پروفیسر خورشید احمد


پاکستان کی تاریخ میں دو ہی بار پارلیمنٹ کو یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ اسے رمضان المبارک کے رحمتوں‘ برکتوں اور مغفرتوں سے بھرپور مہینے میں حلف لینے کی سعادت میسر آئی ہو۔ پہلی بار یہ مبارک گھڑی ۱۰ اگست ۱۹۴۷ء (۲۳ رمضان) کو میسر آئی تھی جب پہلی دستور ساز اسمبلی نے تحریک پاکستان کی سات سالہ جاں گسل جدوجہد اور بیش بہا قربانیوں کے بعد آزادی کی صبح صادق اور ایک نئے عہد کے آغاز کے موقع پر حلف لیا۔دوسری بار ۵۵ سال کے بعد حالیہ پارلیمنٹ نے ۱۶ نومبر ۲۰۰۲ء (۱۰ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ) کو حلف لے کر فوجی حکومت کے چوتھے صبرآزما دور سے نکلنے اور جمہوری اور دستوری نظام کی بحالی کی طرف ایک فیصلہ کن قدم بڑھایا۔

ان دونوں مواقع پر صرف رمضان کی آغوش ہی قدر مشترک نہیں۔ تاریخ کا ہر طالب علم صاف محسوس کرے گا کہ جس طرح اگست ۱۹۴۷ء کی کامیابی ایک بڑی آزمایش اور امتحان تھی جسے قائداعظم نے ایک عظیم achievement and challenge (کارنامے اور چیلنج) کے الفاظ میں بیان کیا تھا‘ اسی طرح نومبر ۲۰۰۲ء میں پارلیمنٹ کی بحالی بھی جہاں ایک کامیابی اور واضح پیش رفت ہے‘ وہیں اگر ایک طرف یہ ہے تو دوسری طرف ایک زریں موقع  (golden opportunity) ۔ ایک تاریخی چیلنج اور امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہم اس موقع پر  اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ضروری سمجھتے ہیں کہ پوری قوم کو امتحان اور آزمایش کے پہلو پر غوروفکر کی دعوت دیں اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف‘ پارلیمنٹ کے ارکان اور پوری سیاسی قیادت کو اس طرف متوجہ کریں کہ ہم سب تاریخ کے ایک بڑے نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ ماضی کے ۵۵ سال گواہ ہیں کہ پہلی دستورساز اسمبلی اور قائداعظم اور قائدملت کے بعد زمامِ کار سنبھالنے والی قیادت نے ملک و ملت کو مایوس کیا‘ مسلمانان پاک و ہند کی تاریخی جدوجہد سے بے وفائی کی اور اپنے ذاتی‘ گروہی‘ علاقائی اور حزبی مفادات کی خاطر دورحاضر کے پہلے آزاد مسلمان ملک کو اس کے تاریخی کردار سے محروم کر کے اس مقام پر پہنچا دیا کہ دشمن اسے خاکم بدہن ایک ’’ناکام ملک‘‘ کہنے لگے۔

آج قوم کو پھرایک نیا موقع ملا ہے۔ ہمارے سامنے سیاسی قیادتوں اور فوجی قیادتوں کے زمانی اعتبار سے تقریباً برابر برابر کے دو ناکام دور (۲۷ سالہ فوجی اقتدار اور ۲۸ سالہ سیاسی دور) ہیں اور ملک کے دولخت ہونے اور ایک بار پھر معاشی اور سیاسی اعتبار سے سامراجی قوتوں کی کھلی اور چھپی گرفت میں آجانے کے سانحات بھی۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں قوم نے ایک بار پھر ایک سیاسی قیادت کو اُبھارا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو ایک اہم سیاسی قوت کے طور پر اپنے اعتماد سے نوازا ہے۔ اب یہ ذمہ داری نئی سیاسی قیادت اور اس کے تمام عناصر ترکیبی (صدر‘ قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں) کی ہے کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالے اور اسلام‘ جمہوریت اور دستوری نظام حکومت کی شاہراہ کی طرف گامزن کرے تاکہ تحریک پاکستان کے اصل مقاصد حاصل ہو سکیں اور عوام ایک حقیقی اسلامی‘ شورائی اور عادلانہ نظام کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں۔

رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کی مناسبت سے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلّم کے الفاظ میں مغفرت کا عشرہ ہے‘ ہم سب سے پہلے خود اپنے کو‘ ملک کی سیاسی قیادت کو‘ اور پوری قوم کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ مسلمان خدا کی زمین پر خدا کے خلیفہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا فرض منصبی استخلاف ہے (اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط  البقرہ ۲:۳۰) اور اس استخلاف کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے مالک نے  عبادات کے پورے نظام کا اہتمام کیا تاکہ اللہ کا ذکر اور اس کی قربت حاصل ہو‘ ضبط نفس اور تقویٰ میسر آئے۔ رب کی ہدایت کا امین بنا جا سکے‘ اس کے کلمے کو بلند کرنے اور اس کے طریقے کو رائج کرنے کے لیے جہاد کیا جا سکے اور بالآخر اس کا دین غالب اور حکمران بن سکے تاکہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو جائے اور بندہ اپنے رب اور اس کی جنت کی طرف راہی سفر ہو سکے۔ رمضان کا خصوصی تعلق زندگی اور جدوجہد کے ان سب ہی پہلوئوں سے ہے اور قرآن نے بڑے بلیغ اشاروں میں ان کی نشان دہی کی ہے۔ یہ عبادت تم کو تقویٰ کی دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ہے (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ - البقرہ ۲:۱۸۳)۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں (الَّذِیْ ٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ …… وَالْفُرْقَانِ - البقرہ ۲:۱۸۵)۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o  البقرہ ۲:۱۸۵)۔ تقویٰ‘ ہدایت‘ فرقان‘ اللہ کی کبریائی اور بڑائی کا اظہار اور شکر یہی وہ پانچ چیزیں ہیں جو رمضان المبارک کا اصل پیغام اور ہدف ہیں۔ رمضان المبارک میں پارلیمنٹ کے حلف میں یہ رمزیت مضمر ہے کہ آج قوم کو اور اس کی قیادت کو انھی صفات اور اہداف کی ضرورت ہے اور انھی کے سہارے آگے کے مراحل کو طے کیا جا سکتا ہے۔

اصل چیلنج اور مقابلے کی حکمت عملی

اس بات کو سمجھنے اور اس کا شعور عام کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ملک و ملت کے سامنے اصل چیلنج کیا ہے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کس نوعیت کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے ۵۵ برسوں کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے اور اس وقت جس صورت حال میں ہم گرفتار ہیں اس کا صحیح صحیح تعین کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ سول حکمرانی کے دور میں جمہوریت جڑپکڑ سکی اور نہ فوجی حکمرانی کے ادوار میں‘ کہ وہ تو جمہوریت کی ضد ہی ہوتے ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ہماری نگاہ میں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے نمایشی اقدام کے باوجود اقتدار عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا اور اقتدار کی باگ ڈور عملاً ایک مختصر ٹولے کے ہاتھوں میں رہی جس میں کلیدی کردار بیوروکریسی‘ فوجی قیادت اور چند سیاسی خاندانوں نے ادا کیا۔ تاش کے پتوں کی طرح رل مل کر یہی باون پتے ہماری قسمت سے کھیلتے رہے کبھی درپردہ اور کبھی بالکل کھل کر--- اب اس پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ اقتدار کو عوام اور عوام کے نمایندوں کی طرف منتقل کرانے کا کام حکمت اور صبر لیکن مکمل یک سوئی کے ساتھ بے خوف و خطر انجام دینے کی کوشش کرے۔

اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف بحالی جمہوریت کے دعووں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری اور خود اپنے تمام وعدوں کے پورا کرنے کی دہائی کے باوجود اصل قوت اپنے ہاتھوں میں رکھنے پر مصر ہیں اور پارلیمنٹ کو ایک نمایشی ادارہ بنانے کی مذموم کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ چونکہ کبھی کبھی سچی بات ان کی زبان پر آجاتی ہے اس لیے ان کے سیاسی اقدامات پر جو ملمع چڑھانے کی کوشش ان کے مشیر کرتے ہیں اس کے باوجود ان کے اصل چہرے کی کچھ جھلک نظر آجاتی ہے۔ستمبر۲۰۰۲ء میں واشنگٹن کے دورہ کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں جنرل صاحب کے دل کی بات زبان پر آگئی تھی کہ: میں پورے نظام پر جمہوریت کا لیبل لگا دوں گا۔

I will put a label of democracy on the system.

اس طرح ان کا یہ ارشاد کہ:

اگر مستقبل کی پارلیمنٹ نے ان ترامیم کو واپس لینا چاہا‘ خصوصاً وہ جو قومی سلامتی کونسل سے متعلق ہیں‘ تو یا ان کو جانا ہوگا‘ یا میں چلا جائوں گا۔

موصوف یہ بھی فرما گئے ہیں کہ:

میں نے ایل ایف او (LFO) کو دستور کا حصہ ان اختیارات کی رُو سے بنایا ہے جو مجھے سپریم کورٹ نے دیے ہیں اور مجھے اسمبلی کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔

جنرل صاحب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ عنوانوں (labels) کا نہیں جمہوریت کے اصل جوہر (substance)کا ہے۔ جمہوریت اور فردِواحد کی حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سول صدارت اور فوج کی سربراہی کا تاج ایک سر پر نہیں رہ سکتا۔ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کے سامنے یہی سب سے بنیادی سوال ہے کہ آیا دستور اپنی اصل شکل میں بحال ہوتا ہے اور پارلیمنٹ اصل اقتدار کی امین بنتی ہے یا نہیں؟

بنیادی مسئلہ اقتدار کی منتقلی کا ہے‘ محض شراکت نہیں! اس لیے ایم ایم اے نے صاف لفظوں میں کہہ دیاہے کہ اقتدار کی منتقلی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک فوجی قیادت اس دہرے رول سے دست بردار نہیں ہوجاتی۔ ہماری دلی خواہش اور مسلسل کوشش ہے کہ یہ عمل بحسن و خوبی انجام پذیر ہو‘ کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو‘ کوئی ڈیڈلاک رونما نہ ہو‘ کوئی بدمزگی نہ ہو‘ افہام و تفہیم سے سارے مراحل طے ہوں لیکن یہ ایشو وہ ہے جس پر سمجھوتا یا کوئی درمیان کا راستہ ممکن نہیں۔ جنرل صاحب اور فوج کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کے مینڈیٹ کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد ان کا اصل مقام فوجی بیرک اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہیں‘ ایوان ہاے سیاست نہیں۔ جنرل صاحب کو سپریم کورٹ کے مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے کا سہارا اب ترک کر دینا چاہیے اور اصل سیاسی اور دستوری حقائق کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں قوم کے ۷۵ فی صد نے ان کے پروگرام پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اور عوام کے اس مینڈیٹ سے فرار صرف جمہوریت کی نفی ہی نہیں بلکہ اپنے اندر خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ارباب کار کو معقولیت کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے اور قوم کو آزمایش اور کش مکش سے بچالے۔ یہی ملک کے لیے بہتر ہے اور سب سے زیادہ یہی فوج کے لیے کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر قوم اور فوج کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ باقی رہ سکتا ہے۔ ہم بہت دکھی دل کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ماضی کے فوجی ادوار کی ناکامیوں پر عوام نے فوجی حکمرانوں کو ہدفِ ملامت بنایا مگر اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوج بحیثیت ادارہ ہدف بننے لگی ہے۔قوم سے اس کے رشتہ محبت و اعتماد کے لیے بھی بہتر ہے۔

ماضی کے تجربات سے سیاسی قیادت کو بڑے اہم سبق سیکھنے چاہییں اور اپنے پیش روئوں کی غلطیوں اور حماقتوں کے اعادے سے پرہیز کرنا چاہیے ‘اسی طرح فوجی قیادت کو بھی تجربات کی اس کھلی کتاب کے پیغام کو پڑھ لینا چاہیے۔ اس میں اس ملک کی اور ہم سب کی خیر ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا اصل امتحان اب شروع ہو رہا ہے اور اسی طرح خود پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت بھی ایک بڑی آزمایش کی کسوٹی پر پرکھی جا رہی ہے۔ دونوں کو بالغ نظری کے ساتھ‘ کسی تصادم اور تعطل کا شکار ہوئے بغیر‘ اس دلدل سے نکلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے سیاسی گفت و شنید کے ساتھ کھیل کے قواعد کے احترام کا حوصلہ پیدا کرنا ضروری ہے۔ اب تک حکمران اپنی مرضی اور مفاد کے لیے کھیل کے قواعد کو تبدیل کرتے رہے ہیں اور جنرل پرویز مشرف نے اس سلسلے میں گذشتہ آٹھ مہینے میں یعنی اپریل کے ریفرنڈم سے اس وقت تک  پرانے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور وہ جو ان کی ایک شہرت تھی کہ صاف گو (straight forward) آدمی ہیں‘ اس سیاسی کھیل میں وہ ’’عزت سادات‘‘ بھی خاک میں مل گئی ہے۔ اب ان کی اخلاقی ساکھ پارا پارا ہو چکی ہے اور اگر وہ خود اور ان کے رفقا اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کریں گے تو یہ عاقبت نااندیشی کا ایک شاہکار ہوگا جس کا خمیازہ بالآخر ان کو اور پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔اس لیے ہم پورے خلوص سے ان سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پچھلے تین سالوں میں جو کچھ ہوا ‘اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نئے زمینی حقائق کو محسوس کریں اور اب قوم کو مزید آزمایشوں میں ڈالنے سے احتراز کریں۔

اب سب کے لیے ایک ہی معقول راستہ ہے اور وہ یہ کہ افہام و تفہیم کے ذریعے پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کریں۔ جنرل صاحب چیف آف اسٹاف کے عہدے سے استعفیٰ کے اس وعدے کو پورا کریں جو ہاورڈ یونی ورسٹی میں سیمی نار کے موقع پر عالمی راے عامہ سے انھوں نے کیا تھا اور جو عقل و انصاف اور دستور و اخلاق ہر ایک کا تقاضا ہے۔ وہ قوم اور فوج دونوں کو اس آزمایش میں نہ ڈالیں کہ ایک طرف وہ بحیثیت صدر ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوں اور دوسری طرف بری فوج کے چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے باقی دونوں افواج کے سربراہوں کی طرح وزیراعظم‘ اور وزیردفاع کے ماتحت ہوں۔ ایک طرف وہ حلف اٹھائیں کہ میں دستور کا پابند اور محافظ ہوں گا (دفعہ ۴۲) اور دوسری طرف ایک فوجی افسر کی حیثیت سے اس حلف کی بھی پاسداری فرمائیں کہ ’’میں اپنے آپ کو کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا‘‘ (دفعہ ۲۴۴)۔ دستوری صدر بھی ہوں جس کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی سروس آف پاکستان کا نہ صرف یہ کہ رکن نہ ہو بلکہ اس کے ریٹائرمنٹ پر دو سال بھی گزر چکے ہوں اور دوسری طرف عملاً فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے مدعی بھی ہوں۔ یہ دستور‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ قوم اور خود فوج کے ساتھ ایک کھلا مذاق اور اپنے نتائج کے اعتبار سے بڑا ہی نقصان کا سودا ہے۔ ضرورت ہے کہ سب عقل کے ناخن لیں اور اپنی ذات نہیں بلکہ وہ جو بار بار کہا جاتا ہے کہ ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘اس کا کچھ عملی پاس بھی کریں ورنہ سارا کھیل صرف ’’سب سے پہلے میں‘‘ بن کر رہ جائے گا۔

سپریم کورٹ کے مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے کا ہر مدعی نے سہارا لیا ہے اور بدقسمتی سے خود اعلیٰ عدالتوں نے بھی ایسی آنکھ مچولی کھیلی ہے جس نے ان کے اپنے وقار ہی کو مجروح نہیں کیا بلکہ ملک کو بھی بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد صاف الفاظ میں ہر ادارے کی حدود کو عملاً واضح ہی نہیں‘ متعین کر دیا جائے۔ عدالت کا کام دستور کی تعبیر ہے‘ دستور کی ترمیم‘ تنسیخ یا تسوید نہیں۔ جو اختیار عدالت کو خود حاصل نہیں وہ کسی اور کو کیسے دے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور سے انحراف (deviation)کے تصور کا سہارا لیا گیا ہے اور قانون ضرورت (law of necessity) کی بنیاد پر دستور میں وقتی اور جزوی ترمیم کا اختیار فوجی حکمرانوں کو ماضی میں بھی دیا گیا اور مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا‘ لیکن متعدد شرائط کے ساتھ‘ جن کا جنرل پرویز مشرف نے کوئی خیال نہیں رکھا۔

عدالت کے موقف کی مختلف تعبیرات ہوسکتی ہیں لیکن اب اس بحث کا وقت نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ اپنے اختیار کا اثبات کرے اور جس طرح جنرل ضیاء الحق مجبور ہوئے تھے کہ احیاے دستور کے حکم نامے کو پارلیمنٹ کے زیرغور لائیں اور ۳۸ دن کی کھلی بحث کے بعد آٹھویں ترمیم کے ذریعے اس میں سے ۸۰ فی صد کو قربان کر کے باقی ماندہ کو بشمول دفعہ ۲۷۰ کے تحت indeminty دے کر پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت دستوری دفعہ ۲۳۹-۲۳۸ کے تحت دستور کا حصہ بنائیں۔ اسی طرح نام نہاد ایل ایف او کو بھی پارلیمنٹ میں زیربحث لایاجائے اور اس کے قابل قبول حصوں کو مناسب دستوری ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنا لیا جائے اور ناقابل قبول حصوں کو رد کر دیا جائے۔ مئی ۲۰۰۰ء اور ۳۰ ستمبر ۲۰۰۲ اور ۳اکتوبر ۲۰۰۲ء کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اگر اپنی من مانی نہ کی جائے اور ان فیصلوں کو ایمان داری سے لیا جائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں۔ صرف ریکارڈ کی خاطر یہ چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:

یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اس وقت بھی ملک کا سپریم قانون ہے‘ اس شرط کے ساتھ کہ اس کے بعض حصے ریاستی ضرورت کے تحت معطل کر دیے گئے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کو سندجواز فراہم کرتے ہوئے عدالت نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ یہ ماورائے دستور (extra constitutional)اقدام ہے لیکن اس کے باوجود ان کو قانون سازی کا اختیار چند حدود کے اندر حاصل ہوگا یعنی:

یہ کہ ایسے تمام اقدامات کرنے کا اور قانون نافذکرنے کا جو نیچے بیان کیے گئے ہیں‘ یعنی:

(i)  (الف)  تمام اقدامات یا قانونی فیصلے کرنا جو ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہیں یا اس کے تحت کیے جا سکتے ہیں بشمول اس میں ترمیم کے اختیار کے۔

(ب)  وہ سب اقدامات جو عوام کی بھلائی کی پیش رفت کی طرف لے جاتے ہیں یا اسے بڑھاتے ہیں۔

(ج)  ایسے تمام اقدامات جو کاروبارِ مملکت کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے ضروری ہیں۔

(د) ایسے تمام اقدامات جو چیف ایگزیکٹو کے اعلان کردہ مقاصد کو حاصل کرنے‘ یا حاصل کرنے کی طرف لے جانے والے ہوں۔

(ii)   چیف ایگزیکٹو کی جانب سے دستور میں ترامیم صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہیں جب  دستور اُن کے اعلان کردہ مقاصد کے حصول کے لیے کوئی حل پیش کرنے سے قاصر ہو۔ مزید یہ کہ دستور میں ترمیم کا اختیار بمطابق دفعہ ۶‘ ذیلی دفعہ (۱) (الف) ایضاً اسی دفعہ کی ذیل دفعات ب‘ ج اور د سے مشروط ہے۔

(iii)  دستور کے بنیادی خصائص (salient features) یعنی عدلیہ کی آزادی‘ وفاقیت‘ پارلیمانی طرزِحکومت بشمول اسلامی دفعات میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔

اس کے ساتھ عدالت نے یہ اصولی بات بھی صاف لفظوں میں کہہ دی تھی کہ سول نظام میں فوج کی مداخلت اور شمولیت ملک اور فوج کے لیے نقصان دہ ہے اور اسے کم سے کم مدت میں ختم ہو جانا چاہیے۔

بہرحال‘ سول معاملات میں فوج کی طویل شرکت کے نتیجے میں فوج کے سیاست زدہ ہونے کا سنگین خطرہ ہے جو قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس لیے اعلان شدہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد‘ جس نے فوج کے اختیار سنبھالنے کو ضروری بنایا ملک میں سول حکومت کم سے کم ممکنہ وقت میں بحال کر دی جائے۔

سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ۳۰ ستمبر کو نواب زادہ بلوچ مری کی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ:

عارضی دستور کا حکم نامہ (پی سی او) کے تحت انتظامی مقتدرہ نے جو قوانین نافذ کیے ہیں ان کی کوئی قانونی یا دستوری حیثیت نہیں ہے جب تک کہ آنے والی منتخب پارلیمنٹ ان کو جائز قرار نہ دے دے۔ (دی نیوز‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۲ء)

پھر اپنے ۳ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے ایک فیصلے میں جو ایل ایف او کے سلسلے میں تھا (مدعی ظفراللہ خان) یہ اہم نکتہ واضح کیا کہ ایل ایف او کی حیثیت دستوری تجاویز برائے ترمیم دستور کی ہے۔ اسپیشل بنچ جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منیراے شیخ‘ جسٹس ناظم حسین صدیقی‘ جسٹس افتخار احمدچودھری اور جسٹس قاضی محمد فاروق تھے‘ کو جب مدعی نے درخواست دی کہ عدالت صرف اتنا کہہ دے کہ LFO پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد ہی قابلِ نفاذ ہے۔ جسٹس منیراے شیخ نے کہا:

دفعہ ۲۳۹ دستور میں موجود ہے اور ممبران اسمبلی اس کو روبہ کار لا سکتے ہیں۔

آپ جو کچھ طلب کرتے ہیں ہم اس سے آگے جا رہے ہیں۔ (ہفت روزہ انڈی پنڈنٹ‘ ۲۱-۲۷نومبر ۲۰۰۲ء)

اس سب کے باوجود ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اب مسئلے کا فیصلہ پارلیمنٹ کے ایوان میں ہونا چاہیے۔ عدالت کو مزید زحمت دینے کی نہ ضرورت ہے نہ اس کا وقت ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اس مصیبت ِ جان ’’نظریہ ضرورت‘‘کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے اور بقول شہنشاہ عالمگیر اتنا گہرا دفن کرے کہ پھر کبھی مردہ قبر سے باہر نہ آ سکے!

آزادی اور حاکمیت کی بحالی

دوسرا بنیادی مسئلہ ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور معاشی اور سیاسی معاملات میں حاکمیت کا ہے۔ جنرل پرویز صاحب کے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کے اقدامات کے نتیجے میں ہماری آزادی ایسے سمجھوتوں کی زد میں آگئی ہے‘ جو قومی سلامتی کے لیے اپنے اندر بڑے مضمرات رکھتی ہے اور قوم کی نئی سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ محض تسلسل کے نام پر (under the cloak of continuity) اس جال میں پھنسی نہ رہے بلکہ ایک ایسی خارجہ اور معاشی پالیسی وضع کرے جو آزاد اور متوازن ہو اور جو پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کی ضامن ہو‘ امریکہ کے عالمی استعماری مقاصد کی آلہ کار نہ ہو۔ یہ دوسرا بڑا چیلنج ہے اور اس پر ملک کی آزادی اور سالمیت کا انحصار ہے۔ہمیں یقین ہے کہ پوری قوم کی طرح اس ملک کی فوج بھی ملک کی پاک سرزمین پر امریکی اڈوں کے وجود اور امریکی ایجنسیوں کے عمل دخل پر اتنی ہی دل گرفتہ اور پریشان ہو گی جتنی باقی قوم۔ ماضی میںجو بھی مجبوریاں ہوں مگر اب امریکہ کا عالمی کھیل بالکل عیاں ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں بشمول امریکہ‘ اور یورپ کے عوام‘ اس کے خلاف کھل کر بغاوت کر رہے ہیں۔ سارے پاپڑ بیلنے کے باوجود امریکہ کو آج تک عراق پر فوجی اقدام کرنے کے لیے یو این او اور خود مغربی اقوام تک کی تائید حاصل نہیں ہوسکی ہے اور جارج بش یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ ’’یو این او تائید کرے یا نہ کرے امریکہ اپنی مرضی پوری کرے گا‘‘۔ یہ بش کا اعتراف شکست ہی نہیں‘ پوری دنیا کے خلاف اعلانِ جنگ بھی ہے۔ ۲۴ نومبر ۲۰۰۲ء کو صدربش کی موجودگی میں روسی صدر نے پاکستان اور سعودی عرب کے بارے میں کھلے الفاظ میں اضطراب کا  اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک کی ان رپورٹوں کے بعد جن میں پاکستان اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے ڈانڈے ملائے گئے ہیں خطرہ سر سے اونچا ہوتا نظر آتا ہے۔ اب بھی امریکی صدر کے ذاتی اعتماد کے ارشادات پر بھروسا قومی سلامتی اور اُمت کے مستقبل کے لیے خطرناک مضمرات کا حامل ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم‘ اُمت مسلمہ کے ایک اہم حصے کے طور پر‘اپنی آزادی اور حاکمیت کو بحال کرنے کی جدوجہد کرے اور تشدد کے خلاف جنگ کے نام پر جو تشدد دنیا کے مظلوم افراد اور اقوام پر کیا جا رہا ہے اس سے اپنی برأت کا اعلان کر دے۔ اس کے لیے سیاسی ہی نہیں معاشی پالیسیوں کے میدان میں بڑی بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور اب یہ نئی پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ اس چیلنج کے مقابلے میں پوری حکمت اور دانش مندی سے اور قومی مفادات کو پوری طرح محفوظ کر کے انجام دے۔ نیزہماری سرحدوں ہی کو نہیں ہماری جوہری صلاحیت کو جو خطرات درپیش ہیں ان کے تحفظ کا بھرپور اہتمام کرے اور پوری قوم کو اس جہاد آزادی اور تحفظ قومی سلامتی میں معاون و مددگار بنائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فوج سیاست سے مکمل طور پر دست بردار ہو جائے اور اسے دفاع کے تقاضوں کو مکمل یکسوئی کے ساتھ پورا کرنے کا موقع دیا جائے۔


اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا ۲۰ نومبر کا قوم سے خطاب بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت دوگونا ہے‘ یعنی وہ باتیں جن کا انھوں نے اظہار کیا ہے اور وہ باتیں جن کے اظہار سے وہ کنی کترا گئے ہیں۔ یہ دوسری چیز بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی وہ باتیںجو انھوں نے اپنے ۳ سالہ ریکارڈ اور اپنے زعم میں مستقبل کی پالیسی کے باب میں کہی ہیں۔

جن باتوں کا انھوں نے ذکر نہیں کیا‘ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ کسی سربراہ مملکت کی ایسے نازک موقع پر‘ پہلی تقریر ہے جس میں پاکستان کے تصور اور وژن کے بارے میں اور اس کے نظریاتی اور اسلامی کردار کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال (جن کا یہ سال ہے) اور قائداعظم تک کا کوئی ذکر اس میں نہ تھا۔ یہ محض علامتی (symbolic) شے نہیں۔ اس ارادی حذف (omission) کونظرانداز کرنا قومی مفاد سے متصادم ہوگا۔

پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد جن سیاسی تبدیلیوں کا تقاضا قوم کر رہی ہے اور جن کی بازگشت پارلیمنٹ کے پہلے ہی اجلاس میں سنی جا سکتی ہے ان سے بھی جنرل صاحب نے مکمل اغماض برتا۔ نہ  ایل ایف او کا ذکر تھا اور نہ چیف آف اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہونے کا۔ جن لوگوںکو یہ توقع تھی کہ اس تقریر میں وہ حقیقی انتقالِ اقتدار کی بات کریں گے‘ وہ سخت مایوس ہوئے ہوں گے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل صاحب بدلے ہوئے حالات کا صحیح ادراک نہیں رکھتے اور ابھی تک اپنی ہی دنیا میں گم ہیں جو مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں۔ ان کا یہ خطاب سیاسی اسٹرے ٹیجی سے عاری تھا جو پارلیمنٹ اور نئی قیادت کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔ لیکن اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ مکمل  انتقالِ اقتدار وقت کی ضرورت ہے اور وہ جتنے خوش اسلوبی سے واقع ہوجائے اتنا ہی ملک و ملت اور فوج اور قیادت سب کے لیے بہتر ہے۔

معاشی ترقی کے دعووں کی حقیقت

جنرل صاحب نے سارا زور اپنی معاشی کامیابیوں پر دیا ہے اور یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ وہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی مسلط کردہ معاشی حکمت عملی ہی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور غالباً اس کے لیے اپنے ان پسندیدہ افراد کو نئے نظام میں لانے اور اصل مردانِ کار کے مقام پر فائز رکھنے کی کوشش کریں گے۔ خدا کرے ہمارا خدشہ غلط ہو لیکن آثار ایسے ہی نظر آتے ہیں جو ملک و قوم کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں۔ جناب ظفراللہ جمالی صاحب نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی اعلان کر دیا ہے کہ ’’تسلسل ہی کاروبار زندگی ہے‘‘ (continuity is the name of the game) --- اللہ خیر کرے۔

ہماری نگاہ میں اس دور کی معاشی پالیسیوں اور ان کے نتائج کا بے لاگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جنرل صاحب نے معاشیات پر بھی ایک لیکچر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اصل چیز کلی معاشیات (macro economics) ہے اور اسی سے سرمایہ حاصل ہوتا ہے جو ترقی کا ذریعہ ہے۔ہمیں افسوس ہے کہ ان کے جن مشیروں نے ان کو یہ سبق پڑھایا انھوں نے جنرل صاحب کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ بلاشبہ کلی معاشیات کی ایک اہمیت ہے لیکن جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خرد معاشیات (micro-economics) اور micro-finance میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کلی معاشیات کی اصل بنیاد خرد معاشیات ہی ہے جو پیدا آوری عمل کا اصل محل (seat of economic activity) ہے۔ پیداوار ہی وہ بنیاد ہے جس پر پوری معیشت کا نظام استوار ہوتا ہے۔ فرد‘ فرم‘ مارکیٹ‘  عوامل پیداوار کی کارکردگی یہ خرد معاشیات کا دائرہ ہیں اور جب تک خرد معاشیات صحیح بنیادوں پر استوار نہ ہو کلی معاشیات کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ حالات کو درست کر دے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کلی معاشیات کا تو تصور ہی ۱۹۳۰ء کے عشرے میں رونما ہوا جب سرمایہ داری کی ان خرابیوں اور بے اعتدالیوں کو درست کرنے کے لیے جو آزاد معیشت نے پیدا کی تھیں ریاستی کردار کی نئی دریافت ہوئی اور جان مینارڈکینس کے زیراثر کلی معاشیات کو علمِ معیشت اور معاشی پالیسی کا ایک حصہ تسلیم کیا گیا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی حکمت عملی میں کلی استحکام (macro stability) کو دوسرے عوامل کی قیمت پر اہمیت دی گئی ہے جو ایک غیر متوازن پالیسی ہے اور ہماری معیشت آج اسی کا شکار ہے اور پاکستان ہی نہیں جہاں بھی ورلڈ بنک کی اسٹرے ٹیجی پر عمل ہوا ہے نتیجہ یہی رہا ہے جس کے خلاف خود ورلڈ بنک کے سابق چیف اکانومسٹ اور نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جیفرے ساکس (Jeffrey Sachs) نے اپنی تازہ ترین کتاب Globalization and its Dincontentments میں بھانڈا پھوڑا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جن دو چیزوں کو اس دور کا اصل حاصل کہا جا رہا ہے یعنی خارجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور افراطِ زر کی شرح میں کمی ان کو ملک کی معیشت کی اساس یعنی پیداوار ‘شرح پیداوار اور عوام کی قوتِ خرید سے الگ کر کے دیکھنا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہے۔

مبادلہ خارجہ کے ذخائر میں اضافہ ایک حقیقت ہے۔ یہ اضافہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد واقع ہواہے اس لیے کہ اس سے پہلے ذخائر۷.۱ بلین ڈالر تھے جو گذشتہ ۱۰ سال کے اوسط سے مختلف نہیں۔اصل اضافہ گذشتہ ۱۵ مہینے میں ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اضافہ کس طرح اور کن ذرائع سے ہوا ہے۔ اگر یہ اضافہ ملک میں پیداوار کے بڑھنے اور بیرونی تجارت خصوصیت سے برآمدات کے اضافے سے ہوتا تو بلاشبہ ایک بڑا کارنامہ ہوتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پیداواری عمل مندی کا شکار ہے‘ ترقی کی شرح ۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کے اوسط سے نصف سے بھی کم رہی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق (جو خود محل نظر ہیں) لیبر فورس کے ۵ فی صد سے بڑھ کر بے روزگاری اب ۸فی صد پر پہنچ گئی ہے۔ ہر سال تقریباً ۵ لاکھ افراد کا بے روزگاری کی صف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا اعتراف بھی عالمی مالیاتی ادارے بھی کر رہے ہیں جن کی پالیسیاں  جنرل صاحب کی ٹیم لے کر چل رہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی تازہ ترین رپورٹ (جولائی ۲۰۰۲ء) اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ:

مالی سال ۱۹۹۳ء میں غربت کی شرح ۶.۲۶ فی صد سے بڑھ کر مالی سال ۱۹۹۹ء میں ۳.۳۲ فی صد ہو گئی‘ اور اس دورانیے میں غریبوں کی تعدادمیں ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کا اضافہ ہو گیا۔مالی سائل ۱۹۹۹ء کے بعد معاشی نمو مزید سست ہوگئی ہے‘ ترقیاتی اخراجات میں کمی کا تسلسل برقرار رہا ہے‘ اور ملک کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے یہ بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح آج مالی سال ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے (Poverty in Pakistan‘ایشیا ترقیاتی بنک‘ جولائی ۲۰۰۲ء‘ ص ۱)۔

ایک اندازے کے مطابق گذشتہ ۳ سالوں میں مزید ۸۰ لاکھ افراد غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے والوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان تین برسوں میں روپے کی بیرونی منڈیوں میں قدر میں ۱۸ فی صد کی کمی ہوئی ہے اور بجٹ کے خسارے میں سارے دعووں کے باوجود کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔یہ گذشتہ سال بھی قومی پیداوار (GDP) کا ۱.۷ فی صد رہا گو شماریاتی دھوکے (statistical deception) کے شاہکار کے طور پر ایک نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے کہ یہ اضافہ  one term expenditureکی وجہ سے ہے ورنہ خسارہ تو ۵ فی صد ہے۔ حالانکہ خود ورلڈ بنک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس one term expenditure کا اعادہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے اگست ۲۰۰۲ء کے  پاکستان اکانومک اپ ڈیٹ (جنوری ۲۰۰۲ء-جولائی ۲۰۰۲ء) کے مطابق زراعت میں ۲۰۰۱ء میں پیداوار منفی رہی اور کمی کی شرح ۶.۲ فی صد تھی جب کہ ۲۰۰۲ء میں صرف ۴.۱ فی صد اضافہ ہوا۔ صنعت میں ۲۰۰۰ء میں اضافے کی شرح ۳.۱ فی صد‘ ۲۰۰۱ء میں ۱.۳ فی صد اور ۲۰۰۲ء میں ۸.۲فی صد رہی (صفحہ۴)۔ جب کہ ماضی میں یہ اضافہ اس سے دو‘ تین اور چار گنا زیادہ رہا ہے۔ بجلی اور گیس میں ان تین برسوں میں برابر (value added) میں کمی واقع ہوئی (صفحہ ۶)۔ اور ملکی بچت میں کمی ہوئی یعنی ۲۰۰۱ء میں ۶.۱۶ فی صد سے کم ہو کر ۲۰۰۲ء میں ۷.۱۴ فی صد رہ گئی جو ہماری تاریخ میں کم ترین شرح ہے اور جنوب ایشیا کے ممالک میں بھی سب سے کم شرح ہے۔ ان حالات میں اگر افراطِ زر کی شرح کم رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوئی جو افراطِ زر کو کم رکھنے کا بدترین طریقہ ہے۔ افراطِ زر کی شرح میں کمی میں شماریاتی کرشموں کا دخل بھی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے پاکستان اکنامک  اپ ڈیٹ (ص ۸) کے مطابق گذشتہ سال کی ۵.۳ فی صد کے اوسط کے مقابلے میں افراطِ زر کی شرح مالی سال ۲۰۰۲ء میں ۴.۴ فی صد رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کا سبسڈی کا نظام غربت دشمن (anti-poverty) رہا ہے۔ نیز بلاواسطہ ٹیکس  کے کم کیے جانے اور بالواسطہ ٹیکس خصوصیت سے سیلز ٹیکس کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید کم ہوئی ہے۔ غریب طبقوں پر ٹیکس کے بوجھ میں ۸.۳ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور امیروں پر ٹیکس کے بوجھ میں ۲۰ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ (ملاحظہ ہو ڈاکٹر اے آر کمال کا خطبہ صدارت۔ پاکستان سوسائٹی آف ڈویلپمنٹ اکانومکس کی ۱۷ویں سالانہ کانفرنس جنوری ۲۰۰۲ء۔ صفحہ ۹)

بجلی‘ گیس‘ تیل کی قیمتوں میں اس پورے دور میں بحیثیت مجبوعی ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے جس نے عام آدمی کی زندگی ہی کو اجیرن نہیں کیا خود پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث ملکی مصنوعات کی مسابقت کی پوزیشن بھی متاثر کی ہے۔ اسی معاشی ریکارڈ پر فخر کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔

مبادلہ خارجہ میں اضافہ ایک اچھی چیز ہے لیکن اس کی وجہ معیشت کی کارکردگی نہیں بلکہ بیرون ملک سے رقوم کی ترسیل میں تین گنا اضافہ‘ قرضوں کی ادایگی میں سہولت اور اسٹیٹ بنک کی یہ پالیسی ہے کہ اس نے کھلی منڈی سے ہر سال ۲ بلین ڈالر تک خرید کر ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر قائم رکھا ہے۔ اگر اس کا نام macro-management ہے جس پر جنرل صاحب فخر کر رہے ہیں‘ تو اس پر ورلڈ بنک کے ان داتا تو شاید داد دے دیں مگر غربت کے مارے اور بے روزگاری کے ستائے عوام کیسے چین کا سانس لے سکتے ہیں۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

جنرل صاحب نے کرپشن کے خاتمے کی بھی بات کی ہے اور اپنی پاک دامنی کا بھی بڑا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ ہم ان کی ذات کے بارے میں کوئی بات نہیں کہنا چاہتے لیکن اتنا کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ کرپشن صرف مالی فائدے اٹھانے کا نام نہیں بلکہ اختیارات کا غلط استعمال بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ جہاں تک ملک میں کرپشن کا تعلق ہے عام تاثر یہی ہے کہ بالکل اُوپر کی سطح پر کھلے انداز میں کرپشن ماقبل کے ادوار سے کم ہوئی ہے اور اس کا جتنا کریڈٹ جنرل صاحب لینا چاہیں لے لیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی دور کی اصل حقیقت اس دور کے بعد ہی سامنے آتی ہے۔ اس وقت بھی ۲۰۰۱ء-۲۰۰۰ء کے بارے میں جو آڈیٹر جنرل کے دفتر کی رپورٹیں سامنے آرہی ہیںوہ کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کر رہی ہیں۔ صرف ریلوے کے محکمے بارے میں ‘۲۰۰۲ء کی رپورٹ میں ‘جو ۲۰۰۱ء کے بارے میں ہے‘ ۴۱.۳۳ کروڑ کی مالی بے ضابطگیوں اور ۱۱ارب ۹۰ کروڑ روپے کا خسارہ کی خبر دی گئی ہے۔ جب موجودہ دور کا کچا چٹھا سامنے آئے گا تو اصل تصویر نظرآئے گی۔ ایچ یو بیگ صاحب کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے جب ۱۹۹۹ء کے بعد کے ادوار کا جائزہ لینا شروع کیا تو اسے جس طرح برطرف کر دیا گیا وہ بڑے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح اوپر کی سطح کے بارے میں کچھ بہتر تاثر ہے اسی طرح درمیانے اور نیچے کے حالات کے بارے میں بڑے پیمانے پر یہ شکایت ہے کہ کرپشن نہ صرف حسب سابق ہے بلکہ بڑھ گئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ اس میں فوجی افسروں کے حصے کی بات بھی زبان زد خاص و عام ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے بہت زیادہ سہارا نہیں لیا جاسکتا اس لیے کہ ان کی رپورٹ صرف بیرونی تاجروں کے تاثر پر مبنی ہے اور اس میں بھی جو بہتری ہے وہ صرف برائے نام ہے یعنی پہلے ۱۰ میں سے ہمارے نمبر ۲.۲ تھے جو اب ۶.۲ ہوگئے ہیں۔

نیب نے کام کا آغاز کیا تھا لیکن پھر جس طرح اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور مخصوص افراد کے احتساب کے اسی طریقہ کو رائج کر دیا گیا جو ماضی کے نظاموں کا وطیرہ تھا‘ وہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ حالیہ انتخابات کے موقع پر بادشاہ کی پارٹی کے نمایندوں کو احتساب کی زد سے نکالا گیا‘ مقدمات کو اِدھر اُدھر کیا گیا‘ زیرسماعت مقدمات کو دفن کیا گیا‘ سزا یافتہ لوگوں کو معاف کیا گیا‘ لوگوں کی پارٹیوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۳۶ ارکان اسمبلی صرف اس عمل کے نتیجے میں وفاداروں کی صف میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ اگر کرپشن نہیں تو اسے کس نام سے پکاریں؟ نیز ایک اطلاع کے مطابق جو نئی ’’پاک دامن‘‘ کابینہ بنائی گئی ہے اس میں ماشاء اللہ تین افراد نیب کو مطلوب ہیں اور چھ وفاداریاں تبدیل کر کے خلعتِ وزارت سے شادکام ہوئے ہیں! (نوائے وقت‘ ۲۵ نومبر ۲۰۰۲ء)

وعدے پورے کر دیے ؟

جنرل صاحب نے قرآن کی آیات کا سہارا لے کر بڑی دیدہ دلیری سے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ لیکن انھی آیات کے حوالے سے ان سے پوچھا جائے گا کہ ’’اور پورا کرو اپنے وعدوں کو‘ بے شک ان وعدوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا‘‘۔

آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں تین سال میں اقتدار منتقل کروں گا لیکن گذشتہ پورا ایک سال آپ نے صرف اس عمل کے لیے صرف کیا کہ کسی طرح اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں مرکوزکرلیں‘ اپنے کو بھی قوم پر مسلط رکھا‘ اور کلیدی اختیارات بھی اپنے ہی ہاتھ میں رکھے۔ کیا اسی کا نام انتقالِ اقتدار ہے؟

آپ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا آپ نے پاس کیا لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء تک انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل ہونا چاہیے اور اس سے ۹۰ دن پہلے عمل شروع ہوجائے۔ آپ نے اس عمل میں اتنی تاخیر کی کہ ان سطور کے لکھتے وقت ۲۵ نومبر تک یہ عمل مکمل نہیں ہوا ہے اور ابھی صوبائی اسمبلیوں کے آغاز اور سینیٹ کا انتخاب باقی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ دستوری ترمیم صرف اسی وقت ممکن ہے جب کسی مسئلے کا حل دستور کے اندر موجود نہ ہو اور رفع حرج کے لیے یہ ناگزیر ہو اور پھر بھی دستوری ڈھانچے میں تبدیلی نہیں ہو سکتی لیکن آپ نے انتقالِ اقتدار سے صرف دو ماہ قبل اگست ۲۰۰۲ء میں مستقبل میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے دستور میں ۳۶ ترامیم کیں جس سے اس کا ڈھانچہ درہم برہم ہو گیا اور اب ان ترامیم کو پارلیمنٹ کے اختیار سے بھی باہر رکھنے پر مصر ہیں۔ کیا یہی عہد پورا کرنا ہے؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے آپ کی صلاحیت کار ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ختم ہو جاتی ہے لیکن آپ نے اس کے بعد چار ہفتوں میں ۳۰ سے زیادہ قوانین بذریعہ آرڈی ننس جاری کیے جو ملکی زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں ہیں اور اس کا کوئی لحاظ نہیں کیا کہ یہ نئی پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ قانون سازی کرے۔ کیا وعدے اسی طرح پورے ہوتے ہیں؟

آپ نے اس زمانے میں الیکشن کے عمل میں بالواسطہ ہی نہیں بلاواسطہ مداخلت کی اور ایسے ایسے آرڈی ننس جاری کیے جن کا ہدف متعین افراد تھے ___ کون آسکتا ہے اور کون نہیں آسکتا۔ منتخب ہونے کے بعد آزاد ارکان کو پارٹیوں میں شامل کرنے کے لیے تین دن اور فاٹا کے ارکان پر پابندی کہ وہ شامل نہیں ہو سکتے‘ فارورڈ بلاکوں کی سیاست‘ الیکشن فارم داخل کرنے کے لیے متعلقہ شخص کی بذات خود موجودگی‘دو مرتبہ وزیراعلیٰ بننے والے کے لیے وزارت عظمیٰ کا دروازہ کھولنا‘ تین سال تک نوگو ایریا آپ کو اور آپ کے وزیرداخلہ کو نظر نہ آئے‘ چند ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کو نہ صرف ختم کرنا بلکہ رینجرز کی سرپرستی میں ان علاقوں کو ایک خاص گروہ کے قبضے میں دینا --- کیا یہ سب ’’امانتیں اہل امانت کو سونپنے‘‘ اور ’’وعدہ پورا کرنے‘‘ کے ذیل میں آتا ہے؟

اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ

نقشہ کار

حالات کا یہ بے لاگ تجزیہ اس لیے ضروری ہے کہ حقائق سامنے رہیں اور جو چیلنج درپیش ہے‘ اس کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو جہاں اپنی ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنا چاہیے وہاں انھیں یہ کام حکمت اور تدبر سے انجام دینا چاہیے۔ سرکاری پارٹی نے جس طرح اپنی اکثریت بنائی ہے وہ ایک معلوم حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود اس کا اتحاد کانچ کا گھر ہے جو بڑا ہی کمزور اور بودا ہے۔ حزب اختلاف دو بڑے گروپوں میں منقسم ہے جن کے درمیان نظریاتی اختلاف ہی نہیں ہے سیاسی مصالح کے ادراک میں بھی بڑا فرق ہے۔ جوڑ توڑ کی جس سیاست کا اسپیکر‘ڈپٹی اسپیکر اور قائد ایوان کے انتخاب سے قبل دور دورہ تھا وہ کوئی نیک شگون نہیں۔ ان حالات میں متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو بہت بالغ نظری کا ثبوت دینا ہوگا اور ہر نفع عاجلہ سے دامن بچاتے ہوئے اس ملک کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کرنا ہوں گی اور اس جدوجہد میں حکمت اور قربانی کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا ہوگا۔

قوم نے ایم ایم اے پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ جہاں ہمیں اکثریت حاصل ہے وہاں اچھی حکومت بنائیں اور حکمرانی کا ایک نیا نمونہ پیش کریں جو اصول پرستی‘ عوام کی خدمت اور قانون کی حکمرانی سے عبارت ہو۔ اور مرکزی سطح پر ہماری ساری کوشش یہ ہو کہ: دستور اپنی اصل شکل میں بحال ہو اور افہام و تفہیم کے ذریعے قابلِ قبول ترامیم کو دستوری طریقہ سے حصہ دستور بنایا جائے اور کتاب قانون کو باقی حشوو زواید سے پاک کیا جائے۔ نیز یہ کہ حقیقی انتقالِ اقتدار کو ممکن بنایا جائے ۔ جنرل صاحب کو بھی جو جائز رعایات دی جا سکتی ہیں دے دی جائیں تاکہ وہ ایک حقیقی سول صدر مملکت‘ دستور کے مطابق بن کر‘ دستور کے فریم ورک میں اپنا کردار ادا کریں اور اس سے باہر کسی کردار کا تصور ذہن سے نکال دیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی ضروری ہے اور اس کے ساتھ دستور میں ایسی ترامیم بھی کی جائیں جن سے آگے کے لیے بگاڑ کے دروازے بند ہو سکیں۔ نیز ملک میں ایسی قانون سازی اور پالیسی سازی ہو جو عوام کی مشکلات کو دور کرنے‘ ان کے مسائل حل کرنے‘ ملک کی آزادی اور سالمیت کی حفاظت اور بیرونی عناصر کی دراندازیوں سے محفوظ رکھ سکے اور یہاں اسلام کا جمہوری عادلانہ نظام قائم ہو سکے۔ اس حوالے سے یہ امور اہمیت رکھتے ہیں:

۱-  عدلیہ کی حقیقی آزادی کا اہتمام کیا جائے اور ججوں کی تقرری کا وہ نظام رائج کیا جائے جس سے عدالت کو سیاست کے تابع کرنے کاکھیل ختم ہو سکے۔ عدالت میں تقرریوں کے سلسلے میں مشہور زمانہ ججوں کے فیصلے میں جو اصول طے کیے گئے تھے انھیں دستوری تحفظ دیا جائے اور ان پر عمل درآمد ہو۔

۲- دفعہ ۸۹ میں ترمیم کر کے انتظامیہ کے آرڈی ننس جاری کرنے کے اختیارات کو ختم کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی حاکمیت پر یہ سب سے بڑی تلوار ہے جسے ختم ہونا چاہیے تاکہ قانون سازی پارلیمنٹ کرے۔

۳- (SRO) Statutory Regulatory Orders کے نظام کو ختم کیا جائے تاکہ اس طرح delegated legislation کے نام پر جو شب خون مسلسل پارلیمنٹ پر مارا جاتا رہا ہے اسے ختم کیا جاسکے۔

۴- کمیٹی سسٹم کو متحرک اور مستحکم کیا جائے اور ارکان پارلیمنٹ نظام حکمرانی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے آپ کو ہمہ وقت مصروف کریں اور محض مراعات کے چکر میں نہ پڑیں۔

۵- اہم بین الاقوامی معاہدات کو سینیٹ میں توثیق کے لیے لایا جائے۔ محض کابینہ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ جو معاہدات چاہے کرے اور جس طرح چاہے قوم کو باندھ دے۔

۶- اہم تقرریوں کے لیے دستور کے مطابق مناسب قانون سازی کی جائے تاکہ کسی کو بھی صوابدیدی اختیار حاصل نہ ہو۔ ہر کام میرٹ پر اور ضابطوں کے مطابق ہو اور public scrutiny کا دروازہ کھولا جائے تاکہ معاملات میں شفافیت آسکے۔

۷- احتساب کا ایک آزاد‘ بالاتر نظام قائم ہو جو بالکل کھلے انداز میں تمام ارباب اختیار کا احتساب کر سکے خواہ ان کا تعلق پارلیمنٹ اور حکومت سے ہو‘ تجارت سے ہو‘ یا عدالت اور فوج سے ہو۔ یہ کام مکمل طور پر آزاد اور غیر جانب دارانہ اور بالکل شفاف ہو تاکہ قوم کے تمام مجرم کیفرکردار کو پہنچ سکیں اور محض سیاسی مقاصد کے لیے مخصوص لوگوں کے احتساب(selective accountability) کا نظام ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

۸- پریس اور الیکٹرانک میڈیا کو آزادی دی جائے اور قومی ضابطہ اخلاق باہم مشورے سے بنایا جائے جس کا سب احترام کریں۔

۹-  وزارت اطلاعات کا خاتمہ کیا جائے جو تاریخی اعتبار سے جنگی دور میں حکومت کی ضرورتوںکی پیداوار ہے اور جسے سیاست کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے کلچر کے فروغ اور قومی رہنمائی کے لیے مناسب انتظام کیا جائے۔

۱۰- آزادی اطلاعات (Freedom of Information) کا قانون جلد از جلد نافذ کیا جائے تاکہ کھلی حکومت کی روایت قائم ہو سکے۔

۱۱- صوبائی خود اختیاری کا جو نقشہ دستور میں طے کر دیا گیا ہے اسے ایک متعین مدت کے اندر (جو چند ماہ سے زیادہ نہ ہو) عملاً نافذ کیا جائے۔ یہ انتقال اختیار صرف وزارتوں اور قانون سازی ہی کے باب میں نہ ہو بلکہ مالی معاملات میں بھی ہو تاکہ اختیار حقیقی ہو اور اس میں جواب دہی کا نظام بھی موثر ہو سکے۔

۱۲- اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں پر پارلیمنٹ فی الفور غور شروع کرے اور ان کی روشنی میں قانون سازی اور پالیسی سازی کا کام کیا جائے۔

۱۳- دستور میں مرقوم حکمت عملی کے اصولوں (دفعہ ۲۹ تا ۴۰) کو قانون سازی کے لیے بنیاد بنایا جائے اور ایک مرحلہ وار انداز میں ان کو عدالتی دائرے میں لایا جائے۔

۱۴- دستور کی دفعہ ۲۲۷ تا ۲۳۰ کے مطابق سات سال کے اندر اسلامی قوانین کی ترتیب و تدوین اور تمام قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق ڈھالنے کا کام مکمل کرنے کا جو دستوری ہدف تھا اور جو آج تک پیدا نہیں ہو سکا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے فوری اقدام کیے جائیں۔

۱۵- معاشی پالیسی کی تشکیل نو ہو اور سود سے معیشت کو پاک کرنے کے لیے جو حکمت عملی اسلامی نظریاتی کونسل اور سپریم کورٹ نے اپنے ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں دی ہے اس کے مطابق عمل کا نقشہ بنایا جائے  اور تمام تاخیری حربوں سے نجات پائی جائے۔ پارلیمنٹ اس کام کی نگرانی کرے یا پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی مستقل طور پر اس کام کی نگرانی کے لیے قائم کی جائے۔ نیز ملک ایک   ترقی پذیر اور عادلانہ معاشی نظام کی طرف پیش قدمی کر سکے۔

۱۶- ریاست جموں و کشمیر کی آزادی‘ کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل اور اس کے لیے عالمی راے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے اور خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی کے ذمہ داروں سے اسے مربوط کیا جائے۔

۱۷-   ملک کی معیشت کو خود انحصاری کی بنیاد پر منظم کیا جائے اور اس کے لیے ایک اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی تشکیل دی جائے جو نئی معاشی حکمت عملی بنانے اور اس کے نفاذ کی نگرانی کا کام انجام دے۔ منصوبہ بندی کمیشن کو اس کمیٹی کی رہنمائی میں کام کرنے کی ہدایت دی جائے۔ نیز معاشی ترقی کو ناپنے کے لیے نئے معیارات (norms) متعین کیے جائیں جن میں پیداوار میں اضافہ‘ شرح پیداوار میں اضافہ کے ساتھ عام آدمی کے معیارِ زندگی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی کیفیت کو شامل کیا جائے۔ نیز دوسروں پر انحصار میں کمی اور خودانحصاری میں اضافے کو بھی اس میں شامل کیا جائے تاکہ معاشی ترقی عوام کی خوش حالی اور قوم کی معاشی آزادی کا ذریعہ بن سکے۔

۱۸-  وفاقی شرعی عدالت کے دائرے سے جن چیزوں کو باہر رکھا گیا ہے وہ ختم کیا جائے ‘ عدالت کے ججوں کو عدالت عالیہ کے نظام کے مطابق تحفظ دیا جائے اور ان کی مستقل مدت اسی طرح ہو جس طرح باقی عدالت عالیہ کی ہے۔ تمام امتیازی دفعات کو ختم کیا جائے۔

۱۹- ان تمام دستوری اداروں کو قائم کیا جائے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک کیا جائے جو دستور نے وفاق اور صوبوں کے درمیان معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے تجویز کیے ہیں یعنی مشترکہ مفادات کی کونسل‘ قومی اقتصادی کونسل‘ مالیاتی کمیشن اور بجلی اور گیس کے نظام کی منصفانہ کارکردگی کے لیے مناسب اختیارات۔

۲۰- اُردو کو قومی زبان کی حیثیت سے ملک کے تمام کاموں کو انجام دینے کے لیے نافذ کیا جائے‘ دفتری زبان اُردو ہو اور ذریعہ تعلیم کے طور پر بھی اسے رائج کیا جائے۔

آج تک پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ حقیقی معنی میں پارلیمنٹ بنے‘ ایک ہمہ وقتی ادارے کے طور پر کام کرے‘ عوام کے حقوق کی محافظ ہو‘ حکومت پر نگرانی کا کام انجام دے تاکہ حاکمیت کے عوام تک منتقل ہونے کا دروازہ کھلے اور عوام اپنے معاملات کے کرتا دھرتا بن سکیں۔

متحدہ مجلس عمل کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ اور حکمرانی کے اس تصور کو حقیقت بنانے کے لیے   تن من دھن کی بازی لگا دے۔

 

موت سے کس کو مفر ہے اور اللہ کا فیصلہ ہر ذی روح کے لیے محکم ہے--- لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے لیے دل یہی کہتا ہے کہ اے کاش! انھیں اور مہلت مل جاتی‘ اور اے کاش! ہماری زندگی بھی ان کو مل جاتی۔ الاستاذ مصطفی مشہورؒ ان ہی چند نفوسِ قدسیہ میں سے تھے لیکن بالآخر وہ بھی ہمیں ہی نہیں ایک دنیا کو سوگوار چھوڑ کر ۸ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ مطابق ۱۴ نومبر ۲۰۰۲ء کو اپنے رب حقیقی سے جاملے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

الاخوان المسلمون کا مرشدعام اور لاکھوں انسانوںکے دلوں پر حکومت کرنے والا ۸۳ سالہ نوجوان تقریباً ۷۰ سال کی پُرآشوب تحریکی زندگی میں طوفانوں سے کھیلنے اور ظلم کے ستم زدہ انسانوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرنے کے بعد ابدی نیند سو گیا لیکن اس طرح کہ ۱۴ سال کی عمر میں جس تحریک سے روشناس ہوا تھا اور جس عظیم مجاہد امام حسن البنا شہیدؒ سے قرب حاصل کیا تھا‘ اور پھر ۱۹ سال کی عمر میں جو عہد امام شہیدؒ سے کیا تھا اس پر زندگی بھر سختی سے قائم رہا‘ قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ تشدد اور تعذیب کے زیورات سے بھی آراستہ ہوا‘ دعوت و تبلیغ کی مہمیں بھی سر کی‘ تحریر و تقریر کے معرکوںمیں بھی شادکام ہوا اور تنظیم و تربیت کے تمام ہی مراحل سے گزرا اور ہزاروں انسانوں کو گزارا اور بالآخر اپنا وہ عہد سچ کر ڈالا جو اپنے پیدا کرنے والے سے اپنے ایک چاہنے والے کے ہاتھ پر بیعت کر کے کیا تھا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً o لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ--- (الاحزاب ۳۳:۲۳-۲۴) ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے‘‘۔

اکتوبر کے آخری دنوں میں ‘ میں نے اپنے عزیز بھائی اور ساتھی ڈاکٹر احمد العسال کے اعزاز میں اسلام آباد میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر احمدالعسال نے اطلاع دی کہ ۲۹ اکتوبر کو مرشدعام الاستاذ مصطفی مشہور پر دل کا حملہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں بے ہوشی کے عالم میں ہیں۔ اسی لمحے ان کے لیے خصوصی دعائوں کا اہتمام کیا۔ پھر عمرہ کے موقع پر مکہ اور مدینہ میں اللہ کے حضور ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کیں‘ میں نے ہی نہیں ان کے ہزاروں مداحوں نے--- لیکن امر ربی ہر چیز پر غالب ہے۔ مدینہ ہی میں اطلاع ملی کہ ۸ رمضان المبارک کو ہمارے محبوب بھائی اور اُمت کے کاروان کے قائد اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے--- اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت و رحمت کی آغوش میں لے لے‘ ان کی خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے--- آمین!

