پروفیسر فتح محمد ملک کے کالموں کا پہلا مجموعہ‘ کشمیر کی کہانی :عالمی ضمیر سے چند سوالات کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ کتاب دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے’’کشمیر تیمور نہیں‘‘ اور ’’مشرقی تیمور کشمیر نہیں‘‘۔ ۳۸ شذرات کا یہ مرقع بہ ظاہر کشمیر میں جدوجہد آزادی اور حق خود ارادیت کے مسلمہ اصول کے بارے میں مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی دوغلی پالیسی کے مختلف پہلوئوں پر کلام کرتاہے لیکن فی الحقیقت یہ دورحاضر میں اسلامی احیا کی جدوجہد‘ تحریک پاکستان کی روح اور اہداف‘ اسلام مخالف قوتوں کے اصل عزائم اور ریشہ دوانیوں اور سب سے بڑھ کر خود ملّت اسلامیہ پاکستان کے مختلف کرداروں کے رول کا‘ ایک سچے مسلمان اور ایک پکے پاکستانی کی نگاہ سے بے لاگ اور بصیرت افروز محاکمہ ہے۔ ان میں حقائق کا صحیح ادراک‘ واقعات کا نظرافروز تجزیہ‘ عالمی سازشوں کی حقیقت پسندانہ عکاسی‘ پاکستانی قیادت اور ہر سطح کے نام نہاد ترقی پسندوں کے کارناموں کا محاسبہ ہے جو بڑے جچے تلے‘معقول اور معتدل انداز میں دردمندی‘ اصلاح اور اُمت کو بیدار کرنے کے جذبے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ مشکل کام اس خلوص اور دیانت سے انجام دیا گیا ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ تبصرہ نگار سخن فہم ہے‘ غالب کا طرف دار نہیں!
جہاد کشمیر کے اسلامی تشخص اور ۱۹۳۱ء کی تحریک کشمیر سے لے کر آج کی جدوجہد تک کے نظریاتی نقوش کتاب کے ہر صفحے پر نمایاں ہیں۔ ان مختصر تحریروں کے آئینے میں اس تاریخی اور نظریاتی کش مکش کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے جسے سمجھے بغیر نہ تو تحریک پاکستان کو سمجھا جا سکتا ہے نہ جہاد حریت کشمیر کو‘ اور نہ پاک بھارت کش مکش کے اصل اسباب کو‘اور نہ امریکہ بھارت دوستی کے حقیقی محرکات کو۔ یہ مسلمانان پاکستان کے لیے ایک دعوت فکر وعمل ہے کہ وہ اس خواب سے بیدار ہوں جس میں مغرب کے جادوگروں اور لادینیت اور ترقی پسندی کے متوالوں نے خواب آور گولیاں کھلا کر ان کو بستر نشین کر دیا ہے۔ جہاد کی پکار اور اقبال کے بیداری کے پیغام کا اعادہ بڑے دل نشین انداز میں کیا گیا ہے اور آج کے تناظر میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ماضی کی یہ قم باذن اللّٰہ کی پکار آج کے پاکستانی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام بن گئی ہے۔ یہ کتاب محض نوحہ غم نہیں‘ جہاد کی پکار ہے جو علمی متانت اور ادبی حسن کے ساتھ دی گئی ہے۔ یہ کتاب ایک پیغام ہے جو گذشتہ تین سال کے اہم واقعات کے پس منظر میں تحلیل و تجزیے کے ساتھ اہل وطن کو دعوت دیتی ہے کہ اپنے ملک‘ اس کے اسلامی تشخص اور مجاہدین کشمیر کی سرفروشانہ جدوجہد کو اس کی کامیابی تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں‘ امریکہ کے اصل عزائم اور کھیل کو سمجھیں۔ خود پاکستان میں امریکہ کے آلہ کار جو کردار ادا کر رہے ہیں ‘ اسے ناکام بنانے اور اپنی اصل منزل کی طرف بڑھنے کی فکر کریں۔ اس میں ایوب خان اور محمد شعیب سے لے کر بے نظیر اور نواز شریف تک سب کی اصل تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ تاشقند سے شملہ‘ شملہ سے لاہور‘ لاہور سے کارگل اور کارگل سے واشنگٹن پسپائی اور غداری کے سارے منظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے‘ انڈونیشیا کو کیسے پارہ پارہ کیا جا رہا ہے‘ چین کے بارے میں کیا عزائم ہیں‘ امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ کی حقیقی شکل و صورت کیا ہے--- ہلکے پھلکے انداز میںلیکن صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پورانقشہ جنگ سامنے آجاتا ہے۔ کل ’’پان اسلامزم‘‘ کا ہّوا کھڑا کیا تھا آج اسلامی بنیاد پرستی اور تشدد کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ مقصد ایک ہی ہے : مسلمان کے دل سے ’’روح محمدؐ ‘‘ کو نکالنا اور امریکہ اور مغرب کی ذہنی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی غلامی میں جکڑ دینا--- خواہ اس کی شکل کیسی ہی ریشمی اور پرکار ہو!
نواز شریف اور بے نظیر نے جس طرح امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکے‘ بھارت سے معاملہ کرنے کی کوشش کی‘ کشمیر کے جہاد سے بے وفائی کی‘ ان کا بے لاگ احتساب‘ اور جہاد کشمیر کی تائید و معاونت اور طالبان سے آزمایش کی اس گھڑی میں یگانگت و ہم آہنگی کا اظہار جس سلیقے سے کیا گیا ہے وہ ملک صاحب کی سیاسی بصیرت اور قوت ایمانی کا مظہر ہے۔ بے نظیر کی امریکہ نوازی اور ذوالفقار علی بھٹو کی امریکہ بے زاری کا جس طرح موازنہ کیا ہے وہ چشم کشا اور خود پیپلز پارٹی اور لبرل عناصر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک صاحب کا بھٹو کے لیے نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں جس کا اظہار بار بار اس کتاب میں بھی ہوتا ہے۔ میری رائے میں یہ ہر صاحب الرائے شخص کا حق ہے لیکن اس کے ساتھ جس دیانت اور ملی غیرت سے انھوں نے بے نظیر اور ترقی پسندوں کے پورے ہی طبقہ زہاد پر گرفت کی ہے وہ ان کے اخلاص‘ غیر جانب داری اور اصابت رائے کا ثبوت ہے۔
ملک صاحب لکھتے ہیں:
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے دانش ور‘ ہماری افسر شاہی اور ہمارے سیاست دانوں میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو امریکی خوشنودی اور بھارت دوستی کی خاطر اپنا نظریاتی وجود مٹا دینے کو ترقی پسندی‘ روشن خیالی‘ اور امن دوستی کی علامت سمجھتے ہیں۔ میں ایسے عناصر کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا جغرافیائی وجود پاکستان کے نظریاتی وجود سے برآمد ہوا تھا اور اگر آج ہم اپنے نظریاتی وجود کو بھارت سے دوستی کی بھیک وصول کرنے اور امریکہ سے روشن خیالی کی سند پانے کی خاطر مٹا دیں گے تو پھر کل ہمارا جغرافیائی وجود بھی قائم نہیں رہ سکے گا۔ (ص ۴۲)
کشمیر کی تحریک آزادی کے نظریاتی تشخص کے خلاف بھارت اور امریکہ کا رویہ تو جارحانہ ہے ہی‘ بے نظیر اور نواز شریف جیسے لوگ بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر کے مغرب سے اپنی روشن خیالی کا سرٹیفیکیٹ لینا چاہتے ہیں ۔لیکن ملک صاحب صاف لکھتے ہیں:
اس طرزفکر کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی غالب اکثریت کے علاقوں میں عوام اپنے دینی عقائد پر قائم رہتے ہوئے اپنی کلچرل روایات کے مطابق زندہ رہنے کا عوامی‘ جمہوری‘ انسانی حق مانگتے ہیں تو اس میں خرابی کی کیا بات ہے؟ (ص ۹۶)
پھر مغرب اور اس کے مسلمان حواریوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
مغربی ذرائع ابلاغ پوری دنیا میں ایک موثر کردار کے حامل ہیں۔ خود مسلمان ملکوں کے اہل علم و دانش ان ذرائع سے پھیلائے جانے والے طرزفکر و احساس کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی دانش ور بھی ان ہی مغربی مفروضوں کی جگالی کرتے پائے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند اور سابق انقلابی دانش ور بھی جو لاطینی امریکہ کے گوریلا مجاہدچی گویرا کے مقلد ہونے پر نازاں رہتے ہیں‘ کشمیر میں مسلمانوں کی گوریلا جنگ کو ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی گالی دیتے ہیں۔ اپنے اس رویے کو روشن خیالی کا ثبوت بنا کر پیش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ستم ہے کہ خود مسلمان دانش ور اپنی اسلامی شناخت پر معذرت خواہ ہیں۔ (ص ۹۷)
اسی طرح مغرب کے رویے کے بارے میں اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتے ہیں:
حیرت تو یورپ کے اور امریکہ کے ارباب فکر و دانش پر اور ارباب بست و کشاد پر ہے جو اس وقت تک مسلمانوں کو انسانی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک مسلمان اپنی اسلامی شناخت سے دست بردار ہونے پر تیار نہ ہوں۔ کشمیری مسلمان اپنی اسلامی شناخت روز بروز نمایاں سے نمایاں تر کرتے چلے آرہے ہیں‘ اس لیے دنیاے مغرب ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والی فاشسٹ قوت کی عملی دست گیری اور نظریاتی حمایت سے حقوق انسانی کی پامالی میں مصروف ہے۔ (ص ۹۷)
یہ تو امریکہ اور یورپ کا تاریخی کردار ہے‘اس لیے ہمیں اگر حیرت ہے تو ملک صاحب کی اس حیرت پر ہے!
بھارت کی ثقافتی یلغار پر بھی ملک صاحب نے بھرپور گرفت کی ہے۔ بسنت کے موقع پر بھارتی وفد کی سربراہ وکرم ساہنی کے اس ارشادکا کہ:’’ پاکستان اور بھارت کا کلچر اور مٹی ایک ہے‘‘ ملک صاحب نے بہ ایں الفاظ تعاقب کیا ہے:
تحریک پاکستان کے دوران بھی متحدہ ہندستانی قومیت کے علم برداروں نے برعظیم کے مخلوط کلچر کی آواز بہت زور شور کے ساتھ اٹھائی تھی اور ’’ایک کلچر ایک ملک‘‘ کی سیاست چمکائی تھی مگر اس زمانے میں اقبال کی فکر ہماری رہنما تھی‘ اور ہم مخلوط ہندستانی کلچر کے بجائے جداگانہ مسلمان کلچر کے علم بردار بن کر ایک جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ چنانچہ ’’ایک کلچر ایک مٹی‘‘ کی سی باتیں ہمیں ایک سامراجی جال معلوم دیتی تھیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم اس جال سے بچ کر چلے اور قیام پاکستان کی منزل تک پہنچنے میں کامران ہوئے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ آزادی کے ۵۰سال بعد نئے شکاری وہی پرانے جال لے کر ہمارے حکمران طبقے کی میزبانی کے لطف اٹھا رہے ہیں اور حکمران طبقہ پلٹ کر یہ نہیں کہتا کہ دوستی اپنی جگہ مگر کلچر جداگانہ مسلمانی شناخت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ منفرد مسلمان کلچر اسلام کے تصور کائنات سے پھوٹا ہے۔ ہمارا یہ جداگانہ کلچر اکھنڈ بھارت میں خطرات کی زد میں آنے والا تھا‘ اس لیے اس کی بقا اورتحفظ و ترقی کی خاطر ہم نے عوامی جمہوری جدوجہد سے اپنی جداگانہ مملکت پاکستان حاصل کی۔ (ص ۱۵)
ملک صاحب نے صحیح انتباہ کیا ہے کہ:
ہمارے ارباب اختیار کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ ہندو ذہن کے مطابق تاریخ کی سب سے بڑی غلطی پاکستان کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ بس کے بجائے ٹینک پر بیٹھ کر پاکستان جائیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے نزدیک برعظیم میں مسلمانوں کا وجود بھی ایک تاریخی غلطی ہے۔ چنانچہ یہ ایجنڈا پاکستان کی تباہی پر ہی بس نہیں کرے گا بلکہ میری‘ آپ کی اور ہم سب کی فنا پر تمام ہوگا۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم بھارت سے کہیں کہ بس بھئی بس! (ص ۱۶)
نواز شریف کے دور میں ’’جنگ سلسلہ اخبارات‘‘ کے توسط سے سرکاری پلان اور اخراجات پر منعقد ہونے والی کانفرنس پر‘جو ’’انڈوامریکن لابی‘‘ کا کارنامہ تھی‘ تبصرہ کرتے ہوئے ملک صاحب نے پورے پاک بھارت اور کشمیری تناظرکو جس طرح بیان کیا ہے وہ ایک سچے پاکستانی اور مسلمان کے دل کی آواز ہے:
بھارتی سیاست دانوں اور صحافیوں نے پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر اوچھے وار کیے۔ پاکستان کے حکمران مسکراتے رہے۔ اس تجربے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے موجدوں اور سرمایہ داروں نے سوچا کہ اب اعلان لاہور کی گھڑی آپہنچی۔ چنانچہ اعلان لاہور داغ دیا گیا کہ بھائی ڈرو نہیں ہم پہلے انسان ہیں اور بعد میں مسلمان۔ وہ جو اوّل مسلمان ہیں اور آخر مسلمان--- ظاہر بھی مسلمان ہیں اور باطن بھی مسلمان۔انھوں نے اعلان لاہور پر وہ کہرام مچایا کہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ واجپائی کو لاہور کی سڑکوں پر قدم دھرنے کی اجازت نہ دینے والوں میں سے جو لوگ جیلوں میں ڈالے گئے وہ ابھی جیلوں سے رہا بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے جنون پسند ساتھیوں نے کارگل کی چوٹیوں سے بانگ انا الحق بلند کر دی۔ (ص ۴۴)
جہادی تنظیموں کے خلاف امریکی اور بھارتی یلغار کا پردہ ملک صاحب نے بار بار چاک کیا ہے اور اقبال کے پیغام جہاد میں آزادی‘ ایمان اور عزت کی تلاش کی یاد دہانی کرائی ہے۔ نیز مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک طویل اقتباس بھی دیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ:
یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اسلام کی جگہ جہاد اور جہاد کی جگہ اسلام‘ کبھی مسلم کی جگہ مجاہد اور کبھی مجاہد کی جگہ مسلم بولتا ہے… میں جہاد کو صرف ایک رکن اسلامی‘ ایک فرض دینی‘ ایک حکم شرعی بتلاتا ہوں حالانکہ میں تو صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے‘ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام سے اگر جہاد کو الگ کر لیا جائے تو وہ ایک ایسا لفظ ہوگا جس میں معنی نہ ہوں ‘ ایک اسم ہوگا‘ جس کا مسمّٰی نہ ہو۔
کشمیر کی کہانی میں بلاشبہ عالمی ضمیر کے لیے بہت سے چبھتے ہوئے سوال ہیں لیکن خود مسلمانوں کے ارباب بست و کشاد اور لبرلزم اور ترقی پسندی کے دعوے دار دانش وروں‘ صحافیوں اور سیاست دانوں کے لیے ان سے بھی زیادہ تیکھے سوال ہیں۔ کاش کہ وہ ان کا جواب اس ضمیر میں تلاش کرنے کی کوشش کریں جسے افیون پر افیون دے کر مردہ کیا جا رہا ہے۔ ملک صاحب کی اس کتاب کی آخری سطریں ایک انتباہ بھی ہیں اور امید کی ایک کرن بھی۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرنے اور کشمیر میں جہادی تحریکوں کو ناکام بنانے کی خاطر ابلیس کے سیاسی فرزندوں کی سیاسی دست گیری کرنے والے اہل سیاست و دانش کی حکمت اور حکمت عملی کو اقبال کی نظم ]اشارہ ہے ’’روح محمدؐ ‘‘ اور ملا کو کوہ و دمن سے نکالنے والی نظم[ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ساتھ ساتھ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی لازم ہے کہ بقول اقبال:
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حُر کی آنکھ ہے بینا
کشمیر کی کہانی حسن طباعت کے اعتبار سے بھی ایک کامیاب پیش کش ہے۔ زبان و بیان کی نزاکتیں میرا میدان نہیں لیکن monsterکا ترجمہ ’’جن‘‘ (ص ۶۳) کچھ کھٹکا۔ عفریت‘ بھوت یا دیو شاید بہتر رہتا۔ انگریزی الفاظ کے اسپیلنگ اور ترتیب مسئلہ بنی رہتی ہیں‘ یہاں بھی صحت کے غیر معمولی اہتمام کے باوجود غلطیاں موجود ہیں (مثلاً صفحہ ۹۱ پر proxy)۔
محترمہ بے نظیر صاحبہ نے جس طرح امریکہ کی آواز میں آواز ملائی ہے اور جس طرح وہ بھارت نوازی میں نواز شریف سے بھی بڑھ کر پیش پیش ہیں‘ اس پر ملک صاحب نے بجاطور پر بھرپور گرفت کی ہے اور بے نظیر اور ذوالفقار بھٹو کے بیانات کو جس طرح آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے‘ وہ خاصے کی چیز ہے۔ باپ بیٹی اور پی پی پی کے دو سربراہوں کے متضاد موقف ایک طرح سے پاکستانی سیاست پر جان دار تبصرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ امریکہ‘ بھارت اور جمہوریت کے بارے میں ذوالفقار بھٹو کے تضادات کی کوئی جھلک نہیں آسکی‘ بلکہ بین السطور بھٹو صاحب کے سلسلے میں ایک خفی رومانیت کا شبہ ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی چین پالیسی‘ خارجہ امور پر گہری نظر اور معیشت میں بنیادی صنعتوں کو اہمیت دینے کا میں بھی قائل ہوں لیکن امریکہ اور بھارت کے بارے میں جو قلابازیاں اوروں نے کھائی ہیں بھٹو صاحب کا دامن بھی اس سے پاک نہیں۔ تاشقند کے راز فاش کرنے کے سلسلے میں تو ملک صاحب کی توقعات بھی نامراد ہی رہیں۔
مصنف نے جہاں بجاطور پر سیاسی قائدین پر گرفت کی ہے کہ وہ امریکہ سے اپنے جواز کی سند لانے کے لیے لین ڈوری لگاتے رہے ہیں‘ وہاں اس قافلہ عاشقاں میں قاضی حسین احمد کا ذکر مبنی برانصاف نہیں۔ جس نے بھی لاہور اور اسلام آباد اور واشنگٹن اور نیویارک میں قاضی صاحب کے بیانات کا کسی تعصب کے بغیر مطالعہ کیا ہے وہ گواہی دے گا کہ ہر جگہ انھوں نے امریکہ اور اس کی قیادت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کی ہے‘ انھوں نے ہمیشہ پاکستان ‘فلسطین اور عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے رویے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ باعزت تعاون کی راہیں تو ضرور کھلی رکھی ہیں لیکن اپنے رویّے میں مداہنت یا التفات طلبی کا کوئی شائبہ بھی نہیں آنے دیا ؎
پروازہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
] کشمیر کی کہانی: عالمی ضمیر سے چند سوالات‘ از پروفیسر فتح محمد ملک۔ دوست پبلی کیشنز‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۴‘ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[
آگرہ میں منعقد ہونے والی بہ ظاہر غیر نتیجہ خیز سربراہی ملاقات ایک ایسا تاریخی موڑ ثابت ہو سکتی ہے جس کے بڑے دُور رس اور فیصلہ کن اثرات صرف ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل ہی پر نہیں بلکہ پاک بھارت تعلقات‘ سارک ممالک کے مجوزہ معاشی اور ثقافتی امکانات‘ پورے ایشیا کے مستقبل کے سیاسی دروبست اور کچھ بعید نہیں کہ نئے عالمی انتظام و انصرام‘ سب پر مرتب ہوں۔ اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ اگر پاکستانی قیادت اور قوم ان ۴۸ گھنٹوں میں ہونے والے تاریخ ساز واقعات اور ان کے بعد نکھر کر سامنے آنے والے رجحانات کا صحیح صحیح تجزیہ کر کے مستقبل کے لیے موثر حکمت عملی بنانے اور اس کے مطابق کام کا نقشہ تیار کر کے اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ تاریخ‘آگرہ کو صرف اس تاج محل ہی کے واسطے سے یاد
نہ رکھے جو ساڑھے تین سو سال سے محبت‘ حسن تعمیر اور ذوق جمال کا ایک عالمی شاہکار اور برعظیم میں مسلم ثقافت اور سطوت کی لازوال یادگار ہے بلکہ یہ برعظیم کے مستقبل کے لیے ایک نئی شاہراہ کی یافت کے لیے ایک سنگ میل بھی بن جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تاشقند‘ شملہ اور لاہور اپنے اپنے طور پر اہم ہونے کے باوجود پاک بھارت تعلقات اور پاکستانی سفارت کاری کی تاریخ میں ایک گونہ پسپائی (جسے ایک حد تک ہر موقع کے مخصوص حالات کی وجہ سے ’’قابل فہم‘‘ تو سمجھا جا سکتا ہے مگر مطلوب اور قابل فخر نہیں!) کی علامت بن گئے ہیں۔ اس پس منظر میں آگرہ ایک مختلف نمونہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو کچھ ہوا اور جو امکانات اس کے جلو میں رونما ہوئے ہیں وہ ایک نئے نموزج مثالیہ (paradigm) کا نقطہ آغاز‘ ایک نئے فراز کے لیے آئینہ اور تعمیرنو کے لیے نشانِ راہ بن سکتے ہیں۔
زندہ قومیں نہ کامیابیوں پر بے قابو ہوتی ہیں اور نہ مصائب میں حواس باختہ‘ وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہیں اور ہر واقعے پر بصیرت کی نگاہ سے غوروفکر کرتی ہیں۔ وہ سیاسی حالات اور واقعات کی تحلیل اور تجزیے کا ایک ایسا اسلوب اختیار کرتی ہیں جس کی بنیاد حقیقت پسندی(realism) پر ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ان کی گرفت قومی تصورات اور مقاصد پر بڑی مضبوط رہتی ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب خالی خولی تصوریت (utopianism) اور پست ہمتی اور شکست خوردگی دونوں سے پہلو بچا کر حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور مستقبل کی تعمیر کے عزم کے ساتھ مطلوبہ سعی و جہد بھی کی جائے۔صحیح اور نتیجہ خیز حکمت عملی وہی ہے جسے اس طرح مرتب کیا جائے کہ پائوں زمین پر ہوں اور نگاہیں منزل مقصود سے نہ ہٹنے پائیں۔
ایک مدت کے بعد آگرہ میں پاکستانی قیادت نے بڑی حد تک ایک پرعزم ‘ حقیقت پسندانہ اور باوقار رویہ اختیار کیا‘ وقتی فوائد کے مقابلے میں اصل مقاصد اور اہداف کو اہمیت دی‘ قومی مفاد کے تحفظ اور اپنی ترجیحات کو اولیت دی‘ نمایشی اقدامات سے مسحور ہو جانے کی حماقت نہیں کی اور محض وقتی کامیابی اور ناکامی کے چکر سے نکل کر اصل ایشوز پر اپنی اور دنیا کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی دوسری پالیسیوں اور اقدامات سے شدید اختلاف کے باوجود ہم آگرہ حکمت عملی کو مثبت‘ مفید اور خوش آیند سمجھتے ہوئے اس کی تحسین کرتے ہیں اور انھی خطوط پر مستقبل کی راہوں کی تلاش کو وقت کی ضرورت اور قومی مفاد کا تقاضا سمجھتے ہیں۔
یہ بہت ہی نازک اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ سوال پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفاد اور ملّت اسلامیہ کے مستقبل کا ہے۔ نہ حکومت کو آگرہ کی پذیرائی کو اپنے اقتدار کے لیے جواز یا اسے طول دینے کا ذریعہ بنانا چاہیے اور نہ قوم اور خصوصیت سے تمام محب وطن اور اسلامی قوتوںکو‘ دوسرے امور میں اختلاف کے باعث‘ اہم تاریخی لمحات اور امکانات کو کسی صورت میں ضائع ہونے دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آگرہ کے نموزج مثالیہ کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں اور ان مذاکرات کا تجزیہ تمام ضروری پہلوئوں کو سامنے رکھ کر کرنا چاہتے ہیں تاکہ قوم اور اس کی قیادت کو ایک نئے آغاز کے لیے دعوت دیں اور ان تقاضوں کی طرف متوجہ کریں جس کا سبق اس ’’ناتمام کامیابی‘‘ سے ملتا ہے۔
آگرہ مذاکرات کے کئی پہلو ایسے ہیں جن کو ایک حد تک معمّا بھی کہا جاسکتا ہے اور ان ہی کھلے اور چھپے گورکھ دھندوں کی قفل کشائی کے ذریعے آگرہ ماڈل کے ضروری اجزا کی تفہیم ممکن ہے۔
لاہور اور کارگل ‘ واہگہ اور واشنگٹن‘ ۱۲ اکتوبر اور پاکستان کا حقہ پانی بند کرنے کی بھارتی اور عالمی مساعی وہ پس منظر ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ایک اور منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ ایک طرف جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھارتی قیادت سے ملنے کے لیے بے چینی کا اظہار اور دوسری طرف سے خاموشی ہی نہیں حقارت آمیزتعلّی کہ ’’فوجی حکمران سے بات نہیں کریں گے‘‘ اور ’’کارگل کے معمار کو خوش آمدید کہنے کی کوئی گنجایش نہیں‘‘۔ اس کے ساتھ جموں و کشمیر میں کچھ نئی لہریں اُبھرتی ہیں۔ ۲۴ جولائی ۲۰۰۰ء کو یکایک حزب المجاہدین کی اندرونی کمانڈ کی طرف سے غیر مشروط جنگ بندی کا دھماکا ہوتا ہے جو ۸ اگست تک سب کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے۔ بھارتی قیادت زبانی اعلانات کے باوجود اس سے کوئی بڑا فائدہ نہیں اٹھا پاتی اور یہ جنگ بندی بھارت کی طرف سے تنازع کشمیر کے اہم اور مرکزی فریق پاکستان کومذاکرات سے باہر رکھنے کی ضد میں ختم ہو جاتی ہے۔ پھر جامع مسجد دہلی کے امام رمضان المبارک میں نئی جنگ بندی کی اپیلیں کرتے ہیں اور بھارتی وزیراعظم رمضان کے نام پر ایک یک طرفہ جنگ بندی کا ڈراما رچاتے ہیں جو پانچ مہینے میں کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو جاتا ہے۔ مجاہد قوتوں کو بانٹنے اور متنازع بنانے کے لیے اس زمانے میں صرف بھارت اور کشمیری قیادت (عسکری اور سیاسی بشمول حریت کانفرنس) میں مذاکرات کے پتّے کھیلے جاتے ہیں لیکن وہ بھی غیر موثر رہتے ہیں۔
اس پورے عرصے میں جموںو کشمیر میں خون کی ندیاں بہتی رہتی ہیں اور نام نہاد جنگ بندی کے باوجود جان و مال کی تباہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مئی میں جنگ بندی تو ختم کی جاتی ہے مگر یکایک جنرل پرویز مشرف سے بات چیت شروع کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے اور چشم زدن میں نہ ’’فوجی قیادت‘‘ کا ’’نامحرم‘‘ ہونا باقی رہتا ہے اور نہ ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ سنگ راہ بنتی ہے۔ سربراہی ملاقات کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سردوگرم دونوں قسم کی بیان بازیاں ہوتی ہیں--- کبھی ’’انسانیت‘‘ کی بات ہوتی ہے اور امن کی ضرورت اور غربت کے خلاف جنگ کا وعظ دیا جاتا ہے ۔ کبھی کشمیر کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہونے کی رَٹ لگائی جاتی ہے اور کبھی اس سے بھی آگے بڑھ کر کشمیر کو ’’بھارتی قومیت کی علامت اور سالمیت کی ضرورت‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی امام جامع مسجد دہلی بھی حرکت میں آجاتے ہیں کہ ۱۵ کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا انحصار کشمیر پر بھارت کے راج میں ہے اور ملک مذہب کے نام پر ایک اورتقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کو بلانے اور ان کو ’’شملہ‘‘ اور ’’لاہور‘‘ کے راستے پر ڈالنے کی سوچی سمجھی سفارت کاری کو سمجھنا ضروری ہے۔
پاک بھارت مذاکرات کا اگر بے لاگ جائزہ لیا جائے اور ہزار سال پھیلے ہوئے مسلمان اور ہندو قیادتوں کے مذاکرات کی تاریخ کونظراندازکرتے ہوئے صرف ان ۵۴ برسوںکا مطالعہ کیا جائے تو اس میں ایک خاص اندازنظر آتا ہے۔ بھارت کی قیادت نے کبھی بھی اصل زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر دیانت اور انصاف کے ساتھ معاملہ نہیں کیا۔ ’’بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام‘‘ محض محاورہ نہیں ‘ایک تاریخی حقیقت ہے۔ چاپلوسی اور دھوکا دہی‘ ایک طرف وعدے اور عہدوپیمان‘ دوسری طرف وعدوں سے انحراف‘ وقت پڑنے پر جھک جانا اور موقع نکلتے ہی اکڑ جانا ان کا طریقہ واردات ہے۔تقسیم ملک کو ایک ہاتھ سے قبول کیا گیا اور دوسرے ہاتھ سے تقسیم کی لکیر کو مٹانے اور اکھنڈ بھارت کے خواب کی تجدید رقم کی گئی۔ بین الاقوامی قانون اور سرکاری معاہدات کی کبھی پاس داری نہیں کی گئی۔ تقسیم کے وقت جو اثاثے پاکستان کا حق تھے وہ آج تک اس کو نہیں دیے گئے۔ جموں و کشمیر کے معاملے میں بھی پہلے دن سے دھوکا‘ دوغلہ پن اور خیانت کے حربے استعمال کیے گئے اور یہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پاکستان تو پاکستان خود شیخ عبداللہ کے ساتھ بھی جسے جموں و کشمیر پر قبضے کے لیے آلہ کار بنایا گیا‘ بالکل یہی معاملہ کیا گیا اور بالآخر اسے اپنے دوست جواہر لعل نہرو کے بارے میں کہنا اور لکھنا پڑا کہ وہ کشمیر کے معاملے میں میکاولی کی سیاست پر کاربند تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن کی تائید میںناقابل تردید شہادتیں موجود ہیں ۔خود پنڈت نہرو کے اپنے بیانات اور ان کے قلم سے لکھے ہوئے نوٹس اور رودادیں شائع ہو چکی ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ Selected Works of Jawaherlal Nehru جلد ۲۸‘ آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس‘ دہلی)
نہرو اور بھارتی قیادت پہلے دن سے جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے وہ کشمیر کو حاصل نہیں کر سکتے۔ انھوں نے استصواب کو ہمیشہ صرف دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا اور آج بھی عوام کی رائے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ عین اسی وقت جب پنڈت نہرو عالمی راے عامہ سے عہدوپیمان کر رہے تھے اور خود اپنی پارلیمنٹ میں اپنی عزت کی قسم (word of honour) دے رہے تھے‘ وہ عوام کی رائے معلوم کرنے اور استصواب کروانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے ۔ انھوں نے اپنے شرکاے کار اور خود شیخ عبداللہ سے تحریری طور پر اس کا اظہار کیا اور مشورہ دیا کہ ان باتوں کو باہر نہ کہا جائے کیونکہ اس سے ہماری عالمی ساکھ خراب ہو جائے گی۔ بھارت کی سفارت کاری کو سمجھنے اور واجپائی کے جنرل پرویز مشرف پرسفارتی معاملے میں نوآموز ہونے کی پھبتی کی حقیقت کو جاننے کے لیے پنڈت نہرو سے لے کر واجپائی اور جسونت سنگھ کے دوغلے پن (duplicity)کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ کوئی بھی حکمت عملی جو خوش فہمی اور وعدوں کی متوقع پاس داری کی امید پر بنائی جائے غیرحقیقت پسندانہ ہوگی۔ صرف وہی حکمت عملی کامیاب ہو سکتی ہے جس میں نیک نیتی اور وعدوں کی پاس داری کے مفروضوں پر معاملات طے نہ کیے جائیں بلکہ اس میں خود نافذ ہونے والے طریق کار (self enforcing mechanism) موجود ہوں۔
بھارت کے دوغلے پن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کے بارے میں پنڈت نہرو اور بھارتی قیادت کی حکمت عملی کو سمجھ لیا جائے۔ وہ ہر قیمت پر کشمیر پر اپنا قبضہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ استصواب رائے‘ تقسیم ریاست‘ خصوصی حیثیت (special status)سب اس کے لیے صرف ہتھکنڈے ہیں‘ مقصد یا پالیسی کے اجزا نہیں۔ اسی طرح سیزفائر (۱۹۴۸ء) ہو یا چین سے تصادم (۱۹۶۲ء) کے موقع پر پاکستان کی طرف سے کسی اقدام کی پیش بندی‘ ان سب کی حیثیت وقت گزاری اور محض کسی درپیش مشکل سے نکلنے کی کوشش سے زیادہ نہ تھی۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۴ء تک پنڈت نہرو کبھی استصواب اور کبھی مسئلے کے حل کا پختہ وعدہ کرتے رہے لیکن دراصل وہ کبھی بھی موجودہ حیثیت (status quo) سے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ جب بھی اس سے ہٹ کر کوئی بات ہوئی وہ ’’بین الاقوامی قانون‘ عالمی عہدوپیمان‘‘ بھارتی پارلیمنٹ میں عہدوپیمان‘ ہر چیز کو نظرانداز کرکے اپنی باتوں سے پھر گئے--- اور یہی وتیرہ آج تک قائم ہے۔
پنڈت نہرو ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اپنے اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے حوالے سے استصواب کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ عہد صرف آپ کی حکومت سے نہیں بلکہ کشمیر کے عوام اور دنیا سے بھی ہے۔
اس نوعیت کے دسیوں بیان پنڈت نہرو نے دیے۔ ۸ جولائی ۱۹۴۹ء کو اقرار کیا کہ "Kashmir is a world question" اور پھر ۷ اگست ۱۹۵۲ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ:
یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اگر یہ انڈیا کے علاوہ کسی دوسری قوم سے متعلق ہے تو اسے ایک بین الاقوامی مسئلہ ہونا ہی چاہیے‘ اور یہ دوسرے ملکوں سے متعلق ہے۔ یہ بین الاقوامی مسئلہ اس لیے مزید ہو جاتا ہے کہ دوسرے ملکوں کی ایک بڑی تعداد نے اس میں دل چسپی لی اور مشورے دیے… اس لیے اگرچہ کہ الحاق قانون اور حقائق کی نظروں میں مکمل ہے دوسری حقیقت بھی جس کا قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے موجود ہے‘ یعنی کشمیر کے عوام سے یا اگر آپ پسندکریں تو دنیا بھر کے عوام سے ہمارا وعدہ۔ اس الحاق کی توثیق کی جا سکتی ہے‘ اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔کشمیر کے عوام اگروہ چاہیں تو یہ کر سکتے ہیں۔
حتیٰ کہ ۱۹۶۲ء میں چین سے تصادم کے موقع پر ایوب خان‘ امریکی صدر کے نمایندے اور برطانوی سفارت کار سے مسئلے کوتیزی سے حل کرنے کا ایک بار پھر وعدہ کیا اور شیخ عبداللہ کو سفارت کاری کے لیے بیچ میں ڈالا لیکن یہ سب وقت گزاری کے لیے--- اور اب جو کاغذات شائع ہوئے ہیں ان میں صاف صاف لکھا ہے کہ ۱۹۴۷ء ہی سے نہرو کبھی بھی استصواب کے لیے تیار نہ تھے بلکہ صرف دھوکا دینے کے لیے یہ وعدے اور اعلانات کر رہے تھے۔ ۲۱ نومبر ۱۹۴۷ء کو پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کو لکھا تھا کہ وہ خود بھی استصواب کے خلاف ہیں لیکن اس کے اظہار کا بیرونی دنیا پر خصوصاً اقوام متحدہ کے حلقوں میں بہت برا اثر ہوگا۔ اس لیے میرا آپ کو ذاتی مشورہ ہوگا کہ آپ کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے استصواب کی نفی ہوتی ہو۔ یہ بات اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھی پہلے کی ہے جو نہرو کے ذہن کی حقیقی عکاس ہے۔
اقوام متحدہ کو معاملہ بھیجنے کا مشورہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے ۸ دسمبر ۱۹۴۷ء کو دیا ہے اور معاملہ وہاں
یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو پہنچا ہے۔ پاکستان نے اپنا کیس دو ہفتے بعد پیش کیا اور پنڈت نہرو نے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۸ء کو استصواب کے سلسلے میں UNCIPکی تجویز اس لیے قبول کی کہ سیزفائر ہو سکے۔ سیزفائر اس وقت بھارت کی ضرورت تھی۔
غلام محمد نے ۱۹۵۳ء میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنڈت نہرو سے کشمیر کے مسئلے پر تصفیے کی کوشش کی۔ اس موقع پر پنڈت نہرو پاکستان میں بھارت کے سفیر سی سی دیسائی کو in strict confidence لکھتے ہیں:
میں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ غلام محمد تصفیے کے لیے بے چین ہے اور اس کے لیے کچھ آگے جانے کے لیے بھی تیار ہے۔ یہ ایک خوش آیند اپروچ ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس سال موسم خزاں میں ریاست جموں و کشمیر میں استصواب کا انعقاد کیا جائے‘ سرے سے ممکن ہی نہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ دونوں فریق جزوی تبدیلیوں کے ساتھ جوں کی توں صورت حال قبول کر لیں۔ بلاشبہ اگر کوئی معاہدہ ہوا تو کئی باہمی فوائد بھی ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی فطری طور پر مجھے یہ کہنے میں بڑا تکلف ہے کہ ہم استصواب منعقد نہیں کریں گے۔ یہ وعدہ خلافی محسوس ہوگی اور میں اس کا مجرم نہیں بننا چاہتا۔
اس سے بھی پہلے دل کی بات نہرو نے ایک نہایت خفیہ خط میں شیخ عبداللہ کو ۲۵ اگست ۱۹۵۲ء کو لکھی تھی۔ اس میں اصل عزائم کا یوں اظہار کیا گیا ہے:
’’ہم فوجی اور صنعتی طاقت کی حیثیت سے پاکستان سے برتر ہیں لیکن یہ برتری اتنی بڑی نہیں ہے کہ جنگ یا جنگ کا خوف جلد نتائج پیدا کر دے۔اس لیے ہمارے قومی مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ پرامن پالیسی اختیار کریں اور اس کے ساتھ ہی اپنی طاقت میں اضافہ کریں۔ طاقت کا منبع صرف مسلح افواج نہیں بلکہ ان کی پشت پر موجود صنعتی اور اقتصادی طاقت ہے۔ جیسے جیسے ہماری طاقت میں اضافہ ہوگا‘ اور امید ہے کہ ایسا ہوگا‘ پاکستان میں ہم کو دھمکی دینے یا ڈرانے کا رجحان کم ہوتا جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ محض حالات کے دبائو کے تحت وہ ایسا حل قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے گا جسے ہم منصفانہ سمجھتے ہیں خواہ کشمیر میں یا کہیں اور‘‘--- وہ چاہتا تھا کہ ’’شیخ عبداللہ اور اس کے ساتھی واضح اور سخت رویہ رکھیں اور بنیادی مسائل کے بارے میں کوئی بحث نہ کریں۔ اگر ہمارا یہ رویہ ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اقوام متحدہ کیا سوچتی ہے یا پاکستان کیا کرتا ہے‘‘۔ (جلد ۱۹‘ ص ۳۳۰-۳۳۲)
یہ ہے بھارت کی اعلیٰ ترین قیادت کا اصل چہرہ۔ کانگریس کے پنڈت نہرو ہوں یا بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی--- ذہن‘ عزائم اور سفارت کاری کا اسلوب ایک ہی ہے۔ اسے سمجھے بغیر بھارت کی قیادت سے معاملہ کرنا اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔
جولائی ۲۰۰۱ء کے مذاکرات مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے نہیں‘ پاکستان کو ایک بار پھر بحالی اعتماد کے نمایشی کھلونوں میں اُلجھانے اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر میں تحریک مزاحمت کی کمر توڑنے اور پاکستان اور کشمیری عوام اور سیاسی اور جہادی قیادت کے درمیان بے اعتمادی اور بُعد پیدا کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے کاندھوں پر اپنے زعم میں سند جواز کی خلعت ڈال کر اور بڑے تام جھام سے ان کا استقبال کر کے انھیں بھی نوازشریف کی طرح خوش نما وعدوں اور دل فریب ثقافتی‘ سیاسی اور معاشی امکانات کے سبز باغ دکھا کر لائن آف کنٹرول پر کوئی معاملہ طے کرا لیں گے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اس جال میں پھنسنے سے انکار کر دیا اور سرزمین ہند پر ۱۴ جولائی کو پہلا قدم رکھنے سے ۱۷ جولائی نصف شب واپسی تک ایک ہی موقف رکھا کہ آئو اور جو اصل متنازعہ مسئلہ ہے اس پر بات چیت کرو ۔یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو باقی تمام معاملات بھی طے ہو جائیں گے۔ اگر اس کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو باقی سب لاحاصل ہے۔
جسے ہم آگرہ ماڈل کہتے ہیں اس کے پانچ اجزا ہیں:
۱- مقصد اور اہداف کے بارے میں ایک واضح لائن اور اسی کی روشنی میں ترجیحات کا تعین--- اصل نزاع مسئلہ جموں و کشمیر پر ہے۔ اس سے ہٹ کر کسی معاملے میں اُلجھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
۲- جموں و کشمیر کا مسئلہ محض زمینی تنازع نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی اصل حیثیت (status)کا تعین ہے جو آج تک معلق ہے۔ قانونی اور سیاسی اعتبار سے بھی اور جموں و کشمیر کے عوام کے جذبات و احساسات کے اظہار کی صورت میں بھی۔ یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کرنا ہے۔ بھارت اور پاکستان فریق مسئلہ ہیں لیکن آخری فیصلہ صرف جموں و کشمیر کے عوام ہی کو کرنا ہے۔ اس لیے ان سے مشورہ اور بالآخر انھیں فیصلے میں شریک کرنا ناگزیر ہے۔
۳- پاکستان کی کسی بھی قیادت کو یہ اختیار نہیں کہ قوم کے متفقہ تاریخی موقف سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرے یا ان کو مشورے میں شریک اور مکمل اعتماد میں لیے بغیر کوئی اقدام کرے۔ اس لیے مذاکرات سے پہلے پوری قوم کو اعتماد میں لیا گیا اور مذاکرات کے بعد ان کو پوری صورت حال سے مطلع کیا گیا۔
۴- بھارت سے معاملہ کرنے میں جہاں یہ ضروری ہے کہ وہاں کی قیادت سے بات کی جائے‘ وہیں جمہوری اصولوں اور بھارت کے اپنے دعووں کی روشنی میں ضروری ہے کہ بھارت کے عوام‘ وہاں کی صحافت‘ وہاں کے دانش ور اور پالیسی پر اثرانداز ہونے والے تمام عناصر سے بھی مکالمہ ہو۔ محض بند کمروں میں ایک دوسرے سے روایتی بات چیت کو مذاکرات کا سب کچھ (be all and end all) نہ سمجھ لیا جائے بلکہ کھلی بحث ہو‘ عوام تک پہنچا جائے اور راے عامہ کو بھی ان امور کے لیے تیار کیا جائے جن پر امن‘ ترقی اور دوستی کا انحصار ہے۔
۵- بات چیت کھلے ذہن سے ہو۔ طریق کار اور عملی اقدامات کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کے لیے آمادگی ہونی چاہیے لیکن اصل مسئلے کو پس پشت ڈال کر اور صرف ضمنی چیزوں پر ساری قوت اور وقت صرف کرنا پہلے بھی لاحاصل رہا ہے اور اب بھی غیرمفید ہوگا۔ اس لیے مرکزی مسئلے ہی کو مذاکرات کا ہدف بنایا جائے۔ اور یہ کام دلیل کی قوت سے‘ انصاف کے مطابق‘ عالمی قانون اور عہدوپیمان کا پاس کرتے ہوئے اور عوام کی مرضی کے مطابق انجام دیا جائے۔ یہ جمہوریت کی روح ہے‘ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے اور اسی طرح دیرپا امن اور مستقل دوستی کی راہیںہموار ہو سکتی ہیں۔
یہ پانچ اجزا مل کر آگرہ ماڈل بنتے ہیں اور تاشقند‘ شملہ اور لاہور تینوں میں جو سقم تھا اور جس کی وجہ سے وہ عملاً غیر موثر رہے اس کی تلافی کرتے ہیں۔ اگر کوئی نیا آغاز (break through)ممکن ہے تو وہ اسی طریقے سے --- اور یہی وہ چیز ہے جو واجپائی اور ان کی ٹیم کو ہضم نہ ہو سکی۔ پہلے توکچھ ضبط اور رواداری کا مظاہرہ کیا گیا لیکن پھر پارٹی کی میٹنگ اور پارلیمنٹ میں پھٹ پڑے اور شرافت‘ انسانیت اور سفارتی اور سیاسی آداب کو بالاے طاق رکھ کر جنرل پرویز مشرف کے عسکری ذہن(military mindset)‘ کمانڈوانداز سیاست‘ تاریخ اور سفارت کاری سے عدم واقفیت‘ سیاسی ناتجربہ کاری سے لے کر رخصت کے وقت ان کے چہرے کے رنگ اور خدوخال سب پر برس پڑے۔ صدر پرویز مشرف مشترک اعلامیہ تو حاصل نہ کر سکے لیکن وہ اپنی قوم‘ جموں و کشمیر کے عوام اور تحریک آزادی کے جان فروشوں اور پوری دنیا کے سامنے سرخرو ہوئے ۔ انھوں نے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ساری دنیا کی توجہ ایک بار پھر اصل مسئلے پر مرکوز کرا دی۔ اسے محض media coupقرار دینا کم ظرفی اور حقیقت سے نظریں چرانا ہے۔ آگرہ ماڈل کا اصل حاصل یہ ہے کہ:
سب کے سامنے یہ حقیقت آگئی ہے کہ مذاکرات براے مذاکرات ایک لاحاصل شے ہیں۔ نیز محض بے معنی اعلامیے نہ ماضی میں مسائل کے حل کی راہ میں معاون ہوئے ہیں نہ آج ہو سکتے ہیں۔ گذشتہ ۵۴ برسوں میں اعلیٰ سطح کے مختلف مذاکرات میں ۱۰۰ سے زیادہ اعلامیے جاری ہو چکے ہیں مگر بے فائدہ۔ آیندہ اگر مذاکرات کو کارآمد ہونا ہے تو اصل مسئلے پر بات چیت اور اس کے حل کے لیے تیار ہونا ہوگا۔
آگرہ کے دو دن میں پاکستان اور کشمیر کی جدوجہد آزادی نے جو کچھ حاصل کر لیا وہ شملہ سے لاہور تک ۳۰ برس میں حاصل نہیں ہو سکا تھا۔ مذاکرات میں پاکستان کے موقف کے بعد جن باتوں کا اب کھلے بندوں اعتراف ہو رہا ہے ان میں کشمیر کی مرکزیت‘ کشمیری عوام کا اپنے مستقبل کو طے کرنے کا حق‘ کشمیر میں بھارتی زیادتیاں سب پر گفتگو ہورہی ہے اور خود یہ سوال اٹھائے جانے لگے ہیں کہ اگر کشمیر کا مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا تو اقوام متحدہ میں بھارت کیوں گیا تھا‘ استصواب کی تجویز کو کیوں مانا اور کیوں اس سے فرار کی راہ اختیار کی‘ دستور میں دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۲۵۳ کی پرویژن کیوں رکھی گئی۔
بھارت کے معروف اخبارات و رسائل ہندوستان ٹائمز‘ فرنٹ لائن‘ ٹائمز آف انڈیا‘ انڈین ایکسپریس‘ کشمیر مانٹیر اور اکنامک اینڈ پولٹیکل ویکلی میں اے جی نورانی‘ نیجا چودھری‘ پرافل بدوائی‘ کے بالگوپال‘ اے این رام اور دیگر متعدد مضمون نگاروں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور بھارت کے موقف پر تیزوتند سوالات اٹھائے ہیں۔ ہندستان ٹائمز کے عوامی سروے شاہد ہیں کہ بھارت کے عوام کی ۸۱ فی صد اکثریت نے آگرہ مذاکرات کے بعد اعتراف کیا ہے کہ اصل مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔
آگرہ مذاکرات میں پاکستان کے واضح اور دو ٹوک موقف نے بھارت کی کشمیر پالیسی کے تضادات اور مغالطوں کا پردہ بالکل چاک کر دیا ہے اور یہ حقائق دنیا کے سامنے آگئے ہیں :
۱- اصل تنازع جموں و کشمیر کی ریاست کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے جسے بھارت اپنے عالمی عہدوپیمان کو یک طرفہ طور پر توڑ کر ایک نقائص سے پرُ (flawed) اور ناقابل دفاع دستاویزالحاق (instrument of accession) کے سہارے اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دینے کی رَٹ لگا رہا ہے اور جس کے خلاف جموں و کشمیر کی آبادی کی عظیم اکثریت ایک ریاست گیر تحریک مزاحمت اور جہادآزادی میں مصروف ہے۔
۲- جسے بھارت ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ قرار دیتا ہے وہ دراصل ایک عوامی جدوجہد اور قومی تحریک آزادی ہے جسے قوت کے ذریعے کچلنے کے لیے بھارت بدترین ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔اس کے نتیجے میں ۷۰ سے ۸۰ ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں‘ ہزاروں گھر اور بازار نذرآتش کر دیے گئے ہیں‘ ہزاروں خواتین کی جبری اور اجتماعی آبرویزی کی گئی ہے‘ ہزاروں افراد جیلوں میں محبوس ہیں اور لاکھوں گھربار چھوڑنے پر مجبور کیے گئے ہیں۔
۳- پاکستان کا اس جدوجہد سے گہرا تعلق ہے اور اس مسئلے میں وہ ایک شریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا اور جموں و کشمیر کے عوام کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور محض معاشی مفادات یا وقتی مصالح کی بنا پر وہ اپنے تاریخی کردار سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ پاکستان بھی امن اور معاشی ترقی کا اتنا ہی خواہش مند ہے جتنا دنیا کا کوئی دوسرا ملک‘ لیکن امن‘ انصاف کے بغیر اور معاشی ترقی ‘سیاسی آزادی‘ قومی سلامتی و وقار اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی قیمت پر گوارا نہیں کی جا سکتی۔
۴- جموں و کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا تنازع یا سیاسی و معاشی مفادات کا کھیل نہیں۔ یہ سوا کروڑ انسانوں کی آزادی اور حقوق کا مسئلہ ہے اور پاکستان کی اپنی سلامتی اور بین الاقوامی عہدوپیمان سے اس کا تعلق ہے۔ اسے اقوام متحدہ کی قراردوں‘ بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی کے مطابق طے کرنے ہی میں سب کی خیر اور فلاح ہے۔
۵- بھارت نے آج تک جس طرح اس مسئلے کو اُلجھایا اور فرار کی راہیں نکالی ہیں وہ نہ اس کے اپنے طویل المیعاد مفاد میں ہے اور نہ جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام کے لیے قابل قبول۔ جموں و کشمیر کے عوام کی بھارت سے دُوری اور نفرت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور اسے محض کسی بیرونی سازش کا شاخسا نہ کہہ کر رفع دفع نہیں کیا جا سکتا۔ اسے حقائق کا سامنا کرناہوگا اور جتنی جلدی یہ تنازع قانون‘ انصاف اور جمہوری اصولوں کے مطابق طے ہو جائے اتنا ہی سب کے لیے بہتر ہے۔ کوئی قوم‘ بہ ظاہر خواہ کتنی ہی طاقت ور اور بڑی ہو‘ کسی ایسی قوم کو مستقل اپنی محکوم نہیں رکھ سکی اورنہ رکھ سکتی ہے جو آزادی کی طلب گار اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد اور قربانی دینے کو تیار ہو۔
۶- بھارت دوسروں کو تاریخ سے ناواقفیت اور سفارت کاری کے آداب سے محرومی کا طعنہ دیتا ہے لیکن جو رویہ اس نے خود اختیار کیا ہے وہ تاریخ کے حقائق سے انحراف اور ڈپلومیسی نہیں‘ دوغلے پن اور کھلی کھلی دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے کچھ عرصے کے لیے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن یہ کاروبار مستقل نہیں چل سکتا۔ جموں و کشمیر کے عوام اپنے حقوق کے حصول کی جنگ میں قربانیاں دے چکے ہیں اور ان کے حصول کے لیے جس طرح سینہ سپر ہیں اس میں بھارت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ خوش دلی سے یا بالآخر مجبور ہو کر ان کو ان کے وہ حقوق دے جو اس نے غصب کر رکھے ہیں۔ بھارت جموں و کشمیر میں ہر اعتبار سے ایک سامراجی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی حیثیت ایک قابض قوت (occupying power)کی ہے۔ وہاں کے عوام ہی اپنے مستقبل کافیصلہ کر سکتے ہیںاور یہ حق ان کو جتنی جلد مل جائے‘ اتنی ہی جلد علاقے میں امن قائم ہو سکتا ہے اور پاک بھارت دوستی کا ایک دَور شروع ہوسکتا ہے۔
یہ وہ اثرات ہیں جو آگرہ کو ایک نئے ماڈل کا درجہ دیتے ہیں۔ اس کا یہی وہ پیغام ہے جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی چیں بہ جبیں ہے ‘ اور کے ایل ایڈوانی صاحب نے جموں میں فوج کو نئے اختیارات سے نوازا ہے۔ وہاں ڈاڈا جیسے ظالمانہ قانون کو نافذ کیا جا رہا ہے اور واجپائی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم تحریک کو قوت سے دبانے کی صلاحیت اور ہمت رکھتے ہیں۔
ان حالات میں ہم کچھ نئے خطرات کے سایے بھی اُبھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ان کا ادراک بھی ضروری ہے۔
۱- پاکستان پر امریکہ اور دوسری طاقتوں کا دبائو بڑھے گا کہ اس آزاد پالیسی سے پسپائی اختیار کرے اور بھارت کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاملہ طے کرے۔ امریکی وزارت خارجہ کی جائنٹ سیکرٹری کا حالیہ دورہ اور پاکستانی خارجہ سیکرٹری کا واشنگٹن جانا اس کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ بہت نازک مرحلہ ہے اور اس میں آگرہ ماڈل سے انحراف اور کسی بھی درجے کی پسپائی ملک کے لیے اور تحریک آزادی کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اندرون خانہ ‘ امریکہ اور بھارت سے جو بات چیت جاری ہے کہیں اس کا ایک شاخسانہ یہ بھی نہ ہو کہ مختلف انداز میں جہادی سرگرمیوں کو لگام دینے کے لیے ان کے مالی وسائل پر گرفت تنگ کی جائے۔ اندیشہ ہے کہ یہ کام بڑی چابک دستی سے اور جہاد کشمیر کی سرپرستی اور تائید کے دعووں کے ساتھ شروع کیا جائے گا تاکہ کوئی بڑا عوامی ردّعمل نہ ہو۔ اس کی حیثیت ویسی ہی ہوگی جو چور گھر میں داخل ہونے سے پہلے چند پتھر پھینک کر کرتا ہے کہ اہل خانہ بیدار ہیں یا سو رہے ہیں۔ حکومت اور قوم دونوں کے لیے اس میں بڑی آزمایش ہے اور ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کے اخلاص‘ وژن اور ہمت کے امتحان کا وقت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومت بھی کیا کارگل کی بلندی کے بعد واشنگٹن کی پسپائی کا راستہ اختیار کرے گی یا آگرہ کو سری نگر میں آزادی کے پرچم کی سربلندی تک جاری رکھے گی۔
معاشی کارڈ کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور مزید استعمال کیا جائے گا‘ معاشی پابندیوں کونرم کرنے کا دلاسہ بھی دیا جائے گا۔ یہ سب جانے بوجھے طریقے ہیں۔ حکومت کو اس دام سے بچنے اور آگرہ ماڈل کو آگے بڑھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنا چاہیے۔
۲- ہم جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے قوت کے بھرپور اور جارحانہ استعمال کے امکانات بھی دیکھ رہے ہیں۔ کھسیانی بلی صرف کھمبا ہی نہیں نوچتی--- بدن بھی نوچنے پر اتر آتی ہے اور اس کے قوی امکانات ہیں۔ کشمیر کی تحریک مزاحمت کے لیے سخت امتحان ہے اور اسے اس کے لیے ضروری تیاری اور پیش بندی کرنی چاہیے۔
۳- پاکستان میں بھی تخریب کاری میں اضافے کے خطرات نظر آ رہے ہیں۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اس سے پیدا ہونے والی صورت حال میں حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ خود جہادی تحریکوں پر پابندی لگائی جائے یا کم از کم ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس سلسلے میں حکومت کے کچھ بیانات تشویش میں اضافے کا باعث ہو رہے ہیں۔ فرقہ واریت‘ خون خرابہ یا تخریب کاری کا کوئی تعلق جہاد کشمیر سے نہیں‘ یہ اس جہاد کو کمزور کرنے کی ایک بھارتی سازش کا حصہ ہیںاور اس کا مقابلہ حکومت‘ جہادی تنظیموں اور خود عوام کو کرنا چاہیے۔
۴- ہم یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ بھارت نواز لابی ایک بار پھر متحرک ہو گی اور دفاعی اخراجات‘ امن و امان کے مسائل‘ غربت اور بے روزگاری ‘ قرضوں کا بوجھ اور معاشی مشکلات کے نام پر کشمیر کے مسئلے پر سمجھوتہ اور امریکہ اور بھارت کے نقشہ کار سے ہم آہنگی کی باتیں کی جائیں گی۔ آگرہ مذاکرات نے اس لابی پر ایک ضرب لگائی تھی لیکن یہ پھر متحرک ہو رہی ہے اور سیکولر عناصر اس کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ یہ اندرونی کش مکش ملک کو کمزور کرنے اور جہاد کشمیر کو سبوتاژ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس کا تدارک ضروری ہے ۔اس کا ذریعہ تصادم نہیں صحیح قومی موقف پر پوری قوم کو متحرک کرنے کی جدوجہد ہے۔ افہام و تفہیم کے ساتھ عوامی تحرک اس چیلنج کا جواب ہے۔
ہم حکومت کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ آگرہ میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر ڈٹ جائے اور کارگل کے ساتھ جو کچھ واشنگٹن میں ہوا اس سے سبق لے اور اس سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے سارے امکانات کو ختم کر دے۔ اس کے لیے فوج اور قوم میں تعاون کی ضرورت ہے جو اسی وقت پوری طرح حاصل ہوسکتا ہے جب فوج سیاسی کردار کو جلد از جلد سمیٹے اور سرحدوں کو موجودہ اور پیش آنے والے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے یک سو ہو کر سرگرم عمل ہو جائے۔ قومی مشاورت کے ذریعے اندرونی مسائل کو حل کرنے کی طرف فوری توجہ دی جائے۔ قوم کی طاقت کا اصل منبع اللہ پر بھروسے کے بعد قومی مقاصداور اہداف پر مکمل یک جہتی کا حصول ‘اور ایمان‘ آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے قومی شعور کو بیدار کرنا اور ملی یک جہتی کا حصول ہے۔ اس کے لیے اخلاقی اور نظریاتی بیداری اور ملی مقاصد کی آبیاری وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اقبال نے اسی حقیقت کی طرف قوم کو متوجہ کیا تھا کہ ؎
حرف اس قوم کا بے سوز‘ عمل زار و زبوں
ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
اس کے ساتھ معاشی حالات کی اصلاح اور بیرونی ممالک پر انحصار میں کمی بھی ایمان‘ آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان نظریاتی‘ اخلاقی‘ عسکری اور معاشی اعتبار سے جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی وہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی تقویت کا سامان فراہم کرسکے گا۔ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں جو یک جہتی اور اعتماد باہمی آگرہ مذاکرات کے بعد رونما ہوا ہے اسے مستحکم کرنے اور ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جہادی قوتوں کی تائید کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں سیاسی جدوجہد کو موثر بنانے اور تمام سیاسی قوتوں کو ایک نکتہ یعنی بھارتی تسلط سے نجات پر جمع کرنے اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں پر پورا بھروسہ اور اعتماد ہے۔ پاکستانی قیادت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس اعتماد کو مزید ترقی دیں اور جس طرح جموں و کشمیر کا مسلمان پاکستان میں اپنا مستقبل دیکھ رہا ہے اسی طرح ہم بھی ان کو یقین دلائیں کہ وہ اس امت کے عظیم فرزندوں کی طرح اپنے معاملات کی خود اپنے عقائد‘ عزائم اور روایات کے مطابق صورت گری کر سکیں گے اور خود پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں گے۔
