قرآنِ پاک کی ہر آیت ہدایت کا منبع اور نور کا سرچشمہ ہے۔ یہ کتاب حق اور صرف حق کا ایک نہ خشک ہونے والا سمندر ہے۔ یہ بھی اس قرآن کا معجزہ کے کہ اس کی ایک ایک آیت میں ایسے حقائق کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے جن کا مکمل احاطہ فکرِ انسانی کی پوری تاریخ اورقوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی صدیوں کی داستان بھی کماحقہ نہیں کرپائے۔ ایسی ہی ایک آیت میں فرد اورگروہ، معاشرہ اور قوم، اُمت اور انسانیت کے عروج و زوال، بنائو اور بگاڑ، ترقی اور تنزل، کامیابی اور ناکامی کے عمل (process) کی کنجی کو سنت ِالٰہی کے ایک بنیادی نکتے کی صورت میں پیش کردیا گیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کا ذکرکرتے ہوئے اسی اصول کو یوں بیان کیا گیا ہے:
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ لا وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (الانفال ۸:۵۳) یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے۔
دونوں آیات میں تبدیلی کا مدار ’انفس‘ کی تبدیلی کو قرار دیا گیا ہے جو فرد یا قوم کے اندرون کی پوری دنیا پر حاوی ہے۔ گویا انفس ہی وہ زمین ہے جہاں عروج و زوال کی تخم ریزی ہوتی ہے اور پھر یہی وہ بیج اور جڑ ہے جس سے تبدیلی اور انقلاب کا تناور درخت نشوونما پاتا ہے۔ تبدیلی محض بیرونی عوامل کا کرشمہ نہیں ہوتی، یہ اندر کے ایک گہرے اور ہمہ جہتی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’انفس‘ سے مراد اندر کی دنیا کا ایک پورا عالم ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ’آفاق‘ سے باہر کی دنیا کا عالم مراد ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ (حم السجدہ ۴۱:۵۳) ’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے نفس میں بھی‘‘___ انفس میں وہ تمام قوتیں شامل ہیں جن کا اثر کسی نہ کسی شکل میں انسانی عزائم، اعمال اور اس کی سعی و جہد پر پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انفس عبارت ہے تمام ذہنی اور نفسی، اخلاقی اور عملی قویٰ سے___ تبدیلی اور انقلاب کا آغاز دل و دماغ اور ذہن و اِدراک سے ایک اندرونی تبدیلی کی شکل میں ہوتا ہے جو ایمان و ایقان، افکار و احساسات، تصورات اور زندگی کے عزائم کی صورت میں فکروعمل کی صورت گری کرتی ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جس سے عروج و ترقی کے سوتے ُپھوٹتے ہیں۔ فرد ہو یاقوم، وہ اپنے اخلاق اور اعمال ہی کے ذریعے بلندی یا پستی سے ہم کنار ہوتی ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے قرآن کے اس اصول کو بڑے سادہ اور دل نشین انداز میں یوں بیان کیا ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اُمت مسلمہ کے حالات پر نظر ڈالیے یا پاکستان کے نصف صدی سے زائد کے شب وروز کا تجزیہ کیجیے، صاف نظر آتا ہے کہ بیرونی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور شرانگیزیوں کو اگر کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے تو وہ اسی اندرونی کمزوری کی وجہ سے۔ خرابی کی جڑ قلب و نظر کا فساد اور اندرون (انفس) کا بگاڑ ہے جس کی اصلاح کے بغیر صورتِ حال میں حقیقی تبدیلی کا امکان معدوم ہے۔ محض در و دیوار کی لیپاپوتی سے اُمت کی نشاتِ ثانیہ کا حصول ممکن نہیں۔ بلاشبہہ نظام کی اصلاح مطلوب بھی ہے اور ناگزیر بھی لیکن اس کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب اس کا نقطۂ آغاز اور محور و مرکز دلوں کی اصلاح، ایمان کی آبیاری اور انفرادی اور اجتماعی تقویٰ کا حصول اور اخلاق کی بہار ہو۔
مغربی تہذیب نے تبدیلی اور انقلاب کا جو فلسفہ پیش کیا ہے، اس کا سارا انحصار بیرون کی اصلاح اور معاشرے، ریاست اور معیشت کے نظام (structures) کی تبدیلی پر ہے، جب کہ اسلام جس انقلاب کا داعی ہے، وہ ’اندرون‘ کی اصلاح سے شروع ہوکر فرد اور معاشرہ دونوں کی مکمل قلب ِ ماہیت کردیتا ہے اور اس طرح پورے نظام کی تبدیلی پر منتج ہوتا ہے۔ اسلام اجتماعی زندگی کے بگاڑ کو اس سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتا ہے جس کا اظہار مغرب کی فکرودانش میں کیا جاتا ہے لیکن اسلام کا دعویٰ اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اجتماعی بگاڑ کی اصلاح محض اجتماعی زندگی کے دَروبست کو تبدیل کرنے سے نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت میں برائی نت نئے رُوپ دھار کر طرح طرح کی نئی شکلوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے اور مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اجتماعی بگاڑ کی اصلاح کا راستہ بھی نفس کی اصلاح ہی کی وادی سے گزرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے نہ سمجھ پانے کی وجہ سے مغربی تہذیب کے علَم بردار اور محض سیکولر بنیادوں پر زندگی کی تعمیر نو کے داعی برابر تاریکیوں ہی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور انسانیت کے مصائب اور آلام کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ عالم یہ ہے کہ:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
بیسویں صدی اپنے بہت سے مثبت اور منفی پہلوئوں کی وجہ سے یاد کی جائے گی لیکن عالمِ اسلام کے نقطۂ نظر سے دو پہلو بڑی اہمیت کے حامل ہیں:
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپایدار ہوگا
اسلام کی اس دعوت کو تحریکِ اسلامی اس لیے کہا گیا کہ صدیوں کے جمود کو توڑ کراسلام کو پھر اسی طرح ایک دعوت اور پیغام کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جس طرح سرورِعالم محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاے راشدین اور صحابہ کرامؓ نے پیش کیا تھا۔ قول و فعل کی ہم آہنگی، اللہ کی رضا اور اس کے دین کے قیام کو ہر دوسری مصلحت پر غالب رکھنا اور فرد کے فکرونظر اور سیرت واخلاق سے لے کر معاشرے کے ہرہرپہلو کی اصلاح اس کا ہدف اور مزاج ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر دعوت ہے جس کا مقصدزندگی کے ہر شعبے میں اہلِ ایمان کی قیادت میں، شریعت کے مطابق اسلام کے نظامِ عدل و صلاح کا قیام ہے۔ اس تحریک نے دین و دنیا کی تفریق اور مذہب و سیاست کی دوئی کے جاہلانہ تصورات کو چیلنج کیا اور شریعت کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کی۔ لیکن نظام کی تبدیلی کی یہ جدوجہد مغربی ماڈل پر نہیں بلکہ خالص اسلامی منہج پر ہے جس کی جڑیں ایمان، عملِ صالح،انفرادی اور اجتماعی تقویٰ اور دعوت الی الخیر میں پیوست ہیں۔ قانون اور نظام کی اصلاح، اس ہمہ گیر جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہے، اور یہ اس لیے کہ اجتماعی زندگی کی اصلاح کے بغیر انقلاب کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن نظام کی تبدیلی ایک وسیع تر تبدیلی کا حصہ ہے، اس سے ہٹ کر اس کا کوئی وجود نہیں۔
اجتماعی زندگی کی اصلاح اور اسلامی حکومت کے قیام پر زور دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ ۲۰۰سال اسلامی تاریخ کا وہ منفرد دور ہے جب اسلام اور ملت اسلامیہ قوت و اقتدار سے محروم ہوگئی اور اس کی گرفت رفتارِ زمانہ پر ڈھیلی پڑگئی۔ جو اُمت گیارہ بارہ سو سال تک ایک عالمی طاقت رہی وہ عملاً مغلوب اور محکوم ہوگئی۔ بالآخر ۱۹۲۴ء میں خلافت ِ عثمانیہ کی تحلیل سے وہ عالمی سیاسی اُفق پر سے معدوم کردی گئی۔ فطری طور پر جو چیز چھین لی گئی ہو اس کی بازیافت کو نئی جدوجہد میں ایک مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی اور ملّی زندگی میں جہاں خلا واقع ہوگیا تھا اسے بھرنے کی ضرورت کو نمایاں کرنا اور اُبھارنا وقت کی ضرورت تھی۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکات کے پروگرام میں اُمت کی سیاسی آزادی اور متوازنِ قوت کی اسلامی تسخیر کو اہمیت حاصل ہوئی۔ لیکن اسلامی تحریکات کا یہ پروگرام ایک وسیع تر پروگرام کا حصہ ہے جو فرد کی اصلاح، معاشرے کی تعمیرنو، خیر کی قوتوں کی نظم بندی، نئی صالح قیادت اور اسلامی بنیادوں پر زندگی کے تمام شعبوں کی تعمیر سے عبارت ہے۔ یہ محض ’سیاسی اسلام‘ کا کوئی رُوپ نہیں، اسلام کی اصل دعوت کو دورِحاضر کے تناظر میں کسی سمجھوتے اور کسی مداہنت کے بغیر پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ان تحریکات کے امتیازی کردار کو سمجھے بغیر ان پر فتویٰ زنی حق و انصاف سے رُوگردانی اور دورِحاضر میں دعوت و تربیت کی مساعی اور ان کے تقاضوں کو سمجھنے میں ناکامی ہے۔
جس طرح ڈاکٹر یا حکیم مریض کو وہی دوا دیتا ہے جو مرض کا مداوا کرسکے اور وہی مقوّیات تجویز کرتا ہے جن کی کمی ہو، اسی طرح تحریکاتِ اسلامی نے بھی ان پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے جو نظروں سے اوجھل یا معدوم ہوگئے تھے۔
ہمارے پیش نظر پوری انسانی زندگی کی حقیقی اصلاح و فلاح ہے۔ ہم نہ محدود معنوں میں مذہبی جماعت ہیں، جس کی دل چسپیاں صرف اعتقادی و فقہی اور روحانی و اخلاقی مسائل سے متعلق ہوں اور اجتماعی زندگی کے بنائو اور بگاڑ پر اثرانداز ہونے کی عملی کوشش کرنا، جس کے دائرۂ فرض سے خارج ہو۔ اور نہ ان معنوں میں سیاسی جماعت ہی ہیں جس کی سرگرمیوں کا ہدف ہر حال میں اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی ہو۔ ہم پورے کے پورے دینِ حق کے علَم بردار ہیں جو دعوت و تربیت کے عمل سے گزر کر ایک مکمل نظامِ عدل کی شکل میں عملاً نفاذ بھی چاہتا ہے۔ ہم جس پیغامِ ہدایت و فلاح کے امین ہیں وہ اشخاص اور گروہوں کی دوستی اور دشمنی سے بالاتر ہے۔ ہم کسی فرد، گروہ یا طبقے کے مخالف نہ کبھی پہلے تھے نہ آج ہیں۔ فی الحقیقت ہم اپنی پوری قوم بلکہ پوری انسانیت کے بہی خواہ ہیں، حتیٰ کہ وہ تمام عناصر جو ہمارے مشن کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمیں خواہ مخواہ اپنا دشمن تصور کربیٹھے ہیں، ہم ان کے لیے بھی اپنے ذہن کے کسی گوشے میں خیرخواہی کے سواکوئی جذبہ نہیں رکھتے۔ ہم الدین النصیحۃ (دین خیرخواہی ہے)کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔
جس طرح ہماری دعوت ایک اصولی انقلاب کی دعوت ہے، اسی طرح ہماری کش مکش بھی ایک اصولی کش مکش ہے۔ دعوت و کش مکش کے اس سار ے کام سے ہمارا اصل مطلوب خدا پرست، خدا کی رضا ہی کے طالب اور بے لوث انسانوں کو تیار کرنا، ان کو منظم کرنا اور تربیت دے کر احیاے اسلام کے کام میں لگانا ہے جو اپنے ذاتی مفاد سے قطع نظر کرکے بے لوثی کے ساتھ تعمیرملت اور اصلاح اُمت کا عظیم فریضہ سرانجام دے سکیں۔ اور جن کے ذریعے ایک طرف ہم عوام کی صحیح ذہنی اور اخلاقی نشوونما کا کام کرسکیں اور دوسری طرف سیاسی نظام اور معاشی ادارات کو اسلامی تصورات کے ڈھانچے میں ڈھال سکیں۔ ہر کارکن کو اور بالخصوص ہرسطح کے ذمہ دار کو ان بنیادی حقیقتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
سب سے پہلے ذہنوں میں اس بات کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ دعوت کیا ہے جس کی طرف جماعت اسلامی پاکستان اپنے اہلِ وطن اور پوری اُمت مسلمہ کو، اور بالآخر پوری انسانیت کو بلاتی ہے؟ اس کی دعوت نہ کسی شخصیت کی طرف ہے اور نہ کسی مخصوص مسلک کی طرف۔ اس کی دعوت صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کے رسولؐ کی پیروی کی دعوت ہے۔ یہ اسی راستے کی دعوت ہے جس کی طرف تمام انبیاے کرام نے انسانیت کو بلایا اور جس کا آخری نمونہ اسوئہ محمدیؐ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یہ دنیا کی زندگی کو آخرت کی کامیابی کے تابع کرنے کی دعوت ہے۔ یہ دین کے کسی جز یا اخلاق کے ایک یا چند پہلوئوں کی نہیں، پورے دین اور پوری زندگی کو صبغۃ اللّٰہ (اللہ کے رنگ) میں رنگ دینے کی دعوت ہے۔ یہ مسجد اور میدانِ کارزار، خانقاہ اور جہاد، مدرسہ اور کاروبارِ حیات، ذکروفکر اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک لڑی میں پرونے اور ایک مربوط جہادِ زندگانی کے ناقابلِ تقسیم اجزا بنانے کی دعوت ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جسے اپنے اور پرائے دونوں ہی غتربود کردیتے ہیں اور تحریکی ترجیحات کو اپنے اپنے ذاتی ذوق کے مطابق نہ پاکر نکتہ سنجی فرمانے لگتے ہیں۔ ’سیاسی اسلام‘، ’راہِ تقویٰ سے انحراف‘ اور ’مسلک سلف سے فرار‘ کے طعنے دیے جانے لگتے ہیں۔ ان تمام کرم فرمائیوں پر دعوتِ اسلامی کے علَم برداروں کا ردعمل مخاصمانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ پوری خود احتسابی کے ساتھ اپنی دعوت اور اس کے ہمہ پہلوئوں کی مخلصانہ پابندی اور وفاداری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ صحیح مثالیہ (model) سامنے آسکے اور زبانِ حال سے غلط اندیشیوں کی تردید ہوسکے۔
اس دعوت کا خلاصہ جماعت اسلامی کے مؤسس نے دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات میں یوں بیان کیا ہے:
۱- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرلے، یا اس کو ماننے کا دعویٰ اور اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے، اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائے۔
۳- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اورفساق و فجار کی رہنمائی میں چل رہا ہے، اور معاملاتِ دنیا کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے، مومنینِ صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔
اس دعوت کو جماعت اسلامی کے دستور میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے، اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے، پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے یا تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیرممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔
فرد اور معاشرے کی اصلاح اور بالآخر انقلاب قیادت اور اسلامی نظام عدل و مساوات کے قیام کا یہ کام بہ یک وقت دو جہتوں سے مساعی کا متقاضی ہے۔ اپنی اصلاح، ایک دوسرے کی اصلاح، اور نظامِ زندگی اور قوت و اقتدار کی اصلاح___ ایک ہی کوشش اور جدوجہد کے مختلف رُخ اور پہلو ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت اور تکمیل کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ الگ الگ دنیا نہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہر فرد کو یہ دعوت دی جائے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے، اس سے کیے ہوئے عہد (کلمہ طیبہ) کے تقاضوں کو جاننے اور پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اپنی، اپنے خاندان، اہلِ و عیال اور اہلِ محلہ کی اصلاح کی کوشش کرے، اللہ کے تمام بندوںتک پہنچے اور انھیں بندگی کی دعوت دے، وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اجتماعی زندگی کے نظام اور محرکات کو اسلامی زندگی کے قیام اور فروغ کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام اجتماعی قوتوں، اور خصوصیت سے ریاست کے وسائل کو، ایمان کی آبیاری، صالحیت کے فروغ، نواہی کے خاتمے اور معروف کے قیام کے لیے استعمال کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں، ایک طرف ’خود اپنے کو بدلو‘ کی کوشش ہوتو دوسری طرف اجتماعی ماحول اور ریاست کے وسائل، اوامر کے نفاذ اور بدی، ظلم اور طغیان کے استیصال کے لیے استعمال ہوں، تاکہ خداکی زمین پر خدا کی مرضی پوری ہوسکے اور اس کا قانون جاری و ساری ہوسکے۔ یہ دونوں کام ایک دوسرے کے معاون اور تکمیل کرنے والے ہیں۔ ان میں ’یہ یا وہ‘ (either / or) کا تعلق نہیں بلکہ یہ دو جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں، جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے:
اسلام اور حکومت و ریاست دو جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ گر جاتی ہے اور جس کا کوئی نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاسکتا ہے۔(کنز العمال)
آج کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ اسلام کی یہ عمارت اپنے ارکان کی بنیاد پر معاشرے میں مستحکم ہو اور حکومت وریاست اس کی نگہبانی کی ذمہ داری مؤثرانداز میں ادا کرے۔
اصلاحِ فرد و معاشرہ اور اصلاحِ حکومت اور انقلابِ قیادت ایک ہی جدوجہد کے دو پہلو اور محاذ ہیں اور ہرمحاذ اپنی جگہ اہم اور دوسرے محاذ کو تقویت دینے والا ہے۔ دعوت و تربیت کا ہدف یہ دونوں محاذ ہیں۔ کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عوامی اصلاح اور تربیت، جماعت اسلامی کے لائحہ عمل کا اتنا ہی اہم پہلو ہے جتنا انقلابِ قیادت اور اسلامی حکومت کا قیام۔
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۱۹۵۱ء میں لائحہ عمل کے جو چار نکات پیش کیے اور پھر ۱۹۵۷ء میں جن کو جماعت کی پالیسی کا مرکز و محور قرار دیا گیا تھا، انھیں آج تک جماعت کی حکمت عملی میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ مولانا مرحوم کے الفاظ میں اس کام کے بڑے بڑے شعبے اور پہلو یہ ہیں جن کی تذکیر، دعوت و تربیت کے حوالے سے ضروری معلوم ہوتی ہے تاکہ ہدف اور وژن میں کوئی ابہام نہ رہے۔
۱- عوام الناس کو اطاعت ِ خدا و رسولؐ کی طرف بلانا، ان میں آخرت کی بازپُرس کا احساس بیدار کرنا، ان کو نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا، اور انھیں اسلام کی حقیقت سمجھانا۔
۲- عام لوگوں کو ان ضروری احکامِ دینی سے باخبر کرنا جن کا جاننامسلمانوں کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
۳- مساجد کی حالت درست کرنا اور ان کے لیے مسلم معاشرے میں مرکزی اہمیت پیدا کرنا۔
۴- مذہبی جھگڑوں کوروکنا اور لوگوں کو اس کش مکش کے نقصانات کا احساس دلانا۔
ان اغراض کے لیے ہم صرف اخلاقی تلقین ہی پر اکتفا کرنا نہیں چاہتے بلکہ معاشرے کے شریف عناصر کو ان بُرائیوں کے مقابلے میں منظم کر کے ان کے خلاف عملی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں۔
۱- تُوْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وَتُـرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ کے شرعی اصول پر بستیوں کے غریبوں، محتاجوں اور معذوروں کی باقاعدہ اعانت کا انتظام اور اس کے لیے انھی بستیوں کے ذی استطاعت لوگوں سے مدد لینا۔
۲- سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانا اور داد رسی حاصل کرنے کے معاملے میں جس حد تک ممکن ہو، ان کی مدد کرنا۔
۳- بستیوں کے لوگوں میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا تاکہ خود ہی مل جل کر اپنی بستیوں کی صفائی اور راستوں کی درستی اور حفظانِ صحت کا انتظام کرلیا کریں۔
۱- بستیوں اور محلوں میں دارالمطالعے کھولنا۔
۲- تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کرنا۔
۳- جہاں جہاں بستیوں کے لوگ مالی ذرائع فراہم کرنے پر تیار ہوں وہاں ایسے پرائمری اسکول قائم کرناجن میں سرکاری نصاب پڑھانے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی ہو۔
جماعت اسلامی کے سامنے ایک مکمل اسلامی معاشرے اور ریاست کا قیام ہے اور اس کے کارکن اس جدوجہد کو وقت کا اہم ترین چیلنج سمجھتے ہیں۔ وہ دلوں کی نگری کو ایمان اور احتساب سے منور کر کے پورے معاشرے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے منور کرنا چاہتے ہیں اور ساری جدوجہد اللہ کے بھروسے پر اس یقین کے ساتھ انجام دے رہے ہیں کہ ع
جان چو دیگر شد ، جہاں دیگر شود
( انسان کی جان (سوچ، نقطۂ نظر) صحیح سمت میں بدل جائے تو اس کے لیے یہ جہاں بھی بدل جاتا ہے)۔
ہماری دعوت کا مرکزی نکتہ قرآن کی طرف دعوت اور قرآن کے ذریعے زندگی اور نظامِ زندگی کو بدلنے کا عزم اور سعی ہے۔ الحمدللہ اس وقت بھی مطالعہ قرآن کے ہزاروں حلقے مردوں اور خواتین میں قائم ہیں۔ ہدف یہ ہے کہ پورے ملک میں مردوں اور عورتوں کے لیے بہت بڑی تعداد میں قرآن سرکل قائم کیے جائیں۔ جگہ کی قید نہیں، گھر کی بیٹھک ہو، مسجد کا دالان ہو، مدرسے کا حجرہ ہو، کالج کی کلاس ہو، درخت کی چھائوں ہو یا کمیونٹی ہال کی آسایش__ اسے قرآن کے اجتماعی مطالعے کا گہوارا بنادیا جائے۔ چھوٹا اجتماع ہو یا بڑا مجمع__ ہرمسلمان مرد اور عورت اوربچے اور جوان کو آمادہ کیا جائے کہ قرآن سے اپنا رشتہ جوڑے، اس کے معنی و مفہوم کو سمجھے اور اسے اپنے لیے کتاب ِ ہدایت بنالے۔ لمبی چوڑی علمی بحثوں اور تفسیری محفلوں کا اپنا مقام ہے اور ان کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس پروگرام کا اصل مقصدہرمسلمان کو، خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ، قرآنِ پاک کو پڑھنے اور اس کے ترجمے اور مفہوم سے واقفیت پیدا کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ مسلمانوں کی طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ کی یہی کتاب ہے۔ جب بھی مسلمانوں نے اس کا دامن تھاما اور اس کے پیغام کو لے کر اُٹھے وہ بلندیوں اور کامیابیوں سے شادکام ہوئے، اور جب بھی وہ اس سے غافل ہوئے وہ پستیوں اور ذلتوں کی طرف لڑھک گئے۔ سب سے سچے انسان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اللّٰہ یرفع بھذا الکتاب اقواما ویضع بہ آخرین (مسلم) ’’بے شک اللہ اس کتاب (قرآن پاک) کی بدولت بہت سی قوموں کو بامِ عروج پر پہنچائے گا اور اس (کو ترک کرنے) کے باعث دوسروں کو رُسوا کردے گا‘‘۔ اقبال نے اس حقیقت کو اپنے خاص انداز میں بیان کیا ہے ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن
(اگر تو مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتا ہے تو یہ زندگی قرآنِ پاک کے بغیر ممکن نہیں)۔
اور ؎
ازیک آئینی مسلماں زندہ است
پیکرِ ملّت ز قرآں زندہ است
(مسلمان وحدت آئین ہی سے زندہ ہے، اور وہ آئین قرآن ہے)۔
اس کتاب پر ثبات نے دورِ اوّل میں مسلمانوں کو اوجِ ثریا سے ہم کنار کیا تھا اور یہی آج بھی ان کی قسمت بدل سکتی ہے اور انھیں ذلت اور پستی سے نکال کر امامت اور قیادت کے اعلیٰ مقامات پر متمکن کرسکتی ہے۔ سچ کہا امام مالکؒ نے: لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ الامۃ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اوَّلَھَا، اس اُمت کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہوسکے گی مگر اس طریقے کے اختیار کرنے سے جس سے اس کے اوَلیں دور میں ترقی اور اصلاح پائی__ اور وہ ہے قرآن!
