتیں وہی کر سکتے ہیں جو منافع کمانے والے ہیں‘ اس لیے وہی اس نظام کے محرک اور اس نظام کے شہزادے ہیں۔ تنخواہ دار لوگ اس عمل میں بہترین آلات ہیں نہ کہ دولت کو حقیقی طور پر پیدا کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے۔ وہ تو کارخانے میں پسنے والے لوگ ہیں۔ یہ ہے آدمی کے بجائے دولت‘ اقدار کے بجائے منافع اور دولت میںزیادہ سے زیادہ اضافہ‘ اور اشیا و خدمات کی پیداوار کے بجائے دولت اور غیر حقیقی دولت کی اہمیت جس نے معاشی زندگی کا مرکز اور عمل کا رُخ تبدیل کر دیا ہے۔
یہ ہے نظام سرمایہ داری کا اصل کردار اور حقیقی روح۔ فی الاصل زر (money)صرف ایک آلہ مبادلہ (medium of exchange) تھا تاکہ معاشی عمل آسانی سے کیا جا سکے۔ اسے معاشیات دان CMC (C-commodity, M-money)کے فارمولے کی صورت میں بیان کرتے ہیں‘ یعنی اشیا سے زر اور زرسے اشیا میں تبدیلی کا عمل۔ اس نظام میں زرزندگی میں بہتری لانے والی اشیا و خدمات کی پیداوار اور تبادلے میں مدد دیتا ہے۔ نظام سرمایہ داری میں یہ فارمولا بدل کر MCM ہو گیا۔ یعنی زر سے اشیا اور اشیا سے زر۔ اس کے نتیجے میں معیشت کا رخ پیداوار‘ خدمات اور مادی وسائل سے ہٹ کر زر و دولت کے حصول اور زر و دولت میں اضافے کی طرف ہو گیا اور یہی بنیادی مقصد قرار پایا۔ اب زر ایک آلہ مبادلہ اور لین دین میں آسانی فراہم کرنے والا آلہ نہیں بلکہ وہ شے بن گیا جس کی اپنی طلب ہے۔ لیکن بات یہیں تک نہیں رہی‘ موجودہ نظام سرمایہ داری میں ایک اور تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے۔ زر کی اہمیت نے اپنا رُخ ایک نئے فارمولے کی طرف موڑ لیا ہے‘ جو کہ MMMہے۔ وہ یہ ہے کہ زر کوئی حقیقی اثاثے پیدا کیے بغیر مزید زر پیدا کر رہا ہے‘ اور یہ ایک حبابی معیشت (Bubble Economy)کی طرف لے جا رہا ہے جو کہ استخراجی دُنیا (World of derivatives)ہے۔ یہ نظام سرمایہ داری کی حتمی شکل ہے‘ لیکن اس کی آغوش میں بھی عدم استحکام کا عنصر موجود ہے جو کہ نظام کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ نظام انسانیت کو کدھر لے جا رہا ہے۔
گذشتہ تین دہائیوں میں نظام سرمایہ داری کا رُخ طبعی معیشت سے مالیاتی پھیلائو کی طرف مڑ گیا ہے‘ جو کہ فطرتاً کاغذی زر پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق وسائل کی حقیقی پیداوار سے نہیں ہے۔ استخراجی زر (Credit derivates) کے پھیلائو کے ساتھ بلبلا پھیل رہا ہے۔ ہم حقیقی معیشت کی مادی ترقی کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہے‘ ہم اثاثہ جات کے ساتھ بھی معاملہ نہیں کر رہے‘ بلکہ اثاثہ جات پرجو اسٹاک اور بانڈزکی صورت میںہیں ان کے ساتھ بھی نہیں کر رہے۔ اس کے بجائے ہم اثاثہ جات کے مطالبات (Claims) پر غیر حقیقی مطالبات سے زیادہ سے زیادہ معاملہ کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی غیر حقیقی معیشت کی گرفت میں ہیں جو کروڑ پتی اور ارب پتی تو پیدا کر رہی ہے‘ لیکن لاکھوں‘ کروڑوں بھوکوںکو کھانا کھلانے یا لاکھوں کروڑوں بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
کیا آپ کو ایک ایسی معیشت کی حقیقی شکل کا کوئی اندازہ ہے؟ بین الاقوامی تجارت یعنی اشیا و خدمات کی صورت میں کل تجارت کا پچاسواں حصہ بیرونی زرمبادلہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ حقیقی بین الاقوامی تجارت کے لیے مطلوبہ زرمبادلہ اور استخراجی زرمبادلہ (Foreign Exchange Derivatives)کی تجارت میں نسبت ایک اور پچاس (۵۰:۱) کی ہے۔ ہر روز ۳.۱ ٹریلین ڈالر (۱۳ کھرب ڈالر) استخراجی زرمبادلہ کا لین دین زرمبادلہ کی منڈی میں ہوتا ہے‘ جو کہ دُنیا کی روزانہ حقیقی تجارت سے ۵۰ گنا زیادہ ہے۔ ایک اور مثال لیجیے (دُنیا کے تمام ممالک کی مجموعی خام قومی پیداوار (GNP)۳۰‘ ۳۲ ٹریلین ڈالر (ایک ٹریلین: ۱۰۰۰ ارب: ۱۰کھرب) ہے۔ اس کے مقابلے میں استخراجی زر (derivatives) کا کل لین دین ۵۰۰ ٹریلین ڈالر (یعنی ۵۰۰۰ کھرب ڈالر) کے برابر ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ پہلی چیز اسٹاک کی تعریف میں آتی ہے اور دوسری بہائو (flow)میں‘ تاہم اس کے باوجود مادی معیشت جو کہ اثاثوں پر مشتمل ہوتی ہے اور زری معیشت (جس کا مقصد اشیا اور خدمات کی پیدایش اور تبادلے کو بہ سہولت ہونے میں مدد دینا ہے) کے درمیان ایک نسبت ہونی چاہیے اور اس کا مقصد تمام لوگوں کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ یہ اصل ہدف ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کھیل میں اصل فائدہ کون حاصل کر رہا ہے اور کون اس کھیل میں بڑا کھلاڑی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ چند مالیاتی ادارے اور چند ارب پتی۔ وہ اشیا و خدمات کی مقدار میں اضافہ کر کے دولت پیدا نہیں کر رہے‘ جس کے نتیجے میں تمام لوگ خوش حال ہو جائیں اور معیار زندگی بہتر ہو جائے‘ وہ صرف دولت سے دولت پیدا کر رہے ہیں۔ اس عمل میں سود کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس حبابی معیشت کا مرکز امریکہ اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک ہیں‘ جب کہ دُنیا کی باقی معیشتیں‘ افراد سے لے کرنجی فرموں تک اور قومی معیشتوں سے گلوبل معیشت تک اس مالیاتی گرداب میں پھنستی جا رہی ہیں۔
آیئے طاقت کے اس عالمی کھیل کا دوسرا رُخ دیکھیں۔ قرضوں کا لین دین تاریخ کے ہر دَور میں جاری رہا ہے‘ ذاتی ضروریات کے لیے بھی‘ دکھ اور مصیبت میں بھی‘ اور تجارت و پیداوار میںاضافے کے لیے بھی۔ لیکن ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر چیز کا انحصار ان قرضوں پر اور ان مالیاتی اداروں پر ہو گیا ہے جو ان قرضوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ بنک اور مالیاتی ادارے وہ عالمی کھلاڑی ہیں جو کریڈٹ (قرضے) پیدا کرتے ہیں‘ اس کے ثمرات سمیٹتے ہیں اور عالمی غلامی کی اس نئی شکل میں دوسروں کو یرغمال بنا رہے ہیں۔ یہ جدید معیشت میں مداخلت اور کنٹرول کا سب سے طاقت ور آلہ ہیں۔ قرضوں کی غلامی‘ غلامی کا جدید ترین انداز ہے۔ آپ کو اس کا اندازہ کروانے کے لیے عرض کروں کہ دُنیا کے امیرترین ملک امریکہ کا قومی قرض ۱۹۰۱ء میں ایک ارب ڈالر تھا اور بیسویں صدی کے آخری سال میں قومی قرض ۴ٹریلین ڈالر (۴۰ کھرب ڈالر) سے زائد ہو گیا‘ جب کہ اس کا بین الاقوامی قرض ۴.۱ ٹریلین ڈالر ہے (اور بین الاقوامی مقروضوں میں بھی امریکہ کا پہلا نمبر ہے)۔ اس طرح دُنیا کی واحد سپرپاور اپنی کمر پر ساڑھے پانچ ٹریلین ڈالر کا قرضوں کا بوجھ لادے ہوئے ہے۔ اگر ہم نجی قرضوں کو بھی شامل کر لیں‘ خاص طور پر مکانوں کا رہن (house mortgage) تو دُنیا کے اس امیر ترین ملک کے قرضوں میں مزید چار‘ پانچ ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ صرف امریکہ کا المیہ نہیں ہے‘ دُنیا کے اکثر ممالک کی صورت حال ایسی ہی ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک قرضوں کے ذریعے معاشی ترقی کرنے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ ۴۰ سالہ تجربے کے بعد بہ مشکل ہی ان ممالک میں ترقی نظر آتی ہے۔ البتہ قرضوں کے پہاڑ ان کی کمر توڑے دے رہے ہیں۔
جب پاکستان اور بھارت کو آزادی ملی تو نوآبادیاتی حکمرانوں پر ہمارا اُدھار تھا۔ جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت کو بڑی بڑی رقوم اُدھار دی گئیں۔ ہم قرض خواہ تھے اور وہ مقروض۔ لیکن اب کیا صورت حال ہے؟ آج پاکستان کا کل بیرونی قرض ۳۸ ارب ڈالر ہے۔ سانحہ یہ ہے کہ ۱۹۷۱ء میں جب پاکستان دولخت ہوا‘ اور پاکستان کو تمام قرضوں کا بوجھ اپنے ذمے لینا پڑا تو پاکستان کا کل قرض ۳ ارب ڈالر تھا۔ گذشتہ ۳۰ برسوں میں پاکستان نے ۳۰ ارب ڈالر واپس کر دیے ہیں۔ لیکن ۳ ارب ڈالر (۱۹۷۱ء) کے قرض پر ۳۰ ارب ڈالر کی ادایگی کے باوجود ہم پر قرضوں کا بوجھ بڑھ کر ۳۸ ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ لاطینی امریکہ کے بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے والے ملک برازیل نے گذشتہ ۲۹ سالوں میں ۷۰ ارب ڈالر واپس کیے لیکن اب بھی وہ ۲۰۰ ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک کا کل قرض اب ۲ ٹریلین ڈالر (۲۰کھرب)ہے‘ جب کہ تیسری دُنیا کے یہ ممالک ہر سال ۲۲۰ ارب ڈالر سود اور قرضوں کی واپسی میں دے رہے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود قرض ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سابقہ قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرض لیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ ممالک میں تو قرضوں اور سود کی ادایگی پر اٹھنے والے اخراجات ان کی برآمدات سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس طرح غریب ممالک سے دولت کا خالص بہائو امیر ممالک کی طرف ہے۔ افریقہ کو گذشتہ ۳۰ برسوں میں غریب تر کر دیا گیا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تیسری دُنیا کے ممالک نئے قرضے کے ہر ڈالر کے عوض ۱۱ ڈالر واپس کر رہے ہیں۔کیا یہ قرضوں کی غلامی نہیں ہے؟ اسے اور آپ کیا کہیں گے؟
سوال یہ ہے کہ کیا غربت کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ کیا بھوک پر قابو پالیا گیا ہے؟ کیا انسانی زبوں حالی میں کمی آئی ہے؟ ہم اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں کہ عالمی بنک اور اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق دُنیا کے ایک ارب سے زائد لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور وہ بھوک اور قحط کا شکار ہیں‘ جب کہ دو ارب سے زائد لوگ خط افلاس کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دُنیا کی آبادی کے ۶۰ فی صد کو صاف پانی اور رہایش کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ کروڑوں ڈالر کی بیرونی امداد کے باوجود محروم طبقات کی بدنصیبی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ نہ سمجھیے کہ غربت صرف تیسری دُنیا کا مسئلہ ہے۔ امریکہ دُنیا کا امیر ترین ملک ہے‘ اس میں بھی آبادی کا تقریباً آٹھواں حصہ غربت کا شکار ہے‘ بہت زیادہ معاشی تفاوت پایا جاتا ہے۔ دولت اور طاقت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ میں گذشتہ ۳۰ سالوں میں عام لوگوں کی حقیقی اجرتیں کم ہوئی ہیں‘ جب کہ اسٹاک بروکروں اور بانڈز کا کاروبار کرنے والوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی ۱۴ فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے رہ رہی ہے‘ اور اگر آپ نسلی بنیادوں پر دیکھیں تو کالوں میں یہ تناسب ۲۸ فی صد ہے۔ کیلی فورنیا امریکہ کی امیر ترین ریاست ہے‘ یہ دُنیا کی معیشتوں میں ساتویں سب سے امیر ترین ریاست ہے‘ لیکن اس میں بھی غربت کا تناسب ۳۰ فی صد ہے۔ یورپ میں جرمنی سب سے امیر اور طاقت ور ترین ملک ہے‘ اس میں بھی یہ تناسب ۲۴ فی صد ہے۔ گویا صرف تیسری دُنیا کے غریبوں ہی کی قسمت خراب نہیں ہے۔ غیر مراعات یافتہ دُنیا بھر میں پریشانی کا شکار ہیں‘ خواہ اس کی مقدار اور اس کے اثرات میں فرق ہو۔ ایسا اس لیے ہے کہ موجودہ نظام ناانصافی پر مبنی ہے اور اس کے اندر خامیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نظام انسان کو مرکزی اہمیت نہیں دیتا اور اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرتا ہے۔ اس نظام میں معاشی پہلو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کی وجہ سے یہ نظام استحصالی نظام بن گیا ہے۔ یہی نہیں کہ ترقی اور خوش حالی منتخب لوگوں کو نصیب ہوتی ہے بلکہ نظام بھی غیر مستحکم اور بودا ہے۔ انسانیت کا مقدر ایک دھاگے کے ساتھ بلبلے سے باندھا گیا ہے اور اس بلبلے کوقائم رکھنے کے لیے اس میں ہوا بھری جا رہی ہے۔ یہ کب پھٹ جائے گا ؟ کوئی نہیں جانتا۔
اکانومسٹ لندن کے مطابق ۱۹۷۰ء میں امریکہ میں صرف ۱۷ ‘ارب پتی تھے‘ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ان کی تعداد ۱۷۷ ہے اور ان کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ امیر ترین تین ارب پتیوں کی ذاتی دولت دُنیا کے ۴۸ ترقی پذیر ممالک کی خام قومی دولت کے برابر ہے۔ دُنیا کے ۲۰۰ ارب پتیوں کی دولت دُنیا کے دو ارب انسانوں کی مجموعی دولت کے برابر ہے۔ یہ معاشی حقائق ہیں۔ یہ تہذیب کے جسم پر اخلاقی ناسور ہیں۔ ہم ناانصافی پر مبنی دُنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایک بہت ہی معقول سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی سوچ یک طرفہ ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ معاشی مسئلے کا حل صرف معاشی ذرائع سے نہیں ہو سکتا۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ اسے ایک جامع اور متوازن نظام کا حصہ بنایا جائے‘ جس میں انسانی‘ اخلاقی اور سیاسی معاملات پر اکٹھے بات کی جائے۔ وسیع تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ آدم اسمتھ سے لے کر آج تک جس چیز نے معاشیات کو پریشانی میں مبتلا رکھا اور اسے ایک شیطانی علم بنایا وہ اس کا اخلاقی اقدار کے بارے میں غیر جانب دار ہونا ہے۔ یہ غیر اخلاقی (amoral)ہے۔اس کے پیش نظر ذرائع کا بہترین طریقے سے استعمال ہے نہ کہ زندگی اور معاشرے کے مقاصد سے ہم آہنگی۔ ذرائع کا بہترین استعمال بہت اہم سہی‘ یہ ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے‘ دولت کی منصفانہ تقسیم بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ تمام لوگوںکی معیشت میں شرکت بھی اہم ہے‘ ان کے حصے متعین ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو بالاے طاق رکھا جائے گا تو انسانیت کو نقصان ہونا ناگزیر ہے۔ نظام سرمایہ داری کے اس بنیادی اصول کا ایک نتیجہ معاشیات کو خودایک مکمل سائنسی مضمون بنانے کی کوششوں کی صورت میں سامنے آیا‘ جس کا اخلاقیات‘ اقدار اور مذہب سے کوئی تعلّق نہ ہو۔ معاشیات کا تعلق نہ صرف اخلاقیات اور مذہب سے ختم کرنے کی سعی ہوئی بلکہ دوسرے سماجی علوم بشمول سیاست سے اسے بے تعلّق کیا گیا۔ اس بات نے معاشیات کو انسانیت کے لیے ایک بابرکت علم کے بجائے ایک تباہ کن علم بنا دیا۔
نام نہاد ایجابیت کی طرف رُخ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشیات خیالی‘ غیر حقیقی اور مقاصد سے بہت دور ہو گئی۔ ایک طرف اخلاقی پہلو اور دوسری جانب معاشرے میں اقتدار کے ساتھ تعلق وہ حدود فراہم کرتے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے معاشی قوتیں عمل پیرا ہوتی ہیں۔ ان روابط سے انحراف معیشت دانوں کو دولت اور منافع کی ہوس میں مبتلا لوگوں کے ہاتھوں میں ایک آلہ کار بنا دیتا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کی منہ زور معاشیات نے اخلاقیات اور اقتدار دونوں پہلوئوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی‘ کیونکہ یہی وہ طریقہ تھا جس سے سرمایہ دار کنٹرول حاصل کر سکتے تھے اور معاملات کو اپنی مرضی سے چلا سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو چیلنج کرنے کے لیے سوشلزم اور کمیونزم سامنے آئے اور سرمایہ داری اور اشتراکیت کے ملاپ سے فاشزم وجود میں آیا۔ دونوں نظاموں نے ریاستی غیر جانب داری کے نظریے کو چیلنج کیا لیکن سوشلزم اور فاشزم نے انسان کو غموں سے نجات دینے کے بجائے معاملہ کو مزید سنگین بنا دیا۔ انھوں نے انسان کو معاشی و سیاسی عوامل کے ایک ایجنٹ کی حیثیت دی۔ وہ اصل مرض کی تشخیص میں ناکام ہو گئے۔ وہ بھی نظام سرمایہ داری کی طرح یک طرفہ فکر کے حامل تھے گو کہ کچھ فرق کے ساتھ۔ یہ ہے وہ پریشان کن صورت حال جس سے انسانیت آج دوچار ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک سیاسی آزادی اور خود مختاری حاصل کرنے کے باوجود معاشی‘ مالیاتی اور سیاسی سازشوں کے ذریعے نئے سرے سے دوبارہ غلام بنالیے گئے ہیں۔ دُنیا کے تمام فیصلہ ساز ادارے مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جمہوریت کے علم بردار ہونے کے دعوے دار ہیں‘ لیکن دُنیا کے بڑے بڑے اداروں میں جمہوریت کو برداشت نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کی مثال لیجیے۔ جنرل اسمبلی اپنے ۱۹۱ رکن ممالک کے ساتھ فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ سلامتی کونسل ویٹو پاور رکھنے والے ۵ ممالک کی باندی ہے اور ان میں سے ہر ایک کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کا مجاز ہے۔ جوہری ٹکنالوجی کے حوالے سے ہونے والے این پی ٹی معاہدے کی رُو سے تمام ممالک جوہری ٹکنالوجی کو پرُامن مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ اس کا بنیادی خیال یہ تھا کہ جوہری ٹکنالوجی پر مستقل اجارہ داری رکھی جائے کیونکہ یہ کسی بھی ملک (خواہ وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو) کے لیے جنگ سے بچائو کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ورلڈ بنک‘ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ‘ تجارت کی عالمی تنظیم (WTO) ‘ بین الاقوامی عدالت انصاف جیسے تمام ادارے دولت مندممالک کے زیراثر ہیں اور وہی ان کے منتظم ہیں۔ وہ فیصلے کرتے ہیں اور دیگر ۱۷۰ ممالک کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی جمہوریت ہے؟