آگرہ ماڈل مشاورت باہمی‘ قومی مقاصد پر یکسوئی اور جرأت مندانہ استقامت‘ بیرونی دراندازیوں سے حفاظت‘ عوام پر اعتماداور اصولوں پر سمجھوتہ کاری کے اجتناب سے عبارت ہے۔ آگرہ کا پیغام یہ ہے کہ ملکی معاملات کو بھی انھی اصولوں اور بنیادوں پر طے کیا جائے اور جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی بھی انھی کے مطابق تائید و تقویت کا سامان کیا جائے۔ بھارت اور پوری دنیا کے عوام تک اپنے موقف کو دلیل اور دانش مندی سے پہنچانے اور اس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے تاکہ حکومتوں اور مفاد پرست عناصر کو عوامی دبائو کے ذریعے اہل حق کو ان کا حق ادا کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی بڑا اہم ہے اور اس کو حق کے لیے مسخرکرنا ایک اہم ہدف ہے۔ عالمی میڈیا نے کشمیر کے کاز کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت برتی ہے اور بھارت کو اس سلسلے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ اس نے دنیا سے حقائق کو چھپائے رکھا ہے۔ آگرہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میڈیا کی قوت کو مظلوموں کی مدد اور انصاف اور آزادی کے حصول کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں جتنی اہمیت سیاسی اور جہادی سرگرمیوں کی ہے اس سے کچھ کم اہمیت میڈیا کے ذریعے دنیا کی رائے عامہ کو باخبر کرنے اور متحرک کرنے کی نہیں ہے۔ ان تمام اہداف کے حصول کے لیے ایک مربوط اور مختلف جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ آگرہ کو محض ایک واقعہ نہیں رہنا چاہیے‘ اسے ایک تحریک میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے جان کی بازی لگا کر ہی اہل جموں و کشمیر کو زندگی کا پیغام دیا جا سکتا ہے--- بلکہ خود اہل پاکستان اور پوری امت مسلمہ کے لیے اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے یہی راستہ ہے: ایمان‘ اتحاد‘ قوت کا استحکام اور جہاد فی سبیل اللہ! جگر نے اس پیغام کو کتنے سادہ مگر ایمان افروز انداز میں ایک شعر میں سمو دیا ہے:
یہ مصرع کاش! نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کے لیے تیار ہو جائے
معاشیات کی تدریس و تحقیق سے طویل مدت کی گہری وابستگی کے باوجود‘ میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ معاشیات بہت اہم سہی‘ لیکن معاشیات ہی سب کچھ نہیں ہے۔ انسان صرف روٹی کھا کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ معاشی پہلو بہت اہم ہے‘ لیکن اخلاقی اور انسانی پہلو اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ دو صدیاں انسانی زندگی میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس دوران معاشی و سماجی تبدیلیاں اتنے بڑے پیمانے پر عمل میں آئی ہیں جس کی کوئی نظیر نہیں۔ مقدار اور معیار کی یہ تبدیلیاں تہذیبی اور سیاسی و معاشی قوت کے طور پر ظاہر ہوئی ہیں۔ ان کا علامتی اظہار فلک بوس عمارات کی نہ ختم ہونے والی قطاروں‘ عظیم صنعتی اداروں‘ بنکوں اور مالیاتی اداروں‘ بڑی بڑی صنعتوں‘ اوپیراہائوسوں‘ عجائب گھروں‘ بڑے بڑے اسٹیڈیم اور ائرپورٹ‘ سیٹلائٹ ٹکنالوجی کے عجائبات اور مال و دولت کے دوسرے مظاہر کی صورت میں ہوا ہے۔ ہمیں انھیں تسلیم کرنا چاہیے لیکن طاقت و قوت کے ان مظاہر کی چمک دمک سے آنکھوں کو خیرہ کرنے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ظاہر کی تہ میں جا کر انسانی معاشرے کی حقیقی صورت حال کا جائزہ لیں۔ جی ہاں‘ یہ دو صدیاں عظیم معاشی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے‘ نئے نئے علاقے دریافت ہوئے ہیں اور ان کو ترقی دی گئی ہے۔ برّی‘ بحری اور فضائی رابطے بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں زمان و مکان کے فاصلے ختم نہیں تو بہت کم ہوگئے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی ریل پیل اور فراوانی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی ‘ تعلیم اور تحقیق‘ فوجی قوت اور سیاسی برتری نے عالمی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان دو صدیوں میں انسانیت تین قسم کے معاشی تجربات سے گزری ہے‘ یعنی نظام سرمایہ داری‘ اشتراکیت اور فاشزم۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلاحی ریاست کا مخلوط معیشت کا تصورنظام سرمایہ داری کا ہی ایک مظہر ہے اور اس میں حالیہ تبدیلیاں اس نظام کی کچھ عمومی خامیوں پر قابو پانے اور جمہوری عمل کی ضرورت کے پیش نظر کی گئی ہیں۔
یہ کہانی کا ایک رُخ ہے۔ اس کا دوسرا رُخ بھی کم اہم نہیں ہے‘ بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کا تعلق انسانی جہت سے ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غیر معمولی معاشی ترقی‘ تکنیکی انقلابات اور مادی دولت کی فراوانی کے باوجود انسان کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ غربت‘ انسانی بدحالی‘ مفلوک الحالی اور بے روزگاری سے نجات حاصل نہیں ہوئی۔ جرائم‘ تشدد‘ انسانی حقوق سے محرومی‘ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ‘ بالادستی کے لیے جنگ‘ بے گناہوں اور کمزوروں پر ظلم اسی طرح کھلے عام جاری ہے۔ بیسویں صدی کی دو بڑی جنگوں میں جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہ گذشتہ ۱۵ صدیوں کی جنگوں میں ہونے والے نقصان سے زیادہ ہے۔ اگر پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء) میں ڈیڑھ کروڑ انسان لقمہ اجل بنے تو دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء)میں یہ تعداد ۵کروڑ ۱۰ لاکھ سے متجاوز تھی۔ ان جنگوں کے بعد ہونے والی ۱۲۸ علاقائی اور نسلی جنگوں نے مزید ۳ کروڑ انسانوں کو نگل لیا۔ اس دہشت گردی اور تباہی کا کوئی آخری سرا نہیں ہے۔ سالٹ (SALT)معاہدوں کے نتیجے میں خاصی کمی ہونے کے باوجود امریکہ اور روس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘ ۱۵ منٹ کے اندر اندر پوری دُنیا کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اکیلے اسرائیل کے پاس موجود گولہ و بارود کا ذخیرہ آدھی دُنیا کو تباہ کر سکتا ہے۔ نیز جنگی مشینوں کو بہتر سے بہتر کرنے اور ان میں اضافہ کرنے کا معاملہ رکتا نظر نہیں آتا۔
تمام معاشی کامیابیوں‘ مالیاتی معجزات‘ تکنیکی انقلابات اور مادی دولت کی فراوانی کے باوجود انسانیت آج بھی بنیادی مسائل سے اُسی طرح دوچار ہے۔ دُنیا کی آبادی کا ۴۰ فی صد غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے‘ ان میں سے تقریباً ۲۰ فی صد شدید غربت کا شکار ہے۔ غربت صرف تیسری دُنیا کے ممالک کا ہی مقدر نہیں ہے بلکہ دُنیا کے امیر ترین ملک امریکہ میں بھی‘ جہاں دُنیا کی آبادی کا ۸ .۵ فی صد حصہ دُنیا کی دولت کے ۲۵ فی صد کا مالک ہے‘ ہر چوتھا بچہ غربت میں آنکھ کھولتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دُنیا زیادہ نامنصفانہ‘ زیادہ استحصال زدہ اور پہلے سے زیادہ غیرمستحکم ہو گئی ہے۔ ضرورت نہیں بلکہ حرص‘ عمل کی قوت بن گئی ہے۔ ہرایک کے لیے انصاف اور ستم رسیدہ طبقات کی فلاح و بہبود اب رہنما اصول نہیں رہے ہیں۔ پرُفریب نعروں‘ مبالغہ آمیز دعووں اور جھوٹے اعداد و شمار کے پس پردہ تلخ حقائق بالکل دوسری صورت حال پیش کرتے ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اٹھارھویں صدی کے وسط اور انیسویں صدی کے آغاز پر‘ ۱۸۰۰ء میں یورپ اور امریکہ کی مجموعی خام داخلی پیداوار (GDP) دُنیا کی کل پیداوار کا تقریباً ۲۸ فی صد تھی۔ اس کے برعکس وہ ممالک جو آج تیسری دُنیا کے غریب ممالک کہلاتے ہیں‘ ان کی خام داخلی پیداوار دُنیا کی کل پیداوار کا ۷۰ فی صد تھی۔ ۱۸۰۰ء میں صرف برعظیم کی خام داخلی پیداوار دُنیا کی کل پیداوار کا ۲۰ فی صد تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دو صدیاں‘ دُنیا کے کچھ ممالک کے لیے ترقی کی‘ جب کہ دُنیا کے دوسرے حصوں کے لیے ترقی معکوس کی صدیاں تھیں۔ دُنیا کی دولت بڑے پیمانے پر منتقل ہوئی ہے۔ ورلڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۰۰ء ایک بہت ہی چونکا دینے والی صورت حال پیش کرتی ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام پر دُنیا کی کل آبادی کی ۱۸ فی صد آبادی رکھنے والے ۲۲ ترقی یافتہ ممالک دُنیا کی کل پیداوار کے ۸۷ فی صد کے مالک تھے‘ جب کہ ۸۲ فی صد آبادی رکھنے والے ۱۶۷ ممالک دُنیا کی کل پیداوار کے صرف ۱۳ فی صد پر گزارا کرنے پر مجبور تھے‘ اور اس ۸۲ فی صد آبادی کا حصہ سال بہ سال کم ہو رہا ہے۔ دُنیا کے غریب ممالک سے وسائل کی ترسیل امیرممالک کی طرف ہو رہی ہے۔ امیر ممالک کی امارت میں اور غریبوں کی غربت میں اضافہ انسانیت کے لیے بہت ہی ناخوش گوار صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس کے مستقبل کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
مجھے غلط مت سمجھیے‘ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف سازشی نظریات کی روشنی میں معاملات کو دیکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس صورت حال کی ذمہ داری کافی حد تک ہمارے اپنے کندھوں پر بھی آتی ہے‘ تاہم تاریخی حقائق اور سچائیوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ نوآبادیاتی دَور کے خوف ناک سائے میں سرمایہ داری اور اشتراکیت جیسے استحصالی اور ناانصافی پر مبنی نظام پوری دُنیا پر مسلط کیے گئے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی ترقی و قوت‘ سیاسی فتوحات ‘ جارحانہ لڑائیاں (یعنی کچھ ممالک دوسرے ممالک کو فتح کریں اور ان پراپنا تسلط جما کر وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیں) ہمیشہ ہی تاریخ کا حصہ رہی ہیں لیکن انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ صرف یورپی نوآبادیاتی دَور میں اتنے بڑے پیمانے پر وسائل اور دولت باقی دُنیا سے چند محدود خطوں میں منتقل کی گئی۔ اگر آپ جان کینیڈی کی کتاب (The Rise and Fall of Great Powers) ’’بڑی طاقتوں کا عروج و زوال‘‘ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ مغربی تاریخ دان اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ گذشتہ چند صدیوں کا سامراجی نظام ماضی کے بیرونی حکمرانوں سے بہت مختلف تھا‘ کیونکہ اس عرصے میں ہم دولت اور وسائل کی بہت بڑی مقدار میںمنتقلی اور بیرونی حکمرانوں کے فائدے کے لیے دُنیا کے وسائل کی ازسرنو تقسیم کو دیکھتے ہیں۔ نوآبادیوں کا استحصال فاتح ملک کو مالا مال کرنے کے لیے کیا گیا۔ ایسا نہ صرف زری اثاثوں‘ سونے اور دیگر فنڈز کی صورت میں کیا گیا بلکہ انسان بھی مال و جایداد کی طرح استعمال کیے گئے۔ اس کا آغاز ’’سنہری ریشے‘‘ (سنہری ریشم Golden Fleace) سے ہوا‘ اس نے مادّی وسائل کی تجارت اور منتقلی کی صورت میں ترقی پائی اور غلاموں‘ زرخرید مزدوروں اور بچوں کی تجارت کی صورت میں مضبوط ہوا اور آج عالم گیریت (Globalization)‘ آزاد روی (Liberalization) ا۳ور اداراتی قرضوں (Institutional debt)کی غلامی کی صورت میں اس کی تکمیل ہو رہی ہے۔ غلامی کی کوئی ایک صورت نہیں ہے بلکہ اس کے کئی چہرے ہیں ۔یہ طرح طرح کی صورتیں اختیار کر لیتی ہے۔
کمیونزم اور سوشلزم خود اپنی خامیوں کے بوجھ سے زمین بوس ہو چکے ہیں۔ بیرونی عوامل بھی اہم تھے‘ افغانستان کا جہاد آخری ضرب کاری تھا۔ افغانستان سے روس کی واپسی سوویت دَور کے اختتام اور اس سوویت سپرپاور کے تاروپود بکھرنے کا اعلان تھا۔ مشرقی یورپ کے ممالک کی آزادی اور سوویت سلطنت کا خاتمہ ہمارے دَور کے بڑے واقعات ہیں‘ تاہم یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ اس نظام کے داخلی تضادات اور اس کے سیاسی‘ سماجی ‘ اخلاقی اور معاشی نظاموں کی ناکامیوں نے اس کے زوال کی راہ ہموار کی۔ کمیونزم کے زوال کے نتیجے میں سرمایہ داری اور آزاد روی (لبرلزم) دُنیا کے واحد غالب نظام کے طور پراُبھر کر سامنے آئے‘ جب کہ انسانی معاشرے کے حقیقی مسائل‘ جن کی وجہ سے نظامِ سرمایہ داری کے متبادل کی تلاش میں سوشلزم اور فاشزم اُبھر کر سامنے آئے تھے‘ آج بھی اسی طرح سے موجود ہیں۔ نظام سرمایہ داری کے تضادات اسی طرح غیر حل شدہ ہیں۔ ’’تاریخ کے اختتام‘‘ اور آزاد رو نظامِ سرمایہ داری کی برتری کی باتیں بچگانہ اور کسی حقیقی بنیاد کے بغیر محض دعوے نظر آتے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری نظام کا بدنما چہرہ پہلے سے زیادہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے اور اس نظام کے خلاف عوامی مزاحمت پہلے سے زیادہ منظم ہوتی جا رہی ہے۔سیٹل‘واشنگٹن‘ پیراگ‘ ڈیووس‘ کیوٹو اور کیوبیک چند قوتوں کے ہاتھوں عالمی استحصال کے خلاف عوامی بغاوت کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔ نظام کا استحکام خطرے میں ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک میں سردبازاری کی لہریں بڑھ رہی ہیں۔ زر کی قدر میں بار بار کمی آرہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تک میں بے روزگاری خوف ناک انداز میں بڑھ رہی ہے۔ اب مستقبل اتنا تابناک نظر نہیں آتا‘ جتنا کہ بتایا گیا تھا۔
یہ سب کیسے ہوا؟ میرا یہ موقف ہے کہ ذاتی ملکیت اور کاروبار کی آزادی جیسے معاملات میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ رہے ہیں ‘کوئی نئی بات نہیں ہے‘ اور نہ نظام سرمایہ داری کی ہی پیداوار یا اس کا تحفہ ہیں‘ جیساکہ اکثر دعویٰ کیا جا تا ہے۔ نظام سرمایہ داری کا امتیاز ذاتی ملکیت کا حق‘ منافع کمانے کی ترغیب اور کاروبار کی آزادی نہیں ہے بلکہ بلاروک ٹوک ذاتی مفاد کا فلسفہ اور یہ بے بنیاد دعویٰ ہے کہ انسان صرف مالی منفعت‘ اور خود غرض منافع کمانے کے محرک سے کام کرتا ہے۔ انسان صرف ایک ’’معاشی انسان‘‘ ہے‘ یعنی ایسا انسان جو ہر وقت نفع و نقصان کی جمع و تفریق میں مشغول رہتا ہے او ریہ کہ فیصلے کرنے میں ذاتی مفاد ہی اصل کردار ادا کرتا ہے۔ ریاست کو غیر جانب دار ہونا چاہیے‘ اور معاشی معاملات میں منڈی (market)ہی کی بالادستی ہے۔ گویا کہ مفاد پرستی کا یہ فلسفہ کہ معاشیات کو اقدار سے آزاد ہونا چاہیے اور منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہی معیشت کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے جس کو تحرک ذاتی مفاد اور مسرت سے ملتا ہے۔ یہ ہیں فیصلہ کن عوامل جو نظام سرمایہ داری میں فرد کی زندگی او رمعیشت اور معاشرت کی تشکیل کرتے ہیں۔ معاشی تبدیلیوں میں’’سرمایہ‘‘ سب سے اہم‘ غالب اور رہنما کردار ادا کرتا ہے۔ جن کے پاس سرمایہ ہے وہ اس نظام میں اصل آقا ہیں۔ سرمایہ اندوزی کا انحصار بچتوں پر ہے‘ اور زیادہ بچتیں وہی کر سکتے ہیں جو منافع کمانے والے ہیں‘ اس لیے وہی اس نظام کے محرک اور اس نظام کے شہزادے ہیں۔ تنخواہ دار لوگ اس عمل میں بہترین آلات ہیں نہ کہ دولت کو حقیقی طور پر پیدا کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے۔ وہ تو کارخانے میں پسنے والے لوگ ہیں۔ یہ ہے آدمی کے بجائے دولت‘ اقدار کے بجائے منافع اور دولت میںزیادہ سے زیادہ اضافہ‘ اور اشیا و خدمات کی پیداوار کے بجائے دولت اور غیر حقیقی دولت کی اہمیت جس نے معاشی زندگی کا مرکز اور عمل کا رُخ تبدیل کر دیا ہے۔
یہ ہے نظام سرمایہ داری کا اصل کردار اور حقیقی روح۔ فی الاصل زر (money)صرف ایک آلہ مبادلہ (medium of exchange) تھا تاکہ معاشی عمل آسانی سے کیا جا سکے۔ اسے معاشیات دان CMC (C-commodity, M-money)کے فارمولے کی صورت میں بیان کرتے ہیں‘ یعنی اشیا سے زر اور زرسے اشیا میں تبدیلی کا عمل۔ اس نظام میں زرزندگی میں بہتری لانے والی اشیا و خدمات کی پیداوار اور تبادلے میں مدد دیتا ہے۔ نظام سرمایہ داری میں یہ فارمولا بدل کر MCM ہو گیا۔ یعنی زر سے اشیا اور اشیا سے زر۔ اس کے نتیجے میں معیشت کا رخ پیداوار‘ خدمات اور مادی وسائل سے ہٹ کر زر و دولت کے حصول اور زر و دولت میں اضافے کی طرف ہو گیا اور یہی بنیادی مقصد قرار پایا۔ اب زر ایک آلہ مبادلہ اور لین دین میں آسانی فراہم کرنے والا آلہ نہیں بلکہ وہ شے بن گیا جس کی اپنی طلب ہے۔ لیکن بات یہیں تک نہیں رہی‘ موجودہ نظام سرمایہ داری میں ایک اور تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے۔ زر کی اہمیت نے اپنا رُخ ایک نئے فارمولے کی طرف موڑ لیا ہے‘ جو کہ MMMہے۔ وہ یہ ہے کہ زر کوئی حقیقی اثاثے پیدا کیے بغیر مزید زر پیدا کر رہا ہے‘ اور یہ ایک حبابی معیشت (Bubble Economy)کی طرف لے جا رہا ہے جو کہ استخراجی دُنیا (World of derivatives)ہے۔ یہ نظام سرمایہ داری کی حتمی شکل ہے‘ لیکن اس کی آغوش میں بھی عدم استحکام کا عنصر موجود ہے جو کہ نظام کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ نظام انسانیت کو کدھر لے جا رہا ہے۔
گذشتہ تین دہائیوں میں نظام سرمایہ داری کا رُخ طبعی معیشت سے مالیاتی پھیلائو کی طرف مڑ گیا ہے‘ جو کہ فطرتاً کاغذی زر پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق وسائل کی حقیقی پیداوار سے نہیں ہے۔ استخراجی زر (Credit derivates) کے پھیلائو کے ساتھ بلبلا پھیل رہا ہے۔ ہم حقیقی معیشت کی مادی ترقی کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہے‘ ہم اثاثہ جات کے ساتھ بھی معاملہ نہیں کر رہے‘ بلکہ اثاثہ جات پرجو اسٹاک اور بانڈزکی صورت میںہیں ان کے ساتھ بھی نہیں کر رہے۔ اس کے بجائے ہم اثاثہ جات کے مطالبات (Claims) پر غیر حقیقی مطالبات سے زیادہ سے زیادہ معاملہ کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی غیر حقیقی معیشت کی گرفت میں ہیں جو کروڑ پتی اور ارب پتی تو پیدا کر رہی ہے‘ لیکن لاکھوں‘ کروڑوں بھوکوںکو کھانا کھلانے یا لاکھوں کروڑوں بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
کیا آپ کو ایک ایسی معیشت کی حقیقی شکل کا کوئی اندازہ ہے؟ بین الاقوامی تجارت یعنی اشیا و خدمات کی صورت میں کل تجارت کا پچاسواں حصہ بیرونی زرمبادلہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ حقیقی بین الاقوامی تجارت کے لیے مطلوبہ زرمبادلہ اور استخراجی زرمبادلہ (Foreign Exchange Derivatives)کی تجارت میں نسبت ایک اور پچاس (۵۰:۱) کی ہے۔ ہر روز ۳.۱ ٹریلین ڈالر (۱۳ کھرب ڈالر) استخراجی زرمبادلہ کا لین دین زرمبادلہ کی منڈی میں ہوتا ہے‘ جو کہ دُنیا کی روزانہ حقیقی تجارت سے ۵۰ گنا زیادہ ہے۔ ایک اور مثال لیجیے (دُنیا کے تمام ممالک کی مجموعی خام قومی پیداوار (GNP)۳۰‘ ۳۲ ٹریلین ڈالر (ایک ٹریلین: ۱۰۰۰ ارب: ۱۰کھرب) ہے۔ اس کے مقابلے میں استخراجی زر (derivatives) کا کل لین دین ۵۰۰ ٹریلین ڈالر (یعنی ۵۰۰۰ کھرب ڈالر) کے برابر ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ پہلی چیز اسٹاک کی تعریف میں آتی ہے اور دوسری بہائو (flow)میں‘ تاہم اس کے باوجود مادی معیشت جو کہ اثاثوں پر مشتمل ہوتی ہے اور زری معیشت (جس کا مقصد اشیا اور خدمات کی پیدایش اور تبادلے کو بہ سہولت ہونے میں مدد دینا ہے) کے درمیان ایک نسبت ہونی چاہیے اور اس کا مقصد تمام لوگوں کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ یہ اصل ہدف ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کھیل میں اصل فائدہ کون حاصل کر رہا ہے اور کون اس کھیل میں بڑا کھلاڑی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ چند مالیاتی ادارے اور چند ارب پتی۔ وہ اشیا و خدمات کی مقدار میں اضافہ کر کے دولت پیدا نہیں کر رہے‘ جس کے نتیجے میں تمام لوگ خوش حال ہو جائیں اور معیار زندگی بہتر ہو جائے‘ وہ صرف دولت سے دولت پیدا کر رہے ہیں۔ اس عمل میں سود کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس حبابی معیشت کا مرکز امریکہ اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک ہیں‘ جب کہ دُنیا کی باقی معیشتیں‘ افراد سے لے کرنجی فرموں تک اور قومی معیشتوں سے گلوبل معیشت تک اس مالیاتی گرداب میں پھنستی جا رہی ہیں۔
آیئے طاقت کے اس عالمی کھیل کا دوسرا رُخ دیکھیں۔ قرضوں کا لین دین تاریخ کے ہر دَور میں جاری رہا ہے‘ ذاتی ضروریات کے لیے بھی‘ دکھ اور مصیبت میں بھی‘ اور تجارت و پیداوار میںاضافے کے لیے بھی۔ لیکن ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر چیز کا انحصار ان قرضوں پر اور ان مالیاتی اداروں پر ہو گیا ہے جو ان قرضوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ بنک اور مالیاتی ادارے وہ عالمی کھلاڑی ہیں جو کریڈٹ (قرضے) پیدا کرتے ہیں‘ اس کے ثمرات سمیٹتے ہیں اور عالمی غلامی کی اس نئی شکل میں دوسروں کو یرغمال بنا رہے ہیں۔ یہ جدید معیشت میں مداخلت اور کنٹرول کا سب سے طاقت ور آلہ ہیں۔ قرضوں کی غلامی‘ غلامی کا جدید ترین انداز ہے۔ آپ کو اس کا اندازہ کروانے کے لیے عرض کروں کہ دُنیا کے امیرترین ملک امریکہ کا قومی قرض ۱۹۰۱ء میں ایک ارب ڈالر تھا اور بیسویں صدی کے آخری سال میں قومی قرض ۴ٹریلین ڈالر (۴۰ کھرب ڈالر) سے زائد ہو گیا‘ جب کہ اس کا بین الاقوامی قرض ۴.۱ ٹریلین ڈالر ہے (اور بین الاقوامی مقروضوں میں بھی امریکہ کا پہلا نمبر ہے)۔ اس طرح دُنیا کی واحد سپرپاور اپنی کمر پر ساڑھے پانچ ٹریلین ڈالر کا قرضوں کا بوجھ لادے ہوئے ہے۔ اگر ہم نجی قرضوں کو بھی شامل کر لیں‘ خاص طور پر مکانوں کا رہن (house mortgage) تو دُنیا کے اس امیر ترین ملک کے قرضوں میں مزید چار‘ پانچ ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ صرف امریکہ کا المیہ نہیں ہے‘ دُنیا کے اکثر ممالک کی صورت حال ایسی ہی ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک قرضوں کے ذریعے معاشی ترقی کرنے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ ۴۰ سالہ تجربے کے بعد بہ مشکل ہی ان ممالک میں ترقی نظر آتی ہے۔ البتہ قرضوں کے پہاڑ ان کی کمر توڑے دے رہے ہیں۔
جب پاکستان اور بھارت کو آزادی ملی تو نوآبادیاتی حکمرانوں پر ہمارا اُدھار تھا۔ جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت کو بڑی بڑی رقوم اُدھار دی گئیں۔ ہم قرض خواہ تھے اور وہ مقروض۔ لیکن اب کیا صورت حال ہے؟ آج پاکستان کا کل بیرونی قرض ۳۸ ارب ڈالر ہے۔ سانحہ یہ ہے کہ ۱۹۷۱ء میں جب پاکستان دولخت ہوا‘ اور پاکستان کو تمام قرضوں کا بوجھ اپنے ذمے لینا پڑا تو پاکستان کا کل قرض ۳ ارب ڈالر تھا۔ گذشتہ ۳۰ برسوں میں پاکستان نے ۳۰ ارب ڈالر واپس کر دیے ہیں۔ لیکن ۳ ارب ڈالر (۱۹۷۱ء) کے قرض پر ۳۰ ارب ڈالر کی ادایگی کے باوجود ہم پر قرضوں کا بوجھ بڑھ کر ۳۸ ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ لاطینی امریکہ کے بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے والے ملک برازیل نے گذشتہ ۲۹ سالوں میں ۷۰ ارب ڈالر واپس کیے لیکن اب بھی وہ ۲۰۰ ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک کا کل قرض اب ۲ ٹریلین ڈالر (۲۰کھرب)ہے‘ جب کہ تیسری دُنیا کے یہ ممالک ہر سال ۲۲۰ ارب ڈالر سود اور قرضوں کی واپسی میں دے رہے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود قرض ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سابقہ قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرض لیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ ممالک میں تو قرضوں اور سود کی ادایگی پر اٹھنے والے اخراجات ان کی برآمدات سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس طرح غریب ممالک سے دولت کا خالص بہائو امیر ممالک کی طرف ہے۔ افریقہ کو گذشتہ ۳۰ برسوں میں غریب تر کر دیا گیا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تیسری دُنیا کے ممالک نئے قرضے کے ہر ڈالر کے عوض ۱۱ ڈالر واپس کر رہے ہیں۔کیا یہ قرضوں کی غلامی نہیں ہے؟ اسے اور آپ کیا کہیں گے؟
سوال یہ ہے کہ کیا غربت کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ کیا بھوک پر قابو پالیا گیا ہے؟ کیا انسانی زبوں حالی میں کمی آئی ہے؟ ہم اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں کہ عالمی بنک اور اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق دُنیا کے ایک ارب سے زائد لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور وہ بھوک اور قحط کا شکار ہیں‘ جب کہ دو ارب سے زائد لوگ خط افلاس کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دُنیا کی آبادی کے ۶۰ فی صد کو صاف پانی اور رہایش کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ کروڑوں ڈالر کی بیرونی امداد کے باوجود محروم طبقات کی بدنصیبی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ نہ سمجھیے کہ غربت صرف تیسری دُنیا کا مسئلہ ہے۔ امریکہ دُنیا کا امیر ترین ملک ہے‘ اس میں بھی آبادی کا تقریباً آٹھواں حصہ غربت کا شکار ہے‘ بہت زیادہ معاشی تفاوت پایا جاتا ہے۔ دولت اور طاقت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ میں گذشتہ ۳۰ سالوں میں عام لوگوں کی حقیقی اجرتیں کم ہوئی ہیں‘ جب کہ اسٹاک بروکروں اور بانڈز کا کاروبار کرنے والوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی ۱۴ فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے رہ رہی ہے‘ اور اگر آپ نسلی بنیادوں پر دیکھیں تو کالوں میں یہ تناسب ۲۸ فی صد ہے۔ کیلی فورنیا امریکہ کی امیر ترین ریاست ہے‘ یہ دُنیا کی معیشتوں میں ساتویں سب سے امیر ترین ریاست ہے‘ لیکن اس میں بھی غربت کا تناسب ۳۰ فی صد ہے۔ یورپ میں جرمنی سب سے امیر اور طاقت ور ترین ملک ہے‘ اس میں بھی یہ تناسب ۲۴ فی صد ہے۔ گویا صرف تیسری دُنیا کے غریبوں ہی کی قسمت خراب نہیں ہے۔ غیر مراعات یافتہ دُنیا بھر میں پریشانی کا شکار ہیں‘ خواہ اس کی مقدار اور اس کے اثرات میں فرق ہو۔ ایسا اس لیے ہے کہ موجودہ نظام ناانصافی پر مبنی ہے اور اس کے اندر خامیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نظام انسان کو مرکزی اہمیت نہیں دیتا اور اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرتا ہے۔ اس نظام میں معاشی پہلو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کی وجہ سے یہ نظام استحصالی نظام بن گیا ہے۔ یہی نہیں کہ ترقی اور خوش حالی منتخب لوگوں کو نصیب ہوتی ہے بلکہ نظام بھی غیر مستحکم اور بودا ہے۔ انسانیت کا مقدر ایک دھاگے کے ساتھ بلبلے سے باندھا گیا ہے اور اس بلبلے کوقائم رکھنے کے لیے اس میں ہوا بھری جا رہی ہے۔ یہ کب پھٹ جائے گا ؟ کوئی نہیں جانتا۔
اکانومسٹ لندن کے مطابق ۱۹۷۰ء میں امریکہ میں صرف ۱۷ ‘ارب پتی تھے‘ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ان کی تعداد ۱۷۷ ہے اور ان کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ امیر ترین تین ارب پتیوں کی ذاتی دولت دُنیا کے ۴۸ ترقی پذیر ممالک کی خام قومی دولت کے برابر ہے۔ دُنیا کے ۲۰۰ ارب پتیوں کی دولت دُنیا کے دو ارب انسانوں کی مجموعی دولت کے برابر ہے۔ یہ معاشی حقائق ہیں۔ یہ تہذیب کے جسم پر اخلاقی ناسور ہیں۔ ہم ناانصافی پر مبنی دُنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایک بہت ہی معقول سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی سوچ یک طرفہ ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ معاشی مسئلے کا حل صرف معاشی ذرائع سے نہیں ہو سکتا۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ اسے ایک جامع اور متوازن نظام کا حصہ بنایا جائے‘ جس میں انسانی‘ اخلاقی اور سیاسی معاملات پر اکٹھے بات کی جائے۔ وسیع تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ آدم اسمتھ سے لے کر آج تک جس چیز نے معاشیات کو پریشانی میں مبتلا رکھا اور اسے ایک شیطانی علم بنایا وہ اس کا اخلاقی اقدار کے بارے میں غیر جانب دار ہونا ہے۔ یہ غیر اخلاقی (amoral)ہے۔اس کے پیش نظر ذرائع کا بہترین طریقے سے استعمال ہے نہ کہ زندگی اور معاشرے کے مقاصد سے ہم آہنگی۔ ذرائع کا بہترین استعمال بہت اہم سہی‘ یہ ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے‘ دولت کی منصفانہ تقسیم بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ تمام لوگوںکی معیشت میں شرکت بھی اہم ہے‘ ان کے حصے متعین ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو بالاے طاق رکھا جائے گا تو انسانیت کو نقصان ہونا ناگزیر ہے۔ نظام سرمایہ داری کے اس بنیادی اصول کا ایک نتیجہ معاشیات کو خودایک مکمل سائنسی مضمون بنانے کی کوششوں کی صورت میں سامنے آیا‘ جس کا اخلاقیات‘ اقدار اور مذہب سے کوئی تعلّق نہ ہو۔ معاشیات کا تعلق نہ صرف اخلاقیات اور مذہب سے ختم کرنے کی سعی ہوئی بلکہ دوسرے سماجی علوم بشمول سیاست سے اسے بے تعلّق کیا گیا۔ اس بات نے معاشیات کو انسانیت کے لیے ایک بابرکت علم کے بجائے ایک تباہ کن علم بنا دیا۔
نام نہاد ایجابیت کی طرف رُخ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشیات خیالی‘ غیر حقیقی اور مقاصد سے بہت دور ہو گئی۔ ایک طرف اخلاقی پہلو اور دوسری جانب معاشرے میں اقتدار کے ساتھ تعلق وہ حدود فراہم کرتے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے معاشی قوتیں عمل پیرا ہوتی ہیں۔ ان روابط سے انحراف معیشت دانوں کو دولت اور منافع کی ہوس میں مبتلا لوگوں کے ہاتھوں میں ایک آلہ کار بنا دیتا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کی منہ زور معاشیات نے اخلاقیات اور اقتدار دونوں پہلوئوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی‘ کیونکہ یہی وہ طریقہ تھا جس سے سرمایہ دار کنٹرول حاصل کر سکتے تھے اور معاملات کو اپنی مرضی سے چلا سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو چیلنج کرنے کے لیے سوشلزم اور کمیونزم سامنے آئے اور سرمایہ داری اور اشتراکیت کے ملاپ سے فاشزم وجود میں آیا۔ دونوں نظاموں نے ریاستی غیر جانب داری کے نظریے کو چیلنج کیا لیکن سوشلزم اور فاشزم نے انسان کو غموں سے نجات دینے کے بجائے معاملہ کو مزید سنگین بنا دیا۔ انھوں نے انسان کو معاشی و سیاسی عوامل کے ایک ایجنٹ کی حیثیت دی۔ وہ اصل مرض کی تشخیص میں ناکام ہو گئے۔ وہ بھی نظام سرمایہ داری کی طرح یک طرفہ فکر کے حامل تھے گو کہ کچھ فرق کے ساتھ۔ یہ ہے وہ پریشان کن صورت حال جس سے انسانیت آج دوچار ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک سیاسی آزادی اور خود مختاری حاصل کرنے کے باوجود معاشی‘ مالیاتی اور سیاسی سازشوں کے ذریعے نئے سرے سے دوبارہ غلام بنالیے گئے ہیں۔ دُنیا کے تمام فیصلہ ساز ادارے مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جمہوریت کے علم بردار ہونے کے دعوے دار ہیں‘ لیکن دُنیا کے بڑے بڑے اداروں میں جمہوریت کو برداشت نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کی مثال لیجیے۔ جنرل اسمبلی اپنے ۱۹۱ رکن ممالک کے ساتھ فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ سلامتی کونسل ویٹو پاور رکھنے والے ۵ ممالک کی باندی ہے اور ان میں سے ہر ایک کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کا مجاز ہے۔ جوہری ٹکنالوجی کے حوالے سے ہونے والے این پی ٹی معاہدے کی رُو سے تمام ممالک جوہری ٹکنالوجی کو پرُامن مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ اس کا بنیادی خیال یہ تھا کہ جوہری ٹکنالوجی پر مستقل اجارہ داری رکھی جائے کیونکہ یہ کسی بھی ملک (خواہ وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو) کے لیے جنگ سے بچائو کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ورلڈ بنک‘ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ‘ تجارت کی عالمی تنظیم (WTO) ‘ بین الاقوامی عدالت انصاف جیسے تمام ادارے دولت مندممالک کے زیراثر ہیں اور وہی ان کے منتظم ہیں۔ وہ فیصلے کرتے ہیں اور دیگر ۱۷۰ ممالک کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی جمہوریت ہے؟
گلوبلائزیشن کیا ہے؟ دُنیا کے ہر حصے اور کونے سے بین الاقوامی تجارت صدیوں سے جاری ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ اور تاریخی سیلاب دُنیا کے تمام خطوں کے لوگوں کی مذہبی اور تہذیبی روایات کا اور کسی حد تک ان کے مذہبی عقائد کا ایک حصہ ہے۔ لوگوں کی نقل و حرکت اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ گلوبلائزیشن کا پہلا اور اہم ذریعہ ہے۔ تجارت‘ نقل مکانی اور فتح یابی ہمیشہ سے ہی گلوبلائزیشن کے تاریخی طریقے رہے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے آزادانہ تجارت سرمایہ دارانہ دُنیا کے عقائد میں شامل ہے۔ پھر آزادی اور گلوبلائزیشن میں نئی بات کون سی ہے جس کا مغرب شور مچا رہا ہے۔ ایک لفظ میں یہ ’’غلبۂ امریکہ‘‘ ہے۔ گلوبلائزیشن سے آج مراد ہے: غالب قوتوں کے معاشی‘ سیاسی اور تہذیبی تسلط کو تسلیم کرنا۔ حکومتیں‘ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں اور غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) آج کی حکمران ہیں۔ ۵۰۰ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں دُنیا کی ۷۰ فی صد تجارت پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ بے شک وہ تحقیق‘ ٹکنالوجی‘ جدت طرازی‘ اطلاعات اور نہ جانے کس کس چیز پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ دُنیا کی ۹۷ فی صد تحقیق‘ ٹکنالوجی اور جدت طرازی (innovation)مغربی ممالک بشمول جاپان کے قبضے میں ہیں۔ تیسری دُنیا کا حصہ صرف ۳ فی صد ہے۔ اس سے بڑی پریشان کن صورت سامنے آتی ہے۔ لاکھوں لوگ تپ دق‘ ملیریا‘ ٹیٹنس‘ کالی کھانسی اور ایڈز کی وجہ سے بلوغت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ غریب دُنیا میں چند ہزار کے علاوہ لوگوں کو مناسب علاج کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ افریقہ میں کینسر سمیت دوسری تمام بیماریوں کے مقابلے میں زیادہ لوگ صرف ایڈز کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ادویہ ساز کمپنیوں کی تحقیق امرا کی بیماریوں تک محدود ہے۔ غریب ممالک میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ادویات کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ اکثریت کی پہنچ سے باہر ہیں۔ عدل اور انسانی فلاح و بہبود کو دولت مندوں اور طاقت وروں کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان خلیج دن بدن بڑھ رہی ہے‘ خاص طور پر بہت ہی امیر اور بہت ہی غریب ممالک کے درمیان۔ یہی معاملہ امیر علاقوں اور غریب علاقوں اور کسی ملک کے اندر غریب لوگوں اور امیر لوگوں کا ہے۔
غیر انسانی سلوک کی ایک اور مثال ادویات سازی کی صنعت کی ہے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی ادویات کی تیاری کے لیے تحقیق کرنے اور ایسی سستی ادویات تیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو تیسری دُنیا کے ممالک میں بیماریوں کے خلاف موثر مدافعت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ یہ تو منافع کمانے کا کھیل ہے نہ کہ انسانیت اور اس کی خدمت کا ۔ سازش یہ ہے کہ بیماریوں کے خلاف مدافعتی ادویات ‘جو کہ سستی بھی ہوتی ہیں‘ کو بنانے اور پروان چڑھانے کے لیے کوششیں نہیں کی جاتیں۔ کچھ ایسی بیماریاں جو غریب انسانوں کی ہلاکت کا ذریعہ بنتی ہیں‘ صرف پرہیزی دیکھ بھال اور عادتوں کی تبدیلی سے قابو کی جا سکتی ہیں۔
ایک حالیہ سائنسی تحقیق نے یہ بات ‘جو ہم تہذیبی طور پر پہلے ہی جانتے ہیں‘ ثابت کی ہے کہ صرف ایک یہ تبدیلی کہ اگر کھانے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہاتھ دھو لیے جائیں اور کھانا کھانے کے بعد منہ صاف کر لیا جائے تو بہت سی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ پانی کو فلٹر کیا جائے‘ بچوں کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کھلایا جائے‘ مچھر دانیاں استعمال کی جائیں‘ الکحل والے مشروبات سے پرہیز کیا جائے‘ نشے کی حالت میں گاڑی نہ چلائی جائے‘ جنسی تعلقات شادی کے بندھن کے ساتھ اخلاقی حدود میں قائم کیے جائیں تو انسان کو ۹۰ فی صد تک بیماریوں سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
ایک منٹ رک کر سوچیے‘ بیماریوں کا علاج یہ نہیں کہ آپ زیادہ ویکسین اور زیادہ ادویات استعمال کریں بلکہ اس کا آغاز اسلام او دوسرے مذاہب کے سکھائے ہوئے حفظان صحت کے زریں اصولوں کو اپنا کر کیا جائے۔ یہ ہم مسلمانوں نے ذاتی حفظانِ صحت کے اور روز مرہ کے طور طریقوں اور آداب کی حیثیت سے سیکھا ہے۔ ہاتھ دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ سادہ خوراک کھانا‘ بھوک سے کم کھانا‘ بچوں کو ماں کا دودھ پلانا ہمارے تمدن کا حصہ ہیں۔ شراب اور دوسری نشہ آور اشیا کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ مغرب میں شراب نوشی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ جب کہ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ سے پریشان ہیں۔ وہ سڑکوں پر موت کا خوف تو رکھتے ہیں لیکن شراب نوش حکمرانی کر سکتے ہیں‘ فوجوں کی کمان کر سکتے ہیں اور انسانیت کی قسمت سے کھیل سکتے ہیں۔ اسلام جڑ پر ضرب لگاتا ہے۔ محفوظ جنسی تعلق کیا ہے؟ وہ صرف شادی شدہ زندگی ہے۔ میں بات کو بہت سادہ انداز میں کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ حقیقی جواب ہیں نہ کہ ایک ایسے انحطاط پذیر تمدن کا مسحورکن طرز زندگی جو انسانوں کی آنکھیں حقائق کی طرف سے بند کر دیتا ہے اور جنس کو سحرانگیز مقام دے کر اور عقل کو خواہش نفس کے تابع کر کے انھیں اسفل درجے تک پہنچاتا ہے۔
درحقیقت آج انسانیت کو درپیش اصل مسئلے کا تعلق اخلاقی اور انسانی صورت حال سے ہے۔ ایک مغربی فلسفی نے یہ بات بہت خوب صورت انداز میں کہی ہے‘ وہ کہتا ہے: ’’ہم نے پرندوں کی طرح آسمانوں پر اُڑنا سیکھ لیا ہے اور مچھلیوں کی طرح پانیوں میں تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن ہم نے اس بے چاری زمین پر اچھے انسانوں کی طرح جینا نہیں سیکھا‘‘۔ یہ ہے اصل مسئلہ۔ ’’انسان کیا ہے؟‘‘ ایک انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے‘ جیسے ہی روح جسم سے نکلتی ہے تو ہم ایک لاش ہوتے ہیں‘ جس میں بدبو اور تعفن پیدا ہو جاتا ہے‘ اور اسی وجہ سے ہم اسے زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔ مغربی فکر میں اصل خامی انسانی زندگی اور اس کی تقدیر کے ساتھ رویے میںہی ہے۔
ہمارے دور کے تمام مسائل کی جڑ سیکولر تہذیب ہے۔ معاشیات ہو یا سماجی علوم یا سیاسی معاملات‘ سب کا تعلق مادی پہلو سے قائم کیا جاتا ہے‘ جیسے روح کا کوئی وجود ہی نہ ہو‘ جیسے اس مادی وجود کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہ ہو۔ اخلاقیات اور اقدار کو خود غرضی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ ضرورت حرص کی قربان گاہ پر قربان کی جاتی ہے۔ مذہب کو غیر متعلق قرار دے کر مسترد کیا جاتا ہے۔ رحم دلی اور شفقت کی جگہ مقابلہ لے لیتا ہے۔ نیکی کی جگہ منافع لے لیتا ہے۔ آزادی‘ لاقانونیت کی طرف لے جاتی ہے۔ ان سب کی وجہ ایک ہی تباہ کن غلطی ہے: خالق کو فراموش کرنا اور اس کے نتیجے میں مادی اور اخلاقی‘ اور طبعی اور روحانی کی تقسیم۔
بطور انسان آپ کو اپنے اللہ کو پہچاننا چاہیے‘ جو آپ کا خالق ہے‘ آپ کا مالک و آقا ہے۔ اگر آپ اپنے خالق کے ساتھ اپنے رشتے کو توڑ کر زندگی بسر کر رہے ہیں تو پھر خواہ کتنی ہی دولت کی فراوانی اور سائنسی ایجادات اور تکنیکی ترقی ہو‘ آخری انجام تباہ کن ہے۔ یہ صرف اظہار یا زبان کا مسئلہ نہیں ہے۔ بیسویں صدی بڑے پیمانے پر انسانوں کی تباہی کی صدی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ اگر آپ تاریخ میں ہزاروں سال سے آج تک ہونے والی تمام جنگوں میں انسانوں کی ہلاکتوں کو جمع کریں تو صرف بیسویں صدی میں ان تمام جنگوں سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ان جنگوں میں صرف انسانی اموات نہیں ہوئیں بلکہ ان کے نتیجے میں غربت‘ بھوک‘ بیماری‘ غارت گری‘ تشدد‘ جرائم‘ نسل کشی‘ طبقاتی جنگ‘ نسلی امتیاز‘ خواتین کا استحصال‘ نسلی صفائی --- آپ نام لیتے جائیں‘ یہ اور ایسی تمام برائیاںبھرپور طور پر وجود میں آئیں۔مجھے کہنے دیجیے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر آپ الہامی ہدایت اور اخلاقی اصولوں کی روشنی میں زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کریں اور روح و جسم کی یک جہتی کو نظرانداز کریں تو نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔ قرآن اس بات کو بہت واضح انداز میں بیان کرتا ہے کہ صراط مستقیم سے انحراف کا نتیجہ بحروبر میں انتشار‘جبروتشدد اور بددیانتی کی صورت میں نکلے گا (الروم ۳۰:۴۱) ۔اور صرف اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہو سکتا ہے: اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب (الرعد۱۳:۲۸) ۔ان چیلنجوں کے مقابلے میں اسلام کا جواب بہت سادہ اور سیدھا ہے۔
اسلام تمام انسانوں کو بہتر انسان بنانا چاہتا ہے۔ انسان کے سیاسی‘ سماجی ‘ معاشی‘ قومی اور بین الاقوامی مسائل صرف انسانی اخلاقی نقطۂ نظر کو اپنانے سے حل ہو سکتے ہیں۔ یہی شاہ کلید ہے۔ اسلام نے معاشیات سمیت زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں جامع ہدایات دی ہیں۔ اسلامی معاشیات کی تحریک‘ زندگی اور تمدن کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کلی کوششوں کا حصہ ہے۔
اسلامی معاشیات کو پورے تناظر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ قلب ہی ہے جس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ قوت محرکہ ہی ہے جس پر اثرانداز ہونے اور اسے یک سو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مقاصد زندگی ہیں جن کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آپ انسان کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ ایسا بلندوبالا عمارتیںبنا کر نہیں بلکہ انسانی مصائب کو ختم کر کے اور اپنی فلاح و بہبود کے علاوہ دوسروں اور درحقیقت تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کو حاصل کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تمام انسان ایک ہی خاندان کے افراد ہیں‘ جن کو ان کا حصہ ملنا چاہیے۔ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم دوسروں کے گلے کاٹ کر اپنی دولت اور قوت میں اضافہ کریں۔ ہم خوش حالی کی منزل حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم دوسرے کے ساتھ جینے کا گرُ سیکھ لیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جئیں۔ یہ ہے وہ تبدیلی جو اسلام لانا چاہتا ہے۔ یہ اپنی تقدیر کی طرف پیش قدمی میں انسان کے اخلاقی ارتقا کا اہم مرحلہ ہے۔ اسلام تمام معاشی کوششوں کو اخلاقی حدود کے اندر رکھتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ ایک مبنی برعدل سماجی و معاشی نظام کو قائم کر کے ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ہمدردی‘ اخوت اس کی قوتِ متحرکہ اور اس کو مضبوط کرنے والی قوتیں ہیں۔ اسلام صرف صدقہ و خیرات پر یقین نہیں رکھتا جو کہ ایک محدود تصور ہے۔ اسلام دوسروں کو ان کا حق دینے کا علم بردار ہے اور یہ کوئی نفل نیکی نہیں ہے۔ زکوٰۃ کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ ’’حق‘‘ ہے‘ یعنی امراء کی دولت پر غربا کا حق: وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذریٰت ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کے لیے‘‘۔
یتیموں کے حقوق پورے نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین‘ شریعت اور یومِ آخرت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o (الماعون ۱۰۷:۱-۳) ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا اور سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی توہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے‘ اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا‘‘۔
یہ پیغام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دین یعنی اخلاقی قانون‘ اسلامی زندگی کا قانون اور یومِ آخرت کو جھٹلانے سے کیا مراد ہے؟ یہ صرف ایمان نہ لانا ہی نہیں ہے بلکہ دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنا بھی الہامی قانون میں ویسے ہی نتائج کا حامل ہے۔
یہ قرآنی اسلوب کا حسن ہے‘ دیکھیے اخلاقی و مادی معاملات کو آپس میں کس طرح جوڑا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ ۶۲:۹-۱۰)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو‘ یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘ پھر جب نماز ہو چکے تو (تم کو اختیار ہے کہ) زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل (معاشی جدوجہد کے ثمرات) تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پائو‘‘۔
پس اللہ کا ذکر اور معاشی جدوجہد ساتھ ساتھ ہیں۔ زندگی مکمل اور جامع کُل ہے۔ اخلاقیات اور مادیت دونوں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں‘ اور جب ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو رحمت ہیں۔ آج کے معاشی مسائل کی وجہ ان دونوں کے رابطے کا ٹوٹ جانا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشیات نے عجیب و غریب مسائل کو پیدا کیا ہے‘ تاہم انھیں حل کرنا ناممکن نہیں ہے۔ ہم ان سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں اور اسے اخلاقی اور انسانی مسائل کے حل کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ اگر ہم اسے ایک مرتبہ پھر اللہ کے ذکر کی حدود میں لے آئیں۔ معاشی قوت اور دولت رحمت بن سکتی ہے۔ اسلام نے اخلاقی اور انسانی فلاح کے اہمیت دینے والے رویے پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ شریعت نے ذاتی اخلاق کے ساتھ ساتھ انسان کی معاشی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں ضروری ہدایات فراہم کی ہیں۔
بلاشبہ اسلام نے ملکیت کے حقوق‘ معاشی جدوجہد‘ غربت کے خلاف جنگ‘ سماجی بھلائی‘ سود کے خاتمے‘ کاروباری اخلاقیات‘ تقسیم دولت میں عدل اور ریاست کے معاشی کردار کے سلسلے میں حلال و حرام کی واضح اور تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ یہ سب چیزیں موجود ہیں۔ اس مختصر نشست میں تمام تفصیلات بیان کرنا مشکل ہے‘ یہ چیزیں ہمارے لٹریچر کا حصہ ہیں۔ میری کوشش ہے کہ میں اپنے آپ کو بنیادی مسئلے پر مرکوز رکھوں۔ اس حوالے سے علما اور اسلامی ماہرین معاشیات نے خاص طور پر گذشتہ تین عشروں میں کافی کام کیا ہے اور یہ کام اس زبان میں ہوا ہے جو آج کے کاروبار کرنے والے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
میں شرکاے سیمی نار اور اس ملک کی مسلم کمیونٹی کے دوسرے دوستوں اور اس کے ارکان تک جو پیغام پہنچانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اخلاقیات اور معاشیات اور روحانیت اور مادیت کے درمیان تعلق کو ازسرنو دریافت کیا جائے۔ اسلامی معاشیات کا منفرد پہلو اس کا یہی جامع اور مربوط طرزفکر ہے۔حق ملکیت ہر معاشی نظام کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے مطابق جو شخص کسی چیز کا مالک ہے‘ یا اُس پر اُس کا کنٹرول ہے‘ یا وہ اس کا منتظم ہے ‘ اس کی حیثیت ایک امین (trustee) کی ہے نہ کہ مطلق العنان مالک اور آقا کی۔ ہماری تمام چیزیں ہمارے پاس امانت ہیں اور ہم ان کے امین ہیں۔ ہم انھیں استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس دائرہ کار میں جو ہمارے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہم مسلمانوں کی حیثیت اس دُنیا میں اللہ کے مقرر کردہ خلیفہ کی ہے۔ ہماری اصل حیثیت استخلاف کی ہے‘ اور یہی ہمارا مشن ہے۔ خلیفہ وہ ہے جو اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلّم) کی دی ہوئی ہدایت اور اقدار کی روشنی میں بسر کرتا ہے۔ یہ ہیں استخلاف کے معنی۔ یہ الہامی ہدایت کی روشنی میں دُنیا بنانے کا بڑا مثبت تصور ہے۔ یہ زندگی سے لاتعلق اور دست بردار ہونے یا ترک دُنیا کے کسی تصور کو گوارا نہیں کرتابلکہ ہمیں ‘مردوں اورعورتوں کو‘ زندگی اور تاریخ کے چیلنجوں کا سامنے کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ ہمیں ایک مقدس اور بلند مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ یہ دُنیا کی تعمیرنو کی اور تاریخ سازی کی دعوت ہے جو ہمیں نبوت کے مشن کو پورا کرنے کی طرف بلاتی ہے۔ مسلم امہ اس سے پیچھے ہٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور نہ ہی مایوس اور دل شکستہ ہو سکتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم کوشش کریں اور ہمیشہ پرُامید رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’مسلمانو! تم بہترین جماعت ہو جو لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اہم واقعے اسرا یا معراج کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس موقع پر‘ ہجرت سے صرف ایک سال پہلے‘ حضرت جبریل علیہ السلام‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ سے القدس اور وہاں سے آسمانوں پر لے کر گئے۔ اس موقع پر رسول ؐاللہ اللہ کے اتنے قریب پہنچے کہ جبریل ؑبھی پیچھے رہ گئے۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ہندستان کے ایک بہت بڑے عالم حضرت عبدالقدوس گنگوہی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت محمدؐ بھی عجیب آدمی تھے کہ اللہ کی اتنی قربت ملنے پر بھی وہاں سے واپس آگئے ‘ اگر میں وہاں ہوتا تو کبھی واپس نہ آتا‘‘۔
علامہ محمد اقبالؒ اس کے بارے میں غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ عظیم صوفی دین کا محدود تصور پیش کرتے ہیں اور اپنی ذاتی سلامتی کے خواہاں ہیں۔ ایک اللہ کے بندے کے لیے بلند ترین مقام اور اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مالک‘ اللہ کے بہت قریب پہنچ جائے‘ اس کے لیے یہی سب کچھ ہے اور اس سے زیادہ کا وہ تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن محمد رسولؐ اللہ کا یہ معاملہ نہ تھا۔ رسولؐ اللہ کی منفرد شان یہ ہے کہ وہ اللہ کا اتنا قرب حاصل ہونے کے بعد اور اپنے اللہ کی تجلی پا لینے کے بعد دُنیا میں واپس آئیں تاکہ اس دُنیا کو نوروتجلّی سے بھر دیں‘ ایک نیا معاشرہ تشکیل دیں‘ ایک نئی تاریخ رقم کریں اور ایک نئی تہذیب کو فروغ دیں اور وہ ہے اسلام۔ یہ ہے زندگی اور معاشرے کے بارے میں پیغمبرانہ سوچ۔ یہ ہے اسلام کی آواز اور یہ ہمیں ایک بلند مقصد کے لیے پکار رہی ہے۔
کچھ لوگ چیلنجوں سے گھبراتے ہیں۔ ہمیں غیر حقیقت پسند بھی نہیں ہونا چاہیے اور مایوس اور دل شکستہ بھی نہیں۔
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے (گناہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے وہ تو غفور و رحیم ہے۔
ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی ہے۔ اگر ہم اپنی ذمہ داریاں اخلاص سے اور تن دہی سے پوری کریں تو اللہ کی طرف سے کامیابی کا وعدہ ہے۔ ہمیں بحیثیت مومن اپنے حصے کا کام کرنا ہے‘ پھر حالات بدلیں گے۔ وہ کوشش اور محنت اور جہاد کے بغیر نہیں بدل سکتے‘ لیکن ان کا بدلنا مقدر ہے۔ اگر ہم کوشش کریں‘ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور اللہ کی مدد اور ہدایت طلب کریں تو تبدیلی آئے گی۔ وہ لوگ جو غالب تہذیب کی معاشی اور فوجی قوت سے خائف ہیں وہ دیکھیں کہ تاریخ میں ماضی کی سپرپاورز کس طرح اُٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی گئیں۔ ہر دور میں غالب تہذیبیں رہی ہیں۔ تاریخ دُنیا کی ۳۶ سپرپاورز کی عظیم تہذیبوں کا قبرستان ہے۔ ہمارے اپنے دور میں ہم نے برطانیہ کو دیکھا کہ جس کی حکمرانی دُنیا کے ایک چوتھائی حصے پر تھی۔ دو صدیاں پہلے امریکہ برطانیہ کی کالونی تھا‘ اور بیسویں صدی کے اختتام پر جس ملک نے سپرپاور ہونا تھا اس کا شہنشاہ جارج سوم تھا۔ انگریزوں کو دُنیا میں اپنی برتری پر اتنا ناز تھا کہ انھوں نے انگریزی زبان میں نئے محاورے ایجاد کیے‘ جیسے ’’برطانیہ لہروں پر حکمرانی کرتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’برطانوی راج میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا‘‘۔ لیکن انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز کا برطانیہ کہاں ہے! برطانیہ کی حکمرانی ختم ہوئی‘ اور آج دنوں ہی نہیں‘ ہفتوں تک موجودہ برطانیہ میں سورج طلوع نہیں ہوتا۔
امریکہ اٹھارھویں صدی کے وسط تک ایک کالونی تھا۔ پھر یہ ایک علاقائی طاقت بنا‘ اور اب واحد سپرپاور ہے۔ لیکن سوویت روس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ ہم میں سے اکثر نے سوویت روس کی قوت اور جلال بطور سپرپاور دیکھا ہے۔ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ روس کے طاقت ور سیکرٹری جنرل خروشیف نے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپنا پائوں میز پررکھ کر بڑے متکبرانہ لہجے میں کہا تھا کہ ہم نے نظام سرمایہ داری کو دفن کر دیا ہے‘ لیکن آج سوویت روس کہاں ہے؟ آج تو اس کانام بھی باقی نہیں ہے! مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا آزاد ہو چکا ہے۔ سوویت حکومت کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وہ بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس طرح روز و شب بدلتے ہیں۔ صرف انسانوں کے ہی نہیں بڑی طاقتوں کے بھی۔۱۹۴۵ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکہ پوری دُنیا کی دولت کے ۵۰فی صد کو کنٹرول کرتا تھا اور اب دُنیا کے ممالک کی کل خام داخلی پیداوار کے صرف ۲۴ فی صد کا مالک ہے۔ یہ عظیم قوت ویت نام سے نہ لڑ سکی اور نہ کامیاب ہو سکی۔ جب اس سپرپاور کے ۵۰ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تو اسے بہتر ٹکنالوجی کے باوجود واپس لوٹنا پڑا۔ وہ لبنان میں نہ لڑ سکے‘ جہاں صرف ایک گوریلا حملے میں اس کے ۲۷۸ میرین تباہ ہو گئے اور امریکی صدر نے یک طرفہ واپسی کا اعلان کر دیا۔ وہ صومالیہ میں نہ لڑ سکے‘ جہاں صرف ۳۰ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اگر کوئی قوم اپنے نظریات کے لیے مرنا نہیں جانتی تو وہ قوم معاشی دولت اور ٹکنالوجی میں برتری کے باوجود ہمیشہ کے لیے سپرپاور نہیں رہ سکتی۔ پھر ہم مایوس کیوں ہیں؟ آج ہم کمزور ہیں‘ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمیں حقائق سے آنکھیں نہیں چرانی چاہییں۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ آج کے کمزور کل کے طاقت ور ہوتے ہیں اور آج کے طاقت ور کل تاریخ کی ردّی کی ٹوکری میں اٹھا کر پھینک دیے جاتے ہیں‘ بشرطیکہ ہم وہ کریں جس کی ضرورت ہے‘ اور یہ بات بہت اہم ہے۔ کل ہم بہت مضبوط تھے۔ ہم نے اپنے حصے کا کام نہ کیا اور زوال پذیر ہو گئے۔ آج ہمارے ازسرنو عروج پانے کا آغاز ہے۔ لیکن یہ راستہ عظمت‘ بلندی اور معراج تک تبھی لے جاسکتا ہے جب ہم اللہ کے قوانین کی پیروی کریں۔یہ بہت واضح سبق ہے اور سورہ العصر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (۱۰۳:۱-۳) زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
