مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۱۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کسی بھی معاشرے میں جب قومی سطح کے انتخابات ہوتے ہیںتو اس کے نتیجے میں ایک نیاسیاسی اور انتخابی کلچر وجود میں آتا ہے۔معاشرے کے مختلف ادارے باہمی تعاون کی نئی سبیلیں تلاش کرتے ہیںاور مل جل کر معاشرے کی خدمت کے نئے منصوبے بناتے ہیں۔منتخب لوگ بھی جن وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ برسراقتدار آتے ہیںاور جس منشور کی پاسبانی کو اپنی ذمہ داری قرار دیتے ہیں، ان وعدوں کو پورا کرنے اور دعوؤں میں رنگ بھرنے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں۔

پاکستان میں ایک طویل آمریت کے بعد فروری ۲۰۰۸ء میں انتخابات ہوئے تو لوگوں نے بجا طور پر یہ توقعات قائم کیں کہ حالات سدھریں گے، مواقع بڑھیں گے اور معاشرے میں سلگتے ہوئے مسائل کے جنگل سے نجات ملے گی۔ لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘۔پانچ سال ہونے کو آئے ہیں،کوئی وعدہ ایسا نہیں جو وفاہوتا نظر آئے ، کوئی دعویٰ ایسا نہیں جس کی قلعی کھل نہ گئی ہو،   اور کوئی امید ایسی نہیں جو یاس میں تبدیل نہ ہو گئی ہو۔ انتخابات جیتنے اور حکومت بنانے والوں    نے اقتدار سنبھالتے ہی دو نکاتی یقین دہانی کرائی اور ببانگ دہل اس کا اعلان کیا کہ عوام نے پرویزمشرف اور اس کی پالیسیوں کو مسترد کردیا ہے اور یہ کہ ہم تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر مفاہمت کی پالیسی پر عمل کریں گے، ایک دوسرے کے خلاف کردار کشی کی مہم اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے گریز کریں گے اور عوام کے دکھوں کا مداوا سب کا ایجنڈا قرار پائے گا۔ عوام نے ان دونوں باتوں کا خیرمقدم کیا، انھیں اپنے دل کی آواز سمجھا اور’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘  کے مصداق یہ گمان کیا کہ ان کی تمنائوں اور آرزوئوں کی تکمیل کا خواب اپنی تعبیر کو پہنچا چاہتا ہے۔  مگر پچھلے پانچ سالوں میں جو کچھ ہوا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ وہی چال بے ڈھنگی، وہی ایڈہاک ازم، لوٹ مار کے نت نئے طریقے اور عوام کی خدمت سے عاری رویے اور منصوبے۔جن اعلانات اور کانوں میں رس گھولنے والی باتوں کے ساتھ آج کی حکومت برسر اقتدار آئی تھی، وہ اعلانات محض اعلانات ہی ثابت ہوئے۔ پرویز مشرف اور اس کی پالیسیاں زور و شور سے جاری ہیں اور مفاہمت کی پالیسی کے نام پر حکمران اتحاد اوراپوزیشن جماعتیں جس طرح ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑ رہی ہیں، وہ سب پر عیاں ہے۔

 زندگی کے تمام دائروں میں جس درجے لاقانونیت نظر آتی اوردکھائی دیتی ہے، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے روز افزوں واقعات جس طرح خوف اور دہشت کی فضا پیداکرتے ہیں، آفرین ہے کہ عوام نے تو اس صورت حال کا جرأت و بہادری اور مصمم ارادے سے مقابلہ کیا ہے، ملک کی تعمیر نو میں بھی دل چسپی کا اظہار کیا ہے، قومی یک جہتی کو بھی پارہ پارہ ہونے سے بچایا ہے اور حکمرانوں کو بھی مسلسل آئینہ دکھایا ہے، لیکن خود حکمران جس طرح امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، اسی سے ڈکٹیشن لیتے ہیں، اس کے کہے پرعمل کرتے ہیں، اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اسی سے اپنی پالیسی اور ترجیحات کا تعین کراتے ہیں، اس نے پاکستان کو غلامی کی بدترین صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔

محاذ آرائی اور تصادم کی سیاست

پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں جمہوری تقاضوں کے بالکل برعکس اداروں سے متصادم ہونے کی راہ اختیار کی،اور یہ پیپلزپارٹی کی ریت اور روایت رہی ہے ۔ اس کا پورا ٹریک ریکارڈ تصادم اور محاذ آرائی کی پالیسی سے عبارت ہے۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹونے      ’ادھر تم ادھر ہم‘ کا نعرہ لگایا تھا اور’جو اسمبلی کے اجلاس میں ڈھاکہ جائے وہ ایک طرف کا ٹکٹ لے کر جائے‘اس دھمکی آمیز رویے کو اپنایا تھا،اور ’جو ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی‘ اس لب و لہجے میں بات کی تھی۔ منجملہ دیگر امور کے یہی وہ رویہ ہے جس کے نتیجے میں ہمارا   مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا۔وہ دن ہے اور آج کا دن، پیپلزپارٹی محاذ آرائی اور تصادم کی سیاست پر یقین رکھتی اور عمل کرتی آرہی ہے۔ جو لوگ اس پارٹی کی حکمرانی اور اس کی تاریخ سے واقف ہیںان کے لیے یہ بات حیرانی کا موجب نہیں ہے۔ آج بھی سپریم کورٹ کو للکارا جا رہا ہے، اسے بائی پاس کیا جا رہا ہے، اس کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، اور اس کے فیصلوں کی خلاف ورزی کر کے لاقانونیت اور دستور سے بغاوت کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔پیپلزپارٹی کا اگر یہ خیال ہے کہ وہ کیکر کا درخت اُگائیں گے اور اس پرسے آم اتاریں گے تو یوسف رضا گیلانی کے معاملے میں وہ دیکھ چکے ہیںکہ جو کچھ انھوں نے بویا تھا وہی کاٹا،اور اب راجا پرویز اشرف کے معاملے میں بھی اس سے مختلف رویے کی انھیں توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں اور مظلوم اور ہمدرد بن کر عوام کے سامنے ٹسوے بھی بہاتے ہیں۔ عدالت کو اس معاملے میں مضبوطی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے فیصلوں پر کماحقہ عملدر آمد ہوتا نہ دیکھے تو آئین کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد ہی میں ملک و قوم کی بقا ہے،اور محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑاکرنے سے ہی آئین و قانون کی بالادستی ممکن ہے۔ سپریم کورٹ نے اب تک اولوالعزمی اور آئین کو بالادست رکھنے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ توقع یہی ہے کہ وہ اسی ریت کو جاری رکھے گی، اور یہ بھی احتمال ہے کہ پیپلزپارٹی بھی محاذآرائی کی روش سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی حکومت کا اصل سلوگن جمہوری حکومت رہا ہے مگر جو حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہ مانتی ہو اور پارلیمنٹ کے فیصلوں اور قراردادوں کو رتی برابر اہمیت    نہ دیتی ہو، وہ کس منہ سے اپنے آپ کو جمہوری حکومت کہہ سکتی ہے؟غیر جمہوری رویوں اور طورطریقوں کو اپنا کر جمہوریت کا لیبل لگانا    ؎

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے

کے مترادف ہے۔ حکومتی سطح پر اداروں کو باہم متصادم کرنے کی روش معاشرے کی چولیں ڈھیلی کر دیتی ہے، معاشرے کی پہچان گم ہو جاتی ہے، اس کا تشخص گہنا جاتا ہے اور معاشرہ اپنی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت زندگی کے تمام دائروں میں دیکھا جاسکتا اور اس کو محسوس  کیا جا سکتا ہے۔پرویز مشرف کی طرح عوامی نمایندہ ہونے کی دعوے دار یہ اتحادی حکومت بھی عوام کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنی ہے اور زخموں کو پھاہا بھی میسر نہیں ہے۔ اتحادی جماعتوں نے مرکز اور صوبوںمیں عوام کو مایوس کیا ہے۔ان سب کی عدم کارکردگی اور برے طرزِ حکمرانی کی وجہ سے لوگوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ان سب کا ویژن اور اپروچ الگ الگ ہے مگر اپنے اپنے مفادات اور وقتی اور عارضی طور پر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے جمع ہو گئے ہیں۔

بلوچستان کی تشویش ناک صورتِ حال

بلوچستان اور کراچی کے حالات میں ایک درجہ مماثلت بھی پائی جاتی ہے اور عمومی طور پر اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے دکھوں کی دنیا بھی آباد ہے۔بلوچستان کو جس احساس محرومی نے آگھیرا ہے، اس کا مداوا احساس شرکت سے ہی کیا جا سکتاہے، محض زبانی جمع خرچ سے نہیں۔  یہ سوال اہم ہے کہ یہ احساس بلوچوں میں کیسے پیدا کیا جائے؟ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ بلوچوں کے ساتھ مذاق بند کیا جائے، ان کا تمسخر نہ اڑایا جائے، اور وزیراعلیٰ تک کا مہینے میں ۲۵ دن اسلام آباد میں  مقیم رہ کر محض کوئٹہ میں کابینہ کا اجلاس کر کے یہ دعویٰ نہ کیا جائے کہ بلوچستان کے حالات تبدیل کرنے کا کام کیا گیا ہے۔ بلوچوں کو لالی پاپ کی ضرورت نہیں ہے، لوری دے کر انھیں خوش نہیں کیا جا سکتا۔ محض پیکیج کے نام پر انھیں دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔ اپنے وسائل میں سے اگر وہ اپنا حق طلب کرتے ہیں تو امانت و دیانت اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے اور وہاں کے وسائل کو وہاں کے مفلوک الحال عوام پر خرچ کیا جائے۔ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے بھی کوئی کام نہ کیا اور کسی کو علم نہیں کہ ایک سو سے زیادہ ارب روپے جو بلوچستان کے عوام کے لیے دیے گئے ہیں وہ کہاں گئے؟ عوام کی حالت بدتر اور جان، مال اور عزت کی پامالی ماضی کی طرح جاری ہے۔ مرکزی حکومت کی طرح صوبائی حکومت بھی ایک ناقابل معافی جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔

 صوبائی کابینہ میں تمام پارٹیاں شریک ہیں، تمام ایم پی اے وزیر بنے ہوئے ہیںاور اپنے لیے دونوں ہاتھوں سے وسائل اور مراعات اکٹھی کر رہے ہیں لیکن بلوچوں کو انھوں نے محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اب اگر وفاقی وزیر داخلہ اورآئی جی ایف سی بلوچستان یہ بیان دیتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کر رہا ہے، تو دشمن سے تودشمنی کی ہی توقع کی جا سکتی ہے۔اور دشمن کے ساتھ اگر مذاکرات کی میز پر بیٹھا جائے تو اس کا گلہ بھی کیا جانا چاہیے اور کبھی بلوچستان کے ایشو پر مذاکرات کا بائیکاٹ  بھی کیا جانا چاہیے تاکہ اس کی مداخلت بند ہو۔ لیکن حالات کو درست کرنے اوراپنے گھر کو    پُرامن بنانے کی ذمہ داری تو مرکزی اور صوبائی حکومت کی ہے،اور بظاہر یہ دونوں حکومتیں اس جانب بڑھتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔ابھی موقع ہے کہ بلوچستان کے حالات کو درست کیا جا سکے، وہاں ہونے والے ظلم کی چادرکو ہٹایا جا سکے، ناانصافی کی طویل رات کو سحر کیا جا سکے لیکن جمہوریت کے نام پر  قائم ہونے والی حکومت جمہوری رویوں سے بالکل ناآشنا نظر آتی ہے۔عوام کے دلوں میں     اس کے لیے نفرت،مذمت، احتجاج، دوریوں اور گالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

کراچی میں بڑہتی ھوئی لاقانونیت

کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا براے تاوان کے حوالے سے حکومت سندھ میں شریک تینوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگاتی ہیںاورایک دوسرے کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھیراتی ہیں،اور جب وہ ایسا کہہ رہی ہوتی ہیں تو سچ بول رہی ہوتی ہیں۔سندھ کی صوبائی حکومت چوری اور بھتہ خوری کے مشترکہ نکتے پر قائم ہے اور یہ بات زبان زد عام ہے کہ صوبے کی حکومت پس پردہ ہاتھوں میں ہے۔ وزیر اعلی کی حیثیت محض نمایشی ہے۔ پیپلزپارٹی کو سندھ میں اکثریت حاصل ہے، وہ اکیلے اور تنہا حکومت بنا سکتی ہے لیکن دہشت گردوں کواپنی گود میں بٹھا کر اس نے عوام کی پیٹھ پر بھی ظلم کا کوڑا برسایا ہے اور دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ بھی بنی ہے۔ ایم کیو ایم  یا اے این پی کے مینڈیٹ میں سرے سے یہ بات تلاش نہیں کی جا سکتی کہ انھیں حکومت میں ہونا چاہیے لیکن جرائم کی فہرست جب طویل ہو جاتی ہے اور بوری بند لاشیں، بھتہ خوری اور لوگوں کا جینا حرام کرنے کے ذرائع استعمال کر لیے جاتے ہیں، تو حکومت کی پناہ میں گزربسر کرنا ایسی پارٹیوں کا منشور بن جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں یہ ٹرائیکا جس کی حکومت وہاں پر قائم ہے، ان تمام مسائل، مصائب اور حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے۔جب تک دہشت گرد حکومت میں شامل رہیں گے کراچی اور سندھ کے شہریوں کے حالات کو درست کرنا ممکن نہیں ہوگا ، جان و مال کا عدم تحفظ روزمرہ کا معمول رہے گا اور نجات کی کوئی صورت بن نہ پائے گی۔

لوڈ شیڈنگ اور عوامی مسائل

خیبر پختونخوا کی صورت حال بھی ابتری سے دوچار ہے۔صوبائی حکومت نے عوامی خزانے کی لوٹ مار کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جسے تین تین مرتبہ ہجرت پر مجبور کیا گیاہے، گھر سے بے گھر اور لاوارث بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لاتعداد سکول اور ہسپتال ہیںجو دہشت گردی کی نذر ہوگئے ہیں،اور بین السطور یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ سوات جیسے ضلع میں تمام سکولوں کو اگر بھک سے اڑا دیا گیا تو یہ سارے واقعات کرفیو کے دوران پیش آئے۔ لوگوں نے اپنے سر کی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھا اور ان گواہوں کی ایک بڑی تعداد ان تمام علاقوں میں موجود ہے جہاں لوگوں کو ان کی ضروریات سے محروم کرکے عنوان یہ دیا گیا کہ دہشت گردی پر قابوپانے کے لیے فوجی آپریشن ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوااس بات کا مستحق ہے کہ وہاں جن بچوں سے مستقبل چھین لیا گیا ہے اور جن عوام کو صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا ہے،  مرکزی و صوبائی حکومت ان کے لیے تعلیم اور صحت کے مراکز تعمیر کرنے پر توجہ دے۔

اس پورے عرصے میں پنجاب حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ اس نے جمہوری رویوں کو برقرار رکھا ہے، عوام کے دکھوں کا لحاظ اور پاس کیا ہے، اور مرکز کی طرف سے مداخلت اور حالات کو بگاڑنے کی کوششوں کے باوجود تحمل اور بُردباری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ حالانکہ اس کے پاس اتنے وسائل تھے اور اتنی دانش و بینش اسے میسر تھی کہ اگر وہ لوڈ شیڈنگ کے بارے میں مرکزی حکومت سے کامل بے اعتنائی برتتے ہوئے اسے کم کرنے یا کنٹرول کرنے کے اقدمات کرتی اور اس کی گنجایش موجود تھی، تویقینی طور پر یہ ایک بڑا کارنامہ ہوتا لیکن اس نے بھی سواے مرکز کو چارج شیٹ کرنے کے کچھ نہ کیا اوراپنے فرائض کی ادایگی سے پہلوتہی کرتے ہوئے عوام کے دکھوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ اسی لیے پنجاب بالخصوص لاہور لوڈشیڈنگ کے سب سے بڑے مراکز کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی محسوس ہوا کہ مصنوعی اور نمایشی اقدامات، دکھاوے کے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے عنوانات تو بہت سجائے گئے، چاہے وہ سستی روٹی سکیم ہو یا لیپ ٹاپ کی تقسیم کا معاملہ ہو لیکن حقیقی طور پر مہنگائی کو ختم کرنے اور بے روزگاری کوکم کرنے کے جو منصوبے اور اقدامات   ہوسکتے تھے، وہ سامنے نہیں آسکے۔ اور یہی معاملہ کم و بیش لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کا نظر آیا۔ دہشت گردی کے واقعات بھی اس کی گواہی دیتے ہیں،اور عمومی طور پر جو لاقانونیت ہے اور جو ظلم کی نئی نئی داستانیں رقم ہوتی اور آشکار بھی ہوتی ہیں، ان سے بھی اس کا اندازہ ہوتاہے۔ پنجاب میں جس طرح پرائمری ہی سے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جا رہا ہے، تعلیم مخلوط کی جارہی ہے، اور جس طرح لیپ ٹاپ تقسیم کرکے حکومتوں کے اصل فرائض اور ذمہ داریوں سے پہلوتہی کی جا رہی ہے، نیز طلبہ کو جن دائروں میں ہمت افزائی کی ضرورت ہے اور سہولتیں فراہم کرنے اور ضرورتیں پوری کرنے کی طرف توجہ دی جانی چاہیے، ان سے جس طرح پہلو تہی کی جارہی ہے،  اس سے ایک ایسے سماج کا نقشہ سامنے آ رہا ہے جو بے پیندے کے لوٹے سے بھی گیا گزرا ہو۔

’دھشت گردی کی جنگ‘ اور ناکام خارجہ پالیسی

بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کاجو امیج استعماری طاقتوں کی پاکستان و اسلام دشمنی،اور حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی اورغلط پالیسیوں کی وجہ سے بن رہا ہے، وہ پاکستان کے وقار کی بھی نفی کرتا ہے اور جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کا رونا بھی روتا ہے۔ اگر امریکا اپنی پالیسی کے تحت پاکستان کو ایٹمی پروگرام سے محروم کرنا چاہتا ہے اور اسے بین الاقوامی کنٹرول میں دینے اور اس کو  محفوظ ہاتھوں میں دینے کا راگ الاپنا چاہتا ہے، تو اس کی پالیسی کے تمام عناصر ترکیبی اس طرف نشان دہی کر رہے ہیں کہ وہ ملک میں انارکی کو فروغ دینا چاہتا ہے، بدنظمی اور لاقانونیت کی فضا کو بڑھوتری دینا چاہتا ہے اور اس کے لیے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے مسلسل دبائو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ ملک کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والے قتل ومقاتلہ میں اس پہلو سے اور امریکی سازش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کوشش اور سازش تو یہی ہے کہ سنی اور شیعہ باہم دست و گریبان ہو جائیںجیسا کہ عراق میں کیا گیا لیکن ابھی تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔اگر معاشرے میں شیعہ سنی کو فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں باہم متصادم کردیا جائے تو کوئی خوشی غمی کی تقریب، کوئی ادارہ، کوئی محلہ اور بستی اس سے نہیں بچ سکیں گے۔دونوں طرف کے عوام اور سربرآوردہ لوگوں نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی چاہتے ہیں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنانے میں پیش پیش ہیں۔ ان کی طرف سے اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ کوئی بھی ذی ہوش انسان معصوم لوگوں کے قتل کی تائید اور کوئی صاحب ِ ایمان اس پر خوشی کا اظہار نہیں کرسکتا،تاہم حکومتی اداروں کوامن عامہ برقرار رکھنے اورفرقہ وارانہ بنیادوں پر تشدد پھیلانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادانہیں کرسکے۔ حکمران خوابِ غفلت میں مدہوش ہیں اور مستقبل کی فکر مندی کے بجاے اس سے لاپروا دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس میں اس کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ جسے سینٹرل ایشیا کے وسائل تک پہنچنا ہے، وہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔جو چاہتا ہے کہ چین کی دہلیز تک اس کی رسائی ہو جائے، وہ پاکستان کے بغیر ایسا کرنے سے قاصر نظر آئے گا۔ جو ایران کو سبق سکھانا چاہتا ہے اسے پاکستان کی ضرورت کا احساس ستائے گا۔ جو افغانستان کے پہاڑوں اور چٹانوں سے شریعت کو ابھرتا دیکھے گا اور اس پر قدغن لگانے اور اس کا راستہ روکنے کا خواہاں ہوگا، وہ پاکستان کے بغیر یہ کام نہیں کرسکتا۔ جو یہ چاہتا ہے کہ مصنوعی طورپربھارت کو اس خطے کا تھانیدار بنا دے ،اس کے قدکاٹھ میں اضافہ کرکے اسے بلاشرکت غیرے اس خطے کا والی اور وارث بنادے، اسے پاکستان کا تعاو ن درکار ہوگا۔ امریکا اپنے نئے عالمی نظام کی تنفیذکے لیے ان تمام نکات کو اپنا ایجنڈا سمجھتا ہے، اور اس کی جزئیات تک کو نافذ کرنے کے لیے بے تاب اور بے قرار نظر آتا ہے لیکن اس کباب کے اندر ہڈی پاکستان کو سمجھتا ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کو جو مقام دیا ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے بلاخوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگراسے کوئی محب وطن قیادت میسر آجائے اور اخلاص و للہیت کے ساتھ خدمت کے جذبے سے سرشار اپنے آپ کو پائے تو پاکستان اس پورے خطے کو نیا آہنگ دے سکتا ہے۔اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی اپنی اس اہمیت کو پیش نظر رکھ کر بنا رہے ہوتے تو یہاں دودھ اور شہد کی نہریں نہ بھی بہہ رہی ہوتیں لیکن اتنا ضرور ہوتا کہ دہشت گردی کو دندنانے کا موقع نہ ملتا، جان و مال کا تحفظ یقینی دکھائی دیتا اور حکومتیں جن مقاصد کے لیے قائم کی جاتی ہیںان کی تکمیل کرتی ہوئی نظر آتیں۔ افسوس کہ حکمران، سول و ملٹری بیوروکریسی اور پالیسی ساز ادارے خود ہی اپنی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہوئے’ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ کا مصداق بنے ہوئے ہیں اور غیروں کے دست نگر بن کر  اپنے تشخص کو پامال کرنے اور بحیثیت قوم کے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کبھی بھی ہماری جنگ نہ تھی۔ یہ اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے، اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے امریکی جنگ تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ پلوں کے نیچے سے جس قدر پانی بہا ہے اور سروں کے اوپر سے جس قدرپانی گزرا ہے، اس نے دو اور دو چار کی طرح یہ بات واضح کر دی ہے۔ اس جنگ سے دہشت گردی کو فروغ ملا ہے۔ اس نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے، اور مسجدوں اور امام بارگاہوں اور پبلک مقامات اور محفوظ دائروں سے گزر کر ایبٹ آباد ، کامرہ اور نیول بیس کراچی میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ صرف طاقت سے کرنے کی حکمت عملی تجربے سے غلط ثابت ہو چکی ہے۔ طاقت کے استعمال سے دہشت گردی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے پھیلائو اور وسعت کو کسی پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا ۔ امریکی فرمایش اور ’ڈومور‘ کی گردان پر ہم نے جس طرح اپنے لوگوں کے خلاف ملٹری آپریشنز کیے ہیں ، اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں جو تباہی ہوئی ہے، وہ اس کی گواہی دے رہی ہے۔دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے تین نتائج بالکل واضح ہیں۔ جگہ جگہ اور جا بجا فوجی آپریشن اور ڈرون حملے اس جنگ کا منطقی نتیجہ ہیں۔ گم شدہ افراد کا المیہ اور ان کی تعداد میں روزافزوں اضافہ اسی کا شاخسانہ ہے۔حکومت نے ڈرون حملوں پر جس طرح خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، اس نے اس حقیقت کو اظہرمن الشمس کردیا ہے کہ حکومت اور فوج کے ایما پر ہی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جو کام پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو کر شروع کیا تھا وہ کام منتخب حکومت پوری آب و تاب کے ساتھ اور امریکا وناٹو سے وفاداری نبھاتے ہوئے جاری رکھے ہوئے ہے اور قوم اور پارلیمنٹ دونوں کی واضح ہدایات کا مذاق اُڑا رہی ہے۔

خارجہ امور کے حوالے سے یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ ایک ڈکٹیٹر نے افغانستان میں ایک بابرکت شرعی حکومت کو تہس نہس کرنے میں امریکا کا ساتھ دیااور افغانوں کی اپنی حکومت کو ڈھلان پر چھوڑ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکا اور اس کے حواری افغانستان میں بدترین شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ایک ہزیمت ہے جو سایے کی طرح ان کا پیچھا کر رہی ہے۔ اور لاکھوں ٹن بارود کی برسات بھی افغانوں کے عزم صمیم اور ان کے جذبۂ جہاد کے سامنے ٹھیر نہیں سکی۔ امریکا اور اس کے ۴۰ شریک ممالک کی کیل کانٹے سے لیس افواج پچھلے ۱۱سال سے افغانستان میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ افغانوں اور پاکستان کو اس کے نتیجے میں جو مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے اعداد و شمار بھی دور تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب سے کم و بیش ربع صدی پہلے اگر سوشلزم کا قبرستان افغانستان ثابت ہوا تھا تو آج امریکا، اس کے تھنک ٹینکس اور اس کے حلیفوں کی بصیرت و بصارت اور دُور اندیشی و دُوربینی کا قبرستان بھی افغان کوہساروں اور ریگزاروںمیں پھیلا ہوا ہے۔ جس ویژن کے ساتھ جارج بش نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کی تھیں وہ ویژن ضعف کے حوالے ہو چکا ہے، ناکامی و نامرادی اس کا مقدر بن چکی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پاکستان اس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے ماضی قریب کی تمام پالیسیوں پر نظرثانی کرتی اور ایک نئی آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دیتی۔ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر تین قراردادیں منظور کیں جو خارجہ پالیسی کا جائزہ لینے اور اس کے اہداف اور پاکستان کی ضروریات کا ازسر نو تعین کرنے کی دعوت دیتی رہیں لیکن پارلیمنٹ کو سپریم اور بالادست کہنے اور اس کی مالا جپنے والے ایک قدم بھی اس سمت میں آگے نہ بڑھ سکے اور پارلیمنٹ کی یہ متفقہ قراردادیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی صدارت میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی اور ساری جماعتوں نے بڑے جوش و خروش اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ اس کی قرارداد بھی انھی نکات پر مشتمل تھی کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نجات پائی جائے، آزاد خارجہ پالیسی کی طرف قدم بڑھائے جائیں اور خطے میں پاکستان کے مفادات کی نگہبانی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ کُل جماعتی کانفرنس اور اس کی قرارداد بھی نشستند و گفتند و برخاستند کی نذرہوگئی۔

ناٹو سپلائی کی بحالی کا ملک دشمن فیصلہ

سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے نتیجے میں جو جانی نقصان ہوا وہ اپنی جگہ لیکن وقار کا، تمکنت کا اور توقیر کا جو جنازہ سلالہ سے اٹھااس نے پوری قوم کو مضطرب اور بے چین کر دیاتھا، اور اس کے نتیجے میں اگر ناٹو سپلائیز بند کردی گئی تھیں تو قوم نے اس کا خیر مقدم بھی کیا تھا اور بڑے پیمانے پر مظاہرے کر کے یہ بات بھی باور کرائی تھی کہ ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے جینا چاہتے ہیں اور جو لوگ ہماری خودمختاری کو چیلنج کر رہے ہیں اور ہمارے جوانوں کو شہید کر رہے ہیں، ان کے ساتھ دوستی ہو سکتی ہے نہ ان کی جنگ میں شریک رہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نادر موقع فراہم ہو اتھا کہ پارلیمنٹ کی ہدایات کی روشنی میں خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے اور امریکی جنگ کو خیرباد کہا جائے لیکن سیاسی اور فوجی قیادت امریکی دبائو کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ اوراس کے ضعف ، کمزوری اور  حب الوطنی میں کمی کے نتیجے میں عوامی مخالفت کے علی الرغم ناٹو سپلائی کا بحال ہونا پوری قوم کے لیے شرمندگی اور ندامت کا باعث بنا۔ جماعت اسلامی نے نہ صرف ناٹو سپلائی بلکہ امریکا کے پورے ایجنڈے (ڈرون حملے ، ملٹری آپریشنزاور ریمنڈ ڈیوس جیسے ہزاروں امریکیوں اور ان کے ایجنٹوں کی موجودگی) کے خلاف آواز اٹھائی ہے ، تسلسل کے ساتھ ’گو امریکا گو‘ تحریک چلائی ہے، اور اس کے ذریعے قیام پاکستان کے مقاصد کو بھی آشکار اورذہنوں میں تازہ کیا ہے، اور امریکا کی سازشوں اور امت مسلمہ اور اسلام کے بارے میں اس کی سوچ و فکر اور پالیسیوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا ہے جس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف ایک عمومی بیداری کی لہر موجود ہے۔ بجاے اس کے کہ عوامی راے کا احترام کیا جاتااور حب الوطنی کے تقاضے پورے کیے جاتے،دشمن کو کمک پہنچانے، اس کے ضعف کو قوت میں بدلنے اور ناٹو سپلائیز کے بند ہونے سے جو کمزوری اس میں واقع ہو گئی تھی، اس کو دورکرنے کی شعوری کوشش کی گئی ۔ تاریخ میں ایسے عقل و دانش سے محروم اور عاقبت نااندیش لوگوں کی شاید مثال نہ ملتی ہو، جو اس طرح کے اقدام سے اپنے ہی پیر پر کلھاڑی مارتے ہوںاور دشمن کی صفوں کو مضبوط کرنے کا ذریعہ اور سبب بنتے ہوں۔

معیشت کی بدحالی اور اخلاقی بگاڑ

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان استعماری قوتوں کا دست نگر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ملکوں نے بیرونی امداد پر اپنی معیشت استوار کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کبھی اقتصادی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔ بیرونی امداد اور قرضوں کی معیشت نوآبادیاتی نظام کے بظاہر ختم ہوجانے کے بعد معاشی طور پر قوموں کو بیڑیاں پہنانے ، ہتھکڑیاں لگانے اور زبان پر پہرے بٹھانے کے وہ طور طریقے ہیں جو اب خاصے پرانے ہو گئے ہیں۔ساری دنیا استعمار اور سامراج کے ہتھکنڈوں سے کچھ نہیں تو اپنے تجربوں سے گزر کر واقف ہوگئی ہے۔ پاکستان کی بجٹ اور معاشی پالیسی سازی میں جس طرح آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک اور امداد دینے والے اداروں کا عمل دخل  بڑھ گیا ہے، اس سے کون واقف نہیں ہے۔ان اداروں کے عمل دخل سے حالات مسلسل خراب ہوئے ہیں، مہنگائی کے عفریت نے لوگوں کا جینا دوبھر کیا ہے، غریب کی غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور غریبوں کی تعداد میں بھی۔چاروں طرف احساس محرومی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں اور مجبور و بے کس عوام اپنی ناداری اور بے کسی و بے بسی پر سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔ چادر سر کی طرف لے جائیں تو پیر کھل جاتے ہیںاور پیروں کی طرف لے جائیں تو سر کھل جاتا ہے لیکن   کوئی ان کا پُرسان حال نہیں ہے۔ بے روزگاری’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ کا مقام پا چکی ہے۔ معاشی دائرے کے اندرمحرومیوں کی یہ داستان معاشرے کو جونقصان پہنچاتی ہے اور جس کش مکش میں مبتلا کرتی ہے وہ سب کچھ یہاں دکھائی دے رہا ہے۔

اخلاقی گراوٹ کا اگر ذکر کیا جائے تو اس میںیہ تمام عوامل کارفرما ہیں۔ پورے معاشرے کو جس طرح فحاشی و عریانی، بے حیائی اور جنسی ہیجان کے اندر مبتلا کردیا گیا ہے، اور میڈیا کے ذریعے نظریہ پاکستان کی جس طرح نفی کی جا رہی ہے، اس کی بنیادوں کو جس طرح کھوکھلا کیا جا رہا ہے اور نئی نسل کے مستقبل کو جس طرح تاراج کیا جا رہا ہے، بے مقصدیت اور بے ہدف زندگی کو جس طرح عام کیا جا رہا ہے، یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان سے اس کے نظریاتی تشخص کو چھین لیا جائے اور جس تحریک پاکستان کے نتیجے میں اور جس جدوجہد اور قربانیوں کے بعد اس ملک کو حاصل کیا گیا ، اُس کو ذہنوں سے اوجھل کر دیا جائے۔نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں جس طرح تحریفات کی جا رہی ہیںاور جن کے لیے اربوں روپے مغربی استعمار سرکاری اور غیر سرکاری راستوں سے خرچ کر رہا ہے، اس کا حاصل یہ ہوگا کہ نئی نسلیں ملک و ملت کی تاریخ سے بے خبر، اپنی اقدار سے بے نیاز اور ملک کے مقصد وجود سے لاتعلق ہوں گی اور حرص و ہوس ہی ان کا مقصد حیات بنا دیا جائے گا۔

نئے انتخابات: خدشات و امکانات

اس پورے پس منظر میں جو پہلے پرویز مشرف اور اس کی حکمرانی کے دور میں اور پھر  آصف زرداری اور اتحادی حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے اس انتہا کو پہنچا ہے،ملک میں انتخابات کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے۔ حکمران جماعت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب تر ہو رہی ہے اور انتخابات اُمید کی کرن کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ یہ خدشات موجود ہیں کہ حکمران انتخابات کے عمل کو ایک سال آگے دھکیلنا چاہتے ہیںاورعین ممکن ہے کہ یہ منظرنامہ بیرونی طاقتوں کے ایما پر ہی ترتیب دیا جا رہا ہوکہ آصف زرداری اور ان کے حکمران ٹولے سے بہتر امریکا کا خدمت گزار کوئی نہیں ہو سکتا۔قومی انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا شوشہ اسی لیے چھوڑا گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کے حق میں رہی ہے لیکن پیپلزپارٹی اب بلدیاتی الیکشن کے لیے بے قراری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو بجا طور پر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ساڑھے چار سال میں یہ کام کیوں نہیں کیاگیا اور کیوں اس کے فوائد سے بے زاری اور بے اعتنائی کا ارتکاب کیا گیا۔ اور اب عجلت کا یہ عالم ہے کہ ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل قانون صوبائی اسمبلی کو اپنے قانون سازی کے حق اور عوام اور میڈیا کو احتساب اور نظرثانی کے استحقاق سے محروم کرنے کے لیے گورنر ہائوس میں کلیا میں گڑ پھوڑنے کی مشق کے بعد آرڈی ننس کے ذریعے مسلط کرنے کا شرم ناک کھیل کھیلا گیا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ جمہوری اور سیاسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں تو وہ بلدیاتی انتخاب سے گریز کی راہ اختیار کرتی ہیں اور فوجی حکومتیں برسراقتدار آتی ہیں تو وہ اپنی سیاسی اور قانونی حیثیت کو  تسلیم کرانے کے لیے بلدیاتی انتخابات کا رخ کرتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت چارمرتبہ عوام نے دیکھی ہے لیکن ان کے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات ہوتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں حکومتی اختیارات استعمال کرکے کامیابی حاصل کی جائے اور پھر بلدیاتی کامیابی کے نتیجے میں قومی الیکشن کو متاثر کرنے اور اپنے  من پسند نتائج حاصل کرنے کی آسان اور کامیاب کوشش کی جائے۔

 اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی اپوزیشن گرینڈ الائنس کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائے اور اس یک نکاتی ایجنڈے پر آگے بڑھے کہ حکومت قومی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، ایک قابل قبول مکمل طور پر غیر جانب دار عبوری حکومت سامنے لائی جائے، اور شفاف انتخابی فہرستوں کے ذریعے انتخاب کا اہتمام کیا جائے۔ اپوزیشن کی جماعتیں بظاہر اس تجویز سے متفق تو نظر آتی ہیں لیکن پیش رفت اور پیش قدمی کے لیے آمادگی کم کم دکھائی دیتی ہے۔یہ بات کہ گرینڈ الائنس نہ ہونے کی صورت میں جماعت اسلامی ایم ایم اے کی بحالی کی طرف جائے گی یا تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے ساتھ کسی الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں قربتیں پیدا کرے گی، اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ تمام جماعتوں، سیاسی گروہوں اور رہنمائوں سے ہمارے رابطے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور تعاون کی راہیں تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اپنے طور پر بھی مسائل کو سمجھنے اور ترجیحات کے تعین کی کوشش کی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنا منشور بھی شائع کر دیا ہے لیکن صحیح معنوں میں انتخابی حکمت عملی اسی وقت بنے گی جب انتخابی تاریخوں کا اعلان ہوگا۔جو ہوم ورک اس دوران کیا جا رہا ہے، اس کے نتیجہ خیز ہونے یاصحیح طور پر اختیار کرنے کا وقت بھی وہی ہو گا۔

جماعت اسلامی کے جلو میں آجایئے!