گلوبلائزیشن کیا ہے؟ دُنیا کے ہر حصے اور کونے سے بین الاقوامی تجارت صدیوں سے جاری ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ اور تاریخی سیلاب دُنیا کے تمام خطوں کے لوگوں کی مذہبی اور تہذیبی روایات کا اور کسی حد تک ان کے مذہبی عقائد کا ایک حصہ ہے۔ لوگوں کی نقل و حرکت اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ گلوبلائزیشن کا پہلا اور اہم ذریعہ ہے۔ تجارت‘ نقل مکانی اور فتح یابی ہمیشہ سے ہی گلوبلائزیشن کے تاریخی طریقے رہے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے آزادانہ تجارت سرمایہ دارانہ دُنیا کے عقائد میں شامل ہے۔ پھر آزادی اور گلوبلائزیشن میں نئی بات کون سی ہے جس کا مغرب شور مچا رہا ہے۔ ایک لفظ میں یہ ’’غلبۂ امریکہ‘‘ ہے۔ گلوبلائزیشن سے آج مراد ہے: غالب قوتوں کے معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی تسلط کو تسلیم کرنا۔ حکومتیں‘ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں اور غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) آج کی حکمران ہیں۔ ۵۰۰ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں دُنیا کی ۷۰ فی صد تجارت پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ بے شک وہ تحقیق‘ ٹکنالوجی‘ جدت طرازی‘ اطلاعات اور نہ جانے کس کس چیز پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ دُنیا کی ۹۷ فی صد تحقیق‘ ٹکنالوجی اور جدت طرازی (innovation)مغربی ممالک بشمول جاپان کے قبضے میں ہیں۔ تیسری دُنیا کا حصہ صرف ۳ فی صد ہے۔ اس سے بڑی پریشان کن صورت سامنے آتی ہے۔ لاکھوں لوگ تپ دق‘ ملیریا‘ ٹیٹنس‘ کالی کھانسی اور ایڈز کی وجہ سے بلوغت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ غریب دُنیا میں چند ہزار کے علاوہ لوگوں کو مناسب علاج کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ افریقہ میں کینسر سمیت دوسری تمام بیماریوں کے مقابلے میں زیادہ لوگ صرف ایڈز کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ادویہ ساز کمپنیوں کی تحقیق امرا کی بیماریوں تک محدود ہے۔ غریب ممالک میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ادویات کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ اکثریت کی پہنچ سے باہر ہیں۔ عدل اور انسانی فلاح و بہبود کو دولت مندوں اور طاقت وروں کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان خلیج دن بدن بڑھ رہی ہے‘ خاص طور پر بہت ہی امیر اور بہت ہی غریب ممالک کے درمیان۔ یہی معاملہ امیر علاقوں اور غریب علاقوں اور کسی ملک کے اندر غریب لوگوں اور امیر لوگوں کا ہے۔
غیر انسانی سلوک کی ایک اور مثال ادویات سازی کی صنعت کی ہے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی ادویات کی تیاری کے لیے تحقیق کرنے اور ایسی سستی ادویات تیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو تیسری دُنیا کے ممالک میں بیماریوں کے خلاف موثر مدافعت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ یہ تو منافع کمانے کا کھیل ہے نہ کہ انسانیت اور اس کی خدمت کا ۔ سازش یہ ہے کہ بیماریوں کے خلاف مدافعتی ادویات ‘جو کہ سستی بھی ہوتی ہیں‘ کو بنانے اور پروان چڑھانے کے لیے کوششیں نہیں کی جاتیں۔ کچھ ایسی بیماریاں جو غریب انسانوں کی ہلاکت کا ذریعہ بنتی ہیں‘ صرف پرہیزی دیکھ بھال اور عادتوں کی تبدیلی سے قابو کی جا سکتی ہیں۔
ایک حالیہ سائنسی تحقیق نے یہ بات ‘جو ہم تہذیبی طور پر پہلے ہی جانتے ہیں‘ ثابت کی ہے کہ صرف ایک یہ تبدیلی کہ اگر کھانے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہاتھ دھو لیے جائیں اور کھانا کھانے کے بعد منہ صاف کر لیا جائے تو بہت سی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ پانی کو فلٹر کیا جائے‘ بچوں کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھلایا جائے‘ مچھر دانیاں استعمال کی جائیں‘ الکحل والے مشروبات سے پرہیز کیا جائے‘ نشے کی حالت میں گاڑی نہ چلائی جائے‘ جنسی تعلقات شادی کے بندھن کے ساتھ اخلاقی حدود میں قائم کیے جائیں تو انسان کو ۹۰ فی صد تک بیماریوں سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
ایک منٹ رک کر سوچیے‘ بیماریوں کا علاج یہ نہیں کہ آپ زیادہ ویکسین اور زیادہ ادویات استعمال کریں بلکہ اس کا آغاز اسلام او دوسرے مذاہب کے سکھائے ہوئے حفظان صحت کے زریں اصولوں کو اپنا کر کیا جائے۔ یہ ہم مسلمانوں نے ذاتی حفظانِ صحت کے اور روز مرہ کے طور طریقوں اور آداب کی حیثیت سے سیکھا ہے۔ ہاتھ دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ سادہ خوراک کھانا‘ بھوک سے کم کھانا‘ بچوں کو ماں کا دودھ پلانا ہمارے تمدن کا حصہ ہیں۔ شراب اور دوسری نشہ آور اشیا کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ مغرب میں شراب نوشی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ جب کہ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ سے پریشان ہیں۔ وہ سڑکوں پر موت کا خوف تو رکھتے ہیں لیکن شراب نوش حکمرانی کر سکتے ہیں‘ فوجوں کی کمان کر سکتے ہیں اور انسانیت کی قسمت سے کھیل سکتے ہیں۔ اسلام جڑ پر ضرب لگاتا ہے۔ محفوظ جنسی تعلق کیا ہے؟ وہ صرف شادی شدہ زندگی ہے۔ میں بات کو بہت سادہ انداز میں کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ حقیقی جواب ہیں نہ کہ ایک ایسے انحطاط پذیر تمدن کا مسحورکن طرز زندگی جو انسانوں کی آنکھیں حقائق کی طرف سے بند کر دیتا ہے اور جنس کو سحرانگیز مقام دے کر اور عقل کو خواہش نفس کے تابع کر کے انھیں اسفل درجے تک پہنچاتا ہے۔
درحقیقت آج انسانیت کو درپیش اصل مسئلے کا تعلق اخلاقی اور انسانی صورت حال سے ہے۔ ایک مغربی فلسفی نے یہ بات بہت خوب صورت انداز میں کہی ہے‘ وہ کہتا ہے: ’’ہم نے پرندوں کی طرح آسمانوں پر اُڑنا سیکھ لیا ہے اور مچھلیوں کی طرح پانیوں میں تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن ہم نے اس بے چاری زمین پر اچھے انسانوں کی طرح جینا نہیں سیکھا‘‘۔ یہ ہے اصل مسئلہ۔ ’’انسان کیا ہے؟‘‘ ایک انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے‘ جیسے ہی روح جسم سے نکلتی ہے تو ہم ایک لاش ہوتے ہیں‘ جس میں بدبو اور تعفن پیدا ہو جاتا ہے‘ اور اسی وجہ سے ہم اسے زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔ مغربی فکر میں اصل خامی انسانی زندگی اور اس کی تقدیر کے ساتھ رویے میںہی ہے۔
ہمارے دور کے تمام مسائل کی جڑ سیکولر تہذیب ہے۔ معاشیات ہو یا سماجی علوم یا سیاسی معاملات‘ سب کا تعلق مادی پہلو سے قائم کیا جاتا ہے‘ جیسے روح کا کوئی وجود ہی نہ ہو‘ جیسے اس مادی وجود کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہ ہو۔ اخلاقیات اور اقدار کو خود غرضی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ ضرورت حرص کی قربان گاہ پر قربان کی جاتی ہے۔ مذہب کو غیر متعلق قرار دے کر مسترد کیا جاتا ہے۔ رحم دلی اور شفقت کی جگہ مقابلہ لے لیتا ہے۔ نیکی کی جگہ منافع لے لیتا ہے۔ آزادی‘ لاقانونیت کی طرف لے جاتی ہے۔ ان سب کی وجہ ایک ہی تباہ کن غلطی ہے: خالق کو فراموش کرنا اور اس کے نتیجے میں مادی اور اخلاقی‘ اور طبعی اور روحانی کی تقسیم۔
بطور انسان آپ کو اپنے اللہ کو پہچاننا چاہیے‘ جو آپ کا خالق ہے‘ آپ کا مالک و آقا ہے۔ اگر آپ اپنے خالق کے ساتھ اپنے رشتے کو توڑ کر زندگی بسر کر رہے ہیں تو پھر خواہ کتنی ہی دولت کی فراوانی اور سائنسی ایجادات اور تکنیکی ترقی ہو‘ آخری انجام تباہ کن ہے۔ یہ صرف اظہار یا زبان کا مسئلہ نہیں ہے۔ بیسویں صدی بڑے پیمانے پر انسانوں کی تباہی کی صدی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ اگر آپ تاریخ میں ہزاروں سال سے آج تک ہونے والی تمام جنگوں میں انسانوں کی ہلاکتوں کو جمع کریں تو صرف بیسویں صدی میں ان تمام جنگوں سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ان جنگوں میں صرف انسانی اموات نہیں ہوئیں بلکہ ان کے نتیجے میں غربت‘ بھوک‘ بیماری‘ غارت گری‘ تشدد‘ جرائم‘ نسل کشی‘ طبقاتی جنگ‘ نسلی امتیاز‘ خواتین کا استحصال‘ نسلی صفائی --- آپ نام لیتے جائیں‘ یہ اور ایسی تمام برائیاںبھرپور طور پر وجود میں آئیں۔مجھے کہنے دیجیے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر آپ الہامی ہدایت اور اخلاقی اصولوں کی روشنی میں زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کریں اور روح و جسم کی یک جہتی کو نظرانداز کریں تو نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔ قرآن اس بات کو بہت واضح انداز میں بیان کرتا ہے کہ صراط مستقیم سے انحراف کا نتیجہ بحروبر میں انتشار‘جبروتشدد اور بددیانتی کی صورت میں نکلے گا (الروم ۳۰:۴۱) ۔اور صرف اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہو سکتا ہے: اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب (الرعد۱۳:۲۸) ۔ان چیلنجوں کے مقابلے میں اسلام کا جواب بہت سادہ اور سیدھا ہے۔
اسلام تمام انسانوں کو بہتر انسان بنانا چاہتا ہے۔ انسان کے سیاسی‘ سماجی ‘ معاشی‘ قومی اور بین الاقوامی مسائل صرف انسانی اخلاقی نقطۂ نظر کو اپنانے سے حل ہو سکتے ہیں۔ یہی شاہ کلید ہے۔ اسلام نے معاشیات سمیت زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں جامع ہدایات دی ہیں۔ اسلامی معاشیات کی تحریک‘ زندگی اور تمدن کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کلی کوششوں کا حصہ ہے۔
اسلامی معاشیات کو پورے تناظر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ قلب ہی ہے جس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ قوت محرکہ ہی ہے جس پر اثرانداز ہونے اور اسے یک سو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مقاصد زندگی ہیں جن کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آپ انسان کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ ایسا بلندوبالا عمارتیںبنا کر نہیں بلکہ انسانی مصائب کو ختم کر کے اور اپنی فلاح و بہبود کے علاوہ دوسروں اور درحقیقت تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کو حاصل کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تمام انسان ایک ہی خاندان کے افراد ہیں‘ جن کو ان کا حصہ ملنا چاہیے۔ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم دوسروں کے گلے کاٹ کر اپنی دولت اور قوت میں اضافہ کریں۔ ہم خوش حالی کی منزل حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم دوسرے کے ساتھ جینے کا گرُ سیکھ لیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جئیں۔ یہ ہے وہ تبدیلی جو اسلام لانا چاہتا ہے۔ یہ اپنی تقدیر کی طرف پیش قدمی میں انسان کے اخلاقی ارتقا کا اہم مرحلہ ہے۔ اسلام تمام معاشی کوششوں کو اخلاقی حدود کے اندر رکھتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ ایک مبنی برعدل سماجی و معاشی نظام کو قائم کر کے ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ہمدردی‘ اخوت اس کی قوتِ متحرکہ اور اس کو مضبوط کرنے والی قوتیں ہیں۔ اسلام صرف صدقہ و خیرات پر یقین نہیں رکھتا جو کہ ایک محدود تصور ہے۔ اسلام دوسروں کو ان کا حق دینے کا علم بردار ہے اور یہ کوئی نفل نیکی نہیں ہے۔ زکوٰۃ کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ ’’حق‘‘ ہے‘ یعنی امراء کی دولت پر غربا کا حق: وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذریٰت ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کے لیے‘‘۔
یتیموں کے حقوق پورے نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین‘ شریعت اور یومِ آخرت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o (الماعون ۱۰۷:۱-۳) ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا اور سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی توہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے‘ اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔
یہ پیغام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دین یعنی اخلاقی قانون‘ اسلامی زندگی کا قانون اور یومِ آخرت کو جھٹلانے سے کیا مراد ہے؟ یہ صرف ایمان نہ لانا ہی نہیں ہے بلکہ دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنا بھی الہامی قانون میں ویسے ہی نتائج کا حامل ہے۔
یہ قرآنی اسلوب کا حسن ہے‘ دیکھیے اخلاقی و مادی معاملات کو آپس میں کس طرح جوڑا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ ۶۲:۹-۱۰)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو‘ یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘ پھر جب نماز ہو چکے تو (تم کو اختیار ہے کہ) زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل (معاشی جدوجہد کے ثمرات) تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پائو‘‘۔
پس اللہ کا ذکر اور معاشی جدوجہد ساتھ ساتھ ہیں۔ زندگی مکمل اور جامع کُل ہے۔ اخلاقیات اور مادیت دونوں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں‘ اور جب ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو رحمت ہیں۔ آج کے معاشی مسائل کی وجہ ان دونوں کے رابطے کا ٹوٹ جانا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشیات نے عجیب و غریب مسائل کو پیدا کیا ہے‘ تاہم انھیں حل کرنا ناممکن نہیں ہے۔ ہم ان سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں اور اسے اخلاقی اور انسانی مسائل کے حل کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ اگر ہم اسے ایک مرتبہ پھر اللہ کے ذکر کی حدود میں لے آئیں۔ معاشی قوت اور دولت رحمت بن سکتی ہے۔ اسلام نے اخلاقی اور انسانی فلاح کے اہمیت دینے والے رویے پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ شریعت نے ذاتی اخلاق کے ساتھ ساتھ انسان کی معاشی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں ضروری ہدایات فراہم کی ہیں۔
بلاشبہ اسلام نے ملکیت کے حقوق‘ معاشی جدوجہد‘ غربت کے خلاف جنگ‘ سماجی بھلائی‘ سود کے خاتمے‘ کاروباری اخلاقیات‘ تقسیم دولت میں عدل اور ریاست کے معاشی کردار کے سلسلے میں حلال و حرام کی واضح اور تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ یہ سب چیزیں موجود ہیں۔ اس مختصر نشست میں تمام تفصیلات بیان کرنا مشکل ہے‘ یہ چیزیں ہمارے لٹریچر کا حصہ ہیں۔ میری کوشش ہے کہ میں اپنے آپ کو بنیادی مسئلے پر مرکوز رکھوں۔ اس حوالے سے علما اور اسلامی ماہرین معاشیات نے خاص طور پر گذشتہ تین عشروں میں کافی کام کیا ہے اور یہ کام اس زبان میں ہوا ہے جو آج کے کاروبار کرنے والے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
میں شرکاے سیمی نار اور اس ملک کی مسلم کمیونٹی کے دوسرے دوستوں اور اس کے ارکان تک جو پیغام پہنچانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اخلاقیات اور معاشیات اور روحانیت اور مادیت کے درمیان تعلق کو ازسرنو دریافت کیا جائے۔ اسلامی معاشیات کا منفرد پہلو اس کا یہی جامع اور مربوط طرزفکر ہے۔حق ملکیت ہر معاشی نظام کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے مطابق جو شخص کسی چیز کا مالک ہے‘ یا اُس پر اُس کا کنٹرول ہے‘ یا وہ اس کا منتظم ہے ‘ اس کی حیثیت ایک امین (trustee) کی ہے نہ کہ مطلق العنان مالک اور آقا کی۔ ہماری تمام چیزیں ہمارے پاس امانت ہیں اور ہم ان کے امین ہیں۔ ہم انھیں استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس دائرہ کار میں جو ہمارے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہم مسلمانوں کی حیثیت اس دُنیا میں اللہ کے مقرر کردہ خلیفہ کی ہے۔ ہماری اصل حیثیت استخلاف کی ہے‘ اور یہی ہمارا مشن ہے۔ خلیفہ وہ ہے جو اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلّم) کی دی ہوئی ہدایت اور اقدار کی روشنی میں بسر کرتا ہے۔ یہ ہیں استخلاف کے معنی۔ یہ الہامی ہدایت کی روشنی میں دُنیا بنانے کا بڑا مثبت تصور ہے۔ یہ زندگی سے لاتعلق اور دست بردار ہونے یا ترک دُنیا کے کسی تصور کو گوارا نہیں کرتابلکہ ہمیں ‘مردوں اورعورتوں کو‘ زندگی اور تاریخ کے چیلنجوں کا سامنے کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ ہمیں ایک مقدس اور بلند مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ یہ دُنیا کی تعمیرنو کی اور تاریخ سازی کی دعوت ہے جو ہمیں نبوت کے مشن کو پورا کرنے کی طرف بلاتی ہے۔ مسلم امہ اس سے پیچھے ہٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور نہ ہی مایوس اور دل شکستہ ہو سکتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم کوشش کریں اور ہمیشہ پرُامید رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’مسلمانو! تم بہترین جماعت ہو جو لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اہم واقعے اسرا یا معراج کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس موقع پر‘ ہجرت سے صرف ایک سال پہلے‘ حضرت جبریل علیہ السلام‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ سے القدس اور وہاں سے آسمانوں پر لے کر گئے۔ اس موقع پر رسول ؐاللہ اللہ کے اتنے قریب پہنچے کہ جبریل ؑبھی پیچھے رہ گئے۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ہندستان کے ایک بہت بڑے عالم حضرت عبدالقدوس گنگوہی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت محمدؐ بھی عجیب آدمی تھے کہ اللہ کی اتنی قربت ملنے پر بھی وہاں سے واپس آگئے ‘ اگر میں وہاں ہوتا تو کبھی واپس نہ آتا‘‘۔
