مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۰۹

فرد ہو یا قوم، نظریے اور مقصود حیات کے بغیر اس کی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس نکتے کو بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے:

زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن
مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات

(اسرار و رموز)

(فرد کی زندگی جان و تن کے تعلق سے قائم ہے، اور قوم کی زندگی اپنی قدیم روایات کے تحفظ سے قائم رہتی ہے۔ فرد کی موت جوے حیات خشک ہوجانے سے واقع ہوجاتی ہے، اور قوم کی موت مقصودِ حیات ترک کردینے سے ہے۔)

پاکستان اپنے قیام کے ۶۲ سال بعد ایک مخصوص لابی کی شرانگیز عالمی مہم کے نتیجے میں  جن حالات سے دوچار ہے، وہ ’حفظ ناموس کہن‘ کے لیے خطرہ اور ’ترک مقصود حیات‘ کے تباہ کن راستے کی طرف دھکیلے جانے کا سامان ہے۔ ان خطرات اور اس بین الاقوامی یلغار کا بروقت مقابلہ آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

فرد اور قوم دونوں ہی کی زندگی میں نظریہ، تصورِ حیات اورزندگی کے مقصود کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ قرآن نے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت کو قرار دیا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اس کی سب سے بنیادی دعا ہے اور ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اس دعا کا جواب ہے۔ قرآن پاک میں تخلیق آدم ؑکے واقعے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس کا مرکزی نکتہ انسان کا مقصدِ وجود ہے، یعنی خلافت اور نیابتِ الٰہی اور پورا قرآن اس ہدایت کا امین ہے جو انسان کو یہ کردار ادا کرنے کے لائق بناتا ہے۔

اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز یہ ہے جس انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا، اسے علم الاشیاء سے نوازا۔ اسے عقل، ارادے اور اختیار کی دولت سے مالا مال کیا۔ اس کے اندر خیر اور شر دونوں کا داعیہ رکھا: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس ۹۱:۸)، اسے حق و باطل اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت سے نوازنے کے بعد، ہدایت سے بھی نوازا اور کامیابی کی شاہراہ کو روشن کرکے اسے بتادیا کہ جو ہدایت کی پیروی کرے گا وہی کامیاب ہے اور جو اس سے رُوگردانی کرے گا وہ ناکام و نامراد ہے:

فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸-۳۹) پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے،     وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسانی زندگی کی سب سے کارفرما قوت نظریہ اور ہدایت ہے۔ اس مثالیے (paradigm ) میں تین چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں:

۱۔ علم الاشیاء، یعنی انسان کو اس کائنات کے وسائل اور خزانوں کا علم اور ادراک عطا کیا گیا ہے۔ اسی چیز نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی اور اسے نیابت و خلافت کا اہل بنایا۔

۲- عقل اور انتخاب کی آزادی انسانوں کو عطا کی۔ فرشتوں نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ فساد کرے گا‘‘۔ گویا رد وقبول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کوجبر میں نہیں کسا بلکہ اس کو آزادی اور انتخاب کی صلاحیت بھی دی ہے۔ یہ دونوں چیزیں تو سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں مشترک ہیں۔ البتہ اس سلسلے کی تیسری چیز (ہدایت) کے بارے میں (جو انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے) سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں بعدالمشرقین نظر آتا ہے اور یہیں سے اختلاف کی بنیاد سامنے آتی ہے۔

۳- ہدایت سے مراد اس زندگی کو گزارنے کا اسلوب ، احساس ذمہ داری کی میزان اور آخرت میں جواب دہی کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے انبیاورسل علیہم السلام کو بھیجا گیا، کتابوں اور ہدایت کی روشنی دی گئی اور خاتم الابنیاء محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی اس ابدی ہدایت کی تکمیل کی۔ فرمایا: اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ o [البقرہ ۲:۲۸۵]’ ’رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں ، اور اس کی کتابوں، اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں، اور ان کا قول یہ ہے کہ : ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک، ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری طرف پلٹنا ہے‘‘۔ مرادیہ ہے کہ ہدایت وہ چیز ہے جو مقصد تک پہنچنے کی تمام تر جدوجہد کو سہارا عطا کرتی ہے، علم کو انسانیت کے لیے نافع اور سودمند بناتی ہے، اور نیابت و خلافت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے رہنمائی عطا کرتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں علم الاشیاء، آزادیِ انتخاب اور ہدایت کے تین ستونوں پر ہی نظریے،  مقصد اور منزل کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر نہ زندگی میں انضباط پیدا ہوتا ہے، نہ اصل جوہرِ انسانیت کا اظہار ہوتا ہے، اور نہ تحریک و تحرک کو کوئی راستہ ہی ملتا ہے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے نظریہ ناگزیر ہے، اور یہ سبھی معاشروں اور انسانوں کے لیے ضروری ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہدایت، انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کے لیے   یہ اصول طے کر دیا گیا:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo (فاتحہ۱:۵-۶)ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔


انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ  جن قوموں اور انسانوں کے سامنے کوئی نظریہ اور منزل تھی، انھی نے اوراقِ تاریخ اور دامنِ تہذیب میں نام پیدا کیا۔ نظریہ غلط ہو یا درست، شر پہ مبنی ہو یا خیر کا علم بردار، دونوں ہی صورتوں میں وہ ہمیشہ زندگی کی نشوونما اور پیش رفت اور ترقی کے لیے، ایک بنیادی محرک رہا ہے۔ البتہ نظریہ اگر حق پر مبنی ہے تو اس سے انسانی زندگی اور دنیاے تہذیب میں خیر اور فلاح کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اگر وہ باطل پر مبنی ہے تو یہ جہان تگ و دو فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

تاریخ کے اس فتوے کو ایک طرف تو ابن خلدون[م:۱۴۰۶ء] نے اپنے انداز میں مقصد، شریعت اور عصبیت کے فریم ورک میں پیش کیا ہے، اور دوسری جانب خود دورِ جدید کے فلاسفۂ تاریخ نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر پی اے ساروکن [م:۱۹۶۸ء]، آرنلڈ جے ٹائن بی[م:۱۹۷۵ء] اور عصرِ حاضر کے دیگر ماہرین تاریخ نے بھی اپنے اپنے انداز میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔ ان سب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہی قومیں انسانی تاریخ کے اسٹیج پر ابھری ہیں، جن کے سامنے ایک اعلیٰ نصب العین تھا، اور جو اس نصب العین اور نظریے کی بنیاد پر فکری، سماجی، معاشی اور نفسیاتی زندگی کے چیلنجوں کا جواب دینے کا داعیہ، صلاحیت اور جذبہ رکھتی تھیں۔ اس چیز کو گذشتہ ربع صدی کے ماہرین تہذیب و تاریخ: ’انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریے اور افکار کی فیصلہ کن کار فرمائی‘ کے جملے میں پیش کرتے ہیں۔ اس اصول کو ہمارے اہلِ دانش نے فکری و عملی جدوجہد سے مربوط کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء] نے اسے ’اجتہاد اور جہاد‘ سے تعبیر کیا ہے، اور شعرو ادب نے اسے ’قلم اور تلوار‘ کی علامات کی شکل میں پیش کیا ہے۔

یہ تاریخ انسانی کا نہایت صاف اور واضح فیصلہ ہے کہ تہذیبی تبدیلی کے لیے فیصلہ کن عامل قلم ہی ہے۔ قلم سے مراد ہے فکرو دانش اور اخلاق و اصول، جب کہ اس تبدیلی کو روبہ عمل لانے اور اس کی حفاظت کے لیے قوت، تنظیم اور تلوار کا وجود ناگزیر ہے۔ یوں قلم اور تلوار انسانی تاریخ، تہذیب اور زندگی کے لیے دست راست اور ایک دوسرے کے زبردست معاون اور پُشتی بان ہیں۔

۲۰ویں صدی ایک طرف بے خدا فلسفوں کے درمیان کش مکش اور دوسری طرف یورپی قوموں کے درمیان تجارتی و معاشی رقابت کی بنا پر خوں ریز تصادم کی صدی تھی___ اس سے ماقبل متصل ۱۹ویں صدی میں ایوان ترگینف [م:۱۸۸۳ء] نے نہل ازم Nihlism (’زندگی ایک   بے معنی اور محض وجودی چیز ہے‘) کے نظریے کو بڑے دعوے سے پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ گذشتہ  دو صدیوں میں جواب دہی کے تصور سے بالا انسان کی مزعومہ سوچ کا سرچشمہ اسی فکر سے پھوٹتا ہے۔ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں اشتراکیت اور پرولتاری، یعنی مزدوروں کی آمریت کا نعرہ بلند ہوا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے وسیع حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے افکار کو تہہ وبالا کر دیا، مگر اپنی غیر فطری بنیاد کے باعث ۷۰، ۸۰ سال کے بعد ہی اشتراکیت کا سورج ڈوب گیا۔اسی درمیان میں فاشزم(فسطائیت) کا ڈنکا بھی بجا مگر ایک دوعشروں میں ہی، یہ انسانی تاریخ کی بدترین اصطلاح بن کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ انسانیت کے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ وہی مغربی تہذیب جس نے ۲۰ویں صدی میں سائنسی ترقی کا سہارا لے کر دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا تھا، آج مسلمانوں کو امن کا درس دے رہی ہے؟ پھر سوویت یونین کے انہدام [۱۹۹۱ء] کے بعد فرانسس فوکویاما [پ:اکتوبر ۱۹۵۲ء] نے End of the History میں گویا نظریاتی تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا اور مگر چند ہی برسوں میں یہ فکر بھی پانی کے بلبلے کی طرح تحلیل ہوگئی۔

آج دنیا میں ایک بار پھر نظریات کی بالادستی، مقاصد اور ’اقدار بطور اصل کار فرما قوت‘ کے  فہم اور حصول کی پیاس بڑھ رہی ہے۔ عصر حاضر میں پیدا شدہ عالمی، تہذیبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی بحران کا حل ایک بار پھر نظریاتی آدرشوں میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اصل بحران،  اخلاقی بحران ہے، نظریاتی شعور کی پستی کا بحران ہے، جس نے انسانی زندگی اور اس کے مستقبل کو خوف ناک چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔

آج اہل فکر ونظر، اقدار اور اخلاق کی کارفرمائی کو زندگی کے فیصلہ کن مظہر کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل اسی وقت روشن قرار دیا جاسکتا ہے، جب ایک ایسا عالمی نظام معرض وجود میں آئے، جو احترامِ آدمیت، اخوت، حریت اور مساوات اور بے لاگ انصاف پر استوار ہو، جو استحصال سے پاک اور انسانوں کے درمیان محبت، امداد باہمی اور مؤدت کا داعی ہو۔ پاکستان کے فکری بانی علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:

وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے، اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت میں سے اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیا جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللّٰہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے، اور اخوت، حریت اورمساوات کے شان دار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو پائیں گے [یکم جنوری۱۹۳۸ء کو  سالِ نو کا پیغام، آل انڈیا ریڈیو، لاہور]

اسی طرح علامہ محمد اقبال ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں:

جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے، اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے، جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نظر کو یکسر بدل کر، اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے… یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ تو قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی، نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اس کا مقصد، باوجود تمام فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔

۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا:

اسلام، فرد کی زندگی کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک ہی کُل کے جزو ہیں، اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ انسان اس آلایشوں سے لبریز اور ناپاک دنیا کا کوئی باشندہ ہے اور وہ اسے کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے، جہاں روح رہتی ہے، اسلام کے نزدیک مادہ روح کا وہ روپ ہے جو قیدمکان و زمان میں گھرا ہوا ہے۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کی زندگی سے مذہب عیسوی تقریباً خارج ہوگیا ہے… میری خواہش ہے [اور مجھے یقین ہے کہ] شمال مغربی ہندستان کے مسلمانوں کو ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

گویا اسلام ان نسلی اور علاقائی امتیازات سے بلند ہو کر انسان کو اس کی فطرت کی جانب بلاتا اور اسے ایک تصور جہاں (ورلڈ ویو) کی روشنی دیتا ہے کہ جس کی بنا پر منصفانہ نظامِ جہاں  (ورلڈ آرڈر) نموپذیر ہوتا ہے۔

اس وقت جو لوگ نظریے کی کار فرمائی اور اس کی اہمیت کا انکار کر رہے ہیں، وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ مقصد حیات، نظریے، اخلاقی اور سماجی اقدار سے کٹ کر، اور مفاد وعصبیت کی دلدل میں پھنس کر انسان حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنا وہ نظریے اور اخلاق سے دُور ہوتا ہے، اتنا ہی وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے تباہی وبربادی کا سبب بنتا ہے۔نہ اس کی قوم پرستانہ جمہوریت، انسانیت کے لیے ہمدردیِ عمل کا پروگرام پیش کرتی ہے اور نہ ملوکیت یا ڈکٹیٹرشپ ہی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر پاتی ہے۔ ان طرزِ ہاے حکومت کی طرح معاملہ قوموں اور ملکوں کا بھی ہے۔


پاکستان میں نظریہ پاکستان کو سمجھے بغیر تحریک پاکستان اور اس تحریک کی اصل قوتِ محرکہ کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے وجود کو سمجھنے کی کنجی تحریک پاکستان کا نظریہ ہے۔ اس مناسبت سے سمجھنا چاہیے کہ مسلمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اسلام ہی مسلمانوں کے تشخص کی علامت ہے اور مسلمان ہی اسلام کی پہچان ہیں۔ اس حوالے سے یہ نظریہ کہ’’ مسلمان ہونا تو ٹھیک ہے، مگر اس کا اسلامی ہونا کوئی ضروری تقاضا نہیں ہے‘‘، ایک احمقانہ اور تباہ کن تصور ہے۔ مسلمان اپنی تعریف کے اعتبار سے ایک اُمت کا حصہ ہے، ایک مشن اور مقصد کا علم بردار ہے، جسے مسلمانیت کی پہچان نے ایک خاص ذمہ داری سونپ دی ہے۔ مسلمان گناہ گار ہو سکتا ہے، مگر وہ اسلام کے تصور جزا و سزا، اور اُخروی جواب دہی کے تصور سے اپنے آپ کو الگ کرلے یا اس کی مسلسل نفی کرے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اس لیے عقیدہ ہی اول وا ٓخر مسلمان کی پہچان ہے۔

یہ عقیدہ انسان کے ذہن میںتین بنیادی تصورات راسخ کر دیتا ہے: lغیر اللہ سے بغاوتl اللہ پر ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگیlزندگی گزارنے کے لیے اللہ، رسولؐ، قرآن اور آخرت پر ایمان اور قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کی جدوجہد ___یہ تینوں تصورات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہی مسلم اُمت کی بنیاد ہیں، اور اسی مناسبت سے ہر مسلمان مرد اور عورت کی شناخت متعین ہوتی ہے۔

یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس چیز کو ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے یہ ہندستانی مسلمانوں کی اختراع نہیں ہے، بلکہ وہ پہلے دن سے اسلام کے ایمانی، فکری، تہذیبی تصورات اور اہداف کو قائم کرنے والا نظریہ ہے۔ سورۂ فاتحہ دو قوموں اور دوامتوں کے خدوخال واضح کرتی ہے، فرمایا:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o

قرآن کریم کا یہی افتتاحیہ اس دو قومی نظریے کو وجود بخشتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ سے دوراستے متعین کرکے، انسانوں کو رد و قبول کا اختیار دے دیا گیا ہے، یعنی ایک سیدھا راستہ اور دوسرا اس کے برعکس اللہ کی ہدایت سے انحراف اور انکار کا راستہ۔ ایک راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں سے تشکیل پاتا ہے، اور دوسرا راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے انکار، مخالفت یا اپنی خواہشات کی پیروی سے منسوب ہے۔ اس دو قومی نظریے میں جو بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت دراصل انھی دو بنیادی قافلوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں قافلوں میں فکر، صورت، ہیولا، شکل اور منزل جدا جدا ہے۔ ایک قافلہ انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے اور دوسرا انحراف اور بغاوت کو اپنائے ہوئے ہے۔

اس نظریے کے تین مضمرات ہیں جن کا سمجھنا از بس ضروری ہے:

  • پہلی یہ کہ افراد اور اقوام کو اس امر کی آزادی حاصل ہے کہ وہ کون سی منزل اور کس نظریے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی انتخاب کے مطابق وہ اجتماعی زندگی میں نتائج بھگتیں گے اور انفرادی طور پر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔
  • دوسری یہ کہ ہر قوم کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے تصور اور منزل کے انتخاب کے مطابق اپنے تشخص اور تہذیبی اور معاشرتی دروبست کا انتظام و انصرام کرے، اور اس میں مسابقت و بہتری کے امکانات کو بروے کار لائے۔
  • تیسری جہت، انسانی زندگی کے اُس پہلو سے وابستہ ہے، جس کا ذریعہ ہدایت الٰہیہ ہے۔ صرف اس ایک پہلو سے جو عقیدے پر مبنی ہے، اس میں تو لازماً یک رنگی ہے، تاہم احوال و ظروف اور زمان و مکان کی مناسبت سے، اس عقیدے کے تحت یک سو اور باہم مربوط ہوتے ہوئے، افراد اور ممالک کے لیے کثرتیت کی گنجایش پوری طرح موجود ہے۔ اسلام نے اس جزوی اختلاف اور تنوع کو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کے پیش کردہ ضابطے کے فریم ورک میں اختیار کرنے اور راستے نکالنے کی اجازت دی ہے۔

یہی چیز ہے دوقومی نظریے کی اساس اور وسیع تر بنیاد۔ اسی بنا پر ایک مسلمان کے لیے  لازم ہے کہ تصور حیات اور الہامی ہدایت کی بنیاد پر دنیا میں علم پھیلائے، رہنمائی دے اور دوسروں کے لیے قابل اتباع نمونہ پیش کرے۔ یہی حق دو قومی نظریہ دوسروں کو بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے تصورات و عقائد کے مطابق انفردی اور اجتماعی زندگی کے معاملات کو چلائیں۔ یہ نظریہ مغرب کے قومی ریاستوں (nation states) کے تصور سے بالکل مختلف سوچ کا حامل ہے۔ اس میں قومی ریاست کا نہیں، قوموں کی ریاست کا تصور ہے جس میں یہ اہتمام موجود ہے کہ ہر قوم کو اپنے تشخص کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، تاہم جس کو اکثریت حاصل ہے، اس کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اصولوں اور اقدار کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے، وہیں اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اختلاف اور تنوع کا احترام کرے اور اقلیتوں کے لیے آسودگی پیدا کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس فریم ورک کی مختلف اور متنوع صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں، مگر ان میں مسلمانوں کے لیے تین کو مرکزیت حاصل ہے:

۱- وہ ملک، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے اور اس میں انھیں اقتدار بھی حاصل ہے۔

۲- وہ ملک جس میں مسلمانوں کی اکثریت تو ہے، مگر اقتدار سے محروم ہیں۔

۳- وہ ملک، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورانھیں اقتدار بھی حاصل نہیں ہے۔

پہلی صورت میں اسلامی نظریے کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کانظام، اسلام کی روشنی میں وضع کیا جائے جس میں اکثریت نظام زندگی اور منزل کو متعین کرے اور دوسری تمام اقوام کو انفرادی، تہذیبی اور اجتماعی حقوق حاصل ہوں، تاکہ وہ اس نظریاتی ریاست میں اپنے مذہبی اور نظریاتی تشخص کے لیے مناسب جگہ (space) پا سکیں۔ اس طرح اکثریت اور اقلیت، دونوں عدل و انصاف اور افہام و تفہیم کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

دوسری صورت میں مسلمانوں کی فطری طور پر خواہش اور کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اکثریت کو اختیار اور اقتدار دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ ان کاجائز حق ہے۔ اگر انھیں اس میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ پہلی صورت میں آ جاتے ہیں، ورنہ جدوجہد کے مرحلے میں شامل رہتے ہیں۔

رہی تیسری صورت، تو اس میں اسلام نے یہ بات قبول کی ہے کہ جن کو اکثریت اور اقتدار حاصل ہے، انھیں اجتماعی زندگی میں انصاف اور دوسروں کے حقوق کی پاس داری کے ساتھ حکمرانی کا موقع ملنا چاہیے۔ دوسرے مذہبی اور تہذیبی تشخص کے حاملین کو قرار واقعی جگہ اور سہولت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ وہ باوقار اور منصفانہ انداز سے زندگی گزار سکیں۔

مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں دو قومی نظریہ، انسانی تاریخ و تہذیب اور زندگی سے مطابقت رکھتا ہے، تاہم حالات کی مناسبت سے اس میں تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے۔ اس نظریاتی فریم ورک میں برعظیم پاک و ہند کے حالات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ۹۰۰ سالہ دور حکمرانی میں اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ وہ بڑی حد تک شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک کار فرما قوت بنانے کا اہتمام کریں۔ انھیں اس میں کامیابیاں بھی ملیں اور ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس طرز احساس کا منہ بولتا ثبوت اس خطۂ ارضی میں تجدیدِ دین اسلام کی متعدد تحریکیں ہیں، مگر اس تمام تر احساس کے باوجود خطۂ ہند کی تاریخ یہ ثبوت پیش نہیں کرتی کہ مسلمانوں نے جبر اور قوت کے ذریعے یہاں بسنے والی اکثریت کو اپنے مذہب، اپنی زبان اور اپنے تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے پر کبھی مجبور کیا ہو، بلکہ اس کے برعکس انھیں اس چھتری کے تحت پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا موقع دیا گیا اور اجتماعی امور میں معاشرے کے تمام طبقوں کو برابر کے مواقع میسر رہے۔

مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ہندستان کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندومت کے پیرو کاروں کو جب بھی اقتدار ملا، انھوں نے دوسرے مذہب کو نیست و نابود کیا۔ اس کے پیروکاروں کو ملک بدر کیا یا اپنے نظام میں تحلیل کرنے کے لیے ہر ناجائز کوشش کی، یا ان کی انفرادی شناخت کو ختم کرکے دم لیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی ۹۰۰سالہ حکمرانی کے زمانے کا ریکارڈ   پوری دنیا کے سامنے موجود ہے، اور ان لوگوں کے پاس بھی موجود ہے جنھیں ’ہندوسیکولرازم‘ میں ’روشن خیالی‘ کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ اس زمانے کا ریکارڈ گواہی دیتا ہے کہ مسلمانوں نے سیاسی غلبے کے باوجود، دوسرے مذاہب کی شناخت کو ختم کرنے یا ان کے پیروکاروں کو اس مناسبت سے کبھی شہری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کی (البتہ متحارب اور جنگ میں مصروف عناصر کا معاملہ دوسرا ہے)۔ یوں سرزمین ہند پر مسلم دور حکومت میں تمام افکار و مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ، باغ کے مختلف اور رنگارنگ پھولوں کی طرح پھلتے پھولتے اور اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

بعدازاں برطانوی استعمار کے قبضے کے اولین دور میں شعوری طور پر، ہوشیاری اور  چابک دستی کے ساتھ، اس نو آبادیاتی طاقت نے کوشش کی کہ یہاں مسلمانوں کو کمزور اور غیر مؤثر بنادیں کیونکہ انھیں اصل چیلنج مسلمانوں سے تھا، جن سے انھوں نے اقتدار چھینا تھا اور اسی مناسبت سے ہندو نفسیاتی طور پر برطانوی استعمار کے حلیف تھے۔ اسی استعمار نے سیاسی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے اپنے ہم نوائوں کی ایک قوت تیار کی جس کے لیے عیسائی مشنری قوتوں، جدید تعلیم کی تحریک اور دوسرے تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کی بالادست قوت کو ہرممکن سہولت مہیا کی۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک مراعات یافتہ طبقہ   پیدا کیا، جو دور غلامی میں انگریزوں کا وفادار، اور مسلمانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا رہا۔  قیامِ پاکستان کے بعد اس طبقے نے اپنے اس کردار کو پوری وفاداری سے انجام دے کر ملک کو نظریاتی کش مکش اور تہذیبی انتشار کی دلدل میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہندستان میں چونکہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک چوتھائی تھی اور ہندوغالب اکثریت رکھتے تھے، اس لیے بھی ہندوئوں کو اجتماعی نظام میں بالادستی دی گئی۔ اس پس منظر میں تحریک آزادی اُبھری۔

انگریزوں کے اس دور حکمرانی میں جو پہلی عوامی تحریک زبان زدِ خاص و عام ہوئی، جس کی بازگشت سمندر پار بھی سنی گئی اور جس نے اہلِ ہند میں ایک عوامی شعور بیدار کیا، وہ تحریکِ خلافت تھی۔ اس تحریک کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ تب مسلمان دو قومی نظریے کی روشنی میں اپنے سیاسی حقوق اور نظریاتی و تہذیبی تشخص کو ہندستان کے اجتماعی وجود ہی میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کررہے تھے۔ اس ضمن میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، مسلم شناخت کا تحفظ، حقوق کا حصول، سیاسی جدوجہد میں نظم و ضبط کا احساس اورتقسیم اختیارات بنیادی ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کے قیام ہی نے وفاقی اور صوبائی اختیارات کی بحث کو ایک رخ دیا۔ اس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگریس اختیارات کی مرکزیت چاہتی تھی۔ سائمن کمیشن اور نہرو رپورٹ میں کانگریس کی اس سوچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت قائم شدہ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلمانوں کا جو حشر کیا، وہ ٹھیک اسی طرز عمل کا ایک عکس تھا جسے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوئوں نے جین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں سے روا رکھا تھا۔

یہ تھا منظر نامہ تیسری صورت کے حوالے سے جسے مسلمانوں نے دوسری صورت میں ڈھالتے ہوئے آگے بڑھنے اور پھر نمبر ایک میں تبدیل کرنے کی منزل کا انتخاب کیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد لاہور (جسے ہندوئوں نے قرارداد پاکستان کا نام دیا) دراصل اُس راستے کا   سنگ میل ہے، جس راستے کی طرف کانگریس کی تنگ نظری نے مسلمانوں کو دھکیلنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس چیزنے تہذیبی شناخت کے لیے دو قومی نظریے کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اتارا اور دلوں کی دھڑکن بنادیا۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ علامہ محمد اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد (۲۹دسمبر۱۹۳۰ء) کو غور سے دیکھا جائے۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے زمانے میں مسلمان مفکرین، سیاست دان،  علماے کرام اور دانش ور ایک گہرے اضطراب کا شکار تھے، پھر حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ   لے کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا ہدف محض برطانوی سامراج سے آزادیِ محض کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ آزادی وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی    یہ آزادی دوسرے عقائد رکھنے والوں کے لیے بھی امن و آشتی کی نوید ثابت ہوگی۔

آزادی کے اس تصور کو ایک طاقت ور جذبے کی شکل ۱۹۰۶ء سے ۱۹۳۸ء کے درمیانی عرصے کے معروضی حالات نے دی۔ یہ بات طے ہوگئی کہ ایک تنگ نظر اکثریت سے آزادی حاصل کرکے مسلم ریاست کا قیام لازم ہے۔ علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم کے مابین جو خط کتابت ہوئی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے درمیان آل انڈیا مسلم لیگ نے جو قرار دادیں منظور کیں، اور ان میں جو مسائل نمایاں کیے گئے، اگر دیانت داری سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو صرف ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اپنے دینی، نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی تشخص اور مستقبل کو محفوظ کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے مسلمانوں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔یوں احساس اور سوچ جب عمل میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۸ء تک اپنے ۱۰۰ سے زیادہ بیانات میں: اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب، اسلامی قومیت، اسلامی تشخص، اسلامی قانون، اسلامی کلچر، اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرت کا ذکر کیا ہے۔

قائداعظم نے ہندو قوم پرست لیڈر گاندھی جی (م: ۱۹۴۸ء) کے نام اپنے ۱۰ستمبر ۱۹۴۴ء کے خط میں لکھا تھا:

قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی، فوج داری، عسکری، تعزیری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی غرض یہ کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا اور سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا تک___ یہ قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے۔

اس پس منظر میں ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا اور اس کی بنیاد پر یک سر مختلف استدلال گھڑنا، قائداعظم کے ساتھ سخت ناانصافی اور علمی اعتبار سے سراسر بددیانتی ہے۔ خود قائد اعظم نے باانداز دگر اس تقریر کی تین مرتبہ وضاحت کی۔ ہم یہاں قائداعظم کا ایک بیان اور تین تقاریر پیش کر رہے ہیں۔بیان ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء سے ڈیڑھ ماہ قبل کا ہے اورتقریریں ۱۱؍اگست کے بعد کی ہیں۔

تحریک پاکستان کے زمانے میں کانگریس کے حامی، قیام پاکستان کے مخالف، متحدہ قومیت کے طرف دار اور روشن خیال، مسلمان رہنمائوں میں ایک نمایاں نام خان عبدالغفار خاں [م:۱۹۸۸ء] کا تھا۔ انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے اعلان تقسیم کے بعد اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے، ۲۳ جون کو کہا: ’’جملہ پٹھانوں کے لیے ایک آزاد پٹھان ریاست قائم کی جائے۔ اس ریاست کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف کے مطابق وضع کیا جائے۔ جملہ پٹھانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس محبوب منزل کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور کسی غیر پختون غلبے کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں‘‘۔ اس کے جواب میں ۲۸ جون ۱۹۴۷ء کو نئی دہلی سے قائداعظم نے ایک طویل بیان جاری کیا:

اس سے قبل اس نوع کا پرفریب اور عیارانہ مطالبہ خان برادران یا کسی اور کی جانب سے پیش نہیں کیا گیا کہ سارے پختونوں کے لیے آزاد پٹھان ریاست قائم کی جائے۔ ۔۔ ان کا دوسرا نعرہ دو رنگا ہے، اور اس کا مقصد بھی پٹھانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مجوزہ پٹھانستان کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہوگا، تو ان کا مطلب، مجلس دستور ساز پاکستان، جومسلمانوں کی عظیم اکثریت پر مشتمل ہوگی، پریہ بہتان طرازی کرنا ہے کہ وہ جمہوریت کے اسلامی تصوراتِ مساوات ومعاشرتی انصاف کو نظر انداز کر دے گی… یہ محض ایک عیارانہ حربہ ہے جس کا مقصد شمال مغربی سرحد کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے… خان عبدالغفار خاں جو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان کو اسلامی تصوراتِ مساوات و معاشرتی انصاف پر اجارہ داری حاصل نہیں ہے… یہ اچانک اور نئی قلابازی خالصتاً سیاسی عیاری اور ایک حربہ ہے … خاں برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظر انداز کر دے گی۔ یہ بھی بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں، اچھے اور برے موسموں کا سامنا کرنے کے باوصف، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو حرز جان بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہندومجلس دستور ساز پر اعتبار ہے جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان‘‘۔ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷]

اس بیان میں قائداعظم نے خصوصاً دو چیزوں کو وضاحت سے نمایاں کیا ہے۔ ایک یہ کہ سیکولر، روشن خیال اور اکھنڈ بھارت کے طرف دار پرلے درجے کے موقع پرست ہیں، اور دوسرا یہ کہ اسلام،نسلی اور علاقائی تفریق سے بالاتر ہے۔ اسی لیے انھوں نے کہا کہ آپ پہلے مسلمان اور پھر پٹھان ہیں۔ یہی چیز دو قومی نظریے کی جان ہے۔

۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام میلاد النبیؐ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، قائداعظم نے فرمایا:

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے،  یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی، حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا… اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم راہبرتھے، آپؐ ایک عظیم قانون عطاکرنے والے تھے،آپؐ ایک عظیم مدبر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے، جنھوں نے حکمرانی بھی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سراہتے… اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے، جو اس کی زندگی اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست اور اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ [ایضاً، ص ۴۰۲-۴۰۳]

اس خطاب میں قائداعظم نے برملا اعلان کیا ہے کہ جو لوگ، اسلامی نظریہ حیات کے حوالے سے پاکستانی مسلمانوں کی یکسوئی کو ابہام و انتشار کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ شر انگیز عناصر ہیں۔ وہ تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی اسی طرح اسلام کے قانون شریعت کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے اس پر زور دے رہے ہیں___فروری۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیو نشری پیغام میں قائداعظم نے فرمایا:

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا عملی زندگی پر اطلاق ویسے ہی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ۱۳ سو برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں، اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ [ایضاً، ص۴۲۱، ۴۲۲]

امریکی عوام کے نام اس نشریے میں وہ صاف لفظوں میں بتاتے ہیں کہ ۱۳سو برس قبل جس طرح اسلام کے اصولوں کا اطلاق ہوا تھا، ویسا ہی آج بھی ہو سکتا ہے، اور ریاستِ پاکستان کے دستور میں انھی اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا___یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا:

مغربی اقدار، نظریے اور طریقے___ ایک خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کر سکیں گے، اور بنی نوع انسان تک امن کا پیغام پہنچا سکیں گے۔[ایضاً،ص۵۰۱]

اس بیان میں انھوں نے مستحکم لہجے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مغربی دانش ہمارے مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہمیں اپنا معاشی نظام بھی پیش کرنا ہوگا۔

آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ۱۱؍اگست کی تقریرمیں قائداعظم غیر مسلموں کے شہری حقوق کی بات کررہے تھے، نہ کہ تحریک پاکستان کے بنیادی استدلال اور موقف کی نفی کر رہے تھے۔ البتہ پاکستان کے سیکولر دانش وروں اور بھارت کے مصنفین نے قائداعظم کے تمام خطبات کو نظر انداز کرکے فقط اس ایک تقریر کو بنیاد بناکر اس سے بالکل ہی دوسرامفہوم اخذ کرلیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ’روشن خیال‘ دانش وروں کو دیانت کا دامن تھامنا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا چاہیے۔

قیامِ پاکستان کے بعد کو ابتدائی برسوں میں ہمیں ایک نظریاتی چیلنج درپیش تھا، آج پھر اس مسئلے کو زیادہ شدت کے ساتھ ابہام کا شکار کیا جا رہا ہے۔ کل اس کے علم بردار، خود پاکستان میں چند سیکولر اور اباحیت پسند لوگ تھے، اور آج بھارت سے لے کر امریکا تک اس منفی پروپیگنڈے کے     پشتی بان حضرات کی ایک فوج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے نشانِ منزل پر نظریں جما کر اس منزل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

کہا جاتا ہے کہ اس نظریاتی بحث میں پڑنے سے بھلا کون سا مسئلہ حل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرلابی نے اسی دینی اور نظریاتی رشتے کو کمزور بنانے کے لیے وہ سارا جال بُنا جس کے نتیجے میں، پاکستان کی نظریاتی اساس سے ہاتھ دھونا کوئی بڑا خسارہ نہیں سمجھا جارہا۔ حالانکہ سیانا دشمن اسی جڑ پر تیشہ چلا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پاکستان کے دینی اور آئینی رشتے کو نشانہ بناکر توڑ پھوڑ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک، اس مملکت ِ خدادا د کی تخریب ممکن نہیں ہوگی۔ اندریں حالات تمام اہلِ وطن کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس پہچان اور رشتے کو سمجھیں، اس کی حفاظت کریں اور اس کی بنیادوں پر اپنے سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی مستقبل کی تعمیر کریں۔

یاد رہے کہ آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دو قومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے۔ امریکا کی یلغار ،داخلی انتشار بلوچستان کا قضیہ، مہنگائی کا عفریت اور سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران، ان سب کا علاج اسی سے ممکن ہے۔ نیت ٹھیک نہ ہو تو اسے محض ایک نظری بات کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے لیکن اگر نیت درست ہو تو اسلام کی یہ رہنمائی اور بانیانِ پاکستان علامہ اقبال و قائداعظم کی یہ پکار الجھی راہوں کو صراط مستقیم بنا دے گی۔

 

پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات کیا ہیں؟ ....[اس] سوال کے دو جواب ہیں:

تدبر و قربانی سے یہ کام ممکن ھے

ایک جواب یہ ہے کہ انسان پیہم اور مسلسل سعی کرے اور سوچ سمجھ کر سعی کرے، بیوقوفوں کی طرح نہیں، سوچ کر عقل مندی کے ساتھ، تو وہ بڑے سے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ پیدا کرسکتا ہے۔ وہ سمندروں کے نیچے سے سرنگ نکال سکتا ہے، سمندروں کے اندر سے تیل نکال سکتا ہے، وہ چاند کے اُوپر پہنچ سکتا ہے۔ جب انسان یہ کچھ کرسکتا ہے تو انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم طاقتیں دی ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا تو اس کو بھی نافذ کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جان لڑانی ہے، محنت کرنی ہے، عقل مندی کے ساتھ کام کرنا ہے اور مسلسل جان کھپانی ہے، اور اس کام کو وہ لوگ کرسکتے ہیں جو یہ شرط نہ لگائیں کہ ہم اس کو اپنے سامنے نافذ ہوتے دیکھیں، اس لیے کہ نہ معلوم کتنوں کو اس کے نفاذ کی کوشش میں پہلے ہی جان دینی پڑے۔ بدر میں جن لوگوں نے شہادت پائی، اگر وہ جان نہ دیتے اور یہ کہتے کہ ہمیں تو اس وقت کے لیے زندہ رہنا ہے جب اس نظام کو نافذ ہوتے دیکھیں گے، دنیا پر غالب ہوتے دیکھیں گے تو دنیا پر اسلام غالب نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ غالب ہوا اس طرح کہ بکثرت لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ انھوں نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ نافذ ہوسکے گا یا نہیں۔ انھوں نے یہ دیکھا کہ یہ ہمارا فرض ہے، ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہے، جس کے نتیجے میں شہادت آتی ہے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں۔ اس نظریے کے ساتھ، اس سوچ کے ساتھ وہ آئے اور انھوں نے آکر کام کیا اور ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے والا تھا، وہ قبول ہوگئیں، لیکن جو جان لڑانے والے تھے اور بچ رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ ایسا دین غالب کیا کہ دنیا کے بڑے حصے پر چھا گیا، تو امکان یہ بھی ہے۔

دوسرا پھلو

اس امر کا بھی امکان ہے کہ آپ تمام عمر جدوجہد کریں اور پھر یہ نظام نافذ نہ ہو، اور اس کی وجہ اس نظام کی کمزوری نہیں ہوگی، اگر آپ اس نظام کے لیے سعی کرنے کا حق ادا کریں تو آپ کی بھی کمزوری نہیں ہوگی، وہ [اُس] قوم کی بدبختی ہوگی جو ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو وہ چیز نہیں دیتا جس کا وہ اپنے آپ کو اہل ثابت نہیں کرتی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ قوم     اپنے آپ کو فساق وفجار کے لیے تیار کرے اور اس پر راضی ہوجائے اور چاہے کہ فساق و فجار ہی     ان کے اُوپر معاملات چلانے والے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ان کو صالحین اور متقی نہیں دیں گے۔ یہ نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جنھوں نے ایسی قوموں میں کام کیا اور اپنی عمریں ان کے اندر کھپا دیں اور ان کی قوم سیدھے راستے پر نہ آئی تو وہ ناکام نہیں تھے۔ وہ قوم ناکام تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام کے قصے  میں آتا ہے کہ جس وقت فرشتے قومِ لوط پر عذاب دینے کے لیے بھیجے گئے تو انھوں نے کہا:        فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ___ پوری قوم میں ایک مسلم گھر تھا۔ اس کے لوگوں سے کہا، نکل جائو اور حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ بیوی کو چھوڑ جائو۔ یہ عذاب میں پکڑی جائے گی، یعنی اس گھر میں بھی کافرہ موجود تھی اور وہ بھی پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ ان کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد جو عذاب لایا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح ہے، تو ایک قوم نہ چاہتی ہو کہ ان کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اس کے معاملات ایمان دار اور خدا ترس لوگ چلائیں، ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے۔ وہ ناکام نہیں ہیں۔ اگر ان کی بات نہ چلے تو وہ ناکام نہیں ہیں، ناکام وہ قوم ہے۔

امکان کو نگاہ میں رکھ کر کام نہ کریں

اس پہلو کو نگاہ میں رکھ کر کام کیجیے، اور یہ سمجھ کر نہ کیجیے کہ اس کا امکان ہو تو ہم کام کریں۔ یہ سوال جو لوگ کرتے ہیں کہ کیا امکان ہے، تو ان سے میں پوچھتا ہوں کہ بھائی فرض کرو کہ اس کا امکان نہیں ہے تو کیا آپ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس چیز کا امکان ہے اس کے لیے کام کریں۔ یہ تو پھر مومن کا کام نہیں ہے۔

مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے     جان دے دینا کامیابی ہے اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم یا صدراعظم بن جانا بھی کامیابی نہیں، کھلی ناکامی ہے۔

آپ کا فرض

اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ امکان کی شرط کے ساتھ آپ کو یہ کام نہیں کرنا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اور اس کے سوا ہمارے کرنے کا کوئی کام نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی کے سامنے یہ سوال آئے کہ پیشاب بھی پینے کی چیز ہے تو جو آدمی طہارت کی ذرہ برابر بھی حِس رکھتا ہو تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ یہ بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔  وہ برابر اسی تلاش میں رہے گا کہ اسے پینے کے لیے صاف پانی ملے لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جائے گا کہ پیشاب بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ اسی طرح وہ آدمی جو اسلام کا سچے دل سے قائل ہے وہ یہ سوچ نہیں سکتا کہ دوسرے جن راستوں میں آسانیاں ہیں، جن راستوں میں سہولتیں ہیں، عیش ہے،لذتیں ہیں، فائدے ہیں ان کی طرف جائے کہ ان کا امکان ہے اور اسلام کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے سوچنے کے قابل بھی وہ چیز نہیں۔ وہ کبھی حسرت بھری نگاہ بھی نہیں ڈالے گا ان کے محلات پر، ان کی کوٹھیوں پر، ان چیزوں پر، وہ کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ کاش! یہ دولت میرے پاس آئے۔ اس وجہ سے صرف وہ لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں جو ’امکان ہے‘ کو چھوڑ کر یہ دیکھیں کہ ہمارا فرض کیا ہے۔ اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہرتکلیف، ہر مصیبت اور ہر مشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی ان کے کرنے کا کام ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کردیے اور انھوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس کے لیے کام کیا تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ کون سی طاقت یہاں ایسی ہے جو انھیں آگے بڑھنے سے روک سکے۔ اللہ نے چاہا تو اس میں کامیابی ہی ہوگی۔

میں نے دوسرا پہلو آپ کے سامنے پیش کیا وہ اس لیے کہ کامیابی کی شرط کے ساتھ آپ کام نہ کریں۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے اندر ایک مٹھی بھر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو جو پوری تنظیم کے ساتھ، پورے ڈسپلن کے ساتھ، عقل و ہوش کے ساتھ اور دیوانگی کے ساتھ، دونوں چیزیں ساتھ چاہییں، یہ کام کریں، اس میں جان لڑائیں اور مسلسل جان لڑاتے جائیں اور ہرتکلیف اور خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہوں، تو وہ لوگ جو اس وقت ایک غیراسلامی نظام کو چلاتے ہیں وہ ایسی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے ٹھیرسکیں۔

نظامِ باطل کہوکہلا ھوتا ھے

واقعہ یہ ہے کہ آپ اس بات کو دیکھیے کہ جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہیں ان کی حالت کیا ہے۔ ان میں سے کوئی دو آدمی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں۔ ان کی دوستیاں بے غرضی پر مبنی نہیں، بے لوثی پر مبنی نہیں،قلبی محبت پر نہیں مفاد پر مبنی ہیں، جس کے ساتھ ہیں اس کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دل میں گالیاں بھی دے رہے ہیں، بلکہ وہ اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں جب دیکھتے ہیں کہ بات نہیں پہنچے گی تو وہ ان مجلسوں میں بھی کھلم کھلا کہتے ہیں۔ باطل نظام بظاہر بڑے زور کے ساتھ نافذ ہوتا ہے لیکن اصل میں کھوکھلا ہوتا ہے ٹھوس نہیں ہوتا۔ اس میں قائم رہنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے تو ایسے لوگوں کو موقع ملتا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل مندی کرکے وہ تمام راستے بند کردیے ہیں جن سے خطرہ آسکتا ہے، لیکن ایک راستہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھ چھوڑا ہے جدھر سے اس کو خطرہ لانا ہوتا ہے، وہ  اس راستے کو بند نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے ایسے نظام قائم ہوتے ہیں، وہ بار بار جمتے اور اکھڑتے ہیں۔ اور لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ آئے جو ایک مضبوط بنیاد پر ان کے لیے ایک نظامِ حق قائم کرے۔ جب تک ایسا گروہ سامنے نہیں آئے گا اور اس مرحلے تک نہیں پہنچ جائے گا کہ وہ نظامِ حق کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکے، اس وقت تک یہاں کھوکھلے نظام قائم ہوتے اور بدلتے رہیں گے۔ آدمی بدلیں گے وہ کھوکھلا نظام جوں کا توں رہے گا۔ صرف اشخاص بدلتے چلے جائیں گے۔

حالات اھلِ حق کے منتظر ھیں!

آپ دیکھیے یہاں جو نظام [برسوں] سے چلا آرہا ہے اس میں صرف اشخاص بدلتے گئے، قسم ایک ہی رہی ہے، نظام کی نوعیت ایک ہی رہی ہے، اس کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ یہی صورت حال جاری رہے گی اس انتظار میں کہ کب وہ لوگ آتے ہیں۔ اگر وہ لوگ نہ آئے تو نہیں معلوم اس قوم کا کیا حشر ہوگا کہ یہ مسلسل انقلابات کو برداشت بھی کرسکے گی یا نہیں، اور یہ مسلسل انقلابات کے لیے زندہ بھی رہ سکے گی۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچاسکتی ہے تو یہی نظامِ حق ہے، وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو۔ قبل اس کے کہ خدا کا عذاب فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ (جمعیت اتحاد العلما کے زیراہتمام راولپنڈی میں منعقدہ نفاذِ شریعت کانفرنس سے خطاب۔ ہفت روزہ   ایشیا ،۱۴ مارچ ۱۹۷۶ء)

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے علاوہ بھی) اتنے نفلی روزے رکھتے کہ ہم سمجھنے لگتے اب آپؐ روزے چھوڑیںگے ہی نہیں، اور کبھی آپؐ  اتنے دن نفلی روزے چھوڑ دیتے کہ ہم سمجھتے اب آپؐ  مزید نہیں رکھیں گے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کبھی پورا مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا، اور شعبان کے علاوہ کسی مہینے اتنی کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ (بخاری، ۱۱۶۹)

ماہِ رمضان کے روزے تو خالق کائنات نے ہر مسلمان پر فرض کردیے لیکن روزوں کی قدرومنزلت  اس قدر زیادہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورا سال روزوں کا اہتمام فرماتے۔ شوال میں چھے روزوں، ہرمہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں کے روزوں، ہرہفتے پیر اور جمعرات کے روزوں، یومِ عاشورہ کے دو روزوں اور یومِ عرفہ کے روزے کو تو نفلی روزوں میں نمایاں مقام و اہمیت حاصل ہے۔ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ان کے علاوہ بھی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ آپؐ نے سردیوں کے مختصر دنوں کے روزوں کو اللہ کی طرف سے خصوصی عطیہ قرار دیا۔ کبھی گھر میں کچھ کھانے کو نہ ہوا تو فوراً روزے کی نیت فرما لی۔ قرآن کریم میں مختلف گناہوں کے کفارے کے لیے روزوں کی تعداد مقرر کر دی گئی ہے۔ غیرشادی شدہ نوجوانوں کو خصوصی طور پر روزوں کی ترغیب دی___ اگر آپؐ کی پوری حیاتِ طیبہ میں روزے کا یہ خاص مقام ہے تو کیا ہم امتیوں کو صرف رمضان ہی کے روزوں پر اکتفا کرلینا چاہیے؟ رمضان رخصت ہوگیا۔ آیئے ابھی سے روزوں کی فضیلت کے بارے میں اپنے اس علم کو نیت و ارادے میں اور نیت و ارادے کو عمل میں بدلنے کا آغاز کردیں۔


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت تم سے تمھارے جوتے کے تلوے سے بھی زیادہ قریب ہے اور اسی طرح جہنم کی آگ بھی۔ (بخاری، ۶۱۲۳)

نیکیوں سے جھولیاں بھر لینا کس قدر آسان ہے۔ ادھر دل میں نیکی کا ارادہ کیا اور ادھر نامۂ اعمال میں اجر ثبت ہوگیا۔ ارادے پر عمل بھی کرلیا تو اجر ۱۰ سے ۷۰۰ گنا تک بڑھ گیا۔ برائی سے نظریں پھیرلیں، اجر ثابت ہوگیا اور تو اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو عادت کے بجاے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے جذبے سے کیا تو وہ بھی عبادت بن گئے۔دوسری طرف شیطان بھی ہرلمحے ساتھ لگاہے۔ قدم قدم پر برائیوں کے پھندے لگائے بیٹھا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ نیکی میں بھی بدنیتی کی آلائشیں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاد، شہادت، قربانی، تلاوت و دروسِ قرآن، اِنفاق، عبادات،   غرض ہرنیکی کو ریا اور دکھاوے جیسی غیرمحسوس برائیوں کے ذریعے ایسے کردیتا ہے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اسی حقیقت کی خبر دے رہے ہیں کہ قدم قدم پر جنت کی ہوائیں بھی ہیں اور دوزخ کی لپٹیں بھی۔ اب دونوں راستوں میں سے ایک کا انتخاب ہم میں سے ہر شخص نے خود کرنا ہے۔ پروردگار اسی انتخاب کے مطابق توفیق عطا کردے گا۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا میں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کی طرف آپ کی رہنمائی نہ کروں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا:  وہ خزانہ ہے: لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم (اللہ علی و عظیم کی مدد کے بغیر، کسی کے بس میں کوئی قوت و قدرت نہیں)۔ بندہ جب یہ کلمات کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے مجھ پر بھروسا کیا اور (اپنے تمام معاملات) میرے سپرد کردیے۔ (مسنداحمد، ترمذی)

بندے کے دل میں یہ یقین راسخ ہونا ضروری ہے کہ کارخانۂ قدرت میں ہر چیز صرف اور صرف پروردگار کی محتاج ہے۔ اللہ کے فیصلے،اس کی توفیق اور اس کی قوت و قدرت کے بغیر کوئی پتّا اور کوئی ذرّہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ انسان جس کے بارے میں خالق نے خود فرمایا کہ ’’کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘ ، ہرلمحے اور ہرحال میں اللہ کا محتاج ہے۔ اللہ کی حفاظت نہ رہے تو خوشیوں میں آپے سے باہر ہوکر بندگی کے دائرے ہی سے نکل جاتا ہے۔ مشکلات یا مصیبتیں آئیں تو مایوسی اور ہلاکت کی جہنم میں جاگرتا ہے۔ اقتدار و اختیار ملے تو خود کو فرعون اور دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتا ہے۔ اختلافات کا شکار ہو تو اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیتا ہے، برائیوں اور اخلاقی غلاظت سے آلودہ ہوجائے تو جانوروں سے بدتر اور ذلیل ہوجاتا ہے۔ ایسے کمزور انسان کو شیطان ہر دم اپنے چنگل میں جکڑے رکھتا ہے لیکن اگر بندہ اس یقین کے حصار میں آجائے کہ لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم   تو رحمن کی رحمت اس خود سپردگی پر جھوم اُٹھتی ہے، کمزور بندوں کو تمام کمزوریوں اور شیطانی چالوں سے نجات و حفاظت عطا کر دیتی ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ‘‘۔

حضرت ابوایوب انصاریؓ کی روایت کے مطابق جب سفرمعراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو ابوالانبیا نے فرمایا: اے محمد(ﷺ) اپنی اُمت کو جنت میں اپنے لیے فصلیں بونے کا حکم دے دیجیے۔ آپؐ نے دریافت کیا: جنت کی فصل کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ مختصر اور تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، ۶۴۱۵)

اسلام کسی وقتی اُبال ، عارضی طور پر اپنا لیے جانے والے اعمال، یا موسمی شغل اشغال کا نام نہیں،  ہمہ وقت اور ہمہ پہلو اطاعت کا نام ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سمیت سب نیکیاں یہی ہمہ وقتی خود سپردگی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ قرآن میں تمام عبادات کا اصل ہدف یہی بتایا گیا کہ شاید تم اس سے تقویٰ حاصل کرسکو۔ احساسِ اطاعت کے تحت ہمیشہ کیا جانے والا چھوٹا سا کام بھی اللہ کے نزدیک انتہائی محبوب ہے۔ ہمیشگی ایک چھوٹے سے عمل کو بھی بڑا بنا دیتی ہے۔

بندے کی مختصر سی نیکی پسند آجائے تو پھر یقینا بندہ بھی خالق کا محبوب بن جاتا ہے۔


حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مفصل حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: خبردار! اللہ کی کتاب اور اقتدار جدا جدا ہونے والے ہیں۔ ایسے میں کبھی  کتابِ الٰہی سے جدا نہ ہونا۔ خبردار! تم پر ایسے لوگ حکمران ہوجائیں گے جو تمھارے بارے میں (قرآنی تعلیمات کے خلاف) فیصلے کیا کریںگے۔ اگر ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمھیں گمراہ کردیں گے اور اگر ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں موت کے گھاٹ اُتار دیں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: وہی جو عیسیٰ بن مریمؑ کے ساتھیوں نے کیا: انھیں آروں سے چیرا گیا، تختۂ دار پر لٹکایا گیا (لیکن انھوں نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا)۔ اللہ کی اطاعت میں موت، اللہ کی نافرمانی میں زندگی سے زیادہ بہتر ہے۔ (طبرانی)

رحمن کے قرآن اور ہوس اقتدار کے مارے حکمرانوں کی راہیں یقینا جدا جدا ہیں۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے راہِ نجات واضح فرما دی کہ جان جائے تو جائے لیکن قرآن کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ اقتدار اگر اغیار کی غلامی پر تل جائے، اپنے ہی بھائیوں کو تہِ تیغ کرنے کے لیے دشمن کا سہارا بن جائے، لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوں کو اقتدار کی چھتری فراہم کیے رکھے، فریب، جھوٹ، وعدہ خلافیوں اور اپنی قوم سے دغابازی کواپنا وتیرا بنالے، عوام پر بھوک، بدامنی اور بدحالی مسلط کردے، خود بھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو اور قوم کو بھی اسی غلاظت کی نذر کردے، تو اس اقتدار اور ان حکمرانوں سے اعلان برأت ناگزیر ہے۔ قوم اگر اللہ کی نافرمانی میں زندہ رہنے کے بجاے،   اس کی اطاعت میں موت قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے تو پھر ایسے حکمرانوں سے نجات کی راہیں بھی کھل جاتی ہیں کیونکہ غالب تو بہرحال اللہ کے قرآن ہی نے رہنا ہے۔ ہزاروں فرعون و شداد آئے اور تباہ ہوکر نشانۂ عبرت بن گئے۔ قرآن اور اس سے وابستہ افراد ابد تک سربلند رہیں گے۔


حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مؤمن جو لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی تکلیف و اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اس سے بہتر ہے کہ جو نہ لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے، اور نہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے۔ (ابن ماجہ، ۴۰۳۲)

الگ تھلگ اور لوگوں سے کٹ کر رہنا، انسان کو بہت سی ممکنہ تکالیف سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن ایک مومن ہمیشہ اجتماعیت سے جڑا رہتا ہے۔ تمام عبادات، پوری دعوتی، تربیتی، تحریکی اور معاشرتی زندگی، لوگوں کے اندر رہے بغیر ممکن ہی نہیں۔ رحمۃ للعالمین خود بھی صحابہ ؓ کے شانہ بشانہ اور ان میں گھل مل کر رہتے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی بدو نے آکر شان میں گستاخی کردی، لوگوں کی زبان ہی نہیں، ہاتھ سے بھی تکلیف پہنچی، لیکن آپؐ  نے نہ صرف خود اس باہمی ربط کو نہ توڑا، بلکہ امت کو بھی یہی ترغیب دی۔ رہی اس کے نتیجے میں پہنچنے والی تکالیف، تو آپؐ نے ایک لفظ میں شافی علاج بتا دیا: صبر___ اور اللہ کی خاطر صبر___  دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ یہی ہے۔

کہتے ہیں کہ ’’سکتے کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔ اگر آئینے پر کچھ دھندلاہٹ پیدا ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمھیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو۔ اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ، کچھ خوفِ خدا، کچھ نیکی کے اُبھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے، اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہوں اور اسلامی حِس مُردہ نظر آئے، تو انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھ لو۔ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمان کے لیے مقرر نہیں ہے‘‘۔ (سید مودودیؒ، کتاب الصوم)

اگر اس پیمانے سے ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو الحمدللہ ایسی مایوس کن صورت حال نہیں ہے۔ رمضان کے آتے ہی تقویٰ، خوفِ خدا اور نیکی کے لیے ایک نیا جذبہ اور ولولہ سامنے     آتا ہے۔ ہرشخص کچھ نہ کچھ نیکی کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ مساجد میں رونق ہوجاتی ہے،  تلاوتِ قرآن کا اہتمام ہوتا ہے، اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبے کے تحت اِنفاق اور حاجت مندوں کی امداد کی جاتی ہے۔ اجتماعی طور پر نیکی کا ماحول ہوتا ہے۔ نیکیوں کے لیے موسمِ بہار کا سا سماں ہوتا ہے۔ گویا اس حوالے سے ہمارا معاشرہ ایک زندہ معاشرہ ہے۔ کم و بیش پورے ماہِ صیام میں یہ سلسلہ چلتا ہے بلکہ آخری عشرے میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام خصوصاً شب قدر کے موقع پر عبادت، نوافل کی ادایگی اور شب بیداری کے لیے لوگوں کا جذبہ دیدنی اور ایمان پرورہوتا ہے۔

دوسری طرف رمضان کے گزرتے ہی بلکہ چاند رات ہی کو یہ صورتِ حال بدلتی محسوس ہوتی ہے۔ جذبۂ ایمان سرد پڑنے لگتا ہے۔ روزے کی وجہ سے لوگ جن غلط کاریوں سے رُکے ہوتے ہیں ان کا پھر سے ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ نماز کی ادایگی میں کمی آجاتی ہے اور مسجدوں کی رونق ماند پڑنے لگتی ہے۔ قرآن کی تلاوت اور قرآن سے وہ تعلق نہیں رہتا جو اس ماہ میں لوگوں کا معمول بن جاتا ہے۔ عبادت کے ذوق و شوق میں کمی آجاتی ہے۔ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی وہ تمیز گھٹنی شروع ہوجاتی ہے جس کا رمضان کے تقدس اور احترام میں اہتمام کیا جاتا ہے۔ گویا رمضان میں اگر قید یا پابندی تھی تو رمضان کے بعد ایک طرح سے پھر بے قیدی ہوجاتی ہے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟

اگر غور کیا جائے تو اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ پہلا سبب تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں عبادت کا رسمی تصور پایا جاتا ہے، حقیقی شعور نہیں۔ لوگوں کے نزدیک نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی ادایگی اور کچھ نیک کام کر دینے کا نام عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان عبادات کا پوری طرح اہتمام کرتے ہیں۔ گویا ان کے لیے چند افعال کی ظاہری شکلوں کی ادایگی کا نام عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ رمضان میں روزے کے آداب اور دیگر عبادات کا بہت اہتمام کرتے ہیں لیکن رمضان کے گزرتے ہی ان کے معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ گویا عبادت کا ایک مہینہ تھا، گزر گیا۔

عبادت دراصل ہر وقت اور ہر حال میں خدا کی بندگی اور اطاعت کا نام ہے۔ درحقیقت نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کے ذریعے پوری زندگی میں خدا کی بندگی اور اطاعت کی مشق کروائی جاتی ہے۔ نماز دن میں پانچ مرتبہ یہ یاد دلاتی ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں، ہمیں اسی کی بندگی اور اطاعت کرنی ہے۔ روزہ سال میں ایک مرتبہ مہینہ بھر خداخوفی اور خدا کی اطاعت کی مشق کرواتا ہے۔ ہم اس کے حکم پر کھانا پینا چھوڑتے ہیں اور اسی کے حکم ہی پر کھاتے پیتے اور دیگر خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔زکوٰۃ کی ادایگی سے ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہمارا مال خدا کا عطیہ ہے اور ہمیں اسے خدا کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا ہے اور اس میں ہمارے غریب بھائیوں کا حق بھی ہے۔ حج کے ذریعے خدا کی محبت اور اس کی بندگی کا گہرا نقش بٹھایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تمام عبادتیں انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتی ہیں جو کہ حقیقی عبادت ہے، یعنی زندگی کے ہرمعاملے میں خدا کی اطاعت اور بندگی۔

اسلام میں عبادت کی اہمیت اس قدر ہے کہ اسے مسلمان کا مقصد ِزندگی قرار دیا گیا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo(الذاریات ۵۱:۵۶) میں نے جِن اور انسان کو اس کے سوا کسی اور غرض کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔

اگر ایک مسلمان اپنے مقصدِ زندگی ہی کو نہ پاسکے تو یہ کتنی بڑی ناکامی اور خسارہ ہے۔ لہٰذا عبادت کے حقیقی شعور کا اُجاگر ہونا ناگزیر ہے۔ مسلمانوں میں جب عبادت کی حقیقی روح بیدار ہوگی تو پھر رمضان کے بعد بھی وہ خدا کی عبادت میں مصروف رہیں گے بلکہ رمضان جیسے بابرکت مہینے کی مشق ان میںتقویٰ اور پرہیزگاری میں اضافے کا باعث ہوگی۔

رمضان کے بعد عبادات میں کمی کا ایک دوسرا بنیادی سبب اجتماعی ماحول اور اجتماعیت کی کمی ہے۔ ماہِ رمضان میں پورے ماحول پر نیکی کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ نیکی کرنا آسان اور برائی کا ارتکاب مشکل ہوتا ہے۔ رمضان کے رخصت ہوتے ہی ماحول میں بڑی حد تک تبدیلی آجاتی ہے اور نیکی کرنا مقابلتاً مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیکی کا جذبہ سرد پڑنے لگتا ہے اور عبادات میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی طرف ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو توجہ دلائی تھی کہ اب تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں، جب کہ ماحول بھی سازگار نہ ہو خدا کی مکمل اطاعت کرنا کوئی آسان کام نہیں اور اسی لیے آپؐ نے اسے جہادِ اکبر سے تعبیر فرمایا ہے۔

رمضان کے بعد نیکی کے لیے جذبے کو تروتازہ رکھنا ایک مسلمان کے لیے بڑا چیلنج ہے، جب کہ ماحول سازگار نہ ہو اور اس میں تبدیلی بھی آچکی ہو۔ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اور اس کے مقابلے کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے۔ نبی کریمؐ نے مختلف مواقع پر اجتماعیت کی اسی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ بھیڑیا اُسی بھیڑ کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے۔ کہیں آپؐ نے فرمایا کہ جماعت پر خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ اسی طرح آپؐ نے اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے پر بہت زور دیا ہے۔ لہٰذا رمضان کے بعد نیکی اور پرہیزگاری کے عمل کے تسلسل کے لیے اجتماعیت سے جڑنا اور صحبت ِ صالح اختیار کرنا جہاں ضروری ہے وہاں نیکی کے جذبے کے ماند پڑجانے کا علاج بھی ہے۔ سورئہ کہف میں اجتماعیت اور صحبت ِ صالح کی اسی اہمیت پر زور دیا گیا ہے بالخصوص جب نیکی کے لیے ماحول سازگار نہ ہو، جیساکہ آج ہمارا معاشرہ ہے۔ فرمایا گیا ہے: ’’اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو‘‘ (الکھف ۱۸: ۲۸-۲۹)۔ گویا کہ یہاں واضح  طور پر صالح اجتماعیت سے جڑنے کی تاکید کی گئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ماہِ رمضان کے موقع پر نیکی و پرہیزگاری کا حامل صالح عنصر اُبھر کر سامنے آجاتا ہے اور اپنی زندگی کا ثبوت دیتا ہے۔ منظم اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے اس صالح عنصر کو جو فی الواقع خیر کا علَم بردار اور حق و باطل کی کش مکش میں اہلِ حق کا قیمتی سرمایہ و اثاثہ ہے،ایک منظم قوت میں تبدیل کرلیا جائے۔ رمضان، یعنی نیکیوں کے موسم بہار کے بعد بھی یہ اجتماعیت سے جڑا رہے اور نیکی اور خیر کا عمل ایک تسلسل سے جاری رہے۔ اس کے نتیجے میں رمضان میں بیدار ہونے والے جذبۂ ایمان کو ایک تسلسل سے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح نیکیوں کے موسمِ بہار کی فصل کے ثمرات سے بھرپور انداز میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

عبادت اور بندگی کے حقیقی شعور کی آبیاری اور صالح اجتماعیت سے جڑے رہنے کی ایک صورت قرآن مجید سے مستقل بنیادوں پر حقیقی تعلق کو قائم کرنا اور اس سے بھرپور استفادہ کرنا ہے۔ اس کی ایک عملی صورت گلی محلے کی سطح پر درسِ قرآن کے حلقے قائم کرنا ہے۔ حلقۂ درس کے قیام کے نتیجے میں ایک طرف قرآن کی تعلیمات اور خدا کی بندگی و اطاعت کا شعور عام ہوگا اور قرآن سے مستقل بنیادوں پر تعلق قائم ہوگا، تو دوسری طرف نیکی کے جذبے سے سرشار اہلِ ایمان کے لیے صالح اجتماعیت کی بنیاد فراہم ہوسکے گی۔ قرآن کے اجتماعی مطالعے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ جہاں کہیں اچھا مدرس دستیاب ہو وہاں باقاعدہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جاسکتا ہے اور جہاں ایسا انتظام نہ ہوسکے وہاں تفہیم القرآن کا اجتماعی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ آج کل فہم قرآن کے حوالے سے بہت سی آڈیو وڈیو سی ڈیز بھی دستیاب ہیں جنھیں اہتمام سے سنا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی لٹریچر کی فراہمی کے ذریعے دینی شعور کو مزید پختہ کیا جاسکتا ہے۔

