مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۱۱

یہ ایک المیہ ہے کہ ایک مدت سے پاکستان میں سالانہ بجٹ عوام کے لیے خوشی کا کوئی پیغام لانے سے قاصر رہا ہے۔ بجٹ آنے سے پہلے خوف اور اس کے اعلان کے بعد مایوسی قوم کا مقدر بن گئے ہیں۔ بجٹ سازی کے عمل میں عوام، سول سوسائٹی کے اہم ادارے، حتیٰ کہ معیشت کے ان عناصر کا، جن پر اسے اثرانداز ہونا ہے (stake holders) کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ اور اگر چند نمایشی مشاورتی نشستوں کا تکلف کیا بھی گیا، تب بھی بجٹ پر ان کے نقوش کہیں بھی     نظر نہیں آتے۔ اس سال کا بجٹ بھی غیرمعمولی معاشی حالات کے باوجود، معمول کے مطابق  روایتی کارروائی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ بجٹ محض حکومت کی آمد و خرچ کا ایک میزانیہ نہیں   ہوتا بلکہ وہ دستور کے دیے ہوئے معاشی، سیاسی اور معاشرتی پالیسیوں کے فریم ورک میں اور اربابِ حکومت کے عوام سے کیے ہوئے وعدوں اور ان کی ضروریات اور عزائم کی تکمیل کے لیے جامع پالیسیوں یا ان کے فقدان کا مظہر ہوتا ہے۔ بجٹ اعداد و شمار کا کھیل نہیں ہوتا اور اس کا کام  جمع و تفریق کے ذریعے مالی بیلنس شیٹ کی خانہ پُری بھی نہیں ہوتی۔ حکومت کے اخراجات کی ہرمد اور آمدنی کا ہرذریعہ ایک معاشی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس کے دُوررس اثرات ملک کی معیشت اور عوام کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ بجٹ یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ حکومت کی ایک پورے سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ، اور اس کارکردگی کی روشنی میں اگلے سال بلکہ سالوں کے لیے صحیح منصوبہ بندی کی جائے، مستقبل کے لیے مناسب پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی تشکیل ہو اور ان پر عمل درآمد کے لیے جن مالیاتی وسائل کی ضرورت ہے، ان کی فراہمی اور خرچ کی مدات اور  مقدار کا حقیقت پسندانہ پروگرام قوم اور اس کے نمایندوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کی تائید اور توثیق سے اگلے سال کا تفصیلی پروگرام مرتب کیا جائے۔

  • یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں بجٹ سازی کا عمل چار سے چھے مہینوں پر محیط ہوتا ہے۔ ایک ایک مد پر کھل کر بحث کی جاتی ہے اور جمہوری نقدواحتساب کے ذریعے آخری فیصلے کیے جاتے ہیں اور اس اصول پر سختی سے عمل ہوتا ہے کہ کوئی ٹیکس منتخب نمایندوں اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر عائد نہ کیا جائے اور تمام اخراجات ان حدود کے اندر ہوں جو پارلیمنٹ نے طے کی ہیں۔ ایک وزارت یا پروجیکٹ کے لیے طے شدہ رقوم کے اندر جزوی تبدّل تو انتظامیہ کرسکتی ہے لیکن کوئی نئی تخصیص (appropriation) پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ اس کو no taxation without legislation (قانون سازی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں) کے مشہورِ زمانہ اصول کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پاکستان میں بجٹ سازی کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں پارلیمنٹ میں بمشکل تین ہفتے اور صوبائی اسمبلیوں میں تو ایک ہی ہفتے میں بجٹ پیش ہوکر منظور ہوجاتا ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ اِلاماشاء اللہ بجٹ کے موقعے پر فراہم کی جانے والی دستاویزات کی ورق گردانی کی زحمت بھی نہیں کرتے اور پارٹی کے حکم کے تحت بجٹ منظور کردیتے ہیں۔ عوام اور میڈیا کی آہ و بکا کا کوئی اثر نہ حکومت پر ہوتا ہے اور نہ عوام کے نمایندے ہی عوام کا مقدمہ لڑنے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ یہ بڑی ہی مایوس کن صورت حال ہے جس سے عوام کا اعتماد سیاسی قیادت پر بُری طرح مجروح ہورہا ہے اور ملک و قوم کو معاشی بحران کے گرداب سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔

ملک کے دستور (دفعہ ۸۴) میں ایک اہم سقم یہ ہے کہ حکومت کو بجٹ کے باہر اخراجات کی آزادی بھی حاصل ہے جسے ضمنی گرانٹ کے نام پر ہرسال بجٹ کے موقعے پر سندِجواز دے دی جاتی ہے اور اس طرح حکومت کو پارلیمنٹ اور بجٹ دونوں کا مذاق اُڑانے کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔ اس سال (۲۰۱۱ء-۲۰۱۰ء) بھی بجٹ میں کل حکومتی اخراجات کے لیے ۱۸۹۱؍ارب روپے کی حد مقرر کی گئی تھی مگر حکومت نے اس سے ۳۸۷؍ارب روپے زیادہ خرچ کیے جو بجٹ کا ۴ء۲۰ فی صد بن جاتا ہے۔ یہ اس وقت جب کہ آمدنی کی مد میں جو متوقع رقم رکھی گئی تھی اصل ٹیکس کی آمدنی اس سے ۱۰۰؍ ارب روپے کم ہوئی۔ یہ مالیاتی بے قاعدگی (fiscal indiscipline) کی بدترین مثال ہے اور پارلیمنٹ نے سینیٹ کے انتباہ کے باوجود چند منٹ میں اس اضافی گرانٹ کی منظوری دے دی اور حکومت کا کوئی احتساب نہیں کیا۔

پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو، اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں۔ حکومت نے اپنا چوتھا بجٹ پیش کیا ہے اور توقع تھی کہ اس وقت ملک جس معاشی بحران میں مبتلا ہے، اس بجٹ میں اس سے نکلنے کے لیے کوئی مؤثر اور حقیقت پسند پالیسی اور اس پر عمل کا مکمل نقشۂ کار پیش کیا جائے گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!

پیپلزپارٹی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنے اقتدار کے چاروں ادوار میں کوئی ایسا وزیرخزانہ پسند نہ آیا جو معاشیات پر گہری نظر رکھتا ہو اور ملک کی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاسی نعرے بازی اور نظریاتی شوروغوغا تو بہت تھا مگر افسوس ہے کہ ان ساڑھے پانچ سالوں میں کوئی ٹھوس اور مربوط معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر مبشرحسن نے نظریاتی اعتبار سے چند اقدام کیے لیکن معیشت پر ان کی گرفت نہیں تھی۔ سارا نظام بیوروکریسی کے ہاتھوں میں تھا اور غلام اسحاق خاں، وی اے جعفری اور ایم ایم احمد اصلی کرتا دھرتا تھے۔ محترمہ بے نظیر کے اقتدار کے دونوں ادوار میں وی اے جعفری حالات کے کرتا دھرتا رہے اور احسان الحق پراچہ اور نوید قمر کو مختصر مدت کے لیے  وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری ملی مگر دونوں کوئی ابتدا بھی نہ کرسکے۔ زرداری گیلانی کے تازہ ادوارِ اقتدار میں بھی پارٹی درآمد شدہ وزارے خزانہ کی مرہونِ منت ہے اور پاکستان ورلڈبنک، آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے دیے ہوئے خطوط پر چلنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ رہی سہی کسر امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور مفاد پرست اربابِ اقتدار کی نااہلی، کرپشن اور بے تدبیری نے نکال دی ہے۔ یہ تین ساڑھے تین سال معاشی اعتبار سے بدترین سال رہے ہیں۔ اس عرصے میں چار بار وزیرخزانہ تبدیل ہوئے، چار بار وزارتِ خزانہ کے سیکرٹری اور تین بار اسٹیٹ بنک کے گورنر بدلے۔ معاشی منصوبہ بندی کمیشن میں بھی اُکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی اور معاشی امور سے  متعلقہ نصف درجن وزارتوں میں کوئی ہم آہنگی موجود نہ تھی۔ ہر ایک اپنی چلانے کی کوشش کرتا رہا اور معیشت کا حال بد سے بدتر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ جناب شوکت ترین نے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی اور ملک استحکام کے نام پر معاشی جمود اور اس کے ساتھ افراطِ زر اور بے روزگاری اور غربت میں اضافے کے بھنور میں گرفتار ہوگیا۔

پیپلزپارٹی کے اقتدار کے اس دور میں معاشی ترقی کی رفتار پاکستان کی تاریخ میں پست ترین رہی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ترقی کی رفتار چھے اور سات فی صد تک رہی۔ ۱۹۵۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ سارے نشیب و فراز اور باربار کی امریکی پابندیوں کے باوجود اوسط رفتار ترقی سالانہ پانچ فی صد رہی۔ یہ صورتِ حال پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ میں پہلی بار رونماہوئی ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں اوسط رفتار ترقی ۵ء۲ فی صد رہی ہے جو آبادی میں ۱ء۲ فیصد اضافے کے بعد ترقی کے مفقود ہونے اور حقیقی جمود (stagnation) کی غماز ہے۔ اس پر مستزاد مہنگائی اور افراطِ زر ہے جس کی اوسط شرح ان چار برسوں میں ۱۵ فی صد رہی ہے اور اشیاے خوردونوش کی مہنگائی کا اوسط سالانہ ۱۸فی صد رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان  چار برسوں میں غربت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ وہ افراد جن کی روزانہ آمدنی ۲۵ء۱ ڈالر (۱۰۰روپے) یا اس سے کم ہے، ۲۰۰۰ء میں ۴کروڑ ۷۰ لاکھ تھی جو ۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷کروڑ ۲۰لاکھ ہوگئی ہے یعنی مطلق غربت میں ۲کروڑ ۵۰لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر غربت کی حد (poverty line) کو دو ڈالر یا ۱۷۰روپے یومیہ رکھا جائے تو ۱۸کروڑ کے اس ملک میں ۱۱کروڑ افراد اس کس مپرسی کے عالم میں مبتلا ہیں۔ ملک میں عدم مساوات میں دن دونا اوررات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف امیرطبقہ ہے جو امیرتر ہورہا ہے۔ آبادی کا ایک فی صد ہرمہینہ اوسطاً پانچ لاکھ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ اُوپر کا ۱۰ فی صد ۵۰ ہزار ماہانہ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ دوسری طرف آبادی کا وہ ۱۰ فی صد ہے جو معیشت کے پست ترین درجے میں ہے، اس کی ماہانہ آمدنی ۲۰۰۷ روپے یا اس سے بھی کم ہے۔ ان چار برسوں میں کھانے پینے کی اشیامیں اوسط اضافہ ۷۴ فی صد ہوا ہے اور بے روزگاری میں بھی ۲۰فی صد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ بجلی اور گیس کی قلت اور مہنگائی نے حالات کو اور بھی خراب کردیا ہے۔ زراعت اور بڑی صنعت میں ترقی کی رفتار یا منفی رہی ہے یا براے نام اضافہ ہوا ہے۔

Pew ریسرچ سنٹر نے راے عامہ کا جو جائزہ ۲۱جون ۲۰۱۱ء کو شائع کیا ہے، اس کی رُو سے آبادی کے ۹۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ملک غلط سمت میں جارہا ہے اور ۸۵فی صد نے کہا ہے ملک کی معاشی حالت خراب اور ناقابلِ برداشت ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن یہ امرہے کہ آبادی کا ۶۰فی صد مستقبل میں بھی معاشی حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں رکھتا۔آبادی کے ۹۷ فی صد کی نگاہ میں سب سے اہم مسئلہ مہنگائی اور۸۹ فی صد روزگار کے مواقع کے فقدان کو قراردیتا ہے۔ جرائم کے فروغ اور دہشت گردی کے اضافے میں دوسرے اسباب کے ساتھ ان معاشی حالات کا بھی اہم حصہ ہے۔ اس ملک کی تاریخ میں غربت اور افلاس تو ماضی میں بھی رہے ہیں، لیکن یہ کیفیت کبھی نہ ہوئی تھی کہ غربت کی وجہ سے اس بڑی تعداد میں لوگ خودکشی کے مرتکب ہوں، اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں ہلاک کر دیں یا سرعام ان کو بیچنے پر مجبور ہوجائیں۔ ایک طرف حالات کی یہ سنگینی ہے اور دوسری طرف اربابِ اقتدار کا یہ حال ان کے عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں۔ ان کی شہ خرچیاں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بدعنوانی، کرپشن اور قومی دولت کے غلط استعمال کا بازار گرم ہے۔ تعجب ہے کہ جب آبادی کے ۷۵ فی صد کی یومیہ آمدنی ۱۷۰ روپے یا اس سے کم ہے صرف     ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کا روزانہ خرچ ۲۵ لاکھ روپے ہے۔ اور صرف صدر اور وزیراعظم کے بیرونی دوروں پر خرچ ہونے والی رقم ۲؍ارب روپے ہے___ یعنی روزانہ ۵۵لاکھ روپے۔

ایک طرف عوام کی یہ حالت زار ہے اور دوسری طرف قومی خزانے کو کس طرح لوٹا جارہا ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ورلڈبنک کے اندازوں کے مطابق ٹیکسوں کی چوری سالانہ ۱۰۰۰؍ ارب روپے سے ۱۲۰۰؍ ارب روپے ہے۔ ایف بی آر کے حساب سے جو ٹیکس ادا ہورہا ہے اس کا ۷۹ فی صد چوری ہو رہا ہے۔ ورلڈبنک کے مطابق یہ تناسب ۶۹ فی صد ہے۔ اگر صرف اس ٹیکس چوری کا ۵۰ فی صد وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔

زندگی کے ہرشعبے میں کرپشن کا راج ہے۔ ورلڈبنک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اندازے کے مطابق ۳۰۰؍ارب روپے سے ۶۰۰؍ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں۔ ناقص کارکردگی اور ضیاع (leakages) ان پر مستزاد ہیں۔ حالات ابتری کی کس انتہا پر ہیں، اس کااندازہ    اس سے کیجیے کہ اے جی پی آر کی سرکاری رپورٹ کے مطابق اس حکومت کے پہلے سال میں صرف کھلی کھلی بے قاعدگیوں کے نتیجے میں ۳۳۰؍ارب روپے کے وہ اخراجات ہوئے ہیں جن کا کوئی جواز نہ تھا۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تقریباً سارے ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ ان کی نااہلی اور بدعنوانی کے نتیجے میں سرکاری خزانے سے ۴۰۰ سے ۶۰۰؍ارب روپے عام آدمی کا پیٹ کاٹ کر ان کو دیے جارہے ہیں۔ وزارتِ قانون نے کسی قانونی استحقاق کے بغیر کروڑوں روپے اپنی من پسند بار ایسوسی ایشنوں کو بانٹ دیے، صرف ایک وزارت نے ۳؍ارب روپے خفیہ فنڈ کے نام پر اُڑا دیے۔ ترقیاتی منصوبوں میں ۳۰ فی صد ایسے ہیں جن کو مشکوک قراردیا گیا ہے۔ ورلڈبنک نالاں ہے کہ جس پروجیکٹ کو ۳۴ ماہ میں پورا ہونا چاہیے وہ ۶۸مہینے لے رہا ہے۔ پروجیکٹ کی لاگت میں ۱۰۰فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ پلاننگ کمیشن اور  قومی معاشی کونسل کی معاشی کمیٹی (ECNEC) کی بے تدبیری کا یہ حال ہے کہ اس اعلیٰ ترین معاشی ادارے نے جو منصوبے منظور کیے ہیں ان میں سے ۸ء۲۷ فی صد ایسے ہیں جن کو منظور کردیا گیا ہے مگر ان کی کوئی تفصیلی رپورٹ موجود نہیں ہے۔ بس خانہ پُری کے لیے اعلان کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں منصوبے ایسے ہیں جن میں اربوں روپے صرف ہوگئے ہیں لیکن عملاً ان منصوبوں کے کبھی بھی   پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔

بجٹ اور زمینی معاشی حقائق میں کوئی ربط و تعلق نہیں۔ حکومت کی گرفت نہ معاشی زمینی حقائق پر ہے اور نہ اس کے پاس معاشی تشکیلِ نو کا کوئی واضح اور مربوط وژن ہے۔ المیہ یہ ہے کہ

رو ہیں رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

سالِ گذشتہ کے بجٹ میں جو متعین اہداف بیان کیے گئے تھے، ان میں سے تقریباً ہر ایک کے بارے میں موجودہ بجٹ اور بجٹ کے ساتھ پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق وہ پورے نہیں ہوئے۔ معاشی ترقی کی رفتار، زرعی اور صنعتی پیداوار، روزگار کے مواقع، افراطِ زر کی شرح، ٹیکس کی آمدنی، بجٹ خسارے کی مقدار ___کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کا ہدف ۵ء۴ فی صد تھا جو صرف ۴ء۲ فی صد پر رک گئی ہے۔ آزاد معاشی ماہرین کی راے میں عملاً یہ ایک فی صد سے زیادہ نہیں۔ افراطِ زر کو ۹ فی صد پر لانے کا دعویٰ تھا مگر عملاً وہ ۱۴ فی صد سے زیادہ ہے، یعنی صارفین کا قیمتوں کا اشاریہ لیکن اگر تھوک قیمتوں کے اشاریے کو لیا جائے تو    وہ ۲۹ء۲۳ فی صد تھا۔ GDP تقلیلِ زر ۱۹ فی صد ہے جو افراطِ زر کو ناپنے کا ایک بہتر ذریعہ ہے۔ نتیجتاً ملک اس معاشی بیماری میں شدت سے مبتلا ہے جسے stagflationکہا جاتا ہے، یعنی ایک طرف معیشت میں جمود ہے تو دوسری طرف اس کے ساتھ افراطِ زر بھی عروج پر ہے اور اس طرح    ایک کریلا وہ بھی نیم چڑھا کی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔

حکومت کے اخراجات بے قابوگئے ہیں۔ ۹۹-۱۹۹۸ء میں حکومت کے کل غیرترقیاتی اخراجات ۵۴۷؍ارب روپے تھے جو ۱۱-۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۱۸۹۱؍ارب روپے ہوگئے اور آیندہ سال یعنی ۱۲-۲۰۱۱ء میں مزید بڑھ کر ۲۳۱۵؍ارب روپے ہوجائیںگے۔ جن میں صرف قرضوں پر سود اور ناگزیر قسطوں کی ادایگی کے لیے سالِ رواں میں ۷۹۱؍ارب روپے صرف ہوجائیں گے۔ دفاع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اتنی ہی رقم مزید درکار ہوگی یعنی تقریباً ۸۰۰؍ارب۔ حکومت کے انتظامی اخراجات کے لیے بجٹ کا بمشکل ۱۰ فی صد میسر ہوگا جس کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں کی ادایگی کے بعد شاہ خرچیوں کی نذر ہوگا، کاروبار مملکت چلانے کے لیے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر انحصار ہوگا۔ یہی وجہ ہے سارا نظام ’قرض کی مئے‘ کے سہارے چل رہا ہے اور اس غریب قوم پرقرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گذشتہ ۶۰برسوں میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا کُل حجم ۴۷۰۰؍ا رب روپے تھا جو ان چار برسوں میں بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے کی حدوں کو پھلانگ گیاہے۔ یعنی صرف ان چار برسوں میں گذشتہ ۶۰سال میں لیے جانے والے ۴۷۰۰؍ارب روپے کے قرض میں ۵۰۰۰؍ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوگیاہے۔ اگر یہی طورطریقے جاری رہے تو خطرہ ہے کہ اگلے سال اس میں مزید ایک سے ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس لیے کہ اندازے کے مطابق اگلے مالی سال میں صرف بجٹ کا خسارہ    ایک ہزار ارب روپے سے کم نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے خسارے کی جو رقم   کم دکھائی گئی ہے خسارے کا اس کی حدود میں رہنا ناممکن ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے خسارے کو کم رکھنے کی وجہ یہ توقع ہے کہ صوبوں میں ۱۲۵؍ارب روپے زائد (surplus) ہوں گے لیکن اگلے سال کے لیے چاروں صوبوں کا بجٹ آگیا ہے اور ان میں مجموعی بچت بمشکل ایک ارب روپے بنتی ہے۔ باقی ۱۲۴؍ارب روپے کہاں سے آئیںگے؟

مرکزی حکومت کو مرکزی بنک اور کمرشل بنکوں سے قرض لینا ہوگا۔ بہت سے مصارف کم اور بہت سی آمدنی رقوم کو قابلِ وصول حد سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔ مثلاً اسٹیٹ بنک سے نفع کو ۱۲۰۰؍ارب دکھایا گیا ہے جو ۱۶۰؍ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ٹیکس کے ہدف کے بارے میں بھی معاشی ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس میں ۱۰۰؍ارب زیادہ لگائے گئے ہیں۔ یہی صورت    تین جی لائسنسوں کے سلسلے میں ہے جس سے ۷۵؍ارب کی متوقع آمدنی رکھی گئی ہے لیکن اس کی وصولیابی مشتبہ ہے۔ اس کے برعکس معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سے اخراجات ہیں جن کو  کم لگایا گیا ہے اور خطرہ ہے کہ جس طرح ۱۱-۲۰۱۰ء میں اضافی اخراجات ۳۸۷؍ارب روپے کے ہوئے آیندہ سال بھی بجٹ میں دکھائے ہوئے اخراجات سے ۲۵۰ سے ۳۵۰؍ارب روپے کے اخراجات زیادہ ہوںگے۔ جس راستے پر موجودہ حکومت گام زن ہے، وہ تباہی کا راستہ ہے۔ فارن پالیسی میگزین نے ناکام ریاستوں کاجو گوشوارہ اسی مہینے شائع کیا ہے، اس میں اس نے دنیا کے ۱۷۲ممالک میں پاکستان کو نیچے سے ۱۲ویں نمبر پر رکھا ہے۔ ملکوں کی درجہ بندی کے تمام ہی ادارے بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت کی درجہ بندی برابر کم کررہے ہیں۔ بیرونی سرمایے کی آمد رُک گئی ہے بلکہ ملکی سرمایہ باہر جا رہا ہے حتیٰ کہ پاکستانی صنعت کار بنگلہ دیش اور دبئی کا رُخ کر رہے ہیں اور اربابِ حکومت کو ان حالات کا کوئی ادراک نہیں۔

معاشی میدان کے بڑے چیلنج

اس وقت معاشی میدان میں جو سب سے بڑے چیلنج درپیش ہیں وہ یہ ہیں:

۱- غربت اور اس میں مسلسل اضافے کا رجحان

۲- معاشی ترقی کی رفتار کا ٹھٹھر جانا، جس کا مظہر سرمایہ کاری میں کمی، صنعت اور زراعت میں جمود، روزگار کے مواقع کا مسدود ہوجانا، اور بے روزگاری میں اضافہ ہے۔

۳-مہنگائی اور وہ بھی ہوش ربا مہنگائی۔

۴- مالیاتی بے قاعدگی جس کے نتیجے میں اخراجات اور وہ بھی غیرترقیاتی اخراجات میں بے پناہ اضافہ اور حکومت کے ترقیاتی مصارف میں کمی۔ یہ مصارف ۱۰، ۱۵ سال پہلے قومی پیداوار کا ۷فی صد ہوا کرتے تھے اور اب ۳فی صد سے بھی کم ہوگئے ہیں۔ غیرترقیاتی اخراجات میں اضافے کے ساتھ، قرض کے بار میں اضافہ اور ٹیکس اور دوسری آمدنیوں میں خاطرخواہ اضافے کی کمی ہوئی جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جسے Fiscal Responsibility Act کہتے ہیں، اس کی رُو سے نہ صرف حکومتی خسارے کو ایک حد میں رہناتھا بلکہ ہرسال اس میں اڑھائی فی صد کمی کرنی تھی اور ۲۰۱۳ء تک بجٹ کے خسارے کو ختم کرنا تھا۔ حکومت نے ان چار برسوں میں اس قانون کے الفاظ اور روح، دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور آج مالیاتی خسارہ معیشت کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے۔

۵- بیرونی قرضوں میں اضافہ اور عالمی سطح پر ملک کو مریضانہ حد تک محتاجی سے دوچار کردینا۔ اگلے سال سے آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادایگی بھی شروع ہونا ہے۔ اس وقت ۷سے ۸؍ارب ڈالر سالانہ قرض ادایگی کی نذر کرنا پڑرہے ہیں اور قرض کی یہ ادایگی بھی نئے قرض سے کرناپڑرہی ہے۔اگربیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر جو اَب ۱۰ سے ۱۲؍ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہیں، نہ ہوتیں تو ہمارے زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر ختم ہوچکے ہوتے اور ملک خدانخواستہ دیوالیہ ہوجاتا۔ اس خطرناک صورت حال کا حکومت کو کوئی اِدراک نہیں اور اس کے مقابلے کے لیے کوئی حکمت عملی اس بجٹ میں موجودنہیں۔

۶- ملکی معیشت میں ایک اور عدم توازن حقیقی پیداوار یعنی زراعت، صنعت (بڑی، وسطی اور چھوٹی) اور توانائی سیکٹر کا سکڑجانا اور صارفین سیکٹر اور خدمات سیکٹر کا پھیلائو ہے۔یہ عدم توازن شوکت عزیز صاحب کے زمانے میں شروع ہوا اور اب خطرناک حدود میں داخل ہوچکا ہے۔ لیکن بجٹ میں اس عدم توازن کو دُور کرنے اور پیداواری سیکٹر کو فروغ دینے کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔

۷- ایک اور بنیادی مسئلہ دولت کی عدم مساوات اور اس میں مسلسل اضافہ، اور ٹیکسوں کا ایسا نظام ہے جس کا بوجھ امیرطبقات کے مقابلے میں غریبوں پرزیادہ پڑرہا ہے۔ ٹیکس کا ۶۲ فی صد بالواسطہ ٹیکس ہے جس کا بڑا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۷۵ فی صد غریب آبادی کو اپنی آمدنی کا ۱۰ فی صد ٹیکس میں دینا پڑ رہا ہے، جب کہ امیرطبقے کی آمدنی پر بلاواسطہ ٹیکس کا جو بوجھ ہے، وہ ان کی آمدنی کا بمشکل پانچ فی صد بنتا ہے۔ نیز امیر طبقوں کے کئی اہم حصے ایسے ہیں جو عملاً ٹیکس کے جال سے باہر ہیں۔ خاص طور پر بڑے زمین دار جن کی آمدنی میں صرف گندم کی قیمت بڑھانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے کا سالانہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ ان کی آمدنی ٹیکس کی گرفت سے باہر ہے۔ غضب ہے کہ صوبوں نے جو براے نام ٹیکس بڑے زمین داروں پر لگایا ہے، اس سے نہ صرف یہ کہ پورے ملک سے بمشکل ایک ڈیڑھ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں بلکہ سندھ میں تازہ بجٹ کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس مد سے آمدنی ۵۰۰ ملین روپے ہورہی تھی جو اس سال کم ہوکر ۱۵۰ ملین روپے رہ گئی ہے۔ یہی حال ملک کی خریدوفروخت، اسٹاک ایکسچینج کے تاجروں اور بڑے بڑے پیشوں سے متعلق افراد کا ہے جن میں وکیل، ڈاکٹر، مشیر، اکائونٹنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نظام ملک کی دولت کی عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے۔ امیرامیر تر ہو رہا ہے اور غریب پر محصولات اور افراطِ زر دونوں کی وجہ سے بوجھ بڑھ رہا ہے۔

۸- کرپشن ایک ناسور کی طرح معیشت کے ہرشعبے کو کھارہا ہے اور صدرسے معمولی اہل کار تک ہرکوئی اس بگاڑ میں شامل ہے۔ آج پاکستان دنیا کے ۱۰ کرپٹ ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہہ یہ نظام کی خرابی ہے مگر اس بگاڑ کو اپنی انتہا تک پہنچانے میں تین چیزوں کا خاص دخل ہے: ایک قیادت کا اپنا کردار اور مثال، دوسرا انتظامی امور میں صواب دیدی راے کا عمل دخل اور تیسرے ملک میں احتساب کے مؤثر اور شفاف نظام کا فقدان۔

غضب ہے کہ نیب کا ادارہ عضو معطل بنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود احتساب کے نظام کو  فعال کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ ستم بالاے ستم کہ قومی اسمبلی میں احتساب کے قانون کا مسودہ دواڑھائی سال سے زیرغور ہے لیکن مفاد پرست عناصر اس کوقانون نہیں بننے دیتے۔ کرپشن کو سختی سے ختم کیے بغیر ملک کے لیے معاشی دلدل اور ظلم اور ناانصافی کے چنگل سے نکلنا محال ہے۔ کرپشن ہی کی ایک شکل میرٹ کا خون ہے۔ موجودہ حکومت کا ریکارڈ   اس سلسلے میں سب سے خراب ہے۔ اس نے جس طرح سیاسی اور شخصی مقاصد کے لیے نااہل لوگوں کو ذمہ داری کے مناصب پر لگایاہے اور عدالت، میڈیا اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے علی الرغم ہرجگہ اپنی من مانی کی ہے، اس نے انتظامی مشینری، فیصلہ سازی کے نظام اور شعبہ انتظامیات کے پورے دروبست کو تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں قانون اور ضوابط کے مطابق خالص میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہورہی ہوں۔ اس سے انتظامی مشینری کی چولیں ہل گئی ہیں اور حکومت کے نظام میں ہر جگہ نااہلی اور بدعنوانی اور بددیانتی کا بازار گرم ہے۔ حالات پہلے بھی بہت اچھے نہ تھے مگر زرداری گیلانی دور کے بارے میں تو یہ خرابیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔

۹- پبلک سیکٹر کے تقریباً تمام ہی اہم کاروباری ادارے آج خسارے میں جارہے ہیں اور ان کو زندہ رکھنے کے لیے سرکاری خزانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنا پڑر ہے ہیں جو صریح ظلم ہے۔ اس کی وجہ سے وہ شعبہ ہاے زندگی سب سے زیادہ وسائل سے محروم ہورہے ہیں جن پر کسی ملک کے مستقبل اور خوش حال فلاحی معاشرے کا قیام اور فروغ ممکن ہے۔ یعنی تعلیم، صحت اور فنی ضرورتوں کی روشنی میںانفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ۔ ۱۵سال پہلے تعلیم پر کُل قومی دولت کا اڑھائی فی صد صرف ہو رہاتھا اور اسے چارفی صدتک لے جانے کی کوشش ہورہی تھی۔ مگر اب یہ کم ہوکر۸ء۱ فی صد رہ گیاہے۔ صحت پر اخراجات کا یہ تناسب ۸ء فیصد تھا جو اب کم ہوکر ۶ء فی صدرہ گیا ہے، جب کہ تعلیم پر قومی دولت کا کم از کم چارسے چھے فی صد اور صحت پر دو سے تین فی صد صرف ہونا چاہیے۔ سندھ کے بارے میں ایک تازہ ترین سروے کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ وہاں ۴۲ہزار اسکولوں میں صرف ۷ہزار ایسے ہیں جو حقیقت میں برسرِکار (functional ) ہیں ورنہ ایک نمایاں تعداد بھوت اسکولوں کی ہے جن کا کوئی وجود نہیں۔ ان اسکولوں کا ۷۰ فیصد ایسا ہے کہ وہاں صرف ایک کمرہ اور ایک استاد ہے اور ایک کلاس میں طلبہ کی اوسط تعداد صرف سات ہے۔ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔

خارجہ پالیسی اور معیشت

ملک کی معاشی حالت کو جن نکات میں ہم نے اُوپر بیان کیا ہے، وہ ایسے ہیں کہ انسان کا دن کا چین اور رات کا آرام مشکل ہوجاتا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ قیادت کو ان کا کوئی احساس نہیں۔ وژن، دیانت اور صلاحیت ہر ایک کا فقدان ہے۔ عوام نے جو توقعات ان سے وابستہ کی تھیں اور جس حکمرانی اور جمہوری انداز میں ملک کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ان کو سونپی تھی، اس کو انھوں نے بُری طرح پامال کیا ہے۔ ان کی اپنی نااہلی کے ساتھ ان کی خارجہ پالیسی بھی معاشی حالات کو دگرگوں کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکا دہشت گردی کے نام پر جو کھیل کھیل رہا ہے وہ سب کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔

امریکا کے اپنے عالمی عزائم ہیں اور وہ ان کے حصول کے لیے اس جنگ کو نت نئے رنگ میں آگے بڑھا رہا ہے حالانکہ خود اسے ان ۱۰برسوں میں ۵ سے ۶ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ صرف افغانستان میں ۱۰۰؍ارب ڈالر جنگ کی آگ میںجھونک رہا ہے اور کسی ایک میدان میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہورہی اور بالآخر اب جولائی ۲۰۱۱ء سے انخلا کی حکمت عملی پر عمل شروع کر رہا ہے۔ اس کے بعد اب پاکستان کو میدانِ جنگ  میں تبدیل کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس سال کے معاشی سروے میں حکومت نے خود اس معاشی قیمت کا ایک اندازہ پیش کیا ہے جو پاکستان کو امریکا کی جنگ میں شرکت کی وجہ سے برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی قوم نے پہلے دن سے اسے اپنی جنگ نہیں سمجھا اور Pew کا جو تازہ سروے آیاہے اس کی رُو سے پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد امریکا کی اس جنگ کے خلاف ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے، جب کہ اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ۳۵ہزارپاکستانی عوام شہید ہوئے ہیں اور۶ہزار پاکستانی فوجی اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد لقمۂ اجل بنے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ اور بے گھر ہونے والے ۵۰لاکھ سے زیادہ ہیں۔ یہ تو وہ نقصانات ہیں جن کا روپوں اور ڈالروں میں کوئی اندازہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن جونقصانات بلاواسطہ اور بالواسطہ خالص معاشی میدان میں اُٹھانے پڑر ہے ہیں، ان کا اندازہ بھی ۶۸بلین ڈالر ہے جو پاکستانی روپوں میں ۸ء۵۰۳۶؍ ارب روپے ہوجاتا ہے جو اس نام نہاد امریکی امداد سے جو ان ۱۰برسوں میں کسی بھی شکل میں بشمول پاکستان کی فوجی خدمات کے عوض دی گئی ہیں پانچ گنا زیادہ ہے۔ یعنی اس جنگ میں جو امریکا کے ہر ایک ڈالر کے مقابلہ میں پاکستان کے غریب عوام نے پانچ ڈالر کا بوجھ اُٹھایا ہے۔ یہ صرف معاشی پہلو ہے____ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو جو نقصان پہنچا ہے اور جو انسانی تباہی و بربادی ہوئی ہے وہ اس کے سوا ہے۔

نکلنے کا راستہ

سوال یہ ہے کہ ان حالات سے نکلنے کاراستہ کیا ہے؟ بات بہت واضح ہے کہ پاکستانی قوم اور قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا اور اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا کی اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جلد از جلد نکلنا اور جو تباہی اس کی وجہ سے پاکستان میں ہوئی ہے کم از کم    اس سے بچنے کا آغاز۔

لیکن دوسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں کہاں جانا ہے، ہمارے اپنے قومی مفادات کیا ہیں، ہمیں کس قسم کی معیشت قائم کرنی ہے اور پاکستان کی شناخت اور اس کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی منزل کا صحیح صحیح تعین___ اور پھر اس کی روشنی میں پوری معاشی پالیسی، معاشی منصوبہ بندی اور بجٹ سازی کی نئی راہ کا تعین، گویا امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور پاک امریکی تعلقات کے موجودہ انتظام سے اپنے کو علیحدہ کرنا اور بالکل نئے اہداف اور مقاصد کے مطابق امریکا سے شرائط معاملہ (terms of engagment)کو ازسرِنو مرتب کرنا اور اسی طرح پاکستان کے تاریخی اور قومی مفادات کی روشنی میں معاشی حکمت عملی کی تشکیلِ نو۔

پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جو مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود آج غربت، بے روزگاری، مہنگائی، توانائی کے بحران اور قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کی اصل وجہ اس وژن کوبھول جانا ہے جس نے تحریکِ پاکستان کو جنم دیا تھا اور مقصد سے بے وفائی جس کے لیے ملتِ اسلامیہ پاک و ہند نے قائداعظم کی رہنمائی میں عظیم قربانیاں دے کر یہ خطۂ زمین حاصل کیا تھا۔ اس کی دوسری وجہ اچھی قیادت کا فقدان، یا بہ الفاظ صحیح تر، ملک پر ایک ایسی قیادت کا غلبہ جو وژن، دیانت اور صلاحیت سے محروم ہے اور جس کے سامنے اپنے ذاتی مفادات کے سوا کوئی اور مقصد نہیں۔ وژن اور منزلِ مقصود کے باب میں مثالی نمونے کی تبدیلی (paradigm shift) اور اس کے ساتھ انقلابِ قیادت جس کے نتیجے میں ایسے لوگ برسرِاقتدار لائے جاسکیں جو پاکستان کے مقصدِ وجود سے وفادار ہوں، جودیانت اور اعلیٰ صلاحیت کا نمونہ ہوں، جو عوام میںسے ہوں اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوں اور سب سے بڑھ کر جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور اطاعت کا رشتہ رکھتے ہوں اور ان کے سامنے اپنے کو جواب دہ سمجھتے ہوں۔ صحیح وژن اور اہل قیادت___ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی ممکن ہے۔

استخلاف وہ بنیادی تصور ہے جس کے گرد زمین پر اسلام کے کردار اور اُمت مسلمہ کی اصل ذمہ داری کو سمجھا جاسکتا ہے۔ استخلاف کے تومعنی ہی یہ ہیں کہ مسلمان اللہ کے بندے کی حیثیت سے زندگی کے پورے نقشے کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ڈھالنے کی ہمہ گیر کوشش کرے اور انصاف کی بنیاد پر اجتماعی نظام قائم کرے۔ حضرت یوسف ؑکے اسوے سے یہ سبق ملتا ہے کہ خوش حالی کے سات سال اور خشک سالی کے سات سال زندگی کی حقیقت ہیں اورفراستِ نبوی کا تقاضا ہے کہ معاملات کو اس طرح انجام دیا جائے کہ خوش حالی کے ثمرات کو خشک سالی کے اَدوار تک پہنچایا جاسکے۔ اس کے لیے حکمت اور امانت دونوں درکار ہیں۔ استخلاف کی ذمہ داری اختیار، اقتدار اور وسائل کے صحیح استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں جو معاشی نظام قائم کیا اس میں محنت اور جدوجہد اور وسائل کی ترقی اور ان کا صحیح استعمال، ان کی منصفانہ تقسیم اور ان کے درست انتظام کے نتیجے میں خوش حالی، منصفانہ اور طاقت ور معاشرے کاقیام ہے، جس کی بنیادی خصوصیت حلال و حرام کے احترام کے ساتھ انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام اور آزادی اور اخوت کا ایسا ماحول قائم کرنا ہے جس میںہرفرد بحیثیت خلیفہ اپنا کردار ادا کرسکے اور کوئی کسی کا محتاج نہ ہو۔ اقبال نے اسی انقلابی تصور کو دو مصرعوں میں اس طرح ادا کردیا ہے   ؎

کس نہ باشد در جہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبیں، این است و بس

اقبال نے قائداعظم کو ملّتِ اسلامیہ ہند کی جس جدوجہد کی قیادت کی دعوت دی تھی اس کا اظہار انھوں نے اپنے ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں بڑے واضح الفاظ میں یوں کیا تھا:

ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی عمومی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کبھی غوروفکر نہیں کیا۔ روزگار کا مسئلہ زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گذشتہ ۲۰۰برسوں سے نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں۔عام طور پر وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی غربت کا سبب ہندو مہاجنی یا سرمایہ داری ہے۔ انھیں یہ شعور نہیں ہے کہ یہ بیرونی حکمرانی کا نتیجہ ہے لیکن انھیں جلد یہ ادراک ہوکر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کے بے خدا سوشلزم کو مسلمانوں کی طرف سے زیادہ پذیرائی نہیں ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کس طرح حل ہو؟ اور لیگ کے مستقبل کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ وہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرتی ہے۔

خوش قسمتی سے اس مسئلے کا حل اسلامی قانون کے نفاذ میں ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو مناسب انداز میں سمجھا اور نافذ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ہرایک کا روزگار کا حق محفوظ ہوجائے گا۔ لیکن اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد اسلامی ریاست یا ریاستوں کے بغیر ممکن نہیں۔

قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تیرھویں اجلاس میں جو دہلی میں ۲۴جولائی ۱۹۴۳ء میں منعقد ہوا تھا پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو ان الفاظ میں اور بڑے جذبات سے اداکیا:

یہاں میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کروں گا جو ہمارے وسائل کے بل پر پھلے پھولے ہیں۔  عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اسلام کا سبق بھول چکے ہیں۔ آپ دیہی علاقے میں کہیں بھی چلے جائیں میں خود دیہاتوں میں گیا ہوں۔ ہمارے لکھوکھا لوگ ہیں جنھیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ملتی ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا یہ پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال کیا جاچکا ہے اور انھیں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ اگر یہ پاکستان کا تصور ہے، تو یہ میرے پیش نظر نہیں ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ء ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:

اپنے ملک میں صنعت کاری کے ذریعے ہم اشیاے صرف کی فراہمی کے لیے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے، لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیںگے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کریں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص ۳۷۳)

اور یکم جولائی ۱۹۴۸ء بنک دولت پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

حکومتِ پاکستان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کردے جو تیار کنندہ اور صارف دونوں کے لیے منصفانہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ اس اہم مسئلہ کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کے لیے آپ کی مساعی بھی اس جہت کا لحاظ رکھیں گی۔

آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، میں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیداکردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے..... مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگاجس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ (ایضاً، ص ۵۰۰-۵۰۱)

یہ ہے پاکستان کا اصل وژن۔

دستور کی روشنی میں

۱۹۷۳ء کے دستور میں اس وژن کو اس طرح پاکستان کے اساسی قانون کا حصہ اور حکومت کے لیے پالیسی سازی کے لیے واضح ہدایت مقرر کیا گیا ہے:

دفعہ ۳ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(ا) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا ، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کااہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ (عشر) اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

دفعہ (۳۷)

(ا) پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔

(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔

(ج) فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی۔

(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔

(ہ) منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے لیے نامناسب ہوں، مقرر کرنے کے لیے احکام وضع کرے گی۔

(و) مختلف علاقوں کے افراد کو، تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہرقسم کی قومی سرگرمیوں میں، جن میں ملازمت پاکستان میں خدمت بھی شامل ہے، پورا پورا حصہ لے سکیں۔

(ز) عصمت فروشی، قمار بازی اور ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشرواشاعت اور نمایش کی روک تھام کرے گی۔

(ح) نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سواے اس کے کہ وہ طبی اغراض کے لیے یا غیرمسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کے لیے ہو، روک تھام کرے گی، اور

(ط) نظم ونسق حکومت کی مرکزیت دُور کرے گی تاکہ عوام کو سہولت بہم پہنچانے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے کام کے مستعد تصفیہ میں آسانی پیدا ہو۔

دفعہ ۳۸- مملکت

(ا) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کر کے، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر وماجور اور زمین دار و مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی۔

(ب) تمام شہریوں کے لیے، ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام و فرصت کے ساتھکام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔

(ج) پاکستان کی ملازمت میں، یا بصورتِ دیگر تمام ملازم اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمے کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔

(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہایش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی۔

(ہ) پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت، افراد کی آمدنی اورکمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی اور

(و) ربا کو جتنی جلد ممکن ہو، ختم کرے گی۔

معیشت کی اسلامی تشکیل

اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور دستورِ پاکستان میں وہ وژن بہت صاف الفاظ میں موجود ہے جو پاکستان کے معاشی، مالیاتی اور تہذیبی نظام کے خدوخال متعین کرتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری قیادت ان تمام ہدایات اور اہداف کو نظرانداز کر رہی ہے اور قوم کو ایک بحران کے اور دوسرے بحران سے دوچارکر رہی ہے۔ اسلام نے پہلے دن سے تمام معاشی وسائل کو امانت قراردیا ہے اور قیادت اور عامۃ المسلمین پر لازم کیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل انسانی محنت کے ساتھ تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوں۔ بیت المال کا ادارہ دورِخلافتِ راشدہ ہی میں قائم ہوگیا تھا اور اس کا مقصد نظامِ حکومت چلانے کے لیے جو وسائل درکار ہیں ان کے حصول اور استعمال کے ساتھ معاشرے میں خوش حالی اور فلاحِ عامہ کے لیے وسائل کا صحیح صحیح استعمال یقینی بنایا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے بیت المال کے دو شعبے قائم کیے گئے___ ایک کا تعلق ’اموال المسلمین‘ سے تھا، تودوسرے کو ’اموال الصدقہ‘ قرار دیا گیا تاکہ تمام اجتماعی اور فلاحی ضرورتیں پوری ہوسکیں گی۔ ملوکیت میں خزانہ بادشاہ کی مرضی کے تابع ہوتا تھا اور حکمران کے ذاتی اموال اور عوام کے اموال میں کوئی تمیز نہ تھی۔ لیکن اسلام نے اس کو بیت المال کا مالک نہیں امین بنایا اور دورِ ملوکیت میں بھی بیت المال الخاصّہ جو خلیفہ کے ذاتی تصرف میں ہوتا تھا، اور بیت المال المسلمین جو تمام مسلمانوں کے لیے تھا، میں واضح فرق کیا جاتا تھا۔ دولت عثمانیہ تک یہ فرق نظام کاحصہ تھا۔

ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی معیشت کی تنظیم نو اسلامی بنیادوں پر کی جائے اور دیانت اور اہلیت کے ساتھ جو وسائل اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیے ہیں ان کوترقی دی جائے اور استعمال کیا جائے تو پاکستان چند برسوں میں دنیاکے لیے نمونہ بن سکتاہے۔ ہمیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس وہ وسائل موجود ہیں جن کو دیانت اور    سمجھ داری سے ترقی دے کر پاکستان کو ایک خوش حال فلاحی معاشرہ بنایا جاسکتا ہے اور ایک ایسے نظام کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتاہے جو ترقی اور خوش حالی کا ایسا نمونہ جس میں کوئی کسی کا محتاج نہ ہواور سب ایک دوسرے کے لیے تقویت کا ذریعہ بنیں۔ ترقی کا یہ راستہ خودانحصاری اورانصاف کے قیام سے عبارت ہے اور یہی ہمارے لیے نجات کی راہ ہے۔

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴) اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔

معاش اور معیشت کا لفظ عربی زبان کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی مستعمل ہے۔ عربی لغت میں یہ لفظ عاش، یعیش سے زندگی گزارنے کے لیے اور جینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ضنکاً کا لفظ تنگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں: ضَنُکَ عیشہٗ کا مطلب ہے اُس کی معیشت تنگ ہوگئی (ج ۲،ص ۶۲۰)۔ معیشت کی تنگی کا  یہ لفظ جب اُردو میں استعمال ہو تو اس کا ایک بھرپور مفہوم انسانی ذہن میں آتا ہے۔ ظاہری طور پر عسرت اور تنگی، اور اطمینانِ قلب اور سکینت کی دولت کا حاصل نہ ہونا بھی اس کا مفہوم ہے۔

حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر ابن کثیر میں فرماتے ہیں: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ،یعنی جو میرے احکام اور میرے رسول پر نازل کردہ احکام کی مخالفت کرے، اس سے اعراض کرے اور اسے بھلا دے اور کسی اور کے طریقۂ زندگی کو اختیار کرے، تو اُس کی معیشت تنگ ہوجائے گی۔ یہ تنگی دنیا میں ہوگی۔ اسے کوئی اطمینان حاصل نہ ہوگا، شرحِ صدر کی دولت حاصل نہ ہوگی بلکہ اس گمراہی کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوگا، اگرچہ ظاہری طور پر وہ عیش و عشرت کی حالت میں ہو۔ امام ضحاک کا قول ہے: ھو العمل السیٔ والرزق الخبیث،یہ بُرا عمل اور حرام مال ہوگا۔ یہی قول تابعی عکرمہ اور مالک بن دینار سے منقول  ہے۔ (ابن کثیر، ج۳،ص ۲۲۷)

بعض تابعین کے اقوال اس حوالے سے یہ بھی ذکر کیے گئے ہیں کہ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً سے مراد عذابِ قبر ہے۔ مشہور مفسر ابن جریر طبریؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: تنگیِ گھر جگہ اور اسبابِ معیشت میں سختی کو کہا جاتا ہے۔ ھذا منزل ضنکا، جب کہ وہ تنگ ہو اور زندگی گزارنا سختی کے ساتھ ہو۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے ائمہ تفسیر مختلف تابعین کی تفسیری آرا اس حوالے سے ذکر کی ہیں۔ امام قتادہ فرماتے ہیں کہ ضنک سے مراد ضیق و تنگی ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ ضنک سے مراد جہنم ہے۔ مفسرین کی ایک بڑی تعداد نے اس سے مراد مال حرام لیا ہے۔(تفسیر طبری، ج۸، ص ۱۶۳)

امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی ذیل میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کافر کے لیے قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اُس کی پسلیاں آپس میں ملتی ہیں، اس کو مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کہا گیا ہے۔(تفسیر القرطبی، ج۶، ص ۲۵۹)

مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہاں (اس آیت میں) ذکر سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک بھی جیساکہ دوسری آیات میں ذکراً رسولاً آیا ہے۔ دونوں کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص قرآن سے یا،رسولؐ اللہ سے اعراض کرے، اس کا انجام یہ ہے کہ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی، یعنی اس کی معیشت تنگ ہوگی اور قیامت میں اس کو اندھا کر کے اٹھایا جائے گا۔ پہلا عذاب دنیا میں ہی اس کو مل جائے گا، دوسرا، یعنی اندھا ہونے کا عذاب قیامت میں ہوگا‘‘۔ (معارف القرآن، ج ۶، ص ۱۵۹)

مولانا امین احسن اصلاحی کے نزدیک: ’’سکونِ قلب و شرح صدر سے اس کی زندگی کے محروم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک خلا ہے جو اللہ کے ایمان کے سوا اور کسی چیز سے نہیںبھر سکتا۔ اس وجہ سے جب تک اس کو ایمان حاصل نہ ہو، کوئی دوسری چیز اس کو تسلی و طمانیت سے بہرہ مند نہیں کرسکتی۔ دوسری چیزیں خواہ وہ بظاہر کتنی ہی شان دار اور دل فریب کیوں نہ ہوں، وقتی بہلاوے کا کام تو دے سکتی ہیں لیکن قلب و روح کی بے قراری کو رفع نہیں کرسکتیں۔ جب بچہ بھوک سے روتا ہے تو اس کے منہ میں چسنی یا نپل دے کر کچھ دیر کے لیے بہلایا جاسکتا ہے لیکن وہ آسودہ اسی وقت ہوتا ہے جب ماں اس کو چھاتی سے لگاتی اور اس کو دودھ پلاتی ہے۔ اس کے بغیر اس کی بے چینی نہیں جاتی۔ یہی حال انسان کا ہے۔ وہ اپنے لیے جو اسباب و سامان بھی مہیا کرلے لیکن اگر وہ ایمان سے محروم ہے تو وہ غیرمطمئن، ڈانواڈول، اندیشہ ناک، مضطرب اور اندرونی خلفشار میں مبتلا رہے گا، اگرچہ وہ اپنی نمایشوں سے اس پر کتنا ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ نفس مطمئنہ کی بادشاہی صرف سچے اور پکے ایمان ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ!

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ بہت سے لوگ ایمان کے مدعی ہوتے ہیں لیکن ان کی زندگی نہایت پریشان حالی و پراگندہ حالی کی ہوتی ہے۔ برعکس اس کے کتنے ہیں جو خدا کو محض ایک وہم سمجھتے ہیں لیکن وہ بڑی بے فکری و طمانیت کی زندگی بسر کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہاں بحث ایمان کے مدعیوں سے نہیں بلکہ حقیقی اہلِ ایمان سے ہے۔ ثانیاً جن لوگوں کو خدا سے بے پروا ہونے کے باوجود ہم مطمئن خیال کرتے ہیں، ہم صرف ان کے ظاہری کروفر کو دیکھتے ہیں۔ اگر کبھی ان کے سینوں میں جھانک کر دیکھنے کا موقع ملے تب معلوم ہو کہ ان کے اندر کتنے خطرے اور کتنے خلجان چھپے بیٹھے ہیں، لیکن یہ ہر ایک کو نظر نہیں آتے۔ ان کو وہ خود دیکھتے ہیں، یا وہ لوگ دیکھ سکتے ہیں جن کے اندر ایمانی بصیرت ہو‘‘۔ (تدبر قرآنج۴، ص ۲۴۱)

مولانا عبدالماجد دریا بادی تفسیر ماجدی میں لکھتے ہیں: ’’(اسی دنیا میں) قال بہ جمع من المفسرین (کبیر) آخرت کی طرف سے بے خبر اور بے فکر اور عالمِ حکومت الٰہیہ سے منکر، قناعت و توکل کے مفہوم سے ناآشنا رہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان ساری عمر مال کی طلب میں، جاہ کی حرص میں، ’ترقی‘ کی فکر و ہوس میں، نقصان اور کمی کے غم و اندیشے میں گھل گھل کر گزارے۔ اور اس لیے آیت میں تنگی کا تعلق قلب سے ہے۔ بڑے بڑے دولت مندوں، خوش حالوں کی خودکشی کرلینے کی خبریں جو آئے دن اخباروں میں چھپتی رہتی ہیں، سب اسی تنگیِ قلب کے شواہد ہیں۔ ذکر سے مراد قرآن ہی لیا گیا ہے (معالم) لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کو عام و وسیع معنی میں رکھا جائے اور مادی کسب و ہدایات آسمانی کو اس کے مفہوم میں شامل رکھا جائے (روح)۔ [آخرت میں اندھا اُٹھنا] یہ جسمانی بے بصری عکس ہوگی اس کی روحانی بے بصری کی، جو دنیا میں اس نے اپنے اُوپر طاری رکھی تھی‘‘۔(تفسیر ماجدی، ص ۶۵۴)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں معیشت کی تنگی تو کفار و فجار کے لیے مخصوص نہیں۔ مومنینِ صالحین کو بھی پیش آتی ہے بلکہ انبیاے کرام ؑ کو سب سے زیادہ شدائد و مصائب اس دنیا میں اُٹھانے پڑتے ہیں۔

بخاری اور تمام کتب حدیث میں بروایت سعد وغیرہ یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی بلائیں اور مصیبتیں سب سے زیادہ انبیا ؑپر سخت ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو جس درجے کا صالح اور ولی ہے۔ اس کی مناسبت سے اس کو یہ تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ اس کے بالمقابل عموماً کفار و فجار کو خوش حال اور عیش و عشرت میں دیکھا جاتا ہے۔

اس کا واضح جواب تو یہ ہے کہ یہاں دنیا کے عذاب سے قبر کا عذاب مراد ہے کہ قبر میں  اُن کی معیشت تنگ کر دی جائے گی۔ خود قبر جو اُن کا مسکن ہوگا وہ اُن کو ایسا دبائے گا کہ اُن کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں گی جیساکہ بعض احادیث میں اس کی تصریح ہے اور مسندبزار میں حضرت ابوہریرہؓ سے یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس آیت کے لفظ کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اس سے مراد قبر کا عذاب ہے۔

حضرت سعید بن جبیرؒ نے تنگی معیشت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ اُن سے قناعت کا وصف سلب کرلیا جائے گا اور حرص دنیا بڑھا دی جائے گی۔ (مظہری، ج ۴، ص ۴۵)

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہوگا۔ کروڑ پتی بھی ہوگا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرماں روا بھی ہوگاتو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا۔ اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گردوپیش کے پورے اجتماعی ماحول تک، ہر چیز کے ساتھ اس کی   پیہم کش مکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۱۳۴)

[گویا]’’یہ خیال کہ خدا کے وجود کے منکر دولت میں کھیل رہے ہیں، غلط فہمی پر مبنی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کو کروڑوں روپیہ مل رہا ہو تو اس کی معیشت فراخ ہے۔ حالانکہ ارب پتی کی زندگی بھی افکار و آلام سے تنگ ہوسکتی ہے اور چٹنی روٹی کھانے والے کی روزی بھی فراخ۔ مثلاً سویڈن میں اعلیٰ درجے کی خوش حالی ہے۔ ہرشخص کو ضروریات کا سامان میسر ہے، مگر جب سے وہ ویلفیئر اسٹیٹ___ فلاحی ریاست بنا ہے وہاں کی خودکشی کا تناسب ساری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آخر کیوں___ ؟ معلوم ہوا کہ وہاں کی معیشت تنگ ہے جبھی تو لوگ خودکشیاں کررہے ہیں___ اصل یہ ہے کہ جس کو قناعت میسر ہے، جائز طریقے سے روزی کماتا ہے اور حد کے اندر خرچ کرتا ہے، اس کی روزی ہی فراخ ہے۔ اگر روزی کمانے کی تونس نہ لگی ہو تو آدمی پیوند لگے کپڑے پہن کر بھی مطمئن اور خوش حال رہتا ہے۔ اس کے برعکس ساری دنیا کی دولت پاکر بھی اگر اطمینانِ قلب میسر نہ ہو تو اس کی روزی تنگ ہے اور اطمینان قلب اللہ کے ذکر پر منحصر ہے۔ جو آدمی خدا کو یاد رکھتا ہے اور اس کے بھروسے پر زندگی بسر کرتا ہے، اس کا دل اطمینان سے لبریز رہتا ہے اور یہی علامت حقیقی خوش حالی کی ہے‘‘۔ (سید مودودی، استفسارات، سوم، ص ۷۰)

سید قطب شہیدؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’وہ زندگی جس میں اللہ سے رابطہ نہ ہو اور جس پر اللہ کی رحمت نہ ہو، وہ تنگ ہوگی، اگرچہ بظاہر وہ بہت ہی وسیع ہو۔ یہ تنگ اس لیے ہوگی کہ اس کا رابطہ اللہ کی طرف سے کٹا ہوگا اور اللہ کی رحمت کے میدان کی طرف وہ راہ نہ پائے گی۔ اس میں حیرانی، پریشانی اور بے یقینی کی تنگی ہوگی۔ اس میں حرص اور خوف کی تنگی ہوگی۔ ڈر اس بات پر کہ جو ہے وہ چلا نہ جائے۔ غرض اس بات پر کہ ھل من مزید یوں تنگی ہوگی کہ جہاں سے نفع کی معمولی اُمید ہو انسان اس کے پیچھے بھاگتا رہے گا اور اگر ایک کوڑی بھی کہیں نقصان ہوجائے، مرجائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اطمینان وقرار صرف اللہ کے ہاں ملتا ہے۔ اسے سکون و اعتماد تب ہی ملے گا جب اس نے مضبوط رسی پکڑی ہوگی جس کے ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان، اطمینان کو طویل و عریض، گہرا اور اُونچا بنا دیتا ہے، ہمہ جہت وسعتیں پیدا کرتا ہے، اور جو   اس سے محروم ہوجائے اسے ہمہ جہت مصیبت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ غرض خلاصہ یہ ہے کہ جو میرے اس ذکر اور نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کے لیے اس دنیا میں تنگ زندگی ہوگی (اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے)‘‘۔ (فی ظلال القرآن، ترجمہ سیدمعروف شاہ شیرازی، ج۴، ص۶۴۰)

اس آیت میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے ، اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ماقبل کی آیت (۱۲۳) پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اس آیت میں انسان اور شیطان دونوں کو زمین پر بھیجے گئے واقعے کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ میری طرف سے ہدایت پہنچے گی، جو اس کی پیروی کرے گا نہ بھٹکے گا، نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا۔ اس کے معاً بعد یہ انتباہ ہے کہ جو اس درسِ نصیحت کو نہ مانے گا اس کا مقدر ضیق کی زندگی ہوگی۔ ہر انسان جو زمین پر آیا ہے، آج بھی اس انتباہ کا مخاطب ہے اور ہمیں اس حوالے سے اپنا جائزہ و احتساب کرتے رہنا چاہیے۔ آج انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری زندگیاں جس ضیق میں، ہرطرح کی تنگی میں مبتلا ہیں، اس کا سبب اللہ کی ہدایت سے منہ موڑنا ہے۔ کاش! ہماری قوم توبہ کرے اور اللہ اور رسولؐ کی ہدایات کو نظرانداز کرنے کے بجاے، ان کے مطابق اپنی زندگی کے ہر دائرے کی تشکیل کرے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ رمضان آنے سے پہلے آپؐ رمضان کے استقبال کے لیے لوگوں کے ذہن تیار کرتے تھے، تاکہ رمضان سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھا سکیں۔ احادیث میں ایسے خطبوں کا تذکرہ آتا ہے، جو خاص اس مقصد کے لیے آپؐ نے رمضان کی آمد سے پہلے دیے ہیں۔ خاص طور پر وہ خطبہ تو بہت ہی طویل اور مشہور ہے جو شعبان کی آخری تاریخ کو آپؐ نے دیا ہے اور جس کے راوی حضرت سلمان فارسیؓ ہیں۔ اس خطبے میں آپؐ نے یہ    خوش خبری دیتے ہوئے کہ تم لوگوں پر جلد ہی ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس مہینے کی عظمت اور فضیلت کے مختلف پہلو پیش فرمائے۔ اس میں روزے کے فیوض و برکات کا ذکر فرمایا اور اس طرح ذہنوں کو تیار کیا کہ اس سنہری موقع سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کے لیے انسان پورے ذوق و شوق اور یکسوئی کے ساتھ کمربستہ ہوجائے۔

رمضان سے پوری طرح مستفیض ہونے اور اس کی خیروبرکت کا واقعی مستحق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس سے استفادے کے لیے ذہن و فکر اور قلب و روح کو پوری طرح تیار کرے۔

  •  ذاتی احتساب: اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ رمضان کی پہلی شب چھانے سے پہلے انسان اپنا معاملہ خدا سے بھی صاف کرے اور خدا کے بندوں سے بھی۔ وہ سنجیدگی سے سوچے کہ وہ خدا کے حقوق ادا کرنے میں کیا کیا کوتاہیاں کرتا رہا ہے، کن کن نافرمانیوں میں مبتلا رہا ہے، اور اس کی زندگی کے بہترین اوقات کن خرافات میں گزرتے رہے ہیں۔ سچے دل سے توبہ کرے اور خدا سے پختہ عہد کرے کہ پروردگار جو کچھ ہوچکا، ہوچکا، اب یہ تیرا بندہ تیرا وفادار رہے گا اور نافرمانیوں سے دامن پاک رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اگر نمازیں قضا ہوئی ہیں تو رمضان کے ایام میں ان کو ادا کرنے کی فکر کرے۔ اگر زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے تو اسی رمضان میں حساب لگا کر ادا کرنے کا ارادہ کرلے۔ قدرے تکلیف اُٹھا کر، جتنی ادا کرسکتا ہو ادا کرے، جو    رہ جائے خدا سے عہد کرے کہ رمضان کے بعد اہتمام کے ساتھ ادا کرے گا۔ بندوں کے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی ہوئی ہو، کسی کو ناحق ستایا ہو، یا کسی کا دل دکھایا ہو، یا کسی کا نقصان کیا ہو تو یہ ان سب سے معافی طلب کرے اور جب تک یہ لوگ معاف نہ کردیں، اطمینان کا سانس نہ لے۔ ہرقسم کا بدلہ دینے کے لیے تیار رہے اور بہرصورت لوگوں سے معاف کرا کر دم لے، اس لیے کہ بندوں کے حقوق جب تک بندے خود معاف نہ کردیں، اللہ معاف نہیں کرتا۔
  •  ایک عام کوتاھی: اصلاحِ حال کے معاملے میں عام طور پر ایک اور کوتاہی بھی  عام ہے، وہ یہ کہ جب بھی انسان پر نیکی کے جذبات چھانے اور نیکیاں کرنے کا داعیہ اُبھرتا ہے تو ادھر نگاہ نہیں جاتی کہ وہ کن کن چھوٹے بڑے گناہوں میں مبتلا ہے، بلکہ کچھ نوافل و اذکار اور صدقات و خیرات کی طرف ذہن متوجہ ہوجاتا ہے، اور آدمی یہ سب کر کے اطمینان محسوس کرتا ہے کہ اس نے دین دارانہ زندگی اپنا لی ہے اور فرماں بردار بندوں میں شامل ہوگیا ہے۔ حالانکہ اذکار و نوافل اور صدقات و خیرات کا اہتمام کرنے سے پہلے سوچنے اور کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ کن کن گناہوں میں وہ مبتلا ہے۔ کبیرہ گناہوں سے مخلصانہ توبہ کرے اور خدا سے پختہ عہد کرے کہ آیندہ ان گناہوں کو جانتے بوجھتے کبھی نہیں دہرائے گا۔ صغیرہ گناہوں سے بھی توبہ کرے، اگرچہ صغیرہ گناہ اللہ تعالیٰ نیکیوں کی برکت سے معاف کردیتا ہے مگر کبیرہ گناہ وہ ہرگز معاف نہیں فرماتا۔ کبیرہ گناہ توبہ ہی کے ذریعے معاف ہوتے ہیں اور توبہ ہی بندے کا وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ انتہائی خوش ہوتا ہے۔