علامہ محمد اقبالؒ اس کے بارے میں غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ عظیم صوفی دین کا محدود تصور پیش کرتے ہیں اور اپنی ذاتی سلامتی کے خواہاں ہیں۔ ایک اللہ کے بندے کے لیے بلند ترین مقام اور اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مالک‘ اللہ کے بہت قریب پہنچ جائے‘ اس کے لیے یہی سب کچھ ہے اور اس سے زیادہ کا وہ تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن محمد رسولؐ اللہ کا یہ معاملہ نہ تھا۔ رسولؐ اللہ کی منفرد شان یہ ہے کہ وہ اللہ کا اتنا قرب حاصل ہونے کے بعد اور اپنے اللہ کی تجلی پا لینے کے بعد دُنیا میں واپس آئیں تاکہ اس دُنیا کو نوروتجلّی سے بھر دیں‘ ایک نیا معاشرہ تشکیل دیں‘ ایک نئی تاریخ رقم کریں اور ایک نئی تہذیب کو فروغ دیں اور وہ ہے اسلام۔ یہ ہے زندگی اور معاشرے کے بارے میں پیغمبرانہ سوچ۔ یہ ہے اسلام کی آواز اور یہ ہمیں ایک بلند مقصد کے لیے پکار رہی ہے۔
کچھ لوگ چیلنجوں سے گھبراتے ہیں۔ ہمیں غیر حقیقت پسند بھی نہیں ہونا چاہیے اور مایوس اور دل شکستہ بھی نہیں۔
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے (گناہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے وہ تو غفور و رحیم ہے۔
ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی ہے۔ اگر ہم اپنی ذمہ داریاں اخلاص سے اور تن دہی سے پوری کریں تو اللہ کی طرف سے کامیابی کا وعدہ ہے۔ ہمیں بحیثیت مومن اپنے حصے کا کام کرنا ہے‘ پھر حالات بدلیں گے۔ وہ کوشش اور محنت اور جہاد کے بغیر نہیں بدل سکتے‘ لیکن ان کا بدلنا مقدر ہے۔ اگر ہم کوشش کریں‘ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور اللہ کی مدد اور ہدایت طلب کریں تو تبدیلی آئے گی۔ وہ لوگ جو غالب تہذیب کی معاشی اور فوجی قوت سے خائف ہیں وہ دیکھیں کہ تاریخ میں ماضی کی سپرپاورز کس طرح اُٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی گئیں۔ ہر دور میں غالب تہذیبیں رہی ہیں۔ تاریخ دُنیا کی ۳۶ سپرپاورز کی عظیم تہذیبوں کا قبرستان ہے۔ ہمارے اپنے دور میں ہم نے برطانیہ کو دیکھا کہ جس کی حکمرانی دُنیا کے ایک چوتھائی حصے پر تھی۔ دو صدیاں پہلے امریکہ برطانیہ کی کالونی تھا‘ اور بیسویں صدی کے اختتام پر جس ملک نے سپرپاور ہونا تھا اس کا شہنشاہ جارج سوم تھا۔ انگریزوں کو دُنیا میں اپنی برتری پر اتنا ناز تھا کہ انھوں نے انگریزی زبان میں نئے محاورے ایجاد کیے‘ جیسے ’’برطانیہ لہروں پر حکمرانی کرتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’برطانوی راج میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا‘‘۔ لیکن انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز کا برطانیہ کہاں ہے! برطانیہ کی حکمرانی ختم ہوئی‘ اور آج دنوں ہی نہیں‘ ہفتوں تک موجودہ برطانیہ میں سورج طلوع نہیں ہوتا۔
امریکہ اٹھارھویں صدی کے وسط تک ایک کالونی تھا۔ پھر یہ ایک علاقائی طاقت بنا‘ اور اب واحد سپرپاور ہے۔ لیکن سوویت روس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ ہم میں سے اکثر نے سوویت روس کی قوت اور جلال بطور سپرپاور دیکھا ہے۔ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ روس کے طاقت ور سیکرٹری جنرل خروشیف نے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپنا پائوں میز پررکھ کر بڑے متکبرانہ لہجے میں کہا تھا کہ ہم نے نظام سرمایہ داری کو دفن کر دیا ہے‘ لیکن آج سوویت روس کہاں ہے؟ آج تو اس کانام بھی باقی نہیں ہے! مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا آزاد ہو چکا ہے۔ سوویت حکومت کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وہ بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس طرح روز و شب بدلتے ہیں۔ صرف انسانوں کے ہی نہیں بڑی طاقتوں کے بھی۔۱۹۴۵ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکہ پوری دُنیا کی دولت کے ۵۰فی صد کو کنٹرول کرتا تھا اور اب دُنیا کے ممالک کی کل خام داخلی پیداوار کے صرف ۲۴ فی صد کا مالک ہے۔ یہ عظیم قوت ویت نام سے نہ لڑ سکی اور نہ کامیاب ہو سکی۔ جب اس سپرپاور کے ۵۰ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تو اسے بہتر ٹکنالوجی کے باوجود واپس لوٹنا پڑا۔ وہ لبنان میں نہ لڑ سکے‘ جہاں صرف ایک گوریلا حملے میں اس کے ۲۷۸ میرین تباہ ہو گئے اور امریکی صدر نے یک طرفہ واپسی کا اعلان کر دیا۔ وہ صومالیہ میں نہ لڑ سکے‘ جہاں صرف ۳۰ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اگر کوئی قوم اپنے نظریات کے لیے مرنا نہیں جانتی تو وہ قوم معاشی دولت اور ٹکنالوجی میں برتری کے باوجود ہمیشہ کے لیے سپرپاور نہیں رہ سکتی۔ پھر ہم مایوس کیوں ہیں؟ آج ہم کمزور ہیں‘ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمیں حقائق سے آنکھیں نہیں چرانی چاہییں۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ آج کے کمزور کل کے طاقت ور ہوتے ہیں اور آج کے طاقت ور کل تاریخ کی ردّی کی ٹوکری میں اٹھا کر پھینک دیے جاتے ہیں‘ بشرطیکہ ہم وہ کریں جس کی ضرورت ہے‘ اور یہ بات بہت اہم ہے۔ کل ہم بہت مضبوط تھے۔ ہم نے اپنے حصے کا کام نہ کیا اور زوال پذیر ہو گئے۔ آج ہمارے ازسرنو عروج پانے کا آغاز ہے۔ لیکن یہ راستہ عظمت‘ بلندی اور معراج تک تبھی لے جاسکتا ہے جب ہم اللہ کے قوانین کی پیروی کریں۔یہ بہت واضح سبق ہے اور سورہ العصر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
یہ اللہ کا وعدہ ہے‘ یہ ترقی اور نجات کا ایجنڈا ہے۔ ایمان اورعمل صالح پر مبنی جدوجہدجس میں ایک دوسرے کی مدد صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ کی جائے‘ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ ہم نے اس راستے کو اپنایا اور اس کی پیروی کی توہم تواپنی عظمت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ حالات کو بدلنا ہے ۔نیکی اور سچائی کے راستے میں جدوجہد خود اپنا انعام ہے۔ لیکن اللہ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ اگر ہم اپنے ایمان میں سچّے ہیں تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔
وَلاَ تَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) اور (دیکھو) نہ تو ہمت ہارو اور نہ غمگین ہو۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
ہماری نظر اس حقیقی انعام پر رہنی چاہیے جو ہمیں آخرت میں ملنے والا ہے۔ پوری اُمید ہے کہ ہم سربلند ہوں گے اور اگر ہم مطلوبہ ذمّہ داریاں ادا کریں‘ تو یقینا اللہ کی مرضی پوری دُنیا پر چھائے گی۔ اگر ہم اس مقصد کے لیے پوری طرح سے تیار (committed) ہوں‘ توحالات بدلیں گے اور ان کے ثمرات ہماری زندگی اور اس کے بعد تک ان شاء اللہ آئیں گے۔ ہمیں یہاں پر کامیابی اور آخرت میں نجات کا پختہ یقین ہے۔ اللہ کی سنت اور تاریخ گواہ ہیں کہ اگر لوگ جہد مسلسل کریں تو نتائج نکلتے ہیں اور تبدیلیاں آتی ہیں۔ آج جدوجہد ہے‘ مستقبل اسلام ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
مسلم ممالک بالخصوص عرب دُنیا میں جمہوری روایت کے نشوونما و ارتقا پر بات کرتے وقت مغربی تجزیہ نگار عموماً اپنے تحفظات کا ذکر کرتے ہیں اور بادشاہت یا فوجی آمریت کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت دُنیا کی ۱۸۹ اقوام میں سے تقریباً ۱۲۰ میں جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے اور اس میں سے حد سے حد نصف مقامات پر جمہوری روایت مستحکم ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں تقریباً ایک درجن ممالک میں جمہوریت کو صدمہ پہنچا۔ اس سلسلے کی آخری مثال ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ہونے والا پاکستان کا پرُامن فوجی انقلاب تھا۔
ان ممالک میں جمہوریت کی ناکامی کے اسباب متنوع اور پیچیدہ ہیں۔ ان میں خصوصاً انصاف اور قانون کی حکمرانی اور تحفظ کا فقدان اور عدلیہ کا خودمختار نہ ہونا ایک بنیادی سبب کہا جا تا ہے۔ معاشی عدم استحکام اور قرضوں پر مبنی معاشی ترقی بھی ایک بنیادی سبب بتائی جاتی ہے جس میں سیاست دانوں اور نااہل نوکرشاہی کی طرف سے مالی بددیانتی اور فنی قابلیت میں کمی کا بھی بڑا دخل سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میںتقریباً ۴۰ فی صد قومی معاشی پیداوار صرف قرضوں کے سود کی ادایگی پر صرف ہو جاتی ہے‘ جب کہ قرضے وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ اس طرح معاشی اضمحلال کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ان ممالک کو اپنی گرفت میں لیے رہتا ہے۔ اس میں رہی سہی کسر سیاست دانوں اور نوکر شاہی کی مالی بدعنوانی پورا کر دیتی ہے۔ ایسے معاشی حالات میں جمہوریت کو جس کی روح احتساب اور جواب دہی کے تصور میں ہے‘ کس طرح پنپنے کا موقع مل سکتا ہے۔ گویا نوکرشاہی ہو یا اختیارات پر قابض سیاست دانوں یا فوج کا گروہ‘ ہر ایک جمہوریت کے موضوع پر اپنی گل افشانی کے باوجود حقیقی جمہوریت کے لیے ہمیشہ سنگ راہ بنا رہتا ہے۔
یہ فطری بات ہے کہ عدل و انصاف کا فقدان ‘ تحفظ کا نہ ہونا‘ حکمرانوں کی بے اصولی اور مالی استحصال کا آنکھوں کے سامنے پایا جانا‘ نظم مملکت پر سے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے اور crisis of governanceگہرے سے گہرا ہوتا چلا جاتاہے۔ انتظامیہ اور سیاست دان ایسی بگڑی ہوئی صورت حال میں اپنی نااہلی اور جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانے کے لیے ایسے قضیوں کو ہوا دیتے ہیں جن میں اُلجھ کر عوامی توجہ بدعنوان حکمرانوں کی طرف سے ہٹ جائے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ کارگر حیلہ مذہبی تفرقہ بازی ہے۔چنانچہ اکثر عرب حکومتوں نے اپنی ضرورت کے پیش نظر کبھی اسلامی تحریکات کو قیدوبند اور ظلم کا نشانہ بنایا اور کبھی انھیں وقتی آزادی دے کر دوسرے نظریاتی دشمنوں کی قوت کو توڑنے یا اپنے حق میں ایک توازن پیدا کر کے ان تحریکات پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا۔
پاکستان میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں رہی۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں باری باری ملک اور عوام کو اپنی سواری کے لیے استعمال کرتی رہیں۔ خودمسلکی جماعتوں نے خواہ وہ دیوبندی مکتب فکر کی علم بردار ہوں یا بریلوی‘ اہل حدیث یا شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہوں‘ کبھی اپنے آپ کو ایک پارٹی سے وابستہ کیا کبھی دوسری سے اور اپنی سیاسی پشت پناہی کے بل پر اپنی مخالف مسلکی جماعت کے افراد کو زک پہنچانے میں کبھی تکلف نہیں کیا۔ لیکن ایک پرانی کہاوت کے مصداق ’’کرے مونچھوں والا‘ پکڑا جائے ڈاڑھی والا‘‘ مذہبی تشدد کا الزام بلااستثنا مسلکی جماعتوں پر ہی رکھا گیا۔ دوسری جانب ان میں سے کئی جماعتوں نے خود بھی اپنی قوت بازو کا اظہار کرنے کے لیے اپنی ذیلی نیم عسکری تنظیمیں قائم کر کے اس الزام کے لیے خود بنیاد فراہم کر دی۔
ان زمینی حقائق کے پیش نظر اور بالخصوص مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے حوالے سے مغربی مصنفین کے اعتراضات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس صورتِ حال کے اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص یہ کہ (۱) کیا نام نہاد ترقی پذیر ممالک (عرب دُنیا میں یا ایشیائی ممالک) میں مذہبی منافرت اور تشدد پسندی کے باوجود جمہوریت کا کوئی مستقبل ہے؟ (۲) کیا جمہوریت واقعی اسلام کی ضد ہے؟ اور (۳) کیا تحریکات اسلامی ان بگڑے ہوئے حالات میں اسلامی نظام حکومت کو بطور متبادل نافذ کرنے کی قوت رکھتی ہیں؟
مغربی مصنفین ان تینوں سوالات کا جواب عموماً نفی میں دیتے ہیں‘ یعنی جمہوریت اور اسلامی احیائی تحریکات میں نبھائو بہت مشکل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی تحریکات ’’جہاد‘‘ پر ایمان رکھنے کے سبب تشدد کو جائز سمجھتی ہیں۔ اس لیے ایک معتدل (modrate)اور آزادی پسند(liberal) نظام اور ماحول پیدا کرنے سے قاصر ہیں اور نتیجتاً جہاں کہیں بھی اسلامی نظام کے نفاذ کا امکان پیدا ہوتا ہے اسے قصرجمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے لیے شدید خطرے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس طرح deductive logic یا منطق استخراجیہ میں ایک مفروضہ دوسرے مفروضے سے ملحق ہوتا ہے اور ایک متوقع منطقی نتیجے کی طرف لے جاتا ہے‘ بالکل اسی طرح یہ تصورات مغربی ابلاغ عامہ اور علمی حلقوں میں متواتر پیش کیے جا رہے ہیں جن کا اظہار عمانویل سیوان (Emmanuel Siven)نے اپنے مضمون (Arabs & Democracy: Illusions of Change) میں واضح طور پر کیا ہے۔
ہمارے خیال میں اپنی تمام تر معروضیت کے باوجود مغربی مصنفین اسلام اور جمہوریت کے بنیادی تضاد‘ تحریکات اسلامی کے انتہاپسند اور جہاد کے ’’مذہبی جنون‘‘ ہونے کے بارے میں اپنے طے شدہ تصورات اور ذہنی تحفظات کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ساون کے اندھے کی طرح انھیں ہرچیز ہری ہری نظرآتی ہے۔ گو سوشل سائنس کی تحقیقی حکمت عملی (research methodology) میں نام نہاد معروضیت کے باوجود داخلیت کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہاں معاملہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔
مندرجہ بالا تینوں فکری اغلاط کی اصلاح تفصیلی گفتگو کی متقاضی ہے۔ ہم انتہائی اختصار سے یہاں صرف تین نکات کی طرف اشارہ کریں گے:
۱- اسلام اور جمہوریت بلاشبہ بنیادی طور پر دو مختلف چیزیں ہیں۔ اسلام کی بنیاد قرآن و سنت کی عظمت اور مطلق بالادستی پر ہے‘ جب کہ جمہوریت نظری طور پر عوام کی بالادستی کا نام ہے۔ اس بنیادی فرق کے ساتھ اسلامی نظم مملکت کی بنیاد شوریٰ کے الہامی اصول پر ہے اور اسلامی نظام خلافت فرد یا طبقۂ علما کی آمریت سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ مغرب کے ذہن میں لفظ مذہب جو ارتعاش پیدا کرتا ہے اس کی ہر لہرسے تھیاکریسی کی صدا بلند ہوتی ہے۔ پھر بعض حادثات زمانہ بھی مغرب کے اس تصور کی کسی حد تک تائید کر دیتے ہیں‘ مثلاً فی زمانہ ’’طالبان‘‘ کا ذہنی ہّوا جسے مذہبی ریاست کے ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ خود پاکستان کے لادینی فکر رکھنے والے دانش ور‘ ہر دو دن کے بعد انگریزی کے کسی روزنامے میں کسی مضمون یا ادارتی نوٹ کے ذریعے اس خطرے کی گھنٹی بجاتے رہتے ہیں کہ ’’طالبان دستک دے رہے ہیں!‘‘ اور اس طرح ’’مذہبی جنونیت کے غبارے‘‘ میں ہوا بھرتے رہتے ہیں تاآنکہ عوام الناس کے ذہن میں مذہبی عناصر کے لیے سوائے نفرت کے کوئی جذبہ باقی نہ رہے۔
۱- اسلام روح جمہوریت کا علم بردار لیکن انسان کی خدائی کا منکر ہے۔ وہ انسان کو ایک باشعور‘ آزاد‘ فیصلہ کرنے والی مخلوق کی حیثیت سے ارادے کی آزادی دیتے ہوئے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی معاملات میں اپنی قوت فیصلہ کے صحیح استعمال کی دعوت دیتاہے لیکن ساتھ ہی ہر قدم پر انسان کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ نہ وہ اقتدار کا بندہ ہے نہ عوام کا بلکہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے۔ جب تک اس بنیادی حقیقت کو ذہن نشین نہ کر لیا جائے خیالات اور تصورات کا تاج محل بنیادی پتھرکے ٹیڑھے ہونے کے سبب تاثریا کجی اور ٹیڑھ سے خالی نہیں ہوسکتا۔
۲- مسلم ممالک خصوصاً عرب دُنیا میں ملوکیت‘ فوجی آمریت یا غیر جمہوری نظاموں کے پائے جانے کے اصل سبب پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ایک جانب خلافت راشدہ کے بعد خاندانی اور شخصی ملوکیت کے دَور کا آغاز ہوا اور تھوڑے عرصے بعد مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی زوال کے ساتھ ہمسایہ تہذیبوں کے زیراثر بادشاہت کی مختلف شکلوں نے رواج کی شکل اختیار کرلی۔ دوسری طرف اٹھارھویں صدی سے مغربی سامراج نے مسلم ممالک میں جہاں جہاں قدم جمائے بادشاہوں اور آمروں کو اپنے حق میں بہتر جانا اور اپنے جمہوریت کے عشق کے دعووں کے باوجود اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آمروں اور جابروں کی حمایت و طرف داری کی۔ دَورِ جدید میں مغربی فکر اور حکمت عملی کا ایک واضح تضاد مغربی طاقتوں کی خارجہ ‘ معاشی اور ابلاغ عامہ کی پالیسی میں واضح ہو کرسامنے آجاتا ہے۔ عرب دُنیا کی بادشاہتوں اور سابق شاہِ ایران اور شمالی افریقہ کی آمریتوں کو تحریکات اسلامی نے نہیں جمہوریت کے مدعی مغرب نے پروان چڑھایا‘ کھل کر ان کی مکمل حمایت و امداد کی اور ان ممالک کی اسلامی تحریکات کو ان کی جمہوریت پسندی کے باوجود اپنا دشمن سمجھا۔