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری دعوت میں مرکزیت صرف قرآن کی تعلیم کو حاصل ہے۔ قرآن کو باترجمہ پڑھنا اور اس کے پیغام کو سمجھنا اور سمجھانا، نیز اس کام کو انجام دینے کے لیے ہرضلع میں ایسے افراد کو تیار کرنا جو صحت کے ساتھ قرآن پڑھ سکیں، دوسروں کو پڑھاسکیں اور اس کا مطلب سمجھا سکیں۔ دعوت و تربیت کے اس پروگرام کا مقصد قرآن سے اس رشتے کو مضبوط کرنا اور اس کے ذریعے قوم کو روشنی کی راہ دکھانا اور اپنی کھوئی ہوئی منزل کی طرف گامزن کرنا ہے۔
گھر کی اصلاح اور خاندان کے یونٹ کو اقامت دین کی جدوجہد کا بنیادی مرکز بنا دینا ہماری اس دعوت کا دوسرا ہدف ہے۔ خاندان کی بنیاد محض ایک رسمی رشتہ نہیں۔ یہ تہذیب کا گہوارا اور اسلامی سیرت و کردار کی تعمیرکے لیے سب سے اوّلیں اور کارفرما ادارہ ہے۔ شریعت میں ایمانیات اور عبادات کے بعد سب سے زیادہ ہدایت جس ادارے کے بارے میں ہے وہ خاندان ہی کا ادارہ ہے۔ خود حضورپاکؐ کو دعوت کے باب میں ہدایت فرمائی گئی کہ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۱۴) ’’(پس اے نبیؐ) اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈرائو‘‘ ___ تمام مسلمانوں سے فرمایا گیا: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶)’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان والدین کو جنت کی بشارت دی جو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں اور جو امانت ان کو سونپی گئی ہے اس کا حق پورا پورا ادا کردیں۔
آج خاندان کا نظام اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کے عمل سے دوچار ہے۔ اپنوں کی جہالت اور غفلت اور بیرونی دشمنوں کی ہمہ گیر یلغار دونوں کے باعث دین و تہذیب کا یہ حصار تباہی کی زد میں ہے۔ اس قلعے کی حفاظت اور اسے ایک بار پھر اسلامی قوت کا منبع بنانا ہماری اولیں ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمان خواتین کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن وہ اپنا کردار اسی وقت ادا کرسکتی ہیں جب ہم ان کے حقوق پورے ادا کریں اور انھیں عضو معطل بناکر نہ رکھیں بلکہ ان کو وہی مقام دیں اور مواقع فراہم کریں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو مطلوب ہے۔ قرآن حق و باطل کی کش مکش کے سلسلے میں مردوں اور عورتوں کو ایک ہی زبان میں خطاب کرتا ہے اور ایک ہی ذمہ داری کو ادا کرنے کی طرف بلاتا ہے، لیکن ہم قرآن کی اس پکار کو غفلت سے نظرانداز کردیتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے دعوت و تربیت کے پروگراموں میں گھر کی اصلاح، اہلِ خاندان اور قرابت میں دعوتی کام اور مردوں اور خواتین کا دعوت الی الخیر، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داریوں کو اپنے اپنے دائروں، صلاحیتوں اور امکانات کے مطابق انجام دینے کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔
اس پروگرام کا ایک اور بڑا اہم حصہ بامقصد اور اسلامی اقدار پر مبنی تعلیم کا فروغ ہے۔ موجودہ تعلیمی صورتِ حال میں ضروری ہوگیا ہے کہ اہلِ خیر اچھی اور اسلامی اقدار پر مبنی تعلیم کی فراہمی کا انتظام نجی شعبے میں کریں اور ایک ایسی ملک گیر تعلیمی تحریک برپا کریں کہ ایک متبادل صحت مند نظام وجود میں آجائے۔ سرکاری سطح پر اصلاح کے امکانات کم سے کم ہونے کے بعد اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ملک و ملّت کے بہی خواہ اُوپر سے تبدیلی کا انتظار کیے بغیر اپنی نسل کو آگ کی لپیٹ سے بچانے اور اپنے دین و ثقافت کی حفاظت کے لیے جس طرح بیرونی استعمار کے دور میں اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے خود کوشاں ہوئے تھے،اسی طرح اندرونی استعمار سے ٹکر لینے کے لیے خود ہی اپنے بچوں کی بہترتعلیم کا بندوبست کریں۔ جماعت اسلامی نے ’اسلامی نظامت تعلیم‘ قائم کی ہے اور صوبائی اور مقامی سطح پر وقف کی بنیاد پر، یا خود کفالت کے نظام کے تحت ملک بھر میں اچھے تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا دینا چاہتی ہے۔ الحمدللہ، پچھلے چند برسوں کی کوشش سے کئی ہزار پرائمری اور سیکنڈری اسکول اس منصوبے کے تحت قائم ہوئے ہیں۔ اس سال ان میں خاطرخواہ اضافے کی کوشش کی جائے گی اور جن شہروں یا دیہات میں ابھی ایسے ادارے قائم نہیں ہوسکے ہیں وہاں مقامی آبادی اور اہلِ خیر کے تعاون سے جلد از جلد ان کے قیام کا اہتمام کیا جائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ جس طرح مغرب کے زیراثر تعلیمی تحریک نے بقول اقبال، تعلیم کے ’تیزاب‘ میں مسلمان قوم کی خودی کو ڈال کر اپنے مفید مطلب انداز میں بگاڑنے کی کوشش کی، یہ اصلاحی تحریک اس قوم کی نئی نسلوں کو پھر اسلام کا سپاہی اور پاسبان بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی اور ان شاء اللہ ’دل بدل جائیںگے تعلیم بدل جانے سے‘۔
حکومت کی تعلیمی پالیسی پر تنقید، اس کی ناکامیوں کا احتساب اور صحیح نظام تعلیم کا مطالبہ اسی طرح جاری رہے گا لیکن اپنی مدد آپ کے تحت ایک متبادل نظام بھی قائم کرنا ضروری ہے۔
معاشرے سے ظلم و طغیان، فتنہ و فساد اور فحاشی اور عریانی کا خاتمہ، اور مظلوم کی مدد اور ظالم کا ہاتھ روکنے اور ظلم کے خلاف فضا بنانے کی کوشش بھی ہماری دعوت کا ایک حصہ ہے۔ لوگوں میں اپنے حقوق کا احساس پیدا کرنا اور حق کے لیے کھڑے ہونے کا داعیہ اور حوصلہ پیدا کرنا بھی تحریکِ اسلامی کے اہداف میں سے ہے۔ دعوتی اور تربیتی پروگرام میں معاشرے کی اصلاح کے ان پہلوئوں کو نمایاں کرنا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے مردانِ کارتیار کرنا ایک مشکل لیکن ضروری کام ہے۔ سیاسی بیداری اور ہرسطح پر نئی اور صاف ستھری قیادت اُبھارنا بھی اسی جدوجہد کا ایک حصہ ہے۔ ممبرسازی، رابطہ کمیٹیوں کا قیام اور مجالسِ مشاورت کی تشکیل کا مقصد یہی ہے۔ یہ تمام کام اس لیے انجام دیا جا رہا ہے کہ ایک خادمِ دین اور خادمِ عوام قیادت اُبھر سکے اور بالآخر ملک کی زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھوں میں آسکے جو شر اور فساد، رشوت اور غبن، حقوق کی پامالی اور ظلم و استحصال کا خاتمہ کرسکیں اور معاشرے میں خیر اور فلاح کو عام کرسکیں۔
یہ وہ تحریک ہے جو دعوت و تربیت کے ذریعے معاشرے کی اصلاح، اور نئے مردانِ کار کی تیاری کرے گی تاکہ اجتماعی جدوجہد کے ذریعے نئی قیادت بروے کار آئے اور اجتماعی نظام بشمول نظامِ حکومت تبدیل ہو۔ اگر اس کا نقطۂ آغاز اپنی اصلاح ہے تو نظام کی اصلاح اور زمانے کی رو کی تبدیلی اس کا متوقع ہدف ہے۔ اور یہ سارا کام کسی دُنیوی منفعت کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا، اللہ کے بندوں کی خدمت او ر آخرت کی کامیابی کے لیے انجام دیا جاناچاہیے۔ اگر یہ سارا کام اور ساری تگ ودو صرف اللہ کے بھروسے پر انجام دی جائے تو ان شاء اللہ لازماً ثمرآور ہوگی۔
ہم نے جماعت اسلامی کی دعوت کے چند پہلوئوں پر گفتگو کی ہے۔ ہرمنصوبہ محض کاغذ کا ایک پُرزہ ہے، اگر اس پر عمل نہ ہو اور اس کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے تن، من، دھن کی بازی نہ لگا دی جائے۔ ہماری دعوت اور ہمارے منصوبے کی کامیابی کا انحصا ر اللہ تعالیٰ کی استعانت کے بعد کارکنوں کے جذبے، محنت اور قربانی پر ہے۔ یہ جہاں ایک طرف ’اپنی اصلاح آپ‘ کا نسخہ ہے، وہیں دوسروں کی اصلاح اور خدمت اور معاشرے کی تعمیروتشکیل نو کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے پہلی ضرورت اللہ پر بھروسا، اس کے دامن کو تھامنا، اس سے اپنا رشتہ مضبوط اور گہرا کرنا، اس کی رضا کی طلب اور اس کی محبت کی خواہش ہے۔ جتنا یہ جذبہ مضبوط اور صائب ہوگا اتنا ہی راستہ آسان ہوجائے گا۔
اس کے لیے دوسری ضرورت خود اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ اگر شمع خود روشن نہ ہوتو دوسروں کو روشنی کیسے پہنچائے گی۔ اگر برف میں برودت اور آگ میں حرارت نہ ہو تو دوسروں کو ٹھنڈک یا گرمی کیسے پہنچا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کا نبیؐ جو داعیِ اوّل ہوتا ہے وہ سب سے پہلے ایمان لانے والا اور سب سے پہلے اطاعت کرنے والا ہوتا ہے (انا اول المومنین وانا اول المسلمین)۔ کارکن اور قیادت، ہر سطح پر، ہم میں سے ہر ایک کو، سب سے پہلے خود اپنی فکر کرنی چاہیے اور اس جذبے سے کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خود بھی دین پر قائم رہنے اور اس راہ پر ترقی کرنے کی توفیق بخشے اور اس لائق بنائے کہ ہم شہادتِ حق کا فریضہ کماحقہٗ ادا کرسکیں۔
اس کے لیے اخلاص کے ساتھ ساتھ علم، قول و فعل کی یک رنگی، حُسنِ اخلاق، جذبۂ خدمت، حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی پاس داری، صبر اور تحمل، مسلسل جدوجہد، کوشش اور قربانی کے جذبے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے کی ایک اوربڑی اہم ضرورت اپنے دائرے سے نکل کر دوسروں تک پہنچنا، عوام میں اُٹھنا بیٹھنا، ان سے محبت اور ہمدردی کا معاملہ کرنا، ان کے دُکھ درد میں شریک ہونا اور ان کے دلوں کو موہ لینا ہے۔ یہ کام خود رائی، خودپسندی اور احساسِ برتری کے ساتھ انجام نہیں پاسکتا۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ مبارک میں جہاں ہمیں خوش اخلاقی کا اعلیٰ ترین نمونہ نظر آتا ہے (وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo القلم ۶۸:۴)، وہیں آپؐ کے تمام معاملات، رہن سہن اور میل جول میں بلا کا انکسار اور عام انسانوں جیسی سادگی او رملنساری پائی جاتی ہے۔ حضرت عائشہؓ کی گواہی ہے: آپؐ فرماتے تھے: اِجْلِسْ کَمَا یَجْلِسُ الْعَبْدُ ،میںاسی طرح اُٹھتا بیٹھتا ہوں جس طرح خدا کا ایک عام بندہ اُٹھتا بیٹھتا ہے۔ جب آپؐ نے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا والی بناکر بھیجا تو نصیحت فرمائی: اَحْسِنْ خُلُقَکَ لِلنَّاسِ،لوگوں کے ساتھ بہتر اخلاق سے پیش آنا۔
آپؐ کے شوقِ دعوت اور دوسروں کی فکرگیری کی حالت یہ تھی کہ خود اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں آپؐ کو متوجہ فرماتا ہے کہ اے نبیؐ! شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَ لَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ o الشعراء ۲۶:۳)۔ آپؐ کی لگن اور فکرمندی کا یہ حال تھا کہ آپؐ نے فرمایا کہ لوگ پروانوں کی طرح آگ میں گر رہے ہیں اور میں ان کی کمر پکڑپکڑ کر ان کو آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں۔ آپؐ کی استقامت کی یہ کیفیت تھی کہ آزمایش کے سخت ترین مرحلے پر بھی برملا فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دو تو پھر بھی میں بندگیِ رب کی دعوت سے قطعاً باز نہیں آئوں گا۔ میں اس راہ میں اپنی جان تو دے سکتا ہوں، پسپائی اختیار نہیں کرسکتا۔ احساسِ ذمہ داری کا یہ حال تھا کہ جب تھکے ہارے بخار کے عالم میں دارارقم میں آرام کے چند لمحات کے دوران آپؐ کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ ایک قافلہ مکہ کے باہر آیا ہے تو دعوت پہنچانے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں اور اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں آپؐ تھکے ہوئے ہیں، طبیعت بھی ناساز ہے، اس وقت آرام فرمالیں تو آپؐ کا ارشاد یہی ہوتا ہے کہ کیا خبر کل تک وہ قافلہ رخصت ہوجائے اور کیا پتا کل تک میرا ہی بلاوا آجائے۔ آرام اور استراحت ترک کردیتے ہیں اور دعوت پہنچانے کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں__ صلی اللہ علیہ وسلم!
دعوت، تربیت اور اقامت دین کا کام انجام دینے کے لیے اس عزم، اس ہمت، اس ولولے، اس احساسِ ذمہ داری اور اس مجاہدے کی ضرورت ہے ؎
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرکارواں کے لیے
بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ صرف میرکارواں ہی کے لیے نہیں، ہر کارکن اور اس منزل کے ہر راہ رو کے لیے یہی رخت ِ سفر ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ ۔ اَللّٰھُمَّ اَنْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ وَلَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ -
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ
اے اللہ! جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مدد اور اسے قائم کرنے کی سعی کریں، تو ان کی مدد فرما اور ہمیں ان میں سے کردے۔
اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو رُسوا کرے، تو ان کو رُسوا کردے اور ہم کو ان کے ساتھ نہ کرنا۔
اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما ،اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عنایت فرما۔ آمین!
تبدیلی فون نمبر
عالمی ترجمان القرآن ادارتی دفتر، منصورہ کا فون نمبر تبدیل ہوگیا ہے۔
نیا فون نمبر: 042-35252356
حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو مسجدنبویؐ میں تشریف لے گئے اور دو رکعتیں پڑھیں۔آپؐ کو یہ طریقہ پسند تھا کہ سفر سے واپس آئیں تو مسجد جائیں اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد حضرت فاطمہؓ سے ملنے جاتے، پھر اَزواجِ مطہراتؓ کے پاس چلے جاتے۔ چنانچہ ایک سفر سے واپس تشریف لائے تو مسجد کے بعد حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے گھر کے دروازے پر آپؐ کا استقبال کیا، آپؐ کے چہرۂ انور کو بوسے دینے لگیں اور رونے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس لیے رو رہی ہوں کہ مشقت اُٹھانے کے سبب آپؐ کی رنگت بدل گئی ہے اور آپؐ کے کپڑے بوسیدہ ہوچکے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہؓ! اللہ تعالیٰ نے تیرے والد کو ایسا دین دے کر بھیجا ہے کہ زمین پر کوئی مٹی کا گھر باقی رہے گا اور نہ خیمے مگر اللہ تعالیٰ اس میں عزت داخل کرے گا یا ذلت (ایمان والوں کے لیے عزت اور کافروں کے لیے ذلّت)۔ یہاں تک کہ یہ عزت اور ذلت وہاں وہاں پہنچ جائے جہاں دن اور رات پہنچتے ہیں (اس لیے کامیابی ہمارے لیے ہے۔ پوری دنیا میں اسلام کے لیے عزت ہے اور کفرکے لیے ذلّت ہے۔ جب نتیجہ بہتر ہے تو مشقت اور تکالیف کا احساس نہیں ہونا چاہیے)۔(کنزالعمال، طبرانی، حاکم)
اسلام کی دعوت دینے کے لیے پوری قوت صرف کرنا چاہیے۔ اس کام کے لیے دن رات ایک کردینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دن رات ایک کیا۔ دعوت بھی دی اور قتال بھی کیا۔ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا نے دین کی سربلندی کے لیے جان کی بازی لگادی۔ حضرت نوحؑ نے ۱۴۰۰ سال عمرپائی اور دن رات ایک کیا۔ سورئہ نوح میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد کررہے ہیں کہ اے میرے رب! میں نے دن اور رات ان کو دعوت دی لیکن میری دعوت کے نتیجے میں یہ لوگ راہِ راست پر آنے کے بجاے مزید دُور ہوتے چلے گئے۔ جب میں انھیں دعوت دیتا یہ اپنے چہروں کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے اور کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے اور کفر پر اصرار کرتے اور انتہائی تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرتے۔ چنانچہ حضرت نوحؑ نے ان پر عذاب کے لیے دعا کی جس کے نتیجے میں روے زمین کو ان سے پاک و صاف کردیا گیا۔ اس طرح زمین اسلام کے لیے ہموار ہوگئی اور اسلام غالب ہوگیا۔ اس کے بعد پھر کفر وجود میں آیا تو پھر انبیاعلیہم السلام کو مبعوث کیا گیا اور اس وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کا آخری مرحلہ وہ ہے جس کی پیش گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ اب یہ کام ہمیں کرنا ہے تاآنکہ یہ دین غالب ہوجائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کا دنیا اپنی نگاہوں سے مشاہدہ کرلے۔
m
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف نکلے تو دیکھا کہ مہاجرین اور انصار صبح کے وقت سخت سردی میں خندق کی کھدائی کر رہے ہیں۔ انصار اور مہاجرین خود یہ کام کر رہے تھے، ان کے خادم نہ تھے جو ان کی جگہ یہ کام کرتے۔ جب آپؐ نے ان کی مشقت اور بھوک کی حالت کو دیکھا تو دُعا کی: اے اللہ! اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ انصار اور مہاجرین نے جواباً کہا: ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جہاد پر بیعت کی ہے۔ ہم اس بیعت اور عہد پر ہمیشہ قائم رہیں گے۔(بخاری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے کیسی غربت اور فاقہ کشی کے ساتھ محنت و مشقت اُٹھاتے ہوئے دین کو غالب کیا، اس کا ایک منظر غزوئہ خندق ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین اور یہود کی متحدہ ۱۲ہزار فوج کا مقابلہ خندق کی کھدائی کے ذریعے کیا۔ مدینہ طیبہ کی جس جانب سے حملہ ہوسکتا تھا، اس طرف خندق کی کھدائی کرکے مدینہ میں داخلے کا راستہ روک دیا۔ چھے دن کے اندر ساڑھے تین میل لمبی خندق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے مل کر حصہ لیا۔
منافقین مختلف قسم کے بہانے کرکے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ اب ۱۲ہزار فوج مسلمانوں کو ختم کرکے رکھ دے گی۔ دوسری طرف یہود بنی قریظہ نے بھی عہدشکنی کر کے متحدہ محاذ کا ساتھ دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے بنوقریظہ کی سازش اور متحدہ محاذ کو ناکام و نامراد کر دیا۔ ۲۵دن متحدہ محاذ نے محاصرہ کیا تو اس کے بعد بے حوصلہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آندھی بھی چلا دی جس نے ان کے کیمپ اور چولھوں پر چڑھی دیگیں اُلٹ دیں۔ بنوقریظہ ان کی کچھ بھی مدد نہ کرسکے اور یوں یہ دونوں گروہ خائب و خاسر ہوگئے۔ مشرکین بھاگ گئے اور بنوقریظہ بدعہدی کے انجام سے دوچار ہوئے۔ بنوقریظہ کی گڑھیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کیا۔ انھوں نے کچھ دیر تو مزاحمت کی لیکن بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں اس شرط پر کہ ہمارا فیصلہ سعد بن معاذؓ کریں۔ چنانچہ سعد بن معاذؓ نے فیصلہ دیا کہ ان کے جنگی مردوںکو قتل کردیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ یہ فیصلہ انھوں نے تورات کے مطابق کیا تھا۔ تورات میں آج بھی ’غدر عہد‘ کی یہی سزا لکھی ہوئی ہے۔ دوسرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلے کو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق قرار دے کر اس پر عمل درآمد فرمایا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی کس مپرسی کی حالت کے موقعے پر انھیں یاد دلایا کہ اس مشقت کے عوض میں تمھیں جنت ملنے والی ہے اور وہی اصل زندگی ہے۔ رہی دنیاوی زندگی تو وہ فانی ہے اور اس دنیا میں جتنی بڑی نعمتیں مل جائیں وہ بالآخر زائل ہونے والی ہیں۔ اس لیے دنیوی عیش و عشرت کی طلب اور خواہش سے بے نیاز ہوکر اُخروی زندگی کو سنوارنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
m
محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان سے روایت ہے کہ خالد بن سعید بن العاص قدیم الاسلام ہیں۔ اپنے بھائیوں میں سب سے پہلے مسلمان ہیں۔ ان کے اسلام کا سبب ایک خواب ہوا جو انھوں نے دیکھا تھا کہ وہ جہنم کے کنارے پر کھڑے ہیں اور انھیں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے والد انھیں دوزخ میں دھکیل رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کمر سے پکڑ کر روک رہے ہیں اور دوزخ میں گرنے سے بچارہے ہیں۔ وہ نیندسے گھبرا کر بیدار ہوئے تو کہا: میں اللہ کی قسم اُٹھاتا ہوں کہ یہ برحق خواب ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ سے ملے اور اپنا خواب سنایا تو انھوں نے کہا: دیکھو رسولؐ اللہ تو ہمارے پاس ہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ بھلائی کا فیصلہ فرمایا۔ رسولؐ اللہ کی اتباع کرو، رسولؐ اللہ کی اتباع کروگے تو اسلام میں داخل ہوکر آپؐ کے ساتھ چلو گے اور دوزخ سے بچ جائو گے۔ اسلام تجھے دوزخ سے بچالے گا اور تیرا والد دوزخ میں ہوگا۔
خالدؓ بن سعید رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجیاد کے مقام پر ملے تو آپؐ سے پوچھا: آپؐ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میں تجھے اللہ وحدہٗ لاشریک کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی طرف کہ محمدؐ اس کے بندے اور اس کے رسولؐ ہیں۔اور میں دعوت دیتا ہوں کہ ان معبودوں کو چھوڑ دو جن کی عبادت میں تم مشغول ہو۔ تم پتھروں کی عبادت کر رہے ہو جو نہ تو نفع کے مالک ہیں نہ نقصان کے، جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں۔ انھیں خبر ہی نہیں کہ ان کی عبادت کرنے والے کون ہیں۔ توخالد نے کہا: میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ ان سے یہ کلمۂ ایمان سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے۔ (بیہقی)
اسلام کا اصل فائدہ تو لوگوں کو دوزخ سے بچاناہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان کی کمروں سے پکڑپکڑ کربچایا۔اس کے لیے دوڑ دھوپ کی۔ توحید ورسالت کی طرف دعوت دی۔ مشرکین کو ان کے باطل عقائد کے بے بنیاد ہونے سے آگاہ کیا۔ یہی کام آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے کیا۔ اب بھی یہ کام اسی جذبے اور جوش و خروش سے کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی کام اور دعوت یہی ہے۔
m
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان اچانک حملے کی بیڑی ہے۔ مومن اچانک بے خبری میں حملہ نہیں کرتا (ابوداؤد)
ایمان کا تقاضا ہے کہ بے گناہوں پر حملہ نہ کیا جائے مومن جس سے برسرِپیکار نہیں ہوتا یا جن سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوتا ہے، ان پر بھی حملہ نہیں کرتا۔ جن سے معاہدہ ہوتا ہے جب تک معاہدے کو توڑ دینے کا اعلان نہیں کرتا، ان پر حملہ نہیں کرتا۔ اس طرح مومن سے دنیا بے خوف ہوتی ہے ۔ دنیا کومومن سے یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ وہ ان پر اچانک حملہ کر کے ان کی جان و مال کی حفاظت کو ختم کردے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: المومن من امنہ الناس علٰی دمائھم واموالھم، ’’مومن تو صرف وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان اور مال کے معاملے میں بے خوف ہوں‘‘۔ اس وقت دنیا میں جو دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں وہ ایمانی تقاضوں کے منافی ہیں۔
وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶۹)اور جس کو حکمت ملی،اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔
عربی زبان میں لفظ حکمت کا مادہ ،تین حروف ’ح ،ک اور م‘ ہیں۔اس مادے سے مختلف الفاظ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تویہی لفظ حکمت ہے، جسے عام فہم زبان میں دانائی اور فراست کہا جاتا ہے اور جس کے حامل کو حکیم(جمع حکما )کہتے ہیں۔ دوسرا لفظ حُکم ہے ،جس کے معنی فیصلہ کرنا (اور حکم دینا)ہیں ،اور فیصلہ کرنے والے کو حَکَم کہتے ہیں۔اس فیصلے میں بھی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس مادے سے تیسرا لفظ حکومت ہے ،جس کاحامل حاکم(جمع حکام)ہوتا ہے۔اس حاکم کے لیے بھی دانائی اور فیصلہ کرنا ناگزیر ہیں۔
حکمت: لغوی و اصطلاحی معنی
اس کے علاوہ لغات میں یہ الفاظ بھی دیے گئے ہیں:علم،فلسفہ اور کلام، استدلال،بردباری اور حوصلہ،عدل و انصاف،علاج۔
علم اور حکمت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ علم جاننا ہے ،اور حکمت علم سے آگے کا مرحلہ ہے۔علم کا استعمال صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، لیکن حکمت علم کو صحیح استعمال کرنے کا نام ہے۔
حکمت کے لغوی اور اصطلاحی معنی دیکھتے ہوئے اور اس لفظ کے متعلق تفصیلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے،ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکمت ایک جامع صفت ہے،جو کئی صفات کا مجموعہ ہے ۔ ان صفات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
۱-صحیح سمجھ اور فھم:معاملہ فہمی، مردم شناسی، واقعات کو سمجھنا، صورتِ حال کو سمجھنا، مسلّمہ امور؍اصول میں پوشیدہ حکمت کو سمجھنا۔
۲- درست فھم کے لوازمات:کثرتِ علم، مشاہدہ، نتیجہ اخذ کرنا۔ مشاہدات اور تجربات سے استنباط۔ قوتِ حافظہ،غور و فکر، تدبر، تفقہ، تحمل،برداشت اوربردباری۔ اپنے جذبات پر قابو، وسعتِ قلب و نظر اور اپنے علم کا اطلاق کرنا۔
۳- صحیح فھم کے اجزا: باریک بینی (معاملے کی گہرائی پر نظر)، بصیرت (معاملے کے پوشیدہ پہلوئوں تک پہنچ جانا)، اندرونِ معاملہ یا تمام مثبت و منفی پہلوؤں پر نظر ، بیرونِ معاملہ یاتمام متعلقہ دائروں پر نظر ، معاملے کو جامع تناظر میں دیکھنا، مختلف رخ سے یا کسی دوسرے کی نظر سے یا معروضی نظر سے دیکھنا، دُوربینی(کوئی معاملہ آگے جاکر کہاں منتج ہو سکتا ہے؟)، پیش بینی، آگے کیا ہونے والا ہے؟(انسان کے پاس علمِ غیب نہیں ، لیکن کڑیاں جوڑکر اندازہ لگانے کی صلاحیت ہے)۔
۴- راے قائم کرنے کی صلاحیت:صاحب الراے ہونا(گومگو کی حالت میں نہ رہنا)، راے مضبوط ہونا(بے جا اصرار نہ ہولیکن راے پر دلائل کے ساتھ قائم ہو)، صائب الراے ہونا یا اصابتِ راے کی صفت ہونا، مختلف پہلوئوں میں توازن ملحوظ رکھ کر(حکمت کا لغوی مطلب عدل بھی ہے)،ہرچیز کو اس کا صحیح مقام دے کر،ہر چیز کی صحیح قدر کا تعین کر کے، نتائج اور اسباب اور مقاصد کے ادراک کے ساتھ، دلیل سے راے پر پہنچنایا قوتِ استدلال ہونا(حکمت کے لغوی معنی فلسفہ اور استدلال بھی ہیں)۔اس راے کو بنانے میں: حالات کے مطابق ڈھلناآتاہو (اصول بھی برقرار رہیں)، جذبات پر قابو ہواور ردِّعمل جذباتی نہ ہو(جذبات کا لحاظ بھی رہے)، حزم و احتیاط ہو (پیش قدمی بھی ہو)۔ صحیح کو صحیح سمجھنا اور غلط کو غلط سمجھنا،دو صحیح آرا میں سے صحیح تر کو ترجیح دینا،صحیح اور غلط اگر خلط ملط ہوں تو چھانٹ کر صحیح راے بنانا اور امتیازی حد کو پہچان جاناخواہ وہ نظریے میں ہو یا کلام میں یا عمل میں۔
۵- قوتِ فیصلہ:حدیث کے مطابق قابلِ رشک ہے وہ شخص جسے حکمت دی گئی اور وہ اس سے فیصلے کرتا اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ قوتِ فیصلہ کے ضمن میں درج ذیل اُمور اہم ہیں:
(ا)کیا کام صحیح ہے؟ اس نتیجے پر پہنچنا، کئی کاموں میں سے ترجیح کس کو دینا ہے؟ جگہ، وقت، انسانوں، مضمرات کے لحاظ سے،اہم اور کم اہم اور غیر اہم کام کون سے ہیں؟اہم میں سے فوری کام کون سے ہیں؟، کام کا احسن طریقہ کیا ہے؟ منصوبہ بنانا۔ وسائل و استعداد اور مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے، مقصود کی طرف پیش قدمی اور غیر مطلوب و لا یعنی کو الگ کرنا۔ سارے کاموں کا آپس میں اعتدال و توازن رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا کہ کسی صحیح کام کے لیے صحیح وقت کون سا ہے؟
(ب) اس وقت کے لیے کون سا کام صحیح ہے؟کسی بھی درپیش صورتِ حال میں، مسائل کا حل نکال لینااور راستہ بنالینا(حکمت کا لغوی مطلب ’حوصلہ‘ بھی ہے)۔ اصول بدلے بغیرحالات کے لحاظ سے تدبیر کرلینا ، لکیر کا فقیر نہ ہونا۔کئی تدابیراور کئی راستوں پر نظر ہونا، کئی راستوں میں سے مناسب ترین راستہ یا حل چننا۔
(ج)موقع شناسی،کوئی کام بے موقع نہ کرنا،اور موقع ہو تو اسے ضائع نہ کرنا۔
(د) منفی عوامل کا رخ ممکنہ حد تک اپنے حق میں کرنا، مشکلات کو آگے بڑھنے کا ذریعہ بنانا۔
(ہ) فیصلے کا مضبوط ہونا،تلون مزاجی نہ ہونا (ایک دفعہ سوچ کر سو دفعہ فیصلے نہ کرنا بلکہ سو دفعہ سوچ کر ایک دفعہ فیصلہ کرنا)۔
(و)کس انسان سے کس طرح معاملہ کرنا ہے؟کس وقت کون سی بات ،کس طرح کرنا ہے؟ ہمیشہ صحیح اور نافع بات کرنا۔مختصر گفتگو میں سارے نکات کو سمیٹنا۔
حکمت کن ہستیوں میں پائی جاتی ہے؟ اس کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے:
اس کائنات کی وہ ہستی جو ہر تعریف اور کمال کی مرجع و منبع ہے ، اس میں حکمت بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔اس کی یہ صفت ’حکیم‘ قرآن میں۹۴جگہ آئی ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا ’حکمت کی ذیلی صفات یا اجزا ‘ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہی کامل درجے میں موجود ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا اطلاق صرف انسان پر ہوتا ہے۔علم اور حکمت میں یہ فرق ہے کہ علم حاصل کیا جاتا ہے، جب کہ حکمت خداداد ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمہ پہلو حکمت عطاکی گئی (النساء ۴:۱۱۳،بنی اسرائیل ۱۷:۳۹)۔تمام انبیاے کرام ؑ حکمت سے متصف تھے۔(اٰل عمرٰن ۳:۸۱ )۔جن نبیوں کے ساتھ خصوصاً حکمت کا ذکر ہے،وہ درج ذیل ہیں (ابراہیم ۱۴:۳۶-۴۱،حضرت داود ؑ: (البقرہ ۲:۲۵۱)۔ حضرت عیسٰی ؑ (اٰل عمرٰن۳:۴۸،المائدہ ۵:۱۱۰،زخرف ۴۳:۶۳)
اس کے علاوہ مختلف انبیا کو’حکم‘ عطا ہونے کا ذکر ہوا ہے،جس سے مراد مفسرین نے حکمت ہی لی ہے۔لقمان کی حکمت ضرب المثل ہے،جس کا قرآن میں بھی ذکر ہے (لقمٰن، ۳۱:۱۲-۱۹)۔صحابہ کرامؓ میں سے بھی بہت سے،حکمت میں ممتاز ہیں۔حضرت ابوبکرؓ نے منکرینِ زکوٰۃ کے متعلق دین کے منشا کو باقی صحابہ سے بہتر سمجھ لیا تھا۔ حضرت عمرؓبہت سے معاملات میں وحی کے نزول سے پہلے دین کا منشا سمجھ جاتے تھے۔مثلاً شراب کی حرمت،پردے کا حکم،اذان کا طریقہ، قیدیوں کی سزا اور منافقوں کی نمازِجنازہ کے متعلق احکامات۔
حکمت و دانائی کی باتوں کو بھی حکمت کاہی نام دیا جاتاہے۔
اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب قرآنِ کریم حکمت سے بھرپور ہے، جس کی یہ صفت بیان ہوئی ہے:
الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ (یٰٓس۳۶:۲)، الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ (یونس۱۰:۱، لقمان۱۳:۱)، الذِّکْرِ الْحَکِیْمِ (اٰل عمرٰن۳:۵۸)۔
اس کتاب کی ترتیب،اس کی زبان کی فصاحت اور اس کے مضامین ،سب میں حکمت موجودہے۔
اسی طرح قرآن میں چار جگہ رسولؐ کے چار فرائضِ منصبی بتائے گئے ہیں (البقرہ ۲: ۱۲۹، ۱۵۱، اٰل عمرٰن۳:۱۶۴،جمعہ۶۲:۲)۔ یہ چار فرائضِ منصبی ہیں: تلاوتِ آیات،تزکیہ،تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت۔ علما نے حکمت کی تعلیم کے الگ ذکر سے مراد ’حدیث‘کی تعلیم کو لیا ہے،اور حکمت کو حدیث یا سنت کا ہم معنی قرار دیا ہے۔پھر دین کی ساری تعلیمات حکمت ہیں۔(بنی اسرائیل ۱۷:۳۸)، زبور حکمت ہے (بقرہ، صٓ)، انجیل حکمت ہے۔(زخرف )
