ایک مسلّمہ اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، تاریخ انھیں سبق سکھا کر رہتی ہے۔ انسانوں کے منصوبے اور چالیں اپنی جگہ، لیکن اللہ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب ہوکر رہتی ہے۔۱؎
بہت سی چیزیں ہم ناپسند کرتے ہیں لیکن بسااوقات انھی ناپسندیدہ چیزوں کے شر سے خیر کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور جس طرح رات کی تاریکی کے بطن سے دن کی روشنی رونما ہوتی ہے، اسی طرح وہی ناپسندیدہ شر، خیر اور بھلائی کی تمہید اور بعض بنیادی تبدیلیوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔۲؎
دراصل اس طرح کی تبدیلی اللہ کی سنت ہے اور وہ اسی طرح زمانے کو کروٹیں دیتا رہتا ہے۔ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ(اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔
تاریخ کے اوراق میں انسان، صدیوں سے یہ ’تماشا‘ دیکھتا چلا آرہا ہے ع
ہوتا ہے شب و روز تماشا ، مرے آگے!
کسے خبر تھی کہ ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو طاقت کے نشے میں مست ایک پاکستانی جرنیل امریکی صدر بش کی پوری پشت پناہی کے زعم میں، پاکستان کے چیف جسٹس کو برطرف کرکے عدالت عالیہ اور نظامِ عدل پر حملہ آور ہوکر اسے اپنی مٹھی میں لینے کا جو اقدام کرے گا، اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو عدلیہ پر ایک دوسرا اور زیادہ بھرپور وار کر کے اپنے تئیں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کا جو کھیل کھیلے گا، وہ کس طرح خود اس کی اپنی تذلیل، شکست اور بالآخر ملک سے اس کے فرار پر منتج ہوگا اور قوم دستور کی دفعہ ۶ کے تحت اس کے جرم کا محاسبہ کرنے اور اسے قرارواقعی سزا دینے کا مطالبہ کرے گی اور وہ دَر دَر بھٹکتا پھرے گا۔
بلاشبہہ ۹مارچ ۲۰۰۷ء اور ۱۵مارچ ۲۰۰۹ء میں ۲۴ مہینے کا فاصلہ ہے۔ تبدیلی میں دو سال لگ گئے (اس دوران وکلا برادری، سول سوسائٹی، سیاسی کارکنوں اور میڈیا نے تاریخی مزاحمتی کردار ادا کیا) لیکن اس شر سے ایک بڑا خیر نمودار ہونے سے ملک میں آزاد اور خودمختار عدلیہ کے پروان چڑھنے کے امکانات روشن ہوگئے۔
شاید آج کچھ لوگوں کو یہ امکان دُور ازکار اور یہ بات بھی مجذوب کی بڑ محسوس ہو مگر کیا بعید ہے کہ جس طرح بش کی سرپرستی میں مشرف کے مجرمانہ اور ہتک آمیز اقدامات ہی عدلیہ کی تاریخ کے ایک نئے باب کے آغاز کا ذریعہ بنے، اسی طرح کیری لوگر بل کی شکل میں مغرور امریکا کا حاکمانہ، استعماری اور ہتک آمیز اقدام بالآخر ملک میں ایک حقیقی طور پر آزاد خارجہ پالیسی کے فروغ کی تمہید ثابت ہو، اور امریکا کی ۶۰سالہ سیاسی اور معاشی غلامی سے نجات کا پیش خیمہ بن جائے۔
لیکن مستقبل کی دھندلی تصویر کو حقیقی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کے اصل اہداف کا دقّت نظر سے تجزیہ کیا جائے، خصوصاً گذشتہ ۶۰ سال کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور اس کے نتائج کو معروضی انداز میں سمجھا جائے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قوم کو بیدار اور متحرک کیا جائے تاکہ وہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے اسی طرح کمربستہ ہوجائے جس طرح انگریزی سامراج اور ہندو کانگریس کے خطرناک کھیل کا مقابلہ کرنے کے لیے تحریکِ پاکستان کے دوران سرگرم ہوئی تھی، اور جس طرح ۲۰۰۷ء تا ۲۰۰۹ء میں مشرف کے آمرانہ اقتدار سے نجات اور پھر زرداری کی عدلیہ کو محکوم رکھنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے دو سال تک شب وروز جدوجہد کی اور بالآخر پرویزی اقتدار سے نجات پائی۔ پھر زرداری کا کھیل بھی خاک میں مل گیا۔
کیری لوگر بل کے مندرجات کی زہرناکی کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جنھیں اچھی طرح سمجھنا ازبس ضروری ہے۔
اس بل کے حامیوں کی یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ امریکا اپنی امداد پر ہمیشہ شرائط لگاتا ہے اور یہ بھی غلط نہیں کہ معاشی اور فوجی امداد دینے والے ملک امداد کو اپنی خارجہ پالیسی اور اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ خالص انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دی جانے والی بے لوث مدد اس دَور میں عنقا ہے۔ عالمی سیاست طاقت کا کھیل ہے اور جیساکہ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد امریکا کی خارجہ سیاست کی صورت گری کرنے والے مفکر جارج کینان نے بہت ہی صاف الفاظ میں کہا تھا کہ خارجہ پالیسی وغیرہ کا اخلاق اور قانون کی پاس داری سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو صرف مفاد کا کھیل ہے۔
اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امریکا کا مفاد کیا ہے اور ہمارا مفاد کیا ہے اور اگر ان میں کوئی مطابقت اور ہم آہنگی نہیں تو پھر ہمارے درمیان اشتراکِ عمل اور حقیقی شراکت کیسے وجود میں آسکتی ہے؟ متضاد مقاصد، اہداف اور مفادات کے ساتھ ہم ایک دوسرے کے ہم سفر کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور اگر طاقت ور اور استعماری قوت فی الحقیقت ہماری آزادی اور مفادات کے لیے خطرہ ہوتی ہے تو پھر ع
جس کو ہو جان و دل عزیز ، اُس کی گلی میں جائے کیوں؟
بلاشبہہ امریکا شروع ہی سے ہم پر کچھ نہ کچھ شرائط لگاتا رہا ہے۔ روئیداد خان کی مرتّبہ دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ امریکا ۱۹۵۴ء ہی سے فوجی اور معاشی دونوں نوعیت کی امداد کے سلسلے میں اپنے مقاصد اور اہداف کو مختلف شکلوں میں ہم پر مسلط کرتا رہا ہے اور کہیں پاکستان کی قیادت نے سپر ڈالی ہے اور کہیں پابندیوں سے فرار کی راہیں بھی نکالی ہیں۔ لیکن اس اولیں دور میں شرائط کی زبان سخت اور نگرانی کا نظام حاکمانہ نہیں تھا۔
سب سے بڑھ کر یہ سب چیزیں سرکاری دستاویز اور خط کتابت میں دفن تھیں اور قوم اور پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا سارے معاملات طے ہو رہے تھے۔ ۱۹۸۰ء میں امریکا نے اسرائیلی اور بھارتی لابی کے زیراثر زیادہ واضح شرائط اور پابندیوں کا راستہ اختیار کیا۔ سیمنگٹن، پریسلر اور گلین ترامیم ان کی مثال ہیں لیکن ان کا تعلق بڑی حد تک جوہری صلاحیت سے تھا اور افغانستان میں روس کی مداخلت کے پس منظر میں گو یہ تمام تحدیدات کتابِ قانون میں موجود تھیں لیکن انھیں لاگو کرنے سے عمداً چشم پوشی کی گئی، حتیٰ کہ جب روسی فوجوں کی واپسی کا اعلان ہوگیا تو ہم پر معاشی پابندیاں لگ گئیں۔
۲۰۰۱ء کے بعد پھر حالات نے نئی کروٹ لی اور ۱۹۹۸ء کے جوہری تجربات کے بعد جو پابندیاں لگی تھیں، وہ مصلحت کے ایک ہی جھونکے میں پادر ہوا ہوگئیں۔ اس پس منظر سے چار باتیں بالکل واضح ہیں:
۱- پابندیاں مختلف شکلوں میں لگتی رہی ہیں،وہ نئی چیزیں نہیں ہیں لیکن سوال صرف پابندیوں کا نہیں ان کی نوعیت، اثرانگیزی، زبان اور وسیع تر اثرات کا ہے۔
۲- پابندیوں پر عمل درآمد، مفادات اور سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تابع رہا ہے اور بالعموم امریکا نے صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر انھیں استعمال کیا یا نظرانداز کیا۔
۳- یہ پابندیاں برابر بڑھتی رہیں اور اب ان پابندیوں نے ایک ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ وہ اپنی وسعت، گہرائی اور کاٹ کے اعتبار سے تباہ کن ہوگئی ہیں۔
۴- اس پورے دور کے مطالعے سے جو حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا سے ہمارا تعلق سارے زبانی جمع خرچ کے باوجود، نہ اصولی بنیادوں پر اشتراکِ مقاصد کا تھا اور نہ اسے حقیقی اور دیرپا دوستی (جسے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کہا جاتا ہے) کے فریم ورک کی حیثیت حاصل رہی۔ اس کا امکان ماضی میں تھا نہ آج ہے، مستقبل میں بھی دُور دُور تک یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ سارا معاملہ خالص امریکی مفادات کے فریم ورک میں لین دین پر مبنی تھا اور آج بھی ہے۔ اگر کوئی امریکا کا حقیقی پارٹنر رہا ہے تو وہ صرف برطانیہ اور اسرائیل ہیں، اور اب بھارت اس محدود دائرے میں داخل ہوچکا ہے۔ پاکستان کبھی اس کا حقیقی حلیف تھا اور نہ آج ہے اور مستقبل میں بھی اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ خواہ دل خوش کرنے (مگر درحقیقت دھوکا دینے) کے لیے اسے کبھی نہایت قریبی حلیف کہا جائے اور کبھی ناٹو کا غیررکن حلیف کے القابات سے نوازا جائے، حقائق بہت واضح ہیں۔ ہمیں اپنے کو دھوکا نہیں دینا چاہیے اورنہ دوسروں سے دھوکا کھانا چاہیے۔
اس پس منظر میں پھر وہ کیا بات ہے جس نے کیری لوگر بل کو ایک مختلف حیثیت دے دی ہے؟ ہماری نگاہ میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے جو شرائط اور پابندیاں اس کے ذریعے لگائی گئی ہیں اور تھوک کے بھائو سے یک مشت لگائی گئی ہیں، وہ اپنی موجودہ شکل میں نہایت سخت ہتک آمیز اور ’غلام آقا‘ تعلقات کی بدترین مثال ہیں۔ اس طرح جو عمل ۱۹۵۴ء میں شروع ہوا تھا، وہ اب اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ کر امریکا کے قانون کا حصہ بن گیا ہے، جو آیندہ بھی ہرقانون اور معاہدے کے لیے نمونے کا کام انجام دے گا۔ اب ہم محکوم اور تابع مہمل بنا دیے گئے ہیں اور امریکا نے اپنے لیے حاکم اور آقا کے سارے اختیارات لے لیے ہیں۔ پھر اس قانون میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو عادی مجرموں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ آزاد اور خودمختار ممالک کے درمیان معاملات اس زبان میں اور اس انداز میں نہیں کیے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ قانون اپنے تمام پیش روؤں پر بازی لے گیا ہے۔ اب امریکی عزائم اور ہمارے لیے غلامی کی زنجیریں بالکل برہنہ ہوکر سامنے آگئی ہیں اور اس قانون پر پردہ ڈالنے کی جو آخری کوشش پاکستانی عوامی ردعمل کے جواب میں پانچ صفحات پر مشتمل نام نہاد مقاصد کے توضیحی بیان کی شکل میں کی گئی ہے، وہ دھوکے اور طفل تسلی کے زمرے میں آتی ہے جس سے حقائق میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اس قانون کا جو بھی دیانت داری سے مطالعہ کرے گا وہ اسے دوستی کا پروانہ نہیں، غلامی کا طوق اور قومی تذلیل اور تحقیر کی دستاویز قرار دے گا، جیساکہ ہم آگے شواہد سے ثابت کریں گے۔
دوسرا پہلو جو اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اب سے پہلے امریکی امداد کی شرائط کا تعین فوجی حکومت کے دور میں ہوا یا فوج کی قیادت کا اس میں زیادہ عمل دخل رہا۔ اس بار ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے نمایندوں نے یہ گل کھلائے ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ آج آزاد پریس کی فضا میں یہ قانون سازی ہوئی ہے، اور گو دیر سے سہی امریکا کے سینیٹ اور ایوانِ نمایندگان میں اختلاف کے بعد جو آخری مسودہ منظور ہوا ہے وہ کھلی کتاب کی مانند پاکستانی قوم کے سامنے آگیا ہے۔ نیز عالمی میڈیا اور خود پاکستان کے میڈیا اور سیاسی قیادت نے خصوصیت سے حزبِ اختلاف نے اسے اجتماعی غورو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی پہلی بار کھل کر بات ہوئی ہے۔ گو پارلیمنٹ کو کسی فیصلے پر پہنچنے کا موقع نہیں دیا گیا اور حکومت نے بحث کے دوران مسئلے کو ہائی جیک کر کے ایک نمایشی سمجھوتے کا ڈھونگ رچایا لیکن اس بار کلھیا میں گڑ نہیں پھوڑا گیا اور معاہدے کی ہانڈی چوراہے پر پھوٹی ہے۔ پوری قوم کو احساس ہے کہ ’دوستی کی دستاویز‘ کے نام پر اسے محکومی اور غلامی کا طوق پہنایا گیا ہے۔ قوم نے اسے رد کر دیا ہے اور ہرسطح پر اپنی بے زاری کا اظہار کردیا ہے جس کا تازہ ترین ثبوت گیلپ پاکستان کا سروے ہے جس میں قوم کے فیصلے کی بازگشت صاف سنی جاسکتی ہے اور یہی جماعت اسلامی کے زیراہتمام عوامی ریفرنڈم کا فیصلہ ہے جس کے مطابق ۹۹فی صد عوام نے کیری لوگر بل کو مسترد کردیا ہے۔ گیلپ کے چار سوال اور ان کے جواب بھی قوم کے فیصلے کے مظہر ہیں:
اس سروے کے مطابق ۵۲ فی صد نے کہا: مسترد کر دیں، ۱۵ فی صد نے کہا: قبول کرلیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا کیری لوگر بل کے تحت امداد پاکستان کی معاشی ترقی میں مددگار ہوگی؟ ۶۰ فی صد نے نفی میں جواب دیا۔ پھر یہ کہ کیا یہ امداد ایک عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لائے گی؟ ۶۹ فی صد نے نہیں میں جواب دیا۔ کیا پاکستان امریکا اور دوسرے ملکوں کی امداد پر چل رہا ہے یا یہ اپنے وسائل سے بھی ترقی کرسکتا ہے؟ اس آخری سوال کے جواب میں ۶۲ فی صد نے برملا کہا کہ پاکستان اپنے وسائل سے بھی ترقی کرسکتا ہے۔
اس پس منظر میں امریکا سے تعلقات کا مسئلہ اب خواص اور مفاد پرست قیادت کے اختیار سے نکل کر عوام کی عدالت میں آگیا ہے اور اب ان شاء اللہ اس کا آخری فیصلہ واشنگٹن کے وائٹ ہائوس یا اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں نہیں، پاکستان کے گلی کوچوں میں ہوگا۔ اگر پارلیمنٹ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عوام نے جس طرح عدلیہ کی بحالی کا مسئلہ طے کیا، ان شاء اللہ اسی طرح یہ مسئلہ بھی طے کریں گے خواہ اس میں کتنا بھی وقت لگے اور عوام کو اپنے حق اور آزادی اور خودمختاری سے محروم کرنے کے لیے اپنے اور غیر کیسی ہی چالیں کیوں نہ چلیں۔
تیسرا پہلو بہت ہی بنیادی اور شاید سب سے اہم ہے اور معاملات کی تہہ تک جانے کے لیے سب سے زیادہ فیصلہ کن ہے۔
۵۰ کے عشرے سے لے کر ۲۰۰۹ء کے حالات تک دنیا بہت بدل گئی ہے اور خود امریکا کے عالمی عزائم اور اس خطے کے بارے میں اس کے ایجنڈے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جن کی تفہیم بہت ضروری ہے۔
۱۹۴۵ء سے ۱۹۸۹ء تک دنیا سردجنگ کی گرفت میں تھی اور امریکا کی ساری سیاست اسی کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس میں امریکا نے سیاسی اور معاشی حلقہ بندیوں کی جو حکمت عملی اختیار کی، اس میں پاکستان کا ایک خاص کردار تھا۔ ۱۹۹۰ء میں حالات بالکل بدل گئے اور امریکا اور مغرب نے نیا ایجنڈا بنایا جس میں ایک یک قطبی دنیا اور عالم گیریت، عالمی سرمایہ داری، سیکولر جمہوریت، آزاد معیشت اور امریکا کی عالمی بالادستی کی بنیاد پر نیا نقشہ تعمیر کیا گیا۔ ایک طرف تہذیبوں کے تصادم کا راگ الاپا گیا تو دوسری طرف مغرب کے تہذیبی نظریے کو، جسے سیاسی اور معاشی آزاد روی (political & economic liberalism) کا نام دیا گیا، پوری دنیا پر مسلط کرنے اور ان کے نظریے سے اختلاف یا اسے چیلنج کرنے والے کسی دوسرے نظریے کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینے کے عزائم کو پروان چڑھایا گیا۔ اس سلسلے میں اسلام اور اسلامی دنیا کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا۔ نائن الیون اسی سلسلے کی اہم ترین کڑی تھا لیکن آٹھ سال تک دنیا کو ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے ایک نہ ختم ہونے والے ہیجان اور انسانی اور معاشی تباہی کے جہنم میں جھونکنے کے باوجود امریکا اور ناٹو اقوام اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکیں۔
اس کے نتیجے میں ایسا نظرآرہا ہے کہ آیندہ کے لیے نئی صف بندی ہو رہی ہے اور اب امریکا، اسرائیل اور بھارت کا ایک نیا گٹھ جوڑ وجود میں آرہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یورپ، جاپان اور چین میں بھی اہم تبدیلیاں کروٹ لے رہی ہیں۔ اس نئے نقشۂ جنگ میں شرق اوسط اور خصوصیت سے پاکستان اور ایران کی بڑی اسٹرے ٹیجک اہمیت ہے۔ان دونوں ملکوں کے لیے بڑی خطرناک منصوبہ بندیاں کی جارہی ہیں، خصوصیت سے پاکستان کو قابو کرنے، اسے کمزور کرنے اور خانہ جنگی اور اندرونی انتشار میں مبتلا کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے مختلف النوع حکمت عملی وضع کی جارہی ہیں۔ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھارت کو خصوصی کردار دیا گیا ہے۔ ایران کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے اور پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ اب جملہ کارروائیوں کا مرکز افغانستان سے پاکستان کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے اور افغانستان میں بھی، ناکامی کا سبب پاکستان کے کردار کو قرار دے کر، اسے نہ صرف ہراعتبار سے اپنی گرفت میں لینے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے بلکہ فوج کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اُلجھا کر اور فوج اور قوم کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرکے اپنے ہاتھوں میں کھیلنے والی سیاسی قیادت کو آلۂ کار بناکر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قوت، رشوت اور بلیک میلنگ کے ہتھیار پوری چابک دستی سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے اب ایک نئی پروپیگنڈا وَار کی دھمکی دے دی ہے۔
ان حالات میں عوامی مخالفت اور پارلیمنٹ کی مزاحمت کے باوجود کابینہ نے کیری لوگر بل کو جس طرح منظور کیا ہے، وہ انتہائی افسوس ناک ہے اور مشرف دور کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی اقدام ہے جیسا پرویز مشرف نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو کیا تھا۔ اگر اس اقدام کا ہدف عدلیہ اور اس کی آزادی تھی تو اِس مرتبہ اصل ہدف ملک کی آزادی اور خودمختاری ہے اور عزت و وقار کا سودا کر کے اسے امریکا کی گرفت میں دینے کی سازش ہے۔ اسے زرداری صاحب اور ان کے وزیرخارجہ ایک ’تاریخی کامیابی‘ قرار دے رہے ہیں اور دعویٰ ہے کہ اب امریکا سے ’مستقل دوستی‘ اور لمبے عرصے کے فریم ورک میں امداد حاصل کی جارہی ہے، حالانکہ کیری لوگر قانون ان دونوں باتوں کی تردید کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ کہ پہلی بار پانچ سال کے لیے امداد کا وعدہ کیا جارہا ہے، واقعاتی اعتبار سے غلط ہے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ڈاکٹر محبوب الحق کی وزارتِ خزانہ کے دور میں بھی پانچ سال کے لیے امریکی امداد دی گئی تھی اور اس کے نتائج قوم دیکھ چکی ہے۔
جہاں تک موجودہ امداد کے لیے پانچ سال کے فریم ورک کا سوال ہے تو یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ کیری لوگر بل کے مطابق ہرسال جائزہ لیا جائے گا اور اس کے لیے ہر چھے ماہ بعد امریکا کی وزارتِ خارجہ رپورٹ تیار کرے گی اور پاکستان میں احتساب، نگرانی اور آڈٹ کا بھرپور نظام قائم کیا جائے گا۔ نیز ان ۴۲ شرائط (benchmarks) کی روشنی میں، جو اس قانون کا حصہ ہیں، اگر رپورٹ میں ذرا بھی خلاف ورزی پائی گئی تو امداد کی اگلی قسط کو روک دینے کی سفارش قانون کا حصہ ہے۔ اس کی موجودگی میں نہ امداد کا تسلسل یقینی ہے اور نہ معاشی ترقی کے منصوبوں کے دیرپا ہونے کی کوئی ضمانت ہوسکتی ہے۔
۵ء۷ ارب ڈالر کو ایک ’خطیر امداد‘ قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ ۱۹۸۴ء میں صرف ایک سال میں ۱ء۵ ارب ڈالر کی امداد بھی پاکستان کو مل چکی ہے۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۲ ارب ڈالر کی امداد کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور اگر اس زمانے میں افراطِ زر اور ڈالر کی قوتِ خرید اور اس کی عالمی قیمت میں کمی کو سامنے رکھا جائے تو حقیقی طور پر ۵ء۱ ارب ڈالر سالانہ کی امداد مونگ پھلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ پھر اس ۵ء۱ ارب ڈالر میں سے ۲۰۰ ملین ڈالر امداد پر امریکا کی نگرانی کے نظام کے لیے وقف ہیں۔ باقی ۳ء۱ ارب میں سے کتنا امریکا کے پاکستانی منصوبوں پر خرچ ہوگا وہ ایک معما ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ صرف امریکی سفارت خانے کی توسیع کے لیے ۶۰۰ سے ۷۰۰ ملین ڈالر درکار ہوں گے۔ اگر اس سے صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تب بھی ہمارا اپنا اور دنیا کے سارے ممالک کا تجربہ ہے کہ معاشی امداد کا ۵۰ فی صد امداد دینے والے ملک کے ادارے اور مشیر واپس لے جاتے ہیں اور باقی ۵۰ فی صد میں سے ۲۰ فی صد امداد لینے والے ملک میں بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔ ملک اور اس کے عوام کے حصے میں بمشکل ۲۰ یا زیادہ سے زیادہ ۳۰ فی صد آتا ہے اور وہ بھی ان منصوبوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو امداد دینے والے ملک کی ترجیح ہوتے ہیں (قطع نظر اس کے کہ امداد لینے والے ملک کی ترجیح میں وہ کہاں آتے ہیں اور اُسے کتنا حقیقی فائدہ ہوتا ہے)۔ یہ بھی مشتبہ ہے کہ ان میں سے کتنے منصوبے مکمل ہوتے ہیں، کتنے صرف کاغذ پر بنتے ہیں اور فائلوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔
کیری لوگر بل میں غیرحکومتی اداروں کو خصوصی کردار دیا گیا ہے اور پالیسی کی یہ ترجیح واضح الفاظ میں موجود ہے کہ حکومتی ذرائع کے علاوہ امداد کا ذریعہ این جی اوز ہوں گی۔ ٹائٹل J کے سیکشن ۱۰۱ میں صاف بیان کیا گیا ہے:
صدر کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اس سیکشن کے تحت امداد فراہم کرنے کے لیے پاکستانی اداروں، کمیونٹی اور مقامی این جی اوز بشمول میزبان ملک کے ساتھ معاہدوں اور مقامی لیڈروں کے ساتھ کام کریں۔
سارا کام یو ایس ایڈ اور اس فنڈ کے لیے پاکستان کے سربراہ کے ذریعے انجام دیا جائے گا جو مانٹیرنگ کے فرائض بھی انجام دے گا۔ اس امداد پر تصدیق نامہ جاری کرنے کا نظام ہوگا جو سیکرٹری آف اسٹیٹ کے اختیار میں ہوگا اور اسے نظرانداز کرنے (waiver ) کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔ امریکا نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ کے منصوبوں میں دخل اندازی کریں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آڈٹ کا پورا نظام امریکی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ منصوبوں اور پروگراموں کو روبہ عمل لانا، ان کا انتظام، ان کا آڈٹ اور ان کی نگرانی اس کی ذمہ داری ہوگی۔
بات ارادوں سے بہت آگے جاچکی ہے۔ امریکا عملاً بہت کچھ اپنے ہاتھ میں لے چکا ہے۔ اب کیری لوگر بل نے اس عملی انتظام کے لیے قانونی ڈھانچا تجویز کیا ہے اور یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ باہر کے محققین جن کی نگاہ پاکستان کے حالات اور امریکی امداد کے طریقۂ واردات پر ہے، وہ اس کا برملا اعتراف کر رہے ہیں۔
لندن کے اخبار دی گارڈین کا نامہ نگار اپنے مضمون Pakistan's American Aid Dilemma میں امریکا اور پاکستان دونوںکو ان الفاظ میں آئینہ دکھاتا ہے:
پاکستان میں جو بات لوگوں کو خوف زدہ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ امداد پاکستان کی سلامتی کے پورے نظام کے حساس ترین پہلوئوں کی امریکی نگرانی سے مشروط ہے۔ ان اقدامات پر اتنا شدید احتجاج ہوا کہ کانگریس کو ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا جس میں وعدہ کیا گیا کہ امریکا ریاست کے انتظامی امور میں جزئیات کے انتظام (micro management) تک نہیں جائے گا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اس وقت بھی جزئیات کے انتظام میں دخل انداز ہے۔ اب بڑا فرق یہ ہوگیا ہے کہ امریکی انتظامیہ جب یہ کرے تو کانگریس کو زیادہ جواب دہ ہوگی۔ (دی گارجین، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)
اس مضمون میں دی گارڈین کے نامہ نگار کا مندرجہ ذیل تبصرہ بھی غور کرنے کے لائق ہے:
یہ ایک ہمہ گیر قانون ہے جو عملاً پاکستان کے ریاستی امور، تعلیم اور ماحولیات سے لے کر سلامتی کے معاملات تک، ہر پہلو کا ذکر کرتا ہے۔بلاشبہہ یہ واضح نہیں ہے کہ کتنی امداد پاکستان کو براہِ راست دی جائے گی اور کتنی امداد امریکا اور نجی مشیران اس کے انتظامی امور پر خرچ کریں گے۔
پاکستان کے وزیرخزانہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انتظامی اخراجات امداد کو نصف کردیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امدادی پیکج کے ساتھ جو شرائط لگائی گئی ہیں، وہ پاکستان کا بازو موڑنے کو چھپانے کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ محکمہ خارجہ اور اس کے ساتھ کم تر درجے میں کانگرس اور پینٹاگون کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ یہ امداد کرپشن کی نذر نہ ہو۔ بہرحال یہ ادارے غیرجانب دار اور آزاد نہیں ہیں۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی بقا کے لیے امریکا پر انحصار کرتا ہے۔
کیا اب بھی اس میں کوئی شک ہے کہ بات جزئیات کے انتظام کو ہاتھ میں لینے سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ اگر اس قانون پر پورا عمل ہوتا ہے (اور امریکا کروائے گا) تو پاکستان ایک محکوم ملک ہوگا اور امریکاکی حیثیت ریاست بالاے ریاست کی ہوگی، محض ریاست کے اندر ریاست کی نہیں!
یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ کیری لوگر بل ایک مربوط اور جامع قانون ہے جس میں معاشی اور سیکورٹی امداد کے لیے الگ الگ سیکشن تو ضرور قائم کیے گئے ہیں لیکن یہ دونوں باہم مربوط ہیں۔ قانون کے اولین حصے کا سیکشن ۳ بہ عنوان Findings ۱۲ نکات پر مشتمل ہے، اور اس کے سیکشن ۴ بہ عنوان Statement of Principles میں پانچ اصول بیان کیے گئے ہیں۔ پانچویں اصول کے ذیل میں ۱۴نکات سموئے گئے ہیں۔ یہ حصے پورے بل پر حاوی ہیں اور معاشی اور سیکورٹی امداد دونوں ان کے تابع ہیں۔ یہ حصے پورے قانون کے مقاصد اور مزاج کو متعین کرتے ہیں۔ پورے امدادی نظام کے لیے جو مانٹیرنگ اور تصدیق کا دروبست طے کیا گیا ہے، وہ بھی ناقابلِ تقسیم ہے۔ سب سے بڑھ کر خود پاکستان اور حکومت ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ کچھ شرائط کا تعلق صرف سیکورٹی امداد سے ہے، ایک مغالطہ ہے۔ جیسا کہ امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بجاطور پر لکھا ہے، یہ تفریق ناقابلِ عمل ہے۔ (دی نیوز، ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۰ء)
نسیم زہرہ کی بات بھی غورطلب ہے:
اس بل سے پاکستان میں اقتدار کے معاملات کو غیرمستحکم کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس بل سے سول اور فوجی حکام کے درمیان اعتماد کی کمی ظاہر ہوتی ہے۔ حزبِ اقتدار کی جماعتوں اور سیکورٹی کے اداروں میں ایک راے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ حکمران سیاسی قیادت کے ایک حصے نے ان شرائط کی شمولیت کے لیے جن کا نشانہ پاکستان کے سیکورٹی کے ادارے اور پالیسیاں ہیں، اگر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی تو ساتھ ضرور دیا ہے۔
اس قانون کے مطالعے سے جو ناقابلِ انکار حقائق سامنے آتے ہیں وہ ہم ڈاکٹر ملیحہ لودھی ہی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ محترمہ ملیحہ لودھی حکومتی نظم کا بہت اہم حصہ رہی ہیںاور ان پر تعصب یا امریکا دشمنی یا بنیاد پرستی کا الزام نہ زرداری صاحب لگا سکتے ہیں اور نہ صدر اوباما، یا محترمہ ہیلری کلنٹن یا سینیٹر جان کیری۔
اس قانون کا جو مفہوم پیپلزپارٹی کے اربابِ اقتدار کو چھوڑ کر پاکستان کے دانش وروں، صحافیوں اور خود فوج کی قیادت نے سمجھا ہے، اس کی تصدیق امریکا کے غیر جانب دار اہلِ قلم بھی کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کی ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ان کے مضمون نگار ڈیوڈ اگناشیس (David Ignatius) نے اہلِ پاکستان کے جذبات کی پوری دیانت اور جرأت سے ترجمانی کر دی ہے۔ یہ مضمون امریکی قیادت کو آئینہ دکھاتا ہے اور پی پی کی قیادت کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے چند اقتباس ملاحظہ کیجیے:
کانگریس نے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے امداد کو تین گنا کیا ہے لیکن ممبران نے جو ہمیشہ دوسروں کو یہ بتانے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں کہ وہ کیا کریں، ایسی شرائط داخل کردی ہیں جو پاکستانیوں کو توہین آمیز لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ امداد اور دوستی کو خوش آمدید کہنے کے بجاے پاکستانی [عوام] امریکی مداخلت پر ناراض ہیں۔ گذشتہ ہفتے میں اسلام آباد میں تھا تو اس وقت پاکستانی پریس امریکا مخالف جذبات سے بھرا ہوا تھا۔
پاکستانیوں پر کچھ حرف گیری کرنے کے بعد ڈیوڈ اگناشیس کام کی بات کہتا ہے:
یہ دراصل ان بلاجواز الفاظ کا نتیجہ ہے جنھیں ان تنبیہات کے باوجود قانون میں لکھا گیا کہ اس سے اس طرح کا ردعمل پیدا ہوگا۔ امریکی سیاست دان دوسروں کو لیکچر دینے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیںکہ وہ دوسرے ملکوں میں ان کے الفاظ سے جو مفہوم لیا جائے گا، اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ لیکن جب کچھ بلاجواز جملے القاعدہ کے خلاف ہمارے سب سے اہم اتحادی کے ساتھ تعلقات کو غیرمستحکم کرسکتے ہیں تو پھر یہ ہمارا مسئلہ بھی ہے۔
مضمون نگار اس کے بعد بل کی تاریخ بیان کرتا ہے کہ کس طرح سینیٹ میں منظور ہونے والا بل کم از کم زبان کے اعتبار سے نسبتاً نرم تھا مگر ایوانِ نمایندگان کے مسودے کے ذریعے ایسی شرائط کا اضافہ کردیا گیا جو کسی بھی باغیرت قوم کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتیں۔ مضمون نگار کے الفاظ میں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ:
پاکستان کو فوجی امداد نہیں ملے گی جب تک کہ وہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف اپنے مضبوط عہد کا مظاہرہ نہ کرے اور دہشت گرد گروپوں کے لیے اپنی حمایت ختم نہ کرے اور کوئٹہ اور مریدکے (جہاں لشکرطیبہ کا مرکز ہے) کے دہشت گرد اڈوں کو ختم نہ کردے۔ اگرچہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ان گروپوں سے ماضی میں تعلقات رہے ہیں لیکن کانگریس کی طرف سے اس برسرِعام ڈانٹ ڈپٹ نے پاکستانی خفیہ سروس کے افسران اور فوجی حکام کو پریشان کرنا ہی تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے سپاہی طالبان اور دوسرے انتہاپسند گروپوں کے خلاف لڑائی میں اپنی جانیں دے رہے ہیں اور انھیں کانگریس کی طرف سے کسی رعب کے اظہار کی ضرورت نہیں۔
امریکا کے ایک اور رسالے ورلڈ پولٹیکل ریویو میں اس کے مقالہ نگار ڈاکٹر کلاڈ رکی سٹس (Claude Rakisits )٭ نے اس بل کے ایک اور خطرناک پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:
کیری لوگر بل کی بعض شرائط بہت سخت ہیں اور انھوں نے پاکستان کی سول اور فوج کی مقتدرہ کے درمیان ایک گہری دراڑ ڈال دی ہے جو اس ملک میں جمہوریت کے استحکام میں مددگار نہیںہوگی۔ ایک شرط جس نے پاکستانی فوج کو بہت زیادہ ناراض کیا ہے، یہ ہے کہ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن ہر چھٹے ماہ کانگریس کو رپورٹ کریں گی کہ حکومت پاکستان فوج پر مؤثر سول کنٹرول کر رہی ہے یا نہیں؟ وزیرخارجہ کو دوسری باتوں کے علاوہ یہ اندازہ بھی لگانا ہوگا کہ حکومت کس حد تک فوجی بجٹ، فوج کی قیادت، رہنمائی اور منصوبہ بندی اور سینیرافسران کی ترقی پر نظر رکھتی ہے۔ پاکستانی فوج کے افسران کے لیے یہ بیل کے سامنے سرخ جھنڈا لہرانے کے مترادف ہے۔
کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، پاکستان میںفوج نے ظاہری یا خفیہ طور پر ملک کے سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ منتخب سول قائدین کو بالآخر فوج پر بالادست ہونا چاہیے لیکن یہ یقین کرنا کہ ایسا چند مہینوں میں ہوجائے گا بہت سادگی کی بات ہے اور خاص طور پر اس وقت، جب کہ یہ کوشش واشنگٹن سے مسلط کی جارہی ہو۔ گذشتہ سال اس کا مظاہرہ ہوا ہے جب صدر آصف زرداری نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ آئی ایس آئی کوسول کنٹرول میں لے رہے ہیں۔اگلے ہی دن انھیں جنرل کیانی کی مخالفت کی وجہ سے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔
کیری لوگر بل کے لیے زرداری کی بہت شدید کھلی حمایت نے پاکستانیوں کے اس تاثر کو گہرا کر دیا ہے کہ ان کا صدر امریکا کی ہر بات مانتا ہے، یہاں تک کہ وہ سخت ضروری رقوم کی خاطر پاکستان کی خودمختاری کے کچھ حصے سے بھی دست بردار ہونے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایسے ملک میں جہاں امریکی مخالفت عام ہے اور اس وقت سب سے زیادہ ہے، ایسے صدر کو جو پہلے ہی سیاسی طور پر کمزور ہو، مزید کمزور کردیتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ سول اور فوجی قیادت میں بداعتمادی کو بڑھادے گا مگر اس سے امریکا کو پاکستان میں حکمرانی کو بہتر کرنے کے اپنے مقصد میں مدد نہیں ملے گی۔ ان سب باتوں سے پاکستانی فوج میں یہ احساس تقویت پاتا ہے کہ واشنگٹن ان پر اعتماد نہیں کرتا۔
بات صرف فوج اور امریکا کے درمیان اعتماد کی نہیں، بلکہ پوری پاکستانی قوم کے بارے میں امریکا کے اور امریکا کے بارے میں پاکستانی قوم کے اعتماد میں کمی کی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور بالآخر دونوں کے راستے ایک دوسرے سے جدا ہوکر رہیں گے۔ مضمون نگار جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے:
کیونکہ اسلام آباد کو رقم کی سخت ضرورت ہے، اس لیے اس کے پاس اس کڑوی گولی کو نگلنے اور اس بل کو جیسا یہ ہے قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس سے منہ بدذائقہ ہوجائے گا اور یقینا دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد قائم نہیں رہے گا۔
یہ تو پھر بھی دوسروں کا تجزیہ اور تبصرہ ہے، اگر خود امریکی ایوانِ نمایندگان کے کچھ ارکان کے ارشادات پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے تو امریکی کانگریس اور حکمرانوں کا اصل ذہن سامنے آجاتا ہے، اور قانون کے مقاصد کے بارے میں کسی نمایشی یافرمایشی بیان کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایوانِ نمایندگان میں اس بل کے مجوز کانگریس کے ڈیموکریٹک رکن ہاورڈ برمین کا بیان ہے:
ہم القاعدہ یا کسی دوسرے دہشت گرد گروپ کو جو ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں، اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ قبائلی علاقوں میں یا پاکستان کے کسی دوسرے حصے میں کسی اندیشے کے بغیر کارروائی کریں، نہ ہم یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ طالبان ریاستِ پاکستان اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرلیں۔
ایوان کے ایک دوسرے رکن ڈانا روہرباخر (Dana Rohrbochar) بل کی تائید میں کہتے ہیں:
چین اور پاکستان، دونوں حکومتیں ہمیشہ ہمارے مفادات کے خلاف منصوبے بناتی اور کارروائیاں کرتی ہیں۔ انقلابی اسلام کا خطرہ حقیقی ہے لیکن یہ ہمارے اپنے ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے کے بارے میں غیر ذمہ دار ہونے سے حل نہیں ہوگا۔
سینیٹر جان کیری امریکا کے بڑے معتبر سیاست دان ہیں، انھیں پاکستان کادوست ہونے کا بھی دعویٰ ہے لیکن یادش بخیر جب وہ ۲۰۰۴ء میں صدارتی امیدوار تھے تو ان کا ارشاد تھا کہ اگر میں امریکا کا صدر منتخب ہوگیا تو میری اولین ترجیح پاکستان کے نیوکلیر ایٹمی اسلحے پر قبضہ ہوگا۔ خود اس بل پر بحث کے دوران ان کا کہنا ہے:
بغاوت کے خلاف حکمت عملی کے برخلاف دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی اس نظریے پر مبنی ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات کو حقیقی خطرہ پاکستان میں ہے افغانستان میں نہیں۔ پاکستان اہم مرکز ہے اور امریکا کے لیے سب سے بڑا سیکورٹی رسک ہے، اور یہ ساری مشق بالآخر ہماری اپنی سلامتی سے متعلق ہے۔
اپنے حالیہ دورے میں بھی جب وہ پاکستانی صحافیوں اور سیاست دانوں کو (پی پی کے ٹولے کو چھوڑکر) قائل نہ کرسکے تو ان کے منہ سے سچی بات ان الفاظ میں نکل ہی پڑی: ’’یہ قانون امریکا کی پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ ہم مدد دے رہے ہیں، پاکستان کواختیار ہے کہ وہ مدد نہ لے‘‘۔
پاکستان کے ردعمل پر امریکا کے سرکاری ترجمان کا تبصرہ جو دی نیوز کے واشنگٹن کے نمایندے نے اپنی رپورٹ مورخہ ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء میں بھیجا ہے، سنجیدہ غوروفکر کے لائق ہے:
اس رپورٹر کو ایک سینیر امریکی افسر نے بتایا: ’’شاید کیری لوگر بل کی زبان پاکستانیوں کے لیے زیادہ حساس ہوسکتی تھی لیکن موجودہ زبان ہماری کانگریس کی راے کی عکاس ہے۔ کانگریس کے دونوں ایوانوں کے ۵۰۰ ممبران بعض وقت دوسرے ملکوں کے بارے میں شدید غیر محتاط زبان استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں امریکا کی سفیر محترمہ پیٹرسن نے ۸؍اکتوبر کو لاہور میں اس قانون کے ۴۲ ہتک آمیز مطالبات کی توجیہ کا بالعموم یہی آسان حل نکالا ہے کہ بس کیری لوگر بل کی زبان نامناسب تھی۔ گو فوج کے بارے میں دفعات کے باب میں یہ بھی ان کی زبان سے نکل گیا کہ یہ دفعات "a big mistake" (ایک بڑی غلطی) تھیں۔
بل کے مجوزین کی طرف سے توضیحی بیان کا سارا زور بھی اس پر ہے کہ زبان کو سمجھنے میں ابہام رہا ہے اور مسئلے کا حل الفاظ کی بہتر تعبیر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ الفاظ کی بہتر تعبیر سے معاملہ رفع دفع تو کیا جاسکتا ہے لیکن زبان جن خیالات اور مطالبات کی ترجمان ہے ان کی کوئی دوسری تعبیر یا توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ ہمارا اصل مسئلہ وہ اہم بنیادی موضوعات اور مسائل (substantive issues) ہیں، جن میں پاکستانی قوم اور امریکی قیادت کی سوچ اور اہداف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیری لوگر بل کے الفاظ ہی بقول سرکاری ترجمان: امریکی پارلیمنٹ کے ذہن کے عکاس ہیں اور توضیحی بیانات کی لیپاپوتی سے حقائق پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس بات کی توثیق اس تازہ ترین قانون کی شکل میں ہوگئی ہے جو اس ساری بحث کے بعد امریکی ایوانِ نمایندگان نے ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو Fiscal 2010 Defence Authorization Bill کی شکل میں منظور کیا ہے اور جسے ۲۳؍اکتوبر کو سینیٹ نے بھی منظور کرلیا ہے۔ اس بل میں عملاً وہ شرائط ایک تازہ ترمیم کے ذریعے شامل کردی گئی ہیں جن پر کیری لوگر بل کے حوالے سے تنقید ہورہی ہے اور جسے پاکستانی قوم نے یکسر رد کر دیا ہے۔ سی بی این نیوز کی رپورٹ US Congress Quietly Okays New Curbs on Military Aid (۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) پڑھنے کے لائق ہے:
میڈیا کو بتایا گیا کہ محکمہ دفاع کے بل میں ایک ترمیم شامل کردی گئی ہے تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ پاکستان کو جو فوجی امداد دی جارہی ہے، حقیقی طور پر اپنے مقصد یعنی طالبان اور القاعدہ سے لڑنے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اس کے مطابق امریکا کے وزیرخارجہ اور وزیردفاع پاکستان کو امداد دینے سے پہلے یہ تصدیق نامہ دینے کے پابند ہیں کہ یہ ادایگی قومی سلامتی کے مفادات کے تحت ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر نہیں کرے گی۔
واضح رہے کہ اس تازہ ترین قانون کے مطابق امریکی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ امداد کی رقم اور اس کے تحت دیے جانے والے اسلحے کے استعمال پر نگاہ رکھے، یعنی یہ کہ کتنا اور کون سا اسلحہ کہاں، کیسے اور کب، کس طرح اور کس لیے استعمال ہوا؟ ہراسلحے اور ہرڈالر کے استعمال پر امریکا کی ایسی نگاہ ہو کہ وہ صرف امریکی سیکورٹی مقاصد کے لیے استعمال ہو اور علاقے میں قوت کا توازن متاثر نہ ہو جس کے معنی بھارت کے مفادات اور اس کی عسکری برتری کی حفاظت ہے۔
یہ تازہ ترین قانون زرداری حکومت کے منہ پر ایک اور طمانچا ہے لیکن اسی حکومت نے امریکا کی ہر زیادتی اور ہر ناروا مطالبے پر سرتسلیم خم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے (بالفاظِ دیگر امریکی غلامی کو طوق در طوق قبول کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے) اور اس وقت جب خود امریکا کے کچھ صحافی اور سیاست دان یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ امریکا کی یہ سامراجی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی، پاکستان کے مفاد پرست حکمران اپنے ہی ملک کی آزادی اور خودمختاری کاجنازہ نکالنے کے لیے کندھا دینے میں پیش پیش ہیں۔
کیری لوگر بل پر امریکی کانگریس کے ایک رکن گیری ایکرمین کا یہ تبصرہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو عبرت اور پاکستان کے غیور عوام کو حالات کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے پیشِ خدمت ہے:
ہماری کامیابی کا سارا انحصار ان اصلاحات پر ہوگا جو پاکستانی پاکستان میں کریں گے اور مجھے اس بل میں کوئی ایسی یقین دہانی نظر نہیں آتی کہ اس طرح کی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر پاکستان کے سرپرست بن رہے ہیں نہ کہ شراکت دار۔ آخر میں یہ ہوگا کہ جو کچھ ہم دے رہے ہیں، وہ اس کو ہضم کرلے گا اور رہے گا وہی پاکستان۔ سب سے بُری بات یہ ہے کہ پھر بھی یہی دعویٰ کریں گے کہ ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔
ایکرمین کا یہ تبصرہ پاکستان سے دوستی اور فکری ہم آہنگی پر مبنی نہیں، اس لیے کہ اس کا اصل ذہن تو یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کی اساس، سوچ اور مفادات متصادم ہیں۔ اس نے صاف الفاظ میں کہا ہے: ’’امریکا اور پاکستان کے مفادات قریب قریب یکساں نہیں ہیں‘‘۔
لیکن اگر مخالف کے منہ سے بھی سچی بات نکل جائے تو اس کی ناقدری نہیں کرنی چاہیے۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے ماضی، حال اور مستقبل کی جو تصویر ۶۰سالوں پر پھیلی ہوئی اس داستان سے اُبھرتی ہے، کیری لوگر بل اور امریکی کانگریس کے منظورشدہ تازہ ترین The Defence Authorization Bill for 2010 میں صاف نظر آتی ہے۔ اس سے دیانت داری کے ساتھ صرف یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مفادات میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ ہمارے لیے آزادی، عزت اور ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ایسی آزاد خارجہ پالیسی کے اختیار کرنے میں ہے جس میں ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ ہمارے خارجہ تعلقات کی بنیاد بڑی طاقتوں کے مفادات اور ان کی کاسہ لیسی سے عبارت نہ ہو، بلکہ خود اپنے نظریاتی اور تہذیبی وجود اور سیاسی اور معاشی عزائم اور مفادات پر مبنی ہو اور دوست اور دشمن کی صحیح تمیز کی بنیاد پر تعلقات کو مرتب اور مستحکم کیا جائے۔ پاکستانی عوام امریکا کو اپنا دوست نہیں سمجھتے اور اس علاقے کے بارے میں امریکا کی پالیسیوں کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ کم و بیش یہی جذبات پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی اس قرارداد میں بھی سامنے آئے تھے جو ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی اور جس پر پورا ایک سال گزر گیا، حکومت نے رتی بھر بھی عمل نہیں کیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں اور عوام کی خواہشات میں کوئی مطابقت نہیں، بلکہ حکومت کی کارکردگی انتہائی غیراطمینان بخش ہے۔ حالات روز بروز بگاڑ کی طرف جارہے ہیں۔ اس صورت حال میں ضرورت کس بات کی ہے؟
تبدیلی کے لیے جدوجہد کی___ غلط پالیسیوں کے خلاف عوامی اور جمہوری جدوجہد، امریکا کی سیاسی اور معاشی گرفت سے نکلنے اور اپنی آزادی، خودمختاری اور عزت و وقار کی حفاظت، معاشی خودانحصاری کے حصول اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کو پروان چڑھانے کے لیے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔
کیری لوگر بل نے ’گو امریکا گو‘ کی تحریک کی ضرورت، افادیت بلکہ ناگزیریت کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے۔ کیری لوگر بل کا تازیانہ اگر قوم کو بیدار کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، ملّت اسلامیہ پاکستان کی آزادی، خودمختاری، خودانحصاری اور عزت و وقار کی بحالی کی تحریک اگر آگے بڑھتی ہے اور یہ تحریک عوامی اور جمہوری قوت کے ذریعے استعماری قوتوں اور ان کے حواریوں سے نجات کا راستہ استوار کرتی ہے تو پھر یہ ایک تاریخی تبدیلی کی نقیب بن سکتی ہے___ اور یہی وہ راستہ ہے جو آزادی، زندگی، قوت اور عزت کی منزل کی طرف لے جاسکتا ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو.ُ عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
(کتابچہ: کیری لوگر بل اور پاک امریکا تعلقات دستیاب ہے، قیمت: ۱۰ روپے۔ سیکڑے پر خصوصی رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور)
عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں اسلامی بنکاری کو تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی اسلامی فنانس انڈسٹری کے اثاثہ جات میں گذشتہ چند برسوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہو ا ہے اور اب وہ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں(ٹریو بنکنگ، اگست-ستمبر ۲۰۰۹ء، ص ۱۱)۔ یہ غیرمعمولی پیش رفت ہے اور اسلامی بنکاری کے ایک محفوظ بنکاری کے تصور پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا نتیجہ ہے کہ یہ سود اور سٹہ سے پاک حقیقی سرمایہ کاری پر مبنی ہے۔
اسلامی بنکاری کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت چند ماہ قبل اشتراکی نظریات کے حامل روس کے دارالحکومت ماسکو میں پہلی بین الاقوامی اسلامی بنکاری کانفرنس (۱۷؍۱۸ مارچ ۲۰۰۹ء) کا انعقاد ہے جس سے روس اور اسلامی ممالک میں اسلامی بنکاری کی پیش رفت کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے۔ حال ہی میں ویٹی کن سٹی نے بھی سرمایہ داری نظام کو ناکام قرار دیتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ معاشی بحران کے حل کے لیے اسلامی بنکاری سے رجوع کیا جائے۔ اس لیے کہ اسلام کے معاشی قوانین معاشی بحران کا بہتر حل پیش کرتے ہیں۔ ویٹی کن کے سرکاری ترجمان L'osservator Romunoنے ایک مقالہ: Islamic Finance: Proposal and Ideas for The West in Crisisجو کہ اٹلی کے ماہرین معیشت Loretta Napoleoniاور Claudia Segreنے لکھا ہے، شائع کیا ہے اور تجویز کیا ہے کہ اسلامی معاشی قوانین موجودہ بحران کا ایک بہتر حل پیش کرتے ہیں اور سکوک بانڈ کو سود کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پوپ بینڈکٹ XVI نے بھی سرمایہ داری نظام پر کڑی تنقید کی ہے۔ ویٹی کن خود بھی مالی بحران کا شکار ہے۔ ۲۰۰۷ء کے ۱۸ بلین یورو اضافی بجٹ میں ۶ بلین یورو کی کمی واقع ہوچکی ہے جس میں سالِ رواں میں مزید کمی کا اندیشہ ہے۔
عالمی اسلامی فنانس کا بڑا مرکز اس وقت مشرق وسطیٰ، ایشیا اور برطانیہ ہے۔ ہانگ کانگ، سنگاپور، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا کے ساتھ ساتھ جاپان میں بھی اسلامی بنکاری تیزی سے فروغ پارہی ہے۔اس عالمی رجحان کی وجہ سے عالمی اسلامی بنک کے قیام کی ضرورت کو بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ ماضی میں بھی اس حوالے سے کوششیں کی جاتی رہی ہیں، تاہم البرکہ گروپ بحرین نے شیخ صالح کمال کی سربراہی میں سرگرمی دکھائی ہے اور عالمی اسلامی بنک کے قیام کی طرف مزید پیش رفت ہوئی ہے۔ البرکہ گروپ، استخلاف (Istikhlaf) کے نام سے شرعی انوسٹمنٹ عالمی بنک کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ گذشتہ کئی برسوں کی کوششوں کے نتیجے میں اسی اقدام کو نہ صرف سراہا جا رہا ہے بلکہ بنک کے اجرا کے لیے اب تک ۵ء۳ بلین ڈالر کا سرمایہ خلیجی ممالک سے جمع بھی کیا جاچکا ہے، جب کہ اسے ۱۰۰ بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف ہے۔ (اکانومسٹ، ۲۰ جون ۲۰۰۹ء)
اس راہ میں کچھ عملی مشکلات بھی ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ سرمایے کی کمی ہے جس کی وجہ سے اسلامی بنک سرمایے کے حصول کے لیے ملٹی نیشنل بنکوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ اس مسئلے کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ سعودی عرب جو آج بھی اسلامی بنکاری کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے، آگے بڑھ کر اپنے وسائل عالمی اسلامی بنک کے قیام کے لیے لگائے۔ بحرین جو اس میدان میں پیش پیش ہے اس کے ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری کی جائے۔
اسلامی بنکاری کے لیے تکنیکی سٹاف کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کو ملٹی نیشنل بنکوں کے تعاون سے پورا کیا جارہا ہے۔اس مسئلے کے حل کے لیے اسلامی ممالک کو جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ فنی تربیت کے لیے بڑے پیمانے پر معیاری تعلیمی ادارے کھولنے کی ضرورت ہے جو اسلامی فنانس کی ضروریات کو مستقبل میں پورا کرسکیں۔
