پروفیسر خورشید احمد


افراد کی کامیابی اور ناکامی‘ فوجوں کی فتح و شکست‘ قوموں کے عروج و زوال‘ حکومتوں کے بنائو اور بگاڑ اور تہذیبوں کے غلبے اور پسپائی کے کچھ اٹل ‘طبعی اور اخلاقی قوانین ہیں جن کی کارفرمائی زندگی کے ہر میدان اور تاریخ کے ہر دور میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کی نگاہیں صرف طبعی عوامل پر مرکوز ہوتی ہیں لیکن بالآخرطبعی عوامل کی تنگ دامانی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ کچھ دوسرے افراد صرف اخلاقی عوامل کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بھی تصویر کا صرف ایک رخ دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک طبعی اور اخلاقی دونوں عوامل کا مکمل اور مربوط ادراک نہ ہو حقیقت پر پوری گرفت ممکن نہیں___ اسی طرح حالات کا ہر وہ تجزیہ نامکمل ہوگا جو صرف فوری عوامل اور اثرات تک محدود ہو اور جس میں نہ حقیقی اسباب کا صحیح ادراک ہو اور نہ مستقل اور دیرپا نتائج کا شعور۔ افغانستان میں بہ ظاہر امریکہ کو فوجی کامیابی حاصل  ہوئی ہے لیکن فی الحقیقت اسے تاریخ کی بدترین اخلاقی شکست ہوئی ہے۔ طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی ہے اور ان کی بے سروسامانی‘ سیاسی تدبر کی کمی اور عسکری حکمت عملی کی خامیاں تو بیان کی جا سکتی ہیں لیکن اپنے اصول اور روایات کی پاس داری کے باب میں ان کی اخلاقی برتری سے انکار ناممکن ہے۔

افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوج کشی کا پہلا مرحلہ اب مکمل ہوا چاہتا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے جس طوفان کو جنم دیا تھا اور جس نے ۷ اکتوبر کو افغانستان کو اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے لیا تھا وہ ایک غریب‘ تباہ شدہ اور بدنصیب مگر غیرت مند ملک کو تقسیم کرنے کے بعد اپنی کامیابی کے شادیانے بجاتے ہوئے نئے سے نئے شکاروں کی تلاش میں کروٹیں لے رہا ہے۔ طالبان کی حکومت کو ختم کر کے امریکہ نے بون مذاکرات کے ذریعے ایک نیا سیاسی بندوبست قائم کر دیا ہے جسے وہ اپنے نقشے کے مطابق تصور کرتا ہے اور اسے اپنے اور اپنے اتحادیوں کی عسکری قوت کے سایے میں مستحکم کرنے کی اُمید رکھتا ہے۔ طالبان کی قوت بہ ظاہر منتشر ہو گئی ہے‘ اسامہ بن لادن ابھی تک عسکری اور سیاسی غلبہ پانے والوں کی گرفت سے باہر ہیں لیکن ان کی القاعدہ تنظیم کے کچھ مجاہد خاک و خون میں لوٹ چکے ہیں اور دربدر ہیں۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جنرل کولن پاول فخر سے اعلان کر رہے ہیں کہ: ہم نے افغانستان میں القاعدہ کو تباہ کر دیا ہے اور دہشت گرد سرگرمیوں کی پناہ گاہ کی حیثیت سے افغانستان کے کردار کو ختم کر دیا ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘(آئی ایچ ٹی)‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔ امریکی سیکرٹری دفاع خود اپنے تباہ کردہ کابل پر شاہانہ نزول کے موقع پر نہ صرف فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کا افغانستان سے صفایا کر دیا ہے اور ان کو پناہ دینے والی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے بلکہ اس عزم کا اظہار بھی فرما رہے ہیں کہ نئی افغان حکومت آیندہ بھی ان کے عزائم میں شریک کار رہے گی: ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور میں یہ یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ ہماری سوچ ایک ہی ہے۔ (دی گارڈین‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔  اور امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈالیزا رائس دوسرے شکاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں: کوئی بھی یہاں قبل از وقت فتح کا اعلان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور فتح صرف اسی وقت حاصل ہوگی جب ساری دنیا میں القاعدہ کا جال توڑ دیا جائے گا۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)

گویا ایک مرحلہ پورا ہو گیا‘ آگے کے مرحلوں کا انتظار کرو--- یہ ہے ۱۱ ستمبر کو اٹھنے والے طوفان کی آج تک کی خبر۔ لیکن اس مرحلے پر جب اب تک کے اقدامات کا اس پہلو سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ امریکہ‘ عالمی برادری اور افغانستان اور خود ۱۱ ستمبر کے ذمہ داروںنے اس سارے خونی عمل سے کیا پایا اور کیا کھویا___ تاکہ آگے کے اقدامات سے پہلے‘ اگر غوروفکر اور تحلیلی تجزیے کا کوئی کردار ہے تو اسے پالیسی سازی کے لیے مفید مطلب بنایا جا سکے۔ دنیا کی اقوام اور لوگ محض جذبات کی رو میں آگے بڑھتے نہ چلے جائیں بلکہ رک کر تھوڑا سا جائزہ بھی لے لیں اور انسانیت کو بگاڑ کے مقابلے میں بنائواور بہتری کی طرف لے جانے کی فکر کر سکیں۔ وہ کم از کم آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہی تیار ہو جائیں کہ خطرے کی خبر بھی خطرے سے بچنے اورپیش بندی کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔

۱۱ ستمبر کے واقعات کا جو بھی ذمہ دار ہے (اور سارے خون خرابے کے باوجود دنیا ابھی تک شبہات کی دھند سے باہر نہیں آ سکی) اس نے عالمی سطح پر ایسے حالات کو پیدا ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے جن کے نتیجے میں سیاست کا نقشہ بدل گیا ہے یا صحیح تر الفاظ میں: جس طرف مقتدر قوتیں اسے لے جانا چاہتی تھیں وہ ممکن ہو گیا ہے۔ اسی طرح طالبان کے فیصلوں پر بھی مدتوں بحث و گفتگو ہوگی کہ وہ اگر ایسا کرتے تو کیا ہوتا اور ایسا نہ کرتے تو کیا ہو سکتا تھا۔ آج تو صرف ان میں کیڑے نکالنے ہی کی خدمت انجام دی جارہی ہے اور ہر برائی ان کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے۔ لیکن ان کے سات سالہ دور حیات اور پانچ سالہ دور اقتدار کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں جن کے بارے میں تاریخ کا قاضی اپنا بے لاگ فیصلہ ایک نہ ایک دن ضرور دے گا۔ بظاہر وہ آندھی کی طرح اٹھے اور دو سال میں افغانستان کے ۹۰ فی صد علاقے پر بڑے پیمانے کی جنگ و جدل کے بغیر چھا گئے۔ ۲۰۰۱ء کے آخری تین مہینوں میں دنیا کی سب سے طاقت ور سوپر پاور کی یلغار اور اپنوں کے دبائو (جنھوں نے ہوا کا رُخ دیکھ کر آنکھیں پھیر لیں) کے مقابلے میں ان کی مزاحمت دم توڑ گئی ___کچھ حلقوں میں ا ن کی اصول پرستی اور قبائلی روایات کی پاس داری کی باتیں ہوں گی تو کچھ کی نگاہ میں ان کی سیاسی ناپختگی اور عسکری بے تدبیری کی‘ بلکہ وہ اپنی تباہی کو خود دعوت دینے کے مرتکب بھی قرار پائیں گے۔ افغانستان کے تباہ شدہ کھنڈرات‘ بے یارومددگار لاشوں کے انبار اور بے گھر خاندانوں کے قافلے اپنی اپنی داستانیں سناتے رہیںگے جب کہ سوچنے والے سوچتے رہیں گے اور غم کرنے والے نوحہ کناں رہیں گے کہ:

غزالاں تم تو واقف ہو‘کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا‘ آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

اگر طالبان محض ایک حکومت تھے تووہ ختم ہو گئے اور اگروہ فی الحقیقت ایک تحریک تھے تو تحریکیں محض سیاسی نشیب و فراز سے ختم نہیں ہوتیں۔ خود احتسابی کی یہاں بھی ضرورت ہے اور تاریخ ہر کسی کا احتساب برابر کرتی رہے گی۔ نئی حکومت کو بھی اپنے احتساب سے غافل نہیں ہونا چاہیے‘ نہ وہ انتظام ابدی تھا نہ یہ بندوبست مستقل ہو سکتا ہے: ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ جس نوعیت کی کش مکش میں آج افغانستان بلکہ پوری امت مسلمہ مبتلا ہے اس میںوقتی تبدیلیاں اور فتح و شکست فیصلہ کن بھی ہو سکتی ہیںاور گمراہ کن بھی! جو بازی آج کھیلی جا رہی ہے اس کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ

کبھی جیت کر نہ جیتی‘ کبھی ہار کر نہ ہاری

اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ نیویارک‘ واشنگٹن‘ مزار شریف‘ کابل‘ قندھار اور تورا بورا ہی تک نگاہ کو محدود یا مرکوزنہ رکھیں بلکہ پورے عالمی تناظر میں نگاہ ڈالیں ۔گویا انگریزی محاورے میںصرف درخت ہی نہیں اس جنگل پر بھی نظر رکھیں جس کے یہ شجر صرف چند ہی شریک کار ہیں یعنی Seeing the wood and not merely some of the trees ۔ اس جوار بھاٹے کی آغوش سے جو افغانستان سیاسی نقشے پر ابھرنے والا ہے‘ اور جن حالات کی طرف اسلامی دنیا ہی نہیں ‘ تیسری دنیا ‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں پوری دنیا کشاں کشاں بڑھ رہی ہے‘ اس کے ادراک کی ضرورت ہے۔ یہ حالات دنیا بھر کے امن پسند اور انصاف کے طالب انسانوں کے لیے ایک گراں قدر لمحہ فکریہ فراہم کررہے ہیں___ اور مسلمان ممالک اور اسلامی قوتوں کے لیے تو یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔

نئے استعمار کی پیش رفت

۱۱ ستمبر کے بارے میں ایک جملہ میڈیا سے لے کر سیاسی قائدین اور کالم نگاروں تک سب ہی کی زبان اور نوک قلم پر گردش کر رہا ہے: ’’اس دن کے بعد دنیا بدل گئی اور زمانہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا‘‘۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہی جملہ اس سے پہلے بھی بہت سے تاریخی لمحات کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں دیوار برلن کے انہدام پر‘ ۱۹۷۹ء میں انقلاب ایران کے موقع پر‘ ۱۹۱۷ء میں انقلاب روس کے غلغلے پر اور خصوصیت سے ۱۷۸۹ء کے انقلاب فرانس کے تاریخی لمحات کے بارے میں کثرت سے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انقلاب فرانس کے دو سوسال بعد چین کے دانش ور وزیراعظم چواین لائی نے برملا کہا تھا کہ انقلاب فرانس کے بارے میں ابھی یہ اظہار رائے ذرا قبل ازوقت ہی ہے! ابھی اور انتظار کرو۔ اس لیے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بارے میں تو پتا نہیں ابھی کتنے انتظار کی ضرورت ہوگی___ لیکن کچھ پہلو ایسے ہیں جن پر فوری غوروفکر اور بحث و گفتگو کی ضرورت ہے ۔

۱-  اس واقعے کے بعد جس طرح صدر جارج بش نے امریکہ میں لام بندی کی ہے‘ جذبات کو ایک خاص انداز میںا بھارا ہے اور دہشت گردی کے خلاف عالم گیر جنگ کی نفیر دی ہے‘ اس کا سب سے زیادہ فائدہ خود جارج بش کی ذات کو پہنچا ہے۔ ان کی صدارت جس طرح وجودمیں آئی‘ وہ اخلاقی اور ایک حد تک قانونی جوازسے محروم تھی۔ چار ارب ڈالر کی انتخابی مہم کے بعد بھی عام ووٹوں کی حد تک ان کو اپنے مدمقابل سے پانچ لاکھ ووٹ کم ملے تھے۔ انتخابی کالج کے سہارے فلوریڈا کی ریاست کے ووٹوں پر‘ جہاں خود ان کے بھائی گورنر تھے‘ ان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار تھا۔ لیکن اس ریاست میں ووٹوں کی گنتی وجہ نزاع بن گئی۔ پھر تقریباً چھ ہفتے پر پھیلی ہوئی سیاسی اور عدالتی جنگ کا آغاز ہو گیا جس کے بارے میں بہت سی کہانیاں سامنے آئیںاور تیسری دنیا کے ممالک میں ہونے والے بہت سے کرتب اور معجزے امریکہ کی ترقی یافتہ جمہوریت کی قسمت کا فیصلہ کرتے نظر آنے لگے۔ بالآخر عدالت عالیہ کے ایک ووٹ کے سہارے ان کو صدارت مل گئی۔ یہ عدالت بھی ججوں میں اس طرح تقسیم تھی کہ ایک پارٹی کے دور کے نامزد جج ایک طرف اور دوسری پارٹی کے نامزد دوسری طرف۔ نتیجتاً صدر بش کی صدارت حلف صدارت کے باوجود حقیقی سندجواز کی تلاش میں تھی۔

۱۱ ستمبر نے وہ نادر موقع فراہم کر دیا اور چند گھنٹے زیرزمین اور چند گھنٹے آسمان کی فضائوں میں حفاظت کی تلاش کے بعد وہ واشنگٹن پر نازل ہوئے اور قوم کے جذبات کو ایک نئی جنگ کے لیے متحرک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ۲۰ ستمبر کو دونوں ایوانوںکے خطاب نے ان کو ایک نئے فراز سے نوازااور جسے نصف سے کم ووٹوں کے نصف سے بھی کم کی تائید حاصل تھی وہ ۸۲ فی صد کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس تائیدی لہر پر دنیا بھر کو اپنے جھنڈے تلے لانے اور افغانستان پر حملہ کر کے قوم کے جوش انتقام کو سرد کرنے میں مصروف ہو گیا۔ان کے گرد عقابوں (hawks)کا دائرہ مضبوط تر ہوتا گیا اور ایک جرأت مند اور جنگجو صدر بلکہ فاتح صدر کی حیثیت سے ان کا سر بلند ہو گیا۔ ۱۱ ستمبر کے پیچھے جو ناکامیاں اور خصوصیت سے سیاسی اور خفیہ ایجنسیوںکی کوتاہیاں تھیں‘ ان سب پر پردہ پڑ گیا اور دنیا کے سب سے کمزور اور پس ماندہ ملک افغانستان‘ ایک فرد واحد (اسامہ بن لادن) اور اس کے چند سو یا چند ہزار ساتھیوں پردنیا کی واحد سوپر پاور نے اپنی تمام عسکری‘ تکنیکی‘ عددی‘ معاشی اور ابلاغی (media)قوت کے ساتھ حملہ کیا اور دو چار دن نہیں پورے دو مہینے میں اسے مغلوب کر دینے کا ’’تاریخی کارنامہ‘‘ انجام دیا۔ گویا مرے کو مارے شاہ مدار! اس ’’عظیم فتح ‘‘نے ماضی کی تمام ہزیمتوں کو دھو ڈالا اور امریکہ اور اس کے صدر کے لیے کامیابیوں اور عالمی بالادستی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ یہ ہے وہ شے جسے American triumphalism  (فتح ہمیشہ امریکہ کی)کہا جا رہا ہے اور سوپر پاور خوشی اور فخر سے جامے میں پھولی نہیں  سما رہی !

۲-  ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی تباہی سے جس ضرب پذیری کا اظہار ہوا تھا اس طرح اس کا تدارک بھی ہو گیا۔ گویا کمزوری اور زخم خوردگی کا احساس ختم ہوا اور امریکی قوت کا دبدبہ ایک بار پھر قائم ہوگیا۔پھر اس میںتین پہلو ایسے مزید سامنے آئے جن کی وجہ سے امریکہ کو بلاشرکت غیرے دنیا کی بالاترین قوت ہونے اور اپنی اس حیثیت کو ثابت کرنے کا موقع مل گیا۔ اولاً: دوسرے ۴۰‘۵۰ ملکوں کا     طوعاً وکرہاً امریکہ کے اشارے پر صف بند ہو جانا‘ ثانیاً: افغانستان کی جنگ میںایسی ٹکنالوجی کا استعمال جس نے فنی اعتبار سے امریکہ کو‘ افغانستان تو بے چارہ کس شمار قطار میں تھا‘ یورپ اور امریکہ کے ممالک کے مقابلے میں بھی ان سے انچوں نہیں گزوں بلند ہونے کے مظاہرے کا موقع مل گیا۔ لڑاکا طیارے ہوں یا جاسوسی کا نظام‘ بم ہوں یا جنگ کا دوسرا اسلحہ‘ ہر باب میں امریکہ نے گذشتہ دس سال میں جو غیر معمولی ترقی کی تھی اس کا بھرپور اظہار ہوا ۔ معلوم ہوا کہ افغانستان کی جنگ فلوریڈا سے بیٹھ کر لڑی جا سکتی ہے اور ایک ایک غار اور ایک ایک نشانے پر مار کرنے کا حکم آٹھ ہزار میل دُور سے دیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل ایک دوسری ہی قسم کی جنگ تھی جس نے روایتی جنگ کے سارے طور طریقے بدل کر رکھ دیے۔ اب نہ مدمقابل سے لڑنے کی ضرورت ہے‘ نہ زمینی فوجوں کی حاجت ہے۔ بس فضا سے آگ برساتے رہو اور مقابل قوت کو پارہ پارہ کر دو۔ دو دو ہاتھ کرنے کا جن کو شوق ہو‘ وہ شوق دھرے کا دھرا رہ جائے۔ حتیٰ کہ اگرجیل میں قیدیوں کو بھی زیر کرنا ہو تو اس کے لیے بھی آسمان ہی سے آگ برسائی جا سکے۔ انسانوں کے بغیر مشینوں کے ذریعے ساراکام لیا جائے‘ معلومات کا بھی اور بم برسانے کا بھی۔ اس سے جنگ کی پوری بساط ہی بدل جاتی ہے۔اب اس میدان میں بہ ظاہر امریکہ کا کوئی حریف نظر نہیں آ رہا۔ اس سے تیسرا پہلو  یہ ابھرا کہ اب لڑائی حملہ آور قوت کے لیے انسانی جانوں کی قربانی دیے بغیر فتح کا پیغام لا سکتی ہے۔ ساری جانی قربانی مقابل فریق کو دینی ہوتی ہے۔ جنگ بھی بڑی حد تک یک طرفہ ہوگی۔ اس طرح امریکہ کو صرف فوجی اور سیاسی فتح ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ فنی مہارت اور ٹکنالوجی کی بالادستی کا وہ مقام بھی حاصل ہو گیا جس نے اسے ایک بار پھر ناقابل تسخیر (invincible) ہونے کے زعم اور اعتماد سے نواز دیا۔

۳-  امریکہ نے دوسروں کو ساتھ رکھنے کا محض تکلف کیا ‘جب کہ دراصل یہ سارا کھیل امریکہ اور صرف امریکہ کا مرہون منت تھا۔ اولین فیصلہ بھی امریکہ نے تن تنہا کیا اور ساری سیاسی اور عسکری مہم بھی عملاً اس طرح چلائی کہ سب کچھ اس کے اشارہ چشم و آبرو کا کرشمہ تھا۔ ایسے نازک لمحات بھی آئے جب برطانیہ کو بھی جو ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کا کردار ادا کر رہا تھا‘ بار بار جھینپ کر قدم پیچھے ہٹانے پڑے اور فوجوں کو میدان میں اترنے کی ہدایات دے کر واپس بلانا پڑا۔ یہی کیفیت بون کے سیاسی مذاکرات کی میز پر بھی رہی اور یہی رنگ ڈھنگ کارزار جنگ کا تھا کہ نئے وزیراعظم کو امان دینے کے بعد امان تک واپس لینا پڑی۔ یوں ایک ہی ملک اور ایک ہی روایت کے دو کردار سامنے آ گئے‘ ایک نے امان کی خاطر ملک دے دیا اور دوسرے نے ملک کی خاطر امان کی فکر نہ کی۔ ایک امریکی سیاسی تبصرہ نگار چارلس کروتھامیر (Charles Kreuthammer) نے جو واشنگٹن پوسٹ میں مسلسل لکھتاہے امریکہ کے اس ’انا ولاغیری‘ والے کردار کی بڑے طمطراق سے عکاسی کی ہے۔ وہ آنے والے ۵۰ برسوں میں دنیا کی جو خاصی واضح تصویر دیکھ رہا ہے‘ ہمارے سامنے لاتا ہے: ایک ایسی دنیا جس میں کسی ملک کے شہریوں کو‘ سوائے امریکہ کے‘ جوہری حملوں یا ماحولیاتی نقصان سے تحفظ حاصل نہ ہو‘ ایک ایسی دنیا جہاں اگر نتائج امریکی مفادات کے خلاف ہوں تو جمہوریت کوئی معنی نہیں رکھتی‘ ایک ایسی دنیا جس میںان مفادات سے اختلاف کا اظہار دہشت گردی کا ٹھپا لگا دے ‘ اور نگرانی‘ ظلم و جبر اور ہلاکت کا جواز فراہم کرے۔ America  Rules OK)  دی گارڈین ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)

۴-  اس ذہنی فضا کو پیدا کرنے میں امریکی میڈیا نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور سیاسی قیادت اور میڈیا دونوں نے حب الوطنی کے جذبے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شدید جذباتی فضا پورے ملک میں قائم کی گئی ہے۔ دستور‘ قانون‘ اخلاق‘ انصاف ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور سیاسی اختلاف کو غداری کا نام دیا گیا ہے۔ میڈیا نے افغان جنگ کے صرف وہ مناظر دکھائے ہیں جن سے امریکی فتح کی نوید ملتی ہے۔ جو ظلم وہاں کے عوام پر ہوا ہے اور جس طرح ملک کو تباہ اور معصوم انسانوں کو ہلاک کیا گیا ہے ان مناظر کو پالیسی کے طور پر بلیک آئوٹ کیا گیا ہے حتیٰ کہ قلعہ جھنگی میں زیرحراست سیکڑوں انسانوں پر بم باری اور ان کے قتل عام کی ایک جھلک بھی ٹی وی اسکرین پر نہیں آنے دی گئی ہے۔امریکہ میں راے عامہ کو سیاسی مصالح کا قیدی بنا کر جمہوریت کے اس کرب ناک پہلو پر سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے۔ ملک کو جس تقلید بالجبر (conformism) کی طرف لے جایا جا رہا ہے اور جسے عوامی تائید کا نام دیا جا رہا ہے وہ دراصل ایک مصنوعی اور سوچے سمجھے انداز میں راے عامہ کی تشکیل کا کارنامہ ہے جسے چومسکی نے manufactured consent (ساختہ رضامندی) کا نام د یا ہے۔ اس پر خود امریکہ کے لوگ اب دل گرفتہ اور نوحہ کناں ہیں۔

۵-  امریکی قیادت نے ایک اور کامیابی بھی گھریلو محاذ پر حاصل کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو قانون سازی معرض التوا میں پڑی ہوئی تھی‘ خصوصیت سے دفاعی بجٹ کے سلسلے میں‘ وہ چشم زدن میں دونوںایوانوں سے منظور کرائی جاسکی ہے۔ بجٹ میں دفاع اور انٹیلی جنس کے لیے علی الترتیب اصل مطالبہ زر سے ۵۰ اور ۲۰ ملین ڈالر زیادہ حاصل کر لیے گئے ہیں۔ قومی دفاعی چھتری کا جو منصوبہ ڈانواںڈول تھا وہ بھی منظور کرا لیا گیا ہے۔ اے بی ایم کے جس عالمی معاہدے سے نکلنے کے لیے پر تولے جا رہے تھے‘ ان کو بھی عملی جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ توانائی کے باب میں اس کی صنعت کے جو مطالبات تھے وہ بھی پورے ہو گئے ہیں اور ان کے بارے میں ساری مخالفت پادر ہوا ہوگئی ہے۔ تیل کی کمپنی Eron جس سے بش فیملی‘ ڈک چینی (نائب صدر) اور حکمران گروہ کے نصف درجن افراد وابستہ رہے ہیں وہ ملک کو ۷۰ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا کر دیوالیہ ہو گئی لیکن کوئی شدید ردعمل نہیں ہوا ۔ یہ سب کچھ حب الوطنی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کی دھول میںگم ہو گیا ہے۔

جارج بش اور امریکی انتظامیہ کی یہ وہ بڑی بڑی کامیابیاں ہیں جو اسامہ بن لادن ‘ القاعدہ اور طالبان کے نام پر حاصل کی گئی ہیں۔ان کی بنیاد پر ’’تہذیب‘ آزادی‘ حقوق انسانی اور جمہوریت‘‘ کی خاطر ایک نئے عالمی سامراج کے دروبست تعمیر ہو رہے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے ان رکاوٹوں کو ہٹا دیا اور وہ سارے بند اس ریلے میں بہہ گئے جو امریکہ کے عالمی عزائم کے اظہار اور ان کے حصول کے لیے جارحانہ اقدام کی راہ میں حائل تھے۔ بہ ظاہر یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے لیکن دراصل یہ دہشت گردی کے خلاف واویلے کی آڑ میں ایک نئی سامراجی جنگ کا آغاز ہے جس کا پہلے ہدف مسلمان ممالک اور خصوصیت سے اسلامی احیا کی تحریکیں ہیں۔ بالآخر اس کا مقصد دنیا کے سارے ہی ممالک پر مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی بالادستی کا قیام‘ ان کے وسائل پر مکمل قبضہ‘ مغربی اور صہیونی استعمارانہ نظام سرمایہ داری کے خلاف سیاسی آزادی کی تحریکوں اور سیاسی اور اداراتی احتجاج کی جدوجہد کو لگام دینا اور انھیں نئے عالمی نظام کے آگے سپر ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ایک بڑے منصوبے (grand design)کے سارے خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں:

کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

دنیا کو درپیش نئے خطرات

امریکہ اور مغربی اقوام جو کچھ حاصل کر رہی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی جگہ‘ لیکن ان چند مہینوں میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات اور ان کے تانے بانے سے عالمی سیاست اور نئے نظام کا جو نقشہ اُبھر رہا ہے وہ اپنے دامن میں انسانیت کے لیے بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ فتح کے شادیانوں کے جلو میں جو طوفان مغرب اور مشرق کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے‘ تہذیب و تمدن کے دفاع کے نام پر تہذیب و تمدن کو جن خطرات سے دوچار کیا جا رہا ہے اور امن و انصاف کے باب میں جو کچھ انسانیت نے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھااسے جس طرح معرض خطر میں ڈالا جا رہا ہے اس کا ادراک وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مسلمان تو نشانہ خاص ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نئی یلغار کی زد میں پوری انسانیت ہے۔ آج امریکہ کے طاقت ور طبقات پوری دنیا کو‘ حتیٰ کہ خود اپنے اور یورپی ممالک کے عام انسانوں کو بڑے ہی پرفریب انداز میں ایک نئی غلامی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ان مہیب سایوں کا اس وقت ادراک نہ کیا گیا تو تاریکی پورے انسانی اُفق پر چھا سکتی ہے‘ ایک نئے تاریک دور (dark ages)کا آغاز ہو سکتا ہے اور مسلمان ہی نہیں‘ پوری دنیا کے امن و انصاف پسند انسان بڑے خسارے اور بڑی تباہی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس چیز کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نام دیا جا رہا ہے اور جس کا پہلے ہدف افغانستان بنا ہے اور القاعدہ کے ہاتھ نہ آنے والے کارکنوں کی تلاش میں جس طرح درجنوں ممالک کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں وہ ایک ایسا جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا نہیں اُلٹا۔ جس چیز کے خلاف امریکہ لڑ رہا ہے اس کی کوئی واضح اور متفق علیہ تعریف موجود نہیں۔ اقوام متحدہ بار بار کوشش کے باوجود کسی ایک تعریف پر متفق ہونے میں ناکا م رہی ہے اور ابھی ۱۱ ستمبر کے بعد بھی جنرل اسمبلی ایک اور کوشش کر کے ناکام ہو چکی ہے۔ خود امریکہ کی ۲۰ سے زیادہ سرکاری دستاویزات کا تجزیہ کرنے والے شکایت کناں ہیں کہ ان میں کہیں بھی اس کی متعین تعریف نہیں دی گئی۔ مختلف دستاویزوں میں مختلف اعمال اور سرگرمیوں کو دہشت گردی کہا گیا ہے (ملاحظہ ہو روہینی ہینس مین (Rohini Hensman) کا مضمون Only Alternative To Global Terror  (Economic and Political Weeklyنومبر ۲‘ ۲۰۰۱ء‘ صفحہ ۴۱۸۴)

اسی طرح نیلسن منڈیلا نے ۷ اکتوبر کے حملوں کے بعد اقوام متحدہ میں کہا ہے کہ میں ایک زمانے میں دہشت گرد تھا اور اس کے بعد سربراہ مملکت۔ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں‘ کسی کو علم نہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری آف پالیٹکس کے مطابق امریکی ڈالروں پر شائع ہونے والی جارج واشنگٹن کی تصویر بھی آزادی کے سپاہی کی یا کسی دہشت گرد کی ہوتی ہے (ص ۴۹۳)۔ گویا لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ!

دراصل جو سوال پوری انسانیت کے لیے بڑا اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسے معاملے میں جس کو  متفق علیہ طور پر متعین نہیں کیا گیا اورنہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے کسی ملک یا گروہ کو یہ اختیار کیسے مل جاتا ہے کہ جس پر چاہے حملہ آور ہو جائے اور جس فرد‘ گروہ‘ تنظیم ‘ حکومت حتیٰ کہ ملک کو تباہ کرنا چاہے کر ڈالے ۔ انسانیت کو اس سے زیادہ بڑا خطرہ اور کون سا ہو سکتا ہے!

دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کا ایک مفہوم متعین بھی کر لیا جائے تو یہ کون طے کرے گا کہ دہشت گردی کیا ہے؟ کس نے اس کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر گرفت کس طرح کی جائے؟ اور معقول اور متناسب سزا کیا ہو سکتی ہے؟مسئلہ ہر ملک کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر اور عالمی شراکت کے ساتھ بھی۔ ہر دو صورتوں میں کسے یہ اختیار ہے کہ کیا اقدام دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کرے۔ ملک کے اندر یہ کام محض انتظامیہ کا نہیں بلکہ ملک کے قانون اور عدالتی نظام کا ہے جس میں انتظامیہ اپنا کردار ادا کرے اور عدالت جرم کی تحقیق اور سزا کا تعین کرے۔ دہشت گردی کا مقابلہ اگر دہشت گردی کے ذریعے کیا جائے تو معاشرہ اور بالآخر دنیا جہنم بن جائے گی۔ اگر دہشت گردی کی عالمی پہنچ ہو تو یہ کام کسی بین الاقوامی عدالتی نظام ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ جسے چاہے دہشت گرد قرار دے کر اس کی گردن مارنا شروع کر دے۔

یہ تو پوری دنیا کو تباہی میں جھونکنے کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہوگا۔ عملاً امریکہ نے ۱۱ ستمبر کے بعد یہی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ آج افغانستان کا جو حشر ہوا ہے کل وہی کسی اور ملک کا بھی ہو سکتاہے۔ امریکہ کی انتظامیہ کسی عدالتی کارروائی کے بغیر جس طرح تھوک کے بھائو سے افراد اور تنظیموں پر پابندیاں لگا رہی ہے اور دوسرے ممالک کو پابندیاں لگانے پر مجبور کر رہی ہے‘ وہ عالمی دہشت گردی کی ہولناک مثال ہے۔

نوام چومسکی نے اپنے حالیہ دورہ بھارت و پاکستان میں بار بار اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ بن لادن دہشت گرد ہے مگر اس کی دہشت گردی ابھی شبہے ہی کے زمرے میں ہے اور معروضی نظام کے تحت ثابت نہیں ہوئی مگر جو کچھ صدر بش نے کیا ہے وہ ثابت شدہ دہشت گردی اور بن لادن کی دہشت گردی سے بڑھ کر دہشت گردی ہے۔ بھارت کے جریدے  فرنٹ لائن کا رپورٹر لکھتا ہے:

جب چومسکی نے زور دے کر کہا کہ امریکی صدر‘ اسامہ بن لادن سے زیادہ بڑے دہشت گرد ہیں‘ اس لیے کہ اسامہ کے خلاف امریکی صدر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے جب کہ افغانستان میں بے گناہ لوگوں کا قتل امریکی صدر کے خلاف ثبوت ہے تو ہال میں موجود لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ (فرنٹ لائن‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ء)

حقیقت ہے کہ جس طرح امریکہ نے دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے وہ امپریلزم کی تاریخ میں ایک سیاہ اور ہولناک باب کا اضافہ ہے۔  امریکہ کی اس جارحانہ پالیسی نے پوری دنیا کے امن کے لیے شدید خطرات کو جنم دیا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ گو اس سلسلے کو روکنے کی کوئی موثر کوشش نہ ہوئی تو دنیا ایک عالمی عدم استحکام (Global destabilization)کی طرف دھکیلی جا رہی ہے۔ عالمی امن اور انسانوں اور اقوام کے درمیان انصاف کے قیام کے لیے جو بھی کوششیں پچھلی صدی میں ہوئی ہیں وہ معرض خطر میں ہیں۔ انسانیت ایک بار پھر بڑی تیزی سے ’’جنگل کے قانون‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس ترقی معکوس کی سراسر ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ہے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد‘ آزادی کے لیے جنگ‘ ایمان اور سلامتی کی حفاظت کے لیے مزاحمت‘ بیرونی قبضے کے خلاف لڑائی ‘ انسانیت کے بنیادی حقوق میںسے ہیں جو ظلم کے خلاف برسرپیکار ہونے کے لیے قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں جب کہ دہشت گردی کے شبہے اور احتمال کی بنیاد پر دوسروں پر حملہ انسانیت کے خلاف جرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر حقیقی دہشت گردی اور ظلم کے خلاف مزاحمت میں فرق نہ کیا گیا تو پھر جو ظالم اور جابر ایک بار کسی ملک یا قوم پر مسلط ہوگیا اس سے نجات کی کیا راہ باقی رہ جائے گی۔ امریکہ نے جو کچھ افغانستان‘ طالبان اور اسامہ بن لادن کے خلاف کیا ہے اس کانہ قانونی جواز ہے اور نہ اخلاقی۔

۳-  دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح کا استعمال بھی ایک ناروا اقدام اور معروف قانونی اور سیاسی ضابطے کی خلاف ورزی ہے۔ جنگ کا بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قانون میں ایک واضح تصورہے۔ استعارے کے طور پر غربت کے خلاف جنگ اور بیماری اور جہالت کے خلاف جنگ کا استعمال کیا جاتا ہے مگر فوج کشی کے معنی میں جنگ کا استعمال نہ ان میں سے کسی کے بارے میں جائز ہے اور نہ دہشت گردی کے لیے۔ دہشت گردی ایک جرم ہے اور اس کے خلاف اقدام قانون اور نظام انصاف (judicial process)کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔ اور خود امریکہ نے ‘خواہ ٹریڈ ٹاور میں ۱۹۹۳ء کی دہشت گردی کا معاملہ ہو یا اوکلاہاما کا ۱۹۹۵ء کا واقعہ جس میں ۱۶۰ افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے ‘یا اس کے اپنے بحری جہاز ایس ایس کول پر حملہ جس میں ۱۷فوجی ہلاک ہوئے‘ یا پان امریکن جہاز کا اغوا اور تباہی جس میں ۲۵۰ افراد مارے گئے___ ان سب جرائم کا تعاقب قانون کے مطابق عدالتوں کے ذریعے کیا گیا لیکن اب ایک من مانے انداز میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف جو اقوام متحدہ کا رکن ہے جنگی جارحیت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور اس کی حکومت کو بہ زور بدلنے کا کام پوری ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کو بدلنے یا  re writeکرنے کی ایک مذموم اور تباہ کن کوشش ہے جو مستقبل میں عالمی امن کو تہ و بالا کرنے کا باعث ہوگی۔

۴-  بین الاقوامی قانون کی یہ خلاف ورزی صرف دہشت گردی کو جنگ قرار دے کر ہی نہیں کی جارہی بلکہ کم از کم آٹھ ایسے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ رکھتا ہے۔

  •  محض شبہے کی بنا پر ‘ خواہ وہ کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو‘ انصاف اور قانون کے عمل کو یکسر نظرانداز کر کے ‘ محض اپنی طاقت کے بل پر افراد‘ اقوام اور ممالک کو سزا دینا اور ان کے خلاف فوج کشی کرنا۔
  •   باقاعدہ اعلان جنگ کے بغیر ایک ملک پر حملہ کرنا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف تنازعات کے پرامن حل کے راستے کو ترک کر کے قوت کا استعمال کرنا۔
  •   افراد کے جرائم (اگر جرائم ثابت ہو جائیں تب بھی) کی سزا کسی ملک‘ اس کی حکومت اور اس کے عوام کو دینا۔ یہ اصول انصاف اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔
  •  ذاتی دفاع یا قومی دفاع (self defense)کے معروف تصور کے برعکس اپنے دفاع کے نئے تصور کے نام پر ہزاروں میل دُور‘ ایک آزاد ملک پر حملہ کرنا اور اس طرح دوسرے ممالک کے لیے جارحیت اور جنگل کے قانون کا راستہ ہموار کرنا۔ امریکہ کے اس اقدام کا فوری اثر یہ ہوا ہے کہ اسرائیل نے اپنے دفاع ہی کے نام پر فلسطین اتھارٹی اور غزہ اور غرب اُردن کے علاقوں پر ایف-۱۶ ‘ گن شپس اور ٹینکوں سے حملے کیے ہیں اور امریکہ کی مثال کو بطور جواز پیش کیا ہے۔ اس پر بھارت بھی پرتول رہا ہے اور واجپائی اور ایڈوانی دونوں امریکہ کی افغانستان کی کارروائی کا سہارا لے رہے ہیں۔
  •  قانون کی ایک معروف اصطلاح collateral damage (ضمنی نقصان)کی نئی تعریف جس کے ذریعے ہزاروںانسانوں کی ہلاکت اور پورے پورے ملک کی تباہی کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک قابل قبول ثمر قرار دیا جا رہا ہے۔
  •  امریکہ نہ صرف خود دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے بلکہ دہشت گردی کی ایک اور شکل یعنی خوف زدہ کرنے اور تشدد کی دھمکی (intimidation and threat of violence)کے ذریعے دوسرے ملکوں کو اپنی صف میں شامل کر رہا ہے۔ اور یہ فلسفہ کہ یا ہمارے ساتھ ہو ورنہ ہمارے مخالف ___ یا دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے حلیف بنو ورنہ تم خود دہشت گرد قرار دے دیے جائو گے--- یہ وہ شیطانی فلسفہ ہے جس نے ہٹلر کی جارحیت کو بھی مات کر دیا ہے۔ اس کا نشانہ پاکستان جیسے ملک ہی نہیں بنے یورپی ممالک کو بھی اسی طرح بل ڈوز کر دیا گیا ہے۔ ہالینڈ کے وزیر خارجہ کے بارے میںاخباری اطلاع ہے کہ جب جنرل پاول نے ان سے اس اصول کے مطابق تعاون مانگا تو انھوں نے باادب کہا :  Yes General!
  •  جرم و سزا اور جنگ کے باب میں انصاف کے اصولوں میں مرکزی اہمیت کے حامل: ضرورت (necessity) اور اس کا جواز (legitimacy) تو ہیں ہی‘ لیکن توازن اور تناسب بھی اس کا ایک اہم تقاضا ہیں۔ حالیہ ’’جنگ‘‘ میں ان میں سے ہر ایک کو پامال کیا گیا ہے۔
  •   افغانستان میں جو جنگی اسلحہ استعمال کیا گیا‘ کارپٹ بم باری اور ڈیزی کٹر بم کا استعمال‘ زیرحراست قیدیوں پر بم باری‘ ہتھیار ڈالنے پر جان کی امان دینے سے انکار‘ عام شہری ٹھکانوں‘ مساجد‘ ہسپتال اور ریڈکراس کے دفاتر پر بم باری‘ یہ سب جنگی جرائم (war crimes)کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن محض طاقت کے گھمنڈ میں نہ صرف ان کا ارتکاب کیا گیا ہے بلکہ انھیں جرم بھی شمار نہیں کیا جا رہا۔ یہ بین الاقوامی قانون کو بالکل ہی بدل ڈالنے کی بدترین مثال ہے۔

۵-  امریکہ جس راستے پر چل پڑا ہے نظر آرہا ہے کہ افغانستان صرف پہلا قدم ہے۔ عراق‘ صومالیہ‘ یمن‘ شمالی کوریا‘ سوڈان کا تو کھلا کھلا ذکر کیا جا رہا ہے اور پرتولے جا رہے ہیں کہ اگلا نشانہ کون ہو۔ پھر سعودی عرب‘ شام‘ ایران اور پاکستان کی باتیں بھی دبی زبان سے ہو رہی ہیں۔ اس وقت یہ سب ملک کولیشن میں شمار کیے جا تے ہیں لیکن درپردہ ان سب کے بارے میں بڑی خطرناک منصوبہ بندی ہو رہی ہے جس کی کچھ جھلکیاں سامنے آ رہی ہیں۔ سعودی عرب کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا مہم جاری ہے اور ابھی واضح نہیں کہ اس کا مقصد وہاں کے نظام کی تبدیلی ہے یا صرف بلیک میل جیسا کہ ایران میں ۷۰ کے عشرے میں کیاگیا تھا۔ شام اور ایران بھی زد میں ہیں۔ پاکستان جس کو اس وقت دلیر ساتھی قرار دیا جارہا ہے اور اس کی فوجی حکومت اب جمہوریت دوست شمار کی جا رہی ہے لیکن اس کے نیوکلیر نظام و تنظیمات پر قبضے‘ نگرانی‘ اثر اندازی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور فوج اور عوام میں اسلامی رجحانات کو لگام دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ فلپائن اور انڈونیشیا کا بھی ذکر ہے اور ۴۰ سے ۶۰ ممالک کو القاعدہ کے سلسلے میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ بات صرف القاعدہ کی نہیں‘ ہر وہ ملک جس سے امریکہ کے مفاد کو کسی شکل میں بھی خطرہ ہو اسے دہشت گردی کے نام پر مطیع بنانے کی کوشش ہے۔

بات صرف دہشت گردی کی نہیں‘اب تو صاف کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کو پیدا کرنے والی سب سے اہم قوت نام نہاد مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی تعلیم کا نظام ہے اور جب تک ان کو ختم نہیں کیا جائے گا دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ بڑی ہوشیاری اور سائنسی اندازسے اسلام‘ اسلامی احیا کی تحریکوں‘ اسلامی فلاحی اداروں اور دینی تعلیمی نظام کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور وعظ کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں ’اصلاح مذہب‘ (reformation)کی ضرورت ہے‘ مذہب اور سیاست کی تفریق وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور ترقی کا اہم ترین ذریعہ ہے‘ سیکولرازم اور مغربی لبرلزم کے فروغ کے بغیر دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں۔ یہ سارا کام ایک وسیع تر عالم گیریت اور جدیدیت کا حصہ ہے اور پوری دنیا کی نجات اس پیکج کو اختیار کرنے میں ہے ورنہ اسے اس پر مسلط کیا جائے گا اور یہ سب امریکہ کے اپنے دفاع (self defense) ہی کا ایک حصہ ہے۔

نئے سامراج کا ایجنڈا

نیوزویک‘ ٹائم‘ اٹلانٹک اور تمام اہم روزنامے تک ایسے مضامین‘ ادارتی تبصروں اور خطوط سے بھرے ہوئے ہیں جن میں جہادی کلچر‘ سیاسی اسلام (political Islam)اور اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism) پر کاری ضرب لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ نئے سامراج کا ایجنڈا ہے جس کے چار بڑے بڑے میدان ہیں:

ا - سیاسی اعتبار سے امریکہ کی بالادستی اور اس امر کا اہتمام کہ یہ بالادستی اکیسویں صدی میں قائم رہے اور اس کے لیے کوئی حریف رونما نہ ہونے پائے۔

ب- امریکہ کی فوجی برتری اور اس کو نہ صرف ناقابل تسخیر رکھنا بلکہ ساری دنیا میںاس کی موجودگی یا اس کے قائم مقاموں (surrogates)کی حفاظت جو اس کے آلہ کار کے طور پر کام کر سکیں اور دنیا کا نقشہ ان خطوط پر قائم رکھ سکیں جو امریکہ کو مطلوب ہے۔ نیز اس بات کی ضمانت کہ کسی شکل میں بھی ایسی عسکری صلاحیت دوسرے ملکوں میں پیدا نہ ہو جو امریکہ اور اس کے حواریوں خصوصیت سے اسرائیل کے لیے چیلنج بن سکے۔

ج- دنیا کے معاشی وسائل پر امریکہ‘ اس کے اتحادیوں اور اس کے زیراثر ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور این جی اوز کا قبضہ۔اس سلسلے میں فیصلہ کن تیل اور گیس کے تمام اہم ذرائع اور ترسیل کے راستوں پر قبضہ ہے۔

د - تہذیبی میدان میں مغربی کلچر اور ثقافت کا عالم گیر غلبہ اور دین و مذہب خصوصیت سے اسلام کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے امکانات کو معدوم کرنا۔

نئے سامراج کا یہ ایجنڈا کسی پردے کے بغیر اب سرعام پیش کیا جا رہا ہے اوراس پر عمل کرانے کے لیے پروپیگنڈے سے لے کر عسکری قوت تک ہر حربہ استعمال کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔

امریکی سامراج کے یہ عزائم تو پہلے بھی تھے مگر حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ان عزائم کو نئی زندگی اور ان پر عمل کو نئے امکانات فراہم کر دیے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ کیا دہشت گردی کا آغاز ۱۱ ستمبر سے ہوا؟ اور کیا افغانستان اور القاعدہ کی تباہی سے دہشت گردی روے زمین سے فنا ہو جائے گی؟ جسے بنیاد پرستی کہا جا رہا ہے کیا اس کا وجود صرف مسلم دنیا میں ہے یا خود امریکہ میں بنیاد پرستوں کی ایک نہیں درجنوں تحریکیں کارفرما ہیں؟ کیا خود جارج بش کی صدارت کے پیچھے امریکی بنیاد پرستوں کا کوئی کردار نہیں؟ کیا اسرائیل کی لیکود پارٹی اور وزیراعظم شیرون صہیونی بنیاد پرستی کے بدترین مظاہر نہیں؟ کیا بھارت کی بی جے پی‘ آر ایس ایس اور وشوا پریشد ہندو بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے سوا کچھ اور ہیں؟ کون سا ملک ہے جہاں انتہا پرستی موجود نہیں اور کون سا دورہے جو انتہا پرستی سے پاک رہا ہے۔

پھر دہشت گردی کے خلاف تو بہت کچھ بخار نکالا جا رہا ہے مگر اس کی کوئی فکر نہیں کہ وہ حقیقی اسباب کیا ہیں جن کے نتیجے میں امریکہ اور مغربی اقوام کے خلاف نفرت کے طوفان امنڈ رہے ہیں‘ سرمایہ داری کے خلاف لاوا پک رہا ہے‘ مظلوم انسانوں کی ایک تعداد مایوس ہو کر اپنی جان تک پر کھیلنے کے لیے تیار ہورہی ہے۔ دہشت گردی ایک معمول کی کارروائی نہیں‘ ایک غیر معمولی رویے کی مظہر ہے‘ اس کو نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ختم کیا جا سکتا ہے جب تک ان اسباب کا کھوج نہ لگایا جائے جن کے بطن سے یہ جنم لیتی ہے۔ ان کے تدارک کے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں۔ فلسطین ہو یا کشمیر‘ چیچنیا ہو یا فلپائن‘ اسپین ہو یا کیوبک (کینیڈا) ‘آئرلینڈ ہو یا تھائی لینڈ‘ سوڈان ہو یا صومالیہ‘ کیوبا ہو یا نکاراگوا‘ فی جی (Fiji) ہو یا ہیٹی‘ جاپان ہو یا کوسووا‘ جہاں بھی ظلم ہوگا ‘ اس کا ردعمل بھی رونما ہوگا جو جائز کے ساتھ ناجائز اور پرامن کے ساتھ خونی اور تشدد کے راستے بھی اختیار کر لیتا ہے ۔

جس طرح غربت خودکشی کی طرف لے جاتی ہے‘ اسی طرح مظلومیت اور محرومی تشدد اور دہشت گردی کے روپ بھی دھار لیتی ہے۔ جرم کا خاتمہ محض قانون اور جبر سے نہیں ہو سکتا۔ جرم کے اسباب جب ختم ہوں گے تو پھر جرم میں بھی کمی آئے گی اور حقیقی امن و آشتی کے امکانات روشن ہوں گے۔ سامراجی ذہن اس سامنے کی حقیقت کو سمجھنے اور سامراج کی آنکھ اس کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور محض جبر اور طاقت سے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے زعم میں مبتلا ہے۔ خدا کی زمین پر ظلم کی فراوانی اور انسانوں کے درمیان کش مکش اور شورش کی بڑی وجہ یہی ذہنیت اور یہی سیاست ہے۔ آج امریکہ اس ذہنیت اور سیاست کا سب سے بڑا علم بردار اور عالمی اقتدار کا ٹھیکے دار بن گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسی سامراجی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

اصل ہدف : اسلامی تحریکات

امریکی سامراج اور مغربی تہذیب کا ہدف تو پوری دنیا ہے لیکن فوری طور پر پہلا ہدف اسلامی دنیا اور اسلامی احیا کی تحریکات اور ادارے ہیں اور ان پر ہی اس وقت اصل توجہ مرکوز ہے۔ نیوز ویک کا ڈائوس خصوصی ایڈیشن (دسمبر ۲۰۰۱ء - فروری ۲۰۰۲ء جو ’’۲۰۰۲ء کے مسائل‘‘ کے بارے میں ہے) اس عالمی ایجنڈے کا خلاصہ پیش کر رہا ہے۔ اس میں خصوصیت سے سیموئل ہنٹنگٹن‘ فرید زکریا اور فرانسس فوکویاما کے مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم صرف ایک اقتباس فوکویاما کے مضمون سے پیش کرتے ہیں:

پس اس طرح یہ محض دہشت گردوں کے خلاف ایک سادہ ’’جنگ‘‘ نہیں ہے جس کا امریکی حکومت قابل فہم انداز میں نقشہ کھینچتی ہے اور نہ جیسا کہ بہت سے مسلمانوں کا موقف ہے کہ فلسطین میں یا عراق کے ساتھ امریکہ کی خارجہ پالیسی اصل مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں جو بنیادی تنازع درپیش ہے وہ بہت وسیع تر ہے اور دہشت گردوں کے ایک گروپ سے متعلق نہیں ہے بلکہ انقلابی اسلامسٹوں کے بڑے گروہ سے ‘ اور ان مسلمانوں سے متعلق ہے جن کی مذہبی شناخت دوسری تمام اور سیاسی اقدار کو مسترد کر دیتی ہے۔

ہم فوکویاما کے ممنون ہیں کہ اس نے بات کھول کر سامنے رکھ دی اور ڈپلومیسی کے پردوں کو چاک کر کے مغرب کے عزائم اور ان کی نگاہ میں تنازع کے اصل سبب--- یعنی دین اور سیاست کے رشتے کو صاف لفظوں میں یوں بیان کر دیا: اگر مغرب کی دوستی چاہتے ہو تو دین کے اثر سے سیاست اور تہذیب و تمدن کو پاک کر لو ورنہ ہماری تمھاری جنگ ہے:

نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہ مصلحت بین سے وہ رند بادہ خوار اچھا

فیصلہ کن سوال

جنگ کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ ایک راستہ تو بڑا آسان اور سادہ ہے جس کی دعوت مغرب کے دانش ور اور سیاسی قائدین دے رہے ہیں اور اسی کی آہنگ بازگشت خود اپنے جدیدیت کے دلدادہ افراد کی تحریروں اور ارشادات کی امتیازی شان ہے یعنی:

چلو تم ادھر کو‘ ہوا ہو جدھر کی

یہ وہ راستہ ہے جو زمانے کے پرستاروں نے ہر دور میں سجھایا ہے اور آسایش اور تن آسانی کے متوالوں نے آزادی‘ غیرت اور ایمان سب کی قربانی دے کر جسے اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ لیکن کیا اہل ایمان اور مسلم امت کے لیے بھی نجات کی یہی راہ ہے؟ اقبال‘ اس کا جواب دیتے ہیں!

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اسلام تو نام ہی اس دین کا ہے جو طاغوت سے بغاوت اور اللہ کی بندگی سے عبارت ہے (فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق البقرہ۲:۲۵۶) یہ راستہ تو ہے ہی کفر‘ شرک اور طغیان سے کش مکش کا راستہ۔ اس میں طاقت اور تعداد اصل چیز نہیں‘ کہ دونوں حصول مقصد کا ذریعہ ہیں اور مطلوب بھی‘ مگر اصل ہدف وہ نصب العین اور وہ مقصود حیات ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس دعوت کا علَم بلند کیا تو اُن کے کتنے ساتھی تھے اور انھیں کتنی قوت حاصل تھی؟ مگر نصب العین واضح اور منزل کے بارے میں یکسوئی تھی اور ساری مخالفتوں اور مزاحمتوںکے مقابلے میں ایک ہی جواب تھا کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور ایک پر چاند بھی رکھ دیا جائے تو اس راستے کو نہیں چھوڑوں گا‘ جدوجہد جاری رہے گی تاآنکہ یہ دین غالب آ جائے یا میری جان اس جدوجہد میں کام آ جائے۔ اکثریت اور اقلیت‘ طاقت اور کمزوری تبدیل ہونے والی چیزیں ہیں اور بالآخر تبدیل ہوتی ہیں۔ کل کی اقلیت آج کی اکثریت بن سکتی ہے اور آج کی اکثریت کل اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ یہی معاملہ طاقت اور کمزوری کا ہے۔

مسلمانوں کے لیے اصل فیصلہ طلب سوال یہی ہے کہ آیا انھیں مسلمان رہتے ہوئے اپنی زندگی کی تشکیل و تعمیر کرنی ہے یا اسلام سے بے نیاز ہو کر دنیا طلبی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اگر مطلوب اسلام ہے توپھر اپنے ایمان ‘ اپنے نظریے‘ اپنے دین‘ اپنی تہذیب اور اپنی سیاست پر قائم رہنے اور مشکلات کا   مردانہ وار مقابلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ بلاشبہ اس جدوجہد میں ایمان اور نظریے کی قوت اور اتحاد کے ساتھ‘ علم‘ تحقیق ‘ معاشی قوت‘ عسکری طاقت‘ ایجاد و اختراع اور ٹکنالوجی پر مہارت اور گرفت سب ضروری ہیں۔ لیکن سب سے اہم چیز وژن اور عزم ہے۔ اگر وژن موجود نہیں اور عزم و ارادے کا فقدان ہے تو پھر اُبھرنے اور ترقی کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن اگر یہ موجودہیں تو پھر توفیق الٰہی سے تمام وسائل بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور زمانے کا نقشہ اسی طرح بدلا جا سکتا ہے جس طرح ماضی میں بدلا گیا۔ کوئی طاقت ور اتنا مضبوط نہیں کہ ہمیشہ مضبوط رہے اور کوئی سوپر پاور ایسی نہیں جو ہمیشہ سوپر پاور رہی ہو۔

تاریخ ‘ایک نہیں درجنوں سوپر پاورز کا قبرستان ہے۔ خود ہماری زندگیوں میں برطانیہ اور روس دو سوپر پاورز کس بلندی سے کس پستی تک پہنچی ہیں۔ امریکہ آج طاقت ور ہے اور اس کا اعتراف ایک حقیقت کا اعتراف ہے لیکن یہ سمجھ لینا کہ اب ہمیشہ وہی غالب و حکمران رہے گا‘ تاریخ کے ساتھ مذاق اور انسانیت کے امکانات سے مایوسی ہے۔ اس لیے پہلا قدم اپنی منزل کا تعین اور اپنے مقاصدکی تفہیم ہے۔ پھر ان کے حصول کے لیے تیاری اور منصوبہ بندی ہے۔ جدوجہد کتنی ہی طویل ہو اور راہ کیسی ہی دشوار گزار ‘لیکن ہمیں سوچ سمجھ کر اپنی راہ طے کرنی ہے اور آستان یار سے وفاداری کے سوا کوئی راستہ ہمارے شایان شان نہیں:

جوئے خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟

جب ایک قوم خدا پر بھروسے کے ساتھ دانش مندی سے اپنی منزل حاصل کرنے کی جدوجہد کرتی ہے تو پھر نئے امکانات اُبھرتے ہیں اور حالات تبدیل ہوتے ہیں۔ ہماری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر کمزوری کے بعد طاقت کا اُبھار واقع ہوا ہے بشرطیکہ ہمارا وژن واضح اور ہماری ہمتیں بلند رہیں۔ راستہ ایک ہی ہے اور وہ جدوجہد کا راستہ ہے:

زمانہ با تو نہ سازد‘ تو با زمانہ ستیز

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہمیں مخالف قوتوں سے تصادم اور ٹکرائو کا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ بلاشبہ تصادم اور ٹکرائو تو اس راستے کے لازمی مراحل میں سے ہیں مگر دین نے جہاں ہمیں مستقبل کا ایک واضح وژن دیا ہے وہیں یہ بھی سکھایا ہے کہ جدوجہد کے مختلف مراحل ہوتے ہیں اور تیاری کے بغیر معرکے میں کودنا عقل مندی اور حکمت نہیں ‘حماقت ہے۔ صبر اور حکمت‘ یہ دونوں مومن کی میراث ہیں۔ ہماری جدوجہد طویل اور وقت طلب ہے۔ بلاشبہ ہمارا ہر لمحہ اصل منزل کی طرف پیش قدمی کی تیاری اور تحرک میں صرف ہونا چاہیے ‘ شارٹ کٹ کی تلاش اور جلدبازی کے اقدام دینی فراست کے خلاف ہیں۔ مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کا تعین اور جدوجہد کے لیے مکمل تیاری بھی اسی طرح ایمان کا حصہ اور دین کا تقاضا ہیںجس طرح طاغوت کے آگے سپر ڈال دینے‘ دوسری تہذیبوں کی غلامی قبول کرنے اور شیطان کی دکھائی ہوئی راہ سے برأت لازم ہے۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ جذباتیت سے مکمل احتراز کیا جائے اور حکمت اور محنت سے اجتہاد اور جہاد کے راستے کو اس طرح اختیار کیا جائے جو ان کا حق ہے۔

اصولی موقف : ۵ نکات

ان دو بنیادی امور کی تنقیح کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ اس اصولی موقف کو بھی بالکل واضح الفاظ میں بیان کیا جائے جس کو اختیار کر کے آج پاکستان اور اُمت مسلمہ وقت کے چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

امریکہ اور مغربی اقوام آج خواہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں‘ ان کی موجودہ بالادستی اور وسائل پر قدرت کے اعتراف کے ساتھ‘ اس عزم کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنا جداگانہ تشخص رکھتے ہیں اور ان کی منزل اپنی آزادی اور اپنی تہذیب کی ترقی اور فروغ ہے جو دوسروں کی غلامی یا بالادستی کے تحت جاے پناہ پر قناعت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر امریکہ کا ایک سوپر پاور ہونا ایک حقیقت ہے تو مسلم امت کے ۳.۱ ارب نفوس بھی ایک حقیقت ہیں جنھیں نہ نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ محض طاقت سے غلام بنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تصادم سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے گھر کی اصلاح‘ اپنے اتحاد کا حصول‘ اپنے وسائل کی ترقی اور اپنی قوت کا استحکام ہمارا اصل ہدف ہوں۔ اس کے لیے اپنے ایمان‘ اپنے دین اور اپنے نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنا‘ وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اپنی بنیادوں کو استوار کر کے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہماری فکروسعی کا محور ہونا چاہیے۔

اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمیں کچھ عالم گیر اصولوں کو اپنی دعوت اور حکمت عملی کی بنیاد بنانا چاہیے اور دنیا کے تمام انسانوں اور تمام عوام کو ان کی طرف لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ نہ ہمیں دوسروں کا کاسہ لیس ہونا چاہیے اور نہ ہر ایک سے الگ تھلگ اور مقاطعے کا راستہ صحیح راستہ ہو سکتا ہے۔ قدر مشترک کی تلاش اور اس پر تعلقات استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات بھی اس مقام پر ہیں کہ کچھ اصولوں اور مشترک اقدار پر سب کو لایا جا سکتا ہے اس لیے کہ اس میں تمام انسانوں کا بھلا ہے۔ بجائے اس کے کہ مسلمان محض دوسروں کے اقدامات پر ردعمل تک اپنے کو محدود رکھیں‘ ہمیں آگے بڑھ کر پوری انسانیت( بشمول مغربی اقوام) کو کچھ بنیادوں پر متفق کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اصول ہماری عالمی دعوت کا محور بن سکتے ہیں:

۱-  تمام اقوام کی آزادی‘ حاکمیت اور سلامتی کا تحفظ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد تمام انسانوں کی برابری‘ تمام اقوام کی آزادی ‘ اور ان کا حق خود ارادیت ہے۔ اسلام نے اسی اصول کو انسانیت کے سامنے پیش کیا تھا اور یہ اصول امپریلزم کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔

۲- تکثیری نظام (pluralism)جس کے معنی ہیں کہ کسی ایک ملک یا تہذیب کی بالادستی ہی عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سب اس اصول کو تسلیم کریں کہ ہر قوم کو اپنی تہذیب و ثقافت کی پاس داری کا حق ہے اور دنیا کی یک رنگی فطرت کے خلاف اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ اس لیے سب کو اپنے اپنے اصول و اقدار کی روشنی میں ترقی کے مواقع حاصل ہونے چاہییں۔

۳-  تمام انسانی معاملات کو دلیل اور مکالمے (dialogue)کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو قانون اور عالمی انصاف کا تابع کیا جائے۔ ہر قسم کے تشدد کے خلاف عالمی راے عامہ کو منظم کیا جائے اور اس میں دہشت گردی کی ہر شکل میں مخالفت شامل ہو۔ نیز دہشت گردی اور آزادی کے حصول یا ملک و ملت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کو اس سے ممتاز و ممیز کیا جائے اور قوت کے استعمال کی حدود اور اس کا ضابطہ کار متعین کیا جائے۔

۴- انصاف کے حصول کے لیے دنیا کے تمام انسانوں اور اقوام کو ایک منصفانہ عالمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ انصاف وہ مثبت بنیاد ہے جس پر عالمی امن قائم ہو سکتا ہے اور ظلم کی دراندازیوں سے انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

۵-  بین الاقوامی تعاون اور اشتراک کے ساتھ ساتھ قوموں یا ملکوں کے الحاق کی اجتماعی خود انحصاری کے اصول کا احترام۔ اس سے عالم گیریت کا ایک ایسا نظام وجود میںآ سکتا ہے جس کے تحت اگر ایک طرف انسانوں‘ مال تجارت‘ مالی اور دوسرے وسائل کی نقل و حرکت میں سہولت ہو تو دوسری طرف ایسے عالمی ادارے موجود ہوں جو دولت اور قوت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے کمزوروں کو طاقتوروں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھ سکیں اور بالآخر دنیا میں قوت اور دولت کی منصفانہ تقسیم وجود میں آ سکے جس کے نتیجے میں سب کو خوش حالی ‘استحکام اور باعزت زندگی حاصل ہو سکے۔

یہ وہ پانچ بنیادیں ہیں جن کی طرف دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت دے کر پاکستان اور اُمت مسلمہ ایک ایسے عالمی نظام کی داغ بیل ڈال سکتی ہے جو حقیقی امن و انصاف کا ضامن ہو سکے۔ آج کے طاقت ور اس کی راہ میں حائل ہوں گے لیکن دنیا کے تمام دوسرے ممالک کو منظم اور متحرک کر کے اور پرامن ذرائع سے عالمی رائے عامہ کو منظم کر کے اس قدر مشترک کو نئے نظام کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ نیز یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب دنیا کے ممالک دوسروں پر بھروسا کرنے کے بجائے اپنے اوپر بھروسا کر کے اپنے وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنے اور منظم کرنے کی جدوجہد کریں اور تعاون اور اشتراک کی منصفانہ شکلوں کو رواج دیں۔ جس طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں‘ بشمول آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک‘ اندرون ملک دولت کی تقسیم اور قوت کے توازن کو حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور اس میں ایک درجہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے‘ اسی طرح عالمی سطح پر بھی ایک متوازن اور منصفانہ نظام کا قیام ممکن ہے‘ بشرطیکہ اس کے لیے صحیح طریقے پر مسلسل جدوجہد ہو۔

مسلم ملّت کے لیے خطوط کار

اس ایجنڈے کو عالمی سطح پر محض پیش کرنا مطلوب نہیں۔ اس ایجنڈے پر دنیا کو لانا اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلمان ممالک خود اپنے گھر کو درست کریں اور اس کا آغاز خود احتسابی سے کریں۔

۱۱ ستمبر کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ جو افراد یا ملک یہ سمجھتے تھے کہ امریکہ سے دوستی کے ذریعے ان کو حفاظت‘ عزت اور سلامتی مل جائے گی اور جو اپنی دولت اپنے ملکوں میں رکھنے کے بجائے امریکہ اور یورپ میں اسے محفوظ سمجھ رہے تھے اس ایک ہی ہلّے میں ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انھوں نے کیسا کمزور سہارا تھاما تھا اور کس طرح خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر ڈال دیا تھا۔ موسم کی ایک ہی تبدیلی نے ان کو بتا دیا کہ:

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

نیز اس سے یہ سبق بھی حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کہ مانگے کا اُجالا کبھی روشنی کی ضمانت نہیں دے سکتا اور خود انحصاری اور اپنی قوت کی تعمیرکے بغیر آپ اپنی آزادی‘ اپنے ایمان اور اپنی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے۔مقصد کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنے گھر کی تعمیر اور اپنے ممالک کی مضبوطی اور دوسروں پر محتاجی سے نجات قومی سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہے۔

اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں خود اپنے عوام پر اعتمادکی فضا پیدا کی جائے۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں حاصل ہوں‘اختلاف کو برداشت کیا جائے‘ اور معیشت اور سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے۔ اس میں اصحاب اقتدار کے لیے بھی خیر ہے اور مسلم عوام کے لیے بھی۔

کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے جہاں نظریہ اور قومی تشخص ضروری ہے وہیں سیاسی ‘ معاشی اور اداراتی نظام کا ایسا آہنگ درکار ہے جس میں سب کی شرکت ہو اور عوام اور حکمرانوںکے درمیان کش مکش کے بجائے تعاون اور اشتراک کا رشتہ قائم ہو۔ اسی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہیں اور بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور جو تم سے نفرت کرتے ہیں۔

پھر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آزادی اور اشتراک کے ساتھ تعلیم‘ زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی‘ روزگار کے مواقع اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو ملکی پالیسی میں مرکزیت کا مقام حاصل ہو‘ وقت کی ٹکنالوجی کو حاصل کیا جائے اور ایجاد و اختراع اور تحقیق و تفتیش کے ذریعے علم اور سائنس پر قدرت حاصل کی جائے۔ نیز معیشت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی خود انحصاری کی پالیسی اختیار کی جائے۔ خود انحصاری نہ خود کفالت ہے اور نہ دنیا سے الگ تھلگ ہونا ۔ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمیں وسائل پر اتنی قدرت حاصل ہو کہ ہم اپنی پالیسیاں ‘اپنے مقاصداور اہداف کے مطابق خود طے کر سکیں اور دوسروں کی ایسی محتاجی نہ ہو کہ وہ ہماری پالیسی پر اثرانداز ہو سکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے تعاون اور تجارت سب کے لیے اسی وقت بہتری کا باعث ہو سکتے ہیں جب خود انحصاری کے ساتھ یہ تعاون ہو ورنہ یہی بین الاقوامی رشتے اور معاملات ظلم اور استحصال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

مسلمان ممالک کی تعمیر و ترقی میں یہ بات بھی سامنے رہے کہ یہ اُمت اُمتِ وسط ہے جس کا کام دنیا کے سامنے خدا کے پیغام کی شہادت ہے اور جو انصاف کے فروغ اور نیکیوں کی ترویج اور برائیوں سے نجات کی داعی ہے۔ اس اُمت میں اگر انتہا پسندی اور تشدد کی سیاست در آئی ہے تو یہ اس کے مشن اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اور اس کے اصل کردار پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی‘ اسلام تشدد اور اکراہ کا مخالف ہے اور محبت‘ بھائی چارے‘ رواداری اور تعاون و اشتراک کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ جہاد کا مقصد انصاف کا قیام اور تمام انسانوں کے لیے آزادی‘ عزت اور عدل کی ضمانت ہے۔جہاد اپنی تمام صورتوں میں --- یعنی نفس کے ساتھ جہاد‘ زبان اور قلم سے جہاد‘ مال سے جہاد اور جان سے جہاد--- واضح اخلاقی حدود اور مقاصد کا پابند ہے اور ہر سطح پر اس کے تصور‘ تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ جہاد کا صحیح فہم و ادراک ہو اور اس کی نعمتوں سے مسلمان اور غیر مسلم سب فیض یاب ہو سکیں۔ جہاد کے اس تصور کا فہم اور احترام ہر دور میں ضروری تھا مگر آج جب جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور جہادی کلچر کو تشدد اور دہشت گردی کے مترادف قراردیا جا رہا ہے‘ اس تفہیم اور جہاد کے آداب کے مکمل احترام کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جہاد اسلام کی ابدی تعلیم اور اس کا رکن رکین ہے جس کے بارے میں کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا‘ لیکن جہاد ایک اخلاقی قوت اور تعمیر کی صورت ہے اور اس کا یہ کردارسب سے پہلے خود مسلمانوں کے سامنے ہونا چاہیے تاکہ غیر مسلم بھی اس کی گواہی دے سکیں۔

دور جدید میں تحریک اسلامی کی خدمات میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ ایک طرف اس نے جہاد اور روحِ جہاد کے احیا کا کارنامہ انجام دیا ہے تو دوسری طرف جہاد کے مقاصد‘ آداب اور ضابطہ کار کی وضاحت اور احترام کر کے اس کے اصل کردار پر توجہ مرکوز کی ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔

مسلم ممالک کے درمیان معاشی‘ سیاسی‘ تعلیمی‘ ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں میں قریب ترین تعاون بلکہ اتحاد اور الحاق کی ضرورت ہے جو نظریے اور تاریخ کے اشتراک کے ساتھ مفادات کے اشتراک  اور سیاسی اور معاشی باہمی تکمیلات کی محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ اب سب کی ایسی ضرورت ہے جسے موخر نہیں کیا جا سکتا۔ اس نظام میں تنازعات کے تصفییکا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے تاکہ حقیقت پسندی سے اتحاد کو مستحکم کیا جاسکے۔  عالمی سطح پر مسلم نقطہ نظر کو پیش کرنے کے لیے میڈیا کی موثر ترقی و تنظیم بھی ضروری ہے۔

اسلام کے عالمی کردار کی موثر ادایگی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان ملک اور امت مسلمہ ان خطوط پر اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے اور امت وسط کی حیثیت سے اللہ کی بندگی اور انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح کے نظام کی داعی کی حیثیت سے اپنے گھر کی تعمیر کرے اور دنیا کے سامنے اس کا نمونہ پیش کرے۔

پاکستان کی ذمہ داری  :  ۱۰ امور

وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اہل پاکستان پر بھی ایک بڑی ذمہ داری آتی ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد جو کچھ ہوا ‘وہ خواہ مجبوری کے تحت ہوا یا عاقبت نااندیشی کے تحت--- ہم اس پر تفصیل سے بحث کرچکے ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا‘ بھارت اس سے جو فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے وہ واضح ہوتا جا رہا ہے اور جنگ کے مہیب سائے اُفق پر اُبھرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی دراندازیاں مشکلات میں اضافے اور آزادی اور خود مختاری کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ تصادم‘ عدم مشاورت اور وقت گزاری کی پالیسی ترک کر کے ایک ایسی پالیسی کو اپنایا جائے جس میں پاکستان‘ اس کے نظریے اور قوم کی سلامتی‘ اور ترقی کو یقینی بنائی جا سکے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل امور فوری توجہ کے طالب ہیں:

۱-  اللہ سے وفاداری اور اس پر بھروسے کو سب چیزوں پر اولیت دی جائے۔ اللہ کی طرف رجوع ہو اور اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اپنے مالک کے حضور اعتراف کر کے اس سے طاقت اور رہنمائی طلب کی جائے۔ پوری قوم اور اس کی قیادت اپنے مالک کا دامن تھامے اور اس سے مدد مانگے۔

۲- عوام پر بھروسا کیا جائے ‘ان کو اعتماد میں لیا جائے اور موثر طورپر ان کو قومی سلامتی‘ ترقی اور تعمیرنو کے لیے متحرک کیا جائے۔

۳- نظریاتی کش مکش سے بچا جائے اور جس لاحاصل بحث میں مغربی میڈیا اور دانش ور ہمیں مبتلا کر دینا چاہتے ہیں‘ اس سے دامن بچایا جائے۔ بنیاد پرستی‘ انتہا پرستی اور فرقہ پرستی ہمارے مسائل نہیں۔ جدید اور قدیم کی بحثیں بہت پرانی ہیں اور ہم ان سے گزر چکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات بہت صاف اور واضح ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ سیکولرزم ایک مردہ گھوڑا ہے اس پر سواری کے خواب دیکھنا ایک حماقت ہے۔ پاکستان کے دستور نے جن تین بنیادوں کو واضح طور پر پیش کر دیا ہے یعنی اسلام‘ جمہوریت اور وفاقی طرز‘ انھیں متفق علیہ بنیاد بنا کر قومی پالیسی کی تشکیل کی جائے اور ان طے شدہ امور کو ازسرنو بحث میں لانے کی جسارت نہ کی جائے ۔ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے۔ ہمارا ایجنڈا ہماری تحریک آزادی اور ہماری قرارداد مقاصد ہمارے دستور میں طے ہے۔ اسے مضبوطی سے تھام لیجیے۔

۴-  ملک کی دفاعی قوت کی حفاظت کو اولیت حاصل ہے۔ امریکی فوجوں کی موجودگی اس کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسی طرح بھارت کے عزائم کا ادراک اور مقابلے کے لیے فوج اور قوم میں ہم آہنگی اور دونوں کا تحرک (mobilization)ضروری ہے۔

۵- کشمیر پالیسی کے بارے میں مکمل یکسوئی اور مضبوطی کی ضرورت ہے۔

۶- افغان پالیسی کی جلد از جلد تشکیل نو مطلوب ہے۔ اسٹرے ٹیجک گہرائی کے چکر سے نکلنے اور افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام میں ہماری دل چسپی ہونی چاہیے جسے افغان بھائی خود طے کریں اور جس سے افغانستان کا اتحاد باقی رہے اور وہ ایک ہمسایہ اور بھائی ملک کی حیثیت سے ترقی کرے۔ مفادات کے چکر سے بلند ہو کر افغان پالیسی کی تشکیل کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی ہو سکے۔ افغان عوام کے دل پاکستانی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور قیادتوں نے جوبھی غلطیاں اور ناانصافیاں کی ہیں ان سے متاثر ہو کر کسی قسم کی کش مکش یا جنبہ داری کا راستہ ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہماری پالیسی کی بنیاد وہ رشتہ اشتراک ہونا چاہیے جو دین‘ تاریخ اور مشترک مفادات کی وجہ سے قائم ہے اور جس نے دلوں میں محبت اور معاملات میں تعاون کی روایت قائم کی ہے۔

۷- ملک میں جمہوری عمل کا احیا‘ دستور کو ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق تبدیل کرنے سے مکمل احتراز اور دستور کے مطابق جمہوری نظام کی بحالی کے لیے فوری طور پر اجتماعی مشاورت‘ آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور اس سلسلے کے تمام ضروری انتظامات پرفوری توجہ کی ضرورت ہے۔

۸- معیشت کی بحالی کے لیے قومی مشاورت‘ تجارت‘ زراعت‘ صنعت اور محنت سے متعلق طبقات کے تعاون سے قومی خود انحصاری کے حصول اور معاشی ترقی اور سرگرمی کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کی طرف توجہ دینا۔

۹- مسلم ممالک سے تعلقات بڑھانے اور مشترک خطرات کے مقابلے کے لیے مشترک حکمت عملی کی تشکیل کی کوشش۔

۱۰-  ایران اور چین سے خصوصی تعاون اور ان کے ساتھ مشترک حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل کا نظام بنانے کی کوشش۔

یہ ۱۰ نکات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم حالات اور خطرات کا صحیح ادراک کریں۔ اپنے نظریے اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے خدا پر بھروسے اور ایک دلی جذبے کے ساتھ اصلاح احوال کی جدوجہد شروع کر دیں۔ اگر ہم ۱۱ ستمبر سے اب تک کے رونما ہونے والے واقعات کو ایک  خطرے کی گھنٹی سمجھیں ‘اب بھی بیدار ہو جائیں اور اٹھ کھڑے ہوں تو آگے کے مراحل زیادہ مشکل نہیں۔  واللّٰہ المستعان!