یہ اللہ کا وعدہ ہے‘ یہ ترقی اور نجات کا ایجنڈا ہے۔ ایمان اورعمل صالح پر مبنی جدوجہدجس میں ایک دوسرے کی مدد صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ کی جائے‘ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ ہم نے اس راستے کو اپنایا اور اس کی پیروی کی توہم تواپنی عظمت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ حالات کو بدلنا ہے ۔نیکی اور سچائی کے راستے میں جدوجہد خود اپنا انعام ہے۔ لیکن اللہ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ اگر ہم اپنے ایمان میں سچّے ہیں تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔
وَلاَ تَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) اور (دیکھو) نہ تو ہمت ہارو اور نہ غمگین ہو۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
ہماری نظر اس حقیقی انعام پر رہنی چاہیے جو ہمیں آخرت میں ملنے والا ہے۔ پوری اُمید ہے کہ ہم سربلند ہوں گے اور اگر ہم مطلوبہ ذمّہ داریاں ادا کریں‘ تو یقینا اللہ کی مرضی پوری دُنیا پر چھائے گی۔ اگر ہم اس مقصد کے لیے پوری طرح سے تیار (committed) ہوں‘ توحالات بدلیں گے اور ان کے ثمرات ہماری زندگی اور اس کے بعد تک ان شاء اللہ آئیں گے۔ ہمیں یہاں پر کامیابی اور آخرت میں نجات کا پختہ یقین ہے۔ اللہ کی سنت اور تاریخ گواہ ہیں کہ اگر لوگ جہد مسلسل کریں تو نتائج نکلتے ہیں اور تبدیلیاں آتی ہیں۔ آج جدوجہد ہے‘ مستقبل اسلام ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
۱۴ اگست ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے سال کے ۳۶۵ دنوں میں سے محض ایک دن نہیں--- یہ وہ دن ہے جب برعظیم پاک و ہند میں تاریخ نے ایک نئی اور فیصلہ کن کروٹ لی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے ایک جاں گسل جدوجہد کے بعد نہ صرف یہ کہ برطانوی سامراج کی دو سو سالہ غلامی کا جوا اپنے کندھوںسے اُتار پھینکا بلکہ نئے ہندو سامراج کے تسلط سے بھی نجات حاصل کرلی تاکہ کم از کم ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے یہ ملّت اپنے دین‘ ایمان‘ روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں ایک آزاد فضا میں اپنے مستقبل کی تعمیرکرسکے۔
تحریک آزادی‘ پس منظر اور جدوجہد: برعظیم پاک و ہند پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی اور یہاں کی تمام اقوام کے ساتھ انسانی شرف واکرام اور عدل و انصاف کے ساتھ معاملہ کیا۔البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دین کی دعوت و تبلیغ کے باب میں وہ شدید غفلت کے مرتکب ہوئے‘ خصوصیت سے ان کے حکمران اور بااثر طبقات۔ یہ اسی غفلت کا نتیجہ تھا کہ مسلمان عددی اعتبار سے آبادی کا صرف ایک چوتھائی حصہ رہے جن کا نصف ان صوبوں میں تھا جہاں انھیں عوامی اکثریت حاصل تھی اور باقی ملک کے دوسرے تمام صوبوں میں پھیلے ہوئے تھے جہاں وہ اقلیت میں تھے۔ برطانوی سامراج کے دَور میں مسلمانوں نے بہ حیثیت مجموعی بیرونی استعمار کی مخالفت کی اورکچھ طبقات کو چھوڑ کر ایک بڑے حصے نے اس سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً حکمرانوں سے مسلسل تصادم اور سیاسی‘ معاشی اور تعلیمی میدانوں میں امتیازی سلوک کا نشانہ ہونے کی وجہ سے ان کی قوت کم ہوتی گئی۔ نیزانگریز ارباب اقتدار اور ہندو اکثریت میں ایک نیا گٹھ جوڑ قائم ہوا جس نے سیاسی نقشے کو تبدیل کر دیا۔
انگریزی سامراج کے خلاف عسکری اور جہادی مخالفت میں مسلمان ہی پیش پیش تھے اور جب سیاسی میدان میں جنگ آزادی شروع ہوئی تو یہاں بھی سرخیل مسلمان ہی تھے۔ تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات میں اصل جدوجہد اور قربانیاں مسلمانوں ہی نے دیں۔ مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ جنگ آزادی کی کامیابی میں اقتدار انھی کو حاصل ہوگا‘ کیوں کہ برطانیہ نے انھی سے اقتدار چھینا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ حقیقت سامنے آگئی کہ آزادی کی صورت میں جونیا نظام سیکولر جمہوریت کی بنیاد پر بنے گا اس میں ملک کی قسمت کا فیصلہ اور تمام دستور سازی اور قانون سازی عددی بنیادوں پر ہوگی۔ گاندھی اور نہرو کی قیادت میں کانگریس نے اس ہدف کے لیے ساری پیش بندی کی اور سیاست کا رخ ایک ایسی سمت میں موڑ دیا جس کے نتیجے میں فطری طور پر اس کی اصل قوت ہندو اکثریت کو حاصل ہو جائے۔ جس کے صاف معنی یہ تھے کہ سیاسی آزادی کے باوجود مسلمان نظریاتی‘ دینی‘ تہذیبی اور معاشی آزادی سے محروم رہیں۔
سائمن کمیشن (۱۹۲۸ء) کی رپورٹ‘ ۱۹۳۵ء کے قانون کے تحت انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی کانگریسی حکومتوں نے ہندو سامراج کے خدوخال اور مسلمانوں کے لیے غلامی کے نئے نظام کے تمام دروبست کو بالکل بے نقاب کر دیا۔ ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت نے جدوجہد آزادی کے نئے اہداف مرتب کیے تاکہ ایک طرف ملت اسلامیہ کے دینی اور تاریخی تشخص کی حفاظت ہو سکے اور دوسری طرف جمہوری سیاست کے جو اصول اور ضابطہ کار ہیں ان کے تقاضوں کو بھی پورا کیا جا سکے۔ برعظیم کی ملت اسلامیہ نے اپنا ایک واضح اورمتفقہ موقف اختیار کیا جس کی بنیاد یہ تھی کہ مسلمان محض ایک اقلیت نہیں‘ ایک قوم ہیں جو اپنا نظریاتی تشخص رکھتی ہے۔ ان کے لیے آزادی محض برطانوی اقتدار سے آزادی نہیں بلکہ ان آزاد مواقع کا حصول ہے جن میں وہ اپنے نظریات‘ اقدار اور تہذیبی روایات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کر سکیں۔
مسلمانوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ یہ حق ان کو پورے برعظیم میں حاصل ہو سکے۔ اس کے لیے آخری کوشش کرپس پلان کے تحت تین قومی زونوں پر مشتمل کنفیڈریشن کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش کی جسے ایک مدت کے بعد مکمل آزادی کا اختیار بھی حاصل ہوتا‘ مگر کانگریس نے اسے سبوتاژ کر دیا ۔اس کے بعد ۳ جون ۱۹۴۷ء کے پلان کے تحت مسلم اکثریت کے صوبوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت پاکستان اور باقی حصوں میں کانگریس کی قیادت میں بھارت کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ اس میں بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے‘ جن کا تحریک پاکستان میں بڑا فیصلہ کن حصہ تھا‘ سب سے زیادہ قربانی دی اور برعظیم میں ایک آزادمسلمان مملکت کے قیام کی خاطر اپنے لیے نیم آزادی کی حیثیت کو بہ خوشی قبول کیا اور اس امید پر کیا کہ پاکستان میں ایک مضبوط اسلامی معاشرہ اور ریاست قائم ہوگی اور وہ بالآخربھارت کے مسلمانوں کے حقوق کی بھی محافظ ہوگی۔
قائداعظم اور دو قومی نظریہ: آج بھارت کی قیادت خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا اور ہندستان کی تقسیم عمل میں آئی اسے انگریز‘ کانگریس اور مسلم لیگ تینوں نے قبول کیا۔ کانگریس نے تو پنجاب‘ بنگال اور آسام کے مسلم اکثریتی صوبوں کے پاکستان کا حصہ بننے پر صرف اس قیمت پر رضامندی ظاہر کی کہ ان تینوں صوبوں کو مزید مسلم اکثریتی اور ہندو اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ یہ مطالبہ کانگریس نے کیا اور اس طرح تقسیم ہند کے نظریاتی اصول کو صراحت سے تسلیم کیا۔یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے بار بار اس حقیقت کا اظہار کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد صرف ’’آزادی‘‘ نہیں ’’اسلامی نظریہ‘‘ ہے جس کے لیے آزادی خودایک ذریعہ بھی ہے اور زینہ بھی۔ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں ۸ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے خطاب میں قائد نے صاف الفاظ میں کہا کہ:
مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے‘ نہ وطن نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندووں کی تنگ نظری تھی اور نہ انگریزوں کی چال--- یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔
اور پاکستان بننے کے بعد ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے اسی بات کا اعادہ کیا تھا:
پاکستان کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔
اور ۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائد نے کہا:
اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
اور ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کوسبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون (Law Giver)پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق ہے کہ ’’مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی مشوروں سے کیا کرو‘‘۔
یہ صرف قائداعظم ہی کے خیالات نہیں یہ ملت اسلامیہ پاک و ہند کا وہ وژن ہے جس پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور جس کی حیثیت اللہ اور بندوں کے درمیان ایک عہدو پیمان اور تحریک پاکستان کی قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کے ساتھ ایک عمرانی معاہدے کی ہے--- اور یہی وہ حقیقت ہے جس پر پاکستان کی اساس قائم ہے اور یہی اس ملک کو اقوام عالم میں ایک امتیازی مقام دیتی ہے۔
اساس پاکستان: قیام پاکستان اور تقسیم ہند جس اصول اور نظریے پر ہوئی اس کے تین اجزا ہیں ‘ یعنی:
۱- مسلمان ایک قوم ہیں جس کی تشکیل رنگ‘ نسل اور جغرافیائی حدود پر نہیں بلکہ ایمان‘ دین ‘ مشترک اقدار زندگی اور تصور حیات اور ان پر مبنی تہذیب و تمدن سے ہوئی ہے۔ اور مسلمان دنیا میں جہاں بھی ہوں وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری ممکنہ حد تک اپنے نظریہ حیات کے مطابق کرنے کے پابند ہیں۔
۲- برعظیم پاک و ہند میں جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان کے وفاق پر مشتمل ایک آزاد ریاست پاکستان کے نام سے قائم ہوگی تاکہ وہ اپنے تصورات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر نو کر سکیں۔
۳- دونوں ملکوں میں اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں گے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ بھارت میں مسلمان اقلیت کو مکمل تحفظ دیا جائے گا اور پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کو پورا تحفظ اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں گے۔
سیکولر تہذیب اور مغربی لبرلزم کے علم برداروں سے اس اصول کو تسلیم کرا لینا اور مغربی تہذیب کے دور استیلا میں جو دین و دنیا ‘ مذہب و ریاست اور اخلاق و سیاست کی دوئی کے اصول پر قائم ہے‘ اس نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا قیام بیسویں صدی کا ایک معجزہ تھا--- یہ ملت اسلامیہ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم و انعام اور برعظیم کے عام مسلمانوں کی بے لوث قربانیوں کا ثمرہ تھا۔ اور یہ بھی قدرت کا ایک حسین اشارہ تھا کہ قیام پاکستان کے مبارک دن یعنی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ۲۷ رمضان المبارک کی شکل میں دو سعادتوں کا اجتماع ہوا۔
آج سیکولر طبقہ خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ تاریخی حقائق ناقابل تردید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیروں کی ریشہ دوانیوں اور اپنوں کی بے وفائیوں کے باوجود پاکستان کی یہ اساس اور امتیازی شان‘ قرارداد مقاصد اور ۱۹۵۶ء‘ ۱۹۶۲ء‘ ۱۹۷۳ء کے دساتیر کی اسلامی دفعات کی شکل میں قائم و دائم ہے۔ جس نے بھی ان بنیادوں سے ہٹنے یا ان کو معدوم یا کمزور کرنے کی کوشش کی ہے وہ خس و خاشاک کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے۔
مسلمان کے لیے ہر دن بیداری کا پیام لے کر آتا ہے اور ہر رات اپنے اندر تذکیر کے بے شمار پہلو رکھتی ہے ۔ اس قوم کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ یہ اٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ عالم استراحت میں اپنے ربّ اور اپنے مقصدوجود کو یاد رکھتی ہے۔ (یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوبِھِمْ اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) لیکن کچھ ایام ایسے ہیں جو تذکیر اور یاد دہانی سے بڑھ کر تجدید عہد کے دن ہوتے ہیں--- اور پاکستانی قوم کے لیے ۱۴ اگست ایک ایسا ہی دن ہے جو اپنے جلو میں بے شمار روشن تاریخی یادیں لے کر آتا ہے۔ یہ دن ہر پاکستانی کے دل ودماغ کو بیدار کرنے اور مقصد حیات سے رشتے کو تازہ کرنے کے لیے ایک مہمیز کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس سال ۱۴ اگست غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ ہم ہر پاکستانی مسلمان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ سنجیدہ غوروفکر کرے‘ اپنے رب سے اپنے عہد کی تجدید کرے اور جن حالات میں ملک و ملّت گرفتار ہیں ان سے انھیں نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم کرے اور سرگرم عمل ہو جائے۔
نظریاتی اساس کا تحفظ: آج اس مملکت کی نظریاتی اور دینی اساس کو خطرات درپیش ہیں جن کا مردانہ وار مقابلہ ضروری ہے۔ ایک گروہ مسلسل اس بنیاد کو کمزور اور پاکستان کے حقیقی وژن کو گرد آلود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں وہ طبقات اورلوگ پیش پیش ہیں جن کا تحریک پاکستان میں کوئی حصہ نہیں تھا اور جنھوں نے آزادی کے بعد محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس ملک کی زمام کار پر قبضہ کرنے اور ملک کے وسائل کو اپنی ذات یا گروہ اور طبقے کے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ یہ گروہ بڑی دریدہ دہنی سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اقبال اور قائداعظم تو ایک سیکولر ملک قائم کرنا چاہتے تھے اور یہ مولوی اور مذہبی انتہا پسند ہیں جنھوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور اب پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانے اور قرون وسطیٰ کی طرف لوٹانے میں لگ گئے ہیں۔ اس کے لیے کبھی کمال اتاترک اور ترکی کی بات کی جاتی ہے اور کبھی طالبان کے خوف سے ڈرایا جاتا ہے۔ اور اب تو اس ’’طبقہ زہّاد‘‘ میں رخصت ہونے والے امریکی سفیر ولیم مائلم صاحب بھی شریک ہو گئے ہیں جن کی نگاہ میں جہاد اور امت مسلمہ کی بات کرنا جناح مخالف وژن (anti-Jinnah vision)کا حصہ ہے۔ سیرت کے جلسے میں جہادی قوتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اسلام پر فخر کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں۔ اس شتر گربگی کا مظاہرہ مختلف سطح پر کیا جا رہا ہے اور تاریخ اور زمینی حقائق سے مکمل صرفِ نظر کر کے کیا جا رہا ہے۔ اس خطرناک رجحان پر گرفت پاکستان کے حقیقی تصور کے تحفظ کے لیے بے حد ضروری ہے۔
تحریک پاکستان کوئی خفیہ تحریک نہیں تھی اور نہ اس کا میدان ڈرائنگ روم کی سیاست تھی۔ یہ تحریک ایک عوامی جمہوری تحریک تھی جو شہر شہر‘ گائوں گائوں اور قریہ قریہ چلی اور جس میں برعظیم کے ۱۰ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت نے حصہ لیا۔ وہ جاگیردار‘ نواب اور دانش ور جو تحریک کے آخری ایام میں ہوا کا رخ دیکھ کر شریک ہوئے وہ اس کے دست وبازو نہ تھے۔ اس تحریک کی اصل قوت مسلمانوں کے تمام طبقے خصوصیت سے عوام تھے۔ علما کے ایک طبقے نے اگر کانگریس کا ساتھ دیا تو علما کے ایک بہت بڑے طبقے نے اپنے اپنے انداز میں تحریک پاکستان کے فروغ کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ اقبال کے بعد جس شخص نے دو قومی نظریے کا موقف مثبت اور محکم دلائل سے پیش کیا وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے جنھوں نے متحدہ قومیت کا نعرہ بلند کرنے والے علما (مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عبیداللہ سندھی) کو برملا چیلنج کیا اور ان کے دعووں کا مسکت جواب دیا۔ اس تحریک میں قائداعظم اور لیاقت علی خاں کے شانہ بہ شانہ مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مفتی محمد شفیع‘ مولانا احتشام الحق تھانوی‘مولانا عبدالحامد بدایونی‘ مولانا عبدالستار نیازی‘ مولانا اطہر علی‘ مولانا راغب احسن‘ مولانا ظفر احمد انصاری‘ مولانا ابن الحسن جارچوی‘ پیر صاحب مانکی شریف‘ پیر صاحب زکوڑی شریف وغیرہم نے حصہ لیا اور گھر گھر پاکستان کے پیغام کو پہنچایا۔ جمعیت علماے اسلام نے برعظیم کے طول و عرض میں تحریک کی تائید میں مہم چلائی اور مسلمانوں کو پاکستان کے محاذ پر جمع کیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے تحریک کی تائید کی اور ان کے انتقال پر مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے قائداعظم کی صدارت میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔علما کو طعنہ دینے والے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور تاریخی حقائق کو جھٹلانے کی کوشش نہ کریں۔
سیکولر عناصر کی کوتاہ نظری: پاکستان کی ۵۴ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جس طبقے نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور جو اس کے نظام پر قابض اور اس کی تباہی اور کمزوری کا باعث ہے وہ سیکولر قیادت ہے۔ یہ کبھی سیاست دانوں کی شکل میں‘ کبھی بیوروکریسی کے روپ میں اور کبھی فوجی قیادتوں کے لبادے میں ملک پر مسلط رہے ہیں۔ دینی قوتوں نے تو ہمیشہ آمریت کو لگام دینے اور عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی خدمت انجام دی ہے ۔ آج جو بھی خیر دستور کی اسلامی دفعات‘ بنیادی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ‘ قومی سلامتی کے معاملات میں مضبوط موقف‘ دفاع وطن اور جمہوری اقدار کی بحالی کے باب میں پایا جاتا ہے‘ اس میں سب سے نمایاں حصہ دینی قوتوں کی کوشش کا ہے۔
اقبال اور قائد اعظم کے وژن کو پراگندہ اور غبار آلود کرنے کی جو بھی کوشش ہوئی ہے وہ سیکولر طبقے کی طرف سے ہوئی ہے اور بری طرح ناکام رہی ہے--- اور اس لیے ناکام رہی ہے کہ وہ مبنی برحق نہیں ہے۔ ترکی کی مثال بار بار دی جاتی ہے مگر اس پر کوئی غور نہیں کرتا کہ سیکولرزم نے ترکی کو کیا دیا۔ وہ قوم جو اسلام کا علم لے کر اٹھی تو مشر ق و مغرب پر چھا گئی لیکن سیکولرزم کی پرستار بننے کے بعد مغربی اقوام کی مقروض اور محتاج ہو گئی ہے اور ذہنی افلاس کے ساتھ معاشی تباہی اور سیاسی انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اقبال نے اسی کو مخاطب کر کے کہا تھا :
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
اور یہ سب اس لیے کہ
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
آج ترکی میں سیکولرزم کے خلاف جو عوامی تحریک ہے اسے وہی نظرانداز کر سکتا ہے جو بصیرت ہی نہیں بصارت سے بھی محروم ہو۔ پھر ترکی کی آزادی اور بقا کی جنگ میں فوج کا حصہ اور تحریک پاکستان کے باب میں فوج کے کردار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ ترکی میں فوج ملک کے مسائل کو حل کر سکی اور نہ پاکستان میں فوج کے بار بار کے سیاسی کردار نے کوئی خیر پیدا کیا۔ یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ ترکی کی فوج کا مزاج سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہزاروں قابل اور باصلاحیت افسروں کو محض دین سے وابستگی کی بنا پر فوج سے الگ کر کے ‘ فوج کو ان کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ فوج اور ملک دونوں کی کمزوری کا باعث ہوا ہے‘ جب کہ پاکستان کی فوج خصوصیت سے سقوط ڈھاکہ کے بعد ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے موٹو پر منظم کی گئی ہے۔ اسے سیکولرزم کا علم بردار اور محافظ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ جو بھی فوج یا قوم پر سیکولر نظریات مسلط کرنے کی کوشش کرے گا وہ ملک کو کش مکش اور باہم پیکار کی آماجگاہ بنا دے گا۔ اس ملک کا کوئی خیرخواہ ایسی حماقت کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔
سیکولر نظریات آج عالمی استعمار اور مغرب کی بالادستی قائم کرنے کا ایک ذریعہ اور آلہ ہیں۔ عالم گیریت صرف معاشی اور سیاسی استیلا ہی سے عبارت نہیں ‘اس کا ایک نظریاتی اور تہذیبی ایجنڈا بھی ہے جس کا ہدف ریاست کے اداروں کو کمزور کر کے اور این جی اوز کو آلہ کار بنا کر دنیا کے تمام ممالک اور خصوصیت سے مسلمان ممالک پر مغرب اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ جو حضرات سیکولرزم اور لبرلزم میں اس ملک کا مستقبل دیکھ رہے ہیں وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مغربی استعمار کے آلہ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انھیں اس ملک و ملّت کا دوست نہیں کہا جا سکتا۔
ہم یہ سوال بھی اٹھانا چاہتے ہیں کہ آخر سیکولرزم اور لبرلزم کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کیا ہے؟ مغرب میں مذہبی استبداد کے خلاف جو تحریک اٹھی اس میں سیکولرزم نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اصلاً یہ محض ایک منفی تحریک ہے۔ مثبت طور پر سیکولرزم کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ یہ قومیت‘ سرمایہ داری‘ جمہوریت یا سوشلزم کے ایک معاون اصول کی حیثیت سے یعنی اس تثلیث کے ایک جزو کے طور پر‘ ایک کردار رکھتی ہے۔ صرف سیکولرزم کے پاس فرد‘ معاشرہ اور انسانیت کا کوئی ایسا وژن نہیں جو دنیا کو ایک بہتر نظام حیات سے روشناس کرا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج خود مغربی دنیا میں مذہب‘ یا کسی اعلیٰ اخلاقی نظام اقدار کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ان کا عیسائی مذہب کا تجربہ کوئی اچھی یادیں لیے ہوئے نہیں لیکن اس کے باوجود اہل فکر ودانش کا ایک بڑا طبقہ کسی مذہب یا روحانی خلا کو پر کرنے والے کسی نظام کی خواہش اور ضرورت محسوس کررہا ہے اور اس کی تلاش میں ہے بلکہ جدید تہذیب کی بقا کے لیے اسے ضروری سمجھتا ہے۔
دستور کی تین بنیادیں: ہم اس طبقے سے اور خصوصیت سے زندگی کے ہر شعبے کی قیادت سے پوری دل سوزی سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ چیزیں جو اس قوم میں متفق علیہ ہیں انھیں متنازع بنانے کی جسارت اور حماقت نہ کریں۔ وہ متنازع تو نہیں بن سکیں گی لیکن قوم میں کنفیوژن اور پراگندہ فکری ضرور پیدا ہو سکتی ہے۔ نئی نسلوں کے ذہنی سکون کو متاثر کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم میں اندرونی کش مکش رونما ہو سکتی ہے جو قومی قوتوں کے ضیاع پر منتج ہو گی جب کہ آج ضرورت ساری قوتوں کو مثبت تعمیری مقاصد کے لیے منظم اور متحرک کرنے کی ہے۔ اس کے لیے ایک محکم بنیاد ملک کا دستور ہے جس پر پوری قوم کا اجماع ہے۔ اس دستور کی تین بنیادی خصوصیات ہیں اور ان میں سے ہر خصوصیت کے اساسی تصورات دستور میں دو اور دو چار کی طرح متعین کر دیے گئے ہیں۔ ہماری خرابیوں اور کمزوریوں کا ایک بڑا سبب اس دستور پر عمل نہ کرنا ہے۔ ظلم ہے کہ ہر ایک نے اس دستور سے وفاداری کا حلف لیا ہے اور ہر کوئی اس سے بے وفائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس دستور کی پہلی بنیاد اسلام ہے۔ قرارداد مقاصد دستور کا دیباچہ ہی نہیں اس کی ایک قابل تنفیذ دفعہ ہے۔ دفعہ ۲ اور دفعہ ۲ الف ریاست کے اختیار اور نظریاتی حدود کو متعین کر دیتی ہیں۔دفعہ ۲۲۷ قانون سازی کے اصول اور حدود کی نشان دہی کرتی ہے۔ نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت سے متعلق دفعات پالیسی سازی اور قانون سازی کے لیے معاونت اور محاکمے کا نظام قائم کرتی ہیں۔ پالیسی کے رہنما اصولوںکا پورا باب اسلام کی روشنی میں حکومت کے پورے دائرہ کار کے لیے واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ دستور اس تسلسل میں سالانہ جائزہ رپورٹ بھی ضروری قرار دیتا ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ دستور سات سال میں پورے نظام قانون کو شریعت اسلامی سے ہم آہنگ کرنے کی ہدایت دیتا ہے لیکن دستور کو نافذ ہوئے ۲۸ سال ہو گئے ہیں اور ہنوز دلی دُور است! دستور کی دفعہ ۶۲-۶۳ قیادت کے لیے معیار طے کرتی ہیں اور دستور میں دیے ہوئے حلف ایک قومی عہدکا درجہ رکھتے ہیں۔ دستور کے تحت قائم ہونے والی نظریاتی کونسل نے ۴۰سے زیادہ رپورٹوں کی شکل میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلامی ہدایات مرتب کر دی ہیں۔ ان سب کے بعد بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلامی ماڈل کہاں ہے؟ ہم کس اسلام پر عمل کریں؟ ہمارے لیے نہ ایران ماڈل ہے‘ نہ سعودی عرب یا سوڈان۔ ہمارا ماڈل قرآن و سنت ہیں اور خود ہمارے دستور نے اس ماڈل کے خطوط کار واضح کر دیے ہیں اور دستوری اداروں نے رہنمائی فراہم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ناکام اگر کوئی ہے تو سیاسی قیادت اور وہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں اور رہنما ہیں جو ان سب کو نظرانداز کر کے اپنے اپنے مفادات کی دوڑ میں مصروف رہے ہیں۔
دوسرا اصول پارلیمانی جمہوری نظام ہے۔ اس سلسلے میں بھی دستور نے کوئی خلا یا ابہام نہیں چھوڑا ہے۔ تقسیم اختیارات اور ہر ہر ادارے کی ذمہ داریاں اور کردار متعین کر دیا گیا ہے لیکن نہ الیکشن دستور کے مطابق ہوتے ہیں اور نہ پارلیمنٹ اپنا کرداراد ا کرتی ہے۔ عدالتیں بھی سیاست اور اقربا پروری کی آماجگاہ بن گئی ہیں اور اگر کوئی شک ہے تو سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی خود نوشت Law Courts in A Glass Houseکا مطالعہ کر لیجیے جس میں ’’عدالت کے کانچ گھر‘‘ اور ’’ سیاست کے حمام‘‘ میں سب لباس سے فارغ نظر آتے ہیں۔
دستور کی تیسری بنیاد وفاقیت ہے۔ یعنی مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم اور فیصلہ کرنے کے عمل کا اُوپر سے نیچے تک متحرک ہونا۔ دستور کو بنے ۲۸ سال ہو گئے ہیں اور آج تک نہ اختیارات کی منتقلی کا عمل مکمل ہوا ہے اور نہ دستور میں قائم کیے ہوئے اداروں کو موثر بنایا گیا ہے۔ خود پسندی اور اپنی ذات میں اختیارات کے ارتکاز کے مرض نے ملک میں وہ خلفشار پیدا کیا ہے کہ مرکز گریز رجحانات ترقی پا رہے ہیں اور عوام انصاف اور حقوق سے محروم ہیں۔
اگر دستور کی ان تینوں بنیادوں پر‘ دستور کے فریم ورک میں‘ دیانت سے عمل ہو تو ہمیں کسی ’’مسیحا‘‘ کی ضرورت ہے اور نہ ’’قومی مرمت سازی‘‘ کے کسی ادارے کی!
لندن کے نہایت معتبر میگزین امپیکٹ انٹرنیشنل نے اپنی جولائی ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں سابق صدر رفیق تارڑ جیسے مرنجان مرنج سربراہ ریاست کی فارغ خطی کے جن اسباب کا ذکر کیا ہے وہ خطرے کی ایک بڑی گھنٹی ہیں۔ ویسے تو تارڑ صاحب نئے حکمرانوں سے ہر طرح تعاون کر رہے تھے لیکن ہائی کورٹ میں میرٹ اور اصول کو نظرانداز کر کے نئے ججوں کی تقرری کی سفارش کو انھوں نے غالباً پہلی بار نظرثانی کے لیے واپس کر دیا اور اصرار کے باوجود دستخط نہیں کیے۔ لاہور میں منعقد ہونے والی پنجابی کانفرنس کے اس واقعے کا کھلے بندوں نوٹس لیا کہ ’’پاکستان تلاوت کے لیے نہیں بنا‘‘۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان تلاوت قرآن ہی کے لیے بنا ہے اور جب تک پاکستان ہے تلاوت ضرور ہو گی۔ جس پر روایت ہے کہ چیف ایگزیکٹو نے ان سے کہا کہ ’’آپ کیا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ریمارکس دیتے ہیں‘‘۔ یہ بھی روایت ہے کہ سیرت کانفرنس میں جنرل مشرف صاحب نے جہادی تنظیموں کے بارے میں جو ارشادات فی البدیہہ فرمائے تھے تارڑ صاحب نے غالباً زندگی میں پہلی بار اپنے دستوری صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو کو ایک خط کے ذریعے متوجہ کیا کہ ایسے غیر محتاط اور غیر متوازن بیان سے جہاد آزادی کی تحریک میں مصروف جاں بازوں پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اگر تارڑ صاحب کی رخصتی کا یہی پس منظر ہے تو یہ ایک بڑی تشویش ناک بلکہ خطرناک صورت حال کا پتا دیتا ہے جو قوم کو ایک بڑی کش مکش کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اس لیے ہم صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ دستور کی ان تینوں بنیادوں کا تحفظ اور احترام سب کے لیے ضروری ہے۔موجودہ حکومت کو سپریم کورٹ نے جو سند جواز ایک متعین مدت کے لیے دی ہے وہ مذکورہ بالا تین بنیادوںکے ساتھ مشروط ہے۔ یہ قوم کتنی بھی کمزور ہو ‘کسی کو بھی ان بنیادوں کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ غلام محمد‘ اسکندر مرزا‘ جنرل ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے اپنے دَور میں اور اپنے اپنے انداز میں اس کی کوشش کر کے دیکھ چکے ہیں اور اپنے انجام کو پہنچے۔ عقل مند وہ ہے جو ماضی کے ان نشانات عبرت سے سبق لے اور قوم کو کسی نئی آزمایش میں مبتلا نہ کرے ورنہ اس کا انجام بھی اپنے پیش روئوں سے مختلف نہیں ہو سکتا۔
انتخابات اور انتقال اقتدار : اس سال ۱۴ اگست جن حالات میں آ رہا ہے ان میں ایک اور غور طلب پہلو احیاے جمہوریت اور انتقال اقتدار کا وہ پس منظرہے جس میں ضلعی نظام کے انتخابات کے بعد ۱۴اگست کو اس نظام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس وقت اس نظام کے حسن و قبح پر گفتگو پیش نظر نہیں۔ برا یا بھلا جو بھی نظام ہے اگر اسے آپ نے نافذکر ہی دیا ہے تو اب اس کا احترام کریں اور جو زمینی حقائق سامنے آئے ہیں ان کو کھلے دل سے تسلیم کر کے اس میں دراندازی کا کھیل نہ کھیلیں۔
شروع میں تو عوام نے اس نظام میں کوئی خاطر خواہ دل چسپی نہیں لی لیکن بعد کے مراحل میں دل چسپی بڑھی اور اب ضلعی نظام کے مرحلے پر تو یہ واضح ہو گیا کہ ملک کی اصل قوت آج بھی سیاسی جماعتیں ہیں جو مختلف گروپوں کے نام سے متحرک ہو گئی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ نہ سیاست کا کوئی متبادل ہے اور نہ سیاسی جماعتوں کا۔ دونوں کی اصلاح کے لیے جو بھی ممکن ہو کیا جائے لیکن ان کا کوئی بدل نہیں۔ اگر غیر فطری انداز میں ان پر پابندیاں لگائی گئیں یا آرڈی ننسوں کے ذریعے منتخب لوگوں کو جیسے بھی وہ ہوں‘ محض سیاسی وفاداری یا تعلق کی بنیاد پر ہٹایا گیا تو یہ پورا نظام وجود میں آنے سے پہلے ہی دھڑام سے گر جائے گا۔ یہ عوام ہی کا حق ہے کہ وہ اپنے نمایندے چنیں۔ان پر اپنی پسند کے لوگ مسلط کرنا جمہوریت‘ انصاف اور دیانت ہر ایک کے خلاف ہے اور ظلم اور آمریت کا راستہ ہموار کرنے والا ہے۔ اس سے بچنا بہترہے۔ پاکستانی جمہوریت کا المیہ ہی یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے خود کوعقل کُل سمجھ لیا ہے اور قوم کو اپنے معاملات طے کرنے کا موقع دینے کے بجائے قوم پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قومی مفاد کے اصل حکم وہ ہیں۔ یہ بدترین آمریت اور انسانوں کے استحصال کا راستہ ہے۔
۱۴ اگست کی تقدیس کا اگر کچھ بھی پاس ہے تواس کا تقاضا ہے جو نظام بھی آپ نے بنایا ہے اسے کسی مداخلت اور سیاسی کھیل کے بغیر بروے کار آنے کا موقع دیں۔ عوامی نمایندوں کے لیے احتساب کا آزاد اور قابل اعتماد نظام ضرور بنائیں لیکن من مانی سازباز کا دروازہ بالکل بند کر دیں۔ اس نظام کو نچلی سطح پر محدود اور متعین اختیارات اور انتظام تک محدود رکھیں۔ اسے صوبائی یا مرکزی نظام کے لیے زینہ بنانے کی جسارت نہ کریں بلکہ دستور کے تحت اور دفعہ ۶۲-۶۳ کے فریم ورک میں بااختیار اور قابل اعتماد الیکشن کمیشن کے ذریعے صوبائی اور مرکزی انتخابات کا اہتمام کریں۔ ہم ایک بار پھر یہ کہنا چاہیں گے کہ قومی مشاورت کے ذریعے متناسب نمایندگی کا ایک معقول نظام وضع کیا جا سکتا ہے جو ہمارے بہت سے مسائل کے حل کرنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ آزاد اور شفاف انتخابات ہی نئی قیادت کو بروے کار لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ۱۴ اگست کو اس کا واضح ٹائم ٹیبل اور نقشہ کار (road map)قوم کے سامنے آجاناچاہیے۔
پاک بھارت مذاکرات اور مسئلہ کشمیر: اس سال ۱۴ اگست کی اہمیت پاک بھارت مذاکرات کے پس منظر میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں جنرل پرویز مشرف کے انداز حکمرانی اور ان کی کچھ ترجیحات سے جتنا بھی اختلاف ہو‘ اور ہم نے اس کا برملا اظہار کیا ہے ‘لیکن کشمیر کے معاملہ میں ان کا قومی موقف پر ڈٹ جانا‘ بھارت سے مذاکرات سے پہلے قوم اور اس کی قیادتوں کو اعتماد میں لینا اور دہلی اور آگرہ میں قومی اتفاق رائے کے فریم ورک میں جرأت اور دانش مندی سے اپنی بات پیش کرنا اور حق و انصاف پر مبنی موقف کو کسی قیمت پر سمجھوتے کی بھینٹ نہ چڑھنے دینا ایسے پہلو ہیں جن پر ہم انھیں مبارک باد دیتے ہیں اور ان کے لیے اس موقف پر مزید استقامت کی دعا کرتے ہیں۔
بھارت نے بڑی ہوشیاری بلکہ عیاری سے ایک خاص فضا بنائی تھی جس میں ایک طرف تو جنرل صاحب کی اَنا کی تسکین اور ان کو ذاتی اکرام کے ذریعے رام کرنے (win over)کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعے ایک ایسا سوچا سمجھا اور گھمبیر حملہ کیا گیا کہ وہ کشمیر کی مرکزیت سے ہٹ کر ضمنی معاملات میں اُلجھ جائیں۔ ترغیب اور ترہیب کا ہر حربہ پوری چابک دستی سے استعمال کیا گیا اور بالکل وہی حکمت عملی دہرائی گئی جو گاندھی جی نے قائداعظم کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں استعمال کی تھی--- مٹھاس اور عیاری‘ چاپلوسی اور بلیک میلنگ‘ ذاتی اکرام اور قومی موقف سے ہٹانے کی کوشش۔ خدا کا شکر ہے کہ جس طرح قائداعظم نے گاندھی جی کی ساری چالوں کو پادَر ہوا کر دیا تقریباًاسی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے مشرف صاحب نے بھی واجپائی ایڈوانی جال سے اپنے آپ کو بچا لیا۔ ان کو ہندو کی سیاست کا بلاواسطہ اور براہِ راست تجربہ ہو گیا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا ایک الہامی شعر ہے جس میں ہندو سیاست کے دو کرداروں کی بڑی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ساورکر ہندو مذہبی انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کا نمایندہ تھا اور گاندھی جی ہندو مفادات کے بڑے سمجھ دار محافظ۔ دونوں کے بارے میں مولانا ظفر علی خاں کا جچا تلا تجزیہ ہے کہ ؎
دنیا میں بلائیں دو ہی تو ہیں‘ اک ساورکر اک گاندھی ہے
اک جھوٹ کا چلتا جھکّڑ ہے‘ اک مکر کی چلتی آندھی ہے
آج ساورکر اور گاندھی‘ ایڈوانی اور واجپائی کے روپ میں اسی طرح پاکستان کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح پاکستان کے قیام کو روکنے کے لیے کبھی ساورکر اور گاندھی سرگرم عمل تھے۔ گاندھی جی نے جناح کو ’’قائداعظم‘‘ تسلیم کیا اور بھارت کا وزیراعظم بنانے کی پیش کش کی لیکن قائداعظم اس کھیل سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے ’’کٹا پھٹا‘‘ پاکستان قبول کر لیا لیکن گاندھی کے جال میں نہ آئے--- آج بھی سارا کھیل یہی ہے کہ پاکستان کو کسی طرح کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے ہٹا کر پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں بُعد اور تصادم پیدا کر دیا جائے‘ پاکستانی قیادت اور پاکستانی قوم کو لڑا دیا جائے تاکہ بھارت کشمیر پر اپنے قبضے کو دوام بخش سکے۔ حریت کانفرنس کی قیادت سے وہ خود بات کرنے کو تیار نہیں مگر پاکستان سے ان کی ملاقات پر برافروختہ ہے۔ کشمیر کے بارے میں اپنے سارے وعدے وعید‘ مسئلے کی پوری تاریخ‘عوامی جدوجہد اور ہزاروں لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کو بالکل نظرانداز کر کے ویزا کی سہولتوں اور تجارت کے معاملوں میں اُلجھانے کی کوشش--- ایک طرف کشمیر میں عوامی تحریک اپنے عروج پر ہے‘ ہزاروں افراد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں‘ ہر شہید کا جنازہ بھارتی تسلط کے خلاف ایک عوامی ریفرنڈم ہے--- اور بھارت کی قیادت ہے کہ اسے مسئلہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں اورہماری قیادت کو لیپاپوتی والے معاملات میں اُلجھانے پر ساری توجہات مرکوز کر رہی ہے۔
کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا ذکر کیا جاتا ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے فلسطینیوں کو کیا حاصل ہوا؟ ہم خود معاہدہ تاشقند سے آج تک اعتمادپیدا کرنے والے اقدامات (Confidence Builiding Measures - CBM's) کی بات سن رہے ہیں لیکن چالیس سال میں ان سے کیا حاصل ہوا؟ ۱۹۷۲ء (شملہ معاہدہ) سے دوطرفہ مذاکرات کی بات ہو رہی ہے لیکن ۵۰ سے زیادہ بار مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے حاصل کیا ہوا؟ اوسلو کے بارے میں اس وقت اسرائیل کے بڑے سے بڑے موید بھی یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ یہ راستہ مسائل کے حل کا راستہ نہیں۔
انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے ۱۷ جولائی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں دو یہودی دانش ور ایک ہی بات کہتے ہیں جو غور طلب ہے۔ ہنری سیگمین (Henry Seigman)جو امریکہ کی مشہور زمانہ Council on Foreign Relations کا سینیرفیلو او ر اسرائیل کا ہمدردہے ‘ یہ لکھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ:
اوسلو معاہدہ کئی وجوہات سے ایک مستقل حیثیت کے معاہدے کی راہ ہموار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سب سے بنیادی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی اپنے لیے وہ واحد ہدف تسلیم نہیں کیا جو اس طرح کے معاہدے کو ممکن بناتا‘ یعنی مغربی کنارے اور غزہ میں ایک مستحکم اور خودمختار فلسطینی ریاست۔ اعتماد کوئی خیالی چیز نہیں ہے جو محض اپنی خاطروجود رکھتا ہو‘ یہ کسی مقصد کے حوالے سے ہی کوئی معنی و مفہوم پاتا ہے۔ اعتماد یہ ہونا چاہیے کہ یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اوسلو کے حوالے سے اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات سے مراد صرف وہی اقدام ہو سکتے ہیں جن سے فلسطینی یہ یقین کرنے لگیں کہ وہ مستحکم ریاست کا مرتبہ حاصل کر لیں گے۔بامعنی ریاستی حیثیت بنیادی آرزو ہے۔ اگر اس کے بارے میں گفتگو کے آغاز کا مقصد بھی اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات سے متعلق نہ ہو تو اس طرح کے مجرب نسخے پر عمل کا بے معنی پن (absurdity) ذہن کو ششدر کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ امریکی سفارت کاری کی بنیاد ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۱ء)
ہمارا مسئلہ بھی بالکل یہی ہے۔ اصل سوال اہل جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ اس کی بات نہ کرو صرف اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات کی کرو‘جن معاملات کا کوئی تعلق اصل مسئلے سے نہیں ہے ان میں اُلجھ جائو۔ پھر نتیجہ بھی معلوم ہے۔ بات کبھی ان اقدامات سے آگے اصل مسئلے کی طرف نہیں جاتی۔ جب بھی اصل مسئلے کو موخر کیا گیا ہے یا مبہم چھوڑ دیا گیا ہے کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ خواہ مسئلہ فلسطین کاہو یاکشمیر کا۔ یہی اسرائیل کا کھیل ہے‘ یہی بھارت کا‘ یہی امریکہ کا۔ ہم کب تک ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے رہیںگے۔ ٹربیون کے اسی شمارے میں صیہونیت کا ایک مبلغ جافری وہیٹ کرافٹ (Geoffrey Wheatcraft) اپنے مضمون میں لکھتا ہے:
یہ امر واقعہ شک و شہبے سے بالاتر ہے کہ اوسلو (اسے کلنٹن بھی کہا جا سکتا ہے) کا پورا عمل پٹڑی سے اتر گیا ہے۔
اوسلو طریق کار کے بارے میں یہ دو تبصرے چشم کشا ہیں۔ آزمودہ را آزمودن جہل است۔ اور یہی وہ کھیل ہے جو بھارت ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے۔ پہلے مرحلے میں جنرل مشرف صاحب اس جال سے دامن بچا کر نکل آئے ہیں لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ اگلے مراحل کی تیاری‘ جہادی قوتوں کی حوصلہ افزائی‘ اصولی موقف پر استقامت‘ عالمی راے عامہ کو متاثر اور متحرک کرنے کی کوشش‘ بھارت کے عوام اور اہل دانش کی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش‘ خود اپنی قوم پر اعتماد اور اسے ساتھ لے کر چلنا ---یہ سب ۱۴ اگست کے تجدید عہد کے چند پہلو ہیں۔
آگرہ میں سربراہی ملاقات کے موقع پر بھارت کی قیادت کو سب سے زیادہ جو چیز کھٹکی وہ جنرل پرویز کی بھارتی اخبارات کے مدیروں سے ملاقات میں کھلی کھلی باتیں اور ان کا بھارت کے میڈیا پر آجانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وعدے کے باوجود اور جنرل پرویز کی خواہش کے علی الرغم روانگی سے قبل ان کو ورلڈ میڈیا سے خطاب کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہمارے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مدمقابل پر چوٹ کہاں سب سے زیادہ موثر ہو سکتی ہے۔
جنرل پرویز نے بھارت سے دہلی اور آگرہ میں جس طرح معاملہ کیا وہ ان کے لیے ‘ ہماری فوج کے لیے اور پوری قوم کے لیے باعث اطمینان ہے اور اس میں سابقہ قیادت خصوصیت سے بے نظیر صاحبہ‘ نوازشریف صاحب اور ان کے رفقا کے لیے بھی بڑا سبق ہے۔ قومی مفاد پر استقامت میں کامیابی اور اس پر سمجھوتہ کرنے میں دنیا میں بھی رسوائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی اس پر بڑی پکڑ کا خطرہ ہے۔
۱۴اگست کا پیغام : اس سال ۱۴ اگست کا یوم تجدید عہد جن حالات میں آ رہا ہے ان میں ملک کی معاشی مشکلات اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔معاشی خلفشار کی اصل وجہ وسائل کی کمی نہیں غلط معاشی پالیسیاں‘ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی محکومی‘ کرپشن اور بدعنوانی‘ غلط ترجیحات اور ہمہ گیر معاشی بدانتظامی ہیں۔ موجودہ معاشی ٹیم بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس سے اصلاح احوال کی توقع عبث ہے۔ البتہ ان معاشی حالات سے پریشان ہو کر یا ان کی بنیاد پر قیادت کو گھبراہٹ میں مبتلا کر کے ورلڈبنک اور گلوبلائزیشن کے نظام کو مزید مستحکم کرنے کے خطرات سے متنبہ کرنا ہمارا قومی فرض ہے۔ قوم کو جھوٹی تسلیاں دینے اور مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے ۔ اسے ترک کر کے ایک انقلابی حکمت عملی وضع کیے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے مقابلے میں فوجی حکومت کے لیے کسی انقلابی حکمت عملی کو اختیار کرنا آسان ہوتاہے۔ ہمیں اس رائے سے اتفاق نہیں لیکن موجودہ حکومت نے تو اس راستے کو پہلے دن ہی سے بندکر دیا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی شرائط پر جس تابع داری سے اس زمانے میں عمل ہو رہا ہے‘ کبھی نہیں ہوا۔ اس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ اس لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایک نئی قیادت کے بغیر کسی بڑی معاشی پہل قدمی (initiative)کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس لیے اس حکومت سے نہ کسی بہتر معاشی پالیسی کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ کسی موثر‘ شفاف اور مبنی بر عدل نظام احتساب کی۔ فوج کی قیادت کا سیاست میں مزید اُلجھا رہنا فوج اور ملک دونوں کے مفاد میں نہیں۔
اس سال ۱۴ اگست پر قوم کو تجدید عہد کے ساتھ موجودہ حکمرانوں کو یہ پیغام بھی دے دینا چاہیے کہ جتنی جلد ملک میں نئے منصفانہ انتخابات کے ذریعے دستور کے تحت ایک نئی‘ دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو زمام کار سونپی جا سکے ملک و ملّت کے لیے بہتر ہے۔ مخصوص طبقات سے اُبھرنے والی قیادتوں نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور بگاڑ میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ اب ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام میں سے ہو اور عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس کا دامن پاک اور شہرت اچھی ہو۔ یہ قیادت دستور کی پابند اور وفادار ہو‘ دستور کو اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ دستور کے مطابق عوام اور ملک کے مفاد میں کام کرے۔ وقت کی اصل ضرورت قوم کو بیدار کرنا اور متحرک کرنا ہے تاکہ عوام مخصوص طبقات کے ہاتھوں میں ڈھور ڈنگر کی طرح نہ کھیلیں بلکہ اپنی قسمت کے خود مالک بنیں اور اس ملک کو سنوارنے اور بنانے کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اس حیثیت کو محسوس کرے کہ وہ پاکستان کا محافظ اور خادم ہے اور خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔
۱۴ اگست جس تجدید عہد کا ہم سے مطالبہ کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک تحریک پاکستان کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو اور اس جذبے سے کام کرے کہ اسے پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی مملکت بنانا ہے‘ اس ملک سے جہالت‘ غربت‘ ناداری اور محتاجی کو دُور کر کے علم کی شمع کو روشن کرنا اور اعلیٰ اخلاق اور عدل و انصاف کا بول بالا کرنا ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے بندوں کو اللہ کے دیے ہوئے دین کی برکتوں سے شادکام کرنے اور بالآخر آخرت میں اپنے ربّ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرنا ہے۔ قائداعظم نے مسلم لیگ کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے ۳۱ اکتوبر ۱۹۳۹ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جس تمنا کا اظہار کیا تھا آج اس کی تذکیر کی ضرورت ہے۔ اس تمنا کو اپنے دلوں میں اتار لینے اور زبان اور عمل سے اس کے اظہار کا عزم اس سال ہمارے لیے ۱۴ اگست کا بہترین تحفہ ہوسکتا ہے۔
قائد نے کہا تھا:
’’میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی‘ تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔ میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘ میرا اپنا ایمان‘ میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح‘ تم نے واقعی مدافعت ِاسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح‘ تم مسلمانوں کی تنظیم‘ اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علَم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے‘‘۔
(یوم آزادی پر تقسیم کرنے کے لیے اس مضمون کا کتابچہ ۳۰۰ روپے فی سیکڑہ کے حساب سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور - ۵۴۵۷۰)
تحریک اسلامی کے حوالے سے خرم بھائی کی لمحات اور میاں طفیل محمد صاحب کی مشاہدات‘ دونوں کتابیں‘ تحریک کے لٹریچر میں بڑا قیمتی اضافہ ہیں۔ گو دونوں کا اپنا منفرد مزاج اور اسلوب اظہار ہے لیکن موضوع ایک ہی ہے: برعظیم پاک و ہند میں تحریک اسلامی۔ دونوں ہی گو بظاہر آپ بیتی ہیں لیکن دراصل تحریک کی کہانی اس کے دو مرکزی کرداروں کی زبانی ہے۔ صرف تحریک کے کارکنوں ہی کے لیے نہیں اُمت مسلمہ کے ہر فدائی کے لیے ان میں بہت کچھ ہے۔ ہمیں ان کتابوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
مشاہدات کے چار پہلو قابل توجہ ہیں:
آگے بڑھنے سے پہلے اپنے اس قلبی تاثر کا اظہار کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ مشاہدات ہی میں نہیں‘ میاں صاحب سے ۵۰ سالہ تعلق خاطر کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ان کی زندگی ایک مسلمان کی زندگی ہے‘ ایک مجاہد کی زندگی ہے۔ قرآن پاک کی جو دو آیات بار بار میرے ذہن میں آتی ہیں ان میں سے ایک ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (حم السجدہ ۴۱:۳۰) ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔ اور دوسری آیت: اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔
میاں صاحب کی زندگی میں ہمیں ان دونوں کیفیتیوں کے حصول کے لیے انسانی کوشش کی ایک بڑی اچھی مثال ملتی ہے۔
میاں صاحب کی زندگی میں ’’جدید‘‘ سے مطلوب اور معیار کی طرف مراجعت کی ایک بڑی روشن مثال نظر آتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک نوجوان نے حق کو پا لیا‘ تو پھر وہ اپنے کو حق کے رنگ میں رنگنے کے لیے کس طرح سینہ سپر ہو گیا۔ جماعت کی رکنیت اختیار کرتے وقت میاں صاحب نے کس انوکھے عزم کا مظاہرہ کیا۔ ایک سوٹڈ بوٹڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ کلین شیوڈ نوجوان ۷۵ نفوسِ قدسیہ کے درمیان آتا ہے اور جس طرح حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ میں کمزور ہوں اور میری آنکھوں میں آشوب چشم بھی ہے لیکن میں آپ ؐکا ساتھ دوں گا‘اسی جذبے سے میاں صاحب نے کہا کہ میرے ظاہر کو نہ دیکھیے‘ میں بھی آپ کے ساتھ اس دعوت اور پیغام کا علم بردار بننا چاہتا ہوں۔ اس پر بعض علما نے اپنے تامّل کا اظہار کیا کہ اس شکل و صورت اور حلیے میں ایک فرنگ زدہ نوجوان کو ہم کیسے قبول کر لیں؟ میاں صاحب نے کہا: آپ مجھے چھ مہینے دیجیے اور پھر دیکھیے کہ میں ان شرائط کو کیسے پورا کرتا ہوں۔کئی علما کی آنکھوں میں بے یقینی کا خوف تھا لیکن مولانا مودودی ؒنے اس نوجوان کے سر پر اعتمادکا ہاتھ رکھا اور پھر میاں صاحب نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا۔ پھر چھ مہینے ہی نہیں‘ بلکہ ۶۰سال پوری استقامت سے اپنے آپ کو اس دعوت کی نذر کر دیا۔
میاں صاحب کی زندگی میں ہمیں قبول حق کے ساتھ حق کے تقاضوں کا بدرجہ اتم احساس ملتا ہے۔ یعنی استقامت کے ساتھ ساتھ یہ عزم کہ اس حق پر جو بھی حملہ آور ہوگا‘ میں اس کے دفاع کے لیے ڈٹ جائوں گا۔ اس میں کوئی بزدلی نہیں دکھائوں گا۔ میاں صاحب پہاڑ کی طرح ڈٹ جاتے ہیں اور دوسری طرف اس حق پر ساتھ دینے والے تحریک کے لوگوں کے لیے‘اپنے اہل خانہ کے لیے‘ اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کے لیے سراپا شفقت‘ سراپا محبت‘ اور سراپا رحمت نظر آتے ہیں۔ بقول اقبال ؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
میاں صاحب کی زندگی میں بڑی سادگی ہے۔ کسی قسم کی بناوٹ‘ ظاہرداری‘ تصنّع یا ملمّع سازی نظر نہیں آتی۔ کسی شخص کے کردار کی یہ بڑی نادر خوبی ہے۔ ہماری زندگیوں سے ایسی خوبیاں اب ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب پر اپنا فضل و کرم کیا ہے کہ ہم نے بہ چشم سر ان کی زندگی میں ان خوبیوں کو دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہمیشہ اس پر قائم رکھے اور ہمیں ان سے سبق لینے کی توفیق دے۔
میاں صاحب کے ہاں اس سادگی‘ اس شفافیت کے باوجود‘ کسی قسم کا زعم‘کوئی غرور یا کوئی اِدّعا کہیں نظر نہیں آتا۔
مشاہدات کو میں اس پہلوسے بڑی اہمیت دیتا ہوں کہ محترم میاں صاحب نے اس میں ایک پورے دَور کو جس سادگی سے مفصّل اور مؤثر انداز میں پیش کر دیا ہے‘ وہ ہماری تحریکی زندگی اور تجربات کا خلاصہ ہے۔ سلیم منصور خالد نے ان کی باتوں کے ذریعے سے معلومات اور تاثرات و تعبیرات کا جو خزانہ جمع کیا ہے اور اسے جس طرح ۱۷ ابواب میں سجا کر ہمارے سامنے پیش کیا وہ ایک بڑا ہی قیمتی تحفہ ہے۔
میں علامہ اقبال کی طرح شکوہ تو نہیں کر سکتا لیکن اپنی اس خواہش اور تمنّا کا اظہار کرتا ہوں کہ کاش! سلیم منصور خالد ۱۰ سال پہلے پیدا ہوئے ہوتے اور مولانا مودودیؒ سے بھی ان کی باتوں کو اسی طرح جمع کر لیا ہوتا۔ اصغرگونڈوی نے بڑی پیاری بات کہی ہے ؎
اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہیں
جو لوگ شخصی حیثیت میں میاں صاحب کو قریب سے نہیں دیکھ سکے‘ وہ بھی مشاہدات کے ذریعے ان کی اصل شخصیت‘ ان کے حسن سیرت ‘ ان کے توازن‘ ان کی سادگی‘ ان کی تحریکیت اور ان کی للہیت کو ان اوراق میں دیکھ سکتے ہیں‘ یہ سب چیزیں اس مرقع میں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
میاں صاحب‘ بحیثیت طالب علم ہندو اساتذہ سے جس طرح متاثر ہوئے اور جس طرح انھوں نے استفادہ کیا‘ خصوصیت سے فزکس کے استاد سے جس طرح اللہ کے وجود کی روشنی پائی‘ کاش آج کا ہمارا معلّم اس سے کچھ سبق سیکھے اور یہ دیکھے کہ کس طرح تعلیم فی الحقیقت روشنی اور ایمان کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لیکن صرف علم کافی نہیں‘ جب تک کہ نور ایمان نہ ہو‘ محض تعلیم بے کار ہے۔
میاں صاحب نے مشاہدات میں اپنی اہلیہ کا جس طرح سے ذکر کیا ہے اور اس تذکرے میں جو پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ ہر مسلمان خاتون کے لیے ہی نہیں‘ ہرمسلمان اور خاندان کے ہر فرد کے لیے اس کے اندر بڑا اچھا نمونہ ہے۔ مختصر یہ کہ محترم میاں صاحب نے اپنے آپ کو تحریک کے سپرد کر دیا اور وہی کیفیت پیدا ہو گئی جسے فنا فی التحریک کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی اَنا اور اپنی ذات کو بالکل بالاے طاق رکھ دیا۔ فی الحقیقت یہ ایک ایسا دل آویز نمونہ ہے‘ جو قابل تقلید ہے اور فقید المثال بھی۔
تحریک اسلامی کی اصل دولت اور اصل سرمایہ کیا ہے؟ کردار‘ مقصدیت‘ ایثار و قربانی‘ شفقت و محبت‘ رحمت و رافت--- مشاہدات میں ہمیں یہی روشنی نظر آتی ہے اور یہ ایک ایسی روشنی ہے جو قلب و نظر کو منور ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی ٹھنڈک دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے--- اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان تمام خوبیوں کو اپنے میں سمو سکیں‘ آمین!
