بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماعات کا اپنا ایک مزاج اور کردار ہے۔ جماعت کا ہراجتماع ابتدا ہی سے ملک و ملّت دونوں کے لیے ایک مخصوص پیغام دینے اور ہدایاتِ کار فراہم کرنے کی روشن روایت رکھتا ہے لیکن ۲۴ تا ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو مینارِ پاکستان کے زیرسایہ اقبال پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اجتماع کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان اور ملّتِ اسلامیہ کی تاریخ کے بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر اس اجتماع نے پاکستان اور عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے مستقبل کی جس روشن راہ کی نشان دہی کی ہے وہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے گوشے گوشے سے جمع ہونے والے لاکھوں تحریکی کارکنوں، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی قیادت، کینیڈا اور امریکا سے لے کر جاپان اور ملایشیا تک سے شریک ہونے والے مندوبین نے کامل یکسوئی کے ساتھ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و حالات کا جس دقتِ نظر سے تجزیہ کیا اور عمومی مایوسی کے ماحول میں اعتماد اور فراست کے ساتھ مستقبل کے لیے جس طرح ایک روشن شاہ راہ کی نشان دہی کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ خوف، بدامنی اور عدم تحفظ کی ملک گیر فضا میں لاکھوں افراد کے اس شہر میں تین روز تک علمی اور دعوتی اجتماع کی شکل میں جس سکون، اطمینان اور عزم و استقلال کا نمونہ پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
افغانستان میں یہ جنگ ہزاروں افراد کی جانیں لے چکی ہے، لاکھوں زخمی اور بے گھر ہیں اور جنگ کی آگ اب پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بڑھ کر آباد علاقوں (settled areas) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ۱۵ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں اور بے گھر افراد کی تعداد ۸لاکھ سے متجاوز ہے۔۱؎ عراق میں تباہی سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر ہے۔ وہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط اندازوں کے مطابق ۶ لاکھ سے متجاوز ہے اور ملک کا چپہ چپہ معصوموں کے خون سے رنگین ہے اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ساری دنیا بے چینی اور عدم تحفظ کی گرفت میں ہے اور اسرائیل اور بھارت کو چھوڑ کر دنیا کے ہر ملک میں امریکا سے بے زاری اور نفرت کی لہریں اُٹھ رہی ہیں اور آبادی کی عظیم اکثریت (۶۰ سے ۹۰ فی صد تک) امریکی پالیسیوں سے اپنے اختلاف کا برملا اظہار کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت، میڈیا اور اہلِ قلم کی ایک بڑی تعداد اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی خاص عنایت اسلامی تحریکات پر ہے جن کا اصل ’جرم‘ یہ ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھتی ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کی اسلام کی تعلیمات اور قوانین کی روشنی میں تشکیلِ نو کرنا چاہتی ہیں۔ اسے پہلے Radical Islam (انقلابی اسلام) اور Fundamentalism (بنیاد پرستی) کا نام دیا گیا اور اب اسے Islamic Terrorism (اسلامی دہشت گردی) اور Islamo-fascism (اسلامی فاشزم) کا منبع قرار دیا جارہا ہے۔
اس پس منظر میں ۴۰ مسلم ممالک کے اسلامی قائدین کی جماعت کے اجتماع میں شرکت اور اسلام کے عالمی پیغام اور اُمت کی وحدت کی ضرورت پر مکمل یک جہتی کا اظہار روشنی کے سفر کی ایک تابناک علامت ہے۔
سیاسی تبدیلی کا یہ عمل ایک عظیم تحریکِ مزاحمت سے شروع ہوا تھا جس کی قیادت ملک کی وکلا برادری کر رہی تھی اور جس کی علامت چیف جسٹس افتخار چودھری تھے۔ اس تحریک میں پوری سول سوسائٹی اور اہم سیاسی کارکن اور جماعتیں شریک ہوئیں اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں عوام نے مشرف اور اس کی پالیسیوں کے خلاف اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ دے کر یہ پیغام بھی صاف لفظوں میں دے دیا کہ سب سیاسی قوتوں کو، خصوصیت سے پی پی پی اور نواز مسلم لیگ کو مل کر، قومی مفاہمت کے ذریعے پرویزی دور کی زیادتیوں اور انحرافات (deviations ) کی اصلاح کر کے دستور کی اس شکل میں جو ۱۹۹۹ء میں تھی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی اور غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی باعزت بحالی، نیز قومی آزادی، خودمختاری اور عزت کی قیمت پر امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کی پالیسی کی تبدیلی اور خارجہ پالیسی کی اس قلبِ ماہیت کی تصحیح کا مینڈیٹ دیا جو امریکا، بھارت اور اسرائیل کے دیے ہوئے ایجنڈے کے تحت پرویز مشرف نے آمرانہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کی تھی۔ معاشی پالیسی کے دروبست کی تبدیلی بھی عوام کے مینڈیٹ کا حصہ تھی کہ پرویزی دور کی پالیسیوں کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے تھے اور ملک کو نمایشی ترقی کے سراب کے نشے سے مسحور کیا جا رہا تھا، جب کہ فی الحقیقت زرعی اور صنعتی شعبوں میں حقیقی پیداواری ترقی مفقود تھی اور ملک بجٹ، تجارت اور توازن ادایگی کے خساروں سے دوچار، اور ملکی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔
قوم کو نئی مخلوط حکومت سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ زرداری صاحب نے ایک طرف ساری توجہ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے پر دی تو دوسری طرف ایک ایک کر کے ان تمام وعدوں کی خلاف ورزی کی راہ اختیار کی جو میثاقِ جمہوریت، جولائی ۲۰۰۷ء کے اعلانِ لندن، اور فروری مارچ ۲۰۰۸ء کے اعلانِ بھوربن اور اعلانِ دوبئی میں کیے گئے تھے۔ اس کا پہلا نتیجہ مسلم لیگ نواز کی حکومت سے علیحدگی اور اس کے بعد زندگی کے ہر شعبے میں عملاً پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل اور بالآخر معیشت کے میدان میں آئی ایم ایف کے جال میں دوبارہ گرفتاری، بھارت کے مقابلے میں مسلسل پسپائی، کشمیر کے مسئلے پر پریشان کن ژولیدہ بیانی، اور امریکا کے پنجے میں اس حد تک گرفتاری کہ ۳ستمبر کو امریکی افواج نے پاکستان کی سرزمین پر زمینی حملہ بھی کردیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے ۴۰ سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین پر ہوچکے ہیں جن میں ۴۰۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
اس سب کچھ پر مستزاد امریکا اور یورپ کی مجالس دانش (think tanks)کی وہ فکری اور نفسیاتی جنگ ہے جو روز افزوں ہے۔ ان تمام جائزوں اور رپورٹوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ناکام ہوتی ہوئی (failing ) ریاست ہے، ’دہشت گردی‘ کا اصل مرکز پاکستان کے علاقوں میں ہے، پاکستان کے لیے اپنے جغرافیائی وجود کو باقی رکھنا ممکن نہیں رہا ہے اور پاکستان خدانخواستہ اگلے ۱۰،۱۵ سال میں صفحۂ ہستی سے معدوم ہوجائے گا یا اس کے ایسے حصے بخرے ہوجائیں گے کہ وہ سیاسی بساط پر ایک اہم کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہے گا۔ یوں نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استعماری شکنجوں میں کسا جا رہا ہے بلکہ ملک کے مستقبل ہی کو مخدوش اور مشکوک بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
موجودہ حکومت کے ۹ مہینوں پر پھیلے ہوئے دورِ اقتدار میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے اور امن و امان کی زبوں حالی کے ساتھ معاشی افراتفری، معاشرتی اضمحلال، سیاسی انتشار اور داخلی عدم استحکام میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ نظریاتی خلفشار اور ثقافتی اور تہذیبی بگاڑ بھی بلوہ عموم کی سی کیفیت اختیار کر رہے ہیں۔ فکری اور اخلاقی ہردو اعتبار سے حالات مخدوش تر ہوتے جا رہے ہیں اور نوجوانوں میں بے راہ روی اور قوم میں ہرسطح پر ڈسپلن کی کمی ایک وبا کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔
ان حالات میں قوم کو جھنجھوڑنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بیدار، متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی نے مینارِ پاکستان پر یہ ولولہ انگیز اعلان کے ساتھ کیا ؎
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
اور : ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع کے کامیاب انعقاد کے اس پہلو کو سب نے محسوس کیا اور سراہا کہ مایوسی کی فضا میں جماعت کا لاکھوں افراد پر مشتمل یہ اجتماع روشنی کی ایک تازہ کرن ہے۔ اس طرح اس پہلو پر بھی ہرحلقے نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ملک پر خوف اور عدمِ تحفظ کے جو بادل چھائے ہوئے تھے اور جن کی وجہ سے سرکاری حکام ہی نہیں بہت سے دانش ور بھی احتیاط کا مشورہ دے رہے تھے اور لاہور کے قلب میں اتنے بڑے اجتماع کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے، الحمدللہ وہ سب پادَرِ ہوا ثابت ہوئے اور جماعت کے شان دار روایتی نظم و نسق کے ساتھ یہ سہ روزہ اجتماع بڑی خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوا اور قوم میں اُمید اور اعتماد کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔
یہ دونوں پہلو اپنی جگہ اہم ہیں اور ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ہماری نگاہ میں اس اجتماع کی اصل اہمیت ان سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا تعلق اس پیغام سے ہے جو اس اجتماع نے پوری قوم کو دیا ہے اور مستقبل کے لیے ملک اور عالمی سطح پر نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی جدوجہد کے جو خدوخال اس میں پیش کیے گئے ہیں، وہ وقت کی ضرورت اور مستقبل کی تعمیر کے لیے راہِ عمل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان پہلوئوں پر سب کو غوروفکر کی دعوت دیں۔
جماعت اسلامی کے اس اجتماع کا اولین مقصد تذکیر تھا تاکہ جماعت کے کارکنوں اور معاونین کے سامنے خاص طور پر، اور پوری قوم اور اُمت مسلمہ کے سامنے بالعموم، ایک بار پھر وہ مقصد آسکے جس کے لیے تحریکِ اسلامی پاکستان میں، اور دیگر اسلامی تحریکیں دنیا کے گوشے گوشے میں اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنے انداز میں جدوجہد کر رہی ہیں۔
تحریکِ اسلامی کی نگاہ میں زندگی کے تمام مسائل کا حل اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل وفاداری کے ساتھ اطاعت، اور آخرت کی زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیے دنیا میں قرآن وسنت کے مطابق عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے میں ہے۔ سارے مسائل کے حل کی کلید اخلاق کی اصلاح اور پوری زندگی کو خیروشر اور حلال اور حرام کے اس ضابطے کے مطابق گزارنے میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری انسانیت کو دیا ہے اور اُمت ِمسلمہ جس کی امین ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ عرب کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ایک کلمہ لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کو اختیار کرلو تو عرب و عجم پر تمھارا جھنڈا لہرائے گا۔ یہی وہ پیغام ہے جسے اقبال نے اپنی اس خوب صورت غزل میں پیش کیا ہے جو ۲۰۰۸ء کے اجتماع کی علامت تھی :
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
جماعت اسلامی پاکستان کابنیادی عقیدہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہوگا،یعنی یہ کہ صرف اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ (دفعہ ۳)
اس عقیدے کو دل کی گہرائیوں اور عقل کی سپردگیوں کے ساتھ قبول کرنے کے معنی یہ ہیں:
اس کلمے کے ماننے والے ایک امت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو استخلاف کی جو ذمہ داری اور سعادت سونپی ہے وہ اس کے امین ہیں۔ استخلاف کا تقاضا زمین پر اپنے مالک کی مرضی کو پورا کرنا اور زندگی کے پورے نظام کو رب السَّمٰوٰت والارض کی ہدایت کے مطابق مرتب و منظم کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تحریکِ اسلامی اپنا نصب العین قرار دیتی ہے، جو دراصل اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کا حقیقی نصب العین ہے یعنی اقامت ِ دین۔
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصد عملاً اقامتِ دین (حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول ہوگا۔ (دفعہ ۴)
جو چیز جماعت اسلامی کی منفرد حیثیت کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کا یہی نظریاتی ، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی کردار ہے۔ یہ جماعت کسی وقتی ضرورت اور محدود سیاسی ہدف کے حصول کے لیے قائم نہیں ہوئی بلکہ انسان کی پوری زندگی کو اسلام کے انقلابی پیغامِ ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی شریعت کی روشنی میں مرتب و منظم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے۔
اقامت دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کوقائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت ِ دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔ (ص ۱۴-۱۵)
جماعت اسلامی سیاسی نظام کی اصلاح اور اسلامی بنیادوں پر انقلابِ قیادت کی داعی ہے اور اس پہلو سے وہ ایک سیاسی جماعت ہے جو زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں سونپنا چاہتی ہے جو اللہ کے وفادار اور شریعت ِ اسلامی کے نفاذ کے داعی ہوں اور جن کا اپنا کردار سیاسی تبدیلی کے اس پروگرام سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس معنی میں وہ ایک سیاسی جماعت ہے لیکن جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظریاتی تحریک بھی ہے جو سیاست سمیت زندگی کے تمام نظام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق منظم اور مرتب کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پروگرام کے چار عناصر ِترکیبی ہیں جو مساوی طور پر اہم ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط اور ناقابلِ تقسیم ہیں۔
۱- وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسولؐ کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اُس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہوگی۔
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت ِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو اُن تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
جماعت اسلامی کی انفرادیت اس کے مندرجہ بالا نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی خصوصیات کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس کی تنظیمی سرگرمیوں کا محور پاکستان ہے لیکن اس کی نظریاتی دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے اور وہ ان عالمی اصلاحی تحریکوں کا حصہ ہے جو اپنے اپنے دستور، اپنی اپنی تنظیم اور اپنی اپنی قیادت کے تحت چل رہی ہیں اور عالمی سطح پر ایک نظریاتی اور تہذیبی رَو کا حصہ اور رنگ رنگ کے پھولوں کا ایک حسین گلدستہ ہیں۔
اکتوبر ۲۰۰۸ء کا اجتماع جماعت کے کارکنوں کی تذکیر ہی کا نہیں بلکہ پوری قوم اور عالمی برادری کے سامنے اپنے اس ہمہ گیر اور منفرد کردار کو اُجاگر کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔
اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان میں جماعت اسلامی ایک اہم نظریاتی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی قوت ہے۔ اجتماع اکتوبر میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت جماعت کے تقریباً ۲۳ہزار ارکان اور رکنیت کے ۱۷ ہزار امیدوار ہیں (خواتین ارکان کی تعداد ۲۳۹۹ اور رکنیت کی امیدوار خواتین ۱۴۳۷ ہیں)۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ اور اس کے عام ممبروں کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تنظیمی اعتبار سے مرکز، صوبوں اور اضلاع کی سطح پر جماعت کی کارروائیاں جاری و ساری ہیں اور ۴ہزار سے زائد یونین کونسلوں میں تنظیم قائم ہے۔ ملک میں درسِ قرآن کے ۸ہزار حلقے اور تعلیم القرآن کے ۳۳۱۷ مراکز کام کر رہے ہیں۔ فہم دین کے پروگرام کے تحت تقریباً ۹۰۰ پروگرام ایک سال میں منعقد ہو رہے ہیں جو دس روزہ اور سہ روزہ قرآن فہمی کے اجتماعات سے عبارت ہیں اور ایک ایک پروگرام میں کئی کئی ہزار افراد باقاعدگی سے شرکت کر کے قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ خواتین کے حلقے میں فہم قرآن کے ۱۳۶ ادارے قائم ہیںاور درسِ قرآن کا سلسلہ ۴۲۱۱ حلقوں میں انجام دیا جا رہا ہے۔ دعوتی کیمپ سالِ گذشتہ میں ۲۸۳۰ لگائے گئے اور کُل دعوتی وفود کی تعداد ۶۰ ہزار کے قریب رہی۔ جماعت کے نظم کے تحت اس وقت ملک میں چھوٹی بڑی ۷۵۵۸ لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔
جماعت کی برادر تنظیموں کا کام اس کے علاوہ ہے جو زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے اپنے دائرۂ کار میں سرگرمِ عمل ہیں اور الحمدللہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں جماعت اور اس کے کارکن متحرک نہ ہوں۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔
ہم نے یہ مختصر جائزہ تحدیث ِ نعمت کے احساسات کے ساتھ پیش کیا ہے اور مقصد اس امر کا اظہار بھی ہے کہ دعوت، تربیت، اصلاحِ معاشرہ، خدمتِ عوام، تعلیم اور سیاسی تبدیلی کا وہ پروگرام جس پر جماعت اسلامی کام کر رہی ہے ایک ہمہ جہتی پروگرام ہے۔ اس کے کام کا تعلق محض سیاسی موسم سے نہیں، یہ جماعت ایک تحریک کا مرکز و محور ہے اور اس کی دعوتی اور اصلاحی سرگرمیاں سال کے بارہ مہینے اور ہرمہینے کے تیس دن جاری ہیں ع
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
درپیش چیلنج اور تحریک اسلامی
اجتماع کا ایک اور مقصد جماعت کے پیغام کو جماعت کے اپنے کارکنوں کے سامنے، ان میں مکمل یکسوئی پیدا کرنے کے لیے، پوری قوم کے سامنے، ملک کو درپیش ایشوز پر اپنے موقف کو بیان کرنے کے لیے، اور پوری دنیا خصوصیت سے عالمی قوتوں کے سامنے، انھیں یہ موقع فراہم کرنے کے لیے تھا کہ وہ تحریکِ اسلامی کو اس کے اپنے الفاظ اور بیان کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں اور اُسے ویسے تعصب اور عناد کی عینک سے نہ دیکھیں، جس طرح میڈیا کے بعض عناصر حقیقت کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر اس اجتماع کے ذریعے جماعت اسلامی نے امریکا اور مغربی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ان خانوں میں رکھ کر نہ دیکھیں جو ان کے تنگ نظر سیاسی اور فکری قائدین نے وضع کیے ہیں۔ اسلام ایک عالم گیر پیغام کا علَم بردار ہے لیکن یہ پیغام کوئی نیا پیغام نہیں بلکہ وہی پیغام ہے جو خالقِ کائنات نے اپنے تمام انبیا کے ذریعے انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا اور جس کی آخری اور مکمل شکل وہ ہے جو نبی آخرالزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی شکل میں نازل ہوئی اور جس کی عملی تعبیرو تشکیل پیغمبرؐاسلام کی سنت اور زندہ روایت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ پیغام اللہ کی بندگی کا، اللہ کے تمام بندوں کی اخلاقی ترقی اور تزکیے کا، تمام انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام اور حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے ہرسطح پر انسانی زندگی کو امن اور عدل اور بھائی چارے کا گہوارہ بنانے کا ہے۔ یہ جنگ، خون ریزی اور دہشت گردی کا پیغام نہیں۔ بلکہ یہ تو انسان کی پوری زندگی کو اخلاقی اصولوں اور اقدار کی روشنی سے منور کرنا چاہتا ہے اور زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ یہ پیغام ابدی ہے مگر اس میں بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کا لحاظ رکھنے کی پوری پوری گنجایش موجود ہے۔ اس پیغام کو اس کی اصل شکل میں پرکھنے کا سب کو پورا پورا حق ہے لیکن یہ رویہ مبنی برحق و انصاف نہیں کہ اس دین کی تعلیمات کو مسخ کیا جائے اور سیاق و سباق سے علیحدہ (out of content ) چیزوںکو لے کر اسلام کو تنقید وتنقیص کا ہدف بنایا جائے یا کچھ خاص افراد کے سیاسی اقدامات کو ان کے سیاسی پس منظر سے کاٹ کر اسلام کے سر تھوپ دیا جائے اور دنیا کو ایک نظریاتی تصادم اور جنگ و جدال میں جھونک دیا جائے۔ اُمت مسلمہ امن و انصاف کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی عزت اور انصاف سے معاملہ کرنے کی خواہش مند ہے لیکن اگر اس پر محض قوت کے بل پر کچھ نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی اور محض طاقت کے ذریعے اُمت کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اس کی ریاستوں کو اپنا تابع مہمل بنانے کی سعی کی جائے گی تو یہ تصادم کا راستہ ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
آج اُمت مسلمہ امریکی، صہیونی، یورپی اور بھارتی استعمار کا نشانہ ہے۔ اگر ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف اُمت کے کچھ حصے یا عناصر صف آرا ہیں تو ان مسائل کا بے لاگ انصاف کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مسائل کا حل قوت کے استعمال سے نہیں بلکہ حق و انصاف کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ اختیار کیا جائے تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ خرابی کی جڑ استعماری ذہنیت اور قوت کے ذریعے مبنی برحق تحریکوں اور مزاحمتوں کو ختم کرنے کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں۔ نیز طاقت ور ممالک کا یہ ادّعا ہے کہ ان کو دوسروں کے وسائل پر قبضے کا حق ہے اور محض اپنی خواہشات بلکہ ہوس (greed) کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے منہ سے ان کا نوالہ چھین لینا بھی ان کا حق ہے۔ اگر طاقت ور اپنے مفاد کی خاطر دوسروں پر ایسی دست درازیاں کریں گے تو دوسرے بھی کمزور ہونے کے باوجود مزاحمت اور اپنے مفادات کے تحفظ کا راستہ نکالنے پر مجبور ہوں گے۔
’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی برپا کردہ یہ جنگ ہر میدان میں ناکام رہی ہے۔ عراق ہو یا افغانستان، پاکستان ہو یا کوئی اور علاقہ___ نہ صرف یہ کہ یہ جنگ ناکام رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت کے جذبات کا طوفان اُمنڈ آیا ہے اور آج امریکا دنیا میں جتنا بدنام ہے اور اسے جتنی بڑی تعداد میں راے عامہ کی ہرسطح کے لوگ امن وانصاف کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں، تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔
اس اجتماع میں عالم اسلام پر امریکا کی دست درازیوں کی مذمت کے ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ امریکا محض قوت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوسروں کے وسائل پر قبضہ کر رہا ہے، ان کے استحصال (exploitation) کا مرتکب ہو رہا ہے اور مسلم ممالک میں جبروقوت کے ذریعے قابض اپنے مفید مطلب حکمرانوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور اب اس سے بڑھ کر مسلم دنیا میں انتہاپسندی اور میانہ روی کے نام پر اپنے ایجنٹوں کو آگے بڑھا کر ان کے ذریعے اپنے مطلب کے ’اسلام‘ کو فروغ دینے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔ یہ راستہ تصادم اور بگاڑ کا راستہ ہے___ مسلم دنیا امریکا اور مغربی ممالک سے اور مغربی تہذیب کے علَم برداروں سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے لیے ہرلمحہ تیار ہے لیکن مسلمان اپنے دین میں مداخلت، اپنی تہذیب کی پامالی، اپنی معیشت و سیاست پر غیروں کے تسلط اور اپنے درمیان دوسروں کے ایجنٹوں کے اقتدار کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم حقیقی کثیریت (pluralism) کے قائل ہیں لیکن کسی ایک ملک کا غلبہ اور بالادستی ہرگزقبول نہیں کی جاسکتی۔
اجتماع میں برطانوی صحافی خاتون اے وان رڈلی کی تقریر مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ اس میں مغرب کے لیے بھی پیغام ہے اور مسلمانوں کے لیے بھی۔ نوحہ صرف ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نہیں ___ تمام مظلوم انسانوں کا اور ظلم کے نظام کے خلاف نفرت اور بغاوت کا ہے۔
اجتماع کے مقررین اور خصوصیت سے بین الاقوامی اجلاس نے یہ پیغام بڑے بھرپور مگر باوقار انداز میں دیا ہے اور اسی جذبے سے دیا ہے کہ ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع میں پاکستان نے موجودہ حالات کا بھی دقتِ نظر سے تجزیہ کیا گیا اور جماعت اسلامی کے موقف کو مسکت دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا۔
ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم
پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس میں جنگ اور فوجی کارروائی کے راستے کو رد کیا گیا ہے اور مذاکرات، جنگ بندی، فوجوں کی واپسی اور پوری سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر پارلیمنٹ کی قرارداد نوحہ کناں ہے اور حکومت اور امریکا دونوں اپنی من مانی کررہے ہیں اور بات ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت و وقار کی پامالی تک پہنچ چکی ہے۔ صدر، وزیراعظم اور وزیردفاع ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ملک وقوم کے لیے شرمناک ہیں لیکن حکمران اتحاد کے بڑے بڑے سورما ہیں کہ پھر بھی لیلاے اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ جس کے شرکا اپنی ہی حکومت کی پالیسی کی مذمت بھی کرتے ہیں اور کرسی چھوڑنے کا باعزت راستہ بھی اختیار نہیں کرتے۔
پچھلے ایک سال میں بنکوں کے نظام میں قرض کے نادہندوں (Non Performing Loans) کی مالیت ستمبر ۲۰۰۸ء کے آخیر میں ۳۷ئ۲۸۸ ارب روپے تھی، جب کہ ستمبر ۲۰۰۷ء میں یہ رقم ۱۱ئ۲۵۱ بلین تھی۔ گویا اس ایک سال میں ۳۷ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
جماعت اسلامی کی نگاہ میں مسئلے کی اصل جڑ اخلاقی فساد اور اجتماعی اور اداراتی بگاڑ ہے۔ قیادت کی ناکامی اور جمہوری عمل کو دستور یا قانون اور ضابطے کے مطابق چلانے سے مکمل بے اعتنائی ہے۔ اور یہ بگاڑ اس وقت تک دُور نہیں ہوسکتا جب تک ایسی قیادت برسرِکار نہ آئے جو اخلاقی اعتبار سے اعلیٰ کردار کی حامل ہو، جو نظریاتی اعتبار سے پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی وفادار ہو، جو قوم ہی سے ہو اور قوم کے سامنے جواب دہ ہو، جو امریکا اور بیرونی طاقتوں کے زیربار نہ ہو اور ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوداری سے معاملہ کرسکے، جو ملک کی آزادی اور عزت کا سودا کرنے والی نہ ہو اور قومی خودمختاری اور وقار کی خاطر جان کی بازی لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔
جماعت اسلامی کا اجتماع انقلابِ قیادت کے اس آہنگ کا برملا اظہار ہے۔
اجتماع میں جماعت کی قیادت نے آیندہ کے لیے جو پروگرام جماعت کے کارکنوں اور پوری قوم کو دیا ہے وہ تجدید عہد، وقت کی قربانی اور مسلسل جدوجہد کا پیغام ہے۔ اس میں پہلی اور سب سے اہم چیز رجوع الی اللہ ہے کہ ہماری ساری دعوت اور پروگرام کی بنیاد اللہ سے تعلق، اللہ سے مدد اور استعانت کی طلب، اللہ کے دین کی سربلندی کا جذبہ اور کوشش، اور اللہ کی خوش نودی کا حصول ہے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے اجتماع کا دوسرا پیغام جماعتی استحکام ہے۔ اپنی صفوں کو مضبوط کرنا، اپنے تربیتی نظام کو مؤثر بنانا، اپنی تنظیم کو زیادہ مستحکم کرنا، جہاں تنظیم نہیںہے یا کمزور ہے اس کی تقویت کی فکر کرنا، جماعت میں ڈسپلن، وقت کی پابندی، ذمہ داریوںکی صحیح ادایگی، ایک دوسرے کی معاونت اور تقویت کا باعث ہونا___ ان سب پہلوئوں سے جماعت کو مضبوط کرنا تاکہ آگے کے مراحل میں چیلنجوں کا مؤثر مقابلہ کیا جاسکے۔
تیسرا پیغام دعوت کا ہے۔ جماعت کی نگاہ میں ہمارا سب سے اہم کام عوام تک پہنچنا اور ہرممکن طریقے سے ان تک اسلام کی دعوت اور جماعت کے پروگرام کو پہنچانا ہے۔ ہمارا اصل ہدف انسان سازی ہے___ ووٹ اس کا نتیجہ ہے، اولین ہدف نہیں۔ جتنا ہم اپنا پیغام لوگوں تک پہنچائیں گے، ان کے سوالات کا تشفی بخش جواب دیں گے، اپنے سیرت و کردار اور اپنی خدمت سے ان کے دلوں کو اسلام اور جماعت کے لیے جیتیں گے اتنا ہی ہمارا وزن بڑھے گا اور بالآخر انتخابات میں بھی اس کے ثمرات سے جماعت اور ملک فیض یاب ہوسکیں گے۔ ۲۰۰۸ء بھی دعوت کا سال تھا اور ۲۰۰۹ء بھی دعوت کا سال ہے تاکہ ساری سرگرمیوں میں اولیت دعوتی کاموں کو دی جائے۔ امیرجماعت نے کارکنوں سے متعین طور پر وقت دینے کی خصوصی اپیل کی ہے اور ہرسطح پر تمام جماعتیں اب اس کا اہتمام کریں گی کہ ایک متعین پروگرام کے تحت ہرکارکن سے وقت کا مطالبہ کریں اور جو جتنا وقت دینے کا وعدہ کرے اسے مناسب ترجیح کے ساتھ دعوتی سرگرمیوں میں شامل اور متحرک کیا جائے۔
دعوت کے ساتھ ساتھ تمام اچھے لوگوں کو جماعت میں سمونے اور شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت میں وسعت پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایک طرف اپنے اخلاقی اور نظریاتی معیار کی حفاظت کیجیے تو دوسری طرف فراخ قلبی اور کھلے بازوئوں کے ساتھ تمام اچھے انسانوں کو جماعت میں لانے کی کوشش کیجیے اور انھیں ان کے مقام کے مطابق جگہ دیجیے تاکہ وہ جماعت کا حصہ بن جائیں اور اس دعوت کی تقویت کا باعث ہوں۔ یہ کام اس انداز میں کیا جائے کہ ہرعلاقے کے بااثر افراد تک دعوت پہنچائی جائے اور انھیں جماعت کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ کا فضل ہے کہ جماعت اسلامی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانی مساوات اور اہلیت کی بنیاد پر قیادت کے اصول پر قائم ہے۔ جماعت میں پہلے دن سے قانون اور ضابطے کی پابندی کی روایت ہے۔ قیادت نہ موروثی ہے، نہ خاندانی اور نہ وصیت کے ذریعے قیادت کی ٹوپی سر کی زینت بنائی جاتی ہے۔ دستور کے مطابق متعین وقت پر انتخابات ہوتے ہیں اور ہرسطح پر ہوتے ہیں۔ ہرشخص کے لیے ذمہ داری کے مقامات تک رسائی ممکن ہے بشرطیکہ اس میں وہ صلاحیت اور اہلیت موجود ہو جو دستور نے مقرر کی ہے۔ نہ کوئی سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آتا ہے اور نہ کسی کے لیے دروازہ بند ہے۔ پھر جماعت کے اندر مشورے کا نظام رائج ہے، بلاشبہہ اطاعت امیر ہماری قوت کا ذریعہ ہے لیکن امیر کی طاقت کا انحصارمشاورت کے اس نظام پر ہے جو ہرسطح پر قائم کیا گیا ہے۔ جماعت میں نئے خون کی آمد کا سلسلہ الحمدللہ پہلے دن سے جاری ہے اور آج مرکزی شوریٰ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت طلبہ عربیہ اور دوسری برادر تنظیموں میں سرگرم تھے۔ زندہ اور ترقی کرنے والی تحریکوں کا یہ خاصا ہے۔ ان میں بزرگوں کا احترام اور ان سے استفادے کے ساتھ نئے باصلاحیت افراد کی قدر اور ان کو ذمہ داریاں سونپنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ البتہ خدا کا خوف، دین کا فہم، اعلیٰ کردار اور حسنِ کارکردگی وہ صفات ہیں جو ترقی کازینہ اور کامیابی کی ضمانت ہیں۔