ایک عملی مسئلہ اسلامی بنکاری کے لیے یکساں عالمی اصولوں اور قواعد و ضوابط کا ہے۔ اسلامی بنکاری کے مختلف طریقوں مثلاً مضاربہ (باہمی شراکت) رہن (مارٹ گیج) اور سکوک بانڈ کے لیے مختلف ممالک میں مختلف طریق کار رائج ہیں جو کہ عالمی اسلامی بنکاری کے فروغ میں ایک رکاوٹ ہے۔ کویت کا ایک مسلمان ملایشیا کا سکوک بانڈ نہیں خرید سکتا، اس لیے کہ ایک ملک کے علما کے نزدیک اس میں سود کا عنصر شامل ہے۔ اسی طرح اسلامی بنکاری کے لیے رائج طریقوں اور اسکیموں میں شریعہ ماہرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یکساں عالمی اسلامی بنکاری کے قوانین اور ضوابط وضع کرنے میں رکاوٹ پیش آرہی ہے اور عالمی اسلامی بنکاری کے فروغ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ علماے کرام، اسکالرز اور شریعہ ماہرین علمی سطح پر تبادلۂ خیال کر کے اصولی نقطۂ نظر کو سامنے لائیں۔ اس کے نتیجے میں یکسوئی پیدا ہوگی اور عالمی اسلامی بنکاری کے لیے راہ ہموار ہوگی۔ عالمی اسلامی بنک کے قیام کی ضرورت بھی اس لیے محسوس کی جارہی ہے تاکہ یکساں عالمی اسلامی بنکاری کے اصول وضوابط کا اجرا ہوسکے اور پوری دنیا اسلامی بنکاری سے بھرپور انداز میں استفادہ کرسکے۔ توقع ہے کہ علماے کرام، اسکالرز اور شریعہ ماہرین اُمت مسلمہ کو درپیش اس چیلنج کا عملی حل جلد پیش کریں گے۔
آج سے چار ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کی سرزمین میں ایک شخص پیدا ہوا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گیا ہے۔ جس زمانے میں اس نے آنکھیں کھولیں اس وقت تمام دنیا شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھی۔ جس قوم میں وہ پیدا ہوا وہ ایک ستارہ پرست قوم تھی۔ چاند، سورج اور دوسرے سیّارے اس کے خدا تھے اور شاہی خاندان انھی خدائوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے اہلِ ملک کا رب مانا جاتا تھا۔ جس خاندان میں وہ پیدا ہوا، وہ پروہتوں کا خاندان تھا اور اپنی قوم کو ستارہ پرستی کے جال میں پھانسے رکھنے کا اصل ذمّہ دار وہی تھا۔
ایسے زمانے، ایسی قوم اور ایسے خاندان میں یہ شخص پیدا ہوا۔ دنیا کی عام روش پر چلنے والا ہوتا تو وہ بھی اسی راستے پر جاتا جس پر اس کے خاندان کے لوگ، اس کے ملک کے لوگ اور اس کے زمانے کے لوگ چلے جارہے تھے۔ کوئی ایسی روشنی بظاہر اس وقت دنیا میں کہیں موجود بھی نہ تھی جو کسی دوسرے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہو۔ اور اس کے ذاتی و خاندانی مفاد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کسی اور راستے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لاتا، کیونکہ اس کے خاندان کی مذہبی دکان تو اسی ستارہ پرستی کے بل پر زور شور سے چل رہی تھی لیکن وہ ان انسانوں میں سے نہ تھا جو بے شعور خس و خاشاک کی طرح اسی رُخ پر اُڑنے لگتے ہیں جدھر کی ہوا ہو۔ وہ موروثی تعصب کی بنا پر باپ دادا اور قوم کے طریقے کو بے چون و چرا قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا کہ جن عقیدوں اور اُصولوں پر اس کے بزرگوں نے اور اس کی ساری قوم نے اپنی زندگی کی عمارت قائم کر رکھی ہے، وہ بجاے خود صحیح بھی ہیں یا نہیں۔ اس آزادانہ تحقیقات کے سلسلے میں اس نے سورج، چاند، زُہرہ اور ان سب معبودوں پر نگاہ ڈالی جن کی خدائی کے چرچے وہ بچپن سے سنتا آیا تھا۔ ایک ایک کو جانچ کر دیکھا کہ اس پر خدائی کا گمان کہاں تک سچا ہے، اور آخرکار یہ بے لاگ راے قائم کی کہ دراصل یہ سب بندے ہیں، خدائی صرف اس ایک ہستی کی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیداکیا ہے۔
پھر جب یہ حقیقت اس پر منکشف ہوگئی تو اس نے اُن لوگوں کی سی روش اختیار نہیں کی جو ایک بات کو حق جاننے اور سمجھنے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتے۔ اس نے حق کو حق جاننے کے بعد اسے ماننے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ کی۔ فوراً اقرار کیا کہ ’’میں جھک گیا اُس خدا کے آگے جو زمین اور آسمانوں کا خالق ہے‘‘۔ اور اس اقرار کے ساتھ اپنی برادری اور قوم کے سامنے یہ اعلان بھی کردیا کہ میرا راستہ تم سے الگ ہے، میں اس شرک اور بت پرستی میں تمھارے ساتھ نہیں ہوں___ یہ اُس شخص کی پہلی قربانی تھی۔ یہ پہلی چھری تھی جو اس نے باپ دادا کی اندھی تقلید پر، خاندانی اور قومی تعصبات پر، اور نفس کی ان تمام کمزوریوں پر پھیر دی جن کی وجہ سے آدمی اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک راستے پر صرف اس لیے چلتا رہتا ہے کہ برادری اور قوم اور دنیا اسی پر چلی جارہی ہے۔
اس اقرار و اعلان کے بعد یہ شخص خاموش نہیں بیٹھ گیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ کائنات کی اصل حقیقت توحید ہے اور شرک سراسر ایک بے بنیاد چیز ہے۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ خود ہی یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ سب انسان جو توحید کے بجاے شرک کے عقیدوں اور مشرکانہ اُصولوں پر اپنے مذہب، اخلاق اور تمدن کی عمارت قائم کیے ہوئے ہیں، انھوں نے دراصل ایک ایسی شاخِ نازک پر آشیانہ بنا رکھا ہے جو سخت ناپایدار ہے۔ اس احساس نے اس کو بے چین کردیا۔ وہ پورے احساسِ فرض کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ اپنی قوم کو شرک سے روکے اور توحید کی طرف دعوت دے۔ اسے معلوم تھا کہ قومی مذہب کے خلاف اس طرح کی علانیہ تبلیغ کرکے وہ خود پروہت کی گدّی سے محروم ہوجائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا خاندان اگر قومی مذہب سے پھر گیا تو وہ ساری وجاہت ختم ہوجائے گی جو اسے ملک میں حاصل ہے۔ اس کو یہ بھی خبر تھی کہ اس تبلیغ کی وجہ سے ساری قوم کا غصہ اس پر بھڑک اُٹھے گا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھا کہ یہ تبلیغ اسے حکومت کے عتاب میں مبتلا کر دے گی کیونکہ شاہی خاندان کے اقتدار کی بنیاد ہی وہاں یہ عقیدہ تھا کہ وہ دیوتائوں کی اولاد ہے اور اس بنا پر توحید لازماً حکومت کے بنیادی نظریے سے ٹکراتی تھی۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اُٹھا، اپنے باپ کو، اپنے خاندان کو، اپنی قوم کو اور بادشاہ تک کو اس نے شرک سے باز آنے اور توحید کا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دی، اور جتنی زیادہ اس کی مخالفت کی گئی اتنی ہی زیادہ اس کی سرگرمی بڑھتی چلی گئی۔ آخرکار نوبت یہ آگئی کہ ایک طرف وہ تنِ تنہا انسان تھا اور دوسری طرف اس کے مقابلے میں بادشاہ، ملک، برادری، خاندان، حتیٰ کہ اس کا اپنا باپ تک صف آرا تھا۔ اب پورے ملک میں کوئی اس کا دوست نہ تھا۔ ہرطرف دشمن ہی دشمن تھے۔ ایک ہمدردی کی آواز بھی اس کے حق میں اٹھنے والی نہ تھی۔ اس پر بھی جب اس نے ہمت نہ ہاری اور توحید کی دعوت پیش کرنے سے اس کی زبان نہ تھکی تو فیصلہ کیا گیا کہ برسرِعام اسے زندہ جلا دیا جائے مگر اس ہولناک سزا کا خوف بھی اسے باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔ اس نے آگ کے الائو میں پھینکا جانا گوارا کرلیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ جس حقیقت پر وہ ایمان لاچکا تھا، اس سے پھر جائے اور اسے حقیقت کہنا چھوڑ دے___ یہ اس کی دوسری عظیم الشان قربانی تھی۔
نہ معلوم کس طرح خدا نے اُسے آگ میں جلنے سے بچا لیا۔ اس خطرے سے بخیریت گزر جانے کے بعد اس کے لیے ملک میں ٹھیرنا غیرممکن تھا۔ آخرکار اس نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ آس پاس کے سارے ملک جن میں وہ جا سکتا تھا اُس وقت بت پرست تھے۔ کہیں کوئی ایسی چھوٹی سے چھوٹی برادری یا سوسائٹی بھی موجود نہ تھی جو توحید کی قائل ہوتی، جس کے پاس وہ پناہ لے کر امن کی زندگی پاسکتا۔ اس حالت میں امن پانے کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ وہ اپنے ملک سے نکل جانے کے بعد دعوتِ توحید سے زبان بند کرلیتا۔ انفرادی طور پر اگر ایک اجنبی آدمی کسی مذہب کا پیرو ہو تو دوسرے ملکوں کے لوگ اسے خواہ مخواہ چھیڑنے کی تکلیف کیوں کرنے لگے تھے، بلکہ انھیں یہ معلوم ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کا مذہب کیا ہے، مگر یہ خدا کا بندہ دوسرے ملکوں میں بھی جاکر خاموش نہ رہا۔ جہاں بھی گیا اس نے خدا کے سب بندوں کو یہی دعوت دی کہ دوسروں کی بندگی چھوڑو اور صرف اُسی ایک خدا کے بندے بن کر رہو جو حقیقت میں تمھارا خدا ہے۔ اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ملک سے نکل کر بھی اسے کہیں چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ کبھی شام میں ہے تو کبھی فلسطین میں، کبھی مصر میں ہے تو کبھی حجاز میں۔ غرض ساری عمر یوں ہی ملک ملک کی خاک چھانتے گزر گئی۔ اس کو آرام کے ٹھکانے کی طلب نہ تھی۔ اس کو گھر اور کھیت اور مویشی اور کاروبار کی طلب نہ تھی۔ اس کو دنیا کے عیش اور زندگی کے سروسامان کی طلب نہ تھی۔ اسے صرف اس چیز کی طلب تھی کہ جس حق پر وہ ایمان لایا ہے اس کا کلمہ بلند ہو، اور اس کے بنی نوع گمراہی کو چھوڑ کر اس سیدھی راہ پر چلنے لگیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ یہی طلب اسے جگہ جگہ لیے پھرتی تھی اور اسی طلب کے پیچھے اس نے اپنے ہر مفاد کو تج دیا___ یہ اس کی تیسری قربانی تھی۔
اس خانہ بدوشی اور بے سروسامانی کے عالم میں پھرتے پھرتے جب عمر تمام ہونے کو آئی تو خدا نے اُسے ایک بیٹا دیا۔ اس بچے کو پالا پوسا یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچا جب اولاد والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے اور زندگی کی دوڑ دھوپ میں ان کا ساتھ دینے کے قابل ہوتی ہے۔ بیٹا اور وہ بھی اکلوتا بیٹا، پھر عنفوانِ شباب کو پہنچا ہوا، اور باپ زندگی کے اُس مرحلے میں جب کہ آدمی جوان اولاد کے سہارے کا سب سے بڑا محتاج ہوتا ہے۔ ہرشخص اس صورت حال کا تصور کرکے اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باپ کو وہ بیٹا کیسا کچھ عزیز ہوگا، مگر مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اسے خدا اور اس کی مرضی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی عزیز نہ ہو۔ اس لیے وہ ساری قربانیاں بھی کافی نہ سمجھی گئیں جو یہ بندہ اپنے خدا کے لیے ساری عمر کرتا رہا تھا۔ ان سب کے بعد اس کا آخری امتحان لینا ضروری سمجھا گیا اور وہ یہ تھا کہ یہ بندۂ مسلم اپنے اس عزیز ترین بیٹے کی محبت کو بھی خدا کی محبت پر قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ امتحان بھی لے ڈالا گیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ بوڑھا انسان اپنے خدا کا صریح حکم نہیں، محض ایک اشارہ پاتے ہی اکلوتے نوجوان بیٹے کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے عین ذبح کے وقت لڑکے کی جگہ مینڈھے کو قبول کرلیا، کیونکہ خدا کو لڑکے کا خون مطلوب نہ تھا، محض محبت کی آزمایش مقصود تھی، لیکن اس سچے مسلمان نے اپنی نیت کی حد تک تو اپنا لختِ جگر اپنے خدا کے اشارے پر قربان کر ہی دیا تھا___ یہ تھی وہ آخری اور سب سے بڑی قربانی جسے اس شخص نے اپنے اسلام اور ایمان، اور خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ اسی کے صلے میں خدا نے اسے تمام دنیا کے انسانوں کا امام بنایا اور اپنی دوستی کے مرتبے پر سرفراز کیا۔
آپ سمجھے کہ یہ کس شخص کا ذکر ہے؟ یہ اُس ذاتِ گرامی کا ذکر ہے جسے آج ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں، اور یہی وہ قربانی ہے جس کی یادگار آج دنیا بھر کے مسلمان جانوروں کی قربانی کر کے مناتے ہیں۔ اس یادگار کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت ووفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس رُوح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جان دار کا خون بہاتا ہے۔ خدا کو اس کے خون اور گوشت کی کوئی حاجت نہیں۔ وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ لا الٰہ الا اللہ پر ایمان لائے، وہ مکمل طور پر بندۂ حق بن کر رہے۔ کوئی تعصب، کوئی دل چسپی، کوئی ذاتی مفاد، کوئی دبائو اور لالچ، کوئی خوف اور نقصان، غرض کوئی اندر کی کمزوری اور باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔ وہ خدا کی بندگی کا اقرار کرنے کے بعد پھر کسی دوسری چیز کی بندگی قبول نہ کرے۔ اس کے لیے ہرتعلق کو قربان کر دینا آسان ہو، مگر اُس تعلق کو قربان کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو جو اس نے اپنے خدا سے قائم کیا ہے۔ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے اور آج ہر زمانے سے بڑھ کر ہم اس کے محتاج ہیں کہ یہ حقیقت ہماری سیرتوں میں پیوست ہو۔ مسلمانوں نے جب کبھی دنیا میں چوٹ کھائی ہے اسلام کی اسی حقیقت سے خالی ہوکر کھائی ہے(اکتوبر ۱۹۴۷ء)۔ (نشری تقریریں، ص ۹۷-۱۰۴)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ o وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ o (الزمر ۳۹:۵۳-۵۵) اے رسولؐ! کہہ دیجیے کہ اے میرے پیارے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ رہو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، بے شک وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔ پلٹ آئو، اپنے رب کی طرف اور اطاعت گزار بن جائو اس کے، اس سے پہلے کہ تم پر کوئی عذاب آجائے، پھر کہیں سے تمھاری مدد نہ ہوسکے، اور پیروی کرو، اس بہترین ہدایت کی جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔
یہ تین آیتیں سورئہ زمر سے منتخب کی گئی ہیں۔ سورئہ زمر کا مرکزی مضمون ہے توحیدِ خالص، دینِ خالص اور بندگیِ خالص۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ دنیا میں انسانیت کے سارے مسائل کا حل اور دونوں جہان کی عظمت اور کامرانی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے لیے خالص ہوجائے اور صرف اسی کا ہوکر رہے۔
ان تین آیتوں میںسے پہلی آیت خدا کی بندوں کے لیے ان کے رب رحیم کی جانب سے ایک پیغامِ اُمید، نویدِ مسرت اور ایک مژدۂ جانفزا ہے، جو بندے کو وسعتِ رحمت کے تصور اور اللہ سے پُرامیدی کے احساس سے سرشار کر دیتا ہے۔
یہ آیت ایک طرف تو خدا کی شانِ رفعت و عظمت، اس کے بے پایاں عفو و درگزر اور اس کی بے مثال وسعتِ رحمت کا تعارف کراتے ہوئے بندے کو ہمیشہ پُرامید رہنے اور خدا سے کسی حال میں بھی مایوس نہ ہونے کا سبق دیتی ہے، اور دوسری طرف ابلیس لعین کی مکاری، چال بازی اور بندوں کو خدا سے مایوس کرنے والی سازشوں پر ابلیس کا دل ہلا دینے والی کاری ضرب لگاتی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنا کہہ کر آواز دیتا ہے کہ اے میرے بندو! تم نے اپنی جانوں پر جو زیادتی بھی کی ہو، کافر و مشرک ہو یا ملحدو زندیق، قاتل و زانی ہو یا فاسق و فاجر، تم سرکش و باغی ہو یا خدا کے نافرمان، تم گناہوں کی دلدل میں گردن تک پھنسے ہوئے ہی کیوں نہ ہو، اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو، اللہ کا دَر وہ دَر ہے جس سے کبھی کوئی مایوس نہیں لوٹایا جاتا، وہ ایسا قادرِ مطلق ہے کہ اس کے کیے ہوئے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ روے زمین پر اپنی کارگزاری دکھانے والے سارے انسان اس کے بندے ہیں۔ وہ سب کا خالق ہے اور خالق کے پاس اپنی مخلوق کے لیے بے پناہ پیار بھی ہے اور ان کے لیے بیکراں عفو و رحمت بھی، جب کوئی باغی اور گنہگار بندہ سچے ارادے سے اس کی طرف پلٹتا ہے تو وہ ہرگز اس کو مایوس نہیں کرتا۔
یہ آیت اپنے دل نواز پیغام اور خدا کی شانِ رحمت کے انوکھے اندازِ بیان کی وجہ سے اپنے اندر غیرمعمولی تاثیر رکھتی ہے اور کٹر سے کٹر انسان کے دل کو بھی ایک بار موم بنادیتی ہے اور بندہ بے اختیار اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور ڈال دیتا ہے۔ اسی لیے مہبط وحی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا اُحِبُّ اَنَّ لِی الدُّنْیَا وَمَا فِیھَا بِھٰذِہِ الْاَیَـۃِ ’’مجھے اس آیت کے بدلے یہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں بھی ملیں تو مجھے پسند نہیں‘‘۔ یعنی میری نظر میں اس آیت کے مقابلے میں یہ ساری دنیا اور اس کی تمام متاع قطعاً درخورِ اعتنا نہیں۔ اس ایک آیت کے مقابلے میں یہ سب کچھ ہیچ ہے۔
پھر آیت کا انداز محض تذکیر یا ضابطہ بیان کرنے کا نہیں ہے، بلکہ اللہ نے اپنے رسولؐ کو اس پر مامور فرمایا اور حکم دیا کہ اے نبیؐ! میرا یہ پیغام اور میرا یہ اعلان میرے بندوں تک پہنچا دو اور اس پیار بھرے اسلوب اور انداز میں پہنچا دو کہ اے بندو! تمھارا رب تمھیں خطاب کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اے میرے پیارے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، دیکھو اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو، وہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ (اس لیے کہ) یقینا وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔
قرآن کی بنیادی تعلیم سے ناآشنا، یا دانستہ خود کو قرآن کی ہدایت سے محروم کرنے والے بعض لوگ جن کی تعداد ناقابلِ التفات ہے، اس آیت کی ترجمانی یوں کرتے ہیں: ’’اے محمدؐ! تم بندگانِ خدا سے کہو: اے میرے بندو! یعنی محمد کے بندو! اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو‘‘۔ یہ ترجمانی قرآن کی اُس اصل اور بنیادی تعلیم کی نفی ہے جس کے لیے یہ قرآن نازل کیا گیا ہے۔ قرآن کی بنیادی اور جوہری تعلیم یہ ہے کہ سارے انسان صرف ایک ہی خدا کے بندے ہیں، اس کے سوا ہر ایک کی بندگی باطل ہے۔ پیغمبروں کی بعثت کا اصل اور بنیادی مقصد ہی یہ ہے، خدا کا ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) اور ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ اللہ ہی کے بندے بنو اور طاغوت سے بچے رہو۔
یعنی دنیا میں جو رسول بھی بھیجا گیا، اسی غرض سے بھیجا گیا کہ وہ انسانوں کو ایک ہی خدا کی بندگی کی تعلیم دے اور اس کے سوا ہر طاغوت کی بندگی سے بچنے کی ہدایت کرے۔ سب سے آخر میں اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی پیغام کے ساتھ مکّے میں بھیجا۔ آپؐ نے بھی یہی تعلیم دی کہ اے انسانو! ایک اللہ کے بندے بن کر رہو، اور ہر طاغوت کی بندگی سے انکار کرو۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ تصور کرنا، کہ انھوں نے لوگوں کو لات و عزیٰ کا بندہ بننے کے بجاے بندۂ محمدؐ بننے کی دعوت دی، بدترین بہتان ہے۔
توحید کی اس بصیرت افروز آیت سے توحید کے خلاف یہ مفہوم پیدا کرنا، بدترین تحریف ہے، یہ قرآن کی بنیادی تعلیم سے انحراف ہے۔ رسول کریمؐ پر بہتان ہے اور کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ پیغمبر یہ بنیادی تعلیم لے کر آتے ہیں کہ انسانوں کو خدا کا بندہ بنائیں، صرف اسی کی بندگی کی راہ پر لگائیں۔ کبھی کسی رسولؐ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ میرے بندے بن جائو۔ یہ رسول کے مشن سے متصادم تعلیم ہے بلکہ وہ تعلیم ہے جس کو مٹانے ہی کے لیے رسول آتے ہیں، اور قرآن کی زبان میں خدا کے سوا کسی اور کا بندہ بننا کفر ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ o وَ لَا یَاْمُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ وَالنَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا ط اَیَاْمُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۷۹-۸۰) کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجاے تم میرے بندے بن جائو۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیساکہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمھیں کفر کا حکم دے جب کہ تم مسلم ہو۔
’ربانی‘ یہودیوں کے یہاں ان علما کو کہتے ہیں جو دینی ذمہ داریوں کے منصب پر فائز ہوتے تھے، ان کا کام یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کی دینی رہنمائی کریں، ان کی عبادت اور دینی مراسم میں قیادت و امامت کریں، احکامِ دین بتائیں اور نافذ کریں۔ عیسائیوں کے یہاں اپنے مذہبی پیشوائوں کے لیے لفظ Divine بھی اسی مفہوم میں ہے۔
ان دونوں آیتوں کا ماحصل یہ ہے کہ رسولؐ اسی مشن پر بھیجے جاتے ہیں کہ انسانوں کو ہرایک کی بندگی سے آزاد کر کے صرف ایک خدا کا بندہ بنائیں۔ بھلا وہ اپنے مقصد بعثت کے خلاف لوگوں سے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میرے بندے بن جائو۔ بندگی کا مستحق تو صرف اللہ ہے۔ ہر وہ تعلیم جو اس کے خلاف کسی اور کی بندگی سکھاتی ہو یا کسی انسان اور فرشتے کو بندگی کی حد سے بڑھا کر خدائی کے مقام پر پہنچاتی ہو، اور انسانوں کو کسی انسان یا فرشتے کا بندہ بناتی ہو، سراسر باطل ہے۔ وہ کسی پیغمبر کی تعلیم ہرگز نہیں ہوسکتی، وہ آسمانی ہدایت نہیں، بلکہ وہ تحریف اور آسمانی ہدایت سے انحراف ہے۔
اس آیت میں خوش خبری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف کردیتا ہے تو ہونا یہی چاہیے کہ بندہ سارے گناہوں سے پاک ہونے کے جذبے سے خدا کی طرف پلٹے۔ مگر انسان کا نفس کبھی کبھی اس دھوکے میں مبتلا کردیتا ہے کہ یکایک میں سب گناہوں کو تو نہیں چھوڑ سکتا، دھیرے دھیرے چھوڑوں گا۔ کچھ سے توبہ کرتا ہوں، کچھ معاملات میں بدستور رب کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرکشی کرتا رہوں گا۔ تو درحقیقت یہ وہ توبہ نہیں ہے جو اللہ کو مطلوب ہے، خالص اور مطلوب توبہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ کے حوالے کردے اور توبہ کے بعد کی زندگی کامل فرماں برداری کی زندگی ہو۔
آگے دو آیتوں میں گناہوں کی معافی کے لیے تین باتوں کی تلقین کی گئی ہے جو یک گونہ شرائط بھی ہیں اور علامات بھی، یعنی اللہ کی طرف رجوع، اس کے حضور خود سپردگی، اور کلام اللہ کی کامل اطاعت و پیروی۔
ایک شخص کا تصور کرو جو کسی لق و دق ریگستان میں اس حال میں سفر کر رہا ہے کہ اس کے کھانے پینے کا سامان اس کی اُونٹنی پر رکھا ہے، اس کی وہ اُونٹنی صحرا میں کھو گئی، اس نے اُونٹنی اِدھر اُدھر تلاش کی مگر نہیں ملی۔ آخرکار وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سایے میں دراز ہوگیا۔ (کہ اب تو بس موت ہی کا انتظار کرنا ہے) وہ اسی کیفیت میں تھا کہ کیا دیکھتا ہے۔ اُونٹنی اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے جھٹ اس کی لگام پکڑ لی اور پھر خوشی کی شدت میں مدہوش ہوکر کہتا ہے:’’اے پروردگار! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘۔ یعنی خوشی میں ایسا بے خود ہوگیا کہ کہنا کچھ چاہتا ہے اور زبان سے کچھ نکل رہا ہے۔ جب کوئی بندہ توبہ کر کے خدا کی طرف پلٹتا ہے تو خدا کو اس بندے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
ہر انسان خدا ہی کا بندہ ہے اور خدا چاہتا ہے کہ میرا بندہ میرے احکام کی پیروی کرے کہ آخرت میں اُسے انعامات سے نوازا جائے۔ لیکن ناشکرا بندہ اپنے رب کی مرضی کے خلاف چل پڑتا ہے اور سرکشی کی روش اختیار کرلیتا ہے، لیکن جب بھی وہ اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے تو ربِ رحیم اپنے بندے کو دھتکارتا نہیں، بلکہ خوش ہوتا ہے اور انتہائی خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ پھر میری طرف پلٹ آیا۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ اسی آیت کے بارے میں کسی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یارسولؐ اللہ! اگر کوئی شرک میں مبتلا ہو تو؟ آپؐ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوئے اور پھر فرمایا: ہاں، خوب سن لو، شرک کرنے والا بھی اگر خدا کی طرف پلٹ آئے، اور یہ بات آپ نے تین بار فرمائی۔
واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی وسعتِ رحمت کی کوئی تھاہ نہیں، اس کی شانِ عفو و کرم سے بندہ کو کبھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔ بڑے سے بڑے گناہ میں مبتلا ہونے والا بلکہ گناہوں سے زمین و آسمان کی فضا بھر دینے والا بھی جب اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے اور واقعتا توبہ اور انابت کی کیفیت کے ساتھ رب کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو وہ کریم و رحیم اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔
حج کی عبادت اس پوری زندگی کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی میں دینے کا اپنی مخلوق سے مطالبہ کیا ہے، ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ اس کو اسلام کے ارکان میں شمار کیا جاتا ہے اور ارکان کے معنی ہیں وہ ستون جن کے اوپر پوری عمارت قائم ہو۔ گویا ان ستونوں کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ ستون کے حوالے سے ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ یہ کہ ستون کا نام عمارت نہیں ہے بلکہ ستون دراصل عمارت کی بنیاد اورسہارا ہوتا ہے۔ عمارت ستونوں کے علاوہ ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ یہی کُل دین ہے۔ درحقیقت یہ دین کے ارکان اورستون ہیں، دین کی اصل عمارت اپنی جگہ پر الگ ہے۔ پوری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت میں گزرے، یہ دین ہے۔ اس کو سہارا دینے کا کام یہ ستون کرتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ خود دین نہیں ہیں۔