رابطہ عوام مہم کے دوران ہم یہ بات تسلسل سے کہہ رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ     اس بات کو فروغ ملے اور بڑے پیمانے پر اس کو دہرایا جائے کہ پچھلے چھے سات الیکشن میں عوام نے جن پارٹیوں کو ووٹ دیے اور انھیں ایوان اقتدار تک پہنچایا، انھوں نے سواے مہنگائی وبے روزگاری، لاقانونیت و ٹارگٹ کلنگ اور امریکی غلامی کے ، عوام کی جھولی میں کچھ نہیں ڈالا۔ حکمران خود    عیش و عشرت میں ہیں لیکن عوام کے حصے کڑوے کسیلے پھل آئے ہیں۔اگر لوگ انھی پارٹیوں کو جھولیاں بھرکے ووٹ دیں گے تو پھر بعد میں جھولیاں بھر کے بد دعائیں دینے سے تقدیر نہیں بدلے گی۔ ملک وملت کی قسمت بدلنی ہے تو ووٹ دینے کا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ عوام اس پوری صورت حال سے واقفیت کے نتیجے میںاس جدوجہد میں شامل ہوں جو جماعت اسلامی بڑے پیمانے پر لے کر چلی ہے۔ یہ جدوجہد ’گوامریکا گو‘ کے قومی مطالبے کے واضح اظہار سے شروع ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی غلامی سے نجات ایک فلسفہ بھی ہے، نظریہ بھی ہے ،مقبول نعرہ بھی ہے، غلامی سے نجات کا راستہ اور آزادی کا پروانہ بھی ہے۔ امریکی غلامی سے نجات کے بغیر قومی وملّی اتحاد و اتفاق، عزت و وقار اور ترقی و کمال کی منزل پر نہیں پہنچا جا سکتا۔

رابطہ عوام کے نتیجے میں ہمیں لوگوں تک پہنچنا چاہیے، ان کے دروں اور دلوں پر دستک دینی چاہیے اور انھیں صورت حال سے آگاہ کرکے اس پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ووٹ دینے کے رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے ان جماعتوں کو مسترد کریں جو ان کے لیے مشکلات اور مصائب کا سبب بنی ہیں اور ملک کی آزادی کو امریکا کی نئی غلامی میں دے دینے کا ذریعہ بنی ہیں۔ یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کرپٹ حکومت کے ذریعے کرپٹ معاشرہ ہی قائم ہوتا ہے اور کرپٹ حکمران عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہ کوئی کام کرسکتے ہیں اور نہ ان کے ذریعے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ یہ صرف پورے ملک کے اندر سرگرمی اور جدوجہد کے نتیجے میں ممکن ہے کہ عام آدمی جماعت اسلامی کی طرف رُخ کرے اور اپنا اور اپنے   اہل خانہ کا ووٹ جماعت ا سلامی کے حق میں استعمال کرکے حالات کا رُخ بدلے اور ملک و قوم کو  اس تاریک رات سے نجات دلائے جس کی جاں گسل گرفت سے نکلنے کے لیے وہ تڑپ رہی ہے۔

 لوگ اس بحث میں بھی جا بجا کنفیوژن سے دوچار نظر آتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے کسی تبدیلی یاانقلاب کی گھن گرج نہیں سنی جا سکتی۔ یہ بات تسلیم ہے کہ انتخاب مکمل انقلاب کا راستہ نہیں ہے لیکن جزوی انقلاب اور جزوی تبدیلیاں بہتری کی طرف مائل کرنے اور منزل کو قریب کرنے کا ایک ذریعہ ضرور ہیں۔ اگر انقلابی ووٹرز کی تعداد بڑھتی چلی جائے اوروہ جماعت اسلامی کی پشتی بانی کریں تو یقینی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انتخاب کا راستہ بھی انقلاب کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اگر عوام اور ووٹرز حکمرانوں کو، ظالموں اور جاگیرداروں کو، سیکولر لابی اور امریکی ایجنٹوں کو ووٹ    نہ دیںاور انھیں بڑے پیمانے پر غیر مقبول بنا دیں تو اس کے نتیجے میں بھی اس تبدیلی کے دروازے  کھل جائیں گے جو مطلوب ہے اور جس کے نتیجے میں ان شاء اللہ ’سٹیٹس کو‘ کے بت گرجائیں گے۔ اس لیے جماعت اسلامی نہ صرف اپنے بہی خواہوں اور خیرخواہوںسے، اپنے سے ہمدردی رکھنے والوں اور حمایت کرنے والوں سے یہ اپیل کرتی ہے کہ بلکہ ملک کے اہل دانش و بینش سے، سوچ اور فکر رکھنے والوں سے، ظالمانہ معاشی نظام کے دو پاٹوں میں پسنے والے انسانوں سے، دکھی لوگوں سے، غریبوں سے، محروموں، بے کس و مجبوروں سے بھی یہ اپیل کرتی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے جلو میں آجائیں۔ عدل و انصاف کا نظام قرآن و سنت کی فرماں روائی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا کش مکش مول لے کر اسلامی نظام کی طرف بڑی تعداد میں لوگوں کو راغب کریںاور اسلام کے بابرکت نظام کو قائم کرنے کی نیت اور ارادے کے ساتھ انتخاب کے ذریعے تبدیلی کو یقینی بنائیں۔

 

کتابچہ دستیاب ہے۔منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ قیمت: ۱۳ روپے۔

فردہو یا قوم، دونوں کے وجود کے دو پہلو ہیں: ایک جسمانی اور طبیعی اور دوسرا روحانی، اخلاقی، نظریاتی اور تہذیبی جس سے اس کی شناخت واضح ہوتی ہے۔ جس طرح نفس اور جسم پر ہروہ حملہ یا ضرب جو قانون سے ماوراہو، ایک جرم اور لائق تعزیر ہے، اسی طرح روحانی اور نظریاتی وجود اور شناخت پر حملہ ناقابلِ برداشت ہے اور اس پر جارحیت کے خلاف مزاحمت، ہر فرد اور قوم کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ معاملہ ملک کے اندر ہو یا اس کا تعلق اقوامِ عالم سے ہو، انسانوں، معاشروں اور تہذیبوں کے درمیان امن و آشتی اور سلامتی و استحکام کا انحصار قانون اور ضابطوں کے احترام اور ان پر عمل اور ان کی نگرانی پر ہے۔ ان حدود کو پامال کرنے کا نتیجہ انتشار، تصادم اور فساد فی الارض کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔

 ۱۱ستمبر ۲۰۱۲ء کو اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر جو حملہ امریکا کی کچھ شیطانی قوتوں نے یوٹیوب پر جاری ہونے والی ایک فلم کی شکل میں کیا اور جس سوچے سمجھے انداز میں پوری چابک دستی کے ساتھ مسلمانوں کے ایمان، نظریاتی وجود اور عزت و غیرت کو چیلنج کیا، اور پھر  جس تحدی اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے آزادیِ اظہار کے نام پر سرکاری تحفظ فراہم کیا گیا، اس نے   فطری طور پر عالمِ اسلام میں ایک آگ سی لگا دی۔ امریکی حکومت، میڈیا، دانش وروں اور دوسری مغربی اقوام کے کرتادھرتا عناصر نے، خصوصیت سے فرانس کے میڈیا اور حکومت نے جو رویہ اختیار کیا، اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مصر کے صدر کے استثنا کے ساتھ، تمام ہی مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور بے عملی نے مسلمان عوام کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے ایمان اور ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے میدان میں اُتریں۔ یہ ان کا حق ہی نہیں، فرض تھا جسے انھوں نے اور ان کی دینی قیادت نے پورا کیا۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ کچھ مقامات پر اس ردعمل نے تشدد کا رُخ اختیار کرلیا جس کے نتیجے میں ۳۰ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بدنما صورت بہت ہی محدود اور انگلیوں پر گنے جانے والے مقامات پر رُونما ہوئی ہے اور وہاں بھی مظاہرین کے بے قابو ہوجانے سے بھی کہیں زیادہ نقصان سرکاری اہل کاروں کے قوت کے استعمال اور تصادم کے نتیجے میں واقع ہوا ہے۔ لیبیا کے واقعے کے علاوہ کہیں بھی پہل مظاہرین نے نہیں کی حالانکہ مغربی میڈیا اور ان کے مقامی نام نہاد لبرل حاشیہ نشین اصل مسئلے سے توجہ کو ہٹاکر، تشدد یا بے اعتدالی کے معدودے چند واقعات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ اُمت مسلمہ کی اپنی قیادت نے تشدد کی مذمت کی ہے اور احتجاج کو پُرامن اور جمہوری اور اخلاقی حدود میں رکھنے کی سختی سے تلقین کی ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی ان آداب کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے۔ بلاشبہہ ایک جان کا بھی ناحق جانا غلط اور ناقابلِ معافی ہے، لیکن اُمت مسلمہ کے دینی اور قانونی ردعمل کو مسلمانوں کے غصے (rage)اور انتقام (revenge)کا نام دے کر بحث کا رُخ بدلنا ایک شرم ناک کھیل ہے جس کا اسی طرح پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح اصل کروسیڈی اور صہیونی حملے کا مؤثر جواب اور مسئلے کے مستقل حل کے لیے منظم اور مؤثر کوشش ضروری ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس مسئلے کے تمام اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالی جائے، بگاڑ کے اصل اسباب کی نشان دہی کی جائے، اور حالات کو سدھارنے کے لیے جس حکمت عملی کو اختیار کرنا ضروری ہے اس کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے۔

ناموسِ رسالتؐ پر حملہ یا نئی تھذیبی جنگ

امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جن قبطی، عیسائی شدت پسند اور اسرائیلی صہیونی شرپسندوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک نہایت گھٹیا، مکروہ اور غلیظ فلم کے ذریعے اسلام اور   اس کے پاک نبیؐ کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بناکر پوری اُمت مسلمہ کے خلاف جس جارحیت کا ارتکاب کیا ہے، اس کے بنیادی حقائق ہرکس و ناکس کے سامنے آگئے ہیں، اس لیے ان کے اعادے کی  ضرورت نہیں۔ نیز یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسلام اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کو سب و شتم، جھوٹ اور افترا اور خبث باطن اور زہرناک دشمنی پر مبنی خیالی الزامات اور اتہامات کا نشانہ بنانا مغربی اہلِ قلم، مشنری اداروں اور میڈیا کا شیوہ رہا ہے، اور اس کا اعتراف مشہور عیسائی مؤرخ  ڈبلیو منٹگمری واٹ نے ان الفاظ میں کیا ہے:’’دنیا کے تمام عظیم انسانوں میں سے کسی کو بھی         محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ بدنام نہیں کیا گیا‘‘۔

لیکن آج جس طرح، جس زبان میں اور جس تسلسل سے یہ جارحانہ کارروائیاں ہورہی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ پھر اس پر مستزاد، میڈیا اور سوشل میڈیا کی نئی قوت کہ چشم زدن میں یہ آگ دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج مغربی میڈیا، دانش وروں کی اکثریت اور امریکا اور یورپی اقوام کی سیاسی قوت، سب اپنے اپنے انداز میں اس خطرناک کھیل میں شریک ہیں جس کی وجہ سے مسئلے کی جوہری نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ آج امریکی دستور کی پہلی ترمیم جس کا تعلق مذہب اور ریاست کی علیحدگی اورآزادیِ راے اور اظہار کی آزادی سے متعلق ہے، اور اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے اعلامیے کا سہارا لے کر اسلام، پیغمبرؐاسلام اور   اُمت مسلمہ کو مطعون کرنے اور ان کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکانے اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے عزائم اور منصوبوں کا پرچار ہی نہیں، ان پر دعوتِ عمل دینے کا جو کام ہورہا ہے اس کا نوٹس نہ لینا اور حالات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے بروقت اقدام نہ کرنا ایک مجرنامہ غفلت ہوگی۔

علمی تنقید اور اور دلیل پر مبنی اختلافِ راے نہ کبھی محل نظر تھا اور نہ آج ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا جو غلغلہ مغربی اہلِ قلم نے برپا کیا، وہ بھی کسی نہ کسی طرح براشت کرلیا گیا۔ لیکن جس نظریاتی، تہذیبی اور سیاسی جنگ کو اب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلط کیا جارہا ہے، وہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپی اقوام کی عسکری قوت اور سیاسی معرکے کا اصل ہدف مسلم دنیا بن گئی ہے، اور عالمِ اسلام کے سیاسی، معاشی اور تہذیبی نقشے کو اپنے حسب ِ خواہش تبدیل کرنے کا عمل بڑی چابک دستی سے کارفرما ہے۔ امریکی قیادت بڑی معصومیت سے کہہ رہی ہے کہ اس فلم سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، اور ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ بہت سے افراد ایسی مذموم اور قبیح حرکتوں کو ناپسند بھی کرتے ہوں گے، لیکن یہ کہنا کہ امریکی اور یورپی قیادت کا دامن اس پورے کھیل سے پاک ہے جو تسلسل کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، کسی طرح بھی قابلِ یقین نہیں۔ نائن الیون کے معاً بعد جس جنگ کا آغاز جارج بش نے Crusadeکی تاریخی اصطلاح کو استعمال کر کے   کیا تھا، وہ محض زبان کی لغزش (slip of the tongue) نہ تھی اور بعد کے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ   ع

ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ

گوانتاناموبے میں بار بار قرآنِ پاک کی بے حُرمتی کی گئی ہے، افغانستان کے بگرام کے عسکری اڈے پر ۱۰۰ سے زیادہ قرآنِ پاک نذرِ آتش کیے گئے ہیں، امریکا کے اعلیٰ فوجی ادارے جوائنٹ فورسز اسٹاف کالج میں اسلام کے خلاف لیکچرز نصاب میں شامل کیے گئے، جن میں اسلامی دنیا کو دشمن قرار دیتے ہوئے مکہ اور مدینہ کو ایٹم بم سے اُڑا دینے تک کا پیغام دیا گیا۔ اسی طرح ڈینش رسالے میں ہتک آمیز خاکے چھاپے گئے۔ امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآنِ پاک جلانے کی ملک گیر مہم چلائی ، فرانس کے رسالے چارلی ہیس فور میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تضحیک آمیز خاکے شائع ہوئے۔ ہالینڈ میں پارلیمنٹ کے رکن نے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی، ناروے میں اسلام دشمنی کے نام پر خود اپنے ۷۰ سے زیادہ نوجوانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا ___ یہ سب غیرمربوط واقعات نہیں ایک پوری اسکیم کا حصہ نظر آتے ہیں اور اُمت مسلمہ کا ضمیر اس خطرے کو بھانپ رہا ہے، اور حکمرانوں کا رنگ ڈھنگ جو بھی ہو ، عوام امریکا اور مغربی اقوام پر بھروسا نہیں کرتے اور اپنے دفاع کے لیے مضطرب ہیں۔ اب یہ منظرنامہ اتنا واضح ہوتا جا رہا ہے کہ خود مغرب کے اہلِ نظر کا ایک طبقہ اس خطرناک کھیل پر اپنی پریشانی کا اظہارکر رہا ہے اور اسے خود مغربی اقوام اور خصوصیت سے عوام کے مفاد کے منافی محسوس کر رہا ہے۔

آزادیِ راے کی آڑ میں مذموم مقاصد

سام بیسائل کی ’مسلمانوں کی معصومیت‘ (Innocence of Muslims)کے نام پر امریکی اور یہودی سرمایے سے بنائی ہوئی یہ شیطانی فلم امریکی سفیر رچرڈ گلینڈ کے الفاظ میں:   ’’ایک شخص کا ذاتی فعل ہے، یہ سارے امریکا کی راے نہیں‘‘ مگر یہ راے تسلیم کرنا عقل اور تاریخ دونوں کے ساتھ مذاق ہوگا۔ فلم کتنی قبیح اور اشتعال انگیز ہے اس کے بارے میں صرف ایک پاکستانی صحافی جناب حامدمیر کے یہ الفاظ پڑھ لینا کافی ہیں کہ:

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک اور القاعدہ کے حملوں سے ۳ہزار امریکی مارے گئے تھے لیکن ۱۱ستمبر ۲۰۱۲ء کو یوٹیوب پر جاری کی جانے والی اس فلم نے کروڑوں مسلمانوں کی روح کو زخمی کیا۔ میں اس فلم کو چندمنٹ سے زیادہ نہیں دیکھ سکا۔ اس خوف ناک فلم کی تفصیل کو بیان کرنا بھی میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ بس یہ کہوں گا کہ اس فلم کے چند مناظر دیکھ کر سام بیسائل کے مقابلے پر اسامہ بن لادن بہت چھوٹا انتہاپسند محسوس ہوا۔ یہ اعزاز اب امریکا کے پاس ہے کہ اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد سام بیسائل اپنی انتہائی گندی اور بدبودار ذہنیت کے ساتھ صدراوباما کی پناہ میں ہے۔(روزنامہ جنگ، ۱۷ستمبر ۲۰۱۲ئ)

امریکا ، مغربی حکمران اور میڈیا ’آزادیِ اظہار راے‘ کے نام پر اس صہیونی اور صلیبی جنگ کے کمانڈروں کا پشتی بان ہے اور مسلمانوں کو درس دے رہا ہے کہ’’ معاملہ آزادی کے بارے میں دوتصورات کا ہے‘‘ (ملاحظہ ہو: Behind Clashes, Two Versions of Freedom انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون، ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ئ)۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی اور اس کے تصورات سے اس معاملے کا دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ بات تہذیبوں کے تصادم سے آگے بڑھ کر امریکا اوریورپی اقوام کے اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں عزائم کی ہے، اور جو کردار یہ فلم ساز، خاکہ نگار، صحافی، سیاسی اداکار انجام دے رہے ہیں وہ امریکا اور یورپ کی سامراجی قوتوں کے نقشۂ جنگ میں اپنے مقام پر بالکل ٹھیک فِٹ ہوتا ہے اور اب اس کا اعتراف خود ان کے درمیان سے شاہد منھم سے بھی آنے لگا ہے۔

دی گارڈین کا کالم نگار سیماس ملن اپنے ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء کے مضمون میں (جس کا عنوان بھی چونکا دینے والاہے، یعنی: ’’تعجب کی بات صرف یہ ہے کہ شرق اوسط میں اور زیادہ پُرتشدد مظاہرے کیوں نہیں ہوئے‘‘)لکھتا ہے:

رُشدی کے معاملے اور ڈنمارک سے شائع ہونے والے متنازعہ خاکوں کے تناظر میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین عام طور پر مسلمان اپنے اجتماعی تشخص پر حملہ سمجھتے ہیں جیساکہ نعروں اور اہداف سے واضح ہے۔ جس چیز نے احتجاج کو بھڑکایا وہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو پہنچنے والا زخم گویا کہ ایک غرور سے بھری طاقت نے لگایا ہے جس نے کئی عشروں سے عرب اور مسلم دنیا پر حملہ کیا ہے، انھیں غلام بنایا ہے، اور ان کی تذلیل کی ہے۔

ایک اور دانش ور جیمز روزلنگٹن جو کیمبرج یونی ورسٹی میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کا محقق ہے، الجزیرہ میں اپنے مضمون میں کہتا ہے:

بیش تر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی مسلم دشمن ویڈیو امریکا کے لذت پرست کلچر اور اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کا فطری نتیجہ ہے۔ مختصراً یہ کہ بہت سے مسلمانوں کے لیے یوٹیوب کی کلِپ ان کی زندگیوں اور کلچر پر امریکا کے بگاڑ پیدا کرنے والے اثرات کی علامت ہے۔

Counter Punch جو ایک مشہور آن لائن رسالہ ہے اس کے ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں جیف سپیرو اپنے مضمون Islamophobia, Left and Right میں لکھتا ہے:

لیکن خود فلم کے بارے میں کیا کہا جائے؟ غیرپیشہ ورانہ فلم کاری کا اتنا پھٹیچر نمونہ ایسا شعلۂ جوالہ (فلیش پوائنٹ) کیوںبن گیا؟ یہ فلم ایک ایسے وقت میں تیار کی گئی ہے، جب کہ یورپ اور امریکا میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں نے ایک ایسا اسلام دشمن نظریہ اپنا لیا ہے جو تقریباً بالکل ٹھیک ٹھیک روایتی یہود مخالف کلیدی طریقوں کو دُہراتا ہے۔

بات صرف اس فضا کی نہیں، اس فضا کو بنانے، اسے تقویت دینے، اسے اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہے۔ ہدف اُمت مسلمہ کی شناخت اور اس کا سیاسی اور تہذیبی کردار ہے۔ مسئلہ دینی، اخلاقی اور تہذیبی ہے اور بلاشبہہ ایک خاص سیاسی اور geo-strategic تناظر نے اسے اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ بات اب صرف ان افراد تک محدود نہیں جو اس میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں، اصل مسئلہ ان قوتوں کا ہے جو ان کو پناہ دیے ہوئے ہیں اور جن کی پالیسیاں،    جن کے تضادات اور دوعملیاں اور جن کے سیاسی اور عسکری مفادات ہی نے ان کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اظہار راے کی آزادی اور امریکا اور یورپی ممالک کے جن دستوری حقوق کے نام پر اسلام اور پیغمبرؐاسلام اور مسلم اُمہ پر جو وَار کیے جارہے ہیں ان کی حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔

امریکی دستور اور آزادیِ راے کے دعوے کی حقیقت

امریکی صدر، وزیرخارجہ، سفرا، دانش ور اور صحافی ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں وہ ہے امریکی دستور کی پہلی ترمیم۔ نیز اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اورانسانی حقوق کا یورپی کنونشن (European Convention on Human Rights)  ہیں۔ دعویٰ ہے کہ ان دستاویزات کی روشنی میں مغربی تہذیب اور امریکا اور یورپ کے سیاسی اور قانونی نظام کی بنیاد فرد کی آزادی ہے اور یہ وہ بنیادی قدر ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں اور خواہ    اس کی زد دنیا کے دوسرے مذاہب، اقوام اور انسانوں کے ایمان، عزت، تہذیب، اقدار اور ثقافتی اور دینی وجود اور شناخت پر کچھ بھی پڑے اور کتنے ہی انسانوں کی دل آزاری اور ان کی مقتدر شخصیات کی بے حُرمتی اور تضحیک ہو۔

ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے کہ آزادی بلاشبہہ ایک بنیادی انسانی قدر ہے اور ہم  اس کی اہمیت اور قدردانی میں کسی سے پیچھے نہیں، لیکن آزادی تو ممکن ہی کسی ضابطۂ کار کے اندر ہوتی ہے ورنہ مادرپدر آزادی جلد انارکی بن جاتی ہے۔

جرمن مفکر ایمانویل کانٹ نے بڑے دل نشیں انداز میں اس عقدہ کو یہ کہہ کر حل کردیا تھا کہ ’’مجھے ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے لیکن میرے ہاتھ کی جولانیاں وہاں ختم ہوجاتی ہیں جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے‘‘۔ آزادی اسی وقت خیر کا ذریعہ ہوگی جب وہ دوسروں کی آزادی اور حقوق پر دست اندازی کا ذریعہ نہ بنے۔ اظہار راے کی آزادی کے معنٰی نفرت، تضحیک اور تصادم کے پرچار کی آزادی نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کو باقی تمام اقدار سے الگ کرکے نہیں      لیا جاسکتا۔ اس کا واضح ترین ثبوت یہ ہے کہ ہرشخص آزاد ہے لیکن اسے یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی دوسرے شخص کا غلام بن جائے۔ حتیٰ کہ دنیا کے بیش تر قوانین میں آج بھی خودکشی ایک جرم ہے، اس لیے کہ آپ خود اپنی جان لینے کے لیے آزاد نہیں ہیں۔ نہ کوئی دوسرا بلاحق کے آپ کی جان لے سکتا ہے اور نہ آپ خود اپنی جان کو تلف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

مغرب کے اربابِ اقتدار اور اہلِ دانش اور خود ہمارے ممالک میں ان کے نام نہاد لبرل پیروکار امریکی دستور کی پہلی ترمیم کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکی دستور کی بنیاد جیفرسن کا یہ مقولہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور قانون اور دستور کے تحت سب کا مساوی مقام ہے۔ امریکی دستور کی پہلی ترمیم اپنی جگہ اہم ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ:

کانگرس کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو کسی مخصوص مذہب کا احترام کرتا ہو، یا ان کے آزادانہ استعمال کو منع کرتا ہو، یا آزادیِ اظہار میں کمی کرتا ہو، یا راے کی آزادی، پریس کی آزادی، عوام کے جمع ہونے کا حق اور شکایت پیدا ہونے پر حکومت کے پاس درخواست دینے کے حق سے روکتا ہو۔

اس میں ترمیم نمبر۴ بھی ہے، جو کہتی ہے:

عوام کا اپنی ذات کی حد تک تحفظ کا حق، مکانات، کاغذات اور سامان کے تحفظ کے حق، اور غیرمعقول تلاشیوں اور ضبطیوں کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔کوئی وارنٹ جاری نہیں کیا جائے گا جسے کسی ممکنہ جواز کی تائید حاصل نہ ہو، اور جس جگہ کی تلاش مقصود ہو اور چیزیں قبضے میں لینا ہوں ان کو وضاحت سے بیان نہ کیا گیا ہو۔

اسی طرح ترمیم ۵ ہے جس کے ذریعے جان، مال اور آزادی کے لیے due process of law کے بغیر محرومی کوممنوع کیا گیا ہے۔ ترمیم نمبر۸ ہے جس میں excessive (بہت زیادہ، ظالمانہ) زرضمانت، جرمانہ اور سزا کو منع کیا گیا ہے اور یہ اصول ترمیم نمبر۹ میں تسلیم کرلیا گیا ہے کہ :

دستور میں کسی خاص حق کے اندراج کے یہ معنی نہیں لیے جانے چاہییں کہ عوام کو حاصل دوسرے حقوق سے انھیں محروم کیا جائے یا ان کی تحقیر کی جائے۔

سوال یہ ہے کہ پہلی ترمیم جہاں اظہارِ راے کی آزادی دیتی ہے یا ریاست کی طرف سے مذہب کو مسلط کرنے کا دروازہ بند کرتی ہے وہیں مذہب کی آزادی بھی دیتی ہے۔ نیز اگر دستور میں دیے ہوئے باقی تمام حقوق کو قانون اور اخلاق کا پابند کیا گیا ہے تو اظہارِ راے کی آزادی کو اس سے آزاد اور مبرا کیسے کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی سپریم کورٹ نے ۱۹۴۲ء کے اپنے ایک اہم فیصلے میں اس امر کو واضح کردیا ہے مگر امریکی حکمران اور دانش ور اس کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے:

تقریروں کی کچھ ایسی متعین اور محدود قسمیں ہیں جن کو روکنے یا سزا دینے پر کوئی دستوری مسئلہ کبھی نہیں اُٹھایا گیا۔ اس میں فحش اور ناشائستہ، ملحدانہ، جھوٹے الزام لگانے والے یا ایسے توہین آمیز اور اشتعال انگیز الفاظ جو اپنی ادایگی سے ہی امن کا فوری بگاڑ پیدا کریں شامل ہیں۔ اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس طرح کے الفاظ کسی بھی نقطۂ نظر کی وضاحت کا لازمی حصہ نہیں ہوتے اور سچائی تک پہنچنے کے لیے اتنی کم سماجی قدروقیمت رکھتے ہیں کہ نظم اور اخلاقیات میں کوئی بھی سماجی مفاد جو ان سے پہنچ سکتا ہو، واضح طور پر بے وزن ہوجاتا ہے۔

آزادیِ راے اور مغرب کا دھرا معیار

الجزیرہ میں ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء کو ایرک بلیخ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی عوام اور اہم ادارے ایسی قانون سازی کے حق میں ہیں جس کے نتیجے کے طور پر نفرت پھیلانے والے خیالات کے اظہار کا دروازہ بند کیا جاسکے، جیساکہ کتاب قانون کی حد تک یورپ کے کئی ممالک بشمول ڈنمارک میں ایسے قوانین موجود ہیں۔ گو وہ بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے طوفان کو نہیں روک سکے۔

پروفیسر ایرک بلیخ جو مڈل برے کالج میں علمِ سیاسیات کا پروفیسر ہے، کہتا ہے کہ امریکی  راے عامہ کے تمام سروے جو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۸ء تک ہوئے ہیں ظاہر کرتے ہیںکہ امریکی عوام کی اکثریت اس کے حق میں ہے کہ ایسی آرا کے پبلک اظہار پر پابندی ہونی چاہیے جو نفرت پھیلانے اور خصوصیت سے دوسری نسل کے لوگوں کے خلاف زہر اُگلنے والے ہوں۔

امریکا اور یورپی اقوام کے دوغلے پن کا سب سے بڑا ثبوت صہیونیت، اسرائیلی اور خصوصیت سے جرمنی میں ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر توڑے جانے والے مظالم جن کو ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے ، کے بارے میں قانون سازی اور عملاً anti-Semitism (یہود مخالف)کے نام پر اسرائیل، یہودیت، صہیونیت کے بارے میں کسی بھی مخالف راے کا اظہار یا ہولوکاسٹ کے انکار،  حتیٰ کہ ان کے بارے میں صہیونیوں کے پروپیگنڈے کے بارے میں کسی بھی شک و شبہے تک کا اظہار قانوناً جرم بنا دیا گیا ہے۔ دسیوں افراد کو ان قوانین کے تحت سزائیں دی گئی ہیں، اس سے اظہارِراے کی آزادی کے مقدس اصول پر کوئی حرف نہیں آیا۔

رابرٹ فسک نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ کے ۱۳ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں   نیوزی لینڈ کے ایک ایڈیٹر سے اپنی گفتگو نقل کی ہے، جس نے بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ اس نے      نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنانے والے ڈینش کارٹون اپنے اخبار میں شائع کیے :

جب میں نے اس سے یہ پوچھا کہ جب اسرائیل لبنان پر دوبارہ حملہ کرے گا تو کیا     تم ایک ایسا کارٹون شائع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہو جس میں ایک ربی (rabbi) کے سر میں بم لگا ہو، تو اس نے مجھ سے فوراً اتفاق کیا کہ یہ یہود مخالف ہوگا۔

امریکی دستور کی پہلی ترمیم کی دہائی دینے والوں اور آزادیِ اظہارِ راے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہی وہ تضاد ہے جس نے ان کی اصول پرستی، آزادی نوازی اور جمہوریت پسندی کا پول کھول دیا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے خبث باطن کو واشگاف کردیا ہے۔

یورپ کے ۳۴ ممالک میں anti-Semitism اور ہولوکاسٹ کے خلاف قوانین    موجود ہیں جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہارِ راے جرم ہے جس پر قید اور جرمانے کی     سزا دی جاسکتی ہے۔ امریکا میں بھی ایک دوسرے انداز میں قانون تک موجود ہے جسے:      Global Anti-Semitism Review Act of 2004 کہا جاتا ہے اور عملاً جس کے نتیجے میں یہودی مذہب تک کو تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ اگر صہیونی لابی کے زیراثریہ قانون سازی ہوسکتی ہے تو ۶ئ۱ ارب مسلمانوں اور ان کی ۵۷ آزاد مملکتوں کے جائز دینی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی     قانون سازی کیوں نہیں کی جاسکتی؟