جماعت کے اس اجتماع میں حسنِ انتظام کے ساتھ بڑی اہم چیز اجتماع کے پورے پروگرام کو انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچانے کی بڑی کامیاب کوشش تھی۔ جدید ٹکنالوجی کا استعمال ہمارے پیغام کے ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ اس اجتماع میں اس کا بڑا کامیاب استعمال ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اب ہر میدان میں نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مناسب کام پر لگایا جائے اور جدید ٹکنالوجی کا استعمال صرف انٹرنیٹ پر اجتماع کے پروگرام تک محدود نہ ہو بلکہ جہاں بھی انتظامی، تربیتی، دعوتی کاموں کو خوب تر بنانے کے لیے جدید اسلوب اورجدید سہولتوں کا استعمال ممکن ہو، اس کا اہتمام کیا جائے۔ ملک کی آبادی کا نصف اب نوجوانوں پر مشتمل ہے جو تعلیم اور مہارت کے جدید تجربات سے روشناس ہیں۔ دعوت کی وسعت اور تنظیم کے استحکام دونوں کے لیے ان مردانِ کار اور جدید فنی اختراعات کا بھرپور استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ وسعت اور صف بندی دونوں کے لیے ان شاء اللہ یہ مفید ہوں گے۔
اجتماع کے پیغام کا ایک اورپہلو، اور شاید سب سے اہم پہلو، نئی اُمید، نیا عزم اور حالات کو صحیح سمت میں تبدیل کرنے کا عزم اور داعیہ ہے۔ ہرفرد اس اجتماع سے ایک نیاجذبہ لے کر رخصت ہوا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد اس وسیع پیمانے پر اُمید اور روشنی کے احساسات اور جذبات کا ہم سب نے تجربہ کیا ہے۔ یہ امر، تحریک اور ملک کے لیے بڑا نیک شگون ہے۔ جس ملک میں ہرطرف مایوسی اور اضطراب کی لہریں اُبھر رہی ہوں وہاں ایک ایسے اجتماع کا انعقاد جہاں لاکھوں افراد نے اجتماع کے ہرلمحے کا لطف لیا ہو اور اجتماع سے ایک نیا جذبہ اور ولولہ لے کر اپنے اپنے دائرہ کار میں شریکِ جدوجہد ہورہے ہیں، ایک بڑا ہی مبارک واقعہ ہے۔ اقبال کی روح جس ابراہیم کی تلاش میں بے چین اور بے قرار تھی آج تحریکِ اسلامی براہمیت کے اس جوہر کی امین ہے۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک عظیم فکری سفر کے بعد اپنے رب تک پہنچے، اسی طرح باطل افکار کے ایک جنگل سے گزر کر تحریک کے کارکن اسلام کی شاہ راہ تک پہنچے ہیں۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جاہلیت کے ہر صنم پر ضرب لگائی، اسی طرح تحریکِ اسلامی اپنے دور کے ہرصنم سے نبردآزما ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وقت کے طاغوت کو چیلنج کیا اور طاقت کے مرکز کو نشانہ بنایا اسی طرح تحریکِ اسلامی آج ملک اور عالمی سطح پر طاغوت کے تمام مظاہر سے برسرِکش مکش ہے۔
یہ سب صحیح لیکن چیلنجوں کی اس مماثلت اور ردعمل کی مشابہت کے باوجود سنت ابراہیمی سے مطابقت کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ شوق، جدوجہد، خلوص اور استعانت باللہ ہرمرحلے کو آسان بنا سکتے ہیں۔ شرط ایمان، توفیق اور کوشش ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رحمت اور نصرت اور اپنے رب سے بہتری کی اُمید ؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
۲۰۰۸ء کے امریکی صدارتی انتخاب کے دو پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک غیرسفید فام شخص صدارت کا امیدوار بنا اور صدر منتخب بھی ہوگیا۔ واضح رہے کہ بارک حسین اوباما مکمل سیاہ فام نہیں، اس کا باپ کینیا کا ایک مسلمان سیاہ فام تھا مگر اس کی ماں ایک سفیدفام امریکی خاتون تھی۔ یہی وجہ ہے کہ رنگ دار (coloured) نسل سے ہونے کے باوجود اسے سیاہ فام (black) نہیں کہا جاسکتا۔
۲۰۰۸ء کے انتخابات کا دوسرا غیرمعمولی پہلو اس انتخاب میں غیرملکی دنیا کی انتہائی دل چسپی ہے جس کی وجہ صرف اوباما کا رنگ اور نسلی اور سیاسی پس منظر یا اس کی ۴۷ سالہ جواں عمری (youthful looks) ہی نہیں، بلکہ امریکا کی وہ تصویر (image ) تھی جو صدربش کے آٹھ سالہ تاریک دور میں دنیا بھر میں قائم ہوئی اور جس نے امریکا کو تقریباً پوری دنیا میں (اسرائیل اور بھارت کے سوا) ناپسندیدہ اور لائقِ نفرت بنا دیا تھا۔ امریکا سے یہ بے زاری اور امریکا میں تبدیلی کا امکان وہ چیز تھی جس نے اوباما کے انتخاب کو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا اور معلوم ہو رہا تھا کہ ۴نومبر کو انتخاب امریکا کے نہیں، بلکہ پوری دنیا کے ہورہے ہیں۔ دنیا کی اس غیرمعمولی دل چسپی نے اوباما کی آزمایش میں اضافہ ہی کیا ہے۔ دیکھیے وہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے۔
بلاشبہہ اوباما کا صدر منتخب ہونا اور ۷۰ لاکھ ووٹوں کی برتری سے منتخب ہونا ایک اہم تاریخی واقعہ ہے۔ ان انتخابی نتائج اور پورے انتخابی عمل کی کامیابی پر امریکی جمہوریت اور امریکی عوام کے سیاسی کردار اور بیداری کو داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ امریکا کی حکومتوں سے ہمیں جو بھی شکایات ہوں اور جارج بش کے دور میں جو زخم بھی پاکستان اور اُمت مسلمہ کے سیاسی جسد پر لگے ہیں، وہ اپنی جگہ، لیکن اوباما کا انتخاب تاریک اُفق پر روشنی کی ایک کرن ہے اور ہمیں اس کے اعتراف میں کوئی باک نہیں۔
۲۰۰۸ء کے امریکی انتخابات امریکا کی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات بھی تھے۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق اس انتخاب پر ۵ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوئے ہیں۔ البتہ دل چسپ بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح ری پبلکن مالی وسائل کی فراہمی میں اس دفعہ آگے نہیں تھے۔ اوباما نے اس میدان میں بھی انھیں پیچھے چھوڑ دیا حالانکہ امریکا کے دولت مند طبقے کی میکین کو مکمل حمایت حاصل تھی اور یہی روایت رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور خوش آیند پہلو یہ ہے کہ امریکا کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کم رقم کے عطیات دینے والوں نے اپنے صدارتی امیدوار کے فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور ۱۰۰ ڈالر اور ۱۰۰۰ ڈالر والے عطیا ت کی اوباما کی مہم میں بھرمار رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی عوام کو متحرک اور مجتمع کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عام ووٹروں سے بھی بڑے وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
بلاشبہہ جارج بش کی آٹھ سالہ ناکامیاں اوباما کے لیے مثبت پہلو رکھتی تھیں اور میکین کے لیے اصل بوجھ (liability) تھیں۔لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ اوباما کی کامیابی دراصل بش کے لیے منفی ووٹ کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس منفی ووٹ کا اوباما کو فائدہ ہوا لیکن اوباما کی کرشماتی شخصیت (personal charisma)، اس کی خطابت اور حاضرجوابی، اس کی جواں سالی، ان سب کا حصہ اس فتح میں شامل ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں سب سے اہم چیز اوباما کی انتخابی حکمت عملی ہے جس میں اس نے تبدیلی اور اُمید (change and hope) کو مرکزی اہمیت دی۔ امریکا بش کے آٹھ سالہ اقتدار کے بعد تبدیلی کا خواہش مند تھا جیساکہ پاکستان میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں پاکستانی ووٹر کی خواہش تھی۔ اوباما نے تبدیلی کی اس خواہش کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی موضوع بنایا اور عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہا کہ وہ امریکا کی داخلی اور خارجی سیاست، دونوں کا رُخ بدلنا چاہتا ہے اور اس کے پاس اس تبدیلی کو لانے کی صلاحیت موجود ہے۔
دوسری بنیادی چیز اوباما کا امریکا کے نوجوانوں اور محروم طبقوں کو اپیل کرنا تھا۔ روزگار، چھوٹا کاروبار اور خصوصیت سے ایک عام امریکی کے لیے صحت کی انشورنس اور علاج کی سہولتوں کی فراہمی کے پروگرام میں بڑی کشش تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ساڑھے پانچ فی صد آبادی والے ملک امریکا کے پاس دنیا کی دولت کا ۲۵ فی صد ہے مگر اس کے باوجود امریکا میں آبادی کا ۱۴ فی صد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
تیسری چیز عراق کی جنگ کے سلسلے میں انخلا کی حکمت عملی (exit strategy) کا وعدہ ہے۔ نیز انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں بش کے دور میں ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے دوران ہوئی ہیں ان سے اوباما نے فاصلہ پیدا کیا اور ان میں سے کئی کے بارے میں تبدیلی کا وعدہ کیا۔ گوانتانامو کو بند کرنے، تعذیب (torture) کو معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے سے پرہیز اور قید کے دوران شخصیت کی توڑ پھوڑ کے عمل (rendition ) سے اجتناب کا کھل کر ذکر کیا گیا۔
صدارتی انتخاب کے دوران پولنگ اسٹیشن سے باہر آنے والوں کے سروے (Exit Poll) کے تجزیے سے بڑے دل چسپ اور چشم کشا نکات سامنے آئے ہیں۔ ووٹروں کے ۶۲ فی صد کی نگاہ میں انتخاب میں اہم ترین مسئلہ معاشی حالات تھے۔ ۶۲ فی صد کے نزدیک اوباما کے پاس بہتر معاشی حکمت عملی تھی، جب کہ بش کو معاشی بحران کا ذمہ دار سمجھا گیا اور میکین نے اس کی قیمت ادا کی۔ عراق اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میڈیا میں سب سے نمایاں موضوع رہے، صرف انتخاب کے دوران ہی نہیں بلکہ پورے سال۔ لیکن ووٹروں میں سے صرف ۱۰ فی صد کے نزدیک عراق اور صرف ۹ فی صد کے خیال میں دہشت گردی کا مسئلہ ان کی راے کا رُخ طے کرنے پر اثرانداز ہوا ہے۔ صحت کی سہولت کے مسئلے کو بھی ۹ فی صد نے اہم قرار دیا۔ گویا ’دہشت گردی‘ کا مسئلہ (جس پر امریکا نے ۷۰۰ ارب ڈالر خرچ کیے ہیں اور معیشت کو ۳ کھرب ڈالر کے بوجھ سے گراں بار کیا ہے) اور صحت کی سہولت کی ضرورت کو مساوی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حالانکہ امریکا میں علاج معالجے کا پورا نظام نجی سیکٹر میں ہے اور جن افراد کے پاس صحت کی انشورنس نہیں وہ بڑی مشکل میں مبتلا ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے اوباما نے انتخاب جیتنے پر جو تقریر شکاگو میں کی اور جو اس کی بہترین تقاریر میں سے ایک ہے، اس میں ایک بار بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ یا عراق، افغانستان اور اسامہ بن لادن کا ذکرنہیں کیا۔ یہ تقریر بُردباری، تحمل اور مصالحت کا شاہکار ہے۔
انتخاب کا مرحلہ تو پورا ہوا لیکن امریکا اور پوری دنیا میں اوباما کی فتح سے جو توقعات وابستہ کی گئی ہیں ان میں اب اوباما اور امریکا کا اصل امتحان ہے۔ اوباما نے اپنے تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل کیا تو اس خدشے کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس کا انجام سابق ڈیموکریٹک صدر کینیڈی جیسا ہوجائے۔
l پاکستان کے بارے میں پالیسی: اوباما کی انتخاب کے بعد کی تقاریر میں بہت احتیاط اور ٹھیرائو کی کیفیت ہے جو خوش آیند ہے، البتہ انتخابی مہم کے دوران جو باتیں اس نے افغانستان، پاکستان، القاعدہ، طالبان، اسرائیل اور بھارت کے بارے میں کہی ہیں ان میں تشویش کا بڑا سامان ہے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کی قیادت کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ پوری گہرائی کے ساتھ مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔
پاکستان کے بارے میں اوباما کے متعدد بیان ہیں مگر دو بیان خصوصیت سے توجہ طلب ہیں۔ پاکستان کے شمالی اور قبائلی علاقوںکے بارے میں اوباما صاف الفاظ میں کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ القاعدہ کی قیادت ان علاقوں میں پناہ گزیں ہوسکتی ہے اور وہ ان کے خلاف پاکستان کی حدود میں کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ اگر پاکستان خود کارروائی نہ کرے، یا نہ کرسکے تو ہم اسامہ بن لادن جیسے اعلیٰ سطح کے ہدف کو خود نشانہ بنائیں گے، اگر وہ ہماری نظر میں آجائے۔
پاکستان اور بھارت میں بہتر تفہیم کا راستہ ہموار کرنے اور کشمیر کے بحران کو حل کرنے کی کوشش تاکہ ان کی توجہ کا مرکز بھارت نہ رہے، جنگجوؤں کی طرف مبذول ہوجائے۔
یہ دونوں بیان زیادہ بالغ نظری سے تجزیے کے محتاج ہیں۔ ان کی بنیاد پر امریکا کی پالیسی میں کسی بنیادی تبدیلی کی توقع رکھنا خطرات سے خالی نہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے بارے میں اوباما سے کسی بنیادی تبدیلی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ عراق سے فوجیں ہٹا کر وہ انھیں افغانستان لانا چاہتا ہے۔ عراق میں امریکا کی ناکامی اس نے بظاہر تسلیم کرلی ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں اس کا تجزیہ مختلف ہے اور اس پہلو سے پاکستان کو بڑی تیاری کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح امریکا کو وہاں کی زمینی حقائق کو سمجھنے میں مدد دے، اور افغانستان سے بھی انخلا کی حکمت عملی کا راستہ ہموار کرے ورنہ پاکستان خود اپنے لیے یہ حکمت عملی وضع کرے۔ کشمیر کے بارے میں بھی ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے اور اگر کوئی دروازہ نہ سہی کھڑکی بھی کھلتی ہے تو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے مگرہمارے پائوں زمین پر رہیں اور اس نوعیت کی خوش فہمیوں کا شکار نہ ہوں کہ بس اب امریکا کشمیر کا مسئلہ حل کرا دے گا یا اوباما کے آنے کے بعد پاکستان کی سرحدی خلاف ورزیاںختم ہوجائیں گی، جیساکہ جنابِ وزیراعظم سے ایک بیان منسوب ہے۔
اسرائیل کے بارے میں اس کے بیانات اور فلسطین کے مسئلے کے اصل حقائق کے اعتراف سے شعوری اغماض بلکہ مسئلہ فلسطین کو نظرانداز کرنے کی کوشش کوئی اچھا شگون نہیں۔ پھر اوباما انتقالِ اقتدار کے لیے جو ٹیم بنا رہا ہے اس میں یہودی لابی اور بھارتی لابی کی بھرمار ہے۔ اس کی طرف سے جس شخصیت کی پہلی اہم تقرری عمل میں آئی ہے وہ الی نوائی ریاست کا ممبر کانگریس راحم ایمانیول ہے جو صرف یہودی ہی نہیں بلکہ معروف صہیونی اور اسرائیلی لابی کے سرکردہ ارکان میں سے ہے اور جس کی تقرری پر اسرائیل میں گھی کے چراغ جلائے گئے اور وہاں کے اخبارات نے برملا لکھا کہ: Our man in the White House(وہائٹ ہائوس میں ہمارا آدمی)۔
راحم ایمانیول کا باپ اسرائیل کا شہری اور ارگن جیسی دہشت پرست صہیونی تنظیم کا رکن تھا جس نے ۱۹۴۰ء میں فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے اور اسرائیلی ریاست کے قیام میں خون ریزی میں شرکت کی اور جو امریکا منتقل ہوجانے کے باوجود ۱۹۷۳ء کی جنگ میں اسرائیل کی فوج میں شرکت کے لیے گیا۔
اسی طرح اب تک کی اطلاعات میں نئی ٹیم میں بھارت سے امریکا منتقل ہونے والے چار افراد شریک کیے جاچکے ہیں جن میں سونل شاہ سب سے خطرناک ہے جس کا تعلق بی جے پی اور امریکا میں ہندوانتہا پسند تنظیموں سے رہا ہے۔ نیز ایک بھارتی ماہر انتظامیات کو عبوری ٹیم میں شامل کیا گیا ہے جس کا نام انجن مکرجی ہے۔ یہ دونوں اس ۱۵رکنی ٹیم کا حصہ ہیں جو انتقال اقتدار کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ امریکا کی پاکستان کمیونٹی کا کوئی رول دُور دُور نظر نہیں آ رہا۔ انتخابی مہم کے دوران مسلمان ووٹروں میں سے ۹۳ فی صد نے اوباما کو ووٹ دیا مگر اوباما نے مسلمانوں سے فاصلہ رکھا حتیٰ کہ ایک موقع پر اسٹیج سے دو مسلمان خواتین کو اس لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ اسکارف میں تھیں اور ان کے اسٹیج پر موجود ہونے کو کچھ حلقوں نے ناپسند کیا۔