 

اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو اور خصوصیت سے اہل ایمان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا شمار ممکن نہیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک خاص نعمت رمضان المبارک ہے جس میں ایک مہینہ مسلسل روزے کے ذریعے بندہ اپنے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط تر کرتاہے۔ بھوک‘ پیاس‘ بے آرامی اور ضبط نفس کے ذریعے وہ روحانی اور اخلاقی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے بہتر انسان اور اپنے مالک کا  تابع فرمان بندہ بننے کے قابل بناتی ہے‘ دوسروں کے غم اور دکھ جاننے کے لائق ہی نہیں بناتی بلکہ اس کا تجربہ کراتی ہے‘ جو ہر فرد میں اُمت کا حصہ ہونے کا احساس بیدار اور مستحکم کرتی ہے اور اللہ کی ہدایت اور رہنمائی سے اسے جوڑنے اور اس کی روشنی سے زندگی کو روشن کرنے کے لائق بناتی ہے۔

روزے کی برکتوں اور نعمتوں کی کوئی انتہا نہیں لیکن اس کے پانچ پہلو ایسے ہیں جو اس عبادت اور اللہ کی اس عنایت کو ایک منفرد حیثیت بنا دیتے ہیں:

  •  رجوع الی اللہ‘ کہ روزہ بندے کو رب سے جوڑتا ہے اور صرف رب کی رضا اور اس کے حکم کے آگے مکمل سپردگی کی تربیت دیتا ہے۔
  •  نفس اور اس کی تحریکات پر قابو۔ انسان کی دو ہی بنیادی خواہشات ہیں--- جسم کی پرورش کے لیے خوردونوش اور آرام و آسایش اور نسل کی حفاظت کے لیے جنس اور رشتہ ازدواج۔ روزہ ان دونوں کو رب کی مرضی کے تابع کرنے اور اس طرح انسان کو نفس کا بندہ بن جانے سے روکنے اور نفس کو رب کی مرضی سے پابند کرنے کی تربیت دیتاہے کہ یہی اصل تقویٰ ہے۔
  •  روزہ انسان کو دوسروں کی بھوک اور پیاس کے تجربے کا احساس دلاتا ہے اور انسانوں کے درمیان اجتماعیت‘ اور تکافل باہمی کا رشتہ استوار کرتا ہے ۔ اس میں اگر ایک طرف مساوات کے احساسات بیدار کرتا ہے تو دوسری طرف اخوت‘ ایثار‘ اشتراک اور وسائل حیات میں ایک دوسرے کے حق کی ادایگی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
  •  روزہ ایک انتہائی خفیہ اور نجی عبادت ہونے کے باوجود پوری اُمت مسلمہ میں ایک وحدت اور یک رنگی پیدا کرتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی چاند دیکھ کر روزے کا آغاز کرتے ہیں‘ اور ایک ہی چاند دیکھ کر عید کا اہتمام کرتے ہیں۔ پورے مسلم معاشرے میں اس مبارک مہینے میں ایک خاص فضا قائم ہوتی ہے اور اُمت کی وحدت اور انفرادی اور اجتماعی عبادات کے ذریعے وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاِحدَۃً (الانبیاء ۹۲:۲۱‘  المومنون۲۳:۵۲) کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتی ہے ۔
  •  روزہ فرد اور جماعت دونوں میں ایمان کے ساتھ احتساب کے عمل کو موثر اور متحرک کرتا ہے کہ اس عبادت کی روح ہی یہ ہے کہ غیر شعوری انداز میں فاقہ اور تراویح کی مشق نہ ہو بلکہ عبادت سے لے کر کھانے پینے اور سونے اور جاگنے کے معمولات سے لے کر زندگی کے تمام معاملات کو اس طرح انجام دیا جائے کہ زندگی شعور اور آگہی سے بھر جائے اور بندہ ہر کام ایمان اور خود احتسابی کی شان کے ساتھ انجام دے۔

رمضان اور خود احتسابی

رمضان تو ہر سال انھی احساسات و جذبات کی آبیاری اور اُمت مسلمہ کو اس کی منزل اور مشن کے شعور کی تجدید اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد کی تحریک دینے کے لیے آتا ہے تاکہ سونے والوں کو بیدار کرے اور سرگرم عمل لوگوں کو تیز تر سرگرمی کے لیے مہمیز دے۔ لیکن اس سال جس فضا اور جن حالات میں اُمت مسلمہ رمضان سے بہرہ ور ہو رہی ہے وہ بہت غیر معمولی ہیں اور رجوع الی اللہ‘ ذاتی تربیت و تزکیہ اور اجتماعی صف بندی کی فکرمندی کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی خود احتسابی کے لیے ایک نادر موقع فراہم کر رہے ہیں۔ آج ہم عالمی پس منظر میں اس خود احتسابی کے ان چند پہلوئوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں جن کی طرف اس مبارک مہینے کی عبادات کے دوران توجہ نہ کرنا ایک خسارے کا سودا ہو سکتا ہے کہ روزہ تو ہے ہی اس لیے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ انفرادی اور اجتماعی تقویٰ حاصل کرے جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے اور یہ سب اس لیے کہ اللہ کا کلمہ بلند و بالا ہو سکے۔

وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ ۲:۱۸۵) اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیںسرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔

ہدایت‘ فرقان اور تقویٰ کے اس منظر میں اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعلان اُمت کو جس کام کے انجام دینے کے لیے اُبھار رہا ہے وہ اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے‘ اس کے دین کو قائم کرنے اور حق کو باطل پر غالب کرنے کی جدوجہد ہے۔

روزہ‘ تقویٰ اور جہاد اللہ کے کلمے کی بلندی اور بالادستی کے قیام کا راستہ ہیں اور نماز‘ روزے ‘ حج اور زکوٰۃ کا رشتہ ایمان اور احتساب سے کٹ جانا یا کمزور ہو جانا ہی اُمت مسلمہ کی کمزوری‘ بے بسی اور محکومی کا باعث ہے جیسا کہ حدیث نبویؐ میں انتباہ کیا گیا ہے:

جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کو دسترخوان کی طرف دعوت دیتے ہیں اس طرح عنقریب ایسا ہوگا کہ (دشمن) حکومتیں (لقمہ تر سمجھ کر) تم پر ٹوٹ پڑیں گی۔ ایک شخص نے سوال کیا: کیا ایسا ہماری قلت تعداد کی بنا پر ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں‘ بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت زیادہ ہو گے لیکن تمھاری حیثیت خس و خاشاک سے زیادہ نہ ہوگی۔ دشمنوں کے دلوں سے تمھارا رعب اٹھ جائے گا اور تمھارے اندر ’’وھن‘‘ کی بیماری پیدا ہو جائے گی۔ آپؐ سے سوال کیا گیا ’’وھن‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی محبت اور موت سے نفرت‘‘۔ (انتخاب حدیث ‘مولانا عبدالغفارحسن‘ص ۳۱۰)

آج ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ اور اس کے حواری افغانستان پر حملہ آور ہیں اور رمضان کے مقدس مہینے میں معصوم انسانوں کا خون بہا رہے ہیں اور دوسری طرف عالم یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا پر ایک سکتہ طاری ہے‘ کچھ سہمے ہوئے ہیں‘ کچھ منقار زیر ہیں‘ کچھ کانپ رہے ہیں‘ کچھ ہاتھ جوڑ کر دشمنوں کو کندھا فراہم کر رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو آگے بڑھ کر ظالموں کے دست و بازو بن رہے ہیں اور مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ بھی رنگ رہے ہیں اور مظلوموں کی لاشوں پر اپنے لیے تخت سجانے کے خواب دیکھ رہے ہیں--- تو کیا خود احتسابی کے لیے اس سے بھی زیادہ کسی سنگین لمحے کا انتظار کیا جا سکتا ہے؟

خود احتسابی ‘ ایک ذمہ داری

خود احتسابی کا آغاز اہل پاکستان کوخود اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔افغانستان اور اُمت مسلمہ کے وسیع تر پس منظر میںخود احتسابی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر بھی خود احتسابی وقت کی ضرورت ہے۔ ان تینوں سطح پر خود احتسابی ہی سے وہ راہیں سامنے آ سکتی ہیں جن پر چل کر موجودہ بحران سے نکلا جا سکتا ہے اور ایک بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد ممکن ہو سکتی ہے۔

پاکستانی قیادت نے امریکہ میں ہونے والے ۱۱ ستمبر کے اندوہناک واقعے کے بعد ایک سوپر پاور کی دھمکی اور دبائو کے تحت حق و انصاف‘ عالمی قانون و روایات(conventions)‘ اسلامی وحدت اور ملّی حقوق و فرائض کے احکام و آداب اور خود ملک کے حقیقی اور دیرپا مفادات سے صرفِ نظر ہی نہیں کیا ان کی خلاف ورزی کی اور ان سے بے وفائی کا ارتکاب کرتے ہوئے گھٹنے ٹیکے اور چشم زدن میں خارجہ پالیسی میں ایسی قلابازی (U-turn)کھائی کہ دوست دشمن بن گئے اور جن کی دوستی کبھی قابل بھروسا نہ تھی اور جن سے بار بار ملک چرکے کھا چکا تھا ایک بار پھر انھی کے دامن کو تھامنے‘ اسی ’’کوئے ملامت‘‘ کے طواف کی ذلت قبول کرنے‘ انھی ٹھکرانے والوں سے کچھ ڈالروں کی بھیک مانگنے اور ان کی چاکری میں اپنے ستم زدہ مسلمان بھائیوں اور ہمسایہ ملک پر آگ اور خون کی بارش کرنے کے لیے راستے کھولنے اور فضائیں ہموار کرنے کا ’’جرأت مندانہ‘‘ اور ’’مبنی برحکمت‘‘ کارنامہ انجام دیا۔

کسی بھی صاحب ایمان‘ خوددار اور باعزت فرد یا قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ محض دبائو میں آکر‘ حقائق کا صحیح تعین اور تجزیہ کیے بغیر اور خود اپنی قوم اور اپنے دوست ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی بڑا فیصلہ کرے‘ چہ جائے کہ ایک ایسا فیصلہ جس کے بڑے دُور رس اثرات پوری قوم‘ ہمسایہ دوست ممالک‘ اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کے مستقبل پر مرتب ہونے والے ہوں۔ نیتوں کا علم تو اللہ تعالی ہی کو ہے لیکن قومی معاملات کے فیصلے رات کی تنہائیوںمیں بیرونی دھمکیوں کے تحت نہیں کیے جاتے۔ جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ۱۴ ستمبر ۲۰۰۱ء کی رات کو جو اقدام کیا اور جس کے کچھ نتائج ان دس ہفتوں میں بھی سب کے سامنے آگئے ہیں اور نہ معلوم ابھی کیسے کیسے نتائج رونما ہونے والے ہیں اس کا بے لاگ احتساب ضروری ہے۔ سرکاری ذرائع اور درباری اہل قلم اس اقدام کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگائے ہوئے ہیں لیکن حقائق اپنا لوہا منوا کر رہتے ہیں اور محض پروپیگنڈے کے گردوغبار سے تلخ حقیقتوں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ صحیح فیصلے وہی ہوتے ہیں جو آزاد فضا میں‘ بے لاگ غوروخوض ‘نفع و نقصان کے حقیقت پسندانہ ادراک‘ باہمی مشورے اور قوم کو اعتماد میں لے کر کیے جاتے ہیں کوئی فرد واحد عقل کل نہیں ہے اور چند افراد محض ’’ہم پر اعتماد کرو‘‘ کی بنیاد پر قوم کی قسمت سے نہیں کھیل سکتے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے اور خود ہمارا تجربہ۔ جب بھی بڑے بڑے فیصلے من مانے انداز میں ہوںگے‘ وہ بالآخر نقصان دہ اور تباہ کن ہوں گے۔ ۱۹۵۴ء کا امریکی حلقہ دفاع میں شرکت کا فیصلہ ہو یا ۱۹۶۶ء کا تاشقند کا معاہدہ‘ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کامشرقی پاکستان میں فوجی اقدام کا فیصلہ ہو یا ۱۶ دسمبر کا ہتھیار ڈالنے کا معاملہ‘ فروری ۱۹۹۹ کا اعلان لاہور ہو ‘ ۴ جولائی کا کارگل سے پسپائی کا فیصلہ اور ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو چیف آف اسٹاف کی برطرفی کا اعلان سب قوم کے لیے نشاناتِ عبرت ہیں۔

حکومتی فیصلے کا جائزہ

۱-  دباؤ کے تحت: یہ فیصلہ آزاد فضا میں اور مسئلے کے حسن و قبح کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ ایک سوپر پاور کی دھمکی اور دبائو میں ہواہے۔ ہم کیسی ہی تاویلیں کریں لیکن اب سارے حقائق دو اور دو چار کی طرح کھل کر سامنے آگئے ہیں کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ کے اصل مقتدر طبقے  (establishment) نے طے کر لیا تھا کہ اس موقع کو اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا ہے اور اس کا آغاز اسامہ بن لادن‘ القاعدہ‘ افغانستان اور بالآخر اسلامی احیا کی تحریک کو (جسے کبھی سیاسی اسلام (political Islam)کہا جاتا ہے‘ کبھی اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism)اور کبھی عسکری اسلام (militant Islam)اور کبھی جہادی تحریک) دبانے اور اس کے لیے مقابلے کی قوتوں کو اُبھارنے سے کیا جانا ہے۔

اصل واقعے کی آج تک کوئی معروضی تحقیق نہیں ہوئی ہے اور نہ کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔ عدل و انصاف اور قانون کے مطابق مجرموں کے تعین اور سزا کی کوئی کوشش کی گئی ہے اور نہ اس کا کوئی ارادہ ہے۔ نیویارک کے عالمی تجارتی مرکز کے انہدام کے آدھ گھنٹے کے اندر اسامہ بن لادن کو گردن زدنی قرار دے دیا گیا اور پھر پروپیگنڈے اور جبروقوت کے ذریعے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی ایک فضا بنا ڈالی گئی۔ کولن پاول نے اب صاف اعلان کر دیا ہے کہ ’’ہم نے ۱۳ ستمبر کو پاکستان کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تم کو بھی دہشت گرد ملک قرار دے کر تمھارے خلاف صف آرا ہو جائیں گے‘‘۔ جنرل پرویز نے ۲۴ گھنٹے کی مہلت مانگی مگر اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی ۱۴ ستمبر کی رات ‘ صدر بش نے جنرل پرویز کو نیند سے بیدار کر کے الٹی میٹم کا جواب مانگا اور جنرل صاحب نے ’’تحویل قبلہ‘‘ کا کارنامہ معکوس انجام دیتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔ اگر دہشت گردی کی تعریف (definition) کا کوئی متفق علیہ حصہ ہے تو وہ ’’سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قوت یا قوت کے استعمال کی دھمکی‘‘ سے عبارت ہے اور اس تعریف پر صدر بش کی جنرل مشرف کو دھمکی اور ان سے اپنی مطلب براری مکمل طور پر صادق آتی ہے۔

کہا گیا کہ ’’یاتم ہمارا ساتھ دو ورنہ تم دہشت گردوں کی صفوں میں شمار کیے جائو گے‘‘۔ ساری دنیا کو من مانے انداز میں سفید اور سیاہ کے دو طبقوں میں بانٹ دیا گیا اور کہا گیا کہ ’’۲۱ وی صدی میں زندہ رہنا چاہتے ہو یا پتھروں کے عہد کی طرف لوٹنے اور کھنڈرات میں بدلنے کے لیے تیار رہو‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ سب نے اس دھمکی کے آگے سپر ڈال دی۔ دنیا کے ۱۸۹ ملکوں میں سے اکثریت نے صرف ان دو راستوں (options) آپشنز کو ماننے سے انکار کر دیا اور جن ممالک نے دہشت گردی کے خلاف محاذ میں شرکت پر آمادگی کا اظہار بھی کیا ان میں سے بھی بیش تر نے غیر مشروط تعاون کی حامی نہیں بھری۔ بلجیم کے وزیراعظم نے دھونس میں آنے سے انکار کر دیا اور اسے سیاسی دبائو (bullying)قرار دیا۔ برطانیہ کے پارلیمنٹ کے متعدد ارکان نے کھل کر بغاوت کی۔انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ مصر‘ شام‘ ایران اور حتیٰ کہ سعودی عرب نے بھی اپنی زمین اور فضائی حدود استعمال کرنے سے انکار کر دیا اور ساری دھونس اور دبائو کے باوجود بمشکل ۴۵ ممالک نے امریکہ کے ساتھ مکمل یا جزوی طور پر اتحاد میں شرکت کی حامی بھری۔ان میں سے بھی اکثر کو اپنے اپنے ملکوں میں سخت مزاحمت سے سابقہ پیش آیا۔ آسٹریلیا اور جاپان کو دستور و قانون میں تبدیلی کرنا پڑی اور جرمنی حکومت کو اپنے وجود کے لالے پڑ گئے‘اعتماد کے ووٹ کا ڈراما رچانا پڑا اور حکومت چند ووٹوں سے ختم ہوتے ہوتے رہ گئی۔

ہمارے سامنے بھی صرف یہ دو ہی راستے نہیں تھے لیکن ہم نے ہر مشورے سے قبل اور کسی بھی نوعیت کی معلومات اور شہادتوں کے بغیر ۱۴ ستمبر کو امریکہ کے آگے سپر ڈال دی۔ نام نہاد مشاورت کا آغاز اس کے بعد ہوا ہے اور جنرل مشرف آن ریکارڈ ہیں کہ اس وقت تک کوئی معلومات اور شہادتیں ان کو نہیں دکھائی گئی تھیں۔بہ ظاہر جو بھی معلومات دی گئی ہیں (جو ناکافی اور حقائق سے زیادہ مفروضوں اور شبہات پر مبنی ہیں) وہ بھی خانہ پری کے لیے بعد میں دی گئی ہیں اور ہم نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ جنرل مشرف کی ۱۹ ستمبر کی تقریر کا ویڈیو موجود ہے۔ اگر جنرل صاحب خود بھی اس کو ایک بار دیکھ لیں تو ان کے چہرے کا رنگ بتا رہا ہے کہ ان کا فیصلہ دبائواور دھمکی کے تحت ہے ‘آزادانہ نہیں۔

۲-  قوم کی مرضی کے خلاف: یہ فیصلہ قوم کی مرضی کے بغیر ہوا اور اسے ہرگز قوم کی تائید حاصل نہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ صرف ۱۰‘۱۵ فی صد عوام اس کے خلاف ہیں‘ حقائق پر مبنی نہیں۔ ۲۷ ستمبر کے نام نہاد یوم یک جہتی پر پوری سرکاری مشینری کی عوام کو اپنی تائید میں نکالنے کی بھرپور کوشش کے باوجود اسکول کے بچوں اور سرکاری ملازمین کے سوا کسی کو اپنی تائید میں میدان میں نہ لایا جا سکا۔ اس کے برعکس عوامی ہڑتالوں‘ ریلیوں‘ جلسوںاور جلوسوں کے ذریعے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے پرُامن رہتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار ان کے اقدام کے خلاف کیا ہے ۔ افغانستان پر امریکہ کے ہوائی حملے کے بعد ۱۵ اکتوبر کے گیلپ سروے کے مطابق ۸۳ فی صد عوام نے طالبان سے یگانگت اور حملوں کی مذمت کی رائے کا اظہار کیا ۔یہی کیفیت ساری دنیا میں رائے عامہ کے جائزوں کی ہے حتیٰ کہ برطانیہ میں بھی مسلمانوں کی آرا کا تقریباً یہی تناسب ہے۔ ترکی‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ تھائی لینڈ بلکہ بھارت تک کے مسلمانوں کا یہی ردعمل ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اس مسئلے پر عوامی ریفرنڈم ہو تو ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگ امریکہ کے خلاف اور اس معاملے میں جنرل مشرف کے اس سے تعاون پر ناراض‘ نادم اور برافروختہ نکلیں گے۔

بلاشبہ یہ پالیسی عوامی تائید سے محروم ہے اور جن سیاسی لیڈروں نے مختلف وجوہ سے حکومت کی تائید کی ہے‘ ان کے اپنے پیروکاروں کی بڑی تعداد بھی اس مسئلے پر ان کے ساتھ نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ فیصلہ قوم کے اجتماعی ضمیر اور ملت اسلامیہ کی تاریخی روایات اور ایمانی کیفیات کے خلاف ہے۔ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جن حکومتوں نے اس معاملے میں بہ خوشی یا بہ جبر امریکہ کا ساتھ دیا ہے ان کے عوام کھلے بندوں ان کی اس روش سے برگشتہ ہیں اور برأت کا اعلان کر رہے ہیں۔ مجھے حال ہی میں (۹ تا ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ء) آکسفورڈ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں امریکہ کے دو سابق سفیر اور انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ (نائب وزراے خارجہ) شریک تھے۔ دونوں نے باقی شرکا کے اس احساس کا اعتراف کیا کہ خواہ قاہرہ ہو یا اسلام آباد‘ حکومتوں کا موقف ایک تھا اور گلی کوچوں (street opinion) میں گونجنے والی رائے بالکل دوسری تھی۔ یہ کیفیت مسلم ممالک کی قیادتوں اور مسلم عوام کے جذبات و احساسات میں مکمل عدم مطابقت کی یہ ایک واضح مثال اور ان قیادتوں کے اپنے عوام سے دُور ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔

۳- ظلم اور دہشت گردی سے تعاون: ہم نے ایک ایسا موقف اختیار کیا جو حق و انصاف کے خلاف ہے اور کھلے کھلے ظلم اور سامراجی دہشت گردی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ ۱۱ ستمبر کو امریکہ مظلوم تھا اور ساری دنیا نے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر خودکش حملے کی بھرپور مذمت کی۔ لیکن امریکہ نے اصل دہشت گردوں کے تعین اور ان کے احتساب اور گرفت کے لیے دستور‘ قانون‘ اخلاق‘ بین الاقوامی روایات کے فریم ورک میں اقدام کرنے کے بجائے ایک نئی عالمی جنگ کا بلاجواز اعلان کر دیا اور بین الاقوامی دہشت گردی کے ذریعے ایک نئے سامراجی دَور کا آغاز کر دیا اور اس طرح ایک بار پھر ایک ظالم اور سامراجی طاقت کا کردار ادا کیا۔ ہم اس سے پہلے دلائل اور شواہد سے (ملاحظہ ہو ترجمان القرآن‘ نومبر ۲۰۰۱ء) یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ دہشت گردی سے جنگ کے نام پر امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ صریح ظلم‘ کھلی کھلی غنڈا گردی اور بدترین دہشت گردی ہے جس کا ارتکاب وہ خود اپنے دستور‘ قانون‘ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور بین الاقوامی قانون‘ روایات اور اخلاق کوپارہ پارہ کر کے پوری ڈھٹائی سے انجام دے رہا ہے۔ اس نئی جنگ کا مقصد اس کے اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کا حصول ہے۔ وہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے نام پر دنیا کے غریب اور کمزور ممالک پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنا اور ان کے مزید وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

اس خونی کھیل پر سے ہر روز پردے اُٹھ رہے ہیں اور امریکہ اور یورپ میں اہل فکرونظر‘ حق و انصاف کے اس طرح خون بہانے اور ظلم اور جارحیت کا نیا باب رقم کرنے پر سراپا احتجاج بن رہے ہیں۔ بات صرف مسلمانوں کی نہیں ‘امریکہ میں کم لیکن یورپ اور باقی تمام دنیا میں بشمول اسلامی دنیا اس کے خلاف بے زاری کی لہر اٹھ رہی ہے۔ ابھی ۱۸ نومبر کو لندن میں جنگ کے خلاف ایک تاریخی مظاہرہ ہواجس میں شدید سردی میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی اور اس جنگ کو محض مفادات کی جنگ قرار دیا۔ برطانیہ کے سابق وزیر ٹونی بین (Tony Ben)برطانوی پارلیمنٹ کے متعدد ارکان‘ اخبارات کے مدیر‘ کالم نگار اور ملائشیا کے ڈاکٹر چندرا مظفر اور سیکڑوں عمائدین نے اس میں شرکت کی اور امریکی عزائم کا پردہ چاک کیا۔ اہل علم و صحافت اور سیاسی شخصیات کی بڑی تعداد‘ حتیٰ کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میںہلاک ہونے والوں کے اعزہ بھی پکار اٹھے ہیںکہ افغانستان کے غریب عوام پر ہولناک بم باری ایک ظلم ہے اور اس انتقامی کارروائی اور جنگ زرگری کے ذریعے ہمارے مرنے والوں کے خون کا سودا نہ کیا جائے۔ ٹونی بین نے اس عالمی احساس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

ان کارروائیوں کو آغاز میں صلیبی جنگ قرار دیا گیا۔ اب ہم کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ اسلام کے خلاف کوئی مقدس جنگ نہیں ہے۔ اگرچہ آرچ بشپ آف کنٹربری نے اپنے مشرق وسطیٰ کے حالیہ دورے میں اس کو منصفانہ جنگ قرار دیا ہے جس کی حمایت اچھے عیسائیوں کو کرناچاہیے۔

اسامہ بن لادن کو نیویارک کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے لیکن اس پر مقدمہ چلائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔اس لیے کہ امریکہ کسی ایسے جنگی جرائم کے ٹربیونل کا مخالف ہے جس کو امریکی شہری پر مقدمہ چلانے کا اختیار ہو۔ بہرحال سابق صدر کلنٹن اور صدر بش پہلے ہی یہ احکامات جاری کر چکے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ بن لادن کو عدالت میں کیوں نہیں لانا چاہتا۔ یقینا وہ اپنے دفاع میں بتائے گا کہ  افغانستان پر حملہ کے بعد روسیوں کو نکالنے کے لیے خود سی آئی اے نے اسے ایک حریت پسند (یا دہشت گرد) کی حیثیت سے اسلحہ اور رقم فراہم کی تھی۔

دہشت گردی کی مذمت میں سلامتی کونسل کی قرارداد سے قطع نظر‘ یو این چارٹر میں امن کو درپیش خطرات سے نمنٹنے کے لیے جو طریقۂ کار بیان کیا گیا ہے‘ اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ نیٹو نے دفعہ ۵ کو متحرک کر کے اپنے کو ان ذمہ داریوں سے بری نہیں کر لیا ہے جو معاہدہ نیٹو میں یو این چارٹر کی پابندی کرنے کے حوالے سے اس پر عائد ہوتی ہیں--- موسم سرما کے قریب آنے پر ہزاروں لاکھوں افراد کے فاقوں اور سردی سے مرنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیںاور ہمیں یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ یہ منصفانہ جنگ ہے جو ہم جیت سکتے ہیں اور جیتنا چاہیے۔

شاید ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی خاموشی سے انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں شریک ہو رہے ہیںکیوں کہ وہ لوگ جو پہلے ہی بہت تکلیف اٹھا چکے ہیں اب پھر اپنی سرزمین پر تکلیف اٹھا رہے ہیں صرف اس لیے کہ کیسپین کا تیل امریکہ کی مارکیٹ میں لانے کے لیے ان کی زمین کی فوری ضرورت ہے۔ (دی ارجین لندن‘ ۱۲ نومبر ۲۰۰۱ء)

سر جان پلجر(Sir John Pilger) کئی کتابوں کا مصنف ہے اور بی بی سی ٹی وی اور روزنامہ مرر کا چیف بین الاقوامی نامہ نگار رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک کھلا دھوکاہے۔ افغانستان میں تین ہفتے کی بم باری کے بعد بھی امریکہ میں حملوں میں ملوث کوئی ایک دہشت گرد نہ گرفتار ہوا اور نہ ہلاک۔اس کے بجائے دنیا کی غریب ترین اقوام میںسے ایک اور سب سے زیادہ مصیبت زدہ قوم کو دنیا کی طاقت ور ترین قوم کے ذریعے دہشت گردی کا اس حد تک نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ کہ امریکی پائلٹوں کے لیے ’’غیر یقینی‘‘ فوجی اہداف ختم ہوگئے‘ اور اب وہ کچے گھروں‘ہسپتالوں‘ ریڈکراس کے گوداموں اور مہاجرین کو لے جانے والی بسوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

۱۱ ستمبر کے سانحے میں جو افراد براہ راست ملوث ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی افغانی نہیںہے۔ بیش تر سعودی ہیں جنھوں نے منصوبہ بندی اور تربیت بہ ظاہر جرمنی اور امریکہ میں حاصل کی۔ وہ کیمپ جن کے استعمال کی طالبان نے بن لادن کو اجازت دی تھی ایک ہفتہ قبل خالی ہو چکے تھے۔ طالبان خود امریکہ اور برطانیہ کے پرداختہ ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں وہ قبائلی فوج جس نے انھیں تیار کیا اسے سی آئی اے نے فنڈ فراہم کیے اور ایس اے ایس نے انھیں روس سے لڑنے کے لیے تربیت دی۔

منافقت صرف یہیں تک نہ نہیں۔ جب طالبان نے ۱۹۹۶ء میں کابل پر قبضہ کیا تو واشنگٹن نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ کیوں؟ کیونکہ طالبان کے لیڈروں کو جلد ہائوسٹن‘ (ٹیکساس) میںان سے معاملہ کرنا تھا جہاں تیل کی کمپنی یونی کول کے اعلیٰ افسران کو ان کا استقبال کرنا تھا۔ امریکی حکومت کی خفیہ منظوری سے کمپنی نے انھیں تیل اور گیس کی فراہمی میں وافر منافع دینے کی پیش کش کی جو امریکہ سوویت وسطی ایشیا سے افغانستان تک پائپ لائن کی تعمیر کے ذریعے چاہتا تھا۔

ایک امریکی سفارت کار نے کہا: طالبان غالباً سعودیوں کی طرح ترقی کے راستے پر چل پڑیںگے۔ اس نے واضح کیا کہ افغانستان تیل کی ایک امریکی کالونی بن جائے گا‘ اس میں مغرب کے لیے بہت منافع ہوں گے۔ کوئی جمہوریت نہ ہو اور نہ خواتین کی کوئی قانونی حیثیت‘ ہم اس صورت حال میں گزارا کر سکتے ہیں۔

اگرچہ سودا ناکام رہا ‘ تاہم یہ جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کی اہم ترین ترجیح رہی جو تیل کی صنعت میں ڈوبا ہوا ہے۔ بش کا خفیہ ایجنڈا کیسپین کی تہ میں تیل اور گیس کے ذخائر کا استحصال کرنا ہے جو دنیا کے محفوظ ذخائر میں سے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی توانائی  کی بہت زیادہ بڑھی ہوئی ضروریات کے لیے آیندہ ایک نسل کے لیے کافی ہوں گے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے اگر پائپ لائن افغانستان سے گزرے اور امریکہ کی امید بر آئے۔

عراقیوں اور فلسطینیوں اور افغانیوں کا المیہ ایک حقیقت ہے جو مغرب کے اکثر میڈیا میں ان کے خاکے کے برعکس ہے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے مسلمان عالمی دہشت گرد تو کیا ہوتے‘ ان کی عظیم اکثریت خود اس کا شکار ہے۔ یہ اپنے ممالک یا قریبی علاقوں کے قیمتی قدرتی وسائل کے سبب مغرب کے استحصال کا شکار ہیں۔

یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو رائل میرینز اور ایس اے ایس فلوریڈا کے ساحلوں پر حملہ آور ہوتے جہاں سی آئی اے کے پروردہ دہشت گردوں اور لاطینی امریکہ کے سابق آمروں اور سفاکوں کو دنیا کے کسی اور خطے کے مقابلے میں زیادہ پناہ دی جاتی ہے۔

تاہم بے طاقتوں کے خلاف طاقت ور کی جنگ نئے بہانوں‘ نئے خفیہ ایجنڈوں اور نئے جھوٹوں کے ساتھ جاری ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور بچہ تشدد سے یا فاقہ کشی کی وجہ سے خاموشی سے ہلاک ہو جائے‘ اس سے پہلے کہ مشرق ومغرب دونوں جگہ نئے جنونیوں کی تخلیق کی جائے‘ یہ وقت ہے کہ برطانیہ کے عوام اپنی بات کو بھرپور طریقے سے منوائیں اوراس پرفریب جنگ کو بند کروائیں۔ (دی مرر‘ ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

مغرب کے درجنوں دانشور اس ظالمانہ جنگ کو صریح ظلم اور سامراجی دہشت گردی قرار دی ہے۔ جگہ کی قلت کے باعث ہم صرف ان دو اقتباسات پر اکتفا کرتے ہیں۔ البتہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ہلاک ہونے والے ایک سابق فوجی افسر کی بیوی امبرایمنڈسن کا خط ضرور پیش کرنا چاہتے ہیں جو ۷ اکتوبر کی بم باری کے بعد شائع ہوا ہے اور دکھی انسانیت کے دل کی آواز ہے۔وہ انسان خواہ مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ افغانستان میں یا امریکہ میں۔ لیکن اس کی آواز نہ صدربش کے دل میں اتر رہی ہے اور نہ جنرل مشرف کے ضمیر کو جھنجھوڑ پا رہی ہے!

۱۱ ستمبر کو جب دنیا بے یقینی اور خوف کے عالم میں نظارہ کر رہی تھی‘ میرا شوہر کریگ اسکاٹ ایمنڈسن جو امریکہ کا فوجی افسرتھا پینٹاگون میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اپنے ۲۸ سالہ شوہر اور دو نوجوان بچوں کے باپ کو کھونا ایک تکلیف دہ اور الم ناک تجربہ ہے۔ اس کی موت عظیم قومی نقصان کا ایک حصہ ہے اور مجھے یہ جان کر سکون ہوتا ہے کہ اتنے بہت سے دوسرے میرے غم میں شریک ہیں۔ میں نے اس تاریخی المیے کے ایک حصے کے طور پر کریگ کو کھو دیا ہے‘لیکن میرا غم اس خوف سے بڑھ جاتا ہے کہ اس کی موت کو دوسرے معصوم مظلوموں کے خلاف تشدد کرنے کا جواز فراہم کرنے میں استعمال کیا جائے گا۔ میں نے قومی رہنمائوں سمیت کچھ امریکیوں کی غصے میں بپھری لفاظی سنی ہے۔ وہ رہنما جو مسئلے کے حل کے لیے بہت زیادہ انتقام اور سزا کا مشورہ دے رہے ہیں‘ میں ان رہنمائوں پر واضح کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے اور میرے خاندان کو غم و غصے کے ان الفاظ سے کوئی سکون نہیں ملتا۔ اگر وہ اس ناقابل فہم سفاکی کا جواب دوسرے معصوم انسانوں کے خلاف تشدد برت کر دینا چاہتے ہیں تو انھیں میرے شوہر کے لیے انصاف کے نام پر ایسا نہیںکرنا چاہیے۔ ایسی لفاظی اور انتقام کے فوری اقدامات میرے خاندان کی تکلیف کو صرف بڑھا سکتے ہیں‘ اور ہم کو اپنے پیاروں کو اس طرح یاد رکھنے میں جو ان کے لیے قابل فخر ہو‘ محروم کر سکتے ہیں اور امریکہ کے ایک امن ساز قوت کی حیثیت کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

کریگ اپنی موت کے انتقام کے لیے پرتشدد ردعمل ہرگز نہ چاہتا‘ اور میں نہیں سمجھ سکتی کہ اس سے کوئی خیر کیسے برآمد ہو سکتا ہے۔ ہم تشدد کا مسئلہ تشدد سے حل نہیں کر سکتے۔ انتقام ایک خود بخود چلنے والا چکر ہے۔ میں قوم کے رہنمائوں سے کہتی ہوں کہ ایسا راستہ اختیار نہ کریں جو زیادہ وسیع نفرتوں کی طرف لے جائے‘ جو میرے شوہر کی موت کو قتل و غارت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی وجہ بنا دے۔میں ان سے اپیل کرتی ہوں کہ اس ناقابل فہم المیے کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ حوصلہ لائیں جس سے تشدد کا یہ چکر توڑا جا سکے۔ میں ان سے کہتی ہوںکہ وہ اپنی توجہات دنیا میں امن و انصاف کے لیے کام کرنے پر مرکوز کریں۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘۱۳ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ یہ جنگ صریح ظلم پر مبنی ہے اور گذشتہ ۷ ہفتوں میں افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ اصل مقصد افغان عوام کی کمر توڑنا‘طالبان کے اقتدار کو ختم کرنا اور دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو دہشت زدہ کرنا ہے کہ یا ہمارے ساتھ رہو ورنہ تمھارا حشر بھی ایسا ہی کر دیا جائے گا۔ افغانستان پر اس وقت تک ۵ ہزار سے زیادہ ہوائی حملے ہو چکے ہیں جن میں ۵ لاکھ سے زیادہ بم گرائے جا چکے ہیں اور اس میں چپے چپے پر بم باری (Carpet bombing)کے علاوہ امریکی جنگی خزانے کا ایٹم بم کا برادر نسبتی Daisy Cutterبے دردی سے استعمال کیا گیا ہے جو ۱۵ ہزار پونڈ المونیم اور دوسرے کیمیاوی مواد کو زمین سے ۳ فٹ بلندی پر ۱۰ ہزار درجہ فارن ہائٹ گرمی پر ایک آتشیں ہیولے کی شکل میںجنم دیتا ہے اور یہ آگ کا بادل ایک میل تک اس کی زد میں آنے والی ہر شے کو بھسم کر دیتا ہے۔ جو انسان یا اشیا اس کی گرفت میں نہیںآتیں لیکن تپش کی زد میںہوتی ہیں وہ جگر کے سرطان یا سماعت سے محرومی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ  تہذیب کے وہ تحفے ہیں جو امریکہ نے افغانستان کے عوام کو دیے ہیں ۔ اس جنگ میں ہم نے نہ صرف ان کی تائید کی ہے بلکہ ان کو فضائی حدود ہی نہیں زمینی سہولت بھی فراہم کی ہے اور مغربی اخبارات نے تفصیل سے بار بار لکھا ہے کہ کس طرح جنگی ہیلی کوپٹروں نے ہمارے فراہم کردہ ہوائی اڈوں سے پرواز کی ہے اور پاکستان کی زمین کو اپنی چھائونی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں ہماری شرکت اثم و عدوان اور ظلم و بربریت میں تعاون کے مترادف ہے۔

۲۱ اور ۲۲ نومبر کے برطانیہ کے اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ اب تک لاتعداد شہریوں کے علاوہ ۵سے ۱۰ ہزار طالبان شہید کیے جا چکے ہیں‘ جن میں ایک ہزار کے قریب پاکستانی‘ عرب اور دوسرے رضاکار بھی شامل ہیں اور مزار شریف ‘ کابل اور دوسرے مفتوحہ علاقوں میں شمالی اتحاد کے جنگ جو‘ جو ۴ سال تک ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہ کر سکے تھے اب امریکی بم باری اور امریکی فوجی مشیروں کی رہنمائی میں نصف سے زیادہ افغانستان پر قبضہ کر چکے ہیں اور ہر جگہ انتقام کی آگ بھڑکا رہے ہیں اور ہزاروں انسانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ ان کی لاشوں کا مثلہ کر رہے ہیں اور اپنے ان مسلمان اہل وطن کو بے گوروکفن سڑکوں اور کھلیان میں بے آبرو کر رہے ہیں۔ قندوز کے محاذ پر شمالی اتحاد کی قیادت ہی نہیں امریکی وزیر دفاع بھی کہہ رہے ہیں یا ہتھیار ڈالو ورنہ موت کے لیے تیار ہو جائو۔ ہتھیار ڈالنے پر بھی جان کی امان نہیں اور جنگی قیدی بھی بنانے کے لیے ہم تیار نہیں۔ اسلام توبہت اعلیٰ تعلیمات کا دین ہے۔ یہ تو مغرب کے جنگی قانون اور جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے‘ یہ ظلم اور آتش انتقام کا وہ مقام ہے۔ جس پر جنرل پرویز بھی چیخ اٹھے ہیں اور اپنے کیے پر نادم ہوں نہ ہوں‘ اب ٹونی بلیر اور کولن پاول سے درخواستیں کر رہے ہیں کہ رحم کرو اور کم از کم باعزت انخلاء کا راستہ دو۔

۴-  قومی مفادات یا امریکی مفادات: جنرل پرویز نے اپنی اس پالیسی کے لیے ’’قومی مفاد‘‘ کے گھسے پٹے نعرے کا بھی سہارا لیا ہے اور یہ وہ مظلوم سہارا ہے جو برسرِاقتدار ہر گروہ اپنے ہر جائز و ناجائز اقدام کے لیے ہمیشہ کرتا چلا آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ’’قومی مفاد‘‘ کا تعین کون کرے گا اور خود قوم کا بھی اس میںکوئی دخل ہے یا جس کا دائو چل جائے بس اس کو قومی مفاد کے نام پر اپنا کھیل کھیلنے کا حق ہے؟

کہا گیا ہے کہ ہم نے اپنی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت‘ کشمیر کی جدوجہد کی بقا اور مکمل تباہی سے بچنے کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الحقیقت کوئی ایسا خطرہ تھا کہ امریکہ پاکستان پر حملہ کر دیتا؟ حقیقت یہ ہے کہ محض ایک دھمکی اور خوف کا منظر پیدا کر کے امریکہ نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ ورنہ کیوبا جو امریکہ سے دو قدم پر ہے اس کو بھی بار بار دھمکیاں دی گئیں مگر اس کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکا۔ پاکستان پر حملہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ بھارت کو استعمال کیا جا سکتا تھا مگر نہ ہم اتنے کمزور اور بے یارومددگار ہیں اور نہ بھارت اتنا احمق اور عاقبت نااندیش ہے کہ اس آسانی سے خودکشی پر تیار ہو جاتا۔ بین الاقوامی سطح پر تنہائی کی دہائی بھی دی گئی ہے مگر یہاں بھی دنیا کے ممالک کی اکثریت نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا ہے اور دنیا کے ہر ملک میں امریکہ کی اس جارحیت کے خلاف تحریک اٹھ رہی ہے۔ ہم نے حق و انصاف کی بنیاد پر دنیا کی رائے اور ہم خیال ممالک کو متحرک کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ پوری عرب دنیا اور تیسری دنیا کے تمام ممالک حتیٰ کہ یورپ کے کئی ممالک اس امریکی دہشت گردی اور محاذ آرائی کی پالیسی کے مخالف ہیں۔ مسلم عوام اور دنیا کے عام امن پسندانسان اس کے خلاف ہیں۔ ہم نے خود کو ان سب سے حتیٰ کہ اپنے عوام اور افغانستان میں اپنے دوستوں سے اپنے کو کاٹ کر تنہا کر لیااور خوش ہیں کہ ہمیں جرأت مندی کے تمغے دیے جا رہے ہیں اور وہ جو کل تک آپ کو گالیاں دے رہے تھے‘ آپ کے ساتھ فوٹو کھنچوانے تک کو تیار نہ تھے اور آپ کو دولت مشترکہ ہی نہیں مہذب برادری سے آپ کو‘ آپ کی وردی کی وجہ سے نکالنے کے لیے پر تول رہے تھے‘ وہ آج اپنے مفاد کی خاطر اب آپ کے ساتھ شیروشکر ہیں اور آپ کی پیٹھ تھپک رہے ہیں۔ یہ مفاد کا کھیل ہے‘ محبت نہیں۔ اب بھی ان کا رویہ یہ ہے کہ بقول آپ کے آپ کو یقین دہانی کرائی گئی کہ جنگ مختصر ہوگی لیکن دوسرے ہی دن آپ کی تردید کر دی گئی کہ کس نے یقین دہانی کرائی ہے؟ اور آپ بھی ’’جب تک ضرورت ہو‘‘ کا سجدہ سہو کرنے لگے۔ ایک بات شہری آبادی کی حفاظت اور محدود نشانوں کی بھی کہی گئی لیکن سب نے دیکھ لیا کہ نشانہ کون کون تھا--- شہری آبادی‘ ہسپتال‘ مسجدیں‘ مدرسے‘ ریڈ کراس کے گودام‘ اقوام متحدہ کے دفاتر‘ الجزیرہ ٹی وی کا مرکز :

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

ایک اور بات بڑے طمطراق سے یہ بھی ہوئی تھی کہ ہمیںضمانت دی گئی ہے کہ افغانستان میں ایسی وسیع البنیاد حکومت وجود میں آئے گی جس میں سب کی نمایندگی ہو اور یہ کہ شمالی اتحاد کو‘جو کھلے کھلے پاکستان کا مخالف اور روس کا حلیف ہے‘ فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لیکن ہوا وہی جس کا خطرہ تھا۔ ۱۰نومبر کو صدر بش اور جنرل مشرف مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کر رہے تھے کہ شمالی اتحاد کو کابل میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا مگر ۶نومبر کو شمالی اتحاد کو پیش قدمی کے لیے سبز جھنڈی دکھائی جا چکی تھی اور امریکی طیاروں کی چھائوں میں اور امریکی فوجی مشیروں کی رہنمائی میں وہ یہ بازی سر کر رہے تھے۔

یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ پاکستان نے جو کچھ۲۲سال کی قربانیوں سے حاصل کیا تھااسے ۲۲ گھنٹے میں امریکہ کے آگے جھک جانے کی ہمالہ سے بڑی غلطی نے پادر ہوا کر دیا۔ روس جو مقصد ۱۹۲۰ء سے ۱۹۸۹ء تک کی سیاسی اور عسکری کارروائیوں سے حاصل نہ کر سکا تھاوہ امریکہ کی ۷ اکتوبر کی فوجی یلغار کے باوجود حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب افغانستان کی سیاست میں روس کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگا۔ یہ خطرات افق پر منڈلا رہے ہیں کہ خدانخواستہ اب افغانستان میں ایک نہیں کئی بیرونی طاقتوں کے حلقہ اثر (areas of influence)وجود میںآئیں گے‘ کچھ حصے پر روس کا اثر غالب ہوگا‘ کچھ پرایران کا اور کچھ پر امریکہ کا۔ پاکستان جس strategic depth کے خواب دیکھ رہا تھا وہ قصہ پارینہ بن جائیں گے اور جس مغربی محاذ کی طرف سے مطمئن تھا وہ ایک بار پھر پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اور پاکستان کی آیندہ کی سلامتی پالیسی کو مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں کی فکر کرنا ہوگی۔ جس طوائف الملوکی کی طرف افغانستان جا رہا ہے‘ اس کے اثرات سے خود پاکستان کو محفوظ رکھنا ایک نیا دردسر بن جائے گا۔

ایک بات ماضی کی غلطیوں اور محرومیوں کی تلافی کی بھی ہوئی تھی مگر ایف-۱۶ کی بات کر کے دیکھ لیا گیا کہ کس طرح پاکستان کے منہ پر طمانچہ مارا گیا کہ ایف-۱۶ کی بات کرنے والے کون ہوتے ہو؟ معاشی امداد اور قرضوں کی معافی کے بھی بہت خواب دیکھے گئے اور پلائو پکائے گئے مگر حاصل کیا ہوا--- چند ملین ڈالر کی امداد‘ایک ارب کے پیکج کی نوید‘ اور ورلڈ بنک کا بیان کہ ہم سے ۵.۲ ارب کے ریلیف کی توقع نہ رکھو--- اور اس کے ساتھ ملک میں قیمتوں کا بڑھنا‘ بے روزگاری میں اضافے‘ سرمایہ کاری میں جمود‘ بلکہ جو برآمدات ہو رہی تھیں ان میں بھی تعطل اور زیرتکمیل آرڈ تک کا اتلاف جس کے نتیجے میں معیشت کو دو ڈھائی ارب ڈالر کے خسارے کا اندیشہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اور توازن ادایگی کا بھی--- خدا نہ کرے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’سو جوتے اور سو پیاز‘‘ دونوں ہی اس ’’جرأت مند‘‘ قیادت کے نتیجے میں قوم کی قسمت میں لکھے ہیں۔

ایٹمی تنصیبات کی بھی بات ہوئی ہے لیکن اگر امریکی اخبارات اور خصوصیت سے نیویارکر میں مشہور صحافی ہیسٹ (Heist)کی رپورٹ صحیح ہے تو ہماری ایٹمی تنصیبات تک رسائی اور حفاظت کے نام پر سارے انتظامات ان پر گرفت کے لیے کیے جا چکے ہیں اور جو فوجیں اس وقت افغانستان میں مصروف ہیںا ن کا کام وہاں تک محدود نہیں--- تیرے نشتر کی زد شریان قیس ناتواں تک ہے!

کشمیر کے بارے میںبہت کچھ کہا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے حکم پر بعض جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور ان کے حسابات کو منجمد کر دیا گیا ہے جب کہ لبنان تک نے امریکہ کے سارے دبائو کے باوجود حزب اللہ پر پابندی یا حسابات کی بندش سے صاف انکار کر دیا۔ امریکی وزیردفاع‘ قومی سلامتی کی مشیراور برطانوی وزیر دفاع تینوں نے بھارت کے خلاف دہشت گردی کے عنوان سے ایسی مبہم باتیں کی ہیں جو کان کھڑے کرنے والی ہیں۔ کشمیر میں بھارت کا ظلم اور دہشت گردی اس زمانے میں کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور معصوم انسانوں اور مجاہدین کی شہادت اور آبادیوں کی تباہی میں اضافہ ہوا ہے۔سارے آثار یہ ہیں کہ فلسطین ہو یا کشمیر‘ باہر سے کسی حل کو مسلط کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کیا یہی اسٹرٹیجک معاملات کاوہ تحفظ ہے جسے قومی مفاد کا نام دیا گیا ہے؟

طالبان کی خوبیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ--- ہم طالبان سے کمزور تو کسی اعتبار سے بھی نہ تھے‘ مگر انھوں نے اپنی عزت اور اپنی روایات کے پاس میں جان کی بازی لگا دی اور کسی دبائو میں آنے سے انکار کر دیا۔ بجا‘ ان کو بڑے نقصانات اٹھانے پڑے اور واحد سوپر پاور کی یلغار کا ۳۷ دن مقابلہ کرنے کے بعد بہت سے علاقوں سے پسپا ہونا پڑا اور پتا نہیں کہ جن ۴‘ ۵ صوبوں پر ان کا قبضہ ہے اسے باقی رکھ سکیںگے یا نہیں اور کیا گوریلا جنگ ہوگی یا اس کا امکان نہ ہوگا‘ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ انھوں نے جان اور مال پر عزت اور ایمان کو فوقیت دی۔ ان کے لیے خطرات ہم سے کہیں زیادہ تھے اور ان کی مشکلات اور مجبوریاں بھی ہم سے بہت بڑھ چڑھ کر تھیں مگر انھوں نے مقابلے کا‘ خواہ وہ محدود مقابلہ ہی کیوں نہ ہو‘ راستہ اختیار کیا‘ لیکن ظلم اور ظالم کا چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کر دیا:

سودا قمار عشق میں خسرو سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو دے سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا


اسلامی تعلیمات کی تضحیک

اس پوری بحث میں بے چارے اسلام کی بھی اچھی خاصی گت بن گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ عین اسلامی ہدایات اور تاریخی روایات کے مطابق کیا ہے ۔کچھ دلائل تو وہی گھسے پٹے ہیں جن میں مظلوم صلح حدیبیہ پر طبع آزمائی کی جاتی ہے اور بیچارے میثاق مدینہ کی گوشمالی کی جاتی ہے‘ لیکن کچھ دور کی کوڑیاں نئی لائی گئی ہیں جن میں حکمت اور چھوٹی برائی قابل ذکر ہیں۔ یہ اسلام اور مسلم اُمت پر ایک ظلم ہوگا کہ اس ظالمانہ کارروائی کے لیے اسلام کے نام پر جواز فراہم کرنے کی اس جسارت کو چیلنج نہ کیا جائے اور اس کے پاے چوبین کو بے نقاب نہ کیا جائے۔

۱- اُمت مسلمہ‘ حق کی گواہ : اسلام نے اس اُمت کو حق کا شاہد اور گواہ بنایا ہے اور اس کا فرض منصبی ہے کہ عدل و انصاف قائم کرے اور کسی حال میں بھی عدل وا نصاف کا دامن نہ چھوڑے‘ خواہ معاملہ اپنوں کا ہو یا حتیٰ کہ دشمن کا۔ قرآن کا حکم ہے: وَاِذَا حَکَمْتُمْْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴: ۵۸) ’’جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔

ہم نے اس معاملے میں کھلے طور پر انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا‘ ظلم اور زیادتی کرنے والوں کا ساتھ دیا اور اپنے دوستوں کو چھوڑ کر ان پر حملہ کرنے والوں کی صف میں شامل ہو کر اللہ کے عذاب کو دعوت دی ہے۔

۲- قومی ریاست کا مقام: اسلام نے فرد یا ملک کے لیے مختلف شناختوں (identities) کی نفی نہیں کی بلکہ کچھ حدود میں ان کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ معتبر قرار دیا ہے البتہ سب کو ایک بالاتر شناخت کے‘ جو ایمان اور تقویٰ سے عبارت ہے‘ تابع کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَتْقٰکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار رہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

آج کی قومی ریاست ایک جدید سیاسی اکائی ہے لیکن حبّ وطن اپنی اخلاقی اور نظریاتی حدود میں ایک اسلامی قدر ہے۔ اگر اُمت مختلف ملکوں میں بٹی ہوئی ہے تو ملک اور ملت دونوں کے حقوق میں ہم آہنگی اور پاس داری اسلامی اصولوں کے مطابق ممکن بھی ہے اور ضروری بھی۔ اس لیے کہ اس نئی اکائی کے باوجود اُمت کا ایک نظریاتی وجود ہے اور مسلمان عوام کا اجتماعی ضمیر اور ان کے قلوب کی دھڑکن کی مماثلت اس گئے گزرے دَور میں بھی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاِحدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ o (المومنون ۲۳:۵۲) اور یہ اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو۔

یہی وجہ ہے کہ جہاد کے مسائل میں تمام ہی فقہی مکاتیب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی ایک اسلامی حصے پر غیر مسلم حملہ کریں تو دوسرے حصوں کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی یاوری اور اعانت کے لیے اس طرح اٹھ کھڑے ہوں جس طرح خود اپنی آبادیوں کی حفاظت کے لیے اٹھتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے موطا کی شرح میں لکھا ہے کہ اگر ایسی حالت پیدا ہو جائے کہ غیر مسلموں نے اسلامی ملکوں کا قصد کیا اور مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی شروع ہوگئی تو جہاد فرض ہوگیا اور جب دشمنوں کی طاقت ان ممالک کے مسلمانوں سے زیادہ قوی ہوئی اور ان کی شکست کا خوف ہو تو یکے بعد دیگرے تمام مسلمانان عالم پر جہاد فرض ہو گیا‘ خواہ کوئی پکارے یا نہ پکارے ‘‘۔ (بحوالہ  مسئلہ خلافت از مولانا ابوالکلام آزاد)

قرآن و سنت کے ان تمام احکام کو بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت نے یکسرنظرانداز کر دیا بلکہ ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے کو امریکی حملہ آوروں کی صف میں شامل کر لیا۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

۳- میثاق مدینہ کی مثال : امریکیوں سے احتلاف (coalition)کے لیے میثاق مدینہ کی مثال دی گئی ہے۔ جنرل مشرف نے اپنی ۱۹ ستمبر والی تقریر میں مدینہ کے پہلے ۶سال کی تاریخ یاد دلائی ہے لیکن کاش انھوں نے میثاق مدینہ کامطالعہ کر لیا ہوتا اور مدنی زندگی کے پہلے ۶ سالوں کی تاریخ پر سرسری نظر بھی ڈال لی ہوتی تو ایسی فاش غلط بیانی کے مرتکب نہ ہوتے۔ میثاق مدینہ دراصل مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے دستور کا خاکہ ہے جس کا نصف مسلمان قبائل نصف یہودی قبائل کے بارے میں ہے۔ اس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ریاست کا حاکم اور تمام فیصلوں کے لیے آخری سند تسلیم کیا گیا ہے۔ کیا امریکہ سے ہمارے عہد و پیمان اور صدر بش کی بنائی ہوئی کولیشن کی یہی حیثیت ہے؟ اصل حکم اور فیصلہ کرنے والا کون ہے؟ ہمارا شمار تو مصاحبین میں اور صرف حکم برداری کرنے والوں میں ہے۔ کیا میثاق مدینہ میں مسلمانوں کی یہی حیثیت تھی؟ کہا جا سکتا ہے کہ میثاق کا اصل مقصد قریش کے مقابلے کے لیے حفاظت اور مہلت کا حصول تھا۔ اگر محض دلیل کے لیے بھی یہ بات مان لی جائے تو سوال یہ ہے کہ ہم کس کے مقابلے کے لیے کمرہمت کس رہے ہیں۔ بھارت اس کولیشن کا رکن رکین ہے اور کشمیر میں مسلمانوں کے سینے پر مونگ دلنے میں مصروف ہے۔ کیا میثاق مدینہ میںکوئی ایسا بھی شریک تھا؟ کیا افغانستان کی حیثیت قریش والی ہے جن کے مقابلے کے لیے ہم امریکہ کے حلیف بن رہے ہیں؟

۶ سال کی تاریخ کا بار بار ذکر کیا گیا ہے لیکن کیا جنرل صاحب اور ان کے دینی مشیروں کو اس کا علم نہیں کہ ان ۶ سالوں میں میثاق مدینہ پر دستخط کرنے والے یہودیوں کا کردار کیا تھا۔ کیا شوال ۲ ہجری ہی میں غزوہ بنی قینقاع واقعہ نہیں ہوا جس میں معرکہ بدر کے فوراً بعد بنوقینقاع کے یہودیوں نے اعلان جنگ کیا‘ ۱۵ دن تک محاصرہ رہا اور بالآخر بنوقینقاع کے یہودی خود اپنے حلیف عبداللہ ابن ابی کی سفارش پر جلاوطن نہیں کیے گئے۔ پھر کیا ۳ ہجری میں بنونضیر کی طرف سے کش مکش کا آغاز نہیں ہوا جو ۴ہجری میں غزوہ بنونضیر پر منتج ہوا اور بالآخر بنونضیر بھی مدینہ چھوڑ گئے۔ پھر انھی ۶ برسوں میں تیسرے بڑے یہودی قبیلے بنوقریظہ نے بھی بدعہدی کی‘ معرکہ آرائی ہوئی اور بالآخر تلوار کو ان کا بھی فیصلہ کرنا پڑا۔ تاریخ کا آنا کانا مطالعہ ایک خطرناک جسارت ہے جس کے جنرل صاحب مرتکب ہوئے ہیں۔

۴- صلح حدیبیہ سے استدلال : صلح حدیبیہ بھی ہماری تاریخ کے ان مظلوم واقعات میں سے ایک ہے جسے ہر پسپائی اختیار کرنے والا اپنی بزدلی اور بے تدبیری کے لیے ڈھال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ معاہدہ تاشقند ہو یا کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا معاہدہ‘ کارگل ہو یا ۱۴ ستمبر کی پسپائی‘ سب ہی صلح حدیبیہ کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ یہ صلح وہ ہے جسے قرآن نے فتح مبین کا پیش خیمہ قرار دیا ہے اور فی الواقع بھی وہ فتح کی باب کشا ثابت ہوئی۔ اس صلح کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جان نثاروںکے ساتھ بیت اللہ کے عمرہ کے لیے تشریف لائے تھے اور آپؐ نے رکاوٹ کو تلوار سے دُور کرنے کے بجائے اللہ کے حکم سے ایک سال کے بعد معاہدے کے ذریعے اس سعادت کو حاصل کرنے کی بات طے فرمائی--- اس فریم ورک کا امریکہ کے جال میں پھنسنے اور ایک مسلمان ملک کے خلاف ایسے الزامات کی تائید میں جوحقائق اور اصول انصاف کے مطابق ثابت نہیں ہوئے‘ فوج کشی کے لیے کندھا دے دینے کا کیا تعلق ہے؟ پھر سب سے بڑھ کر حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ وہ یہ معاہدہ اللہ کے حکم سے کر رہے ہیں۔ آج کس پر یہ وحی نازل ہوئی ہے اور کس دلیل کی بنیاد پر اسے اسلام کے لیے کسی فتح اور پاکستان کے لیے کسی کامیابی اور حصول عظمت کا زینہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

بلاشبہ حکمت دین کا بڑا اہم اصول اور پالیسی سازی کے لیے رہنما اصول ہے۔ لیکن حکمت اور حماقت اور حکمت اور بزدلی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حکمت عبارت ہے ایمان و فراست‘ صبرواستقامت‘ جرأت و قوت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے یکسوئی اور مسلسل جدوجہد سے۔ ہم نے ۱۴ ستمبر کے بعد حکمت کے نام پر ان میدانوں میں کون سا تیر مارا ہے۔ ہماری حکمت کا تو یہ حال ہے کہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور جس جس بات کو ضمانت سمجھ رہے ہیں وہ ہمارے منہ پر ماری جا رہی ہے اور ہم ’’اسی تنخواہ پر کام کرنے‘‘ کی رضامندی کا اعادہ کیے جا رہے ہیں۔ اس کا نام حکمت نہیں اور نہ اس کا کوئی تعلق قومی غیرت اور آزادی و سلامتی سے ہے۔ اسے حکمت کا نام دینا حکمت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

۵- چھوٹی بڑی برائی کی منطق: آخری دلیل وہی چھوٹی اور بڑی برائی والی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یا تو ان ساری ترک تازیوں کو حکمت ‘ میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کے ہم پلہ قرار دیا جا رہا تھا اور کہاں پھسل کر چھوٹی برائی کا وعظ شروع ہو گیا۔ اگریہ حکمت اور قومی مفاد کا تقاضا تھا تو پھر چھوٹی برائی کیسی؟ اور اگر یہ چھوٹی برائی ہے تو پھر ان ارفع اصولوں کی مٹی کیوں پلید کی جا رہی ہے ؟ دوسروں کو جذباتی کہنا آسان ہے لیکن عقل کی بات کرنا بھی کوئی ایسا آسان نہیں!