ہر عبادت اپنی جگہ پر کوئی مقصد رکھتی ہے۔ چنانچہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی یاد زندگی میں جاری و ساری ہو۔ ہر وقت بندہ اللہ کو یاد رکھے۔ اسی لیے پانچ وقت نماز کے ذریعے اس بات کی مشق کروائی جاتی ہے کہ کاروبار زندگی چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضرہو کے اس کو یاد کرو، زبان سے بھی یاد کرو، دل سے بھی اور ہاتھ پائوں سے بھی یاد کرو، نیز پیشانی اس کے سامنے ٹیک کر، ہاتھ پائوں باندھ کر، اس کے سامنے کھڑے ہو کر مکمل اطاعت اور بندگی کا نمونہ پیش کرو۔ گویاپوری زندگی اللہ کی یاد میں صرف ہو۔ قرآن مجید میں اہلِ ایمان کے بارے میں فرمایا گیاہے:
یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قَیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔
ہمارا نماز میں بیٹھ کے، لیٹ کے، جھک کے ہر طریقے سے اللہ کو یاد کرنا وہی زندگی بنانے کے لیے ہے جس میں دل، دماغ، عمل ہر جگہ اللہ کی یاد ہمیشہ تازہ رہے۔
اس کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم ہے اور زکوٰۃ کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دیا ہے وہ اس کی مرضی کے مطابق اس کے بندوں کے اوپر خرچ ہونا چاہیے۔ گویا نماز اللہ کی یاد سے متعلق ہے اور زکوٰۃ اس احساس کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے، اس میں بندوں کے حقوق ادا کرو اور اللہ کو مال سے زیادہ محبوب رکھو۔ اہلِ ایمان کے بارے میں فرمایا گیا ہے: اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ (البقرہ۲:۱۷۷) ’’جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘
یوں گویا پوری زندگی، جان و مال ہی اسی لیے ہے کہ آدمی کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے، جسمانی صلاحیتیں، قوت گفتار، تصنیف و تالیف کی صلاحیت، مال، وقت، محض اپنے لیے نہ ہو بلکہ دوسرے انسانوں کی فلاح و بہبود اور خدمت کے لیے بھی ہو۔
تیسرا ستون روزہ ہے جو اپنے نفس کے اوپر ضبط کی تربیت دیتا ہے اور چوتھا ستون حج ہے۔ یہ دراصل اللہ کی راہ میںنکلنا اور اللہ کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیزیں قربان کرنا ہے، اور اللہ کے دین کو دنیا کے اندر قائم و دائم اور غالب کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے عزم اور جذبے سے سرشار ہونا ہے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے ہے۔
حج ایسی عبادت نہیں ہے کہ ہر ایک پر فرض ہو۔ اس کے لیے مال بھی چاہیے، صحت بھی چاہیے اور سفر کی سہولت بھی۔ اس کے بغیر کوئی آدمی اس کو ادا نہیں کر سکتا۔ نماز دن میں پانچ دفعہ فرض ہے۔ زکوٰۃ سال میں ایک دفعہ فرض ہے۔ روزے سال میں ایک دفعہ ۳۰ دن کے لیے فرض ہوتے ہیں، جب کہ حج پوری زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ اس کے بعد جو بھی حج ہے، وہ نفلی عبادت ہے۔
جب حج فرض ہوا اور حضوؐر نے مسجد نبویؐ میں اعلان فرمایا کہ تم پر ہر سال حج فرض کر دیا گیا ہے، تو ایک قبائلی سردار حضرت فرع بن حابسؓ کھڑے ہو گئے اور پوچھا کہ کیا یہ ہر سال فرض کیا گیا ہے؟ اس پر آپؐ خاموش رہے۔ انھوں نے دوسری بار پھر یہی سوال کیا۔ کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو پھر حج ہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم اس کو ادا نہیں کرسکتے تھے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو میں کہا کروں اس کو اسی پر چھوڑ دیا کرو ۔تم سے پہلے لوگوں نے ایسے ہی سوال کرکے دین کو بڑا مشکل بنا دیا تھا۔ پھر وہ اس پر چل نہیں سکے اور آپس میں اختلاف کیا۔ جو میں حکم دوں اس کو سنواور جتنا عمل کرسکتے ہو، اس پر عمل کرو۔ گویا نبی کریمؐ نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ بہت سارے سوال کرکے کام کو اپنے لیے مشکل بنایا جائے۔ لہٰذا حج پوری زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے۔
حج دراصل محبت اور عشق کی عبادت ہے اور یہ ایمان کا بنیادی تقاضا ہے کہ ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت ہو۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۶۵) ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
اللہ سے محبت کوئی ایسا مقام نہیں ہے جو صرف صوفیاے کرام اور اولیاء اللہ کا مقام ہو، اور بڑے مقرب آدمی ہی کو اللہ سے محبت ہو سکتی ہو، بلکہ یہ تو ہر آدمی کو ہو سکتی ہے۔ ہر آدمی محبت سے واقف ہے اور ہر آدمی محبت کا مزہ چکھے ہوئے ہوتا ہے۔ جب کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو آدمی اس کے لیے دیوانہ وار کام کرتا ہے اور اس کے لیے اپنی پسندیدہ چیزیں تک قربان کرتا ہے۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آدمی کو اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت ہو۔ اسی بات کی ہدایت قرآن مجید میں کی گئی ہے کہ جو ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ پھراللہ سے محبت کو مزید کھول کے بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر تمھارے باپ، تمھارے بیٹے، تمھاری بیویاں، تمھارے رشتہ دار اور تمھارے مال جو تم نے سینت سینت کے جمع کر رکھے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار اور ملازمتیں جن سے تم کماتے ہو، اور تمھارے وہ مکانات جو تم کو بڑے پسند ہیں، کوئی چیز بھی اگر اللہ اور اس کے رسولؐ [اب اللہ کے ساتھ اس کے رسول کا بھی تذکرہ ساتھ ساتھ کیا گیا ہے] اور اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہے تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔
اللہ کی محبت اس طرح کی محبت نہیں ہے جس طرح کی محبت آدمی دُنیا میں کرتا ہے، بلکہ اس میں تو اللہ کے رسول کی محبت بھی شامل ہے اور اللہ کا رسول دراصل اللہ کا نمایندہ اور دوسروں کے لیے اس کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ اس کی زندگی وہ زندگی ہے جو اللہ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس کی اطاعت، اللہ کی اطاعت ہے۔ اس کا کہا ماننا دراصل اپنے محبوب کا کہا ماننا ہے۔ اس کے پیچھے چلنا، اپنے محبوب کے پیچھے چلنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو خود حکم دیا:
قُل اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط (اٰل عمرٰن۳:۳۱) اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔
لہٰذا حج اللہ سے محبت کی عبادت ہے، اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار کرنے کے لیے ہے۔
حج حضرت ابراہیم ؑ کی اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر قربانی بھی اسی محبت کو تازہ کرنے کے لیے ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی محبت میں جس طرح اپنے باپ کو چھوڑا، اپنا گھر بار چھوڑا، رشتہ داروں کو چھوڑا، ایک بیابان جنگل میں اپنے بیوی بچے کو لا بسایا، وہاں پر پتھروں سے اللہ کا گھر بنایا، یہ سب محبت کی علامت ہے۔ وہ جس طرح آتے تھے، اس گھر کے گرد چکر کاٹتے تھے، اس کو چومتے تھے، اس کو پیار کرتے تھے، یہ بھی محبت کی علامت ہے۔
حج، دین کی تکمیل کا نام ہے۔ قرآن مجید کے نزول کا آغاز رمضان المبارک میں ہوا۔ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اپنے نفس پر ضبط اور اس کے احکام کی اطاعت و پیروی ضروری ہے۔ اس قرآن کو لے کر کھڑے ہونا، اس کو دُنیا تک پہنچانا، اس کو غالب کرنا، دین کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ دین کی تکمیل بھی حج کے موقع ہی پر ہوئی۔ حضوؐر حجِ وداع کے موقع پر عرفات کے میدان میںکھڑے تھے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرِضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المآئدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
اس آیت کا حج کے موقع پر نازل ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دین کی تکمیل کا رشتہ حج کے ساتھ وابستہ ہے۔ حضوؐر نے پوری زندگی میں صرف ایک بار حج کیا اور اس کے تین مہینے بعد آپؐکا وصال ہو گیا اور آپؐ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپؐ نے اپنے وصال سے پہلے حج کا فریضہ انجام دیا، اس کے سارے مناسک اور آداب اور مسائل لوگوں کو سکھائے اور یہ آپؐ ہی واضح کر سکتے تھے۔ اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر دین کی تکمیل بھی ہوگئی۔
دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب دین پوری زندگی میں غالب آ جائے اور پوری زندگی دین کے مطابق ہو۔ یہ مرحلہ اس وقت آیا جب لوگ دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور فتح عنایت فرمائی اور مکہ فتح ہوگیا اور بہ تدریج پورے عرب میں دین غالب آ گیا۔جب آپؐ مغلوب تھے، اس وقت آپؐ عمرے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ حج کے لیے آپؐتب نکلے جب پورا مکہ، مدینہ اور سارا عرب آپؐ کے زیر نگیں آگیا۔ اسلام کی حکومت قائم ہوگئی، دین غالب آگیا، لوگ گروہ در گروہ دین میں داخل ہونے لگے۔ سورۂ نصر میں اسی مرحلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب لوگ گروہ در گروہ دین میں داخل ہونے لگے تھے۔
حج اس بات کی علامت ہے کہ محض ضبط نفس، نیکیاں کر لینا، نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، اس سے دین مکمل نہیں ہوتا، بلکہ دین اس وقت مکمل ہوتا ہے جب آدمی اللہ کی راہ میں ان چیزوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو جو اسے محبوب ہیں اور اس کے بغیر اللہ کی راہ میں جہاد نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں جہاں بھی جہاد فی سبیل اللہ کا لفظ آیا ہے، بعضوں نے اس کے معنی صرف اللہ کے لیے میدانِ جنگ میںجہاد کے لیے ہیں اور بعض نے اس میں حج کوبھی شامل کیا ہے۔ حج بھی جہاد سے ملتی جلتی عبادت ہے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ میرے دین میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔ اگر رہبانیت دُنیا کا ترک ہے تو وہ حج میں اور جہاد فی سبیل اللہ میں ہے۔ آپؐ نے ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمایا۔ گویا دُنیا کو چھوڑنا یا ترکِ دنیا اگر ہے تو یہ حج اور جہاد فی سبیل اللہ کے اندر ہے۔ لیکن دُنیا کے دوسرے تمام کام اسی طرح ہوں گے جس طرح دوسرے لوگ کرتے ہیں لیکن اللہ کی مرضی کے لیے ہوں گے، اللہ کے حکم کے تحت ہوں گے۔ لہٰذا اسلام میں اگر کوئی رہبانیت ہے تو وہ حج اور جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کچھ نہیں ۔
گوشوں اور خانقاہوں میں بیٹھنے اور راتوں کو بیٹھ کر لمبے لمبے ذکر کرنے کی تعلیم آپؐ نے نہیں دی۔آپؐ نے اس کو پسند نہیں فرمایا کہ کسی چیز کو لاکھوں بار پڑھا جائے۔ ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے ثواب کا کام ہے، حضوؐرنے بڑا پسند کیا ہوگا کہ کسی کلمے کا لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ دفعہ ورد کیا جائے۔ ایسی کوئی حدیث نہیں ملتی کہ حضوؐر نے اس کثرت سے پڑھنے کی کوئی تعلیم دی ہو۔ آپؐ نے زیادہ سے زیادہ سو دفعہ، دس دفعہ، سات دفعہ، یاتین دفعہ پڑھنے کی تعلیم دی ہے۔
ایک بار حضوؐرکسی کام سے باہر نکلے۔ اس وقت حضرت جویریہؓ دانوں پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ جب آپؐ واپس آئے تو وہ اسی میں مشغول تھیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ اتنی دیر میں کیا پڑھا؟ انھوں نے بتایا کہ میںتو تب سے یہ تسبیح پڑھ رہی ہوں اور آپ کاروبار میں مشغول تھے۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے اس عرصے میں صرف چار کلمات کہے ہیں اوریہ تمھاری ساری تسبیحات پر بھاری ہیں۔
اسلام نے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی۔ اسلام چاہتا ہے کہ آدمی دُنیا میںمشغول رہے مگرہروقت اللہ کی رضا کواپنے سامنے رکھے۔ چنانچہ بہت سے علما نے کہا ہے کہ اگر آدمی ہزاروں اشرفیوں میں کھیلتا ہے، جائز کماتا ہے اور جائز خرچ کرتا ہے مگر دل اشرفیوں میں نہیں اٹکتا تو وہ سچا مومن ہے اور اس کے مقابلے میں ایک آدمی جھونپڑی میں بیٹھا ہے، اس کے پاس چندپیسے ہیں، اس کا دل ان پیسوں میں اٹکا ہوا ہے، اللہ کے پا س نہیں ہے تو وہ بڑا دُنیا دار ہے۔ یہ حکم ہے دُنیا کے بارے میں ۔ یہ ہے رہبانیت دین کو مکمل کرنے کے لیے ، دین کو غالب کرنے کے لیے۔ اس کے لیے ہی حج کی عبادت فرض کی گئی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ عائد کیاگیا ہے۔
اللہ کی یاد، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، اپنے نفس کے اوپر ضبط کرنا اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے، اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے، اس مشن کو پورا کرنے کے لیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے سپرد کیا، اس کے لیے گھر بار چھوڑنا، گھر سے نکلنا اور اپنے معمولاتِ زندگی چھوڑ دینا اور کہیں اور سفر کرکے جانا___ حج کے ذریعے ان سب پہلوئوں سے تربیت کی جاتی ہے۔
حج کی عبادت میں، کوئی چیز پڑھنا ضروری نہیں ہے جس طرح نماز اور دیگر عبادات میں ہے۔ حج کے فرائض صرف تین ہیں۔ ان میں کوئی بھی چیز پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ آدمی عرفات میں حاضر ہو جائے، یعنی گھر سے نکلے، سفر کرے، میقات پر احرام باندھے اور عرفات کے میدان میں پہنچ جائے۔ اور جو شخص عرفات کے میدان میں سورج نکلنے سے لے کر بعض کے نزدیک سورج غروب ہونے تک اور بعض کے نزدیک اگلے دن فجر تک پہنچ گیا، اس کا حج ہو گیا اور جو نہیں پہنچا، اس کو اگلے سال حج کے لیے دوبارہ آنا پڑے گا۔ ہر چیز کی قضا ہوسکتی ہے، ہر چیز کا مداوا ہے، ہر چیز کا علاج ہے، آدمی سے طواف چھوٹ گیا بعد میں کر لے، قربانی بعد میں دے دے لیکن عرفات کے میدان میں حاضری کی کوئی قضا نہیں ہے۔ اگلے سال لازماً پھر آنا پڑے گا۔ کسی قربانی سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ گویا یہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے کہ لوگ گھروں سے نکلیں، سفرکریں، بیوی بچوں کو چھوڑیں، کاروبار چھوڑیں، ملازمت چھوڑیں، اور اس کے دربار میں کھڑے ہوکے واپس چلے جائیں۔ صرف حاضری دیں اور کچھ نہ کریں۔ اگر آدمی میدانِ عرفات میں سے ایک منٹ بھی گزارے تو اس کا حج ہو جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے نہیں پہنچ پاتا تو اس کا حج نہیں ہوتا ہے۔
یہ حج کا پہلا اہم ترین فرض ہے۔ پھر اس کے ساتھ بہت ساری چیزیں اور مناسک ہیں لیکن حج کا رکنِ اعظم یہی ہے کہ آدمی گھر بار چھوڑ کر نکلے، مال بھی خرچ کرے، مشقت بھی اُٹھائے، سفر بھی کرے اور میدانِ عرفات میں حاضری دے کر واپس چلا جائے۔ دیگر فرائض بھی ہیں، قربانی ہے، طواف ہے لیکن پورے حج کا انحصار اسی پر ہے۔ گویا مسلمانوں کا ایک میدان میں جمع ہونا، اللہ کے دربار میں حاضری دینا، یہ اللہ کو اتنا محبوب ہے کہ یہ حج کا اہم ترین فرض ہے۔ ا س لیے کہ یہ اس کی محبت کی علامت ہے۔ یہ محبت ہی تو ہے کہ آدمی اپنے گھر سے نکلے، اپنا لباس اتار دے، دو چادروں میں ملبوس ہو جائے، سفر کرے، اپنے محبوب کے گھر پر پہنچ جائے، اس کے گھر کے گرد دیوانوں کی طرح گھومے، اسے بوسا دے، چومے اور لپٹ لپٹ جائے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں۔
ہم سب اردو شاعری سے واقف ہیں۔ محبوب کی گلی میں جانا، اس کے در پر حاضر ہونا، اس کی گلی کے چکر کاٹنا، یہ سب محبت کے وہ محاورے ہیں جو ہمارے شعرا نے باندھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے گھر جانا، اس کے گھر کے درودیوار سے لپٹ کے دُعا کرنا، اس کے گھر کے پردے سے لپٹ جانا، اس کے در پر جا کے کھڑے ہو جانا، اس سے منہ لگانا، گال لگانا، پیار کرنا اور پتھر کو چومنا، بوسا دینا، سینے سے لگانا، یہ سب بھی اللہ تعالیٰ سے والہانہ محبت اور عشق کا اظہار اور اس کی علامات ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، کسی ایک گھر میں نہیں بیٹھا ہوا ہے، کسی ایک پتھر سے وابستہ نہیں ہے۔ اس نے علامتیں مقرر اسی لیے کیں تاکہ آدمی اس سے محبت کا اظہار کر سکے، اس سے والہانہ عشق کر سکے۔ اسی لیے اس نے کہا کہ یہاں آئو، اسی گھر کے گرد چکر لگائو، اس کو چومو اور پیار کرو اور اس کے بعد پھر اپنے محبوب کے حکم کی تکمیل میں عرفات کے میدان میں پہنچ کر حاضری دو۔
حج کے موقع پر قربانی بھی دی جاتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر آدمی کواللہ کی راہ میں خون بہانا پڑے، اپنی جان دینی پڑے، اپنے محبوب بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا پڑے تووہ اس سے دریغ نہیں کرے گا اور سر کٹوانے کے لیے تیار ہوگا، اس لیے کہ یہ سر اس کا دیا ہوا ہے۔ سر محبوب کے قدموں پر نثار کر دے، قربان کر دے۔ جب بھی اس کی راہ میں قربانی دینا پڑے، مال کی، وقت کی، جذبات کی، محبتوں کی، وہ قربانی دی جائے۔ یہی اسوۂ ابراہیمی ؑ ہے اوریہی حج کا منشاو مقصود ہے۔ اسی لیے یہ ایسی عبادت ہے کہ اگر آدمی عمر میں صرف ایک دفعہ بھی کرلے تو بھی یہ اس کے لیے کافی ہے۔ یہ دوا کی اتنی بڑی خوراک ہے اورتربیت کا اتنا اہم ذریعہ ہے کہ اگر آدمی اس کو واقعی انجام دے لے، تو اس کی پوری زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل سکتی ہے۔
حج حضرت ابراہیم ؑ کی محبت و قربانی کی یاد گار ہے۔ حج کے جتنے مناسک ہیں، اسی کی یاد میں ہیں۔ صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت آدم ؑ نے کی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو پہلی عبادت گاہ قرار دیا ہے جو انسانوں کے لیے زمین پر تعمیر کی گئی۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰـرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ط (اٰل عمرٰن۳:۹۶-۹۷) بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر وبرکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں، ابراہیم ؑ کا مقامِ عبادت ہے، اور اُس کا حال یہ ہے کہ جواس میں داخل ہوا، مامون ہوگیا۔
لہٰذا یہ پہلا گھر ہے جو اللہ کے لیے بنایا گیا ہے اور سارے انبیاؑ نے اس کا حج کیا ہے۔
جب حضوؐرآخری حج کے لیے جا رہے تھے، ایک جگہ رُک کر آپؐ نے پوچھا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ صحابہ کرامؓ نے وادی کا نام لیا تو آپؐ نے کہا کہ میں گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ حضرت یونس ؑ جن کے گھنگریالے بال ہیں، سفید کپڑے پہنے ہوئے لبیک کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔ حضرت یونس ؑ کا زمانہ توبہت پرانا تھا۔ آپؐ نے کہا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ جار ہے ہیں اور یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے ان انبیاے کرام کے نام بھی لیے جو بہت پہلے گزرے تھے کہ انھوں نے یہاں حج کیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد کے لیے تو مرکز یہی تھا۔ اب تورات میں تحریف ہو گئی ہے اور قربانی کی جگہ کا نام مورولکھا ہوا ہے لیکن اصل مروہ ہے۔ مروہ کے مقام پر حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی دی گئی تھی۔ تورات میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اکلوتے بیٹے حضرت اسحاقؑ کی قربانی دی گئی تھی حالانکہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی دی گئی تھی۔ قرآن مجید میں اس واقعے کا تذکرہ کیا گیا ہے اگرچہ قرآن ان بحثوں میں نہیں الجھتا کہ صحیح نام کیا ہے لیکن یہ واضح کیا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی گئی ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے اس کو اپنا گھر بنایا۔ مقامِ ابراہیم ؑ اور وہ پتھر آج بھی موجودہے جہاں کھڑے ہو کر آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ آپ کی اہلیہ یہاں رہتی تھیں، آپ کا بچہ یہاں پر رہتا تھا اور جہاں آدمی کے بیوی بچے رہتے ہوں، وہ اس کا گھر بھی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے خانہ کعبہ آپ کا گھر بھی تھا۔ مقامِ ابراہیم سے ایک مراد حضرت ابراہیم ؑ کے قیام کی جگہ بھی ہے، اور یہاں لا کر آپ نے اپنی اولاد کو بسایا تھا۔ لہٰذا تاریخی حوالے سے بھی یہ اللہ کا قدیم ترین گھر ہے، اور پھر قرآن مجید کی شہادت تو کسی روایت کی محتاج نہیں ہے۔ اس کے لیے کسی تاریخی حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ یہ پہلا گھر ہے جو خدا کی بندگی کے لیے بنایا گیا ہے اور وہ مکے میں ہے۔ مکہ کا پہلا نام بکہ تھا اور تورات میں اور حضرت دائود ؑ کے نغموں میں اس کا نام بکہ ہی لکھا ہے۔ وادی بکہ، اس سے لگائو، اس کے عشق میں وہاں پر جائوں اور اس کی زیارت کروں اور خیموں میں ٹھہروں… یہ سارے گیت تورات کے اندر موجود ہیں۔ بکہ اور خانہ کعبہ سے متعلق بہت سے بیانات تورات انجیل میں ملتے ہیں، جن کو لوگ نہیں مانتے، تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کا ذکر نام کے ساتھ موجود ہے۔ خدا کے پہلے گھر کو حضرت ابراہیم ؑ نے دوبارہ تعمیر کیا اور ان بنیادوں پر تعمیر کیا جن بنیادوں پر اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ قرآن مجید نے اس تعمیر کا نقشہ کھینچا ہے:
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوْاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط (البقرہ ۲:۱۲۷)اور یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔
اس پورے منظر کی تصویر کھینچ کر سامنے رکھ دی ہے کہ دونوں باپ بیٹے مزدور کی طرح لگے ہوئے ہیں، کام کر رہے ہیں، بیٹا پتھر لا لا کے دے رہا ہے اور باپ ایک ایک پتھر رکھتا جارہا ہے اور اس گھر کی تعمیر ہو رہی ہے جس کی مثال اور نظیر دُنیا کے کسی اور گھر کی نہیںہے۔
یہ گھر اس بات کی علامت ہے کہ یہ مرکزِ رشدو ہدایت ہے۔ نماز میں پانچ وقت [اسی طرف] رُخ کرنے کا حکم بھی اسی لیے ہے کہ یہ اللہ کا گھر ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی مثال کے ذریعے سے ا س بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ جو اس گھر کے رب کو اپنا رب بنا لیتا ہے تو اللہ اس کو کیا مقام عطا کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانا تو اللہ نے ان کو کتنا اونچا مقام دیا۔ سارے انسانوں کا امام بنا دیا۔ عیسائی، یہودی، مسلمان تینوں ان کو اپنا امام مانتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برہمن کا لفظ بھی ابراہیم سے نکلا ہے۔ ابراہیم سے اس لیے کہ ’ب رھ م‘ یہ مادہ عربی زبان میں اور عبرانی زبان میں ایک ہی لفظ کا ہے۔ ہر مذہب کی جڑ جا کر انھی تک پہنچتی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو ساری دُنیا کا امام بنا دیا۔
ایک عورت جس نے اللہ پربھروسا کیا، جو یکا و تنہا تھی، جس کا کوئی سہارا نہیں تھا، اس کا ایک بیٹا جو دودھ پیتا بچہ تھا، ان کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب انھیں یہاں پر چھوڑا تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انھوں نے پلٹ کے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ آپؐ کو اس کا حکم اللہ نے دیا ہے؟ کہنے لگے: ہاں، اللہ نے حکم دیا ہے۔ اس پر وہ مطمئن ہو گئیں اور مزید کوئی سوال نہیں کیا اور اللہ کی ذات پر بھروسا کر لیا۔ حضرت ابراہیم ؑبھی بالکل مطمئن واپس آ گئے۔ یہ اللہ پر بھروسے کا نتیجہ ہی تھا کہ اللہ نے لق ودق صحرا میں ان کی زندگی کا سامان کر دیا، زم زم جاری کر دیا اور پھر اپنی اس بندی کی اس محبت و اطاعت کو حج کا رکن بنا کر ہمیشہ کے لیے جاری وساری کر دیا۔
خدا پر بھروسا اور ا س کی اطاعت، یہی دراصل دین کی روح ہے۔ اسی لیے نماز میں جواطاعت کی مظہر ہے، ہم خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سبق ذہن میں ہر وقت تازہ ہونا چاہیے کہ گھر سامنے موجود ہے۔ اگرچہ نگاہوں کے سامنے تونہیںہے لیکن تصور میںموجود رہنا چاہیے۔ یہ اتنا ضروری ہے کہ اگر قبلے کی طرف رخ نہ ہو تونماز نہیں ہوتی۔ قبلہ کی طرف رخ کرنا بنیادی شرائط نماز میں سے ہے۔ حکم ہے کہ اگر قبلہ نامعلوم ہو توآدمی اندازے سے رخ کا تعین کرے اور جب صحیح رخ معلوم ہو جائے توبغیر کسی توقف کے فوراً اپنا رخ درست کرلے۔ جب حضوؐر کو تحویل قبلہ کا حکم آیا تو آپؐ شمال کی طرف جدھر بیت المقدس تھا منہ کیے ہوئے تھے، جیسے ہی تحویل قبلہ کا حکم آیا تو آپؐ نے فوراً ۱۸۰ ڈگری پھیر کر مکہ کی طرف اپنا رخ کرلیا۔
قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم، پانچ وقت نماز میں رخ کرنا اور حج کے موقع پر حاجی کا اللہ کے گھر کی طرف جانا، یہ اللہ پر بھروسے، اس پر توکل، اس پر اعتماد اور حکم ملتے ہی بلا دھڑک اس کی اطاعت کرنے کا نام ہے۔ یہی حضرت ابراہیم ؑ کی محبت کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
اِذْا قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ لا قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (البقرہ ۲:۱۳۱) اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا! مسلم ہو جا تو اس نے فوراً کہا: میں مالکِ کائنات کا ’مسلم ‘ہوگیا۔
اللہ کی اطاعت ایک مسلمان کی شانِ بندگی ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ لبیک لبیک کہتے ہوئے، سفید لباس پہنے ہوئے، لاکھوں کی تعداد میں خانہ کعبہ جاتے ہیں لیکن اگر زندگی میںکوئی معاملہ اطاعت کا آ جائے تو منہ سے لبیک نہیں نکلتا، اور عمل سے تو بالکل ہی نہیں نکلتا ۔ وہ بڑے بڑے روساے حکومت جو احرام باندھ کر جاتے ہیں اور خانہ کعبہ میں گھس کر اپنی داد وصول کرتے ہیں اور مسجد نبویؐ کے اندر بھی روضہ مبارک کے اندر پہنچائے جاتے ہیں، کھلم کھلا احکامِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں اور مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں لیکن یہاں ان کے منہ سے لبیک نہیںنکلتا۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے حج کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ ادھر آئو اور اللہ سے اپنی محبت کو تازہ کرو۔ ماں باپ، بیوی بچے، رشتہ دار، تجارت، مال و دولت، مکان کوئی چیز بھی اللہ اور اس کے رسولؐ سے بڑھ کر محبوب نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریمؐ نے بھی اپنی محبت کے لیے ایسا ہی مطالبہ کیا ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے والدین، جان و مال اور ہر چیز سے بڑھ کر پیارا اور محبوب نہ ہوجائوں۔
عبادت بالخصوص حج دراصل اللہ کی محبت کی علامت ہے۔ یہ جہاد کے لیے تیاری کرنے کی علامت ہے۔ اس اُمت کے زوال کا اصل سبب بھی یہی ہے کہ اس نے اس مقصد کے لیے جہاد کو ترک کر دیا جس کے لیے اللہ نے اس کو پیدا کیا تھا۔ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ دُنیا اتنی محبوب ہو جائے اور موت سے آدمی ڈرنے لگے تو پھر کافر قومیں تم پر اس طرح ٹوٹیں گی جس طرح بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہم تعداد میں کم ہوں گے؟آپؐ نے کہا: نہیں تم درخت کے پتوں اور ریگستان کے ذروں کے برابر ہوگے۔ لیکن دیگرقوموں کے لیے ترنوالہ ہو گے۔ جو چاہے گا تم پر ظلم ڈھائے گا۔پھر لوگوں نے پوچھا: کہ یہ کیوں ہوگا؟آپؐ نے فرمایا: وَہن پیدا جائے گا۔ لوگوں نے پوچھا: وَہن کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا: دُنیا کی محبت اور موت کا ڈر۔
یہ اس مقصد فراموشی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان سوا ارب سے زیادہ کی تعداد میں ہیں کہ دُنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے لیکن دشمن قومیں ہم پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑی ہیں۔ بوسنیا،چیچنیا، فلسطین، کشمیر [اور اب افغانستان، عراق، پاکستان] میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ اس کے مداوے کی بھی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ وہن سے نجات حاصل کی جائے، خدا کی بے لاگ اطاعت ہو اور اس سے محبت و عشق کا والہانہ اظہار کیا جائے۔ حج کے ذریعے سے اسی پیغام کو تازہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے تو اسی محبت سے بے قرار ہو کے جاتا ہے۔ کوئی کام نہیں کرتا سواے اس کے کہ میدان میں پہنچ کر حاضری دے جس طرح میدانِ جنگ میں جا کر آدمی لڑتا ہے۔ یہ ویسی ہی مشق ہے جس طرح پریڈ میں آدمی کرتا ہے کہ بگل بجتے ہی آدمی ہر کونے سے دوڑا چلا آتا ہے۔ اس کا مقصد صرف حاضری دینا اور واپس چلے جانا ہوتا ہے اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ اگر کوئی نہ آئے تو اس کا کورٹ مارشل ہو جاتا ہے، اس کو ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح حج کے موقع پر حاضری بھی اسی بات کی علامت ہے کہ جب پکارا جائے: ’’آجائو، اطاعت کرو‘‘، تو سب کچھ لا کے حاضر کردو۔ اس بات کی عملی تربیت حج کے ذریعے دی گئی ہے۔
حج اتنی عظیم عبادت ہے کہ محبت، عشق، قربانی اور حضرت ابراہیم ؑ کی طرح سب کچھ ترک کرنا، اسی پر بھروسا کرنا، اسی پر توکل کرنا، یہ سب صفات اس سے پیدا ہوتی ہیں۔
اب تو حج بڑی کثرت سے ہوتا ہے۔ لوگ ہر سال حج کے لیے بھی جاتے ہیں اور برابر عمرے کے لیے بھی جاتے ہیں لیکن حج کی عبادت کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس بات کی تربیت ہو کہ جہاں آدمی ہو، وہ کام کرے جس کے لیے حضوؐر تشریف لائے تھے۔ اس کام کے مکمل ہونے کی داستان مکہ کے ایک ایک پتھر اور ایک ایک سنگریزے کے اوپر لکھی ہوئی ہے۔ جو وہاں پر جائے اس پوری داستان کو پڑھے۔ لیکن جو شخص طواف کرے اور واپس آ جائے اوراس کے دل میں کوئی شوق پیدا نہ ہو کہ میں بھی وہی کام کروں جو حضوؐرنے کیا ہے تو اس نے حج سے کچھ حاصل نہیں کیا۔
ایک آدمی ہر سال حج کے لیے جاتا ہے، عمرے کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ ایک لاکھ کا ثواب مجھے مل رہا ہے، تو یہ ثواب محض ترغیب کے لیے ہے۔ اگر صحابہؓ کو معلوم ہوتا کہ یہی اصل چیز ہے تو وہ مدینہ چھوڑ کر ہی نہ نکلتے کہ مسجد نبویؐ میں نماز ادا کرنے کے نتیجے میں ہمیںہر وقت پچاس ہزار نماز کا ثواب مل رہا ہے، یا مکہ میں جا کر بیٹھ جاتے کہ یہاں تو ایک لاکھ نماز کا ثواب ہے اور تواتر سے ہر سال عمرہ اور حج کرتے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ خود نبی کریمؐ جب حج کے لیے آئے، امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ آئے اور عمرہ کرکے واپس اپنی قیام گاہ میں چلے گئے جو مکہ کے بالائی حصے میں تھی۔ اس کے بعد جب تک آپؐ مکہ میں رہے، طواف اور نماز کے لیے حرم میں نہیں آئے۔ ۴ تاریخ کو آپؐ مکہ آئے تھے اور ۸ تاریخ کو آپؐ مکہ سے نکلے تھے۔ حج کے لیے منیٰ کی طرف گئے اور پھرآپؐ نے آکر طواف نہیں کیا اور حرم میں نماز نہیں پڑھی۔ آپؐ حجراسود کو چومنے کے لیے آگے بڑھے۔ آپؐ اپنی چھڑی سے اشارہ کرتے تھے اور اونٹنی پر سوار ہو کے آپؐ نے طواف کیا۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ خواہ مخواہ کی بھاگ دوڑ ضروری نہیں ہے۔ آدمی جو کچھ سہولت سے کرسکتا ہو، وہی کرے۔ اصل تو حج کا سبق ہے، یعنی محبت کا، قربانی کا، عشق کا اور وہ کام کرنے کا جو حضوؐر نے انجام دیا ہے۔
آج لوگ فرائض چھوڑ کر نوافل کی طرف دوڑتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ ایک کروڑ نفل بھی ادا کرلیے جائیں تو وہ ایک سنت ایک فرض کے برابر نہیں ہوسکتے۔ اس کا وہ مقام نہیں ہو سکے گا جو مقام فرض اور سنت کا ہے۔ اس لیے کہ وہ نفل ہے۔ سب سے بڑا فرض تو شریعت پر عمل اور اس کا نفاذ ہے۔ ایک سنت کو بھی اگر آدمی زندہ کرے اوراگر سنتیں مٹ گئی ہوں تو اس کا اتنا ثواب ہے کہ ایک کروڑ نفل ادا کر کے بھی نہیںمل سکتا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ ہر سال حج کو جاتے ہیں، عمرے کو جاتے ہیں، لیکن ایک پائی بھی دین کو قائم کرنے کے لیے اور فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے جیب سے نہیں نکلتی۔
حضرت شفیق بلخیؒ کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا میرے پاس پیسہ جمع ہے اورمیں حج کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا پہلے حج کر چکے ہو؟ وہ کہنے لگا کہ ہاں کر چکا ہوں اور اب پھر جانا چاہتا ہوں۔ حضرت شفیق بلخیؒنے فرمایا کہ میں جو بات تمھیں بتائوں گا، تم اس کو نہیں مانو گے۔ وہ کہنے لگا:نہیں، آپ مجھے بتائیں، جو کچھ آپ بتائیں گے، میںوہی کروں گا۔ وہ کہنے لگے کے تمھارے محلے کے ایسے لوگ جو غریب ہیں، بھوکے ہیں اورضروریات زندگی سے محروم ہیں، یہ پیسہ جو تم نے حج کے لیے جمع کیا ہے، وہ انھیں دے دو۔ اس لیے کہ غریب کی مدد کرنا تو فرض ہے، اللہ کے دین کو قائم کرنا فرض ہے۔ وہ کہنے لگے تم حج کو نہ جائو۔ اس نے کہا: نہیں، میں تو حج کو ہی جائوں گا۔ میں نہیں مانوں گا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی تم کو کہا تھاکہ میںجو مشورہ تم کو دوں گا، تم اس کو نہیں مانو گے۔ اس لیے آدمی سمجھتا ہے کہ نفلی حج کرنا ہی بڑی عبادت ہے۔
درحقیقت اصل عبادت یہ ہے کہ آدمی اپنے مقام پر ان فرائض کو ادا کرے جو اللہ نے فرض کیے ہیں۔ یہ فرائض حقوق میں بھی ہیں اور دین میں بھی۔ ان چیزوں سے بچا جائے جو اللہ نے حرام کی ہیں۔ نماز، روزہ اور حج، اسی ترغیب کے لیے ہیں۔
حج کے حوالے سے ایک پہلو ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو حج کے لیے نہیں جا سکتے۔ دل کی تمنا، شوق، تڑپ اور محبت تو ایسی چیز ہے کہ یہ جتنی وصال میں ہے، اس سے زیادہ ہجر میں ہوتی ہے۔ محبوب سے دُور رہنا، اس کی محبت میں آنسو بہانا، اس کی یاد میںتڑپنا، یہ اس سے زیادہ محبوب ہوگا کہ یہاں وہ تڑپتا رہے، اسی کی آرزو میں آنسو بہاتا رہے اور اپنا مال اور وقت اس کے دین کی سربلندی کے لیے خرچ کرتا رہے۔ یہ اس کے لیے سب سے بڑی محبوب چیزہوگی۔ لیکن اللہ نے محبت کے جو راستے بتائے ہیں، ہم ان کو چھوڑ کر ان راستوں کے پیچھے جاتے ہیں جو ہمارے دل پسند راستے ہیں کہ وہاں چلے جائیں، زیارت کرکے واپس آئیں اوراس طرح خدا کی محبت کا حق ادا ہو جائے گا۔ حج کے حوالے سے یہ پہلو بھی غور طلب ہے۔ اگر ہم اس پر غور کریں تو اللہ کا دین جو مٹ رہا ہے، اللہ کے بندے جو پریشان حال ہیں، یقیناان سب کے لیے وسائل کی ایک بڑی مقدار میسر آئے گی اور خدا کی محبت کا حق بھی بہتر طور پر ادا ہوسکے گا۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
یہ چند حروف کا کلمہ ، ایک انقلابی مشن اور پروگرام کا عنوان اور دیباچہ ہے۔ لاالٰہ تمام معبودانِ باطل کے خلاف بغاوت کا نعرہ ہے، یعنی نفس، غلط رسم ورواج، نظامِ طاغوت، جو انسان پر اپنی بندگی اور فرماں برداری کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ انسان میں جو خواہشِ نفس رکھی گئی ہے سب سے پہلے وہ مطالبہ کرتی ہے کہ اُس کو خوش رکھا جائے۔ اُس کا ہر مطالبہ صحیح ہو یا غلط پورا کیا جائے۔ کسی قید اور پابندی کے بغیر جو کچھ وہ چاہے اُس کو بلا چوں وچرا قبول کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ یہ نفسِ امّارہ ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (یوسف۱۲: ۵۳) نفس تو بدی پر اُکساتا ہی ہے، الا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو۔ بے شک میرا رب بڑا غفور ورحیم ہے۔
انسان جب نفس کی تابع داری کرتا ہے تو وہ نفس کو الٰہ تسلیم کرتا ہے۔ چاہے وہ زبان سے ایسا نہ کہے اور لاالٰہ دہراتا رہے۔ لیکن اصل اعتبار عمل کا ہے۔ چنانچہ جن انسانوں نے دُنیا کی زندگی میں خواہشات نفس کی پیروی کی ہو، وہ جب آخرت میں شفیع المذ نبین صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کی درخواست کریں گے تو اﷲ تعالیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے خطاب فرمائے گا:
اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰـھَہُ ھَوٰہُ ط اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًاo (الفرقان ۲۵: ۴۳) کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنالیا ہو۔ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو۔
خواہشِ نفس کو خدا بنالینے سے مراد اُس کی بندگی کرنا ہے اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بُت کو پوجنا، یا کسی مخلوق کو معبود بنانا۔ حضرتِ ابوامامہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : اس آسمان کے نیچے اﷲ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جارہے ہیں، اُن میں اﷲ کے نزدیک بدترین معبود خواہشِ نفس ہے جس کی پیروی کی جارہی ہو۔ (تفہیم القرآن: ج ۳، ص۴۵۲- ۴۵۳)
اس کے بعد آبا واجداد کی پیروی یہ دیکھے بغیر کہ وہ اﷲ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے اور طرزِ عمل کے مطابق ہے کہ نہیں، الٰہ کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ تیسرے مرحلے پر اﷲ کے باغی اور سرکش بندے آتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں اقتدار، قوت، حکومت، فوج، پولیس، ذرائع تبلیغ، زندگی کی ضرورتیں، تعمیری کام، نظامِ تعلیم، سیاست، معیشت، تہذیب، ثقافت، تمدن سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل اختیار کرتے ہیں کہ لوگ اُن کے احکامات کی اطاعت اور پیروی کریں۔ جو لوگ لاالٰہ تو پڑھتے ہیں مگر زندگی کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں ان تینوں معبودانِ باطل کی پیروی کرتے ہیں، اُن کا لاالٰہ پڑھنا محض چند الفاظ کا دہرانا ہے اور کچھ نہیں۔ انھی حقائق کی طرف حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے ان اشعار میں اُمت کی توجہ مبذول کی ہے:
نکتۂ می گویم از مردانِ حال
اُمتاں را لَا جلال اِلاَّ جمال
لَا وَ اِلاَّ احتسابِ کائنات
لاَ وَ اِلاَّ فتحِ بابِ کائنات
ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف و نون
حرکت از لا زاید از اِلاَّ سکوں
تانہ رمزِ لا اِلٰہ آید بدست
بندِ غیراﷲ را نتواں شکست
درجہاں آغازِ کار از حرفِ لا ست
ایں نخستیں منزلِ مردِ خداست
ملتے کز سوزِ اُو یک دم تپید
از گِل خود خویش را باز آفرید
پیشِ غیراﷲ لا گفتن حیات
تازہ از ہنگامۂ اُو کائنات
از جنونش ہر گریباں چاک نیست
در خورِ ایں شعلہ ہر خاشاک نیست
جذبۂ اُو در دلِ یک زندہ مرد
می کند صد رہ نشیں را رہ نورد
بندہ را با خواجہ خواہی درستیز؟
تخمِ لا درمُشتِ خاکِ او بریز
ہر کرا ایں سوز باشد درجگر
ہولش از ہولِ قیامت بیش تر
لاَ مقامِ ضرب ہاے پے بہ پے
ایں غوِرعد است نے آوازِ نے
ضربِ اُو ہر بُود را سازد نبود
تا بروں آئی ز گرِدابِ وجود
[پس چہ باید کرد]
میں آپ کو مردانِ حال کے بارے میں کچھ بتاؤں گا [مردانِ حال سے مراد، اﷲ وحدہٗ لاشریک کی معرفت حقیقی کے امانت دار]۔ اُمتوں کے لیے لا کہنا اور اقرار کرنا، شوکت وعظمت کی دلیل اور آغاز ہے۔ پھر اﷲ واحد کو دیکھنے کا اقرار اُن کے لیے سکونِ قلب اور امن وآشتی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ لا اور اِلاَّ دونوں مل کر پوری کائنات کا احتساب ہے۔ لاالٰہ شعور کی بیداری کے ساتھ کہا جائے تو پوری کائنات کو مسخر کرنے کا آغاز ہوتا ہے۔ دونوں لا اور اِلاَّ کاف و نون سے وجود پذیر ہونے والی دُنیا کی تقدیر ہے۔ اشارہ ہے لفظ کُن، فیکون، ہم نے کہا ہوجا اور دُنیا وجود میں آگئی۔ لا کہنے سے انقلاب کی حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور اِلاَّ سے سکون وجود پاتا ہے۔ جب تک انسان کو لا الٰہ کا اصل مفہوم، مدعا، مقصد اور راز معلوم نہ ہوجائے وہ ماسوا اﷲ کی قید، بندشوں اور غلامی کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکتا ہے۔ دُنیا میں انقلاب لانے کا آغاز صرف لا کے اعلان سے ہوتا ہے۔ معبوددانِ باطل کے خلاف اعلانِ جنگ لا ہے۔ اﷲ کے مخلص اور یکسو بندوں کے لیے انقلاب لانے کی یہ پہلی منزل ہے۔
وہ ملت جو لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کے سوز سے تپش محسوس کرتی ہے، وہ آب وگل کے وجود سے اپنے حقیقی وجود کی بازیافت کرتی ہے، یعنی شعور کی بیداری کے ساتھ لا الٰہ کا اعلان اُس کو اپنے اصل منصب اور مقام کی شناخت پیدا کرتا ہے۔ اﷲ کی بندگی اور حاکمیت کے مقابلے میں معبودانِ باطل کے سامنے لا کا نعرہ اور اعلان اصل زندگی اور حیات ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ہنگامہ اور انقلاب پیدا ہوگا، وہ پوری کائنات کی زندگی اور حیات ہے۔ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا انقلابی نعرہ بلند کرنا ہر ایک کے نصیب کی بات نہیں ہے۔ خس وخاشاک کا ہر ذرہ اور تنکا اس انقلابی شعلے کے اہل نہیں ہوسکتا ہے ؎
ایں سعادت بزور باز و نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا جذبہ اور جنون اگر ایک زندہ مرد کے دل میں موج زن ہوجائے، وہ سیکڑوں راہ نشینوں کو سرگرم سفر بناسکتا ہے ؎
آگ اُس کی پھونک دیتی ہے برنا وپیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں
[ضربِ کلیم]
کیا تم غلاموں کو جابر اور ظالم حکمرانوں اور آقائوں کے خلاف برسرپیکار بنا دینا چاہتے ہو؟ اُن کی مشتِ خاک میں لا الٰہ کے بیج بو دو [اس کے بغیر اُن میں حقیقی اور پاے دار انقلاب کا ولولہ اور شوق پیدا نہیں ہوسکتا۔ لا الٰہ کی بنیاد کے بغیر جو بھی انقلاب لائیں گے، وہ صرف آقاؤں کے ہاتھ اور چہرے بدلنے کا انقلاب ہوگا۔ بندوں کی غلامی سے نکل کر ایک اﷲ کی بندگی کا قلادہ گردن میں نہیں ہوگا]۔ جس انسان کے جگر اور دل میں لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا سوز اور ولولہ پیدا ہوگا، اس کا ہول، ہنگامہ اور تَہ وبالا قیامت سے بھی زیادہ ہوگا۔ لا، پے بہ پے ضرب لگانے کا مقام ہے۔ یہ نہیں کہ ایک باطل الٰہ کے خلاف، ایک دفعہ آپ نے لا کا نعرہ لگایا اور بس! نہیں، یہ مسلسل اور تواتر کے ساتھ کرنے کا کام ہے۔ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا نعرہ بجلی کا کڑکا ہے۔ یہ بانسری کی آواز نہیں ہے ؎
ضربتِ پیہم سے ہوجاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بُتِ سنگیں دل و آئینہ رُو
[ارمغانِ حجاز]
غوِّ ر عد پر مولانا الطاف حسین حالی کی مُسدس کے یہ اشعار حسبِ حال ہیں:
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغامِ حق سے
کہ گونج اُٹھے دشت وجبل نامِ حق سے
لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کی ضرب ہر باطل بود کو نابود بنادیتی ہے اور اسی نعرے کی برکت سے انسان باطل معبودوں کے گرداب سے نجات حاصل کرلیتا ہے:
باتو مے گویم ز ایّامِ عرب
تا بدانی پُختہ و خامِ عرب
ریز ریز از ضربِ اُو لات و منات
در جہات آزاد از بندِ جہات
ہر قبائے کہنہ چاک از دستِ اُو
قیصر وکسریٰ ہلاک از دستِ اُو
گاہ دشت از برق و بارانش بدرد
گاہ بحر از زورِ طوفانش بدرد
عالمے در آتشِ اُو مثلِ خس
ایں ہمہ ہنگامۂ لا بود و بس
اندریں دیرِ کہن پیہم تپید
تاجہانے تازۂ آمد پدید
بانگِ حق از صبح خیز یہائے اوست
ہر چہ ہست از تخم ریز یہائے اوست
اینکہ شمعِ لالہ روشن کردہ اند
از کنارِ جوے اُو آوردہ اند
لَوحِ دل از نقشِ غیر اﷲ شُست
از کفِ خاکش دو صد ہنگامہ رُست
[پس چہ باید کرد]
میں آپ کو عرب کی تاریخِ بتاؤں گا تاکہ تم عرب کے لوگوں میں سے کچے اور پختہ لوگوں کے کردار کو جان سکو۔ عربوں سے جان پہچان اس لیے ضروری ہے کہ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کے وارث تھے جن کو آخری رسولؐ کی وساطت سے اس انقلابی پیغام کا وارث بنایا گیا۔ انھوں نے جس خلوص اور یکسوئی کے ساتھ رسولؐ اﷲ کو یہ انقلابی پیغام پھیلانے، عام کرنے اور غالب کرنے میں مال، جان اولاد، اعزہ و اقربا اور قلب وذہن کی بھرپور آمادگی کے ساتھ تعاون دیا، وہ اسلامی تاریخ کازرّیں اور بے مثال باب ہے۔ ان لوگوں نے کسی بھی آزمایش اور معرکہ آرائی کے مرحلے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے امتیوں کی طرح یہ نہیں کہا:
فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنo (المائدہ ۵:۲۴) آپ اور آپ کا ربّ جائیں اور ان دشمنوں کے ساتھ لڑیں۔ ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کریں گے۔
جنگ بدر کے موقع پر جب ایک طرف قریش کا تجارتی قافلہ آرہا تھا اور دوسری طرف مکہ سے قریش کا لشکر چلا آرہا تھا، تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو جمع کرکے جاننا چاہا کہ قافلہ اور قریش میں سے کس طرف یہ لوگ جانا چاہتے ہیں۔ آپؐ کے پوچھنے پر سب سے پہلے مہاجرین میں سے حضرت مقداد بن عمروؓ نے اُٹھ کر کہا:
یا رسولؐ اﷲ! جدھر آپؐ کا ربّ آپؐ کو حکم دے رہا ہے اُسی طرف چلیے۔ ہم آپؐکے ساتھ ہیں۔ جس طرف بھی آپؐ جائیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمھارا خدا دونوں لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ نہیں، ہم کہتے ہیں کہ چلیے آپؐ اور آپؐ کا خدا، دونوں لڑیں اور ہم آپؐ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے جب تک کہ ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کررہی ہے۔
مہاجرین کا عندیہ دیکھ کر آپؐ نے انصار کی طرف رُخ فرمایا۔ انصار اب تک کسی معرکہ آرائی میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ انصاری حضرت سعد بن معاذؓ اُٹھے اور انھوں نے عرض کیا شاید حضوؐر کا روے سخن ہماری طرف ہے؟ فرمایا: ہاں۔ انھوں نے کہا:
ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں، آپؐ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپؐ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپؐ سے سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اﷲ کے رسولؐ جو کچھ آپؐ نے ارادہ فرمالیا ہے اُسے کر گزریے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اگر آپؐ ہمیں لے کر سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اُس میں اُتر جائیں تو ہم آپؐ کے ساتھ کودیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپؐ کل ہمیں لے کر دشمن سے جابھڑیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے، مقابلے میں سچی جان نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اﷲ آپؐ کو ہم سے وہ کچھ دِکھوادے جسے دیکھ کر آپؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اﷲ کی برکت کے بھروسے پر آپؐ ہمیں لے چلیں۔(تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۱۲۴، ۱۲۵)
یہ اقتباسات میں نے تفہیم القرآن جلد دوم، سورۂ انفال کے دیباچے سے صرف اس لیے نقل کیے ہیں، تاکہ علامہ مرحوم نے عربوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار اپنے اشعار میں کیا ہے، اُس کے پس منظر سے ہم آگاہ ہوجائیں اور اس حقیقت کا ادراک کریں کہ نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم فداہُ ابّی و اُمّی کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے سرفروشوں کی وہ جماعت عطا کی تھی، جو اپنے وعدوں اور قول وقرار کی پابند تھی اور جس چیز کو وہ حق سمجھ چکے تھے اُس پر اپنا سب کچھ، حتیٰ کہ جانِ عزیز تک قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ اِنھی لوگوں کے ایثار، قربانیوں، جان نثاریوں اور سرفروشیوں کی برکت سے اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ حالانکہ وہ تعداد میں زیادہ نہ تھے۔ معرکہ بدر میں ایک اور تین کی نسبت تھی، مگر وہ موت کے خوف سے بالاتر ہوکر نکلے اور اﷲ تعالیٰ نے فی الواقع رسولِؐ رحمت کو وہ کچھ دکھایا، جن سے آپؐ کو آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوئی۔
آج مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ۶۰ کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے، مگر آج کا مسلمان حُبِ دُنیا اور کراہیت الموت کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس لیے وہ پوری دُنیا میں غلامی، ذلت، اِدبار، محکومیت اور مظلومیت کا شکار ہے۔ جب تک آج کے مسلمانوں میں دورِاوّل کے مسلمانوں کی طرح اسلام کے احیا اور غلبے کے لیے سرفروشی کا جذبہ پیدا نہ ہوجائے، وہ اس پستی اور ذلت کی زندگی سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ نہ ملت دنیوی اور اُخروی فلاح سے ہم کنار ہوگی اور نہ بنی نوع انسان سامراجی قوتوں کے پنجۂ استبداد سے نجات حاصل کرسکے گی ؎
غیرِ حق چوں ناہی و آمر شود
زور ور بر ناتواں قاہر شود
[جاوید نامہ]
عربوں نے جب لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کا کلمہ شعور کی بیداری کے ساتھ پڑھا، اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ڈھانچا تشکیل دیا تو اُن کی ضربِ پیہم سے لات اور منات کے بُت ریزہ ریزہ ہوگئے۔ ملک کی حدود میں رہتے ہوئے بھی وہ آفاقی اور ہمہ جہت بن گئے۔ اُن کے ہاتھوں سے پرانی قبائیں اور عبائیں چاک ہوگئیں، نیز جاہلانہ رسم و رواج اور سماجی بندھنوں کے تاروپود بکھر کر رہ گئے۔ اُن کے ہاتھوں سے قیصر وکسریٰ کی سامراجیت اور ظلم و سفاکیت ختم ہوگئی۔ اُن کی بجلیوں سے کبھی دشت لرز اُٹھے اور کبھی سمندر اُن کے طوفانوں سے تلاطم خیز بن گئے۔ پوری دُنیا اُن کے ایمان ویقین کی آگ میں گھاس کے تنکوں کی طرح بھسم ہوکر رہ گئی۔ یہ سب کچھ کلمہ لا الٰہ کی تاثیر اور پیغام کی وسعت و گہرائی تھی اور کچھ نہیں!