ان سب امور کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اوباما کے صدر منتخب ہونے سے امریکا اور اس کی پالیسیوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور رونما ہوں گی۔ پاکستان اور مسلم ممالک کو سرجوڑ کر حالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینا چاہیے اور پاکستان اور مسلم دنیا کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مربوط حکمت عملی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ جس حد تک بھی راستے ملیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور جن نقصان دہ پہلوئوں کے سلسلے میں پیش بندی ممکن ہو اس کی سعی کرنی چاہیے۔ خوش فہمی خطرناک حد تک نقصان دہ ہوسکتی ہے لیکن مایوسی اور عدم تحرک بھی دانش مندی کا راستہ نہیں۔ اوباما کے لیے معاشی اور مالیاتی بحران بھی بہت بڑا چیلنج ہے اور سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اور مسلم ممالک کے لیے یہ موقع ہے کہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے جو نقصانات عالمِ اسلام اور خود امریکا کو ہورہے ہیں اور جن کا احساس امریکی عوام کو ہو رہا ہے، اس کی بنیاد پر مناسب حکمت عملی بنائیں اور فضا کو سازگار بنانے کے مؤثر انتظام (lobbying ) کا اہتمام کریں۔ اس طرح ہمارا اور امریکا کا مفاد ایک نکتے پر جمع ہوسکتا ہے اور ہمیں اس جنگ سے نجات مل سکتی ہے جس کا فائدہ اسرائیل اور بھارت کو ہو رہا ہے اور جس نے آزادی کی تحریکات کے پورے محاورے (idiom) کو متاثر کردیا ہے۔
حضرت طلحہ ؓبن عبید اللہ بن کریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: شیطان کسی بھی دن اتنا ذلیل وخوار ،اتنا دھتکارا ہوا،اورپھٹکارا ہوا،اتنا جلابھنا نہیں دیکھاگیا، جتنا کہ عرفہ کے دن ذلیل و خوار، رُوسیاہ اور جلابھنا دیکھاجاتاہے اوریہ صرف اس لیے کہ وہ اس دن اللہ کی رحمت کو موسلادھار برستے ہوئے دیکھتا ہے(اور یہ اس کے لیے ناقابل برداشت ہے)۔ (مؤطا امام مالکؒ)
جب کوئی اپنے مشن میں ناکام ہوجاتا ہے ،تو اسے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔لوگ اللہ کی بندگی پر جمع ہوں تو یہ شیطان کی ناکامی ہے۔ اللہ کی بندگی کا سب سے بڑا اجتماع میدان عرفات میں ہوتاہے، جس میں دنیا بھرسے اہل ایمان بیت اللہ شریف کی دہلیزپر جمع ہوتے ہیں۔گڑگڑاکر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے اور اپنی مغفرت کاسامان جمع کرتے ہیں۔اپنی زندگیوں کو پاکیزہ بناتے ہیں۔ مستقبل میں اللہ کی بندگی کے لیے پوری طرح تیار ہوتے ہیں۔اہل ایمان کامیاب اور شیطان ذلیل وخوار ہوجاتا ہے۔ خوش قسمت ہیںوہ لوگ جو حج کی برکتوں سے اپنے آپ کو مالامال کرتے ہیں۔
حج کے بعدبرائیوں سے بچنا اور نیک کام کرنا،قبولیت حج کی علامت ہے۔حج کے بعد بھی شیطان کو ذلیل وخوار کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔اگر تمام حاجی یہ سلسلہ جاری رکھیں اور انفرادی واجتماعی سطح پر شیطان کو ناکام کرنے کی جدوجہد میں شریک رہیں، تو اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے دین کا نمونہ بن جائیں۔
o
حضرت جندب بن عبداللہ بَجَلی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صحابہ کرامؓ کا ایک گروہ مشرکین کے خلاف جنگ کرنے کے لیے بھیجا۔اس گروہ اور مشرکین میں سخت جنگ ہوئی۔ مشرکین میں ایک شخص بہت پھرتیلا اور جنگ جو تھا،جس مسلمان پر حملہ آور ہونا چاہتا، نشانہ بنا لیتا اور قتل کردیتا۔مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے ارادہ کیا کہ اس پر ،اس کی بے خبری میں حملہ کر کے اسے ٹھکانے لگا دے (ہم آپس میں کہاکرتے تھے کہ وہ اسامہ بن زیدؓ تھے)۔ جب اسامہؓ نے اس پر حملہ کیا،اسے اپنی تلوار کی زدمیں لے لیا تو اس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، لیکن اسامہ ؓنے اس کی پروا نہ کی اور اسے قتل کردیا(فتح ہوگئی)۔
فتح کی بشارت دینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا اور بشارت دی۔آپ ؐنے حالات معلوم کیے، مبشر نے ساری صورت حال بیان کردی اور کلمہ پڑھنے والے کے قتل کی خبر بھی پہنچادی۔اس پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہؓ کو بلایا اور پوچھا: تم نے اسے کیوں قتل کردیا؟جواب میں حضرت اسامہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!اس شخص نے مسلمانوں کو بڑی زک پہنچائی، خون ریزی کی انتہا کردی اور فلاں فلاں مسلمانوں کو قتل کردیا (کئی آدمیوں کے نام لیے اور عرض کیا) میں نے اس پر حملہ کیا اور وہ میری تلوار کی زد میں آگیاتو اس نے تلوارکے ڈر سے کلمہ پڑھ لیا۔رسولؐ اللہ نے تعجب اورناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اچھا تم نے اسے قتل کردیا؟ اسامہ نے عرض کیا،ہاں یارسولؐ اللہ! آپ نے فرمایا:جب قیامت کے روز لاالٰہ الااللہ کے کلمے کو لے کر وہ تمھارے خلاف آئے گا(اللہ تعالیٰ سے استغاثہ کرے گا)تو تم کیا جواب دوگے؟
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے،آپؐ نے فرمایا: تم نے اسے لاالٰہ الااللہ پڑھنے کے بعد قتل کردیا؟ (اسامہؓ کہتے ہیں)میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! وہ محض جان بچانے کی خاطر کلمہ پڑھ رہاتھا، ا س پر آپؐ نے فرمایا: تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کیا؟آپ باربار اس کلمہ کو دہراتے رہے۔یہاں تک کہ میںنے آرزو کی،کاش میں اس دن سے پہلے اسلام نہ لایاہوتا۔
مسلم شریف کی روایت میں ہے تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمھیں پتا چلتا کہ اس نے کلمہ دل سے پڑھا تھا یا نہیں۔(بخاری و مسلم)
حضرت اسامہؓ نے عین میدانِ جنگ میںاس جرم کا ارتکاب کیاتو اس پرنبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار صدمے کا اظہار کیا اوراسامہؓ کو آخرت کی پکڑ سے ڈرایا لیکن آج مسلمانوں کی ریاست کی فوج اہلِ ایمان کو بے دریغ قتل کر رہی ہے اور کافروں سے قتل کروانے میں شریک و ساجھی ہے۔ یہ آپریشن اور قتل و غارت اور بم باری کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ کیا یہ اس دن کو بھول گئے ہیں جب یہ سب مقتول اللہ کی عدالت میں فریادی ہوں گے؟
o
حضرت عامر بن واثلہ ؓ سے روایت ہے کہ چند مسلمان ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ایک شخص نے پاس سے گزرتے ہوئے سلام کیا، ان لوگوں نے اسے سلام کا جواب دیا۔جب ان کے پاس سے گزر گیا تو ان میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میںاس آدمی سے اللہ کی خاطر بُغض رکھتاہوں۔ اہلِ مجلس نے کہا: واللہ تم نے بری بات کی ہے، ہم اسے بتلا دیتے ہیں۔ایک آدمی سے انھوں نے کہا: اٹھو!اور اسے بتلادو۔وہ اٹھ کرگیااور جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور وہ بات اُسے بتلا دی، جو اس کے بارے میں بات کرنے والے نے کی تھی۔بات سن کروہ آدمی واپس چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مسلمانوں کی مجلس کے پاس سے گزرا، ان میں فلاں آدمی بھی تھا ۔میں نے اہلِ مجلس پر سلام پیش کیا،انھوں نے سلام کا جواب دیا۔جب میں ان کے پاس سے گزر گیا تو ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آپکڑا اورمجھے اطلاع دی کہ فلاں آدمی نے کہا ہے کہ اللہ کی قسم میں اس سے اللہ کے لیے بُغض رکھتا ہوں۔آپ اس سے پوچھیے، کس وجہ سے یہ مجھ سے بُغض رکھتاہے؟رسولؐ اللہ نے اسے بلایا اور جو شکایت اس نے کی تھی، اس کے بارے میںاس سے پوچھا۔ اس شخص نے اپنی بات کا اعتراف کیا اور کہا: یارسولؐ اللہ! میں نے یہ بات کی ہے۔رسولؐ اللہ نے پوچھا: کس بنا پر تم اس سے بُغض رکھتے ہو؟ اس نے کہا: میں اس کا پڑوسی ہوں اور مجھے اس کے حالات کا پتہ ہے۔اللہ کی قسم! میں نے اسے فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔یہ فرض نماز تو سارے نیک وبد پڑھتے ہیں۔ اس شخص نے جواباً کہا آپ اس سے پوچھیے کہ کیا اس نے کبھی مجھے دیکھا ہے کہ میں نے نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کیاہو؟ یا رکوع وسجود ٹھیک نہ کیا ہو؟رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا،نہیں ایسا تو کبھی نہیں کیا۔ پھر کہا اللہ کی قسم میںنے اسے صرف رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے جو نیک وبد سارے رکھتے ہیں۔اس نے کہا: یارسولؐ اللہ!اس سے پوچھیے کہ اس نے کبھی دن میںمجھے افطار کرتے ہوئے پایاہے؟اس کے حق میں کمی کرتے ہوئے دیکھا ہے؟رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: نہیں ۔پھر اس نے کہا: میں نے اسے نہیں دیکھا کہ اس نے زکوٰۃ کے علاوہ جو نیک و بد سارے دیتے ہیں، کبھی سائل کو کچھ دیا ہو۔ اس نے کہا یارسول اللہ! اس سے پوچھیے ’’کیا میں نے کبھی زکوٰۃ کا زیادہ یا تھوڑا حصہ چھپایاہے؟یا کبھی میں نے زکوٰۃ طلب کرنے والے سے ٹال مٹول سے کام لیاہے‘‘۔ رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: زکوٰۃ میںتو کچھ کمی نہیں کی۔تو رسولؐ اللہ نے فرمایا:کھڑے ہوجاؤ،میں نہیں سمجھتا کہ تمھارا رویہ صحیح ہے۔ شاید یہ تجھ سے بہترہے(الفتح الربانی)
تقویٰ کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکرکسی مسلمان خصوصاً فرائض وواجبات کے پابند شخص کوگھٹیا سمجھنا ،اس سے بُغض رکھنا ناپسندیدہ بات ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت نرمی سے اس پر متنبہ فرمایا۔ آج کل کسی کے متعلق بات کی جائے تو لڑپڑتا ہے۔لیکن اسلام نے ایسے اخلاق کی تعلیم دی ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے بارے میں اگر سخت بات کرتاہے تو دوسرے مسلمان بھائی اس کی غائبانہ مدد کرتے ہیں۔بات کرنے والے کو اس کی زیادتی پرتنبیہہ کرتے ہیں،پھر جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اسے اس کا پتہ دیتے ہیں۔ وہ غصہ سے لال پیلا ہونے کے بجاے اور خود کوئی انتقام لینے کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں استغاثہ دائر کرتا ہے۔آپ باقاعدہ مقدمہ کی سماعت فرماتے ہیں اور دونوں کی باتیں سننے کے بعد مدّعاعلیہ کے خلاف فیصلہ دے دیتے ہیں لیکن اس طرح کہ مدّعاعلیہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و توبیخ کے بجاے اتنا فرمادیتے ہیں کہ میں تمھاری بات کی تائید نہیں کرسکتا۔ شاید وہ تجھ سے بہتر ہو۔یہ نرمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ کا مظہر ہے۔یہ واقعہ صبروتحمل،صاف گوئی اور وقاروسکون کا بہترین نمونہ ہے۔مدعی،مدّعا علیہ اورموقع کے گواہ سب نے اپنااپنا کرداربہترین انداز میں اداکیا۔
o
حضر ت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے ایسی چیز فروخت کی جس میں عیب تھا اورخریدار کے سامنے اسے ظاہر نہ کیا۔وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں گھِر جاتا ہے۔فرشتے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ)
یومِ عرفہ ایک تاریخ ساز دن ہے جب لاکھوں انسان عہد الست تازہ کرنے میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ میدان پہاڑوں کے درمیان ایک ویران اور سنسان سی جگہ ہے جو سال بھر غیرآباد رہتی ہے۔ جہاں نہ عمارتیں ہیں اور نہ شان دار رہایش گاہیں۔ یہاں ۹ ذی الحج کو اللہ کے بندے ساری دنیا سے کٹ کر، تمام مادی آسایشیں اور سہولتیں چھوڑ کر، تمام رشتہ داروں سے ناطہ توڑ کر دو اَن سلے سفید کپڑوں، یعنی کفن کے لباس میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور تو اور، وہ خانہ کعبہ سے بھی دُور ہوتے ہیں۔ وہ خانہ کعبہ، اللہ کا گھر، ایک پُروقار گھر، جس کو دیکھ کر انسان کے قلب ِ مضطرب و بے قرار کو سکون ملتا ہے، آنکھوں کو راحت اور ٹھنڈک پہنچتی ہے، انسان گھنٹوں اس گھر کو دیکھتا ہے لیکن طبیعت ہے کہ سیر نہیں ہوتی۔ لیکن اس گھر کو بھی چھوڑ کر انسان ویران و بیابان عرفات کے میدان میں حاضر ہوتا ہے۔
میدانِ عرفات میں ۹ ذی الحج کی حاضری ہی دراصل حج ہے۔ حدیث میں آتا ہے: حج تو عرفہ ہے، یعنی ۹ذی الحج کو زوالِ آفتاب کے بعد سے طلوعِ فجر سے پہلے تک عرفات کے میدان میں حاضر ہونے کا نام حج ہے۔ جو کوئی اس متعین تاریخ کو متعین وقت میں عرفات میں حاضر نہ ہوسکا اس کا حج نہیں ہوا۔ اس کا کوئی دَم نہیں، اس میں کوئی تاخیر نہیں، اس کا کوئی ازالہ نہیں۔ وقوفِ عرفات نہیں توکچھ نہیں، یعنی حج نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مریضوں کو ہسپتال سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اور ایمبولینس کے ذریعے اس خاص وقت میں حدودِ عرفات میں اس حالت میں لایا جاتا ہے کہ آکسیجن لگی ہوتی ہے۔ یہ اس لیے کہ جو عرفات میں حاضر ہوگیا، حج اسی کا ہے ___ یہ ہے اصل حج۔ پھر یہاں اصل اہمیت حاضری کی ہے۔ نمازیں بھی کم ہوجاتی ہیں، ظہر اورعصر ملا کر پڑھی جاتی ہیں، جب کہ مغرب اور عشاء وہاں ادا ہی نہیں کی جاتیں بلکہ مزدلفہ میں جاکر ادا کی جاتی ہیں۔
عرفات وہ مقام ہے جہاں لاکھوں انسان ایک خاص کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، ہچکیاں بندھی ہوئی ہیں، ہر طرف گریہ و زاری کے مناظر ہیں، آواز رُندھی ہوئی ہے، اپنے رب سے راز و نیاز کر رہے ہیں۔ میدانِ عرفات کے اس بے آب و گیاہ ویرانے میں یہ خاص کیفیت لوگوں پر کیوں طاری ہوتی ہے؟ یہ بے تحاشا آنسو کیوں بہتے ہیں؟ پھر جو سکون، جو چین انسان کو اس رونے اور گریہ و زاری میں ملتا ہے وہ دنیا جہان کی دولت و ثروت اور مادی سہولتوں میں نہیں ملتا۔ کیوں؟ میدانِ عرفات میں کیا ہے؟ یہاں کی حاضری کیسی ہے؟ انسان کا اس میدان، اس جگہ سے کوئی خاص تعلق ہے؟ میدانِ عرفات میں ایسی کیا چیز ہے کہ نہ صرف وہاں حاضری لازمی ہے بلکہ اس حاضری میں بے شمار انسانوں پر بے حد رقّت اور گریہ طاری ہوتا ہے، آخر کیوں؟
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَ اَشْھَدَھُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنo (الاعراف ۷:۱۷۲) اور اے نبیؐ! لوگوں کو یاد دلائو وہ وقت جب کہ تمھارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انھیں خود ان پر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: ’’کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے‘‘۔
مفسرِ قرآن حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے امام احمد ، نسائی اور حاکم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ عہدو قرار اس وقت لیا گیا جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اُتارا گیا اور مقام اس اقرار کا وادی نعمان ہے جو میدانِ عرفات کے نام سے معروف و مشہور ہے (تفسیرمظہری، معارف القرآن، تفسیر سورئہ اعراف، آیت ۱۷۳)