رمضان کے موقع پر خواتین میں بھی افطارو سحر کے اہتمام کے ساتھ ساتھ نماز،     تلاوتِ قرآن، تراویح اور نوافل کی ادایگی اور انفاق کا جذبہ فزوں تر ہوتا ہے۔ رمضان کے بعد خواتین میں بھی اس جذبے کو ایک تسلسل سے آگے بڑھنا چاہیے۔ فہم دین اور اجتماعیت سے وابستہ رہنے کے لیے خواتین کی سطح پر بھی اسی نوعیت کا حلقۂ درسِ قرآن قائم کیا جاسکتا ہے۔ آس پاس کی خواتین کسی مرکزی جگہ پر جمع ہوکر باقاعدگی سے اس حلقے کو چلا سکتی ہیں۔ ایک دوسرے کو دعوت دینے اور توجہ دلانے سے یہ ایک مفید سرگرمی ثابت ہوسکتی ہے۔ مرد حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ خواتین کی حوصلہ افزائی کریں اور انھیں سہولت دیں کہ وہ بہ آسانی اس میں حصہ لے سکیں۔ یوں خواتین کی سطح پر بھی دعوت و تربیت کا ایک مستقل نظام وضع ہوسکتا ہے۔

رمضان المبارک درحقیقت تقویٰ، خوفِ خدا اور خدا کی اطاعت و بندگی کا احساس بھرپور انداز میں اُجاگر کرتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ آنکھ کا بھی روزہ ہوتا ہے اور زبان کا بھی، کان کا بھی روزہ ہوتا ہے اور ہاتھ پائوں کا بھی۔ گویا خدا کی مکمل اطاعت کا نام روزہ ہے۔ رمضان کے بعد اس احساس کو ہمیشہ تازہ رکھیں کہ ہمیں عمربھر خدا کی اطاعت کرنی ہے۔ یہی رمضان کا پیغام ہے۔ نمازوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ روزانہ چند آیات کی تلاوت اور ترجمہ پڑھیے تاکہ قرآن سے تعلق قائم رہے۔ کچھ نہ کچھ انفاق کا سلسلہ بھی جاری رکھیے کہ رمضان ہمدردی و مواخات کا مہینہ ہے۔ تزکیۂ نفس کے لیے دعوتِ دین سے جڑے رہیے۔ حلقۂ احباب میں دعوت کا کام کیجیے۔ اس کی عملی صورت درسِ قرآن میں باقاعدہ شرکت اور دوسروں کو اس کی دعوت دینا ہے، نیز دعوتی لٹریچر پھیلایئے۔ رمضان کے بعد بھی نفلی روزوں کا اہتمام کریں۔ نبی کریمؐ کا معمول تھا کہ آپؐ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھتے تھے۔ رمضان کی انفرادیت قیامِ لیل ہے۔ رمضان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے۔ نمازِ فجر سے کچھ قبل اُٹھ کر تہجد کا اہتمام کیجیے۔ یہ جہاں تزکیۂ نفس کا اہم ذریعہ ہے وہاں رات کے آخری پہر میں اپنے رب سے مناجات اور اس کے قرب کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ اس طرح رمضان کے بعد بھی ایک طرح سے رمضان کا تسلسل جاری رہے گا۔

اگر اللہ کی بندگی و عبادت کا شعور عام ہو اور قرآن سے حقیقی تعلق قائم ہوجائے، اور افراد قرآن کی بنیاد پر اجتماعیت سے جڑے رہیں تو امید ہے کہ رمضان کے بعد جذبۂ ایمان سرد نہ پڑے گا بلکہ رمضان کی برکات اور ثمرات سے بھرپور انداز میں استفادہ کیا جاسکے گا، نیز اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اسلامی انقلاب کی منزل کی طرف بھی ایک تسلسل سے پیش رفت ہوسکے گی۔

قرآن حکیم کا آغاز دعا سے ہوتا ہے اور اس میں بہت سی دعائیں ہیں جو انسان کو انداز بدل بدل کر ربِ کائنات کے آگے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنی حاجتیں بیان کرنے اور اسی کے سامنے اپنی استدعائیں پیش کرنے کے طریقے سکھلاتی ہیں، لیکن مختلف مقامات پر رب العزت نے اپنے انبیا کی زبانی پوری دنیا کے انسانوں کے لیے دعائوں کے جو تحفے عطا کیے ہیں ان میں سے ہر ایک قبولیت کے حوالے سے ایک نسخۂ کیمیا ہے۔ یہ دعائیں گواہی دیتی ہیں کہ پیغمبروں جیسی برگزیدہ ہستیوں نے بھی اپنی حاجت براری کے لیے صرف اسی کی طرف رجوع کیا اور اسی کے آگے اپنی جھولی پھیلائی۔

ذیل میں اس آس پر مختلف انبیا علیہم السلام کی چند قرآنی دعائیں مع ترجمہ و مختصر تشریح  پیش کی جاتی ہیں کہ ربِ دوجہاں یقینا ایک دن اپنی ان عظیم اور بزرگ ترین ہستیوں کی دعائوں کے صدقے اُمت ِمسلمہ کو موجودہ مشکلات کے گرداب سے نکال لے گا، اور اس وطنِ عزیز کے حالات پر کہ جو صرف اسی کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، کرم فرمائے گا اور اس میں سچے دین کو سربلندی اور اپنے نام لیوائوں کو سرخروئی عطا کرے گا۔

  •  حضرت ابراھیم ؑ کی دعا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت مانگی جب دونوں باپ بیٹا، یعنی حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔ اس دعا کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ خدا کے گھر کی تعمیر کے مبارک کام کے دوران آنے والے زمانوں کے اندر تک اپنی دعائوں کو پھیلا کر خدا سے اس گھر کی پاسبانی اور اس کی عظمت کو تسلیم کرنے والی ایک قوم کی استدعا کر رہے تھے، اور پھر خدا نے ان کی اِس دعا کو یوں قبول کیا کہ ان کی نسل کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اس عظیم ترین ہستی سے نوازا جو ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر مبعوث ہوئی:

رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo (البقرہ۲:۱۲۸) اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے تو سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے، اے رب! ہم دونوں کو مسلم (مطیع فرماں ) بنا۔ ہماری نسل سے ایسی قوم اُٹھا جو تیری فرماں بردار ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

  •  نبی کریمؐ کی دعا: نبی کریمؐ نے خدا کے حضور اپنی امت کی طرف سے ایک ایسی درخواست جمع کرا دی ہے جو ہرمشکل میں قیامت تک اس کے کام آتی رہے گی اور ہر تاریکی میں اس کے لیے ایک شمع کی صورت جگمگاتی رہے گی:

رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ۲:۲۰۱) اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔

  •  حضرت داؤدؑ کی دعا: حضرت دائود علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت مانگی جب ان کے ایما پر طالوت اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر جالوت کے مقابلے پر نکلا اور پھر اسے ایک بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا۔ تب اللہ نے ان کی یہ دعا یوں قبول کی، کہ حضرت دائود علیہ السلام نے جو اس وقت تک ابھی ایک کم سِن نوجوان تھے، جالوت کو سرِمیدان قتل کردیا اور اللہ نے انھیں یعنی حضرت دائود علیہ السلام کو ان کا سردار بنا دیا:

رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (البقرہ۲:۲۵۰) اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر۔

  •  حضرت زکریاؑ کی دعا:یہ دعا حضرت زکریا علیہ السلام نے اس وقت مانگی جب انھوں نے حضرت مریمؑ کو ایک حجرے میں گوشہ نشین دیکھا اور یہ دیکھا کہ اس پاک باز لڑکی کو اللہ اس حال میںبھی رزق پہنچا رہا ہے تو ان کے منہ سے بے ساختہ یہ دعا نکلی اور پھر اللہ نے ان کی دعا اس طرح قبول کی کہ اس بڑھاپے میں انھیں حضرت یحییٰ جیسا بیٹا عطا کیا:

رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِo (اٰل عمرٰن۳:۳۸) پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر، تو ہی دعا سننے والا ہے۔

  •  حضرت آدمؑ کی دعا: یہ دعا حضرت آدم علیہ السلام نے اس وقت مانگی جب اللہ نے ان دونوں، یعنی آدم و حوا کی لغزش پر ان کے ستر ایک دوسرے پر کھول دیے، انھیں حیا کے فطری جذبے نے بالکل مغلوب کرکے رکھ دیا اورانھیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تو انھوں نے رو رو کر اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! ہم پر رحم کیجیے، ہمیں معاف کر دیجیے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو ہم بالکل تباہ ہوکر رہ جائیں گے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف ۷:۲۳)اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اُوپر ظلم کیا، اب اگر تونے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔

  • حضرت شعیبؑ کی دعا: جب حضرت شعیب علیہ السلام اہلِ مدین کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے اورانھوں نے اہلِ مدین کو اللہ کے احسانات یاد دلا دلا کر راہِ راست پر آنے کی دعوت دی لیکن وہ اپنی چودھراہٹ کے گھمنڈ میں اللہ کا حکم ماننے اور ان کی پیروی سے مسلسل انکار کرتے رہے تو حضرت شعیب ؑنے اللہ سے یہ دعا مانگی جس پر اللہ نے اہلِ مدین کو ان کے جرم کی پاداش میںاس طرح مٹا دیا جیسے وہ کبھی دنیا میں تھے ہی نہیں:

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَo (الاعراف ۷:۸۹) اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

  •  حضرت موسٰیؑ کی دعا: حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ سینا سے واپس آئے اور انھوں نے دیکھا کہ ان کے بھائی ہارون ؑ کے منع کرنے کے باوجود ان کی قوم نے ایک بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا ہے تو وہ سخت برہم ہوئے اور اس پریشانی کے عالم میں اپنے رب سے یہ دعا کی اور پھر اس میں یوں اضافہ کیا۔ ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں، پس ہمیں معاف کردیجیے اور ہم پر رحم فرمایئے، آپ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ہیں:

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَo (الاعراف ۷:۱۵۱) اے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف کردے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے۔

  •  حضرت نوحؑ کی دعا: حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنے نافرمان بیٹے کے حق میں دعا کی اور اللہ نے ان کی دعا رد کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے تو حضرت نوحؑ نے اس دعا کی صورت میں اپنے رب سے معافی طلب کی اور پھر جواب میں رب العزت نے فرمایا کہ اب دیکھتے رہنا کہ کس طرح تجھ پر اور تیرے پیروکاروں پر ہماری برکتیں اور سلامتی نازل ہوتی ہے:

رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَ اِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَ تَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ o (ھود ۱۱:۴۷) اے میرے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں، اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجائوں گا۔

  •  حضرت یوسفؑ کی دعا: جب حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہت عطا ہوئی اور ان کی اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے اور اپنے بھائیوں سے ملاقات ہوگئی تو انھوں نے اپنے پروردگار سے ان الفاظ میں اپنی شکرگزاری کا اظہار کیا اوربادشاہت کے باوجود صالحین کے ساتھ اپنے انجام کی درخواست کی:

رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo (یوسف ۱۲:۱ ۱۰) اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا، زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔

  •  ایک جامع دعا: جب بڑھاپے میں رب کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیل ؑجیسے فرزند عطا کیے تو انھوں نے یہ دعا کی اور پھر ان کی دعا یوں قبول ہوئی کہ ان کی یہ دعا قیامت تک ہر مومن کی نماز کا مستقل حصہ بنا دی گئی:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآئِ o رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo (ابراھیم ۱۴: ۴۰-۴۱) اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی ایسے لوگ اُٹھا جو یہ کام کریں۔ پروردگار! میری دعا قبول کر، پروردگار میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کردیجیو جب کہ حساب قائم ہوگا۔

  •  حضرت سلیمانؑ کی دعا:اللہ تعالیٰ نے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک عظیم بادشاہت اور چرند پرند سب پر حکومت عطا کی اور ایسے میں جب وہ ایک روز اپنے لشکر کے ہمراہ کہیں جارہے تھے تو ان کے راستے میں آنے والی چیونٹیوں نے آپس میں کہا کہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس جائیں ورنہ کچلے جائیں گے تو حضرت سلیمان ؑ نے یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور دعا کی کہ اے اللہ! اس سب کے باوجود میری آرزو ہے کہ میرا انجام صالحین میں ہو:

رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہٗ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ o (النمل ۲۷:۱۹) اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر  ادا کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔

  •  شرح صدر کے لیے دعائیں: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزے دے کر فرعون کے پاس جانے کو کہا تو حضرت موسٰی ؑنے کہ جن کی زبان میں بچپن ہی سے لکنت تھی اس دعا کے الفاظ میں اللہ سے اپنی استعانت کی درخواست کی لیکن جب فرعون نے ان کے معجزوں کو جادو کا محض ایک کھیل قرار دیا اور ان کی مسلسل دعوت کے جواب میں مسلسل انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ o وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ o وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ   لِّسَانِیْ o یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ o (طٰہٰ ۲۰:۲۶ تا ۲۸) پروردگار! میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

  •  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے اُترتے وقت حضرت جبریل ؑکے ہمراہ وحی کے الفاظ دہرانے کی کوشش کرتے۔ اس پر اللہ نے فرمایا کہ آپؐ کو وحی کا یاد کرا دینا ہمارا کام ہے۔ اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یوں کہا کریں کہ میرے رب! مجھے مزید علم عطا کر۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد آپؐ پر کبھی پریشانی کی کیفیت طاری نہ ہوئی اور پھر پوری اُمت نے ان الفاظ کو اپنا وظیفہ بنا لیا:

رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo  (طٰہٰ ۲۰:۱۱۴) اے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔

  •  مصیبت اور پریشانی کے وقت کی دعائیں: یہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعا ہے۔ جب وہ اللہ کے اذن کے بغیر اپنی قوم سے مایوس ہوکر اور اس خوف سے کہ اس قوم پر اب اللہ کا عذاب آیا چاہتا ہے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ایک مچھلی نے انھیں نگل لیا اور اللہ نے اپنی قدرت سے انھیں وہاں زندہ سلامت رکھا۔ اس حال میں مچھلی کے پیٹ کے اندر تاریکی میں ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے اور اللہ نے انھیں اس دعا کی بدولت اس تاریکی اور مصیبت سے نجات بخشی:

لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo (الانبیا ۲۱:۸۷) نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا (اے خدا! مجھے معاف کردے)

  •  یہ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا ہے۔ وہ خود بہت ضعیف اور ان کی بیوی بانجھ ہوچکی تھی۔ انھوں نے اپنے رب سے ان الفاظ میں اپنے لیے ایک وارث کی التجا کی اور ان کے رب نے ایک معجزانہ شان کے ساتھ ان کی دعا قبول کی اور انھیں حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسا بیٹا عطا کیا:

رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ o (الانبیا ۲۱:۸۹) اے پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تو ہی ہے۔

  •  حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قریش کبھی مجنوں، کبھی شاعر، اور کبھی جادوگر ہونے کا الزام دیتے اور کسی صورت حضوؐر کی دعوت کو مان کر نہ دیتے تو حضوؐر نے آخر ان الفاظ میں فیصلہ طلب کیا اور پھر اللہ نے ان کی یہ دعا یوں قبول کی کہ ان الزام دینے والوں کے دیکھتے ہی دیکھتے حق غالب آگیا اور باطل پرست سب منہ دیکھتے رہ گئے:

رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ o (الانبیا ۲۱:۱۱۲) اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو ان کے مقابلے میں ہمارا رب رحمن ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔

  •  حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے باپ کے ظلم سے تنگ آکر گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور پھر برس ہا برس تک اپنی قوم کو بت پرستی چھوڑ کر اللہ کی حاکمیت میں آنے کی دعوت دیتے رہے اور وہ قوم کہ جس میں ان کا باپ بدستور شامل رہا،مسلسل انکار کرتی رہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی اور اپنے لیے اللہ سے صالحین میں شمولیت کی التجا کی۔ اس پر اللہ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ دیکھ لینا قیامت کے روز جنت صرف ایمان لانے والوں کے لیے اور دوزخ منکرین کے سامنے ہمیشہ کے لیے کھول دی جائے گی:

رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ o وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ o وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ o وَاغْفِرْ لِاَبِیْٓ اِِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ o وَلاَ تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَo (الشعرا ۲۶:۸۳) اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا اور بعد میں آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر، اور مجھے جنت کے وارثوں میں شامل فرما اور میرے باپ کو معاف کردے کہ وہ بے شک گمراہ لوگوں میں سے ہے اور مجھے اس دن رسوا نہ کر، جب کہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔

  •  مفسدین سے مقابلے کے لیے دعا: حضرت لوط علیہ السلام کی قوم جب مسلسل ان کی نافرمانی کرتی رہی اور علانیہ فحش کاری میں مبتلا رہی اور یہاں تک کہ حضرت لوطؑ سے اللہ کا عذاب لے آنے کاچیلنج کرنے لگی تو حضرت لوطؑ نے یہ دعا مانگی جس پر اللہ نے ان نافرمانوں کو ہمیشہ کے لیے مٹا کر رکھ دیا:

رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۳۰) اے میرے رب! ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔

آیئے! اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور رو رو کر اس سے ملتجی ہوں:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَـآ اِنْ نَّسِیْنَـآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰـنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (البقرہ ۲:۲۸۶) (ایمان لانے والو، تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں، ان پر گرفت نہ کر۔ مالک، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار، جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

 

اے دوست! خانہ کعبہ خداے عزوجل کا گھر ہے، یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کا دربار ہے۔ تم اُس کے دربارِ شاہی میں جا رہے ہو، گویا اسی کی زیارت کو جا رہے ہو۔ بے شک اس دنیا میں تمھاری آنکھ دیدارِ الٰہی کی استعداد نہیں رکھتی۔ لیکن بیت اللہ کا قصد کرنے سے، اس گھر کی زیارت کرنے سے، اُسی کے وعدے کے بموجب، تمھیں آخرت میں رب البیت کا دیدار نصیب ہوسکتا ہے۔ حج کا یہ سفر بالکل آخرت کے اس سفر کی طرح ہے جس کے بعد اس کا دیدار ہوگا۔ دیکھو! آج کا یہ سفر ضائع نہ ہو، تاکہ آخرت میں مقصود، زیارت، یعنی دیدارِ الٰہی، ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ ہر گام سفرِ آخرت کو یاد رکھو، آخرت کی تیاری کرو، تب ہی مقصودِ سفر حاصل ہوگا۔

اے دوست! یاد رکھو، اس سفر کی اصل سواری شوق کی سواری ہے۔ جتنی شوق کی آگ تیز ہوگی، اتنی ہی مقصد تک رسائی یقینی ہوگی۔ اللہ سے خوب محبت کرو۔ جس دل میں اللہ سے محبت ہوگی، اس دل میں دیدارِ کعبہ کا شوق بھڑک اُٹھے گا، کہ وہ محبوب کے دیدار کا وسیلہ ہے۔ محبوب سے جس چیز کو بھی نسبت ہوجائے، محبت کرنے والے کو وہ چیز جان و دل سے محبوب ہوجاتی ہے___ اس کا شہر، اس کی گلی، اس کا گھر، اس کا در۔ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے ’میرا گھر‘ کہا ہے، اگرچہ وہ اس سے پاک ہے کہ کسی گھر میں رہے۔ جب محبوبِ لامکان نے ایک مکان کو اپنا گھر بنا لیا ہے، تو کُوے یار تک پہنچنے کے لیے شوق سے بے تاب دل کی رفاقت سب سے بڑھ کر حصولِ مقصد کی ضامن ہے۔

تم اگر خانہ کعبہ کے مشتاق اس لیے ہو کہ وہ اللہ کا گھر ہے، تو صرف اسی نسبت سے اس کا سفر کرو۔ گویا اپنی نیت اور ارادہ صرف اللہ کے لیے خالص کرلو۔ خوب یاد رکھو کہ بجز خالص کے کوئی ارادہ اور کوئی عمل اس کے ہاں قبول نہیں۔ پس خاص طور پر، جس بات میں ریا ہو اور شہرت کی تلاش ہو، اس کو ترک کر دو۔ اس سے بُری بات کیا ہوسکتی ہے کہ سفر تو بادشاہ سے ملاقات کے لیے ہو، اور مقصود اس کے سوا کچھ اور ہو۔ دل میں بیت اللہ اور رب البیت کا مقام پہچانو گے، اور یاد رکھو گے،  تو پھر ارادہ اس سے کسی کم تر چیز کا نہ کرو گے۔

سفرِحج بھی، ہر سفر کی طرح، ترکِ علائق سے شروع ہوتا ہے۔ گھر چھوڑتے ہو، گھر والے چھوڑتے ہو، مال و تجارت ترک کرتے ہو، وطن سے جدا ہوتے ہو، مگر اس سفر میں کامیابی کے لیے سب سے پہلے ان حقوق سے تعلق منقطع کرو جو دوسروں کے اپنے ہاتھوں میں دبا رکھے ہیں، اور ایسے سارے حقوق حق داروں کو واپس کر دو۔ یاد رکھو، ذرہ برابر ظلم بھی اگر کسی پر کیا ہے تو وہ تمھارا قرض خواہ ہے۔ وہ تمھارا گریبان پکڑ کر کہتا ہے، تم کہاں جاتے ہو، شرم نہیں آتی کہ جاتے ہو شہنشاہ کے گھر، اور اپنے گھر میں اس کے حکم کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ اس کی تعمیل کرو، ڈرتے نہیں کہ اتنے گناہوں کے ساتھ کہیں وہ تمھیں واپس نہ کردے۔ اس لیے، اگر اپنی زیارت کی قبولیت چاہتے ہو، تو خالص توبہ کر کے ہر گناہ سے تعلق توڑ لو، حقوق جو ظلم سے لیے ہیں واپس کر دو، اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں لگ جائو۔

اپنے دل کا علاقہ ماسوا اللہ سے بھی منقطع کرلو، اور جس طرح اپنے سفر کا رُخ اس کے گھر کی طرف کرلیا ہے، اپنے دل کا رُخ بھی اسی کی طرف کرلو۔ وطن سے تعلق اس طرح منقطع کرلو جیسے پھر لوٹ کر نہ آئو گے، اہل و عیال کے لیے وصیت لکھ کر جائو۔ سفر کا سامان کرتے ہو، تو اتنا خرچ ساتھ لینے کا اہتمام کرتے ہو کہ کسی جگہ کمی نہ پڑے۔ یاد رکھو کہ آخرت کا سفر اس سفر کی بہ نسبت کہیں زیادہ طویل اور کٹھن ہے، اور اس سفر کا سامان تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے علاوہ ہر مال و اسباب دغا دے گا، اور موت کے وقت پیچھے رہ جائے گا۔ اس فکر اور کوشش میں رہو کہ اعمالِ حج میں ایسی آمیزش یا نقص نہ آجائے کہ وہ موت کے بعد تمھارا ساتھ نہ دیں، اور اس سفر سے تم سفرِ آخرت کے لیے تقویٰ کا زادِ راہ زیادہ سے زیادہ جمع کرلو۔

اے دوست! اہل و عیال اور مال و اسباب سے رخصت ہوکر جب سواری پر سوار ہو، تو  اللہ کا شکر ادا کرو جس نے خشکی پر، پانی میں، ہوا میں، ہر قسم کی سواری کو تمھارے لیے مسخر کردیا۔ حج کی سواری پر نظرپڑے، تو اپنے جنازے کو نگاہوں کے سامنے رکھو، جس پر سوار ہوکر ایک روز آخرت کی طرف کوچ کرنا ہوگا۔ آج حج کی سواری پر سفر اس طرح کرو کہ جنازے پر سفر کرنا آسان ہو۔ کیا معلوم کہ موت، سفرِحج سے بھی زیادہ قریب ہو۔

اے دوست! احرام کے لیے چادریں خریدو، تو وہ دن یاد کرو جب تم کفن کی دو بے سلی چادروں میں لپیٹے جائو گے۔ ہوسکتا ہے کہ حج کا سفر پورا نہ ہو اور راستے ہی میں موت آجائے، مگر کفن میں لپٹ کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات تو یقینی ہے۔ جس طرح اللہ کے گھر کی زیارت روزمرہ کا لباس اُتار کر اس سے مخالف لباس پہنے بغیر نہیں ہوسکتی، اللہ کی زیارت بھی اس کے بغیر نہ ہوگی کہ دنیا کو اُتار کر اس سے مخالف لباس میں ملبوس ہوجائو۔

اے دوست!  شہر سے نکلتے ہو تو، اہل و عیال اور وطن سے جدا ہوکر، ایسے سفر پر جاتے ہو جو دنیا کے اور سفروں سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا۔ سوچنا چاہیے کہ میرا مقصد کیا ہے، میں کہاں جا رہا ہوں، اور کس کی زیارت مطلوب ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ اس سفر سے تمھارا مقصود اللہ تعالیٰ ہے، اسی کے گھر جارہے ہو، اسی کی پکار پر، اسی کے شوق دلانے سے، اسی کے حکم سے، سارے تعلقات ترک کرکے، اُس گھر کی طرف جا رہے ہو جس کی شان انتہائی عظیم ہے، جس کی زیارت کے  وسیلے خود صاحب ِ گھر کی زیارت تمھیں نصیب ہوگی۔ مگر اُمید اپنے اعمال سے نہ رکھو، بھروسا صرف اللہ تعالیٰ کے فضل پر رکھو___ وہ میرے ساتھ ہوگا، میری مدد کرے گا، میری دست گیری و رہنمائی کرے گا، مجھے منزلِ مراد تک پہنچائے گا___ یہ کرم اس کا کیا کم ہے کہ اس سفر سے اگر تم خانہ کعبہ نہ بھی پہنچ سکو، اور راستے ہی میں موت آجائے، تو بھی اس سے ملاقات اس حال میں ہوگی کہ تم   اس کی طرف سفر میں ہو۔ پھر اس کے سارے وعدے پورے ہوں گے۔ کیا اس نے وعدہ نہیں  فرمایا ہے:

وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ  (النساء۴:۱۰۰) اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسولؐ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر راستے ہی میں اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا۔

شہر سے نکل کر میقات تک سفر کرو، تو موت کے بعد جسم سے نکل کر میقاتِ قیامت تک کے سفر کے احوال یاد کرو۔ قبر کی تنہائی، اور عذاب، آگے کے اندیشے اور خطرات، منکر نکیر کے سوالات!

اے دوست! میقات پر لبیک کہو، تو دل خوف و اُمید سے لرز جائے۔ یہ ربِ کائنات کی پکار ہے جس پر تم کہہ رہے ہو کہ میں حاضر ہوں۔ کہیں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ لا لبیک ولاسعدیک، نہ تم خدمت کے لیے حاضر ہو، نہ ہمارے لیے مستعد۔ ابوسلیمان دارانی.ؒ کہتے ہیں، میں نے سنا ہے کہ جو شخص ناجائز مال رکھتے ہوئے حج کرتا ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ ’’نہ تیرا لبیک معتبر ہے نہ سعدیک، جب تک تو وہ چیز نہ واپس کردے جو دوسروں کی تیرے قبضے میں ہے‘‘۔ مگر انتہائی خوف کے ساتھ، پوری اُمید رکھو کہ وہ جواب قبول فرمائے گا۔ اپنے عمل اور طاقت پر نہ جائو، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر تکیہ رکھو۔

اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہو تو وہ وقت بھی یاد رکھو جب صور پھونکا جائے گا اور لوگ اُٹھ کر میدانِ قیامت میں جمع ہوجائیں گے۔سوچو کہ میں کس صف میں جائوںگا اور میرا نامۂ اعمال کس ہاتھ میں دیا جائے گا؟ مقربین میں؟ اصحاب الیمین میں؟ یا اصحاب الشمال میں؟

اے دوست! جو حرم میں داخل ہوجاتا ہے، مامون ہوجاتا ہے۔ مکہ میں داخل ہو تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور آگ کو یاد کرو، اور اس سے پوری اُمید رکھو کہ وہ تمھیں اپنے غضب اور اپنی آگ سے بھی مامون رکھے گا۔ یہ خلش بھی دل میں رہے کہ میں اس قُرب کا اہل نہ ہوا تو کہیں مستحقِ غضب نہ ٹھیروں۔ مگر رحمن کے گھر تک پہنچ جانے کے بعد، اس کا مہمان بن جانے کے بعد، اس کے جوار میں بسیرا کرلینے کے بعد، چاہیے کہ ہر جگہ اُمید، خوف پر غالب رہے۔ اس کا کرم عام ہے، اور  خانہ کعبہ کے شرف و عظمت کی رعایت سے آنے والے کا اکرام ہوتا ہے،اور پناہ مانگنے والے کی حرمت تلف نہیں کی جاتی۔

اے دوست! ایسا نہ ہو کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑے، اور نگاہِ دل عظمتِ کعبہ پر نہ ہو۔ جو  ’البیت‘ کو دیکھتا ہے، وہ یہ جانے کہ گویا ’رب البیت‘ کو دیکھتا ہے۔ اس کی تجلی سے ہوش و حواش ٹوٹ پھوٹ جائیں تو بھی کم ہے۔ شکر کرے کہ اس نے اس مقام تک پہنچایا، اس وقت کو یاد کرے جب چہرے اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ کی نعمت سے شادکام ہوں گے، اور اُمید رکھے کہ آج جس طرح اس کا گھر سامنے ہے، کل اسی طرح وہ خود نگاہوں میں ہوگا۔

اے دوست! طواف کا قصد کرو، تو دل ذوق و شوق، خوف و رجا، محبت و تعظیم سے بھرا ہوا ہو۔ یہ خیال نہ کرنا کہ طواف کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جسم بیت اللہ کا طواف کرے۔ نہیں، طواف کا برتر و اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ دل رب البیت کا طواف کرے، یاد کا مرکز وہی بن جائے۔ خانہ کعبہ   عالمِ ظاہر میں دربارِ الٰہی کانمونہ ہے۔ ان فرشتوں کی طرح طواف کرو جو عرش کا طواف کرتے ہیں۔

حجرِاسود کو بوسہ دو تو یہ جانو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر اطاعت و فرماں برداری کی بیعت کررہے ہو۔ حجرِاسود، جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا داہنا ہاتھ زمین پر ہے، جس سے وہ اپنے بندوں سے اس طرح مصافحہ کرتا ہے جس طرح ایک آدمی اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے (مسلم)۔ یہ تمھاری خوش قسمتی ہے کہ یہاں پہنچ گئے، اب اللہ سے وفاے عہد کے عہد کو پختہ تر کرلو، اور بے وفائی سے بچنے اور اس کے غضب سے ڈرتے رہنے کا عزم تازہ کرلو۔

اب خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ لو، گویا کہ اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑ رہے ہو۔ ملتزم سے چمٹ جائو، گویا کہ اس سے قریب ہوگئے۔ درِ یار پر سر رکھ دو، جیسے کوئی خطاکار دامن پکڑتا ہے، معافی کے لیے عاجزی کرتاہے۔ یہ وقت اور مقام الحاح و زاری، توبہ واستغفار، ندامت و شوق اور رجا و خوف کا وقت اور مقام ہے۔

رو رو کر عرض کرو کہ ’’آپ کادامن چھوڑ کر کہاں جائوں، کس کے آگے ہاتھ پھیلائوں، کس کے قدم پکڑ لوں؟ میرا ملجا و ماویٰ آپ کے سوا کوئی نہیں۔ آپ کے کرم و عفو کے سوا میرا ٹھکانہ کوئی نہیں۔ آپ کا دامن نہ چھوڑوں گا، آپ کے دَر سے نہ ہٹوں گا، جب تک آپ میری خطائوں کو معاف نہ فرمائیں، اور آیندہ امن میں نہ رکھیں۔ آپ کریم ہیں، درِ کریم پر آیا ہوں، بصد عجز و نیاز آیا ہوں، بصد اُمید آیا ہوں، اگر آپ دامنِ عفو میں پناہ نہ دیں تو کہاں جائوں، کیا کروں‘‘۔

اے دوست! صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرو، تو ایک خطاکار، عاجز، ذلیل، مسکین و درماندہ غلام کی طرح جو بادشاہی محل کے صحن میں چکر لگائے۔ کبھی خلوص کا اظہار کرو شاید کہ   بادشاہ نظرِ رحمت سے سرفراز کرے، کبھی اندیشے سے غم ناک ہو کہ نہ معلوم بادشاہ قبول کرے یا  نہ کرے اور میرے بارے میں کیا حکم کرے۔ بار بار آئو اور جائو کہ اوّل دفعہ میں رحم نہ کرے، تو دوسری دفعہ میں کردے۔ یہ بھی خیال کرو کہ میزان کے دونوں پلڑوں کے درمیان بھی اسی طرح پھرنا ہوگا، ایک پلڑے میں نیکیاں اور دوسرے میں خطائیں ہوں گی۔ نہ معلوم کون سا جھک جائے، اسی اُمید و بیم میں صفا اور مروہ کے درمیان چلتے رہو۔

اے دوست! عرفات کے میدان میں قدم رکھو تو میدانِ قیامت کا منظر یاد کرو۔ یہاں، لوگوں کا ازدہام، آوازوں کا بلند ہونا،زبانوں کااختلاف، رنگوں کا اختلاف۔ وہاں، قیامت کے دن اوّل و آخرسب جمع ہوں گے، سب سے پوچھ گچھ ہوگی، سب کے چہروں کے رنگ مختلف ہوں گے، سب اپنے اپنے اعمال کے مطابق گروہوں میں منقسم ہوجائیں گے۔ یاد رکھو یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان رحمتوں کو ان صالحین کے قلوب جذب کرلیتے ہیں جو ایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، ذلت و مسکنت کے ساتھ گڑگڑاتے ہیں، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رحمتِ الٰہی کے نزول کے لیے کوئی طریقہ اس کے برابر نہیں کہ صالحین کی ہمتیں مجتمع ہوجائیں، اور ایک وقت میں ایک زمین پر صالحین کے قلوب ایک دوسرے کی مدد کریں۔ یہ گمان نہ کرنا کہ ان کی اُمیدیں پوری نہ ہوں گی، یہ محروم رہیں گے اور ان کی کوششیں بے کار جائیں گی۔ نہیں، ان پر وہ رحمت نازل ہوگی جو سب کو ڈھانپ لے گی۔ یہ وہ مقام ہے کہ قبولیت کی اُمید کامل ہی قبولیت کی نشانی ہے۔ بس ٹوٹ کر گریہ وزاری کرو، اور حق تعالیٰ سے مانگو:

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَسْمَعُ کَلَامِیْ وَتَرٰی مَکَانِیْ وَتَعْلَمُ سِرِّیْ وَعَلَانِیَتِیْ وَلَا یَخْفٰی عَلَیْکَ شَیْ ئٌ مِّنْ اَمْرِیْ وَاَنَا الْبَـآئِسُ الْفَقِیْرُ وَالْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجِیْرُ وَالْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنْبِہٖ اِلَیْکَ اَسْأَلُکَ مَسْأَلَۃَ الْمِسْکِیْنِ وَاَبْتَھِلُ اِلَیْکَ اِبْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیْلِ وَاَدْعُوْکَ دُعَآئَ الْخَائِفِ الضَّرِیْر وَدُعَآئَ مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقَبَتُہٗ وَفَاضَتْ لَکَ عَبْرَتُہٗ وَ ذَلَّ لَکَ جِسْمُہٗ وَرَغِمَ لَکَ اَنْفُہٗ ، رَبِّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَآئِکَ شَقِیًّا وَّکُنْ بِیْ رَئُ وْفًا رَّحِیْمًا یَاخَیْرَ الْمَسْئُوْلِیْنَ یَاخَیْرَ الْمُعْطِیْنَ ، اے اللہ! آپ میری بات سنتے ہیں، میرا مقام دیکھتے ہیں، میرے کھلے چھپے سب کو جانتے ہیں، میرا کوئی حال، کوئی معاملہ، کوئی ضرورت آپ سے پوشیدہ نہیں۔ میں انتہائی مصیبت زدہ اور بالکل فقیر ہوں، میں آپ سے فریاد کرتا ہوں اور پناہ طلب کرتا ہوں، کانپتا ہوں اور ڈرتا ہوں، آپ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اقرار اور اعتراف کرتا ہوں۔ میرا سوال ایک مسکین کا سوال ہے، گڑگڑا رہا ہوں کہ سخت ذلیل گناہگار ہوں، آپ کو پکار رہا ہوں کہ ڈر کا مارا اور نقصان زدہ ہوں۔ میری گردن آپ کے آگے جھکی ہوئی ہے، جسم آپ کے سامنے ذلیل و رسوا ہے، ناک آپ کے سامنے خاک آلود ہے، اور آنکھوں سے آنسو     بہہ رہے ہیں۔ ایسا نہ کیجیے کہ آپ سے مانگنے کے بعد میں بدبخت رہوں، مجھ کو اپنی رحمت و شفقت سے ڈھانپ لیجیے۔ اے سب سے بہتر جس سے مانگنے والا مانگے، اے سب سے بہتر عطا کرنے والے!