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے The Universal Declaration of Human Rightsکی دفعہ ۲۹ میں قانون کے تحت معقول پابندیوں کا ان الفاظ میں واضح ذکر موجود ہے:

اپنے حقوق اور آزادیوں کے استعمال میں ہرشخص ایسی حدود کا پابند ہوگا جن کا تعین قانون محض اس مقصد سے کرے گا کہ دوسروں کے حقوق اور آزادی کا تحفظ اور احترام ہو، اور اخلاقیات اور امن و امان اورجمہوری معاشرے میں عوامی بہبود کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔

اسی طرح European Convention on Human Rights کی دفعہ ۱۰ میں اظہارِ راے کی آزادی اور اس کی حدود دونوں کا واضح الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے:

۱- ہرشخص کو آزادیِ اظہارکا حق حاصل ہے۔ اس میں راے قائم کرنے کی آزادی، سرکاری مقتدرہ کی مداخلت یا سرحدات سے بے نیاز ہوکر معلومات اور خیالات کو وصول کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔ یہ دفعہ حکومت کو اس بات سے نہیں روکے گی کہ براڈ کاسٹنگ، نشرواشاعت، ٹیلی ویژن اور سینما کے لیے لائسنس جاری کرے۔

۲- ان آزادیوں کے استعمال میں، چونکہ ان کے ساتھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں، ایسی شرائط، پابندیوں یا جرمانوں کی پابندی ہوگی جو قانون نے طے کیے ہوں اور کسی جمہوری معاشرے میں ضروری ہوں۔ ملک کی سلامتی، علاقائی یک جہتی، عوامی تحفظ، امن و امان کے تحفظ، جرائم کی روک تھام اور صحت عامہ اور اخلاق کے تحفظ، دوسروں کی شہرت اور حقوق کا تحفظ، اور ایسی معلومات کے پھیلائو کو روکا جاسکے جو اعتماد اور نیک نیتی سے دی گئی ہوں، اور عدلیہ کی بالادستی اور عدالت کی غیر جانب داری کو برقرار رکھ سکیں۔ (آرٹیکل ۱۰)

آزادیِ راے: حددو کے تعین کی ضرورت

امریکا سے آنے والی فلم اور اس پر عالمِ اسلام کے ردعمل کی روشنی میں اس وقت پوری مغربی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی ایک تعداد میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ آزادیِ اظہارراے کی حدود کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ آزادی اور اس کا ذمہ دارانہ استعمال ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں، جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کی قیادت ان حالات میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور جو قربانیاں مسلمان عوام دے رہے ہیں، کیا ان کو کسی مثبت پیش رفت کا ذریعہ بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟

انڈی پنڈنٹ اخبار نے اپنے حالیہ ادارتی کالم میں اس ضرورت کا اعتراف کیا ہے۔ فرانسیسی اخبار Charlie Hebo میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے کے بارے میں انڈی پنڈنٹ کہتا ہے:

ایک آزاد پریس کا دفاع کرنے کی اس کی خواہش قابلِ تعریف ہوسکتی ہے لیکن اس نتیجے سے بچنا ناممکن ہے کہ اس کا رویہ (یعنی ایسے خاکوں کی اشاعت)غیرذمہ دارانہ ہے۔ اس اقدام سے لازماً دوسرے مشتعل ہوں گے۔ اس سے بھی زیادہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ یہ لازماً تشدد کو اُبھارے گا اور اموات واقع ہوں گی۔ سنسرشپ کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن دوسروں کے گہرے عقائد کا لحاظ نہ کرنا بھی قابلِ مذمت ہے۔ اخبار کے ایڈیٹر کو   اپنا رسالہ فروخت کرنے سے پہلے ان خاکوں کو ہٹا لینا چاہیے اس سے قبل کہ دیر ہوجائے۔

لندن کے اخبار دی آبزوَر ۲۳ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں Henry Porter اپنے مضمون میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ: ’’ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہم آزادیِ راے کو ذمہ داری سے استعمال کریں۔ یورپ اور امریکا میں مذہبی اور نسلی جذبات اُبھارنے کے خلاف قوانین موجود ہیں  جن کو فلم اور کارٹونوں نے توڑا ہوگا‘‘۔

نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا مضمون Free Speech Issue Bedevils Web Giants(آزادیِ راے کے مسئلے نے ویب کے بڑوں کو چکرا دیا ہے)میں یہ چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے گئے ہیں کہ اگر گوگل کے خیال میں اس بے ہودہ فلم کو یوٹیوب پر ڈالنا اظہارِ راے کی آزادی کا حصہ ہے تو پھر اسی گوگل نے لیبیا اور مصر کے لیے اس کی اشاعت کیوں روک دی ہے۔ اسی طرح انڈیا اور انڈونیشیا کے لیے بھی اسے روکا گیا ہے۔ اگر ان ممالک کے لیے روکا جاسکتا ہے تو باقی دنیا کے لیے کیا چیز مانع ہے؟ کیا اسی کا نام اصول پرستی ہے؟

بات صرف اس حد تک دوغلے پن اور دھاندلی کی نہیں۔ Counter Punch کے ایک مضمون نگار نے ۱۴ستمبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں گوگل کے بارے میں ناقابلِ انکار شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ Jewish Press کی یکم اگست ۲۰۱۲ء کی اشاعت کے مطابق گوگل نے ایک نہیں ۱۷۱۰ویڈیو جن میں خاصی بڑی تعداد کا تعلق ہولوکاسٹ سے تھا ۲۴ گھنٹے کے اندر اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیے۔ اسی طرح جولائی ۲۰۱۱ء میں فیس بک نے اسرائیل کے کہنے پر فلسطینی اداروں کے درجنوں اکائونٹ بند کردیے حالانکہ ان کے مندرجات کسی قانون سے متصادم نہ تھے۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ فرانس کی حکومت نے مشہور مصنف اور نام وَر فلسفی روجر گارودی کو اسرائیل کے بارے میں ایک کتاب لکھنے پر قید کی سز دی تھی اور آسٹریا میں ۱۹۸۹ء میں انگریز مؤرخ ڈیوڈ ارونگ کو ہولوکاسٹ کے بارے میں اپنی تحقیق شائع کرنے پر تین سال جیل کی سزا بھگتنا پڑی تھی۔

اس وقت جو احتجاج پوری دنیا میں ہوا ہے اس سے مغربی اخبارات میں پہلی بار یہ آواز اُٹھنا شروع ہوئی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، اور آزادیِ اظہار راے کے نام پر کیا جارہا ہے، اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ ہے وہ وقت کہ جب مسلم اُمہ کی  سیاسی قیادت اپنی ذہنی غلامی اور سیاسی محکومی کے شکنجے سے نکلے اور اُمت کے اور اپنے دین کے حقوق کی پاس داری کے لیے مؤثر اور متحدہ اقدام کرے۔

۲۳ستمبر ۲۰۱۲ء کے دی آبزوَر نے ’مسلم غصہ اور برہمی‘ کے عنوان سے اپنے اداریے کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے کہ خود مغرب کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ تصادم کے بجاے تعاون کا کوئی راستہ نکل سکے:

اس لیے کہ اسلامی دنیا کو بالغ نظری سے ہرسطح پر سمجھنے کا متبادل یہ ہے کہ مغرب عالمی آبادی کے ایک بڑے حصے کو صرف دشمن کی نظر سے دیکھے۔ بجاے اس کے ان اختلافات اور سطحات اور دائروں کا احساس کرے جہاں گفتگو اور رضامندی ممکن ہے۔ یہی وہ کانٹے کی بات ہے جو لامحالہ تنازع اور تصادم کی بنیاد ہے۔

مسئلہ کسی خوش فہمی کا نہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت اپنے مفادات کا صحیح اِدراک کرے اور اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اختیار کرے تو نئے راستے استوار ہوسکتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کے لیے حکمت عملی

ہم ایک بار پھر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امریکا اور مغربی اقوام اور مقتدر حلقوں کا رویہ معاندانہ ہے اور ان کے کھیل کو سمجھ کر اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے حکمت عملی بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وار کیے جارہے ہیں ان پر مؤثر اور بروقت احتجاج اور اپنی اصولی پوزیشن کو جرأت کے ساتھ پیش کرنا اولین ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں قرآن نہ فرار اور مداہنت کو گوارا کرتا ہے اور نہ عدل اور توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے اور انتقام میں حدود کو پامال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، ان کی اطاعت اور ان سے وفاداری اسلام کی اساس اور مسلمان کی شناخت ہے اور ناموسِ رسولؐ کی حفاظت ہر مسلمان کا تقاضاے ایمان ہے۔ یہ رشتہ ایمان کا، اطاعت کا اور محبت کا رشتہ ہے۔ آپؐ رحمت للعالمین تھے اور ہرمسلمان کے لیے   فرداً فرداً اور پوری اُمت کے لیے نمونہ ہیں (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، الاحزاب ۳۳:۲۱)۔ اتباعِ رسولؐ ہی اللہ سے محبت کا تقاضا ہے (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo اٰلِ عمرٰن ۳:۳۱)، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ محترم اور مقدم ہیں (اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ، الاحزاب ۳۳:۶)۔قرآن پاک میں صاف ارشاد ہے کہ ’’ہم نے اللہ کے رسولؐ کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائو اور اس کا (یعنی رسولؐ کا) ساتھ دو۔ اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو (اِِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا o لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا o الفتح ۴۸:۸-۹)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رُسواکن عذاب مہیا کردیا گیا ہے (اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًاo الاحزاب ۳۳:۵۷)۔

ان آیات کی روشنی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تعلق امت مسلمہ کا قائم ہوا ہے اس کا تقاضا ہے کہ آپؐ کی اہانت کو کسی صورت میں بھی برداشت نہ کیا جائے اور ہر وہ اقدام کیا جائے جس سے آپؐ کی عزت قائم و دائم ہو۔ ان حالات میں جب اسلام اور مسلمانوں سے زیادتی کی جارہی ہو تو مسلمانوں کا رویہ انصاف اور حق پر مبنی مزاحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ ہدایت ربانی ہے کہ:

اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ برائی کا بدلہ ویسی ہی بُرائی ہے، پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(الشورٰی ۴۲:۳۹-۴۲)

ہمیں یہ اصولی ہدایت بھی دی گئی ہے کہ: ذٰلِکَ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْہِ لَیَنْصُرَنَّہُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌo (الحج ۲۲:۶۰)، ’’یہ تو ہے ان کا انجام۔ اور جو کوئی بدلہ لے، ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ معاف کرنے ولا اور درگزر کرنے والا ہے‘‘۔ اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی بہت واضح الفاظ میں دے دی ہے کہ اصل اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ برائی کو برائی سے بدلنے کے بجاے اسے نیکی، خیر اور حسن سے بدلنے کی سعی کی جائے، تاکہ اللہ کی زمین برائی سے پاک ہو اور خیر اور حسنات سے معمور ہوسکے۔ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَo (المومنون ۲۳:۹۶)،’’اے نبیؐ، برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہے‘‘۔ نیز ارشاد ربانی ہے کہ: وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌٌَ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴)، ’’اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔

مختصراً یہ ہے وہ ہدایت ِ ربانی جس کی روشنی میں آج مسلم اُمت کو آج کے حالات میں اپنی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ہمیں ہر مداہنت سے اپنے دامن کو بچانا ہے اور پوری دیانت سے دین اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور آپؐ کی عزت و شخصیت کا دفاع کرنا ہے تو دوسری طرف اپنے مخالفین کے مقابلے کے لیے وہ طریقے اختیار کرنا ہیں جن سے بالآخر خیر رُونما ہو اور دنیا ان مقاصد کی طرف بڑھ سکے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلوب ہیں۔

بات بہت واضح ہے۔ جو کچھ آج ہورہا ہے وہ نہ صرف غلط اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی کھلی جارحیت ہے بلکہ اس کے پیچھے جو مقاصد ہیں اور جو جو قوتیں پشت پناہی کررہی ہیں  ان کا اِدراک اور توڑ دونوں ضروری ہیں۔ امریکی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا کوئی ہاتھ اس کے  پیچھے نہیں ہے، ناقابلِ یقین ہے۔ امریکی ریاست اور سول سوسائٹی بشمول میڈیا ڈھکے اور چھپے کردار اداکررہے ہیں۔ آزادیِ اظہار کے نام پر ان قوتوں کو تحفظ دینا اس کی کھلی مثال ہے۔معاملہ محض چندسرپھرے انتہاپسندوں اور مذہبی جنونیوں کا نہیں، اس پردہ زنگاری کے پیچھے بہت سے کردار ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔  بلاشبہہ ہرواقعہ افسوس ناک، دل خراش اور مناسب ردعمل کا متقاضی ہے   اور اس سلسلے میں اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کا فرض ہے کہ بروقت اس کا نوٹس لے اور مناسب   اور مؤثر ردعمل کا اظہار کرے لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا اصل مسئلہ ان واقعات کے پیچھے جو       ذہن (mind-set) ، جو پالیسیاں، جو خطرناک عزائم اور دیرپا اور اسٹرے ٹیجک منصوبے اصل کارفرما قوت ہیں ان کا مقابلہ اس سے بھی کچھ زیادہ ضروری ہے۔

  • حکمت عملی کے تین اھم پھلو:اس سلسلے میں جو حکمت عملی بنائی جائے اس کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جن میں سے ہرایک اہم ہے اور ہر ایک کے لیے ضروری اقدام اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کی ذمہ داری ہے:
  • اوّل:  اسلام کی دعوت کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنے کا اہتمام اور کم از کم مسلم ممالک میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام جو اس پیغام کا صحیح نمونہ اور علَم بردار ہو۔ اسلام کے خلاف جو طوفان برپا کیا ہوا ہے اس کا جواب بھی اسلام کی صحیح دعوت کو پہنچانے میں ہے۔ ہرمخالفت دعوت کے لیے ایک تاریخی موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ جو بات جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے اس کا پردہ چاک کیا جاسکے اور حقیقت اپنے اصل رنگ میں سب کے سامنے آجائے۔
  • دوم: سیاسی، سفارتی اور قانونی سطح پر ایسے انتظامات کا اہتمام کرنا، جس سے اللہ اور    اس کے رسولوں کی توہین کا یہ سلسلہ ختم ہوسکے اور آزادیِ اظہار کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ اور ان آداب کے فریم ورک میں ہوسکے جو مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کا ذریعہ بنیں اور نفرتوں کے طوفانوں سے انسانیت کو محفوظ کیا جاسکے۔ اس کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں بشرطیکہ صحیح خطوط پر مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش کی جائے۔
  • سوم:  مسلم ممالک میں تعلیم اور اخلاقی اقدار کے فروغ اور انصاف اور حقوق و فرائض کے احترام اور معاشی اور سماجی فلاح پر مبنی معاشرے اور ریاست کا قیام ۔ مغربی اقوام سے مشترک مقاصد اور مفادات کی بنیاد پر باعزت دوستی اور اچھے معاشی تعلقات سب کے لیے مفید اور تقویت کا باعث ہوسکتے ہیں، لیکن موجودہ محکومی کا جو نقشہ آج نظرآتا ہے وہ دُنیوی اور دینی ہردواعتبار سے بڑے خسارے کا سودا ہے۔ انسانی اور مادی وسائل کے باب میں اُمت مسلمہ کسی سے پیچھے نہیں لیکن آج ہمارے وسائل دوسروں کی خدمت کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور مسلمان عوام ظلم کی چکی میں    پس رہے ہیں اور حکمران ذاتی عیش و عشرت اور مغربی اقوام کی خوش نودی کے حصول میں مصروف ہیں، بلکہ اپنی بقا اور اپنے اقتدار کے لیے ان کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور اُمت کے مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ جب تک گھر کی اصلاح نہ ہو اور اُمت کے وسائل اُمت کی فلاح، استحکام اور تقویت کے لیے استعمال نہ ہونے لگیں، حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ صحیح قیادت ہی حالات کو نیا رُخ دے سکتی ہے۔

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اسلام، اللہ کے رسولؐ اور اُمت مسلمہ کے خلاف عالمی سطح پر    کیا کچھ ہورہا ہے اور مسلمان حکمران اپنے خول میں بند اور اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہیں۔ صرف ایک سربراہ مملکت نے امریکا کے صدر سے صاف الفاظ میں کہا کہ امریکی سفارت کاروں کی ہلاکت پر افسوس ہے لیکن اصل مسئلہ اسلام کے خلاف وہ جارحانہ اقدام ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو احتجاج پر مجبور کیا ہے۔ ہمارے اپنے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ اصل واقعہ کے سات دن کے بعد جب ملک بھر میں احتجاج کی گونج برپا ہوگئی تو انھیں ہوش آیا اور پھر بھی ناموسِ رسالتؐ پر حملہ کرنے والوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کے بجاے عشق رسولؐ کے نام پر تعطیل میں عافیت تلاش کی۔ احتجاجی تحریک میں اس قیادت کا کوئی وجود نظر نہ آیا اور امن و امان کے قیام اور احتجاج کو صحیح انداز میں مؤثر بنانے میں ان کا کوئی کردار نہ تھا۔ عالمی سطح پر بھی اُمت کے نقطۂ نظر کو پیش کرنے اور مسلم ممالک کو منظم کرنے اور متحرک کرنے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ یہ بڑی اندوہناک صورتِ حال ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام اور قیادت کی سوچ اور ترجیحات میں بُعدالمشرقین ہے۔ اغیار کی جارحانہ کارروائیوں پر احتجاج اُمت کا حق بھی ہے اور فرض بھی___ لیکن اصل مسئلہ صرف احتجاج کا نہیں، اپنے گھر کو درست کرنے،    صحیح قیادت کو بروے کار لانے اور اپنی قوت کو اس طرح مجتمع کرنے اور ترقی دینے کا ہے کہ اُمت     اپنا تاریخی کردار ادا کرسکے۔

اصل چیلنج یہ ہے کہ کیا ہم اغیار کی اس کثیرجہتی جارحیت کا مؤثر جواب دینے کو تیار ہیں؟

 

کتابچہ دستیاب ہے۔منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ قیمت: ۱۲ روپے۔

قیامِ پاکستان کے وقت بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی۔ ہندستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کی، جب کہ بالخصوص سندھ سے ہندو بڑی تعداد میں ہندستان منتقل ہوگئے۔ اس وقت سندھ میں تقریباً ۶ سے ۷ فی صد آبادی ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ انھیں پوری طرح مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہرجگہ ان کے مندر ہیں۔ کراچی سے لے کر کشمور تک یہ باآسانی سفر کرسکتے ہیں۔ کہیں بھی عام مسلمان آبادی کی جانب سے انھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جاتی اور نہ ان کی ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ سابقہ و موجودہ حکومت نے ہندوئوں کی عبادت گاہوں کی مرمت کے لیے خطیر رقم رکھی ہے جو کہ انھیں برابر دی جاتی ہے۔

ہندو تجارت کے میدان میں بہت آگے ہیں۔ اناج، الیکٹرانکس، بیج، کھاد، زرعی ادویات کے کاروبار پر ان کی اجارہ داری ہے۔ سندھ کے کئی علاقوں میں بڑے بڑے زمین داروں اور وڈیروں کے پورے کاروبار اور زراعت کی نگرانی ہندو کرتے ہیں۔ اسی لیے انھیں بااثر افراد کی پوری سرپرستی حاصل ہے۔ اس وقت ہندوئوں کی نقل مکانی کے حوالے سے جو صورت حال سامنے آئی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے کچھ حقائق کو پیش نظر رکھنا ہوگا:

l بدامنی: سندھ میں بدامنی اپنے عروج پر ہے۔ نہ راستے محفوظ ہیں نہ گھر، اور قبائلی جھگڑے عام ہیں۔ شہر، دیہات اور گائوں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ہرآدمی  خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، پریشان ہے۔ سندھی مسلمان کے مالی وسائل چونکہ محدود ہیں، اس لیے وہ    اپنا گائوں چھوڑ کر قریب کے شہر میں منتقل ہو رہا ہے۔ ہندو آبادی چونکہ مالی طور پر مستحکم ہے، اس لیے وہ اپنا سرمایہ بچانے کے لیے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کا رُخ کررہی ہے۔ جن کے وسائل اور زیادہ ہیں، وہ بھارت منتقل ہوجاتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کوٹہ سسٹم رائج کیا، اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہندو آبادی کو ہوا۔ بیسیوں ڈاکٹر، سندھ کے میڈیکل کالجوں سے فارغ ہونے کے بعد بھارت منتقل ہوگئے، اور اپنے ملک کا خطیر سرمایہ جو ان کی تعلیم پر خرچ کیا گیا اس کا ثمر بھارت کے حوالے کر دیا۔ درحقیقت بدامنی کی اس لہر سے سندھ کا ہر باسی پریشان ہے۔

  • اغوا براے تاوان: اغوا براے تاوان کا آغاز ۸۰ کے عشرے میں ہوا۔ آگے چل کر    یہ باقاعدہ ایک کاروبار کی صورت اختیار کرگیا۔ بااثر لوگ ڈاکوئوں کے سرپرست بن گئے ہیں۔ مسلمان ہو یا ہندو، کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ یہاں ججوں کو اغوا کیا گیا۔ ہندو چونکہ چھوٹے شہروں اور دیہات میں اپنی مالی حیثیت کے لحاظ سے نمایاں ہوتے ہیں، اس لیے وہ بھی اغوا ہوتے رہے ہیں۔ ریاست کے بنیادی فرائض میں اپنے تمام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا شامل ہے۔ حکومت اپنے اس فرض کی ادایگی میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔
  •  بہتہ خوری:بھتہ خوری کا کلچر کراچی سے شروع ہوا اور اب سندھ کے دیہات تک پہنچ گیا ہے۔ یہ بھی سندھ کا عمومی مسئلہ ہے، سب اس کا نشانہ ہیں۔ہرجگہ تاجر برادری اس پر سراپا احتجاج ہے۔ سندھی اخبارات میں اس طرح کی خبریں آئی ہیں جن میں ہندو آبادی کے ذمہ داران نے کہا ہے کہ ہمیں ڈاکوئوں اور قوم پرست تنظیموں کے کارکنان نے مجبور کیا ہے کہ ہم سندھ چھوڑ کر چلے جائیں۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے اطلاعات کے مطابق کراچی کی بھتہ خوری سے تنگ آکر وہاں کے تاجر و صنعت کار ملک کے دیگر حصوں یا بیرونِ ممالک اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہیں اور خود بھی منتقل ہورہے ہیں۔
  • زبردستی مذھب کی تبدیلی کا الزام:کچھ حلقوں کی جانب سے یہ باور کرایا جارہا ہے کہ سندھ میں ہندوئوں کو خاص طور پر ہندو لڑکیوں کو مذہب کی تبدیلی پر زبرستی مجبور کیا جاتا ہے اور سندھ میں مذہبی انتہا پسندی ہے۔ یہ بات خلافِ حقیقت اور مبالغہ آمیز ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت میں ’بابری مسجد‘ کی شہادت جیسا سانحۂ ارتحال ہوا لیکن سندھ میں ایک بھی مندر کو جلانے کا واقعہ نہیں ہوا۔ بھارت میں آئے روز گجرات اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں کوئی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا۔ اقلیتیں آزادی سے اپنی تمام عبادات کرتی ہیں۔ عام آبادی یا کسی تنظیم کی جانب سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔ سندھ کا مسلمان رواداری سے ہندوئوں کی تمام رسومات کا احترام کرتا ہے۔

جہاں تک لڑکیوں کے مسلمان ہونے کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہ امر سامنے رہنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ اور اس کا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مسلمان گھرانوں کی لڑکیاں اور لڑکے بھی اپنی روایات سے بغاوت کرکے کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۱ء میں صرف سکھر ڈویژن میں ۲۹۶ جوڑوں نے مبینہ طور پر ’محبت کی شادی‘ کی۔  ان میں ۲۹۰ جوڑے مسلمان تھے، جب کہ فقط چھے جوڑے نومسلم لڑکیاں تھیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں ۲۵۹ جوڑوں نے والدین کی مرضی کے بغیر شادیاں کیں، ان میں سے ۲۵۸ مسلمان جوڑے، جب کہ فقط ایک ہندو لڑکی نے اسلام قبول کیا اور مسلمان لڑکے سے شادی کی۔ ۲۰۱۲ء میں اب تک سکھر ڈویژن میں ۳۰۰ ’محبت کی شادیاں‘ ہوئی ہیں جن میں فقط دو ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے مسلمان لڑکوں سے شادی کی ہے۔

پچھلے دنوں جن پانچ لڑکیوں کے مسلمان ہونے کے واقعات نے شہرت حاصل کی اور ان کو خوب اُچھالا گیا، اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: رینکل کماری، اسلامی نام فریال بی بی کا تعلق میرپور ماتھیلو ضلع گھوٹکی سے ہے۔ اس نے بھر چونڈی شریف کی درگاہ میں اسلام قبول کیا۔ ڈاکٹر لتاکماری، اسلامی نام حفصہ کا تعلق جیکب آباد سے ہے۔ یہ آغاخان ہسپتال میں ڈاکٹر ہے۔ اس ڈاکٹر نے اپنی مرضی سے کیماڑی کراچی کے ایک امام مسجد کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ انیتہ نامی لڑکی کا تعلق بولاخان کے علاقے سے ہے۔ اس نے بھرچونڈی شریف میں اسلام قبول کیا۔ رچند دیوی، اسلامی نام عصمہ کا تعلق جیکب آباد سے ہے۔ اس نے گول مسجد سکھر کے امام کے ہاں اسلام قبول کیا۔ یہی حال آشہ کماری کا ہے۔ ان تمام واقعات میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ نچلی عدالتوں سے لے کر اعلیٰ عدالت تک ہرجگہ ان لڑکیوں نے بیان دیا کہ ان پر کوئی زبردستی اور جبر نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہی ہیں۔ عدالت نے انھیں کئی روز سرکاری تحویل میں رکھا، انھیں والدین سے ملنے دیا گیا۔ اس کے بعد بھی انھوں نے عدالت میں اپنا پرانا بیان دہرایا اور اسلام پر قائم رہیں۔ آئینِ پاکستان کے بنیادی حقوق کے باب۲ میں عاقل بالغ غیرمسلم کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ بات مسلّمہ ہے کہ اسلام دین حق ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں تمام ادیان باطل ہیں۔ ہندو لڑکیوں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے۔ وہ جب اسلام کو پڑھتی ہیں، تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتیں اور اس کو قبول کرلیتی ہیں۔

سندھ میں رُونما ہونے والے مختلف واقعات کا انفرادی پس منظر ہے۔ یہاں مَیں ضلع شکارپور کے ایک قصبے ’چک‘ میں دو ہندو ڈاکٹروں کے قتل کی مثال دیتا ہوں۔یہ ایک انفرادی فعل تھا۔ اس کا محرک بھیہ قبیلے کی ایک لڑکی کے ساتھ ہندو ڈاکٹر کی مبینہ زیادتی بتایا جاتا ہے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے قبیلے کے کچھ افراد نے اس جگہ کارروائی کی اور واقعے کے اصل ذمہ دار افراد جو کہ موقع سے فرار ہوگئے تھے، کے بجاے وہاں موجود افراد کو قتل کر دیا۔ ہم کسی بھی انسان کے قتلِ ناحق کو خلافِ اسلام اور خلافِ قانون سمجھتے ہیں۔ لیکن بعض حلقوں کی جانب سے اس کو عمومی طور پر ہندوئوں کے ساتھ ظلم سے تعبیر کیا گیا اور مذہبی انتہاپسندی کا رنگ دیا گیا، جب کہ اس کا تعلق کسی طرح بھی مذہب سے نہیں بنتا۔ یہ ایک جرم ہے اور قانون کے مطابق ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے۔

امرِواقعہ یہ ہے کہ سندھ میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ اس عمومی بدامنی کی لہر کو مخصوص رنگ دینا انصاف نہیں ہے۔ ان واقعات کے حقیقی اسباب کو دیکھتے ہوئے اصلاحِ احوال کی کوشش جب تک نہیں ہوگی سندھ میں امن و امان کی صورت حال بہتر نہیںہوگی اور سندھ کے عوام کو، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، امن و سکون نصیب نہیں ہوگا۔

مزید یہ کہ جس طرح ان واقعات کو عمومی رنگ دے کر اُبھارا جا رہا ہے، اس سے اس راے کو تقویت ملتی ہے کہ یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو بین الاقوامی طاقتوں خصوصاً امریکا اور مغرب کی جانب سے مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ اور ’مذہبی انتہاپسند‘ ثابت کرنے کے لیے ایک عرصے سے جاری ہیں۔ ضروری ہے کہ اس پسِ پردہ سازش کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔

جماعت اسلامی جس ملک میں کام کر رہی ہے اس کے حالات کے لحاظ سے اس نے اپنا طریق کار اختیار کیا ہے۔ کوئی دوسرا آدمی جو اسلامی دعوت کے لیے کسی اور ملک میں کام کر رہا ہو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہمارے طریقے کی پیروی کرے۔ وہ اپنے ملک کے حالات کے لحاظ سے کوئی دوسرا طریقۂ کار اختیارکرسکتا ہے۔ ہم اس کے لیے یہ لازم نہیں کرسکتے کہ وہ ہمارے ہی طریقے کی پیروی کرے۔

ہم اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے کسی قسم کی خفیہ تحریک کا طریقہ اختیار کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ ہم اس کو بھی صحیح نہیں سمجھتے کہ کسی طرح کی سازشیں کرکے کوئی فوجی انقلاب لانے کی کوشش کی جائے اور اس طریقے سے اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ پھر یہ ہوگا کہ جس طرح ایک سازش کے نتیجے میں اسلامی حکومت قائم ہوگی اسی طرح ایک دوسری سازش کے نتیجے میں اس کا تختہ اُلٹ کر کوئی اور حکومت قائم ہوجائے گی۔

ہمارے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایک کھلی اور علانیہ دعوت سے اپنا ہم خیال بنائیں۔ اس میں وقت کی حکومت خواہ کتنی ہی رکاوٹیں ڈالے، ہرطرح کی تکلیفوں کو، ہر طرح کے نقصانات کو، ہرطرح کی سزائوں کو برداشت کرلیا جائے اور اپنی دعوت کو برابر جاری رکھا جائے، یہاں تک کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے ہم خیال ہوجائیں۔ جب لوگ ہمارے   ہم خیال ہوجائیں گے تو ہم ان شاء اللہ جمہوری طریقے سے ہی اپنے ملک میں اسلامی انقلاب   لے آئیں گے۔ (خطباتِ یورپ، ص ۹۱-۹۲)

یہ ایک غلط مفروضہ ہے کہ ہم اصلاحِ معاشرہ کا کام چھوڑ کر صرف انتخابات کے ذریعے قیادت کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں.... حالانکہ ہمارے لائحہ عمل کے چار میں سے تین اجزا اصلاحِ معاشرہ ہی کا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے ۳۶۵دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں… پھر ووٹر کو صحیح انتخاب کے لیے تیار کرنا، اسے اسلامی نظام کے لیے تیار کرنا، اس کے اندر اسلامی نظام کی طلب پیدا کرنا، اس کو صالح اور غیرصالح کی تمیز دینا، اس کو یہ احساس دلانا کہ ملک کی بھلائی اور برائی کا ذمہ دار وہ خود ہے، اس میں اتنی اخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا کہ وہ دھن دھونس، دھوکے، دھاندلی کا مقابلہ کرسکے اور اپنا ووٹ صحیح طور پر استعمال کرے___ یہ سارے کام کیا اصلاحِ معاشرہ کے کام نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو یہی کام ہم انتخابات میں حصہ لے کر کرتے ہیں…

انتخابات سے الگ رہ کر آپ عقائد، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا کام تو کرسکتے ہیں لیکن صالح قیادت کو اُوپر لانے کے لیے ووٹروں کی سیاسی تربیت انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لیے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ووٹروں کو فاسد اور نااہل امیدواروں کے حوالے کرکے اور ان کے لیے میدان خالی چھوڑ کر آخر انتخابی عمل کی اصلاح کیسے ہوگی؟ جب نااہل کے مقابلے میں اہل اور فاسد کے مقابلے میں صالح موجود نہیں ہوگا تو ووٹر کے لیے صالح اور غیرصالح کے درمیان تمیز کیسے پیدا ہوگی؟

رہی یہ بات کہ چند نشستیں حاصل کرنے کا فائدہ کیا ہوگا؟ تو میں عرض کروں گا کہ اس سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ اب تک آپ صرف پبلک میں آواز اُٹھاتے رہے ہیں، ایوانِ حکومت میں آپ کی کوئی آواز نہیں ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ کی آواز دونوں جگہ بلند ہوگی۔ آپ کے چند لوگ بھی جب اربابِ اقتدار کے سامنے کلمۂ حق کہیں گے، غلط چیزوں پر صاف صاف تنقید کریںگے،  دلیل کے ساتھ صحیح بات پیش کریں گے، تو یہ آواز بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ (تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۳۶، ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۹-۱۵۰)

یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ ہم اس وقت جس مقام پر کھڑے ہیں اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا، اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں اس کو واضح طور پر نگاہ کے سامنے رکھنا ہوگا تاکہ ہمارا ہرقدم اسی منزل کی طرف اُٹھے، خواہ ہم پسند کریں، یا نہ کریں۔ نقطۂ آغاز تو لامحالہ یہی انتخابات ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظامِ حکومت تبدیل ہوسکتا ہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے جس سے ہم پُرامن طریقے سے نظامِ حکومت بدل سکیں اور حکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔

اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس، دھوکے، دھاندلی، علاقائی، مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اُچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہوسکیں۔ انتخابات دیانت دارانہ ہوں، لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول، مقاصد اور پروگرام پیش کریں، اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے انتخاب میں ہم عوام کے طرزِفکر اور   معیارِ انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظامِ حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظامِ انتخاب پر نظرثانی کرسکتے ہیں اور اُس مثالی نظامِ انتخابات کو ازسرِنو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہرحال آپ یک لخت جست لگاکر اپنی انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۲۶-۲۷)

[خیال رہے کہ] یہ انتخابی ہتھکنڈے جو سیاسی پارٹیاں استعمال کرتی ہیں، اور جن کے استعمال میں زمامِ کار کے موجودہ مالک طاق بھی ہیں اور بے باک بھی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ خودبخود متروک ہوجائیں گے؟ کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ رفتہ رفتہ یہ لوگ آپ ہی اتنے نیک ہوجائیں گے کہ ان ہتھکنڈوں کے استعمال سے انھیں شرم آنے لگے گی؟ اور کیا آپ زمامِ کار کی تبدیلی کے لیے اس ساعت ِ سعید کا انتظار کرنا چاہتے ہیں جب مقابلہ صرف شریف آدمیوں سے رہ جائے اور بُرے لوگ میدان سے ہٹ جائیں؟ اگر یہ آپ کی امیدیں ہیں، اور یہ وہ شرطیں ہیں جن کے پورا ہونے پر ہی آپ قیادت بدلنے کے اس واحد آئینی وسیلے سے کام لے سکتے ہیں، تو میں نہیں سمجھتا کہ کبھی آپ کی یہ اُمیدیں اور یہ شرطیں پوری ہوں گی اور آپ اس کارخیر کے لیے آگے بڑھ سکیں گے۔

تبدیلیِ قیادت کے لیے آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ اس گندے کھیل میں پاکیزگی کے ساتھ آیئے۔ تمام بُرے ہتھکنڈوں کا مقابلہ صحیح طریقوں سے کیجیے۔ جعلی ووٹ کے مقابلے میں اصل ووٹ لایئے۔ دھن سے ووٹ خریدنے والوں کے مقابلے میں اصول اور مقصد کی خاطر ووٹ دینے والے لاکر دکھایئے۔ دھوکے اور فریب اور جھوٹ سے کام لینے والوں کے مقابلے میں سچائی اور راست بازی کا مظاہرہ کیجیے۔ دھونس اور زبردستی سے ووٹ لینے والوں کے مقابلے میں ایسے ووٹر پیش کیجیے جو بے خوف ہوکر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ دھاندلیوں کے مقابلے میں ٹھیٹھ ایمان داری برت کر دکھایئے۔ ایک دفعہ نہیں، دس دفعہ ناکامی ہو تو ہو۔ آپ کوئی تبدیلی یہاں لاسکتے ہیں تو اسی طریقے سے لاسکتے ہیں۔ اسی طرح آخرکار وہ وقت آئے گا، جب کہ سارے ہتھکنڈوں کے باوجود غلط کار لوگ شکست کھاجائیں گے۔ اسی طرح یہاں کے انتخابی نظام کی برائیاں بے نقاب ہوں گی۔ اسی طرح ان برائیوں کے خلاف عام نفرت اور بیزاری پیدا کی جاسکے گی۔ اسی طرح انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کا راستہ کھلے گا۔

پھر جس پبلک کی غفلت، بے حسی اور اخلاقی کمزوریوں کا آپ رونا روتے ہیں، اس کی اصلاح بھی آپ کے اسی عمل سے ہوسکے گی۔ اسی سے اس کا ضمیر بیدار ہوگا۔ اس سے لوگوں کو یہ اُمید بندھے گی کہ یہاں بھلے طریقوں سے بھی کام کیاجاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا خوف بھی  دُور ہوگا، ووٹ فروشی کا مرض بھی کم ہوتا جائے گا، اور راے عام کی اتنی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی کہ ہمارے عام ووٹر اغراض اور تعصبات کی بنا پر ووٹ دینے کے بجاے اصول اور نظریات کی بناپر بے لاگ طریقے سے ووٹ دینے کے قابل ہوجائیں گے۔

بلاشبہہ یہ ایک دشوار گزار گھاٹی ہے۔ اس میں ٹھوکریں لگیں گی، ناکامیاں ہوں گی، کمزور دل کے لوگ دل شکستہ بھی ہوں گے۔ تحریک سے دل چسپی رکھنے والوں میں سے بھی بہت سے لوگ مایوسی سے دوچار ہوں گے۔ اور ظاہر میں پبلک کا بھی ایک اچھا خاصا حصہ ان ابتدائی ناکامیوں کا غلط مطلب لے گا۔ لیکن منزلِ مقصود تک پہنچنے کا کوئی راستہ اس گھاٹی کے سوا نہیں ہے۔ اور مجھے اس میں اتنی بڑی ناکامی کا خطرہ بھی نہیں ہے جس کا ہوّا ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ساری ناجائز تدبیروں کے مقابلے میں، اسی غافل اور کمزور پبلک کے اندر سے، ٹھیٹھ اصولی طریق کار برت کر، چند لاکھ ووٹ ضرور لے کر دکھا دیں گے، اور یہ چیز ان شاء اللہ اس ملک کے تمام   اصلاح پسند اور دین پسند طبقوں میں یاس کے بجاے اُمید کی شمع روشن کردے گی۔ پھر میں یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ ایک انتخاب میں ایسے ووٹوں کا جو تناسب ہوگا وہ بعد کے انتخابات میں گھٹے گا نہیں، بلکہ ان شاء اللہ العزیز برابر بڑھتا ہی چلا جائے گا، یہاں تک کہ آخرکار میزان کا رُخ پلٹ کر رہے گا۔(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۴۷-۱۴۹)

یہ لائحہ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے، اس کی کامیابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازن پر ہے۔ اس کا ہرجز دوسرے جز کا مددگار ہے، اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہوجائے گی، اور اس کے اجزا کے درمیان توازن برقرار نہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہوکر رہے گی۔

کامیابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت و تبلیغ جاری رکھیے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جایئے تاکہ آپ کی طاقت اسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اتنا ہی بڑھاتے چلے جائیں جتنی آپ کی طاقت بڑھے تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوجائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجیے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اس کے مطابق واقعی تغیر رُونما ہوسکے۔ ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔

ان میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رُک گیا ہو، یا کمزور پڑ گیا ہو۔ اسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدحیات بنایا ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۰)

اہلِ حق کی اصل ذمّہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کردیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔  (رسائل و مسائل،  حصہ پنجم، ص ۳۲۸- ۳۲۹)

اِس میں شک نہیں کہ دُنیا میں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں، لیکن لوگوں کا ردو قبول ہرگز حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے۔ ہمارا کام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یا بھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں۔  خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔ اِس احسان کا شکریہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں (مکتوب بنام شورش کاشمیری، ایشیا، ۳جنوری ۱۹۷۱ئ)۔ (انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کردے، اور دوزخ سے دُور کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ایک عظیم چیز کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن یہ اس آدمی کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کردے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ  ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو۔

 اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں خیر کے دروازے نہ بتلا دوں؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطا کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو۔ اور آدمی کی نماز آدھی رات کو بھلائیاں سمیٹنے کا ذریعہ ہے۔ پھر آپؐ نے تہجدگزاروں کی شان میں، قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی: تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَo فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (السجدہ ۳۲:۱۶-۱۷) ’’اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں،اور جو کچھ رزق ہم نے اُنھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے‘‘۔

پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں اس دین کی بنیاد، ستون اور بلندترین چوٹی نہ بتلائوں؟ اس دین کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، اور ستون نماز ہے اور بلند ترین چوٹی جہاد ہے۔

پھر فرمایا: کیا میں تمھیں ان تمام چیزوں کا محور نہ بتلا دوں؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! کیوں نہیں؟ آپؐ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کیا: کیا ہم سے ان باتوں پر مواخذہ ہوگا جنھیں ہم زبان سے نکالتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: معاذ! تجھے تیری ماں گم کردے، لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ اور کون سی چیز داخل کرتی ہے    سواے زبان کی کاٹی ہوئی فصل کے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)

صحابہ کرامؓ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے وہ علمی حقائق آشکارا ہوئے جو کسی بڑی سے بڑی یونی ورسٹی میں پہنچ کر کسی کو حاصل نہیں ہوسکے۔ وہ حقائق جو انسان کو اس کے مقصد حیات سے روشناس کردیں، جو اسے آسانی کے ساتھ منزل سے ہمکنار کردیں، جنت میں پہنچا دیں اور دوزخ سے دُور کردیں۔ صحابہ کرامؓ نبی اکرمؐ کی بابرکت مجالس میں بیٹھتے اور اپنے دامن کو اسی قسم کے علمی جواہر اور فیوض سے بھرتے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کو اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کی صحبت میں رہ کر بڑے علم سے نوازا تھا لیکن صحابہ کرامؓ کو آپؐ کی مجالس سے جو علمی جذبہ اور شوق ملا تھا اس کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ان کی علمی پیاس بڑھتی رہتی تھی اور وہ آپؐ کے چشمۂ علم سے سیراب ہوتے رہتے تھے۔ اسی جذبے سے حضرت معاذ بن جبلؓ نے عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کردے۔ تب نبی اکرمؐ نے فرمایا: آپ نے بہت عظیم اور مشکل کام کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔ یہ مشکل کام اللہ تعالیٰ کی بندگی اور حکمرانی قائم کرنے کا کام ہے۔ شیطان اور شیطانی قوتوں کو شکست دے کر اللہ تعالیٰ کی غلامی اور بندگی اختیار کرنا، اس کی پوجا اور پرستش کرنا،  اسی سے اپنی حاجات اور مشکلات کا سوال کرنا، اس کے ساتھ ان کاموں میں کسی کو شریک نہ کرنا، پھر ارکانِ خمسہ کے ذریعے اپنے ایمان کو بڑھانا اور قوی کردینا، کیونکہ ایمانی قوت کے بغیر آدمی کا جنت کے راستے پر چلنا اور دوزخ کے کاموں سے دُور رہنا بڑا مشکل ہے۔ اس کے بعد آپؐ نے ابوابِ خیر، دین کی اساس، اس کا ستون، اس کی بلند ترین چوٹی اور زبان کے شر سے حفاظت کے نکات بیان فرما کر گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اور ان کی وساطت سے اُمت کے سامنے نیکی کی شاہراہ کو پوری طرح روشن کردیا۔ آج بھی ہم اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے اسی جامع نسخۂ کیمیا کو استعمال کرکے کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

o

حضرت عبادۃ بن صامتؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں۔ جس نے ان کا وضو اچھی طرح کیا اور انھیں اپنے وقت پر ادا کیا اور ان کے رکوع اور سجود کو اچھی طرح ادا کیا، اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ عہد ہے کہ اسے بخش دے اور جس نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے بخش دے گا اور چاہے گا تو اسے عذاب دے گا۔ (احمد، ابوداؤد)

ایسی نماز آدمی کو تمام نیک کاموں کے کرنے اور تمام برائیوں سے بچنے کے قابل بنادیتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نیکی کی راہ پر آسانی کے ساتھ چلنے کے لیے اس طرح کی نمازوں کا اہتمام کریں۔ مساجد کو آباد کریں ، وقت پر پہنچنے کے لیے دنیاوی مشاغل کو چھوڑ دیں۔ ایک اسلامی معاشرے کی خصوصیت ہے کہ اس میں مساجد آباد اور فحاشی اور عریانی کے مراکز غیرآباد ہوتے ہیں۔ اس قسم کی نماز کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط (العنکبوت۲۹:۴۵)’’یقینا نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ اگر آج معاشرے میں برائیاں زور و شور سے پروان چڑھ رہی ہیں اور نیکیاں مرجھا رہی ہیں، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہماری نمازوں میں خشوع و خضوع اور توجہ الی اللہ اور پابندی اور اہتمام میں کمی ہے۔

o

حضرت عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہے تم بھی اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبرکہو اور جب اشھد ان لا لٰہ الا اللّٰہ کہے تو تم بھی اشھد ان لا لٰہ الا اللّٰہ کہو اور جب اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ کہے تو تم بھی    اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ کہو اور جب حی علی الصلٰوۃ کہے اور تم لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ کہو اور جب وہ حی علی الفلاح کہے تو تم بھی لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ کہو اور جب وہ اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہے اور تم بھی اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہو، اور جب لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ کہے اور تم بھی لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ صدقِ دل سے کہو تو تم سیدھے جنت میں داخل ہوجائو گے۔ (مسلم)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، کہ جب مؤذن اذن دے دے اور تم اسے سننے کے بعد اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہ رضیت باللّٰہ ربًا وبالاسلام دینا و بمحمد نبیا ورسولًا کہو تو تمھارے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ (مسلم)

اذان کے ذریعے ایک طرف مسلمانوں کو بلندآواز سے نماز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یہ بلاوا اس شان کے ساتھ ہوتا ہے کہ اس میں دین کی پوری دعوت بھی پیش کردی جاتی ہے۔ آغاز میں چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کر کے تمام طاغوتوں کی کبریائی کا انکار کردیا جاتا ہے۔ پھر شہادتین کے ذریعے دو دو مرتبہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ پھر دو مرتبہ نماز کے لیے بلایا جاتا ہے اور پھر دومرتبہ ’فلاح‘ کامیابی کی طرف بلاوے کے عنوان کے ذریعے پورے دین کی طرف اور اس کی اقامت اور اس پر عمل کے لیے بلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان کا اعادہ کیا جاتا ہے اور ایک مرتبہ عقیدۂ توحید کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ اذان کے ذریعے یہ بلاوا ایسا بلاوا ہے کہ اس سے بڑا بلاوا کوئی نہیں ہوسکتا، ایک مسلمان کو اس کا عقیدہ، نماز اور دین یاد دلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے اسے بلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی مسلمان کے لیے کوئی گنجایش نہیں رہ جاتی کہ وہ اذان کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ہو اور مسجد میں نماز کے لیے نہ پہنچے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی کوئی پروا نہیں اور وہ اس وسیلے سے پکار کی بھی کوئی قدر و منزلت کرنے والا نہیں ہے۔

 آج کے دور میں اس اذان کے ہوتے ہوئے مسلمان اگر اپنے دین اور اس کے تقاضوں کو بھولے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہونے کے بجاے غیراللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین اور نظام کو قائم کرنے کے بجاے غیروں کے نظام کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اذان کو سنتے ہیں لیکن اسے سمجھتے نہیں، اسے سنتے ہیں لیکن اَن سنی کردیتے ہیں۔ یہ تو وہی روش ہے جسے یہودیوں نے اختیار کیا تھا۔ وہ کہتے تھے: سمعنا وعصینا، ہم نے سن تو لیا ہے لیکن ہم نافرمانی کریں گے۔ آج مسلمانوں کو اس اذان پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اپنے دین کی عظمت کے سامنے سرجھکا دینا چاہیے کہ اس اذان نے ان کے دین کے خلاصے کو محفوظ کردیا ہے، اوردنیا کی کسی قوم کے پاس اس اذان کے مقابلے کی کوئی چیز نہیں ہے جس طرح کہ دین اسلام اور قرآنِ پاک کے مقابلے کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں ہے۔ کاش! مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میری اس مسجد میں آئے، خیر کو سننے، جاننے اور تعلیم دینے کے لیے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے، اور جو کسی دوسری غرض سے آیا تو اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو دوسرے کے سامان کو دیکھنے کے لیے آئے۔ (بیہقی، ابن ماجہ)

مسجد نبویؐ اور دیگر مساجد میں حاضری کی غرض و غایت اس حدیث سے اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مساجد میں نماز، اللہ تعالیٰ کے ذکر ، حصولِ علم اور تعلیم و تدریس کے لیے حاضری دیا کریں۔

اسلام کی عمارت جن بنیادی ارکان پر قائم ہے ان میں حجِ بیت اللہ بھی ایک اہم رکن ہے۔ صاحب ِ استطاعت ہونے کی صورت میں ہر مسلمان عاقل وبالغ مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔حج میں مالی وبدنی دونوں طرح کی عبادات پائی جاتی ہیں،چنانچہ اس کی فرضیت کے لیے مالی اور بدنی، دونوں قدرتیں ضروری ہیں۔ ارشادِ باری ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْْہِ سَبِیْــلًا  (اٰل عمرٰن۳:۹۷)’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ حج اپنے اندر عالم گیر اخوت ومحبت اور انسانی مساوات کاعملی پیغام رکھتا ہے۔ تمام حجاج کاایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر ایک ہی طرح کے اعمال وشعائر انجام دینا، جہاں ایک طرف: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘ کے احساس کوپختگی دیتا ہے، وہیں دوسری طرف ربِ واحد کے حضور انسانی مساوات کا نادر نمونہ پیش کرتا ہے۔

اس عبادت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ نبی کریمؐ نے بھی صرف ایک بار حج کیا اور فرما یا: ’’مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لیے کہ مجھے نہیں معلوم، شاید کہ میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں‘‘ (مسلم، ۳۱۹۷) ۔ ہر اسلامی عبادت میں دوشرائط کا پایا جانا ضروری ہے: اخلاص اورپیرویِ شریعت۔ چونکہ یہ عبادت عموماً انسان زندگی میں صرف ایک بار ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں خطاؤں اور لغزشوں کے ارتکاب کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ حج کی تمام جزئیات کا کتابی مطالعہ اور نظری علم الگ چیز ہے، اور عملی حج کرنا الگ۔ اسی لیے کثیر مطالعہ کے باوجود حجاجِ کرام سے لغزشیں سرزد ہوجاتی ہیں۔لغزشیں تو خیر بشریت کا خاصہ ہیں، تاہم اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا حج خطاؤں سے پاک صاف ہو، ہر مومن کے لیے ضروری ہے ۔ اس مضمون میںچند خطاؤں پر متنبہ کیا گیا ہے جو عموماً حجاجِ کرام سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ اِن خطاؤں کا سبب ناواقفیت ہے یا اندھی تقلید۔ مومنانہ کردار یہ ہے کہ جب صحیح علم حاصل ہوجائے تو اس پر عمل کیا جا ئے۔ اسی لیے یہ کوشش کی گئی ہے کہ دلائل کی روشنی میں صحیح بات سامنے لائی جائے۔

اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت ادایگیِ حج کے وقت کے تعیین کو حاصل ہے۔  فقہاے کرامؒ کے درمیان اس امر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا فرضیت ِ حج کے بعد فوراً حج کرنا ضروری ہے یا اس میں تاخیر کی گنجایش ہے۔ احناف کے نزدیک فوراً حج کرنا ضروری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ رخصت ایک وبا کی طرح پھیل گئی ہے، اور حج کے لیے عملاً بڑھاپے کا وقت مخصوص مان لیاگیا ہے۔ حالانکہ شرعی لحاظ سے بھی اور موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی جوانی میں حج کرلینا ہی بہتر ہوتاہے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔

اگر کسی شخص پر حج فرض ہوجائے اور وہ اسے بڑھاپے پر اٹھا رکھے اور پھر حج کیے بغیر ہی مر جائے تو سخت گناہ گار ہوگا۔ نیز حج ایک پُرمشقت عبادت ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خواتین کا جہاد حج اور عمرہ کو قرار دیا۔ موجودہ دور میں کثرتِ حجاج کی وجہ سے اس میں مزید مشقتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بوڑھے حجاج خواتین وحضرات ارکانِ حج کیسے اور کس قدر ادا کرپاتے ہیں۔ بڑھاپے میں حج کا وطیرہ برعظیم پاک و ہند کے ساتھ خاص نظر آتا ہے، ورنہ دنیابھرکے بیش تر ممالک سے آنے والے حجاجِ کرام کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہمارے علماے کرام کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے سامنے حج کی اہمیت اجاگر کرنا اور انھیں جوانی میں حج کرنے پر اُبھارنا چاہیے۔

 احرام کے سلسلے میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- میقات سے حج اور عمرہ کی نیت کرنا لازم ہے۔ میقاتیں اللہ کے رسولؐکی جانب سے متعین کردہ ہیں۔ حاجی ومعتمر کے لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ زمین کے راستے سفر کررہا ہو یا بحری یا ہوائی راستے سے۔ بعض حجاج ہوائی سفر میں بغیر احرام کے میقات سے گزر جاتے ہیں اور جدہ ایئر پورٹ پہنچ کر احرام باندھتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔  ان کو چاہیے کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل احرام باندھ لیں اور میقات سے پہلے جہاز ہی میں نیت کرلیں۔ اگر بغیر احرام کے وہ جدہ پہنچ جاتے ہیں تو واپس میقات تک جائیں اور وہاں سے احرام باندھیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے ہیںاور جدہ ہی سے احرام باندھتے ہیں تو اکثر علما کے نزدیک اُن پر ایک جانور کے ذبح کرنے کا فدیہ واجب ہے، جو مکہ میں ذبح کیا جائے گا اور فقرا میں تقسیم ہوگا۔

۲- احرام کی حالت میں حاجی ومعتمر دو چادریں استعمال کرتا ہے۔ ایک تہبند کی طرح باندھ لیتا ہے اور دوسری کندھے پر ڈال لیتا ہے۔ بعض حجاج کرام کی چادرناف سے نیچے سرک جاتی ہے اور وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے، حالانکہ ناف ستر میں داخل ہے۔ اس کو ڈھکنے کا خصوصی التزام ہونا چاہیے۔

طواف میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- احتیاطاً حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان سے طواف شروع کرنا، غلو فی الدین ہے  جس سے نبی کریمؐ نے منع کیا ہے۔

۲- زیادہ بھیڑ کی صورت میں حجرِ اسماعیل ؑ (حطیم)کے اندر سے طواف کرنا۔ ایسی صورت میں طواف درست نہیں ہوگا، کیونکہ حطیم خانہ کعبہ کاحصہ ہے۔

۳- ساتوں چکر میں رمل کرنا( دلکی چال چلنا)۔ رمل صرف ابتدائی تین چکروں میں ہے۔

۴- حجرِ اسود کے بوسے کے لیے شدید دھکا مکی کرنا۔ کبھی کبھی نوبت گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، حالانکہ یہ چیز حج میں خصوصیت کے ساتھ ممنوع ہے۔ ارشادِ باری ہے: اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ  (البقرہ۲:۱۹۷) ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو‘‘۔

۵- حجرِ اسود کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ بذاتِ خود نفع ونقصان پہنچاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حضرات اس کا استلام کرکے اپنے پورے بدن پر اور بچوں کے بدن پر ہاتھ پھیرتے ہیں، یہ سراسر جہالت اورناسمجھی کی بات ہے۔ نفع ونقصان کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔  حضرت عمرؓ کا واقعہ ہے: ’’آپؓ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے علم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع، اور اگر میں نے اللہ کے رسولؐ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔(بخاری، ۱۵۹۷، مسلم، ۳۱۲۶-۳۱۲۸)

۶- پورے خانہ کعبہ کا استلام کرنا۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ استلام ایک عبادت ہے، اور ہر عبادت میں اللہ کے رسولؐ کی پیروی ضروری ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے صرف حجرِاسود اور رکنِ یمانی کا استلام کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ: ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورحضرت معاویہؓ طواف کررہے تھے۔ حضرت معاویہؓ تمام ارکانِ کعبہ کا استلام کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پوچھا کہ آپؓ ان دونوں ارکان کا استلام کیوں کررہے ہیں، جب کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کا استلام نہیں کیا ہے؟ حضرت معاویہؓ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا کوئی حصہ متروک نہیں ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: اللہ کے رسولؐ کا عمل ہی تمھارے لیے اسوۂ حسنہ ہے، تو حضرت معاویہؓ نے فرمایا: آپؓ نے درست فرمایا‘‘۔(مسند احمد، ۱۸۷۷)

۷-ہر طواف کے لیے مخصوص دعا کا التزام کرنا: بایں طور کہ اس کے علاوہ کوئی دعا نہ کرنا، بلکہ بسا اوقات اگر دعا پوری ہونے سے قبل طواف مکمل ہوجاتا ہے تو دعا بیچ ہی میں منقطع کرکے اگلے طواف میں پڑھی جانے والی دوسری دعا شروع کردی جاتی ہے، اور اگر طواف مکمل ہونے سے قبل دعا پوری ہوجاتی ہے تو بقیہ طواف میں خاموش رہا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اللہ کے رسولؐ سے ثابت نہیں۔

۸- کچھ لکھی ہوئی دعاؤں کو ان کا معنی ومطلب سمجھے بغیر پڑھتے رہنا۔حالانکہ طواف کرنے والے کو معنی ومطلب سمجھ کر دعا کرنی چاہیے خواہ اپنی مادری زبان میں ہی دعا کرے۔

۹- بعض حجاج کا ایک گروپ کی شکل میں طواف کرنا بایں صورت کہ ان میں سے ایک شخص بلند آواز سے دعا پڑھے اور بقیہ بلند آواز میں اسے دہرائیں۔ یہ چیز دیگر افراد کے خشوع وخضوع میں مخل اور ان کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے ۔حدیث میں ہے کہ:  ’’ایک بار اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں بلند آواز سے تلاوت کررہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا:نمازی اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، تو وہ دیکھے کہ اپنے رب سے کیا کہہ رہا ہے، اورقرآن کی تلاوت میں ایک دوسرے سے آوازیں بلند کرنے کا مقابلہ نہ کرو‘‘۔(موطا امام مالک، ۱۷۷)

۱۰- بعض حجاج یہ سمجھتے ہیں کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں لازماً مقامِ ابراہیمؑ کے پاس پڑھنی چاہییں، چنانچہ اس کے لیے دھکا مکی کرتے اور طواف کرنے والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں،حالانکہ یہ خیال صحیح نہیں ۔ یہ دو رکعتیں بیت اللہ میں کسی بھی مقام پر پڑھی جاسکتی ہیں۔

۱۱- بعض حضرات مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس بلاسبب کئی کئی رکعات پڑھتے ہیں، جب کہ دیگر حضرات طواف سے فراغت کے بعد وہاں نماز کے منتظر ہوتے ہیں۔

۱۲- بسا اوقات نماز سے فراغت کے بعد گروپ کا رہنما پوری جماعت کے ساتھ بلند آواز سے دعا کرتا ہے اور دیگر نمازیوں کی نماز میں مخل ہوتا ہے۔

سعی کے دوران سرزد ھونے والی خطائیں

۱- بعض حجاج صفا اور مروہ پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے تین بار تکبیرِ تحریمہ کی طرح تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔

آپؐ کے حج کے طریقے میں مروی ہے کہ: ’’جب آپؐ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ (البقرہ۲:۱۵۸) ’’یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘۔ اور فرمایا: میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چنانچہ آپؐ نے صفا سے سعی کا آغاز کیا اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آگیا، پھر آپؐ نے قبلہ رو ہوکر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی اور اس کی کبریائی بیان کی اور یہ دعا پڑھی: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَـہٗ، لَـہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ، اَنْجَزَ وَعْدَہٗ، وَنَصَرَ عَبْدَہٗ، وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ ،’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے، اور سارے شکریہ کا مستحق بھی وہی ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تن تنہا تمام گروہوں کو شکست دی‘‘۔ پھر اس کے درمیان دعا کی۔ اسی طرح تین بار کیا۔ پھر اُتر کر مروہ کی جانب چلے، یہاں تک کہ جب وادی کے بیچ میں پہنچے تو تیزرفتاری سے چلے، اور جب اوپر چڑھ گئے تو عام رفتار سے چلے، یہاں تک کہ مروہ پر پہنچ گئے اور وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)

۲- پوری سعی کے دوران تیزرفتاری سے چلنا سنت کے خلاف ہے۔ تیزرفتاری سے صرف دونوں سبز لائٹوں کے درمیان چلنا ہے، بقیہ سعی میں عام چال چلنا ہے۔

۳- بعض خواتین دونوں سبز لائٹوں کے درمیان مردوں کی طرح تیزرفتاری سے چلتی ہیں، حالانکہ عورتوں کو تیزی سے نہیں، بلکہ عام رفتار سے چلنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ارشاد ہے:  ’’طواف میں رمل اور سعی میں تیزرفتاری عورتوں کے لیے نہیں ہے‘‘۔(سنن دارقطنی، ۲۷۶۶، سنن کبری للبیہقی، ۹۳۲۱)

۴- بعض حجاج جب صفا یا مروہ کے قریب پہنچتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ ، حالانکہ سنت یہ ہے کہ صرف پہلی سعی میں جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھے۔

۵- بعض حجاج ہر چکر میں مخصوص دعا پڑھتے ہیں۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

۶- بعض حجاج سعی کے دوران اضطباع کرتے ہیں، یعنی دایاں کندھا کھلا رکھتے ہیں۔   یہ درست نہیں ہے۔ اضطباع صرف طوافِ قدوم میں مسنون ہے۔

وقوفِ عرفہ میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- بعض حجاج حدودِ عرفہ سے پہلے ہی قیام کرلیتے ہیں، اور سورج غروب ہونے تک وہیں رہتے ہیں، پھر وہیں سے مزدلفہ چلے جاتے ہیں، اور عرفہ میں قیام ہی نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اور اس کی وجہ سے حج فوت ہوجاتا ہے، کیونکہ وقوفِ عرفہ حج کا بنیادی رکن ہے۔ اس کے بغیر حج درست نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ جو وقوف کے وقت میں یہاں وقوف نہ کرے اس کا حج نہیں ہوا۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے، چنانچہ جو شخص مزدلفہ کی رات فجر طلوع ہونے سے قبل بھی عرفہ آگیا تو اس نے حج پالیا‘‘(سنن ترمذی، ۸۸۹، سنن نسائی، ۳۰۴۴، سنن ابن ماجہ، ۳۰۱۵)۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ بعض حضرات عرفہ سے قبل ہی قیام کرلیتے ہیں اور دوسرے انھیں دیکھ کر دھوکاکھا جاتے ہیں۔ اس لیے حجاجِ کرام کو چاہیے کہ وہ حدودِ عرفہ کی اچھی طرح تحقیق کرکے ہی قیام کریں۔ حدود کا تعیین کرنے والے بورڈوں اور وہاں کام کرنے والے افراد سے رہنمائی لینا مناسب ہوگا۔

۲- بعض حجاج غروبِ آفتاب سے قبل ہی عرفہ سے نکل جاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ  غروب کے بعد عرفہ سے نکلے تھے۔

۳- دعا کے دوران قبلہ کے بجاے جبل رحمت کی جانب رخ کرنا۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ  نے قبلہ رو ہوکر دعا کی۔

۴- بعض حجاج عرفہ میں ظہر اور عصر کی نمازیں اپنے اپنے وقت پر مکمل ادا کرتے ہیں۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ یہاں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ظہر کے وقت میں ادا کرنی چاہیے، جیسا کہ نبیؐ نے کیا۔ حضرت جابرؓ نبی کریمؐ کے حج کے تذکرے میں عرفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  ’’پھر اذان کہی گئی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ نے ظہر پڑھی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ  نے عصر پڑھی، اور ان دونوں کے درمیان کچھ نہیں پڑھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)

۵- منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ میں نماز قصر کے ساتھ پڑھنے کا حکم حج کا ایک خاص حکم ہے۔ اس میں اہلِ مکہ اور غیر اہلِ مکہ سب شامل ہیں۔ اس لیے کہ نبی کریمؐ نے حجۃالوداع کے موقع پر ان مقامات پر جب جب نمازیں پڑھائیں تو آپؐ  کے ساتھ اہلِ مکہ بھی ہوتے تھے، لیکن آپؐ  نے انھیں نماز پوری کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر نماز پوری کرنا ضروری ہوتا تو آپؐ  انھیں اس کا حکم دیتے، جیسا کہ  فتحِ مکہ کے موقع پر آپؐ  نے کیا۔ حضرت عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں: ’’میں فتحِ مکہ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ تھا۔ آپؐ  نے وہاں ۱۸ دن قیام کیا۔ آپؐ  دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کہتے: ’’اے اہلِ مکہ، چار رکعتیں پڑھو، کیونکہ ہم مسافر ہیں‘‘ (سنن ابوداؤد، ۱۲۳۱) ۔ البتہ اگر کچھ لوگ منیٰ یا عرفہ میں مستقل سکونت اختیار کرلیں تو قصر نہیں کریں گے۔ (موطا امام مالک، باب صلاۃ منیٰ، ۹۰۴)

۶- عرفہ میں ۹ ذی الحجہ کی ظہر اور عصر، نیز مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کرکے پڑھیں گے، جب کہ منیٰ میں تمام نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھیں گے۔

مزدلفہ میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- مزدلفہ کی رات کو سب سے افضل رات بتایا جاتا ہے اور اس میں عبادت کی بڑی فضیلت بیان کی جاتی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے اس رات مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ کر طلوع فجر تک آرام کیا۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: ’’پھر آپؐ  مزدلفہ آئے، اور یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت سے ادا کیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔ پھر آپؐ  لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی‘‘۔ (مسلم،۳۰۰۹)

۲- بعض حجاج غروب آفتاب کے فوراً بعد مغرب پڑھ لیتے ہیں خواہ عرفہ ہی میں ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ غروب کے فوراً بعد عرفہ سے نکل جائیں اور مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھیں۔

رمی جمرات میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- یہ اعتقاد رکھنا کہ مزدلفہ سے کنکریاں چننا ضروری ہے، چنانچہ رات میں بڑی مشقتوں کے ساتھ کنکریاں چنتے ہیں اور پھر منیٰ میں ان کو بڑا سنبھال کر رکھتے ہیں۔ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’عقبہ کی صبح اللہ کے رسولؐ نے اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ میرے لیے کنکریاں چنو، تو میں نے آپؐ  کے لیے کنکریاں چنیں، جو چنے کے دانے کے برابر تھیں۔ جب میں نے انھیں آپؐ  کے ہاتھ میں رکھا تو آپؐ  نے فرمایا : ان جیسی کنکریوں سے رمی کرو، اور دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘ (سنن نسائی، ۳۰۵۷، سنن ابن ماجہ، ۳۰۲۹)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ  نے جمرہ کے پاس کھڑے ہو کر کنکریاں چننے کا حکم دیا۔