اس پرانی دُنیا میں وہ مسلسل سرگرمِ عمل رہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنے نظریۂ حیات کے مطابق نئی دُنیا تعمیر کی۔ حق وصداقت کی آواز اُن کی سحر خیزیوں کی برکت سے ہے۔ جوکچھ ہم ایمان وعمل کے نظارے اور مناظر دیکھ رہے ہیں، یہ اُنھی کی تخم ریزی کے نتائج اور ثمرات ہیں۔ انھوں نے گلِ لالہ کی شمع روشن کی، یعنی کلمہ توحید کا نعرہ بلند کیا اور گردوپیش کی دُنیا کو اُس کی آبجو کے کنارے پر جمع کردیا۔ انھوں نے دل کی تختیوں سے ماسوا اﷲ کے، دیگر تمام نقش دھوڈالے۔ اُن کی کفِ خاک سے سیکڑوں ہنگامے اور واردات وجود پاگئے:
ہم چناں بینی کہ در دورِ فرنگ
بندگی باخواجگی آمد بجنگ
روس را قلب و جگر گردیدہ خوں
از ضمیرش حرفِ لاَ آمد بروں
آں نظامِ کہنہ را برہم زدست
تیز نیشے بررگِ عالم زِداست
کردہ ام اندر مقاماتش نگہ
لاَ سلاطیں، لاَ کلیسا، لاَ الٰہ
فکرِ اُو در تُند بادِ لاَ بماند
مرکبِ خود را سوئے اِلاَّ نراند
آیدش روزے کہ از زورِ جنوں
خویش را زیں تند باد آرد بروں
درمقامِ لاَ نیاساید حیات
سُوے اِلاََّ می خرامد کائنات
لاَ و اِلاَّ ساز و برگِ اُمتّاں
نفی بے اثبات مرگِ اُمتّاں
در محبت پختہ کے گردد خلیلؑ
تا نگردد لاَ سوئے اِلاَّ دلیل
اے کہ اندر حجرہ ہا سازی سخن
نعرئہ لاَ پیش نمرودے بزن
ایں کہ می بینی نیر زد باد و جَو
از جلالِ لاَ اِلٰہ آگاہ شو
ہرکہ اندر دستِ او شمشیرِ لاَ ست
جملہ موجودات را فرمانرواست
[پس چہ باید کرد]
ایسا ہی کچھ تم دیکھ رہے ہو کہ انگریزوں کے دورِ اقتدار میں بندگی نے خواجگی کے ساتھ معرکہ آرائی اور جنگ شروع کردی۔ روس کے لوگوں میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی۔ دل وجگر خون میں لت پت ہوگئے۔ اُن کے دلوں سے لا کا نعرہ بلند ہُوا۔ لا کا مطلب یہ تھا کہ پرانا نظامِ زندگی، جو شاہی اور خاندانی راج کی شکل میں تھا، اُس کو درہم برہم کردیا گیا۔ عالمی سطح پر انھوں نے خنجر سے انقلاب لانے کا آغاز کیا۔ ان اشعار میں علامہ محمد اقبال مرحوم نے روس میں ۱۹۱۷ء میں کمیونزم انقلاب کی طرف اشارہ کیا تھا۔ میں نے جب انقلاب کے اندر جھانکنے کی کوشش کی کہ اس کی روح اور بنیادی ستون کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اس نظام میں کوئی بادشاہت یا کوئی مذہب اور کوئی الٰہ تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ گویا اس سرخ انقلاب کی بنیاد الحاد ہے۔ اس انقلاب کے فکر اور فلسفے نے نفی کی تیز ہواؤں میں پناہ لی۔ یہ اپنی سواری لا سے اِلاَّ اﷲ کی طرف نہ لے جاسکا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ کوئی دن ضرور آئے گا کہ یہ سرخ انقلاب اپنے زور جنون سے یا خود کو اس تیز ہوا کی گرفت سے باہر نکالے گا۔ اس لیے کہ لا، یعنی نفی الحاد کا فلسفہ اور نظریۂ حیات کائنات کو امن وسکون نہیں دے سکتا ہے۔
کائنات دھیرے دھیرے اِلاَّ اﷲ کی زندہ حقیقت کی طرف گام زن ہے جو واحد نظام ہے۔ یہ امن وآشتی، عدل وانصاف، انسانی اور اخلاقی اقدار کا محافظ اور امانت دار نظام ہے۔ لا اور اِلاَّ اُمتوں کے لیے سامانِ زیست ہے۔ اِلاَّ اﷲ کے بغیر محض لا پر فلسفۂ زندگی کی بنیاد رکھنا امتوں کے لیے موت کا پیغام ہے، جیسا کہ آج کی دُنیا میں دیکھا جارہا ہے کہ لا دینیت کے نام پر کس طرح قوموں، ملکوں اور عام انسانوں کو طاقت کے بل بوتے پر غلام بناکر اُن کے بنیادی حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔ بم برسائے جارہے ہیں۔ ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، میزائل اور ہلاکت آفرین ہتھیاروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور سب کچھ امن، ترقی، جمہوریت اور آزادی کے نام پر کیا جارہا ہے۔ یہ ساری دَین ’لا‘ کے فلسفۂ زندگی کی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ اُن کی محبت اور وابستگی کیسے پختہ اور مستحکم ہوسکتی تھی، اگر نفی سے وہ اثبات کی طرف رہنمائی حاصل نہ کرلیتے، یعنی جب انھوں نے تاروں، چاند اور آفتاب کی ربوبیت سے انکار کیا تو لَا کے تقاضے پورے ہوگئے۔ اگر وہ یہاں ہی رُک جاتے تو اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور اُس کی حاکمیت اور معبودیت کا ادراک اور یقین اُن کو کیسے حاصل ہوجاتا۔ چنانچہ انھوں نے مظاہر کائنات کی آقائیت سے انکار کرکے اعلان کیا:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (الانعام ۶:۷۹) میں اپنا رُخ اُس ذاتِ اقدس کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین اور آسمان کو وجود بخشا ہے۔ میں یکسو ہوکر اُس کا بندہ ہوں۔ میں اُس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراتا ہوں۔
علامہ محمد اقبال مرحوم لا سے اِلاَّ اﷲ کی طرف ذہناً اور عملاً بڑھنا ہی ملت کی زندگی اور بقا کے لیے لازم قرار دیتے ہیں۔ اب وہ لاالٰہ کہنے والے مسلمان سے فرماتے ہیں: اے حجروں، مسجدوں اور خانقاہوں میں سخن سازی کرنے والے مسلمان! تیرا فریضہ تو یہ ہے کہ تو وقت کے نمرودوں کے خلاف نعرہ ’لا‘ بلند کر۔ یہ نہیں کہ وقت کے فرعونوں، نمرودوں، ہامانوں اور یزیدوں کے ساتھ تو ساز باز کرکے، خلوت گاہوں میں بیٹھ کر لا الٰہ کی تسبیحات جپتا رہے تاکہ وقت کے طاغوت کے ساتھ تیری معرکہ آرائی نہ ہو۔ جب تک لا الٰہ کہنے والا، وقت کے نظامِ باطل کے خلاف بغاوت کا نعرہ بلند نہ کرے، وہ لا الٰہ کہنے میں مخلص اور یکسو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال تم کو یہ حقیقت سمجھاتے ہیں کہ جس دُنیا پر تو فریفتہ ہورہا ہے، تیرے دین، ایمان، یقین اور مقصدِ آخرت کے مقابلے میں اس کی قیمت جَو کے دو دانوں کے برابر بھی نہیں ہے۔ کاش! تو.ُ لا الٰہ کے جلال اور سطوت ودبدبے سے آگاہ ہو جائے۔
جس فرد کے ہاتھ میں ’لا‘ کی شمشیر اور تلوار ہے، وہ ساری کائنات میں فرماں روائی کا مقام حاصل کرسکتا ہے، مگر:
اے لا الٰہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ ، کردارِ قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل، سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ
[بالِ جبریل]
عام مسلمانوں میں کثرت سے اور بعض خواص میں بھی مالی معاملات کے بارے میں جو بڑی کوتاہیاں اور غلطیاں ہو رہی ہیں، ان میں سے ایک کوتاہی میراث کا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ارشادات کے مطابق تقسیم نہ کرنا، بلکہ ایک وارث یا چند وارثوں کا اسے ہڑپ کر جانا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا ہے۔ قرآنِ مجید میں اسے اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ کی نافرمانی اور کافروں کا عمل اور کردار بتایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۹-۲۰) اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہو۔
عرب جاہلیت کے دور میں عورتوں اور بچوں کو میراث کے مال سے محروم رکھا جاتا تھا، جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا، وہ بلاتامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا، اور ان سب لوگوں کا حصہ بھی مار کھاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ رکھتے تھے۔ میراث اور ورثے کی تقسیم کے بارے میں دنیا کی مختلف قوموں کے نظریات، خیالات اور طور طریقے کئی طرح کے رہے ہیں۔ ان طریقوں میں سے کسی میں بھی اعتدال اور انصاف نہیں تھا۔ بعض قومیں میراث میں عورتوں اور بچوں کو بالکل حصہ نہیں دیتی تھیں۔ عرب جاہلیت کی قومیں، برعظیم پاک و ہند کی قومیں اور دیگر علاقوں کے لوگ عورتوں کو حصہ بالکل نہیں دیتے، پھر بیٹوں میں بھی انصاف و برابری نہیں تھی۔ کسی بیٹے کو تھوڑا تو کسی کو زیادہ دیا جاتا تھا۔
بعض اقوام نے میراث دینی شروع کی تو پرانے جاہلیت کے طریقے کو چھوڑ کر نئی جاہلیت اپنائی اور عورتوں کو مردوں کے برابر لاکھڑا کیا۔ یہ دوسری انتہا اور زیادتی ہے جس میں بھی انصاف کے تقاضے مدنظر نہیں رکھے گئے۔ میراث کی تقسیم میں افراط و تفریط دنیا کے بہت بڑے حصے میں پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے اور مسلم اُمت بھی اس کبیرہ گناہ میں گرفتار ہے۔ (تلخیص تفہیم القرآن، مولانا صدر الدین اصلاحی، ص ۱۴۱)
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے تقسیمِ میراث کے احکام بالکل صاف واضح، متعین اور دو اور دو چار کی طرح مقرر کردیے، اس میں کوئی الجھائو اور شبہہ تک نہیں چھوڑا۔ اس لیے کہ مال وہ پسندیدہ اور دل لبھانے والی چیز ہے کہ انسان اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ معاشرتی دبائو کی بنا پر کوئی زبان نہ کھولے تو اور بات ہے، لیکن دل میں خواہش، تمنا اور اپنا حق حاصل کرنے کی تڑپ ضرور موجود رہے گی۔ میراث کی تقسیم، وارثوں کے حصے، حصوں کی حکمت، میراث سے قرض کی ادایگی، وصیت پوری کرنے اور اس حکم پر عمل کرنے والوں کے لیے جنت کی خوش خبری اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دوزخ کے دردناک عذاب کی وعید سورئہ نساء میں بیان کی گئی ہے۔ (النساء ۴:۱۱)
۱- میراث کی تقسیم میں جو حصے مقرر کیے گئے ہیں، ان کی مقدار کی مکمل حکمت و مصلحت اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لیے کہ ہماری عقل و شعور کو اس کی گہرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا: ’’تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون نفع کے لحاظ سے تمھارے قریب تر ہیں۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور تمھاری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔ (النساء ۴:۱۱)
۲- تقسیمِ میراث کی آیات میں وصیت اور ادایگیِ قرض کے الفاظ متعدد مرتبہ آئے ہیں۔ لہٰذا تقسیمِ میراث میں سب سے پہلے میت کے ذمے جو قرض ہے اسے ادا کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض (قرض دار) کا جنازہ تک نہیں پڑھایا۔ اس لیے نفلی خیرات و صدقات کرنے سے پہلے تدفین کے اخراجات اور اس کے بعد قرض کی ادایگی لازمی ہے۔ بیوی کا مہر بھی قرض میں شامل ہے اور شوہر کے ذمے لازم ہے۔
۳- میت کی ملکیت میں سے ایک تہائی کی وصیت پوری کی جانی چاہیے۔ جس محسن کی میراث لی جارہی ہے، اس کا اتنا تو حق ہونا چاہیے کہ اس کا کہا مانتے ہوئے ایک تہائی میراث میں سے اس کی وصیت پوری کی جائے۔ اگر وصیت، ایک تہائی میراث سے زیادہ ہے تو زیادہ وصیت پوری کرنا لازم نہیں ہے۔ اگر سب بالغ ورثا راضی ہوں تو پورا کر دیں، ورنہ زیادہ کو چھوڑ دیں۔
۴- جب تک میراث تقسیم نہیں ہوتی تو تمام وارثوں (بشرطیکہ بالغ ہوں) سے اجازت لیے بغیر خیرات و صدقات نہ کیے جائیں۔ اگر وارث نابالغ اور کم سن ہوں تو کسی صورت میں خیرات کرنا نہیں چاہیے اور وارث یتیم ہونے کی صورت میں گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے، لہٰذا ایسی خیرات کھلانے والے، کھانے والے گویا دوزخ کے ایندھن سے شکم پُری کر رہے ہیں۔
۵- میراث کے احکام کے آخر میں دو آیتیں (۱۳-۱۴) بہت ہی اہم ہیں۔ ان سے تقسیمِ میراث کی اہمیت، فرضیت اور اس پر ثواب و عذاب کا اندازہ ہوتا ہے۔ آیت ۱۴ کے بارے میں مفسر قرآن مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تحریر کرتے ہیں: ’’یہ ایک بڑی خوفناک آیت ہے جس میں ان لوگوں کو ہمیشگی کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانونِ وراثت کو تبدیل کریں یا، ان دوسری قانونی حدوں کو توڑیں جو خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر مقرر کر دی ہیں۔ لیکن سخت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی سی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا۔ اس کے قانونِ وراثت کے معاملے میں جو نافرمانیاں کی گئیں ہیں وہ اللہ کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں۔ کہیں عورتوں کو میراث سے مستقل طور پر محروم کیا گیا۔ کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھیرایا گیا، کہیں سرے سے تقسیمِ میراث ہی کے طریقے کو چھوڑ کر ’مشترکہ خاندانی جایداد‘ کا طریقہ اختیار کیا گیا اور کہیں عورتوں اور مردوں کا حصہ برابر کر دیا گیا‘‘۔ (تلخیص تفہیم القرآن، ص ۱۴۱)
قیامت کے دن ہر مسلمان سے پانچ اہم سوال کیے جائیں گے اور ان کے جواب طلب کیے جائیں گے۔ جب بندہ ان کے جواب دے دے گا تب قدم آگے بڑھائے گا۔ ان سوالوں میں سے دو سوال، یعنی ایک سو نمبروں میں سے ۴۰ نمبر یا ۴۰فی صد سوال مال کے بارے میں ہوں گے۔
حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ نے بیان کیا ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت سے آدمی نہیں ہٹ سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہیں لیا جائے گا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کن مشاغل میں گزاری؟ دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ اور جسم کو کس کام میں گھُلایا؟ (ترمذی، کتاب الزہد، ص ۵۵۰)۔ ان پانچ سوالوں میں سے دو سوال صرف مال کے بارے میں ہیں، یعنی دیگر مالی معاملات کے علاوہ میراث کے مال کے بارے میں ضرور سوال ہوگا کہ کیسے حاصل کیا؟ کیا دوسرے وارثوں کا حق مار کر اپنا حصہ لیا اور دوسروں کو ان کے حصے سے محروم کر دیا؟
میراث کو قرآنِ مجید کے احکام کے مطابق تقسیم کرنا وارثوں پر فرضِ عین ہے اور دوسرے رشتہ داروں اور برادری اور خاندان کے بزرگوں پر فرضِ کفایہ ہے۔ اگر کچھ لوگ میراث کو اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکام کے مطابق تقسیم کرنے کی تلقین کریں اور ترغیب دیں تو ان پر سے فرض کفایہ اُتر جائے گا، اور وارثوں پر فرضِ عین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ خوش دلی اور رضا و خوشی سے میراث کی شریعت کے مطابق تقسیم کرنے پر متفق ہوجائیں تو سب پر سے فرض اُتر جائے گا۔
آج مسلم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں اور برعظیم پاک و ہند کے مختلف علاقوں کو دیکھتے ہیں تواندازہ ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی بہت کم لوگ میراث شریعت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں اور بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور رسولؐ اللہ کی سنت سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر ایک سروے کا اہتمام کیا جائے کہ کتنے فی صد لوگ میراث شرعی طریقے پر تقسیم کرتے ہیں تاکہ حقیقی صورت حال سامنے آسکے اور لوگوں کو توجہ دلائی جاسکے کہ بحیثیت مجموعی ہم اللہ تعالیٰ کے واضح حکم سے کتنی غفلت برت رہے ہیں۔بھارت میں بھی بہت تھوڑے مسلمان ایسے ہیں جو تقسیمِ میراث کے شرعی قانون پر عمل پیرا ہیں۔
۱- اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ایسے بندے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔
۲- میراث کے شرعی حکم پر عمل کرنے والا جنت کا حق دار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بہت بڑی کامیابی فرمایا ہے۔
۳- قیامت کے دن رسولؐ اللہ کی شفاعت نصیب ہوگی اور اس دن کے عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
۴- ایسے شخص کا مال حلال ہونے کی وجہ سے مالی عبادتیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ آخرت کے دن بڑا سرمایہ ہوگا۔
۵- جن عزیز و اقارب اور عورتوں کو میراث میں سے حصہ ملتا ہے، وہ ان کے لیے دل سے دعائیں کرتے ہیں اور محروموں کو جب حق ملتا ہے تووہ ایسے شخص کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔
۶- تقسیمِ میراث سے دولت تقسیم ہوتی ہے جو اسلام کا ایک مقصد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْط (الحشر ۵۹:۷) ’’تاکہ وہ تمھارے مال داروں ہی کے درمیان گشت نہ کرتا رہے‘‘۔
۷- تقسیمِ میراث کے حکم پر عمل کرنے سے دوسروں کو ترغیب ہوتی ہے اور پہل کرنے والے کو اجر ملتا ہے اور اس کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔
۸- میراث کی حق دار عورتوں کو اپنے حق کے لیے مطالبہ کرنا چاہیے۔ میراث میں عورتوں، بیٹیوں، بہنوں، ماں اور بیویوں کا حق ہے، لہٰذا انھیں اپنے حق کا نہ صرف مطالبہ کرنا چاہیے، بلکہ آگے بڑھ کر تقاضا کرکے اپنا حق لینا چاہیے اور قرآن مجید کے اس حکم (فرضِ عین) پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عورتوں کو جاہلیت کی رسم اور معاشرتی دبائو کی وجہ سے اپنا حصہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ خاندان کے دوسرے افراد کو بھی ان کا حصہ دلوانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
۱- میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود، نصاریٰ، ہندوئوں اور غیرمسلم اقوام کا طریقہ ہے۔
۲- میراث کا شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ کی نافرمانی ہے۔ یہ صریح فسق ہے، لہٰذا ایسا شخص فاسق ہے اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ خاص طور پر برسہا برس اس پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا تو اور بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
۳- میراث کے حق داروں کا مال کھا جانا ظلم ہے اور یہ شخص ظالم ہے۔ لیکن اگر وارث اپنے قبضے اور تحویل میں لے لیں اور پھر کوئی طاقت ور وارث چھین لے تو یہ غصب ہوگا۔ اس کا گناہ ظلم سے بھی زیادہ ہے۔
۴- میراث پر قبضہ کرنے والے کے ذمے میراث کا مال قرض ہوگا، اور قرض بھی واجب الادا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں لازماً دینا ہی ہوگا۔
۵- ایسا مال جس میں میراث کا مال شامل ہو، اس سے خیرات و صدقہ اور انفاق کرنا، حج و عمرہ کرنا اگرچہ فتوے کی رُو سے جائز ہے اور اس سے حج کا فریضہ ادا ہوجائے گا لیکن ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے۔
۶- جو میراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
۷- میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والا دوزخ میں داخل ہوگا۔
۸- جو اشخاص میراث کا مال کھا جاتے ہیں حق دار وارث ان کو بددعائیں دیتے ہیں۔
۹- میراث مستحقین کو نہ دینے والا حقوق العباد تلف کرنے کا مجرم ہے۔
۱۰- شریعت کے مطابق مال (ورثہ) تقسیم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے، لہٰذا جو حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی، وہ اپنے فرائض میں کوتاہی کرتی ہے۔
گلگت بلتستان تاریخی اعتبار سے ریاست جموںو کشمیر کا حصہ ہے ۔تقسیم ہند سے قبل اسے سیاسی لحاظ سے تین صوبوں، یعنی جموں، کشمیر اور لداخ و گلگت میں تقسیم کیاگیا تھا۔۱۹۴۷ء میں شروع ہونے والی تحریک جہاد کے نتیجے میں ریاست کا ایک حصہ آزاد ہو کر آزاد جموں وکشمیر کہلایا، جب کہ لداخ اور گلگت کو مجاہدین نے اپنی جدوجہد سے آزاد کروا کر یکم نومبر ۱۹۴۷ء کو آزادی کا اعلان کیا اور حکومت ِ پاکستان کو خطے کے انتظام و انصرام کی دعوت دی۔ ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء اور۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو جو قرار دادیں منظور ہوئیں، ان کی رو سے بھی پاکستان اور بھارت دونوں نے ان اضلاع کو ریاست جموں وکشمیرکا حصہ تسلیم کیا جس کا اعتراف دونوں کے ریاستی آئین میں بھی موجود ہے ۔ نیز جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کے جو مبصرین تعینات ہوئے وہ ریاست کے باقی حصوں کی طرح یہاں پر اب بھی موجود ہیں ۔
اس وقت چونکہ رسل و رسائل اور مواصلات کے ذرائع بہت محدود تھے، اس لیے ۲۸؍اپریل ۱۹۴۹ء کو حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام عارضی طور پر حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاہدے پر حکومت پاکستان کی طرف سے مرکزی وزیر مشتاق احمد گورمانی اور حکومت آزاد جموں وکشمیر کی طرف سے صدر ریاست سردار محمد ابراہیم خان اور چودھری غلام عباس مرحوم صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے دستخط کیے۔خود عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ معاہدے اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی رو سے بھی یہ علاقے ریاست کا حصہ ہیں۔
سیاسی عمل نہ ہونے کی وجہ سے وہاں یک جہتی کی فضا متاثر ہو رہی ہے ۔ صدیوں سے وہاں تمام مکاتب ِفکر مکمل بھائی چارے کی فضا میں رہتے رہے ہیں۔لیکن رفتہ رفتہ بیورو کریسی نے راے عامہ کو تقسیم کرنے کے لیے اہل تشیع اور آغا خان کمیونٹی کو باور کرایا کہ آزاد جموں وکشمیر میں شمولیت سے آپ ایک کمزور سی اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ آپ لوگ تعلیم و ترقی کے لحاظ سے بھی بہت آگے ہیں، اس لیے الگ صوبے کا مطالبہ کرو،تا کہ آپ ا قلیت میں تبدیل ہونے سے بچ سکیں۔ بیورو کریسی کو اس علاقے کی تاریخی حیثیت کا کماحقہٗ علم تھا اور وہ یہ بھی سمجھتی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں الگ صوبہ بنانا محال ہے ۔وہ سمجھتے تھے کہ اس ہتھکنڈے سے راے عامہ تقسیم ہو گی اور آزاد جموںو کشمیر کے ساتھ ملنے کا امکان مسدود ہو کر موجودہ ’جوں کی توں‘ حیثیت برقرار رہے گی، جہاں وہ سیاہ و سفید کی مالک ہے۔
ایک اہم عامل آغا خان کا بھی ہے، جن کے پیرو کاروں کی ایک بڑی تعداد ہنزہ اور غذر کے اضلاع میں مقیم ہے ۔ یہ کمیونٹی نہایت تعلیم یافتہ اور باوسائل ہے۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP) کے ذریعے پورے گلگت بلتستان میں خاص طور پر جہاں جہاں ان کی اپنی کمیونٹی ہے، وہاں ان کے تعمیر و ترقی کے لیے گذشتہ تین عشروں سے مسلسل کام ہو رہا ہے ۔ آغا خان کو ان کے پیرو کار ’حاضر امام‘ تصور کرتے ہیں اور مذہبی معاملات میں انھیں حتمی اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں۔ موجودہ امام پر نس کریم آغا خان کو پاکستان میں آمد کے موقع پر سربراہ ریاست کا پروٹوکول ملتا ہے، بلکہ ساری دنیا میں وہ اس نوعیت کے پروٹوکول سے مستفید ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی اداروں سے خصوصی تعلقات کی وجہ سے وہ آغا خان فائونڈیشن کے لیے بے پناہ وسائل فراہم کرتے ہیں، جن سے بیورو کریسی بھی مستفید ہوتی ہے ۔اسلام آباد اور گلگت کے بیورو کریٹس ریٹائرمنٹ کے بعد آغا خان فائونڈیشن اور ’آغا خان رورل سپورٹ پروگرام‘ میں بھاری معاوضوں پر ملازمتوں کے حصول کے لیے مواقع پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ محتاط اندازے کے مطابق شمالی علاقہ جات کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ وسائل آغا خان فائونڈیشن سالانہ بروے کار لاتی ہے۔اس کے باوسائل ہونے کا اندازہ اس امر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ فائونڈیشن کے پاس تین ہیلی کاپٹر موجود ہیں، جو بیورو کریسی کی صواب دید پر ہی رہتے ہیں ۔دل چسپ امر یہ ہے کہ ’آغا خان رورل سپورٹ پروگرام‘کے تحت صرف گلگت بلتستان میں نہیں، بلکہ چترال اور وسطی ایشیا میں بھی اثرونفوذ میں وسعت آرہی ہے۔ بڑی تعداد میں یورپی باشندے بھی ان اداروں میں کام کرتے ہیں، جن کی دل چسپیوں اور اہداف کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہیں؟ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس طرح تعلیم کو آغا خان بورڈ کی وساطت سے مغربی آقائوں کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی وجہ سے بعض باخبر حلقے یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ایسے ادارے جن کا بین الاقوامی کردار بھی بڑا مشکوک ہے، ان کواس قدر اہمیت کیوں دی جا رہی ہے ؟ کیا ریاست کے بغیر سربراہ حکومت کے پروٹوکول سے مستفید ہونے والی شخصیت کے لیے کسی ریاست کا بندوبست تو مطلوب نہیںہے ؟
پاکستان میں پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان کو بااختیار نظامِ حکومت دینے کا جس طرح اعلان کیا ہے اس سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ۔اس لیے کہ جن اصطلاحات اور اختیارات کے ساتھ یہ نظام دیا گیا ہے یہ وہاں ایک خاص مکتبۂ فکر کے علاوہ کسی کا بھی مطالبہ نہ تھا۔
راے عامہ تقسیم ہونے کے نتیجے میں تین نقطۂ ہاے نظر سامنے آئے ہیں:
۱- ’’علاقے کو اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے آزاد ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ شامل کیا جائے‘‘۔ اہل سنت، جماعت اسلامی، جمعیت العلماے اسلام، جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ اور قوم پرست جماعتیں اس نقطۂ نظر کی حامی ہیں۔
۲- ’’ان علاقوں کو صوبائی درجہ دیا جائے‘‘۔ تحریک جعفریہ، ان کی برادر تنظیمیں اور پیپلز پارٹی اسی نقطۂ نظر کی حامی ہیں، اور آغا خان بحیثیت کمیونٹی بھی اس نقطۂ نظر کی وکالت کرتے ہیں۔
۳- ’’ان علاقوں کو بالکل خود مختار ریاست بنایا جائے‘‘۔ نیشنل بلاورستان فرنٹ سے وابستہ تنظیمیں اسی نقطۂ نظر کا پرچار کرتی رہی ہیں۔
طویل عمل کے بعد ۲۰۰۰ء میں تمام جماعتوں پر مشتمل گلگت بلتستان نیشنل الائنس معرضِ وجود میں آیا، جس میں تینوں نقطۂ ہاے نظر کے حامیوں نے اپنے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے ایک متفقہ موقف پر اتفاق کر لیا۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے چونکہ یہ علاقے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں، اس لیے مسئلہ کشمیر کے حل تک ان علاقوں کو :
۱- آزاد جموں وکشمیر طرز کا با اختیار نظام حکومت دیا جائے، جس میں انتظامی اور عدالتی تمام ادارے داخلی لحاظ سے خود مختار اور بااختیار ہوں ۔
۲- دونوں یونٹس، یعنی آزاد جموں و کشمیر اورگلگت بلتستان کو تحریک آزادیِ کشمیر کی تقویت اور ریاست کی علامتی وحدت کے لیے کشمیر کونسل میں مساوی نمایندگی دی جائے اور کونسل کو دواکائیوں کا ایوان بالا قرار دیا جائے جس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہوں۔
۳- مسئلہ کشمیر پر ہونے والی بات چیت کے تمام مراحل میں گلگت بلتستان کے نمایندگان کو بھی حق نمایندگی دیا جائے۔
جناب عنایت اﷲ شمالی، جناب مشتاق احمد ایڈووکیٹ اور دیگر قائدین نے شب و روز محنت کر کے تمام سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کو اس موقف پر متفق کر لیا لیکن حکومت نے نہ صرف اس متفقہ موقف کو نظر انداز کر کے پیکیج کا اعلان کیا، بلکہ ان قائدین سے کماحقہٗ مشاورت کا اہتمام بھی نہیں کیا جس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
شکوک و شبہات میں مزید اضافہ یوں بھی ہوا کہ وزارت خارجہ کے اجلاس میں جہاں آزاد جموں و کشمیرکی قیادت نے دو ٹوک انداز میں اس پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے اسے تحریک آزادی کشمیر کے لیے سمِ قاتل قرار دیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، وہاں آخر میں کم از کم مطالبہ یہ کیاگیا کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کی اصطلاحات کو تبدیل کر دیا جائے تا کہ اس تاثر کی تصحیح ہو سکے کہ آپ ان علاقوں کو صوبہ بنانے جا رہے ہیں جس سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ساری قیادت سے وعدہ کیا کہ آپ کے تحفظات نوٹ کر لیے گئے ہیں اور اعلامیے کے حتمی اجرا پر ان کی روشنی میں اصلاح کی جائے گی۔ مقام افسوس ہے کہ ایسا نہ ہوا اور چند دن کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا، وہ جوں کا توں تھا۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سارے عمل کے پیچھے کوئی ایسی نادیدہ طاقت ور قوت کار فرما تھی جس کے سامنے حکومت بے بس ہے ۔کڑیاں ملائی جائیں تو وہ وہی قوت ہے جس کے دبائومیں سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر سے دست برداری اختیار کی اور تقسیمِ کشمیر کے مختلف مجہول فارمولے پیش کیے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مشرف حکومت کے اختتام کے باوجود کشمیر پر پسپائی کا عمل جاری ہے اور صدر آصف علی زرداری کے زیرقیادت حکومت ہر وہ کام کرنے پر تلی بیٹھی ہے جو مشرف کے ہاتھوں بھی نہ کرایا جاسکا تھا ۔اس لیے اس امر کا قوی اندیشہ موجود ہے کہ نئی اسمبلی قائم کرنے کے بعد، اس سے قرارداد پاس کرواتے ہوئے گلگت بلتستان کو حتمی طور پر صوبہ قرار دیا جائے ۔یوں یہ عمل پاکستان کی طرف سے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں سے یک طرفہ دستبرداری سمجھا جائے گا جس سے مسئلہ کشمیر کی بنیادیں منہدم ہو جائیں گی کہ جس کے بل پر حق خود ارادیت کی تحریک جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو ترغیب ملے گی کہ وہ اپنے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کرتے ہوئے ہندو اکثریتی صوبہ جموں کو براہِ راست بھارت میں شامل کرلے، اور وادی کشمیر کے مسلمانوں کو مزید سبق سکھانے کا اہتمام کرے ۔