اِلٰھِیْ تَجَنَّبْتُ عَنْ طَاعَتِکَ عَمَدًا وَتَوَجَّھْتُ اِلٰی مَعْصِیَتِکَ قَصْدًا فَسُبْحَانَکَ مَا اَعْظَمَ حُجَّتُکَ عَلَیَّ وَمَا اَکْرَمَ عَفْوُکَ عَنِّی، فَبِوُجُوْبِ حُجَّتِکَ عَلَیَّ وَ اِنْقِطَاعِ حُجَّتِیْ عَنْکَ وَفَقْرِیْ اِلَیْکَ وَ غِنَاکَ عَنِّی اِلاَّ غَفَرْتَ لِی! یَاخَیْرَ مَنْ دَعَاہُ دَاعٍ وَاَفْضَلَ مَنْ رَجَاہُ رَاجٍ بِحُرْمَۃِ الْاِسْلَامِ وَبِذِمَّۃِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ اَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ فَاغْفِرْلِیْ جَمِیْعَ ذُنُوْبِیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْ مَوقَفِیْ ھٰذَا مُقْفَی الحَوَائِجِ وَھَبْ لِیْ مَا سَأَلْتُ وَحَقِّقْ رِجَائِ ی فِیْمَا تَمَنَّیْتُ ، میرے اللہ! میں نے جانتے بوجھتے آپ کی اطاعت سے رُوگردانی کی، اور نافرمانیاں کرتا رہا۔ آپ پاک ہیں، آپ کی حجت تو میرے خلاف بہت بڑی ہے، مگر آپ کا مجھے معاف کرنا کتنا بڑا کرم ہے۔ پس اس حال میں کہ آپ کی حجت میرے خلاف ثابت ہے اور میرے پاس آپ کے سامنے کوئی حجت نہیں، میں سراسر آپ کا محتاج ہوں اور آپ مجھ سے بے نیاز، آپ مجھے معاف ہی فرما دیجیے۔ اے سب سے بہتر جس سے مانگنے والا مانگے اور سب سے افضل جس سے اُمید باندھنے والا اُمید باندھے، اسلام کی حرمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ تیرے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میرے سارے گناہ بخش دیجیے، اور میری ساری حاجتیں پوری کرکے مجھے اس موقف سے واپس بھیجے، جو کچھ میں نے مانگاہے مجھے دے دیجیے اور جس چیز کی تمنا کی ہے اس میں میری توقع پوری کیجیے۔

اِلٰھِی مَنْ مَدَحَ لَکَ نَفْسَہٗ فَاِنِّیْ لَآئِمُ نَفْسِیْ! اِلٰھِی اَخْرَسَتِ الْمَعَاصِیْ لِسَانِی فَمَا لِی وَسِیْلَۃٌ مِنْ عَمَلِیْ وَلَا شَفِیْعٌ سِوَی الْاَمَلِ! اِلٰھِی اِنِّیْ اَعْلَمُ اَنَّ ذُنُوْبِیْ لَمْ تَبْقَ لِیْ عِنْدَکَ جَاھًا وَلَا لِلْاِعْتِذَارِ وَجْھًا وَلٰکِنَّکَ اَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْنَ! اِلٰھِی اِنْ لَمْ اَکُنْ اَھْلًا اَنْ اَبْلُغَ رَحْمَتَکَ فَاِنَّ رَحْمَتَکَ اَھْلٌ اَنْ تَبْلُغَنِیْ وَرَحْمَتُکَ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ  وَاَنَا شَیْ   ئٌ! اِلٰھِی اِنَّ ذُنُوْبِیْ وَاِنْ کَانَتْ عِظَامًا وَلٰکِنَّھَا صِغَارٌ فِی جَنْبِ عَفْوِکَ فَاغْفِرْھَا لِی یَا کَرِیْم! میرے اللہ، کوئی تیرے سامنے اپنی تعریف کیا کرے، میں تو اپنے کو ملامت کرتا ہوں! الٰہی، گناہوں نے میری زبان گونگی کردی، میرے پاس اپنے عمل کا وسیلہ بھی نہیں، اُمید کے سوا اور کوئی سفارش کرنے والا نہیں! الٰہی، مجھے معلوم ہے کہ میرے گناہوں نے تیرے نزدیک میری کچھ قدر باقی نہ رکھی، نہ میرا منہ ہے کہ کوئی عذر پیش کروں، لیکن تو تمام کرم کرنے والوں سے زیادہ کریم ہے! الٰہی، اگرچہ میں اس قابل نہیں کہ تیری رحمت تک پہنچوں، مگر تیری رحمت کے تو شایان ہے کہ مجھ تک پہنچے! الٰہی، تیری رحمت ہرچیز کو شامل ہے، اور میں بھی ایک چیز ہوں! اگرچہ میرے گناہ بہت بڑے ہیں، لیکن تیرے عفو کے مقابلے میں تو بہت چھوٹے ہیں! میرے گناہوں سے درگزر کر، اے کریم!

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ اَنْتَ وَاَنَا اَنَا ، وَاَنَا العَوَّادُ اِلَی الذُّنُوبِ وَاَنْتَ اِلَی الْمَغْفِرَۃِ ، اِنْ کُنْتَ لَا تَرْحمُ اِلاَّ اَھْلَ طَاعَتِکَ فَاِلٰی مَنْ یَفزَعُ المُذْنِبُوْنَ ، اے اللہ! تو، تو ہے، اور میں، میں۔ میں بار بار گناہوں کی طرف پلٹتا ہوں، تو بار بار مغفرت کی طرف۔ میرے اللہ! اگر تو اپنے اطاعت کرنے والوں ہی پر رحم کرے، تو گناہگار  کس کی طرف جائیں گے۔

اے دوست! کنکریاں مارنے میں نہ تو نفس کو کوئی مزہ ہے نہ عقل کو۔ اپنے نفس کو اور اپنی عقل کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر نگوں کر دو۔ غلامی اور بندگی میں نفس و عقل کے لیے لذت بس تعمیلِ ارشاد میں ہوتی ہے۔ تعمیلِ ارشاد ہی سے دل میں اللہ کی یاد قائم ہوتی ہے۔ اقامتِ ذکر اللہ ہی کے لیے طواف ہے، سعی ہے، رمی جمار ہے (ابوداؤد، ترمذی بروایت عائشہؓ)

قربانی بھی اطاعت امر کا اظہار ہے ، اسی لیے باعث ِ تقرب ہے۔ اللہ سے اُمید رکھو کہ قربانی کے ہر جز کے بدلے تمھارے ہر جز کو آگ سے آزاد کردے گا۔

پس اے دوست! سنو! حج کے ہر قدم پر سفرِآخرت کو یاد کرو، اور اس سفر کے لیے زادِ راہ جمع کرو، تاکہ کل تم ربِ کعبہ کے انعامات سے سرفراز ہو، اور اس کی زیارت سے شادکام!    (احیاء العلوم، جلداول سے ماخوذ: خرم مرادؒ)

 

اس وقت ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس نے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں غیرمعمولی ترقی کی ہے۔ اتنی ترقی کہ ایک صدی قبل شاید اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل تھا۔ اس کے نتیجے میں بہت سی مادی دشواریوں پر قابو پالیا گیا ہے۔ مختلف قسم کی آسانیاں اور سہولتیں وجود میں آئی ہیں اور دنیا زیادہ پرکشش ہوگئی ہے۔ آمد و رفت کے تیز رفتار ذرائع کی وجہ سے مسافتیں کم ہوگئی ہیں، خیالات کی ترسیل اور ابلاغ آسان ہوگیا ہے، جو معلومات چھوٹے سے دائرے میں محصور ہوتی تھیں وہ عام ہو رہی ہیں۔ نشر و اشاعت ایک وسیع انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جو چیز چھپتی ہے وہ گوشے گوشے میں پھیل جاتی ہے۔ میڈیا اتنا طاقت ور ہے کہ ہر چھوٹے بڑے واقعے کو دنیا کے سامنے لے آتا ہے اور اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ معیشت بہتر ہوئی ہے، پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، خوش حالی آئی ہے، معیار زندگی بلند ہوا ہے، صحت اور تندرستی کی طرف توجہ ہے۔ امراض کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ طبی سہولتیں فراہم ہیں، اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سب باتوں کے مظاہر ہر طرف دیکھے جا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس ترقی کا پورا فائدہ اصلاً ایک چھوٹے سے طبقے ہی کو حاصل ہے، لیکن عام آدمی بھی کسی نہ کسی درجے میں اس سے فیض یاب ہو رہا ہے۔

یہ آج کی سائنسی ترقی اور اس کے فوائد اور ثمرات کا حال ہے۔ دوسری طرف سماجی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر پوری دنیا زوال اور پستی کی شکار ہے۔ اس سے نکلنے کی کوئی راہ اسے دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ موجودہ دور انسان کے بعض بنیادی حقوق کو تسلیم کرتا ہے، ان میں زندہ رہنے، عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے، وسائل حیات سے بلاامتیاز فائدہ اٹھانے، عقیدہ اور مذہب پر عمل کرنے، اظہارِ خیال اور عمل کی آزادی جیسے حقوق شامل ہیں۔ یہ حقوق قانوناً تو حاصل ہیں لیکن عملاً پامال ہو رہے ہیں۔ عام آدمی ان کی حفاظت نہیں کر پا رہا ہے۔ عدل و انصاف اور قانون کی حکم رانی کا ہر طرف چرچا ہے، لیکن ظلم و زیادتی کی حکومت ہے اور عدل و انصاف کا حصول آسان نہیں رہ گیا ہے، انسان فطری طور پر چاہتا ہے کہ پُرسکون اور امن و امان کی زندگی گزارے، لیکن فتنہ و فساد اور اضطراب کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے، مساوات اور برابری کے دعوے ہیں لیکن کم زور افراد اور قومیں طاقت ور افراد اور قوموں کا ہدفِ ستم بنی ہوئی ہیں اور ان کا ہر سطح پر استحصال ہورہا ہے۔ انسان کے سامنے مال و دولت اور عیش و عشرت کے سوا اور کوئی مقصد نہیں    رہ گیا ہے، اس لیے کسی غلط سے غلط اقدام میں بھی اسے تامل نہیں ہوتا۔ اخلاق اور قانون پر خواہشاتِ نفس غالب آگئی ہیں اور ترقی کے نام پر بے حیائی اور جنسی آوارگی کو فروغ مل رہا ہے۔ انسان جنسی جذبے کی تسکین کے لیے سماج اور قانون کی بندشوں کو توڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ خاندان سے انسان کا جو فطری اور جذباتی تعلق تھا وہ ٹوٹ رہا ہے، الفت و محبت، خدمت اور ایثار و قربانی کی جگہ خود غرضی کی فضا پرورش پا رہی ہے۔ اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود معاشرے کے رگ و ریشے میں فساد پوری طرح پھیل چکا ہے اور بسااوقات نہ چاہتے ہوئے بھی آدمی کو اس کے کڑوے کسیلے پھل کھانے پڑ رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دورِ حاضر کے اس بگاڑ کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ صحیح نظریۂ حیات سے محروم ہے۔ اس نے انسان کو مادی لحاظ سے تو بہت کچھ دیا، لیکن اس کائنات اور خود انسان کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر نہیں فراہم کر سکا۔ اس کی فکری اساس غلط ہے اس لیے وہ ایک طرف پیش قدمی کر رہا ہے تو دوسری طرف پستی کا شکار ہے۔ متوازن اور ہمہ جہت ترقی اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کی بنیاد صحیح فکر پر ہو۔

بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اگر موجودہ دور کی فکری اساس غلط ہے تو اس نے اتنی ترقی کیسے کی ہے؟ کیا غلط فکر کے ساتھ اس طرح کی ترقی ممکن ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ مادی ترقی کے لیے نظریۂ حیات کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے۔   اس کے بغیر بھی اس ترقی کا امکان ہے۔ قرآنِ مجید نے اس معاملے میں ہماری راہ نمائی کی ہے۔ اس نے عبرت و نصیحت کے لیے بعض قدیم قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ان کا فلسفۂ حیات غلط تھا، لیکن مادی ترقی کی راہیں ان پر بند نہیں تھیں۔ ان کے سامنے صرف دنیا تھی اور وہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ چناں چہ انھوں نے اپنی محنت اور صلاحیت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھایا اور خوب ترقی کی۔ قومِ عاد جسمانی طور پر بڑی توانا اور تن درست قوم تھی۔ قوت و طاقت میں اس وقت اس جیسی کوئی دوسری قوم نہ تھی (الفجر: ۶،۷)۔ اس قوم نے تفریح اور عیش کی خاطر اور شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے بڑی بڑی عمارتیں اور قلعے اس طرح تعمیر کیے جیسے اسے اسی دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس کے علاقے میں عمدہ زراعت تھی، سرسبز و شاداب باغات تھے اور چشمے رواں تھے۔ اسے افرادی قوت بھی حاصل تھی۔ طاقت کا یہ عالم تھا کہ کسی پر یہ قوم ہاتھ ڈالتی تو اس کے شکنجے سے نکلنا آسان نہ تھا۔ (الشعراء: ۱۲۳-۱۳۴)

قومِ ثمود کا بھی یہی حال تھا، اس کے علاقے میں زراعت کو بڑا عروج حاصل تھا، پھلوں کی خوب پیداوار تھی، اس کے کارناموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر بڑی مہارت کے ساتھ مکانات تعمیر کیا کرتی تھی۔  (الفجر، الشعراء: ۱۴۷-۱۴۹)

مصر میں فرعون کا بڑا دبدبہ تھا، وہ بڑی فوجی طاقت کا مالک تھا، اس کے لیے جگہ جگہ خیمے لگتے تھے، ملک میں خوش حالی تھی، باغات تھے، چشمے تھے، دولت کے خزانے تھے اور شان دار مکانات تھے۔  (الفجر:۱۰، الشعراء: ۵۷،۵۸)

قرآن مجید بتاتا ہے کہ یہ اور ان جیسی دوسری قوموں کی نادانی یہ تھی کہ وہ مادی ترقی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھی تھیں۔ اس سے آگے سوچنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انھیں اپنے علم و فن پر بڑا ناز تھا اور کسی راہ نمائی کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھیں۔ اللہ کے رسولوں نے انھیں راہِ ہدایت دکھائی لیکن انھوں نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دن پورے ہونے لگے، ان کی مادّی ترقی انھیں ہلاکت سے نہ بچا سکی اور وہ تباہ و برباد ہوگئیں۔

قریشِ مکہ نے اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی تو قرآن نے کہا کہ تم سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور قوموں نے اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی ہدایت قبول کرنے سے انکار کیا تو صفحۂ زمین سے مٹا دی گئیں۔ ان کے مقابلے میں تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر تم اللہ کے رسولؐ کی مخالفت کر رہے ہو تو اپنے انجام پر غور کرلو۔

وَکَـذَّبَ الَّـذِیْنَ مِنْ قَبْـلِھِمْ وَمَا بَلَغُـوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَیْنٰـھُمْ فَکَذَّبُوْا رُسُلِیْقف فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ o (السبا ۳۴:۴۵) ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی تکذیب کی، حالانکہ جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا اس کے عشر عشیر کو بھی یہ نہیں پہنچے۔ انھوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو (دیکھو کہ) میرے انکار کا کیا انجام ہوا۔

قرآن مجید نے بعض قوموں کا نام لے کر بھی قریشِ مکہ کو تنبیہ کی ہے۔ ایک جگہ فرمایا:

کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّ فِرْعَوْنَ ذُو الْاَوْتَادِ o اوَ ثَمُوْدُ وَ قَوْمُ لُوْطٍ وَّ اَصْحٰبُ لْئَیْکَــۃِ ط اُولٰٓئِکَ الْاَحْزَابُ o اِنْ کُلٌّ اِلاَّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ (صٓ ۳۸: ۱۲-۱۴) اُن سے پہلے جھٹلا چکی ہے قوم نوح (قوم) عاد اور فرعون جو میخوں والا تھا۔ (قوم) ثمود، قوم لوط اور ایکہ والے (حضرت شعیبؑ کی قوم) یہ سب بڑی طاقتیں۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب ان پر آکر رہا۔

اس طرح قرآن نے یہ حقیقت واضح کی کہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کو دریافت کرنے اور ان کو کام میں لانے سے مادّی ترقی ممکن ہے۔ جو قوم اس پر عمل کرے گی، اس پر مادّی ترقی کی راہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ لیکن اس ترقی کو کنٹرول کرنے اور پوری زندگی کو صحیح سمت دینے کے لیے صحیح نظریۂ حیات کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر انفرادی اور اجتماعی زندگی فساد سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔

اسلام اس معاملے میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔ وہ صحیح نظریۂ حیات پیش کرتا ہے۔ وہ ان تمام سوالات کا اطمینان بخش جواب دیتا ہے جو انسان کے ذہن میں اس وسیع کائنات اور خود اس کی اپنی ذات کے بارے میں ابھرتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا کیا ہے؟ کیسے وجود میں آئی، کیا یہ ہمیشہ رہے گی یا اس کی رونق کبھی ختم ہوجائے گی؟ انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے، اسے جو مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں ان کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے اس کی ہدایت اور راہ نمائی کا کیا انتظام کیا ہے؟ اس کی آخری منزل کیا ہے؟ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے؟

اسلام ان بنیادی سوالات کا صرف جواب ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ ان کی اساس پر زندگی کا ایک پورا نظام پیش کرتا ہے۔ اس سے ہر گوشۂ حیات میں متوازن ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور آدمی کو قلبی سکون اور راحت بھی حاصل ہوتی ہے۔

ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ مذہب کی تعلیمات سے آدمی کو چاہے روحانی سکون حاصل ہوجائے لیکن مادّی ترقی ممکن نہیں ہے۔ قرآن مجید نے جگہ جگہ اس خیال کی تردید کی ہے، اس لیے کہ یہ مادہ پرست ذہن کی پیداوار ہے۔ اس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔

یہود اپنی دنیا داری میں مشہور ہیں۔ اس کے لیے انھیں کوئی بھی غلط اور ناجائز طریقہ اختیار کرنے میں کبھی تامل نہیں رہا۔ یہ ایمان کی کم زوری اور اس احساس کا نتیجہ تھا کہ دین کی راہ سے دنیا حاصل نہیں کی جاسکتی۔ قرآن نے کہا اگر وہ دین پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں تو دنیا ان کے قدم چومنے لگے گی، زمین اپنے خزانوں کے منہ کھول دے گی اور آسمان سے نعمتوں کی بارش شروع ہوجائے گی:

وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقـَامُوا التَّـوْرٰۃَ وَ اْلِانْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ط مِنْھُمْ اّمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَ o (المآئدہ ۵:۶۶) اگر یہ توریت اور انجیل کو اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کے رب کی جانب سے ان کے لیے نازل کی گئی تھیں، تو رزق ان کے اوپر سے بھی اترتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی اُبلتا۔ لیکن ان میں سے ایک چھوٹی سی جماعت سیدھی راہ پر ہے اور ان میں کے زیادہ تر برے کام کر رہے ہیں۔

یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اسلام دین و دنیا کی فلاح کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کا مطالعہ اسی رخ سے ہونا چاہیے، لیکن مختلف اسباب کی بنا پر مغرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام اس حیثیت سے دنیا کے سامنے نہ آنے پائے۔ اس نے اسلام کو سمجھنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس نے اسے دیکھا تو صرف اس نقطۂ نظر سے دیکھا کہ اسے کس طرح ناقابلِ قبول اور ناقابلِ عمل قرار دیا جائے۔ اس کے لیے اس نے اسلام کے عقاید اور اس کی تعلیمات پر اعتراضات کا جو سلسلہ اپنی تہذیب کے غلبہ کے بعد شروع کیا وہ اب تک جاری ہے بلکہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں بعض پہلوؤں سے شدت بھی آگئی ہے۔ اس کے خلاف علمی، سیاسی، تہذیبی ہر طرح کے محاذ کھول دیے گئے ہیں۔ اس کی تصویر اس طرح مسخ کی جا رہی ہے کہ اس کی طرف کسی کی توجہ نہ ہو اور اسلام کا نام آتے ہی لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں۔

مغرب کے خدشات اور عزائم

اسلام کے بارے میں مغرب کے اس رویے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام موجودہ فکر اور تہذیب کے لیے زبردست چیلنج ہے۔ اس کی نظریاتی اور عملی قوت کو مخالف طاقتیں پوری طرح محسوس کررہی ہیں اور اس سے خوف زدہ ہیں۔ یہاں بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

۱- جو بھی شخص اسلام پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر موجودہ تہذیب کا متبادل بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے، جس کا اس نے جواب نہ دیا اور اس کا حل نہ پیش کیا ہو۔ چاہے اس کا تعلق عقیدہ اور فکر سے ہو، عبادات و اخلاق سے ہو،  تہذیب و معاشرت سے ہو، معیشت و سیاست سے ہو یا مادیت و روحانیت سے۔ کسی معاملے میں اس کے نقطۂ نظر سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام نے اسے نظر انداز کیا ہے یا اس سلسلے میں راہ نمائی نہیں کی ہے۔

۲- آج قیادت کا منصب مغرب کو حاصل ہے۔ پوری دنیا پر عملاً اسی کی حکومت ہے اور ہر جگہ اسلام کے ماننے والوں کو بُری طرح دبایا اور کچلا بھی جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ اسلام کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ خود مغرب میں اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ یقین بھی اسلام کے ماننے والوں میں عام ہے کہ اس کے پاس ایک بہتر اور برتر نظامِ فکر و عمل ہے، صحیح عقیدہ اور فکر ہے، بہتر اخلاقیات ہیں، اعلیٰ تہذیب و تمدن ہے اور سیاست کے ایسے اصول ہیں جو دنیا کو بے لاگ عدل و انصاف فراہم کرسکتے ہیں اور جن کے ذریعے ہر طرح کے ظلم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کی برتری کا یہ یقین صرف ان لوگوں میں ہی نہیں ہے، جو دورِ جدید سے بے خبر اور ’قدامت پسند‘ سمجھے جاتے ہیں، بلکہ ان افراد میں بھی پرورش پا رہا ہے، جو مغرب میں پیدا ہوئے، اس کی گود میں پلے بڑھے اور جن کی تعلیم و تربیت ان کے اداروں میں ہوئی اور جن کی ذہن سازی میں وہ مستقل لگے ہوئے ہیں۔ مغرب کے لیے تشویش کا پہلو    یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں وہ مسلمانوں کے ذہن کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہے۔ وہ مغرب کے فکر کو برداشت تو کر رہے ہیں، قبول نہیں کر رہے ہیں۔

۳- اس وقت عالم اسلام میں، بلکہ پوری دنیا میں ایسی تحریکیں موجود ہیں جو اسلام کو ایک غالب قوت کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ اس صورتِ حال پر قانع اور مطمئن نہیں ہیں کہ دنیا پر فرماں روائی غیر اسلامی افکار کی ہو اور اسلام محکوم بن کر رہے۔ ان تحریکات کے طریقۂ کار میں حالات کے لحاظ سے فرق ضرور ہے لیکن یہ سب اسلام کو سربلند اور غالب دیکھنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ مغرب کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ ان تحریکات کے اثرات پھیل رہے ہیں۔ یہ آج کم زور ہیں لیکن کل طاقت ور ہوسکتی ہیں۔ اس احساس کے تحت مسلم راہ نماؤں اور ان کی نمایاں شخصیتوں کی تصویر بگاڑی جا رہی ہے، مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو بدنام کیا جا رہا ہے، اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ اسلامی تحریکیں دستوری اور قانونی طریقے سے بھی کامیاب نہ ہونے پائیں اور کامیاب ہوں تو انھیں اقتدار میں آنے سے کسی نہ کسی طرح روک دیا جائے۔

۴- مغرب کو یہ فکر بھی پریشان کر رہی ہے کہ مسلم ممالک مادی لحاظ سے بھی اس حیثیت میں ہیں کہ وہ اس کے حریف بن سکتے ہیں۔ کسی فکر کو آگے بڑھانے اور اسے غالب کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ اسے حاصل ہیں۔ ان وسائل پر گو اس وقت عملاً قبضہ مغربی طاقتوں ہی کا ہے۔ وہ ہر قیمت پر اپنا یہ قبضہ باقی رکھنا چاہتی ہیں، اس لیے کہ یہ ان کی مادی ترقی، خوش حالی اور اقتدار کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے انھوں نے بیش تر ممالک کے سربراہوں کو قابو میں کر رکھا ہے۔ وہ ان کے اشاروں پر چل رہے ہیں اور ان کے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جو مسلم ملک ان کے خلاف جانے کا ارادہ کرتا ہے، اسے ختم کرنے کی ہزار تدبیریں ان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن یہ صورتِ حال دائمی نہیں ہے، اسے آزادانہ فیصلوں اور اقدامات کے ذریعے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت غالب امکان اس کا ہے کہ ان کے وسائل اور ذرائع اسلام کی سربلندی کے لیے استعمال ہوں۔ یہ چیز مغرب کے لیے باعث تشویش ہے۔

مسلمانوں کی بعض کمزوریاں

اسلام، مسلم ممالک اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں مغرب کے عزائم مخفی نہیں ہیں۔ ہرصاحبِ دانش انھیں سمجھ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کی فکری اور تہذیبی کم زوریاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام کو سمجھنے کا رجحان بھی ابھر رہا ہے اور وہ مغرب کے عین مراکز میں خاموشی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی فطری خوبیاں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ یہ    صورت حال بہ ظاہر اسلام کے حق میں ہے لیکن خود اسلام کے ماننے والوں کو مختلف قسم کی کم زوریوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جب تک وہ ان پر قابو نہ پالیں اور اسلام کا نمونہ نہ پیش کریں اسلام کی سربلندی کی تمنا پوری نہیں ہوسکتی۔ یہاں بعض کم زوریوں کا ذکر کیا جا رہا ہے:

۱- اللہ تعالیٰ کے دین کی اساس پر امتِ مسلمہ وجود میں آئی ہے۔ وہ اس پر اپنے ایمان و یقین کا آج بھی اظہار کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح اسی سے وابستہ ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس کی پوری زندگی دین کے تابع ہو اور اس کا ہر قدم دین کی راہ نمائی میں اٹھے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس پر دین کی گرفت کم زور پڑ چکی ہے، جو شخص دین دار تصور کیا جاتا ہے، اس کی پہچان یہ تو ہے کہ وہ نماز روزے اور بعض اخلاقیات کا پابند ہے، باقی یہ کہ اس کی شخصیت اس حیثیت سے نمایاں نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے لیے بھی درد مند دل رکھتا ہے اور ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طرح پوری ملت کی کوئی مضبوط دینی پہچان نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو ایک محدود دائرے میں۔ سماجی یا معاشرتی سطح پر اس کا دینی کردار دنیا کے سامنے نہیں ہے۔

۲- آدمی کے اخلاق سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے اور اس کی عزت اور احترام پر وہ خود کو مجبور پاتا ہے۔ اس سے آگے اگر کوئی قوم اخلاق و کردار کا ثبوت فراہم کرنے لگے تو اس کا اعتبار قائم ہو جاتا ہے۔ دنیا اس پر بھروسا کرنے لگتی ہے اور اس کی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سیرت و کردار کے لحاظ سے یہ امت کہیں بھی نمایاں نہیں ہے۔ اس کے متعلق یہ تصور نہیں ہے کہ وہ اخلاق کی پابند ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے راست باز اور قول و قرار کے پابند ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے، رشوت نہیں لے سکتے اور کسی غیر اخلاقی حرکت کا ارتکاب نہیں کرسکتے۔ اس میں شک نہیں کہ امت کبھی ایسے افراد سے خالی نہیں رہی اور آج بھی ایسے افراد دیکھے جاسکتے ہیں، جن کے اخلاق قابلِ رشک ہیں اور وہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے بھی  جاتے ہیں، لیکن بہ حیثیت مجموعی امت کا کوئی اخلاقی امتیاز نہیں ہے، بلکہ اس کی اخلاقی کم زوریاں اس کی خوبیوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہیں۔ اس میں جب تک تبدیلی نہ ہو امت کا اعتبار قائم نہیں ہوسکتا۔

۳- مغرب کے سیاسی اقتدار اور اس کی تعلیم و تہذیب کی بنیاد دین و دنیا کی تفریق پر قائم ہے۔ اس کے فروغ سے امت کو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس کے اندر بھی دین و دنیا کی تقسیم   عمل میں آگئی۔ دینی اور دنیوی یا سیکولر تعلیم کے الگ الگ ادارے وجود میں آگئے اور دونوں کے  میدانِ کار بھی الگ ہوگئے۔ امت نے عملاً یہ تسلیم کرلیا کہ علماے دین انفرادی اور شخصی امور و معاملات میں دینی راہ نمائی فراہم کریں گے اور سیکولر تعلیم پائے ہوئے افراد کی قیادت اجتماعی اور سیاسی امور میں ہوگی۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ربط و تعلق اور ایک دوسرے کے علم اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت نہیں رہی۔ اس وجہ سے امت ایک مدت سے سخت کش مکش میں مبتلا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قیادت تقسیم نہیں ہوسکتی۔ اگر تقسیم ہوگی تو اس کا ایک متعین رخ نہ ہوگا، بیشتر معاملات میں وہ تضاد کا شکار ہوگی اور کبھی ذہنی اور عملی یک سوئی اسے حاصل نہ ہوگی۔ اس امت کو زندگی کے ہر میدان میں اور ہر معاملے میں دینی قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت آج کے حالات میں اسی وقت پوری ہوسکتی ہے، جب کہ علماے دین اور سیکولر تعلیم یافتہ حضرات کے درمیان بہت ہی مضبوط ربط و تعلق ہو، دونوں ایک دوسرے کے علم و تجربے سے فائدہ اٹھائیں، جس طبقے میں جس پہلو سے کمی ہے اسے دور کرنے میں اسے تامل نہ ہو اور دونوں طبقات مل کر اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کریں۔ کوئی دوسرا مقصد ان کے سامنے نہ ہو۔