مسلم میں انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں سفر کر رہا تھا، اُونٹ پر اس کے کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا۔ ایک جگہ وہ سَستانے کے لیے رُکا، اتفاق سے اس کی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ جب کھلی تو اُونٹ غائب ہے۔ وہ اِدھر اُدھر دوڑا، اُونٹ کو تلاش کیا، مگر اُونٹ کا کچھ پتا نہ چلا۔ اب وہ زندگی سے مایوس ہوگیا، کہ اس بے آب و گیاہ ریگستان میں اس کا کھانا پینا سب کچھ اُونٹ پر لدا ہوا تھا اور اُونٹ غائب ہے۔ وہ زندگی سے مایوس ہوگیا تھا۔ پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ اب جو آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اُونٹ سامنے کھڑا ہے۔ اس نے اُونٹ کی لگام پکڑی اور خوشی کی انتہائی مدہوشی میں کہتا ہے: اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں     تیرا رب! خوشی کی انتہا میں اُلٹا کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جب اس کا بھٹکا ہوا بندہ توبہ کے ذریعے واپس ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس اُونٹ والے بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔

  •  ادہوری توبہ: رمضان سے واقعی فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ رمضان آنے سے پہلے ہی توبہ کرلے، تمام گناہوں سے رُک جائے اور خدا سے سچا معاہدہ کرے کہ اب وہ کبھی ان گناہوں کی دلدل کے قریب نہ جائے گا۔ توبہ کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آدمی سارے گناہوں سے تو توبہ کرلے اور کچھ کے سلسلے میں خدا سے معاملہ کرنے بیٹھ جائے کہ فلاں فلاںگناہ کچھ عرصہ اور کرتا رہوں گا یا صرف رمضان تک ان سے باز رہنے اور ان کو ملتوی رکھنے کا عہد کرتا ہوں۔ یہ آدھی پونی توبہ پسندیدہ توبہ نہیں ہے۔ اللہ بندے سے کہتا ہے کہ میں سارے گناہ معاف کر دوں گا تو پھر خدا کی معافی کو کچھ گناہوں کے حق میں اس لیے ملتوی رکھنا کہ ان سے ابھی اور لذت اندوز ہونے کی خواہش ہے___ حقیقت میں توبہ کی صحیح اسپرٹ نہیں۔ سارے ہی گناہوں سے توبہ کرکے انسان کو چاہیے کہ خود کو خدا کے حوالے کردے۔ خدا کس پیار بھرے انداز میں اپنے بندے کو اپنے دربار میں معافی نامہ داخل کرنے کے لیے بلاتا ہے۔ قرآن میں ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) (اے نبیؐ!) کہہ دیجیے، اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ تمھارے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ وہ    بڑا ہی معاف کرنے والا اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے۔

اللہ تو کہے کہ میں سارے ہی گناہ معاف کر دوں گا اور بندہ کچھ ہی گناہ معاف کرانے کا معاملہ کرے تو یہ درحقیقت قلب کی صفائی کا وہ معاملہ نہیں ہے جو مطلوب ہے۔

توبہ کی شرائط

توبہ کی تین شرطیں ہیں اور اگر بندے نے کسی انسان کا حق مارا ہے اور کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو پھر چار شرطیں ہیں:

  •  پہلی شرط یہ ہے کہ گناہ سے پوری طرح باز آجائے۔
  •  دوسری شرط یہ ہے کہ واقعی اپنے گناہوں سے شرم سار ہو۔
  •  تیسری شرط یہ ہے کہ وہ پختہ عزم کرے کہ اب کبھی کسی گناہ کو دوبارہ نہیں کرے گا۔
  •  اگر کسی بندے کا حق مارا ہے، اس کی کوئی چیز ناحق لی ہے تو وہ اس کو واپس کرے خواہ جس طرح کی چیز بھی ہو، اور اگر اس کو کوئی اور تکلیف پہنچائی ہے تو اس کو بدلہ لینے کاموقع دے یا یہ کہ وہ معاف کردے، اور اگر کوئی الزام لگایا ہے یا غیبت کی ہے تو معاف کرا لے۔ بندے سے معاملہ صاف کرلینا توبہ کی لازمی شرط ہے۔

توبہ کے بعد ہی آدمی اس لائق بنتا ہے کہ وہ رمضان کا شایانِ شان استقبال کرسکے اور اس حال میں رمضان کا آغاز کرے کہ وہ فی الواقع رمضان سے استفادے کے لائق ہو۔ آپ کسی زمین میں اگر لہلہاتی کھیتی اور رنگارنگ مہکتے پھول کھلے دیکھنا چاہتے ہیں تو بیج ڈالنے سے پہلے زمین کے جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنا، اینٹ روڑے نکال باہر کرنا اور زمین کو پہلے نرم کرنا ضروری ہے۔ آپ سنگلاخ زمین میں یا جھاڑ جھنکاڑ سے ڈھکی ہوئی زمین میں لہلہاتی کھیتی اور مہکتے پھول دیکھنے کی  توقع پوری نہیں کرسکتے۔ اگر واقعی یہ سنجیدہ خواہش ہے کہ دل کی سرزمین میں نیکیوں کی بہار آئے تو دل کی سرزمین کو پہلے گناہوں اور خدا کی نافرمانیوں سے پوری طرح صاف کیجیے، تب ہی توقع کیجیے کہ اس میں نیکیوں اور بھلائیوں کی بہار آئے گی اور آپ اس بہار سے فیض یاب ہوسکیں گے۔

  •  ذھنی تیاری اور اھتمام: اس پہلی شرط کو پورا کرنے کے بعد آپ اس لائق ہیں کہ اب رمضان کا استقبال کریں اور یہ آرزو کریں کہ رمضان کے فیوض و برکات سے اللہ تعالیٰ آپ کا دامن بھر دے۔ پھر آپ اس تلقین، تشویق اور ترغیب کے واقعی مخاطب ہیں جو اللہ کے سچے رسولؐ نے اپنے خطبوں میں رمضان کی آمد کے مواقع پر دی ہے۔ آپ ان خطابات کے مخاطب بھی ہیں اور آپ کا یہ حق بھی ہے کہ آپ رمضان کی برکتوں سے مالا مال ہونے کے لیے سعی و جہد کریں۔ ذہنی تیاری میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ رمضان کے سارے روزوں سے فیض یاب ہوں۔ کوئی ایک روزہ اور کسی ایک شب کی تراویح بھی آپ سے چھوٹ نہ جائے۔ اس لیے کہ رمضان کی کسی عبادت کے فیض سے محروم ہونے کے بعد اس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’جس شخص نے رمضان کا کوئی ایک روزہ بھی کسی عذر اور بیماری کے بغیر چھوڑ دیا، تو اس کی تلافی نہیں ہوسکتی، خواہ وہ زندگی بھر روزے رکھتا رہے‘‘۔(عن ابی ھریرۃ، بخاری، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ رمضان کا صحیح صحیح حساب لگانے کے لیے شعبان کی تاریخیں محفوظ رکھنے کا پورا پورا اہتمام کرو۔ آپ نے اُمت کو بھی یہ تاکید فرمائی اور خود بھی آپؐ کا یہی عمل تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان کی صحیح تاریخ معلوم کرنے کی خاطر ہلال شعبان معلوم کرنے کا اہتمام رکھو‘‘۔

حضرت عائشہؓ کی شہادت ہے کہ آپؐ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے کی تاریخوں کو یاد رکھنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے، کہ کسی اور مہینے کا اتنا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔ پھر جب چاند نظر آجاتا تو روزہ رکھنے لگتے اور اگر بدلی چھائی رہتی تو پھر شعبان کے ۳۰ دن پورے کرتے‘‘۔

  •  اھم ترین عبادت:اس ابتدائی اہتمام اور ذہنی تیاری کے بعد رمضان کی جن عباتوں میں آپ دل کی لگن اور کامل شوق کے ساتھ لگیں گے، ان میں سب سے اہم روزہ ہے۔ روزہ فرض ہے اور اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ قرآن و سنت نے بھی اس کو فرض اور رکن قرار دیا ہے اور اُمت کا بھی اس پر اجماع اورتعامل ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! روزہ تم پر فرض کر دیا گیا جس طرح ان اُمتوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے ہوگزری ہیں۔

کُتِبَ کے معنی ہیں لکھ دیا گیا۔ یہ لفظ فرض کر دینے کے معنی میں آتا ہے۔ یہ خطاب آپ ہی سے ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ ایمان والے ہیں۔ روزہ ایمان والوں پر ہی فرض کیا گیا ہے اور ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اس فرض کا پورا پورا حق ادا کریں۔ پھر یہ روزہ صرف محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہی پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کے فرمان کے بموجب پچھلی اُمتوں پر بھی فرض رہا ہے اور کسی اُمت کا نظامِ عبادت روزے سے خالی نہیں رہا ہے۔ قرآن کے اس اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے۔ اس لیے ہر اُمت کے نظامِ عبادت میں روزہ لازماً شامل رہا ہے۔

روزے کا مقصود کیا ہے؟ اس کو بھی قرآن نے اسی آیت میں بیان کر دیا ہے: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۱) ’’تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو‘‘۔ گویا کہ روزہ تقویٰ پیدا کرنے کا ناگزیر ذریعہ ہے۔

تقویٰ یہ ہے کہ آدمی حرام چیزوں سے نہ صرف اجتناب کرے بلکہ بیزاری دکھائے، اور حلال چیزوں کو نہ صرف اختیار کرے بلکہ جائز اور حلال چیزوں کا حریص ہو۔ خدا کی عبادت، اطاعت اور فرماں برداری میں اسے لذت محسوس ہو، اور خدا کی نافرمانی اور منکرات سے اس کا اندرون بیزار اور متنفر ہو۔ یہ کیفیت اور یہ جوہرِ ایمان پیدا کرنے میں روزہ اس قدر مؤثر اور کامیاب ہے کہ  کوئی بھی دوسری عبادت اس کا بدل نہیں بن سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی شہادت کے مطابق روزہ ہر اُمت کے نظامِ عبادت میں لازمی جز کی حیثیت سے شامل رہا ہے۔

  •  جوھر تقویٰ کے حصول کے لیے: اب، جب کہ ہم پر رمضان کا مبارک مہینہ  سایہ فگن ہوچکا ہے، اگر ہم اپنے روزوں سے واقعی جوہرِ تقویٰ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں   تو ہمیں چند چیزوں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے:
  •  پہلی چیز تو یہ کہ ہم حلال روزی حاصل کریں۔ حرام کے قریب نہ پھٹکیں۔ سود، دھوکا، فریب اور حرام چیزوں سے قطعی اجتناب کریں۔ حرام روزی کے ساتھ کوئی بھی عبادت قبول نہیں اور کوئی بھی عمل، عملِ صالح نہیں۔
  •  دوسرے یہ کہ ہم اپنی زبان پر قابو رکھیں، زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں۔ غیبت، چغلی ، بدکلامی وغیرہ سے اپنی زبان کو محفوظ رکھیں اور اگر کوئی ہمارے ساتھ سخت کلامی کرے یا   لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو تو ہم اس سے کہہ دیں کہ ہم روزے سے ہیں اورروزہ رکھ کر ہم یہ حرکات نہیں کرسکتے۔ ان حرکات سے زندگی کو پاک کرنے کے لیے ہی تو میں روزے کا اہتمام کر رہا ہوں،تو پھر میں روزہ رکھ کر یہ کیسے کرسکتا ہوں!
  •  تیسرے یہ کہ اگر ہمارے ذمے کسی کا کوئی مالی حق ہے، یا کسی کا کوئی حق ہم نے دبا رکھا ہے، یا کسی پر کوئی زیادتی کی ہے، یا کسی کا ہم پر کوئی قرضہ ہے تو اوّلین فرصت میں صاحب ِ معاملہ کا حق ادا کردیں، اور اگر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو اس سے مل کر معاملہ ضرور صاف کرلیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا حق تو معاف کر دیتا ہے لیکن بندے کا حق اسی وقت معاف کرتا ہے جب بندہ خود معاف کر دیتا ہے۔
  •  قرآن سے خصوصی شغف: رمضان مبارک کی دوسری اہم عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔ قرآن کو رمضان سے خصوصی مناسبت بھی ہے۔ قرآن اسی مہینے میں نازل ہوا ہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ o (القدر۹۷:۱) ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔

لیلۃ القدر یقینا رمضان المبارک ہی کی ایک رات ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی اس کی شہادت دیتا ہے۔ اس لیے کہ دوسری جگہ خود قرآن ہی میں ارشاد ہے کہ ہم نے قرآن کو رمضان میں نازل کیا ہے:

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْٰانُ (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ یہ ارشادات قطعی شہادت ہیں، اس حقیقت کے کہ قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔

ایک اہم مناسبت قرآن اور رمضان میں یہ بھی ہے کہ روزہ آدمی میں جوہرِ تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ یہی جوہرِ تقویٰ انسان کو اس لائق بناتا ہے کہ وہ قرآن پاک سے ہدایت پائے۔ ارشاد ہے: ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o (البقرہ ۲:۲)’’یہ ہدایت ہے متقیوں کے لیے‘‘۔

  •  قیامِ لیل: قیامِ لیل، یعنی تراویح میں تلاوتِ قرآن، قرآن کی سماعت و قراء ت، قرآن سے شغف اور استفادے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ قرآن بغیر سمجھے پڑھنا اور سننا بھی   باعثِ اجروثواب اور قلب کو گرمانے کا وسیلہ ہے، لیکن اسی پر اکتفا کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ کسی ایسے حافظ و قاری کے پیچھے قرآن سنیں جو نمازِ تراویح کے بعد قرآن کے پڑھے ہوئے حصے کے بارے میں آپ کو کچھ بتا بھی سکے اور خود بھی دن میں ترجمے سے قرآن پڑھنے کا اہتمام کریں، اور اگر خدا کے فضل و کرم سے آپ عربی جانتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ ختم تراویح کے علاوہ بطور خود بھی تدبر اور غوروفکر کے ساتھ ایک بار قرآن پاک کا ختم ضرور کریں۔
  •  اعتکاف: رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بھی سنت ہے۔ یہ سنت مؤکدہ کفایہ ہے۔ کچھ لوگ ادا کرلیں تو سب کی طرف سے ادا ہوجاتا ہے اور اگر بستی کا کوئی آدمی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب گنہگار ہوتے ہیں۔ یہ اعتکاف پورے ۱۰ دن کا ہوتا ہے اور اگر ۲۹ کا چاند ہوجائے تو نو دن کا رہ جاتا ہے۔ اعتکاف کے معنی یہ ہیں کہ رمضان کے پورے آخری عشرے میں آدمی اللہ کا ہو رہے اور مسجد میں آکر پڑ جائے۔ ذکروفکر، تسبیح و تہلیل، نماز و تلاوتِ قرآن اور دینی کتب کا مطالعہ وغیرہ ہی اس کا مشغلہ ہو۔ ایک اور اہم عبادت صدقۂ فطر بھی ہے جو نماز عید سے پہلے ادا کیا جانا چاہیے۔

 

ماضی قریب میں اس ملک میں مرد و زن کے آزادانہ اختلاط اور بے حیائی کو راہ دینے کے لیے کئی خلافِ اسلام قانون سازیاں ہوتی رہی ہیں، خاص طور پر ۲۰۰۶ء کاسال اس لحاظ سے بدتر  رہا کہ اس سال نومبر کے مہینے میں پاکستانی پارلیمنٹ نے قرآن وسنت سے صریح متصادم نام نہاد ’ویمن پروٹیکشن بل ۲۰۰۶‘ منظور کرکے نافذ کردیا۔ اس قانون کے خلاف ِ اسلام ہونے پر پاکستان بھر کے تمام دینی حلقے یک آواز تھے۔ یہ ظالمانہ قانون اس اسمبلی سے پاس ہوا جس کی عمارت پر نمایاں الفاظ میں کلمہ طیبہ درج ہے۔ اس کے اراکین اور جملہ عہدے داران اسلام کے تحفظ کا حلف بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس کے آئین میں خلاف ِاسلام قانون سازی کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اس متنازع فیہ ایکٹ کی منظوری سے قبل میڈیا (اور بالخصوص ایک بڑے اخباری ادارے اور ٹی وی چینل) پر اس معاملے کی اس طرح پرزور تشہیر کی گئی اور گلی کوچوں میں اس کو یوں زیر بحث لایا گیا، جیسے یہ پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہو۔

خواتین کے ’تحفظ‘ کے نام پر بنائے گئے اس ایکٹ میں جرم کا اندراج کرانے والے شخص کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرتے ہوئے پہلے اپنے دعوے کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس ایکٹ میں حیلہ سازی کرتے ہوئے سنگین جرائم کو پولیس کی دسترس سے نکال کرعوام کے جذبۂ خیروصلاح کے سپرد کردیا گیاہے۔ صنفی امتیاز کے خاتمے کے دعوے سے لایا جانے والا یہ قانون وطن ِعزیز میں صنفی امتیازکی بہت بڑی بنیاد ثابت ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ظالمانہ ایکٹ کی منظوری کے دنوں میں لاکھوں پاکستانیوں نے راے شماری میں حصہ لے کر اس قانون سے اظہارِ براء.ت بھی کیا تھا،  دکانوں اور عام چوراہوں پر اس قانون کی تردید پر مبنی پوسٹر اور ہینگر مدت تک نظر آتے رہے۔   اس قانون کو غلط قرار دینے والوں میں خواتین کی اکثریت کے علاوہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات بھی شامل رہیں، حتیٰ کہ اس ایکٹ کے خلاف دستخط کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی تجاوز کرگئی، جن میں خود غیرمسلم بھی شامل تھے۔یہ ملکی تاریخ کا ایک بڑا عوامی احتجاج تھا۔

قانون کی منظوری اور بحث مباحثے کے دنوں میں ہی ملک کی نمایندہ علمی شخصیات نے حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا تھا۔ہرمکتب ِفکر سے وابستہ علماے کرام نے بعض سینئر سیاست دانوں اور حکومتی ذمہ داروں سے ملاقاتوں میں کہا تھا کہ: اگر حکومت خواتین کے اکرام و احترام کے سلسلے میں اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے تو اختلاطِ مرد وزن کے بے باکانہ رویوں کو کنٹرول کرے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ منظور شدہ ایکٹ میں تو صرف زناکاروں کے حقوق کاتحفظ کیا گیا ہے، جب کہ پاکستانی خواتین کے لیے اس میں داد رسی یا شنوائی کا کوئی سامان نہیں ہے۔ پاکستانی خواتین جن سنگین معاشرتی مسائل کا شکار ہیں، ان کے لیے بہت سے دیگرقانونی اقدامات کیے جاسکتے ہیں، جن سے ان کے مسائل کے خاتمے میں حقیقی مدد مل سکتی ہے،لیکن ایسی تمام آوازوں کو سنی اَن سنی کر کے حقیقی مسائل سے صرف ِنظر کیا جاتا رہا۔

یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ حدود آرڈی ننس بھی کوئی بڑا معیاری قانون نہیں تھا، جو  کتاب وسنت کے عین مطابق ہو۔ تاہم شرعی ماحول پیداہونے کی بنا پر اس کی تائید کی جاتی رہی۔ زیرنظر تبصرہ بھی اسی نقطۂ نظر سے پیش خدمت ہے:

’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی خلاف ِاسلام دفعات

جیسا کہ سطورِ بالا میں ہم نے عرض کیا ہے کہ ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘

  • کا اصل مقصد تو اسلامی معاشرے میں امن وامان اور عفت وعصمت کے کسی حد تک ضامن حدود قوانین کو  مزید غیرمؤثر بنانا اور پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹیں
  •   اس ایکٹ کا اصل نام ’کریمی نل لا امینڈمنٹ ۲۰۰۶ء‘ یعنی ’فوج داری ترمیمی ایکٹ ۲۰۰۶ء تھا‘ جسے مغرب زدہ لابی اور مخصوص طبقے کی عورتوں کے پروپیگنڈے کے تحت ’ویمن پروٹیکشن ایکٹ‘ یا ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کا مغالطہ آمیز نام دیا گیا۔

ختم کرنا تھا،کیونکہ ایک مسلم معاشرہ مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں تھا، جس کے لیے نام نہاد ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کے ذریعے حکومتی سرپرستی میں فضا سازگار کی جاتی رہی۔ آج ملک بھر میں ٹی وی چینلوں، ویب سائٹس اور موبائل فونوں کے ذریعے فحاشی وعریانی کا جو سیلاب آیا ہواہے، اور نوجوان لڑکے لڑکیاں بے راہ روی کا کھلا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس پر کئی حساس اہل قلم بڑے دردِدل کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ وہ ماں باپ تو آئے روز بے حیائی کے اس ناسور سے زندہ درگور ہو رہے ہیں، جن کے بچے بچیاں جوانی کے نشے میں مدہوش اور قانونی بندشوں سے آزاد ہیں۔ ایسا کرنے میں مذکورہ قانون ایک مددگار وسیلے کے طور پر سامنے آتا ہے:

۱-            ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کے ذریعے اسلامی حدود قوانین کے برعکس مبادیاتِ زنا، مثلاً بوس وکنار اور مردو زن کے آزادانہ اختلاط کو ناقابل سزا قرار دیا گیا تھا۔

۲-            مزید برآں ۱۶ سال سے کم عمرلڑکی کی ہر طرح کی بے راہ روی کو (ازخود یہ تصور کرتے ہوئے کہ وہ لازماً جبری زنا کا ہی شکار ہوئی ہے)اسے ہرقسم کی سزا سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔

۳-            شوہر کے لیے یہ قانون سازی کی گئی تھی کہ اگر وہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر اس سے جماع کرتا ہے تو اسے زنا بالجبر سمجھا جائے گا،جس کی سزا ۲۵سال قید یا سزاے موت ہوگی۔

۴-            اس ایکٹ کے ذریعے حدود قوانین کے نام سے شرعی قوانین، مثلاً زنا ، قذف اور لعان وغیرہ کی سزائوں کی دیگر انگریزی قوانین پر برتری کو بھی ختم کیا گیا تھا۔

۵-            اس ایکٹ کے ذریعے صوبائی حکومت اور صدرِمملکت کو بلااستثنا تمام سزائوں کو معاف کرنے کا بھی اختیار عطا کیا گیا تھا۔

۶-            ویمن ایکٹ کی رو سے زنا  اور قذف کی معروف شرعی سزا کے بجاے پانچ سال قید اور زیادہ سے زیادہ ۱۰ ہزار روپے جرمانے کی سزائیں متعارف کرائی گئیں۔ حالانکہ شرعی حدود میں تبدیلی یا کمی بیشی کا اختیار کسی حاکم وقت یا مجتہد العصرتو کجا، خود سید المرسلینؐ کو بھی نہیں ۔

۷-            ان تمام تبدیلیوں پر مزید اضافہ یہ کہ فحاشی و بے راہ روی کے حوالے سے ان سزائوں کے طریق اجرا میں ایسی مضحکہ خیز تبدیلیاں کی گئیں، کہ ان جرائم کی سزا کسی پر لاگو ہونا ہی ممکن نہ رہا۔ (تفصیلی تجزیہ دیکھیے: ماہ نامہ محدث، لاہور، دسمبر ۲۰۰۶ء، ص ۲-۲۳، اور ۲۶-۷۰)

’ایکٹ‘ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں اپیل

’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کے نفاذ کے بعد ہی سے اس بارے میں محب ِاسلام حلقوں میں شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہوگیااور ۲۰۰۷ء میں اس ایکٹ کے خلاف ِاسلام ہونے کے بارے میں دو درخواستیں[نمبری ا،۳۔آئی ۲۰۰۷ء] وفاقی شرعی عدالت میں دائر کردی گئیں۔ پھر ۲۰۱۰ء میں درخواست[نمبری ا ۔آئی ۲۰۱۰ء] بھی دائر کی گئی، جس میں وفاقی شرعی عدالت سے استدعا کی گئی کہ اس ایکٹ کی خلافِ اسلام دفعات کا خاتمہ کیا جائے:

۱-   یاد رہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار ہے کہ:

دفعہ نمبر ۲۰۳ ڈی:عدالت اپنی تحریک یا پاکستان کے کسی شہری یا وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی درخواست پر اس سوال کا جائزہ لے اور فیصلہ کرسکے گی کہ آیا کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم ان اسلامی احکام (جس طرح کہ قرآن کریم اور رسولؐ اللہ کی سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ) کے خلاف ہے یا نہیں؟

دفعہ ۲۰۳ ڈی کی شق نمبر۱ کا تقاضا یہ ہے کہ عدالت ِمذکورہ حکومت کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے مناسب موقع دے گی۔شق ۲ کے تحت عدالت متعلقہ قانون کے خلافِ اسلام ہونے کی وجوہ اور اس کی مخالفت کی حد کا تعین بھی کرے گی۔ شق۳ کے تحت اگر کوئی قانون خلافِ اسلام قرار پاتا ہے تو گورنر اس قانون میں ترمیم کرنے کے اقدامات کرے گا، بصورتِ دیگر عدالت کی متعین کردہ تاریخ سے وہ قانون کالعدم قرار پائے گا۔

۲-  واضح رہے کہ ماضی میں قانونِ امتناع توہین رسالت (دفعہ ۲۹۵سی) میں بھی  وفاقی شرعی عدالت نے اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کے منظور شدہ قانون مجریہ ۱۹۸۶ء میں مذکورعمر قید کی سزا کے خلافِ اسلام ہونے کا فیصلہ دیا تھا اور حکومت کو ۳۰؍اپریل ۱۹۹۱ء تک کا وقت دیا تھا کہ اس دوران میں وہ مناسب قانون سازی کرلے، بصورتِ دیگرشرعی عدالت کا فیصلہ ازخود نافذ ہوگا اور توہین رسالت کی سزا میں شامل سزاے عمر قید حذف ہوجائے گی۔

اسی طرح ماضی میں قصاص ودیت کے مقدمے میں بھی وفاقی شرعی عدالت نے چیف جسٹس محمد افضل ظلہ کی سربراہی میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ: ’سزاے قتل کے مروجہ ۵۶ قوانین خلافِ اسلام ہیں، اور حکومت کو چاہیے کہ اگست ۱۹۹۰ء سے پہلے پہلے متبادل قانون سازی کرے، بصورتِ دیگر قصاص ودیت کے شرعی قوانین براہِ راست نافذ ہوجائیں گے‘۔ اسی نوعیت کا ایک فیصلہ قانونِ شفعہ کے بارے میں بھی دیا گیا تھا۔

وفاقی شرعی عدالت کے ان فیصلوں کے بعد متعینہ تواریخ تک حکومت نے کوئی قانون سازی نہ کی، جس کے نتیجے میں پاکستان میں امتناعِ توہین رسالت کا قانون ، وفاقی شرعی عدالت کی ترمیم (عمر قید کے حذف) کے بعد، اور قصاص ودیت کے قوانین براہِ راست اسلامی شریعت سے ہی پاکستان میں نافذ العمل ہوگئے۔

۳-  دستورِ پاکستان کی دفعات اور ماضی کے بعض مذکورہ بالا قانونی اقدامات کی لاہور ہائیکورٹ کے متعدد فیصلوں سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ حدود کے ذیل میں آنے والے جرائم  کے متعلق ذیلی عدالتوں کے فیصلوں کی نگرانی یا اپیل کا اختیار آئین کی شق ۲۰۳ ڈی ڈی کی رو سے صرف وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے (پاکستان کریمی نل لا جرنل ۲۰۰۴ء، ص ۸۹۹، اور ۱۹۸۵ PLD، لاہور ۶۵)۔ تاہم وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو چیلنج یا نظرثانی کے لیے    دستورِ پاکستان ہی کی دفعہ ۲۰۳ ایف کے تحت کسی بھی فریق کو ۶۰ یوم اورصوبائی ووفاقی حکومتوں کو چھے ماہ کا وقت حاصل ہے۔ اس مدت کے دوران میں نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ) میں دی جاسکتی ہے۔

وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ

اس طریق کار کو اختیار کرتے ہوئے ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کو بھی وفاقی شرعی عدالت میں گذشتہ سال زیر بحث لایا گیا۔ عدالت میں اس پر بحث و مباحثہ بھی ہوا، اور پھر مؤرخہ ۲۲دسمبر ۲۰۱۰ء کو اس حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ سامنے آیا ۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خاں کی سربراہی میں جسٹس شہزاد شیخ اور جسٹس سید افضل حیدر نے یہ فیصلہ تحریرکیا ہے، جسے نکتہ نمبر۱۱۷ کے تحت رپورٹ کیا گیا ہے۔

وفاقی شرعی عدالت اپنے حالیہ فیصلے میں ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کے ساتھ ساتھ ، امتناعِ دہشت گردی ایکٹ ۱۹۹۷ء اور ’امتناعِ منشیات ایکٹ۱۹۹۷ء‘ کو بھی زیر غور لائی ہے، جس میں عدالت نے یہ قرار دیا ہے کہ مذکورہ بالا ایکٹس کے بعض حصے  واقعتا اسلام کے خلاف یا وفاقی شرعی عدالت کے دائر عمل میں مداخلت ہیں، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان قوانین میں ترمیم کرکے اِن کے متبادل اسلامی قوانین لائے، بصورتِ دیگر ان کے قابل اعتراض حصے ۲۲ جون۲۰۱۱ء تک نافذ العمل رہنے کے بعد آخرکار کالعدم ہوجائیں گے۔

۱-   وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (نکتہ نمبر ۱۱۷ کی شق نمبر ۵) میں ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی ترامیم ۱۱، اور۲۸کو دستور کی دفعہ ۲۰۳ ڈی ڈی سے متجاوز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان ترامیم کے مؤثر ہونے سے حدود قوانین کی بالاتر حیثیت ختم ہوگئی ہے، اس لیے انھیں ختم کیا جائے۔ ان ترامیم کا تعارف وجائزہ حسب ِذیل ہے:

الف: ویمن ایکٹ کی ترمیم نمبر۱۱ کے ذریعے زنا آرڈی ننس کی دیگر انگریزی قوانین پر بالاتر حیثیت کو ختم کردیا گیا تھا۔ اگر حکومت اس کے خلاف اپیل میں نہیں جاتی تو یہ شق ۲۲جون ۲۰۱۱ء کو ختم ہو جائے گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ میں زنا کی دیگر متوازی سزاؤں پر سابقہ شرعی سزاؤں کی برتری بحال ہوجائے گی، اور عدالت کو یہ موقع حاصل ہوگا کہ وہ زنا کی محض پانچ سال سزا اور زیادہ سے زیادہ ۱۰ہزار روپے جرمانے کے بجاے اس پر سابقہ شرعی سزا جاری کرنے کے احکام صادر کرسکے۔

ب: ایکٹ کی ترمیم نمبر ۲۸، جس کو خلافِ اسلام قرار دیا گیا ہے ، کا مقصد یہ تھا کہ ’لعان‘ کو ’قانون ضابطہ فوج داری ۱۸۹۶ء‘ سے نکال کر ’شادی ایکٹ ۱۹۳۹ء‘ کا حصہ بنایا جائے، تاکہ ’لعان‘ کی جو سزا قذف آرڈی ننس کے سیکشن ۱۴ (۴) میں ہے، اس کا اطلاق ختم ہوجائے۔ اب اس ترمیم کے ختم ہوجانے سے ’لعان‘ کا سابقہ قانون مؤثر ہونے کا بھی جزوی امکان پیدا ہوگیا ہے۔