گویا اس سرزمینِ عرفات کا انسان سے ایک ازلی تعلق ہے۔ یہاں انسان کو اس کی اصل یاد کرانی مقصود ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو انسان کی فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں رب سے پہلی ملاقات ہوئی تھی اور عہد ہوا تھا۔ یہ وہ بات ہے جو انسان کی روح کی گہرائیوں میں موجود ہے، اس کے شعور میں پنہاں ہے۔ ۹ ذی الحج یومِ عرفہ کہلاتا ہے، یعنی پہچان کا دن، شناخت کا دن، اپنے رب کی معرفت کا دن، خود آگہی کا دن۔ عرفات میں اصلاً بندہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے۔ پہلی ملاقات لاشعور میں بسی ہے اور اب یہ دوسری ملاقات شعور کے ساتھ ہورہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ویرانے میں پہاڑوں کے درمیان بندہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے اس کی رب سے ملاقات ہوئی ہو، تبھی تو اس کی بے چینی دُور ہوتی ہے، روح کو سکون و قرار ملتا ہے کیونکہ انسان اصلاً روحانی وجود ہے، گوکہ جسم بھی ساتھ لگا ہوا ہے۔ جب انسان کی موت واقع ہوتی ہے تب انسان اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے، کہہ رہا ہوتا ہے: انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون،ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ کیا چیز اللہ کی طرف پلٹ گئی؟ یقینا وہ ’روح‘ ہی تو ہے۔ جسم تو موجود رہتا ہے لیکن بے قیمت اور بے وقعت ہوجاتا ہے۔ لوگ اس جسم کو مٹی میں دفن کرنے کی جلدی کرتے ہیں، گویا خاک کے پیکر کو خاک میں ملا دینے کی جلدی۔ اس لیے کہ روح نکلنے کے بعد جوکچھ بچتاہے وہ مٹی میں ملانے ہی کے لائق ہے۔ اصل قیمتی چیز روح تورخصت ہوگئی جس کی وجہ سے اس جسم کی قیمت بھی تھی اور اِس عارضی دنیا میں مقام بھی تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی چکاچوند اور عیش کدوں میں وہ سکون نہیں جو عرفات کے میدان، پہاڑوں کے درمیان اس ویرانے میں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو انسان کی فطرت میں بسی ہوئی ہے اور رب سے ملاقات ہو توسکون ملنا ہی چاہیے۔ ربانی روح رکھنے والی مخلوق اپنے رب کے حضور حاضر ہو تو چین اور اطمینان تو ہونا ہی چاہیے۔ لیکن یہ کیا کہ آنسو بہتے ہیں، گریہ طاری ہوتاہے۔ آخر کیوں؟
احادیث میں آتا ہے کہ ’’جب بندے پر اللہ کا کوئی فرشتہ نازل ہوتاہے توانسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، دل میں رقّت طاری ہوتی ہے، آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں‘‘۔ یہ کیفیت تو فرشتوں سے ملاقات پر ہوتی ہے۔ لیکن اس رقت اور آنسوؤں میں کتنا سکون ہوتا ہے، کس قدر چین ہوتا ہے، اس کا تجربہ بعض لوگوں کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہوتا ہے۔ لیکن عرفات میں بہت بڑے پیمانے پر انسانوں کو یہ تجربہ ہوتا ہے۔ آنسو بہہ رہے ہیں لیکن قلب کو طمانیت اور روح کو سکون وقرار ملتا ہے۔ عرفات ہی تووہ جگہ ہے جہاں رب سے پہلی ملاقات عالمِ ارواح میں ہوئی تھی اور حج کے موقع پر ایک مرتبہ پھر انسان اسی جگہ پہنچ جاتا ہے جو کہ اس کی روح میں رچی بسی ہے۔ کیا کیفیت اور کیسی لذت انسان کو حاصل ہوتی ہے، اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُ الْقُلُوْبُ۔
یہ آنسو خوشی کے ہیں۔ انسان جب بے پناہ خوش ہو یا بہت زیادہ مطمئن ہو تو اس کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ یومِ عرفہ اپنے آپ کو پہچاننے کا، اپنی شناخت کا، خود آگاہی کا، اپنی حقیقت پانے کا دن ہے۔ یہی تو وہ جگہ ہے جہاں رب سے ملاقات ہوئی تھی، قول وقرار ہوا تھا۔ یہ اعلان اور دعویٰ کیا تھا کہ رب اگر کوئی ہے تو وہی ہے جس نے یومِ عرفہ بنایا ہے (شاید کہ وہ ۹ ذی الحج ہی ہو، جب کہ یہ قول وقرار ہوا ہو)۔ عرفات کا میدان ہی وہ مقام ہے، جہاں عالمِ ارواح میں اپنے رب سے ملاقات ہوئی تھی، اوریہی وہ جگہ ہے جہاں عرفہ کے دن رب کے حضور حاضری ہوتی ہے، اور ایک روایت کے مطابق میدانِ حشر بھی میدانِ عرفات ہی ہوگا، یعنی تیسری ملاقات بھی رب سے اسی جگہ پر ہونی ہے۔
عرفات وہ جگہ ہے جہاں رب کو رب ماننے کااقرار کیا تھا۔ یہ عہد انسان کی فطرت میں ہے۔ حدیث میں ہے: ’’ہرپیدا ہونے والا دین فطرت، یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں‘‘ (بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث قدسی ہے: ’’میں نے اپنے بندوں کو حنیف، یعنی ایک خدا کا ماننے والا پیدا کیا ہے۔ پھر شیطان ان کے پیچھے لگ گیا اور ان کو صحیح راستے سے دُور لے گیا‘‘(مسلم)۔ لہٰذا اس راستے سے انسان ہٹے گا توچاہے دنیا کتنی ہی رنگین، خوش نما اور چکاچوند کرنے والی ہی کیوں نہ ہوجائے، سکون اور چین انسانیت کو نہیں مل سکتا۔
یومِ عرفہ کا پیغام یہ ہے کہ اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجائو۔ وہ رب جو اصلاً انسانوں کا رب ہے اگر اس کی ربوبیت انسانیت میں قائم نہیں ہے تو اس کی ربوبیت کو انسانی دنیا میںقائم کرو۔
یٰٓـاََیُّھَا الْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَاَنْذِرْ o وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ (المدثر ۷۴:۱-۳) اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔
اللہ کی طرف سے اور آپ کی آرا کی روشنی میں میرے ناتواں کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میں بہت ناتواں ہوں، کمزور ہوں لیکن میں نے یہ ذمہ داری اللہ کے بھروسے پر اٹھا لی ہے۔ اس موقع پر مجھے حضرت علیؓ کا قول یاد آیا: ’’اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں، میری آنکھیں خراب ہیں لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کے لیے حاضر ہوں‘‘۔
یاد کیجیے وہ وقت جب مکہ میں مسلمان مغلوب تھے، ان پر ظلم ڈھائے جا رہے تھے اور انھیں انگاروں پر لٹایا جا رہا تھا۔ اللہ کا نام لینا انگارہ ہاتھ میں لینے کے مترادف تھا۔ اذیتیں دی جاتی تھیں، ترغیبات دی جاتیں، گھروں سے نکالا جاتا، گویا زمین ان پر تنگ کردی گئی تھی۔ دین غریب (اجنبی) تھا، نصرت کرنے والے کم تھے مگر مضبوط تھے۔ ان کا ایمان و یقین اور بھروسا اللہ پر تھا۔ ان کی چربی پگھل کر آگ کے انگارے ٹھنڈے کر دیتی لیکن وہ ’احد، احد‘ پکارتے رہتے۔ ان کے جسم نیزوں سے چھلنی کردیے جاتے لیکن وہ لا الٰہ الا اللہ کا ورد کرتے رہتے، دین سیکھتے سکھاتے اور دین کی نصرت کرتے رہتے۔ کوئی چیز راہ کی رکاوٹ نہ بنی، نہ گھر، نہ رشتہ دار، نہ اولاد، نہ کاروبار، نہ ملازمت۔ اگر گھر اور خاندان رکاوٹ بنا تو ہجرت کی راہ اپنائی۔ مال و دولت رکاوٹ بنے تو مصعب بن عمیرؓ کی طرح وہ کپڑے بھی اُتار کر رکھ دیے جو اس کے مرہونِ منت تھے اور ایک ٹاٹ لپیٹ کر درِ نبویؐ پر حاضر ہوگئے۔ نہ ماں کی محبت بیڑیاں ڈال سکی، نہ آرام و آسایش، نہ قبیلہ، نہ برادری، نہ عورت ہونا مسئلہ بنا اور نہ بچہ ہونا۔ جب انھوں نے کہا کہ نحن انصاراللّٰہ تو انصاراللّٰہ بن کر دکھایا۔ انھوں نے ثابت کردیا: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔
آج دین اسلام پھر غریب ہے، خواہ کلمے کے نام پر حاصل کردہ پاکستان میں ہے یا ارضِ فلسطین میں۔ کشمیر، افغانستان، وزیرستان ہو یا سوات، ہرجگہ مسلمان پر دہشت گردی کا لیبل لگا ہے۔ آج کشمیر، ابوغریب اور گوانتانامو کے عقوبت خانے پھر سے مکہ کی گلیوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔
ادھر دین کے نام لیوائوں کو وَھن (دنیا کی محبت اور موت کا خوف)لگ چکا ہے، خواہ لاہور میں ہوں یا جدہ یا دبئی میں جہاں دولت اور آسایشوں کی ریل پیل ہے، نیز دنیا کی دوڑ اور مادہ پرستی نے بھی دین کو غریب کردیا ہے۔ دوسری جانب دین اگر دیہات میں ہے تو جہالت نے اسے غربت میں مبتلا کردیا ہے۔ اکثریت شیطان کے جال اور فریب میں گرفتار ہوچکی ہے۔ عورتوں کی بڑی تعداد بھی اپنی ذمہ داریاں فراموش کرچکی ہے۔
ان حالات میں بڑی بشارت ہے اُن خواتین و حضرات کے لیے جو اللہ کے دین کی غربت کو دُور کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ ان کے لیے جنت کی خوش خبری ہے (فطوبٰی لِلغربائ)۔ اسی جنت کی طلب میں مجھے حضرت علیؓ کا قول یاد آیا اور مجھ جیسی ناتواں نے اس بھاری ذمہ داری کو قبول کرنے کا عہد کرلیا کہ اس دین کی غربت دُور کرنے کے لیے میں حاضر ہوں، اگرچہ میں کمزور ہوں مگرمیرا بھروسا جس ذات پر ہے وہ حی و قیوم ہے، وہ علٰی کل شیٔ قدیر ہے۔ جب وہ دست و بازو بن جاتا ہے تو ساری کمزوریاں قوت میں بدل جاتی ہیں، راستے آسان ہوجاتے ہیں، طوفانوں کے رخ بدل جاتے ہیں، ۳۱۳ ایک ہزار کو شکست دے دیتے ہیں اور ہزار لاکھوں پر غالب آجاتے ہیں۔ کیا میں درست کہہ رہی ہوں؟
آیئے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم اس دین کی غربت کو دُور کرنے کے لیے اپنا تن من دھن لگائیں گے اور کوئی مجبوری، کوئی عُذر ہماری راہ کی رکاوٹ نہ بنے گا۔ آیئے! میرے ساتھ مل کر کہیے: لبیک اللھم لبیک، لبیک اللھم لبیک… میں حاضر ہوں اے میرے اللہ، میں حاضر ہوں اے میرے اللہ! لیکن یہ یاد رکھیے، محض منہ سے لبیک کہہ دینے سے اللہ راضی نہیں ہوجاتا، محض نعرئہ تکبیر لگا لینے سے زمین پر اللہ کی کبریائی نافذ نہیں ہوجاتی:
کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنھوں نے (اس کی راہ میں) جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔(التوبہ۹:۱۶)
پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلامارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھ اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔(البقرہ۲:۲۱۴)
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (الصف۶۱:۲ تا۴)
یاد رکھیں اپنے آپ کو مثالی، باکردار مسلمان تحریکی خاتون بنانا ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ قرآن ایک چراغ ہے، ایک حرارت ہے جو ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہوتی ہے۔ لیکن اگر قرآن کی دعوت دینے والا خود ہی بے عمل ہو تو یہ چنگاری دوسرے فرد تک پہنچنے سے پہلے بجھ جاتی ہے، تبلیغ بے اثر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا قرآن کی تعلیم کا نفاذ سب سے پہلے اپنے اُوپر کرنا ہے۔
مجھے اور آپ کو یہ عہد کرنا ہے کہ اے اللہ! میں تیرے دین پر عمل کروں گی۔ میں دین میں پوری کی پوری داخل ہوجائوں گی، ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ۲: ۲۰۸)کی مثال بنوں گی۔ میرا اخلاق، میرا کردار، میرا عمل وہ ہوگا جو تجھے پسند ہے۔ میں جھوٹ نہ بولوں گی، غیبت نہ کروں گی، گناہ نہ کروں گی اور بے حیائی کے کام کی مرتکب نہ ہوں گی۔
ہم جو لباس پہنتے ہیں، ہمارے دین نے اس کے بارے میں بھی ہدایات دی ہیں۔ آیئے، عہد کریں: میرا لباس وہ ہوگا جو میرے اللہ اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ہے۔ میرا لباس تقویٰ کا لباس ہوگا۔ میرا گھر اسلامی تہذیب کا نمونہ ہوگا۔ میرے بچے مجاہد بنیں گے، اداکار اور گلوکار نہیں بنیں گے۔ میرا کوئی بچہ بے نمازی نہ ہوگا، اللہ کا نافرمان نہ ہوگا۔ میرے اہلِ خاندان اللہ کے دین کے راہی بنیں گے۔ میرے محلے میں میرا گھر روشنی کا مینار اور درسِ قرآن کا مرکز ہوگا۔ میری صلاحیتیں، میرے اوقات دین کی اقامت اور سربلندی میں لگیں گے۔ کوئی عذر میری راہ میں رکاوٹ نہ بنے گا۔ اپنی زندگی، اپنے گھر میں اسلامی انقلاب میری ابتدا اور دنیا میں اللہ کے دین کا نفاذ میری انتہا ہوں گے___ بولیں: اتفاق ہے؟ عہد ہے؟ ان شاء اللہ!
تمام ارکان و کارکنانِ جماعت اسلامی پاکستان کو روشنی کا چراغ بننا ہے، مثال بننا ہے اور جماعت اسلامی پاکستان حلقۂ خواتین کو خواتینِ اسلام کا ہراول دستہ بنانا ہے۔ یاد رکھیں کوئی نظم، ناظمہ اور تنظیم اُس وقت تک مؤثر نہیں ہوتی جب تک ارکان و کارکنان اس کے دست و بازو نہ بنیں۔ لہٰذا نظم کی پکار پر لبیک کہیں، معذرتیں کرنے والے نہ بنیں۔ اپنے اندر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے قوت پیدا کریں۔ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۴۵) ’’صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔
عبادات کو عادت بننے سے بچائیں۔ نماز ایسی ہو کہ آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ قرآن اس طرح پڑھیں کہ دلوں کے زنگ دُور ہوجائیں اور آنکھیں خشیت ِ الٰہی سے بھرآئیں۔ روزہ ایسا ہو کہ تقویٰ حاصل ہوجائے۔ قرآن کا علم حاصل کریں۔ جتنا حصہ پڑھیں اس میں سے عمل کے لیے اصول نکالیں اور عمل پیرا ہوجائیں۔ چھوٹے گناہوں سے بھی بچیں۔ شریعت کے دائرے کے اندر رہ کر دین کا کام کریں۔ ڈرائیور کے ساتھ تنہا لمبا سفر نہ کریں۔ محرم کے بغیر رات کے سفر سے حتی الامکان گریز کریں، اِلا.ّ یہ کہ بڑے گروپ کی صورت میں ہو۔
اپنی زندگی کو سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر کریں۔ تمام معمولات مسنون طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ زندگی میں آسایشوں اور مادیت کی دوڑ سے خود کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ سادگی اپنائیں، اپنے شوہر کی خدمت کریں، بچوں کو اسلام کا ہراول دستہ بنائیں۔ گلی محلے میں قرآن کی دعوت اور قرآن کی کلاسوں کا جال بچھا دیں۔ یہ سب کر کے بھی اللہ سے کثرت سے استغفار کریں کیوں کہ اللہ نے دنیا کے سب سے عظیم مومنِ حنیفؐ سے بھی فرمایا:
فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَمنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْo (محمد۴۷:۱۹)پس اے نبیؐ ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور معافی مانگو اپنے لیے بھی اور مومن مردوںاور عورتوں کے لیے بھی۔ اللہ تمھاری سرگرمیوں کو خوب جانتا ہے اور تمھارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے۔
اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی فرماتے تھے: ’’میں دن میں ۷۰ بار استغفار کرتا ہوں‘‘۔ پھر اپنے رب سے استعانت کی دعا کریں، دعا قبول ہوگی۔ ان شاء اللہ!
آیئے پھر دعا کریں: اے اللہ! ہم حاضر ہیں، ہماری نصرت فرما! ہمیں اچھا مسلمان بنا، ہمیں مثالی مائیں بنا، ہمیں مثالی تحریکی خواتین بنا اور ہماری کمزوریوں سے درگزر فرما۔ آمین!
(اجتماع عام اکتوبر ۲۰۰۸ء میں حلف برداری کے بعد خطاب)
قرآن کریم انسان کو دعوتِ فکر دیتے وقت یہ بات واضح کردیتا ہے کہ انسان کو مکمل آزادیِ فکر کے ساتھ ایک سے زائد راستے اور طرق اپنانے کا اختیار عطا کیا گیا ہے (وَھَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ o البلد ۹۰:۱۰ ’’دونوں نمایاں راستے اسے دکھا دیے‘‘) لیکن یہ فیصلہ وہ کس طرح کرے؟ کیا محض اپنے آباواجداد کی اندھی پیروی کو رہنما اصول بنائے یا محض منطق اور مشاہدے کو، یا مشاہدے کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرے کہ عقل کی وسعت و محدودیت کتنی ہے؟ مشاہدے کی حدود کہاں تک ہیں؟ رہوارِ فکر کہاں تک جاسکتا ہے؟ اور اس پورے فکری عمل میں کسی معروضی معیارِ حق و باطل کا کیا مقام ہے؟ اسلامی فکروثقافت کا یہی پہلو، جسے ہم کلیت پسند تصور کہہ سکتے ہیں، اسے دیگر فکری اور ثقافتی روایتوں سے ممتاز کرتا ہے۔
چنانچہ دعوتِ فکر کو تذکرہ و تذکیر کے ساتھ یک جا کرتے ہوئے قرآن کریم انسان کو ایک تیسری بنیاد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور خود ہی اس کی تعریف بھی فراہم کردیتا ہے۔ فکروذکر کا عمل انسان کی عقل اور قلب کو ایک ایسے طرزِ عمل اور رویے (attitude) کی طرف لے جاتا ہے جس میں عقل و قلب ایک دوسرے کی ضد بن کر نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جائزہ، تنقید، تفکر اور تصفیہ کا عمل اختیار کرتے ہیں، چنانچہ تزکیہ نہ محض قلب کی صفائی تک محدود رہتا ہے اور نہ تدبر محض ہی منطقی اور کلامی بحثوں میں مقیّد ہوتا ہے بلکہ دونوں مل کر ثقافت کی بنیاد بن جاتے ہیں اور ذکروفکر فطری طور پر ایک شخص کو اپنے مشاہدات، احساسات، آرزوئوں، خواہشات، وقت، مال، صحت، صلاحیت غرض ہرہرانسانی عمل کے تزکیے اور مطلوبہ اعمال کے مقاصد و اہداف پر غوروتدبر کرنے کی طرف آمادہ کردیتے ہیں۔ یہ ثقافت چند ظاہری، بصری اور صوتی اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ ہر وہ شے جس کا تعلق بصری، صوتی، احساساتی معاملات سے ہو، ثقافت اسے ایک معنی دینے کے بعد فکروذکر کی بنیاد توحید سے وابستہ وپیوستہ کردیتی ہے اور ایک شاعر ہو یا ادیب، مصور ہو یا صاحبِ فن نقاش، حرفت کار ہو یا معمار، اس کے تیشے کی ہر ضرب اور قلم کی ہر جنبش توحید کی بنیاد پر فکروذکر اور تزکیے کے عمل سے گزرنے کے بعد عالمِ شہود میں آتی ہے۔