ہم مان لیتے ہیں کہ اہون البلیتین ایک فقہی اصول ہے اور کچھ حالات میں اسے اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن یہ اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی تیسرا راستہ ممکن نہ ہو۔ ہم بتا چکے ہیں کہ ایک اور راستہ ممکن تھا اور ایک نہیں ایک سو سے زیادہ ملکوں نے اسے اختیار کیا بلکہ مصر‘ ایران اور سعودی عرب تک نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو ہم نے کیا۔ بھارت کی دہائی بے موقع ہے۔ جغرافیائی اعتبارسے ہماری پوزیشن اسٹرٹیجک تھی اور ہے۔ بھارت کی کوئی سرحد افغانستان سے مشترک نہیں۔ وہ ساری اچھل کودکے باوجود کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا تھا اور اگر ہم سے چھیڑ چھاڑ کرتا تو نہ صرف منہ کی کھاتا بلکہ عالمی جنگ کا نقشہ بدل جاتا اور چین‘ یورپ اور اسلامی ممالک کا رویہ بالکل دوسرا ہوتا۔ ان زمینی حقائق کی روشنی میں صدر بش کے اس کلیے کو تسلیم کر لینا کہ راستے صرف دو ہیں اور ان میں سے پسپائی کے راستے کو چھوٹی برائی قرار دے کر اختیار کر لینا فقہی اصول کے اعتبار سے ناقابل قبول اور ماروںگھٹنا پھوٹے آنکھ کے مترادف ہے۔

اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کی بات کرنے والوں کو تاریخ میں غیر مسلم طاقتوں سے معاہدات کے انجام کی یاد دلانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ سے لے کر آج تک‘ اور خصوصیت سے دور جدید کی مغربی اقوام نے استعماری غلبے سے لے کر اب تک‘ جو کچھ مسلمان ممالک بلکہ تمام غیر مغربی اقوام اور خصوصیت سے کمزور ممالک کے ساتھ کیا ہے اس سے صرف نظر کرنا اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہنا کوئی حکمت کا شاہکار نہیں۔ امریکہ نے اپنے گذشتہ پچاس سال میں جس طرح ہم سے اور دوسروں سے اپنی دوستی نبھائی ہے اس سے آنکھیں بند کرنا خود فریبی ہی نہیں خودکشی کا راستہ ہو سکتا ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ:

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

نئی قیادت ‘ نئی حکمت عملی

ہم دنیا سے کٹنے اور کسی قسم کی بھی تنہائیت (isolationism)کے قائل نہیں اور اچھے اور برے دنیا میںہر جگہ موجود ہیں۔ افغانستان پرامریکہ کی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ بہت سے غیر مسلم اور مشرق ہی نہیں مغرب کے اہل علم و دانش‘ سیاست کاراور عوام بھی شامل ہیںاور ہم اس کی قدر کرتے ہیں لیکن امریکہ کی قیادت جو سیاسی کھیل کھیل رہی ہے اور یہود‘ ہنود‘ اور نصاریٰ جو چالیںتاریخ میںچلتے رہے ہیں ان کو نگاہ میں نہ رکھنا اور بڑی معصومیت سے ہر ٹھوکر پر میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کی گردان کرنا بھی فراست اور دیانت کا راستہ نہیں۔ جس قرآن نے حکمت‘ دوستی‘ امن اور انسانیت کے لیے رحمت بننے کا درس دیا ہے اور اہل کتاب میں سے اچھے لوگوں کی قدر کی تعلیم دی ہے اسی میں یہ ابدی رہنمائی بھی موجود ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھو‘ اہل ایمان کے مقابلے میں کفار کو دوست نہ سمجھو‘ دوسروں کی چالوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھو‘ اور حق و باطل کی کش مکش میں اپنا کردار اللہ کے دین کے مصالح کے مطابق ادا کرو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط (النساء ۴:۱۴۴)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بنائو۔

وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلاَ النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُْمْ ط (البقرہ ۲:۱۲۰)

اور یہ یہود و نصاریٰ تم سے ہرگز خوش نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔

اللہ تعالیٰ نے اس اُمت اور اس کی قیادتوں کو قیامت تک کے لیے متنبہ کر دیا ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں‘ صرف اللہ سے وفاداری کارشتہ استوار کریں‘ سب سے معاملہ کریں مگرخدا اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت اور روشنی کے مطابق کریں۔ دوستی اور دشمنی‘ الحاق اور انحراف‘ صلح اور جنگ‘ تعاون اور عدم تعاون سب کا فیصلہ اللہ کے دین کے احکام اور اُمت مسلمہ کے مصالح کے مطابق کریں اور مخالفین کی چالوں اور فتنہ سامانیوں سے خبردار رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تاریکی میں نہیں چھوڑا ہے‘ سب حالات کے لیے ہمیں رہنمائی سے نوازا ہے ___ اگر ہم اس ہدایت کو نظرانداز کر تے ہیں اور اپنی خواہشات یادوسروں کی ترغیبات کا شکار ہو جاتے ہیں تو ذمہ داری ہماری ہے اور اس کے نتائج بھی ہمیں ہی بھگتنا ہوں گے۔

جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ۱۴ ستمبر کو امریکہ کے آگے سپر ڈال کر ملک و ملت کو ایک بہت ہی خسارے کے راستے پر ڈال دیا ہے جس کی قیمت اس قوم کو برسوں ادا کرنا پڑے گی۔ جن اُمیدوں پر انھوں نے یہ بازی لگائی وہ حباب کی مانند ہیں اور بہت سے حباب تو ان چند ہفتوں ہی میں پادر ہوا ہو چکے ہیں ۔  جس دلدل میں انھوں نے قوم کو پھنسا دیا ہے وہ زیادہ ہی تباہ کن ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اس راستے میں کچھ وقتی اور جزوی فوائد بھی ہوں تب بھی نقصانات اور مفاسد کا پلڑا اتنا بھاری اور ان کی نوعیت اتنی گھمبیر ہے کہ اسے پاکستان کی ۵۴ سالہ تاریخ کا سب سے افسوس ناک اور نقصان دہ اقدام قرار دینا ہوگا۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد یہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے۔ ۱۶ دسمبر والے سانحہ کے بعد تو پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوستی اور تعاون کا ایک نیا دَور شروع ہو گیا لیکن اس اقدام کے جو اثرات ہمارے ایمان کے ساتھ ہماری آزادی‘ سلامتی‘ معیشت‘ ایٹمی صلاحیت‘ کشمیر کی تحریک آزادی و الحاق پاکستان اور علاقے کے ممالک سے تعلقات پر مترتب ہوں گے ان کے تصور سے روح کانپ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے ان مہیب خطرات کے ادراک اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اورنئی قیادت کی دعا ہمارے دل کی آواز ہے۔ یہی وہ پکار ہے جس کی طرف ہم ملک کے عوام کو دعوت عمل دیتے ہیں۔

 

اگر ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون میں دہشت گردی کے سبب اکیسویں صدی کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا تو ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء افغانستان جیسے غریب‘ تباہ حال اور مظلوم ملک پر امریکہ اور برطانیہ کی جارحانہ فوج کشی کے باعث ایک سیاہ تر دن بن گیا۔ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد دنیا کی ہمدردیاں امریکہ اور ان معصوم انسانوں کے ساتھ تھیں جو دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے اور افغانستان کی طالبان حکومت سمیت دنیا بھر کے مسلمان‘ اہل امریکہ کے اس غم میں شریک ہوئے اور دہشت گردی کی مذمت بھی کی۔ غم و اندوہ کے یہ لمحات امریکی قیادت اور اس کی عسکری اور مالیاتی دراندازوں کے ستائے ہوئے مشرق و مغرب اور پس ماندہ و ترقی یافتہ سب ہی ممالک کے عوام ‘ اپنے رستے ہوئے زخموں کی کسک کو بھی بھول گئے۔ لیکن امریکہ کی قیادت پر رعونت‘ انتقام اور مخصوص مفادات کا غلبہ رہا اور اس نے بے لاگ‘ منصفانہ اور قانون کے نظام کے تحت ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی تباہی کے ذمہ داروں کے تعین اور اس دہشت گردی کے محرکات اور اسباب کے معروضی جائزے کے بجائے اس حکمت عملی کے تحت جس کی کھچڑی برسوں سے پکائی جا رہی تھی‘ افغانستان کے عوام کو کھلی جارحیت کا نشانہ بنایا اور محض طاقت کے بل پر اپنی بالادستی قائم رکھنے اور وسط ایشیا کے وسائل سے مالا مال علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ریاستی دہشت گردی کے بدترین اور ظالمانہ منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔

اس کے لیے دوسرے ممالک کو ترغیب اور ترہیب‘ رشوت اور دھونس اور دھمکی کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ایک نام نہاد عالمی الحاق (world coalition) کا ڈھونگ رچایا۔ برطانیہ تو پہلے دن ہی سے امریکہ کی جھولی میں گر گیا تھا۔ یہ ملک جسے کئی صدیوں تک ایک عالمی طاقت کی حیثیت حاصل رہی‘ اب امریکہ کا باج گزار بن چکا ہے۔ بش اور بلیر اِس عالمی غنڈا گردی کے سرخیل ہیں۔ نیٹو کے ۱۸ ممالک کو بھی خواہی نہ خواہی اس آپریشن میں شامل کرلیا گیا اور نیٹو کی دفعہ ۵ کو بھی متحرک کر لیا گیا کہ نیٹو کے کسی ایک ملک پر حملہ تمام ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا بلالحاظ اس کے کہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اسے متعین کیا جائے کہ ’’جنگ‘‘ اور حملے کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات کو خود ساختہ ملزموں کی طرف سے ’’اعلان جنگ‘‘ قرار دے کر ایک نام نہاد جنگ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا طبل بجا دیا گیا۔ باقی دنیا پر سیاسی دبائو اور بلیک میل کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔

یہ فسطائی فلسفہ بڑی ڈھٹائی سے پیش کیا گیا کہ دنیا دو کیمپوں میں منقسم ہے: ایک مہذب دنیا اور دوسری دہشت پسند اقوام۔ اور دنیا کی تمام اقوام کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ (option)نہیں کہ وہ یا امریکہ کے ساتھ ہوں یا اس کے مخالف--- یا اتحادی ہوں اور یا دہشت پسندوں کی حلیف شمار کی جائیں۔ جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں دنیا کو سرخ اور سفید میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح اب دنیا کو سفید اور سیاہ میں تقسیم کردیا گیا۔ کمزور ملکوں پر بندوق تان کر ان سے پوچھا گیا کہ کس کے ساتھ ہو؟ گو دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف موجود نہیں ہے (جیسا کہ خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۱۱ستمبر کے بعد کے اجلاس کی بحث سے پتا چلتا ہے کہ وہ کسی تعریف پر متفق نہیں ہو سکی) اور اس کی بڑی وجہ قوت کے جائز اور ناجائز استعمال اور متعلقہ اقدام کے پیچھے کارفرما محرکات اور مقاصد کا اختلاف اور ان کا معتبر اور غیرمعتبر ہونا ہے۔ مگر کم از کم اس حصے کے بارے میں سب متفق ہیں کہ دہشت گردی (terrorism)کی روح سیاسی مقاصد کے لیے تشدد یا قوت کے استعمال کی دھمکی ہے۔

دہشت گردی کا مطلب خصوصاً سیاسی مقاصد کی خاطر پرُتشدد اور دھمکی آمیز طریقے اختیار کرنا ہے۔  (آکسفورڈ ریفرنس ڈکشنری)

امریکہ نے اس اتحادمیں کمزور ممالک کی ایک خاص تعداد کو جس طرح شامل کیا ہے۔اس تعریف کی روشنی میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ وہ خود دہشت گردی کی ایک قبیح مثال ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک اس دھمکی کا نشانہ بنے ہیں اور جرأت اور بہادری کے بہت سے دعوے دار بش صاحب کی ایک ہی بھبکی پر سرنگوں ہو گئے‘ بقول غالب :

دھمکی میں مر گیا‘ جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ طلب گارِ مرد تھا

امریکہ اور جنرل مشرف کا موقف

افغانستان پر امریکہ کی جارحانہ فوج کشی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا کوئی تعلق ۱۱ستمبر کے واقعات سے نہیں۔ یہ اقدام سیاسی اخلاقیات ‘ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ صرف طاقت کی حکمرانی اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کی سیاست کی ایک مکروہ مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ایک نئے سامراجی دَور کی تمہید ہے۔ بہ ظاہر دعویٰ یہ ہے کہ:

     ۱- ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کا ذمہ دار اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القائدہ ہے۔

     ۲- افغانستان کی طالبان حکومت نے ان کو اور ان کے گروہ کو پناہ دی ہوئی ہے۔ اس لیے طالبان ان کو بے چون و چراں امریکہ کے حوالے کر دیں ورنہ امریکہ طالبان کو طاقت کے بل پر تباہ و برباد کر دے گا۔

     ۳-  دہشت گردی کے ان مراکز کو ختم کر کے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ ہوگی۔

     ۴-  یہ امریکہ ہی نہیں پوری ’’مہذب دنیا‘‘ کے اہداف ہیں اور ان کے حصول کے لیے ان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی تائید حاصل ہے۔

     ۵-  یہ دہشت گردی اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کے خلاف جنگ ہے‘ اسلام  یا مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ افغانستان کے عوام کے بھی خلاف جنگ نہیں ہے۔

جنرل مشرف نے اپنی ۱۹ ستمبر کی تقریر میں اور اس کے بعد کے بیانات اور انٹرویوز میں امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے کے دفاع میں جو باتیں کہی ہیں‘ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:

الف- فیصلے میں حق کی بالادستی ہونی چاہیے۔

ب- ملک کے مفاد کو اولیت حاصل ہو‘ یعنی اس کی سالمیت‘ معاشی ترقی اور عزت و وقار کی بلندی۔

ج- پاکستان دنیا میں تنہا نہ ہو بلکہ عالمی برادری کے ساتھ رہے۔

  د- اسلام کے عین مطابق ہونی چاہیے۔

یہ تقریر ۱۹ ستمبر کو ہوئی ہے لیکن امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ ۱۵ ستمبر ہی کو ہو گیا تھا۔ صدربش نے ۱۳ستمبر کو ’’اکیسویں صدی کی پہلی جنگ‘‘ کا اعلان کیا‘ ۱۴ ستمبر کو امریکی سینٹ نے دہشت گردی کے خلاف ہرممکن اقدام کا اختیار بش صاحب کو دیا اور ان کے پہلے ہی ٹیلی فون پر صدر مشرف نے ان کی تائید اور اس جنگ میں ان کے حلیف بننے کے ’’جرأت مندانہ‘‘ اور ’’دانش مندانہ‘‘ فیصلے کا اعلان کر دیا۔ فیصلہ ایک فردِ واحد کا تھا جس کی بہ ظاہر تائید ان کی اپنی نامزد کردہ کابینہ‘ سلامتی کونسل اور کورکمانڈروں نے کیا (اسے بھول جایئے کہ خود فوج میں اس کے ساتھ کیا اکھاڑ پچھاڑ کرنا پڑی اور اس کی کیا کیا داستانیں ملکی ہی نہیں ساری دنیا کی اخبارات میں آرہی ہیں) ۔پھر صدر صاحب کے بقول انھوں نے قومی زندگی کے مختلف رہنمائں سے مشورہ کیا اور اس طرح ان کے اس فیصلے کو اکثریت کی تائید حاصل ہو گئی۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ دلیل و برہان کی کسوٹی پر ان تمام دعووں اور خود امریکہ کے اہداف کا جائزہ لیا جائے اور حقائق اور صرف حقائق کی روشنی میں صحیح قومی اور ملی موقف کا تعین کیا جائے۔ ہمیں جنرل صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ قومی اُمور کا فیصلہ جذبات کی رَو میں بہہ کر نہیں کرنا چاہیے بلکہ  عقل و دانش‘ حکمت دین اور ملک و ملّت کے مفاد کو ہر چیز پر بالادستی ہونی چاہیے۔ البتہ ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ بیرونی دبائو اور خود اپنے سابقہ تجربات کو بھی فیصلہ کن مقام حاصل ہونا چاہیے۔ حضور پاکؐ کا ارشاد ہے کہ مومن فراست سے کام لیتا ہے اور ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔

تفتیش سے گریز

۱۱ ستمبر کے واقعات سے امریکہ کی اَنا پر جو بھی چوٹ پڑی ہو لیکن دنیا کے ۸۰ سے زیادہ ممالک کے ۶ہزار سے زائد معصوم انسانوں کی اس پیمانے پر ہلاکت ایک غیر معمولی واقعہ ہی نہیں انسانیت کے خلاف بھی ایک جرم ہے۔ جس طرح یہ اقدام امریکہ کے دستور اور بین الاقوامی قانون اور معاہدات کے تحت جرم ہے اسی طرح خود اسلامی قانون کے تحت بھی ایک جرم ہے۔ عالم اسلام کی تمام حکومتوں‘ تحریکوں اور علما نے شدید  اس کی مذمت کی۔ طالبان حکومت نے بھی اس کی اسی وقت مذمت کی اور خود اسامہ بن لادن نے اس سے لاتعلقی کا برملا اظہار کیا۔ اس کے باوجود اس حادثہ فاجعہ کے آدھ گھنٹے کے اندر سی این این نے اسامہ بن لادن کو ملوث کرنے کی کوشش کی اور ایک گھنٹے کے بعد اسرائیل کے سابق وزیراعظم باراک نے لندن میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں ایک لکھی ہوئی تقریر میں اسامہ بن لادن اور عربوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کے بعد سے کسی تحقیق‘ سائنسی تفتیش‘ قومی انکوائری یا جوڈیشیل کمیشن اور اس کی عدالتی کارروائی کے بغیر اُوپر سے نیچے تک سب نے ایک ہی راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اس اقدام کی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور القائدہ پر ہے اور افغانستان کی حکومت انھیں فی الفور غیر مشروط طور پر امریکہ کے حوالے کر دے۔

اس واقعے کو اب ۶ ہفتے ہو گئے ہیں لیکن اس ایک دعوے کے سوا‘ تحقیق و تفتیش کا کوئی دوسرا اقدام سامنے نہیں آیا ہے حالانکہ کینیڈی کی ہلاکت‘ اوکلاہاما کی تباہی‘ اور اسکول تک میں بچوں کے ہلاک کیے جانے کے واقعات کی باقاعدہ تفتیش ہوئی‘ کئی کئی کمیشن بنے ‘کھلی عدالتی کارروائی ہوئی‘ سینیٹ اور کانگرس کی کمیٹیوں نے اپنی اپنی تحقیقات کر کے ان کے نتائج پیش کیے لیکن ایک اتنے بڑے ‘ تباہ کن اور عالمی معیشت و سیاست کو متاثر کرنے والے واقعے کے اصل حقائق‘ اسباب و محرکات اور نتائج پر پردہ ڈالا جا رہا ہے اور سارا نزلہ اسامہ بن لادن پر گر رہا ہے جو اس سے اپنی برأت کا اظہار کر چکا ہے۔

اسامہ بن لادن اور اس کے رفقا پر دو مقدمے امریکی عدالتوں میں چل رہے تھے۔ ۵ سال سے اس کے خلاف وہ امریکی سراغ رساں ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں جن پر ۵۰ بلین ڈالر سالانہ سرکاری خزانے سے خرچ کیا جا رہا ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تیاری کم از کم دو سال سے ہو رہی تھی اور جہاز اغوا کرنے والوں (جو اب دنیا میں نہیں) کے علاوہ کم از کم ۵۰ مزید افراد اس میں شریک ہونے چاہییں مگر ان کا ابھی تک کوئی پتا نہیں۔ جن ۷۰۰ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان سے بھی کوئی قابل ذکر چیز حاصل نہیں ہوئی ہے۔ جس مہارت‘ نظم و ضبط‘ اور ملک کے مختلف شہروں میں باہمی رابطے کے ذریعے یہ کام ہوا ہے وہ کسی باہر کے ادارے کے لیے کیسے ممکن ہے۔ خصوصیت سے ایسے ادارے کے لیے جو دس ہزار میل دُور ہو‘ جس کے لوگوں کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر ہو‘ اور جس کی جڑیں اس ملک کے حساس اداروں میں نہ ہوں جہاں سے یہ کام ہوا ہے۔

انتھریکس کا الزام؟

حال ہی میں انتھریکس (Anthrax) کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ اسے پہلے اسامہ بن لادن کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اب خود برطانوی حکومت کے کیبنٹ آفس سے حاصل کردہ ۱۶۰صفحات کی ایک رپورٹ  Deliberate Release of Chemical and Biological Agents سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ القائدہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔

خود بش ایڈمنسٹریشن کا داخلی سلامتی کا نیا ڈائرکٹر تھامس ایج کہتا ہے:

ایف بی آئی نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ خطوط کہاں سے ڈاک میں ڈالے گئے تھے۔چونکہ انتھریکس کے لفافے ڈالنے کی کارروائی ۱۱ ستمبر کے قریب تھی‘ اس لیے شروع میں حکام نے یہ سمجھا کہ ان کا انتہاپسند مسلم بنیاد پرستوں غالباً اسامہ بن لادن اور اُن کی القائدہ تنظیم سے تعلق جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن گذشتہ چند دنوں میں رائے تبدیل ہو چکی ہے۔ تفتیش کار اس کے زیادہ قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ کوئی ایک فرد یا گروہ جو امریکہ میں رہایش پذیر ہے‘ سفید پوڈر کا ذمہ دار ہے جس نے ایک برطانوی ایڈیٹر کی جان لے لی اور امریکی میڈیا کی سیاست اور معیشت کی سرگرمیوں کو جامد کر دیا۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ ۲۱ اکتوبر‘ ص ۱‘ ۳)

سوال یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تحقیق کیوں نہیں ہو رہی۔ جتنے بھی امکانات ہیں ان سب کا جائزہ کیوں نہیں لیا جا رہا۔ سارا ملبہ صرف ایک شخص پر گرایا جا رہا ہے حالانکہ جو بھی شواہد سامنے آ رہے ہیں وہ اصل واقعے کو اور بھی پرُاسرار بنا رہے ہیں۔ اسامہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس نہ وہ مہارت اور ٹکنالوجی تھی‘ نہ ملک میں ان کے اثرات اور ایسے اصحاب و اعوان تھے جو یہ کام انجام دے سکیں۔ خود امریکہ سے کوئی واضح  رابطے (linkages) سامنے نہیں آ رہے ہیں اور تازہ ترین رپورٹوں کی روشنی میں خود یورپ کے رابطے بھی غیرثابت شدہ ہیں۔ برطانیہ کے بارے میں تو ۲۳ اکتوبر کے گارجین نے واضح رپورٹ دی ہے کہ اس ملک میں القائدہ کا کوئی باضابطہ حلقہ یا گروہ موجود ہی نہیں۔ پھر جو سوالات مبینہ اغوا کنندگان کے بارے میں سامنے آئے ہیں اور جس طرح ان کی شناخت کو خود سعودی عرب کے سرکاری حلقوں نے چیلنج کیا ہے‘ نیز ان کے طرز بودوباش اور عیاشیوں اور بدکاریوں کے بارے میں جو شہادتیں سامنے آئی ہیں وہ القائدہ سے ان کے تعلق کے لیے کوئی جواز فراہم نہیں کرتیں۔ اسی طرح ایک نہیں کئی ماہرین نے جو سب امریکی ہیں چیلنج کیا ہے کہ چھوٹے سویلین جہازوں پر تربیت لینے والے شوقیہ پائلٹ ۷۵۷ جہازوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے اصل ہوابازوں کو مار کر یا ہٹا کر قابو نہیں کر سکتے اور نہ اتنے ٹھیک ٹھیک نشانے سے نیویارک جیسے شہر میں اتنے چھوٹے ‘ متعین اور ہزاروں فلک بوس عمارتوں کے جنگل میں گھری ہوئی بلڈنگ سے ٹکرا سکتے ہیں۔ وہ انجینیرجو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تعمیر میں شریک تھے ان کے بیانات انٹرنیٹ پر آئے ہیں کہ صرف جہاز سے ٹکرائو اور جہاز کے تیل کی آگ سے ان عمارتوں کی تباہی ممکن نہیں۔ اس پورے معاملے کے پیچھے کچھ اور ہے جس کی پردہ کشائی کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ تمام متعلقہ ہوائی اڈوں کے واچ ٹاور سے اغوا شدہ جہازوں کی مانٹیرنگ اور پائلٹ سے کی جانے والی گفتگو بھی ایک معمّا ہے۔ بیشتر معلومات غائب ہیں۔ چار میں سے صرف ایک جہاز کا بلیک بکس ملا ہے ‘ باقی کے بلیک بکس غائب ہیں۔ ۶ ہزار افراد کے مرنے کی اطلاع ہے مگر لاشیں صرف ۶۰ کے قریب نکلی ہیں۔ بلڈنگ جس طرح تباہ ہوئی ہے یعنی اوپر سے نیچے اور ادھر ادھر نہیں گری‘ یہ بھی ایک معمّا بنا ہوا ہے۔ ملک میں کہرام ہے اور دنیا کو تہ و بالا کیا جا رہا ہے مگر ان معاملات کی کوئی تحقیق و تفیش نہیں کی جا رہی اور محض مفروضوں پر اسامہ بن لادن کو ملزم ٹھہرایا جارہا ہے۔ صدربش صاحب پوری رعونت سے کہتے ہیں کہ کسی تفتیش‘ کسی عدالتی عمل‘ کسی شہادت اور مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں۔ اسامہ مجرم ہے۔ ہم جانتے ہیں وہ guilty ہے۔ اسے ہمارے حوالے کرو ورنہ ہم تم کو تہس نہس کر دیں گے۔

اسامہ کے خلاف شواہد کی حقیقت

برطانوی وزیراعظم نے جو شواہد نامہ (evidence) پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا ہے وہ مضحکہ خیز ہے۔ ۲۳صفحات کی اس رپورٹ میں جو ۷۰ نکات پر مشتمل ہے پہلے ہی پیراگراف میں اعتراف ہے کہ

یہ دستاویز اسامہ بن لادن کے خلاف مقدمے کو کسی قانونی عدالت میں پیش کرنے کے لائق بناتی نظر نہیں آتی۔

رابرٹ فسک لکھتا ہے:

امریکیوں کو اسے مشرق وسطیٰ میں منوانے میں سخت دقت پیش آ رہی ہے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ برطانوی حکومت کی دستاویز‘ جس میں ۱۱ ستمبر کی ہلاکتوں کی ذمہ داری اسامہ بن لادن پر ’’ثابت‘‘ کی گئی ہے‘ عرب دنیا کو مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مجتمع کر سکے۔ مذکورہ دستاویز میں ۷۰ میں سے صرف ۹ نکات عالمی تجارتی مرکز اور پینٹاگون پر حملوں سے متعلق ہیں اور اس میں بھی ’’قیاس‘‘ پر انحصار کیا گیا ہے نہ کہ شواہد پر ۔ (دی انڈنٹ پنڈنٹ‘ ۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

روزنامہ گارجین ان شواہد کے بارے میں لکھتا ہے:

۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کے بارے میں اسامہ بن لادن کے باقاعدہ مقدمے کا سامنا کرنے کا بعیداز امکان واقعہ اگر پیش آ بھی جائے تو اُس کے خلاف جو مقدمہ برطانوی حکومت نے گذشتہ دنوں شائع کیا ہے قانونی نقطہ نظر سے اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ بش انتظامیہ کے اس اعلان کو کہ وہ بن لادن کے خلاف ’شواہد‘ پیش کرے گی (۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء)۔حقیقت یہ ہے کہ مسٹر بلیر کا مقدمہ دو لفظوں پر ختم ہو جاتا ہے: ’’مجھ پر اعتماد کرو‘‘۔

اور لطف یہ ہے کہ اب بش انتظامیہ اپنے دعوے سے اعلانیہ پھر گئی ہے۔ اب اس کا موقف ہے کہ کسی  شہادت یا ثبوت کی ضرورت نہیں‘ حالانکہ خود کولن پاول نے وعدہ کیا تھا کہ شہادتیں عوام کو دکھائیں گے۔ اخبارات صاف لکھ رہے ہیں کہ کوئی شہادت موجود ہی نہیں‘ دکھائیں گے کیا؟

انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون (۸- اکتوبر)نے نیویارک ٹائمز کا اداریہ نقل کیا ہے کہ گواہی تو موجود نہیں مگر پھر بھی یہ کیس قابل یقین ہے‘ عنوان ہے:  "A Believable Case"  لیکن اداریے میں جن حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:

یہ رپورٹ کوئی ۱۰۰ فی صد یقینی ثبوت فراہم نہیں کرتی۔ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کا کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہیں ہے جس میں مسٹر بن لادن نے حکم دیا ہو کہ امریکی جہاز اغوا کر لیے جائیں… مسٹربلیر نے ساری دنیا کو دعوت دی کہ میری بات پر یقین کر لیں اور خفیہ اداروں سے حاصل کردہ رپورٹیں قابل اعتماد ہیں…یہ برطانوی رپورٹ امریکی برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے فراہم کردہ شواہد‘ مسٹر بن لادن کے پبلک اعلانات اور القائدہ کے ارکان کے خلاف ماضی کی عدالتی کارروائیوں سے مرتب کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ استغاثہ دائر کرنے کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔

امریکی ہفت روزہ ٹائم کا مضمون نگار The Case Against Evidence کے عنوان سے ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے بین السطور میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ فی الحقیقت کوئی ثبوت موجود نہیں:

برطانیہ کے انڈی پنڈنٹ کے مدیر اس امر کی فیصلہ کن شہادت کے منتظر ہیں کہ اسامہ بن لادن نیویارک اور واشنگٹن پر ہولناک حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ آبزرور لکھتا ہے: ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے معمولی سا شبہہ‘ جسے کوئی وزن دیا جا سکتا ہے‘ اسامہ بن لادن کی طرف اشارہ کر رہا ہے  لیکن پھر فوراً ہی یہ لکھا ہے کہ ’’شبہہ اور ثبوت کی ذمہ داری بہت مشکل مسئلے ہیں‘‘۔ ایڈورڈ سعید نے لی مانڈے میں لکھا ہے: ’’آج کے دن تک کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں‘‘۔ واشنگٹن میں جرمنی کے سفیر نے گذشتہ ہفتے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ اپنے اتحادیوں کے سامنے بن لادن کے خلاف ثبوت پیش کرے۔ انھوں نے کہا: ’’تھوڑے سے ثبوت کی فراہمی بھی بہت زیادہ مفید ہوگی‘‘۔ (۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۹۸۰

جو ’’حقائق اور شواہد‘‘ برطانیہ کے وزیراعظم نے امریکہ کی سی آئی اے اور برطانیہ کی ایم آئی ۵ کی چار ہفتے کی تحقیق کے بعد پیش کیے ہیں اس کو گارجین کے کالم نگار جارج مون بیوٹ  اور انڈی پنڈنٹ کے سینیر مضمون نگار رابرٹ فسک نے تار تار کر دیا ہے۔ جارج مون بیوٹ تو یہاں تک لکھتا ہے کہ:

میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں نے اس کے خلاف پہلے ایک تھیوری جوڑ جاڑ کر بنائی اور پھر ان حقائق کو تلاش کیا جو اس میں فٹ ہونے کے لیے مطلوب ہیں--- میرا خیال ہے کہ بن لادن کے خلاف کچھ شبہہ پیدا کرنے والے نئے ثبوت طلب کرنے کا خاصا جواز ہے۔

مون بیوٹ صدر جارج بش کے عزائم کو صاف لفظوں میں یوں بے نقاب کرتا ہے کہ:

صدر بش نے عظیم الشان موت کا دستہ تیار کر کے روانہ کیا ہے تاکہ وہ ماوراے عدالت سزائے موت نافذ کر دے۔

ایک طرف تو یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف دیکھیے کیا منظر نامہ ہے۔

جنرل مشرف ایک فرد یا ایک جماعت نہیں‘ ایک پوری قوم کے سفاکانہ قتل میں جنرل مشرف نہ صرف شریک ہو گئے ہیں بلکہ یہ سرٹیفیکیٹ بھی عنایت فرما دیا ہے کہ وہی نام نہاد ثبوت جنھیں ساری دنیا کے غیر جانب دار قانون دان اور سیاسی مفکر اور مبصر ردّ کر رہے ہیں اور ثبوت کی جگہ محض شبہات قرار دے رہے ہیں وہ اسامہ بن لادن ہی نہیں طالبان کا جرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون اپنے اداریے میں جنرل مشرف کے اس طرز عمل پر تعجب بھری خوشی کا اظہار کیے بغیر نہیںرہ سکا‘ جو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

مسلم دنیا کے لیے یہ مسئلہ خصوصی طور پر بہت حساس ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی پرزور ‘ کھلے عام توثیق بہت اہمیت رکھتی ہے۔ جمعرات کو مشرف حکومت برطانیہ سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئی اور اعلان کیا کہ جو ثبوت واشنگٹن نے دکھائے ہیں وہ کسی عدالت میں بن لادن کے خلاف مقدمہ چلانے کے جواز کے لیے کافی ہیں۔ (۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۲)

افسوس کا مقام ہے کہ ۱۰- اکتوبر کو اسلامی وزراے خارجہ کی کانفرنس میں قطر کے امیر شیخ محمدالثانی توبڑے ادب اور عجز سے کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے ۱۱ ستمبر سے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے مزید ٹھوس ثبوت (more concrete evidence)ضرورت ہے جب کہ ہمارے جرنیل فرماتے ہیں کہ بس یہی ’’ثبوت‘‘ پڑھا دیا وہ ایک قوم کو سولی پر چڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ اکانومسٹ کا یہ تبصرہ پاکستان کی قیادت کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔

اب تک ۱۹ مردہ ہائی جیکرز سے ملنے والے سراغوں پر ۵۴۰ تفتیشی انٹرویو کیے گئے ہیں‘ ۳۸۷---- ۴ ہزار ۴ سو عدالتی سمن جاری ہوئے ہیں اور ۵۰۰ سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اور یہ وہ ہے جو امریکہ کی حدود کے اندر ہوا ہے۔ دیگر ۲۵ ملکوں میں مزید ۱۵۰ افراد گرفتار کیے گئے ہیں تاہم ہائی جیکروں اور اسامہ بن لادن کے درمیان کوئی ٹھوس رابطہ ابھی عوام کے سامنے آنا باقی ہے۔ (۶ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۵۲)

اب تک کی ساری گواہیوں اور قرائنی شہادتوں کا نتیجہ اکانومسٹ یہ بتاتا ہے کہ:

ان میں سے کوئی چیز بھی اسامہ بن لادن کو یقینی طور پر سب سے بڑا ولن نہیں بنا سکتی۔ ابھی تک کسی نے بھی کسی بات کا اعتراف نہیں کیا ہے۔

بھارت تو اسامہ بن لادن اور طالبان کے خلاف پیش پیش ہے۔ اس کے اخبارات اور رسائل بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں اور امریکی ایف بی آئی کی ۴۰ ہزار تفتیشی سراغوں اور ایف بی اے کے ۴ ہزار ایجنٹوںکی دن رات کی سرتوڑ کوشش کے باوجود کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ (still does not reveal much)

اسامہ کے ملوث ہونے کے بارے میں الزامات تو بہ افراط ہیں لیکن شواہد ناقابل ذکر حد تک شاذ ہیں۔ (اکنامک اینڈ پولٹیکل ویکلی‘ ۶ اکتوبر ‘ ص ۳۸۰۸)

اسی اشکال کا اظہار بھارت کے وقیع مجلے فرنٹ لائن کے مضمون نگار نے کیا ہے بلکہ پردین سوامی نے لی مانڈے کے حوالے سے مشہور فرانسیسی محقق اور افغانستان کے اُمور پر چوٹی کے ماہر اور کئی کتابوں کے مصنف کی یہ رائے نقل کی ہے:

اسامہ بن لادن ساری دنیا کی انقلابی اسلامی تحریکوں کا ماسٹر مائنڈ نہیں ہے۔ اس کو ایسے جنگجوئوں کو ٹریننگ دینے والا سمجھنا چاہیے جو بعد میں خود اپنے عمل کا میدان منتخب کرتے ہیں۔ (فرنٹ لائن‘ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۸)

اور یہی تجزیہ ہے مشہور مصری سیاسی مبصر اور سابق وزیر محمد ہیکل کا جو روزنامہ گارجین میں اسٹیفن موس نے انٹرویو کی شکل میں شائع کیا ہے۔

اس نے یہ سوال بھی کیا کہ آیا اسامہ بن لادن اور اس کا القائدہ نیٹ ورک ۱۱ ستمبر کے حملوں کے واحد ذمہ دار قرار دیے جا سکتے ہیں‘ جب کہ جو کچھ ثبوت پیش کیے گئے ہیں وہ کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں۔ ’’بن لادن اس پائے کی کارروائی کے لیے صلاحیت نہیں رکھتا۔ جب میں بش کو القائدہ کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ جیسے یہ نازی جرمنی ہے‘ یا سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی ہے تو مجھے ہنسی آتی ہے‘ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ حقیقت کیا ہے۔ بن لادن کئی برس سے زیرنگرانی ہے۔ اس کی ہر ٹیلی فون کال مانٹیر کی جاتی ہے۔ القائدہ کے نیٹ ورک میں امریکی‘ پاکستانی‘ سعودی اور مصری خفیہ ایجنسیاں گھسی ہوئی ہیں۔ جس کارروائی میں اس درجے کے نظم اور باریک بینی کی ضرورت ہو‘ وہ اس کو راز نہیں رکھ سکتے تھے‘‘۔ ہیکل ان باتوں کو بہت کم وزن دیتا ہے کہ منصوبہ بندی میں زیادہ مرکزی کردار بن لادن کے نائب مصری اسلامی جہاد کے قائد ایمان الزہراوی نے انجام دیا ہو۔ ’’وہ خطرناک آدمی ہے اور سادات کے قتل میں شریک تھا لیکن وہ کوئی بڑا سوچنے والا یا منصوبہ ساز نہیں ہے۔ سادات کے قتل میں بھی اس نے مرکزی کردار ادا نہیں کیا۔ اس منصوبے میں بھی سطحی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ صرف خوش قسمتی کی وجہ سے کامیاب ہوا تھا۔ الجزیرہ سیٹلائٹ سے ان کے انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ بن لادن اور زہراوی صرف اپنے وجدان پر انحصار کرتے ہیں‘‘۔ ہیکل کو یقین ہے کہ ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بارے میں ابھی تک کئی وضاحتیں سامنے نہیں آئی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ حقیقت کچھ بھی ہو اب تک جو اسباب بیان کیے گئے ہیں وہ جلدبازی اور غیرمعمولی سہل پسندی کا مظہر ہیں اور غیر فیصلہ کن ہیں۔

’’میں سمجھتا ہوں کہ امریکی انتظامیہ کو امریکی عوام کے غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فوراً ہی کوئی دشمن مطلوب تھا جس کو ہدف بنایا جا سکتا۔ مگر میری خواہش ہے کہ وہ واقعی کچھ حقیقی ثبوت لاتے۔ مسٹر بلیر نے دارالعوام میں جو کچھ کہا میں نے اسے بڑے غور سے پڑھا ہے۔ انھوں نے ایسی فضا بنائی کہ یہ محسوس ہو کہ وہ کوئی ثبوت پیش کرنے والے ہیں۔ لیکن یہ کوئی ثبوت نہیں ہے‘ کوئی نہیں۔ یہ سب اخذ کردہ نتائج ہیں۔ کولن پاول نے سب سے زیادہ دیانت داری کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کہا کہ اگر ثبوت نہیں تو کوئی بات نہیں۔ اس نے دوسرے بہت سے ایسے جرائم کیے ہیں جن کی وجہ سے اس کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ اس چینی ضرب المثل کی طرح ہے کہ اپنی بیوی کو ہر روز مارو‘ اگر تم وجہ نہیں جانتے‘ وہ تو جانتی ہے۔ آپ اس طرح نہیں کرسکتے‘‘۔ (گارجین‘ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۶)

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے پاس کوئی حقیقی شہادت موجود ہی نہیں ہے۔ جو کچھ شہادت کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے وہ صرف شبہات کا مجموعہ ہے اور اس کی جو مجموعی تصویر اُبھرتی ہے وہ پراگندہ‘ خام‘ تشنہ‘ مفروضوں پر مبنی‘ غیر مربوط‘ تضادات سے پرُ‘ ناقابل اعتماد اور محروم ثبوت ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم ساری معلومات ظاہر نہیں کر سکتے لیکن یہ اصول انصاف‘ بنیادی حقوق اور نظام قضا کے خلاف ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ مخدوش اور ناقابل چیلنج معلومات کی بنیاد پر‘ دفاع اور جرح و تعدیل کے حق کے بغیر کسی بھی شخص یا گروہ کو ملزم ہی نہیں مجرم قرار دے اور پھر خود ہی اسے سزا سنا کر اس سزا پر عمل بھی کر ڈالے۔ صرف اسی کو نہیں بلکہ یہ ظالمانہ دعویٰ بھی کرے کہ جو ممالک بھی اس کی نگاہ میں اس کے مطلوبہ افراد کو پناہ دیں گے۔ وہ ملک بھی گردن زدنی ہیں اور ان کے عوام بھی عمومی تباہی (mass destruction)کے ہتھیاروں کا نشانہ بنائے جائیں گے۔ سچی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ معلومات باہر لائی گئی ہیں اس کے علاوہ کوئی پیش کیے جانے کے لائق معلومات یا شہادتیں ہیں ہی نہیں اور محض اپنی اَنا اور جذبہ انتقام کی تسکین‘ اپنے سلامتی اور خفیہ معلومات کے نظام کی ناکامی اور اپنے عوام کے جذبات کو غلط رخ پر ڈالنے کے لیے کشت و خون کا یہ بازار گرم کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعے کچھ دوسرے مقاصد ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے زمین ہموار کی جا رہی ہے ورنہ معقول راستہ صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ اگر اسامہ بن لادن اور ان کے القائدہ کے بارے میں کوئی مسکت معلومات اور شواہد تھے تو فوری طور پر ایک پارلیمانی یا عدالتی کمیشن بنایا جاتا جو آزاد تحقیق و تفتیش اور کھلی سماعت کے ذریعے کیس کا جائزہ لیتا اور اگر کوئی ٹھوس شہادت سامنے آتی تو عدالتی عمل کے ذریعے ملزموں کو یا امریکہ کی کسی اعلیٰ عدالت میں مقدمے کے لیے تحویل ملزمان کے معروف بین الاقوامی ضابطے کے تحت حاصل کیا جاتا یا متعلقہ حکومتوں کے ذریعے کسی عالمی عدالت اور غیر جانب دار کی عدالتی کمیشن کے سامنے مقدمہ چلایا جاتا۔ طالبان نے بار بار شواہد کا مطالبہ کیا اور یہاں تک کہا کہ ہم غیر جانب دار مسلمان ممالک کی اعلیٰ عدالت یا اعلیٰ عدالتی کمیشن کے آگے اسامہ کو پیش کرنے کو تیار ہیں لیکن صدر بش کی ہٹ دھرمی‘ رعونت اور سامراجی عزائم نے انھیں کسی معقول راستے کی طرف آنے ہی نہیں دیا بلکہ ان کا ایک ہی جواب تھا:

جب میں کہتا ہوں: کوئی مذاکرات نہیں‘ میرا مطلب یہی ہوتا ہے: کوئی مذاکرات نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ مجرم ہے۔ اسے حوالے کر دو۔ جرم یا بے گناہی پر گفتگو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (انڈی پنڈنٹ‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱)

حالانکہ خود برطانوی پارلیمنٹ کے سینیر ارکان (مثلاً: ٹیم ڈی لییل جو پارلیمنٹ کے سب سے معمر ممبر ہیں اور دارالعوام کے فادر کہلاتے ہیں) کہہ رہے ہیں:

۱۱ ستمبر کو نیویارک میں دہشت گرد حملوں کا برطانیہ میں ٹھیک وہی ردّعمل ہوا جو اسامہ بن لادن چاہتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف اینگلوامریکی پیش قدمی ساری دنیا میں برطانوی امریکی شہریوںپر حملوں کی صورت میں منتج ہو سکتی ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو اقوام متحدہ کو سامنے لایا جائے اور اسے ایک طرف نہ رکھا جائے۔ اب بھی کوشش ہونا چاہیے کہ طالبان کو پیش کش کی جائے کہ اسامہ بن لادن کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام کسی عدالت میں پیش کر دیں جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے جج ہوں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ ۹- اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۵)

بھارتی رسالے فرنٹ لائن نے بھی ادارتی کالموں میں اسے امریکہ کی غیر منصفانہ جنگ (American's Unjust War) قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ:

اس خوف ناک جرم کا صحیح ردّعمل یہ ہو سکتا تھا کہ ارتکاب جرم کرنے والوں کو سخت انصاف کے حوالے کرنے لیے ہر طرح کی کوشش کی جاتی۔ دنیا کو قائل کرنے کے لیے سب ثبوت تلاش کر کے سامنے لا کر‘قانون کی حکمرانی کے تحت اور قانونی عدالتوں کے ذریعے سامنے لائے جاتے‘ اقوام متحدہ کے اجتماعی ادارے کے ذریعے کارروائی کی جاتی۔ مگر اس طرح کے منصفانہ ردّعمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ امریکہ جو کچھ ہے‘ جو کچھ وہ کرنے کا عادی ہے‘ واحد سوپر طاقت ہونے کا اسے جو غرہ ہے اور اس کے بین الاقوامی کردار کی وجہ سے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ (۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۸)

دسیوں اخبارات و رسائل اور ان کے سیاسی مبصر اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن صدر بش ‘ وزیراعظم بلیر اور ان کے شریک کار جنگ پر تلے ہوئے ہیں اور افغانستان پر آگ اور خون کی بارش برسا رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک کو جس میں نہ سڑکیں ہیں اور نہ ریلوے لائن‘ جہاں بجلی‘ پانی اور خوراک کی سہولتیں بھی میسر نہیں‘ جن کی کوئی فضائیہ نہیں‘ ان پر اپنی فضائی برتری قائم کرکے فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ محدود و متعین نشانوں پر حملے (targetted bombing) کے نام پر شہر اور دیہات ہی نہیں‘ مساجد‘ مدرسے‘ شفاخانے اور یواین او اور ریڈکراس کے ڈپو تباہ کیے جارہے ہیں۔ بمباری کے اڑھائی ہفتوں میں تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زیادہ بے بس انسان شہید ہو چکے ہیں لیکن آتش انتقام ہے کہ سرد ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پاکستان کے جرنیل صدر اس خون ریزی میں برابر کے شریک ہیں۔ اس لیے کہ جس حملے کو وہ مختصر اور بہ ہدف (short and targetted) کہہ رہے تھے اور جس کی ضمانتوں کے وہ مدعی تھے اس کا پول پہلے ہی دن کھل گیا جب بش صاحب نے غضب ناک ہو کر کہا کہ صدر مشرف کو کس نے یہ ضمانت دی ہے۔ ہم جب تک چاہیں گے حملے کریں گے جو سردی‘ گرمی بلکہ کئی برسوں تک بھی پھیل سکتے ہیں۔ اس شاہی اعلان کے بعد ہمارے جرنیل  صدر ’’اسی تنخواہ پر‘‘ کام کرتے ہوئے بش صاحّ کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔

افغانستان کا مبنی برحق موقف

دنیا کے ہر آزاد ملک کا حق ہے کہ اپنے کسی شہری کو یا جسے پناہ دے اسے مناسب عدالتی کارروائی کے بغیر کسی دوسرے ملک کے حوالے نہ کرے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک کو مطلوب ہے تو اس کا ایک ہی جائز طریقہ ہے کہ اخلاق اور بین الاقوامی قانون اور ضابطے کے مطابق باقاعدہ عدالتی عمل کے ذریعے اسے طلب کیا جائے۔ اور اس صورت میں بھی جس ملک کے شہری کو طلب کیا جا رہا ہے اس کی عدالت فراہم کردہ شہادتوں کی بنیاد پر اپنا اطمینان کرنے کے بعدہی اسے منتقل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ برطانیہ جو اس مہم میں امریکہ کا شریک ہے خود اپنے قانون اور روایات کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ چلّی کے سابق سربراہ جنرل پنوشے برطانیہ علاج کے لیے آئے تھے کہ اسپین نے ان کو انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا۔ دو بار مقدمہ اعلیٰ عدالتوں سے گزر کر ہائوس آف لارڈز میں گیا اور بالآخر لارڈز نے طے کیا کہ ان کو چلّی واپس بھیج دیا جائے‘ اسپین کے حوالے نہ کیا جائے۔ لطف یہ ہے کہ بن لادن کے لیے تو برطانیہ نے بھی امریکہ کے ساتھ اپنی فوج بھیج دی ہے اور پہلے ہی دن سے ہوائی حملوں میں شریک ہے جبکہ اپنے ملک میں آج بھی یہ کیفیت ہے کہ حقوق انسانی کے یورپین کنونشن کے تقاضوں کے پیش نظر ۱۱ ستمبر ہی کے ایک ملزم کو جو جہاز کے اغوا کے سلسلے میں مطلوب ہے اس لیے حوالے نہیں کر رہا کہ امریکہ میں موت کی سزا ہے جبکہ یورپی قانون کاتقاضا ہے کہ جس ملک میں موت کی سزا ہو وہاں کسی ملزم کو تحویل میں نہ دیا جائے۔ امریکہ اور برطانیہ میں اس پر ردّ و کد ہو رہی ہے۔ یورپ کے ایک نمایندے کا کہنا ہے کہ:

ہم اس لڑائی میں مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ ہیں لیکن ہم سزاے موت کے مخالف ہیں اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ (دی سنڈے ٹیلی گراف‘ ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

یورپ کے ممالک ’’مہذب‘‘ ہیں اس لیے ان کو حق ہے کہ اپنے قانون کی بالادستی قائم رکھیں مگر افغانستان‘ پاکستان اور دوسرے مشرقی ممالک ’’غیر مہذب‘‘ ہیں‘ ان کے ملکی قانون‘ مذہب اور روایات کی کوئی حقیقت نہیں۔ امریکہ کو حق ہے کہ پاکستان ہو یا فلپائن اپنے مطلوبہ افراد کو زور و زبردستی کے ذریعے حاصل کر لیں بلکہ پانامہ کے صدر کو ۲۵ ہزار فوج بھیج کر اغوا کر لے اور پھر اپنے ملک میں مقدمہ چلائے مگر دوسرے ممالک کسی امریکی پر اپنے ملک میں کسی جرم کی پاداش میں بھی مقدمہ نہ چلا سکیں۔ اگر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قائم ہونے والی عدالت کے ہر فیصلے کے احترام کو چارٹر کے ذریعے ارکان ممالک پر لازم کیا جائے تو امریکہ جب چاہے یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے کہ ہم اس معاملے میں کورٹ کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ ۱۹۹۶ میں امریکہ نے نکاراگوا میں امریکی فوجی مداخلت کے سلسلے میں عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ صریح بین الاقوامی غنڈا گردی ہے۔ اسے کسی مہذب ملک کا طریقہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

افغانستان اپنے اقتداراعلیٰ (sovereign)کے اس حق کے لیے سینہ سپر ہے کہ جس شخص کو اس نے پناہ دی ہے اسے کسی واضح ثبوت اور عدالتی عمل کے بغیر محض امریکہ کے مطالبے پر امریکہ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔

افغانستان کے خلاف امریکہ کی موجودہ جنگ ایک صریح جارحانہ کارروائی ہے جس میں صرف طاقت کے بل پر وہ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی ضابطے اور اخلاقی اقدار کوپامال کر رہا ہے۔ ہم نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ امریکہ بن لادن اور القائدہ کے خلاف کوئی قابل قبول اور معتبر شہادت پیش نہیں کر سکا ہے اور صرف دھونس اور تشدد کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔

بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی

اس بہانے اس نے افغانستان پر جوفوج کشی کی ہے وہ صریح طور پر ریاستی دہشت گردی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

قانون کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی دوسرے فرد یا ریاست کو کسی اور کے جرم کی پاداش میں سزا نہیں دی جا سکتی خواہ وہ جرم ثابت بھی ہو چکا ہو۔ جرم میں اعانت (abetment)اور کسی کو پناہ دینا دو بالکل مختلف اُمور ہیں‘ خصوصیت سے جب کہ جرم ثابت بھی نہ ہوا ہو اور نہ کوئی فیصلہ کن شہادت موجود ہو۔ محض ایک ایسے شخص کا کسی ملک میں ہونا جو کسی دوسرے ملک کو مطلوب ہے‘ کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ ایک دوسرے ملک پر حملہ آور ہو جائے۔ انٹرنیشنل لا کمیشن نے اس سلسلے میں واضح قوانین وضع کیے ہوئے ہیں جو دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکہ اور برطانیہ قبول کر چکے ہیں۔ اس قانون کی دفعہ ۱۱ کہتی ہے:

ایک فرد یا گروہ کا ایسا طرزعمل ‘ جو کسی ریاست کی جانب سے نہ ہو‘ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست کا اقدام نہیں سمجھا جائے گا۔

اس طرح‘ اس کی دفعہ ۱۴ میں کہا گیا ہے:

کسی ایسی باغی تحریک کے کسی حصے کا عمل‘ جو کسی ریاست کی حدود میں‘ یا اس کے زیرانتظام کسی دوسرے خطے میں ہو‘ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست پر الزام نہیں سمجھا جائے گا۔

ہم نے نکاراگوا کی حکومت کے امریکہ کے خلاف جس مقدمے کا ذکر اُوپر کیا ہے‘ اس میں چند اقدامات کے بارے میں امریکہ کو مورد الزام اور ذمہ دار قرار دیا گیا تھا مگر کچھ دوسرے معاملات میں عدالت نے امریکہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تھا اور وہ اسی اصول کے تحت تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ:

عدالت کی رائے ہے کہ امریکہ نے نکاراگوا کی کی کنٹرا (contra) افواج میں ایک ہدایت نامہ تیار کر کے تقسیم کر کے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی ہے جو انسان دوستی کے عمومی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن عدالت کوئی ایسی بنیاد نہیں پاتی کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان اقدامات کو امریکہ کے اقدامات قرار دے سکے۔

ان اصولوں کی روشنی میں صاف ظاہر ہے کہ اگر افغانستان میں مقیم کسی فرد نے کوئی ایسا اقدام کیا ہے یا کوئی ایسا اقدام اس سے منسوب کیا جا رہا ہے جو انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے تب بھی اس کی ذمہ داری افغانستان کی حکومت پر نہیںڈالی جا سکتی۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون کے ان اصولوں کو اس لیے مرتب کیا گیا ہے کہ کوئی بھی حکومت‘ خصوصیت سے جن کے پاس طاقت ہے‘ ایسے اقدامات کا سہارا لے کر افراد کے جرائم کے لیے ریاست کو طاقت کے من مانے استعمال (arbitrary use) کا نشانہ نہ بنا ڈالیں۔ اس راستے کو روکنے کے لیے یہ قوانین بنائے گئے ہیں لیکن امریکہ نے ان کو صریحاً نظرانداز کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے تقاضے

اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ہی ریاستوں کی طرف سے یک طرفہ اور من مانی فوجی کارروائیوں کو روکنا تھا۔ چارٹر کی دفعہ ۵۱ میں خود حفاظتی (self defence) کا حق دیا گیا ہے لیکن اسے کسی بھی دلیل کے ذریعے دوسرے ممالک پر فوج کشی کے حق میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر حسب ذیل بنیادوں پر قائم ہے:

۱- آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے تحفظ دینے کے لیے۔

۲- مرد و زن اور بڑی یا چھوٹی اقوام کے مساوی حقوق۔

۳- بین الاقوامی قانون کے تحت معاہدات کے تفویض کردہ فرائض کا احترام (مقدمہ)۔

چارٹر کی دفعہ ۲۰ کی شق ۱‘۳ اور ۴ بہت واضح ہیں:

۱- ممبر ممالک کی خود مختار مساوات کا حصول (۲۰۱)

۲- تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تنازعے پرامن ذرائع سے اس طرح طے کریں گے کہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔(۲۰۳)

۳- تمام ممبران بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کی جغرافیائی وحدت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال‘ یا اس کی دھمکی سے‘ یا کسی بھی ایسے طریقے کو اختیار کرنے سے احتراز کریں گے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد کے مطابق نہ ہو۔

پھر دفعہ ۳۳ میں یہ ضابطہ بہت صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ:

کسی تنازعے کے فریق جس کے جاری رہنے سے عالمی امن و استحکام کے برقرار رہنے کو خطرہ ہو‘ حل تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے مذاکرات ‘ مصالحت‘ ثالثی‘ عدالتی تصفیے‘ علاقائی تنظیموں سے اپیل‘ یہ سب یا اپنی پسند کے دوسرے پرامن ذرائع کا راستہ اختیار کریں گے۔

نیز دفعہ ۳۶ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ دری قرار دی گئی ہے کہ دفعہ ۳۳ کے تحت جو معاملہ بھی اس کے سامنے آئے‘ اس میں تنازع کے حل کے لیے ضروری اقدامات تجویز کرے۔ دفعہ ۳۷ کے تحت اگر ممبر ملک مذاکرات اور دوسرے پرامن ذرائع سے تنازع طے نہ کر سکیں تو ان کے لیے ضروری ہوگا کہ سلامتی کونسل کی طرف رجوع کریں جو دفعہ ۳۶ کے تحت ضروری کارروائی کرے گی۔

کسی ایک ملک کے خلاف کوئی دوسرا ملک ازخود کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ دفعہ ۳۳‘ دفعہ ۳۶ اور  دفعہ ۳۷ کے تحت اقدامات کی ناکامی کی صورت میں سلامتی کونسل دفعہ ۴۱ کے تحت معاشی پابندیاں اور دفعہ ۴۲ کے تحت فوجی کارروائی کا فیصلہ کر سکتی ہے مگر ایسی فوجی کارروائی کوئی ملک خود نہیں کر سکتا اور نہ اقوام متحدہ کو نظرانداز کرکے کسی اتحاد (کولیشن) کے ذریعے کر سکتا ہے بلکہ یہ اقدام اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی فوجوں کے ذریعے دفعہ ۴۶ اور ۴۷ کے تحت اقوام متحدہ کی ملٹری اسٹاف کمیٹی کے تحت ہی ہو سکتے ہیں اور یہ کمیٹی سلامتی کونسل کے مشورے اور اجازت سے کوئی اقدام کر سکتی ہے۔

یہ ہے وہ ضابطہ کار جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں مرقوم ہے۔امریکہ اور برطانیہ نے اس کی ہر ہر دفعہ کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ امریکہ نے دفعہ ۵۱ کا سہارا لیا ہے لیکن اس کا جواز صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جب کسی ملک پر کسی متعین ملک کی فوجوں نے عملاً حملہ کر دیاہو (armed attack) اور اس صورت میں بھی جو ملک خود دفاعی (self defence) کے اس حق کو استعمال کرے اس کا فرض ہے کہ فوری طور پر اس کی اطلاع سلامتی کونسل کو دے اور پھر وہ سلامتی کونسل کے اس حق میں کوئی مداخلت کرنے کا مجاز نہیں ہوگا جو امن کی بحالی کے لیے سلامتی کونسل کرے۔ چارٹر کی دفعہ ۹۴ کے تحت یہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا فرض ہے کہ اگر کوئی ملک چارٹر کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا ازخود نوٹس لے اور سلامتی کونسل میں معاملے کو پیش کرے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں امریکہ اور برطانیہ کا رویہ مبنی برحق نہیں بلکہ صریحاً جارحانہ‘ ظالمانہ ‘ یک طرفہ‘ من مانا اور امن عالم کے لیے تباہ کن ہے۔ پاکستان کی حکومت نے اس بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے اپنی زمینی اور اپنے فضائی راستے فراہم کر کے جرم میں شرکت اور شر اور فساد میں تعاون کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ کے جرائم متعین طور پر یہ ہیں:

(الف) کسی حتمی ثبوت اور شہادت کے بغیر اور کسی مبنی برانصاف عدالتی عمل کے بغیر ایک فرد‘ ایک گروہ اور ایک ملک کو مجرم قرار دیا اور اس کے خلاف راے عامہ اور ملکوں کی کولیشن قائم کی۔

(ب) بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی عدالتوں کے واضح فیصلوں کے علی الرغم‘ اس ملک‘ اس جماعت اور ان گروہوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جن کا قانون کے تحت کسی جرم میں کوئی ہاتھ نہ تھا۔ اگر ان ممالک میں کچھ لوگ ایسے پناہ گزین تھے جن کا جرم عدالتی طریقے سے ثابت ہو تب قانون کے مطابق ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ تو ہو سکتا ہے مگر کسی فوجی اقدام یا اغوا کی کوشش کا کوئی قانونی جواز نہیں اور جن افراد کا جرم ثابت نہ ہوا ہو ان کے بارے میں تو مطالبے کا بھی کسی کو اختیار نہیں۔

(ج) اگر کوئی تنازع فی الحقیقت تھا بھی اور کوئی دوسرا ملک ایک جائز مطالبے کو پورا کرنے میں مزاحم ہو تو مذاکرات (negotiations) کا راستہ اختیار کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۳۳ کے تحت لازمی ہے۔ امریکی صدر نے مذاکرات سے انکار کیا اور معاملات کے تصفیے کے پرامن راستے کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا اور اس طرح چارٹر کی خلاف ورزی کی اور عالمی امن کو تہ و بالا کیا۔

(د) فوجی کارروائی کے سلسلے میں بھی چارٹر میں طے کردہ راستے کو اختیار نہیں کیا گیا۔ سلامتی کونسل نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس میں بن لادن یا افغانستان کو مجرم قرار دیا گیا ہو یا ان کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہو۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء کو جو قرارداد سلامتی کونسل نے منظورکی ہے اس میں اول تو دہشت گردی کی کوئی تعریف نہیں کی گئی اور نہ اس کا مخاطب کوئی ایک ملک ہے۔ اس میں تمام ممبر ممالک سے ۷ نکات کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں دہشت گردی کے مالیاتی وسائل کی روک تھام‘  دہشت گرد تنظیموں کے اثاثوں کی ضبطی‘ کسی فرد یا تنظیم کو دہشت گردوں کی مالی اعانت سے روکنا‘ ایسی تنظیموں میں نئے حامیوں کی بھرتی یا ان کو اسلحہ کی فراہمی ‘ دہشت گردی کے مرتکب افراد یا تنظیموں کو پناہ دینے والوں سے تعاون پر پابندی‘ سرحدوں پر کنٹرول اور دہشت گردی کے سلسلے کے جرائم کی تحقیق و تفتیش میں تعاون اور معلومات کا تبادلہ شامل ہے۔ اس میں نہ کوئی ملک متعین کیا گیا ہے اور نہ کسی کے خلاف فوجی کارروائی کرنے اور اس کارروائی میں مدد دینے کی کوئی بات ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک کسی فوجی کارروائی کا تعلق ہے اسے اقوام متحدہ کی بلاواسطہ یا بالواسطہ تائید حاصل نہیں اور ایسا ہر قدم چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔ فوج کشی کے دو ہفتے بعد بھی سلامتی کونسل کو باضابطہ اطلاع نہ دینا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا متحرک نہ ہونا بھی چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ جو فوجی کارروائی عالمی برادری کے نام پر ہو رہی ہے‘ اسے نہ عالمی برادری کی تائید حاصل ہے اور نہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ہے۔ اس کی حیثیت محض ایک سوپر پاور کی ریاستی دہشت گردی کی ہے اور جو بھی‘ اس میں جس درجے میں تعاون کر رہا ہے وہ اس حد تک دہشت گردی میں شریک اور ایک مظلوم ملک کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہے۔ دنیا کے ۱۹۸ ملکوں میں سے بمشکل ۴۰ امریکی دبائو یا ’’دوستی‘‘ کے سبب اس میں شریک ہوئے ہیں اور جو بظاہر شریک ہیں ان میں بھی اختلاف‘ اضطراب‘ تحفظات اور بے زاری کے آثار ہیں۔ افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ چند مسلمان ملک جن میں پاکستان‘ ترکی اور ازبکستان قابل ذکر ہیں اس جارحیت کے لیے اپنا کندھا پیش کیے ہوئے ہیں اور حق و انصاف ہی کا خون نہیں کر رہے بلکہ اُمت مسلمہ کے مظلوم انسانوں کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ یہ وہ جرم ہے جسے نہ خدا معاف کرے گا اور نہ ملّت اسلامیہ۔ جو جس درجے کے ظلم کا مرتکب ہے اسے ان شاء اللہ ایک دن اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا:

جو چپ رہے گی زبان خنجر‘ لہو پکارے گا آستیں کا

 

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء امریکہ کی تاریخ میں ایک سیاہ‘ المناک اور ناقابل فراموش دن کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جس طرح ۷۲ برس پہلے‘ ۱۹۲۹ء میں امریکہ کی حصص مارکیٹ کے بتاشے کی طرح بیٹھ جانے (The Great Crash) سے اور پھر ۶۰ برس پہلے ۱۹۴۱ء میں پرل ہاربر  پر اچانک جاپانی حملے سے جس میں تقریباً ڈھائی ہزار امریکی ہلاک ہوئے تھے‘ امریکہ کی معیشت‘ سیاست اور عالمی رول کی قلب ماہیت ہوئی‘ بالکل اسی طرح ۱۱ ستمبرکے اس سانحے نے امریکہ ہی نہیں پوری مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ اور سرمایہ داری کی عالمی اور بزعم خود ’’ابدی‘‘ بالادستی کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا اور تاریخ تک کے اختتام (the end of history)کی نوید سنائی جا رہی تھی‘ وہ سارا قصہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں میناروں کے انہدام کے ساتھ ہی زمین بوس ہو گیا ہے اور خطرہ ہے کہ صدربش نے جسے اکیسویں صدی کی پہلی جنگ کہا ہے وہ ایک نئی گرم اور سرد جنگ کا آغاز نہ بن جائے اور اس سے بھی بڑھ کر خطرہ ہے کہ وہ مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان نئی صلیبی جنگ کی ابتدا نہ ثابت ہو۔

۱۱۰ منزلہ یہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر جو ۲۳ سال پہلے ایک ارب ڈالر کی لاگت سے ۱۶ ایکڑ اراضی پر تعمیر ہوا تھا‘ جس نے نیویارک کو اس کا نیا تشخص دیا تھا ‘جس میں آج ۵۰ ہزار لوگ کام کرتے تھے اور جس کا سالانہ کرایہ اب تین ارب ڈالر سے متجاوز تھا‘ وہ اس صدی کے لیے امریکہ کی معاشی اور مالیاتی قوت کا نشان اور عالمی سرمایہ داری کی شان و شوکت کی علامت ہی نہیں اس کا مالیاتی دارالحکومت بن گیا تھا۔ اسی طرح واشنگٹن میں وزارت دفاع (Pentagon) ایک قلعہ بند شہر کا منظر پیش کرتی تھی‘ اس میں ۲۴ ہزار افراد کام کرتے تھے اور یہ  امریکہ کی عالمی عسکری قوت کا مظہر تھی--- یہ دونوں عمارتیں ایک گھنٹے کے دورانیے میں تین ہائی جیک شدہ امریکی ہوائی جہازوں کی زد میں آکر تہ و بالا ہو گئیں۔ ان دو عمارتوں کی تباہی اور ہزاروں افراد کی ہلاکت ہی کچھ کم سانحہ نہ تھے کہ اس کی زد آج کی واحد سوپر پاور ‘ جو صرف اپنے دفاع پر پوری دنیا کے مجموعی دفاعی اخراجات کا ۳۶ فی صد خرچ کر رہی تھی‘ کے وقار اور ساکھ پر کچھ اس انداز میں پڑی کہ اس کے ناقابل تسخیر  (invincible)ہونے کا طلسم پادر ہوا ہو گیا۔ کچھ وقت کے لیے امریکہ کا پورا نظام دفاع و حکمرانی ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بن گیا اور ۲۴ گھنٹے تک تو یہ عالمی قوت جو اب شیر کی طرح دھاڑ رہی ہے عملاً کسی سربراہ مملکت کے بغیر تھی ۔صدر‘ نائب صدر اور کانگریس کا اسپیکر سب کبھی ہوا کے دوش پر دنیا کے خطرات سے تحفظ کے متلاشی تھے ‘کبھی زیرزمین پناہ گاہوں میں عافیت کے طالب تھے۔اس کی نظیر اس صدی کی تاریخ میں نہیں۔ اس حادثے کے بعد امریکہ کی قیادت جن کیفیات سے گزری اور اس کے چہروں اور اعلانات پر جو رنگ دیکھا جا سکتا ہے اسے حیرت و صدمہ (shock)‘ استخفاف (humiliation)‘ غم و غصہ (anger) طیش و غضب ناکی(wrath and fury)  اور پھر انتقام (retaliation and revenge) اور جنون کی کیفیات و واردات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

تشویش ناک رویے

ان سطور کے ضبط تحریر میں لاتے وقت اس حادثہ فاجعہ کو ۱۱ دن گزر چکے ہیں مگر امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے‘ غیر یقینی کے سایے منڈلا رہے ہیں اور اس جذباتی فضا میں ’’کچھ کرگزرنے‘‘ کے آثار خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ بندر کی بلا طویلے کے سر کے مصداق عرب اور اسلامی دنیا کو ہدف بنایا جا رہا ہے‘ اسامہ بن لادن پر سارا نزلہ گر رہا ہے اور افغانستان پر فوج کشی کی تیاریاں ہیں۔ ہاتھی مچھر پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے اور سارا ملبہ فردواحد پر گرا کر اپنی ناکامیوں اور نفرت اور بے اعتمادی کے اصل اسباب و محرکات سے توجہ ہٹانے کی ناروا کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ بڑی تشویش ناک صورت حال ہے کہ ٹھنڈے دل ودماغ سے حق و انصاف کے اصولوں کی روشنی میں حالات کا جائزہ اور تجزیہ نہ ہونے کے برابر ہے (چند کمزور آوازوں کے سوا) ۔ جن کے ہاتھوں میں قوت ہے اور جن پر عالمی قیادت کا بار ہے وہ ایک زخمی درندے کی طرح جس پر بھی شبہ ہو‘ اسے نیست و نابود کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں اور اس کے لیے پرتولے بیٹھے ہیں۔ صدر بش کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی نہیں اعلانِ جنگ ہے لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ اس جنگ میں فریق ثانی کون ہے‘ مقابلہ کس ریاست یا قوت سے ہے اور یہ جنگ کس سرزمین پر ہو رہی ہے۔ پرل ہاربر کے موقع پر حملہ آور بھی معلوم تھا اور اس کا ٹھکانہ بھی۔ آج نہ یہ ثابت ہے کہ کس نے اس دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے اور نہ یہ پتا ہے کہ خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی پشت پر دراصل کون ہے اور وہ کہاں ہے؟ بات کو مزید اشتعال انگیزبنانے کے لیے اسے خود نفس تہذیب کے خلاف جنگ (war on civilization)کا نام دیا جا رہا ہے اور اس طرح دنیا کو دو حصوں میں بانٹنے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے۔ گویا مغربی دنیا مہذب دنیا ہے اور باقی سب وحشت کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ صرف دہشت گردوں ہی کا قلع قمع نہ کیا جائے گا بلکہ ان ریاستوں کو بھی نابود کر دیا جائے گا جہاں ان کو پناہ حاصل ہے]اور یہ بھول گئے ہیں کہ آج تک خود امریکہ میں آئی آر اے (IRA)کے دہشت گردوں کو پناہ حاصل تھی اور کیوبا سے لے کر لاطینی امریکہ کے دسیوں ممالک اور عراق‘ لیبیا اور ایران وغیرہ میں دہشت گردی کرنے والے کتنے ہی مسلح گروہوں کے لیے امریکہ نہ صرف مامن تھا بلکہ  سی آئی اے اور مخصوص لابیاں کھلے بندوں ان کی تربیت اور ان کو مسلح کرنے کا انتظام کرتی رہی ہیں[۔ نائب صدر ڈک چینی اور سیکرٹری دفاع نے تو دو اور دو چار کی طرح کہہ دیا ہے کہ ہمارا ہدف ان ریاستوں ہی کو نیست و نابود کر دینا ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتی ہیں۔ دانش ور‘ اہل قلم اور میڈیا پر تبصرہ کرنے والوں کی ایک فوج ہے جو انتقام اور ریاستی تشدد کی تبلیغ کر رہی ہے۔ سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ لارنس ایگل برگر فرماتے ہیں:

اس طرح کے لوگوں سے نبٹنے کی ابتدا کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے: آپ کو ان میں سے کچھ کو ہلاک کر دینا ہوگا خواہ وہ اس معاملے میں فوری طور پر براہ راست متعلق نہ ہوں۔

امریکی خارجہ پالیسی کے گرو اور ویت نام ‘ کمبوڈیا‘ چلی اور نہ معلوم کتنے ممالک میں لاکھوں انسانوں کی نسل کشی (genocide)کے ذمہ دار ہنری کسنجر کا ارشاد ہے کہ گو یہ پتا نہیں کہ اس اقدام کے پیچھے فی الحقیقت بن لادن کا ہاتھ تھا یا نہیں مگر فوری تادیبی اقدام ضروری ہے اور وہ بھی ناکافی ہے۔ اصل ہدف اس پورے نظام (network)اور ان ممالک کے خلاف کارروائی ہے جہاں اس نظام کے کچھ بھی کل پرزے پائے جاتے ہیں:

لیکن حکومت کو ایک منظم ردّعمل کی ذمہ داری لینا چاہیے۔ امید کرنا چاہیے کہ یہ اسی طرح اختتام کو پہنچے جس طرح پرل ہاربر کا حملہ اختتام کو پہنچا تھا‘ یعنی اس نظام کی تباہی جو اس کا ذمہ دار ہے (واشنگٹن پوسٹ‘ ۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)

موصوف نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر دوسرے ممالک اس میں امریکہ کا ساتھ نہ دیں تو امریکہ کو یہ اقدام تن تنہا ہی کر ڈالنا چاہیے اور کسی اتفاق راے (consensus)کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو بڑے دانش ور اور ذمہ دار حضرات کا اندازبیان ہے۔ عمومی سطح پر جو انداز اختیار کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ صرف ان تین مثالوں سے کیا جا سکتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں رچ لوری ر قم طراز ہیں:

اگر ہم دمشق یا تہران یا جو کچھ بھی ہو‘ اس کا ایک حصہ ملیامیٹ کر دیں تو یہ بھی حل کا ایک جزو ہے۔ (۱۳ ستمبر ۲۰۰۱ء)

نیویارک پوسٹ میں اسٹیوڈیلوری لکھتے ہیں:

۲۱ ویں صدی کے اس پرل ہاربر کا جواب اتنا ہی سادہ ہونا چاہیے جتنا کہ تیز: بلاتاخیر حرامیوں کو قتل کر دو۔ آنکھوں کے درمیان گولی مار دو‘ ان کو ریزہ ریزہ کر دو‘ ضرورت پڑے تو زہر دے دو۔ اور وہ شہر اور ملک جو ان کیڑے مکوڑوں کی سرپرستی کرتے ہیں ان پر بم باری کر دو۔ (۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)

نیویارک ڈیلی نیوز میں ایک محترمہ این کملٹر تو یہاں تک فرما رہی ہیں :

یہ اس کا وقت نہیں ہے کہ اس خاص دہشت گردی کے حملے میں براہ راست ملوث افراد کا ٹھیک ٹھیک احتیاط سے پتا چلایا جائے۔ ہمیں ان کے ممالک پر حملہ کر دینا چاہیے۔ ان کے لیڈروں کو قتل کر دینا چاہیے۔ ہم ہٹلر اور اس کے اعلیٰ افسروں کا پتا چلانے اور سزا دینے کے بارے میں رسمی ضوابط کے پابند نہیں تھے۔ ہم نے جرمن شہروں پر کارپٹ بم باری کی۔ ہم نے شہریوں کو ہلاک کیا۔ وہ جنگ تھی اور یہ بھی جنگ ہے۔ (۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)

یہ وہ فضا ہے جو بنائی جا رہی ہے اور مسلمان اور عرب اس کا ہدف ہیں۔ صدر بش نے صلیبی جنگ کا لفظ استعمال کر کے جلتی پر تیل ڈالنے کی خدمت انجام دی ہے۔ اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب اور مسلمانوں کو دہشت پسند گروہ کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان ۱۱ دنوں میں امریکہ اور برطانیہ میں سیکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں‘ جن میں مساجد‘ مدارس‘ مسلمان مراکز‘ گھرانے‘ حتیٰ کہ راہ چلتی باپردہ خواتین نشانہ بنی ہیں۔ صرف امریکہ میں ۳۰۰ انتقامی کارروائیاں ہو چکی ہیں اوریہ سلسلہ جاری ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ مسلمان تو مسلمان بیچارے سکھ بھی محض اپنی وضع قطع کے باعث مارے جا رہے ہیں--- کیا یہی وہ تہذیب اور اعلیٰ نظام زندگی ہے جس کے دہشت گردی سے معرض خطر میں ہونے کا واویلا ہے!