الاستاذ مصطفی مشہورؒ ۱۹۱۹ء میں منہیا القمح السعدین (مشرقی مصر) میں پیدا ہوئے۔ آرٹس کالج قاہرہ سے فلکیات‘ رصدکاری میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ حکومت مصر کے شعبہ فلکیات میں ملازمت اختیار کی اور پھر جوانی ہی میں شب و روز تحریک اخوان المسلمون کی خدمت میں وقف کر دیے۔ تحریک سے ابتدائی تعارف ۱۹۳۳ء میں ہوا۔ پانچ سال تحریک کو سمجھنے اور اپنے کو اس کے لیے تیار کرنے میں لیے اور ۱۹۳۸ء میں امام حسن البنا شہیدؒ سے عہدِوفا باندھا۔ کچھ عرصہ تحریک کے نظام خاص سے وابستہ رہے۔ پہلی گرفتاری ۱۹۴۸ء میں شاہ فاروق کے دور میں ہوئی جو ۱۹۵۱ء تک جاری رہی۔ پھر ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے دور میں گرفتار ہوئے اور بدترین انسانی تعذیب کا نشانہ بنے مگر صبروثبات کا مجسمہ رہے۔ یہ دور ۱۹۶۴ء میں ختم ہوا لیکن پھر ۱۹۶۵ء میں انورالسادات کے دور میں تیسرا دور ابتلا شروع ہوا جو ۱۹۷۱ء تک جاری رہا۔ جوانی کے ۲۰ سال قیدوبند کی نذر ہوئے لیکن یہی دور اُن کی روحانی ترقی‘ قرآن سے شغف‘ اور مقصدِحیات پر محکمی سے قائم رہنے کا دور ثابت ہوا اور وہ اس طوفان سے نایاب گوہر بن کر نکلے۔

مجھے الاستاذ مصطفی مشہورؒ سے ملنے کی سعادت ۸۱-۱۹۸۰ء میں حاصل ہوئی جب وہ تحریک کے بیرونی کام کے انچارج اور عالم اسلام کی اسلامی تحریکات سے ربط کے ذمہ دار تھے۔ کویت‘ پیرس‘ استنبول‘ لندن‘ میونخ‘ قاہرہ‘ پاکستان‘ نہ معلوم کتنی جگہ اور کتنی مرتبہ ملنے کا موقع ملا۔ لیکن اس طرح کہ ’’وہ جب ملے ہیں تو ان سے ہر بار کی ہے الفت نئے سرے سے!‘‘

مصطفی مشہورؒ کی شخصیت میں بلا کی کشش بلکہ مقناطیست تھی۔ میانہ قد‘ گٹھا ہوا بدن‘ واضح نقوش‘ آنکھوں میں ذہانت اور محبت کی چمک اور ہاتھوں میں فولاد کی سی مضبوطی مگر ریشم کی سی نرمی --- ان کی پوری شخصیت اخوت اور محبت کی گرمی اور لطافت کا مرقع تھی! گفتگو آہستہ آہستہ ٹھنڈے انداز میں کرنے کے عادی مگر جب تقریر کرتے تو عربوں کی خطابت کا جادو جگاتے۔ تحریر اور تقریر دونوں میں ادبی نفاست کے حامل صاحب ِطرز ادیب‘ ۱۷ کتابوں کے مصنف‘ سیکڑوں مقالات ان کے قلم سے نکلے جو عالم اسلام کے عربی رسائل خصوصیت سے الدعوۃ اور الاخوان المسلمون میں شائع ہوئے اور نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہے۔ مصطفی مشہورؒ سب ہی حلقوں میں مقبول تھے مگر سب سے زیادہ نوجوانوں میں مقبول تھے جو ان کے گرویدہ رہتے ۔اور کیوں نہ رہتے کہ ان کی باتوں میں ایمان کا نور ہی نہیں جوانوں کا سا عزم اور جہاد اور غلبۂ دین کی خوشخبری ہوتی تھی۔

مجھے ان کے ساتھ تربیتی پروگراموں میں بھی شرکت کا موقع ملا اور تنظیمی اجتماعات میں بھی‘ عوامی ریلیز میں بھی اور بین الاقوامی علمی کانفرنسوں میں بھی۔ میں نے مصر میں ان کے ساتھ نوجوانوں کے ان اجتماعات میں بھی شرکت کی جہاں وہ نوجوانوں کے ساتھ نشید اسی شوق سے گاتے تھے جس سے نوجوان گاتے تھے۔ دریاے نیل میں ان کے ساتھ کشتی میں بھی سفر کیا اور اسکندریہ میں انجینروں کے حلقے کے کیمپ میں بھی قیام کیا۔ یورپ میں بھی ان کے ساتھ رہنے اور سفرکرنے کا موقع ملا اور پاکستان میں پشاور‘ اسلام آباد اور لاہور میں ساتھ وقت گزارا۔ ان کی شفقت اور محبت کے نقش دل پر مرتسم ہیں۔ اس ۲۰ سالہ تعلق میں ہر ملاقات کے بعد ان کی عظمت کا نقش اور بھی گہرا ہوا۔ ان کے خلوص اور محبت نے ان کا گرویدہ بنا لیا‘ ان کے جذبۂ جہاد اور شوق دعوت نے اسلاف کی یاد تازہ کی اور جس پیار اور گرمی اخوت سے انھوں نے ہمارے ساتھ ہمیشہ معاملہ کیا اس کا بیان مشکل ہے:

ساز دل چھیڑ کے بھی‘ توڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا

الاستاذ مصطفی مشہورؒ اخوان کے تیسرے مرشدعام شیخ عمرتلمسانی  ؒ کے دور میں بیرونی کام کے   ذمہ دار ہوئے اور اخوان کی عالمی تنظیم قائم کرنے اور چلانے پر مامور ہوئے۔ اسی حیثیت سے وہ ہمارے ساتھ بھی مربوط ہوئے اور ہم نے اسلامی تحریکات کے درمیان تعاون و تنسیق کی جو کوششیں بھی کیں وہ ان کی رہنمائی اور معیت میں کیں۔ اس زمانے میں ‘ میں جماعت کے بیرونی شعبے کا انچارج تھا۔ اس لیے ان سے بہت ہی قریبی ربط و تعلق رہا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں الاستاذ مصطفی مشہورؒ اخوان کے چوتھے مرشدعام استاد ابوحامد ابونصرؒ کے نائب مرشدعام اول بنے۔ یہ ذمہ داری انھوں نے ۱۰ سال نبھائی۔ ۱۹۹۶ء میں استاذ ابونصرؒ کے انتقال پر انھوں نے مرشدعام کی ذمہ داری سنبھالی جسے وہ آخری لمحے تک نبھاتے رہے اور اس طرح انجام دیتے رہے کہ پچھلے چند سال سے نقل و حرکت پر پابندی تھی‘ تقریر پر قدغن تھی لیکن وہ ایک لمحہ چین سے نہ بیٹھے۔ ہر ہفتے مضمون لکھتے رہے‘ ہر روز بلاناغہ دفتر جاکر بیٹھتے رہے تاکہ ایک دن کے لیے بھی نظم سے رشتہ کمزور نہ ہونے پائے۔ مجھ سے دوستوں کے ذریعے ربط آخری دنوں تک رہا۔

اخوان المسلمون کا ایک عظیم کارنامہ اُمت کو اور خصوصیت سے اس کے نوجوانوں کو قرآن سے جوڑنا ہے۔ جو تعلق ایک عام اخ کا قرآن سے ہے وہ قابل رشک ہے اور مصطفی مشہورؒ تو فنا فی القرآن تھے۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے اور قرآن سننے میں وہ لطف آتا تھا کہ کبھی کبھی تو یہ گمان ہوتا تھا کہ قرآن نازل ہو رہا ہے۔ سبحان اللہ!

مصطفی مشہورؒ کی شخصیت میں بلا کی دل آویزی تھی۔ تحمل اور بردباری‘ معاملہ فہمی اور اصابت رائے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ بارہا تجربہ ہوا کہ دو تحریکوں کے کارکنوں کے درمیان اگر کہیں کوئی مسئلہ پیش آیا ہے تو مصطفی مشہورؒ نے ہمیشہ انصاف کے ساتھ اور ہر حزبی جذبے سے بالا ہو کر اسے طے کیا۔ میں خود اس معاملے میں کئی بار پڑا اور خوش گوار تجربہ ہوا۔ جزاھم اللّٰہ جزا الخیر۔

مصطفی مشہورؒ کی خدمات کا احاطہ کرنا مشکل ہے مگر میری رائے میں ان کے تین کارنامے ایسے ہیں جو اس صدی میں تحریک اسلامی کی‘ خصوصیت سے عرب دنیا میں تحریک کی‘ تاریخ میں نمایاں رہیں گے۔

سب سے پہلے یہ کہ انھوں نے بڑے پُرآشوب دور میں تحریک کے پیغام ہی نہیں اس کے نظام کو عالمی بنیادوں پر استوار کیا اور وہ ہزاروں اخوان جو ہجرت کر کے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ گئے تھے ان کو پھر تحریک کے شیرازے میں منسلک کیا۔ یورپ‘ امریکہ‘ افریقہ‘ جنوب مشرقی ایشیا غرض ہر جگہ وہ گئے‘ لوگوں کو منظم و مجتمع کیا اور عالمی تحریک سے وابستہ کیا۔  ربط و اتصال کا مستقل نظام بنایا اور اس طرح عالمی اسلامی احیا کے موجودہ دور کی شیرازہ بندی کی۔ انھوں نے دعوت اور تنظیم دونوں میدانوں میں اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور بڑے خاموش اور منکسرانہ انداز میں۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو اور شہد کی مٹھاس تھی اور انھی ہتھیاروں سے انھوں نے تمام ہی انسانوں مگر خصوصیت سے تحریکی نوجوانوں کو نظم سے جوڑا اور نیا ولولہ دیا۔

ان کی دوسری عظیم خدمت وہ حکمت عملی اور طریق کار کی تبدیلی ہے جو ان کی قیادت میں مصر میں تحریک اخوان المسلمون میں آخری ۳۰ سال میں واقع ہوئی۔ بلاشبہہ اس میں وہ اکیلے نہیں تھے لیکن اس زمانے میں انھوں نے تحریک کو دعوت و تربیت کے ساتھ اجتماعی نظام میں جمہوری ذرائع سے تبدیلی اور دوسری سیاسی اور اجتماعی قوتوں کے ساتھ تعاون اور الحاق کے ذریعے تحریک کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کی۔ اخوان پرآج بھی مصر میں پابندی ہے مگر یہ ان کی حکمت عملی تھی کہ پیشہ وارانہ تنظیموں ہی کے ذریعے نہیں بلکہ مقامی کونسلوں اورپارلیمانی سیاست میں بھی اخوان کا ایک کردار نمایاں کر دیا۔ آج بھی ساری دھاندلیوں کے باوجود مصری پارلیمنٹ میں اخوان کے ۱۷ ارکان ہیں جو سب سے بڑی حزب اختلاف ہے۔ انھوں نے تشدد کے راستے سے کلی اجتناب کیا اور خصوصیت سے مصر میں برپا تحریکوں جن میں حزب التحریر اور جماعت تکفیر وہجرہ اہم ہیں سے ہٹ کر تحریک اسلامی کے مخصوص طریق کار کو نمایاں اور مستحکم کیا۔ اس باب میں     وہ فکری اعتبار سے بالکل یکسو تھے اور حالات کی صورت گری میں ان کا بڑا نمایاں کردار رہا ہے۔

تیسری چیز نوجوانوں سے ان کی محبت اور نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے اور تحریک میں سمو دینے کی ان کی صلاحیت تھی۔ میں نے ان کو ۸۳ سالہ نوجوان ان کے اسی خاص وصف کی بنیاد پر کہا۔ آج اخوان کی قیادت ۶۰ اور ۷۰ سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے مگر اخوان کی اصل قوت وہ ہزاروں لاکھوں نوجوان ہیں جو تحریک کے دست و بازو ہیں۔مصر کے اسکولوں‘ کالجوں اور یونی ورسٹیوں ہی میں نہیں ہر جگہ‘ قاہرہ کے ہوٹلوں کے ویٹرز میں بھی اخوان ہی کے نوجوانوں سے بات چیت کا موقع ملا اور مجھے یقین ہو گیا کہ جس ملک اور قوم کے نوجوانوں میں یہ دعوت رچ بس گئی ہے وہ ایک دن ضرور اسلامی انقلاب کی آماجگاہ بنے گی--- ان شاء اللہ!

مغربی میڈیا کو اس پر حیرت ہے کہ الاستاذ مصطفی مشہورؒ کے جنازے میں جن لاکھوں انسانوں نے شرکت کی ان کی اکثریت ۱۵ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ مجھے اس پر ذرا بھی حیرت نہیں بلکہ  یہ عین اس مشاہدے کے مطابق ہے جو میں نے خود قاہرہ اور اسکندریہ کے گلی کوچوں میں کیا۔

الاستاذ مصطفی مشہورؒ کی شخصیت ایک عہدساز شخصیت تھی۔ انھوں نے ۶۰ سال سے زیادہ تحریک اسلامی کی خدمت کی۔ جہاد افغانستان میں روحانی ہی نہیں جسمانی شرکت کی۔ اُمت کے ہر مسئلے پر انھوں نے مضبوط موقف اختیار کیا اور اپنے نقطۂ نظر کا برملا اظہار کیا۔ اُمت مسلمہ کا ہر مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا۔ فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ بوسنیا‘ فلپائن‘ اریٹریا‘ غرض ہر مسئلہ انھوں نے اس طرح اٹھایا جس طرح اس کے اٹھائے جانے کا حق ہے۔ وہ ایک ملک کے نہیں‘ پوری دنیا کے شہری تھے۔ وہ ایک تحریک کے نہیں تمام اسلامی تحریکات کے قائد تھے۔ وہ زمین پر نہیں دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ ان کے اٹھ جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جسے صرف رب اعلیٰ ہی پورا کر سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے اور اُمت کو ان جیسے خادموں سے نوازے تاکہ یہ قافلہ اپنی منزل مراد کی طرف کشاں کشاں پیش قدمی کر سکے۔ آمین!

 

۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابی نتائج ایک آئینہ ہیں جن میں پاکستانی قوم کی مجموعی فکر کا عکس صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ان انتخابات کو نہ مکمل طور پر شفاف کہا جا سکتا ہے اور نہ ان قواعد و ضوابط اور انتظامات کو مبنی برعدل قرار دیا جا سکتا ہے جن کے تحت یہ انتخاب منعقد ہوئے۔ اس لیے کہ دستوری ترامیم‘ انتخابی قواعد اور الیکشن کے انتظامات میں اس امر کی پوری کوشش کی گئی کہ برسراقتدار انتظامیہ اپنے مفید مطلب نتائج حاصل کرلے اور اپنے پسندیدہ عناصر کو کامیاب کرا لے۔ لیکن ان تمام تحدیدات (limitations) کے باوجود پاکستانی عوام نے بحیثیت مجموعی اپنے جذبات و عزائم کے اظہار کا راستہ نکال لیا اور پنجاب اور سندھ کے متعدد حلقوں اور بلوچستان کے چند مقامات پر کھلی دھاندلی‘ سرکاری مداخلت اور زورآور گروہوں کی دراندازی کے باوجود عوام نے اپنا پیغام اور فیصلہ ارباب اقتدار اور عالمی راے عامہ دونوں کو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر پہنچا دیا ہے۔

اب ملک کے مستقبل اور یہاں جمہوریت کے فروغ اور امن و ترقی کے حصول کا انحصار اس پر ہے کہ جنرل پرویز مشرف‘ فوجی قیادت اور سیاسی جماعتیں سب اپنے اپنے تحفظات کے علی الرغم عوام کے اس فیصلے کو قبول کریں اور اس پر اس اسپرٹ کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں جو انتخابی نتائج سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس میں نہ کسی کی فتح ہے اور نہ شکست۔ اس میں سب کی بھلائی اور سب سے بڑھ کر ملک و ملت کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اس سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کیا گیا۔ جیساکہ کچھ عناصر--- جن میں ملک کی کچھ کھلی اور مخفی قوتیں اور ان کے بیرونی سرپرست شامل ہیں--- ڈھکے چھپے ہی نہیں نیم وا انداز میں حکمرانوں کو اس خطرناک راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ تو یہ ملک کے لیے تباہی کا راستہ ہوگا۔کچھ لوگ ’’فاتح افغانستان‘‘ جنرل ٹامی فرینکس کے دورۂ پاکستان (۱۸ اکتوبر ۲۰۰۲ء) اور حکومت افغانستان کے ایک نمایندے اور بھارتی وزیرخارجہ کے اظہاراضطراب (concern) کو اسی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن بیشتر پاکستانی اخبارات کے ادارتی تبصرے‘ کالم نگاروں کے واضح اشارات اور قومی جماعتوں کے نمایندوں کے واضح اور متوازن بیانات اس امر پر شاہد ہیں کہ ان حالات میں ملک اور اس کی قیادت کے لیے ایک ہی معقول راستہ ہے اور وہ یہ کہ کسی اینچ پینچ کے بغیر‘ انتخابی نتائج کو تسلیم کرے اور بلاتاخیر ان پر ان کی اسپرٹ کے مطابق عمل درآمد کرے۔

جنرل پرویز مشرف اور ملک کی فوجی قیادت ‘جس نے گذشتہ تین سال سے حکمرانی کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی اور جو عدالت عالیہ کی دی ہوئی مہلت کے مطابق جمہوری عمل کے احیا کی پابند ہے‘ اور امریکہ‘ دولت مشترکہ اور مغربی اقوام جو ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مختلف انداز میں دبائو ڈالتے رہے ہیں‘ اب آزمایش کی کسوٹی پر جانچے جا رہے ہیں کہ وہ عوام کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں یا خدانخواستہ اسے ناکام کرنے کے لیے چال بازی اور کسی نئے سیاسی کھیل کا خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم اس امر کا برملا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ حکمرانوں اور قومی قیادت ‘دونوں کو خود اپنے ملک کے ماضی کے تجربات اور تاریخ کے وسیع تر مگر‘ ناقابل تردید شواہدکی روشنی میں وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے جو معقول بھی ہے اور مثبت نتائج کا ضامن بھی--- یعنی عوام کی رائے کا مکمل احترام اور ان کے فیصلے پر پوری سپردگی کے ساتھ عمل۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل مشرف اور ان کے رفقا قوم کے پیغام (message) کو بے چون و چرا قبول کریں‘ اور اس طرح اپنی عزت میں اضافہ کریں‘ ماضی کی خود اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کی تلافی کا کچھ سامان کریں‘ ایک بہتر مثال قائم کرنے کی سعادت حاصل کریں اور ملک کو جمہوریت اور دستور اور قانون کی حکمرانی کے راستے میں آگے بڑھنے کا سامان فراہم کریں۔

عوامی مینڈیٹ اور اس کے تقاضے

اس امر کے واضح ہو جانے کے بعد کہ اب ملک و قوم کے لیے ایک ہی جائز اور مبنی برحق راستہ عوام کے مینڈیٹ کا‘ جیسا بھی وہ ہے‘ احترام اور اس پر عمل ہے‘ یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ذرا تفصیل میں جاکریہ متعین کیا جائے کہ وہ مینڈیٹ کیا ہے اور اس پر عمل کے کیا تقاضے ہیں؟ معلق پارلیمنٹ اور منقسم مینڈیٹ کے الفاظ بہ کثرت استعمال ہو رہے ہیں اور ان کے بین السطور سیاسی عدم استحکام کے اندیشے اور بیرونی سرمایے اور سیاسی تائید سے محرومی کے اشارے بھی کچھ خاص حلقوں کی طرف سے دیے جا رہے ہیں۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں نہ معلق پارلیمنٹ کوئی نئی چیز ہے اور نہ منقسم مینڈیٹ۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ دنیا کے بیشتر جمہوری ممالک کو کسی نہ کسی دور میں اس نوعیت کے نتائج سے سابقہ پڑتارہا۔ امریکہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ ہالینڈ‘ جاپان‘ کون سا ملک ہے جسے کبھی نہ کبھی  اسی نوعیت کی صورت حال سے سابقہ پیش نہ آیا ہو۔ مخلوط حکومت بھی کوئی اجنبی چیز نہیں۔ اس سے متوحش ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مینڈیٹ کی اصل حقیقت کو‘ ملکی حالات اور پالیسیوں کے معروضی پس منظر میں‘ ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور اس پر عمل کے لیے خطوط کار متعین کیے جائیں۔

۱-  سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں عوام نے جنرل پرویز مشرف کے تین سالہ دورِ حکومت اور اندازِ حکمرانی کے بارے میں ایک واضح فیصلہ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو وہ اپنی اصلاحات کا نام دے رہے ہیں‘ وہ عوام کی نگاہ میں مطلوبہ اصلاحات نہیں ہیں۔ عوام نے جنرل صاحب کے حامی عناصر کو ساری سرکاری سرپرستی‘ گورنروں کے الطاف و انعامات‘ انتظامیہ کی ترغیبات و ترہیبات ‘ ناظمین کے التفات و توجہات اور انتخابی مشینری کی نوازشات اور سہولیات کے باوجود حکمرانی اور تسلسل کا اختیار نہ دے کر صاف پیغام دے دیا ہے کہ وہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اب ساری توجہ اس تبدیلی کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ہونی چاہیے جو عوام کو مطلوب ہے۔ کسی فرد‘ گروہ یا جماعت کو عوام پر اپنی رائے مسلط کرنے کا حق اور اختیار نہیں۔

۲-  عوام نے فوج کو بھی ایک واضح پیغام دے دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے اب اپنی بیرکوں کا رخ کرنا چاہیے۔ سیاست میں کسی مستقل کردار کی تلاش ایک نئی کش مکش کو جنم دینے کا باعث ہو سکتی ہے۔ ہم شروع سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ملک کی فوج کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنا قوم کی ذمہ داری ہے۔یہ کام باہم مشورے سے اور عزت و احترام کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ فوج مضبوط ہو اور قوم کے اعتماد اور محبت و عقیدت کا مرکز و محور بنے۔ وہ سیاست میں فریق بن کر متنازع نہ بنے۔ اس کی ساری توجہ اعلیٰ ترین درجے کی پیشہ ورانہ مہارت کے حصول پر مرکوز رہے۔ ملک اور فوج دونوں کا مفاد اسی میں ہے۔ ۱۰ اکتوبر کے انتخابات نے بڑے کھلے انداز میں فوج اور اس کی قیادت کو یہ پیغام دے دیا ہے جس پر جتنی جلد عمل ہو‘ اتنا ہی سب کے لیے بہتر ہے۔

۳-  ان انتخابات سے یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ پاکستانی قوم ایک آزادی پسند اور باغیرت قوم ہے اور خود کو اُمت مسلمہ کا ایک باوقار حصہ سمجھتی ہے۔ وہ دنیا کے تمام ممالک اور خصوصیت سے آج کی بڑی طاقتوں بشمول امریکہ سے ‘جو اب واحد عالمی قوت ہے‘ دوستانہ تعلقات چاہتی ہے‘ لیکن اپنی آزادی‘ قومی وقار اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے حقیقی مفادات کے فریم ورک میں۔ اس کے بڑے اہم مضمرات ملک کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں‘ خصوصیت سے معاشی پالیسیوں کے لیے ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت کو پوری دیانت‘ حکمت اور بالغ نظری کے ساتھ ان تقاضوں کو متعین کرنے اور ان کے حصول کے لیے صحیح منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ البتہ یہ کام بڑے سوچے سمجھے انداز میں اور ٹھنڈے غوروفکر کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔

۴-  یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ قوم کی نگاہ میں تبدیلی اور قیادت پر فائز کرنے کا صحیح راستہ بیلٹ (رائے کی پرچی) ہے بولیٹ (بندوق کی قوت) نہیں‘ خواہ اس کا استعمال کرنے والے عناصر سویلین ہوں یا وہ فوجی جن کو قوم نے بندوق بطور امانت دی ہے اور جسے دشمن کی جارحیت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے مختص ہونا چاہیے۔

۵-  یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور وہ عناصر جو سیکولرزم اور لبرلزم کے نام پر یہاں مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج چاہتے ہیں‘ وہ اس کے حقیقی نمایندے نہیں۔ یہ عناصر ملک کو نظریاتی کش مکش میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ ان کے دورِ حکمرانی کے ثمرات بجز بگاڑ اور تباہی کے کچھ نہیں۔ عوام کے اصل مسائل حل کرنے میں بھی یہ قیادتیں ناکام رہی ہیں اور اخلاقی ‘تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے بھی ملک کو پیچھے ہی لے گئی ہیں۔ قوم اب ان آزمائی ہوئی قیادتوں سے نجات چاہتی ہے۔

۶-  جس طرح سیکولر اور لبرل قیادتیں ناکام ہوئی ہیں اسی طرح محض علاقے‘ نسل‘ زبان اور مقامی مفادات کی علم بردار قوتوں نے بھی ملک ہی نہیں خود اپنے علاقے‘ نسل اور زبان بولنے والوں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔ بحیثیت مجموعی علاقائی قوتوں کی تائید میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور لوگ قومی سوچ رکھنے والی جماعتوں کو قیادت کی ذمہ داریاں سونپنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

۷-  عوام دو جماعتی نظام کے چنگل سے نکلنے کے لیے بھی بے چین ہیں۔ جن دو بڑی جماعتوں نے خاص طور پر گذشتہ ۱۵‘ ۲۰ سال سیاسی باگ ڈور باری باری سنبھالی‘ بحیثیت مجموعی عوام اُن سے مایوس ہیں اور ایک تیسری متبادل قوت کے متلاشی ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جمہوری تحریک ایسے ہی مراحل سے گزری ہے اور بظاہر پاکستان کے عوام بھی اب ایک تیسری قوت کو آزمانا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ دینی جماعتوں کے اتحاد کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

۸-  متحدہ مجلس عمل کا ایک تیسری قوت کے طور پر نمایاں ہو کر سامنے آنا ان انتخابات کا بہت ہی واضح اور مثبت حاصل ہے۔ متحدہ مجلس عمل کو سرحد اور بلوچستان میں جو پاکستان کی حالیہ تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت حاصل کر چکے ہیں‘ نمایاں کامیابی ہوئی ہے۔ سرحد میں‘ قومی اسمبلی کے لیے ۳۳ میں سے ۲۸ نشستیں اور صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے اور صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی اکثر نشستوں پر کامیاب ہوکر اور صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت اختیار کر کے وہ قومی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ سرحد اور بلوچستان کے علاوہ اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی اور حیدر آباد سے نمایاں کامیابی نے بھی اسے ایک موثر ملک گیر قوت بنا دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اسے ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ پاکستان کے نظریاتی مستقبل اور نظام حکومت اور اندازِ حکمرانی کے باب میں اُس بنیادی تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے جو آزادی کے تقاضوں اور تحریک پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کے لیے ضروری ہے۔ یہ تبدیلی قومی سوچ کی مظہر اور مستقبل کی ایک جھلک ہے اور اس حیثیت سے ان انتخابات کا سب سے اہم اور دُور رس اثرات کا حامل پہلو ہو سکتی ہے۔

البتہ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ اس اتحاد‘ اعتدال‘ مقصدیت اور پاک دامنی کا ثمرہ ہے جس کی علامت متحدہ مجلس عمل اس انتخابی مہم میں بن گئی ہے۔ یہ سیاست کا ایک نیا نمونہ (model) ہے جو عوام کے سامنے آیا ہے۔ بلاشبہہ مجلس کی کامیابی میں اس کی اسلامی شناخت اور ملکی آزادی اور وقار کے باب میں اس کے جرأت مندانہ اور واضح موقف کا بڑا دخل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ دینی قوتوں کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا‘ سیاسی پارٹیوں کی تقسیم در تقسیم کے پس منظر میں چھ جماعتوں کا یک رنگ ہو کر ایک جھنڈے تلے ایک قومی موقف پر جم جانے اور مخالفین کی ساری سازشوں اور دراندازیوں کے باوجود اپنی وحدت‘ یک جہتی اور بے لوث تعاون پر آنچ نہ آنے دینے کا بڑا دخل ہے۔

اس مثال نے تاریکیوں کے ماحول میں عوام کے سامنے امیداور روشنی کی ایک کرن کا منظر پیش کیا اور عوام نے ہر مفاد سے بالا ہو کر اس کو اپنی تائید سے نوازا۔ کھمبا نوچنے والوں کی کمی نہیں اور کوئی اس میں ’’خفیہ ہاتھ‘‘ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی اس کا سہرا ’کتاب‘ کے نشان پر باندھنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ خفیہ ہی نہیں صاف نظر آنے والے ہاتھ جن کی پشت پر تھے وہ کوئی راز نہیں۔ کتاب کے نشان پر ۱۹۸۵ء سے آج تک مختلف جماعتیں انتخاب لڑتی رہی ہیں لیکن یہ معجزہ اس سے پہلے کبھی واقع نہیں ہوا۔ اصل چیز وہ پیغام اور منشور ہے جو مجلس عمل نے قوم کے سامنے پیش کیا‘ وہ اتحاد ہے جس کو انھوں نے ایک حقیقت بنا دیا اور کردار کا وہ فرق ہے جو چشم سر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ دینی جماعتوں کا اتحاد اور کامیابی   اب ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جو پاکستان کے مستقبل کی صورت گری میں ان شاء اللہ روز افزوں کردار ادا کرے گی۔ یہ ان جوہری تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے جن کی طرف یہ انتخابی نتائج اشارہ کر رہے ہیں۔

۹-  ان انتخابات کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ملک میں کوئی ایک جماعت یا قوت تن تنہا نظام کو نہ چلائے بلکہ سیاسی قوتوں کے لیے ضروری ہے کہ افہام و تفہیم اور تعاون اور اشتراک کا راستہ اختیار کریں۔ ملک تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جس طرح دینی جماعتوں نے افہام و تفہیم اور تعاون و اشتراک کے ذریعے ایک روشن مثال قائم کی ہے اسی طرح تمام سیاسی قوتوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اگر وہ    عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہتی ہیں تو کھلے دل سے اسلامی نظریے‘ قومی آزادی ‘ ملکی مفاد اور عوام کی فلاح و ترقی کے لیے اپنے جماعتی اور گروہی مفادات سے بلند ہو کر مشترک قومی اہداف کے حصول کے لیے صف بندی کریں تاکہ کسی کو یہ زعم نہ ہو کہ ہم تنہا جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہی وہ ذہن تھا جس کے نتیجے میں سول حکومتیں آمرانہ نظام میں تبدیل ہو گئیں اور خود جمہوریت کے لیے خطرے کا باعث ہوئیں۔ عوام اس کھیل سے تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی قوتوں میں برداشت اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اگر اب بھی دیانت دارانہ عمل کے راستے کو ترک کیا گیا یا کرایا گیا اور سازشوں، ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ سیاسی رشوتوں اور بلیک میل کے ذریعے غیر فطری اکثریت بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ بات جمہوریت کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوگی اور عوام کے مینڈیٹ کو ناکام کرنے کی مذموم کوشش ہوگی۔ البتہ ان ناپاک سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت پسندی اور حکمت کے ساتھ لیکن بالکل صاف شفاف انداز میں اشتراکِ عمل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ ہر سیاسی قوت کے اصل وزن کے مطابق اسے اہمیت دی جائے اور مشترک مقاصد اور اہداف کے لیے بالکل کھلی سیاست کے ذریعے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کی جائے جس میں ماضی کی حکومتوں‘ (بشمول جنرل پرویز مشرف کی حکومت) نے ملک کو ڈال دیا ہے۔

ہماری نگاہ میں اس وقت اصل چیلنج یہ ہے کہ انتخابی نتائج کی قوسِ قزح میں جو عوامی مینڈیٹ رونما ہوا ہے اس کی روشنی میں سب سے پہلے انتقال اقتدار‘ نہ کہ محض شراکت اقتدار کا عمل مکمل کیا جائے۔ پہلا اور سب سے اہم مسئلہ جمہوری اداروں کی بحالی‘ ۱۹۷۳ء کے دستور کو برسرِعمل (operational)شکل دینا‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور عوام کے حقوق کی بحالی ہے۔ وہ تمام عناصر جو اس عمل پر یقین رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ ملک کو تصادم سے بچاتے ہوئے تبدیلی کے اس عمل کو اولیت دیں۔ قومی اہداف اور پالیسیوں کا تعین اور تغیر اسی وقت ممکن ہے جب یہ انتقال اقتدار واقع ہو جائے۔ ان دونوں میں خلط مبحث بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اولین اہمیت اقتدار کی تبدیلی اور دستور کے تحت پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کی ہے۔ فوج کی اس کے اصل کردار کی طرف مراجعت اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ کام حکمت کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے۔ عوام نے جن جماعتوں کو نمایندگی کی ذمہ داری سونپی ہے ان کی واضح اکثریت ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت جمہوری عمل کی قائل ہے اور جن جماعتوں نے انتقالِ اقتدار نہیں بلکہ شراکت اقتدار کا عندیہ دیا تھا ان کو بھی سمجھ جانا چاہیے کہ عوام شراکت نہیں‘ انتقال کے متلاشی ہیں اور انھیں بھی عوام کی خواہش کے مطابق اپنے موقف میں تبدیلی کرنا چاہیے تاکہ سب مل کر جمہوری عمل کو موثر بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔

۱۰-  انتخابات کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں ضروری نہیں کہ ایک ہی جماعت کی حکومت ہو۔ فیڈریشن کے اصول کا لازمی تقاضا حکمران جماعتوں کی تکثیر(pluralism) ہے۔ پاکستان کی بہت سی مشکلات کی جڑ مرکز اور صوبوں میں مختلف جماعتوں کا حکومت کے بارے میں عدم برداشت کا رویہ ہے۔ جو سلسلہ مشرقی پاکستان میں ’’جگتو فرنٹ‘‘ کی حکومت کو برداشت نہ کرنے سے شروع ہوا تھا وہ بالآخر ملک کی تقسیم پر منتج ہوا۔ پاکستان کے دوسرے دور میں بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے سرحد اور بلوچستان کی حکومتوں کے ساتھ جو کچھ کیا‘ پھر بے نظیرصاحبہ اور میاں نواز شریف کے ادوار میں پنجاب‘ سندھ اور سرحد میں جو کھیل کھیلا گیا اس نے سیاست کو گندا ہی نہیں کیا بلکہ ملک میں فیڈریشن کے تجربے کو ناکام کرنے اور مرکز گریز رجحانات کو تقویت دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان انتخابات سے صاف ظاہر ہے کہ سرحد اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل‘ پنجاب میں قائداعظم لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو سبقت حاصل ہے۔ اگر کسی بھی غیر فطری انداز میں ان زمینی حقائق کو بدلنے یا ان کو نظرانداز کرکے کوئی اور دروبست قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ تباہی کا راستہ ہے۔

فیڈریشن کے اصل اصول اور اسپرٹ کے مطابق عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے دستور کے دائرے میں ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق حکمرانی کا اختیار اور موقع ملنا چاہیے۔

ہماری نگاہ میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات کے مندرجہ بالا ۱۰ پہلو ایسے ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ عوام کا مینڈیٹ ان تمام پہلوئوں پر حاوی ہے اور جنرل پرویز مشرف‘ فوجی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو ان کا احترام کرنے اور ان کے مطابق معاملات طے کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور پرانے حساب چکانے کا نہیں۔ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے عوام کے مینڈیٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل ہی میں سب کی نجات ہے۔یہ مرحلہ طے ہو جائے تو پھر پالیسی کے معاملات اور حکومت سازی سے بڑھ کر ملک سازی کا مرحلہ آتا ہے۔ بلاشبہہ بڑا چیلنج ملک سازی کا ہے اور اپنے اپنے منشور کے مطابق ہر سیاسی قوت کو اس کے لیے تیاری اور محنت کرنی چاہیے لیکن انتقالِ اقتدار کے مراحل کو طے کیے بغیر اور اس کام کو بخوبی انجام دیے بغیر اس طرف پیش رفت ممکن نہیں۔ وقت کم ہے اس لیے دونوں مرحلوں کو ٹھیک ٹھیک طے کرنے کی فکر وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ البتہ ترتیب اور ترجیحات کا احترام ضروری ہے:  الاقدم فالاقدم!

متحدہ مجلس عمل: کامیابی اور ذمہ داریاں

متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور اس کے کارکنوں کو جہاں ہم ان کی اس تاریخی کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتے ہیں‘ وہیں یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں ہم خود کو اور اپنے تمام ساتھیوں کو یاد دلائیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خصوصی انعام ہے۔ قیادت کا وژن اور کارکنوں کی محبت اور قربانیاں سب اپنی جگہ‘ لیکن اصل چیز اللہ تعالیٰ کی اعانت اور نصرت ہے اور اس کے ہر انعام کی طرح یہ کامیابی بھی ایک عظیم آزمایش اور کڑا امتحان ہے۔ قرآن نے جو اصول اس باب میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌo  (ابراہیم ۱۴:۷) ’’اور یاد رکھو تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔

اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے تین باتیں خاص طور پر سامنے آتی ہیں:

اول: ہر نعمت اور ہر کامیابی اللہ اور صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ انسانی کوشش‘ صحیح منصوبہ بندی‘ جان ماری سے جدوجہد‘ ایثار اور قربانی سب ضروری ہیں اور قدرت کے بنائے ہوئے قانون کا لازمی حصہ--- لیکن مسبب الاسباب صرف اللہ کی ذات ہے اور جو کچھ بھی انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ عطیہ الٰہی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اپنے مالک اور آقا کا احسان ماننا‘ اس سے اپنی نسبت کو مزید مستحکم کرنا‘ ہر قسم کے غرور اور تعلی سے گریز اور اپنے رب کی رحمت اور نعمت نوازی کا شعور ہے۔ کافر کامیابیوں کو اپنی فتح سمجھتا ہے اور مسلمان اسے اپنے رب کا انعام--- اور یہی چیز اسے شکر اور عجز کی راہ اختیار کرنے کا شرف بخشتی ہے۔

دوم: جس بابرکت ہستی نے ایک عظیم نعمت سے ہمیں نوازا ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس نعمت پر شکر کے ساتھ یہ ادراک کیا جائے کہ اب اس نعمت کا کیا حق ہے۔ یہ نعمت خود مطلوب نہیں‘ بلکہ ذریعہ ہے ان مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے جو رب نے ہر نعمت کے ساتھ مقرر فرما دیے ہیں۔ اگر رزق میسر آیا ہے تو وہ اس لیے کہ ہم جسم و جان کے لیے وہ سامان فراہم کریں جن کے ذریعے یہ جسم و جان مالک کی رضا کے حصول‘ اس کے دین کے قیام اور اس کے کلمے کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل ہوسکیں۔ اگر دولت حاصل ہوئی ہے تو وہ صرف ہماری ذات کی افزایش کے لیے نہیں‘ ان مقاصد حیات کی ترویج کے لیے دی گئی ہے جن سے زندگی عبارت ہے۔ اگر سیاسی اثر و رسوخ اور قوت و اقتدار حاصل ہوا ہے تو وہ خود مطلوب نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے دین کے قیام اور اس کے بندوں کی خدمت کا ایک موقع ہے۔ اس لیے ہر انعام ایک آزمایش ہے اور دل اورزبان کے مالک کے احسان و انعام کے اقرار و اعتراف کے بعد اس نعمت کے حق کو پہچاننا شکر کا دوسرا مرحلہ ہے۔

سوم: اس نعمت کا استعمال بھی شکر ہی کا ایک پہلو ہے۔کفران نعمت صرف زبان سے نعمت سے انکار نہیں‘ نعمت کا غلط استعمال یا اصل مقصد سے ہٹ کر کسی اور طرح اور کسی اور طرف اس کا استعمال بھی کفرانِ نعمت ہی  کی ایک شکل ہے۔ نعمت کے حق کو سمجھنے کے بعد اس سے اگلا مرحلہ اس نعمت کے صحیح استعمال کا ہے۔ معاملہ رزق کی فراوانی کا ہو‘ یا علم کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کا‘ یا قوت و اقتدار کے حصول کا--- ہر نعمت کا صحیح استعمال اور احکام الٰہی کے مطابق اصل مقاصد کے حصول کے لیے اس نعمت سے استفادہ بھی شکر ہی کے مفہوم میں داخل ہے۔

یہیں سے یہ بات واضح ہے کہ نعمت الٰہی اور اللہ کے احکام اور ان کے اتباع میں بڑا قریبی اور ناقابل انقطاع تعلق ہے۔ نعمت ایک صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کا جائز اور مطلوب مصرف احکامِ الٰہی کا اتباع اور نفاذ ہے۔

اگر مومن ہر نعمت اور ہر انعام پر شکر کا راستہ اختیار کرتا ہے تو مالک السموات والارض نعمتوں اور انعام کی بارش فرماتا ہے اور یہ سلسلہ برابر بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اور اگر غرور اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہے‘ غفلت اور خود فریبی میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ خیروشر کے امتیاز کو نظرانداز کرتا ہے‘ سب کچھ اپنی محنت کا حاصل سمجھنے لگتا ہے‘ دوسروں کے حقوق کو پامال کرتا ہے اور اللہ کے احکام سے صرفِ نظر کرنے لگتا ہے تو پھر یہی انعام سخت بازپرس اور پکڑ کا وسیلہ بن جاتا ہے اور انسان فراز سے پستی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔

اس اصول کی روشنی میں متحدہ مجلس عمل کے تمام کارکنوں کا فرض ہے کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اپنے رب کے شکر کا راستہ اختیار کریں اور اس شکر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ اسمبلیوں کی رکنیت ہماری منزل نہیں۔ اقتدار بھی ہمارا اصل ہدف اور مقصود نہیں۔ یہ سب ذریعہ ہیں اللہ کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کا‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے اور سربلند کرنے کا‘ اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کو رب کی عبادت کی راہ پر لگانے اور مستحکم کرنے کا--- کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ حکومت اور دولت کو ‘مطلوب نہیں‘ اصل مطلوب کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ بلاشبہہ یہ ذریعہ بھی ضروری ہے لیکن یہ ذریعہ ہے‘ مقصود و مطلوب نہیں۔ اس لیے جو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ مزید جدوجہد کے لیے ایک موقع اور آگے کے مراحل کی طرف پیش قدمی کا زینہ ہے۔ ابھی جو کچھ ہمیں حاصل ہوا ہے وہ اس جدوجہد کے لیے فتح باب کا درجہ رکھتا ہے‘ منزل مراد کا نہیں۔ یہ تو پہلا قدم ہے‘ عشق کے اصل امتحان تو اب شروع ہو رہے ہیں۔ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اللہ کی نصرت ہے‘ اور اللہ کی نصرت کا مزید حصول اللہ سے وفاداری‘ اپنے مقاصدِ حیات کی خدمت کے لیے مزید تیاری اور جدوجہد اور اللہ کے بندوں کو دین حق کی برکات سے شادکام کرنے کے لیے قربانی اور مسلسل سعی سے ممکن ہے۔ جہاں ہمیں جتنا اختیار حاصل ہو اسے اللہ کی بتائی ہوئی حدود کے اندر‘ اللہ کے بندوں کے لیے زندگی کو آسان بنانے اور اللہ کے دین کی اطاعت کو کاروبار حیات بنانے کے لیے استعمال کرنے میں ہماری کامیابی ہے۔ یہی شکر کی اصل راہ ہے۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو کام ہمیں انجام دینا ہے وہ حکمت اور بردباری کے ساتھ تحمل و رواداری‘ ایثار و قربانی اور خدمت اور جفاکشی کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ قوم نفس کے پجاریوں کے کرتوتوں کی ستم زدہ ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے کارکنوں کو ہر سطح پر اعلیٰ کردار اور بے لوث خدمت کی نئی مثالیں قائم کرنا ہے تاکہ      دنیا پرستوں اور دین کے نام لیوائوں کا فرق ان کے سامنے آسکے اور آپ کی اچھی مثال سے روشنی کے  نئے چراغ روشن ہوں۔ جو کچھ آج حاصل ہوا ہے کل اس سے کہیں زیادہ کامیابیاں آپ کا مقدر ہو جائیں اور یہ مظلوم قوم ترقی اور کامرانی کی راہوں کو استوار کر سکے اور عزت کا مقام حاصل کر سکے۔ حکمت اور تدریج‘ انصاف اور حق پرستی‘ عجزوانکسار اور جہدمسلسل ہی کامیابی کا راستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔ضروری ہے کہ قلب و نظر سے شکرادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سب اس لائحہ عمل پر سختی سے قائم ہو جائیں جو اس شکر کا لازمی تقاضا ہے۔ ملک شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ہمیں اپنی قوت اور اثرات کو بھی بڑھانا ہے اور ملک کو بھی ان مشکلات سے نکالنا ہے جن کی گرفت میں وہ ہے‘ یہ مشکلات اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ ان سے مرحلہ وار ہی نبردآزما ہوا جا سکتا ہے۔ اس لیے جہاں وژن کے باب میں مکمل یکسوئی اور استقامت ضروری ہے وہیں تدبیر منزل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اور بروقت اقدام بھی ضروری ہیں۔ خود کو اس عظیم کام کے لیے فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر بھی تیار کرنا ضروری ہے تاکہ مسائل کے عقدے حل ہو سکیں اور عوام اسلام کی وفاشعار قیادت اور محض دنیاپرست قیادتوں کے فرق کو محسوس کر سکیں اور اچھی قیادت کے ہاتھوں اچھی حکومت اور خادم خلق طرزحکمرانی کے ثمرات سے فیض یاب ہو سکیں۔

متحدہ مجلس عمل کی اس پہلے مرحلے کی کامیابیوں سے ملک کے کچھ حلقوں میں اور اس سے بھی زیادہ بیرونی دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ ہمیں نہ ان کو نظرانداز کرنا چاہیے اور نہ ان سے خائف ہونے کی کوئی وجہ ہے۔ پھر یہ کوئی نئی چیز بھی نہیں۔ اسلامی قوتوں کو ہر دور میں اور ہر مقام پر انھی مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ البتہ ہمیں صبرواستقامت کے ساتھ حلم و حکمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تیاری کے بغیر تصادم بہادری نہیں‘ حماقت ہے۔ میدانِ جنگ سے فرار جرم ہے تو جنگ کے وقت‘ میدان‘ صلاحیت اور آداب ہر ایک کے باب میں صحیح حکمت عملی‘ مناسب تیاری اور بروقت اقدام کے اہتمام سے اغماض بھی کچھ کم جرم نہیں۔ سیاست کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں کہ جہاد محض میدان جنگ کی جدوجہد کا نام نہیں بلکہ زندگی کی تمام وسعتوں میں دین کے پیغام کو پہنچانے اور اللہ کی مرضی کو اللہ کے بندوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کا نام ہے۔ اگر ہماری سیاست اللہ کے دین کے قیام کے لیے ہے تو یہ بھی جہاد ہی کا ایک حصہ ہے۔

راے عامہ کی تبدیلی سے لے کر راے عامہ کے ذریعے تبدیلی اسی جدوجہد کے مختلف مراحل ہیں۔ اس لیے ہم متحدہ مجلس عمل سے وابستہ تمام ساتھیوں کو جہاں مسلسل نفس کے تزکیے اور اللہ سے تعلق اور استعانت کی نصیحت کرتے ہیں‘ وہیں یہ درخواست بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنی حکمت عملی پورے غوروفکر اور باہمی مشاورت سے مرتب کریں اور پوری جانفشانی اور محنت سے پارلیمانی نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے خود کو تیار کریں اور قوم کے سامنے ایک نیا اور اعلیٰ نمونہ قائم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔

حالات پر اثرانداز ہونے کا جو موقع میسر آئے اور خدمت کی جو صورت بھی بن پڑے اس میں ہمارا کردار منفرد ہونا چاہیے۔ دینی قوتوں کے اتحاد کو قائم رکھنا اور مزید مستحکم کرنا اور تمام اچھے انسانوں کو اپنے ساتھ ملانا وقت کی ضرورت ہے۔ مرکز اور صوبوں میں‘ جہاں جو شکل بھی بنے‘ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک نئے دور کے نقیب بن جائیں اور ایک ایسے طرزِحکمرانی کو رائج کرنے کا ذریعہ بنیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہو‘ لوگوں کے دکھ کم ہوں‘ اور جو خواص (elitist) کا معاشرہ قائم ہو گیا ہے اس کی جگہ ایک ایسا سماج وجود میں آئے جس میں کمزور کو وہ قوت فراہم کی جا سکے کہ اس کا حق اسے مل سکے اور دوسروں کا حق مارنے والوں پر ایسی گرفت ہوسکے کہ وہ دوسروں کے مال‘ جان‘ آبرو پر دست درازی کی ہمت نہ کرسکیں۔ دنیا ہمیں ہمارے دعووں سے نہیں ہمارے عمل اور نمونے سے جانچے گی۔ اب ہم جتنا بہتر نمونہ پیش کریں گے‘ آگے کی منزلیں اتنی ہی آسان ہو سکیں گی۔ آپ زمین کا نمک اور پہاڑی کا چراغ بنیں گے تو یہ زمین نعمتیں اگلنے والی زمین بنے گی اور یہ معاشرہ تاریکیوں سے نکل کر روشنی کا گھر بن سکے گا۔

۱۰ اکتوبر کے انتخابات کے نتیجے میں تبدیلی اور اصلاح کا ایک بند دروازہ کھلا ہے۔ ہماری جدوجہد اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان کو پورا کرنے کے لیے نئے عزم سے سرگرم عمل ہونا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے   ع

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

 

میں پرنسٹن یونی ورسٹی میں ایک سیمی نار میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ برادرم مسلم سجاد کا فیکس موصول ہوا: ’’نعیم صدیقی بھی اللہ کو پیارے ہوئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ موت تو برحق ہے اور ہر لمحہ ہم سب کا تعاقب بھی کرتی رہتی ہے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ہمیشہ زندہ ہی دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور نعیم صاحب بھی ایسے چنیدہ افراد میں سے ایک تھے۔ میرے لیے ذاتی تعلقات کی نسبت سے ایک بڑے بھائی‘ فکری میدان میں رہنما‘ تحریکی زندگی میں قائد‘ علمی اور ادبی میدان میں ایک عہدساز شخصیت!

برادر محترم نعیم صدیقی کے انتقال کی خبر سے دل پر ایک اور پہلو سے بھی چوٹ لگی جس کا قلق مجھے ہمیشہ رہے گا۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں‘ میں آئی ایل ایم کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ کے لیے لاہور گیا۔ بعد میں جب اسلام آباد کے لیے روانہ ہو رہا تھا توکسی نے اطلاع دی کہ نعیم صاحب ایک حادثاتی چوٹ کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں۔ اتنا وقت نہ تھا کہ میں ان کو دیکھنے کے لیے جاسکتا۔ اس وقت ارادہ کیا کہ اگر ستمبر میں لاہور جانا ہوا تو ان سے ضرور ملوں گا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اب اس ملاقات کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔ ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل منصورہ میں سید مودودی انسٹی ٹیوٹ کی مجلس اعلیٰ کی میٹنگ میں ہوئی تھی۔ وہ محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میری درخواست پر علالت کے باوجود شرکت کے لیے تشریف لائے اور اپنے ساتھ ۵۰ برس کی یادوں کی سوغات بھی لائے۔ جماعت اسلامی سے قانونی رشتہ منقطع کرنے کے بعد بھی‘ وہ ہمارے لیے ویسے ہی محترم اور محبوب رہے جیسے پہلے تھے اور ان کی شفقت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ان کو دل کا مکین بنا دیا تھااور صرف ان کی علمی‘ ادبی اور تحریکی خدمات ہی نہیں بلکہ ان کی ذاتی صفات اور برادرانہ محبت کا میرے ہی نہیں ‘سیکڑوں افراد کے دلوں پر ایسا نقش ہے کہ ان کی وفات پر بے ساختہ یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ    ؎

بعد از وفات تربت ما در زمین مجو
درسینہ ہاے مردم عارف مزار ما ست

ہماری وفات کے بعد ہمیں زمین کے اندر قبروں میں مت تلاش کرو۔ ہم اہل معرفت کے دلوں میں رہتے ہیں۔

نعیم صاحب سے میرا پہلا تعارف جمعیت کے ابتدائی دور میں ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا پہلا مطبوعہ تعارف‘ جس سے مجھے جمعیت کو سمجھنے کا موقع ملا‘ ان ہی کا لکھا ہوا تھا۔ تعارف میں نے کراچی ہی میں پڑھ لیا تھا اور جب سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور گیا تو فطری طور پر مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے بعد جس شخص سے ملنے کا شوق تھا وہ نعیم صاحب تھے۔ اس لیے بھی کہ مولانا مودودی کی گرفتاری کے زمانے میں ترجمان القرآن کی ادارت انھوں نے کی تھی اور ان کے ’’اشارات ‘‘نے ہم سب کو بے حد متاثر کر رکھا تھا۔ خرم‘ ظفر اسحاق اور میں اپنے پہلے ناظم اعلیٰ ظفراللہ خان کے ساتھ نعیم صاحب سے ملنے گئے۔ پہلا تاثر ملا جلا تھا۔ ان کی تحریروں کو پڑھنے سے ایک بھاری بھرکم شخصیت کا تصور ذہن نے بنا لیا تھا۔ ملا تو اپنے سامنے ایک دبلے پتلے اور چہرے مہرے سے شرمیلے بزرگ کو پایا۔ لیکن تھوڑی ہی گفتگو میں ان کے جوہر کھلے۔ علمیت‘ متانت‘ جمعیت سے محبت اور نوجوانوں کے دل موہ لینے والے حسنِ بیان نے اپنا جادو چلا دیا اور یہ کیفیت ہو گئی کہ  ع

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

پھر نعیم صاحب کو کراچی میں جہانگیر پارک کے ایک تاریخی اجتماع میں سنا جس میں دو گھنٹے کی تقریر میں انھوں نے ’’معاشی ناہمواریوں کا اسلامی حل‘‘ پیش کیا۔ یہ تقریر علم اور خطابت کا شاہکار تھی اور یہی تقریر اس کتاب کی بنیاد بنی‘ جو اسی نام سے بعد میں شائع ہوئی۔ چراغ راہ سے بھی اسی زمانے میں رشتۂ ارادت استوار ہوا اور اس طرح نعیم صاحب بحیثیت مصنف‘ مقرر‘ ادیب‘ شاعر‘ تحریکی قائد ہمارے دل و دماغ پر چھاگئے۔ پھر جب میں ۱۹۵۷ء میں مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب ہوا تو اس وقت سے ۲۰۰۲ء تک نعیم صاحب سے بڑا قریبی تعلق رہا جس کی حسین یادیں میرا بہترین سرمایۂ حیات ہیں۔ یہ ان کی عظمت تھی کہ علم‘ عمر‘ تحریک‘ ہر اعتبار سے فوقیت رکھنے کے باوجود ہمارا تعلق دوستانہ اور برادرانہ رہا۔ ان کے ساتھ علمی اور تحریکی دونوں محاذوں پر کام کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن ہمیشہ انھوں نے اتنی عزت سے معاملہ کیا کہ خوردو بزرگ کا فرق باقی نہیں رہا۔

ہم تو انھیں صرف نعیم صدیقی ہی کے طور پر جانتے تھے۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ ان کا اصل نام فضل الرحمن ہے۔ ان کی پیدایش خان پور‘ تحصیل چکوال‘ ضلع جہلم میں ہوئی (۴ جون ۱۹۱۶ء)۔ جماعت اسلامی کے بانی ارکان میں سے تھے اور ۱۹۴۱ء ہی میں بستر بوریا لے کر اور مدرسے کی تعلیم نامکمل چھوڑ کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی دارالاسلام کی خانقاہ میں داخل ہو گئے اور پھر علم و ادب‘ تحقیق و صحافت‘ نظم و نثر ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔ نعیم صاحب ِایک صاحب طرز ادیب اور مشکل کُشا مفکر تھے۔

بلاشبہہ مولانا مودودی کو انھوں نے اپنا استاد‘ مرشد اور رول ماڈل بنایا لیکن اپنی تخلیقی انفرادیت (originality) کی بنا پر ہر میدان میں اپنا منفرد مقام بھی بنایا۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں انھوں نے گراںقدر خدمات انجام دیں۔ ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ محسن انسانیتؐ ہے جو سیرت نگاری میں ایک نئی روایت کی بنیاد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر ہر پہلو ہی سے کام ہواہے لیکن نعیم صاحب نے محسن انسانیتؐ کے ذریعے وہی خدمت انجام دی ہے جو تفسیرکے میدان میں مولانا مودودیؒ نے  تفہیم القرآن کی شکل میں انجام دی--- یعنی نبی کریمؐ کی زندگی بحیثیت داعی‘ قائدتحریک اسلامی اور عالمی انقلاب کے بانی۔ واقعات وہی ہیں جو ہر سیرت کی کتاب میں ملتے ہیں لیکن انھوں نے ان کی معنویت کو دورنبویؐ ہی نہیں آج کے دور سے ان کی نسبت اور مطابقت کے حوالے سے ایک نئی جہت دی ہے۔ ان کی یہ کتاب حق کے طالبان اور سیرت پر کام کرنے والوں کے لیے برسوں روشن چراغ رہے گی۔

انھوں نے اجتماعی علوم اور معاشرت و سیاست کے دسیوں موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور ہر میدان میں فکر اور اسلوب دونوں اعتبار سے پختگی کے ساتھ جس تخلیقی انفرادیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے۔ نعیم صاحب کا کمال ہے کہ ایک گھسے پٹے موضوع کو بھی زندہ جاوید بنا دیتے ہیں اور ایک جانی بوجھی بات کو بھی اس طرح بیان کرتے ہیںکہ اس میں ندرت اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔

افسانہ‘ رپورتاژ اور ادبی تنقید کے میدان میں بھی انھوں نے اپنا مقام پیدا کیا۔ وہ تحریک ادب اسلامی کے سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ شعر کے میدان میں بھی وہ بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں۔ ان کا پہلا شعر جس نے مجھے چونکا دیا تھا وہ وہ تھا جو چراغ راہ کی بندش کے بعد شائع ہونے والے شمارے کی لوح پر رقم تھا    ؎

گر ایک چراغ حقیقت کو گل کیا تم نے
تو موج دود سے صد آفتاب ابھریں گے

ان کی نظم ’’ہم لوگ اقراری مجرم ہیں‘‘ ایک زمانے تک ہم سب کے جذبات کی ترجمان رہی۔  نعیم صاحب کے یہاں حسن خیال اور حسن بیان دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے اور حرکت‘ جدوجہد‘  کش مکش اور روح جہاد ان پر مستزاد۔ وہ ایک اچھے شاعر ہی نہیں‘ ایک تحریکی شاعر بھی ہیں۔ جس طرح فیض احمد فیض کے یہاں شعری حسن کے ساتھ تحریکیت (گو ایک دوسرے پس منظر سے) پائی جاتی ہے‘ اسی طرح اسلامی انقلابیت کے پس منظر میں نعیم صاحب کا شعر ایک پیغام اور تبدیلی کی دعوت لیے ہوئے ہے۔ نعت کے میدان میں ان کی نعتیہ نظم ’’میںایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے ہوں؟‘‘ ایک منفرد کاوش اور روح کو تڑپا دینے والی چیز ہے:  محسن انسانیتؐ کا شعری خلاصہ!