سورئہ قمر میں عبرت کے واقعات کے بعد ’حکمۃ بالغۃ‘کہا گیا ہے،جس سے مراد یہ ہے کہ ان واقعات میں سبق پوشیدہ ہے اور یہ صحیح اور صاف بات حکمت ہے۔اور بالغہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایسی بات جو دل تک پہنچنے والی ہو۔
واضح تعلیمات اور علم کے بعدحکمت ہر انسان کے فہم کا نام ہے،جو علما و مفسرین کے مختلف الفاظ میں یہ ہے: تفقہ فی الدین،دین کی معرفت؍سمجھ بوجھ، حق و باطل؍خیر و شر میں تمیز و فیصلہ، قرآن کا فہم، رسولؐ کے دیے گئے احکام؍ سنت ِ نبویؐکا علم، معرفت، قولِ صادق، فہمِ علم، اصابت ِ راے، قوتِ فیصلہ، اس علم پرعمل اور عملِ صالح۔ ان سب کی مراد ایک ہی ہے، یعنی دین کا فہم اور عمل۔
لفظ ’حکمت‘ جب حق تعالیٰ کے لیے استعمال کیا جائے تو معنی تمام اشیا کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں، اور جب غیراللہ کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے تو موجودات کی صحیح معرفت اور اس کے مطابق عمل مراد ہوتا ہے۔(مفردات القرآن)
انسانوں کی حکمت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ انسان یہ سمجھ جائے کہ اس کی یہ زندگی جو اسے ظاہری آنکھوں سے نظر آرہی ہے،اس کی اصل زندگی کا محض ایک جزو ہے۔سب سے بڑی ہوشیاری اور عقل مندی یہ ہے کہ وہ کل کے لیے ذخیرہ کر لے،مختصر زندگی سے طویل زندگی کی خوش حالی کا بندوبست کرلے۔اِس زندگی کے لیے لامتناہی زندگی کو خراب کرلینے سے بڑھ کر کوئی بے وقوفی نہیں۔ دنیا اور آخرت کی حقیقت پہچاننے سے بڑی کوئی حکمت نہیں۔ اس لیے ہر خیر پر عمل اور ہر برائی سے بچنا حکمت ہے۔
ایمان باللہ اور حکمت کابراہِ راست تعلق ہے جو درج ذیل نکات سے معلوم ہوتا ہے:
۱- بعض علما نے کہا ہے کہ معرفت باللہ ہی حکمت ہے۔یہ حکمت ہی ہے کہ اس کائنات کا مشاہدہ کر کے،غور و فکر کر کے،یہ استنباط کیا جائے کہ یہ نظام خود بخود نہیں چل سکتا اور نہ بہت سے خدا اسے چلا سکتے ہیں۔اور اس طرح غیب کے پردے کے پار ، حقائق تک پہنچا جائے۔
۲- راس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ (ابوداؤد) اللہ کا خوف،حکمت کی چوٹی ہے۔
۳-اللہ کے شکر کی اساس بھی حکمت ہے،جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے‘‘۔(لقمٰن ۳۱:۱۲)
دوسرے الفاظ میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ،یا اسلام کے دائرے میں داخل ہونا سب سے بڑی حکمت ہے۔ پھر یہی حکمت قدم قدم پر حق اور باطل کو الگ الگ کرکے دکھاتی ہے۔ یہ حکمت دنیا کے عیوب اور اس کی بیماریاں کھول کے دکھادیتی ہے ، اور پھر اس کے علاج کے طریقے بھی واضح کرتی ہے۔ اور یہی حکمت زبان پر اور عمل میں جاری ہو جاتی ہے۔
اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد بھی حکمت کابہت بڑاکردارہے۔
۷- حکمتِ انقلاب: رسولؐ اللہ کا مشن اپنانے والی اسلامی تحریکوں کو اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کے لیے حکمت ِ تحریک اپنانا چاہیے، مثلاً کس مرحلے پر،کس محاذ پر کس کام کی ضرورت ہے؟ہر معاملے میں متوازن حکمتِ عملی کیا ہو؟ مکمل کام کیا ہے اور کس میدان میں کیا ترجیحات ہیں ؟ حالات، جگہ اور وقت کے لحاظ سے ان میں کسی تبدیلی کا امکان یا جواز ہے؟بنیادی نظریے کے مطابق کون سے اصول ہیں جو ناقابلِ تغیر ہیں؟ دین کا مکمل نظام اوراس میں احکام کی حکمت کیا ہے اور اس لحاظ سے کیا تدریج ہو سکتی ہے؟ مختلف مواقع پر دین کو کس طرح پیش کرنا چاہیے؟
انقلاب کی جد و جہد میں کسی بھی کام یا پیش قدمی کے لیے کون سا موقع مناسب ہے؟ اور کوئی موقع موجود ہو تو اس کی پہچان میں غفلت یا غلطی کیے بغیر زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھایا جائے؟
اپنی قوت ِکار اور وسائل کی صحیح صورتِ حال اور ان میں اضافے کی تدابیر کیا ہیں؟ کسی خاص کام کے لیے کون سے وسائل اور طریقِ کار مناسب ہے؟کس کام کے لیے کتنی قوتِ کار اور کتنے فی صد وسائل کاارتکاز چاہیے؟ضرورت پڑنے پر کم سے کم وقت میں وسائل اور قوت کیسے مہیا کی جائے؟
کسی مزاحمت کا پسِ منظر کیا ہے اورکس مزاحمت کا کس جگہ، کس وقت، کس طرح سامنا کرنا ہے؟کس مزاحمت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ،اپنا راستہ نکالناہے؟
متوازن اور مؤثر نظامِ جماعت کیسے ترتیب دیا جائے ؟اجتماعی وقت اور وسائل کو ضیاع سے بچاتے ہوئے، تمام افراد کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کیسے کیا جائے؟
سیّد مودودیؒ کے مطابق: دنیا میں جو نظام غالب ہیں،ان کے چلانے والے اپنے دائرے میں بہترین عقلی و علمی طاقتیں رکھتے ہیں۔ان کے مقابلے میں اسلامی نظام لانے اور پھربرقرار رکھنے کے لیے گہری بصیرت، تدبر، دانش مندی، معاملہ فہمی، موقع شناسی، باتدبیر ہونا، مسائل سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت کو انھوں نے حکمت کا جامع نام دیا ہے۔اور لکھا ہے کہ اس کا اطلاق دانائی و زیرکی کے مختلف مظاہر پر ہوتا ہے۔
مختلف دنیوی معاملات میں حکمت کا ظہور ہوتا ہے،یا اس کی ضرورت ہوتی ہے،مثلاً: mگھریلو امور mملازمت و پیشہ ورانہ امور mکسی تنظیم کو چلانے mکسی مقصد کو آگے بڑھانے mحکومتی معاملات چلانے mانسانوں کو آگے بڑھانے کے لیے___ بچوں یا بڑوں کو،،، نظریاتی، عملی ،مہاراتی اور پیشہ ورانہ تربیت mکسی علم یا فن کی گہرائیوں کو سمجھنے کے لیے۔
انھی چھوٹے دائروں کے اندر حکمت ِ عملی اور کچھ طریقے ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوذ نہیں ہوتے ،بلکہ انسان نے اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ عقل اور تجربے سے انھیں اخذ کیا ہوتا ہے۔انھیں اپنانے میں مومن کاکیا رویہ ہونا چاہیے؟ اگر یہ حکمت اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں ،تو اسے اپنانے میں مومن کو نہیں ہچکچانا چاہیے،کیونکہ ’’حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں اس کو پائے، وہ اس کا زیادہ حق دار ہے‘‘ (ابن ماجہ،ترمذی)۔ وہ حکمت اسلام کا ہی حصہ ہے۔
ان امور میں ایک اور ،بڑا نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ سب سے بڑی حکمت اللہ پر ایمان اور آخرت کی تیاری ہے۔اگر مندرجہ بالا دائرے اس بڑے دائرے کے اندر ہوں تو ان میں حکمت، اسی بڑی حکمت کا حصہ ہو گی، اور اگر ان کا مطمحِ نظر صرف یہ دنیا ہو ، تو ان میں حکمت محدود ہو جائے گی۔اسی طرح جیسے کہ ایک مومن اور غیر مومن کی حکمت میں فرق ہوتا ہے۔
یہ سوال کہ اللہ اور آخرت کو نہ ماننے والوں میں حکمت ہوتی ہے یا نہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ دینی اصطلاح میں تو حکمت نہیں ہوتی لیکن دنیوی معاملات کی سمجھ ہو سکتی ہے، اور یہ سمجھ بھی محدود ہوتی ہے۔اسے ہم محدود حکمت یا حکمت کا جزو کہہ سکتے ہیں۔
۱-اسلام وہ دین ہے جس میں زندگی کے دائرے الگ الگ نہیں ،بلکہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور سب کاموں کی آخری نیت ایک ہی ہوتی ہے۔ اس لیے کسی ایک معاملے یا دائرے میں مومن کی حکمت، اس معاملے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔
۲- مومن کی حکمت یک رُخی نہیں بلکہ زندگی کے ہر دائرے میں ہوتی ہے اورمقصدِحقیقی کو مضبوط کرتی ہے۔ اس طرح مختلف دائروں میں حکمت مختلف اور متصادم نہیں ہوتی۔
۳-چونکہ حکمت کی چوٹی ،اللہ کا خوف ہے(ابوداؤد)،اور اللہ کا خوف، باقی ہر قسم کے خوف سے آزاد کر دیتا ہے، اس لیے مومن دنیوی خوف اور ہرقسم کے دبائو سے آزاد ہوکر راے بناسکتا ہے، عمل کر سکتا ہے۔اس طرح اس کا ذہن کھلا رہتا ہے جو حکمت کی نشانی ہے۔صحیح اور غلط کو الگ کرنے کی صلاحیت، حکمت کا ایک پہلوہے۔
اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا(الانفال۸:۲۹)اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔
۴-اسلام کل کے لیے تیاری اور اس تیاری کے لیے موجودہ حالت کو غنیمت جاننے کی سوچ اور فکر دیتا ہے۔ اس لیے مومن میں پیش بینی کی حکمت پائی جاتی ہے۔
۵- مومن کے سامنے عمل کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اگلی سے اگلی منزل اس کے سامنے ہوتی ہے۔ یہ وسعت ِنظری بھی اس کی حکمت کو بڑھاتی ہے۔
۶-مومن جغرافیائی، نسلی حدبندیوں کو قبول کرتے ہوئے بھی ان سے بہت اوپر اٹھ کر سوچتا ہے۔ یہ بھی اس کی وسعتِ نظری کا سبب ہے۔
۷-قرآن میں جگہ جگہ غور وفکر، تدبر، تفقہ کی ترغیب ملتی ہے۔ اس غور و فکر کی اگلی منزل حکمت ہی ہوتی ہے۔
۸-قرآن آیاتِ انفس و آفاق کے مشاہدے کی دعوت دیتا ہے۔اس سے مومن کی قوتِ مشاہدہ اور اس سے استنباط کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، جو حکمت کی طرف لے جانے والی قوت ہے۔
۹-اسلام ہی مومن کو یہ علم دیتا ہے کہ کچھ اصول غیرمتزلزل ہوتے ہیں اور پھر ان کے بعد حلال، مباحات یا لچک کا کھلا میدان ہے۔ اس لچک کو ختم کرنے کا اختیاربھی انسان کے پاس نہیں۔ حدود کے اندر رہتے ہوئے ، مختلف راستوں کو استعمال کرنے میں مومن کا جمود اور سختی ختم ہوجاتی ہے۔ نئے راستے کو اختیار کرنے کا نام بھی حکمت ہے۔
۱۰- اسلام ضبطِ نفس سکھاتا ہے___ صبروتحمل کے فضائل بتاکر ، عبادات کے نظام میں کس کر اور ہر قدم پر قربانی کا راستہ دکھا کر۔ ضبطِ نفس کی وجہ سے مومن کی معروضی سوچ اور حکمت میں اضافہ ہوتا ہے۔
۱۱-اس کے پاس انسانی سطح سے اُٹھ کروحی کی رہنمائی موجود ہے۔اس کی حکمت کتابِ الٰہی اور حکمت ِانبیا سے روشنی پاتی ہے۔ قرآن وحدیث ہر مرحلے پراس کے لیے نئے دریچے وَا کرتے ہیں۔
۱۲-مومن حکمت کی تعلیم بھی دیتا ہے جو خود اس کی حکمت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
۱۳- سب سے بڑھ کریہ کہ مومن کے ساتھ اللہ ہے جو ہرمرحلے پر خودمومن کا ہاتھ اور آنکھ بن کر اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے حکمت کی راہ سجھاتا ہے۔
’’جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی اور کم سُخنی عطا ہوئی ہے، تو اس کی صحبت میں رہا کرو، کیونکہ ایسے بندے پر حکمت کا القا ہوتا ہے‘‘۔ (بیہقی)
خاموشی کے وقفوں کو، یکسوئی اور ارتکاز کے ساتھ، غور و فکرکے لیے استعمال کریں۔
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ o وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ o وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ o یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ (طٰہٰ ۲۰:۲۵)، پروردگار! میرا سینہ کھول دے، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ ، اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما، اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عنایت فرما۔
رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ (الشعراء ۲۶:۸۳) اے میرے رب، مجھے حکم عطا کر اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ ملا۔
وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا (البقرہ ۲:۲۶۹) اور جس کو حکمت دی گئی،اسے خیر کثیر دی گئی۔
سب سے بڑی حکمت
اسلام میں داخل ہونا، ایمان
ہرقدم پہ باطل کی پہچان،
صحیح راستے کی وضاحت
حکمت ِ تخلیق
حکمت ِ شرع غور کرنا
حکمت ِ تفقہ
اسلامی حکمت ِ تبلیغ حکمت ِ جہاد حکمت ِ انقلاب
احکام میں
۱- اسلامی تعلیمات سے حکمت اخذ کرنا
۲- جدید علوم و حکمت سے استفادہ
دنیوی حکمت ِ پیشہ ورانہ حکمت ِ
اُمور میں اُمور معاملات
اللہ رب العالمین قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج (الحشر ۵۹:۷) جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو۔
قرآنِ مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان تمام انسانوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے یوں فرماتا ہے:
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (اعراف ۷:۱۵۸) اے نبیؐ، کہو کہ ’’اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں‘‘۔
ان قرآنی تصریحات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے لے کر قیامت کی گھڑی قائم ہونے تک تمام انسانوں کے لیے ہادی اور رہنما ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو وہ سیرت عطا فرمائی تھی جو تمام انسانوں کے لیے اور تمام زمانوں کے لیے کامل نمونہ تھی۔ دنیا کا کوئی شخص اور کسی بھی زمانے کا انسان، انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے رسولؐ اللہ کی زندگی میں اپنے لیے بہترین نمونہ پاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے تمام مسائل جو کسی بھی ملک میں ہوں یا کسی بھی زمانے میں ہوں، ان کا حل بھی رسولؐ اللہ کے لائے ہوئے دین اور آپؐ کے اسوئہ حسنہ میں موجود ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت جن مسائل و مشکلات کا شکار ہے، کیا اُن کا حل بھی آپؐ کے اسوئہ حسنہ میں پایا جاتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آپؐ کے دورِ سعید اور آپؐ کے خلفاے راشدین کے زرّیں دور میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے تمام مسائل کو چار عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱- بدامنی ۲- غربت ۳-جہالت ۴- قومی وحدت کا فقدان۔ان مسائل کا حل اسوئہ حسنہ میں تلاش کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ رسولؐ اللہ نے مسائل کے حل کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی تھی۔
رسولؐ اللہ کی نبوت کے بعد کی زندگی دو اَدوار پر مشتمل ہے: ۱-مکی دور جو ۱۳برسوں پر مشتمل ہے، اور دوسرا مدنی دور جو ۱۰برسوں پر مشتمل ہے۔ مکی دور میں رسولؐ اللہ نے ان مسائل کی طرف بالکل توجہ نہیں فرمائی بلکہ اس کے بجاے آپؐ نے دو کاموں کی طرف توجہ فرمائی: ایک عوام الناس تک دین پہنچانا (دعوت)، اور دوسرا کام ایمان لانے والوں کی تربیت کرنا (تربیت)۔
دعوت اور تربیت دونوں کے ایک ہی موضوعات تھے، یعنی توحید، رسالت اور آخرت۔ جو لوگ ایمان لاتے آپؐ ان کو کتاب اللہ کی آیات سناتے ،ان کو تعلیم دیتے، ان کا تزکیہ کرتے اور حکمت اور دنائی کی باتیں بتاتے تھے۔ جیساکہ قرآن میں ہے:
یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) مسلمانوں کے سامنے کتاب اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں، ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی مسائل کی طرف توجہ کیوں نہ دی، اس لیے کہ :
ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جو ایمان اور سیرت کے لحاظ سے ایک پختہ اور مثالی گروہ ہو، تاکہ وہ عظیم الشان اسلامی ریاست کا بوجھ سہار سکے اور دنیا کی قیادت کرسکے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان تمام مسائل کا حل اقتدار اور حکومت سے وابستہ ہے، جب کہ رسولؐ اللہ مکہ میں صاحب ِ اقتدار نہ تھے بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک مظلومانہ زندگی گزار رہے تھے اور اقتدار کفار کے ہاتھ میں تھا۔لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحابؓ سارے کے سارے ۱۳نبوی میں (یکم ہجری) مکہ سے مدینہ ہجرت فرما گئے تو ایک اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی، جس کے سربراہ خود رسولؐ اللہ تھے۔ جب آپؐ صاحب ِ اقتدار ہوگئے اور مدینہ اسلامی ریاست کی شکل میں آپؐ کو مل گیا تو آپؐ نے ان تمام مسائل کے حل کی طرف توجہ فرمائی۔
آج بھی ملک کو درپیش بنیادی مسائل کے حل کے لیے اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں ملک میں موجود دیانت دار، شریف اور صالح عنصر کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ پھراس قوت کے ذریعے اقتدار کی راہ ہموار ہونے کے نتیجے میں اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کے ذریعے ان مسائل کو عملاً حل کیا جاسکے گا۔
آیئے مختصراً جائزہ لیتے ہیں کہ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات اُٹھائے، تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ پاکستان کے مسائل کا حل ان کی روشنی میں کیونکر ممکن ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کسی ملک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی کا دارومدار امن و امان پر ہے۔ جس ملک میں امن ہوگا، انسانی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت ہوگی تو وہاں پر ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں، کاروبار کو ترقی مل جاتی ہے، لوگ سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوجاتے ہیں، صنعتیں لگتی ہیں اور یوں ملک شاہراۂ ترقی پر گامزن ہوجاتا ہے۔
رسولؐ اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے سب سے پہلے امن و امان کی طرف توجہ فرمائی۔ یہود کے ساتھ تاریخی معاہدہ کیا جو میثاقِ مدینہ کے نام سے مشہور ہے، جس کے اندر امن و امان کے لحاظ سے یہ دفعات شامل تھیں:
۱- بنی عرفہ کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک قوم کی طرح ہوں گے۔ یہود اپنے دین پر عمل کریں گے اور مسلمان اپنے دین پر۔
۲- اس معاہدے کے سارے شرکا پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی اور کشت و خون حرام ہوگا۔
۳- کوئی یثرب (مدینہ) پر دھاوا بول دے تو اس سے لڑنے کے لیے سب باہم تعاون کریں گے اور ہر فریق اپنے اپنے اطراف کا دفاع کرے گا۔ (الرحیق المختوم،ص ۲۶-۲۷)
اس معاہدے کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے تمام باشندوں کے درمیان امن و امان قائم کیا۔
دوسرا کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قانون سازی اور اس کا نفاذ تھا۔ چونکہ مدینہ میں اب ایک ریاست وجود میں آچکی تھی جس کے سربراہ رسولؐ اللہ تھے، لہٰذا ریاست کی ضروریات، معاشرے کے مسائل، نئے تہذیب و تمدن کا فروغ اور دیگر مسائل کے حل کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل قوانین نازل ہورہے تھے۔ ان قوانین کی رُو سے مندرجہ ذیل جہتیں متعین ہوگئیں:o حقوق و فرائض کا تعین ہوا oجرائم کے سدباب کے لیے حدود مقرر کی گئیںoاور قانون کا نفاذ یقینی بنایا گیا۔
رسولؐ اللہ نے ان قوانین کو مدّون اور نافذ کیا۔ قوانین چاہے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، لیکن اگر ان کا نفاذ نہ ہو، یا بعض لوگوں پر تو قانون کا نفاذ ہو اور بعض پر نہ ہو، تو وہ کبھی بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتے۔ آپؐ نے مدینہ میں امن و امان قائم اور برقرار رکھنے کے لیے قوانین کا سختی کے ساتھ نفاذ کیا اور کسی کے ساتھ رعایت نہیں برتی۔ یہی رویہ خلفاے راشدین کا تھا۔
۲- حضرت ماعزاسلمی سے زنا کا فعل سرزد ہوا اور انھوں نے خود آکر حضوؐر سے عرض کیا کہ مجھے پاک کر دیں، میں نے یہ عمل کیا ہے۔ جب حضوؐر نے ان سے کئی بار پوچھا اور انھوں نے اقرار کیا تو آپؐ نے ماعز اسلمی پر حد جاری کی اور صحابہ نے ان کو رجم کیا۔ (مسلم)
۳- حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے والوں کے بارے میں جب اللہ تعالیٰ نے سورئہ نور میں آیتیں نازل کیں اور کہا کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں تو حضوؐر نے ان کو قذف (۸۰کوڑے) کی سزا دی۔ ان میں شاعر حسان بن ثابتؓ بھی تھے۔
۴- حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خود رسولؐ اللہ کو اپنی ذات سے بدلہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ (اسلامی ریاست بحوالہ کتاب الخراج، الامام ابویوسف)
۵- خلفاے راشدین نے اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کیا۔ عدالتوں سے ان کے خلاف فیصلے ہوئے اور انھوں نے ان فیصلوں کو قبول کیا ۔رسولؐ اللہ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک شخص تنِ تنہا صنعا سے حضرموت تک جائے گا اور اسے سواے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ یہ وقت خلفاے راشدین کے دور میں آیا تھا اور بلادِ اسلامی میں مثالی امن قائم ہوا تھا۔
ملک کو اسلحے سے پاک کیا جائے۔ صرف سیکورٹی اداروں کے پاس اسلحہ ہونا چاہیے اور ان کے علاوہ کسی اور کے پاس اسلحہ نہ ہو۔ اگر طالبان افغانستان جیسے جنگ جُو لوگوں سے اسلحہ جمع کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔ جب اسلحہ نہ ہوگاتو قتل و غارت گری بھی نہ ہوگی۔
ہمارا دوسرا مسئلہ غربت ہے۔ غربت وہ چیز ہے جس سے خوداللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے۔آپؐ دعا فرماتے تھے: اللھم انی اعوذبک من الکفر والفقر وعذاب القبر (نسائی) ’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کفر سے، فقر (غربت) سے اور عذابِ قبر سے‘‘۔
ہجرت کے بعد مدینہ میں ابتدائی سال بڑے غربت کے تھے۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں اچانک مہاجرین کی ایک بڑی تعدادپہنچ گئی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب رسولؐ اللہ کے گھر میں کئی دنوں تک چولہا نہیں جلتا تھا تو رسولؐ اللہ نے اس اہم مسئلے کی طرف توجہ فرمائی اور مندرجہ ذیل اقدامات کیے:
o مواخات کا نظام:آپؐ نے ایک انصاری اور ایک مہاجر کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا تاکہ وہ ایک دوسرے کا سہارا بن سکیں۔ انصار کھیتی باڑی کرتے تھے اور مہاجرین تجارت۔ اس طرح ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بن گئے۔
o تجارتی بازار:اُس وقت مدینہ کی تجارت پر یہود قابض تھے۔رسولؐ اللہ نے مسلمانوں کو اپنا بازار لگانے کا حکم دیا۔ آپؐ خود بازار تشریف لے جاتے تھے اور کاروبار کے بارے میں ہدایات دیتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ ہی دنوں کے بعد مسلمانوں کے بازار کا چاروں طرف چرچا ہوگیا اور کاروبار خوب چمکا، جس سے مسلمانوں کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔
o نظامِ زکٰوۃ و عشر:اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو فرض کیا اور آپؐ نے اس کا نظام قائم کیا۔ نظامِ زکوٰۃ اور عشر سے مسلمان غربا اور حاجت مندوں کی ضروریات پورا ہونے کا اہتمام ہونے لگا۔
o انفاق فی سبیل اللّٰہ کی ترغیب: قرآن نے مسلسل مال دار مسلمانوں کو اپنے غریب رشتہ داروں اور دیگر حاجت مند مسلمانوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی۔ رسولؐ اللہ نے بھی لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ اللہ کے نام پر دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ خود ایثار و قربانی کرتے تھے اور دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔
o سود کا خاتمہ: قرآنِ مجید نے اعلان کیا: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط (البقرہ۲:۲۷۶) ’’اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘۔ آپؐ نے ہر اس شخص کے خلاف اعلانِ جنگ فرمایا جس نے سودی کاروبار نہیں چھوڑا۔ رسولؐ اللہ نے سودی کاروبار پر پابندی لگائی اور فرمایا: سود میرے قدموں کے نیچے ہے۔ سود وہ یہودی نظام ہے جس سے معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں اکٹھی ہوجاتی ہے اور عوام ا لناس غربت و افلاس کا شکار ہوجاتے ہیں۔
oمحنت مزدوری اور ہنرمندی کی حوصلہ افزائی: آپؐ نے فرمایا: ’’بہترین کھانا وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھ کی کمائی کا کھائے۔ حضرت دائود ؑ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے‘‘۔(بخاری)
آپؐ اور خلفاے راشدین نے ان نکات پر عمل کیا اور صورت حال یہ ہوئی کہ بلادِاسلامی میں زکوٰۃ دینے والے گھروں سے نکلتے تھے اور انھیں زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا۔
o ملک میں غربت کا خاتمہ: اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک اور سوال: کیا پاکستان ایک غریب ملک ہے؟ جس ملک کی مٹی سونا اُگلنے والی ہو، جہاں چاروں موسم پائے جاتے ہوں اور ہر موسم کی اپنی اپنی پیداوار ہو، جو دریائوں کا ملک کہلاتا ہو، جہاں دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام ہو، جس ملک کے پہاڑ خزانوں سے بھرے ہوں، جو ملک اپنے محلِ وقوع کے لحاظ سے مشرق و مغرب اور چین و عرب کو ملاتا ہو، جو ایشیائی ممالک کے لیے گیٹ وے کا کام دیتا ہو، جس کی افرادی قوت ۱۸کروڑ عوام ہوں اور اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہو، جو اپنی محنت، لگن اور ذہانت سے دنیا میں اپنا لوہا منوا چکا ہو، جس کے سائنس دان دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ملک کو ایٹمی قوت بناچکے ہوں___ کیا وہ ملک واقعی غریب ہے؟
پاکستان اللہ کے فضل سے دنیا کے مال دار اور خوش حال ممالک کی صفوں میں کھڑا ہوسکتا ہے اگر ہم اس پروگرام پر عمل کریں:o عدل و انصاف کا نظام قائم کیا جائے، جس میں ہر پاکستانی کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہوں اور سرمایہ محفوظ ہوoملکی وسائل کو بروے کار لایا جائے اور کسی بیرونی دبائو کو قبول نہ کیا جائے oجہاںکے حکمران تاجر کے بجاے نگران ہوں oکفایت شعاری کو قومی مزاج بنایا جائے اور حکمران اس کی مثال بنیں o وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا جائے oنظامِ زکوٰۃ و عشر کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے oسودی نظام پر پابندی لگائی جائے oقوم کو اس طرح تربیت دی جائے کہ ہرشخص کے اندر ایمان داری ، صداقت، خوفِ خدا اور قربانی کی اعلیٰ صفات پیدا ہوجائیں ۔
یہ وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنے ملک کو دنیا کی بہترین معیشتوں میں شامل کرسکتے ہیں، جیساکہ ترکی اور ملایشیا میں ہوا۔ ترکی اور ملایشیا ہم سے زیادہ وسائل کے ممالک نہیں ہیں لیکن ان کو صحیح قیادت نصیب ہوئی اور ہم ابھی تک صحیح قیادت کی راہ تَک رہے ہیں۔
اسلام جہالت کو مٹانے کے لیے آیا ہے۔ اسلام کی پہلی وحی اقرا سے شروع ہوتی ہے۔ رسولؐ اللہ نے ۱۳سال مکہ میں تعلیم و تعلّم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک ایسی نسل تیار کی جو دنیا کی امام بن گئی۔ مدینہ میں اصحابِ صفہ کا ایک مستقل مدرسہ قائم ہوا، جہاں صحابہ کرامؓ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مختلف زبانیں سیکھنے کے لیے بھی صحابہ کرامؓ کی ذمہ داری لگائی گئی۔تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کا ہی نتیجہ تھا کہ اگلی نسلیں مکمل طور پر خواندہ اور پڑھی لکھی تھیں اور ایک زمانہ آیا جب یورپ سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے بغداد آتے تھے۔
o میٹرک تک قرآن، حدیث، فقہ، سائنس اور دنیاوی علوم پڑھائے جائیں۔ میٹرک کے بعد مختلف کلیات ہوں اور طلبہ اپنے رجحان کے مطابق اس میں داخلہ لیں، مثلاً کلیہ شرعیہ، کلیہ طبیہ وغیرہ۔
o ملکی وسائل کا ایک اچھا خاصا حصہ (بجٹ) تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔
o اہلِ خیر کو اس کارخیر میں شریک کیا جائے۔
o نصاب قومی اُمنگوں کے مطابق ہو اور کسی بیرونی طاقت کو اس میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے۔
تعلیم کو پوری طرح اہمیت دی جائے، اور میڈیا اور تمام وسائل کے ذریعے قوم کو تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں خواندگی بڑھے گی اور صحیح معنوں میں مسلمان اور فرض شناس شہری سامنے آسکیں گے۔
قومی وحدت کا فقدان
قومی وحدت کا نہ ہونا ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔ علامہ اقبال اس ملّی المیے پر فریاد کرتے دنیا سے رخصت ہوئے لیکن ان کی صدا ابھی تک صدا بصحرا ہی ثابت ہورہی ہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
قرآن پکارتا ہے: وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔ وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۵) ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے، جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے‘‘۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت پہنچاتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کرکے بتایا۔ (متفق علیہ)
پاکستان ایک عظیم اسلامی مملکت ہے۔ اپنی تمام تر خوبیوں کی وجہ سے یہ اس کا مقام ہے کہ یہ عالمِ اسلام کی قیادت کرے اور دنیا کے سامنے ایک اسلامی فلاحی مملکت کا رول ماڈل ہو۔ کیا ہم پاکستان کو ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم اسے ایسا ملک بنا سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کو عزت کا مقام ملے اور ہم عزت کے ساتھ اپنے ملک میں رہ سکیں؟ یقینا ایسا ہوسکتا ہے ؎
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ۱۵ سال سے لے کر ۲۴ سال تک کی عمر کو نوجوان کہا جاتا ہے ۔ اسی میں بچپن اور لڑکپن کا دور بھی شامل ہیں ۔ World Population Statistics کے مطابق دنیا کی کُل آبادی میں ۵۰فی صدآبادی ۲۵سال سے نیچے کی عمر پرمشتمل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نوجوانوں کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے۔
قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزل اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشرتی سطح کا ہویا ملکی سطح کا، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے ۔روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا،عرب بہار ہو یا مارٹن لوتھرکنگ کا برپا کردہ انقلاب، ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا عسکری، ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک اور تنظیم انھی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
اب قرآن مجید کی طرف رجوع کریں گے کہ وہ نوجوانوں کی اہمیت اور کردار کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردر اس طرح سے بیان کرتا ہے: ’’ہم ان کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میںترقی بخشی تھی‘‘۔ یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کاا علان کیا ۔
اللہ تعالیٰ ان کے عزائم وحوصلے اور غیر متزلزل ایمان اور ان کے عالم گیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا o (الکھف ۱۸:۱۴) ’’ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں ور زمین کا رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریںگے۔ اگر ہم ایسا کریںتو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔
ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے نمونۂ عمل ہے ۔ اسی طرح سے قرآن مجید نے حضرت موسٰی ؑ پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسٰی ؑ کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنھوں نے کٹھن حالات میں حضرت موسٰی ؑ کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے: فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ ط وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِج (یونس ۱۰:۸۳)’’موسٰی ؑ کو اسی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربراہ لوگوں کے ڈر سے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘ ۔
مذکورہ بالا آیت میں ذریۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بہت ہی جامع اور معنی خیز ہے۔ سیدمودودیؒ نے ذریۃ کی تشریح پُرمغز انداز میں اس طرح کی ہے: ’’متن میں لفظ ذریۃ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ نوجوان سے کیا ہے۔ دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پُرخطر زما نے میں حق کا ساتھ دینے اور علم بردارِ حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جراء ت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر مائوں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی تو فیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کاساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کاراستہ ان کو خطرات سے پُر نظر آرہاتھا ‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی، ص ۵۶۵- ۵۶۷ )
احادیث رسولؐ میں بھی نوجوانوں کے کردار اور ان کے لیے رہنما اصول کثرت سے ملتے ہیں۔ نو جوانی کی عمر انسان کی زندگی کا قوی ترین دُور ہوتا ہے ۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کرسکتا ہے۔ انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کامیابی اس کے قدم چومے گی اور اگر اس عمر میں وہ کوتاہی اور لاپروائی برتے گا تو عمر بھر اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جوانی کی عمر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر فرد کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں قیامت کے دن خصوصی طور سے پوچھا جائے گا ۔حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فر مایا: ’’یعنی قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پا نچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے ۔ عمر کن کاموں میں گنوائی؟ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ جوعلم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ (ترمذی باب صفۃ القیامۃ)
اس حدیث مبارکہ میں چارسوال جوانی سے متعلق ہیں۔ ایک عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس میں جوانی کادور بھی شامل ہے۔ مال کمانے کا تعلق بھی اسی عمرسے شروع ہوتا ہے۔ حصول علم کاتعلق بھی اسی عمر سے ہے۔ نوجوانی کی عمر صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور اس میں نکھار پیدا کرنے کی ہوتی ہے ۔اسی عمر میں نوجوان علوم کے مختلف منازل طے کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوان علمی تشنگی کو اچھی طرح سے بجھا سکتا ہے۔ اسی دور کے متعلق علا مہ اقبال نے ع ’شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری‘ فرمایا ہے ۔عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہؓ نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ۔یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے بار گاہِ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا ۔دورِ شباب ہی میں حضرت علی ؓ ،حضرت مصعب بن عمیرؓ ، حضرت عمار بن یاسرؓ ، اور چارعباد اللہ جن میں ابن عمرؓ ،ابن عباسؓ، ابن زبیرؓاور ابن عمرو ابن العاص ؓ نے اللہ کے رسولؐ سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،اور امام غزالی جیسے مجدد علوم کی گہرائیوں میں اترے ،اسی دورشباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمدبن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سرزمین کو جہاں فرعون کے انمٹ نقوش ابھی بھی بہر تلاطم کی طرح باقی ہیں دعوت الی اللہ کے لیے مسکن بنایا۔ مولاناابوالکلام آزاد نے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا اور سید مودودی نے ۲۳سال کی عمر میں ہی الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آراکتاب لکھ کر تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جن کا اس وقت نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلمان بھی شکار تھے ۔ اللہ کے رسولؐ نے اسی عمر کو غنیمت سمجھنے کی تلقین کی ہے ۔ کیونکہ بڑے بڑے معر کے اور کارنامے اسی عمر میں انجام دیے جاسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن میمونؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: ایک جوانی کوبڑھاپے سے پہلے، صحت کوبیماری سے پہلے، خوش حالی کو ناداری سے پہلے، فراغت کومشغولیت سے پہلے، زندگی کوموت سے پہلے۔ (ترمذی )
ذیل میں ہم ان چند اہم مسائل کا تذکرہ کریں گے جن کاسامنا ہر مسلم نوجوان کر رہا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم ناجی نے اپنے کتاب Have you Discovered its Real Beauty میں ایک واقعے کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے ناروے کے ایک ہوٹل میں کرس نام کے ایک شخص سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انھوں نے حیران ہوکر جواب دیا کہ مجھ سے آج تک کسی نے بھی اس طرح کا سوال نہیں کیا اور اس کے بعد اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میری زند گی کا کوئی مقصد نہیں ہے اور زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے کیا ؟۔
عصرِجدید میںجب نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو ان کا بھی جواب کرس کی طرح ہی ہوتاہے۔ مقصدِ زندگی کے تعلق سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں Eat, Drink and be Happy ’یعنی خوب عیش کر لے کیو نکہ عالم دوبار ہ نہیں ہے‘جیسے فرسودہ اور پُرفریب نعروں پر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اسلام کا مقصد زندگی کے حوالے سے واضح موقف ہے۔ زندگی کی غرض و غایت کے متعلق قرآن وحدیث میں جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے۔ قرآن میں ایک جگہ انسان کو یہ ہدایت دی گئی کہ: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط (میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ البقرہ ۲:۳۰) ، تو دوسری جگہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo (میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ الذاریات ۵۱:۵۶)کہہ کر اللہ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میںزندگی کا مقصد ومدعا بیان کیا ہے۔ ایک جگہ اگر حُسنِ عمل کو مقصد زندگی قرار دیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط (جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک ۶۷:۲)، تو دوسری جگہ مقصد اور کامیاب زندگی کو تزکیۂ نفس پر موقوف ٹھیرایا گیا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo (فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ الاعلٰی۸۷:۱۴)۔ زندگی کی غرض غایت کے متعلق احادیث سے بھی خوب رہنمائی ملتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’دنیا بہت مٹھا س والی اور سرسبز و شاداب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمھیں خلافت کا منصب عطا کیا ہے تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ (مسلم، کتاب الذکر)۔ اللہ کے رسولؐ نے یہ بھی فر مایا: ’’عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کیا ‘‘۔ (ترمذی)
اس وقت امت کے نوجوانوں میں سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ وہ الہی تعلیمات سے نابلد اور دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔نوجوا ن طبقہ عموماً قرآن مجید کو ایک رسمی اور مذہبی کتاب سمجھتا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ان کا تصور یہ ہے کہ اس کے ساتھ اگر تعلق قائم بھی کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ تلاوت ہی تک محدود رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب زمانہ حال کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کتاب انقلا ب ہے۔ یہ عصر حاضر کے چیلنجوں کا نہ صرف مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتی ہے۔ قرآن جہاں انسان کو آفاق کی سیر کراتا ہے وہیں یہ ہمیں انفس کی ماہیئت وحقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے ۔ جہاں عبادت کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے وہیں سیاسی معاملات کے لیے بھی رہنما اصول بیان کرتا ہے۔ جہاں اخلاقی تعلیمات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہیں یہ اقتصادی نظام کے لیے بھی ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ یہ جہاں حلال وحرام کے درمیان تمیز سکھاتا ہے وہیں یہ حق و باطل کے در میان فرق کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ نوجوان اس کتاب انقلاب کے بغیر حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا اسی کتاب کو کا میابی اور نجات کا واحد ذریعہ سمجھنا چاہیے۔
عصرِ حاضر میں تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پیشہ (profession) مقام (placement) اور پیسہ و سرمایہ بٹورنا رہ گیا ہے ۔ہر نوجوان انھی تین چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ آج سائنس ٹکنالوجی اور دوسری طرف علمی انفجار کا دور مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دھن نے ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے کہ ہر نوجوان دائیںبائیں اور پیچھے کی طرف دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کر تا اور ہر ایک کیرئیر کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے ۔وہ سماج میں ر ہنے والے دوسرے افراد سے ہی کیا وہ تو اپنے بغل میں رہنے والے ہمسایے سے بھی بے گانہ ہے کیو نکہ وہ اس خود ساختہ اصول پر عمل کرتا ہے کہ مجھے اپنے علاوہ کسی اور سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کر تا ہے۔ وہ چاند پر کمندیں ڈالنے کے لیے ہر وقت کو شاں رہتا ہے لیکن اپنے مقصد وجو د سے ناآشنا ہے ۔وہ قابل ذکر اسناد کا حامل تو ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دوسروں کے لیے حمایت اور ہمدری کا جذبہ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس وافر مقدار میں معلومات ہوتی ہیں لیکن علم حق سے محروم رہ کر زندگی اس گدھے کی طرح گزارتا ہے جس کی پیٹھ پر کتا بوں کا بوجھ لاد دیا جائے لیکن بیچارے گد ھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی پیٹھ پر کس قسم کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔
اسلام کیرئیر اور مستقبل کو خوب سے خوب تر بنانے اور نکھارنے سے منع نہیں کر تا ہے۔ اسلام توقاعدے اور سلیقے کے ساتھ منظم اور اچھے طریقے سے کیر ئیر بنانے پر زور دیتا ہے ۔ اور اس بات کی بھی تلقین کر تا ہے کہ حُسنِ عمل(excellence) کسی بھی لمحے آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے، البتہ اسلام جس چیز سے منع کرتا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگوں سے منہ پھیر کر زندگی گزارے۔ اندھی کیر ئیر پرستی ایک نوجوان کو سماج سے الگ تھلگ کر دیتی ہے ۔اس سے قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ منع کیا ہے ۔اللہ تعالی نے اس حوالے سے حضرت لقمان کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فر مایا: وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ(لقمان ۳۱:۱۸) ’’اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو‘‘۔صعر اصل میں ایک بیماری کانام ہے جو عرب میں اُونٹوں کی گر دنوں میں پائی جاتی ہے ۔یہ بیماری جب اونٹ کولگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔ بالکل اسی طرح کیر ئیر پرستی کے شکار نوجونوں کا رویہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کیر ئیر پرستی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
آج امت کا نوجوان بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھر اہوا ہے ۔ ایک طرف غیرمتوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تودوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے ۔ ایک طرف اگر وقت پر نکاح نہ ہونے کے مسائل ہیں تو دوسری طرف بے روز گاری کے مسائل نے پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اسی طرح ناقص تعلیم و تر بیت، حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کردہ مسا ئل علاوہ ازیں نت نئے افکار کے پیدا کرد ہ مسائل اور الجھنوں کا انبار لگا ہو ا ہے جن سے اُمت کا یہ اہم طبقہ دو چار ہے ۔یہ واضح رہے کہ نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا بھی ہے ۔ کیونکہ ان کو اس سلسلے میں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل رہی ہے تاکہ وہ ان مسائل سے باآسانی نبرد آزما ہو سکے۔
اس سلسلے میں ماں باپ ،علما اور دانش وروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ کردار اداکریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں ملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکے ۔ اس حوالے سے اللہ کے رسول ؐکا وہ تربیتی منہج سامنے رکھنا چاہیے جس کی بدولت انھوں نے نوجوانوں کی ایک بہترین ٹیم تیار کی تھی ۔ جس نے بعد میں بڑے بڑے معرکہ سرانجام دیے ۔ اللہ کے رسولؐ نوجوانوں کی ان کے رجحان اور طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیت کر کے ذمہ داریاں سونپتے تھے ۔
اللہ کے رسولؐ کاتربیتی منہج بڑا شان دار اور منفرد انداز کا ہے۔ آپؐ ا ن کی کردار سازی پر بہت توجہ فر ماتے تھے ۔اور نہ صرف ان کے خارجی مسائل حل کرتے تھے بلکہ ان کے نفسیاتی مسائل بھی حل کرتے تھے ۔ ایک دن قریش کا ایک نوجوان رسولؐ اللہ کی خد مت میں آیا اور بلا خوف و تردد عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے۔ صحابہ کرام ؓ اس نوجوان کی بے ہودہ جسارت پر بپھر گئے اور اس کو سخت سے سخت سزا دیناچاہی مگر رسولؐ نے بالکل منفرد انداز اختیار کیا۔ آپؐ نے اس نوجوان کو قریب بلایا اور کہا: کیا تم یہ بات اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟ نوجوان نے کہا :میر ی جان آپؐ پر قربان ہو، یہ بات میں اپنی ماں کے لیے کبھی پسند نہیںکر سکتا۔ پھر آپؐ نے اس کی بہن ، پھوپھی اور خالہ کے بارے میں اس طرح کے سوالات کیے۔ بعد میںاس سے پوچھتے، کیا تم اسے ان کے لیے پسند کرتے ہو۔ وہ ہر بار یہی کہتا: میری جان آپؐ پر قربان ہو، خدا کی قسم! یہ بات میں ہر گز پسند نہیں کر سکتا ۔پھر آپؐ نے ا س نوجوان کو اپنے قریب بلایا اور اس کے لیے اللہ سے دعا کی جس کے بعد وہ کبھی بھی اس بے ہودہ کام کی طرف مائل نہیں ہوا(مسند احمد)۔ اس واقعے سے ہم کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کو کس طرح پیار سے سمجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے ۔
آج فحاشی وعریانیت ، ننگا ناچ اور حیا سوز ذرائع ابلاغ ہر گھر اور خاندان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ۔ بے شمار رسائل وجرائد اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں ۔انٹر نیٹ پر اَن گنت حیا سوز ویب سائٹس موجود ہیں جن تک ہر نوجوان کی رسائی باآسانی ہو جاتی ہے ۔ گھر سے لے کر کالج تک اور کالج سے لے کر بازار تک بے حیائی پر مبنی ماحول کا سامنا ہے۔ ایسا معا شرہ اور فضا نوجوان کی جنسی خواہشات کو بر انگیختہ کر دیتی ہیں ۔ بے حیائی اخلاق باختگی ایک ایسی وبا ہے جو بڑی تیزی کے سا تھ اپنے اثرات دکھا رہی ہے جس کی بدولت آج نوجوانوں میں خوف تنائو، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں ۔ برائیوں ، پریشانیوں بے حیائی اور فحاشی اور رذائل اخلاق دیمک کی طرح نوجوانوں کو کھا ئے جارہے ہیں ۔اطمینانِ قلب ، تطہیر ذہن ،حیا پسندی، پاک دامنی اور حُسن اخلاق سے نوجوانوں کو متصف کرنا وقت کا ایک تجدید ی کام ہوگا ۔ بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کی اساسیات اور اس کے نظام و حقائق اور رسالت محمدیؐ کا وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقے کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور اِن نفسیاتی اُلجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بُری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقلیت اور علمی ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کر دیا جائے۔(نیاطوفان اور اس کا مقابلہ، ص۲۶)
اسلام نہ صرف برائیوں کو قابو میں کرنا چاہتا ہے بلکہ ان کا قلع قمع بھی کرتا ہے جن میں نوجوان طبقہ مبتلا ہے۔ اسلام نے برائیوں سے دور رہنے کی سخت تاکید کی ہے ۔ اب اگر برائیوں کو جاننے اور اس کے انجام بد سے باخبر ہونے کے باوجود اجتناب نہیں کریں گے تو اللہ کے رسولؐ کا یہ مبارک ارشاد ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہیے کہ ’’لوگوں نے اگلی نبوت کی باتوں میں جو کچھ پایا اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب تم کو شرم نہ رہے تو جو چاہے کرو‘‘۔(بخاری، عن ابن مسعود )
اعتدال وتوازن ہر کام میں مطلوب ہے۔ جس کام میں اس کا فقدان ہو وہ صحیح ڈگر پر زیادہ دیر اور دُورتک نہیں چل سکتا ۔ جب اور جہاں بھی اعتدال اور توازن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو وہیں انتہاپسند ی اور غلو،شدت پسندی اور تخریب کاری کا عمل شروع ہو نا لازمی ہے ۔ اعتدال پسندی و توازن کھانے پینے ، چلنے پھرنے ، بات چیت ، سو نے جاگنے ،محنت ومشقت ،مال کمانے ، سیروتفریح، حتیٰ کہ عبادات میں بھی مطلوب ہے ۔ اسلام اعتدال وتوازن کا دین ہے ۔ یہ جہاں شدت پسندی سے روکتا ہے وہیں غلو کرنے سے اجتناب کی تلقین کر تا ہے ۔اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن جگہ جگہ اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے رہنما اصول فراہم کرتا ہے ۔ اُمت مسلمہ کے حوالے سے قرآن کاموقف یہ ہے کہ یہ امت وسط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ۲:۱۴۳)۔ ا للہ تعالیٰ نے نہ صرف اُمت کے ہر فرد کو اعتدال وتوازن پر قائم رہنے کی تاکید کی بلکہ پیغمبر اعظمؐ کوبھی اعتدال کی روش اختیار کر نے کی تلقین کی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ (اعراف ۷:۲۹) ’’اے محمدؐ! کہہ دیجیے کہ میرے رب نے اعتدال کی راہِ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔شدت پسندی، غلو اور افراط وتفریط سے اجتناب کرکے نوجوانوں کو اعتدال کی روش کو اپنانا چاہیے۔
ایک اور مسئلہ جس کی وجہ سے نوجوان مختلف مسائل اور مشکلات میں گھر اہوا ہے وہ ماں باپ کی ناقص تعلیم وتربیت ہے ۔ جو نوجوان بھی ماں باپ کی تعلیم وتربیت سے محروم رہ جا ئے گا لازمی طور سے مسائل اوراُلجھنوں کا شکار ہو گا ۔ایک نوجوان کی اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی تعلیم وتربیت سے محرو م رہے ۔اس کے ماں باپ تعلیم وتر بیت اور اس کو صحیح رہنمائی کرنے میں کوتاہی یا بے اعتنائی برتیں۔ حقیقی معنوں میں یتیم اسی کو کہا جاتا ہے جیسے عربی کاایک مشہور شعر ہے ؎
لیس الیتیم من انتھی ابوہ من ھم الحیات وخلفاہ ذلیلا
ان الیتیم ھو الذی تلقی لہ اماتخلت او ابا مشغولا
(یتیم وہ نہیں ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہوں اور اس کو تنہا اوربے سہارا چھوڑ رہے ہوں۔ یتیم تو وہ ہے جس کی ماں نے اس سے بے اعتنائی بر تی ہو اور باپ مصروفِ کار رہا ہو )۔
اسلام نے بچوں کی پرورش اور پرداخت کے ساتھ ساتھ ماں باپ پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی ہے کہ ان کو تعلیم وتر بیت اور اسلام کی اساسی تعلیمات سے روشناس کراکے صحت مند معاشرے کے لیے بہترین اور کار آمد افراد تیار کریں۔جہاں ماں باپ کو اس بات کے لیے مکلف ٹھیرایاہے کہ سات سال سے ہی بچوں کو نماز کی تلقین کریں وہیں ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مناسب وقت پر نکاح کا اہتمام کریں کیونکہ یہ ان کے بچوں کی عزت وعصمت اور پاک دامنی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
رائج نظام تعلیم بر طانوی مفکر لارڈ میکاولے کے افکار ونظر یات پر مبنی ہے۔ عصر حاضر میں تنگ نظری ، مقامیت ، مادیت ،اخلاقی بے راہ روی اور عورت کا استحصال ، نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جرائم، نیز خود کشی کے گراف میںاضافہ، یہ سب ناقص نظام تعلیم کی دین ہے ۔نظام تعلیم میں ان خرابیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے اس کو صحیح رُخ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ فرد اور سماج دونوں کی اصل ضروریات کو پورا کرسکے ۔
ہر قوم وملت کی تعمیروترقی بامعنی اور اقدار پر مبنی نظام تعلیم پر منحصر ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ قوم یا ملت کا بہتر مستقبل نظام تعلیم پر ہی منحصر ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ایک مشہور ماہر تعلیم سے پوچھا گیا آپ ملت کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے ۔تو ان کا جواب تھا:(مجھے اپنا نظامِ تعلیم دکھائو جو بتا سکتا ہے کہ اس کامستقبل کیا ہوگا )۔
رائج نظام تعلیم کے بر عکس اسلام کا نظام تعلیم الٰہی ہدایات پر مبنی ہے جو کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہے۔ اس میں فرد کی تعمیر و تطہیر کے لیے جامع ہدایات موجود ہیں ۔یہ فرد کی شخصیت کو منور کرتا ہے۔اس نظام تعلیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ زندگی کے بنیادی اور اہم سوالات کے جوابات فراہم کرتا ہے، مثلاً میں کون ہوں؟ میری زندگی کامقصد کیا ہے؟ مجھے پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اس نے مجھے دنیامیں کیوں بھیجا ؟اور وہ کیا کام لینا چاہتا ہے ؟۔ خالق اور مخلوق کے درمیان اور پھر مخلوق اور مخلوق کے مابین کیا تعلقات ہیں ؟
اپنی تہذیب و تاریخ اور علمی ورثہ سے مانوس و باخبر رہنا اشد ضروری ہے ۔ جو قوم اپنی تاریخ اور علمی ورثے سے غفلت برتتی ہے۔ تو وہ صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے یا مٹادی جاتی ہے۔ اپنی تاریخ سے ناآشنا ہوکر کوئی بھی قوم یا ملت بہتر مستقبل اور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی ۔ اس وقت اُمت مسلمہ کی صورت حال یہ ہے کہ اس کا یہ اہم سر مایہ اپنی تاریخ سے بالکل نابلد ہے ۔ ملت کے نوجوانوں کو اسلامی فتوحات کا کچھ علم نہیں۔ خلفاے راشدین کے کارناموں سے کوئی واقفیت نہیں ۔ وہ رسولؐ کے جانباز ساتھیوں کی زندگیوں سے کو سوں دُور ہیں ۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ امام غزالی، ابن خلدون ،ابن تیمیہ جیسی نامور شخصیات کون تھیں؟ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ سید قطبؒ ، حسن البناؒ اور سید مودودیؒ نے کیا کیا خدمات انجام دیں ۔ملت کے اس طبقے کو اسلام کے سرمایۂ علم اور تاریخ سے جوڑنا وقت کی اہم ترین پکار ہے ۔
عالم کاری(Globalization) کے ذریعے مغرب پوری دنیا میں آزاد تجارتی منڈی قائم کر چکاہے جس کے نتیجے میںسیکولرزم اور الحادی نظریات کی تخم ریزی ہو رہی ہے۔ عالم کاری ایک ایسا رجحان ہے کہ مغرب اس کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں آزاد معیشت اور تجارتی منڈی کو فروغ دے رہا ہے ۔ گلیمر کی اس دنیا میں اہلِ مغرب اپنی تہذیب کے اثرات بھی تیزی کے ساتھ مرتب کررہے ہیں ۔ا س تہذ یب کی ظاہری چمک دمک نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے حالانکہ یہ تہذیب اقبال کے الفاظ میں :
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِپاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
عالم کاری کے ذریعے سے مغرب جن چار چیزوں کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے مصروف عمل ہے وہ یہ ہیں : تہذیب، ٹکنالوجی، معیشت،جمہوریت اور اس کے علاوہ سرمایہ داروں اور ایم این سیز (Multi National Companies)کو بھی خوب پذیرائی مل رہی ہے ۔ ان سبھی اداروں نے سب سے زیادہ جس طبقے کو اپنی گرفت میں کر رکھا ہے وہ نوجوان طبقہ ہے ۔
مسلم نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام عالم گیر نظام زندگی ہے، یہ خالق کائنات نے انسان کے لیے بنایا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنا تعارف قرآن مجید میں رب العالمین سے اور اپنے رسولؐ کا تعارف رحمۃللعالمین سے کراتا ہے،اور قرآن پاک کو ھُدًی لِّلنَّاسِ کہتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تہذیب ایسی تہذیب ہے جس میں متبادل ہونے کی صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ بقول اقبال ؎
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
تاریخ عالم گواہ ہے کہ اس کرۂ ارضی پر لڑی جانے والی اکثر وبیش تر جنگوں میں نہ کسی ضابطے کا خیال رکھا جاتا ہے اورنہ کسی قانون واصول کی پاسداری کا خیال ذہن انسانی میں آتا ہے، بلکہ ان جنگوں کے ذریعے کائنات انسانی کو فتنہ وفساد کی آماج گاہ بنادیاجاتا ہے اور مدمقابل اقوام اور ملکوں کے انسانوں کو بے دریغ تہہ تیغ کردیا جاتا ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون میں مخصوص رنگ و نسل اور جنس وعلاقہ کے رجحانات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے یہاں جنگ کے اغراض ومقاصد کی وجہ جواز کیاہے؟ اس کا مقصد کیاہے؟ کن حالات میں جنگ کی اجازت دی جاسکتی ہے اور کن مواقع پر جنگ کی اجازت نہیں ہے؟ کیا کمزور انسانوں پر اپناتسلط قائم کرنے کے لیے جنگ کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ قرین انصاف ہے کہ جب جی چاہا اپنے جابرانہ نظام کے تسلط کے لیے کسی بھی ملک کی سرحد میں جنگی جہاز اتاردیے؟ ان تمام سوالوں کا تشفی بخش جواب انسانی قوانینِ جنگ میں نہیں مل سکتا۔ اس لیے انسانوں کا خود ساختہ قانون امن و آشتی کا ضامن نہیں بن سکتا ۔
اس کے بالمقابل دین اسلام امن وسلامتی کا دین ہے۔اسلام نے جنگ کے اصول وضابطے مقررکیے ہیں۔ ان کا پاس ولحاظ رکھنا ہراہل ایمان پر فرض ہے۔ ان کے اصول وقواعد کی پاس داری سے کسی کو مفرنہیں ہے، کیونکہ اعلیٰ وارفع مقصد کے حصول کے لیے جب جنگ ناگزیر ضرورت بن جائے تو تلوار اٹھانے والوں کو کھلی چھوٹ نہیں مل جاتی ہے، بلکہ حدودوقیود میں رہ کر فتنہ وفساد، سفاکیت ودرندگی اور ظلم وجور کے سدباب کے لیے اپنی طاقت وقوت کا استعمال بجا قرار دیا جاتا ہے ۔
یہ اعزازتو صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے جنگ وجہاد کے واضح مقاصد متعین کیے اور اس کے آداب واصول مرتب کیے اور بلاجواز قتل وخون ریزی کو سنگین جرم قراردیا۔ کسی مسلمان فرد یااسلامی حکومت کو ان بنیادی اصول وضوابط میں ترمیم کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسلامی قوانین ہمہ گیر اور دائمی نوعیت کے ہوتے ہیں۔نام ورمصری عالم پروفیسر محمد قطب رقم طراز ہیں :’’اسلام کی یہ جنگیںکسی فوجی قائد کی خود غرضی اور ہوسِ ملک گیری کی پیداوار نہیں تھیں، اور نہ ان کے پیچھے دوسروں کو غلام بنانے کا جذبہ کارفرماتھا، بلکہ یہ جنگیں محض خدا کے لیے لڑی گئیں اور ان کا اصل مقصد رضاے الٰہی کے حصول کا جذبہ تھا، مگر بات صرف جذبے پر ہی ختم نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس نے ان جنگوں کے لیے باقاعدہ اصول وقوانین بھی مقررکیے‘‘۔(اسلام اور جدید ذہن کے شبہات ، ص۹۰)
اسلامی قوانین جنگ سے متعلق ذیل میں وہی امور بیان کیے جارہے ہیں جن پر قوانین جنگ کی بنیاد قائم ہے۔ اختصار کے ساتھ ان امور کو زیر بحث لایا جاتا ہے:
اسلامی قانون میں جنگ کے تمام اعمال کی ذمہ داری اور امرونہی کے تمام اختیارات کا حامل امیرکو بنایا گیاہے۔ جنگ کی معمولی کارروائی بھی امیر کی اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ اسلام نے اطاعتِ امیر کو خود خدااور رسولؐ کی اطاعت کے برابر قراردیا ہے اور اس کی نافرمانی کووہی درجہ دیا جو رسولِؐ خدا کی نافرمانی کا ہے۔ اطاعت امیر کو خیر و فلاح کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔(النسائ۴:۵۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لڑائی دوقسم کی ہے: جس شخص نے خالص اللہ کی رضاکے لیے لڑائی کی اور اس میںامام کی اطاعت کی، اپنا بہترین مال خرچ کیا اورفساد سے اجتناب کیا تو اس کا سونا جاگنا سب اجر کا ذریعہ ہے۔ اور جس نے دنیا کے دکھاوے اور شہرت وناموری کے لیے جنگ کی اور اس میں امام کی نافرمانی کی اورزمین میں فساد پھیلایا تووہ برابر بھی چھوٹے گا (یعنی الٹاعذاب میں مبتلا ہوگا)۔(سنن ابی داؤد ، حدیث ۲۵۱۵)
ایک دوسرے مقام پر حدیث میں آتا ہے: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خداکی نافرمانی کی، اور جس نے امام کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔(سنن ابن ماجہ ، حدیث ۲۸۵۹)
قرآن وسنت کی درخشاں تعلیمات کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اطاعت امیر ایک اہم حکم ہے جو ہرفرد مجاہد پر لازم ہے ،ورنہ اس کے دور رس منفی اثرات ونتائج مترتب ہوںگے۔
ایفاے عہدکے حوالے سے کتاب اللہ میں متعد د فرامین اورہدایات موجود ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی سخت تاکید کی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم اللہ کا عہد پوراکردیا کرو، جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کرلینے کے بعد انھیں مت توڑا کرو، جب تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بناچکے ہو۔ بے شک اللہ خوب جانتاہے جو تم کرتے ہو‘‘۔ (النحل ۱۶:۹۱)
وفاشعاری اور تقویٰ کی سند وہ حضرات حاصل کرتے ہیں جولوگوں سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو نہیں توڑتے، بلکہ پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ رب العزت کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے ایفاے عہد کرتے ہیں اور جس قول وقرار کو برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، خشیت الٰہی کے ساتھ اس کی پاس داری ولحاظ بھی کرتے ہیں۔