قرآن کریم نے تزکیے کو ایک شعوری اور ارادی عمل کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ سورئہ شمس اور الاعلیٰ میں واضح الفاظ میں غیرمبہم طور پر یہ بات فرمائی گئی ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاo (الشمس ۹۱:۹) ’’یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا‘‘۔ اسی بات کو سورۃ الاعلیٰ میں تزکیے کے ظاہری اور عملی پہلو کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا: ’’فلاح پاگیا وہ جس نے تزکیہ کیا اور اپنے رب کا نام یاد کیا۔ پھر صلوٰۃ ادا کی‘‘ (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵)۔ قرآن کریم نے یہاں تزکیے کے عمل کو آزاد نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسے اللہ کے نام کی یاد اور اس ذکر کی بہترین شکل قیام، رکوع و سجود کا بیان کرنے کے ذریعے قرآن کے طالب علم کے ان سوالات کا جواب بھی فراہم کردیا جو تزکیے کی اصطلاح پڑھنے اور سننے کے بعد ذہن میں اُبھر سکتے ہیں، یعنی کیا یہ آنکھیں بند کر کے کسی گوشے میں ہفتوں اور برسوں بیٹھنے کا نام ہے یا کسی جنگل بیابان میں معاشرتی زندگی سے دُور جاکر اپنے قلب و نظر کو مجلا و مصفّا کرنے کا نام ہے۔ یا زندگی کے ہنگاموں، بازار کی معاشی سرگرمیوں اور سیاست کی شطرنج میں الجھنے کے باوجود سیاسی، معاشی،معاشرتی معاملات میں رب کریم کی رضا و خوشنودی کے کام اختیار کرنے اور اپنے سر اور جسم کو نہیں بلکہ عقلی وجود کو، قلبی خواہشات کو، نظر کی حسرتوں اور تڑپتی خواہشوں کو ربِ کریم کی رضا کا پابند کردینے، اس کے حضور اپنے پورے وجود کو عاجزی اور طلب کے ساتھ ساتھ اُس ایک سجدے میں گرا دینے کا نام ہے جواسے تمام غلامیوں سے آزاد کر کے نفس کو اُس کے اعلیٰ مقام سے آگاہ کردے۔
تزکیے کا یہ وہ عملی اور محسوس پہلو ہے جو اس کے معیار کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ وہ تزکیہ اور خشیت اور تقویٰ جو فرائض واجبات، سنن اور نوافل کی شکل میں اپنے آپ کو نہ ڈھال سکے ایک فکرِآوارہ تو ہوسکتا ہے، قرآن کا مطلوب تزکیہ نہیں ہوسکتا۔ قرآن جس تزکیے کے ذریعے ایک ثقافت و تہذیب پیدا کرنا چاہتاہے، اس میں اللہ کی خشیت، اس کی توحید، بہترین ناموں کے ساتھ اس کا ذکر، جو تسبیح کے دانوں کی محدودیت سے نکل کر اس کی بارگاہ میں قیام و قعود اور رکوع و سجود میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ رکوع و سجود چند خاص اوقات میں نہیں بلکہ زندگی کے ہرفیصلہ کن معاملے میں ہوتے ہیں۔ جب ایک فرد یا ایک سربراہ یا ایک قوم اپنے مالی معاملات میں سودی نظام کے آگے سجدہ کرتی ہے اور اس سے نرم یا گرم سودی کاروبار کے لیے قدم آگے بڑھاتی ہے توتسبیح کے دانوں پر اسماے حسنیٰ کی گردش اپنا مفہوم کھو دیتی ہے۔ جب ایک سربراہِ مملکت مسلمانوں کی نرم شبیہہ کی تمنّا میں مسلمانوں کو نرم نوالہ بناکر پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے تو یہ عمل اس کے قولی دعووں کی تردید کردیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ اللہ کی خشیت سے نہیں، کسی نام نہاد یک قطبی قوت کی ہیبت و رعونت سے لرزہ براندام ہے۔
تزکیہ کوئی غیرمحسوس و غیرمرئی عمل نہیں ہے بلکہ قرآن اسے ان تمام اعمال سے وابستہ کرتا ہے جو انسان کی انتہائی ذاتی کیفیات سے وابستہ ہوں مثلاً قیام اللیل، یا اس کے معاشرتی وظائف سے تعلق رکھتے ہوں مثلاً والدین کے حقوق، بیوی بچوں کے حقوق، اولاد کی صحیح اسلامی تربیت یا بین الاقوامی معاملات میں معاہدوں اور پالیسیوں کا تعین۔
یہی وجہ ہے کہ تزکیے کی اصطلاح کوقرآن کریم نے تزکیۂ مال کے ساتھ بیان کرنے کے بعد ان تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کردیا جو دین و دنیا، عالمِ قلب اور مادی عالم کے درمیان مصنوعی طور پر ذہنوں اور قوموں کے خون میں سرایت کر گئے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(التوبۃ ۹:۱۰۳)’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ [زکوٰۃ] لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھائو اور ان کے حق میں دعاے رحمت کرو کیوں کہ تمھاری دعا ان کے لیے وجۂ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔
قرآن کریم یہاں جس ثقافت و تہذیب کی بات کر رہا ہے اس میں تین پہلو انتہائی قابلِ غور ہیں۔ پہلی بات یہ کہ نبی اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے فرماں روا ہونے کی حیثیت سے لوگوں کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ کوئی رضاکارانہ کام نہیں ہے کہ جب چاہا کرلیا بلکہ یہ اس کے فرائض میں شامل ہے اور اس بنا پر مسلم ثقافت میں جو افراد بھی صاحب ِ اختیار ہوں گے یہ ان کی ذمہ داری ہوگی۔
دوسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ حلال کمائی بھی اس وقت تک پاک نہ ہوگی اور نہ بڑھے گی جب تک اس کا تزکیہ نہ کیا جائے۔ گویا قرآنی ثقافت و تہذیب میں غیراخلاقی ذریعے سے حاصل کردہ مال و دولت کے دروازے پر ایک بھاری اور مضبوط قفل لگا دیا جاتا ہے اور ہرشہری کو صرف اخلاقی ذریعے سے مال حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح نہ تو سود پر مبنی ہے، نہ اس میں محض منافع کی بنیاد پر عوام کا خون چوسنے یا انھیں ایسے حرام کاموں میں خرچ کرنے کا امکان ہی ہے جو اسلام کے آفاقی اصولِ اخلاق سے متصادم ہوں، مثلاً جواخانے، ناچ گھر، شراب خانے، ٹی وی کے پردے پر فحاشی کے ذریعے اور فحش اشتہارات کے ذریعے روپے کمانے یا بنکوں میں سودی کاروبار کے ذریعے مال و دولت میں اضافہ۔ جس مال میں سے زکوٰۃ دے کر اس کا تزکیہ کیا جائے گا اس کے خود پاک اور اخلاقی ذریعے سے حاصل کیے جانے کو ایک طرح سے انفرادی، اجتماعی اور سرکاری طور پر ایک شرط قرار دے کر تزکیۂ مال کوقابلِ پیمایش تقویٰ کی شکل دے دی گئی ہے۔
تیسری بات جو وضاحت سے کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ رسولؐ اور اس کے بعد ریاست اپنے اس فرض کو ادا کرے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کے لیے جو مال کا تزکیہ کرنے اور کروانے پر شعوری طور پر آمادہ ہوں، اللہ کے رسولؐ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ان کے لیے دعاے رحمت و مغفرت بھی کریں کیونکہ محض اپنے فریضے (زکوٰۃ) کا ادا کردینا شرطِ مغفرت نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ اور بہت سے پہلو ایسے ہوسکتے ہیں جو ناقص ہوں لیکن زکوٰۃ کی ادایگی کے ساتھ دعاے مغفرت کے بعد اس کا امکان زیادہ ہوگا کہ رب کریم جو اپنے بندوں سے بے حساب محبت کرتا ہے وہ ان کے تزکیے کے عمل کو قبول کرلے۔ یہ وہ ثقافت ہے جس میں مال کی حرص اور ہوس کی جگہ مال کے جائز طور پر بڑھانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کے ذریعے اضافے کی خواہش پروان چڑھتی ہے جس کی نظیر نہ مادہ پرست تہذیب میں ملتی ہے نہ روحانیت پرست تہذیب میں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت وہ واحد ثقافت ہے جو تزکیے کے اس پہلو کو نہاں خانۂ دل سے نکال کر نرم و گرم بازارِ معیشت و سیاست و معاشرت میں لاکر ایک قابلِ عمل اور قابلِ پیمایش (quantifiable) شعوری اور ارادی طرزِعمل بنا دیتی ہے۔
تزکیے کے اس عمل میں تین ایسے عناصر شامل ہیں جن کی طرف قرآن کریم بار بار متوجہ کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ: ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (الجمعۃ ۶۲:۲) ’’وہی ہے جس نے اُمیّوں کے اندر ایک رسولؐ خود انھی میں سے اٹھایا ،جو انھیں اُس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں بھی تزکیے کے عمل کو تلاوتِ آیات، تعلیمِ کتاب اور تعلیم معرفت وحکمت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے اپنی ثقافت کو وحی اور علم و حکمت کے ساتھ یکجا کرکے اُسے ایک خصوصی اور ممتاز روایت بنا دیا ہے۔ گویا یہ وہ ثقافت ہے جس میں انسان خود اپنا رہنما اور ہادی نہیں ہے بلکہ وحی (الکتاب) اُسے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ یہ رہنمائی تفکر و تذکیر اور تزکیے کے عمل کے ذریعے تعلیمی طریق کار پر دی جاتی ہے۔ رسولؐ خود معلم ہونے کی حیثیت سے ایک ثقافتِ علم کی بنیاد رکھتا ہے جس پر ثقافت و تہذیب کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ رسولؐ اپنے اسوہ اور قابلِ اتباع مثال کے ذریعے ثقافتی اور تہذیبی سرگرمی کے لیے اصول و ضوابط اور خود ایک ایسی زندہ مثال چھوڑ جاتا ہے جو قیامت تک انسانی تہذیب کے لیے قابلِ عمل نمونہ ہو اور جو رفتارِ زمانہ اور روز افزوں معاشرتی ترقی کے باوجود ایک دمکتی ہوئی مثال ہو جس میں اتنی وسعت اور یُسر ہو کہ ہردور کی مشکلات اور عُسر کو دُور کرسکے۔
تزکیۂ نفس، تزکیۂ وقت، تزکیۂ صلاحیت، تزکیۂ مال، تزکیۂ فکرونظر کا یہ سفرِ علم و حکمت جس قوتِ محرکہ کی بنا پر ہوتا ہے وہ محض اس دنیا میں ثقافتی اور تہذیبی کمال کا حصول نہیں ہے بلکہ اس کی اصل منزل تہذیبی و ثقافتی ترقی کے ذریعے آخرت کی کامیابی کا حصول ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: وَمَنْ یَّاْتِـہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَھُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی o جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۷۵-۷۶) ’’اور جو اُس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں، سدابہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی (تزکیہ) اختیار کرے‘‘۔
تزکیہ اور اخلاقی عمل گو بذاتِ خود مطلوب عمل ہے لیکن قرآن کریم انسان کے ہرہرعمل کو آخرت میں اچھے یا بُرے نتائج کے ساتھ وابستہ کردیتا ہے تاکہ اس دنیا میں بعض اوقات مطلوبہ نتائج کے حاصل نہ ہونے کے باوجود معاشرہ اور تہذیب متحرک رہے اور کبھی جمود اور پژمُردگی کا شکار نہ ہو اور دنیا میں تہذیبی و ثقافتی جدوجہد ہی انسان کا حقیقی مقصود نہ ہو بلکہ انسان کی ہر ہر کاوش کا آخری نقطہ آخرت میں کامیابی ہی رہے۔
جس طرح قرآن تزکیے کے عمل کو عبادات و معاملات کے ساتھ وابستہ کردیتا ہے، ایسے ہی فکروذکر اور تزکیہ میں الکتاب اور کتابِ فطرت و کائنات سے تعلق کو اسلامی تہذیب و ثقافت کی پہچان قرار دیتا ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ (صٓ ۳۸:۲۹) ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘۔ آیاتِ کتاب پر تدبر کیا جانا اس لیے ضروری ہے تاکہ انسان ان سے اپنے معاملات میں رہنمائی لے سکے۔ انھیںمحض ثواب کے لیے تلاوت کرلینا اور مفہوم سے بے خبر رہنا ان کے نزول کا مقصد پورا نہیں کرتا، بلکہ رب العالمین چاہتا ہے کہ اس کتاب کے ایک ایک حرف پر تدبر کیا جائے اور تدبر کے نتیجے میں ایک ایسی تہذیب و ثقافت وجود میں آئے جس کا ہر ہرمظہر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کا زبانِ حال سے اظہار کرے۔
تہذیب و ثقافت میں تضادات سے محفوظ رہنے اور صحیح سمت میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ الکتاب کی بنیاد پر علوم و فنون کی ترقی کے نئے راستے تلاش کیے جائیں۔ چنانچہ سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo (النساء ۴:۸۲) ’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی‘‘۔ صرف قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ ۲۳سال کے عرصے میں جو کچھ نازل ہوا اس کی ہرآیت دوسری آیت کے ساتھ معنوی حیثیت سے مربوط ہے اورکسی مقام پر تضاد نہیں پایاجاتا۔
جب اس الکتاب کو معاملات کی بنیاد بنایا جائے گا تووہ معاشی معاملات ہوں یا سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی، ان میں آپس میں ٹکرائو اور تضاد کبھی نہ ہوگا بلکہ منزل و مقصد اور طریق کار کی یک جہتی کے نتیجے میںترقی کا عمل صحیح سمت اختیار کرے گا۔ مسلم دنیا کا ایک المیہ یہ ہے کہ دیگر مذاہب کی کتب اور مذہبی تعلیمات کے زمان و مکان میں محدود ہونے کے سبب قدامت پرستی اور سائنسی تحقیقات کے ساتھ ٹکرائو کی بنا پر مشرق و مغرب میں مذہب اور جدیدیت میں جو کش مکش پائی جاتی ہے، اسے اسلام میں تلاش کرتے ہوئے یہ قیاس کرلیا جاتا ہے کہ اسلام بھی مشرقی اور مغربی مذاہب کی طرح ایک ’مذہب‘ ہے اور چونکہ ’مذہب ‘ مغرب میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہا ہے اور مشرقی اقوام بھی، چاہے وہ ہندو ہوں یا بدھ پرست ہوں، مذہبی قیود سے نکلے بغیر ترقی نہیں کرسکتیں۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی اسلام کو نظرانداز کرتے ہوئے جدیدیت کو اختیار کرنا ہوگا۔ یہ ایک بنیادی فکری غلطی ہے جس کی تردید قرآن کریم کے ہرصفحے پر بار بار تفکر، تعقل، تدبر، تزکیہ اور تفقہ کی متحرک اصطلاحات کے ذریعے کی گئی ہے۔
چنانچہ قرآنی تہذیب و ثقافت میں ماضی کی مفید روایات کی جگہ تبدیلیِ زمانہ کے لحاظ سے اجتہاد کی بنیاد پر مسائل کا حل تلاش کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ چونکہ قرآن کریم کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق روایتی نوعیت کا بن گیا ہے اس لیے قرآن کریم سے براہِ راست رہنمائی حاصل کیے بغیر سنی سنائی باتوں اور ٹی وی چینلوں کے دریافت کردہ تجدد پسند ’عالم‘، ’علامہ‘ اور ’دانش ور‘ ایک ایسے اسلام کی تدوین کرنے میں لگ جاتے ہیں جو مغربی ذہن اور مغرب زدہ افراد کے لیے بے ضرر ہو۔
قرآن کریم جس ثقافت و تہذیب کی بنیادیں فکر، ذکر، تزکیے اور تدبر پررکھتا ہے وہ اپنی جگہ خود ایک مستقل ثقافت اور تہذیب ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ قرآنی ثقافت جہاں کہیں بھی زمین میں اپنی جڑیں پیوستہ کرے گی، وہاں اس زمین میں نمو تو حاصل کرے گی لیکن اس کے بنیادی خدوخال اور شجرطیبہ کی طرح جہاںبھی وہ قائم ہوگی اس کے ثمرات (products)ایک ہی ہوں گے۔ یہ ثمرات روحانی بھی ہیں اور مادی بھی، معاشی بھی ہیں اور ثقافتی بھی۔ قرآن کریم کے زیرسایہ پرورش پانے والی تہذیب و ثقافت بنیادی طور پر توحیدی ثقافت ہے جو زمان و مکاں کی قیود سے ماورا لیکن زمان و مکاں کی ضروریات ومطالبات سے مکمل طور پر آگاہ ثقافت ہے۔ وہ نیل کے ساحل سے جبل الطارق تک اور مراکش سے انڈونیشیا تک تنوع کے باوجود عنصری طور پر ایک وحدانی ثقافت ہے۔
لیکن اگر انسان انجان بن کر یا جان بوجھ کر اپنے قلب پر قفل چڑھا لے تو پھر پہاڑوں کو لرزا دینے والا یہ کلامِ برحق کہ جسے سُن کر بعض پتھر لڑھک کر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور بعض کا سینہ شق ہوکر ان سے پانی اُبل پڑتا ہے، ایسا کلام بھی ایسے انسانوں کو ہدایت یاب نہیں کرسکتا۔ انھی کو مخاطب کرکے قرآن کہتا ہے: اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَاo (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا ان لوگوں نے قرآن پر تدبر نہیں کیا یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں‘‘۔ دلوں کے غلاف ہوں یا کانوں اور آنکھوں پر پڑے ہوئے پردے، جس لمحے بھی انسان تلاشِ حق اور راہِ ہدایت کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے، خالقِ کائنات اس کی طرف دس قدم بڑھتا ہے اور وہی دل جو کل تک شقاوتِ قلبی کی مثال تھے خشیت و رقّت سے پُر ہوکر نورِ ہدایت سے معمور ہوجاتے ہیں اور ان کی ہر دھڑکن قرآنی ثقافت و تہذیب کے قیام کے لیے تازہ اور پاک خون فراہم کرنا شروع کردیتی ہے۔ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ (النساء ۴:۴۹) ’’مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے‘‘۔