ان خدشات کے پیش نظر جماعت اسلامی آزاد جموںو کشمیر نے پیش قدمی کرتے ہوئے سب سے پہلے گلگت میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی، جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتوںنے شرکت کی۔ اس کانفرنس نے اس پیکیج کو مسترد کیا اور گلگت بلتستان نیشنل الائنس کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر اپنا متفقہ مطالبہ بنایا ۔۱۱ستمبر ۲۰۰۹ء کو راولپنڈی میں جماعت اسلامی ہی کے زیر اہتمام ایک اور آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی جس میں آزاد جموں وکشمیر، گلگت بلتستان اور حریت قائدین نے شرکت کرکے اس پیکیج کو مسترد کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ’گلگت بلتستان نیشنل الائنس‘ کے مطالبات پر مبنی ڈیکلریشن منظور کیا ۔اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ صدر آزاد کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر براہِ راست شریک رہے اور انھوںنے بھی ڈیکلریشن پر دستخط کیے ۔
پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ مظفر آباد کے موقع پر ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو کشمیری قیادت نے ایک مرتبہ پھر متفقہ طور پر اپنے موقف کا اعادہ کیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔ستم یہ ہے کہ وزیرامور کشمیر اپنے موقف کی رٹی رٹائی وضاحت تو کرتے رہے ہیں، لیکن کشمیری قیادت کے تحفظات اور سوالات کا کوئی جواب ان کے پاس موجود نہیں ہے۔
حکومتی اعلامیے میں علاقے کی تاریخی حیثیت کا کوئی تعارف شامل نہیں ہے اور نہ یہ وضاحت موجود ہے کہ یہ اعلامیہ کب تک مؤثر رہے گا۔ اصولی طور پر آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین ۱۹۷۴ء کی طرح اس اعلامیے میں بھی یہ وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ مسئلہ کشمیرکے حل تک نظام کو موجودہ شکل دی جا رہی ہے اور اس میں حسب ضرورت ترامیم و اضافے ہوتے رہیں گے۔ درحقیقت اس اعلامیے کے ذریعے گلگت بلتستان کو کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے منسلک کرنے کے بجاے گلگت بلتستان کے نظام کو کشمیر سے الگ رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے، مثلاً انچارج وزیر کو جگہ جگہ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان تحریر کیاگیا ۔ اس طرح وزارت امور کشمیر کو بھی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان قرار دے کر بین السطور یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان دو الگ الگ اکائیاں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اورامریکہ کا موجودہ شیطانی اتحاد پاکستان کو اپنی شہ رگ سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔پاکستان میں بر سر اقتدار موجودہ کمزور اور بے سمت قیادت سے ایسے فیصلے کروانا آسان سمجھا جا رہا ہے ۔اگر پاکستان کے محب وطن قائدین اور جماعتوں نے مخمصے سے نکل کر بھر پور کردار ادا نہ کیا تو مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادیِ کشمیر ہی کو نہیں،بلکہ خود پاکستان کی سلامتی کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔ کشمیریوں سے بڑھ کر نظریاتی پاکستانی شاید ہی کوئی اور ہو۔ گذشتہ ۶۱ برس سے وہ اپنی آزادی اور پاکستان کی بقا کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں اور اب تک پانچ لاکھ شہدا کی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں ۔قائد تحریک حریت سید علی گیلانی سمیت تمام کشمیری قائدین مضمرات کو بھانپتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران طے کیے ہوئے ہیں کہ کسی احتجاج کو خاطر میں نہ لایا جائے گا اور نہ کسی معقول دلیل ہی کو سند قبولیت حاصل ہوگی۔ یہ پسپائی کا عمل اس وقت رُکے گا جب پاکستانی قیادت اور راے عامہ اپنا فرض ادا کرے گی۔
ریاست، حکومت اور بالائی طبقات جن کے ہاتھوں میں تمام فیصلے، وسائل اور طاقت ہے اور جو ہر وقت عوام کی خدمت کے نام کی سیاست کرتے ہیں، عملاً عوامی اعتماد سے بے وفائی کا شکار ہیں۔ لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ اور ریاستی ادارے اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کی سیاست کے مقابلے میں ان کے اور بالخصوص کمزور طبقات کی سیاست کرتے ہیں۔ قومی بحران کی یہ ایک بڑی جڑ ہے۔
سوال یہ ہے کہ لوگوں کے روزمرہ اہم مسائل کیا ہیں؟ انسانی ضروریات کی ایک طویل فہرست ہے او رجس انداز میں انسان آگے بڑھتا ہے، اس کی ضروریات کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔عوامی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں ان بنیادی ضروریات کا خیال کرنا ہوتا ہے جو لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے درکار ہوتی ہیں او راس کی براہ راست ذمہ داری ریاست ریاستی اداروں اور حکومت کی ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی کی ریاست و حکومت سے کیا توقعات ہوتی ہیں؟ اس کا جواب بڑا سادہ اور واضح ہے، یعنی اس میں سستی تعلیم، صحت، روزگار، انصاف کی فراہمی، اداروں کی مضبوطی اور ان پر اعتماد کی بحالی، امن و امان، زندگی کا تحفظ، ڈر اور خوف کے بغیر ماحول، خوراک کی فراہمی، نقل و حمل کی سہولیات، آمدنی اور مہنگائی کے درمیان توازن جیسے موضوعات شامل ہیں۔عام آدمی ان تمام مسائل میں کوئی بہت زیادہ سہولتوں پر مبنی عیاشی نہیں چاہتا، بلکہ وہ ریاستی اداروں اور حکومت سے اس قدر توقع ضرور رکھتا ہے جو اسے باعزت اور پُروقار طریقے سے زندہ رہنے کا موقع فراہم کرسکے۔
ایک عام آدمی کو آج حکومت اور ریاست کے ساتھ جو چیلنج درپیش ہیں، وہ یہ ہیں:
اول: ہماری سیاست اور طرز حکمرانی عام لوگوں کے ساتھ بہت کم منسلک ہے۔
دوم: ریاست اور حکومت لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو فراہم کرنے کے حق سے دست بردار ہوتے ہوئے سماجی اور معاشی شعبوں میں وسیع پیمانے پر نج کاری کی پالیسی پر گامزن ہے۔
سوم: اداروں کے مقابلے میں افراد کی حکمرانی اور بالادستی کو غلبہ حاصل ہورہا ہے جس سے لوگوں کی اداروں سے وابستہ امیدیں ماند پڑتی جارہی ہیں۔
چہارم: معاشرے میں مجموعی طور پر اجتماعی سوچ اور امداد باہمی کے رویے کے مقابلے میں انفرادیت کی سوچ بڑھتی جارہی ہے۔
پنجم: سرمایہ دارانہ نظام اور منڈی کی تحریک کے نتیجے میں ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ نمود ونمایش اور غیرضروری آسایشوں اور خواہشات کو بڑی ضرورتیں بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے پورے معاشرے کے مجموعی مزاج میں کمرشلائزیشن کو فوقیت حاصل ہو رہی ہے۔
دراصل جب ریاست اور حکومت عوام کے بنیادی حقوق کے معاملات سے لاتعلق ہوکر انھیں تاجرانہ مزاج کے اداروں کے سہارے چھوڑ دیتی ہے تو اس سے معاشرے کے کمزور طبقات کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ تعلیم، صحت، روزگار، غربت، خوش حالی، انصاف، تحفظ،ماحولیات، نقل وحمل، پانی، سمیت بہت سے شعبوں میں عورتوں، مردوں اور بچوں کے صرف حکومتی اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں تو اس میں جو مجموعی منظرنامہ اس ملک کا اور بالخصوص پس ماندہ علاقوںکا ملے گا، اس میں ایک بڑی سیاسی، سماجی اور معاشی تفریق ملے گی۔ یہ تفریق عملاً آگے جاکر معاشرے کے اندر ایک بڑے سماجی انتشار کا سبب بنتی ہے۔ یہ سب کچھ جو ہمیں اس وقت معاشرے کے اندر نظر آرہا ہے، اسے ایک سطح پر ریاست، حکومت اور سیاست کی ناکامی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور دیکھا جانا بھی چاہیے۔لیکن کیا سب کچھ ریاست اور حکومت کا کیا دھرا ہے، یا اس میں ہمارے سماجی ادارے اور عام آدمی بھی کسی حد تک ذمہ دار ہے؟کیونکہ اب یہ ہمارے ہاں عملاً ایک فیشن بن گیا ہے کہ ہر ناکامی کی ذمہ داری حکومت اور ریاست کے اداروں پر ڈالی جاتی ہے اور لوگ اپنی ناکامی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ بہت سے مسائل کے پیدا کرنے، یا اسے طول دینے میں خود لوگ بھی براہ راست شامل ہیں تو اکثر اہل دانش ناراض ہوجاتے ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ لوگ اس سارے بحران کی ذمہ داری سے مبرا ہیں مگر یہ ایک کمزور دعویٰ ہے۔ آج ہم پر جمہوریت اور عوام دوستی کے نام پر جو قیادتیں مسلط ہیں اور جن کا کسی بھی سطح پر احتساب کا کوئی امکان نہیں، اس میں ایک ذمہ داری لوگوں کی بھی ہے جو قیادت کے احتساب کے عمل میں جانے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بیش تر کارکنوں میںاب وہ دم خم نہیں کہ وہ اپنی قیادت کو جھنجھوڑ سکیں یا پھر وہ خود بھی ایسے کاموں میں شامل ہوگئے ہیں جو سیاسی کارکنوں کا خاصہ نہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں لوگوں کو کبھی بھی اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق نہیں مل سکا، مگر بات اتنی سادہ نہیں کیونکہ زندگی کے مجموعی تناظر کو دیکھیں تو بہت سے فیصلوں میں ہم بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہوتے ہیں اور اس میں کسی حد تک ہماری رضامندی شامل ہوتی ہے۔اسی طرح ہم نے عالمی منڈی کی تحریک کا شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ بن کر ایک ایسے سماجی , سیاسی اور معاشی کلچر کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کرلیا ہے، جو دراصل ہماری بنیادی ضرورتوں کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔ کفایت شعاری، سلیقہ مندی، سادگی، قناعت پسندی، اپنی ضرورت کے تحت آگے بڑھنا، اپنی حیثیت کے مطابق چلنے جیسے عوامل اب ہماری نجی اور خاندانی زندگیوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ قوم کا ایک بڑا طبقہ اپنے ملکی حالات کے مطابق ماڈل کو چھوڑ کر بیرونی ماڈل کو اپنی ضرورت بنالے تو مسائل ضرور سامنے آئیں گے۔ معاشرے میں عزت دار اور شریف و خوددار لوگوں کے مقابلے میں سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت کو بالادستی حاصل ہوگی اور طاقت ہی کو اصل کامیابی سمجھا جائے گا۔
لوگوں میں موجود مایوسی کی ایک بڑی وجہ ان کے سامنے ریاست، حکومت اور اداروں کی جانب سے مختلف مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے کسی مددگار نظم کا نہ ہونا یا ایک کمزور نظم کا ہونا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں میں ایک خاصیت تھی کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت فلاح و بہبود کے کسی نہ کسی عملی کام میں پیش پیش ہوتے تھے۔لیکن اب یہ عمل محض حادثاتی بنیادوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جس سے عام فرد کی زندگی کو مختلف مصائب کا سامنا ہے۔
یقینا کسی ایک طبقے کے بس میں نہیں کہ وہ موجودہ بحران حل کرسکے، کیونکہ اب یہ کام آسان نہیں رہا اور اس کے لیے مختلف طبقوں کے درمیان مضبوط رابطہ کاری اور بہتر حکمت عملی ہی ہمیں ایک نئے سفر کی جانب گامزن کرسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں مربوط حکمت عملی کے تحت عوامی سطح پر ایک نئی سیاسی و سماجی شعور کی بیداری کی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے، جس میں اس احساس کو اجاگر کیا جائے کہ ہم ریاست اور حکومت سمیت بالادست طبقوں کے مقابلے میں کمزور نہیں ہیں اور ہم اپنی قسمت اور اپنے مسائل کو خود بھی حل کرسکتے ہیں۔یہ نعرہ محض خواب نہیں کیونکہ ہمارا منظم نہ ہونا اور اپنے سیاسی و سماجی شعور کا بہتر ادراک نہ ہونا ہی ہماری بڑی کمزوری ہے۔ ہمیں اس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو معاشرے کے بالادست طبقوں یا جن کے پاس فیصلوں کی طاقت ہے، ان پر منظم ہوکر دباو ڈالنے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی، اور اپنی عوامی طاقت اور اجتماعیت کے پہلو کو مضبوط بناتے ہوئے ایک نئے سیاسی و سماجی سفر کا آغاز کرنا ہوگا، جو مشکل اور کٹھن ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ عوام الناس کی بہتری اور بھلائی چاہنے والے افراد، جماعتیں اور سماجی ادارے اگر لوگوں کی فکری وذہنی تربیت اور ان کے سیاسی و سماجی شعور کی بیداری میں آگے بڑھیں اور اپنے کام کو ایک نئی جہت دیں تو وہ ایک نئے کام کا آغاز کرسکتے ہیں۔
لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے نتیجے میں بے بسی اور لاچارگی کو قسمت کا فیصلہ اور خدا کا حکم سمجھنا غلط سوچ کی عکاسی ہے۔ انھیں یہ باور کروانا ہوگا کہ معاشرے میں موجود خرابیاں انسان کی پیدا کردہ ہیں اور اسے انسان ہی خدا کی مدد کے ساتھ ساتھ اپنی بہترحکمت عملی اور جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ختم کرسکتا ہے۔ اصلاحِ احوال کے لیے مسجدوں کو بنیاد بناکر ایک نئی سماجی تحریک کا آغاز کرسکتے ہیں۔ سرگرم لوگ اس تحریک کے نتیجے میں معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نمود نمایش اور بے جا اسراف، بے حیائی اور عریانیت پر مبنی کلچرکے خاتمے، معیار زندگی او ر رہن سہن، لین دین سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں سادگی اور دیانت داری کے کلچر کو مضبوط بنیاد فراہم ہوسکتی ہے۔ لوگوں میں دولت کے حصول میں جو شدت آئی ہے اور ہر شخص اس کے حصول میں جائز و ناجائز سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے اور اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ دولت کہاں سے اور کس طریقے سے آرہی ہے۔ اس کھیل نے سب کو اس بیماری میں مبتلا کردیا ہے اور لوگ اپنی ضرورت سے بڑھ کر آگے جانے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ ایک بہتر سیاست بھی اسی صورت میں سامنے آئے گی جب ہم سماجی اور اخلاقی سطح پر ایک بہتر نظام رکھتے ہوں گے۔ بہتر سماجی و اخلاقی نظام ہی بہتر سیاسی نظام ہی کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ محض دنیا پرستی کی دوڑ اور اس سے محبت ہماری زندگی کا حاصل نہیں، بلکہ ہمیں اس اصل سفر پر بھی توجہ دینی ہے جہاں بہرحال ہم سب کو جانا ہے۔ یہ راستہ ہم سے دنیا اور آخرت کے تناظر میں جو توقعات رکھتا ہے، انھیں پیش نظر رکھنا ہے۔ اس سارے عمل کے لیے ضروری ہے کہ قول و فعل میں تضاد سے مبرا رول ماڈل گلی محلے کی سطح پر قیادت کریں۔ وہ جو کچھ زبان سے بول رہے ہوں، اس پر نہ صرف وہ خود عمل کرتے ہوں بلکہ ان کا بہتر عمل لوگوں کو نظر بھی آنا چاہیے۔ ان کا یہ طرزِ عمل لوگوں کو بتائے گاکہ یہ لوگ محض باتیں ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
اصلاحِ احوال کی اس جدوجہد کا آغاز ہر فرد اپنی ذات، اپنے دائرہ کار اور حلقہ اثر سے کرسکتا ہے۔ خیال رہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے فرائض کی ادایگی اور معاشرے کی بہتری اور خرابی کو دُور کرنے کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہے، لہٰذا تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کیجیے۔ انفرادی اصلاح اور منظم جدوجہد کے ذریعے بتدریج اصلاح کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے بھی ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ معاشرے کی بہتری اور سماجی بگاڑ کو روکنے کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ دوسروں کے انتظار میں بیٹھ رہنا چاہیے۔ اگر سماجی و سیاسی انتشار کو نہ روکا گیا تو معاشرتی بگاڑ کے نتیجے میں بالآخر قومی انحطاط اور زوال کا سامنا کرنا ہوگا۔ مسئلے کی نزاکت کا احساس کرنے اور اس جدوجہد کی ہمیں آج ضرورت ہے جو ہماری آج کی اس پریشان حال زندگی کو خوش حالی میں تبدیل کرسکے۔
ایک منٹ کی وڈیو فلم کا آغاز ہوا تو اسکرین پر ’فلسطین‘ نام کا اخبار تھا۔ چند سیکنڈ بعد اس کی تاریخ ۲۰۰۹ء؍۹؍۱۴ دکھائی گئی اور پھر اخبار کے اُوپری کنارے سے جھانکتی ہوئی دو آنکھیں دکھائی دیں، آہستہ آہستہ اخبار ہٹ گیا اور سامنے اغوا شدہ یہودی فوجی گلعاد شالیط کا چہرہ تھا۔ شالیطکو تین سال قبل حماس کے عسکری بازو نے اغوا کیا تھا۔ حماس کا مطالبہ تھا کہ اسرائیلی جیلوں میں گرفتار ہزاروں فلسطینی قیدیوں کورہا کیا جائے ،وگرنہ ایک کے بعد دوسرا شالیط گرفتار کیا جاتا رہے گا۔ صہیونی حکومت نے اس اغوا پر انتہائی شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ۲۰۰۶ء میں مختلف فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی جارحیت اور پھر ۲۰۰۸ء کے اختتام پر غزہ کی خوفناک تباہی کا اصل مقصد بھی شالیط کو اغوا کرنے والی حماس کا مکمل خاتمہ تھا۔ گذشتہ ساڑھے تین سال سے جاری غزہ کے مسلسل حصار سمیت، حماس کے خلاف ہر ممکن دبائو اور دھمکیوں نے کام نہ کیا تو حماس کے ساتھ مذاکرات اور گفت و شنید کا دروازہ بھی کھولا گیا۔ شالیط کے بارے میں طویل مذاکرات کا نتیجہ بالآخر درج بالا وڈیو فلم کی صورت میں نکلا۔
اسرائیل اپنی تمام تر جاسوسی، چالاکیوں اور اپنے ایجنٹوں کی فوج ظفرموج کے باوجود شالیط کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں کرسکا تھا۔ حماس کے ساتھ حالیہ معاہدے میں طے پایا کہ اگر وہ شالیط کے زندہ یا مُردہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت دے دے تو صہیونی انتظامیہ کچھ فلسطینی قیدیوں کورہا کردے گی۔ فلسطینی مذاکرات کاروں نے میدانِ جہاد واستقامت کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی بڑی کامیابی حاصل کی اور ایک دو فلسطینی قیدیوں کی نہیں، پوری ۲۰ فلسطینی خواتین قیدیوں کی رہائی کی شرط منظور کروائی۔ یہ خواتین سالہا سال سے صہیونی جیلوں میں مختلف عقوبتیں اور سزائیں جھیل رہی تھیں۔ ان کی رہائی ۲۰ فلسطینی گھرانوں ہی کے لیے نہیں ہرفلسطینی اور ہرانسان دوست کے لیے مسرت کا باعث بنی۔ رہائی پانے والی خواتین کے ساتھ دنیا کا سب سے کم سن قیدی دوسالہ یوسف الزق بھی رہا ہوگیا۔ یوسف الزق نے جیل ہی میں جنم لیا تھا، اس کی والدہ شادی کے چند ماہ بعد ہی گرفتار کر لی گئی تھی اور اب دوسالہ بیٹے کے ساتھ رہاہوئی۔
حماس کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ اب بھی مکمل طور پر نہیں رُکا۔ اس ایک منٹ کی وڈیو میں حماس نے اعلیٰ پیمانے کی فنی نفسیاتی اور سیاسی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ زندہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت دینے کے لیے اس روز کے تازہ اخبار کا سہارا لیا گیا۔ اخبار کا انتخاب کرتے ہوئے روزنامہ فلسطین کا انتخاب کیا گیا۔ تین سال بعد اپنے فوجی، اپنے شہری اور اپنے عزیز کا چہرہ دیکھنے کے لیے ہرصہیونی اور یہودی بے تاب تھا لیکن اس کا چہرہ دیکھنے سے پہلے انھیں جو نوشتۂ دیوار پڑھنا پڑا وہ تھا: فلسطین۔ پھر شالیط نے عبرانی زبان میں لکھا ہوا اپنی خیریت کا جو پیغام پڑھا، اس میں اداسی کے سایے تو تھے لیکن یہ بھی مکمل طور پر واضح تھا کہ حماس اپنے قیدی کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتائو کرر ہی ہے۔ حماس کی قیادت نے وڈیو جاری کرنے کے موقع پر ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اگر صہیونی جیلوں میں قید ۱۰ ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو صہیونی ریاست کو ایک کے بعد دوسرے شالیط کا صدمہ سہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اس پوری کارروائی میں ایک بہت اہم اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ حماس نے رہائی کے لیے جن ۲۰ خواتین کی فہرست پیش کی، ان میں صرف چار کا تعلق خود حماس سے تھا، باقی ۱۶ خواتین کا تعلق الفتح سمیت مغربی کنارے اور غزہ کی دیگر فلسطینی تنظیموں سے تھا۔ گویا حماس کہہ رہی ہے کہ ہمارے لیے تمام فلسطینی شہری بالخصوص قیدی یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف سے تو خیرسگالی کے یہ پیغامات ہیں لیکن دوسری طرف مصری دارالحکومت قاہرہ میں حماس اور الفتح کے مابین جاری مذاکرات سنگین سے سنگین تر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان مذاکرات کے دسیوں رائونڈ ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ الفتح اور بالخصوص صدر محمودعباس (ابومازن) کی بنیادی سوچ فلسطینی تحریکِ آزادی سے عسکریت، یعنی جہاد کا خاتمہ ہے۔ حالیہ مذاکرات اور معاہدے میں بھی بنیادی اختلاف اسی نکتے پر ہے۔ مذاکرات کے درجنوں دَور ہوچکے ہیں لیکن کسی متفق علیہ سوچ پر پہنچنا ممکن نہیں ہورہا۔ جس مسودے پر حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑوں کا اتفاق ہوا، اسے بھی جب دستخطوں کے لیے پیش کیا گیا تو پوری کی پوری عبارتیں اور جملے اس میں سے غائب تھے۔ اس تحریف کی تمام تر ذمہ داری محمود عباس اور مصری حکومت کے سر آتی ہے لیکن جب حماس نے تحریف شدہ تحریر پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو مذاکرات ناکام کرنے کی ساری ذمہ داری حماس کے سر ڈالی جارہی ہے۔ نہ صرف تنقید بلکہ دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ حماس کی مرکزی قیادت سے اس بارے میں استفسار کیا تو اس کا کہنا تھا کہ معاہدے کے موجودہ، یعنی تحریف شدہ مسودے پر دستخط کرنا بلاجواز موت کی سزا قبول کرنے کے مترادف ہے۔
حماس اور الفتح کے مابین اختلاف کا ایک نکتہ آیندہ انتخابات بھی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت فلسطین کے دونوں علاقے غزہ اور مغربی کنارہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔ محمودعباس نے تقریباً ڈیڑھ برس پہلے منتخب فلسطینی حکومت اور پارلیمنٹ معطل کرنے کا اعلان کر دیا اور سلام فیاض نامی ایک غیرمنتخب شخص کو عبوری حکومت کا سربراہ بناکر حکومتی سیکرٹریٹ غزہ سے مغربی کنارے منتقل کر دیا۔ ادھر حماس نے اس غیردستوری اور غیراخلاقی حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تب سے فلسطینی علاقوں میں دو الگ الگ حکومتیں قائم ہیں۔ غزہ میں منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کی اور مغربی کنارے میں محمود عباس کی۔ ۸جنوری کو محمود عباس کی مدت صدارت ختم ہوجانے کے باوجود انھوں نے یہ منصب چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اسرائیلی انتظامیہ سمیت مغربی ممالک نے بھی نہ صرف ان کی مکمل سرپرستی کی، بلکہ بھرپور مالی اور سیاسی سرپرستی جاری رکھی۔ دوسری طرف ۱۵لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا علاقہ غزہ مسلسل اور مکمل حصار سے دوچار ہے۔ دوا اور غذا سمیت کوئی چیز جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن پوری دنیا یہ راز جاننے سے قاصر ہے یا خود جاننا ہی نہیں چاہ رہی کہ اس قدر ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اہل غزہ حماس کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں۔
غزہ ہی نہیں خود مغربی کنارے میں جتنے سروے ہورہے ہیں، ان میں بھی محمود عباس کا گراف مسلسل گر رہا ہے، جب کہ حماس کی تائید میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ محمود عباس کی بدنامی میں ماہِ رواں میں اس وقت اور اضافہ ہوگیا، جب اس نے اقوام متحدہ میںجسٹس گولڈسٹون کی وہ رپورٹ پیش کرنے پر اعتراض کیا جو اس نے غزہ کی جنگ کے دوران میں اسرائیلی مظالم کے خلاف تیار کی تھی۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے اس یہودی الاصل جج جسٹس ریٹائرڈ گولڈسٹون کو جب عالمی ادارے کی طرف سے غزہ کی جنگ کے دوران میں ہونے والے جرائم کی رپورٹ تیار کرنے کا کہا گیا تو کسی کو اس منصفانہ راے کا اندازہ نہیں تھا۔ جب رپورٹ آئی تو اس نے شالیط کے اغوا اور یہودی آبادی پر حماس کے میزائلوں کا ذکر بھی کیا لیکن جس سفاکیت اور درندگی کا مظاہرہ اسرائیل نے کیا تھا اس کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا، جس پر کہرام مچ گیا۔ صہیونی انتظامیہ ہسٹیریائی انداز سے چلّانے لگ گئی۔ لیکن اصل رکاوٹ اس وقت سامنے آئی جب خود محمود عباس انتظامیہ نے جنیوا میں یہ رپورٹ پیش کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے یہ وقت مناسب نہیںہے۔ قدرت نے شاید کچھ لوگوں کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا تھا۔ جب فلسطینی آبادی اور عالمِ عرب سے فلسطینی انتظامیہ پر لعنت ملامت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو بالآخر محمود عباس نے اعتراض واپس لے لیا۔ گولڈسٹون رپورٹ سرکاری طور پر دنیا کے سامنے آگئی اور اب اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے بعد اسے سیکورٹی کونسل میں پیش کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ محمود عباس نے سو پیاز بھی کھا لیے اور سو جوتے بھی۔
اس تناظر میں قاہرہ مذاکرات کی میز سجی ہے۔ ۲۲؍اکتوبر کو خالدمشعل سے ایک ملاقات کے موقع پر ان سے جب مذاکرات کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہہ رہے تھے کہ ہم تو اپنی بہت سی شرائط سے دست بردار ہوکر بھی صلح کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جاتی ہے۔ وہ اس خدشے کا اظہار بھی کررہے تھے کہ تقسیم و اختلاف کی اسی صورت حال میں انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتے ہوئے ایک نیا بحران کھڑا کر دیا جائے۔ ابھی ان کی اس گفتگو کی بازگشت کانوں میں باقی تھی کہ ۲۴؍اکتوبر کی شام محمود عباس نے ’صدارتی فرمان‘ جاری کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ۲۴؍ جنوری ۲۰۱۰ء کوفلسطین میںصدارتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد کروا دیے جائیں گے۔ صدارتی فرمان اسی صدر نے جاری کیا ہے جس کی اپنی صدارت ۹ماہ اور ۱۶ روز پہلے ختم ہوچکی ہے اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت غزہ سے عملاً لاتعلق ہیں۔ لیکن اگر معاملات اسی دھارے پر آگے بڑھے تو من مرضی کے یک طرفہ نتائج پر مشتمل انتخابات وقوع پذیر ہوجائیں گے اور گذشتہ انتخابات میں دو تہائی سے زائد نشستیں حاصل کرنے والی اسلامی تحریکِ مزاحمت (حماس) کم از کم کاغذوں سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ایک طرف مقبوضہ فلسطین کو تقسیم در تقسیم کرنے اور اہلِ فلسطین کو باہم دست و گریباں کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب صہیونی ریاست خطے میں اپنے زہریلے پنجے مزید گاڑ رہی ہے۔ ادھر قاہرہ مذاکرات میں تعطل کا اعلان ہو رہا تھا اور ادھر امریکا اور اسرائیل اپنی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کر رہے تھے۔ ان مشقوں میں دونوں فریقوں نے جو اصل میں ایک ہی فریق کی حیثیت رکھتے ہیں جدید ترین ہتھیاروں بالخصوص اینٹی میزائل سسٹم کے خصوصی تجربات کیے۔ ۲۰۰۶ء میں لبنان پر اور ۲۰۰۸ء کے اختتام پر غزہ کی جنگ کے دوران میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود صہیونی ریاست اپنی طرف آنے والے میزائلوں کا راستہ نہیں روک سکی تھی۔ حالیہ مشقوں میں اس جانب خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
اس حوالے سے ایک اہم اور حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ یہ مشترکہ مشقیں بنیادی طور پر اسرائیل، امریکا اور ترکی کے درمیان ہونا تھیں۔ ترک افواج گذشتہ کئی سال سے ان سالانہ مشقوں میں شریک ہوتی رہی لیکن اس بار منتخب ترک حکومت نے احتجاجاً ان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
حالیہ مشقوں کے حوالے سے اصل تشویش ناک پہلو یہ سوال ہے کہ کیا صہیونی ریاست خطے میں کسی نئی جارحیت کی بنیاد رکھنے جارہی ہے؟ گذشتہ ہفتوں میں مسجداقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششوں میں بھی اچانک اضافہ کردیاگیا ہے۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں نہتے فلسطینی مسجداقصیٰ کے اندر زبردستی جاکر دو ہفتے سے زائد عرصے کے لیے وہاں ایک انسانی ڈھال نہ بنا لیتے تو خدانخواستہ اب تک کوئی اور بڑا سانحہ بھی روپذیر ہوچکا ہوتا۔
مقامِ معراج مصطفیؐ کو شہید کرکے وہاں یہودی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی مسلسل اور بے تابانہ کوششیں اور ساتھ ہی ساتھ امریکی اسرائیلی وسیع تر فوجی مشقیں اُمت کو اور بالخصوص اہلِ فلسطین کو اہم پیغام دے رہی ہیں۔ کیا اسرائیل سے بھی زیادہ اسرائیل کے وفادار حکمران اور خود فلسطینی قائدین یہ پیغام سمجھنے کی تکلیف گوارا کریں گے؟ کیا وہ یہ حقیقت فراموش کردیں گے کہ چند روزہ نام نہاد اقتدار یا چند ارب ڈالر کی بھیک کی خاطر، مسجداقصیٰ کے محافظ اپنے ہی فلسطینی بھائیوں پر فتح حاصل کرنے کا خواب، نہ صرف دنیا میں رسوائی کا سبب ہوگا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کی ہلاکت کا بھی۔