عہدوپیمان اگر کرلیاہے تو اس کو نبھاناضروری ہے ورنہ نقض عہد کی بناپر مؤاخذہ ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور وعدہ پورا کیاکرو، یقینا وعدہ کے لیے ضروربازپرس ہوگی‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴)
مشرکین مکہ نے ابورافع کو اپنا قاصد بناکر بارگاہ رسالت میں بھیجا۔ بارگاہِ نبوی کا اثرابورافع کی ذات پر اتنا ہوا کہ مشرف بہ اسلام ہوگئے اور حضورؐ سے عرض کیا کہ میں کافروں کے پاس واپس نہیں جائوںگا۔ آپؐ نے فرمایا تم قاصد ہواور قاصد کو روک لینا عہد وپیمان کی خلاف ورزی ہے۔ تم ابھی جائو ، پھر واپس آجانا۔(سنن ابی داؤد ، حدیث :۲۷۵۸)
اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقعے پر حضرت ابو جندلؓ پائوں میں زنجیریں پہنے ہوئے آئے اور زخموں سے چور بدن کو حضوؐر کے سامنے پیش کیااورعرض کیا کہ مشرکین مکہ مجھ پر مصائب وآلام کے پہاڑ توڑرہے ہیں۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا کہ ہاں، لیکن مشرکین مکہ سے معاہدہ ہوچکاہے کہ کوئی مسلمان اگرمکے سے بھاگ کرآئے گا تو ہم اس کو قریش کے پاس بھیج دیںگے۔ صحابہ کرامؓ کی جماعت حضوؐر سے سفارش کررہی تھی کہ ان کو واپس نہ بھیجا جائے تاکہ ابو جندل ؓ مزیدجورو ستم کا نشانہ نہ بنیں لیکن آپؐ نے فرمایا کہ معاہدہ لکھا جاچکاہے۔ اس کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا ابوجندلؓ کو آپؐ نے پناہ دینے سے انکار کردیا اور حسب معاہدہ وہ قریش مکہ کے حوالے کردیے گئے۔
ان آیات ،احادیث اور واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپؐ نے جومعاہدہ کیا اس کو ہر حال میں پوراکیا ۔ حالانکہ آپؐ کویہ خوب معلوم تھا کہ مکہ کے مسلمان ناگفتہ بہ مصائب ومشکلات سے دوچار ہیں لیکن آپؐنے ایفاے عہد کاعظیم الشان نمونہ پیش کیا، بلکہ آپؐ نے تو یہاں تک فرمایا کہ کسی معاہدسے عہد وپیمان توڑنے والا جنت کی خوشبو سے محروم ہوگا۔ حدیث میں آتاہے: حضوؐر نے فرمایا کہ ’’جوشخص کسی معاہد کو بغیر کسی وجہ سے قتل کردے تو اللہ اس پر جنت حرام کردیتاہے‘‘۔(سنن ابی داؤد ، حدیث :۲۷۶۰)
ایک اور حدیث میں حضوؐر کا ارشاد ہے : جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو اس گرہ کو مضبوط کرے اوراُسے نہ کھولے یہاں تک کہ جب مدت گذرجائے تو وہ برابری پر عہد کو توڑے۔(سنن ابی داؤد،حدیث:۲۷۵۹)
اسلام نے ہر سطح پر بدعہدی اوروعدہ شکنی کو منع کیا ہے اور اسے اہل ایمان کے لیے قابلِ مذمت فعل قراردیاہے۔ اسلام میں میعاد معاہدہ ختم ہونے تک جنگ کرنے کی ممانعت ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ہوگیا ہے اس کو پورا کرنا ہوگا ، الا یہ کہ فریق مخالف کی طرف سے نقض عہد کے تلخ تجربات سامنے آئیں یا ان کی طرف سے دشمنوں کی مدد کی گئی ہو۔ معاہدہ پورا نہ ہونے کی صورت میں فریق مخالف کے خلاف کسی طرح کی جنگی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اگر معاہدکے خلاف مسلمان مددطلب کرے تب بھی معاہدے کا لحاظ رکھا جائے گااور اس کو توڑا نہیں جائے گا۔عام احوال وکوائف میں معاہدے کے تقدس کا خیال رکھا جائے گا۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’اگروہ (اہلِ ایمان) دین کے معاملات میں تم سے مدد چاہیں تو ان کی مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلے میں مدد نہ کرنا کہ تمھارے اور ان کے درمیان صلح وامن کا معاہدہ ہوا ہو‘‘۔(انفال ۸:۷۲)
عام حالات میں معاہدے کا احترام وتقدس ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک اور ربانی ارشاد ملاحظہ ہو:’’ سوائے ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیاتھا پھر انھوں نے تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے مقابلے پر کسی کی مدد کی، سوتم ان کے عہد کو ان کی مقررہ مدت تک ان کے ساتھ پوراکرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو پسند کرتا ہے ‘‘۔(التوبہ ۹:۴)
اہل عرب اسیران جنگ سے نہایت برا سلوک کیاکرتے تھے جیساکہ موجودہ دور میں گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ کیا جانے والے والا امریکی برتاؤ دنیا کے سامنے ہے ۔ اس کے بالمقابل اسلام نے جنگی قیدیوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک کی تاکید فرمائی اور یہ قانون وضع کردیا کہ نہ ان کو ایذاپہنچائی جائے گی اور نہ ان کو قتل کیاجائے گا۔ آپؐ کا ارشادہے: زخمی پر حملہ نہ کرو، بھاگنے والے کا پیچھانہ کرو، قیدیوں کو قتل نہ کرو، اور جو اپنا دروازہ بند کرلے اس کو امان دے دو۔(الامام ابوالحسن البلاذری: فتوح البلدان، ص۵۳)
اسیرانِ جنگ سے متعلق اسلام کا قانون یہ ہے کہ جنگ جب اپنے اختتام کو پہنچ جائے توانھیں بغیر فدیے کے آزاد کردیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ اگر انھیں قیدی بناکر رکھاجائے تو ان کے ساتھ اچھا سلوک وبرتائو کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: پس (اے ایمان والو) جب تمھارا معاملہ کافروں سے ہوتو ان کی گردنیں اڑادو یہاں تک کہ جب خوب قتل کر چکو تو ان کو رسی سے باندھ لو۔ اس کے بعد (تم کو اختیار ہے کہ) یا تو احسان رکھ کر (رہا کردو) یامعاوضہ لے کر چھوڑدو۔(محمد ۴۷:۴)
اسیرانِ جنگ کو صرف قیدی بناکر رکھنے کے لیے ہی نہیں کہاگیا بلکہ ان کے ساتھ نرمی اور حُسنِ سلوک کی بھی تعلیم دی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں اسیر اور مسکین ویتیم کو کھانا کھلانے کے عمل کے لیے تحریص وترغیب دی گئی ہے او ر اسے نیکو کاروں کا فعل قراردیا گیاہے: ’’وہ خاص اللہ کی خوشنودی کے لیے مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو محض اللہ کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں ۔کسی جزایا شکر یے کے خواستگار نہیں ہیں۔ ہم تو صرف اس تنگی کے دن سے ڈرتے ہیں جس میں شدتِ تکلیف سے چہرے بگڑ جائیںگے‘‘۔(الدھر۷۶: ۸-۱۰)
آپؐ نے جنگی قیدیوں کو اہل ایمان کا بھائی قراردیا ہے اور تاکید کی ہے کہ تم ان کے ساتھ بھی اپنے بھائیوں جیسا معاملہ کرو۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تمھارے بھائی تمھارے خادم ہیں جن کو اللہ نے تمھارا دست نگر بنایا ہے۔ لہٰذا جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہیے کہ اس کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ تم ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسی کسی بھاری خدمت کو ان کے ذمے کرو تو خود ان کا ہاتھ بٹائو۔(بخاری ،حدیث :۲۵۴۵ )
جنگ بدر میں مشرکین مکہ کے ۷۰ سے زیادہ آدمی مارے گئے اور کم وبیش اتنے ہی قیدی بناکر لائے گئے۔ آپؐ نے قیدیوں کو صحابہ کے درمیان تقسیم کردیا اور نصیحت کی کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔حضرت حسن بصری اس سلسلے میں فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی لایا جاتا توآپ اسے کسی مسلمان کے حوالے کردیتے اور فرماتے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ قیدی ان کے پاس دوتین دن رہتا اوروہ مسلمان اس کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتا تھا۔(الکشاف، زمخشری ، ج۴، ص۱۹۶)
دشمن کی لاشوں اور ان کے اعضا کی بے حرمتی کرنے سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ یہ کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہے کہ انسانی لاشوں کے ساتھ درندگی کا سلوک کیا جائے۔ آپؐ نے بہت ہی سختی سے منع کیا ہے۔عبداللہ بن یزید انصاریؓ روایت کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال لوٹنے اور جسم کو مُثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔(سنن ابی داؤد ، حدیث۲۶۶۶)
اسلام نے جو قوانینِ جنگ وضع کیے ہیں ان میں اتنی جامعیت ہے کہ دورِ جدید کا مہذب انسان بھی ان کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق دشمن ہوں یا دوست، عقائد ونظریات کے اعتبار سے خواہ وہ کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا، بشرطیکہ وہ ظالموں میں سے نہ ہوں اور نہ دین حق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ہوں۔ قرآن مجید کی یہ بیّن تعلیم ہے : ’’اللہ تم لوگوں کو ان کے ساتھ نیکی کا برتائو اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہ لڑے اور نہ ہی تم کو انھوں نے تمھارے گھروں سے نکالا۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۸)
سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں : ’’اس باب میں اسلامی قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص جو اہل قتال میں سے ہے اس کا قتل جائزہے خواہ وہ بالفعل لڑے یانہ لڑے، اور ہر وہ شخص جو اہلِ قتال میں سے نہیں ہے اس کا قتل ناجائز ہے سواے اس صورت کے کہ وہ حقیقتاً لڑائی میں شامل ہو یا مقاتلین کے سے کام کرنے لگے‘‘۔(الجہاد فی الاسلام ، ص۲۲۴)
اسلام سے قبل محض مالِ غنیمت کے حصول کے لیے بھی جنگوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ تجارتی قافلوں اور راہگیروں کو لوٹنا پیشہ بن چکا تھا۔ لیکن اسلام نے اس شنیع عمل کی پُر زور مذمت کی اور اس طرز عمل پر قدغن لگادی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹے ہوئے مال کو حرام قراردے دیا۔ مندرجہ ذیل ہدایت کا انتساب آپؐ کی طرف واضح ہے :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار اور مُثلہ کرنے سے منع فرمایاہے(بخاری، حدیث ۵۵۱۶)۔ ایک دوسری جگہ آپؐ کا ارشاد ہے :’’ جوشخص لوٹ مار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘۔(سنن ابن ماجہ ، حدیث ۳۹۳۷ ا)
گویا کہ اللہ کی راہ میںجہاد کرنے والے اگر لوٹ مار اور فتنہ وفساد میں مشغول ہوجائیں اور غیر اخلاقی حرکتوں کے مرتکب ہوںجن کی بنا پر عوام و خواص میں اضطراب وبے قراری عام ہوجائے، تو راہ حق میں اُٹھنے والے یہ قدم ’خیر‘ کا باعث نہ بن کر ’شر‘ کا موجب قرار پاتے ہیں ۔ چنانچہ ان کا جذبۂ عمل اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے محروم رہتا ہے ۔
اسلام نہ تو ناحق خون بہانے کی اجازت دیتاہے اور نہ دشمنوں کی اَملاک وجایداد کو تباہ وبرباد کرنے کو جائز ٹھیراتا ہے، اور نہ یہ اعمال اسلام کے مقاصد جلیلہ کے شایان شان ہی ہیں۔ اسلام فتنہ وفساد کو ناپسندکرتا ہے، اس لیے کہ حقیقی معنوں میں یہ امن وآشتی کا علَم بردار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حالت ِ جنگ میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نہ کھیتیاں تباہ وبرباد کی جائیں ،نہ پھل دار درختوں کو کاٹا جائے اور نہ املاک کو نذرآتش کیا جائے ۔یہاں تک کہ کفروشرک کا علَم بردار محارب فریق میدان جنگ میں بھی، اہل ایمان محارب فریق سے امن وعافیت کا خواہاں ہو تو ہاتھ روکنے کا حکم ہے۔ اسلام کو اگر وہ سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو موقع دیا جائے گا اور پھر بھی اگر وہ اسلام سے بے زاری کا اظہار کرے تو حکم یہ ہے کہ اسے اس کے محفوظ مقام تک پہنچا دیا جائے۔
اس کے علی الرغم عصر حاضر کے خود ساختہ قانون امن وجنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اپنے حریف کو مغلوب کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے، چاہے املاک کی تباہی کی شکل میں ہو یا جانوں کے تلف کی صورت میں ہو ۔ماضی قریب میں بھارت میں گجرات اور آسام کے فسادات اور بین الاقوامی سطح پر افغانستان ، عراق اور میانمارکے دل دوز واقعات انسانوں کے خودساختہ قوانین جنگ وامن اوران کے بھیانک اور انسانیت کش نتائج کی زندہ مثالیں ہیں۔ ایسے ہی شر انگیزوں اور فساد کاروں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے : ’’اور جب وہ حاکم بنتاہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میںفساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو برباد کردے۔ مگر اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘۔(البقرہ ۲:۲۰۵)
دوسری طرف مذہب اسلام کی بیّن اور درخشاں تعلیمات ہیں جو میدان جنگ میں بھی اخلاق، رواداری اور عظمت انسان کی پاسداری کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتیں، بلکہ وہ فتنہ وفساد کاقلع قمع کرنے کے لیے مؤثر اقدام کی ترغیب و تحریص کرتی ہیں ۔اس سلسلے کی آخری کوشش کے مظہر قتال فی سبیل اللہ کے دوران بھی اخلاق وکردار کو بالاے طاق نہیں رکھا جاتا بلکہ شایانِ انسانیت اخلاق برتنے کی تعلیم و تلقین کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ کھیتوں اور فصلوں کی بربادی اور درختوں کے اُکھاڑنے اور جلانے تک سے روکاگیاہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ جب کسی لشکر کو روانہ کرتے تو امیرلشکر کو چند ہدایات ضروردیتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت اسامہؓ کے لشکر کو آپ نے روانہ کیا تو ان کو ۱۰ ہدایات دیں، ارشاد فرمایا:’’لوگو! ٹھیرو، میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتاہوں۔ تم ان کو یاد رکھنا ۔ دیکھو ! خیانت نہ کرنا، فریب نہ کرنا، سرکشی نہ کرنا، دشمن کے ہاتھ پائوں نہ کاٹنا، چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،کھجور کے درخت کو نہ اکھاڑنا اور نہ اس کو جلانا، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔ بکری ، گائے اونٹ کھانے کے سواذبح نہ کرنا۔(تفسیر الطبری، ج۲،ص۴۶۔ بحوالہ صدیق اکبر،ص۳۲۹)
اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق نہ تو بلاوجہ کسی عورت کو قتل کیا جائے گا اور نہ اس کی عفت وعصمت کو مخدوش وداغ دار کیاجائے گا ۔ اسلام اپنے پیروکاروں کی ذہنی پاکیزگی کا پورا اہتمام اور انھیں ہر طرح کی جنسی آلودگی سے پاک رکھتاہے۔اسلام نے عورت کو تحفظ فراہم کیا اور معاشرے میں عزت واحترام کا مقام دیا۔جنگ میں دشمن کی بیٹی پر ہاتھ اٹھانے اور اس کی عصمت دری کرنے کی سختی سے ممانعت کردی گئی۔یہ امتیاز صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس نے مفتوح قوم کی عورتوں کی عصمت کی پاسبانی کا حکم دیا۔
اسلام عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ اسلامی ریاست ومملکت میںا نتقامی سیاست کا کوئی تصور موجود نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی جواز فراہم کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ جنگوں میں بھی انتقامی کارروائی کی ممانعت کردی گئی ہے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ فاتح اقوام جوش انتقام میں فتح وکامرانی کے بعد قتل وغارت گری کا ایسا بازار گرم کردیتی ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ نت نئے اسلحہ جات کے ذریعے انسانی لاشوں کے چیتھڑے اڑادیے جاتے ہیں۔گویا کہ مفتوح قوموں کی تباہی وبربادی مقدر بن جاتی ہے ۔قرآن مجید میں اس کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے : ’’اس نے کہا (کہ لڑائی بذات خود کوئی اچھی چیز نہیں ہے) جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کردیتے ہیں اور اس کے معززلوگوں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریںگے‘‘۔(النمل ۲۷:۳۴)
دیگر اقوام و ملل میں دشمن کے ساتھ نارواسے ناروااور غیر انسانی سلوک کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، لیکن اسلام نے اس کو انتہائی معیوب و مذموم قرار دیا ہے ۔ اپنے جنگی قوانین میں انسانی ہمدردی اور نیک برتائو کو بنیادی حیثیت دی ہے۔آج کی مہذب دنیا میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی معاملات کرنا باعث شرم وعار نہیں سمجھا جاتا بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیے جانے کو فتح وکامرانی کے نشے میں روا سمجھا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں عالم انسانیت نے یہ دل دوز مناظردیکھے ہیں کہ افغانستان وعراق سے جو لوگ پکڑکرامریکا کی جیلوں میں بندکیے گئے، ان کے ساتھ کتنا اذیت ناک سلوک کیا گیا۔ ان اذیت کدوں سے متعلق دل خراش والم ناک داستانیں امن عالم کے ٹھیکے داروں کے دعووں کو کھوکھلا ثابت کردیتی ہیں ۔اسلام ان تمام معاند ِانسانیت رویوں کوبہ نظر استحقار دیکھتا ہے اور دشمن پر قابو پالینے اور قیدیوں کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنے سے اپنے پیروکاروں کوسختی سے منع کرتاہے۔ ابو یعلی سے روایت ہے: ’’وہ کہتے ہیںکہ ہم عبدالرحمن بن خالد بن ولید کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور دشمن کے چار جاسوس پکڑے گئے۔ ان کے قتل کا حکم دیا گیا اوران کو باندھ کر تیر مار کر قتل کیا گیا۔ حضرت ایوبؓ کو یہ بات پہنچی تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔(مسند احمد)
مجاہدین اسلام کو بلااجازت گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ حالت جنگ میں بھی اسلام نے پردہ داری پر زور دیا ہے۔ آپؐ کا وہ ارشاد ملاحظہ فرمایاجائے جس میں عورتوں اور بچوں کو نہ مارنے اور دکان سے بلا قیمت کوئی مال کھانے کی سختی سے ممانعت کے ساتھ ساتھ اجانب و اعدا کے گھروں میں بلا اجازت داخلے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے جائز نہیں رکھاہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہوجائو مگر اجازت سے نیز ان کی عورتوں کو پیٹنا اور پھلوںکو کھانا بھی حلال نہیں‘‘۔(سنن ابی داؤد ، حدیث ۳۰۵۰ )
اسلام صلح وآشتی کا علَم بردار ہے اور انسانی معاشرے میں خیروفلاح کی قدروں کو فروغ دینا اس کا مطمح نظر ہے۔ اسلام جنگ وجدال سے اجتناب کی بھی تلقین کرتاہے ، بلکہ امن کا قیام اس کی غایت ہے ۔ اسلام صلح جوئی اور قیام امن کا کس حدتک علَم بردار ہے، یہ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر دشمنان اسلام کی طرف سے صلح کی پیش کش ہوتو اس سے انکار کی کوئی صورت نہیں ہے، بلکہ اس کو قبول کرنا ایمان کا جزہے۔ دشمنوں کے اس اقدام کو ٹھکرانے کی اسلام اجازت نہیں دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوجائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمھارے لیے ان پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے‘‘۔(النسائ۴:۹۰)
عمومی طورپر اسلام جارحیت وجبر کے خلاف ہے۔ جنگ براے جنگ اس کے اغراض میں سے نہیں ہے۔ جنگ بحالت مجبوری ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں بعض ناگزیر احوال میں اس کی اجازت ہے۔ہاں عام حالات میں نہ اس کی اجازت ہے اور نہ یہ مرغوب و پسندیدہ عمل ہے ۔یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اگر صلح کاتھوڑا بھی رجحان پایاجارہا ہوتو پھر صلح کو جنگ پر ترجیح حاصل ہوگی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگروہ صلح کی طرف جھکیں توآپ بھی اس طرف جھک جائیں اور اللہ پر بھروسا رکھیے، بلا شبہہ وہ خوب سننے والا، خوب جاننے والاہے اور اگر وہ لوگ آپ کو دھوکا دینا چاہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کافی ہے‘‘۔(انفال۸: ۶۱-۶۲)
اگردشمنانِ اسلام بالکل مخالفت وعداوت پر اتر آئیں توان کی مخالفت اور نقض عہد کو دیکھتے ہوئے معاہدے کوتوڑا جاسکتا ہے، لیکن اس اقدام سے معاند ومخالف فریق کو خبردار کیے جانے کا حکم ہے۔ دھوکا اور فریب بہر حال مذموم ہے۔ اسی ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (انفال ۸:۵۸)
کسی ملک سے اسلامی ریاست کو خطرہ نہ ہویااس کے مصالح وضروریات کا تقاضا ہو کہ اس کے ساتھ امن وامان کا معاملہ بنارہے تو اسلامی ریاست اس ملک وقوم سے بلاوجہ جنگ وجدال کے لیے برسرِ پیکار نہ ہوگی جیساکہ حبشہ اور تُرک کے معاملے میں کیاگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی: حبشہ کو چھوڑ دو جب تک کہ وہ تم سے تعرض نہ کرے اسی طرح ترک کو چھوڑ دو جب تک کہ انھوں نے تمھیں چھوڑرکھا ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد، حدیث ۴۳۰۴)
آپؐ نے صاف طور پر فرمادیا کہ اگر اسلامی ممالک میںدوسری ریاستیں کسی بھی طرح ان کے معاملات میں دخل انداز ی نہ کررہی ہوں تو ان سے خواہ مخواہ محاذآرائی نہیں کی جائے گی۔ ہاں، اگر یہ لوگ اسلامی ریاستوں کے خلاف مہم جوئی شروع کریں تو ان پر طاقت وقوت کے ساتھ یلغار کی جائے گی اور ان کے فتنہ وفساد کا سدباب کیاجائے گا۔
زمانۂ جنگ میں امن وامان کے حصول کا عمل مختلف مقاصد کے تحت آج بھی جاری ہے۔ جب بھی کوئی غیر مسلم کسی حالت میں امن وامان یاپناہ کا طالب ہو تو اسے پناہ دی جائے گی۔ اسلام میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی امن وپناہ کا تصور کسی محدود دائرے میں محصور ومقید نہیں ہے بلکہ پناہ لینے والوں کے جان ومال کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے ۔اس کی پناہ اس وقت تک ختم نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اس نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جو ناقابل معافی ہو۔مثلاً بغاوت وسرکشی یااسلامی حکومت اور اس کے علَم برداروں کے خلاف جاسوسی کا عمل ناقابل برداشت ہے، اس لیے کہ یہ فتنہ وفساد کے دائرے میں آتاہے۔ اس سے سرزد ہونے والے دوسرے جرائم میںعام قانون کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔ میدان جنگ میں بھی، جب کہ دونوں فریقوں کے مابین تصادم وآویزش اور جنگ وقتال جاری ہو، اگر فریق مخالف پناہ کاخواہاں ہو تو اسے پناہ دی جائے گی نہ یہ کہ اَنا اور وقار کا مسئلہ بنا کر یا نفس کے تابع ہوکر اس پر وار کیا جاتا رہے گا۔ اگر اس نازک موقعے پر بھی وہ اسلام کو سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو حفظ وامان میں رکھتے ہوئے دعوت دی جائے گی۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی سابقہ روش کو ترک نہیں کرنا چاہتاتو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ اس کو ہوس کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اس کو اس کے مقام محفوظ تک پہنچا دیا جائے گا۔ (دیکھیے سورئہ توبہ ۹:۶)
یہ حکم ربانی میدان جنگ میں نبرد آزما مشرکین سے متعلق ہے۔ اس کی وضاحت ابن جریر طبری یوں کرتے ہیں : ’’ جن مشرکین سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان ہی کے بارے میں یہ بھی حکم ہے کہ ان میں سے کوئی اسلام کو سمجھنے کے لیے پناہ کا طالب ہو تو اسے پناہ دی جائے گی۔ اگروہ اسلام کو قبول نہ کرے تو بہ حفاظت اسے اس کے علاقہ میں پہنچادیا جائے گا۔ اسلامی ریاست کا کوئی فرد اس سے تعرض نہ کرے‘‘۔(تفسیر الطبری، جلد۱۴، ص ۱۳۸)
علَم برداران اسلام نے ہردور میں اس قانون امن وامان کا پاس ولحاظ رکھا اور اس پر عمل بھی کیا ۔اگر کسی نے بڑے سے بڑے مجرم کو لاعلمی میں بھی اپنی پناہ میں لیا تو اس امان کا لحاظ رکھا گیااور اس سے کوئی تعرض نہیں کیاگیا بلکہ اس کے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری کو بطیب خاطر قبول کیا گیا۔ ہاں، اگر کبھی کسی فریق مخالف یا اس کے کسی فرد کے ساتھ کسی نے کوئی ناروا سلوک کیا جس کا سرا ظلم وتعدی سے مل جاتا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ اس کا ذاتی عمل ہے۔ مذہب اسلام اوراس کی درخشاں انسانیت نواز تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسلام جس طرح اپنے نام سے امن و آشتی کا پیغام دیتا ہے اسی طرح قرآن وسنت میں مذکور واضح اور بیّن تعلیمات ، ظلم وعدوان کی مخالف اور امن وآشتی کی نقیب ہیں۔ یہاں ایک انسان کا قتل ناحق پوری انسانیت کے قتل کے برابر اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ جو مذہب انسانی خون کے احترام میں اس انتہا تک پہنچ جاتا ہو اس کی طرف دہشت گردی اور خونریزی کا انتساب سرتاپاظلم ہے۔ یہاں اگر جنگ کی اجازت ہے تو محض فتنہ وفساد کا قلع قمع کرنے کے لیے تاکہ فرد ، معاشرہ، ملک اور قوم کو امن وآشتی کی خوش گوار فضا میسر ہو اور کاروانِ انسانیت منزل مقصود کی یافت میں امن وسکون کے ساتھ رواں دواں رہے۔
مقالہ نگار شعبۂ دینیات ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے وابستہ ہیں
گذشتہ چند دہائیوں سے پوری دنیا جنسی مسائل اور گفتگو میں الجھی ہوئی ہے۔ اس بحث و تمحیص نے ایک واضح خط ِ امتیاز کھینچ رکھاہے ۔ ایک جانب مغربی ممالک ہیں جہاں جنسیت کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر مذہبی اور سماجی پابندیوں سے آزاد کر دیا گیاہے،اور دوسری طرف مشرق کی اپنی قدیم روایات اور اخلاقی تعلیمات ہیں جو لوگوں کو کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دیتیں۔تاہم اس سے یہ اخذ کرنا کہ مشرقی دنیا اس معاملے سے بے نیاز یا نقطۂ معکوس پر کھڑی ہے،خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
آزاد روی کے سیلاب ِ بلا خیز کی ابتدا مغرب سے ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یورپ نے تو اس کا آسان حل نکالا کہ تمام معاملات کو شخصی اور ذاتی قرار دے کرمعاشرے کو اپنی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا۔ اس حل کے پیچھے فی الحقیقت صدیوں پرانا وہ رویّہ تھا جس کے تحت ’انفرادیت‘ کو ہمیشہ ’اجتماعیت‘ پر فوقیت دی گئی۔ اس کے برعکس مشرق میں دور ِ قدیم ہی سے اجتماعیت کو اوّلیت دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے فرد کو اپنے قول و فعل کے اظہار سے قبل اجتماعی، یعنی معاشرتی سوچ اور رد ِعمل کو مد ِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔
پوری دنیا کے سنجیدہ مزاج اور صورت ِ حال سے متفکر لوگ اس نقطہ ِ فکر پر متفق ہیں کہ ہماری اخلاقی زبوں حالی اور جنسی مسائل کی کھائی میں گرنے، اورتیزی سے اس جانب بڑھنے کی اہم ترین وجہ مذہب سے دوری ہے۔ اس کے برعکس ایک طبقے کی راے میں جنسیت انسانی زندگی کا انتہائی قوی پہلو ہے،اور مذہب اس معاملہ میں یا تو خاموش ہے، یا برق پا تغیر پذیرحالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمیں اس سے اتفاق نہیں۔مذاہب بالخصوص یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مطالعے سے ہمارے اس دعویٰ کی تائید ہو جاتی ہے کہ ان میں سے کسی نے نہ تو سکوت اختیار کیا ہے، اور نہ ماوراے فطرت پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان مذاہب میں جنسی تقاضوں کو فطرت ِ انسانی سمجھتے ہوئے راہ ِ عمل متعین کی گئی ہے۔
یہاں ہم سب سے پہلے یہودیت کا جائزہ لیتے ہیں، لیکن اس میں ’’قوانینِ موسوی‘‘ اور بعد ازاں ربّیوں کی تعلیمات میں فرق ملحوظ ِ خاطر رکھنا ہو گا۔ یہودی قوانین توریت ، تالمود اور دیگر علماے یہود کے مجموعے کا نام ہے جسے حضرت موسٰی ؑ کے احکام سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ ایک بنیادی قانون ہے، اور دوسرا تشریحی۔
توریت کی کتاب ’پیدایش‘ میں آدم کی پسلی سے عورت کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد مرد اور عورت کی قربت اور ازدواجی زندگی کا یوں بیان ہوا ہے کہ ’’ اسی لیے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی بیوی کا ہو جاتا ہے، اور وہ دونوں ایک ہی جسم بن جاتے ہیں‘‘ ( پیدایش ۲ : ۱۸- ۲۴)۔ اب اس میں اشتباہ کی گنجایش نہیں کہ دونوں کا ایک جسم ہو جانا اپنے اندر کیا مفہوم رکھتا ہے ۔
کتابِ خروج میں ہر مرد و زن کو بدکاری سے اجتناب کرنے، دوسرے لوگوں کی چیزیں اور پڑوسی کی بیوی ، اس کے خادم اور خادمائوں کو لینے کی خواہش سے منع کیا گیاہے ( خروج ۲۰ : ۱۴، ۱۷)۔ گویا اس میں دوسروں کے مال و اسباب کی طمع کرنے اور پڑوسی کی بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات کی استواری کی خواہش ممنوع ہے۔ ’پڑوسی کی بیوی‘ محدود مفہوم میں نہیں بلکہ وسیع تر معنوں کی حامل علامت ہے کہ کسی بھی غیر عورت کے بارے میں ایسے خیالات اور خواہش کو دل میں لاناخدا کی نگاہ میں اسفل فعل ہے۔ علاوہ ازیں، دوسری شادی کرنے کے بعدخاوند اپنی پہلی بیوی کے تین حقوق کی ادایگی کا پابند ہے۔ کھانا اور لباس دینے کے بعد اس کا تیسرا فرض یہ ہے کہ وہ بیوی کو ’’مسلسل وہ چیزیں دیتا رہے جنھیں حاصل کرنے کا اختیار شادی سے ملا ہے‘‘ ( خروج ۲۱ : ۱۰)۔ یہ الفاظ بیوی کے جنسی حقوق کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اس میں یہ حقیقت مضمر ہے کہ: بیوی کو ان حقوق سے محروم رکھنا اسے اپنے فطری تقاضوں کی تسکین کا رخ موڑنے کا جواز بن سکتا ہے۔ تالمود میں Nashim یعنی ’عورت‘ کے عنوان کے تحت بیوی کی جنسی آسودگی سے متعلق قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں خاوند کے پیشہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ وہ ہر شب اپنی بیوی کے ساتھ سوئے، مگر اس استثنیٰ کے ساتھ کہ شتر بان ہر ۳۰ دن میں کم از کم ایک مرتبہ اور جہاز راں چھے ماہ میں ایک بار ضرور اپنی بیوی سے قربت کرے۔ اس حکم یا نصیحت میں دماغ سوزی کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں خاوند کی مصروفیت کو مد ِ نظر رکھا گیا ہے۔
توریت کی کتاب ِ احبار کے اٹھارھویں باب میں جنسی معاملات سے متعلق قوانین اور ضوابط کا تفصیلی ذکرہے جو خداکی طرف سے بنی اسرائیل کو پہنچانے کے لیے حضرت موسٰی ؑ کو دیے گئے تھے۔ یہاں ایک بار پھر پڑوسی کی بیوی کے ساتھ جنسی اختلاط سے منع کیا گیا ہے(کتاب ِ استثناء ۵ :۲۱ میں اس حکم کا پھر اعادہ کیا گیاہے)۔ صرف یہی نہیں، بلکہ دائرۂ حُرمت میں آنے والے تمام رشتوں کا بیان بھی ہے ۔ اسی باب میں ہم جنسیت کو ’ بھیانک گناہ‘ کہنے کے علاوہ کسی جانور کے ساتھ مرد یا عورت کے جنسی تعلق کی بھی مناہی کی گئی ہے۔اوّل الذکر عمل ِ قبیح کا ذکر قوم ِ لوط کے ضمن میں قدرے تفصیل سے آیا ہے۔ اس کو محض سرسری نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ صدیوں قبل ایک محدود علاقے یا قوم میں اس کا ارتکاب آج کے مہذب ترین معاشرے میں ہم جنس پرستی کی تبلیغ، اجازت اور ’انسانی حقوق‘ کی علَم برداری کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ خداے علیم و خبیر نے پہلے ہی نوعِ انساں کو متنبہ کر دیا تھا۔ یقینا اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ مستقبل میں اس کا ارتکاب روز افزوں بھی ہو گا اور باعث ِ ندامت بھی نہیں، بلکہ اس کو قانونی تحفظ بھی مل جائے گا۔