۳- اکثر تحریکات اسلامی نے اپنے سیاسی پروگرام اور منشور میں جن باتوں کو اوّلین اہمیت دی ہم ذیل میں صرف نکات کی شکل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ نکات خود ان تحریکات کے بارے میں مغرب کی غلط فہمی کی اصلاح کے لیے کافی مواد فراہم کرتے ہیں‘ اور تاریخی اور دستاویزی طور پر ان تحریکات کے ’’مذہبی جنونی‘‘، ’’انتہا پسند‘‘ یا ’’جمہوریت دشمن‘‘ ہونے کی مکمل تردید کردیتے ہیں۔ پاکستان‘ سوڈان ‘ ترکی اور اُردن کی تحریکات اسلامی یقین رکھتی ہیں کہ:
ان نکات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دُنیا بھر میں اسلامی تحریکات نے نہ تو کبھی حصولِ اقتدار کے لیے تشدد کا راستہ اپنایا ہے اور نہ ہلّہبول کر ہی نظام اسلام کے نفاذ کی قائل ہیں بلکہ اس کے برعکس صبرواستقامت اور دستوری ذرائع سے اصلاح اور قیامِ عدل کے لیے کوشاں ہیں۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحریکات اسلامی کے مغربی نقاد یا تو ان تحریکات کے دساتیر‘ منشور اور اصلاح و تجدید کے تصورات سے براہِ راست واقفیت نہیں رکھتے اور ثانوی ذرائع معلومات پر انحصار کرتے ہوئے‘ ان کے بارے میں ایک ذہنی تصویر بنا لیتے ہیں‘ یا تحریکات اسلامی نے خود اپنے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور ایک تہذیبی اور فکری مکالمے کے ذریعے دوسروں کو اپنے مقاصد اور طریق کار سے آگاہ کرنے میں غفلت برتی ہے۔ مسئلے کا حل نہ الزام تراشی ہے نہ ایک دوسرے کو نظرانداز کرنا۔ تحریک اسلامی کے بارے میں گمراہ کن تصورات کی اصلاح اگرمغرب کی ضرورت نہ بھی ہو جب بھی تحریکات اسلامی کو اپنے دعوتی اور اصلاحی تشخص کی بنا پر خود آگے بڑھ کر ایک ثقافتی اور علمی مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا جو آخرکارخود اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے ناقص اندازوں کی اصلاح میں مددگار ہوگا۔
خدمت خلق کے کام کو اجتماعی طور پر کرنے کی ترغیب قرآن مجید میں دی گئی ہے۔ جہاں بھی یَحِضُّ کا لفظ آتا ہے‘ تحٰٓضُّوْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے‘ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ کا لفظ آتا ہے--- ان سب مقامات پر اجتماعی کام کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طریقے سے سورہ العصر میں صبر اور حق کی تواصی کا حکم دیا گیا ہے جس سے مفسرین نے پورے نظام خلافت کا قیام ضروری قرار دیا ہے۔ تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ اور تَوَاصِیْ بِالصَّبْرِ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کا پورا نظام قائم ہو۔ ان سب مقامات پر اجتماعی کوشش کی طرف صاف صاف اشارہ ہے۔
اُس زمانے میں شعبے بنا کر منظم کام تو ریاست ہی کرتی تھی۔ لیکن اب معاشرے پھیل گئے ہیں اور وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مختلف گروہ وجود میں آگئے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مل جل کر اجتماعی طور پر منظم انداز میں کام کیا جائے۔ قرآن مجید میں اس کا صاف صاف حکم بھی دیا گیا ہے اور ترغیب بھی دی گئی ہے۔ اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہم مل جل کر شعبے بنا کر خدمت خلق کا کام کریں۔
اجتماعی اور منظم کام کرنے سے مراد محض قربانی کی کھالیں جمع کرنا نہیں ہے۔ ہم نے اس کو اتنا ضروری سمجھ لیا ہے کہ بہت سے مقامات پر جہاں قربانی کی کھالیں جمع نہیں ہوتی ہیں وہاں صرف اسی وجہ سے شعبہ خدمت خلق نہیں پایا جاتا۔ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں وہی معنی بیٹھتے ہیں جو آدمی آنکھوں سے دیکھتا یا کانوں سے سنتا ہے۔ لوگوں کے ذہن میں خدمت خلق سے فوری طور پر شفاخانے اور چرم ہاے قربانی جمع کرنے کا تصور سامنے آتا ہے۔ خدمت خلق کا ایک جامع تصور ہے۔ یہ بھی اللہ کی بندگی اور عبادت کی طرح ایک فریضہ ہے جس میں ہر ایک کو حصہ لینا چاہیے۔ بعض کاموں کو منظم طور پر کرنے کے لیے شعبے قائم ہو سکتے ہیں اور مل جل کر کام کرنے کا سوچا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے منصوبے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ اس نوعیت کے بہت سے کام ہیں جو سب خدمت خلق کی تعریف میں آئیں گے۔ مثال کے طور پر وہ سب کام جن سے:
__ لوگوں کے مسائل حل ہوں‘
__ بھوکوں کو کھانا پہنچے‘
__ یتیموں کو سہارا ملے‘
__ جن لوگوں کی گردنیں غلاموں کی طرح لوگوں کے ہاتھوں میں پھنسی ہوئی ہوں‘ ان کی گردنیں آزاد ہو جائیں‘
__ جن مقروض افراد کی گردنیں قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہوں‘ ان کے سر سے قرض کا بوجھ اُتارا جا سکے‘
__ بے روزگاروں کو روزگار مل جائے۔
یہ سب اس طرح کے کام ہیں جو مل جل کر منظم طور پر کیے جانے چاہییں۔ جو کام اکیلے اکیلے ہوتے ہیں‘ اگر مل جل کر کیے جائیں تو ۱۰ گنا زیادہ کام ہو سکتا ہے۔ جب لوگ مل کر بیٹھتے ہیں تو گروہ بناتے ہیں‘ تنظیم بناتے ہیں۔ تنظیم بنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ایک اور ایک مل کر ۱۱ ہو جائیں۔ ایک اور ایک مل کر دو کی کوششیں دو کے برابر نہ ہوں بلکہ ۱۱ کی کوششوں کے برابر ہو جائیں‘ تب تنظیم کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ جو چیز اضعافًا مضاعفًا‘ یعنی کئی گنا بڑھتی ہے وہ مل جل کر کام کرنے سے بڑھتی ہے۔ لیکن مل جل کر کام کرنے کو ہی اصل کام سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ہم نے گھر پر بیٹھ کر خیرات کر دی اور لوگوں کو پوچھ لیا۔
یہ ضروری ہے کہ لوگ جمع ہوں‘ مل کر بیٹھیں‘ اہل محلہ کو جوڑیں‘ دوسروں کو بلائیں اور مل جل کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر سب مل کر یہ کام کریں تو یہی کام کتنا زیادہ پھیل سکتا ہے۔ اپنے اپنے محلّے میں کچھ لوگ کھڑے ہو جائیں اور دیکھیں کہ کون لوگ ضرورت مند ہیں‘ کون لوگ حاجت مند ہیں اور ان کی ضروریات کیا ہیں۔ اس کے بعد جو لوگ ان کی ضرورتیں پوری کر سکتے ہوں‘ ان سے رابطہ کرلیاجائے اور انھیں ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے کمزور بھائیوں کی امداد کریں۔ اس تھوڑے سے کام سے بڑی برکت ہوگی اور بڑا کام ہوگا۔
لوگ تو تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی مستحق ملے اور وہ اس کی مدد کر سکیں۔ اگر گائوں محلّے کے معتبر لوگ کھڑے ہوں‘ جو کہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ فلاں یتیم ہے‘ بیوہ ہے اور وہ امداد کے مستحق ہیں تواسی گائوں اور محلّے سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو خوشی سے آگے بڑھ کریہ کام کریں گے۔ ہر گائوں اور محلّے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مال دار اور غنی ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تک پہنچا جائے اور ان سے مال لے کر اسی بستی کے فقرا میں تقسیم کر دیا جائے۔ دین میں خدمت کا بھی یہی اصول ہے کہ بستی میں جو لوگ صاحب ثروت ہوں‘ مال دار ہوں‘ ان سے وصول کر کے محتاجوں اور فقرا میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ کام زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے۔ لوگ زکوٰۃ لے کر اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ ہم کو مستحق نہیں ملتے۔ اگر لوگوں سے صرف رابطہ کروا دیا جائے تو وہ امداد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
آج بھی مسلمانوں کے اندر بعض چیزوں کے بارے میں راسخ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ ’’نیکی کا کام‘‘ ہے‘ مثلاً یتیم خانہ بنانا‘ کنواں کھدوانا‘ مسجد بنانا وغیرہ۔ اس حوالے سے مسلمان کے دل میں بڑا نرم گوشہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس نے دُنیا میں مسجد بنائی اس نے جنت میں گھر بنایا۔ لوگ تعمیر مسجد کے لیے دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے کسی شہر میں چلے جائیں‘ اچھی اچھی عالی شان مسجدیں ملیں گی۔ ان کی تعمیر میں باہر سے ایک پیسہ بھی نہیں لگا ہوتا‘ سب کچھ مسلمانوں نے اپنی جیب سے دیا ہوتا ہے۔ وہ اس کام کے لیے پیسہ دیتے ہیں‘ لاکھوں لگاتے ہیں‘ اس لیے کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ اس میں اجر و ثواب ہے اور صحیح جگہ پیسہ لگ رہا ہے۔ اسی طریقے سے کنواں کھدوانا ہے۔ یہ بھی ایک ایسا کام ہے کہ مسلمان جانتا ہے کہ یہ بڑے ثواب کا کام ہے۔ مسلمان سبیل بہت لگاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں پیاسے کو پانی پلانا بڑے ثواب کا کام ہے۔
نیکی اور خدمت خلق کے اس طرح کے بہت سے کام ہیں۔ اگر ان کی اہمیت‘ فضیلت اور ان کے لیے اللہ اور رسولؐ نے جو اجر رکھا ہے وہ لوگوں کو بتایا جائے تو یقینا لوگ ان راستوں میں‘ دل کھول کر خرچ کریں۔ اگر انھیں یہ بتایا جائے کہ فلاں کام کا کتنا اجر وثواب ہے‘ کتنا صدقہ جاریہ ہے‘ یا کنواں کھدوایا گیا تو جو پیاسا اس سے پانی پیے گا‘ قیامت تک اس کنویں سے آپ کو اس کا ثواب ملتا رہے گا‘ آپ کی آگ ٹھنڈی ہوتی رہے گی‘ جنت میں درخت اُگتے رہیں گے‘ میوے لگتے رہیں گے--- اگر اس طرح سے بات کی جائے تو وہ کہے گا‘ اچھا ‘میں یہ کنواں کھودنے میں ۱۰۰ روپے دے سکتا ہوں۔
اس طرح کی اجتماعی کوششوں سے کنواں کھد سکتا ہے‘ نہر کی صفائی ہو سکتی ہے‘ بہت سے کام ہو سکتے ہیں۔ اگر راستہ ٹھیک نہیں ہے‘ آپ کہتے ہیں کہ ہم مل جل کر راستہ ٹھیک کر دیتے ہیں۔ ۱۰ آدمی کدال لے کر کھڑے ہو جائیں کہ ہم راستے کو صاف کرتے ہیں۔ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اگر کوئی کدال سے راستہ ٹھیک کر دے‘ لوگوں کے لیے چلنا پھرنا آسان ہو جائے‘ یہ بشارت اس کے لیے بھی ہے۔ اگر اس طرح سے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اس کے لیے آگے نہ بڑھیں۔
اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو بہت سی ایسی اجتماعی صورتیں ہیں جن سے خدمت خلق کا کام کیا جا سکتا ہے۔ اگر عزم کریں تو یہ کام بڑے وسیع پیمانے پر ہو سکتا ہے۔
اس حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ اس سارے کام کے اندر اگر کوئی اجر ہے تو وہ صرف اس صورت میں کہ یہ سارے کام صرف اللہ کے لیے کیے جائیں۔ اگر یہ کام اس لیے کیے جائیں کہ لوگ ہمارے شکرگزار ہوں‘ ہمارے ممنون ہوں‘ دعوت میں ہمارا ساتھ دیں‘ ہمیں ووٹ دیں--- ممکن ہے کہ یہ سارے فوائد حاصل ہوجائیں‘ ممکن ہے نہ ہوں‘ لیکن اجرضائع ہو گیا۔ اس لیے کہ اجر تو صرف اس صورت میں ہے کہ نیت یہ ہو:
اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِنَّا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۹-۱۰) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں‘ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ‘ ہمیں تو اپنے ربّ سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔
اگر ہماری نیت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ جو کچھ خدمت کرتے ہیں‘ کھانا کھلاتے ہیں‘ مسکرا کے بات کرتے ہیں اور کھجورکا ٹکڑا نکال کے دیتے ہیں‘ یہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت میں نجات کے لیے ہے تو اجر ہے--- اگر نیت یہ ہوگی تو دوسرے فوائد بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اور اگر نیت یہ نہیں ہوگی تو آپ بیٹھ کے بار بار یہ الزام دیتے رہیں کہ ہم نے تو اتنا کام کیا لیکن اس کے باوجود لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیتے‘ دوسروں کو دیتے ہیں۔ یہ تجربہ جو آپ کو ہوتا ہے‘ اور بار بار ہوتا ہے کہ لوگ بات نہیں سنتے‘ ہمارا ساتھ نہیں دیتے‘ ہمارے لیے کھڑے نہیں ہوتے‘ یہ بھی نیت کی خرابی کا نتیجہ ہے۔ آپ کی نیت ا س کے علاوہ کچھ نہیں ہونی چاہیے کہ صرف اللہ کو خوش کرنا ہے۔ ہمارا کسی پر کوئی احسان نہیں ہے جو اس پر جتانا ہو یا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے جو اتارنا ہو۔ صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی مقصود ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ ط (البقرہ ۲:۲۰۷) دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے جو رضاے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے۔
اللہ کی رضا کی تلاش میں‘ کسی جزا اور شکرگزاری کی توقع کے بغیر صرف آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے انسانوں کی خدمت کرنا‘ نیت صرف یہی ہونی چاہیے۔ اس کا اجر بھی آخرت میں پورا ملے گا اور دُنیا کے اندر بھی بڑی نعمتیں حاصل ہوں گی۔ ان خدمات اور کاوشوں کے ذریعے جو اجتماعی برکتیں اور اثرات آپ چاہتے ہیں یعنی غلبہ دین اور عوام کا رجوع‘ وہ بھی ان شاء اللہ اس سے ظہور پذیر ہوگا۔ لیکن اس کی بنیادی شرط یہی ہے کہ خدمت خلق کا جو کام بھی کریں‘ وہ بس اسی نیت اور ارادے سے کریں کہ اللہ ہم سے خوش ہو جائے‘ ہم اس کے عذاب سے بچیں ‘اور آخرت میں جب پہنچیں تو بندوں سے نہیں بلکہ اللہ سے ہم کواجر ملے۔ بندے جو کچھ بھی آپ کے احسان مند ہوں گے‘ آپ کی تعریفیں کریں گے وہ سب تو یہیں ختم ہوجائیں گی۔ جہاں آپ مٹی میں گئے‘ آپ کی تعریفیں ختم۔جو کچھ بھی آپ خوش ہوئے‘ لذت لی‘ کچھ بھی آپ کے ساتھ نہیں جائے گا‘ صرف نیت آپ کے ساتھ جائے گی۔
اللہ کی رضا کی نیت سے انسان جو کچھ کرتا ہے‘وہ بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی جنت بن جائے گا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ نیت بہ ظاہر معمولی سی بات ہے‘ وہی چھوٹی سی نیت‘ کہ یہ کام صرف اللہ کے لیے ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں جو اکرام کرے گا اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے:
فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ ………… وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا (الدھر ۷۶:۱۱-۲۲) پس اللہ تعالیٰ انھیں اُس دن کے شر سے بچا لے گا اور انھیںتازگی اور سُرور بخشے گا اور اُن کے صبر کے بدلے میں اُنھیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ وہاں وہ اُونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ نہ اُنھیں دھوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی ٹھر۔ جنت کی چھائوں ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہوگی‘ اور اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے (کہ جس طرح چاہیں انھیں توڑلیں)۔ اُن کے آگے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جا رہے ہوں گے‘ شیشے بھی وہ جو چاندی کی قسم کے ہوںگے‘ اور ان کو (منتظمین جنت نے) ٹھیک اندازے کے مطابق بھرا ہوگا۔ ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی‘ یہ جنت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔ ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ تم اُنھیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں۔ وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سروسامان تمھیں نظر آئے گا۔ اُن کے اُوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے‘ ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے‘ اور ان کا ربّ ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔
یہ ہے تمھاری جزا اور تمھاری کارگزاری قابل قدر ٹھیری ہے۔
یہ سب کچھ صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o (الدھر ۷۶:۹) ’’ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ‘‘۔ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِنَّا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا (الدھر ۷۶:۱۰) ’’ہمیں تواپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا‘‘۔ یعنی ہمیں تو اپنے ربّ سے بس اسی دن کا ڈر لگا ہوا ہے جو دن بڑا سخت‘ نحوست والا‘ اُداسی کا اور رنج و غم کا دن ہے۔ ہم سمجھیں کہ ہم جو بھی کام کر رہے ہیں‘ یہ بندوں کی خدمت نہیں ہے بلکہ اللہ کی خدمت ہے۔ یہ اللہ کی بندگی ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے‘ بندوں کا حق نہیں ہے۔ اور اگر آپ نے بندوں کے حوالے سے وہ کام نہیں کیے جو کرنے کے ہیں تو ان کے لیے بندے نہیں‘ اللہ تعالیٰ روزِمحشر خود کھڑا ہو جائے گا اور آپ کا دامن پکڑ لے گا‘ اور آپ سے گریبان میں ہاتھ ڈال کے پوچھے گا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا؟
ایک حدیث میں اس کی بڑی اچھی تصویر کھینچی گئی ہے:
اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بندے سے پوچھے گا: --- کہ میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا‘ میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ مختلف احادیث میں مختلف الفاظ ہیں۔ ایک جگہ آتا ہے کہ میں بے لباس تھا تو نے مجھے کپڑا نہیں پہنایا‘ میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی--- اور ہر بات پر بندہ حیران ہو جائے گا کہ اَے ربّ العالمین! تو کیسے بھوکا ہو سکتا ہے؟ تو کیسے پیاسا ہو سکتا ہے؟ تو کیسے بے لباس ہو سکتا ہے؟ اور تو کیسے بیمار ہو سکتا ہے؟ اس پر اللہ کہے گا: نہیں‘ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا‘ میرا فلاں بندہ پیاسا تھا‘ میرے فلاں بندے کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں تھے‘ میرا فلاں بندہ بیمار تھا‘ اور اگر تو اس کو کھلاتا پلاتا‘ عیادت کرتا تو آج اس کو یہاں پاتا---!