مجھے ان کے ساتھ سب سے زیادہ قریب سے کام کرنے کا موقع  سیارہ ڈائجسٹ کے قرآن نمبر کی ترتیب کے وقت میسر ہوا۔ اس کی پہلی دو جلدیں ہماری مشترک کوشش ہیں اور آخری جلد صرف نعیم صاحب کی مرتب کردہ ہے۔ میں نے اپنے ذوق کے مطابق بس ایک علمی خزینہ مرتب کرنے کی کوشش کی (محمود فاروقی مرحوم‘ معروف شاہ شیرازی اور نثاراحمد میرے معاون تھے)۔ لیکن نعیم صاحب نے اپنی محنت سے اس پورے مجموعے کو چار چاند لگائے اور ادبی اور علمی دونوں اعتبار سے بیش بہا اضافے کیے۔

مرکزی شوریٰ کی قراردادیں پہلے مولانا محترم سید ابوالاعلیٰ مودودی خود مرتب فرمایا کرتے تھے۔ پھر یہ سعادت نعیم صاحب اور مجھے حاصل ہوئی۔ لیکن میں نے نعیم صاحب کو ایک استاد کا درجہ دیا اور وہ تھے بھی اس کے مستحق۔ میں نے اس زمانے میں ان سے بہت کچھ سیکھا (شاید طول نویسی سمیت--- جو ہم دونوں میں مشترک رہی!)۔

نعیم صاحب کا وہ دور ہمارے لیے بہت روحانی کرب کا باعث رہا جو جماعت سے ان کے قانونی تعلق کے ٹوٹ جانے پر منتج ہوا۔ الحمدللہ اس دور میں بھی اور اس کے بعد بھی ہمارا ذاتی تعلق کبھی متاثر نہ ہوا۔ جماعتی حیثیت سے بھی ان کا احترام اور ان کی فکر سے استفادہ اسی طرح جاری رہا بلکہ استعفے کے بعد چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میں امیر جماعت کے مشورے سے ان کے گھر جاکر ان سے ملے اور ذاتی ہی نہیں‘ تحریکی تعلق کو بھی جس شکل میں بھی ممکن ہو‘ جاری رکھنے کی درخواست کی۔ اس ملاقات میں انھوں نے خاص طور پر برادرم حفیظ الرحمن احسن کو بھی مدعو کیا۔

برادر محترم نعیم صدیقی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ذاتی شرافت اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ علمی‘ ادبی‘ ثقافتی‘ ہر میدان میں انھوں نے ایسی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جن کے اثرات ایک مدت تک جاری رہیں گے۔ وہ علم و ادب دونوں کے شہسوار تھے۔ تحقیق‘ تحریر‘ تقریر‘ مجلسی گفتگو‘ ہرمیدان میں ان کا ایک منفرد مقام تھا۔ اپنے ۵۰ سالہ تعلق پر نظرڈالتا ہوں تو میرتقی میرکی زبان میں ان کی روح کو گنگناتے ہوئے محسوس کرتا ہوں کہ     ؎

باتیں ہماری یاد رہیں‘ پھر باتیںایسی نہ سنیے گا
جو کہتے کسی کو سنیے گا‘ تو دیر تلک سر دھنیے گا

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے‘ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے‘ ان کے جلائے ہوئے چراغوں کو ہمیشہ ضوفشاں رکھے‘ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے‘ انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے‘ ان کے لواحقین کو صبرجمیل سے نوازے اور اس اُمت کو ان جیسے خادمان دین سے کبھی محروم نہ کرے۔ آمین!

 

۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء پاکستان کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ بن سکتا ہے۔ اب پوری قوم کے سامنے بالکل کھل کر آگیا ہے کہ کل کا سیاسی اور نظریاتی نقشہ کیا ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ اس مرحلے پر قوم کی منزلِ سفر حقیقی اسلامی اور فلاحی جمہوریت ہوگی یا ایک ایسی ’’ٹیسٹ ٹیوب جمہوریت‘‘ جس میں فیصلہ کن اختیار فوج کے سربراہ کو حاصل ہوگا‘ خواہ اس نظام پر پارلیمنٹ کا ملمع ہی کیوں نہ چڑھایا گیا ہو۔

اس پہلو سے یہ انتخابات کچھ اسی قسم کی اہمیت اختیار کر گئے ہیں جیسے ملّت اسلامیہ پاک و ہند کی تاریخ میں ۱۹۴۶ء کے انتخابات اور پھر پاکستان کی تاریخ میں ۱۹۷۰ء کے انتخابات۔ اول الذکر میں قائداعظم کی قیادت میں قوم نے صحیح فیصلہ کیا اور انگریز حکمران اور کانگریس دونوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان کی آزاد اسلامی مملکت وجود میں آئی اور آخرالذکر میں غلط فیصلے کے نتیجے میں بالآخر قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوا اور آج تک ملک اندرونی کش مکش ‘ غربت اور قرضوں کی محتاجی اور سول بیورو کریسی‘ فوجی بیورو کریسی اور جاگیردار سرمایہ دار گٹھ جوڑ کی گرفت میں ہے۔

جنرل پرویز مشرف سیاسی قیادت کی خودغرضی‘ بے تدبیری اور عاقبت نااندیشی کا فائدہ اٹھا کر برسرِاقتدار آئے اور احتساب اور صاف ستھری جمہوریت کا عہد کر کے عدالت عالیہ کی بیساکھیوں کے سہارے تین سال سے حکومت کر رہے ہیں۔ جو وعدے انھوں نے قوم سے کیے تھے وہ ماضی کے حکمرانوں کے وعدوں سے زیادہ مختلف ثابت نہ ہوئے اور آہستہ آہستہ انھوں نے ایک ایسا سیاسی نقشہ وضع کر ڈالا جس کا مقصود ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے‘ اپنے اقتدار کو طول دینا‘ نظامِ حکومت کو اپنی منشا کے مطابق قطع و برید کا نشانہ بنانا اور فوج کو سیاسی نظام میں ایک مستقل کردار دے کر جمہوری قبا میں جرنیلوں کی حکومت کو دوام بخشنا بن گیا ہے۔

جنرل صاحب جس سمت میں اس ملک کو لے جانا چاہ رہے ہیں اس کے خدوخال پچھلے دو سال میں آہستہ آہستہ بالکل نمایاں ہوگئے ہیں۔ صدارت کا حصول‘ ریفرنڈم کا ڈھونگ‘ لیگل فریم ورک کی گل افشانیاں‘ وحدت حکم (unity of command) کا فلسفہ‘ احتساب کی جانب داریاں‘ کنگز پارٹی کی جولانیاں اور اب ۱۳ ستمبر کو نیویارک کے خطاب میں اس ارشاد کے بعد کہ ’’مجھے سات سال دیں‘ میں پاکستان میں سیاست کا نقشہ اور کلچر تبدیل کر دوں گا‘‘ (ڈان‘ ۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء) تو کوئی پردہ باقی رہا ہی نہیں ہے کہ وہ اس ملک و قوم کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس پورے عمل میں اگر کوئی امید کی کرن ہے تو وہ ۱۰اکتوبر کے انتخابات ہیں جب قوم کو انتخابی عمل کے حکمرانوں کے حسب منشا ’انتظام‘ کے خطرات کے باوجود کسی نہ کسی درجے میں یہ موقع مل رہا ہے کہ اس خطرناک سفر کو لگام دے دے اور ملک کو ایک ناقابل تلافی تباہی سے بچالے۔

پاکستان کی ۵۵ سالہ تاریخ اپنے اندر سب کے لیے عبرت کا بہت سامان رکھتی ہے۔ جہاں صرف سات سال کی تاریخ ساز جدوجہد کے نتیجے میں قائداعظم کی مخلصانہ قیادت نے ملّت اسلامیہ کے حقیقی مزاج‘ عزائم اور ارمانوں کے مطابق سیاسی تحریک کے ذریعے مسلم دنیا کے سب سے بڑے آزاد ملک کے قیام کے خواب کو حقیقت بنا کر دکھا دیا‘ وہاں خلوص اور صلاحیت سے عاری مفاد پرست سیاسی قیادت‘ سول بیوروکریسی اور جرنیلوں کی حکمرانی نے ملک و قوم کو ایک بحران کے بعد دوسرے بحران میں مبتلا کیا۔ غربت میں اضافہ ہو گیا‘ تعلیم اور خوش حالی کا خواب پریشاں تر ہو گیا۔ مشرقی پاکستان ہاتھ سے گیا اور کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی جاری ہے‘ ملک پر قرضوں کا بار بڑھ رہا ہے اور اب تو آزادی اور خودمختاری کے بھی لالے پڑ رہے ہیں۔ قوم کی قسمت کے فیصلے بیرونی دبائو‘ دھمکیوں اور ’کوئی دوسرا راستہ نہیں‘ (no-option) کے تاریک سایوں کے تحت ہو رہے ہیں۔ سول حکمرانی کے ۲۸ سال اور فوجی حکمرانی کے ۲۷ سال دونوں اپنے اپنے انداز حکمرانی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ صحت‘ توانائی‘ معاشرتی عدل‘ قانون کی حکمرانی‘ اخلاقی استحکام‘ قومی سلامتی غرض جس پہلو سے بھی حالات کا جائزہ لیا جائے اور نفع و نقصان کا بے لاگ میزانیہ بنایا جائے توچند مثبت پہلوئوں کے باوجود منفی پہلوئوں اور بگاڑ اور فساد کا پلّا بھاری ہے۔ قراردادمقاصد‘ ۱۹۷۳ء کا دستور‘ نیوکلیر صلاحیت کا حصول سنگ میل ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر سول حکومت نے قوم کو مایوس کیا اور ہر فوجی حکمران نے حالات کو اور زیادہ بگاڑا ___ یہ دونوں تجربے اس لیے ناکام رہے کہ کسی نے بھی دستور کی پابندی‘ قانون کی بالادستی‘ انصاف کے قیام اور قواعد و ضوابط کے احترام کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جو قیادت خود دستور اور قانون کو توڑنے کی مجرم ہو‘ وہ دوسروں سے دستوراور قانون کی پاسداری کا مطالبہ یا توقع کیسے کر سکتی ہے؟ ہماری ساری خرابیوں کی جڑ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی‘ دستور‘ قانون اور مسلمہ اصولوں سے انحراف‘ عوام اور ان کی ضرورتوں‘ خواہشوں اور تمنائوں سے روگردانی ‘مفادات اور ذاتی اغراض کے لیے قومی اور عوامی مصالح کی قربانی ہے اور احتساب کے نظام کا فقدان ہے۔ جمہوری عمل کو بار بار سبوتاژ کرنے کا نتیجہ یہی ہوسکتا تھا۔

ان حالات میں انتخابات کا انعقاد ایک ایسا موقع ہے جس سے عوام اپنے صحیح کردار کے ذریعے سیاسی عمل کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں۔

ان عمومی حالات کے پس منظر میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات نے غیر معمولی اہمیت اس لیے اختیار کر لی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے تین سالہ دور اور ان کے اگلے پانچ اور سات سالہ عزائم نے قوم کودرپیش خدشات اور خطرات کو ہزارچند کر دیا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کے اظہار میں کوئی باک نہیں کہ سول قیادتوں اور سیاسی جماعتوں نے‘ خصوصیت سے برسراقتدار نام نہاد بڑی جماعتوں نے‘ عوام کو بے حد مایوس کیا ہے اور ان کا ریکارڈ شرم ناک ہے۔ لیکن یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جرنیلوں کی حکومتوں نے اور سول اور ملٹری بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ نے بھی اس سے کچھ بڑھ کر ہی مایوس کیا ہے۔ چونکہ فوج کے سیاست میں ملوث ہو کر ناکام ہونے سے سیاست اور معیشت ہی متاثر نہیں ہوتی‘ قومی سلامتی اور خود فوج کا غیر متنازع قومی کردار بھی بری طرح مجروح ہو جاتا ہے‘ اس لیے یہ سودا زیادہ ہی خسارے کا سودا ہے۔ اب قوم کو یکسو ہو جانا چاہیے کہ جمہوری سیاسی عمل ہی اپنی ساری خرابیوں کے باوجود بہتر طریق کار ہے۔ اسی راستے پر آگے بڑھنے اور اس کی خرابیوں کو دور کرنے میں ہی بھلائی اور سلامتی ہے‘ جمہوری سیاسی عمل کی بساط لپیٹ کر فوج کی قیادت کے سیاست کی باگ ڈور سنبھالنے یا سیاست کا حصہ بن کر یا پیچھے سے ڈور کھینچنے میں نہیں۔

پانچ اہم مسائل

اس وقت قوم کو جو گمبھیرصورت حال درپیش ہے اس کے پانچ پہلو اکتوبر کے انتخابات کو اہم تر بنادیتے ہیں:

فوج کا کردار: پہلا مسئلہ ملکی سیاست میں فوج کے کردار کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب اب کھل کر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوج کا ایک واضح کردار‘ بلکہ فیصلہ کن کردار ہونا چاہیے۔ ہماری نگاہ میں یہ تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں سیاست دانوں نے جوبھی غلطیاں کی ہیں اور جس جس نے بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی وہ ایک عظیم غلطی تھی جو فوج کے مستقل کردار کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔فوجی حکومتوں کا ریکارڈ‘ بشمول جنرل پرویز مشرف کی حکومت‘ کچھ زیادہ ہی مایوس کن رہا ہے اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کا تجربہ یہ بتا رہا ہے کہ فوج کی قیادت‘ اپنی تربیت‘ صلاحیت کار‘ ذہنی ساخت اور تجربات کی بنا پر سیاسی نظام کو چلانے اور جمہوری طرزحکمرانی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہل نہیں ہوتی۔ اس سے اس کی توقع بھی عبث ہے۔ بلکہ ستم یہ ہے کہ اسے اس کا ادراک بھی نہیں ہو پاتا جس کا تازہ ترین ثبوت وہ واقعہ ہے جو جنرل پرویز مشرف کے امریکہ کے ۹ ستمبر کے ہاورڈ یونی ورسٹی کے خطاب کے دوران پیش آیا۔ جنرل صاحب نے وہاں کے اساتذہ اور طلبا کے سامنے فرمایا کہ:

I am extremely democratic, you have to  believe  me.

میں انتہائی جمہوریت پسند ہوں‘ آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا پڑے گا۔

جس پر پورا ہال قہقہہ سے گونج اٹھا۔ اس پر اس شعر سے بہتر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے جو اقبال نے بالِ جبریل میں سرفہرست رکھا ہے    ؎

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ فوج کا مزاج اور جمہوری نظام کا مزاج ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے اور اگر فوج کے لیے ’وحدت حکم‘ ضروری ہے تو جمہوریت کے لیے تنوع اور اختلاف رائے جوہر کا درجہ رکھتے ہیں۔ محض ڈنڈے سے نظام حکمرانی کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاست میں ملوث ہونے کے بعد فوج ایک اچھی فوج نہیں رہ سکتی۔ اس کی صلاحیت ِ کار (professionalism) بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ فوج پوری قوم کے اعتماد کا مرکز و محور نہیں رہ سکتی بلکہ سیاست میں آنے کے بعد متنازع بھی ہو جاتی ہے اورفطری طور پر تنقید و احتساب کا ہدف بھی بنتی ہے۔

ان انتخابات میں یہ بات طے ہو جانی چاہیے کہ فوج کا مقام سول نظام کے تحت ملک کا دفاع ہے‘ ملک کا نظام چلانا نہیں۔

ملک کا نظریاتی تشخص: دوسرا اہم مسئلہ ملک کے نظریاتی تشخص اور اخلاقی و تہذیبی شناخت کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں ’’کمال ازم‘‘ اور ’’سیکولرازم‘‘ سے لے کر ’’انتہا پسندی‘‘ کے خلاف جنگ‘ مدارس میں دراندازی‘ جہادی کلچر سے برأت اور ترقی پسندی اور لچک (flexibility) کے اظہار تک ایسی باتیں بار بار کہی گئی ہیں‘ اس تسلسل سے کہی گئی ہیں اور عملاً تعلیم‘ میڈیا‘ کلچر اور دوسرے میدانوں میں ایسے اقدام کیے گئے ہیں جن سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ اور ان کے قریبی رفقا ملک کو اس کی تاریخی اسلامی بنیادوں سے ہٹا کر مغربیت اور سیکولر کلچر کی راہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جو اس قوم کے مزاج اور عزائم‘ اس کی تاریخی جدوجہد اور اس کے اہداف اور اس کے ایمان کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ ان انتخابات کے ذریعے یہ بات بھی طے ہو جانی چاہیے کہ یہ قوم مسلمان ہے‘ اس کی منزل اسلامی فلاحی ریاست ہے اور یہ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے چلن کوعام کرنا چاہتی ہے۔ یہاں کوئی دوسرا نظام اور نظریہ کبھی نہیں چل سکتا‘ خواہ اس پر کیسے ہی پردے کیوں نہ ڈالے جا رہے ہوں۔

امریکہ کے عالمی استعماری عزائم: تیسرا اہم مسئلہ امریکہ کے عالمی استعماری عزائم کے باب میں ہمارا کردار اور مقام ہے۔ فوجی حکمرانی کے ہر دور میں پاکستان امریکہ سے قریب آیا ہے اور امریکہ نے ہمیشہ بے وفائی اور مطلب براری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد امریکہ نے عالمی تسلط کا جو پروگرام شروع کیا اس میں پاکستان ایک آلۂ کار بن گیا ہے اور یہ جنرل پرویز مشرف صاحب کی سیاست کا شاہکار ہے کہ انھوں نے امریکہ کو یہ حق دیا ہے کہ پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر اپنی بندوق سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے۔ جنرل صاحب سینے پر ہاتھ رکھ کر دعوے کر رہے تھے کہ افغانستان میں امریکہ کی کارروائی مختصر ہو گی‘ چند متعین اہداف تک محدود ہوگی اور جلد امریکہ واپس چلا جائے گا۔ آج یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ نہ یہ کارروائی مختصر ہونی تھی اور نہ محض افغانستان تک محدود۔ یہ ایک عالمی جنگ کا حصہ ہے اور اس کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ممالک اور ملّت اسلامیہ بلکہ خود اسلام ہے۔ اب پاکستان کے ساتھ اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس جال سے کیسے نکلے۔ امریکہ سے ہماری کوئی جنگ نہیں اور ہم اس سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں بشرطیکہ ہماری آزادی‘ ہماری اقدار اور ہمارے مفادات محفوظ ہوں لیکن امریکہ کا آلہ کار بننا اور پھر امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے بارے میں پسپائی یہ قوم کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ جنرل صاحب کے بیانات سے بھی ظاہر ہے کہ وہ ایک جال میں پھنس گئے ہیں اور نکلنے کا راستہ نہیں پارہے ہیں۔ ادھر امریکہ‘ جمہوریت اور فروغ جمہوریت کے بارے میں اپنے تمام دعوئوں کے باوجود آمریت سے سمجھوتے اور آمروں سے دوستی کا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ جنرل صاحب کے مفید مطلب ہے۔ اس لیے وہ کشمیر پر اچھے بیانات کے ساتھ جو عملی اقدامات خارجہ پالیسی اور داخلی سیاست کے میدانوں میں کر رہے ہیں وہ امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے والے اور اس کے پائوں اس علاقے میں‘ بشمول پاکستان میں گاڑ دینے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے ان انتخابات میں یہ بھی طے ہونا ہے کہ امریکہ سے ہماری دوستی کی حدود کیا ہیں اور ہماری اپنی آزادی‘کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ اور باوقارحل اور اُمت مسلمہ کے مفادات کی حفاظت کے سلسلے میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا۔

معیشت کی بحالی: چوتھا مسئلہ ملک کی معیشت اور اس کو ورلڈ بنک کے چنگل سے آزاد کرانے کا ہے۔ جنرل صاحب کے دور میں ہماری معیشت پر عالمی مالیاتی اداروں‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور بیرونی کارپوریشنوں کی گرفت مضبوط تر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں غربت بڑھی ہے‘ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے‘ پیداواری عمل میں تیزی مفقود ہے‘ دولت کی عدم مساوات اور زیادہ غیرمنصفانہ ہوگئی ہے‘ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی نج کاری کے نام پر عوام کی زندگی تلخ تر ہو گئی ہے۔ کاشتکار اپنی پیداوار کی جائز قیمت سے محروم ہے۔ ملکی صنعت خودانحصاری سے دُور ہو رہی ہے اور مارکیٹ اکانومی کے نام پر بیرونی دنیا پر ہمارا انحصار بڑھ رہا ہے اور صنعتی استعداد محدود ہو رہی ہے‘ قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور ظلم و استحصال کا دور دورہ ہے۔ حکومت اور عوام‘ حکمران اور تاجر‘ کسان اور مزدور برسرِپیکار ہیں۔ ضروریات زندگی مہنگی ہو رہی ہیں اور بجلی‘ پانی‘ گیس‘ پٹرول وغیرہ جیسی ضروریات کی قیمت بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں مصارف زندگی اور مصارف پیداوار دونوں بڑھ رہے ہیں۔ ملک معاشی استحکام سے محروم ہے‘ عوام اور تاجر ٹیکسوں کی بھرمار سے جاں بلب ہیںاور ملک و قوم کی خود انحصاری کا خواب ایک پریشان خواب بنتا جا رہا ہے۔یہ انتخاب اس امر کا بھی موقع فراہم کر رہا ہے کہ قوم ورلڈ بنک اور اس کے ہرکاروں کی دست برد سے آزاد ہو اور ہم پاکستان کی معیشت کی خودانحصاری کی بنیاد پر ترقی اور عوام کی خوش حالی کے حصول کے لیے نئی معاشی حکمت عملی بنا سکیں۔ مسلم دنیا میں بیشتر ممالک کی صنعت ورلڈ بنک کے ہاتھوں گروی (mortgage) ہے اور اس سے نجات کے بغیر حقیقی معاشی اور سیاسی آزادی محال ہے۔ جنوبی امریکہ کے ایک زمانے کے ترقی پذیر ممالک امریکہ اور ورلڈ بنک کی حکمت عملی اور قرضوں کی سیاست کے نتیجے میں آج نشانِ عبرت بن گئے ہیں۔ یہی حال انڈونیشیا کا ہے۔ اس انجام سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ خود انحصاری کا راستہ ہے‘ پرویز مشرف اور شوکت عزیز کا مسلط کردہ راستہ نہیں۔

جمہوری اقدار کا احترام: پانچواں مسئلہ اندرونی اور نظام حکمرانی سے متعلق ہے۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ایک ضروری اور ناگزیر شرط ہیں لیکن محض انتخابات کو جمہوریت کے لیے کافی (sufficient) قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دستور کا احترام‘ قانون کی پاسداری‘ بنیادی آزادیوں کی ضمانت‘ حقوق کا تحفظ‘ اختلاف کا حق اور موقع‘ عدالت کی آزادی اور بالادستی‘ فوج کی عدم مداخلت‘ کسی بھی فردِواحد کی دراندازیوں سے تحفظ‘ انتخابات میں سب کو برابر کے مواقع کا حصول‘ نیز انتخابات میں ہر قسم کی سرکاری مداخلت اور سرکاری سرپرستی میں ’’چہیتوں‘‘ اور ’’ہم خیالوں‘‘ کی حوصلہ افزائی سے محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ جنرل صاحب نے ریفرنڈم سے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے وہ نت نئی شکلوں میں جاری ہے۔ پھردستوری ڈھانچے کو تباہ کرنا‘ اختیارات کا اپنے ہاتھوں میں ارتکاز‘ کنگز پارٹی کا قیام‘ گورنروں‘ سیکرٹریوں اور آئی ایس آئی کا سیاست میں ملوث ہونا‘ یہ سب جمہوریت کے لیے سم ّ قاتل ہیں۔ جن افراد نے بھی قوم کے سرمایے کو لوٹا اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ان کا تعلق خواہ ارباب سیاست سے ہو‘ یا انتظامیہ سے‘ یا فوج اور عدالت سے‘ ان کا بے لاگ احتساب ضروری ہے‘ لیکن من مانا احتساب اور جزوی اور جانب دارانہ احتساب دراصل احتساب کی نفی اور کرپشن کی ایک بدترین شکل ہے۔ انتخابات کو اپنے عزائم کے مطابق منعقد (manage)کرنا جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور جنرل صاحب‘ ان کا احتساب بیورو‘ ان کا ادارہ قومی تعمیرنو‘ ان کے گورنر اور دوسرے اہل کار اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔ بلاشبہہ انتخابی نتائج پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اور اس کے خلاف جتنا بھی احتجاج کیا جائے کم ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود انتخابات ہی وہ ذریعہ ہیں جن سے ان تمام کوششوں کے علی الرغم اس منہج کے خلاف جدوجہد ہو سکتی ہے۔ انتخابات کی اپنی حرکیات (dynamics) ہیں جو ساری تدبیروں کو بہا کر لے جا سکتی ہیں۔ ۱۰اکتوبر کے انتخابات کو اس پہلو سے بھی ایک سنگ میل بنایا جا سکتا ہے کہ سرکاری مداخلت کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیا جائے اور حقیقی معنوں میں ’’سلطانیِ جمہور‘‘ کی راہ ہموار ہوسکے۔

یہ وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پرہماری نگاہ میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ہم پاکستانی قوم کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان انتخابات میں ۱۹۴۶ء والی حکمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں اور ۱۹۷۰ء والی غلطی سے ملک و ملّت کو محفوظ رکھنے کے لیے جان اور مال کی بازی لگا دیں۔

ووٹ کا حق اور اس کا استعمال

اکتوبر کے انتخابات کی اس خصوصی اہمیت کے ساتھ ہم یہ بات بھی قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ ووٹ کا صحیح استعمال ایک دینی‘ اخلاقی اور سیاسی فریضہ ہے اور ایک مسلمان قوم کے لیے تو اس کی اہمیت محض دنیاوی مقاصد و اہداف کے لیے نہیں بلکہ آخرت کی جواب دہی اور قضا و قدر کے اخلاقی اور آفاقی قانون کی پاسداری کے لیے بھی ضروری ہے۔ دینی اور اخلاقی اعتبار سے ووٹ اگر ایک شہادت اور گواہی ہے تو دوسری طرف ایک قومی امانت اور نظامِ حکومت کے چلانے کے لیے آپ کی طرف سے اپنا وکیل اور نمایندہ مقرر کرنے کی ذمہ داری ہے جس کے غلط استعمال کے نتائج صرف سیاسی اور دنیاوی اعتبار ہی سے  تباہ کن نہ ہوں گے بلکہ آخرت کی جواب دہی اور گناہ و ثواب کے باب میں بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنے ان تمام بھائیوں اور بہنوں کو جو ووٹ کا حق رکھتے ہیں‘ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع مرحوم کے اس شرعی فتوے کی یاد دہانی کرائیں جس میں انھوں نے اس حق کو استعمال کرنے کی فرضیت اور اس کے صحیح استعمال کے اصول و آداب کی نشان دہی کی ہے۔ ہر مسلمان تک اس پیغام کو پہنچانا چاہیے تاکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کے لیے ووٹ کا صحیح استعمال کرے۔ مفتی محمد شفیع  ؒ نے لکھا ہے کہ:

انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے‘ جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام۔ اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام ہے۔ اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بھی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیںشرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے‘ جس کام کے لیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کوسامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

                ۱- آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمایندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا‘ وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا برے اقدامات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔

                ۲- اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے‘ ثواب و عذاب بھی محدود۔ قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ اس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے‘ اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

                ۳- سچی شہادت کا چھپانا ازروے قرآن حرام ہے۔ اس لیے آپ کے حلقہ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل اور دیانت دار نمایندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی گناہ کبیرہ ہے۔

                ۴- جو امیدوار نظام اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے اس کوووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے‘ جو گناہ کبیرہ ہے۔

                ۵- ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے‘ اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا‘ کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو‘ کوئی دانش مندی نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے۔ (جواہر الفقہ‘ ج ۲‘ ص ۳۰۰-۳۰۱‘ مکتبہ دارالعلوم‘ کراچی)

مفتی صاحب قبلہ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ گویا قرآن پاک کے ان احکام کی تشریح و توضیح ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o (النساء۴:۵۸)

اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)

اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو‘ کچھ شک نہیں کہ خدا تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ المستشار موتمن(جس سے مشورہ لیا جائے اسے امانت دار ہونا چاہیے۔  سنن ابی داؤد)۔ اسی طرح  بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں لوگوں سے کچھ بیان کر رہے تھے کہ ایک اعرابی آپؐ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا:جس وقت امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ اس نے پوچھا: امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ صَدَقَ رَسُولؐ اللّٰہ!

ہم اپنی قوم کے ہر بھائی اور بہن سے سوال کرتے ہیں کہ آج ملک و ملّت جس قیامت کی گرفت میں ہے کیا وہ انھی احکام الٰہی کی خلاف ورزی کا نتیجہ نہیں؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ۱۰ اکتوبر کے انتخابات کو تلافی مافات کا ذریعہ بنائیں۔

کارکنوں کی ذمہ داری

متحدہ مجلس عمل کے ہر کارکن سے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ بلاشبہہ انتخابات ہمارے لیے سیاسی نظام کی اصلاح‘ تبدیلی ٔ قیادت اور ملک کو ظلم اور ناانصافی سے بچانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ خود ہمارے اور ہماری قوم کے لیے خوداحتسابی‘ اور دین کی تفہیم اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے عزم کی تجدید کا موقع ہیں۔ ہمارے لیے انتخابات دعوت کا بہترین موقع ہیں۔ ہمارا مقصد وجود پوری انسانیت کو اور خصوصیت سے اپنی قوم کو اللہ کے دین اور اس کے رسولؐ کے طریقے کی طرف بلانا ہے۔ انتخابات ہمیں یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ محض جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے نہیں بلکہ ایک ایک گھر تک رسائی حاصل کرکے اور ایک ایک فرد سے مل کر اسے اصلاح ذات کے ساتھ اصلاح نظام کی طرف بلائیں اور ووٹ کی اہمیت اورووٹ کے ذریعے تبدیلی کے لیے اس کو صحیح کردار ادا کرنے کی دعوت اور ترغیب دیں۔ ہمیں اپنی قوم میں یہ احساس بھی پیدا کرنا ہے کہ ہم محض خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ اپنی اور اپنے ملک کی قسمت کو بدلنے کے لیے عملی جدوجہد کریں۔ ہمیں ان کو یہ دعوت بھی دینی ہے کہ بگاڑ صرف سیاست اور اجتماعی نظام اور ادارے ہی میں نہیں خود ہم میں بھی ہے اور ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کے نظام کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ قومی احتساب کا بھی ایک بڑا اہم ذریعہ ہے تاکہ ہرقیادت یہ جان جائے کہ عوام محض کالانعام نہیں بلکہ رد و اختیار کا آخری حق ان کے پاس ہے جسے وہ موثر انداز میں استعمال کر کے حالات کی رو کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہی حقیقی جمہوریت ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اللہ کے عتاب سے بچ سکتے ہیں اور اس کی رحمتوں کے مستحق بن سکتے ہیں۔ اگر اس نیت اور جذبے سے ہم انتخابی مہم میں جان کھپا دیں تو یہ عبادت بھی ہے اور اصلاح احوال کا تیر بہدف نسخہ بھی۔ اللہ کی یاد‘ اس سے استعانت کی طلب اور اس کے بندوں کو خیر کی راہ پر لگانے اور حسنات کے حصول کی جدوجہد میں شریک کرنے کی نیت اور جذبے سے اگر آپ انتخابی مہم میں کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس جدوجہد پر اپنی برکتیں نازل فرمائے گا‘ دلوں کو آپ کی بات کے لیے کھول دے گا اور بند دروازے ان شاء اللہ وا ہو جائیں گے۔ یہی کامیابی کی راہ ہے۔

آپ کا فرض

آپ کا کام کوشش کرنا اور بھرپور انداز میں کوشش کرنا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان انتخابات کو متاثر کرنے اور مفید مطلب نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے جا رہے ہیں‘ کیا کیا منصوبے بنائے جارہے ہیں‘ کیا کیا کرتب دکھائے جائیں گے۔ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی ہم پر اثرانداز نہیں ہونی چاہیے۔ انسانوں میں خیر اور شر دونوں کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے۔ آپ ان کی نیکی کی صفت کو اپیل کریں اور اس زبان میں کریں جسے وہ سن سکیں اور سمجھ سکیں۔ آپ انسانوں کو دوستوں اور مخالفوں کی صفوں میں نہ بانٹیں بلکہ سب تک پہنچیں اور سب کو دعوت دیں کہ حق کا ساتھ دیں۔ آپ کا رویہ اور آپ کی ساری مہم ان اخلاقی حدود کے اندر ہو جو شریعت نے ہمارے لیے رکھی ہیں۔ آپ کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں‘ پھر دیکھیں کہ کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔ آپ کا رویہ خدمت اور بھلائی کا ہونا چاہیے اور آپ کو اپنی دعوت اور پیغام کو لوگوں کے حقیقی مسائل اور مصائب سے مربوط کر کے پیش کرنا چاہیے۔ آپ انھیں اللہ کی طرف بلائیں اور ساتھ ہی آپ انھیں بتائیں کہ اسلام محض ایک نظریہ یا خوش آیند خواب نہیں بلکہ ہماری مشکلات کا حقیقی حل بھی ہے۔

آپ اپنے علاقے کے خصوصی مسائل پر توجہ صرف کریں اور آپ کے نمایندے لوگوں کو بتائیں کہ ان کے سامنے آپ کی خدمت اور آپ کی مشکلات کو حل کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر شخص کو انصاف ملے‘ اس کی حقیقی ضروریات عزت کے ساتھ پوری ہوں‘ یہاں کوئی بھوکا‘ننگا اور بے سہارا نہ ہو۔ ہر بچے کو دینی اور دنیوی تعلیم ملے‘ ہر مریض کے لیے دوا دارو کا بندوبست ہو‘ ہر محنت کش کو اس کا حق ملے‘ ہر کسان کو اس کی پیداوار کی صحیح قیمت موصول ہو‘ ہر بیوہ اور یتیم کا کوئی ولی و وارث ہو۔ اس طرح بحیثیت مجموعی اس ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا بندوبست ہو‘ اسے قرضوں کی لعنت سے نجات ملے‘ یہ سود سے پاک ہو سکے‘ اس کے قومی دفاع کو مضبوط تر کیا جائے‘ کشمیر کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت و تائید ہو‘ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے اور ان کے خلاف صف آرا کرنے کی ہر سازش کا پردہ چاک کیا جائے اور قومی وقار اور آزادی کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے۔ نیز ملک کے تمام شہریوں کے درمیان‘ بلالحاظ رنگ و نسل و مذہب‘ رواداری‘ تعاون باہمی اور حقوق و فرائض کی ادایگی کا اہتمام ہو۔ نفرتیں ختم کی جائیں اور محبت کے ذریعے‘ جو فاتح عالم ہے‘ دلوں کو جوڑنے اور حقیقی بھائی چارا پیدا کرنے کی سعی کی جائے۔

متحدہ مجلس عمل کا منشور انھی اہداف کو قوم کے سامنے لایا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پیغام کو گھرگھر پہنچائیں اور اللہ کے بندوں کو ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل کریں اور ایسے لوگوں کو زمام کار سونپنے کے لیے قوم کو آمادہ کریں جو اپنی ذات کے مقابلے میں اپنی قوم ‘اپنے ملک اور اپنے دین کے مفاد کے حصول کے لیے ہر قربانی دینے کا داعیہ رکھتے ہوں۔ اگر ہمارے عوام زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ     ؎

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ان کے دکھ کے مداوے کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں اور خود ان کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کریں۔ انتخابات دراصل اسی جدوجہد کا ایک حصہ ہیں۔ ہماری نگاہ انتخابات پر بھی ہے‘ مگرانتخابات کے بعد بھی اسی جدوجہد کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔ نتائج خواہ کچھ ہوں‘ یہ کوشش خود اپنا انعام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم سچی نیت اور خدمت خلق کے جذبے سے‘ اصلاح احوال کے لیے‘ تن‘ من‘ دھن سے کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ بہتر نتائج ضرور نکلیں گے لیکن مومن کی نگاہ نتائج سے زیادہ مقاصد پر ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ :

یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا‘ ہارے بھی تو بازی مات نہیں

موثر انتخابی مہم

بلاشبہہ یہ انتخابات چند در چند تحدیدات (limitations) کے دائرے میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔ وہ تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جن سے انتخابات سے پہلے ہی پسندیدہ عناصر اور جماعتوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اس میں حلقہ بندیوں سے لے کر نمایندوں کی منظوری اور نامنظوری اور انتخابی مہم کو موثر لہر نہ بننے دینے کے تمام اقدامات شامل ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود ہمارا فرض ہے کہ عوام تک پہنچیں‘ ووٹروں کو گھروں سے نکلنے اور اپنا حق استعمال کرنے اور انھیں صحیح فیصلے کرنے کے لیے ہر ممکن مدد و اعانت فراہم کریں۔ انھیں اصل ایشو سمجھانے‘ اصل خطرات سے آگاہ کرنے اور اصل امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے متحرک کریں۔ اس سلسلے میں ان باتوں کا خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے:

۱-  ہمارا اپنا رویہ مثبت ہو جو اخلاقی اقدار کی پاسداری‘ مخالفت میں بھی حدود کے احترام اور عوام کی حقیقی خیرخواہی سے عبارت ہو۔

۲-  بینر‘ پوسٹر‘ جلسے‘ جلوس‘ سب اہم ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم‘ نمایندے اور کارکنوں کا گھر گھر جاکر ایک ایک فرد تک پیغام پہنچانا ہے۔ بلالحاظ اس کے کہ وہ علاقہ یا گھرانہ کس سے وابستہ ہے اور کہاں تک ہمارا موید و معاون ہے‘ ہر شخص تک پہنچنا ہمارا ہدف ہونا چاہیے تاکہ دعوت کا حق ادا ہو سکے۔

۳-  اپنے نمایندے کی خدمات کا ذکر اچھے انداز میں ہو اور اس کے ساتھ پوری کوشش اپنے منشور اور پیغام اور ان انتخابات کی خصوصی اہمیت اور اس میں عوام کو اس بات پر آمادہ کرنے پر ہو کہ وہ پرانے اور آزمائے ہوئے لوگوں کی جگہ اچھی اور نئی قیادت کو سامنے لانے کی کوشش کریں۔

۴-  نمایندوں کا تعارف ضروری ہے لیکن ملک بھر میں کتاب کے نشان کو متعارف کرانا اور کتاب سے ووٹر کی وابستگی پیدا کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔ بیلٹ پیپر پر نمایندے کی تصویر نہیں ہوگی‘ نام اور کتاب کا نشان ہوگا۔ اس لیے کتاب کو نمایاں کرنا ضروری ہے۔

۵-  اپنے علاقے میں کام کا منصوبہ تقسیمِ کار کی بنیاد پر بنائیں اور انتخابی مہم کے آخری دن تک ہرفرد تک پہنچنے کی کوشش کریں۔

۶-  علاقے کے اہم افراد‘ دھڑوں‘ برادریوں‘ قبیلوں وغیرہ سے ربط قائم کریں اور ان کو اپنے ساتھ ملائیں۔ جہاں ضروری ہو نظم کے اعتماد اور رہنمائی کے ساتھ مقامی سطح پر معاملہ کریں۔

۷-  الیکشن کے دن ووٹر کو گھر سے پولنگ اسٹیشن پر لانے کا خاص اہتمام کریں۔ جو افراد گھر میں بیٹھے رہ جاتے ہیں وہ دراصل غلط افراد کے آگے آنے کے ذمہ دار ہیں۔ انھیں یہ احساس دلائیں کہ ان کا ایک ووٹ بھی فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔

۸-  الیکشن کے دن سے پہلے ہر پولنگ اسٹیشن کے لیے فعّال ایجنٹوں کا انتخاب‘ ان کی تربیت اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی مکمل منصوبہ بندی ضروری ہے۔ الیکشن اور پولنگ ایجنٹ کے لیے قواعد کا علم‘ علاقے اور اس کے افراد سے واقفیت‘ اپنے حقوق کا ادراک اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے حکمت اور جرأت سے کام کا سلیقہ ضروری ہے۔

۹-  الیکشن کے پورے عمل میں خواتین کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پوری مہم کے دوران اس پر توجہ رہے۔ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ خواتین کا تعاون حاصل کیجیے خصوصاً پولنگ کے دن کے لیے ہر لحاظ سے اطمینان بخش منصوبہ بندی کیجیے۔

۱۰-  الیکشن میں غلط طریقوں کے استعمال کو روکنے اور رکوانے کے لیے مناسب تیاری کیجیے۔

۱۱-  الیکشن کے نتائج ضابطے کے مطابق حاصل کرنے اور آخری وقت تک موجود رہنے کا اہتمام کیجیے۔

۱۲-  باہر کے نظام سے ربط رکھیے اور ضروری معلومات کی ترسیل اور اگر ضرورت ہو تو نمایندے یا دوسرے اہم افراد سے مدد کے نظام کو موثر رکھیے۔

۱۳-  ہر اشتعال سے اپنے کو محفوظ رکھیے اور اپنے کام کو سلیقے سے انجام دینے اور سب کو قانون اور ضابطے کے احترام کے لیے ترغیب دینے کی کوشش کیجیے۔

۱۴-  ہر قسم کے نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی اور اجتماعی طور پر تیار رہیے۔ ہماری جدوجہد طویل ہے۔ انتخابات منزل نہیں‘ راہ کے سنگ میل ہیں۔ اس لیے ہماری حکمت عملی کو الیکشن سے پہلے‘ الیکشن کے دن اور الیکشن کے بعد کے تینوں مراحل پر محیط ہونا چاہیے۔

یہ چند امور بطور مثال پیش کیے گئے ہیں۔ الیکشن کے تمام تقاضوں کا ادراک اور ان کے لیے مناسب منصوبہ بندی آپ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تدبیر اور حکمت کو بھی اتنی ہی اہمیت دی ہے جتنی اصول اور نظریے کو۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انتخابات میں آپ کو صرف نظریاتی ووٹ ہی نہیں  ہرووٹ کی ضرورت ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیجیے۔

اس سب کے ساتھ سب سے اہم چیز اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط رکھنا‘ اس سے ہر لمحہ دعا کرنا اور اس کی اعانت کو اپنی اصل قوت سمجھنا تحریک اسلامی کے کارکنوں کی اصل پہچان اور ہمارے لیے اس جدوجہد کی جان ہے۔ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھیے‘ اس کی مدد پر یقین رکھیے‘ اپنی سی کوشش کر ڈالیے اور نتائج اس پر چھوڑ دیجیے۔ السعی منا والاتمام من اللّٰہ تعالٰی --- کوشش ہمارا کام ہے اور نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔


(تقسیم عام کے لیے دستیاب ہے‘ ۱۷۵ روپے سیکڑہ۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ایک یادگاردن اور ایک تاریخی موڑ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے!

ستمبر کی اس تاریک صبح کے خونی واقعات کے نتیجے میں امریکہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں ایک ہل چل مچ گئی ہے۔ نیویارک کا فلک تاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر دو گھنٹے میں زمین بوس ہوگیا‘ پینٹاگون کی ناقابل تسخیر دیواریں منہدم ہو گئیں‘ اور دنیا کے ۲۸ ملکوں سے تعلق رکھنے والی ۲۸۹۰ قیمتی جانیں آناًفاناً میں لقمہ اجل بن گئیں--- ایک دنیا ورطۂ حیرت میں تھی کہ دنیا کے سب سے زیادہ طاقت ور ملک کے سیاسی اور تجارتی مراکز میں یہ سب کچھ کیسے ہو گیا--- اور آج ایک سال گزرجانے کے باوجود‘ اور امریکہ کے ایک بپھرے ہوئے شیر کی حیثیت سے ساری دنیا میں تہلکہ مچا دینے‘ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے‘ القاعدہ اور طالبان کی سرزنش کے نام پر ہزاروں معصوم انسانوں کو تہ و تیغ کردینے اور’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر پوری دنیا کو ایک نئے تصادم کی آگ میں جھونک دینے کے باوجود‘ دنیا کی حیرت کا عالم وہی ہے جو ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو تھا‘ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ! اتنا تو بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ ۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد

ع  نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی

لیکن یہ ہنوزایک معما ہے‘ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ کہ جو کچھ ہوا ‘کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کس نے کیاحاصل کیا؟ اور اب ہم سب کہاں جا رہے ہیں؟ یہی وہ سوالات ہیں جو آج ایک سال کے بعد بھی دنیا کے تمام سوچنے سمجھنے والے انسانوں کی نیند حرام کیے ہوئے ہیں اورمسئلہ محض انسانوں کی نیند کا نہیں انسانیت کے مستقبل اور دنیاے تہذیب کے آیندہ نقشے کا ہے۔ بات صرف ایک واقعے‘ ایک حادثے‘ ایک سانحے اور ایک المیے کی نہیں‘ خواہ وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو--- بلکہ پوری انسانی بستی کے دروبست کی ہے‘ اور عالمی بساط پر امریکہ کے کردار اور نئے عالمی نظام کے رخ اور روش کی ہے جس کی لپیٹ میں تمام ہی اقوام عالم آتی جا رہی ہیں۔ سیاست اور عالمی حکمرانی کے نقشے میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور افق پر جو نئے خطرات ابھرکر سامنے آگئے ہیں ان کو نظرانداز کرنا اورصرف خاموش تماشائی کا کرداراختیار کرلینا انسانی تہذیب و تمدن اور اقوام عالم کی آزادی اورحاکمیت کے ایک نئے تاریک دور کی گرفت میں آجانے کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکہ کی قیادت نے جو راستہ اختیار کیا ہے اور اس کے صدر جارج بش اور ان کی ٹیم جس سمت میں بگ ٹٹ دوڑ رہی ہے وہ خود امریکہ‘ پوری انسانی برادری اور خصوصیت سے اُمت مسلمہ اور پاکستان کے لیے بے پناہ خطرات کا پیغام ہے۔ بظاہر ہدف ’’عالمی دہشت گردی‘‘ ہے لیکن جس طرح ۱۱ستمبر کے واقعات کو بنیاد بنا کر امریکی بالادستی کا ایک نیا سامراجی نظام قائم کیا جا رہا ہے‘ اس نے ان واقعات اور ان کے جلو میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور عالمی جنگ و جدل کے بارے میں بڑے بنیادی سوالات اٹھا دیے ہیں جن پر غور کرنا ہماری اور انسانیت کی بقا اوردرپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اوراقدامات کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔ ۱۱ ستمبر کی اس پہلی برسی پر ہم اختصار سے یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ امریکہ نے جس طرح ان واقعات کا سہارا لے کر اپنی عالمی پالیسی کی صورت گری کی ہے۔ اس کے آئینے میں ۱۱ ستمبر کا کیا چہرہ نظر آتا ہے اور عالمی سیاسی بساط (global political chessboard) میں اس واقعے کا کیا مقام متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کیااثرات خود امریکہ‘ عالمی نظام‘ اُمت مسلمہ اور پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم سب کن حالات سے دوچار ہوگئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ خطرات کس نوعیت کی حکمت عملی اور تیاری کا تقاضا کررہے ہیں۔

تفتیش کیوںنہیں؟

سب سے پہلا سوال جس نے ہمیں اور دنیا کے سوچنے سمجھنے والے انسانوں کو پریشان کر رکھا ہے یہ ہے کہ اتنے بڑے واقعہ کے بارے میں اصل حقائق کو جاننے‘ بے لاگ اور شفاف انداز میں اعلیٰ عدالتی تفتیش کے ذریعے صحیح صورت حال کو محقق کرنے‘ اس کے اسباب و محرکات کا تجزیہ کرنے‘ اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کسی ایسی متفقہ حکمت عملی (consensus strategy) کو وضع کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی جس کے اختیار کرنے سے انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ‘سب کو اطمینان حاصل ہوتا‘ جبر کے بجائے رضامندی سے لائحہ عمل طے ہوتے اورانسانیت مستقبل میں ایسے خطرات اور حادثات سے بچ سکتی۔ امریکہ کی قیادت نے جس سہل انگاری‘ جس جلدبازی ‘ جس رعونت اور جس سطحیت کے ساتھ اس گمبھیرچیلنج کے بارے میں اصل سوالات سے بچنے اور اسے اپنے سامراجی مقاصد و مفادات کے لیے استعمال کیا ہے؟ اس نے اس قیادت کی صلاحیت ہی نہیں اس کی نیت اور عزائم کے بارے میں بڑے قوی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ سارا ملبہ ایک شخص --- اسامہ بن لادن پر‘ یا زیادہ سے زیادہ اس کے چند سو یا چند ہزار ساتھیوں (القاعدہ) پر ڈالا جا رہا ہے اور پوری دنیا میں دہشت گردی کا ایک نیا بازار گرم کیا جا رہا ہے حالانکہ ننگی طاقت کے ذریعے اس قسم کے معاملات و مسائل کو کبھی بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔

آج تک کوئی سنجیدہ اور تسلی بخش کوشش اس امر کی نہیں ہوئی کہ اصل واقعے کی مناسب تحقیق ہو‘ تمام حقائق کو بے لاگ انداز میں مرتب کیا جائے اور تجزیہ کر کے متعین کیا جائے کہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کس حد تک کون کون ذمہ دار ہے؟ ان واقعات کے پیچھے کارفرما اسباب وعوامل کیا ہیں اور ان کے ادراک‘ اصلاح‘ تدارک اور مستقبل کے لیے پیش بندی کے لیے کیا کچھ مطلوب ہے؟ غصہ اور انتقام‘ تحقیق‘ تجزیہ اور تدبیر کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ چھوٹے سے چھوٹے واقعے کے لیے تحقیقی کمیشن بنائے جاتے ہیں اور اسباب کا کھوج لگایا جاتا ہے اور اصلاح احوال کی تدابیر مرتب کی جاتی ہیں لیکن اتنے بڑے واقعے کے بارے میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جاتی اور دلیل کے بجائے صرف دعوے کو پالیسی کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ خفیہ معلومات کے نظام کی ناکامی کو بادل ناخواستہ تسلیم کیا جاتا ہے مگر نہ کہیں ذمہ داری کا تعین ہوتا ہے نہ کسی کے خلاف اقدام ہوتا ہے۔ امریکہ کے اپنے سیکورٹی کے اداروں کا ‘ جو ۱۳ اہم ایجنسیوں پر مشتمل ہے‘ جس پر سالانہ ۶۷ ارب ڈالر خرچ ہوتا ہے اور جن میں صرف ایک جو قومی اداروں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے‘ جس کا سالانہ بجٹ ۷.۶ بلین ڈالر ہے اور جس میں ۳۰ ہزار افراد کام کر رہے ہیں۔ اس میں سی آئی اے جس کا بجٹ ۳۰ بلین ڈالر سالانہ ہے اور جو ہے ہی باہر کے ممالک سے آنے والے خطرات کی سراغ رسانی کے لیے‘ ان میں سے کسی کا بھی کوئی احتساب نہیں ہوا۔ حالانکہ اب یہ معلومات بھی سامنے آچکی ہیں کہ اس پورے زمانے میں طالبان سے امریکہ کے مختلف اداروں کا اعلیٰ ترین سطح پر رابطہ تھا‘ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات کا ایک ذخیرہ تھا جو مختلف ذرائع سے سی آئی اے ہی نہیں‘ خود وائٹ ہائوس تک میں موجود تھا اور ۱۰ ستمبر تک ایسی معلومات میزوں پر موجود تھیں جن سے بہت کچھ سراغ مل سکتے ہیں‘ بشرطیکہ یہ سب کچھ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کا کیادھرا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ کے اہم ترین ادارے اپنا فرض ادا نہیں کر سکے تو ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اور ذمہ داری کے تعین کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ کیا یہ سب پردہ داری اس لیے ہے کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ ایک ڈھال (smoke screen) کی حیثیت رکھتے ہیں اور تحقیقات اور احتساب سے اغماض ایک نوعیت کا cover-up ہیں؟ انتظامیہ نے اس موضوع پر خود کانگریس کی کارروائی (congressional hearing) کو ناپسند کیا ‘ اس کو رکوانے کی کوشش کی‘ اور جب رکوا نہ سکی اورخفیہ ایجنسیوں کی معلومات کے بارے میں کارروائی شروع ہوئی تو پہلے معلومات دینے کی مزاحمت کی‘ پھر جومعلومات دی وہ ادھوری تھی‘ اور اس سے بھی بڑھ کر خود سینیٹ کی کمیٹی کی کارروائی کی خفیہ ریکارڈنگ کی جس پر کمیٹی نے توہین کی کارروائی کی دھمکی تک دی۔ کسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا کوئی مواخذہ نہیں ہوا بلکہ انٹیلی جنس کے مجموعی بجٹ میں ۲۰ ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا اور نئی سیکورٹی ایجنسی قائم کی جا رہی ہے جو ملک میں روسی طرز کا نگرانی کا نظام بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس پس منظر میں ہو رہا ہے کہ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کو حب الوطنی کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے (یہ بات شاید تعجب خیز ہے کہ چند ہی لوگ افغان مہم پر تنقید کر رہے ہیں۔ تنقید کو حب الوطنی کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔ نیوز ویک‘ ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۲)۔ بنیادی سوالات اٹھانے والوں کا منہ بندکیا جا رہا ہے‘ پروپیگنڈے کے ذریعے ایک جذباتی فضا بنا دی گئی ہے اور آزاد تحقیق اور حقائق کی تلاش کی کوششوں کو شدت اور قوت سے دبایا جا رہا ہے۔ آزاد تحقیق کرنے والے آج بھی اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کی صلاحیت کار کے بارے میں شکوک کا اظہار کر رہے ہیں۔

فرانس سے شائع ہونے والی دو کتابوں نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے ہیں اور علمی اور سیاسی حلقوں میں ان کتابوں میں پیش کردہ حقائق سے ایک تہلکہ سا مچا ہوا ہے مگرامریکی میڈیا اور حکومت ان تمام چیزوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ فرانسیسی مصنف تھیری میساں (Thierry Meyssan) کی دو کتابوںکا بڑا چرچا ہے۔ ایک (The Horrible Hie) L'Effroyable Imposture جس میں اس نے پینٹاگون پر جہاز کے حملے کا انکار کیا ہے اور بلڈنگ کے نقصان کا تجزیہ کر کے ثابت کیا ہے کہ کسی جہاز کے گرنے سے یہ واقع نہیں ہوسکتا بلکہ میزائل کے ذریعے ہواہے جس کا تانا بانا کسی القاعدہ سے نہیں جڑتا بلکہ کسی اور ہی گروہ یا ایجنسی کا کام ہے۔ اس مصنف کی دوسری کتاب Pentagate اسی ماہ آئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ نے ۱۱ستمبر کی دہشت گردی کے حقائق اور اسباب سے توجہ ہٹا کر اسے اپنے معاشی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے استعمال کیا ہے اور اصل شہادت کو سامنے نہیں لایا گیا یا تباہ کردیا گیا ہے۔

فرانس کے دو دوسرے اہل قلم جین چارلس بریسورو (Jean-Charles Brisoro) اور گلیام  ڈیسکوائر (Guillaum Dasquire) کی کتاب Forbidden Truth (ممنوعہ سچائی) پہلے فرانس سے اور اب امریکہ سے شائع ہوتے ہی ‘عالمی سطح پر ’’سب سے زیادہ فروخت ہونے والی‘‘ (best seller) بن گئی ہے۔ اور اس میں نہ صرف ۱۱ ستمبر کے واقعات کے پیچھے خفیہ قوتوں کی نشان دہی کی گئی ہے بلکہ پورے معاملے کو اس کے سیاسی تناظر میں رکھ کر دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور معاشی کارفرما افراد اور ادارے کس طرح اپنے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق ایک گھنائونا کھیل کھیل رہے تھے اور اب اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسروں کو نشانہ ستم بنا رہے ہیں۔ اس کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کے کھلاڑیوں کی اپنی چالیں کس طرح خود ان کے خلاف پڑ گئیں۔ نیز سارے کھیل کے پیچھے اصل مقصد اور ہدف یہ رہا ہے کہ روس کے زوال کے بعد کسی طرح وسط ایشیا کے وسائل تک رسائی اور افغانستان کے ذریعے اس علاقے پر پورا کنٹرول حاصل کیا جائے۔ یہ مقصد اب امریکہ اور افغانستان کے معصوم انسانوں کی لاشوں پر حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

کتاب کے انگریزی ایڈیشن کا تعارف The Secret History of CIA کے مصنف   جوزف ٹرنٹو نے لکھا ہے اور صاف کہا ہے کہ امریکہ کی قیادت اس پورے معاملے کی سنجیدہ تحقیق گوارا نہیں کر سکتی کہ اس کا اپنا دامن پاک نہیں اور اس میں بہت سے ’’پردہ نشینوں‘‘کے نام آتے ہیں:

ایف بی آئی اور سی آئی اے نے ایک دوسرے کو الزام دینے کی کوشش کی۔ ۱۱ ستمبر کے حملوں کے اگلے ہی دن نائب صدر ڈک چینی نے سینیٹ کے اکثریتی لیڈر ٹام ڈیشے سے بات کر کے یہ کوشش کی کہ وہ خفیہ معلومات کی ناکامی کو کوئی مسئلہ نہ بنائیں۔ کوئی سنجیدہ تفتیش اس لیے نہیں ہو سکتی کہ کوئی بھی سیریس تفتیش بالآخر یہ ظاہر کر دیتی کہ سعودی عرب یا امریکہ کی حفاظت سے زیادہ اہم رقم اور تیل ہیں۔ ایک سنجیدہ تفتیش ظاہر کر دے گی کہ شرق اوسط اور رقم اب بھی بش خاندان کے لوگوں کی پشتیبانی اوران کی مدد کرتے ہیں۔(Forbidden Truth‘ص ۱۲)

مذکورہ کتابوں کے مندرجات ہمارا اصل موضوع نہیں۔ہم اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خود ان میں کہاں تک حقائق کی پردہ کشائی ہے اور کہاں افسانوی داستانیںشامل کر دی گئی ہیں۔ ہماری دل چسپی اس امر سے ہے کہ امریکہ کی قیادت نے تحقیق اور احتساب کے راستے سے کیوں اجتناب کیا اور مسلسل کر رہی ہے۔ ساری توجہ نہ اصل حقائق پر ہے اور نہ واقعے کے پیچھے پائے جانے والے اسباب اورمحرکات سے--- بلکہ نت نئے انداز میں اپنی پسند کے ’’بکروں‘‘ (scape goats) کو نشانہ بنا کر امریکی قیادت ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جس کے نتیجے میں امریکی دستور‘ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ بین الاقوامی قانون اور قانون کی حکمرانی‘ قوموں اور ممالک کی حاکمیت (sovereignty) اور ان تمام اقدار اوراصولوں کو‘ جو برسوں نہیں صدیوں کی جدوجہد کا حاصل ہیں‘ پامال کیا جا رہا ہے اور دنیا کی اقوام پر امریکہ کی سیاسی اورمعاشی بالادستی (hegemony)کوقائم کر کے ایک نئے عالمی سامراج کے دروبست تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ سستے اہداف کی تلاش ایک جاری عمل ہے۔ پہلے اسامہ بن لادن‘ پھر القاعدہ‘ پھرطالبان‘ پھر افغانستان‘ پھر ۳۰ ممالک میں القاعدہ کے حامی‘ پھر عراق‘ایران‘ سوڈان‘ شمالی کوریا‘ اور اب خود سعودی عرب‘ دنیا بھر کی اسلامی اورخدمتی تنظیمیں‘ دینی مدارس اوران سب کا تعاقب کرنے کے لیے نئے نئے اصول بنا کر سلامتی‘ حفاظتی اقدام اور خطرے کے پہلے مقابل کو نشانہ بنانے‘ فوج کشی کرنے اور حکومتوں کو بدلنے کا اختیار گویا