۲-  وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (نکتہ نمبر ۱۱۷کی شق نمبر ۷) میں ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی ترامیم نمبر ۲۵ اور ۲۹ کو بھی دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۲۰۳ ڈی ڈی سے متجاوز، یعنی خلافِ اسلام قرار دیتے ہوئے نئی متبادل قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔ محولہ ایکٹ کی ترمیم نمبر۲۹ کے ذریعے حدود قوانین کے حصے قذف آرڈی ننس کی دیگر قوانین پر بالاتر حیثیت کو ختم کیا گیا تھا، جب کہ ترمیم نمبر۲۵ کے ذریعے ’قذف آرڈی ننس‘ کی تین دفعات ۱۱، ۱۳ اور ۱۵ کو حذف کیا گیاتھا، جس کے بعد ’قذف آرڈی ننس‘ غیرمؤثر ہوکر رہ گیا تھا۔ اب عدالت نے نہ صرف قذف آرڈی ننس کی بالاتر حیثیت کو بحال بلکہ اس کی اہم دفعات کو بھی برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے۔

جہاں تک زنا آرڈی ننس اور قذف آرڈی ننس کی دیگر قوانین پر بالاترحیثیت بحال کرنے کی بات ہے، تو یہ اسی جرم پر تعزیراتِ پاکستان میں موجود متوازی سزاؤں کے تناظر میں ایک اہم ضرورت ہے، تاکہ فیصلہ کرنے والے جج کو فیصلے کی تادیبی کارروائی کا انتخاب کرنے میں آسانی ہو۔مزید برآں یہ اسلامی شریعت کا مسلمہ تقاضا بھی ہے، بلکہ اسلام تو ان جرائم پر جہاں  اللہ تعالیٰ نے سزائیں وحی کی صورت میں متعین کردی ہیں، کسی متبادل قانون پر عمل پیرا ہونے کو جاہلیت، ظلم، حتیٰ کہ کفر سے تعبیر کرتا ہے ۔ان شرعی قوانین کی ترجیح پاکستان کی دیگر عدالتوں کے بعض سابقہ فیصلوں کی روشنی میں بھی ایک مسلمہ مسئلہ ہے، جیساکہ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۸۶ء میں  زنا آرڈی ننس کو ’آرمی ایکٹ‘ پر فوقیت دینے کا فیصلہ کیا تھا او ریہ حکم دیا تھا کہ اس کے ملزم کے مقدمے کی سماعت ’کورٹ آف مارشل‘ کے بجاے سیشن کورٹس میں کی جائے (ملاحظہ ہو: PSC 1986، فیصلہ ۱۲۲۸)۔ بالکل اسی طرح ۱۹۸۵ء میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہ قرار دیا تھا کہ حدود قوانین کو ’سندھ چلڈرن ایکٹ‘ پر فوقیت حاصل ہوگی۔(پاکستان کریمی نل لا جرنل، ص ۱۰۳۰)

۳- علاوہ ازیں عدالت نے اپنے فیصلے (نکتہ نمبر۱۱۷ کے شق ۱ تا ۴) میں ’امتناع دہشت گردی ایکٹ‘ کی دفعہ ۲۵ اور ’امتناعِ منشیات ایکٹ ۱۹۹۷ء‘ کی دفعہ ۴۸ اور ۴۹ کو بھی     دستورِ پاکستان کی دفعہ ۲۰۳ ڈی ڈی سے متجاوز قرار دیتے ہوئے خلافِ اسلام قرار دیا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں دفعات میں قرار دیا گیا تھا کہ: ’’ان جرائم کی اپیل ہائی کورٹ میں داخل کرائی جائے ‘‘، جب کہ شرعی عدالت نے یہ حکم دیا ہے:

قرآن وسنت کی رو سے جو جرائم حدود کے زمرے میں آتے ہیں، اور ان کی سزا  قرآن وسنت میں مذکور ہے، ان تمام جرائم میں مدد گار یا ان سے مماثلت رکھنے والے جرائم بھی حدود کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور حدود یا اس سے متعلقہ تمام جرائم پر جاری کیے گئے فوجداری عدالت کے احکامات کی اپیل یا نظرثانی کا اختیار بلاشرکت غیرے وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے۔ ایسے ہی حدود جرائم پر ضمانت کے فیصلے کی اپیل بھی صرف اسی عدالت ہی میں کی جائے۔

عدالت نے ان جرائم کی فہرست مرتب کرتے ہوئے جو حدود کے زمرے میں آتے ہیں، ان جرائم کو بھی اس میں شامل کردیا ہے، جو اس سے قبل مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت آتے تھے۔ مجموعی طورپر ان جرائم کی تعداد ۱۰ شمار کی گئی ہے: زنا، لواطت، قذف، شراب، سرقہ، حرابہ، ڈکیتی، ارتداد، بغاوت اور قصاص انسانی سمگلنگ۔

۴-   اخبارات نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی خبر دیتے ہوئے لکھا:

عدالت کے تین رکنی بنچ نے ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کی چار شقوں کو آئین کے آرٹیکل ۲۰۳ ڈی ڈی سے متصادم قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ  وہ ۲۲جون ۲۰۱۱ء تک شق نمبر ۱۱، ۲۵، ۲۸ اور ۲۹ کو کالعدم قرار دے کر ترمیم کریں، بصورت دیگر یہ عدالتی فیصلہ بذات خود ترمیم سمجھا جائے گا۔ فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا ہے، کہ قانون سازی کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات ختم یا تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ (روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۲۳دسمبر ۲۰۱۰ء، ص ۶)

نجی ٹی وی کے مطابق عدالت نے چار شقوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام کے خلاف ہیں۔ عدالت نے زنا بالرضا کو بھی ناجائزاور حدود قوانین کے مطابق غیراسلامی فعل اور گناہ کبیرہ قرار دیا اور کہا کہ زنا کے بارے میں ایکٹ مذکورہ کے قوانین کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔(روزنامہ انصاف، لاہور، ۲۳دسمبر ۲۰۱۰ء، ص۷)

تبصرہ وتجزیہ

وفاقی شرعی عدالت کا مذکورہ بالا فیصلہ ایک قابل قدر اقدام ہے، اور ہم اس کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہیں، بالخصوص اس تناظر میں جب کہ ’تحفظ حقوقِ نسواں بل‘ پر جاری قومی سطح کے مناظرے ومباحثے میں بعض سیاستدانوں (چودھری شجاعت حسین وغیرہ) نے قوم سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ: ’’اگریہ ایکٹ کسی بھی طرح خلافِ اسلام ثابت ہوجائے تو وہ اپنے عہدوں سے استعفا دے دیں گے‘‘۔ اس موقع پر معروف علماے کرام اور اہلِ علم حضرات کے ساتھ ہم نے اس کی خلافِ اسلام دفعات کی نشان دہی کی تھی، لیکن چودھری صاحب موصوف نے اس وقت ان کو درخورِ اعتنا نہ جانا۔ اب ایک آئینی عدالت نے اس ایکٹ کی چار دفعات کو خلاف اسلام قرار دے کر حکومت کو ۲۲جون ۲۰۱۱ء تک مہلت دی ہے کہ وہ متبادل قانون سازی کرے تو اسے کم ازکم دیر آید درست آید کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس قدر تاخیر سے آنے والے فیصلے کے درمیانی چار برسوں میں اس حوالے سے جو بے راہ روی ملک میں جگہ پاگئی ہے، اس کا خمیازہ تواہل پاکستان بھگت رہے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کا یہ اقدام بھی انتہائی قابل تحسین ہے کہ اس نے نہ صرف شرعی قوانین کی برتری کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ حدود قوانین سے قریب تر دیگر قوانین میں ہیراپھیری کے ذریعے جو انھیں شرعی سزاؤں اور تادیب سے دور رکھا گیا تھا، ان کو دوبارہ شرعی عدالت کے دائرہ عمل میں لانے کی تلقین بھی کی ہے۔ اور حکومت کو پابند کیا ہے کہ ان شرعی سزائوں کے بارے میں نہ صرف آرمی کورٹس، بلکہ دہشت گردی اور امتناع منشیات وغیرہ کے قوانین کی   آڑ لے کر ان کو انگریزی قوانین کے دائرے میں نہ لایا جائے، بلکہ انھیں شرعی عدالت اور    ماتحت عدالتوں میں ہی سماعت کیا جائے، تاکہ مستغیث اور مدعا علیہ شرعی فیصلے سے استفادہ کرسکیں۔ شرعی عدالت کااپنے حقوق کو محفوظ کرنے کا رویہ قابل تعریف ہے، کیونکہ یہ اصولی طورپر قیامِ پاکستان کے مقصد سے ہم آہنگ ہے جس کا تقاضا یہی تھا کہ اس ملک کے شہری اینگلو سیکسن لاز کے بجاے اللہ کے دیے ہوئے شرعی نظام عدل میں اپنی زندگی گزاریں۔

تاہم اس موقع پریہ یاددہانی کرانا انتہائی ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی خرابیوں میں سے صرف ایک تہائی کی ہی نشان دہی کی ہے، حالانکہ  یہ پورا ایکٹ ہی خلافِ اسلام ہونے کے سبب قابلِ استرداد ہے۔ اس ایکٹ کی ۲۹ ترامیم کے نتیجے میں: ’حد زنا آرڈی ننس ۱۹۷۹ء‘ کی ۲۲میں سے ۱۲دفعات کو منسوخ اور ۶کو تبدیل کردیا گیا تھا، جب کہ حد قذف آرڈی ننس کی  ۲۰ میں سے ۸کو منسوخ اور ۶ میں ترمیم کی گئی تھی۔ جس کے بعد     اوّل الذکر میں محض ۴ دفعات اور ثانی الذکر آرڈی ننس میں صرف ۶ دفعات اپنی اصل شکل میں باقی رہ گئی تھیں۔ راقم نے اس متنازع ایکٹ کی منظوری کے وقت لکھا تھا:

اس بل کی خلافِ اسلام ترامیم کو اگر حذف یا درست کردیا جائے، تب بھی اس قانون کے نظام اجرا میں ایسے مسائل پیدا کردیے گئے ہیں کہ جس کے بعد معاشرے میں عملا زنا کی روک تھام ناممکن ہوگئی ہے ، اس لیے یہ بل ناقابل اصلاح ہے۔ اس بل کے ذریعے حدود سے متعلقہ ۹جرائم کو ’تعزیراتِ پاکستان‘ میں منتقل کردیا گیا ہے اور    ترمیم شدہ حدود آرڈی ننس کے تحت صرف دوجرائم ہی باقی رہ گئے ہیں۔پھر ان ۱۱ میں سے جن سات جرائم کی سزا دینا مقصود ہے ، ان کو پولیس کی عمل داری میں رکھا گیا ہے۔ اس کے مجرم کو بلاوارنٹ بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے اور وہ تمام زنا بالجبراور اس سے   متعلقہ جرائم ہیں جن میں خواتین سزا سے مستثنیٰ ہیں (اور یہی اس بل کا ’ثمر‘ ہے)، جب کہ پانچ جرائم محض نمایشی ہیں جن میں بچے کھچے حدود قوانین کے دوجرائم بھی شامل ہیں۔ (ماہنامہ محدث، دسمبر، ۲۰۰۶ء، ص ۲۲، ۲۳)

’ویمن ایکٹ‘ کا اہم مسئلہ اس کے لیے مجوزہ پروسیجرل لا کے ناقابل عمل تقاضے ہیں، جیساکہ اوپر مختصراً ذکر ہوا، جب کہ ابھی تک باقی رہ جانے والی قانونی خرابیوں میں صدر اور صوبائی حکومتوں کا اس کے مجرم کو معاف کرنے کا اختیار، شوہر پر زنا بالجبر کا مضحکہ خیز جرم اور اس پر   سزاے موت کا ہونا بھی خلافِ اسلام ہیں۔ مزید برآں ثبوت ِزنا کے لیے پانچ گواہوں کا غیرشرعی مطالبہ یا زانی کے اعتراف کرلینے اور ’لعان‘ کے دوران بیوی کے اعترافِ زنا کو ثبوتِ جرم کے لیے ناکافی سمجھناوغیرہ ایسی چیزیں ہیں، جو تاحال اس ایکٹ کا غیراسلامی حصہ ہیں۔

مسلمانانِ پاکستان کو چاہیے اس نام نہاد ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کے ان باقی حصوں کے خلافِ اسلام ہونے پر بھی وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کریں، تاکہ اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ ہدایت سے بغاوت اور طاغوت کی غلامی کے طوق سے نجات ملے اور معاشرہ امن و سکون کی راہوں پر چل نکلے۔ (مضمون کی تیاری میں جماعت اسلامی ویمن کمیشن کی سفارشات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے)


مضمون نگار ماہ نامہ محدث، لاہور کے مدیر ہیں

آج دنیاے اسلام کوجو مشکلات اور چیلنج درپیش ہیں، ان میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ دور جدید کی زبان، دور جدید کے محاورے اور دور جدید کے اسلوب میں قرآن مجید اور حدیث کو بیان کیا جائے۔ آج زبان اور اصطلاحات بدل چکی ہیں، محاروہ اور اسلوب بدل چکا ہے۔ اس لیے آج کل کی زبان میں انسانوں تک اور آج کل کے لوگوں تک قرآن وسنت کی تعلیم کوپہنچانا ان تمام حضرات کے ذمے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کے علم سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ اس نے جس نبی یا پیغمبر کو بھیجا، اس علاقے اور اس قوم کی زبان اور محاورے کے ساتھ بھیجا کہ جو وہ قوم استعمال کرتی تھی: وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ(ابراھیم ۱۴:۴) ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے‘‘۔ لسان میں محض لغت شامل نہیں ہے۔ لسان میں لغت بھی شامل ہے، محاورہ، اسلوب، طرزِ استدلال اور وہ ثقافتی مظاہر بھی شامل ہیں جن کا تعلق زبان اور اظہار بیان سے ہوتا ہے۔ آج جس میدان میں شریعت کی تعلیم کو اس نئے انداز سے بیان کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ اسلام کا قانونِ معاملات ہے۔

معاملات اور تجارت کے احکام کو شریعت نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ دنیا کے کسی مذہب، تاریخ کے کسی نظریے اور کسی فلسفے نے معیشت وتجارت کو وہ مقام اور اہمیت نہیں دی جو اسلام نے دی ہے۔ دنیا کے کسی نظام نے معیشت اور تجارت کو اخلاق اور روحانیات سے اس طرح وابستہ نہیں کیا، جس طرح اسلام نے ان دونوں کو وابستہ کر دیا ہے۔ دنیا کے کسی نظام میں معیشت وتجارت کی عمارت اخلاقی بنیادوں پر اس طرح قائم نہیں ہوتی جس طرح اسلام نے قائم کی ہے۔ ایک مشہور مغربی ماہر قانون نے لکھا ہے کہ اسلامی شریعت نے اخلاقی قواعد اور اصولوں کو اپنے قانون کے اندر اس طرح سمو دیا ہے کہ قانون پر عمل کرنے والا خود بخود اخلاق پر عمل درآمد کرتا ہے، اور اسلام کے اخلاقی اصول کی پاسداری کرنے والا خود بخود اسلام کے قانون پر عمل درآمد کرتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ اور ایک دوسرے سے مکمل طور پر وابستہ ہو گئے ہیں۔

مغربی دنیا نے اپنی تاریخ کے ایک دور میں بعض گمراہیوں کی وجہ سے قانون اور اخلاق، قانون اور روحانیات کے رشتے کو توڑ دیا۔ مغربی دنیا نے یہ طے کیا کہ قانون وہ ہوگا جس کا اخلاق اور روحانیات سے تعلق نہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج قانون کی اصل بنیاد ختم ہو چکی ہے۔ آج غیراخلاقی تصورات کو قانون کے دائرے میں داخل کیا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قانون اپنی اہمیت، اپنی افادیت اور اپنی تاثیر کھوتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا میں روز بروز جو لاقانونیت بڑھ رہی ہے، دنیا کی حکومتیں اور بڑے بڑے قائدین جس طرح قوانین کو توڑ رہے ہیں، دنیا کے طے شدہ اصولوں کی جس طرح مٹی پلید کی جارہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا نے قانون اور اخلاق کے رشتے کو توڑ دیا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی شریعت نے پہلے دن سے قانون اور اخلاق، ان دونوں کے رشتے کو اس مضبوطی سے قائم کیا تھا کہ وہ رشتہ آج تک اسی مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔

قانون اور اخلاق کی ضرورت مدرسوں، مسجدوں اور خانقاہوں میں بہت محدود ہوتی ہے، جب کہ اخلاق اور روحانی اقدار کی ضرورت بازار، تجارت اور معیشت میں زیادہ ہوتی ہے۔ جس زمانے میں امام محمد بن الحسن الشیبانی اپنی کتابیں تالیف کر رہے تھے، اس زمانے کے بہت سے محدثین نے زہد پر کتابیں لکھیں۔ امام عبداللہ بن المبارک کی کتاب الزھد اور امام احمد بن حنبل کی کتاب الزھد مشہور ہے۔ متعدد محدثین نے، جن کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے، زہد کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ کسی نے امام محمد سے پوچھا کہ: آپ نے زہد پر کتاب نہیں لکھی؟امام محمد نے جواب دیا: میں نے کتاب الکسب اور کتاب البیوع لکھ دی ہے۔ خرید وفروخت کے احکام پر، فقہ المعاملات پر میں کتاب لکھ چکا ہوں جو کتاب الزھد کے تمام تقاضوں کو پورا کرے گی۔     یہ بات امام محمد نے کسی کمزور بنیاد پر نہیں فرمائی۔

امام محمد کے اس قول کی تشریح میں امام غزالی نے لکھا ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں بیٹھ کر یا اپنے گھر کی تاریکی میں بیٹھ کر استغنا وزہد کی بات کرنا آسان ہے، لیکن بازار میں جہاں خرید وفروخت کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں، جہاں دھوکا دہی اور کم تولنے کے روزانہ سو مواقع پیدا ہوتے ہیں، گھٹیا سودا دینے اور بڑھیا سودے کی قیمت لینے کے مواقع روزانہ پیدا ہوتے ہیں اور بازار میں بیسیوں آدمی ہر روز یہ کام کر رہے ہوتے ہیں___ اس وقت جب ایک شخص اس ناجائز روزی سے بچتا ہے اور جائز اخلاقی، قانونی، دینی تقاضوں کے مطابق تجارت کرتا ہے، تو وہ ہر لمحے شیطان کے گلے پر چھری چلاتا ہے۔ نفس کے شیطان کے گلے پر چھری چلانا آسان نہیں ہے۔ یہ چھری مسجد میں بیٹھ کر چلائی جاسکتی ہے، خانقاہوں میں چلائی جا سکتی ہے، لیکن جس بازار میں آپ لاکھوں روپے کا کاروبار کر رہے ہوں اور وہاں ایک معمولی غلط بیانی سے لاکھوں روپے کا فائدہ ہونے کا امکان ہو، وہاں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اس فائدے سے اپنے کو محروم کرنا ہی دراصل وہ تربیت ہے جو  اس روحانی اور اخلاقی اصول سے قائم ہوتی ہے جس پر شریعت نے اپنے احکام کی بنیاد رکھی ہے۔

اللہ کی حکمت بالغہ کو یہ بات پہلے سے معلوم تھی اور اللہ تعالیٰ کے لامتناہی علم میں یہ بات پہلے سے موجود تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ایک بین الاقوامیت کا دور ہوگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے تمام پیغمبر ، تمام آسمانی مذاہب اور تمام آسمانی کتابیں علاقائی پیغام لے کر آئے۔ کسی نے کہا کہ میں بنی اسرائیل کی بھیڑوں کوراہ راست پر لانے کے لیے آیا ہوں۔ کسی نے کہا کہ میں تو  بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دلانے آیا ہوں۔ کسی نے کہا کہ میں تو اپنے گاؤں میں آیا ہوں اور اپنے گاؤں کے فلاں حصے کے لیے آیا ہوں۔ قرآن پاک میں یہ شہادت موجود ہے کہ ایک ایک گاؤں میں تین تین نبی اللہ نے بھیجے۔ ایک گاؤں میں تین نبی ہوں گے تو چند گھروں کے ایک نبی ہوں گے اور دوسرے چند گھروں کے دوسرے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دور میں بھیجا گیا جو بین الاقوامی اور عالم گیر دور تھا اور عالم گیریت کا آغاز ہو رہا تھا۔ آپ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں، بین الاقوامیت کا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے تقریباً نصف صدی پہلے شروع ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جدِامجد جناب ہاشم بن عبد مناف نے بین الاقوامی تجارتی سفروں کا سلسلہ شروع فرمایا۔ رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ وَالصَّیْفِ کا قرآن میں بھی ذکر ہے۔    یہ سفر جناب ہاشم بن عبد مناف کی کوششوں سے شروع ہوا۔ ہاشم نے قیصرِ روم سے اور شہنشاہ ایران سے اجازت لے کر ان سفروں کے لیے راہداری کے پرمٹ جاری کرائے تھے۔ جناب عبدالمطلب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب عباسؓ بن عبد المطلب کا بڑا کاروبار تھا۔

یہ بات محض اتفاق نہیں ہے کہ رسولؐ اللہ نبوت سے ۱۵،۲۰ سال پہلے سے تجارت سے وابستہ تھے اور بطور صادق اور امین کے پورے جزیرئہ عرب میں معروف تھے۔ اسلام کی صف اول کی تمام شخصیات کا تعلق تجارت سے تھا۔ خلفاے اربعہ اور خاص طور سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور  سیدنا عثمان غنیؓ، اسی طرح عشرہ مبشرہ میں سے بڑی تعداد اور اکثریت کا تعلق تجارت سے تھا۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ، سیدنا زبیر بن عبد المطلبؓ، سیدنا زبیر بن العوامؓ، سب تجارت کرتے تھے۔   یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ ایک ایسی شریعت کے اولین علم بردار تھے جو بین الاقوامی شریعت تھی۔ بین الاقوامی معاملات اور تعلقات میں سب سے اہم چیز ہمیشہ سے تجارت اور معاشی معاملات رہے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی روابط کی سب سے بڑی اساس تجارت اور لین دین ہے۔ یہ حضرات پہلے سے بین الاقوامی تجارتی لین دین کر رہے تھے۔ گویا کہ اسلامی شریعت اور تجارت کا پہلے دن سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلامی شریعت اور بین الاقوامی معیشت دونوں پہلے دن سے ایک دوسرے سے وابستہ اور لازم وملزوم ہیں۔ یہ پیغام لے کر وہ شخصیات اٹھیں جو پہلے سے اس میدان میں تھیں۔ اس لیے کہ اگر کسی ایسی قوم کویہ پیغام دیا گیا ہوتا جو تجارت اور بین الاقوامی معیشت سے ناواقف ہوتی تو اسلام کے ان احکام پر عمل درآمد شاید اتنی آسانی سے نہ ہو سکتا اور اسلام کے وہ احکام جو پہلی صدی ہجری ہی میں مرتب ہونا شروع ہوگئے،  وہ شاید نہ ہو سکتے۔

آج بعثتِ نبویؐ سے پہلے دور کے متعدد قدیم قوانین موجود ہیں اور کتابوں میں لکھے ہوئے دستیاب ہیں۔ یہودیت کا قانون موجود ہے، ہندو اور رومن قانون موجود ہے،لیکن یہ بات میں بلاتامل آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ اسلام سے پہلے دنیا کے کسی بھی نظام اور قانون میں تجارت اور معیشت پر وہ زور نہیں دیا گیا جو اسلامی شریعت نے دیا ہے۔ اسلامی شریعت کے نزول کی تکمیل کے ڈیڑھ سو سال کے اندر اندر ائمہ اسلام نے ان قوانین پر درجنوں کتابیںمرتب فرما دیں۔ امام شافعی کی کتاب الام پورا انسائی کلو پیڈیا ہے جو ۱۵ جلدوں میں ہے۔ اسے تن تنہا    ایک فقیہ نے بیٹھ کر مرتب کیا۔ اس میں تجارت کے احکام اور قوانین کی جتنی شکلیں ہو سکتی ہیں۔   امام محمد نے ان مسائل پر بحث کی ہے۔ امام محمد سے پہلے ان کے اور امام شافعی کے استاذ امام مالک نے اپنی المدونہ میں، جو چھے جلدوں میں ایک ضخیم کتاب ہے اور بارہا چھپی ہے، تجارت اور معیشت کے تمام جزوی مسائل بیان کیے ہیں۔

تجارت اور معیشت کے احکام بیان کرنا آسان کام نہیں ہے۔ قرآن پاک کی اُن تمام آیات کو جب سامنے رکھا گیا، جن میں تجارت اور معیشت کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں، تو ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ سے ایک ایک فقیہ نے ہزاروں احکام کا استنباط کیا۔ ایک مرتبہ  امام شافعی کسی مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ جن صاحب نے عشاء کی نماز کی امامت کی، انھوں نے سورئہ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کی۔ امام شافعی رات کو آکر سو گئے۔ صبح اٹھے تو انھوں نے پوچھا: ’’حضرت، رات کو نیند آگئی، اچھی طرح سے سوئے؟‘‘ امام شافعی نے کہا: ’’میں تو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سویا‘‘۔ پوچھا: ’’جی کیوں؟‘‘ امام شافعی نے فرمایا: ’’جب تم نے یہ آیت تلاوت کی: وَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ (البقرہ ۲:۲۸۰)، جس میں قرض دار کا ذکر ہے، قرض کے احکام بیان ہوئے ہیں کہ اگر تمھارا مقروض تنگ دست ہو تو اسے اس وقت تک مہلت اور چھوٹ دی جائے جب تک اس کے پاس خوش حالی نہ آجائے، جب تک اس کا ہاتھ نہ کھل جائے۔ امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے اس آیت پر غور شروع کیا تو مجھے یہ پتا چلا کہ اس میں تو اسلام کا قانون ’افلاس‘ بیان کیا گیا ہے۔ افلاس (Insolvency) کیا ہے؟ وَ اِنْ کَانَ ذُوْعُسْرَۃٍ، یعنی آدمی اپنی مالی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ جس آدمی کی مالی ذمہ داریاں اور قرضے اس کے وسائل سے بڑھ جائیں، اس کو قانون میں ’مفلس‘ کہتے ہیں۔ وہی صورت حال یہاں بیان ہوئی ہے۔ پھر امام شافعی نے فرمایا کہ فوراً ذہن میں یہ آیا کہ اس آیت کا منشا یہ ہے کہ شریعت نے جو اخلاق، معاملات اور تجارت کے بارے میں سکھائے ہیں، وہ     قانونِ افلاس کی بنیاد ہونے چاہییں۔ پھر میرے ذہن میں یہ آیا کہ یہ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ذہن میں یہ آیا، پھر یہ آیا۔ امام شافعی بیان فرما رہے ہیں اور شاگرد سن رہے ہیں۔ پھر امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے اس آیت سے ۱۰۸ مسئلے اخذ کیے ہیں۔ گویا اس تین لفظی آیت سے امام شافعی نے قانونِ افلاس کے ۱۰۸ مسئلے مرتب فرمائے۔

اس ایک مثال سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تجارت اور معیشت کے احکام کی اسلام کے نظام میں کتنی اہمیت ہے۔ فقہاے اسلام نے قانونِ تجارت اور قانونِ معیشت، یعنی فقہ المعاملات کے جو مسائل منقح کیے، ان میں سے کئی مسائل ایسے ہیں کہ آج بھی مغربی دنیا ان تک نہیں پہنچی۔ انسان کا مزاج یہ ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر ہے۔ یہ جو علمی ذخائر کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں، اگر تقابل نہ کیا جائے تو ان کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔ وبضدہا تتبین الاشیاء۔ جب تک یہ نہ دیکھا جائے کہ دوسرے کیا کہتے ہیں، دوسروں کا نظام اور قانون کیا بتاتا ہے، اس وقت تک اپنی اس دولت کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ صحابہ کرامؓ کے دور سے، فقہاے اسلام اور مجتہدین کے دور سے یہ طریقہ رہا ہے کہ: جب شریعت کے احکام پر غور کیا جائے، شریعت کے احکام کو نافذ کیا جائے تو یہ بھی دیکھا جائے کہ شریعت سے انحراف کے کون کون سے راستے بازار میں موجود ہیں۔ اس طرح، ایک تو ان راستوں کو بند کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ دوسرے شریعت کے احکام کے راستے میں رکاوٹوں کا ادراک ہوتا ہے۔ پھر اس ادراک کی وجہ سے ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے۔ کئی مؤرخین نے اور سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے کہ وہ کسی منصب کے لیے کسی ذمہ دار آدمی کی تلاش میں تھے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کا طریقہ تھا کہ کثرت سے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کرتے تھے اور پھر غور کے بعد کسی منصب کے لیے افراد کا تقرر کرتے تھے۔ اس دوران میں کسی صحابی نے یا کسی دوست نے کسی صاحب کا نام لیا اور مشورہ دیا کہ آپ ان کو مقرر کر دیں، وہ بہت نیک اور متقی آدمی ہیں۔ ان کی تعریف بہت کی اور تعریف میں کہا کہ کانہ لا یعرف الشر، گویا کہ وہ اتنے اچھے آدمی ہیں کہ سراپا صلاح وتقویٰ ہیں اور شر کو جانتے ہی نہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ ایسا آدمی نہیں چاہیے، اس لیے کہ اذا یوشک ان یقع فیہ، جو شر کو نہیں جانتا، وہ تو شر میں مبتلا ہو جائے گا۔ اسے پتا ہی نہیں چلے گاکہ شر کیا ہے اور خیر کیا ہے۔ ایسا آدمی چاہیے جو خیر کو بھی جانتا ہو اور شر کو بھی۔

اس لیے صحابہ کرامؓ کے زمانے سے یہ سنت چلی آ رہی ہے کہ ائمہ اسلام نے اپنے دور کے تمام رائج الوقت طریقوں اور نظاموں کو جانا پہچانا، ان کا ادراک کیا۔ اس ادراک کے بعد جو مسائل سامنے آئے، ان کو سامنے رکھ کر شریعت کے احکام کومرتب کیا۔ جب سادہ زمانہ تھا، یہودیوں، عیسائیوں اور کفار مکہ کی گمراہیاں تھیں۔ تجارت کے معمولی طریقے تھے تو ائمہ مجتہدین نے ان طریقوں سے واقفیت حاصل کی۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جس زمانے میں وہ بیوع اور تجارت کے احکام مرتب فرما رہے تھے، اس زمانے میں بازار میں جا کر بیٹھا کرتے تھے۔ اپنے وقت کا ایک حصہ انھوں نے اس کام کے لیے رکھا تھا کہ بازار میں جا کر بیٹھیں اور دیکھیں کہ تجارت کیسے ہوتی ہے، کاروبار کیسے ہوتا ہے، اور کاروبار کے طریقے کون کون سے ہیں اور کیا ہیں، تاکہ اس کی روشنی میں وہ شریعت کے احکام کو مرتب کر سکیں۔ پھر جب یونانی علوم وفنون کا دور شروع ہوا تو ائمہ اسلام کی بڑی تعداد نے یونانی علوم وفنون کو حاصل کیا۔ فلسفہ، منطق، ریاضی، اس راستے سے آنے والی گمراہیوں کا سد باب کیا۔ امام غزالی، امام رازی، ابن تیمیہ، یہ وہ شخصیتیں ہیں جنھوں نے یونانی گمراہیوں کی اس طرح موثر تردید کی کہ کوئی بڑے سے بڑا یونانی فلسفی اور منطقی، اسلام کے کسی بھی حکم پر اعتراض نہیں کر سکا۔ حتیٰ کہ خالص اسلامی علوم کو اس طرح منطقی دلائل سے مرتب اور منظم کر دیا کہ اس زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا منطقی اصولِ فقہ پر یہ اعتراض نہیں کر سکتا تھا کہ اس کا فلاں مسئلہ یا فلاں اصول غیر منطقی ہے۔ علم کلام کو اس طرح مرتب کیا کہ مسلمانوں کے کسی عقیدے کو کوئی بڑے سے بڑا یونانی غیر عقلی قرار دے نہیں سکا۔