دراصل اللہ کی بندگی کا اصل راستہ یہی ہے!
’’خدمت خلق‘‘ کا لفظ قرآن مجیدیا احادیث میں کہیں نہیں آیا بلکہ اس کے لیے صدقہ‘ خیر‘ بِّر یا نیکی اور مختلف نام آئے ہیں۔ اس ضمن میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ سب وہی ہے جو خدمت خلق کے تحت آتی ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدمت خلق کا جو تصور ہم نے اپنے ذہنوں میں قائم کر رکھا ہے وہ بڑا محدود اور ناقص ہے۔ اس کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام پر جو اجر و ثواب ہے ‘ اس کا تصور کیجیے‘ کتنا عظیم الشان ہے--- اس کے حصول کی فکر کرنی چاہیے۔
یہ کام دراصل اپنی ذات سے شروع کرنے کا ہے‘ لیکن اپنی ذات پہ رُک جانے کا نہیں ہے بلکہ ذات سے آگے بڑھ کر سب کو ملا جلا کر جمع کرنے کا ہے کہ سب اس کارخیر میں شریک ہوں۔ اگر آپ کی کوشش سے کوئی دوسرا آدمی خدمت خلق کے کام میں شریک ہو جاتا ہے تو‘ بغیر اس کے کہ اس کے اجر میں کوئی کمی ہو‘ آپ کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا عجب مظاہرہ ہے۔ اگر آپ کے کہنے سے کسی نے گائوں میں کنواں کھدوا دیا تو صرف اس کو ثواب نہیں ملے گا‘ قیامت تک آپ کو بھی ملے گا۔ مَنْ دَلَّ اِلَی الْخَیْرِ‘ جس نے نیکی کی طرف رہنمائی کی اس کا اجرکَفَاعِلِہٖکرنے والے کی طرح ہے۔ اس کے اپنے اجر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے کہ کسی کو دے گا تو حساب کر کے کم کرلے گا‘ یا ایک کو دے گا تو دوسرے کا کاٹ لے گا‘ نہیں‘ جتنا ایک کو دے گا‘ دوسرے کو بھی اتنا ہی دے گا۔ دوسروں کوملا کر کام کرنے سے‘ اپنا اجر بھی اضعافًا مضعافًا کی طرح کئی گنا‘ دُگنا‘ چوگنا‘ آٹھ گنا بڑھتا جاتا ہے۔ یہ اس طرح کا حساب ہے۔
کسی بادشاہ نے ایک حساب دان سے پوچھا: میں کچھ دینا چاہتا ہوں‘ کیا دوں؟ اس نے کہا: حضور مجھے تو کسی چیزکی ضرورت نہیں ہے اللہ کا دیا‘ آپ کا دیا‘ سب کچھ میرے پاس ہے۔ بادشاہ نے کہا: پھر بھی میں تمھیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا: پھر آپ ایسا کریں کہ شطرنج کی ایک بساط لیں جس میں ۶۴ خانے ہوتے ہیں اور اس میں آپ پہلے خانے میں چاول کے دو دانے رکھ دیں اور پھر ہر خانے میں اس کو دگنا کرتے جائیں۔ اس طرح صرف ۶۴ خانے آپ چاول سے بھر دیں‘ یہ میرے لیے کافی ہے۔ جب حساب کیا تو معلوم ہوا کہ اگر دو کو ۶۴ دفعہ دُگنا کرتے جائیں تو کوئی حساب دان بغیرکمپیوٹر کے اس کا حساب نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے: اضعافًا مضعافًا‘ یعنی دگنا‘ چوگنا‘ آٹھ گنا‘ ۱۶ گنا‘ ۱۰۰ گنا‘ ۷۰۰ سو گنا اور یُضْعِفُ مَنْ یَّشَاء--- جس کو چاہتا ہے مزید بڑھاتا ہے‘ تو ہمارے پاس خدا کے اجر و ثواب کو شمار کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ کوئی حساب نہیں کر سکتا کہ اجتماعی کام کرنے سے کتنا اجر بڑھتا ہے۔
خدمت خلق کا کام اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ جب ہم اس کام کے ذریعے عالم انسانیت کے لیے اللہ کے نبیؐ کی طرح رحمت بن جائیں گے تو اس وقت ہمارے وہ خواب بھی پورے ہوں گے جو ہم دُنیا میں دین کے غلبے اور اس کی اقامت کے لیے دیکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ! (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے ۔ سیکڑہ پر خصوصی رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)
براعظم افریقہ میں نائیجیریا کی حیثیت علاقائی طاقت کی ہے۔ تیل کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا ۱۱کروڑ آبادی کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ۳۶ ریاستیں (یا صوبے) ہیں۔ ہائوسا‘ پوروبا اور اِکبو بڑے قبائل ہیں۔ ۹۰فی صد آبادی ۱۰ لسانی گروہوں میں منقسم ہے‘ تاہم چھوٹے لسانی گروہ ۴۰۰ صد کے لگ بھگ ہیں۔ ۱۹۹۱ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمان ۴۹ فی صد ‘ مسیحی ۳۴ فی صد اور مظاہرپرست ۱۷ فی صد ہیں۔ ایسے بھی گھرانے ہیں جہاں تینوں مذاہب کے پیروکار اکٹھے رہتے ہیں۔ مصر کی فتح (۶۳۹ء) کے بعد اسلام تاجروں کے ذریعے اُن علاقوں میں پہنچا جو اب وفاقی جمہوریہ نائیجیریا کا حصہ ہیں۔ اس علاقے ہی میں مسلمانوں نے پہلی اسلامی یونی ورسٹی قیروان قائم کی جو موجودہ تیونس کا حصہ ہے اور کیمبرج یونی ورسٹی سے ۳۰۰ برس پہلے وجود میں آئی تھی۔ بورنو کی خلافت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک اسلامی شریعت پر قائم رہی۔کہیں اور اسلامی نظام کے تسلسل کی ایسی مثال موجود نہیں۔
عثمان دان فودیو اس علاقے کی عظیم شخصیت ہیں۔ اُن کی حیثیت راہ نما‘ عالم‘ مفکر اور مجاہد فی سبیل اللہ کی ہے۔ انھوں نے ایک جماعت کی تشکیل کی اور ہائوسا سرداروں کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کر دیا جو اسلام اور مقامی روایات کو آپس میں گڈمڈ کرتے چلے آ رہے تھے۔ ۱۸۰۳ء میں سوکوٹو کی اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ ہائوسا زبان بولنے والی تمام مقامی جاگیریں پانچ برس کے اندر اندر اس اسلامی ریاست کا حصہ بن گئیں۔ شریعت محمدیہؐ کو بالادست قانون بنا دیا گیا‘ تجارت و کاروبار شریعت پر استوار ہوئے اور روز مرہ زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد ہونے لگا۔ ۱۰۰برس تک شریعت اسلامی کا پھریرا یہاں لہراتا رہا۔ موجودہ شمالی نائیجریا کے کئی صوبے سابق مثالی اسلامی ریاست سوکوٹو کا حصہ رہے ہیں۔ عثمان دان فودیو کا انتقال ۱۸۱۷ء میں ہوا‘ لیکن اُن کی قائم کردہ ریاست ۱۰۰برس قائم رہی۔
اُنیسویں صدی کے آغاز میں اہل یورپ کی ہوس ملک گیری نے افریقہ کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔ نائیجیریا‘ گھانا‘ سیرالون‘ گیمبیا‘ برطانیہ کے‘ گنی ‘بسائو اور کیپ وردے پرتگال کے‘ نائیجر‘ برکینا فاسو‘ مالی‘ ماریطانیہ‘ آیٹوری کوسٹ‘ سینی گال‘ ٹوگو‘ بینن اور گنی فرانس کے زیرنگیں آگئے۔ براعظم افریقہ واحد براعظم ہے جہاں مسلم ریاستوں کی اکثریت ہے۔
۱۹۰۳ء میں برطانوی افواج نے سوکوٹو ریاست کو شکست دے دی۔ جو معاہدہ ہوا اس میں طے پایا کہ شمالی ریاست سوکوٹو اور مشرقی ریاست بورنو کے باشندوںکے مذہبی معاملات میںمداخلت نہ کی جائے گی لیکن اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بدکاری‘ قتل اور سرقہ کی اسلامی سزائوں پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ اسکولوں میں انگریزی زبان کی تدریس لازمی قرار دے دی گئی‘ عربی کی تدریس پر پابندی عائد کر دی گئی اور مسلم نظام تعلیم پس منظر میں چلا گیا‘ لیکن شرعی قوانین کی بالادستی کی بازگشت اس دَور میں بھی سنائی دیتی رہی۔
اکتوبر ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آزاد ہوا۔ مسلمان شمالی ریاستوں میں اکثریت میں ہیں ‘جب کہ جنوب اور جنوب مغرب میں عیسائی اور مظاہر پرست ریاستیں ہیں۔ نائیجیریا جو تیل‘ معدنیات اور زرعی وسائل سے مالا مال ہے وہ مثالی سیاسی استحکام حاصل نہ کر سکا جس کا وہ حق دار ہے۔ اس کی وجہ بیرونی سازشوں کے تحت باربار کے انقلابات‘ فوجی حکومتیں‘ بغاوتیں‘ لسانی و قبائلی تعصب اور قبائلی سیاست ہے۔ یوں نائیجیریا کی کہانی دیگر مسلمان ملکوں سے مختلف نہیں ہے جہاں عوام کو ان کی مرضی کی حکومت نہیں ملی۔ آغاز میں ہی حقیقی راہ نمائوں ابوبکرتفاوا بلیوا اور احمدوبیلوکو قتل کر کے ملک کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔ مغرب کی سرپرستی میں سیکولر نظام جاری رہا اور کرپشن میں دنیا میں دوسرا نمبر حاصل کیا۔ ۱۹۹۹ء میں اوباسانجو (مذہباً عیسائی)کے صدر بننے کے بعد جمہوری روایات کا آغاز ہوا تو عوام نے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ دستوری حدود کے اندر‘ بعض ریاستوں نے اس میں پیش قدمی کی۔
نائیجیریا کی شمالی مغربی ریاست زمفارا (سابقہ سوکوٹو) کے گورنر الحاج احمد ثانی یریما نے ۸ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو قانون سازی کے دو مسودوں پر دستخط کر دیے۔ اِن بلوں کے ذریعے نائیجیریا کے دستور اور قانون کے اندر دی گئی خودمختاری کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی شریعت کے نظام کو زمفارا ریاست میں نافذ کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے شرعی عدالتیں قائم کر دی گئیں‘ حدود کا نفاذ کر دیا گیا۔ اس ریاست میں غیرمسلم حسب معمول ‘ عام کی عدالتوں اور ہائی کورٹوں کے ذریعے اپنے تصفیے کرانے میں آزاد ہیں۔ احمد ثانی یریما کا کہنا ہے کہ شرعی نظام مسلمانوں پر ۱۹۶۰ء سے قبل کسی نہ کسی طرح لاگو رہا ہے اور اِسی شرعی نظام کی بدولت سوکوٹو اور بورنو کی خلافتیں علاقے کی تمام ریاستوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور وہاں کے عوام زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ اس ’سرکشی‘ کی بنا پر مسیحی اور مظاہر پرست الحاج احمد ثانی کے درپے ہو گئے‘ ان کو نائیجیریا کے دشمن اور بدترین مسلمان کے لقب سے پکارا گیا لیکن احمدثانی کا ایک ہی موقوف تھا کہ یہ قانون سازی نائیجیریا قانون کے مطابق ہے اور غیر مسلموں پر بہرصورت کوئی ظلم و زیادتی نہ ہوگی‘ بلکہ ریاست اُن کے حقوق کی زیادہ نگرانی کرے گی۔ کہا جانے لگا زمفارا ریاست وفاق سے علیحدگی کے لیے پرتول رہی ہے‘ نائیجیریا میں مذہبی جنگوں کا آغاز ہوجائے گا۔ مذہب کے نام پر جس طرح کی خانہ جگہ شمالی آئرلینڈ‘ الجزائر‘ سوڈان اور افغانستان میں جاری ہے‘ یہاں بھی جاری ہو جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر شمالی ریاستیں اپنے آپ کو مسلمان ریاست کہلائیں گی تو جنوبی ریاستوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو عیسائی ریاستیں کہلائیں وغیرہ وغیرہ۔
زمفارا کی ریاست کی طرف سے ان تمام اعتراضات کا یہ جواب دیا گیا کہ ۱۹۷۹ء‘ ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۹ء کے دستور کے مطابق ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہے۔ دستور کی دفعہ ۳۸ (۱) کی عبارت یہ ہے کہ ’’ہر شخص کو مذہب‘ افکار ونظریات اور ضمیر کی آزادی حاصل ہوگی‘ انفرادی طور پر بھی‘اجتماعی طور پر بھی۔ہر شہری کو یہ آزادی بھی حاصل ہوگی کہ اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارے‘ اس پر عمل کرے‘ اس کی تبلیغ کرے اور اس کی اشاعت کرے‘‘۔ دستور میں یہ دفعہ موجود ہے کہ ریاستی گورنر (یا اسمبلی) کسی زیریں عدالت کو ختم کر سکتا ہے‘ یا لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے‘ ہائی کورٹ کے ماتحت عدالت کے طور پر ‘ کوئی اور عدالت قائم کر سکتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۴(۷) ریاستی اسمبلی کو یہ اختیار دیتی ہے کہ ریاست میں امن و امان قائم رکھنے اور اچھی حکمرانی کے لیے ایسے قوانین وضع کرے جس سے عوام الناس کو زیادہ فائدہ پہنچے۔
الحاج احمد ثانی نے ایک مغربی رسالے کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آپ انسانی حقوق کے پاس دار ہیں۔ ہم بھی انسانی حقوق کی نگہبانی اور پاس داری کر رہے ہیں۔ اس پر اعتراض کیاصرف اس لیے ہے کہ ہمارے پیش کردہ قانون کی بنیاد اسلامی ہے؟
اسلامک لیگل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ابراہیم سلیمان کے مطابق: ’’زمفارا میں اسلامی قوانین کے احیا کا سہرا اُن عظیم علما کے سر ہے کہ جنھوں نے نسل در نسل ‘ ایسے افراد تیار کیے جو اسلامی ریاست کے قیام اور اُس کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے ہیں ۔انھوں نے شعور بیدار کیا ‘ اور ذہن تیار کیے۔ اس کا سہرا اُن حکمرانوںاور صاحب اقتدار لوگوں کے سر بھی ہے جنھوں نے عیش و عشرت کو خیرباد کہا‘ اپنے عوام کو جہالت سے علم کے راستے پر‘ بے انصافی سے شرعی انصاف کی راہ پر اور ذلت و نکبت سے شوکت و عظمت کے راستے پر ڈال دیا۔ اس موقع پر اُن لاکھوں مسلمانوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنھوں نے (غیر شرعی قوانین کے خلاف) علَمِ جہاد بلند کیا ‘ صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا‘ محنت کے ذریعے معاشروں کو استواررکھا اور مخالفتوں کے اندھا دُھند ‘ ہلاکت خیز طوفان کے باوجود ایک پرامن معاشرہ‘ شریعت کی روشنی میں قائم کر کے دکھا دیا۔ (امپیکٹ انٹرنیشنل‘ لندن‘ اگست ۲۰۰۱ء)
ریاست زمفاراکے بعد نائیجیریا کی دیگر نو اسلامی ریاستوں نے بھی اپنی حدود کے اندر شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ نائیجیریا کے اس تجربے کا تفصیل سے اور براہ راست مطالعہ کیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے اثرات وہاں کے عوام کی زندگی پر کیا پڑے ہیں اور کیا عملی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اسلامی تحقیقی اداروں اور مسلم ممالک کی جامعات کو اس طرح کے موضوعات پر تحقیق کے لیے انسانی اور مالی وسائل فراہم کرنا چاہییں۔
مسلم سجاد
ترکی میں دستوری عدالت نے ۲۲ جون ۲۰۰۱ء کو فضیلت پارٹی پر جو پابندی لگائی اس کے اثرات ترکی کی سیاسی زندگی سے زیادہ خود پارٹی پر ہوئے ہیں۔ ترکی میں ۵۵۰ کے ایوان میں ۱۰۲ ممبران فضیلت پارٹی کے ہیں۔ فیصلے میں صرف دو ممبران کی رکنیت ختم کی گئی اور باقی سب کی رکنیت قائم رکھی گئی کہ وہ نئی پارٹی بنائیں یا پہلے سے موجود کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو جائیں۔
فضیلت پارٹی کے گذشتہ کنونشن میں اربکان کے حمایت یافتہ رجائی قوطان کی صدارت کے باقاعدہ مقابلے سے پارٹی میں روایت پسند اور اصلاح پسند یا ماڈرنسٹ رجحانات کا واضح اظہار ہوا تھا۔ ترکی میں ہر شخص جانتا ہے کہ حالیہ فیصلے میں سابقہ فیصلے کے برخلاف سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں نہ لگانے کی وجہ ہی یہ تھی کہ پارٹی میںتقسیم واقع ہو۔ رجائی قوطان کی سربراہی میں سعادت پارٹی کے قیام کا اعلان ہو چکا ہے جس میں فضیلت کے سابقہ ۵۱ ممبران کے علاوہ بعض دوسری پارٹیوں کے ممبران بھی شامل ہیں۔ اسے نجم الدین اربکان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ قوطان نے پارٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دوسری مادہ پرست پارٹیوں اور ہمارے درمیان واضح فرق ہوگا۔ ہم اخلاقی اور قومی اقدار کے وفادار رہیں گے۔ مذہبی آزادی کی حمایت کریں گے لیکن ترک ریاست کی سیکولر بنیاد کو چیلنج نہیں کریں گے۔