کتاب استثناء کے باب ۲۲ میں شادی سے متعلق قوانین کا بیان ہے۔ یہاں منجملہ دیگر، شب ِ عروسی اگر خاوند اپنی بیوی کو باکرہ نہ پائے اور عورت کے والدین بھی اس کے کنوار پن کاکوئی ثبوت نہ دے سکیں (اسی باب کے مطابق کنوار پن کا ثبوت اس کپڑے پرخون کے دھبے ہیں جو شب ِ زفاف کے بعد عورت اپنے پاس رکھتی ہے)، تو لڑکی کو سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ رجم کا یہی حکم زنا بالرضا کے مرتکب مرد اور عورت کے لیے بھی ہے ۔ کنواری اور ایسی لڑکی جس کی کسی کے ساتھ نسبت نہ ٹھیری ہو، کے ساتھ زنا بالجبر کی سزا میں مرد کو جرمانہ اور اس لڑکی کے ساتھ شادی اور تا حیات طلاق نہ دینے کی پابندی ہے۔ شادی شدہ یا کنواری مگر نسبت شدہ لڑکی کے ساتھ زبردستی جنسی اختلاط کرنے والے مرد کی سزا قتل ہے۔ عورت کو اس گمان میں معاف کر دیا گیا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے شاید شور کیا ہو گا مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا تھا۔
تالمود میں جنسی جرائم کے ارتکاب پر مختلف سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ سگی یاسوتیلی ماں اور بہو کے ساتھ جسمانی تعلق، ہم جنسیت اورجانوروں سے اختلاط پر سر قلم کرنے ، مجرم کو لٹا کر اس کے گلے میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلنے یا گلا گھونٹ کر مار ڈالنے کی سزائیں مقرر ہیں۔ ان سب قوانین سے معلوم ہوتا ہے کہ جنسی بے راہ روی کی بیخ کنی کے لیے انتہائی قدم اٹھانا بعض اوقات لازم ہو جاتا ہے۔
مرد عورت کوجانوروں کے ساتھ جنسی اختلاط سے ممانعت کوبھی جدید دور کی آزاد خیالی اور انتہائی بے راہ روی کے پس ِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج کی روشن خیال اور مادر پدر آزاد دنیا میں اس قبیح تعلق کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
خدا کی محبوب ترین قوم بنی اسرائیل جلد ہی قوانینِ موسوی کو فراموش کرکے توریت کی من چاہی تاویلات میں الجھ گئی۔مصر سے خروج کے وقت وہ جن عقائد کو اپنے ساتھ لائے انھوں نے پھر سے لوگوں کی زندگیوں کو آلودہ کرنا شروع کر دیا۔ عہد نامہ عتیق میں شامل متعدد کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ علاوہ ازیں، مصری فراعین اور رومی شہنشاہیت کا دائرہ وسیع تر ہو چکا تھا جس کی وجہ سے یہودیوں میںایک خداکی عبادت کا عقیدہ متزلزل ہو رہا تھا۔فسق و فجور کے دیگر عوارض ان کے روح و بدن کو متاثر کر رہے تھے۔اس صورت ِ حال میں حضرت عیسیٰ کی آمد سنجیدہ مزاج اور مذہبی رجحان کے حاملین کے لیے تقویت کا باعث ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔
حضرت عیسیٰ کی تعلیمات ان کے حواریوں نے قلم بند کیں۔ سب سے پہلے ضبط ِتحریر میں آنے والی مرقس کی انجیل پہلی صدی عیسوی کے چھٹے یا ساتویں عشرہ میں سامنے آئی۔ باقی اناجیل اس کے بعد لکھی گئیں۔ اپنی مختصر حیات میں حضرت عیسٰی ؑ کو زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی مہلت نہ ملی۔بعد ازاں پولس کی تعلیمات کو بھی عیسائیت کے بنیادی قوانین کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
مرقس اور لوقا کی اناجیل میں طلاق کے بارے میں حضرت عیسیٰ کے خیالات دو اہم نکات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، یعنی میاں بیوی کا دائمی بندھن، اور طلاق کے بعد شادی کی صورت میں انھیں زنا کا مرتکب قراردینا ( مرقس کی انجیل ۱۰ :۱۰-۱۲، اور لوقا کی انجیل، ۱۶ :۱۸)۔ اوّل الذکر کے مطابق خاوند یا بیوی کی وفات تک شادی ایک ناقابل ِ تنسیخ معاہدہ ہے ۔ گویا خاندان کا وجود تسلیم شدہ حقیقت ہے، اور انسانی زندگی میں رہبانیت کو اہمیت نہیں دی گئی۔ دوسرا نکتہ زنا کی مذمت ہے کہ طلاق کے بعددوسری شادی گویامتعلقہ فریق کا ارتکابِ زنا ہے۔ بالفاظِ دیگر ، زنا کو ایک انتہائی ناپسندیدہ فعل کہا گیا ہے۔ ہم پولس کے خیالات اور تعلیمات میں شامل قوانین اور ضوابط کو کسی طور بھی الہامی قرار نہیں دے سکتے۔ چونکہ عیسائی دنیا انھیں عیسائیت کا جزو سمجھتی ہے اس لیے ان کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔
پولس کے مکتوبات میں تجرد کی مدح سرائی اورشادی شدہ زندگی کے بارے میں اس کے نصائح دو متضاد سوچوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ فی اوقت ہمیں اس سے بحث نہیں۔ ہمیں اس کے مکتوبات سے پاک باز زندگی گزارنے ، فواحش اور ارتکاب ِ زنا سے اجتناب کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے۔ عبرانیوں کے نام خط( ۱۳: ۴) میں وہ تلقین کرتا ہے کہ ’’شادی کا بستر پاک رکھنا چاہیے۔ خداہی ان لوگوں کا فیصلہ کرے گا جو حرام کاری کے گناہ اور زنا کرتے ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک اور خط میں وہ لوگوں کو حرام کاری کرنے والوں کی صحبت سے پرہیز کا مشورہ دیتا ہے کہ ’’ ایسے شخص کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھانا چاہیے‘‘ ( ۱- کرنتھیوں کے نام خط، ۵ : ۹-۱۱)۔ اسی مکتوب میں حرام کاری سے اجتناب کرنے کی باربار تلقین کی گئی ہے ( ۶ : ۹، ۱۶، ۱۸، اور ۷ : ۱-۴)۔گلتیوں کو عیسائیت کی تبیلغ کرتے ہوئے وہ جنسی گناہ، برے جذبات اور لالچ کو بت پرستی کے برابر قرار دیتا ہے کہ ’’ایسے گناہ کے اعمال پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے‘‘۔ ( ۳ : ۵ - ۷)
کلیسائی تعلیمات میں جسمانی تعلقات کو بنگاہ ِ حقارت دیکھا گیا ۔ اسی وجہ سے شادی کے بجاے تجرد کی زندگی کو اہمیت دی جانے لگی ۔ اس ضمن میں متعدد مذہبی پیشوائوں، بشمول سینٹ پال، کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جنھوں نے عیسائیوں کو مجرد زندگی گزارنے کا مشور دیاکہ ’’ جو لوگ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں وہ شیطان کے کام کی تکمیل کرتے ہیں‘‘۔ایک روایت کے مطابق حضرت عیسٰی ؑ سے استفسار کیا گیاکہ موت کب تک فرماں روائی کرے گی؟ آپ کا جواب تھا کہ جب تک عورتیں بچوں کو جنم دیتی رہیں گی۔مزید فرمایا کہ جب تک کہ تم لباس ِ خجالت اپنے پائوں تلے نہیں روندتے، عورت مرد کا امتیاز ختم نہیں ہو جاتا،اور دونوں میں یک جائی نہیں ہو جاتی، موت تمھارے سروں پرمنڈلاتی رہے گی۔ حضرت عیسٰی ؑ سے یہ بات بھی منسوب کی گئی ہے کہ’ میں نسوانی کاموں کو ختم کرنے آیا ہوں، یعنی شہوت اور عمل ِ پیدایش۔۱؎ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت میں راہبانہ زندگی کو معراج سمجھا گیا ہے۔
ایسی تعلیمات ہی کے تحت کلیسا نے مذہبی امورکی بجاآوری کے لیے ہر عورت کو اجازت نہیں دی تھی بلکہ وہ بیوائیں جو راہبانہ زندگی گزارنے کی خواہش مند تھیں اور وہ کنواری لڑکیاں جنھوں نے تا عمر شادی نہ کرنے کا عہد کیا ہوا تھا، کلیسائی کاموں کی اہل تھیں۔ان کا قیام چونکہ کلیسا ہی میں تھا اس لیے بتدریج ایک غیر اخلاقی صورت ِ حال نے جنم لیا۔
جی- ایچ- ٹاورڈ (G. H. Tavard) نے لکھا ہے کہ کلیسا کے غیر شادی شدہ منصب داروں اور رہنمائوں نے نہ صرف دوشیزائوں اور بیوائوں کے گھروں میں رہنا شروع کر دیا تھا بلکہ ان کے ساتھ ایک ہی بستر پر بھی سونے لگے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اکٹھے سونے کے باوجودان کے مابین کسی قسم کے جنسی تعلقات نہیں تھے۔انطاکیہ کے بشپ کے گھر میں تو متعدد ایسی عورتیں موجود تھیں اور اسی وجہ سے کلیسا کی انطاکیہ کونسل نے اپنے اجلاس منعقدہ ۲۶۸ء میں اسے عہدے سے معزول کر دیاکیونکہ ضبط ِ نفس اور اجتنابِ اختلاط کے باوصف لغزش کا شائبہ بہر حال پایا جاتا تھا۔ اسے ناپسندیدہ سمجھنے کے باوجود بھی اکٹھے رہنے اور سونے پر کوئی پابندی نہ لگائی گئی۔ حتیٰ کہ ۳۲۵ء میں ہونے والی اہم اور مشہور نائسیا (Nicea ) کونسل میں بھی پابندی کا کوئی فیصلہ نہ ہوا اور یوں اس فعل کے ارتکاب کو جاری رکھنے کا در کھلا رہا۔(بحوالہ وائٹرنگٹن، ص ۲۰۴)
ان تعلیمات کے برعکس عیسائیوں کے کارپوکریٹی (Carpocratians) فرقے کا فلسفہ آزادخیالی پر مبنی تھا۔ا ن لوگوں کا عقیدہ تھا کہ چونکہ انسان صرف اسی دنیا کے لیے ہے اس لیے دنیاوی زندگی میں لذات جسمانی اور شہوت رانی پر کوئی پابندی نہیں۔ اور یہ کہ خدا کے پاس لوٹنے سے قبل روح کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، لہٰذا لازم ہے کہ ہر قسم کی آزاد روی ، سرمستی اور اختلاط ِ بدنی سے لطف اٹھا لیا جائے تاکہ انھیں حیات ِ نو کی ضرورت ہی نہ رہے۔
گویا عیسائیت میں توازن کے بجاے دو انتہائوں پر زور دیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی لوگوں کو موقع ملا انھوں نے ہر بند اور شرم و حیا کو توڑ کر مادر پدر برہنگی اور جسمانی لذائذ کی راہ اختیار کی۔ آج صرف امریکا میں ہر شخص اوسطاً آٹھ افراد کے ساتھ زنا کا مرتکب ہورہاہے۔
اب ہم اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں جو فی الحقیقت گذشتہ الہامی قوانین کا تسلسل بھی ہیں اور حرف ِ انتہا بھی۔ اوّل الذکر کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے فرما دی کہ :’’آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیںاور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند کیا‘‘۔(مائدہ ۵: ۳)
اس میں انتہائی مختصر مگر جامع الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے کہ آج کے بعد قوانین میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا اور یہ کہ انسان زندگی گزارنے کے لیے اپنی مرضی کا نہیں، بلکہ ان اصولوں اور امرو نہی کے تابع ہوگا جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اس لحاظ سے جنسی معاملات میں بھی ہم انھی حدود و قیود کے پابندہیں جو قرآن میں واضح کر دیے گئے ہیں۔ اپنی رضا و منشا، خوشی، مسرت یا حالاتِ زمانہ کے مطابق ان میں کسی قسم کی کمی بیشی کا تصور ہی نہیں۔
حکمِ الٰہی ہے کہ ’’ زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘ (بنی اسرائیل۱۷: ۳۲)۔ قرآن نے وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی کے الفاظ استعمال کرکے تمام راستوں کو بند کر دیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ’’ زنا مت کرو‘‘ ، بلکہ حکم ہے کہ ’’ اس کے پاس بھی نہ جائو‘‘، یعنی ہر وہ کام ، صحبت اور راہ جو انسان کو بلا ارادہ یا ارادتاً اس جانب لے جانے والی ہو جہاں زنا کے ارتکاب، یا کم از کم سوچ، خواہش یا منظر کا معمولی سا بھی احتمال ہو، اس سے گریز کرو۔ گویا یہ ارتکاب ِ زنا کی بنیاد ہے۔ جب انسان پہلا قدم ہی رکھنے سے مجتنب ہو گا تو یقینا وہ اپنے اگلے ارادوں پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اسی فرمان ِ الٰہی میں اسے ’’بڑی بے حیائی اور بہت بُری راہ‘‘ کہہ کر ذہن کو دعوت ِ فکر دی گئی ہے کہ یہ فعل محض تلذذ اور خوش وقتی کے لیے نہیں بلکہ بے حیائی اس کا لازمی عنصر ہے ، اور بری راہ اس لیے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اس فعلِ بد کا صرف ایک بار ہی ارتکاب کرنے کے بعد تائب ہو جائے گا۔ایک مرتبہ ملوّث ہونے کے بعدوہ گویا ایک راستے پر چل پڑا ہے جہاں اس کے قدم اسے آگے ہی آگے لیے جاتے ہیں۔
سورۂ فرقان میں کہا گیا ہے، ’’ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور جس جانور کو مارنااللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، مگر جائز طریقے سے، اور بدکاری نہیں کرتے، اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہو گا‘‘ ( الفرقان ۲۵: ۶۸)۔یہاں بظاہر بدکاری کو انتہائی برا فعل اور سخت گناہ کہا گیا ہے۔ شرک اور جانوروں کو ممنوعہ طریقے سے قتل (ذبح) کرنے کے ساتھ ہی بدکاری کا ذکر کرنا بذات ِ خود اس امر کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں افعالِ بد کا ارتکاب شرک وغیرہ سے کم نہیں۔ یہ ایک ایسی تنبیہ ہے جس پر معمولی سا غور بھی انسان پر لرزہ طاری کردیتا ہے۔اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بدکاری کس حد تک قابل ِ اجتناب و نفرین ہے۔
زنا اور شرم گاہوں کو ظاہر کرنا لازم و ملزوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس نکتے پر خاص طور سے زور دیا ہے۔ ارشاد ِ ربانی ہے: ’’ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، کچھ شک نہیں کہ ان کے لیے اللہ نے بخشش اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہیــ‘‘ (احزاب ۳۳:۳۵)۔ اسی طرح سورۂ مومنون میں ایمان لانے والے کو فلاح کی بشارت دی گئی ہے۔ صرف ایمان باللسان نہیں بلکہ ان لوگوں کو جو ’’ اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور ان عورتوں کے جو ان کی ملِک ِ یمین میں ہوں کہ ان پر وہ قابل ِ ملامت نہیںہیں، البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں‘‘۔ (المومنون ۲۳: ۱-۷)
قرآن نے انسان کو احسن و بامقصد زندگی گزارنے کے زریں اصولوں سے شناسا کیا ہے۔ ہر حکم اور اصول کو اس کی اہمیت کے اعتبار سے بتکرار بیان کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا نکتہ چونکہ حیات ِ انسانی میں دور رس نتائج کا حامل ہے اس لیے اسے صاف صاف الفاظ میں واضح کیا جا رہا ہے۔ سورۂ نور میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ اے نبیؐ ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔۔۔۔ اور اے نبیؐ ! مومن عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور پنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں ۔۔۔۔۔ وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو، اس کا لوگوں کو علم ہو جائے‘‘۔ (النور ۲۴: ۳۰-۳۱)
ان آیات ِ مبارکہ میں غضِ بصر، شرم گاہوں کی حفاظت، عورتوں کا اپنے سینوں پر آنچل ڈالنا، زینتوں کو نامحرموں سے چھپانا اور پائوں کو اس غرض سے زمین پر مارنا کہ پوشیدہ زینتوں (یعنی پائل، جھانجھر وغیرہ) کی آواز دوسروں کے کان میں جائے، سب ہی ممنوعات میں شامل ہے۔ غور کیا جائے تو اس میں کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے ۔ ہر دانستہ یا غیر دانستہ فعل خیالات ِ بد، ہیجان اور ژولیدہ فکری کی راہ سے ہوتا ہوا نفسانی خواہش، اور مآل کار زنا تک جا پہنچتا ہے۔ ان دو آیات میں زنا سے بچنے کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی اس سے مجتنب رہنے کی راہ بھی دکھا دی ہے۔ امام غزالی خواہشات ِ جماع اور بدکاری کے بیان میں نصیحت کرتے ہیں کہ ’’ نا محرمات عورتوں کو نہ دیکھے ۔ اگر کسی پر اتفاقاً نگاہ پڑ جائے تو دوبارہ احتیاط کرے ورنہ پھر بہت مشکل ہو گا۔نفس ِ شہوت اس معاملے میں قطعی حیوانوں کی طرح ہے کہ پہلے پہلے تو اس کو جس طرح چاہو سدہا سکتے ہو، اور اگر اس میں کوئی ہٹ پیدا ہو جائے تو پھر قابو سے باہر ہو جائے گا۔ لہٰذا اپنی آنکھ کو محفوظ رکھو ‘‘ ۔۲؎ سورۂ معارج میں جنتی لوگوں میںان کا بھی ذکر ہے جو’ ’ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔(المعارج ۷۰:۲۳-۳۱)
اللہ تعالیٰ نے جب ا نسان کی جنسی طلب و خواہش کی تکمیل کے لیے ایک جائز راستہ مقرر کیا ہے تو اس سے متجاوز کرنے پروہ قابلِ تعزیر بھی ہے۔’’ زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو، اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو دامن گیر نہ ہواگر تم اللہ اور روز ِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ِ ایمان کی ایک جماعت موجود ہو‘‘ (النور۲۴: ۲)۔ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ ’’ تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروںمیں بند رکھویہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں، ان دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں، اور اپنی اصلاح کرلیں تو انھیں چھوڑ دو‘‘۔ (نساء ۴: ۱۵-۱۶)
مفسرین کے مطابق سورۂ نساء میں بیان کی گئی سزا ابتدائی احکام میں سے ہے جب ابھی اسلامی معاشرہ تشکیل پا رہا تھا، جب کہ سورۂ نور میں سزائوں کو زیادہ شدت سے نافذ کرنے کا حکم ہے۔ ان معاملات میں معمولی سی رعایت، نیم دلی یا گنجایش سے حالات کبھی بھی قابو میں نہیں رہتے۔ اس کے ایک نہیں، متعدد نمونے ہمیں تاریخ کے مختلف اَدوا ر میںاور اپنے ارد گرد ملتے ہیں ۔
یہیں پر بر سبیلِ تذکرہ تعدد ِ ازواج کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ معاشرتی، سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے اللہ نے مرد کے لیے چار تک شادیوں کی اجازت دی ہے، مگر اسے عدل سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی تقاضوں کے مد ِ نظر بھی اس کی افادیت تسلیم شدہ ہے کہ مرد عورت کو بدکاری اور حرام کاری سے بچنے کے لیے ایک جائز راستہ دکھایا گیا ہے۔ ، اللہ کی نظر میں پسندیدہ راہ تو پرہیزگاری اور ضبط ِ نفس ہے، اور اگر انسان خود پر قابو نہ رکھ سکے توبجاے اس کے کہ وہ ارتکاب ِ زنا کر بیٹھیں، شادی کرکے حرام کو حلال میں بدل لیں۔
اسلام میں تجرد کی زندگی کو سراہا نہیں گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ نکاح میری سنت ہے۔ اس کا مقصد ہی یہی ہے کہ مجرد زندگی میں انسان کے بھٹک جانے کا بہت حد تک امکان پایا جاتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں ضبط ِ نفس کا ذکر تو ضرور ہے مگر ان معنوں میں نہیں کہ انسان جنسی فعل کو ناجائز سمجھے یا اسے برا جان کر تائب ہو جائے۔ اسلام شادی اور جنسی فعل کو جائزقرار دیتا ہے مگر اس وقت تک اپنے آپ کو فواحشات اور اعمال ِ بد سے بچائے رکھنے کا حکم بھی دیتا ہے۔
امام غزالی نے لکھا ہے کہ نکاح کی فضیلت عمل ِ بد سے بچنے اور فساد سے علیحدہ رہنے کے باعث ہے۔ اس لیے کہ آدمی کے دین کو فساد سے دوچار کرنے والی چیزیں اکثر شرم گاہ اور پیٹ ہی ہوتی ہیں، اور شادی کرنے سے وہ ایک آفت سے بچ جاتا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ نکاح سے صرف دوچیزیں روکتی ہیں، یا عاجز ہونا یا بدکار ہونا۔ حضرت ابن عباسؓ کے مطابق عابد کی عبادت پوری نہیں ہوتی جب تک کہ شادی نہ کر لے۔بقول امام غزالی ،نکاح والے کی فضیلت مجرد پر ایسی ہے جیسے جہاد کرنے والے کو نہ جانے والے پر ہے، اور بی بی والے کی ایک رکعت مجرد کی ستر رکعتوں سے بہتر ہے۔ ۳؎
قرآن میں جس شدت کے ساتھ اپنی شرم گاہوں کے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اس میں ایک جہانِ معنی پوشیدہ ہے۔ اسلام نے غضِ بصر کا حکم دیا ہے خرابی کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ جو رفتہ رفتہ دونوں جنسوں کے درمیان دوستی، ملاقاتوں، ہنسی مذاق، سنجیدہ بات چیت سے لایعنی اور بے تکلفانہ فحش گفتگو اور حرکات و سکنات کی جانب لے جانے والی سیڑھیاں ہیں، جس کی آخری منزل دونوں کے مابین جنسی تعلقات کی استواری ہے۔ پندرہ صدیاں قبل کے یہ نصائح اور پابندیاں بظاہر دلوں پر بوجھ محسوس ہوتے ہیں مگر جب ان کو آج کے انتہائی تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرہ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو انسان کی اخلاقیا ت کو راہ ِ راست پر رکھنے کے لیے اس سے بہتر کوئی نسخہ دکھائی نہیں دیتا۔شخصی آزادی کے فلسفے نے مرد و زن کو ایک دوسرے کے سامنے بالکل برہنہ کر دیا ہے۔ جب شرم گاہوں کو پوشیدہ رکھنے کے مذہبی، سماجی اور اخلاقی قوانین شخصی آزادیوں کی لہر میں بہہ گئے تو رشتوں کا احترام، حیا کے تقاضے، عصمت کی حفاظت اور خاندان کا تصور دھواں ہو کر اُڑ گیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ شادیوں سے فرار، طلاقوں کی شرح میں اضافہ، بن بیاہی مائوں کی تعداد میں شرم ناک کثرت۔
تورات اور قرآن میں زنا کی سزائوں کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ مغرب کے آزاد خیال اور مذہب سے تہی معاشرے کے علاوہ خود مسلمانوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد روشن خیالی، یا آزادیِ بے مہار کی خواہش لیے ہوئے، ان تعزیرات پر معترض ہے۔ یقینا انھوں نے قبل از اسلام معاشروں کا مطالعہ نہیں کیا کیونکہ ان ادوار میں بھی زنا کو ناقابل ِ معافی جرم سمجھاجاتا تھا۔ مثال کے طور پر حمورابی قوانین، جنھیں قدیم ترین اور اوّلین تحریری اور باضابطہ قوانین کہا جاتا ہے ،میں واضح الفاظ میں لکھا گیا تھا کہ : ۴؎
شادی شدہ عورت کے کسی دوسرے مرد کے ساتھ جسمانی تعلق کی سزا دونوں کی مشکیں باندھ کر دریا برد کرنا تھی (قانون نمبر ۱۲۹)۔ اور اگر خاوند بیوی کو معاف کر دیتا تو اس کے باوجود بھی رسم ِ زمانہ کی رو سے زانیہ کوبالکل برہنہ شہر میں گشت کرایا جاتا تھا۔
منکوحہ مگر باپ کے گھر میں رہنے والی عورت کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والے مرد کی سزا قتل تھی۔(قانون نمبر ۱۳۰)
قوانین نمبر ۱۳۳ تا ۱۳۵ قیدی کی بیوی کے لیے وضع کئے گئے تھے۔ ان کی رو سے اگر بیوی کو خاوند کی عدم موجودگی میں نان و نفقہ کی پریشانی نہ ہو، اور اس کے باوجود وہ کسی اورمرد کے ساتھ اس کے گھر رہایش اختیار کر لے تو اس عورت کو دریا میں ڈبو دینے کی سزا ہے ۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو کہ قیدی کے گھر میں کھانے پینے کی اشیا کا فقدان ہو ،اس کی بیوی کسی اور مرد کے ہاں رہنا شروع کر دے ،تو اس صورت میں عورت قصوروار سمجھی نہیں جاتی تھی۔
یونانی علم و فلسفہ کی روشنی نے پوری دنیا کو منور کیا ہوا تھا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے قدآور فلسفیوں نے کئی صدیوں تک زمانے کو اپنے آگے سرنگوں رکھا۔ مگر جب ہم افلاطون کے مکالمات میں مجوزہ ریاست کے خد و خال دیکھتے ہیں تو وہ اپنے دور کا ایک عام سا انسان نظر آتا ہے۔ اس کے خیال میں بہترین ریاست کے لیے بہترین افراد کا انتخاب ضروری ہے، اور اس ریاست کا انتظام چیدہ چیدہ افراد کے سپرد ہونا چاہیے۔ یہ چیدہ چیدہ افراد کون ہیں؟ یہاں وہ مشترک خاندان اور اولاد کا تصور پیش کرتا ہے، یعنی منتخب کردہ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے کے ساتھ رشتۂ زوجیت تو رکھیں مگر بغیر شادی کے۔ ان کی اولاد ریاست کی اولاد سمجھی جائے گی۔ انھیں جنم دینے والے ان کی زندگی سے بے دخل ہو جائیں گے۔ بہترین منتظمین ِ ریاست کے لیے جنسی آزادی کی راہ دکھائی گئی ہے۔ ایتھنز ہی کے بارے میں مشہور عالم ِ بشریات رابرٹ بریفالٹ کا بیان ہے کہ ’’کہا جاتا ہے کہ قدیم ایتھنز میں ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عام بے راہ روی کی وجہ سے لوگوں کو اپنے باپ کا علم نہیں تھا‘‘۔۵؎ ایتھنز کی تمام شادی شدہ عورتوں پر یہ الزام انتہائی خوفناک اور قابلِ تحقیق ہے۔ مانا کہ افروڈائٹ وغیرہ کی وجہ سے عام اخلاقی حالت باعث ِ فخر نہیں تھی مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ ہر عورت کو اخلاق باختہ اور جنسی بے راہ روی کی شکار قرار دے دیا جائے۔عقل بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ کسی شہر میں کوئی شادی شدہ عورت بھی عفت مآب نہ ہو مگرہم اس کو کثرت ِ زنا ضرور کہہ سکتے ہیں۔ قانون کے تحت زنا کی سزا موت تھی ، لیکن ’’یونانی اتنے مہربان لوگ تھے کہ ہوس ِ نفسانی کے کسی مجرم کو سزا نہیں دیتے تھے‘‘۔۶؎
ایتھنزکی ہمسایہ ریاست اسپارٹا اگرچہ علم و فن سے دور تھی مگر آزاد روی میں کسی سے کم نہیں تھی۔ رقص و سرور کی عوامی محفلیں ہوں یاجلوس وغیرہ، عورتوں کو برہنہ ہو کر ان میں شمولیت اختیار کرنا پڑتی تھی حالانکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی بحیثیت شرکا یا تماشائی وہاں موجود ہوتی تھی۔ عورتوں کی برہنگی کامقصد اپنے بدن کو سڈول، خوب صورت اور پُرکشش بنانے کی ترغیب دینا اور جسمانی نقائص کو دور کرنا تھا ۔پلوٹارک جیسے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل مؤرخ اور دا نش ورکی نگاہ میںعورتوں کی عالم ِ برہنگی میں شرکت باعث ِ شرم نہیں تھی کیونکہ اس حالت میں بھی وہ ’’عفت و حیاکا دامن تھامے رنگین مزاجی سے دُور تھیں‘‘۔ اس کی نظر میںتو اسپارٹا میں زناکاری اور کثیر الزوجیت معدوم تھی۔ عیسائی عالم وائٹرنگٹن بھی پلوٹارک کے بیان پر تذبذب کا اظہار کرتا ہے ۔ اس کی راے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنی رفعت ِ خیالی ۔(وائٹرنگٹن،ص ۲۲۴)
ایک طرف یہ دعویٰ کہ اہل اسپارٹا میں زناکاری معدوم تھی، اور دوسری جانب یہ معاملہ کہ ایک بھائی کی بیوی بعض اوقات اس کے دوسرے بھائیوں کی بھی تسکین کا ذریعہ تھی۔اس کی تائید یونانی مؤرخ پولی بئس (Polybius, 200-118 BC) نے بھی کی ہے ۔ نہ صرف بھائیوں بلکہ بعض اوقات مہمانوں کو بھی دعوت ِ شرکت ِ زوج دی جاتی تھی۔ ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ خاوند کی عدم موجودگی میں بیوی اپنے لیے ایک عارضی خاوند کا بندوبست کر لیا کرتی تھی۔ اہل ِ اسپارٹا کی روایات میں ایسے فعل کو قابل ِ مذمت و شرم بے شک نہ سمجھا جاتا ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ اسے زنا کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔
اس جنسی آزاد روی کے باوجود قدغن بھی تھی۔لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بالترتیب ۳۰ اور ۲۰برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل شادی کرنا لازم تھا ۔ تجرد کو جرم گردانا جاتا تھا۔ سزا کے طور پر نہ تو وہ اپنا حق ِ راے دہی استعمال کر سکتے تھے نہ کسی ایسے جلوس اور اجتماع میں شرکت کی اجازت تھی جہاں برہنہ لڑکیاں اور لڑکے شامل ہوں۔ پلوٹارک کا کہناہے کہ غیر شادی شدہ نوجوانوں کا ان جلوسوں میں، شدید سردیوں میں بھی، بالکل برہنہ ہو کر شامل ہوناگویا اعتراف تھا کہ ان کی سزا بر حق ہے۔ اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ نوجوانوں کو مجرد رہنے کی صورت میںسخت سردی میں بالکل برہنہ ہو کر جلوس میں شرکت کرنے کی سزا دی جاتی ہو گی ۔
اس عہد کی طاقت ور اور وسیع سلطنت روم پر بھی نگاہ ڈالیں تو صورت ِ حال مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ رومی شاعر پبلئس اوویدیئس ناسو (Publius Ovidius Naso, 43 BC - AD 17/18) کی نظر میں پاک دامن عورت صرف وہ ہے جسے کوئی پوچھتا تک نہیں۔ایک اور رومی مدبر، فلسفی اور ڈراما نگار سینیکا(Seneca) سمجھتا ہے کہ جس کے دو عشاق ہوں وہ انتہائی وفاداربیوی کہی جاتی ہے۔اسی طرح رومی امیر اور طنز نگار جوینل(Jovenal) بڑے زہر آلود لہجے میں کہتا ہے کہ روم میں شاید ہی کوئی عورت شادی کے قابل رہ گئی ہو۔ ایک محقق ڈی رین کورٹ (De Riencourt) نے بڑا دل چسپ انکشاف کیاہے کہ شدید جنسی بے راہ روی کا نتیجہ شادیوں کو ملتوی کرنے، شادی شدہ عورت کا عملِ پیدایش سے گریز اور ضعف ِ قوت کی صورت میں سامنے آیا جس سے شرحِ پیدایش پریشان کن حد تک گر گئی تھی ۔ اس کو دیکھتے ہوئے مختلف شہنشاہوں نے زوال پذیر تولید ِ نسل کو بڑھانے کے لیے کثیر تعداد میں بربریوں کو روم آنے کی ترغیب دی ۔ لوگوں کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے لیے مذہب کی جانب ازسرِ نو رجوع کرنا ضروری سمجھا گیا۔ اس میں ریاست کی خواہش اور کوشش بھی شامل تھی۔لہٰذ دیوی سائبل (Cybele) یعنی ’ مادر ِ عظمیٰ‘ (Magna Mater)کے مذہب کو دساور سے روم لایا گیا۔191 ق م میں اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی ۔ جولیس سیزر ( ۱۰۰-۴۴ ق م ) کے زمانے میں روم میں ایک اور دیوی ’ما‘ (Ma) کی پرستش شروع ہوئی جسے رومی سپاہی ایشیائے کوچک سے اپنے ہمراہ لائے تھے ۔۷؎یعنی اخلاقی تنزل کو روکنے کے لیے مذہب کا سہارالیا جانے لگا۔
گرتی ہوئی اخلاقی صورت ِ حال کے باعث رومی شہنشائیت کے بانی آگسٹس نے اخلاقیات، شادی بیاہ، ولدیت کی تصدیق ، پاک دامنی اور سادہ بود و باش کے لیے ’ جولیئن قانون‘ (Julian Law) کا نفاذ کیا۔ اس کے تحت عورتوں کو جسمانی ورزشوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ اہم ترین قانونی ضابطہ زناکاری کے خاتمے اور پاک دامنی کے فروغ سے متعلق تھا۔ رومی تاریخ میں پہلی بار شادی کے تحفظ کو ریاست کے ماتحت کیاگیا۔ اپنی بے راہ رو بیٹی اور اس کے آشنا کو قتل کرنے کا اختیار باپ کو واپس مل گیا۔ اسی طرح خاوند کو اپنی بیوی کے عاشق کو قتل کرنے کا اختیار حاصل ہوا بشرطیکہ وہ اس کے گھر میں موجود پایا گیا ہو۔بیوی کو اپنے گھر میں ارتکاب ِ زنا کی صورت میں ۶۰ روز کے اندر اندر عدالت کے رو برو پیش کیا جانا ضروری تھا ۔ جرم ثابت ہونے پر زانیہ کو تاحیات شہر بدر کرنے، ایک تہائی جایداد اور نصف جہیز کی ضبطی، اور دوبارہ شادی کی پابندی جیسی سزائیں دی جاسکتی تھیں۔
رومی معاشرہ جس خطرناک حد تک جنسی بے قاعدگی کا شکار ہو رہا تھا اس کے مد ِ نظر قیود وحدود کا تعیّن اور نفاذ ِ قوانین وقت کی ضرورت تھی مگر عدمِ توازن یہ کہ جولئین قانون میں صرف عورت ہی کو ہدف بنایا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی حدود سے باہر نکلنے میں ہمیشہ ایک جنس دوسرے کی اعانت کرتی ہے۔ مردوں کی مدد اور خواہش کے بغیر عورت کا اخلاقی حدود سے تجاوز کرنا ممکن نہیں۔ روم میں بھی ایسا ہی ہوا مگر رومی قانون اس ضمن میں مرد کو فریق نہیں ٹھیراتا۔ اس کا استثنا اس حد تک ہے کہ بیوی اپنے شوہر پر بے لگام جنسیت کا الزام تک نہیں لگا سکتی کیونکہ قانون نے اس کی جسمانی اور شہوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے لائسنس یافتہ پیشہ ور طوائفوں کی شکل میں راہ پیدا کر دی تھی۔(ول ڈیورنٹ، ص ۲۲۳)
ان چند مثالوں کے پیش ِ نظر اسلام کے تعزیراتی قوانین کا مقصد معاشرے کو ان برائیوں سے بہت حد تک پاک کرنا ہے جن کا مشاہدہ ہم آج کی دنیا میں بھی کر رہے ہیں۔ سزائوں کے نفاذسے قبل لوگوں کو اخلاقی باختگی، بے راہ روی اورجنسی آزادی سے دوری کی تعلیم دی گئی، اور اس ضمن میں عورت مرد کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔ بحیثیت ِ مجموعی تعلیمات و احکامِ الٰہی نے انسانوں کی زندگی کو ایک ضابطے اور دائرے کے اندر رہنے کا درس دیا ہے تو اس میں لوگوں کی ذاتی، عائلی اور مجموعی بھلائی ہے۔
۱- Witherington III, ben (1996), Women in the Earliest Churches, Cambridge University Press, Cambridge, p 190
۲- امام غزالی، کیمیاے سعادت (مترجم: نائب نقوی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، تاریخ ندارد، ص۴۲۶-۴۲۷
۳- امام غزالی، احیاء العلوم (مترجم: مولانا محمد حسن نانوتوی) مکتبہ رحمانیہ، لاہور، تاریخ ندارد، ج۲، ص۴۳-۴۴)
۴- مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۷۴ئ، ج۱،ص ۲۳۲
۵- مالک رام، حموربی اور بابلی تہذیب و تمدن،اپنا ادارہ، لاہور، ۲۰۰۰ئ، ص ۷۰-۷۱
۶- Briffault, Robert (1959), The Mothers (abridged by Gordon Rattray Taylor), George Allen & Unwin, London, p 87.