اسلامی تحریکوں کا موقف

امریکہ اور اہل مغرب کا رویہ خواہ کیسا بھی ہو اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے وہ کوئی بھی زبان استعمال کریں‘ بحیثیت مسلمان اور اُمت مسلمہ ہمارا رویہ حق‘ انصاف اور اعتدال پر مبنی ہونا چاہیے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے ہمیںدلیل کی زبان اور حق پرستی کا مسلک اختیار کرنا چاہیے اس لیے کہ قرآن کا ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ جب بھی انسانوں کے درمیان کلام کریں انصاف کے مطابق کریں:

وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط(النساء ۴:۵۸) اور جب لوگوں کے  درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدہ ۵:۸)  اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

انسانی جان کا تحفظ اور احترام اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم‘ مرد اور عورت‘ دوست اور دشمن میں کوئی تمیز نہیں۔ سب کی جان برابر ہے اور بلاحق کسی کی بھی جان لینا  اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے خلاف بغاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمْ‘ ہم نے تمام بنی آدم کو  محترم و مکرم بنایا ہے‘ محض مسلمانوں یا اہل کتاب کو نہیں۔ اسی طرح:

وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحِقِّ ط (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳) قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

جس دین کی یہ تعلیم ہو‘ وہ بے گناہ انسانوں کی دہشت گردی کے ذریعے مظلومیت کی موت کو کیسے گوارا کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے مسلمانوں ہی نے نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں‘ ان کی دینی تحریکوں اور تمام ہی مسلمان حکومتوں نے ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں انسانوں کی موت پر خون کے آنسو بہائے ہیں۔ اس غم کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا ہے اور اس کی برملا مذمت کی ہے اور اصل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ محض امریکہ کا نقصان نہیں پوری انسانیت کا نقصان ہے اور یہ غم تنہا کسی ایک قوم کے لوگوں کا غم نہیں پوری انسانی برادری کا غم ہے۔ اس نقصان اور اس غم کو ہمارے لیے جس چیز نے اور بھی اپنائیت کا روپ دے دیا ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ہلاک ہونے والے ۵ ہزار سے زیادہ افراد میں‘جن کا تعلق ۶۳ ملکوں سے ہے اور جن میں سب مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں‘ ایک ہزار سے زائد مسلمان تھے یعنی ہر پانچ میں ایک مسلمان تھا۔

دنیا کی اسلامی تحریکوں کے سو سے زیادہ قائدین اور عالم اسلام کے چوٹی کے علما اور مفکرین نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں ۱۲ ستمبر ہی کو اس قتل ناحق کی مذمت کی اور پھر ۱۸ ستمبر کو ایک اور بیان کے ذریعے اسلام اور اُمت مسلمہ کے موقف کو دو ٹوک انداز میں بیان کیا۔ انھوں نے جہاں قتل ناحق کی مذمت کی وہیں انتقام اور جوابی قتل ناحق کے خلاف بھی متنبہ کیا اور کمال حکمت اور پوری جراتٔ سے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کی بات کی۔ یہ بیان پوری اُمت کے جذبات کا ترجمان ہے:

ہم نیویارک اور واشنگٹن میں بزدلانہ دہشت گرد حملوں کی پرزور مذمت کر چکے ہیں جن کا نشانہ بننے والے تمام ممالک سے اور دنیا کے بڑے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اسلام انسانی جان کے تقدس کا علم بردار ہے۔قرآن کے مطابق ایک بے گناہ کو ہلاک کرنا ساری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان اس جارحیت کے جانی نقصان پر غم زدہ ہیں کہ یہ امریکہ اور پوری دنیا کا مشترکہ نقصان ہے۔

ہم یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ دنیا کے تمام حصوں میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ایسی ہی ہمدردی اور تشویش کے مستحق ہیں۔ جو لوگ انسانوں کی مساوات کے علم بردار ہیں انھیں دنیا کے سب حصوں میں دہشت گردی کی مذمت کرنا چاہیے اور اس کے خلاف لڑنا چاہیے۔

ہم اس اصول کے حامی اور علم بردار ہیں کہ انسانوں کے خلاف دہشت گردی کے جو بھی ذمہ دار ہیں--- افراد‘ گروپ یا حکومت‘ ان کو کٹہرے میں لانا چاہیے اور کسی ہمدردی یا امتیاز کے بغیر اس کی سزا دینا چاہیے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مشتبہ افراد کو کسی غیر جانب دار عدالتی طریقے سے ان کا جرم ثابت کیے بغیر‘ یک طرفہ طور پر سزا دینے کی کوشش بھی دہشت گردی ہی قرار پائے گی جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی گوارا کیا جا سکتا ہے۔

عدل وا نصاف اور فطری اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا یہ کم سے کم تقاضا ہے کہ جرم کا غیر جانب دار واضح ثبوت ہو۔ اس لیے ہم دنیا کی تمام حکومتوں سے‘ خصوصاً امریکہ کی حکومت سے‘ اپیل کرتے ہیں کہ وہ صرف شبہے کی بنیاد پر طاقت کا یک طرفہ من مانا استعمال نہ کریں‘ اور مدعی‘ وکیل‘ جج اور جلاد سب کچھ خود ہی بننے کی کوشش نہ کریں۔ ہم‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور تمام عرب‘ مسلمان اور یورپی ممالک کے لیڈروں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو بے جا خوں ریزی اور تشدد میں اضافے سے بچائیں جس سے اقوام عالم اور ریاستوں میں مزید جھگڑے اور تنازعات پیدا ہوں گے۔ دہشت گردی کا مقابلہ صرف ایسے ہی ذرائع سے کیا جاسکتا ہے جو منصفانہ اور عادلانہ ہوں‘ اور دنیا میں امن و سکون کا باعث بننے والے ہوں۔ ہمیں ایسے اقدامات میں فریق  یا خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے جن سے انتقام‘ رعونت اور بین الاقوامی دیوالیہ پن کی بو آتی ہو۔ آیئے سب لوگ انصاف کے لیے کھڑے ہو جائیں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے کارپردازوں کو قانون کے مطابق سزا دینے کے لیے اجتماعی کوشش کریں‘ اور دنیا میں دہشت گردی کی جڑمیں پائی جانے والی ناانصافیوں ‘ استحصالوں اور بالادستی کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے لیے کوشش کریں!

یہ ہے اُمت مسلمہ کا اصولی اور حقیقی موقف ۔ تمام مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کا فرض ہے کہ  اس نازک لمحے میں حکمت‘ دیانت اور جرأت کے ساتھ اپنے اس موقف پر ڈٹ جائیں ‘ محض قوت‘ دھونس اور جبر کے آگے ہتھیار نہ ڈالیں ‘اور نہ پروپیگنڈے کی یورش سے مغلوب ہوں اور نہ کسی ایسے جوابی ردّعمل کی راہ اختیار کریں جو حق وصواب سے دُور ہو۔

امریکی نظام کی شرم ناک ناکامی

جو سوال اس وقت سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا اور اس کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ بات محض شبہہ اور انتقام کی نہیں‘ بے لاگ جستجو‘ تحقیق و تفتیش‘ نقد و احتساب اور حقیقت کی کھوج کی ہے۔ بدقسمتی سے اس سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے اور سارے معاملات ایک ہیجانی انداز میں نمٹانے کی خطرناک غلطی کی جا رہی ہے۔ تعجب ہے کہ کوئی نہیں جو ہمت اور جرأت سے کہے کہ بادشاہ کو پہلے اپنے جسم پر نگاہ ڈالنی چاہیے کہ کہیں وہ لباس سے عاری تو نہیں؟

یہ ابھی تحقیق طلب ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کون تھے اور ان کے اصل مقاصد اور ان کے پشتی بان کون تھے۔ مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ امریکہ کے اپنے نظام حکومت اور خصوصیت سے اس کے قومی سلامتی ‘ جاسوسی اور پولیس کے نظاموں کی ناکامی اور اس ناکامی کے ذمہ داروں کے احتساب سے کلی اغماض کیوں برتا جا رہاہے؟ ایک ریل کا بھی حادثہ ہوتا ہے تو فوری اسباب کی تحقیق و تفتیش سے پہلے ادارے کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہوتا ہے اور ان کو جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ امریکہ کا جاسوسی کا نظام دنیا کا عظیم ترین اور مہنگا ترین نظام ہے۔ صرف سی آئی اے کا سالانہ بجٹ ۳۰ ارب ڈالر ہے اور دنیا میں اس کے ایک لاکھ ہمہ وقتی کارکن ہیں۔ ایف بی آئی داخلی سلامتی کی ذمہ دار ہے ‘ اس کا سالانہ بجٹ ۳ ارب ڈالر ہے۔ اس کے امریکہ میں ۵۵ مراکز اور ۲۷ ہزار ۸ سو کارکن ہیں۔ اس کے نظام کار میں کل بجٹ کا پانچواں حصہ صرف معلومات جمع کرنے کے لیے مختص ہے اور یہ نگرانی (surveillance)کی جدید ترین ٹکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ ایک اور ادارہ National Reconnaissance Office  ہے جو جاسوسی سیارچوں (Spy Satellites) کی مدد سے زندگی کے ہر پہلو کی ہمہ وقتی نگرانی کرتا ہے اور اس کا سالانہ بجٹ ۲.۶ ارب ڈالر ہے۔ ایک اور ادارہ National Security Authority  ہے جس میں ۲۱ ہزار افراد کام کرتے ہیں اور اس میں معلومات جمع کرنے کا دنیا کا اعلیٰ ترین انتظام ہے اور اس کے کارکن دنیا کی ہر اہم زبان کے ماہر ہیں۔ ان کے علاوہ نو مزید خفیہ معلومات حاصل کرنے والی ایجنسیاں ہیں جو فوج‘ وزارت خزانہ‘ وزارت مواصلات اوروزارت بجلی و پانی کے تحت کام کرتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا بجٹ ایک ارب ڈالر سالانہ ہے۔ ان سب کے علاوہ ایک National Imagery and Mapping Agency ہے جس کا بجٹ ۲.۱ ارب ڈالر سالانہ ہے اور اس کا کام صرف یہ ہے کہ امریکہ کی زمین پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے نقشے محفوظ کرے۔ اس طرح صرف انٹیلی جنس اور نگرانی کے ادارے سالانہ ۵۰ ارب ڈالر کے بجٹ سے قومی سلامتی اور حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے علاوہ معلومات حاصل کرنے کی Non-Intelligence Agencies کا سالانہ بجٹ ۲۷ ارب ڈالر ہے۔ گویا صرف جاسوسی اور دوسری معلومات کے حصول کے لیے امریکہ سالانہ  ۷۷ ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے (ہفت روزہ گارجین ‘ ۲۰ تا ۲۶ ستمبر ‘ ص ۵)۔

اس کے باوجود اس پورے نظام کو ایک ایسے مربوط اور مختلف جہتی منصوبے کی کوئی سن گن تک نہیں لگی جس میں بقول امریکہ ۱۹ خودکش ہائی جیکر شامل تھے جنھوں نے دو مختلف ہوائی اڈوں سے کارروائی کا آغاز کیا‘ جس میں ان کے علاوہ کم از کم ۳۰ مزید افراد کے شامل ہونے کا اندازہ ہے‘ جو کئی مہینے سے اس اقدام کی منصوبہ بندی کر رہے تھے‘ بڑے شہروں میں رہ رہے تھے‘ کینیڈا اور جرمنی کے سفر کر رہے تھے‘ کلبوں میں شراب نوشی اور رقص و سرود کی محفلوں میں شریک تھے‘ جم خانوں میں تن سازی کر رہے تھے اور ہوائی پرواز کے اداروں کے باقاعدہ ممبر کی حیثیت سے ہوا پیمائی کی مشقیں کر رہے تھے۔ اگر اتنی خطیر رقم خرچ کر کے اور اتنے جدید اور ترقی یافتہ نظام کی موجودگی میں امریکہ کی قیادت کو ایسی سازشوں اور خوف ناک منصوبوں کی ہوا بھی نہیں لگتی تو پھر اس نظام کا احتساب نہ کرنا کس طرح قابل فہم ہو سکتا ہے۔ نہ سی آئی اے کے سربراہ نے استعفا دیا ہے‘ نہ ایف بی آئی کے سربراہ کو معطل کیا گیا ہے‘ نہ اٹارنی جنرل جو اس پورے نظام کا سربراہ ہے اس پر کوئی آنچ آئی ہے‘ بلکہ اٹارنی جنرل صاحب پوری دیدہ دلیری سے فرما رہے ہیں کہ اب سوال انصاف کا نہیں‘ جوابی کارروائی کا ہے! اصل ناکامی امریکہ کے اپنے نظام کی ہے--- محض اسامہ بن لادن اور افغانستان پر ملبہ گرانے سے امریکہ کے اپنے نظام کی ناکامی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

یہ ناکامی اور بھی شرم ناک ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے امکانات اور خطرات کے بارے میں بحث و گفتگو کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ فروری ۱۹۹۳ء میں اسی ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم کا دھماکا ہو چکا تھا جس میں چھے افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اپریل ۱۹۹۵ء میں اوکلاہاما کا واقعہ ہوا تھا جو ایک امریکی دہشت گرد ٹموتھی لیکون کا کارنامہ تھا اور جس میں ۱۶۸ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ابھی دو ماہ پہلے لیکون کو رحم کی ملکی اور عالمی اپیلوں کے علی الرغم پھانسی دی گئی تھی اور اس گروہ کی طرف سے انتقامی کارروائی کا خطرہ موجود تھا۔ اگست ۱۹۹۸ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں میں ہونے والی دہشت گردی میں ۲۲۴ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کا مقدمہ چل رہا تھا۔ اکتوبر ۲۰۰۰ء میں امریکی بحری جہازUSS Cole کا واقعہ ہواجس میں ۱۷ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کا مقدمہ بھی زیرسماعت تھا۔ اسی سال مارچ میں سینیٹ کے انٹیلی جنس کمیشن نے متوقع دہشت گردی سے متنبہ کیا تھا اور یہ رپورٹ حال ہی میں شائع ہو چکی تھی۔ ابھی تین ہفتے پہلے سی آئی اے نے ان دو افراد کے بارے میں تصویر شائع کر کے متوجہ کیا تھا جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ۱۱ ستمبر کی ہائی جیکنگ میں شریک تھے۔۷ستمبر کو ایک اور وارننگ موصول ہوئی تھی--- ان سب کی موجودگی میں تمام خفیہ اور برسرزمین ایجنسیوں کی ناکامی اصل لمحہ فکریہ ہے--- لیکن اس کا کوئی ذکر نہ امریکی صدر کے بیانات میں ہے اور نہ میڈیا کی لفظی جنگ میں۔

اسامہ بن لادن؟

سارا زور ایک فرد اسامہ بن لادن پر ہے ‘ جو ۱۰ سال سے جلاوطنی اور خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہا ہے  اورجس کے پاس نہ ٹیلی فون ہے اور نہ باہر کی دنیا سے رابطے کا کوئی اور ذریعہ ہے۔ وہ ایک ایسے ملک میں ہے جس پر برسوں سے شدید ترین نگرانی ہو رہی ہے‘ جس کے پاس نہ جدید ٹکنالوجی ہے اور نہ سفارتی یا ابلاغی سہولتیں‘ جس کے پاس کوئی عالمی میڈیا تو کیا انگریزی میں دنیا تک اپنی بات پہنچانے کی سہولت تک میسر نہیں‘ جس کے خلاف برسوں سے پابندیاں لگی ہوئی ہیں‘ مواصلات کا نظام غیر موثر ہے اورجس کے بنک بیرونی دنیا سے کوئی مالی معاملہ نہیں کر سکتے۔ پھر بھی یہی یقین دلایا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے ایک غار سے یہ سب تماشے کر رہا ہے۔ اسامہ کی دولت کا بھی بڑا شور ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن ۳۰ کروڑ ڈالر کا ذکر کیا جاتا ہے (اگر درست بھی ہو تو خود امریکہ کے صرف جاسوسی کے ۷۷ ارب ڈالر اور دفاعی بجٹ کے ۳۵۰ ارب ڈالر کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں) ان کی بھی حقیقت یہ ہے کہ ۱۲ سال پہلے اسامہ بن لادن کو اپنے والد کی میراث میں ۳۰۰ نہیں‘ ۸ کروڑ ڈالر ملے تھے۔ ان میں سے جو کچھ اس کے پاس تھے اسے ۱۹۹۶ء میں سعودی شہریت ختم ہونے پر ساری دنیا میں منجمد کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ نہ کوئی سرمایہ کاری کر سکتا ہے ‘ نہ کسی بنک میں حساب رکھ سکتا ہے اور نہ کسی کاروبار میں عملاً شرکت ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر چند کروڑ ڈالر اس کے پاس تھے بھی‘ تو ان سے کیا کچھ اور کب تک کیا جا سکتا ہے۔ اکانومسٹ نے اپنے ادارتی مضامین میں اعتراف کیا ہے کہ بن لادن کی دولت کی بات میں بڑا مبالغہ ہے (۲۲ستمبر ‘ ص ۱۷)۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بن لادن اور اس کے رفقا سخت مالی مشکلات میں مبتلا ہیں:

مشرقی افریقہ کے بم بازوں کے مقدمے میں ایک حالیہ گواہی سے بہرحال ایک شبہہ پیدا ہوتا ہے۔ بن لادن کے سابق رفقا نے بتایا ہے کہ وہ سرمائے کی کمی کا شکار ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے آدمی پریشانی کا شکار ہیں اور ان کے درمیان مسلسل جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے ایک سابق اکائونٹنٹ کو‘ جو امریکہ کا سب سے بڑا گواہ ہے‘ جب قرض دینے سے انکار کیا گیا تو وہ القاعدہ سے باہر آگیا۔ (اکانومسٹ‘ ۱۵ ستمبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۹)

اگرمالی وسائل کے بارے میں حقائق یہ ہیں تو پھر اسامہ کے خلاف ساری مہم سخن سازی نہیں تو اور کیا ہے۔ خود امریکی عدالت میں سفارت خانوں پر حملے کا جو مقدمہ چل رہا ہے اس میں اسامہ کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ہو سکی۔  اکانومسٹ اپنے اس مضمون میں اعتراف کرتا ہے کہ:

بہرحال سرکاری وکیل یہ ثابت نہیں کر سکے کہ مسٹر بن لادن نے حملوں کا حکم دیا۔

حملے کس نے کیے؟

اگر اسامہ بن لادن اور افغانستان کے لیے اس نوعیت کی منظم‘ ہمہ جہتی اور اعلیٰ منصوبہ بندی والی کارروائی ممکن نہیں اور نہ ہی اس کی توقع کسی اور عرب تنظیم سے کی جا سکتی ہے (اور بن لادن کے سوا کسی دوسرے گروہ کی طرف امریکی اور مغربی میڈیا اور حکومتیں کوئی اشارہ تک نہیں دے رہی ہیں) تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ہولناک کارروائی کا مرتکب کون ہو سکتاہے۔ ہم صرف تاریخی شواہد اور حالیہ قرائن کی بنیاد پرچند مفروضوں کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

پہلا امکان یہ ہے کہ یہ کارروائی کسی منظم امریکی گروہ کی طرف سے ہوئی جو معاشرہ کا باغی اور نظام حکمرانی سے برگشتہ ہو۔ حالیہ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں سامنے آئی ہیں جو ان خدشات کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ ملک میں جرائم کی توکبھی کمی نہیں تھی لیکن پچھلے دنوں اسکول کے بچوں کو منظم انداز میں ہلاک کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے جن میں کیلی فورنیا میں ایک ہی ہلّے میں اسکول کے ۱۲ طلبا کی ہلاکت کی یادیں تازہ ہیں۔ ٹموتھی میکوی نے اوکلاھاما میں ۲۶۸ افراد کو ہلاک کیا اور اس سے زیادہ کو ہلاک کرنے کی خواہش کا عدالت میں اظہار کیا۔ یہ واقعہ ٹموتھی کو پھانسی دینے کے دو ماہ کے اندر واقع ہوا ہے اور یہ دہشت گردی بھی ٹموتھی کے گروہ کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ ایک اور امریکی دہشت پرست گروہ صدر بش کی ریاست ٹکساس کا Jaco نامی منظم گروہ ہے جس نے ایک پورے قصبے کو آگ لگا کر تباہ کیا۔ڈیوڈ کوریش اور اس کے پیروکار بھی ایک باغی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی طرف سے تخریب کاری کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سوچنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ اس کارروائی کا فائدہ کس کو ہو سکتا ہے۔ خود امریکہ میں ایسے عناصر ہیں جو ریاست کے اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور جو آزادی اظہار وعمل پر مختلف قسم کی پابندیوں کے خواہاں ہیں۔ وہ ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جمہوری آزادیوں کو لگام دی جا سکے اور ان غالب اور مفاد پرست طبقات کی گرفت ملک پر مضبوط ہو سکے۔ وہ ادارے بھی ہیں جو مزید سرکاری وسائل کے طلب گار ہیں جن میں سیکورٹی ایجنسیاں بھی ہیں۔ ملک کی عسکری صنعتی لابی کا بھی ایک کردار ہو سکتا ہے۔

اس خدشے کو ان معلومات سے تقویت مل رہی ہے جو اب حادثے سے قبل اسٹاک ایکسچینج کی غیرمعمولی سرگرمی کے بارے میں چونکا دینے والے اعداد و شمار سے حاصل ہو رہی ہیں۔ لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا تجارتی نمایندہ راوی ہے کہ۶ ستمبر کو (واضح رہے کہ ۸ اور ۹ ستمبر کو ہفتہ اور اتوار کی چھٹی تھی) امریکہ کی ان دونوں ہوائی کمپنیوںکے حصص کی فروخت میں غیر معمولی سرگرمی نظر آئی جن کے جہاز اس حادثے میں استعمال ہوئے ہیں اور جن کے حصص کی قیمت حادثے کے بعد ایک دم گر گئی ہے۔ اس وقت تو اسے نظرانداز کردیا گیا مگر اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایک دن میں یونائٹیڈ ایرلائن کے دوہزار معاہدے ہوئے جو اس کے قبل کے یومیہ کاروبار کے اوسط سے ۲۸۵ گنا زیادہ تھا۔ اس دن ایک حصہ کی قیمت ۳۰ ڈالر تھی جو حادثے کے بعد گر کر ۱۸ڈالر رہ گئی۔ امریکن ایئرلائن کے حصص کی فروخت حادثے سے قبل دو تین دن میں اوسط سے ۶۰گنا زیادہ تھی۔ اسی طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرنے والی دو اہم بین الاقوامی مالیاتی کمپنیوں یعنی Morgan Stanley  اور Marsh and McLennan کے حصص ان دنوں اوسط کے مقابلے میں ۲۵گنا اور ۱۰۰ گنا زیادہ فروخت ہوئے۔ سرمایہ کاری کے رجحانات کا ایک ماہر جون ناجارین (Jon Nagarian) ان غیر معمولی سودوں پر اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتا ہے:

جب ہم اتنے غیر معمولی سودے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ (انڈی پنڈنٹ‘  ۲۰ ستمبر ۲۰۰۱ء)

صاف معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عناصرکو علم تھا کہ کچھ ہونے والا ہے اور انھوں نے اس سے کروڑوں ڈالر کمائے۔

لیکن اس ہولناک واقعے سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا جس نے اسے فلسطینیوں کو امریکہ کے غم و غصے کا نشانہ بنانے‘ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور نام نہاد امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ حادثے کے آدھے گھنٹے کے اندر ہنری کسنجر نے اسامہ بن لادن کا نام لیا اور پورے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی بات کی۔ اسرائیل کے وزیراعظم شیرون نے حادثے کے فوراً بعد کہا کہ ’’عرفات ہمارا بھی لادن ہے‘‘ اور عرفات سے اپنی طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ انڈی پنڈنٹ کا نمایندہ یروشلم سے لکھتا  ہے:

اسرائیل‘ امریکہ کے اس المیے کو فلسطینیوں سے اپنے تنازعے میں سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شیرون اور ان کے ساتھی عرفات کا اسامہ بن لادن سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ امریکی حملوں نے فلسطینیوں کو تنہا کر دیا ہے اور مغرب میں ان کے لیے جو بچی کھچی ہمدردی تھی‘ اسے بہا لے گئے ہیں۔ (۱۶ ستمبر‘ ۲۰۰۱ء)

یہ بھی ایک عجوبہ ہے کہ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں جن ۴۶ ممالک کے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی ہے ان میں اسرائیل کا کوئی ایک بھی شہری شامل نہیں ہے۔ نیویارک میں بہت زیادہ یہودیوں  کی رہایش ہے اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں ۴ ہزار سے زیادہ یہودی کام کرتے تھے مگر مرنے والوں کے بارے میں جو معلومات اب تک شائع ہوئی ہیں ان میں یہودیوں کا کوئی ذکر نہیں۔ ایک اطلاع ۵ ‘۶ اسرائیلیوں کی گرفتاری اور تفتیش کی شائع ہوئی تھی مگر اسے فوراً دبا دیا گیا۔ کینیڈا سے Stern Intel کی خبر ہے کہ امریکہ کے فوجی جاسوسی ذرائع کے مطابق اس میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے۔ ایران کے رہبر خامنائی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ:

اس کا ثبوت موجود ہے کہ امریکہ کے بڑے شہروں میں حالیہ حملوں میں صیہونی ملوث تھے (تہران ٹائمز‘ ۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء)

اگر اسرائیل اور صیہونی تحریک کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو موساد کے کردارکے خدشے کو تقویت ملتی ہے۔دوسری عالمی جنگ کے دوران صیہونی دہشت گردوں نے خود یہودی تارکان وطن سے بھرے ہوئے ایک جہاز کو اس لیے ڈبو دیا تھا کہ برطانوی حکومت نے ان غیر قانونی یہودیوں کو فلسطین میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اس طرح انھوں نے عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے خونی ڈراما رچایا۔ بیت المقدس میں پرنس ایڈورڈ ہوٹل کی تباہی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ سے قبل خود امریکہ کی نیوی کے ایک جہاز USS Liberty کو اسرائیل نے میزائل مار کر ڈبو دیا تھا اس لیے کہ اس نے اسرائیل کے مصر پر اچانک حملے کی تیاریوں کو مانٹیر کر لیا تھا۔ اس پس منظر میں اور ان سیاسی فوائد کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جو اسرائیل حاصل کر رہا ہے اور عربوں کو پوری مغربی دنیا میں نفرت اور انتقام کا نشانہ بنوا رہا ہے یہ شبہ کافی تقویت حاصل کرلیتا ہے کہ اس حادثے کے پیچھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے جو اس نوعیت کے آپریشن کی صلاحیت اور مہارت رکھتی ہے۔ ایسا ہی ڈراما روس میں شیشان کے خلاف حالیہ کارروائی سے پہلے ماسکو اور  ولگاڈونسک میں (۱۳ ستمبر ۱۹۹۹ء) میں دو آٹھ منزلہ عمارتوں میں بم کے دھماکوں کی شکل میں کیا گیا تھا جن میں ۳۰۰ افراد کی ہلاکت واقع ہوئی اور جسے بنیاد بنا کر شیشان پر نئی فوج کشی ہوئی تھی۔

انڈی پنڈنٹ کا مضمون نگار پیٹرک کوک برن نیویارک اور واشنگٹن کی حالیہ دہشت گردی کے پس منظر میں ماسکو سے اس واقعے کے بارے میں وہاں کی رائے عامہ کے حالیہ احساس کو یوں بیان کرتا ہے:

۱۰ میں سے صرف ایک کو یقین تھا کہ یہ چیچن کا کام ہے۔ صرف آغاز میں ہمارا یہ خیال رہا کہ یہ چیچن نے کیا ہے۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ کریملن کے لوگوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے یہ کیا۔

یہ ہیں میکاولی سیاست کے طریق واردات۔ نیویارک اور واشنگٹن میں جو کچھ ہوا اس راز کا پردہ بھی ایک دن ضرور کھلے گا لیکن آثار تو اب بھی نظر آ رہے ہیں کہ ’’کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں!‘‘

جن افراد پر ہوائی جہازوں کو اغوا کرنے کا الزام ہے ان کے بارے میں جو متضاد باتیں سامنے آ رہی ہیں وہ سارے معاملے کو مخدوش بنا دیتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ کے مجاہد تھے اور ساتھ ہی ان کی شراب نوشی‘ رقص و سرود اور گرل فرینڈز کے ساتھ رنگ رلیوں کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں--- ایک طرف جہاد اور حوروں کی باتیں ہیں اور دوسری طرف یہ طرز زندگی‘ ان میں کیا مطابقت ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ اس سخن سازی کے ذمہ داروں کو اسلامی آداب جہاد اور شہادت کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں۔ جن ۱۹ افراد کے نام آئے ہیں ان میں کم از کم ایک عیسائی ہے‘ کیا عیسائی بھی جہاد اور شہادت کا طلب گار تھا۔ ان میں سے کم از کم پانچ افراد کے بارے میں تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ زندہ ہیں‘ سعودی عرب اور مراکش میں موجود ہیں اور ان کا کوئی تعلق ہوائی جہازوں کے اغوا سے نہیں۔ بلکہ ان میں سے تین نے تو کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ابلاغ عامہ کے اداروںکے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کریں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو نام دیے جا رہے ہیں وہ  جھوٹے ہیں اور اصل مجرموں کا کسی کو پتا نہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اوکلاہاما کے حادثے کے موقع پر بھی عربوں کومتہم کیا گیا تھا اور ان کے خلاف ملک گیر مہم شروع ہو گئی تھی۔ وہ تو اتفاقاً ٹموتھی میکوی گرفت میں آگیا اور معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ایک امریکی دہشت گرد کا کیا دھرا تھا۔ مقدمے کے دوران یہ حقائق بھی سامنے آئے کہ اس کے گروہ میں ۵۰۰ تک افراد ہو سکتے ہیں لیکن گروہ اتنا منظم ہے کہ ٹموتھی کے ساتھ جو دو افراد گرفتار ہوئے تھے ان پر بھی ٹموتھی نے کوئی حرف نہ آنے دیا اور تمام قرائن (circumstantial evidence)کے باوجود ان کو بری کر دیا گیا۔ عدالت کے سامنے ٹموتھی کے بیانات بڑے اہم ہیں۔ اس نے اس دہشت گردی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اسے حق بجانب قرار دیا اور صاف الفاظ میں کہا کہ میں امریکہ کو متنبہ کرنا چاہتا تھا اور زیادہ سے زیادہ افراد کو ہلاک کرنا میرا مقصد تھا۔ اس نے آخری وقت تک معافی نہیں مانگی بلکہ اپنی موت کے وقت جو نظم پڑھی اس میں اپنے کارنامے پر فخر کا اظہار کیا گیا ہے۔ ٹموتھی تنہا نہیں‘ اس کے اپنے گروہ میں سیکڑوں افراد ہیں اور اس جیسے دسیوں دہشت پرست گروپ امریکہ میں سرگرم عمل ہیں۔

۱۱ ستمبر کی تباہی جس منظم انداز میں‘ جس اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ‘ اور جتنے باہمی ارتباط (coordination) کے ساتھ کی گئی وہ کسی بیرونی گروہ کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے کہ جب اس میں امریکہ کے بہت ہی تربیت یافتہ‘ باصلاحیت‘ well-connected اور پورے نظام کے راز آشنا شریک ہوں۔ انھوں نے عربوں کے ناموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے اور حکومت اور میڈیا‘ اسامہ اور افغانستان کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کر کے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور اصل مجرموں تک رسائی سے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ ایک مجرمانہ فعل اور عالم اسلام کے خلاف کھلی جارحیت کے مترادف ہے۔

ایک اصولی مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی ملزم پر جرم ثابت ہونے سے پہلے محض شبہہ کی بنیاد پر کوئی کارروائی صریح ظلم اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ آج امریکہ طاقت کے نشے میں مست ہو کر محض شبہہ کی بنیاد پر افراد ہی نہیں اقوام اور ملک کو تباہ کرنے‘ انھیں پتھر کے دور کی طرف لوٹانے‘ اور نیست و نابود کرنے کی بات کر رہا ہے اور قانون کی حکمرانی ‘ عالمی انصاف اور ہوش و خرد کی بات کرنے والوں کو سّب و شتم کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ فطرت کے خلاف اور انسانیت کے لیے قطعاً ناقابل قبول ہے    ؎

وہی قاتل‘ وہی شاہد‘ وہی منصف ٹھہرا

اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر

دہشت گردی کے اسباب

امریکہ اور مغربی ممالک کی قیادت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جسے وہ دہشت گردی کہہ رہے ہیں اور اس کا قلع قمع کرنے کے لیے اکیسویں صدی کی سب سے لمبی اور ہمہ گیر جنگ کے لیے لنگرلنگوٹ کس رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے اور اس نوعیت کے مسائل و معاملات سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی کا جو پہلو ناقابل دفاع اور لائق مذمت و مزاحمت ہے وہ سیاسی اور مبنی برحق مقاصد کے حصول کے لیے ایسے طریقے اور راستے اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں معصوم انسانوں کی جانیں ضائع ہوں۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے اور اس سے لوگوں کو باز رکھنا انسانیت کی خدمت اور خود ان نادان انسانوں سے خیرخواہی ہے جو جان بوجھ کر یا محض حالات کی رَو میں ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ لیکن جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اگر معاملات کی اصلاح کے جائز اور معقول راستے بند کر دیے جائیں گے ‘ اگر محض قوت اور ہٹ دھرمی‘ مفاد پرستی ‘ تعصب ‘ غرور ‘ مادی اور عسکری برتری اور علاقائی یا عالمی بالادستی کے مذموم مقاصد کے لیے دوسرے انسانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جائے گا اور اصلاح احوال کے امکانات کو معدوم کر دیا جائے گا تو اس کا فطری ردعمل رونما ہوتا ہے اور وہ صحیح کے ساتھ غلط راستے بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ظلم اور ناانصافی کی موجودگی میں اور ان کی سرپرستی کے ساتھ اور ان اسباب سے صرف نظر کر کے جو افراد‘ گروہوں اور اقوام کو تشدد پر مبنی جدوجہد کی راہ پر ڈالتے ہیں‘ اس سے حالات کی اصلاح ممکن نہیں۔ امریکہ اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف جو نفرت اور بے زاری ہے وہ عالمی حقائق ہیں اور محض عسکری اقدامات سے دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہے۔ برطانوی ممبر پارلیمنٹ جارج گیلرے نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں صحیح کہا ہے کہ اگر آپ ایک بن لادن کو ماردیں گے تو ایک ہزار بن لادن پیدا ہو جائیں گے۔

اصل مسئلہ ان اسباب کی کھوج اور ان کی اصلاح ہے جن کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر علاقوں میں بشمول امریکہ اور یورپ بغاوت اور بے چینی کی لہریں اٹھ رہی ہیں اور مظلوم انسان اپنی جان پر کھیل جانے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بموں‘ میزائلوں اور انسانی بستیوں پر آگ برسانے سے نہیں لڑی جا سکتی۔ یہ جنگ تو اسی نوعیت کی جنگ ہے جو غربت‘ افلاس‘ بیماری اور جہالت جیسے فتنوں کے خلاف لڑی جاتی ہے۔ یہ غصہ اور طاقت سے نہیں‘ حکمت اور تدبیر سے لڑی جا سکتی ہے۔ انسانی مسائل کی گرہ کشائی کا راستہ ترک کر کے محض عسکری قوت سے جب بھی انسانوں کو دبانے کی کوشش ہوئی ہے وہ ناکام رہی ہے۔ تشدد کو بڑھانے اور ظلم میں اضافہ کرنے کا اس سے زیادہ موثر کوئی اور طریقہ نہیں کہ انتقام کی آگ میں جل کر عوامی تحریکوں کو قوت سے کچلنے کی کوشش کی جائے۔

عالمی استعمار نے ۲۰۰ سال یہ جنگ لڑی اور بالآخر آزادی کی تحریکات سے معاملہ کرنا پڑا اور کل کے دہشت گرد آج کے سیاسی قائد اور حکمران بن گئے۔ امریکہ اس کا تجربہ ویت نام‘ چلی اور کمبوڈیا میں کر چکا ہے۔ روس نے افغانستان میں یہی کھیل کھیلا اور پھر بھی سبق نہ سیکھا اور آج شیشان میں پھر اسی حماقت اور ظلم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ برطانیہ نے ساری دنیا میں شکست کھانے کے بعد بالآخر شمالی آئرلینڈ میں ۲۰ سال کی عسکری جنگ کے بعد اسی شین فین سے معاملات طے کیے جس کا نام لینا اور جس کی قیادت کی آواز اور تصویر بھی ریڈیو اور ٹی وی پر ممنوع تھی۔ اسرائیل فلسطین میں یہی کھیل کھیل رہا ہے اور بھارت جموں و کشمیر اور ۱۶دوسرے علاقوں میں سیاسی مسائل کے عسکری حل کی ناکام کوشش میں گرفتار ہے۔ مسئلے کے حل کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں کہ ٹھنڈے دل سے امن و آشتی کو تہ و بالا کرنے والے عناصر اور اسباب پر غور ہو اور دہشت گردی کی طرف لے جانے والے عوامل سے نجات پائی جائے۔

خود احتسابی کی ضرورت

مغرب میں بھی جن کی نگاہ زندگی کے حقائق اور تاریخ کے پیغام پر ہے وہ یہی بات کہہ رہے ہیں۔ روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا مشہور سیاسی تبصرہ نگار روبرٹ فسک (Robert Fisk)حالیہ سانحے پر مشرق وسطیٰ کے المیے کے تناظر میں جن خیالات کا اظہار کرتا ہے وہ امریکی قیادت ہی نہیں‘ دنیا کے سب حکمرانوں کے لیے بڑا چشم کشا ہے:

اب بات یہاں تک آگئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی مکمل جدید تاریخ‘ سلطنت عثمانیہ کا زوال‘ اعلان بالفور‘ لارنس آف عریبیہ کی کذب بیانیاں‘ عرب بغاوت‘ ریاست اسرائیل کا قیام‘ عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار جنگیں اور عربوں کی سرزمین پر اسرائیل کے وحشیانہ قبضے کے ۳۴ سال… سب کچھ چند گھنٹوں میں مٹ گیا جب پسے ہوئے اور ذلیل کیے گئے لوگوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والوں نے ایسی مرعوب کن بے رحمی اور چالاکی سے پلٹ کر حملہ کیا جو وہی لوگ کرتے ہیں جو یقینی تباہی سے دوچار ہوں۔ کیا یہ مناسب اور اخلاقی رویہ ہوگاکہ اس کے بارے میں اس قدر جلدی لکھ دیا جائے جب کہ کوئی ثبوت نہیں‘ گواہی میں معمولی سی بات موجود نہیں‘ اور بربریت کا آخری واقعہ جو اوکلاہاما میں ہوا تھا وہ اپنے ہی گھر کے پروردہ امریکیوں کا کیا دھرا تھا؟ میرا خدشہ ہے کہ ایسا (اب بھی) ہے۔ امریکہ حالت جنگ میں ہے اور اگر میں فاش غلطی نہیں کر رہا تو مشرق وسطیٰ میں کئی ہزار لوگ مزید مارے جائیں گے اور شاید امریکہ میں بھی۔ ہم میں سے کچھ لوگ ’’آنے والی تباہ کاری‘‘ سے خبردار کرتے رہے لیکن ہم نے اس ڈرائونے خواب کا سوچا بھی نہ تھا۔

مگر یہ جمہوریت اور دہشت گردی کی جنگ نہیں ہے جس کا یقین آیندہ گھنٹوں اور دنوں میں دنیا کو دلایاجائے گا۔ یہ ان امریکی میزائلوں کے بارے میں بھی ہے‘ جو فلسطینیوں کے گھروں پر گرتے ہیں۔ ان واقعات کے بارے میں بھی ہے جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ۱۹۹۶ء میں لبنانی ایمبولینس پر میزائلوں سے حملہ کیا تھا اور اس کے چند دن بعد ’قانا‘ نامی گائوں میں امریکہ نے گولے داغے تھے‘ امریکہ کے اتحادی‘ اسرائیل کی پروردہ لبنانی ملیشیا نے مہاجر بستیوں میں قتل و غارت‘ لوٹ مار اور عصمت دری کا بازار گرم کیا تھا۔ نہیں‘ کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ میں جو کچھ ہوا ہے وہ ناقابل بیان شر ہے۔ ۲۰ ہزار یا ۳۵ ہزار معصوم لوگوں کی ہلاکت کے سانحے پر فلسطینیوں کا جشن منانا صرف اُن کی مایوسی کا مظہر نہیں ہے بلکہ سیاسی عدم بلوغ کا بھی ہے اس لیے کہ وہ اپنے دشمن اسرائیل پر اسی قسم کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں یعنی غیرمتناسب کارروائی۔

مگر ہمیں متنبہ کر دیا گیا تھا: زوردار تقریروں کے کئی سال‘ امریکہ کے قلب پر حملے کرنے کے عہد‘ ’’امریکی سانپ‘‘ کا سر کچلنے کے اعلان۔ ہم انھیں خالی خولی دھمکیاں سمجھتے رہے۔ قدامت پسند‘ غیر ترقی یافتہ‘ غیر جمہوری اور بدعنوان حکمرانوں کے گروہ اور چھوٹی سی اشتعال انگیز تنظیمیں اسی طرح کے بے بنیاد دعوے کس طرح پورے کر سکتے ہیں! اب ہم جان چکے ہیں۔ گذشتہ روز کی تباہی و بربادی کے چند گھنٹوں کے بعد‘ میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں پر ہونے والے اُن بڑے اور غیرمعمولی حملوں کا سوچنے لگا‘ جو گذشتہ روز کے واقعے کے بعد بہت ہی ہیچ اور معمولی محسوس ہونے لگے ہیں۔ ۲۳ اکتوبر ۱۹۸۳ء کو خودکش بم بازوں نے ۲۴۱ امریکی ملازمین اور ۱۰۰ فرانسیسی چھاتہ برداروں کو ہلاک کر دیا تھا‘ اُس وقت تک ایسے حملوں کی کوئی نظیر موجود نہ تھی۔ بحریہ پر حملے اور فرانسیسیوں کی تباہی کے درمیان سات سیکنڈ کا وقفہ ہوا تھا۔ اس کے بعد سعودی عرب میں قائم امریکی اڈوں پر حملے ہوئے تھے اور پچھلے برس عدن میں امریکی بحری جہاز کو ڈبونے کی کوشش تقریباً کامیاب ہو گئی تھی۔ ہم مشرق وسطیٰ کے نئے ہتھیار: مایوس لیکن جان پر کھیل جانے والے خودکش بم باز کو پہچاننے میں بالکل ناکام رہے جس کی برابری امریکی یا دوسرے یورپی نہیں کرسکتے۔ عرب کہیں گے کہ امریکہ کی ساری طاقت‘ دولت اور گھمنڈ بھی آج تک کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا اس تباہی سے دفاع نہ کر سکے۔

اب لازمی اور فطری طور پر‘ بالکل غیر اخلاقی طرز اختیار کرتے ہوئے گذشتہ ایام کی تاریخی غلطیوں‘ ناانصافیوں اور خون ریزیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی جو کل کے اس المیے کی پشت پر ہیں۔ ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ بے مغز (mindless) ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔ ’’بے مغز‘‘ قرار دینا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہیں کہ تین عظیم مذاہب کی سرزمین میں امریکہ سے کس قدر نفرت کی جاتی ہے تو بے مغز کہنا ضروری ہے۔ ایک عرب سے معلوم کریں کہ وہ ۲۰‘ ۳۰ ہزار معصوم افراد کی موت کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ عرب مرد یا عورت‘ مہذب اور باشعور شہریوں کی طرح اسے ایک ناقابل برداشت جرم قرار دے گا لیکن وہ یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر ہم نے یہ الفاظ اُس وقت کیوں استعمال نہیں کیے جب پابندیوں کے باعث عراق میں ۵ لاکھ بچے ہلاک ہو گئے۔ جب لبنان میں‘ ۱۹۸۲ء میں اسرائیل نے ۱۷ ہزار ۵ سو شہری حملہ کر کے ہلاک کر دیے۔ ہم نے مشرق وسطیٰ میں ایک قوم کو یہ حق کیوں دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظرانداز کر دے اور اُن تمام ممالک پر پابندیاں عائد کر دیں جنھوں نے انھیں نظرانداز کیا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ گذشتہ ستمبر میں مشرق وسطیٰ میں جو شعلے بھڑک اُٹھے اُس کی کیا وجوہات تھیں۔ عرب علاقوں پر اسرائیل کا تسلط ‘ فلسطینیوں کی علاقہ بدری‘ اسرائیل کے ٹارچر‘ ریاست کے کرائے گئے قتل‘ ان سب معاملات کو چھپانا چاہیے کہ کوئی واقعہ بھی گذشتہ دن کی اجتماعی تباہ کاری کے لیے وجہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسرائیل پر کوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکتا--- ہم یقین کر سکتے ہیں کہ صدام حسین جیسے احمق آمر اس کا دعویٰ کریں گے لیکن تاریخ کے برے اثرات اور اس میں ہمارا کردار‘ کٹہرے میں خودکش بم بازوں کے شانہ بشانہ کھڑا کیا جائے۔ ہمارے اپنے وعدوں سے انحراف‘ یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ کی تباہی‘ اس المیے پر منتج ہوئی۔ اسرائیل کے جنگی اخراجات اتنے طویل عرصے سے امریکہ کی جانب سے ادا ہو رہے ہیں کہ وہ اسے مفت ہی سمجھتا ہے۔آیندہ یہ سلسلہ نہیں چلے گا۔ یہ اقدام غیر معمولی حوصلہ مندی اور دانش کا مظہر ہوگا اگر امریکہ ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر دنیا میں اپنے کردار پر‘ عربوں کی تکالیف پر امریکی حکومت کی بے حسی‘ اور اپنے موجودہ صدر کی بے عملی پر غور کرے۔

بے شک امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کے خلاف جوابی کارروائی کرے‘ اُنھیں کون الزام دے سکتا ہے؟ ’’دہشت گردی‘‘ کے اشتعال انگیز اور کبھی کبھار نسل پرستی والے لفظ کے استعمال پر کون ہے جو امریکہ پر انگلی اٹھا سکتا ہے۔ لوگ مل جائیں گے جو ہر اُس تجویز کو فوراً ردّ کر دیں گے جس میں عالم گیر پیمانے پر ہونے والی اس دہشت گردی کے عمل کی حقیقی تاریخی وجوہات تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہو۔ لیکن اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم ایسے زبردست بحران کا شکار ہو جائیں گے جو ہم نے ہٹلر کی موت اور جاپان کی شکست کے بعد نہیں دیکھا ہے۔ کوریا اور ویت نام کی اہمیت تو اب مقابلتاً کچھ بھی نہیں رہی ہے۔

آٹھ سال قبل‘ میں نے ٹیلی وژن پر ایک سلسلہ وار پروگرام کیا تھا اور یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد مغرب سے نفرت کیوں کرتی ہے۔ گذشتہ رات‘ مجھے وہ مسلمان یاد آئے جن کے حالات ریکارڈ کیے گئے تھے۔ جن کے گھر امریکہ کے بنائے ہوئے بموں اور ہتھیاروں سے تباہ ہو گئے تھے‘ وہ کہہ رہے تھے کہ خدا کے سوا کوئی ہماری مدد کو نہ آئے گا۔ مذہب‘ ٹکنالوجی کے مدمقابل ہے۔ خودکش بم باز‘ جوہری طاقت سے نبرد آزما ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں ایک امریکی پروفیسر رابرٹ جی کیویان (Robert G. Kavian) نے بھی بڑے واشگاف انداز میں خود احتسابی کی دعوت دی ہے۔ یہ تبصرہ جسے ہفت روزہ   گارجین (۲۰-۲۶ستمبر ۲۰۰۱ء ‘ ص ۳۰)نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں شائع کیا ہے ‘ سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے:

ہمارے سیاسی رہنمائوں میں سے کسی نے بھی ان اہم سوالات سے بحث نہیں کی ہے جو ہماری نئی حیثیت سے اٹھے ہیں۔ ملک اپنی خوش حالی میں مگن اور مطمئن ہے۔ باہر کی دنیا سے یا کہیں اور سے ناخوش گوار خبروں کو ہم نظرانداز کرتے رہے۔ مگر ہماری طاقت کی حد اور حیثیت کیا ہے؟ اس کا ادراک ہمیں گذشتہ ہفتے ہوا‘ اگرچہ خاصی تکلیف اٹھا کر--- ہم دنیا کی رہنما عالمی طاقت ہیں لیکن ہم بہت کم دنیا کی رہنمائی کرتے ہیں۔ جب ہم کرتے ہیں تو یہ عسکری صورت حال میں ہوتا ہے‘ جیسے خلیج کی جنگ یا کوسووا۔ حالیہ تاریخ میں کون سا سنگین مسئلہ ہے جو امریکہ کی پہل کاری کی وجہ سے حل ہوا ہو۔ دنیا کے مفلس ترین لوگوں کی مدد کے لیے ہم دوسرے صنعتی ملکوں کے مقابلے میں فی کس بہت کم دیتے ہیں۔ بہت سے ایسے مسائل پر جس پر دوسرے سمجھتے ہیں کہ اجتماعی اقدام ضروری ہے‘ ہم الگ کھڑے ہوتے ہیں‘ مثلاً بارودی سرنگوں پر پابندی اور جوہری تجربات کی آزمایش سے لے کر ماحول میں گرین ہائوس گیسوں کے اخراج تک۔

--- بڑی طاقتوں کو جس معاشرتی ماحول میں وہ کام کرتی ہیں اس کی بھی فکر کرنا چاہیے۔ ایک دشمن معاشرتی ماحول ایک باوسائل دشمن کی طرح کسی بڑی طاقت کے نیچے سے موثرانداز سے زمین سرکا سکتا ہے۔ امریکیوں کونوٹس لینا چاہیے کہ ان کے لیے ماحول بگڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر  ہمیں احساس ہے کہ غربت سے پیدا ہونے والی بیماریاں جو تقریباً ختم ہو گئی تھیں‘ مثلاً تپ دق خود ہمارے اپنے ملک میں انتقامی انداز میں پھر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ ایڈز کی وبا بھی ایک مصیبت کی علامت ہے۔ ہم اس سے بھی واقف ہیں کہ دنیا کے محروم لوگ مال دار ممالک میں دولت کمانے کے لیے غیر قانونی داخلے کے لیے کیا کچھ خطرات مول لیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ منشیات کی تجارت کو روکنے کے لیے ہم نے جو بھی رکاوٹیں عائد کیں‘ انھیں عبور کر لیا گیا۔

نئے عالمی نظام کا ایک پہلو فاصلے کا ختم ہونا ہے۔ اب زمین پر کوئی بھی جگہ دُور نہیں رہ گئی ہے۔ عالمی گائوں میں غریب جانتے ہیں کہ وہ کتنے غریب ہیں‘ اور امیر کتنے بہتر حال میں ہیں۔ وسائل رکھنے والے غریب اپنی حیثیت کو خاموشی سے قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے لاکھوں ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکہ میں گھس آئے ہیں‘ جیسا کہ گذشتہ ہفتے کے حملہ آور۔ یقینا یہ ایک مختلف زمرے سے تعلق رکھتے ہیں: ایسے مظلوم جو اپنے پر ظلم کو ہضم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ( ہفت روزہ گارجین‘ ۲۰-۲۶ ستمبر ۲۰۰۱ء)

یہ دو طویل اقتباس خود مغربی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی فکرکی عکاسی کرتے ہیں۔

حقائق تسلیم کرنے کی ضرورت

امریکی اور یورپی قیادت جب تک مندرجہ ذیل حقائق کو تسلیم نہیں کرتی‘ فساد اور تباہی سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔

(الف) دہشت گردی صرف ایک علامت اور مظہر ہے‘ جب تک اس کے اسباب تک رسائی نہ حاصل کی جائے اور ان عوامل کا سدباب نہ کیا جائے جو اس کی طرف لے جانے والے ہیں‘ حالات درست نہیں ہو سکتے۔

(ب) دہشت گردی محض ایک جگہ اور ایک واقعے سے عبارت نہیں۔ ظلم جہاں بھی ہو‘ انسانیت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ محض نیویارک اور واشنگٹن ہی میں مظلوموں کا خون نہیں بہا‘ یہ خون ساری دنیا میں بہہ رہا ہے‘ اور اس باب میں انسانوں کے درمیان تمیز و تفریق (discrimination) خود دہشت گردی کے فروغ کا ایک سبب ہے۔

(ج) دہشت گردی اپنی ہر شکل میں قابل مذمت ہے۔ خواہ اس کے مرتکب افراد ہوں‘ یا گروہ یا حکومتیں۔

(د) بڑی طاقتوں اور حکمرانوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ وہ دہشت گردی کا شکار نہیں‘  اس کے اصل مرتکب ہیں۔جب تک وہ اپنا رویہ اور پالیسی تبدیل نہیں کرتے حالات کی اصلاح ممکن نہیں۔

(ھ) تشدد کا جواب تشدد نہیں اور نہ دلیل کی جگہ لفاظی (rhetoric)  لے سکتی ہے۔ اصلاح کا راستہ مشکل بھی ہے اور جاں گسل بھی۔ مگر اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

(و)  حالات کی اصلاح کے لیے سب کو تیار ہونا چاہیے‘ وہ بھی جو اصحاب اقتدار ہیں اور قوت و سطوت کے مالک ہیں اور وہ بھی جو مظلوم ‘ مجبور اور محکوم ہیں مگر اپنے حق کے حاصل کرنے کے لیے سینہ سپر ہیں۔ لیکن اصلاح کا دارومدار حکمران عناصر اور بڑی طاقتوں پر زیادہ ہے۔ ان کو سمجھنا چاہیے کہ:

جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوامشکل ہے

 

پروفیسر فتح محمد ملک کے کالموں کا پہلا مجموعہ‘  کشمیر کی کہانی :عالمی ضمیر سے چند سوالات کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ کتاب دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے’’کشمیر تیمور نہیں‘‘ اور ’’مشرقی تیمور کشمیر نہیں‘‘۔ ۳۸ شذرات کا یہ مرقع بہ ظاہر کشمیر میں جدوجہد آزادی اور حق خود ارادیت کے مسلمہ اصول کے بارے میں مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی دوغلی پالیسی کے مختلف پہلوئوں پر کلام کرتاہے لیکن فی الحقیقت یہ دورحاضر میں اسلامی احیا کی جدوجہد‘ تحریک پاکستان کی روح اور اہداف‘ اسلام مخالف قوتوں کے اصل عزائم اور ریشہ دوانیوں اور سب سے بڑھ کر خود ملّت اسلامیہ پاکستان کے مختلف کرداروں کے رول کا‘ ایک سچے مسلمان اور ایک پکے پاکستانی کی نگاہ سے بے لاگ اور بصیرت افروز محاکمہ ہے۔ ان میں حقائق کا صحیح ادراک‘ واقعات کا نظرافروز تجزیہ‘ عالمی سازشوں کی حقیقت پسندانہ عکاسی‘ پاکستانی قیادت اور ہر سطح کے نام نہاد ترقی پسندوں کے کارناموں کا محاسبہ ہے جو بڑے جچے تلے‘معقول اور معتدل انداز میں دردمندی‘ اصلاح اور اُمت کو بیدار کرنے کے جذبے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ مشکل کام اس خلوص اور دیانت سے انجام دیا گیا ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ تبصرہ نگار سخن فہم ہے‘ غالب کا طرف دار نہیں!

جہاد کشمیر کے اسلامی تشخص اور ۱۹۳۱ء کی تحریک کشمیر سے لے کر آج کی جدوجہد تک کے نظریاتی نقوش کتاب کے ہر صفحے پر نمایاں ہیں۔ ان مختصر تحریروں کے آئینے میں اس تاریخی اور نظریاتی کش مکش کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے جسے سمجھے بغیر نہ تو تحریک پاکستان کو سمجھا جا سکتا ہے نہ جہاد حریت کشمیر کو‘ اور نہ پاک بھارت کش مکش کے اصل اسباب کو‘اور نہ امریکہ بھارت دوستی کے حقیقی محرکات کو۔ یہ مسلمانان پاکستان کے لیے ایک دعوت فکر وعمل ہے کہ وہ اس خواب سے بیدار ہوں جس میں مغرب کے جادوگروں اور لادینیت اور ترقی پسندی کے متوالوں نے خواب آور گولیاں کھلا کر ان کو بستر نشین کر دیا ہے۔ جہاد کی پکار اور اقبال کے بیداری کے پیغام کا اعادہ بڑے دل نشین انداز میں کیا گیا ہے اور آج کے تناظر میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ماضی کی یہ قم باذن اللّٰہ کی پکار آج کے پاکستانی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام بن گئی ہے۔ یہ کتاب محض نوحہ غم نہیں‘ جہاد کی پکار ہے جو علمی متانت اور ادبی حسن کے ساتھ دی گئی ہے۔ یہ کتاب ایک پیغام ہے جو گذشتہ تین سال کے اہم واقعات کے پس منظر میں تحلیل و تجزیے کے ساتھ اہل وطن کو دعوت دیتی ہے کہ اپنے ملک‘ اس کے اسلامی تشخص اور مجاہدین کشمیر کی سرفروشانہ جدوجہد کو اس کی کامیابی تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں‘ امریکہ کے اصل عزائم اور کھیل کو سمجھیں۔ خود پاکستان میں امریکہ کے آلہ کار جو کردار ادا کر رہے ہیں ‘ اسے ناکام بنانے اور اپنی اصل منزل کی طرف بڑھنے کی فکر کریں۔ اس میں ایوب خان اور محمد شعیب سے لے کر بے نظیر اور نواز شریف تک سب کی اصل تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ تاشقند سے شملہ‘ شملہ سے لاہور‘ لاہور سے کارگل اور کارگل سے واشنگٹن پسپائی اور غداری کے سارے منظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے‘ انڈونیشیا کو کیسے پارہ پارہ کیا جا رہا ہے‘ چین کے بارے میں کیا عزائم ہیں‘ امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ کی حقیقی شکل و صورت کیا ہے--- ہلکے پھلکے انداز میںلیکن صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پورانقشہ جنگ سامنے آجاتا ہے۔ کل ’’پان اسلامزم‘‘ کا ہّوا کھڑا کیا تھا آج اسلامی بنیاد پرستی اور تشدد کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ مقصد ایک ہی ہے : مسلمان کے دل سے ’’روح محمدؐ   ‘‘ کو نکالنا اور امریکہ اور مغرب کی ذہنی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی غلامی میں جکڑ دینا--- خواہ اس کی شکل کیسی ہی ریشمی اور پرکار ہو!

نواز شریف اور بے نظیر نے جس طرح امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکے‘ بھارت سے معاملہ کرنے کی کوشش کی‘ کشمیر کے جہاد سے بے وفائی کی‘ ان کا بے لاگ احتساب‘ اور جہاد کشمیر کی تائید و معاونت اور طالبان سے آزمایش کی اس گھڑی میں یگانگت و ہم آہنگی کا اظہار جس سلیقے سے کیا گیا ہے وہ ملک صاحب کی سیاسی بصیرت اور قوت ایمانی کا مظہر ہے۔ بے نظیر کی امریکہ نوازی اور ذوالفقار علی بھٹو کی امریکہ بے زاری کا جس طرح موازنہ کیا ہے وہ چشم کشا اور خود پیپلز پارٹی اور لبرل عناصر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک صاحب کا بھٹو کے لیے نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں جس کا اظہار بار بار اس کتاب میں بھی ہوتا ہے۔ میری رائے میں یہ ہر صاحب الرائے شخص کا حق ہے لیکن اس کے ساتھ جس دیانت اور ملی غیرت سے انھوں نے بے نظیر اور ترقی پسندوں کے پورے ہی طبقہ زہاد پر گرفت کی ہے وہ ان کے اخلاص‘ غیر جانب داری اور اصابت رائے کا  ثبوت ہے۔

ملک صاحب لکھتے ہیں:

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے دانش ور‘ ہماری افسر شاہی اور ہمارے سیاست دانوں میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو امریکی خوشنودی اور بھارت دوستی کی خاطر اپنا نظریاتی وجود مٹا دینے کو ترقی پسندی‘ روشن خیالی‘ اور امن دوستی کی علامت سمجھتے ہیں۔ میں ایسے عناصر کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا جغرافیائی وجود پاکستان کے نظریاتی وجود سے برآمد ہوا تھا اور اگر آج ہم اپنے نظریاتی وجود کو بھارت سے دوستی کی بھیک وصول کرنے اور امریکہ سے روشن خیالی کی سند پانے کی خاطر مٹا دیں گے تو پھر کل ہمارا جغرافیائی وجود بھی قائم نہیں رہ سکے گا۔ (ص ۴۲)

کشمیر کی تحریک آزادی کے نظریاتی تشخص کے خلاف بھارت اور امریکہ کا رویہ تو جارحانہ ہے ہی‘  بے نظیر اور نواز شریف جیسے لوگ بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر کے مغرب سے اپنی روشن خیالی کا سرٹیفیکیٹ لینا چاہتے ہیں ۔لیکن ملک صاحب صاف لکھتے ہیں:

اس طرزفکر کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی غالب اکثریت کے علاقوں میں عوام اپنے دینی عقائد پر قائم رہتے ہوئے اپنی کلچرل روایات کے مطابق زندہ رہنے کا عوامی‘ جمہوری‘ انسانی حق مانگتے ہیں تو اس میں خرابی کی کیا بات ہے؟ (ص ۹۶)

پھر مغرب اور اس کے مسلمان حواریوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

مغربی ذرائع ابلاغ پوری دنیا میں ایک موثر کردار کے حامل ہیں۔ خود مسلمان ملکوں کے اہل علم و دانش ان ذرائع سے پھیلائے جانے والے طرزفکر و احساس کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی دانش ور بھی ان ہی مغربی مفروضوں کی جگالی کرتے پائے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند اور سابق انقلابی دانش ور بھی جو لاطینی امریکہ کے گوریلا مجاہدچی گویرا کے مقلد ہونے پر نازاں رہتے ہیں‘ کشمیر میں مسلمانوں کی گوریلا جنگ کو ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی گالی دیتے ہیں۔ اپنے اس رویے کو روشن خیالی کا ثبوت بنا کر پیش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ستم ہے کہ خود مسلمان دانش ور اپنی اسلامی شناخت پر معذرت خواہ ہیں۔ (ص ۹۷)

اسی طرح مغرب کے رویے کے بارے میں اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتے ہیں:

حیرت تو یورپ کے اور امریکہ کے ارباب فکر و دانش پر اور ارباب بست و کشاد پر ہے جو اس وقت تک مسلمانوں کو انسانی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک مسلمان اپنی اسلامی شناخت سے دست بردار ہونے پر تیار نہ ہوں۔ کشمیری مسلمان اپنی اسلامی شناخت روز بروز نمایاں سے نمایاں تر کرتے چلے آرہے ہیں‘ اس لیے دنیاے مغرب ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والی فاشسٹ قوت کی عملی دست گیری اور نظریاتی حمایت سے حقوق انسانی کی پامالی میں مصروف ہے۔ (ص ۹۷)

یہ تو امریکہ اور یورپ کا تاریخی کردار ہے‘اس لیے ہمیں اگر حیرت ہے تو ملک صاحب کی اس حیرت پر ہے!