۲- رمی کرتے ہوئے یہ اعتقاد رکھنا کہ ہم شیطان کو مار رہے ہیں، چنانچہ جمار کو شیطان کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ نیز انتہائی غصے اور غیظ وغضب کے ساتھ شیطان کو صلواتیں سناتے ہوئے کنکری مارتے ہیں۔ بسا اوقات بعضے اشخاص غصے کی شدت کی وجہ سے اوپر چڑھ کر جمار کو جوتوں اور بڑے پتھروں سے مارنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے بنیاد ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’خانہ کعبہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار اللہ تعالیٰ کا ذکر قائم کرنے کے لیے ہے‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۱۸۹۰)

۳- بڑی بڑی کنکریوں، جوتے، چپلوں اور لکڑیوں سے رمی کرنا۔ یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ آپؐ  نے چنے کے برابر کنکریوں سے رمی کی اور بصراحت فرمایا کہ: ’’اور دین میں   غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘۔

۴- جمرات کی طرف انتہائی شدت کے ساتھ بڑھنا، بایں طور کہ نہ دل میں اللہ کا خوف ہو اور نہ بندوں پر رحم کا جذبہ۔ چنانچہ لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اور کبھی کبھی بات  گالم گلوچ اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے بچنا چاہیے اور اطمینان وسکون کے ساتھ رمی کرنی چاہیے۔

۵- ایامِ تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ) میں پہلے اور دوسرے جمرہ کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا، جب کہ اللہ کے رسولؐ کے طریقۂ حج میں یہ دعا ثابت ہے۔ ’’اللہ کے رسولؐ جب مسجد منیٰ کے قریب والے جمرہ کو کنکریاں مارتے تو سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آگے بڑھ کر کھڑے ہوجاتے اور قبلہ رو ہوکر ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرتے۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس آتے اور اسے بھی سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر بائیں جانب وادی سے قریب اُتر کر کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے۔ پھر عقبہ کے قریب والے جمرہ کے پاس آتے اور اسے سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر واپس چلے جاتے اور اس کے بعد کھڑے نہیں ہوتے‘‘۔(بخاری، ۱۷۵۳)

۶- ساری کنکریاں ایک بار میں مار دینا۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے، اور ایسی صورت میں   یہ صرف ایک کنکری شمار ہوگی۔ ہر کنکری الگ الگ مارنی ضروری ہے۔

۷- رمی کرتے وقت غیر منقول دعائیں پڑھنا، جیسے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رِضًا لِلرَّحْمٰنِ، وَغَضَبًا لِلشَّیْطَانِ۔ بسااوقات اس دعا کو پڑھنے کے چکر میں نبیؐ سے منقول تکبیر تک چھوڑ دی جاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپؐ  سے جتنا ثابت ہے بلا کمی بیشی کے اس پر عمل کیا جائے۔ آپؐ  صرف تکبیر کہتے ہوئے ہر کنکری مارتے تھے۔

۸- رمی جمار میں سستی کرنا اور بلاعذر، قدرت کے باوجود دوسروں کو رمی کے لیے وکیل بناکر بھیجنا۔ ارشادِ باری ہے: وَاَتِمُّواْ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ (البقرہ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو تو اسے پورا کرو‘‘۔ اس لیے جو شخص رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے خود رمی کرنی چاہیے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں اور پریشانیوں پر صبر کرنا چاہیے، کیونکہ حج ایک قسم کا جہاد ہے اور اس میں پریشانیوں کا وجود لازم ہے۔

۹- رمی جمرات کے وقت کے تعیین کے سلسلے میں علماے کرام کی دو رائیں ہیں۔ ایک راے یہ ہے کہ ۱۰ ذی الحجہ کی رمی کا وقت طلوعِ آفتاب کے بعد شروع ہوتا ہے اور ۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ کو اس کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، اس سے قبل رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض دیگر علماے کرام نے حالات کے لحاظ سے یہ فتویٰ دیا کہ طلوعِ فجر کے بعد بھی رمی کی جاسکتی ہے۔ اس مسئلے میں ایک معتدل راے یہ نظر آتی ہے کہ وقت کے تعیین کا امر حاجی کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن۶۴:۱۶) ’’جہاں تک تمھارے بس میں ہو   اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ نیز آپؐ نے فرمایا: میں نے جس سے تمھیں منع کیا ہے اس سے باز رہو اور جس کا حکم دیتا ہوں اسے حسب ِ استطاعت بجا لائو‘‘۔(بخاری:۷۲۸۸، مسلم: ۶۲۵۹)

 آیتِ کریمہ اور حدیث نبویؐ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر حاجی خود یہ فیصلہ کرے کہ حالات کے مطابق اس کے لیے کس طریقے پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے، مثلاً جن حجاج کرام کو منیٰ میں خیمے میسر ہوں انھیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ زوال کے بعد رمی کریں۔ البتہ جن حجاج کو  منیٰ میں خیمے میسر نہیں ہوتے اور انتظامیہ کے افراد انھیں ہمہ وقت شارع پیمائی پر مجبور رکھتے ہیں، ان کے لیے رخصت پر عمل کرتے ہوئے طلوعِ فجر کے بعد سے ہی رمی کی اجازت ہونی چاہیے۔

طوافِ وداع میں سرزد ھونے والی خطائیں

۱- ۱۲ یا ۱۳ ذی الحجہ کو رمی جمرات سے پہلے منیٰ سے مکہ آکر طوافِ وداع کرلینا، پھر منیٰ واپس جاکر رمی کرنا، پھر وہیں سے وطن لوٹ جانا۔ یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو(یعنی طوافِ وداع کریں)، البتہ حائضہ سے یہ معاف کردیا گیا‘‘ (بخاری، ۱۷۵۵، مسلم، ۳۲۸۴)۔ نیز حضرت عمرؓ کا اس باب میں صراحتاً یہ حکم ہے کہ جس نے طوافِ وداع کے بعد رمی کی تو اس کا طواف وداع نہیں ہوگا، اور اس پر یہ واجب ہوگا کہ وہ رمی کے بعد دوبارہ طواف کرے۔ اگر وہ دوبارہ طواف نہیں کرتا تو اس کا حکم اس شخص کے حکم کی طرح ہے جس نے طوافِ وداع کیا ہی نہیں۔

۲- طوافِ وداع کے بعد بلا عذر مکہ میں رکے رہنا، البتہ اگر طواف کے بعد نماز کا وقت ہوجائے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح سفر کی ضروریات کی وجہ سے اگر دیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

۳- طوافِ وداع کے بعد خانہ کعبہ کی جانب منہ کرکے مسجد ِ حرام سے نکلنا، بایں طور کہ خانہ کعبہ کی جانب پیٹھ نہ ہو، اور یہ سمجھنا کہ اس میں خانہ کعبہ کی تعظیم واحترام کا پہلو مد ِ نظر ہے۔ یہ سراسر بدعت ہے۔ اللہ کے رسولؐ، خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا یہ عمل نہیں تھا۔

۴- طواف مکمل کرنے کے بعد خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے الوداعی دعاوسلام کرنا۔    یہ چیز بھی بدعت ہے۔ اس لیے کہ جس طرح نبیؐ کی اتباع میں ان افعال کو کرنا واجب ہے جو   آپؐ  نے کیے ہیں، اسی طرح ان افعال کو ترک کرنا بھی ضروری ہے جو آپؐ  نے نہیں کیے تھے۔

 مسجد ِ عائشہؓ سے احرام باندھ کر کثرت سے عمرہ کرنا

حدودِ حرم کے اندر مقیم اہلِ مکہ اگر عمرہ کرنا چاہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھیں۔ اسی لیے حجۃالوداع کے موقع پر جب حضرت عائشہؓ ماہواری کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی تھیں تو طہارت کے بعد اللہ کے رسولؐ نے ان کو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن  بن ابی بکرؓ کے ساتھ حدودِ حرم سے باہر تنعیم نامی مقام پر عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے بھیجا تھا۔ یہ رخصت مخصوص حالت کی وجہ سے تھی۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ نے کبھی بھی اس رخصت کو ہر شخص کے لیے عام نہیں سمجھا، بلکہ خود حضرت عائشہؓ اس کو عام تصور نہیں کرتی تھیں۔ لیکن آج اس رخصت پر اس عموم کے ساتھ عمل ہورہا ہے کہ عقل حیران ہے۔ آپؐ  نے حج وعمرہ کی خاطر مکہ آنے والوں کے لیے میقاتیں مقرر کی ہیں اور فرمایا:’’یہ حددو مذکورہ ممالک کے لوگوں کے لیے اور اہل میقات کے علاوہ یہاں سے گزرنے والے ان تمام لوگوں کے لیے بھی ہیں جو حج یا عمرہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ نیز جو حضرات میقات اور حد ِ حرم کے درمیان رہایش پذیر ہیں وہ حج اور عمرہ کا احرام اپنے گھروں سے باندھیں گے۔ اور جو حضرات حدودِ حرم کے اندر رہتے ہیں وہ حج کا احرام اپنے گھروں سے، اور عمرہ کا احرام حدودِ حرم سے باہر نکل کر باندھیں گے۔

اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ حجاج کی ایک بڑی اکثریت بغیر کسی عذر کے تنعیم (یا حدودِ حرم سے باہر کسی بھی مقام) سے عمرہ کا احرام باندھ کر کثرت سے عمرہ کرتی ہے۔ بغیر کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں۔ البتہ اس امر میں تشدد برتتے ہوئے اس کو مطلق ناجائز قرار دینا بھی غلط ہے۔ ایک معتدل نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس سلسلے میں حجاج کے درمیان فرق کیا جائے اور ہر ایک پر یکساں حکم لگانے سے گریز کیا جائے۔ لہٰذا یہ کہا جائے کہ جو حضرات دُور دراز ممالک سے آئے ہیں، اور  غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا اور آخری سفرِ حرمین ہے، تو ایسے لوگوں کے لیے یہ گنجایش نکالی جاسکتی ہے کہ وہ بلا عذر بھی اس رخصت پر عمل کریں۔ البتہ جو لوگ سعودی عرب اور آس پاس ممالک میں مقیم ہیں اور جن کا کثرت سے مکہ آنا ہوتا ہے وہ بلاعذر اس رخصت پر عمل نہ کریں، بلکہ متعینہ میقات سے ہی احرام باندھیں۔ واللّٰہ اعلم، وھو الموفق للصواب۔

 

مقالہ نگار اسلامی یونی ورسٹی، مدینہ منورہ میں استاد ہیں۔

ایک قدیم حکایت اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ ۳۰۰ فٹ اُونچی ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک خانقاہ تھی، جہاں ایک سال خوردہ پرانی رسّی کی مدد سے زائرین کو ایک ٹوکری میں بٹھاکر اُوپر کھینچ لیا جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ مسافر جب اس شکستہ رسّی کو دیکھتے تھے اور پھر نیچے کی گہرائی پر ان کی نظر جاتی تھی، تو ان پر سخت خوف کی حالت طاری ہوتی تھی کہ اس وقت زندگی سے زیادہ موت قریب دکھائی دیتی تھی۔ایک دن ایک زائر نے جب وہ واپسی کے لیے ٹوکری میں قدم رکھنے والا تھا، خانقاہ کے راہب سے پوچھا کہ آپ کو اس رسّی کو تبدیل کرنے کی توفیق کتنے کتنے عرصے کے بعد ہوتی ہے؟ راہب نے سادہ لوحی سے، غیرجذباتی انداز میں جواب دیاکہ جب ایک رسّی ٹوٹ جاتی ہے۔

اس حکایت سے قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس خانقاہ کے راہبوں نے رسّی کے تبدیل کرنے کا جو طریقہ اختیار کر رکھاتھا وہ نہایت نامناسب، احتیاط کے خلاف بلکہ احمقانہ تھا، اور اس میں سخت خطرہ مضمر تھا۔ لیکن جس طرح یہ طریقہ خطرناک تھا اسی طرح وہ لوگ بھی پُرخطر زندگی گزار رہے ہیں جو ایک نازک دھاگے کے بَل پر سفر زندگی طے کر رہے ہیں جو لائق اعتبار  نہیں اور جس کے ٹوٹنے کا ہر وقت خطرہ ہے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اکثر لوگ خراب صحت،  معمولی صحت،یا گزارے کے لائق صحت کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ حالانکہ اس کے برخلاف ان کو تنومند اور مضبوط صحت کا مالک ہونا چاہیے تاکہ رشتۂ زندگی آسانی سے ٹوٹ نہ جائے۔

ہرشخص کے لیے اس بات میں واضح اشارات ہیں کہ ابھی وقت باقی ہے کہ اپنے طرزِزندگی پر ایک سیرحاصل نظر ڈالی جائے اور ان رخنوں کو پُر کیا جائے جن سے تمام کی تمام  عمارتِ زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوگیاہے۔ ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے جہازِ زندگی کو    اس طرح اور اس حد تک استعمال نہ کریں کہ وہ بالکل ہی شکستہ اور ریختہ ہوجائے اور ہم اپنے جسم کی مشین کی وقت سے قبل مرمت کرا لیں۔ جو لوگ اپنی اُس وقت خبر لیتے ہیں، جب کہ ان کی صحت بالکل برباد ہوگئی ہوتی ہے، تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنے لیے باعث ِ خرابی بن رہے ہوتے ہیں بلکہ   اپنے گھروالوں کے لیے بھی مصیبت کا سامان پیدا کررہے ہوتے ہیں۔ اس سبب سے یہ انتہائی ضروری امر ہے کہ ہرشخص اپنی قوتوں کو مجتمع کرے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔

اپنی صحت کو مناسب حالت میں برقرار رکھنا ہرفرد کا فرضِ اولین ہے اور اس غرض سے اچھی عادات کو اختیار کرنا چاہیے۔ اچھی عاداتِ صحت میں یہ ضروری ہے کہ ناشتہ اچھی طرح کیا جائے، روزانہ مناسب ورزش کی جائے، رات کو مناسب وقت کے لیے نیند لی جائے اور دن میں سستانے کے لیے وقت نکالنا بھی ضروری ہے۔ جو لوگ ان احتیاطوں پر عمل پیرا ہوں گے، وہ نہ صرف اپنے رشتۂ حیات کو مضبوط کریں گے بلکہ شاہراہِ زندگی کو زیادہ سبک روی سے طے کریںگے اور زیادہ عرصہ اس کارگاہِ حیات میں رہیں گے۔

اس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ ہمارا جسم بہ نسبت دیگر مشینوں کے، زیادہ پیچیدہ، زیادہ نازک اور زیادہ قیمتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ہردم چوکنا رہیں اور یہ دیکھتے رہیں کہ کوئی شے ہمارے جسم کو اور ہماری صحت کو تباہ تو نہیں کر رہی اور کیا ہماری دفاعی صلاحیتوں کو کم کرر ہی ہے؟ ہمیں ان اشاروں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو ہمیں یہ بتائیں کہ ہماری صحت ایسی نہیں ہے، جیسی کہ ہونی چاہیے۔ اگر آپ کو اپنی صحت کے متعلق شبہہ ہے تو آپ کو چاہیے کہ اپنے طرزِزندگی پر نظرثانی کریں اور اس میں مناسب تبدیلیاں کریں اور یہ بھی سوچیں کہ کہیں آپ کو طبی مشورے کی ضرورت تو نہیں ہے۔

کسی کا دل چسپ لیکن صحیح قول ہے کہ اچانک ہونے والے امراض خداداد ہوتے ہیں لیکن مزمن اور کہنہ یا دائمی بیماریاں ہمارا اپنا قصور ہیں اور ان کی سب سے بڑی وجہ علمِ صحت سے ناشناسی ہے۔ روایتی طور پر پڑھے لکھے لوگ بھی معلوماتِ صحت سے کس قدر بیگانہ ہیں،اس کا ہلکا سا اندازہ حالیہ امریکی تحقیق سے ہوسکتا ہے، جہاں ایک مطالعے میں نصف سے زیادہ مدرسہ فوقانی کے طلبہ کا یہ خیال تھا کہ مچھلی کھانا مقوی دماغ ہے اور تین چوتھائی لوگوں کے خیال میں حیاتین، قوت کا سرچشمہ ہیں حالانکہ ان میں سے کوئی بھی بات صحیح نہیں ہے۔

یہ تو پڑھے لکھے امریکا کا ذکر تھا، اور اس بات سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں لوگوں کو اپنی صحت کے متعلق کوئی خا ص علم نہیں ہے۔ اُن کو بھی نہیں جو  اپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ جس خطۂ ارضی میں ہم قیام پذیر ہیں وہاں توہمات، غلط عقائد اور لاعلمی کی وجہ سے حالات کچھ زیادہ ہی ابتر ہیں۔ جن لوگوں کو تھوڑی بہت معلومات حاصل ہیں، ان کی اکثریت بوجوہ ان پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔ یہ اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ وزن کو مناسب رکھنا اور ورزش کرنا قرارِ صحت کے لیے ضروری ہے لیکن کتنے لوگ اس پر عمل پیرا ہیں، حالانکہ اچھی عادتیں ایک بار ڈال لی جائیں تو ان پر باعمل رہنا عادتِ ثانیہ بن سکتا ہے اور اکثر اوقات دل چسپ بھی۔

بے عمل لوگوں کی طرف سے جو عذر لنگ عموماً پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اب ان کی عادتیں راسخ ہوگئی ہیں، اور اب ان کو ترک کرنا مشکل ہے کہ جبل گردد، جبلت بر نہ گردد۔ لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ عادتیں خود ہماری اپنی مصنوعی طریقے پر ڈالی ہوئی ہیں، جن کے ہم خود بعد میں تابع ہوکے رہ جاتے ہیں اور پھر یہ بھی تمیز نہیں رہتی کہ صحیح عادت کیا ہے اور غلط کیا، بقول اقبال    ؎

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا

آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا

یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ صحت افزا طرزِ زندگی کو بہ جبر نافذ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کوئی قانون و آئین لوگوں کو تندرستی کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔اصل بات صحت مند عادتیں ڈالنا ہے  جن کی ترغیب ابتداے عمر ہی سے دی جائے۔ اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ ۱۰ لاکھ شفاخانے بھی ایک آدمی کو تندرست نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ امراض کا علاج الگ بات ہے اور کسی کی تندرستی بحال رکھنا دوسری بات، اور مؤخرالذکر کیفیت کے حصول کے لیے مختلف سازوسامان کی ضرورت ہے اور شفاخانوں کے لیے دوسرے آلات کی۔ علاج امراض کے لیے بے شمار ادویہ موجود ہیں لیکن اپنے آپ کو تندرست رکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اپنے جسم کا صحیح استعمال کیجیے۔ سوے ہضم کا علاج یہ نہیں کہ مانع تیزاب ادویہ حلق میں انڈیلی جائیں یا جراحی معدہ کا سوچاجائے، بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ کھانے پینے کے متعلق صحیح طور و طریق کو جانا جائے اور پھر ان کو اختیار کیا جائے۔

اس زمانے میں بھی طبی مسائل کو صرف اس طرح حل نہیں کیا جاسکتا کہ ہسپتال پر ہسپتال کھولے جائیں، یا تیر بہ ہدف بدیسی ادویہ درآمد کرتے جائیں، یا محیرالعقول جراحی قلب کے کارناموں پر سر دُھنیں اور اس قسم کی جراحی کے اپنے ملک میں فروغ کے لیے غیرملکی جراحوں کو  اپنے ملک میں مدعو کرتے رہیں، بلکہ مسئلہ صحت کاحل اور ہماری نجات اس بات میں مضمر ہے کہ معلومات ِ صحت کو حاصل کریں، عام کریں اور پھر اس پر صحیح طور پر کاربند رہیں۔

ازمنۂ قدیم میں غالباً صحت مند رہنا اس قدر دشوار نہیں تھا جس قدر آج ہوگیا ہے کہ اس زمانے میں اگر آدمی وبائی اور عفونتی امراض سے بچ جاتا تھا، تو صحت مندانہ طرزِ زندگی آپ سے آپ حاصل ہوجاتی تھی، اور اس کے لیے کوئی خاص تگ و دو نہیں کرنی پڑتی تھی کہ غذا میں اس قدر ملاوٹ نہیں تھی اور جدید مصنوعی غذائوں کے بجاے قدرتی غذائیں بآسانی دستیاب تھیں۔ طویل فاصلے پیدل چلنا عام طریقۂ زندگی تھا۔ ماحول اس قدر دھواں دھار اور کثیف نہیں تھا، جس قدر  آج ہے اور دن بہ دن ہوتا جا رہا ہے۔ اِس زمانے میں جب دیہات سے شہروں کی طرف آبادی کی قطار اندر قطار یلغار ہے اور مصنوعی شہری زندگی عام ہوتی جاتی ہے اور عام اندازہ یہ ہے کہ تمام دنیا میں اس صدی کے آخر تک ۸۰ فی صد آبادی شہروں میں آبسے گی تو ’مہذب طرزِزندگی‘ کے مسائل اور بڑھ جائیں گے۔ اس بات کی ضرورت جس قدر آج ہے، کبھی بھی اس قدر اشد نہیں تھی کہ تعلیمِ صحت کو عام کیا جائے تاکہ نئی مشکلات کا کچھ نہ کچھ ازالہ ہوسکے اور گزرگاہِ عافیت مل سکے۔

جلد یا بدیر ہم سب کے لیے ایک ’یومِ حساب‘ آنے والا ہے، جب ہم اس بات پر    مجبور ہوں گے کہ اپنی عادتوں کا جائزہ لیں کہ وہ صحت افزا ہیں کہ نہیں، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ  صحت و تندرستی کے لحاظ سے ہماری حیثیت کیا ہے۔ آج بھی اور کل بھی اس بات کا اندازہ لگائیں کہ ہم آنے والے زمانے کو اعتماد اور درستی تن کے ساتھ خوش آمدید کہہ سکیںگے یا حالت اس کے برعکس ہوگی کہ ابھی گزری ہوئی شب کا خمار باقی ہے، جس کے زیراثر ہم تھکے ہوئے، مُردہ اور بدحال ہیں۔ کیا ہم ہروقت نزلہ اور زکام میں مبتلا رہتے ہیں اور مستقل چھینکتے رہتے ہیں، اور کھانسی ہے کہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی؟ کیا ہمارے جوڑوں کا درد اور دکھن مستقل روگ بن گئے ہیں؟ یا ہم عمر سے پہلے بوڑھے ہوکر تھکے تھکے رہتے ہیں؟

آپ کے لیے صحیح مشورہ یہ ہے کہ ایک گوشے میں چپ چاپ بیٹھ جائیں اور اپنے طرزِزندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں اور اپنا محاسبہ کریں اور یہ دیکھیں کہ آپ نے بے احتیاطیوں سے اپنی صحت کو تو خود دائو پر نہیں لگا دیا ہے اور خود ہی تو ڈنڈی نہیں مار رہے ہیں کیونکہ اس میں سراسر گھاٹا آپ ہی کا ہے۔ اس کے بعد آپ کو یہ سوچنا ہے کہ آپ اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلیاں لاکر اپنے آپ کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔ جن سوالوں کے لیے آپ خود اپنے سامنے جواب دہ ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

  • غذا:کیا آپ کی غذا مناسب اور متوازن ہے جس میں ناشتہ اچھا اور مکمل ہے یا جلدی جلدی میں جو کچھ ملا منھ میں ڈال لیا؟
  • ورزش:کیا آپ روزانہ کوئی ورزش نہیں کرتے؟ کیا آپ کے لیے روز ایک میل چلنے کا بھی معمول نہیں ہے؟
  •  نیند:کیا آپ کی نیند پوری ہوجاتی ہے؟ آپ کی زندگی کی بے احتیاطیاں کیا ہیں؟ کیا آپ بسیارخور ہیں؟ آپ نے خود کو تمباکو نوشی اور مے خواری میں تو مبتلا نہیں کر رکھا؟ کیا محرکات، مثلاً کافی، چائے، منشیات کا تو آپ کی زندگی میں دخل نہیں، کیونکہ یہ سب مضطرب اور تلخ مزاج بنادیتے ہیں؟ اکثر محرکات چابک کا کام کرتے ہیں مگر یہ چابک ایک تھکے ہوئے گھوڑے پر پڑتا ہے۔ ان سے آدمی تو چلتا رہتا ہے لیکن یہ تمام اعصاب میں شکستگی پیدا کردیتے ہیں۔ علاوہ ازیں کیا آپ نے خود کو روزمرہ کی چکّی میں اس طرح پھنسا رکھا ہے کہ سیروتفریح کا بھول کر بھی خیال نہیں آتا؟ کیا آپ کبھی باہر کی دنیا کو دیکھنے اور اس کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ ہروقت کام میں مبتلا رہتے ہیں اور خداتعالیٰ کی عطا کردہ زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے؟کیا آپ نے دفتر کی وجہ سے اپنی گھریلو زندگی کو بھی نظرانداز کر رکھا ہے کہ بچوں کے ساتھ کھیل کود کے لیے وقت نہیں ہے تاکہ بچوں میں بھی آپ کی طرف سے محبت و شفقت کا احساس ہو؟ اس بات کو کس قدر عرصہ گزرا جب آپ نے اپنے کسی بچے کو گود میں لے کر کوئی کہانی سنائی یا باتیں کیں۔ کیا آپ نے باہر کی مصروفیات کے لیے گھریلو زندگی کی مجالس اور گفتگوئوں کو قربان کردیا ہے؟

یہ سوال معمولی ہیں لیکن یہ سب جواب اور فرصت چاہتے ہیں۔ جس قدر جلد اس ضمن میں آپ اپنا جائزہ لیںگے وہ آپ کے لیے بہتر ہوگا۔

 

  •  تاریخی پس منظر : قدیم زمانے کے مقبول ہندو دانش ور اور فلسفی چانکیہ کوٹلیہ نے   جو مشہور مذہبی کتاب ارتھ شاستر کے مصنف ہیں، لکھا ہے کہ ’’پڑوسیوں کو اپنا دشمن سمجھو اور دشمن کے قریبی پڑوسی کے ساتھ دوستی بنائو‘‘۔ بھارت کی ہندو قیادت نے ۱۹۴۷ئمیں آزادی کے بعد سے اسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان سے دشمنی اور افغانستان سے دوستی کی راہ اپنائی ۔ چونکہ افغانستان کی قیادت کو پاکستان کے ساتھ جغرافیائی سرحد جو ڈیورنڈ لائن کہلاتی تھی قبول نہیں تھی،  اس لیے اس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اس لیے بھارت کو افغانستان کی صورت میں ایک حلیف مل گیا۔ چنانچہ ۱۹۵۰ئمیں افغانستان اور بھارت نے دوستی کے معاہدے پر دستخط کیے ۔ بھارت کی افغانستان کے شاہی خاندان سے دوستی اس وقت ختم ہوئی جب روس نے ۱۹۷۹ء میں افغانستان پر فوجی جارحیت کر کے کمیونسٹ راج قائم کیا ۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ء سے تقریباً ۱۹۹۹ء تک بھارت آزاد دنیا کے ان چند ممالک میں شامل تھا جس نے ببرک کارمل کی انتظامیہ کو تسلیم کیے رکھا تھا، بلکہ آگے بڑھ کر زندگی کے مختلف شعبوں میں افغانستان میں ترقیاتی کام اور سرمایہ کاری بھی کرتا رہا۔

افغانستان سے روسی فوج کے انخلا اور نجیب انتظامیہ کے خاتمے کے بعد ایک ایسا دور آیا جس دوران بھارت افغانستان کے معاملات سے لاتعلق ہو گیا۔ لیکن ۱۹۹۲ء میں جب استاد  برہان الدین ربانی کی سربراہی میں ایک غیر پختون تاجک قیادت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، تو بھارت نے پھر سے افغانستان میں دل چسپی لینا شروع کی اور اس حکومت کی حمایت میں مختلف شعبوں میں اپنی موجودگی کااحساس دلایا۔

ستمبر ۱۹۹۶ء میں جب طالبان نے کابل میں اپنا اقتدار قائم کیا ۔ ایک مرتبہ پھر بھارت افغانستان کو کھو بیٹھا۔ کابل میں بھارتی سفارت خانہ بند کر دیا گیا ۔ لیکن بھارتی حکومت نے افغانستان کو اپنے حلقۂ اثر سے نکلنے کے عمل کو پوری طرح تسلیم نہ کیا اور کھل کر شمالی اتحاد کی حمایت شروع کردی جو افغانستان کے تاجک ،ازبک اور ہزارہ قبائل کا اکٹھ تھا او ر شمالی افغانستان میںاثر و رسوخ رکھتا تھا۔ بھارت نے شمالی اتحاد کو اعلیٰ معیار کا اسلحہ فراہم کیا ۔ ان کی تربیت کی اور بھارتی خفیہ ایجنسی RAW (ریسرچ اینڈ سروے ونگ )کے توسط سے افغانستان میں اپنی تگ و دو جاری رکھی ۔ اس نے تاجکستان اور ازبکستان کی حکومتوں کے تعاون سے شمالی اتحاد کے ساتھ مدد کرنے کے ذرائع قائم کیے ۔ تاجکستان میں تو بعد ازاں ایک مستقل بھارتی عسکری اور فضائی اڈا اینی کے مقام پر قائم کیا گیا ۔ افغان تاجک سرحد پرفرخور کے مقام پر ایک ملٹری ہسپتال قائم کیا گیا جہاں بھارتی ڈاکٹر شمالی اتحاد کے زخمیوں کا علاج معالجہ کرتے تھے۔ بھارت نے طالبان کی مخالفت میں روس اور ایران کا تعاون بھی حاصل کیا جو مختلف وجوہ کی بنیاد پر خود بھی طالبان حکومت کے مخالف تھے۔

نائن الیون کے سانحے نے صورتِ حال بدل کر رکھ دی اور افغانستان پر امریکا کی قیادت میںناٹو ممالک کے حملے نے بھارت کو ایک بار پھر وہا ںقدم جمانے کا ایک زریں موقع نصیب کیا جس کو نہ صرف اس نے خوش دلی سے قبول کیا، بلکہ آگے بڑھ کر ہر ممکن تعاون پیش کیا۔ بھارت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں امریکا کا دورہ کیا اور وہاں امریکی قیادت اور بین الاقوامی طاقتوں کو باور کرایا کہ وہ افغانستان میں شمالی اتحاد کی پشت پناہی کر یں۔

۲؍اکتوبر۲۰۰۱ء کو ایک ٹی وی انٹرویومیں جسونت سنگھ نے کہا کہ ’’بھارت نے کبھی بھی طالبان کی قیادت کوتسلیم نہیں کیا ہے ۔ وہ اب بھی صدر ربانی کی حکومت کو افغانستان کی قانونی حکومت تصور کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پوری دنیا شمالی اتحاد اور ربانی حکومت کو قانوناً تسلیم کرے اور اس کی حمایت کرے‘‘۔ چنانچہ امریکی حملے اور کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے اور شمالی اتحاد کے بر سر اقتدار آنے کے بعد دسمبر ۲۰۰۱ء میں جسونت سنگھ کابل پہنچتے ہیں اور کابل میں بھارتی سفارت خانے کو دوبارہ فعال کرتے ہیں۔ جب جرمنی کے شہر بون میں دسمبر ۲۰۰۱ئہی میں حامد کرزئی کی عبوری صدارت میں ایسی کابل انتظامیہ وجود میں لائی جاتی ہے جس میں شمالی اتحاد کا غلبہ ہے تو بھارت ان اولین ملکوں میں شامل تھا جس نے اس کے لیے ۱۰۰ملین امریکی ڈالر امداد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے بھارت مسلسل افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھر پور کردار ادا کررہا ہے او ر افغانستان میں اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

افغانستان میں بھارتی دل چسپی کثیر المقاصد ہے ۔ جن میں سے چند قابل ذکر ہیں :

oافغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرناoوسطی ایشائی ممالک کے ساتھ روابط بنانا  mافغانستان میں پاکستان کے کردار کی نفی کرناoایک بڑی علاقائی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منواناoافغانستان میں ایک ’انتہاپسند‘ اسلامی حکومت کا راستہ روکنا۔

آئیے ان مقاصد کے حصول کی کوششوں اور ان کے نتائج کا تفصیلی جائزہ لیں۔

  • افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بہارتی کردار:۲۰۰۲ء کے بعد سے اب تک بھارت افغانستان میں ۲؍ ارب امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کار ی کر چکا ہے ۔ معروف معنوں میں بھارت ان ممالک میں شامل نہیں جو بین الاقوامی سطح پر امداد دیتے ہیں، جیسا کہ امریکا ، جاپان ، جرمنی ، کینیڈا، آسٹریلیا ، سعودی عرب وغیرہ ہیں۔ یہ سب مال دار ملکوں کی صف میں شامل ہیں اور براہ راست یا اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے غریب ممالک کی امداد کرتے ہیں۔ بھارت کی اپنی ایک ارب ۲۰ کروڑ سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے ۔ ۳۷فی صد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایک بڑی آبادی تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ اس کے باوجود وہ ان چھے بڑے ملکوںمیں شامل ہے جو افغانستان کی تعمیر و ترقی اور بحالی کی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر خرچ کر رہے ہیں۔ گویا یہ بھارت کی تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) حکمت عملی ہے جس کے تحت وہ ایک ایسے ملک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جس سے اس کی اپنی سرحدیں نہیں ملتیں۔

اس جملۂ معترضہ کے علی الرغم آئیے دیکھیں کہ بھارت کس طرح افغانستان میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے مکمل کر رہا ہے ۔ چار بڑے ترقیاتی منصوبے قابل ذکر ہیں:

  • دلآرام -  زرانج ھائی وے کی تعمیر : ۲۱۸ کلو میٹر لمبی اس شاہراہ کی تعمیر بھارتی عسکری تعمیراتی کمپنی India Border Road Organization نے تین سال کے عرصے میں ۲۰۰۸ء میں مکمل کی ۔ یہ شاہراہ افغانستان کے اہم شہروں بشمول کابل کو ایرانی بندرگاہ چابایار سے ملاتی ہے۔ایران نے سڑک کا بقیہ حصہ خود مکمل کیا جو اس کی ملکی حدود میں شامل ہے ۔ اس طرح اس بندرگاہ کے ذریعے بھارتی مصنوعات کو بحری راستوں سے افغانستان اور وسط ایشیا کی منڈیوں میں پہنچایا جا سکے گا (اس طرح افغانستان کا اب تک جو پاکستان کی کراچی کی بندرگاہ پر مکمل انحصار تھا وہ ختم ہو گیا)۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے سڑک کی تکمیل کی تقریب  کے موقع پر جو بیا ن دیا اس کا ایک جملہ یوں ہے: ’’یہ ہمارے مشترکہ حوصلے کا ایک کڑا امتحان تھا اور اس سڑک نے دواقوام کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا‘‘۔ یاد رہے کہ اس سٹرک کی تعمیر کے دوران طالبان کے مسلسل حملوں میں بیسوں بھارتی انجینیراورمزدور مارے گئے تھے۔
  •  ازبکستان سے کابل تک برقی سپلائی : کابل کو بجلی کی کمی کا مسئلہ درپیش رہا ہے ۔ سردی کے شدید موسم میں خاص طور پر برقی سپلائی منقطع رہتی تھی جس سے شہریوں کو شدید   مشکلات درپیش تھیں۔ بھارت نے ۲۵۰ ملین ڈالر کے خرچے سے ازبکستان اور کابل کے درمیان   ۲۰۲ Kms بجلی کی تار بچھانے کا کام اپنے ذمے لیا جو پل خمری سے کابل تک ہے ۔ اس کے علاوہ چاریکار اور دوشی کے علاقوں کو بھی بجلی فراہم کی۔ ۶۱۳ بجلی کے ٹاور بحری راستے سے ایران کے ذریعے افغانستان پہنچائے گئے کیونکہ پاکستان نے راہداری فراہم کرنے سے معذرت کی تھی۔
  • سلمہ ڈیم :بھارت نے ہرات صوبے میں سلمہ ڈیم دوبارہ تعمیر کر دیا ہے جو ۱۹۷۶ء میں بنایا گیا تھا لیکن بعد میں ناکارہ ہو گیا تھا۔ دریاے ہاروی پر تعمیر کردہ اس ڈیم سے ۴۲ میگاواٹ بجلی ہرات کو سپلائی کی جائے گی اور ۴۰ ہزار ہیکٹرز مین سیراب ہو گی۔ اس کی تعمیر کی لاگت ۸۵ ملین ڈالر لگائی گئی تھی جو عملاً بڑھ کر ۱۸۰ ملین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے ۔ بعض وجوہ سے ایرانی حکومت اس منصوبے پر خوش نہیں ہے کیونکہ دریاے ہاروی رود ایران کی طرف جا نکلتا ہے۔ اس سال کے آخر تک اس منصوبے کی تکمیل متوقع ہے ۔
  • پارلیمنٹ ھاؤس کی تعمیر:کابل میں نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر بھارت کی طرف سے افغانستان کے لیے ایک اور قیمتی تحفہ ہے جو C&C کنسٹرکشن کمپنی تعمیر کر رہی ہے۔ یہ منصوبہ بھی اس سال مکمل ہو جائے گا۔ تخمینہ۱۷۸ ملین ڈالر ہے۔ بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ کی اس نئی عمارت کو افغانستان میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے بھارتی کوششوں کی ایک واضح علامت قرار دیا ہے۔
  • حاجی گاک میں لوھے کے ذخائر کا ٹہیکہ:افغانستان معدنی وسائل سے مالامال ملک ہے لیکن اس سے استفادہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔   بامیان صوبے کے حاجی گاک علاقے میں بڑے پیمانے پر لوہے کے ذخائر موجود ہیں جس کا اندازہ ۸ئ۱ارب ٹن کا ہے ۔ بھارت کی سات کمپنیوں کو یہ ٹھیکہ دیا گیا ہے جس کا تخمینہ ۱۱؍ارب ڈالر کا ہے۔ وہاں پاور پلانٹ ، اسٹیل مل لگائے جائیں گے اور ذرائع مواصلات ،سڑکوں وغیرہ کو ترقی دی جائے گی۔
  • افغانستان اور بہارت کی باھمی تجارت: بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارتی حجم میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔۲۰۱۰ء میں بھارت نے ۴۱۴ملین ڈالر کی مصنوعات افغانستان کو درآمد کیں جو افغانستان کی کل برآمدات کا ۵ فی صد بنتا ہے ، جب کہ افغانستان سے ۱۲۵ملین ڈالر کی اشیا بھارت کو درآمد کی گئیں۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان ترجیحی تجارت کے کئی معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں جس کی رُو سے انھوں نے ایک دوسرے پر محصولات معاف کر دیے ہیں، بلکہ بھارت کو وسطی ایشیائی منڈیوں میں اپنی مصنوعات پہنچانے کے لیے بھی رعایتیں دی گئی ہیں۔
  •  تعلیم ، صحت ، سماجی ودیگر شعبوں میں ا مداد :بھارت نے افغانستان میں صرف بڑے منصوبوں پر توجہ نہیں دی بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں سرمایہ کاری اور امداد کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ شعبہ تعلیم میں یونی ورسٹیوں، کالجوں ، اسکولوں اور دیگر تربیتی اداروں کی تعمیر وترقی ، شعبہ صحت میں ہسپتالوں ، ڈسپنسریوں ،میڈیکل سنٹروں اور ایمبولینسوں کی فراہمی، زراعت کے شعبے میں کابل میں جامعہ زرعیہ کا قیام، آبی گزرگاہوں کی تعمیر ، ٹریکٹر اور بیجوں کی فراہمی ، ٹیوب ویلوں کی تعمیر اورڈھائی لاکھ ٹن گندم کی فراہمی۔ افغان فضائی کمپنی آریانہ ائر لائن کو تینبڑے ہوائی جہازوں (ائربس) کی فراہمی ، ملی بس سروس کو ۴۰۰اور کابل میونسپلٹی کو ۱۰۵ بسوں کی فراہمی ، ۱۰۰ ماڈل دیہات اور عجائب گھروں کی تعمیر وترقی، ملک بھر میں ٹیلی فون کے نظام کا قیام، کابل میں ستور محل کی بحالی،  قندہار میں کولڈ اسٹوریج کی تعمیر، فنی اداروں اور کمپیوٹر سنٹروں کا قیام وغیرہ ۔غرضیکہ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں بھارت نے چھوٹے بڑے منصوبوں میں مدد نہ دی ہو۔ 
  • افغان حکام اور عوام کو فنی وپیشہ ورانہ تربیت:تربیت کے میدان میں بھی بھارت افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت نے جہاں اپنے ملکی تعلیمی اداروں اور یونی ورسیٹوں کے دروازے افغان طالب علموں کے لیے کھول دیے ہیں، وہاں افغانستان میں بھی بڑے پیمانے پر فنی اور پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے بنا رہا ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں افغان نوجوان نسل اس سے استفادہ کر سکے گی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے سیکڑوں کی تعداد میں تعلیمی وظائف کا اجرا کیا گیا ہے ۔ بھارت کے اعلی تعلیم یافتہ ماہرین  افغانستان پہنچ کر  ان تربیتی وتعلیمی سرگرمیوں میں براہ راست شامل ہیں۔ ووکیشنل ٹریننگ سنٹر کھولے جا رہے ہیں جہاں افغان نوجوانوں کو فنی تعلیم دی جائے گی ۔ افغان سرکاری افسروں کے لیے اعلیٰ تربیتی کورسوں کا اہتمام جس میں خاص طور پر سفارت کاری کے شعبے میں تربیت شامل ہے جس کے لیے خود بھارت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ عسکری تربیتی اداروں کا قیام بھی اس میں شامل ہے جہاں فوجی افسروں کو افغانستان اور بھارت میں بیک وقت تربیت کی سہولت بہم پہنچائی جائے گی۔
  •   وسطی ایشیائی ممالک میں معاشی روابط :سوویت یونین کے زوال کے بعد وسطی ایشیائی ممالک کو ایک موقع ملا کہ وہ نسبتاً آزادی سے اپنے سیاسی واقتصادی نظام کو   سابقہ سوشلسٹ نظریے سے آزاد کر کے جمہوری طور طریقے اورکھلی تجارت کی فکر کو اپنا سکیں۔ اس  نئی صورت حال سے دنیا کے دیگر آزاد ممالک کو بھی موقع ملا کہ وہ ان ممالک سے آزادانہ تجارت کرسکیں جو پہلے مکمل طور پر ماسکو کی پالیسیوں کا محتاج تھے۔ امریکی اوریورپی ممالک نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تیارکردہ مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کیں۔ بھارت بھی جو ایک ترقی پذیر بڑی کاروباری ومعاشی طاقت ہے اس موقع پر پیچھے نہ رہا لیکن مشکل ان ممالک تک رسائی تھی ۔ پاکستان کے ذریعے افغانستان تک تجارتی مال کی ترسیل چونکہ اس کی قدرت میں نہیں تھی، اس لیے اس نے بحری راستوں سے ایران اور پھر افغانستان کے ذریعے ان ممالک تک رسائی حاصل کی۔ آذربائیجان ، قازقستان ، ترکستان ، ازبکستان ، تاجکستان ، کرغیزستان وغیرہ کی نئی تجارتی منڈیاں، خلیجی ممالک کے بعد اس کے لیے زبردست کاروباری مواقع فراہم کرسکتی ہیں۔ چنانچہ افغانستان کے مواصلاتی ذرائع اس کے لیے اہمیت اختیار کر گئے جس میں اس نے سرمایہ کاری کی۔ اپریل ۲۰۰۶ء میں جب حامد کرزئی نے بھارت کا دورہ کیا تو اس نے جہاں بھارتی کمپنیوں کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی، وہاں اس نے یہ بھی کہا کہ’’ میں چاہتا ہوں کہ آپ افغانستان کو وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اسٹور کے طور پر استعمال کریں‘‘۔

بھارتی تیل کمپنیاں اس وقت ازبکستان اور قازقستان میں سرگرم عمل ہیں۔ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان اور بھارت تک گیس کی پائپ لائن بچھانے کا کام ہو رہاہے، جو ایشین ترقیاتی بنک کا منصوبہ ہے اور بھارت اس میں بھرپور دل چسپی لے رہا ہے ۔تاجکستان میں بھارت اپنا عسکری مرکز قائم کر چکا ہے جہاں اس نے جنگی ہیلی کاپٹر رکھے ہوئے ہیں اور مگ ۲۹ جہازوں کی بھی گنجایش ہے ۔ اس طرح وسطی ایشیائی ممالک میں بھارت کو اپنے قدم جمانے کا پورا موقع مل رہا ہے جس میں افغانستان کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ۔

  • پاکستان کے کردار کو محدود کرنا:نائن الیون کے بعد بھارت کو موقع ملا کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے اثرات کو کم کر کے اپنی جگہ بنائے ۔ شمالی اتحاد اس کا فعال پارٹنر ہے جس کے بل بوتے پر وہ ایک مضبوط پاکستان مخالف لابی کی حمایت حاصل کرچکا ہے۔ افغان عوام میں پاکستان مخالف جذبات صرف تاجک، ازبک اور ہزارہ نسلوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ قوم پرست پختون عناصر بھی اس میںشامل ہیں۔ طالبان کے حامی بھی حکومت پاکستان اور عسکری قیادت کی امریکا نواز پالیسی پر شاکی ہیں۔ اس کے مقابلے میںبھارت کو ایک پسندیدہ اور دوست ملک سمجھاجاتا ہے اور وہ اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ چانکیہ کوٹلیہ جو ۳۰۰قبل مسیح عظیم ہندو راجا چندرا گپتا کا مشیر تھا، نے اپنی کتاب ارتھ شاستر میںتین قسم کی جنگوں کا ذکر کیاہے ۔ ایک کھلی جنگ ہے، دوسری خفیہ جنگ، اور تیسری غیر علانیہ جنگ ۔دوسری قسم کی جنگ میں آپ  خفیہ ایجنٹ ،مذہبی آڑ ،توہمات اور عورت کا استعمال کرتے ہیں۔ بھارت پاکستان سے دوسری اور تیسری قسم کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ وہ افغانستان میں اپنا عمل دخل قائم کیے ہوئے ہے اور پاکستان کے لیے قبائلی پٹی اور بلوچستان میں حالات خراب کر رہا ہے ۔ بھارتی سفارت خانہ کابل میں اور اس کے قونصل خانے خاص طور پر قندھار اور جلال آبادمیں پاکستان کے معاملات میں ملوث ہیں۔

بھارت نے ۲۰۱۰ء کی لندن کانفرنس میںکوشش کی کہ افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھیراتے ہوئے اس کو افغانستان کے معاملے سے باہر کیا جا سکے لیکن اس کو کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت نے بھی حامد کرزئی سے رابطے استوار رکھے اور دیگر گروپوں سے بھی تعلقات قائم کر کے مثبت پیغامات دینے کی کوشش کی ۔

  • ’انتھا پسند‘ اسلامی حکومت کے قیام کو روکنا: افغانستان میںبھارتی حکمت عملی کا یہ بھی ایک بنیادی جزو ہے ۔وہ سمجھتا ہے کہ اگر طالبان یا اس قسم کا کوئی ’انتہا پسند‘ اسلامی گروپ کابل بر سر اقتدار آگیا تو اس کے لیے افغانستان سے اچھے تعلقات قائم رکھنا ممکن نہ ہوگا۔ وہ طالبان کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیتا ہے اور اس پر بھارت میں دہشت گردی پھیلانے کا الزام دھرتاہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایسی حکومت کے قیام سے اس کے لیے کشمیر میں حریت پسندی پر قابو رکھنا ممکن نہیں ہوگا، اور صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میںدہشت گردی کو مہمیز ملے گی ۔ جسونت سنگھ نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں واشنگٹن میں جو پالیسی بیان دیا تھا اس میں اس نے واضح طور پر کہا تھا کہ’’افغانستان اور پاکستان میںدہشت گردوں نے اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں جس سے وسط ایشیا اور ایران کو بھی اسی طرح کے خطرات لاحق ہیں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کے دور میں کشمیری مجاہدین کو افغانستان کی حمایت حاصل تھی ۔ اسی طرح روس کے مسلمان مقبوضات بشمول شیشان اور وسط ایشیائی ممالک میں بھی اسلامی تحریکات کو اس کا فائدہ تھا۔ انھی خدشات کو بھارتی حکمت عملی میں بہت اہمیت حاصل ہے اور اس کی روک تھام کے لیے بھارت ہر حد پھلانگ سکتاہے ۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا امریکی انخلا کے بعد کی صورت حال میں بھارت افغانستان میں فوجی مداخلت کے لیے بھی تیار ہو گا؟
  •  بہارت ایک علاقائی سوپر پاور کے روپ میں:ایک ارب ۲۰کروڑ آبادی کا ملک بھارت ،۱۲لاکھ زمینی فوج اور ایک بڑی بحری اور فضائی قوت رکھنے والا ،اپنے آپ کو علاقائی طاقت سمجھتا ہے اور عالمی سطح پر سوپر پاور کا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے ۔ بھارت ۱۱۸ ٹریلین ڈالر کی بہت بڑی تجارتی منڈی ہے جو امریکا،یورپی یونین اور چین سب کے لیے بے پناہ ترغیبات رکھتی ہے ۔ بھارت کی خواہش ہے کہ اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست دی جائے، اور عالمی ایٹمی کلب میں نیوکلیر طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔ وہ اپنا موازنہ اپنے روایتی حریف پاکستان سے نہیںبلکہ چین سے کرتا ہے ۔اس کی یہ خواہش ہے کہ تمام علاقائی مسائل اور تنازعات میں اس کا اہم کردار ہو۔ وہ افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کو اپنا توسیع شدہ پڑوسی سمجھتا ہے۔ اس نے کوشش شروع کر رکھی ہے کہ افغانستان کو سارک ممالک کی تنظیم میں رکنیت دلائی جائے۔ وہ اس پورے خطے کی قیادت کرنا چاہتا ہے ۔ وہ وسط ایشیا کے تیل و گیس کے ذخائر سے استفادہ کرنا چاہتا ہے ۔علاقائی طاقت بننے کے لیے اقتصادی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔وہ افغانستان کے لیے ایک بڑے ڈونر ملک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے لیکن ایک مستحکم مسلم افغانستان اس کے مفاد میں نہیںہے ۔ اس لیے وہ وہاں امریکی فوج کی مزید لمبے عرصے تک موجودگی کا خواہش مند ہے ۔ ۲۰۱۴ء میں مجوزہ امریکی انخلا پر وہ شدید تحفظات رکھتا ہے ۔ اس کی اب تک کی ’نرم طاقت‘کی پالیسی شائد زیادہ عرصے تک اس کے مفادات کو تحفظ نہ دے سکے ۔

افغانستان میں بھارت کو ایک پسندیدہ ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس کے    ٹی وی پروگرام اور فلمیں یہاں بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ اس نے افغان ٹی وی چینلوں کو اپنے مواصلاتی سیارے کے ذریعے خصوصی سہولتیں بہم پہنچائی ہیں۔ لیکن عالمی طاقتیں بشمول امریکا اس کو افغانستان میں کوئی کلیدی کردار عطا کرنے سے قاصر ہیں۔ زمینی حقائق کو ئی اور رخ اختیار کررہے ہیں۔ بھارتی حکمت عملی اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ بھارتی دانش وروں ،عسکری ماہرین اور پالیسی سازوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔   دیکھتے ہیں وہ مستقبل میں ان چیلنجوں کا سامنا کس طور پر کرتے ہیں، اور چانکیہ کوٹلیہ کی کتاب  ارتھ شاستر سے کیا نئی تدبیر اخذ کرتے ہیں ۔

ماخذ

The role of India & Pakistan in Afghanistan's development & Natural resources. Eray Basar,CFC

Towards a Stable Afghanistan. The way forward by VIF & Rusl

India- Afghanistan Relation : Post 9/11 by Fahimda Ashraf

India in Afghanistan: A Rising Power or a Hesitant Power by Harsh Pant- CEPSI/CIPSS

India Economy

Indian-Strategic-Thinking-Reflection-Kautilya-s-six-fold-policy

’تفہیم القرآن ، مقاصد و اہداف‘ کے عنوان پر حامد عبدالرحمن الکاف صاحب کا ایک مضمون مئی کے ترجمان میں شائع ہوا ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ عرض ہے کہ تفہیم القرآن حقیقتاً اہداف و مقاصدِ قرآن کی تفسیر ہے۔ اس کے اپنے کوئی اہداف نہیں ہیں۔ آخر میں مضمون نگار نے تفہیم القرآن کی زبان کو مستقبل کی اُردو میں ڈھالتے رہنے کا جو مشورہ دیا ہے، وہ اخلاص پر مبنی ہونے کے باوجود قابلِ عمل نہیں ہے، اور اگر اس پر عمل کیا گیا تو تفہیم القرآن اپنی سند اور حوالے کی علمی حیثیت کھو دے گی اور کوئی نیا عالم حوالے کی ضرورت پر مولانا مودودی علیہ الرحمہ کے الفاظ میں سند واعتبار کے لیے استعمال نہ کرسکے گا۔ اس موقع پر ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ تفہیم القرآن کی زبان و اظہار کے سانچے کے متعلق مولاناؒ نے کیا لکھا ہے؟ نئے ترجمے کی ضرورت پر مولانا نے  بڑی فاضلانہ بحث کرتے ہوئے اپنا پیمانۂ اظہار یہ بتایا ہے کہ: ’’اسلوبِ بیان میں ترجمہ پن نہ ہو،   عربی مُبین کی ترجمانی اُردوے مبین میں ہو، تقریر کا ربط فطری طریقے سے تحریر کی زبان میں ظاہر ہو، اور کلامِ الٰہی کا مطلب و مدعا صاف صاف واضح ہونے کے ساتھ اس کا شاہانہ وقار اور زورِ بیان بھی جہاں تک بس چلے ترجمانی میں منعکس ہوجائے‘‘۔(’عرضِ مترجم‘ ۴؍اپریل ۱۹۷۱ئ)

مولانا مودودی کی زبان آج جن لوگوں کو مشکل معلوم ہوتی ہے، اُنھوں نے اُردو کو ادب کے درجے تک حاصل نہیں کیا ہے۔ وہ اُردو میں اپنی لیاقت بڑھائیں ورنہ صرف تفہیم القرآن ہی نہیں دیگر مفسرین کی زبان اور اُردو شاعری و ادب کو کیسے پڑھ سکیں گے؟ تمام ذخائر علم، تفسیر، حدیث، فقہ، علمِ کلام اور تاریخ وغیرہ تک کیسے رسائی حاصل کرسکیں گے۔ ہماری جدید نسل کو اُردو کو اعلیٰ معیار تک پڑھانے کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ بزرگوں کے چھوڑے ہوئے علمی ورثے تک رسائی حاصل کر سکے۔

اب رہا تفہیم القرآن کے عالمی زبانوں میں تراجم کا مسئلہ تو اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کو انگریزی زبان میں بہ تمام و کمال منتقل کرنے کا فریضہ پروفیسر ظفراسحاق انصاری اسلام آباد ادا کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی عمر و توانائی میں برکت عطافرمائے۔ یہ عظیم پراجیکٹ مکمل ہوجائے۔ مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن کا کام تو اُنھوں نے مکمل کردیا ہے اور تفہیم کے تراجم بھی شائع ہو رہے ہیں جن سے دنیا کا بڑا حصہ مستفید ہورہا ہے اور آیندہ اس کا ایک دائرۂ اثرقائم ہوجائے گا۔ تفہیم کی عربی زبان میں منتقلی میں بڑی تاخیر ہوگئی اور آج عالمِ عرب کو اس کی بڑی ضرورت ہے۔ میں نے بارہا مولانا خلیل احمد حامدیؒ کو توجہ دلائی وہ خود ہی اس کام کو انجام دینا چاہتے تھے لیکن اُن کے حادثۂ وفات نے مشکل پیدا کردی۔ اب بھی معارفِ اسلامی لاہور اس پراجیکٹ پر متوجہ ہو تو بہت اچھا ہوگا۔ فارسی زبان میں بھی اس تفسیر کو منتقل کیا جانا چاہیے۔فارسی دنیا میں بھی اسلامی بیداری آرہی ہے۔ اب ایسی تفسیر کی بڑی ضرورت ہے۔

تفہیم القرآن ہی کیا مولانا مودودی کا سارا تحریکی لٹریچر تفسیرِقرآن ہے اور اسی بنا پر نگارشاتِ مودودیؒ کو دوام حاصل ہوا۔ آج تفہیم کا ایک ایک صفحہ نہیں، ایک ایک سطر اور اس کے ایک ایک لفظ کے تحفظ کا اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ حفاظت ِ متن ہوسکے۔ تفہیم القرآن کا ایک ایک تفسیری نوٹ نہایت قیمتی مواد پر مشتمل ہے اور اس کی زبان بھی ایسی نپی تُلی ہے کہ اس کی تلخیص کی گنجایش نظر نہیں آتی، تاہم مولاناؒ نے ترجمے سے استفادہ کرنے والوں کے لیے ترجمانی کا ایک علیحدہ ایڈیشن چھاپ دیا تھا۔ اُس موقع پرمولانا ؒ نے مشہور اسکالر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے جواب میں لکھے گئے ایک خط میں یہ واضح کردیا تھا کہ ’’تفہیم القرآنکی تلخیص مَیں نے خود کردی ہے جس میں متن اور ترجمے کے ساتھ بہت مختصر تشریح ہے۔ پوری کتاب ایک جلد میں آگئی ہے اور طباعت کے لیے دے دی گئی ہے‘‘۔ ( بنام:ڈاکٹرابوالخیر کشفی، فکرونظر ، اسلام آباد،۳مارچ ۱۹۷۴ئ، ص۳۹۵)

تفہیم القرآنایک انقلابی تفسیر کے ساتھ ساتھ علم و ادب کا شاہکاربھی ہے، چنانچہ دنیا کی تمام اسلامی دانش گاہوں میں اس کو شاملِ نصاب کیا جانا چاہیے۔

 

مضمون نگار ایک تحقیقی ادارے اسلامک سروس آف انڈیا ، حیدرآباد، بھارت سے وابستہ ہیں۔

نام نہاد عدالتی کارروائی کا ڈراما ختم ہوا اور عظیم مفسر قرآن سید قطب کو ناکردہ گناہ کے جرم میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ سزا پر عمل درآمد بھی حتمی تھا، لیکن ظالم آخری لمحے بھی اپنے قدموں میں جھکانا اور اسلامی تحریک کے خلاف مزید سازشیں تیار کرنا چاہتے تھے۔ سیدصاحب سے کہا گیا: ’’اگر اعترافِ جرم کرلو اور معافی مانگ لو تو یہ سارا عذاب انعامات میں بدل جائے گا‘‘۔ مفسرِقرآن نے دوٹوک جواب دیا: ’’میری جو انگلی ہرنماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے وہ ایسا ایک حرف بھی لکھنے کو تیار نہیں جس سے ڈکٹیٹرکی حکمرانی تسلیم کرنے کا عندیہ ملتا ہو‘‘۔ کہا گیا: ’’تو پھر موت کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ جواب ملا: ’’الحمدللہ… میں نے شہادت حاصل کرنے کے لیے ہی تو گذشتہ ۱۵برس جدوجہد کی ہے‘‘۔

جب کوئی دبائو کارگر ہوتا دکھائی نہ دیا تو آخری ہتھکنڈے کے طور پر سیدقطب کی چھوٹی ہمشیرہ حمیدہ قطب سے رابطہ کرنے کا سوچا گیا، جو خود بھی جیل میں عذاب جھیل رہی تھیں۔ آیئے    اس کے بعد کی داستان خود حمیدہ قطب کی زبانی سنتے ہیں:

’’فوجی جیل کے سربراہ حمزہ البسیونی نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور پھانسی کا حکم نامہ اور اس پر صدرِمملکت کی مہرتصدیق دکھاتے ہوئے کہا: ’’اگر تمھارا بھائی حکومت کی بات مان لے تو یہ یقینی موت اب بھی ٹل سکتی ہے‘‘۔ کچھ توقف کے بعد مزید کہا: ’’تمھارے بھائی کی موت صرف تمھارے لیے نہیں، پورے مصر کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگی۔ میں تو تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ہم چند گھنٹوں بعد اس جیسی شخصیت کھو دیں گے۔ ہم کسی بھی طرح، کسی بھی حیلے وسیلے سے تمھارے بھائی جیسی   عظیم ہستی کو بچانا چاہتے ہیں… دیکھو اس کے چند الفاظ اسے یقینی موت سے بچا سکتے ہیں… اور اسے یہ الفاظ لکھنے پر صرف اور صرف تم آمادہ کرسکتی ہو… بنیادی طور پر مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ اسے تمھارے علاوہ کوئی دوسرا قائل نہیں کرسکتا… بس چند الفاظ ہیں اور سارا معاملہ طے ہوجائے گا… اسے صرف یہ لکھنا ہے کہ ’’یہ تحریک (اخوان) کسی بیرونی طاقت سے منسلک تھی‘‘۔ بس اتنا لکھنے سے بات ختم ہوجائے گی اور سید قطب کو خرابیِ صحت کی بنا پر رہا  کردیا جائے گا۔

میں نے جواب دیا: ’’لیکن تم بھی جانتے ہو اور خود جمال عبدالناصر بھی جانتا ہے کہ اخوان کسی بیرونی طاقت سے وابستہ نہیں ہیں‘‘۔

حمزہ البسیونی نے جواب دیا: ’’بالکل، مَیں جانتا ہوں، بلکہ ہم سب جانتے ہیں کہ مصر میں صرف آپ لوگوں کی تحریک ہی ہے جو خالصۃ للّٰہ اپنے دین کی خاطر کوشاں ہے۔ آپ لوگ مصر کے بہترین لوگ ہیں، ہم تو بس سید قطب کو پھانسی سے بچانے کے لیے ان سے یہ لکھوانا چاہتے ہیں‘‘۔

یہ کہتے ہوئے اور میری کسی بات کا انتظار کیے بغیر، وہ اپنے نائب صفوت الروبی سے مخاطب ہوا: ’’صفوت! اسے اس کے بھائی کے پاس لے جائو‘‘۔

میں بھائی جان کے پاس لے جائی گئی اور سلام دعا کے بعد ان لوگوں کا پیغام جوں کا توں پہنچا دیا۔ انھوں نے زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر نگاہیں میرے چہرے پر گاڑ دیں، جیسے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ کیا یہ صرف ان کا پیغام ہے یا میری راے بھی اس میں شامل ہے۔ الحمدللہ! میں نگاہوں کے اشارے سے انھیں یہ بتانے میں کامیاب ہوگئی کہ یہ میری راے نہیں، صرف ان کا پیغام ہے۔

اس پر بھائی جان گویا ہوئے: خدا کی قسم! اگر اس بات میں کوئی بھی صداقت ہوتی تو پوری روے زمین پر کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو مجھے یہ بات لکھنے سے روک سکتی۔ لیکن آپ جانتی ہیں کہ یہ سراسر ایک جھوٹا الزام ہے اور میں ہرگز… ہرگز جھوٹ نہیں کہہ سکتا۔

یہ جواب سن کر صفوت الروبی درمیان میں بولا: ’’تو گویا یہ تمھارا حتمی فیصلہ ہے؟ سیدصاحب نے جواب دیا: ’’ہاں، بالکل‘‘۔ صفوت یہ سن کر اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’اچھا ٹھیک ہے… پھر تمھاری مرضی‘‘۔ قدرے توقف کے بعد کہا: ’’چلو تم دونوں بہن بھائی تھوڑی دیر ملاقات کرلو‘‘۔

صفوت کے چلے جانے پر میں نے بھائی کو ساری بات بتائی کہ کس طرح انھوں نے پھانسی کا حکم نامہ دکھاتے ہوئے مجھے آپ کو قائل کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ بھائی نے پھر پوچھا: کیا تم بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتی ہو۔ میں نے جواب دہرایا: نہیں۔ بھائی جان کہنے لگے: ’’زندگی کے فیصلے رب ذوالجلال کے ہاتھ میں ہیں۔ جو لوگ خود کو بھی کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، وہ میری مہلت حیات میں کوئی ادنیٰ کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ ہرشے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اللہ نے ان ظالموں کو بھی گھیرے میں لے رکھا ہے۔

دونوں قیدی بہن بھائیوں کے درمیان یہ آخری ملاقات تھی۔ دونوں کی اس سے پہلی ملاقات بھی جیل ہی میں ہوئی تھی۔ اس کا ذکر مرحومہ زینب الغزالی نے اپنی کتاب روداد قفس میں یوں کیا ہے۔ واضح رہے کہ زینب الغزالی اور حمیدہ قطب ایک ہی کوٹھڑی میں قید تھیں: ’’سیدقطب اور ان کے دو ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے پانچ روز بعد ہماری کوٹھڑی کے دروازے پر اچانک دستک ہوئی، دروازہ کھلا تو سید قطب بھائی اندر آئے۔ ان کے ساتھ  جیل کے دو اعلیٰ افسر ابراہیم اور صفوت الروبی بھی تھے۔ ابراہیم تو انھیں ہمارے پاس چھوڑ کر چلا گیا لیکن صفوت وہیں رہا۔ ہم نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا: خوش آمدید۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ تشریف لائے، آج تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوا۔ سیدقطب بیٹھ گئے اور زندگی کی حقیقت اور موت کے مقررہ وقت کے بارے میں گفتگو کرنے لگے: ’’موت و حیات کافیصلہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی طاقت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ ہم ہرصورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلے تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔ ہمیں صرف اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے‘‘… ان کی یہ گفتگو سن کر صفوت غصے میں آگیا اور بھناتے، بڑبڑاتے ہماری ملاقات ختم کروا دی۔ امام قطب نے ایک نظر ہمیں دیکھا اور جاتے جاتے پھر دہرایا: ’’ہمیں کسی صورت صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا‘‘۔ بہن بھائیوں کے درمیان ہونے والی آخری ملاقات کی رات، ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کی صبح سید قطب کو پھانسی دے دی گئی۔

 حمیدہ چھے بہن بھائیوں میں سیدصاحب کی سب سے چھوٹی بہن تھیں۔ ۱۹۳۷ء میں  پیدا ہوئیں۔ تعلیم کے دوران ہی ان کی کئی ادبی کاوشیں بھی شائع ہوئیں۔ بھائی اخوان سے وابستہ ہوا تو باقی پورا خاندان بھی تحریک سے وابستہ ہوگیا۔ حمیدہ نے اخوان کے رسالے الاخوان المسلمون میں کئی تحریریں لکھیں۔ ان کی ایک کتاب رات کے جنگل میں سفر  بھی شائع ہوچکی ہے۔