قرآنی ثقافت و تہذیب کی فکری بنیادیں آفاقی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ صلاحیت بھی رکھتی ہیں کہ وہ ہر دور میں انقلاباتِ زمانہ کے مطالبات کا عملاً جواب فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک تعلیمی عمل کے ذریعے انسانوں کو اس ثقافت کے فروغ کے لیے صحیح شعور، قوتِ عمل، قوتِ محرکہ (incentive) اور اعتماد فراہم کرسکیں۔ اس تدریجی عمل میں تعلیم و تعلّم، عقل و تعقل اور گہری طبیعی فکر (تفقّہ) وہ عناصر ہیں جن کے ایک مناسب امتزاج سے یہ ثقافت و تہذیب اپنا صحیح مقام حاصل کرتی ہے۔ (جاری)
طالبان کی قید سے رہائی کے بعد قرآن کا مطالعہ کرکے اسلام قبول کرنے والی برطانوی صحافی اے وان رڈلی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے اجتماع عام (۲۴-۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ئ) کے موقع پر لاہور تشریف لائی تھیں۔ انھوں نے ترجمان القرآن کے لیے خصوصی انٹرویو دیا جو پیش کیا جارہا ہے۔ اس میں کئی موضوعات ہیں اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایمان کس طرح نقطۂ نظر تبدیل کردیتا ہے۔ مغرب کی صاحب ِ ایمان عورت ہمارے ’سیکولر‘ مسلمانوں کو شرم دلا رہی ہے۔ نوراسلم خان نے یہ انٹرویو لیا اور اس کا ترجمہ کیا۔ (ادارہ)
جواب: میں اس وقت ’دہشت گردی‘ کے خلاف جاری جنگ کے موضوع پر دو دستاویزی فلمیں بنارہی ہوں۔ ایک فلم بدنام زمانہ امریکی قید خانے’ گوانتا نا مو‘ پر مبنی ہے جس کا نام ہے ـInside Wires ۔اس کے لیے میں امریکی حکومت کی ممنون ہوں کہ جس نے نہ صرف مجھے چار دنوں کے لیے گوانتا ناموبے کے اس قید خانے میں جانے کی اجازت دی بلکہ سب سے اہم بات یہ تھی کہ باہر بھی آنے دیا! دوسری دستاویزی فلم میں فلم ساز حسن غنی ( پاکستانی نژاد برطانوی صحافی جو برطانیہ میں ایک اسلامی ٹی وی چینل کے ساتھ کام کررہے ہیں) کے ساتھ بنا رہی ہوں جس کا موضوع ہے: ـ ’ قیدی نمبر۶۵۰‘جس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ ایک پاکستانی عورت ہے جس کو دو سال تک بغیر کسی الزام اور مقدمے کے، بگرام میں رکھا گیا۔ اگر گواہان کی گواہی پر یقین کیا جائے تو ان کو قید کرنے والے امریکیوں نے قواعد و ضوابط کے برعکس نہ صرف ان کی بار بار عصمت دری اور توہین کی ، بلکہ ان کے ساتھ مسلسل غیر انسانی سلوک بھی روا رکھا۔ اس قیدی عورت کو بالکل اس طرح کے ماحول میں رکھا گیا گیا جس میں مرد قیدیوں کو رکھا جاتا ہے ، ا ن کو ایسے کھلے بیت الخلا استعمال کرنے پر مجبور کیا گیا جس کو مرد بھی استعمال کرتے رہے ، ایک ایسا بیت الخلا جس میں نہ تو کوئی دروازہ ہو تا تھااور نہ پردہ کر کے اپنے آپ کو ڈھانکا جاسکے۔ غسل کرنے کے لیے بھی ایک ایسی جگہ دی گئی ، جس کے گرد نہ تو کوئی پردہ تھا، اور نہ کوئی پرائیویسی۔ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان عورت تو کیا، کسی بھی عورت کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا انسانیت کی توہین ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس مظلوم عورت کو تلاش کرسکیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جا ننے کی کوشش کررہے ہیں اور امریکیوں سے بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ دیگر ’ جنگجو دشمن خواتین‘(جیسا کہ یہ انھیں کہتے ہیں) کو کہاں رکھا گیا ہے ؟ کن کن ممالک سے ان کا تعلق ہے؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا سلوک صرف پاکستانی خواتین تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ ، افریقہ اور ایشیا کے دوسرے ممالک کی خواتین بھی اس طرح کی صورت حال سے گزر رہی ہیں۔
آج اگر کسی طرف سے ظلم اور زیادتی ہورہی ہے تو وہ کسی اور کی جانب سے نہیں بلکہ مغرب کی طرف سے ہورہی ہے۔ میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں کہ مسلمان مغربی ممالک پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں جانتی کہ مسلمان آج کسی مغربی ملک پر قابض ہوچکے ہوں بلکہ اس کے برعکس میں جو کچھ دیکھ رہی ہوں وہ یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی افواج آج عراق پر قابض ہیں، افغانستان پر قابض ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغرب نہ صرف یہ کہ فلسطین پر ہونے والے قبضے کو جائز مان رہا ہے بلکہ قابض کی ہر طرح سے معاونت بھی کر رہا ہے۔ ان حالات میں، میں یہ کیسے مان سکتی ہو ں کہ ہمارے دشمن یہ کہنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں کہ اسلام سے مغرب یا ان کی تہذیب اورطرز زندگی کو کوئی خطرہ ہے۔ چیچنیا ، فلسطین ، کشمیر ،افغانستان اور اب عراق جیسے علاقوں میںتو کئی سالوں سے جہاد جاری ہے اور پوری دنیا سے مسلمان نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جوق در جوق اس جہاد میں حصہ لینے کے لیے آرہی ہے۔ میرے علم میں تو یہ بات کبھی نہیں آئی کہ یہ نوجوان نیویارک ، برطانیہ یا یورپ پر حملہ کرنے کے لیے کبھی جمع ہوئے ہوں ، اس لیے میں سمجھتی ہو ں کہ مغرب یا اس کے طرز زندگی کو ان جہادیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
میں نے اگست میں کچھ وقت غزہ میں گزارا۔ میں آپ کو یہ بتا نا چاہوں گی کہ اگر حماس کل انتخابات میں حصہ لیں تو وہ جیت جائیں گے۔ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ آج غزہ میں ایک عام آدمی کو جس تکلیف اور کرب کا سا منا ہے ، وہاں کی قیادت بھی اسی درجے کی تکلیف اور اذیت سے دوچار ہے۔ جن لوگوں نے حماس کو ووٹ دیا تھا ، وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ حماس کی قیادت اور ان کا طرزِ زندگی ایک عام آدمی کے طرزِ زندگی سے قطعاً مختلف نہیں۔
یہ بات بھی میرے علم میں آئی کہ آخری شرق اوسط سربراہ کانفرنس میں، جس میں حماس کے وزرا بھی شریک ہونے کے لیے گئے تھے ، دیگر عرب مما لک کے وزرا تو ایسے ہوٹلوں میں ٹھیرے جہاں ایک کمرے کا ایک رات کا کرایہ ایک ہزار امریکی ڈالر تھا، جب کہ حماس کے لوگ ایسے ہوٹل میں ٹھیرے جس کے کمرے کا کرایہ صرف ۷۰ امریکی ڈالر تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ ہیں اور ان مشکلات کو کم کر نے کے لیے حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان شاء اللہ آیندہ انتخابات میں حماس بھر پور طریقے سے فتح یاب ہوگی۔
میرے لیے جو لوگ زیادہ پریشانی کا باعث بنتے ہیں ، وہ ایسے سیکولر ( مسلمان) لوگ ہیں جو خود اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لیکن چند آیات پڑھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب وہ اسلام کے حوالے سے کافی ماہر ہوگئے ہیں۔ میں تو ان خودساختہ مسلمان عورتوں سے بہت عاجز ہو ں جو مجھے یہ مشورے دیتی رہتی ہیں کہ مجھے حجاب نہیں پہننا چاہیے۔ جہاں تک حجاب کی بات ہے تو یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں جا ننے کے لیے ، میں نے ۶ مہینے تک گہری تحقیق کی، ایک ایک حدیث اور اس کے ذرائع دیکھے ، پردے کے حوالے سے قرآن میں حوالے دیکھے ، مسلم معاشرے میں تاریخی نقطۂ نگاہ سے پردے کی مثالیں تلاش کیں، مسلمان علما سے بحث کی ، اہلِ علم سے بات کی، علم کے متلاشی طلبہ و طالبات سے تبادلۂ خیال کیا تو یہ معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت کے لیے پردہ لازمی ہے۔ اب نقاب کو پہننا ہے یا نہیں ، یہ فیصلہ تو ہر عورت کو خود کر نا ہو گا۔میں تو ان خواتین کی ذمہ داری لینے سے قا صر ہو ں جو اس کو نہ پہننا چاہیں کیونکہ میں نے تو روز آخرت ا للہ کو صرف ا پنے بارے میں جواب دینا ہے، کسی اور کے بارے میں نہیں۔ اب اگر کوئی خود نہ پہننا چاہے ، تو نہ پہنے مگر کم ازکم میرے سر سے تو حجاب اتار نے کی کوشش نہ کرے۔
جہاں تک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے مظالم کا تعلق ہے ، تو چند دن قبل کسی نے مجھ سے پوچھا کہ پاکستان کے یہ طالبان کہاں سے آئے ہیں ؟ میں نے ان کو جواب دیا کہ یہ تو سب امریکا کا کیا دھرا ہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو۲۰۰۴ء میں امریکا نے وزیرستان میں بم باری کی تھی جس کے نتیجے میں ۱۴ بے گناہ بچے اور خواتین لقمۂ اجل بن گئی تھیں۔اگلے دن ان سب کا اجتماعی جنازہ تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں وزیرستان کے قبائل شریک تھے۔ امریکا نے اس جنازے پر بھی بم باری کی۔ بس یہی وہ دن تھا جب خون بہانے اور بے گناہوں پر تشدد کرنے کی اس پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کے طالبان نے جنم لیا۔ اب باقاعدہ ایک سازش کے تحت امریکا ان علاقوں میں امن کے نام پر پاکستان کی فوج کو بہت ہی گھٹیا طریقے سے استعمال کر رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس طرح طاقت کے استعمال سے آپ ان علاقوں میں امن نہیں لاسکتے کیونکہ قبائلی علاقوں میں اگر کسی پر بندوق تان لی جاتی ہے تووہ بندوق کی نالی دیکھ کر یہ کبھی نہیں سوچتا کہ اب ہتھیار ڈال دینا چاہیے ، کیونکہ جہاں تک بندوق کی زبان میں بات کرنے کی بات ہے ، یہ ان لوگوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ، ان کو بندوق سے کبھی نہیں ڈرایا جا سکتا۔ قبائلی علاقوں میں رہنے والے ان لوگوں سے اپنی بات منوانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں ، ان کو یہ احساس دلائیں کہ آپ ان کا احترام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو پیسے کے ذریعے نہیں خریدا جاسکتا۔ ان لوگوں کے لیے آج اپنی عزت ہی پیسہ بن گیا ہے۔ میں یہ سوچ رہی ہوں کہ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف اس جنگ کے نتیجے میں آج ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کو مارنے پر تُلا ہوا ہے۔ یہ غلط ہے ، ایسا نہیں ہو نا چاہیے۔
عبداللہ العلی المُطَوَّعْ(م: ستمبر ۲۰۰۶ئ) کو ہم سے رخصت ہوئے ۲ برس ہوچکے ہیں لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ انھیں گزرے ہوئے خواہ کتنے ہی برس ہوجائیں، ان کا ذکر ہمیشہ تازگی کا احساس اُجاگر کرتا ہے۔ اس کیفیت میں کچھ دخل ذکر کرنے والے کا بھی ہوتا ہے۔ اس مضمون کا مطالعہ کیجیے، اپنی تربیت کا سامان کیجیے اور کرنے کے لیے کچھ سیکھیے۔ (ادارہ)
کویت میں اسلامی تحریک کے بانی عبداللہ العلی المُطَوَّعْ کو پوری دنیا میںان کی کنیت ابوبدر سے پہچانا جاتا تھا۔ اپنی وفات سے چند ہفتے پہلے انھوں نے ایک خواب میں دیکھا کہ ان کے بڑے بھائی مرحوم عبدالعزیز المطوع اور کویت کے ایک اور بزرگ مرحوم یوسف بن عیسیٰ القناعی سمندر کے کنارے نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں دُور سے ان کی طرف جا رہا ہوں وہ سلام پھیرتے ہیں اور مجھے پکار کر کہتے ہیں:دُور کیوں ہو، یہ دیکھو یہ تمھارا محل ہے۔ آئو اور اسے لے لو۔ انھی دنوں انھوں نے ایک اور خواب دیکھاکہ ان کے کچھ مرحوم بزرگ جمع ہیں اور پوچھتے ہیں کہ عبداللہ المطوع نہیں پہنچا؟ جواب میں کوئی کہتا ہے: وہ دیکھو فرشتوں کی ایک بڑی جماعت کے جلو میں آرہا ہے۔
۱۹۲۶ء میں کویت میں پیداہونے والے عبداللہ المطوع کو جاننے والے لاکھوں لوگ اس امر پر متفق ہیں کہ پوری دنیا میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ وہ ارب پتی درویش تھے۔ وہ جہاں بھی ہوتے کسی نہ کسی کارِخیر کی درخواستیں اٹھائے ہوئے ہجوم میں گھرے ہوتے اور کوئی شخص بھی ان کے ہاں سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ ان کی وفات کے بعد اکثر کویتی اخبارات نے انھیں ’ہر کارخیر کے امیر‘ کے لقب سے یاد کیا۔ کویت کے سیاہ و سفید کے مالک حکمران نے اپنے لیے بادشاہ یا صدر کے بجاے امیر کالقب اختیار کیا ہوا ہے۔ اس تناظر میں کویتی اخبار کی یہ سرخی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ان سے انٹرویو کرتے ہوئے ایک بار ایک صحافی نے حیران ہوکر پوچھا: آپ سیاست دان ہیں یا دینی رہنما، تاجر ہیں یا سماجی کارکن…؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: میں ایک مسلمان انسان ہوں اور مسلمان کی ذات میں یہ سب امور یکجا ہوتے ہیں۔
عبداللہ العلی المطوع کا گھرانہ اُمت کے لیے باعث ِخیر تھا۔ ان کے والد خداسے ڈرنے والے تاجر تھے۔ ان کے بڑے بھائی عبدالعزیز اپنے والد صاحب کے ساتھ تجارت میں شریک ہوگئے۔ تجارت کی غرض سے وہ اکثر برعظیم پاک و ہند کا سفر بھی کرتے رہتے تھے۔ یہ وہی شخصیت ہے جو سیدابوالاعلیٰ مودودی اور سید حسن البنا شہید کے درمیان اوّلیں رابطے کا ذریعہ بنی۔ وہ یہاں آتے تو ترجمان القرآن اور دیگر ذرائع سے مولانا مرحوم کی تحریروں کا ترجمہ کرواتے اور سامانِ تجارت کے علاوہ یہ تراجم بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ چونکہ وہ ’اخوان المسلمون‘ کے مرکزی مکتب ِارشاد کے رکن بھی تھے، اس لیے مولانا کی یہ تحریریں ’اخوان‘ کی مرکزی قیادت سے لے کر کارکنان تک پہنچ جاتیں اور ’اخوان و جماعت‘ کے دونوں بانیوں کے درمیان کوئی بالمشافہ ملاقات نہ ہونے کے باوجود اخوت و مؤدّت کے گہرے تعلقات استوار ہوگئے۔
عبداللہ المطوع نے بھی اپنے برادر بزرگ سے اخوان المسلمون اور اسلامی تحریک سے محبت کی نعمت حاصل کی۔ وہ گاہے بگاہے اخوان کے ذمہ داران اور دیگر علماے کرام کواپنے ہاں مدعو کرتے رہتے اور ان کے ذریعے دین کا پیغام عام کرتے۔ ۱۹۴۶ء (۱۳۶۵ھ) میں دونوں بھائی حج کی سعادت حاصل کرنے گئے تو وہاں اُنھیں امام حسن البنا کی رفاقت حاصل رہی۔ مکہ و مدینہ میں ان سے کسب ِ فیض کیا۔ مدینہ منورہ میں ان کا تفصیلی خطاب سنا۔ امام البنا نے دونوں بھائیوں کو دو کتابیں بطور ہدیہ دیں۔ایک تو معروف فرانسیسی مؤلف گستائولیبان کی کتاب حضارۃ العرب (تمدّنِ عرب ) تھی جس میں اسلام اور اہلِ اسلام کا ذکرِ خیر تھا، اور دوسری الرحلۃ الحجازیۃ (حجاز کا سفر) تھی۔ اس پر امام نے اپنے ہاتھ سے لکھا: ’’اپنے پیارے بھائی جناب عبداللہ العلی کے لیے۔ اللہ کی خاطر محبت اور عظیم دعوتِ اسلامی کی خاطر، حرمین شریفین میں ملاقاتوں کی یاد‘‘۔
ان دنوں یہ افواہ پھیلائی جاتی تھی کہ شراب کی ممانعت سے کویت ایئرلائن کو خسارہ ہوگا کیونکہ شراب کے رسیا شراب نہ ملنے پر اس میں سفر نہیں کریں گے۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جب شراب پر پابندی لگی تو کویت ایئر کے منافعے میںاضافہ ہوگیا۔ یہی عالم خنزیر کے گوشت کا تھا جویہاں عام تھا۔ کویتی بھی کھلم کھلا اور بے سوچے سمجھے خنزیر کا گوشت کھا رہے تھے۔ ہم نے کچھ ارکان پارلیمنٹ سے اتفاق راے کے بعد وہاں سوال اٹھایا کہ کویت میں خنزیر کے گوشت کی درآمد پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟ بحث ہوئی اور بالآخر ممانعت کا قانون منظور ہوگیا۔ اسی طرح یونی ورسٹی میں مخلوط تعلیم پر پابندی اور کئی دیگر اخلاقی برائیوںکا ہمیشہ کے لیے سدباب کیاگیا۔
ایک بار ایک صاحب نے اعلان کیا کہ وہ کویت میں ایک رقص گاہ قائم کریں گے۔ ہم نے اسے روکنے کے لیے مختلف دینی شخصیات کو ساتھ ملا کر امیرکویت عبداللہ السالم کوخط لکھا۔ اس نے نہ صرف ہماری درخواست مسترد کردی بلکہ کہا کہ ہم تو اس طرح کے ہال مدارس کی سطح تک قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت کویت میں سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع تھا۔ بلدیہ کے شعبہ شاہرات میں غزہ کا ایک انجینیر کام کرتا تھا۔ ہم نے اس سے جاکر بات کی اوراس فسادگاہ کی سنگینی واضح کی۔ انھوں نے نئی سڑکوں کا نقشہ اس طرح بنا دیا کہ ایک سڑک عین اس جگہ سے گزرتی تھی جہاں رقص گاہ تعمیر ہورہی تھی۔ وہ ڈھا دی گئی اور پھریہ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