بھارت کی ثقافتی یلغار پر بھی ملک صاحب نے بھرپور گرفت کی ہے۔ بسنت کے موقع پر بھارتی وفد کی سربراہ وکرم ساہنی کے اس ارشادکا کہ:’’ پاکستان اور بھارت کا کلچر اور مٹی ایک ہے‘‘ ملک صاحب نے بہ ایں الفاظ تعاقب کیا ہے:

تحریک پاکستان کے دوران بھی متحدہ ہندستانی قومیت کے علم برداروں نے برعظیم کے مخلوط کلچر کی آواز بہت زور شور کے ساتھ اٹھائی تھی اور ’’ایک کلچر ایک ملک‘‘ کی سیاست چمکائی تھی مگر اس زمانے میں اقبال کی فکر ہماری رہنما تھی‘ اور ہم مخلوط ہندستانی کلچر کے بجائے جداگانہ مسلمان کلچر کے علم بردار بن کر ایک جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ چنانچہ ’’ایک کلچر ایک مٹی‘‘ کی سی باتیں ہمیں ایک سامراجی جال معلوم دیتی تھیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم اس جال سے بچ کر چلے اور قیام پاکستان کی منزل تک پہنچنے میں کامران ہوئے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ آزادی کے ۵۰سال بعد نئے شکاری وہی پرانے جال لے کر ہمارے حکمران طبقے کی میزبانی کے لطف اٹھا رہے ہیں اور حکمران طبقہ پلٹ کر یہ نہیں کہتا کہ دوستی اپنی جگہ مگر کلچر جداگانہ مسلمانی شناخت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ منفرد مسلمان کلچر اسلام کے تصور کائنات سے پھوٹا ہے۔ ہمارا یہ جداگانہ کلچر اکھنڈ بھارت میں خطرات کی زد میں آنے والا تھا‘ اس لیے اس کی بقا اورتحفظ و ترقی کی خاطر ہم نے عوامی جمہوری جدوجہد سے اپنی جداگانہ مملکت پاکستان حاصل کی۔ (ص ۱۵)

ملک صاحب نے صحیح انتباہ کیا ہے کہ:

ہمارے ارباب اختیار کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ ہندو ذہن کے مطابق تاریخ کی سب سے بڑی غلطی پاکستان کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ بس کے بجائے ٹینک پر بیٹھ کر پاکستان جائیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے نزدیک برعظیم میں مسلمانوں کا وجود بھی ایک تاریخی غلطی ہے۔ چنانچہ یہ ایجنڈا پاکستان کی تباہی پر ہی بس نہیں کرے گا بلکہ میری‘ آپ کی اور ہم سب کی فنا پر تمام ہوگا۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم بھارت سے کہیں کہ بس بھئی بس! (ص ۱۶)

نواز شریف کے دور میں ’’جنگ سلسلہ اخبارات‘‘ کے توسط سے سرکاری پلان اور اخراجات پر منعقد ہونے والی کانفرنس پر‘جو ’’انڈوامریکن لابی‘‘ کا کارنامہ تھی‘ تبصرہ کرتے ہوئے ملک صاحب نے پورے پاک بھارت اور کشمیری تناظرکو جس طرح بیان کیا ہے وہ ایک سچے پاکستانی اور مسلمان کے دل کی آواز ہے:

بھارتی سیاست دانوں اور صحافیوں نے پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر اوچھے وار کیے۔ پاکستان کے حکمران مسکراتے رہے۔ اس تجربے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے موجدوں اور سرمایہ داروں نے سوچا کہ اب اعلان لاہور کی گھڑی آپہنچی۔ چنانچہ اعلان لاہور داغ دیا گیا کہ بھائی ڈرو نہیں ہم پہلے انسان ہیں اور بعد میں مسلمان۔ وہ جو اوّل مسلمان ہیں اور آخر مسلمان--- ظاہر بھی مسلمان ہیں اور باطن بھی مسلمان۔انھوں نے اعلان لاہور پر وہ کہرام مچایا کہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ واجپائی کو لاہور کی سڑکوں پر قدم دھرنے کی اجازت نہ دینے والوں میں سے جو لوگ جیلوں میں ڈالے گئے وہ ابھی جیلوں سے رہا بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے جنون پسند ساتھیوں نے کارگل کی چوٹیوں سے بانگ انا الحق بلند کر دی۔ (ص ۴۴)

جہادی تنظیموں کے خلاف امریکی اور بھارتی یلغار کا پردہ ملک صاحب نے بار بار چاک کیا ہے اور اقبال کے پیغام جہاد میں آزادی‘ ایمان اور عزت کی تلاش کی یاد دہانی کرائی ہے۔ نیز مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک طویل اقتباس بھی دیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ:

یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اسلام کی جگہ جہاد اور جہاد کی جگہ اسلام‘ کبھی مسلم کی جگہ مجاہد اور کبھی مجاہد کی جگہ مسلم بولتا ہے… میں جہاد کو صرف ایک رکن اسلامی‘ ایک فرض دینی‘ ایک حکم شرعی بتلاتا ہوں حالانکہ میں تو صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے‘ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام سے اگر جہاد کو الگ کر لیا جائے تو وہ ایک ایسا لفظ ہوگا جس میں معنی نہ ہوں ‘ ایک اسم ہوگا‘ جس کا مسمّٰی نہ ہو۔

کشمیر کی کہانی میں بلاشبہ عالمی ضمیر کے لیے بہت سے چبھتے ہوئے سوال ہیں لیکن خود مسلمانوں کے ارباب بست و کشاد اور لبرلزم اور ترقی پسندی کے دعوے دار دانش وروں‘ صحافیوں اور سیاست دانوں کے لیے ان سے بھی زیادہ تیکھے سوال ہیں۔ کاش کہ وہ ان کا جواب اس ضمیر میں تلاش کرنے کی کوشش کریں جسے افیون پر افیون دے کر مردہ کیا جا رہا ہے۔ ملک صاحب کی اس کتاب کی آخری سطریں ایک انتباہ بھی ہیں اور امید کی ایک کرن بھی۔

افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرنے اور کشمیر میں جہادی تحریکوں کو ناکام بنانے کی خاطر ابلیس کے سیاسی فرزندوں کی سیاسی دست گیری کرنے والے اہل سیاست و دانش کی حکمت اور حکمت عملی کو اقبال کی نظم ]اشارہ ہے ’’روح محمدؐ  ‘‘ اور ملا کو کوہ و دمن سے نکالنے والی نظم[ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ساتھ ساتھ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی لازم ہے کہ بقول اقبال:

بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حُر کی آنکھ ہے بینا

کشمیر کی کہانی حسن طباعت کے اعتبار سے بھی ایک کامیاب پیش کش ہے۔ زبان و بیان کی نزاکتیں میرا میدان نہیں لیکن monsterکا ترجمہ ’’جن‘‘ (ص ۶۳) کچھ کھٹکا۔ عفریت‘ بھوت یا دیو شاید بہتر رہتا۔ انگریزی الفاظ کے اسپیلنگ اور ترتیب مسئلہ بنی رہتی ہیں‘ یہاں بھی صحت کے غیر معمولی اہتمام کے باوجود غلطیاں موجود ہیں (مثلاً صفحہ ۹۱ پر proxy)۔

محترمہ بے نظیر صاحبہ نے جس طرح امریکہ کی آواز میں آواز ملائی ہے اور جس طرح وہ بھارت نوازی میں نواز شریف سے بھی بڑھ کر پیش پیش ہیں‘ اس پر ملک صاحب نے بجاطور پر بھرپور گرفت کی ہے اور بے نظیر اور ذوالفقار بھٹو کے بیانات کو جس طرح آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے‘ وہ خاصے کی چیز ہے۔ باپ بیٹی اور پی پی پی کے دو سربراہوں کے متضاد موقف ایک طرح سے پاکستانی سیاست پر جان دار تبصرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ امریکہ‘ بھارت اور جمہوریت کے بارے میں ذوالفقار بھٹو کے تضادات کی کوئی جھلک نہیں آسکی‘ بلکہ بین السطور بھٹو صاحب کے سلسلے میں ایک خفی رومانیت کا  شبہ ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی چین پالیسی‘ خارجہ امور پر گہری نظر اور معیشت میں بنیادی صنعتوں کو اہمیت دینے کا میں بھی قائل ہوں لیکن امریکہ اور بھارت کے بارے میں جو قلابازیاں اوروں نے کھائی ہیں بھٹو صاحب کا دامن بھی اس سے پاک نہیں۔ تاشقند کے راز فاش کرنے کے سلسلے میں تو ملک صاحب کی توقعات بھی نامراد ہی رہیں۔

مصنف نے جہاں بجاطور پر سیاسی قائدین پر گرفت کی ہے کہ وہ امریکہ سے اپنے جواز کی سند لانے کے لیے لین ڈوری لگاتے رہے ہیں‘ وہاں اس قافلہ عاشقاں میں قاضی حسین احمد کا ذکر مبنی برانصاف نہیں۔ جس نے بھی لاہور اور اسلام آباد اور واشنگٹن اور نیویارک میں قاضی صاحب کے بیانات کا کسی تعصب کے بغیر مطالعہ کیا ہے وہ گواہی دے گا کہ ہر جگہ انھوں نے امریکہ اور اس کی قیادت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کی ہے‘ انھوں نے ہمیشہ پاکستان ‘فلسطین اور عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے رویے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ باعزت تعاون کی راہیں تو ضرور کھلی رکھی ہیں لیکن اپنے رویّے میں مداہنت یا التفات طلبی کا کوئی شائبہ بھی نہیں آنے دیا    ؎

پروازہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

] کشمیر کی کہانی: عالمی ضمیر سے چند سوالات‘ از پروفیسر فتح محمد ملک۔ دوست پبلی کیشنز‘    اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۴‘ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[

 

آگرہ میں منعقد ہونے والی بہ ظاہر غیر نتیجہ خیز سربراہی ملاقات ایک ایسا تاریخی موڑ ثابت ہو سکتی ہے جس کے بڑے دُور رس اور فیصلہ کن اثرات صرف ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل ہی پر نہیں بلکہ پاک بھارت تعلقات‘ سارک ممالک کے مجوزہ معاشی اور ثقافتی امکانات‘ پورے ایشیا کے مستقبل کے سیاسی دروبست اور کچھ بعید نہیں کہ نئے عالمی انتظام و انصرام‘ سب پر مرتب ہوں۔ اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ اگر پاکستانی قیادت اور قوم ان ۴۸ گھنٹوں میں ہونے والے تاریخ ساز واقعات اور ان کے بعد نکھر کر سامنے آنے والے رجحانات کا صحیح صحیح تجزیہ کر کے مستقبل کے لیے موثر حکمت عملی بنانے اور اس کے مطابق کام کا نقشہ تیار کر کے اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ تاریخ‘آگرہ کو صرف اس تاج محل ہی کے واسطے سے یاد

نہ رکھے جو ساڑھے تین سو سال سے محبت‘ حسن تعمیر اور ذوق جمال کا ایک عالمی شاہکار اور برعظیم میں مسلم ثقافت اور سطوت کی لازوال یادگار ہے بلکہ یہ برعظیم کے مستقبل کے لیے ایک نئی شاہراہ کی یافت کے لیے ایک سنگ میل بھی بن جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تاشقند‘ شملہ اور لاہور اپنے اپنے طور پر اہم ہونے کے باوجود پاک بھارت تعلقات اور پاکستانی سفارت کاری کی تاریخ میں ایک گونہ پسپائی (جسے ایک حد تک ہر موقع کے مخصوص حالات کی وجہ سے ’’قابل فہم‘‘ تو سمجھا جا سکتا ہے مگر مطلوب اور قابل فخر نہیں!) کی علامت بن گئے ہیں۔ اس پس منظر میں آگرہ ایک مختلف نمونہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو کچھ ہوا اور جو امکانات اس کے جلو میں رونما ہوئے ہیں وہ ایک نئے نموزج مثالیہ (paradigm) کا نقطہ آغاز‘ ایک نئے فراز کے لیے آئینہ اور تعمیرنو کے لیے نشانِ راہ بن سکتے ہیں۔

زندہ قومیں نہ کامیابیوں پر بے قابو ہوتی ہیں اور نہ مصائب میں حواس باختہ‘ وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہیں اور ہر واقعے پر بصیرت کی نگاہ سے غوروفکر کرتی ہیں۔ وہ سیاسی حالات اور واقعات کی تحلیل اور تجزیے کا ایک ایسا اسلوب اختیار کرتی ہیں جس کی بنیاد حقیقت پسندی(realism) پر ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ان کی گرفت قومی تصورات اور مقاصد پر بڑی مضبوط رہتی ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب خالی خولی تصوریت (utopianism) اور پست ہمتی اور شکست خوردگی دونوں سے پہلو بچا کر حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور مستقبل کی تعمیر کے عزم کے ساتھ مطلوبہ سعی و جہد بھی کی جائے۔صحیح اور نتیجہ خیز حکمت عملی وہی ہے جسے اس طرح مرتب کیا جائے کہ پائوں زمین پر ہوں اور نگاہیں منزل مقصود سے نہ ہٹنے پائیں۔

ایک مدت کے بعد آگرہ میں پاکستانی قیادت نے بڑی حد تک ایک پرعزم ‘ حقیقت پسندانہ اور باوقار رویہ اختیار کیا‘ وقتی فوائد کے مقابلے میں اصل مقاصد اور اہداف کو اہمیت دی‘ قومی مفاد کے تحفظ اور اپنی ترجیحات کو اولیت دی‘ نمایشی اقدامات سے مسحور ہو جانے کی حماقت نہیں کی اور محض وقتی کامیابی اور ناکامی کے چکر سے نکل کر اصل ایشوز پر اپنی اور دنیا کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی دوسری پالیسیوں اور اقدامات سے شدید اختلاف کے باوجود ہم آگرہ حکمت عملی کو مثبت‘ مفید اور خوش آیند سمجھتے ہوئے اس کی تحسین کرتے ہیں اور انھی خطوط پر مستقبل کی راہوں کی تلاش کو وقت کی ضرورت اور قومی مفاد کا تقاضا سمجھتے ہیں۔

یہ بہت ہی نازک اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ سوال پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفاد اور ملّت اسلامیہ کے مستقبل کا ہے۔ نہ حکومت کو آگرہ کی پذیرائی کو اپنے اقتدار کے لیے جواز یا اسے طول دینے کا ذریعہ بنانا چاہیے اور نہ قوم اور خصوصیت سے تمام محب وطن اور اسلامی قوتوںکو‘ دوسرے امور میں اختلاف کے باعث‘ اہم تاریخی لمحات اور امکانات کو کسی صورت میں ضائع ہونے دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آگرہ کے نموزج مثالیہ کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں اور ان مذاکرات کا تجزیہ تمام ضروری پہلوئوں کو سامنے رکھ کر کرنا چاہتے ہیں تاکہ قوم اور اس کی قیادت کو ایک نئے آغاز کے لیے دعوت دیں اور ان تقاضوں کی طرف متوجہ کریں جس کا سبق اس ’’ناتمام کامیابی‘‘ سے ملتا ہے۔

آگرہ مذاکرات کیوں؟

آگرہ مذاکرات کے کئی پہلو ایسے ہیں جن کو ایک حد تک معمّا بھی کہا جاسکتا ہے اور ان ہی کھلے اور چھپے گورکھ دھندوں کی قفل کشائی کے ذریعے آگرہ ماڈل کے ضروری اجزا کی تفہیم ممکن ہے۔

لاہور اور کارگل ‘ واہگہ اور واشنگٹن‘ ۱۲ اکتوبر اور پاکستان کا حقہ پانی بند کرنے کی بھارتی اور عالمی مساعی وہ پس منظر ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ایک اور منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ ایک طرف جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھارتی قیادت سے ملنے کے لیے بے چینی کا اظہار اور دوسری طرف سے خاموشی ہی نہیں حقارت آمیزتعلّی کہ ’’فوجی حکمران سے بات نہیں کریں گے‘‘ اور ’’کارگل کے معمار کو خوش آمدید کہنے کی کوئی گنجایش نہیں‘‘۔ اس کے ساتھ جموں و کشمیر میں کچھ نئی لہریں اُبھرتی ہیں۔ ۲۴ جولائی ۲۰۰۰ء کو یکایک حزب المجاہدین کی اندرونی کمانڈ کی طرف سے غیر مشروط جنگ بندی کا دھماکا ہوتا ہے جو ۸ اگست تک سب کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے۔ بھارتی قیادت زبانی اعلانات کے باوجود اس سے کوئی بڑا فائدہ نہیں اٹھا پاتی اور یہ جنگ بندی بھارت کی طرف سے تنازع کشمیر کے اہم اور مرکزی فریق پاکستان کومذاکرات سے باہر رکھنے کی ضد میں ختم ہو جاتی ہے۔ پھر جامع مسجد دہلی کے امام رمضان المبارک میں نئی جنگ بندی کی اپیلیں کرتے ہیں اور بھارتی وزیراعظم رمضان کے نام پر ایک یک طرفہ جنگ بندی کا ڈراما رچاتے ہیں جو پانچ مہینے میں کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو جاتا ہے۔ مجاہد قوتوں کو بانٹنے اور متنازع بنانے کے لیے اس زمانے میں صرف بھارت اور کشمیری قیادت (عسکری اور سیاسی بشمول حریت کانفرنس) میں مذاکرات کے پتّے کھیلے جاتے ہیں لیکن وہ بھی غیر موثر رہتے ہیں۔

اس پورے عرصے میں جموںو کشمیر میں خون کی ندیاں بہتی رہتی ہیں اور نام نہاد جنگ بندی کے باوجود جان و مال کی تباہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مئی میں جنگ بندی تو ختم کی جاتی ہے مگر یکایک جنرل پرویز مشرف سے بات چیت شروع کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے اور چشم زدن میں نہ ’’فوجی قیادت‘‘ کا ’’نامحرم‘‘ ہونا باقی رہتا ہے اور نہ ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ سنگ راہ بنتی ہے۔ سربراہی ملاقات کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سردوگرم دونوں قسم کی بیان بازیاں ہوتی ہیں--- کبھی ’’انسانیت‘‘ کی بات ہوتی ہے اور امن کی ضرورت اور غربت کے خلاف جنگ کا وعظ دیا جاتا ہے ۔ کبھی کشمیر کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہونے کی رَٹ لگائی جاتی ہے اور کبھی اس سے بھی آگے بڑھ کر کشمیر کو ’’بھارتی قومیت کی علامت اور سالمیت کی ضرورت‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی امام جامع مسجد دہلی بھی حرکت میں آجاتے ہیں کہ ۱۵ کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا انحصار کشمیر پر بھارت کے راج میں ہے اور ملک مذہب کے نام پر ایک اورتقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کو بلانے اور ان کو ’’شملہ‘‘ اور ’’لاہور‘‘ کے راستے پر ڈالنے کی سوچی سمجھی سفارت کاری کو سمجھنا ضروری ہے۔

پاک بھارت مذاکرات کا اگر بے لاگ جائزہ لیا جائے اور ہزار سال پھیلے ہوئے مسلمان اور ہندو قیادتوں کے مذاکرات کی تاریخ کونظراندازکرتے ہوئے صرف ان ۵۴ برسوںکا مطالعہ کیا جائے تو اس میں ایک خاص اندازنظر آتا ہے۔ بھارت کی قیادت نے کبھی بھی اصل زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر دیانت اور انصاف کے ساتھ معاملہ نہیں کیا۔ ’’بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام‘‘ محض محاورہ نہیں ‘ایک تاریخی حقیقت ہے۔ چاپلوسی اور دھوکا دہی‘ ایک طرف وعدے اور عہدوپیمان‘ دوسری طرف وعدوں سے انحراف‘ وقت پڑنے پر جھک جانا اور موقع نکلتے ہی اکڑ جانا ان کا طریقہ واردات ہے۔تقسیم ملک کو ایک ہاتھ سے قبول کیا گیا اور دوسرے ہاتھ سے تقسیم کی لکیر کو مٹانے اور اکھنڈ بھارت کے خواب کی تجدید رقم کی گئی۔ بین الاقوامی قانون اور سرکاری معاہدات کی کبھی پاس داری نہیں کی گئی۔ تقسیم کے وقت جو اثاثے پاکستان کا حق تھے وہ آج تک اس کو نہیں دیے گئے۔ جموں و کشمیر کے معاملے میں بھی پہلے دن سے دھوکا‘ دوغلہ پن اور خیانت کے حربے استعمال کیے گئے اور یہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پاکستان تو پاکستان خود شیخ عبداللہ کے ساتھ بھی جسے جموں و کشمیر پر قبضے کے لیے آلہ کار بنایا گیا‘ بالکل یہی معاملہ کیا گیا اور بالآخر اسے اپنے دوست جواہر لعل نہرو کے بارے میں کہنا اور لکھنا پڑا کہ وہ کشمیر کے معاملے میں میکاولی کی سیاست پر کاربند تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن کی تائید میںناقابل تردید شہادتیں موجود ہیں ۔خود پنڈت نہرو کے اپنے بیانات اور ان کے قلم سے لکھے ہوئے نوٹس اور رودادیں شائع ہو چکی ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ Selected Works of Jawaherlal Nehru  جلد ۲۸‘ آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس‘ دہلی)

نہرو اور بھارتی قیادت پہلے دن سے جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے وہ کشمیر کو حاصل نہیں کر سکتے۔ انھوں نے استصواب کو ہمیشہ صرف دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا اور آج بھی عوام کی رائے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ عین اسی وقت جب پنڈت نہرو عالمی راے عامہ سے عہدوپیمان کر رہے تھے اور خود اپنی پارلیمنٹ میں اپنی عزت کی قسم (word of honour) دے رہے تھے‘ وہ عوام کی رائے معلوم کرنے اور استصواب کروانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے ۔ انھوں نے اپنے شرکاے کار اور خود شیخ عبداللہ سے تحریری طور پر اس کا اظہار کیا اور مشورہ دیا کہ ان باتوں کو باہر نہ کہا جائے کیونکہ اس سے ہماری عالمی ساکھ خراب ہو جائے گی۔ بھارت کی سفارت کاری کو سمجھنے اور واجپائی کے جنرل پرویز مشرف پرسفارتی معاملے میں نوآموز ہونے کی پھبتی کی حقیقت کو جاننے کے لیے پنڈت نہرو سے لے کر واجپائی اور جسونت سنگھ کے دوغلے پن (duplicity)کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ کوئی بھی حکمت عملی جو خوش فہمی اور وعدوں کی متوقع پاس داری کی امید پر بنائی جائے غیرحقیقت پسندانہ ہوگی۔ صرف وہی حکمت عملی کامیاب ہو سکتی ہے جس میں نیک نیتی اور وعدوں کی پاس داری کے مفروضوں پر معاملات طے نہ کیے جائیں بلکہ اس میں خود نافذ ہونے والے طریق کار (self enforcing mechanism) موجود ہوں۔

بھارت کی دوغلی پالیسی

بھارت کے دوغلے پن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کے بارے میں پنڈت نہرو اور بھارتی قیادت کی حکمت عملی کو سمجھ لیا جائے۔ وہ ہر قیمت پر کشمیر پر اپنا قبضہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ استصواب رائے‘ تقسیم ریاست‘ خصوصی حیثیت (special status)سب اس کے لیے صرف ہتھکنڈے ہیں‘ مقصد یا پالیسی کے اجزا نہیں۔ اسی طرح سیزفائر (۱۹۴۸ء) ہو یا چین سے تصادم (۱۹۶۲ء) کے موقع پر پاکستان کی طرف سے کسی اقدام کی پیش بندی‘ ان سب کی حیثیت وقت گزاری اور محض کسی درپیش مشکل سے نکلنے کی کوشش سے زیادہ نہ تھی۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۴ء تک پنڈت نہرو کبھی استصواب اور کبھی مسئلے کے حل کا پختہ وعدہ کرتے رہے لیکن دراصل وہ کبھی بھی موجودہ حیثیت (status quo) سے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ جب بھی اس سے ہٹ کر کوئی بات ہوئی وہ ’’بین الاقوامی قانون‘ عالمی عہدوپیمان‘‘ بھارتی پارلیمنٹ میں عہدوپیمان‘ ہر چیز کو نظرانداز کرکے اپنی باتوں سے پھر گئے--- اور یہی وتیرہ آج تک قائم ہے۔

پنڈت نہرو ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اپنے اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے حوالے سے استصواب کے بارے میں لکھتے ہیں:

                یہ عہد صرف آپ کی حکومت سے نہیں بلکہ کشمیر کے عوام اور دنیا سے بھی ہے۔

اس نوعیت کے دسیوں بیان پنڈت نہرو نے دیے۔ ۸ جولائی ۱۹۴۹ء کو اقرار کیا کہ "Kashmir is a world question" اور پھر ۷ اگست ۱۹۵۲ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ:

                یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اگر یہ انڈیا کے علاوہ کسی دوسری قوم سے متعلق ہے تو اسے ایک  بین الاقوامی مسئلہ ہونا ہی چاہیے‘ اور یہ دوسرے ملکوں سے متعلق ہے۔ یہ بین الاقوامی مسئلہ اس لیے مزید ہو جاتا ہے کہ دوسرے ملکوں کی ایک بڑی تعداد نے اس میں دل چسپی لی اور مشورے دیے… اس لیے اگرچہ کہ الحاق قانون اور حقائق کی نظروں میں مکمل ہے دوسری حقیقت بھی جس کا قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے موجود ہے‘ یعنی کشمیر کے عوام سے یا اگر آپ پسندکریں تو دنیا بھر کے عوام سے ہمارا وعدہ۔ اس الحاق کی توثیق کی جا سکتی ہے‘ اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔کشمیر کے عوام اگروہ چاہیں تو یہ کر سکتے ہیں۔

حتیٰ کہ ۱۹۶۲ء میں چین سے تصادم کے موقع پر ایوب خان‘ امریکی صدر کے نمایندے اور برطانوی سفارت کار سے مسئلے کوتیزی سے حل کرنے کا ایک بار پھر وعدہ کیا اور شیخ عبداللہ کو سفارت کاری کے لیے بیچ میں ڈالا لیکن یہ سب وقت گزاری کے لیے--- اور اب جو کاغذات شائع ہوئے ہیں ان میں صاف صاف لکھا ہے کہ ۱۹۴۷ء ہی سے نہرو کبھی بھی استصواب کے لیے تیار نہ تھے بلکہ صرف دھوکا دینے کے لیے یہ وعدے اور اعلانات کر رہے تھے۔ ۲۱ نومبر ۱۹۴۷ء کو پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کو لکھا تھا کہ وہ خود بھی استصواب کے خلاف ہیں لیکن اس کے اظہار کا بیرونی دنیا پر خصوصاً اقوام متحدہ کے حلقوں میں بہت برا اثر ہوگا۔ اس لیے میرا آپ کو ذاتی مشورہ ہوگا کہ آپ کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے استصواب کی نفی ہوتی ہو۔ یہ بات اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھی پہلے کی ہے جو نہرو کے ذہن کی حقیقی عکاس ہے۔

اقوام متحدہ کو معاملہ بھیجنے کا مشورہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے ۸ دسمبر ۱۹۴۷ء کو دیا ہے اور معاملہ وہاں

یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو پہنچا ہے۔ پاکستان نے اپنا کیس دو ہفتے بعد پیش کیا اور پنڈت نہرو نے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۸ء کو استصواب کے سلسلے میں UNCIPکی تجویز اس لیے قبول کی کہ سیزفائر ہو سکے۔ سیزفائر اس وقت بھارت کی ضرورت تھی۔

غلام محمد نے ۱۹۵۳ء میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنڈت نہرو سے کشمیر کے مسئلے پر تصفیے کی کوشش کی۔ اس موقع پر پنڈت نہرو پاکستان میں بھارت کے سفیر سی سی دیسائی کو in strict confidence لکھتے ہیں:

                میں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ غلام محمد تصفیے کے لیے بے چین ہے اور اس کے لیے کچھ آگے جانے کے لیے بھی تیار ہے۔ یہ ایک خوش آیند اپروچ ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس سال موسم خزاں میں ریاست جموں و کشمیر میں استصواب کا انعقاد کیا جائے‘ سرے سے ممکن ہی نہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ دونوں فریق جزوی تبدیلیوں کے ساتھ جوں کی توں صورت حال قبول کر لیں۔ بلاشبہ اگر کوئی معاہدہ ہوا تو کئی باہمی فوائد بھی ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی فطری طور پر مجھے یہ کہنے میں بڑا تکلف ہے کہ ہم استصواب منعقد نہیں کریں گے۔ یہ وعدہ خلافی محسوس ہوگی اور میں اس کا مجرم نہیں بننا چاہتا۔

اس سے بھی پہلے دل کی بات نہرو نے ایک نہایت خفیہ خط میں شیخ عبداللہ کو ۲۵ اگست ۱۹۵۲ء کو لکھی تھی۔ اس میں اصل عزائم کا یوں اظہار کیا گیا ہے:

                ’’ہم فوجی اور صنعتی طاقت کی حیثیت سے پاکستان سے برتر ہیں لیکن یہ برتری اتنی بڑی نہیں ہے کہ جنگ یا جنگ کا خوف جلد نتائج پیدا کر دے۔اس لیے ہمارے قومی مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ پرامن پالیسی اختیار کریں اور اس کے ساتھ ہی اپنی طاقت میں اضافہ کریں۔ طاقت کا منبع صرف مسلح افواج نہیں بلکہ ان کی پشت پر موجود صنعتی اور اقتصادی طاقت ہے۔ جیسے جیسے ہماری طاقت میں اضافہ ہوگا‘ اور امید ہے کہ ایسا ہوگا‘ پاکستان میں ہم کو دھمکی دینے یا ڈرانے کا رجحان کم ہوتا جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ محض حالات کے دبائو کے تحت وہ ایسا حل قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے گا جسے ہم  منصفانہ سمجھتے ہیں خواہ کشمیر میں یا کہیں اور‘‘--- وہ چاہتا تھا کہ ’’شیخ عبداللہ اور اس کے ساتھی واضح اور سخت رویہ رکھیں اور بنیادی مسائل کے بارے میں کوئی بحث نہ کریں۔ اگر ہمارا یہ رویہ ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اقوام متحدہ کیا سوچتی ہے یا پاکستان کیا کرتا ہے‘‘۔ (جلد ۱۹‘ ص ۳۳۰-۳۳۲)

یہ ہے بھارت کی اعلیٰ ترین قیادت کا اصل چہرہ۔ کانگریس کے پنڈت نہرو ہوں یا بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی--- ذہن‘ عزائم اور سفارت کاری کا اسلوب ایک ہی ہے۔ اسے سمجھے بغیر بھارت کی قیادت سے معاملہ کرنا اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔

آگرہ ماڈل

جولائی ۲۰۰۱ء کے مذاکرات مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے نہیں‘ پاکستان کو ایک بار پھر بحالی اعتماد کے نمایشی کھلونوں میں اُلجھانے اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر میں تحریک مزاحمت کی کمر توڑنے اور پاکستان اور کشمیری عوام اور سیاسی اور جہادی قیادت کے درمیان بے اعتمادی اور بُعد پیدا کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے کاندھوں پر اپنے زعم میں سند جواز کی خلعت ڈال کر اور بڑے تام جھام سے ان کا استقبال کر کے انھیں بھی نوازشریف کی طرح خوش نما وعدوں اور دل فریب ثقافتی‘ سیاسی اور معاشی امکانات کے سبز باغ دکھا کر لائن آف کنٹرول پر کوئی معاملہ طے کرا لیں گے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اس جال میں پھنسنے سے انکار کر دیا اور سرزمین ہند پر ۱۴ جولائی کو پہلا قدم رکھنے سے ۱۷ جولائی نصف شب واپسی تک ایک ہی موقف رکھا کہ آئو اور جو اصل متنازعہ مسئلہ ہے اس پر بات چیت کرو ۔یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو باقی تمام معاملات بھی طے ہو جائیں گے۔ اگر اس کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو باقی سب لاحاصل ہے۔

جسے ہم آگرہ ماڈل کہتے ہیں اس کے پانچ اجزا ہیں:

     ۱-       مقصد اور اہداف کے بارے میں ایک واضح لائن اور اسی کی روشنی میں ترجیحات کا تعین--- اصل نزاع مسئلہ جموں و کشمیر پر ہے۔ اس سے ہٹ کر کسی معاملے میں اُلجھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔

     ۲-       جموں و کشمیر کا مسئلہ محض زمینی تنازع نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی اصل حیثیت (status)کا تعین ہے جو آج تک معلق ہے۔ قانونی اور سیاسی اعتبار سے بھی اور جموں و کشمیر کے عوام کے جذبات و احساسات کے اظہار کی صورت میں بھی۔ یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کرنا ہے۔ بھارت اور پاکستان فریق مسئلہ ہیں لیکن آخری فیصلہ صرف جموں و کشمیر کے عوام ہی کو کرنا ہے۔ اس لیے ان سے مشورہ اور بالآخر انھیں فیصلے میں شریک کرنا ناگزیر ہے۔

     ۳-       پاکستان کی کسی بھی قیادت کو یہ اختیار نہیں کہ قوم کے متفقہ تاریخی موقف سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرے یا ان کو مشورے میں شریک اور مکمل اعتماد میں لیے بغیر کوئی اقدام کرے۔ اس لیے مذاکرات سے پہلے پوری قوم کو اعتماد میں لیا گیا اور مذاکرات کے بعد ان کو پوری صورت حال سے مطلع کیا گیا۔

     ۴-       بھارت سے معاملہ کرنے میں جہاں یہ ضروری ہے کہ وہاں کی قیادت سے بات کی جائے‘ وہیں جمہوری اصولوں اور بھارت کے اپنے دعووں کی روشنی میں ضروری ہے کہ بھارت کے عوام‘ وہاں کی صحافت‘ وہاں کے دانش ور اور پالیسی پر اثرانداز ہونے والے تمام عناصر سے بھی مکالمہ ہو۔ محض بند کمروں میں ایک دوسرے سے روایتی بات چیت کو مذاکرات کا سب کچھ (be all and end all) نہ سمجھ لیا جائے بلکہ کھلی بحث ہو‘ عوام تک پہنچا جائے اور راے عامہ کو بھی ان امور کے لیے تیار کیا جائے جن پر امن‘ ترقی اور دوستی کا انحصار ہے۔

     ۵-       بات چیت کھلے ذہن سے ہو۔ طریق کار اور عملی اقدامات کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کے لیے آمادگی ہونی چاہیے لیکن اصل مسئلے کو پس پشت ڈال کر اور صرف ضمنی چیزوں پر ساری قوت اور وقت صرف کرنا پہلے بھی لاحاصل رہا ہے اور اب بھی غیرمفید ہوگا۔ اس لیے مرکزی مسئلے ہی کو مذاکرات کا ہدف بنایا جائے۔ اور یہ کام دلیل کی قوت سے‘ انصاف کے مطابق‘ عالمی قانون اور عہدوپیمان کا پاس کرتے ہوئے اور عوام کی مرضی کے مطابق انجام دیا جائے۔ یہ جمہوریت کی روح ہے‘ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے اور اسی طرح دیرپا امن اور مستقل دوستی کی راہیںہموار ہو سکتی ہیں۔

یہ پانچ اجزا مل کر آگرہ ماڈل بنتے ہیں اور تاشقند‘ شملہ اور لاہور تینوں میں جو سقم تھا اور جس کی وجہ سے وہ عملاً غیر موثر رہے اس کی تلافی کرتے ہیں۔ اگر کوئی نیا آغاز (break through)ممکن ہے تو وہ اسی طریقے سے ---  اور یہی وہ چیز ہے جو واجپائی اور ان کی ٹیم کو ہضم نہ ہو سکی۔ پہلے توکچھ ضبط اور رواداری کا مظاہرہ کیا گیا لیکن پھر پارٹی کی میٹنگ اور پارلیمنٹ میں پھٹ پڑے اور شرافت‘ انسانیت اور سفارتی اور سیاسی آداب کو بالاے طاق رکھ کر جنرل پرویز مشرف کے عسکری ذہن(military mindset)‘ کمانڈوانداز سیاست‘ تاریخ اور سفارت کاری سے عدم واقفیت‘ سیاسی ناتجربہ کاری سے لے کر رخصت کے وقت ان کے چہرے کے رنگ اور خدوخال سب پر برس پڑے۔ صدر پرویز مشرف مشترک اعلامیہ تو حاصل نہ کر سکے لیکن  وہ اپنی قوم‘ جموں و کشمیر کے عوام اور تحریک آزادی کے جان فروشوں اور پوری دنیا کے سامنے سرخرو ہوئے ۔ انھوں نے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ساری دنیا کی توجہ ایک بار پھر اصل مسئلے پر مرکوز کرا دی۔ اسے محض media coupقرار دینا کم ظرفی اور حقیقت سے نظریں چرانا ہے۔ آگرہ ماڈل کا اصل حاصل یہ ہے کہ:

  •  جموں و کشمیر کا مسئلہ مرکزی مسئلے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔
  • کشمیر کی تحریک مزاحمت اور وہاں کے عوام کے حق خود ارادیت کا ایشو اصل ایشو بن گیا ہے۔
  •  بھارت کی قیادت کی ہٹ دھرمی اور عیاری کا پردہ چاک ہو گیا ہے۔
  •  بھارتی عوام کے سامنے پاکستان اور اہل کشمیر کا موقف بڑے واضح اور جان دار انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
  •  پوری دنیا کو اصل خطرات اور مسئلے کے حل کی راہ میں اصل موانع کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔

 سب کے سامنے یہ حقیقت آگئی ہے کہ مذاکرات براے مذاکرات ایک لاحاصل شے ہیں۔ نیز محض بے معنی اعلامیے نہ ماضی میں مسائل کے حل کی راہ میں معاون ہوئے ہیں نہ آج ہو سکتے ہیں۔ گذشتہ ۵۴ برسوں میں اعلیٰ سطح کے مختلف مذاکرات میں ۱۰۰ سے زیادہ اعلامیے جاری ہو چکے ہیں مگر بے فائدہ۔ آیندہ اگر مذاکرات کو کارآمد ہونا ہے تو اصل مسئلے پر بات چیت اور اس کے حل کے لیے تیار ہونا ہوگا۔

آگرہ کے دو دن میں پاکستان اور کشمیر کی جدوجہد آزادی نے جو کچھ حاصل کر لیا وہ شملہ سے لاہور تک ۳۰ برس میں حاصل نہیں ہو سکا تھا۔ مذاکرات میں پاکستان کے موقف کے بعد جن باتوں کا اب کھلے بندوں اعتراف ہو رہا ہے ان میں کشمیر کی مرکزیت‘ کشمیری عوام کا اپنے مستقبل کو طے کرنے کا حق‘ کشمیر میں بھارتی زیادتیاں سب پر گفتگو ہورہی ہے اور خود یہ سوال اٹھائے جانے لگے ہیں کہ اگر کشمیر کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا تو اقوام متحدہ میں بھارت کیوں گیا تھا‘ استصواب کی تجویز کو کیوں مانا اور کیوں اس سے فرار کی راہ اختیار کی‘ دستور میں دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۲۵۳ کی پرویژن کیوں رکھی گئی۔

بھارت کے معروف اخبارات و رسائل  ہندوستان ٹائمز‘ فرنٹ لائن‘ ٹائمز آف انڈیا‘ انڈین ایکسپریس‘ کشمیر مانٹیر اور اکنامک اینڈ پولٹیکل ویکلی میں  اے جی نورانی‘ نیجا چودھری‘ پرافل بدوائی‘ کے بالگوپال‘ اے این رام اور دیگر متعدد مضمون نگاروں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور بھارت کے موقف پر تیزوتند سوالات اٹھائے ہیں۔ ہندستان ٹائمز کے عوامی سروے شاہد ہیں کہ بھارت کے عوام کی ۸۱ فی صد اکثریت نے آگرہ مذاکرات کے بعد اعتراف کیا ہے کہ اصل مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔

مسئلہ کشمیر کے حقائق

آگرہ مذاکرات میں پاکستان کے واضح اور دو ٹوک موقف نے بھارت کی کشمیر پالیسی کے تضادات اور مغالطوں کا پردہ بالکل چاک کر دیا ہے اور یہ حقائق دنیا کے سامنے آگئے ہیں :

۱-  اصل تنازع جموں و کشمیر کی ریاست کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے جسے بھارت اپنے عالمی عہدوپیمان کو یک طرفہ طور پر توڑ کر ایک نقائص سے پرُ (flawed) اور ناقابل دفاع دستاویزالحاق (instrument of accession) کے سہارے اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دینے کی رَٹ لگا رہا ہے اور جس کے خلاف جموں و کشمیر کی آبادی کی عظیم اکثریت ایک ریاست گیر تحریک مزاحمت اور جہادآزادی میں مصروف ہے۔

۲-  جسے بھارت ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ قرار دیتا ہے وہ دراصل ایک عوامی جدوجہد اور قومی تحریک آزادی ہے جسے قوت کے ذریعے کچلنے کے لیے بھارت بدترین ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔اس کے نتیجے میں ۷۰ سے ۸۰ ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں‘ ہزاروں گھر اور بازار نذرآتش کر دیے گئے ہیں‘ ہزاروں خواتین کی جبری اور اجتماعی آبرویزی کی گئی ہے‘ ہزاروں افراد جیلوں میں محبوس ہیں اور لاکھوں گھربار چھوڑنے پر مجبور کیے گئے ہیں۔

۳-  پاکستان کا اس جدوجہد سے گہرا تعلق ہے اور اس مسئلے میں وہ ایک شریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا اور جموں و کشمیر کے عوام کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور محض معاشی مفادات یا وقتی مصالح کی بنا پر وہ اپنے تاریخی کردار سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ پاکستان بھی امن اور معاشی ترقی کا اتنا ہی خواہش مند ہے جتنا دنیا کا کوئی دوسرا ملک‘ لیکن امن‘ انصاف کے بغیر اور معاشی ترقی ‘سیاسی آزادی‘ قومی سلامتی و وقار اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی قیمت پر گوارا نہیں کی جا سکتی۔

۴-  جموں و کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا تنازع یا سیاسی و معاشی مفادات کا کھیل نہیں۔ یہ سوا کروڑ انسانوں کی آزادی اور حقوق کا مسئلہ ہے اور پاکستان کی اپنی سلامتی اور بین الاقوامی عہدوپیمان سے اس کا تعلق ہے۔ اسے اقوام متحدہ کی قراردوں‘ بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی کے مطابق طے کرنے ہی میں سب کی خیر اور فلاح ہے۔

۵-  بھارت نے آج تک جس طرح اس مسئلے کو اُلجھایا اور فرار کی راہیں نکالی ہیں وہ نہ اس کے اپنے  طویل المیعاد مفاد میں ہے اور نہ جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام کے لیے قابل قبول۔ جموں و کشمیر کے عوام کی بھارت سے دُوری اور نفرت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور اسے محض کسی بیرونی سازش کا شاخسا نہ کہہ کر رفع دفع نہیں کیا جا سکتا۔ اسے حقائق کا سامنا کرناہوگا اور جتنی جلدی یہ تنازع قانون‘ انصاف اور جمہوری اصولوں کے مطابق طے ہو جائے اتنا ہی سب کے لیے بہتر ہے۔ کوئی قوم‘ بہ ظاہر خواہ کتنی ہی طاقت ور اور بڑی ہو‘ کسی ایسی قوم کو مستقل اپنی محکوم نہیں رکھ سکی اورنہ رکھ سکتی ہے جو آزادی کی طلب گار اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد اور قربانی دینے کو تیار ہو۔

۶-  بھارت دوسروں کو تاریخ سے ناواقفیت اور سفارت کاری کے آداب سے محرومی کا طعنہ دیتا ہے لیکن جو رویہ اس نے خود اختیار کیا ہے وہ تاریخ کے حقائق سے انحراف اور ڈپلومیسی نہیں‘ دوغلے پن اور کھلی کھلی دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے کچھ عرصے کے لیے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن یہ کاروبار مستقل نہیں چل سکتا۔ جموں و کشمیر کے عوام اپنے حقوق کے حصول کی جنگ میں قربانیاں دے چکے ہیں اور ان کے حصول کے لیے جس طرح سینہ سپر ہیں اس میں بھارت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ خوش دلی سے یا بالآخر مجبور ہو کر ان کو ان کے وہ حقوق دے جو اس نے غصب کر رکھے ہیں۔ بھارت جموں و کشمیر میں ہر اعتبار سے ایک سامراجی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی حیثیت ایک قابض قوت (occupying power)کی ہے۔ وہاں کے عوام ہی اپنے مستقبل کافیصلہ کر سکتے ہیںاور یہ حق ان کو جتنی جلد مل جائے‘ اتنی ہی جلد علاقے میں امن قائم ہو سکتا ہے اور پاک بھارت دوستی کا ایک دَور شروع ہوسکتا ہے۔

یہ وہ اثرات ہیں جو آگرہ کو ایک نئے ماڈل کا درجہ دیتے ہیں۔ اس کا یہی وہ پیغام ہے جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی چیں بہ جبیں ہے ‘ اور کے ایل ایڈوانی صاحب نے جموں میں فوج کو نئے اختیارات سے نوازا ہے۔ وہاں ڈاڈا جیسے ظالمانہ قانون کو نافذ کیا جا رہا ہے اور واجپائی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم تحریک کو قوت سے دبانے کی صلاحیت اور ہمت رکھتے ہیں۔

خطرات کے اُبھرتے سائے

ان حالات میں ہم کچھ نئے خطرات کے سایے بھی اُبھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ان کا ادراک بھی ضروری ہے۔

۱- پاکستان پر امریکہ اور دوسری طاقتوں کا دبائو بڑھے گا کہ اس آزاد پالیسی سے پسپائی اختیار کرے اور بھارت کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاملہ طے کرے۔ امریکی وزارت خارجہ کی جائنٹ سیکرٹری کا حالیہ دورہ اور پاکستانی خارجہ سیکرٹری کا واشنگٹن جانا اس کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ بہت نازک مرحلہ ہے اور اس میں آگرہ ماڈل سے انحراف اور کسی بھی درجے کی پسپائی ملک کے لیے اور تحریک آزادی کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اندرون خانہ ‘ امریکہ اور بھارت سے جو بات چیت جاری ہے کہیں اس کا ایک شاخسانہ یہ بھی نہ ہو کہ مختلف انداز میں جہادی سرگرمیوں کو لگام دینے کے لیے ان کے مالی وسائل پر گرفت تنگ کی جائے۔ اندیشہ ہے کہ یہ کام بڑی چابک دستی سے اور جہاد کشمیر کی سرپرستی اور تائید کے دعووں کے ساتھ شروع کیا جائے گا تاکہ کوئی بڑا عوامی ردّعمل نہ ہو۔ اس کی حیثیت ویسی ہی ہوگی جو چور گھر میں داخل ہونے سے پہلے چند پتھر پھینک کر کرتا ہے کہ اہل خانہ بیدار ہیں یا سو رہے ہیں۔ حکومت اور قوم دونوں کے لیے اس میں بڑی آزمایش ہے اور ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کے اخلاص‘ وژن اور ہمت کے امتحان کا وقت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومت بھی کیا کارگل کی بلندی کے بعد واشنگٹن کی پسپائی کا راستہ اختیار کرے گی یا آگرہ کو سری نگر میں آزادی کے پرچم کی سربلندی تک جاری رکھے گی۔

معاشی کارڈ کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور مزید استعمال کیا جائے گا‘ معاشی پابندیوں کونرم کرنے کا دلاسہ بھی دیا جائے گا۔ یہ سب جانے بوجھے طریقے ہیں۔ حکومت کو اس دام سے بچنے اور آگرہ ماڈل کو آگے بڑھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنا چاہیے۔

۲- ہم جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے قوت کے بھرپور اور جارحانہ استعمال کے امکانات بھی دیکھ رہے ہیں۔ کھسیانی بلی صرف کھمبا ہی نہیں نوچتی--- بدن بھی نوچنے پر اتر آتی ہے اور اس کے قوی امکانات ہیں۔ کشمیر کی تحریک مزاحمت کے لیے سخت امتحان ہے اور اسے اس کے لیے ضروری تیاری اور پیش بندی کرنی چاہیے۔

۳- پاکستان میں بھی تخریب کاری میں اضافے کے خطرات نظر آ رہے ہیں۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی صورت حال میں حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ خود جہادی تحریکوں پر پابندی لگائی جائے یا کم از کم ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس سلسلے میں حکومت کے کچھ بیانات تشویش میں اضافے کا باعث ہو رہے ہیں۔ فرقہ واریت‘ خون خرابہ یا تخریب کاری کا کوئی تعلق جہاد کشمیر سے نہیں‘ یہ اس جہاد کو کمزور کرنے کی ایک بھارتی سازش کا حصہ ہیںاور اس کا مقابلہ حکومت‘ جہادی تنظیموں اور خود عوام کو کرنا چاہیے۔

۴- ہم یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ بھارت نواز لابی ایک بار پھر متحرک ہو گی اور دفاعی اخراجات‘ امن و امان کے مسائل‘ غربت اور بے روزگاری ‘ قرضوں کا بوجھ اور معاشی مشکلات کے نام پر کشمیر کے مسئلے پر سمجھوتہ اور امریکہ اور بھارت کے نقشہ کار سے ہم آہنگی کی باتیں کی جائیں گی۔ آگرہ مذاکرات نے اس لابی پر ایک ضرب لگائی تھی لیکن یہ پھر متحرک ہو رہی ہے اور سیکولر عناصر اس کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ یہ اندرونی کش مکش ملک کو کمزور کرنے اور جہاد کشمیر کو سبوتاژ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس کا تدارک ضروری ہے ۔اس کا ذریعہ تصادم نہیں صحیح قومی موقف پر پوری قوم کو متحرک کرنے کی جدوجہد ہے۔ افہام و تفہیم کے ساتھ عوامی تحرک اس چیلنج کا جواب ہے۔

آگرہ میں موقف کے تقاضے

ہم حکومت کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ آگرہ میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر ڈٹ جائے اور کارگل کے ساتھ جو کچھ واشنگٹن میں ہوا اس سے سبق لے اور اس سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے سارے امکانات کو ختم کر دے۔ اس کے لیے فوج اور قوم میں تعاون کی ضرورت ہے جو اسی وقت پوری طرح حاصل ہوسکتا ہے جب فوج سیاسی کردار کو جلد از جلد سمیٹے اور سرحدوں کو موجودہ اور پیش آنے والے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے یک سو ہو کر سرگرم عمل ہو جائے۔ قومی مشاورت کے ذریعے اندرونی مسائل کو حل کرنے کی طرف فوری توجہ دی جائے۔ قوم کی طاقت کا اصل منبع اللہ پر بھروسے کے بعد قومی مقاصداور اہداف پر مکمل یک جہتی کا حصول ‘اور ایمان‘ آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے قومی شعور کو بیدار کرنا اور ملی یک جہتی کا حصول ہے۔ اس کے لیے اخلاقی اور نظریاتی بیداری اور ملی مقاصد کی آبیاری وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اقبال نے اسی حقیقت کی طرف قوم کو متوجہ کیا تھا کہ    ؎

حرف اس قوم کا بے سوز‘ عمل زار و زبوں

ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر

اس کے ساتھ معاشی حالات کی اصلاح اور بیرونی ممالک پر انحصار میں کمی بھی ایمان‘ آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان نظریاتی‘ اخلاقی‘ عسکری اور معاشی اعتبار سے جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی وہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی تقویت کا سامان فراہم کرسکے گا۔ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں جو یک جہتی اور اعتماد باہمی آگرہ مذاکرات کے بعد رونما ہوا ہے اسے مستحکم کرنے اور ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جہادی قوتوں کی تائید کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں سیاسی جدوجہد کو موثر بنانے اور تمام سیاسی قوتوں کو ایک نکتہ یعنی بھارتی تسلط سے نجات پر جمع کرنے اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں پر پورا بھروسہ اور اعتماد ہے۔ پاکستانی قیادت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس اعتماد کو مزید ترقی دیں اور جس طرح جموں و کشمیر کا مسلمان پاکستان میں اپنا مستقبل دیکھ رہا ہے اسی طرح ہم بھی ان کو یقین دلائیں کہ وہ اس امت کے عظیم فرزندوں کی طرح اپنے معاملات کی خود اپنے عقائد‘ عزائم اور روایات کے مطابق صورت گری کر سکیں گے اور خود پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں گے۔

آگرہ ماڈل مشاورت باہمی‘ قومی مقاصد پر یکسوئی اور جرأت مندانہ استقامت‘ بیرونی دراندازیوں سے حفاظت‘ عوام پر اعتماداور اصولوں پر سمجھوتہ کاری کے اجتناب سے عبارت ہے۔ آگرہ کا پیغام یہ ہے کہ ملکی معاملات کو بھی انھی اصولوں اور بنیادوں پر طے کیا جائے اور جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی بھی انھی کے مطابق تائید و تقویت کا سامان کیا جائے۔ بھارت اور پوری دنیا کے عوام تک اپنے موقف کو دلیل اور دانش مندی سے پہنچانے اور اس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے تاکہ حکومتوں اور مفاد پرست عناصر کو عوامی دبائو کے ذریعے اہل حق کو ان کا حق ادا کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی بڑا اہم ہے اور اس کو حق کے لیے مسخرکرنا ایک اہم ہدف ہے۔ عالمی میڈیا نے کشمیر کے کاز کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت برتی ہے اور بھارت کو اس سلسلے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ اس نے دنیا سے حقائق کو چھپائے رکھا ہے۔ آگرہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میڈیا کی قوت کو مظلوموں کی مدد اور انصاف اور آزادی کے حصول کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں جتنی اہمیت سیاسی اور جہادی سرگرمیوں کی ہے اس سے کچھ کم اہمیت میڈیا کے ذریعے دنیا کی رائے عامہ کو باخبر کرنے اور متحرک کرنے کی نہیں ہے۔ ان تمام اہداف کے حصول کے لیے ایک مربوط اور مختلف جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ آگرہ کو محض ایک واقعہ نہیں رہنا چاہیے‘ اسے ایک تحریک میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے جان کی بازی لگا کر ہی اہل جموں و کشمیر کو زندگی کا پیغام دیا جا سکتا ہے--- بلکہ خود اہل پاکستان اور پوری امت مسلمہ کے لیے اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے یہی راستہ ہے: ایمان‘ اتحاد‘ قوت کا استحکام اور جہاد فی سبیل اللہ! جگر نے اس پیغام کو کتنے سادہ مگر ایمان افروز انداز میں ایک شعر میں سمو دیا ہے:

یہ مصرع کاش! نقش ہر در و دیوار ہو جائے

جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے

 

معاشیات کی تدریس و تحقیق سے طویل مدت کی گہری وابستگی کے باوجود‘ میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ معاشیات بہت اہم سہی‘ لیکن معاشیات ہی سب کچھ نہیں ہے۔ انسان صرف روٹی کھا کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ معاشی پہلو بہت اہم ہے‘ لیکن اخلاقی اور انسانی پہلو اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ دو صدیاں انسانی زندگی میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس دوران معاشی و سماجی تبدیلیاں اتنے بڑے پیمانے پر عمل میں آئی ہیں جس کی کوئی نظیر نہیں۔ مقدار اور معیار کی یہ تبدیلیاں تہذیبی اور سیاسی و معاشی قوت کے طور پر ظاہر ہوئی ہیں۔ ان کا علامتی اظہار فلک بوس عمارات کی نہ ختم ہونے والی قطاروں‘ عظیم صنعتی اداروں‘ بنکوں اور مالیاتی اداروں‘ بڑی بڑی صنعتوں‘ اوپیراہائوسوں‘ عجائب گھروں‘ بڑے بڑے اسٹیڈیم اور ائرپورٹ‘ سیٹلائٹ ٹکنالوجی کے عجائبات اور مال و دولت کے دوسرے مظاہر کی صورت میں ہوا ہے۔ ہمیں انھیں تسلیم کرنا چاہیے لیکن طاقت و قوت کے ان مظاہر کی چمک دمک سے آنکھوں کو خیرہ کرنے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ظاہر کی تہ میں جا کر انسانی معاشرے کی حقیقی صورت حال کا جائزہ لیں۔ جی ہاں‘ یہ دو صدیاں عظیم معاشی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے‘ نئے نئے علاقے دریافت ہوئے ہیں اور ان کو ترقی دی گئی ہے۔ برّی‘ بحری اور فضائی رابطے بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں زمان و مکان کے فاصلے ختم نہیں تو بہت کم ہوگئے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی ریل پیل اور فراوانی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی ‘ تعلیم اور تحقیق‘ فوجی قوت اور سیاسی برتری نے عالمی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان دو صدیوں میں انسانیت تین قسم کے معاشی تجربات سے گزری ہے‘ یعنی نظام سرمایہ داری‘ اشتراکیت اور فاشزم۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلاحی ریاست کا مخلوط معیشت کا تصورنظام سرمایہ داری کا ہی ایک مظہر ہے اور اس میں حالیہ تبدیلیاں اس نظام کی کچھ عمومی خامیوں پر قابو پانے اور جمہوری عمل کی ضرورت کے پیش نظر کی گئی ہیں۔

یہ کہانی کا ایک رُخ ہے۔ اس کا دوسرا رُخ بھی کم اہم نہیں ہے‘ بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کا تعلق انسانی جہت سے ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غیر معمولی معاشی ترقی‘ تکنیکی انقلابات اور مادی دولت کی فراوانی کے باوجود انسان کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ غربت‘ انسانی بدحالی‘ مفلوک الحالی اور بے روزگاری سے نجات حاصل نہیں ہوئی۔ جرائم‘ تشدد‘ انسانی حقوق سے محرومی‘ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ‘ بالادستی کے لیے جنگ‘ بے گناہوں اور کمزوروں پر ظلم اسی طرح کھلے عام جاری ہے۔ بیسویں صدی کی دو بڑی جنگوں میں جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہ گذشتہ ۱۵ صدیوں کی جنگوں میں ہونے والے نقصان سے زیادہ ہے۔ اگر پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء) میں ڈیڑھ کروڑ انسان لقمہ اجل بنے تو دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء)میں یہ تعداد ۵کروڑ ۱۰ لاکھ سے متجاوز تھی۔ ان جنگوں کے بعد ہونے والی ۱۲۸ علاقائی اور نسلی جنگوں نے مزید ۳ کروڑ انسانوں کو نگل لیا۔ اس دہشت گردی اور تباہی کا کوئی آخری سرا نہیں ہے۔ سالٹ (SALT)معاہدوں کے نتیجے میں خاصی کمی ہونے کے باوجود امریکہ اور روس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘ ۱۵ منٹ کے اندر اندر پوری دُنیا کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اکیلے اسرائیل کے پاس موجود گولہ و بارود کا ذخیرہ آدھی دُنیا کو تباہ کر سکتا ہے۔ نیز جنگی مشینوں کو بہتر سے بہتر کرنے اور ان میں اضافہ کرنے کا معاملہ رکتا نظر نہیں آتا۔

تمام معاشی کامیابیوں‘ مالیاتی معجزات‘ تکنیکی انقلابات اور مادی دولت کی فراوانی کے باوجود انسانیت آج بھی بنیادی مسائل سے اُسی طرح دوچار ہے۔ دُنیا کی آبادی کا ۴۰ فی صد غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے‘ ان میں سے تقریباً ۲۰ فی صد شدید غربت کا شکار ہے۔ غربت صرف تیسری دُنیا کے ممالک کا ہی مقدر نہیں ہے بلکہ دُنیا کے امیر ترین ملک امریکہ میں بھی‘ جہاں دُنیا کی آبادی کا ۸ .۵ فی صد حصہ دُنیا کی دولت کے ۲۵ فی صد کا مالک ہے‘ ہر چوتھا بچہ غربت میں آنکھ کھولتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دُنیا زیادہ نامنصفانہ‘ زیادہ استحصال زدہ اور پہلے سے زیادہ غیرمستحکم ہو گئی ہے۔ ضرورت نہیں بلکہ حرص‘ عمل کی قوت بن گئی ہے۔ ہرایک کے لیے انصاف اور ستم رسیدہ طبقات کی فلاح و بہبود اب رہنما اصول نہیں رہے ہیں۔ پرُفریب نعروں‘ مبالغہ آمیز دعووں اور جھوٹے اعداد و شمار کے پس پردہ تلخ حقائق بالکل دوسری صورت حال پیش کرتے ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اٹھارھویں صدی کے وسط اور انیسویں صدی کے آغاز پر‘ ۱۸۰۰ء میں یورپ اور امریکہ کی مجموعی خام داخلی پیداوار (GDP) دُنیا کی کل پیداوار کا تقریباً ۲۸ فی صد تھی۔ اس کے برعکس وہ ممالک جو آج تیسری دُنیا کے غریب ممالک کہلاتے ہیں‘ ان کی خام داخلی پیداوار دُنیا کی کل پیداوار کا ۷۰ فی صد تھی۔ ۱۸۰۰ء میں صرف برعظیم کی خام داخلی پیداوار دُنیا کی کل پیداوار کا ۲۰ فی صد تھی۔

عالمی اقتصادی صورت حال

حقیقت یہ ہے کہ یہ دو صدیاں‘ دُنیا کے کچھ ممالک کے لیے ترقی کی‘ جب کہ دُنیا کے دوسرے حصوں کے لیے ترقی معکوس کی صدیاں تھیں۔ دُنیا کی دولت بڑے پیمانے پر منتقل ہوئی ہے۔ ورلڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۰۰ء ایک بہت ہی چونکا دینے والی صورت حال پیش کرتی ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام پر دُنیا کی کل آبادی کی ۱۸ فی صد آبادی رکھنے والے ۲۲ ترقی یافتہ ممالک دُنیا کی کل پیداوار کے ۸۷ فی صد کے مالک تھے‘ جب کہ ۸۲ فی صد آبادی رکھنے والے ۱۶۷ ممالک دُنیا کی کل پیداوار کے صرف ۱۳ فی صد پر گزارا کرنے پر مجبور تھے‘ اور اس ۸۲ فی صد آبادی کا حصہ سال بہ سال کم ہو رہا ہے۔ دُنیا کے غریب ممالک سے وسائل کی ترسیل امیرممالک کی طرف ہو رہی ہے۔ امیر ممالک کی امارت میں اور غریبوں کی غربت میں اضافہ انسانیت کے لیے بہت ہی ناخوش گوار صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس کے مستقبل کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

مجھے غلط مت سمجھیے‘ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف سازشی نظریات کی روشنی میں معاملات کو دیکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس صورت حال کی ذمہ داری کافی حد تک ہمارے اپنے کندھوں پر بھی آتی ہے‘ تاہم تاریخی حقائق اور سچائیوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ نوآبادیاتی دَور کے خوف ناک سائے میں سرمایہ داری اور اشتراکیت جیسے استحصالی اور ناانصافی پر مبنی نظام پوری دُنیا پر مسلط کیے گئے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی ترقی و قوت‘ سیاسی فتوحات ‘ جارحانہ لڑائیاں (یعنی کچھ ممالک دوسرے ممالک کو فتح کریں اور ان پراپنا تسلط جما کر وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیں) ہمیشہ ہی تاریخ کا حصہ رہی ہیں لیکن انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ صرف یورپی نوآبادیاتی دَور میں اتنے بڑے پیمانے پر وسائل اور دولت باقی دُنیا سے چند محدود خطوں میں منتقل کی گئی۔ اگر آپ جان کینیڈی کی کتاب (The Rise and Fall of Great Powers) ’’بڑی طاقتوں کا عروج و زوال‘‘ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ مغربی تاریخ دان اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ گذشتہ چند صدیوں کا سامراجی نظام ماضی کے بیرونی حکمرانوں سے بہت مختلف تھا‘ کیونکہ اس عرصے میں ہم دولت اور وسائل کی بہت بڑی مقدار میںمنتقلی اور بیرونی حکمرانوں کے فائدے کے لیے دُنیا کے وسائل کی ازسرنو تقسیم کو دیکھتے ہیں۔ نوآبادیوں کا استحصال فاتح ملک کو مالا مال کرنے کے لیے کیا گیا۔ ایسا نہ صرف زری اثاثوں‘ سونے اور دیگر فنڈز کی صورت میں کیا گیا بلکہ انسان بھی مال و جایداد کی طرح استعمال کیے گئے۔ اس کا آغاز ’’سنہری ریشے‘‘ (سنہری ریشم Golden Fleace) سے ہوا‘ اس نے مادّی وسائل کی تجارت اور منتقلی کی صورت میں ترقی پائی اور غلاموں‘ زرخرید مزدوروں اور بچوں کی تجارت کی صورت میں مضبوط ہوا اور آج عالم گیریت (Globalization)‘ آزاد روی (Liberalization) ا۳ور اداراتی قرضوں (Institutional debt)کی غلامی کی صورت میں اس کی تکمیل ہو رہی ہے۔ غلامی کی کوئی ایک صورت نہیں ہے بلکہ اس کے کئی چہرے ہیں ۔یہ طرح طرح کی صورتیں اختیار کر لیتی ہے۔

کمیونزم اور سوشلزم خود اپنی خامیوں کے بوجھ سے زمین بوس ہو چکے ہیں۔ بیرونی عوامل بھی اہم تھے‘ افغانستان کا جہاد آخری ضرب کاری تھا۔ افغانستان سے روس کی واپسی سوویت دَور کے اختتام اور اس سوویت سپرپاور کے تاروپود بکھرنے کا اعلان تھا۔ مشرقی یورپ کے ممالک کی آزادی اور سوویت سلطنت کا خاتمہ ہمارے دَور کے بڑے واقعات ہیں‘ تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ اس نظام کے داخلی تضادات اور اس کے سیاسی‘ سماجی ‘ اخلاقی اور معاشی نظاموں کی ناکامیوں نے اس کے زوال کی راہ ہموار کی۔ کمیونزم کے زوال کے نتیجے میں سرمایہ داری اور آزاد روی (لبرلزم) دُنیا کے واحد غالب نظام کے طور پراُبھر کر سامنے آئے‘ جب کہ انسانی معاشرے کے حقیقی مسائل‘ جن کی وجہ سے نظامِ سرمایہ داری کے متبادل کی تلاش میں سوشلزم اور فاشزم اُبھر کر سامنے آئے تھے‘ آج بھی اسی طرح سے موجود ہیں۔ نظام سرمایہ داری کے تضادات اسی طرح غیر حل شدہ ہیں۔ ’’تاریخ کے اختتام‘‘ اور آزاد رو نظامِ سرمایہ داری کی برتری کی باتیں بچگانہ اور کسی حقیقی بنیاد کے بغیر محض دعوے نظر آتے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری نظام کا بدنما چہرہ پہلے سے زیادہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے اور اس نظام کے خلاف عوامی مزاحمت پہلے سے زیادہ منظم ہوتی جا رہی ہے۔سیٹل‘واشنگٹن‘ پیراگ‘ ڈیووس‘ کیوٹو اور کیوبیک چند قوتوں کے ہاتھوں عالمی استحصال کے خلاف عوامی بغاوت کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔ نظام کا استحکام خطرے میں ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک میں سردبازاری کی لہریں بڑھ رہی ہیں۔ زر کی قدر میں بار بار کمی آرہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تک میں بے روزگاری خوف ناک انداز میں بڑھ رہی ہے۔ اب مستقبل اتنا تابناک نظر نہیں آتا‘ جتنا کہ بتایا گیا تھا۔

یہ سب کیسے ہوا؟ میرا یہ موقف ہے کہ ذاتی ملکیت اور کاروبار کی آزادی جیسے معاملات میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ رہے ہیں ‘کوئی نئی بات نہیں ہے‘ اور نہ نظام سرمایہ داری کی ہی پیداوار یا اس کا تحفہ ہیں‘ جیساکہ اکثر دعویٰ کیا جا تا ہے۔ نظام سرمایہ داری کا امتیاز ذاتی ملکیت کا حق‘ منافع کمانے کی ترغیب اور کاروبار کی آزادی نہیں ہے بلکہ بلاروک ٹوک ذاتی مفاد کا فلسفہ اور یہ بے بنیاد دعویٰ ہے کہ انسان صرف مالی منفعت‘ اور خود غرض منافع کمانے کے محرک سے کام کرتا ہے۔ انسان صرف ایک ’’معاشی انسان‘‘ ہے‘ یعنی ایسا انسان جو ہر وقت نفع و نقصان کی جمع و تفریق میں مشغول رہتا ہے او ریہ کہ فیصلے کرنے میں ذاتی مفاد ہی اصل کردار ادا کرتا ہے۔ ریاست کو غیر جانب دار ہونا چاہیے‘ اور معاشی معاملات میں منڈی (market)ہی کی بالادستی ہے۔ گویا کہ مفاد پرستی کا یہ فلسفہ کہ معاشیات کو اقدار سے آزاد ہونا چاہیے اور منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہی معیشت کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے جس کو تحرک ذاتی مفاد اور مسرت سے ملتا ہے۔ یہ ہیں فیصلہ کن عوامل جو نظام سرمایہ داری میں فرد کی زندگی او رمعیشت اور معاشرت کی تشکیل کرتے ہیں۔ معاشی تبدیلیوں میں’’سرمایہ‘‘ سب سے اہم‘ غالب اور رہنما کردار ادا کرتا ہے۔ جن کے پاس سرمایہ ہے وہ اس نظام میں اصل آقا ہیں۔ سرمایہ اندوزی کا انحصار بچتوں پر ہے‘ اور زیادہ بچتیں وہی کر سکتے ہیں جو منافع کمانے والے ہیں‘ اس لیے وہی اس نظام کے محرک اور اس نظام کے شہزادے ہیں۔ تنخواہ دار لوگ اس عمل میں بہترین آلات ہیں نہ کہ دولت کو حقیقی طور پر پیدا کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے۔ وہ تو کارخانے میں پسنے والے لوگ ہیں۔ یہ ہے آدمی کے بجائے دولت‘ اقدار کے بجائے منافع اور دولت میںزیادہ سے زیادہ اضافہ‘ اور اشیا و خدمات کی پیداوار کے بجائے دولت اور غیر حقیقی دولت کی اہمیت جس نے معاشی زندگی کا مرکز اور عمل کا رُخ تبدیل کر دیا ہے۔

یہ ہے نظام سرمایہ داری کا اصل کردار اور حقیقی روح۔ فی الاصل زر (money)صرف ایک آلہ مبادلہ (medium of exchange) تھا تاکہ معاشی عمل آسانی سے کیا جا سکے۔ اسے معاشیات دان CMC (C-commodity, M-money)کے فارمولے کی صورت میں بیان کرتے ہیں‘ یعنی اشیا سے زر اور زرسے اشیا میں تبدیلی کا عمل۔ اس نظام میں زرزندگی میں بہتری لانے والی اشیا و خدمات کی پیداوار اور تبادلے میں مدد دیتا ہے۔ نظام سرمایہ داری میں یہ فارمولا بدل کر MCM ہو گیا۔ یعنی زر سے اشیا اور اشیا سے زر۔ اس کے نتیجے میں معیشت کا رخ پیداوار‘ خدمات اور مادی وسائل سے ہٹ کر زر و دولت کے حصول اور زر و دولت میں اضافے کی طرف ہو گیا اور یہی بنیادی مقصد قرار پایا۔ اب زر ایک آلہ مبادلہ اور لین دین میں آسانی فراہم کرنے والا آلہ نہیں بلکہ وہ شے بن گیا جس کی اپنی طلب ہے۔ لیکن بات یہیں تک نہیں رہی‘ موجودہ نظام سرمایہ داری میں ایک اور تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے۔ زر کی اہمیت نے اپنا رُخ ایک نئے فارمولے کی طرف موڑ لیا ہے‘ جو کہ MMMہے۔ وہ یہ ہے کہ زر کوئی حقیقی اثاثے پیدا کیے بغیر مزید زر پیدا کر رہا ہے‘ اور یہ ایک حبابی معیشت (Bubble Economy)کی طرف لے جا رہا ہے جو کہ استخراجی دُنیا (World of derivatives)ہے۔ یہ نظام سرمایہ داری کی حتمی شکل ہے‘ لیکن اس کی آغوش میں بھی عدم استحکام کا عنصر موجود ہے جو کہ نظام کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ نظام انسانیت کو کدھر لے جا رہا ہے۔

گذشتہ تین دہائیوں میں نظام سرمایہ داری کا رُخ طبعی معیشت سے مالیاتی پھیلائو کی طرف مڑ گیا ہے‘ جو کہ فطرتاً کاغذی زر پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق وسائل کی حقیقی پیداوار سے نہیں ہے۔ استخراجی زر (Credit derivates) کے پھیلائو کے ساتھ بلبلا پھیل رہا ہے۔ ہم حقیقی معیشت کی مادی ترقی کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہے‘ ہم اثاثہ جات کے ساتھ بھی معاملہ نہیں کر رہے‘ بلکہ اثاثہ جات پرجو اسٹاک اور بانڈزکی صورت میںہیں ان کے ساتھ بھی نہیں کر رہے۔ اس کے بجائے ہم اثاثہ جات کے مطالبات (Claims) پر غیر حقیقی مطالبات سے زیادہ سے زیادہ معاملہ کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی غیر حقیقی معیشت کی گرفت میں ہیں جو کروڑ پتی اور ارب پتی تو پیدا کر رہی ہے‘ لیکن لاکھوں‘ کروڑوں بھوکوںکو کھانا کھلانے یا لاکھوں کروڑوں بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہے۔

کیا آپ کو ایک ایسی معیشت کی حقیقی شکل کا کوئی اندازہ ہے؟ بین الاقوامی تجارت یعنی اشیا و خدمات کی صورت میں کل تجارت کا پچاسواں حصہ بیرونی زرمبادلہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ حقیقی بین الاقوامی تجارت کے لیے مطلوبہ زرمبادلہ اور استخراجی زرمبادلہ (Foreign Exchange Derivatives)کی تجارت میں نسبت ایک اور پچاس (۵۰:۱) کی ہے۔ ہر روز ۳.۱ ٹریلین ڈالر (۱۳ کھرب ڈالر) استخراجی زرمبادلہ کا لین دین زرمبادلہ کی منڈی میں ہوتا ہے‘ جو کہ دُنیا کی روزانہ حقیقی تجارت سے ۵۰ گنا زیادہ ہے۔ ایک اور مثال لیجیے (دُنیا کے تمام ممالک کی مجموعی خام قومی پیداوار (GNP)۳۰‘ ۳۲ ٹریلین ڈالر (ایک ٹریلین: ۱۰۰۰ ارب: ۱۰کھرب) ہے۔ اس کے مقابلے میں استخراجی زر (derivatives) کا کل لین دین ۵۰۰ ٹریلین ڈالر (یعنی ۵۰۰۰ کھرب ڈالر) کے برابر ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ پہلی چیز اسٹاک کی تعریف میں آتی ہے اور دوسری بہائو (flow)میں‘ تاہم اس کے باوجود مادی معیشت جو کہ اثاثوں پر مشتمل ہوتی ہے اور زری معیشت (جس کا مقصد اشیا اور خدمات کی پیدایش اور تبادلے کو بہ سہولت ہونے میں مدد دینا ہے) کے درمیان ایک نسبت ہونی چاہیے اور اس کا مقصد تمام لوگوں کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ یہ اصل ہدف ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کھیل میں اصل فائدہ کون حاصل کر رہا ہے اور کون اس کھیل میں بڑا کھلاڑی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ چند مالیاتی ادارے اور چند ارب پتی۔ وہ اشیا و خدمات کی مقدار میں اضافہ کر کے دولت پیدا نہیں کر رہے‘ جس کے نتیجے میں تمام لوگ خوش حال ہو جائیں اور معیار زندگی بہتر ہو جائے‘ وہ صرف دولت سے دولت پیدا کر رہے ہیں۔ اس عمل میں سود کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس حبابی معیشت کا مرکز امریکہ اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک ہیں‘ جب کہ دُنیا کی باقی معیشتیں‘ افراد سے لے کرنجی فرموں تک اور قومی معیشتوں سے گلوبل معیشت تک اس مالیاتی گرداب میں پھنستی جا رہی ہیں۔

آیئے طاقت کے اس عالمی کھیل کا دوسرا رُخ دیکھیں۔ قرضوں کا لین دین تاریخ کے ہر دَور میں جاری رہا ہے‘ ذاتی ضروریات کے لیے بھی‘ دکھ اور مصیبت میں بھی‘ اور تجارت و پیداوار میںاضافے کے لیے بھی۔ لیکن ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر چیز کا انحصار ان قرضوں پر اور ان مالیاتی اداروں پر ہو گیا ہے جو ان قرضوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ بنک اور مالیاتی ادارے وہ عالمی کھلاڑی ہیں جو کریڈٹ (قرضے) پیدا کرتے ہیں‘ اس کے ثمرات سمیٹتے ہیں اور عالمی غلامی کی اس نئی شکل میں دوسروں کو یرغمال بنا رہے ہیں۔ یہ جدید معیشت میں مداخلت اور کنٹرول کا سب سے طاقت ور آلہ ہیں۔ قرضوں کی غلامی‘ غلامی کا جدید ترین انداز ہے۔ آپ کو اس کا اندازہ کروانے کے لیے عرض کروں کہ دُنیا کے امیرترین ملک امریکہ کا قومی قرض ۱۹۰۱ء میں ایک ارب ڈالر تھا اور بیسویں صدی کے آخری سال میں قومی قرض ۴ٹریلین ڈالر (۴۰ کھرب ڈالر) سے زائد ہو گیا‘ جب کہ اس کا بین الاقوامی قرض ۴.۱ ٹریلین ڈالر ہے (اور بین الاقوامی مقروضوں میں بھی امریکہ کا پہلا نمبر ہے)۔ اس طرح دُنیا کی واحد سپرپاور اپنی کمر پر ساڑھے پانچ ٹریلین ڈالر کا قرضوں کا بوجھ لادے ہوئے ہے۔ اگر ہم نجی قرضوں کو بھی شامل کر لیں‘ خاص طور پر مکانوں کا رہن (house mortgage) تو دُنیا کے اس امیر ترین ملک کے قرضوں میں مزید چار‘ پانچ ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ صرف امریکہ کا المیہ نہیں ہے‘ دُنیا کے اکثر ممالک کی صورت حال ایسی ہی ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک قرضوں کے ذریعے معاشی ترقی کرنے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ ۴۰ سالہ تجربے کے بعد بہ مشکل ہی ان ممالک میں ترقی نظر آتی ہے۔ البتہ قرضوں کے پہاڑ ان کی کمر توڑے دے رہے ہیں۔

جب پاکستان اور بھارت کو آزادی ملی تو نوآبادیاتی حکمرانوں پر ہمارا اُدھار تھا۔ جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت کو بڑی بڑی رقوم اُدھار دی گئیں۔ ہم قرض خواہ تھے اور وہ مقروض۔ لیکن اب کیا صورت حال ہے؟ آج پاکستان کا کل بیرونی قرض ۳۸ ارب ڈالر ہے۔ سانحہ یہ ہے کہ ۱۹۷۱ء میں جب پاکستان دولخت ہوا‘ اور پاکستان کو تمام قرضوں کا بوجھ اپنے ذمے لینا پڑا تو پاکستان کا کل قرض ۳ ارب ڈالر تھا۔ گذشتہ ۳۰ برسوں میں پاکستان نے ۳۰ ارب ڈالر واپس کر دیے ہیں۔ لیکن ۳ ارب ڈالر (۱۹۷۱ء) کے قرض پر ۳۰ ارب ڈالر کی ادایگی کے باوجود ہم پر قرضوں کا بوجھ بڑھ کر ۳۸ ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ لاطینی امریکہ کے بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے والے ملک برازیل نے گذشتہ ۲۹ سالوں میں ۷۰ ارب ڈالر واپس کیے لیکن اب بھی وہ ۲۰۰ ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک کا کل قرض اب ۲ ٹریلین ڈالر (۲۰کھرب)ہے‘ جب کہ تیسری دُنیا کے یہ ممالک ہر سال ۲۲۰ ارب ڈالر سود اور قرضوں کی واپسی میں دے رہے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود قرض ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سابقہ قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرض لیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ ممالک میں تو قرضوں اور سود کی ادایگی پر اٹھنے والے اخراجات ان کی برآمدات سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس طرح غریب ممالک سے دولت کا خالص بہائو امیر ممالک کی طرف ہے۔ افریقہ کو گذشتہ ۳۰ برسوں میں غریب تر کر دیا گیا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تیسری دُنیا کے ممالک نئے قرضے کے ہر ڈالر کے عوض ۱۱ ڈالر واپس کر رہے ہیں۔کیا یہ قرضوں کی غلامی نہیں ہے؟ اسے اور آپ کیا کہیں گے؟

سوال یہ ہے کہ کیا غربت کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ کیا بھوک پر قابو پالیا گیا ہے؟ کیا انسانی زبوں حالی میں کمی آئی ہے؟ ہم اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں کہ عالمی بنک اور اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق دُنیا کے ایک ارب سے زائد لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور وہ بھوک اور قحط کا شکار ہیں‘ جب کہ دو ارب سے زائد لوگ خط افلاس کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دُنیا کی آبادی کے ۶۰ فی صد کو صاف پانی اور رہایش کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ کروڑوں ڈالر کی بیرونی امداد کے باوجود محروم طبقات کی بدنصیبی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ نہ سمجھیے کہ غربت صرف تیسری دُنیا کا مسئلہ ہے۔ امریکہ دُنیا کا امیر ترین ملک ہے‘ اس میں بھی آبادی کا تقریباً آٹھواں حصہ غربت کا شکار ہے‘ بہت زیادہ معاشی تفاوت پایا جاتا ہے۔ دولت اور طاقت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ میں گذشتہ ۳۰ سالوں میں عام لوگوں کی حقیقی اجرتیں کم ہوئی ہیں‘ جب کہ اسٹاک بروکروں اور بانڈز کا کاروبار کرنے والوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی ۱۴ فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے رہ رہی ہے‘ اور اگر آپ نسلی بنیادوں پر دیکھیں تو کالوں میں یہ تناسب ۲۸ فی صد ہے۔ کیلی فورنیا امریکہ کی امیر ترین ریاست ہے‘ یہ دُنیا کی معیشتوں میں ساتویں سب سے امیر ترین ریاست ہے‘ لیکن اس میں بھی غربت کا تناسب ۳۰ فی صد ہے۔ یورپ میں جرمنی سب سے امیر اور طاقت ور ترین ملک ہے‘ اس میں بھی یہ تناسب ۲۴ فی صد ہے۔ گویا صرف تیسری دُنیا کے غریبوں ہی کی قسمت خراب نہیں ہے۔ غیر مراعات یافتہ دُنیا بھر میں پریشانی کا شکار ہیں‘ خواہ اس کی مقدار اور اس کے اثرات میں فرق ہو۔ ایسا اس لیے ہے کہ موجودہ نظام ناانصافی پر مبنی ہے اور اس کے اندر خامیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نظام انسان کو مرکزی اہمیت نہیں دیتا اور اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرتا ہے۔ اس نظام میں معاشی پہلو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کی وجہ سے یہ نظام استحصالی نظام بن گیا ہے۔ یہی نہیں کہ ترقی اور خوش حالی منتخب لوگوں کو نصیب ہوتی ہے بلکہ نظام بھی غیر مستحکم اور بودا ہے۔ انسانیت کا مقدر ایک دھاگے کے ساتھ بلبلے سے باندھا گیا ہے اور اس بلبلے کوقائم رکھنے کے لیے اس میں ہوا بھری جا رہی ہے۔ یہ کب پھٹ جائے گا ؟ کوئی نہیں جانتا۔