میں مشاہدات کو تحریکی لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ‘ سلیم منصور خالد کو بہترین جزا دے کہ انھوں نے ۲۰‘ ۲۲ سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے لوازمے کو اخذ و جمع کیااور پھر اُسے ترتیب دے کر ایک گلدستے میں سجا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا۔ ایک ایسا گلدستہ جس میں اگر ایک طرف حسن نظر کی تسکین کا سامان ہے تو دوسری طرف فضا کو معطر کرنے والی خوشبو بھی بہ افراط موجود ہے۔ (ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ طبع دوم‘ قیمت ۲۵۰ روپے۔ مجلد مع اشاریہ)
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں نصف صدی تک کلیدی کردار ادا کرنے کے بعد امریکہ کا بہ یک بینی و دوگوش فارغ کیا جانا محض ایک اتفاقی حادثہ یا صرف ایک سیاسی واقعہ نہیں ہے۔ یہ امریکہ کے عالمی کردار کے بارے میں دنیا کے دوسرے ممالک میں پائے جانے والے احساسات کا ایک مظہر ‘ عالمی سیاست کے ابھرنے والے رجحانات کی ایک واضح علامت اور طاقت ور ملکوں کے لیے ایک غیر مبہم انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کوئی تنہا (isolated) واقعہ نہیں‘ بلکہ ایک رخ اور رجحان کا پتا دیتا ہے جس کا اظہار اقوام متحدہ ہی کے ایک دوسرے اہم ادارے نارکوٹکس کمیشن سے بھی امریکہ کی فراغت کی صورت میں بھی ہوا ہے۔ صدرامریکہ جارج بش پہلے ہی دورے پر نکلے تو انھیں موثر عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ۔ کیوبک (کینیڈا) میں تمام امریکی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس اور گوڈن برگ(سویڈن) میں ۱۵ یورپی ممالک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہونے والے عوامی مظاہرے اور ان میں اٹھائے جانے والے ایشوز‘ امریکہ پر بے اعتمادی اور اس کے سنگ دلانہ رویے اور پالیسیوں سے بے زاری کے منہ بولتے مظاہر ہیں۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ جو لاوا ایک مدت سے اندر ہی اندر پک رہا تھا وہ اب اپنے اظہار کے لیے مختلف راستے اختیار کر رہا ہے۔ جو جذبات و احساسات ایک عرصے تک خلش‘ کسک‘ انقباض‘ اور اضطراب کے مرحلے میں تھے‘ وہ اب اظہار‘ اختلاف‘ تنقید اور اس سے بھی بڑھ کر غصّے اور بغاوت کی شکلیں اختیار کر رہے ہیں۔ یہ جذبات کسی ایک ملک یا گروہ کے نہیں‘ بلکہ بڑی حد تک دنیا کے بیش تر ممالک و اقوام اور سب سے بڑھ کر عام انسانوں کے احتجاج کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ان جذبات اور ان کے پیچھے کارفرما محرکات کا جائزہ نہ لینا ایک ایسی عظیم غلطی ہے‘ جس کے صرف وہی لوگ مرتکب ہوتے ہیں جو تاریخ سے سبق لینے کو تیار نہیں ہوتے اور نوشتہ دیوار پڑھنے کی زحمت گوارا کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
امریکہ اور اس کے عالمی کردار کے بارے میں اس احتجاجی لہر کی بڑی وجہ کوئی مزاجوں میں رچی بسی امریکہ دشمنی یا مخاصمت نہیں ہے۔ یہ وہی ملک اور لوگ ہیں جو امریکہ کی طرف بڑی امیدوں سے دیکھتے تھے‘ اور اسے ایک ایسی طاقت سمجھتے تھے‘ جو خود عالمی سامراج کے خلاف لڑ کر معرض وجود میں آئی ہے‘ جو عصرحاضر میں جمہوری دستوری ریاست کے دور کا آغاز کرنے والی ہے‘ جس کی فوجوں نے تو عالمی جنگوں میں حصہ لیا ہے مگر خود جس کی سرزمین کسی عالمی جنگ کے خون سے داغ دار نہیں ہوئی ‘ جو بین الاقوامی سیاسی افق پر جمہوریت‘ حقوق انسانی اور قوموں کے حق خود ارادیت کی علم بردار بن کر جلوہ گر ہوئی۔ ایک ایسی عالمی طاقت سے اتنی مایوسی اور بے زاری اور اتنی تیزی اور شدت سے اس کا ہمہ گیر اظہار نہ کوئی اتفاقی حادثہ ہو سکتا ہے اور نہ محض کسی سازش کا شاخسانہ۔ اس کے ٹھوس اسباب اور عوامل ہونے چاہییں اور ہیں۔ ان کا سمجھنا امریکہ کی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے اور ان اقوام کے لیے بھی‘ جو احتجاج میں تو شریک ہیں لیکن ان کا مقصد حالات کی اصلاح اور عالمی تصادم کے اسباب و عوامل کا تدارک ہے‘ تاکہ دنیا جنگ و جدال اور خون خرابے سے محفوظ رہ سکے۔
انسانوں اور قوموں میں‘ طاقت کا عدم توازن اور وسائل کا غیرمتناسب وجود ایک حقیقت ہے ۔ محض اس کی وجہ سے اضطراب‘ اور تصادم ایک غیر فطری عمل ہوگا۔ لیکن فرق جب ایک قوت کی دوسروں پر بالادستی ‘ استیلا اور ان کے استحصال (exploitation)کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے تو بے زاری اضطراب اور تصادم کے دروازے کھلنے لگتے ہیں جو آخرکار ٹکرائو اور خون خرابے پر منتج ہوتے ہیں۔ یہی وہ عمل ہے جو امریکہ اور دنیا کی دوسری اقوام کے درمیان شروع ہو چکا ہے ۔ یہ عمل ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کے ایک سوپر پاور کی حیثیت سے میدان سے نکل جانے کے بعد اور بھی واضح اور تیزہو گیا ہے۔
امریکہ کے پاس مادی اور قدرتی وسائل کی اتنی بہتات ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے وہ زندگی کی تمام سہولتیں بہ افراط فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن عالمی بالادستی کا خواب‘ دنیا کی دوسری اقوام کے وسائل حیات کو اپنی گرفت میں لینے کے عزائم‘ دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے اور دوسروں پر اپنی اقدار اور نظریے کو بہ زور مسلط کرنے کے منصوبے ہی دراصل تصادم اور ٹکرائو کی جڑ ہیں۔ یہ خواہشات دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کی عالمی حکمت عملی کے اجزا بنتی جا رہی ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں آزاد دنیا کے تحفظ اور اشتراکیت دشمنی کے نام پر ان اہداف کو حاصل کرنے کی سعی کی گئی‘ لیکن سرد جنگ کے بظاہر خاتمے کے بعد سے یہ لَے اور بھی تیز ہوگئی ہے ۔ اب نئی صدی کو امریکہ کی صدی اور ساری دنیا کو امریکہ کے رنگ میں رنگنے کی مہم‘ جس کا نام عالم گیریت (globalisation)رکھا گیا ہے ان حدود میں داخل ہو گئی ہے جہاں ایک طاقت ور ملک
انا ولا غیری کے زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر طاقت ور ہونا کافی نہیں رہتا‘ بلکہ دوسروں پر اپنی طاقت کا رعب جمانا اس کا مقصد بن جاتا ہے‘ اور قوت کا نشہ کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لانے دیتا ۔ یہی وہ نازک مقام ہے‘ جہاں دوسری اقوام بھی مجبور ہوتی ہیں کہ اپنی آزادی‘ اپنی عزت اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوں اور ’کنجشک فرومایہ‘ بھی شاہین نما فرعونیت سے ٹکرلینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ آج عالمی سیاست ایک ایسے ہی نازک مرحلے کی طرف رواں دواں ہے۔
امریکہ کا واحد عالمی قوت ہونا‘ ظاہربین نگاہوں میں چاہے ایک حقیقت ہو‘ لیکن اس واحد سوپر پاور کا دوسروں پر غلبہ حاصل کرلینا اور ان کو اپنا تابع مہمل بنا لینے کی کوشش وہ خطرناک کھیل ہے ‘جس نے عالمی بساط کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ غلبہ اور جہانگیری کے یہی وہ عزائم ہیں‘ جن کے حصول کے لیے خارجہ سیاست کے ساتھ فوجی حکمت عملی اور معاشی اثراندازی کا ایک عالم گیر جال اور جاسوسی اور تخریب کاری کا ایک ہمہ پہلو نظام پوری دنیا کے لیے قائم کیا گیا ہے‘ اور اسے روز بروز زیادہ موثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا کے ۴۰ ممالک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی (تقریباً دو لاکھ سپاہی جو اعلیٰ ترین بحری اور فضائی فوجی ٹکنالوجی اور آلات حرب و ضرب سے آراستہ ہیں)‘ فوجی معاہدات‘ معاشی زنجیروں کا جال جو ریاستی اور عالمی مالیاتی و تجارتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے دام میں گرفتار کیے ہوئے ہے‘ غیر سرکاری اداروں(NGO's) کی فوج ظفرموج جو اس عالم گیر استیلا کا ہراول دستہ ہے اور جاسوسی کا نظام جو صرف سی آئی اے ہی نہیں متعدد بلاواسطہ اور بالواسطہ ایجنسیوں کے ذریعے کام کر رہا ہے--- اس نظام کے دست و بازو ہیں۔ مقابلے کے لیے کبھی اشتراکیت اور روس کا ہّوا تھا‘ تو کبھی بین الاقوامی دہشت گردی اور سرکش ریاستوں (rogue states)کا ڈرائونا خواب۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سی آئی اے کو جو مینڈیٹ سردجنگ کے زمانے میں دیا گیا تھا‘ وہی آج بھی کارفرما ہے۔ ۱۹۵۴ء میں وہائٹ ہائوس کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ:
اس کھیل کے کوئی قواعد نہیں۔ قواعد کے مطابق کھیلنے کے دیرپا امریکی تصورات پر امریکہ کی بقا کی خاطر ازسرنو غور ہونا چاہیے۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف جو طریقے استعمال کرتے ہیں ہمیں ان سے زیادہ موثر‘ سوچے سمجھے طریقوں کو ہوشیاری سے استعمال کر کے دشمن کو سبوتاژ کرنا‘ مٹانا اور تباہ کرنا سیکھنا چاہیے۔ (Brave New World Orderاز جیک نیلسن پال میر‘ ص ۴۳)
امریکہ کی موجودہ سیاسی قیادت اور چند دوسری مغربی اقوام کے کارفرما عناصر عوامی جمہوریہ چین‘ شمالی کوریا‘ اور چند مسلمان ملکوں--- ایران‘ لیبیا‘ سوڈان‘ حتیٰ کہ چند افراد مثلاً اسامہ بن لادن کو امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے ’اصل خطرہ‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس نام نہاد خطرے کے مقابلے کے لیے تباہ کن میزائلوں سے لیس فضائی ڈھال‘ محفوظ علاقوں (safe zones)اوربچائو کے لیے حملوں (prevention strikes) تک ہر چیز کے لیے نہ صرف ’’جواز‘‘ کی فضا بنا رہے ہیں‘ بلکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے ہر قیمت پر یہ سب کچھ کر گزرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
صدر کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر اور ایک مشہور یونی ورسٹی پروفیسر بریزنسکی نے اپنی تازہ کتاب The Great Chessboard میں صاف لفظوں میں کہا ہے کہ امریکہ کی خارجہ سیاست کا اصل ہدف ہونا ہی یہ چاہیے کہ اکیسویں صدی میں امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور رہے اور اس کا کوئی مدمقابل اٹھنے نہ پائے--- کم از کم پہلی ربع صدی میں تو میدان صرف امریکہ ہی کے ہاتھ میں رہنا چاہیے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’یورپ اور ایشیا دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں امریکہ کی برتری برقرار رہنی چاہیے۔ یہ ناگزیر اور لازم ہے کہ یورپ اور ایشیا میں کوئی ایسی طاقت نہ اُبھرے جو امریکہ کو چیلنج کر سکے‘‘۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو امریکہ کے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادت میں ایک قسم کی رعونت پیدا کر رہی ہے اور فطری طور پر اس رعونت سے باقی دنیا میں مایوسی اور بے زاری کی لہریں اٹھ رہی ہیں ۔صدر کلنٹن کی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے کسی تکلف اور تردد کے بغیر امریکہ کی اس ذہنیت اور اس کے عزائم کا ان الفاظ میں اعلان کیا تھا :
ہمیں طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے اس وجہ سے کہ ہم امریکہ ہیں۔ ہم نوع انسانی کے لیے ایک ناگزیر قوم ہیں۔ ہم بلند ہیں‘ ہم مستقبل میں دُور تک دیکھتے ہیں۔ (Blowback: The Costs and Consequences of American Empire) از چامیز جانسن‘ ص۲۱۷)
واحد عالمی قوت ہونے کا زعم باطل ہی وہ چیز ہے ‘جس نے امریکی قیادت میں اس رعونت اور فرعونیت کو جنم دیا ہے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال وہ الفاظ ہیں‘ جن میں اپنی حیثیت کا اظہار امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے قبرص کے تنازع کے موقع پر یونان کے سفیر سے کیا۔ یونان امریکہ کا ایک دوست ملک اور نیٹو میں اس کا رفیق کار ہے۔جب یونان کے سفیرگرانینوز گگینٹس (Geraninos Gigantes) نے امریکہ کا حکم نہ ماننے کے لیے اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ اور اپنے دستور کے حوالے سے التجا کے لہجے میں بات کی تو صدر امریکہ جانسن طیش میں آگئے اور انھوں نے گالی دے کر یونانی سفیر سے کہا : ’’بھاڑ میں جائے تمھاری پارلیمنٹ اور جہنم رسید ہو تمھارا دستور--- امریکہ ایک ہاتھی ہے اور قبرص ایک چھوٹا سا بھونگا۔ اگر یہ بھونگے ہاتھی کو تنگ کریں گے تو ہاتھی کی سونڈھ انھیں کچل دے گی۔ مسٹر سفیر! ہم بہت سارے امریکی ڈالر یونان کو دیتے ہیں۔ اگر تمھارے وزیراعظم مجھ سے جمہوریت‘ پارلیمنٹ اور دستور کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھو‘ وہ ان کی پارلیمنٹ اور ان کا دستور زیادہ دیر باقی نہیں رہیں گے‘‘۔ (بہ حوالہ I Should Have Died از فلپ ڈین‘ ۱۹۷۷ء‘ ص ۱۱۳-۱۱۸)
ذرا مختلف پس منظر میں ‘لیکن اسی ذہنیت کا مظاہرہ جنرل کولن پاول نے جو اس وقت امریکہ کے چیف آف اسٹاف تھے اور اب اس کے سیکرٹری خارجہ ہیں‘ بار بار کیا ہے۔جن دنوںامریکہ نے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پانامہ پر‘ جو ایک آزاد ملک ہے ‘فوج کشی کی‘ اس کے صدر کو اغوا کیا اور سزا دی تو اعتراض کرنے والوں کے جواب میں جنرل پاول نے کہا:
ہمیں کنکر کو اپنے دروازے سے یہ کہہ کر باہر پھینکنا ہے کہ یہاںسوپر پاور رہتی ہے۔ (Brave New World Order ص ۸۷)
پاکستان کے دو چار نیوکلیر بموں پر اپنی برہمی کا اظہار بھی امریکہ اسی ذہنیت سے کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین سے جو گفتگو جنرل پاول نے کی تھی وہ نوٹ کرنے کے لائق ہے۔ امریکہ سے حال ہی میں شائع ہونے والی جوائس ڈیوس کی کتاب Between Jihad and Salam میں ان کا انٹرویو شامل ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے:
جنرل پاول نے مجھ سے پوچھا کہ: ’’پاکستان امریکی اعتراضات اور مالی امداد ختم کر دینے کے باوجود اپنے جوہری پروگرام پر اتنا مصر کیوں ہے؟ آپ جانتی ہیں کہ یہ بم ناقابل استعمال ہیںتو آپ انھیں کیوں رکھنا چاہتی ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل‘ آپ کیوں ایٹم بم رکھتے ہیں؟ ‘‘اس نے کہا : ’’ہم کم کر رہے ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا : ’’کتنے سے کتنے‘ جنرل؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’چھ ہزار سے دو ہزار‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل ‘آپ دو ہزار بم رکھیں گے اور چاہتے ہیں کہ ہمارے جو چند برے بھلے زمین میں دفن ہیں ہم ان سے بھی فارغ ہو جائیں۔ آپ تو ہم سے خودکشی کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ ہم ایک جوہری ریاست کے پڑوس میں ہیں۔ کیا اگر کینیڈا اور میکسیکو کے پاس بم ہوں تو آپ اپنے بم ختم کر دیں گے؟ کیا آپ ایسا کریں گے؟‘‘
اس نے میری طرف دیکھا اور کہا : ’’دیکھیے سفیرصاحبہ‘ میں اخلاقیات کی بات نہیں کر رہا ہوں‘ میں آپ سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہیں اور آپ پاکستان ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل‘ آپ کا شکریہ کہ آپ نے ایمان داری سے بات کی‘‘۔
اپنے اقتدار کے نشے میں مست ہونا‘ دوسروں کو خاطر میں نہ لانا‘ ہر کسی کو اپنے مقابلے میں حقیر سمجھنا اور خودپسندی‘ تکبر اور زعم میں مبتلا ہو کر دوسروں کی تضحیک کرنے کا عمل‘ انسان کے وقار کو بڑھاتا نہیں‘ کم کرتا ہے۔ غالب نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
صدر جارج بش نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک امیدافزا بات کی تھی جسے ساری دنیا میں سراہا گیاتھا یعنی:
اگر ہم ایک مغرور قوم ہوں گے تو دنیا کے لوگ ہم سے ناراض ہوں گے ‘لیکن اگر ہم ایک منکسرالمزاج لیکن مضبوط قوم ہوں گے تو وہ ہمیں خوش آمدید کہیں گے۔
لیکن صدارت کے تخت پر براجمان ہوتے ہی ان کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ امریکی براعظم کے ممالک ہوں یا یورپ اور ترقی پذیر ممالک--- پھر وہی حکمرانی کی زبان استعمال کی جا رہی ہے۔ تنہا پرواز کا شوق اور دنیا کو اپنے مفادات اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کے عزائم کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جن کثیر قومی کارپوریشنوں کی تائید سے وہ برسرِاقتدار آئے ‘ انھی کے ایجنڈے کو پورا کرنے کو اولیت دی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کی یک طرفہ تنسیخ یا ان کی پابندیوں سے اپنے آپ کو بلاجواز آزاد کر لینے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ABM (Anti Ballistic Missile Treaty)جو ایک بین الاقوامی قانون کے تحت ایک عالمی معاہدہ ہے اور جس کے نتیجے میں ۱۹۷۲ء سے اب تک دنیا ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل کے خطرات سے بچی رہی ہے` اس سے یک طرفہ گلوخلاصی کی راہ اختیار کی جا رہی ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے عالمی سطح حرارت کے بارے میں ’’کویوٹا معاہدے‘‘ جسے کلنٹن انتظامیہ نے منظور کر لیا تھا‘ برأت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
اسلحہ کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے نام نہاد ’سرکش ریاستوں‘ کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار آجانے اور ان کے امریکہ کے خلاف استعمال کو ایک خیالی خطرہ باور کرایا جا رہا ہے۔ اس کے سدباب کے لیے روس‘ چین اور یورپی ممالک تک کو ناراض کر کے ۱۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ کے صرفے سے ایک ناقابل اعتبار ’’میزائلوں کی ڈھال‘‘ (missile sheild) بنانے کا پروگرام اختیار کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اصل فیصلہ کرنے والی قوت صرف امریکہ ہے‘ باقی ممالک کا کام فقط اس کی ہاں میں ہاں ملانا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے ماضی میں بھی امریکہ کے خلاف بے اعتمادی اور بے زاری کے جذبات پیدا کیے ہیں اور آج بھی عالمی رائے عامہ میں جو امریکہ مخالف رجحان بڑھ رہا ہے اس کے پیدا کرنے میں اس کا بڑا دخل ہے۔ یہ چیز امریکی ہیئت مقتدرہ کی ذہنیت کا ایک حصہ بن گئی ہے۔ امریکہ اپنے آپ کو ہر قانون‘ دستور‘ معاہدے اور بین الاقوامی کنونشن سے بالا سمجھتا ہے--- قانون صرف دوسروں کے لیے ہے‘ سوپر پاور کے لیے نہیں۔ جارج آرول نے روس کے آمرانہ نظام پر جو طنزیہ ناول ’’جانوروں کا باڑہ‘‘ (Animal Farm)لکھا تھا ‘اس کا یہ تاریخی جملہ جس طرح روسی آمر جوزف اسٹالن اور بریزنیف کے نظام پر صادق آتا تھا ‘ اسی طرح وہ آج امریکہ کے طرزعمل کا بھی غماز ہے:
All animals are equal, but some animals are more equal
سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور زیادہ ہی برابر ہیں!
امریکہ کے ایک سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے اس ذہنیت کا پردہ متعدد مثالیں دے کر چاک کیا ہے۔ ان کی کتاب: The Fire This Time کا اصل موضوع: ’’خلیج کی جنگ‘‘ اور اس علاقے کے بارے میں امریکی جرائم ہیں (مطبوعہ نیویارک ۱۹۹۴ء)‘ لیکن اس کتاب میں امریکہ کی وہ ذہنیت کھل کر سامنے آتی ہے جس نے عالمی سطح پر بے زاری کو فروغ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ‘ امریکہ جب چاہتاہے اپنی مرضی سے بین الاقوامی قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ روک سکے یا احتساب کرسکے:
امریکہ نے گریناڈا پر حملہ کیا‘ دیہاتوں پر بم باری کی اور افریقہ‘ ایشیا اور وسطی امریکہ کے اقوام متحدہ کے ممبروں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی حمایت کی۔ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے احتجاج تو کیے مگر کوئی عملی کارروائی نہ کی۔
۲۰ دسمبر ۱۹۸۹ء کو امریکہ نے پانامہ پر حملہ کیا۔ سیکڑوں غالباً ہزاروں افراد مارے گئے۔ یہ حملہ کویت پر عراق کے حملے سے آٹھ ماہ سے بھی پہلے ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی مذمت کی۔ کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا‘ حالانکہ امریکہ نے ان تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جن کی عراق نے کویت پر حملہ کرتے ہوئے کی تھی‘ بلکہ مغربی نصف کرّے اور پانامہ نہرکے متعدد معاہدات کی بھی خلاف ورزی کی (ص ۱۵۰)۔
امریکہ نے اس برس جب فلسطینی نسبتاً مساوی حیثیت میں معاملہ کر سکتے تھے‘ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کانفرنس نہیں ہونے دی۔ پھراقوام متحدہ سے بے نیاز ہو کر معاہدے کو اچانک بالجبر تھوپنا چاہا۔ یہ بنیادی طور پر غیر منصفانہ مذاکرات امن کے لیے کوئی امید فراہم نہیں کرتے۔
فلسطینی اپنے مذاکرات کار کا انتخاب تک نہیں کر سکتے‘ کیونکہ اسرائیل ان کے کسی منتخب فرد کو ویٹو کر سکتا ہے۔ مذاکرات کے ہر دن اسرائیلی ‘فلسطینیوں کی نئی زمین پر قبضہ کرتے ہیں‘ ان کے مکانات طاقت کے زور پر خالی کراتے ہیں اور ان کے علاقوں میں اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں۔ امریکہ نے جینوا میں حقوق انسانی کمیشن سے اپیل کی کہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کر دے (ص ۱۵۱)۔ ]یہ وہی کمیشن ہے جس سے مئی ۲۰۰۱ء میں وہ خارج ہو گیا ہے[۔
رمزے کلارک نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۲۴ اور دفعہ ۳۳ کو بالاے طاق رکھ کر محض دھونس اور دھاندلی بلکہ کھلی کھلی رشوت کے ذریعے قرارداد ۶۷۸ منظور کرائی‘ اور چارٹر کے واضح احکام (کہ اقوام متحدہ کے تحت مشترک فوج کی کمان اقوام متحدہ کے نمایندے کے پاس ہو گی) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کمان سنبھال لی۔ پھر امریکہ اور برطانیہ نے گٹھ جوڑ کر کے مسلسل من مانیاں کیں اور کر رہے ہیں۔ اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے احتجاج کے باوجود کوئی بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکا (ص ۱۵۵-۱۵۳)۔ اس پورے عرصے میں امریکہ نے چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کو کبھی رپورٹ تک نہیں دی۔ اس پورے عمل میں صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کی نہیں بلکہ خود امریکہ کے دستور کی بھی کھلی خلاف ورزی کی گئی‘ جس کے تحت کانگرس‘ جنگ کا اعلان کر سکتی ہے لیکن ایک قرارداد کے ذریعے صدر امریکہ نے اس سے یہ اختیار لے لیا اور پھر کانگرس کو اعتماد میں لیے بغیر اعلان جنگ کر دیا (ص۱۶۱- ۱۵۶)
عین اس دن جب امریکی فوجیںعراق پر حملہ کر رہی تھیں (۱۶ جنوری ۱۹۹۱) ٹیکساس سے امریکی کانگرس کے رکن ہنری گونزالیز(Henery Gonzalez) نے صدر جارج بش کے خلاف دستور کی اس خلاف ورزی پر تحریک مواخذہ پیش کر دی تھی مگر جنگ کے جنون میں وہ آگے نہ بڑھ سکی۔
امریکہ اس بات کا مدعی بھی ہے کہ امریکہ کی کانگرس کسی بھی بین الاقوامی قانون‘ یا معاہدے کو منسوخ کر سکتی ہے یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ اس کے قانون کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا لیکن وہ جس قانون یا معاہدے میںچاہے جو ترمیم‘ تبدیلی یا تحفظات کا اضافہ کر سکتی ہے۔ رمزے کلارک اس کے بارے میں لکھتا ہے :
امریکہ کے پالیسی ساز یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ کانگریس کسی بھی بین الاقوامی قانون کو نظرانداز کر سکتی ہے‘ منسوخ کر سکتی ہے‘ تبدیل کر سکتی ہے یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ یہ عالمی برادری سے ایک طرح کا اعلان آزادی ہے اور ایک تنبیہ ہے کہ وہ کسی ایسے بین الاقوامی ضابطے کا پابند نہیں ہوگا جو کانگرس کو پسند نہیں ہے۔ (ص۱۶۶)
اس طرح عالمی عدالت کے بارے میں بھی امریکہ کا رویہ خود پسندی اور اپنی بالادستی کا ہے۔ رمزے کلارک نے بتایا ہے:
جب کہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک‘ چارٹر کے تحت قائم شدہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کی پابندی کرتے ہیں‘ طاقت ور اقوام کے لیے یہ پابندی بیش تر ان کی مرضی کا معاملہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال وہ تھی‘ جب نکاراگوا کی حکومت نے امریکی جارحیت کے نقصانات کے ازالے کا دعویٰ کیا‘ امریکہ نے عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ نے نکاراگوا کو براہِ راست حملوں اور جنگی کارروائیوں کا نشانہ بنایا اور سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں ۔ ایک مصنوعی حزب اختلاف کھڑی کرنے اور جمہوری اصول و ضوابط کی تحقیر کرتے ہوئے انتخابات کو ’سرقہ‘ کرنے پر تقریباً ۴۸ ملین ڈالر خرچ کیے۔ (ص ۱۶۶‘ ۱۶۷)
امریکہ کے صدر کے بارے میں رمزے کلارک جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:
ایسا شاہی صدر جو جمہوری قوانین اور راے عامہ کا پابند نہ ہو‘ بین الاقوامی قوانین کی جیسی چاہے تعبیر کرے‘ اعلان جنگ کرنے کے اس کے من مانے فیصلوں پر کوئی قدغن نہ ہو‘ اور کسی دشمن کو تباہ کرنے کے لیے فوجی طاقت کا من مانا استعمال کرے۔
ان حالات میں عالمی امن اور بین الاقوامی قانون کا حشر کیا ہوگا اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ رمزے کلارک کے بقول:
امریکہ کے خارجہ پالیسی ساز جس بین الاقوامی قانون پر عمل کرتے ہیں‘ وہ اصول و ضوابط کا کوئی مربوط مجموعہ نہیں ہے۔ اس میں وہی ہوتا ہے جو ان کے لیے پسندیدہ ہو۔ ایسے اصول جو مکمل طور پر سیاست زدہ ہوں اور امتیازی اقدامات پر مشتمل ہوں--- امریکی حکومت کا موقف ایسی طاقت کے عزم کا عکاس ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ (ص ۱۶۸)
رمزے کلارک لیبیا اور عراق کے سربراہان مملکت کو قتل کرنے کے امریکی اقدام کو بین الاقوامی قانون (ہیگ ریگولیشن آرٹیکل۲۳) اور خود امریکی قانون (صدارتی حکم نامہ ۱۲۳۳۳) کی کھلی اور مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں کسی بھی ملک کے سربراہ کے قتل کو ‘ خواہ یہ اقدام عالم جنگ میں کیا گیا ہو‘ قانونی جرم قرار دیتے ہیں۔ (ص ۱۷۰)
یہ اسی ذہنیت کا مظہر ہے کہ امریکہ نے عالمی فوج داری عدالت کے معاہدے کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے‘ کیونکہ اس کے تحت کسی بھی ملک کے مجرم پر بین الاقوامی قانون کے تحت مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفت ہو سکتی ہے۔ جب کہ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ عدالت صرف ان مجرموں پر مقدمہ چلانے کی مجاز ہو گی‘ جنھیں امریکہ یا اس کی کانگرس مجرم قرار دے۔ نیز یہ بھی ایک امریکی دعویٰ ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت کوئی بھی مشترک فوج بنے تو اس کی سربراہی ہمیشہ امریکیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ امریکہ کی ایک سرکاری دستاویز pp-25 میں جو کلنٹن دور میں جاری کی گئی ‘ صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ:
صدر امریکی افواج پر پوری کمانڈ رکھتا ہے اور کبھی اس سے دست بردار نہیں ہوگا۔ ہر صورت حال پیش آنے پر صدر‘ سلامتی کونسل کے فیصلے کے تحت اقوام متحدہ کی کارروائی کے لیے اقوام متحدہ کے باضابطہ کنٹرول میں امریکی فوج دینے پر غور کرے گا۔ جتنا امریکہ کا فوجی کردار زیادہ ہوگا ‘اتنا ہی اس کا امکان کم ہوگا کہ امریکہ امریکی افواج پر اقوام متحدہ کی کمان پر رضامند ہو۔ ایسے امن مشن جن میں لڑائی کا امکان بھی ہو‘ ان میں امریکی افواج کی شرکت بالعموم امریکہ کی کمان اور نگرانی میں ہونا چاہیے۔ (ملاحظہ ہو کارینگی انسٹی ٹیوٹ کا رسالہ "Ethics & International Affairs جلد ۱۴‘ ص ۶۰)
یعنی متحدہ فوج ہو یا اقوام متحدہ کی مرتب کردہ مشترکہ فوج‘ کمان امریکہ کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ جنرل آئزن ہوور اور جنرل میک آرتھر سے لے کر کوسووا اور بوسنیا امن فورس تک ہر جگہ امریکہ کا اصرار رہا ہے کہ کمانڈ اس کے پاس ہو اور دوسروں نے مجبوراً امریکہ کی اس ضد کے آگے سرتسلیم خم کیا ہے۔
اس ذہن‘ ان عزائم اور ان مطالبات کے ساتھ امریکہ دنیا میں جمہوریت کا علم بردار‘ حقوق انسانی کا محافظ‘ قانون کی مساوات اور پاس داری کا داعی اور انصاف کا پرچارک بنتا ہے--- اور اسٹریجی کا ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا کو امریکہ کے وژن اور اقدار کو قبول کر لینا چاہیے۔ لیکن یہی تو وہ اصل وجہ ہے جس کی بنا پر امریکہ اور باقی دنیا میں مغائرت پیدا ہو رہی ہے اور جو دراصل سامراجیت کی روح ہے۔
امریکہ کی مشہور ٹفٹس یونی ورسٹی میں علم سیاسیات کے پروفیسر ٹونی اسمتھ نے Ethics & International Affairs کے تازہ شمارے (مئی ۱۴‘ ۲۰۰۱ء) میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ نہ امریکہ کی طاقت غیر محدود ہے اور نہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے نظام اور اقدار کو دوسروں پر مسلط کرے۔ کیونکہ یہ لبرل امپریلزم کی ایک شکل ہے جس کا کوئی جواز نہیں:
دوسرے لوگوں میں امریکی اقدار کی ترویج پر دوسرا اعتراض بھی شدید ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو ثقافت ‘ادارے اور ہیئتیں رائج ہوتی ہیں وہ شمالی امریکہ اور مغربی یورپ میں رائج انسانی حقوق اور لبرل ڈیموکریسی کی راہ میں خود مضبوط رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی طرز حیات‘ اقدار اور اداروں کو روبہ عمل لانے کی کوشش میں ناکامی کا اندیشہ ہے ۔اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت محدود ہے بلکہ اس لیے کہ بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی ان عقائد اور طریقوں میں اصلاح نہ کر سکے گا جو بنیادی طور پر امریکی طریقہ کار کے مخالف کیا۔ چین‘ مسلم دنیا یا روس کا امریکی مطالبوں کے آگے سپر ڈالنے کے لیے آمادہ ہونے کا کیا امکان ہے۔
معروف امریکی مفکر والٹر لپ مین نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ:
جب ایک قوم ساری دنیا کے نظام کو یکساں شکل دینے کی ذمہ داری خود سنبھال لے تو یہ دوسروں کو اپنے خلاف متحد ہونے کی دعوت ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اس کا امکان ہے کہ جوہری اسلحہ صدی کے اختتام سے پہلے وسیع پیمانے پر تقسیم ہو‘ یہ امریکی عوام کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خوش کن راستہ نہیں ہے۔ (بہ حوالہ Intervention & Revolutions از رچرڈ بارنیٹ‘ ۱۹۷۲ء‘ ص ۳۱۲)
رچرڈ بارنیٹ اپنی کتاب اس جملے پر ختم کرتا ہے:
امریکہ اپنی موجودہ عظیم طاقت کو دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے جس میں غریب اقوام ترقی کے من پسند راستے اختیار کر سکیں۔ مگر جب تک امریکی یہ خام خیالی نہ چھوڑ دیں کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانا ان کا حق اور فرض ہے ‘ خود امریکیوں کو بھی امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ (ایضاً ‘ ص ۳۳۲)
ہماری نگاہ میں امریکہ پر بے اعتمادی اور اس کی مخالفت کا پہلا اور سب سے اہم سبب دنیا کے ممالک میں کوئی خرابی یا مرض نہیں‘ امریکہ کا یہ زعم ہے کہ وہ واحد سوپر پاور ہے اور ہمیشہ سوپر پاور ہی رہے گا۔ اس کا حق ہے کہ دنیا اس کے سامنے جھکے وار اس کی بالادستی قبول کرے۔ دنیا اسے ایک بڑی طاقت‘ اس کے زمینی حقائق کے مطابق ضرور تسلیم کرے گی ‘مگر اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے کبھی تیار نہ ہوگی۔ وہ اس سے دوستی کا تعلق بہ خوشی رکھے گی ‘مگر غلامی اور چاکری کا مقام کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اگر امریکہ تھوڑی سی حقیقت پسندی قبول کر لے اور بالادستی اور شہنشاہی کی حکمت عملی کو ترک کر دے تو اس کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔ اگر حقوق انسانی کے کمیشن کے انتخابی نتائج سے سبق سیکھتے ہوئے وہ تکبراور رعونت کے راستے کو ترک کر دے تو دنیا اس کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔
امریکہ سے دنیا کی بیزاری کے اسباب کو سمجھنے کے لیے امریکہ کو خود اپنے رویے اور اپنے وعدوں اور عمل کے فرق پر غور کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ایک بڑی چشم کشا کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire گذشتہ برس شائع ہوئی ہے (بلوبیک سی آئی اے کی اصطلاح ہے جس کا مفہوم امریکی عوام کی لاعلمی میں کیے جانے والے اقدامات کا ردّعمل ہے۔ اس کا ترجمہ مکافات کیا جا سکتا ہے)۔ اس کا مصنف کالمیر جانسن‘ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا‘ سان ڈیاگو (امریکہ) کا پروفیسر اور جاپان پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ ہے۔ یہ کتاب امریکہ اوربرطانیہ سے بہ یک وقت مئی ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی ہے۔ مصنف امریکہ کو اپنے رویے پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور تقریباً وہی بات کہہ رہا ہے جو باقی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی زبان پر ہے:
مجھے یقین ہے کہ غیر متعلق اسلحے کے سسٹم پر ہمارے وسائل کا غیر معمولی ضیاع‘ عسکری ’’حادثوں‘‘ کا مسلسل جاری رہنا اور امریکی سفارت خانوں اور چوکیوں پر دہشت گرد حملے اکیسویں صدی میں امریکہ کی غیر رسمی سلطنت کے لیے بحران پیدا کرنے والے عناصر ہیں۔ ایسی سلطنت جو دنیا کے ہر حصے پر فوجی طاقت کے دبائو اور اپنی شرائط ‘مگر دوسروں کی قیمت ‘ امریکی سرمائے اور منڈی کو استعمال کر کے عالمی اقتصادی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ہم نے اپنے آپ کو ضمیر کی کسی خلش سے بھی آزاد کر لیا ہے ‘کہ ہم اس دنیا کے دوسرے لوگوں کو کتنے برے نظر آ رہے ہیں۔ بیش تر امریکی غالباً جانتے ہی نہیں کہ واشنگٹن کس طرح اپنی بالادستی استعمال کرتا ہے‘ کیونکہ اس سرگرمی کا کافی حصہ خفیہ طور پر یا دوسرے بہانوں کے پردے میں انجام پاتا ہے۔ بہت سوں کو یہ یقین کرنے میں دقت پیش آئے گی کہ دنیا میں ہماری حیثیت ایک سلطنت کی سی ہو گئی ہے۔ لیکن جب ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ملک خود اپنی بنائی ہوئی سلطنت کا اسیر ہو گیا ہے تو ہمارے لیے دنیا کے بہت سے واقعات کی تشریح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جاپان میں سرکاری رہنمائی اور سرپرستی میں نصف صدی تک ہونے والی ترقی کے بعد سب کچھ غلط کیوں ہو گیا ہے؟ ایک مضبوط چین کے ظہور سے کسی کو کیا نقصان ہے؟ حقوق انسانی‘ جوہری پھیلائو‘ دہشت گردی اور ماحول کے بارے میں غیر ملکیوں کو امریکی پالیسیاں تضاد اور ژولیدگی کا شکارکیوں نظر آتی ہیں؟ (ص ۷‘ ۸)
کالمیرجانسن نے امریکہ کی پچاس سالہ سیاست کا مکمل دستاویزی نظائر اور حوالوں کے ساتھ پوسٹ مارٹم کیا ہے ۔ وسطی اور جنوبی امریکہ کی ریاستوں سے لے کر ویت نام‘ چین‘ جاپان تک ایک ایک دور اور ایک ایک واقعے سے پردہ اٹھایا ہے۔ کس طرح فوج‘ سی آئی اے ‘ کثیر قومی کمپنیاں اور عالمی مالیاتی ادارے دنیا کے ہر کونے میں امریکہ کے ایما پر اور اس کے مفاد میں دوسروں کے معاملات میں دراندازیاں کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ کس طرح بین الاقوامی قانون اور ضابطوں کو پامال کیا گیا ہے‘ پوری پوری قوموں کو تباہ کیا گیا ہے۔ کن کن طریقوں سے ڈکٹیٹروں کی سرپرستی کی گئی ہے‘ کس طرح کرپشن کے آلہ کار کو استعمال کیا گیا ہے اور مخالفوں کو میدان سے ہٹایا گیا ہے۔ کن ہتھکنڈوں سے جمہوریتوں کا خون کیا گیا ہے اور من پسند فوجی اور سول کاسہ لیسوں کو مسنداقتدار پر براجمان کیا گیا ہے۔ یہ سب سیاہ داستانیں اب ان سرکاری دستاویزات سے ثابت ہوتی ہیں‘ جو رازداری کے قانون کی مدت ختم ہو جانے سے شائع کی جا رہی ہیں اور ان میں بھی ۵.۱۳ فی صد دستاویزات ایسی ہیں جو اب بھی قومی سلامتی کے نام پر روک لی گئی ہیں۔ اس ساری تفصیل کو بیان کرنے کے بعد مصنف کہتا ہے :
ان حالات میں انسانی حقوق یا دہشت گردی کے بارے میں بظاہر بہت اچھے نظر آنے والے بیانات کو بھی امریکہ کے ’گندے ہاتھ‘ ریاکارانہ بنا دیتے ہیں۔ مکافات (blow back) دوسری اقوام پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس کے گھن لگنے کے اثرات امریکہ پر سیاسی مباحث کو بے قدر کرنے اور شہریوں کو بے وقوف بنانے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں‘ اگر وہ شہری اپنے سیاسی لیڈروں کے بیانات کو سنجیدگی سے لیں۔ یہ ناگزیر نتیجہ صرف مکافات کا نہیں بلکہ خود سلطنت کا ہے۔ (ص ۱۹)
پالمیر جانسن پوری امریکی قوم کو متنبہ کرتا ہے کہ:
اپنی تعریف کی رُو سے دہشت گردی بے گناہوں کو ہدف بناتی ہے تاکہ جو حملوں سے محفوظ بیٹھے ہیں ان کی غلط کاریوں کی طرف توجہ دلائی جاسکے۔ حالیہ عشروں میں جو استعماری مہم جوئیاں ہو رہی ہیں‘ اس کی فصل اکیسویں صدی کے بے گناہ غیر متوقع تباہیوں کی صورت میں کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی بڑی حد تک ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیاکچھ کیا گیا تھا اور کیا جا رہا ہے‘ وہ اس کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے جو ان کی قوم نے عالمی منظر پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کی ہیں۔ اس سے پہلے کہ بے مہار فاتحانہ اقدامات اور پروپیگنڈے سے نقصان قابو سے باہر ہو جائے ہمیں سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد اپنے عالمی کردار پر نئے مباحثے کو اہمیت دینا چاہیے۔ (ص ۳۳)
امریکہ کو خود احتسابی کی دعوت دیتے ہوئے کالمیر جانسن یاد دلاتا ہے کہ:
امریکی افسران اور میڈیا عراق اور شمالی کوریا جیسی سرکش ریاستوں کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ہمیں خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کہیں امریکہ خود تو ایک سرکش سپرپاور نہیں بن گئی ہے۔ (ص ۲۱۶)
وہ لاس اینجلز ٹائمز کے کالم نگار ٹام پلیٹ کا ایک جملہ دہراتا ہے کہ امریکہ ایک ایسی سوپر پاور بن گئی جس کا حال یہ ہے کہ دماغ کی جگہ کروز میزائل بھرے ہیں۔
وہ امریکہ کے عوام اور قیادت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا ہے:
ہم امریکی گہرا یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں ہمارا کردار نیک ہے اور ہمارے تمام اقدامات بلاامتیاز دوسروں کی اور ہماری بھلائی کے لیے ہیں۔ جب ہمارے اقدامات کے نتیجے میں تباہی رونما ہوتی ہے تو ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ان کے محرکات بہت اچھے تھے ۔لیکن واقعات بتا رہے ہیں کہ سرد جنگ کے بعد کے عشروں میں امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کے نفاذ میں سفارت کاری‘ اقتصادی امداد‘ بین الاقوامی قانون اور کثیر جہتی اداروں پر انحصار ترک کر دیا۔ اور ساری توجہ زیادہ فوجی طاقت اور مالی ہیرپھیر میں لگا دی ہے۔ (ص ۲۱۶‘ ۲۱۷)
ان حالات کے نتیجے میں دنیا کے مظلوم اور مجبور انسان اور قومیں ہی مصائب کا شکار نہیں ‘خود امریکہ بھی ایک فوجی اقتصادی عفریت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ معاشرے میں تشدد کے رجحانات جنم لے رہے ہیں‘ معیشت کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں اور ملک وقوم بالآخر تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
بین الاقوامی سیاسیات کے پروفیسر ڈیو ڈلیکو نے لکھا ہے: ’’عالمی نظام محض غیر متوازن اور جارح طاقتوں کے عمل کی وجہ سے جو اپنے پڑوسیوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ نہیں ٹوٹتا بلکہ اس لیے بھی ٹوٹتا ہے کہ یہ طاقتیں مطابقت پیدا کرنے کے بجائے استحصالی بالادستی قائم کرتی ہیں۔ (Beyond American Hegemony ‘ ص ۱۴۲ )
میں سمجھتا ہوں کہ بیسویں صدی کے اختتام پر امریکہ پر یہ بیان ٹھیک ٹھیک منطبق ہو رہا ہے۔ اِس استحصالی بالادستی کی علامات نظر آ رہی ہیں: عوام اور حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی اجنبیت‘ اخلاقی جواز کھو دینے کے باوجود اشرافیہ کا اقتدار سے چپکے رہنا‘ عسکریت کا اظہار اور فوج کا سوسائٹی سے بُعدجس کی خدمت اس کا فریضہ ہے‘ خطرناک جبرواستبداد اور ایک اقتصادی بحران جو عالمی ہے۔ تاریخ میں ایسی کم ہی مثالیں ہیں جب بالادست طاقتوں نے اپنے زوال کو عروج سے بدل دیا ہو‘ یا اقتدار کو پرامن طور پر چھوڑ دیا ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مکافات (blowback) سے بالآخر ایک بحران پیدا ہوگا جو اچانک امریکہ کے بالادست اثرات کو ختم کر دے گا یا بے وزن کر دے گا۔(ص ۲۲۴)
جانسن کا خیال ہے کہ اس انجام سے اب بھی بچا جا سکتا ہے بشرطیکہ امریکہ کی قیادت استحصالی بالادستی کا راستہ ترک کر کے جائز اخلاقی اور سیاسی حدود کی پاس داری کا راستہ اختیار کرے اور ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر عمل کرے۔ موصوف اپنی کتاب اس پیغام پر ختم کرتے ہیں:
امریکہ کو فوجی طاقت اور اقتصادی دبائو کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے نمونہ پیش کرکے رہنمائی دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسی بات نہ غیر حقیقت پسندانہ ہے نہ انقلابی۔ سرد جنگ کے بعد کی دنیا کے لیے‘ امریکہ کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی بہبود کو اپنی استعماریت کے دعووں پر مقدم رکھے۔ بہت سے امریکی قائدین سمجھتے ہیں کہ اگر بیرون ملک امریکی اڈے بند کر دیے جائیں یا ایک چھوٹے ملک کو اپنی معیشت خود چلانے کی اجازت دی جائے تو دنیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ اگر امریکہ اپنی دم گھونٹنے والی گرفت ڈھیلی کردے تو ترقی اور بہتری کے کتنے چشمے دنیا میں پھوٹ پڑیں گے۔ انھیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ استعماری بالادستی قائم رکھنے کی ان کی کوششیں لامحالہ مکافات کی لہریں پیدا کریں گی۔ یہ کہنا ناممکن ہے کہ کھیل کب ختم ہوگا لیکن اس بارے میں کم ہی شبہ ہے کہ یہ کیسے ختم ہوگا۔
اکیسویں صدی میں عالمی سیاست بیسویں صدی کے آخری نصف کے بعد کے اثرات کے تحت ہو گی یعنی سرد جنگ کے غیر ارادی نتائج اور یہ اہم امریکی فیصلہ کہ وہ سرد جنگ کے بعد کے دور میں بھی اپنا سرد جنگ کا رویہ برقرار رکھے گا۔ امریکہ اپنے آپ کو سرد جنگ کا فاتح قرار دینا پسند کرتا ہے۔ آج سے ایک صدی بعد جب لوگ پچھلی صدی پر نظر ڈالیں گے تو زیادہ امکان ہے کہ کوئی بھی فریق فاتح نظر نہ آئے گا‘ خصوصاً اگر امریکہ اپنے موجودہ استعماری طریقوںکو اختیار کیے رکھتا ہے۔ (ص ۲۲۹)
امریکہ کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عالمی بالادستی اور سامراجی استیلا ‘ عالمی برادری اور رفاقت دونوں ساتھ ساتھ نہیںچل سکتے۔ اگر آپ قوت کے نشے میںبدمست رہیں گے‘ غلبہ اور استیلا کا کھیل کھیلیں گے‘ رعونت اور غرور کا رویہ اختیار کریں گے‘ اگر آپ دوسروں کی آزادی‘ عزت نفس اور مفادات کا خیال نہیں رکھیں گے‘ اور دوسری اقوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور عسکری اور معاشی شکنجوں میں گرفتار رکھنے کی کوشش کریں گے تو آخرکار اس کا شدید ردّعمل ہوگا۔ نہ صرف یہ کہ امن‘ دوستی‘ محبت‘تعاون سے دنیا محروم رہے گی بلکہ بے اعتمادی‘ بے زاری اور بالآخر نفرت اور تصادم کی فصل رونما ہوگی---اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ تصادم ہمیشہ طاقت ور کی فتح ہی پر منتج نہیں ہوتا۔ ہاتھی اپنی قوت کے گھمنڈ پر چیونٹی کو کچلنے کے درپے رہتا ہے لیکن جب چیونٹی ہاتھی کی سونڈھ کے اندر رسائی پا لیتی ہے تو یہ ننھا سا بھونگا (صدر جانسن کے الفاظ میں: flea) ہاتھی کو بے بس کردیتاہے ۔ اس طرح بھی انسانوں اور قوموں کی قسمتیں بدل جاتی ہیں: تلک الایام نداولھا بین الناس!
خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔زمین و آسمان کے مالک کو انسان کا جو رویہّ سب سے زیادہ ناپسند ہے‘ وہ غرور‘ تکبّراور نخوت ہے۔ یہی وہ مرض ہے جس نے ابلیس کو شیطان بنایا۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں ہر شیطانی کھیل میں ان صفاتِ بد کا کلیدی کردار رہا ہے۔ معاملہ افراد کا ہویا قوموں کا‘ اگر عجز و انکسار اور حقیقت پسندی ترقی کا زینہ ہیں تو غرور و تکبّر بالآخر تصادم اور تباہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اللہ کی سنت ہے کہ جلد یا بدیر غرور کا سر ضرور نیچا ہوتا ہے--- یہ اور بات ہے کہ جن میں خیراور صلاح موجود ہو وہ چوٹ پڑنے پر اصلاح اور سدھار کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں‘ اور جن کی سرشت میں بدی غالب ہو اور جن کے مقدر میں ہزیمت اور بالآخر تباہی لکھی ہو وہ ہر انتباہ پرمزیدسرکش ہو جاتے ہیں۔ان کا معاملہ قوم نوح علیہ السلام سے مختلف نہیں ہوتا کہ اللہ کی طرف سے ان کو تنبیہ پر تنبیہ کی جاتی ہے مگر ہر تنبیہ
ان کی سرکشی میں اضافے کا ذریعہ بن جاتی ہے (وَنُخَوِّفُھُمْ لا فَمَا یَزِیْدُھُمْ اِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیْرًا o
بنی اسرائیل ۱۷:۶۰)
مئی ۲۰۰۱ء کے پہلے ہفتے میں اقوام متحدہ کے ایوانوں میں مغرب اور مشرق کے سبھی ممالک کی طرف سے امریکہ کو ایسی ہی دو تنبیہات کا مخاطب بنایا گیا۔ یہ عالمی راے عامہ کے حقیقی رجحان کی مظہر ہیں اور امریکہ کے لیے ہوش میں آجانے کی دعوت کی حیثیت رکھتی ہیں‘ بشرطیکہ وہ ہوا کے رُخ کو سمجھنے کی کوشش کرے اور تاریخ سے کوئی سبق لینے کو تیار ہو۔
امریکہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں تو دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی سے مبتلا ہے اور اس رجحان میں برابر اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن افغانستان سے روس کی پسپائی‘ اشتراکیت کے زوال اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد سے اس کا غرور اور غرّہ آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ ان ۱۲‘ ۱۳ برسوں میں نئے عالمی نظام کی لَے کچھ زیادہ ہی بلند ہوئی ہے اور امریکی صدی کے آغاز کے دعوے عالمی فضا کو معمور کرنے لگے ہیں۔ امریکہ کی قیادت کو یہ زعم ہو گیا کہ اب وہ ناقابل تسخیر ہے‘اسے عقلِ کل کا مقام حاصل ہے اور وہ ’شہنشاہ عالم‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
نئے امریکی صدر جارج بش جونیر اور ان کی ٹیم نے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد تنہا پرواز کے اشارے دینا شروع کر دیے اور گلوبلائزیشن پر امریکیت کی چھاپ لگانے میں مصروف ہوگئے۔ امریکی بالادستی کی
ننگی جارحیت پر اقوام متحدہ‘ عالمی اداروں اور دوست ممالک سے مشاورت کا جو پردہ موجود تھا ‘ وہ اس سے بھی نجات پانے میں لگ گئے۔معاملہ میزائل کے مقابلے کے لیے قومی دفاعی ڈھال کا ہو یا ماحول کے تحفظ (global warming)کا‘ کروڑوں کی تعداد میں بارودی سرنگوںسے درپیش خطرات کا ہو یا ایڈز اور دوسرے مہلک وبائی امراض کے خلاف انسانیت کی مشترک جنگ کا‘ نیوکلیرپالیسی کے مسائل کا ہو یا توانائی پالیسی اور اس کے اثرات کا‘ سابقہ عالمی معاہدات کی پاسداری کا مسئلہ ہو یا نئے معاہدات کے لیے عالمی برادری میں مفاہمت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کا‘ معاملہ تجارتی پابندیوں کا ہو یا دوسرے ممالک کی حدود میں دخل اندازی اور جاسوسی کا‘ پرانے دوستوں سے وفاداری کی بات ہو یا نئے دوستوں کی تلاش کی--- سب ہی معاملات میں
بش انتظامیہ نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی چار مہینوں میں اپنی خود پسندی اور یک طرفہ کارروائی کا ایسا آہنگ اختیار کیا کہ مشرق و مغرب ہر سمت اقوام و ممالک میں اضطراب کی لہریں اٹھنے لگیں۔ احساس کی اسی نئی جہت کا اظہار نیویارک میں اقوام متحدہ کے دو اہم کمیشنوں کے انتخاب کے موقع پر ہوا۔ مئی ۲۰۰۱ء کا پہلا ہفتہ تاریخ کی نئی کروٹ کا عنوان بن گیا۔
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا کمیشن (U.N. Human Rights Commission)ایک متحرک اور باوقارادارہ ہے‘ جو ۱۹۴۷ء میں امریکہ کی تحریک پر سابق صدر روز ویلٹ کی اہلیہ کی قیادت میں قائم ہوا تھا۔ یہ ادارہ نہ صرف حقوق انسانی کا اہم ترین پلیٹ فارم ہے بلکہ اقوام متحدہ کے ان چند اداروں میں سے ہے جن کا کام صرف قراردادیں پاس کرنا نہیں‘بلکہ عملاً شکایات کی تحقیق کرنا اور پالیسی اقدام تجویز کرنا بھی ہے۔ یہ ۵۳ ممالک کے نمایندوں پر مشتمل ہے۔ امریکہ گذشتہ ۵۴ سال سے اس میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس پر امریکہ ہی چھایا رہا ہے۔ انگریزی محاورے میں اسے America used to call shots کہا جا سکتا ہے۔ ایسے ادارے میں بالکل غیر متوقع طور پر نئے انتخاب کے دوران (جس میں ۱۴ ارکان کا نیا انتخاب ہوا جن میں تین عمومی نشستیں بھی تھیں جو مغربی ممالک کے لیے مخصوص ہیں ۔یہ انتخاب خفیہ راے دہی کی بنیاد پر ہوئے) امریکہ کو نصف صدی میں پہلی مرتبہ شکست ہوئی۔ انتخابی ادارہ اقوام متحدہ کی سوشل اینڈ اکنامک کونسل تھی ۔ اس مقابلے میں فرانس سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوا (۵۴ میں سے ۵۲ووٹ)‘ آسٹریا دوسرے نمبر پر (۴۱ ووٹ)‘ اور سویڈن تیسرے نمبر پر (۳۲ ووٹ)۔ ان کامیاب ممالک کے مقابلے میں امریکہ کو صرف ۲۹ ووٹ ملے اور وہ یہ انتخاب ہار گیا۔ اقوام متحدہ کے ان اداروں میں نصف صدی کے دوران یہ امریکہ کی پہلی شکست ہے ‘جس نے امریکہ سمیت سب کو متحیر کر دیا۔
۴ مئی ۲۰۰۱ء کی اس چوٹ سے ابھی امریکہ سنبھلے بھی نہیں پایا تھا کہ تین ہی دن کے بعد ایک اور شکست کا زخم لگ گیا۔ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے اہم ادارے International Narcotics Control Board (عالمی ادارہ تحدید منشیات) میں بھی امریکہ اپنی نشست سے محروم ہو گیا۔ اقوام عالم کی طرف سے ایسے دو عالمی اداروں سے جو بظاہر امریکہ کی خارجہ پالیسی کے سب سے اہم ستونوں یعنی ’حقوق انسانی‘ اور ’منشیات کی روک تھام‘ کے لیے سب سے کلیدی ادارے تھے اس کا بیک بینی و دوگوش اس طرح رخصت ہو جانا امریکہ کی عالمی ساکھ کے لیے بڑی شرم ناک شکست‘ اہل بصیرت کے نزدیک قدرت کا سنگین انتقام اور خود امریکی قیادت کے لیے بڑا چشم کشا انتباہ ہے ؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
ان واقعات پر امریکہ کی قیادت‘ پریس اور کارفرما عناصر کا ردعمل وہ آئینہ ہے جس میں بحیثیت
سوپر پاور امریکہ کی مختلف تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔
فطری طور پر سب سے پہلا ردّعمل صدمہ‘ تعجب‘ حیرانی اور تحیر کا تھا۔ امریکی قیادت ششدر تھی کہ یہ ناقابل یقین واقعہ کیسے رونما ہو گیا۔ صدمے کے بعد شکوہ و شکایت اور غصہ بلکہ غیظ و غضب کا اظہار شروع ہوا۔سب سے زیادہ غم و غصہ اس بات پر تھا کہ خود مغربی ممالک نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا اور جن پہ تکیہ تھا انھی کے ووٹوں سے یومِ شکست دیکھنے کی نوبت آئی! سویڈن اور آسٹریا پر بہت دبائو ڈالا گیا مگر وہ میدان سے
نہ ہٹے۔ ۴۳ ممالک نے ووٹ کا وعدہ کیا تھا اس لیے فتح کا یقین تھا مگر خفیہ رائے میں صرف ۲۹ ووٹ ملے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اپنے علاقائی حلقوں سے جو ممالک اس انتخاب میں کامیاب ہو کر کمیشن کے رکن بنے ہیں ان میں سوڈان‘ بحرین‘ جنوبی کوریا‘ چلی‘ میکسیکو‘ پاکستان اور یوگنڈا شامل ہیں۔ امریکہ کے ساتھ دوسرے ہارنے والوں میں سعودی عرب اور ایران بھی شامل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جس کی شکست پر کہرام مچا ہے وہ صرف امریکہ ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات‘ رسائل اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک طوفان سا برپا ہے کہ ایک انہونی بات کیسے حقیقت کا رُوپ اختیار کر گئی اور ایک ہی ہفتے میں امریکہ جیسی سوپر پاور‘ جسے فرانس کے نمایندے نے فیاضی سے کام لیتے ہوئے hyper powerکا لقب دیا ہے‘ کس طرح دو سیاسی شکستوں کا نشانہ بن گئی۔ اس شکست کے آئینے میں امریکہ کے پورے سیاسی کردار اور عالمی رول پربحث و گفتگوہو رہی ہے اورتجزیہ نگار اس میں آنے والے دَور کی تصویر تلاش کر رہے ہیں۔ ایک آزاد معاشرے کی یہ خوبی ہے کہ اس میں ایسے اہم معاملات پر کھل کر بحث و گفتگو ہوتی ہے اور محض ایک سرکاری نقطۂ نظر ذہنی افق پر مسلّط نہیں ہو جاتا!
امریکی اور عالمی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ہونے والے مباحث کا تجزیہ کیا جائے تو اس شکست پر چار واضح ردّعمل سامنے آتے ہیں:
غم و غصہ : پہلا اور فوری ردّعمل استخفاف اور استہزا کا ہے۔ امریکہ کے کچھ بااثر حلقے‘ اور حکومت کے چندذمہ دار افراد اور ان کے ہم نوا عناصر بظاہر بڑی بے اعتنائی اور یک گونہ رعونت کے ساتھ کہہ رہے ہیں:
پھر کیا (so what?)۔ اقوام متحدہ کے ایک یا دو کمیشنوں کی اوقات ہی کیا ہے؟ خود اقوام متحدہ ہی کون سی اہم ہے؟ محض نشستند و گفتند کی ایک محفل‘ ایک چوپال۔ اگر اس میں امریکہ جیسا اہم ملک نہ بھی آیا تو کون سا آسمان گر جائے گا۔ ان کے خیال میں اس سے اقوام متحدہ ہی بے وقار ہوگی۔ امریکہ کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی۔
اقوام متحدہ کی سوشل اینڈ اکنامک کونسل (انتخاب کرنے والے ادارے) میں امریکی نمایندے جیمزکننگم نے کہا : بلاشبہ ہم بہت مایوس ہوئے ہیں۔ صدر امریکہ اور کانگریس کے ارکان کی جانب سے مایوسی کے ساتھ غم و غصّے کااظہار بھی کیا گیا۔ کانگریس کے ترجمان نے کہا: کانگریس کی نگاہ میں یہ اقوام متحدہ کے وقار اور اعتماد کو مجروح کرنے والی بات ہے۔
صدر کی قومی سلامتی کی مشیر کون ڈولیزا رائس کی نگاہ میں یہ سخت توہین آمیزہی نہیں ‘بلکہ خود اقوام متحدہ کے مقام کو مجروح کرنے والا اقدام ہے۔ ڈیفنس سیکرٹری ڈونالڈ رمس فیلڈ نے اسے ایک ’’نہایت غیر دانش مندانہ اقدام‘‘ (notably unwise)قرار دیا۔سرکاری ترجمانوں ہی نے نہیں بڑی تعداد میں اخبارات اور سیاسی تبصرہ نگاروں نے بھی اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کو تو کمیشن سے ۵۴ سال کے بعد نکال دیا گیا اور چین‘ کیوبا‘ لیبیا اور سوڈان ’’جیسے‘‘وہاں موجود ہیں!
امریکہ کے ایوان نمایندگان کے اکثریتی قائد ڈک آرمی نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے ۔ کانگریس بحیثیت مجموعی اس تاثر کا اظہار کر رہی ہے کہ خود اقوام متحدہ کو اب کون ایک سنجیدہ ادارہ سمجھے گا؟ ارکان کانگریس نے اسے ایک ہتک (insult)قرار دیا ہے۔ (ٹائم ‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء)
فلوریڈا کے ایوان نمایندگان کی رکن الیانا راس کا کہنا ہے: یہ ایک ایسی مضحکہ خیز بات ہے جواقوام متحدہ کے نظام کی سالمیت اور جواز کی بنیاد ختم کر دیتی ہے۔
انتقامی ردّعمل: مایوسی اور غم و غصے کے ساتھ دوسرا ردّعمل انتقامی نوعیت کا ہے۔ اقوام متحدہ اور اتحادی ممالک سے صرف شکایت ہی کا اظہار نہیں کیا جا رہا بلکہ کہا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے اور اس کا طریقہ اقوام متحدہ کے مالی واجبات کی ادایگی کو روک دینا ہے۔ پہلے ہی امریکہ اقوام متحدہ کے ایک ارب ۷۰ کروڑ ڈالر کا نادہندہ ہے۔ کئی برس سے جھگڑا چل رہا تھابالآخر صدرکلنٹن کے دَور میں بڑے ردّ و کد کے بعد طے ہو گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے کل بجٹ کے ۲۵ فی صد کے بجائے (جو امریکہ کی اصل ذمہ داری اور وعدہ تھا) اسے ۲۲فی صد کر دیا جائے اور اس طرح امریکہ واجبات کی مد میں ۲ ارب نہیں صرف ایک ارب ۷۰ کروڑ ڈالر ادا کرے گا جس میں سے ۵۸ کروڑ ۲۰ لاکھ ڈالر اس سال ادا کرنا تھے ۔لیکن اس شکست کے بعد امریکی کانگریس نے فوری طور پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ۲۵ کروڑ ۴۰لاکھ ڈالرکی وہ ادایگی روک دی ہے جو اسی مہینے اقوام متحدہ کو دینا طے تھی۔کانگریس نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک انسانی حقوق کے کمیشن پر امریکہ کی نشست بحال نہیں ہوتی (جس کا امکان اگلے سال نئے انتخاب ہی میں ہو سکتا ہے) اس وقت تک اقوام متحدہ کو کوئی ادایگی نہ کی جائے۔ امریکی انتظامیہ نے کانگریس کی بڑی خوشامد کی تھی کہ اس شکست کے باوجود یہ انتقامی کارروائی نہ کی جائے ‘لیکن کانگریس نے ایک نہ سنی اور اپنے اس غضب ناک ردّعمل کا اظہار ضروری سمجھا۔
الزامی ردّعمل : تیسرا ردّعمل الزامی ہے۔ اس میں امریکہ اور اسرائیل پیش پیش ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ امریکہ حقوق انسانی کے معاملات کو اٹھا رہا تھا اور دوسرے اس پر چیں بجبیں تھے۔ ان کی جانب سے چین اور فرانس کو خصوصیت سے ہدف بنایا جا رہا ہے۔ سرکاری ترجمان اور امریکی اخبارات یہی لَے آگے بڑھا رہے ہیں اور اس طرح شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کا اعلان ہے کہ یہ سب حقوق انسانی کے بارے میں امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اخبار فنانشل ٹائمز ‘ لندنلکھتا ہے:
اس نتیجے کو واشنگٹن اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق‘ خصوصاً چین اور کیوبا کے بارے میں امریکہ کے سخت موقف کے جواب میں جھڑکی کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ (۵ مئی ‘ ۲۰۰۱ء)
خاتون رکن کابینہ کونڈولیزا رائس کا موقف ہے:
یہ دھچکا اس لیے لگا کہ امریکی قیادت حقوق کے مسئلے پر بعض ممالک کے لیے کچھ زیادہ ہی سخت تھی۔ میری دانست میں یہ ان قوتوں کی طرف سے شدید ردّعمل تھا جو نہیں چاہتی ہیں کہ ان پر تنقید کی جائے۔ شاید امریکہ انسانی حقوق کے کمیشن میں کچھ زیادہ ہی سرگرم تھا۔
واشنگٹن پوسٹ‘ نیویارک ٹائمز‘ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے مقالہ نگار دوسرے ممالک پر برس رہے ہیں کہ وہ حقوق انسانی کے باب میں سمجھوتے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں‘ جب کہ امریکہ ڈٹا رہتا ہے اور اسی لیے اسے کمیشن سے نکال دیا گیا ہے۔ فرانس پر تجارتی مفادات کی پھبتی کسَی جا رہی ہے۔ چین‘ کیوبا اور دوسرے ممالک کو حقوق انسانی کے باب میں ’’مجرم‘‘ ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی لابی تلملا تلملا کر کہہ رہی ہے کہ چونکہ امریکہ نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور اسرائیل کے خلاف تادیبی کارروائیاں روکنے کے لیے سدِّسکندری بن گیا ہے ‘اس لیے اسے سزا دی گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت جیسا کہ خود جریدہ اکانومسٹ کے ادارتی کالموں میں اعتراف کیا گیا ہے ‘یہ ہے کہ سویڈن اور آسٹریا جو اس انتخاب میں امریکہ کے مقابلے میں کامیاب رہے ہیں حقوق انسانی کے بارے میں نہایت مضبوط موقف اختیار کرنے والوں میں سے ہیں۔ اگر مسئلہ حقوق انسانی کے بارے میں مضبوط موقف کا ہے تو سویڈن کا ریکارڈ امریکہ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے ۔لیکن وہ منتخب ہو گیا اور امریکہ رہ گیا!
الزامی ردّعمل کا ہدف صرف تیسری دنیا کے ممالک ہی کو نہیں بنایا جا رہا‘ بلکہ خود یورپ کے دوست ممالک پر بھی تیرونشترکی بارش ہے۔ اور ایک اسرائیل نواز کالم نگارولیم سافائز نے تو انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں یہاں تک کہہ دیا ہے:
کمیونسٹ چین اور کمیونسٹ کیوبا کی قیادت میں‘ فرانسیسی سفارت کاروں کی حمایت سے‘ جن کے پیچھے افریقی اور عرب آمر تھے‘ اقوام متحدہ نے امریکہ کو انسانی حقوق کمیشن سے نکال باہر کیا۔ (۸ مئی‘ ۲۰۰۱ء)
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی شکست میں فیصلہ کن کردار خود یورپی ممالک کا تھا ۔ خود اسی کالم نگار نے اپنے مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ ’’۱۴ ممالک جنھوں نے امریکہ کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا وقت پر دغا دے گئے‘‘۔ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’خفیہ رائے دہی کے سارے آداب کو خیرباد کہہ کر ان ممالک کا پتا چلایا جائے اور انھیں سامنے لایا جائے خواہ اس کے لیے سی آئی اے کی مدد لینی پڑے یا صحافتی آداب کو بالاے طاق رکھ کر تفتیشی(investigative) صحافت سے کام لیا جائے! گویا ایک ہی سانس میں حقوق انسانی کے بارے میں اصول پرستی کے سارے دعوے اور مسلمہ جمہوری آداب کو پارہ پارہ کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے!
خود احتسابی: ردّعمل کی ان تین جہتوں کے ساتھ ایک جہت وہ بھی ہے جس میں اس شکست کو ایک تازیانہ عبرت قرار دیا جا رہا ہے اور امریکہ کو خود احتسابی کی اور ساری دنیا کو امریکہ کی پالیسیوں کے بے لاگ جائزے اور تجزیے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس شکست کو امریکہ کے بارے میں عالمی راے عامہ کی بے اطمینانی کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی سینٹیر جان کیری نے اپنے ۶ مئی کے خطاب میں کہا ہے کہ دنیا میںامریکہ سے بے زاری (anti-Americanism)کی یہ ایک لہر ہے جو امریکی حکومت میں احساسِ دیانت میں کمی (lack of a sense of honesty) کی غماز ہے۔ ییل یونی ورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ہیرالڈہونگ جوکوہ نے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں اپنے مضمون America Gets a Wake-up Call on Human Rights میں بڑے معتدل اور مدلل انداز میں امریکہ کو اپنے احتساب اور جائزے کی دعوت دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
گذشتہ ہفتے دنیا بھونچکا کر رہ گئی جب پہلی دفعہ یہ ہوا کہ امریکہ کو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے لیے ووٹ حاصل نہ ہو سکے۔ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ دنیا امریکہ کو سبق سکھانا چاہ رہی ہے۔ لیکن کیا امریکی صحیح سبق سیکھ لیں گے؟ آیئے سب سے پہلے ہم امریکہ کے دو متوقع ردّعمل کا جائزہ لیں:
پہلا یہ کہ یہ ذلت آمیز سفارتی شکست کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ کمیشن ایک بے معنی گفت و شنید کی جگہ ہے۔ دوسرا زیادہ سنگین ردّعمل یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اپنے ذمے واجبات کی ادایگی روک کر یا اقوام متحدہ کے خلاف دوسرے تعزیری اقدامات کر کے اسے سبق سکھائے--- گذشتہ ہفتے کا ووٹ ایک بیدارکرنے والی آواز ہے کہ حقوق انسانی کے مسئلے پر امریکی قیادت کو جو عالمی احترام حاصل تھا اس کا دَور ختم ہو گیا ہے۔ (۹ مئی‘ ۲۰۰۱ء)
اس کے بعد انھوں نے بہت سے عالمی مسائل کا ذکر کیا ہے‘ جن کے بارے میں ان کے خیال میں امریکہ نے عالمی برادری کے جذبات کا لحاظ نہیں کیا۔ جن میں خصوصیت سے ایڈز کے مریضوں کی مدد‘
غریب ممالک کو خوراک کی فراہمی‘ بین الاقوامی معاہدات کی توثیق‘ بین الاقوامی فوج داری عدالت
کے بارے میں امریکہ کے تحفظات وغیرہ شامل ہیں۔ پروفیسر ہیرالڈ نے مشورہ دیا ہے کہ امریکہ ‘ بے اعتنائی (indifference) یا غصہ و انتقام (anger)کا راستہ اختیار نہ کرے بلکہ دوسرے ممالک سے تعاون اور
اعتماد باہمی کا راستہ اختیار کرے۔ موصوف نے اپنے مضمون کا خاتمہ ان الفاظ پر کیا ہے:
گذشتہ ہفتے کی شکست کے باوجود دنیا انسانی حقوق کے میدان میں امریکی قیادت کی خواہاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکی بھی یہ قیادت فراہم کرنے کا حوصلہ اور وژن رکھتے ہیں؟
فنانشل ٹائمز کا نمایندہ بھی واشنگٹن کے سیاسی اور سفارتی حلقوں کی بحث کا خلاصہ اور پیغام کچھ یوں بیان کرتا ہے:
یہ واقعہ بش انتظامیہ کو بیدار کرنے والی آواز ہے تاکہ وہ آج کی دنیا کے ساتھ زیادہ متعلق ہو جائے (مئی ۵‘ ۶‘ ۲۰۰۱ء)۔
نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون نگار لیونارڈ گارمنٹ نے جسے قانون اور سفارت کاری دونوں میدانوں کا تجربہ ہے‘ لکھاہے:
ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ووٹ کس بڑے عمل کا عکاس ہے۔ کیا یہ صرف محض ایک انتخابی شکست ہے؟ کیا امریکہ کے حلیفوں نے حقوق انسانی پر غیر یقینی موقف کا اظہار کرتے ہوئے روسیوں کے بجائے چینیوں کو خوش کرنا پسند کیا؟ کیا یہ ووٹ عالم گیریت کے خلاف احتجاج تھا یا ایک اجتماعی نارضامندی کا اظہار؟ کیا ہم ایک ایسے ردّعمل کا آغاز دیکھ رہے ہیں‘ جس کے نتیجے میں‘ چاہے یہ مقصود نہ ہو‘ امریکہ میں لاتعلقی کی سیاست کو فروغ ملے؟ ( انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘۱۶ مئی‘ ۲۰۰۱ء)
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سابق سفیر جین کرک پیٹرک مستقبل کے بارے میں چند اہم سوال اٹھاتی ہیں:
انسانی حقوق کمیشن پر ووٹ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوری ممالک میں امریکہ کے
قابل اعتماد دوست اور حلیف ہیں بھی؟ یہ طے ہے کہ گذشتہ عشرے میں امریکہ اور اس کے معاہدہ شمالی اوقیانوس (NATO)کے حلیفوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ یورپی پریس میں ناراضی کا اظہار ان تحریروں کے مستقل سلسلے سے ہوتا ہے جو امریکہ اور امریکی طریقوں پر سخت تنقید کرتے ہیں (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۹ مئی ۲۰۰۱ء)
نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں اعتراف کیاہے:
بغاوت کا آغاز ہوتے ہی پتا چلانے اور اسے فرو کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی پریشان کن شکست کا ایک پہلو ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات اقوام متحدہ کے لیے امریکہ کے سرپرستانہ رویے کے خلاف بڑھتا ہوا غصہ ہے‘ جوماحولیات سے لے کر بارودی سرنگوں تک جیسے مسائل پر عالمی معاہدوں کے بارے میں واشنگٹن کی بے حسّی کی دلیل ہیں۔ ( انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۷مئی‘ ۲۰۰۱ء)
ایک اور کالم نگار ڈیوڈ اگناشیس نے اپنے اضطراب کا اس طرح اظہار کیاہے:
۹۰ کے عشرے میں امریکہ عالمی معیشت کو اپنی مٹھی میں سمجھنے کا عادی ہو گیا۔ امریکہ کے پا س پیسہ بھی ہے اور نظریات بھی‘ اور دوسری اقوام کوبس امریکہ کی ہدایات کے مطابق کھیلنا ہے۔ لیکن
امریکی بالادستی کے یہ آسان دن اب ختم ہو رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بھی یہ جوابی کارروائی کا وقت ہے۔ اس کی ایک واضح اور قابل ذکر مثال امریکہ کو حقوق انسانی کمیشن سے باہر نکالنے کا عمل تھا۔ بعض مبصرین نے کہا کہ یہ ووٹ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ دنیا کے ممالک میزائل دفاع کے حق میں اور موسموں کی تبدیلی کے کویوٹو معاہدے کے خلاف امریکہ کے یک طرفہ موقف سے تنگ آگئے ہیں۔ یہ دو واضح حالیہ مثالیں ہیں۔ ... امریکہ کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ عالم گیریت دو طرفہ راستہ ہے اور جیسا کہ پرانا مقولہ ہے کہ آپ اوپر جاتے ہوئے لوگوں سے اچھا سلوک کیجیے۔ اس لیے کہ واپسی میں بھی ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۷مئی ۲۰۰۱ء)
فرانس کے سفیر نے اپنی کامیابی کا سہرا اس بات کو قرار دیا کہ ہماری پالیسی کی بنیاد مکالمہ اور
باہمی احترام ہے۔برطانیہ کے سفیر سر جرمی گرین اسٹاک نے اپنے مخصوص انداز میں کہا: حالیہ ووٹ باقی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر ایک تبصرہ تھا۔ (ٹائم‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء) ۔ چین نے زیادہ ہی کھل کر کہا : اس ووٹ کے ذریعے امریکہ کی اس کوشش کو کہ نام نہاد انسانی حقوق کے مسائل کو اپنی طاقت کی سیاست اور دنیا پر غلبے کے لیے دبائو کے آلے کے طور پر استعمال کرے‘ سختی سے مسترد کر دیا گیا ہے۔
امریکہ اوردوسرے ممالک کے دانش وروں اور سفارت کاروں کے اس نوعیت کے ردّعمل کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی ان شکستوں کو سرسری طور پر نہیں لینا چاہیے۔ خود پسندی اور محض دفاعی انداز میں بات کو ٹالا جا سکتا ہے مگر زمینی حقائق کو اس طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کا
عالمی کردار صرف امریکہ ہی کے لیے اہم نہیں ہے۔ یہ آج کی دنیا کے لوگوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ استخفاف‘ استہزا‘ انتقام اور الزام کا ردّعمل قابل فہم ہے لیکن یہ خود امریکہ کے لیے ایک سانحہ ہوگا کہ وہ اپنا دفاع کرنے کا اسیر ہو جائے اور گہرائی میں جا کر عالمی برادری کے جذبات و احساسات کا تجزیہ کرنے سے گریز کرے۔ یہ خود فریبی کا راستہ ہوگا جس کا خمیازہ دوسروں کے ساتھ اسے بھی بھگتنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے اہم اداروں کے یہ ووٹ صرف ہوا کے رخ ہی کا پتا نہیں دیتے ‘بلکہ عالمی سطح پر پائی جانے والی خرابیوں اور چیلنجوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ توجیہ اور لیپاپوتی سے حالات صرف بگڑ سکتے ہیں‘ بنائو کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی۔
کئی اعتبار سے یہ ایک اہم موقع ہے‘ جب باقی دنیا کے اہل دانش کو آگے بڑھنا اور امریکہ اور روس کی قیادت کو صاف صاف بتانا چاہیے کہ اصل خرابی کیا ہے اور کہاں ہے؟ امریکہ محض امریکی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیں۔ امریکہ ایک اہم عالمی قوت اور ۳۰ کروڑ انسانوں کا ملک ہے‘ جو مادی وسائل سے مالا مال اور سائنس اور ٹکنالوجی کی اعلیٰ ترین مہارتوں کی آماجگاہ ہے۔ بلاشبہ امریکہ میں اقتدار کی کنجیاں جن کے ہاتھ میں ہیں وہ ایک خاص ذہن کے علم بردار اور مخصوص مفادات کے محافظ ہیں۔ دنیا بھر میں لوگوں کی شکایات کا اصل منبع یہی اسٹیبلشمنٹ ہے ۔اس کی گرفت خود امریکہ کی آبادی پر بھی ہے اور جس نے پوری دنیا میں اپنے مفادات کے لیے تباہی مچا رکھی ہے۔ خود امریکہ کے عوام کی ایک بڑی تعداد بھی مظلوم ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایک دن دنیا کے دوسرے مظلوموں کے ساتھ وہ بھی ہم آواز ہو کر ظلم کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہو۔ آخر ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکی قوم کی خاموش اکثریت اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔اب امریکہ میں خود مسلمانوں کی تعداد روز افزوں ہے اور ۷۰‘۰ ۸لاکھ مسلمان‘ قوم کے ضمیر کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج میڈیا اتنا طاقت ور ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشے سے ساری انسانیت کو مخاطب کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں یہ خود امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ خود پسندی کے خول سے نکلے اور ان اسباب و عوامل کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے جو امریکہ کو دنیا کے تمام لوگوں سے کاٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اسی طرح پورے عالم انسانی کا مفاد بھی اس میں ہے کہ تلخی‘ صف آرائی اور جنگ جوئی کے بجائے افہام و تفہیم اور مکالمے کا راستہ اختیار کرے اور دلیل اور شہادتوں کے ساتھ ان اسباب کی نشان دہی کرے جو بگاڑ کا ذریعہ ہیں۔
بلاشبہ امریکہ نے جمہوریت‘ آزاد ی اور حقوق انسانی کے لیے آواز بلند کی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ
عالمی برادری کی اکثریت ان باتوں کو اخلاص‘ دیانت اور شفافیت کے رنگ و بو سے محروم پاتی ہے۔ امریکہ خود برطانوی اور فرانسیسی استعمار کا دَور دیکھ چکا ہے۔اس نے استعماری شکنجوں کو توڑ کر آزادی حاصل کی تھی اور
اس وجہ سے دنیا کی مظلوم اقوام اسے اپنا ہم سفر سمجھنے لگی تھیں۔ آخر کیوں وہی اقوام اب خود امریکہ کو ایک استعماری قوت سمجھ کر اس سے فاصلہ پیدا کر رہی ہیں۔ امریکہ کبھی قوموں کے حق خود ارادیت کا علم بردار سمجھا جاتا تھا‘ اب اسے کیوں انسانی حقوق کی پاس داری کے بارے میں اعتماد سے محروم کیا جا رہا ہے؟ بات صرف بارودی سرنگوں (land mines)کے بارے میں سردمہری‘ماحولیات کے خطرات کے باب میں تساہل اور بین الاقوامی معاہدات سے گلوخلاصی کی کوشش تک محدود نہیں۔ جن اہل علم نے مخالفت کے اسباب کی تان ان مسائل پر توڑی ہے انھوں نے بہت سہل انگاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام اور اس کی سیاسی اور فکری قیادتوں کو اس نازک تاریخی موقع پر کسی مدا ہنت سے کام نہیں لینا چاہیے اور حالات کا بے لاگ تجزیہ کر کے امریکہ کی قیادت کو اور پوری دنیا کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو ان اسباب و عوامل کا احساس دلانا چاہیے جو عالمی سیاست میں بگاڑکا باعث اور انسانی معاشرے میں ظلم و استحصال کا ذریعہ ہیں۔
بلاشبہ امریکہ آج سیاسی‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قوت و سطوت کے باوجود امریکہ دنیا کا محبوب اور پسندیدہ ترین ملک نہیں۔ مادّی خوش حالی میں اس کا درجہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو‘ لیکن انسانیت کی میزان میں اس کا وزن بڑا ہلکا ہے۔ اچھے انسان دنیا کے ہر ملک اور ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں‘ لیکن بحیثیت مجموعی جو امیج امریکہ کا دنیا میں ہے وہ اجڈ امریکیوں (The Ugly American)کی تصویر سے قریب تر ہے۔جمہوریت‘ آزادی اور حقوق انسانی کے تمام دعوے اپنی جگہ‘ اور امریکہ کی سرزمین پر ان کے تجربات کے کچھ مثبت پہلوئوں کے اعتراف کے ساتھ‘ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے جن جن ممالک پر امریکی اثرات پڑے ہیں یا پڑ رہے ہیں ان کے دامن میں پھول کم اور کانٹے زیادہ ہیں۔ ماضی کی سامراجی قوتیں جس ننگی جارحیت‘ جبر‘ غلامی اور لوٹ کھسوٹ کی تھیں‘ آج وہی کھیل امریکہ خوش نما نظریات اور دل فریب وعدوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ظلم کی شکلیں بدل گئی ہیں‘ اس کی حقیقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ اس لیے ضروری ہے کہ حقائق کو بے نقاب کیا جائے اور امریکہ کے عالمی کردار کے اصل خدوخال کو بلاکم و کاست پیش کیا جائے‘ تاکہ آج کے انسان کے اصل مسائل اور اس کی روح کے حقیقی اضطراب کو سمجھا جا سکے۔ امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض انتقامی سیاست کے مظاہرنہیں ہیںبلکہ اس کی اپنی پالیسیوں اور کارکردگی کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔ اگر وہ
فی الحقیقت دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ دوستی اور تعاون کا رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی فکر اور اپنے نظامِ کار میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ مسئلہ محض بڑے اور چھوٹے اور طاقت ور اور کمزور کانہیں بلکہ ان اصولوں‘ قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلق کی بنیادوں کا ہے جن کے نتیجے میں دنیا میں حقیقی امن اور انصاف قائم ہو سکے اور دنیا کے وسائل تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہو سکیں۔ کوئی کسی کا محتاج نہ ہو‘ سب عزت اور وقار سے زندگی گزاریں ع
کس نہ گردد در جہاں محتاج کس
یہی وہ کسوٹی ہے جس پرکامیاب اور ناکام نظام‘ صحت مند اور مریض معاشرہ‘ صالح اور ظالم تہذیب کو پرکھا جاسکتا ہے۔
امریکہ پر بے اعتمادی اور اس سے بے زاری کی پہلی اور سب سے اہم وجہ امریکہ کا عالمی بالادستی کا عزم اور ہدف ہے۔نظریات کی دنیا میں آزاد مسابقت‘ معیشت میں تجارت اور تعاون‘ سیاسی معاملات میں اشتراک اور مشترک مقاصد کے لیے معاونت اور مفاہمت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے مفید اور ضروری ہیں۔ لیکن اگر ایک قوم یا ملک محض اپنی قوت کے بل پر دوسروں کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرے اور محض اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو دائو پر لگا دے تو یہ عالمی برادری کے لیے سّمِ قاتل اور سامراج کی ایک مکروہ شکل ہے۔
امریکہ آج ایک سامراجی قوت ہے اور اس کی تمام سیاسی‘ معاشی‘ ثقافتی اور عسکری پالیسیاں سامراجی مقاصد کا آلہ کار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت‘ آزادی‘ انسانی حقوق اور معاشرتی ترقی کے نعرے نہ دلوں کو مسخر کر پاتے ہیںاور نہ قوموں کی زندگی میں کسی خیر اور فلاح کا پیغام لاتے ہیں۔ ایک قوم کی طرف سے دوسروں پر بالادستی کے قیام کی کوشش تو تصادم اور کش مکش ہی کو جنم دے سکتی ہے اور دے رہی ہے۔ کاروبارِ حیات کو بدلے بغیر محض کردار بدلنے سے حالات کیسے بدل سکتے ہیں۔ ہسپانوی‘ پرتگالی اور ولندیزی سامراج کا دَور ہو یا برطانوی اور فرانسیسی سامراج کا‘ روسی استعمار ہو یا امریکی استعمار‘ جرمنی وجاپان بالادستی کے قیام کے لیے برسرِجنگ ہوں یا اسرائیل اور بھارت ملک گیری میں مصروف--- اصل ایشو ایک ہی ہے: دوسروں کو اپنا محکوم بنانا اور انسانوں پرقوت کے ذریعے حکمرانی اور بالادستی کا قیام۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ آزادی اور حقوق انسانی کے تمام دعووں کے باوجود دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام پراپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کے لیے بالادستی قائم کرنے کے لیے سرگرم ہے ۔جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوتی‘ خوش نما الفاظ اور
دل کش وعدوں سے غلامی کی زنجیریں پھولوں کی لڑیاں نہیں بن سکتیں۔
امریکی تہذیب اور سیاست جن تضادات کا شکار رہی ہے‘ ان پر اس وقت گفتگو پیش نظر نہیں۔ اس وقت ہمارا موضوع امریکہ کی سرزمین پر یورپی اقوام کا قبضہ‘ وہاں کی اصل مقامی آبادی (ریڈ انڈین) سے سلوک‘ افریقہ سے غلاموں کی تجارت اور نسل اور رنگ پر مبنی معاشرے کا قیام نہیں ہے۔ ہمارے زیر بحث ان کی جنگ آزادی‘ دستور پر مبنی جمہوریت اور آزاد معیشت کا قیام یا منروڈاکٹرائن بھی نہیں ہے۔ ہم بات کا آغاز بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم (۱۸-۱۹۱۴ء) کے بعد سے کر رہے ہیں۔ اس وقت امریکہ‘ دنیا کے سامنے کچھ اصولوں کے علم بردار اور خصوصیت سے محکوم اقوام کی آزادی اورعالمی برادری کے لیے بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی اداروں کے ذریعے آزادی اور امن کے داعی کی حیثیت سے آیا تھا۔ صدر ووڈرو ولسن کے اصول سیاست اور لیگ آف نیشنز کا قیام ایک اچھا آغاز تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ء)کے بعد سے جو دَور شروع ہوا وہ شفاف نہیں۔
جمہوریت‘ آزادی‘ حقوق انسانی اور اقوام متحدہ کے ذریعے ایک عالمی سلامتی کے نظام کا قیام‘ اس دَور کے اعلان شدہ مقاصد رہے مگر عملاً سردجنگ کی سیاست نے دنیا کو صرف نظریات ہی نہیں ‘سیاسی اور معاشی مفادات کا اکھاڑہ بنا دیا۔ امریکہ ایک کالونی کی تنگنائے سے نکل کر ایک عالمی طاقت بن گیا اور اس کے ساتھ اس کی سیاست نے بھی وہی سامراجی رنگ و روپ اختیار کر لیے جو ماضی کی استعماری قوتوں کا وطیرہ رہے ہیں۔ بظاہر یہ جنگ اشتراکیت کی ظلمتوں سے دنیا کو بچانے اور آزادی کی روشنیوں سے روشناس کرانے کے لیے تھی لیکن اس جمہوری قبا میں چنگیزیت ہی چھپی ہوئی تھی۔ گذشتہ ۶۰ سال کی سیاست جن تضادات‘ تناقضات اور تباہ کاریوں سے عبارت ہے اس کی جڑیں سرد جنگ کے اس خمیر میں پیوست ہیں۔ گویا ؎
میری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی
دوسری جنگ کے بعد جو حکمت عملی نئے عالمی نظام کے لیے وضع کی گئی‘ اس میں ایک طرف اقوام متحدہ کا قیام‘ انسانی حقوق کے اعلان کا اجرا‘ عالمی عدالت انصاف کا قیام‘ نئے عالمی مالیاتی اداروں کا قیام تھا تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جو اصل بااختیار ادارہ تھا‘ پانچ ملکوں کا ویٹو اور امریکہ اور روس کی عالمی بالادستی کے لیے اپنی اپنی منصوبہ بندی اہم ہے۔ امریکہ کی خارجہ سیاست کی فکری بنیادیں جارج کینان نے مرتب کیں ‘جس کے تین ستون تھے:
۱- عالمی قوت کی حیثیت: امریکہ کو اصل مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ ایک متحارب دنیا میں ایک عالمی قوت کی حیثیت سے کس طرح اپنے کو مستحکم کرے۔ کینان نے صاف الفاظ میں کہا کہ حقیقی خارجہ پالیسی کا تعلق سیدھے سیدھے قوت کے حصول و استحکام سے ہے۔ امریکہ کی سلامتی اس میں ہے کہ قوت کے حصول کو مرکزیت دے اور ’’حقوق انسانی‘ معیارِ زندگی کی بلندی اور فروغ جمہوریت کے غیر حقیقی اور غیر واضح تصورات کی بات چھوڑ دے‘‘۔
۲- معاشی اور سیاسی بالادستی: معاشی اور سیاسی طاقت میں عدم توازن ایک حقیقت ہے۔ دوسری جنگ کے بعد امریکہ میں دنیا کی آبادی کا صرف ۳.۶ فی صد تھا ‘جب کہ دنیا کی دولت کے ۶۰ فی صد پر اسے قبضہ حاصل تھا۔ جارج کینان کے الفاظ میں: دنیا کے نئے اُبھرتے ہوئے نظام میں امریکہ کا اصل ہدف تعلّقات کار کا ایک ایسا نظام وضع کرنا ہے جن کے نتیجے میں قوت کا یہ عدم توازن اس طرح برقرار اور محفوظ رکھا جا سکے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ اور رکاوٹ رونما نہ ہو۔
اس کے لیے امریکہ کو ان وسائل تک رسائی حاصل ہونی چاہیے جو اس کے معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہیں۔
کینان نے دنیا کا جو نیا سیاسی نقشہ تجویز کیا اس میں اپنے وسائل کے تحفظ (the protection of our resources) کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ بین الاقوامی راستے محفوظ ہوں‘ تجارت اور فوجی نقل و حمل کی راہیں کھلی رہیں‘ جن ممالک سے خام مال اور انرجی درکار ہے وہاں ایسی حکومتیں ہوں جو تعاون کریں اور سپلائی لائن برقرار رہنے کی ضمانت حاصل ہو۔اس سلسلے میں قومی تحریکوں سے خطرہ ہو سکتا ہے جو قومی اور ملکی مفاد کی بات کریں۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ان ملکوں کو اشتراکی عناصر سے محفوظ رکھا جائے اور اگر ایسی حکومتیں ہمارے مفید مطلب ہوں جو چاہے سخت گیر ہوں مگر ہمارے مفادات محفوظ ہوں تو ہمیں ایسی ناخوش گوار
صورت حال کو ضمیر کی کس خلش کے بغیر ترجیحاً قبول کرنا چاہیے۔ البتہ نجی سرمایہ کاری‘ بیرونی سرمائے کی آمدورفت اور منڈی کی معیشت کو فروغ دینا چاہیے۔ (بحوالہ: Deterring Democracy‘از نوئم چومسکی‘ ص ۴۹ اور Brave New World Order از جیک نلسن‘ ص ۴۳)
۳- عسکری حصار: اشتراکی ممالک کے گرد ایسا سیاسی اور عسکری حصارتعمیر کر دیا جائے جس کے نتیجے میں اشتراکی انقلاب دوسرے ممالک تک نہ پہنچ سکے۔ یہ کام دفاعی اور معاشی معاہدات کے جال بچھا کر انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسے حصار بندی کی حکمت عملی (strategy of containment)کہا جاتا ہے۔ جس کے تحت ناٹو (NATO)‘ سیٹو (SEATO) ‘ سینٹو (CENTO) ‘ بغداد پیکٹ اور ایسے ہی دوسرے عسکری بلاک تشکیل دیے گئے۔ (جاری)
قدرت کا قانون ہے کہ جب تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے‘ تو روشنی اس کا سینہ چیرتی ہوئی رونما ہوجاتی ہے۔ ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں اور فضا نور سے بھر جاتی ہے۔ تاریخ انسانی میں روشنی اور نور کا سب سے بڑا سیلاب ۲۷ رمضان المبارک‘ ۱۳ قبل ہجرت میں رونما ہوا۔
خشکی‘ تری اور بحروبر پر تاریکی کا غلبہ تھا ‘ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم ۳۰:۴۱)۔ ظلم اور فساد سے خدا کی زمین بھر گئی تھی۔ انسان اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر جھوٹے خدائوں کی بندگی کر رہے تھے۔
ارض و سما کے مالک نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو ہدایت اور رہنمائی بھیجی تھی‘ انسان نے اس کو گم کردیا تھا۔ نتیجے کے طور پر گمراہی اور ضلالت کا دور دورہ تھا۔ انسان آگ‘ درخت‘ پتھر‘ پانی اور جانوروں تک کی پوجا کر رہے تھے۔ زندگی کے اجتماعی معاملات میں کچھ انسان دوسرے انسانوں کے خدا اور رب بن بیٹھے تھے‘ اور اپنی من مانی کر رہے تھے۔ نیکیاں معدوم ہو رہی تھیں اور برائیاں فروغ پا رہی تھیں۔ نسل‘ قوم اور قبیلے کے بتوں کی پوجا ہو رہی تھی۔ حق‘ انصاف‘ آزادی‘ مساوات اور بندگی رب کو انسانیت ترس رہی تھی۔
یہ تھی وہ دنیا ‘ جس میں خدا کے ایک برگزیدہ بندے‘ انسانیت کے گل سرسبد اور دنیا کے سب سے نیک انسان‘ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ظلم کے اس راج اور بدی کے اس غلبے پر حیران و سرگرداں تھا‘ وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَھَدٰی (الضحیٰ ۹۳:۷)۔ وہ جھوٹے خدائوں کا باغی اور ایک حقیقی خدا کی بندگی کا جویا تھا۔ دست فطرت نے ۴۰ سال اس کی تربیت فرمائی۔ پھر زمین و آسمان کے مالک نے ایک شب اسے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبیؐ کی حیثیت سے مامور فرما دیا۔ وہ غارحرا میں عبادت میں مشغول تھا کہ خدا کا فرشتہ‘ اس کا امین‘ اور پیام بر رونما ہوا۔ بندگی میں مشغول بندے کو سینے سے لگایا‘ اسے خوب بھینچا اور رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض کی طرف سے پہلی وحی اس پر نازل کی:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) ’’پڑھو (اے نبیؐ)‘ اپنے رب کے نام سے جس نے (ساری چیزوں) کو پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ پڑھو‘ اور تمہارا رب بڑا کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘ اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں‘ جو اس کو معلوم نہ تھیں‘‘۔
تاریکیوں کے لیے پیغام موت آگیا۔ طاغوت کے غلبے کا دور ختم ہو گیا۔ رب کی آخری ہدایت کا دور شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ ۲۳ سال تک چلتا رہا۔ حتیٰ کہ ہدایت مکمل ہوگئی اور انسانیت کو نور کا وہ خزانہ مل گیا‘ جس کی روشنی تاقیامت قائم رہے گی جس کے ذریعے وہ ہمیشہ رہنمائی اور ہدایت حاصل کرتی رہے گی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵ :۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے‘ اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘۔
آج اس نزول وحی کے آغاز اور بعثت نبوی ؐ کو ۱۴ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ ساری دنیا میں محمدؐ کے نام لیوا اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں‘ جو ماضی اور حال کی تاریخ کے درمیان حدفاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے انسانیت کی تاریخ میں قرآن اور محمدؐ کے دور کا آغاز ہوا۔
خدا کی اس زمین پر انسان کی بنیادی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق اس کی جسمانی اور مادی زندگی سے ہے‘ اور دوسری وہ جو اس کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی زندگی سے متعلق ہیں۔ خدا کی ربوبیت کاملہ کا تقاضا تھا کہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں پوری کی جائیں‘ تاکہ وہ زندگی کی آسایشیں بھی حاصل کر سکے اور ان کو صحیح مقاصد کے لیے صحیح طریقوں سے استعمال بھی کر سکے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو بہ حسن و کمال پورا کیا ہے۔ مادی اور جسمانی ضروریات کی تسکین کے لیے زمین و آسمان میں بے شمار قوتیں ودیعت کر دی ہیں‘ جن کی دریافت اور ان کے مناسب استعمال سے انسان کی تمام ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت نازل فرمائی‘ اور اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس ہدایت کو انسانوں تک پہنچایا‘ بلکہ ان کی زندگیوں میں اسے متشکل کر کے بھی دکھا دیا۔ اس طرح انسانیت نے اپنا سفر تاریکی میں نہیں‘ روشنی میں شروع کیا‘ اور ہر دور میں خدا کی ہدایت اس کے لیے مشعل راہ بنی رہی۔ اس دنیا میں پہلا انسان (آدم علیہ السلام) پہلا نبی بھی تھا۔ خدا کی یہ ہدایت اپنی آخری اور مکمل ترین شکل میں حضرت محمدؐپر نازل کی گئی۔ یہی ہدایت قرآن کی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
قرآن جس تصور کو پیش کرتا ہے‘ وہ مختصراً یہ ہے:
۱- یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک‘ آقا‘ رب اور حاکم ہے۔ ہر شے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیار‘ کلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے‘ اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ‘ مالک اور حاکم ہے۔ اس مالک حقیقی نے انسان کو‘ ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر‘ اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابع فرمان کیا ہے۔
۲- انسان کو خلافت کی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالک حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا ہے اور اس کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہان اس کے لیے ہے اور اس کے تابع ہے لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے‘ اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمایش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کر دے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راستے کو اختیار کیا‘ وہ کامیاب و کامران ہے اور اس عارضی زندگی کے بعد ابدی راحت‘ اور چین اس کے لیے ہے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا‘ وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہو گا۔
۳- یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے‘ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک‘ اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہر ملک اور ہر قوم میں انبیا مبعوث ہوئے اور اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربیؐ ہیں۔
آپ ؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین‘ یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا‘ جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا۔ جن لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کر لی اور اسلا م کو زندگی کے دین اور راستے کی حیثیت سے اختیار کر لیا‘ وہ ایک امت بن گئے۔ اب یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے‘ جو اللہ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا۔ اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتے رہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے‘ جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے‘ جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیروفلاح کی ضامن ہے۔
(الف) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲: ۱۲) ’’یہ اللہ کی کتاب ہے ‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔
(ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِی لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے‘‘۔
یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:
الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲: ۱۸۵) ’’قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔
(ج) یہ ہدایت کا ایسا مرقع ہے‘ جس میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کر دی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ ۵:۴۸) ’’پھر اے نبیؐ ‘ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے‘ اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے‘‘۔
(د) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹) ’’بلاشبہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں‘‘۔
انسانیت کے دکھوں کا واحد علاج یہی ہدایت ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَا ٓئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ لا وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس ۱۰:۵۷) ’’لوگو! تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے۔ یہ دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں‘‘۔
(ر) اور یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو مھیمن (نگہبان) کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔
قرآن کی اس نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کی وضاحت آسان ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم مختصراً یوں بیان کر سکتے ہیں:
٭ قرآن کاموضوع انسان ہے کہ انسان کی فلاح اور اس کا خسران کس چیز میں ہے۔
٭ قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہربینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے باعث انسان نے خدا‘ نظام کائنات‘ اپنی ہستی اور اپنی دنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں‘ اور ان نظریات کی بنا پر جو رویے اختیار کر لیے ہیں‘ وہ سب حقیقت کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے‘ جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اس حقیقت کے لحاظ سے وہی رویہ درست اور خوش انجام ہے‘ جو خدا کو اپنا واحد حاکم اور معبود تسلیم کرے۔ اور پھر انسان اس دنیا میں اپنی پوری زندگی اسی خدا کی ہدایت کے مطابق گزارے۔
٭ قرآن کا مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے‘ جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے (ملاحظہ ہو‘ تفہیم القرآن‘ جلد اول‘ مقدمہ از سید ابوالاعلیٰ مودودی)۔
اس بات کو شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی نے اس طرح بیان فرمایا ہے‘ کہ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ راہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے (الفوز الکبیر)۔
قرآن تمام انسانوں کو ابدی سعادت کی طرف بلاتا ہے‘ اور انسان کے ظاہر و باطن کی ایسی تعمیر کرتا ہے‘ کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ دنیا اور آخرت کی زندگیوں میں حقیقی چین اور راحت نصیب ہو۔ یہ راستہ رب کی بندگی کا راستہ ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریت ۵۱:۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔
یہ بندگی انسان کی پوری زندگی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ہر سانس احساس عبدیت سے معمور ہونا چاہیے اور اس کا ہر عمل مالک کی اطاعت کا مظہر ہونا چاہیے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے قرآن کا انقلابی تصورِ حیات ہمارے سامنے آتا ہے۔
قرآن انسانی زندگی کو مختلف گوشوں اور شعبوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ وہ پوری زندگی کو بندگی رب میں لانا چاہتا ہے۔ انسان کے فکروخیال اور عقیدہ و رجحان سے لے کر اس کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے--- اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:
اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃ ً ص(البقرہ ۲:۲۰۸) ’’داخل ہو جائو خدا کے دین میں پورے کے پورے‘‘۔
یعنی اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کے بعد زندگی کے کسی شعبے کو خدا کی ہدایت سے آزاد رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی اجتماعی زندگی‘ خدا کے قانون کی پابند اور اس کی رضا کو تلاش کرنے والی ہوگی۔ پھر تمدن کے پورے نظام یعنی معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ قانون و عدالت‘ انتظام و انصرام‘ ملکی اور بین الاقوامی تعلقات‘ سب پر خدا کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا‘ بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینی ہے۔ انسانیت کو حق کی طرف بلانا ہے‘ اور ہر اس رکاوٹ کو ہٹانے کی جدوجہد کرنی ہے‘ جو بندے اور اس کے رب کے درمیان اس تعلق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہے۔ اسی کا نام دعوت حق ہے‘ جو اسلام میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف یہ کتاب بلاتی ہے۔
قرآن کی تعلیمات اس نقطۂ نظر کی حمایت نہیں کرتیں‘ جس میں انسان کی اصل دل چسپی صرف اور صرف اپنی ذات کی اصلاح اور اپنی روح کے لیے قرب الٰہی کا حصول ہے۔ بلاشبہ قرآن انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح چاہتا ہے اور بندے کے تعلق باللہ کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ یہ کام اسے زندگی کی کش مکش سے کاٹ کر کرنے کی دعوت نہیں دیتا‘ بلکہ دنیاوی زندگی کے ان ہزاروں‘ لاکھوں تعلقات کو خدا کی ہدایت کا پابند بناکر‘ یہ مرحلہ طے کرانا چاہتا ہے۔
علامہ اقبال ؒ قرآن کے اس مخصوص مزاج کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:
’’محمد عربیؐ برفلک الافلاک رفت و باز آمد واللہ اگر من رفتمے ہرگز باز نیا مدمے
]محمد عربیؐ (معراج کے موقع پر) آسمانوں پر گئے اور واپس آگئے۔ اللہ کی قسم‘ اگر میں جاتا تو ہرگز واپس نہ آتا[
یہ مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ؒ کے الفاظ ہیں‘ جن کی نظیر تصوف کے سارے ذخیرئہ ادب میں مشکل ہی سے ملے گی۔ شیخ موصوف کے اس ایک جملے سے ہم اس فرق کا ادراک نہایت خوبی سے کر لیتے ہیں‘ جو شعور ولایت اور شعور نبوت میں پایا جاتا ہے۔ صوفی نہیں چاہتا کہ اس واردات اتحاد میں اسے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے‘ اسے چھوڑ کر واپس آئے‘ لیکن اگر آئے بھی‘ جیسا کہ اس کا آنا ضروری ہے‘ تو اس سے نوع انسانی کے لیے کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس‘ نبی کی باز آمد تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ اس واردات سے واپس آتا ہے‘ تو اس لیے کہ زمانے کی رَو میں داخل ہو جائے۔ اور پھر ان قوتوں کے غلبے و تصرف سے‘جو عالم تاریخ کی صورت گر ہیں‘ مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔ صوفی کے لیے تو لذت اتحاد ہی آخری چیز ہے‘ لیکن انبیا علیہم السلام کے لیے اس کا مطلب ہے‘ ان کی اپنی ذات کے اندر کچھ اس قسم کی نفسیاتی قوتوں کی بیداری‘ جو دنیا کو زیروزبر کر سکتی ہیں‘ اور جن سے کام لیا جائے تو جہان انسانی دگرگوں ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انبیا کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس واردات کو ایک زندہ اور عالم گیر قوت میں بدل دیں--- لہٰذا انبیا کے مذہبی مشاہدات اور واردات کی قدر وقیمت کا فیصلہ ہم یہ دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں کہ‘ ان کے زیراثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے‘‘۔ (تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘ علامہ محمد اقبال ؒ ‘ترجمہ سید نذیر نیازی‘ بزم اقبال‘ لاہور‘ ص ۱۸۸-۱۹۰)
مطلب یہ کہ بزرگ صوفی کا یہ قول زندگی کے محدود تصور کا غماز ہے۔ اس تصور میں اصل اہمیت عرفان ذات کی ہے اور وہ اس سے اونچے کسی مقام کا تصور نہیں کر سکتی ہے‘ کہ بندے کے قدم وہاں پہنچ جائیں‘ جہاں فرشتوں کے پَر جلتے ہیں۔ پھر اس کے اس دنیا کی طرف واپس آنے کا کیا سوال؟ لیکن محمدؐ جس دین کے علم بردار ہیں‘ یہ وہ دین ہے جس کا نبیؐ اُس بلندی پر پہنچ کر اِس دنیاے رنگ و بو میں لوٹتا ہے‘ تاریخ کے منجدھار میں قدم رکھتا ہے‘ اور اس نور سے جو اسے حاصل ہوا ہے‘ تنگ و تاریک دنیا کو منور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
وہ صرف اپنے اس سینے کو گنجینہ انوار نہیں بناتا‘ بلکہ پورے عالم کو روشن کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ایک نیا انسان بنانے‘ ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنے‘ ایک نئی ریاست قائم کرنے اور تاریخ کو ایک نئے دور سے ہم کنار کرنے میں مصروف جہاد ہو جاتا ہے۔
قرآن اسی دعوت انقلاب کو پیش کرتا ہے۔ وہ زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد ایک انقلاب برپا کرنا ہے۔ دلوں کی دنیا میں بھی انقلاب --- اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب--- وہ صالح انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہو۔ برائیاں سرنگوں ہو جائیں اور نیکیوں کو غلبہ حاصل ہو۔ خدا کے منکر اور اس سے غافل‘ قیادت کی مسند سے ہٹا دیے جائیں اور اس کے مطیع اور فرماں بردار بندے زمانے کی باگ ڈور سنبھال لیں۔
یہ ہے نزول قرآن کا مقصد اور یہی ہے انسانیت کی نجات کا راستہ۔
ہم امت مسلمہ کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ اس امت کا ہر فرد اس موقع پر اور بھی سنجیدگی کے ساتھ قرآن کی اصل حقیقت کو سمجھے۔اس کے مقصد کا حقیقی شعور پیدا کرے۔ اس کے پیغام پر کان دھرے اور اس کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔
قرآن نے انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس نے قبیلے‘ نسل‘ رنگ‘ خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظام اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے‘ یعنی عقیدہ اور مسلک۔ اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی امت بنائی اور اس امت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کر دیا۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
قرآن نے اس امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے‘ اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیر و صلاح کا علم بردار بھی بنایا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔ جس نے عرب کے اونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنا دیا۔ جس نے ریگستان کے بدوئوں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنا دیا۔ جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اٹھائے‘ جو انسانیت کے رہبر بنے۔ جنھوں نے وہ نظام قائم کیا‘ جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کر ڈالا۔
قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی اصلیت بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی‘ اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو‘ بشرطیکہ وہ اس کا حق ادا کر سکیں ‘ انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بنا سکتا ہے۔
خوب کہا امام احمد بن حنبلؒ نے:
لا یصلح اخر ھذہ الامہ الا بما صلح اولھا ‘ ’’اس امت کے بعد کے حصے کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوگی‘ جس سے اس کے اوّل حصے کی اصلاح ہوئی تھی‘‘۔
اور یہ چیز قرآن ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن نے پہلے بنجر اور شورزمین سے ایک نیا جہاں پیدا کر دیا تھا‘ تو آج وہ یہ کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہا؟
اگر وہ کل شفا و رحمت تھا‘ تو وہ آج یہ وظیفہ سرانجام دیتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا؟
اگر ہم کل اس کی وجہ سے طاقت ور تھے‘ تو آج اس کے باوجود ہم کمزور کیوں ہیں؟
اگر کل اس کے ذریعے ہم دنیا پر غالب تھے‘ تو آج اس کے ہوتے ہوئے ہم مغلوب کیوں ہیں؟
اگر غور کیا جائے تو اس کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں--- ایک‘ یہ کہ ہم نے عملاً اس کتاب ہدایت کو
اپنا حقیقی رہنما باقی نہ رکھا ہو۔ اس سے ہمارا تعلق‘ غفلت و سرد مہری و بے التفاتی اور بے توجہی کا ہو گیا ہو۔ دوسرے‘ یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا احترام اور تقدیس کر رہے ہوں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح راستہ اور صحیح طریقہ اختیار نہ کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں
صحیح ہیں۔
برف کی طرح پگھلتی اور ہر آن قطرہ قطرہ ختم ہوتی اس زندگی میں یہ بڑا ہی سنہری موقع ہے کہ ہم لمحہ بھر رک کر سوچیں کہ خدا کی اس کتاب سے ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اور ہمیں اس سے کیا معاملہ کرنا چاہیے تاکہ یہ اپنے اثرات دکھا سکے اور اس کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے کو نور سے بھر دے۔
(۱) اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اپنے اس سوئے ہوئے ایمان کو بیدار کیا جائے جو قرآن پر لایاتو ضرور گیا ہے‘ مگر اس کا یقین اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جذبے اور شوق سے عاری ہے۔ یاد رکھیے‘ کہ یہ ایمان اس کے‘ خدا کی کتاب ہونے پر‘ اس کے مکمل طور پر محفوظ ہونے پر‘ اس کے ہر لفظ کے حق و صداقت ہونے پر‘ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے درست اور مفید ہونے پر‘ اس کے بتائے ہوئے علاج کے اصل ضامن شفا ہونے پر ہے--- یہ ہے نقطہ آغاز:
اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلاَ تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ o وَمَآ اَنْتَ بِھٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِھِمْ ط اِنْ تُسْمِعُ اِلاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَھُمْ مُّسْلِمُوْنَo (النمل ۲۷:۸۰-۸۱) ’’بے شک تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہو۔ جب وہ اعتراض کرتے ہوئے منہ پھیر لیں‘ اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال سکتے ہو۔ تم تو صرف انھی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں‘‘۔
وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۲۱) ’’اور جو لوگ اس کا انکار کریں گے‘ وہ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔
(۲) پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دل قرآن حکیم کی عظمت اور بلندی‘ اس کے ایک اعلیٰ اور برتر کلام ہونے کے احساس سے معمور ہو۔یہ وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ شق ہو جاتے۔ اس پُرعظمت کلام کے مقابلے میں اپنی عاجزی کا احساس اور دل کا اس کے لیے موم ہو جانا بہت ضروری ہے:
وَاِذَا سَمِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ج (المائدہ ۵:۸۳) ’’جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے‘ تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو جاتی ہیں‘‘۔
یہ معرفت حق کا لازمی نتیجہ ہے۔
(۳) قرآن سے رہنمائی اور رہبری کے لیے رجوع کرنا‘ اس کے بارے میں غفلت کی روش کو ترک کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا۔ یہ دیکھنا کہ کس طرح وہ ہماری زندگی کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے۔ اس کتاب کو مضبوطی سے تھامنا اور ہر معاملے میں اس سے ہدایت حاصل کرنا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے اس کتاب کے اصل اسرار و رموز ہم پر منکشف ہو سکیں گے:
فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ ج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ ج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ o (الزخرف ۴۳: ۴۳-۴۴) ’’اے پیغمبر‘ جو کچھ تمھاری طرف وحی کیا گیا ہے‘ اس کو خوب مضبوط پکڑے رہو۔ یقین رکھو کہ تم سیدھے راستے پر ہو اور یہ (قرآن ) تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یقینا ایک نصیحت نامہ ہے اور آگے چل کر تم سب سے اس کی بابت بازپرس ہوگی۔
امام شاطبی ؒ نے بجا فرمایا ہے:
جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہمدم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا ۔ (الموافقات ‘ ج ۳‘ ص۳۴۶)
(۴) قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور اس طرح کیا جائے جو اس کا حق ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط (البقرہ ۲:۱۲۱) ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘ وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے‘‘۔
اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ قرآن کی تلاوت کے ظاہری آداب پورے کیے جائیں‘ یعنی اسے پاک حالت میں چھوا جائے‘ ادب سے مطالعہ کیا جائے‘ ترتیل سے پڑھا جائے اور خوش الحانی سے پڑھا جائے وغیرہ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے معنی کو سمجھا جائے اور ان پر غوروفکر کیا جائے۔ قرآن کے الفاظ پر سے یوں ہی نہ گزر جایا جائے‘ بلکہ اس کی گہرائیوں میں اترنے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ یہی قرآن کا مطالبہ ہے:
کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo (یونس ۱۰:۲۴) ’’غور کرنے والوں کے لیے ہم نے اس طرح آیات تفصیل سے بیان کی ہیں‘‘۔
لَقَدْ اَنْزَلْنَا ٓ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ o (الانبیا ۲۱:۱۰) ’’لوگو‘ ہم نے تمھاری طرف کتاب اتار دی ہے‘ جس میں تمھارا ذکر ہے‘ کیا تم غور نہیں کرتے!‘‘
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (ص ۳۸:۲۹) ’’اے پیغمبر‘ یہ قرآن برکت والی کتاب ہے‘ جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے‘ تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں‘ وہ اس سے نصیحت پکڑیں‘‘۔
یہی صحابہ کرام ؓ کا طریقہ تھا کہ وہ قرآن پاک کی آیات کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے تھے اور ان پر غوروفکر کرتے تھے۔
(۵) قرآن پر عمل کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے فکروعمل کو بدلا جائے۔ قرآن پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی ہو نہیں سکتا‘ کہ قرآن کے احکام کے مطابق اپنے کو بدلنے کے بجائے اپنی بداعمالیوں کے لیے جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کو (نعوذ باللہ) بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح یہ بھی قرآن کے حقوق کے منافی ہے کہ اس کے احکام کو تو پڑھا جائے‘ مگر ان پر عمل نہ کیا جائے۔ قرآن نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے‘ کہ اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تعمیر کیا جائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق عمل کی سعی کی جائے۔حضرت ابن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی شخص ہم میں سے دس آیتیں سیکھ لیتا تھا‘ تو اس سے زیادہ نہ پڑھتا تھا‘ جب تک ان کے معنی نہ سمجھ لیتا اور ان پر عمل نہ کرتا‘‘ (ابن کثیر‘ جلد اول‘ ص ۵)۔
پھر قرآن کوسمجھنے اور اس پر عمل کے سلسلے میں رہنما اور نمونہ اس مبارک ہستی ؐ کو ماننا‘ جس پر یہ کتاب نازل ہوئی:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النساء ۴:۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔
اس سلسلے میں رسول ؐاللہ کے اسوئہ حسنہ سے سرموانحراف بھی قرآن سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔
اور آخری چیز یہ ہے کہ قرآن جس دعوت کو لے کر آیا ہے‘ اسے پھیلانے‘ اور اس کے نظام کو قائم کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بہت سچ لکھا ہے کہ:
فہم قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا‘ جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے‘ جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے‘ کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصور مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میںاس کے سارے رموز حاصل کر لیے جائیں... یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علم برداران کفرو فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے‘ ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے‘ ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیان حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فرد واحد کی پکار سے کام شروع کر کے خلافت الٰہیہ کے قیام تک پورے ۳۰ سال میں یہ کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اس نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔
--- اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفر و دیں اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی منزل کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو‘ اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے‘ اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں‘ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ‘ حبشہ اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و احد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا۔ منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے اور سابقین اولین سے لے کر مولفتہ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’’سلوک‘‘ ہے‘ جس کو میں ’’سلوک قرآنی‘‘ کہتا ہوں۔اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے‘ قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں‘ لیکن یہ ممکن نہیں کہ قرآن اپنی روح کواس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔
--- پھر اس کلیے کے مطابق قرآن کے احکام‘ اس کی اخلاقی تعلیمات‘ اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین‘ آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک وہ ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے‘ جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ مقدمہ‘ ص ۳۳-۳۴)۔
یہ ہیں قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں اور اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا ہو تو پھر قرآن انفرادی زندگی کا نقشہ بھی بدل دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کی شکل بھی تبدیل کرا لیتا ہے۔ انفرادی زندگی اس کی برکتوں سے بھر جاتی ہے اور اجتماعی زندگی نیکی اور خوشی کی بہار سے شادکام ہوتی ہے۔
قرآن پر ایمان اسی وقت مفید اور معنی خیز ہو سکتا ہے‘ جب ہم قرآن کے پیغام کوسمجھیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے اور اس کی ہدایت کے ذریعے اپنے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کریں۔ آج عالم اسلام جن مسائل اور مصائب سے دوچار ہے‘ ان سے نکلنے‘ ترقی اور عزت کی راہ پر پیش قدمی کرنے کا راستہ صرف یہی ہے اور صادق برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تلقین کی تھی:
رسولؐ اللہ: خبردار عنقریب ایک بڑا فتنہ سر اٹھائے گا۔
حضرت علیؓ: اس سے نجات کیا چیز دلائے گی‘ یارسول ؐاللہ!