سوال: آج کل الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اِس بات کی ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ فوت ہونے سے قبل اِس بات کی وصیت کردیں کہ ان کے اعضاے جسمانی انسانیت کی فلاح کے لیے وقف ہیں اور اُن کے انتقال کے بعد ان کو نکال لینے کی مکمل اجازت ہے۔ اس عمل کو آرگن ڈونیشن کا نام دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت کی رُو سے ایسا کرنا جائزہے؟
جواب: عمومی انداز میں لوگوں کو اپنی وفات کے بعد اپنے اعضا عطیہ کرنے اور نکال دینے کی دعوت و ترغیب دینا درست نہیں ہے، اسے ختم کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس طرح کی تشہیر کے نتیجے میں انسانی اعضا کی تجارت اور کاروبار کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے جس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ انسانی اعضا کا عطیہ اور پیوند کاری کو مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا یوسف بنوریؒ کی سربراہی میں علما نے ناجائز قرار دیا ہے۔ مفکراسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی بھی یہی راے تھی۔ احادیث سے احترامِ انسانیت کی جو ہدایت ملتی ہے، اس کا بھی یہی تقاضا ہے لیکن سعودی عرب، الجزائر، ملیشیا اورپاکستان کے بعض علما، جن میں شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن بھی شامل ہیں، اضطراری حالت میں اسے جائز سمجھتے ہیں لیکن اس کے لیے چھے شرائط کی پابندی لازمی ہے۔ ان کے بغیر انسانی جسم کی چیرپھاڑ اور اعضا کی منتقلی نہیں کی جاسکتی۔ وہ شرائط یہ ہیں:
ا- مریض کی موت یا اس کے کسی عضو کے ضائع ہوجانے کا شدید خطرہ ہو۔
ب- ماہرین کی راے یہ ہو کہ انسانی عضو کی پیوندکاری سے مریض کے شفایاب ہونے کی قوی امید ہے اور اس عمل کی کامیابی کا غالب گمان ہے۔
ج- جس شخص کی لاش سے کوئی عضو لیا جائے، اس کے بارے میں قوی یقین ہو کہ وہ مرگیا ہے اور اس کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔
د- اگر زندہ شخص کا کوئی عضو، مثلاً گردہ لیا جا رہا ہو تو اس صورت میں، جب کہ یہ یقین یا غالب گمان ہو کہ اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ اپنی خوشی سے یہ عطیہ دے رہا ہو۔
ھ- میت کے شرعی وارثوں نے اس کا کوئی عضو لینے کی اجازت دے دی ہو، اس لیے کہ وہ اس کی تدفین و تجہیز کے شرعاً ذمہ دار ہیں۔ اگر میت لاوارث ہو تو علاقے کا قاضی اس کا وارث ہے جس کی اجازت پر عضو لیا جاسکتا ہے (وصیت کی صورت میں بھی اجازت ہے)۔
و- اس بات کا اطمینان حاصل کرلیا گیا ہو کہ اعضا کی پیوندکاری کا یہ عمل انسانی اعضا کے کاروبار کا ذریعہ ثابت نہیں ہوگا اور حکومتوں نے اس بارے میں قانون کے ذریعے عام انسدادی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرلی ہوں۔ (بحوالہ تفہیم المسائل، ج ۳، ص ۱۸۷ - ۱۸۹)
میڈیا پر جس انداز سے تشہیر ہورہی ہے اور جو کمپنیاں یہ تشہیر کر رہی ہیں، اس کے نتیجے میں مذکورہ تمام شرائط اور قدغنیں کالعدم ہوکر رہ جاتی ہیں۔ ان قدغنوں کا مقصد تو یہ ہے کہ اعضا کے لیے انسانی میت کی چیرپھاڑ اضطراری حالت میں نہایت محدود پیمانے پر ہو لیکن میڈیا کی تشہیر کے نتیجے میں لاشوں کی چیرپھاڑ کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہونے کا اور اس کے کاروبار بن جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس لیے اس تشہیر کو روکنا چاہیے تاکہ جو حدیں لگائی گئی ہیں، وہ اپنی جگہ مؤثر رہیں اور محض اضطراری حالت میں اس ناگوار عمل کا ارتکاب کیا جائے۔ (مولانا عبدالمالک)
س: ریٹائرمنٹ پر میں نے ساڑھے گیارہ لاکھ روپے کی رقم بنک میں رکھنے کے بجاے اس کا ایک پلاٹ خرید لیا۔ پلاٹ خریدتے وقت پیش نظر یہ تھا کہ:
۱- روپے کی قدر کم ہوتی رہتی ہے، جب کہ پلاٹ کی مالیت بڑھنے کی توقع ہے۔ اگر کسی وقت مناسب منافع ملا تو پلاٹ کو بیچا جاسکتا ہے (تاہم دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پلاٹ کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا)۔
۲- گھریلو اخراجات ماہوار پنشن میں بمشکل پورے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات غیرمعمولی اخراجات بھی کرنے پڑ جاتے ہیں، مثلاً کسی بچے کی شادی یا بیماری کی صورت میں۔ کسی بھی صورت میں ضرورت پڑنے پر پلاٹ بیچ کر ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔
۳- اگر مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت پیش نہیں آتی تو پلاٹ پڑا رہے گا اور اولاد کے کام آئے گا۔
میرا سوال یہ ہے کہ: ۱- کیا اس پلاٹ کی مالیت پر زکوٰۃ واجب ہے؟
۲- زکوٰۃ واجب ہے تو پلاٹ کی کس وقت کی مالیت پر یا کس حساب سے طے کردہ مالیت پر؟
۳- زکوٰۃ واجب ہے لیکن وقت پر ادایگی کے لیے نقد رقم موجود نہیں اور ذاتی ماہوار آمدنی میں سے زکوٰۃ کے لیے رقم نہیں بچتی۔ ایسی صورت میں میرے لیے کیا حکم ہوگا؟ ا- کیا پلاٹ بیچ دینا چاہیے؟ ب- ایک بیٹے کی کمائی میں یہ گنجایش موجود ہے کہ اس سے میں اپنی زکوٰۃ ادا کر دوں۔ کیا شرعاً میں اس بات کا مکلف ہوں کہ بیٹے کی کمائی سے اپنی زکوٰۃ ادا کر دوں؟
ج: جب آپ نے روپے کو پلاٹ کی شکل میں محفوظ کرلیا ہے اور مقصد اسے فروخت کرنا ہے، منافع کی صورت میں، ہنگامی ضروریات کی صورت میں، یا اسے بچوں کے لیے پس انداز کرنا ہے، جو بھی صورت ہو، زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ پلاٹ کی مارکیٹ کے ریٹ کے مطابق قیمت کا تعین کرکے زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ خیال رہے کہ رہایشی ضرورت کے تحت خریدے گئے پلاٹ پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔
آپ کے پاس زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے فاضل رقم نہیں ہے، البتہ ایک بیٹے کی کمائی میں گنجایش ہے۔ آپ کا یہ سوال کہ کیا پلاٹ کو فروخت کر دیا جائے تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ آپ کی صوابدید پر ہے۔ زکوٰۃ تو بہرصورت دینا ہوگی، اس لیے کہ آپ کی ضروریات سے فاضل محفوظ شکل میں براے فروخت پلاٹ پڑا ہوا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ بیٹا رضاکارانہ طور پر اعانت کردے اور آپ زکوٰۃ ادا کردیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب پلاٹ فروخت ہو تو اس وقت سارے عرصے کی زکوٰۃ ادا کردیں،واللّٰہ اعلم۔ (ع - م )
زیرنظر کتاب ڈاکٹر نثار احمد صاحب کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے پر مبنی ہے۔ ۵۰۰ سے زائد صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب میں جس بنیادی موضوع کا جائزہ لیا گیا ہے وہ عالمِ اسلام کے لیے ہی نہیں بلکہ جدید مغربی مفکرین اور ان کے زیراثر تربیت پانے والے مسلم دانش وروں کی توجہ کا بھی مرکز رہا ہے۔ پاکستان کے قیام اور مستقبل کے حوالے سے بھی یہ موضوع غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ بعض حضرات اسلام کے سرسری مطالعے کی بنیاد پر اور اسلام کو دیگر مذہب کی طرح ایک مذہب تصور کرتے ہوئے اس راے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مدینہ منورہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی معاشرہ توقائم کیا لیکن نہ قرآن میں اور نہ سنت میں ’اسلامی ریاست‘ کی کوئی واضح شکل ملتی ہے اور نہ کوئی دلیل۔ اس لیے اسلام مذہبی تعلیمات و عبادات کا ایک مجموعہ ہے اور اس کا کوئی تعلق سیاست کے ساتھ نہیں ہے بلکہ بعض دانش ور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اسلام کو سیاست اور ریاست کے معاملات میں شامل کیا گیا تو مذہبی جنونیت، شدت پسندی کو تقویت ملے گی اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کی پامالی عمل میں آجائے گی۔
یہ کتاب ایک تحقیقی مقالے کی حیثیت سے ان تمام بے بنیاد تصورات کی نظری، عقلی اور تاریخی شواہد کے ذریعے سنجیدہ اور غیرجذباتی تردید ہے۔ کتاب کے مبنی برتحقیق ہونے کے حوالے سے برعظیم پاک و ہند کے نام ور مؤرخ و مفکر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے تحریر کردہ پیش لفظ میں جو راے دی گئی ہے وہ ایک اعلیٰ علمی شہادت کی حیثیت رکھتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی ناسمجھ ہی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا کہ مذاہبِ عالم میں ایک مذہب کا اضافہ ہوجائے اور جس طرح یہودی، عیسائی، بدھ، زرتشت یا ہندو اپنے مذہبی رسوم و عبادات پر عمل کرتے تھے، ایک اور قوم ایسی پیدا ہوجائے جو مختلف انداز میں عبادات اور چند مخصوص تہوار منا لیا کرے۔ قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا بنیادی مقصد دنیا سے ظلم و طغیان کو مٹاکر عدل اور علم و ہدایت پر مبنی نظامِ حیات کا قیام تھا۔ اس بنا پر مکی دور ہو یا مدنی، دونوں ادوار میں اصل تعلیم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا قیام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے ذریعے قرآن کی معاشی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی تعلیمات کا عملاً مظاہرہ تھا، تاکہ قیامت تک کے لیے انسانیت کے سامنے تعلیمات، احکام و ہدایاتِ قرآنی کے نفاذ کا طریقہ اور تاریخی شواہد کے ذریعے انسانیت کے معاشرتی، سیاسی و معاشی مسائل کا واضح، متعین اور عملی شکل میں آجائے۔ گویا مدینے کی اسلامی ریاست قرآن کریم کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تعلیمات کی تفسیر و تشریح و تشریع کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس ریاست کا نشووارتقا کتاب کا موضوع ہے۔ مصنف نے قرآن و حدیث، معروف تفاسیر، مشہور تاریخی مصادر اور بعد کے لکھنے والوں کی تحریرات کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد حاصلِ مطالعہ کو اپنے قارئین کے سامنے انتہائی مؤثر، مدلل اور سادہ انداز میں پیش کر دیا ہے، جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کتاب کی نمایاں خصوصیات میں اس کا مستند و معتبر مصادر پر مبنی ہونا اور غیرجانب دارانہ تحقیق ہے۔
قرآن کریم ، احادیث اور سیرت طیبہؐ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ریاست مدینہ منورہ میں قائم کی، وہ ایک مکمل ریاست تھی جس میں ریاست کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، فلاحی، قانونی وظائف کو آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارکہ ہی میں واضح شکل دے دی تھی۔ ظاہر ہے اس بنیادی خاکے میں بعد کے ادوار میں معاشرتی اور معاشی ضروریات کے پیش نظر مزید اضافے ہونے فطری تھے لیکن بنیادی تصورات، بنیادی ادارے اور بنیادی خدوخال کے حوالے سے خود خاتم النبیینؐ نے اس کام کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں مکمل فرما دیا اور یہی قرآن کریم کے اس ارشاد کا مفہوم ہے جس میں اسلام کے مکمل کیے جانے کا تذکرہ ہے۔ (المائدہ۵:۳)
اللہ کی حاکمیت اعلیٰ پر قائم ہونے والی اس ریاست میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے خلیفہ فی الارض یا سربراہِ مملکت کی تھی۔ جو نظام قائم کیا گیا اس کی بنیاد شوریٰ اور مالی، عسکری، انتظامی اور عدلیہ کے اداروں کے استحکام پر تھی۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی سے اس پورے نظام کا نقشہ باب پنجم میں (ص ۳۸۵ تا ۴۸۰) اصل مصادر کی مدد سے پیش کر دیا ہے۔
مصنف نے ۲۰ویں صدی کے معروف مسلم مفکرین سے، جنھوں نے اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی ریاست کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے خصوصاً سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، محمد اسد، ڈاکٹر محمدحمیداللہ، امین احسن اصلاحیؒ اور مولانا گوہر رحمنؒ کی تصانیف و تحریرات سے بھی جابجا استفادہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نثاراحمد صاحب کی یہ کتاب ہرعلمی کتب خانے میں رکھنے کے قابل ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس محققانہ مقالے کو تحریر کرنے پر بہترین اجر سے نوازے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
امام محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ھ- ۲۵۶ھ) نے کم سنی ہی میں اہلِ علم اور اساتذۂ فنِ حدیث کی نظر میں بے مثل مقام پا لیا تھا وہ بہت کم افراد کو نصیب ہوتا ہے۔عربی زبان میں امام بخاری پر سوانحی ذخیرہ بہت وسیع ہے مگر ایک صدی قبل تک اُردو میں ایسی مستند کاوش موجود نہ تھی۔ اس ضرورت کو مبارک پور (بھارت) کی زرخیز زمین کے مایہ ناز سپوت مولانا عبدالسلام مبارک پوری نے نہایت اعلیٰ معیار پر پورا کیا۔
سیرۃ البخاری کے نام سے فاضل مصنف نے نو ابواب اور خاتمے پر مشتمل کتاب کے اندر موضوع کا حق ادا کیا ہے۔ امام بخاری کی ولادت و تعلیم سے لے کر روایت و تدوین حدیث اور علمِ رواۃ پر محققانہ اسلوب میں معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ امام کے ابتدائی اساتذہ میں نام ور علماے حدیث کا تذکرہ و تعارف، امام کے علمی و اخلاقی اوصاف کا بیان، آپ کے ۳۲ اساتذہ و شیوخ [جن میں امام احمد بن حنبل بھی شامل ہیں] کی نظر میں آپ کا مقام، اقران و معاصرین کے نزدیک آپ کا رتبہ، امام کے بارے میں بلندخیال لوگوں کی آرا اور امام کے اپنے حکیمانہ ملفوظات کو جامعیت و اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ الجامع الصحیح کے علاوہ امام کی ۲۴ تصانیف کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ الجامع الصحیح کے تعارف و تفصیل میں مصنف نے امام بخاری کے علمی منہج، کتاب کے تراجم (عنوانات) ابواب، شرائط بخاری، احادیث کے تکرار کی توضیح اور اختصار و تقطیع یہ حصہ کتاب جس قدر اہم ہے مصنف نے اسی ذمہ داری کے ساتھ اس کو عالمانہ و محدثانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ صحیح بخاری کو سمجھنے کے لیے یہ باب انتہائی معاون و مددگار ہے۔
الجامع الصحیح کی سیکڑوں علما نے شروح لکھیں، مصنف موصوف نے ۱۴۳، شروح کا مختصر اور معلومات افزا تعارف پیش کیا ہے۔مصنف نے اپنے ہم عصر معترضین کے چند اعتراضات کے شافی جواب بھی دیے ہیں، جس سے مصنف کی وسعت علمی اور اصولِ حدیث پر گرفت کی شان جھلکتی ہے۔
حدیث اور اصولِ حدیث اور فقہ البخاری پر مصنف نے بہت شان دار انداز میں حفاظتِ حدیث کی تاریخ، روایتِ حدیث میں احتیاط، امام بخاری کے طرزِ اجتہاد اور فقہاے محدثین کے طرزِ اجتہاد و اصولِ فقاہت کے بالمقابل فقہاے اہل الراے کا طرزِ اجتہاد و اصولِ فقاہت علمی انداز میں بیان کیا ہے۔ خاتمہ کتاب میں امام بخاری کے ہزاروں شاگردوں میں سے ۱۴ نام وَر محدثین علما کا تعارف پیش کیا ہے۔کتاب کا اختتام مصنف نے امام بخاری تک اپنی سند کے تذکرے پر کیا ہے۔
سیرۃ البخاری اپنا تعارف آپ بہترین انداز میں پیش کرتی ہے۔ لیکن اس کی افادیت کو اس کتاب کے عربی مترجم ڈاکٹر عبدالعلیم بستوی کے عربی حواشی کے اُردو قالب نے بہت بڑھا دیا ہے۔ اس معلومات افزا اور علم افروز کتاب کا نام سیرۃ البخاری ہے مگر اس کا مواد صرف سیرتِ بخاری تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ علومِ حدیث کے متعدد گوشوں اور پہلوئوں سے متعلق علمی نکات پر مشتمل دائرۃ المعارف ہے۔ تدریس حدیث اور تحصیل علمِ حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک بیش بہا خزانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کا پہلا اڈیشن آج سے ایک صدی قبل منظر پر آیا تھا، سید سلیمان ندوی نے بھی اس کی تحسین کی تھی۔ زیرنظر اڈیشن کو نشریات نے صدی اڈیشن کے طور پر نہایت عمدہ کتابت و طباعت اور کاغذ و جلدبندی کے اعلیٰ معیار پر پیش کیا ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)
مصنف موصوف اقبالیات کے متخصص ہیں۔ خاص طور پر اقبال کے مخالفین اور معترضین کی خبر لینے والوں میں پیش پیش ہیں۔ انھوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں بھی اقبال کے جملہ معترضین کی تحریروں کا تجزیہ کیا تھا۔ پھر اس مقالے کے مختلف حصے مزید اضافوں کے ساتھ کئی کتابوں کی صورت میں شائع کیے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس کتاب کے جملہ ۱۳ ابواب کے عنوانات سوالیہ ہیں، مثلاً کیا فکراقبال مستعار ہے؟ کیا اقبال کے ہاں تضاد ہے؟ کیا اقبال جارحیت پسند ہیں؟ کیا اقبال خرد دشمن اور مخالف علم ہیں؟ کیا اقبال وحدت الوجودی ہیں؟ صرف شاعر یا مفکر بھی؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہر باب میں مشرق و مغرب کے ان تمام چھوٹے بڑے، معروف اور غیرمعروف، مسلم اور غیرمسلم، مستشرقین اور مستغربین اہلِ قلم کی تحریروں پر نقد کیا گیا ہے جن کے ہاں فکراقبال کے کسی خاص پہلو پر اعتراض کا شائبہ ملتا ہے۔ ان ناموں میں اقبال کے مخالفین کے ساتھ ساتھ ایسے نام بھی نظر آتے ہیں جو اقبال کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مصنف اقبال کے محقق اور نقاد ہی نہیں بلکہ ان کے طرف دار بھی ہیں، تاہم انھوں نے یہ کام بڑی دقّت نظری اور محنت سے کیا ہے اور اِستناد کا خیال رکھا ہے۔
امید ہے ڈاکٹر محمد ایوب صابر کا یہ کام اقبالیات پر آیندہ کام کرنے والوں کے لیے بہت مفید اور مددگار ثابت ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
محسنِ انسانیتؐ سے عالم گیر شہرت پانے والے نعیم صدیقی کا اصل نام فضل الرحمن تھا۔ آپ کی بنیادی تعلیم منشی فاضل اور تعلق خطہ پوٹھوہار چکوال سے تھا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے کسبِ فیض کیا۔ تحریر و تقریر ہر دو میدانوں میں آپ نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ کی شاعری حُسن و جمال کا مرقع اور پاکیزگی و سلامت روی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ صحافتی زندگی میں ہفت روزہ ایشیا، ترجمان القرآن، چراغِ راہ، شہاب، سیارہ میں ادارتی خدمات سرانجام دینے کے علاوہ، روزنامہ تسنیم لاہور، قاصد لاہور اور جسارت کراچی اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کالم نویسی اور مضمون نگاری کرتے رہے۔ آپ ۲۰ سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔
زیرنظر مجموعے میں آپ کی حیات و خدمات پر تقریباً ۲۸ مضامین، متعدد نظمیں اور مرحوم کی اپنی تحریریں اور خطوط جمع کیے گئے ہیں۔ ناشر کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے کہ مرتب کے ارسال کردہ مسودے میں ہمارے ادارے کے رفقا (برادرم حمیداللہ خٹک اور دیگر) نے بھی خاصی محنت اور ترامیم اور اضافے کیے ہیں۔ غالباً انھی رفقا کی محنت سے کتاب کے تقریباً ایک سو صفحات کا نیا لوازمہ کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ لکھنے والوں میں معروف اور غیرمعروف اہلِ قلم شامل ہیں جن میں مرحوم کے خطوط، کچھ نثری مضامین، انٹرویو اور ان پر بعض نظمیں بھی شامل ہیں جو آپ کی زندگی کے بیش تر پہلوئوں اور ان کی مختلف حیثیتوں (ادیب، شاعر، مقرر، صحافی، مفکر وغیرہ) کو سامنے لاتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اسلوبِ نظم و نثر کیا تھا، ان کے علمی منصوبے کتنے اُونچے پائے کے تھے، اسی طرح یہ کہ ادبیاتِ اُردو میں ان کی تخلیقات کس طرح منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔
یہ مجموعہ اگرچہ جناب نعیم صدیقی کی شخصیت اور خدمات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا لیکن اس عظیم شخصیت کی خدمات کا کماحقہٗ اعتراف اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ایک جامع منصوبہ بناکر مرحوم پر ایک مربوط کتاب یا ان کی سوانح حیات لکھی یا لکھوائی جائے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
یونی ورسٹیوں میں خصوصاً سماجی علوم اور ادبیات کے شعبوں سے شائع ہونے والے تحقیقی مجلے عموماً اعلیٰ علمی و تحقیقی معیار کے حامل نہیں ہوتے۔ ایسے بے قدری کے موسم میں، مذکورہ یونی ورسٹی کے سب سے کم عمر شعبے، شعبہ اُردو کا یہ مجلہ قاری کو حیرت اور مسرت سے دوچار کرتا ہے۔ باقاعدہ حصوں میں تقسیم کر کے سلیقے کے ساتھ تحقیقی تخلیقات پیش کی گئی ہیں۔ مقالات تقاضا کرتے ہیں کہ فرداً فرداً ان کا تعارف کرایا جائے، مگر پرچے کی تنگ دامانی اجازت نہیں دیتی۔ ان میں بعض مقالات تو واقعی چونکا دینے والے ہیں، اور پھر نوادرات میں علامہ اقبال کے ایک خط کی دریافت اور غالب و غمگین کی مراسلت نے اسے اور زیادہ قیمتی بنا دیا ہے۔ مجلات کی زندگی میں ’اجتہاد‘ کرتے ہوئے، نایاب مطبوعات کو ایک حصے میں مرتب کرکے پیش کرنے کا عزم بھی اپنی جگہ قابلِ قدر ہے۔
مندرجات کے تنوع اور پیش کش کے حسن میں ڈاکٹر معین الدین عقیل کے ذوق تحقیق کی خوشبو خودبخود ظاہر ہو رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معیار نام رکھ کر ادارے نے بڑا بھاری پتھر اٹھایا ہے، اس لیے کہ اگر وہ اس معیار کو برقرار نہ رکھ سکے تو یہی نام شعبے کے لیے باعث ِخجالت ہوسکتا ہے، سو یہ نام منتظمین ادارہ و مدیرانِ محترم کو پکار پکار کرکہہ رہا ہے: ’جاگتے رہنا‘۔ (سلیم منصور خالد)
’پاکستان: نظریاتی اساس پر سیکولرلابی کی یلغار‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) فی الواقع موجودہ دور کی ایک بڑی ضرورت تھی جسے پورا کیا گیا ہے۔ پاکستان کی دین بے زار سیکولر صحافت نے قائداعظم کی ایک تقریر کا سہارا لیتے ہوئے اودھم مچایا ہوا تھا۔ ملک اور بیرون ملک سے انگریزی اخبارات میں پے درپے کالم اور خطوط شائع ہورہے تھے۔ یہاں تک بات پہنچی کہ دو قومی نظریہ بلکہ نظریۂ پاکستان بعد کی تخلیق ہے۔ قرارداد مقاصد کو ملائیت قرار دیا جا رہا ہے اور کوشش ہے کہ دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ء سے اسے حذف کرا دیا جائے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی خواہش مند ہیں کہ فی الوقت پارلیمنٹ میں زیرغور دستوری اصلاحات کے پردے میں یہ مقصد حاصل کرلیا جائے۔
’پاکستان: نظریاتی اساس پر سیکولر لابی کی یلغار‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) کے عنوان سے جو چشم کشا مضمون تحریر کیا گیا ہے ،ضرورت ہے اسے ہر پڑھے لکھے شخص تک پہنچایا جائے۔ سیکولر عناصر کے عزائم کے خلاف قدغن لگانے کی ضرورت ہے، مؤثر آواز تو ضرور اٹھائی جانی چاہیے۔
’پاکستان: نظریاتی اساس پر سیکولر لابی کی یلغار‘ میں سیکولرزم کے حوالے سے قائداعظمؒ کی تقاریر سے جو اقتباسات دیے گئے ہیں وہ بہت اہم ہیں اور عام طور پر سامنے نہیں آتے۔ انھیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ’پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات‘ سید مودودیؒ کی تحریر سے اچھا انتخاب ہے۔ نفاذِ شریعت کے امکانات کے حوالے سے اپنا فرض ادا کرنے کی طرف اچھی توجہ ہوئی۔ ایسی تحریروں سے جذبے کو تازگی اور کام کے لیے ایک نیا عزم اور ولولہ ملتا ہے۔ ’کلام نبویؐ کے سایے میں‘ احادیث کے انتخاب سے اور ’رمضان کے بعد‘ تحریر سے رمضان المبارک کے بعد تزکیہ و تربیت کے تسلسل کے لیے عملی رہنمائی ملی۔ تعلیمی پالیسی پر محترم سلیم منصورخالد نے بروقت توجہ دلائی۔ معلوم ہوا کہ قومی زندگی کے اس اہم ترین شعبے کے لیے جو منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس میں کیا کیا کمی ہے۔
’احتساب: اجتماعی زندگی میں اہمیت‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) ایک عرصے کے بعد بھرپور، مؤثر اور وقت کی ضرورت پورا کرنے والا مضمون دیکھنے کو ملا۔ موضوع کا حق ادا کر دیا۔
’احتساب: اجتماعی زندگی میں اہمیت‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) اپنے موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے اہم اور منفرد تحریر ہے۔ آج کی اجتماعی زندگی کے بہت سارے تضادات، اختلافات اور پریشانیوں کے جوابات بین السطور اور بلاواسطہ اس میں موجود ہیں۔ قومی سطح پر خلفشار اور عدم احساسِ زیاں نے ہرسطح کی قیادت کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جس کی وجہ سے تحریکی قیادت کی ذمہ داری پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اُسے پہلے سے زیادہ اپنے کارکنوں کے اعتماد، اطمینان اور شرحِ صدر کی ضرورت ہے۔
’عصرِحاضر میں اسلام کی رہنمائی‘ (اکتوبر ۲۰۰۹ء) فکرانگیز اور برمحل ہے۔ محترم سید جلال الدین عمری نے عصرِحاضر کے اہم سوال کہ اتنی ترقی کے باوجود بگاڑ کا سبب کیا ہے کی صحیح توضیح کی ہے کہ انسان اس کائنات اور اپنے لیے صحیح نقطۂ نظر نہیں فراہم کرسکا۔ دوسری طرف اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو صحیح نظریۂ حیات پیش کرتا ہے اور جو انسانی ذہن میں اٹھنے والے تمام سوالات کا اطمینان بخش جواب دیتا ہے۔ مغرب اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام کی مقبولیت میں کمی اور مسلمانوں کے ذہن کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اسلامی تحریکیں جو اس نظریۂ حیات کے نفاذ کی علَم بردار ہیں، ان کے اثرات بھی پھیل رہے ہیں۔ تاہم مصنف نے مسلمانوں کی بعض کمزوریوں کی طرف بجا توجہ دلائی ہے، اس پر غوروفکر اور لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔
میرے پیش نظر ایک ایسے اہم موضوع کی طرف اہلِ فکر ونظر کو متوجہ کرنا ہے جس سے غفلت برتی جارہی ہے۔ یہ موضوع خاندان کے ادارے پر منظم عالمی حملہ ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کی سرپرستی یا شراکت میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی مہم، شادی کی ’رسم‘ کو فرسودہ قرار دینے کی کوشش، جنسی ثقافت کے نام پر چھوٹے بچوں تک کو بے راہ روی پر مائل کرنے اور ہم جنس ’شادیوں ‘ کو عالمی طور پر قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش زور و شور سے کی جارہی ہے جس کا ہمیں کم احساس ہے۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی سے کم نہیں کہ اس کے خلاف خود مغرب میں اخلاقی اقدار کا احترام کرنے والے غیرمسلم عرصے سے تحریکیں چلا رہے ہیں، جب کہ ہمارے ملکوں میں اس بارے میں مناسب آگاہی کا فقدان ہے۔
اللہ کو دونّی والے ممبروں کی کثرتِ تعداد کی ضرورت نہیں۔ اس کو تو صرف اطاعت و وفاداری مطلوب ہے۔ اِس کے دین کا قیام محض ’نام لیوائوں‘کے ذریعے نہیں ہوسکتا بلکہ ایمان و عملِ صالح رکھنے والوں کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس آسمان کے نیچے دنیا میں دو،دو لاکھ کی تعداد رکھنے والی جماعتیں طوفان بپا کیے ہوئے ہیں، عین اسی آسمان کے نیچے ستاون کروڑ کی فوج ہر گوشۂ زمین پر مار کھا رہی ہے، آبروئیں لٹا رہی ہے، تذلیل و تحقیر کا نشانہ بن رہی ہے، گھروں سے بے گھر ہو رہی ہے، قانون اور لاقانونی سے کچلی جارہی ہے، روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے ایمان اور ضمیر بیچتی پھرتی ہے، شکستوں پر شکستیں کھا رہی ہے بلکہ یوں کہیے کہ جینے کے اور سارے جتن کر رہی ہے لیکن ایک نہیں کر رہی تو صرف خدا سے وفاداری کو بحال کرنے کا اہتمام نہیں کر رہی!
ہم بالفرض ستاون کروڑ نہ ہوتے دو کروڑ ہوتے، ستاون لاکھ ہوتے، ستاون ہزار ہی ہوتے، لیکن اپنے معاہدے پر قائم، اِس کی شرائط کے پابند، اپنے مقصدِ وجود کے فدائی،اپنے نصب العین کے لیے سرگرم، اپنے فرائض کی ادائی کے لیے اعتصام بحبل اللہ سے منظم ہوتے، تو ہم دنیا میں تہلکہ مچا رکھنے کے لیے کافی ہوتے۔ پھر ہماری عزت، ہماری حفاظت، ہماری فتح اور ہماری کامیابی کا ضامن خود حکمرانِ کائنات ہوتا اور اس کی کائنات کی پوری محسوس اور غیرمحسوس قوتیں ہمارے ساتھ ہوتیں۔
خدا کا اور خدا کے دین کا نام لیوا بن کر، اس کی حکومت کو تسلیم کرکے اور اس کی نوکری کا جوا گردن پر رکھ لینے کے بعد پھر اس سے مذاق کرنا اور اس کے احکام کو ٹھکرانا اور اس کے دیے ہوئے نظامِ زندگی سے انحراف کرنا وہ خوف ناک جرم ہے جو ’ضالین‘ کی سطح سے بھی گرا کر ’مغضوب علیہم‘ کے گڑھے میں جا گراتا ہے۔ اس قسم کی کھلی بغاوتوں کا انجام ہمیشہ وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ کی صورت میںرُونما ہوتا ہے۔ خدا ہم سب کو اس سے بچنے کی توفیق دے۔
مایوس ہونا صرف ان لوگوں کا کام ہے جن کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے قوانین اور وعدوں کی صداقت کا یقین نہ ہو۔ ہم لوگ تو صرف یہ سمجھ کے کام کرنے اُٹھے ہیں کہ ہم پر ہمارے خالق و مالک کی طرف سے کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور انھیں پورا کیے بغیر اس کی سلطنت میں رہنے اور اس کے خزائن رزق سے فائدہ اٹھانے کا حق ہمیں نہیں پہنچتا اور یہ سمجھ کر اس کی اطاعت کرنے کی صورت میں اس کی نصرت و تائید بہرحال ہمارے ساتھ ہے۔(’یہ ذلت و مسکنت کیوں؟‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۲، عدد ۶، ذی الحجہ ۱۳۶۸ھ، نومبر ۱۹۴۹ء، ص ۶۲-۶۳)