۴-  مسلمان ایک امت ہیں۔ ان کے درمیان اصول اور اساساتِ دین پر اتفاق ہے۔ البتہ تفصیلی احکام و مسائل میں اختلافات ہیں۔ یہ اختلافات دورِ اول سے چلے آرہے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ان اختلافات نے بہت ہی ناپسندیدہ شکل اختیار کرلی ہے۔ اس کا اثر شخصی، سماجی اور معاشرتی تعلقات پر بھی پڑ رہا ہے۔ آپس میں دوری پائی جاتی ہے اور ہر فریق دوسرے کو حریف کی حیثیت سے دیکھنے لگا ہے۔ دین و شریعت اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے رویوں میں تبدیلی آئے، اس کے لیے بعض باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

یہ اختلافات اصول میں نہیں فروع میں ہیں، جو اہمیت اصول کی ہے وہ فروع کی نہیں ہے۔ ان اختلافات کی نوعیت زیادہ تر علمی ہے۔ اسے علمی موضوع ہی ہونا چاہیے۔ اسلامی اخوت کا تقاضا ہے کہ ان کا اثر آپس کے تعلقات پر نہ پڑنے پائے۔ بسا اوقات ہمارے نزدیک اپنے یا اپنے گروہ کے مفاد کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ ہم اسی کے لیے سوچتے اور تدبیر کرتے ہیں۔ ملت کا مفاد پیچھے چلا جاتا ہے۔ ملت کا وسیع تر مفاد پیش نظر ہو تو ہم اپنے اختلافات پر قابو پاسکتے ہیں اور اتحاد و اتفاق کی راہیں کھل سکتی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امت کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ اپنے حدود میں رہیں اور اُمت کے اندر انھیں برداشت کرنے کا مزاج پیدا ہوجائے تو وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت ہوگی۔ اسی لیے اب مغرب کی بھی کوشش ہے کہ ان اختلافات کو ہوا دی جاتی رہے تاکہ یہ امت آپس ہی میں دست و گریباں رہے اور اصل حریف کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جائے۔ (بہ شکریہ سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ، اپریل- جون ۲۰۰۸ء)

 

میاں طفیل محمد ؒجماعت اسلامی کے اکابرین میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان جیسی شخصیت اور مزاج کے حامل لوگ اب خال خال دیکھنے کو ملیں گے۔الفاظ کا ذخیرہ زیادہ دیر تک اور دور تک ساتھ نہیں دیتا وگرنہ درویش صفت کہنا، فقیر منش کا عنوان دینا، سادگی کا ان پر ختم ہوجانا اور للہیت کا پیکر ہونا، مزید یہ کہ بے غرضی اور بے نفسی کا سراپا ہونا، ایسی صفات ہیں جو گفتگواور تحریرمیں باربار گنوائی گئی ہیں، فی الحقیقت میاں صاحب مرحوم ان تمام صفات اور خصوصیات کامرقع تھے۔

میاں صاحب پر اللہ کا کرم ہوا کہ ان کا تعارف سید مودودی ؒ سے ہو گیا اور مولاناؒ کو ایک بے ریا، محنتی ، فرض شناس اور حقیقی معنوں میں متقی کارکن میاں صاحبؒ کی صورت میں انعام خداوندی کے طور پر مل گیا۔ دنیوی لحاظ سے تو یہ سراسر گھاٹے کا سودا تھا کہ شان دار تعلیمی کیرئیر، اپنی ریاست میں پہلا مسلمان وکیل جس کے سامنے بے شمار مواقع و امکانات ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے،اور ریاست کا راجا مُصر تھا کہ ہائی کورٹ کی ججی دلوا دے گا مگر وہ میاں طفیل محمد ہی کیا جو ان چیزوں میں الجھ جاتے۔یہ ساری باتیںفی الحقیقت ان کی نظر میں فروعات کی حیثیت رکھتی تھیں، اصل بات فریضۂ اقامتِ دین تھا۔یہی ان کی بابرکت زندگی کا نصب العین اور جلی عنوان بنا۔ اس نصب العین کی معرفت انھیںسیدمودودیؒ سے حاصل ہوئی۔اس لیے وہ ساری عمر کے لیے سید علیہ الرحمہ کے احسان مند بھی ہوئے اور نیاز مند بھی۔ میاں صاحب ؒ بلاشبہہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سامنے دنیااپنی ساری رعنائیوںکے ساتھ کھڑی تھی مگر اس مردِ درویش نے اس پر ایک نگہِ غلط انداز ڈالنا بھی گوارا نہ کیا۔سچ بھی یہی ہے کہ جو آدمی یکسو ہوجائے اور اپنے مقصدِ حیات کی معرفت حاصل کرلے، اس کے سامنے دنیا کی حیثیت مردار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ علامہ اقبالؒ نے میاں صاحب جیسے لوگوں کے لیے کہا تھا   ع

نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے

بظاہر میاں صاحبؒ نے عسرت اور تنگ دستی کی زندگی گزاری مگر عشقِ الٰہی سے سرشار لوگوں کا نشہ کوئی ترشی اتار نہیں سکتی۔ سیدمودودی ؒ سے ان کی محبت اور عقیدت کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ  وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ میرے محسن ہیںاور مجھے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ہیں۔ جس شخص کے ذریعے انھوں نے زندگی کے نصب العین کو سمجھا اور زندگی کے مقاصد کو پہچانا اور جس شخص کے ذریعے ان میں دنیاداری سے بہت دور اپنے آپ کو بسانے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ بیدارہوا، اس کی قدرومنزلت، دل و دماغ کی دنیا میں اس کا مقام اور اس سے تعلّقِ خاطر ، بلاشبہہ یہ احسان شناسی ہے اور ساری عمر ’’مرہون منت‘‘ رہنے کا عنوان بھی۔یہ میاں طفیل محمدؒ کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسانی قدروں اور اخلاقیات کے ہر تقاضے کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔

میاں طفیل محمدؒ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبارسے پختہ راے کے حامل کہے جا سکتے ہیں۔ راے قائم کرنے میں جس بصیرت و بصارت اور فراست کی ضرورت ہوتی ہے، میاں صاحب ان تمام حوالوں سے آراستہ و پیراستہ تھے،اور کبھی کبھی سخت گیری کی حد تک بھی اپنی راے پر عمل درآمدکے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ اپنی راے کو پیش کرنے اور کسی مجلس سے اس کی ہم نوائی حاصل کرنے میں جس ملکہ اورجن خصوصیات کی ضرورت پڑتی ہے،بظاہر      میاں صاحبؒ کی شخصیت میں ان کی کمی محسوس ہوتی تھی،اور وجہ یہ ہے کہ وہ معروف معنوں میں زبان آور یا چرب زبان نہیں تھے،اکل کھرے آدمی تھے۔ کم لوگ اس بات کو پوری طرح جانتے ہوں گے کہ میاں صاحب ؒ کی تحریر میں جو جامعیت اور شستگی تھی، ان کی زبان و بیان ہرگز اس کا پاسنگ نہ تھے۔ ان کی تحریر میں بلاغت ،سلاست اور جامعیت ، سبھی کچھ پایا جاتاہے۔ تقریریا گفتگو میں ان کا لہجہ کچھ اورتھا۔ ان کی تحریر میںبعض دفعہ تو سید مودودیؒ کا رنگ جھلکتا نظر آتا تھا۔ جن لوگوں نے میاں صاحب کی دست نوشت تحریر دیکھی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ اس میں بھی سیدمودودیؒ کے ساتھ مشابہت موجود تھی۔ اگر میاں صاحب لکھنا شروع کردیتے تو بلاشبہہ آسانی سے مصنّفین کی صف میں شامل ہو سکتے تھے مگر پھر جماعتی ذمہ داریاں کیسے پوری ہوتیں۔

اس میدان میں میاں صاحب کی شخصیت اپنے مقصد زندگی کے علاوہ باقی معاملات سے بے نیاز نظر آتی ہے۔ ابتدا ہی سے جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں، رپورٹوں، ان پر تبصروں اور معاملات و تنازعات کو نمٹانے میں اس حد تک ڈوب کر اپنے آپ کو پانے کا عمل جاری رہا کہ سرکھجانے کی فرصت میسر نہ آتی تھی، اس پر مستزاد تنظیمی دوروں، کارکنوں کی خبرگیری، ان کے دکھ درد سے آشنا ہونے اور ان کی سیرت و کردار کے ہر جھول کو دور کرنے میں میاں صاحب ؒاس قدر مصروف رہے کہ قلم و قرطاس کے ذریعے اپنی تحریر کاذوق لوگوں میں پیدا نہ کرسکے۔ جماعت اسلامی کی رودادوں میں اوربعض دیگرمقامات اور عنوانات کے حوالے سے ان کی بعض تحریریں یا تقریریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو ان کے ذہنِ رسا کی گواہی دیتی ہیں۔ دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات میں ان کا مضمون اس کے باوجود کہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولاناامین احسن اصلاحیؒ کے مضامین کے ساتھ طبع ہواہے ،اپنی انفرادیت منواتا ہے اور ہر پڑھنے والے سے داد وصول کرتا ہے۔

مجھے ان کی کتابِ زیست کے اَن گنت اوراق اپنے سامنے کھلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی مربوط کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جیسے میاں صاحب ؒ نے نماز کو اپنی زندگی کا امام قرار دیاہواتھا۔انھیں نماز پڑھتا دیکھ کرپتا چلتا تھا کہ خاصانِ خدا کی نمازکیسی ہوتی ہے۔ ان کی کتابِ زندگی کی ورق گردانی کریں تو یہ بات واضح ہوجا ئے گی کہ ان کی زندگی کا محور نماز ہے اور نماز کے پرتوسے ان کی زندگی جگمگااٹھی ہے۔جس اہتمام و تیاری سے اور جس درجہ ڈوب کر انھیں ہمیشہ نماز پڑھتے دیکھا گیااورنماز کو باجماعت پڑھنے کی حرص کو ہمیشہ بیدار پایا گیا، ان کا یہ عمل دیکھنے والے کو مجسمۂ حیرت بنا دیتا تھا۔ میاں صاحب اپنی ذات میں اول و آخر جماعت تھے۔ نماز میں بھی باجماعت نماز کے حریص تھے۔ اور خشوع و خضوع ایسا کہ ادھر میاں صاحب نے اُٹھ کر نیت باندھی اور ادھر ان کا رابطہ دنیا سے منقطع ہوگیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی دوسری ہی دنیا میں پہنچے ہوئے ہیں۔ اس قدر ڈوب کر نمازپڑھتے تھے کہ خشوع وخضوع گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ میاں صاحب کو اس عالم میں دیکھ کر کارکنوں کی نمازوں میں بھی نکھار پیدا ہوتاتھا۔ اس طرح کی نماز اپنے رب سے بندے کابراہ راست رابطہ قائم کروا دیتی ہے۔ یہ چیز حاصل ہوگئی تو دونوں جہانوں کی دولت نصیب ہوگئی۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں بینائی سے محرومی کی وجہ سے خود مسجد میں نہیں آسکتے تھے۔ ان کے بیٹے اور بعض اوقات پوتے ان کو مسجد میں لاتے تھے۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ میاں صاحبؒ ان کی اس خدمت پر اتنا شکریہ ادا کرتے تھے کہ یہ لوگ شرمندہ ہوجاتے۔ میاں صاحبؒ اس حوالے سے انفرادیت کے حامل تھے کہ جب نماز کے لیے آتے تو جہاں جگہ ملتی، وہیں نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ کبھی کبھی پچھلی صف میں کھڑے ہوئے، کسی کی نظر پڑ گئی تو اس نے پہلی صف میں جگہ پیش کی تو بڑی مشکل سے اس طرح کی پیش کش قبول فرماتے۔ میاں صاحب ؒ کی خوش قسمتی کا کیا ٹھکانہ کہ انھوں نے اپنی زندگی کی آخری نماز بھی باجماعت ادا کی اور اس روز سب ملنے والوں سے بڑی بشاشت سے ملے اور سب کو دعائیں دیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کے آخری رمضان کی تراویح مسجد میں آکر پڑھیں اورپوراقرآن کھڑے ہوکر سنا۔ ان کی زندگی سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ نماز سے اس میں نکھار پیدا کیا جائے اور پھر نکھری سنوری زندگی سے نماز کو’ کل سے بہترآج اور آج سے بہتر ہوکل‘ کا عنوان دیا جائے۔

میاں طفیل محمد ؒ نے ایک لمبی عمر پائی اور لمبی عمر کی جتنی آزمائشیں ہوتی ہیں، ان سب سے وہ دوچار رہے۔بینائی کا ختم ہوجانا، سماعت کا حددرجہ متأثر ہونا، جسم وجان کی توانائیوں کا انحطاط و اضمحلال وغیرہ،لیکن ان حوالوں میں سے کوئی حوالہ ان کے لب ولہجے میں تندی و ترشی پیدا نہ کرسکااور گلے شکوے کا کوئی پیرایہ ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکا۔ میاں صاحبؒ ہمیشہ رضا بہ قضا   نظر آئے، صبر وتحمل کا کوہِ گراں دیکھے گئے اور کسی سطح پر بھی احتجاج اور آزار کا پہلو دیکھنے میں نہ آیا۔  کم و بیش ۹۶ سال عمرپانے والا ایک شخص زندگی کے آخری لمحے تک صبر ورضاکا پیکر رہے تو اسے کیا نام دیا جائے اور شخصیت کے اس دریا کو کس کوزے میں بند کیا جائے۔ انسانی سطح پر یہ کردار اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات پر گہرا ایمان رکھنے ، اس کے ہر فیصلے پر راضی رہنے اور اسی سے خیر وصلے کی بھرپور توقع رکھنے والے کا ہی ہوسکتاہے۔

جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد بھی تقریباً ۲۲ سال تک میاں صاحب ؒ جماعت میں رکنیت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔مجھے یاد ہے کہ جب ۱۹۹۳ء میں پالیسی مسائل پر اختلافات ابھرے تو کئی اہم اور پرانے ذمہ دار حضرات الگ جماعت بنانے کے لیے کوشاں نظر آئے اور سب کو یہ بات واضح طور پر معلوم تھی کہ اس خلفشار میں میاں صاحبؒ کی شخصیت فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے، اختلافِ راے اور اظہارِ راے میں وہ پیش پیش بھی تھے لیکن ایک ایسی مجلس میں جس میں بالآخر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ ہوناتھا، میاں صاحب محترم نے یہ کہہ کربہت سوںکو ورطۂ حیرت اور بعض کو سکتے میں ڈال دیاکہ ’’ہم الگ جماعت کیوں بنائیں، ہماری جماعت تو جماعت اسلامی ہے، اگر اس میں خرابیاں ہیں تو ہم انھیں دُور کریں گے، اگر یہ اپنی منزل سے ہٹ رہی ہے تو اصلاح کریں گے‘‘۔ مزیدارشاد فرمایا: ’’اب سے پہلے جو لوگ جماعت سے الگ ہوئے اور ان میں سے بعض نے نئی جماعت بنانے کی کوشش کی، ان سب کی کارکردگی اور انجام کس سے مخفی ہے، لہٰذا ہم اندھیرے میں تیر چلانے کے بجاے جو کچھ نظروں کے سامنے ہے،اس کی کمزوری کو رفع کریں گے اور پوری جماعت کو صحیح رخ پر استوار کریں گے‘‘۔

میاں صاحب کے اس عزم نے اَن گنت لوگوں کو اپنی راے پرنظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔اس کے بعد ۱۶ سال تک میاں صاحبؒ جماعت میں رہے، خود بھی یکسوئی اور انشراح صدر کا پیکر بنے رہے اور جماعت کے ذمہ داران کو بھی تمام امور میں مشورہ دیتے رہے اور ان کے کیے کی تحسین کرتے رہے۔شفقت اور سرپرستی کا مظاہرہ بھی جاری رہا اور کہنے سننے کے دروبست بھی  کھلے رہے۔غرض میاں طفیل محمدؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،اپنی سوچ اور فکر میںتحریک اور انقلاب تھے اور اپنے عمل اور جستجو میں بامقصد اور باعمل تھے۔ ایک پورا دفتر ان کی زندگی کے  مختلف گوشوں کو بیان کرنے کے لیے کھولا جاسکتاہے۔ انفرادی سطح پرخوشہ چینی اور ان سے سیکھنے کے اَن گنت حوالے موجود ہیں۔ اور یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ  ع

بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

تقریباً سات عشرے قبل مولانا مودودیؒ نے تحریکِ اسلامی کا جو بیج بویا تھا، آج وہ ماشا اللہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ آج اس درخت کی شاخیں ملک کے گوشے گوشے کے علاوہ    بیرونِ ملک تک پھیل گئی ہیں جن کی ابتدا بھی جماعت اسلامی کے اُسی بنیادی لٹریچر سے ہوتی ہے جس نے اسلام کو سمجھنے اور ہمیں ہمارے مقصدِ زندگی سے روشناس کرانے میں مدد دی، اور مکمل اسلامی نظام کی عمارت کا وہ نقشہ پیش کیا کہ اپنی منزل واضح ہوکر سامنے آگئی۔

مقصد کے حصول کے لیے تنظیم سازی کی گئی اور لامحالہ تنظیم کو چلانے کے لیے چند اصول و ضوابط مقرر کر دیے گئے اور کچھ مطالبات اور تقاضے واضح کردیے گئے جن کو پورا کرنا تنظیم کو چلانے کے لیے ناگزیر ٹھیرا۔ اِن تمام تقاضوں کی فہرست اگر بنائی جائے تو باہمی تعلقات سے شروع ہونے والی یہ فہرست احتساب پر آکر ختم ہوتی ہے، جب کہ ان کے درمیان مشاورت، منصوبہ بندی، اطاعت ِ امر اور رپورٹ سسٹم پر عمل درآمد جیسے مطالبات بھی شامل ہیں۔

یہ تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ بہت اہم ہیں اور تنظیم و تحریک کے لیے کسی ایک چیز کی بھی کمی نقصان دہ ہے۔ جہاں ایک اسلامی تحریک کے ہر کارکن کو اس بات سے واقف ہونا بہت ضروری ہے، وہیں اس بات کا اندازہ ہونا بھی ضروری ہے کہ ان کا حق ہم تب ہی ادا کرسکتے ہیں اور فوائد کو تب ہی پوری طرح سمیٹا جاسکتا ہے جب یہ ایک نظام کے اندر اپنی اپنی روح کے ساتھ موجود ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جسم میں آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پائوں اور دیگر اعضا کی اہمیت ہے۔ ہم آنکھ کو جسم سے الگ کرکے یہ نہیں سوچ سکتے کہ یہ بینائی کا کام کرے گی، یا ہاتھ کاٹ کر یہ خواہش بھی بے معنی ہوجائے گی کہ یہ کٹا ہوا ہاتھ بھی ہمارا کام کرے گا۔ اپنے جسم کے اعضا سے ہم تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب وہ اس جسم کا حصہ ہوں، ایک نظام کے تابع ہوں، ایک دل و دماغ کی خواہش اور ارادے کے پیشِ نظر کام سرانجام دیں۔

بالکل اسی طرح کسی تنظیم کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقصد کو عظیم سمجھتے ہوئے تنظیم سے جڑنے والے ہر فرد کے باہمی تعلقات میں اُخوت و محبت ہو، رحمت و شفقت ہو، پھر تمام معاملات مشاورت سے طے کیے جائیں اور ساتھ کارکنان سے اطاعت کا مطالبہ ہو۔ مزیدبرآں کاموں کی بہترین منصوبہ سازی وقت کی ضرورت اور وسائل کا حقیقی تجزیہ کرتے ہوئے کی جائے، رپورٹ کا تمام تر نظام تجزیے کی درست بنیادوں پر ہو اور رہ جانے والی کمیوں اور سرزد ہونے والی انسانی کمزوریوں پر محاسبہ اور آیندہ کے لیے درست لائحہ عمل اور طریقہ وضع کیا جائے تو تنظیم یقینا اپنے مقصد کے حصول میں آگے اور آگے ہی بڑھے گی۔

قیادت کی ذمہ داری

ان تمام چیزوں کو درست بنیادوں پر رکھنا ہی تنظیم کو چلانا ہے جو کہ قیادت کی ذمہ داری ہے۔ قیادت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں نچلی سطح پر تحریکِ اسلامی کے کارکنان کو ایک تنخواہ دار ملازم کی طرح تو نہیں برتا جا رہا اور باقی لوازمات کو پورا کیے بغیر محض اطاعت کا مطالبہ تو نہیں کیا جا رہا۔ اگر ایسا ہو رہا ہو تو یہ ایک طرف تو ایمان و عمل میں دراڑیں لائے گا، جب کہ دوسری طرف تحریک کے قدم آگے بڑھنے کے بجاے آپس کے اختلافات اور ترجیحات کے غلط تعین میں اُلجھ کر اپنا راستہ کھو سکتے ہیں اور سفر کو سُست رفتار بنا سکتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے والے ذہن ماند پڑسکتے ہیں۔ باصلاحیت افراد اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے دوسرے راستے تلاش کرسکتے ہیں۔ اگر اسلام کو سمجھ لیا ہوگا تو اس کی خدمت کے لیے نئے نئے طریقے اور راستے تلاش کریں گے۔ لیکن اگر ناپختہ ذہن کے ساتھ وہ خلفشار کا شکار ہوگئے تو اُن کی تمام صلاحیتیں منفی امور پر استعمال ہوں گی اور غیراسلامی قوتوں کو مہمیز ملے گی۔

اس لیے اس بات کا سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ تنظیم و تحریک کے اندر ان تمام خوبیوں کا ہونا اور ان تمام کو ایک ساتھ برتنا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ایک چیز کی عدم موجودگی یا عدم توجہی سے جو عدم توازن ہوگا، وہ بگاڑ کی طرف لے جائے گا، بنائو کی طرف ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ انسان پابندیاں تبھی قبول کرتا ہے جب کچھ حقوق اور اختیارات بھی ملیں اور ان کے اظہار اور استعمال کے مواقع بھی۔ اللہ کی بھی یہی سنت ہے۔ نظمِ جماعت کی یہ پابندی بھی چند حقوق اور اختیارات کے ساتھ مشروط ہے۔ انھی حقوق میں ایک حق احتساب کا بھی ہے جو یہ تحریک اپنے ہر کارکن کو دیتی ہے۔ قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسا ماحول بنائے جس میں دریاں بچھانے والا ایک کارکن بھی اپنے قائد کا محاسبہ جرأ ت مندانہ طور پر کرسکے۔ انسانی کاموں میں غلطیوں کا رونما ہونا فطری ہے، البتہ اس پر اصرار نہ صرف غلطی ہے بلکہ بہت بڑی بھول ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ احتساب اپنی غلطیوں کی نشان دہی، رویوں اور فیصلوں پر نظرثانی کا دوسرا نام ہے۔

تنظیمی کارکردگی کا آڈٹ

جس طرح ہم اپنے بیت المال کے نظام کو عین اسلامی بنیادوں پر شفاف اور صاف ستھرا بناتے ہیں اور ہر سال آڈٹ کراتے ہیں کہ کہیں مال کا لین دین کسی بھول اور غلطی کی نذر نہ ہوگیا ہو اور پائی پائی کے آمدوخرچ کو رسیدوں سے ثابت کرتے ہیں، نیتوں کے اخلاص کے باوجود کچھ طریقے اور اصول وضع کردیے گئے ہیں تاکہ مالیات کا سارا نظام شفاف ہو، بالکل اسی طرح ہمیں چاہیے کہ اپنی تنظیم کا سالانہ بنیادوں پر ٹیکنیکل آڈٹ کریں۔ ہرسطح پر مجلس ہاے شوریٰ کے سالانہ جائزہ اجلاس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ کام کو آگے بڑھانے کے لیے جو اصول و ضوابط اور طریقے مرتب اور مقرر کیے گئے تھے، اُن کا کتنا خیال رکھا گیا۔ کیے گئے فیصلے اور کی گئی منصوبہ بندی کس قدر حقیقی اور جائز بنیادوں پر تھی۔ نیتیں خالص ہونے اور ہر وقت کی دوڑ دھوپ کے باوجود یہ جائزہ ضروری ہے کہ معاملات کو برتنے اور اُصول و ضوابط پر عمل درآمد میں کسی بے حکمتی کا شکار تو نہیں ہوگئے۔ جس طرح شخصیت کی تعمیر میں کبھی کبھی دوسروں کی نظر سے دیکھنا فائدہ مند رہتا ہے، اسی طرح تنظیم اور تحریک کو چلاتے ہوئے دوسروں کی تنقیدی نظر کے نتیجے میں ہونے والے پروپیگنڈے کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات خود منفی پروپیگنڈے کی تہہ میں بھی ہماری اصلاح کے کچھ پہلو چھپے ہوتے ہیں جن کو تلاش کر کے ہم خوب سے خوب تر ہوسکتے ہیں۔

جب ہم دنیا میں چھوٹے چھوٹے کورسز کرکے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں، ہم ڈرائیونگ سیکھتے ہیں، اپنے بچوں کو کراٹے اور دیگر کھیل کود کی سرگرمیاں سکھاتے ہیں، اپنی بچیوں کو کھانے پکانے اور سلائی کڑھائی کے مختلف کورسز کراتے ہیں تو اس سیکھنے کے عمل میں کئی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اُن غلطیوں کو غلطیاں تسلیم کرکے اُن کی اصلاح کی جاتی ہے تاکہ اُس کام میں مہارت حاصل ہوجائے۔ اس لیے اصلاح کے لیے سب سے پہلا قدم غلطی کو غلطی سمجھنا ہے۔ تنظیم میں بھی ہمارا یہی رویہ ہونا چاہیے۔ جب اس میں نئے نئے لوگ آتے ہیں، ذمہ داریاں ملتی ہیں تو ساتھ ساتھ وہ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سیکھنے کے اس عمل میں لامحالہ غلطیاں ہوں گی، اُن کی اصلاح اُسی وقت ہوگی جب اُس غلطی کی تاویل یا جواز پیش کرنے کے بجاے اُس غلطی کو مان لیا جائے۔ اگر ہم غلطیوں پر پردہ ڈالیں گے تو وہ اپنی تربیت نہیں کرسکیں گے جس طرح بچوں کے ساتھ بے جا لاڈ پیار بچے کو بگاڑ دیتا ہے۔ ہمیں غلطی اور عیب کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے۔ عیوب پر پردہ ڈالنے کا حکم ہے، جب کہ غلطی کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔

احتساب کیوں؟

محاسبہ یا احتساب کا عمل، آخرت میں کامیابی کے لیے تو ضروری ہے ہی، کہ ہم اپنی اصلاح یہیں کرلیں اور آخرت کی پکڑ سے بچ جائیں، البتہ دنیا میں بھی اپنے مقاصد کے حصول اور منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے احتساب ضروری ہے۔ جس طرح فرد کی زندگی میں آزمایش شرط ہے، اسی طرح تحریک و تنظیم بھی اندرونی اور بیرونی طور پر مختلف حالات و آزمایشوں سے گزرتی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد اللہ نے یہ بتایا ہے کہ کھرے کھوٹے کی پہچان ہوجائے۔  غزوئہ اُحد، غزوئہ خندق، غزوئہ تبوک، واقعۂ افک جیسے واقعات سے آج بھی ایک تحریک گزر سکتی ہے اور ان تمام واقعات کے بعد ان پر قرآن کے تبصرے اور حضوؐر کے طرزِعمل سے ہم بخوبی   سمجھ سکتے ہیں کہ قیادت کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ کس طرح اس ذمہ داری کو ادا کرتی ہے۔

انفرادی محاسبہ اور حکمت

تحریکِ اسلامی کا حصہ ہوتے اور کام کرتے ہوئے انفرادی کوتاہی اور کمزوری کی اصلاح ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اپنے خاندان،اپنے محلے اور اپنے ادارے میں ہمارا ایک ایک فرد اسلام کا ہی نہیں تنظیم کا نمایندہ بھی ہے۔ اُس کے رویے، اُس کے معمولات، اُس کے اخلاق اور اُس کی ساری زندگی میں کسی بھی غلطی کو تحریک و تنظیم کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔

انفرادی محاسبے کی بنیاد ہی ہمدردی اور خیرخواہی ہے۔ اس لیے اس کی غرض اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کا سہارا بن کر خدا کی راہ میں ایک ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آنے والی آزمایشوں کا مقابلہ کریں۔ ایک دوسرے کا دامن صاف کردینے والے ہوں۔ تعلق ایسا ہو کہ ایک رُکے تو دوسرا حوصلہ دے کر اُسے چلا دے۔ ایک گرے تو دوسرا بڑھ کر اُس کا ہاتھ تھام کر اُٹھا لے۔ آج کے دجّالی دورِ فتن میں ایمان کی یہ کمزوری تو ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔ تحریک میں شامل افراد کو محاسبے کی یہ فضا بنانی چاہیے۔ اس بات کو مولانا مودودیؒ نے یوں کہا:

جو لوگ خدا کی خاطر کلمۂ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت بنیں، انھیں ایک دوسرے کا ہمدرد و مددگار اور غم خوار ہونا چاہیے۔ انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مقصدِ عظیم میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہوں، اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میںسے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکیے کا طریقہ یہی ہے۔ میں گرتا نظر آئوں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں، اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔ میرے دامن پر کوئی دھبہ نظر آئے تو آپ اسے صاف کریں اور آپ کا دامن آلودہ ہورہا ہو تو میں اسے پاک کروں۔ (تحریک اور کارکن، ص۱۶۷-۱۶۸)

خیرخواہی اور غم خواری ہوگی تو محاسبہ کرنے کا سلیقہ بھی آئے گا۔ایک صحیح بات اگر غلط طریقے سے کی جاتی ہے تو نہ صرف اپنا اثر کھوتی ہے بلکہ ردعمل کے طور پر ضد اور ہٹ دھرمی بھی پیدا کردیتی ہے۔ اس لیے محاسبے کا ٹھیک طریقے کا سیکھنا بھی ضروری ہے۔ جب کسی شخص کی کوئی بات کھٹکے تو جلدی کرنے کے بجاے معاملے کو اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ صورت حال کا ہرپہلو سے جائزہ لیں، پھر اکیلے میں اُس سے بات کریں۔ اُس شخص کو اس بات کا احساس دلائیں کہ اُس کے مقام اور مرتبے کی وجہ سے اُس کی یہ چھوٹی غلطی بھی کس قدر نقصان دہ ہے۔ اُس فرد کو اس بات کا یقین دلائیں کہ یہ بات آپ نے اُس سے کہی ہے کسی اور سے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ آپ اُس سے اپنی اصلاح کا وعدہ لے لیں۔ احتساب کے اس عمل سے اُسے اپنی اہمیت کا احساس ہوگا، وہ اپنی تربیت کر کے ایک اچھا داعی بنے گا جو اُس کے لیے، تنظیم کے لیے اور معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

اجتماعی تنقید: غرض اور سلیقہ

اجتماعی تنقید کی بنیاد خیرخواہی اور اصلاح ہے۔ اس حوالے سے مولانا مودودیؒ کہتے ہیں:

اندھے مقلدوں اور سادہ لوح معتقدوں کا گروہ خواہ کیسے ہی صحیح مقام سے کام کا آغاز کرے، اور کیسے ہی صحیح مقصد کو سامنے رکھ کر چلے، بہرحال آخرکار بگڑتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ انسانی کام میں کمزوریوں کا رونما ہونا فطرتاً ناگزیر ہے اور جہاں کمزوریوں پر نگاہ رکھنے والا کوئی نہ ہو، یا اِن کی نشان دہی کرنا معیوب ہو، وہاں غفلت کی وجہ سے یا مجبورانہ سکوت کے باعث ہر کمزوری، سکون و اطمینان کا آشیانہ پاتی چلی جاتی ہے اور انڈے بچے دینے لگتی ہے۔ جماعت کی صحت اور تندرستی کے لیے رُوحِ تنقید کے فقدان سے بڑھ کر کوئی چیز نقصان دہ نہیں، اور تنقیدی فکر کو دبانے سے بڑھ کر جماعت کے ساتھ کوئی اور بدخواہی نہیں ہوسکتی۔ یہی تو وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے خرابیاں بروقت سامنے آجاتی ہیں اور ان کی اصلاح کی سعی کی جاسکتی ہے۔ لیکن تنقید کے لیے شرط لازم ہے کہ وہ عیب چینی کی نیت سے نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ اصلاح کی نیت سے ہو۔ (تحریک اور کارکن، ص ۱۹۰)

ہر سطح کی قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسا ماحول بنائے کہ ایک عام سے کارکن کے لیے سوال کرنا آسان ہو، اس بات سے قطع نظر کہ سوال اور تنقید درست ہے یا غلط۔ حضرت عمرؓ سے بھرے مجمع میں کُرتے کے زائد کپڑے کا سوال تاریخ سے ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ کسی کے تنقید کرنے پر اس کا محاسبہ کرنا اور گرفت کرنا درست نہیں۔ اس لیے کہ کارکن اُن تمام حالات سے شاید ناواقف ہو جو قیادت کے سامنے ہیں۔ ایک عام کارکن کا دینی علم و فہم بھی قائد کے مقابلے میں کم ہوسکتا ہے۔ اس لیے سمجھنے سمجھانے کا ماحول بنانا، محاسبے پہ محاسبہ کرنے کے بجاے کارکن کو اپنے رویے اور پالیسی پر مطمئن کرنا ذمہ داران ہی کا فریضہ ہے۔ تحریک کے اندر بے چینی کو نہ پھیلنے دینا اور یکسوئی سے اپنے مقصد کی طرف جدوجہد کرتے رہنا ہی قیادت کی کامیابی ہے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب سوال اور تنقید کرنے والوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ بالعموم سوال کرنے والی زبانیں کم ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی معاملے کو اپنی نظر سے دیکھنا، اپنے ذہن کو اُس پر چلانا اور مختلف پہلوئوں پر غور کرنا اور سلیقے سے بات کہنے جیسی خصوصیات کے حامل لوگ شاید پانچ فی صد سے زیادہ نہیں ہوتے۔