استنبول کے سابق میئر طیب اردگان کی قیادت میں دوسری پارٹی کے قیام کا اعلان جلد ہی متوقع ہے۔ سیکولر پریس میں اسے ماڈرنسٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے گذشتہ دنوں پورے ملک کا دورہ کیا ہے۔ وہ اپنا یہ امیج بنا رہے ہیں کہ’’اختلاف‘‘ کے بجائے ’’اتفاق‘‘ کے علم بردار ہیں اور محدود طبقات کے بجائے عوام الناس کو اپیل کرتے ہیں شاید اس طرح وہ جرنیلوں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک تجزیے کے مطابق اس تقسیم سے اسلامی قوتیں کمزور ہوں گی۔ اس لیے کہ دونوں کا حلقۂ انتخاب ایک ہی طرح کے ووٹر ہیں۔ سیکولر میڈیا نے اسی لیے اس کی خوب حوصلہ افزائی کی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق اسلام پسند ووٹروں میں سے ۷۴ فی صد ماڈرنسٹ اور ۱۴ فی صد روایتی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ دوسری طرف ‘ اسی سروے کے مطابق اگر ابھی انتخابات کروا دیے جائیں تو موجودہ حکومتی پارٹیوں میں سے کوئی بھی مطلوبہ ۱۰ فی صد ووٹ حاصل نہ کر سکے گی۔
ایک دوسرے تجزیے کے مطابق وسیع تر سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی پس منظر میں اس ’’تقسیم‘‘ کو ’’ضرب‘‘ یعنی اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اس وقت اسلامی فکر اور سرگرمیاں ہی وسعت پذیر ہیں۔ اسلامی سیاسی فکر کو ترک معاشرے کے ہر طبقے میں غیر معمولی پذیرائی مل رہی ہے‘ جب کہ سیکولر نقطۂ نظر ‘ نظری اور عملی ہر لحاظ سے زوال پذیر ہے۔
یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ سیکولر مقتدر طبقہ ملک کو اچھی حکمرانی دینے میں ناکام رہا ہے‘ سیاست‘ معیشت اور کلچر ہر لحاظ سے۔ مغرب سے درآمد شدہ نظریات اور ادارے ترکی کے مسلم معاشرے میں جڑ نہیں پکڑ سکتے۔ عوام کی عظیم اکثریت کے لیے اسلام ان کی زندگی اور تاریخ کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ محض ایک موہوم احساس نہیں بلکہ جیتا جاگتا اور توانا شعور ہے جو فعال کردار ادا کر رہا ہے۔
۱۹۵۰ء کے بعد ترکی میں بڑے پیمانے پر شہرکاری (urbanization)ہوئی ہے۔ اس کا فائدہ اسلامی قوتوں کو ملا ہے۔ اسلامی فکر کا علمی‘ سیاسی اور تہذیبی نشوونما ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ۳۰ برس میں اسلامی تحریک ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ ملک کی متنوع غیر سرکاری تنظیموں اور اجتماعی سرگرمیوں کی قیادت متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ شہری کر رہے ہیں جن کا اسلام سے سرگرم اور فعال تعلق ہے۔
اس نقطہء نظر سے اسلامی تحریک میں تقسیم کو دراصل توسیع اور ملک کے ہر حصے میں تمام طبقات تک پہنچنے کی سبیل قرار دینا چاہیے لیکن تقسیم ایک حقیقت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں پارٹیاں فہم و فراست سے آگے بڑھیں۔
یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اربکان اور ان کے ساتھیوں نے جدید عہد میں اسلامی تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آج ترکی کے لیے بقا اور عروج کا راستہ صرف یہی ہے کہ نئی ریاستی فکر تشکیل پائے جو ملک کے وسائل اور تخلیقی قوتوں کو متحرک کر دے۔ یہ صرف اسلامی فکر اور اقدار کو ازسرنو دریافت کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔
سوال: ہمارے گھرانے کی ایک طالبہ نے والدین سے خفیہ کورٹ میرج کر لی۔ بعد میں جب شادی کی تصدیق ہو گئی تو لڑکی نے اپنے اس اقدام پر شرمندگی کا اظہار کیا اور والدین سے معافی مانگی اور والدین سے کہا کہ لڑکے کوگھر بلوا کر مجھے طلاق دلوا دیں۔ لڑکے نے لڑکی کے گھر والوں اور اپنے وارثوں کی موجودگی میں یہ کہہ کر کہ چونکہ لڑکی بھی رہنے پر راضی نہیں اور اس کے والدین بھی رضامند نہیں تین طلاقیں زبانی اور تحریری دے دیں۔ اس واقعے کے ساتویں روز اس نے اپنے دوستوں کے ہمراہ لڑکی کو کالج سے اغواکرلیا۔لڑکی کے والدین نے مقدمہ کر دیا۔ جج کی موجودگی میں لڑکی نے اقرار کیا کہ میں نے اپنی مرضی سے یہ اقدام کیا ہے۔ میں والدین کے گھر اس وقت تک نہیں جائوں گی جب تک میری شادی اس لڑکے کے ساتھ نہ ہو جائے۔ جج نے لڑکی کو لڑکے کے حوالے کر دیا اور نکاح یا طلاق کا فیصلہ نہ دیا اور دوبارہ نکاح بھی نہ ہوا۔ اب اس لڑکی کا ایک بیٹا ہے۔ اس مسئلے پر علما کی طرف سے مختلف فتوے ملے ہیں:
۱- کیا لڑکی اور لڑکے کا نکاح قائم ہے‘ جب کہ لڑکے کے طلاق دینے کے بعد دوبارہ نکاح نہیں ہوا‘ اور طلاق کے سات دن بعد اس نے لڑکی کو اغوا کر لیا تھا؟
۲- لڑکی کے باپ نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ اگر تم بیٹی سے ملی ‘ یا خط و کتابت کی تو میں تمھیں طلاق دے دوں گا۔ بیٹی ماں کی طرف کبھی کبھار فون بھی کرتی ہے اور ملنے کے لیے بھی آجاتی ہے۔ کیا اس صورت میں لڑکی کی والدہ خاوند کی نافرمانی کی مرتکب ہو رہی ہے؟
۳- دونوں برادریوں میں مکمل قطع تعلق ہے اور کئی مرتبہ بات خون خرابے تک پہنچی مگر ٹل گئی۔ اب لڑکے والے صلح کرنے کے لیے بہت دبائو ڈال رہے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی شرائط ماننے کو تیار ہیں۔ وہ یہ پیش کش بھی کر چکے ہیں کہ ان کے خاندان کی لڑکی وہ کسی بھی لڑکے سے بیاہ لیں مگر لڑکی کے خاندان والے راضی نہیں ہوئے‘ جب کہ خاندان کے کچھ افراد اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ کیا یہ قطع تعلق جائز ہے؟
جواب: آپ نے ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے ایک اہم مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے مسائل کا پیدا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہم قرآن و سنت سے کتنی کم واقفیت رکھتے ہیں۔ ایک بالغ اور پڑھی لکھی لڑکی کا اپنے والدین سے چھپ کر کورٹ کے ذریعے نکاح کرنا اس بات کی علامت ہے کہ جس گھر میں اس نے پرورش پائی انھوں نے یا تو اسے محض ڈرا دھمکا کر رکھا حتیٰ کہ وہ بغاوت پر آمادہ ہوئی‘ یا اتنی آزادی اور غیر ذمہ داری سے اس کی پرورش کی کہ اس نے والدین کو شامل کیے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ دونوں صورتوں میں جہاں ایک طرف لڑکی غلطی کی مرتکب ہوئی اور بغیر ولی کی مرضی کے نکاح کر بیٹھی وہاں دوسری طرف والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کیوں نہیں کیا‘ اور اگر وہ کسی ذہنی اُلجھن کا شکار تھی تو اس پر سنجیدگی سے اس کے ساتھ تبادلۂ خیال کیوں نہیں کیا۔
آپ نے خط میں جو تفصیلات تحریر کی ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہیں خصوصاً ایسے گھرانوں میں جو خود تحریک اسلامی سے وابستہ ہوں۔ اس قسم کے مسائل کا کھڑا ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمیں اپنی تعلیم و تربیت اور اولاد کی تعلیم و تربیت کو اولین مقام دینا ہوگا ورنہ گھر اور معاشرے کو تباہی سے نہیں بچایا جا سکتا۔ سوالات جس ترتیب سے آپ نے تحریر کیے ہیں اسی ترتیب سے جوابات عرض کیے جا رہے ہیں۔
۱- اگر لڑکے نے دبائو یا خوف کی بنا پر لڑکی کو طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح برقرار رہا۔ اس صورت میں دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں۔ دوبارہ نکاح صرف اس شکل میں ہوگا جب دو مرتبہ طلاق دی گئی ہو اور پھر رجوع کیا گیا ہو۔
۲- لڑکی کے والد اپنی اہلیہ کو کسی غیر شرعی کام کا حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ قطع رحم غیر شرعی ہے‘ صلہ رحمی شریعت کا تقاضا ہے۔ ایک ماں اور بیٹی کا تعلق رحم کا ہے‘ اسے قطع کرنے پر مجبور کرنا غیر شرعی مطالبہ ہے جس پر عمل کرنے کے لیے والدہ مکلف نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ ’’دے دوں گا‘‘ اور یہ کہنا کہ ’’طلاق واقع ہو جائے گی‘‘ دو مختلف چیزیں ہیں۔ اول الذکر مبہم ہے ‘ جب کہ ثانی الذکرقطعی واضح ہے۔ آپ نے جو معلومات تحریر کی ہیں ان میں ابہام ہے۔ اس لیے اگر والدہ نے لڑکی سے فون پر بات کی یا لڑکی ان سے ملنے گھر چلی آئی اور اس نے بات کی تو ابہام کی وجہ سے والدہ کو طلاق نہیں ہوگی۔ اگر والدہ والد کی غیر شرعی خواہش کی پیروی کرے گی تو گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی مرتکب ہوگی۔ اس کے مقابلے میںشوہر کی ناجائز بات نہ ماننا جرم شمار نہیں ہوگا۔
۳- اب‘ جب کہ لڑکی صاحب اولاد بھی ہے‘ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں خاندانوں میں صلح ہو اور لڑکے کے خاندان والے لڑکی کے والد سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہ انھیں لڑکی کو کالج سے زبردستی نہیں اٹھانا چاہیے تھا‘ دل کو صاف کریں۔ لڑکی کے والد کو بھی چاہیے کہ ان کے عذر کو قبول کرتے ہوئے انھیں معاف کر دیں ‘ اور دونوں خاندانوں میں غیر مشروط طور پر اخوت و بھائی چارے کی فضا پیدا کریں‘ نیز دونوں جانب کے ذمہ دار افراد کسی نفلی عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں۔ اسی طرح لڑکی اور لڑکا بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے نفلی روزے اور صدقے کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں۔ لڑکی کے والدین کو جو تکلیف پہنچی ہے صدق دل سے ان سے معافی مانگتے ہوئے آیندہ کبھی ان کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرنے کا عہد کریں۔
۴- قطع تعلق کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے اس لیے نفس کا شیطان اس پر جتنا بھی اُبھارے ہمیشہ تعلقات کو جوڑنے اور قریب لانے کی کوشش کی جائے۔ قرآن کریم نے حضرت سیدہ عائشہؓ پر جھوٹ باندھنے کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو جو ہدایت کی ہے وہ ہر اہل ایمان کے لیے مشعل راہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک صحابی کی‘ جو ان کے عزیز بھی ہوتے تھے‘ کفالت کرتے تھے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی صاحب زادی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہؓ پر جھوٹ باندھنے والوں میں وہ بھی شامل تھے تو انھوں نے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا تو آپؐ نے اس پر ناراضی کا اظہار فرمایا۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ جو رشتے دار آپ سے اچھی طرح پیش آتا ہے اگر اس سے آپ اچھی طرح پیش آئے تو کون سا کمال کیا۔ ہاں‘ جو آپ کو تکلیف پہنچائے اور آپ اس پر لطف و محبت کریں توتب آپ صحیح معنوں میں صلہ رحمی اور اقربا کے ساتھ محبت کا مطلب سمجھے۔ اس لیے اس سخت حادثے کے باوجود قطع تعلق نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس صورت حال کا مقابلہ کرنے اور صبروحکمت کے ساتھ اس اُلجھن سے نکلنے اور آیندہ اتفاق و محبت اور نیکی کے ساتھ رہنے کی توفیق دے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : براہ مہربانی ایک نومسلم کے اس سوال کا جواب دیجیے جو مجھ سے کیا گیا:
مسلمانوں میں فرقے کیوں ہیں‘ مالکی‘ حنفی‘ شافعی وغیرہ اوراسی طرح شیعہ سنی؟ کیا اسلام کئی طرح کا ہے؟ اگر ایک جیسا ہے‘ تو یہ فرقے کب‘ کیسے اور کیوں بنے؟ کیا یہ زمانہ اوّل اسلام میں بنے یا بعد میں؟ کیا یہ جائز ہیں؟ ان میں صحیح راستے پر کون ہے؟
ج: اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے جو قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اُمت کی شکل میں مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اسلام دشمنوں نے اسلام کو مٹانے‘ اس میں تحریف کرنے اور اسلام کے نام پر ایک اُمت کے مقابلے میں اُمتیں کھڑی کرنے کی کوششیں کیں‘ جیسے قادیانی وغیرہ لیکن ناکام ہوئے۔ اُمت مسلمہ کو دھوکا نہ دیا جاسکا اس لیے کہ قرآن و سنت میں مومن و کافر کے درمیان فرق پوری طرح واضح ہے۔ الحمدللہ! اس وقت اسلام پوری طرح محفوظ ہے اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی عظیم الشان اُمت مسلمہ بھی اسی اسلام پر قائم ہے جو قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اُمت کی شکل میں ثابت ہے۔
دنیا کے مختلف مذاہب میں سے ہر مذہب بہت سے فرقوںمیں بٹا ہوا ہے۔ ان کے پاس ان کا اصل دین اور اصل کتابیں محفوظ نہیں ہیں۔ وہ براے نام اپنے مذہب سے وابستہ ہیں اور باہم متصادم ہیں۔ چند باطل عقائد اور بے جان مذہبی رسوم کے علاوہ ان کے پاس نظام نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام عقیدے‘ عبادت‘ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست‘ تمدن‘ اور نظام زندگی کی حیثیت سے پوری طرح محفوظ ہے۔ اسلام کے ماننے والوں میں مختلف ناموں سے جو مسلک اور گروہ ہیں ان کا آپس میں اختلاف براے نام ہے اور چند عقائد و عبادات کی تعبیر اور طریقوں میں اختلاف تک محدود ہے۔ وہ بھی ایسا نہیں ہے کہ انھیں باہم متصادم کر دے۔ ان کے درمیان نظام زندگی کے سلسلے میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ حنفی‘ شافعی‘ مالکی اور حنبلی مسالک کا اختلاف علمی اور فروعی ہے۔ یہ چاروں اُمت مسلمہ کے مجتہدین اور رہنما ہیں اور تمام کے تمام سب مسالک والوں کے نزدیک محترم ہیں۔ ان کے اختلافات حق و باطل کے اختلافات نہیں ہیں بلکہ اولیٰ یا غیراولیٰ اور راجح اور مرجوح کے اختلافات ہیں۔ یہ اجتہاد اور فہم دین کا اختلاف ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ اختلافات رونما ہوئے اور آپؐ نے ان کو جائز قرار دیا۔
تفسیر‘ حدیث اور فقہ میں ان اختلافات کو علمی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ تمام فقہا کی آرا اور ان کے دلائل کا ذکر کیا جاتا ہے اور کسی کے خلاف طعن و تشنیع اور گالی گلوچ کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے بڑے طبقے دو ہیں: ۱- سنی‘ ۲- شیعہ۔