۷- Durant Will, The Story of Civilization: The life of Greece, Simon & Schuster, N.Y., p 305.
۸- De Riencourt, Amaury (1989), Woman and Power in History, Sterling Publishers (Pvt) Ltd., New Delhi, pp 126-9
بنگلہ دیش ملت ِ اسلامیہ سے وابستہ اور مسلم قومیت کے جذبے سے سرشار لوگوں کا وطن ہے۔ ان کے آباواجداد نے کبھی غلامی کی زنجیروں کو قبول نہیں کیا۔ ہزار سالہ مسلم دورِحکومت میں بھی یہ لوگ خودمختاری اور خودداری کا حوالہ بنے رہے۔ پھر انگریزوں سے آزادی اور برہمنی سامراج سے چھٹکارا پانے کے لیے ان کی قربانیوں اور جدوجہد کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مگر اس سب کے باوجود تاریخ کا یہ تکلیف دہ سوال ہے کہ :
گذشتہ ۴۰برسوں سے یہی مظلوم بنگلہ دیشی، برہمنی آلۂ کار عوامی لیگ کے پھندے میں کیوں پھڑپھڑا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب بنگلہ دیشی اور غیربنگلہ دیشی ماہرین تاریخ و سماجیات پر قرض ہے۔ تاہم، اس وقت رنج و اَلم کا معاملہ آج کے لہورنگ بنگلہ دیش سے وابستہ ہے۔
۵ جنوری ۲۰۱۴ء بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ جمہوریت سے وابستہ ملکوں کے لیے بھی ایک شرم ناک دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز عوامی لیگ کی حکومت نے یک طرفہ انتخابی یلغار کرکے پوری پارلیمنٹ پر قبضہ جمالیا تھا۔ اس قبضے کو پہلے پہل یورپی یونین اور امریکا تک نے مسترد کیا، مگر آہستہ آہستہ حسینہ واجد کی سربراہی میں قابض ٹولے سے معاملات طے کرنے شروع کر دیے اور عوامی لیگ نے بھی بھارت کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے لیے اُوپر تلے فیصلے شروع کر دیے۔ بھارتی مفادات کے تحفظ اور بنگلہ دیشی مفادات کی نفی پر مبنی اس ’لوٹ سیل‘ پر محب ِ وطن حلقے چیخ اُٹھے۔
جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP ) کے ساتھ مزید ۱۸پارٹیوں نے اس عوامی لیگی قبضہ گروپ کے خلاف ۵جنوری ۲۰۱۵ء کو ’یومِ قتلِ جمہوریت‘قرار دے کر تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ غاصب حکومت نے اس احتجاج کو کچلتے ہوئے ۲۰۰ سے زیادہ افراد کو قتل اور ۱۵ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوام نے جوش و خروش سے حکومتی اقدامات کے خلاف نفرت کا اظہار کیا۔ ریل کی پٹڑیوں، قومی شاہرائوں اور دریائی آبی راستوں پر آمدورفت کو معطل کر دیا۔ حزبِ اختلاف کا یہ احتجاج ۵جنوری ۲۰۱۴ء سے اب تک جاری ہے۔ اس دوران حکومت نے نہ صرف طالب علموں اور مزدوروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، بلکہ بزرگوں، مریضوں اور چھوٹے بچوں تک کو خون میں نہلادیا۔
صرف مارچ کے دوران جماعت اسلامی اور بی این پی کے ۵۰ سے زائد کارکنوں کو مختلف شہروں (چٹاگانگ، رنگ پور،جیسور، سلہٹ، میمن سنگھ، فینی، ڈھاکہ وغیرہ) میں چھرا گھونپ کر ہلاک کیا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کارروائی عوامی لیگ کے کارکنوں نے کی، جن میں سے بیش تر کی نشان دہی گواہوں نے کی، مگر پولیس انھیں پکڑنے یا مقدمہ دائرکرنے سے انکار کرتی چلی آرہی ہے۔ اس سے عوامی لیگ اور پولیس کی ملی بھگت بے نقاب ہوجاتی ہے، اور عوام میں عدم تحفظ کے احساس اور خوف کی فضا دیکھی جاسکتی ہے۔
۱۷ مارچ کو آدھی رات کے وقت گورنمنٹ کالج چٹاگانگ اور گورنمنٹ محمد محسن کالج چٹاگانگ سے اسلامی چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش) کے ۸۰ کارکنوں کو بلاوجہ اُٹھا کر تھانوں میں بند کردیا گیا۔ جب پولیس طلبہ کے ہاسٹلوں پر دھاوا بول رہی تھی تو چھاترو لیگ، یعنی عوامی لیگ کی حامی اسٹوڈنٹس لیگ کے مقامی کارکن پولیس کو نشان دہی کرکے شبر کے کارکنوں کو گرفتار ہی نہیں کرا رہے تھے بلکہ دھکے دیتے ہوئے گھسیٹ بھی رہے تھے۔ اس طرح کے دل دوز واقعات آج کے بنگلہ دیش میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ (HRW) ایشیا کے ڈائرکٹر براڈ ایڈم نے مطالبہ کیا ہے کہ: ’’مارچ ۲۰۱۵ء میں بی این پی کے ترجمان اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل صلاح الدین احمد(جو وزیر بھی رہے) کے حکومتی کارندوں کے ہاتھوں اغوا کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائی جائیں‘‘۔ یاد رہے کہ ۱۰مارچ کی رات صلاح الدین کے ہمسایے کے مطابق سادہ کپڑوں میں پولیس کے کارندے ان کی قیام گاہ پر آئے۔ انھوں نے چندگھنٹوں کی پوچھ گچھ کا وعدہ کرکے انھیں ساتھ لیا، اور بعد میں انکار کردیا کہ ہمیں کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے کے بے شمار واقعات شہر شہر میں دُہرائے جارہے ہیں۔ اس عمل کا سب سے زیادہ نشانہ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو بنایا جا رہا ہے، جن میں سے بعض کی لاشیں ندی نالوں اور جوہڑوں میں تیرتی پائی گئی ہیں، یا پھر اُن کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں اپاہج بنادیا گیا ہے۔ یہ وہ وحشیانہ تکنیک ہے جو بھارت میں راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (RSS) اپناتی ہے۔
اپریل کا مہینہ اس اعتبار سے بڑی نزاکت رکھتا ہے کہ اس ماہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے چوٹی کے رہنمائوں کو سزاے موت دینے کے لیے عوامی لیگی حکومت آخری ڈراما رچانے جارہی ہے۔
مئی ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما محمد قمرالزماں کو جھوٹے مقدمے میں سزاے موت سنائی گئی۔ ان کی طرف سے کی گئی نظرثانی کی اپیل کو ایک جج نے منظور اور تین نے مسترد کیا، اور ۱۹فروری کو نام نہاد کرائمز ٹربیونل نے سزاے موت کے وارنٹ پر دستخط کیے۔ اب یکم اپریل سے قمرالزماں کی حتمی اپیل کی سماعت شروع ہورہی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ بھی مسترد کی جائے گی۔ اسی طرح ٹریبونل کی جانب سے سزاے موت کے خلاف امیرجماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی کی سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت بھی ۳۰ مارچ سے ہورہی ہے، جب کہ ۱۸فروری کو جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالسبحان کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عبدالسبحان صاحب نے ۱۸مارچ کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ یہ اپیل ۸۹ صفحات، ۹۲ دلائل اور ۱۱۸۲ صفحات کے دستاویزی ثبوتوں پر مشتمل ہے۔
یاد رہے جماعت کے دو اور مرکزی رہنمائوں: میرقاسم علی کو اکتوبر ۲۰۱۴ء میں اور اظہرالاسلام کو ۳۰دسمبر ۲۰۱۴ء کو ٹریبونل نے سزاے موت سنائی ہے۔ عدل کے نام پر عدل کے قتل اور انسانیت کی تذلیل کا یہ کھیل بنگلہ دیش کی عدالتوں میں مسلسل کھیلا جا رہا ہے، جب کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نام نہاد سول سوسائٹی اس باب میں چپ سادھے ہوئے ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن نے اس صورتِ حال کو چند لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ: ’’بنگلہ دیش سخت بے یقینی، انتشار، حکومتی جبر اور عوامی لیگی فسطائیت کا شکار ہے۔ ۱۶کروڑ عوام کا ملک بدترین غلامی کے دور سے گزر رہا ہے۔ لوگ اپنے جائز جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ حکومتی پشت پناہی میں تشدد کی لہر نے ہرغیرت مند شخص کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔ روزانہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، تشدد، قتل اور سیاسی بنیادوں پر جبری اغوا کی خبریں روزناموں کے صفحۂ اوّل پر اس کربلا کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ وہ ملک جس میں حسینہ واجد کی غیرنمایندہ، غیراخلاقی اور غیرقانونی حکومت نے عوامی حقِ حکمرانی غصب کر رکھا ہے، اس کے حالات کو درست سمت دینے کا واحد حل یہ ہے کہ حسینہ واجد ٹولے کو عوام کا خون چُوسنے اور خون بہانے کے بجاے برطرف کیا جائے اور ایک عبوری حکومت کے تحت آزادانہ، منصفانہ اور کھلے عام عوامی شرکت یقینی بنانے والے انتخابات کرائے جائیں۔ اسی طریقے سے اس بحران سے نکلا جاسکتا ہے‘‘۔
بنگلہ دیش میں اس وقت عوام کی اکثریت اپنے آپ کو ہندستانی شکنجے سے باہر نکال کر خودمختاری اور مسلم تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کو اپنے مقاصد کے حصول کی قیادت پر دیکھتے ہیں۔ مگر دوسری جانب بھارت، اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے، عوامی لیگ کی پشت پناہی میں کسی بھی انتہا تک جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسینہ واجد نے پولیس کو احکامات دیے ہیں کہ: ’’اپوزیشن کی تحریک کچلنے کے لیے آپ جس انتہا تک بھی جائیں، اس کی ذمہ داری میں قبول کروں گی، آپ بے خوف انھیں کچل دیں‘‘۔ یہ احکامات کوئی خفیہ سرکلر نہیں، بلکہ حسینہ کے روزانہ کے بیانات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس تحریر کے ابتدا میں یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ حریت اور خودداری کا یہ خطۂ مسلم بنگال، جس نے ہندو کی غلامی کو قبول نہیں کیا تھا، گذشتہ ۴۰برس سے کیوں غلامی اور خودکشی کی زنجیروں پر جھول رہا ہے؟ اس سوال کا جواب کچھ پیچیدہ نہیں۔ جب کسی قوم، ملک یا قبیلے کے اپنے لوگ، دشمن کا آلۂ کار بننے کو تیار ہوجائیں اور پھر انھیں دشمن سے بھرپور کمک بھی مل جائے، تو شب ِ غم طویل تر ہوجایا کرتی ہے۔ شیخ عبداللہ نے جموں وکشمیر میں جواہر لال نہرو کے دست ِ شر انگیز پر بیعت کر کے جموں و کشمیر کو بھارتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے، تو بنگال کے شیخ مجیب نے نہرو کی بیٹی اندراگاندھی کے قدموں کو چھو کر مسلم بنگال کو بھارتی مفادات کی چراگاہ بنادیا ہے۔ جب اپنے، دوسروں کے وفادار بنتے ہیں تو ان کے لیے انسانی جان اور قومی غیرت کچھ معنی نہیں رکھتی اور ان بدقسمت قوموں کو صبحِ آزادی کا نظارہ کرنے کے لیے طویل عرصے تک قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
سوال : میں ایک طالب علم اور دینی ذوق رکھنے والا مسلمان ہوں، مگر کچھ عرصے سے ایک عجیب اُلجھن پیدا ہوگئی ہے جو حل ہونے نہیں پاتی۔ متعدد اہلِ علم سے رجوع کیا مگر تسلی نہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن اور کتب ِ حدیث میں اس قسم کی آیات و روایات آئی ہیں، جن سے نماز، روزہ اور دیگر اعمالِ صالحہ کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، مثلاً مسلم اور ترمذی وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یومِ عاشورا کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفّارہ ہے۔ عشرۂ ذی الحجہ کے روزوں کے بارے میں احادیث ہیں کہ ہر روزے کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ حضرت ابوقتادہؓ کی روایت ہے کہ اس سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یومِ عرفہ کے روزے کا ثواب بھی اتنا ہی مذکور ہے۔ اگر واقعی یوں ہی ہے، تو پھر کیا اس سے گناہوں پر آزادی کا ثبوت نہیں مل رہا؟ اس کے بعد نماز، روزہ کرنے اور گناہوں سے بچنے کی کیا ضرورت رہی؟ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا، وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ مشکوٰۃ میں نمازِ تسبیح کے فضائل بیان ہوئے ہیں کہ اس سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ابوداؤد اور مسنداحمد میں بیان کیا گیا ہے کہ چاشت کی نماز سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ مشکوٰۃ میں ہے کہ ’’اس کے بعد گناہوں سے کون بچے گا اور نیکی کی تکلیف اُٹھائے گا؟‘‘ سورئہ رحمن میں فرمایا: وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنّٰتٰنِ،کیا جو شخص رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے، مگرکوئی اچھا عمل نہ کرے اُسے دو جنتیں یا دو باغ مل جائیں گے؟ سورئہ حم السجدہ میں آیا ہے کہ ’’جو لوگ کہہ دیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر جم جائیں، اُنھیں فرشتے جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی آیات و روایات ہیں جو آپ کی نظر میں ہوں گی۔ اس سے جو غلط فہمی اور ابہام پیدا ہوسکتا ہے، اُس کا سدِّباب کیسے ہوسکتا ہے اور جو اعتراضات و اشکالات سامنے آتے ہیں اُن کا کیا جواب دیا جائے گا؟
جواب:آپ کے سوال کا جواب دینے کے لیے خاصی طویل بحث کی ضرورت ہے۔ سرِدست مختصر جواب دیا جا رہا ہے۔ خدا کرے کہ موجب ِ تشفی ہو۔
آپ نے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے جو نقطۂ نظر اختیار کیا ہے اُس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ آپ نے اپنے سامنے صرف ایک پہلو اور رُخ رکھا ہے اور صرف اُن آیات و احادیث کو مرکز توجہ بنا لیا ہے جن میں بعض اعمالِ حسنہ کے نتائج بیان کیے گئے ہیں اور اُن نصوص کتاب و سنت سے بالکل نظر ہٹالی ہے جن میں اعمالِ سیئہ کے نتائج بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایک مومن کا صحیح مقام بین الخوف والرجاء (اُمید و بیم کے درمیان) ہے۔ جو شخص شارع کے ان دونوں قسم کے ارشادات میں سے صرف ایک ہی پر اپنی نگاہ جمالے گا، وہ لازماً یا تو خوش فہمی یا پھر مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ اسی طرح جو شخص ان دوگونہ نصوص کو آپس میں ٹکرانے اور ان میں تضاد تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اُس کے حصے میں بھی گمراہی و حیرانی کے ماسوا کچھ نہیں آئے گا۔
مزیدبرآں اس سلسلے میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی صحیح تاویل معلوم کرنے اور حقیقت ِ نفس الامری تک پہنچنے کے لیے بعض ایسے کلّیات و مسلّمات اوراُصولِ اوّلیہ جو قرآن و حدیث ہی میں مذکور ہیں یا اُن سے ماخوذ ہیں اور جن پر علماے سلف کا اتفاق ہے، وہ بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونے چاہییں، مثلاً فرائض کا اجروثواب بہرحال نوافل سے زیادہ ہے۔ فرائض و مکتوبات کی نیابت اور تلافی و تدارک نوافل سے ممکن نہیں ہے اور ترکِ فرائض کی صورت میں تطوّعات عنداللہ قبول نہیں ہوسکتے۔ جو شخص فرض نماز کا تارک ہے، اُس کے نوافل کس کام کے ہیں؟ جو زکوٰۃ یا عشر ادا نہیں کرتا، اُس کے نفلی صدقات و خیرات کیا معنی رکھتے ہیں؟ جو شخص فرض روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود اُس کا تارک ہے، اُس کا عاشورہ، ذوالحجہ یا عرفہ کا روزہ سال بھر کے گناہ توکیا معاف کرائے گا، خود ہی ہبائً منثورًا بن کر ہوا میں اُڑ جائے گا۔ جس شخص کو صلوٰۃِ مفروضہ کی ادائی نصیب نہیں ہوتی، اُس کی صلوٰۃ التسبیح دوسرے کبائر و صغائر تو کیا معاف کرائے گی، اُسے ترکِ نماز کے جرمِ کبیرہ سے بھی بری الذمہ نہیں کراسکے گی۔ ترکِ صلوٰۃ اور ترکِ زکوٰۃ پر دنیا و آخرت میں جو شدید و عیدیں مذکور ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے تارکین کو گھروں سمیت جلادینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے قرآن و حدیث میں عذابِ جہنم کی وعید ہے اور دنیا میں صحابہ کرامؓ نے اُن کے خلاف مرتدین کی طرح قتال بالسیف کیا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی اس امر میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ نفلی عبادات تارکینِ فرائض کے لیے کفّارہ نہیں بن سکتیں اور نوافل و تطوّعات کے لیے جو بشارتیں وارد ہیں اُن کے مستحق وہی مسلمان ہیں جو اوامر و فرائض کی پابندی حتی الوسع کرتے ہیں۔ ان ارشادات کا یہ مقصود و مدّعا ہرگز نہ تھا کہ لوگ ان پر بھروسا کر کے فرائض سے تغافل و تساہل برتیں اور منکرات و نواہی کے ارتکاب پر جری ہوجائیں۔ صحابہ کرامؓ جو اِن فرمودات کے اوّلین مخاطب تھے اُن میں ہمیں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ اُنھوں نے ایسی بشارتیں سن کر اُن پر غلط تکیہ کیا ہو جس سے اوامر ونواہی کی پابندی میں ڈھیل پیدا ہوئی ہو۔
اعمال کی جزا و سزا کے معاملے میں ایک اُصول کتاب و سنت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ تمام اچھے اور بُرے اعمال کا بحیثیت مجموعی موازنہ و محاسبہ اللہ کے ہاں ہوگا۔ جس کا اچھے اور وزنی اعمال کے لحاظ سے پلڑا بھاری ہوگیا وہ جنت کا مستحق ہوگا اور جس مسلمان کے اچھے اعمال وزن میں ہلکے ثابت ہوئے وہ دوزخ کا مستحق ہوگا۔ اس کے بعد اللہ چاہے تو ایسے مومن کو معاف کردے اور چاہے تو معاف کرنے سے پہلے اُسے سزا بھگتنے کے لیے دوزخ میں بھیج دے۔ پھر وہاں اعمال کی ظاہری شکل و صورت کو نہیں، بلکہ باطنی جذبے اور نیت کو دیکھا جائے گا۔ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ بعض عبادت گزاروں اور روزے داروں کو سواے رات جاگنے اور بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ یہاں فرض یا نفل نماز اور روزے کی تخصیص بھی مذکورنہیں جس سے معلوم ہوا کہ بعض موانع ایسے ہیں جن کی موجودگی میں فرض نماز اور روزہ بھی رد ہوسکتا ہے تابنو افل چہ رسد۔کوئی شخص عبادات و صدقاتِ نافلہ اگر اس غرض کے لیے انجام دے کہ اُسے فرائض میں چھوٹ اور کبائر کی آزادی مل جائے، تو ایسے اعمال نہ صرف مردود ہوں گے، بلکہ ایسے زعمِ باطل پر عنداللہ مواخذہ ہوگا۔
اس کے علاوہ کتاب و سنت میں بہت سے ایسے ہلاکت خیز اعمال گنوائے گئے ہیں جو بہت سارے دوسرے اعمال کو بھی ضائع اور حبط کردیتے ہیں۔ ریاکاری کو شرکِ اصغر کہا گیا ہے، جس سے مالی انفاق، قتال اور دوسرے اچھے اعمال بے کار ہوجاتے ہیں۔ خیانت و غلول سے جہاد اور شہادت کا اجر مارا جاتا ہے اور اُن کا مرتکب اُلٹا دوزخ میں جاتا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ : ’’قیامت کے روز ایک شخص بہت اچھے اعمال کے ساتھ پیش ہوگا، مگر اس کے ساتھ اُس نے حقوق العباد کو تلف کیا ہوگا، کسی کا مال چھینا ہوگا، کسی کو گالی دی ہوگی یا دوسری طرح خلقِ خدا کو نشانۂ ستم بنایا ہوگا ، تو اُس شخص کی ساری نیکیاں ان مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی اور مظلوموں کی بُرائیاں اُس ظالم کے سر پر لاد کر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا‘‘۔
ایسی بے شمار وعیدات کیوں آپ کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر فرمایا ہے کہ میری شفاعت اہلِ کبائر کے لیے ہے تو اُس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ ہرمرتکبِ کبیرہ مستحقِ شفاعت ہوگا اور بلامواخذہ بخشا جائے گا؟ اللہ کے ہاں جس کے لیے اذن ہوگا، اُسی کے حق میں شفاعت ہوگی۔ بہت سے اہلِ ایمان کا بھی ایک مرتبہ دوزخ میں داخل کیا جانا احادیث ِ صحیحہ میں مذکور ہے۔اُن لوگوں کے لیے یا تو شفاعت نہ ہوگی یا پھر سزا پانے کے بعد ہوگی۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینے والا میری شفاعت سے محروم ہوگا۔ بعض مجرمین کے متعلق فرمایا کہ میں اُن کے خلاف مدعی بن کر مخاصمت کروں گا۔ غوروعبرت کا مقام ہے کہ خود آنحضوؐر، شافعِ محشرؐ جس کے خلاف صاحب ِ دعویٰ ہوں گے اُس کا شفیع کون ہوسکتا ہے اور وہ مواخذہ سے کیسے بچ سکتا ہے؟
مَیں آخر میں ایک عام فہم تمثیل پر جواب کو ختم کرتا ہوں۔ فرض کیجیے کہ ایک طبیب حاذق اپنے ایک نسخے میں قوت وتوانائی کے لیے بعض مفید اور مجرب ادویہ و اجزا کے نام لکھ دیتا ہے۔ پھر اپنی ایک مجلس میں بعض غذائوں کے نفع بخش اثرات اور حفظانِ صحت کے بعض اصول بیان کرتا ہے اور کسی دوسری مجلس میں بعض زہریلی اشیا اور سمّیات کا بھی ذکر کردیتا ہے کہ اُن کے کھانے سے انسان بیماری یا موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب یہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ پر درست اور برمحل ہیں، لیکن کوئی نادان اگر کرتا یہ ہے کہ مقوّیات کے ساتھ سمّیات کو بھی نوشِ جان کرلیتا ہے اور اس کے بعد تنومند ہونے کے بجاے مرض الموت میں مبتلا ہوجاتا ہے، تو کیا یہ کہا جائے گا کہ طبیب حاذق نہ تھا یا اُس کی کچھ باتیں صحیح اور کچھ غلط تھیں؟ اس سلسلے میں بہتر ہوگا کہ مولانا مودودیؒ کی کتاب تفہیمات حصہ اوّل کا وہ مضمون بھی پڑھ لیں جس کا عنوان ہے: ’’کیا نجات کے لیے کلمۂ طیبہ کافی ہے؟‘‘
اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات اپنی جگہ پر اٹل اور برحق ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ آج مسلمان صرف آسانیوں اور رخصتوں کے طالب اور سستی نجات کے خواہاں بن کر رہ گئے ہیں۔ جس طرح اہلِ کتاب کہتے ہیں کہ: سَیُغْفَرُلنا (توقع ہے کہ ہم بخشے جائیں گے)، اسی طرح مسلمان بھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہر بے عملی، بلکہ بدعملی کے باوجود وہ بلامواخذہ سیدھے جنت میں جاداخل ہوں گے، ترکِ اوامر اور ارتکابِ معاصی پر اُن سے پُرسش کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر یہ ایک مہلک غلط فہمی بلکہ گمراہی ہے جو اُن کی اپنی کج رَوی اور کج فہمی کی پیداوار ہے۔ اللہ اور اُس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بَری ہیں۔ جو شخص دنیا میں دعواے ایمان کرتا ہے، ہم تو بلاشبہہ اُسے مسلمان کہیں گے کیونکہ یہاں ظاہر احوال ہی پر سارے احکام مرتب ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ جس کا علم ظاہروباطن دونوں پر حاوی ہے اُس کے ہاں ہر زبانی دعویٰ تسلیم کیے جانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں کیوں فرماتا:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ o (البقرہ ۲:۸) اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخرت پر حالانکہ وہ مومن نہیں۔
اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہرمسلمان کو کتاب و سنت کے ہر قول کے استماع اور بطریق احسن اتباع کی توفیق بخشے، آمین!(جسٹس ملک غلام علی)۔ (رسائل و مسائل، حصہ ششم، ص ۳۸۰-۳۸۶)
ایک تازہ ترین سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی میں ۷۵ کروڑ افراد ایسے ہیں کہ ’محمد‘اُن کے نام کا حصہ ہے۔ آپؐ کی ذاتِ ستودہ صفات پر لکھی جانے والی کتابوں میں بھی آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ مؤلف کے بقول وہ یہ کتاب ایک نئے انداز سے ضبط ِ تحریر میں لائے ہیں۔ (صxiv)
کتاب کے آغاز میں زمانہ قبل اسلام کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔ پھر قرآنی آیات کی روشنی میں دعوت کے پہلے دور کا جائزہ لیاگیا، اور آپؐ کی تعلیمات کو مختصراً پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہودیت، عیسائیت، بدھ مت اور ہندومت کے حوالے سے مختصر نوٹ شامل کیے گئے ہیں اور دیگر مقدس کتابوں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے کہ آپؐ کی آمد کی اطلاع اُن میں موجود ہے۔ آپؐ کے شخصی حُسن و جمال کے حوالے سے بھی احادیث مختصراً درج ہیں۔
اسی طرح نبی علیہ السلام کے غزوات و سرایا کو تفصیلاً پیش کیا گیا ہے اور آپؐ کے فوجی اقدامات کی توجیہہ کی گئی ہے۔ فتح مکہ کی تفصیلات ہیں اور آپؐ نے دیگر سربراہانِ مملکت کو دین اسلام کی طرف جو دعوت دی وہ پیغامات بھی شامل ہیں۔
پروفیسر خورشیداحمد کتاب کے ابتدایئے میں لکھتے ہیں کہ وقت کا اہم ترین تقاضااخلاقی و روحانی نشاتِ ثانیہ ہے۔ انسانیت کو ہلاکت و تباہی سے بچانے اور نشاتِ ثانیہ کے لیے نبی کریمؐ کی تعلیمات کو مخلصانہ انداز میں اپنانا ہی راہِ نجات ہے۔ اس کتاب میں نبی کریمؐ کی تعلیمات اور مشن کو اختصار و جامعیت، عام فہم انداز اور مستند طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یقینا یہ کتاب عام افراد بالخصوص نوجوانوں کے لیے نبی کریمؐ کی سیرت اور پیغام کو سمجھنے میں مفید ثابت ہوگی۔
اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی اپنے نصب العین اور اپنے قائدانہ کردار سے غافل ہے۔ ان حالات میں ایسی مؤثر کتابوں کی اشاعت قابلِ تحسین ہے۔(محمد ایوب منیر)