رسول ؐ اللہ: اللہ کی کتاب
__ اس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ہیں
__ تم سے بعد ہونے والی باتوں کی خبر ہے
__ اور تمھارے آپس کے معاملات کا فیصلہ ہے
__ اور یہ ایک دو ٹوک بات ہے‘ کوئی ہنسی دل لگی کی بات نہیں
__ جو سرکش اسے چھوڑے گا‘ اللہ اس کی کمر کی ہڈی توڑ ڈالے گا
__ اور جو کوئی اسے چھوڑ کر کسی اور بات کو اپنی ہدایت کا ذریعہ بنائے گا‘ اللہ اسے گم راہ کر دے گا
__ خدا کی مضبوط رسی یہی ہے
__ ‘یہی حکمتوں سے بھری ہوئی یاد دہانی ہے
__ یہی بالکل سیدھی راہ ہے
__ اس کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں کرتیں
__ اور نہ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں
__ اہل علم کا دل اس سے کبھی نہیں بھرتا
__ اسے کتنا ہی پڑھو طبیعت سیر نہیں ہوتی
__ اس کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں
__ جس نے اس کی سند پر کہا‘ سچ کہا
__ جس نے اس پر عمل کیا‘ اجر پائے گا
__ جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا‘ اس نے انصاف کیا
__ جس نے اس کی دعوت دی‘ اس نے سیدھی راہ کی دعوت دی۔
یہی وہ سیدھی راہ ہے جس کی طرف قرآن ہم سب کو دعوت دے رہا ہے!
(کتابچہ دستیاب ہے‘ ۳۵۰ روپے سیکڑہ‘ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)
مسئلہ کشمیر کسی زمینی تنازع (land dispute)کا نام نہیں اور نہ یہ دو ملکوں کے درمیان جوع الارض کی کسی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ یہ سوا کروڑ انسانوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جن کی ریاست پر ایک استعماری ملک نے محض طاقت کے بل پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کر کے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل کو سیبوتاج (sabotage) کیا اور صرف قوت کے ذریعے آج بھی ان پر قابض ہے۔ یہ جارح قوت خود اپنے وعدوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوںاور کشمیری عوام کی بے مثال جدوجہد آزادی اور قربانیوں کو یکسرنظرانداز کر کے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے فسطائی اور سامراجی فلسفے کی بالادستی قائم کرنے پر مصر ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی بزدلانہ اور مجرمانہ روش پر قائم ہیں اور علاقے میں اقوام متحدہ کے مبصروں کی موجودگی اور مسئلے کے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود رہنے کے باوجود پچاس سال سے اس مسئلے کے حل کے لیے عملی کوششوں سے دست کش ہیں۔جناب کوفی عنان کے حالیہ دورہ پاک و ہند (مارچ ۲۰۰۱ء) کے بیانات نے ان کی بے بسی ہی نہیں‘ بے حسی اور بے حمیتی کو بھی طشت ازبام کر دیا ہے۔ انھیں اقوام متحدہ کی قراردادیں قصۂ پارینہ معلوم ہوتی ہیں اور اس عالمی تنظیم کے اپنے چارٹر کے تحت قیام امن اور تصفیہ طلب تنازعات کی دفعات سے بھی کوئی غرض معلوم نہیں ہوتی۔ اب لے دے کے اعلانِ لاہور اور دو طرفہ مذاکرات کے وعظ اور اپیلوں کے سوا ان کی جھولی میں کچھ نہیں۔ اور ان کا بھارت کی طرف سے وہی ایک جواب ہے کہ فضا سازگار ہو۔
بھارت کی اصل دل چسپی مسئلہ کشمیر کے حل سے نہیں صرف اس دبائو سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہے جو گیارہ سالہ تحریک جہاد نے اس پر ڈالا ہے اور جس کے نتیجے میں بھارت کی فوج اور ایک حد تک سوچنے سمجھنے والے سیاسی عناصر کسی راہِ نجات کی تلاش میں ہیں۔ بھارتی قیادت پوری عیاری کے ساتھ اصل اسباب کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ’’جنگ بندی‘‘ اور ’’سرحدی دہشت گردی‘‘ کی روک تھام کے لیے راہ پیدا کر رہی ہے اور امریکہ‘ مغربی سیاست کار‘ اور ایک حد تک کوفی عنان صاحب بھی اسی آواز میں آواز ملاتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ سب نہ نیا ہے اور نہ غیر متوقع‘ البتہ سب سے تشویش ناک پہلو پاکستان کی قیادت کے متضاد بیانات اور انگریزی صحافت کے کچھ قلم کاروں کی خلافِ جہاد مہم ہے جس کا بروقت نوٹس لینا اور انحراف اور پسپائی کے ہر امکان کا بروقت سدّباب ملت اسلامیہ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔
امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل اور ان کے گماشتوں نے ایک عرصے سے جہاد کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلا رکھی ہے اور اسے دہشت گردی (terrorism) اور تشدد (violence)کے ہم معنی قرار دیا جا رہا ہے۔ ستم ہے کہ خود پاکستان کی انگریزی صحافت میں ’مجاہد‘ کو اب ’جہادی‘ اور ’دہشت گرد‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور دفاع پر اخراجات کو غربت اور پس ماندگی کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیرداخلہ بھی لنگوٹ کس کر اس جنگ میں کود پڑے ہیں اور قانون سازی سے لے کر تعزیری اقدامات تک کی دھمکیاں قسط وار دے رہے ہیں۔ کبھی دینی مدارس پر پابندیوں کی باتیں کی جا رہی ہیں‘ کبھی ان کو دہشت گردی کے مراکز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاد کی تائید و نصرت کے لیے چندہ دینے والوں کو ڈرایا جا رہا ہے اور بلاتحقیق ایک سے ایک شرم ناک الزام ان لوگوں پر لگایا جا رہا ہے جو جہاد کشمیر کی پشتی بانی کر رہے ہیں۔ادھر واجپائی صاحب سیاسی آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف جنگ بندی میں تیسری توسیع کرتے ہیں تو دوسری طرف حریت کانفرنس کے وفد کو پاسپورٹ تک جاری کرنے سے انکار کرتے ہیں‘اور سید علی گیلانی جیسے محترم قائد پر قاتلانہ حملے کیے جا تے ہیں۔ کبھی ’’بات چیت‘‘ شروع ہونے کی نوید دیتے ہیں اور کبھی صاف مکر جاتے ہیں کہ فوجی قیادت سے مذاکرات کا کیا سوال (جیسے برما میں تو جمہوری حکومت ہے جس کے دورے بھی کیے جا رہے ہیں اور جس سے معاہدات کا بازار بھی گرم ہے!)۔ وہ اور ان کے وزیر خارجہ برابر ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ روکنے کا واویلا کر رہے ہیں جیسے جہادی تحریک کا آغاز تو ۱۳ اکتوبر کے بعد ہوا ہو اور اس سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان جو بھی بات چیت اور آمدورفت بشمول لاہور یاترا اور فرینڈشپ بس کا سلسلہ چلا تھا وہ سب تو کسی ’’سرحدی امن‘‘ کے آغوش میں ہو رہا تھا!)
اس پس منظر میں امریکی سیاسی اور فوجی قیادتوں کے دورے اور خود سیکرٹری جنرل کی پاکستان اور بھارت میں تشریف آوری اور ٹریک ٹو کے نام پر بھارتی اور پاکستانی نام نہاد فاختائوں کی پروازیں اور دبے اور کھلے الفاظ میں کشمیر کے مسئلے کے جلد حل ہو جانے کی ہوائیاں (kite-flying) ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کا پتا دیتی ہیں۔ پہلے جناب اصغر خان نے فرمایا کہ ’’چند ہفتے میں مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا‘‘ (جنگ‘ ۳مارچ ۲۰۰۱ء)۔ کئی انگریزی کالم نگاروں نے ان کی لے سے لے ملائی اور اب خود جنرل مشرف صاحب نے وسط مارچ ۲۰۰۱ء میں لاہور میں مدیران جرائد کے ظہرانے سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا کہ ’’مسئلے کے حل کا وقت اب بہت قریب ہے‘‘۔ معاف کیجیے‘ اطلاع ہے کہ اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کا اعزاز حاصل کرنے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تصور کرتے ہیں۔ (خدا نہ کرے کہ یاسرعرفات کی طرح کہیں نوبل انعام کی تمنا بھی کروٹیں لے رہی ہو۔)
اصغر خان ہوں یا جنرل مشرف‘ واجپائی ہوں یا کوفی عنان‘ سابق فوجی ہوں یا سفارت کار‘ سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی قوم کا ایک اصولی اور تاریخی موقف ہے جس سے ہٹ کر کسی فرد کو اس قوم کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ کسی کو یہ حق اور مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلمانان جموں و کشمیر‘ قائداعظم ؒ سے لے کر آج تک جس موقف پر قائم ہیں اور جس کے لیے انھوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور تنگی اور غربت کے باوجود ایک عظیم الشان فوج کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں اور ملک کو ایک نیوکلیر پاور بنایا ہے وہ اس بارے میں کسی انحراف یا پسپائی یا سمجھوتے کا تصور بھی کرے۔ یہ قوم غریب ہے اور بٹی ہوئی بھی‘ لیکن جہاں تک کشمیر کے مسئلے کا تعلق ہے یہ اس کے لیے ایمان و اعتقاد اور زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ زمانے اور وقت کی قید کا بھی پابند نہیں۔ اس جدوجہد کے بارآور ہونے میں جتنی مدت بھی لگے لیکن مسلمانان پاکستان اور مسلمانان جموں و کشمیر اس علاقے کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے اپنے حق خود ارادیت سے کم کسی بات کو کبھی قبول نہیں کر سکتے۔
یہ کسی خاص جماعت‘ گروہ یا طبقے کا مسئلہ نہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں قوم اور فوج کے درمیان بھی مکمل ہم آہنگی ہے۔ اعلانِ لاہور کے موقع پر کشمیر کے بارے میں حساسیت کے اظہار کے لیے جس طرح فوج نے سیاسی قیادت کو مجبور کیا اور کارگل کے معاملے میں جن جذبات کا اظہار فوج اور پوری قوم نے کیا وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکہ کی خوشنودی اور بھارت کی دوستی کے مشتاق چند سیاسی طالع آزمائوں کے سوا کوئی پاکستانی اس بارے میں کسی سمجھوتے کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ماضی میں بھی ‘جس کسی نے پاکستانی قوم کے اصولی موقف سے انحراف کی کوشش کی ہے اس کا حشر عبرت ناک ہوا ہے اور مستقبل بھی ان شاء اللہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ خود پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ میں یہ بات واضح طور پر مرقوم ہے کہ استصواب ہی کے ذریعے اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اور وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی پاکستان سے ان کا رشتہ اور انتظام و انصرام کا دروبست قائم ہونا ہے۔ اس موقف میں کوئی تبدیلی یا اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں کیوں کہ یہ حق و انصاف پر مبنی اور عالمی قانون اور عہدوپیمان کے مطابق ہے۔ محض غاصبانہ قبضہ‘ خواہ وہ کتناہی طویل کیوں نہ ہو‘ اہل جموں و کشمیر کے اس استحقاق کو متاثرنہیں کر سکتا اور پاکستان کے اس موقف کو کمزور یا غیر متعلق نہیں بنا سکتا۔
پاکستان سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے دلائل اور اس کی تاریخی بنیادیں بھی بڑی محکم ہیں۔ جغرافیائی حیثیت سے دونوں کا ملحق ہونا اور سات سو سال کی مشترک سرحد ہی نہیں‘ سارا فطری اور تہذیبی نظام مشترک ہے۔ دریائوں کے رخ اور سڑکوں کے تسلسل‘ رنگ و نسل کی یکسانی‘ طریق بود و باش کی وحدت‘ دین و ثقافت‘ رسوم و رواج‘ تہذیبی روایات‘ تاریخی جدوجہد‘ سیاسی ہم آہنگی‘ سب نے کشمیر اور پاکستان کو ایک ناقابل تقسیم وحدت بنائے رکھا ہے اور ہمیشہ رکھیں گے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی شانہ بشانہ شریک تھے اور اصول تقسیم کی رو سے ۱۷ جولائی ۱۹۴۷ء میں کشمیر کی اسمبلی کے منتخب ارکان کی اکثریت نے الحاق پاکستان کا اعلان تک کر دیا تھا اور پونچھ اور شمالی علاقہ جات کے مسلمانوںنے باقاعدہ جنگ آزادی لڑ کر اپنے کو ڈوگرہ راج سے آزاد اور پاکستان سے وابستہ کیا تھا۔ لیکن ہم صرف ان حقائق کی بنیاد پر بات نہیں کر رہے بلکہ اس اصول کو بنیاد بنا رہے ہیں جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے‘ جس کی بنیاد پر خود امریکہ کے لوگوں نے برطانیہ کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی تھی اور مسلح جنگ کے ذریعے اپنے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے حق خود ارادی کے اصول کا اعلان فلاڈلفیا کے اعلامیے کی شکل میں کیا تھا۔ اس پر ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی بنیاد پڑی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن نیپہلی جنگ کے بعد ساری دنیا کی قوموں کے لیے اس کا اعلان کیا تھا۔ اسی اصول پر برعظیم کی تقسیم واقع ہوئی اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔
کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے سواکروڑ انسانوں کی قسمت سے کھیلے۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں بھی خود یا کسی بیرونی دبائو سے ان کے مستقبل کو طے نہیں کر سکتیں۔ ان کی اور عالمی ادارے کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ عالمی انتظام میں غیر جانب دارانہ استصواب کے ذریعے ان کو حق خود ارادیت کے استعمال کا موقع فراہم کر دیں۔ اسی حق کی خاطر وہاں کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب ان کے لیے سیاسی اور پرامن جدوجہد کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تو اسلام اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے اسی حق کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مسلح جہاد کا آغاز کیا ۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس نے آج بھارت کو اور عالمی رائے عامہ کو اسے ایک مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے۔ محض امن‘ غربت سے نجات‘ ایٹمی جنگ کے خطرات سے بچائو اور عالمی کمیونٹی کی خواہشات کے نام پر کسی کنٹرول لائن کو (جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں) مستقل سرحدمیں بدلنے یا تقسیم ریاست کے کسی منصوبے کو جموں و کشمیر کے عوام پر مسلط کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں‘ اسے مزید بگاڑنے اور دائمی فساد کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہوگا۔ جہادی قوتوں کو خاموش یا کمزور کرنے کی ہر کوشش خدا اور خلق دونوں سے غداری کے مترادف ہے۔
کوئی مذاکرات اس وقت تک بامعنی اور نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے جب تک :
۱- بھارت صاف الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم نہ کرے کہ مسئلہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے وعدوں کے مطابق کریںگے۔
۲- مذاکرات کا اصل مقصد ان کی رائے کو معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوںپر آج کے حالات کے مطابق عمل درآمد اور اس کے لیے مناسب انتظام اور اقدامات ہوگا۔
۳- استصواب کے لیے ایک ہی قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی فریم ورک ہے اور وہ اقوام متحدہ کی ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء‘ ۵ جنوری ۱۹۵۱ء اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء کی قراردادیں ہیں۔ البتہ پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوامی نمایندوں کی ذمہ داری ہے کہ سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ایک متفقہ لائحہ عمل حق خود ارادیت کے استعمال کے لیے طے کریں اور جو فیصلہ بھی وہاں کے عوام کریں اسے کھلے دل سے قبول کریں۔
پاکستان کی کسی قیادت‘ اور کسی عالمی راہنما کو ان تاریخی حقائق‘ اور حق و انصاف پر مبنی اس موقف سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرنے اور جموں وکشمیر کے عوام کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ جس نے بھی اس کے برعکس کوئی راستہ اختیار کیا یا کرے گا اسے بالآخر منہ کی کھانا پڑے گی اور وہ حالات کو سنوارنے اور سنبھالنے کا نہیں مزید بگاڑنے کا باعث ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے جو کسی کی خواہش یاسازش سے ٹالا نہیں جا سکتا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے حالیہ دورے میں اسلام آباد اور دہلی میں کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر جناب چیف ایگزیکٹو اور وزارت خارجہ کی خاموشی ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ان کے موقف کو تسلیم کر لینے کے بعد اقوام متحدہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور بین الاقوامی قانون‘ معاہدے‘ سلامتی کونسل اور اس کے اداروں کی قراردادیں سب بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ہم ان کے ارشادات عالیہ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اور پھر کشمیر کی جدوجہد کے لیے اس کے منطقی تقاضوں کی طرف اشارہ کریں گے۔
کوفی عنان صاحب نے فرمایا ہے کہ کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر کافی عرصہ گزر گیا ہے اور وہ چارٹر کے باب ہفتم کے تحت نہیں جب کہ مشرقی تیمور اور عراق کے بارے میں قراردادیں قابل تنفیذ تھیں۔ کشمیر کے بارے میں اگر بھارت اور پاکستان دونوں درخواست کریں تب ہی اقوام متحدہ کچھ کر سکتی ہے ورنہ وہ صرف دو طرفہ مذاکرات کی اپیل ہی کر سکتی ہے جس کے لیے انھوں نے کمال مہربانی سے ایک بار پھر اعلانِ لاہور کا ذکر فرمایا ہے۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون‘ جنیوا کنونشن‘ قوموں کے درمیان معاہدات اور
بین الاقوامی یقین دہانیاں کسی زمانی تحدید (time limitation) سے پابند ہیں؟ ہمارے علم میں ایسا کوئی بین الاقوامی قانون‘ اصول یا روایت نہیں۔ یہ ممکن بھی نہیں ۔ اس طرح توقانون محض ایک کھیل بن جائے گا اور معاہدات بے معنی اور بے وقعت ہو کر رہ جائیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مکاوو (Macao)کے علاقے پر پرتگالیوں نے ۱۵۵۷ء میں قبضہ کیا تھا اور وہ ان کے تسلط میں ساڑھے چار سو سال تک رہا۔ لیکن بالآخر ۱۹۹۹ء میں چین نے اسے حاصل کر لیا اور محض ایک لمبی مدت تک قبضہ حقائق کو بدلنے کے لیے وجہ جواز نہ بن سکا۔ کیا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد منظور ہونے والی قرارداد ۲۴۲ محض وقت گزر جانے سے ازکار رفتہ ہوگئی؟ ۱۷۱۳ء میں یوٹرخت کا معاہدہ واقع ہوا جس کے تحت جبرالٹر کی حاکمیت اسپین سے برطانیہ کو منتقل ہوئی۔ اسپین کے دعووں کے باوجود کیا محض وقت کے گزرنے سے معاہدہ کالعدم ہو گیا؟ ۱۸۹۸ء میں ہانگ کانگ کا علاقہ برطانیہ نے چین سے حاصل کیا تھا لیکن ۹۹ سال گزرنے پر برطانیہ کو معاہدہ کو پورا کرنا پڑا۔ تائی وان کا معامدہ بھی اسی طرح وقت گزرنے کے باوجود ایک زندہ مسئلہ ہے۔ مشرقی تیمور ہی کو لے لیجیے جس کا ذکر کوفی عنان صاحب نے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد تو ۱۹۷۵ء کی ہے لیکن عمل ۲۵ سال کے بعد ۲۰۰۰ء میں ہوا ہے۔ اگر ۲۵ سال میں یہ قرارداد غیر موثر نہیں ہوئی تو کشمیر کی قراردادیں کیوں غیر متعلقہ ہو گئیں۔
پھر کشمیر کی قرارداد کا معاملہ محض ایک قرارداد کا نہیں‘ ایک اصول کا ہے یعنی حق خود ارادیت۔ یہ
اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے۔ دفعہ ۱‘ اقوام متحدہ کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ اس کی شق ۲ میں صاف الفاظ میں اس مستقل اصول کو بیان کیا گیا ہے یعنی:
لوگوں کے حق خود ارادی اور مساوی حقوق کے حصول کے احترام میں۔
اسی طرح دفعہ ۲ (۴) تمام رکن ممالک کو پابند کرتی ہے کہ:
تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی ریاست کی سیاسی آزادی یا ملکی سرحدوں کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے احتراز کریں گے یا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کریں گے جو اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف ہو۔
واضح رہے کہ حق خود ارادیت اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک ہے۔
کشمیر کی قرارداد کا تعلق حق خود ارادیت سے ہے جس پر وقت گزرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۴ء کی دو تاریخی قراردادوں میں بین الاقوامی قانون کو واضح کیا گیا ہے ۔اسے اقوام متحدہ کے تمام ممالک نے بشمول امریکہ‘ بھارت اور پاکستان تسلیم کیا ہے۔ ۱۹۷۰ء کا اعلامیہ: دوستانہ تعلقات اور تعاون کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ ہے اور ۱۹۷۴ء کے اعلامیہ کا عنوان: جارحیت کی تعریف پر قرارداد ہے۔ یہ دونوں قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے اعلامیے کی مزید اہمیت ہے کہ اسے اقوام متحدہ کے ۲۵ سال پورے ہونے پر جس جنرل اسمبلی نے اس کا چارٹر قبول کیا تھا اسی نے اسے منظور کیا ہے۔
ان قراردادوں میں دو بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت ہے اور اس عنوان سے ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ترمیم نہیں‘ ان کی توضیح کی جا رہی ہے۔ ان اصولوں میں حق خود ارادیت اور طاقت کے استعمال کے اصول سرفہرست ہیں۔ اس میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ: طاقت کے استعمال کے نتیجے میں جو علاقہ حاصل ہوا ہو‘ اسے جائزتسلیم نہیں کیا جائے گا۔ نیز یہ کہ: نہ جارحیت کے نتیجے میں ملنے والے کسی خصوصی فائدے کو قانونی تسلیم کیا جائے گا۔
ان اعلانات کو اقوام متحدہ ہی کے اجلاس میں آسٹریلیا کے نمایندے نے چارٹر کی دفعہ ۱۳ کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کا حصہ قرار دیا تھا: بین الاقوامی قانون کی تدوین اور مرحلہ وار ارتقا میں ایک حصہ۔ (ملاحظہ ہو‘ نوام چومسکی کی کتاب Power and Prospects ۱۹۹۶ء‘ ص ۲۰۷)۔
بین الاقوامی قانون کی اس پوزیشن کی روشنی میں سلامتی کونسل کی قرارداد مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء پر نگاہ ڈال لیجیے جس میں مقبوضہ کشمیر کی اس نام نہاد دستور ساز اسمبلی کو غیر موثر قرار دیا گیا ہے جس نے بھارت سے الحاق کی توثیق کی تھی اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسمبلی کی قرارداد اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اور اس کے انتظام میں استصواب کا بدل نہیں اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
اور اگر اس بارے میں کسی کوکوئی شبہ ہو تو عالمی ماہرین قانون کے کمیشن کی اپریل ۱۹۹۴ء کی رپورٹ کا مطالعہ کرے جن میں کشمیریوں کے اس حق کا ان صاف الفاظ میں اعتراف کیا گیا ہے اور اسے وقت کی گردش سے آزاد حق مانا گیا ہے:
کشمیریوں کا حق اُس حق کی بنا پر ہے جو کسی علاقے کے غیر ملکی غلبے سے آزاد ہوتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو اپنے لیے یہ انتخاب کرنے کا ہوتا ہے کہ بعد میں قائم ہونے والی (successor) کس ریاست میں شامل ہوں۔یہ حق ایک قائم شدہ آزاد ریاست سے علیحدگی کے قابلِ بحث حق سے بالکل ممتاز اور علیحدہ ہے اور یہ انڈیا سے اس کے علاقوں میں سے کسی کی علیحدگی کے لیے مثال نہیں بنتا۔
تقسیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام کو جس حق خود ارادی کا استحقاق حاصل ہوا تھا‘ وہ ابھی تک استعمال نہیں ہوا ہے اور نہ ختم ہوا ہے اور اس لیے آج بھی قابل استعمال ہے۔
سیکرٹری جنرل نے یہ بھی صحیح نہیں کہا کہ اگر کوئی قرارداد چارٹر کے باب ہفتم کے تحت منظور نہ ہوئی ہو تو گویا اس کی تنفیذ ان کی ذمہ داری نہیں۔ اگر وہ اپنے ہی چارٹر کا بغور مطالعہ فرمائیں تو اس میں ان کو صاف مل جائے گا کہ دفعہ ۹۹ کے تحت یہ خود ان کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو جہاں سے بھی خطرہ ہو فی الفور اس کو سلامتی کونسل کے سامنے لائیں:
سیکرٹری جنرل کسی بھی ایسے معاملے کی طرف سلامتی کونسل کو توجہ دلائے گا جو اس کی رائے میں عالمی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں خطرہ بن سکتا ہو۔
اس طرح یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو درپیش ہرخطرے کا خود نوٹس لے اور تمام ارکان کی طرف سے عملی اقدام کرے۔ دفعہ ۲۴ کے مطابق:
اقوام متحدہ کی جانب سے فوری اور موثر اقدام یقینی بنانے کے لیے اس کے ممبران عالمی
امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اوّلین ذمہ داری سلامتی کونسل پر ڈالتے ہیں۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اس ذمہ داری کے تحت اپنے فرائض کی ادایگی کا عمل سلامتی کونسل وہ ان کی جانب سے کرتی ہے۔
اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ہر ملک کا اتفاق کرنا ضروری ہے یا اس کا اطلاق صرف باب ہفتم کی قراردادوں پر ہے۔ اس شرط کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی جارح کے خلاف اقدام نہ ہو سکے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف اقدام کو کیوں قبول کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ دفعہ ۲۵ میں کہا گیا ہے:
اقوام متحدہ کے ممبران موجودہ چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کے فیصلوں کو قبول کرنے اور بجا لانے کو تسلیم کرتے ہیں۔
پھر دفعہ ۳۳ میں ہر تنازع کے تمام فریقوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خود‘ یا اقوام متحدہ کے ذریعے‘ تمام تنازعات کے پرامن تصفیے کے لیے اقدام کریں گے۔ دفعہ ۳۶ اور ۳۷ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ مناسب اقدامات اور طریقہ کار تجویز کرے‘ خصوصیت سے ان معاملات میں جہاں دفعہ ۳۳ کے تحت کارروائی نہ ہو پا رہی ہو۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر ان دفعات پر عمل نہ ہو رہا ہو تو یہ سلامتی کونسل کی
ذمہ داری ہے کہ باب ہفتم کی دفعات ۵۱-۳۹ کے تحت کارروائی کا اہتمام کرے۔
تعجب ہے کہ سیکرٹری جنرل ان سب دفعات کو تو بھول گئے اور صرف دونوں پارٹیوں کی آمادگی پر سارا زور تقریر صرف فرما رہے ہیں۔ ان کو یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اعلانِ لاہور اور خود شملہ معاہدہ دو ملکوںکے درمیان معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں بین الاقوامی معاہدات کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے بارے میں ان کے چارٹر کی دفعہ ۱۰۳ یہ کہتی ہے:
اقوام متحدہ کے ممبران کے فرائض میں جو موجودہ چارٹر کے مطابق طے ہیں اور کسی دوسرے بین الاقوامی معاہدے کے تحت فرائض میں اگر کوئی تنازعہ ہو تو موجودہ چارٹر کے تحت متعین فرائض روبہ عمل آئیںگے۔
اس سب کی موجودگی میں سیکرٹری جنرل کا اپنی بے بسی کا اظہار صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوام متحدہ صرف طاقت ور ملکوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ ان کے مفادات کے لیے تو سب دفعات حرکت میں آجاتی ہیں خواہ معاملہ عراق کا ہو‘ یا مشرقی تیمور کا۔ اور اگر ان کا مفاد نہ ہو تو کمزور ملکوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں اوران کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو راستہ بھی انھیں نظر آئے خود اختیار کریں۔ چومسکی نے صحیح کہا ہے کہ یہی رویہ پورے عالمی نظام کے لیے خطرہ ہے:
ایسے لوگوں کی قسمت دائو پر لگی ہے جنھوں نے سخت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور اب بھی اٹھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عالمی نظام اور بین الاقوامی قانون کی بنیادیں بھی دائو پر لگی ہیں بشمول طاقت کے استعمال اور ناقابل تنسیخ حق خود ارادی کے یو این چارٹر کے اہم اصول کے‘جو تمام ریاستوں پر لازمی اور فرض ہے۔ (کتاب مذکور‘ ص ۲۰۴)
جب عالی طاقتوں اور خود اقوام متحدہ کا عملاً یہ حال ہو تو پھر کمزور ملکوں اور قوموں کے لیے کیا راستہ رہ جاتا ہے بجز اس کے کہ جو قوت بھی ان کو حاصل ہو--- سیاسی اور عسکری ---اسے اپنے حق کے دفاع اور اپنی آزادی کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ عقل‘ اخلاق اور بین الاقوامی قانون مظلوم کو ظلم کے خلاف جدوجہد اور مقبوضہ علاقوںاور لوگوں کو اپنی آزادی کے لیے قوت استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسے ان کا ایک جائز حق تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون طاقت کے ہر استعمال کو تشدد اور دہشت گردی قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ (just war) جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی‘ ایک معروف حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور چارٹر کے تحت اجتماعی طور پرقوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں‘ اقوام متحدہ نے ان کی تائید کی اور آزادی کے بعد انھیں آزاد مملکت تسلیم کیا۔ یعنی بین الاقوامی قانون نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کا ایک ماہر کرسٹوفر او کوئے (Christopher O. Quaye) اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کرتا ہے:
تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں کا ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مند قرار دیا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law فلاڈلفیا‘ ٹمپل یونی ورسٹی پریس‘ ۱۹۹۱ء‘ ص ۲۸۲)
یہی مصنف صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ:
دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ (ص ۱۷)
نیز یہ کہ:
اقوام متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ حق خود ارادی کی ہر جدوجہد قانونی اورجائز ہے۔ (ص ۲۶۱)
بین الاقوامی امور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہر استعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔
بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:
دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک آدمی کا دہشت گرد‘ دوسرے کا آزادی کا سپاہی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کر سکا ہے۔ (ص ۱۷۷)
لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حق خود ارادیت آج ایک مسلمہ حق ہے جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔
سیاسی حق خود ارادی لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے اعلان آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوق انسانی میں مضمر ہے۔
اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔(ص ۴۷۷-۴۷۸)
ہاورڈ یونی ورسٹی کے مشہور زمانہ سیموئل ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب The Clash of Civilizations and The Remaking of World Order (نیویارک‘ ۱۹۹۷ء) میں دہشت گردی کے خلاف سارے غم و غصے کے علی الرغم اعتراف کیا ہے(گویا ع نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں۔):
تاریخی طور پر دہشت گردی کمزوروں کا ہتھیار ہے یعنی ان لوگوں کا جو روایتی عسکری طاقت نہیں رکھتے۔ (ص ۱۸۷)
اور اس خطرے سے بھی متنبہ کیا ہے کہ
دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیار علیحدہ علیحدہ غیر مغربی کمزور قوموں کے ہتھیار ہیں۔ اگر‘ یا جب بھی‘
یہ ایک ہوئے‘غیر مغربی کمزور ملک طاقت ور ہو جائیں گے ۔ (ص ۱۸۸)
ہنٹنگٹن کی بات تو ایک طرح جملہ معترضہ تھی لیکن اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کا حق خود ارادیت ایک مسلمہ قانونی حق ہے اور اگر بھارت‘ اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس حق سے ان کو محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیںتو انھیں اپنی آزادی کے لیے ہر طرح کی جدوجہدکا ‘بشمول قابض دشمن کے خلاف قوت کے استعمال ‘ حق حاصل ہے اور اسے کسی طرح بھی دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جنرل پرویز مشرف نے کئی بار اس امر کا اعلان کیا کہ دہشت گردی اور کشمیر کا جہاد بالکل مختلف چیزیں ہیں‘ یہی حقیقت بھی ہے۔ لیکن اس وقت سرکاری ذمہ داریوں پر موجود چند افراد اور انگریزی صحافت سے متعلق متعدد قلم کار ذہنی انتشار پیدا کرنے اور جہاد کشمیر کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے موثر جواب اور استیصال کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں مزید تشویش ناک ہو جاتا ہے جب جہادی دبائو کے تحت بھارت کی قیادت اور فوج کوئی راستہ نکالنے کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہے اور بھارت کے چند اہم صحافی اور پالیسی سازی کو متاثر کرنے والی شخصیات کشمیر کی تحریک مزاحمت اور جہاد آزادی کو اس کے حقیقی تاریخی اور نظریاتی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کا اشارہ دے رہی ہیں۔
بھارت کے ایک چوٹی کے وکیل کے بالاگوپال (K.Balagopal) وہاں کے اہم مجلہ Economic and Political Weekly (۱۷ جون ۲۰۰۰ء) میں ’’دہشت گردی‘‘ کے مسئلے پر TADA (بھارت کا انسداد دہشت گردی کا قانون) پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ٹاڈا کے مقاصد کے لیے جسے دہشت گردی کہا جا تا ہے وہ سیاسی عسکریت ہے۔ (ص ۲۱۱۵)
وہ موجودہ سیاسی عسکریت اور دہشت گردی میں فرق کرتے ہیں اور سیاسی عسکریت کو دہشت گردی قرار دینے کو حقیقت سے فرار قرار دیتے ہیں۔
سیاسی اور اجتماعی عسکریت میں دہشت کا ایک عنصر‘ جو ضروری نہیں کہ کم ہو ‘ شامل ہے لیکن یہ اصل بات نہیں ہے۔ اصل چیز جو اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں ہے۔ (ص ۲۱۱۵)
بال گوپال سیاسی عسکریت کو مجرمانہ دہشت گردی سے ممیز کرتا ہے اوربھارتی قیادت کو متنبہ کرتا ہے کہ:
اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈ میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد‘ امکان ہے کہ اکثریت‘ دیانت داری سے یہ سمجھتی ہے کہ وہ انڈین نہیں ہیں اور انھیں مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو انڈین سمجھیں۔ یقینا یہ قانون کے لیے بہت ہی نامناسب ہے کہ وہ اس وسیع البنیاد عوامی احساس پر سزا دے خواہ وہ اپنا اظہار کسی بھی شکل میں کرے۔ اور اپنے لیے احترام کا مطالبہ بھی کرے‘ نسبتاً زیادہ پھیلی ہوئی سیاسی سرگرمی کے تحفظ کے لیے۔ (ص ۲۱۲۲)
موصوف کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ ٹاڈا جیسے قوانین جوظالمانہ‘ استبدادی اور کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابل قبول ہیں‘ (oppressive, draconian and unbecoming of a democratic polity) سیاسی عسکریت کا مداوا نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے۔
اس پس منظر میں اب یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ عسکریت کشمیر میں ظلم کی پیداوار ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف ان کو محض بندوق کی گولی کی قوت پر زیردست رکھنا ممکن نہیں۔ اکانومک اینڈ پولٹیکل کے ۳ مارچ ۲۰۰۱ء کے شمارے میں واجپائی صاحب کی نام نہاد جنگ بندی کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک مشہور صحافی گوتم ناولکھا (Gautam Navalakha) لکھتا ہے کہ:
یہ قابل ذکر ہے کہ عسکریت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا جو لوگوں کے ہتھیار اٹھانے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا اور ایسا جب ہوا تھا جب قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر ہر جمہوری راستے کو بند کر دیا گیا۔ اختلاف کو کچلا گیا۔ مطالبات مسترد کر دیے گئے۔ حکومت کی فوجی کارروائیاں کشمیری عوام کو مغلوب کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ فدائیوں کے حملے روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کچھ زیادہ نہیں کر سکتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں CRPF کے انسپکٹر جنرل نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے: ’’مجھے صاف کہنا چاہیے کہ خودکش حملے کا سرے سے کوئی جواب نہیں ہے۔ فوج کا کم سے کم ایک حلقہ اس بارے میں واضح ہے کہ فدائی حملے جاری رہیں گے` جنگ بندی ہو یا نہ ہو اورکوئی فوجی حل نہیں ہے۔ ۱۱ برسوں میں فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ دبائو کے تحت فوجیوں کا اپنے ہی ساتھیوں اور افسروں کا قتل کرنا خود اپنی کہانی کہہ رہے ہیں۔ جنوری میں ایسے دو واقعات ہوئے ہیں‘ ایک CRPFمیں‘ ایک BSF میں۔ اس کے نتیجے میں باہمی جھگڑے میں ۵ فوجی مارے گئے۔
یہ احساس اب تقویت پکڑ رہا ہے کہ عوام کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ موصوف لکھتے ہیں:
جو لوگ ظلم و جبر کے تحت زندگی گزار رہے ہوں‘ جن کا وجود شناختی کارڈ سے ثابت ہوتا ہو‘ جن کی پرائیویسی کو جب چاہے violateکیا جا سکتا ہو‘ جن کو احتجاج کے حق سے محروم کیا گیا ہو‘ ایسے لوگوں کے لیے آزادی اپنے ایک معنی رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے آزادی ان کی اور ان کی تہذیب کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی واحد راستہ ہوتا ہے جس سے وہ اپنی انسانی حیثیت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس عوامی کیفیت (mood) کی بہترین مثال حزب المجاہدین سے ملتی ہے۔یہ مکمل طور پر مقامی سب سے بڑے عسکری گروپ کی حیثیت سے عوامی سوچ کو نظرانداز نہیں کر سکتا ہے۔ عوام کی رضامندی نہ ہو تو عسکری اقدامات نہیں کیے جا سکتے۔ اسی بات نے ان کو مجبور کیا کہ وہ جہادیوں سے فاصلہ رکھیں اور اپنی تحریک کو آزادی کا نہ کہ مذہب کا تشخص دیں۔ وہ اس موقف پر قائم ہیں کہ اصل فیصلہ کن عامل جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔
ان آوازوںکے باوجود بھارت کے لیے یہ کڑوی گولی ہضم کرنا ابھی مشکل ہے لیکن اسے بالآخر استصواب اور حق خود ارادیت کی طرف آنا پڑے گا بشرطیکہ سیاسی اور جہادی دبائوجاری رہے اور پاکستان کی قیادت کسی بزدلی یا جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جموں و کشمیر کے مسلمان جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور آج بھی ایک ایک مجاہد کے جنازے میں ہزاروں افراد شرکت کر رہے ہیں۔ ان کی جرأت کا تو یہ حال ہے کہ سری نگر کے ہوائی اڈے پر شہید ہونے والے پاکستانی مجاہدین کے جنازے پر ۱۰ ہزار سے زیادہ افراد نے گولیوںکا مقابلہ کرتے ہوئے شرکت کی اور ان کو اپنا ہیرو قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے کچھ تجزیہ نگار اب یہ کہنے کی جرأت بھی کر رہے ہیں کہ ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ کا واویلا مبنی برکذب ہی نہیں حماقت ہے۔ نئی دہلی کے اخبار سنڈے پاینیر نے ’سرحد پار دہشت گردی‘ کے بارے میں کہا ہے کہ:
یہ جھوٹ ہے اور خطرناک حد تک سادہ بات ہے۔دہشت گردی عوامی بے اطمینانی سے پرورش پاتی ہے اور عوامی بے اطمینانی غیر ہمدرد انہ حکمرانی سے پھیلتی ہے۔ (۴ مارچ)
مزید اعتراف کیا گیا ہے کہ:
تنازعہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ بھارتی فوجیں عوام کو قتل کر سکتی ہیں لیکن جدوجہد آزادی کو قتل نہیں کر سکتیں۔ یہ معلوم کرنا بے حد آسان ہے کہ ہم کشمیر پر کب اور کیوں ہولناک غلطی کا شکار ہوئے۔ جو بات آسان نہیں ہے وہ واپس نکلنے کا راستہ معلوم کرنا ہے۔ جنگ بندی کوئی حل نہیں ہے۔ یہ مقصد کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے۔
جس مقام پر اس وقت بھارت کی قیادت اور دانش ور ہیں وہاں سے اگلا قدم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھیں جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کی بالادستی تسلیم کرنا ہوگی۔ پاکستان اور تحریک مزاحمت کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس نازک مرحلے کو صبروہمت اور جرأت و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنے اور تیز تر کرنے کے لیے استعمال کرے۔ ایک قدم کی لغزش بھی حالات کو متاثر کر سکتی ہے۔
یہاں اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں بھی بھارت کی حکمت عملی یہی تھی کہ ’’جنگ بندی‘‘ تسلیم کر لو مگر استصواب اور مسئلے کے حل کی بات موخر کر دو۔آج بھی وہ ایک بار پھر اسی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے ۔ جنگ بندی ہمارا مسئلہ نہیں‘ بھارت کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اندرونی اور بیرونی دبائونہ صرف جاری رہے بلکہ بھارت کے لیے اپنے قبضے کو باقی رکھنا عسکری‘ سیاسی اور معاشی ہر اعتبار سے ممکن نہ رہے۔ گوتم ناولکا نے بھارت کے طریق واردات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس پر پاکستان کی قیادت اور صحافت کے ان کرم فرمائوں کو غور کرنا چاہیے جو غیر مشروط مذاکرات کے لیے بے چینی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جہادی قوتوں کو کمزور کرنے یا ان کو بھی سیز فائر کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
ماضی کا ایک پیغام ہے۔ بھارتی حکومت نے کئی بار یہ مظاہرہ کیا ہے کہ یہ اسی وقت سنتی ہے جب لوگ ہتھیار اٹھا لیں۔ مسلح گروپوں کو سر پہ بٹھاتی ہے اور غیر متشدد تحریکوں کو حقیر گردانتی ہے۔ یہ خواہ مخواہ کی بات نہیں ہے کہ ۱۹۹۴ء میں JKLF کی یک طرفہ جنگ بندی کا نتیجہ مذاکرات نہیں بلکہ ان کے ۶۰۰ سے زیادہ ممبروں کی ہلاکت ہوا۔ اسی طرح اگرچہ حریت کانفرنس نے غیر متشدد جدوجہد کو اختیار کیا ہے‘ اسے پُرامن مہم چلانے یا احتجاجی مظاہرے کرنے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔
اس کے بالمقابل باغیوں کو تحریک پر حملہ کرنے اور نفرت کی بنیاد پرقائم شیوسینا ‘سنگ پری وار اور پانن کشمیر جیسوں کو کھلی آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے یہ توقع کرنا کہ جنگجو مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر غیر مسلح ہو جائیں‘ عبث ہے۔ توپیں بھی اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گی جب تک کوئی پرخلوص کوشش نظر نہیں آتی۔ گذشتہ پانچ عشروں سے آزادی کے لیے ناگا تحریک کے ساتھ جو برتائو کیا گیا ہے وہ سامنے ہے۔ زیرزمین ناگا تحریک کے ساتھ کئی بار جنگ بندی ہوئی جس کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر مذاکرات ہوئے (کئی بھارتی وزیراعظم زیرزمین ناگا لیڈروں سے مل چکے ہیں)۔ حکومت نے ہر موقع کو ان میں تفریق ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ ان کے ایک حصے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تصفیہ کا اعلان کیا اور کہا کہ حالات معمول پر آگئے ہیں اور مسئلہ حل ہو گیا لیکن ناگاعوام ہر بار پھر بغاوت کرتے نظر آئے۔ مسلح جدوجہد کو شکست نہ دی جا سکی بلکہ
بی ایس ایف خصوصاً فوج پھنس کر رہ گئی۔ بھارتی فوج کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو لیکن وہ پرعزم عوام کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ تلخ سبق بھارتی فوج نے ناگا زیرزمین سے اپنی جنگ میں سیکھا ہے۔ اب نہ صرف غیر مشروط مذاکرات ہو رہے ہیں بلکہ تین سال کی ٹال مٹول کے بعد حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ مطالبے کے مطابق جنگ بندی تمام ناگا علاقوںکے لیے ہے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ناگا تحریک کو اپنے اس موقف پر قائل کرلے گی کہ حل انڈین یونین کی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔ غیر مشروط مذاکرات میں یہ بات مضمر ہے کہ بھارتی حکومت کو بھی ناگا نقطۂ نظر سننے اور ماننے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اسی طرح حریت کانفرنس اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے بغیر امن کا عمل سطحی ہو کر رہ جاتا ہے۔
جموں و کشمیر میں ایک طرف ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ قانون کی حکمرانی بحال ہواور دوسری طرف ایسے اشارے ہوں جس سے بھارت اور پاکستان میں امن چاہنے والوں کو تقویت ملے۔ جموں و کشمیر پولیس اور باغیوں کو کارروائی سے روک دینا چاہیے۔ جرائم کی تفتیش ہونی چاہیے اور مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔
حریت کانفرنس کو پاکستان جانے دینا‘ غیر مشروط مذاکرات کے انعقاد کا اعلان‘ پاکستان سے خارجہ سیکرٹری کی سطح پر روابط کی پیش کش‘ کمزور ہوتے ہوئے امن کے عمل میں زندگی ڈالنے کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔ اس سے جمہوری امن کی طرف پیش رفت ہوگی۔ تینوں فریقوں میں مذاکرات سے کوئی حل سامنے آئے گا۔
بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی اور چال بازیوں‘ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی اور بے توجہی‘ تحریک مزاحمت کی قربانیوں اور مجاہدین کی کامیابیوں اور خود بھارت میں ایک نئی سوچ کے آثار سب جس حکمت عملی پر ثبات اور مزید اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں وہ اصولی موقف پر دل جمعی سے استقامت‘ جہاد آزادی سے مکمل یک جہتی‘ مجاہدین کی ممکنہ مدد و استعانت اور عالم اسلام اور دنیا کی تمام انصاف اور آزادی پسند قوتوں کو متحرک اور منظم کرنے کی جان دار مہم ہے۔
کشمیر کے مسلمانوں کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ بھارتی ظلم کے خلاف ہر ممکن ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر کارفرما ہو کر اہل جموں و کشمیر اپنے ایمان‘ اپنی آزادی اور اپنی ثقافت و تہذیب کی حفاظت کر سکتے ہیں اور ان کی اس جدوجہد میں مدد ہی کے ذریعے پاکستانی قوم اپنا فرض ادا کر سکتی اور خود اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکتی ہے۔ بلاشبہ جہاداور محض جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور خود قرآن نے حرب کی اصطلاح کو ترک کر کے جہاد کی اصطلاح کو اختیار کر کے ان کے فرق کی ہم کو تعلیم دی ہے۔ جہاد‘فی سبیل اللہ کی شرط سے مشروط ہے اور ان آداب اور احکام کے فریم ورک میں اسے انجام دیا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں۔ نیز جہاد ان ہی حالات میں فرض ہوتا ہے جو شریعت نے طے کر دیے ہیں اور ان تمام امور کی روشنی میں ‘فلسطین ہو یا جموں و کشمیر جو جدوجہد مسلمان کر رہے ہیں وہ جہاد ہے ۔ اس میں ان کی مدد و نصرت تمام مسلمانوں پر اور خصوصیت سے پاکستانی مسلمانوں پر لازم ہے۔
اگرمسلمان جہاد کے راستے کو اس کے آداب کے ساتھ اختیار کریں تو ہمیں یقین ہے کہ احیاے جہاد‘ احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور امت مسلمہ مظلومی اور محکومی سے نکل کر ایک بار پھر اپنے عالمی مشن کو اسی اعتماد اور انکسار کے ساتھ انجام دے سکے گی جس کی تعلیم ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور ایک بار پھر دنیا عدل و انصاف‘ نیکی اور تقویٰ‘ محبت و اخوت‘ علم و فضل اور مادی فراوانی اور اخلاقی فضائل کی بہار دیکھ سکے گی‘ اور اقبال کی یہ تمنا پوری ہو سکے گی:
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے
فرد ہو یامعاشرہ‘ دونوں کی سلامتی اور بلند پروازی کے لیے معاشی استحکام اور ترقی اتنی ہی ضروری بلکہ ناگزیر ہے جتنی اخلاقی‘ نظریاتی‘ سیاسی اور عسکری قوت۔ یہ نہ صرف عقل کا تقاضا اور تاریخ کا سبق ہے بلکہ خود اسلام کے جامع اور متوازن نظامِ حیات اور تصورِ کامیابی کا لازمی حصہ ہے۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کو بڑے لطیف پیرایے میں دعا کی زبان میں یہی تعلیم دی ہے:
اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ھُوَ عِصْمَۃُ اَمْرِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَاشِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ اٰخِرَتِیَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَادِیْ (مسلم عن ابی ہریرہؓ)
اے اللہ! میرے دین کو میرے لیے سنوار دے جو میرے معاملات کی اساس ہے‘ اور میری دنیا کو میرے لیے سنوار دے جس میں میری معاش ہے ‘ اور میری آخرت کو میرے لیے سنوار دے جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے۔
اور
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ o (البقرہ ۲:۲۰۱)
اے ہمارے رب‘ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی ‘ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔
اور کفر اور فقر کے منطقی رشتے کے بارے میں یہ کہہ کر متنبہ فرمایا:
فقر کفر کی طرف لے جاتا ہے اور دونوں سے پناہ مانگی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنَ الکُفْرِ وَالْفَقْر ۔
موجودہ معاشی بحران : آج پاکستان جس معاشی بحران کا شکار ہے اس نے آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے جینا دوبھر کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نوبت فقر وفاقہ اور محرومی و بے روزگاری کے بعد‘ خودکشی اور خود سوزی تک آگئی ہے بلکہ ملک کی آزادی‘ سلامتی‘ اور اس کے اساسی مفادات تک خطرے کی زد میں ہیں۔ قوم کا بال بال قرضوں میں بندھا ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور بیرونی ساہوکار ہر روز نت نئے مطالبات کے ذریعے ایک طرف ملک کی معیشت اور مالیات کی باگ ڈور پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت‘ کشمیر کے بارے میں ہمارے برحق موقف‘ افغانستان میں استعماری کھیل میں ہماری مجبورانہ شرکت‘ بھارت کی علاقائی قیادت کو تسلیم کرانے کے لیے دبائو‘ عالم گیریت (globalization)کے نام پر ہماری صنعتی صلاحیت کی تباہی اور عالمی سامراج کے لیے اپنی منڈیوں کو کھول دینے کے لیے دائرہ تنگ سے تنگ تر کرتے جا رہے ہیں۔ ذہنی مرعوبیت اور معیشت کی کمزوری ہمارے حملے کی زد میں ہونے (vulnerable)کا اصل سبب اور ذریعہ ہیں۔بیرونی قرضوں کی سختی اور نرمی (carrot and stick) کی پالیسی کو اس بیرونی ایجنڈے پر سجدہ ریز کرنے کے لیے پوری چالاکی اور بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بظاہر اس حکمت عملی پر ایک عرصے سے عمل ہو رہا ہے لیکن ۱۹۹۸ء کے ایٹمی تجربات اور کشمیر میں بھارت کی فوجی کارروائیوں کے بے اثر ہو جانے کے بعد اور پھر ملک پر اندرونی اور خصوصیت سے بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بار کی کمر توڑ کیفیت نے ملک و قوم کو ایک نہایت خطرناک صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ پھر حال یہ ہے کہ اس وقت ملک میں ایک فوجی حکومت قائم ہے جو بحث مباحثے اور تبادلہ خیال کے ہر اس فورم سے محروم ہے جس میں قومی اُمنگوں اور جذبات کی ترجمانی ہو سکے‘ جہاں احتساب کو موثر بنایا جا سکے اور اقتدار کے غلط اقدامات پر گرفت کی جا سکے۔ بیرونی طاقتیں وزن بیت کے لیے جمہوریت کی باتیں کرتی ہیں لیکن وہ دوسرے ممالک کو اپنے قابو میں کرنے اور ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے ایسے ہی نظام کو پسند کرتی ہیں جن میں ایک فردِ واحد سے من مانی کرا سکیں اور اس کے گرد گھیرا تنگ کر کے اپنے مقاصد حاصل کرلیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی عملاً فردِواحد کی سیاست ہی کا دور دورہ تھا۔ رہی فوجی حکومت‘ تو وہ تو نام ہی ایک فرد کے ہاتھوں میں اقتدار کے مرکوز ہونے کا ہے۔ پھر موجودہ حکومت پر جس طرح بیرونی اداروں سے متعلق ٹیکنوکریٹس اور بیرونی روابط رکھنے والی این جی اوز کے کارپرداز اثرانداز ہیں اس نے سارے حفاظتی بند توڑ دیے ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر قوم کے اجتماعی ضمیر نے بروقت گرفت نہ کی اور عوام اپنی آزادی‘ نظریاتی تشخص اور معاشی اور سیاسی خود مختاری (sovereignty)کے لیے بروقت سینہ سپر نہ ہوئے اور گومگو‘ مسلسل پسپائی اور بیرونی مطالبات پر سرنگوں ہونے کا یہی سلسلہ چلتا رہا تو قوم و ملک کا مستقل محکومی اور آزادی اور سلامتی سے محرومی کی ذلت سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔
آج قوم ایک نازک اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے اور کیفیت یہ ہے کہ ایک طرف قرضوں کی غلامی‘ سیاسی فیصلے کے حق سے دست برداری اور بالآخر ذلت اور محکومی کی دلدل ہے تو دوسری طرف جرأت‘ قربانی اور جہاد مسلسل کا راستہ جو کانٹوں سے بھرا ہے مگر یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ایمان‘ آزادی اور عزت کی ضمانت حاصل ہو سکے۔ اس کے لیے فراست ایمانی کے ساتھ جرأت رندانہ اور جان کی بازی لگا دینے کا جذبہ درکار ہے۔ یہ جاں گسل جدوجہد کا راستہ ہے جو معاشی میدان میں ایک ایسی انقلابی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جو لگے بندھے اور پٹے ہوئے راستے سے یکسر مختلف ہو‘ اور جس کے نتیجے میں قوم اپنی آزادی اور خود انحصاری کو دوبارہ حاصل کر سکے‘ ہم خود اپنی قسمت کے مالک اور اپنے فیصلوں کے مختار ہو سکیں اور پاکستان اس منزل اور مشن کو حاصل کرنے کے لیے پھر اس جادہ مستقیم پر گام زن ہو سکے جس کے لیے لاکھوں انسانوںنے اپنی جان‘ مال اور آبرو کی قربانی دے کر‘ انگریز اور ہندو دونوں کی چالوں کو ناکام بنا کر یہ آزاد اسلامی ملک قائم کیا تھا۔ آج پھر ایسے ہی جرأت مندانہ‘ انقلابی اور مبنی بر حکمت اقدام کی ضرورت ہے جو آزادی‘ نظریاتی تشخص اور باعزت زندگی کا ضامن ہو سکے۔ اس کے لیے قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا‘ اس کے جذبہ ایمانی کو متحرک کرنا ہوگا‘ ہر سطح پر قربانیوں کے لیے تیار ہونا ہوگا‘ باطل کی قوتوں سے سمجھوتے کے بجائے ان سے مقابلے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا‘ اور اس عزم اور داعیے کے لیے حالات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا:
یا تن رسد بہ جاناں‘ یا جاں زتن بر آید
بحالی معیشت کا حکومتی پروگرام : فوجی حکومت کے بارے میں ہمیں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یہ خوش گمانی نہیں ہوئی کہ یہ ملک کے گھمبیر معاشی اور اجتماعی مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ یہ گذشتہ پندرہ سال میں برسرِاقتدار رہنے والی سیاسی قیادتوں کی غلط کاریوں اور بداعمالیوں کی سزا تھی کہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو قوم کو فوجی انقلاب کا منہ دیکھنا پڑا۔ قوم کے بہی خواہوں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ فوجی حکومت ہمارے مسائل کا حل نہیں اور جنرل پرویز مشرف کو جلد از جلد ضروری انتخابی اصلاحات اور ملک لوٹنے والوں کا فوری احتساب کر کے اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کی طرف منتقل کر دینا چاہیے۔ عدالت عالیہ نے بھی حالات کی مجبوری کے تحت فوجی حکمرانوں کو اس کام کو انجام دینے کے لیے مہلت دی لیکن فوجی قیادت نے اپنی اصل ذمہ داری کو پورا کرنے کے بجائے اپنے ذمہ بزعم خود ایسے کام لے لیے جن کی نہ وہ صلاحیت رکھتے تھے اور نہ قوم ان پر اس بارے میں کوئی اعتماد کر سکتی ہے۔ ان کی اولین ذمہ داری ملک کا دفاع ہے اور وہ آہستہ آہستہ ایسے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں کہ خود دفاع وطن کے کام کے لیے ان کی صلاحیت اور اہلیت مجروح ہو رہی ہے۔