دوسری اہم بات جو اجتماعی محاسبے کے لیے بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تحریک اور تنظیم اپنے ہردور میں ایک تاریخ مرتب کر رہی ہے، اس لیے وقت گزر جانے کے بعد بھی اجتماعی غلطیوں کو تسلیم کرنابہت ضروری ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور صرفِ نظر کیا گیا تو بعد کی نسلیں کہیں ہماری آج کی کسی غلطی کو مثال نہ بنا لیں (۱۷ویں ترمیم پر سابق امیرجماعت اسلامی محترم قاضی حسین احمد کا قوم سے معافی مانگنا اس کی بہترین مثال ہے)۔

احتساب نہ کرنے کے نقصانات

یہاں پر احتساب نہ کرنے کے نقصانات کو سمجھ لینا بھی ضروری ہے۔ جب ہم کسی خرابی کو محسوس کرتے ہیں خواہ وہ چھوٹی ہوتی ہے یا بڑی، انفرادی ہوتی ہے یا اجتماعی، لامحالہ تین رویے سامنے آئیںگے: ۱- صرفِ نظر کردینا اور غیراہم سمجھنا، ۲- شکایت کرنا، ۳-محاسبہ کرنا۔

اگر ہم بروقت اور درست مقام پر محاسبہ نہ کریں تو لامحالہ یہ ’شکایت‘ کہلائے گی۔ اپنے کسی ساتھی کی شکایت کسی دوسرے ساتھی یا ناظم/ناظمہ سے کردینے کو ہم غیبت اس لیے نہیں سمجھتے کہ ہماری نیت ’اصلاح‘ کی ہوتی ہے، مگر ذرا ٹھیر کر یہ سوچیے کہ کیا یہ طریقہ صحیح ہے کہ جب ہم فرد سے کہنے کا حوصلہ نہیں پاتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بُرا مان جائے گا، یا یہ کہ ہم کیوں اُس کی نگاہ میں بُرے بنیں، اس لیے ہم محاسبے سے اجتناب کرتے ہیں اور شکایات کا رویہ اپناتے ہیں۔ اگر ہم شکایت کا رویّہ نہ بھی اپنائیں تو سوچتے ہیں کہ صرفِ نظر ہی بہتر ہے کہ کون کہے؟ کس سے کہے؟ بہتر ہے کہ خاموش ہی رہا جائے۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے یہاں ٹھیر کر یہ سوچنا پڑے گا کہ اِن خرابیوں اور کوتاہیوں کے بوجھ کے ساتھ آگے بڑھنے سے لوگ کیا بددل تو نہیں ہوں گے؟ تحریک کی توسیعِ دعوت کی جدوجہد کہیں متاثر تو نہیں ہوگی؟ اس لیے پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے احتساب کا۔

احتساب کا طریقہ

محاسبہ کرتے ہوئے ان اصولوں کو پیشِ نظر رکھیے:

۱- ’’برائی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو‘‘۔ (القرآن)

اگر ہم کسی فرد میں، تنظیم میں، کسی چیز کو قابلِ اصلاح سمجھتے ہیں تو سب سے پہلے یہی آیت ہمیں مجبور کرے گی کہ ہم بے ڈھنگے طریقے سے وہ کام نہ کریں۔ ہمارا لہجہ اور الفاظ کا چنائو اس بات کے مظہر ہوں کہ ہم واقعی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ دل میں اخلاص اور فرض سے عشق، احتساب کے عمل کو احسن اور فطری بنائے گا۔

۲- ہم مچھر کو چھاننے اور ہاتھی کو نگلنے والے نہ بنیں۔ فرائض اور بنیادوں کی کمزوری پر کڑا محاسبہ ضروری ہے، جب کہ بشری کمزوریوں کے نتیجے میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں اُن پر ذرا سی توجہ سے کام کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

۳- محاسبہ ہر وقت، ہر مجلس اور ہر مقام پر نہ ہو۔ جس فورم کی بات ہو، وہیں پر کی جائے۔ نہ اُوپر کی بات نیچے ہو، نہ نیچے کی بات بلاضرورت اُوپر۔ پہلے اسی سطح پر درست کرنے کی کوشش کیجیے۔

۴- احتساب کرنے سے پہلے اعتراض کی بنیاد کا واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ جس کا اظہار کسی واقعے سے ہوا ہو۔ محض گمان اور سنی سنائی بات پر احتساب سے نقصان اور فساد کا خدشہ ہے۔

۵- انفرادی محاسبے میں کم سے کم احتساب کرنے والے کو اُن باتوں کا احتساب کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو خود اُس فرد میں موجود ہوں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص خود وقت کا پابند نہیں تو اُسے وقت کی پابندی پر دوسروں کا احتساب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، یا اگر کوئی شخص بھول کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرسکا تو بھول کی یہ رخصت سب کے لیے ہو۔ البتہ اس طرح کی کمزوریوں پر اجتماعی کوششوں اور ایک دوسرے کو یاد دہانی کے ذریعے سے قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اگر آپ کا احتساب کیا جائے

ہم یہ بات مانتے ہیں اور گاہے بہ گاہے اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم بحیثیت انسان غلطیوں کا پتلا ہیں اور یہ کہ انسان ہی سے غلطیاں ہوتی ہیں وغیرہ، مگر حیرت ہے کہ ہم میں سے جب کسی کی بھی کسی غلطی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ہمیں بُرا بھی لگتا ہے اور فی الفور ہم وضاحتیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ ہم اُس وقت بھول جاتے ہیں کہ ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میں بھی بحیثیت انسان غلطی کرسکتا/سکتی ہوں۔

وضاحت اور صفائی پیش کرنا اُس فرد کا حق ہے جس پر تنقید کی جارہی ہو مگر جب بھی کسی کا محاسبہ کیا جائے تو اُس شخص کو چاہیے کہ وہ پوری بات کو تحمل سے سنے۔ جب محاسبہ کرنے والا شخص خاموش ہوجائے تو انصاف کے ساتھ اُس بات پر غور کرنے کے بعد حق بات کو تسلیم کرلے، اور اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ محاسبہ کرنے والے فرد کو کسی قسم کی بدگمانی ہوگئی ہے یا وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہے تو دلائل کی قوت سے تردید کردے اور اپنے اُس طرزِ عمل کی وضاحت کردے جس پر تنقید کی جارہی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے تنقید سن کر طیش میں آجانے کو کبر اور غرور کی علامت گردانا ہے۔

محاسبہ کرنے والے کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھنا چاہیے اور اگر اس کے بعد محبت اور تعلق میں اضافہ ہو تو سمجھ لیجیے کہ اس کا حق ادا ہوگیا لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو تو پھر فکر کرنی چاہیے کہ جس عظیم مقصد اور بلند نصب العین کو لے کر ہم چلے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دلوں کی یہ خرابی دنیا اور آخرت میں ہماری ناکامی کا باعث بن جائے۔

 

پاکستان میں پالیسی سازی پر وقتی، ہنگامی اور عارضی اقدامات کا سایہ مدتوں سے چھایا ہوا ہے۔ پہلی تعلیمی کانفرنس نومبر،دسمبر ۱۹۴۷ء نے جو رہنما اصول متعین کیے تھے، اگر انھیں خوش دلی سے اپنا لیا جاتا اور راستہ بنانے کی کوشش کی جاتی تو تیرہ بختی سے بچاجاسکتا تھا، مگر تعلیم، بدقسمتی سے ثانوی درجے کا موضوع ہی رہا۔ پیپلزپارٹی کی چوتھی حکومت نے ۹ستمبر ۲۰۰۹ء کو جو تعلیمی پالیسی منظور کی ہے، اس کا مطالعہ سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں متعدد مثبت چیزیں ہیں، کئی منفی چیزیں ہیں اور بہت سی چیزیں غیرواضح اور مبہم ہیں۔

  •   پالیسی کے پہلے باب میں تسلیم کیا گیا ہے: ’’اہلِ پاکستان کی اکثریت اپنی تہذیب و ثقافت اور اسلام سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔ اس لیے نظامِ تعلیم کو سماجی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے مضبوط بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی حقیقی اساس مذہب اور ایمان پر ہی قائم ہوسکتی ہے‘‘ (ص ۹)۔ آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’اسلامی اقدار کی اہمیت کو یہ پالیسی تسلیم کرتی ہے، جس کے تمام عناصر اس امر کا پاس و لحاظ رکھیں گے کہ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۳، ۳۶، ۳۷ اور ۴۰ کی روح کے مطابق اس عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ یہی ضابطے قابلِ فخر پاکستانیوں اور دین اسلام پر مضبوط ایمان اور عمل کے ساتھ پاکستانی ثقافت اور معاشرت کی اعلیٰ قدروں کو ترقی دے سکتے ہیں‘‘۔ (ص ۹)

اسی سلسلۂ کلام کو باب چہارم میں ’اسلامی تعلیم‘ کے زیرعنوان زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان (ص۳۱-۳۳) کیا گیا ہے: ’’اسلامی نظریہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں میں موجود ہے، جس کی وضاحت قرارداد مقاصد ۱۹۴۹ء میں کر دی گئی ہے اور اسی قرارداد مقاصد نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بنایا ہے، جو اس امر کا اہتمام کرے گا کہ اہلِ پاکستان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور قرآن وسنت کے مطابق بنائیں۔ قرآن کی تعلیمات اور اسلامیات کو لازمی بنایا جائے۔ عربی زبان کی ترویج کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں‘‘ (ص ۳۱)۔ ’’اسلامی تعلیمات کو نصاب میں سمونے کے علاوہ، ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ ثانوی درجے تک اسلامی تعلیمات اور نظریۂ پاکستان کو بامقصد طریقے سے پڑھایا جائے گا‘‘۔ (ص ۳۲)

پالیسی کے ’منصوبہ عمل‘ میں وعدہ کیا گیا ہے: ’’اسلامیات کی تدریس میں اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ مسلمانوں کے تمام بچوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں اور قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے گا‘‘ (ص ۳۲)۔ درجہ اول سے کلاس ہفتم اور پھر گریجوایشن اور پیشہ ورانہ اداروں تک، اسلامیات لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائے گی (کلاس اول اور دوم میں مربوط مضمون اور کلاس سوم سے اگلے درجوں تک اسے الگ مضمون کی حیثیت دی جائے گی)۔ اسلامیات کا اعلیٰ نصاب نویں، دسویں اور گیارہویں بارہویں جماعت میں بطور اختیاری مضمون بھی دستیاب ہوگا‘‘ (ص ۳۲)۔ اس کے ساتھ نصابی تقسیم کی تفصیلات درج ہیں، جن میں: قرآن، عبادات، سیرتِ طیبہ، اخلاقیات و حُسنِ سلوک، حقوق العباد شامل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے: ’’تربیت اساتذہ اور تربیت کے دوسرے اداروں کے نصاب میں اسلامی تعلیمات کو حصہ بنایا جائے گا۔ اس امر کا خصوصاً خیال رکھا جائے گا کہ نصابی اور تدریسی لوازمے میں اسلامی تعلیمات اور ضابطوں کے بارے میں متنازع فیہ چیزیں شامل نہ ہوں۔ غیرمسلم طلبہ کو اسلامیات کے متبادل کے طور پر اخلاقیات کی تعلیم دی جائے گی‘‘۔ (ص ۳۳)

واقعہ یہ ہے کہ اس امر کا تفصیل سے اعلان کر کے وفاقی حکومت نے عوامی اُمنگوں کی بجاطور پر پاسداری کی ہے، جس کی تحسین کرنا اور اس اعلان کو تقویت دینا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جنرل مشرف دور کی تعلیمی پالیسی دستاویزات، وائٹ پیپرز اور پھر ۲۰۰۸ء سے ۲۰۰۹ء تک تعلیمی پالیسی کی جاری کردہ دونوں دستاویزات رسمی طور پر بھی ایسے کسی اعلان اور عزم سے کوسوں دُور تھیں۔ حکومت نے اپنی آئینی ذمہ داری اور عوام کے مطالبے کو تسلیم کر کے بجاطور پر ان عزائم کو پالیسی کا حصہ بنایا ہے۔ تاہم، اس ضمن میں دو قابل توجہ پہلو ضرور ہیں: پہلا یہ کہ اس امر کی جانب کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اعلیٰ طبقاتی تعلیمی سسٹم (جس کا تعلق بیرونِ پاکستان امتحانی نظام سے ہے) میں اسے کس طرح سمویا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں کیا ’معیاری یا کوالٹی کی تعلیم‘پانے والے طالب علم، اس فیصلے سے فارغ البال ہی رہیں گے۔ سو،اس جانب عملی اقدامات کے لیے وضاحت سے بات آنی چاہیے۔

دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سیکولر اور نام نہاد ’روشن خیال اقلیت‘ کو اس پالیسی کے انھی حصوں نے سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی ہے، جس میں پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور اسلامی تعلیم کے حوالے سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ مثلاً پالیسی کا اعلان ہونے کے اگلے روزانگریزی روزنامہ ڈان نے اداریے میں لکھا (۱۱ستمبر): آخرکار تعلیمی پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے، لیکن بہت سی تعلیمی این جی اوز اس پر خوش نہیں ہیں، کیونکہ انھوں نے اصلاحِ تعلیم کے لیے جو تجاویز دی تھیں وہ اس کا حصہ نہیں بنائی گئیں۔ پالیسی بنانے والوں نے پیشہ ور عناصر کی آرا پر توجہ دینے کے بجاے سیاسی اپروچ کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی اس پر بحث کرے اور میڈیا اس بحث کو اُبھارے۔ پالیسی کا وہ پہلو اپنے اندر گہرے مضمرات رکھتا ہے، جس میں نظریاتی آہنگ کی بات کرتے ہوئے اسے دستاویز میں سمویا گیا ہے۔ نصابات میں اسلامی تعلیم کا اہتمام سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہم روشن خیالی کو پروان چڑھانے کی توقع رکھتے تھے، مگر یہاں پر تو معاملہ دوسرا سامنے آیا ہے۔ (قرآنی سورتوں کو) حفظ کرانے پر تو زور دیا گیا ہے مگر مذہب کے نام پر فہم بڑھانے کی بات نہیں کی گئی‘‘۔ [ظاہر ہے آخری چند سورتیں تو یاد ہی کی جائیں گی اور فہم دین کو بڑھانے کے لیے پالیسی میں وضاحت موجود ہے، جسے اخبار نے دانستہ نظرانداز کیا ہے]۔ اسی طرح انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز نے اداریے (۱۱ستمبر) میں لکھا ہے: ’’اسلامیات اور مطالعہ پاکستان، پاکستان کو بھرپور طریقے سے مذہبی رنگ دینے والے ایک جیسے مضامین ہیں، جن کا ایک بار پھر اعلان کردیا گیا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو پہلے ہی انتشار کا شکار ہے، اس میں ایسے مضامین کو اس مفروضے پر شامل کیا جا رہا ہے کہ شاید عقیدے کی تلقین پر اندھادھند زور نہ دینے کے نتیجے میں یہ انتشار پیدا ہوا ہے، حالانکہ یہ درست اپروچ نہیں‘‘۔

  •  طبقاتی نظامِ تعلیم کی وجہ سے امیر اور غریب طبقے کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے: نادار بچوں کا حد سے بڑا احساس عدمِ تحفظ اور امیر بچوں میں آسمانوں کو چھوتا احساسِ برتری، نفرت کی آگ پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ اس میں بنیادی کردار تعلیم ادا کر رہی ہے۔ پالیسی دستاویز میں جابجا اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ نجی شعبے کی ترقی کا موجودہ رُخ اس فساد کو بڑھا رہا ہے، لیکن اس پر کوئی معقول قدغن لگانے یا تحدید کرنے کا کوئی بامعنی نظام تجویز کرنے کے بجاے، اُلٹا اسی نجی شعبے کو پروان چڑھانے کا پیغام دیا گیا ہے۔
  •  اسی طرح اس پالیسی کا سب سے کمزور پہلو یکساں نظامِ تعلیم کی وضاحت سے منسلک ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پالیسی ساز اس مسئلے کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ یکساں نظامِ تعلیم سے مراد نصاب، امتحان، ذریعۂ تعلیم اور سہولیات میں یکساں معیار پیش کرنا ہے۔ جس کے بعد ہر ادارہ اور ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق اس میں اضافہ کرنے کی آزادی برت سکے۔ مگر یہاں پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیرملکی امتحانی نظام سسٹم کو برقرار رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ ہم یکساں نظامِ تعلیم کی جانب بڑھ رہے ہیں تو یہ خود فریبی ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم کے لیے لازم ہوگا کہ اس غیرملکی امتحانی سسٹم کو بے دخل کر کے اپنے امتحانی نظام کو بہتر اور مؤثر بنایا جائے۔ نصاب کو جامع اور سہولیات کو وافر تعداد میں مہیا کیا جائے۔ لیکن اگر یہ چیزیں نہیں ہوتیں تو محض یہ کہہ دینا کہ ہم اپنے نصاب کو اے لیول تک پہنچا کر دم لیں گے، دیوانے کی بڑ سے زیادہ وزن نہیں رکھتی، کیونکہ اُس نصابی سسٹم کے اپنے تقاضے ہیں، جنھیں پورا کرنا حکومت کے بس میں نہیں، البتہ اپنے سسٹم کو بنانا ممکن ہے۔
  •  ’ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم، کے باب میں اس تجویز نے تو اہلِ پاکستان کو چکرا کر رکھ دیا ہے کہ: ’’گیارھویں اور بارھویں جماعت کا تعلق اب کالج کی سطح پر تعلیم سے نہیں ہوگا، بلکہ اسے موجودہ ہائی اسکولوں میں ضم کردیا جائے گا… تفصیلی مطالعے اور جائزے کے بعد اس فیصلے پر عمل کیا جائے گا، کہ اس نوعیت کی کوششیں ماضی میں ناکام کیوں رہیں‘‘ (ص ۳۸)۔ یہاں پر ڈیڑھ سو سال کی اس تعلیمی انتظامی تقسیم کو بہ یک جنبش قلم ختم کرنے کی خواہش کے پیچھے کم علمی یا حد سے بڑھی مرعویت اور مغرب زدگی کارفرما ہے۔

یہ چند سو انگریزی میڈیم اسکولوں کا شاخسانہ ہے کہ اہلِ حل و عقد کو چاروں طرف اُسی نوعیت کی چیزیں بھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ بارھویں تک کلاسوں کو ہائی اسکولوں کے سپرد کرنے کی تجویز کے پیچھے کسی باقاعدہ مطالعے کو پیش نہیں کیا گیا۔ چونکہ تجویز کنندگان برطانوی جی سی ای (A/O) سسٹم ہی سے واقف ہیں، اور وہ سسٹم بہرحال اسکول ہی میں بارھویں تک تعلیم کی ذمہ داری لیتا ہے، اس لیے انھوں نے یہاں کے لیے بھی اسی لاٹھی کو گھماکر بلاسوچے سمجھے تعلیمی معیار بلندکرنے کا خواب دیکھا اور زمینی حقائق کو بالکل ہی نظرانداز کردیا۔

یہاں بدقسمتی سے اسکول کی تعلیم پر خوف اور ڈر کے سایے حاوی رہتے ہیں۔جونہی  طالب علم اسکول سے نکل کر کالج کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اسے کچھ آزادی اورآسودگی نصیب ہوتی ہے۔ یہ چیز اس کی ذہنی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ موجودہ تجویز اس فضا کا خاتمہ کر دے گی۔ پھر اسکولوں کی لائبریری، لیبارٹریاں، اساتذہ کی علمی اور تربیتی استعداد، ہرچیز میں موجود کمی کو نظرانداز کرکے یہ کہہ دیا ہے کہ انٹرکلاسوں کا کالج سے تعلق نہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اسکولوں میں اتنے بڑے پیمانے پر کالج کے اساتذہ کو کس معیار پر تبدیل کرکے بھیجا جائے گا، یا ان اسکولوں کے لیے انٹر کے مزید اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کلاسیں ہائی اسکولوں میں چل سکیں گی یا نہیں چل سکیں گی، مگر یہ ضرور ہوگا کہ دو چار سال میں ایک نسل کے دو پورے گروپ تباہ کرنے کے بعد دوبارہ انھی کالجوں میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں کو لایا جائے گا۔ اس نوعیت کے اُلٹے تجربے اسی بے چارے قومی نظامِ تعلیم کے ساتھ روا رکھے جا رہے ہیں، اور اب تو وہ بھی عوامی نمایندوں کے ذریعے۔ مزید یہ بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کالجوں کی عمارات اور سہولیات سے کیا کام لیاجائے گا؟ پالیسی اس باب میں خاموش ہے۔ اگر چارسالہ ڈگری کورس کالجوں میں متعارف کرانا ہے تو اس کے لیے ۳۰ ارب روپے سے زیادہ رقم اور کم از کم چار سال کی تیاری درکار ہے۔ مگر ایسے کسی متبادل بندوبست کو بھی پالیسی میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کالج کی انٹرکلاسوں کو اسکولوں میں دفن کر کے کالجوں کی باقی عمارتیں، ڈیڑھ ارب سالانہ امریکی ڈالروں کے ذریعے ’سرکاری نجی شراکت‘ کے ہاتھوں این جی اوز یا پراپرٹی مافیا کی بھینٹ چڑھ جائیں گی (یاد رہے امریکا نے حکم دیا ہے کہ وہ یہ خطیر رقم حکومتی ایجنسیوں یااداروں کے ذریعے نہیں بلکہ امریکی سفارت خانہ براہِ راست پاکستان کے نجی اداروں کو دے گا۔ اور افسوس کہ کشکول بکف حکمرانوں نے یہ ذلت آمیز حکم نامہ بھی تسلیم کرلیا ہے)۔ ظاہر ہے کہ ڈگری کالج کی اتنی بڑی عمارت سو ڈیڑھ سو بی اے کے طالب علموں کے لیے مخصوص کرکے، باقی حصے کو بھوتوں کا مسکن تو نہیں بنایا جائے گا۔ اور جب اسکولوں سے انٹرکلاسیں خوار ہونے کے بعد آخرکار واپس کالج میں آئیں گی تو واقعی عالمی بھوتوں نے اس کالج کے خاصے بڑے حصے پر قبضہ جما لیا ہوگا اور ان کے ہاتھوں میں حکومت سے معاہدے کی دستاویزات ہوں گی، جنھیں آئینی تحفظ مل چکا ہوگا۔ یقین نہیں آتا کہ ایک عوامی جمہوری حکومت، تاک میں بیٹھے مفاد پرستوں کی اس سازش سے بے خبر ہوگی۔ یہ بھی درحقیقت اسی نوعیت کا تماشا ہے کہ کبھی نہم دہم اور گیارھویں بارھویں کا امتحان الگ الگ اور کبھی دو دو سال بعد، پھر چند برسوں بعد وہی سالانہ امتحان بورڈ کے تحت۔ یہ ظالمانہ تجربے اس جاں بہ لب سرکاری نظامِ تعلیم پر ہی کیے جاتے ہیں جیسے اس کا کوئی والی وارث نہ ہو، اور اعلیٰ طبقاتی تعلیمی نظام کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔

  •  اساتذہ کے حوالے سے بہت سی عملی تجاویز پالیسی میں درج ہیں۔ مثال کے طور پر: ’’دیہی اور دُور دراز علاقوں میں جانے والے اساتذہ کو اضافی الائونس دیے جائیں گے‘‘ (ص ۴۴)۔    یہ ایک درست قدم ہے۔ پھر یہ کہ ’’پبلک سروس کمیشن سے منتخب کردہ لیکچروں کو قبل از ملازمت ۶ماہ کی تدریسی تربیت دی جائے گی‘‘ (ص ۶۰)۔ اسی طرح متعدد مثبت تجاویز پیش کی گئی ہیں، لیکن تربیت اساتذہ کے بہت سے سرکاری اداروں کی موجودگی میں: ’’تربیت اساتذہ کے لیے ’سرکاری نجی شعبے کی شراکت‘ سے کام کرنے‘‘ (ص ۴۴) کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ دراصل اس ’معصوم‘ تجویز کے ذریعے تربیت اساتذہ کے سیکڑوں ادارے، این جی اوز اور نجی شعبے کے دست برد میں آجائیں گی (یاد رہے کہ ان اداروں کی نہایت قیمتی جگہیں، عمارتیں اور ہاسٹل شہروں کے قلب میں واقع ہیں)۔ یوں بڑی تیزی سے تربیت اساتذہ کا شعبہ بھی کسی یو ایس ایڈ یا ان کی کسی این جی او کے ذریعے عالمی ساہوکاری کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ مناسب صورت یہی ہے کہ ان سرکاری تربیتی اداروں کے نصاب، معیار اور سہولتوں کو بہتر بناکر اساتذہ کو تربیت دی جائے، اور نجی شعبے کے تعاون کی مذکورہ کثافت سے قوم کو محفوظ رکھا جائے۔
  •  تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی منتخب یونینوں کے قیام کا مطالبہ ایک مدت سے اٹھایا جا رہا ہے۔ فروری ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے معیارِ تعلیم میں بلندی اور تعلیمی اداروں میں تصادم کی فضا ختم کرنے کے دعوے سے یہ پابندی عائد کی تھی۔ مگر حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی حلقوں نے اس پابندی کے نتیجے میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے بجاے، اسے: تعلیمی نج کاری، نجی شعبے کی گرفت کو مضبوط بنانے، تعلیم کے نام پر لوٹ کھسوٹ کے عمل کو تیز کرنے، فیسوں میں من مانے اضافے کرنے، ورلڈ بنک کے ’تعلیمی ذمہ داری سے دُور بھاگو‘ منصوبے پر عمل درآمد اور تعلیمی ذمہ داری سے حکومت کے فراری رویے کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا۔ ۲۰۰۷ء میں پیپلزپارٹی نے انتخابی منشور میں وعدہ کیا کہ وہ اسٹوڈنٹس یونین کے ادارے کو بحال کرے گی، تاہم اس سمت میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ زیربحث پالیسی دستاویز میں اس وعدے کو ایفا کرنے کی نیت کا ان الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے: ’’ایک ضابطہ اخلاق تجویز کیا جائے گا، جس کے تحت اسٹوڈنٹس یونین تعلیمی اداروں کا ماحول متاثر کیے بغیر صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دے سکے گی‘‘(ص ۴۹)۔ گویا کہ فیصلہ اب بھی بحالی کا نہیں ہوا، اور نہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین صرف سرکاری اداروں میں کام کریںگی یا ان کا انعقاد نجی تعلیمی اداروں اور نجی یونی ورسٹیوں میں بھی ہوگا؟ اگر یہ صرف سرکاری شعبے تک محدود رکھی جاتی ہیں تو اس ادارے کی بحالی کا مقصد فوت ہوجائے گا۔
  •  نصابی اصلاحات کے باب میں یہ بات درست نہیں ہے :’’۲۰۰۵ء میں اسکولوں کے نصاب کے جامع تجزیے کا کام شروع کیا گیا، جس میں پہلی سے ساتویں جماعت تک کے ۲۵بنیادی مضامین کا جائزہ لیا گیا‘‘ (ص ۴۴)۔ درحقیقت نصابی جائزے کے اس عمل پر ماہرین تعلیم کو شدید اختلاف اور بجا طور پر ذہنی تحفظات تھے کہ یہ آئینی طریقے اور ضابطے کی کارروائی سے ہٹ کر، مخصوص لابی کا عمل تھا۔ جس نے تاریخ، اخلاق اور متن کے حوالے سے شدید خرابیاں پیدا کردی تھیں، ایسے متنازع عمل کی تحسین ایک نامناسب قدم ہے۔ تاہم پالیسی ایکشن کے تحت یہ درست بات کہی گئی ہے: ’’نصابی ترقی اور تجزیے مع نصابی کتب کے جائزے کا کام ۱۹۷۶ء کے تعلیمی ایکٹ کی روشنی میں کیا جائے گا‘‘ (ص ۴۵)۔ یہی درست طریق کار ہے، جسے ضابطے اور جمہوری روح کے مطابق روبہ عمل آنا چاہیے۔ آگے چل کر یہ کہا گیا ہے: ’’انٹرپراونشنل اسٹینڈنگ کمیٹی آن ٹیکسٹ بک پالیسی قائم کی جائے گی جو متعلقہ معاملات کی نگرانی کرے گی‘‘ (ص ۴۷)۔ ایسی کمیٹی لازمی طور پر تضیع اوقات، پیچیدگی اور بے جا اختلاف کو پیدا کرنے کا سبب بنے گی، موزوں طریقہ وہی ہے کہ: ’’۱۹۷۶ء کے فیڈرل سپرویژن آف کریکولا، ٹیکسٹ بکس اینڈ مینٹی ننس آف سٹینڈرڈز آف ایجوکیشن ایکٹ کے دائرۂ عمل کو بروے کار لایا جائے گا‘‘۔
  •  ’’وسائل کو تعلیم کی طرف موڑنے کے لیے: پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘‘ (ص ۲۰) پر زور دیا گیا ہے۔ یہ تجویز ایسی دو دھاری تلوار ہے کہ جس میں اُونٹ کی زبردستی والی کہاوت کے صادق آنے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ مناسب یہی ہوگا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو سرکاری انتظام ہی میں وسائل اور سہولیات کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے اور نجی شعبے کو کسی ضابطے کے تحت اور ریاستی قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے تعلیمی خدمات میں حصہ ادا کرنے کو کہا جائے۔ لیکن یہ سرکاری اداروں میں نجی شعبے کی شراکت، بیرونی مداخلت اور آخرکار قبضے کا راستہ کھولے گی اور سرکاری شعبہ رفتہ رفتہ سکڑ کر رہ جائے گا اور خود حکومت بھی یہ سمجھ کر چپ سادھ لے گی کہ چلیں ادارے کا نظام کسی نہ کسی شکل میں نجی شعبہ چلا رہا ہے، اس لیے اس کو چلنے دیا جائے، مگر یہ جان چھڑانے والا رویہ درست نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی تعلیمی اثاثہ جات کی حفاظت کرے اور انھیں ترقی دینے کے لیے موزوں حکمت عملی ترتیب دے، نہ کہ این جی اوز کو سپرد کر کے پُرسکون ہوبیٹھے۔
  •  ’’یونی ورسٹیاں چارسالہ مربوط ڈگری پروگرام متعارف کرائیںگی‘‘ (ص ۵۹)۔ یہ عجیب شتر گربگی ہے کہ پاکستان میں بہ یک وقت دو سالہ اور چار سالہ ڈگری پروگرام چل رہے ہیں۔ اگر چار سالہ پروگرام چلانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تو اسے مناسب تیاری کے ساتھ پورے ملک میں بہ یک وقت شروع کرنا چاہیے، لیکن اگر اس کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں تو پھر انھیں محض چند  یونی ورسٹیوں کی مرضی پر چھوڑ دینا مناسب نہیں ہوگا (چار سالہ ڈگری کورسوں کا متعدد اداروں میں جو حشر ہو رہا ہے، اگر اس کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جائے گی)۔ گویا کہ مہنگے تعلیمی اداروں میں فیس دینے والا چار سالہ کورس پڑھے اور غریب و نادار دو سالہ ڈگری پروگرام پاس کر کے بے کار بیٹھے۔ یہ ہماری تعلیمی زندگی کا نہایت اہم پہلو ہے، جس میں لاکھوں طالب علم معلق ہوکر رہ گئے ہیں۔
  •  ’’فرار ذہانت (brain drain) پاکستان کا سخت تکلیف دہ مسئلہ ہے‘‘ (ص ۵۷)۔ پالیسی میں یہ نوحہ تو لکھ دیا گیا ہے، مگر پوری پالیسی درحقیقت تیاری ہی اس چیز کی کر رہی ہے کہ پاکستان سے انسانی جوہرخالص فرار ہوجائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ اعلیٰ طبقاتی تعلیمی ادارے ایسی نسل کو تیار کرنے میں ناکام ہیں جو تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں رہنا پسند کرے۔ یہ اے /او لیول کے فارغ التحصیل  طالب علم اپنی تعلیم کے ابتدائی زمانے ہی سے پیرس، لندن اور شکاگو کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، اور پھر ان کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہمارے پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے معاون بھی ثابت نہیں ہوتے۔ یوں بڑی خوشی سے پڑھی لکھی سستی لیبر ہر سال باہر دھکیل دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’فرار ذہانت‘ کے المیے سے نمٹنے کے لیے قومی تعلیمی پالیسی کو نہ صرف مضبوط، توانا اور ترقی یافتہ بنانے والی دستاویز کی شکل دی جائے بلکہ اسے اسلامی اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار بھی کیا جائے۔ مگر افسوس کہ خود حکمران طبقہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے اعلیٰ طبقاتی نظامِ تعلیم کی طرف کوئی انگلی اُٹھائے۔ تعلیمی پالیسی کے اعلان ہونے کے دوسرے روز پاکستان کے ایک دانش ور نے وفاقی وزیرتعلیم سے کہا: ’’جناب سرکاری تعلیمی ادارے اس وقت درست ہوجائیں گے جب مقتدر طبقہ، سیکرٹری حضرات اور ارکانِ پارلیمنٹ و وزرا اپنے بچوں کو ان اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجیں گے‘‘۔ اس پر جناب وزیرتعلیم ہزارخاں بجارانی نے فوراً کہا: ’’ہم اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں نہیں بھیج سکتے‘‘(روزنامہ جنگ، ۱۱ستمبر ۲۰۰۹ء)۔ ان کا یہ بے ساختہ ردعمل ہی قومی تعلیمی نظام کے بارے میں حکمرانوں کی سنجیدگی کو ظاہر کردیتا ہے۔
  •  ذریعہ تعلیم کے مسئلے کو بھی اس پالیسی میں ابہام کی نذر کیا گیا ہے۔ انگریزی کی اچھی تعلیم سے کوئی انکاری نہیں، لیکن جس انداز سے انگریزی کی تعلیم دی جارہی ہے، وہ قوم کو فاضل بنانے کے بجاے، محرومی، ناکامی اور مایوسی کے غار میں دھکیلنے کا ذریعہ ہے۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ابتدائی زمانے ہی میں انگریزی کا بوجھ لاد دیا جائے۔ ابتدائی زمانے میں بچوں کو قومی زبان میں پڑھنے اور زیادہ دوستانہ ماحول میں سمجھنے کی سہولت دی جائے۔ قومی زبان میں دین، اخلاقیات، تاریخ، روایات، کلچر وغیرہ کے بارے زیادہ سے زیادہ ذخیرہ الفاظ، بچوں کی یادداشت کا حصہ بنا دیا جائے، تاہم جماعت ششم سے انگریزی کی تدریس کو زیادہ بہتر بنایا جائے۔ یہ چیز ان میں لیاقت پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ محض انگریزی کے چند ابواب کو پانچویں تک پڑھا دینے سے انگریزی میں کوئی بہتر استعداد پیدا نہ ہوگی۔ لیکن افسوس کہ غیرحکیمانہ طریقے سے مسئلے کا حل یہی سمجھ لیا گیا ہے کہ انگریزی کو پہلی سے لازم کردیا گیا تو تمام دکھوں کا مداوا ہوجائے گا۔ یہ ایک غیرسائنسی اور غیرتعلیمی رویہ ہے۔ اس پالیسی میں بھی اسی کے آثار دکھائی دیتے ہیں جن پر نظرثانی ضروری ہے۔
  •  صحت، صفائی اور علاج معالجے کی بنیادی معلومات ایک پڑھے لکھے فرد کے لیے ضروری ہیں، تاہم اس ضرورت کے نام پر جب یہ کہا جاتا ہے: ’ایڈز اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں نصاب میں لوازمہ شامل کیا جائے گا‘‘ (ص ۴۵) تو بات دوسری سامنے آتی ہے۔ اور وہ یہ کہ اسکولوں کالجوں میں جنسی تعلیم دی جائے گی۔ ابھی یہ پالیسی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں پہنچی کہ: ’’سندھ حکومت نے کالجوں میں جنسی تعلیم کے پروگرام پر عمل درآمد کی ہدایت کردی ہے‘‘ (روزنامہ ڈان، ۱۶ستمبر ۲۰۰۹ء)۔ کمرۂ تدریس میںیہ تفصیلات کس اسلوب میں بیان کی جائیں، اس پر کچھ زیادہ بحث کی ضرورت نہیں، البتہ ’روشن خیالی‘ کی ایک اور منزل ضرور سر ہوجائے گی۔
  •  اسی طرح زیرنظر تعلیمی پالیسی نے مسائل کا جامع حل پیش کرنے کے بجاے کوئی نصف درجن کمیٹیوں اور کمشنوں کی نوید سنائی ہے کہ جو مختلف مسائل کا حل پیش کریں گے۔اگر تمام اہم معاملات پر تحقیق اور فیصلے کرنے ابھی باقی ہیں، تو پھر اس ادھوری پالیسی کو پیش کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا باقی تمام مرکزی موضوعات (مثلاً ذریعہ تعلیم، نصاب، اسٹوڈنٹس یونین، امتحانی نظام، چارسالہ ڈگری وغیرہ) بعدازاں ایک سیکشن آفیسر کے آرڈر سے پالیسی بننے جارہے ہیں؟ اس ایڈہاک ازم کے بجاے مناسب ہوگا کہ پالیسی دستاویز کو ان معاملات کے حل کے ساتھ ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے، تاکہ جامع پیکج پر قوم کے نمایندے کوئی فیصلہ کرسکیں۔