ان مثالوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فقہاے اسلام رائج الوقت تجارت اور معیشت،   رائج الوقت تصورات، رائج الوقت الحادی نظریات اور رجحانات سے پوری واقفیت حاصل کر کے شریعت کے احکام کو مرتب کر تے تھے۔ فقہاے اسلام نے فقہ المعاملات کے احکام کو مرتب کیا۔ فقہ المعاملات کے احکام کی ترتیب صحابہ کے زمانے سے شروع ہو گئی تھی۔ تابعین میں بعض حضرات نے فقہ المعاملات میں تخصص کیا۔ امام احمد بن حنبل نے ایک جگہ لکھا ہے کہ بیوع کے احکام سب سے زیادہ مرتب انداز میں سعید بن المسیب کے ہاں ملتے ہیں۔ سعید بن المسیب مشہور تابعی ہیں، سیدالتابعین کہلاتے ہیں اور طویل عرصے تک سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد رہے ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر ان احادیث اور سنت کے ان احکام پر غور وخوض کیا، جن کا تعلق بیوع اور تجارت سے تھا۔ ایسا ولی کامل، ایسا محدث جلیل جس کو بہت سے حضرات نے سید التابعین قرار دیا ہے، جس نے سالہاسال صحابہ کرامؓ سے کسب فیض میں گزارے، اس نے تجارت اور معیشت میں آج کل کی اصطلاح کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تخصص پیدا کیا۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تجارت اور بیوع اور کاروبار کی اہمیت کو صحابہ اور تابعین نے پورے طور پر پہچانا۔ بہت سے حضرات نے اس میں تخصص پیدا کیا اور اس تخصص کی بنیاد پر ائمہ مجتہدین نے احکام مرتب کیے۔

ان حضرات نے صرف احکام مرتب کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ انھوں نے ان احکام کی بنیادیں دریافت کیں۔ شریعت نے کسی چیز کو حرام قرار دیا ہے تو کیوں حرام قرار دیا ہے؟ اس کی علت کیا ہے؟ وہ علت کہاں کہاں پائی جاتی ہے؟ اس علت کو مختلف صورتوں پر منطبق کرنے کے قواعد کیا ہیں؟ خود مال (capital) جس کو کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ بیع کیا ہے؟ تجارت کیا ہے؟ اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ ان میں سے بہت سے مسائل وہ ہیں کہ مغربی دنیا آج بھی وہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے یہاں مدرسے میں طلبہ جو فقہ کی کتابیں پڑھتے ہیں، وہ جب کتاب البیوع شروع کرتے ہیں تو پہلے دو تین صفحات میں مال متقوم اور مال غیر متقوم کی بحث آتی ہے۔ یہ تصور آج مغربی قانون میں اس وقت بھی موجود نہیں ہے کہ مال کی پہلے دن سے دو قسمیں کی جائیں۔ ایک وہ مال ہے جس کی مالیت کو، جس کی ملکیت کو جس کے تصرف اور جس سے استفادے کو قانون جائز تصور کرتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس کو جائز تصور نہیں کرتا۔ آج مغربی دنیا اس چیز کی ضرورت محسوس کرتی ہے، لیکن اس کے پاس یہ تصور نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں متقوم اور غیر متقوم کا تصور اسلام میں موجود ہے۔

مثال کے طو رپر پاکستان کے قانون کی رو سے کسی کو ہیروئن رکھنے کا اختیار نہیں ہے۔ ہیروئن کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہے۔ وہ شریعت کی رو سے بھی مال غیرمتقوم ہے، اس لیے کہ مسکر ہے، اور موجودہ قانون میں بھی وہ مال غیر متقوم کہی جا سکتی ہے۔ کوئی شخص اپنی ملکیت میں توپ نہیں رکھ سکتا، ٹینک نہیں رکھ سکتا۔ اگر میں ٹینک خریدوں تو وہ خرید بھی ناجائز اور جو بیچے اور فروخت کرے وہ بھی ناجائز۔ یہ بات آج مغربی دنیا کو پریشان کر رہی ہے کہ اگر کسی چیز کی خرید وفروخت پر پابندی لگائی جائے تو کس بنیاد پر لگائی جائے؟ کبھی کہتے ہیں کہ عامۃ الناس کی فلاح میں نہیں ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ اس سے نقصان ہوگا۔ مختلف اسباب بیان کرتے ہیں، لیکن کوئی سبب یا کوئی ایسی ٹھوس اور جامع بنیاد نہیں ہے جو ان تمام جزئیات کو محیط ہو کہ جن جزئیات پر پابندی لگانا مقصود ہے۔ فقہاے اسلام نے، اللہ تعالیٰ ان کو جزاے خیر دے، متقوم اور غیر متقوم، دو اصطلاحات سے اس مسئلے کو حل کر دیا۔

سود کا مسئلہ آپ کو اور تاجروں کو اکثر پیش آتا ہے۔ سود میں غلط فہمیوں کی ایک وجہ اصطلاحات کا نہ ہونا بھی ہے۔ فقہاے اسلام نے مال کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ یہ سب فقہ المعاملات کے مباحث ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک مال وہ ہوتا ہے جس کو استعمال کیا جائے اور ایک مال وہ ہوتا ہے جس کو خرچ کیا جائے۔ یہ پگڑیاں رکھی ہوئی ہیں، میں آپ سے لے کر سر پر باندھ لوں اور تقریر کے بعد واپس کردوں تو یہ استعمال ہے۔ آپ کی اس پگڑی کا کچھ نہیں بگڑا۔ جیسی میں نے لی تھی، ویسی ہی واپس کر دی۔ اس کو شریعت کی اصطلاح میں ’عاریت‘ کہتے ہیں۔ ایک مال وہ ہے کہ جب تک میں اس کو خرچ کر کے فنا نہ کر دوں، میں اس سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ میں آپ سے ایک گلاس پانی مانگوں تو پانی کا کوئی فائدہ نہیں جب تک میں اس کو پی نہ لوں یا اس سے ہاتھ دھو کر اس کو بہا نہ دوں، یہ ’استہلاک‘ ہے۔ ان دونوں کے احکام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شریعت میں ایک کو ’عاریت‘ کہتے ہیں، ایک کو ’قرض‘ کہتے ہیں۔ انگریزی میں دونوں کے لیے borrow     (یعنی اُدھار) کی اصطلاح ہے۔ آپ لائبریری سے بھی کتاب اُدھار لیتے ہیں اور بنک سے رقم بھی اُدھار لیتے ہیں۔ اب جو اس فرق سے واقف نہیں ہے، وہ کہتا ہے کہ میں کتاب اُدھار لے کر اس کا کرایہ دے دوں تو آپ اس کو جائز کہتے ہیں، اور بنک سے پیسے اُدھارلے کر اس کا کرایہ دوں تو آپ ناجائز کہتے ہیں! اس میں فرق کیا ہے؟ وہ اس لیے معاملے کو نہیں سمجھتا کہ اس کے ہاں    یہ تصور موجود نہیں ہے، اصطلاحات موجود نہیں ہیں۔

اس طرح کے بے شمار احکام ہیں جو فقہ المعاملات میں فقہا نے مرتب کیے۔ فقہ المعاملات میں یہ بتایا گیا کہ مال کی تعریف کیا ہے؟ مال کس کو کہتے ہیں؟ جس چیز کو مال کہتے ہیں، اس کی  خرید وفروخت کے احکام کیا ہیں؟ پھر مال اور ثمن میں کیا فرق ہے؟ یعنی جس کو آج کل زر (money) کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ یہ بات آپ کے لیے حیرت انگیز ہوگی کہ آج کل جو زر کی تعریف کی جاتی ہے، بعینہٖ یہ تعریف فقہاے اسلام کے ہاں موجود ہے۔ امام مالک نے کہا ہے کہ زر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ما یقتات بہ، ما یدخر بہ ہو، یعنی جس کو ذخیرہ کیا جاسکے، جس کو محفوظ کیا جاسکے۔ ادخار، یعنی Store of value یہ آج کل کی اصطلاح ہے ۔ اس کے لیے   امام مالک نے ادخار کی اصطلاح استعمال فرمائی۔ امام مالک سے پہلے روے زمین پر کسی قانون دان کے ذہن میں یہ تصور نہیں آیا تھا۔ یہ نہ رومن قانون میں، نہ ہندو قانون میں اور نہ یہودی قانون ہی میں ہے، مگر شریعت میں موجود ہے۔ یہ تصور امام مالک نے دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے ہاں تصور   یہ ہے کہ ’زر‘ وہ چیز ہے جو گنی جا سکے، تولی جا سکے ، ناپی جا سکے۔ یہ تصور بھی آج کل ’زر‘ کی تعریف میں موجود ہے۔ اس لیے اپنے اس علمی ذخیرے کی قدر کرنا ہمیں سیکھنا چاہیے۔ اس ذخیرے سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے، لیکن ہمارے تاجر حضرات ان اصطلاحات سے اکثر واقف نہیں ہوتے جو فقہا نے استعمال کی ہیں۔ ہمارے علما اور مفتی حضرات ان اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتے جو مارکیٹ میں استعمال ہو رہی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک درمیانی واسطہ ہو۔ وہ درمیانی واسطہ نوجوان علما ہیں جنھوں نے آج کل کا بزنس ایڈمنسٹریشن بھی سیکھ لیا ہے اور شریعت کے وہ پہلے سے متخصص بھی ہیں۔ یہ حضرات اس نئے دور کے نقیب ہیں، ایک نئے دور کے مناد ہیں جس کی اُمت مسلمہ منتظر ہے۔ امت مسلمہ ۱۰۰ سال سے اس کی منتظر تھی!

حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انتقال سے چند مہینے پہلے جامعہ ملّیہ کا افتتاح فرمایا تھا۔ جامعہ ملّیہ آج ہندستان کی ایک عام سیکولر یونی ورسٹی بن گئی یا بنا دی گئی ہے۔ جامعہ ملّیہ کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ بنایا جائے جو علی گڑھ اور دارالعلوم دیوبند کا سنگم ہو، جس میں علی گڑھ کی اور دارالعلوم دیوبند کی تمام خصوصیات موجود ہوں۔ شیخ الہند اس کا افتتاح کرنے کے لیے دیوبند سے علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ علی گڑھ میں جامعہ ملّیہ کا افتتاح ہوا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر اس کے پہلے امیر، یعنی چانسلر مقرر ہوئے تھے اور انھوں نے علامہ اقبال سے گزارش کی تھی کہ آپ اس کے پہلے وائس چانسلر ہو جائیں۔ اس سے آپ اندازہ کریں کہ ۱۹۱۹ء، ۱۹۲۰ء میں یہ احساس حضرت شیخ الہند میں موجود تھا جو دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم تھے۔ انھوں نے ۱۹۱۹ء میں اس کا احساس کیا تھا۔ آج ۲۰۱۰ء میں ہم اس احساس کا عملی مظہر دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے ۹۰ سال کی تاخیر کر دی ہے۔ اگر یہ تاخیر نہ ہوتی تو شاید آج ہمارے دوستوں کو      یہ شکایت کرنے کا موقع نہ ملتا کہ ہم دنیا سے پیچھے ہیں، ہم دنیا کے مقلد ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کارساز ہے۔ وہ اس تاخیر سے درگزر فرمائے اور اس تاخیر کے نقصانات سے ہمیں محفوظ رکھے۔

اسلام میں تجارت کے احکام فقہ اسلامی کا سب سے بڑا حصہ ہیں۔ فقہ اسلامی کے اگر بڑے بڑے اجزا بیان کیے جائیں تو ایک جز عبادات کا ہے۔ نماز روزہ تعلق مع اللہ کے لیے ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد ہی اللہ کی عبادت ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (الذاریات ۵۱:۵۶)۔ اس لیے عبادت الٰہی کے لیے جو احکام ہیں، وہ بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنی تجارت کے احکام رکھتے ہیں، بلکہ ترتیب میں وہ سب سے پہلے ہیں۔ اس کے بعد ایک مسلمان کی تربیت اور تعلیم کا، مسلمان کی تیاری کا، نئی امت مسلمہ کی نشوونما کا جو سب سے بڑا مرکز اور درس گاہ ہے، وہ ماں کی گود ہے، گھر ہے اور ماں باپ کی سرپرستی ہے۔ نانی اور دادی کی لوریاں ہیں۔ جب تک یہ درس گاہ مسلمانوں میں محفوظ تھی، مسلمان گھر خطرے سے محفوظ تھے۔ آج یہ  درس گاہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ اس لیے شریعت نے اس درس گاہ کے احکام دیے ہیں۔ قرآن پاک کی آیاتِ احکام میں ایک تہائی کا تعلق عبادات سے ہے اور ایک تہائی کا تعلق عائلی احکام وقوانین سے ہے۔

فقہ المعاملات میں فقہاے اسلام نے جتنی تفصیل سے معاملات کو مرتب کیا ہے، اس تفصیل، وسعت اور اس گہرائی میں فقہ اسلامی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عبادات میں تو کسی تفصیل کی زیادہ گنجایش نہیں ہے۔ عبادات میں نہ کوئی نئی عبادت وضع کی جا سکتی ہے نہ کوئی نئی صورت وضع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے عبادات میں تو جوحدود اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اسی کے اندر رہنا پڑے گا اور اس کے احکام بھی محدود ہوں گے۔ اس کے باوجود فقہاے اسلام نے ہزاروں صفحات پر مشتمل سیکڑوں جلدیں تیار کر دیں ۔ لیکن معاملات کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں: الاصل فی المعاملات الاباحۃ۔ آپ جو بھی نیا کاروبار یا تجارت کرنا چاہیں، اگر اس میں کوئی چیز شریعت سے متعارض نہیں ہے تو وہ جائز ہے۔ اس میں ربا نہیں ہے، اس میں قمار نہیں ہے، اس میں غرر نہیں ہے، فلاں فلاں برائیاں نہیں ہیں تو وہ جائز ہے، خواہ اس کا نام جو بھی ہو۔ چونکہ اس میں راستہ کھلا ہوا ہے، میدان کھلا ہوا ہے، اس لیے فقہاے اسلام نے ہر دور میں نئی شکلیں مرتب کیں۔ جب کوئی نئی شکل تجارت کی آئی، فقہا نے اس کے احکام مرتب کیے۔

امام محمد اور امام مالک اور امام شافعی کے ہاں بیع الوفاء کا ذکر نہیں ہے۔ بیع الوفاء کے نام سے ایک بیع کا آغاز پانچویں چھٹی صدی ہجری میں ہمارے وسطی ایشیا، یعنی، سمرقند، بخارا، ماواء النہر میں ہوا تو فقہا نے اس کے احکام مرتب کر دیے۔ سوکرہ، یعنی سکیورٹی یا انشورنس کا مسئلہ اٹھارھویں انیسویں صدی میں سامنے آیا تو علامہ ابن عابدین نے سوکرہ کے احکام مرتب کر دیے۔ ردالمختار میں سوکرہ کا باب موجود ہے، اس کے احکام موجود ہیں۔ اس لیے تجارت اور معیشت کے ابواب فقہ اسلامی میں مسلسل وسعت پذیر ہوتے رہے ہیں اور ہر دور میں اس میں نئے اضافے ہوتے رہے ہیں۔ جو بنیادی تصورات تھے، ان کی روشنی میں فقہاے اسلام نے احکام مرتب فرمائے ہیں۔ ایک زمانہ تھاکہ ان قواعد کی تعداد ۲۵، ۳۰ سے زیادہ نہیں تھی، لیکن اب صورت یہ ہے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) کی اسلامک فقہ اکیڈمی نے ایک پروگرام بنایا کہ ان قواعد کو مرتب کروایا جائے جن کا تعلق معاملات سے ہے۔ ان سے پہلے ایک اور سعودی ادارے نے کچھ علما کو مقرر کیا کہ معاملات سے متعلق قواعد فقہیہ (Legal Maxims) مدون کریں۔ احکام، یعنی Rules of Law نہیں، وہ تو بے شمار ہیں۔ چنانچہ وہ ۱۲ جلدوں میں مدون ہوئے ہیں۔ انگریزی کی کوئی کتاب جس میں سارے لیگل میکسم جمع ہوں، دو سے زائد جلدوں میں نہیں ہے۔ یہاں صرف معاملات کے لیگل میکسم ۱۲ جلدوں میں مرتب ہیں، چھپ چکے ہیں۔ او آئی سی کی فقہ اکیڈمی کے صدر نے خود مجھے بتایا کہ ہم نے یہ کام شروع کروایا ہے۔ اب تک جو مواد ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۰۰جلدوں میں یہ کام مرتب ہوگا۔ اس سے آپ فقہ المعاملات کی وسعت کا، گہرائی اور تعمق کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ فقہ المعاملات میں دو سال، تین سال یا چار سال میں تخصص کیسے ہوگا۔ میرے خیال میں تو اس میں چار پانچ نسلیں لگانی چاہییں۔ تین نسلیں ہوں جو طے کریں۔ پہلے دادا پڑھے، پھر بیٹا پڑھے، پھر پوتا پڑھے تو جا کے شاید تخصص ہوسکے گا۔ جس قانون کے قواعد فقہیہ، ۱۰۰ جلدوں میں آرہے ہیں، اندازہ کریں کہ اس میں مہارت کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔ (جامعۃ الرشید کراچی میں تقریبِ تقسیم اسناد کے موقع پر خطاب، بہ شکریہ ماہنامہ الشریعۃ، گوجرانوالہ، جنوری-فروری ۲۰۱۱ء)

 

مشرق وسطیٰ میں ۵۰ اور ۶۰ کے عشرے کے بعد یکایک جس ارتعاش، حرکت اور انقلاب کا ظہور ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمت مسلمہ کی مٹی نم بھی ہے اور زرخیز بھی۔ نگاہ ظاہربین چونکہ سطح پر جو کچھ نظر آئے اس کو دیکھنے کی عادی ہوتی ہے، اس لیے وہ پُرسکون لہروں میں چھپے ہوئے بہت سے طوفانوں کو بھانپنے میں ناکام رہتی ہے۔ بعض اوقات مسائل اور مصائب یکے بعددیگرے ایسی رفتار سے آتے ہیں کہ انسان انھی میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے، اور ان سب کے مجموعی عمل سے، جو ان مسائل و مصائب کی انفرادی اثرانگیزی سے کئی سو گنا بلکہ ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے، بالکل لاعلم رہتا ہے۔ صدیوں سے ایک مثل سنتے آرہے ہیں لیکن عقل ایسی کوتاہ نظر ہے کہ اس پر یقین کرنے پر تیار نہیں ہوتی بلکہ اسے مذاق سمجھتی ہے کہ اُونٹ جیسی قوی ہیکل مخلوق جس کا کوہان ۴۵ فی صد کا زاویہ بناتا ہے اس پر محض ایک تنکے کا رکھنا اس کی کمر کو کیسے توڑ سکتا ہے۔ حالیہ انقلابات کی بارات نے اس مقولے کو ۱۰۰ فی صد سے زیادہ درست ثابت کر دیا ہے کہ ہر زوال کی ایک حد ہے۔ جب ذلت، غربت،مصیبت حد سے گزرتی ہے تو پھر ایک تنکا بھی حالات میں مکمل تبدیلی کا باعث بن جاتا ہے۔

ایک تعلیم یافتہ مگر مفلوک الحال نوجوان بوعزیزی کا تیونس میں اپنی حمیت اور غیرت کے مجروح ہونے اور معاشی طور پر بدحالی کی انتہا کو پہنچنے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف ایک طاغوتی قوت، بادشاہت وہ جسے فرانس و امریکا اور اسرائیل تینوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، اور دوسری جانب ایک معاشی طور پر مفلوک الحال ٹھیلہ لگانے والا، جسے انجینیرنگ کی ڈگری کے باوجود ملازمت نہ ملی، اور جسے اپنے ہاتھ کی کمائی کی سنت پر عمل کرنے کی خواہش میں ایک خاتون پولیس افسر کے ہاتھوں اظہارِ حق کرنے پر برسرِعام ذلیل ہونا پڑا۔ اس ایک واقعے نے وہی کام کیا جو اُونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا کیا کرتا ہے۔ ایسے اُونٹ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ جنوب ایشیا اور افریقہ میں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کی پیٹھ پر آخری تنکا کون اور کب رکھتا ہے؟

تیونس اور مصر کے انقلابی عمل نے کئی پڑوسی ممالک کے ایوان ہاے اقتدار میں بھونچال اور زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس قطار میں لگے ہوئے منتظر ممالک میں سے اول لیبیا ہے جو انفرادی آمریت کے طاغوتی نظام کا پہلا چلّہ پورا کرچکا ہے اور اپنے ملک کے عوام پر تعذیب اور بندش و ابتلا میں کسی بدترین جابرانہ نظام سے کم نہیں ہے۔ بن غازی میںتو عوام نے اپنے اقتدار کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ یہ لیبیا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ دیگر مقامات پر بھی انقلابی لہریں واضح نظر آرہی ہیں۔ ایسے ہی یمن تا بحرین اور الجزائر میں بھی انقلابی فضا عروج پر پہنچ رہی ہے۔ اس عالم گیر بیداری اور تبدیلی کی جدوجہد کو قوت و توانائی کہاں سے ملی؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو نہ صرف تیونس اور مصر بلکہ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں کارفرما ہوسکتے ہیں، اور بالخصوص ان حالات میں تحریکاتِ اسلامی کو کن پہلوئوں پر خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ اور اس سے متعلقہ مباحث ہر تحریکی کارکن کے ذہن کو پریشان کرتے ہیں اور ضرورت ہے کہ ان پر غیر جانب داری کے ساتھ غور کیا جائے۔

مندرجہ بالا معروضات اسی جانب اشارہ کرتی ہیں اور تیونس اور مصر کے انقلاب کے      عمومی تجزیے کی روشنی میں ان ممکنہ زاویوں کی طرف متوجہ کرتی ہیں جن پر تحریکاتِ اسلامی کو چند لمحات کے لیے ٹھیر کر غور کرنا چاہیے۔ مغربی صحافت ہو یا ملکی وسائل و اخبارات اور برقی ابلاغ عامہ، گذشتہ دوہفتے سے ہر تجزیہ نگار مسلم ممالک کے سیاسی موسم پر اپنے نتائجِ فکر اور پیشین گوئیاں پیش کررہا ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ تفصیلات میں جائے بغیر جو سبق ان حالات سے اخذ کیا جاسکتا ہے اس سے بات کا آغاز کیا جائے اور اس کی روشنی میں آیندہ کی شاہراہوں کی طرف اشارہ کیا جائے۔

تیونس اور مصر دونوں ممالک کو افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کا حلیف نہیں بلکہ امریکی سامراجیت اور یورپی تہذیب و فکر کا نمایندہ کہا جاسکتا ہے۔ حسنی مبارک کے دورِ آمریت میں امریکا نوازی اور مغربی لادینی فکر کا فروغ اپنے عروج پر رہا۔ اسی طرح تیونس میں یورپی کلچر اور اقدار کی اشاعت میں شاہی خاندان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دونوں ممالک نے مغرب کی نام نہاد ’دوستی‘ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھا اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے اسلامی قوتوں کو دبانے میں پیش پیش رہے۔ لیکن حالیہ انقلاب نے یہ بات ثابت کر دی کہ ع  جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ چنانچہ امریکی صدر کے بے ساختہ تاثرات حسنی مبارک کے نقشِ قدم پر چلنے والے آمروں کے لیے ایک کھلے پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں کہ امریکا صرف اپنے مفاد کا دوست ہوسکتا ہے، کسی اور کا نہیں۔ اس لیے امریکا کی حمایت پر ناز اور فخر کرنا اور امریکا کے دورے کر کے یہ سمجھ لینا کہ چونکہ امریکی دربار میں رسائی حاصل ہے اس لیے امریکا ہمیشہ ایسے آمروں کی پشت پناہی کرتا رہے گا، ایک سراب اور دھوکے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس انقلاب نے ایک جانب تو یہ ثابت کیا کہ جو  شاہ کے مصاحب بن کر اِتراتے پھرتے تھے ان کی کیا قدروقیمت اور آبرو ہے، وہیں اس انقلاب نے چند دیگر حقائق بھی بے نقاب کیے ہیں۔

عوامی طاقت: چند غور طلب پھلو

پہلی چیز جو واضح طور پر سامنے آئی ہے وہ عوامی طاقت کا مؤثر اور فیصلہ کن ہونا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ عوامی طاقت نظام میں مطلوبہ تبدیلی کے لیے کہاں تک کامیاب ہوتی ہے لیکن خود فرد یا آمر کا تبدیل ہونا اس قوت کے مؤثر ہونے کی علامت ہے۔ یہ عجیب صورت حال ہے، خصوصاً تحریکاتِ اسلامی کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ جو عوام مصر اور تیونس دونوں ممالک میں آمریت کے خلاف صف آرا ہوئے ان کا تعلق کسی حزب اختلاف یا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں تھا۔ گویا سیاسی جماعتوں کی فتح یا شکست کا اس انقلاب کے واقع ہونے سے کوئی منطقی تعلق نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ اسے کوئی نظریاتی انقلاب بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں معاملہ لادینیت اور دینی قوتوں کے درمیان کش مکش اور آخرکار ایک کا دوسرے پر غالب آنے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ لوگ بھی جو خود کو فخریہ سیکولر کہتے ہیں، اور وہ بھی جو اپنی دین داری پر ناز کرتے ہیں، اور وہ بھی جو ان دونوں میں شامل نہ ہوں لیکن ملکی حالات پر معترض ہوں، ان سب نے مل کر اس انقلاب میں حصہ لیا اور سیاسی کارکنوں اور جماعتوں کو چند لمحات کے لیے حیرت میں ڈال دیا۔

اس انقلاب کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کا انقلاب ہے۔ اس میں اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو ۲۶سال سے ۴۰ سال کی عمر کے دائرے میں ہیں۔ ہرشعبۂ حیات کے افراد اس تحریک کا حصہ رہے لیکن عمومی طور پر یہ نوجوانوں کا انقلاب ہے۔ یہ ان کا خون ہے جو رنگ لایا ہے۔ یہ ان کی جرأت اور بے باکی ہے جس نے یہ انقلاب برپا کیا ہے۔ آمریت اور استبداد کا ہوّا جو کئی قرنوں سے لوگوں کے ذہنوں پر سوار تھا، اس انقلاب نے تیونس اور مصر کے عوام کو اس ہوّے سے آزاد کر دیا ہے۔ اب وہ سیاہ و سفید کے فرق کو نہ صرف جان گئے ہیں بلکہ ان کی زبانوں نے بے باکی کے ساتھ حق کا اظہار کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے۔

اس انقلاب کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر مقامی انقلاب ہے۔ غیرملکی میڈیا ہو یا خفیہ ادارے، اب تک کی معلومات کی روشنی میں یہ ان سب کے اندازوں کے برخلاف ہوا ہے، اور اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عوام الناس کے مسائل کا ادراک اور فہم رکھتے ہوئے کوئی تحریک چلائی جائے تووہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل سکتی ہے۔

اس انقلاب کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ نئی نسل کی جانب سے امریکا پر عدم اعتماد کے ’اجماع‘ کا اظہار ہے۔ جس آمریت اور بادشاہت کو رد کرنے کے لیے نوجوانوں نے یہ اقدام کیا ہے، وہ اتنی ہی شدت کے ساتھ امریکا کی سیاست کو رد کرنے کا اعلان بھی ہے۔ یہ انقلاب ہمیں اس جانب بھی متوجہ کرتا ہے کہ ذاتی مفاد کی سیاست، چند خاندانوں یا ایک خاندان کی ریاست پر    اجارہ داری کا دور اَب رخصت ہورہا ہے۔ جب نوجوانوں میں عقابی روح بیدار ہوجاتی ہے تو  ایوانِ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں کا وقتِ آخر آن پہنچتا ہے۔ یہ انقلاب شخصی اور فوجی آمریت دونوں کے خلاف عدمِ اعتماد کے ووٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس انقلاب نے اس بات کو بھی پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ اقتدار کی گرتی ہوئی دیوار کو اُس کے نام نہاد حمایتی اور پاسبان بھی سہارا دینے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری جانب آمروں اور بادشاہوں کے اس خیال کی بھی تردید کردی ہے کہ عوام نابالغ ہیں، ناسمجھ ہیں، انھیں چند انعامات کے کھلونے دے کر خاموش کیا جاسکتا ہے، جیساکہ بعض مسلم ممالک کے فرماں روائوں نے اپنی ’رعایا‘ کے لیے چند ہزار دینار تحائف دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ عوام ان کے ممنون احسان ہوکر مظاہروں اور مطالبات سے باز آجائیں۔

حدیث شریف میں ’رعیت‘ کے حوالے سے جو ذمہ داری مسئول پر ڈالی گئی ہے وہ اچانک ان آمروں کو یاد آگئی ہے۔ بعض علما قرآن کریم کی اولی الامر سے متعلق آیت مبارکہ کے صرف ابتدائی حصے کی طرف عوام الناس کو متوجہ کر رہے ہیں کہ اللہ، اس کے رسولؐ اور اولی الامر کی اطاعت اختیار کی جائے۔ آیت مبارکہ کا بقیہ حصہ شاید ابھی تک نظروں سے اوجھل ہے کہ جب اولی الامر سے اختلاف اور نزاع یا تنازع ہوجائے تو پھر اطاعت صرف اللہ کی ہے، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، اور اولی الامر کی حیثیت ایک عام شخص کی راے سے زائد نہیں، نہ ایسی حالت میں اطاعت کی فرضیت باقی رہتی ہے۔

اس انقلاب کی لہر سے تاریخ کے جس نئے دور کا آغاز ہورہا ہے اس میں بنیادی مسئلہ نظریاتی تقسیم کا نہیں ہے بلکہ اللہ کے بندوں کے حقوق کا ہے۔ آج ایک سیکولر شخص ہو یا دینی جماعت سے وابستہ، کسان ہو یا ڈاکٹر، مزدور ہو یا طالب علم، وہ ان حقوق کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو کل تک چند مخصوص طبقات تک محدود تھے۔ وہ تعلیم ہو، روزگار ہو، مہنگائی ہو، ذاتی تحفظ ہو، صحت ہو، یا  اظہار راے کا حق، ان تمام حقوق کے حصول کے لیے ہر طبقۂ خیال کے افراد نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی پر عمل کرتے ہوئے آمرانہ اور شاہانہ نظام کے علَم برداروں کو للکارا ہے۔ یہ عوامی قیادت کسی صلاح الدین کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھی ہے اور اس کی متحدہ قوت نے طاغوت اور ظلم کے نمایندوں کو دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ہمارے خیال میں یہ جمہوری اقدار کی فتح اور مغربی سامراجی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی شکست کا اعلان ہے۔ روشنی کی اس کرن سے اُس صبحِ اُمید کے روشن ہونے کا امکان بہت قوی ہوگیا ہے جو اسلام کے دیے ہوئے عادلانہ نظام کو مشاورت پر مبنی سیاسی اصولوں اور عوام الناس کے مصالح پر مبنی حکمت عملی کی روشنی میں نافذ کرسکے۔ لیکن یہ سمجھنا بھول پن ہوگا کہ مغربی سامراجیت اتنی آسانی سے اپنی شکست مان لے گی۔ آخر مصر میں وقتی قیادت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ کل تک حسنی مبارک کے دست راست تھے اور محض ایک رات کے گزر جانے سے ان کی فکر، ان کی شخصیت،ان کی ترجیحات اور ان کا نقطۂ نظر انقلابی طور پر تبدیل نہیں ہوسکتا۔ گو، مصر کی حد تک  فوجی قیادت نے جو کمیٹی دستوری سفارشات تیار کرنے کے لیے بنائی ہے اس میں اخوان المسلمون کے ایک نمایندے اور ایک عیسائی لیکن معروف جج کو بھی شامل کیا گیا ہے، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ محض اپنے چہروں کو چھپانے کے لیے انھیں استعمال کرنا ہے یا خلوصِ نیت کے ساتھ سفارشات میں اخوان اور عیسائی آبادی کے خیالات کو اہمیت دینے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