معیشت کے لیے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء اور پھر ۱۵ دسمبر ۱۹۹۹ء کو جو ایجنڈا اور پروگرام جنرل مشرف صاحب نے پیش فرمایا اور مرکز اور صوبوں میں جس قسم کے افراد پر مشتمل اپنی ٹیم کا اعلان کیا اس نے قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو بری طرح مایوس کیا۔ قوم نے پھر بھی انھیں موقع دیا لیکن ان سولہ مہینوں میں جو نتائج سامنے آئے ہیں اور جن خطرات کی لپیٹ میں ملک آگیا ہے وہ ہوش ربا ہیں۔ جتنے بھی دعوے موجودہ حکومت اور اس کے کارپردازوں نے کیے وہ سب خالی خولی نعرے ثابت ہوئے۔ عملاً وہی پرانی ڈگر ہے جس پر کام جاری ہے‘ وہی قرضوں کی سیاست اور عالمی اداروں کی چاکری ہے جس پر نظام معیشت چل رہا ہے۔ نہ بے لاگ اور شفاف احتساب کے کوئی آثار ہیں اور نہ معیشت کی بحالی اور خود انحصاری کا کوئی نشان۔
۱۵ دسمبر ۱۹۹۹ء کے معاشی بحالی کے پروگرام اور پھر غربت میں کمی کی حکمت عملی کے ایجنڈے کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ تجارتی شعبے میں بے اعتمادی کا جو طوفان بپا ہے اور جس کے پیدا کرنے میں سب سے بڑا دخل روز روز بدلنے والی پالیسیاں اور غیر ملکی کرنسی حسابات کو منجمد کرنے جیسا اقدام تھا‘ اس پر قابو پایا جائے گا اور معاشی اعتماد کو بحال کیا جائے گا۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو خائف کرنے اور مقدمات میں اُلجھانے کا سلسلہ ختم ہوگا اور ملک کو سرمایہ کاری کے لیے ایک درست اور محفوظ ملک کا درجہ دیا جائے گا۔ تیسرا مرکزی ہدف یہ بیان کیا گیا تھا کہ ملک کو قرضوں کے جال سے نکالنے اور خود انحصاری کی راہ پر لگانے کو اولین اہمیت دی جائے گی۔ چوتھی بات یہ تھی کہ عام آدمی کی بہبود اور اس کے رہن سہن پر معاشی اقدامات کے اثرات کو سب سے پہلے ملحوظ رکھا جائے گا۔ پانچواں نکتہ تھا کہ نج کاری کے عمل کو تیزی سے بروے کار لایا جائے گا۔
زراعت‘ نیز چھوٹی اور وسطی سطح کی صنعت کی ترقی اور صنعتی مال کاری (industrial finance) کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا بھی پیش نظر تھا۔ اس کے علاوہ: ۱- بیمار صنعتوں کے لیے ایک کارپوریشن کا قیام اور ٹیکس کے نظام کی ایسی اصلاح کہ کرپشن دُور ہو سکے اور ضابطہ بندی کے قانونی احکامات (SRO) کا غلط استعمال یک قلم روکا جا سکے‘ ۲- سیل ٹیکس کا نفاذ اور اسے آسان بنایا جائے‘ ۳- چُھوٹ (rebate)کی بروقت واپسی اور مالی مقدمات کو جلد نمٹانے کا نظام فوری طور پر نافذ کیا جائے‘ ۴- گیس اور پٹرولیم کے شعبوں کی ترقی اور ان شعبوں کے لیے سرمایہ کاری کا حصول‘ ۵- انفارمیشن ٹکنالوجی کی فوری اور ملک گیر ترقی اور پورے ملک میں معیشت کی دستاویز بندی (documentation)کا اہتمام‘ ۶-غربت کے خاتمے کے لیے ایک ملک گیر پروگرام پر عمل جس کے لیے ملکی اور بیرونی دونوں وسائل استعمال کیے جائیں گے اور پہلے سال ہی ۳۰ ارب روپے سے کئی ہزار پراجیکٹ شروع کیے جائیں گے جو ۵ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کریں گے‘ ۷-محصولاتی خسارے اور تجارتی خسارے کو کم کیا جائے گا اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کو ۸.۴ فی صد کی سطح پر لایا جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ ضمانت بھی دی گئی کہ سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے فیصلے کے مطابق ملک کی داخلی معیشت کو ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک سود سے پاک کر دیا جائے گا۔
معیشت کی موجودہ صورت حال : اس معاشی پیکج کو ’’پاکستان ساختہ پروگرام‘‘ کہا گیا تھا اور یقین دلایا گیا تھا کہ فوج کے مانٹیرنگ نظام کے تحت اس پر سرعت سے عمل ہوگا۔لیکن سال سوا سال کی کارکردگی کی روشنی میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس حکومت کے وعدوں اور دعووں کا بھی وہی حال ہے جو ماضی کی حکومتوں کا رہا ہے۔ معاشی اعتماد مزید مجروح ہوا ہے اور مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اور بھی کمی ہو گئی ہے بلکہ اب تو ملک سے سرمایہ تیزی کے ساتھ باہر جا رہا ہے اور عملاً معکوس بہائو (reverse flow)کی کیفیت ہے۔ برآمدات اور درآمدات کا عدم توازن ۸۰۰ ملین ڈالر سے بڑھ کر ۷ .۱ بلین ڈالر پر پہنچ گیا ہے اور اگر ۵.۲ سے ۳ بلین ڈالر قرضوںاور سود کی واجب الادا رقم کو شامل کر لیا جائے تو مبادلہ خارجہ کا فرق ۶ بلین ڈالر کی خبر لا رہا ہے۔بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ہر سال جتنے افراد لیبر فورس میں شامل ہو رہے ہیں ان کابھی ۵۰ فی صد روزگار سے محروم ہے۔ ساری پکڑ دھکڑ کے باوجود پہلے ۷ مہینوں میں ریونیو مطلوبہ رقم سے ۱۴ ارب روپے کم ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ بجٹ کا خسارہ کم ہونے میں نہیں آ رہا حالانکہ ترقیاتی بجٹ میں نمایاں کمی کی جا چکی ہے۔
قیمتیں برابر بڑھ رہی ہیں اور بجلی‘ تیل‘ پٹرولیم کی قیمتوں میں اس زمانے میں چار بار اضافہ کیا گیا ہے جس کا کوئی تعلّق عالمی منڈی کی قیمتوں سے نہیں۔ روپے کی بیرونی قدر برابر کم ہو رہی ہے جس میں اس زمانے میں ۲۰ فی صد سے زیادہ کی کمی واقع ہو گئی ہے اور مزید کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ کاروبار مسلسل مندے کا شکار ہیں اور روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان کے علاوہ کہیں کوئی مثبت سرگرمی نظر نہیں آرہی۔ قدرت کے کرم اور گندم اور کپاس کی فصل کے بہتر ہو جانے سے زرعی پیداوار اچھی ہو رہی ہے مگر گنے کی پیداوار کی کمی کا اثر چینی کی فراہمی پر پڑا ہے۔ پھر بھی مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی متوقع شرح کو ۸.۴ فی صد سے کم کرکے ۵.۴ فی صد کیا گیا ہے۔اسی طرح برآمدات میں متوقع اضافہ رونما نہیں ہوا اور صنعتی پیداوار خصوصیت سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ براے نام ہی رہا ہے۔
سب سے تشویش ناک پہلو غربت میں اضافہ ہے جو پچھلے دس سال میں تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔ آبادی میں غربت کے شکنجے میں گرفتار لوگوں کا تناسب ۱۷ فی صد سے بڑھ کر ۳۶ فی صد اور ایک اندازے کے مطابق آبادی کے ۴۰ فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے۔ عمومی شرح افراطِ زر جو گذشتہ سال ۵.۳ فی صد قرار دی گئی تھی‘ اس سال ۶ اور ۷ فی صد تک پہنچ جائے گی اور اس کی بڑی وجہ مٹی کے تیل‘ گیس‘ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں بار بار اضافہ اور ان کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث بیشتر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ تعلیم اور صحت کا بجٹ متوقع ہدف کا نصف رہ گیا ہے۔ نج کاری کا عمل معطل ہے‘ اسٹاک ایکسچینج میں کساد بازاری ہے‘ بنکوں کے غیر متحرک (non-performing) کھاتوںمیں اضافہ ہو رہا ہے اور چند ارب کے ڈوبے ہوئے قرضوں کی وصولی کے باوجود بحیثیت مجموعی ڈیفالٹ کی رقم میں کمی نہیں اضافہ ہوا ہے ‘جب کہ تمام سرکاری بنک نقصان میں جا رہے ہیں اور قابل ذکر تعداد میں شاخیں بند اور ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بنک نے جو سالانہ رپورٹ ۲۰۰۰-۱۹۹۹ء کی معاشی حالت کے بارے میں جاری کی ہے اور جو سہ ماہی رپورٹیں حکومت کو پیش کی ہیں‘ ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت کی کارکردگی بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح سخت مایوس کن ہے اور اس کے بھی دعووں اور وعدوں کا وہی حال ہے کہ:
جام مے توبہ شکن‘ اور توبہ میری جام شکن
دُور تک ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
اقتصادی زبوں حالی : اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور اس کے گورنر ڈاکٹرعشرت حسین نے‘ اسٹیبلشمنٹ کا رکن ہوتے ہوئے بھی‘ ایک حد تک معاشی حقائق کو ظاہر کرنے اور قومی سطح پر مکالمے اور
بحث و مذاکرے کا راستہ اختیار کیا ہے جو لائق تحسین ہے۔ وزیرخزانہ اور خود گورنر اسٹیٹ بنک ایک عرصے تک تو بیرونی دبائو کا انکار کرتے رہے لیکن اب دونوں نے کھل کر اعتراف کر لیا ہے کہ ملک ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے مجبور ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آج کے معاشی بگاڑ کی ساری ذمہ داری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی اور اسے اکتوبر ۹۹ء میں بڑے خراب حالات ورثے میں ملے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم سارے بلند بانگ دعووں کے باوجود کوئی نئی حکمت عملی وضع کرنے اور ملک کو خود انحصاری کی راہ پر ڈالنے میں ماضی کی قیادتوں کی طرح ناکام رہی ہے اور اس کے فکروعزائم کا تجزیہ کیا جائے تو دُور دُور کسی نئے آغاز کا امکان نظر نہیں آتا۔ گورنر اسٹیٹ بنک نے اپنی ۱۹جنوری ۲۰۰۱ء کی تقریر میں جس کا متن روزنامہ جنگ لندن میں ۶‘۷ اور ۸ فروری ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا ہے۔ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ:
بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری‘ بیرونی اور مقامی قرضوں کا بوجھ‘ مالیاتی خسارے میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی--- یہ وہ بڑے اقتصادی چیلنج ہیں جن سے پاکستان اس وقت دوچار ہے۔
انھوں نے اعتراف کیا ہے اور اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ:
گذشتہ پندرہ مہینوں میں حالات میں وہ بہتری پیدا کیوں نہیں ہوئی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
گذشتہ دس سال کے دگرگوں حالات کا جائزہ لے کر انھوں نے بجا طور پر سب سے بنیادی مسئلے کی نشان دہی کی ہے کہ:
ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کن لوگوں کی توقعات کی بات کر رہے ہیں۔ بیرونی ملکوں خصوصاً بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی ساکھ کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ اس طرح اندرون ملک عام لوگوں میں اس کا اعتماد اب تک بحال نہیں ہوا ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کو ایک پالیسی فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے امداد طلب کیے بغیر اپنے مالی وسائل کا انتظام خود کرنا ہے… مختصر یہ کہ اس وقت ملک کو درپیش سب سے زیادہ مشکل مسئلہ بیرونی سیّالیّت کا مسئلہ ہے یعنی موجودہ واجبات سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت۔
موجودہ ٹیم پر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے طلسم میں گرفتار (بلکہ ’’ان کا ایجنٹ‘‘) ہونے کے الزام پر اپنی ناپسندیدگی کے اظہار اور پچھلی حکومتوں کے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہونے کا بجا طور پر الزام لگانے کے بعد بڑے بھیانک انداز میں ڈیفالٹ کے خطرات سے خوف زدہ کیا گیا ہے: ’’کہ اس سے دوسرے ممالک پی آئی اے کے جہازوں پر قبضہ کر لیں گے اور مجموعی طور پر آبادی کے مصائب میں اضافہ ہو گا‘‘۔ اسے بیرونی مالیاتی اداروں کی تمام شرائط کو منظورکرنے کی وجہ جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اعتراف کیا گیا ہے کہ ’’ہم ان تمام کوتاہیوں کی ایک ساتھ تلافی کرنے پر مجبور تھے جو ماضی میں ہم سے سرزد ہوئیں‘ اور اسی وجہ سے ان اداروں کی وہ تمام شرائط جو پالیسی یا معاشی ساخت (structures) سے متعلق ہیں‘ ہم کو قبول کرنی پڑ رہی ہیں‘‘۔
گورنر اسٹیٹ بنک نے موجودہ حکومت کے پالیسی اقدامات کا دفاع کیا ہے‘ مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اس کے کچھ اسباب بھی گنوائے ہیں۔ ہم ان کے اس جذبے کی قدر کرتے ہیں کہ انھوں نے دوسروں کی طرح بحث مباحثے سے گریز کا رویہ اختیار نہیں کیا اور تلخ حقائق کا سامنا کرنے اور ایک حد تک وجوہات بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ ان کے بیان‘ اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں اور چیف ایگزیکٹو اور وزیر خزانہ کے بیانات کے تضادات کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے‘ نیز ان ہدایات اور اعلانات کی بھی ایک طویل فہرست پیش کی جا سکتی ہے جن پر کوئی عمل نہیں ہوا یا عمل ہوا تو ان کے برعکس ہوا‘ لیکن ہم اس بحث سے اجتناب کرتے ہوئے صرف مرکزی ایشوز پر کلام کرنا چاہتے ہیں تاکہ خرابی کی اصل جڑ پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔
ملکی مفاد کے منافی معاشی پالیسی : پاکستان کے معاشی مسائل اور ایک کے بعد دوسرے اور پہلے سے بڑے بحران کے رونما ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری معاشی پالیسیاں اور ترجیحات ملک کے نظریے اور ملک کے عوام کی اصل ضرورتوں کو سامنے رکھ کر مرتب نہیں کی گئیں بلکہ مخصوص مفادات کے تحفظ اور مغربی استعمار کے عالمی پروگرام اور ایجنڈے کی شعوری اور غیر شعوری تکمیل ہی ان کا ہدف رہا ہے۔ جب سے ہماری معاشی منصوبہ بندی میں ہارورڈ گروپ اور بیرونی امداد کی ایجنسیوں کو عمل دخل حاصل ہوا ہے‘ہماری معاشی حکمت عملی کا رخ بدل گیا۔
معاشی آزادی اور صحت مند منڈی کے نظام کے ہم بھی قائل ہیں لیکن مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے جس طرح ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور لبرلائی زیشن اور گلوبلائزیشن کے نام پر جس طرح عالمی سامراجی اداروں‘ کارپوریشنوں اور حکومتوں کی گرفت ہم پر مضبوط ہو رہی ہے‘ اس سے صرفِ نظر کر کے حقیقی اقتصادی چیلنج کو سمجھنا ناممکن ہے۔آج کے معاشی پالیسی ساز ہوں یا ماضی کے کارپرداز سب نے بیرونی قرضوں کے سہارے معاشی ترقی کو اصل ہدف گردانا اور خود معاشی ترقی کے اس کرم خوردہ اور تباہ کن تصور قبول کر لیا جس کا اصل مقصد تیسری دنیا کے ممالک کو عالمی سرمایہ داری کے معاشی جال میں پھنسانا تھا‘ انھیں معاشی خوش حالی اور معاشی قوت فراہم کرنا نہیںتھا۔
یہ اسی غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ انسانی اور مادی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان میں آج چار سے پانچ کروڑ انسان غربت کا شکار ہیں اور گذشتہ ۱۱ سال میں یہ تعداد دگنی ہوگئی ہے۔ زراعت مسلسل بے توجہی کا شکار ہے حالانکہ آبادی کے ۷۰ فی صد کا اسی پر انحصار ہے اور ۱۱ میں سے ۹ صنعتیں جوملکی برآمدات کا دو تہائی فراہم کر رہی ہیں زراعت ہی کی پیداوار پر منحصر ہیں۔ جو بھی صنعتی ترقی ۱۹۸۰ء تک حاصل ہوئی تھی اسے برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے اور خاص طور پر گذشتہ پندرہ سال تو عملاً صنعتوں میں کمی کے سال ہیں۔اس دوران معیشت میں صنعت کا کردار کم ہوا ہے۔ اسی طرح چھوٹی صنعت جو زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار فراہم کر رہی ہے وہ پالیسی سازی میں سب سے زیادہ غیر اہم ہے۔ انتظامی مصارف برابر بڑھ رہے ہیں اور ترقیاتی پراجیکٹ محض بیرونی قرضے حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ بلالحاظ اس کے کہ وہ ملک کے لیے مفید اور ضروری ہیں یا نہیں۔
قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ : ۱۹۸۰ء میں کل بجٹ ۲۰۰ ارب روپے تھا۔یہ اب بڑھ کر ۶۰۰ارب پر پہنچ گیا ہے لیکن اس میں ترقیاتی بجٹ اور سماجی خدمات کے بجٹ کا حصہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ قرضوں پر سود کی ادایگی ‘ فوجی اخراجات اور انتظامی مصارف سارے بجٹ کو چاٹ جاتے ہیں اور غیرپیداواری مصارف کے لیے بھی قرض لینا پڑتے ہیں۔ قرض کا بازار اس طرح گرم ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یہ قیادتیں کس طرح ملک کو مسائل و مصائب کی دلدل میں دھکیلتی رہی ہیں اور دھکیل رہی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہر نئے قرض کے حصول پر شادیانے بجائے جاتے ہیں ۔
ملکی اور بیرونی قرضوں کا کیا رخ رہا ہے اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے کیجیے:
سال بیرونی قرض اندرونی قرض
۱۹۷۷ء ۶ بلین ڈالر ۵.۵ بلین روپے
۸۸-۱۹۸۷ء ۱۳ بلین ڈالر ۲۷۲ بلین روپے
(دس سال بعد) (دگنے سے زیادہ اضافہ) (۵۰ گنا اضافہ)
۹۹-۱۹۹۸ء ۳۰ بلین ڈالر ۱۲۰۰ بلین روپے
(ڈھائی گنا اضافہ) (پانچ گنا اضافہ)
۲۰۰۰ء ۳۸ بلین ڈالر ۱۳۰۰ بلین روپے
سود اور قرض کی ادایگی کی سالانہ قسط اب ۲۶۵ ارب روپے سے متجاوز ہے جو بجٹ کی کل آمدنی کا ۵۴ فی صد ہے۔ سالانہ زرمبادلہ کی شکل میں ادایگی کے لیے ۵.۳ ارب ڈالر درکار ہیں جس میں اگر ۵.۱ ارب ڈالر کے تجارتی خساروں کو بھی شامل کر دیا جائے تو صرف بیرونی خسارے کو پورا کرنے کے لیے سالانہ ۵ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور اگر یہ رقم سود پر قرض کی شکل میں حاصل کی جائے تو ہر سال قرض کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ ۳۸ بلین ڈالر کا بیرونی قرضہ بھی اسی طرح وجود میں آیا ہے کہ پچھلے قرض اور سودادا کرنے کے لیے نئے قرض لینے پڑے ہیں۔ ۱۹۷۷ء سے اب تک ۳۰ ارب ڈالر سے زیادہ ادا کرنے کے بعد یہ قرض ۳۸ بلین ڈالرہے جو آیندہ سال ۴۲ بلین ڈالر بن جائے گا۔
اس کے برعکس اگر جائزہ لیا جائے کہ ملک میں ان منصوبوں کے نتیجے میں جن پر قرضے لیے گئے ہیں حقیقی اثاثوں (assets)کا کتنا اضافہ ہوا ہے تو محتاط اندازے کے مطابق حقیقی اضافہ صرف ۵ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ گویا ۷۰ ارب ڈالر کے بوجھ کے عوض ۵ ارب ڈالرکے اثاثے وجود میں آئے ہیں۔باقی تمام تنخواہوں‘ کمیشنوں‘ غبن یا قرض دینے والے ملکوں کے افراد اور اداروں ہی کی جیبوں میں گیا ‘جب کہ قرض کے اس پہاڑ تلے ہر پاکستانی سسک رہا ہے۔
ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی حکمت عملی : ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی ترقیاتی حکمت عملی اپنی اساس میں خرابی رکھتی ہے۔ اس کا ہدف قرض حاصل کرنے والے ممالک کی معاشی ترقی اور خوش حالی نہیں بلکہ قرض دینے والے ملکوں کے مصالح اور قرض لینے والے شعبوں میں استحکام کے نام پر انھیں عالمی منڈیوں کا دست نگر بنانا ہے ۔ یہ ترقیاتی ترجیحات اور سماجی فلاح کے نظام کو مسخ کر دیتا ہے۔ اس وقت گورنر اسٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ سے لے کر بین الاقوامی ماہرین تک سب یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ بیرونی سیّالیّت (foreign liquidity)ہے حالانکہ اصل مسئلہ پیداوار کی کمی اور معیشت میں کسادبازاری ہے۔ جب تک پیداوار میں اضافہ نہ ہو‘ برآمد کرنے کے لیے وافر مال موجود ہو‘ اس میں اتنا تنوع‘ اعلیٰ معیار اور بین الاقوامی مارکیٹ سے مناسبت نہ ہو اور شرح پیداوار اتنی نہ ہو کہ محض شرح مبادلہ کی بار بار کی تخفیف (devaluation)سے برآمدات کو نہیں بڑھایا جا سکتا۔ ہم پندرہ سال سے اس سراب کا تعاقب کر رہے ہیں اور ہمارا حال اس پیاسے شخص کا سا ہے جو سمندری پانی سے پیاس بجھا رہا ہو جو ہر جرعہ آب کے بعد اور بڑھ جاتی ہے۔
بجٹ کا خسارہ اور بیرونی ادایگیوں کا توازن سب اہم ہیں لیکن سب سے اہم چیز شرح پیداوار‘ پیداوار کے لیے صحیح اشیا کا انتخاب اور ان کا معیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور صنعتی بنیاد کا استحکام‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی اور اجرتوں کا منصفانہ نظام ‘ تقسیم دولت کا موثر انتظام اور انسانی صلاحیتوں کی ترقی اور مطلوبہ مہارتوں (skills)کی فراہمی‘ سب کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ آج اس بات کا اعتراف ورلڈ بنک کے سابق سرکردہ افراد سے لے کر آزاد معاشی ماہرین اور مختلف ممالک کی سیاسی قیادتیں کر رہی ہیں کہ ورلڈ بنک کی شرائط (conditionalities)نے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو تباہ کر دیا ہے اور عام انسانوں کو معاشی زبوں حالی کے سوا کوئی تحفہ نہیں دیا ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے لوگ کھلی بغاوت پر اتر آئے ہیں اور سیٹل‘ واشنگٹن‘پراگ اور ڈائی ووس کے عوامی مظاہرے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
معاشی مسئلے کی جڑ: موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ وہ معاشی مسئلے کی جڑ کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ وہ ہے ہی نہیں جس سے آئی ایم ایف کی شرائط تعرض کرتی ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ معیشت میں کساد بازاری‘ سرمایہ کاری میں کمی‘ پیداوار میں جمود اور ملک میں غربت اور بے روزگاری ہے۔ گلوبلائزیشن ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے مسائل کا سبب ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی معیشت میں اعتماد اور پیداآوری عمل کو متحرک کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ کرپشن کا خاتمہ بہت ضروری ہے مگر جس طرح معیشت کے میدان میں خوف اور بے اعتمادی کی فضا پروان چڑھائی گئی اس میں کساد بازاری کے سوا کوئی اور حالت رونما نہیں ہوسکتی۔ ٹیکس کلچر بہت اہم ہے مگر تجارت کو خوف و ہراس کے ذریعے مندی کا شکار کر کے ٹیکس کی آمدنی میں اضافے کی توقع خام خیالی ہے۔ معیشت کی دستاویز بندی بھی مفید ہے مگر اس کا یہ طریقہ نہیں کہ پوری تجارتی برادری سے محاذ آرائی کی جائے۔ ٹیکس کلچر کا اگر ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہر صاحب حیثیت فرد ٹیکس دے تو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ٹیکس منصفانہ ہوں‘ حکومت ٹیکس کی آمدنی شفاف طریقے پر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہو‘ اور ٹیکس دینے والوں کو قانونی تحفظ اور سماجی مرتبہ حاصل ہو۔ امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں قانون کے تحت ٹیکس ادا کرنے والوں کے حقوق کا بھی اسی طرح تعین اور تحفظ ہوتا ہے جس طرح ٹیکس کے مطالبات کا۔ لیکن موجودہ حکومت نے محض ڈنڈے کے زور پر ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی کوشش کر کے معاشی اعتماد کو مجروح اور تجارتی فضا کو بھی مکدّر اور مسموم کر دیا ہے۔ ان حالات میں سرمایہ کاری کیسے ممکن ہے؟ یہ حالات تو سرمایے کے فرار اور انخلا ہی کا باعث ہو سکتے ہیں اور یہی ہو رہا ہے۔ معیشت ٹھٹھر گئی ہے اور اس میں زندگی اورحرارت کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج کا کس طرح مقابلہ کیا جا سکتاہے؟
غلط معاشی حکمت عملی کا اعتراف: سب سے پہلے غلط معاشی حکمت عملی کا اعتراف اور اس سے نجات ضروری ہے۔ اور یہ کام موجودہ معاشی ٹیم کے ہاتھوں ممکن نہیں ہے۔ اس کا وژن‘ اس کا تجربہ و صلاحیت‘ اس کے مفادات سب اس حکمت عملی کے اسیر ہیں جس نے ہمیں تباہی کے اس غار تک پہنچایا ہے۔ یہ کام ایک نئی قیادت اور ایک نئی ٹیم ہی انجام دے سکتی ہے۔ یہ ٹیم ایسے لوگوں پر مشتمل ہونی چاہیے جن کا عوام سے گہرا رابطہ ہو‘ جو ان میں سے ہو‘ ان کے درمیان زندگی گزارتی اور ان کے مسائل‘ مشکلات‘ عزائم اور ترجیحات سے واقف ہو اور عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہو۔ درآمد شدہ ماہرین یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے نظام حکومت بھی وہ ہونا چاہیے جو جمہوری اقدار اور اصولوں کا پابند ہو‘ جو حقیقی مشاورت کے ذریعے فیصلے کرے اور پالیسیاں اور قوانین بنائے۔
معاشی ترقی کا صحیح تصور : دوسری بنیادی چیز معاشی ترقی اور استحکام کا صحیح تصور ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک کی نقالی اور ان کی مکھی پر مکھی بٹھانا کوئی ترقی نہیں۔ ترقی وہی معتبر ہے جس کے نتیجے میں ملک کے وسائل کا موثر استعمال ہو‘ خود انحصاری کی بنیاد پر ملک اس لائق بنے کہ غربت کا خاتمہ ہو سکے‘ پیداوار بڑھائی جا سکے‘ روزگار کے مواقع فراہم ہوں‘ معیارِ زندگی اور معیارِ اخلاق میں اضافہ ہو اور معاشی جدوجہد کے ثمرات سے معاشرے کے تمام افراد بہرہ ور ہو سکیں۔ اس کے لیے بالکل نئے وژن اور نئی ترجیحات کی ضرورت ہے اور ان میں پہلی اور سب سے اہم بات بیرونی قرضوں سے نجات اور اندرون ملک سودی معیشت سے مکمل گلوخلاصی ہے۔
موجودہ استحصالی نظام کا خاتمہ : حکومت کو ایک واضح قانون کے ذریعے اس استحصالی نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ یہی راستہ خود انحصاری کی طرف لے جا سکتا ہے۔ تبدیلی کے دَور کے مسائل ہوں گے اور ان کا مردانہ وار مقابلہ ہی ترقی و استحکام کا راستہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سود کا خاتمہ اس سمت میں ایک اہم قدم ہے لیکن حکومت نے اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے۔یہ فیصلہ دسمبر ۱۹۹۹ء میں آیا تھا اور آج تک نہ اسٹیٹ بنک کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن کی رپورٹ آئی ہے اور نہ وزارت مالیات اور وزارت قانون کی ٹاسک فورسز کی رپورٹیں۔ قوم کو تیار کرنے کے لیے نئے مالیاتی آلات (instruments)کی تشہیر و تعلیم‘ متبادل قوانین کے مسودوں کی اشاعت کہ ان پر بحث و گفتگو ہو سکے‘ سرکاری اور بنک کاری اداروں کے عملے کی تعلیم و تربیت--- کسی سمت میں بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ سرکاری اداروں سے متعلق اہم شخصیات اب عدالت سے وضاحتیں حاصل کرنے اور مزید مہلت کی باتیں کر رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے سوا سال میں وضاحت طلب کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی گئی؟ آخری تاریخ کا انتظار کس خوشی میں کیا جا رہا ہے؟ عدالت نے جن دوسرے اہم اداروں کے قیام کا مشورہ دیا تھا ان کے بارے میں کوئی پیش رفت آج تک کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ ہمیں تو یہ بھی شبہ ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں کوئی شریعت بنچ موجود بھی ہے یا نہیں؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی عوام کو اور خود خدا تعالیٰ کو دھوکا دینے کی مجرمانہ کارروائی میں مشغول ہے۔ اس طرح تبدیلی نہیں آ سکتی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب سود پر مبنی قرضوں کی معیشت کے دن ختم ہو گئے۔ اس خطرناک راستے پر جتنا آگے بڑھیں گے‘ دلدل میں اور بھی دھنستے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ممکن ہی نہیں کہ ایک واضح لکیر کھینچ کر ماضی کے فاسد نظام کا باب ختم کر دیا جائے اور بالکل نئے آغاز کا اہتمام کیا جائے۔ ڈیفالٹ (default)سے ڈرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ڈیفالٹ نہیں دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔
قرضوں کی معافی: بیرونی قرضوں کے سلسلے میں ڈیفالٹ کا جو خوف ناک نقشہ اسٹیٹ بنک کے گورنر صاحب نے کھینچا ہے وہ حقیقی سے زیادہ تخیلاتی ہے۔ ہم خود ڈیفالٹ کے حق میں نہیں اور ایک متبادل حکمت عملی کو قابل عمل سمجھتے ہیں لیکن ڈیفالٹ کو ایسا ہوّا بنا کر پیش کرنا بھی صحیح نہیں۔ ۱۹۸۰ء میں جنوبی امریکہ کے ۱۳ ممالک نے عملاً ڈیفالٹ کیا اور کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا۔ گذشتہ ۲۰ برسوں میں ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر ورلڈ بنک اور عالمی مالی اداروں نے ۱۳۰ سے زیادہ قرضوں کی وصولی کے لیے نیا نظام الاوقات دیا ہے۔ آج بھی روس بار بار ڈیفالٹ کر رہا ہے اور عالمی ادارے مذاکرات بھی کر رہے ہیں اور قرض کی معافی کا راستہ بھی اختیار کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی G-7نے سویت دور کے قرضوں میں سے ۳۸ بلین ڈالر کے نصف کی معافی کی بات کی ہے اور باقی کے لیے ۳۰ سال میں ادایگی کی بات چیت ہو رہی ہے۔ ہم خود ۱۹۷۲ء میں ڈیفالٹ کر چکے ہیں اور اب بھی عملاً بروقت ادایگی نہ کر کے کئی بار چھوٹے موٹے ڈیفالٹ کر چکے ہیں جو مذاکرات کے پس منظر میں چھپ گئے۔ اس وقت دنیا میں قرضوں کے خلاف ایک عالم گیر مہم چل رہی ہے اورG-7 نے کولون‘ لندن اور پیرس کی کانفرنسوں میں ۶۱ ملکوں کے ۱۰۰ بلین ڈالر کے قرضے معاف کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
قرض دینے والے ملکوں اور اداروں کی جو ذمہ داری ’’برے قرض‘‘ (bad loans) دینے اور کرپٹ قیادتوں کے تحفظ کے لیے قرض دینے کے باب میں ہے اس سے وہ کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ قرض کی معافی کے حوالے سے قرض کی ادایگی کی صلاحیت کے سلسلے میں جو معیار زیربحث ہیں ان سے ہم بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں بشرطیکہ ہم مضبوطی کے ساتھ یہ موقف اختیار کریں کہ:
۱- آیندہ کوئی قرض نہیں لیں گے خواہ کسی بھی عنوان سے ہو۔
۲- محض قرض لے کر قرض ادا نہیں کریں گے۔
۳- اپنی برآمدات کا ایک خاص فی صد (مثلاً ۱۰ فی صد) قرض کی ادایگی کے لیے مخصوص کرنے کو تیار ہیں‘ لیکن معقول مہلت کی ایک مدت کے بعد۔
۴- موجودہ قرض کو منجمد کر دیا جائے اور ادایگی کے لیے ۵ سے ۱۰ سال کی مہلت (moratorium) حاصل کی جائے۔ اس کے بعد برآمدات کے ایک خاص تناسب سے ادایگی شروع کی جا سکتی ہے۔
۵- قرض کی معافی کے سلسلے میں جو معیار دوسرے ممالک کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے اس کا اطلاق ہم پر بھی کیا جائے۔ قرض کی معافی کے لیے بات چیت میں سبکی کاکوئی پہلو نہیں۔ قرض کی بھیک مانگنے میں اگر کوئی سبکی نہیں تو قرض کی معافی کی بات چیت میں سبکی کیوں ہو؟ اگر روس یہ کام کر رہا ہے اور ۵۰ دوسرے ممالک کر رہے ہیں تو ہمیں کیوں عار ہو؟ غلط قرض لے کر جو جرم ہم نے کیا ہے قرض دے کر وہی غلطی دوسروں نے بھی کی ہے۔ ہمیں ان معاملات میں ڈٹ کر معاملہ (bargain)کرنا چاہیے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مستقبل کے لیے قرض کے باب کو بالکل بند کر دیا جائے اور چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی حکمت عملی پر سختی سے کاربند ہوا جائے۔
یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم خود مضبوط ہوں‘ قوم ہمارے ساتھ ہو‘ جو بھی قربانی دینا پڑے اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں‘ اس کی ایک اسٹرے ٹیجک اہمیت ہے جسے کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ ہماری معیشت کا ۱۵‘ ۱۶ فی صد (کل درآمدات + برآمدات) بیرونی دبائو سے متاثر ہو سکتا ہے‘ باقی معیشت خودکفیل ہے۔ اگر دوسرے ممالک پابندیوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں (جو بظاہر ممکن نہیں) تو بھی ہم مقابلہ کر سکتے ہیں اور نقد ادایگی پر درآمدات کے نتیجے میں خود انحصاری کا حصول کر سکتے ہیں۔ نیز ایسی صورت حال قوم میںمقابلے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے جو ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو سکتی ہے۔
نئی معاشی حکمت عملی : جس انقلابی راستے کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں اس میں اللہ پر بھروسے کے بعد عوام کو اعتماد میں لینا اور ان کے تعاون اور شرکت سے نئی معاشی حکمت کی تشکیل اور اس پر عمل ضروری ہوگا۔ اس حکمت عملی میں زراعت کی ترقی کو اوّلیت حاصل ہوگی۔ چھوٹی اور وسطی درجے کی صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔ تعمیراتی صنعت جو بلاواسطہ ۴۰ دوسری صنعتیں اور پیشوں کو متاثرکرتی ہے ایک عمل انگیز (catalyst) کے طور پر موثر ہو سکتی ہے۔ جرمنی نے ۱۹۳۰ء میں اور چین نے ۱۹۵۰ء میں اسے کامیابی سے استعمال کیا ہے اور ہم بھی یہ راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نج کاری کا کام بھی آنکھیں بند کر کے نہیں کیا جانا چاہیے‘ اس میں قومی سلامتی‘ عوام کی ضروریات‘ اجرتوں کے منصفانہ نظام‘ صارفین کے حقوق اور روزگار کے استحکام کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ نئی صنعتی پالیسی وضع کرنا ہوگی‘ جو ملک کے حالات اور ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو۔ تقسیم دولت اور پیداواری عمل میں عوامی شرکت بھی پالیسی کے اہم موضوع ہیں۔ آج بھی جب وفاقی بجٹ میں بہ مشکل ۴ فی صد تعلیم‘ صحت اور سماجی بہبود پر خرچ ہو رہا ہے‘ نجی شعبے میں زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے ۶۰ ارب روپے سالانہ سے زیادہ معاشرے کے محروم گروہوں اور اچھے کاموں کی مدد کے لیے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اگر اس کام کو منظم طور پر اور مناسب ترغیبات کے ساتھ کیا جائے تو غربت کے خاتمے میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
معیشت میں ریاست کے کردار پر بھی واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔ نجی شعبہ اہم ہے اور مرکزی اہمیت کا حامل‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک موثر سرکاری شعبہ بھی ضروری ہے۔ محض سرمایہ دارانہ نظام سے مرعوبیت یا لبرلزم کے چلن کی وجہ سے اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ درست نہیں۔ پھر سرکاری شعبے کے یہ معنی نہیں کہ اسے بیوروکریٹس یا سیاست دان چلائیں۔ ملکیت اور انتظامیات ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ بہت سے معاملات میں ریاست کو مالکانہ اختیار دینا ملک اور عوام کے مفاد میں ہے۔ البتہ ان اداروں کا انتظام بھی تجارتی مہارت اور پیشہ ورانہ انداز میں ہونا چاہیے اور عوام کے سامنے احتساب کا موثر نظام بھی واضح کیا جا نا چاہیے۔ خود مغربی ممالک میں جہاں نج کاری کا کام بڑے زور شور سے ہوا ہے وہاں نگرانی ‘کارکردگی اور خدمت کے پہلوئوں سے احتساب کا موثر نظام بنایا گیا ہے اور مطلوبہ معیار پورا نہ کرنے پر شدید گرفت اور سزائیں بھی رکھی گئی ہیں۔
اس کے ساتھ ایک صحیح لیبر اور روزگار پالیسی‘ تعلیمی پالیسی‘ ہیلتھ پالیسی اور اساسی ڈھانچے (infra structure) کی فراہمی کے بارے میں طویل مدت کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک انقلابی حکمت عملی میں ان سب کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
یہ ہے وہ کام جو کرنے کا ہے لیکن یہ کام موجودہ انتظامیہ کے بس کا نہیں۔ اس کے لیے صحت مند جمہوری عمل کو بروے کار لانے اور زمام کار بلند ہمت‘ خدا ترس اور اعلیٰ قیادت کی حامل اچھی قیادت کو سونپنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج بڑا حقیقی اور گھمبیر ہے ‘ اس چیلنج کا مقابلہ ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ مغرب کی کورانہ تقلید اور سابقہ حکومتوں کی تباہ کن پالیسیوں کو نئے قالب میں ڈھال کر یہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے نئے وژن‘ مخلصانہ اور ایمان دارانہ قیادت‘ باصلاحیت افراد کار‘ جمہوری طرزِ حکومت‘ عوامی شرکت کے موثر نظام‘ شفاف احتساب اور مضبوط اداروں کے قیام کی ضرورت ہے۔ معیشت کی ترقی اور اس کا استحکام صرف معاشی خوش حالی ہی کے لیے ضروری نہیں‘ یہ ملک کے نظریے اور اس کی آزادی اور سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔ آج ملک جس خطرناک موڑ پر آگیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ غلط راستے پر اٹھنے والے ہر قدم کو روک دیا جائے اور صحیح راستے کی طرف قوم کو سرگرم عمل کیا جائے۔ وقت کامنادی فرش اور عرش سے پکار رہا ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
کشمیر کی تحریک جہاد ایک بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ بھارت کے حکمرانوں‘ امریکی سیاست کاروں اور خود ہماری قیادت کی طرف سے جس نوعیت کے سگنل مل رہے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ عالمی رجحانات‘ سامراجی سیاست کے پیچ و خم اور خود ملکی حالات کی روشنی میں تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور ان خطرات کی نشان دہی کی جائے جو پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک کو درپیش ہیں۔ نیز ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ حکمت عملی کے خدوخال بھی واضح کیے جائیں تاکہ مستقبل کے امکانات سے فائدہ اٹھایاجا سکے۔
مذاکرات‘ مگر کس قیمت پر: کشمیر کا مسئلہ محض کسی زمین اور علاقے کا جھگڑا نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کی حفاظت اور سوا کروڑانسانوں کی آزادی‘ سلامتی اور ان کے نظریاتی اور دینی مستقبل کا سوال ہے۔ جس اصول پر اور جس فارمولے کے تحت ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور بھارت انگریزی اقتدار سے آزاد ہوئے ہیں‘ انھی کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر کی مستقل حیثیت پر ہوتا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے قول و قرار کے علی الرغم ریاست کے بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور ۵۳ سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو ظلم کے شکنجے میں کس کر تعذیب کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے‘ جن کی عظیم اکثریت مسلمان ہے اور پاکستان سے محبت کرنے والی ہے‘ اس سامراجی قبضے کو ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ وہ روزِ اوّل سے اس کے خلاف سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جولائی ۱۹۴۷ء میں مسلم کانفرنس نے ‘ جو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تھی‘ کھلے بندوںپاکستان سے الحاق کا اعلان کیا اور جب ڈوگرہ حکمرانوں اور بھارت کی قیادت نے سازش کے ذریعے ان پر فوج کشی کے ذریعے بھارت کا تسلّط قائم کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے عملی بغاوت کے ذریعے ریاست کے ایک تہائی حصے کو آزاد کرا لیا۔ اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں اور عالمی ادارے کے تحت جنگ بندی اور استصواب کے وعدے کے بعد مزاحمت کی تحریک عوامی سیاسی جدوجہد کی شکل میں جاری رہی لیکن جب جبر و ظلم کے نظام نے ایسی صورت پیدا کر دی کہ عملی جہاد کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو ۱۹۸۹ء سے جہاد کا آغاز کیا گیا جو اب تک جاری ہے۔اسی جہاد کا نتیجہ ہے کہ اب بھارت کے حکمران کسی حل کی بات کرنے لگے ہیں‘ گو اپنی روایتی مکّاری اور چال بازی کے ساتھ۔ اس پورے زمانے میں عالمی رائے عامہ اور انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن مفاد پرستی اور سامراجی عزائم نے بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں اور ضمیر پر بے حسّی طاری کیے رکھی۔ بھارت کی ۷ لاکھ افواج کے مظالم کو روکنے کے لیے کوئی موثر کارروائی نہ کی گئی۔ پاکستانی قوم اور حکومتوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کی جدوجہد میں مقدور بھر ان کا ساتھ دیا اور یہ کشمیری مجاہدین کی قربانیاں اور مسلمانان جموں و کشمیر کے صبر واستقلال کا نتیجہ ہے کہ اب بھارت کو ’’رمضان‘‘ اور ’’جنگ بندی‘‘ کا احساس ہونے لگا ہے ورنہ‘ نہ رمضان اس سال پہلی مرتبہ آیا ہے اور نہ جہاد کا آغاز سنہ ۲۰۰۰ء میں ہوا ہے اور نہ حریت کانفرنس کوئی نئی مخلوق ہے جس کی دریافت (وہ بھی جزوی اور selective) اب ہو رہی ہے!
پاکستانی قوم اور کشمیری مسلمان دل و جان سے امن کے خواہاں ہیں لیکن امن محض حالت جنگ کے نہ ہونے کا نام نہیں۔ امن تو حق و انصاف ہی کی بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ جنگ بندی نہیں‘ ان اسباب اور حالات کو تبدیل کرنا ہے جن سے مجبور ہو کر مسلمانان جموں و کشمیر بھارت کی فوجی یلغار کے خلاف جہاد بستہ ہوئے ہیں۔ بھارت کی دل چسپی صرف جہادی دبائو سے نجات میں ہے‘ جب کہ جہادی اور عوامی قوتوں کا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے تاکہ ا ہلِ کشمیر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے بین الاقوامی اہتمام میں منعقد ہونے والے استصواب کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کر سکیں۔ اس طرح اصل ایشو یہ نہیں کہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ مذاکرات تو پچھلے ۵۰ برسوں میں بارہا ہو چکے ہیں اور لاحاصل رہے ہیں۔ مذاکرات وہی مفید ہو سکتے ہیں جو اصل مسئلے کے بارے میں ہوں اور اس فریم ورک میں ہوں جو مسئلے کے حل پر منتج ہو سکیں۔ پاک بھارت تعلقات کی ۵۰ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ بھارت نے جنگ بندی یا مذاکرات کا سہارا صرف اسی وقت لیا ہے جب اس پر دبائوناقابل برداشت ہوا اور محض اس دبائو سے نجات کے لیے یہ حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۲ء میں بھارت نے یہی کھیل کھیلا تھا اور اقوام متحدہ اور امریکہ اور برطانیہ نے اسے وہ چھتری فراہم کی جس کے تحت اس نے پناہ لی۔ تاشقند اور شملہ کے معاہدات میں مذاکرات کے راستے مسئلہ کشمیر کے حل کا وعدہ کیا گیا مگر ۳۵ اور ۲۸ سال محض طفل تسلیوں میں گنوا دیے گئے اور کوئی نتیجہ خیز بات چیت واقع نہ ہو سکی۔ ان سارے تجربات کی روشنی میں اگر کسی قابل عمل نظامِ کار کے بغیر محض امریکہ کے اثر و رسوخ یا بھارت کے وعدوں کی بنیاد پر جہادی دبائو کو ختم یا کم کیا گیا تو نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ حالات کا صحیح صحیح جائزہ لیا جائے اور اپنے اور دنیا کے دوسرے تجربات کی روشنی میں موثر حکمت عملی اپنائی جائے۔
تشویش کے پہلو : مسئلہ کشمیر کے موجودہ مرحلے اور آیندہ کے خطرات اور امکانات کی تفہیم کے لیے سب سے پہلے بنیادی حقائق کو ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔
اوّل: اصل مسئلہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل اور مستقل حیثیت کا ہے۔ بھارت کی
’’اٹوٹ انگ‘‘ کی رٹ کے باوجود اصل حقیقت یہی ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جسے اقوام متحدہ ‘ یوروپین یونین‘ او آئی سی سب نے متنازع تسلیم کیا ہے‘ خود بھارت نے ماضی میں تصفیہ طلب مانا ہے اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے خون سے گواہی دے کر اسے متنازع تسلیم کرا لیا ہے۔ پھر معاملہ لائن آف کنٹرول اور اسے بین الاقوامی سرحد بنانے کا نہیں‘ بلکہ پوری ریاست جو ایک سیاسی اکائی تھی اور ہے‘ اسے اپنے مستقبل کو طے کرنے کا موقع فراہم کرنے کا ہے۔ اس طرح اس تنازع کے چار فریق ہیں: بھارت‘ پاکستان‘ کشمیری عوام اور اقوام متحدہ۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں وہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی فریم ورک فراہم کرتی ہیں جس کے ذریعے کشمیری عوام اپنا مستقبل طے کر سکتے ہیں۔ سہ فریقی مذاکرات ضروری ہیں لیکن ان کا مقصد اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تنفیذ کے لیے مطلوبہ اقدام ہونا چاہیے‘ کسی نئی بحث کاآغاز یا کسی نئے سامراجی کھیل کی صف بندی نہیں۔
دوم: ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر آج بھارت ‘ اور خصوصیت سے اس کی بی جے پی کی متعصب قیادت کسی درجے میں بات چیت کا عندیہ دے رہی ہے تو اس کی وجہ نہ دل کی تبدیلی ہے اور نہ دل کی آرزو میں کوئی تغیر۔ یہ محض ان معروضی حالات کا نتیجہ ہے جو جہادی جدوجہد کے نتیجے میں رونما ہوئے ہیں اور جن کے تین پہلو ہیں:
۱- ۵۳ سال تک جبری قبضے اور گذشتہ بارہ سال میں خصوصی طور پر غیر معمولی عسکری قوت کے بے محابا استعمال اور ۷۰‘ ۸۰ ہزار بے گناہ انسانوں کے قتل کے باوجود بھارت محض عسکری قوت سے اہل جموں و کشمیر کو دبانے میں ناکام رہا ہے اور اب ہر سطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ کسی صورت میں اور کسی شرط پر بھی رہنے کو تیار نہیں۔ بھارت کے لیے مسئلے کا عسکری حل ممکن نہیں۔ اس کی فوجی قیادت بار بار اس کا برملا اعلان کر رہی ہے‘ اور خود فوج کے بارے میں جو رپورٹیں آرہی ہیں وہ صاف ظاہر کر رہی ہیں کہ فوج میں بغاوت‘ اضطراب‘ نفسیاتی دبائو‘ بے اطمینانی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ملک میں بحیثیت مجموعی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ محض قوت سے کشمیر کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ نیز معاشی اعتبار سے یہ کھیل روز بروز مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کے مشہور ماہنامہ سیمی نار نے اپنا دسمبر ۲۰۰۰ء کا پورا شمارہ کشمیر میں پائے جانے والے ان زمینی حقائق کے لیے مخصوص کیا ہے۔ دی ہندو‘ ہندستان ٹائمز اور فرنٹ لائنکے مضامین اس بڑھتے ہوئے احساس کا مظہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف سطح پر کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن صاف اور سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ساری توجہ اس پر ہے کہ کسی طرح جہادی دبائو ختم ہو جائے اور پھر کوئی ایسا کھیل کھیلا جا سکے جس کا سیاسی فائدہ بھارت کو ہو‘ اور اہل کشمیر کسی دوسرے جال میں پھنس جائیں۔ نیز پاکستان کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ صرف جہادی دبائو اور کشمیر کو قبضے میں رکھنے کی قیمت کا ناقابل برداشت بنتے جانا ہے جو بھارت کو مذاکرات کی طرف لا رہا ہے اور مزید لائے گا۔
۲- پاکستان کا اس مسئلے کے بارے میں مضبوط اصولی‘ موقف اور بھارت کے ساتھ پاکستان کا کھل کر ایک نیوکلیر قوت بن جانا ہے جس کی وجہ سے بھارت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جنگ کے دائرے کو بڑھا کر وہ اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا۔
۳- عالمی رائے عامہ کا نیا رجحان اس علاقے کو نیوکلیر جنگ کے خطرے سے محفوظ کرنے کے لیے اسے کشمیر کے مسئلے میں دل چسپی پر مجبور کر رہا ہے۔ دنیا کا ضمیرسو رہا تھا۔ یہ صرف نیوکلیر استعداد کا اظہار تھا جس نے پی-۵ اور جی-۷ اورسلامتی کونسل اور خصوصیت سے امریکہ کو اس مسئلے میں دل چسپی لینے پر مجبور کیا اور جس کا اظہار حال ہی میں امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ہنری ہیوگ شیلٹن نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ: ’’ایشیا کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کی اونچی سرحدوں‘ ٹوکیو کے اسٹاک ایکسچینج کے فلور اور شنگھائی اور ہانگ کانگ کے خصوصی اقتصادی خطوں میں ہوگا‘‘۔ اس احساس کے باوجود کوشش یہ نہیں ہے کہ اصل مسئلے کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے بلکہ کوشش یہی ہے کہ کوئی ایسا متبادل راستہ نکال لیا جائے جس سے مسئلہ تحلیل (diffuse) ہو جائے۔لیکن بہرحال عالمی دبائو ایک عامل کی حیثیت سے رونما ہو رہا ہے اور اگر جہادی دبائو جاری رہتا ہے اور پاکستان کوئی کمزوری نہیں دکھاتا تو یہ عالمی دبائو بھی لازماً بڑھے گا۔ وقت جہاد کشمیر کی تحریک کے حق میں ہے۔
ان تینوں عوامل کا نتیجہ ہے کہ بھارت‘ امریکہ اور متعلقہ حلقوں میں کسی نہ کسی حل کی تلاش کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان پر روز بروز دبائو بڑھ رہا ہے جسے خصوصیت سے دو وجوہ نے تشویش ناک بنا دیا ہے۔ ایک پاکستان کی معیشت اچھی حالت میں نہیں ہے۔ قرضوں کا بوجھ‘ مہنگائی کا طوفان‘ بے روزگاری کا سیلاب‘ بیرونی پابندیوں کی کاٹ‘ ان سب کا فائدہ اٹھا کر ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک حکومت کو گھیرنے اور کارنر کرنے میں مصروف ہیں اور پھر فوجی حکومت اپنی بین الاقوامی قبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ دربدر کی ٹھوکریں کھائی جا رہی ہیں‘ مجرموں کو فرار کی راہیں دکھائی جا رہی ہیں‘ امریکہ کی خوشنودی کے لیے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ میٹنگیں کر رہے ہیں۔ اگرچہ چیف ایگزیکٹو نے کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف پر قائم رہنے کا بار بار اعلان کیا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنا‘ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کنٹرول لائن سے فوجوں کی واپسی‘ بھارت کی نام نہاد یک طرفہ جنگ بندی (جب کہ مظالم کا سلسلہ جاری ہے) کے اعلان پر maximum restraint (انتہائی صبروتحمل) کا اعلان‘ ملک میں جہادی تنظیموں کے گرد دائرہ تنگ کرنے کی کوشش‘ بھارت سے تجارت کی پینگیں بڑھانے کی سعی‘ حریت کانفرنس کو بھارت سے دو طرفہ مذاکرات کی شہہ‘ وزارت خارجہ کے ترجمان کا حریت کانفرنس کو ایک قسم کے مینڈیٹ دینے کا اعلان‘ وزیر خارجہ کے پھسپھسے اور ڈانواں ڈول بیانات‘ اعلان لاہور سے نئی وابستگی اور بھارت کی طرف سے ٹریک ٹو اور ٹریک تھری ڈپلومیسی کرنے والے سابق فوجیوں‘ دانش وروں اور خواتین کی یلغار اور خود ہماری طرف سے نیازنائیک اور ڈاکٹر مبشر جیسے حضرات کی بھاگ دوڑ اور مخصوص دانش وروں اور کالم نگاروں کا ’’لچک‘‘ (flexibility) اور ’’حقیقت پسندی‘‘ (realism) کا درس --- یہ سب وہ چیزیں ہیں‘ جو تشویش میں اضافہ کرتی ہیں اوراصولی موقف کو کمزور کرنے والی ہیں۔
اوسلو ماڈل : اس پورے تناظر میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس چیز کو اوسلو عمل (Oslo process) کہا جاتا ہے وہ ہے کیا؟ اور اس کے مسئلہ کشمیر کے لیے کیا مضمرات ہیں۔
فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کے مسئلے کی طرح اقوام متحدہ کا عطیہ اور ۵۲ سال پرانا ہے۔ کشمیر اور فلسطین دونوں کے سلسلے میں تین بار جنگ کی نوبت آ چکی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ فلسطین کے میدانِ جنگ میں اسرائیل کو ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۷ء میں مکمل بالادستی اور ۱۹۷۲ء میں جزوی بالادستی رہی جب کہ پاکستان کو ۱۹۷۱ء میں ضرور شکست ہوئی مگر ۱۹۶۵ء اور پھر ۱۹۸۷ء کی جنگی مشقوں اور ۱۹۹۸ء میں نیوکلیر استعداد کے اظہار کے نتیجے میں ہماری اور عربوں کی عسکری کارکردگی (performance) بڑی مختلف رہی ہے اور الحمدللہ پاکستان ایک مستحکم پوزیشن میں ہے جو بھارت کی کسی بھی جارحیت کے خلاف ایک دفاعی حصار ہے۔
کیمپ ڈیوڈ کا عمل ۱۹۷۸ء میں اور اوسلو ۱۹۹۳ء میں شروع ہوا اور ۲۰۰۰ء میں عملاً اس پورے کھیل نے دم توڑ دیا اور بالآخر فلسطینیوں کو انتفاضہ الاقصیٰ کا آغاز کرنا پڑا جس نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین میں ایک نئی روح پھونک دی ہے‘ اور اسرائیل کے ٹینک اور ہیلی کاپٹر نوجوان کے پتھروں کے آگے بے بس ہوتے جا رہے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کے اہم پہلوئوں کی مختصر وضاحت کردی جائے تاکہ فلسطین کے اس تجربے سے سبق لیا جا سکے جسے کیمپ ڈیوڈ / اوسلو عمل کہا جاتا ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:
۱- مسئلہ فلسطین کے ایک جامع اور ہمہ جہتی حل (comprehensive solution) کے بجائے قدم بہ قدم (step by step) اور ایک ایک جزو کو الگ الگ لے کر (piecemeal) مرکزی مسئلے/ مسائل کے حل کی طرف مراجعت کی جائے۔ مرکزی مسئلے اور مستقل حیثیت کو سب سے آخر میں لیا جائے۔ اعتماد قائم کرنے والے اقدام کیے جائیں۔ زمین کے ٹکڑوں کے بدلے امن کی ٹکڑیاں حاصل کی جائیں اور اسی طرح ایک لمبے عرصے میں آہستہ آہستہ کوئی حل نکالا جائے۔
۲- اقوام متحدہ اور اس کی قراردادوں کو پس پشت رکھا جائے اور مذاکرات کے ذریعے نئے حل تلاش کیے جائیں۔
۳- عالمی اداروں اور دوسری حکومتوں کو باہر رکھا جائے۔ صرف اسرائیلی اور فلسطینی مسئلے کا حل نکالیں۔ صرف امریکہ مددگار اور مصالحت کا کردار ادا کرے۔ دوسرے عرب ممالک کو ایک ایک کر کے الگ کر دیا جائے۔ البتہ ان سب ممالک سے اسرائیل کے الگ الگ معاہدے ہوں۔ ان سے اسرائیل کے امن معاہدے ہو جائیں اور اسرائیل کے جواز کو وہ قبول کر لیں۔ سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کیے جائیں اور اس طرح فلسطینیوں اور مسئلہ فلسطین پوری عرب اور اسلامی دنیا سے کاٹ کر ایک کونے میں لگا کر تنہا کر دیا جائے۔ اس طرح فلسطین کے حل میں ان کا کوئی کردار نہ ہو بلکہ مسئلے کو دو فریقی مذاکرات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے جنھیں اسرائیل جس طرح چاہے جوڑ توڑ کر کے اپنے حق میں استعمال کرے۔
۴- فلسطینی ریاست کا قیام‘ بیت المقدس کی حیثیت اور حاکمیت اعلیٰ (sovereignty) کے مسائل کو مؤخر کیا جائے اور ساری توجہ محدود بلدیاتی اختیارات‘ جزوی کنٹرول اور معاشی ترقی و تجارت پر مرکوز کی جائے۔
۵- ’’تشدد کا خاتمہ‘‘ کو سب سے زیادہ اہمیت کا مسئلہ بنا دیا جائے۔ اس کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی ذمہ داری ہو کہ وہ اسرائیل کے تحفظ کی ضامن بنے اور جہادی قوتوں کو قابو میں کرے۔ آزادی کی تحریک کو تشدد (terrorism)قرار دے کر‘ امن اور اسرائیل کے تحفظ کو سلامتی کی مشترک حکمت (joint security strategy) کے تابع کیا جائے۔
۶- امن کے اس طویل عمل کے دوران اسرائیل کو یہ موقع حاصل رہا کہ عربوں کے علاقوں میں نئی نئی آبادیاں بنا لے اور پورے فلسطین کے ۷۸ فی صد پر تو اسے پہلے ہی (یعنی ۱۹۷۶ء سے قبل سے) مکمل قبضہ اور حاکمیت حاصل ہے البتہ رہے سہے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مشتمل ۲۲ فی صدمیں سے بھی پہلے صرف ۳ فی صد اور پھر آہستہ آہستہ مزید ۲۷ فی صد پر صرف قبضہ (بغیر حاکمیت) فلسطینیوں کو دیا جائے۔ عملاً اس وقت بھی مغربی کنارے پر ۴۰ فی صد اور غزہ کی پٹی میں ۸۰ فی صد فلسطینیوں کے تحت آیا ہے۔ باقی پر اسرائیل ہی کا قبضہ ہے اور ان علاقوں میںاسرائیلی آبادکاروں (settlers) کی تعداد میں کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کے معاہدوں کے بعد ۲ لاکھ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ نیز تمام سڑکوں اور راستوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ ہے قدم بہ قدم حل کی عملی شکل!