ع   سزا خطاے نظر سے پہلے‘ عتاب جرم سخن سے پہلے

یہی وہ سوالات ہیں جو سوچنے سمجھنے والے انسانوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ۶۰ دانش وروں نے‘ جن میں کئی نوبل انعام یافتہ اصحاب شامل ہیں‘ اپنے اضطراب کا اظہار کیا ہے جو لندن کے اخبار دی گارڈین نے جون ۲۰۰۲ء میں شائع کیا ہے۔ اس میںانھوں نے بڑی اقوام کی‘ دوسرے ملکوں میں موہوم خدشات کی بنیاد پر‘ فوجی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کااظہار کیا ہے‘ بلامقدمہ لوگوں کی گرفتاری اور ان کو اپنے دفاع کے حقوق سے محروم کرنے پر اضطراب ظاہرکیا ہے۔ بش انتظامیہ نے دنیا پر جو جنگ مسلط کی ہے اسے ’’غیر منصفانہ‘ غیر اخلاقی اور ناجائز‘‘ قرار دیا ہے اور دنیا کے لوگوں کو اس کے خلاف جدوجہد کی دعوت دی ہے اور اس جدوجہد میں اپنی شرکت کا عندیہ دیا ہے۔ اس بات پر بھی گرفت کی ہے کہ ۱۱ستمبر اور اس کے بعد کے پورے معاملے کو بڑی سادگی سے ’’محض اچھائی اور برائی کی جنگ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا ہے‘ اور پھر میڈیانے حکومت کا آلہ کار بن کر یہی ڈھول پیٹنا شروع کر دیا ہے۔ یہ پوچھنا کہ آخر یہ خوف ناک واقعات کیوں رونما ہوئے‘ غداری کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔اس لیے اس پر کوئی گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ جوکچھ امریکہ نے کیا ہے اور کر رہا ہے اس کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت پر کوئی سوالات نہیں اٹھائے گئے جب کہ ہر بات کا عملی جواب بس یہ اختیار کر لیا گیا ہے کہ ’’گھر کے باہر جنگ اور گھر کے اندر جبروظلم کے حربے‘‘۔

حال ہی میں جرمنی کے ۸۰ دانش وروں نے امریکہ کی مسلسل تنبیہات اور یورپی اقوام پر دبائو سے تنگ آکر ایک اعلانیہ جاری کیا ہے جس میں صاف الفاظ میں کہاہے کہ امریکی قیادت جس چیز کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کہہ رہی ہے وہ ایک ’’صریح ظلم اور اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ناقابل معافی جرم ہے‘‘۔ جرمن دانش وروں نے امریکہ کے اس موقف کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو وہ افغانستان میں اور دنیا کے دوسرے مقامات پر ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر کر رہا ہے۔ ان کا اعلان ہے کہ اسے ’’مبنی برحق جنگ‘‘ (just war)نہیں کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ حق نہیں کہ وہ انسانی اقدار کی من مانی تاویل کرے اور اپنے کو ان کا اجارہ دار بنا ڈالے(monopolisation of universal values)۔ جرمن دانش وروں نے کہا ہے کہ:

کوئی ایسی اقدار عالمی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہیں جوہمارے ملک میں قتلِ عام (۱۱ ستمبر کے دہشت گرد حملے) کو (افغانستان میں) دوسرے قتلِ عام کا جواز مہیا کریں (دی نیشن‘ ۱۰ اگست ۲۰۰۲ء)۔

برطانیہ کے نومنتخب آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹرویلز نے برطانیہ اور دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ عراق پر امریکہ کی فوج کشی کا کوئی جواز نہیں۔ اس کے الفاظ میں ’’عراقی حکومت خواہ کتنی ہی ظالم کیوں نہ ہو‘ برطانیہ عراق کے خلاف امریکی ممکنہ حملے کی ہرگز تائید نہ کرے۔ یہ حقیقت نہایت افسوس ناک ہے کہ دنیا کی مضبوط ترین طاقت جنگ اور جنگ کی دھمکی کو خارجہ پالیسی کا ہتھیار بنا کر استعمال کر رہی ہے۔ یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے اصولوں کے منافی ہے بلکہ عیسائیت کے مسلمہ پیغام کے بھی برعکس ہے۔ امن حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور انسانوں کو نظرانداز کرنے کی سیاست کے انجام سے بچاجائے‘‘۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ لندن‘ ۲۴ جولائی ۲۰۰۲ء‘ بحوالہ نوائے وقت‘ ۷ اگست ۲۰۰۲ء)

یورپ کے بیش تر ممالک‘ چین‘ روس اور فطری طور پر تمام عرب اور مسلمان ممالک امریکہ کے اس منصوبے پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن امریکی قیادت نت نئے اصول بنا کر دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ سب ۱۱ستمبر کی چھتری تلے کرنے کی کوشش ہے۔

اسامہ بن لادن‘ القاعدہ اور طالبان کے خلاف جو ظالمانہ اور برخود غلط کارروائیاں امریکہ نے کی ہیں‘ ان میں پاکستان کی حکومت نے اس کا ساتھ دے کر‘ خواہ جبرواکراہ ہی کی وجہ سے ہوا‘ جو ظلم اپنے اور اپنی قوم پر کیا ہے‘ وہ ناقابل معافی ہے۔ مگر جنرل مشرف نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں جو نیویارک کے نمایندے کو دیا گیا ہے اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ کیا فی الواقع ۱۱ستمبر کے حملے کا بلاواسطہ تعلق اسامہ بن لادن سے تھا؟ مشرف نے کہا:

ہو سکتا ہے کہ اسامہ حملے کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے مالیات فراہم کرنے میں شریک رہا ہو۔ شاید اسامہ اس میں براہِ راست ملوث نہ ہو (ڈان‘ ۹ اگست ۲۰۰۲ء)۔

اس پر امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ برافروختہ ہوگئے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا الزام ایک دعویٰ ہے جس کے لیے دلیل یا شہادت آج تک فراہم نہیں کی گئی اور اس کے فراہم کرنے کی ضرورت سے بھی انکار اور اغماض برتا جا رہاہے۔ اور یہی وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

عالمی سیاست کا نیا نقشہ

اصل واقعے کا ذمہ دار جو بھی ہو امریکہ کی قیادت نے جس طرح اس کو استعمال کیا ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ امریکہ کی سیاسی قیادت اور اس کی فوجی اور معاشی انتظامیہ کسی ایسے ہی واقعے کی تاک میں تھی جس سے وہ امریکہ میں اپنی گرفت مضبوط کرلے‘ قوم کو حب الوطنی کے نام پر ایک جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دے‘ اور سردجنگ کے بعد کے اس دور کو ایک نئی لام بندی کے لیے مسخر کر کے دنیا کو امریکی مفادات کے تابع لانے کی کوشش کرے۔ امریکہ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک دشمن کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ روس کی کمر ٹوٹنے اور اشتراکیت کے منتشر ہوجانے کے بعد اسے ایک نئے دشمن کی ضرورت تھی۔ اسرائیلی لابی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضا ہموار کر رہی تھی۔ علمی مباحث اور میڈیا کی جولانیاں اس کے لیے وقف تھیں لیکن بات بن نہیں رہی تھی۔ ۱۱ستمبر نے یک قلم وہ فضا بنا دی اور ساری توجہ اسلام‘ مسلمان‘ جہاد‘ دینی مدارس‘ شریعت‘ عرب سرمایہ‘ حتیٰ کہ مغرب کے ہم ساز و ہم راز عرب حکمران--- سب ہی ہدف بن گئے اور بین الاقوامی قانون اور روایات‘ جمہوری اصول و اقدار‘ تاریخی رشتے اور تعلقات سب غیرموثر ہوگئے۔

سیاست کا جو نیا نقشہ وجود میں آ رہا ہے‘ اس کے اہم خدوخال یہ ہیں:

۱- امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور ہے اوراسے حق ہے کہ اپنے مفادکے لیے اپنی مرضی کے مطابق جو اقدام چاہے کرے۔ دوسرے مجبور ہیں کہ اس کا ساتھ دیں۔ اگر وہ بخوشی ساتھ دیں تو فہو المراد‘ورنہ انھیں مجبوراً ساتھ دینا ہوگا یا پھر ان کے علی الرغم امریکہ جو مناسب سمجھتا ہے وہ کرے گا۔ یہی رویہ امریکہ کے ’’فطری حلیفوں‘‘ اسرائیل اور بھارت کا ہے جو امریکہ کے اقدام کا سہارا لے کر اس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ یہ دونوں بالکل انھی خطوط پر کارروائیاں کر رہے ہیں اور اسی زبان میں اپنے جارحانہ اور ظالمانہ اقدام کا جواز پیش کر رہے ہیں۔

امریکہ کے اس متکبرانہ موقف کا صاف لفظوں میں اظہار صدر بش کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈولیزا رائس نے اس طرح کیا ہے:

بش انتظامیہ قومی مفادات کی مضبوط بنیاد سے آگے بڑھے گی نہ کہ ایک جھوٹی نام نہاد عالمی برادری کے مفاد کے تحت۔

اس کی وجہ نیویارک کے ’مرکز براے دستوری حقوق‘ کے صدر مائیکل رٹیز کی نگاہ میں یہ ہے کہ:

دنیا میں امریکہ کے خلاف کوئی زیادہ مزاحمت نہیں ہے۔ اس کے پاس بہت سزا دینے اور لالچ دینے کے لیے بہت گاجریں اور ڈنڈے ہیں۔ کچھ ممالک خفیہ اقدام چاہے کریں‘ لیکن امریکہ اس وقت اتنا طاقت ور ہے کہ ہمیں روکنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکن یونی ورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایلن لچمین امریکی صدر کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:

خارجہ امور میں وہ جوکچھ بھی کرنا چاہے عملاً کر سکتا ہے۔ امریکہ کی طاقت اور اس کے صدر کے اقدامات کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

ان کا نتیجہ ہے کہ امریکہ ایک ہائپر (hyper) طاقت بن گیا ہے اور اپنے کو تمام اصول و ضوابط اور اقدار اور روایات سے بالا تصور کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو امریکہ اور اس کے صدر کو عالمی امن اور انسانی معاشرے میں انصاف اور آشتی کے لیے ایک خطرہ بنائے ڈال رہی ہے۔ امریکہ کے مشہور تھنک ٹینک Cato Institute کی جین ہیلی بھی پکار اٹھی ہے کہ:

یہ بات کہ ایک آدمی تنہا اتنی بڑی جنگ شروع کرنے کا اختیار رکھے گا‘ دستور بنانے والوں کو اپنی قبروں میں بے چین کر دے گا۔

۱۱ ستمبر کے نتیجے میں امریکہ اور اس کی قیادت نے جو روپ دھارا ہے‘ وہ امریکہ اور پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے اور یہ خطرہ محض ایک خیالی خطرہ نہیں‘ بلکہ اس نے عملاً پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔

۲-  امریکہ جس بین الاقوامی معاہدے اور میثاق سے نکلنا چاہتا ہے‘ یک طرفہ طور پر نکل رہا ہے اور جس کا راستہ روکنا چاہتا ہے اسے روکنے کی بے دریغ کوشش کر رہا ہے۔ ماحولیات کے بین الاقوامی معاہدہ کویوٹو پر دستخط کرنے کے بعد اس سے منحرف ہو گیا ہے۔ بیلسٹک میزائل کے بین الاقوامی کنونشن (ICBM) سے بھی منحرف ہو گیا ہے اور روس کو مالی امداد کی رشوت دے کر اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

۳-  بین الاقوامی فوج داری عدالت (International Criminal Court) کے قیام کے لیے ۶ سال تک شریک مشاورت رہنے اور اپنے مفید مطلب دسیوں ترامیم کرانے کے بعد امریکہ نے اس عدالت کے قیام کو رکوانے کی سرتوڑ کوشش کی اور جب مطلوبہ ممالک نے معاہدے کی توثیق کر دی تواسے غیرموثر بنانے کے لیے اقوام متحدہ میںاوراب اقوام متحدہ کے باہر دو طرفہ معاہدات کے ذریعے سرگرم ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر امریکہ اور اس کی افواج پرگرفت نہ کی جاسکے۔ ایک طرف دعویٰ ہے کہ تمام انسان برابر ہیںاور تمام اقوام مساوی درجہ رکھتی ہیں (اقوام متحدہ کا چارٹر‘ یونی ورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس اور خود امریکہ کا دستور ان اصولوں پر مبنی ہے) اور دوسری طرف امریکہ یہ چاہتا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں کیے جانے والے انسانیت کے خلاف کسی جرم پر بھی کسی امریکی فوجی کا مواخذہ نہیں ہونا چاہیے۔ امریکہ ہر ملک پردبائو ڈال رہا ہے کہ اگر امریکی افواج کواستثنا نہ دیا گیا تو ان ممالک کی فوجی اور معاشی امداد بند کر دی جائے گی۔ یہ عالمی سطح پر ایک قسم کی نسلی اور سیاسی تفریق (apartheid) کا نظام قائم کرنے کی مذموم کوشش ہے۔

۴-  امریکہ دنیا کوآزاد تجارت کا درس دیتا ہے لیکن خود ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہاہے۔ حال ہی میں یورپ اور باقی دنیا کی مخالفت کے باوجود اسٹیل کی درآمد پر ۳۰ فی صد ڈیوٹی لگائی ہے‘ زرعی پیداوار کے لیے زرتلافی دے رہا ہے جس سے دنیا کے غریب ملکوں کی زراعت کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں اور اس طرح وہ تیسری دنیا کے ملکوں کے لیے معاشی امداد کے تمام اہداف سے روگردانی کررہا ہے بلکہ اس سلسلے کی کوششوں کو عملاً سبوتاژ کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔

۵-  خود امریکہ میں شخصی آزادیوں کی تحدید کی جا رہی ہے اور دستور کے خلاف ہزاروں انسانوں کو بلاثبوت‘ بلاوارنٹ گرفتار کیا گیا ہے‘ خصوصیت سے عربوں اور مسلمانوں کو --- بارہ سو کے قریب افراد ایک سال سے بلامقدمہ جیلوں میں محبوس ہیں‘ جب کہ متعدد افراد کی پوچھ گچھ کے دوران موت تک واقع ہو چکی ہے۔ ان لوگوں پر مقدمہ چلانا اور جرم کو ثابت کرنا تو کجا ان کے نام تک نہیں بتائے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں حقوق انسانی کے اداروں نے جوبھی کوششیں کی ہیں سب ناکام رہی ہیں حتیٰ کہ اب کچھ جج حضرات یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حکومت کا یہ رویہ عدل و انصاف اور جمہوری نظام کے اصولوں کے منافی ہے اور اسے کم از کم ان کے نام ظاہر کرنے چاہییں (ملاحظہ ہو‘ ڈسٹرکٹ جج گلیڈیز کینلر کا ۲۶ اگست ۲۰۰۲ء کا فیصلہ جس میں حکومت سے کہاہے کہ ۱۵ دن کے اندر ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کیا جائے جو بلامقدمہ جیلوں میں محبوس ہیں۔ حالانکہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء اور نیویارک ٹائمز نے اپنی ۱۰ نومبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں ادارتی نوٹ کے ذریعے ان معلومات کو عام کرنے کا مطالبہ کیا تھا)۔

۱۱ ستمبر کا سہارا لے کر امریکہ کی حکومت نے قرون وسطیٰ کے جابرانہ نظام کو آبادی کے ایک حصے پر مسلط کر دیا ہے۔ اس کا خاص نشانہ مسلمان‘ عرب اور پاکستان ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تین سو سے زیادہ پاکستانی اس آزمایش میں مبتلا ہیں۔

۶-  جاسوسی کا ایک نظام ملک میں رائج کیا جا رہا ہے جس کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرنا‘ ڈاک بند کرنا‘ انٹرنیٹ تک رسائی اور پرائیویسی کی تمام حدود کو پامال کیا جا سکتا ہے۔ آبادی میں مخبروں کا ایک نظام جاری کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے جس پر پریس اور کانگرس کے ارکان چونک اٹھے ہیں۔

۱۱ ستمبر کو حکومت ایک قسم کی پولیس اسٹیٹ ملک پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے جس پر لندن کے روزنامہ ڈیلی مرر نے امریکہ کے یوم آزادی (۴ جولائی ۲۰۰۲ء) پر اپنے پہلے صفحے پر جلی حروف میں لکھا ہے:  "Mourn on the 4th July"  (۴ جولائی کو سوگ)

اور اس میں نوحہ کیا ہے کہ:

"The US is now the world's leading rogue state".

اب امریکہ دنیا کی سب سے نمایاں غنڈا ریاست ہے۔

بین الاقوامی سطح پر پہلے افغانستان پر حملہ کیا گیا‘ نہ اسامہ پکڑا گیا اور نہ ملا عمر۔ لیکن امریکی فوج نے کم سے کم اندازے کے مطابق اپنے جنگی معرکوں میں طالبان اور القاعدہ کی ہلاکتوں کے علاوہ (جو ۱۰ ہزارسے زیادہ ہیں) خالص سول آبادیوں پر بم باری کے ذریعے نیو ہمپشائر یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر کے ڈیٹابیس کے مطابق ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء سے جون ۲۰۰۲ء تک ۳۶۲۰ معصوم مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نیز جو مظالم شمالی اتحاد کے جنگجوئوں نے طالبان اور القاعدہ کے نام پر افغانیوں پر کیے ہیں اور جو امریکی افواج کی آنکھوں کے سامنے ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری سے بھی امریکہ کو بری نہیںکیا جا سکتا۔ افغانستان کے بعد عراق کو فوج کشی کا ہدف بنانے کے لیے فضا بنائی جا رہی ہے اور افواج اور اسلحہ کو علاقے میں پہنچایا جا رہا ہے‘ سان ڈیاگو اور قطر کے اڈوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ خود عراق میں افغانستان کی طرح طفیلی قیادت ابھارنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ عراق کے بعد ایران اور پھر پاکستان‘ سوڈان اور شام فہرست میں ہیں۔ سعودی عرب کو بھی اب کھل کر ہدف بنایا جارہا ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے‘ اندرونی بغاوت کی سازشیں ہورہی ہیں۔ یہی کھیل سوڈان میں کھیلا جا رہا ہے--- آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

امریکہ کی قیادت نے بین الاقوامی قانون اور روایات کو تار تار کرکے نئے اصول وضع کیے ہیں جن کے تحت جس ملک سے ناراض ہوں اس میں قیادت کی تبدیلی (regime change) کو اس نے اپنا حق بنا کر پیش کیا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف پیش بندی(preemptive)  کے طور پر مداخلت کی باتیں کی جا رہی ہیں جس پر کسنجرجیسا ’’شریک کار‘‘ بھی چیخ اٹھاہے:

حکومت کی تبدیلی فوجی مداخلت کا مقصد بنانا ۱۶۴۸ء کے معاہدئہ West philes کے قائم کردہ عالمی نظام کے لیے چیلنج ہے۔ اس معاہدے نے دوسری ریاستوں کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو قائم کر دیا تھا۔ پیش بندی کے طور اقدام کرنے کا جواز جدید بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جو طاقت کے استعمال کو صرف اپنے دفاع میں حقیقی اقدام نہ کہ امکانی دھمکیوں کے خلاف جائز قرار دیتا ہے (ہنری کسنجر‘ لاس اینجلس ٹائمز‘ سنڈیکیٹ‘ ڈان‘ ۱۱اگست ۲۰۰۲ء)۔

ہنری کسنجر نے یورپی اقوام‘عرب ممالک اور چین کے تحفظات کا ذکر کیا ہے اور پھر پاکستان کے لیے یہ وارننگ بھی دی ہے کہ اس اصول کو مان لیا جائے تو بھارت کیا کچھ گل کھلا سکتا ہے:

بہت دل چسپ لیکن بے حد خطرناک ردعمل بھارت کا ہو سکتا ہے جو پیش بندی کے طور پر اقدام کے اصول کا اطلاق پاکستان کے خلاف کرنے کے لیے کشش محسوس کرے گا۔

کسنجرنے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کواس نام نہاد اصول کو پروان نہیں چڑھانا چاہیے اور بین الاقوامی قانون پاس کرنا چاہیے لیکن بظاہر اس ’’گرو‘‘ کی بات بھی صدا بصحرا ہی معلوم ہوتی ہے۔

امریکہ نے جنگ اور جنگی قیدیوں کے بارے میں بین الاقوامی قوتوں اور جنیوا کنونشن کی کھلی    خلاف ورزی کی ہے اور بین الاقوامی اداروں اور یورپ اور تیسری دنیا کے اخبارات اور دانش وروں کی تنقید کے باوجود اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ افغانستان میں ہتھیار ڈالنے والوں کا کھلا قتل عام کیا گیا‘ لاشوں کا مثلہ کیا گیا‘ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی سول آبادیوں بلکہ شادی کی محفلوں پر بم باری کی گئی اور اسے چھپانے (cover-up) اور شہادتیں مٹانے کا کام کیا گیا۔ پھر جنگی قیدیوں کو کیوبا کے فوجی بیس گنٹانامو لے جایاگیا تاکہ امریکی قانون ان پر لاگو نہ ہو سکے۔ ان قیدیوں کو جس طرح پابند سلاسل کیا گیا اور جو جومظالم ان پر ہوئے‘ اس کے نتیجے میں کئی اموات واقع ہوچکی ہیں۔ یہ سب جنیوا کنونشن کے خلاف ہے۔ آٹھ ماہ کے بعد بھی ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا اور ساری تفتیش کا حاصل خود امریکی اخبارات کی اطلاع کے مطابق ان میں سے ایک بھی القاعدہ کا ذمہ دار فرد نہیں نکلا ہے۔ ان میں ۳۰ سے زیادہ پاکستانی بھی ہیں مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ امریکہ اپنے کو ہر قانون سے بالا سمجھتا ہے۔

اس پورے عمل میں اگر کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو خود صدر جارج بش ہیں جن کا صدارتی انتخاب مشتبہ تھا مگر اب وہ اندھی تائید حاصل کر رہے ہیںاور سارے معاشی اسیکنڈلوں پر پردہ ڈال کر سیاسی محاذ آرائی کے ذریعے اپنی صدارت چمکا رہے ہیں۔ پھر اس کا بڑا فائدہ فوج اور اسلحہ سازی کی صنعت کو ہو رہا ہے جس کا بجٹ ۴۰۰ بلین ڈالر تک بڑھا دیا گیا ہے۔ نیوزویک کے تازہ ترین جائزے کے مطابق امریکہ جو دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ کا تاجر ہے‘ اس کی اسلحہ کی تجارت ۲۰۰۰ء سے نیچے جا رہی تھی۔ اب اس کی صنعت کو حکومت کی طرف سے نئے آرڈر مل رہے ہیں۔ انرجی کی صنعت بھی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو دنیا کی اس سب سے بڑی اور طاقت ور ’’جمہوریت‘‘ کی پشت پر کارفرما اصل عناصر ہیں۔ صدر آئزن ہاور نے اپنی صدارت کے خاتمے پر آخری خطاب میں امریکی قوم کو جس قوت کے بارے میں متنبہ کیا تھا وہی اس پورے عمل میںسب سے زیادہ فائدے میں رہی ہے اور مضبوط تر ہو رہی ہے بلکہ اس وقت تو ملک کے اندرونی معاملات میں قومی سلامتی کے نام پر فوج کے کردار کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں جن پر کانگرس اور لبرل حلقے سخت تشویش کااظہار کر رہے ہیں۔

آئزن ہاور کے الفاظ ۱۱ ستمبر کے بعد رونما ہونے والے تناظر میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ۱۷ جنوری ۱۹۶۱ء کے اس خطاب میں آئزن ہاور نے کہا تھا:

ایک بہت بڑی فوجی انتظامیہ اور اسلحے کی ایک بہت بھاری صنعت کا یک جا ہونا امریکی تجربہ ہے۔ اس کا مجموعی اثر--- معاشی‘ سیاسی حتیٰ کہ روحانی --- ہر شہر ہر ریاست اور وفاقی حکومت کے ہردفتر میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ ہم کو حکومت کے مشاورتی اداروں میں بلاروک رسوخ کے حصول کے خلاف چوکنا رہنا چاہیے‘ خواہ یہ فوجی اور صنعتی کمپلیکس اس کو طلب کرے یااس کو طلب نہ کرے۔بے محل اختیارات میں خطرناک اضافے کا امکان موجود ہے اور موجود رہے گا۔ فوجی صنعتی کمپلیکس کو ہرگز یہ اجازت نہ ہونا چاہیے کہ وہ ہماری آزادیوں اور جمہوری عمل کو خطرے میں ڈالے۔ ہمیں اس لحاظ سے مطمئن نہ ہوناچاہیے۔ ( Eisenhower: Soldier & President اسٹیفن ایمرون‘ سائمن اینڈ شسٹر‘ نیویارک‘ ص ۵۳۶-۵۳۷)

۱۱ ستمبر اور اس کے بعد کی امریکی پالیسی پر اسی فوجی‘ صنعتی گٹھ جوڑ کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ جن بوتل سے باہر آگیا ہے اور خود امریکی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ جمہوری عمل‘ وہ آزادیاں‘ وہ تہذیبی اقدار جن کو صدیوں کا حاصل قرار دیا جا رہا ہے‘ آج معرض خطر میں ہیں۔ عالمی سطح پر بھی‘ اور خود امریکہ میں بھی۔ عام شہری ایک شدید تنائو میں زندگی گزار رہا ہے۔

۱۱ ستمبر کے بعد امریکی شہریوں کی نفسیات اور ذہنی کیفیات پر جو اثرات مترتب ہوئے ہیں ان پر جو بھی تحقیقی کام ہوا ہے‘ وہ بہت نظر کشا ہے۔ ولیم شیلنگرنے ۲ ہزار ۲ سو ۷۳ امریکیوں کے سروے کی بنیاد پر اپنی تحقیق کے نتائج امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل کے تازہ شمارے میں شائع کیے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت حال سے پوری آبادی پر ذہنی دبائو‘ بے یقینی‘ خوف اور انتشار فکری کی کیفیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے لیے اس نے PTSDکی اصطلاح وضع کی ہے‘ یعنی Post-Traumatic Stress Disorder ۔ ہر قسم کے ٹراما کے مقابلے میں جس میں جبری آبروریزی سے لے کر طوفان‘ زلزلہ حتیٰ کہ اوکلاہوما کی دہشت گردی سمیت تمام حادثات اور سانحات شامل ہیں‘ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے اثرات کہیں زیادہ ہیں۔ ملک کی ذہنی صحت کا جو نقشہ(profile) اس جائزے سے سامنے آتا ہے ۱۱ ستمبر کے واقعے کے ایک سے دو ماہ بعد تک PTSDکی سطح میں پوری امریکی قوم کے لیے اوسطاً ۴ فی صد اور نیویارک کی آبادی کے لیے ۱۱فی صد اضافہ ہوا اور اس کے اثرات وقتی نہیں بلکہ تاحیات رہنے کا خطرہ ہے جس کے نتیجے میں بقول ولیم شیلنگر:

عوام کی صحت کے لیے قابل لحاظ خطرہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایک دوسرے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے جتنا زیادہ ٹی وی دیکھا ہے‘ اتنا ہی زیادہ وہ  اس سے متاثر ہے۔ چار گھنٹے ٹی وی دیکھنے والوں کا اوسط اگر ۵.۷ فی صد تھا تو ۱۲ گھنٹے دیکھنے والوں کا اوسط   ۱۸فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔ بات صرف ۱۱ ستمبر کے اثرات ہی کی نہیںاس کے بعد بھی خوف کا عفریت نت نئی شکلوں میں آبادی کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرتا رہا ہے‘ خواہ انتھراکس کا خطرہ ہو یا دہشت گردی کی کسی نئی کارروائی کا۔ غرض پوری قوم ایک نئے ذہنی انتشار اوردبائو کا شکار ہو گئی ہے اور ملکی قیادت ہے کہ اس نام نہاد جنگ کو کرہ ارض کے طول و عرض تک پھیلانے پر تلی ہوئی ہے اور کسی کو اس پر غور کرنے کی فکر نہیں کہ دہشت گردی اور اس کے اسباب کا سدباب نہ میڈیا وار سے ہو سکتا ہے اور نہ فوج کشی اور نامعلوم دشمن کی تلاش میں عام انسانوں پر گولہ باری اور میزائل اندازی سے۔ خود اپنے ملک کی ابادی کو بھی بے یقینی اور خوف کے جہنم میں جھونکا جا رہا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کے باسیوں کو بھی‘ اور اب تو کھلے بندوں یہ تیاری ہو رہی ہے کہ چھوٹے ایٹم بم (mini nukes) بنائے جائیں جو متعین اہداف کو نشانہ بنا سکیں اس کے لیے تیزی سے کام شروع ہو گیا ہے اور NPT اور CTBT سب کی گرفت سے آزاد ہو کر تباہی کے ان ہتھیاروںکو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے لیے موثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے فضا ہموار کی جا رہی ہے۔ دوسروں کو بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (WMD)سے محروم کرنے کے لیے فوج کشی کے منصوبے ہیں اور خود ایسی ہی تباہی کے ہتھیاروں کے انبار ہی نہیں لگا رہے‘ ان کو بے دریغ استعمال بھی کر رہے ہیں اور آیندہ استعمال کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور تیاریاں بھی کررہے ہیں۔ اس ظلم اور دھاندلی پر بھی اگر دنیا آپ کو نفرت کا نشانہ نہ بنائے تو کیا کرے؟ بڑی معصومیت سے پوچھا جاتا ہے کہ ’’لوگ ہمارے خلاف کیوں ہو رہے ہیں؟‘‘ اور ’’دنیا امریکہ سے نفرت کیوں کررہی ہے؟‘‘ اور ایک لمحہ بھی اس سوال پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ معصوم انسان اور عام لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج اور انتقام کے لیے کیوں اُٹھ رہے ہیں اور خطرات انگیز کر رہے ہیں۔

’’دہشت گردی‘‘ کے اسباب

دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ دونوں انسانیت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں اور ۱۱ ستمبر سے جو حقیقی سبق سیکھا جا سکتا تھا‘ اسے امریکی قیادت اور اس کی نکیل تھامنے والی صہیونی لابی نے امریکی قوم اور پوری دنیا کی آنکھوں سے اوجھل کرنے کی بڑی منظم اور عالم گیر جدوجہد کی ہے اور مغربی میڈیا نے اس سلسلے میں بڑاہی کلیدی کردارادا کیا ہے۔ دہشت گردی ایک اخلاقی اور انسانی جرم ہے لیکن ہر جرم کی طرح اس کا مقابلہ جرم کے اسباب اور تائیدی عوامل کے تعین اور تجزیے کے بغیر ممکن نہیں۔ ۱۱ ستمبر کے دل ہلا دینے والے واقعے نے بھی امریکی قیادت کی آنکھیں نہیںکھولیں اور اس نے حالات اور معروضی جائزہ اور حقیقت پسندانہ ردعمل کی جگہ جذباتی اور ہیجانی انداز میں اس انسانی تباہی کو بھی اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ یہ ناکامی خود ۱۱ ستمبرکے حادثے کی تباہ کاری سے بھی بڑی تباہی کا باعث ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسئلے کی اصل نوعیت کوسمجھا جائے اور کم از کم ان تمام انسانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے جو مفاد کے بندے نہیں اور جنھیں حق و انصاف اور انسانی فلاح و سلامتی عزیز ہے۔

تین چیزوں میں فرق ضروری ہے۔ ایک انسانی معاملات میں قوت (force)کا استعمال‘ دوسرے تشدد(violance)اور تیسرے دہشت گردی (terrorism)۔ قوت کا استعمال حق اور ناحق‘ صحیح اور غلط‘ حصول انصاف اور ظلم دونوںکے لیے ہو سکتا ہے۔ انسانی معاشرے میں امن وسلامتی کے قیام‘ عدل و انصاف کے حصول اور قانون کی بالادستی اور نظم و انضباط پر مبنی معاشرے کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ ہر سطح کی اتھارٹی کے لیے ڈسپلن اور ایک درجے میں قوت کا استعمال ضروری ہے۔ ریاست کی تعریف ہی  coercive power سے کی جاتی ہے اور کسی بھی معاشرے کو انارکی سے پاک رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ ملکی نظام کے اندر سزا اور تعزیر اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے جنگ و جہاد اسی نظام کا حصہ ہیں۔ بلاشبہہ قوت کو اعلیٰ اقدار و مقاصد‘ متفقہ قومی اہداف‘ اخلاقی اصولوں اور قانون کا پابند ہوناچاہیے اور نفاذِ قانون کے لیے قوت بطور ایک آلہ کار کے طور پر اس کا اصل جواز ہے۔ خیر اور حقوق کی حفاظت کے لیے قوت کا استعمال ایک نعمت ہے لعنت نہیں۔ یہ لعنت اس وقت بنتی ہے جب اس کا رشتہ اخلاق‘ اقدار اور قانون سے  کٹ جائے۔ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:    ؎

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک
لادیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

قوت کا استعمال ‘ تشدد اس وقت بن جاتا ہے جب وہ دینی و اخلاقی اورقانون و ضوابط سے بے نیاز ہوکر ذاتی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال ہو۔ قتل و غارت گری‘ لوٹ مار‘ ظلم و زیادتی اس کا نتیجہ ہیں اور اس لیے تشدد جرم اور قابل مواخذہ ہے۔ دہشت گردی‘ قوت اور تشدد دونوں سے مختلف ہے۔ یہ محرومی اور    بے بسی کے جواب میں سیاسی مقاصد کے لیے قوت کا ایسا استعمال ہے جس کا ہدف کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنا نہ ہو بلکہ مقابل قوت کو متوجہ بلکہ خائف کرنے کے لیے کوئی ایسی چونکا دینے والی کارروائی کرنا ہے جو نقصان بھی پہنچائے اور توجہ کو اس مقصد کی طرف مبذول کرانے کا ذریعہ بنے جس کے لیے تشدد کا ارتکاب کیا گیا ہے۔  اسی لیے اسے طاقتور کے مقابلے میں کمزور کا ہتھیار کہا گیا ہے (ملاحظہ ہو‘ ہن ٹنگٹن کی کتاب Clash of Civilizations)۔

بات اس کے جواز اور عدم جواز کی نہیں۔ مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی ایک برائی اور قابل مذمت اقدام ہے مگر دہشت گردی کا مقابلہ تشدد‘ جنگ اور ظلم و زیادتی میں اضافے سے نہیں ہوسکتا۔ یہ تاریخ کا واضح سبق ہے اور گذشتہ دو سو سال کی تاریخ بھی اس پر گواہ ہے۔ سامراج کے مظالم‘ بیرونی قبضے اورسماجی‘ معاشی اور سیاسی حقوق کُشی کے ردعمل میں رونما ہونے والی تحریکوں کو‘ خواہ وہ تشدد اور دہشت گردی کے حربوں کواستعمال کرنے پر ہی کیوں نہ اتر آتی ہوں‘ محض قوت کے استعمال سے ختم نہیں کیا جا سکا اور ساری جنگ آزمائی کے بعد بالآخر معاملات کی اسی وقت اصلاح ہو سکی اور تصادم اور کشت و خون کا خاتمہ ممکن ہوا جب اصل اسباب کو دُور کرنے کی کوشش ہوئی اور مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس نوعیت کی جنگ ہے اور ہو سکتی ہے جسے غربت کے خلاف جنگ‘ یا بیماری اور خوف کے خلاف جنگ!

دہشت گردی کا سدباب صرف اس وقت ممکن ہے جب ان اسباب کا سدباب کیا جائے جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ اصل سوال ہے ہی یہ کہ وہ کیا عوامل ہیں جو معصوم انسانوں کو اپنی جان تک دینے پر مجبور کرتے ہیں؟ برطانوی وزیراعظم کی اہلیہ شیری بلیر نے فلسطینی خودکش حملہ کرنے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ جب تک ان اسباب و عوامل کی فکر نہ کی جائے جو نوجوانوں کو اپنے پرخچے اڑانے پر مجبور کرتے ہیں‘ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا لیکن بش اور شیرون اس زعم میں مبتلا ہیں کہ محض قوت اور تشدد کے ذریعے وہ مجبور انسانوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے حق کے لیے لڑنے سے روک سکتے ہیں تو یہ خام خیالی ہی نہیں‘ جنگ و جدال اور مزید تشدد اور دہشت گردی کے فروغ کا تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ جان گالووے نے اس بات کو لندن کے دی گارڈین میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں یوں بیان کیا ہے:

یہ ایک مسلسل جنگ اور عالمی ہل چل کی ترکیب (recipe) ہے۔ یہ دہشت گردی پھیلانے کی بھی ترکیب ہے۔ اور پوری مسلم دنیا اور اس کے باہر بھی بن لادن کے لیے اسلحہ خانے پیداکرنے کی ترکیب (دی گارڈین‘ دی نیوز‘ ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء)

امریکہ کے دفاعی اطلاعات کے مرکز کے محقق مارک برگس نے امریکی صدر کے اعلان جنگ کے بارے میں درست ہی کہا ہے کہ:

بن لادن کے خلاف صدر کا صلیبی جنگ کا اعلان بن لادن کے تصورِ جہاں کے عین مطابق ہے اورمیں یہ نہیں کرنا چاہتا۔

رینڈ کرپوریشن کے اسکالر پارچینی کا یہ بیان حال ہی میں امریکی اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ:

اگر آپ دہشت گردی کی اس صورت حال کو دیکھیں تو آپ اسے ایک سادہ ‘یک رخا سیاسی فیصلے کی حیثیت سے نہیں دیکھتے۔ عوامل کا ایک مجموعہ اسے متحرک رکھتا ہے۔

فلپائن کے صدر کے ایک مشیر Jose T. Almonte نے  انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے جولائی ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتے کے ایک شمارے میں بہت کام کی بات لکھی ہے:

دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑنے کے لیے ناگزیر طور پر سفارتی‘ سیاسی‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی اقدامات بشمول پولیس اور فوجی اقدام کے کرنا ہوں گے۔ ترقی پذیر دنیا کے بیش تر حصوں میں سیکولر ریاست اپنی سیاسی‘ آزادی‘ معاشی خوش حالی اور عدل و انصاف کے وعدوں کو پورا نہیں کرسکی ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ خلیج ٹائمز‘ ۳۰ جولائی ۲۰۰۲ء)

بات درست ہے لیکن آل مونٹے نے آدھی بات کہی ہے۔ سیکولرزم کی ناکامی اور سماجی انصاف سے محرومی کے ساتھ سیاسی ظلم اور غیرملکی قبضے بھی ایک اہم سبب ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ منٹارانو‘ شیشان اور متعدد مقامات پر سیاسی غلامی اور استبداد اوردنیا کے مختلف علاقوں میں امریکی فوجی تسلط اور مداخلت بھی نفرت اور انتقام کی آگ کوہوا دے رہے ہیں۔ صدر بش کی زبان سے بھی ۱۱ ستمبر اور دہشت گردی کے اسباب کے سلسلے میں یہ الفاظ نکل ہی گئے جو خودکسنجر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں نقل کیے ہیں کہ:

یہ اس کے بغیر ممکن نہیںتھا کہ ان ممالک کی خاموش حمایت کا تعاون حاصل ہوتا جو جارج ڈبلیو بش کے الفاظ میں ’’دہشت گردی‘‘ کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس نفرت کو انگیز کرتے ہیں جو دہشت گردی کرتی ہے (لاس اینجلز ٹائمز‘ سنڈیکیٹ‘ ڈان‘ ۱۱ اگست ۲۰۰۲ء)۔

بش اور کسنجر یہاں تک تو آئے مگر اس پر غور نہ کیا کہ اس نفرت (hatred) کوپیدا کرنے والے عوامل کیا ہیں؟ کسنجرنے اعتراف کیا ہے کہ:

امریکی حکمت عملی کو ان ناراضیوں کی جائز وجوہات کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے

لیکن اس سانس میں پھر سارا زوراسی بات پر ہے کہ ان افراد اور حکومتوں کو سبق سکھائو جہاں یہ دہشت گرد پائے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مفاد اور غیظ و غضب اور عناد نے آنکھوں پر بالکل پٹی باندھ دی ہے ورنہ یہاں تک آنے کے بعد دوسرا اور فطری سوال یہی تھا کہ ان اسباب کو دُور کرنے کی فکر کی جائے جو معصوم انسانوں کو اس انتہا کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اصل سبب ظلم اور ناانصافی کا وہ نظام ہے جس میں فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہو کر وہاں ریاستی دہشت گردی کر رہاہے‘ کشمیر پربھارت کا تسلط ہے اور وہ ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ شیشان پر روس کا فوجی کنٹرول اور مینڈانائو پر فلپائن کی حکومت کی فوج کشی ریاستی دہشت گردی ہے۔ گویا عالمی سطح پر امریکہ کے بالادستی کے منصوبے اورپوری عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی یلغار ہی وہ اصل سبب ہے جس نے مجبورانسانوں کو بغاوت اور پھر خود تشدد پر ابھارا ہے۔

اس بنیادی حقیقت کو نہ سمجھنا یا جانتے بوجھتے ہوئے اسے نظرانداز کرنا سارے فساد کی جڑ اور پوری دنیا کو شدید بحران میں مبتلا رکھنے کا ذریعہ ہے۔ فلسطین ہویا کشمیر‘افغانستان ہو یا شیشان‘ باسک (اسپین) ہویا مینڈانائو (فلپائن) مسئلہ ایک ہی ہے۔ عوام کے احساسات کا عدم ادراک‘ ناانصافیوں اور مظالم سے بے نیازی‘ نفرت اور بے چینی کے اسباب سے لاتعلقی اور محض علامات اور ظاہری عوامل کا خبط (obsession) جب کہ زمینی حقائق اور زیرزمین کام کرنے والے حقیقی محرکات واسباب سے صرف نظر آج کی قیادتوں کا مسئلہ اور مرض ہے۔ افغانستان میں القاعدہ کے خلاف جنگ اور اس کے اثرات و نتائج اس کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ ۱۱ستمبر کے ’’مجرموں‘‘ کو سزادینے کے لیے اقدام کیا گیا اور اسامہ بن لادن ’’زندہ یامردہ‘‘ کوہدف بنایا گیا--- طالبان اس لیے گردن زدنی ٹھہرے کہ اسامہ افغانستان میں پناہ گزین تھا۔ آزادی کے نام پر افغانستان تباہ ہو گیا لیکن اس کی آزادی کا یہ حال ہے کہ امریکہ کے لائے ہوئے صدر کی حفاظت کے لیے بھی امریکی میرین درکار ہیں۔ افغان اپنے صدر کو بھی تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ ملک ایک بار پھر اقتدار کے ٹکڑوں اور حلقوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہر روز دو طرفہ کارروائیاں ہو رہی ہیں اورامن و سکون ناپید ہیں۔ تعمیرنو کا کہیں دور دور پتا نہیں اورامریکی کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ ہمارا افغانستان میں قیام‘ کوریا کی طرح مستقل اور لامتناہی ہے۔ القاعدہ جن کو ساری برائیوں کا مرجع اور جامع قرار دیا جا رہا ہے وہ امریکہ کے کتنے ہی مبغوض کیوں نہ ہوں‘ افغان عوام کے آج بھی ہیرو ہیں۔ اگر امریکہ اور اس کے ہمراہی بشمول جنرل پرویز مشرف ان حقائق کو نہیں دیکھ سکتے تو اسے کورچشمی ہی کہا جا سکتا ہے۔

ع  جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ توسارا جانے ہے

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں ۱۰ پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے‘ اس کی جوروداد ٹائم کے ۲۹ جولائی کے شمارے میں شائع ہوئی ہے وہ چشم کشا ہے۔ عبدالرئوف نیازی جو پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے کا افسر اورامریکی تلاش القاعدہ مہم کا رہبر تھا اس تصادم میں مارا گیا۔ مگر جب اس کی لاش اس کے گھر لائی گئی تو دیکھیے خود اس کا باپ ‘ جس کا وہ لخت جگر تھا اور جسے اس نے نہ معلوم کن کن تمنائوں کے ساتھ پالا اور دفاع وطن کے لیے پاکستانی افواج کے سپرد کیا تھا‘ کیا کہتا ہے:

نیازی کا اپنا باپ اپنے بیٹے کومسلمانوں کا غدارسمجھتا ہے۔ اس نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا: ’’بش آئے اور میرے بیٹے کے لیے دعا کرے‘ میں نہیں کروںگا‘‘ (ٹائم‘ ۲۹ جولائی ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۵)۔

افغانستان میں القاعدہ کے شہدا کے بارے میں افغانستان کے عام مسلمانوں کا آج بھی کیا رویہ ہے اس کے بارے میں رابرٹ فسک کی تازہ ترین رپورٹ جو اس وقت افغانستان کا دورہ کر رہا ہے اور لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ میں اپنی روداد سفر شائع کر رہا ہے ‘پڑھنے کے لائق ہے۔ امریکہ کے ذریعے طالبان سے ’’آزادی‘‘ کے آٹھ مہینے کے بعد ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء کی صورت حال یہ ہے۔ یہ رابرٹ فسک شہداے القاعدہ کے ایک قبرستان کا منظر یوں بیان کرتا ہے:

ان کی ولیوں کی طرح عزت کی جاتی ہے۔ ڈھیروں مٹی کے نیچے القاعدہ کے شہدا آرام کررہے ہیں۔ یہ عرب ہیں‘ پاکستانی ہیں‘ چیچن ہیں‘ قاذق ہیں اور کشمیری ہیں۔اگر آپ پروپیگنڈے پر یقین کریں تو یہ قندھار کے پشتونوں کی نفرت کا نشانہ ہیں۔ یہ سچ نہیں ہے۔ جس وقت امریکی اسپیشل فورس کے جواں اس سرحدی گرم شہر کی سڑکوں پر گشت کرتے ہیں‘ اس وقت قندھار کے لوگ سیکڑوں کی تعداد میں ان مزاروں پر آتے ہیں۔ جمعہ کے دن میلوں سفر کرکے ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں۔ یہاں آنے والوں کے لیے قندھار کا قبرستان مذہبی کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی سبق بھی ہے۔ غیر ملکی حیران ہوتے ہیں کہ انھیں کس چیز کی کشش یہاں لا رہی ہے۔ شفا کی افواہیں اور روایات؟ یہ بات کہ انھوں نے غیر ملکیوں کا آخر دم تک مقابلہ کیا؟ ہتھیار ڈالنے پر جان دینے کو ترجیح دی؟ غیر افغانی شہدا افغانیوں کی طرح لڑے؟ اچھا ہی ہے کہ امریکی خصوصی افواج کے افراد یہاں نہیں آتے۔ وہ ایسے مناظر دیکھیںگے جو ان کو پریشان کریں گے اور پریشان کرنا چاہیے۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ دی نیشن‘ ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء)

صرف امریکی فوجی ہی اس حقیقت کو دیکھنے سے نہیں گھبراتے ہیں‘امریکی قیادت اور خود پاکستان کی قیادت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے‘ لیکن کیا کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے حقائق بدل جاتے ہیں اور خطرات ٹل جاتے ہیں؟ فاعتبروایااولی الابصار۔

ان زمینی حقیقتوں کے بیان اور مسئلے کے اصل اسباب و عوامل کی نشان دہی کے سلسلے میں رابرٹ فسک تنہا نہیں ہے۔  نیوزویک (۱۹ اگست ۲۰۰۲ء)میں بھی القاعدہ پر ایک مفصل مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں بھی یہ اعتراف موجود ہے۔ اس بار سرزمین پاکستان کی ہے مگر جان دینے والے وہی امریکہ کا دردسر بننے والے مجاہد ہیں۔ ایک معرکے میں ۱۰ مجاہد شہید ہوئے ہیںاور ۶ فوجی جوان مارے جاتے ہیں۔ مرنے والے فوجیوں کی خبرلینے والا تو کوئی نہیں تھا مگر شہدا کی قبریں چشم زدن میں مرجع خاص و عام بن گئیں۔  نیوزویک کی رپورٹ ہے:

۱۰ شہدا کے مزار ایک مقدس جگہ بن گئے ہیں۔ بینرز لگے ہوئے ہیں: القاعدہ زندہ باد‘ طالبان زندہ باد۔ یہ لوگ مقدس شہدا ہیں۔ ایک زائر نے نیوزویک کو بتایا: اس جگہ کی زیارت سے مجھے امریکہ دشمنی کے جذبات ملے ہیں۔ (نیوز ویک‘ ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۴)

زیرزمین لاوا پک رہا ہے۔ نفرتوں کے طوفان بادلوں کے سینوں میں منتظر ہیں۔ زمینی حقائق ناقابل انکار ہیں۔ اسباب و عوامل بے چینی‘ اضطراب‘ بغاوت اور انقلاب کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ان حقائق کو نظرانداز کر کے محض قوت کے زعم میں ‘ گولہ بارود کے ذریعے‘ انقلاب کی لہروں کو روکا نہیں جا سکتا۔ امریکی قیادت کے تصورات اور دعووں--- اور عوامی جذبات ‘ احساسات‘ عزائم اور امنگوں کے درمیان ایک عظیم خلیج حائل ہے جو حقیقت پسندی پر مبنی حکمت عملی اور پالیسی کی راہ استوار ہونے میں اصل رکاوٹ ہے۔ دنیا کا کون سا مسئلہ ہے جس کا حل ممکن نہیں لیکن مسائل کے حل کے لیے بھی ضروری ہے کہ حقیقت پسندی سے اصل احوال و عوامل کا جائزہ لیا جائے اور حقیقی اسباب تک رسائی حاصل کر کے ان کے سدباب کی کوشش کی جائے۔ طاقت کے نشے میں حواس کا توازن منتشر ہے اور پروپیگنڈے کی دھول میں بصارت دھندلا گئی ہے۔ علامتوں اور مظاہر پر ساری توجہ ہے اور اسباب اور عوامل سے کلی صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو خطرات کو بڑھا رہی ہے اور انسانیت کو آگ اور خون کی طرف دھکیل رہی ہے۔ افسوس ہے کہ امریکہ کی قیادت نے ۱۱ستمبر کے چشم کشا واقعات سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ حالانکہ ۱۱ستمبر کا اصل پیغام صرف ایک ہی ہے: تشدد اور دہشت گردی کا خاتمہ تشدد اور دہشت گردی سے نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کی بے چینی‘ نفرت اور بغاوت کے اسباب کی تفہیم اور حالات کی ایسی اصلاح ہی امن و سلامتی کے ضامن ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ظلم ختم ہو‘ لوگوں کو انصاف اور جائز حقوق میسر آئیں۔ آزادی اور عزت کے ساتھ وہ اپنے معاملات طے کر سکیں اور امیر اور غریب‘ قوی اور کمزور‘ بڑے اور چھوٹے‘ سب دوستی اور بھائی چارے کی فضا میں تعاون اور افہام و تفہیم کے ساتھ باوقار زندگی گزارسکیں۔

یاد رکھیے امن اور ظلم‘ سلامتی اور سامراج‘ آزادی اور چند کی بالادستی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ آزادی کی ضمانت اسی وقت ممکن ہے جب سب کے لیے آزادی ہو‘ اہل ثروت اسی وقت محفوظ رہ سکتے ہیں جب سب کو دو وقت کی روٹی میسر ہو۔ چین اور آشتی ممکن ہی اس حالت میں ہیں جب قانون سب کے لیے ایک ہو اور انصاف کی میزان میں کوئی کسی سے بڑا اور مختلف نہ ہو۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے امریکہ کی قیادت کو جس رخ پر ڈال دیا ہے اور پوری دنیا ان کی جن ستم کاریوں کی آماجگاہ بن گئی ہے ‘ امن‘ سلامتی اور انصاف کا راستہ نہیں‘ وہ صرف اور صرف سب کی تباہی کا راستہ ہے۔ اس تباہی سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ اب بھی آنکھیں کھول لی جائیں‘حقائق کو کھلے ذہن سے تسلیم کیا جائے‘ سطحی ردعمل کی جگہ گہرائی میں جا کر حالات کا تجزیہ کیا جائے اور بگاڑ کے اسباب کا سدباب کیا جائے (فلسطین کی صورت حال کے بارے میں چنبٹ ریڈنگ نے ایک جملے میں ایک گمبھیر مسئلے کا تجزیہ اور حل بیان کر دیا ہے جو نوٹ کرنے کے لائق ہے اور تمام متنازعہ امور کے بارے میں ایک مثبت نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے: ’’اگر اسرائیلی حکومت لوگوں کو ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں تو اسے خودکش بم حملوں کے رکنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ نیوزویک ۱۲ اگست ۲۰۰۲ء)۔ انسانیت کے حقیقی بہی خواہ‘ بلالحاظ اس کے کہ ان کا تعلق کس مذہب ‘ کس علاقے اورکس طبقے سے ہے‘ بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ خود اُمت مسلمہ اور پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے لیکن ان کا حال بھی اتنا ہی تشویش ناک ہے جتنا امریکہ کی قیادت کا--- افسوس‘ صدافسوس!