ہر آمرانہ نظام کے بعد آنے والے جانشین ہمیشہ جمہوریت کے علَم ہی کا سہارا لیتے ہیں اور بہت جلد سابقہ آمریت سے زیادہ ظالمانہ نظام کے کارندے بن جاتے ہیں۔ گو، قرائن بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا کرنا آسان نہ ہوگا اور سامی عنان جو امریکی تربیت یافتہ اور امریکا کے اعتماد کے فوجی سربراہ ہیں، باوجود اپنی امریکا نوازی کے ماحول اور فضا کے پیش نظر،ایسی اصلاحات اور انتخابات کروانے پر آمادہ ہوجائیں گے جن میں عوامی خواہشات کی جھلک ہو۔

مغربی ذرائع ابلاغ بین السطور اور کھلے الفاظ میں جس بات کو بار بار دھرا رہے ہیں وہ مختصر طور پر یہ ہے کہ اب مصراور تیونس کے عوام کے سامنے جو انتخاب ہے، وہ بہت سخت ہے۔ ایک طرف گڑھا ہے تو دوسری طرف کھائی، یعنی ایک جانب سابقہ حکومت کے سیاہ اعمال ہیں تو دوسری جانب ’اسلامیان‘ جو فطرتاً ’انتہاپسند‘، ’شریعت پرست‘، ’مغرب دشمن‘ اور ’دہشت گردی‘ کا پس منظر لیے ہوئے ہیں۔ ان دو میں انتخاب آسان نہیں ہے۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد بڑے سلیقے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اصل علاج تو ’مغربی لادینی جمہوریت‘ ہی ہے لیکن بااکراہ اگر کچھ اور نہ ہوسکے تو پھر ’اسلامیان‘ کو مشروط طور پر موقع دیا جاسکتا ہے مگر یہ خطرات اور خدشات سے بھرا ہوا راستہ ہوگا۔  اس لیے بہت غوروفکر کی ضرورت ہے۔

تیونس اور مصر کے انقلاب کی ایک خصوصیت اس کا معلوماتی انقلابی دور میں اتصالاتی ذرائع سے عوام کو آگاہ اور منظم کرنے کا عمل ہے۔ اس سے قبل معلومات کی ترسیل ایک بہت مشکل کام تھا۔ کبھی روٹیوں کے اندر پیغامات کو چھپا کر، کبھی ریشمی رومال کے ذریعے، اور اُس سے پہلے تربیت یافتہ کبوتروں کے ذریعے پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ لیکن حالیہ انقلاب میں انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے لاکھوں افراد تک اپنی بات پہنچاکر انھیں متحرک کرنے اور منظم کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ ایران کے انقلاب میں جو کام کیسٹ کے ذریعے مساجد میں امام خمینی کی تقاریر و پیغامات کو سناکر کیا گیا تھا، آج جدید آلات رسل و رسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے وہی مقصد اس کم خرچ مگر مبنی برعقل طریقے سے حاصل کرلیا گیا۔ تیونس کے قومی پھول یاسمین کی مناسبت سے اسے ’انقلابِ یاسمین ‘ کا نام دیا گیا۔ گو، شاید زیادہ صحیح نام ’اتصالاتی انقلاب‘ ہوگا۔

یہ واقعہ ہمیں یہ بات باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ وہ آلات جنھیں ہمارے ملک کے نوجوان اپنے دوستوں کو لطائف، فلمی گانے اور ملاقات کے لیے اطلاع کے لیے استعمال کرتے ہیں، اسی چھوٹے سے موبائل فون کے sms کے ذریعے کسی ملک کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ نوجوان نسل کو مسائل کی سنگینی اور اہمیت کا شعور ہو، اس آگہی کو دوسروں تک منتقل کرنے کی خواہش اور تڑپ ہو، اور سب سے بڑھ کر مقصد اور منزل نگاہوں کے سامنے واضح ہو۔

جدید ٹکنالوجی نے جہاں نوجوانوں کو ایسے بہت سے عبث کاموںمیں مشغول کر دیا ہے  جن سے نہ ان کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، نہ ملکی معاشرے میں کوئی تبدیلی، وہیں اس جدید ٹکنالوجی کا مثبت اور مفید استعمال کرکے ایسے بہت سے کام جو بظاہر مشکل اور عظیم مالی وسائل کے محتاج سمجھے جاتے ہیں، قابلِ برداشت مالی وسائل میں احسن طور پر سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔

تحریکاتِ اسلامی پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ جس دستوری انقلاب کی دعوت دیتی ہیں وہ محض ایک یوٹوپیا (خیالی تصور) ہے اور انقلاب صرف خونیں ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے جب تک ریاست کو قوت کے استعمال اور زورِ بازو سے حاصل نہیں کیا جائے گا اللہ کی زمین پر اللہ کی خلافت کا قیام ایک واہمہ ہے۔ موجودہ صورت حال اس کے برعکس یہ ثابت کرتی ہے کہ تیونس اور مصر میں ریاست کو عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور فوج بھی ان حالات میں آمریت سے کنارہ کش ہونے پر مجبور ہوئی۔

لیبیا میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک الگ تفصیلی تجزیے کا محتاج ہے۔ ہرملک کے حالات اور واقعات دوسرے ملک جیسے ہونا ضروری نہیں ہے، نہ ہر آمریت دوسری آمریت کی مماثل کہی جاسکتی ہے۔ اس لیے ہم اپنی گفتگو کو تیونس اور مصر کے تجزیے تک ہی محدود رکھنا چاہیں گے۔

دونوں ممالک کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سول اور فوجی آمریت ملکی معیشت، معاشرت، ثقافت، قانون اور تعلیم، غرض کسی بھی شعبۂ حیات میں اصل مسائل کا حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہی شکل پاکستان میں آج پائی جاتی ہے اور موجودہ حکومت اپنے ’جمہوری‘ ہونے کے دعووں کے باوجود ایک ’سول آمریت‘ کا بہترین نقشہ پیش کررہی ہے۔

تحریکاتِ اسلامی کے لیے لمحۂ فکریہ

تحریکات اسلامی کے لیے ان حالات میں کئی اہم پہلو غوروفکر کے متقاضی ہیں۔ ایک چیز جو فوری توجہ چاہتی ہے اس کا تعلق موجودہ انقلابات کا آبادی (demography) کے لحاظ سے جائزہ ہے۔ یوں تو نوجوان ہر تحریک میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ معوذؓ اور معاذؓہوں، اسامہ بن زیدؓ ہوں، عبداللہ ابن مسعودؓ ہوں یا ابوہریرہؓ___ یا آج کے دور کے نوجوان، لیکن تحریک کے لیے قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اس کی افرادی قوت میں عمروں کا تناسب کیاہے۔ جن افراد کو دعوت  دی گئی ہے ان میں سے کس عمر کے افراد نے جلد دعوت پر لبیک کہا؟ خود دعوت دینے والے افراد کا کس عمر سے تعلق ہے؟ کیا اُس فطری قوت کو، اُس جذبے کو، خطرات مول  لینے کی عادت کو، چیلنج کا مقابلہ کرنے میں مسابقت کرنے کی تڑپ کو تحریک نے تجزیاتی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کی مناسبت سے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کی ہے؟

نوجوانوں کی نفسیات، دیگر افراد سے مختلف ہونا ایک فطری امر ہے۔ ایسے ہی عمر کے ڈھلنے کے ساتھ غیرمحسوس طور پر افراد کی کارکردگی، ردعمل، حالات کا تجزیہ کرنے اور حالات کو بدلنے کے لیے حکمت عملی کے حوالے سے طرزِعمل میں تبدیلی بھی کوئی غیرفطری بات نہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کو خصوصاً حالیہ انقلابات کے demographic پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی دعوت کا ہدف کس عمر کے طبقات ہیں، ان کے کارکنوں میں عمر کا تناسب کیا ہے، نیز خود ملک گیر پیمانے پر عمر کے لحاظ سے کس قسم کی سرگرمی کی ضرورت ہے۔ دو مختلف خطوں میں اُبھرنے والی تحریکات کا اگر صرف اس پہلو سے جائزہ لیا جائے، جس کا نہ یہ موقع ہے، تو بہت دل چسپ نتائج تک پہنچا جاسکتا ہے۔

اس وقت مسلم دنیا میں عمر کے لحاظ سے ایسے افراد کا دور نظر آتا ہے جو توانائی، حرکت اور مسلسل عمل کو پسند کرنے والے کہے جاسکتے ہیں۔ انھیں سنجیدہ سیمی نار یا نظریاتی مسائل پر مطالعے کے حلقے میں بٹھا کر چند لمحات کے لیے تو ان کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے لیکن پھر ان کا دل اُچاٹ ہوجانا، ان کی عمر کا تقاضا ہے۔ ایسے افراد کے لیے بھرپور سرگرمیوں کے پروگرام کی ضرورت ہے۔ یہ کام ہر تین ماہ بعد ایک ریلی، مظاہرے یا دھرنے سے نہیں ہوسکتا۔ ایک اندازے کے مطابق مراکش میں ۲۵سال یا اس سے کم عمر کے افراد کا تناسب ۴۷ فی صد، ماریتانیا میں ۵۹ فی صد، الجزائر میں ۴۷فی صد، تیونس میں ۴۲فی صد، لیبیا میں ۴۷فی صد، مصر میں ۵۲فی صد، عراق میں ۶۰فی صد، ایران میں ۴۵فی صد، یمن میں ۶۵فی صد اور کویت میں ۳۷فی صد، جب کہ متحدہ عرب امارات میں ۳۱فی صد ہے۔ گویا اُمت مسلمہ ایک جوان اُمت ہے۔ اس کے حوصلے بھی جوان ہونے چاہییں۔ اس کی منزلیں بلند اور اعلیٰ ہونی چاہییں۔ اس کی قیادت بھی اس عمر کے دائرے میں ہونی چاہیے۔

دوسرا اہم پہلو جس پر تحریکاتِ اسلامی کو غور کرنے کی ضروت ہے وہ جدید ذرائع ابلاغ، انٹرنیٹ، یوٹیوب  اور blogs کا استعمال ہے۔ آج کا نوجوان اپنے وقت کا بڑا حصہ یہ جاننے کے لیے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس کے ٹرم پیپر کے لیے تازہ ترین تحقیق کس رسالے یا کتاب میں پائی جاتی ہے، کون سی فلم یا گانا مقبول ہے، لباس کے نئے ڈیزائن کیا ہیں، غرض علمی مسائل ہوں یا دینی معلومات یا تحقیقی موضوعات وہ ہرلمحے انٹرنیٹ کی تیزرفتاری اور سہولت کی بنا پر اس طرف رجوع کرتا ہے۔ کیا تحریکاتِ اسلامی نے اپنی دعوت، اپنے پیغام، اپنے طریق کار اور خصوصاً  طریق تبدیلیِ قیادت کے حوالے سے اس جدید سہولت کے استعمال پر غور کیا ہے، اور کیا غور کو   عملی اقدامات میں تبدیل کیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو تحریکاتِ اسلامی ابھی ماضی میں بس رہی ہیں۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور انھیں ابھی تک اس کی خبر بھی نہیں۔

تیسرا پہلو تحریکات اسلامی کے غور کرنے کا یہ ہے کہ کیا ان کی حکمت عملی میں اسلامی ریاست، اسلامی معیشت اور اسلامی معاشرت کے قیام کا مطالبہ عوام اور نوجوانوں تک ان کے پیغام کی صحیح ترجمانی کرتا ہے یا انھیں اپنے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے، بغیر سیکولر ہوئے ان  عمومی پہلوئوں کو دعوت کا مرکز بنانا ہوگا جو شریعت کے مقاصد ہیں اور جن کے قیام کے لیے تمام انبیاے کرام ؑنے جدوجہد کی___ معاشرے میں عدل کا قیام، محروم طبقات کو ان کے جائز حقوق دلانا، عورتوں پر ہونے والے روایتی معاشرے کے مظالم کو بند کروانا، مفلسی کو دُور کرنا، اظہارراے اور اظہارِ اجتماع کے حق کے حصول پر عوام میں اور نوجوانوں میں غیرشدت پسند ذرائع سے سیاسی اور معاشی انقلاب برپا کرنا۔ حالیہ انقلابات میں جن حضرات نے حصہ لیا، ان میں ’اسلامیان‘ بھی شامل ہیں اور بظاہر سیکولر افراد بھی۔ وجہ ظاہر ہے۔ ہدف نظامِ عدل کا قیام، استحصال، آمریت اور غیرجمہوری نظام کے خاتمے کی جدوجہد تھی جس میں مسلم، عیسائی، لادینی، ہرقسم کے افراد نے شمولیت کی۔ کیا تحریکاتِ اسلامی اس صورت حال سے سبق لیتے ہوئے بغیر اپنے اعلیٰ ترین مقصد، یعنی رضاے الٰہی کے حصول اور صالح قیادت کے قیام کے لیے اپنی حکمت عملی پر نئے سرے سے غور کرکے ان مسائل کو اوّلیت دے سکتی ہیں جو نوجوانوں اور ہرفکر کے افراد کو شمولیت پر آمادہ کرسکیں؟

ایک اور اہم پہلو جس پر غور کی ضرورت ہے، اس کا تعلق خدمتِ خلق کے تصور کے ساتھ ہے۔ جن لوگوں نے شہر کے چوراہوں پر مظاہرے کیے، رات دن اپنے جذبات کا اظہار کیا،    ان کے کھانے پینے کے لیے کسی بیرونی ملک یا ادارے نے کوئی رقم خرچ نہیں کی بلکہ لوگوں نے خود آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا۔ تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں اس قسم کے تجربات کی کثرت ہے اور اپنے تجربات کی روشنی میں اگر وہ عوام تک پہنچنے اور انھیں ساتھ لے کر چلنے کے لیے خدمتِ خلق کو دیگر کاموں پر ترجیح دیں تو شاید حصولِ مقصد میں زیادہ آسانی پیدا ہوسکے۔ اس حوالے سے تفصیلی طور پر ترکی میں ہونے والی تبدیلی کے جائزے کی ضرورت ہے جو ایک الگ تحقیق کی مستحق ہے۔ پاکستان کے حوالے سے کراچی میں نظامت کراچی جب تحریکِ اسلامی کی متحرک قیادت کے زیراثر تھی تو شہر میں کیے جانے والے اقدامات کو جس کسی نے بھی دیکھا مخالف ہونے کے باوجود تحریکِ اسلامی کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور آج تک اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔

تحریک کی حکمت عملی میں قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے مختلف شہروں کو منتخب کر کے ان پر نوجوانوں کی قوت کو مرتکز کیا جائے اور عوام کو اپنی آنکھوں سے مشاہدے کا موقع فراہم کیا جائے کہ مخلص قیادت ایمان دار ناظم اور اللہ کا خوف رکھنے والے مقامی رہنما اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اپنے اہلِ ملک کے لیے کیا معجزے کرسکتے ہیں۔

تحریکِ اسلامی کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک گیر پیمانے پر رفاہی اور ترقیاتی کاموں، بے روزگاری کے خاتمے اور غربت کو دُور کرنے کے لیے کس طرح یوتھ فورس کو استعمال کیا جاسکتاہے۔ ہمارا ہدف چند جامعات کی یونین پر کامیابی سے زیادہ اپنی بے لوثی، خلوص، قربانی و ایثار پر ہونا چاہیے، جس کی اپنی زبان ہے، اپنا اثر ہے، اپنے نتائج ہیں۔

آمریت کے خلاف عوام کو متحد کرنے کے لیے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ    ’اصولی جمہوریت‘ کو ’سرمایہ دارانہ مغربی جمہوریت‘ کے مقابلے پر علمی، جذباتی، عوامی سطح پر پیش کیا جائے اور جو لوگ اپنے آپ کو عوامی جمہوریت کے علَم بردار کہتے ہیں، ذاتیات سے بلند ہوکر ہم ’اصولی جمہوریت‘ کے خدوخال واضح کریں جس میں مشاورت، صلاحیت، امانت اور صداقت کی بنیاد پر لوگوں کو یک جا کیا جائے اور آمریت کو اصل ہدف بنایا جائے۔

چند خدشات

اس پورے عمل کے دوران میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ عوامی جدوجہد، قربانی اور کوشش کے نتیجے میں جب آمریت اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور ہوجائے تو اس انقلاب کو کوئی اغوا نہ کرنے پائے اور نہ ’اسلامیان‘ کے خیالی خطرے ہی کو بار بار بیان کرکے بیرونی ابلاغِ عامہ صحت مند اور صالح قیادت کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوں۔ مغربی صحافت کا جائزہ لیاجائے تو ہرتجزیہ یہ بات بیان کر رہا ہے کہ کرپٹ، غیرمخلص، لالچی، خودغرض قیادت جو مسلم دنیا پر قابض رہی ہے، اس کا اصل متبادل تو اسلام پسند ہی ہیں لیکن یہ کہنے کے ساتھ فوراً یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس سب کے باوجود اگر ’اسلامیان‘ برسرِاقتدار آگئے توبنیاد پرستی، تشدد، انتہاپسندی وغیرہ کا امکان پیدا ہوجائے گا۔

اس بین السطور اور بعض اوقات واضح طور پر راے کا اظہار اتنی مرتبہ کیا جا رہا ہے کہ ہرسامع اور ناظر ’اسلامیان‘ کی جگہ سیکولر قیادت ہی کی طرف راغب ہوں۔ گویا آمریت جائے اور سیکولر قیادت اس خلا کو پُر کرے۔ تحریکاتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس چالاکی پر مبنی تصور کو بغیر کسی معذرت کے اپنی حکمت عملی اور طرزِعمل سے دُور کریں تاکہ ان پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ بہترین مثال ترکی کی قیادت ہے جس نے ’اصولی جمہوریت‘ کے لیے جدوجہد کی اور ملک میں دستوری اصلاحات کے ذریعے ریاست کے اصولاً سیکولر ہونے کے باوجود ملکی معیشت، خودانحصاری، دفاع اور اسلامی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے مسائل پر بھی جرأت مندانہ حکمت عملی اختیار کی۔

آج جو فضا ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے کے بعدپیدا ہوئی ہے، یہ تاریخ کے ایک موڑ کا پتا دے رہی ہے۔ اسلام کی احیائی تحریکات نے جو بیج بیسویں صدی میں ڈالے تھے اب ان سے شجرطیبہ پیدا ہورہے ہیں جن کی جڑیں مضبوط اور سایہ گھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت، دین پر اعتماد اور خلوصِ نیت کے ساتھ کی جانے والی جدوجہد ان شاء اللہ وہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگی جس میں عدل و احسان کا دور دورہ ہو۔

الاخوان المسلمون کے مرشد عام کی دعوت پر جماعت اسلامی پاکستان کا ایک وفد جس کی قیادت محترم امیرجماعت سیدمنور حسن کر رہے تھے، اور جس میں قیم جماعت لیاقت بلوچ، نائب صدر الخدمت فائونڈیشن ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور راقم الحروف شامل تھے، ۲۰جون کی شام قاہرہ پہنچا۔ ائیرپورٹ پر پاکستانی سفارت خانے کے ذمہ داران بھی تھے اور اخوان کے نمایندگان بھی۔ ۲۱جون کی صبح ہماری پہلی باقاعدہ ملاقات مرشد عام پروفیسر ڈاکٹر محمد بدیع سے تھی۔ یہ ملاقات قاہرہ کے سب سے بلندی پر واقع علاقے المُقَطَّم میں اخوان کے سات منزلہ نئے اور شان دار مرکز میں ہوئی۔  مرشدعام ڈاکٹر بدیع کے ہمراہ اخوان کے سیکریٹری جنرل محمود حسین اور مکتب ارشاد (مجلسِ عاملہ) کے کئی ارکان بھی شریک محفل تھے۔

ڈاکٹر محمد بدیع مرشد عام منتخب ہونے سے پہلے نائب مرشد عام کی حیثیت سے تربیتی اُمور کے ذمہ دار تھے۔ ان کی بات بات سے یہی تربیتی پہلو اور قرآن و حدیث سے استدلال سامنے آتا تھا۔ ساری دنیا تسلیم کررہی ہے کہ اخوان کی منظم قوت کی شرکت کے بغیر حسنی اقتدار سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی تھی، لیکن مرشد عام بار بار دہرا رہے تھے: دنیا کی کوئی طاقت کامیابی اس کا دعوی نہیں کرسکتی۔ نہ اخوان اور نہ کوئی دوسری عوامی قوت، یہ سراسر اللہ تعالی کی ایک نشانی اور معجزہ تھا۔ اپنی یہ بات کرتے ہوئے کہنے لگے ہر فرعون اپنی ہی قوم کو تقسیم کردیتا ہے۔ قرآن کریم اس چال کو بے نقاب کرتے ہوئے بتاتا ہے:’’بے شک فرعون نے زمین میں سرکشی کی، اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا… فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘ (القصص ۲۸:۴)، لیکن بالآخرپھر پوری مصری قوم جسد واحد بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت عطا کردی۔ اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ واضح کرتا ہے: ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل بناکر رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں‘‘۔

مرشد عام نے اپنی گفتگو میں کئی بار سابقہ اور حالیہ دور کا موازنہ کیا۔ فلسطین اور اس کی صورت حال کا ذکر ہوا تو کہنے لگے: کئی سال سے مختلف فلسطینی دھڑوں کو بھی باہم لڑایا جارہا تھا۔    حسنی مبارک کے بعد صرف چار گھنٹے میں الفتح اور حماس باہم اتفاق راے پر پہنچ گئے۔ ان کی اس صلح پر امریکا اور اسرائیل سمیت فلسطینیوں کے سب دشمن تنقید کررہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد بدیع بتا رہے تھے کہ شاید مسلم تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ حسنی مبارک کے بعد میدان التحریر میں ادا ہونے والے جمعے میں لاکھوں کی تعداد میں مسیحی بھی شریک تھے۔ خطبۂ جمعہ میں مسلمان ہی شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے خطاب بھی برادرانِ اسلام سے ہوتا ہے لیکن علامہ یوسف القرضاوی نے خطبۂ جمعہ ان الفاظ سے شروع کیا: ’’میرے مسلمان اور مسیحی بھائیو‘‘۔

مرشد عام بتا رہے تھے کہ اسلامو فوبیا کی عالمی لہر عوام کو شریعت اسلامی اور اسلامی تحریکوں سے خوف زدہ کرنے پر کمر بستہ ہے۔ مصر میں جاری پوری پراپیگنڈا مہم میں اخوان کو تنقید کا خصوصی ہدف بنایا جارہا ہے۔ اپنے اس خوف کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اخوان ۱۰۰ فی صد نشستیں حاصل کرلے گی۔ پھر انھوں نے اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے آغاز ہی سے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ ہم اس مرحلے میں اقتدار کے لیے کوشاں نہیں ہوں گے۔ ہم پورے غور و خوض کے بعد اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ آیندہ مرحلے میں اپنی تمام تر توجہ، قوم کی خدمت اور اسے اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آشنا کرنے پر مرکوز رکھیں گے۔ گذشتہ دورِ جبر کے باعث عوام کی بڑی تعداد تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچنے ہی نہیں دی گئیں۔ صرف چند ظاہری رسوم و رواج کو دین کا نام دے دیا گیا ہے۔  ہم آیندہ مرحلے کو ’دور اخوان‘ ثابت کرنے کے بجاے معاشرے کو حقیقت اسلام سے آشنا کرنے کا مرحلہ بنائیں گے۔ اس کا مطلب پورے سیاسی عمل سے خود کو الگ تھلگ کرلینا ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو اب بھی ذمہ داریوں اور خدمت میں برابر کے شریک ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت پورے ملک میں امتحانات ہورہے ہیں۔ ملکی سطح پر انٹر میڈیٹ کے ان امتحانات کی خصوصی اہمیت ہے۔ عبوری حکومت اس قابل نہیں تھی کہ امتحانی مراکز کی حفاظت کرسکے، اخوان نے ملک بھر میں عوام کے تعاون سے امن کمیٹیاں تشکیل دیں اور ان امتحانی مراکز کی حفاظت کی۔ قوم کو اس وقت اور بھی کئی بحران درپیش ہیں اور اخوان کسی حکومت کا حصہ ہوئے بغیر بھی، اپنے کارکنان اور عوامی تائید کے ذریعے معاشرے کی خدمت کررہے ہیں، یہ سلسلہ آیندہ بھی جاری رہے گا۔

اخوان نے آیندہ صدارتی انتخاب میں اپنا اُمیدوار نہ لانے اور پارلیمانی انتخابات میں ۵۰فی صد نشستوں پر اُمیدوار نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر میدان التحریر میں دکھائی دینے اور کامیاب ہونے والی قومی وحدت کا ثبوت دیں۔ مرشدعام بتارہے تھے کہ عبوری فوجی سربراہ نے تمام سیاسی جماعتوں کو اجتماعی ملاقات کے لیے بلایا تھا، میں نے وہاں تمام پارٹی رہنماؤں کو دعوت دی، کہ آئیے سب مل کر دنیا کے سامنے وحدت کی ایک نئی مثال پیش کریں، ہم سب ایک ہی مشترک پینل کی صورت میں انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔

اگلے روز ایک اور تفصیلی نشست تھی۔ مرشد عام کے ساتھ اخوان کے چاروں نائب مرشدین عام، جمعہ امین (امام حسن البنا کے ساتھی رہے)، رشاد البیومی، انجینیر خیرت الشاطر اور ڈاکٹر محمود عزت بھی شریک تھے۔ اخوان کے تربیتی نظام، خواتین میں اخوان کے کام، نوجوانوں میں اخوان کی سرگرمیوں اور آیندہ انتخابات میں اخوان کی حکمت عملی پر تفصیلی تبادلہء خیال ہوا۔ ڈاکٹر جمعہ امین بتارہے تھے کہ اگرچہ گذشتہ دور ابتلا میں کام کرنا بہت دشوار تھا لیکن الحمد للہ خواتین میں ہمارا کام مردوں سے بھی زیادہ ہے۔ اپنے نظام کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہنے لگے نوجوانوں میں کام ہو، خواتین میں ہو یا معاشرے کے کسی بھی طبقے میں اس کے لیے ہماری الگ الگ برادر تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ شعبہ جات ہیں اور تمام شعبہ جات الحمد للہ فعال اور باہم مربوط ہیں۔

مرشد عام نے بتایا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے الگ سیاسی جماعت تشکیل دی ہے۔ الحریۃ و العدالۃ (فریڈم اینڈ جسٹس) پارٹی اب ایک باقاعدہ رجسٹرڈ پارٹی بن چکی ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی اس کے سربراہ ہیں، ڈاکٹر سعد الکتاتنی (۲۰۰۸ء میں مینار پاکستان پر ہونے والے اجتماع میں اخوان کی نمایندگی کرچکے ہیں) سیکریٹری جنرل ہیں اور ڈاکٹر عصام العریان نائب صدر۔ ملک میں چھے سے آٹھ فی صد آبادی آرتھوڈکس قبطی مسیحیوں کی ہے۔ ان کی نمایندگی کے لیے ایک مسیحی رہنما ڈاکٹر رفیق حبیب کو بھی نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔ محترم امیر جماعت کے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ مسیحی برادری کو ساتھ شریک کرنا کوئی نئی پالیسی نہیں ہے، بلکہ    امام حسن البنا نے بھی مسیحی برادری کو مکمل طور پر اپنے ساتھ شریک کیا تھا۔ دنیا کو یہ منظر بھی نہیں بھولا ہوگاکہ جب امام حسن البنا کو شہید کردیا گیا تو ان کے جنازے پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔  تب صرف ایک مسیحی رہنما مَکْرَم عبید ہی ان کے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے اور انھوں نے خواتین خانہ کے ساتھ مل کر شہید کی میت قبر تک پہنچائی تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں اخوان کی ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ ۱۹۸۶ء میں ہی کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں فریڈم پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد مرسی سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ رجسٹریشن کے بعد تمام اضلاع میں پارٹی کے تنظیمی انتخابات مکمل ہوگئے ہیں اور ہم نے ۲۰سیاسی جماعتوں کو مدعو کرکے ان کے ساتھ ایک انتخابی اتحاد بنانے کا آغاز بھی کردیا ہے۔    قومی اسمبلی کی ۵۰۸ نشستیں ہیں۔ ۲۲۲حلقے ہیں۔ ہر حلقے سے دو ارکان منتخب ہوتے ہیں۔ اس طرح ۴۴۴؍ارکان براہ راست ووٹنگ سے منتخب ہوتے ہیں۔ ۳۲ ضلعی حکومتوں سے ۶۴ خواتین ارکان اسمبلی منتخب ہوتی ہیں۔

پارٹی کو درپیش خطرات اور چیلنجوں کے بارے میں کیے جانے والے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انتشار پھیلانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ لاتعداد جماعتیں رجسٹر کرلی گئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قانون کے مطابق کسی بھی پارٹی کے پاس کم از کم ۵ہزار تاسیسی ارکان ہونا ضروری ہیں۔ ان میں سے بہت سی جماعتوں کے پاس اتنے لوگ بھی نہیں ہیں لیکن انھیں رجسٹر کرلیا گیا ہے۔ انھیں بھاری مقدار میں بیرونی امداد دی جارہی ہے۔ امریکی سفیر کے بیان کے مطابق ’’امریکا مصر میں جمہوریت کے استحکام کے لیے ۴کروڑ ڈالر خرچ کرچکا ہے‘‘۔ ہیلری کلنٹن کہہ  رہی ہیں کہ مصر میں جمہوریت کے لیے امریکا ۱۶۰ ملین ڈالر، یعنی تقریباً ایک ارب مصری پاؤنڈ (ایک پاؤنڈ تقریباً ۱۴روپے کا ہے) خرچ کرے گا۔ اس کے بقول اب تک ۶۰۰جماعتیں اور تنظیمیں یہ امداد لینے کے لیے درخواست دے چکی ہیں۔ اگلے ہی روز اخبارات میں اسرائیلی روزنامے ہآرٹز میں سابق صہیونی وزیر خارجہ سیبی لیونی کا تجزیہ چھپا ہوا تھا، جس میں اس نے کہا تھا: ’’آیندہ ستمبر اسرائیل کے لیے ایک سونامی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مہینے ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں الگ فلسطینی ریاست بنانے کے لیے قرارداد لائی جارہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے سر پر ایک تلوار یہ بھی لٹک رہی ہے کہ اس مہینے مصر میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ہمارے لیے یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ ہمارے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ میدان التحریر کے انقلاب کے بعد تشکیل پانے والا نیا مصر کیسا ہوگا؟ کیا ان انتخابات کے بعد الاخوان المسلمون کی حکومت تو نہیں بن جائے گی؟ ہمیں انتخابات کے اس ماحول میں فلسطین کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ خالی خولی میڈیا وار اور چھیڑ چھاڑ کے بجاے اعتدال پر مبنی پالیسی پر چلنا ہوگا‘‘۔ گویا مصری انتخابات مصر میں نہیں، اسرائیل اور امریکا میں لڑے جانا ہیں۔

آیندہ مصری منظرنامے میں اخوان کی قوت سے یہ سب جو خطرہ محسوس کررہے ہیں، اس کا بنیادی سبب اخوان کی قرآن سے گہری وابستگی اور مضبوط تنظیم ہے۔ اخوان کے ذمہ داران بتا رہے تھے کہ اخوان کے باقاعدہ ارکان کی تعداد الحمد للہ ساڑھے سات لاکھ سے متجاوز ہے اور اُمیدواران و رفقا کو ملا کر یہ تعداد ۲۰ لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ ان تمام افراد میں سے ہر رکن قرآن و سنت اور تحریکی لٹریچر کے ٹھوس مطالعے سے گزرتا ہے۔ ہر ساتھی اپنی کل آمدن کا ۹ فی صد اخوان کو اعانت کے طور پر جمع کرواتا ہے اور اپنی جان تک نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتا۔

حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران اخوان کے ۵۵؍ ارکان اور سیکڑوں رفقا و کارکنان شہید ہوئے۔ صرف یہ دو ہفتے ہی نہیں اخوان کی پوری تاریخ شہادتوں اور صعوبتوں کی داستان سے معمور ہے۔ گذشتہ اپریل میں د منہور شہر میں ایک جلسہء عام سے خطاب کرتے ہوئے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع بتا رہے تھے کہ صرف حسنی مبارک کے ۳۰سالہ دور کے دوران میں ہمارے ۴۰ہزار کارکنان گرفتار ہوئے۔ گرفتار شدگان کی کم سے کم سزا چھے ماہ قید تھی۔ یونی ورسٹی کے اساتذہ، ڈاکٹروں اور انجینیروں کی واضح اکثریت پر مشتمل ان قیدیوں کو ملنے والی سزا کی کل مدت جمع کی جائے تو وہ ۲۰ ہزار سال___ جی ہاں ۲۰ ہزار سال بنتی ہے۔ مصر کے ایک سابق وزیراعظم ڈاکٹر عزیز صدقی نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: افسوس کہ مصر میں اخوان کے پاس اتنے باصلاحیت کارکنان ہیں، لیکن ہم نے قوم کوان کی تمام خدمات سے محروم رکھا!،

اخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف سے ملاقات ہوئی۔ دیگر تحریکی و عالمی مسائل کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی کے کئی واقعات پر بھی گفتگو ہوئی۔ بتانے لگے کہ میری شادی ۴۷سال کی عمر میں ہوئی تھی، کیونکہ اس سے پہلے مسلسل ۲۰ سال جیل میں گزرے۔ لیاقت بلوچ صاحب نے دریافت کیا: جیل کے یہ ۲۰ سال کیسے گزرے؟ فوراً بولے: ایک منٹ کی بھی فرصت نہیں ملی۔ درس و تدریس، مطالعہ، ورزش اور خالق سے مناجات کے بعد وقت ہی نہیں بچتا تھا۔ ۸۲سالہ محمدمہدی اپنی حالیہ مصروفیات کے بارے میں بتانے لگے کہ اب بھی روزانہ مرکز آتا ہوں۔ مختلف احباب سے ملاقاتیں رہتی ہیں یا پھر جو بھی خدمت مرشد عام ذمے لگائیں۔ پھر خود ہی کہنے لگے: ’’صرف اور صرف اللہ کی رضا پیش نظر نہ ہو تو یہ ایک مشکل کام ہے۔ آپ پوری تحریک کا مرکز و محور بنے ہوئے ہوں اور آپ اس منصب سے ہٹ کر دیکھیں کہ اب تمام افراد و اُمور کسی اور طرف منتقل ہورہے ہیں، تو شیطان مسلسل حملہ آور رہتا ہے۔ یہ شرف صرف اسلامی تحریک ہی کو حاصل ہے کہ چونکہ مقصد صرف رضاے الٰہی کا حصول ہوتا ہے، اس لیے دنیا و آخرت کے بہت سے فتنوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ کارکنان کے دل میں بھی اسی باعث مزید محبت پیدا ہوتی ہے‘‘۔

  •  خطرات: حسنی مبارک کے زوال کے بعد ہر مصری شہری آزادی کی بالکل نئی فضا میں سانس لے رہا ہے۔ لیکن اب بھی لاتعداد اندرونی و بیرونی خطرات اُفق پر موجود ہیں۔ اخوان کی کامیابی کے امکان اور قوت کو ہوّا بنا کر ذرائع ابلاغ میں مسلسل پراپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ اخوان کے اندر اختلافات اور دھڑے بندیوں کے قصے گھڑے جارہے ہیں۔ مشکلات و مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن انھیں افسانوی انداز دیا جارہا ہے۔ سب سے نمایاں اختلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لینے یا نہ لینے پر سامنے آیا ہے۔ اخوان کے ایک نمایاں سابق رہنما ڈاکٹر عبد المنعم ابو الفتوح کی راے یہ تھی کہ صدارتی انتخاب میں ضرور حصہ لینا چاہیے۔ وہ خود اس کے مضبوط اُمیدوار کے طور پر بھی سامنے آگئے لیکن اخوان کا فیصلہ دو ٹوک ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہ پارلیمانی انتخاب پر مرکوز رکھیں گے اور آیندہ مرحلے میں ملک کی مکمل باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ انھوں نے ابو الفتوح کو رجوع کا موقع دیا، لیکن اپنا فیصلہ تبدیل نہ کرنے پر اخوان سے ان کا اخراج کردیا۔ میڈیا کے لوگ ابو الفتوح کی علیحدگی کو بھی اخوان کی دو حصوں میں تقسیم قرار دے رہے ہیں۔ ۲۴ جون کے اخبارات نے تو وکی لیکس کے حوالے سے یہ بھی خبر اڑا دی کہ اخوان پانچ دھڑوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ حالانکہ یہ خبریں اڑانے والے جانتے ہیں کہ جو اپنا پورا مال اور اپنی جان تحریک کے لیے قربان کررہے ہوں، وہ اختلاف کے آداب بھی جانتے ہیں۔

جمعہ ۲۴ جون کو میدان التحریر میں واقع جامع مسجد عمر مَکرَم میں نماز جمعہ کے بعد امیر جماعت کی سربراہی میں ہمارا وفد مسجد سے نکلا تو سامنے میدان کے کنارے نوجوان جمع ہونا شروع ہورہے تھے۔ حسنی مبارک کی پھانسی، کرپٹ وزرا کے احتساب و مقدمات اور انقلاب کی حفاظت کے نعرے لگ رہے تھے۔ ہم سب بھی ان کے ساتھ نعروں میں شریک ہوگئے۔ یہ عام نوجوان تھے، انھیں جب بتایا گیا کہ یہ جماعت اسلامی کا وفد ہے، پاکستانی قوم کی طرف سے مصری قوم کو انقلاب میں کامیابی پر مبارک باد دینے آیا ہے، تو جوش و ولولہ مزید بڑھ گیا۔ نعروں میں بھی حسنی مبارک،   سابق حکمران اور انقلاب کی حفاظت کے علاوہ امت مسلمہ اور عالم اسلامی کے بارے میں نعرے شامل ہوگئے۔ امریکا مردہ باد، صہیونی استعمار مردہ باد کہا جانے لگا اور پوری قوت سے پکارنے لگے:   قادم قادم یا اسلام حاکم حاکم بالقرآن، اسلام اب آگے بڑھو اور قرآن کو حکمران بنادو۔ عل الأقصی رایحین شہداء بالملایین، لاکھوں کی تعداد میں شہید ہونے کے لیے تیار  ہم اقصی (کی آزادی) کے لیے جارہے ہیں۔ ہمیں فوراً ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن شرکا مصر تھے کہ خطاب کریں۔ محترم امیرجماعت نے اپنا مختصر پیغام دیا کہ ان شاء اللہ آزادی کا یہ سفر میدان التحریر سے وادی کشمیر تک جاری رہے گا۔ ہمیں اُمید ہے کہ جس وحدت اور قربانی کے نتیجے میں آپ نے آمر سے نجات پائی ہے، اسی وحدت کے ذریعے آپ آیندہ مراحل میں بھی سرخرو ہوں گے۔

نوٹ: بہت مصروف پانچ روزہ دورے کے بعد پاکستان پہنچے تو پرچہ پریس میں جارہا تھا۔ عجلت میں کچھ اہم امور عرض کردیے ہیں۔ آیندہ شمارے میں ان شاء اللہ چند مشاہدات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ مصر انسانی تہذیب و تاریخ کا اہم مرکز رہا ہے اور یہاں کا چپہ چپہ اہم واقعات کا امین ہے۔

 

مصارف زکوٰۃ میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد

سوال:  بعض ہم عصر علما کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ان بھلائی کے کاموں میں بھی دی جاسکتی ہے جنھیں چند افراد یا تنظیمیں انجام دیتی ہیں، مثلاً مسجدیں بنوانا یا ہسپتال اور مدرسے بنوانا یا یتیموں کا ٹرسٹ قائم کرنا وغیرہ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مصارفِ زکوٰۃ میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد ہر وہ نیک اور بھلائی کا کام ہے جو اللہ کی راہ میں کیا جائے، حالاں کہ جمہور مفسرین اور سلف صالحین کے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد جہاد ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا راے ہے؟ ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد صرف جہاد ہے یا پھر اسے عام کر کے اس سے مراد ہر نیک اور بھلا کام ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے۔

جواب:  بلاشبہ بعض علما کے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد وہ تمام بھلائی کے کام ہیں جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیے جائیں، مثلاً مسجدیں یا ہسپتال بنوانا وغیرہ۔ لیکن میرے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ کو عام معنوں پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ اس طرح ’فی سبیل اللہ‘ کے تحت زکوٰۃ کے مستحقین کی اتنی قسمیں ہوجائیں گی کہ شمار کرنا مشکل ہوگا۔ اس طرح زکوٰۃ والی آیت (توبہ ۹:۶۰) میں زکوٰۃ کے مستحقین کو آٹھ قسموں تک محدود رکھنے کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ مزید برآں اگر ’فی سبیل اللہ‘ کو عام معنی پر محمول کیا جائے تو اس سے مراد فقرا و مساکین بھی ہوں گے حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ والی آیت میں ان کا تذکرہ علیحدہ کیا ہے۔ پھر ان کا علیحدہ سے تذکرہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اللہ کا کلام بلاغت کے اعلیٰ معیار پر ہے اور یہ بات فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے کہ بے مقصد و فائدہ کسی چیز کی تکرار ہو۔ پس یہ معلوم ہوا کہ یہ تکرار بے مقصد نہیں ہے بلکہ درحقیقت ’فی سبیل اللہ‘ کا علیحدہ اور خاص مفہوم ہے۔

سلف صالحین اور جمہور مفسرین نے اس سے مراد ’جہاد‘ لیا ہے۔ دلیل کے طور پر انھوں نے احادیث اور صحابہؓ کے اقوال میں سے مثالیں پیش کی ہیں، مثلاً حضوؐر کی یہ حدیث ہے: ’’اللہ کی راہ میں صبح یا شام نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے‘‘(بخاری و مسلم)۔ اس حدیث میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد جہاد ہے۔ صحابہؓ نے ایک صحت مند نوجوان کو دیکھا تو فرمانے لگے: ’’کاش! اس کی جوانی اور تنومندی اللہ کی راہ میں ہوتی‘‘ (طبرانی)۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس کی جوانی جہاد کے موقعے پر کام آتی۔ اس سلسلے میں میری راے یہ ہے کہ ’فی سبیل اللہ‘ کو نہ صرف جہاد پر محمول کیا جائے اور نہ اسے عام کر کے ہر اس کام پر محمول کیا جائے، جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو۔

بلاشبہہ ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد ہے، لیکن جہاد کا مفہوم صرف جنگ کرنا نہیں ہے ،بلکہ اس سے بڑھ کر اس سے وسیع تر مفہوم اس میں شامل ہے، یعنی ہر وہ قدم جو اللہ کے دین کی نصرت اور اعلاے کلمۃاللہ کے لیے اُٹھے۔ جہاد صرف تلوار اور توپ سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی  قلم سے ہوتا ہے اور کبھی زبان سے۔ کبھی اقتصادی جہاد ہوتا ہے اور کبھی سیاسی۔ ان میں سے ہر جہاد میں مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر وہ کوشش اور قدم جو اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے اُٹھے اسے ’فی سبیل اللہ‘ کے مفہوم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

کبھی وہ زمانہ بھی تھا جب توپ اور تلوار سے جنگ کر کے اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوا، اور آج وہ زمانہ ہے جب فکری اور لسانی جنگ زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے بڑے بڑے معرکے سر کیے جاتے ہیں۔ جہاد کے اس وسیع تر مفہوم کو ثابت کرنے کے لیے میں چند دلیلیں پیش کرتا ہوں:

۱- نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کسی ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا (مسند احمد و نسائی)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کی ایک شکل لسانی جہاد بھی ہے۔

ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’مشرکوں سے جہاد کرو اپنے مال کے ذریعے، اپنی جان کے ذریعے اور اپنی زبانوں کے ذریعے‘‘ (مسنداحمد، ابوداؤد، حاکم)۔ معلوم ہوا کہ جہاد فقط تلوار کی جنگ کا نام نہیں ہے، بلکہ بسااوقات اور حسب ضرورت مال کے ذریعے جہاد ہوتا ہے۔ کبھی جسمانی قوت کا استعمال ہوتا ہے اور کبھی لسانی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے۔

۲- لفظ جہاد کو وسیع تر مفہوم پر محمول کرنے کے لیے اگر کوئی قطعی نص نہ بھی ہوتی تب بھی محض قیاس کی بنا پر ایسا کیا جاسکتا ہے کیونکہ جہاد چاہے تلوار سے ہو، چاہے قلم اور زبان سے،    ان میں سے ہر جہاد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے، یعنی اعلاے کلمۃ اللہ۔

یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ حالات اور ماحول کی مناسبت سے بعض کاموںکو ایک ملک میں جہاد تصور کیا جائے گا اور وہی کام بعض دوسرے ملکوں میں محض ایک رفاہی کام قرار پائے گا۔ مثلاً ایک ایسے ملک میں جہاں اسلام کا غلبہ ہے، مسلمانوں کی اکثریت ہے اور لوگ دینی تعلیم سے آگاہ ہوں وہاں کسی مدرسے یا مسجد کی تعمیر ایک رفاہی کام تو ہوسکتا ہے مگر جہاد نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس کسی غیرمسلم ملک میں جہاں مسلمانوں کی اقلیت ہو، اشاعتِ اسلام کی خاطر مسجد یا مدرسے تعمیر کرنا یقینا جہاد ہے۔ عیسائی مشنریوں کی مثال واضح ہے۔ انھوں نے چرچ، ہسپتال اور اسکول کی تعمیر کی آڑ لے کر عیسائیت کی جس قدر تبلیغ کی ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

درحقیقت اس دور میں جہاد فی سبیل اللہ کی سب سے عظیم صورت یہ ہے کہ مسلم ممالک جو کفار و مشرکین کے قبضے میں چلے گئے ہیں، انھیں بہ زور قوت واپس حاصل کیا جائے۔ کفار و مشرکین چاہے عیسائی ہوں یا یہودی ہوں یا کمیونسٹ، ان میں سے کوئی بھی اگر مسلم ممالک پر غاصبانہ قبضہ کرلیتا ہے تو اس وقت تک جہاد کی تمام صورتیں بروے کار لائی جائیں گی جب تک یہ علاقے مسلمانوں کو واپس نہیں مل جاتے۔ مثال کے طور پر فلسطین کا نام لیا جاسکتا ہے جس پر یہودی ظالمانہ طریقے سے غاصب ہوگئے ہیں، چنانچہ جہاں بھی اس طرح کی جنگ جاری ہو، ہمیں بھرپور مالی تعاون کرنا چاہیے۔ ان جگہوں پر زکوٰۃ کی رقم بھی ارسال کرنی چاہیے۔

البتہ ایک بات یہاں قابلِ ذکر ہے۔ آج اس دور میں دفاعی اخراجات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کے لیے علیحدہ بجٹ بنایا جاتا ہے اور یہ بجٹ بھی تمام دوسرے بجٹ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ بعض ممالک تو ایسے ہیں کہ ملکی خزانے کا ۵۰ فی صد دفاعی بجٹ کے لیے مخصوص کردیتے ہیں۔ اس قدر ضخیم بجٹ کے لیے زکوٰۃ کی تھوڑی سی رقم ہرگز کافی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے میری راے میں زکوٰۃ کی رقم جہاد کی ان صورتوں میں بھیجنا زیادہ بہتر ہے جنھیں لسانی، ثقافتی، فکری اور اعلامی جہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان صورتوں میں تھوڑی رقم بھی زیادہ نمایاں کام انجام دے سکتی ہے۔ ذیل میں بعض ایسی ہی صورتیں پیش کرتا ہوں:

۱- اسلامی دعوتی مرکزکا قیام، جہاں سے لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔

۲- خوداسلامی ممالک کے اندر اسلامی ثقافتی مراکز کا قیام جہاں مسلم جوانوں کی عملی تربیت ہوسکے اور انھیں اعلاے کلمۃ اللہ کی خاطر تیار کیا جاسکے۔

۳- اسلامی اخبارات و جرائد کا اجرا جو غیراسلامی صحافتی سرگرمیوں کے لیے چیلنج ہو۔

۴- اسلامی کتب کی نشرواشاعت جس میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور کفر کی ریشہ دوانیوں کو اُجاگر کیا جائے۔

یہ وہ چند صورتیں ہیں جہاں زکوٰۃ کی رقم ارسال کرنی چاہیے بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہرممکن طریقے سے ان تمام سرگرمیوں میں دل کھول کر مالی تعاون کرنا چاہیے۔ (ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ سید زاہد اصغر فلاحی، مرکزی مکتبہ اسلامی ، نئی دہلی، ص ۱۴۳-۱۴۶)

کافر کو زکوٰۃ دینا

س:  کیا کسی کافر یا ملحد کو محض انسانی بنیادوں پر زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، اگر وہ مالی تعاون کا محتاج ہو؟ یا کسی فاسق مسلمان شخص کو جو نماز روزے سے لاپروا ہو اور حرام کاموں میں ملوث ہو، اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے؟ یا ان لوگوں کو زکوٰۃ دینا اللہ کی نافرمانی شمار کی جائے گی؟

ج:  جو شخص سرے سے اللہ، اس کے رسولوں اور یومِ آخرت کا منکر ہو تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینی جائز نہیں ہے، کیوں کہ وہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں کا دشمن تصور کیا جائے گا۔ اسے مالی طور پر مستحکم کرنا، گویا، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرِپیکار ہو اور علی الاعلان ان سے دشمنی کی باتیں کرتا ہو، اسے بھی زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ انھیں زکوٰۃ دیناگویا ان سے موالات اور مواخات قائم کرنا ہے اور اللہ نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے۔

البتہ وہ ذمی شخص جو مسلم حکومت کی سرپرستی میں ہے، بعض فقہا کے نزدیک محض تالیفِ قلب کی خاطر اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ لیکن جمہور فقہا کا قول ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ذمی کو بھی نہیں دی جاسکتی کیوں کہ زکوٰۃ ان ذمیوں سے وصول نہیں کی جاتی ہے اور جب وصول نہیں کی جاتی تو انھیں دی بھی نہیں جاسکتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ مسلمان مال داروں سے لی جاتی ہے اور مسلمان غریبوں کی طرف لوٹا دی جاتی ہے۔ البتہ ان ذمیوں کی زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے طریقوں سے مدد کی جاسکتی ہے اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں۔

رہے وہ مسلمان جو فاسق و فاجر ہیں، نماز نہیں پڑھتے اور حرام کام کرتے ہیں، تو انھیں زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، بہ شرطے کہ وہ اس رقم کو اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں خرچ نہ کریں۔ اگر وہ اس رقم کو گناہوں کے کاموں میں خرچ کریں، مثلاً شراب پینے میں یا جوا کھیلنے میں، تو زکوٰۃ کی رقم انھیں ہرگز نہیں دی جائے گی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے اہلِ بدعت اور اہلِ فسق و فجور کی زکوٰۃ کی رقم دینے کے سلسلے میں سوال کیاگیا تو فرمایا: ہمیں چاہیے کہ ہم ان فقرا و مساکین اور دوسرے مستحقین زکوٰۃ کو تلاش کریں جو اللہ کی شریعت پر قائم ہوں اور نیک مسلمان ہوں۔ رہے وہ لوگ جو فاسق و فاجر ہیں اور اہلِ بدعت ہیں تو وہ سزائوں کے مستحق ہیں نہ کہ مدد کے۔ وہ شخص جو نماز نہیں پڑھتا ہے، اس سے نماز پڑھنے کے لیے کہا جائے گا۔ اگر اس نے نماز پڑھنا شروع کر دی تو اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ورنہ نہیں۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج۲۵، ص ۸۷)

محترم استاد الشیخ محمد ابوزہرہ کی راے ان سے مختلف ہے۔ وہ گنہگاروں کو بھی زکوٰۃ دینے کے حق میں ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے:

۱- زکوٰۃ والی آیت میں فقرا و مساکین کا لفظ عام ہے۔ اس میں اہلِ معصیت اور اہلِ تقویٰ کے درمیان فرق نہیں ہے۔ اگر ہم غیرمسلموں کو تالیفِ قلب کی خاطر زکوٰۃ کی رقم دے سکتے ہیں تو فاسق مسلمانوں کو بدرجہ اولیٰ دے سکتے ہیں۔

۲- ہم کسی گنہ گار مسلمان کو جو مالی تعاون کا سخت محتاج ہے، محض اس کی معصیت کی بناپر زکوٰۃ نہیں دیتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے زندہ رہنے کا حق چھین رہے ہیں۔ تلوار سے مارنا اوربھوک سے مارنا دونوں میں زیادہ فرق نہیں۔

۳- مشکل وقتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی مدد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے صلح حدیبیہ کے بعد ابوسفیان کے پاس ۵۰۰ دینار بھیجے تھے، کیوں کہ قبیلہ قریش قحط کا شکار ہوگیا تھا۔

۴- اہلِ معصیت کو مالی تعاون نہ دینا بسااوقات انھیں مزید سرکشی کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ (بحث شیخ ابوزہرہ، ص ۷۵، ۷۶)

میں سمجھتا ہوں کہ استاد محترم محمد ابوزہرہ کی ان دلیلوں پر کلام کیا جاسکتاہے:

۱- ان کی پہلی دلیل فقر اور مساکین کا عموم ہے۔ اس عموم کی تخصیص اسلام کے اس   قاعدۂ کلیہ سے ہوسکتی ہے جس کے مطابق اصل معصیت کی ہرممکنہ زجروتوبیخ ہونی چاہیے اور معصیت میں ان کے تعاون سے پرہیز کرنا چاہیے۔ چنانچہ اسی زکوٰۃ والی آیت میں لفظ  الغارمین کا بھی استعمال ہے اور وہ بھی بظاہر عام ہے، جب کہ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ ان قرض خوروں کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی جنھوں نے غلط کاموں کے لیے قرض لیا ہو۔

۲- ہم کہاں کہہ رہے ہیں کہ گنہ گاروں کو بھوک سے مرتا چھوڑ دیں۔ زکوٰۃ کے علاوہ دوسری مدوں سے بھی ان کی مدد کی جاسکتی ہے بلکہ کرنی چاہیے۔

۳- کفار و مشرکین کی صلہ رحمی زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے پیسوں سے کی جاسکتی ہے جیساکہ حضورؐ نے کیا۔

درج ذیل صورتوں میں تمام فقہا کا اتفاق ہے:

۱- اہلِ معصیت کی مدد زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے پیسوں سے کی جاسکتی ہے۔

۲- تالیفِ قلب کی خاطر اہلِ معصیت کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔

۳- جاں بلب شخص چاہے وہ اہلِ معصیت ہی کیوں نہ ہو، اس کی جان بچانے کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔

۴- اگر یہ یقین ہو کہ اہلِ معصیت زکوٰۃ کی رقم کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرے گا تو اسے زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔

میری راے یہ ہے کہ اہلِ معصیت دو طرح کے ہیں: ایک وہ ہیں جو گناہ کرتے ہیں لیکن گناہوں پر شرمندہ بھی ہیںاور اسلام سے ان کا رشتہ باقی بھی ہے۔ ان گنہ گاروں کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ البتہ وہ حضرات جو صرف نام کے مسلمان ہوں اور اسلامی احکام و شعائر کا مذاق اُڑاتے ہوں، تو انھیں زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی۔ (م ی ق، ایضاً، ص ۱۴۷-۱۴۹)

مختلف النوع تجارتی اموال پر زکوٰۃ

س:  اس زمانے میں رأس المال، یعنی اصل پونجی جسے ہم تجارت میں لگاتے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً:

۱- بعض اوقات اصل پونجی متحرک شکل میں ہوتی ہے، مثلاً کاریں، کل پرزے اور ہر وہ تجارتی چیز جو فروخت کی خاطر دکانوں میں رکھی جاتی ہے، مثلاً کپڑے اور کھانے کی چیزیں وغیرہ۔

۲- بعض اوقات پونجی اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ وہ اپنی جگہ ثابت ہوتی ہے، مثلاً آفس، کمپیوٹر اور آفس میں ڈیکوریشن یا ضرورت کی خاطر استعمال کیے جانے والے فرنیچر۔

۳- بعض اوقات پونجی جایداد کی صورت میں ہوتی ہے، مثلاً عمارت اور زمین۔

۴- بعض اوقات پونجی قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے اور قرضے بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بعض کی واپسی ممکن ہوتی ہے خواہ تاخیر سے ہو اور بعض کی واپسی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔

یہ ہیں تجارت میں لگائی گئی پونجی کی چند صورتیں۔ اس دور میں تجارت میں اس قدر تنوع اور توسع آچکا ہے کہ زکوٰۃ نکالنے والے بعض دفعہ حیران و پریشان رہتے ہیں کہ کس مال میں زکوٰۃ نکالی جائے اور کس میں نہیں؟ آپ سے تشفی بخش جواب مطلوب ہے۔

ج:  آپ نے جس طرح ترتیب وار صورتوں کا تذکرہ کیا ہے، میں بھی اسی ترتیب سے جواب دیتا ہوں:

۱- پہلی صورت، یعنی وہ اصل پونجی جو متحرک شکل میں ہوتی ہے، مثلاً کاریں جو فروخت کی خاطر ہوتی ہیں یا کپڑے اور جوتے وغیرہ جو دکانوں میں فروخت کی خاطر رکھے جاتے ہیں، فقہ کی اصطلاح میں انھیں عروض التجارۃ کہتے ہیں، یعنی وہ تجارتی اشیا جنھیں فروخت کر کے ان سے نفع کمانا مقصود ہو۔ چونکہ عروض التجارۃ سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے اس لیے اس میں زکوٰۃ فرض ہے۔

۲- اسی طرح وہ چیزیں جو متحرک نہیں بلکہ ثابت صورت میں ہوتی ہیں، مثلاً آفس، آفس کا فرنیچر اور کمپیوٹر، ٹائپ رائٹر وغیرہ تو انھیں عروض التجارۃ (مالِ تجارت) نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ وہ مالِ تجارت نہیں جن سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے بلکہ نفع کمانے کے لیے انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فقہا کا قول ہے: ’’وہ برتن، فرنیچر اور الماریاں وغیرہ جن میں تجارتی اشیا رکھی جاتی ہیں یا جنھیں تجارت میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً ترازو وغیرہ تو زکوٰۃ کی خاطر ان کی قیمت نہیں لگائی جانی چاہیے اور نہ ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔

۳- جایداد اگر تجارتی نقطۂ نظر سے خریدی جائے اور اسے فروخت کر کے اس سے فائدہ کمانا مقصود ہو تو اس جایداد کی قیمت لگاکر اس پر زکوٰۃ نکالنا واجب ہے۔ البتہ اگر زمین خرید کر   اس پر کرایہ کی خاطر گھر یا دکان بنائی جائے، تو اس زمین پر نہیں بلکہ اس کے کرایے پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ اس صورت میں زکوٰۃ کی شرح کیا ہوگی؟ ڈھائی فی صد زکوٰۃ ادا کی جائے گی جیساکہ عروض التجارۃ میں ہے یا ۵ فی صد یا ۱۰ فی صد، جیساکہ کھیتی کی زمین میں غلے پر زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔

۴- رہے قرضے تو ان میں سے وہ قرضے جن کی واپسی ناممکن ہو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ اگر کسی زمانے میں واپس ہوجائیں تو ان پر ایک سال کی زکوٰۃ فرض ہے۔ البتہ وہ قرض جن کی واپسی عین ممکن ہو تو انھیں اپنی ملکیت تصور کر کے ان پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔

تجارت کی ایک صورت اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کمپنی کی ایجنسی لے لی جائے اور اپنی ایجنسی میں کمپنی کا سامان فروخت کی خاطر رکھا جائے۔ اس سامان کا حکم یہ ہے کہ اس کی حیثیت امانت کی سی ہوتی ہے۔ یہ سامان کمپنیوں کی طرف سے بطور امانت ایجنسیوں میں رکھے جاتے ہیں۔ اس لیے ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ (م ی ق، ایضاً، ص ۱۳۶-۱۳۷)

قرآنی سورتوں کا نظمِ جلی، خلیل الرحمن چشتی۔ ملنے کا پتا: مرکزی مکتبہ تحریکِ محنت، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔فون: ۴۵۳۵۳۳۴-۰۵۱۔ صفحات: ۷۶۰۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔

ایک عام مسلمان قرآنِ پاک کا مطالعہ کرتا ہے تو بظاہر بے ربط متفرق آیات کا مجموعہ ہونے کا تاثر ملتا ہے، لیکن قرآن پر تدبر اور غوروفکر کرنے والے جانتے ہیں کہ ہر سورت دوسری   سورت سے، ہر آیت دوسری آیت سے مربوط ہے، اور مضامین میں ایک غیرمعمولی نظم پایا جاتا ہے۔ مولانا حمیدالدین فراہیؒ نے نظم قرآن کے حوالے سے بڑی خدمت انجام دی ہے۔ مجموعہ تفاسیر فراہی نے پہلی بار اُردو دان طالبینِ قرآن کے سامنے نظم کی دنیا کھولی۔ قرآن کا مرکزی نظم جسے وہ عمود کہتے ہیں، اس کے گرد ساری سورتوں کے عمود گھومتے ہیں۔ قرآن معانی اور بیان کے لحاظ سے ایک غیرمعمولی منظم اور مربوط معجز کلام ہے جو کلام الٰہی ہونے کے شایانِ شان ہے۔

نظمِ قرآن کے حوالے سے خلیل الرحمن چشتی صاحب کی خدمات محتاجِ تعارف نہیں۔ ان کی تازہ ترین زیرتبصرہ کتاب ان کے پندرہ برس کے غوروفکر کا حاصل ہے۔ اس میں قرآن کی تمام سورتوں کا نظم جلی (macro) واضح کیا گیا ہے۔ نظم خفیف میں آیت اور آیت، اور آیت کے الفاظ کا نظم مطالعے کا موضوع ہوتا ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں ۳۰ صفحات پر مشتمل اُصولِ تفسیر بیان کیے گئے ہیں، جس سے قرآن فہمی کا وہ منہج سامنے آتا ہے جسے اس کتاب میں پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ ہرسورت کا زمانۂ نزول، خصوصیات، صحیح احادیث پر مشتمل فضائل بیان کرکے کتابی ربط بیان کیا گیا ہے کہ اس کا پچھلی اور اگلی سورتوں سے کیا تعلق ہے۔

ہر سورت کو چند بڑے پیراگرافوں میں تقسیم کرکے انھیں عنوان دیا گیا ہے اور پیراگراف کے پیراگراف سے ربط و تعلق کو تلاش کر کے سورت کے مرکزی مضمون کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہرسورت کے کلیدی الفاظ و مضامین کی وضاحت کی گئی ہے، جو سورت کے فہم میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ہر سورت کے تنظیمی ہیکل کو ایک دائرے کی شکل میں واضح کیا گیا ہے۔ ہر سورت کے مضامین کو چارٹ کی شکل میں پیش کرنے کی غالباً یہ پہلی کاوش ہے۔ ایک تصویر ہزار تفسیری الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ یہ امیج ایک دیرپا نقش ہے۔

رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن کا دورہ کرنے اور کرانے والوں کے لیے یہ نہایت مفید ہے۔ سورت کی تلاوت اور ترجمے کے مطالعے سے پہلے اس کتاب کا خلاصہ پڑھ لیا جائے تو پوری سورت کا نقشہ ذہن میں آجاتا ہے۔(مسلم سجاد)


زندگی کے عام فقہی مسائل، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی ۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔۷۵۹۵۰۔ صفحات:۱۴۷۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

’رسائل و مسائل‘ بھارت کے معروف علمی و دینی ماہ نامے زندگی نو کا ایک مستقل سلسلہ ہے جس میں دورِحاضر میں درپیش مسائل پر سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء تا ۱۹۸۶ء تک مجلے کے مدیر سید احمد عروج قادریؒ جوابات دیتے رہے۔ پھرادارہ تحقیق و تصنیف علی گڑھ کے ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی جواب دینے لگے۔ زیرنظر کتاب ندوی صاحب کے جوابات کا مجموعہ ہے۔ جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں تمام فقہوں (احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیہ) کو مدنظر رکھ کر دیے گئے ہیں۔

سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں نت نئے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ دورانِ نماز موبائل فون کی گھنٹی، کرنسی نوٹ میں نصابِ زکوٰۃ، حجاب اور برقعہ، ملازمت پیشہ خواتین کا پردہ، دینی اجتماعات کی فوٹوگرافی اور خواتین کے اجتماعات میں پروجیکٹر کا استعمال وغیرہ۔ ندوی صاحب نے اس نوعیت کے جملہ مسائل کے جواب متوازن اور مناسب انداز میں دیے ہیں، مثلاً اگر دورانِ نماز موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگے تو کیا کرنا چاہیے؟ جواب میں مسجد کی اہمیت، عبادت کی روح اور خشوع و خضوع کی اہمیت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: موبائل دورانِ نماز ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر یا باہر نکال کر فوراً بند کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس طرح بند نہ ہو تو نماز توڑ کر موبائل بند کردیں اور دوبارہ  نماز میں شامل ہوجائیں (ص ۱۸، ۱۹)۔اسی طرح کرنسی نوٹ میں زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے؟ کے جواب میں کہتے ہیں: ادایگی زکوٰۃ کے لیے فقہا نے چاندی کو معیار مانا ہے۔ اس میں غریبوں اور مستحقین کی مصلحت اور مفاد پیش نظر ہے۔ جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم کے برابر کرنسی نوٹ ہوں، اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔

عصری مسائل کے علاوہ بھی زیرنظر کتاب میں بہت سے شرعی مسائل کا جواب نہایت متوازن اور مدلل انداز میں دیاگیا ہے، مثلاً: نمازِ فجر کی سنتیں، عورتوں کی نماز، نمازِ وتر کی رکعتیں اور خواتین اور زیارتِ قبور وغیرہ جیسے مسائل زیربحث آئے ہیں۔

مصنف کا انداز عالمانہ ہے اور انھوں نے کتاب بڑی محنت و کاوش سے مرتب کی ہے۔ جوابات حوالوں سے مزین ہیں۔ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں بالخصوص نوجوان نسل کو ایسی کتابوں سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔ (قاسم محمود احمد)


مکاتیب ِ سیدمودودیؒ ، پروفیسر نورور جان۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۹۵۲۰-۰۴۲۔ صفحات:۴۴۸۔ قیمت: ۳۸۰ روپے۔

سیدمودودیؒ کے مکاتیب مختلف احباب نے مرتب کرکے شائع کیے ہیں۔ اس سلسلے کی نئی کتاب مکاتیب سید مودودیؒ ہے، جس میں ۲۵۹مکاتیب مختلف رسائل و جرائد [ترجمان القرآن، آئین، ذکریٰ، قومی ڈائجسٹ، سیارہ، تعمیرافکار، میثاق، ہفت روزہ ایشیا اور روزنامہ جسارت] اور بعض دیگر ذرائع سے جمع کیے گئے ہیں۔ مکتوب الیہوں میں قومی و ملکی، دینی و سیاسی شخصیات، (شورش کاشمیری، ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمد شفیع، جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ، غلام جیلانی برق، مولانا سمیع الحق، ملک نصراللہ خاں عزیز، مولانا امین احسن اصلاحی، سیداسعدگیلانی، عبدالرحیم اشرف، طالب ہاشمی، سید فضل معبود، مولانا راحت گل، پروفیسر سید محمدسلیم وغیرہ) شامل ہیں۔

سیدمودودیؒ کے یہ مکاتیب نصف صدی کے دورانیے پر محیط ہیں۔ سادہ و سلیس، عام فہم اور خوب صورت زبان و بیان اور متنوع موضوعات پر مبنی یہ مکاتیب، جہاں ذاتی و شخصی مسائل سلجھانے، اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں، وہیں ملکی و قومی مسائل سے لے کر عالمی مسائل، علمِ دین اور فقہی مسائل سے آگہی اور شعور کا باعث ہیں۔ ان مکاتیب کا امتیاز یہ ہے کہ یہ قاری میں اقامت دین کی تڑپ، داعیانہ احساسِ ذمہ داری اور خدمتِ دین کا جذبہ پیدا کرتے بلکہ اُسے شعلۂ جوالہ بناتے اور یوں راہِ راست کی جانب پیش قدمی کا ایک سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح یہ مکاتیب تحریکِ اسلامی کے مختلف مراحل، قیامِ جماعت اور تاریخِ جماعت سے متعلق کتنی ہی کڑیوں کو ملانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ خطوط کے ساتھ اس کے حواشی بھی شامل ہیں جو خطوط کے سیاق و سباق کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔

حسن صوری و معنوی سے آراستہ، یہ ایک خوب صورت دستاویز ہے، جو سید مودودیؒ کی سیاسی و دینی بصیرت کی کئی جہتیں روشن کرتی ہے۔ اشاریہ بھی شامل ہے۔ کتاب کا ابتدائی لوازمہ پروفیسر نورور جان نے فراہم کیا، ادارہ معارف اسلامی کے رفقا نے تدوین و تحقیق کے بعد اسے موجودہ شکل دی۔ (عمران ظہورغازی)


ادبیات و نشریات ، ناصر قریشی۔ ناشر: مکتبہ عالیہ ، جی سی سنٹر، چیٹرجی روڈ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۲۲۷۹۳-۰۴۲۔ صفحات:۳۱۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

ناصر قریشی بنیادی طور پر ادیب ہیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کی اور فیچر لکھے۔ بہت سے دوستوں کے خاکے بھی قلم بند کیے۔ ان کے حج بیت اللہ کے سفرنامے سرزمینِ آرزو پر تبصرہ انھی اوراق میںکیا جا چکا ہے۔ اب انھوں نے اپنی ۳۰سالہ ملازمتی زندگی کی یادوں کی محفل سجائی ہے۔ کہتے ہیں: ’’ماضی کی یادیں، باتیں، واقعات، شخصیات، تقریبات حتیٰ کہ سانحات بھی میرے لیے وہ پھول ہیں جن کی خوشبو سے مدام میرے قلب و ذہن معطر رہتے ہیں‘‘ (ص ۸)۔ وہ ۱۹۶۳ء میں بطور پروڈیوسر ریڈیو پاکستان میں بھرتی ہوئے۔ دورانِ ملازمت میں انھیں آزاد کشمیر ریڈیو کے مظفرآباد اور تراڑکھل اسٹیشنوں کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے متعدد مراکز (لاہور، بہاول پور، ملتان، کوئٹہ، خضدار) میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس سارے عرصے میں انھیں نامور ادیبوں، شاعروں اور ’’اہلِ قلم و علم و ادب اور اساتذۂ فنون‘‘ کی صحبت میسر آئی جن سے انھوں نے اپنے بقول ’’بہت کچھ سیکھا‘‘۔ ان میں سید عابد علی عابد، اشفاق احمد، اعجاز حسین بٹالوی، مولانا صلاح الدین احمد، انجم رومانی، صفدرمیر، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، امجدالطاف، شہرت بخاری سرفہرست تھے۔ پھر ریڈیو کے بزرگوں اور رفقاے کار کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی وجہ سے ’’ریڈیو پاکستان ہمہ خانہ آفتاب تھا مہتاب تھا‘‘۔ چوں کہ ملازمتی زندگی میں ناصر قریشی کا مسلک ’’ریڈیو کے توسط سے دین اور سرزمین کی خدمت‘‘ تھا (انھوں نے ریڈیو کے لیے سید مودودیؒ کا ایک طویل انٹرویو بھی لیا تھا، جو کتاب کی صورت میں شائع بھی ہوچکا ہے)، اس لیے انھیں ملازمت میں بارہا تبادلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض احباب کا ذکر وہ بہت محبت سے کرتے ہیں، جیسے یوسف ظفر اور بعض لوگوں سے ان کی ناپسندیدگی چھپی نہ رہ سکی، جیسے قاضی احمد سعید۔

مصلحت کوشی یا اصولوں پر سمجھوتا کبھی قابلِ قبول نہیں رہا، اسی لیے وہ معتوب بھی رہے۔ ان کا لب و لہجہ بہت بے باکانہ ہے۔ متن کے علاوہ بعض نثرپاروں کے عنوانات ہی سے لکھنے والے کی حق گوئی اور بے باکی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مثلاً ’’ذرائع ابلاغ کا مجرمانہ کردار‘‘ یا ’’پی ٹی وی کے کرشمے‘‘ یا ’’ہم بنیاد پرست ہیں‘‘ (جس کا اختتام یوں ہوتا ہے: ’’ضیاء الحق کے زمانے میں    ٹی وی پر فلموں میں رقص و سرود پر پابندی ہوتی تھی۔ اب ماشاء اللہ وہ پابندی بھی اُٹھ گئی ہے۔ دیکھیے اب کیا کیا اُٹھتا ہے؟ہماری شرافت اور تہذیب و ثقافت کی اللہ خیر کرے‘‘۔ ص۲۲۷)۔

یہ کتاب کوئی باقاعدہ اور مربوط آپ بیتی نہیں۔ ناصرقریشی نے دو دو، چار چار صفحے کے مختصر مضامین کی کیاریوں میں یادوں کے (مختلف موسموں کے) ’’پھول اور شگوفے‘‘ کھِلائے ہیں۔ یہ نثرپارے مختلف زمانوں اور موسموں میں لکھے گئے، اس لیے ان میں کہیں کہیں تکرار بھی ہے۔ کتابی شکل دیتے وقت تواریخِ تحریر کو ملحوظ رکھا جاتا اور ہر نثرپارے کے آخر میں اس کا زمانۂ تحریر دے دیا جاتا تو تاریخی اعتبار سے کتاب کا پایہ بڑھ جاتا۔

ابتدا میں (بطور دیباچہ) ناصر قریشی کا تعارف شامل ہے مگر تعارف نگار کون ہے؟ کچھ پتا نہیں چلتا___ کتاب معلومات کا خزانہ ہے۔ افراد و اشخاص، ریڈیو پاکستان کا کردار اور ریڈیو کو شخصی مفادات اور پاکستان کا چہرہ بگاڑنے کے لیے استعمال کرنے والوںکے عزائم بے نقاب ہوتے ہیں۔ کبھی ریڈیو پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ کتاب بطور حوالہ کام آئے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)


عالم گیریت کا چیلنج اور مسلمان، مرتبین: ڈاکٹر انیس احمد، خالد رحمان، عرفان شہزاد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، گلی ۸، ایف۶/۳، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۳۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

پانچ مقالات پر مشتمل یہ مجموعہ مجلہ مغرب اور اسلام کی اشاعتِ خاص کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ عالم گیریت کے چیلنج اور مسلمانوں کے حوالے سے سلسلۂ مضامین کا یہ دوسرا حصہ ہے، جس میں ڈاکٹر محمدعمر چھاپرا کے دو عالمانہ مقالوں (۱۶-۴۷ اور ۱۰۴-۱۳۴) میں بین الاقوامی مالیاتی استحکام میں مالیات کے کردار، عالم گیریت کے موجودہ چلن اور مسلم دنیا کو اس طرح زیربحث لایا گیا ہے کہ یہاں پر پھیلے ہوئے سماجی جبر اور معاشی ظلم کو عدل کی راہوں پر گام زن کرنے کے امکانات اور وسائل کی نشان دہی ہوتی ہے۔ یہ تحقیقی مقالات معاشیات، سماجیات اور سیاسیات کے طالب علموں کے لیے ایک قابلِ قدر مصدر ہیں۔ اسی طرح ایک منفرد مقالہ معروف عالم اور محقق ڈاکٹر محموداحمد غازی مرحوم و مغفور کا ہے، جس میں انھوں نے اسلام کے قانون بین الاقوامی کی روشنی میں آج کی دنیا کے تعلقات کے بحران اور بے اعتمادی و ظلم کے نظام کا بہ حسن و خوبی نہ صرف تجزیہ کیا ہے، بلکہ مروجہ بین الاقوامی قانون میں اسلامی قانون بین الاقوامی کی فوقیت اور امتیازی پہلوئوں کو بھی پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی اسلامی ماخذ کی روشنی میں تمام اقوام و ملل کو احترام و یگانگت کا رستہ بھی سمجھایا ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون: ’عالمی امن اور قیامِ عدل، اسلامی تناظر میں‘ انھی مباحث کی تفہیم لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔

البتہ اس مجموعے میں ایان مارکھیم کے مضمون: ’عالمی امن و انصاف: مسیحی تناظر‘ (۶۶-۷۸) کی وجۂ جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ مسیحی اسٹیبلشمنٹ جو ظلم کی خاموش حلیف اور عام انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا دوسرا نام ہے،اس سے عالمی امن و انصاف کی توقع عبث ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قیمتی، قابلِ مطالعہ معلومات افزا مجموعۂ مضامین ہے۔ (سلیم منصور خالد)


قاتل کون؟ سہیل وڑائچ۔ ناشر: ساگر پبلشرز، الحمد مارکیٹ، ۴۰- اُردو بازار، لاہور۔       فون: ۳۷۲۳۰۴۲۳۔ صفحات: ۸۱۳ مع اشاریہ۔ قیمت: ۱۷۵۰ روپے۔

موت کا سایہ ہرزندگی کے تعاقب میں رہتا ہے، اس اعتبار سے زندگی سے متصل سب سے اہم سچائی موت ہی ہے۔ فطری اور طبعی موت، باوجود صدمے کے، رنج و الم کا وہ کہرام بپا نہیں کرتی جس غم و اندوزہ کا مشاہدہ غیرطبعی موت پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس غیرفطری موت کا نکتۂ آغاز وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل تھا۔ بعدازاں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے ہمراہ اعلیٰ درجے کی فوجی قیادت کا طیارے کی تباہی میں قتل بھی قرائن و شواہد کے اعتبار سے سبوتاژ کارروائی کا نتیجہ ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اور پھر دسمبر ۲۰۰۷ء کی انتخابی مہم کے دوران ملک کی تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی امیدوار بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قتل نے ملک کی سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات ثبت کیے۔

زیرنظر کتاب، بے نظیر بھٹو کے اسی الم ناک قتل کی تحقیقات پر مبنی ایک دستاویز ہے، جسے پاکستان کے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے تین سال کی مسلسل تحقیق و جستجو کے بعد پیش کیا ہے۔ اگرچہ اس سانحے پر متعدد کتب آچکی ہیں، لیکن اپنی پیش کش، اسلوب اور لوازمے کی ترتیب کے اعتبار سے اس کتاب کو کئی پہلوئوں سے دوسری کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ مصنف نے جُملہ تحقیقی رپورٹوں کے نتائج اور اشتراکات و اختلافات کو پیش کرنے کے ساتھ، موقعے کی شہادتوں کا بڑی خوبی سے تجزیہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس قتل سے منسوب تمام مفروضوں کو پیش کر کے ان کا غیرجذباتی سطح پر تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں پیپلزپارٹی کے داخلی اختلافات، مرحومہ کی گھریلو اور خانگی زندگی پر مشاہدات اور دوستوں کی یادداشتیں شامل کی ہیں۔ تیسرے حصے میں  بے نظیر سے مصنف کے متعدد انٹرویو، ان کی شخصیت کے مختلف زاویوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

اضافی طور پر جاے حادثہ کے تصویری خاکے، نقشہ جات، معلوماتی جداول نے قاری کے لیے کتاب کو دل چسپ اور معلومات افزا بنا دیا ہے۔ اس سے ایک جانب تو بے نظیر کی شخصیت، جدوجہد اور عزائم کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے، دوسری جانب قدم قدم پر پاکستان کی سیاسی زندگی پر بیرونی بلکہ امریکی اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ، بامقصد، غیرجذباتی اور فنی اعتبار سے منفرد کتاب ہے۔ تاریخ، سیاسیات، سماجیات کے طلبہ اور پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل سے   دل چسپی رکھنے والے قارئین اگر اس کا مطالعہ نہ کرسکے تو ان کی معلومات میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہ جائے گی۔ (س - م - خ)

تعارف کتب

  •  آگہی (سلسلہ نمبر۱-۲)، بشریٰ جمیل۔ ناشر: علوم القرآن انسٹی ٹیوٹ براے خواتین، ۱۶۹-بی، بلاک ۱۱، گلستان جوہر، کراچی۔ فون: ۳۶۶۱۳۱۸۵-۰۲۱۔ صفحات (علی الترتیب): ۲۵، ۳۱۔ قیمت: درج نہیں۔ [بچیوں کی تربیت صحیح نہج پر ہو تو آیندہ بننے والے خاندان کی بنیادیں بہت صحت مند اور مضبوط ہوسکتی ہیں۔   اسی غرض کے لیے نوعمر لڑکیوں کے لیے عملی رہنمائی، دین کے احکامات اور جدید مسائل کی روشنی میں پیش کی گئی ہے۔ مصنفہ نے ذاتی مشاہدات اور تجربات کے ذریعے ایسی معمولی معمولی باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے  جن سے گھروں میں زندگی تلخ ہوکر رہ جاتی ہے۔ پہلے حصے میں بلوغت کیا ہے؟ حیا و حجاب اور حفظانِ صحت کے اصول وغیرہ بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں بنیادی طور پر بہو کے لیے ہدایات ہیں کہ نئے گھر میں کس طرح رہے۔ ہمارے یہاں اور تمھارے یہاں کی بحث، مثبت اور منفی سوچ، عادتوں کی تبدیلی، رشتہ نباہنا، شکر کا قرینہ، حسنِ سلیقہ و حسنِ تدبیر جیسے موضوع زیربحث آئے ہیں۔]
  •  ثنائیاتِ قرآن و حدیث، مؤلف: انجیینیرعبدالمجید انصاری۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ، رحمان مارکیٹ،    غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۱۱۲۴-۰۴۲۔ صفحات: ۵۱۹۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔[ان  آیات و احادیث کا انتخاب جن میں دو دو باتوں کا ذکر آیا ہے۔ ۶۸۳ عنوانات کے تحت آیات، جب کہ ۲۲۷عنوانات کے تحت احادیث کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔اس سے قبل مؤلف  ثلاثیاتِ قرآن و حدیث، رباعیاتِ قرآن و حدیث اور خماسیاتِ قرآن و حدیث بھی مرتب کرچکے ہیں جن میں تین تین، چار چار اور پانچ پانچ چیزوں کا بیان ہے___ ایک منفرد مطالعہ قرآن و حدیث۔]
  •  امثال الحدیث ، مؤلف: قاری محمد دلاور سلفی۔ ناشر: صبحِ روشن پبلشرز، لاہور۔ ملنے کا پتا: مکتبہ اسلامیہ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۲۷۵۷۶۷۔۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[نبی اکرمؐ فصیح اللسان تھے۔ آپؐ کی گفتگو اختصار، جامعیت اور اثرانگیزی کا اعلیٰ نمونہ ہوتی۔ تمثیل مؤثر گفتگو کا اہم ذریعہ ہے۔ احادیث میں مثالوں، تشبیہوں اور ضرب الامثال کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ایسی ہی احادیث کے انتخاب پر مبنی ہے۔ مؤلف اس سے قبل امثال القرآن بھی مرتب کرچکے ہیں۔ اپنی نوعیت کا منفرد مطالعہ حدیث۔]
  •  ماہ نامہ ہمدرد نونہال (خاص نمبر،جون ۲۰۱۱ء)، مدیر: مسعود احمد برکاتی۔ملنے کا پتا:دفتر ہمدرد نونہال،       ہمدرد ڈاک خانہ ناظم آباد نمبر۳، کراچی۔۷۴۶۰۰۔ فون: ۳۶۶۲۰۹۴۵-۰۲۱۔ صفحات:۲۷۲۔ قیمت:۴۰ روپے۔ [نونہال بچوں کے لیے پاکیزہ و صحت مند ادب، اسلامی روایات کی پاس داری اور عصری تقاضوں کا فہم جیسے اعلیٰ مقاصد کے لیے ایک عرصے سے کوشاں ہے۔ زیرنظر ’خاص نمبر‘ بھی اسی روایت کا تسلسل ہے: شہید حکیم سعید کی باتیں، نئے اور پرانے لکھنے والوں کی دل چسپ اور مزیدار کہانیاں، غیرملکی ادب سے انتخاب، نئی نئی معلومات، نظمیں، لطیفے اور مستقل سلسلے___ ہرخریدار کے لیے ایک خاص تحفہ بھی۔]
  •  قرارداد مقاصد (پاکستان کا اساسی دستور) ، مرتبہ: غلام قادر جتوئی ایڈووکیٹ۔ ملنے کا پتا: اسلامک لائرز موومنٹ پاکستان، ۲۰۸- طاہر پلازا، نزد سٹی کورٹس، کراچی۔ صفحات: ۳۰۔ قیمت :درج نہیں۔ [۵۷مسلم ممالک میں کہیں بھی ریاستی دستور اسلامی نہیں ہے۔ دستورِ پاکستان وہ واحد آئین مملکت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو اقتدارِ اعلیٰ مانا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں قرارداد مقاصد پر عمل درآمد کی ضرورت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ کتابچہ افادہ عام کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ اگر نواب زادہ لیاقت علی خاں اور مولانا شبیراحمد عثمانی کی تقاریر کے ساتھ ساتھ قرارداد مقاصد کا متن بھی شائع کر دیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔]
  •  شیطان سے بچائو کی کتاب ،تالیف: حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ناشر: فقیہہ الحدیث پبلی کیشنز، لاہور۔ ملنے کا پتا: نعمانی کتب خانہ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۷۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [کتاب مذکور میں شیطان کے مکروفریب اور طریقہ ہاے واردات سے آگاہ کیا گیا ہے۔ مؤلف نے قرآن و حدیث کی روشنی میں شیطان کا تعارف کروایا ہے اور ایسے وظائف کا ذکر بھی کیا ہے جن کے ذریعے شیطانی حملوں سے بچاجاسکتا ہے، نیز    ان ضعیف روایات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو شیطان کے حوالے سے مشہور ہیں۔]

محمد اسلم سلیمی ، لاہور

عالمی ترجمان القرآن کے اجرا پر دلی مبارک باد قبول فرمائیں۔ نقشِ اوّل ماشاء اللہ خوب ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس پرچے کو خوب سے خوب تر بنائے، آمین۔ ’اشارات‘ میں امریکی جارحیت کے عنوان سے یورپ، امریکا اور دنیا بھر کے دانش وروں کے تبصروں سے عالمی نقطۂ نظر سامنے آگیا ہے اور سوچنے سمجھنے والے حضرات کے غوروفکر کے لیے قیمتی مواد فراہم ہوگیا ہے۔پروفیسر نجم الدین اربکان مرحوم و مغفور کی حیات و خدمات کے بارے میں دردِ دل سے لکھے ہوئے تعزیتی مضمون کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ مرحوم واقعی ایک تاریخ ساز عبقری شخصیت تھے۔ آپ نے ان کے مشن، ان کی نظریاتی سیاست اور عظیم جدوجہد، ان کی بیش بہا قربانیوں اور ان کی علمی، عملی اور تنظیمی صلاحیتوں کی خوب وضاحت کی ہے۔ ان کے سفرِآخرت کے بارے میں آپ نے درست لکھا ہے کہ ان کی موت بھی ان کی زندگی کی طرح اسلامی احیا کی تحریک کی علامت بن گئی ہے۔

ڈاکٹر نزہت اکرام ، کراچی

’ایمان اور آخرت‘ (جون ۲۰۱۱ء) کے عنوان سے خرم مراد مرحوم کے خطاب کا خلاصہ ایمان و ایقان کی روشن کرنیں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ دنیا و آخرت کا موازنہ سلیس زبان میں نہایت پُرتاثیر انداز میں کیا گیا ہے۔ مرحوم کی تقاریر و تحاریر ہمیشہ ہی فکرانگیز اور عمل کی طرف راغب کرنے والی رہی ہیں۔ انھوں نے مشرکوں کے گڑھ میں بیٹھ کر بھی تبلیغِ اسلام کی۔ پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی سیاسی بصیرت جس طرح وطن کے حکمرانوں کی بے حسی، کج روی اور بے غیرتی کی نشان دہی کرتی ہے، اسی طرح اقوامِ عالم کی ملی بھگت سے طاغوتی طاقتوں کی سازشوں کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ صاحبانِ اقتدار کو موجودہ اور آیندہ آنے والے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے لیے صحیح راہِ عمل تجویز کرتی ہے۔ کاش! کہ ہمیں ایسے حکمراں مل سکیں جو ان دُور رس نتائج کو مدنظر رکھیں، آمین!

دینِ اسلام اور عالمِ اسلام سے متعلق سب ہی مضامین فکرانگیز ہیں۔ عفیفہ کا قبولِ اسلام اور محض ۲۲سال کی عمر میں ایمان و یقین کا اس قدر استحکام ولولہ خیز ہے۔ خدا ہماری بچیوں اور خواتین کو اچھی طرح دین میں راسخ العقیدہ بنائے اور عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ ’بنت مجتبیٰ مینا کی یاد‘ میں زہرانہالہ کا اپنی عظیم والدہ اور پُرجوش کارکن کے طور پر ذکر قابلِ تقلید ہے۔ ’حکمتِ مودودی‘ کے عنوان سے جستہ جستہ فکرانگیز عبارات و اقتباسات کا سلسلہ بہت اچھا ہے۔ ’کتاب نما‘ ذوقِ مطالعہ کو مہمیز دینے میں معاون ہے، اور اچھی کتابوں سے تعارف کی طلب بڑھاتا ہے۔

راجا محمد ظہور ، چیچہ وطنی

طویل انتظار کے بعد ترجمان القرآن کے دورِ نو کا پہلا شمارہ (مئی ۲۰۱۱ء) پڑھنے میں آیا۔ یہ نام بھی خوب ہے___ عالمی ترجمان القرآن___ اللہ تعالیٰ روشنی کی اس شمع کو عالم آرا بنا دے، آمین! اس شمارے میں ایک دل دردمند کے لیے وہ سب کچھ ہے جسے وہ طلب کرے۔ ’عالمِ اسلام‘ اور ’اخبارِاُمت‘ کے عنوانات بھی حسب سابق خوب ہیں لیکن پروفیسر خورشیداحمد صاحب (اللہ ان پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے اور تادیر سلامت رکھے) کے مضمون بابت پروفیسر نجم الدین اربکانؒ کی ایک ایک سطر سوز درد میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کے مطالعے کے دوران میں آنکھوں سے بے اختیار آنسوئوں کی جھڑی لگی رہی، حتیٰ کہ آخری سطر آگئی۔

امیرالدین مہر،میرپور خاص

’دہشت گردی کی تباہ کاریاں‘ (جون ۲۰۱۱ء) پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے امریکا کے کردار، منصوبے اور سازشیں ، حال میں اس کی ریشہ دوانیاں اور خونیں حملے اور آیندہ کے منصوبے، سازشیں بڑی تفصیل سے پیش کی ہیں۔ اس جامع تجزیے کو شعور و آگاہی کے لیے وسیع پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔

وحیدالدین سلیم ،حیدر آباد، دکن

عالمی ترجمان القرآن کے اجرا پر دلی مبارک باد قبول فرمایئے! خوشی ہوئی کہ اس طرح ترجمان القرآن کا مشن زندہ و تابندہ ہے۔ اسلامی شعور کے عصری تقاضوں کے ساتھ جاری اس رسالے کا پوری مسلم دنیا میں کوئی بدل نہیں۔

ضیا حسین ضیا ،فیصل آباد

پون صدی قبل سید مودودیؒ نے ترجمان القرآن کے ذریعے احیاے اسلام کی جس تحریک کا آغاز کیا تھا، عالمی ترجمان القرآن  اس جدوجہد کا تسلسل ہے۔

محمد سعید خاں ایڈووکیٹ ،ساہیوال

سید مودودیؒ کے ۱۹۳۳ء میں جاری کردہ ترجمان القرآن کی ۷۸ سال اشاعت کے بعد بندش کے سانحے کو تدبر اور حوصلے سے برداشت کرتے ہوئے خوش اسلوبی سے متبادل نام کے ساتھ اس سفر کو جاری رکھنا خوش آیند ہے۔ تاہم، مجھ جیسے بہت سے کمزور دل انسانوں نے بڑی مشکل سے اپنی چیخیں ضبط کیں جب مئی ۲۰۱۱ء کے شمارے میں پرچے کی بندش کا اعلان پڑھا۔

شبیر احمد انصاری ، مدیر ماہنامہ نفاذِ اُردو،کراچی

عالمی ترجمان القرآن کی صورت میں آوازِ حق کی ترسیل و ترویج جاری ہے۔ اعتدال پسندی اور صبرو استقامت کے ساتھ اس سفر کو جاری رکھنے پر مبارک باد قبول کیجیے۔


ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا؟ تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ اور قرآنی و مسنون دعائیں بلامعاوضہ دستیاب ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات ۱۵ روپے کے ڈاک ٹکٹ بنام ڈاکٹر ممتاز عمر ، T-473، کورنگی نمبر2، کراچی-74900 کے پتے پر ارسال کرکے کتابچہ حاصل کرسکتے ہیں۔

معاشرے کے روگ

[ہمارے معاشرے کا] تیسرا عنصر عوام پر مشتمل ہے۔ یہ ہماری قوم کا سواداعظم ہے۔ ہماری کل آبادی کا ۹۰ فی صدی، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ یہ لوگ اسلام سے گہری عقیدت اور مخلصانہ محبت رکھتے ہیں..... ان غریبوں کو کئی روگ لگے ہوئے ہیں۔

سب سے بڑا اور بنیادی روگ یہ ہے کہ جس اسلام سے یہ عشق رکھتے ہیں اس کو جانتے    نہیں ہیں۔ اس کی تفصیلات سے ہی نہیں، اس کے اصول و مبادی تک سے بے خبر ہیں۔ اسی لیے  ہرضال و مضل [گم راہ] شخص اسلام کا لباس پہن کر ان کو بہکا سکتا ہے۔ ہرغلط عقیدہ اور غلط طریقہ اسلام کے نام سے ان کے اندر پھیلایا جاسکتا ہے.....

اس پر مزید یہ کہ ان کی اپنی قوم کے اہلِ دماغ اور بااثر طبقوں نے انھیں اور بہت سے نئے روگ لگا دیے ہیں۔ یہ غریب تعلیم کے لیے جدید درس گاہوں میں جاتے ہیں تو وہاں زیادہ تر مخلص اور مکّار ملاحدہ، یا نیم مسلم و نیم ملحد حضرات سے ان کو پالا پڑتا ہے۔ قدیم مدارس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اکثر مذہبی سوداگروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ دینی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خطیبوں اور واعظوں کی عظیم اکثریت انھیں گمراہ کرتی ہے۔ روحانی تربیت کے طالب ہوتے ہیں تو پیروں کی غالب اکثریت ان کے لیے رہزن ثابت ہوتی ہے۔ دنیوی معلومات کے سرچشموں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اُن اخبارات اور رسائل سے اِن کو سابقہ پیش آتا ہے جن کی بہت بڑی اکثریت ہماری قوم کے سب سے زیادہ رذیل طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ قومی اور ملکی معاملات کی سربراہ کاری کے لیے لیڈر ڈھونڈتے ہیں تو وہ زیادہ تر ملاحدہ اور نیم ملاحدہ اور مترفین کے گروہ سے نکلتے ہیں۔ اپنی معیشت کی تلاش میں رزق کے منبعوں کی طرف جاتے ہیں تو وہاں بیش تر اُن لوگوں کو قابض پاتے ہیں جنھوں نے حرام و حلال کے امتیاز کو مستقل طور پر ختم کر رکھا ہے۔ غرض، ہماری قوم کے وہ طبقے جو دراصل ایک قوم کے دل اور دماغ ہوتے ہیں اور جن پر اُس کے بنائو اور بگاڑ کا انحصار ہوا کرتا ہے، اس وقت بدقسمتی سے ایک ایسا عنصر بنے ہوئے ہیں جو اسے بنانے کے بجاے بگاڑنے پر تُلا ہوا ہے اور بنائو کی ہرصحیح و کارگر تدبیر میں مزاحم ہے۔ (’اشارات‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۶، عدد ۳، رمضان ۱۳۷۰ھ، جولائی ۱۹۵۱ء،ص ۷-۸)