مغرب میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے جو لوگ کام کر رہے ہیں ان میں شمیم صدیقی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا ایک منفرد مقام ہے۔ ایک امریکی شہری کے ساتھ ساتھ وہ ایک صاحب ِ دل دانش ور بھی ہیں۔اس مختصر سی کتاب میں وہ نہایت وسعت ِ نظر سے یہ بتاتے ہیں کہ اسلام، جو دنیا کی بہترین اصلاحی تحریک کے طور پر نمودار ہوا تھا، کس المیے سے دوچار ہے۔ اسلام، حقیقی معنوں میں محض رسمی عبادات کامجموعہ نہیں، جیساکہ اس کے داعی اُسے پیش کر رہے ہیں، بلکہ ایک ہمہ جہتی نظامِ حیات ہے ۔ بدقسمتی سے ۵۷مسلم ممالک میں کہیں اُسے ایک عالمی سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کے طور پر پیش نہیں کیا جا رہا۔ جہاں کہیں اسلامی تحریکیں سر اُٹھاتی ہیں، انھیں ’بنیاد پرست‘ اور ’دہشت گرد‘ کے ناموں سے نوازا جاتا ہے اور انھیں کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پوری مسلم دنیا آج ’یورو امریکی صہیونیت‘ کی غلامی کا قلاوہ گردن میں ڈالے پڑی سورہی ہے، اور حقیقی معنوں میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے فریضے سے غافل ہے۔
آج کی دنیا، اپنی ساری پیش رفت کے باوجود اُسی ’جاہلیت‘ کے دور سے گزر رہی ہے جب حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تحریک شروع کی تھی (ص ۲۷-۲۸)۔ آج مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے، لیکن منتشر اور اپنے اصل مشن سے غافل ہیں۔ قرآنِ مجید میں مسلمانوں کو ’اُمت ِوسط‘ کہا گیا ہے ، اور شہادتِ حق ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کو ایک ’دین‘ کے طور پر سمجھیں اور اس کے مطابق اس پر عمل کرنا اپنا مشن قرار دیں اور اسے محض ’پوجاپاٹ‘ کا مذہب نہ بنالیں۔ نظامِ صلوٰۃ کے ساتھ نظامِ زکوٰۃ (مالیاتی نظام) قائم کریں اور عدل و انصاف کی حکمرانی کا اسلامی نمونہ ساری دنیا کے سامنے پیش کریں۔
کتاب کے ضمیمے میں مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے دنیا کے ۲۳۱ ملکوں کے کوائف جمع کیے ہیں اور ان میں کُل آبادی اور مسلمانوں کے تناسب کے اعداد وشمار پیش کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کی دنیا میں انسانی مسائل کے حل کے لیے ایک ’عالمی اسلامی تحریک‘ کی ضرورت ہے، جس کے لیے اس مختصر کتاب میں بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں۔
کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد رفعت نے لکھا ہے۔ سیّدمنورحسن اور ڈاکٹر کوکب صدیق کے تبصرے بھی شاملِ کتاب ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
یہ درست ہے کہ ہمارے علما ، حکما اور صوفیہ (صوفیہ درست ہے نہ کہ صوفیا) نے مذہبی ادب کا نہایت گراں قدر ذخیرہ فراہم کردیا ہے (حرفِ ناشر)۔ لیکن اس ذخیرے کا اسلوب، ترتیب و تدوین اور پیش کش ایسی ہے کہ اسے دیکھ کر اس کی ساری ’گراں قدری‘ختم ہوجاتی ہے۔ زیرنظر کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں زُہد کے موضوع پر احادیث ِ نبویؐ کو اس اندازو اسلوب، ترتیب اور خوب صورتی سے جمع کیا ہے (اور ناشر نے مصنف کی محنت کی قدر کرتے ہوئے اسے اشاعت و طباعت کے ایسے اُونچے معیار پر پیش کیا ہے کہ اُردو میں خال خال کتابیں ہی اس معیار پر چھپتی ہیں) کہ پڑھی ہوئی حدیثیں بے اختیار دوبارہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ہر حدیث کے ساتھ سنددی ہے۔
مفصل دیباچے میں مؤلف نے بڑی جامعیت سے ’زہد‘ کا تعارف کرایا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیرسٹر صاحب نے صرف حدیث ِ نبویؐ کا نہیں بلکہ صوفیہ کے فرمودات و ملفوظات کا دقّت ِ نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ایسی کتاب جس کی ترتیب میں مرتب کی اپنی شخصیت بھی گھلی ملی نظر آتی ہو، ایک باکمال بات ہے۔ پس یہ فقط ایک علمی (academic) کاوش ہی نہیں، وارداتِ دل کا بیان بھی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے قرآن و سنت کا انسانِ مطلوب کیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
جملہ مذہبی اوردینی طبقوں ، گروہوں اور جماعتوں کی کاوشوں کا مقصود اسلامی ریاست اور حکومت کا قیام ہے۔ (کم از کم وہ کہتے تویہی ہیں) مگر ’اسلامی ریاست‘ ہے کیا؟ اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ دورِ جدید میں وہ معاصر دنیا کے ساتھ کیسے نباہ کرسکے گی؟ اس کی وضاحت کی طرف ہمارے علما نے کم ہی توجہ دی ہے۔البتہ جدید تعلیم یافتہ مسلم مصنّفین نے اس پر کچھ نہ کچھ کام کیا ہے۔ خود مولانا مودودی کی اسلامی ریاست مسلمانوں کی مطلوب ریاست کے اصول پیش کرتی ہے۔
مؤلف نے اسلامی ریاست کا فلاحی چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے، مگر دیگر پہلوئوں (معیشت، تعلیم، خواتین کے کردار، غیرمسلموں کی حیثیت، ذرائع ابلاغ، اُمورِ خارجہ، جہاد، بنیادی انسانی حقوق) کو بھی واضح کیاہے۔انھوں نے ان تمام مباحث پر مضبوط دلائل کے ساتھ کلام کیا ہے اور زبان نسبتاً عام فہم ہے۔
اگلی اشاعت میں مآخذ و مصادر کی فہرست بھی دے دیں تو مناسب ہوگا۔ مغرب کے جن دانش وروں (یا مغربی عینک سے دیکھنے والے ہمارے اپنے دانش وروں) نے اسلامی ریاست کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں، مختصراً اُن سے بھی تعرض ہوجاتا تو بہتر تھا۔ کتاب اچھے کاغذ پر معیاری طباعت کے ساتھ چھپی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
گذشتہ ۴۰، ۴۲ برسوں میں سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے ایک خاصا بڑا شعری اور ادبی ذخیرہ وجود میں آچکا ہے۔ جس میں مضامین، ناول، افسانے، ڈرامے، نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔ زیرنظر مجموعہ اس موضوع پر ۲۲منتخب افسانوں کا مجموعہ ہے۔ لکھنے والوں میں اُردو کے چوٹی کے افسانہ نگار (انتظار حسین، مسعود مفتی، رضیہ فصیح احمد اور اے حمید وغیرہ) شامل ہیں۔ تاریخِ انسانی، سیاسی اور تہذیبی سانحات، دوعظیم جنگوں، تقسیم ہند اور فلسطین، کشمیر اور افغانستان کی جدوجہد ِ آزادی کے حوالے سے اُردو میں اچھے بُرے کئی مجموعے شائع ہوئے۔
یہ افسانے کچھ تو عین زمانۂ جنگ میں، کچھ سقوط کے زمانے میں، اور کچھ زمانۂ مابعد میں تحریر کیے گئے۔ بعض افسانہ نگاروں کے لیے مشرقی پاکستان اَن دیکھے محبوب کے مانند تھا۔ یہ اَن دیکھا محبوب دسمبر ۱۹۷۱ء میں بچھڑ گیا، اور ناراض ہوکر الگ ہوگیا تو اس المیے کی شدت ان کے افسانوں میں نظر آتی ہے۔مرتب نے اپنی تحقیق کے دوران میں سیکڑوں کتابوں اور رسائل میں بکھرے ہوئے افسانوں کا سراغ لگایا۔ پھر افسانوں کا یہ انتخاب مرتب کیا۔ ان افسانوں میں انسان کا ذہنی کرب، اس کے جذباتی رویّے، سیاسی اور معاشرتی حالات کا جبر، اور سیاست کا خود غرضانہ چہرہ سامنے آتا ہے۔
یہ سانحۂ سقوطِ مشرقی پاکستان کی ایک ایسی تصویر ہے جسے افسانوں کے فنی پیرایے میں پیش کیا گیا ہے۔یہ بامقصد کہانیاں افسانوں کے طور پر تو د ل چسپ ہیں ہی، ان میں سبق آموزی کے بہت سے پہلو بھی موجود ہیں۔ اس طرح یہ کتاب محض ایک افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ کسی سنجیدہ کتاب کی طرح تاریخِ پاکستان کے ایک اَلم ناک باب کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتی ہے۔
دیباچہ نگار ڈاکٹر معین الدین عقیل کے بقول: یہ ایک بہت نایاب، نہایت بامعنی، جامع اور معیاری انتخاب ہے۔ ڈاکٹر عقیل کا مفصل ’پیش لفظ‘ بجاے خود سقوطِ مشرقی پاکستان اور ہمارے قومی ادب سے متعلق قیمتی معلومات پر مبنی ہے۔ طباعتی معیار اطمینان بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر کتاب مصنف کے چند مضامین اور خطبات کا مجموعہ ہے۔ ان تحریروں میں انسانی سیرت و کردار کے بعض مخفی گوشوں کی تعمیر کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ چند عنوانات: راہِ نجات، ذکراللہ، حقیقت عملِ صالح، حدود اللہ کی حفاظت، خواتین کا جہاد، تعمیرسیرت و کردار، تقرب الٰہی کا راستہ۔ انسانی معاملات میں اصلاحِ احوال کا واحد ذریعہ توبہ ہی ہے اور ایمان بالآخرت اور متعدد دیگر عنوانات کے تحت عام فہم زبان میں اظہارخیال کیا گیا ہے۔ تفہیم و تشریح کے لیے انبیا ؑکے واقعات، ان کی زندگی کی مثالیں اور نہایت گہرائی میں جاکر حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ، آپؐ کی سیرت و کردار کی مثالیں اور آپؐ کے اسوئہ حسنہ کے نمونے بیان کیے ہیں۔ اسلوبِ بیان اتنا دل کش ہے کہ قاری لفظ بہ لفظ مصنف کے ساتھ چلتا ہے،کہیں اٹکائو، الجھائو اور ابہام سے واسطہ نہیں پڑتا۔ یوں قاری اپنی فکرونظر کو قرآنی آیات اور سنت ِ نبویؐ کی روشنی میں نکھارتا چلا جاتا ہے۔
مصنف نے اپنی تحریر کو علامہ اقبال کے اُردو اور فارسی اشعار سے مزین کیا ہے۔ یہ اشعار موقع و محل کے لحاظ سے نہایت موزوں ہیں، تاہم بعض مقامات پر ان کی صحت متاثر ہوئی ہے، آیندہ اڈیشن میں ان کی تصیح ضروری ہے (صفحات: ۱۰۰، ۲۰۳، ۲۰۷، ۲۱۲، ۲۱۴، ۲۱۷)۔ ص ۲۵۴ پر لکھا ہے:’’ حضرت محمدؐ آسمانوں پر تشریف لے گئے… واپس آکر طائف کی بستی جیسے حالات میں پتھر کھانا… محبوب کی رضا کے لیے ہے‘‘، جب کہ اہلِ علم کے نزدیک واقعہ معراج طائف کے سفر سے پہلے ہوا تھا۔ ص۱۵۷ پر لکھا ہے کہ [سیّد سلیمان ندوی] نے ’’مدراس میں سیرت النبیؐ کے موضوع پر لیکچر محمڈن ایجوکیشن سوسائٹی میں دیے تھے‘‘،جب کہ صحیح یہ ہے کہ مدراس میں سیٹھ جمال محمد کی قائم کردہ ’مسلم ایسوسی ایشن‘ میں یہ لیکچر دیے گئے تھے۔(پروفیسر ظفر حجازی)
۱۵؍ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق سارے ہی معروف عنوانات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حیوانات اور نباتات سے متعلق عنوان غالباً سہواً رہ گیا ہے۔ ابواب سے متعلق رنگین تصاویر اور خاکے خوب صورت ترتیب سے شائع کیے گئے ہیں اور بڑے جاذبِ نظر ہیں۔ ہرباب میں شرح و بسط اور دلائل کے ساتھ ابتداے اسلام سے لے کر جدید دور تک سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کی قابلِ قدر سرگرمیوں کو بڑی خوب صورتی اور شواہد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔’ علمِ کیمیا اور کیمیکل ٹکنالوجی‘ باب۵، ص ۸۷ تا ۱۰۶ کے چند حوالوں سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے: ’’چونکہ قرآن انسان کو مادے کی ساخت پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے اس لیے مسلمانوں نے شروع دور ہی سے علمِ کیمیا پر توجہ دی۔ مدینہ منورہ میں درس و تدریس کے دوران میں حضرت جعفرصادقؒ نے چار عناصر والے ارسطو کے نظریے کا رد پیش کیا اور واضح کیا یہ چار عناصر مزید کیمیائی عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہوا میں ایک ایسی چیز ہے جو جلنے میں مدد دیتی ہے اور اس وجہ سے دھاتیں زنگ آلود ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ جزو ہے جو زندہ رہنے کے لیے اشدضروری ہے اور وہ بھاری بھی ہوتی ہے (آج ہم اسے آکسیجن کے نام سے جانتے ہیں)۔ مشہور کیمیادان جابر بن حیان (۷۲۱ئ-۸۱۵ئ) نے یہ بنیادی علوم مدینہ شریف میں ہی سیکھے ۔ان کا شمار حضرت جعفرصادقؒ کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ مسلمانوں سے قبل کیمیا دان عموماً سونا بنانے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھے۔ مسلمانوں میں الکندی، البیرونی، بوعلی سینا اور ابن خلدون سمیت عموماً کیمیادانوں نے اس کی مخالفت کی اور عملی کیمسٹری پر توجہ دی۔ مغربی مؤرخین گبن اور سنگر نے علمِ کیمیا کو اپنی اصلیت اور ارتقا کے اعتبار سے عربوں (مسلمانوں) کی ایجاد قرار دیا ہے‘‘۔
کتاب کے ۱۵؍ابواب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس کی اختراعات اور ایجادات میں اور علم سائنس کی مختلف شاخوں کی ابتدا اور اس کی ترقی میں شروع سے آج تک مسلمان سائنس دان نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسلمانوں کے ابتدائی دور کو سائنسی تاریخ لکھنے والے نہ صرف نظرانداز کرتے رہے بلکہ اس دور کو تاریک دور (Dark Ages) قرار دیتے رہے۔ حالانکہ عراق اور اندلس کی یونی ورسٹیوں سے تعلیم پاکر نکلنے والے یورپ اور مغرب کے طلبہ ہی تھے جنھوں نے اس تعلیم کے زیراثر واپس جا کر یونی ورسٹیاں قائم کیں اور ان سائنسی علوم کو رواج دیا۔
کتاب کا ’مقدمہ‘ اور ’حرفِ آخر‘ پُرمغز ابواب ہیں۔مقدمے میں مذہب اور سائنس کی بنیادوں پر جامع گفتگو کی گئی ہے اور یہ کہ دونوں کس حد تک ایک دوسرے کے معاون ہیں اوردونوں سے کس طرح فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ ’حرفِ آخر‘ میں مسلمانوں کے سائنسی میدان میں تنزل کی وجوہات بیان ہوئی ہیں اور اس میں نشاتِ ثانیہ کے لیے کیا منصوبہ بندی کی جانا چاہیے، اس کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔ (پروفیسر شہزاد الحسن چشتی)
کامیاب لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ان میں جو چیز نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے وقت کا بہترین استعمال۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ وقت کی تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے زندگی انتشار کا شکار ہوجاتی ہے اور صلاحیتوں کے باوجود ناکامی و نامرادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے ایک عرصے سے پاکستان میں اس موضوع پر مضامین اور کتابیں لکھی جارہی ہیں اور خاطرخواہ پذیرائی بھی پاتی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کا مرکزی موضوع وقت کی تنظیم ہی ہے۔ مؤلف نے وقت کے اسلامی تصورات قرآن و سنت ، اقوال، حکایات، ضرب الامثال اور کہیں کہیں اشعار کی مدد سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح چھوٹے چھوٹے نجی معاملات سے لے کر زندگی کے بیش تر معاملات پر حاوی اس کتاب میں ہر کام کی منصوبہ بندی، بہتر طریقے سے کرنے کا طریقۂ کار اور لائحۂ عمل جائزہ فارم کے ساتھ دیا گیا ہے۔ آخر میں اللہ سے استعانت کے لیے مختلف دعائیں بھی ہیں۔
یہ وقت کی تنظیم کے لیے بلاشبہہ ایک مفید کتاب ہے ۔ کتاب کے نام میں ’چار میم‘ کے اضافے سے ایک طرف جدت پیدا کی گئی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو جو وقت کی قدروقیمت سے عموماً غفلت برتتے ہیں، اس کے بہتر استعمال کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)
سرفراز سیّد بنیادی طور پر شعروادب کے آدمی ہیں، چنانچہ بطور شاعر (مشاعرہ پڑھنے) وہ آٹھ ممالک میں جاچکے ہیں مگر ان کی عملی زندگی کوچۂ صحافت میں گزری ہے۔ بطور صحافی گذشتہ ۴۵برس سے وہ روزناموں میں مختلف ذمہ داریاںادا کرتے رہے جس میں کالم نویسی بھی شامل ہے۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے نسبتاً قریبی زمانے کے اپنے کالموں کا ایک انتخاب پیش کیا ہے۔ اس میں ایسے کالم شامل ہیں جن کا تعلق زیادہ تر عدلیہ سے یا موجودہ سیاسی صورتِ حال کے نشیب و فرازسے ہے۔ اسی مناسبت سے چھے صاحبان کے انٹرویو بھی کتاب میں شامل ہیں۔
دیباچے میں انھوں نے سیاست دانوں کی ’بے عملیوں بلکہ بداعمالیوں‘ اور جمہوریت کے ساتھ فوجی جرنیلوں کے ’وحشت ناک سلوک‘ کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’سب سے زیادہ افسوس ناک کردار ہمارے بعض قانون دانوں، صحافیوں اور نام نہاد دانش وروں کا رہا ہے، جنھوں نے بھاری معاوضوں، پلاٹوں، اعلیٰ ملازمتوں اور بیرونی دوروں کے عوض اپنا علم اور ضمیر فروخت کر دیا۔ اس کے برعکس وہ عدلیہ کے مداح ہیں۔ اس لیے مشرف دور کے چھے جج صاحبان (جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس خواجہ شریف، جسٹس ثائرعلی، جسٹس میاں محمد محبوب، جسٹس اقبال حمیدالرحمن، جسٹس چودھری محمد عارف) کے انٹرویو کتاب میں شامل کیے ہیں۔ ان جج صاحبان کی گفتگوئوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنھوں نے جنرل مشرف کی دھونس اور لاقانونی اقدامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے مالی طور پر بھی خاصا نقصان اُٹھایا مگر اُن کی استقامت کے نتیجے میں عدلیہ کا وقار بحال اور بلند ہوا۔ سرفراز سیّدنے عدلیہ کے موضوع پر براہِ راست کچھ کالم بھی لکھے ہیں۔ انھوں نے جسٹس کارنیلیس اور جسٹس کانسٹنٹ ٹائن کو بجاطور پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
’باتیںاسفندیارولی کی‘ کتاب کے مجموعی مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔ ’بہادر آدمی‘ جو دھماکوں سے خوف زدہ ہوکر، اپنے صوبے سے بھاگ کر پریذیڈنٹ ہائوس اسلام آباد میں آچھپا، اس کے منہ سے ’حق گوئی؟‘ سبحان اللہ۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ ۱۹۴۷ء کے تاریخی ریفرنڈم میں اس کے دادا باچاخان نے بھارت میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا اور پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا۔ اسفندیار کی باتیں کذب و نفاق کا آمیزہ ہیں۔
سرفراز سیّد کے کالموں کی اہم خوبی ان کا اختصار ہے۔ اسلوب سادہ اور انداز دوٹوک ہے۔ سیاست، قانون اور تاریخِ پاکستان کے بارے میں یہ کتاب معلومات کا ایک خزینہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اللہ کی بندگی اور تزکیہ و تربیت انبیا ؑ کی دعوت کا حصہ اور بنیادی فریضہ رہا ہے۔ اسلامی تحریک جو دعوت الی اللہ اور اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کی علَم بردار ہوتی ہے، اس کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ وہ لوگوں میں دین کا شعور عام کرے اور عمل کی ترغیب دے۔ اسی کے نتیجے میں اسلامی انقلاب دیرپا اور مستحکم بنیادوں پر برپا ہوسکتا ہے۔ امیرجماعت اسلامی محترم سراج الحق نے اجتماع عام (۲۱-۲۳ نومبر۲۰۱۴ئ) کے اختتام پر تحریک تکمیل پاکستان کا آغاز کرتے ہوئے شرکا سے دین کے بنیادی شعائر (نماز کی ادایگی، تلاوتِ قرآن، جھوٹ اور غیبت سے اجتناب، توبہ و استغفار، والدین کی خدمت اور رزقِ حلال، دعوتی حوالے سے ایک کارکن کا ۱۰۰؍افراد کو حامی اور ووٹر بنانا) پر عمل کے لیے عہد لیا۔ مرتب کتاب نے اس عہد کی اہمیت کے پیش نظر انھی موضوعات پر مولانامودودی، خرم مراد، محمدیوسف اصلاحی، ڈاکٹر محمد علی ہاشمی، گل زادہ شیرپائو اور ڈاکٹر رخسانہ جبین کی مختلف تحریروں کو تجدید عہد کے عنوان سے مرتب کیا ہے۔(امجد عباسی)
o معارف مجلۂ تحقیق (جولائی-دسمبر۲۰۱۴ئ)، مدیر: پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق منصوری۔ ناشر: معارف اسلامی، ڈی ۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔صفحات: ۱۹۷+۷۱؍انگریزی صفحات۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[جدید مسائل پر تحقیق، افکار و نظریات کا علمی محاکمہ اور علوم و فنون کی اسلامی تشکیل وتعبیر کے فروغ کے لیے معارف مجلّۂ تحقیق ادارہ معارف اسلامی کراچی کے تحت شائع ہوتا ہے۔ موجودہ شمارے کے چند اہم مقالات:l سامراجیت وملوکیت پر اقبال کی تنقید: ایک تحقیقی مقالہ از شیراز زیدی l پاکستان میں صنعتوں کو قومیانے اور نج کاری کی پالیسی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں از سعدیہ گلزار، عاطفہ گلزار l مولانا مودودی، جاپان میں از معین الدین عقیل l رسولؐ اللہ کا نظامِ تربیت اور انسانی صلاحیتوں کا فروغ از محسنہ منیر lمزارعت کے بارے میں مولانا محمد طاسین کا نقطۂ نظر، ساجد جمیل۔انگریزی حصے میں چھے مقالات ہیں۔ نوجوان محققین کی رہنمائی بھی ادارے کا ہدف ہے، لہٰذا ’نئے محققین کے نام‘ سے اداریہ دیا گیا ہے۔ اہم موضوعات پر قلمی مذاکرہ کا سلسلہ بھی ہو تو مفید ہوگا۔]
’اسلام اور ریاست: چند بنیادی مباحث‘ (مارچ ۲۰۱۵ئ)کے عنوان کے تحت ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے اسلام میں تصورِ خلافت، استخلاف فی الارض، اسلام کا مخاطب: فرد یا جماعت، اسلام میں تصورِ قومیت کی جو تشریح قرآن و سنت کی روشنی میں فرمائی ہے، اُس نے روزنامہ جنگ میں ’جوابی بیانیے‘ کی اشاعت سے پھیلائے جانے والے مغالطوں کو ذہنوں سے صاف کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر انیس احمد صاحب کو جزاے خیر عطا فرمائے اور ان کی صلاحیتوں اور زورِ قلم میں اضافہ فرمائے۔ آمین! ’اسلامی معاشی ماڈل کے خدوخال‘ پڑھ کر علم میں اضافہ ہوا۔
ڈاکٹر انیس احمد صاحب کا اداریہ ’اسلام اور ریاست کے‘ موضوع پر جامع اور علمی و معلوماتی ہے، جس میں ڈاکٹر صاحب نے بڑے مثبت انداز میں بحث کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے)۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ہر فرد کو اسلام اختیار کرنا چاہیے، چاہے وہ عام فرد ہو یا کوئی حاکم۔ انھوں نے جامع انداز میں اسلامی ریاست کے بارے میں جو تشریح و توضیح فرمائی ہے وہ اپنے موضوع پر بہترین جواب ہے۔
مارچ ۲۰۱۵ء کا شمارہ سامنے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس شمارے کا ہر مضمون دل کو چھونے والا اور دل و دماغ کے دروازے کھول دینے والا ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ بطورِ خاص ’دین کا حقیقی مقصد: نظامِ عدل کا قیام‘ ، ’مغرب کی انصاف پسندی کی حقیقت‘ اور ’اسلام کا تصورِ رواداری‘ دل کو موہ لینے والے مضامین ہیں۔
ہفت روزہ ایشیا، بہ ادارت : ملک نصراللہ خاں عزیز۔ مقامِ اشاعت: گوالمنڈی، لاہور۔ قیمت: فی پرچہ ۴؍ آنے۔
یہ ’کوثر‘ مرحوم کا نعم البدل یا خلف الرشید ہے۔ حُسنِ ترتیب اور اقامت ِ معیار کے لیے ملکِ عزیز کا نام سب سے بڑی ضمانت ہے۔ مگر ملکِ عزیز نے کوثر کے مقابلے میں جو نئی شان ایشیا میں پیدا کردی ہے اسے دیکھ کر تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک صاحب جوں جوں بوڑھے ہوتے جارہے ہیں ان کا قلم جوان ہو رہا ہے۔ مستقل عنوانات کے تحت جو مواد ادب دیا جا رہا ہے اور جس تنوع کے ساتھ اسے مرتب کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر ہم یہ راے رکھتے ہیں کہ لاہور کے دوسرے تمام ہفت روزہ جرائد کو ایشیا نے سواے ایک گپ بازی اور سینمائی اشتہارات اور حکام کی بیگمات کی تصویروں کے اور ہر لحاظ سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ البیرونی کا روزنامچہ تو ادبیت و مقصدیت کے لحاظ سے ایک تاریخی چیز ہوگیا ہے۔ سنجیدہ ذوق رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ مصور ایشیا کے چند پرچے دیکھ کر خود راے قائم کریں۔
اس ماہ کے مطبوعات (ص ۶۳-۷۲) میں درج ذیل کتب پر تبصرہ کیا گیا ہے: lاسباب زوالِ اُمت، علامہ امیرشکیب ارسلان، قیمت مجلد:۸؍ lتفسیر ابن کثیر، (اُردو)، قیمت: درج نہیں۔ lمکاتیبِ سلیمان، مرتبہ: مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم،قیمت مجلد: سوا تین روپے۔ lاصحاب کھف، مرتبہ: عبیدالحق صاحب۔ قیمت: ۶؍ lسچّی باتیں، (حصہ اول)، انوارالحسن صاحب۔ قیمت: ۹؍ lالقرآن، مرتب: فروغ احمد۔ چندہ سالانہ: ۵ روپے، فی پرچہ ۸ آنے۔ lفردوس کی راہ، مرتبہ: منور سلطانہ روحی۔ قیمت: ۲ روپے ۱۲آنے۔ lدعوت الفطرت، محمدعطاء اللہ سلفی،قیمت: درج نہیں۔lمنتخب نظمیں، مرتبہ: کوثر نیازی، قیمت: ۸ ؍ lمعیار، (تنقید نمبر) مدیر: نجم الاسلام،قیمت تنقید نمبر: ۸؍ lاسلام کا فلسفۂ تاریخ، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، قیمت مجلد:۱۲؍ lفقہ الحدیث، مولانا سیّداصغرحسین ، قیمت مجلد:ایک آنہ۔ lماھنامہ مشیر، روح نمبر، مرتبہ: مرزا عبدالغفور بیگ، قیمت خاص نمبر: ایک روپیہ۔ lماھنامہ ھمایوں، میاں بشیراحمد، چندہ سالانہ: ساڑھے سات روپیہ، فی پرچہ: ۱۰؍۔lتعمیرادب، مؤلف: عبدالغنی و عبدالواحد رحیمی صاحبان، قیمت: ۳؍ آنے۔ (’مطبوعات‘، ترجمان القرآن، جلد۴۴، عدد۱، رجب ۱۳۷۴ھ ، اپریل ۱۹۵۵ئ، ص ۷۲)
______________