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

پھر بھی ہم مایوس نہیں‘ اس لیے کہ:

ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو

 

بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی تحریک نے مشرق اور مغرب کے ہر ملک میں زندگی اور بیداری کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے کی اپنی اپنی خصوصیات اور اپنے اپنے تجربات ہیں لیکن ترکی اور ملایشیا دو ایسے ملک ہیں جہاں تجدید و احیا کی تحریک نے ایمان کو تازہ اور دلوں کو گرما دیا ہے۔

ملایشیا کی اسلامی تحریک کے قائدین سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ تھا اور ملایشیا ابھی برطانوی سامراج کی ایک کالونی اور صرف ملایا (Malaya)تھا۔ الاستاذ ابوبکر اس وقت اسلامی پارٹی کے سربراہ تھے اور ان موتمرات میں شریک ہوئے تھے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی میں منعقد ہو رہی تھیں۔ ربط و تعلق کا یہ سلسلہ ۱۹۷۳ء سے بہت گہرا ہو گیا جب طلبہ انجمنوں کے عالمی اسلامی وفاق (IIFSO) اور مسلم نوجوانوں کی عالمی اسمبلی (WAMY) میں ملایشیا کے نوجوان قائد انور ابراہیم نے نمایاں کردار ادا کرناشروع کیا۔ انور اس وقت وہاں کی نوجوانوں کی تنظیم آبیم (ABIM) کے صدر اور ملایشیا کے افق پر ایک اُبھرنے والے سورج کی مانند تھے۔ ۱۹۷۳ء ہی میں مجھے  پہلی مرتبہ ملایشیا جانے اور ان کی پوری ٹیم سے ملنے کا موقع ملا۔ جن حضرات نے پہلی ہی ملاقات میں متاثر کیا ان میں فاضل نور بھی تھے جو اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے۔ پھر اس کے صدر بنے۔ ملایشیا کی اسلامی تنظیم اور ایک اہم سیاسی قوت  پاس (Parti Islamic Malaysia) کے نائب صدر‘ رکن پارلیمنٹ‘ صدر اوربالآخر پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے اور ۶۵ سال کی عمر میں ۳۲ سال کی سرگرم تحریکی اورسیاسی جدوجہد کے بعد ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اپنے خالق سے جا ملے اور لاکھوں انسانوں کو سوگوار چھوڑ گئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

الاستاذ فاضل نور ۱۳ مارچ ۱۹۳۷ء کو ملایشیا کی ریاست کیداہ (Kedah) کے ایک مضافاتی علاقے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ ان کے دادا توان گرو حاجی ادریس الجرمانی ملک کے نام ور علما میں سے تھے۔ انھوں نے اپنے پوتے کی تعلیم و تربیت پرخصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدرسے میں حاصل کرنے کے بعد ایک دینی مدرسہ مکتب محمود میں دینی تعلیم حاصل کی اور پھر ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک جامع الازھر قاہرہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ واپسی پرکچھ عرصے مکتب محمود ہی میں تدریس کے فرائض انجام دے کر ملک کی مشہور ٹیکنیکل یونی ورسٹی (یو ٹی ایم) میں اسلامیات کے پروفیسر مقرر ہوئے جہاں ۱۹۷۸ء تک‘  جب ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا‘یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ فاضل نور نے عدالتی چارہ جوئی کی۔ گو کامیاب رہے لیکن پھر یونی ورسٹی کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ہمہ وقت سیاسی اور تحریکی زندگی میں سرگرم ہو گئے۔ ۱۹۸۰ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۹ء میں پاس کے صدر منتخب ہوگئے اور ۱۹۹۹ء میں ان کی قیادت میں پاس کی غیر معمولی کامیابیوں کے بعد جب قومی اسمبلی میں ان کو ۲۷ نشستیںحاصل ہوئیں تو ملک کی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے اور ملایشیا کے متوقع وزیراعظم کی حیثیت اختیار کرلی۔ فاضل نور کو دینی اورسیاسی ہرحلقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کو ایک اصول پسند‘ محنتی‘ بالغ نظر اور معتدل سیاسی لیڈر کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ ان کے جنازے کے جلوس سے ہوتا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی‘ بار بار نماز جنازہ ادا کرنی پڑی۔ کوالالمپور سے ان کے جسم کو کیداہ میں ان کے آبائی گائوں میں سپرد خاک کیا گیا۔ مبصرین کی گواہی ہے کہ ملایشیا کی حالیہ تاریخ میں جنازے میں عوامی شرکت کی ایسی مثال نہیں ملتی   ع

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر

امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنے ابتلا کے دور کے بعد برسراقتدار برخود غلط حکمرانوں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ موت کے وقت ہوگا (بینی وبینکم یوم الجنائز)۔  اس تاریخی جملے کے دونوں پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اصل فیصلہ موت کے بعد اللہ کے حضور اور اس کے رد و قبول سے ہوگا لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خدا کے فیصلے سے پہلے خود خلق موت پر کیسا خراج پیش کرتی ہے۔ فاضل نور کا جنازہ خلق کی طرف سے عقیدت‘ محبت اور قبولیت کابے مثال مظاہرہ تھا۔

الاستاذ فاضل نور قدیم اور جدید دونوں علوم کا مرقع تھے۔ عربی اور انگریزی دونوں پر قدرت رکھتے تھے۔ گو اپنے رفقاے کار الاستاذ عبدالہادی اوانگ (پاس کے نائب صدر ‘ ریاست ترنگانو کے وزیراعلیٰ اور اب فاضل نور کی جگہ   پاس کے صدر) اور الاستاذ نک عزیز (ریاست کلنتان کے وزیراعلیٰ) کی طرح شعلہ بیاں مقرر نہ تھے مگر اپنے خیالات کا اظہار بڑی روانی سے نہایت ٹھنڈے انداز میں اور دلیل کی قوت سے کرتے تھے اور اپنے مخاطبین کو قائل کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ انھوں نے بڑے نازک موقع پر نوجوانوں کی تحریک آبیم کی قیادت سنبھالی۔ یہ وہ وقت تھا جب انور ابراہیم نے مہاتیر محمد کی دعوت پر   اومنو (Umno) میں شرکت کرلی اور ملایشیا کی اسلامی تحریک ایک اندرونی چیلنج سے دوچار ہوگئی۔ فاضل نور اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے اور انور ابراہیم کے دست راست سمجھے جاتے تھے لیکن آبیم کا صدر منتخب ہوکر انھوں نے بڑی حکمت اور توازن سے معاملات کوسلجھایا اور انور کے مخالف اور حامی دونوں حلقوں میں نہ صرف اپنی ساکھ قائم کی بلکہ تحریک کو انتشار اور تقسیم سے بچا لیا۔ جب آبیم سے فارغ ہوئے تو سیدھے پاس میں شریک ہوئے اور اس کے نائب صدر اوربالآخر صدر منتخب ہوئے۔ آبیم اور پاس کو ایک دوسرے سے قریب رکھا اور انور ابراہیم جس حکمت عملی پر کاربند تھے اس کی راہ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ بنے‘ گو اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور پاس کو ایک آزاد اور متبادل سیاسی قوت کی حیثیت سے مضبوط سے مضبوط تر کرتے رہے۔

خود پاس  میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں بڑی اندرونی کش مکش تھی۔ داتو موسیٰ عصری کے دور میں پاس پر ایک طرف ملائی قومیت اور تشخص کا غلبہ رہا تو دوسری طرف برسرِاقتدار جماعت اومنو سے اشتراک اقتدارکا تجربہ (۷۹-۱۹۷۸ء) ہوا جو خاصا متنازع رہا۔ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا اور پھر پاس میں قیادت آہستہ آہستہ علما کے گروہ کوحاصل ہوئی جس میں الاستاذ عبدالہادی اوانگ اور ان کے رفقا کا بڑا کردار تھا۔ فاضل نور اسی مکتب فکر سے وابستہ تھے۔ بالآخر پارٹی کی قیادت پھر علما کوحاصل ہوئی۔ الاستاذ یوسف روا صدر بنے اور فاضل نور نائب صدر۔ یہ قیادت مسلسل محنت اور دعوت اور خدمت کے ذریعے پاس کو سیاست  کے قومی دھارے میں لانے میں کامیاب ہوئی۔ پہلے کلنتان کی ریاست میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر ترنگانو میں‘اور ۱۹۹۹ء میں مرکزی پارلیمنٹ میں ۲۰فی صد نشستیں جیت کر پاس اصل حزب اختلاف بنی۔ چونکہ یہ انتخاب متبادل فرنٹ کے نام پر لڑا گیا تھا اس لیے سب کو ساتھ لے کر چلے اور فاضل نور قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے۔

الاستاذ فاضل نور کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ۳۰ سال کے دوران ان سے درجنوں ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ علمی‘ انتظامی‘ سیاسی‘ اختلافی غرض ہر طرح کے امور پر دل کھول کر بات چیت کے مواقع ملے ہیں۔ میں نے ان کو ایک سلجھا ہوا انسان پایا۔ علمی حیثیت سے باوقار‘ سیاسی اعتبار سے متوازن اور صلح جو‘ اصول کے معاملے میں جری اور ثابت قدم لیکن سیاسی اورشخصی دونوں میدانوں میں ٹھنڈے اور معتدل۔ دوسرے کے نقطۂ نظر کوسننے‘ سمجھنے اور اس کا احترام کرنے والے اور تصادم کے مقابلے میں تعاون اور اختلاف کے باوجود متفق علیہ معاملات میں اشتراک کی روش اختیار کرنے والے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس نے تصادم سے بھرپور سیاسی فضا میں ان کو تعاون اور قدر مشترک کے متلاشی قائد کا مقام دیا۔ وہ جوڑنے والے تھے‘ کاٹنے والے نہیں‘ سعدی کے انسان مطلوب کا ایک عملی نمونہ:

تو براے وصل کردن آمدی
نے براے فصل کردن آمدی

انورابراہیم کے اومنو میں جانے اور پھر مہاتیر محمد کے غضب اور انتقام کا نشانہ بن کر طوق وسلاسل کے اسیر بننے کے دونوں ادوار میں فاضل نور نے بڑی حکمت‘ معاملہ فہمی‘ توازن و اعتدال‘ حقیقت پسندی‘ اصولوں سے وفاداری مگر شخصی معاملات میں احترام اور تعلق خاطرکے اہتمام کی بڑی اعلیٰ اور روشن مثال نہ صرف یہ کہ قائم کی بلکہ پوری تحریک اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس راہ پر لانے اور قائم رہنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہ ان کا خلوص اور قائدانہ صلاحیت ہی تھی جس نے ملایشیا کی اسلامی تحریک اور پوری قوم کو انصاف اور اعتدال کے راستے پر رکھا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ’’انصاف سب کے ساتھ ضروری ہے‘ سیاسی اتفاق اور اختلاف کو انصاف کے تقاضوں کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔

الاستاذ فاضل نور کی خدمات بے شمار ہیں لیکن یہ ان کا منفرد کارنامہ ہے کہ پاس میںعلما کی قیادت کے غلبے کے باوجود انھوں نے تحریک کو قدیم و جدید کی جنگ سے بچا لیا اورسب کو ساتھ لے کرچلے اور جماعت میں وحدت ‘ یک رنگی اور اعتماد باہمی کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ملایشیا کی سیاست میں ایک نازک مسئلہ ملائی شناخت (Malay Identity) کا ہے۔ ایک کروڑ ۱۰لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں ملائی شناخت کے لوگ بمشکل ۵۴ فی صد ہیں۔ چینی شناخت کے لوگوں کی تعداد ۳۰‘ ۳۵ فی صد ہے اور باقی کا تعلق ہندستان سے آنے والوں سے ہے جن میں ۹۰ فی صد ہندو یا سکھ ہیں۔ اس طرح تین بڑی قومیتیں اور پانچ بڑے مذہب اسلام‘ عیسائیت‘ چین کا روایتی مذہب‘ ہندومت اور سکھ ازم یہاں پائے جاتے ہیں۔

ملائی شناخت والے لوگ ۱۰۰ فی صد مسلمان ہیں اور شروع میں پاس کی شناخت صرف ملائی تھی۔ پھر اس کا ہدف اسلام کا اجتماعی نظام ہے۔ اس بنا پر قومی شناخت کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہو گیا تھا۔ الاستاذ یوسف روا اور پھر خاص کر الاستاذ فاضل محمد نور کے دور میں پاس اسلامی شناخت اور ملائی آبادی سے انصاف کے ساتھ باقی قومیتوں سے بھی قریب آئی ہے اور ایک قومی سیاسی قوت بن کر اُبھری ہے۔ آج بھی شریعت سے وفاداری ‘ اسلامی نظام کا قیام اور باقی تمام قومیتوں سے انصاف اور ان کے ساتھ شرکت اقتدار کے نازک ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پاس سرگرم عمل ہے۔ جن دوریاستوں میں اسے حکمرانی کا اختیار حاصل ہے ان میں اس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے اور اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی بڑی روشن مثال قائم کی ہے۔ یہ فاضل نورکا وہ کارنامہ ہے جو ملایشیا کے مستقبل کی صورت گری کے لیے ایک تاریخی عمل کی حیثیت سے جاری و ساری رہے گا اور صرف پاس اور ملایشیا ہی نہیں‘ پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک اچھا نمونہ بنے گا۔ میں  تحدیث نعمت کے طور پر یہ ذکر کر رہا ہوں کہ خود مجھے‘ الاستاذ یوسف قرضاوی‘ الاستاذ راشد غنوشی اور دوسرے ساتھیوں کو اس حکمت عملی کے دروبست سنوارنے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور یہ سب الاستاذ فاضل نور‘ الاستاذ عبدالہادی اوانگ‘ مصطفی علی اور نصرالدین جیسے ساتھیوں کی بالغ نظری اور معاملہ فہمی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ذٰلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔

الاستاذ فاضل نور صرف ملایشیا ہی نہیں پوری اُمت مسلمہ اور انسانیت کے خادم تھے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ بوسنیا‘ شیشان‘ کوسووا‘ منڈانو‘ پٹانی غرض جہاںبھی مسلمان آزادی‘ حقوق اور اسلامی اقدارکے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں اس میں استاذ فاضل نور کا وزن ہمیشہ اُمت کے پلڑے میں رہا اور اُمت کے ہر غم میں وہ برابر کے شریک رہے۔ افغانستان پر امریکہ کی بم باری ‘فلسطین میں اسرائیلی مظالم اور کشمیر میں بھارت کی مسلم کُشی کو وہ انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے تھے اور امریکہ کے حالیہ عالمی کردار پرسخت گرفت کرنے والوں میں سے تھے۔

یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جون ۲۰۰۲ء کے دوسرے ہفتے میں لسٹر میں اسلامک فائونڈیشن کی ایک کانفرنس میں عالم اسلام کے چند بہی خواہ ایک اہم علمی اجتماع میں شریک تھے جس میں ملایشیا سے محترم مصطفی کمال اورنصرالدین (پاسکے بین الاقوامی امور کے سربراہ اورسیکرٹری جنرل و ارکان پارلیمنٹ) شریک تھے۔ اس اجتماع کے بعد ہم سب کو ہالینڈ ایک دوسرے اجتماع میں جانا تھا کہ یہ خبر آئی کہ الاستاذ فاضل نور کے دل کا آپریشن ہواہے جو پوری طرح کامیاب نہیں رہا۔ مصطفی علی اور نصرالدین فوراً کوالالمپور کے لیے روانہ ہو گئے اور میں روزانہ ان سے جناب فاضل نور کی خیریت معلوم کرتا رہا۔ دو ہفتے زندگی اور موت کی کش مکش میں رہنے کے بعد ملایشیا کی اسلامی تحریک کا یہ سربراہ اور ہمارا عزیز دوست اور بھائی‘ الاستاذ فاضل نور ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اس جہان فانی سے ابدی زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری کمزوریوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے‘ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت کے اعلیٰ مقامات سے نوازے ‘اوراُمت کو ان جیسے خادمانِ دین سے نوازے جوحلقہ یاراں میں رحماء بینھم اور معرکہ حق و باطل میں فولاد کا کردار ادا کریں۔ آمین!

میرے لیے ان کی وفات ایک ذاتی سانحہ ہے اورپوری اُمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم خسارہ۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

 

جنرل پرویز مشرف نے بالآخر وہی کیا جس کا خطرہ تھا۔ بے لوثی‘ پاک دامنی‘ اقتدار طلبی سے      بے اعتنائی‘ جنرل ایوب‘ جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا الحق کے راستے سے اجتناب اور سابقہ سیاست دانوں کی روش سے نفرت کے تمام دعووں کے باوجود‘ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم اور مستقل کرنے کے لیے وہ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہر خودپسند اور جاہ طلب کرتا رہا ہے۔

پہلے رفیق تارڑ صاحب کو بیک بینی و دوگوش منصب صدارت سے فارغ کر کے ’’قومی مفاد‘‘ میں اس پر قبضہ کیا‘ بحیثیت سربراہ افواج اپنی مدت ملازمت میں خود ہی غیر محدود توسیع کی‘ اور پھر اپنے ہی بتائے ہوئے بحالیِجمہوریت کے نقشۂ کار سے یوٹرن (U-turn)کر کے ۵ اپریل ۲۰۰۲ء کو ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ جنرل ضیا الحق کا مذاق اڑایا اور ان کے ۱۹۸۴ء کے ریفرنڈم کے سوالات اور ان کے پردے میں پانچ سالہ صدارت پر قبضے کو احمقانہ اور مضحکہ خیز قرار دیا اور پھر انھی کا اتباع کرتے ہوئے پانچ سوالوں کے شانوں پر اپنی مزید پانچ سالہ صدارت کی مسند بچھانے کا اہتمام کر ڈالا ۔

انھوں نے زعم کے ساتھ اعلان کر دیا ہے کہ ریفرنڈم ہونے سے پہلے ہی وہ ریفرنڈم جیت چکے ہیں۔ ان کو عوام کی آنکھوں میں اپنے لیے پیار اور ’’ہم خیالی‘‘ کے تالاب نظر آنے لگے ہیں جن کی پہلی قطار بھی ڈائس سے ۱۰۰ گز کے فاصلے پر رکھی جاتی ہے۔ پھر صرف یہی زعم نہیں ہے بلکہ یہ واشگاف اعلان بھی کر دیا ہے کہ اگر ریفرنڈم کا نتیجہ ان کے حق میں نہ ہوا تب بھی ان کا کرسی صدارت چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ گویا جو بات وہ پہلے فرما چکے ہیں کہ ان کا تقرر تو بلاواسطہ حکم الٰہی کا درجہ رکھتا ہے اور جس کے لیے وتعز من تشاء کے ارشاد الٰہی تک کا سہارا لینے کی جسارت وہ کر چکے ہیں‘ ریفرنڈم اسی ڈرامے کا تازہ ترین منظر ہے--- اس کے بعد یہ توقع کہ پاکستان ان کے ہاتھوں ’’مشرف بہ جمہوریت‘‘ ہو سکے گا اگر دم نہ توڑ دے تو اور کیا ہو۔ لیکن وتعز من تشاء کے ساتھ وتذل من تشاء کا قرآنی ارشاد ہر برخود غلط حکمران اور اقتدار پر قابض ہونے والے کے لیے ایک انتباہ اور کمزور انسانوں کے لیے اُمید کا پیغام ہے۔ عزت اور ذلت محض اقتدار پر براجمان ہونے اور وہاں سے ہٹا دیے جانے سے عبارت نہیں۔ مسنداقتدار پر تو اس ملک میں جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ بھی جلوہ افروز ہوئے تھے اور وہ ہی نہیں دنیا میں کون کون نہیں رہا۔ ہٹلر‘ مسولینی اور اسٹالن سے لے کرنوری السعید‘ شاہ ایران‘ حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب تک سب ہی اپنے اپنے وقت میں تخت حکومت پر جلوہ افروز رہے ہیں اور اسے اپنے اپنے انداز میں خود کو ’’تعز من تشاء‘‘ ہی کا مصداق سمجھتے رہے ہیں لیکن عزت اور ذلت وہ دیرپا حقیقتیں ہیں جو بالآخر اللہ کے قانون کے تحت انسانوں کو نصیب ہوتی ہیں‘ جن کی کچھ جھلکیاں تو دُنیا میں نظر آجاتی ہیں مگر ان کا اصل اظہار آخرت ہی میں ممکن ہے۔

ریفرنڈم کے دستوری جواز کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیرغور ہے اور عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے‘ ریفرنڈم ہوتا ہے یا نہیں‘ اور اگر ہوتا ہے تو کس سوال پر اور کس شکل میں‘ اور اگر ہو جاتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے‘ ان سطور کی اشاعت تک یہ سب باتیں سامنے آچکی ہوں گی‘ اس لیے ان کے بارے میں اندازے قائم کرنے کو ہم سعی لاحاصل سمجھتے ہیں۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف‘ عدالت عالیہ اور پاکستان کی قوم ‘سب ہی وقت کی کسوٹی پر پرکھے جا رہے ہیں اور ان کے بارے میں بالآخر تاریخ کا قاضی جس کا محاکمہ بڑا سچا‘ بڑا بے لاگ اور بڑا محکم ہوتا ہے اپنا فیصلہ اسی طرح ضرور دے گا جس طرح ماضی میں دیتا رہا ہے اور جس کی ایک ادنیٰ مثال پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے مسئلے پر مولوی تمیز الدین خاں کے مقدمے میں جسٹس محمد منیر کا فیصلہ تھا جسے قوم کے ضمیر اور تاریخ نے رد کر دیا اور بالآخر خود جسٹس محمد منیر کے مجرم ضمیر کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ وہ فیصلہ دستور‘ قانون اور اصولِ عدل پر مبنی نہ تھا بلکہ ایک سیاسی فیصلہ تھا اور جس کی سزا پوری پاکستانی قوم گذشتہ ۴۸برسوں سے بھگت رہی ہے۔ اس مقدمے میں مولوی تمیزالدین خاں کے وکیل نے عدالت کو خطاب کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ ’’آج ۱۹۳۵ء کے قانون کی تعبیر کرتے ہوئے آپ جو فیصلہ بھی کریں گے اس کے اثرات صرف اس مقدمے تک محدود نہیں ہوںگے بلکہ آنے والی نسلیں اس سے متاثر ہوں گی‘‘۔

اس فیصلے سے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا جن بوتل سے نکلا جس نے پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ اور ۱۹۵۶ء‘ ۱۹۶۲ اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ جمہوریت کے ارتقا کے سارے عمل کو درہم برہم کر دیا‘ قوم کو بانٹ کر رکھ دیا اور ریاست کے بنیادی اداروں مقننہ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ‘ اورفوج کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا اور جسٹس محمد منیر کو پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک مجرم کردار بنا کر رکھ دیا--- آج بھی قوم ایک ایسے ہی نازک مقام پر کھڑی ہے۔ اس لیے ہم اپنی بحث کا مرکز ان بنیادی سوالات کو بنانا چاہتے ہیں جن پر ملک اور قوم کے مستقبل کا انحصار ہے--- اور جن کے صحیح یاغلط جواب پر کارفرما شخصیات کے لیے عزت اور ذلت کا فیصلہ تاریخ کا قاضی ایک دن ضرور دے گا۔

حکمرانوں کی غلط فہمی

بظاہر ریفرنڈم کا انعقاد ’’پالیسیوں کے تسلسل‘‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے جنرل پرویز مشرف اپنی صدارت کو ناگزیر ضرورت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ہماری نگاہ میں خرابی کی اصل جڑ یہی ذہنیت ہے۔ تسلسل ایک اچھی چیز صرف اس وقت ہے جب وہ خیر‘ حق اور انصاف کا تسلسل ہو۔ یہ تسلسل بھی افراد پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ اداروں‘ نظامِ کار اور جان دار عمل (process)کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنت اور بدعت کی کش مکش میں سنت مبنی بر خیر ہونے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تواترکے ذریعے جاری و ساری رہتی ہے اور بدعت کا مقابلہ اور قلع قمع کرتی رہتی ہے۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہے کہ جمہوریت میں دستور‘ قانون اور اداروں کے ذریعے تسلسل کو دوام بخشا جاتا ہے۔ افراد بھی جماعت اور اداروں کے ذریعے اس تسلسل کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اقتدار کے اعلیٰ مقامات پر کارفرما ہونے والے افراد کے لیے تومدت کی تحدید بھی کر دی جاتی ہے تاکہ افراد بدلتے رہیں لیکن تسلسل منقطع نہ ہو۔ آمریت میں استحکام کا انحصار ایک فرد پر ہوتاہے اور یہی صورت بادشاہت کے نظام میں ہوتی ہے۔ لیکن جمہوریت میں سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ اعلیٰ انتظامی اور عسکری مقامات کے لیے بھی افرادِ کار کے لیے متعین مدت (tenure)مقرر کر کے تسلسل کو افراد نہیں ادارے اورپروسیس کا رہین منت بنایا گیا ہے۔ فرانس کے اس وزیراعظم سے جس کی قیادت میں پہلی جنگ عظیم میں فرانس کو فتح ہوئی تھی جب یہ کہا گیا کہ آپ فرانس کے لیے ناگزیر ہیں تواس نے فوراً یہ کہہ کر کہ ’’قبرستان بہت سے ناگزیر افراد سے بھرا پڑا ہے‘‘ جمہوریت کی روح‘ اور تاریخ کے اہم سبق کی نشان دہی کر دی تھی۔ پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں ہر اس شخص نے جسے فوجی قوت یا عوامی تائید سے اقتدار نصیب ہوا‘ پالیسی کے تسلسل اوراستحکام کو اپنی ذات سے وابستہ کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں ادارے مضبوط نہ ہو سکے اور فرد کے ہٹتے ہی اس کے بنائے ہوئے سارے بظاہر مضبوط قلعے زمین بوس ہوگئے۔

اگر کسی پالیسی کو تسلسل حاصل ہو سکتا ہے تو وہ مبنی برحق ہونے کی بنیاد پر‘ اور پالیسی اور پالیسی سازوں کی سندِ جواز اور اداراتی استحکام سے حاصل ہو سکتا ہے‘ محض کسی بھی حکمران یا اس کے حواریوں کے برخود غلط زعم کی بنیاد پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اقتدار ایک ایسا دھوکا اور طلسم ہے کہ اس کے زیراثر اکثر لوگ ان حقائق کو بھول جاتے ہیں۔ ہفت روزہ اکانومسٹ نے جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے راستے کو اختیار کرنے پر جو انتباہ کیا ہے وہ ایک آئینہ ہے جس میں جنرل صاحب اور ان کے رفقا کو اپنا حال اور مستقبل دیکھ لینا چاہیے۔ چند اقتباسات:

کسی کو بھی پاکستانی کابینہ کے اس متفقہ فیصلے پر حیرت نہیں ہوئی کہ ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے اور اس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کی آیندہ پانچ سال کے لیے صدارت کے اُس منصب پر توثیق ہو جس پر انھوں نے خود ہی گذشتہ جون میں اپنا تقررکیا تھا۔

اس حقیقت نے کہ پاکستان کے دستور کے تحت صدر کو قومی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے حلقے سے منتخب ہونا چاہیے‘ نہ کہ ہاں یا نہ والے ریفرنڈم کے راستے سے‘ جنرل اور اس کی اپنی چنی ہوئی کابینہ کو کسی تردد میں نہیں ڈالا۔ ایک آمر مطلق کی حیثیت سے اس نے ماضی میں بھی دستوری ترامیم کیں اور اگر ضرورت ہوئی تو یقینا آیندہ بھی کرے گا۔

جنرل اپنی فتح کو یقینی سمجھتا ہے۔ تاریخ سے ایک یاد دہانی مفید مطلب ہے۔ ۱۹۸۴ء میں ایک دوسرے فوجی غاصب جنرل ضیا الحق نے اپنے کو صدر کے عہدے پر فائز کرنے کے لیے ریفرنڈم کا راستہ اختیار کیا تھا۔

جنرل مشرف نے اپنے حربے خود تیار کیے ہیں۔ ان کاارادہ ہے کہ اس سوال کی ایک تمہید تیار کریں کہ ووٹر ان کو پانچ سال کے لیے صدر رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس میں حکومت کے اب تک کے کارناموں کی فہرست شامل ہوگی‘ بشمول ان کے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا پروگرام جس کے تحت حال ہی میں بلدیاتی حکومت کی مختلف سطحوں کے ۲ لاکھ ناظموں کا جوش و خروش سے انتخاب کیا گیا ہے۔ اب وہ دکھاوے کے جواز کے ساتھ صدر ہو سکتے ہیں اور پھر پارلیمانی انتخابات سے پہلے دستور میں ترمیم کر سکتے ہیں تاکہ آیندہ پارلیمنٹ اور منتخب وزیراعظم کے اوپر بالادست رہ سکیں۔

یہ ہوشیاری سے تیار کردہ ایک منصوبہ ہے مگر ایسے ہی منصوبے ۱۹۶۰ء میں جنرل ایوب خان اور ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیا کے تھے۔ دونوں نے امریکہ کی منظوری سے ایک عشرے سے زیادہ حکومت کی لیکن کسی نے بھی عوام کی نظروں میں حقیقی جواز حاصل نہیں کیا اور دونوں کو رخصت ہونے کے بعد حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا گیا۔ انھوں نے پاکستان پر بغیر کسی دستوری استحقاق کے فریب دہی سے جو سیاسی نظام مسلط کیے تھے وہ ان کے جانے کے بعد باقی نہ رہے ۔ (اکانومسٹ‘ ۶اپریل ۲۰۰۲ء‘ ص ۶۱-۶۶)

تسلسل کی دلیل سے زیادہ بودی دلیل ممکن نہیں۔ یہ محض ایک دکھاوا اور بہروپ ہے جس کی آڑ میں ذاتی اقتدار اور ارتکازِ قوت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے لیکن آج کے کھلاڑیوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ماضی میں ایسے نقاب کبھی حقیقت کو چھپا نہیں سکے اسی طرح آج بھی نہ چھپا سکیں گے۔ جنرل صاحب کا ایک مداح اور ان کے سیکولر اور موڈرن وژن کا ان سے بھی بڑا علم بردار ہفت روزہ دی فرائی ڈے ٹائمز ان کے اس شاہکار میں ان کی کیا تصویر دیکھ رہا ہے:

مسئلہ ان کے ریفرنڈم کے منصوبوں سے شروع ہوا۔ یہ اس وقت مزید بگڑ گیا جب پریس نے ان کے جلسوں میں ہجوم کو کرائے پر لانے کے لیے سرکاری وسائل کے استعمال پر تنقید کی۔ یہ قدرتی نتیجہ تھا ان کے ایک صاف اور سچے سپاہی سے موقع پرست سیاست دان میں تبدیل ہونے کا‘ جس کے نتیجے میں ان کا صاف ستھرا دامن گندے سیاست دانوں سے لازماً آلودہ ہوگا جنھیں انھوں نے حال ہی میں گلے لگایا ہے۔ (دی فرائیڈے ٹائمز‘بحوالہ ایشین ایج‘ لندن‘ ۲۲ اپریل ۲۰۰۲ء)

دوست اور مخالف‘ ملکی اور غیر ملکی پریس‘ تجزیہ نگار اور کالم نویس سب جنرل صاحب کے اس نئے روپ اور کاروبارِ ریفرنڈم پر ششدر ہیں۔ ایک بزرگ اور قابل احترام صحافی‘ جو جنرل صاحب کو پانچ نہیں ۱۰سال ’’عشرہ مشرف‘‘ کے نام پر دینے کو تیار تھے‘ ریفرنڈم کے کرتبوں (antics) پر نوحہ کناں ہیںکہ ’’حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ (جنگ‘ ۱۱ اپریل ۲۰۰۲ء)

غیر جمہوری کلچر کا فروغ

اندرون خانہ تیاریاں خواہ جو بھی ہوں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ایک اتفاقی حادثے کا مرہون منّت ہے۔ان کا اپنا بیان ہے کہ اگر نواز شریف صاحب نے ان کی برطرفی کا بھونڈا اور فوج اور ملک کے لیے ہتک آمیز اقدام نہ کیا ہوتا تو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کا انتقالِ اقتدار کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعدانھوں نے ایک ایجنڈا تصنیف فرما ڈالا اور اس طرح وہ سات نکاتی پروگرام وجود میں آیا جسے انھوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن قوم نے ان کے اقتدار کو صرف اسی خاص پس منظر کی وجہ سے عارضی طور پر قبول کیا تھا اور فوری احتساب اور انتخاب کا مطالبہ پہلے دن ہی سے کیا تھا۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں سپریم کورٹ نے ان کو تین سال کی محدود اور متعین مہلت دی اور گند صاف کرنے اور نیا انتخاب کرانے کا مینڈیٹ دیا جس نے ان کے اقتدار کو مشروط قانونی جواز (legitimacy) دیا۔

انھوں نے صدر تارڑ کو ہٹا کر اس مینڈیٹ کی پہلی بڑی خلاف ورزی کی اور جو تھوڑا بہت جواز ان کو حاصل تھا اسے تباہ کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ پھر اپنے عہدے کی توثیق اور انتخابات کا ایک شیڈول دینے کے بعد (جس میں ریفرنڈم کا کوئی ذکر نہ تھا) اب ریفرنڈم اور اس کے ذریعے اپنے لیے پانچ سال کی مہلت حاصل کرنے کا راستہ اختیار کر کے ملک کے سیاسی نظام کو تہ و بالا کرنے کا ایک خطرناک کھیل شروع کردیا ہے۔ اس کے لیے ان کو حوصلہ ایک دوسرے اتفاقی حادثے سے حاصل ہوا جو ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو رونما ہوا اور جس کے بعد امریکہ کی دھمکی پر اس کے دامن سے اپنے کو وابستہ کر کے اور اس کے عالمی کھیل میں شریک اور معاون بن کرخود اپنے ملک اور اپنی قوم کی ’’اصلاح‘‘ کا نیا سودا ان کے سر میں سما گیا ہے۔ وہ جو ان کے ساتھ فوٹو کھچوانے کے سزاوار نہ تھے‘ ان کو فوجی ڈکٹیٹر اور اقتدار پر ناجائز قابض (usurper)قرار دیتے تھے ان کو بہترین دوست اور وفادار ساتھی قرار دینے لگے تو جنرل صاحب نے بھی نئے ایجنڈے اور ملک کے سیاسی نظام کی تشکیل نو (restructuring)کی باتیںشروع کر دیں۔

ان کو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ مقصد سیدھے سیدھے انتخابات اور بحالیِجمہوریت کے ذریعے ممکن نہیں‘ اس لیے ریفرنڈم کا جال بچھانے کا کھیل شروع کیا جس کا پہلا شکار ملک کا دستور اور قانون ہے۔ اس ریفرنڈم کے بڑے دُور رس اثرات پورے نظام حکومت پر مترتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس اقدام کے تمام مضمرات کا صحیح شعور اور ادراک بھی پیدا کیا جائے اور اس کا توڑ کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ آج اصل مسئلہ ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ دستور‘ جمہوریت‘ قومی وقار اور غیرت اور اسلامی مستقبل کے تحفظ کا مسئلہ ہے جو سب اس خطرناک کھیل کی زد میں ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ اصل ایشو کسی قومی مسئلے پر عوام کی رائے معلوم کرنے کا نہیں بلکہ اس نظامِ کار کو تبدیل اور مسخ کرنے کا ہے جس پر ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ جمہوریت اور اسلامیت کا انحصار ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ:

__ کیا کسی فرد واحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بزعم خود دستور‘ قانون اور نظامِ مملکت کو تبدیل کر دے؟

__ کیا کوئی قوم یہ برداشت کر سکتی ہے کہ جس کو ملک کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا وہ ملک کا مالک بن جائے؟

__ کیا ایک فرد یا گروہ کی کسی ایسی کارروائی کو جو ملک کے دستور اور مملکت کے تاریخی کردار کے منافی ہو‘ اس لیے گوارا کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس وقت اقتدار پر قابض ہے اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر کچھ بیرونی قوتیں خصوصیت سے واحد سوپر پاور اسے اپناحلیف بنائے ہوئے ہے؟

جنرل پرویز مشرف کا اصل پاور بیس اس وقت فوج کی سربراہی اور امریکہ کی پشت پناہی ہے۔ سپریم کورٹ نے جو مینڈیٹ ان کو دیا تھا اس میں کسی نئے نظام کو لانے‘ دستور کی بنیادی  ہیئت (structure) سے کھل کھیلنے اور ملک پر اپنی آمریت قائم کرنے کی کوئی گنجایش نہیں تھی۔ صاف اور شفاف بحالیِ جمہوریت میں انھیں اپنے ان عزائم کی تکمیل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اکانومسٹ نے ان کے کھیل کے اس پہلو کو بھی بہت صاف لفظوں میں بیان کیا ہے جسے ریکارڈ پر لانا مفید اور ضروری ہے:

کم سے کم جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہ بیرونی طاقتوں کی حمایت کے حوالے سے یقینا صحیح بات کہہ رہے ہیں۔ عالمی دہشت کے خلاف جنگ میں ایک وفادار حلیف کی جنرل کی حیثیت اس ہفتے پاکستان میں ابوزبیدہ کی گرفتاری سے مزید مضبوط ہوئی جسے القاعدہ گروپ کا تیسرا بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی اہل کاروں نے یہ گرفتاری ایف بی آئی کے ایجنٹوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے کی‘ جنھیں پاکستان میں کام کرنے کے لیے قابل لحاظ آزادی دی گئی ہے۔ یہ خصوصی طور پر اس لیے خوش آیند ہے کہ اس کے علاوہ القاعدہ کی قیادت ہاتھ نہیں آ رہی ۔

مگر امریکی جو بھی سوچیں‘ جنرل کی تازہ ترین چال بازی پر پاکستان میں کافی تنقید ہو رہی ہے۔ وہ لوگ جو ریفرنڈم کے حامی نہیں ہیں اور اس کی مخالفت کرنے یا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ان میں دو بڑی پارٹیاں (بے نظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی اور نوازشریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ‘ دونوں سابق وزراے اعظم ہیں)‘ ملک کی نمایاں مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کا چھ کا گروپ اور طلبا اور وکلا کی تمام نمایاں تنظیمیں شامل ہیں۔ پھر آخر کس طرح جنرل کو جیتنے کی اُمید ہے؟(How on earth does the General hope to win it?)  (اکانومسٹ‘ ۶ اپریل ۲۰۰۲ء)

ریفرنڈم جیتنے کا ایک ہی راستہ ہے--- جبر اور عیاری کی قوتوں کا بے روک ٹوک استعمال! نہ ووٹروں کی کوئی فہرست ہو‘ نہ مقابل میں کوئی امیدوار ہو‘ نہ سیاسی جماعتوں کو راے عامہ ہموار کرنے کا کوئی موقع دیا جائے‘ عدالتوں پر اثر ڈالا جائے‘ سرکاری مشینری اور وسائل کا بے محابا استعمال ہو‘ پریس اور سیاسی کارکنوں    پر لاٹھیاں چلائی جائیں‘ الیکٹرانک میڈیا کو گوبلز کے اصولوں پر استعمال کیا جائے‘ اور ان تمام عناصر کو      اعوان و انصار بنایا جائے جو اپنے اپنے مفادات کے تحفظ یا حصول کے لیے وفاداریاں بدلنے اور نوکریاں حاصل کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس وقت یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر غور کرنے کی کس کو ضرورت ہے کہ اس طرح کون سے سیاسی کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے ؟

چند غور طلب پہلو

چند پہلو غور طلب ہیں اور سب لوگوں کو ٹھنڈے دل سے ان پر غور کرنا چاہیے‘ خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا نقطہء نظر سے ہو اور وہ زندگی کے کسی بھی سول یا عسکری شعبے سے متعلق ہوں۔

ریفرنڈم کا جواز: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس اقدام کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ہدف ملک میں جمہوریت کی بحالی اور نئی قیادت کو زمامِ کار سونپنا ہے تو اس کا واحد دستوری اور قابل عمل ذریعہ شفاف اور آزاد انتخابات ہیں‘ جن کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے اور جن کا طریق کار دستور میں واضح طور پر مرقوم ہے۔ جسے بھی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا ہے اس کے لیے دستور کے مطابق اس عمل میں شریک ہونے کا حق اور موقع ہے۔ اس کے لیے دستور سے ہٹ کر‘ بلکہ اس کے منافی کوئی بھی راستہ اختیار کرنا جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے اور کسی ایسے عمل کو کبھی بھی سندِجواز حاصل نہیں ہو سکتی۔ انتخابات کے لیے اکتوبر کی تاریخیں طے ہیں۔ انتخابات سے چند ماہ پہلے صدارت پرشب خون مارنے کے لیے چور دروازے اختیار کرنا بددیانتی اور قوم کے ساتھ ظلم ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ صدارت کے انتخاب کے لیے دستور میں ایک واضح طریقہ دفعہ ۴۱ میں طے ہے جس میں انتخابی حلقہ‘ طریق انتخاب اور انتخاب کے لیے میدان میں آنے والے افراد کی صفات بالکل واضح طور پر موجود ہیں۔ ریفرنڈم کی دفعہ کا تعلق صدر کے انتخاب سے نہیں‘ ملک کے مسائل کے بارے میں عوامی رائے معلوم کرنے سے ہے۔ اسی لیے اس کا ذکر دفعہ ۴۸ میں ہے جو صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور جسے دستور کے تحت کسی بھی طرح انتخاب کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔

سابق نظیر کا حوالہ: کہا جاتا ہے کہ اس کی نظیر موجود ہے اور جنرل ضیا الحق نے ۱۹۸۴ء میں ریفرنڈم کو انتخاب کا ذریعہ بنایا تھا یا ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۷ء میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کا راستہ اختیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر یہ دونوں نظائر غلط اور غیر متعلق ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ جنرل ضیا الحق نے ایک شعبدہ کیا تھا مگر انھوں نے اور ۱۹۸۹ء میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ‘ دونوں نے بالآخر اس بات کو تسلیم کیا کہ محض ریفرنڈم سے وہ صدر نہیں بن سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۴۱ میں شق (۷) کا اضافہ صرف جنرل ضیا الحق کی صدارت کو دستوری اور قانونی شکل دینے کے لیے کیا گیا جو اس امر کا اعتراف ہے کہ دفعہ ۴۸ (۶) کے تحت ریفرنڈم انتخاب کا ذریعہ نہیں ہو سکتا اور اگر اسے استعمال کیا گیا تھا تووہ غلط تھا جو ۴۱ (۷) کے بغیر غیرموثر اور باطل تھا۔ رہا بھٹو کا معاملہ تو وہاں بھی مسئلہ انتخاب کا نہیں تھا بلکہ اس وقت کے وزیراعظم کے لیے ایک قسم کے اعتماد کے ووٹ کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے دستوری دفعہ۹۶-اے کے طور پر دستور کی ساتویں ترمیم کی شکل میں لایا گیا تھا۔ ۹۵-۹۶ وزیراعظم پر عدم اعتماد کے اظہار سے متعلق ہیں اور دستور کی ساتویں ترمیم  پی این اے کی تحریک کے خاص پس منظر میں صرف چار ماہ کے لیے صرف ایک بار اختیار کرنے کے ارادے سے لائی گئی تھی جسے حزب اختلاف نے قبول نہیں کیا اور اس پر عمل نہ ہو سکا۔ وہ چار ماہ گزرنے پر آپ سے آپ ختم ہو گئی۔ البتہ اس ترمیم میں بھی یہ صراحت موجود تھی کہ یہ اعتماد کا ووٹ فہرست رائے دہندگان پرحاصل کیا جائے گا اور اگر اکثریت نے خلاف فیصلہ دیا تو وزیراعظم کو معزول کر دیا جائے گا۔ جنرل مشرف جو ریفرنڈم کرا رہے ہیں وہ غیر دستوری‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہی نہیں اس میں تو فہرست رائے دہندگان کا تکلف بھی نہیں کیا گیا اور شکست کی صورت میں بھی معزولی کا کوئی تصور نہیں۔

پاکستان کے دستور میں صدر کے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کی کوئی گنجایش نہیں۔ ریفرنڈم کسی سیاسی یا دستوری مسئلے پر تو ہو سکتا ہے لیکن کسی فرد کے انتخاب کے لیے صرف وہی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جو دستور میں اس کے انتخاب کے لیے طے کیا گیا ہے۔ اشتراکی ممالک نے انتخاب کے لیے واحد نمایندے کا طریقہ اختیار کیا تھا اور ہاں یا نہیں میں ووٹ دیا جاتا تھا اور اس کی روشنی میں چند دوسرے ممالک نے جہاں آمریت کا نظام ہے (مثلاً مصر) یہی راستہ اختیار کیا۔۔۔۔ کسی جمہوری ملک میں یہ طریقہ نہ کبھی اختیار کیا گیا ہے اور نہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ جن ممالک میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا وہاں کے دستور اور انتخابی قانون میں وہی راستہ طے تھا۔ اس لیے غیر جمہوری ہونے کے باوجود ان کے دستور کے مطابق تھا‘ جب کہ ہمارے دستور میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ وہ جماعتیں جو اِس وقت ریفرنڈم کی مخالفت کر رہی ہیں انھوں نے جنرل ضیاالحق کے ریفرنڈم کی مخالفت نہیں کی تھی اس لیے ان کا رویہ تضاد پر مبنی ہے۔ یہ بات بڑی سطحی اور غیر معقول ہے اس لیے کہ دونوں کے حالات میں بڑا فرق ہے۔ جنرل ضیا الحق کے وقت مسئلہ صدر کے انتخاب کا نہیں ملک کو مارشل لا سے نجات دلانے کا تھا تاکہ کسی طرح جمہوری عمل شروع ہو سکے۔ آج یہ صورت نہیں۔ ملک میں مارشل لا نہیں‘ دستوری حکومت ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دستور اور عدالتی جائزے (judical review) کے نظام کے اندر کام کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تین سال میں انتخابات کرانے کا حکم ہے۔ انتخابات سے پارلیمنٹ‘ صوبائی اسمبلیوں اور صدر کا انتخاب‘ سب مراد ہیں۔ اس لیے دونوں صورتوں میں جوہری فرق ہے۔ دوسری بات یہ بھی سامنے رہے کہ گو جنرل ضیا الحق نے ریفرنڈم کرایا مگر دستور کی بحالی کے بعد ان کی صدارت کا انحصار ریفرنڈم پر نہیں دستور کی دفعہ ۴۱ (۶) پر تھا جس نے ریفرنڈم کے غلط اقدام کی غلطی واضح کی اور اس غلطی کی تصحیح کی۔ دوسرے الفاظ میں اس ترمیم کی وجہ سے اب یہ اصول بھی مسلّم ہوگیا کہ ریفرنڈم انتخاب کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر ایک غلطی کسی انسان یا جماعت سے کسی وقت ہوگئی تو وہ آیندہ کے لیے نظیر نہیں بن سکتی۔ غلطی کے غلط ثابت ہو جانے کے بعد اس کا اعادہ کرنا پہلی غلطی سے بڑی غلطی بلکہ بددیانتی ہے۔

سیاسی نظام کی من مانی صورت گری: جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں ایک اور بڑا خطرناک پہلو پوشیدہ ہے ۔ وہ اپنی پالیسیوں کے تسلسل کے نام پر ایک ایسا اختیار حاصل کرنے کی کوشش ہے جسے وہ سیاسی تشکیلِ نوکے نام پر سیاسی نظام کی من مانی صورت گری کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پارلیمانی نظام کو تبدیل کر کے ایک نیا سہ فریقی نظام (triarchy)قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں اقتدار صدر‘ وزیراعظم اور بری فوج کے سربراہ میں تقسیم ہو۔ اس کے بڑے خطرناک اوردُور رس اثرات ہوں گے۔

اولاً: اس سے پارلیمانی نظام ختم ہو جائے گا اور پارلیمنٹ پر ایک بالاتر نظام وجود میں آئے گا جس میں پارلیمنٹ کے منتخب وزیراعظم اور وزرا کے ساتھ صدر اور فوج کا سربراہ‘ جو دستور کے تحت وزیراعظم کا نامزد اور سول انتظامیہ کے ماتحت ہے (دستوری دفعہ ۲۴۳‘ ۲۴۴‘ ۲۴۵) شریک اقتدار ہوگا۔ اس میں یہ گنجایش بھی پیدا کی جا رہی ہے کہ صدر‘ دستور کے تحت فوج کا سپریم کمانڈر ہونے کے ساتھ عملاً چیف آف سٹاف بھی ہو اور اس کے علاوہ فوج کا ڈپٹی چیف آف اسٹاف بھی سیکورٹی کونسل کا رکن ہو۔ اس نظام میں وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی حیثیت ثانوی بلکہ نمایشی ہو جائے گی اور ملک کا نظام ایک قسم کی ایسی جمہوریت کی شکل اختیار کر لے گا جو  مستقل فوجی کنٹرول میں ہو۔ یہ آمریت کی ایک شکل ہے جیساکہ کمیونسٹ نظام میں روس اورچین میں تھا اور انڈونیشیا اور برما میں بھی جس پر عمل ہوا۔ اس نظام کو جمہوری اور وہ بھی پارلیمانی جمہوری نظام کہنا خلاف واقعہ ہوگا۔ سپریم کورٹ نے بھی دستور کے بنیادی نظام اور ہیئت کی حفاظت کی جو بات کی ہے اور دستور کو ایک نامیاتی اکائی (organic whole) قرار دیا ہے اس میں اس نوعیت کی کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔

ثانیاً: اس نظام کا خاصا یہ ہوگا کہ فوج سیاست میں مکمل طور پر ملوث ہو اور ایک مستقل فریق کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ یہ فوج‘ ملک اور سیاسی نظام تینوں کے لیے خطرناک ہے۔ فوج کی تربیت کچھ متعین مقاصد کے لیے ہوتی ہے اور اس کے اعلیٰ ترین افسر بھی صرف پیشہ ورانہ کام کے لیے موزوں ہیں مگر نظامِ سیاست کو چلانے کے اہل نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج‘ تربیت‘ تجربہ بالکل دوسری نوعیت کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں فوج نے سیاسی زمام کار سنبھالی ہو اور وہ ملک جمہوریت تودُور کی بات ہے‘ اچھی حکومت اور اچھی فوج ہی اسے نصیب ہوگئی ہو۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ممالک اس کی بدترین مثال ہیں۔ خود پاکستان اور ان مسلم اور عرب ممالک کے تجربے ایک عبرت ناک نمونہ پیش کرتے ہیں جہاں فوج نے سیاست میں مداخلت کی‘ نہ ملک ترقی کر سکا اور نہ فوج ہی اپنا پیشہ ورانہ کردار باقی رکھ سکی۔ اسرائیل کی چھوٹی سی   پیشہ ور فوج نے کئی عرب ممالک کی سیاست زدہ فوج کو بار بار عبرت ناک شکست دی ہے جو سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل ضیا الحق تک سب کا دور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کے صحت مند ارتقا کی تاریخ میں تاریک باب اور ملک کے لیے کھوئے ہوئے سالوں (lost years)کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں ترکی کی مثال دی جاتی ہے مگر وہ کسی حیثیت سے بھی ایک قابل تقلید نمونہ نہیں۔ اولاً ترکی کی تاریخ میں اور خصوصیت سے پہلی جنگ کے بعد ترکی کی جمہوریہ کے قیام میں جو کردار ترکی کی فوج نے ادا کیا وہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ کسی دوسرے مسلمان ملک میں فوج نے وہ کردار ادا نہیں کیا۔ چین کے انقلاب میں ماوزے تنگ اور ان کی لبریشن آرمی یا روس کے انقلاب میں کمیونسٹ پارٹی کے عسکری بازد (سوویت) کا خاص کردار رہاہے اور اسی مناسبت سے نئے نظام کا وہ حصہ بنے اور بالآخر ہر اس جگہ جہاں فوج کا اس نوعیت کا رول تھا فوجی آمریت پرمبنی نظام وجود میں آیا۔ پاکستان میں تحریک آزادی کی تاریخ اور پاکستان کے دستوری نظام دونوں میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ پھر ترکی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ فوج کا مستقل کردار وہاں بھی جمہوریت کے فروغ کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ خصوصیت سے ایورین کے فوجی انقلاب کے بعد سے جو کردار فوج ادا کر رہی ہے وہ پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث ہے اور ملک میں فوج کے کردار کے بارے میں نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ یورپین یونین میںترکی کے داخلے کی راہ میں ایک رکاوٹ وہاں کے نظام میں فوج کا مستقل کردار بھی ہے۔ ترکی میں بھی یہ گنجایش نہیں کہ فوج کا حاضر سروس سربراہ صدرمملکت بن سکے۔ اس کا نیشنل سیکورٹی کونسل کا تجربہ بھی ہر لحاظ سے مفید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کے حالات میں تو یہ اقتدار کی مساوات کو خراب کرنے اور فوجی آمریت کی راہ ہموار کرنے کا ہی ذریعہ بن سکتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے اور اس کے مستقل کردار کی بات بھی کرتے ہیں۔ یہ تضادِ فکر کا غماز ہے اور فوج کے لیے ایک ایسے مقام کے حصول کی کوشش ہے جو نہ فوج کے حق میں ہے اور نہ ملک کے حق میں۔ ایسے حالات میں کبھی بھی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔

پھر اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس سیاسی نظام میں جس میں فوج ایک حصہ بن جائے اور بری افواج کے سربراہ کا ایک خاص رول ہو‘ وہ فوج کبھی بھی اچھی دفاعی قوت نہیں بن سکتی۔ سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ خود مخصوص مفادات کی حامل بن جاتی ہے جو اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو شدت سے متاثر کرتا ہے اور دوسری طرف ایسی فوج کو پوری قوم کی تائید حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سیاست میں بلکہ اس کے مختلف گروہی اور حزبی نظام میں ایک شریک بن جاتی ہے۔ فوج جس کی بنیادی خصوصیت یک جہتی اور یک رنگی ہونی چاہیے وہ باقی نہیں رہتی اور سیاسی اختلاف اور پارٹیوں کے نظام کی وجہ سے اس کی شناخت پوری قوم سے نہیں اس کے کچھ حصوں سے ہونے لگتی ہے۔ اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ اسے پوری قوم کی تائید اور تعاون بلکہ محبت حاصل ہو اور وہ کسی اعتبار سے بھی متنازع نہ بنے۔ جو نظام تجویز کیا جا رہا ہے ملک کے دفاع کے نظام کو درہم برہم کر دے گا اور قوم کبھی بھی فوج پرنہ وہ اعتماد کر سکے گی جو اس کا حق ہے اور نہ پوری یکسوئی کے ساتھ اسے وہ وسائل فراہم کر سکے گی جو اس کے غیر متنازع ہونے کی صورت ہی میں اسے حاصل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اپنی زندگی کے پہلے لمحے سے جن بیرونی خطرات سے دوچار ہے ان میں فوج کو سیاست میں شریکِ کار بنانا ملک کی سالمیت کے لیے ایک خطرہ اور بڑے خسارے کا سودا ہے۔

اصولوں کی پامالی: ان تمام وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف جس سیاسی ایجنڈے اور جس تسلسل کی بات کر رہے ہیں وہ ملک کی سالمیت اور سیکورٹی کے لیے خطرے کا ایک پیغام ہے اور اس راہ میں ایک قدم بھی بڑھاناسخت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

جنرل صاحب کے ریفرنڈم کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ قوم کو تقسیم کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ جارج بش نے جو آمرانہ رویہ اختیار کیا تھا کہ ’’یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف‘‘، جنرل پرویز مشرف کے اعلانات میں بھی اسی کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔ وہ قوم کو دو دھڑوں میں بانٹ رہے ہیں۔ زمین پر ایک لکیر کھینچ رہے ہیں اور اس بنیاد پر صف بندی فرما رہے ہیں۔ دیوار پر بیٹھنے والوں کو دعوت مبازرت دے رہے ہیں۔ ساتھ دینے والوں کو نہ صرف نواز رہے ہیں بلکہ آیندہ کے لیے بھی وعدے وعید کا بازار گرم فرما رہے ہیں۔ کھلے بندوں سرکاری افسروں‘اہل کاروں‘ اساتذہ‘ فوج اور پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ریفرنڈم ایک دستوری عمل ہے۔ اگر دستور کے دائرے میں کسی کی ذات کے لیے تائید حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایشو پر قوم کی رائے معلوم کرنے کے لیے ہو تو دستور کا تقاضا یہ ہے کہ پارلیمنٹ اس کے لیے ایک قانون بنائے جس کے تحت ریفرنڈم ہو۔ یہ الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔ پارلیمنٹ نے ایسا کوئی قانون آج تک نہیں بنایا اوریہی وجہ ہے الیکشن کمیشن کو اس کام کے لیے غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک شدید قسم کی بدعنوانی ہے جس نے جسٹس طارق محمود کو مجبور کیا کہ الیکشن کمیشن سے مستعفی ہوں اور پھر مجبور ہو کر جج کے عہدے سے بھی استعفا دے دیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جس قسم کی بدعنوانی کر رہے ہیں وہ ایک دستوری جرم ہے اور ان کا اس بارے میں پورا پورا احتساب ہونا چاہیے۔

اسی طرح سرکاری مشینری‘ ریاست کے وسائل اور میڈیا کو جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے اور بلدیاتی اداروں کے نظام کا جس طرح اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استحصال کیا جا رہا ہے وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ماضی کے غلط کار سیاست دانوں نے جو جو بدعنوانی کی ہے اور جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری نظام کا ارتقا متاثر ہوا آج کے حکمران وہ سب کچھ کر رہے ہیں اور پوری دیدہ دلیری سے کر رہے ہیں۔ سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے اور انتظامیہ کو سیاست میں ملوث ہونے سے روکنے کے سارے دعوے پادر ہوا ہوگئے ہیں۔ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ ناظمین اور کونسلروں نے غیر سیاسی ہونے کا عہد کیا ہے اور اگر کسی سیاسی جماعت کے کہنے پر وہ ریفرنڈم میں عدم تعاون کریں گے تو حلف کی خلاف ورزی ہوگی لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو اپنے انتخاب کے لیے استعمال کر کے سب سے پہلے وہ ان کو اپنے حلف کو توڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر انتخاب سیاسی سرگرمی نہیں تو پھر کیا ہے؟ صدر کی پارٹی‘ بلکہ ان تمام پارٹیوں کا کارندہ بننا جو صدر کا ساتھ دے رہی ہیں سیاست نہیں تو پھر ریفرنڈم سے اجتناب ہی کو سیاست کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا لوکل باڈیز آرڈی ننس میں ریفرنڈم میں تعاون ان اداروں کی ذمہ داری ہے؟ ان کا دائرہ کار ان کے اپنے قانون کے تابع ہے اور اس کا کوئی تعلق ریفرنڈم سے نہیں چہ جائیکہ ایسے ریفرنڈم سے جسے صدارت کے انتخاب کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔

جنرل صاحب ناظمین کو تو حلف یاد دلا رہے ہیں لیکن کیا ان کو خود یاد ہے کہ ایک حلف انھوں نے بھی فوج کے افسر کی حیثیت سے اُٹھایا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں:

میں ---------- صدق دل سے حلف اُٹھاتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے ‘ اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بّری فوج (یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔

اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔ (آمین)

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ صاف اور سچے آدمی ہیں لیکن وہ دیکھیں کہ اس آئینے میں انھیں اپنی کیا تصویر نظر   آتی ہے۔

ریفرنڈم: جواز کی دستوری حیثیت

دستور جس ریفرنڈم کے لیے گنجایش فراہم کرتا ہے (دفعہ۴۸ (۶) ) اس کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ قومی اہمیت کے کسی مسئلے کے بارے میں ہو‘ اور دوسری یہ کہ اس مسئلے کو ایسی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہو کہ جس کا جواب سیدھے سادھے ہاں یا نہیں میں دیا جا سکتا ہو۔ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ سوال یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص ملک کا صدر ہو سکتا ہے یا نہیں یا بطور صدر مملکت وہ قبول ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ صدر کے انتخاب کا ایک واضح اور متعین طریقہ دستور میں مرقوم ہے اور انتخاب صرف اسی طریقے سے ہو سکتا ہے۔ پھر اس انتخاب میں حصہ لینے والوں کی کچھ شرائط (qualifications) ہیں جن کو الیکشن کمیشن طے کرتا ہے کہ کسی شخص میں وہ پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ یہ کام عوام کا نہیں۔ اسکریننگ کے بغیرکوئی شخص کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔ صرف اسکریننگہی نہیں اس پر اعتراضات کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ دوسرے افراد بھی ان شرائط پر کلام کر سکیں۔ تیسرے یہ کہ انتخاب میں ایک ہی شخص صرف اس وقت منتخب ہو سکتا ہے جب مقابلے پر کوئی دوسرا موجود نہ ہو‘ یعنی بلامقابلہ۔ لیکن انتخاب میں صرف ایک ہی فرد ہو اور کسی دوسرے کو مقابلے کا موقع ہی نہ ہو‘ یہ انتخاب کے دستوری تصور اور قانونی ضابطے کے صریح خلاف ہے۔ ریفرنڈم میں ان میں سے کوئی ایک صورت بھی ممکن نہیں۔ اس لیے ریفرنڈم کسی فرد کے صدر یا کسی بھی عہدے کے لیے انتخاب کا ذریعہ تو بن ہی نہیں سکتا۔ ورنہ کل وزیراعظم‘ چیف جسٹس‘ چیف آف آرمی اسٹاف سب ہی کا تقرر ریفرنڈم کے ذریعے ہونے لگے گا    جو مضحکہ خیز اور لغو ہے۔ اس لیے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ریفرنڈم کے پرچے میں کسی کے صدر بنائے جانے کے بارے میں رائے لی جائے تو وہ خلافِ دستور اور غیر قانونی ہوگی اور پورے ریفرنڈم کو غیر قانونی بنادینے کا ذریعہ ہوگی۔

جو بات پوچھی جا سکتی ہے وہ کسی مسئلے کے بارے میں موقف کا تعین ہے۔اس ریفرنڈم میں ایک اشکال یہ بھی ہے کہ پانچ سوال پوچھے جا رہے ہیں جن کا ایک ہی جواب ضروری نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص لوکل باڈیز کے مسئلے پر ایک رائے رکھتا ہو اور معاشی پروگرام کے بارے میں دوسری‘ نیز جسے فرقہ وارانہ انتہا پسندی کہا جا رہا ہے اس کے بارے میں اس کی رائے کچھ اور ہی ہو۔ ان میں سے ہر سوال میں شدید ابہام ہے۔ معاشی اصلاحات کی فہرست طویل ہے۔ ان میں کچھ چیزیں اچھی اورکچھ غلط ہو سکتی ہیں۔ معاشی اصلاحات اور حکومت کی تمام معاشی پالیسیاں ایک ہی بات نہیں ہیں۔ آج سیکڑوں معاشی معاملات کے بارے میں حکومت کی پالیسیاں جاری ہیں۔ سوال میں کون سی پالیسیاں مراد ہیں اور کون سی نہیں۔ ایسے مبہم‘ متعدد معنوں کی گنجایش والے معاملات پر ہاں اور نہیں میں جواب کیسے دیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک سوال کا جواب ہاں اور دوسرے کا نہیں میں دیا جا سکتا ہے؟

اگر ایسا نہیں بلکہ سب کا ایک ہی جواب ہونا ہے تو یہ عقل کے خلاف ہی نہیں‘ دستور کی خلاف ورزی بھی ہے کہ دستور ایک متعین مسئلے پر ہاں یا نہیں کے جواب کی بات کر رہا ہے اور آپ پانچ سوالوں کے ایک جواب کی بات کر رہے ہیں اور جواب سے صدر کے انتخاب کا نتیجہ اسی طرح نکال رہے ہیں جس طرح مداری اپنی ٹوپی سے خرگوش نکال لیتا ہے:

ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے

آمریت کی طرف

ریفرنڈم کا سب سے زیادہ ہولناک پہلو وہ آمرانہ کلچر ہے جس میں یہ پوری مشق (exercise) روبہ عمل آ رہی ہے۔ جمہوریت کے روڈ میپ کو نظرانداز کر کے ۵ اپریل کو اچانک ریفرنڈم کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے رجوع کر کے پہلے معلوم نہیں کیا جاتا کہ یہ اقدام دستور کے مطابق ہے یا اس سے متصادم۔ پھر سرکاری خزانے سے اور سرکاری ملازموں کے ذریعے ایک ملک گیر مہم کا آغاز کیا جاتا ہے۔ مخالف آوازوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ جلسے صرف آپ کر سکتے ہیں۔ آپ کے موقف کی مخالفت کرنے والوں کو منافق کہا جاتا ہے اور جلسے‘ جلوس ‘ میڈیا کسی بھی راستے کو ان کے لیے کھلا نہیں چھوڑا جاتا۔

صدر کا انتخاب ایک خالص سیاسی عمل ہے‘ کوئی دستوری مسئلہ نہیں۔ یہ عہدہ اپنے ساتھ تنخواہ اور مراعات رکھتا ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ اپنے لیے عہدے کے حصول کے لیے سرکاری وسائل اور سرکاری مشینری استعمال کرے۔ کوئی مدمقابل نہ ہو اور پالیسی کے پہلوئوں پر بھی احتساب اور تنقید کی راہیں مسدود کی جائیں۔ تمام اہم سیاسی اور دینی جماعتیں مخالفت کررہی ہیں‘ تمام بار ایسوسی ایشین حتیٰ کہ بار کونسل اسے غیر دستوری قرار دے رہی ہے اور تمام ملک کے وکلا مجبور ہوئے ہیں کہ عدالت کا احتجاجاً بائیکاٹ کریں۔ اگر ایک معزز جج احتجاج کرتا ہے اور الیکشن کمیشن سے مستعفی ہو جاتا ہے تو اس پر بھی دبائو ڈالا جاتا ہے کہ بیان واپس لے حتیٰ کہ اعلیٰ عدالت کا جج اپنے عہدے تک سے استعفا دیتا ہے جسے جوشِ انتقام میں فوراً قبول کر لیا جاتا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پر دبائو بھی استعمال ہوا اور محض کسی عمل کے دستوری ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ایک واضح رائے رکھنے اور اس کے اظہار پر ایک شخص کو آپ اعلیٰ عدالت تک سے فارغ کرنے پر تیار ہیں۔

پریس کو گالیاں دی جاتی ہیںبلکہ اس پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں کہ حاضری کم بتا رہے ہیں۔ جس شہر میں جلسہ ہو وہاں کی بلکہ قریبی شہروں تک کی ساری سرکاری اور غیر سرکاری ٹرانسپورٹ پر زبردستی قبضہ کر لیا جاتا ہے اور جلسے کی رونق بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی قائدین اور کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سیاسی کاروان کے راستے روکے جا رہے ہیں‘ جلسوں پر لاٹھی چارج اور آنسوگیس کی بارش کی جا رہی ہے۔ اختلاف کے اظہار کے راستے بند کیے جا رہے ہیں مگر آزادی اور رواداری کے ڈھول بھی پیٹے جا رہے ہیں۔ مدمقابل کے ہاتھ پائوں باندھ کر دعوتِ مبارزت دینا کون سی شرافت‘ مردانگی اور شجاعت ہے؟ کیا یہی وہ بدعنوانی سے پاک نظام اور سیاسی کلچر ہے جسے آپ قائم کرنا چاہتے ہیں اور جس کے لیے آپ فوج اور سول انتظامیہ کو آلہ کار بنا رہے ہیں؟

جس نظام کا نام جمہوریت ہے اس میں تو جو شخص بلامقابلہ کامیاب ہونے کے لیے یہ سارے دھندے کرے وہ پہلے قدم پر ہی نااہل قرار دے دیا جاتا ہے۔

آپ ریفرنڈم جیتے نہیں ہیں پہلے ہی قدم پر شکست کھا گئے ہیں۔ پہلی شکست اس وقت ہوئی جب صدارت کے انتخاب کے دستوری طریقے کو اختیار کرنے کے لیے ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی چور دروازہ اختیار کیا گیا۔ پھر دوسری شکست اس وقت ہوئی جب آپ نے فہرست رائے دہندگان کی نفی کر دی اور اعلان عام فرما دیا کہ جو چاہے آئے ووٹ دے دے۔ پھر تیسری شکست اس وقت ہوئی جب آپ نے مخالف قوتوں کا منہ بند کیا اور ہاتھ پائوں باندھ دیے۔ یہ کیسا مقابلہ ہے کہ اکھاڑے میں صرف ایک پہلوان ہے۔ باقی سب کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں اور دعویٰ ہے کہ دنگل ہو رہا ہے۔ پُرامن احتجاج‘ سیاسی جلسہ اور جلوس‘ ریلی اور کاروان‘ اخبارات کی آزادی اور ریڈیو اور ٹی وی پر تمام نقطہ ہاے نظر کا اظہار‘ سرکاری ذرائع کی مکمل غیر جانب داری--- یہ وہ کم سے کم چیزیں ہیں جو کسی انتخاب اور استصواب کے لیے ضروری ہیں۔ اگران سب سے آپ قوم اور اختلافی رائے رکھنے والوں کو محروم کر دیتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوری عمل کو فروغ دیا جا رہا ہے اور عوام سے اعتماد کا ووٹ لیا جا رہا ہے تو اس سے بڑا جھوٹ روے زمین پر اور کون سا ہو سکتا ہے؟ جو شخص یہ راستہ اختیار کرتا ہے وہ ریفرنڈم میں پہلے ہی قدم پر اپنی شکست کا اعتراف کرتا ہے۔ اس کا نام مقابلہ سے فرار ہے‘ مقابلہ اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی فتح نہیں۔

درحقیقت آپ تو ایک ایسے انوکھے مقابلے کا اہتمام کر رہے ہیں جس کے بارے میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ اگر نتیجہ نفی میں رہا تو بھی آپ کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جنرل ضیا الحق نے کم از کم اتنا توکہا تھا کہ اگر ریفرنڈم میں میرے خلاف اکثریت کا ووٹ ہواتو میں استعفا دے دوں گا لیکن آپ کا ریفرنڈم تو ایسا نرالا ریفرنڈم ہے کہ اگر نتیجہ حق میں ہو تو فتح اور اگر خلاف ہو تو بھی فتح--- اسے ریفرنڈم نہیںڈھونگ کہا جاتا ہے۔ ایک ایسا ڈھونگ جس پر قوم کا کروڑوں روپیہ اورہزاروں لاکھوں انسانوں کا وقت ضائع کیا جا رہا ہو اسے کون قومی مفاد کا نام دے سکتاہے۔ لیکن افسوس کہ آج قومی مفاد کے نام پر قوم سے یہ سنگین مذاق کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے جمہوریت کے احیا کی راہ ہموار ہوگی۔

اگر نیم کے درخت سے آم برآمد ہونے لگیں تو شاید ریفرنڈم سے بھی یہ کرشمہ صادر ہو جائے!