پاکستان کا مستقبل محض تعلیمی تجربات و خوش کن اعلانات سے تابناک نہیں ہوسکتا۔ زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پالیسی کو تشکیل دینا ہوگا۔ اسے مثالی پالیسی قرار دینا اس لیے ممکن نہیں کہ مختلف ٹکڑے غیرمربوط انداز سے جوڑکر پیش کر دیے گئے ہیں۔ تاہم، اس کے اچھے پہلو قابلِ تحسین ہیں اور مبہم یا منفی پہلوئوں میں بہتری لانی چاہیے۔ یاد رہنا چاہیے کہ یہ پالیسی کسی پارٹی کا وثیقہ نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کی امانت ہے، اور اسے قرار واقعی توجہ ملنی چاہیے۔ اس لیے حقائق کی دنیا سے اس پالیسی کا تعلق جوڑنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

 

گذشتہ سالوں کی نسبت اس برس رمضان المبارک میں حرمین شریفین حاضری دینے والوں کی تعداد قدرے کم تھی۔ کچھ نہ کچھ عمل دخل اقتصادی بحران اور مہنگائی کا بھی تھا، لیکن زیادہ  اہم وجہ سوائن فلو (H1M1) کی وبا تھی۔ اگرچہ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے لاکھوں لوگوں کی موجودگی کے باوجود، الحمدللہ اس وبا کے شکار افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن بدقسمتی سے بعض ممالک میں اس وبا کو ایک ایسا ہوّا بنا دیا گیا کہ آنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ رمضان المبارک میں عمرہ کرنے والوں اور زائرین کی تعداد میں گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں حج وعمرہ کی طرف لوگوں کی بڑھتی ہوئی یہ رغبت بھی دنیا میں دینی رجحان اور اسلامی بیداری میں اضافے کا ایک مظہروپیمانہ ہے۔ صرف حج و عمرہ ہی نہیں رمضان المبارک میں اعتکاف، دروسِ قرآن، ختم قرآن اور تراویح کے علاوہ آخری عشرے میں قیام اللیل کا مزید اہتمام بھی، اسی دینی روح میں اضافے کی علامت و دلیل ہے۔

بیت اللہ کے گرد دیوانہ وار طواف کرتے ان پروانوں کا ہجوم اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری کی تڑپ دل میں سجائے ان زائرین کو دیکھ کر اہلِ ایمان کے دل ہمیشہ مسرت سے جھوم اُٹھتے ہیں۔ سب سے زیادہ طمانیت اس امر کی ہوتی ہے کہ ہم ایک ہمہ گیر اُمت ہیں۔ دنیا کا کوئی کونہ، کوئی رنگ،کوئی نسل، کوئی زبان، کوئی قوم ایسی نہیں جو ہمارے جسد کا حصہ نہ ہو۔ ہم   سب ایک ہی رب، ایک ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ایک ہی قرآن کے ماننے والے ہیں۔ رب کے دربار میں پہنچ کر ہر غنی و فقیر، ہر شاہ و گدا، ہر حاکم و محکوم، سب ایک ہی سفید لباس پہننے کے پابند ہیں۔ سب کی زبان پر ایک ہی نغمۂ توحید جاری ہوجاتا ہے۔ عالم و اُمّی ، عابد و عاصی سب اسی سے معافی اور اسی سے عافیت کی التجا کرتے ہیں۔

  •  دل اس مساوات اور وحدت پر سپاس گزاری اور شکر کے جذبے سے معمور تھا کہ قریب بیٹھے ایک یمنی نوجوان کی گفتگو نے ازحد رنجیدہ و ملُول کردیا۔ تعارف ہونے پر اس نے پہلے   وادیِ سوات، اس کے فوجی آپریشن اور لاکھوں بے گھر ہونے والوں کے بارے میں دریافت کیا اور پھر شمالی یمن میں سعودی سرحد کے قریب واقع صوبہ ’صعدہ‘ میں یمنی فوج اور حُوثی قبیلے کے درمیان وسیع پیمانے پر لڑی جانے والی جنگ کی سنگینی بیان کرنا شروع کر دی۔ یمن میں زیدی شیعہ افراد کافی تعداد میں ہیں۔ چند برس پیش تر یمن کے دارالحکومت صنعاء جانے کا اتفاق ہوا تھا تو مساجد میں اہلِ سنت اور زیدی حضرات شانہ بشانہ مشترکہ طور پر نمازیں ادا کرتے تھے۔ ہم نے مغرب کی نماز ایک بڑی اور تاریخی مسجد میں ادا کی تھی۔ زیدی عقائد کے مطابق مغرب اور عشاء کی نمازوں میں آدھ پون گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ باقی افراد نمازِ مغرب کے بعد چلے گئے، زیدی مذہب کے پیروکار مسجد ہی میں مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہوکر دروس و اذکار میں مصروف رہے اور پھر نماز عشاء کے لیے صف بندی شروع ہوگئی۔

صوبہ صعدہ میں اب حُوثی قبیلے کے افراد سے ایک بڑی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اگرچہ اس جنگ کی بنیاد مذہبی اختلاف نہیں ہے لیکن برسرِپیکار حُوثیین کی اکثریت زیدی ہے جنھوں نے مرکزی حکومت سے بغاوت کا اعلان کر رکھا ہے۔ واضح رہے کہ یمنی صدر خود بھی زیدی ہے۔ اس لڑائی میں اب تک سیکڑوں افراد کے مارے جانے کی اطلاعات آچکی ہیں۔ ہزاروں خاندان ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ طرفین بھاری اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔ یمنی نوجوان جو اَب سعودی عرب کی ایک یونی ورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دے رہا ہے، بتا رہا تھا کہ اس لڑائی کے کئی پہلو ناقابلِ فہم اور کئی انتہائی تشویش ناک ہیں۔ سب سے ناقابلِ فہم بات تو یہ ہے کہ خود حکومت اس لڑائی کو طول دینا چاہتی ہے۔ ۲۰۰۴ء سے جاری اس بغاوت اور جھڑپوں میں کئی مواقع ایسے آئے کہ جب بغاوت کرنے والوں کا مکمل خاتمہ یقینی تھا، لیکن عین موقع پر صدر کی مداخلت کے باعث جنگ کو فیصلہ کن ہونے سے روک دیا گیا۔ دوسری طرف باغیوں کی طرف سے بھی ایک طویل مدتی جنگ لڑنے کے اعلان کیے جا رہے ہیں۔

عین رمضان المبارک کے تیسرے عشرے کے آغاز کے موقع پر صدر علی عبداللہ صالح نے الجزیرہ ٹی وی چینل کو مفصل انٹرویو دیتے ہوئے ایران کا نام لے کر بیرونی مداخلت کا الزام لگایا۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی حکومت تو نہیں، البتہ ایران کی اہم تنظیمات و شخصیات کی طرف سے باغیوں کو مدد دی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مؤثر ایرانی ادارے اور افراد ہمیں مصالحت کروانے کی پیش کش بھی کررہے ہیں۔ اسی طرح عراق کے معروف شیعہ رہنما مقتدی الصدر بھی پیش کش بھی کررہے ہیں کہ وہ باغیوں اور حکومت میں مصالحت کروانے کے لیے تیار ہیں۔ صدرمملکت نے الزام لگایا کہ اس کا واضح مطلب ہے کہ ان لوگوں کا باغیوں سے رابطہ اور تعلق ہے، وگرنہ وہ کیسے مصالحت کروا سکتے ہیں۔ یمنی صدر کے ان الزامات کے بعد حُوثی باغیوں سے ہی نہیں دو مسلمان ملکوں کے درمیان کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جنگ کی ایک سنگینی اس کا عین سعودی عرب سرحدوں سے قریب ہونا ہے۔ سعودی عرب میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ صدر علی عبداللہ صالح اس لڑائی کے پردے میں سعودی عرب سے بھی کئی پرانے حساب چکانا چاہتا ہے کیونکہ سعودیہ اور یمن کے درمیان سرحدوں کی نشان دہی کے حوالے سے قدیم اختلافات چلے آرہے ہیں۔

اب اس جنگ میں سلفی عناصر کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سعودی سرحد سے قریب برسرِپیکار ایک شیعہ گروہ کا سامنا کرنے کے علاوہ باقاعدہ افواج کے ساتھ   سلفی نوجوانوں کی شرکت ضروری ہے۔ بعض اہم سلفی قائدین نے صدر علی عبداللہ صالح کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے ’دفاعِ وطن‘ کی خاطر مسلح جدوجہد کا اعلان بھی کیا ہے۔

علاقے میں جنگ کے باعث ایک خدشہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر یمنی مہاجرین کی بڑی تعداد نے سعودی سرحد پار کر کے وہاں پناہ لے لی تو پناہ گزین کیمپ کے مسائل کے علاوہ ، اس صورت حال کو مختلف عالمی اداروں کی طرف سے سعودی عرب میں مداخلت کا بہانہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔

  •  یمنی نوجوان سے اس جنگ اور اس کے مہلک نتائج پر گفتگو میں یمن کے بعد عراق اور افغانستان کا ذکر چل نکلا۔ رمضان المبارک ہی میں عراق اور افغانستان میں بھی خوں ریزی کے مہیب واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ آئے روز دھماکوں اور فوجی کارروائیوں میں معصوم افغانوں کو شہید کردیے جانے پر غیور یمنی رنجیدہ تھا۔ پٹرول لے جانے والے ٹینک پر ناٹو افواج کی اندھادھند فائرنگ اور ۴۰ کے قریب افراد کے قتل کے اندوہناک تازہ واقعے نے بھی خون کے آنسو رُلا دیا۔ انھی دنوں بغداد میں کئی وزارتوں کی پوری کی پوری عمارتیں دھماکوں سے اُڑا دی گئیں۔

امریکی مداخلت کے بعد سے مسلسل جاری ہلاکتوں کے اس خونیں کھیل میں، عراقی حکومت، پڑوسی ملکوں پر مداخلت کے الزامات لگاتی چلی آرہی ہے۔ حالیہ دھماکوں کے بعد عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے حکومتِ شام پر الزام لگایا ہے کہ وہ دہشت گردی کی پشتیبانی کر رہی ہے۔ سفارت کاروں کو دی گئی دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے پڑوسی ملک پر الزامات کے اعادے نے شام اور عراق کے درمیان تلخی اور تنائو میں پھر اضافہ کر دیا ہے۔ عراق کے بقول امریکی افواج اور عراقی حکومت کے خلاف ’دہشت گردی‘ کی کارروائیوں میں شامی سرحد سے آنے والے ’انتہاپسند‘ شریک ہیں۔ اختلافات کی اس بڑھتی ہوئی خلیج کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کے لیے علاقے کے دیگر ممالک بھی فعال ہورہے ہیں، بالخصوص ترکی کا کردار غیرمعمولی ہے۔ تازہ عراقی الزامات اور شام کی طرف سے جوابات کے بعد ترکی وزیرخارجہ نے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل سے مل کر عراق و شام کے وزراے خارجہ سے مشترکہ مذاکرات کیے ہیں جو فی الحال مثبت بتائے جارہے ہیں۔

  •  شام پر الزامات میں عراقی و امریکی حکومت ہی نہیں لبنانی حکومت بھی شریک ہے۔ سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کا الزام بھی شام پر لگایا گیا تھا۔ گذشتہ کئی عشروں سے لبنان میں موجود شامی افواج کا انخلا انھی الزامات و اختلافات کے بعد عمل میں آیا تھا۔ بعدازاں جب فلسطین پر قابض صہیونی افواج اور حزب اللہ کے مابین جنگ ہوئی تو شام ایک بار پھر عالمی الزام تراشی کا محور بنا۔ پھر لبنان میں سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا تو شام پر دبائو میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اب تقریباً چار ماہ ہوگئے لبنان میں انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ گذشتہ جون میں لبنانی صدر نے رفیق حریری کے بیٹے سعدالحریری کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرتے ہوئے حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی۔ تب سے سیاسی مذاکرات اور جوڑ توڑ جاری تھے۔ وسط رمضان میں سعدالحریری نے کابینہ کی ایک تجویز پیش کی۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایک قومی حکومت ہوگی، لیکن حزب اللہ سمیت اپوزیشن جماعتوں نے یہ وزارتوں کی تقسیم کے لیے سعدالحریری کا پیش کردہ فارمولا مسترد کردیا۔ نتیجہ سعد کو حکومت کی تشکیل سے معذرت کرنا پڑی۔ اب دوبارہ سے مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔ صدر نے قانونی تقاضے کے تحت تمام جماعتوں کے پارلیمانی نمایندوں سے  دوبارہ مذاکرات کے بعد پھر سعد کو وزیراعظم نامزد کیا ہے لیکن سیاسی اختلافات کا بخار ٹوٹنے کو نہیں آرہا۔ اُمت کے حوالے سے مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ حریری گروپ، ایران اور شام پر اور حزب اللہ و اپوزیشن سعودی عرب پر الزامات کی تکرار کر رہا ہے۔
  •  رمضان المبارک اور حرمین شریفین میں وحدت و مساوات کے روح پرور مناظر کے دوران میں ہی متحدہ عرب امارات اور ایران کے درمیان اختلافات میں بھی اچانک اضافہ دیکھنے کو آیا۔ متحدہ عرب امارات کے ساحلوں کے نزدیک چھوٹے چھوٹے تین جزیرے طُنب الصغریٰ، طُنب الکبریٰ اور ابوموسیٰ عرصے سے نزاع کا باعث ہیں۔ دونوں ملک ان پر ملکیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ چند سال پیش تر ایران نے ان جزیروں پر باقاعدہ فوجیںاُتار دیں اور کہا کہ تاریخی لحاظ سے یہ تینوں جزیرے ایران کا اٹوٹ انگ ہیں۔ یہ شکر ہے کہ اس اختلاف نے مسلح جھڑپوں کی صورت اختیار نہیں کی، لیکن اختلاف گاہے بگاہے نمایاں اور ان کی لَے بلند ہوجاتی ہے۔ اب امارات نے ابوظبی سے کچھ شیعہ علما کو ایران واپس بھجوا دیا ہے اور جواباً ایران نے اٹوٹ انگ کا اعادہ کیا ہے۔ اسی طرح کا ایک چھوٹا سا سرحدی تنازعہ سعودیہ اور امارات کے درمیان بھی ہے۔ علاقے میں تیل کے ذخائر کے حوالے سے ان سب علاقوں کی بڑی اہمیت بیان کی جاتی ہے۔
  •  حرمِ مکہ میں فلسطین سے آئے ہوئے حماس کے قائدین اور موجودہ صومالی حکومت کے ایک وزیر سے بھی ملاقات ہوئی۔ حماس کے ذمہ داران غزہ میں جاری محاصرے اور ۱۵ لاکھ محصور فلسطینیوں کی ناگفتہ بہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کا یہ شکوہ مزید رنجیدہ کرنے کا سبب بنا کہ عالمِ اسلام اور اُمت مسلمہ غزہ کے اس حصار سے یوں لاتعلق بیٹھی ہے جیسے ان ڈیڑھ ملین مسلمان بھائیوں سے، ۱۵ لاکھ انسانوں سے، ان کا کوئی رشتہ نہ ہو۔ دسمبر ۲۰۰۸ء میں جنگ کے دوران تو اُمت نے اخوت ایمانی کا ثبوت دیا لیکن ا ب اہلِ غزہ پر کیا قیامت ڈھائی جارہی ہے، کسی کو کوئی غرض نہیں۔ حماس کے قائدین نے بتایا کہ ایک طرف غزہ میں صہیونی دشمن کے یہ مظالم ہیں، دوسری طرف وہ مسجداقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔ اب تو اس نے حرم اقصیٰ میں ہیکل سلیمانی کا ایک دیوہیکل ماڈل لاکر نصب کردیا ہے کہ یہاں قبلۂ اول کی جگہ، یہودی عبادت گاہ تعمیر ہوگی۔ تیسری جانب وہ مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہے اور بدقسمتی سے محمود عباس کے ساتھ تعاون میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس دوستی کو مکمل امریکی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ خود کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۷ء سے لے کر امریکا نے حماس مخالف فلسطینی سیکورٹی فورسز کی مدد کے لیے ۱۶۱ ملین ڈالر کی امداد دی ہے۔ ۳۲صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جون ۲۰۰۹ء میںاس امداد میں مزید ۱۰۹ ملین ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اوباما انتظامیہ نے سال ۲۰۱۰ء کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کی مزید امداد کر دی ہے۔ اس مالی امداد سے حماس مخالف پولیس اور صدارتی فوج کو تربیت دی جائے گی۔

حماس کے پُرعزم ذمہ دار نے کہا: فلسطینی قوم بڑی سخت جان اور ارادے کی پکی ہے۔ ۶۰سال سے قتل کی جارہی ہے، دھتکاری جارہی ہے لیکن فلسطینی پہلے سے بھی زیادہ سربلند ہیں۔ پہلے سے بھی زیادہ اٹل ارادے کے مالک ہیں۔

یکم رمضان المبارک کو غزہ کے تمام اسکولوں میں تعلیم دوبارہ شروع ہوگئی۔ تعطیلاتِ گرما میں غزہ کے بچوں کو قرآن کریم سے وابستہ کرنے کا ایک عجیب واقعہ سننے کو آیا۔ اگر بتانے والا معتبر نہ ہوتا تو شاید یقین نہ آتا۔ غزہ میں گرما کی تعطیلات کے دوران بچوں کو قرآن کریم حفظ کروانے کا اہتمام کیا گیا۔ صرف چھٹیوں کے تین ماہ کے دوران ساڑھے تین ہزار بچوں نے مکمل قرآن حفظ کرلیا۔ منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کے ۱۶ سالہ صاحبزادے عائد نے توصرف ۳۵ روز کے اندر مکمل قرآن سینے میں محفوظ کرلیا، سبحان اللہ! عائد نے غزہ میں قائم ’تاج الوقار‘ کیمپ میں قرآن حفظ کیا۔

حرم میں اُمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اختلافات پر، خود پاکستان میں امریکی مداخلت اور بڑھتی ہوئی امریکی موجودگی پر، پریشانی اور دعائیں جاری تھیں کہ غزہ سے آنے والی اس خبر نے   دلِ مضطر کو قرار سا عطا کر دیا۔ نظریں ایک بار پھر سفید احرامات میں کعبۃ اللہ کے گرد دیوانہ وار طواف کرتے فرزندانِ توحید کی جانب اُٹھ گئیں۔ وحدت و مساوات کا منفرد، عجیب اور اُچھوتا منظر… دل سے پھر دعا نکلی: پروردگارِ عالم! کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!

 

معاشرتی بگاڑ اور نوجوان

سوال: میڈیا ، ٹی وی، ڈش، انٹرنیٹ، اخبار و جرائد، یہ سب عورت کو تشہیر کا مؤثر ذریعہ سمجھتے ہوئے خوب استعمال کرتے ہیں۔ یہ نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور گمراہ کرنے کا باعث ہے، دوسری طرف دین اور معاشرے کا تقاضا کہ نوجوانوں کو پاک باز ہونا چاہیے جو کہ کڑی آزمایش ہے۔ اسلام کا واضح حکم ہے کہ جو نوجوان استطاعت و طاقت رکھتا ہو وہ نکاح ضرور کرے لیکن ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہمارا معاشرہ یہ کہتا ہے کہ پہلے لڑکا خودکفیل ہو اور پھر شادی ہو۔ اس طرح کیریئر بناتے بناتے ایک فرد کو کافی عرصے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ بھوک پیاس کے بعد جنسی تسکین انسان کی فطری ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں کسی نئے خاندانی نظام کی ضرورت نہیں ہے کہ جس میں نوجوانوں کو کرپٹ ہونے سے بچایا جاسکے۔ موجودہ حالات میں اسلامی احکامات کے مطابق ہم زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟

جواب: آپ نے اپنے سوالات کے ذریعے جس اہم پہلو کی طرف متوجہ کیا ہے وہ شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے، یعنی صالحیت کے ساتھ نسلِ انسانی کا تحفظ۔ اسلام واحد دین ہے جو خاندانی زندگی کو ایمان کی تکمیل اور تقویٰ کے حصول کے لیے ایک شرط قرار دیتا ہے، اور سیرت خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ جو نکاح کا انکار کرتا ہے، سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی اُمت میں شمار نہیں فرماتے۔ قرآن کا مطالعہ کریں تو وہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر رشتۂ نکاح قائم کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ رزق میں وسعت اور برکت پیدا کریں گے۔

ابلاغِ عامہ اور زندگی کے معاملات میں جس طرح عورت کو بطور ایک مرغوب شے بناکر پیش کیا جارہا ہے اور عام تعلیمی ماحول میں مخلوط تعلیم جس چیز کو فروغ دے رہی ہے وہ حیا اور    پاک بازی کی ضد کہی جاسکتی ہے۔ ایسے ماحول میں ایک نوجوان کا نفس کے فتنوں سے محفوظ رہنے کا ایک مسنون ذریعہ وہی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا یعنی نکاح۔ لیکن حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ اگر کوئی نوجوان ایسا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو پھر وہ اپنے اخلاق و کردار کے تحفظ    کے لیے روزے کو بطور ڈھال استعمال کرے۔

ظاہر ہے روزہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک ایسا خفیہ معاملہ ہے جس کا کسی اور کو علم نہیں ہوسکتا اور غیرمحسوس طور پر روزہ انسان کو بدنگاہی، بدخیالی، بدزبانی ، غرض ہر برائی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے اگر ہفتہ میں دو مرتبہ، یعنی پیر اور جمعرات کو عام دنوں میں روزہ رکھا جائے تو اس سے وہ قوتِ مدافعت پیدا ہوگی جو ایک نوجوان کو بے راہ روی سے محفوظ رکھ سکے گی۔

یہ بات بھی درست ہے کہ ہمیں ایک نئے خاندانی تصور کی ضرورت ہے جس میں نام نہاد مشرقی روایتی تصور سے ہٹ کر قرآن و سنت کی بنیاد پر خاندان کو قائم کیا جائے۔ دیکھا گیا ہے کہ وہ گھرانے بھی جو خود کو دینی گھرانے کہتے ہیں شادی بیاہ کے معاملے میں بڑی حد تک اپنی برادری کی بعض جاہلانہ روایات اور بالخصوص معاشی بنیاد پر رشتے کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جب کہ حدیث میں جو چار معیار تجویز کیے گئے ہیں ان میں حُسن، دولت، نسب، تینوں پر تقویٰ اور دین کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

قرآن کریم نے ایسے نوجوانوں کی شادی کے حوالے سے جو شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہوں لیکن وسائل نہ رکھتے ہوں ان کے اہلِ خانہ، اہلِ معاشرہ اور ریاست تینوں کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ چنانچہ ایک مثالی اسلامی ریاست میں ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ مجرد نوجوانوں کو نکاح کے لیے وسائل فراہم کرے، اور ایسے ہی معاشرے کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ایسے افراد کے لیے مل کر سہولتیں فراہم کرے۔ آج تحریکِ اسلامی کی ترجیحات میں بھی اس اہم بات کو شامل ہونا چاہیے تاکہ وہ نوجوان جن کی تربیت ِکردار میں سالہا سال صرف کیے جاتے ہیں آزمایش کا شکار نہ ہوں۔

رشتہ کرتے وقت معاشی آسودگی کی شرط پر بھی متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کوئی نوجوان اچانک اپنے شعبے میں اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کم وسائل کے باوجود نکاح میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ جس کو خوش کرنے کے لیے یہ رشتہ کیا جائے گا وہ کائنات کے تمام خزانوں کا مالک ہے اور وہ ان شاء اللہ ضرور رزق میں برکت دے گا۔(ڈاکٹر انیس احمد)

اسلامی بنکاری کے بارے میں اُلجھن

س: پاکستان میں رائج موجودہ اسلامی بنکاری اور مروجہ عام بنکاری میں محض نام کا فرق ہے۔ آپ موجودہ اسلامی بنکاری کو کم ظالمانہ کہہ سکتے ہیں، غیرسودی نہیں۔ میری راے میں اسلامی بنکاری صرف اسلامی حکومت کے زیراثر ہوسکتی ہے۔ بنک تجارتی اداروں کو نفع و نقصان کی بنیاد پر قرضے دیں۔ اسی طرح بنک میں رقم جمع کروانے والا بنک سے منافع حاصل کرسکتا ہے اور نقصان بھی۔ دھوکا دہی کرنے والے کی جایداد ضبط کرنا اور لوگوں کو ان کے حقوق دلوانا حکومت کا کام ہو۔ ایمان دار لوگ کوآپریٹو سوسائٹیز کی طرز پر سرمایہ اکٹھا کر کے کاروبار کو جدید اور وسیع کرسکتے ہیں لیکن اس کام کے لیے بھی اچھا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ سود کو حلال کرنے والے بنکوں کے تنخواہ دار ملائوں سے بھی بچنا ہوگا۔ ہمیں سادگی اختیار کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔

ج: اسلامی بنکاری کے بارے میں آپ کو اپنی راے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ ہم عصر علما میں ہمیں ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو مروجہ اسلامی بنکاری اور تکافل پر شدید اعتراضات کرتے ہیں، اور ایسے علما بھی ہیں جو مجبوریوں اور مسائل سے آگاہی کے باوجود بعض اسلامی مالی اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق اور سود سے پاک قرار دیتے ہیں۔ وہ کسی ’جبری بیعت‘ کی تبلیغ نہیں کرتے بلکہ شریعت کے اصولوں کی روشنی میں مالی اداروں کا جائزہ لے کر انھیں سند فراہم کرتے ہیں۔

ایک عام شہری کے لیے اسلام جس چیز کا مطالبہ کرتا ہے وہ حرام سے اجتناب اور حلال کا حصول ہے۔ اگر ایک مالی ادارہ نہ صرف یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ سودی کاروبار سے پاک ہے، بلکہ اس کے تمام پیداواری امور اور سرمایہ کاری کی اسکیموں کا علما نے بغور مطالعہ کیا ہے اور وہ اسے حلال کہتے ہیں، تو ایک عام شہری کو ظاہر پر اعتماد کرتے ہوئے ایسے علما کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے جو اپنی شہرت اور علمی لیاقت کی بنا پر ملک اور ملک سے باہر مستند سمجھے جاتے ہوں۔

دوسری بات یہ بھی سامنے رہے کہ جب تک ایک مثالی اسلامی حکومت قائم نہ ہو، اس وقت تک کیا کیا جائے۔ کیا سودی بنکوں کو بہ اِکراہ قبول کیا جائے یا اسلامی بنکوں کو جو واضح طور پر سود سے پاک ہونے کا اعلان کرتے ہوں۔ ایک روز مرہ کی مثال سے اسے یوں سمجھیے کہ آپ روز کسی قصاب کی دکان پر جاکر گوشت خریدتے ہیں اور اپنی اور احباب کی دعوت کرکے لذیذ کھانوں کے مزے لیتے ہیں۔ کیا ایک مرتبہ بھی آپ نے قصاب یا ذبح کرنے والے مرکز جاکر یہ معلوم کیا کہ ہرہر ذبیحہ کے وقت ذبیح نے صحیح طور پر اس پر اللہ کا نام لیا تھا یا آپ کو یہ یقین ہے کہ صدیوں سے قصاب چاہے اسے ایک لفظ قرآنی عربی کا نہ آتا ہو اور اس نے ایک جماعت بھی نہ پڑھی ہو، ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے کر ہی کر رہا ہوگا۔

اس کے مقابلے میں اسلامی مالی ادارے ہر فرد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خود ادارے کی  مالیاتی اسکیموں کے بارے میں تفصیلات معلوم کر کے دیکھ لے کہ اس میں سود کہاں ہے؟ اس کے باوجود اگر ایک بات ذہن میں بٹھا لی جائے کہ ہر اسلامی مالی ادارہ جو کام کررہا ہے اس میں بدنیتی اور دھوکا شامل ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اسلام میں دین کی پوری عمارت کا انحصار نیت اور ظاہری عمل پر ہے۔ اگر ایک شخص بظاہر نماز پڑھ رہا ہے تو کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے بارے میں افواہ پھیلاتا پھرے کہ گو بظاہر نماز تو پڑھ رہا ہے لیکن دل میں شیطان کو سجدہ کررہا ہے۔ دین میں اس شک اور ابہام کی کوئی گنجایش نہیں۔ بات دلیل اور ثبوت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ اگر کسی اسلامی مالی ادارے کے بارے میں کسی کے پاس ثبوت ہوں تو اس کا فرض ہے کہ انھیں عوام الناس کے علم میں لائے لیکن محض گمان اور شبہے کا اظہار نہ تقاضاے دین ہے نہ دیانت و امانت۔

اسلامی کوآپریٹو کی تجویز بہت مناسب ہے۔ اس پر لازماً کام ہونا چاہیے اور اُس کے لیے بھی اسلامی حکومت کے آنے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو حضرات اسے درست سمجھتے ہوں وہ آگے بڑھیں اور اس طرح کم از کم معاشی میدان میں اسلام کے اصولوں کو عملاً نافذ کر کے اسلام کی عملیت کی ایک مثال قائم کریں۔ اسلامی ریاست ان شاء اللہ ایسے تمام اداروں کو مزید تقویت دے گی۔ ایمان داری کا کلچر اسلامی ریاست کے آنے کے بعد نہیں،اُس سے بہت پہلے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ریاست کا راستہ اس کلچر سے ان شاء اللہ زیادہ آسان ہوجائے گا، اور جب مثالی ریاست قائم ہوگی تو وہ اس کلچر کو مزید ترقی دے گی۔ (ا- ا)