اکانومسٹ لندن کے مطابق ۱۹۷۰ء میں امریکہ میں صرف ۱۷ ‘ارب پتی تھے‘ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ان کی تعداد ۱۷۷ ہے اور ان کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ امیر ترین تین ارب پتیوں کی ذاتی دولت دُنیا کے ۴۸ ترقی پذیر ممالک کی خام قومی دولت کے برابر ہے۔ دُنیا کے ۲۰۰ ارب پتیوں کی دولت دُنیا کے دو ارب انسانوں کی مجموعی دولت کے برابر ہے۔ یہ معاشی حقائق ہیں۔ یہ تہذیب کے جسم پر اخلاقی ناسور ہیں۔ ہم ناانصافی پر مبنی دُنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایک بہت ہی معقول سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی سوچ یک طرفہ ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ معاشی مسئلے کا حل صرف معاشی ذرائع سے نہیں ہو سکتا۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ اسے ایک جامع اور متوازن نظام کا حصہ بنایا جائے‘ جس میں انسانی‘ اخلاقی اور سیاسی معاملات پر اکٹھے بات کی جائے۔ وسیع تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ آدم اسمتھ سے لے کر آج تک جس چیز نے معاشیات کو پریشانی میں مبتلا رکھا اور اسے ایک شیطانی علم بنایا وہ اس کا اخلاقی اقدار کے بارے میں غیر جانب دار ہونا ہے۔ یہ غیر اخلاقی (amoral)ہے۔اس کے پیش نظر ذرائع کا بہترین طریقے سے استعمال ہے نہ کہ زندگی اور معاشرے کے مقاصد سے ہم آہنگی۔ ذرائع کا بہترین استعمال بہت اہم سہی‘ یہ ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے‘ دولت کی منصفانہ تقسیم بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ تمام لوگوںکی معیشت میں شرکت بھی اہم ہے‘ ان کے حصے متعین ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو بالاے طاق رکھا جائے گا تو انسانیت کو نقصان ہونا ناگزیر ہے۔ نظام سرمایہ داری کے اس بنیادی اصول کا ایک نتیجہ معاشیات کو خودایک مکمل سائنسی مضمون بنانے کی کوششوں کی صورت میں سامنے آیا‘ جس کا اخلاقیات‘ اقدار اور مذہب سے کوئی تعلّق نہ ہو۔ معاشیات کا تعلق نہ صرف اخلاقیات اور مذہب سے ختم کرنے کی سعی ہوئی بلکہ دوسرے سماجی علوم بشمول سیاست سے اسے بے تعلّق کیا گیا۔ اس بات نے معاشیات کو انسانیت کے لیے ایک بابرکت علم کے بجائے ایک تباہ کن علم بنا دیا۔

نام نہاد ایجابیت کی طرف رُخ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشیات خیالی‘ غیر حقیقی اور مقاصد سے بہت دور ہو گئی۔ ایک طرف اخلاقی پہلو اور دوسری جانب معاشرے میں اقتدار کے ساتھ تعلق وہ حدود فراہم کرتے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے معاشی قوتیں عمل پیرا ہوتی ہیں۔ ان روابط سے انحراف معیشت دانوں کو دولت اور منافع کی ہوس میں مبتلا لوگوں کے ہاتھوں میں ایک آلہ کار بنا دیتا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کی منہ زور معاشیات نے اخلاقیات اور اقتدار دونوں پہلوئوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی‘ کیونکہ یہی وہ طریقہ تھا جس سے سرمایہ دار کنٹرول حاصل کر سکتے تھے اور معاملات کو اپنی مرضی سے چلا سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو چیلنج کرنے کے لیے سوشلزم اور کمیونزم سامنے آئے اور سرمایہ داری اور اشتراکیت کے ملاپ سے فاشزم وجود میں آیا۔ دونوں نظاموں نے ریاستی غیر جانب داری کے نظریے کو چیلنج کیا لیکن سوشلزم اور فاشزم نے انسان کو غموں سے نجات دینے کے بجائے معاملہ کو مزید سنگین بنا دیا۔ انھوں نے انسان کو معاشی و سیاسی عوامل کے ایک ایجنٹ کی حیثیت دی۔ وہ اصل مرض کی تشخیص میں ناکام ہو گئے۔ وہ بھی نظام سرمایہ داری کی طرح یک طرفہ فکر کے حامل تھے گو کہ کچھ فرق کے ساتھ۔ یہ ہے وہ پریشان کن صورت حال جس سے انسانیت آج دوچار ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک سیاسی آزادی اور خود مختاری حاصل کرنے کے باوجود معاشی‘ مالیاتی اور سیاسی سازشوں کے ذریعے نئے سرے سے دوبارہ غلام بنالیے گئے ہیں۔ دُنیا کے تمام فیصلہ ساز ادارے مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جمہوریت کے علم بردار ہونے کے دعوے دار ہیں‘ لیکن دُنیا کے بڑے بڑے اداروں میں جمہوریت کو برداشت نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کی مثال لیجیے۔ جنرل اسمبلی اپنے ۱۹۱ رکن ممالک کے ساتھ فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ سلامتی کونسل ویٹو پاور رکھنے والے ۵ ممالک کی باندی ہے اور ان میں سے ہر ایک کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کا مجاز ہے۔ جوہری ٹکنالوجی کے حوالے سے ہونے والے این پی ٹی معاہدے کی رُو سے تمام ممالک جوہری ٹکنالوجی کو پرُامن مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ اس کا بنیادی خیال یہ تھا کہ جوہری ٹکنالوجی پر مستقل اجارہ داری رکھی جائے کیونکہ یہ کسی بھی ملک (خواہ وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو) کے لیے جنگ سے بچائو کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ورلڈ بنک‘ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ‘ تجارت کی عالمی تنظیم (WTO) ‘ بین الاقوامی عدالت انصاف جیسے تمام ادارے دولت مندممالک کے زیراثر ہیں اور وہی ان کے منتظم ہیں۔ وہ فیصلے کرتے ہیں اور دیگر ۱۷۰ ممالک کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ کیا یہی انصاف  ہے؟ کیا یہی جمہوریت ہے؟

گلوبلائزیشن کیا ہے؟ دُنیا کے ہر حصے اور کونے سے بین الاقوامی تجارت صدیوں سے جاری ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ اور تاریخی سیلاب دُنیا کے تمام خطوں کے لوگوں کی مذہبی اور تہذیبی روایات کا اور کسی حد تک ان کے مذہبی عقائد کا ایک حصہ ہے۔ لوگوں کی نقل و حرکت اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ گلوبلائزیشن کا پہلا اور اہم ذریعہ ہے۔ تجارت‘ نقل مکانی اور فتح یابی ہمیشہ سے ہی گلوبلائزیشن کے تاریخی طریقے رہے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے آزادانہ تجارت سرمایہ دارانہ دُنیا کے عقائد میں شامل ہے۔ پھر آزادی اور گلوبلائزیشن میں نئی بات کون سی ہے جس کا مغرب شور مچا رہا ہے۔ ایک لفظ میں یہ ’’غلبۂ امریکہ‘‘ ہے۔ گلوبلائزیشن سے آج مراد ہے: غالب قوتوں کے معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی تسلط کو تسلیم کرنا۔ حکومتیں‘ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں اور غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) آج کی حکمران ہیں۔ ۵۰۰ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں دُنیا کی ۷۰ فی صد تجارت پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ بے شک وہ تحقیق‘ ٹکنالوجی‘ جدت طرازی‘ اطلاعات اور نہ جانے کس کس چیز پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ دُنیا کی ۹۷ فی صد تحقیق‘ ٹکنالوجی اور جدت طرازی (innovation)مغربی ممالک بشمول جاپان کے قبضے میں ہیں۔ تیسری دُنیا کا حصہ صرف ۳ فی صد ہے۔ اس سے بڑی پریشان کن صورت سامنے آتی ہے۔ لاکھوں لوگ تپ دق‘ ملیریا‘ ٹیٹنس‘ کالی کھانسی اور ایڈز کی وجہ سے بلوغت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ غریب دُنیا میں چند ہزار کے علاوہ لوگوں کو مناسب علاج کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ افریقہ میں کینسر سمیت دوسری تمام بیماریوں کے مقابلے میں زیادہ لوگ صرف ایڈز کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ادویہ ساز کمپنیوں کی تحقیق امرا کی بیماریوں تک محدود ہے۔ غریب ممالک میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ادویات کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ اکثریت کی پہنچ سے باہر ہیں۔ عدل اور انسانی فلاح و بہبود کو دولت مندوں اور طاقت وروں کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان خلیج دن بدن بڑھ رہی ہے‘ خاص طور پر بہت ہی امیر اور بہت ہی غریب ممالک کے درمیان۔ یہی معاملہ امیر علاقوں اور غریب علاقوں اور کسی ملک کے اندر غریب لوگوں اور امیر لوگوں کا ہے۔

غیر انسانی سلوک کی ایک اور مثال ادویات سازی کی صنعت کی ہے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی ادویات کی تیاری کے لیے تحقیق کرنے اور ایسی سستی ادویات تیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو تیسری دُنیا کے ممالک میں بیماریوں کے خلاف موثر مدافعت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ یہ تو منافع کمانے کا کھیل ہے نہ کہ انسانیت اور اس کی خدمت کا ۔ سازش یہ ہے کہ بیماریوں کے خلاف مدافعتی ادویات ‘جو کہ سستی بھی ہوتی ہیں‘ کو بنانے اور پروان چڑھانے کے لیے کوششیں نہیں کی جاتیں۔ کچھ ایسی بیماریاں جو غریب انسانوں کی ہلاکت کا ذریعہ بنتی ہیں‘ صرف پرہیزی دیکھ بھال اور عادتوں کی تبدیلی سے قابو کی جا سکتی ہیں۔

ایک حالیہ سائنسی تحقیق نے یہ بات ‘جو ہم تہذیبی طور پر پہلے ہی جانتے ہیں‘ ثابت کی ہے کہ صرف ایک یہ تبدیلی کہ اگر کھانے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہاتھ دھو لیے جائیں اور کھانا کھانے کے بعد منہ صاف کر لیا جائے تو بہت سی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ پانی کو فلٹر کیا جائے‘ بچوں کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھلایا جائے‘ مچھر دانیاں استعمال کی جائیں‘ الکحل والے مشروبات سے پرہیز کیا جائے‘ نشے کی حالت میں گاڑی نہ چلائی جائے‘ جنسی تعلقات شادی کے بندھن کے ساتھ اخلاقی حدود میں قائم کیے جائیں تو انسان کو ۹۰ فی صد تک بیماریوں سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

ایک منٹ رک کر سوچیے‘ بیماریوں کا علاج یہ نہیں کہ آپ زیادہ ویکسین اور زیادہ ادویات استعمال کریں بلکہ اس کا آغاز اسلام او دوسرے مذاہب کے سکھائے ہوئے حفظان صحت کے زریں اصولوں کو اپنا کر کیا جائے۔ یہ ہم مسلمانوں نے ذاتی حفظانِ صحت کے اور روز مرہ کے طور طریقوں اور آداب کی حیثیت سے سیکھا ہے۔ ہاتھ دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ سادہ خوراک کھانا‘ بھوک سے کم کھانا‘ بچوں کو ماں کا دودھ پلانا ہمارے تمدن کا حصہ ہیں۔ شراب اور دوسری نشہ آور اشیا کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ مغرب میں شراب نوشی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ جب کہ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ سے پریشان ہیں۔ وہ سڑکوں پر موت کا خوف تو رکھتے ہیں لیکن شراب نوش حکمرانی کر سکتے ہیں‘ فوجوں کی کمان کر سکتے ہیں اور انسانیت کی قسمت سے کھیل سکتے ہیں۔ اسلام جڑ پر ضرب لگاتا ہے۔ محفوظ جنسی تعلق کیا ہے؟ وہ صرف شادی شدہ زندگی ہے۔ میں بات کو بہت سادہ انداز میں کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ حقیقی جواب ہیں نہ کہ ایک ایسے انحطاط پذیر تمدن کا مسحورکن طرز زندگی جو انسانوں کی آنکھیں حقائق کی طرف سے بند کر دیتا ہے اور جنس کو سحرانگیز مقام دے کر اور عقل کو خواہش نفس کے تابع کر کے انھیں اسفل درجے تک پہنچاتا ہے۔

مسائل کا حقیقی حل

درحقیقت آج انسانیت کو درپیش اصل مسئلے کا تعلق اخلاقی اور انسانی صورت حال سے ہے۔ ایک مغربی فلسفی نے یہ بات بہت خوب صورت انداز میں کہی ہے‘ وہ کہتا ہے: ’’ہم نے پرندوں کی طرح آسمانوں پر اُڑنا سیکھ لیا ہے اور مچھلیوں کی طرح پانیوں میں تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن ہم نے اس بے چاری زمین پر اچھے انسانوں کی طرح جینا نہیں سیکھا‘‘۔ یہ ہے اصل مسئلہ۔ ’’انسان کیا ہے؟‘‘ ایک انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے‘ جیسے ہی روح جسم سے نکلتی ہے تو ہم ایک لاش ہوتے ہیں‘ جس میں بدبو اور تعفن پیدا ہو جاتا ہے‘ اور اسی وجہ سے ہم اسے زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔ مغربی فکر میں اصل خامی انسانی زندگی اور اس کی تقدیر کے ساتھ رویے میںہی ہے۔

ہمارے دور کے تمام مسائل کی جڑ سیکولر تہذیب ہے۔ معاشیات ہو یا سماجی علوم یا سیاسی معاملات‘ سب کا تعلق مادی پہلو سے قائم کیا جاتا ہے‘ جیسے روح کا کوئی وجود ہی نہ ہو‘ جیسے اس مادی وجود کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہ ہو۔ اخلاقیات اور اقدار کو خود غرضی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ ضرورت حرص کی قربان گاہ پر قربان کی جاتی ہے۔ مذہب کو غیر متعلق قرار دے کر مسترد کیا جاتا ہے۔ رحم دلی اور شفقت کی جگہ مقابلہ لے لیتا ہے۔ نیکی کی جگہ منافع لے لیتا ہے۔ آزادی‘ لاقانونیت کی طرف لے جاتی ہے۔ ان سب کی وجہ ایک ہی تباہ کن غلطی ہے: خالق کو فراموش کرنا اور اس کے نتیجے میں مادی اور اخلاقی‘ اور طبعی اور روحانی کی تقسیم۔

بطور انسان آپ کو اپنے اللہ کو پہچاننا چاہیے‘ جو آپ کا خالق ہے‘ آپ کا مالک و آقا ہے۔ اگر آپ اپنے خالق کے ساتھ اپنے رشتے کو توڑ کر زندگی بسر کر رہے ہیں تو پھر خواہ کتنی ہی دولت کی فراوانی اور سائنسی ایجادات اور تکنیکی ترقی ہو‘ آخری انجام تباہ کن ہے۔ یہ صرف اظہار یا زبان کا مسئلہ نہیں ہے۔ بیسویں صدی بڑے پیمانے پر انسانوں کی تباہی کی صدی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ اگر آپ تاریخ میں ہزاروں سال سے آج تک ہونے والی تمام جنگوں میں انسانوں کی ہلاکتوں کو جمع کریں تو صرف بیسویں صدی میں ان تمام جنگوں سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ان جنگوں میں صرف انسانی اموات نہیں ہوئیں بلکہ ان کے نتیجے میں غربت‘ بھوک‘ بیماری‘ غارت گری‘ تشدد‘ جرائم‘ نسل کشی‘ طبقاتی جنگ‘ نسلی امتیاز‘ خواتین کا استحصال‘ نسلی صفائی --- آپ نام لیتے جائیں‘ یہ اور ایسی تمام برائیاںبھرپور طور پر وجود میں آئیں۔مجھے کہنے دیجیے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر آپ الہامی ہدایت اور اخلاقی اصولوں کی روشنی میں زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کریں اور روح و جسم کی یک جہتی کو نظرانداز کریں تو نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔ قرآن اس بات کو بہت واضح انداز میں بیان کرتا ہے کہ صراط مستقیم سے انحراف کا نتیجہ بحروبر میں انتشار‘جبروتشدد اور بددیانتی کی صورت میں نکلے گا (الروم ۳۰:۴۱) ۔اور صرف اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہو سکتا ہے: اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب (الرعد۱۳:۲۸) ۔ان چیلنجوں کے مقابلے میں اسلام کا جواب بہت سادہ اور سیدھا ہے۔

اسلام تمام انسانوں کو بہتر انسان بنانا چاہتا ہے۔ انسان کے سیاسی‘ سماجی ‘ معاشی‘ قومی اور بین الاقوامی مسائل صرف انسانی اخلاقی نقطۂ نظر کو اپنانے سے حل ہو سکتے ہیں۔ یہی شاہ کلید ہے۔ اسلام نے معاشیات سمیت زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں جامع ہدایات دی ہیں۔ اسلامی معاشیات کی تحریک‘ زندگی اور تمدن کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کلی کوششوں کا حصہ ہے۔

اسلامی معاشیات کو پورے تناظر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ قلب ہی ہے جس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ قوت محرکہ ہی ہے جس پر اثرانداز ہونے اور اسے یک سو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مقاصد زندگی ہیں جن کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آپ انسان کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ ایسا بلندوبالا عمارتیںبنا کر نہیں بلکہ انسانی مصائب کو ختم کر کے اور اپنی فلاح و بہبود کے علاوہ دوسروں اور درحقیقت تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کو حاصل کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تمام انسان ایک ہی خاندان کے افراد ہیں‘ جن کو ان کا حصہ ملنا چاہیے۔ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم دوسروں کے گلے کاٹ کر اپنی دولت اور قوت میں اضافہ کریں۔ ہم خوش حالی کی منزل حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم دوسرے کے ساتھ جینے کا گرُ سیکھ لیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جئیں۔ یہ ہے وہ تبدیلی جو اسلام لانا چاہتا ہے۔ یہ اپنی تقدیر کی طرف پیش قدمی میں انسان کے اخلاقی ارتقا کا اہم مرحلہ ہے۔ اسلام تمام معاشی کوششوں کو اخلاقی حدود کے اندر رکھتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ ایک مبنی برعدل سماجی و معاشی نظام کو قائم کر کے ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ہمدردی‘ اخوت اس کی قوتِ متحرکہ اور اس کو مضبوط کرنے والی قوتیں ہیں۔ اسلام صرف صدقہ و خیرات پر یقین نہیں رکھتا جو کہ ایک محدود تصور ہے۔ اسلام دوسروں کو ان کا حق دینے کا علم بردار ہے اور یہ کوئی نفل نیکی نہیں ہے۔ زکوٰۃ کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ ’’حق‘‘ ہے‘ یعنی امراء کی دولت پر غربا کا حق: وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذریٰت ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کے لیے‘‘۔

یتیموں کے حقوق پورے نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین‘ شریعت اور یومِ آخرت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ  بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o (الماعون ۱۰۷:۱-۳) ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا اور سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی توہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے‘ اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔

یہ پیغام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دین یعنی اخلاقی قانون‘ اسلامی زندگی کا قانون اور یومِ آخرت کو جھٹلانے سے کیا مراد ہے؟ یہ صرف ایمان نہ لانا ہی نہیں ہے بلکہ دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنا بھی الہامی قانون میں ویسے ہی نتائج کا حامل ہے۔

یہ قرآنی اسلوب کا حسن ہے‘ دیکھیے اخلاقی و مادی معاملات کو آپس میں کس طرح جوڑا گیا ہے۔  قرآن کہتا ہے:  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ ۶۲:۹-۱۰)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو‘ یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘ پھر جب نماز ہو چکے تو (تم کو اختیار ہے کہ) زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل (معاشی جدوجہد کے ثمرات) تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پائو‘‘۔

پس اللہ کا ذکر اور معاشی جدوجہد ساتھ ساتھ ہیں۔ زندگی مکمل اور جامع کُل ہے۔ اخلاقیات اور مادیت دونوں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں‘ اور جب ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو رحمت ہیں۔ آج کے معاشی مسائل کی وجہ ان دونوں کے رابطے کا ٹوٹ جانا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشیات نے عجیب و غریب مسائل کو پیدا کیا ہے‘ تاہم انھیں حل کرنا ناممکن نہیں ہے۔ ہم ان سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں اور اسے اخلاقی اور انسانی مسائل کے حل کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ اگر ہم اسے ایک مرتبہ پھر اللہ کے ذکر کی حدود میں لے آئیں۔ معاشی قوت اور دولت رحمت بن سکتی ہے۔ اسلام نے اخلاقی اور انسانی فلاح کے اہمیت دینے والے رویے پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ شریعت نے ذاتی اخلاق کے ساتھ ساتھ انسان کی معاشی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں ضروری ہدایات فراہم کی ہیں۔

بلاشبہ اسلام نے ملکیت کے حقوق‘ معاشی جدوجہد‘ غربت کے خلاف جنگ‘ سماجی بھلائی‘ سود کے خاتمے‘ کاروباری اخلاقیات‘ تقسیم دولت میں عدل اور ریاست کے معاشی کردار کے سلسلے میں حلال و حرام کی واضح اور تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ یہ سب چیزیں موجود ہیں۔ اس مختصر نشست میں تمام تفصیلات بیان کرنا مشکل ہے‘ یہ چیزیں ہمارے لٹریچر کا حصہ ہیں۔ میری کوشش ہے کہ میں اپنے آپ کو بنیادی مسئلے پر مرکوز رکھوں۔ اس حوالے سے علما اور اسلامی ماہرین معاشیات نے خاص طور پر گذشتہ تین عشروں میں کافی کام کیا ہے اور یہ کام اس زبان میں ہوا ہے جو آج کے کاروبار کرنے والے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

میں شرکاے سیمی نار اور اس ملک کی مسلم کمیونٹی کے دوسرے دوستوں اور اس کے ارکان تک جو پیغام پہنچانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اخلاقیات اور معاشیات اور روحانیت اور مادیت کے درمیان تعلق کو ازسرنو دریافت کیا جائے۔ اسلامی معاشیات کا منفرد پہلو اس کا یہی جامع اور مربوط طرزفکر ہے۔حق ملکیت ہر معاشی نظام کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے مطابق جو شخص کسی چیز کا مالک ہے‘ یا اُس پر اُس کا کنٹرول ہے‘ یا وہ اس کا منتظم ہے ‘ اس کی حیثیت ایک امین (trustee) کی ہے نہ کہ مطلق العنان مالک اور آقا کی۔ ہماری تمام چیزیں ہمارے پاس امانت ہیں اور ہم ان کے امین ہیں۔ ہم انھیں استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس دائرہ کار میں جو ہمارے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہم مسلمانوں کی حیثیت اس دُنیا میں اللہ کے مقرر کردہ خلیفہ کی ہے۔ ہماری اصل حیثیت استخلاف کی ہے‘ اور یہی ہمارا مشن ہے۔ خلیفہ وہ ہے جو اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلّم) کی دی ہوئی ہدایت اور اقدار کی روشنی میں بسر کرتا ہے۔ یہ ہیں استخلاف کے معنی۔ یہ الہامی ہدایت کی روشنی میں دُنیا بنانے کا بڑا مثبت تصور ہے۔ یہ زندگی سے لاتعلق اور دست بردار ہونے یا ترک دُنیا کے کسی تصور کو گوارا نہیں کرتابلکہ ہمیں ‘مردوں اورعورتوں کو‘ زندگی اور تاریخ کے چیلنجوں کا سامنے کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ ہمیں ایک مقدس اور بلند مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ یہ دُنیا کی تعمیرنو کی اور تاریخ سازی کی دعوت ہے جو ہمیں نبوت کے مشن کو پورا کرنے کی طرف بلاتی ہے۔ مسلم امہ اس سے پیچھے ہٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور نہ ہی مایوس اور دل شکستہ ہو سکتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم کوشش کریں اور ہمیشہ پرُامید رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’مسلمانو! تم بہترین جماعت ہو جو لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اہم واقعے اسرا یا معراج کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس موقع پر‘ ہجرت سے صرف ایک سال پہلے‘ حضرت جبریل علیہ السلام‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ سے القدس اور وہاں سے آسمانوں پر لے کر گئے۔ اس موقع پر رسول ؐاللہ اللہ کے اتنے قریب پہنچے کہ جبریل ؑبھی پیچھے رہ گئے۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ہندستان کے ایک بہت بڑے عالم حضرت عبدالقدوس گنگوہی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت محمدؐ بھی عجیب آدمی تھے کہ اللہ کی اتنی قربت ملنے پر بھی وہاں سے واپس آگئے ‘ اگر میں وہاں ہوتا تو کبھی واپس نہ آتا‘‘۔

علامہ محمد اقبالؒ اس کے بارے میں غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ عظیم صوفی دین کا محدود تصور پیش کرتے ہیں اور اپنی ذاتی سلامتی کے خواہاں ہیں۔ ایک اللہ کے بندے کے لیے بلند ترین مقام اور اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مالک‘ اللہ کے بہت قریب پہنچ جائے‘ اس کے لیے یہی سب کچھ ہے اور اس سے زیادہ کا وہ تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن محمد رسولؐ اللہ کا یہ معاملہ نہ تھا۔ رسولؐ اللہ کی منفرد شان یہ ہے کہ وہ اللہ کا اتنا قرب حاصل ہونے کے بعد اور اپنے اللہ کی تجلی پا لینے کے بعد دُنیا میں واپس آئیں تاکہ اس دُنیا کو نوروتجلّی سے بھر دیں‘ ایک نیا معاشرہ تشکیل دیں‘ ایک نئی تاریخ رقم کریں اور ایک نئی تہذیب کو فروغ دیں اور وہ ہے اسلام۔ یہ ہے زندگی اور معاشرے کے بارے میں پیغمبرانہ سوچ۔ یہ ہے اسلام کی آواز اور یہ ہمیں ایک بلند مقصد کے لیے پکار رہی ہے۔

کچھ لوگ چیلنجوں سے گھبراتے ہیں۔ ہمیں غیر حقیقت پسند بھی نہیں ہونا چاہیے اور مایوس اور دل شکستہ بھی نہیں۔

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے (گناہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے وہ تو غفور و رحیم ہے۔

ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی ہے۔ اگر ہم اپنی ذمہ داریاں اخلاص سے اور تن دہی سے پوری کریں تو اللہ کی طرف سے کامیابی کا وعدہ ہے۔ ہمیں بحیثیت مومن اپنے حصے کا کام کرنا ہے‘ پھر حالات بدلیں گے۔ وہ کوشش اور محنت اور جہاد کے بغیر نہیں بدل سکتے‘ لیکن ان کا بدلنا مقدر ہے۔ اگر ہم کوشش کریں‘ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور اللہ کی مدد اور ہدایت طلب کریں تو تبدیلی آئے گی۔ وہ لوگ جو غالب تہذیب کی معاشی اور فوجی قوت سے خائف ہیں وہ دیکھیں کہ تاریخ میں ماضی کی سپرپاورز کس طرح اُٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی گئیں۔ ہر دور میں غالب تہذیبیں رہی ہیں۔ تاریخ دُنیا کی ۳۶ سپرپاورز کی عظیم تہذیبوں کا قبرستان ہے۔ ہمارے اپنے دور میں ہم نے برطانیہ کو دیکھا کہ جس کی حکمرانی دُنیا کے ایک چوتھائی حصے پر تھی۔ دو صدیاں پہلے امریکہ برطانیہ کی کالونی تھا‘ اور بیسویں صدی کے اختتام پر جس ملک نے سپرپاور ہونا تھا اس کا شہنشاہ جارج سوم تھا۔ انگریزوں کو دُنیا میں اپنی برتری پر اتنا ناز تھا کہ انھوں نے انگریزی زبان میں نئے محاورے ایجاد کیے‘ جیسے ’’برطانیہ لہروں پر حکمرانی کرتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’برطانوی راج میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا‘‘۔ لیکن انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز کا برطانیہ کہاں ہے! برطانیہ کی حکمرانی ختم ہوئی‘ اور آج دنوں ہی نہیں‘ ہفتوں تک موجودہ برطانیہ میں سورج طلوع نہیں ہوتا۔

امریکہ اٹھارھویں صدی کے وسط تک ایک کالونی تھا۔ پھر یہ ایک علاقائی طاقت بنا‘ اور اب واحد سپرپاور ہے۔ لیکن سوویت روس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ ہم میں سے اکثر نے سوویت روس کی قوت اور جلال بطور سپرپاور دیکھا ہے۔ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ روس کے طاقت ور سیکرٹری جنرل خروشیف نے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپنا پائوں میز پررکھ کر بڑے متکبرانہ لہجے میں کہا تھا کہ ہم نے نظام سرمایہ داری کو دفن کر دیا ہے‘ لیکن آج سوویت روس کہاں ہے؟ آج تو اس کانام بھی باقی نہیں ہے! مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا آزاد ہو چکا ہے۔ سوویت حکومت کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وہ بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس طرح روز و شب بدلتے ہیں۔ صرف انسانوں کے ہی نہیں بڑی طاقتوں کے بھی۔۱۹۴۵ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکہ پوری دُنیا کی دولت کے ۵۰فی صد کو کنٹرول کرتا تھا اور اب دُنیا کے ممالک کی کل خام داخلی پیداوار کے صرف ۲۴ فی صد کا مالک ہے۔ یہ عظیم قوت ویت نام سے نہ لڑ سکی اور نہ کامیاب ہو سکی۔ جب اس سپرپاور کے ۵۰ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تو اسے بہتر ٹکنالوجی کے باوجود واپس لوٹنا پڑا۔ وہ لبنان میں نہ لڑ سکے‘ جہاں صرف ایک گوریلا حملے میں اس کے ۲۷۸ میرین تباہ ہو گئے اور امریکی صدر نے یک طرفہ واپسی کا اعلان کر دیا۔ وہ صومالیہ میں نہ لڑ سکے‘ جہاں صرف ۳۰ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اگر کوئی قوم اپنے نظریات کے لیے مرنا نہیں جانتی تو وہ قوم معاشی دولت اور ٹکنالوجی میں برتری کے باوجود ہمیشہ کے لیے سپرپاور نہیں رہ سکتی۔ پھر ہم مایوس کیوں ہیں؟ آج ہم کمزور ہیں‘ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمیں حقائق سے آنکھیں نہیں چرانی چاہییں۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ آج کے کمزور کل کے طاقت ور ہوتے ہیں اور آج کے طاقت ور کل تاریخ کی ردّی کی ٹوکری میں اٹھا کر پھینک دیے جاتے ہیں‘ بشرطیکہ ہم وہ کریں جس کی ضرورت ہے‘ اور یہ بات بہت اہم ہے۔ کل ہم بہت مضبوط تھے۔ ہم نے اپنے حصے کا کام نہ کیا اور زوال پذیر ہو گئے۔ آج ہمارے ازسرنو عروج پانے کا آغاز ہے۔ لیکن یہ راستہ عظمت‘ بلندی اور معراج تک تبھی لے جاسکتا ہے جب ہم اللہ کے قوانین کی پیروی کریں۔یہ بہت واضح سبق ہے اور سورہ العصر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

یہ اللہ کا وعدہ ہے‘ یہ ترقی اور نجات کا ایجنڈا ہے۔ ایمان اورعمل صالح پر مبنی جدوجہدجس میں ایک دوسرے کی مدد صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ کی جائے‘ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ ہم نے اس راستے کو اپنایا اور اس کی پیروی کی توہم تواپنی عظمت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ حالات کو بدلنا ہے ۔نیکی اور سچائی کے راستے میں جدوجہد خود اپنا انعام ہے۔ لیکن اللہ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ اگر ہم اپنے ایمان میں سچّے ہیں تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔

وَلاَ تَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) اور (دیکھو) نہ تو ہمت ہارو اور نہ غمگین ہو۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

ہماری نظر اس حقیقی انعام پر رہنی چاہیے جو ہمیں آخرت میں ملنے والا ہے۔ پوری اُمید ہے کہ ہم سربلند ہوں گے اور اگر ہم مطلوبہ ذمّہ داریاں ادا کریں‘ تو یقینا اللہ کی مرضی پوری دُنیا پر چھائے گی۔ اگر ہم اس مقصد کے لیے پوری طرح سے تیار (committed) ہوں‘ توحالات بدلیں گے اور ان کے ثمرات ہماری زندگی اور اس کے بعد تک ان شاء اللہ آئیں گے۔ ہمیں یہاں پر کامیابی اور آخرت میں نجات کا پختہ یقین ہے۔ اللہ کی سنت اور تاریخ گواہ ہیں کہ اگر لوگ جہد مسلسل کریں تو نتائج نکلتے ہیں اور تبدیلیاں آتی ہیں۔ آج جدوجہد ہے‘ مستقبل اسلام ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!

 

۱۴ اگست ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے سال کے ۳۶۵ دنوں میں سے محض ایک دن نہیں--- یہ وہ دن ہے جب برعظیم پاک و ہند میں تاریخ نے ایک نئی اور فیصلہ کن کروٹ لی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے ایک جاں گسل جدوجہد کے بعد نہ صرف یہ کہ برطانوی سامراج کی دو سو سالہ غلامی کا جوا اپنے کندھوںسے اُتار پھینکا بلکہ نئے ہندو سامراج کے تسلط سے بھی نجات حاصل کرلی تاکہ کم از کم ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے یہ ملّت اپنے دین‘ ایمان‘ روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں ایک آزاد فضا میں اپنے مستقبل کی تعمیرکرسکے۔

تحریک آزادی‘ پس منظر اور جدوجہد: برعظیم پاک و ہند پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی اور یہاں کی تمام اقوام کے ساتھ انسانی شرف واکرام اور عدل و انصاف کے ساتھ معاملہ کیا۔البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دین کی دعوت و تبلیغ کے باب میں وہ شدید غفلت کے مرتکب ہوئے‘ خصوصیت سے ان کے حکمران اور بااثر طبقات۔ یہ اسی غفلت کا نتیجہ تھا کہ مسلمان عددی اعتبار سے آبادی کا صرف ایک چوتھائی حصہ رہے جن کا نصف ان صوبوں میں تھا جہاں انھیں عوامی اکثریت حاصل تھی اور باقی ملک کے دوسرے تمام صوبوں میں پھیلے ہوئے تھے جہاں وہ اقلیت میں تھے۔ برطانوی سامراج کے دَور میں مسلمانوں نے بہ حیثیت مجموعی بیرونی استعمار کی مخالفت کی اورکچھ طبقات کو چھوڑ کر ایک بڑے حصے نے اس سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً حکمرانوں سے مسلسل تصادم اور سیاسی‘ معاشی اور تعلیمی میدانوں میں امتیازی سلوک کا نشانہ ہونے کی وجہ سے ان کی قوت کم ہوتی گئی۔ نیزانگریز ارباب اقتدار اور ہندو اکثریت میں ایک نیا گٹھ جوڑ قائم ہوا جس نے سیاسی نقشے کو تبدیل کر دیا۔

انگریزی سامراج کے خلاف عسکری اور جہادی مخالفت میں مسلمان ہی پیش پیش تھے اور جب سیاسی میدان میں جنگ آزادی شروع ہوئی تو یہاں بھی سرخیل مسلمان ہی تھے۔ تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات میں اصل جدوجہد اور قربانیاں مسلمانوں ہی نے دیں۔ مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ جنگ آزادی کی کامیابی میں اقتدار انھی کو حاصل ہوگا‘ کیوں کہ برطانیہ نے انھی سے اقتدار چھینا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ حقیقت سامنے آگئی کہ آزادی کی صورت میں جونیا نظام سیکولر جمہوریت کی بنیاد پر بنے گا اس میں ملک کی قسمت کا فیصلہ اور تمام دستور سازی اور قانون سازی عددی بنیادوں پر ہوگی۔ گاندھی اور نہرو کی قیادت میں کانگریس نے اس ہدف کے لیے ساری پیش بندی کی اور سیاست کا رخ ایک ایسی سمت میں موڑ دیا جس کے نتیجے میں فطری طور پر اس کی اصل قوت ہندو اکثریت کو حاصل ہو جائے۔ جس کے صاف معنی یہ تھے کہ سیاسی آزادی کے باوجود مسلمان نظریاتی‘ دینی‘ تہذیبی اور معاشی آزادی سے محروم رہیں۔

سائمن کمیشن (۱۹۲۸ء) کی رپورٹ‘ ۱۹۳۵ء کے قانون کے تحت انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی کانگریسی حکومتوں نے ہندو سامراج کے خدوخال اور مسلمانوں کے لیے غلامی کے نئے نظام کے تمام دروبست کو بالکل بے نقاب کر دیا۔ ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت نے جدوجہد آزادی کے نئے اہداف مرتب کیے تاکہ ایک طرف ملت اسلامیہ کے دینی اور تاریخی تشخص کی حفاظت ہو سکے اور دوسری طرف جمہوری سیاست کے جو اصول اور ضابطہ کار ہیں ان کے تقاضوں کو بھی پورا کیا جا سکے۔ برعظیم کی ملت اسلامیہ نے اپنا ایک واضح اورمتفقہ موقف اختیار کیا جس کی بنیاد یہ تھی کہ مسلمان محض ایک اقلیت نہیں‘ ایک قوم ہیں جو اپنا نظریاتی تشخص رکھتی ہے۔ ان کے لیے آزادی محض برطانوی اقتدار سے آزادی نہیں بلکہ ان آزاد مواقع کا حصول ہے جن میں وہ اپنے نظریات‘ اقدار اور تہذیبی روایات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کر سکیں۔

مسلمانوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ یہ حق ان کو پورے برعظیم میں حاصل ہو سکے۔ اس کے لیے آخری کوشش کرپس پلان کے تحت تین قومی زونوں پر مشتمل کنفیڈریشن کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش کی جسے ایک مدت کے بعد مکمل آزادی کا اختیار بھی حاصل ہوتا‘ مگر کانگریس نے اسے سبوتاژ کر دیا ۔اس کے بعد ۳ جون ۱۹۴۷ء کے پلان کے تحت مسلم اکثریت کے صوبوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت پاکستان اور باقی حصوں میں کانگریس کی قیادت میں بھارت کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ اس میں بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے‘ جن کا تحریک پاکستان میں بڑا فیصلہ کن حصہ تھا‘ سب سے زیادہ قربانی دی اور برعظیم میں ایک آزادمسلمان مملکت کے قیام کی خاطر اپنے لیے نیم آزادی کی حیثیت کو بہ خوشی قبول کیا اور اس امید پر کیا کہ پاکستان میں ایک مضبوط اسلامی معاشرہ اور ریاست قائم ہوگی اور وہ بالآخربھارت کے مسلمانوں کے حقوق کی بھی محافظ ہوگی۔

قائداعظم اور دو قومی نظریہ: آج بھارت کی قیادت خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا اور ہندستان کی تقسیم عمل میں آئی اسے انگریز‘ کانگریس اور مسلم لیگ تینوں نے قبول کیا۔ کانگریس نے تو پنجاب‘ بنگال اور آسام کے مسلم اکثریتی صوبوں کے پاکستان کا حصہ بننے پر صرف اس قیمت پر رضامندی ظاہر کی کہ ان تینوں صوبوں کو مزید مسلم اکثریتی اور ہندو اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ یہ مطالبہ کانگریس نے کیا اور اس طرح تقسیم ہند کے نظریاتی اصول کو صراحت سے تسلیم کیا۔یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے بار بار اس حقیقت کا اظہار کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد صرف ’’آزادی‘‘ نہیں ’’اسلامی نظریہ‘‘ ہے جس کے لیے آزادی خودایک ذریعہ بھی ہے اور زینہ بھی۔ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں ۸ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے خطاب میں قائد نے صاف الفاظ میں کہا کہ:

مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے‘ نہ وطن نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندووں کی تنگ نظری تھی اور نہ انگریزوں کی چال--- یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔

اور پاکستان بننے کے بعد ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے اسی بات کا اعادہ کیا تھا:

پاکستان کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔

اور ۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائد نے کہا:

اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔

اور ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کوسبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون (Law Giver)پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق ہے کہ ’’مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی مشوروں سے کیا کرو‘‘۔

یہ صرف قائداعظم ہی کے خیالات نہیں یہ ملت اسلامیہ پاک و ہند کا وہ وژن ہے جس پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور جس کی حیثیت اللہ اور بندوں کے درمیان ایک عہدو پیمان اور تحریک پاکستان کی قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کے ساتھ ایک عمرانی معاہدے کی ہے--- اور یہی وہ حقیقت ہے جس پر پاکستان کی اساس قائم ہے اور یہی اس ملک کو اقوام عالم میں ایک امتیازی مقام دیتی ہے۔

اساس پاکستان: قیام پاکستان اور تقسیم ہند جس اصول اور نظریے پر ہوئی اس کے تین اجزا ہیں ‘ یعنی:

     ۱-  مسلمان ایک قوم ہیں جس کی تشکیل رنگ‘ نسل اور جغرافیائی حدود پر نہیں بلکہ ایمان‘ دین ‘ مشترک اقدار زندگی اور تصور حیات اور ان پر مبنی تہذیب و تمدن سے ہوئی ہے۔ اور مسلمان دنیا میں جہاں بھی ہوں وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری ممکنہ حد تک اپنے نظریہ حیات کے مطابق کرنے کے پابند ہیں۔

     ۲- برعظیم پاک و ہند میں جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان کے وفاق پر مشتمل ایک آزاد ریاست پاکستان کے نام سے قائم ہوگی تاکہ وہ اپنے تصورات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر نو کر سکیں۔

     ۳- دونوں ملکوں میں اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں گے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ بھارت میں مسلمان اقلیت کو مکمل تحفظ دیا جائے گا اور پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کو پورا تحفظ اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں گے۔

سیکولر تہذیب اور مغربی لبرلزم کے علم برداروں سے اس اصول کو تسلیم کرا لینا اور مغربی تہذیب کے دور استیلا میں جو دین و دنیا ‘ مذہب و ریاست اور اخلاق و سیاست کی دوئی کے اصول پر قائم ہے‘ اس نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا قیام بیسویں صدی کا ایک معجزہ تھا--- یہ ملت اسلامیہ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم و انعام اور برعظیم کے عام مسلمانوں کی بے لوث قربانیوں کا ثمرہ تھا۔ اور یہ بھی قدرت کا ایک حسین اشارہ تھا کہ قیام پاکستان کے مبارک دن یعنی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ۲۷ رمضان المبارک کی شکل میں دو سعادتوں کا اجتماع ہوا۔

آج سیکولر طبقہ خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ تاریخی حقائق ناقابل تردید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیروں کی ریشہ دوانیوں اور اپنوں کی بے وفائیوں کے باوجود پاکستان کی یہ اساس اور امتیازی شان‘ قرارداد مقاصد اور ۱۹۵۶ء‘ ۱۹۶۲ء‘ ۱۹۷۳ء کے دساتیر کی اسلامی دفعات کی شکل میں قائم و دائم ہے۔ جس نے بھی ان بنیادوں سے ہٹنے یا ان کو معدوم یا کمزور کرنے کی کوشش کی ہے وہ خس و خاشاک کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے۔

مسلمان کے لیے ہر دن بیداری کا پیام لے کر آتا ہے اور ہر رات اپنے اندر تذکیر کے بے شمار پہلو رکھتی ہے ۔ اس قوم کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ یہ اٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ عالم استراحت میں اپنے ربّ اور اپنے مقصدوجود کو یاد رکھتی ہے۔ (یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ  قِیَامًا  وَقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوبِھِمْ اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) لیکن کچھ ایام ایسے ہیں جو تذکیر اور یاد دہانی سے بڑھ کر تجدید عہد کے دن ہوتے ہیں--- اور پاکستانی قوم کے لیے ۱۴ اگست ایک ایسا ہی دن ہے جو اپنے جلو میں بے شمار روشن تاریخی یادیں لے کر آتا ہے۔ یہ دن ہر پاکستانی کے دل ودماغ کو بیدار کرنے اور مقصد حیات سے رشتے کو تازہ کرنے کے لیے ایک مہمیز کی حیثیت رکھتا ہے۔


اس سال ۱۴ اگست غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ ہم ہر پاکستانی مسلمان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ سنجیدہ غوروفکر کرے‘ اپنے رب سے اپنے عہد کی تجدید کرے اور جن حالات میں ملک و ملّت گرفتار ہیں ان سے انھیں نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم کرے اور سرگرم عمل ہو جائے۔

نظریاتی اساس کا تحفظ: آج اس مملکت کی نظریاتی اور دینی اساس کو خطرات درپیش ہیں جن کا مردانہ وار مقابلہ ضروری ہے۔ ایک گروہ مسلسل اس بنیاد کو کمزور اور پاکستان کے حقیقی وژن کو گرد آلود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں وہ طبقات اورلوگ پیش پیش ہیں جن کا تحریک پاکستان میں کوئی حصہ نہیں تھا اور جنھوں نے آزادی کے بعد محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس ملک کی زمام کار پر قبضہ کرنے اور ملک کے وسائل کو اپنی ذات یا گروہ اور طبقے کے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ یہ گروہ بڑی دریدہ دہنی سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اقبال اور قائداعظم تو ایک سیکولر ملک قائم کرنا چاہتے تھے اور یہ مولوی اور مذہبی انتہا پسند ہیں جنھوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور اب پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانے اور قرون وسطیٰ کی طرف لوٹانے میں لگ گئے ہیں۔ اس کے لیے کبھی کمال اتاترک اور ترکی کی بات کی جاتی ہے اور کبھی طالبان کے خوف سے ڈرایا جاتا ہے۔ اور اب تو اس ’’طبقہ زہّاد‘‘ میں رخصت ہونے والے امریکی سفیر ولیم مائلم صاحب بھی شریک ہو گئے ہیں جن کی نگاہ میں جہاد اور امت مسلمہ کی بات کرنا جناح مخالف وژن (anti-Jinnah vision)کا حصہ ہے۔ سیرت کے جلسے میں جہادی قوتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اسلام پر فخر کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں۔ اس شتر گربگی کا مظاہرہ مختلف سطح پر کیا جا رہا ہے اور تاریخ اور زمینی حقائق سے مکمل صرفِ نظر کر کے کیا جا رہا ہے۔ اس خطرناک رجحان پر گرفت پاکستان کے حقیقی تصور کے تحفظ کے لیے بے حد ضروری ہے۔

تحریک پاکستان کوئی خفیہ تحریک نہیں تھی اور نہ اس کا میدان ڈرائنگ روم کی سیاست تھی۔ یہ تحریک ایک عوامی جمہوری تحریک تھی جو شہر شہر‘ گائوں گائوں اور قریہ قریہ چلی اور جس میں برعظیم کے ۱۰ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت نے حصہ لیا۔ وہ جاگیردار‘ نواب اور دانش ور جو تحریک کے آخری ایام میں ہوا کا رخ دیکھ کر شریک ہوئے وہ اس کے دست وبازو نہ تھے۔ اس تحریک کی اصل قوت مسلمانوں کے تمام طبقے خصوصیت سے عوام تھے۔ علما کے ایک طبقے نے اگر کانگریس کا ساتھ دیا تو علما کے ایک بہت بڑے طبقے نے اپنے اپنے انداز میں تحریک پاکستان کے فروغ کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ اقبال کے بعد جس شخص نے دو قومی نظریے کا موقف مثبت اور محکم دلائل سے پیش کیا وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے جنھوں نے متحدہ قومیت کا نعرہ بلند کرنے والے علما (مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عبیداللہ سندھی) کو برملا چیلنج کیا اور ان کے دعووں کا مسکت جواب دیا۔ اس تحریک میں قائداعظم اور لیاقت علی خاں کے شانہ بہ شانہ مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مفتی محمد شفیع‘ مولانا احتشام الحق تھانوی‘مولانا عبدالحامد بدایونی‘ مولانا عبدالستار نیازی‘ مولانا اطہر علی‘ مولانا راغب احسن‘ مولانا ظفر احمد انصاری‘ مولانا ابن الحسن جارچوی‘ پیر صاحب مانکی شریف‘  پیر صاحب زکوڑی شریف وغیرہم نے حصہ لیا اور گھر گھر پاکستان کے پیغام کو پہنچایا۔ جمعیت علماے اسلام نے برعظیم کے طول و عرض میں تحریک کی تائید میں مہم چلائی اور مسلمانوں کو پاکستان کے محاذ پر جمع کیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے تحریک کی تائید کی اور ان کے انتقال پر مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے قائداعظم کی صدارت میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔علما کو طعنہ دینے والے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور تاریخی حقائق کو جھٹلانے کی کوشش نہ کریں۔

سیکولر عناصر کی کوتاہ نظری: پاکستان کی ۵۴ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جس طبقے نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور جو اس کے نظام پر قابض اور اس کی تباہی اور کمزوری کا باعث ہے وہ سیکولر قیادت ہے۔ یہ کبھی سیاست دانوں کی شکل میں‘ کبھی بیوروکریسی کے روپ میں اور کبھی فوجی قیادتوں کے لبادے میں ملک پر مسلط رہے ہیں۔ دینی قوتوں نے تو ہمیشہ آمریت کو لگام دینے اور عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی خدمت انجام دی ہے ۔ آج جو بھی خیر دستور کی اسلامی دفعات‘ بنیادی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ‘ قومی سلامتی کے معاملات میں مضبوط موقف‘ دفاع وطن اور جمہوری اقدار کی بحالی کے باب میں پایا جاتا ہے‘ اس میں سب سے نمایاں حصہ دینی قوتوں کی کوشش کا ہے۔

اقبال اور قائد اعظم کے وژن کو پراگندہ اور غبار آلود کرنے کی جو بھی کوشش ہوئی ہے وہ سیکولر طبقے کی طرف سے ہوئی ہے اور بری طرح ناکام رہی ہے--- اور اس لیے ناکام رہی ہے کہ وہ مبنی برحق نہیں ہے۔ ترکی کی مثال بار بار دی جاتی ہے مگر اس پر کوئی غور نہیں کرتا کہ سیکولرزم نے ترکی کو کیا دیا۔ وہ قوم جو اسلام کا علم لے کر اٹھی تو مشر ق و مغرب پر چھا گئی لیکن سیکولرزم کی پرستار بننے کے بعد مغربی اقوام کی مقروض اور محتاج ہو گئی ہے اور ذہنی افلاس کے ساتھ معاشی تباہی اور سیاسی انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اقبال نے اسی کو مخاطب کر کے کہا تھا :

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

اور یہ سب اس لیے کہ

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

آج ترکی میں سیکولرزم کے خلاف جو عوامی تحریک ہے اسے وہی نظرانداز کر سکتا ہے جو بصیرت ہی نہیں بصارت سے بھی محروم ہو۔ پھر ترکی کی آزادی اور بقا کی جنگ میں فوج کا حصہ اور تحریک پاکستان کے باب میں فوج کے کردار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ ترکی میں فوج ملک کے مسائل کو حل کر سکی اور نہ پاکستان میں فوج کے بار بار کے سیاسی کردار نے کوئی خیر پیدا کیا۔ یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ ترکی کی فوج کا مزاج سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہزاروں قابل اور باصلاحیت افسروں کو محض دین سے وابستگی کی بنا پر فوج سے الگ کر کے ‘ فوج کو ان کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ فوج اور ملک دونوں کی کمزوری کا باعث ہوا ہے‘ جب کہ پاکستان کی فوج خصوصیت سے سقوط ڈھاکہ کے بعد ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے موٹو پر منظم کی گئی ہے۔ اسے سیکولرزم کا علم بردار اور محافظ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ جو بھی فوج یا قوم پر سیکولر نظریات مسلط کرنے کی کوشش کرے گا وہ ملک کو کش مکش اور باہم پیکار کی آماجگاہ بنا دے گا۔ اس ملک کا کوئی خیرخواہ ایسی حماقت کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔

سیکولر نظریات آج عالمی استعمار اور مغرب کی بالادستی قائم کرنے کا ایک ذریعہ اور آلہ ہیں۔ عالم گیریت صرف معاشی اور سیاسی استیلا ہی سے عبارت نہیں ‘اس کا ایک نظریاتی اور تہذیبی ایجنڈا بھی ہے جس کا ہدف ریاست کے اداروں کو کمزور کر کے اور این جی اوز کو آلہ کار بنا کر دنیا کے تمام ممالک اور خصوصیت سے مسلمان ممالک پر مغرب اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ جو حضرات سیکولرزم اور لبرلزم میں اس ملک کا مستقبل دیکھ رہے ہیں وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مغربی استعمار کے آلہ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انھیں اس ملک و ملّت کا دوست نہیں کہا جا سکتا۔

ہم یہ سوال بھی اٹھانا چاہتے ہیں کہ آخر سیکولرزم اور لبرلزم کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کیا ہے؟ مغرب میں مذہبی استبداد کے خلاف جو تحریک اٹھی اس میں سیکولرزم نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اصلاً یہ محض ایک منفی تحریک ہے۔ مثبت طور پر سیکولرزم کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ یہ قومیت‘ سرمایہ داری‘ جمہوریت یا سوشلزم کے ایک معاون اصول کی حیثیت سے یعنی اس تثلیث کے ایک جزو کے طور پر‘ ایک کردار رکھتی ہے۔ صرف سیکولرزم کے پاس فرد‘ معاشرہ اور انسانیت کا کوئی ایسا وژن نہیں جو دنیا کو ایک بہتر نظام حیات سے روشناس کرا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج خود مغربی دنیا میں مذہب‘ یا کسی اعلیٰ اخلاقی نظام اقدار کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ان کا عیسائی مذہب کا تجربہ کوئی اچھی یادیں لیے ہوئے نہیں لیکن اس کے باوجود  اہل فکر ودانش کا ایک بڑا طبقہ کسی مذہب یا روحانی خلا کو پر کرنے والے کسی نظام کی خواہش اور ضرورت محسوس کررہا ہے اور اس کی تلاش میں ہے بلکہ جدید تہذیب کی بقا کے لیے اسے ضروری سمجھتا ہے۔

دستور کی تین بنیادیں: ہم اس طبقے سے اور خصوصیت سے زندگی کے ہر شعبے کی قیادت سے پوری دل سوزی سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ چیزیں جو اس قوم میں متفق علیہ ہیں انھیں متنازع بنانے کی جسارت اور حماقت نہ کریں۔ وہ متنازع تو نہیں بن سکیں گی لیکن قوم میں کنفیوژن اور پراگندہ فکری ضرور پیدا ہو سکتی ہے۔ نئی نسلوں کے ذہنی سکون کو متاثر کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم میں اندرونی کش مکش رونما ہو سکتی ہے جو قومی قوتوں کے ضیاع پر منتج ہو گی جب کہ آج ضرورت ساری قوتوں کو مثبت تعمیری مقاصد کے لیے منظم اور متحرک کرنے کی ہے۔ اس کے لیے ایک محکم بنیاد ملک کا دستور ہے جس پر پوری قوم کا اجماع ہے۔ اس دستور کی تین بنیادی خصوصیات ہیں اور ان میں سے ہر خصوصیت کے اساسی تصورات دستور میں دو اور دو چار کی طرح متعین کر دیے گئے ہیں۔ ہماری خرابیوں اور کمزوریوں کا ایک بڑا سبب اس دستور پر عمل نہ کرنا ہے۔ ظلم ہے کہ ہر ایک نے اس دستور سے وفاداری کا حلف لیا ہے اور ہر کوئی اس سے بے وفائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔

اس دستور کی پہلی بنیاد اسلام ہے۔ قرارداد مقاصد دستور کا دیباچہ ہی نہیں اس کی ایک قابل تنفیذ دفعہ ہے۔ دفعہ ۲ اور دفعہ ۲ الف ریاست کے اختیار اور نظریاتی حدود کو متعین کر دیتی ہیں۔دفعہ ۲۲۷ قانون سازی کے اصول اور حدود کی نشان دہی کرتی ہے۔ نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت سے متعلق دفعات پالیسی سازی اور قانون سازی کے لیے معاونت اور محاکمے کا نظام قائم کرتی ہیں۔ پالیسی کے رہنما اصولوںکا پورا باب اسلام کی روشنی میں حکومت کے پورے دائرہ کار کے لیے واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ دستور اس تسلسل میں سالانہ جائزہ رپورٹ بھی ضروری قرار دیتا ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ دستور سات سال میں پورے نظام قانون کو شریعت اسلامی سے ہم آہنگ کرنے کی ہدایت دیتا ہے لیکن دستور کو نافذ ہوئے ۲۸ سال ہو گئے ہیں اور ہنوز دلی دُور است! دستور کی دفعہ ۶۲-۶۳ قیادت کے لیے معیار طے کرتی ہیں اور دستور میں دیے ہوئے حلف ایک قومی عہدکا درجہ رکھتے ہیں۔ دستور کے تحت قائم ہونے والی نظریاتی کونسل نے ۴۰سے زیادہ رپورٹوں کی شکل میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلامی ہدایات مرتب کر دی ہیں۔ ان سب کے بعد بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلامی ماڈل کہاں ہے؟ ہم کس اسلام پر عمل کریں؟ ہمارے لیے نہ ایران ماڈل ہے‘ نہ سعودی عرب یا سوڈان۔ ہمارا ماڈل قرآن و سنت ہیں اور خود ہمارے دستور نے اس ماڈل کے خطوط کار واضح کر دیے ہیں اور دستوری اداروں نے رہنمائی فراہم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ناکام اگر کوئی ہے تو سیاسی قیادت اور وہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں اور رہنما ہیں جو ان سب کو نظرانداز کر کے اپنے اپنے مفادات کی دوڑ میں مصروف رہے ہیں۔

دوسرا اصول پارلیمانی جمہوری نظام ہے۔ اس سلسلے میں بھی دستور نے کوئی خلا یا ابہام نہیں چھوڑا ہے۔ تقسیم اختیارات اور ہر ہر ادارے کی ذمہ داریاں اور کردار متعین کر دیا گیا ہے لیکن نہ الیکشن دستور کے مطابق ہوتے ہیں اور نہ پارلیمنٹ اپنا کرداراد ا کرتی ہے۔ عدالتیں بھی سیاست اور اقربا پروری کی آماجگاہ بن گئی ہیں اور اگر کوئی شک ہے تو سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی خود نوشت Law Courts in A Glass Houseکا مطالعہ کر لیجیے جس میں ’’عدالت کے کانچ گھر‘‘ اور ’’ سیاست کے حمام‘‘ میں سب لباس سے فارغ نظر آتے ہیں۔

دستور کی تیسری بنیاد وفاقیت ہے۔ یعنی مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم اور فیصلہ کرنے کے عمل کا اُوپر سے نیچے تک متحرک ہونا۔ دستور کو بنے ۲۸ سال ہو گئے ہیں اور آج تک نہ اختیارات کی منتقلی کا عمل مکمل ہوا ہے اور نہ دستور میں قائم کیے ہوئے اداروں کو موثر بنایا گیا ہے۔ خود پسندی اور اپنی ذات میں اختیارات کے ارتکاز کے مرض نے ملک میں وہ خلفشار پیدا کیا ہے کہ مرکز گریز رجحانات ترقی پا رہے ہیں اور عوام انصاف اور حقوق سے محروم ہیں۔

اگر دستور کی ان تینوں بنیادوں پر‘ دستور کے فریم ورک میں‘ دیانت سے عمل ہو تو ہمیں کسی ’’مسیحا‘‘ کی ضرورت ہے اور نہ ’’قومی مرمت سازی‘‘ کے کسی ادارے کی!

لندن کے نہایت معتبر میگزین امپیکٹ انٹرنیشنل نے اپنی جولائی ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں سابق صدر رفیق تارڑ جیسے مرنجان مرنج سربراہ ریاست کی فارغ خطی کے جن اسباب کا ذکر کیا ہے وہ خطرے کی ایک بڑی گھنٹی ہیں۔ ویسے تو تارڑ صاحب نئے حکمرانوں سے ہر طرح تعاون کر رہے تھے لیکن ہائی کورٹ میں میرٹ اور اصول کو نظرانداز کر کے نئے ججوں کی تقرری کی سفارش کو انھوں نے غالباً پہلی بار نظرثانی کے لیے واپس کر دیا اور اصرار کے باوجود دستخط نہیں کیے۔ لاہور میں منعقد ہونے والی پنجابی کانفرنس کے اس واقعے کا کھلے بندوں نوٹس لیا کہ ’’پاکستان تلاوت کے لیے نہیں بنا‘‘۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان تلاوت قرآن ہی کے لیے بنا ہے اور جب تک پاکستان ہے تلاوت ضرور ہو گی۔ جس پر روایت ہے کہ چیف ایگزیکٹو نے ان سے کہا کہ ’’آپ کیا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ریمارکس دیتے ہیں‘‘۔ یہ بھی روایت ہے کہ سیرت کانفرنس میں جنرل مشرف صاحب نے جہادی تنظیموں کے بارے میں جو ارشادات فی البدیہہ فرمائے تھے تارڑ صاحب نے غالباً زندگی میں پہلی بار اپنے دستوری صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو کو ایک خط کے ذریعے متوجہ کیا کہ ایسے غیر محتاط اور غیر متوازن بیان سے جہاد آزادی کی تحریک میں مصروف جاں بازوں پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔

اگر تارڑ صاحب کی رخصتی کا یہی پس منظر ہے تو یہ ایک بڑی تشویش ناک بلکہ خطرناک صورت حال کا پتا دیتا ہے جو قوم کو ایک بڑی کش مکش کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اس لیے ہم صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ دستور کی ان تینوں بنیادوں کا تحفظ اور احترام سب کے لیے ضروری ہے۔موجودہ حکومت کو سپریم کورٹ نے جو سند جواز ایک متعین مدت کے لیے دی ہے وہ مذکورہ بالا تین بنیادوںکے ساتھ مشروط ہے۔ یہ قوم کتنی بھی کمزور ہو ‘کسی کو بھی ان بنیادوں کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ غلام محمد‘ اسکندر مرزا‘ جنرل ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے اپنے دَور میں اور اپنے اپنے انداز میں اس کی کوشش کر کے دیکھ چکے ہیں اور اپنے انجام کو پہنچے۔ عقل مند وہ ہے جو ماضی کے ان نشانات عبرت سے سبق لے اور قوم کو کسی نئی آزمایش میں مبتلا نہ کرے ورنہ اس کا انجام بھی اپنے پیش روئوں سے مختلف نہیں ہو سکتا۔

انتخابات اور انتقال اقتدار : اس سال ۱۴ اگست جن حالات میں آ رہا ہے ان میں ایک اور غور طلب پہلو احیاے جمہوریت اور انتقال اقتدار کا وہ پس منظرہے جس میں ضلعی نظام کے انتخابات کے بعد ۱۴اگست کو اس نظام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس وقت اس نظام کے حسن و قبح پر گفتگو پیش نظر نہیں۔ برا یا بھلا جو بھی نظام ہے اگر اسے آپ نے نافذکر ہی دیا ہے تو اب اس کا احترام کریں اور جو زمینی حقائق سامنے آئے ہیں ان کو کھلے دل سے تسلیم کر کے اس میں دراندازی کا کھیل نہ کھیلیں۔

شروع میں تو عوام نے اس نظام میں کوئی خاطر خواہ دل چسپی نہیں لی لیکن بعد کے مراحل میں دل چسپی بڑھی اور اب ضلعی نظام کے مرحلے پر تو یہ واضح ہو گیا کہ ملک کی اصل قوت آج بھی سیاسی جماعتیں ہیں جو مختلف گروپوں کے نام سے متحرک ہو گئی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ نہ سیاست کا کوئی متبادل ہے اور نہ سیاسی جماعتوں کا۔ دونوں کی اصلاح کے لیے جو بھی ممکن ہو کیا جائے لیکن ان کا کوئی بدل نہیں۔ اگر غیر فطری انداز میں ان پر پابندیاں لگائی گئیں یا آرڈی ننسوں کے ذریعے منتخب لوگوں کو جیسے بھی وہ ہوں‘ محض سیاسی وفاداری یا تعلق کی بنیاد پر ہٹایا گیا تو یہ پورا نظام وجود میں آنے سے پہلے ہی دھڑام سے گر جائے گا۔ یہ عوام ہی کا حق ہے کہ وہ اپنے نمایندے چنیں۔ان پر اپنی پسند کے لوگ مسلط کرنا جمہوریت‘ انصاف اور دیانت ہر ایک کے خلاف ہے اور ظلم اور آمریت کا راستہ ہموار کرنے والا ہے۔ اس سے بچنا بہترہے۔ پاکستانی جمہوریت کا المیہ ہی یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے خود کوعقل کُل سمجھ لیا ہے اور قوم کو اپنے معاملات طے کرنے کا موقع دینے کے بجائے قوم پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قومی مفاد کے اصل حکم وہ ہیں۔ یہ بدترین آمریت اور انسانوں کے استحصال کا راستہ ہے۔

۱۴ اگست کی تقدیس کا اگر کچھ بھی پاس ہے تواس کا تقاضا ہے جو نظام بھی آپ نے بنایا ہے اسے کسی مداخلت اور سیاسی کھیل کے بغیر بروے کار آنے کا موقع دیں۔ عوامی نمایندوں کے لیے احتساب کا آزاد اور قابل اعتماد نظام ضرور بنائیں لیکن من مانی سازباز کا دروازہ بالکل بند کر دیں۔ اس نظام کو نچلی سطح پر محدود اور متعین اختیارات اور انتظام تک محدود رکھیں۔ اسے صوبائی یا مرکزی نظام کے لیے زینہ بنانے کی جسارت نہ کریں بلکہ دستور کے تحت اور دفعہ ۶۲-۶۳ کے فریم ورک میں بااختیار اور قابل اعتماد الیکشن کمیشن کے ذریعے صوبائی اور مرکزی انتخابات کا اہتمام کریں۔ ہم ایک بار پھر یہ کہنا چاہیں گے کہ قومی مشاورت کے ذریعے متناسب نمایندگی کا ایک معقول نظام وضع کیا جا سکتا ہے جو ہمارے بہت سے مسائل کے حل کرنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ آزاد اور شفاف انتخابات ہی نئی قیادت کو بروے کار لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ۱۴ اگست کو اس کا واضح ٹائم ٹیبل اور نقشہ کار (road map)قوم کے سامنے آجاناچاہیے۔

پاک بھارت مذاکرات اور مسئلہ کشمیر: اس سال ۱۴ اگست کی اہمیت پاک بھارت مذاکرات کے پس منظر میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں جنرل پرویز مشرف کے انداز حکمرانی اور ان کی کچھ ترجیحات سے جتنا بھی اختلاف ہو‘ اور ہم نے اس کا برملا اظہار کیا ہے ‘لیکن کشمیر کے معاملہ میں ان کا قومی موقف پر ڈٹ جانا‘ بھارت سے مذاکرات سے پہلے قوم اور اس کی قیادتوں کو اعتماد میں لینا اور دہلی اور آگرہ میں قومی اتفاق رائے کے فریم ورک میں جرأت اور دانش مندی سے اپنی بات پیش کرنا اور حق و انصاف پر مبنی موقف کو کسی قیمت پر سمجھوتے کی بھینٹ نہ چڑھنے دینا ایسے پہلو ہیں جن پر ہم انھیں مبارک باد دیتے ہیں اور ان کے لیے اس موقف پر مزید استقامت کی دعا کرتے ہیں۔

بھارت نے بڑی ہوشیاری بلکہ عیاری سے ایک خاص فضا بنائی تھی جس میں ایک طرف تو جنرل صاحب کی اَنا کی تسکین اور ان کو ذاتی اکرام کے ذریعے رام کرنے (win over)کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعے ایک ایسا سوچا سمجھا اور گھمبیر حملہ کیا گیا کہ وہ کشمیر کی مرکزیت سے ہٹ کر ضمنی معاملات میں اُلجھ جائیں۔ ترغیب اور ترہیب کا ہر حربہ پوری چابک دستی سے استعمال کیا گیا اور بالکل وہی حکمت عملی دہرائی گئی جو گاندھی جی نے قائداعظم کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں استعمال کی تھی--- مٹھاس اور عیاری‘ چاپلوسی اور بلیک میلنگ‘ ذاتی اکرام اور قومی موقف سے ہٹانے کی کوشش۔ خدا کا شکر ہے کہ جس طرح قائداعظم نے گاندھی جی کی ساری چالوں کو پادَر ہوا کر دیا تقریباًاسی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے مشرف صاحب نے بھی واجپائی ایڈوانی جال سے اپنے آپ کو بچا لیا۔ ان کو ہندو کی سیاست کا بلاواسطہ اور براہِ راست تجربہ ہو گیا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا ایک الہامی شعر ہے جس میں ہندو سیاست کے دو کرداروں کی بڑی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ساورکر ہندو مذہبی انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کا نمایندہ تھا اور گاندھی جی ہندو مفادات کے بڑے سمجھ دار محافظ۔ دونوں کے بارے میں مولانا ظفر علی خاں کا جچا تلا تجزیہ ہے کہ    ؎

دنیا میں بلائیں دو ہی تو ہیں‘ اک ساورکر اک گاندھی ہے

اک جھوٹ کا چلتا جھکّڑ ہے‘ اک مکر کی چلتی آندھی ہے

آج ساورکر اور گاندھی‘ ایڈوانی اور واجپائی کے روپ میں اسی طرح پاکستان کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح پاکستان کے قیام کو روکنے کے لیے کبھی ساورکر اور گاندھی سرگرم عمل تھے۔ گاندھی جی نے جناح کو ’’قائداعظم‘‘ تسلیم کیا اور بھارت کا وزیراعظم بنانے کی پیش کش کی لیکن قائداعظم اس کھیل سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے ’’کٹا پھٹا‘‘ پاکستان قبول کر لیا لیکن گاندھی کے جال میں نہ آئے--- آج بھی سارا کھیل یہی ہے کہ پاکستان کو کسی طرح کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے ہٹا کر پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں بُعد اور تصادم پیدا کر دیا جائے‘ پاکستانی قیادت اور پاکستانی قوم کو لڑا دیا جائے تاکہ بھارت کشمیر پر اپنے قبضے کو دوام بخش سکے۔ حریت کانفرنس کی قیادت سے وہ خود بات کرنے کو تیار نہیں مگر پاکستان سے ان کی ملاقات پر برافروختہ ہے۔ کشمیر کے بارے میں اپنے سارے وعدے وعید‘ مسئلے کی پوری تاریخ‘عوامی جدوجہد اور ہزاروں لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کو بالکل نظرانداز کر کے ویزا کی سہولتوں اور تجارت کے معاملوں میں اُلجھانے کی کوشش--- ایک طرف کشمیر میں عوامی تحریک اپنے عروج پر ہے‘ ہزاروں افراد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں‘ ہر شہید کا جنازہ بھارتی تسلط کے خلاف ایک عوامی ریفرنڈم ہے--- اور بھارت کی قیادت ہے کہ اسے مسئلہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں اورہماری قیادت کو لیپاپوتی والے معاملات میں اُلجھانے پر ساری توجہات مرکوز کر رہی ہے۔

کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا ذکر کیا جاتا ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے فلسطینیوں کو کیا حاصل ہوا؟  ہم خود معاہدہ تاشقند سے آج تک اعتمادپیدا کرنے والے اقدامات (Confidence Builiding Measures - CBM's) کی بات سن رہے ہیں لیکن چالیس سال میں ان سے کیا حاصل ہوا؟ ۱۹۷۲ء (شملہ معاہدہ) سے دوطرفہ مذاکرات کی بات ہو رہی ہے لیکن ۵۰ سے زیادہ بار مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے حاصل کیا ہوا؟ اوسلو کے بارے میں اس وقت اسرائیل کے بڑے سے بڑے موید بھی یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ یہ راستہ مسائل کے حل کا راستہ نہیں۔

انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے ۱۷ جولائی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں دو یہودی دانش ور ایک ہی بات کہتے ہیں جو غور طلب ہے۔ ہنری سیگمین (Henry Seigman)جو امریکہ کی مشہور زمانہ Council on Foreign Relations کا سینیرفیلو او ر اسرائیل کا ہمدردہے ‘ یہ لکھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ:

اوسلو معاہدہ کئی وجوہات سے ایک مستقل حیثیت کے معاہدے کی راہ ہموار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سب سے بنیادی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی اپنے لیے وہ واحد ہدف تسلیم نہیں کیا جو اس طرح کے معاہدے کو ممکن بناتا‘ یعنی مغربی کنارے اور غزہ میں ایک مستحکم اور خودمختار فلسطینی ریاست۔ اعتماد کوئی خیالی چیز نہیں ہے جو محض اپنی خاطروجود رکھتا ہو‘ یہ کسی مقصد کے حوالے سے ہی کوئی معنی و مفہوم پاتا ہے۔ اعتماد یہ ہونا چاہیے کہ یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اوسلو کے حوالے سے اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات سے مراد صرف وہی اقدام ہو سکتے ہیں جن سے فلسطینی یہ یقین کرنے لگیں کہ وہ مستحکم ریاست کا مرتبہ حاصل کر لیں گے۔بامعنی ریاستی حیثیت بنیادی آرزو ہے۔ اگر اس کے بارے میں گفتگو کے آغاز کا مقصد بھی اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات سے متعلق نہ ہو تو اس طرح کے مجرب نسخے پر عمل کا بے معنی پن (absurdity) ذہن کو ششدر کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ امریکی سفارت کاری کی بنیاد ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۱ء)

ہمارا مسئلہ بھی بالکل یہی ہے۔ اصل سوال اہل جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ اس کی بات نہ کرو صرف اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات کی کرو‘جن معاملات کا کوئی تعلق اصل مسئلے سے نہیں ہے ان میں اُلجھ جائو۔ پھر نتیجہ بھی معلوم ہے۔ بات کبھی ان اقدامات سے آگے اصل مسئلے کی طرف نہیں جاتی۔ جب بھی اصل مسئلے کو موخر کیا گیا ہے یا مبہم چھوڑ دیا گیا ہے کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ خواہ مسئلہ فلسطین کاہو یاکشمیر کا۔ یہی اسرائیل کا کھیل ہے‘ یہی بھارت کا‘ یہی امریکہ کا۔ ہم کب تک ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے رہیںگے۔  ٹربیون کے اسی شمارے میں صیہونیت کا ایک مبلغ جافری وہیٹ کرافٹ (Geoffrey Wheatcraft) اپنے مضمون میں لکھتا ہے:

یہ امر واقعہ شک و شہبے سے بالاتر ہے کہ اوسلو (اسے کلنٹن بھی کہا جا سکتا ہے) کا پورا عمل پٹڑی سے اتر گیا ہے۔

اوسلو طریق کار کے بارے میں یہ دو تبصرے چشم کشا ہیں۔ آزمودہ را آزمودن جہل است۔ اور یہی وہ کھیل ہے جو بھارت ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے۔ پہلے مرحلے میں جنرل مشرف صاحب اس جال سے دامن بچا کر نکل آئے ہیں لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ اگلے مراحل کی تیاری‘ جہادی قوتوں کی حوصلہ افزائی‘ اصولی موقف پر استقامت‘ عالمی راے عامہ کو متاثر اور متحرک کرنے کی کوشش‘ بھارت کے عوام اور اہل دانش کی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش‘ خود اپنی قوم پر اعتماد اور اسے ساتھ لے کر چلنا ---یہ سب ۱۴ اگست کے تجدید عہد کے چند پہلو ہیں۔

آگرہ میں سربراہی ملاقات کے موقع پر بھارت کی قیادت کو سب سے زیادہ جو چیز کھٹکی وہ جنرل پرویز کی بھارتی اخبارات کے مدیروں سے ملاقات میں کھلی کھلی باتیں اور ان کا بھارت کے میڈیا پر آجانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وعدے کے باوجود اور جنرل پرویز کی خواہش کے علی الرغم روانگی سے قبل ان کو ورلڈ میڈیا سے خطاب کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہمارے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مدمقابل پر چوٹ کہاں سب سے زیادہ موثر ہو سکتی ہے۔

جنرل پرویز نے بھارت سے دہلی اور آگرہ میں جس طرح معاملہ کیا وہ ان کے لیے ‘ ہماری فوج کے لیے اور پوری قوم کے لیے باعث اطمینان ہے اور اس میں سابقہ قیادت خصوصیت سے بے نظیر صاحبہ‘ نوازشریف صاحب اور ان کے رفقا کے لیے بھی بڑا سبق ہے۔ قومی مفاد پر استقامت میں کامیابی اور اس پر سمجھوتہ کرنے میں دنیا میں بھی رسوائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی اس پر بڑی پکڑ کا خطرہ ہے۔

۱۴اگست کا پیغام : اس سال ۱۴ اگست کا یوم تجدید عہد جن حالات میں آ رہا ہے ان میں ملک کی معاشی مشکلات اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔معاشی خلفشار کی اصل وجہ وسائل کی کمی نہیں غلط معاشی پالیسیاں‘ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی محکومی‘ کرپشن اور بدعنوانی‘ غلط ترجیحات اور ہمہ گیر معاشی بدانتظامی ہیں۔ موجودہ معاشی ٹیم بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس سے اصلاح احوال کی توقع عبث ہے۔ البتہ ان معاشی حالات سے پریشان ہو کر یا ان کی بنیاد پر قیادت کو گھبراہٹ میں مبتلا کر کے ورلڈبنک اور گلوبلائزیشن کے نظام کو مزید مستحکم کرنے کے خطرات سے متنبہ کرنا ہمارا قومی فرض ہے۔ قوم کو جھوٹی تسلیاں دینے اور مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے ۔ اسے ترک کر کے ایک انقلابی حکمت عملی وضع کیے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے مقابلے میں فوجی حکومت کے لیے کسی انقلابی حکمت عملی کو اختیار کرنا آسان ہوتاہے۔  ہمیں اس رائے سے اتفاق نہیں لیکن موجودہ حکومت نے تو اس راستے کو پہلے دن ہی سے بندکر دیا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی شرائط پر جس تابع داری سے اس زمانے میں عمل ہو رہا ہے‘ کبھی نہیں ہوا۔ اس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ اس لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایک نئی قیادت کے بغیر کسی بڑی معاشی پہل قدمی (initiative)کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس لیے اس حکومت سے نہ کسی بہتر معاشی پالیسی کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ کسی موثر‘ شفاف اور مبنی بر عدل نظام احتساب کی۔ فوج کی قیادت کا سیاست میں مزید اُلجھا رہنا فوج اور ملک دونوں کے مفاد میں نہیں۔

اس سال ۱۴ اگست پر قوم کو تجدید عہد کے ساتھ موجودہ حکمرانوں کو یہ پیغام بھی دے دینا چاہیے کہ جتنی جلد ملک میں نئے منصفانہ انتخابات کے ذریعے دستور کے تحت ایک نئی‘ دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو زمام کار سونپی جا سکے ملک و ملّت کے لیے بہتر ہے۔ مخصوص طبقات سے اُبھرنے والی قیادتوں نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور بگاڑ میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ اب ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام میں سے ہو اور عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس کا دامن پاک اور شہرت اچھی ہو۔ یہ قیادت دستور کی پابند اور وفادار ہو‘ دستور کو اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ دستور کے مطابق عوام اور ملک کے مفاد میں کام کرے۔ وقت کی اصل ضرورت قوم کو بیدار کرنا اور متحرک کرنا ہے تاکہ عوام مخصوص طبقات کے ہاتھوں میں ڈھور ڈنگر کی طرح نہ کھیلیں بلکہ اپنی قسمت کے خود مالک بنیں اور اس ملک کو سنوارنے اور بنانے کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اس حیثیت کو محسوس کرے کہ وہ پاکستان کا محافظ اور خادم ہے اور خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔

۱۴  اگست جس تجدید عہد کا ہم سے مطالبہ کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک تحریک پاکستان کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو اور اس جذبے سے کام کرے کہ اسے پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی مملکت بنانا ہے‘ اس ملک سے جہالت‘ غربت‘ ناداری اور محتاجی کو دُور کر کے علم کی شمع کو روشن کرنا اور اعلیٰ اخلاق اور عدل و انصاف کا بول بالا کرنا ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے بندوں کو اللہ کے دیے ہوئے دین کی برکتوں سے شادکام کرنے اور بالآخر آخرت میں اپنے ربّ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرنا ہے۔ قائداعظم نے مسلم لیگ کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے ۳۱ اکتوبر ۱۹۳۹ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جس تمنا کا اظہار کیا تھا آج اس کی تذکیر کی ضرورت ہے۔ اس تمنا کو اپنے دلوں میں اتار لینے اور زبان اور عمل سے اس کے اظہار کا عزم اس سال ہمارے لیے ۱۴ اگست کا بہترین تحفہ ہوسکتا ہے۔

قائد نے کہا تھا:

’’میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی‘ تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔ میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘ میرا اپنا ایمان‘ میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح‘ تم نے واقعی مدافعت ِاسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح‘ تم مسلمانوں کی تنظیم‘ اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علَم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے‘‘۔


(یوم آزادی پر تقسیم کرنے کے لیے اس مضمون کا کتابچہ ۳۰۰ روپے فی سیکڑہ کے حساب سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور - ۵۴۵۷۰)

تحریک اسلامی کے حوالے سے خرم بھائی کی لمحات اور میاں طفیل محمد صاحب کی مشاہدات‘  دونوں کتابیں‘ تحریک کے لٹریچر میں بڑا قیمتی اضافہ ہیں۔ گو دونوں کا اپنا منفرد مزاج اور اسلوب اظہار ہے لیکن موضوع ایک ہی ہے: برعظیم پاک و ہند میں تحریک اسلامی۔ دونوں ہی گو بظاہر آپ بیتی ہیں لیکن دراصل تحریک کی کہانی اس کے دو مرکزی کرداروں کی زبانی ہے۔ صرف تحریک کے کارکنوں ہی کے لیے نہیں اُمت مسلمہ کے ہر فدائی کے لیے ان میں بہت کچھ ہے۔ ہمیں ان کتابوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مشاہدات کے چار پہلو قابل توجہ ہیں:

  • اوّل: باتیں میاں صاحب کی ہیں لیکن ان میں آپ کو جو جلوہ اور پیغام نظر آئے گا‘ الفاظ و بیان کی اس داستان میں جو تصویر نظر آئے گی‘ اور اس چمنستان خیال میں جو خوشبو آپ محسوس کریں گے‘ وہ ہے داعی تحریک (مولانا مودودیؒ) کی شخصیت‘ ان کا پیغام‘ ان کی زندگی‘ ان کی سیرت‘ ان کے عزائم‘ ان کی کوششیں اور جدوجہد۔
  •  دوم: داعی تحریک کے ساتھ ساتھ خود تحریک‘ اس کے نشیب و فراز‘ اس تحریک کا اصل مزاج --- یہ تحریک کیوں برپا ہوئی؟ کیا کام سرانجام دینا چاہتی ہے؟ وہ کون سا انقلاب ہے جو لانا چاہتی ہے؟ کن سانچوں میں انسانوں کی زندگی کو ڈھالنا چاہتی ہے؟ کس طرح انسانی معاشرے کو بدلنا چاہتی ہے؟ تاریخ کو کس رخ پر ڈالنا چاہتی ہے؟ تحریک اپنی جدوجہد میں کن نشیب و فراز سے گزری؟ کیا مشکلات پیش آئی ہیں؟ کیا امکانات پیدا ہوئے ہیں؟ اور مختلف النوع چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کیا تدابیر کی گئیں؟ گویا اس کتاب میں خود جماعت اسلامی کی پوری تاریخ کے جملہ اوراق بھی آپ کو ملیں گے۔
  • سوم: جماعت ہی نہیں خود پاکستان کی تاریخ‘ خصوصیت سے پاکستان میں حق و باطل کی کش مکش‘ اسلام اور سیکولرازم کی پیکار۔ اس ملک کو اس کے اصل مقصد سے ہم کنار کرنے کی سعی و جہد۔
  •  چہارم: اس تاریخ اور جدوجہد کی داستان میں آپ کو خود میاں صاحب کی شخصیت کی کچھ جھلکیاں بھی نظر آجائیں گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے اپنی ذات کو ان تینوں میں اس طرح سمودیا کہ گو داستان کے مرکزی کردار یہی تین ہیں لیکن ڈرامے کے ان کرداروں کے نظر کو خیرہ کر دینے والے ان جلووں میں ہمیں خود میاں صاحب کی اپنی زندگی کی کچھ جھلکیاں بھی نظر آجاتی ہیں۔ داستان ایک ہے مگر تصویریں اس میں چار اُبھر کر سامنے آجاتی ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے اپنے اس قلبی تاثر کا اظہار کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ مشاہدات ہی میں نہیں‘ میاں صاحب سے ۵۰ سالہ تعلق خاطر کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ان کی زندگی ایک مسلمان کی زندگی ہے‘ ایک مجاہد کی زندگی ہے۔ قرآن پاک کی جو دو آیات بار بار میرے ذہن میں آتی ہیں ان میں سے ایک ہے:  اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (حم السجدہ ۴۱:۳۰) ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔ اور دوسری آیت: اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔

میاں صاحب کی زندگی میں ہمیں ان دونوں کیفیتیوں کے حصول کے لیے انسانی کوشش کی ایک بڑی اچھی مثال ملتی ہے۔

میاں صاحب کی زندگی میں ’’جدید‘‘ سے مطلوب اور معیار کی طرف مراجعت کی ایک بڑی روشن مثال نظر آتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک نوجوان نے حق کو پا لیا‘ تو پھر وہ اپنے کو حق کے رنگ میں رنگنے کے لیے کس طرح سینہ سپر ہو گیا۔ جماعت کی رکنیت اختیار کرتے وقت میاں صاحب نے کس انوکھے عزم کا مظاہرہ کیا۔ ایک سوٹڈ بوٹڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ کلین شیوڈ نوجوان ۷۵ نفوسِ قدسیہ کے درمیان آتا ہے اور جس طرح حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ میں کمزور ہوں اور میری آنکھوں میں آشوب چشم بھی ہے لیکن میں آپ ؐکا ساتھ دوں گا‘اسی جذبے سے میاں صاحب نے کہا کہ میرے ظاہر کو نہ دیکھیے‘ میں بھی آپ کے ساتھ اس دعوت اور پیغام کا علم بردار بننا چاہتا ہوں۔ اس پر بعض علما نے اپنے تامّل کا اظہار کیا کہ اس شکل و صورت اور حلیے میں ایک فرنگ زدہ نوجوان کو ہم کیسے قبول کر لیں؟ میاں صاحب نے کہا: آپ مجھے چھ مہینے دیجیے اور پھر دیکھیے کہ میں ان شرائط کو کیسے پورا کرتا ہوں۔کئی علما کی آنکھوں میں بے یقینی کا خوف تھا لیکن مولانا مودودی ؒنے اس نوجوان کے سر پر اعتمادکا ہاتھ رکھا اور پھر میاں صاحب نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا۔ پھر چھ مہینے ہی نہیں‘ بلکہ ۶۰سال پوری استقامت سے اپنے آپ کو اس دعوت کی نذر کر دیا۔

میاں صاحب کی زندگی میں ہمیں قبول حق کے ساتھ حق کے تقاضوں کا بدرجہ اتم احساس ملتا ہے۔ یعنی استقامت کے ساتھ ساتھ یہ عزم کہ اس حق پر جو بھی حملہ آور ہوگا‘ میں اس کے دفاع کے لیے ڈٹ جائوں گا۔ اس میں کوئی بزدلی نہیں دکھائوں گا۔ میاں صاحب پہاڑ کی طرح ڈٹ جاتے ہیں اور دوسری طرف اس حق پر ساتھ دینے والے تحریک کے لوگوں کے لیے‘اپنے اہل خانہ کے لیے‘ اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کے لیے سراپا شفقت‘ سراپا محبت‘ اور سراپا رحمت نظر آتے ہیں۔ بقول اقبال    ؎

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

میاں صاحب کی زندگی میں بڑی سادگی ہے۔ کسی قسم کی بناوٹ‘ ظاہرداری‘ تصنّع یا ملمّع سازی نظر نہیں آتی۔ کسی شخص کے کردار کی یہ بڑی نادر خوبی ہے۔ ہماری زندگیوں سے ایسی خوبیاں اب ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب پر اپنا فضل و کرم کیا ہے کہ ہم نے بہ چشم سر ان کی زندگی میں ان خوبیوں کو دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہمیشہ اس پر قائم رکھے اور ہمیں ان سے سبق لینے کی توفیق دے۔

میاں صاحب کے ہاں اس سادگی‘ اس شفافیت کے باوجود‘ کسی قسم کا زعم‘کوئی غرور یا کوئی اِدّعا کہیں نظر نہیں آتا۔

مشاہدات کو میں اس پہلوسے بڑی اہمیت دیتا ہوں کہ محترم میاں صاحب نے اس میں ایک پورے دَور کو جس سادگی سے مفصّل اور مؤثر انداز میں پیش کر دیا ہے‘ وہ ہماری تحریکی زندگی اور تجربات کا خلاصہ ہے۔ سلیم منصور خالد نے ان کی باتوں کے ذریعے سے معلومات اور تاثرات و تعبیرات کا جو خزانہ جمع کیا ہے اور اسے جس طرح ۱۷ ابواب میں سجا کر ہمارے سامنے پیش کیا وہ ایک بڑا ہی قیمتی تحفہ ہے۔

میں علامہ اقبال کی طرح شکوہ تو نہیں کر سکتا لیکن اپنی اس خواہش اور تمنّا کا اظہار کرتا ہوں کہ کاش! سلیم منصور خالد ۱۰ سال پہلے پیدا ہوئے ہوتے اور مولانا مودودیؒ سے بھی ان کی باتوں کو اسی طرح جمع کر لیا ہوتا۔ اصغرگونڈوی نے بڑی پیاری بات کہی ہے     ؎

اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا

اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہیں

جو لوگ شخصی حیثیت میں میاں صاحب کو قریب سے نہیں دیکھ سکے‘ وہ بھی مشاہدات کے ذریعے ان کی اصل شخصیت‘ ان کے حسن سیرت ‘ ان کے توازن‘ ان کی سادگی‘ ان کی تحریکیت اور ان کی للہیت کو ان اوراق میں دیکھ سکتے ہیں‘ یہ سب چیزیں اس مرقع میں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

میاں صاحب‘ بحیثیت طالب علم ہندو اساتذہ سے جس طرح متاثر ہوئے اور جس طرح انھوں نے استفادہ کیا‘ خصوصیت سے فزکس کے استاد سے جس طرح اللہ کے وجود کی روشنی پائی‘ کاش آج کا ہمارا معلّم اس سے کچھ سبق سیکھے اور یہ دیکھے کہ کس طرح تعلیم فی الحقیقت روشنی اور ایمان کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لیکن صرف علم کافی نہیں‘ جب تک کہ نور ایمان نہ ہو‘ محض تعلیم بے کار ہے۔

میاں صاحب نے مشاہدات میں اپنی اہلیہ کا جس طرح سے ذکر کیا ہے اور اس تذکرے میں جو پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ ہر مسلمان خاتون کے لیے ہی نہیں‘ ہرمسلمان اور خاندان کے ہر فرد کے لیے اس کے اندر بڑا اچھا نمونہ ہے۔ مختصر یہ کہ محترم میاں صاحب نے اپنے آپ کو تحریک کے سپرد کر دیا اور وہی کیفیت پیدا ہو گئی جسے فنا فی التحریک کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی اَنا اور اپنی ذات کو بالکل بالاے طاق رکھ دیا۔ فی الحقیقت یہ ایک ایسا دل آویز نمونہ ہے‘ جو قابل تقلید ہے اور فقید المثال بھی۔

تحریک اسلامی کی اصل دولت اور اصل سرمایہ کیا ہے؟ کردار‘ مقصدیت‘ ایثار و قربانی‘ شفقت و محبت‘ رحمت و رافت---  مشاہدات میں ہمیں یہی روشنی نظر آتی ہے اور یہ ایک ایسی روشنی ہے جو قلب و نظر کو منور ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی ٹھنڈک دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے--- اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان تمام خوبیوں کو اپنے میں سمو سکیں‘ آمین!

میں  مشاہدات کو تحریکی لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ‘ سلیم منصور خالد کو بہترین جزا دے کہ انھوں نے ۲۰‘ ۲۲ سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے لوازمے کو اخذ و جمع کیااور پھر اُسے ترتیب دے کر ایک گلدستے میں سجا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا۔ ایک ایسا گلدستہ جس میں اگر ایک طرف حسن نظر کی تسکین کا سامان ہے تو دوسری طرف فضا کو معطر کرنے والی خوشبو بھی بہ افراط موجود ہے۔ (ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ طبع دوم‘ قیمت ۲۵۰ روپے۔ مجلد مع اشاریہ)

 

اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں نصف صدی تک کلیدی کردار ادا کرنے کے بعد امریکہ کا بہ یک بینی و دوگوش فارغ کیا جانا محض ایک اتفاقی حادثہ یا صرف ایک سیاسی واقعہ نہیں ہے۔ یہ امریکہ کے عالمی کردار کے بارے میں دنیا کے دوسرے ممالک میں پائے جانے والے احساسات کا ایک مظہر ‘ عالمی سیاست کے ابھرنے والے رجحانات کی ایک واضح علامت اور طاقت ور ملکوں کے لیے ایک غیر مبہم انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کوئی تنہا (isolated) واقعہ نہیں‘ بلکہ ایک رخ اور رجحان کا پتا دیتا ہے جس کا اظہار اقوام متحدہ ہی کے ایک دوسرے اہم ادارے نارکوٹکس کمیشن سے بھی امریکہ کی فراغت کی صورت میں بھی ہوا ہے۔ صدرامریکہ جارج بش پہلے ہی دورے پر نکلے تو انھیں موثر عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ۔ کیوبک (کینیڈا) میں تمام امریکی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس اور گوڈن برگ(سویڈن) میں ۱۵ یورپی ممالک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہونے والے عوامی مظاہرے اور ان میں اٹھائے جانے والے ایشوز‘ امریکہ پر بے اعتمادی اور اس کے سنگ دلانہ رویے اور پالیسیوں سے بے زاری کے منہ بولتے مظاہر ہیں۔

صاف نظر آ رہا ہے کہ جو لاوا ایک مدت سے اندر ہی اندر پک رہا تھا وہ اب اپنے اظہار کے لیے مختلف راستے اختیار کر رہا ہے۔ جو جذبات و احساسات ایک عرصے تک خلش‘ کسک‘ انقباض‘ اور اضطراب کے مرحلے میں تھے‘ وہ اب اظہار‘ اختلاف‘ تنقید اور اس سے بھی بڑھ کر غصّے اور بغاوت کی شکلیں اختیار کر رہے ہیں۔ یہ جذبات کسی ایک ملک یا گروہ کے نہیں‘ بلکہ بڑی حد تک دنیا کے بیش تر ممالک و اقوام اور سب سے بڑھ کر عام انسانوں کے احتجاج کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ان جذبات اور ان کے پیچھے کارفرما محرکات کا جائزہ نہ لینا ایک ایسی عظیم غلطی ہے‘ جس کے صرف وہی لوگ مرتکب ہوتے ہیں جو تاریخ سے سبق لینے کو تیار نہیں ہوتے اور نوشتہ دیوار پڑھنے کی زحمت گوارا کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

امریکہ اور اس کے عالمی کردار کے بارے میں اس احتجاجی لہر کی بڑی وجہ کوئی مزاجوں میں رچی بسی امریکہ دشمنی یا مخاصمت نہیں ہے۔ یہ وہی ملک اور لوگ ہیں جو امریکہ کی طرف بڑی امیدوں سے دیکھتے تھے‘ اور اسے ایک ایسی طاقت سمجھتے تھے‘ جو خود عالمی سامراج کے خلاف لڑ کر معرض وجود میں آئی ہے‘ جو عصرحاضر میں جمہوری دستوری ریاست کے دور کا آغاز کرنے والی ہے‘ جس کی فوجوں نے تو عالمی جنگوں میں حصہ لیا ہے مگر خود جس کی سرزمین کسی عالمی جنگ کے خون سے داغ دار نہیں ہوئی ‘ جو بین الاقوامی سیاسی افق پر جمہوریت‘ حقوق انسانی اور قوموں کے حق خود ارادیت کی علم بردار بن کر جلوہ گر ہوئی۔ ایک ایسی عالمی طاقت سے اتنی مایوسی اور بے زاری اور اتنی تیزی اور شدت سے اس کا ہمہ گیر اظہار نہ کوئی اتفاقی حادثہ ہو سکتا ہے اور نہ محض کسی سازش کا شاخسانہ۔ اس کے ٹھوس اسباب اور عوامل ہونے چاہییں اور ہیں۔ ان کا سمجھنا امریکہ کی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے اور ان اقوام کے لیے بھی‘ جو احتجاج میں تو شریک ہیں لیکن ان کا مقصد حالات کی اصلاح اور عالمی تصادم کے اسباب و عوامل کا تدارک ہے‘ تاکہ دنیا جنگ و جدال اور خون خرابے سے محفوظ رہ سکے۔

انسانوں اور قوموں میں‘ طاقت کا عدم توازن اور وسائل کا غیرمتناسب وجود ایک حقیقت ہے ۔ محض اس کی وجہ سے اضطراب‘ اور تصادم ایک غیر فطری عمل ہوگا۔ لیکن فرق جب ایک قوت کی دوسروں پر بالادستی ‘ استیلا اور ان کے استحصال (exploitation)کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے تو بے زاری اضطراب اور تصادم کے دروازے کھلنے لگتے ہیں جو آخرکار ٹکرائو اور خون خرابے پر منتج ہوتے ہیں۔ یہی وہ عمل ہے جو امریکہ اور دنیا کی دوسری اقوام کے درمیان شروع ہو چکا ہے ۔ یہ عمل ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کے ایک سوپر پاور کی حیثیت سے میدان سے نکل جانے کے بعد اور بھی واضح اور تیزہو گیا ہے۔

امریکہ کے پاس مادی اور قدرتی وسائل کی اتنی بہتات ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے وہ زندگی کی تمام سہولتیں بہ افراط فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن عالمی بالادستی کا خواب‘ دنیا کی دوسری اقوام کے وسائل حیات کو اپنی گرفت میں لینے کے عزائم‘ دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے اور دوسروں پر اپنی اقدار اور نظریے کو بہ زور مسلط کرنے کے منصوبے ہی دراصل تصادم اور ٹکرائو کی جڑ ہیں۔ یہ خواہشات دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کی عالمی حکمت عملی کے اجزا بنتی جا رہی ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں آزاد دنیا کے تحفظ اور اشتراکیت دشمنی کے نام پر ان اہداف کو حاصل کرنے کی سعی کی گئی‘ لیکن سرد جنگ کے بظاہر خاتمے کے بعد سے یہ لَے اور بھی تیز ہوگئی ہے ۔ اب نئی صدی کو امریکہ کی صدی اور ساری دنیا کو امریکہ کے رنگ میں رنگنے کی مہم‘ جس کا  نام عالم گیریت (globalisation)رکھا گیا ہے ان حدود میں داخل ہو گئی ہے جہاں ایک طاقت ور ملک

انا ولا غیری کے زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر طاقت ور ہونا کافی نہیں رہتا‘ بلکہ دوسروں پر اپنی طاقت کا رعب جمانا اس کا مقصد بن جاتا ہے‘ اور قوت کا نشہ کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لانے دیتا ۔ یہی وہ نازک مقام ہے‘ جہاں دوسری اقوام بھی مجبور ہوتی ہیں کہ اپنی آزادی‘ اپنی عزت اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوں اور ’کنجشک فرومایہ‘ بھی شاہین نما  فرعونیت سے ٹکرلینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ آج عالمی سیاست ایک ایسے ہی نازک مرحلے کی طرف رواں دواں ہے۔

امریکہ کا واحد عالمی قوت ہونا‘ ظاہربین نگاہوں میں چاہے ایک حقیقت ہو‘ لیکن اس واحد سوپر پاور کا دوسروں پر غلبہ حاصل کرلینا اور ان کو اپنا تابع مہمل بنا لینے کی کوشش وہ خطرناک کھیل ہے ‘جس نے عالمی بساط کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ غلبہ اور جہانگیری کے یہی وہ عزائم ہیں‘ جن کے حصول کے لیے خارجہ سیاست کے ساتھ فوجی حکمت عملی اور معاشی اثراندازی کا ایک عالم گیر جال اور جاسوسی اور تخریب کاری کا ایک ہمہ پہلو نظام پوری دنیا کے لیے قائم کیا گیا ہے‘ اور اسے روز بروز زیادہ موثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا کے ۴۰ ممالک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی (تقریباً دو لاکھ سپاہی جو اعلیٰ ترین بحری اور فضائی فوجی ٹکنالوجی اور آلات حرب و ضرب سے آراستہ ہیں)‘ فوجی معاہدات‘ معاشی زنجیروں کا جال جو ریاستی اور عالمی مالیاتی و تجارتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے دام میں گرفتار کیے ہوئے ہے‘ غیر سرکاری اداروں(NGO's) کی فوج ظفرموج جو اس عالم گیر استیلا کا ہراول دستہ ہے اور جاسوسی کا نظام جو صرف سی آئی اے ہی نہیں متعدد بلاواسطہ اور بالواسطہ ایجنسیوں کے ذریعے کام کر رہا ہے--- اس نظام کے دست و بازو ہیں۔ مقابلے کے لیے کبھی اشتراکیت اور روس کا ہّوا تھا‘ تو کبھی بین الاقوامی دہشت گردی اور سرکش ریاستوں (rogue states)کا ڈرائونا خواب۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سی آئی اے کو جو مینڈیٹ سردجنگ کے زمانے میں دیا گیا تھا‘ وہی آج بھی کارفرما ہے۔ ۱۹۵۴ء میں وہائٹ ہائوس کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ:

اس کھیل کے کوئی قواعد نہیں۔ قواعد کے مطابق کھیلنے کے دیرپا امریکی تصورات پر امریکہ کی بقا کی خاطر ازسرنو غور ہونا چاہیے۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف جو طریقے استعمال کرتے ہیں ہمیں ان سے زیادہ موثر‘ سوچے سمجھے طریقوں کو ہوشیاری سے استعمال کر کے دشمن کو سبوتاژ کرنا‘ مٹانا اور تباہ کرنا سیکھنا چاہیے۔ (Brave New World Orderاز جیک نیلسن پال میر‘ ص ۴۳)

امریکہ کی موجودہ سیاسی قیادت اور چند دوسری مغربی اقوام کے کارفرما عناصر عوامی جمہوریہ چین‘  شمالی کوریا‘ اور چند مسلمان ملکوں--- ایران‘ لیبیا‘ سوڈان‘ حتیٰ کہ چند افراد مثلاً اسامہ بن لادن کو امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے ’اصل خطرہ‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس نام نہاد خطرے کے مقابلے کے لیے تباہ کن میزائلوں سے لیس فضائی ڈھال‘ محفوظ علاقوں (safe zones)اوربچائو کے لیے حملوں (prevention strikes) تک ہر چیز کے لیے نہ صرف ’’جواز‘‘ کی فضا بنا رہے ہیں‘ بلکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے ہر قیمت پر یہ سب کچھ کر گزرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

صدر کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر اور ایک مشہور یونی ورسٹی پروفیسر بریزنسکی نے اپنی تازہ کتاب The Great Chessboard میں صاف لفظوں میں کہا ہے کہ امریکہ کی خارجہ سیاست کا اصل ہدف ہونا ہی یہ چاہیے کہ اکیسویں صدی میں امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور رہے اور اس کا کوئی مدمقابل اٹھنے نہ پائے--- کم از کم پہلی ربع صدی میں تو میدان صرف امریکہ ہی کے ہاتھ میں رہنا چاہیے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’یورپ اور ایشیا دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں امریکہ کی برتری برقرار رہنی چاہیے۔ یہ ناگزیر اور لازم ہے کہ یورپ اور ایشیا میں کوئی ایسی طاقت نہ اُبھرے جو امریکہ کو چیلنج کر سکے‘‘۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو امریکہ کے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادت میں ایک قسم کی رعونت پیدا کر رہی ہے اور فطری طور پر اس رعونت سے باقی دنیا میں مایوسی اور بے زاری کی لہریں اٹھ رہی ہیں ۔صدر کلنٹن کی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے کسی تکلف اور تردد کے بغیر امریکہ کی اس ذہنیت اور اس کے عزائم کا ان الفاظ میں اعلان کیا تھا :

ہمیں طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے اس وجہ سے کہ ہم امریکہ ہیں۔ ہم نوع انسانی کے لیے ایک ناگزیر قوم ہیں۔ ہم بلند ہیں‘ ہم مستقبل میں دُور تک دیکھتے ہیں۔ (Blowback: The Costs and Consequences of American Empire) از چامیز جانسن‘ ص۲۱۷)

واحد عالمی قوت ہونے کا زعم باطل ہی وہ چیز ہے ‘جس نے امریکی قیادت میں اس رعونت اور فرعونیت کو جنم دیا ہے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال وہ الفاظ ہیں‘ جن میں اپنی حیثیت کا اظہار امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے قبرص کے تنازع کے موقع پر یونان کے سفیر سے کیا۔ یونان امریکہ کا ایک دوست ملک اور نیٹو میں اس کا رفیق کار ہے۔جب یونان کے سفیرگرانینوز گگینٹس (Geraninos Gigantes) نے امریکہ کا حکم نہ ماننے کے لیے اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ اور اپنے دستور کے حوالے سے التجا کے لہجے میں بات کی تو صدر امریکہ جانسن طیش میں آگئے اور انھوں نے گالی دے کر یونانی سفیر سے کہا : ’’بھاڑ میں جائے تمھاری پارلیمنٹ اور جہنم رسید ہو تمھارا دستور--- امریکہ ایک ہاتھی ہے اور قبرص ایک چھوٹا سا بھونگا۔ اگر یہ بھونگے ہاتھی کو تنگ کریں گے تو ہاتھی کی سونڈھ انھیں کچل دے گی۔ مسٹر سفیر! ہم بہت سارے امریکی ڈالر یونان کو دیتے ہیں۔ اگر تمھارے وزیراعظم مجھ سے جمہوریت‘ پارلیمنٹ اور دستور کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھو‘ وہ ان کی پارلیمنٹ اور ان کا دستور زیادہ دیر باقی نہیں رہیں گے‘‘۔ (بہ حوالہ I Should Have Died از فلپ ڈین‘ ۱۹۷۷ء‘ ص ۱۱۳-۱۱۸)

ذرا مختلف پس منظر میں ‘لیکن اسی ذہنیت کا مظاہرہ جنرل کولن پاول نے جو اس وقت امریکہ کے چیف آف اسٹاف تھے اور اب اس کے سیکرٹری خارجہ ہیں‘ بار بار کیا ہے۔جن دنوںامریکہ نے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پانامہ پر‘ جو ایک آزاد ملک ہے ‘فوج کشی کی‘ اس کے صدر کو اغوا کیا اور سزا دی تو اعتراض کرنے والوں کے جواب میں جنرل پاول نے کہا:

ہمیں کنکر کو اپنے دروازے سے یہ کہہ کر باہر پھینکنا ہے کہ یہاںسوپر پاور رہتی ہے۔ (Brave New World Order ص ۸۷)

پاکستان کے دو چار نیوکلیر بموں پر اپنی برہمی کا اظہار بھی امریکہ اسی ذہنیت سے کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین سے جو گفتگو جنرل پاول نے کی تھی وہ نوٹ کرنے کے لائق ہے۔ امریکہ سے حال ہی میں شائع ہونے والی جوائس ڈیوس کی کتاب Between Jihad and Salam  میں ان کا انٹرویو شامل ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے:

جنرل پاول نے مجھ سے پوچھا کہ: ’’پاکستان امریکی اعتراضات اور مالی امداد ختم کر دینے کے باوجود اپنے جوہری پروگرام پر اتنا مصر کیوں ہے؟ آپ جانتی ہیں کہ یہ بم ناقابل استعمال ہیںتو آپ انھیں کیوں رکھنا چاہتی ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل‘ آپ کیوں ایٹم بم رکھتے ہیں؟ ‘‘اس نے کہا : ’’ہم کم کر رہے ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا : ’’کتنے سے کتنے‘ جنرل؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’چھ ہزار سے دو ہزار‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل ‘آپ دو ہزار بم رکھیں گے اور چاہتے ہیں کہ ہمارے جو چند برے بھلے زمین میں دفن ہیں ہم ان سے بھی فارغ ہو جائیں۔ آپ تو ہم سے خودکشی کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ ہم ایک جوہری ریاست کے پڑوس میں ہیں۔ کیا اگر کینیڈا اور میکسیکو کے پاس بم ہوں تو آپ اپنے بم ختم کر دیں گے؟ کیا آپ ایسا کریں گے؟‘‘

اس نے میری طرف دیکھا اور کہا : ’’دیکھیے سفیرصاحبہ‘ میں اخلاقیات کی بات نہیں کر رہا ہوں‘ میں آپ  سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہیں اور آپ پاکستان ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل‘ آپ کا شکریہ کہ آپ نے ایمان داری سے بات کی‘‘۔

اپنے اقتدار کے نشے میں مست ہونا‘ دوسروں کو خاطر میں نہ لانا‘ ہر کسی کو اپنے مقابلے میں حقیر سمجھنا اور خودپسندی‘ تکبر اور زعم میں مبتلا ہو کر دوسروں کی تضحیک کرنے کا عمل‘ انسان کے وقار کو بڑھاتا نہیں‘ کم کرتا ہے۔ غالب نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے

تمھیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

صدر جارج بش نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک امیدافزا بات کی تھی جسے ساری دنیا میں سراہا گیاتھا یعنی:

اگر ہم ایک مغرور قوم ہوں گے تو دنیا کے لوگ ہم سے ناراض ہوں گے ‘لیکن اگر ہم ایک منکسرالمزاج لیکن مضبوط قوم ہوں گے تو وہ ہمیں خوش آمدید کہیں گے۔

لیکن صدارت کے تخت پر براجمان ہوتے ہی ان کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ امریکی براعظم کے ممالک ہوں یا یورپ اور ترقی پذیر ممالک--- پھر وہی حکمرانی کی زبان استعمال کی جا رہی ہے۔ تنہا پرواز کا شوق اور دنیا کو اپنے مفادات اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کے عزائم کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جن کثیر قومی کارپوریشنوں کی تائید سے وہ برسرِاقتدار آئے ‘ انھی کے ایجنڈے کو پورا کرنے کو اولیت دی جا رہی ہے۔  بین الاقوامی معاہدوں کی یک طرفہ تنسیخ یا ان کی پابندیوں سے اپنے آپ کو بلاجواز آزاد کر لینے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ABM  (Anti Ballistic Missile Treaty)جو ایک بین الاقوامی قانون کے تحت ایک عالمی معاہدہ ہے اور جس کے نتیجے میں ۱۹۷۲ء سے اب تک دنیا ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل کے خطرات سے بچی رہی ہے` اس سے یک طرفہ گلوخلاصی کی راہ اختیار کی جا رہی ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے عالمی سطح حرارت کے بارے میں ’’کویوٹا معاہدے‘‘ جسے کلنٹن انتظامیہ نے منظور کر لیا تھا‘ برأت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

اسلحہ کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے نام نہاد ’سرکش ریاستوں‘ کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار آجانے اور ان کے امریکہ کے خلاف استعمال کو ایک خیالی خطرہ باور کرایا جا رہا ہے۔ اس کے سدباب کے لیے روس‘ چین اور یورپی ممالک تک کو ناراض کر کے ۱۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ کے صرفے سے ایک ناقابل اعتبار ’’میزائلوں کی ڈھال‘‘ (missile sheild) بنانے کا پروگرام اختیار کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اصل فیصلہ کرنے والی قوت صرف امریکہ ہے‘ باقی ممالک کا کام فقط اس کی ہاں میں ہاں ملانا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے ماضی میں بھی امریکہ کے خلاف بے اعتمادی اور بے زاری کے جذبات پیدا کیے ہیں اور آج بھی عالمی رائے عامہ میں جو امریکہ مخالف رجحان بڑھ رہا ہے اس کے پیدا کرنے میں اس کا بڑا دخل ہے۔ یہ چیز امریکی ہیئت مقتدرہ کی ذہنیت کا ایک حصہ بن گئی ہے۔ امریکہ اپنے آپ کو ہر قانون‘ دستور‘ معاہدے اور بین الاقوامی کنونشن سے بالا سمجھتا ہے--- قانون صرف دوسروں کے لیے ہے‘ سوپر پاور کے لیے نہیں۔ جارج آرول نے روس کے آمرانہ نظام پر جو طنزیہ ناول ’’جانوروں کا باڑہ‘‘ (Animal Farm)لکھا تھا ‘اس کا یہ تاریخی جملہ جس طرح روسی آمر جوزف اسٹالن اور بریزنیف کے نظام پر صادق آتا تھا ‘ اسی طرح وہ آج امریکہ کے طرزعمل کا بھی غماز ہے:

All animals are equal, but some animals are more equal

سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور زیادہ ہی برابر ہیں!

امریکہ کے ایک سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے اس ذہنیت کا پردہ متعدد مثالیں دے کر چاک کیا ہے۔ ان کی کتاب: The Fire This Time کا اصل موضوع: ’’خلیج کی جنگ‘‘ اور اس علاقے کے بارے میں امریکی جرائم ہیں (مطبوعہ نیویارک ۱۹۹۴ء)‘ لیکن اس کتاب میں امریکہ کی وہ ذہنیت کھل کر سامنے آتی ہے جس نے عالمی سطح پر بے زاری کو فروغ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ‘  امریکہ جب چاہتاہے اپنی مرضی سے بین الاقوامی قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ روک سکے یا احتساب کرسکے:

امریکہ نے گریناڈا پر حملہ کیا‘ دیہاتوں پر بم باری کی اور افریقہ‘ ایشیا اور وسطی امریکہ کے اقوام متحدہ کے ممبروں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی حمایت کی۔ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے احتجاج تو کیے مگر کوئی عملی کارروائی نہ کی۔

۲۰ دسمبر ۱۹۸۹ء کو امریکہ نے پانامہ پر حملہ کیا۔ سیکڑوں غالباً ہزاروں افراد مارے گئے۔ یہ حملہ کویت پر عراق کے حملے سے آٹھ ماہ سے بھی پہلے ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی مذمت کی۔ کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا‘ حالانکہ امریکہ نے ان تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جن کی عراق نے کویت پر حملہ کرتے ہوئے کی تھی‘ بلکہ مغربی نصف کرّے اور پانامہ نہرکے متعدد معاہدات کی بھی خلاف ورزی کی (ص ۱۵۰)۔

امریکہ نے اس برس جب فلسطینی نسبتاً مساوی حیثیت میں معاملہ کر سکتے تھے‘ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کانفرنس نہیں ہونے دی۔ پھراقوام متحدہ سے بے نیاز ہو کر معاہدے کو اچانک بالجبر تھوپنا چاہا۔ یہ بنیادی طور پر غیر منصفانہ مذاکرات امن کے لیے کوئی امید فراہم نہیں کرتے۔

فلسطینی اپنے مذاکرات کار کا انتخاب تک نہیں کر سکتے‘ کیونکہ اسرائیل ان کے کسی منتخب فرد کو ویٹو کر سکتا ہے۔ مذاکرات کے ہر دن اسرائیلی ‘فلسطینیوں کی نئی زمین پر قبضہ کرتے ہیں‘ ان کے مکانات طاقت کے زور پر خالی کراتے ہیں اور ان کے علاقوں میں اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں۔ امریکہ نے جینوا میں حقوق انسانی کمیشن سے اپیل کی کہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کر دے (ص ۱۵۱)۔ ]یہ وہی کمیشن ہے جس سے مئی ۲۰۰۱ء میں وہ خارج ہو گیا ہے[۔

رمزے کلارک نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۲۴ اور دفعہ ۳۳ کو بالاے طاق رکھ کر محض دھونس اور دھاندلی بلکہ کھلی کھلی رشوت کے ذریعے قرارداد ۶۷۸ منظور کرائی‘ اور چارٹر کے واضح احکام (کہ اقوام متحدہ کے تحت مشترک فوج کی کمان اقوام متحدہ کے نمایندے کے پاس ہو گی) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کمان سنبھال لی۔ پھر امریکہ اور برطانیہ نے گٹھ جوڑ کر کے مسلسل من مانیاں کیں اور کر رہے ہیں۔ اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے احتجاج کے باوجود کوئی بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکا (ص ۱۵۵-۱۵۳)۔ اس پورے عرصے میں امریکہ نے چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کو کبھی رپورٹ تک نہیں دی۔ اس پورے عمل میں صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کی نہیں بلکہ خود امریکہ کے دستور کی بھی کھلی خلاف ورزی کی گئی‘ جس کے تحت کانگرس‘ جنگ کا اعلان کر سکتی ہے لیکن ایک قرارداد کے ذریعے صدر امریکہ نے اس سے یہ اختیار لے لیا اور پھر کانگرس کو اعتماد میں لیے بغیر اعلان جنگ کر دیا (ص۱۶۱- ۱۵۶)

عین اس دن جب امریکی فوجیںعراق پر حملہ کر رہی تھیں (۱۶ جنوری ۱۹۹۱) ٹیکساس سے امریکی کانگرس کے رکن ہنری گونزالیز(Henery Gonzalez) نے صدر جارج بش کے خلاف دستور کی اس خلاف ورزی پر تحریک مواخذہ پیش کر دی تھی مگر جنگ کے جنون میں وہ آگے نہ بڑھ سکی۔

امریکہ اس بات کا مدعی بھی ہے کہ امریکہ کی کانگرس کسی بھی بین الاقوامی قانون‘ یا معاہدے کو منسوخ کر سکتی ہے یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ اس کے قانون کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا لیکن وہ جس قانون یا معاہدے میںچاہے جو ترمیم‘ تبدیلی یا تحفظات کا اضافہ کر سکتی ہے۔ رمزے کلارک اس کے بارے میں لکھتا ہے :

امریکہ کے پالیسی ساز یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ کانگریس کسی بھی بین الاقوامی قانون کو نظرانداز کر سکتی ہے‘ منسوخ کر سکتی ہے‘ تبدیل کر سکتی ہے یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ یہ عالمی برادری  سے ایک طرح کا اعلان آزادی ہے اور ایک تنبیہ ہے کہ وہ کسی ایسے بین الاقوامی ضابطے کا پابند نہیں ہوگا جو کانگرس کو پسند نہیں ہے۔ (ص۱۶۶)

اس طرح عالمی عدالت کے بارے میں بھی امریکہ کا رویہ خود پسندی اور اپنی بالادستی کا ہے۔ رمزے کلارک نے بتایا ہے:

جب کہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک‘ چارٹر کے تحت قائم شدہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کی پابندی کرتے ہیں‘ طاقت ور اقوام کے لیے یہ پابندی بیش تر ان کی مرضی کا معاملہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال وہ تھی‘ جب نکاراگوا کی حکومت نے امریکی جارحیت کے نقصانات کے ازالے کا دعویٰ کیا‘ امریکہ نے عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ نے نکاراگوا کو براہِ راست حملوں اور جنگی کارروائیوں کا نشانہ بنایا اور سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں ۔ ایک مصنوعی حزب اختلاف کھڑی کرنے اور جمہوری اصول و ضوابط کی تحقیر کرتے ہوئے انتخابات کو ’سرقہ‘ کرنے پر تقریباً ۴۸ ملین ڈالر خرچ کیے۔ (ص ۱۶۶‘ ۱۶۷)

امریکہ کے صدر کے بارے میں رمزے کلارک جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:

ایسا شاہی صدر جو جمہوری قوانین اور راے عامہ کا پابند نہ ہو‘ بین الاقوامی قوانین کی جیسی چاہے تعبیر کرے‘ اعلان جنگ کرنے کے اس کے من مانے فیصلوں پر کوئی قدغن نہ ہو‘ اور کسی دشمن کو تباہ کرنے کے لیے فوجی طاقت کا من مانا استعمال کرے۔

ان حالات میں عالمی امن اور بین الاقوامی قانون کا حشر کیا ہوگا اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ رمزے کلارک کے بقول:

امریکہ کے خارجہ پالیسی ساز جس بین الاقوامی قانون پر عمل کرتے ہیں‘ وہ اصول و ضوابط کا کوئی مربوط مجموعہ نہیں ہے۔ اس میں وہی ہوتا ہے جو ان کے لیے پسندیدہ ہو۔ ایسے اصول جو مکمل طور پر سیاست زدہ ہوں اور امتیازی اقدامات پر مشتمل ہوں--- امریکی حکومت کا موقف ایسی طاقت کے عزم کا عکاس ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ (ص ۱۶۸)

رمزے کلارک لیبیا اور عراق کے سربراہان مملکت کو قتل کرنے کے امریکی اقدام کو بین الاقوامی قانون (ہیگ ریگولیشن آرٹیکل۲۳) اور خود امریکی قانون (صدارتی حکم نامہ ۱۲۳۳۳) کی کھلی اور مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں کسی بھی ملک کے سربراہ کے قتل کو ‘ خواہ یہ اقدام عالم جنگ میں کیا گیا ہو‘ قانونی جرم قرار دیتے ہیں۔ (ص ۱۷۰)

یہ اسی ذہنیت کا مظہر ہے کہ امریکہ نے عالمی فوج داری عدالت کے معاہدے کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے‘ کیونکہ اس کے تحت کسی بھی ملک کے مجرم پر بین الاقوامی قانون کے تحت مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفت ہو سکتی ہے۔ جب کہ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ عدالت صرف ان مجرموں پر مقدمہ چلانے کی مجاز ہو گی‘ جنھیں امریکہ یا اس کی کانگرس مجرم قرار دے۔ نیز یہ بھی ایک امریکی دعویٰ ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت کوئی بھی مشترک فوج بنے تو اس کی سربراہی ہمیشہ امریکیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ امریکہ کی ایک سرکاری دستاویز pp-25 میں جو کلنٹن دور میں جاری کی گئی ‘ صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ:

صدر امریکی افواج پر پوری کمانڈ رکھتا ہے اور کبھی اس سے دست بردار نہیں ہوگا۔ ہر صورت حال پیش آنے پر صدر‘ سلامتی کونسل کے فیصلے کے تحت اقوام متحدہ کی کارروائی کے لیے اقوام متحدہ کے باضابطہ کنٹرول میں امریکی فوج دینے پر غور کرے گا۔ جتنا امریکہ کا فوجی کردار زیادہ ہوگا ‘اتنا ہی اس کا امکان کم ہوگا کہ امریکہ امریکی افواج پر اقوام متحدہ کی کمان پر رضامند ہو۔ ایسے امن مشن جن میں لڑائی کا امکان بھی ہو‘ ان میں امریکی افواج کی شرکت بالعموم امریکہ کی کمان اور نگرانی میں ہونا چاہیے۔ (ملاحظہ ہو کارینگی انسٹی ٹیوٹ کا رسالہ  "Ethics & International Affairs جلد ۱۴‘ ص ۶۰)

یعنی متحدہ فوج ہو یا اقوام متحدہ کی مرتب کردہ مشترکہ فوج‘ کمان امریکہ کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ جنرل آئزن ہوور اور جنرل میک آرتھر سے لے کر کوسووا اور بوسنیا امن فورس تک ہر جگہ امریکہ کا اصرار رہا ہے کہ کمانڈ اس کے پاس ہو اور دوسروں نے مجبوراً امریکہ کی اس ضد کے آگے سرتسلیم خم کیا ہے۔

اس ذہن‘ ان عزائم اور ان مطالبات کے ساتھ امریکہ دنیا میں جمہوریت کا علم بردار‘ حقوق انسانی کا محافظ‘ قانون کی مساوات اور پاس داری کا داعی اور انصاف کا پرچارک بنتا ہے--- اور اسٹریجی کا ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا کو امریکہ کے وژن اور اقدار کو قبول کر لینا چاہیے۔ لیکن یہی تو وہ اصل وجہ ہے جس کی بنا پر امریکہ اور باقی دنیا میں مغائرت پیدا ہو رہی ہے اور جو دراصل سامراجیت کی روح ہے۔

امریکہ کی مشہور ٹفٹس یونی ورسٹی میں علم سیاسیات کے پروفیسر ٹونی اسمتھ نے Ethics & International Affairs  کے تازہ شمارے (مئی ۱۴‘ ۲۰۰۱ء) میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ نہ امریکہ کی طاقت غیر محدود ہے اور نہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے نظام اور اقدار کو دوسروں پر مسلط کرے۔ کیونکہ یہ لبرل امپریلزم کی ایک شکل ہے جس کا کوئی جواز نہیں:

دوسرے لوگوں میں امریکی اقدار کی ترویج پر دوسرا اعتراض بھی شدید ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو ثقافت ‘ادارے اور ہیئتیں رائج ہوتی ہیں وہ شمالی امریکہ اور مغربی یورپ میں رائج انسانی حقوق اور لبرل ڈیموکریسی کی راہ میں خود مضبوط رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی طرز حیات‘ اقدار اور اداروں کو روبہ عمل لانے کی کوشش میں ناکامی کا اندیشہ ہے ۔اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت محدود ہے بلکہ اس لیے کہ بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی ان عقائد اور طریقوں میں اصلاح نہ کر سکے گا جو بنیادی طور پر امریکی طریقہ کار کے مخالف کیا۔ چین‘ مسلم دنیا یا روس کا  امریکی مطالبوں کے آگے سپر ڈالنے کے لیے آمادہ ہونے کا کیا امکان ہے۔

معروف امریکی مفکر والٹر لپ مین نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ:

جب ایک قوم ساری دنیا کے نظام کو یکساں شکل دینے کی ذمہ داری خود سنبھال لے تو یہ دوسروں کو اپنے خلاف متحد ہونے کی دعوت ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اس کا امکان ہے کہ جوہری اسلحہ صدی کے اختتام سے پہلے وسیع پیمانے پر تقسیم ہو‘ یہ امریکی عوام کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خوش کن راستہ نہیں ہے۔ (بہ حوالہ Intervention & Revolutions از رچرڈ بارنیٹ‘ ۱۹۷۲ء‘ ص ۳۱۲)

رچرڈ بارنیٹ اپنی کتاب اس جملے پر ختم کرتا ہے:

امریکہ اپنی موجودہ عظیم طاقت کو دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے جس میں غریب اقوام ترقی کے من پسند راستے اختیار کر سکیں۔ مگر جب تک امریکی یہ خام خیالی نہ چھوڑ دیں کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانا ان کا حق اور فرض ہے ‘ خود امریکیوں کو بھی امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ (ایضاً ‘ ص ۳۳۲)

ہماری نگاہ میں امریکہ پر بے اعتمادی اور اس کی مخالفت کا پہلا اور سب سے اہم سبب دنیا کے ممالک میں کوئی خرابی یا مرض نہیں‘ امریکہ کا یہ زعم ہے کہ وہ واحد سوپر پاور ہے اور ہمیشہ سوپر پاور ہی رہے گا۔ اس کا حق ہے کہ دنیا اس کے سامنے جھکے وار اس کی بالادستی قبول کرے۔ دنیا اسے ایک بڑی طاقت‘ اس کے زمینی حقائق کے مطابق ضرور تسلیم کرے گی ‘مگر اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے کبھی تیار نہ ہوگی۔ وہ اس سے دوستی کا تعلق بہ خوشی رکھے گی ‘مگر غلامی اور چاکری کا مقام کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اگر امریکہ تھوڑی سی حقیقت پسندی قبول کر لے اور بالادستی اور شہنشاہی کی حکمت عملی کو ترک کر دے تو اس کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔ اگر حقوق انسانی کے کمیشن کے انتخابی نتائج سے سبق سیکھتے ہوئے وہ تکبراور رعونت کے راستے کو ترک کر دے تو دنیا اس کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔

امریکہ سے دنیا کی بیزاری کے اسباب کو سمجھنے کے لیے امریکہ کو خود اپنے رویے اور اپنے وعدوں اور عمل کے فرق پر غور کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ایک بڑی چشم کشا کتاب  Blowback: The Costs and Consequences of American Empire  گذشتہ برس شائع ہوئی ہے (بلوبیک سی آئی اے کی اصطلاح ہے جس کا مفہوم امریکی عوام کی لاعلمی میں کیے جانے والے اقدامات کا ردّعمل ہے۔ اس کا ترجمہ مکافات کیا جا سکتا ہے)۔ اس کا مصنف کالمیر جانسن‘ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا‘ سان ڈیاگو (امریکہ) کا پروفیسر اور جاپان پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ ہے۔ یہ کتاب امریکہ اوربرطانیہ سے بہ یک وقت مئی ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی ہے۔ مصنف امریکہ کو اپنے رویے پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور تقریباً وہی بات کہہ رہا ہے جو باقی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی زبان پر ہے:

مجھے یقین ہے کہ غیر متعلق اسلحے کے سسٹم پر ہمارے وسائل کا غیر معمولی ضیاع‘ عسکری ’’حادثوں‘‘ کا مسلسل جاری رہنا اور امریکی سفارت خانوں اور چوکیوں پر دہشت گرد حملے اکیسویں صدی میں امریکہ کی غیر رسمی سلطنت کے لیے بحران پیدا کرنے والے عناصر ہیں۔ ایسی سلطنت جو دنیا کے ہر حصے پر فوجی طاقت کے دبائو اور اپنی شرائط ‘مگر دوسروں کی قیمت ‘ امریکی سرمائے اور منڈی کو استعمال کر کے عالمی اقتصادی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ہم نے اپنے آپ کو ضمیر کی کسی خلش سے بھی آزاد کر لیا ہے ‘کہ ہم اس دنیا کے دوسرے لوگوں کو کتنے برے نظر آ رہے ہیں۔ بیش تر امریکی غالباً جانتے ہی نہیں کہ واشنگٹن کس طرح اپنی بالادستی استعمال کرتا ہے‘ کیونکہ اس سرگرمی کا کافی حصہ خفیہ طور پر یا دوسرے بہانوں کے پردے میں انجام پاتا ہے۔ بہت سوں کو یہ یقین کرنے میں دقت پیش آئے گی کہ دنیا میں ہماری حیثیت ایک سلطنت کی سی ہو گئی ہے۔ لیکن جب ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ملک خود اپنی بنائی ہوئی سلطنت کا اسیر ہو گیا ہے تو ہمارے لیے دنیا کے بہت سے واقعات کی تشریح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جاپان میں سرکاری رہنمائی اور سرپرستی میں نصف صدی تک ہونے والی ترقی کے بعد سب کچھ غلط کیوں ہو گیا ہے؟ ایک مضبوط چین کے ظہور سے کسی کو کیا نقصان ہے؟ حقوق انسانی‘ جوہری پھیلائو‘ دہشت گردی اور ماحول کے بارے میں غیر ملکیوں کو امریکی پالیسیاں تضاد اور ژولیدگی کا شکارکیوں نظر آتی ہیں؟ (ص ۷‘  ۸)

کالمیرجانسن نے امریکہ کی پچاس سالہ سیاست کا مکمل دستاویزی نظائر اور حوالوں کے ساتھ پوسٹ مارٹم کیا ہے ۔ وسطی اور جنوبی امریکہ کی ریاستوں سے لے کر ویت نام‘ چین‘ جاپان تک ایک ایک دور اور ایک ایک واقعے سے پردہ اٹھایا ہے۔ کس طرح فوج‘ سی آئی اے ‘ کثیر قومی کمپنیاں اور عالمی مالیاتی ادارے دنیا کے ہر کونے میں امریکہ کے ایما پر اور اس کے مفاد میں دوسروں کے معاملات میں دراندازیاں کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ کس طرح بین الاقوامی قانون اور ضابطوں کو پامال کیا گیا ہے‘ پوری پوری قوموں کو تباہ کیا گیا ہے۔ کن کن طریقوں سے ڈکٹیٹروں کی سرپرستی کی گئی ہے‘ کس طرح کرپشن کے آلہ کار کو استعمال کیا گیا ہے  اور مخالفوں کو میدان سے ہٹایا گیا ہے۔ کن ہتھکنڈوں سے جمہوریتوں کا خون کیا گیا ہے اور من پسند فوجی اور سول کاسہ لیسوں کو مسنداقتدار پر براجمان کیا گیا ہے۔ یہ سب سیاہ داستانیں اب ان سرکاری دستاویزات سے ثابت ہوتی ہیں‘ جو رازداری کے قانون کی مدت ختم ہو جانے سے شائع کی جا رہی ہیں اور ان میں بھی ۵.۱۳ فی صد دستاویزات ایسی ہیں جو اب بھی قومی سلامتی کے نام پر روک لی گئی ہیں۔ اس ساری تفصیل کو بیان کرنے کے بعد مصنف کہتا ہے :

ان حالات میں انسانی حقوق یا دہشت گردی کے بارے میں بظاہر بہت اچھے نظر آنے والے بیانات کو بھی امریکہ کے ’گندے ہاتھ‘ ریاکارانہ بنا دیتے ہیں۔ مکافات (blow back) دوسری اقوام پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس کے گھن لگنے کے اثرات امریکہ پر سیاسی مباحث کو بے قدر کرنے اور شہریوں کو بے وقوف بنانے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں‘ اگر وہ شہری اپنے سیاسی لیڈروں کے بیانات کو سنجیدگی سے لیں۔ یہ ناگزیر نتیجہ صرف مکافات کا نہیں بلکہ خود سلطنت کا ہے۔ (ص ۱۹)

پالمیر جانسن پوری امریکی قوم کو متنبہ کرتا ہے کہ:

اپنی تعریف کی رُو سے دہشت گردی بے گناہوں کو ہدف بناتی ہے تاکہ جو حملوں سے محفوظ بیٹھے ہیں ان کی غلط کاریوں کی طرف توجہ دلائی جاسکے۔ حالیہ عشروں میں جو استعماری مہم جوئیاں ہو رہی ہیں‘ اس کی فصل اکیسویں صدی کے بے گناہ غیر متوقع تباہیوں کی صورت میں کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی بڑی حد تک ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیاکچھ کیا گیا تھا اور کیا جا رہا ہے‘ وہ اس کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے جو ان کی قوم نے عالمی منظر پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کی ہیں۔ اس سے پہلے کہ بے مہار فاتحانہ اقدامات اور پروپیگنڈے  سے نقصان قابو سے باہر ہو جائے ہمیں سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد اپنے عالمی کردار پر نئے  مباحثے کو اہمیت دینا چاہیے۔ (ص ۳۳)

امریکہ کو خود احتسابی کی دعوت دیتے ہوئے کالمیر جانسن یاد دلاتا ہے کہ:

امریکی افسران اور میڈیا عراق اور شمالی کوریا جیسی سرکش ریاستوں کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ہمیں خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کہیں امریکہ خود تو ایک سرکش سپرپاور نہیں بن گئی ہے۔ (ص ۲۱۶)

وہ لاس اینجلز ٹائمز کے کالم نگار ٹام پلیٹ کا ایک جملہ دہراتا ہے کہ امریکہ ایک ایسی سوپر پاور بن گئی جس کا حال یہ ہے کہ دماغ کی جگہ کروز میزائل بھرے ہیں۔

وہ امریکہ کے عوام اور قیادت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا ہے:

ہم امریکی گہرا یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں ہمارا کردار نیک ہے اور ہمارے تمام اقدامات بلاامتیاز دوسروں کی اور ہماری بھلائی کے لیے ہیں۔ جب ہمارے اقدامات کے نتیجے میں تباہی رونما ہوتی ہے تو ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ان کے محرکات بہت اچھے تھے ۔لیکن واقعات بتا رہے ہیں کہ سرد جنگ کے بعد کے عشروں میں امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کے نفاذ میں سفارت کاری‘ اقتصادی امداد‘ بین الاقوامی قانون اور کثیر جہتی اداروں پر انحصار ترک کر دیا۔ اور ساری توجہ زیادہ فوجی طاقت اور مالی ہیرپھیر میں لگا دی ہے۔ (ص ۲۱۶‘ ۲۱۷)

ان حالات کے نتیجے میں دنیا کے مظلوم اور مجبور انسان اور قومیں ہی مصائب کا شکار نہیں ‘خود امریکہ بھی ایک فوجی اقتصادی عفریت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ معاشرے میں تشدد کے رجحانات جنم لے رہے ہیں‘ معیشت کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں اور ملک وقوم بالآخر تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:

بین الاقوامی سیاسیات کے پروفیسر ڈیو ڈلیکو نے لکھا ہے: ’’عالمی نظام محض غیر متوازن اور جارح طاقتوں کے عمل کی وجہ سے جو اپنے پڑوسیوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ نہیں ٹوٹتا بلکہ اس لیے بھی ٹوٹتا ہے کہ یہ طاقتیں مطابقت پیدا کرنے کے بجائے استحصالی بالادستی قائم کرتی ہیں۔ (Beyond American Hegemony ‘ ص ۱۴۲ )

میں سمجھتا ہوں کہ بیسویں صدی کے اختتام پر امریکہ پر یہ بیان ٹھیک ٹھیک منطبق ہو رہا ہے۔ اِس استحصالی بالادستی کی علامات نظر آ رہی ہیں: عوام اور حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی اجنبیت‘ اخلاقی جواز کھو دینے کے باوجود اشرافیہ کا اقتدار سے چپکے رہنا‘ عسکریت کا اظہار اور فوج کا سوسائٹی سے بُعدجس کی خدمت اس کا فریضہ ہے‘ خطرناک جبرواستبداد اور ایک اقتصادی بحران جو عالمی ہے۔ تاریخ میں ایسی کم ہی مثالیں ہیں جب بالادست طاقتوں نے اپنے زوال کو عروج سے بدل دیا ہو‘ یا  اقتدار کو پرامن طور پر چھوڑ دیا ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مکافات (blowback) سے بالآخر ایک بحران پیدا ہوگا جو اچانک امریکہ کے بالادست اثرات کو ختم کر دے گا یا بے وزن کر دے گا۔(ص ۲۲۴)

جانسن کا خیال ہے کہ اس انجام سے اب بھی بچا جا سکتا ہے بشرطیکہ امریکہ کی قیادت استحصالی بالادستی کا راستہ ترک کر کے جائز اخلاقی اور سیاسی حدود کی پاس داری کا راستہ اختیار کرے اور ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر عمل کرے۔ موصوف اپنی کتاب اس پیغام پر ختم کرتے ہیں:

امریکہ کو فوجی طاقت اور اقتصادی دبائو کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے نمونہ پیش کرکے رہنمائی دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسی بات نہ غیر حقیقت پسندانہ ہے نہ انقلابی۔ سرد جنگ کے بعد کی دنیا کے لیے‘ امریکہ کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی بہبود کو اپنی استعماریت کے دعووں پر مقدم رکھے۔ بہت سے امریکی قائدین سمجھتے ہیں کہ اگر بیرون ملک امریکی اڈے بند کر دیے جائیں یا ایک چھوٹے ملک کو اپنی معیشت خود چلانے کی اجازت دی جائے تو دنیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ اگر امریکہ اپنی دم گھونٹنے والی گرفت ڈھیلی کردے تو ترقی اور بہتری کے کتنے چشمے دنیا میں پھوٹ پڑیں گے۔ انھیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ استعماری بالادستی قائم رکھنے کی ان کی کوششیں لامحالہ مکافات کی لہریں پیدا کریں گی۔ یہ کہنا ناممکن ہے کہ کھیل کب ختم ہوگا لیکن اس بارے میں کم ہی شبہ ہے کہ یہ کیسے ختم ہوگا۔

اکیسویں صدی میں عالمی سیاست بیسویں صدی کے آخری نصف کے بعد کے اثرات کے تحت ہو گی یعنی سرد جنگ کے غیر ارادی نتائج اور یہ اہم امریکی فیصلہ کہ وہ سرد جنگ کے بعد کے دور میں بھی اپنا سرد جنگ کا رویہ برقرار رکھے گا۔ امریکہ اپنے آپ کو سرد جنگ کا فاتح قرار دینا پسند کرتا ہے۔ آج سے ایک صدی بعد جب لوگ پچھلی صدی پر نظر ڈالیں گے تو زیادہ امکان ہے کہ کوئی بھی فریق فاتح نظر نہ آئے گا‘ خصوصاً اگر امریکہ اپنے موجودہ استعماری طریقوںکو اختیار کیے رکھتا ہے۔ (ص ۲۲۹)

امریکہ کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عالمی بالادستی اور سامراجی استیلا ‘ عالمی برادری اور رفاقت دونوں ساتھ ساتھ نہیںچل سکتے۔ اگر آپ قوت کے نشے میںبدمست رہیں گے‘ غلبہ اور استیلا کا کھیل کھیلیں گے‘ رعونت اور غرور کا رویہ اختیار کریں گے‘ اگر آپ دوسروں کی آزادی‘ عزت نفس اور مفادات کا خیال نہیں رکھیں گے‘ اور دوسری اقوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور عسکری اور معاشی شکنجوں میں گرفتار رکھنے کی کوشش کریں گے تو آخرکار اس کا شدید ردّعمل ہوگا۔ نہ صرف یہ کہ امن‘ دوستی‘ محبت‘تعاون سے دنیا محروم رہے گی بلکہ بے اعتمادی‘ بے زاری اور بالآخر نفرت اور تصادم کی فصل رونما ہوگی---اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ تصادم ہمیشہ طاقت ور کی فتح ہی پر منتج نہیں ہوتا۔ ہاتھی اپنی قوت کے گھمنڈ پر چیونٹی کو کچلنے کے درپے رہتا ہے لیکن جب چیونٹی ہاتھی کی سونڈھ کے اندر رسائی پا لیتی ہے تو یہ ننھا سا بھونگا (صدر جانسن کے الفاظ میں: flea) ہاتھی کو بے بس کردیتاہے ۔ اس طرح بھی انسانوں اور قوموں کی قسمتیں بدل جاتی ہیں:  تلک الایام نداولھا بین الناس!