 

انسان نے سمندروں اور آسمانوں کو مسخرکر ڈالا ہے اور فطرت کی طاقتوں کو اپنی خدمت میں لگا لیا ہے۔ اس نے اپنے معاملات کے لیے وسیع اور پیچیدہ ادارے اور تنظیمیں قائم کر لی ہیں۔ بہ ظاہر وہ مادّی ترقی کے اوجِ کمال پر جا پہنچا ہے۔

انسان کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے کائنات میں اپنی حیثیت پر خوب اچھی طرح غور کر لیا ہے۔ اس نے اپنے حواس اور تجربات سے حاصل کیے ہوئے علم اور عقل کی روشنی میں حقیقت کی تعبیر کرنا شروع کر دی ہے۔ اپنی قوت استدلال اور سائنس اور ٹکنالوجی کی قوتوں میں نودریافت شدہ اعتماد نے اس کا رشتہ روایت سے‘ وحی کی صداقت سے‘ تجربے سے بالاتر معاملات سے غرض یہ کہ اپنے بارے میں ہدایت کی کسی بھی صورت سے توڑ دیا ہے۔

وہ اس اعلیٰ مقام سے دُنیا کو اپنے نظریات‘ اپنے رجحانات اور پسند کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ’’عالم نو‘‘ جو اس نے پیدا کر لیا ہے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ایک انتہائی خطرناک فریب خوردگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ٹکنالوجی کی بے مثال ترقی اور مجموعی مادّی ترقی کے باوجود انسان کی حالت انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ طاقت ور کمزور کو دبا رہا ہے۔ امیر غریب پر مسلط ہے اور دولت کی ریل پیل کے باوجود غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ستم یہ ہے کہ غریب ممالک غریب تر ہو رہے ہیں اور امیر ملکوں میں بھی غریبوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً بے زر‘ زردار کے خلاف صف آرا ہیں۔ وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ناانصافی اور استحصال کا بازار گرم پاتا ہے۔ وہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ‘ افراد کی معاشرے سے اجنبیت اور اس کے اداروں سے دُوری سے دوچار ہے۔ یہاں تک کہ انسان آج خود کو خود سے دُور دیکھ رہا ہے۔ وہ تمام انسانی دائروں اور سرگرمیوں میں اعتماد اور اختیار کے غلط استعمال کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اگرچہ اس نے ہوا میں اُڑنے اور سمندرمیں مچھلیوں کی طرح تیرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ تو کر دیا ہے‘ تاہم وہ زمین پر ایک اچھے انسان کی طرح رہنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کی یہ ناکامی اس امر کو مشکوک بنادیتی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات کو واضح رہنما خطوط کے بغیر چلا سکتا ہے۔

انسان اپنے آپ کو دونوں طرح سے مشکل میں پاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ تہذیب و تمدّن کی معراج کو پہنچ چکا ہے لیکن بامِ عروج پر پہنچتے ہی وہ اپنے آپ کو ایک نئے اور بڑے خلا میں موجود پاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی تراشیدہ تہذیب کو اپنی ہی دریافت شدہ قوتوں سے خطرے میں پاتا ہے۔ وہ پریشان ہو کرایسے آسروں اور سہاروں کی تلاش میں لگ جاتا ہے جو اس کی زندگی کو تباہی سے بچا سکیں‘ اور وہ اپنے محبوب خوابوں کی تعبیرسے محروم نہ ہو۔ اسے احساس ہے کہ اس کا تصور جہاں ان واضح معیارات سے خالی ہے جو صحیح اور غلط کی تمیز کرنے میں اس کے ممد ومعاون ثابت ہوں۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کا علم اورمہارت‘ اس کو وہ عالم گیر معیار یا میزان عطا کرنے میں ناکام ہیں جو اسے اچھے اور برے کا فرق بتا سکیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ تبدیلی اور تبدیلی کی رفتارنے اس کے قدم اُکھاڑ دیے ہیں۔ اس کو اضافیت اور ثبات نے محرومی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔ اب انفرادی یا اجتماعی اخلاقیات کی بنیاد کے طور پر کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہی جو ٹھوس اور دائمی ہو۔ وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ‘ انسان جس سمت کی طرف بہے جا رہا ہے ‘ وہ خود اس کے بارے میں مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔ اسی مخمصے سے نجات حاصل کرنے میں ناکامی بلکہ احساسِ نااہلیت اسے مایوسی اور افسردگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ انسان روز بروز خود غرض اور اپنے اہل و عیال اور انسانیت کی اجتماعی ضروریات سے لاپروا ہوتا جا رہا ہے۔ انسان کو ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے: وہ اپنے کو حیوان کے علاوہ کچھ اورنہ سمجھے۔ اورافسردگی کے عالم میں اپنے کو ایک ’بے لباس بندر‘ قرار دے ‘یا پھر وہ سنجیدگی اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسان اور معاشرے کے لیے ایک نئے نمونے یا تصور (paradigm)کی تلاش میں لگ جائے۔

تہذیب کا بحران

اکیسویں صدی کے اس پہلے عشرے میں انسان اسی تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہے۔ بیسویں صدی کے بڑے بڑے فلسفی تاریخ دانوں: اوسوالڈ سپنگلر مغرب کا زوال‘ آرنلڈ ٹائن بی تاریخ کا مطالعہ اور پٹرم سوروکن معاشرتی و ثقافتی علومِ حرکیات اور ہمارے عہد کے بحران کا خیال ہے کہ مغرب کی غالب لادینی تہذیب ‘ انسان دوستی کے خوش نما سُر اور تال کے باوجود اورمادّی خوش حالی یا فوجی طاقت کی بے کراں وسعتوں کے باوجود ایک کرب ناک بحران میں مبتلا ہے۔ وہ طاقتیں جنھوں نے اس تہذیب کے عروج اور غلبے کے لیے راہ ہموارکی تھی‘ اپنی توانائی کھو چکی ہیں۔ اب انتشار اور تنزل کی طاقتیں قوت و استحکام کی طاقتوں پر حاوی ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ لنگرگاہیں جو جہازوں کو تحفظ فراہم کرتی تھیں اب بے وزن ہو رہی ہیں۔ وہ اقدار جو لوگوں کو جوڑتی تھیں اب ابتری کی حالت میں ہیں۔ یہ روگ ایک یا چند علاقوں تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ زندگی کا سارا دریا اسی آلودگی کا شکار ہو گیا ہے۔

جدید تاریخ کے ایک باشعور تجزیہ نگار جوزف اے کمیلیری (Joseph A. Camilleri)نے ہمارے وقتوں کے اس بحران کا منظرنامہ نہایت خوبی سے یوں بیان کیا ہے:

موجودہ انسانی بحران اتنا شدید اور ہمہ گیر ہے کہ اس کے تجزیے کی کوشش بھی ایک مشکل عمل ہے    چہ جائے کہ اس کا حل جو بظاہر ناممکن نظر آ رہا ہے۔ اس بحران کے سامنے انسانی عقل و فہم اور فکر کی قوتیں شکست کھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان دنوں وہ لاکھوں انسان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ جن کی غیر محفوظ ہستی غربت‘ پس ماندگی اور بھوک جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ انسانی زندگی کی یہ ناخوش گوار صورت حال ان اقوام کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے جو بیرونی حملے یا اندرونی انتشار کے خطرے کی زد میں ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کا وسیع دائرہ ‘دہشت اور خوف کے خطرناک اور غیرمستحکم ’’توازن ‘‘ پر انتہائی نزاکت کے ساتھ استوار ہے ۔

وقت‘ خلا اورحرکت کے روایتی تصورات کو ٹکنالوجی کے انقلاب اور طاقت پسند استحصالی ثقافت نے اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرتی فساد‘ نفسیاتی عدم تسلسل اور اخلاقی خلا پیدا ہوا ہے‘ جس نے ضمیر کا ایک شدید بحران ہی نہیں پیدا کیا بلکہ حقیقت سے بڑے پیمانے پر فرار اختیار کرنے کی راہ بھی سجھائی ہے۔

جو بحران اکیسویں صدی کے انسان کے سامنے ہے وہ واقعی عالم گیر حیثیت کا حامل ہے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ یہ لاتعداد مردوں اور عورتوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ دُور رس معنی میں یہ تمام انسانی تعلقات اور اداروں کے تانے بانے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس نے انسان کے فطرت کے ساتھ رشتے کو مسخ کردیا ہے۔ کوئی انسانی معاشرہ‘ کوئی فرد‘ کرئہ ارض کا کوئی گوشہ خواہ وہ کتنا ہی دُور افتادہ یا الگ تھلگ ہو‘ کتنا ہی طاقت ور یا خوش بخت ہو‘ اس بدنظمی کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔جو سارے کرہ ارض پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس عالم گیر بحران کو بنیادی عدمِ توازن کا نام دے سکتے ہیں‘ جو انسان کی اس کے ماحول کے ساتھ حیاتیاتی و ثقافتی مطابقت اور ربط کی صلاحیت کو محدود کر کے اسے تباہ کر دیتا ہے۔

جدید صنعتی معاشرے میں یہ مریضانہ رویے عام ہیں: کچھ ہونے یا کچھ بن جانے کے بجائے سب کچھ رکھنے اور حاصل کرنے کا رویہ‘ طاقت کا جنون‘ دوسروں کو آزاد کرنے کے بجائے ان پر غلبہ حاصل کرنے کا جنون ‘شراکت کی ایک وسیع تر معاشرتی حقیقت میں شرکت کے بجائے احساس اجنبیت کی طرف لپکنے کا رجحان‘ فراغت کو تخلیقی اور منفعت بخش مصروفیات میں صرف کرنے کے بجائے محض وقت گزارنے اور اسے ضائع کرنے کا رجحان‘ اندرون کی طرف توجہ کے بجائے بیرون میں مداخلت کا نفسیاتی مزاج جو جنس‘ نسل‘ مذہب یا قومیت کی بنیاد پر تفریق کو بڑھائے‘ تنازعات کو طاقت کے استعمال یا دھونس سے حل کرنے کا رجحان۔ ان سماجی امراض کو جدید صنعتی معاشرے میں دولت‘ طاقت اور علم کی تہ در تہ شکلوں میں اداراتی شکل دی گئی ہے۔ انسانی ضروریات پورا کرنے کو فوقیت دینے کے بجائے صنعتی پیداوار کی اجارہ داری قائم رکھنے سے مریضانہ رویوں کی اداراتی شکل اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب نہ صرف انسانی زندگی کا اعلیٰ معیار محفوظ نہیں‘ بلکہ اس کی بقا خطرے میں ہے--- اگر آج انسانی تہذیب کی زوال پذیر حالت کی صحیح تشخیص یہ ہے توپھر کوئی جستہ جستہ‘ یا عارضی یا محدود طریقہ علاج اسے دُور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ نوعِ انسانی کے نامیاتی (organic) ارتقا کو قائم رکھنے کے لیے ایسی فضا فراہم کرنا اور ایسے جوابات تلاش کرنا ہوں گے جو اپنی اصل میں انقلابی اور عالمی ہوں۔

کونسل آف کلب روم کی تازہ ترین رپورٹ پہلا عالم گیر انقلاب (۱۹۹۱ء) جو اس سے پہلے والی رپورٹ ترقی کی حدود (۱۹۷۲ء) کے بعد منظرعام پر آئی ہے نہ صرف اس بحران کا تازہ ترین اشاریہ ہے‘ بلکہ ایک کھلی اپیل بھی ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ‘ انسانی فطرت کی بنیادی مبادیات کی طرف لوٹ کر تلاش کیا جائے۔

رپورٹ کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے: نئی صدی کے آغاز پر بنی نوع انسان بے یقینی کی گرفت میں محسوس ہوتی ہے‘ بلکہ ہزاریے کا اختتام اپنی وسیع تر سرعت پذیر تبدیلی کے ساتھ بے یقینی کی زیادہ گہری کیفیت لا رہا ہے۔

یہ رپورٹ تسلیم کرتی ہے کہ باوجود بے مثال معاشی ترقی کے تقریباً ایک اعشاریہ تین ارب لوگ جوعالمی آبادی کے ۲۰ فی صد سے زیادہ ہیںشدید بیماری یا بھوک کا شکار ہیں۔ یہ رپورٹ معاشی ناہمواریوں‘ کھلی عدم مساوات‘  حددرجہ عام اور شدید غربت بہ مقابلہ دولت کی فراوانی‘ ہر قسم کے ذہنی و نفسیاتی دبائو اور چپقلشوںکو جو مختلف جغرافیائی علاقوں میں سر اٹھا رہی ہیں‘ غیر متنازعہ حقائق کے طور پر ریکارڈ پر لاتی ہے۔ یہ رپورٹ آج کی صورت حال کو اس حقیقت کی بڑھتی ہوئی آگہی کے طور پر پیش کرتی ہے کہ ’’نسل انسانی جس طرح مادی فوائد کے لیے فطرت کا استحصال کر رہی ہے‘ اس سے دراصل وہ اس سیارے کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے‘‘۔ انسانی بے اطمینانی کے حوالے سے رپورٹ بتاتی ہے:

’’پہلے عالم گیر انقلاب کی غیر معمولی تبدیلیوں کی پیدا کردہ صدماتی لہروں کی زد سے کوئی علاقہ یا معاشرہ نہیں بچ سکا ہے۔ اس اکھاڑ پچھاڑ نے ماضی سے ورثے میں ملے ہوئے سماجی تعلقات‘ عقائد اور انسانی رشتوں کو توڑ دیا ہے اور مستقبل کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل بھی نہیں دیا۔ شکوک اور مایوسی کی بہت سی وجوہ ہیں: اقدار اور حوالوں کا غائب ہو جانا۔ دنیا کی روز افزوں پیچیدہ اور غیر یقینی صورت حال‘ نئے عالم گیر معاشرے کے استدراک میں حائل مشکلات‘ نئے غیر حل شدہ مسائل مثلاً ماحولیاتی ابتری کا سلسلہ اور جنوبی ممالک کی انتہائی غربت اور پس ماندگی‘ نیزذرائع ابلاغ کے اثرات جو کسی سنگین حقیقت اور کسی ناگہانی مصیبت کے المیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

اس چیلنج کی ماہیت اور وسعت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے:

اس سے پیش تر تاریخ میں انسان کبھی بھی اتنے خدشات و خطرات سے دوچار نہیں ہوا۔ اس کو بغیر کسی تیاری کے ایک پتھر یا گولے کی طرح دنیا میں پھینک دیا گیا ہے جہاں وقت اور فاصلے کا احساس ختم ہو چکا ہے۔ انسان کو ایک سمندری طوفان کے اندرکھینچ لیا گیا ہے جہاں اسباب و نتائج ایک ایسا جالا بنتے ہیں جس سے باہر نکلنا محال ہے۔ صدی کے اس آنے والے موڑ پر ہر جہت سے آنے والی مظاہر قدرت کی فراوانی نوع انسان پر چھا گئی ہے۔ حقیقت ان الفاظ سے زیادہ ہے کیونکہ روایتی ڈھانچے اور ادارے مسائل کی موجودہ پیچ درپیچ تہوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ مزید خرابی یہ ہے کہ دقیانوسی اور غیر موزوں ڈھانچے حقیقی اخلاقی بحران میں رائج کیے جا رہے ہیں۔ آج معاشرے کو جس خلا کا سامنا ہے اس کی تصدیق نظامِ اقدار کی ٹوٹ پھوٹ‘ روایات پر شکوک و شبہات‘ نظریات کے انہدام‘ عالم گیر وژن کے فقدان اور جمہوریت کے رائج طریقوں کی محدودیت وغیرہ سے ہوتی ہے۔ افراد خود کو بے یارومددگار پاتے ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف ان خطرات کا سامنا ہے اور دوسری طرف پیچیدہ مسائل کا بروقت جواب دینے اور برائی کی شاخوں کی جڑ پر وَار کرنے کی اہلیت وہ اپنے اندر نہیں پاتے۔

بڑی دل چسپ اور معلومات افزا بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ ان مسائل کے حوالے سے بنی نوع انسان کو دعوت دیتی ہے کہ وہ قرآن پاک کی سورۃ العصر پر غور کرے:

وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o  (العصر ۱۰۳:۱-۳)

زمانے کی قسم! انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے ‘جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

اسلامی متبادل

تہذیب کے بحران کا معروضی تجزیہ یہ ضرور بتائے گا کہ نوعِ انسانی ایک نازک مقام پر کھڑی ہے۔ موجودہ صورت کے جاری رہنے میں تباہی لازمی ہے۔ اس کی بقا کا انحصار اس پر ہے کہ نوع انسانی کی اخلاقی بنیادوں کی بازیافت سے نیا آغاز کیا جائے‘ اور انسانوں اور معاشرے کے ایسے تصور کو تسلیم کیا جائے جو دنیا‘ نوعِ انسانی اور اس کی تقدیر کا ادراک اخلاقی بنیادوں پر کرے۔

اس مقام پر انسانوں کی ضرورت ہے کہ وہ اللہ کے کلام اور اس کی دی ہوئی ہدایت سے رشتہ استوار کریں۔ یہ انھیں ان کے خالق سے آگاہ کرتا ہے‘ اور انھیں ان کی تخلیق کا مقصد بتاتا ہے۔ اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسان کو اس کے مقام سے آگاہ کرتا ہے اور ایک بھرپور اور ثمرآور زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ان کو آخرت کے بارے میں بتاتا ہے۔ ان کو دوسرے انسانوں کی قدر و قیمت سے آگاہ کرتا ہے اور ہر چیز کو حق اور انصاف کے تابع کر دیتا ہے۔ یہ ان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ اپنے ساتھ‘ تمام مخلوق کے ساتھ اور اپنے خالق کے ساتھ سکون سے رہیں۔

اس حقیقی چیلنج کے پیش نظر جو آج بنی نوع انسان کو درپیش ہے یہ کہنا چاہیے کہ اصل مسئلہ محض کسی نئے اقتصادی نظام یا نئی عالم گیر سیاسی تنظیم کا نہیں ہے‘ بلکہ اس نئے عالمی نظام کا ہے جو انسان کے نئے تصور اور معاشرے اور انسان کی تقدیر کے متعلق ایک مختلف وژن پر مبنی ہو۔ اصلاح کے لیے جو کوشش عالمی مذاہب کے زیراثر عموماً‘ اور اسلام کے زیراثر خصوصاً کی جائے‘ اس کا آغاز یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ سمجھنے اور اس کے حل تک پہنچنے کے لیے اس تصور کو درست کرنے کی طرف پیش قدمی کی جائے۔

اصل ضرورت یہ نہیں ہے کہ بڑی ساختوں (superstructures) میں بعض تبدیلیاں لانے کے بارے میں کچھ رعایتیں تلاش کی جائیں بلکہ ضرورت یہ ہے کہ ان بنیادوں کو پرکھا جائے جن پر سارا معاشرتی ڈھانچہ اور معیشت کی عمارت تعمیر کی گئی ہے ۔ ان مقاصد کا جائزہ لیا جائے جو ثقافت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی تعلقات میں پایا جانے والا بحران‘ ان تصورات اور ان اداروں کا جو ان کے حصول کے لیے بنے‘ قدرتی نتیجہ ہے۔ اس لیے اسلام کا پیغام یہ ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے افراد اور معاشرے کا درست وژن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے حالات درست ہو سکتے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلی لائیں۔

تبدیلی کا طریقۂ کار اور حکمت عملی جیسی کہ یہ معاصر مغرب میں نشوونما پا رہی ہے اور روبہ عمل ہے ‘ اس سے یہ قیاس کر لیا گیا ہے کہ انسانوں میں انقلابی تبدیلی صرف اس صورت میں لائی جا سکتی ہے‘ جب ماحول اور اداروں کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی طور پرازسرنو تعمیر پر زور دیا جاتا ہے۔ اس طریقے کی ناکامی کی وجہ :انسانوں کو ‘ ان کے عقائد‘ ان کے محرکات‘ ان کی اقدار اور ان کی ذمہ داریوں کو مرکز توجہ نہ بنانا ہے۔ اس طریقے نے انسان کے دل و دماغ میں تبدیلی کو نظراندازکیا ہے اور اصل توجہ باہر کی دنیا میں تبدیلی پر مرکوز کی ہے۔ جو شے ضروری ہے وہ انسانوں کے اپنے اندر اور ان کی معاشرتی و معاشی کیفیت میں مکمل تبدیلی ہے۔ مسئلہ محض بناوٹ یا ساخت کا نہیں ہے لیکن ساختی انتظامات کو بھی نئی شکل دینا ہوگی۔ نقطہء آغاز انسانوں کے دل اور روح اور حقیقت (reality)کے تصور اور زندگی میں ان کے مقام اور مقصود زندگی کو ہونا چاہیے۔

معاشرتی تبدیلی کے اسلامی نقطۂ نظر میں ان تمام عناصر کو ملحوظ رکھا گیا ہے:

۱- معاشرتی تبدیلی مکمل طور پر پہلے سے طے شدہ تاریخی قوتوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ اگرچہ بہت سی رکاوٹوں اور مشکلات کا وجود زندگی اور تاریخ کی ایک حقیقت ہے‘ مگر تاریخ میں کوئی جبر نہیں ہے۔ تبدیلی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور پھر اسے بروے کار لایا جاتا ہے ۔ یہ تبدیلی بامقصد ہونی چاہیے‘ اور منزلِ مقصود کی جانب رواں رکھنے والی ہونی چاہیے۔

۲- انسان ہی تبدیلی کا سرگرم اور اصل عامل ہے۔ زمین پر اللہ کے نائب یعنی  خلیفہ فی الارض (viceregent) کی حیثیت سے تمام دوسری قوتیں ان کے تابع کر دی گئی ہیں۔ اس کائنات کے الوہی انتظام کے اندر اور اس کے قوانین کے تحت اپنی قسمت بنانے یا بگاڑنے کے ذمہ دار خود انسان ہی ہیں۔

۳- ضرورت ہے کہ تبدیلی صرف ماحول اور بیرونی نظام کی نہ ہو بلکہ مرد و زن تمام انسانوں‘ سب کے دل اور روح کے اندر بھی تبدیلی لائی جائے۔ یعنی ان کے رویوں میں‘ ان کے محرکات میں‘ ان کی وابستگیوں میں اور ان کے ارادوں میں کہ وہ اپنے اندر کو اور اپنے آس پاس سب کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے متحرک کر دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی تبدیلی وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد ایمان اور اعتقاد پر ہو۔

۴-  زندگی باہمی تعلقات کا ایک تانا بانا ہے۔ تبدیلی کا مطلب ہے کہ بعض تعلقات بعض جگہوں پر منقطع ہوں۔ اس میں یہ خطرہ ہے کہ تبدیلی معاشرے میں افراد کے درمیان عدمِ توازن کا ایک آلۂ کار بن جائے۔ ایک حالت توازن سے بہتر ارتقائی حالت کی طرف‘ یا ایک عدم حالت توازن سے حالت توازن کی طرف لے جانے والی منظم اور مربوط‘ اسلامی معاشرتی تبدیلی کم سے کم انتشار اور عدمِ توازن کی کیفیت پیدا کرے گی۔لہٰذا ‘تبدیلی کو متوازن‘ بتدریج اور ارتقائی ہونا چاہیے۔ اختراع (innovation)کو انجذاب (assimilation)کے ساتھ ملانا ہے۔ یہ منفرد اسلامی طرز ہی ہے جو ارتقائی مدار پر انقلابی تبدیلیوں کی طرف لے جاتا ہے۔

اگر یہ بنیادی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں تو یہ نئے عالمی نظام کے مسائل سے نبٹنے کی ہماری حکمت عملی کو تبدیل کر دیں گی۔

اسلام اللہ کی آخری اور مکمل ترین ہدایت کا حامل ہے۔ یہ مجموعہ قوانین‘ زندگی کا عملی نمونہ ہے جو اللہ پاک نے ‘ جو خالق و مالک کائنات ہے‘ نسل انسانی کی رہنمائی کے لیے بذریعہ وحی نازل کیا ہے۔ اسلام انسانوں کا اللہ سے اور اس کی تخلیقات سے ایسا تعلق قائم کرتا ہے کہ وہ تمام موجودات سے تعاون کرتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ اس جہت (dimension)سے غفلت نے انسانی زندگی کو درماندہ کر دیا ہے اور نوع انسانی کی مادی فتوحات اورکامیابیوں کو بے معنی بنا دیا ہے۔ لادینیت کی گرفت نے انسانی زندگی کو اس کی روحانی اہمیت سے محروم کر دیا ہے‘ تاہم روحانی عظمت‘ پینڈولم کو دوسری انتہا کی طرف جھولا دینے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مادیت اور روحانیت کی یک جائی ہی سے مطابقت اور توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ زندگی نام ہی جسم اور روح میں یک جائی کا ہے اور موت اس رشتے کے ٹوٹ جانے کا نام ہے۔ یہی معاملہ تہذیب کی زندگی اور بالیدگی کا ہے۔ نہ محض روحانیت پر مبنی نظام‘ زندگی کے مسائل کا حل ہے اور نہ صرف مادی اور طبعی عوامل پر مبنی۔ دونوں کا امتزاج اور یک جائی ہی انسانی زندگی میں توازن اور ہم آہنگی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔

یہی راستہ ہے جس کی اسلام وکالت کرتا ہے۔ یہ انسانی وجود کی ساری وسعت کو روحانی اور مذہبی بناتا ہے۔ اس طرح یہ انسانی مرضی کو اللہ کی مرضی سے ہم آہنگ کرنے کی علامت بن جاتا ہے۔ کیونکہ اسی طریقے سے انسانی زندگی کو امن و سکون میسر آسکتا ہے۔ اللہ کے ساتھ تعلق کے رشتے کو دریافت کر کے ہی لوگ اپنی زندگی میں سکون پاتے ہیں۔ نیز فطرت کے ساتھ بھی بیرونی و اندرونی ہر طرح سے سکون اسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان اور فطرت ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں۔ وہ ایک مشترکہ جدوجہد میں ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں تاکہ تخلیق آدم کے مشن کی تکمیل کریں۔ اس مربوط نقطہء نظر میں ماحول کی کارفرمائی سے غفلت کی کوئی گنجایش نہیں۔اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہم آج نئے عالمی نظام کی تلاش میں زندگی کے کسی ایسے نئے ڈھب کی جستجو کریںجوانسانی مسائل کو کچھ مختلف طریقوں سے سلجھائے ۔ یہ حل جو محض محدود قومی یا علاقائی مفادات کے تناظر میںنہ ہو‘ بلکہ اس کے پیش نظر یہ بھی ہو کہ کیا درست اور کیا نادرست ہے ؟ کس احسن طریقے سے ہم انفرادی‘ قومی اور عالمی سطحوں پر ایک منصفانہ انسان دوست عالمی نظام کی نشوونما کے لیے کوشش کر سکتے ہیں؟

یہ حقیقت کہ موجودہ نظام بے انصافی اور استحصال سے عبارت ہے ‘کسی شک و شبے کے بغیر ثابت ہو چکی ہے۔ اسلام کے مطابق‘ موجودہ نظام اس لیے ناکام ہے کہ یہ انسانوں کے آپس کے اور معاشرے‘ فطرت اور دنیا سے تعلقات کے غلط تصور پر مبنی ہے۔ نئے نظام کی تلاش ہم کو اس مقام پر لاتی ہے جہاں انسانوں اور ان کے کردار کے نئے تصور کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ عالمی مذاہب کے نقطۂ نظر سے عموماً اور اسلام کے  نقطۂ نظر سے خصوصی طور پر بحث کا مرکز‘ فرد اور معاشرے کے نئے وژن کی طرف مبذول ہونا چاہیے‘ جو انسانی شعور اور اقدار کی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے ہو‘ جو نئی ثقافتی تبدیلی کی طرف لے جائے۔

اسلام معاشرتی تبدیلی کے لیے ایک تحریک ہے۔ یہ نہ صرف معاشرے کا واضح تصور دیتا ہے اور تاریخ میں مطلوبہ تبدیلی برپا کرنے کا لائحہ عمل مرتب کرتا ہے‘ بلکہ معاشرتی و معاشی پالیسی کے لیے واضح رہنما خطوط بھی مہیا کرتا ہے۔ وہ ایسے کلیدی ادارے قائم کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس پالیسی کے نفاذکے ضامن ہوںاورباقاعدہ لیڈرشپ کے تحت منظم جدوجہد کریں تا کہ یہ مقاصد زمان و مکان کے اندر حاصل ہوں۔

اُمت مسلمہ مذہب کے بارے میں تحریکی سوچ رکھتی ہے۔ سوچ کا یہ آہنگ انفرادی‘ معاشرتی اور عالمی یعنی تین سطحوں پر عمل کرتا ہے۔ انفرادی سطح پر جب تک افراد اپنے کردار کے بارے میں پختہ ایمان‘ نیا شعور اور نیا تصور نہ رکھتے ہوں‘ یہ تبدیلی برپا نہیں کی جا سکتی۔ دوسری سطح معاشرے کی ہے۔ اولاً یہ قومی سطح پر ہوگی‘ بعد میں ساری دنیا کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکمت عملی یہ ہے کہ یہ فرد کے اندر نئے شعور کی تخلیق سے آغاز کرتی ہے‘ جو اس کی اقدار کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور پھر صحیح زندگی کے قیام کے لیے کوشش کرتا ہے‘ جو وقتی مصلحت پر مبنی نہ ہواور نہ ذاتی یا گروہی مفادات کو اولیت دے بلکہ وہ  اسی پر پیش قدمی کرے جوسچ اور حق ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک انفرادی مسئلے کو عالم گیر سطح پر دیکھا جائے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ایک شخص ناحق قتل کیا جاتا ہے تو یہ گویا تمام نسل انسانی کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی ایک زندگی بچا لیتا ہے تو گویا وہ ساری نسل انسانی کو بچا لیتا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ اس طرح ایک انفرادی واقعے کو ایک عالمی مسئلے اور ایک اصول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک واقعہ اقدار کی قدروقیمت کی ایک پوری دنیا سامنے لے آتا ہے۔

اسلام موجودہ حالت (status quo) کا دفاع نہیں کرتا۔یہ انسانی زندگی پر‘ خود مسلمانوں کی زندگیوں پر اور مسلم معاشرے کی تنظیم پر تنقید کرتا ہے۔ موجودہ مسلم معاشرہ‘ اسلامی معیار کے حوالے سے بہت پست سطح تک گر چکا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کی اصلاح اور تشکیل نو کرنی ہے تاکہ وہ معاشرتی‘ اقتصادی اور سیاسی قدریں اور ادارے قائم ہوں جو انسانی تعلقات میں انصاف کو قائم کر سکیں۔ اسلام سیاسی اقتدار کو اپنے اخلاقی تصورات کے تحت لانا چاہتا ہے۔ اسلام کے لیے برپا تحریکوں کے نتیجے میں ایسے معاشرے اور ایسی ہی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ اسی طرح مسلمان دنیا میں اپنا نظریاتی کردار ادا کر سکیں گے۔ یعنی پہلے وہ اپنے گھر کو درست کریں‘ ایک مثالی معاشرہ بنانے کے لیے اپنے وسائل کو وقف کریں‘ جہاں ان کو سیاسی قوت حاصل ہو‘ اور پھر عدل و انصاف کی خاطر اس اصول پر عمل کرتے ہوئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے قحط زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اپنایا تھا‘ (حالانکہ وہ سیاسی طور پر آپؐ کے ساتھ بحالت جنگ تھے) اس میں دوسروں کو شریک کریں۔

ذہنوں میں یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ اسلامی ریاست کبھی بھی انسانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں رہی۔ اس کا مقابلہ ان اداروں اور ان قیادتوں سے رہا ہے جو جنگجو سیاسی قوت کی نمایندگی کرتے تھے۔ یہ بات ایک نئے مثالی عالمی نظام کی طرف رہنمائی میں نوعِ انسانی کی مددگار اور معاون ثابت ہو سکتی ہے‘ جہاں دوست دشمن سب کے ساتھ یکساں انصاف کیا جائے اور جہاں دولت میں ضرورت مند کا حصہ ہو‘ اس وجہ سے نہیں کہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے بلکہ اس لیے کہ یہ انصاف کا تقاضا ہے۔

یہ عالمی نظام جن بنیادی اقدار پر قائم ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

۱- توحید (اللہ کی وحدانیت اور اقتداراعلیٰ): یہ وہ بنیاد ہے جس پر اسلام کا نظریہ کائنات اور زندگی کا نظام قائم ہے۔ یہ خدا کے انسانوں سے اور انسانوں سے انسانوں کے تعلقات کے اصول بیان کرتا ہے۔ توحید محض ایک مابعدالطبیعیاتی نظریہ نہیں ہے۔ معاشرتی حقیقت کے بارے میں انسانی فکر اس عقیدے کا جزو لاینفک ہے۔ انسانی تعلقات میں عدل کا قیام اس دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔ عدل صرف اپنوں سے نہیں بلکہ دشمنوں اور محکوموں سے بھی ۔اللہ کی وحدانیت اور اس کے اقتدار اعلیٰ پر ایمان کا مطلب ہے کہ سب انسان برابر ہیں اور ان کے حقوق (حقوق العباد) دراصل اللہ کے حقوق (حقوق اللہ) کی فطری توسیع ہیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

]ترجمہ[تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں‘ جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔ (سورہ الماعون ۱۰۷:۱-۷)

۲- استخلاف  (نیابت) : اسلام اس دنیا میں انسانوں کی حیثیت کا تعین بطور خلیفہ اللہ کرتا ہے‘ یعنی وہ اللہ کے ماتحت اس کے نمایندے اور زمین پر اس کی مرضی قائم کرنے کے لیے مامور ہیں۔ ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے انسانوں کے تصرف میں دے دی گئی ہے‘ تاکہ وہ اپنے اس کردار کی تکمیل کر سکیں۔ تمام طبعی و دیگر وسائل ہمارے ہاتھوں میںقدرت کی ایک امانت ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم مالک نہیں بلکہ اللہ کے نمایندے ہیں‘ اور ہمارا پہلا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آقا کی مرضی و منشا کو پورا کریں۔ کائنات کی ہرچیز کے‘ اپنی ذاتی صلاحیتوں اور تمام مقبوضات و مملوکات کے ہم امین ہیں۔ ہمیں امانت کی حدود کے اندر رہ کر تمام اقتدار و اختیار کو بروے کار لانا ہے ۔جو کچھ ہم کرتے ہیں ہم اس کے لیے جواب دہ ہیں۔ یہ اصول دنیا کے معاملات میں ہماری عملی شرکت کو شرط قرار دیتا ہے ‘تاکہ زندگی کی تکمیل کی راہ تلاش کی جائے۔ اس سے ہمیں یہ ترغیب ہوتی ہے کہ ہم تمام مخلوقات سے بحیثیت دشمن نہیں بلکہ بحیثیت ایک دوست اور شراکت دار پیش آئیں ‘جو انھی مقاصد کی تکمیل کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

انسانوں کی مساوات و اخوت کا اسلامی تصور اور امت کی نظریاتی برادری اس خلافت‘ امانت اور قیادت کے لازمی عناصر ہیں۔

۳- انسانوں کے درمیان قیامِ عدل: انسانوں کے درمیان قیامِ عدل ان بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے ‘جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور اپنی رشد و ہدایت سے سرفراز کیا۔ سب انسانوں کو وہ حقوق حاصل ہیں جو اللہ نے دیے ہیں۔ اس طرح سب اللہ کی نعمتوں کے منصفانہ طور پر حصہ دار ہیں۔ ناداروں اور ضرورت مندوں کو امیروں کی دولت اور معاشرے پر حق حاصل ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ان کی مدد کی جائے اور ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ کوئی ہنر سیکھ لیں ‘تاکہ اپنی روزی باعزت طور پر کما سکیں۔

۴- سیاسی اور معاشی طاقت فی نفسہ برائی یا  شر نہیں: یہ خیر کے قیام کا ذریعہ اور ان حدود کی پابند ہیں جو خالق نے ان کے لیے مقرر کی ہیں۔ اس طرح یہ دین اسلام کے مشن کا حصہ ہے کہ سیاسی اور معاشی طاقت کو ہم کام میں لائیں‘ تاکہ اخلاقی مقاصد پورے ہوں۔ انھیں ظلم و استحصال کے آلۂ کار بننے سے بچانے کے لیے اس طرح استعمال میں لانا چاہیے کہ وہ عدل کے مقاصد کی خدمت کریں ‘نیکی اور اچھائی کو ترقی دیں ‘ شر اور برائی کو روکیں۔

۵-  اللّٰہ اور انسان کے درمیان فیصلہ کن امر‘ اللّٰہ کی ہدایت: انسان کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس ہدایت کے بارے میں صحیح یا غلط رویے پر ہے۔ اللہ کی رہنمائی اس کی کتاب قرآن مجید اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ دونوں واضح طور پر ان تصورات‘ اقدار اور اصولوں کو بیان کرتے ہیں جن کی ہمیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو حق اور انصاف کی بنیادپر تعمیر کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ اس رہنمائی کے اندر ایک طے شدہ طریق کار موجود ہے ‘جو بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔ اس کی حدود کے اندر ارتقا اور نشوونما ہوتا ہے۔ صرف الہامی ضابطہ حیات سے وابستگی ہی انسان کو خود روی اور ناانصافی میں دوبارہ مبتلا ہو جانے سے باز رکھنے کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔

یہ ہیں وہ بنیادی اصول جن پر اسلام عالمی نظام کی تعمیرنو کرنا چاہتا ہے۔

اسلام نے صرف انفرادی اور اجتماعی زندگی اور ملکی اور عالمی نظام کے لیے بنیادی رہنمائی ہی فراہم نہیں کی ہے بلکہ نئے نظام کے قیام کے لیے ایک واضح حکمت عملی بھی دی ہے جو زمان و مکاں کی تحدیدات (limitations) سے بالا ہے۔

اس جہت میں اسلام کا پہلا احسان یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کا جائزہ لینے کا طریق کار بتاتا ہے۔ اسلام حقیقت کی روحانی قدر پر مبنی کلی نقطۂ نظر اختیار کرتا ہے۔ یہ سب انسانوں کو ان کے مکمل وجود کے حوالے سے ان کے خالق اور اس کی ساری مخلوق سے تعلق کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یہ مادی اور روحانی‘ طبعی اور اخلاقی ثنویت کا قائل نہیں۔ یہ دین کو دنیا سے جوڑ دیتا ہے اور زندگی کو ایک مربوط ہم آہنگ اکائی بنا دیتا ہے۔ یہ جنس (gender)کے کمپلیکس سے بھی آزاد ہے اور مرد و زن کو مساویانہ طور پر اللہ کے نائب سمجھتا ہے اور ان کے لیے یہاں اس دنیا میں اور آخرت میں کامیابی کے لیے ایک جیسا معیار رکھتا ہے۔

عصرحاضر کے تمام نظریات‘ اور جزوی تبدیلی پر مطمئن ہو جانے والے بعض مذہبی رویوں کے برخلاف اسلام مکمل تبدیلی کا علم بردار ہے۔ یہ فرد کی تطہیر و تزکیہ کرکے معاشرے کی تعمیرنو کرتا ہے اور اس طرح یہ فرد اور معاشرے کو مزید ارفع مقصد کے حصول کا اہل بناتا ہے ‘یعنی انسانوں کے درمیان قیام عدل کے ذریعے اللہ کی مرضی کو پورا کرنا۔

اسلام کا طریقہ اقدار پر مبنی ہے‘ نہ کہ انفرادی یا قومی مصلحتوں پر۔ پھر اس کا نقطۂ نظر مثبت اور تعمیری ہے‘ نہ کہ محض منفی یا تخریبی۔ یہ ہر انسان کی مکمل اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی بہبود چاہتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں میں عملاًانصاف کی عمل داری دیکھنے کا موقف رکھتا ہے۔ یہ عالم گیر بھلائی اور انصاف کے اصولوں کا علم بردار ہے اور انسانی برادری کو دعوت دیتا ہے کہ آئو اس کو قائم کرو۔ یہ افراد کی دیانت اور ان کے انسانی حقوق کو یقینی بناتا ہے جن کی ضمانت ان کے خالق نے انھیں دی ہے۔ اسلام اس جذبے کو اُبھارتا ہے کہ انسان ایسا معاشرتی نظام قائم کرے جس میں امن‘ عزت اور انصاف کا بول بالا ہو۔

ایسے عالمی نظام کے قیام کے لیے اسلام کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ قومیت کا لحاظ رکھے بغیر تمام انسانوں کو یہ راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ مشرق یا مغرب‘ شمال یا جنوب‘ ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ کے مفادات کی بولی نہیں بولتا۔ یہ نئے عالمی نظام کو دنیا کے تمام حصوں کے تمام انسانوں کے لیے قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس عالمی نقطۂ نظر کے ذریعے اسلام تصورات اور اصولوں کے ایک نئے شعور کو آگے لانا چاہتا ہے ‘جن پر انسانیت کی ازسرنو تعمیر کی جانی چاہیے ۔یہ نوعِ انسانی کو دعوت دیتا ہے کہ انسانی فکر اور عمل کی تعمیرنو کے لیے اس کے مضمرات پر غور کرے۔

اسلام ایک معاشرتی تحریک بھی برپا کر تا ہے۔ ایک ایسی بین الاقوامی تحریک جس میں ان تصورات اور اقدار کو تسلیم کرنے والے ایک نیا عالمی نظام قائم کریں۔ اسلام کا پرزورمطالبہ ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں خلوص نیت کے ساتھ یہ نمونہ قائم کر لیا جائے۔ اگر مسلم دُنیا ان اصولوں پر نئے سرے سے اپنا معاشرتی نظام تعمیر کرلے تو اس کی جیتی جاگتی مثال بن سکے گی‘ تاہم مسلمانوں کی حقیقی صورت حال اس مثالی تصور سے بہت دُور ہے۔ ایک دفعہ یہ نمونہ (ماڈل) دنیا میں کہیں بھی ‘کسی بھی مقام پر قائم ہو جائے تو ہر کوئی اس سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جیسے دھوپ سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے امکانات بڑی حد تک اس اسلامی تحریک پر منحصرہیں جو فقہی اور مسلکی تنگنائیوں کی دلدل میں پھنسنے کے بجائے نظامِ نو کے قیام کے لیے اس عالمی جدوجہد کی قیادت کر رہی ہے۔

اسلامی نشات ثانیہ اور نیا عالمی نظام

اسلامی احیا کی جدید تحریک اپنی آفاقیت اور گیرائی کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ مسلم معاشروں میں سیاسی نظریات نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی‘ مگر مختصر اور دکھاوے کی کامیابی کے بعد ناکام ہوئے۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی عرب قوم پرستی جس نے عرب دنیا کو سبز باغ دکھائے آخرکار ناکام ثابت ہوئی۔ شام اور عراق میں بعث پارٹی کی نام نہاد سوشلسٹ عرب قوم پرست حکومتیں بھی پورے طور پر ناکام رہی ہیں اور اگر کسی مسخ شدہ صورت میں موجود ہیں تو محض اس لیے قائم ہیں کہ وہ صرف ظلم و جبرکے سہارے قائم ہیں۔ آج ساری دنیا میں اشتراکی فریب کا پردہ چاک ہو چکا ہے‘ روس ہو یا مشرقی یورپ‘ لاطینی امریکہ ہو یا وسطی امریکہ یا افریقہ۔ دیوارِ برلن کا انہدام اور سوویت یونین کا انتشار سوشلزم کی قبر کا کتبہ بن گئے اور سوشلزم تاریخ کے پس منظر میں گم ہو گیا‘ تاہم اسلام نے مختلف براعظموں میں پھیلے ہوئے نسلی اور ثقافتی مختلف النوع لوگوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ یہاں کوئی عرب اسلام نہیں‘ نہ پاکستانی اسلام‘ نہ ایرانی اسلام اور نہ ترکی اسلام۔ یہاںصرف اسلام ہے۔ اس طرح اسلامی عالمیت میں وحدت تو ہے مگر یکسانیت (uniformity)  نہیں۔ اسلام میں   یہ وسعت ہے کہ وہ ایک طرف اپنے ابدی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیتا جو یک رنگی کا ذریعہ بنتے ہیں تو دوسری طرف اس کے لیے فریم ورک میں یہ گنجایش ہے کہ مقامی اور مخصوص ضرورتوں کو اسی طرح سمولیتا ہے جس طرح ایک باغ میں پھولوں کی مختلف روشیں اور پھلوں کے درختوں کی متنوع قطاریں۔

مسلمان عموماً اور حالیہ نشات ثانیہ کے بہت سے قائد خصوصاً نسلی طور پر مختلف ہیں لیکن وہ خود احتسابی سے گریز نہیں کرتے۔ مذہبی روایت میں موجود علامات و احوال کا وہ اجتہادی بصیرت کے ساتھ پھر سے جائزہ لینے کو تیار ہیں۔ اس کا مقصود اسلام کے ابدی اصولوں کے قیام کے لیے روحانی‘ سیاسی‘ معاشرتی و اقتصادی تصورات کی تعبیر اور تعمیرنوہے۔ اسے اسلامی احیا کی روح یعنی اسلام کی اصل بنیاد تک پہنچنا قرار دیا جا سکتا ہے۔

اپنے اصل ماخذ کی طرف اس مراجعت کو مسلمان ‘طاقت کے منبع سے وابستگی کی صورت میں دیکھتے ہیں مگر اہل مغرب اور سیکولر اشرافیہ اس پر ’’بنیاد پرستی‘‘ کا لیبل چپکا دیتے ہیں۔ عقائد کا احیا اور اقامت دین وہ لازمی بنیادیں ہیں جس پر اسلامی زندگی قائم ہوتی ہے۔ اس کا کسی نوع کی بھی مبینہ بنیاد پرستی سے کوئی واسطہ نہیں جو رجعت پسندی‘ تشدد اور تاریخی رومانویت سے عبارت ہے۔

یہ تازہ سوچ‘ ایک نیا عہد‘ توانائی‘ لچک اور (سب سے بڑھ کر) ایک ایسی اہلیت عطا کرتی ہے جس سے حالیہ مشکلات کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اسلام کو تہذیب و ثقافت کے سرچشمے اور معاشرے کی تشکیل نو کے ایک لازمی عنصر کی حیثیت سے ازسرنو دریافت کر رہے ہیں۔

اسلامی نشات ثانیہ کا موجودہ مرحلہ تقاضا کرتا ہے کہ مغربی نمونوں (models)کی غلامانہ نقالی سے  احتراز کیا جائے اور ایک چھان پھٹک والی بصیرت اختیار کی جائے کہ بیرونی تہذیب سے کیا لینا چاہیے اور کیا نہ لینا چاہیے۔ خذ ما صفا ودع ماکدر کی میزان پر یہ کام انجام دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے ثبات اور لچک دونوں کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اسلامی معاشرہ بہت سے طریقوں سے مغربی تجربے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اجنبی ثقافتوں کے تسلط کو اپنی ثقافت کی قیمت پر جاری رکھا جائے۔

مبصرین اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں: کیا مسلم ممالک ترقی‘ ٹکنالوجی اور ایسے ہی دوسرے راستوں کو مسترد کر سکتے ہیں؟ صاف بات ہے وہ مسترد نہیں کرنا چاہتے۔ حقیقی سوال یہ ہے کہ کس قسم کی ترقی مطلوب ہے‘ اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ مسلمانوں کو اندیشہ ہے کہ ان کی قوموں کو جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ ماضی کے سامراجی منصوبوں کا ایک نیا ہیولا ہے۔ ماضی میں جسے ’’سفید فام نسل کی ذمہ داری‘‘ قرار دیا جا رہا تھا وہ آج  ’’نئے عالمی نظام‘‘ کے نام پر مغربی تہذیب و ثقافت کو باقی دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا پر مسلط کرنا ہے۔   یہ سامراجی کھیل معاشی‘ اجتماعی‘ اخلاقی اور نظریاتی ترقی میں اضافے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اُلٹا اسے نقصان   پہنچا دے گا۔ مسلمان‘ مسلمان ریاستوں کے باہمی تعلقات‘ وسیع تر سیاسی اور اقتصادی تعاون کے امکانات کے بارے میں پریشان ہیں۔ کیا مسلم ممالک‘ جن کو استعمار نے اپنے مفادات کے تحت نئی جغرافیائی شکل دی ہے‘ ازسرنو تشکیل پائیں گے یا اسی طرح قومی ریاستوں کی حیثیت سے ہی آگے بڑھیں گے؟

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی تاریخ کے پہیے کو اُلٹا نہیں گھما سکتا۔ مسلمانوں کو اپنے آبا و اجداد کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز سے تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو ترقی دینا ہوگی۔ ایک نقطۂ آغاز کے طور پر قومی ریاست کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ گو محدود قومی دائرے میں پابند رہنے کے جذبے کو اسلامی فکر سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جا سکتا‘ کیونکہ اسلام‘ ملّت کے تشخص کو اُبھارتا ہے‘ تاہم آج قومی ریاستوں کے جغرافیائی وجود کو سیاسی حقیقت کے طور پر اس لیے قبول کیا جائے گا کہ ان کو اگر بالجبر توڑا گیا تو اس سے سیاسی خلا پیدا ہو جائے گا جو لامحالہ فساد کا باعث ہوگا۔ اس کے لیے مسلم معاشرے یا امت میں ایک وحدت کا احساس پرورش کرنا ہوگا اور مسلم ریاستوں کے مابین زیادہ ربط و تعاون کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔ اسلامی نظریے کے مطابق ہر قومی ریاست آخرکار ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ارتقا پذیر ہو جائے گی اور اس طرح مسلم علاقوں پر مشتمل اسلامی دولت مشترکہ کی ہیت تعمیر ہوگی۔

شاید اس تصور کا احساس مغرب کو بھی ہو گیا ہے ‘اس لیے غلط طور پر اس سے خوف زدہ ہو کر کوتاہ نظری کی وجہ سے وہ (مغرب) سوچتا یا سمجھتا ہے کہ :’’مسلمان ریاستوں میں اسلامی افکار کی اشاعت و ترویج  ’’ایک خطرہ‘‘ ہے اور ’’فساد ‘‘کا پیش خیمہ ہے جس کو روکنا ضروری ہے‘‘۔

مغرب عام طور پر اسلامی نشات ثانیہ کی ظاہری اور امکانی طاقت کا اندازہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس نے اسلامی تحریکات کے ارکان پر:’’بنیادپرست‘ انقلاب پسند‘ انتہا پسند‘ متعصب ‘ دہشت گرد‘ مغرب مخالف‘ عصرحاضر کے مخالف ‘‘وغیرہ کے لیبل لگا دیے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی تنگ نظراور ناشائستہ اتہام بازی اور دشنام طرازی کبھی باہمی افہام و تفہیم میں معاون نہ ہو گی۔ مغرب وہی غلطیاں کر رہا ہے جو اس کے پیش روئوں نے نوآبادیات کے دور میں کی تھیں‘ یعنی یہ کہ معاشرتی و سیاسی منظرنامے کو دوسری تہذیبوں کے معاشرتی و سیاسی تنوع سے صرفِ نظر کر کے صرف اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے بیان کرنا۔اسی طرح کا نقطۂ نظر نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ انسانیت کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔ یہ رویہ مغرب کے اہل علم‘ پالیسی سازوں اور عامتہ الناس میں یکساں طور پر غلط فہمیوں کو بڑھاتا ہے۔ اسلامی نشات ثانیہ اپنی تاریخ کے ایسے دَور سے گزر رہی ہے جس کو اس کے حامی ایک اضطرابی دَور مانتے ہیں‘ تاہم یہ نقائص اسلامی احیا کی شناخت نہیں بن سکتے‘ نہ ایسا ممکن ہے کہ بدعنوانی اور فحاشی کی لپیٹ میں آئے ہوئے مسلم ممالک سے کوئی ہما آسمانِ اُمید پر محوپرواز ہوجائے۔

مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کی موجودہ تکلیف دہ صورت حال صرف معاشرتی‘ سیاسی اور معاشی برائیوں سے عبارت نہیں‘ بلکہ اس کا دائرہ کہیں وسیع تر ہے۔ ان کا تجزیہ گہرائی تک جاتا ہے اور اخلاقی انحطاط اور اقدار کے بگاڑ کا مسئلہ سامنے لاتا ہے۔ بعض لوگ اس آگاہی کا صاف صاف اور بعض کم واضح طریقے سے اظہار کرتے ہیں‘ تاہم افسوس کی بات ہے کہ اسلامی احیا کے مغربی تجزیے میں یہ عناصر موجود نہیں ہوتے۔ روحانیت کا پہلو اکثرنظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے نزدیک یہی اصل مسئلہ ہے۔ اس پر کلام کرنے کے بجائے اسلامی نشات ثانیہ کو سادہ لوحی کے ساتھ‘ لوگوں کی مادی ترقی میںکمی کے باعث محرومی اور نااُمیدی کے احساس اور اسلام کے ذریعے اقتصادی اور تکنیکی ترقی کی اُمیدوں سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسا یک طرفہ تجزیہ مسلم معاشرے کے مزاج سے لاعلمی اور ناواقفیت کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح یہ بھی غلط بات ہے کہ اسلامی احیا کو ترقی سے محروم مسلمانوں کی دولت مند مغرب کے مقابلے میں ناراضی کا ردّعمل قرار دیا جائے۔ یقینا استعماریت کے ورثے کے خلاف ردّعمل ایک کردار ادا کرتا رہا ہے ‘جس کا اظہار سیاسی غم و غصے میں زیادہ رہا ہے۔ اس ہنگامے یا اضطراب کی ان سب سے بڑھ کر وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے نے مغرب سے تصورات اور اقدار درآمد کر کے انھیں عوام پر نافذ کرکے ایک عدم اطمینان کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اشرافیہ کے یہ لوگ جو اداروں اور حکومتی نظام کو چلاتے ہیں‘ غیر ملکی قوانین اور قواعد زبردستی لوگوں پر ٹھونستے ہیں۔ مزیدبرآں مسلمان کم و بیش اپنی اکثر حکومتوں سے نالاں ہیں‘ کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ اپنی تہذیب و ثقافت کو نظرانداز کر کے (مغربی لادینی اقدار اور نمونہ ہاے ترقی کو رائج کر کے) مغربی مفادات کو تحفظ دیتی ہیں۔

آج کی اسلامی تحریکات‘ قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت یا تعلیمات پر گہرے یقین اور اخلاص کا اظہار کرتی ہیں۔ اس یقین و اظہار کا منظر علاقے کے بیش تر سیاسی اداروں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اہل مغرب اپنی بوکھلاہٹ پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے ’’اسلامی عفریت کی بیداری‘‘ کا نام دینے سے دریغ نہیں کرتے‘ جب کہ درحقیقت یہ دین اسلام کی اور اس کے وابستگان کی قسمت کی بیداری ہے۔ مسلم روحانیت اور تصور نے مسلمانوں کے اندر ایک نئی منزل کا نشان اور ذاتی قربانی سے بے نیاز ہو کر اپنی دنیا کی تعمیرنو کے لیے غیر متزلزل وفا کا احساس پیدا کر دیا ہے۔