 ۱۹۵۴ء میں اخوان پر ابتلا کے پہاڑ توڑے گئے تو وہ زینب الغزالی اور دیگرخواتین کے ساتھ مل کر گرفتارشدگان کے اہلِ خانہ کی دیکھ بھال میں لگ گئیں۔ حمیدہ اپنے اسیر بھائی سید قطب اور اخوان کی قیادت کے مابین رابطے کا ذریعہ بھی بنیں۔ سیدقطب کی شہرۂ آفاق کتاب معالم فی الطریق یعنی جادہ و منزل کا مسودہ بھی انھی کے ذریعے جیل سے باہر آسکا۔ سید قطب کی گرفتاری کے ان ۱۰ برسوں میں حمیدہ قطب نے ایک مخلص بہن اور مثالی کارکن کا فریضہ انجام دیا۔ دل کا شدید دورہ پڑنے پر سیدقطب کو مئی ۱۹۶۴ء میں رہا کردیا گیا لیکن ابھی تقریباً ایک سال ہی گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں پھر گرفتار کرلیا گیا۔اس بار صرف انھیں ہی نہیں، حمیدہ کو بھی قید کردیا گیا۔ جیل میں ان پر ناقابلِ بیان تشدد کیا گیا اور پھر ۱۰سال قیدبامشقت کی سزا سنا دی گئی لیکن پھرچھے سال چارماہ کی قید کے بعد ۱۹۷۲ء میں رہا کردی گئیں۔  حمیدہ پر چارالزامات عائد کیے گئے: lتم نے سید قطب اور زینب الغزالی کے مابین ہدایات اور معلومات کا تبادلہ کیا lتم نے جادہ و منزل کا مسودہ جیل سے باہر منتقل کیا l تم نے اخوان کے ذمہ داران یوسف ھواش اور علی عشماوی کے درمیان معلومات کا تبادلہ کیا lتم نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک اسیرانِ تحریک کے خاندانوں کی مدد کی۔

سوے دار جانے والے بھائی کو کامل صبروثبات سے رخصت کرنے اور اس نازک موقع پر کسی طرح کی کمزوری کا اظہار نہ کرنے والی بہن نے ان سب الزامات کو قبول کیا اور بھائی کی شہادت کے بعد بھی پانچ سال سے زائد عرصہ جیل میں رہیں۔ گرفتاری کے وقت ان کی عمر۲۹برس تھی اور وہ ابھی غیرشادی شدہ تھیں۔

عظیم مفسر قرآن بھائی کی یہ عظیم مجاہد بہن ۱۳جولائی ۲۰۱۲ء بروز جمعہ قیدحیات سے بھی رہائی پاگئیں۔ یقینا شہیدبھائی نے جنت کی دہلیزوں پر استقبال کیا ہوگا۔  ع

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

۲۴رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ (۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) مصر کی تاریخ کا ایک یادگار دن تھا۔  یہ دن مسلح مصری افواج کو اس کی آئینی ذمہ داری یاد دلانے اور عوامی جمہوری قوت کو اس کا استحقاق عطا کیے جانے کا دن تھا۔ اس روز تاریخِ مصر کے پہلے نومنتخب صدر ڈاکٹر محمد مُرسی نے مصر کے وزیردفاع فوجی سپریم کونسل کے سربراہ، حسین طنطاوی کو برطرف کرنے کے ساتھ مسلح افواج کی قیادت کے اندر دیگر بہت سی تبدیلیوں اور عدلیہ و فوج کے تیار کردہ اس دستور کو کالعدم قرار دیا جس میں منتخب صدر کے بیش تر اختیارات سلب کرلیے گئے تھے اور قانونی اتھارٹی پر قبضہ کرلیا گیاتھا۔

ان صدارتی اعلانات کے ذریعے پہلی بار مصر منتخب صدر کی حکمرانی میں آیا، اور ۶۰برس بعد فوج سیاست سے بے دخل ہوکر اپنی اصل ذمہ داری، یعنی ملکی سرحدوں کی حفاظت کی طرف واپس لوٹا دی گئی۔ تجزیہ نگاروں نے کہا کہ ان صدارتی اعلانات کے ذریعے ملک کے اندر سیاسی استحکام ہوا، حکومتی اداروں کا استحقاق بحال ہوگیا، اور ملک ایک نئے دور کی طرف گامزن ہوگیا۔ ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء سے شروع ہونے والے انقلابِ مصر کا سفر اس روز کافی حد تک اپنے معنی و مفہوم کو واضح کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہی وہ اُمنگ اور آرزو تھی جو مصری قوم کے دل میں پونے دو سال سے مسلسل بیدار رہی اور اس روز اس کو اپنی تعبیر مل گئی۔

ایوانِ صدر کے اس مرحلے تک پہنچنے کے دوران میں چہ میگوئیوں، افواہوں، سازشوں اور اندرونی خلفشار کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں ہر اُس عنصر نے اپنا حصہ ڈالا جو سابق نظامِ حکومت کا کل پرزہ رہ چکا تھا یا موجودہ حکومتی ڈھانچے سے خوف زدہ تھا۔ قولی اور عملی، ہردوسطح پر کوشش کی گئی  کہ نومنتخب جمہوری اسمبلی کو بے دست و پا کردیا جائے، تاکہ انھیں ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں آسانی ہو۔ بھرپور عوامی قوت اور مضبوط دینی سیاسی تحریک نے اس منصوبے کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن جمہوری صدر کے جرأت مندانہ فیصلوں کی توقع شاید خود اخوان المسلمون کو  بھی نہ تھی۔ اخوان اس تناظر میں بظاہر خاموش دکھائی دیے مگر اپنی رفتار، مزاج اور ضرورت کے مطابق اپنے کام میں مصروف رہے۔ ملکی عوامی حلقوں اور بیرونی سیاسی تجزیہ نگاروں کی طرف سے بے شمار سوالات سامنے آئے۔ ذرائع ابلاغ نے تو حد ہی کردی۔ اخوان خاموش اور صدر مُرسی مرکزنگاہ تھے، اور وہ تنِ تنہا سابقہ نظام سے پنجہ آزما ہونے کے لیے میدان میں موجود تھے۔

صدر مُرسی کے فیصلوں اور مسلح افواج کے اندر کی گئی تبدیلیوں پر اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود حسین نے ہفت روزہ المجتمع (شمارہ ۲۰۱۶، ۱۸؍اگست ۲۰۱۲ئ)سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں میں ہماری مشاورت شامل نہیں لیکن مصر کے عوام ان فیصلوں کے منتظر تھے خصوصاً مسلح افواج کی ذمہ داری کے حوالے سے کہ اُس کی اصل ذمہ داری ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے نہ کہ سیاست میں دخل انداز ہونے کی۔ اخوان کا خیال ہے کہ قوم چاہتی تھی کہ نومنتخب صدر کو اختیارات کسی کمی بیشی کے بغیر مکمل طور پر ملیں۔ اس لیے کہ فوجی کونسل آخری مرحلے میں حکومتی ڈھانچے میں اپنی شمولیت پر بضد تھی۔ وہ دستور سے بھی بالاتر حیثیت رکھنے کی متمنی تھی۔ مگر قوم کو یہ بات منظور نہیں تھی اور اس نے اپنی بیش تر سرگرمیوں کے ذریعے اس عسکری مداخلت کو مسترد کردیا۔  صدر کے اعلانات سے یقینی طور پر یہ مداخلت رُک گئی اور چونکہ عوامی دبائو تمام ملکی پارٹیوں کی طرف سے بہت شدید تھا، اس لیے فوج نے اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ بیان بھی جاری کیا کہ یہ اعلانات اور فیصلے فوج کی مشاورت سے ہوئے ہیں۔ قوم، صدر کے خلاف شرم ناک میڈیا مہم، دستوری عدالت کے اعلانِ دستور اور فوجی سپریم کونسل کی من مانیوں کو دیکھ رہی تھی اور سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ منتخب اداروں کو ناکام بنانے، صدر جمہوریہ کو اپنی حکمرانی قائم کرنے پر قدرت نہ رکھنے کا تاثر دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں بلاشبہہ صدر مُرسی کے ان تاریخی فیصلوں نے معاملات کو اُن کے اصل مقامات کی طرف لوٹا دیا ہے۔

سابق نظام کے حمایتیوں کو ان اعلانات میں ڈکٹیٹرشپ کی بو آنے لگی اور انھوں نے کہا: ان فیصلوں سے تو قانونی اور تنفیذی اختیار پورے کا پورا صدر کے ہاتھ میں چلا گیا اور یوں یہ ایک نئی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوگئی، جو اخوان کے ہاتھ میں ہے۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل نے اس کا بہت  صحیح جواب دیا کہ ’’صدر نے اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا، اور نہ اس کے اختیارات سلب کیے ہیں۔ یہ کام تو دستوری عدالت نے کیا تھا جس نے پہلے تین چوتھائی اسمبلی کو تحلیل کیا پھر پوری اسمبلی کو تحلیل کر کے اس کے تمام اختیارات سلب کرلیے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس عدالت نے ’مکمل دستوری اعلان‘ کے ذریعے منتخب اسمبلی کی قانونی اتھارٹی کو سپریم فوجی کونسل کی طرف منتقل کردیا تھا جو کہ منتخب نہیں ہے۔ اخوان کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال میں نئے دستور کی جلد سے جلد تیاری ملک کے لیے بہتر ہوگی اور اس کی منظوری اور نفاذ قومی راے لیے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ عدالتی، تنفیذی اور قانونی اختیارات کو اُن کے اصل مقام کی طرف لوٹانے کا اس سے بہتر اور محفوظ راستہ کوئی نہیں‘‘۔

صدارتی فیصلوں کے اجرا سے بہت پہلے امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے مصر کا دورہ کیا اور مسلح افواج کے سربراہوں سے ملاقات کی اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ حکمرانی کا اختیار منتخب صدر کے حوالے کر دیں۔ بعض لوگوں نے ہیلری کلنٹن کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ اخوان اور امریکا کے درمیان تعلق کی برف پگھل گئی ہے اور بین الاقوامی طور پر مصری فوج دبائو کا شکار ہے۔ اس پر اخوان کا ردعمل تھا کہ ’’دوسرے انتخابی مرحلے میں بعض بین الاقوامی طاقتوں نے فوجی سپریم کونسل پر دبائو ڈالا کہ انتخاب کے حقیقی نتائج ظاہر کیے جائیں۔ لیکن یہ دبائو اخوان کی محبت یا اُن کی مدد کی غرض سے نہیں تھا بلکہ خوف یہ لاحق تھا کہ کہیں دوبارہ میدانِ تحریر نہ بھر جائے۔ اس کے ساتھ ہی ان ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کی بھی کوشش کی ہے۔ اب تک تو ان ممالک کی کوششیں   التوا کے منصوبے کا حصہ رہی ہیں۔ صدرِ جمہوریہ کو ناکام کرنے کے لیے پوری قوت سے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ دراصل اس صدر اور اسلامی نظام کی کامیابی تو ان ممالک کے مفادات میں نہیں ہوسکتی ۔ رہا ہیلری کلنٹن کا دورۂ مصر، تو وہ رسمی تھا مگر کچھ دیکھنے، سننے اور معلوم کرنے کے لیے تھا‘‘۔

اخوان المسلمون مصر کی ویب سائٹ ’اخوان آن لائن‘ پر جاری کیے گئے ایک جائزے کے مطابق صدر مُرسی نے محکمہ اوقاف کی تطہیر کا عمل بھی انجام دیا ہے اور وزارتِ اوقاف کے نو ذمہ داروں کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ صدر نے مختلف اور متعدد اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے جن کے بارے میں ایوانِ صدر کو یقین ہوا کہ یہ سابق نظام کی بحالی  کے لیے کوشاں اور موجودہ حکومتی ڈھانچے کے کام میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

صدر مُرسی نے ان وسیع تبدیلیوں کے ساتھ صدارتی مجلس مشاورت کا بھی اعلان کردیا ہے اور ثابت کیا کہ حکومت پر صرف ایک فرد اور جماعت کا اختیار نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام باشندے اپنی اہلیت و صلاحیت کے مطابق اس میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ صدر نے داخلی و خارجی اُمور میں معاونت کے لیے چار افراد کو اپنے معاونین مقرر کیا ہے جن میں سے صرف ایک کا تعلق اخوان سے ہے، دیگر تین میں سے ایک سلفی جماعت حزب النور سے ہے، ایک خاتون معتدل اسلامی سیاسی فکر رکھتی ہیں اور ایک قبطی دانش ور ہیں جو ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد پہلے قبطی ہیں جو قاہرہ کے نائب گورنر کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ۱۷؍افراد کی مجلسِ مشاورت میں  مختلف شعبوں کے ماہر اور مختلف دینی سیاسی جماعتوں کے اہم افراد کو شامل کیا گیاہے۔ بیش تر افراد    علمی پس منظر اور تجربہ رکھتے ہیں۔ اس مجلس میں اسلامی، سیاسی اور لبرل جماعتوں کو نمایندگی دی گئی ہے۔ نائب صدر ایک آزاد رکن کو منتخب کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم بھی کسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا۔ مصری اور عالمی میڈیا نے صدارتی مہم کے دوران اخوان کا تعارف ایک سخت گیر، تشددپسند اور منتقم مزاج مذہبی جماعت کے طور پر کرایا تھا۔ ملکی اور عالمی حلقوں میں یہ تاثر گہرا کردیا گیا تھا کہ ڈاکٹر مُرسی کی کامیابی کی صورت میں ملک پر اخوان کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوجائے گی اور غیراسلامی و غیر دینی جماعتوں کی آزادی چھن جائے گی۔ اس مجلس مشاورت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر پر کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بلکہ پوری قوم اس میں حصہ دار ہے۔

صدر مُرسی نے پورے اعتماد اور جرأت کے ساتھ اُمورِ سلطنت انجام دینے کا آغاز کیا ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے اُن کی کارکردگی پر عمومی نظر ڈالی جائے تو اب تک وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں کامیابی اور بہتری کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر تعلقات کی ازسرنو بحالی مصر کے لیے ایک اہم اور مشکل مرحلہ تھا لیکن صدر مُرسی نے اس مرحلے کو بھی بڑی حکمت کے ساتھ اپنے معمول کا حصہ بنا لیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کے کم و بیش دومہینوںمیں سعودی عرب، ایتھوپیا، چین، اٹلی اور ایران کے سفر کرچکے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور خطے میں عرب ممالک کے مثبت اور قائدانہ کردارادا کرنے کے حوالے سے اُن کا سفر بہت سی توقعات کا مرکز بنا ہے۔ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں نے بھی مصر کی معیشت کو سنبھالا دینے کی اُمید بندھائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر مُرسی نے علاقائی امن کی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے چین پر زور دیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی عسکری و سیاسی مدد بند کی جائے۔ اس دورے میں مصر اور چین کے درمیان معاشی، سیاحتی اور تکنیکی شعبوں میں آٹھ معاہدات طے پائے ہیں۔ چین نے ناقابلِ واپسی ۴۵۰ یوان بجلی اور ماحولیاتی شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے لیے دیے ہیں۔ اسی طرح ۳۰۰ پولیس گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں۔

ایران میں منعقدہ غیروابستہ ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے دوران صدر مصر نے یہ بھی واضح کیا کہ مصر شام کی حکومت کے خلاف شامی قوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ صدر مُرسی نے اس موقع پر مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کن اسلحے سے پاک کرنے کے لیے اسرائیل سے معاہدے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے سلامتی کونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔

صدر مُرسی نے ۳۵ نئے سفیر بھی مختلف ممالک میں تعینات کردیے ہیں۔ ان سفرا کو پابند  کیا گیا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مصری قیادت کے احترام اور مصری کمیونٹی کے دفاع اور اُن کے وقارکے حصول کو یقینی بنائیں گے۔ خود صدرمُرسی نے ملکی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اُس وقت جرأت مندانہ اقدام کیا جب رفح کے مقام پر فلسطین و مصر کی سرحد پر اسرائیل نے جارحیت کی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی رُو سے جو امریکا نے انورالسادات کے عہد میں کرایا تھا مصری فوج سینا کی اس سرحد پر اپنی کارروائی نہیں کرسکتی۔ صدر مُرسی نے رفح کے حادثے کے بعد فوج کو حکم دیا کہ ’نسر آپریشن‘ کے ذریعے سرحد سینا کو کھول دیا جائے۔ اس اقدام کے بعد صدر مُرسی نے ایک ارب مصری پونڈ کی خطیر رقم کے ذریعے اور سرحدی اُمور و مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرکے اس سرحد اور سویز کی آبی گزرگاہ پر ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

ان بڑے فیصلوں کے ساتھ صدر مصر نے ملک کے داخلی امور کو حل کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ صدارتی انتخابی مہم کے دوران اخوان کے اُمیدوار کے طور پر ڈاکٹر مُرسی نے قوم کو جو منشور دیا تھا اس میں اپنی حکومت کے پہلے ۱۰۰ روز میں پانی، بجلی، صفائی، ٹرانسپورٹ اور غربت کے مسائل حل کرنے اور امن کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ ان مسائل کے سلسلے میں انھوں نے ۴۱ہزار کسانوں کے ڈیڑھ ارب مصری پونڈ کے قرضے معاف کردیے ہیں۔ ملازمین اور کم آمدنی والے افراد کی تنخواہوں میں ۱۵ فی صد اضافہ کردیا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے سوشل قرضوں کی رقم ۲۰۰ مصری پونڈ تھی اس کو بڑھا کر ۳۰۰ کردیا گیا ہے۔ قاہرہ جسے مرکزی شہر کے وسط میں   پھیری دار دکان داروں نے گراں فروشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ صدر نے قاہرہ اور دیگر شہروں میں ۶کروڑ کی خطیر رقم خرچ کر کے عوام کو سستی اشیاے ضرورت فراہم کرنے کے لیے’ ایک روزہ بازار‘ لگانے کا اہتمام کیا ہے۔غربت مصر کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صدر نے بڑے اضلاع میں ’روٹی پلانٹ‘ کی کارکردگی کو بھی مزید بہتر کرنے کا حکم دیا ہے اور روٹی کی فراہمی کا دورانیہ بڑھا دیا ہے جو پہلے  ظہر تک تھا اب عصر تک کردیا گیا ہے۔ بڑے اضلاع میں جمبو روٹی پلانٹ بھی لگادیے گئے ہیں۔ اس ایک پلانٹ کی پیداوار روزانہ ۱۰لاکھ چپاتی تک ہوتی ہے۔ آیندہ اسی رفتار سے اس کارکردگی کو مصر کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں پھیلانے کا عزم کیا گیا ہے۔ملک کے اندر تمام اضلاع میں عوام کی شکایات سننے اور حل کرنے کے لیے ’دیوان المظالم‘ قائم کردیے گئے ہیں۔ ملک کے داخلی امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے صدر نے وزیراعظم ڈاکٹر ہشام قندیل کو ہدایت کی ہے کہ شہریوں کے  عزت و وقار کا خیال رکھتے ہوئے اُن جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جائے جو راہزنی اور لُوٹ مار کی غرض سے متحرک ہیں۔ وزیراعظم کی قیادت میں امن فورسز نے ایسے بڑے بڑے آپریشن کیے ہیں جن کا مقصد ملکی امن و امان کی بحالی اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

سیاسی قیدیوں کے اُمور کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور دورانِ انقلاب گرفتار کر کے پابند سلاسل کیے گئے بے گناہ افراد کی رہائی کا حکم بھی صدر نے جاری کیا۔ اسی طرح میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ان صحافیوں کو بھی رہا کردیا گیا جن پر غلط معلومات شائع کرنے کا الزام تھا۔ شعبۂ صحافت سے وابستہ افراد نے صدر کے اس فیصلے کو بہت سراہا ۔ اس صدارتی اقدام سے صحافیوں کا ۱۰ برس سے جاری یہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا کہ ’احتیاطی گرفتاری‘کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صحافتی آزادی کو پابند کرنے کے لیے سابق نظامِ حکومت نے یہ حربہ اختیار کیا تھا۔

موجودہ حکومتی کارکردگی میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور باقیات مبارک کا ایک گروہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ملکی امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے اپنی اچانک کارروائیاں کرتا ہے۔ ان لوگوں کا نشانہ ہسپتال ہیں۔ صدر نے ایک سو ہسپتالوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری ملٹری پولیس کو دی ہے اور ایک سو مزید ہسپتال وزارتِ داخلہ کے ذریعے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا ہے۔

مصر بجلی کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ سابق دورِ حکمرانی کا یہ ’تحفہ‘ بھی موجودہ حکومت کے حصے میں آیا ہے۔ البتہ دمیاط پاور اسٹیشن کے افتتاح سے اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔ گذشتہ اگست کے نصف میں اس اسٹیشن کا آغاز ہوا ہے اور ستمبر کے اختتام تک اس مشکل پر قابو پالینے کا صدر نے وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح گیس کے بحران پر قابو پالینے کا مسئلہ ہے۔ وزارتِ داخلہ کو    اس مسئلے کو حل کرنے کا ہدف بھی دیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ بھی جلد حل ہوجائے گا۔

صدر مُرسی نے ’صاف ستھرا ملک‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت تمام اضلاع میں صفائی کے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم اس کام کی خصوصی نگرانی کی غرض سے اچانک دورے بھی کررہے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران صدر نے صحرا کی کاشت کاری اور نیل کے کناروں پر نئے شہر آباد کرکے رہایش کے مسائل پر قابو پانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ صدر نے ا س منصوبے کے آغاز پر کام کے لیے ماہر زوالوجی ڈاکٹر خالد عودہ کے پیش کردہ خاکے سے اتفاق کرلیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ۳ لاکھ ایکڑ رقبہ قابلِ کاشت بنایا جارہا ہے، جس میں کھجور اور زیتون کے درخت لگائے جائیں گے۔ مویشیوں کی پیداوار بھی ہدف میں شامل ہے۔ شمسی اور ہوائی ذریعے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ غرض یہ کہ ایک مکمل شہرآباد کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ اندازاً پانچ برس میں مکمل ہوگا۔

ڈاکٹر محمد مُرسی صدرِ مصر بننے کے بعد بھی اسی عوامی جمہوری اور اسلامی کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کا اظہار اُن کے منصب صدارت پر پہنچنے سے پہلے ہوتا رہا۔ انھوں نے ایوانِ صدر کے عملے کے لیے قصرِ صدارت کی بہترین جگہ کو ادایگیِ نماز کے لیے مسجد میں تبدیل کردیا ہے۔  ایوانِ صدر کے سیکورٹی گارڈ، باورچیوں اور مزدوروں کو اجتماعی طور پر کھانا کھانے کی آزادی بھی حاصل ہوگئی ہے۔

صدرِ مصر کی سادگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ گئے تو خصوصی طیارہ استعمال نہیں کیا ،بلکہ اپنے تمام افرادِ خانہ کی ٹکٹ کا خرچ انھوں نے خود برداشت کیا اور عمومی فلائٹ کے ذریعے سعودی عرب پہنچے۔

ڈاکٹر محمد مُرسی نے یہ حکم بھی جاری کررکھا ہے کہ سڑک پر اُن کی آمدورفت کے وقت ٹریفک کو معطل نہ کیا جائے۔ انھوں نے قصرِصدارت میں رہایش بھی اختیار نہیں کی بلکہ اپنے گھر کو قیام گاہ بنائے رکھا ہے اور ایوانِ صدارت کو صرف کام کے لیے مخصوص رکھا ہے۔ صدرِ مصر نے اپنی نمودونمایش کو بھی روک دیا ہے۔ انھوں نے کسی دفتر میں اپنی تصویر یا مبارک باد کا پیغام آویزاں کرنے سے منع کر دیا اور ان فضولیات پر خرچ ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کرنے کی اپیل کی۔ اس عمل سے کئی ملین رقم جمع ہوگئی ہے۔ انھوں نے ایوانِ صدارت کے محافظین کو ہدایت کی ہے کہ کسی شہید کے خاندان کو کسی بھی وقت ملاقات سے منع نہ کیا جائے۔ ایوانِ صدر کے دروازے ورثاے شہید کے لیے ہروقت کھلے ہیں۔

حقوق العباد اور مزاج کا اختلاف

سوال: اسلام میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی بہت اہمیت ہے اور  ہم مسلسل قرآن و حدیث میں اس کے حوالے سے احکامات پڑھتے رہتے ہیں۔ اس پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بھی ہیں، بالخصوص صلہ رحمی، یعنی خاندان اور    رشتہ داروں کے حوالے سے۔ اس ضمن میں چند عملی پہلو ہیں جو پریشان کن ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ ان کا تسلی بخش جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں دیں اور رہنمائی فرمائیں:

۱- اگر حقوق العباد سے مراد ہر ایک کو خوش کرنا ہے تو عملاً یہ بہت مشکل کام ہے۔ تمام کوشش کے باوجود بھی کچھ رشتے دار ایسے ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی بات پر آپ سے ناراض ہی رہتے ہیں یا ناراضی کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں اور جھگڑا کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ اگر کسی بات پر خاموش رہا جائے تو ’گھُنے‘ اور جواب دیا جائے تو ’زبان دراز‘ سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، جب کہ وہ ہمارے معاملات میں بھی اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہوں؟

۲-’خاندان‘ کو معاشرتی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ اس خاندان سے مراد نکاح کے بعد  میاں بیوی سے بننے والا خاندان ہے یا وسیع پیمانے پر مشترکہ خاندانی نظام؟ نیز  مشترکہ خاندانی نظام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

۳- اسلام میں ایک فرد کی پرائیویسی کا کیا تصور ہے؟

۴- اسلام میں مزاج کے اختلاف کی گنجایش ہے اور ہم سیرتِ صحابہؓ میں دیکھتے ہیں کہ مختلف مزاجوں کے افراد کس طرح سے ایک ہی چھتری کے نیچے جمع ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی مزاج کے اختلاف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو کوئی کتنا مکلف ہے کہ اپنے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے صفائیاں پیش کرے یا بس چپ کر کے   اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردے؟

جواب:  بلاشبہہ حقوق العباد کی اہمیت ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شرک کو چھوڑتے ہوئے بقیہ تمام بے احتیاطیوں کو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ اپنے حوالے سے معاف فرما سکتا ہے ، لیکن حقوق العباد کا تعلق چونکہ اس کے بندوں سے ہے اس لیے اپنے بندوں کا آقا و مالک ہونے کے باوجود وہ ان کے پامال کیے جانے کو اپنے دائرۂ اختیار سے خود خارج فرماتا ہے۔

حقوق العباد سے مراد وہ تمام حق ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، مثلاً جان، مال، عزت، شہرت کے تحفظ کا حق، کسی کے مال کو بغیر اس کی اجازت کے تصرف میں لانا، کسی کو اس کی موجودگی یا غیرموجودگی میں تضحیک کا نشانہ اس طرح بنانا کہ وہ اوروں کی نگاہ میں کم تر ہوجائے یا خود اسے اس سے تکلیف پہنچے۔ اس عمومی تعریف سے آگے بڑھتے ہوئے آپ نے خود جو تعریف  متعین کی ہے وہ قابلِ غور ہے، یعنی ’’ہر ایک کو خوش کرنا‘‘۔ میری راے میں یہ کہنا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسروں کو راضی کرنے میں بنیادوں کو قرآن و حدیث نے واضح کردیا ہے، یعنی اللہ کی نافرمانی ہونے کی شکل میں کسی مخلوق کی فرماں برداری نہیں ہوگی۔ اگر شوہر، باپ، بھائی، ماں، بہن یا دیگر قریبی رشتہ داروں کو خوش کرنے میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ہدایات کی خلاف ورزی ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہاں، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ماں باپ کو شوہر کو یا بیوی کو خوش دیکھنے کے لیے کوئی کام کرنا عین شریعت کی پیروی ہے۔ یہاں یہ بات بھی سامنے رہے کہ جہاں تک ’خوش‘ کرنے کا تعلق ہے اسلام میں اس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ خاتون تو ہر وقت شوہر، بھائی، ماں باپ کو خوش کرنے میں   جان ہلکان کرتی رہے اور شوہر صرف ’خوش‘ ہوتا رہے۔ یہ عمل دونوں پر یکساں طور پر واقع ہوگا کیونکہ قرآن کریم نے دو ٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ط وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (البقرہ ۲:۲۲۸) ،یعنی ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں‘‘۔ یہ ایک معاشرتی نفسیاتی بھول ہے کہ عورت تو مرد کو ’خوش‘ کرنے کی پابند ہو لیکن مرد تمام حقوق سے آزاد!

اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر یہ بات درست ہے کہ اسلام خاندان کو ایک بنیادی  معاشرتی و تہذیبی اکائی قرار دیتا ہے۔ اگر اس اکائی کو خارج کردیا جائے تو معاشرہ اور تہذیب دونوں کی عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے۔ مزید یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام وسیع تر خاندان کو ایک اسلامی خاندان قرار دیتا ہے:

لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْم بُیُوتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّہٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِِخْوَانِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِکُمْ اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ اَوْ صَدِیقِکُمْ ط لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا ط فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ط کَذٰلِکَ یُبَـیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ o (النور ۲۴:۶۱) کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمھارے اُوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچائوں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنے مامووں کے گھروں سے، یا اپنی خالائوں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمھاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھائو یا الگ الگ۔ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دُعاے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمھارے سامنے آیات بیان کرتا ہے،  توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے۔

قرآن کریم جگہ جگہ رشتہ داروں کے حقوق کی ادایگی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ چنانچہ  سورئہ نحل میں فرمایا: ’’اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور     ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو (۱۶:۹۰)۔ اسی طرح     رشتہ داروں کی طرف سے بدسلوکی اور ایسے رویے کی بنا پر جو ایک فرد کو ناگوار ہو، قطع تعلق کرنا یا   ان کے حقوق سے ہاتھ روک لینے کو قرآن کریم نے صاف طور پر منع فرمایا ہے:

وَلاَ یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا ط اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (النور ۲۴:۲۲) ، تم میں سے جو لوگ صاحب ِ فضل اور صاحب ِ مقدرت ہیں وہ اِس بات کی قسم نہ کھابیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے، اُنھیں معاف کردینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھیں معاف کرے، اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے۔

سورئہ بقرہ میں قرابت کو توڑنے پر وعید آئی ہے: ’’جو اللہ کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز (رشتہ قرابت) کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کو توڑتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں، وہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۷)

مندرجہ بالا قرآنی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اولاً خاندان اور خاندانی حقوق، یعنی مل جل کر کھانا کھانا، گھر میں داخل ہونا، ربط و تعلق کو برقرار رکھنا یہی خاندان کا مقصود ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ ایک چھت کے نیچے ہی رہیں بلکہ باپوں بھائیوں وغیرہ کے تذکرے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کے گھر الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ ورنہ باپوں کے گھر، بھائی کے گھر، وغیرہ کا تذکرہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ جو رشتے اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیے ہیں، ان کو قطع کرنا اللہ کی حدود کا پامال کرنا ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا تصورِ خاندان یہ نظر آتا ہے کہ اگر ایک شخص اپنے والدین کے گھر میں رہتا ہے، تو اسے اپنی بیوی کو اُس آزادی سے محروم کرنے کا حق نہ ہوگا جو    اللہ نے اسے دی ہے، یعنی اپنے شوہر اور بچوں کے سامنے ساتر اور اچھے لباس میں آنا، گھر میں ایسی تنہائی کا پایا جانا جہاں میاں بیوی بلاکسی روک ٹوک کے جس طرح چاہیں ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آسکیں۔

اسلام کا پرائیویسی کا تصور قرآن کریم نے واضح کردیا ہے، یعنی وہ اوقات جن میں گھر کے بچے ہوں یا ملازم، وہ بغیر اجازت اندر نہیں آسکتے۔ ایسے ہی شوہر اور بیوی کی آپس کی گفتگو میں بعض ایسے امور ہیں جو صرف بیوی یا شوہر کے علم میں ہوں اور کسی اور کو اس کا علم نہ ہو۔ حضور نبی کریمؐ کا ایک اُم المومنینؓ سے کسی بات کا ذکر کرنا اور ان کا اسے دوسری تک پہنچانا قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اس کی اجازت نہیں۔ یہ بات کی امانت کی تعریف میں بھی آتا ہے۔

بڑے بھائی بہن ہوں یا چھوٹے، ہر ایک کے لیے اصول ایک ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں ان میں سے کسی کی اطاعت نہیں۔ ہاں، اس دائرے میں رہتے ہوئے اگر انھیں کوئی تحفہ دینا، یا کوئی اچھی بات، کوئی نصیحت،کوئی بھلائی کا عمل کیا تو یہ مطلوب و مرغوب ہے۔ ان کی مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ کرنا جو عدل، حق اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے منافی ہو، کسی بھی شکل میں نہیں کیا جاسکتا۔ انھیں سمجھانا اور یہ بتلانا کہ اس طرح کے فیصلے میں آپ کا اور خود ان کا خسارہ ہے، آپ پر فرض ہے۔

مزاجوں کا فرق ایک فطری بات ہے اور یہ اُمہات المومنینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ  علیہ اجمعین سب میں پایا جاتا ہے۔ آخر ایک اُم المومنینؓ کو لمبے ہاتھ والی کیوں کہا گیا، ایک صحابی کو حیا میں دوسروں سے زیادہ کیوں سمجھا گیا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسروں میں حیا نہیں تھی؟ قطعاً نہیں۔ حیا تو ایمان کا بڑا حصہ ہے۔ اس لیے حضرت عثمانؓ کے مزاج اور دیگر صحابہؓ کے مزاج میں فرق تھا، ورنہ ہرصحابی حیا کا مجسمہ تھا۔

اس فطری فرق کا مطلب یہ ہوا کہ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ اہلِ ایمان کو کاظمین الغیظ اور رحما بینھم ہونا چاہیے تو وہ ان مزاجوں کے اختلاف کی بنا پر ہی یہ بات کہتا ہے ،اور چاہتا ہے کہ اس فطری اختلاف کے باوجود ان کا مجموعی طرزِعمل وہی ہو جو عالمِ انسانیت کے لیے بھیجے گئے، کامل ترین اسوئہ حسنہ رکھنے والے انسانؐ کا تھا۔ چونکہ آئیڈیل اور نمونہ آپؐ کی ذات ہے، اس لیے مزاجوں کے فرق کے باوجود جب ایک مومن یا مومنہ دوسروں کو مسکراتے چہرے سے دیکھے، دوسرے کی غلطی پر عفو و درگزر کرے، دوسرے کی جانب سے تکلیف پہنچنے پر کشادگی ٔ قلب کے ساتھ اس کے حقوق کو پورا کرے، اور صرف اس لیے ایسا کرے کہ اس سے رب خوش ہوگا، تو پھر ایسے فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت، کامیابی اور آخرت میں اعلیٰ مقامات کا وعدہ فرمایا ہے۔