۷- ہر نئے مرحلے پر فلسطینیوں سے نئی مراعات (concessions) کا مطالبہ۔
۸۔ فلسطینیوں کی اسرائیل پر سیاسی‘ عسکری اور معاشی محتاجی (dependence)۔
۹- پہلے آخری سمجھوتے کے لیے ۱۹۹۹ء کی حد طے کی گئی تھی مگر اب آخری مراحل کو مزید تین سے
چھ سال کے لیے مؤخر کرنا اور کیمپ ڈیوڈ کے ۲۲ برس بعد بھی اصل مسئلے یعنی فلسطینی حاکمیت‘ بیت المقدس کی حیثیت اور ۵۰ لاکھ فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے حق کے مسئلے کو لٹکائے رکھنا۔
۱۰- اس پورے عمل میں نئے نئے تصورات پیش کیے گئے ہیں مثلاً اقتدار بغیر حاکمیت اعلیٰ(control without sovereignty)‘مشترک حاکمیت اعلیٰ (joint sovereignty) ‘منقسم حاکمیت اعلیٰ (divided sovereignty) ۔حالانکہ یہ سب محض خوش نما الفاظ اور صریح دھوکہ ہیں۔
دو عشروں کے تجربات کے بعد فلسطینیوں کو اور خود مغربی اقوام کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ تجربہ صرف اسرائیل کے مفاد میں تھا اور عربوں کو شکست اور ہزیمت کے سوا اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ حال ہی میں خود شیرون نے اعلان کیا ہے کہ ’’اوسلو اب مردہ ہے‘‘ (Oslo is dead!)۔ چند مغربی تجزیہ نگاروں کی رائے بھی قابل ملاحظہ ہے۔
رابرٹ فسک (Robert Fisk) لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا شرق اوسط کا نمایندہ ہے اور عالمی سیاست کا ایک ماہر شمار ہوتا ہے وہ لکھتا ہے:
یہ سال تھا کہ جھوٹ بالکل واضح ہو گئے۔ امن کا عمل (peace process)‘ پس قدم (back track)‘ متنازع (disputed) اور ایک طرح کی حاکمیت اعلیٰ (sort of sovereignty) کی اصطلاحیں اتنی ہی بے معنی ثابت ہوئیں جتنا کہ ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال امریکی محکمۂ خارجہ کے سفارت کاروں اور صحافیوں نے کیا۔ اوسلو کے معاہدہ امن کی ناانصافی‘ عرب سرزمین پر مسلسل جاری قبضہ‘ عربوں کو مشرقی یروشلم واپس کرنے سے اسرائیل کا صاف انکار‘ عرب سرزمین پر یہودی آباد کاری کی پُرجوش توسیع بالآخر اس سب کے خلاف فلسطینی اٹھ کھڑے ہوئے (۲۹ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔
ایک عیسائی فلسطینی مصنف اور دانش ور پروفیسر ایڈورڈ سعید (Edward Said) بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا:
فلسطینیوں کی حیثیت سے ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ اس اوسلو باب کو جتنی تیزی سے ممکن ہو‘ بند کر دیں اور اپنے اصل کام کی طرف لوٹ آئیں جو آزادی کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو اہداف سے قریب تر اور اپنے طریقۂ کار میں واضح ہو۔ جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق کو اس لیے شکست ہوئی کہ کالوں کے ساتھ ساتھ گوروں نے بھی اس کے خلاف لڑائی لڑی (روزنامہ ‘ ڈان‘ جنوری ۸‘ ۲۰۰۰ء)۔
فلسطین کے مسئلے کا حل اوسلو نہیں‘ انتفاضہ ہے۔ دی گارڈین کا شرق اوسط کا نمایندہ پوری عرب دنیا کا فیصلہ یوں بیان کرتا ہے:
اس دوسری انتفاضہ نے کئی برسوں میں پہلی بار فلسطینیوں کو موقع دیا ہے کہ اسرائیل سے اقدامی کارروائی(initiative) چھین لیں۔ اس طرح اب فلسطینی قیادت زیادہ توانا بھی ہے اور زیادہ متحمل بھی۔ فلسطینی بالعموم اور خاص طور پر بعض زیادہ انقلابی نوجوان رہنما اور بنیاد پرست بھی‘ سب
حالیہ مہینوں کی قربانیوں کے بعد زیادہ پُرعزم ہیں کہ ایسی کوئی چیز قبول نہ کریں جو ایک سیل آئوٹ (sell out)سمجھی جائے (دی گارجین مارٹن‘وولاکاٹ‘ ۲۹ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔
فلسطین کے بارے میں اوسلو کا یہ حشر اور انتفاضہ کا پُرجوش احیا کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے بھی ایک انتباہ اور جہادی تحریک کے تحفّظ اور ترقی کے لیے ایک نشان راہ ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم یازک رابن کی بیوی لیہ رابن (Leah Rabin) نے اپنے شوہر کی سوانح (Rabin: Our life, His Legacy) میں صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ رابن نے بحیثیت کمانڈر اِن چیف عرب انتفاضہ کے خلاف جبر و قوت کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسرائیل ایک ایسی قوم پر حکمرانی نہیں کر سکتا جو اس کے اقتدار میں رہنے کے لیے تیار نہ ہو اور یہی وہ چیز ہے جس نے اسے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کا قائل کیا۔
تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ صرف آزادی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے والے ہی آزادی حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے: لا یقطع الحدید الا الحدید۔ یعنی لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ جہاد ترک کر کے مذاکرات لاحاصل ہوتے ہیں۔ جہاد کمزور کر کے آپ دشمن کے لیے صرف تر نوالا بن سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کا عسکری دبائو موثر ہو‘ اصولی موقف مضبوط ہو‘ آپ کی صفوں میں اتحاد اور آپ کی فکر میں پختگی ہو تو مذاکرات کی میز پر بھی آپ غالب اور کامیاب رہ سکتے ہیں ورنہ جنگ کے میدانوں میں حاصل کی ہوئی بالادستی امن کے مذاکرات کی میز پر شکست میں بدل سکتی ہے۔
مسئلہ کشمیر میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی دل چسپی اور اس کے ساتھ امریکہ کی بھارت سے دوستی اور روز افزوں تزویری شراکت (strategic partnership) حتیٰ کہ نیوکلیر تجربے کے بعد عائد ہونے والی پابندیوں میں تخفیف (جب کہ پاکستان پر یہ پابندیاں اور بھی سخت کر دی گئی ہیں) اور بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اور ان کے درمیان معاشی ہی نہیں عسکری اور خفیہ معلومات کے امور میں تیزی سے اضافہ‘ اہم شخصیات کے دورے‘ اور نام نہاد تشدد کے خلاف تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی تیاری کے پس منظر میں کشمیر پر اوسلو عمل مسلّط کرنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ فلسطینی تو اوسلو کو دفن کر رہے ہیںاور کچھ کشمیری اور پاکستانی دانش ور اوسلو عمل کے پرچارک بن رہے ہیں۔ آج فلسطین کا چپہ چپہ اور اہل فلسطین کا ہر ہر زخم پکار پکار کر کہہ رہا ہے ؎
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
پس چہ باید کرد: پاکستانی حکومت‘ قوم اور کشمیری قیادت اگر اس سبق کو سمجھ لے اور بھارت سے اوسلو نہیں‘ جہاد کی قوت کے سائے تلے اپنے حقوق حاصل کرنے کی بات کرے تو ان شا ء اللہ کامیاب ہو گی۔ عرب نیوز کے نمایندے نے سری نگر کے ایک ۲۱ سالہ نوجوان طالب علم الطاف حسین کا بھارت کی یک طرفہ جنگ بندی پر تبصرہ شائع کیا ہے جو ہماری وزارت خارجہ اور بہت سے دانش وروں کی نکتہ سنجیوں پر بھاری ہے:
بھارتی حکومت کے اقدام کو کشمیری گروپوں نے جس طرح حقارت سے ٹھکرایا ہے‘ الطاف حسین نے اس کی بڑی تحسین کی ہے: ’’ہماری جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارتی اقدام کا یہ بہت اچھا توڑ ہے۔ ہمارے لیے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بھارت پر بھروسا نہ کریں‘‘ (عرب نیوز‘ نومبر ۲۴‘ ۲۰۰۰ء)۔
ہم حکومت‘ وزارت خارجہ‘ مجاہد رہنمائوں اور حریت کانفرنس کے قائدین کو یہی مشورہ دیں گے مذاکرات ضرور کریں مگر:
--- فلسطینیوں کے اوسلو تجربے سے سبق سیکھ کر‘
--- جہادی دبائو کو مطلوبہ سطح پر برقرار رکھ کر‘
--- اپنے اتحاد اور سیاسی قوت کو مجتمع رکھ کر‘
--- اپنے اصولی موقف پر مضبوط رہ کر‘
--- اپنی قانونی اور سیاسی بنیاد سے انحراف کیے بغیر‘
--- اپنے عوام کو اعتماد میں لے کر ‘اور
--- جزوی‘ قدم بہ قدم طریقے کے بجائے اصل اور مرکزی مسئلے پر توجہ مرکوز کر کے‘
___ ایک جامع اور مکمل پیکج پر
___ اور دو فریقی نہیں سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے!
ہمیشہ یاد رکھیے:
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
پاکستان کی ۵۳ سالہ تاریخ میں قومی سطح پر ہماری قیادتوں نے غلطیاں‘ زیادتیاں‘ قانون کی خلاف ورزیاں اور مظالم‘ تو بے شمار کیے ہیںلیکن یہ سانحہ پہلی بار موجودہ حکومت کے ہاتھوں رونما ہوا ہے کہ ایک بااثر قومی مجرم اور اس کے پورے گھرانے کو اسلامی اصول و احکام‘ ملکی دستور و قانون‘ قومی رائے اور جذبات و احساسات اور عالمی سطح پر جرم و سزا کے معروف ضابطوں کو یکسرنظرانداز کر کے شرم ناک سودے بازی کر کے ملک سے فرار کرا دیا گیا بلکہ فرار کی شاہانہ سہولتیں مہیا کی گئیں اور المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کے ہاتھوں ہوا اور عدالتوں کی دی ہوئی سزائوں کو ’’معاف‘‘ یا نظرانداز کر کے اسے ’’ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلہ‘‘ قرا ردینے کی جسارت کی گئی۔
بلاشبہ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۰ء ہماری تاریخ کا ایک تاریک ترین دن تھا۔
یہ اقدام ایک ناقابل معافی قومی اور اخلاقی جرم ہے۔ معاملہ افراد کا نہیں‘ اصولوں کا ہے‘ ہمیں نہ نوازشریف سے کوئی دشمنی ہے اور نہ پرویز مشرف سے کوئی پرخاش۔ لیکن یہ قوم اور ملک ہمیں عزیز ہیں۔ اسلام کے اصول و احکام اور ملک کا دستور اور قانون ہماری نگاہ میں وہ میزان ہیں جن پر ہر کسی کے عمل کو پرکھا جانا چاہیے اور جو بھی ان اقدار کو پامال کرے جن پر ہمارا ایمان‘ ہماری آزادی اور ہماری سلامتی کا انحصار ہے اس پر گرفت ایک دینی اور قومی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی درجے کی مداہنت دنیا میں بربادی اور آخرت میں خسارے کا باعث ہو گی۔ یہی جذبہ ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اس گھنائونے اقدام کا بھرپور محاسبہ کریں‘ اس کے مضمرات سے ملک و ملت کو آگاہ کریں اور قوم کو مزید تباہی سے بچنے کے راستے کی نشاندہی کریں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسلام کی تعلیمات اور انسانی تاریخ کے تجربات کا نچوڑ ایک جملے میں بیان فرما دیا ہے کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتاہے لیکن انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاے کرام اور پھر اپنے آخری پیامبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی زمین پر جس مقصد و ہدف کے حصول کے لیے بھیجا وہ تھا: تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا قیام اور اسی بنیاد پرمعاشرے اور ریاست کی تعمیرو تشکیل ۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵)
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ‘اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
حضور اکرمؐ کی زبانی صاف الفاظ میں اعلان فرمایا :
فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ج وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ ج وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ ج وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۵)
اے محمدؐ ‘ اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو‘ اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائو‘ اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو‘ اور ان سے کہہ دو کہ: اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے :
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸)
مسلمانو‘ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔
اسلام اس معاملے میں اتنا حسّاس ہے کہ خود اپنی ذات‘ باپ بیٹے‘ امیر غریب اور دوست و دشمن میں بھی کوئی تمیز گوارا نہیں کرتا۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا قف فَلاَ تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَاِنْ تَلْوٗآ اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء ۴:۱۳۵)
اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو‘ اللہ کو اس کی خبر ہے۔
ایک مسلمان ہمیشہ عدل و انصاف کا علم بردار ہوتا ہے--- دوست ہی نہیں دشمن سے بھی عدل سے پیش آنا مسلمان کا شیوہ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتّٰقْوٰی ز وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)
اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
انصاف کے معاملے میں اسلام کی حسّاسیت کا ایک بڑا ہی اہم اور نازک پہلو یہ ہے کہ وہ جرم و سزا کو قانون کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے اور اس میں نہ کوئی اضافہ گوارا کرتا ہے اور نہ کمی۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی جا رہی ہے :
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰک اللّٰہُ ط وَلاَ تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا O وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا O وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا O (النساء ۴:۱۰۵-۱۰۷)
اے نبیؐ‘ ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ تم بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو‘ اور اللہ سے درگزر کی درخواست کرو‘ وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں تم ان کی حمایت نہ کرو۔ اللہ کوایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔
جرم کے ثبوت کے بعد اس کے مرتکبین کے لیے نرمی اور رعایت کی بات انصاف کے منافی اور جرم و سزا کے قانون کو غیر موثر کرنے کے مترادف ہے۔ زنا کی سزا کے باب میں قرآن کا صاف ارشاد ہے:
وَّلَاتَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج (النور۲۴:۲)
اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔
یہی اصولی بات قتل کے سلسلے میں بیان فرمائی:
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی ط اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ط فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ئٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ط فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ O (البقرہ ۲:۱۷۸-۱۷۹)
اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے‘ غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے‘ اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں‘ اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو‘ تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کولازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے‘ اس کے لیے دردناک سزا ہے--- عقل و خرد رکھنے والو‘ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔
واضح رہے کہ خوں بہا کا حق واختیار حکومت کو نہیں‘ جس کا حق مارا گیا ہے اس کو حاصل ہے۔ جرم و سزا کے بارے میں امیر غریب‘ عالی نسب اور عامی‘ بااثر اور کمزور میں تمیز و فرق اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’لوگو‘ تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں‘ وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان کا کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے‘‘۔ اور آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ قطع کر دیے جاتے‘‘۔ سزا میں تخفیف اور اضافہ بھی انصاف کے منافی ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ:
’’قیامت کے روزایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا کہ یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا کہ آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا؟ پھر حکم ہوگا لے جائو اسے دوزخ میں۔ ایک حاکم لایاجائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانی سے باز رہیں۔ ارشاد ہوگا: اچھا تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا؟ پھر حکم ہوگا لے جائو اسے دوزخ میں (بحوالہ تفسیر کبیر ‘ ج ۶‘ ص ۲۳۵ ‘ تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۴۴)
ان احادیث کا تعلق حدود سے ہے لیکن اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ مجرم کا جرم ثابت ہونے کے بعد انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس کو بلادلیل اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر نہ چھوڑ دیا جائے--- اور اس کی سزا میں کمی نہ کی جائے بلکہ پورا عمل عدل و انصاف کے مطابق ہو اور جس پر جو حق واجب ہے اسے بلاکم و کاست وصول کیا جائے اور حق داروں کوپہنچایا جائے۔ اسی لیے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان کی نگاہ میں ہر قوی کمزور ہے جب تک کہ اس سے حق دار کے حق واپس نہ لے لیں اور ہر محروم قوی ہے جب تک کہ اس کا حق اسے دلوا نہ دیں۔
جس سرزمین پر عدل کا نظام موجود نہ ہو‘ جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ جہاں طاقت ور محض اپنی دولت اور اثر و رسوخ کی بنا پر حق داروںکا حق مار کر دندناتا پھرے اور مظلوم اپنے حق سے محروم رہے اُسے اسلامی تو کیا‘ ایک مہذب معاشرہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ چرچل نے دوسری جنگ کے عین ان لمحات کے موقع پر جب برطانیہ کا ہر گھر جرمنی کی توپوں کی زد میں تھا‘ کہا تھا : ’’یہ ملک محفوظ ہے اگر اس کا عدالتی نظام ٹھیک ٹھیک کام کر رہا ہے اور لوگوں کو انصاف مل رہا ہے‘‘۔
جس معاشرے سے انصاف اٹھ جائے سمجھ لیجیے کہ اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔
موجودہ حکومت نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو جس طرح معافی دی ہے اور اعزاز کے ساتھ ملک سے رخصت کر دیا ہے اس عمل میں اس نے ایک نہیں حسب ذیل سات بڑے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور اسے ان سب ہی کے بارے جواب دہی کرنا ہو گی:
۱- عدلیہ کی تضحیک اور قوم سے بے وفائی: پہلا جرم یہ کہ ایک ایسے شخص کو ‘جسے ملک کی عدالتوں نے کم از کم دو مقدمات میں مجرم قرار دے کر سنگین سزائیں دی تھیں‘ بلاجواز و اختیار معافی دے کر انصاف کا خون کیا ہے۔ حکومت خود ان معاملات میں مدعی تھی اور ایک مقدمے کے بارے میں عدالت سے سزا میں کمی نہیں‘ مزید اضافے کی درخواست کر رہی تھی۔ نیز مختلف عدالتوں میں اسّی (۸۰) کے قریب دوسرے مقدمات دائر ہو گئے تھے یا دائر کیے جانے کے مراحل میںتھے۔ ایک خاندان جس کے بارے میں ملک اور عالمی اخبارات اور رسائل میں اربوں روپے کے غبن اور لوٹ مارکی شہادتیں پیش کی جا رہی تھیں اور خود حکومت ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کے جواز میں جن جرائم کا شب و روز ذکر کر رہی تھی اور جن کی بنیادپر عدالت عالیہ نے ۱۲ اکتوبر کے اقدام کو ایک گونہ جواز (validation) فراہم کیا تھا‘ ان سب سے بیک چشم صرفِ نظر کرکے محض چند ایسے اثاثوں کو اپنی تحویل میں لے کر‘ جن کی مالیت اصل لوٹ کھسوٹ کاعشر عشیر بھی نہیں‘ اس نے شدید ترین بدعنوانی اور بے انصافی کاارتکاب کیا ہے۔ جرم کرنے والے اس جرم پر پردہ ڈالنے یا مجرم کو بچانے والے اور حق دار کو (جو اس معاملے میں پوری پاکستانی قوم ہے محض کوئی حکمران نہیں) اپنے حق سے محروم کر دینے والے بھی جرم میں اسی طرح شریک اور ذمہ دار ہیں جس طرح اس کا اصل ارتکاب کرنے والے۔ نواز شریف ہوں یا بے نظیر یا کوئی اور سابق حکمران--- ان پر الزام ہی یہ ہے اور عدالتوں اور قوم کے اجتماعی ضمیر نے اس الزام کی توثیق کی ہے کہ انھوں نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں امانتوں میں خیانت کی ہے‘ اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے‘ دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیر دی ہیں‘ قومی خزانے کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ ملکی دولت بیرون ملک منتقل کی ہے اور ملک و قوم کو اپنے ہی وسائل سے محروم کر کے غربت اور افلاس اور بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل دیا ہے۔
نواز شریف صاحب ۱۹۸۱ء سے کسی نہ کسی صورت میں برسرِ اقتدار رہے ہیں۔ اس زمانے میں ان کا خاندان ملک کا پانچواں امیر ترین خاندان بن گیا۔ ان بیس سال میں محض چند لاکھ کی حیثیت والے اس خاندان کے اثاثوں کی مالیت ۱۰ ارب روپے سے زیادہ ہو گئی اور ۵ سو ملین ڈالر سے زیادہ (ایک اندازے کے مطابق ایک بلین ڈالر) ملک کے باہر منتقل کرنے کا مرتکب ہوا۔ اس عرصے میں اس خاندان کے ۳۴ صنعتی یونٹ وجود میں آئے جو ۳۰ چھوٹے بڑے مالیاتی اداروں سے قرض لے کر اور قرض کی بڑی بڑی رقوم معاف کرا کر قائم کیے گئے۔ صرف ایک حبیب بنک سے ایک ارب روپے قرض لیے گئے۔ دوسرے بنکوں اور مالیاتی اداروں کے واجب الادا قرضوں کی مالیت ۵ ارب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح ڈیڑھ ارب روپے سرکاری خزانے کے ٹیکسوں کی شکل میں واجب الادا بتائے جا تے ہیں (ملاحظہ ہو‘ جنگ‘ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۰ء- جو لندن کے اخبارات گارڈین اور انڈی پنڈنٹ کی رپورٹوں پر مبنی ہیں جن کی صحت پر اخبارات نے شریف خاندان کوعدالتی کارروائی کا چیلنج دیا تھا مگر انھوں نے ان اخبارات کے خلاف کوئی عدالتی چارہ جوئی نہیں کی)۔
جس خاندان نے ملک و قوم کو اس بے دردی سے لوٹا ہو‘ اسے معافی دینے اور ملک سے فرار کی اجازت دینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں تھا۔ یہ اقدام اسلام‘ دستورِ پاکستان‘ قانونِ احتساب اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور پاکستانی قوم سے کھلی کھلی بے وفائی ہے۔ معافی اور فرار کا ڈراما رچا کر موجودہ حکومت بھی ان جرائم میں اتنی ہی شریک اور ذمہ دار ہو گئی ہے جتنا ان کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔
۲- دستور کی کھلی خلاف ورزی: دوسرا جرم دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دستور پاکستان کی دفعہ ۴ میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ: ہر شہری خواہ کہیں بھی ہو‘ اور کسی دوسرے شخص کا جو فی الوقت پاکستان میں ہو‘ یہ ناقابل انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔
اسی طرح دفعہ ۱۵ میں ہر شہری کے لیے نقل و حرکت اور پاکستان میں کہیں بھی قیام کا حق تسلیم کیا گیا ہے الا یہ کہ کسی قانون کے تحت کسی کو اس سے محروم کیا جائے۔ دستور میں ملک بدری (deportation) کا کوئی حق حکومت کو نہیں دیا گیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت کسی شخص کو اس کی شہریت سے محروم کیے بغیر ملک سے نہیں نکالا جا سکتا اور یہ عمل بھی عدالتی فیصلے کے تحت ہو سکتا ہے ‘محض انتظامی حکم (executive order) سے نہیں۔ دفعہ ۲۵ میں تمام شہریوں کی برابری اور قانون کے مساوی تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی طرح دستور کی دفعہ ۴۵ میں معافی یا سزا میں کمی کا جو حق دیا گیا ہے وہ صرف عدالتوں کے آخری فیصلے کے بعد ہے اور دستوری اور قانونی عرف کے مطابق بالعموم صر ف موت کی سزاکے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اب دیکھیے اس اقدام کی صورت میں کس طرح دستور کی ان تمام دفعات کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
(i) جن دو مقدمات کی سزائیں معاف کی گئی ہیں وہ ابھی عدالتوں میں زیرِغور ہیں اور حکومت اور ملزم دونوں کی طرف سے اپیل کے درجے میں ہیں۔ دستور کی دفعہ ۴۵کا اطلاق ایسے معاملات پر نہیں ہوتا۔
(ii) ابھی ان ملزموں کے خلاف ۸۰ کے لگ بھگ مقدمات احتساب کی اور دوسری عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان سارے معاملات میں یک طرفہ طور پر ملزمان کو فرار کی راہ دکھانا (بلکہ عملاً فرار کرانا) دستور اور قانون کا خون کرنے اور جرم کی سرپرستی اور اس میں شرکت کے مترادف ہے۔
(iii) ایک ہی جرم میں شریک مختلف مجرموں کے درمیان تمیز اور فرق دستور اور اسلامی اصول کے منافی ہے۔
(iv) ملک بدری کی کوئی سزا کتاب قانون میں موجود نہیں۔ ایسی کوئی سزا دینے کا کوئی مجاز نہیں جو قانون کی نگاہ میں سزا نہ ہو۔ اسی طرح ملک بدر کرنے یا ملک میں واپسی کے حق سے کسی کو عدالتی کارروائی کے بغیر محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ بھی مشتبہ ہے کہ عدالتی فیصلے کے ذریعے بھی کسی کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ آنے والے کو قانون کے مطابق گرفتار تو کیا جا سکتا ہے لیکن ایک شہری کو ملک میں داخلے کے حق سے محروم کرنے کا اختیار دستور اور قانون کے تحت کسی کو حاصل نہیں۔
(v) اگرچند ملزموں کو اس طرح سودا بازی کے ذریعے سرکاری اہتمام میں ملک کے‘ باہر عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے بھیجا جا سکتاہے تو پھر کس قاعدے اور قانون کے مطابق دوسروں کو اس ’’حق‘‘ سے محروم رکھا جا سکتا ہے یا ان افراد کو زبردستی ملک میں لایا جا سکتا ہے جو ایسے ہی جرائم کا ارتکاب کر کے ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ خود دوسرے ممالک سے ایسے لوگوں کے بطور ملزم حوالگی (extradition) کا بھی کیا اخلاقی جوازباقی رہ جاتا ہے؟
یہ وہ چند پہلو ہیں جن کے بارے میں دستور اور خود اسلام کے اصول انصاف کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
۳- بااثر اور کمزور میں فرق کی شرم ناک مثال : تیسرا بڑا جرم اس اقدام کے ذریعے یہ کیا گیا ہے کہ امیر اور غریب‘ بااثر اور کمزور‘ بیرونی سرپرستی رکھنے والے اور بیرونی سرپرستی سے محروم انسانوں کے درمیان فرق کی ایک شرم ناک مثال قائم کی گئی ہے۔ نیز مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے درمیان تمیز و فرق کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ ایک ہی جرم کے مرتکب انسانوں کے درمیان تمیز اور فرق کا جو رواج ازمنہ قدیم کے براہمنی‘ یا ایسے ہی دوسرے ظالمانہ اور جابرانہ نظاموں میں پایا جاتا تھا اور جسے اسلام اور خود دورِحاضر کے قانونی نظاموں نے ختم کر دیا تھا اس کا بدقسمتی سے ہمارے ملک میں احیا کیا جا رہا ہے۔ بے نظیر‘ الطاف اور ایسے دوسرے بہت سے افراد تو خود ملک سے بھاگ گئے ہیں لیکن یہ ’’اعزاز‘‘ اس حکومت کو اور امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کے منظورنظر اس گھرانے کو جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں حاصل ہوا ہے کہ قومی مجرموں کو قانون اور انصاف کی گرفت سے نکال کر لوٹی ہوئی دولت سے شادکام ہونے کے لیے شاہی انتظام میں رخصت کر دیا گیا ہے۔ چند ہزار روپوں کا غبن کرنے والے تو جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور موٹر سائیکل پر محض دہری سواری کرنے والے تو پابند سلاسل ہیں لیکن اربوں روپے لوٹنے والے اور پوری قوم کو غلام بنانے والوں کے لیے آرام کے ساتھ سرکاری سرپرستی میں فرار کا اہتمام کیا گیا ہے۔ قانون صرف کمزوروں اور چھوٹے لوگوں کے لیے ہے۔ بڑی مچھلیوں پر اسے کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہ انصاف کا خون اور فرعونی روایات کا فروغ ہے۔ تفو!بر تو چرخ گرداں تفو!
۴- احتساب کے نام پر مذاق: فوجی حکومت اس دعوے کے ساتھ وجود میں آئی تھی کہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائے گی‘ لوٹی ہوئی دولت ہی واپس نہیں لائے گی بلکہ لوٹنے والوں کو بھی دنیا کے کونے کونے سے پکڑ کر قانون کی گرفت میں لے کر قرار واقعی سزادے گی۔ لیکن اس اقدام کے ذریعے اس نے قومی دولت کو لوٹنے والے سب سے بڑے ٹولے کو باعزت معافی دے کر ملک سے خود ہی رخصت کر دیا۔ اب دوسروں کی گرفت کا کیا جواز باقی رہا ہے؟ اس اقدام نے احتساب کے پورے عمل کو محض ایک ڈھونگ اور تماشے میں بدل دیا ہے۔ اب احتساب کے موجودہ نظام کا کوئی سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ ملک اور ملک سے باہر اس نظام پر کوئی اعتماد نہیں کر سکتا۔ ایک طرف عدالتی نظام اور قانون کی حکمرانی کے اصول کو پامال کیا گیا ہے تو دوسری طرف احتساب کے پورے نظام کو ایک مضحکہ بنا کر غیر موثر کر دیا گیا ہے جس پر ] اعتماد اور بھروسے والی کوئی بات[ اب باقی نہیں رہی۔ یہ ایک ایسا ظلم ہے جس کی تلافی مشکل ہے۔
۵- ملکی وقار اور خود مختاری پر شدید ضرب: اس اقدام کے لیے کھلے اور چھپے جو قوتیں کام کرتی رہی ہیں اور جس جس بیرونی دبائو کے آگے ہتھیار ڈالنے کی یہ حکومت مرتکب ہوئی ہے اس نے ملک کے وقار اور خودمختاری پر شدید ضرب لگائی ہے۔ ایک عرب ملک کا کردارتو بہت نمایاں ہے جس کا اعتراف خود سرکاری اعلان میں موجود ہے لیکن بات ایک ملک کی نہیں‘ کئی ملکوں کی ہے۔ اب تو وائٹ ہائوس کے ترجمان نے صاف اعتراف کر لیا ہے کہ ہم اس سلسلے میں برابر دبائو ڈال رہے تھے اور اس اقدام پر خوش ہیں۔ اس طرح کلنٹن صاحب نے ان خدمات کا حساب چکا دیاہے جو سابق وزیراعظم نے بھارت نوازی‘ کارگل سے پسپائی‘ ورلڈ بنک اور امریکہ کی معاشی بالادستی‘ افغانستان پر حملوں میں درپردہ معاونت‘ کانسی کی ملک بدری‘ جوہری صلاحیت کی تحدید اور نہ معلوم کس کس شکل میں انجام دی تھیں۔ سوال صرف سابق حکمرانوں کی مغربی اقوام کی کاسہ لیسی ہی کا نہیں‘ موجودہ حکمرانوں کا ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کا بھی ہے--- اور اس میں جو خطرات آیندہ کے لیے مضمرہیں‘ وہ ہوش اڑا دینے والے ہیں۔ مغرب کے ایجنڈے میں افغانستان پر دبائو‘ اسامہ بن لادن کی گرفتاری‘ کشمیرمیں جنگ بندی اور بھارت اور امریکہ کی شرائط پر سمجھوتہ کاری‘ قرضوں کی غلامی اور معاشی محتاجی میں اضافے اور بالآخر نیوکلیر صلاحیت سے محرومی اور اسلام سے بنیاد پرستی (فنڈمنٹلزم) کے نام پر عملی دست برداری آگے کے اہداف ہیں۔ جو حکومت قومی مجرموں کو اپنے دستور اور قانون کے مطابق اپنے دائرہ اختیارمیں نہ رکھ سکی اس سے قومی سلامتی کے دوسرے محاذوں پر مضبوطی کی توقع عبث ہے۔ فوجی قیادت کے بارے میں قوم کو توقع تھی کہ وہ سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں بیرونی اثرات سے ملک کو محفوظ رکھنے میں زیادہ مستعد ہو گی لیکن یہ بڑی تشویش ناک بات ہے کہ خود فوجی قیادت اس محاذ پر کمزوری اور پسپائی دکھا رہی ہے۔ گویا ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘۔ اس طرح حکومت نے اپنی ساکھ (credibility) کو بالکل ختم کر کے رکھ دیا ہے۔
۶- حکومت کا جواز سے محروم ہو جانا: ایک اور اہم پہلو اس اقدام کا یہ ہے کہ اس کے ذریعے موجودہ حکومت نے خود اپنے کو اس جواز (legitimacy) سے محروم کر دیا ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے اسے حاصل ہو گیا تھا۔ ۱۲ اکتوبر کے اقدام کا اگر کوئی جواز تھا تو وہ سابقہ حکومت کے کرتوت اور ان کو قرار واقعی سزا دیے جانے کا امکان اور انتظام تھا۔ اسی وعدے کے ساتھ جنرل صاحب نے یہ اقدام کیا تھا اور انھی پہلوئوں کو سامنے رکھ کر سپریم کورٹ نے انھیں سند جواز مرحمت کی تھی۔ لیکن اگر اس مجرم ہی کو معافی دے دی گئی ہے اور اس کے سارے جرائم پر نہ صرف یہ کہ پردہ ڈال دیا گیا ہے بلکہ ساری لوٹ کھسوٹ کو بھی ایک طرح تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے تو پھر اسے ہٹانے والوں کے باقی رہنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ اس اقدام کی شکل میں جنرل صاحب نے وہ کام کیا ہے جو اس بڑھیا نے کیا تھاجس نے جو سوت کاتا اسے اپنے ہی ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ویسے بھی حکومت کی ۱۴ ماہ کی کارکردگی ہر میدان میں نہایت مایوس کن ہے لیکن اس اقدام کے بعد تو اب اس کے باقی رہنے اور سپریم کورٹ کی عطا کردہ مدت پوری کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ جلد از جلد اقتدار عوام کے اصل نمایندوں کی طرف منتقل کیا جائے۔
۷- اسلام کے اصول انصاف سے انحراف: ساتواں اور ان سب جرائم کا جامع جرم اسلام کے اصول انصاف اور جرم وسزا کے درمیان نسبت اور تعلق کے نظام کو درہم برہم کر دینا ہے۔ پاکستان بہت سے دوسرے ممالک کی طرح‘ محض ایک ملک نہیں‘ ایک اسلامی ملک ہے۔ اس کے دستور نے قرآن و سنت کی بالادستی کے اصول کو تسلیم کیا ہے۔اس قوم کی منزل اسلامی ریاست اور معاشرے کا قیام ہے۔ ہم نے اپنی معروضات کا آغاز اسلام کے اصول انصاف کے خلاصے ہی سے کیا ہے۔ ۱۰ دسمبر کا اقدام اسلام کے ہراصول سے انحراف اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے کھلے احکام کی بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ خلاف ورزی ہے۔ اس میں پاکستان کی حکومت اور عرب ممالک کی مسلمان حکومتیں برابرکی شریک ہیں۔ نواز شریف کی فیملی بھی اپنے اصل جرائم کے ساتھ خدا کے قانون جرم و سزا سے بغاوت کی مرتکب ہوئی ہے۔ انسان سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن مسلمانوں کا رویہ غلطی پر ندامت اور اللہ سے عفو و درگزرکی طلب ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں جرم پر کوئی ندامت کہیں دور دور نظر نہیں آ رہی بلکہ چوری اور سینہ زوری کی روش اختیار کی جا رہی ہے جو خدا اور خلق دونوں کے خلاف بغاوت کی ایک صورت ہے۔ مجرموں کو بچانے کی خدمت جو جو افراد اور قوتیں انجام دے رہے ہیں وہ سب اس بغاوت میں شریک اور معاون ہیں۔ جرم کا ارتکاب کرنے والا اور جرم میں معاونت کرنے والے دونوں قانون اور انصاف کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ مجرم کو تحفظ دینا بھی ایک جرم ہے۔ ۱۰ دسمبر کے اقدام نے ان سب کو مجرموں کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے اور اب ان سب ہی مجرموں سے نجات میں ہماری بقا اور ترقی کا راز ہے۔
اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ جنرل صاحب اور ان کی ٹیم مستعفی ہو‘ عدلیہ کے تحت غیر جانب دارانہ مگر قابل اعتماد افراد پر مشتمل عبوری انتظام بنایا جائے ‘ مکمل طور پر آزاد انتخابی کمیشن مقرر کیا جائے اور ایک معقول مدت میں نئے انتخابات کے لیے قوم کو اپنی نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے جو ملک کے حالات کو سدھارنے کی جدوجہد کرے اور ملک و قوم کے مجرموں کو بھی قرار واقعی سزا دینے کا اہتمام کرے۔ یہ کئی وجوہ سے ضروری ہے:
اولاً‘ موجودہ حکومت ناکام رہی ہے اور اسے جو موقع ملا تھا ‘اس نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی چلا کر اسے ضائع کر دیا ہے۔ یہ حکومت نہ احتساب کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ اس پر اب احتساب کے باب میں کسی درجے میں بھی اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ معیشت بھی خراب سے خراب تر ہوئی ہے ۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ اس کا ثبوت ہے جو آیندہ بھی اشیاے صرف کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے اور مزید بے روزگاریوں کی بھیانک پیشن گوئیاں کر رہی ہے۔
اس حکومت نے اپنی ہی قوم کے مختلف عناصر سے غیر ضروری محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر کے حالات کو خراب کیا ہے۔ جس نئے نظام کی یہ نوید سناتی رہی ہے‘ اسے عوام میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ہے جس کا ثبوت بلدیات کے انتخابات میں عوام کی مکمل عدم دل چسپی ہے جسے ایک حد تک اس نظام اور اس حکومت کے خلاف ریفرنڈم قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر جس طرح اس نے اپنے آپ کو بیرونی دبائو کے لیے نرم نوالہ بنا دیا ہے‘ اس سے تو اس کا اعتبار بالکل ہی غارت ہو گیا ہے۔ اس کی یہ کمزوری اپنے اندر بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ نئی‘ قابل اعتماد اور عوام کی معتمد علیہ قیادت جلد از جلد زمام کار سنبھالے۔ یہ اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ ۱۰ دسمبر کو ہوا ہے اور جو کچھ اس سے پہلے ہوتا رہا‘ یعنی ۱۹۷۱ء کا سانحہ‘ کارگل کی پسپائی وغیرہ‘ خواہ فوجی حکمران برسرِاقتدار ہوں یا مفاد پرست سیاست دان‘ اس کی بڑی وجہ موثر شورائی نظام کا فقدان‘ حکمرانوں کے ہاتھ میں آمرانہ اختیارات کا ارتکاز اور کسی موثر جواب دہی اور ضروری احتساب کے نظام کی کمی ہے۔
بات ایوبی دور کی ہو ‘جس میں تین دریائوں کے پانی سے دست برداری‘ بھارت چین جنگ کے موقع پر کشمیر پر پیش قدمی سے اجتناب‘ اور تاشقند میں بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے سانحے وقوع پذیر ہوئے یا ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی کا دور ہو‘ نواز شریف کا زمانہ ہو یا یحییٰ اور ضیا الحق کا اور یا اِس وقت کے جنرل پرویز مشرف کا--- جب بھی اختیارات کسی شخص واحد کی ذات میں مرکوز ہوئے ہیں اور وہ سیاہ و سفید کا مالک بنا ‘ ایسی ہی خوف ناک اور بھیانک غلطیاں (blunders) رونما ہوئیں۔ ستم ظریفی ہے کہ ۱۰ دسمبر کے اقدام کے لیے خود چیف ایگزیکٹو کی اپنی بنائی ہوئی کابینہ تک سے مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور نواز شریف کی رخصتی کے چار دن بعد اس واقعے پر کابینہ میں بحث ہوئی اور اس نے آمنا وصدقنًا کی سند جاری کر دی! ہمارے ملک کی سیاست کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے ادارے موجود نہیں اور جو ادارے بنائے گئے ہیں وہ صرف وزن بیت کے لیے ہیں--- حقیقی اختیارات سے محروم! نواز شریف ہو یا بے نظیر‘ نہ ان کی جماعتوں میں کسی مشورے اور جواب دہی کا نظام ہے اور نہ کبھی ان کی کابینہ یا اسمبلیوں نے ایسا کوئی کردار ادا کیا۔
آج بھی بے نظیر بھارت سے دوستی‘ مشترک کرنسی‘ کشمیر میں جنگ بندی‘ مسام دار (porous) سرحدوں اور نہ معلوم کیا کیا باتیں کر رہی ہیں مگر ان کی پارٹی میں کوئی نہیں کہ اس کی زبان کو لگام دے یا اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ نواز شریف مسلم لیگ کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔ جسے چاہیں نامزد کر دیں‘ جسے چاہے نکال دیں۔ کوئی نہیں جو ان کے اس رویے پر گرفت کر سکے اور ان کے دامن کو پکڑ کر ان سے پوچھ سکے۔ یہ تمام صورتیں آمریت کی شکلیں ہیں‘ انھیں جمہوریت سے کوئی نسبت نہیں۔ قوم کی ضرورت صرف فوجی اقتدار ہی سے نجات نہیں‘ آمریت کی ہر شکل سے بغاوت کر کے حقیقی جمہوریت‘ قانون کی بالادستی‘ مشاورت کے موثر نظام کا قیام‘ پالیسی سازی کے لیے افراد کی جگہ اداروں پر انحصار اور سب کے لیے جواب دہی کے نظام کا قیام ہے۔
آج پاکستان ہی نہیں‘ پوری مسلم دنیا کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ فوجی حکومت ہو یا ’’جمہوری تماشا‘‘ اقتدار کسی فردِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے‘ کرتا ہے اور اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ عبرت کے لیے مسئلہ فلسطین کے بگاڑنے میں مصر کے کردار پر ایک نظر ڈالیے۔ کیمپ ڈیوڈ جس نے شرق اوسط کی سیاست کا رخ بدل دیا اور مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے بگاڑ دیا‘اس کا بڑا سبب فیصلوں کے لیے موثر شورائی نظام اور قومی جواب دہی کا فقدان ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے وقت انورالسادات نے نہایت خود رائی اور خودسری کا مظاہرہ کیا اور عقل کل بن کر اپنے تمام وزیروں اور مشیروں تک کو نظرانداز کر کے صدر کارٹر پراعتماد کی ترنگ میں اس طرح معاملات نمٹائے کہ آج بھی فلسطین میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور فلسطین اتھارٹی اور عرب حکومتیں دم بخود ہیں۔ اس وقت کے مصری وزیر خارجہ عصمت کمال نے اپنی کتاب Camp David Accrod: A Testimony (مطبوعہ ۱۹۸۶ء) میں جو حالات بیان کیے ہیں وہ آنکھیں کھولنے والے اور خون کھولا دینے والے ہیں۔ افسوس کہ یہی کھیل ہے جو برابر کھیلا جا رہا ہے اور کم و بیش ہر ملک میں کھیلا جا رہا ہے۔ انورالسادات کا ایک ہی مطالبہ تھا:
براہ کرم ‘ مجھ پر اعتماد کیجیے۔ کیا آپ کو مجھ پربھروسا نہیں ہے؟
عصمت کمال لکھتا ہے کہ:
اصل مسئلہ نہ اسرائیل کا غیر لچک دار رویہ تھا اور نہ امریکہ کا اسرائیل کے آگے موم کی ناک بن کر ہر معاملے میں سپرانداز ہوجانا (spineless surrender)۔ اصل مسئلہ تو صدر سادات خود تھے۔ انھوں نے صدر کارٹر کے آگے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے اور صدر کارٹر نے بیگن کے آگے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اب جو معاہدہ بھی ہوتا ‘ مصر کے لیے‘ فلسطینیوں کے لیے اور کل عرب قوم کے لیے تباہ کن ہی ہوتا ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں سادات کے عزائم اور رویے کی کیا توجیہ کروں۔ شاید انھوںنے اپنے آپ کو امریکہ سے اس درجے مضبوطی سے وابستہ کر لیا تھا کہ انھیں اس مرحلے پر اس سے باہر نکلنا مشکل محسوس ہوتا تھا (ص ۳۵۸-۳۵۹)۔
امریکہ پر انحصار‘ اس کے ہاتھوں میں کھلونا بن جانا اور فردِواحد کے ہاتھوں میں قوم کی قسمت کو دے دینا ساری خرابی کا اصل سبب تھا۔ اور یہی دو بلائیں ہیں جو مسلمان ملکوں کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔گھر میں آمریت اور باہر کی قوتوں پر انحصار ہی ہمارااصل روگ ہیں۔ ہم ہی نہیں‘ غیر بھی اس کمزوری کو دیکھ رہے ہیں اور خوب خوب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈیوٹ ہرسٹ اور ارنے بی سن نے سادات کی سوانح عمری میں بڑی پتے کی بات کہی ہے جو بدقسمتی سے خود ہمارے حالات پر پوری طرح صادق آتی ہے:
ایک فرد‘ ان اداروں کے بالمقابل جن کا وہ سربراہ ہو‘ جتنا زیادہ خود پالیسی بنائے گا اتنا ہی زیادہ ان کے بنانے میں اس کی ذاتی نفسیات ایک معروضی سیاسی حقیقت کے طورکارفرما ہوگی۔ سادات کسی طرح بھی دنیا کے سب سے زیادہ مطلق العنان حکمران نہ تھے لیکن ان کی سیاسی زندگی بہت ہی نمایاں طور پر اس کی مثال تھی کہ کس طرح سیاسی امور میں ذاتی رجحان کو غلبہ حاصل رہتا ہے۔ اور جب ذاتی رجحان اتنا ہی مخصوص طرح کا ہو جیسا کہ ان کا تھا‘ تو پالیسی کے نام پر کیا کیا بگاڑ رونما ہوسکتے ہیں (ص ۳۵۴)۔
فردِ واحد کی حکمرانی اپنے اندر ایسے ایسے خطرات رکھتی ہے جو برسوںکی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل شدہ آزادی‘ عزت‘ دولت اور امکانات کو لمحوں میں غتربود کر سکتے ہیں!
دستور اور قانون کی حکمرانی‘ موثر شورائی نظام اور جمہوری اداروں کا وجود‘ جواب دہی اور پالیسی سازی کا ادارتی انتظام ہی اچھی حکمرانی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ فوجی حکومت ہو یا جمہوریت کے لبادے میں شخصی حکومت--- دونوں مطلوبہ نظام کی ضد ہیں۔ یہ نہ صرف ملک کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خود فوج کی دفاعی صلاحیتوں کے لیے بھی سم قاتل ہے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو‘ حقیقی جمہوری نظام کی طرف مراجعت ہی میں ہماری نجات ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ قوم کی قسمت سے کھیلنے کا حق اور اختیار کسی کو حاصل نہیں۔ یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے اور اس کے اصل امین اس ملک کے عوام ہیں۔ ہم اس بات کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جہاں ہماری فوجی اور سیاسی دونوں قیادتیں ناکام رہی ہیں وہیں عوام بھی اس ناکامی میں اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔
انتخاب کے موقع پر اپنا کردار ادا نہ کرنا‘ یا برادری اور مفاد کی بنیاد پر غلط لوگوں کو برسرِاقتدار آنے میں مدد دینا بھی ایک قومی جرم اور اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ آخری ذمہ داری عوام کی ہے کہ وہ اپنے ایمان اور ملکی مفاد کے پیش نظر اچھی قیادت کو بروئے کار لائیں اور سیاسی شعبدہ بازوں سے بار بار دھوکا نہ کھائیں۔
غربت‘ تعلیم کی کمی اور جمہوری روایات کا فقدان راہ کے موانع ہیں لیکن جمہوری عمل کا کوئی متبادل نہیں۔ اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اس عمل کے ذریعے بالآخر بہتر قیادت ابھرے گی اور عوام اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے لائق بن سکیں گے۔
ہمارے ملک کے حالات کی روشنی میں نظام انتخاب کی اصلاح اور آزاد انتخابی کمیشن کا قیام اس کے لیے ضروری ہیں۔ موجودہ حکومت سے اب احتساب کی کوئی توقع نہیں رہی۔اگر یہ ملک کے اچھی شہرت رکھنے والے افراد کے مشورے سے ضروری انتخابی اصلاحات نافذ کر کے نئے انتخابات کا اہتمام کرے اور اقتدار قوم کی طرف لوٹا دے تو یہ اس کے لیے بھی بہتر ہے اور اس میں ملک و ملّت کے لیے بھی خیر ہے۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں--- سوال اتنا ہے کہ یہ کام افہام و تفہیم اور خیرسگالی اور قومی مفاہمت کے ذریعے ہوتا ہے یا ایک نئی کش مکش اور عوام اور حکومت کے درمیان ٹکرائو کے نتیجے میں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ حکومت دانائی کا راستہ اختیار کرے گی اور اپنے اخلاقی جواز کو کھو دینے کے بعد اپنے اقتدارکو طول دینے کی کوشش نہیں کرے گی‘ نوشتہ دیوار کو بروقت پڑھ لے گی اور اصلاح احوال کا وہ راستہ اختیار کرے گی جس سے ملک اس دلدل سے نکل آئے اور فوج کا بھی اعتماد باقی رہے تاکہ وہ دفاع وطن کے کام کے لیے یکسو ہو کر سرگرم ہو سکے۔ پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے کا راستہ ہی یہ ہے کہ نظام حکومت ایسے ایمان دار اور باصلاحیت عوامی نمایندوں کے ہاتھوں میں آجائے جو خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہوں اور جو اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد کے تابع رکھ سکیں۔ سابق حکمرانوں کے حشر سے سبق سیکھیں اور اس سے عبرت پکڑیں کہ کس طرح دو دو بار وزیراعظم بننے والوں اور بڑے بڑے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں کو ملک سے فرار کی راہ اختیار کرنی پڑی اور ملک کے عوام کس طرح ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ دونوں کا حال یہ ہے کہ نہ صرف ’’بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ بلکہ ملک کو ایسا بدحال کر کے نکلے کہ بہ ادنیٰ تصرف یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’بڑے بے آبرو کر کے ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘۔ لیکن نکلنے کا آبرومندانہ راستہ بھی موجود ہے۔ وہ محاذ آرائی کا نہیں بلکہ حق دار کو اس کا حق دینے کا راستہ ہے۔ فوجی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ فوج کا کام ملک پر حکمرانی کرنا نہیں‘ ملک و ملت کا دفاع ہے۔ سیاست میں الجھ کر فوج نہ اچھی حکمرانی کا نمونہ پیش کر سکتی ہے کہ اس کی نہ یہ تربیت ہے‘ نہ صلاحیت اور نہ اس طرح یہ اپنی دفاع کی صلاحیت ہی کو باقی رکھ سکتی ہے۔ اگر فوج متنازع بن جائے یا اس کے لوگوں کو بھی بدعنوانی کا خون یا اقتدار کی چاٹ لگ جائے تو پھر وہ قوم کی امیدوں اور دعائوں کا مرکز نہیں رہ سکتی۔ پھر تووہ شکایتوں اور نفرتوں کا ہدف ہی بنتی جاتی ہے اور جس فوج پر اس کی اپنی قوم کا اعتماد نہ ہو‘ وہ دفاع کی خدمت کیسے انجام دے سکتی ہے۔ موجودہ قیادت اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم کرلے ‘ اتنا ہی اس کے اور ملک کے لیے بہتر ہے۔
تحریک اسلامی اور ملک کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بیدار کریں‘ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں‘ قوم کا خون چوسنے والوں کے چنگل سے قوم کو نکالیں اور اس ملک خداداد کو ایک اچھی اور ایمان دارانہ قیادت فراہم کریں جو اسے امت کے خوابوں اور تمنائوں کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد کو اپنی منزل بنا لے اور اقبال‘ قائداعظم اور ملت اسلامیہ ہند کے تصور کا پاکستان اس پاک دھرتی پر ایک زندہ حقیقت بن سکے۔ یہی امت مسلمہ کے لیے بھی ایک روشن مینار بن سکتا ہے۔ یہ صلاحیت اور یہ امکان آج بھی موجود ہے‘ اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور اللہ پر بھروسا‘ خود اپنی قوم پر اعتماد‘ اپنے وسائل کا صحیح استعمال اور معاشرے کے تمام اچھے عناصر کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!