نوآبادیاتی دور میں قیادت صرف ذاتی اغراض تک محدود تھی۔ اس ورثے نے مسلم دنیا کو پراگندہ کر دیا  تھا اور ان کے معاشرے اخلاقی اقدار سے محروم اور بدعنوانی کی آماج گاہ بن گئے تھے۔ استحصال معمول بن گیا تھا۔ مسلمانوں کی اس میں اپنی کمزوریاں بھی ہیں‘ جن کی وجہ سے ان کی تہذیب زوال پذیر ہوئی ‘لیکن ان کے درمیان آج کرپشن کا جو بازار گرم ہے یہ ایک نیاعمل ہے۔ عام طور پر مسلمان اس انحطاط کا ذمہ دار لادینی مغربیت کو قرار دیتے ہیں۔

جدیدیت کی بعض تعبیرات کی روشنی میں مسلم معاشرے کو لامذہب بنانے کی مہم کا آغاز کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ آزاد روی یا لبرل ازم کو اسلامی اقدار پر حاوی کر دیا جائے۔ یوں ایک دھماکا خیز مرکب بنایا گیا جس نے اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ کر کے سماجی زندگی کو مسخ کر ڈالا اور ایک خلا پیدا ہو گیا۔ ذاتی منافع خوری‘ ترقی اور معاشرتی و معاشی استحصال نے اقتصادی و مادی ترقی کے نام پر اس خلا سے خوب فائدہ اٹھایا۔

اسلامی احیا ایسے تباہ کن رجحانات سے بغاوت کا نام ہے۔ مثال کے طور پر یہ اسلامی اخلاقی اقدار پر ازسرنو ایمان لانے اور امت کے مادی و انسانی وسائل کو معاشرتی انصاف اور خود انحصاری کے لیے بروے کار لانے کا خواہاں ہے۔ احیاے اسلامی ‘مسلمانوں کی ایک مثبت نظریاتی تحریک ہے‘ جو مسلم دنیا کے معاشرتی و معاشی نظام کی اسلامی اقدار پر ازسرنو تعمیر کی علم بردار ہے۔ اس کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں۔ اس کو لامحالہ بین الاقوامی برادری سے واسطہ پڑے گا جن میں سے بعض سے اس کے اختلافات بھی ہوں گے۔

مغربی تہذیب پر مسلم تنقید سیاسی مخالفت کا اظہار نہیں ہے۔ درحقیقت یہ دو تہذیبوں کے مابین ایک فکری اور عملی مقابلہ ہے ۔جن میں سے ایک اسلامی اقدار پر مبنی ہے اور دوسری مادّیت‘ قومیت اور آزاد روی پر قائم ہے۔ اب انسانی معاشروں کے سامنے انتخاب کی راہ واضح ہو گئی ہے: الہامی اصول یا لادین مادّی ثقافت۔ یہاں زور انتخاب پر ہے۔ لادینیت‘ خواہ سرمایہ دارانہ ہو یا سوشلسٹ اور قوم پرستانہ‘ کسی بھی نظریے پر اجارہ داری نہیں رکھتی۔ اسلامی احیا مادّیت کے دنیاوی شکنجوں سے رہائی کی راہ دکھاتاہے۔ یہ انسانیت کے انتخاب کو وسعت عطا کرتا ہے لہٰذا ‘اس کو ایک موقع اور ایک برکت کے طور پر دیکھنا چاہیے ‘ نہ کہ ایک دھمکی یا خطرے کے طور پر۔ (ترجمہ: قاضی محمد اقبال‘ اور مسلم سجاد)

اس ماہ کے اشارات مدیر ترجمان القرآن کی ایک تقریر کے ترجمے اور تلخیص پر مشتمل ہیں جو لسبن (Lisbon) پرتگال میں ایک عالمی کانفرنس میں کی گئی اور جس کا انگریزی متن امریکہ سے شائع ہونے والی کتاب World Faiths and the New World Order میں شائع ہوا ہے۔

 

معاملہ افراد کے درمیان ہو یا اقوام کے‘ اس کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں‘ ایک خالص قانونی اور سیاسی اور دوسرے دعوتی اور نظریاتی۔ قانون اور سیاست کا دائرہ متعین ہے۔ ہر فرد اور ہر قوم کے لیے لازم ہے کہ اگر وہ تصادم‘ ٹکرائو اور جنگ و جدل کے راستے سے بچنا چاہتی ہے‘ تو ان دائروں کے اندر اپنے معاملات کو طے کرے۔ رہا معاملہ دعوتی اور نظریاتی میدان کا‘ تو اس میں تبلیغ‘ تذکیر‘ مذاکرہ اور افہام و تفہیم کے نہ ختم ہونے والے امکانات ہیں‘ بشرطیکہ ایک فریق دوسرے پر محض قوت اور اپنی بالادستی کے زعم میں اپنی رائے مسلط کرنے اور دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے مجبور نہ کرے۔ نظریاتی میدان میں بھی تصادم اس وقت رونما ہوتا ہے جب آزادیٔ فکرونظر اور افہام و تفہیم کے دروازوں کو بند کیا جائے یا دلیل اور ترغیب کی جگہ قوت اور تلوار لے لے۔

قرآن نے  لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ ۲: ۲۵۶) (دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات‘ غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے) کے ابدی اصول کے ذریعے اہل ایمان ہی کے لیے نہیں تمام انسانوں اور اقوام کے لیے ردوقبول ‘ اختیار و انکار‘ افہام و تفہیم اور جذب و انجذاب کا ایک ابدی ضابطہ مقرر کر دیا ہے ۔ پھر فرد اور قوم دونوں کو حدود انصاف کے احترام کا پابند کر کے انسانی معاشرے کو ایک طرف ترقی کے نہ ختم ہونے والے امکانات سے سرفراز کیا ہے۔ دوسری طرف ’’جنگل کے قانون‘‘ کے دور کو ختم کرکے انسانوں اور اقوام کو مہذب زندگی‘ مبنی بر انصاف امن اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی ادایگی کے لیے معروضی نظام کار فراہم کر دیا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۹۰)

اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

مخالف سے بھی عدل اور اپنوں سے بھی‘ خواہ اس کی زد کسی پر بھی پڑتی ہو۔

وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی ج (الانعام ۶:۱۵۲)

اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔

افراد اور قوموں کے درمیان فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی کے در آنے کا بہت بڑا دروازہ یہی قوت کا بے جا استعمال اور عدل و انصاف سے روگردانی ہے۔ آج اگر دُنیا میں ظلم و طغیان کا دور دورہ ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔

قیام پاکستان کے مقاصد؟

تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہر دور میں استعماری قوتوں نے ان اصولوں کو پامال کیا تھا۔ ماضی میں ان استعماری قوتوں نے قوموں پر غلبہ پانے اور غلام بنانے کا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا تھا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں آزادی کی تحریکیں برگ و بار لائیں۔ استعماری طاقتوں نے اس لہر کا سامنا اس طرح کیا کہ اپنی مرضی سے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے‘ ان کے جغرافیے کو تبدیل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی نام نہاد قومی ریاستوں میں اپنی مرضی کے ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنے کا راستہ اختیار کیا جنھیں اپنے عوام کی آزادی‘ ترقی اور تہذیبی استحکام کے بجائے مغربی آقائوں کی خوشنودی کی زیادہ فکر رہی۔ اور اب اکیسویں صدی کے آغاز میں یہی قوتیں ان ریاستوں کے نظریاتی اہداف متعین کرنے اور ان کے ایمان و ایقان کی وضع قطع ’’حسب ضرورت‘‘ بنانے کا کارنامہ انجام دے رہی ہیں۔ اسی حوالے سے گذشتہ چند مہینوں سے خصوصاً امریکی صدر‘ وزیرخارجہ‘ برطانوی وزیراعظم‘ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک قیام پاکستان کے مقاصد کی حسب توفیق تشریح کر رہے ہیں۔ وزرا اور سفرا کے ساتھ دانش ور‘ اہل قلم اور صحافی بھی مصروف جہاد ہیں‘ صدر بش صاحب افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد‘ اب نت نئے ’’برائی کے چکر‘‘ ((axis of evil کی تلاش میں ہیں۔ مارگریٹ تھیچر صاحبہ بھی آنکھیں ملتی ہوئی بیدار ہو گئی ہیں اور ۱۲ فروری ۲۰۰۲ء کے امریکی برطانوی اخبارات میں ایک مقالہ خصوصی کے ذریعے ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کو سردجنگ کے آغاز سے ’’اشتراکی خطرے‘‘ کا ہم پلہ قرار دے رہی ہیں۔ اس عالمی فضا میں پاکستان پر خاص نگاہ ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک لیڈر اہل پاکستان کو پاکستان کے اصل مقصد اور خصوصیت سے اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کا درس دینا اپنا فرض منصبی سمجھ رہا ہے اور پھر اس سارے وعظ و نصیحت کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان کے لیے ترقی کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے۔ فعال‘ روشن خیالی‘ جدید اور سیکولر یعنی ’’غیر مذہبی پاکستان‘‘۔

امریکہ کی ہر سطح کی قیادت اس کارخیر میں سب سے پیش پیش ہے۔ وہ سینہ زوری سے کام لیتے ہوئے جمہوریت اور حقوق انسانی کے عالمی مشن کے نام پر دوسری قوتوں اور افراد پر اپنے تصورات مسلط کرنے کے درپے ہے اور اس طرح عالم گیر پیمانے پر مختلف اقوام کو سیاسی و معاشی محکومی میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مسلمان ممالک بالخصوص اس ستم کا نشانہ ہیں اور پاکستان ’’نزلہ برعضو ضعیف‘‘ کے مصداق  خصوصی التفات کا ہدف ہے۔

یہ بات بالکل نئی بھی نہیں۔ ان اقوام کا رویہ ہمیشہ ہی سے معاندانہ تھا۔ برطانیہ نے قیام پاکستان کے وقت تقسیم ہندکے فارمولے میں عدم دیانت کا مظاہرہ کر کے مسئلہ کشمیر اور پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم جیسے مسئلے کھڑے کر دیے۔ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر سخت غیر منصفانہ کردار ادا کیا۔ امریکہ نے جمہوریت کے نام پر ایک طرف تو پاکستان میں آمریتوں کی سرپرستی کی‘ اور دوسری طرف پاکستان کی معیشت کو اپنے کھلے چھپے ایجنڈے کی آکاس بیل سے چوس کر رکھ دیا اورقرضوں کے ایسے جال میں جکڑ دیا کہ اس مریض کو زندگی کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ۱۱؍ستمبر کے تناظر میں مسلم دُنیا‘ اسلامی تحریکات اور خصوصیت سے پاکستان ایک بار پھر مرکز توجہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف سیاسی‘ معاشی اور عسکری گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ایسی نظریاتی بحثیں شروع کر دی گئی ہیں جن کا تعلق مسلمانوں کے تصور دین اور مذہب‘ ریاست اور ملت کے سیاسی تصورات سے ہے۔ وہ تصورات جن سے ہمارا نظریاتی وجود ہے۔

جنرل مشرف صاحب کا نیوز ویک کو انٹرویو اور قائداعظم ؒکی۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کو پورے شدومد سے انگریزی اخبارات اور ٹی وی کے مباحث میں اچھالنے کا پس منظر وہ سبق ہے جو امریکی دانش ور اور سفارت کار گذشتہ چند مہینوں سے بار بار دہرا رہے ہیں۔

پاکستان کا امریکی وژن

ایک ہی دن (۲۷ جون ۲۰۰۱ء) دو ایسے بیانات سامنے آئے‘ جو اسلام اور مسلمانوں کے دینی اور تہذیبی نقطہ نظر سے پاک امریکی تعلقات پر خصوصی روشنی ڈالتے ہیں۔ ہماری نظر میں ان بیانات کے دور رس مضمرات (implications)ہیں۔ ایک بیان پاکستان میں امریکہ کے سفیر جناب ولیم بی مائیلم کا تھا جو اپنی مدت سفارت پوری کر کے امریکہ واپس جا رہے تھے۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں پہلے کراچی میں اور پھر ۲۷ جون کو لاہور میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا اسلوبِ بیان مسلّمہ سفارتی آداب سے بے نیاز تھا۔انھوں نے فلسفہ و تاریخ کا سہارا لیتے ہوئے پیش گوئی اور پیش بندی کے انداز میں نصیحت کی۔ جس دن مائیلم صاحب لاہور میں گوہر افشانی فرما رہے تھے اسی دن واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے‘ پاکستان کے لیے نامزد سفیرہ وینڈی چیمبرلین اپنے تقرر کی منظوری حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات اور عزائم کا اظہار کر رہی تھیں۔ دونوں تقاریر کا مطالعہ اور تجزیہ پاکستانی عوام کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان سے امریکہ کا ذہن اور منصوبہ کار کھل کر سامنے آتا ہے اور صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکی سفارت کاروں اور کالم نگاروں کا قارورہ کس طرح مل رہا ہے۔ اس ’’ہم خیالی‘‘ کے نقش و نگار میں اس کھیل کے سارے کرداروں کے چہرے دیکھے جا سکتے ہیںاور اس سے یہ موقع بھی بجا طور پر پاکستانی قوم کو حاصل ہوتا ہے کہ اپنوں کا محاسبہ کرنے کے ساتھ امریکہ کے رول کا بھی ادراک کر سکے۔ نیز جو میزان انھوں نے پاکستان کو جانچنے کے لیے نصب کی ہے اس پر خود امریکہ کے کردار کو بھی پرکھا جائے ع

ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ

سابق سفیر مائیلم صاحب نے پاکستان کو اندر سے جاننے کا دعویٰ کیا کہ ان کا بچپن بھی یہاں گزرا ہے۔ وہ بڑے ہی پرآشوب دور میں وہ یہاں سفیر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ’’اسلام اور مذہبی تشدد‘‘ کے موضوع پر تقریریں کر چکے ہیں۔ پاکستان سے رخصتی کے وقت ان کے خطاب کا موضوع تھا: ’’کیا پاکستان ستاروں میں کھو گیا‘‘۔ یہ تقریر محض ایک دوست سفیر کی الوداعی نصیحت نہیں‘ امریکہ کے ایک اہم نمایندے کا ہماری تاریخ‘ کردار اور مستقبل کے بارے میں ایسا بیان ہے جس سے تعرض نہ کرنا ایک قومی جرم ہوگا۔

آیئے پہلے یہ دیکھیں کہ موصوف نے فرمایا کیا تھا؟

۱- امریکہ اور پاکستان دونوں محض جغرافیائی حقیقت نہیں بلکہ وژن رکھنے والی ریاستیں ہیں۔ البتہ وژن ایک عمومی رہنما ہو تو ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں‘ لیکن اگر وژن آپ پر سوار ہو جائے اور اس کی تعبیر بھی کچھ لفظی ہو تو یہ بڑے تباہ کن نتائج نکالتا ہے‘ بلکہ دُنیا میں بڑی بڑی تباہیوں کی جڑ وژن کے ایسے ہی تصور میں تلاش کی جاسکتی ہے۔

۲-  امریکہ جس سامراجی قوت سے لڑ کر وجود میں آیا‘ اسی قوت سے پاکستان نے آزادی حاصل کی تھی۔ امریکہ کا وژن یہ تھا کہ صرف عوام کے نمایندوں کو ٹیکس لگانے کا حق ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تمام انسان برابر ہیں۔ اسی وژن پر ۱۷۷۶ میں آزادی حاصل ہوئی۔ جمہوریت اور دستور کا قیام عمل میں آیا اور ۸۵ سال بعد خانہ جنگی نے اس انقلاب کو مکمل کر دیا۔ اب امریکہ دُنیا میں جمہوریت‘ حقوق انسانی اور مساوات کا علم بردار ہے۔

۳-  پاکستان بھی ایک عظیم جدوجہد کے بعد قائم ہوا۔ اس میں پاکستان کے قائد محمد علی جناح ؒکا وژن یہ تھا کہ مسلمانوں کو ایک ایسا مسکن (homeland)میسر آجائے جہاں ایک جدید ریاست قائم ہو‘ جس کی بنیاد سیکولر قوانین پر ہو اور جہاں غیر مسلموں کے قوانین اور رواج کا احترام کیا جائے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان سنی‘ شیعہ‘ عیسائی‘ احمدی‘ پارسی اور دیگر گروہوں کی محنت سے قائم ہوا تھا۔

۴- ان کے خیال میں: ’’ایک قائداعظمؒ کا وژن ہے اور ایک قائد مخالف وژن‘‘۔ جو وژن قائداعظمؒ نے پیش کیا وہ مسلمانوں کے لیے ایک لبرل‘ روادار اور جدید ریاست کا تھا۔ ایسی جدید ریاست جہاں پر کوئی شخص پہلے پاکستانی ہے اور بعد میں کسی مذہب سے متعلق۔ ایک ایسا پاکستان جہاں سیکولر قوانین کی حکمرانی ہو۔ اور جو جناح مخالف وژن ہے‘ وہ قومی سرحدات کو مسترد کرتا ہے اور پاکستان کو عالم گیر مسلم امہ کے لیے ایک روشنی کے مینار اور محافظ اسلام ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس وژن کے مطابق پاکستان کا مقصد وجود انفرادی اور اجتماعی طور پر ترقی کے مقابلے میں بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے کہ مسلمان اکثریت میں ہیں‘اقلیت میں نہیں۔ یہی وژن مسلمانوں کے لیے خطرہ بنتی نظر آنے والی کسی بھی قوت کے خلاف جہاد میں پاکستان کو بطور ہوم بیس فراہم کرتا ہے‘‘۔

۵- ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصاً کشمیر افغانستان میں سمت کے تعین میں جناح مخالف وژن زیادہ طاقت ور دکھائی دیتا ہے۔ ان کے لیے کشمیر ایک مقدس جنگ ہے۔

۶- مسٹر مائیلم نے اپنے استدلال کی بنیاد قائداعظمؒ مرحوم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء والی اسی تقریر پر رکھی‘ جو آج تک سیکولر حلقوں کے دعوے کی بنیاد ہے۔ لیکن موصوف ایک اور دور کی کوڑی لائے ہیں‘ جو دانش وروں کے اس طائفے کے لیے ایک نئی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ حلف ہے جو قائداعظمؒ نے بحیثیت گورنر جنرل اُٹھایا تھا۔ ان کا پیغام صاف ہے یعنی یہ کہ صحیح حلف وہی تھا جو تاج برطانیہ کے نمایندے کے طور پر دستور کے بننے سے پہلے بحیثیت گورنر جنرل لیا گیا کہ:

میں‘ محمد علی جناح‘ حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ بحیثیت گورنر جنرل پاکستان میں اپنے مقتدر شاہ جارج ششم کی پوری دیانت داری سے خدمت کروں گا‘ اور یہ کہ میں کسی خوف اور دبائو وغیرہ کے بغیر پاکستان کے قوانین اور رسم و رواج کے مطابق ہر طرح کے لوگوں سے صحیح سلوک کروں گا۔

انھیں بڑاصدمہ ہے کہ اب پاکستان کے صدر کے منصب کا حلف نامہ بھی اس سے بہت مختلف ہو گیا ہے جو جناح نے اٹھایا تھا۔

ہم ممنون ہیں کہ سفیر والامقام نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور سیکولرزم کا کیس کسی مصلحت اور ملمع سازی کے بغیر پیش کر دیا۔ ہم نے اس تقریر کو اس لیے بھی ذہنوں میں تازہ کیا ہے کہ بعد کے واقعات نے اس کی اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ جنرل پرویز صاحب کی ۱۲؍ جنوری ۲۰۰۲ء کی تقریر اور اس کے معاً بعد نیوز ویککو انٹرویو‘ اس سے پہلے افغان پالیسی پر یو ٹرن (U-turn)اور اب کشمیر پالیسی‘ دینی مدرسوں اور مسجدوں کی ضابطہ بندی اور جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی لن ترانی ان سب سے اصل معنویت  واضح ہو جاتی ہے۔ نیز جو خیالات آج گردش کر رہے ہیں ان کا شجرہ نسب سامنے آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کی ضرورت محسوس کی کہ اصل ماخذ پر بھی نگاہ ڈال لی جائے اور جہاں سے یہ ’’وحی‘‘ نازل ہو رہی ہے اس سرچشمے پر کھل کر بات کی جائے۔

امریکی سفیر کے فرمودات کا جائزہ

اس تقریر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ : اب امریکہ کی دل چسپی محض جمہوریت اور بنیادی حقوق میں نہیں ہماری نظریاتی اساس میں بھی ہے۔ اس کی ناخوشی کا تعلق محض نیوکلیر صلاحیت اور الیکشن کے کاروبار سے نہیں‘ پاکستان کے مقصد وجود اور اس قوم کے اپنے بارے میں وژن ہی سے ہے۔ اس کی نگاہ میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کی پامالی اور وہاں پر بھارتی فوج کے ریاستی مظالم سے جمہوری اقدار اور انسانی حقوق پر کوئی حرف نہیں آتا__ بلکہ اصل خطرہ ان مجبور انسانوں سے ہے جو ظلم کے خلاف اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انسانی مساوات‘ جمہوری اصولوں‘ اور قوموں کی آزادی کے یہ معنی نہیں کہ وہ اپنے عقائد اور اپنے تاریخی اور نظریاتی تشخص کی روشنی میں اپنا مستقبل طے کریں‘ بلکہ وہ امریکہ کے لیے قابل قبول صرف اس صورت میں ہو سکتے ہیں‘جب وہ اپنے دین و عقیدے اور اپنی تہذیب و روایات کو مکمل طور پر سیکولر نظام کے تابع کر دیں۔ ان کی خارجہ پالیسی ان کے اپنے قومی مفاد کی عکاس نہ ہو بلکہ ایک روایتی نیشن اسٹیٹ ]قومی ریاست[کی حدود میں رہ کر بس اپنے روٹی کپڑے کی فکر میں لگے رہیں۔

دوسروں کو جمہوریت اور سیکولرزم کا درس دینے والے یہ ناصح بھول جاتے ہیں کہ یہی وہ ذہنیت اور پالیسی ہے‘ جسے استعمار(imperialism) کی روح اور مظہر کہا جاتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے لیے سیکولرزم کو پسند کیا ہے تو بڑے شوق سے اس پر کاربند رہیے‘ لیکن دوسروں پر سیکولرزم کو مسلط کرنے کا آپ کو کیا حق ہے؟ ہمیں ڈر ہے کہ آج سیکولرزم ایک ایسی آئیڈیالوجی کا روپ اختیار کر چکا ہے جو لوگوں کے عقیدے اور اپنے تصورات کے مطابق ایک نظام زندگی تشکیل دینے کی آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ کیا اس سیکولرزم کے نام پر شخصی آزادی کے علم بردار مغربی ممالک میں مسلمان عورت کو سرڈھانپنے تک کی آزادی ہے؟ کیا ترکی میں اسی سیکولرزم کے نام پر عوام کے منتخب وزیراعظم کو بیک بینی و دوگوش اقتدار سے محروم نہیں کر دیا گیا تھا؟ بظاہر تو سیکولرزم انسانوں کو آزادی دلانے کا مدعی تھا‘ مگر اب وہ خود ایک استبدادی نظریہ بن کر انسانی آزادیوں اور اصول مساوات کا گلا گھونٹنے کی دھونس جما رہا ہے۔ دن کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکہ کا ہدف جمہوری آزادیوں اور حقوق انسانی کا فروغ نہیں‘ بلکہ سیکولرزم کا تسلط ہے اور سب اقوام کو مغرب کے فکری اور تہذیبی رنگ میں رنگنا ہے۔ یہ امپریلزم کی تازہ ترین یلغار ہے۔

پھر امریکی سفارت کار نے جس طرح قائد کے وژن اور مخالف جناح وژن کا تانا بانا بنا ہے‘ وہ علمی بددیانتی کی ایک منفرد مثال ہے۔ اس حلف (oath of office)کو جو: dominion statusکے لیے ایک سامراجی نظام کے لیے وضع کیا گیا تھا‘ اور جو آزادی کی طرف سفر کے دوران عبوری (transitional) لمحوں کے لیے ایک ناگزیر ضرورت تصور کیا گیا تھا۔ایک آزاد ملک کی جانب سے اپنا دستور بنا لینے کے بعد بھی‘ اسی حلف کو قائد کا ماڈل قرار دینے کی مضحکہ خیز جسارت وہی انسان کر سکتا ہے‘ جو اپنے تعصبات سے مغلوب ہو۔ پھر اس مسئلے کو اگر خالص قانونی انداز میں لیا جائے تو کیا یہ مطلب لیا جانا چاہیے کہ جوچیز ۱۹۴۷ء میں سامراجی ورثے میں دستور و روایات کا درجہ رکھتی تھی‘ وہی چیز پاکستان کا دستور اور اس کے تحت بننے والے قوانین بن گئی۔ اس سامراجی جبر کا قائداعظمؒ کے تصور پاکستان سے کیا تعلق؟ کیا اس حلف کا draft(مسودہ)قائداعظمؒ نے بنایا تھا؟ کیا وہی حلف بھارت میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہیں اٹھایا تھا؟ اور کیا آسٹریلیا اور کینیڈا کے گورنر جنرلوں کے حلف ان کے دساتیر بننے سے پہلے اس سے مختلف تھے؟ کاش خارجہ تعلقات کے اس ماہر نے ایسی مضحکہ خیز بات کرنے سے پہلے ان پہلوئوں پر غور کرلیا ہوتا اور ہمیں یہ کہنے کی زحمت نہ ہوتی کہ:

پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
پسلی پھڑک اٹھی نگہِ انتخاب کی

پھر انھوں نے بھی تمام سیکولر عناصر کی طرح قائداعظمؒ کی ۱۱ ؍اگست والی تقریر پر پورا قصر دانش تعمیر کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپنے تصور پاکستان کے بارے میں قائداعظم ؒنے صرف یہی ایک تقریر کی تھی؟قیامِ پاکستان سے پہلے اور قیامِ پاکستان کے بعد سو سے زیادہ مواقع پر قائداعظمؒ نے کیا اپنے تصور پاکستان کے خدوخال بیان نہیں کیے تھے؟ آخر کس دلیل کی بنیاد پر محض اسی ایک تقریر کے چند جملوں کو‘ جن کا تعلق تقسیم ملک کے وقت رونما ہونے والے غیر انسانی فسادات کے پس منظر میں‘ نئے ملک کے تناظر میں شہریت کے اصول اور اقلیتوں کو ان کے حقوق کی ضمانت سے ہے‘ پورے وژن کا نمایندہ قرار دیا جائے؟

اقلیتوں کے حقوق اور مساوی شہری حقوق کی بات کوئی متنازع امر نہیں ہے۔ یہ خود اسلام کا تقاضا ہے‘ جیسا کہ قائداعظم ؒنے بار بار فرمایا ہے۔ لیکن کیا اقلیتوں کے حقوق کے یہ معنی بھی ہیں کہ اقلیت‘ اکثریت پر اپنے تصورات کو مسلط کرے اور اکثریت کے اس حق کو مسترد (ویٹو) کر دے کہ وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق اجتماعی زندگی کی صورت گری کرے؟ اور وہ بھی ایسی اکثریت جس نے ایک ملک گیر جمہوری جدوجہد محض اسی بنیاد پر برپا کی ہو کہ ہم اپنا جداگانہ نظریاتی‘ تہذیبی اور دینی تشخص رکھتے ہیں اور اس تشخص کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہمیں اپناآزاد مسکن درکار ہے۔

انھی صاحب نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ: ’’پاکستان عیسائیوں‘ احمدیوں ‘ پارسیوں اور دوسری اقلیتوں کی محنت سے قائم ہوا تھا‘‘۔ شکر ہے کہ انھوں نے ہندوئوں اور سکھوں کا ذکر نہیں کیا‘ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت سب سے بڑی اقلیت تو ہندو تھے‘ جو مشرقی پاکستان میں آبادی کا پانچواں حصہ تھے۔ قیام پاکستان کی تحریک ایک نظریاتی تحریک تھی۔ اس تحریک کو برعظیم جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے خون سے سینچا۔ اس میں وہ مسلمان بھی شریک تھے جن کو پاکستان میں نہیں آنا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس‘ غیر مسلم ہندکی نمایندہ تھی اور آل انڈیامسلم لیگ‘ مسلم ہند کی نمایندگی کرتی تھی۔ یہ تھی بنیادی اور بالکل واضح صف بندی۔ اس میں عیسائیوں‘ احمدیوں اور پارسیوں کا کردار موصوف نے کہاں سے تلاش کر لیا۔ عیسائی تو بالعموم برطانوی سامراج کا ساتھ دے رہے تھے۔ پارسیوں نے کانگریس میں شرکت کی‘ اور مسلم لیگ کی تحریک میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ احمدی (قادیانی) بھی برطانوی سامراج کی ٹیم کا حصہ تھے۔ پاکستان کا قیام مسلمانان پاک و ہند کی جدوجہد کا حاصل ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان کے فوراً بعد بھی‘ قائداعظمؒ ہی نے نہیں بلکہ پوری قوم نے کہا کہ تحریک آزادی میں جس کا جو بھی رول رہا ہو‘ دو آزاد مملکتوں کے قیام کے بعد اکثریت اور اقلیت سبھی کو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے اور جو بھی نئی مملکت سے وفاداری کا راستہ اختیار کرے اسے بطور شہری برابری اور ترقی کے مساوی مواقع کا حق ہے‘ لیکن نظام حکومت عوام کی اکثریت کے عقائد اور تصورات کے مطابق مرتب کیا جائے گا جس میں اقلیتوں کے حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔

قائداعظمؒ کا وژن

قائداعظم ؒکے ساتھ اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ ان کی اس تقریر کے چند جملوں کو توڑ مروڑ کر سیکولر ریاست کی تشکیل اور مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کی بنیاد بنایا جائے۔ قائداعظمؒ، مسلم لیگ کی پوری قیادت‘ اور سب سے بڑھ کر برعظیم کی ملّت اسلامیہ نے اپنی منزل اور مقصود کا اظہار بالکل واشگاف الفاظ میں کیا تھا۔ یہی وہ آدرش تھے جن کے حصول کے لیے ساری جدوجہد کی گئی اور بیش بہا قربانیاں دی گئیں۔ سیکولر قوانین کی بات کرنے والے کیا اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے میں جو استدلال پیش کیا تھا‘ اس کی بنیاد ہی دین و دُنیا کی وحدت پر ہے۔ ان کا دعویٰ ہی یہ ہے کہ اسلام کا ایک ایسا دین ہے جس کا اپنا اجتماعی نظام ہے‘ اس اجتماعی نظام کے بغیر وہ دین نامکمل اور مسلمان اس کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں۔ قائداعظمؒ کے نام ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں اقبال نے صاف لفظوں میں لکھا تھا:

اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور ترقی ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر ناممکن ہے۔ مجھے اس پر دیانت داری سے کئی برسوں سے مکمل یقین رہا ہے‘ اور میں اب بھی یہی یقین رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے روٹی کا مسئلہ حل کرنے اور ایک پرامن انڈیا کی خدمت کرنے کے لیے یہی ایک واحد راستہ ہے۔

گویا کہ امن اور روٹی دونوں کے لیے آزاد مسلم ملک کا قیام اور شریعت کا نفاذ ضروری ہے۔ یہی  اصل ایشو تھا اور خود قائداعظمؒ نے اسے بار بار واضح کیا:

پاکستان کا مطلب صرف آزادی اور خودمختاری نہیں ہے بلکہ مسلم نظریے کا تحفظ بھی ہے جو ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر ہمیں ملا ہے‘ اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے اس میں ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔

دیکھیے‘ بات صرف مسلم نظریے ہی کی نہیں اس کے تحفظ و ترقی کی بھی ہے۔ مقصد اس کی تبلیغ اور دوسروں تک اس کو پہنچانا ہے‘ قائداعظمؒ جس کا اعلان کر رہے ہیں۔ سفیر صاحب اسی بات کو ’’مخالف جناح خارجہ پالیسی‘‘ کہہ رہے ہیں۔

غیرمسلم اکثریت اور غیر اسلامی نظریہ اگر مسلمانوں پر مسلط کیا جائے تو یہ کیسی جمہوریت ہوگی‘ خود قائداعظمؒ کے الفاظ میں سن لیجیے:

مجھے بتایا گیا کہ میں اسلام کو نقصان پہنچانے کا مجرم ہوں۔ اس لیے کہ اسلام تو جمہوریت میں یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے‘ اسلام ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتا جو مسلمانوں کی تقدیر کا فیصلہ غیر مسلموں کی اکثریت کے ہاتھ میں دے دے۔ ہم ایک ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس میں غیر مسلم محض اپنی عددی اکثریت کی بنا پر ہم پر غالب ہوں اور حکمرانی کریں۔ (تقریر علی گڑھ یونی ورسٹی‘ ۶ مارچ ۱۹۴۰ء)

لیکن مذکورہ امریکی ڈپلومیٹ اور ان کی ہم نوا سیکولر لابی کا تو دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کے عقائد اور تصورات کو ترک کر کے ‘ محض غیرمسلم اقلیت کی خاطر ان پر سیکولرزم  مسلط کر دیا جائے۔ یہ ہے جمہوریت کی تازہ ترین تعبیر!

قائداعظمؒ نے بار بار فرمایا کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے‘ مسلمان ایک عقیدے اور دین پر مبنی قوم ہیں‘ قرآن ان کا قانون حیات ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حقیقی قائد اور قانون دینے والے ہیں‘  قرآن و سنت مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کرنے والی قوت ہیں__ سیکولرزم اور یہ تصور حکمرانی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قائداعظمؒ کے نام پر ان کے تمام عہدوپیمان اور خطبات و ارشادات کو نظرانداز کر کے سیکولرزم کی بات کرنا‘ نرم سے نرم لفظوں میں‘ ایسی کھلی بددیانتی ہے جس کا ارتکاب بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

تحریک پاکستان کے قائدین نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء قرارداد مقاصد پوری یکسوئی کے ساتھ منظور کی جوپاکستان کے دستور نظام حکمرانی اور اجتماعی پالیسی کی بنیاد ہے۔ اسے پوری قوم کی تائید حاصل ہے۔ قائداعظمؒ نے بہت صاف الفاظ میں یہ اصول بیان کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور کسی ایک شخص کی مرضی کا مظہر نہیں ہوگا پوری ملت اسلامیہ پاکستان اپنی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے اسے طے کرے گی۔ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء ہو یا ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء‘ کوئی فرد نہ دستور سے بالا ہے اور نہ دستور کو اپنی آواز بازگشت تصور کر سکتا ہے۔ دیکھیے قائداعظمؒ نے قوم سے کیا عہد کیا تھا:

جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہہ ہونے لگتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے جب کہ ہم نے تیرہ سو سال پہلے جمہوریت سیکھ لی تھی۔ آپ پاکستان کے طرزحکومت کے بارے میں میری ذاتی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں تو یہ کہتا ہوں کہ دستور ساز اسمبلی جیسے بااختیار ادارے کے فیصلے سے پہلے کوئی ذمہ دار شخص اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ اسے کرنا چاہیے۔ پاکستان کے لیے دستور بنانا‘ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے‘‘ (پریس کانفرنس‘ ۱۴ جولائی ۱۹۴۷ء)

یہی وہ دستور ساز اسمبلی ہے جس نے ۱۲؍ مارچ کو قرارداد مقاصد منظور کر کے ریاست کے کردار کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا اور قانون کی زبان میں وہ بات ادا کر دی جس کا عہد قائداعظمؒ نے مسلمانان پاک و ہند سے کیا تھا:

مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے‘ نہ وطن‘ نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرک کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال __ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ (مسلم یونی ورسٹی‘ علی گڑھ‘ خطاب ۸؍مارچ ۱۹۴۶ء)

قائداعظمؒ نے کراچی بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے ۲۵؍ جنوری ۱۹۴۸ء کو (اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے پانچ مہینے بعد) یہ فرمایا تھا:

اسلام محض رسوم و روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں‘ اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطہ حیات بھی ہے‘ جس کے مطابق وہ اپنی روز مرہ زندگی‘ اپنے افعال و اعمال حتیٰ کہ سیاست اور معاشیات اور دوسرے شعبوںمیں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب انسانوں کے لیے انصاف‘ رواداری‘ شرافت‘ دیانت اور عزت کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ صرف ایک خدا کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ اسلام میں انسان انسان میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات‘ آزادی اور اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں۔

۱۹۴۸ء ہی کی ایک تقریر میں انھوںنے اسلامی حکومت کے تصور کو بھی ان الفاظ میں بیان کر دیا تھا:

اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہے‘‘۔

اگر قائداعظمؒ نے یہ سب صاف لفظوں میں کہا تو پھر بتایا جائے کہ ان کے وژن میں سیکولرزم کہاں سے آگیا؟ جس تصور کو سفیر صاحب ’’خلاف جناح تصور‘‘ کہہ رہے ہیں‘ قائداعظمؒ تو چیخ چیخ کر اس کا اعلان کر رہے ۔ہیں وہ تصور ہی قرار داد پاکستان کی سطر سطر سے عیاں اور نمایاں ہے اور پورا دستور اس کا آئینہ دار ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ عوام کی مرضی‘ تحریری دستور کے واضح احکام اور قوم کی تاریخی روایات تو ایک ’’متشدد اقلیت‘‘ اور ’’خلاف جناح وژن‘‘ قرار پائیں اورایک غیر ملکی اور چند سیکولر دانش وروں کی یاوہ گوئی ‘جناح کا تصور پاکستان بن جائے۔

قائداعظمؒیا اقبالؒ کے تصور پاکستان کو اپنے من پسند مفہوم میں پیش کرنے والے سیکولر حضرات جو بھی استدلال برتتے ہیں‘ وہ اپنے داخلی تضاد کی وجہ سے بے نقاب ہو جاتا ہے۔ ایک جانب تووہ جمہوریت کے اصول کا علم بلند کرتے ہیں مگر دوسری جانب ایک تقریر‘ یا کسی ایک اقتباس کی بنیاد پر پوری قوم کے عزم اور willکو مسترد کرنے کا شاہانہ اختیار استعمال کرنے کی دہائی دیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ حلقے جمہوریت کے ساتھ مخلص ہیں یا کسی ایک قوم کی بنیاد پر پوری قوم کی جدوجہد اور عزائم کو اپنی من پسند تعبیر کی سولی پرلٹکانے کے طرف دار۔ اس مسئلے پر بات کرنے سے پیشتر یہ اصولی بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایک مسلمان کے لیے بنیادی سرچشمہ ہدایت اور آخری معیار حق‘ قرآن اور سنت ِرسولؐ ہے۔ دیگر محترم سے محترم اور فاضل سے فاضل شخصیات کا مقام نہ صرف لازمی طور پر ان کے بعد میں آتا ہے‘ بلکہ ان کی آرا‘ افکار اور فیصلوں کو قرآن و سنت ہی کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔

سیکولرزم ‘ اقبالؒ اور قائداعظمؒ

مفتیان مغرب نے اسلامی احیائی تحریک کے بارے میں سب سے پہلے تو ’’بنیاد پرست‘‘ کی اصطلاح وضع کر کے مغالطہ پیدا کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ بتایا گیا ہے‘ جو فرد: ’’ترقی کا دشمن ہو‘ دور حاضر کے تقاضوں کو نظرانداز کرنے والا ہو یا اسلام کی کسی ایسی تعبیر سے چپکا ہو‘ جس کی بنا پر اسلام وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ نہ کر سکے‘ وہ بنیاد پرست ہے‘‘۔امر واقعہ کے اعتبار سے یہ انتہائی غلط‘ یک رخا‘ بدنیتی پر مبنی اور مبالغہ آمیز پروپیگنڈاہے۔ البتہ اب سے تین عشرے پہلے مغرب کے مستشرقین (orientalists)نے ایسے لوگوں کے لیے ’’مسلمان بنیاد پرست‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی: ’’جو یہ چاہتے ہیں کہ اسلام جیسا کہ وہ ہے اور جیسا کہ مسلمان اس کو سمجھتے ہیں‘ اسے اس کی بنیادی روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے‘‘۔

مغرب یہ چاہتا ہے کہ اسلام کا نام تو چاہے رہے‘ جس طرح کہ عیسائیت کا نام باقی ہے لیکن فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ کی کتاب‘ الہامی ہدایت اور اسوہ رسولؐ آخر الزماںؐ کو حاصل نہ ہو۔ بلکہ انسان اپنی ذاتی مرضی‘ بدلتے ہوئے اغراض و مقاصد کی روشنی میں ان معاملات کو مغربی پیمانۂ فکر کے مطابق طے کرے۔ نیز یہ کہ جس چیز کو اہل مغرب پسند کرتے ہیں‘ بس آنکھیں بند کر کے وہ قبول کی جائے۔ اسی کے اندر مسلمان ڈھل جائے تو یہ ’’ترقی پسندی‘ تعمیر پسندی‘ دانش مندی اور میانہ روی‘‘ ہے۔ اور اگر قرآن و سنت کی بنیاد پر مسلمان اپنے اصول‘ اپنے نظریے‘ اپنی روایات‘ اپنی تاریخ اور خود اپنی تہذیب پر عمل کرنا چاہے تو یہ ’’بنیاد پرستی‘‘ ہے۔ یہ بات مغربی دانش وروں کی ان تمام تحریروں میں نمایاں ہے‘ جو آج مغرب سے آ رہی ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسر منٹگمری واٹ نے حال ہی میں بہت کھل کے یہ بات کی ہے: ’’دراصل جو لوگ اسلام کے اس روایتی تصور کو غالب کرنا چاہتے ہیں جو قرآن اور نبی پاکؐ نے پیش کیا ہے‘ وہی لوگ بنیاد پرست ہیں۔ اور جو لوگ اسلام کو مغرب کے معیار پر بدلنے اور ڈھالنے کے لیے تیار ہیں‘ وہ لبرل ہیں اور وہی ہمارے اصل دوست ہیں‘‘۔

اب یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناح ؒکا موقف اس ذیل میں کیا تھا؟ علامہ اقبالؒ نے جدید اور قدیم دونوں علوم کے مآخذ سے استفادہ کیا اور پوری قوت ایمانی کے ساتھ یہ بات کہی کہ اسلام حق ہے اور مغرب جس بنیاد پر قائم ہے یعنی سیکولرازم ‘ نیشنلزم‘ ریشنلزم‘ سائنس پرستی… یہ بنیاد‘ بنیاد خام ہے۔

علامہ محمد اقبال نے اسلام کو ایک انقلابی تصور کی حیثیت سے پیش کیا۔ اس سلسلے میں اگر آپ اقبال  کی شاعری کو جو ان کے فکر کے اظہار کا اصل ذریعہ ہے‘ نظراندازبھی کر دیں تب بھی ان کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا سال نو کا پیغام دیکھ لیجیے۔ اس میں انھوں نے کہا ہے کہ:

’’اس زمانے میں ملوکیت کے جبرواستبداد نے: جمہوریت‘ قومیت‘ اشتراکیت‘ فسطائیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دُنیا بھر میں حریت اور شرف انسانیت کی اقدار کی اس طرح مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے‘ جو رنگ‘ نسل اور زبان سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت‘ اس ناپاک قوم پرستی اور ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا‘ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللّٰہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا‘ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا‘ اس وقت تک انسان اس دُنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا اور یہ تصور اسلام کا تصور ہے‘‘۔

علامہ محمد اقبال نے اپنی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islamکے آخری خطبے میں جدید قانون سازی اور قانون ساز اسمبلیوں پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ اس کے آخری حصے میں انھوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر برملا کہا ہے کہ ’’انسانیت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مغرب ہے۔ اور یورپ کے دیے ہوئے تصورِحیات سے جب تک انسان نجات نہیں پاتا‘ انسانی مسائل حل نہیں ہو سکتے اور اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کائنات کی نئی اخلاقی تعبیر‘ صاحب ایمان فرد کی دریافت اور اجتماعی عدل پر معاشرے کی تعمیر‘ یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر دنیا کو قائم کرنا چاہیے‘‘۔ یہی علامہ اقبالؒ کا مشن تھا۔

اسی طرح بلاشبہہ قائداعظمؒ کا ایک دور وہ بھی تھا‘ جب وہ نہ صرف انڈین نیشنل کانگریس میں سرگرم عمل تھے‘ بلکہ اس کے مرکزی قائدین میں سے تھے۔ تب وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ گاندھی جی اور مدن موہن مالویہ کے رفیق خاص تھے۔ لیکن اس کے بعد جب قائداعظمؒ نے برہمنی ذہنیت کا قریب سے مشاہدہ کرلینے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نوکی اور ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۰ء تک مسلم انڈیا کے حالات کا بے لاگ تجزیہ کیا‘ تب وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اپنے دین کی بنیاد پر‘ اپنے اخلاق‘ اپنے عقیدے‘ اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر ایک الگ قوم ہیں‘ محض ایک اقلیت نہیں ہیں۔ اور فکر اقبال کی روشنی میں ہندستان میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے‘ وہاں ان کی آزاد اسلامی ریاست قائم ہو اور مسلمان اس ریاست کو اسلام کی بنیادوں پر اوراسلام کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق قائم کریں۔ میں اس سلسلے میں قائداعظمؒ کی آخری پانچ برس  کی تقریروں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں‘ جس سے معلوم ہوگا کہ قائداعظمؒ کا اس معاملے میں کیا موقف تھا۔

جہاں تک جدید اسلامی جمہوری ملک کا تعلق ہے‘ اس ضمن میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ جس بات کے حامی اور علم بردار تھے اور جس بات کے لیے انھوں نے بھرپور جدوجہد کی وہ قرآن و سنت کی لاثانی اور ابدی ہدایات کی روشنی میں ایک مسلمان معاشرے اور ایک مسلمان ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا۔ ایسا معاشرہ جو عمرانی عدل (social justice)کے تقاضوںکو پورا کر سکے اور جس میں اسلام کا قانون جاری و ساری ہو۔ جس میں مسلمان مغربی اقوام کی غلامی اور ان کی نقالی کی بجائے اسلام کو بطور دین ہدایت اور مستقل کلچر کی حیثیت سے پیش کریں‘ یہ تھا بانیانِ پاکستان کا تصور__ وہ لوگ جو اس سے ہٹ کر چل رہے تھے ان پر علامہ اقبال اور قائد اعظمؒ نے گرفت کی اور خصوصیت سے ترکی پر‘ جو اپنے آپ کو یورپ کے سانچے میں ڈھالنے میں مصروف تھا۔

بالکل یہی وہ تصور ہے جس کو جماعت اسلامی نے پیش کیا ہے۔ ہم دراصل قرآن وسنت رسولؐ سے ماخوذ اور اسلام کے تابع فکر اقبال اور قائداعظمؒ کے تصور کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارے اور بانیانِ پاکستان کے تصور میں کوئی فرق نہیں۔ بانیانِ پاکستان کے تصور سے وہ لوگ ہٹے ہیں‘ جنھوں نے اس ملک میں بے دینی‘ مادیت‘ مغرب پرستی اور اباحیت کو رواج دیا‘ یا سوشلزم کی راہ ہموار کی یا اس کے حاشیہ بردار رہے جنھوں نے سرمایہ داری کو فروغ دیا‘ اور جنھوں نے جاگیرداری کے ناسور کو بڑھنے اور پھلنے کے مواقع دیے۔ جو یہاں اسلامی قانون سے انحراف کے راستے تلاش کر رہے ہیں جنھوں نے یہاں علاقائی اور لسانی عصبیتیں پیدا کیں۔ ہم تو ان تمام کا مقابلہ اللہ تعالیٰ پر ایمان‘ دلیل اور یقین محکم سے کر رہے ہیں۔ ہم وہی لڑائی لڑ رہے ہیں جو علامہ اقبال اور قائداعظمؒ نے لڑی تھی۔ یوں ہمارے اور بانیان پاکستان کے درمیان کوئی فکری یا عملی تصادم اور تضاد نہیں ہے۔

تھیاکریسی اور اسلام

اسی طرح ایک بات تھیاکریسی کے بارے میں کہی جاتی ہے:

یہ امر واقعہ بھی ہے‘ اور اسی حقیقت کا اظہار علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناحؒ دونوں نے کھل کر کیاہے کہ اسلام تھیاکریسی نہیں ہے۔ کچھ لوگ ان بیانات کا سہارا لے کر یہ بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا کہ ہمارے اور ان کے موقف میں فرق ہے۔ حالانکہ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اس موضوع پر انگریزی خطبات میں بحث کی ہے۔ چھٹے خطبے میں انھوں نے یہ بات اس معنی میں فرمائی ہے کہ:

گویا بہ حیثیت ایک اصول‘ عمل توحید اساس ہے: حریت‘ مساوات اور حفظ نوع انسانی کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروئے اسلام ریاست کا مطلب ہماری یہ کوشش ہوگا کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دُنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت بشری میں مشہور دیکھنے کی۔ لہٰذا اسلامی ریاست کو حکومت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمام اقتدار کسی ایسے سلطان ظل الٰہی کے ہاتھ میں دے دیں‘ جو اپنی مفروضہ معصومیت کے عذر میں اپنے جور و استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے۔( Reconstruction‘۱۹۸۶ء‘ ص ۲۳-۱۲۲)

یعنی اسلام میں تھیاکریسی ان معنوں میں قطعی طور پر نہیں ہے کہ مذہب میں کوئی طبقہ اجارہ دار ہو اور بس وہی طبقہ اللہ کی مرضی کو جاننے کا واحد ذریعہ ہو۔ اسلامی تعلیمات اور اسلامی مزاج کی روشنی میں یہ فکر تھی علامہ اقبال کی۔

قائداعظمؒ نے یہ بات کہی ہے کہ تھیاکریسی کا میں مخالف ہوں‘ اس لیے کہ اسلام میں کسی ایسے طبقے کا تصور نہیں ہے جو دین کا اجارہ دار ہو جیسا کہ بدھ مذہب‘ عیسائیت‘ ہندومت میں اور یہودیت میں ایسا طبقہ پایا جاتا ہے۔ یہ بات اسی معنی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اور جماعت اسلامی نے ہمیشہ اسی لہجے میں کہی ہے کہ ’’ہم تھیاکریسی کے مخالف ہیں۔ تھیاکریسی کا کوئی تعلق اسلامی نظام سے نہیں ہے‘‘۔ مولانا مودودی کی کتب سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی پڑھا لکھا آدمی پڑھے بغیر محض مغرب کے عطا کردہ الزام‘ اور اتہام کو عین علم قرار دینا چاہتا ہے تو یہ اس کی جہالت اور تنگ نظری کا ثبوت ہے۔

اس نام نہاد جدید طبقہ کی ژولیدہ فکری کا تو یہ حال ہے کہ ایک طرف تھیوکریسی سے برأت کا اعلان ہوتا ہے تو دوسری طرف ارشاد ہوتا ہے کہ جو بھی اور جس طرح بھی مسنداقتدار پر آگیا وہ گویا خود خدا کا فرستادہ ہے اور اس کے لیے وتعز من تشاء  وتذل من تشاء  سے استشہاد کرنے تک کی جسارت میں کوئی باک محسوس نہیں کیا جاتا۔

ہم دعوے سے عرض کریں گے کہ تھیاکریسی کے باب میں بھی علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کا موقف ایک ہے۔ جو افراد اس میں اختلاف ڈھونڈنے یا عملی سطح پر رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ علمی دیانت نہیں برت رہے یا ان کی معلومات خام ہیں یا پھر وہ حقائق کا کھوج لگانے کے بجائے سیکولر تعصب میں مبتلا ہیں۔ ایسے عناصر نہ تھیاکریسی کے مفہوم سے آشنا ہیں اور نہ انھیں اسلام کے اجتماعی‘ سماجی‘ معاشی‘ بین الاقوامی اور سیاسی تصورات سے کوئی شناسائی ہے۔ اس پہلو سے انھیں قومی سطح پر بھی اپنے نقطہ نظر کی اصلاح کرنی چاہیے‘ تاکہ جو پیغام علامہ اقبال نے دیا تھا اور جس کے لیے قائداعظمؒ نے جدوجہد کی تھی‘ آج ہم اس کو عملی طور پر ملک میں قائم کر سکیں۔ مولانا مودودی تو فکری سطح پر اس کے موید اور عملی طور پر اس کے نقیب تھے۔

قائداعظمؒ کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تقریر قائداعظمؒ نے بہت ہی مخصوص حالات میں کی تھی۔ پوزیشن یہ تھی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا‘ جس میں قائداعظمؒ کو صدرمنتخب کیا گیا اور اس انتخاب پر اظہارتشکر کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے یہ تقریر کی تھی۔

انھوں نے اپنے دل کے زخم قوم کے سامنے رکھے کہ آج برعظیم میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے‘ انسان‘ انسان کو قتل کر رہا ہے‘ بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے‘ حقوق پامال ہو رہے ہیں اور اس صورت حال میں ہم جو ریاست حاصل کر رہے ہیں‘ اس میں کسی کا کوئی بھی مذہب ہو‘ خواہ وہ اسلام ہو‘خواہ وہ ہندو مذہب ہو‘ ان سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اس تقریر میں مسئلہ ریاست کی نوعیت کا نہیں‘ بلکہ مسئلہ شہریوں کے حقوق اور جان اور مال کے تحفظ کا ہے۔ شہریت اور جان و مال کے تحفظ کے باب میں اسلام مسلمانوں اور غیر مسلموں کو برابر کا تحفظ اور برابر کے حقوق دیتا ہے۔ یہ روایت سیکولرزم کی نہیں‘ بلکہ اسلام کی ہے۔ اسی طرح قائداعظمؒ کے الفاظ Business of the Stateکو بہت اُچھالا جاتا ہے۔ یہ بھی علمی خیانت ہے کیونکہ بزنس آف دی اسٹیٹ کا مقصود و مطلوب Nature of the State نہیں ہوتا۔ بزنس آف دی اسٹیٹ سے مراد صرف انتظام و انصرام ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی اور تعبیر نہیں کی جا سکتی۔

جو لوگ اس تقریر کو سیکولرزم کے جواز کے لیے استعمال کرتے ہیں ان سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر سے پہلے اور اس تقریر کے بعد بھی پاکستان کے اسلامی تشخص اپنانے‘ اسلامی قانون کو بنیاد بنانے‘ قرآن و سنت کی روشنی میں یہاں کے نظام کو ترتیب دینے اور اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد پر معاشرے کو استوار کرنے کی ضرورت و اہمیت کو تسلسل کے ساتھ بلاانقطاع بیان فرمایا ہے اور اس سلسلے میں ان کی وہ تقریر حرف آخر ہے جو انھوں نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر جولائی ۱۹۴۸ء میں فرمائی ہے‘ اس میںبھی اور اس سال عید کے پیغام میں بھی انھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم ملک میں اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں‘‘__ سوال یہ ہے کہ قائداعظمؒ کی محض ۱۱؍اگست والی تقریر ان کے باقی تمام اقوال کو نظرانداز کر کے کیسے لی جا سکتی ہے؟ اور وہ ان کی پہلے اور بعد والی تمام تقاریر و بیانات کو منسوخ کر دینے والی تقریر کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ کیا فقط یہی ایک تقریر معتبر ہے اور ان کی باقی تمام تقاریر غیرمعتبر اورغیر متعلق ہیں؟ کسی شخص کے فکر اور تصور کو سمجھنے کے لیے کیا کسی ایک چیز کو اس کے سیاق و سباق سے نکال کر دیکھا جاتا ہے یا فیصلہ کرنے کے لیے اس کی ساری چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے؟ اور اگر ساری چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور رکھنا چاہیے تو قائداعظمؒ کا تصور اسلامی ریاست بھی بالکل واضح ہے۔

پھر کیا ان لوگوں کی نگاہ میںقائداعظمؒ اتنے بے اصول انسان تھے کہ قوم سے وعدہ تو انھوں نے  اسلامی نظام کا کیا اور کہا کہ میں تمھیں پاکستان کی جدوجہد میں شرکت کی اس لیے دعوت دے رہا ہوں کہ تم ایک نظریاتی قوم کی حیثیت سے‘ اسلامی نظام اور اسلامی قوانین کی علم بردار قوم کی حیثیت سے جدوجہد کرو۔ لیکن ابھی آزادی ملنے میں تین دن باقی ہیں کہ وہ اپنے سارے کیے کرائے کے اوپر پانی پھیر دیں‘ اس سے یک دم پیچھے ہٹنے کا اعلان کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ میںتو ایک لادینی اور سیکولر اسٹیٹ کے لیے کام کرتا رہا ہوں۔ پھر اس کے بعد دوبارہ ایسی تضاد بیانی کا شکار ہوں کہ ستمبر ۱۹۴۷ء سے لے کر جولائی ۱۹۴۸ء تک جتنی تقاریر کریں‘ ان میں پھر وہ اسلام ہی کا اعادہ کریں اور پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے دعوے کریں؟

لیکن معاف کیجیے قائداعظمؒ تضاد بیانی کے قائل نہ تھے۔ اسی طرح وہ کوئی بے اصول انسان بھی نہ تھے‘ نہ قائداعظمؒ پر کسی قسم کی ژولیدہ فکری کا الزام لگایا جا سکتا ہے اور نہ ان پر نفاق کی تہمت لگائی جا سکتی ہے۔ وہ ہمیشہ جرأت کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہے‘ جس بات کو درست سمجھا ہے اس کو برملا کہا ہے انھوں نے کبھی متضاد باتیں نہیں کی ہیں۔ قائداعظم ؒ کی اس تقریر کو ان کی باقی تقاریر کے پس منظرمیں دیکھنا ہوگا اور اسی کے مطابق تطبیق اور اس کی تعبیر کرنا ہوگی۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام میں تھیاکریسی نہیں ہے اور اسلام میں شہریوںکے حقوق برابر ہیں۔ یہ بات اسلام کے مطابق ہے‘ جس میںمسلمان‘ غیر مسلم سب شہری یکساں حقوق کے مالک ہیں بشرطیکہ وہ اپنی شہریت کے تقاضے پورے کریں۔ اس کے ساتھ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ پاکستان ایک سیکولراسٹیٹ ہوگا یا پاکستان ایک ایسی اسٹیٹ ہوگا جس کا مذہب اور دین سے کوئی تعلق نہ ہو یا اسلامی قوانین جاری نہ ہوں __یہ اس تقریر کی غلط تعبیر ہوگی۔

قائداعظمؒ پر میری نگاہ میں یہ ایک الزام اور بہتان ہے۔ ان تمام الزاموں سے بڑا الزام اور بہتان ہے‘ جو قائداعظمؒ کے بڑے سے بڑے ناقد اور مخالف بھی ان پر لگانے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن وہ لوگ جو قائداعظمؒ کی فکر کے علم بردار ہونے کا دعوے کر رہے ہیں‘ وہی دراصل قائداعظمؒ کے کردار کو گہنانے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم قائداعظمؒ کے خیالات کی جو تعبیر کر رہے ہیں‘ یہ وہی تعبیر ہے جو ان کے پورے کردارسے اور ان کے تمام ارشادات سے ہم آہنگ ہے اور جس میں بجا طور پر قائداعظمؒ کی ایک دیانت دارانہ‘ منصفانہ اور خود ان کی اُمنگوں کی ترجمان تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔

 

ریاست جموں و کشمیر میں جن اصحاب عزیمت نے تحریک مولانا اسلامی اور جدوجہد آزادی دونوں کی آبیاری اپنے خون اور پسینے سے کی‘ ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت مولانا حکیم غلام نبی کی تھی جو ۳فروری ۲۰۰۲ء کو تقریباً ۸۰ سال کی مجاہدانہ زندگی گزار کر رب حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

قسمت نگر کہ کشتۂ شمشیر عشق یافت
مر گے کہ زاہداں بہ دعا آرزو کنند

عشق و محبت کی شمشیر سے گھائل ہونے والے کی خوش قسمتی دیکھیے کہ اُسے موت ایسی نصیب ہوئی جس کی آرزو زاہد کرتے ہیں۔

غلام نبی وادیٔ کشمیر کے ایک چھوٹے سے خوب صورت گائوں مولوچترگام (ضلع پلوامہ) میں ایک معروف دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان رشد و ہدایت کا سرچشمہ تھا۔ نوجوان غلام نبی نے بھی علم دین کے حصول ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ کشمیر میں ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی اور دیوبند کے علمی سرچشموں سے ۱۵ سال پیاس بجھائی۔ دیوبند سے سندفضیلت حاصل کی اور دہلی سے طب و جراحت کی ڈگری لی۔ اس کے ساتھ جدید تعلیم کے زیور سے بھی اپنے آپ کو آراستہ کیا اور ایف اے کی سند امتیازی شان سے حاصل کی۔ اس طرح نوجوان غلام نبی مولانا حکیم غلام نبی بن کر وادیٔ کشمیر لوٹا۔ عربی‘ انگریزی‘ فارسی اور اُردو پر عبور اور اس پر مستزاد صاف ستھرا علمی اور ادبی ذوق--- تقریر اور تحریر دونوں پر قدرت‘ بلکہ تقریر کا تو یہ عالم کہ: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی!