سنیوں میں دیوبندی‘ بریلوی اور اہل حدیث تین گروہ ہیں جو قرآن و سنت اور شریعت کے نفاذ پر متفق ہیں۔ ان میں نظام کی تفصیلات کے بارے میں بنیادی اور اصولی اختلاف نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک اس کی فقہی آرا دوسروں پر لازم نہیں ہیں۔ ریاست پاکستان کا ایک آئین ہے‘ جس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔ اس آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت‘ نبیؐ کی رسالت و نبوت‘ مسلم کی تعریف‘ مسئلہ ختم نبوتؐ، اسلامی نظام کانفاذ‘ شریعت کے معیار پر پورا اترنے والی اسلامی حکومت کا قیام شامل ہیں‘ اور ان مسائل میں شیعہ مکتب فکر اہل سنت والجماعتہ کے ساتھ متفق ہے۔ شیعہ حضرات کا اہل سنت والجماعت کے ساتھ بعض عقائد میں اختلاف کے باوجود اسلامی نظام اور شریعت کے نفاذ پر اتفاق ہے۔ ۳۱ علما کے ۲۲ نکات‘ ملّی یک جہتی کونسل کا ۱۷ نکاتی ضابطہ ء اخلاق وغیرہ پر سب متفق ہیں۔ سابقہ دَور حکومت میں حکومت پاکستان کی قائم کردہ اتحاد بین المسلمین کمیٹی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر سب کا اتفاق ہے۔ اختلاف کا تعلق صرف شخصی معاملات سے ہے‘ اجتماعی نظام پر سب متفق ہیں۔
آپ اپنے دوست کو یہ کہہ کر مطمئن کریں کہ دنیا میں پھیلی ہوئی اُمت مسلمہ اور اس کے مختلف حصے چند مسائل میں اختلاف کے باوجود نظام زندگی کے معاملے میں پوری طرح متحد ہیں۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر موجود ہیں اور ان کی سفارشات متفقہ ہیں۔ اس لیے آپ چند مسائل میں عارضی اختلافات کو حقیقی اور بنیادی اختلافات نہ سمجھیں۔ اُمت مسلمہ کے مسالک میں اختلافات کی نوعیت معمولی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی فقہی آرا کو باطل قرار نہیں دیتا بلکہ اپنی فقہی آرا کو راجح اور دوسرے کی فقہی آرا کو مرجوع قرار دیتے ہیں۔ سب کی بنیاد قرآن و سنت‘ اجماع اور تعامل اُمت ہے۔ اُمت مسلمہ اس وقت بھی اسی طرح واضح راستے پر ہے جس طرح اس وقت تھی ‘جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے واضح راستے پر چھوڑ گئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ترکتم علٰی المحجۃ البیضاء لیلھا کنھارھا، میں تمھیں واضح راستے پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی رات اس کے دن کی طرح ہے۔ آج اگر کوئی باطل گروہ اسلام میں کوئی رخنہ ڈالنا چاہے تو کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا میں علما موجود ہیں جو قرآن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور حق و باطل میں پوری طرح تمیز کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ چند سطریں آپ کے دوست کے استفسار کا کافی جواب ہوں گی۔ (مولانا عبدالمالک)
ہمارے ہاں رواداری کا لفظ بالعموم فراخ دلی‘ وسیع القلبی‘ بردباری‘ تحمل یا toleranceکے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مصنف نے زیرنظر کتاب میں بعض اکابر کے بیان کردہ اصطلاحی مفہوم کے حوالے بھی دیے ہیں‘ جن کی روشنی میں اِس وقت پاکستانی مسلمانوں سے زیادہ شاید ہی کوئی قوم روادار ہوگی--- مصنف کا خیال ہے کہ اسی رواداری کے نتیجے میں پاکستان میں غیر مسلموں کو ہر طرح کی رعایات‘ سہولتیں اور حقوق حاصل ہیں لیکن افسوس ہے کہ اب اس رعایت کا خطرناک حد تک غلط استعمال ہو رہا ہے۔
بخاری صاحب ‘ اس سے قبل رواداری اور مغرب تالیف کر چکے ہیں۔ (تبصرہ: ترجمان القرآن‘ جون۲۰۰۰ء)--- زیرنظر کتاب بھی اسی تسلسل میں بڑی کدوکاوش اور محنت شاقہ سے تالیف کی گئی ہے اور موضوع سے متعلق مختلف اصحاب کی‘ وقتاً فوقتاً شائع ہونے والی تحریروں کو بھی بڑی خوب صورتی سے کتاب میں سمیٹ لیا گیا ہے۔ ابواب و مباحث پر ایک نظر ڈالنے سے جامعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رواداری کا مفہوم‘ رواداری: تہذیب اسلامی کا ایک اہم وصف‘ پاکستان میں اقلیتیں اور غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کی حالت ِ زار‘ پاکستانی اقلیتوں کی مذہبی و تبلیغی سرگرمیاں‘ قادیانی اقلیت‘ اقلیتوں کے سیاسی‘ معاشی اورمذہبی حقوق اور ہماری رواداری‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیرمسلم اقلیتوں کی گرفت‘ قومی غیرت و آزادی کے خلاف ہونے والی سازشیں اور رواداری کے نام پر ہماری بے حسی اور بے حمیتی--- وغیرہ۔
مصنف کا خیال ہے کہ ہماری رواداری‘ ایک درجے میں فتنہ بن چکی ہے۔ اس کا آغاز اکبر کے ’’دین الٰہی‘‘ سے ہوا اور اب پاکستان میں موجود اقلیتوں کے ’’مخصوص افراد‘‘ رواداری کی آڑ میں ہماری ہی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں--- مولانا زاہد الراشدی نے سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان میں مسیحی اقلیت کو آخرکون سا حق حاصل نہیں ہے؟ شہریت ‘ کاروبار‘ ملکیت زمین و مکان و جایداد ‘ شراب نوشی‘نقل و حرکت‘ تحریر و تقریر‘ تعلیم‘ ووٹ‘ الیکشن‘ تنظیم سازی اور مذہبی تبلیغ وغیرہ کے حقوق تو حاصل ہیں--- البتہ انھیں نبیؐ کی شان میں گستاخی کا حق حاصل نہیں ‘ اور نہ ہم رواداری کے نام پر انھیں یہ حق دینے کے لیے تیار ہیں۔ دورِحاضر میں انسانی حقوق کے نام پر بہت گرد اڑائی جارہی ہے‘ مگر کیا گستاخی بھی انسانی حق ہے؟ اللہ پاک کے پیغمبروں کی اہانت‘ انسانی حقوق میں شامل نہیں (ص ۲۲۴)--- محمد عطا ء اللہ صدیقی صاحب نے مقدمے میں لکھا ہے: کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے جنت ہے کیوں کہ یہاں اقلیتوں کو شعائر اسلامی کا مذاق اُڑانے اور ہر طرح کی اشتعال انگیز مہم جوئی کی اجازت ہے۔
محمد صدیق شاہ بخاری نے ملّی دردمندی اور ایک گہرے جذبہ حمیت کے ساتھ‘ مگر توازن و اعتدال سے موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ مسلم مذہبی طبقے‘ سیاست دانوں اور صحافتی حلقوں کے ہاں پائی جانے والی عدم رواداری کی بھی بجا طور پر نشان دہی کر دی ہے۔
یوں تو ساری کتاب ہی اپنے موضوع پر ایک معلومات افزا اور دل چسپ دستاویز ہے کیوں کہ اس سے پہلے رواداری کے موضوع پر ایسی جامع کتاب کبھی مرتب نہیں کی گئی ‘مگر کتاب کے بعض حصے بے حد چشم کشا اور عبرت انگیز ہیں اور ’’اے کشتۂ ستم! تری غیرت کو کیا ہوا‘‘ کی دعوت ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اُمت مسلمہ کے لیے اسوئہ حسنہ ‘ اطاعت و اتباع ذاتِ نبویؐ ہے‘ اور حدیث و سنت ہی اس کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ائمہ حدیث نے حدیث کی صحت و ثقاہت کے لیے ایسے کڑے معیار قائم کیے ہیں کہ شاید ہی علوم اسلامیہ کے کسی دوسرے فن میں اس کی مثال ملتی ہو‘ جیسے: اصولِ روایت و درایت‘ اسناد کا علم‘ جرح و تعدیل اور فن اسماء الرجال وغیرہ۔ اس کے علاوہ حدیث نبویؐ سے کماحقہ استفادے کے لیے معجم (انڈکس) و اشاریے بھی مرتب کیے ہیں۔
سترھویں اور اٹھارھویں صدی عیسوی میں مستشرقین نے علومِ اسلامیہ بالخصوص علوم الحدیث پر مختلف اعتراضات کیے۔ جواب میں ائمہ حدیث اور محققین اسلام نے ان کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا مگریہ کام زیادہ تر عربی اور اُردو زبانوں میں ہوا ۔ انگریزی میں خالص علمی و تحقیقی کام جن محققین نے کیا ان میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ‘ ڈاکٹر احمد حسن‘ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی‘ ڈاکٹر زبیراحمد صدیقی‘ اور زیرنظر کتاب کی مصنفہ ڈاکٹرجمیلہ شوکت صاحبہ شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ علومِ اسلامیہ کی استاذ ہیں اور علوم الحدیث پر خصوصی مطالعے کا ذوق رکھتی ہیں۔ آپ نے مسندامام اسحٰق بن راھویہ پر تحقیقی کام کر کے کیمبرج یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی تھی۔ زیرنظرکتاب ان کے حسب ذیل علمی و تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے جو مختلف علمی جرائد میں شائع ہوتے رہے:
۱- علوم الحدیث‘ تجزیاتی مطالعہ‘۲- اقسامِ کتب حدیث ‘ ۳- تحمل حدیث کے اسالیب‘ ۴- اخذ حدیث کے لیے سفر‘ ۵- علمِ حدیث میں اسناد کا مقام‘ ۶- مطالعہ مسانید دوسری و تیسری صدی ہجری‘ ۷- مطالعہ المصنفات دوسری و تیسری صدی ہجری‘ ۸- اطراف الحدیث وغیرہ۔
ڈاکٹر صاحبہ نے علوم الحدیث کے ان اہم فنون کے بارے میں بنیادی مآخذ و مصادر سے مواد جمع کیا ہے اور پھر اسے بڑے عمدہ انداز میں مرتب کیا ہے۔یوں تو سبھی مقالات اپنی نوعیت میں معیاری ہیں‘ مگر مطالعہ مسانید اور مطالعہ المصنفات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کتب حدیث کی ان دو اقسام کے ارتقا اور مناہج پر عمدہ گفتگو کی ہے اور اس ضمن میں جامع اور بھرپور معلومات پہنچائی ہیں۔ اُردو یا انگریزی میں اس سے قبل ان دو موضوعات پر ایسی معیاری علمی و تحقیقی تحریر نظر سے نہیں گزری۔ بلاشبہ یہ دونوں مقالات پڑھنے سے تعلّق رکھتے ہیں۔ معروف محقق ڈاکٹر ظفراسحق انصاری نے اپنے پیش لفظ میں علم حدیث میں محققین کے کام کے جائزے کے ساتھ انگریزی زبان میں اب تک کے کام کی تفصیل رقم کی ہے۔ کتاب کے شروع میں مفتاح المراجع اور آخر میں بنیادی مآخذ کی تفصیلی فہرست دی گئی ہے۔ حدیث و علوم الحدیث کے طلبہ‘ محققین اور علومِ اسلامیہ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ (حافظ محمد سجاد تترالوی)
سفیرختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ۱۹۹۰ء میں دارالعلوم دیوبند میں ردّ قادیانیت کے موضوع پر تربیتی لیکچر دیے تھے‘ جنھیں مولانا سلمان منصورپوری نے جو ایک باصلاحیت اور ماہر عالم دین اور مفتی ہیں‘ مرتب کر دیا ہے۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ان پر نظرثانی کی اور ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب سے نظرثالث کروائی اور ترامیم و اصلاح کے بعد انھیں زیرنظر کتابی شکل میں شائع کر دیا۔عالمی شہرت کے حامل متعدد اہل علم اور زعماے ملّت نے مولانا کی علمی کوشش کی تعریف کی ہے۔ پیش لفظ مولانا عبدالحفیظ مکّی (مکّہ مکرمہ) کا اور مقدمہ (۹۵صفحات) ڈاکٹرخالد محمود صاحب کا ہے ۔کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے: اوّل: مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی اور اس کے دعاوی کاتعارف‘ دوم: قادیانیوں سے بحث کے لیے تعین موضوع اور موضوعات کی ترتیب‘ سوم: مرزا غلام احمد قادیانی کا دجل و کذب‘ چہارم اور پنجم: حضرت عیسٰی علیہ السلام کا رفع و نزول‘ ختم نبوت کے دلائل اور ان پر اعتراضات کے جوابات۔
مولانا منظور احمد چنیوٹی کو ردّ قادیانیت کے ساتھ خصوصی لگن ہے۔ ان کا یہ جذبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرد پڑنے کے بجائے بڑھتا چلا گیا ہے۔ وہ ہمیشہ قادیانیوں کے تعاقب کے لیے فکرمند رہے اور مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ‘ مولانا محمد یوسف بنوریؒ ‘ اور دیگر علما کے ذریعے مسلسل کوشش کرتے رہے کہ قادیانی حج اور عمرے کے بہانے اور ملازمتوں کے نام پر سعودی عرب اور حرمین شریفین نہ جا سکیں۔ چنانچہ انھوں نے بہت سے قادیانیوں کی نشان دہی کی اور ان کا داخلہ سعودی عرب میں بند کرا دیا۔ اسی طرح اپنے ادارہ دعوت وارشاد چنیوٹ‘ بلکہ پاکستان کے دیگر مدارس اور سعودی عرب میں بھی‘ طلبہ کو قادیانیت سے متعارف کرنے اورانھیں علمی و تربیتی کورسوں سے گزارنے کے لیے مسلسل کوششیں کیں۔ جامعہ اسلامیہ بنوری ٹائون اور مدینہ یونی ورسٹی میں لیکچر دیے۔ یہ لیکچر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہمیت اس اصول کی ہے کہ قادیانیوں کے سامنے اصل بات جسے پیش کیا جانا چاہیے یا جسے علمی مباحثہ میں سرفہرست رکھنا چاہیے‘ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی سیرت و کردار اور صدق و کذب کا موضوع ہے۔ قادیانیوں کا اصل مقصد مرزا غلام احمد کی نبوت کی طرف دعوت ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اس موضوع کو اولیت دینا چاہیے۔ دوسرے موضوعات رفع و نزول عیٰسی ؑ اور ختم نبوت بے شک ثابت شدہ حقائق اور مسلمات دین ہیں لیکن قادیانیوں کے سامنے انھیں اولاً پیش کرنے اور ان میں اُلجھنے کا کیا فائدہ ہے۔
اس میدان میں گراں قدر علمی اور بیش قیمت جامع اور کامل تحقیقی کام خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اور ان کے تلامذہ نے کیا ہے جن میں استاذ العلماء مولانا محمد چراغ ؒسرفہرست ہیں جنھوں نے مولانا محمد حیات کو ردّقادیانیت کی تیاری کرائی تھی۔ وہ وسیع النظر‘ راسخ العلم‘ محقق‘ مدقق‘ حاضردماغ اور اصول فروع پر حاوی علمی شخصیت کے مالک تھے جن کے علم اور بحث کے سامنے کسی قادیانی کا ابلیسی دجل و فریب نہیں چل سکا۔ وہ شاطر و عیار قادیانی مبلغین و مناظرین کی گردن پر ایسا مضبوط ہاتھ ڈالتے کہ وہ ہزارہاتھ پائوں مارنے کے باوجود ان کی گرفت سے نہیں نکل سکتے تھے۔ وہ علمی‘ اخلاقی اور اسلامی آداب کی پوری پوری رعایت کرتے‘ اس لیے قادیانی ان کی زبان سے نکلے ہوئے کسی لفظ کو چیلنج کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے تھے۔ حضرت امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے ملتان میں مدرسہ تحفظ ختم نبوت قائم کیا تو فارغ التحصیل علماء کو ردّقادیانیت کا مخصوص کورس کرانے کے لیے فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات ؒ کو وہاں استاذ اور مربی مقرر فرمایا۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی لکھتے ہیں: راقم الحروف نے ۱۹۵۱/ ۱۹۵۲ء میں ملتان مدرسہ تحفظ ختم نبوت میں داخل ہوکرردّقادیانیت کی تربیت حاصل کی اور پھر استاذ محترم کے ہمراہ قادیانیوں سے مناظرے شروع کر دیے اور پھر پوری زندگی اس دجالی فتنے کی سرکوبی کے لیے وقف کر دی۔