 

خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔زمین و آسمان کے مالک کو انسان کا جو رویہّ سب سے زیادہ ناپسند ہے‘  وہ غرور‘ تکبّراور نخوت ہے۔ یہی وہ مرض ہے جس نے ابلیس کو شیطان بنایا۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں ہر شیطانی کھیل میں ان صفاتِ بد کا کلیدی کردار رہا ہے۔ معاملہ افراد کا ہویا قوموں کا‘ اگر عجز و انکسار اور حقیقت پسندی ترقی کا زینہ ہیں تو غرور و تکبّر بالآخر تصادم اور تباہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اللہ کی سنت ہے کہ جلد یا بدیر غرور کا سر ضرور نیچا ہوتا ہے--- یہ اور بات ہے کہ جن میں خیراور صلاح موجود ہو وہ چوٹ پڑنے پر اصلاح اور سدھار کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں‘ اور جن کی سرشت میں بدی غالب ہو اور جن کے مقدر میں ہزیمت اور بالآخر تباہی لکھی ہو وہ ہر انتباہ پرمزیدسرکش ہو جاتے ہیں۔ان کا معاملہ قوم نوح علیہ السلام سے مختلف نہیں ہوتا کہ اللہ کی طرف سے ان کو تنبیہ پر تنبیہ کی جاتی ہے مگر ہر تنبیہ

ان کی سرکشی میں اضافے کا ذریعہ بن جاتی ہے (وَنُخَوِّفُھُمْ لا فَمَا یَزِیْدُھُمْ اِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیْرًا o

بنی اسرائیل ۱۷:۶۰)

امریکہ کے لیے دو انتباہ

مئی ۲۰۰۱ء کے پہلے ہفتے میں اقوام متحدہ کے ایوانوں میں مغرب اور مشرق کے سبھی ممالک کی طرف سے امریکہ کو ایسی ہی دو تنبیہات کا مخاطب بنایا گیا۔ یہ عالمی راے عامہ کے حقیقی رجحان کی مظہر ہیں اور امریکہ کے لیے ہوش میں آجانے کی دعوت کی حیثیت رکھتی ہیں‘ بشرطیکہ وہ ہوا کے رُخ کو سمجھنے کی کوشش کرے اور تاریخ سے کوئی سبق لینے کو تیار ہو۔

امریکہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں تو دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی سے مبتلا ہے اور اس رجحان میں برابر اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن افغانستان سے روس کی پسپائی‘ اشتراکیت کے زوال اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد سے اس کا غرور اور غرّہ آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ ان ۱۲‘ ۱۳ برسوں میں نئے عالمی نظام کی لَے کچھ زیادہ ہی بلند ہوئی ہے اور امریکی صدی کے آغاز کے دعوے عالمی فضا کو معمور کرنے لگے ہیں۔ امریکہ کی قیادت کو یہ زعم ہو گیا کہ اب وہ ناقابل تسخیر ہے‘اسے عقلِ کل کا مقام حاصل ہے اور وہ ’شہنشاہ عالم‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

نئے امریکی صدر جارج بش جونیر اور ان کی ٹیم نے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد تنہا پرواز کے اشارے دینا شروع کر دیے اور گلوبلائزیشن پر امریکیت کی چھاپ لگانے میں مصروف ہوگئے۔ امریکی بالادستی کی

ننگی جارحیت پر اقوام متحدہ‘ عالمی اداروں اور دوست ممالک سے مشاورت کا جو پردہ موجود تھا ‘ وہ اس سے بھی نجات پانے میں لگ گئے۔معاملہ میزائل کے مقابلے کے لیے قومی دفاعی ڈھال کا ہو یا ماحول کے تحفظ (global warming)کا‘ کروڑوں کی تعداد میں بارودی سرنگوںسے درپیش خطرات کا ہو یا ایڈز اور دوسرے مہلک وبائی امراض کے خلاف انسانیت کی مشترک جنگ کا‘ نیوکلیرپالیسی کے مسائل کا ہو یا توانائی پالیسی اور اس کے اثرات کا‘ سابقہ عالمی معاہدات کی پاسداری کا مسئلہ ہو یا نئے معاہدات کے لیے عالمی برادری میں مفاہمت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کا‘ معاملہ تجارتی پابندیوں کا ہو یا دوسرے ممالک کی حدود میں دخل اندازی اور جاسوسی کا‘ پرانے دوستوں سے وفاداری کی بات ہو یا نئے دوستوں کی تلاش کی--- سب ہی معاملات میں

بش انتظامیہ نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی چار مہینوں میں اپنی خود پسندی اور یک طرفہ کارروائی کا ایسا آہنگ اختیار کیا کہ مشرق و مغرب ہر سمت اقوام و ممالک میں اضطراب کی لہریں اٹھنے لگیں۔ احساس کی اسی نئی جہت کا اظہار نیویارک میں اقوام متحدہ کے دو اہم کمیشنوں کے انتخاب کے موقع پر ہوا۔ مئی ۲۰۰۱ء کا پہلا ہفتہ تاریخ کی نئی کروٹ کا عنوان بن گیا۔

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا کمیشن (U.N. Human Rights Commission)ایک متحرک اور باوقارادارہ ہے‘ جو ۱۹۴۷ء میں امریکہ کی تحریک پر سابق صدر روز ویلٹ کی اہلیہ کی قیادت میں قائم ہوا تھا۔ یہ ادارہ نہ صرف حقوق انسانی کا اہم ترین پلیٹ فارم ہے بلکہ اقوام متحدہ کے ان چند اداروں میں سے ہے جن کا کام صرف قراردادیں پاس کرنا نہیں‘بلکہ عملاً شکایات کی تحقیق کرنا اور پالیسی اقدام تجویز کرنا بھی ہے۔ یہ ۵۳ ممالک کے نمایندوں پر مشتمل ہے۔ امریکہ گذشتہ ۵۴ سال سے اس میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس پر امریکہ ہی چھایا رہا ہے۔ انگریزی محاورے میں اسے America used to call shots کہا جا سکتا ہے۔ ایسے ادارے میں بالکل غیر متوقع طور پر نئے انتخاب کے دوران (جس میں ۱۴ ارکان کا نیا انتخاب ہوا جن میں تین عمومی نشستیں بھی تھیں جو مغربی ممالک کے لیے مخصوص ہیں ۔یہ انتخاب خفیہ راے دہی کی بنیاد پر ہوئے) امریکہ کو نصف صدی میں پہلی مرتبہ شکست ہوئی۔ انتخابی ادارہ اقوام متحدہ کی سوشل اینڈ اکنامک کونسل تھی ۔ اس مقابلے میں فرانس سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوا (۵۴ میں سے ۵۲ووٹ)‘ آسٹریا دوسرے نمبر پر (۴۱ ووٹ)‘ اور سویڈن تیسرے نمبر پر (۳۲ ووٹ)۔ ان کامیاب ممالک کے مقابلے میں امریکہ کو صرف ۲۹ ووٹ ملے اور وہ یہ انتخاب ہار گیا۔ اقوام متحدہ کے ان اداروں میں نصف صدی کے دوران یہ امریکہ کی پہلی شکست ہے ‘جس نے امریکہ سمیت سب کو متحیر کر دیا۔

۴ مئی ۲۰۰۱ء کی اس چوٹ سے ابھی امریکہ سنبھلے بھی نہیں پایا تھا کہ تین ہی دن کے بعد ایک اور شکست کا زخم لگ گیا۔ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے اہم ادارے International Narcotics Control Board (عالمی ادارہ تحدید منشیات) میں بھی امریکہ اپنی نشست سے محروم ہو گیا۔ اقوام عالم کی طرف سے ایسے دو عالمی اداروں سے جو بظاہر امریکہ کی خارجہ پالیسی کے سب سے اہم ستونوں یعنی ’حقوق انسانی‘ اور ’منشیات کی روک تھام‘ کے لیے سب سے کلیدی ادارے تھے اس کا بیک بینی و دوگوش اس طرح رخصت ہو جانا امریکہ کی عالمی ساکھ کے لیے بڑی شرم ناک شکست‘ اہل بصیرت کے نزدیک قدرت کا سنگین انتقام اور خود امریکی قیادت کے لیے بڑا چشم کشا انتباہ ہے    ؎

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

امریکہ کا ردّعمل

ان واقعات پر امریکہ کی قیادت‘ پریس اور کارفرما عناصر کا ردعمل وہ آئینہ ہے جس میں بحیثیت

سوپر پاور امریکہ کی مختلف تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔

فطری طور پر سب سے پہلا ردّعمل صدمہ‘ تعجب‘ حیرانی اور تحیر کا تھا۔ امریکی قیادت ششدر تھی کہ یہ ناقابل یقین واقعہ کیسے رونما ہو گیا۔ صدمے کے بعد شکوہ و شکایت اور غصہ بلکہ غیظ و غضب کا اظہار شروع ہوا۔سب سے زیادہ غم و غصہ اس بات پر تھا کہ خود مغربی ممالک نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا اور جن پہ تکیہ تھا انھی کے ووٹوں سے یومِ شکست دیکھنے کی نوبت آئی! سویڈن اور آسٹریا پر بہت دبائو ڈالا گیا مگر وہ میدان سے

نہ ہٹے۔ ۴۳ ممالک نے ووٹ کا وعدہ کیا تھا اس لیے فتح کا یقین تھا مگر خفیہ رائے میں صرف ۲۹ ووٹ ملے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اپنے علاقائی حلقوں سے جو ممالک اس انتخاب میں کامیاب ہو کر کمیشن کے رکن بنے ہیں ان میں سوڈان‘ بحرین‘ جنوبی کوریا‘ چلی‘ میکسیکو‘ پاکستان اور یوگنڈا شامل ہیں۔ امریکہ کے ساتھ دوسرے ہارنے والوں میں سعودی عرب اور ایران بھی شامل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جس کی شکست پر کہرام مچا ہے وہ صرف امریکہ ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات‘ رسائل اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک طوفان سا برپا ہے کہ ایک انہونی بات کیسے حقیقت کا رُوپ اختیار کر گئی اور ایک ہی ہفتے میں امریکہ جیسی سوپر پاور‘ جسے فرانس کے نمایندے نے فیاضی سے کام لیتے ہوئے hyper powerکا لقب دیا ہے‘ کس طرح دو سیاسی شکستوں کا نشانہ بن گئی۔ اس شکست کے آئینے میں امریکہ کے پورے سیاسی کردار اور عالمی رول پربحث و گفتگوہو رہی ہے اورتجزیہ نگار اس میں آنے والے دَور کی تصویر تلاش کر رہے ہیں۔ ایک آزاد معاشرے کی یہ خوبی ہے کہ اس میں ایسے اہم معاملات پر کھل کر بحث و گفتگو ہوتی ہے اور محض ایک سرکاری نقطۂ نظر ذہنی افق پر مسلّط نہیں ہو جاتا!

امریکی اور عالمی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ہونے والے مباحث کا تجزیہ کیا جائے تو اس شکست پر چار واضح ردّعمل سامنے آتے ہیں:

غم و غصہ : پہلا اور فوری ردّعمل استخفاف اور استہزا کا ہے۔ امریکہ کے کچھ بااثر حلقے‘ اور حکومت کے چندذمہ دار افراد اور ان کے ہم نوا عناصر بظاہر بڑی بے اعتنائی اور یک گونہ رعونت کے ساتھ کہہ رہے ہیں:

پھر کیا (so what?)۔ اقوام متحدہ کے ایک یا دو کمیشنوں کی اوقات ہی کیا ہے؟ خود  اقوام متحدہ ہی کون سی اہم ہے؟ محض نشستند و گفتند کی ایک محفل‘ ایک چوپال۔ اگر اس میں امریکہ جیسا اہم ملک نہ بھی آیا تو کون سا آسمان گر جائے گا۔ ان کے خیال میں اس سے اقوام متحدہ ہی بے وقار ہوگی۔ امریکہ کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی۔

اقوام متحدہ کی سوشل اینڈ اکنامک کونسل (انتخاب کرنے والے ادارے) میں امریکی نمایندے جیمزکننگم نے کہا : بلاشبہ ہم بہت مایوس ہوئے ہیں۔ صدر امریکہ اور کانگریس کے ارکان کی جانب سے مایوسی کے ساتھ غم و غصّے کااظہار بھی کیا گیا۔ کانگریس کے ترجمان نے کہا: کانگریس کی نگاہ میں یہ اقوام متحدہ کے وقار اور اعتماد کو مجروح کرنے والی بات ہے۔

صدر کی قومی سلامتی کی مشیر کون ڈولیزا رائس کی نگاہ میں یہ سخت توہین آمیزہی نہیں ‘بلکہ خود اقوام متحدہ کے مقام کو مجروح کرنے والا اقدام ہے۔ ڈیفنس سیکرٹری ڈونالڈ رمس فیلڈ نے اسے ایک ’’نہایت غیر دانش مندانہ اقدام‘‘ (notably unwise)قرار دیا۔سرکاری ترجمانوں ہی نے نہیں بڑی تعداد میں اخبارات اور سیاسی تبصرہ نگاروں نے بھی اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کو تو کمیشن سے ۵۴ سال کے بعد نکال دیا گیا اور چین‘ کیوبا‘ لیبیا اور سوڈان ’’جیسے‘‘وہاں موجود ہیں!

امریکہ کے ایوان نمایندگان کے اکثریتی قائد ڈک آرمی نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے ۔ کانگریس بحیثیت مجموعی اس تاثر کا اظہار کر رہی ہے کہ خود اقوام متحدہ کو اب کون ایک سنجیدہ ادارہ سمجھے گا؟ ارکان کانگریس نے اسے ایک ہتک (insult)قرار دیا ہے۔ (ٹائم ‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء)

فلوریڈا کے ایوان نمایندگان کی رکن الیانا راس کا کہنا ہے: یہ ایک ایسی مضحکہ خیز بات ہے جواقوام متحدہ کے نظام کی سالمیت اور جواز کی بنیاد ختم کر دیتی ہے۔

انتقامی ردّعمل: مایوسی اور غم و غصے کے ساتھ دوسرا ردّعمل انتقامی نوعیت کا ہے۔ اقوام متحدہ اور اتحادی ممالک سے صرف شکایت ہی کا اظہار نہیں کیا جا رہا بلکہ کہا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے اور اس کا طریقہ اقوام متحدہ کے مالی واجبات کی ادایگی کو روک دینا ہے۔ پہلے ہی امریکہ اقوام متحدہ کے ایک ارب ۷۰ کروڑ ڈالر کا نادہندہ ہے۔ کئی برس سے جھگڑا چل رہا تھابالآخر صدرکلنٹن کے دَور میں بڑے ردّ و کد کے بعد طے ہو گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے کل بجٹ کے ۲۵ فی صد کے بجائے (جو امریکہ کی اصل ذمہ داری اور وعدہ تھا) اسے ۲۲فی صد کر دیا جائے اور اس طرح امریکہ واجبات کی مد میں ۲ ارب نہیں صرف ایک ارب ۷۰ کروڑ ڈالر ادا کرے گا جس میں سے ۵۸ کروڑ ۲۰ لاکھ ڈالر اس سال ادا کرنا تھے ۔لیکن اس شکست کے بعد امریکی کانگریس نے فوری طور پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ۲۵ کروڑ ۴۰لاکھ ڈالرکی وہ ادایگی روک دی ہے جو اسی مہینے اقوام متحدہ کو دینا طے تھی۔کانگریس نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک انسانی حقوق کے کمیشن پر امریکہ کی نشست بحال نہیں ہوتی (جس کا امکان اگلے سال نئے انتخاب ہی میں ہو سکتا ہے) اس وقت تک اقوام متحدہ کو کوئی ادایگی نہ کی جائے۔ امریکی انتظامیہ نے کانگریس کی بڑی خوشامد کی تھی کہ اس شکست کے باوجود یہ انتقامی کارروائی نہ کی جائے ‘لیکن کانگریس نے ایک نہ سنی اور اپنے اس غضب ناک ردّعمل کا اظہار ضروری سمجھا۔

الزامی ردّعمل : تیسرا ردّعمل الزامی ہے۔ اس میں امریکہ اور اسرائیل پیش پیش ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ امریکہ حقوق انسانی کے معاملات کو اٹھا رہا تھا اور دوسرے اس پر چیں بجبیں تھے۔ ان کی جانب سے چین اور فرانس کو خصوصیت سے ہدف بنایا جا رہا ہے۔ سرکاری ترجمان اور امریکی اخبارات یہی لَے آگے بڑھا رہے ہیں اور اس طرح شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کا اعلان ہے کہ یہ سب حقوق انسانی کے بارے میں امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اخبار فنانشل ٹائمز ‘ لندنلکھتا ہے:

اس نتیجے کو واشنگٹن اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق‘ خصوصاً چین اور کیوبا کے بارے میں امریکہ کے سخت موقف کے جواب میں جھڑکی کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ (۵ مئی ‘ ۲۰۰۱ء)

خاتون رکن کابینہ کونڈولیزا رائس کا موقف ہے:

یہ دھچکا اس لیے لگا کہ امریکی قیادت حقوق کے مسئلے پر بعض ممالک کے لیے کچھ زیادہ ہی سخت تھی۔ میری دانست میں یہ ان قوتوں کی طرف سے شدید ردّعمل تھا جو نہیں چاہتی ہیں کہ ان پر تنقید کی جائے۔ شاید امریکہ انسانی حقوق کے کمیشن میں کچھ زیادہ ہی سرگرم تھا۔

واشنگٹن پوسٹ‘ نیویارک ٹائمز‘ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے مقالہ نگار دوسرے ممالک پر برس رہے ہیں کہ وہ حقوق انسانی کے باب میں سمجھوتے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں‘ جب کہ امریکہ ڈٹا رہتا ہے اور اسی لیے اسے کمیشن سے نکال دیا گیا ہے۔ فرانس پر تجارتی مفادات کی پھبتی کسَی جا رہی ہے۔ چین‘ کیوبا اور دوسرے ممالک کو حقوق انسانی کے باب میں ’’مجرم‘‘ ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی لابی تلملا تلملا کر کہہ رہی ہے کہ چونکہ امریکہ نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور اسرائیل کے خلاف تادیبی کارروائیاں روکنے کے لیے سدِّسکندری بن گیا ہے ‘اس لیے اسے سزا دی گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت جیسا کہ خود جریدہ  اکانومسٹ کے ادارتی کالموں میں اعتراف کیا گیا ہے ‘یہ ہے کہ سویڈن اور آسٹریا جو اس انتخاب میں امریکہ کے مقابلے میں کامیاب رہے ہیں حقوق انسانی کے بارے میں نہایت مضبوط موقف اختیار کرنے والوں میں سے ہیں۔ اگر مسئلہ حقوق انسانی کے بارے میں مضبوط موقف کا ہے تو سویڈن کا ریکارڈ امریکہ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے ۔لیکن وہ منتخب ہو گیا اور امریکہ رہ گیا!

الزامی ردّعمل کا ہدف صرف تیسری دنیا کے ممالک ہی کو نہیں بنایا جا رہا‘ بلکہ خود یورپ کے دوست ممالک پر بھی تیرونشترکی بارش ہے۔ اور ایک اسرائیل نواز کالم نگارولیم سافائز نے تو انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں یہاں تک کہہ دیا ہے:

کمیونسٹ چین اور کمیونسٹ کیوبا کی قیادت میں‘ فرانسیسی سفارت کاروں کی حمایت سے‘ جن کے پیچھے افریقی اور عرب آمر تھے‘ اقوام متحدہ نے امریکہ کو انسانی حقوق کمیشن سے نکال باہر کیا۔ (۸ مئی‘ ۲۰۰۱ء)

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی شکست میں فیصلہ کن کردار خود یورپی ممالک کا تھا ۔ خود اسی کالم نگار نے اپنے مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ ’’۱۴ ممالک جنھوں نے امریکہ کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا وقت پر دغا دے گئے‘‘۔ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’خفیہ رائے دہی کے سارے آداب کو خیرباد کہہ کر ان ممالک کا پتا چلایا جائے اور انھیں سامنے لایا جائے خواہ اس کے لیے سی آئی اے کی مدد لینی پڑے یا صحافتی آداب کو بالاے طاق رکھ کر تفتیشی(investigative)  صحافت سے کام لیا جائے! گویا ایک ہی سانس میں حقوق انسانی کے بارے میں اصول پرستی کے سارے دعوے اور مسلمہ جمہوری آداب کو پارہ پارہ کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے!

خود احتسابی: ردّعمل کی ان تین جہتوں کے ساتھ ایک جہت وہ بھی ہے جس میں اس شکست کو ایک تازیانہ عبرت قرار دیا جا رہا ہے اور امریکہ کو خود احتسابی کی اور ساری دنیا کو امریکہ کی پالیسیوں کے بے لاگ جائزے اور تجزیے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس شکست کو امریکہ کے بارے میں عالمی راے عامہ کی بے اطمینانی کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی سینٹیر جان کیری نے اپنے ۶ مئی کے خطاب میں کہا ہے کہ دنیا میںامریکہ سے بے زاری (anti-Americanism)کی یہ ایک لہر ہے جو امریکی حکومت میں احساسِ دیانت   میں کمی (lack of a sense of honesty) کی غماز ہے۔ ییل یونی ورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ہیرالڈہونگ جوکوہ نے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں اپنے مضمون America Gets a Wake-up Call on Human Rights میں بڑے معتدل اور مدلل انداز میں امریکہ کو اپنے احتساب اور جائزے کی دعوت دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

گذشتہ ہفتے دنیا بھونچکا کر رہ گئی جب پہلی دفعہ یہ ہوا کہ امریکہ کو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے لیے ووٹ حاصل نہ ہو سکے۔ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ دنیا امریکہ کو سبق سکھانا چاہ رہی ہے۔ لیکن کیا امریکی صحیح سبق سیکھ لیں گے؟ آیئے سب سے پہلے ہم امریکہ کے دو متوقع ردّعمل کا جائزہ لیں:

پہلا یہ کہ یہ ذلت آمیز سفارتی شکست کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ کمیشن ایک بے معنی گفت و شنید کی جگہ ہے۔ دوسرا زیادہ سنگین ردّعمل یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اپنے ذمے واجبات کی ادایگی روک کر یا اقوام متحدہ کے خلاف دوسرے تعزیری اقدامات کر کے اسے سبق سکھائے--- گذشتہ ہفتے کا ووٹ ایک بیدارکرنے والی آواز ہے کہ حقوق انسانی کے مسئلے پر امریکی قیادت کو جو عالمی احترام حاصل تھا اس کا دَور ختم ہو گیا ہے۔ (۹ مئی‘ ۲۰۰۱ء)

اس کے بعد انھوں نے بہت سے عالمی مسائل کا ذکر کیا ہے‘ جن کے بارے میں ان کے خیال میں امریکہ نے عالمی برادری کے جذبات کا لحاظ نہیں کیا۔ جن میں خصوصیت سے ایڈز کے مریضوں کی مدد‘

غریب ممالک کو خوراک کی فراہمی‘ بین الاقوامی معاہدات کی توثیق‘ بین الاقوامی فوج داری عدالت

 کے بارے میں امریکہ کے تحفظات وغیرہ شامل ہیں۔ پروفیسر ہیرالڈ نے مشورہ دیا ہے کہ امریکہ ‘ بے اعتنائی (indifference) یا غصہ و انتقام (anger)کا راستہ اختیار نہ کرے بلکہ دوسرے ممالک سے تعاون اور

اعتماد باہمی کا راستہ اختیار کرے۔ موصوف نے اپنے مضمون کا خاتمہ ان الفاظ پر کیا ہے:

گذشتہ ہفتے کی شکست کے باوجود دنیا انسانی حقوق کے میدان میں امریکی قیادت کی خواہاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکی بھی یہ قیادت فراہم کرنے کا حوصلہ اور وژن رکھتے ہیں؟

فنانشل ٹائمز کا نمایندہ بھی واشنگٹن کے سیاسی اور سفارتی حلقوں کی بحث کا خلاصہ اور پیغام کچھ یوں بیان کرتا ہے:

یہ واقعہ بش انتظامیہ کو بیدار کرنے والی آواز ہے تاکہ وہ آج کی دنیا کے ساتھ زیادہ متعلق ہو جائے (مئی ۵‘ ۶‘ ۲۰۰۱ء)۔

نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون نگار لیونارڈ گارمنٹ نے جسے قانون اور سفارت کاری دونوں میدانوں کا تجربہ ہے‘ لکھاہے:

ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ووٹ کس بڑے عمل کا عکاس ہے۔ کیا یہ صرف محض ایک انتخابی شکست ہے؟ کیا امریکہ کے حلیفوں نے حقوق انسانی پر غیر یقینی موقف کا اظہار کرتے ہوئے روسیوں کے بجائے چینیوں کو خوش کرنا پسند کیا؟ کیا یہ ووٹ عالم گیریت کے خلاف احتجاج تھا یا ایک اجتماعی نارضامندی کا اظہار؟ کیا ہم ایک ایسے ردّعمل کا آغاز دیکھ رہے ہیں‘ جس کے نتیجے میں‘ چاہے یہ مقصود نہ ہو‘ امریکہ میں لاتعلقی کی سیاست کو فروغ ملے؟ ( انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘۱۶ مئی‘ ۲۰۰۱ء)

اقوام متحدہ میں امریکہ کی سابق سفیر جین کرک پیٹرک مستقبل کے بارے میں چند اہم سوال اٹھاتی ہیں:

انسانی حقوق کمیشن پر ووٹ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوری ممالک میں امریکہ کے

قابل اعتماد دوست اور حلیف ہیں بھی؟ یہ طے ہے کہ گذشتہ عشرے میں امریکہ اور اس کے معاہدہ شمالی اوقیانوس (NATO)کے حلیفوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ یورپی پریس میں ناراضی کا اظہار ان تحریروں کے مستقل سلسلے سے ہوتا ہے جو امریکہ اور امریکی طریقوں پر سخت تنقید کرتے ہیں (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۹ مئی ۲۰۰۱ء)

نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں اعتراف کیاہے:

بغاوت کا آغاز ہوتے ہی پتا چلانے اور اسے فرو کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی پریشان کن شکست کا ایک پہلو ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات اقوام متحدہ کے لیے امریکہ کے سرپرستانہ رویے کے خلاف بڑھتا ہوا غصہ ہے‘ جوماحولیات سے لے کر بارودی سرنگوں تک جیسے مسائل پر عالمی معاہدوں کے بارے میں واشنگٹن کی بے حسّی کی دلیل ہیں۔ ( انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۷مئی‘ ۲۰۰۱ء)

ایک اور کالم نگار ڈیوڈ اگناشیس نے اپنے اضطراب کا اس طرح اظہار کیاہے:

۹۰ کے عشرے میں امریکہ عالمی معیشت کو اپنی مٹھی میں سمجھنے کا عادی ہو گیا۔ امریکہ کے پا س پیسہ بھی ہے اور نظریات بھی‘ اور دوسری اقوام کوبس امریکہ کی ہدایات کے مطابق کھیلنا ہے۔ لیکن

امریکی بالادستی کے یہ آسان دن اب ختم ہو رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بھی یہ جوابی کارروائی کا وقت ہے۔ اس کی ایک واضح اور قابل ذکر مثال امریکہ کو حقوق انسانی کمیشن سے باہر نکالنے کا عمل تھا۔ بعض مبصرین نے کہا کہ یہ ووٹ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ دنیا کے ممالک میزائل دفاع کے حق میں اور موسموں کی تبدیلی کے کویوٹو معاہدے کے خلاف امریکہ کے یک طرفہ موقف سے تنگ آگئے ہیں۔ یہ دو واضح حالیہ مثالیں ہیں۔ ... امریکہ کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ عالم گیریت دو طرفہ راستہ ہے اور جیسا کہ پرانا مقولہ ہے کہ آپ اوپر جاتے ہوئے لوگوں سے اچھا سلوک کیجیے۔ اس لیے کہ واپسی میں بھی ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۷مئی ۲۰۰۱ء)

فرانس کے سفیر نے اپنی کامیابی کا سہرا اس بات کو قرار دیا کہ ہماری پالیسی کی بنیاد مکالمہ اور

باہمی احترام ہے۔برطانیہ کے سفیر سر جرمی گرین اسٹاک نے اپنے مخصوص انداز میں کہا: حالیہ ووٹ باقی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر ایک تبصرہ تھا۔ (ٹائم‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء) ۔ چین نے زیادہ ہی کھل کر کہا : اس ووٹ کے ذریعے امریکہ کی اس کوشش کو کہ نام نہاد انسانی حقوق کے مسائل کو اپنی طاقت کی سیاست اور دنیا پر غلبے کے لیے دبائو کے آلے کے طور پر استعمال کرے‘ سختی سے مسترد کر دیا گیا ہے۔

امریکہ کے عالمی کردار کی اہمیت

امریکہ اوردوسرے ممالک کے دانش وروں اور سفارت کاروں کے اس نوعیت کے ردّعمل کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی ان شکستوں کو سرسری طور پر نہیں لینا چاہیے۔ خود پسندی اور محض دفاعی انداز میں بات کو ٹالا جا سکتا ہے مگر زمینی حقائق کو اس طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کا

عالمی کردار صرف امریکہ ہی کے لیے اہم نہیں ہے۔ یہ آج کی دنیا کے لوگوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ استخفاف‘ استہزا‘ انتقام اور الزام کا ردّعمل قابل فہم ہے لیکن یہ خود امریکہ کے لیے ایک سانحہ ہوگا کہ وہ اپنا دفاع کرنے کا اسیر ہو جائے اور گہرائی میں جا کر عالمی برادری کے جذبات و احساسات کا تجزیہ کرنے سے گریز کرے۔ یہ خود فریبی کا راستہ ہوگا جس کا خمیازہ دوسروں کے ساتھ اسے بھی بھگتنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے اہم اداروں کے یہ ووٹ صرف ہوا کے رخ ہی کا پتا نہیں دیتے ‘بلکہ عالمی سطح پر پائی جانے والی خرابیوں اور چیلنجوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ توجیہ اور لیپاپوتی سے حالات صرف بگڑ سکتے ہیں‘ بنائو کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی۔

کئی اعتبار سے یہ ایک اہم موقع ہے‘ جب باقی دنیا کے اہل دانش کو آگے بڑھنا اور امریکہ اور روس کی قیادت کو صاف صاف بتانا چاہیے کہ اصل خرابی کیا ہے اور کہاں ہے؟ امریکہ محض امریکی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیں۔ امریکہ ایک اہم عالمی قوت اور ۳۰ کروڑ انسانوں کا ملک ہے‘ جو مادی وسائل سے مالا مال اور سائنس اور ٹکنالوجی کی اعلیٰ ترین مہارتوں کی آماجگاہ ہے۔ بلاشبہ امریکہ میں اقتدار کی کنجیاں جن کے ہاتھ میں ہیں وہ ایک خاص ذہن کے علم بردار اور مخصوص مفادات کے محافظ ہیں۔ دنیا بھر میں لوگوں کی شکایات کا اصل منبع یہی اسٹیبلشمنٹ ہے ۔اس کی گرفت خود امریکہ کی آبادی پر بھی ہے اور جس نے پوری دنیا میں اپنے مفادات کے لیے تباہی مچا رکھی ہے۔ خود امریکہ کے عوام کی ایک بڑی تعداد بھی مظلوم ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایک دن دنیا کے دوسرے مظلوموں کے ساتھ وہ بھی ہم آواز ہو کر ظلم کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہو۔ آخر ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکی قوم کی خاموش اکثریت اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔اب امریکہ میں خود مسلمانوں کی تعداد روز افزوں ہے اور ۷۰‘۰ ۸لاکھ مسلمان‘ قوم کے ضمیر کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج میڈیا اتنا طاقت ور ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشے سے ساری انسانیت کو مخاطب کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں یہ خود امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ خود پسندی کے خول سے نکلے اور ان اسباب و عوامل کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے جو امریکہ کو دنیا کے تمام لوگوں سے کاٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اسی طرح پورے عالم انسانی کا مفاد بھی اس میں ہے کہ تلخی‘ صف آرائی اور جنگ جوئی کے بجائے افہام و تفہیم اور مکالمے کا راستہ اختیار کرے اور دلیل اور شہادتوں کے ساتھ ان اسباب کی نشان دہی کرے جو بگاڑ کا ذریعہ ہیں۔

امریکہ کا استعماری کردار

بلاشبہ امریکہ نے جمہوریت‘ آزاد ی اور حقوق انسانی کے لیے آواز بلند کی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ

عالمی برادری کی اکثریت ان باتوں کو اخلاص‘ دیانت اور شفافیت کے رنگ و بو سے محروم پاتی ہے۔ امریکہ خود برطانوی اور فرانسیسی استعمار کا دَور دیکھ چکا ہے۔اس نے استعماری شکنجوں کو توڑ کر آزادی حاصل کی تھی اور

اس وجہ سے دنیا کی مظلوم اقوام اسے اپنا ہم سفر سمجھنے لگی تھیں۔ آخر کیوں وہی اقوام اب خود امریکہ کو ایک استعماری قوت سمجھ کر اس سے فاصلہ پیدا کر رہی ہیں۔ امریکہ کبھی قوموں کے حق خود ارادیت کا علم بردار سمجھا جاتا تھا‘ اب اسے کیوں انسانی حقوق کی پاس داری کے بارے میں اعتماد سے محروم کیا جا رہا ہے؟ بات صرف  بارودی سرنگوں (land mines)کے بارے میں سردمہری‘ماحولیات کے خطرات کے باب میں تساہل اور بین الاقوامی معاہدات سے گلوخلاصی کی کوشش تک محدود نہیں۔ جن اہل علم نے مخالفت کے اسباب کی تان ان مسائل پر توڑی ہے انھوں نے بہت سہل انگاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام اور اس کی سیاسی اور فکری قیادتوں کو اس نازک تاریخی موقع پر کسی مدا ہنت سے کام نہیں لینا چاہیے اور حالات کا بے لاگ تجزیہ کر کے امریکہ کی قیادت کو اور پوری دنیا کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو ان اسباب و عوامل کا احساس دلانا چاہیے جو عالمی سیاست میں بگاڑکا باعث اور انسانی معاشرے میں ظلم و استحصال کا ذریعہ ہیں۔

بنیادی تبدیلی کی ضرورت

بلاشبہ امریکہ آج سیاسی‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قوت و سطوت کے باوجود امریکہ دنیا کا محبوب اور پسندیدہ ترین ملک نہیں۔ مادّی خوش حالی میں اس کا درجہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو‘ لیکن انسانیت کی میزان میں اس کا وزن بڑا ہلکا ہے۔ اچھے انسان دنیا کے ہر ملک اور ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں‘ لیکن بحیثیت مجموعی جو امیج امریکہ کا دنیا میں ہے وہ اجڈ امریکیوں (The Ugly American)کی تصویر سے قریب تر ہے۔جمہوریت‘ آزادی اور حقوق انسانی کے تمام دعوے اپنی جگہ‘ اور امریکہ کی سرزمین پر ان کے تجربات کے کچھ مثبت پہلوئوں کے اعتراف کے ساتھ‘ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے جن جن ممالک پر امریکی اثرات پڑے ہیں یا پڑ رہے ہیں ان کے دامن میں پھول کم اور کانٹے زیادہ ہیں۔ ماضی کی سامراجی قوتیں جس ننگی جارحیت‘ جبر‘ غلامی اور لوٹ کھسوٹ کی تھیں‘ آج وہی کھیل امریکہ خوش نما نظریات اور دل فریب وعدوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ظلم کی شکلیں بدل گئی ہیں‘ اس کی حقیقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ اس لیے ضروری ہے کہ حقائق کو بے نقاب کیا جائے اور امریکہ کے عالمی کردار کے اصل خدوخال کو بلاکم و کاست پیش کیا جائے‘ تاکہ آج کے انسان کے اصل مسائل اور اس کی روح کے حقیقی اضطراب کو سمجھا جا سکے۔ امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض انتقامی سیاست کے مظاہرنہیں ہیںبلکہ اس کی اپنی پالیسیوں اور کارکردگی کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔ اگر وہ

فی الحقیقت دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ دوستی اور تعاون کا رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی فکر اور اپنے نظامِ کار میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ مسئلہ محض بڑے اور چھوٹے اور طاقت ور اور کمزور کانہیں بلکہ ان اصولوں‘ قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلق کی بنیادوں کا ہے جن کے نتیجے میں دنیا میں حقیقی امن اور انصاف قائم ہو سکے اور دنیا کے وسائل تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہو سکیں۔ کوئی کسی کا محتاج نہ ہو‘ سب عزت اور وقار سے زندگی گزاریں  ع

کس نہ گردد در جہاں محتاج کس

یہی وہ کسوٹی ہے جس پرکامیاب اور ناکام نظام‘ صحت مند اور مریض معاشرہ‘ صالح اور ظالم تہذیب کو پرکھا جاسکتا ہے۔

بے اعتمادی کیوں؟

امریکہ پر بے اعتمادی اور اس سے بے زاری کی پہلی اور سب سے اہم وجہ امریکہ کا عالمی بالادستی کا عزم اور ہدف ہے۔نظریات کی دنیا میں آزاد مسابقت‘ معیشت میں تجارت اور تعاون‘ سیاسی معاملات میں اشتراک اور مشترک مقاصد کے لیے معاونت اور مفاہمت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے مفید اور ضروری ہیں۔ لیکن اگر ایک قوم یا ملک محض اپنی قوت کے بل پر دوسروں کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرے اور محض اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو دائو پر لگا دے تو یہ عالمی برادری کے لیے سّمِ قاتل اور سامراج کی ایک مکروہ شکل ہے۔

امریکہ آج ایک سامراجی قوت ہے اور اس کی تمام سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی اور عسکری پالیسیاں سامراجی مقاصد کا آلہ کار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت‘ آزادی‘ انسانی حقوق اور معاشرتی ترقی کے نعرے نہ دلوں کو مسخر کر پاتے ہیںاور نہ قوموں کی زندگی میں کسی خیر اور فلاح کا پیغام لاتے ہیں۔ ایک قوم کی طرف سے دوسروں پر بالادستی کے قیام کی کوشش تو تصادم اور کش مکش ہی کو جنم دے سکتی ہے اور دے رہی ہے۔ کاروبارِ حیات کو بدلے بغیر محض کردار بدلنے سے حالات کیسے بدل سکتے ہیں۔ ہسپانوی‘ پرتگالی اور ولندیزی سامراج کا دَور ہو یا برطانوی اور فرانسیسی سامراج کا‘ روسی استعمار ہو یا امریکی استعمار‘ جرمنی وجاپان بالادستی کے قیام کے لیے برسرِجنگ ہوں یا اسرائیل اور بھارت ملک گیری میں مصروف--- اصل ایشو ایک ہی ہے: دوسروں کو اپنا محکوم بنانا اور انسانوں پرقوت کے ذریعے حکمرانی اور بالادستی کا قیام۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ آزادی اور حقوق انسانی کے تمام دعووں کے باوجود دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام پراپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کے لیے بالادستی قائم کرنے کے لیے سرگرم ہے ۔جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوتی‘ خوش نما الفاظ اور

دل کش وعدوں سے غلامی کی زنجیریں پھولوں کی لڑیاں نہیں بن سکتیں۔

امریکی تہذیب اور سیاست جن تضادات کا شکار رہی ہے‘ ان پر اس وقت گفتگو پیش نظر نہیں۔ اس وقت ہمارا موضوع امریکہ کی سرزمین پر یورپی اقوام کا قبضہ‘ وہاں کی اصل مقامی آبادی (ریڈ انڈین) سے سلوک‘ افریقہ سے غلاموں کی تجارت اور نسل اور رنگ پر مبنی معاشرے کا قیام نہیں ہے۔ ہمارے زیر بحث ان کی جنگ آزادی‘ دستور پر مبنی جمہوریت اور آزاد معیشت کا قیام یا منروڈاکٹرائن بھی نہیں ہے۔ ہم بات کا آغاز بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ء) کے بعد سے کر رہے ہیں۔ اس وقت امریکہ‘ دنیا کے سامنے کچھ اصولوں کے علم بردار اور خصوصیت سے محکوم اقوام کی آزادی اورعالمی برادری کے لیے بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی اداروں کے ذریعے آزادی اور امن کے داعی کی حیثیت سے آیا تھا۔ صدر ووڈرو ولسن کے اصول سیاست اور لیگ آف نیشنز کا قیام ایک اچھا آغاز تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ء)کے بعد سے جو دَور شروع ہوا وہ شفاف نہیں۔

جمہوریت‘ آزادی‘ حقوق انسانی اور اقوام متحدہ کے ذریعے ایک عالمی سلامتی کے نظام کا قیام‘ اس دَور کے اعلان شدہ مقاصد رہے مگر عملاً سردجنگ کی سیاست نے دنیا کو صرف نظریات ہی نہیں ‘سیاسی اور معاشی مفادات کا اکھاڑہ بنا دیا۔ امریکہ ایک کالونی کی تنگنائے سے نکل کر ایک عالمی طاقت بن گیا اور اس کے ساتھ اس کی سیاست نے بھی وہی سامراجی رنگ و روپ اختیار کر لیے جو ماضی کی استعماری قوتوں کا وطیرہ رہے ہیں۔ بظاہر یہ جنگ اشتراکیت کی ظلمتوں سے دنیا کو بچانے اور آزادی کی روشنیوں سے روشناس کرانے کے لیے تھی لیکن اس جمہوری قبا میں چنگیزیت ہی چھپی ہوئی تھی۔ گذشتہ ۶۰ سال کی سیاست جن تضادات‘ تناقضات اور تباہ کاریوں سے عبارت ہے اس کی جڑیں سرد جنگ کے اس خمیر میں پیوست ہیں۔ گویا    ؎

میری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی

دوسری جنگ کے بعد حکمت عملی

دوسری جنگ کے بعد جو حکمت عملی نئے عالمی نظام کے لیے وضع کی گئی‘ اس میں ایک طرف اقوام متحدہ کا قیام‘ انسانی حقوق کے اعلان کا اجرا‘ عالمی عدالت انصاف کا قیام‘ نئے عالمی مالیاتی اداروں کا قیام تھا تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جو اصل بااختیار ادارہ تھا‘ پانچ ملکوں کا ویٹو اور امریکہ اور روس کی عالمی بالادستی کے لیے اپنی اپنی منصوبہ بندی اہم ہے۔ امریکہ کی خارجہ سیاست کی فکری بنیادیں جارج کینان نے مرتب کیں ‘جس کے تین ستون تھے:

۱- عالمی قوت کی حیثیت: امریکہ کو اصل مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ ایک متحارب دنیا میں ایک عالمی قوت کی حیثیت سے کس طرح اپنے کو مستحکم کرے۔ کینان نے صاف الفاظ میں کہا کہ حقیقی خارجہ پالیسی کا تعلق سیدھے سیدھے قوت کے حصول و استحکام سے ہے۔ امریکہ کی سلامتی اس میں ہے کہ قوت کے حصول کو مرکزیت دے اور ’’حقوق انسانی‘ معیارِ زندگی کی بلندی اور فروغ جمہوریت کے غیر حقیقی اور غیر واضح تصورات کی بات چھوڑ دے‘‘۔

۲- معاشی اور سیاسی بالادستی: معاشی اور سیاسی طاقت میں عدم توازن ایک حقیقت ہے۔ دوسری جنگ کے بعد امریکہ میں دنیا کی آبادی کا صرف ۳.۶ فی صد تھا ‘جب کہ دنیا کی دولت کے ۶۰ فی صد پر اسے قبضہ حاصل تھا۔ جارج کینان کے الفاظ میں: دنیا کے نئے اُبھرتے ہوئے نظام میں امریکہ کا اصل ہدف تعلّقات کار کا ایک ایسا نظام وضع کرنا ہے جن کے نتیجے میں قوت کا یہ عدم توازن اس طرح برقرار اور محفوظ رکھا جا سکے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ اور رکاوٹ رونما نہ ہو۔

اس کے لیے امریکہ کو ان وسائل تک رسائی حاصل ہونی چاہیے جو اس کے معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہیں۔

کینان نے دنیا کا جو نیا سیاسی نقشہ تجویز کیا اس میں اپنے وسائل کے تحفظ (the protection of our resources) کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ بین الاقوامی راستے محفوظ ہوں‘ تجارت اور فوجی نقل و حمل کی راہیں کھلی رہیں‘ جن ممالک سے خام مال اور انرجی درکار ہے وہاں ایسی حکومتیں ہوں جو تعاون کریں اور سپلائی لائن برقرار رہنے کی ضمانت حاصل ہو۔اس سلسلے میں قومی تحریکوں سے خطرہ ہو سکتا ہے جو قومی اور ملکی مفاد کی بات کریں۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ان ملکوں کو اشتراکی عناصر سے محفوظ رکھا جائے اور اگر ایسی حکومتیں ہمارے مفید مطلب ہوں جو چاہے سخت گیر ہوں مگر ہمارے مفادات محفوظ ہوں تو ہمیں ایسی ناخوش گوار

صورت حال کو ضمیر کی کس خلش کے بغیر ترجیحاً قبول کرنا چاہیے۔ البتہ نجی سرمایہ کاری‘ بیرونی سرمائے کی آمدورفت اور منڈی کی معیشت کو فروغ دینا چاہیے۔  (بحوالہ: Deterring Democracy‘از نوئم چومسکی‘ ص ۴۹ اور Brave New World Order از جیک نلسن‘ ص ۴۳)

۳- عسکری حصار: اشتراکی ممالک کے گرد ایسا سیاسی اور عسکری حصارتعمیر کر دیا جائے جس کے نتیجے میں اشتراکی انقلاب دوسرے ممالک تک نہ پہنچ سکے۔ یہ کام دفاعی اور معاشی معاہدات کے جال بچھا کر انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسے حصار بندی کی حکمت عملی (strategy of containment)کہا جاتا ہے۔ جس کے تحت ناٹو (NATO)‘ سیٹو (SEATO)  ‘ سینٹو (CENTO) ‘ بغداد پیکٹ  اور ایسے ہی دوسرے عسکری بلاک تشکیل دیے گئے۔ (جاری)

 

قدرت کا قانون ہے کہ جب تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے‘ تو روشنی اس کا سینہ چیرتی ہوئی رونما ہوجاتی ہے۔ ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں اور فضا نور سے بھر جاتی ہے۔ تاریخ انسانی میں روشنی اور نور کا سب سے بڑا سیلاب ۲۷ رمضان المبارک‘ ۱۳ قبل ہجرت میں رونما ہوا۔

خشکی‘ تری اور بحروبر پر تاریکی کا غلبہ تھا ‘ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم ۳۰:۴۱)۔ ظلم اور فساد سے خدا کی زمین بھر گئی تھی۔ انسان اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر جھوٹے خدائوں کی بندگی کر رہے تھے۔

ارض و سما کے مالک نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو ہدایت اور رہنمائی بھیجی تھی‘ انسان نے اس کو گم کردیا تھا۔ نتیجے کے طور پر گمراہی اور ضلالت کا دور دورہ تھا۔ انسان آگ‘ درخت‘ پتھر‘ پانی اور جانوروں تک کی پوجا کر رہے تھے۔ زندگی کے اجتماعی معاملات میں کچھ انسان دوسرے انسانوں کے خدا اور رب بن بیٹھے تھے‘ اور اپنی من مانی کر رہے تھے۔ نیکیاں معدوم ہو رہی تھیں اور برائیاں فروغ پا رہی تھیں۔ نسل‘ قوم اور قبیلے کے بتوں کی پوجا ہو رہی تھی۔ حق‘ انصاف‘ آزادی‘ مساوات اور بندگی رب کو انسانیت ترس رہی تھی۔

یہ تھی وہ دنیا ‘ جس میں خدا کے ایک برگزیدہ بندے‘ انسانیت کے گل سرسبد اور دنیا کے سب سے نیک انسان‘ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ظلم کے اس راج اور بدی کے اس غلبے پر حیران و سرگرداں تھا‘ وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَھَدٰی (الضحیٰ ۹۳:۷)۔ وہ جھوٹے خدائوں کا باغی اور ایک حقیقی خدا کی بندگی کا جویا تھا۔ دست فطرت نے ۴۰ سال اس کی تربیت فرمائی۔ پھر زمین و آسمان کے مالک نے ایک شب اسے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبیؐ کی حیثیت سے مامور فرما دیا۔ وہ غارحرا میں عبادت میں مشغول تھا کہ خدا کا فرشتہ‘ اس کا امین‘ اور پیام بر رونما ہوا۔ بندگی میں مشغول بندے کو سینے سے لگایا‘ اسے خوب بھینچا اور رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض کی طرف سے پہلی وحی اس پر نازل کی:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o  (العلق ۹۶:۱-۵) ’’پڑھو (اے نبیؐ)‘ اپنے رب کے نام سے جس نے (ساری چیزوں) کو پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ پڑھو‘ اور تمہارا رب بڑا کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘ اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں‘ جو اس کو معلوم نہ تھیں‘‘۔

تاریکیوں کے لیے پیغام موت آگیا۔ طاغوت کے غلبے کا دور ختم ہو گیا۔ رب کی آخری ہدایت کا دور شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ ۲۳ سال تک چلتا رہا۔ حتیٰ کہ ہدایت مکمل ہوگئی اور انسانیت کو نور کا وہ خزانہ مل گیا‘ جس کی روشنی تاقیامت قائم رہے گی جس کے ذریعے وہ ہمیشہ رہنمائی اور ہدایت حاصل کرتی رہے گی:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵  :۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے‘ اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘۔

آج اس نزول وحی کے آغاز اور بعثت نبوی ؐ کو ۱۴ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ ساری دنیا میں محمدؐ کے نام لیوا اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں‘ جو ماضی اور حال کی تاریخ کے درمیان حدفاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے انسانیت کی تاریخ میں قرآن اور محمدؐ کے دور کا آغاز ہوا۔

خدا کی اس زمین پر انسان کی بنیادی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق اس کی جسمانی اور مادی زندگی سے ہے‘ اور دوسری وہ جو اس کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی زندگی سے متعلق ہیں۔ خدا کی ربوبیت کاملہ کا تقاضا تھا کہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں پوری کی جائیں‘ تاکہ وہ زندگی کی آسایشیں بھی حاصل کر سکے اور ان کو صحیح مقاصد کے لیے صحیح طریقوں سے استعمال بھی کر سکے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو بہ حسن و کمال پورا کیا ہے۔ مادی اور جسمانی ضروریات کی تسکین کے لیے زمین و آسمان میں بے شمار قوتیں ودیعت کر دی ہیں‘ جن کی دریافت اور ان کے مناسب استعمال سے انسان کی تمام ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت نازل فرمائی‘ اور اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس ہدایت کو انسانوں تک پہنچایا‘ بلکہ ان کی زندگیوں میں اسے متشکل کر کے بھی دکھا دیا۔ اس طرح انسانیت نے اپنا سفر تاریکی میں نہیں‘ روشنی میں شروع کیا‘ اور ہر دور میں خدا کی ہدایت اس کے لیے مشعل راہ بنی رہی۔ اس دنیا میں پہلا انسان (آدم علیہ السلام) پہلا نبی بھی تھا۔ خدا کی یہ ہدایت اپنی آخری اور مکمل ترین شکل میں حضرت محمدؐپر نازل کی گئی۔ یہی ہدایت قرآن کی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔

قرآن کا اساسی تصور

قرآن جس تصور کو پیش کرتا ہے‘ وہ مختصراً یہ ہے:

۱- یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک‘ آقا‘ رب اور حاکم ہے۔ ہر شے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیار‘ کلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے‘ اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ‘ مالک اور حاکم ہے۔ اس مالک حقیقی نے انسان کو‘ ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر‘ اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابع فرمان کیا ہے۔

۲-  انسان کو خلافت کی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالک حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا ہے اور اس کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہان اس کے لیے ہے اور اس کے تابع ہے لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے‘ اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمایش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کر دے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راستے کو اختیار کیا‘ وہ کامیاب و کامران ہے اور اس عارضی زندگی کے بعد ابدی راحت‘ اور چین اس کے لیے ہے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا‘ وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہو گا۔

۳- یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے‘ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک‘ اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہر ملک اور ہر قوم میں انبیا مبعوث ہوئے اور اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربیؐ ہیں۔

آپ ؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین‘ یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا‘ جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا۔ جن لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کر لی اور اسلا م کو زندگی کے دین اور راستے کی حیثیت سے اختیار کر لیا‘ وہ ایک امت بن گئے۔ اب یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے‘ جو اللہ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا۔ اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتے رہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے‘ جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے‘ جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیروفلاح کی ضامن ہے۔

قرآن کی حیثیت اور مقصد

(الف)  ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲: ۱۲) ’’یہ اللہ کی کتاب ہے ‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔

(ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِی لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے‘‘۔

یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:

الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲: ۱۸۵) ’’قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔

(ج)  یہ ہدایت کا ایسا مرقع ہے‘ جس میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کر دی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ ۵:۴۸) ’’پھر اے نبیؐ ‘ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے‘ اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے‘‘۔

(د) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹) ’’بلاشبہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں‘‘۔

انسانیت کے دکھوں کا واحد علاج یہی ہدایت ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَا ٓئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ لا وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس ۱۰:۵۷) ’’لوگو! تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے۔ یہ دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں‘‘۔

(ر)  اور یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو  مھیمن (نگہبان) کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام  فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔

قرآن کی اس نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کی وضاحت آسان ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم مختصراً یوں بیان کر سکتے ہیں:

٭ قرآن کاموضوع انسان ہے کہ انسان کی فلاح اور اس کا خسران کس چیز میں ہے۔

٭ قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہربینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے باعث انسان نے  خدا‘ نظام کائنات‘ اپنی ہستی اور اپنی دنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں‘ اور ان نظریات کی بنا پر جو رویے اختیار کر لیے ہیں‘ وہ سب حقیقت کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے‘ جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اس حقیقت کے لحاظ سے وہی رویہ درست اور خوش انجام ہے‘ جو خدا کو اپنا واحد حاکم اور معبود تسلیم کرے۔ اور پھر انسان اس دنیا میں اپنی پوری زندگی اسی خدا کی ہدایت کے مطابق گزارے۔

٭ قرآن کا مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے‘ جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے (ملاحظہ ہو‘  تفہیم القرآن‘ جلد اول‘ مقدمہ از سید ابوالاعلیٰ مودودی)۔

اس بات کو شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی نے اس طرح بیان فرمایا ہے‘ کہ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ راہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے  (الفوز الکبیر)۔

قرآن تمام انسانوں کو ابدی سعادت کی طرف بلاتا ہے‘ اور انسان کے ظاہر و باطن کی ایسی تعمیر کرتا ہے‘ کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ دنیا اور آخرت کی زندگیوں میں حقیقی چین اور راحت نصیب ہو۔ یہ راستہ رب کی بندگی کا راستہ ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریت ۵۱:۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔

یہ بندگی انسان کی پوری زندگی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ہر سانس احساس عبدیت سے معمور ہونا چاہیے اور اس کا ہر عمل مالک کی اطاعت کا مظہر ہونا چاہیے۔

قرآن کا انقلابی تصورِ حیات

یہی وہ مقام ہے جہاں سے قرآن کا انقلابی تصورِ حیات ہمارے سامنے آتا ہے۔

قرآن انسانی زندگی کو مختلف گوشوں اور شعبوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ وہ پوری زندگی کو بندگی رب میں لانا چاہتا ہے۔ انسان کے فکروخیال اور عقیدہ و رجحان سے لے کر اس کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے--- اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:

اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃ ً ص(البقرہ ۲:۲۰۸) ’’داخل ہو جائو خدا کے دین میں پورے کے پورے‘‘۔

یعنی اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کے بعد زندگی کے کسی شعبے کو خدا کی ہدایت سے آزاد رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی اجتماعی زندگی‘ خدا کے قانون کی پابند اور اس کی رضا کو تلاش کرنے والی ہوگی۔ پھر تمدن کے پورے نظام یعنی معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ قانون و عدالت‘ انتظام و انصرام‘ ملکی اور بین الاقوامی تعلقات‘ سب پر خدا کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا‘ بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینی ہے۔ انسانیت کو حق کی طرف بلانا ہے‘ اور ہر اس رکاوٹ کو ہٹانے کی جدوجہد کرنی ہے‘ جو بندے اور اس کے رب کے درمیان اس تعلق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہے۔ اسی کا نام دعوت حق ہے‘ جو اسلام میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف یہ کتاب بلاتی ہے۔

قرآن کی تعلیمات اس نقطۂ نظر کی حمایت نہیں کرتیں‘ جس میں انسان کی اصل دل چسپی صرف اور صرف اپنی ذات کی اصلاح اور اپنی روح کے لیے قرب الٰہی کا حصول ہے۔ بلاشبہ قرآن انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح چاہتا ہے اور بندے کے تعلق باللہ کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ یہ کام اسے زندگی کی کش مکش سے کاٹ کر کرنے کی دعوت نہیں دیتا‘ بلکہ دنیاوی زندگی کے ان ہزاروں‘ لاکھوں تعلقات کو خدا کی ہدایت کا پابند بناکر‘ یہ مرحلہ طے کرانا چاہتا ہے۔

علامہ اقبال ؒ قرآن کے اس مخصوص مزاج کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:

’’محمد عربیؐ برفلک الافلاک رفت و باز آمد واللہ اگر من رفتمے ہرگز باز نیا مدمے

]محمد عربیؐ (معراج کے موقع پر) آسمانوں پر گئے اور واپس آگئے۔ اللہ کی قسم‘ اگر میں جاتا تو ہرگز واپس نہ آتا[

یہ مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ؒ کے الفاظ ہیں‘ جن کی نظیر تصوف کے سارے ذخیرئہ ادب میں مشکل ہی سے ملے گی۔ شیخ موصوف کے اس ایک جملے سے ہم اس فرق کا ادراک نہایت خوبی سے کر لیتے ہیں‘ جو شعور ولایت اور شعور نبوت میں پایا جاتا ہے۔ صوفی نہیں چاہتا کہ اس واردات اتحاد میں اسے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے‘ اسے چھوڑ کر واپس آئے‘ لیکن اگر آئے بھی‘ جیسا کہ اس کا آنا ضروری ہے‘ تو اس سے نوع انسانی کے لیے کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس‘ نبی کی باز آمد تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ اس واردات سے واپس آتا ہے‘ تو اس لیے کہ زمانے کی رَو میں داخل ہو جائے۔ اور پھر ان قوتوں کے غلبے و تصرف سے‘جو عالم تاریخ کی صورت گر ہیں‘ مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔ صوفی کے لیے تو لذت اتحاد ہی آخری چیز ہے‘ لیکن انبیا علیہم السلام کے لیے اس کا مطلب ہے‘ ان کی اپنی ذات کے اندر کچھ اس قسم کی نفسیاتی قوتوں کی بیداری‘ جو دنیا کو زیروزبر کر سکتی ہیں‘ اور جن سے کام لیا جائے تو جہان انسانی دگرگوں ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انبیا کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس واردات کو ایک زندہ اور عالم گیر قوت میں بدل دیں--- لہٰذا انبیا کے مذہبی مشاہدات اور واردات کی قدر وقیمت کا فیصلہ ہم یہ دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں کہ‘ ان کے زیراثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے‘‘۔ (تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘ علامہ محمد اقبال  ؒ ‘ترجمہ سید نذیر نیازی‘ بزم اقبال‘ لاہور‘ ص ۱۸۸-۱۹۰)

مطلب یہ کہ بزرگ صوفی کا یہ قول زندگی کے محدود تصور کا غماز ہے۔ اس تصور میں اصل اہمیت عرفان ذات کی ہے اور وہ اس سے اونچے کسی مقام کا تصور نہیں کر سکتی ہے‘ کہ بندے کے قدم وہاں پہنچ جائیں‘ جہاں فرشتوں کے پَر جلتے ہیں۔ پھر اس کے اس دنیا کی طرف واپس آنے کا کیا سوال؟ لیکن محمدؐ جس دین کے علم بردار ہیں‘ یہ وہ دین ہے جس کا نبیؐ اُس بلندی پر پہنچ کر اِس دنیاے رنگ و بو میں لوٹتا ہے‘ تاریخ کے منجدھار میں قدم رکھتا ہے‘ اور اس نور سے جو اسے حاصل ہوا ہے‘ تنگ و تاریک دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

وہ صرف اپنے اس سینے کو گنجینہ انوار نہیں بناتا‘ بلکہ پورے عالم کو روشن کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ایک نیا انسان بنانے‘ ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنے‘ ایک نئی ریاست قائم کرنے اور تاریخ کو ایک نئے دور سے ہم کنار کرنے میں مصروف جہاد ہو جاتا ہے۔

قرآن اسی دعوت انقلاب کو پیش کرتا ہے۔ وہ زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد ایک انقلاب برپا کرنا ہے۔ دلوں کی دنیا میں بھی انقلاب --- اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب--- وہ صالح انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہو۔ برائیاں سرنگوں ہو جائیں اور نیکیوں کو غلبہ حاصل ہو۔ خدا کے منکر اور اس سے غافل‘ قیادت کی مسند سے ہٹا دیے جائیں اور اس کے مطیع اور فرماں بردار بندے زمانے کی باگ ڈور سنبھال لیں۔

یہ ہے نزول قرآن کا مقصد اور یہی ہے انسانیت کی نجات کا راستہ۔

امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ

ہم امت مسلمہ کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ اس امت کا ہر فرد اس موقع پر اور بھی سنجیدگی کے ساتھ قرآن کی اصل حقیقت کو سمجھے۔اس کے مقصد کا حقیقی شعور پیدا کرے۔ اس کے پیغام پر کان دھرے اور اس کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔

قرآن نے انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس نے قبیلے‘ نسل‘ رنگ‘ خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظام اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے‘ یعنی عقیدہ اور مسلک۔ اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی امت بنائی اور اس امت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کر دیا۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

قرآن نے اس امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے‘ اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیر و صلاح کا علم بردار بھی بنایا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔ جس نے عرب کے اونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنا دیا۔ جس نے ریگستان کے بدوئوں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنا  دیا۔ جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اٹھائے‘ جو انسانیت کے رہبر بنے۔ جنھوں نے وہ نظام قائم کیا‘ جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کر ڈالا۔

قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی اصلیت بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی‘ اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو‘ بشرطیکہ وہ اس کا حق ادا کر سکیں ‘ انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بنا سکتا ہے۔

خوب کہا امام احمد بن حنبلؒ نے:

لا یصلح اخر ھذہ الامہ الا بما صلح اولھا ‘ ’’اس امت کے بعد کے حصے کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوگی‘ جس سے اس کے اوّل حصے کی اصلاح ہوئی تھی‘‘۔

اور یہ چیز قرآن ہے۔

قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن نے پہلے بنجر اور شورزمین سے ایک نیا جہاں پیدا کر دیا تھا‘ تو آج وہ یہ کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہا؟

اگر وہ کل شفا و رحمت تھا‘ تو وہ آج یہ وظیفہ سرانجام دیتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا؟

اگر ہم کل اس کی وجہ سے طاقت ور تھے‘ تو آج اس کے باوجود ہم کمزور کیوں ہیں؟

اگر کل اس کے ذریعے ہم دنیا پر غالب تھے‘ تو آج اس کے ہوتے ہوئے ہم مغلوب کیوں ہیں؟

اگر غور کیا جائے تو اس کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں--- ایک‘ یہ کہ ہم نے عملاً اس کتاب ہدایت کو

اپنا حقیقی رہنما باقی نہ رکھا ہو۔ اس سے ہمارا تعلق‘ غفلت و سرد مہری و بے التفاتی اور بے توجہی کا ہو گیا ہو۔ دوسرے‘ یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا احترام اور تقدیس کر رہے ہوں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح راستہ اور صحیح طریقہ اختیار نہ کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں

صحیح ہیں۔

برف کی طرح پگھلتی اور ہر آن قطرہ قطرہ ختم ہوتی اس زندگی میں یہ بڑا ہی سنہری موقع ہے کہ ہم لمحہ بھر رک کر سوچیں کہ خدا کی اس کتاب سے ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اور ہمیں اس سے کیا معاملہ کرنا چاہیے تاکہ یہ اپنے اثرات دکھا سکے اور اس کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے کو نور سے بھر دے۔

(۱) اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اپنے اس سوئے ہوئے ایمان کو بیدار کیا جائے جو قرآن پر لایاتو ضرور گیا ہے‘ مگر اس کا یقین اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جذبے اور شوق سے عاری ہے۔ یاد رکھیے‘ کہ یہ ایمان اس کے‘ خدا کی کتاب ہونے پر‘ اس کے مکمل طور پر محفوظ ہونے پر‘ اس کے ہر لفظ کے حق و صداقت ہونے پر‘ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے درست اور مفید ہونے پر‘ اس کے بتائے ہوئے علاج کے اصل ضامن شفا ہونے پر ہے--- یہ ہے نقطہ آغاز:

اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلاَ تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ o وَمَآ اَنْتَ بِھٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِھِمْ ط اِنْ تُسْمِعُ اِلاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَھُمْ مُّسْلِمُوْنَo  (النمل ۲۷:۸۰-۸۱) ’’بے شک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہو۔ جب وہ اعتراض کرتے ہوئے منہ پھیر لیں‘ اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال سکتے ہو۔ تم تو صرف انھی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں‘‘۔

وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۲۱) ’’اور جو لوگ اس کا انکار کریں گے‘ وہ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔

(۲) پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دل قرآن حکیم کی عظمت اور بلندی‘ اس کے ایک اعلیٰ اور برتر کلام ہونے کے احساس سے معمور ہو۔یہ وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ شق ہو جاتے۔ اس پُرعظمت کلام کے مقابلے میں اپنی عاجزی کا احساس اور دل کا اس کے لیے موم ہو جانا بہت ضروری ہے:

وَاِذَا سَمِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ج (المائدہ ۵:۸۳) ’’جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے‘ تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو جاتی ہیں‘‘۔

یہ معرفت حق کا لازمی نتیجہ ہے۔

(۳) قرآن سے رہنمائی اور رہبری کے لیے رجوع کرنا‘ اس کے بارے میں غفلت کی روش کو ترک کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا۔ یہ دیکھنا کہ کس طرح وہ ہماری زندگی کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے۔ اس کتاب کو مضبوطی سے تھامنا اور ہر معاملے میں اس سے ہدایت حاصل کرنا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے اس کتاب کے اصل اسرار و رموز ہم پر منکشف ہو سکیں گے:

فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ  ج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ ج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ o (الزخرف ۴۳: ۴۳-۴۴) ’’اے پیغمبر‘ جو کچھ تمھاری طرف وحی کیا گیا ہے‘ اس کو خوب مضبوط پکڑے رہو۔ یقین رکھو کہ تم سیدھے راستے پر ہو اور یہ (قرآن ) تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یقینا ایک نصیحت نامہ ہے اور آگے چل کر تم سب سے اس کی بابت بازپرس ہوگی۔

امام شاطبی ؒ نے بجا فرمایا ہے:

جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہمدم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا ۔ (الموافقات ‘ ج ۳‘ ص۳۴۶)

(۴) قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور اس طرح کیا جائے جو اس کا حق ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط (البقرہ ۲:۱۲۱) ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘ وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے‘‘۔

اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ قرآن کی تلاوت کے ظاہری آداب پورے کیے جائیں‘ یعنی اسے پاک حالت میں چھوا جائے‘ ادب سے مطالعہ کیا جائے‘ ترتیل سے پڑھا جائے اور خوش الحانی سے پڑھا جائے وغیرہ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے معنی کو سمجھا جائے اور ان پر غوروفکر کیا جائے۔ قرآن کے الفاظ پر سے یوں ہی نہ گزر جایا جائے‘ بلکہ اس کی گہرائیوں میں اترنے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ یہی قرآن کا مطالبہ ہے:

کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo (یونس ۱۰:۲۴) ’’غور کرنے والوں کے لیے ہم نے اس طرح آیات تفصیل سے بیان کی ہیں‘‘۔

لَقَدْ اَنْزَلْنَا ٓ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ o (الانبیا ۲۱:۱۰) ’’لوگو‘ ہم نے تمھاری طرف کتاب اتار دی ہے‘ جس میں تمھارا ذکر ہے‘ کیا تم غور نہیں کرتے!‘‘

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (ص ۳۸:۲۹) ’’اے پیغمبر‘ یہ قرآن برکت والی کتاب ہے‘ جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے‘ تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں‘ وہ اس سے نصیحت پکڑیں‘‘۔

یہی صحابہ کرام ؓ کا طریقہ تھا کہ وہ قرآن پاک کی آیات کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے تھے اور ان پر غوروفکر کرتے تھے۔

(۵) قرآن پر عمل کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے فکروعمل کو بدلا جائے۔ قرآن پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی ہو نہیں سکتا‘ کہ قرآن کے احکام کے مطابق اپنے کو بدلنے کے بجائے اپنی بداعمالیوں کے لیے جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کو (نعوذ باللہ) بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح یہ بھی قرآن کے حقوق کے منافی ہے کہ اس کے احکام کو تو پڑھا جائے‘ مگر ان پر عمل نہ کیا جائے۔ قرآن نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے‘ کہ اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تعمیر کیا جائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق عمل کی سعی کی جائے۔حضرت ابن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی شخص ہم میں سے دس آیتیں سیکھ لیتا تھا‘ تو اس سے زیادہ نہ پڑھتا تھا‘ جب تک ان کے معنی نہ سمجھ لیتا اور ان پر عمل نہ کرتا‘‘ (ابن کثیر‘ جلد اول‘ ص ۵)۔

پھر قرآن کوسمجھنے اور اس پر عمل کے سلسلے میں رہنما اور نمونہ اس مبارک ہستی ؐ کو ماننا‘ جس پر یہ کتاب نازل ہوئی:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النساء ۴:۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔

اس سلسلے میں رسول ؐاللہ کے اسوئہ حسنہ سے سرموانحراف بھی قرآن سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔

قرآن: ایک تحریک

اور آخری چیز یہ ہے کہ قرآن جس دعوت کو لے کر آیا ہے‘ اسے پھیلانے‘ اور اس کے نظام کو قائم کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بہت سچ لکھا ہے کہ:

فہم قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا‘ جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے‘ جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے‘ کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصور مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میںاس کے سارے رموز حاصل کر لیے جائیں... یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علم برداران کفرو فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے‘ ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے‘ ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیان حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فرد واحد کی پکار سے کام شروع کر کے خلافت الٰہیہ کے قیام تک پورے ۳۰ سال میں یہ کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اس نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔

--- اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفر و دیں اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی منزل کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو‘ اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے‘ اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں‘ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ‘ حبشہ اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و احد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا۔ منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے اور سابقین اولین سے لے کر مولفتہ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’’سلوک‘‘ ہے‘ جس کو میں ’’سلوک قرآنی‘‘ کہتا ہوں۔اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے‘ قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں‘ لیکن یہ ممکن نہیں کہ قرآن اپنی روح کواس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔

--- پھر اس کلیے کے مطابق قرآن کے احکام‘ اس کی اخلاقی تعلیمات‘ اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین‘ آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک وہ ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے‘ جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ مقدمہ‘ ص ۳۳-۳۴)۔

یہ ہیں قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں اور اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا ہو تو پھر قرآن انفرادی زندگی کا نقشہ بھی بدل دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کی شکل بھی تبدیل کرا لیتا ہے۔ انفرادی زندگی اس کی برکتوں سے بھر جاتی ہے اور اجتماعی زندگی نیکی اور خوشی کی بہار سے شادکام ہوتی ہے۔

قرآن کی طرف دعوت

قرآن پر ایمان اسی وقت مفید اور معنی خیز ہو سکتا ہے‘ جب ہم قرآن کے پیغام کوسمجھیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے اور اس کی ہدایت کے ذریعے اپنے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کریں۔ آج عالم اسلام جن مسائل اور مصائب سے دوچار ہے‘ ان سے نکلنے‘ ترقی اور عزت کی راہ پر پیش قدمی کرنے کا راستہ صرف یہی ہے اور صادق برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تلقین کی تھی:

رسولؐ اللہ: خبردار عنقریب ایک بڑا فتنہ سر اٹھائے گا۔

حضرت علیؓ: اس سے نجات کیا چیز دلائے گی‘ یارسول ؐاللہ!

رسول ؐ اللہ: اللہ کی کتاب

__  اس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ہیں

__  تم سے بعد ہونے والی باتوں کی خبر ہے

__  اور تمھارے آپس کے معاملات کا فیصلہ ہے

__  اور یہ ایک دو ٹوک بات ہے‘ کوئی ہنسی دل لگی کی بات نہیں

__  جو سرکش اسے چھوڑے گا‘ اللہ اس کی کمر کی ہڈی توڑ ڈالے گا

__  اور جو کوئی اسے چھوڑ کر کسی اور بات کو اپنی ہدایت کا ذریعہ بنائے گا‘ اللہ اسے گم راہ کر دے گا

__  خدا کی مضبوط رسی یہی ہے

__  ‘یہی حکمتوں سے بھری ہوئی یاد دہانی ہے

__  یہی بالکل سیدھی راہ ہے

__  اس کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں کرتیں

__  اور نہ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں

__  اہل علم کا دل اس سے کبھی نہیں بھرتا

__  اسے کتنا ہی پڑھو طبیعت سیر نہیں ہوتی

__  اس کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں

__  جس نے اس کی سند پر کہا‘ سچ کہا

__  جس نے اس پر عمل کیا‘ اجر پائے گا

__  جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا‘ اس نے انصاف کیا

__  جس نے اس کی دعوت دی‘ اس نے سیدھی راہ کی دعوت دی۔

یہی وہ سیدھی راہ ہے جس کی طرف قرآن ہم سب کو دعوت دے رہا ہے!


(کتابچہ دستیاب ہے‘ ۳۵۰ روپے سیکڑہ‘ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)