علم دین‘ انگریزی تعلیم اور طب اور جراحی کی سندوں سے آراستہ یہ نوجوان دنیوی اعتبار سے ابھی اپنا مقام تلاش ہی کر رہا تھا کہ ایک اور ہی انقلاب اس کا منتظر تھا--- جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی کی دعوت پہنچ چکی تھی اور چند سرپھرے نہ صرف خود دُنیا کو بدلنے کا خواب دیکھ رہے تھے بلکہ ہر مضطرب روح کو اس آدرش کی خدمت کے لیے سرگرم کرنے کو کوشاں تھے۔ مولانا غلام احمد احرار کے ذریعے مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب خطبات اور دوسرے رسائل سے آشنا ہوئے۔ دیوبند کا یہ فارغ التحصیل پہلے تو اُردو کے ان رسالوں کی طرف ملتفت نہ ہوا لیکن جب ایک بار مطالعہ شروع کیا تو دل و دماغ میں ایک تلاطم برپا ہو گیا اور بقول حکیم صاحب:’’ان چھوٹی چھوٹی کتابوں نے تو میری کایا ہی پلٹ دی‘‘۔ مولانا سعدالدین امیر جماعت تھے۔ حکیم صاحب نے اپنے کو رکنیت کے لیے پیش کر دیا اور وہ دن اور ۳ فروری ۲۰۰۲ء کا دن‘ پوری زندگی تحریک اسلامی کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔

جماعت اسلامی کے قائم کردہ پرائمری اسکول کی مدرسی سے لے کر جماعت کی امارت اور تحریک آزادیٔ کشمیر کی قیادت تک--- ہر خدمت خلوص‘ تندہی اور استقامت سے‘ اور ہر معرکہ حکمت‘ جرأت اور مجاہدانہ شان سے سر کیا۔ ایثار اور قربانی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی‘ پوری زندگی فقر کے عالم میں گزاری‘ اپنے پورے گھرانے کو دین اور تحریک کا خادم بنایا‘ ایک جوان بیٹے ذبیح اللہ نے جام شہادت نوش کیا‘ باقی چار بیٹے اور دو بیٹیاں اپنے اپنے انداز میں تحریک میں سرگرم ہیں۔ جس طرح اپنے گھرانے کی فکر کی اسی طرح کشمیر کے ہر گھر کو دعوت اسلامی کے نور سے منور کرنے کے لیے شب و روز سرگرم رہے اور ایک نسل کو اسلام کی خدمت اور آزادی کے حصول کے لیے بیدار کر دیا۔

حکیم صاحب نے دعوت و تبلیغ‘ سیاسی جدوجہد اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے جہاد میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قیدوبند کی صعوبتوں کو خوشگواری سے انگیز کیا۔ پہلی گرفتاری ۱۹۶۲ء میں سیدعلی شاہ گیلانی کے ساتھ ہوئی اور پھر یہ سلسلہ ۱۹۹۰ء کے عشرے تک چلتا رہا۔ آخری زمانے میں بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھے مگر تحریک کو پیش آنے والے ہر معرکے اور ہر آزمایش میں استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔

مجھے حکیم صاحب کے ساتھ ایک بڑے نازک مرحلے پر چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ جن چیزوں کا نقش دل پر قائم ہے ان میں ان کا صاف ستھرا علمی ذوق‘ سادہ طبیعت‘ حسن اخلاق‘معاملہ فہمی اور تدبر‘ تحریکی اور سیاسی حالات کا گہرا ادراک‘ بڑے سے بڑے خطرے کو انگیز کرنے کی ہمت اور داعیہ اور یہ سب کچھ کمال درجے کے انکسار کے ساتھ۔ ان کی زندگی میں کشمیر کی اسلامی تہذیب کی پوری تصویر دیکھی جا سکتی تھی۔

حکیم غلام نبی صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت کو گھر گھر پھیلایا‘ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہے‘ اور بڑے نازک اور پرخطر حالات میں صبر واستقامت اور حکمت و تدبر سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور قدم قدم پر بیش بہا قربانیاں پیش کیں۔ قیدوبند‘ فقروفاقہ‘ گھر بار اور باغ و کھلیان کی تباہی‘ اولاد کی شہادت--- وہ کون سا زخم ہے جسے انھوں نے ہنستے ہوئے اور شکر کے جذبات کے ساتھ جسم کا زیور نہ بنایا:

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

مولانا حکیم غلام نبی کے انتقال کی خبر پوری ملت کشمیر پر بجلی کی طرح گری اور ہر گھر سوگوار اور ہر چشم اشکبار تھی۔ ہزاروں افراد نے اس عالم دین‘ تحریک اسلامی کے قائد اور جدوجہد آزادی کے مجاہد کو اس شان سے الوداع کہا کہ جنازے کا جلوس ان عزائم اور اہداف کے حق میں ایک استصواب بن گیا جن کے لیے حکیم صاحب نے زندگی بھر جدوجہد کی تھی:

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

 

امریکی صدر جارج بش نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابل مذمت واقعات کا سہارا لے کر افغانستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جن بودے ‘ شرم ناک اور ظالمانہ الزامات کے نام پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے انھی کا بہانہ بنا کر اسرائیل اور اس کے فلسطینیوںکے خون کے پیاسے وزیراعظم ایرول شیرون نے غزہ اور فلسطین کے علاقے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بالکل انھی مفروضوں کے بل پر بھارتی قیادت نے پاکستان پر جنگ تھوپنے کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف جو جارج بش کی دھمکیوں میں آکر ان کے زیردام آچکے ہیں‘ اب اس ابتدائی اور بنیادی غلطی (original sin)کی پاداش میں ایک کے بعد دوسری پسپائی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جنرل صاحب کی اَنا کو غذا فراہم کرنے کے لیے وہی مغربی قائدین اور صحافی جو انھیں ۱۱ ستمبر سے پہلے جمہوریت کا قاتل‘ فوجی ڈکٹیٹر اور عالمی محفلوں میں ناپسندیدہ شخص (persona non grata)قرار دے رہے تھے‘ اور صدر کلنٹن ان کے ساتھ اپنا فوٹو کھنچوانا اور ٹی وی پر ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا جانا بھی پسند نہیں فرماتے تھے‘ اب ان کو سینے سے لگا رہے ہیں‘ اور ایک سے ایک بڑھ کر ان کو بہادر‘ معاملہ فہم‘ بالغ نظر اور روشن خیال بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس ذہنی رشوت کے بدلے ان سے ہر روز نت نئی مراعات حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

افغانستان کو تباہ کرنے‘ وہاں اپنی فوجوں کے قدم جمانے اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے بعد اب امریکہ کا ہدف کشمیر کا جہاد آزادی اور پاکستان اور عالم اسلام کی وہ تحریکات ہیں جو دین اسلام کو ایک مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کی داعی ہیں۔ یہ مغرب کے استعمار کے خلاف سب سے بڑی مزاحم قوت ہیں۔ وہی جہاد جو کبھی آزادی اور اشتراکیت کے خلاف جنگ کا روشن نشان تھا ‘اب دہشت پسندی کا دوسرا عنوان قرار دے دیا گیا ہے۔ وہی مجاہد جن کا ۱۹۸۵ء میں صدر رونالڈ ریگن وہائٹ ہائوس میں استقبال کر رہے تھے اور ان کے چہروں پر فرشتوں کا نور دیکھ رہے تھے اور جن کے سروں پر امریکہ کی جنگ آزادی کی قیادت بشمول جارج واشنگٹن کا سایہ تلاش کر رہے تھے‘ اب انھیں زمین پر سب سے زیادہ قابل نفرت اور لائق مذمت گروہ سمجھ کر گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔

بات چلی افغانستان اور القاعدہ سے تھی‘ مگر اب فلسطین ہو یا کشمیر‘ شیشان ہو یا کوسووا یا فلپائن کے مورو __ ہر جگہ اپنی آزادی اور غیر ملکی تسلط کے خلاف مصروفِ جہاد قوتیں ہی اصل ہدف ہیں۔ ان قوتوں کو دبانے کے لیے عسکری قوت اور ملٹری بلیک میل کے ساتھ ان ملکوں کے حکمرانوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے کہ دینی مدارس پر پابندیاں لگائیں‘ مسجد اور منبر کی آزادی کو لگام دیں‘ اور اس اُمت کے جسم و جاں کو روح جہاد سے محروم کرنے کا سامان کریں۔ مغربی استعمار نے اپنے اولیں دور میں بھی جہاد ہی کو نشانہ بنایا تھا اور خود مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں ایسے افراد اور افکار کو فروغ دیا تھا جو جہاد کو منسوخ اور اسے فرسودہ اور خطرناک قرار دینے والے ہوں۔ خواہ جدید تعلیم یافتہ اور لبرل اور ماڈرنسٹ ہوں یا مذہبی لبادہ اوڑھنے    حتیٰ کہ نئی نبوت کی دستار زیب تن کرنے والے‘ سب ہی نے جہاد کو کالعدم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا مگر اللہ کی بات جہاں تھی وہیں رہی اور وہ ناکام و نامراد ہوئے۔ اب نئے استعمار کے لیے زمین ہموار کرنے کے لیے بھی وہی ڈراما رچایا جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے!

۱۲ جنوری کا خطاب

یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف نے ۱۲ جنوری کا وہ خطاب فرمایا ہے جس کا چرچا تقریر سے پہلے ہی پوری دنیا میں تھا اور اس کے اساسی نکات کا اعلان اسلام آباد سے نہیں‘ واشنگٹن سے اور جنرل صاحب کے نفس ناطقہ کی زبان سے نہیں امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان کی زبان سے ہو رہا تھا۔

لشکر طیبہ اور جیش محمد پر پابندی لگا کر حکومت نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ  ہوا کا رُخ کیا ہے۔کس طرح کے اقدامات ان کے پیش نظر ہیں۔ تحریک جعفریہ اور سپاہ صحابہ پر پابندی کی خبریں بھی عام تھیں اور دونوں تنظیموں کو پہلے انتباہ بھی کیا گیا تھا۔ دینی مدارس اور مساجد کے بارے میں مغربی قوتیں ایک عرصے سے مہم چلا رہی تھیں اور ان کے زیراثر پاکستان کی سیکولر اور لبرل لابی اور یہاں کا انگریزی پریس اور انگریزی فیشن میگزین مدارس کی تعلیم و تربیت کے بارے میں عسکریت کے حوالے سے فیچر چھاپ کر مغربی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ خود جنرل پرویز مشرف صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اتاترک کو اپنا آئیڈیل قرار دے کر اپنے اصل عزائم کی ایک جھلک دکھائی تھی مگر فوری عوامی ردعمل سے گھبرا کر قدم پیچھے ہٹا لیے تھے۔ اب حالات کو سازگار سمجھ کر اور مغربی اقوام کی پشت پناہی حاصل کرکے‘ دبے لفظوں میں اور مغالطہ آمیز اعلان کے ساتھ دین و سیاست کی تفریق کی طرف قوم و ملک کو لے جانے کے لیے اولیں اقدام کر کے اصل ایجنڈے کی طرف آ رہے ہیں۔ ان کی تقریر میں دین و سیاست کو الگ رکھنے‘ مدارس اور مساجد کو رجسٹر کرنے اور پیشگی اجازت لیے بغیر کوئی نئی مسجد یا مدرسہ نہ کھولنے کے اعلانات اس سمت میں پہلا قدم ہیں۔

جہاں تک فرقہ وارانہ تعصبات اور فسادات کا تعلق ہے سبھی اسے ناپسند کرتے ہیں۔ ملک میں لسانی تعصبات اور علاقائی نفرتیں بھی عام ہیں۔ ان کے نتیجے میں جو فسادات ہوئے ہیں وہ زیادہ سنگین اور بڑے پیمانے پر تھے اور ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ تھے۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی لسانی اور علاقائی تعصبات والے گروہ موجودہ حکومت کے حلیف ہیں کیونکہ انھیں بھی پرویز مشرف حکومت کی طرح مغربی طاقتوں کی پشتی بانی حاصل ہے۔ اس لیے وہ محفوظ ہیں اور سارا نزلہ مذہبی عناصر پر گرایا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ملک کے اندر فساد پھیلانے والی تنظیمیں چاہے وہ فرقہ وارانہ ہوں یا علاقائی اور لسانی ہوں ملک کی یک جہتی‘ امن و سکون اور معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے زہر قاتل ہیں لیکن اگر ان میں سے ایک ایک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگاکہ ان کی اکثریت کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اس کے لیے مذہبی طبقات کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر ظلم اور بے انصافی ہے۔ نیز فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں حقیقی اور موثر کردار اہل مذہب کا نہیں‘ ملکی اور بیرونی تخریبی عناصر اور ایجنسیوں کا تھا جس کا بار بار اعتراف خود سرکاری ذمہ داروں بشمول وزیر داخلہ نے کیا ہے۔ لیکن اب یہ سب پہلو نظرانداز کر دیے گئے ہیں اور ملبہ صرف کچھ مذہبی عناصر پر ڈالا جا رہا ہے۔

جنرل صاحب نے ایک ہی سانس میں پاکستان کو اسلامی ریاست بھی قرار دیا اور دین کو سیاست سے الگ رکھنے اور مسجد میں سیاست نہ کرنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال کے تصور پاکستان کی باتیں بھی کی ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ اقبال تو دین و دُنیا اور مذہب و سیاست کی یک رنگی کے قائل ہیں اور دُنیا کے پورے نقشے کی‘ بشمول ریاست و معیشت‘ دین کی بنیاد پر تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے قائل ہیں کہ:

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اقبال کا تو سارا پیغام ہی قوت کو دین کے تابع کرنے اور اسے حق کی حکومت کے لیے استعمال کرنے کا پیغام ہے:

لادیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والا اور ان کے اسوئہ حسنہ کی پیروی کو فلاح اور کامیابی کا زینہ سمجھنے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دین اور سیاست الگ ہیں یامسجد میں سیاست کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ پورا قرآن اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اخلاقی اور سیاسی تعلیمات کے حسین اور دل نشین امتزاج پر مشتمل ہے۔ حضور نبی کریم ؐ نے اسلامی حکومت قائم کی ہے۔ آئین اورقانون عطا کیا ہے۔ ایک مصرع میں علامہ اقبالؒ نے حضور نبی کریمؐ کی زندگی کا یہ حصہ کس خوب صورتی کے ساتھ بیان کر دیا ہے:

از کلید دیں در دنیا کشاد

یعنی انھوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔ دین اور دنیا الگ نہیں ہیں۔ دین‘ دُنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ دین سیاست اوراقتدا کے بغیر نامکمل ہے اور سیاست دین کے بغیر گمراہی اور ظلم کا پلندا ہے۔

مسجد کے لیے پیشگی اجازت کی شرط لگا کر پرویز مشرف صاحب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسجدیں تعمیر کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں۔ لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ اس طرح کی پابندی انگریز کے دور استعمار میں بھی علما اور اس اُمت نے قبول نہیں کی۔ آج بھی ناممکن ہے کہ مساجد کو اجتماعی مسائل کے حل کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ مطلق العنان حکومتوں کی ہر دور میں یہ خواہش رہی ہے کہ اس کے خلاف کہیں سے آواز نہ اٹھ سکے اور مسجد و منبر خاص طورپران کا نشانہ بنے ہیں لیکن مسجد کا مقصد ہی مسلمانوں کو عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور اجتماعیت کا درس دینا ہے۔ ان دونوں کے درمیان رشتہ منقطع نہیں کیا جا سکتا۔

جنرل پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ مذہبی جماعتوں میں سے کسی نے بھی افغانوں کی انسانی ضروریات پوری نہیں کیں۔ یہ کام مغربی ممالک کی این جی اوز نے کیا ہے یا عبدالستار ایدھی نے یہ خدمت انجام دی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اور دوسرے اسلامی فلاحی اداروں کی خدمات کا ذکر نہ کر کے انھوں نے صراحتاً حقائق سے چشم پوشی کی ہے اور قوم اور پوری دنیا کو گمراہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مظلوم افغانوں کی دست گیری کے لیے الرشیدیہ ٹرسٹ‘ اُمّہ تعمیرنو الخدمت اور اسلامک ریلیف کی خدمات یو این او کے خدمتی ادارے سے اگر زیادہ نہیں تو کسی صورت کم بھی نہیں۔ خود یو این او کا متعلقہ ادارہ ان مسلمانوںکے ذریعے اپنے بہت سے ریلیف پروگرام چلا رہا ہے کیوں کہ اس کے پاس زمینی سطح پر وہ کارکن اور انتظام نہیں جو اس کام کے لیے درکار ہے۔

اُمّت کا تصور

جنرل پرویز مشرف کی تقریر کا سب سے زیادہ قابل اعتراض حصہ وہ ہے جہاں انھوں نے پاکستانیوں کو دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم خدائی فوج دار نہیں۔ بلاشبہہ ہم خدائی فوج دار نہیں‘ لیکن خدا کے سپاہی اور اُمت مسلمہ کے ارکان تو ہیں۔ یہ اُمت ایک اُمت ہے‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اِنَّ ھٰذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً (الانبیاء ۲۱:۹۲) بلاشبہہ تمھاری یہ اُمت ایک اُمت ہے۔ موصوف کے یہ ارشادات دراصل پاکستان کے نظریے پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اس کا نظریہ اسلام ہے۔ اس کی تشکیل میں برعظیم کے مسلمانوں نے حصہ لیا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں مفتی اعظم فلسطین نے ایک تقریر مکہ مکرمہ میں کی تھی جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو ایک مرکز کی ضرورت تھی اور علامہ محمد اقبالؒ کی خواہش تھی کہ برعظیم میں مسلمان اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک ایسا ملک وجود میں آجائے جو اُمت مسلمہ کو مرکز و محور عطا کرے۔ اس کے لیے برعظیم کے ان مسلمانوں نے بھی اس کی تشکیل میں حصہ لیا جن کو معلوم تھا کہ وہ خود اس میںشامل نہیں ہو سکیں گے۔

قائداعظم نے عالم اسلام کے تمام مسائل کو ہمیشہ اپنے مسائل کے طور پر پیش کیا اور خصوصیت سے مسئلہ فلسطین پر پوری مغربی دنیا کو ناراض کر کے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ فلسطین ہو یا شیشان‘ بوسنیا ہو یا کوسووا‘ خلافت کا مسئلہ ہو یا الجزائر کی جنگ آزادی‘ پاکستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے بھائیوں کا ساتھ دیا اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ آج ’’خدائی فوج دار‘‘ کی پھبتی کس کر اُمت کی وحدت اور مظلوموں کی اعانت سے دست کشی کی باتیں ہو رہی ہیں جو ایمان اور غیرت دونوں کے منافی ہیں۔ اور اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے وژن سے انحراف ہی نہیں‘ بغاوت کے مترادف ہیں۔ اقبال کا پیغام تو ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ تھا۔ جنرل صاحب کون سے اقبال اور قائداعظم کی بات کر رہے ہیں؟

جنرل پرویز مشرف نے اگرچہ نام تو نہیں لیا لیکن ان کے ارشادات میں امریکی اور صہیونی اثرات کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کا فلسطین سے قلبی لگائو ہے۔ مسئلہ فلسطین دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اُمت مسلمہ سے کاٹنا اور اُمت کا تصور ختم کرنا یہودی لابی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ امریکی اور مغربی اقوام اُمت کے تصور کو ختم کر کے مسلمانوں کو وطنیت اور لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ استعماری ایجنڈا ہے۔ اگر آپ اقبال کو مفکر پاکستان مانتے ہیں تو پھر ان کے نظریہ قومیت کو بھی تسلیم کر لیں۔ اقبال نے اسرار و رموز میں مسلم فرد کی شخصیت کی پرورش اور مسلم اُمت کی تشکیل کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی ہے اور اس طرح اسلام کے تصور قومیت کو واضح کیا ہے۔ پاکستانی مسلمانوںکو یہ کہنا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے بے فکر ہو جائیں‘قرآن و سنت کے واضح ارشادات ‘ نظریہ پاکستان اور مفکر پاکستان کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

مغربی اقوام نے خلافت کو ختم کر کے عربوں اور ترکوں کو قومیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن  بنا دیا اور یہی وہ تقسیم در تقسیم ہے جو اُمت کے زوال کا بنیادی سبب ہے۔ اس پس منظر میں یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ دینے کا مطلب یہی نہ ہو کہ پاکستانی قوم کو کل اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ امریکہ نوازسیکولر لابی مدت سے یہ پراپیگنڈا کر رہی ہے کہ پاکستان کو جب ضرورت پڑتی ہے تو کوئی مسلمان ملک اس کی حمایت کے لیے آگے نہیں آتا تو ہم کیوں ان کے مسائل کے لیے اپنے لیے مشکلات پیدا کریں۔

فلسطین کو عربوں کا مسئلہ قرار دینا یا اسے محض فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دینا ہی بنیادی غلطی ہے۔ القدس مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسرا حرم ہے اور پاکستان کے مسلمانوں کے لیے یہ دوسروں کا نہیں خود ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ اگر مسلمانوں کی دوسری حکومتیں ہمارا ساتھ نہیں دیتیں تو اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں اپنی خارجہ پالیسی میںآزاد نہیں ہیں۔ اُمت مسلمہ کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ان کی حکومتوں پر قابض گروہ‘ ان کی تمنائوں اور آرزوئوں کے ترجمان نہیں ہیں بلکہ غیر ملکی استعمار کے مفادات کے تابع ہیں۔

پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر کا اختتام علامہ اقبالؒ کے اس شعر پر کیا:

فرد قائم ربط ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

لیکن ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ جنرل صاحب اقبال کے پیغام کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقبال نے اس شعر میں ملّت اسلامیہ سے مربوط ہونے کی تلقین کی ہے۔ ملّت سے ان کی مراد مسلمانوں کی اُمت ہے اور قومیت کا اسلامی تصور ان کے پورے پیغام کی روح ہے۔ ان کی تو تعلیم ہی یہ ہے کہ:    ؎

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر

یہ تصورِ قومیت قرآن کریم کا پیغام اور حضورنبی کریمؐ کی سیرت کا اصل سبق ہے ۔ پاکستان کی ملّت اسلامیہ اس کے مقابلے میں کسی دوسرے تصورِ قومیت کو قبول نہیں کرے گی۔

یہ درست ہے کہ ہمیں دنیا کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے اپنے ملک کے اتحاد‘ دفاع اور استحکام کو اولیں اہمیت دینی چاہیے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم استحکام پاکستان کے نام پر اس بنیادی تصورِ قومیت کی نفی کر دیں جس پر پاکستان بنا ہے۔

یہ پاکستان اگر مستحکم بن سکتا ہے اور متحد رہ سکتا ہے تو اسلام کے تصورِ قومیت کی بنیاد پر ہی متحد رہ سکتا ہے ورنہ علاقائی اور لسانی قومیتوں کے پرچارک مغربی آقائوں کی سرپرستی حاصل کر کے اس کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔

تصورّ جہاد

جنرل پرویز مشرف صاحب نے ایک اور خطرناک مغالطہ خود جہاد کے تصور کے بارے میں دیا ہے۔ جس حدیث کا سہارا لے کر انھوں نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی بات کی ہے اہل علم جانتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے مفہوم کے معتبر ہونے کے باوجود اس کے الفاظ اور حضورؐ سے اس کی نسبت ثابت اور محکم نہیںنیز اس کی جو تعبیر موصوف نے فرمائی ہے وہ غلطیوں کا مجموعہ اور اسلام کے تصور جہاد کی ضد ہے۔ اس کا مطلب جہاد کا ختم ہونا نہیں‘ جہاد کی تمام جہات کا ادراک اور ان کی وحدت ہے۔ بلاشبہ اسلام کا تصور جہاد بڑا جامع اور منفرد تصور ہے۔ یہ انسانیت کو ظلم و طغیان اور فساد و افتراق سے محفوظ رکھنے اور اللہ کی رضا کے لیے اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے جان اور مال کی بازی لگانے سے عبارت ہے۔ جہاد ایک عبادت ہے اور اللہ کے دیے ہوئے قانون اور شریعت کا ایک لازمی اور ناقابل تنسیخ اور اٹل حکم ہے۔ جہاد سب سے پہلے خود اپنے نفس کی اصلاح سے عبارت ہے تاکہ دل کا تقویٰ حاصل ہو اور انسان محض مال و متاع‘ قوت و اقتدار‘ زمین اور جاہ وحشم کے حصول کے لیے سرگرداں نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کا طالب‘ اس کے دیے ہوئے اخلاقی ضابطے کا پابند اور صرف ان مقاصد اور اہداف کے لیے سرگرم عمل ہو جنھیں اللہ نے معتبر قرار دیا ہے۔ جیساکہ اقبال نے کہا:    ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

جہاد زبان اور قلم سے حق کی بات کو ادا کرنے اور عدل و انصاف اور اطاعت الٰہی کے نظام کے لیے دلوں کو مسخر کرنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرمؐ نے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کو افضل جہادقرار دیا ہے۔

اس کے ساتھ جہاد‘ ظلم اور باطل کی قوتوں سے ٹکر لینے کا نام ہے‘ تاکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ٹھیک ٹھیک ادا ہو اور انسان جبرو ظلم کے نظام سے نجات پاسکے۔ یہ جہاد جسم و جان‘ مال و دولت اور شمشیر و سناں سب سے ہے۔ لیکن جہاد میں مصروف تلوار صرف حق کے دفاع اور مظلوم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کسی پر ظلم کرنے کا ذریعہ نہیں بنتی۔ اور اس سے جہاد اکبر اور جہاد اصغر یک رنگ ہو جاتا ہے۔

معلوم ہوا کہ جسے جہاد اکبر اور جہاداصغر کہا گیا ہے وہ دو الگ الگ چیزیں نہیں‘ ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔ جہاد اکبر قلب کی اصلاح‘ تزکیہ نفس‘ اعلیٰ اخلاقی صفات کی پرورش‘ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی پوری پوری پاسداری کا نام ہے ۔ جہاد بالسیف بھی بعینہٖ انھی مقاصد اور انھی اقدار کے حصول اور تحفظ کے لیے ضرورت کے وقت قوت کے استعمال کا نام ہے۔ میدان کارزار میں بھی تقویٰ اور تزکیہ ہی اصل ہتھیار ہیں۔ اللہ کی رضا کے لیے جان کی بازی لگا دینے کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا ہی مسلمان کی شان ہے۔

اس پس منظر میں جنرل صاحب کا یہ ارشاد کہ ’’غزوئہ خیبر کے بعد حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اب جہاد اصغر ختم ہو گئی ہے لیکن جہاد اکبر شروع ہے یعنی عسکری جہاد جو چھوٹی جہاد ہے وہ ختم ہے اور پس ماندگی اور جہالت کے خلاف جہاد جو کہ بڑی جہاد ہے‘ وہ شروع ہے۔ اس وقت پاکستان کو جہاد اکبر کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی یاد رکھیں کہ عسکری جہاد صرف حکومت وقت کے فیصلے سے ہو سکتی ہے‘‘۔ جنرل صاحب کا اس تحدی کے ساتھ جہاد اصغرکے ختم ہوجانے کی بات کرنا ایک ایسی جسارت ہے جو کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ لازماً ان کے یہ الفاظ کم علمی اور بے احتیاطی کا نتیجہ ہیں ورنہ جہاد اصغرکے ختم ہونے کی بات کسی مسلم کے قلم یا زبان سے نہیں نکل سکتی۔ یہ تو مستشرقین کا مشغلہ اور بہاء اللہ اور غلام احمد قادیانی جیسے دشمنانِ دین کا فکری شاخسانہ ہے ورنہ غزوئہ خیبر (۷ھ) کے بعد خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعادت میں غزوئہ موتہ (جمادی الاول ۸ھ)‘ فتح مکہ (رمضان المبارک ۸ھ)‘  غزوئہ حنین (شوال۸ھ)‘ محاصرہ طائف (شوال ۸ھ) اور غزوئہ تبوک (رجب ۹ھ) واقع ہوئے اور پھر عہد صدیقی (۱۱-۱۳ھ) سے لے کر آج تک جہاد مسلمانوں کا شعار اور اسلام کی قوت اور سطوت کا ضامن رہا ہے۔ یہی وہ تاریخی روایت ہے جسے اقبال نے ’’ترانہ ملّی‘‘ میں یوں پیش کیا ہے:

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے‘ قومی نشاں ہمارا

جنرل صاحب جو اس فوج کے چیف آف اسٹاف ہیں جس کا موٹو ہی ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے بزعم خود جہاد اصغر کے ختم ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اکبر اور اصغر ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جو ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے حسین الفاظ میں مجسم کر دیے گئے ہیںاور ان کے درمیان کوئی فصیل حائل نہیں کی جا سکتی۔

جس عمل کی طرف اس حدیث میں اور قرآن و سنت کے دوسرے احکام میں متوجہ کیا گیا ہے اور جسے یہاں جہاد اکبر کہا گیا ہے‘ وہ تزکیہ نفس‘ اصلاح ذات‘ حصول تقویٰ‘ اخلاقی اور روحانی بالیدگی کا حصول ہے‘ تاکہ انسان کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے استعمال ہوں۔ بلاشبہہ پس ماندگی اور غربت کے خلاف جدوجہد اسلام کی تعلیمات کا ایک حصہ ہے ۔ دین اسلام‘ تمام انسانوں کے لیے روحانی اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ مادّی ضرورتوں کی فراہمی اور حیات طیبہ کے حصول کی ضمانت دیتا ہے‘ تاکہ اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَھُمْ مِنْ خَوْف کی کیفیت پیدا ہو سکے۔لیکن احادیث نبوی ؐ اور احکام شریعت کی تعبیر اور تشریح کا کام بڑی احتیاط اور ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ خیبر سے واپسی پر جہالت اور پس ماندگی کے خلاف جہاد اصل ایشو نہ تھا بلکہ وسیع تر معنی میں تزکیہ نفس اور اخلاقی قوت کی تعمیر تھا۔ حدیث کو اسی معنی میں پیش کرنا چاہیے جو اس کا مدعا ہے۔ غربت اور جہالت کے خلاف جہاد کے لیے دوسرے احکام موجود ہیں۔ اس کے لیے اس حدیث کا استعمال صحیح نہیں۔

عسکری جہاد جسے جہاداصغر کہا گیاہے‘ اس کے ختم ہونے کا ارشاد تو صریح مداخلت فی الدین اور اسلام کے ابدی قانون کو منسوخ قرار دینے کی مذموم کوشش ہی سمجھی جائے گی خواہ یہ حرکت نافہمی ہی پر مبنی کیوں نہ ہو۔ جنرل صاحب کو یہ کس نے بتا دیا کہ عسکری جہاد کے اعلان کا صرف ایک طریقہ ہے۔ بلاشبہہ اسلامی ریاست کا یہ حق اور فریضہ ہے کہ جب حالات جہاد کا تقاضا کریں تو وہ جہاد کا اعلان کرے لیکن حالات کی مناسبت سے اس کی دوسری جائز اور مشروع شکلیں بھی ہیں۔ اگر اسلامی ریاست قائم نہ ہو تو اس کو قائم کرنے کے لیے بھی جہاد کیا جا سکتا ہے۔ اگر مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کے جبری تسلط کے تحت ہوں تووہ اپنی آزادی کے لیے اپنے علما کے مشورے سے عسکری جہاد کرسکتے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ نے تاتاریوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ شیخ یوسف القرضاوی اور علماے اُمت نے فلسطین اور کشمیر میں جہاد کا فتویٰ دیا۔ کوئی حکومت اعلان کرے یا نہ کرے‘ جہاد کا فیصلہ حالات کی روشنی میں شریعت کے اصولوں اور ضوابط کے مطابق کیا جاتا ہے۔ جس علم سے جنرل صاحب واقف نہیں اس پر کرم نہ فرمائیں تو ان کے لیے بھی بہتر ہے اور اس مظلوم اُمت کے لیے بھی اور سب سے بڑھ کر اسلام کے لیے بھی۔

یہ بھی پیش نظر رہے تو مناسب ہے کہ جہاد اسلامی مخالف قوتوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے اور اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ یہی وہ قوت ہے جس سے ان کے غلبے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ان کے ظلم و تعدّی کا مداوا ممکن ہے۔ دور جدید میں جب استعماری قوتوں نے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیا تو ان کے دو ہی ہدف تھے: ایک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اور دوسرا مسلمانوں کا تصور جہاد۔ حضورؐ کی ذات اور تعلیمات اس اُمت کی شناخت اور اس کے عالمی کردار کی صورت گر ہیں اور جہاد وہ قوت ہے جس کے ذریعے شیطانی نظام کو چیلنج کیا جاتا ہے اور انسانیت کو ظلم کے چنگل سے نکالنے کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ یہی چیز غیروں کے غلبے اور تسلط کی راہ میں حائل ہے اور یہی ان کا ہدف ہے۔  اقبال نے ارمغان حجاز کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بتایا ہے کہ ساری سازش مسلمان کو جہاد ہی سے دست بردار کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔

اس میں کیاشک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوے غلامی میں عوام


ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام


کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید؟
’ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام‘

اقبال کی نگاہ میں دورِ حاضر میں ابلیس کی ساری حکمت عملی یہی ہے کہ مسلمان جہاد کو ترک کر دے اور دوسرے مشغلوں میں مصروف رہے۔ اس کا مشورہ یہی تھا کہ:

تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات!

خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات

ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشاے حیات

ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات

جہاد اسی احتساب کائنات کا دوسرا نام اور اس کا موثر ترین ذریعہ ہے اسی لیے ابلیس کا نسخہ یہ ہے کہ:

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

یہ تو ہے شیطان کی حکمت عملی جس کی آواز بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ اقبال نے ان ہدایات کا برملا اظہار کر دیا ہے جو ابلیس نے اپنے سیاسی فرزندوں کو دی ہیں:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ رختن سے نکال دو

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

جہاد کے بارے میں ضرب کلیم میں اقبال نے اپنے دور کے سارے مباحث کو چند شعروں میں بیان کر دیا ہے:

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود بے اثر

تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دُنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

اور پھر ’جہاد اکبر‘ اور ’جہاد اصغر‘ کے حسین امتزاج کی طرف اُمت کو بلایا ہے جو اسلام کی اصل تعلیم ہے:

سوچا بھی ہے اسے مرد مسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار

اس بیت کا یہ مصرِع اوّل ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار

ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار

قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن
یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدر کرارؓ!

حقیقی جہادی کلچر ہی آج ہمارے ایمان‘ ہماری آزادی اور ہماری سلامتی کا ضامن ہے۔

کشمیر پر موقف

جنرل پرویز مشرف صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کے بارے میں ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی تحریک کی اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی تائید حسب سابق جاری رکھے گا اور یہ بھی بجا طور پر کہا ہے کہ کشمیر ہمارے جسم میں خون کی طرح رواں ہے‘ لیکن دو جہادی تنظیموں پر پابندی لگا کر‘ ان کے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر کے‘ جہادی فنڈ کو ضبط کر کے وہ عملاً کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اگر امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے نتیجے میں وہ دبے لفظوں میں کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس سے بھارتی قیادت اور امریکی شاطر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر بھی اس کی زد میں آتی ہے تو جنرل صاحب کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔ بجا‘کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے اور پاکستان میں اتنی بڑی فوج کا کوئی جواز ہے تو وہ کشمیر کی رِگ جان کی حفاظت اور بھارت کے توسیعی عزائم کے مقابلے ہی کے لیے ہے لیکن جو کچھ جہادی تنظیموں کے ساتھ اب کیا جا رہا ہے اور جس طرح جہاد اور جہادی کلچر کو ہدف تنقید و ملامت بنایا جا رہا ہے‘ اور اس سے جو پیغام مقبوضہ کشمیر میں جان کی بازی لگا دینے والے نوجوانوں کو دیا جا رہا ہے وہ تباہ کن ہے۔ اگر فی الحقیقت کشمیر ان رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے تو پھر اسے جہاد آزادی کو سیراب کرنے کا سامان کرنا چاہیے ورنہ :    ؎

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا‘ تو پھر لہو کیا ہے؟

جنرل پرویز مشرف صاحب کی تقریرمیں پسپائی کے بہت سے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی قسمت کے فیصلے‘ شوریٰ اور ملک کے عوام اور ان کے قابل اعتماد نمایندوں کے ذریعے نہیں ہو رہے‘ ساری قوت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے اور ایک فردِواحد نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری اوڑھ لی ہے کہ وہی قومی مفاد کا واحد شناسا اور محافظ ہے۔ آمریت بظاہر مضبوطی کی مدعی ہوتی ہے لیکن   فی الحقیقت اس سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا۔

جمہوریت کے تقاضے

اس وقت ہمارے ملک میں قومی مفاد اور مصلحت کا محافظ کون ہے؟ پارلیمنٹ موجود نہیں ہے‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر دستورِ پاکستان کے بجائے جنرل پرویز مشرف سے وفاداری کا اعلانیہ اقرار کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی ذات میں چیف آف آرمی اسٹاف کے علاوہ چیف ایگزیکٹو اور صدر کے مناصب بھی سمیٹ رکھے ہیں۔ فوج کے کور کمانڈروں اور جرنیلوں کے بارے میں انھوں نے فرانس میں بیان دیا کہ"I command and they follow"  (میں حکم دیتا ہوں اور وہ احکامات بجا لاتے ہیں)۔  کیا ایک ایسے فردِ واحد کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر دینا جو اتفاقاً بری فوج کا چیف آف اسٹاف بن گیا اور جس کو کسی طرح کا عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے‘ ملک کے چودہ کروڑ عوام کی حق تلفی نہیں ہے؟

بد قسمتی سے اسی دور میں۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد وہ شدید بحرا ن پیدا ہو گیا  جس کے با رے میں خو د پرویز مشرف نے سیا ست دا نوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا: ملکی تا ریخ میں اس سے زیادہ خطرناک صو رت حا ل پہلے پیدا نہیںہو ئی اور یہ کہ صدر بش نے ہمیں کہا کہ سا تھ دے کر اکیسویں صدی میں  ترقی اورخو ش حا لی کے راستے پر جا نا چا ہتے ہو یا سا تھ دینے سے انکا ر کر کے پتھر کے زما نے کی طرف لو ٹنا چا ہتے ہو۔ اس مو قع پر امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ اگر بحران اتنا شدید ہے کہ آپ خود فرما رہے ہیں کہ ملکی تا ریخ میں اس سے شدید تربحران پہلے نہیں آیا تو اس بحران کا سا را بوجھ آپ نے صرف تنہا اپنے کندھوں پر کیوںاُٹھا رکھا ہے؟ اس کا کو ئی جواب جنرل پرویز صا حب سے بن نہیں پایا ۔

اس دورا ن میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جن لوگوں کی سرپرستی کر کے افغا نستا ن میں حکمرانی دلوا ئی تھی‘نہ صر ف ہم ان کی تبا ہی میں شریک ہو ئے بلکہ جب طالبان کی حکومت ختم ہو ئی تودُنیا بھر کے سفا رتی آداب کے خلا ف اسی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کے سفیر براے پاکستان کو امریکی حکو مت کے حوا لے کردیا۔ اگر ملک میں کو ئی آئین ہو تا‘ آئینی ادارے ہو تے‘ ملک کے مفا دات اور مصلحتوں کی نگرا نی میں یہا ں کے چو دہ کروڑ عوام کا بھی کوئی حصہ ہوتا تو یہ بے حمیتی اور   بے مروتی ہماری قو م کے حصے میں نہ آتی۔ جیش محمد اور لشکر طیبہ کے مجا ہدین جنھو ں نے ہرمشکل محا ذ پر پاکستانی افوا ج کا سا تھ دیا ، آج امریکی حکم پر اسی فوجی حکومت کے زیر عتا ب ہیں۔ حافظ محمد سعید اور مولانا مسعود اظہربھا رت کی خوا ہش پر زیر حرا ست ہیں۔

۱۲جنوری کی تقریر میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے جیش محمد اور لشکر طیبہ کے ساتھ سپاہ صحابہ‘ تحریک جعفریہ اور تحریک نفاذ محمدیؐ کو بھی کسی عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر خلاف قانون قرار دے دیا ہے اور ان کے سیکڑوں کارکنوں کو زیرحراست لے لیا ہے۔ ان پر جو الزامات تھے اور ان کے گرفتار شدگان پر جو مقدمات قائم ہیں ان کی سماعت اور عدل کے مطابق فیصلے سے انھیں کس نے روکا تھا؟ ان میں جن افراد نے واقعی جرم کیا ہے قانون‘ ضابطہ اور عدالت اس کے لیے قائم ہیں مگر یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے اندھادھند سبھی کو یوں جیلوں میں ٹھونس دینے کا کیا جواز ہے۔ امریکہ کا سیکرٹری آف اسٹیٹ دہلی جاتے ہوئے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں گرفتار شدگان کی تعداد: ۱۹۷۵ کا اعلان کرے تو یہ سمجھنا کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے تحت کیا جا رہا ہے‘ کوئی غلط بات نہیں۔ انھیں قوم کے آزاد فیصلے نہیں کہا جا سکتا۔

اخبا را ت شذرے لکھ رہے ہیں۔تجزیہ نگار اور کالم نویس لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں۔ اخبا ر کے قا رئین خطو ط لکھ رہے ہیں۔سیا ست دان آل پا رٹیز اجتماعات منعقد کر کے عبو ری قومی حکو مت‘ آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور آزادانہ انتخابات کے مطالبے کررہے ہیں‘ لیکن جنرل پر ویز مشرف صاحب بضد ہیں کہ وہ دستور میں اپنی مرضی کے مطا بق ترمیم بھی کر یں گے‘آیندہ کے لئے صدر بھی رہیں گے‘ سیکو رٹی کو نسل قا ئم کر کے پارلیمنٹ پر ایک با لا دست ادا رہ بھی قا ئم کر یں گے اور اقتدار اس وقت چھو ڑیں گے جب وہ اس پر مطمئن ہو ںگے کہ انھوں نے قوم کو ٹھیک کرنے کا اپنا کا م مکمل کر لیاہے۔

اگر اس صورت حال کے خلاف عوام میں آواز اٹھائی جاتی ہے تو بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور اگر فوج سے کہا جاتا ہے کہ: تمھی نے درد دیا ہے‘ تمھی دوا دینا___ تو کہا جاتا ہے کہ: تم فوج کو جانتے نہیں ہو اور فوج میں اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہو‘ فوج تمھیں سبق سکھا دے گی۔ یعنی وہ مطلق العنان حکمران رہنا چاہتے ہیں اور اپنے ذاتی فیصلوں پر تنقید کو ’’فوج کے خلاف تنقید‘‘ کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب فوج کا حکمران ملک کا چیف ایگزیکٹو اور صدر ہو (جو دونوں سیاسی عہدے ہیں) اور جب وہ فوج کی قوت اور قیادت کو اپنے سیاسی پروگرام کی اصل قوت متحرکہ کے طور پر استعمال کرے تو پھر اسے کیا حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی اقدامات کو عوامی تنقید اور احتساب سے بالا رکھے یا فوج کے بنکر (پختہ مورچے) میں بیٹھ کر اور فوج کی چھتری استعمال کر کے سیاست کرے۔ فوج اور اس کی قیادت کو دستور کے تحت احتساب سے بالا نہ ہوتے ہوئے بھی ایک تحفظ حاصل ہے اور وہ ملکی دفاع کے لیے ضروری ہے لیکن یہ تحفظ صرف اس فوجی قیادت کے لیے ہے جو سیاست میں ملوث نہ ہو۔ جب آپ اس سیفٹی لائن کو پار کر کے سیاست کے سیاہ و سپید کے مالک بن بیٹھے ہیں تو پھر آپ میں تنقید اور احتساب کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ ہم تو ہمیشہ سے اس کے قائل ہیں کہ فوج کا اصل کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے مگر اسے سیاست میں کھینچ کر متنازع بنایا جا رہا ہے جس کی ذمہ داری ان پر ہے جو فوج کو اس کی دستوری ذمہ داریوں سے ماورا استعمال کر رہے ہیں۔

اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے جمہوری طریقہ کار یہی ہے کہ سیاست دان مل کر عوامی حقوق اور دستور کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں اور جو مطالبات آل پارٹیز کانفرنس نے طے کیے ہیں ان کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔ لیکن بدقسمتی سے سیاست دانوں نے خرابیِ بسیار کے باوجود بھی سبق نہیں سیکھا۔ ان میں سے کچھ لوگ تو شریک اقتدار ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کے لیے وہ آسان راستہ یہی سمجھتے ہیں کہ جنرل مشرف صاحب کا قرب حاصل کیا جائے اور ان کی بے جا حمایت کی جائے۔جن لوگوں کو کوشش کے باوجود جنرل صاحب کا قرب نہیں ملتا اور وہ جنرل صاحب سے مایوس ہوگئے ہیں وہ بھی دینی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے سے گریزاں ہیں کہ اس طرح امریکہ ناراض ہو جائے گا اور وہ اقتدار سے اور دُور ہو جائیں گے۔ جان لینا چاہیے امریکہ اور فوج کی رضامندی حاصل کر کے جو حکومت بنے گی وہ پچھلی حکومتوں کا تسلسل ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکے گی‘ جبکہ ہمارے ملک میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

بحران سے نکلنے کا راستہ

ہمارا سول انتظامی ڈھانچا‘ معاشی نظام ‘ عدالتی نظام اور افواج پاکستان کا نظم برطانوی استعمار کے تربیت یافتہ گروہ کے ہاتھ سے نکل نہیں سکے ہیں۔ ملک میں ایک طرف غربت ہے اور ۳۰ فی صد سے زیادہ آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یعنی مکمل غذا‘ علاج‘ تعلیم اور رہایش کی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ ایک کم تعداد لوگوں کی ایسی بھی ہے جو ملکی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک جمع کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعدادبڑے سول اور ملٹری بیورو کریٹس کی ہے۔ کرپشن کے خلاف ایک مسلسل تحریک کے نتیجے میں بے نظیر اور نوازشریف کی حکومتیں ختم ہوئیں اور اسی تحریک کے کندھوں پر سوار ہو کر جنرل پرویز صاحب برسرِاقتدار آئے‘ لیکن کرپشن کے خلاف احتساب کو بلیک میلنگ اور سیاسی سودے بازی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ یہی پہلے ہوا اور یہی آج ہو رہا ہے۔ جو سیاست دان جنرل صاحب کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائے وہ ہر طرح کی بدعنوانی کے الزام سے پاک و صاف ہو کر ہم خیال بن جاتا ہے اور جو ہم خیال بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس پر کوئی بھی الزام نہ لگ سکے‘ پھر بھی پابجولاں ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنے لوگ بھی ایسے مل سکیں جو امریکہ یا پرویز مشرف صاحب کی طرف دیکھنے کے بجائے عوام کو ساتھ ملا کر معاشرے کو ایک حقیقی اسلامی جمہوری عادلانہ رنگ میں رنگنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہوں‘ وہ متحد ہو کر آگے بڑھیں اور عوام الناس کو ساتھ لے کر ان مطالبات کے لیے تحریک چلائیں‘ جس پر ملک کی تمام بڑی جماعتیں متفق ہیں‘ یعنی:

  • دستور کی بحالی اور قومی عبوری حکومت کا قیام
  •  آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام
  •  دستور کا تحفظ اور غیر دستوری راستوں سے دستوری ترامیم کی مزاحمت
  •  پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں سے بالاتر کسی سیکورٹی کونسل کا کوئی جواز نہیں۔

ملک کے موجودہ بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اوروہ مندرجہ بالا خطوط پر آزادانہ انتخابات کا انعقاد اور جمہوری عمل کے ذریعے ایک خدا ترس‘ عوام دوست ‘ لائق اور امین قیادت کو زمام کار سونپنا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی اپنی افواج اور ان کی قیادت سے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ وہ پوری حکمت اور دانش مندی کے ساتھ اور کسی تاخیر کے بغیر وہ راستہ اختیار کریں گے‘ جس کے نتیجے میں ملک کا دستور‘ جو اسلام‘ جمہوریت اور اصول وفاق پر مبنی ہے‘ اپنی اصل روح کے مطابق موثر رہ سکے۔ مرکزی مجلس شوریٰ نے واضح الفاظ میں قوم اور قیادت سے کہا تھا:

’’جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ اپنے اس اصولی موقف کا اظہار ضروری سمجھتی ہے کہ ملک ماضی میں مارشل لا کے متعدد تجربات کر چکا ہے اور ہمارے مسائل کا حل مارشل لا نہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ آزمائی ہوئی اور کرپٹ سیاسی قیادتوں کے درمیان محض چہرے بدلنے سے ہم مسائل کی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے‘ جس میں ان مفاد پرست سیاسی بازی گروں نے ملک و ملّت کو دھنسا دیا ہے۔ اسی طرح محض ایسے ٹیکنوکریٹ بھی‘ جن کو عوام کی تائید حاصل نہ ہو اور جو ان کے سامنے جواب دہ نہ ہوں‘ صحیح قیادت فراہم نہیں کر سکتے۔ نیز فوجی قیادت کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ماضی کے دونوں حکمران یعنی بھٹو فیملی اور شریف فیملی جنھوں نے فسطائیت اور کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے‘ مارشل لا ادوار ہی کی پیداوار تھے اور اگر ایسے ہی کچھ لوگ ایک بار پھر آگے آتے ہیں تو نتائج اور عوامی ردّعمل ماضی سے مختلف نہیں ہو سکتا‘‘۔

جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ تجزیہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا ہے۔ افسوس کہ جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب بھی اصلاح کا ایک ہی راستہ ہے اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے حالیہ اجلاس (۷ تا ۹ جنوری ۲۰۰۲ء) میں  ایک بار پھر بہت واضح الفاظ میں ملک کو خطرات اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے دستور کے تحفظ‘ انتخابی عمل کے آغاز‘ معتمدعلیہ حکومت کے قیام اور دستور کے مطابق اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور فیڈریشن کے اصول پر ایک منصفانہ معاشرہ اور جمہوری سیاسی نظام کے قیام کی دعوت دی ہے۔ اس سلسلے میں شوریٰ نے جو مطالبات کیے ہیں‘ ان میں سے چند یہ ہیں:

    ۱-  حکومت پاکستان بیرونی دبائو میں آکر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کی ناپاک سازش میں شرکت سے گریز کرے۔ پاکستان کے آئین اور تحریک پاکستان کے مقاصد اور وعدوں کے مطابق اسے حقیقی معنوں میں ایک مثالی اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔

    ۲-  ۱۹۷۳ء کے متفقہ آئین کو بحال کیا جائے۔ حکومت کو اس میں ترمیم کرنے کا سرے سے کوئی اختیار حاصل نہیں اور کسی عدالت کو بھی اسے یہ اختیار عنایت کرنے کا حق نہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا اقدام ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا دستور میں بیان کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی دستوری ترمیم کرنے سے اجتناب کیا جائے اور جمہوری اداروں پر بالادست کوئی ادارہ کسی بھی نام سے نہ بنایا جائے۔

    ۳- حکومت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوںکے انتخابات کرانے کا عمل بلاتاخیر شروع کرے۔ یہ انتخابات آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے مطابق متناسب نمایندگی کے اصول پر شفاف‘ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہوں۔ سیاسی اور دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بلاتاخیراہل‘ دیانت دار اور قابل قبول افراد پر مشتمل ایک آزاد اور کلیتاً خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔ نیز صدر کا انتخاب بھی آئین میں درج طریق کار کے مطابق کرایا جائے۔

    ۴- انتخابات ایک ایسی عبوری سول حکومت کے تحت کرائے جائیں جو دیانت دار‘ امانت دار اور اہل افراد پر مشتمل ہو اور اس میں شریک افراد خود انتخابات میں حصہ نہ لیں۔

     ۵- سیاسی اور دینی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں۔ عوام کے بنیادی حقوق بحال کیے جائیں۔ جماعتوں کو طے شدہ اصولوں کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ قاضی حسین احمد‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی راہنمائوں کو رہا کیا جائے۔

     ۶-  مسئلہ کشمیر کے بارے میں حکومت شکوک و شبہات کا ازالہ کرے اور اس بات کا کھل کر اعلان کرے کہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت ہمارا فرض ہے اور بھارت اپنی سات لاکھ جارح فوج کو فی الفور واپس بلائے جو برسوں سے دہشت گردی میں ملوث ہے۔

    ۷-  افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی فوجیوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا جائے اور جو ہوائی اڈے اور دوسری سہولتیں ان کو دی گئی ہیں وہ واپس لی جائیں۔ امریکہ میں جن پاکستانیوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان کی فوری رہائی کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ نیز جو پاکستانی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی واپسی کا اہتمام کیا جائے۔

     ۸- بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو تیار کیا جائے اور معذرت خواہانہ رویہ اور اس کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ بھارت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی فوجیں اور جنگی سازوسامان سرحدوں سے پیچھے ہٹائے۔

مجلس شوریٰ کے اس اجلاس نے واشگاف الفاظ میں اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کسی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم اپنے اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوگی۔ قوم کا بچہ بچہ افواج کے شانہ بشانہ دشمن کا مقابلہ کرے گا اور دشمن کو عبرت ناک شکست دے گا‘ ان شاء اللہ!

نیز مجلس شوریٰ نے ملک کی تمام محب وطن سیاسی اور دینی جماعتوں سے بھی ملکی سالمیت‘ بقا اور اسلامی نظام کے قیام اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی مشاورت اور تعاون کی اپیل کی ہے تاکہ ملک کو خطرات سے بچا کر ایک مرتبہ پھر جمہوری پٹڑی پر ڈالا جاسکے تاکہ پاکستان اقبال ؒ اور قائداعظمؒ کے خواب اور تحریک پاکستان کے مقاصد کے مطابق حقیقی معنوں میں ایک فلاحی‘ جمہوری اسلامی مملکت بن سکے۔


پاکستان کے معاشی‘ سیاسی ‘ اخلاق اور نظریاتی مستقبل کا انحصار صحیح جمہوری نظام کے قیام پر ہے لہٰذا جو بھی اس ملک کا حقیقی بہی خواہ ہے اسے اس کو ملک کو قبرستان بنا کر اس پر آمریت مسلط کرنے کی کوشش ترک کر دینی چاہیے۔ کسی کو بھی جمہوری عمل کے احیا کا راستہ نہیں روکنا چاہیے اور جلد از جلد جمہوری اور دستوری عمل کی بحالی کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔

عوامی قیادت کو عوام تک پہنچنے کے راستے کھول دینے چاہییں اور اداروں کے ذریعے مصنوعی قیادت تیار کرنے کا تجربہ کرنے کے بجاے فطری سیاسی قیادت پر پابندیاں ختم کر دینی چاہییں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ تمام محب وطن دینی اور سیاسی قوتوں کے تعاون اور اشتراک سے وہ اجتماعی جدوجہد قوت پکڑے گی جس کے نتیجے میں قوم اپنی منزل کو حاصل کر سکے گی۔

یہ عوامی جدوجہد ایک جمہوری اور نظریاتی تحریک ہے جو تعمیر اور اصلاح کی داعی ہے۔ یہ کسی طرح بھی فوج کے خلاف نہیں۔ بلکہ یہ افواج پاکستان کے استحکام اور قوت کا باعث بنے گی۔ جو اضافی بوجھ افواج پاکستان پر ڈالا گیا ہے اس سے انھیں نجات ملے گی اور افواج پاکستان اپنے اصل کام کی طرف توجہ دے سکیں گی۔ قوم جب بیدار اور متحد ہو تو اس کے تمام ادارے مستحکم ہوتے ہیں اور پوری قوم کے لیے باعث فخر ہوتے ہیں۔ ایک اچھا فوجی اپنی قوم کے منتخب نمایندوں اور اپنے ملک کے دستور‘ قانون اور ضابطوں کی پابندی کی فکر کرتا ہے۔ یہ اصرار کرنا کہ پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں کے بجائے فوجی افسران قوم کو آئین اور ضابطے عطا کریں گے ‘ بے جا اصرار ہے۔ افراد آتے جاتے ہیں لیکن قومی روایات اور مشترک اقدار مستقل اور دیرپا حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی ٹیم پاکستان کے متفقہ دستور کے سامنے جھک جائیں تو اس سے وہ سرخرو اور سرفراز ہوں گے اور اسے ان کی عالی ظرفی سمجھا جائے گا۔ اس سے کسی طرح بھی ان کی سبکی نہیں ہوگی۔ جنرل پرویز مشرف صاحب ان تجاویز اور مطالبات پیش کرنے والوں کو فوج میں اختلاف ڈالنے کاالزام نہ دیں بلکہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھیںاور ملک و قوم کو اس وقت جو مشکلات درپیش ہیں‘ وہ دوسروں کو بھی ان مشکلات کا حل پیش کرنے کا حق دار سمجھیں۔

اگرچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ملک کو زیادہ نقصان سیاست دانوں نے پہنچایا ہے یا سول اور ملٹری بیورو کریٹس نے‘ لیکن پاکستان کی تایخ سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا اور بار بار کی مداخلت سے فوج نے سیاسی عمل کو روکا ہے اور اپنی پسند کی قیادت کی پرورش کی ہے جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے بجائے بیرونی سرپرستی اور فوج کی سرپرستی پر تکیہ کرنے لگی ہیں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک سیاسی انتشار اور فساد پھیل گیا ہے۔ اس بیماری کا مداوا عوام کی طرف رجوع کرنے اور دستوری نظام کو بحال اور متحرک کرنے میں ہے۔ جمہوریت میں جو بھی خامیاں ہوں لیکن جمہوریت کی خامیوں کا علاج جمہوری عمل ہی کے ذریعے ہوتا ہے‘ بادشاہت یا آمریت کے ذریعے نہیں۔ یہ جمہوریت کی خامیوں سے بھی بڑی بلا ہے جس سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنا وقت کی بڑی ضرورت ہے اور یہ ضرورت تقاضا کر رہی ہے کہ محب وطن سیاسی کارکن‘ عوام الناس کو بیداری کی ایک ملک گیر جدوجہد کے لیے تیار کریں تاکہ عام انتخابات جلد از جلد منعقد ہوں اور ایک ایسی قیادت اُبھرے جس کے ہاتھوں ہمارے قومی دکھوں کا مداوا ہو سکے۔