وہ مشہور حدیث سامنے رکھیے جس میں آپؐ فرماتے ہیں: ’’وہ شخص جو بدلے میں رشتہ داروں کا لحاظ کرتا ہے، وہ مکمل درجے کی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (بخاری، عن ابن عمرؓ)۔ گویا   اگر کسی کی بھلائی کے بدلے میں ہم نے بھلائی کردی تو یہ صلہ رحمی نہیں۔ صلہ رحمی تو وہ ہے کہ ایک طرف سے تکالیف ہورہی ہوں اور دوسری جانب سے عنایات و لطف و کرم کا معاملہ ہو۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے حقوق مَیں ادا کرتا ہوں اور وہ میرے حقوق  ادا نہیں کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حلم و بُردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ جہالت برتتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تو ایسا ہی ہے جیسا تو کہتا ہے تو گویا تو ان کے چہروں پر سیاہی پھیر رہا ہے۔ اللہ ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیرا مددگار رہے گا جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا‘‘۔ (مسلم)

اس حدیث اور حضرت ابوبکرؓ کے سیدہ عائشہؓ پر بہتان لگانے والے رشتہ دار کے طرزِعمل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام قطع رحمی کو پسند نہیں کرتا، اور صلہ رحمی کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو آپ کے حقوق ادا نہ کرے آپ اُس کے حقوق میں کمی نہ کریں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

الصَّارم المسلول علٰی شَاتِم الرَّسول،شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ، ترجمہ: پروفیسر غلام احمد حریری، تحقیق و نظرثانی:حافظ شاہد محمود۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۱۱۲۴-۰۴۲۔ صفحات: ۷۴۸۔ قیمت:درج نہیں۔

اس کتاب کی اہمیت اور ثقاہت کے لیے امام ابن تیمیہؒ کا نام گرامی ہی کافی ہے۔ امام  ابن تیمیہؒ چھٹی صدی ہجری کے معروف و مشہور عالمِ دین ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کی بنیاد یہ عنوان ہے کہ ’’رسول کریمؐ کی توہین کا مرتکب (خواہ مسلم ہو یا کافر) واجب القتل ہے‘‘۔ کتاب کے وجود میں آنے کی تحریک آپ کے دور کا یہ واقعہ ہے، جو رجب ۶۹۳ھ میں وقوع پذیر ہوا کہ ایک عساف نامی نصرانی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہے۔ امام ابن تیمیہؒ اس حوالے سے رقم طراز ہیں کہ: ’’یہ الم ناک سانحہ اس امر کا موجب ہوا کہ مَیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تحقیر کرنے والے کے لیے جو سزا مقرر ہے اس کو ضبطِ تحریر میں لائوں خواہ اس کا ارتکاب کرنے والا  مسلم کہلاتا ہو یا کافر، نیز اس کے تمام متعلقات و توابع کو شرعی احکام و دلائل کی روشنی میں بیان کروں، اور وہ ذکر و بیان اس قابل ہو کہ اس پر بھروسا کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ علما کے ان اقوال کا تذکرہ کروں جو میرے ذہن میں محفوظ ہیں اور ان کے اسباب و علل بھی ذکر کروں‘‘۔ (ص ۳۸)

اس کتاب میں دوسرا مسئلہ توہینِ رسولؐ کے حوالے سے ہی یہ بیان ہوا ہے کہ توہین کرنے والا شخص اگر ذمّی ہو تو بھی اسے قتل کیا جائے، نہ اس پر احسان کرنا جائز ہے اور نہ فدیہ لینا روا ہے۔ ایک اور متعلقہ مسئلہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ’’کیا اِس کی توبہ قبول ہے یا نہیں‘‘ اور یہ مسئلہ بھی بیان ہوا ہے کہ سَبّ (گالی دینا) کی تعریف کیا ہے؟ کون سی چیز سَبّ ہے اور کون سی نہیں ہے اور یہ کہ سَبّ اور کفر میں کیا فرق ہے؟ امام صاحب نے اصحابِ شافعی میں سے ابوبکر فارسی کا قول نقل کیا ہے کہ ’’اس امر پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے اس کی  حدِشرعی قتل ہے‘‘۔ اسی طرح قاضی عیاض نے فرمایا ہے کہ ’’اس بات پر اُمت کا اجماع ہوا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص رسول کریمؐ کی توہین کرتا ہے یا آپؐ کو گالی نکالے تو اُسے قتل کیا جائے۔ اسی طرح دوسرے علما نے بھی رسولِ اکرمؐ کی توہین کرنے والے کے واجب القتل ہونے اور کافر ہونے کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے‘‘۔ (ص ۳۹)

عصرحاضر میں نائن الیون کے واقعے کے بعد دنیا میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ اسلام کے خلاف سَبّ و شتم بڑھ رہی ہے۔ خصوصاً اہلِ مغرب اور غیرمسلموں میں یہ بات عام ہوئی ہے۔ یہ سب سوچی سمجھی سازش ہے کہ پیغمبرؐ اسلام کے گستاخانہ خاکے اور فلمیں بنائی جارہی ہیں اور آپؐ کی شخصیت اور سیرت پر بے سروپا اور سبّ و شتم سے بھرپور کتب شائع ہورہی ہیں۔ ان حالات میں امام صاحب کی یہ کتاب انتہائی اہم ہے۔ (شہزادالحسن چشتی)


معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات، مرتبین: اوصاف احمد، عبدالعظیم اصلاحی۔ ناشر: ادارہ علوم القرآن، پوسٹ بکس ۹۹، شبلی باغ روڈ، علی گڑھ، بھارت۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۶۰روپے بھارتی۔

قرآن پاک بنیادی طور پر ایک نظامِ زندگی کے اصول انسان کو دیتا ہے۔ ان اصولوں پر چل کر انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ قرآن پاک میں جہاں ایمانیات کی مضبوطی کی تعلیمات ہیں، وہیں قرآنِ پاک کا ایک بڑا حصہ معاملات کے بارے میں اصولی ہدایات سے انسان کو نوازتا ہے۔ ان معاملات میں بھی ایک بڑا حصہ معاشی معاملات سے متعلق ہے۔

علی گڑھ میں قائم ادارہ علوم القرآن نے انھی تعلیمات کی تفہیم کے لیے ایک سیمی نار نومبر ۲۰۱۰ء میں منعقد کیا۔ جہاں پیش کیے گئے مقالات کو کتابی صورت میں معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات کے عنوان سے ادارہ نے شائع کیا ہے۔ اس سیمی نار میں معروف اسلامی معاشیات دان جناب اوصاف احمد نے اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا، جب کہ عبدالعظیم اصلاحی نے ’قرآنی معاشیات پر ادبیات کا ایک مختصر جائزہ‘پیش کیا۔ جناب نسیم ظہیراصلاحی نے ’قرآنی نظامِ معیشت کی بعض خصوصیات‘ کے عنوان سے قرآنی نظامِ معیشت کا دیگر نظام ہاے معیشت سے تقابل کرکے بتایا کہ قرآنی نظام دوسرے نظاموں سے کیونکر مختلف ہے۔ محمدعمر اسلم اصلاحی نے سورۂ بقرہ کے حوالے سے چند اہم معاشی تعلیمات کو اپنے مقالے کا موضوع بنایا۔ محی الدین غازی نے ’فساد فی الارض کا مالی اور معاشی پہلو قرآنِ مجید کی روشنی میں‘ پیش کیا۔ شاہ محمد وسیم کا موضوع ’قرآنی معاشرہ، معیشت اور تجارت: ایک مختصر خاکہ‘ تھا۔ جناب محمد یاسین مظہرصدیقی کے مقالے کا عنوان: ’اسلام میں ربا کی تحریم، مختلف جہات کا تنقیدی تجزیہ‘ تھا۔ قرآنِ مجید میں افزایش دولت کا تصور، ایک جائزہ‘ ابوسفیان اصلاحی کے مقالے کا عنوان تھا۔ محمد رضی الاسلام نے ’اسلامی نظامِ معیشت میں عورت کے حصہ‘ کے موضوع پر بحث کی۔ عنایت اللہ سبحانی نے ’نظام المیراث فی القرآن‘ کے موضوع پر    عربی میں مقالہ پیش کیا۔ اس سیمی نار میں اُردو، عربی اور انگریزی میں مقالات پیش کیے گئے۔     اپنے موضوعات کے حوالے سے یہ مقالات وقیع بھی ہیں اور متنوع بھی۔ (میاں محمد اکرم)


تلاش، اللہ: ماورا کا تعین، عکسی مفتی، ناشر: الفیصل، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۳۱۔ قیمت: ۱۲۰۰ روپے۔

پیشِ نظر کتاب عکسی مفتی کی انگریزی تصنیف Allah: Measuring the Intangible کا اُردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ کار ڈاکٹر نجیبہ عارف (استاد، بین الاقوامی یونی ورسٹی،     اسلام آباد) کہتی ہیں کہ ’’اللہ سے مَیں نے بار بار پوچھا   ُتو کیا ہے، کہاں ہے، میری سمجھ میں کیوں نہیں آتا؟… اللہ نے بالآخر مجھے اس نیم جانی سے رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا… عکسی مفتی سے     یہ کتاب لکھواکر مجھے بھیجی ہے کہ جا پڑھ لے…‘‘ (ص ۱۱)

مصنف کہتے ہیں کہ: ’’سائنس کو علم کے تمام ذرائع پر برتری حاصل رہی ہے… یہ ’اجماع‘ کا نام ہے، یہ ’سچائی‘ کی تجربی میزان ہے (ص ۳۱)۔ اور ’’اللہ ایک ماورائی حقیقت ہے۔ نادیدہ اور ناقابلِ بیان___ صرف ایک باطنی تجربہ۔ ہم وجدانی طور پر اُسے سمجھتے ہیں، مگر عقلی طریقے سے اس کی وضاحت نہیں کرسکتے… اللہ کو ان مظاہر کے ذریعے بیان کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایکس ریز کا تجزیہ کرنا یا روشنی کی غیرمرئی لہروں کو مرئی رنگوں کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش کرنا… (ص ۴۲)۔ ان کے خیال میں مغرب میں خدا بے زاری اور الحاد کا سبب، کلیسائی خدا کا  وہ تصور تھا، جس میں اسے ایک سخت گیر اور جابر باپ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ مغرب میں اس سے چھٹکارے کے طور پر بے لگام آزادی اور اس کے ردعمل میں مشرق میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ ملا۔ ان کے خیال میں ’’سائنس، دراصل خود آگاہی کا نام ہے، یا یوں کہیے کہ سائنس دراصل    ’خدا آگاہی‘ کا نام ہے۔ ان دونوں جملوں میں کوئی تضاد نہیں کیوں کہ خودی خدا کا جزو ہے۔ یہ الگ بات کہ بہت چھوٹا سا جزو، جیسے ایک ایٹم ایک شمسی نظام کا جزو ہوتا ہے۔ زمینی عناصر سے بناہوتا ہے اور وہی خواص رکھتا ہے‘‘۔ (ص ۷۹)

اپنے سائنسی پس منظر کے باوجود ان کے بعض بیانات مبہم اور بعض حقیقت سے دُور   نظر آتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’آئن سٹائن نے تحقیق کے دوران دو مختلف قوتیں، یعنی کششِ ثقل (gravity ) اور برقی مقناطیسیت (electromagnetism) دریافت کیں…‘‘ (ص ۶۴)۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ سائنس کی بنیاد اخلاقی سوالات پر قائم ہے، اور سائنس کی اخلاق سے عاری ہونے کی باتیں اٹھارھویں صدی کی شعبدہ بازی ہے‘‘ اور دوسری طرف ’’لُولی لنگڑی سائنس‘‘ کے توازن کی تلاش بھی کرتے نظر آتے ہیں اور انھیں سائنسی ترقی، محرومیت کی خبر دیتی ہے۔ ’’ہماری سائنس، حقیقت کی اعلیٰ سطح پر مزید ترقی کرنے سے قاصر نظر آتی ہے‘‘۔ (ص ۸۰-۸۱)

اسماے الٰہی کے ضمن میں حضرت ابوہریرہؓ کے حوالے سے امام ترمذی کے روایت کردہ  اللہ تعالیٰ کے ۹۹ نام اور ان کے معانی اور مفہوم بیان کرنے کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ ’’یہی علم… مخفی اسما کا علم ہی دراصل وہ طاقت تھی جو اللہ نے آدم کو اپنے نائب، اپنے معاون تخلیق کار کی حیثیت سے عطا کی تھی اور اپنی سلطنت کی تمام مخلوق کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت [کذا] دی تھی‘‘(ص ۱۰۴)۔ لیکن یہ فراموش شدہ علم ابھی تک اسرار کی دُھند میں لپٹا ہوا ہے‘‘۔ یہ اسما بار بار دُہرائے جاتے ہیں اور اس طرح ایک ’چکّر‘ کے تصور کو پیش کرتے ہیں۔ بعض قدیم مذاہب میں حقیقت مطلق کو ایک چکّر (wheel) کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ مگر گردش کے لیے ایک مرکز کی ضرورت ہوتی ہے اور ہرمذہب میں یہ مرکز اللہ کی ذات ہے۔ ’’خدا، رُوح ہے اور انسان مادہ‘‘.... خدا اور انسان، رُوح اور مادہ، خالق اور مخلوق، ایک ہی تسلسل کے مختلف پہلو ہیں.... جیسے مادہ اور توانائی ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں‘‘۔ (ص ۳۰۱-۳۰۲)

’’خدا کی بھوک: On Eating God‘‘ (ص ۳۱۱) کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہمارے جسمانی وجود کو ایک متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی نشوونما کے لیے اللہ کے ذکر، اس کی صفات کو اپنے اندر سمو لینا انسان کی روحانی پرورش کے لیے ضروری ہے۔ اللہ کو خود میں سمو لینے، اس کی صفات کو اپنا لینے، اُسے اپنے اندر جذب کرلینے کا یہ صوفیانہ تصور ہے۔ جیسے ایک بڑے پیڑے کو ایک دم نہیں کھا سکتے، بلکہ تھوڑا تھوڑا کتر کر چکھتے ہیں، اسی طرح ’’اللہ بھی جو انسان کی روحانی غذا ہے، اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ ایک دم بہت بڑی روحانی خوراک بھی روحانی بدہضمی کا باعث بن جاتی ہے، اور انسان کو مریض بنا دیتی ہے.... صوفی خدا کو تھوڑا تھوڑا چکھتا رہتا ہے‘‘ (ص ۳۱۳)۔ وہ مثبت اور منفی کے اصول کو ’تنترا‘ اور ہندو دیولامائی جنسی آثار و نقوش کا غماز بتاتے ہیں، جو بقول ان کے تمام مذاہب میں مروج اور جاری و ساری ہے، اور مختلف جہتوں سے حرکت و سکون، ظاہر و باطن، مادہ و روح اور ’حی و میّت‘ کی اشکال اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں قدیم و جدید سائنس دانوں کے کئی اقتباسات بھی پیش کرتے ہیں، اور اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ ’چوں کہ اللہ، انسان کے وجود کا سبب، اس کی علّت ہے، اور اس کی ذات کا جوہر اس کا عطر ہے، اس لیے اللہ کی اطاعت، خود اپنی ہی اطاعت کے مترادف ہے‘‘ (ص ۴۵۱)۔ شاید منصور کا ’اناالحق‘ اس کا اظہار ہے۔ ’’اللہ، الجامع‘‘ ہے، یعنی وہ ہر چیز کو اکٹھا کردیتا ہے۔ وہ کُلیّت ہے، جو ہرشے کو آپس میں جوڑدیتی ہے۔ اللہ سب سے آخری امتزاج (synthesis) ہے۔ کُل ہے، جو جزو کو معنویت عطا کرتا ہے… اللہ کو اس کی جامعیت میں سمجھنے کی کوشش ہی سائنس اور انسانیات [انسیات]، ایمان اور استدلال کے درمیان موجود یہ خلیج پاٹ سکتی ہے… اللہ… وہ یکتا آئیڈیل ہے جو پوری بنی نوع انسان کو تمام اختلافات اور انحرافات سے بالاتر ہوکر ایک وحدت میں جوڑ دیتا ہے۔ یہ کُل (whole)کی ایک بے مثال خصوصیت ہے، جو اس کے اجزا (parts) میں نہیں ملتی۔ جیساکہ امریکی ماہر طبیعیات اور فلسفی فریجوف کیپرا (Fritjof Capra) نے کہا ہے کہ شکر کا  ذائقہ نہ تو کاربن میں ملتا ہے، نہ ہائیڈروجن میں نہ آکسیجن کے ایٹموں میں۔ حالانکہ یہی شکر کے   اجزا ہیں۔ یہ ذائقہ تو صرف شکر ہی میں مل سکتا ہے، جو ان سب کا مجموعہ ، ان سب کا کُل ہے‘‘ (ص۴۵۶)___یہ ہے اللہ کا ذائقہ چکھنے کی دعوت اور ماورا کا تعین! (عبدالقدیر سلیم)


دینی مدارس، روایت اور تجدید، علما کی نظر میں، ڈاکٹر ممتاز احمد۔ ناشر: اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ، اسلام آباد۔ تقسیم کنندہ: ایمل مطبوعات نمبر۱۲، سیکنڈفلور، مجاہدپلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۰۶۔ قیمت: ۵۹۰ روپے۔

تقریباً ۴۰سال ہونے کو آئے ہیں۔ ڈاکٹر ممتاز احمد (ڈائرکٹر ، اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ) نے ڈاکٹریٹ کی تحقیق کے لیے برعظیم میں دینی تعلیم اور دینی مدارس کا موضوع منتخب کیا ۔ انھوں نے تحقیقی کام کے لیے شکاگو (امریکا) جانے سے پہلے لوازمہ جمع کرنا شروع کیا اور اس ضمن میں دینی مدارس کے علماے کرام سے کچھ مصاحبے (انٹرویو) کیے۔ تحقیق مکمل ہونے پر انھیں ڈگری ملی۔ برعظیم بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں دینی تعلیم اور دینی اداروں کے موضوع پر ڈاکٹر ممتاز احمد ایک سند (اتھارٹی) مانے جاتے ہیں۔ اسی لیے امریکا میں اُن کے طویل قیام کے زمانے میں بہت سے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں، بلکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی ان کی تحقیق سے فائدہ اُٹھایا۔

زیرنظر کتاب میں مصاحبوں کو تاریخی ریکارڈ کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ ۱۶علما میں ہرخیال اور مختلف مکاتب ِ فکر کے علما شامل ہیں۔سید ابوبکر غزنوی، جمیل احمد تھانوی، محمد ایوب جان بنوری، محمد حسین نعیمی، گلزار احمد مظاہری، ملک غلام علی، عبدالحق (اکوڑہ خٹک)، محمد ناظم ندوی، احمد سعید (سرگودھا)، مفتی محمد یوسف اور مولانا عبدالرحیم (پشاور)، چودھری نذیراحمد اور خان محمد (ملتان) وغیرہ۔ ایک تازہ ترین زاہد الراشدی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔

ان مصاحبوں میں رائج الوقت دینی تعلیم کا دفاع کیا گیا ہے لیکن علما نے بعض اُمور میں کمی رہ جانے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد نے ان مصاحبوں کے زمانے میں علما کے بارے میں جو تاثر قائم کیا، وہ بہت مثبت ہے اور ایک طرح سے علما کے لیے یہ ڈاکٹر ممتاز احمد کا خراجِ تحسین ہے۔ وہ افسوس کرتے ہیں کہ ’’اولیا اللہ کی صفت رکھنے والے وہ علما کہاں‘‘۔ (ص ۹)

کتابت، طباعت، کاغذ، کاغذی جلد، سرورق، ہرچیز خوب صورت اور دل کو بھانے والی ہے مگر قیمت ہوش اڑانے والی اور پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


First Famous Facts of  Muslim World، [مسلم دنیا کے    اہم حقائق]تالیف: ڈاکٹر غنی لاکرم سبزواری، ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی۔ ناشر: لائبریری پروموشن بیورو، کراچی یونی ورسٹی، پوسٹ بکس ۸۹۴، کراچی۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۴۹۴ روپے۔

اس مختصر انگریزی کتاب کے دونوں قابل مؤلفین تجربہ کار لکھاری ہیں کہ ہر ایک نے ۱۰تحقیقی کتب تصنیف کی ہیں جو شائع ہوچکی ہیں۔ زیرتبصرہ کی ترتیب میں ۱۱اہلِ قلم نے مؤلفین کی معاونت کی ہے، اور تقریباً ۱۶؍اہم تحقیقی اداروں کی تحقیقات سے فائدہ لیا گیا ہے۔ اس سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کتاب کو اللہ رب العزت کے نام معنون کیا گیا ہے۔ ابتداے اسلام سے دورِ جدید تک تقریباً ۱۴۳۳ سالوں کے دوران میں پیدا ہونے والی معروف اور نام وَر سیاسی، سماجی، ادبی، سائنسی، مذہبی اور دوسرے تمام شعبوں کی شخصیات اور اپنے اپنے میدانوں میں ان کے کارناموں کو مختصر مگر جامع انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ اسلام سے متعلق اہم مقامات، مثلاً مساجد، اہم کتب و دستاویزات پر بھی اس کتاب میں قابلِ قدر معلومات دی گئی ہیں۔ اسلامی دنیا کی اہم دینی و سیاسی جماعتوں کی بھی معلومات موجود ہیں جنھوں نے کوئی مؤثر کردار ادا کیا ہے۔  غرض کہ ۱۲۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب اسلامی دنیا کی ’مختصر انسائیکلوپیڈیا ‘ ہے۔

کتاب اسلام کے حوالے سے مگر اس میں ڈاکٹر عبدالسلام کا فوٹو اور معلومات دیکھ کر تعجب ہوا۔ غالباً مرتبین ان کو مسلمانوں میں شمار کرتے ہیں جو بنیادی غلطی ہے۔ اسی طرح سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور شیخ حسن البنا جیسے معروف و مشہور اسلامی اور انقلابی مفکرین کا دو حرفی ذکر علی الترتیب ’جماعت اسلامی‘ اور ’مسلم برادرہڈ‘ کے تحت ضرور نظر آتا ہے، جب کہ یہ ان کے مقام اور کام سے بہت فروتر بات ہے۔ مغربی افریقی ملک نائیجیریا کے عثمان ڈان فوڈیو کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا۔

کتاب کے صفحہ اوّل پر عباس ابن فرناس (۸۱۰-۸۸۷) پہلا مسلم سائنس دان جس نے چھے منٹ تک ہوا میں پرواز کی۔ ’اِندلسی، ستارہ شناس اور موجد‘ کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوتی ہے اور اعتماد بڑھتا ہے کہ سب سے پہلے جرأت مندانہ اور قابلِ تقلید تجربہ کیا تھا مگر اب ’’تھے تو وہ آبا ہی تمھارے مگر تم کیا ہو؟‘‘ (ش- ح- چ )


تعارف کتب

  • فہم سیرت، پروفیسر محمد سلیم۔ ناشر: ریجنل دعوہ سینٹر (سندھ) ، کراچی۔ پی ایس-۱/۵-کے ڈی اے اسکیم ۳۳، احسن آباد نزد گلشن معمار، کراچی۔ فون: ۳۶۸۸۱۸۶۲-۰۲۱ ۔ صفحات:۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔[فہم سیرت رسولؐ مطالعہ سیرت کا ایک منفرد پہلو ہے۔ اس کے تحت واقعات سیرت کو زمانی ترتیب سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ واقعات میں پوشیدہ حکمت اور کارِ نبوت کے گہرے تعلق کو بیان کیا جاتا ہے۔ سیرت نگاروں کی اس پہلو پر کم توجہ رہی ہے۔ زیرنظر کتابچے میں اس کی اہمیت و ضرورت کے ساتھ ساتھ اسوہ رسولؐ کا مختصراً مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔]
  • تحقیق ___ تصورات اور تجربات، پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر سفیراختر، ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، مکان نمبر۱، گلی نمبر۸، ۳-/۶-F، اسلام آباد۔ فون: ۸۴۳۸۳۹۱-۰۵۱۔ صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[تحقیق و جستجو انسانی زندگی کا خاصہ اور جوہر ہے اور قوموں کے عروج کا اہم تقاضا ۔ اس سفر کو جاری رکھنے کے لیے ایک طرف جہاں علمی و تحقیقی عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، وہاں میدانِ تحقیق میں نوآمیز اہلِ قلم اور تحقیق کاروں کی آمد بھی ناگزیر ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز  میں علمی و فکری اور رہنما نشستوں کی رُوداد پر مبنی ادارے کی ایک کتاب تحقیق: تصورات اور تجربات کے عنوان سے سامنے آئی ہے۔ جس میں پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر سفیراختر اور ڈاکٹر عمرچھاپرا نے اسلامی تصورِ تحقیق، تحقیقی عمل میں سیاق و سباق کی اہمیت، تحقیق کا سفر، کتاب پر تبصرے کا فن اور عالمی مالیاتی بحران پر ایک نظر جیسے موضوعات پر گفتگو کی ہے۔]
  • اعترافِ ذنوب/اعترافِ قصور، مولانا شاہ وصی اللہ،مولانا قمرالزمان۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، نوشہرہ۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت:درج نہیں۔یہ دو کتابوں کا مجموعہ ہے۔ توبہ اور استغفار کے حوالے سے روایات، واقعات، حدیث اور قرآن سب ہی کچھ آگیا ہے۔ استغفار سے بارش کا ہونا، مال اور اولاد کا ہونا، اور باغات اور نہروں کا جاری ہونا تو خود سورئہ نوح کی مشہور آیت سے ثابت ہے۔ گناہ گاروں کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ اور نعمت ہے (جو گناہ نہیں کرتا، وہ اس کتاب کو خواہ مخواہ نہ پڑھے)]۔
  • تنسیخ نکاح ،شگفتہ عمر۔ ناشر: ویمن ایڈ ٹرسٹ، مکان نمبر ۳۶، گلی نمبر۲، ۲/۱۰-جی، اسلام آباد۔ فون:  ۲۲۱۲۹۳۳-۰۵۱۔  صفحات: ۵۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[قرآن عقد نکاح کو پختہ معاہدے سے تعبیر کرتا ہے، جب کہ طلاق کو جائز کاموں میں سب سے ناپسندیدہ عمل۔ تاہم بشری تقاضوں اور ناگزیر وجوہ کی بنا پر اگر نباہ ممکن نہ ہو تو احسان اور نیکی کے اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے اس معاہدے کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ دیگر مذاہب میں یا تو علیحدگی کی گنجایش نہیں ہے، یا اگر ہے توبہت مشکل اور ناقابلِ عمل۔ زیرتبصرہ کتاب میں اسلام کے قانونِ طلاق، طلاق کی مختلف صورتیں، تنسیخ نکاح کے موضوع پر ملکی قوانین اور عائلی قوانین کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے، اور شریعت سے متصادم دفعات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ اپنے موضوع پر جامع اور مختصر علمی کاوش!]

 

رئیس احمد نعمانی ، علی گڑھ، بھارت

رسول کریمؐ نے ایک بار فرمایا تھا کہ میں راگ راگنی کو مٹانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ مگر آج کل نعت خوانی کے ساتھ موسیقی بھی دھڑادھڑ چل رہی ہے۔ نعت کو گانے کے انداز اور سنگیت کے ساتھ پڑھنا دونوں باتیں ذکرِرسولؐ کے ادب کے خلاف اور نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کے مترادف ہیں۔ اسی طرح نعت خوانی کے مقابلوں میں تالیاں بجانے کا رجحان بھی سامنے آیا ہے۔ یہ حرکتیں شانِ رسولؐ میں بے ادبی کے سوا کچھ نہیں!


قاضی عبدالقادر ، کراچی

اس ماہ کے سرورق پر بہت رنگینی چھائی ہوئی ہے، یہاں تک کہ ترجمان القرآن کے نقطے تک مختلف رنگوں کے ہیں۔ اللہ! اللہ! ترجمان کی پیدایش ۱۹۳۲ء کی ہے اور اب اسّی (۸۰) کے پیٹے میں ہے۔ جوانی تو سادگی سے گزری، اب اس عمر میں یہ بھڑکیلے لباس کچھ اچھے نہیں معلوم ہوتے۔ اس شمارے کی جان ’’سوشلزم نمبرپر سید مودودی کا تبصرہ ۱۹۶۸ئ‘‘ ہے۔ بہت عرصے کے بعد سیدصاحب کی اس طرح کی تحریر پڑھنے کو ملی۔ اس کے دو جملے تو یوں سمجھیں کہ قیامت ہی ڈھا گئے: ۱-آپ کی محنت قابلِ داد اور طباعت کے معاملے میں شدید تساہل قابلِ فریاد ہے۔ ۲- اشاعت کے لیے دیتے وقت پورے مضمون کی تصحیح کردیجیے، مگر تصحیح اپنے     قلمِ خاص سے کرنے کے بجاے کسی صاف نویس سے کرایئے تاکہ کاتب غریب فتنے میں نہ پڑے۔


عبدالقدیر سلیم ، کراچی

پروفیسر خورشید احمد کے ’اشارات‘ (ستمبر ۲۰۱۲ئ) محض اداریہ نہیں بلکہ پاکستان کی موجودہ سیاسی مقتدرہ اور امریکا کے تعلقات (افسوس ناک) پر ایک تحقیقی رپورٹ ہیں۔ اسی طرح انصارعباسی صاحب نے میڈیا کی برہنگی کا جس طرح پردہ چاک کیا ہے ، اس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کاش! ہمارے علما اور ہماری مقتدرہ اس کا نوٹس لے۔


پروفیسر نیاز عرفان ، اسلام آباد

آنسہ عائشہ نصرت کا لکھا ہوا مضمون بعنوان ’’پردہ قید نہیں، آزادی ہے‘‘ (ستمبر۲۰۱۲ئ) ایک منفرد، مدلل اور اس موضوع پر اب تک شائع ہونے والی تحریروں میں سب سے مؤثر تحریر ہے۔ ایک نوعمر خاتون کے قلم سے انگریزی زبان میں لکھے جانے والے مضمون کا امریکا کے معروف روزنامے نیویارک ٹائمز میں جگہ پانا جس کے اداراتی عملے سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ پردے کے حق میں ایک مشرقی لڑکی کی انگریزی میں لکھی ہوئی کسی تحریر کو چھاپنا تو ایک طرف، پڑھنے کا روادار ہوسکتا ، اس بات کا ثبوت ہے کہ مضمون نگار کو    دلیل سے اپنی بات منوانے کا ملکہ حاصل ہے۔ یقینا عائشہ نصرت ایک نابغہ روزگار خاتون ہیں۔ زندگی میں کوئی اعلیٰ مقام ان کا منتظر ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!


عمر، خبیب، حسن، یاسر، طٰہٰ ، عاکف ، کراچی

مشرقی پاکستان کے گورنر شہاب الدین کا واقعہ (ستمبر ۲۰۱۲ئ) تاریخ اسلام کا ایک درخشندہ باب ہے۔ کاش! ہماری زندگی کے ہر دائرے کے صاحبانِ اختیار اسے اپنے لیے نمونہ بنائیں۔ مسلمان تو ہے ہی وہی جو اتنا ایمان دار اور دیانت دار ہو! اللہ ان کی قبر کو اپنے نور سے بھردے اور ہمارے اندر پیروی کا جذبہ پیدا کردے۔


عاشق علی فیصل ، جڑانوالہ، فیصل آباد

’آیاتِ سجدہ‘ (اگست ۲۰۱۲ئ) ڈاکٹر محمد اقبال خلیل کا مضمون فہم قرآن کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً شانِ نزول کے بیان نے اس مضمون کو ایک نئی خصوصیت عطا کردی ہے۔

 

نظامِ تعلیم سے غفلت

یہ بات مجھے بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اس مملکت کے قیام کے چار ساڑھے چار سال بعد آج تک ہمارے ہاں یہی مسئلہ زیربحث ہے کہ تعلیم کو کس طرح اسلامی سانچوں میں ڈھالا جائے۔ یہ کام تو مملکت کے قیام کے بعد سب سے پہلے کرنے کا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ دنیا میں کوئی مملکت بھی اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک کہ وہ اپنے چلانے والوں کو تربیت دینے کا اور ان کو اپنے مقصد اور اپنے مدعا کے مطابق تیار کرنے کا انتظام نہ کرے۔ اس لحاظ سے حقیقت میں تعلیم کا مسئلہ ایک مملکت کے لیے بنیادی مسائل میں سے ہے، اور یہ ایسی چیز تھی کہ ملک کے قیام کے بعد اس کے سربراہ کاروں کو سب سے پہلے اس کی فکر ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ   چار ساڑھے چار سال کے بعد بھی کوئی آثار ہمیں ایسے نظر نہیں آتے کہ کسی نے نظامِ تعلیم کو   اسلامی سانچوں میں ڈھالنے کے متعلق کچھ بھی سوچا ہو۔ عملی اقدامات تو درکنار، ہمیں سوچنے کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔

بہرحال اب، جب کہ صورتِ حال یہ ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ لوگ آگے بڑھیں اور بڑھ کر ان کو بتائیں کہ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم کس حد تک، کس طرح اور کس کس حیثیت سے ہمارے اُس مقصد کی ضد پڑ رہا ہے جس کے لیے ہماری یہ مملکت قائم ہوئی ہے، اور اس کے ساتھ ان کو یہ بھی بتائیں کہ اگر نظامِ تعلیم کو اس مقصد کے مطابق ڈھالنا ہے تو کس طرح ڈھالا جائے،اس کی عملی صورت کیا ہے اور اس کا نقشہ کیا ہونا چاہیے۔ اسی خدمت کو انجام دینے کے لیے مَیں آپ کے سامنے حاضر ہوا ہوں اور دوسرے جو لوگ بھی اس طرح کی فکر رکھنے والے ہیں    ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اس فرض کو انجام دیں۔(’اسلامی نظامِ تعلیم‘سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۳۹، عدد ۱، محرم ۱۳۷۲ھ، اکتوبر ۱۹۵۲ئ، ص ۵۴)