 

Qur'anic Key Words: A Reference Guide، [قرآنی اصطلاحات: ایک حوالہ جاتی گائیڈ] عبدالرشید صدیقی۔اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، برطانیہ،۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: درج نہیں۔

قرآن کریم اور سیرت پاکؐ کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو ہرہفتے نہیں تو کم از کم سال کے ۱۲ مہینوں میں کسی نہ کسی معروف رسالے میں تحقیقی مقالہ اور کسی معروف ناشر کے ذریعے کوئی علمی کتاب منظرعام پر آتی رہی ہے۔ لیکن اس کثرت کے باوجود قرآن کریم کے مضامین و موضوعات اور سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جہات کا احاطہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ استنبول کے ایک عظیم تحقیقی مرکز میں ۸۰۰ کے لگ بھگ قرآن کی تفاسیر ایک چھت کے نیچے پائی جاتی ہیں۔

زیرنظر کتاب جناب عبدالرشید صدیقی کی تازہ تالیف ہے۔ وہ ایک عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور وہاں کی اسلامی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔ کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے لکھا ہے۔

انگریزی اب ایک تجارتی زبان کی حیثیت سے وہی مقام اختیار کرچکی ہے جو ایک طویل عرصہ لغتِ قرآن کو حاصل رہا، اس لیے مغرب ہی کا نہیں خود مشرق میں بھی ان اقوام میں جن کی سیاسی آزادی صرف اور صرف اسلام اور قرآن و سنت کی سربلندی کے لیے حاصل کی گئی ہو، نیز ایسی اقوام میں بھی ذہنی غلامی اور انگریزی کے فروغ کے سبب قرآن کریم اور اسلام سے واقفیت کے لیے ایسی کتب کی ضرورت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جو عام انگریزی سمجھنے والے کو اسلامی فکر اور قرآنی مضامین سے متعارف کرا سکے۔ ان معنوں میں نہ صرف یہ کتاب بلکہ اس نوعیت کی مزید کتب اس دور کی ضرورت ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اصل ماخذ سے براہِ راست تعلق کے بغیر اسلام کا صحیح فہم حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ان اصطلاحات میں بعض بہت بنیادی ہیں مثلاً اللہ، دین، زکوٰۃ، جہاد، انسان، آخرت، حسنات، فلاح، دعوۃ، بِّر، اخوہ، صوم، صدقہ، ایمان وغیرہ۔

کتاب میں ۱۴۰قرآنی اصطلاحات کا مفہوم انگریزی پڑھنے والے اور براہِ راست عربی مصادر تک نہ پہنچ پانے والے افراد کے لیے سادہ زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر اصطلاح کا لغوی معنی، اس کا قرآن کریم اور عربی میں متبادل اور قرآن کریم میں اس کے استعمال کا حوالہ دینے کے ساتھ اختصار سے معنی بیان کیے گئے ہیں۔ معنی بیان کرتے وقت یہ خیال رکھا گیا ہے کہ اس کے پڑھنے والے ان الفاظ کے بارے میں جن شبہات کا شکار ہوں انھیں بھی رفع کر دیا جائے مثلاً جہاد کے حوالے سے اس کے مختلف مفاہیم کو بیان کرکے سمجھایا گیا ہے کہ اس سے محض قتال اور قوت کا استعمال مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع اصطلاح ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ تحسین علمی کام ہے اور اسلام اور اسلامی فکر کو سمجھنے میں غیرمعمولی طور پر مددگار۔

انتہائی کامیاب کوشش میں بھی ہمیشہ مزید بہتری کی گنجایش رہتی ہے۔ اس کتاب کو آیندہ مزید بہتر بنانے میں اگر چند امور کا خیال رکھ لیا جائے تو ان شاء اللہ اس کی افادیت میں اضافہ ہوگا۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ا ل ہ سے ال کے اضافہ سے اللہ کی اصطلاح بنی ہے(ص ۱۱)۔ اللہ کا کوئی مصدر نہیں ہے۔ مصدر صرف الٰہ کا ہے اور وہ ا ل ہ ہے (ملاحظہ ہو تفسیر ماجدی)۔ صدقہ کا ترجمہ charityگو عبداللہ یوسف علی نے بھی کیا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے (ص۲۰۲)۔ درست ترجمہ تحفہ یا ہدیہ ہوگا۔ مفہوم بیان کرتے ہوئے مصنف کو شاید مہر کا ذکر کرنا یاد نہ رہا اسے بھی صدقہ کہا گیا ہے، جب کہ وہ charity نہیں ہے اور خلوصِ نیت اور سچی خواہش کے اظہار کا نام ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کو alms کہنا (ص ۲۶۸)گو مستعمل ہے لیکن اس کے مفہوم سے متضاد ہے۔ یہ خیرات نہیں ہے بلکہ عبادت اور حق ہے، یعنی right اور due۔ یہاں بھی غالباً عبداللہ یوسف علی صاحب کا ترجمۂ قرآن استعمال کرنے کے سبب مصنف نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کے باوجود کتاب کی افادیت میں کمی واقع نہیں ہوتی اور خصوصاً نوجوان نسل کے لیے اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


تحریکِ احمدیت: یہودی و سامراجی گٹھ جوڑ، بشیراحمد، مترجم: احمد علی ظفر۔ ناشر: ادارہ اصلاح و تبلیغ، آسٹریلیا بلڈنگ، ریلوے روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۶۶۳۸۹۶۔ صفحات: ۹۸۷۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مسلم اُمہ کو ہر زمانے میں مختلف فتنوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔ ابتدائی زمانے میں مُسیلمہ کذاب نے جس جعلی نبوت کا اعلان کیا تھا، اس سلسلے کی ایک کڑی مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں اہلِ ہند کو دیکھنے کوملی۔ دیگر جعلی نبوتوں کے برعکس مرزاے قادیان کی ہرزہ سرائی کو اس زمانے کی سپرطاقت تاج برطانیہ کی پشت پناہی حاصل تھی، مقامی سطح پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی ہمدردی میسر تھی، اور آج کے مغربی سامراج کی طرف سے اسے مسلسل کمک بھی مل رہی ہے۔

کم و بیش سوا سو سال سے اس فتنے کی دل آزاریوں اور حشرسامانیوں پر اہلِ علم نے مختلف سطحوں اور مختلف حوالوں سے داد تحقیق دی، دینی اورسیاسی حوالے سے بھی بہت سارے گوشے وا کیے۔ بشیراحمد کی زیرتبصرہ کتاب: Ahmadiya Movement: British-Jewish Connection کے رواں اور شُستہ اُردو ترجمے پر مشتمل ہے۔ جس کے ۲۸ ابواب میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بہت سی ہوش ربا تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہ تفصیلات قادیانیت کے مغربی سامراجیوں اور یہودیوں سے گٹھ جوڑ کی گواہی پیش کرتی ہیں۔

جناب بشیراحمد ایک سنجیدہ محقق اور جاں کاہی سے مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے ایک ایک مقدمے کو مکمل حوالے، ثبوت اور غیرجذباتی تجزیے سے اس طرح پیش کیا ہے کہ معاملات کے پس پردہ بیش تر کردار ترتیب ِ زمانی کے ساتھ قاری کے سامنے آجاتے ہیں۔ فاضل مؤلف نے یہ کتاب ایک عالمِ دین کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مؤرخ کی حیثیت سے مرتب کی ہے، اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ کتاب فی الحقیقت قادیانیت کی ایک تاریخ ہے، جس کے آئینے میں اس باطل مذہب کے باطن کو دیکھا جاسکتا ہے۔ کتاب کی تقریظ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے تحریر کی ہے۔ آخر میں قادیانی لٹریچر کے عکس، جامع کتابیات و مآخذ کی فہرست بھی درج ہے۔ (سلیم منصور خالد)


رسولؐ اللہ کا طریقۂ حج، تالیف: مولانا مفتی محمد ارشاد القاسمی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔فون: ۲۷۲۵۶۷۳-۰۲۱۔ صفحات: ۷۵۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

عازمینِ حج کے لیے راہ نما کتابیں ہرقسم کی دستیاب ہیں۔ عام ضرورت ایسی کتاب کی ہے جو ہاتھ میں لی جاسکے اور ہروقت اس سے رجوع کیا جاسکے۔ زیرتبصرہ کتاب اس سے کچھ مختلف ہے۔ اس میں مؤلف نے حج کے ۵ ایام کے علاوہ، حج کے فضائل و ترغیب، عورتوں کے حج اور مختصراً زیارتِ مدینہ پر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ایک ترتیب سے جمع کردیے ہیں اور ہرایک کے بعد فائدہ کے عنوان سے اس کی وضاحت کردی ہے۔ ۳۰صفحات کی فہرست سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ۷۵۰ صفحے کی اس کتاب میں کتنی تفصیل سے تمام جنرئی مسائل تک زیربحث لائے گئے ہیں۔

حج کے دوران پیش آنے والے ہر طرح کے امکانات پر براہِ راست حدیث رسولؐ کی رہنمائی مل جاتی ہے۔ اختلافی مسائل پر بھی سب کا موقف بیان کر کے اچھی بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کو بجاطور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ حج و عمرہ کے متعلق شمائل، سنن و احکام کا وسیع اور مستند ذخیرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ (مسلم سجاد)


کلیسا سے واپسی، مرتب: عبیداللہ عابد۔ ناشر: کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اسلام کی قوتِ تسخیر کا اندازہ کرنا ہو تو اس کا ایک حوالہ نومسلموں کے حالاتِ زندگی اور  قبولِ اسلام کے واقعات کا مطالعہ ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی طرف یہ رغبت ان حالات میں ہے کہ مغرب میں عام طور پر اسلام کے اصل تصور کو مسخ کر کے، مسلمانوں کو وحشی، خون کے پیاسے اور تنگ نظر قوم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ اسلام کی خاطر نومسلم جس طرح سے جان، مال، خاندان، کیریئر اور ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہیں، اس سے اسلام کے دورِ عزیمت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

زیرنظر کتاب اسی موضوع کے تحت ۳۲ افراد کے قبولِ اسلام کا ایک مطالعہ ہے۔ تاہم، اس کی انفرادیت یہ ہے کہ بیش تر واقعات کا تعلق عیسائی پادریوں کے قبولِ اسلام سے ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیت کے عقائد (بالخصوص تین خدائوں کا تصور، حضرت عیسٰی ؑ کا انسانیت کے گناہوں کی تلافی کے لیے قربانی دینا وغیرہ) عیسائی پادریوں کو بھی مطمئن نہ کرسکے۔ یہ عقیدہ بھی اُلجھن کا باعث ہے کہ گناہ کی معافی کے لیے کسی پادری کے سامنے اعتراف ضروری ہے، گناہ کے اعتراف کے لیے براہِ راست خدا سے رجوع نہیں کیا جاسکتا، جب کہ اسلام میں مذہبی پیشوا کا ایسا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ کسی دوسرے کے سامنے گناہ کا اعتراف ہی ضروری ہے۔ براہِ راست  اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جاسکتی ہے۔ عیسائیت میں غوروفکر اور حقیقت کی تلاش کے لیے سوالات اُٹھانے کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، جب کہ اسلام کی تعلیمات، غوروفکر اور تدبر کی دعوت پر مبنی ہیں جو جدید ذہن کو اپیل کرتی ہیں۔ اسلام کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ان کا جواب بھی سامنے آتا ہے جس سے تقابلِ ادیان کے ساتھ ساتھ اسلام کی فوقیت بھی ثابت ہوتی ہے۔(امجدعباسی)


آدابِ شناخت، ڈاکٹر سید عبدالباری۔ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، ۳۱۰۸ وکیل والی گلی، کوچہ پنڈت، لال کنواں، دہلی ۶۔ صفحات:۲۲۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

اُردو ادب کی دنیا، بڑی حد تک پاکستان اور بھارت کی طرح، دو الگ الگ دنیائوں میں منقسم ہے، اس لیے اگر ڈاکٹر سید عبدالباری کا نام پاکستان کے ادبی حلقوں میں کسی قدر اجنبی محسوس ہو تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ موصوف اُردو کے معروف ادبی نقاد ہیں۔ اوائل میں وہ ’شبنم سبحانی‘ کے قلمی نام سے زیادہ تر شعرگوئی کرتے تھے۔ اب گذشتہ ۵،۷ برسوں میں ان کی متعدد تنقیدی کاوشیں (بشمول ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے) مطبوعہ صورت میں سامنے آئی ہیں (لکھنؤ کا شعروادب، ۱۸۵۷ء تک۔ لکھنؤ کے ادب کا ثقافتی و معاشرتی مطالعہ، ۱۹۴۷ء تک، ادب اور وابستگی، کاوشِ نظر، افکارِ تازہ، ملاقاتیں وغیرہ۔ ان میں سے بعض پر ترجمان میں تبصرہ بھی ہوچکا ہے)۔ فی الوقت وہ ماہنامہ پیش رفت دہلی کے مدیر اور ادارہ ادبِ اسلامی ہند کے صدر ہیں۔

ادبی تنقیدی مقالات کا زیرنظر پانچواں مجموعہ انھوں نے ہم فکر ادبی شخصیات ڈاکٹر ابن فرید اور ڈاکٹر عبدالمغنی سے منسوب کیا ہے۔ مرحومین کی طرح سید عبدالباری بھی ادب میں مثبت اور تعمیری نظریات و اقدار کے قائل ہیں۔ بجاطور پر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُردو کی موجودہ ادبی تنقید زوال پذیر ہے، کیوں کہ ماضی کے برعکس موجودہ تنقید میں کوئی تعمیری، متوازن اور شائستہ طرزِ فکر سامنے نہیں آسکا۔ پروفیسر محمود الٰہی کے بقول ڈاکٹر سید عبدالباری حق و ناحق اور خیروشر کا ایک متعین پیمانہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے قلم کو جاہ و منصب کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اخلاص کے ساتھ ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔

مجموعے کا پہلا مضمون ’اکیسویں صدی میں ادب کی اہمیت‘ نہایت فکرانگیز ہے۔ انھوں نے مستقبل کی ادبی جہات و اقدار کی ممکنہ سمت نمائی کی ہے۔ انھیں کچھ تشویش بھی ہے مگر وہ پُرامید ہیں کہ ’’اہلِ قلم کی ایک معتدبہ تعداد درباری نفسیات کی گرفت میں نہ آسکے گی اور وہ حقیر مفادات سے اُوپر اُٹھ کر عام انسانوں کی بہی خواہی اور بلندمقاصد کے احترام کو مدنظر رکھ سکے گی (ص ۱۳)۔ معروف ترقی پسند شاعر مجروح سلطان پوری کے بارے میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ آخری دور میں ان پر اشتراکیت کا طلسم زائل ہوچکا تھا اور مجروح اپنی اصل سے وابستگی کو اپنے لیے باعثِ فخر تصور کرتے تھے۔ (ص ۸۱)

بعض مضامین کا تعلق چند ادبی شخصیات (غالب، میرانیس، شبلی، ابوالحسن علی ندوی، جگن ناتھ آزاد، کیفی اعظمی، عرفان صدیقی، مجروح سلطان پوری) اور ان کی تخلیقات سے ہے اور بعض کا تعلق ادب اسلامی کی تحریک کے وابستگان (سہیل احمد زیدی، رشیدکوثر فارقی، طیب عثمانی، ابوالمجاہد زاہد، ابن فرید، علقمہ شبلی، حفیظ میرٹھی) سے___ (رفیع الدین ہاشمی)


جیلانی بی اے، حیات اور ادبی خدمات، بشیراحمد منصور۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے

جیلانی بی اے (۲۷؍اکتوبر ۱۹۲۱ء- ۱۹ جنوری ۱۹۹۰ء) ایک بلندپایہ ادیب اور منجھے ہوئے افسانہ نگار تھے۔ عمر کا آخری حصہ کوچۂ صحافت میں گزرا۔ اس کے ساتھ وہ جماعت اسلامی کے  ایک نمایاں راہ نما کی حیثیت سے بھی قابلِ قدر خدمات انجام دیتے رہے۔جماعت میں امیرضلع فیصل آباد، امیرضلع لاہور اور امیرصوبہ پنجاب کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں۔ صحافت میں وہ ہفت روزہ ایشیا کے مدیر رہے۔ صحافت میں اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی ترقی کو مرکزی حیثیت دیتے تھے۔ اس طرح جیلانی بی اے کی ساری زندگی بامقصد حیات کا ایک نمونہ ہے۔ وہ ایک مقصدیت پسند ادیب تھے۔اسلامیہ کالج لاہور کے زمانۂ متعلمی میں مولانا مودودیؒ کے براہِ راست شاگرد رہے۔ اس نسبت کو انھوں نے عمربھر مولانا مودودیؒ کے راستے پر چل کر بخوبی قائم رکھا۔

بشیراحمد منصور نے زیرنظر کتاب میں جیلانی بی اے کے مذکورہ بالا حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ایک تحقیقی مقالہ ہے جو ایم فل اُردو کی سند حاصل کرنے کے لیے تحریر کیا گیا تھا۔ اب اسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب کو چھے ابواب میں منقسم کیا ہے، جن میں جیلانی بی اے کی سوانح اور شخصیت، ان کی افسانہ نگاری، اُن کی مضمون نگاری اور اُن کے قلم سے نکلنے والی دیگر اصنافِ نثر (ترجمہ، تلخیص، رپورتاژ، سفرنامہ، تعزیتی حاشیے اور صحافتی تحریریں)، نیز اُن کے اسلوبِ بیان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری باب اُن کی مجموعی علمی و ادبی خدمات کے جائزے پر مبنی ہے۔

بشیر منصور نے مقالہ بڑی سلیقہ مندی سے مرتب کیا ہے۔ ان کی یہ ادبی کاوش اس اعتبار سے مستحسن ہے کہ انھوں نے ایک ایسے بلندپایہ ادیب اور افسانہ نگار کو، جو اَب تک گوشۂ گم نامی میں رہا، علمی و ادبی دنیا سے متعارف کروایا اور اس کی علمی و ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا۔ گو، اس مقالے سے جیلانی صاحب کے ادبی اور فنّی کمالات پوری طرح ظاہر نہیں ہوتے، تاہم اُن پر کام کرنے والوں کے لیے یہ کاوش دلیلِ راہ کا کام دے گی۔ معیارِ اشاعت اطمینان بخش ہے۔ موضوع اور شخصیت سے سرورق کی مناسبت قابلِ داد ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)

تعارف کتب

  •  بلغ العلٰی بکمالہٖ ،خورشید ناظر۔ ناشر: نشریات، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [سرورق پر ’’اُردو میں ساڑھے سات ہزار اشعار پر مشتمل منظوم سیرت نبویؐ کا ایک مستند شاہکار‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ کُل ۵۶ باب ہیں اور ہر باب کا عنوان کسی نہ کسی مصرعے کو بنایا گیاہے۔ چونکہ خورشید ناظر کی اس کاوش کی بنیاد آنحضوؐر سے سراسر محبت و عقیدت کے جذبات ہیں، اس لیے یہاں شاعری کی فنی خوبیاں تلاش کرنا قرینِ انصاف نہ ہوگا مگر مصنف کی لگن اور محنت قابلِ داد ہے۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر کا فاضلانہ مقدمہ (۳۵صفحات) سیرت النبیؐ کے لٹریچر کا ایک جامع احاطہ پیش کرتا ہے۔]
  •  مسجد کے فضائل و احکام ، مولانا مفتی محمد ارشاد۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [مسجد کی تعمیر، صفائی، آبادی، آدابِ مسجد، عبادت کا طریقہ، خواتین اور مسجد، مسجد میں دعائیں، جوتا کیسے رکھیں، بچے مسجد میں، دنیاوی امور اور مسجدوغیرہ۔ غرض کتاب اسی طرح کے ۱۷۲ احادیثی موضوعات اور عنوانات پر مشتمل ہے۔ مرتب جون پور، یوپی، بھارت کے ایک عالم ہیں۔ جن کا خیال ہے کہ ’’موضوع کے متعلق ایسی جامع ترین کتاب شاید آپ [کہیں سے] نہ پا سکیں‘‘۔]
  • مسلمان خواتین کی دینی و علمی خدمات ، پروفیسر سید محمدسلیم۔ ناشر: زوار پبلی کیشنز، اے-۴/۱۷،   ناظم آباد ۴، کراچی ۷۴۶۰۰۔ فون: ۶۶۸۴۷۹۰۔ [مصنف مرحوم کی یہ نہایت مفید کتاب پہلی بار ربع صدی قبل شائع ہوئی۔ اب تیسری بار چھپی ہے۔ مصنف کی غرض یہ تھی کہ اسلامی تہذیب کی علَم بردار خواتین کے کردار و گفتار و اعمال کی ایک جھلک قدرے وسیع تناظر میں پیش کرے۔ عالمِ اسلام بشمول برعظیم میں علومِ قرآن، حدیث، فقہ، شعروادب، تاریخ، فلسفہ، ریاضی، خطاطی، زراعت، تجارت وغیرہ مختلف شعبوں کی ماہر خواتین کا دل چسپ تذکرہ ___ مختصر مگر جامع کاوش۔ آخر میں سید سلیمان ندوی کا مضمون ’خواتین اور جنگی تعلیم‘ شامل ہے۔]
  •  جنت کے پھول از گلدستۂ رسولؐ، تالیف:مفتی محمدمسلم منصوری۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات:۱۴۴۔ قیمت:۱۰۰ روپے۔ [زیرنظر ۴۰ احادیث کے مجموعے مرتب کرنے کی روایت کے تسلسل میں ’اربعین الاطفال‘ کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے۔ بچوں کے حوالے سے اس نوعیت کامجموعہ کہیں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔مؤلف نے ہر حدیث کی تخریج ، تشریح اوردیگر احادیث کاتذکرہ اورمستند حوالہ جات کااہتمام بھی کیا ہے۔ بچوں کے فرصت کے حوالے سے والدین کے لیے ایک مفید راہ نماکتاب تیار ہوگئی ہے۔]
  •  سرمایۂ اعتبار ،رئیس احمد نعمانی۔ ناشر: مرکز تحقیقات فارسی، کلچرل قونصلر، سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران، نئی دہلی۔ صفحات: ۱۸۶۔ قیمت: درج نہیں۔[علی گڑھ میں مقیم جناب رئیس نعمانی معروف ناقد اور فارسی شاعر اور متعدد کتابوں کے مؤلف ہیں۔ یہ ان کی منتخب فارسی شاعری (منظومات، غزلیات، تعزیتی نظمیں وغیرہ) کا مجموعہ ہے۔ اہلِ ذوق اور فارسی خواں استفادہ کرسکتے ہیں۔]
  •  نخل اُمید کا خوش رنگ ثمر ،ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر۔ ترتیب و تدوین: ڈاکٹر ممتاز عمر۔ ملنے کا پتا: ۴۷۵-ٹی، کورنگی نمبر۲، کراچی۔صفحات: ۱۳۸۔ قیمت: بلامعاوضہ۔ [مؤلف نے اپنے والد ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر کا     مجموعۂ کلام مرتب کیا ہے جو پختہ اور مقصدیت کا حامل ہے۔ منفرد لہجہ، روایتی شاعری سے مختلف ہے، ایک طرح سے آپ بیتی اور عصرحاضر کے ظلم و جبر کے خلاف چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔]

جمیل احمد رانا ، کلورکوٹ، بھکر

’غیرت کو کیا ہوا؟ (ستمبر ۲۰۰۹ء) کے عنوان سے تحریر یکے از شاہکار ہے، جسے ملک کے طول و عرض میں پڑھا اور پڑھایا جانا چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو اسے قومی اخبارات میں اشاعت کے لیے بھیجا جائے، تاکہ وسیع تر حلقے میں اس چشم کشا تحریر کے اثرات مرتب ہوسکیں۔ ’جماعت اسلامی بنگلہ دیش: سیکولر دہشت گردی کے سایے میں‘ (اگست ۲۰۰۹ء) ایک معلومات افزا مضمون ہے۔ مشرقی پاکستان، بھارت کی فوجی یلغار اور عوامی لیگ کی مسلح جدوجہد کی وجہ سے بنگلہ دیش بن گیا۔ لیکن اس میں کچھ اور عوامل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، مثلاً امریکی پشت پناہی اور ذوالفقار علی بھٹو کا ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ اور ’’ٹانگیں توڑ دیں گے‘‘ کی دھمکیاں وغیرہ۔ قوم اس سانحے کو میٹھے گھونٹ کی طرح پی گئی۔ عوام کو تاثر دیا گیا کہ بھوکا بنگال، پاکستان پر بوجھ تھا، وہ اتر گیا اور اب بقیہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی، مگر آج بھی عوامی حکومت کی ’کامیابیوں‘ کے جھوٹے اشتہارات ایک شرم ناک حوالہ بن کر سامنے آرہے ہیں۔

ڈاکٹر رضوان ثاقب ، لاہور

سابق امیرجماعت اسلامی محترم قاضی حسین احمد کی خصوصی تحریر میاں طفیل محمدؒ (اگست ۲۰۰۹ء)    دل میں گھر کرگئی۔ میاں صاحب کا ریاست کپورتھلہ میں وکالت سے لے کر وفات تک زہد، تقویٰ ، استقامت اور تحریک کے لیے جہدِمسلسل کو جس اختصار اور جامعیت کے ساتھ قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ متاثرکن ہے۔ ’دنیا کی بے ثباتی‘ حضرت علیؓ کا خطبہ بے حد اثرآفریں ہے۔ محترم سلیم منصور خالد کا جماعت اسلامی    بنگلہ دیش کے حوالے سے مضمون (اگست ۲۰۰۹ء) فکرانگیز ہے۔ تاہم، پاکستان میں موجود طبقاتی نظامِ تعلیم کے بارے میں بھی قلم کو جنبش دیں، کیوں کہ یہ بُرائی تو ہماری صفوں میں بھی دَر آئی ہے!

نذیرحق ، لاہور

ترجمان القرآن میں معلومات افزا مضمون ’جماعت اسلامی بنگلہ دیش:سیکولر دہشت گردی کے سایے میں‘ (اگست ۲۰۰۹ء) نظرنواز ہوا۔ مضمون کے آخر میں یہ پڑھ کر کہ: ’’بنگلہ دیش مسلم افواج کے سربراہ نے بریگیڈیئر عبداللہ الاعظمی کو کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر دیا۔ ان کی شہرت انتہائی ذہین، ایمان دار اور   فرض شناس افسر کی تھی، البتہ جرم صرف ایک ہی تھا کہ وہ پروفیسر غلام اعظم صاحب کے صاحبزادے ہیں‘‘۔ زندگی کی بعض شیریں یادیں جو اس خبر کے بعد تلخ ہوگئی ہیں، تازہ ہوگئیں۔ میں اکتوبر ۱۹۸۳ء میں بطور     اخبار نویس وزراے خارجہ کی کانفرنس کی کوریج کے لیے لاہور سے ڈھاکہ گیا تھا۔ دوسرے روز انگریزی     اخبار آبزرور میں خبر پڑھی کہ ڈیفنس کالج سے فارغ ہونے والے لیفٹینوں میںپروفیسر غلام اعظم صاحب کا بیٹا ’اعزازی تلوار‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے، اور ساتھ ہی اس نوجوان کی تصویر بھی تھی۔ میں تلاش کرتا ہوا پروفیسر صاحب کے گھر پہنچا۔ ایک نوجوان نے بٹھایا، دوچار منٹ بعد پروفیسر صاحب مسکراتے ہوئے مکان سے باہر آئے۔ میں نے انھیں بیٹے کی کامیابی پر مبارک باد دی۔ وہ بڑے خوش تھے۔ فرمایا: ’’بنگلہ دیش اب ہمارا وطن ہے، بیٹا اپنے وطن کی خدمت کرے گا‘‘، مگر بُرا ہو تنگ نظر قوم پرستی کا، کہ اس نے ایسے لائق اور فرض شناس افسر سے یہ سلوک کیا۔ اللہ خوش رکھے مضمون نگار کو اس نے شیریں اور تلخ یادیں تازہ کر دیں۔

سمیّہ طفیل ،راولپنڈی

ابا جان (میاں طفیل محمدؒ) ترجمان القرآن بہت عقیدت و محبت سے پڑھتے تھے۔ میں نے تو بچپن ہی سے یہ رسالہ اباجان کی میز پر دیکھا ہے، حالانکہ تب وہ بحیثیت امیرجماعت ازحد مصروف رہتے تھے۔ جب بھی انھیں مطالعے کا موقع ملتا تو دیگر جرائد کے مطالعے سے پہلے ترجمان القرآن کے مطالعے کو عموماً اوّلیت حاصل ہوتی جیساکہ اخبارات کے مطالعے کے وقت وہ اللہ کے فرمان، پھر حدیث اور پھر اخبارات کی سرخیاں پڑھواتے تھے۔

میاں صاحب کا ترجمان القرآن سے پہلا تعارف ۱۹۴۰ء میں ہوا تھا جب مستری محمد صدیق صاحب اور چودھری عبدالرحمن صاحب نے انھیں پہلی مرتبہ ترجمان پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ اس کے بعد زندگی بھر ترجمان سے رشتہ جوڑے رکھا۔ وہ اس رسالے کو محبت کے ساتھ باقاعدگی سے اپنی اہم ترین مصروفیت کے دوران بھی ہمیشہ زیرمطالعہ رکھتے۔ یہاں تک کہ رحلت سے پہلے مارچ اور اپریل ۲۰۰۹ء کے شماروں کے اہم مضامین میں نے اُن کو خود پڑھ کر سنائے، جب کہ آخری شمارے کے مضامین بقول محترم صفدر علی چودھری صاحب انھیں گھربلاکر سنے۔ یہ میاں طفیل محمدؒ کی ترجمان سے محبت اور وابستگی کا  عملی اظہار تھا کہ تادمِ مرگ یہ رسالہ اُن کا ہمراہی، دوست اور رہنما ساتھی رہا۔

 

نسیم احمد ،اسلام آباد

مغرب زدہ طبقہ اور مبینہ آزاد خیال صحافی پاکستان کو لادین (secular) بنادینے پر مصر ہیں۔ انگریزی اخبارات کے اکثروبیش تر مضامین اور کالموں کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل ملائیت نے تاریک کر دیا ہے۔ قراردادِ مقاصد ملائیت کا شاخسانہ ہے۔ جب تک اس کو ختم نہ کیا جائے پاکستان ترقی نہ کرپائے گا۔

یہ مذہب بے زار طبقہ نہ جمہوریت کا قائل ہے نہ کسی نظریے کا۔ اس طبقے کے مطابق نظریۂ پاکستان ایک بے معنی شے ہے۔ اس کا پہلے کوئی وجود ہی نہ تھا حالانکہ دنیا کا کوئی ملک بغیر کسی نظریے کے قائم نہیں ہوا، خواہ وہ اشتراکیت ہو، سرمایہ داری ہو، سوشلزم ہو، ملوکیت ہو یا اسلام۔کیوں نہ ایسے لوگوں پر قدغن لگائی جائے، کم از کم شور تو کیا جاسکتا ہے! بُرائی کو ہاتھ سے روکا جائے یا زبان سے، یہاں تو دل پر بھی میل نہیں آتا۔

 

ہماری نگاہ میں جس طرح ایسے قیمتی فانوس اور ایسے سنہرے شمع دان کا وجود و عدم برابر ہے جو کسی مزار کے سرہانے بے مصرف شعاعیں بکھیر رہا ہو اور آس پاس کے بیاباں میں انسانی قافلے بھٹک بھٹک کر اور ٹھوکریں کھا کھا کر رہزنوں کا شکار ہو رہے ہوں، بالکل اسی طرح وہ ایمان و تقویٰ قلب و ذہن کے لیے محض ایک سامانِ زیست ہے جو سیاست و تمدن کے ماحول کو روشن کرنے کے لیے میدان میں آنے کے بجاے مسجد کی چار دیواری میں مخالف طاقتوں کے خوف کی وجہ سے پناہ لیے پڑا رہتا ہے۔ ان جسموں کی صحت مندی کس کام کی جو لوگوں کو موت کا شکار ہوتے چھوڑ کر کسی کمین گاہ میں پڑے اپنی قوتوں کی تعمیر___ محض براے تعمیر___ کرتے ہیں۔ اخلاق کا وہ سرمایہ جسے ہمیشہ نقصان کے اندیشے کے پیش نظر تجوریوں میں مقفل رکھا جائے اور جو ہمیشہ غیرپیداآور (unproductive) رہے، اجتماعی زندگی کے لیے اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ایک مسلم فرد اور مسلم جماعت کے پاس اگر کچھ بھی سرمایۂ ایمان و اخلاق ہو تو اسے زندگی کی مارکیٹ میں گردش کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ پھر اگر صاحب ِ سرمایہ میں صلاحیت ہوگی تو اس کی پونجی منافع لے کے لوٹے گی اور اگر وہ نااہل ہو تو پھر منافع کیسا، اصل پونجی بھی ٹوٹے گی۔ لیکن پونجی کا مصرف ہے یہی کہ وہ مارکیٹ میں گردش کرتی رہے، ورنہ چاہے اس کی مقدار کتنی ہی بڑی ہو، وہ قطعاً کالعدم ہے۔(’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۳، عدد۵، ذیقعد ۱۳۶۸ھ، اکتوبر ۱۹۴۹ء، ص ۴)