حضرت مولانا محمد حیات کو بجا طور پرعلماے اُمت نے ’’فاتح قادیان‘‘ اور ان کے شاگرد رشید مولانا منظور احمد چنیوٹی کو ’’فاتح ربوہ‘‘ (چناب نگر) کا لقب دیا ہے۔ لذالک فلیتنافس المتنافسون- اور اس عظیم کام میں استاذ العلماء حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کا نام اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ بجا طور پر گدڑی میں چھپے ہوئے موتی کے مصداق ہیں۔
یہ کتاب بلاشبہ قادیانیت کے زریں اصول کے نام کی مستحق ہے اور علما اور فضلا کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے جو جلیل القدر ‘ متبحر اور ماہرین فن کی عمر بھر کی علمی محنتوں اور کاوشوں کا نچوڑ ہے۔ دعوت کے میدان میں کام کرنے والے اسلامی تحریک کے کارکنان اور علماے کرام کو اس کتاب سے کماحقہ استفادہ کرنا چاہیے۔ قادیانیت کے موضوع پر یہ جامع و مانع انسائیکلوپیڈیا ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی (پروفیسر یونی ورسٹی آف پیٹرولیم و معدنیات‘ دہران‘ سعودی عرب) نے کئی برس کی محنت و کاوش سے ایک فقہی دائرہ معارف (انسا ئیکلوپیڈیا) مرتب کیا جس میں خلفاے راشدین‘ کبار صحابہ کرامؓ اور بعض تابعین عظام کی فقہی آرا کو جدید فقہی انداز میں مرتب کر دیا۔ فقہ کے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے یہ ایک بڑی قیمتی اور نادر چیز ہے۔ ادارہ معارف اسلامی نے اس کا اردو ترجمہ کرانے کا بیڑا اٹھایا اور اس سلسلے کی پہلی جلد فقہ حضرت ابوبکرؓکے عنوان سے ۱۹۸۹ء میں شائع ہوئی۔ بعدازاں فقہ حضرت عمرؓ، فقہ حضرت عثمانؓ،فقہ حضرت علیؓ،فقہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ، فقہ حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ شائع کی گئیں(کتاب نما میں بعض حصوں پر تبصرے آچکے ہیں)۔ اب اس سلسلے کی ساتویں کتاب فقہ عبداللّٰہ بن عباسؓ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓایک برگزیدہ صحابی تھے اورمختلف علوم دینیہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں غیر معمولی بصیرت اور مہارت عطا کی تھی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی اکرم ؐ نے آپ کے لیے ایک سے زائد مرتبہ دعا فرمائی کہ اے اللہ‘ اسے کتاب کا علم سکھا اور دین کی فقاہت عطا فرما۔ زیرنظر کتاب کے مصنف نے اپنے سیرحاصل مقدمے میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے مختصر حالات‘ حضورؐ کی صحبت‘ دیگر صحابہؓ سے استفادے‘ ذہانت‘ طلب علم میں جدوجہد‘ تقویٰ اور ان کی فقیہانہ بصیرت وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
کتاب میں الفاظ‘ موضوعات اور اصطلاحات کی ابجدی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اس کے ذیل میں الگ الگ عنوانات کے تحت حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی فقہ کو مدون کیا گیا ہے۔ مصنف نے تقابلی حوالوں کا بھی اہتمام کیا ہے اور ہر باب کے آخر میں حوالہ جات درج ہیں۔
مذکورہ فقہی دائرہ معارف کی اشاعت اُردو کے علمی ذخیرے میں ایک وقیع اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم یہ سلسلۂ کتب عام قارئین کی نسبت فقہ کے طالب علموں‘ اساتذہ‘ علما اور منصفین عدالت وغیرہ کے لیے زیادہ مفیداور قابل استفادہ ہے۔ (ر - ہ)
مولانا دریا بادی ؒ نے ۱۹۵۶ء میں محمد علی جوہر مرحوم سے اپنے روابط کے احوال‘ اور اُن کے ملّی ‘ سیاسی اور ادبی کارناموں پر مشتمل کتاب محمد علی‘ ذاتی ڈائری دو حصوں میں شائع کی تھی جس سے بلاشبہ جوہر کی حیرت انگیز اور غیر معمولی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور خود مصنف (دریابادی) کی زندگی کے بہت سے پہلو بھی واضح ہو کر سامنے آتے ہیں۔
جوہر پر یہ کتاب ایک عرصے سے ناپید تھی‘ معروف اسکالر اور محقق ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی نے نظرثانی کرتے ہوئے دونوں حصوں کو یک جا صورت میں نئے نام مولانا محمد علی جوہر: سیرت و افکار سے مرتب کر دیا ہے۔ محمد علی ؒ جوہر کی نابغہ روزگار شخصیت اور ان کے کارناموںکو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ محمد راشد شیخ صاحب نے کتاب کو نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ (ر- ہ)
مجلہ السیرۃ میں سیرت طیبہؐ کے مختلف پہلوئوں اور گوشوں کا مطالعہ مختصر اور جامع انداز میں یک جا کر دیا گیا ہے ‘ اس طرح عصرحاضر کے مختلف النوع انفرادی و اجتماعی مسائل سے متعلق سیرت طیبہؐ سے رہنمائی کا حصول مختصر وقت میں ممکن ہو گیا ہے۔ سیرت خیرالانام سے متعلق ماہرین علوم اسلامیہ کی عرق ریزی اور تحقیقی کاوشوں پر مشتمل یہ مجلہ تشنگان علم سیرت کے لیے ایک انتہائی مفید مجموعہ ہے۔ مضامین کے انتخاب و ترتیب میں دَورِحاضرکے مسائل اور علمی ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ’’مصائب و آلام میں اسوئہ حسنہ‘ دورحاضر کے تناظر میں‘‘ کے عنوان کے تحت شمارے کا اداریہ وقت کا اہم ترین موضوع ہے۔ تمام ہی مضامین اہم اور مفید ہیں‘ لیکن پروفیسرظفراحمد کا مضمون ’’فکرونظر کی مستحکم بنیادیں‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں مطالعہ سیرت کے حوالے سے ممکنہ فکری لغزشوں اور سیرت فہمی میں خلط مبحث سے بچنے کے لیے دلائل نقلیہ و عقلیہ سے رہنمائی حاصل کی گئی ہے۔ ’’آئینہ حیات ہادیٔ اعظم‘‘ کے عنوان سے زمانی ترتیب کے ساتھ واقعات سیرت کا انتہائی جامع ’’اختصاریہ‘‘ بھی معلومات افزاہے۔
تمام مضامین میں حوالہ جات کا اہتمام رسالے کے تحقیقی اسلوب کی نشان دہی کرتا ہے لیکن چند مقامات پر حوالہ جات کی غلطیاںاور قرآنی آیات تک میں کتابت کی غلطیاں نظر آتی ہیں جو کسی علمی رسالے کے لائق شان نہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)
’’پروپیگنڈا اور ذرائع ابلاغ‘‘ (اگست ۲۰۰۱ء) حبیب الرحمن چترالی صاحب نے ایک اچھوتے موضوع پر قلم اُٹھایا ہے اور حق ادا کر دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایسے موضوعات پر تحقیقی کام ہوتا رہے (صفحہ ۴۱‘ سطر ۴ میں آیت چھٹی نہیں‘ ۶۰ ہے)۔
’’خدمت خلق‘‘ (اگست ۲۰۰۱ء) خرم مراد صاحب کی تحریر بہت پسند آئی۔ اس ایمان پرور تحریر سے خدمت خلق کے بہت سے گوشے وا ہوئے۔ حقوق العباد کی ادایگی اسی کو کہتے ہیں۔
’’کتاب نما‘‘ (اگست ۲۰۰۱ء) میں سیرت بانی دارالعلوم پر تبصرہ شائع ہوا۔ سیرت کا لفظ عام طور پر سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ کے لیے مخصوص ہے۔ معروف شخصیات کے حالات زندگی پر مبنی کتب کے لیے سوانح کا لفظ مروج ہے۔ اس لحاظ سے کتاب کا نام غور طلب ہے۔
’’قومی بیداری --- وقت کا تقاضا‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) میں مولانا روم کے شعر ؎
زیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیرخدا و رستم دستانم آرزوست
کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ ’’ان درماندہ سست رفتار ہمراہیوں سے بھی میرا دل اُچاٹ ہو گیا ہے۔ کسی شیرخدا اور کسی رستم کی داستان کی آرزو میں نکل کھڑا ہوں‘‘۔ معلوم نہیں کس اصول کے تحت دستاں کے لفظ کو داستان کے معنی پہنائے گئے ہیں۔ فارسی زبان کا ذوق رکھنے والے حضرات سے یہ امر مخفی نہیں ہے کہ رستم دستاں میں اضافت ابنی ہے‘ یعنی دستان کا بیٹا رستم--- دستان رستم کے باپ کا لقب ہے۔
ترجمان القرآن کا انتظار ہر مہینے کی آخری تاریخوں سے شروع کر دیتا ہوں کیونکہ اگلے مہینے کی منصوبہ بندی میں اس کے لیے وقت مختص کرنا ہوتا ہے۔ اہم مضامین کے نوٹس تیار کرتا ہوں جو بعد میں بہت کام آتے ہیں۔ اس کے سب ہی سلسلے بہت مفید ہیں لیکن میں سب سے زیادہ اہمیت اشارات‘ تزکیہ و تربیت اور تہذیب جدید کو دیتا ہوں۔ سنابل العلم کے اشتہارات خوب صورت کتابچے کی شکل میں شائع کروائے جائیں تو بہت مفید ہوں گے کیونکہ آج کل management sciences کا بڑا چرچا ہے۔
’’حقوق انسانی کی سیاست‘‘ (جون ۲۰۰۱ء) میں جس طرح دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد‘ ظالم اور لٹیرے ملک امریکہ کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے (اگرچہ اس میں کچھ تشنگی سی محسوس ہوتی ہے) وہ پوری دنیا‘ خصوصاً عالم اسلام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اس مضمون میں امریکہ پر یورپی اقوام کے قبضے‘ مقامی آبادی کا قتل عام اور غلاموں کی تجارت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی قوم کو معلوم ہو کہ امریکہ کے اس نقلی چہرے کے پیچھے ایک بھیانک اور خوںآشام چہرہ چھپا ہوا ہے۔
قاضی حسین احمد کے چشم کشا اشارات ’’قومی بیداری --- وقت کا تقاضا‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) اگر بچشم دل پڑھ لیے جائیں تو صراط مستقیم کی طرف پیش رفت ممکن ہو جائے۔ کاش ترجمان القرآن کروڑوں کی تعداد میں شائع ہو کر ہر گھر کے ہرقاری کے درِدل پر دستک دے سکے!
لکھنؤ سے نکلنے والے رسالے ۱۵ روزہ تعمیرحیات (۱۰اگست ۲۰۰۱ء) میں مولانا عبداللہ عباس ندوی نے جو جامعہ ام القریٰ مکہ سے بطور ممتحن ایک وائی وا کے لیے گئے تھے‘ قاہرہ کے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ہوٹل کے کمرے میں ٹی وی لگایا تو مصر کی قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا‘ اور یکے بعد دیگرے مقررین حسنی مبارک کی تعریف و توصیف میں قلابے ملا رہے تھے۔ ’’آپ نے اپنے عہد مبارک میں مصریوں کو سر اُٹھا کر چلنے کا موقع دیا‘ حریت کا سبق دیا‘ آپ کی بصیرت ہمارے لیے ہدایت و نجات کا راستہ بنی‘‘۔ ہرچندجملوں کے بعد دوسرے ممبران تائید کا اظہارتالیاں پیٹ پیٹ کر کر رہے تھے۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ان کی نظروں کے سامنے اپنی طالب علمی کازمانہ پھر گیا جب عرب رسائل الرسالہ (احمد حسن زیات) اور الثقافہ (ڈاکٹر احمدامین) میں شاہ فاروق کے یوم پیدایش پر اداریے لکھے جاتے تھے جو ادبی شہ پارے ہوتے تھے۔ ’’فاروق کا تخت قصرشاہی میں نہیں ہر مصری کے قلب میں ہے۔ وہ ہر گھر کی روشنی‘ ہر دل کی دھڑکن‘ ہر آنکھ کی بینائی ہے‘ اے عظیم ابن عظیم!‘‘۔ ملکہ نریمان کو ایک بار نزلہ ہو گیا تو شیخ الازہر نے مزاج پرسی کا تار بھیجا: ’’ہم نے پوری رات بے چینی‘ اضطراب اور دعائوں میںگزاری کہ اللہ ملکہ عالیہ کو شفاکامل و عاجل عطا فرمائے‘‘۔ جب فوجی انقلاب آیا اور نجیب صدر بنے تو حسن زیات نے الرسالہ میں لکھا کہ‘ وہ مردغیب نمودار ہو گیا جس کا قدرت نے وعدہ کیا تھا۔ شریف ترین‘ محبوب دل و جان‘ عالی گہر محمد نجیب نے مصر کو کھلنڈروں سے آزاد کروا دیا‘ جب جمال عبدالناصر نے اقتدار سنبھالا تو انھی حسن زیات نے رسولؐ اللہ اور صلاح الدین ایوبی ؒکے بعد تیسرا انقلاب لانے والا ناصر کو قرار دیا۔ محمد حسین ہیکل نے الاہرام میں لکھا : بڑا مجرم ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ جمال عبدالناصر کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ ایک آسمانی مخلوق ہے جو زمین سے پیدا نہیں کی گئی بلکہ زمین پر اتاری گئی ہے‘--- آپ مناسب سمجھیں تو ان گذارشات میں قارئین ترجمان کو بلاتبصرہ شریک کر لیں۔
’’تحریک‘‘ کا لفظ جس مفہوم کے لیے میں استعمال کرتا ہوں اس کے لیے کوئی دوسرا ایسا لفظ مجھے نہیں ملتا جو آج کل کے عام لوگوں کے ذہن میں اس کی تصویر کھینچ دے۔ ’’مذہب‘‘ ایک مدت سے صرف اس معنی کے لیے مخصوص ہو گیا ہے کہ چند عقائد اور چند عبادتوں اور رسموں کا مجموعہ جن کی پابندی سے آدمی روحانی ترقی یا نجات بعدالموت کا متوقع ہو۔ اسی معنی کے لحاظ سے آج کل کے لوگ کہتے ہیں کہ مذہب ایک انفرادی چیز ہے‘ عابد اور معبود کے درمیان ایک پرائیویٹ تعلّق ہے‘ اس کو اجتماعی معاملات اور ملکی انتظام سے کیا تعلّق؟ اسلام کے لیے لفظ مذہب کا استعمال موجودہ دَور کے لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ یہ بھی اِسی
جنسِ مذاہب کا ایک فرد ہوگا۔ رہا ’’دین‘‘ تو اسے بھی ایک مدت سے مذہب اور دھرم کا ہم معنی بنا کر رکھ دیا گیا ہے‘تاہم اگر دین کو اس کے وسیع معنی میں بھی استعمال کیا جائے تب بھی سننے والے کے ذہن میں اس سے صرف اتنی بات ہی آتی ہے کہ یہ پوری انسانی زندگی کے لیے ایک جامع اور ہمہ گیر نظام ہے جو عقائدو افکار سے لے کر انفرادی و اجتماعی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے جزئیات تک کا احاطہ کرتا ہے اور جس کا تعلق دنیا اور اس کے انتظام سے بھی اتنا ہی ہے جتنا حیات بعدالموت سے ہے۔ لیکن یہ بات کہ دین ایک نظام ہونے کی حیثیت سے دنیا کا انتظام خود اپنے زیراقتدار لینے کا متقاضی ہے‘ اور اس کے ایک نظام ہونے کا فطری اقتضا یہی ہے کہ دوسرے نظاموں کو ہٹا کر یہ خود ان کی جگہ قائم ہو‘ اور اس وجہ سے دین کی پیروی قبول کرتے ہی آدمی پر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ دوسرے نظاموں کے تسلط کو مٹانے اور اس نظام کو قائم کرنے کے لیے کوشش کرے‘ محض لفظ ’’دین‘‘ سن کر آج کل کسی کے ذہن میں بھی نہیں آتی۔
اس مفہوم کو موجودہ دور میں لفظ ’’تحریک‘‘ اچھی طرح ادا کرتا ہے۔ اس وجہ سے میں اسلام کے لیے ’’دین‘‘ کے ساتھ ’’تحریک‘‘ کا لفظ بھی اکثر استعمال کرتا ہوں۔ نیزاس کوشش اور جدوجہد کے لیے بھی مجھے ’’تحریک‘‘ ہی کی اصطلاح استعمال کرنی پڑتی ہے‘ کیونکہ جہاد اور مجاہدہ کے الفاظ جو قرآن نے اس مفہوم کے لیے اختیار کیے تھے‘ انحطاط کے دور میں ان کے معانی بالکل بدل کر رہ گئے ہیں۔ مجاہدہ کا لفظ سن کر آج لوگوں کا ذہن صوفیانہ ریاضات اور چلہ کشی کی طرف چلا جاتا ہے اور ’’جہاد‘‘ بولیے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ بس اب ایک لشکر مرتب ہوگا اور غنیم کے خلاف معرکہ ء قتال شروع ہو جائے گا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ’’تحریک‘‘ کے نام سے جوچیزمیں نے پیش کی ہے آیا وہ دین اور جہاد فی سبیل اللہ ہی ہے یا کوئی اور چیز۔ (’’رفع شبہات‘‘ ، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۹‘ عدد ۱‘ ۲‘ ۳‘ رجب‘ شعبان‘ رمضان ۱۳۶۰ھ‘ ستمبر‘ اکتوبر‘نومبر ۱۹۴۱ء‘ ص ۱۹۳-۱۹۴)