ابوبدر اور ان کے ساتھیوں کی خدمات صرف ان اخلاقی امور تک ہی محدود نہیں تھیں بلکہ کویت میں اسلامی بنک کاری کا سہرابھی انھی کے سر ہے۔ شروع میں انھیں اس کی اجازت نہیں ملی تو انھوں نے دبئی کے اسلامی بنک کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا اور پھر بالآخر کویت بھی اس صدقۂ جاریہ کا مضبوط مرکز بن گیا۔
جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمون کے خلاف ظلم کی تاریخ رقم کی تو ابوبدر گرفتار شدگان کے اہلِ خانہ کی کفالت کرنے لگے۔ اس ’جرم‘ کا سراغ ملنے پر مصری عدالت نے ابوبدر کوپانچ سال قید اور ۱۵ ہزار مصری پائونڈ جرمانے کی سزا سنا دی۔ سب کواس سزاپر حیرت ہوئی۔ خدشہ تھا کہ مصری حکومت کویتی حکمرانوں سے اپنا ملزم طلب نہ کرلے لیکن جب مصری ریڈیو پر اس فیصلے کی خبر نشر ہوئی تو کویتی امیر صباح السالم نے کہا: ’’ہم کبھی انھیں اس تک نہیں پہنچنے دیں گے‘‘۔ ابوبدر کہا کرتے تھے: ’’میں شیخ صباح السالم کا یہ موقف کسی صورت فراموش نہیں کرسکتا‘‘۔
کچھ سمجھ نہیں آئی، دفتر گئے اور اپنے سارے تجارتی سودوں کا جائزہ لینے لگے۔ یاد آیا کہ کویت فنانس ہائوس سے جو یہاں کا اسلامی بنک ہے، سرمایہ کاری کا ایک معاہدہ کیا تھا۔ فون کر کے تفصیل پوچھی تو معلوم ہوا کہ انھوں نے اس معاہدے سے پتھر کے کوئلے کا ایک بڑا سودا کیا ہے اور اس سے بڑا منافع یقینی ہے۔ ابوبدر نے کہا نہیں، میں یہ سودا منسوخ کرنا چاہتا ہوں۔ جواب ملا کہ یہ سود نہیں مرابحت کی بنیاد پر ہے، دونوں کو نفع ہوگا۔ ابوبدر نے کہا میں اس راہ پر مزید ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا اور سودا منسوخ ہوگیا۔ عبدالالٰہ نے کہا میرے والد فرمایا کرتے تھے: منافع کوئی تاجرانہ چالاکی نہیں یہ سراسر اللہ کی برکت ہے۔ اللہ کو ناراض کر کے کبھی اس کی برکات حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ ایک اور موقع پر والدصاحب نے ایک سعودی تاجر سے ایک بڑا سودا کیا۔ ایک پورا بحری جہاز خام مال کا آرہا تھا۔ راستے میں جہاز حادثے کا شکار ہوگیا۔ والد صاحب بہت پریشان ہوئے کہ اس میں ان کے بھائیوں کی ایک بڑی رقم لگی ہوئی تھی۔ سعودی تاجر نے والد صاحب کو تسلی دیتے ہوئے ان سے دریافت کیا: آپ نے اس مال کی زکوٰۃ نکالی تھی؟ والد صاحب نے کہا ہاں، الحمدللہ! انھوں نے کہا کہ پھر نہ ڈرو، اللہ تعالیٰ تمھارے مال کی حفاظت فرمائے گا۔ سفینے تک رسائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ اسی جہاز میں کچھ آٹا بھی لاد دیا گیا تھا۔ حادثہ ہوا تو سمندری پانی سے مل کر اس آٹے کی ایک موٹی تہ اُوپر جم گئی اور نیچے سارا خام مال محفوظ رہا۔ ابوبدر نے اس واقعے کے بعد کبھی اپنے سامان کی انشورنس نہیں کروائی کہ زکوٰۃ ہی اصل انشورنس ہے، اللہ حفاظت کرتا ہے۔ ابوبدر ہمیشہ سود کے بارے میں قرآنی آیات دہراتے رہتے، خاص طور پر یہ کہ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرہ ۲:۲۷۶)’’اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘۔
کویت پر عراق کا قبضہ ہوا تو ہر کویتی شہری کا مستقبل اندیشوں اور خطروں کی نذر ہوگیا۔ کویتی حکومت اور شہریوں کی بڑی تعداد سعودی عرب میں پناہ گزیں ہوئی۔ وہاں کویت کی بازیابی اور کویتی عوام کی مدد کے لیے مختلف کوششوں کاآغاز ہوا۔ دیگر کئی امور کے علاوہ ایک اعلیٰ سطحی مالیاتی کمیٹی بنی۔ ابوبدر کی عدم موجودگی میں کویتی ولی عہد سعدالعبد اللہ نے انھیں کمیٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ابوبدر کو اطلاع دی گئی تو انھوں نے کچھ سوچنے کے بعد کمیٹی کی سربراہی قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ اس کمیٹی کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے مجھے بہت بڑے بڑے معاملات دیکھنا پڑتے۔ بڑی بڑی امدادی رقوم حکومتوں کی طرف سے بھی آتیں اور بڑے تاجروں کی طرف سے بھی۔ ان میں سے یقینا کئی رقوم ایسی ہوسکتی تھیں کہ جن میں سود یا کسی سودی کاروبار کی رقم بھی شامل ہو۔ اور میں کبھی سود سے متعلقہ کسی کام میں شامل نہیں ہوا۔ ہاں، البتہ ایک کارکن کی حیثیت سے میں اپنے کویتی بھائیوں کی جومدد بھی کرسکا ضرور کروں گا۔
شیخ یوسف قرضاوی صاحب بھی ایسا ہی ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ہم دونوں سفر میں اکٹھے تھے۔ صبح کمرے میں ناشتہ آیا توساتھ چھوٹی سی ڈبیا میں شہد بھی تھا جو بچ گیا۔ ابوبدر نے وہ اٹھا کر کمرے میں رکھ لیا اور کہا کہ ہم نے اس کے پیسے دیے ہوئے ہیں۔ ہم نے کویت میں ایک کانفرنس رکھی ہوئی تھی جہاں میں نے تجویز دی کہ امریکا میں کچھ افراد نے دنیا میں مسیحیت کے پرچار کے لیے ایک فنڈ قائم کیا ہے جس میں ایک ارب ڈالر جمع کیے گئے ہیں۔ انھوں نے اس فنڈ سے ’زویمر‘ نامی انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے جہاں عیسائی مشنریوں کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے تو کیوں نہ ہم بھی ایک فنڈ قائم کریں جو ان عیسائی کاوشوں کے مقابلے کے لیے مختص ہو۔ ہم نے الہیئہ الخیریۃ الاسلامیۃ العالمیۃ کے قیام کا فیصلہ کیا۔ ابوبدر سب سے پہلے شخص تھے جو میرے پاس آکر کان میں کہنے لگے: میری طرف سے اس میں ایک ملین (۱۰ لاکھ) ڈالر شامل کرلیں لیکن میرے نام کا اعلان نہ کریں۔ وہی ابوبدر جو تجارت و معاملات میں ایک ریال زیادہ دینے یا چند تولے شہد چھوڑنے کا روادار نہیں تھا اللہ کی راہ میں بے حساب دیتا تھا۔ اللہ بھی انھیں بے حساب لوٹاتا تھا۔ کویت سے عراقی قبضہ ختم ہوا تو سب تاجر رو رہے تھے، لیکن ابوبدر جن کا مال اسباب دورانِ جنگ لوٹ لیا گیا تھا نو ماہ کے اندر اندر پہلے سے بھی زیادہ منافع کماچکا تھا۔
کویت پر عراقی جارحیت کے مشکل ایام میں بھی ابوبدر پوری طرح متحرک و فعال رہے۔ جیسے ہی کویت کی ’آزادی‘ کا اعلان ہوا، انھوں نے امیرکویت کے نام ایک اہم خط لکھا۔ ۲۷فروری ۱۹۹۱ء کو لکھے گئے اس خط میں انھوں نے مبارک باد دیتے ہوئے امیرکویت کو یاد دلایا کہ ’’اللہ کی نعمتوں کا شکر بندوں پر فرض ہے۔ اس شکر کی عملی صورت یہ ہے کہ ہر معاملے میں اسی پروردگار سے رجوع کیا جائے اور کویت کی حکومت اور عوام اپنی وہ تمام ذمہ داریاں پوری کریں جو اللہ نے ان پر عائد کی ہیں تاکہ اللہ کی ان تمام ظاہری اور مستور نعمتوں کو دوام ملے جواس نے ہم پر کی ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ اہلِ ایمان وہ لوگ ہیں کہ جب ہم انھیں زمین پر متمکن کرتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ ہم اللہ سے امیدکرتے ہیں کہ وہ کویت کا قومی دن اس حال میں دوبارہ لائے کہ کویت اور اس کی نسلوں کی تعمیر ِنو قرآن مجید اور سنت نبویؐ کی روشنی میں مکمل ہوچکی ہو‘‘۔ امیرکویت نے ۴مارچ کو جوابی خط میں ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر کویت میں ایک قانونی کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس کے سربراہ اخوان ہی کے ایک بزرگ ڈاکٹر خالدالمذکور کو بنایا گیا، کمیٹی کا نام ہے: لجنۃ استکمال تطبیق الشریعۃ’’ کمیٹی براے تکمیل نفاذِ شریعت‘‘۔ کمیٹی اب تک بہت سی سفارشات تیار کرچکی ہے لیکن تشنۂ تنفیذ۔
ابوبدر سے گاہے بگاہے رابطہ رہتا تھا۔ کویت کے انتخابات کے بعد مبارک باد کافون کیا تو بے حد خوش تھے۔ کہنے لگے مصر میں اخوان، فلسطین میںحماس، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی، پاکستان میں متحدہ مجلس عمل، انڈونیشیا میں جسٹس پارٹی، مراکش میں انصاف و ترقی پارٹی اور اب کویت میں دستوری تحریک… ہر طرف سے اچھی خبریں، اسلامی بیداری کی تکمیل کی دلیل ہیں۔
۸۰سالہ عبداللہ المطوع آخری لمحے تک اپنے مورچے پر ڈٹے رہے۔ ۴ستمبر کی صبح کا آغاز بھی انھوں نے قریبی مسجد میں نمازِفجر اور پھر نمازِ چاشت تک قرآن کی تلاوت و نوافل سے کیا۔ وہ اس سے ایک روز قبل ہی بیرون ملک سے آنکھ کا آپریشن کروا کے لوٹے تھے اور بہت خوش تھے کہ آج میں دوبارہ تلاوت کرنے کے قابل ہوگیا۔ عبداللہ المطوع کی پوری زندگی مسجد، نماز، قرآن اور انفاق کے گرد گھومتی تھی۔ وہ جہاں بھی ہوتے ان کے متلاشی افراد کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ کس مسجد میں کس نماز کے بعد ملیں گے۔ آج بھی نمازِفجر کی ادایگی اور تلاوتِ قرآن کے بعد دسیوں لوگ اپنی اپنی درخواستیں لے کر آئے ہوئے تھے۔ ابوبدر نے سب درخواستوں کو دیکھا، ان پر مناسب ہدایات لکھیں۔ گھر جاکر ناشتہ کر کے کچھ دیر آرام کیا اور پھر دفتر چلے گئے۔نمازِ ظہر تک مصروف رہے۔ ان کے ایک عزیز دفتر آئے، ان سے مل کر نمازِ ظہر کے لیے وضو کرنے چلے ہی تھے کہ قدم بے جان ہوگئے۔ ابوبدر مسجد یا ہسپتال جانے سے پہلے ہی رفیقِ اعلیٰ کی طرف چلے گئے۔ ان کی وفات کے دن وہ ہزاروں یتیم ایک بار پھر سے یتیم ہوگئے جن کی کفالت ابوبدر کرتے تھے۔ یوں لگا اب وہ دفتر ویران ہوجائے گا جہاں ہر وقت چاردانگ عالم سے آنے والے حضرات اپنی اپنی درخواستیں لیے جمع ہوتے تھے اور سال کے ۱۲مہینے یوںلگتا تھا کہ یہاں انفاق کی سرگرمیوں کے علاوہ کوئی اور کام ہوتا ہی نہیں۔ کویت میں رفاہی سرگرمیوں کا دائرہ ساری خلیجی ریاستوں سے زیادہ منظم و وسیع تھا لیکن کویت کے اکثر اہلِ خیر کسی بھی درخواست پر کچھ دینے سے پہلے دیکھتے تھے کہ اس پر ابوبدر نے کچھ دیا ہے یا نہیں۔ انھیں معلوم تھا کہ ابوبدر نے ہر درخواست گزار کی ضرورت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ایک نظام وضع کیا ہوا ہے۔
ایک بار ابوبدر اپنے دفتر میں موجودتھے۔ باہر لوگوں کی بھیڑ تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد سیکرٹری نے بتایا کہ سب فارغ ہوگئے۔ ابوبدر نے باہر آکر پوچھا یہاں جو اتنا رش تھا وہ کیا ہوا؟ سیکرٹری نے بتایا کہ وہ آپ کے فلاں عزیز آئے تھے۔ انھوں نے سب کو فارغ کردیا کہ پسینوں میں شرابور اِن رنگ برنگے لوگوں کی بو.ُ ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ ابوبدر شدید ناراض ہوئے اور کہنے لگے: احمد تمھیں معلوم نہیں پسینے کی اسی بدبو نے ہی ہمیں جنت میں لے جانا ہے۔ میں یہاں رہوں یا نہ رہوں، یہ دفتر ان مستحق افراد کی درخواستیں یونہی لیتارہے گا۔
ابوبدر اپنے ان صدقاتِ جاریہ کے بارے میں بتاتے تھے کہ والد صاحب ۱۹۴۶ء میں اللہ کو پیارے ہوئے تو انھوں نے ۳۰ لاکھ ہندستانی روپے ترکے میں چھوڑے اور وصیت کی کہ ان میں ایک تہائی صدقات و خیرات کے لیے وقف ہیں اور دو تہائی ورثا کے لیے۔ ہم نے اس رقم کو اسی طرح الگ الگ رکھتے ہوئے تجارت میں لگادیا۔ سود، رشوت اور جھوٹ سے مکمل اجتناب کیا۔ زکوٰۃ کی ایک ایک پائی ہمیشہ ادا کی۔ آج اللہ کا دیا رزق پوری دنیا میں پھل پھول رہا ہے۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ گذشتہ سال عبداللہ المطوع کے بڑے صاحبزادے بدر، اللہ کو پیارے ہوگئے اور ایک سال سے کم عرصے میں ابوبدر خود بھی فردوسِ اعلیٰ کے مکیں ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد محترم قاضی حسین احمد صاحب اور راقم تعزیت کے لیے کویت گئے۔ ان کے رفقاے کار اور صاحبزادوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کویت میں پاکستانی احباب نے ان کے لیے تعزیتی اجلاس رکھا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے کہہ رہے تھے: ہمارے والدِمرحوم ہم سے زیادہ کارِخیر سے محبت کرتے تھے۔ وہ ہمیں بھی ہمیشہ یہی وصیت کیا کرتے تھے کہ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جینا اور نماز، سچائی اور کارہاے خیر کی حفاظت کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔
صحیحین میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ صحابہؓ ایک جنازہ کے پاس سے گزرے اور انھوں نے میت کی تعریف کی۔ آپؐ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ بعدازاں ایک اور جنازے کے پاس سے گزرے تو میت کے شر کا ذکرکیا۔ آپؐ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ، کیاواجب ہوگئی؟ آپؐ نے فرمایا: جس کی تم لوگوں نے تعریف کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے مذمت کی اس کے لیے آگ واجب ہوگئی۔ آپ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔
ابوبدر کے لیے پوری دنیا میں لوگوں کی زبان پر ذکرِخیر تھا۔ کویت کی تاریخ میں نماز جنازہ کے لیے اتنے لوگ پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے لاکھوں بلکہ کروڑوں بندوں کی یہ گواہی ضرور قبول فرمائیں گے۔ آیئے ہم سب بھی جائزہ لیں کہ اپنے لیے دنیا میں کیسے کیسے گواہ بنا رہے ہیں اور اللہ کے گواہ تو ہرلمحے ہرانسان کے ساتھ ڈیوٹی دے رہے ہیں۔
بنگلہ دیش ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جو ۱۶؍دسمبر۱۹۷۱ء تک پاکستان کے مشرقی بازو کے طور پر ہمارا ایک صوبہ تھا۔ اس کے بعد اس نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرلی اور اب ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً ۱۵کروڑ افراد پرمشتمل ہے۔ یہاں گذشتہ ۳۷ برسوں کے دوران کئی مرتبہ فوج نے براہِ راست انقلاب برپا کیا اور مارشل لا لگا کر حکومت پر قبضہ کیا۔ بعد میں فوجی جرنیلوں نے خود کو سیاسی شخصیت بنانے کے لیے اپنی سیاسی پارٹیاں بنائیں اور ان کے ذریعے سے کئی سال حکومت کرتے رہے۔
شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد اور جنرل ضیا الرحمن کی بیوہ خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی عوامی لیگ اور بی این پی کی راہ نما ہیں۔ دونوں خواتین یکے بعد دیگرے وزراے اعظم رہ چکی ہیں۔ خالدہ ضیا نے یہ منصب دو مرتبہ حاصل کیا۔ ان کی حکومت کو فوج نے پُرتشدد ہنگاموں کے بعد ۲۰۰۶ء کے آخر میں برخاست کردیا تھا۔ فوج نے اس مرتبہ براہِ راست حکومت پر قبضہ کرنے کے بجاے پسِ پردہ رہ کر کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے بالواسطہ حکمرانی کا راستہ اپنایا۔ اصل اختیارات فوج ہی کے پاس ہیں۔ اس عبوری حکومت نے ملک کے بڑے بڑے تمام لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کیے۔ خالدہ ضیا، حسینہ واجد اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی سب پابندِ سلاسل ہوئے۔مطیع الرحمن نظامی نے چیلنج کیا کہ عام عدالت میں ان کا مقدمہ چلایا جائے۔ عدالت سے انھیں رہائی ملی مگر ایک ماہ بعد انھیں دوبارہ جماعت کے سیکرٹری جنرل، سابق وفاقی وزیر علی حسن مجاہد کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر شدید احتجاج ہوا تو عبوری حکومت نے ایمرجنسی قوانین کے تحت جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی۔ ۱۶نومبر کو دونوں قائدین کی عدالت سے ضمانت ہوگئی ہے اور وہ رہا ہوچکے ہیں۔
عبوری حکومت کی کوشش تھی کہ دونوں سابق وزراے اعظم خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کو میدانِ سیاست سے خارج کردیا جائے لیکن اس میں انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوپائی۔ اب ۲۹دسمبر۲۰۰۸ء کو عام انتخابات ہونا ہیں۔ گذشتہ پارلیمنٹ میں خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی اور دیگر دو پارٹیوں نے اتحاد کیا تھا، جب کہ عوامی لیگ کے ساتھ ۱۰چھوٹی پارٹیاں اتحادی تھیں۔ بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں کُل ۳۴۵ نشستیں ہیں، جن میں سے ۳۰۰ نشستیں براہِ راست انتخاب کے ذریعے پُر کی جاتی ہیں اور خواتین کے لیے ۴۵ مختص نشستیں منتخب ارکانِ پارلیمنٹ کے تناسب سے پارٹیوں کو ملتی ہیں۔ جنرل نشستوں پر بھی خواتین انتخاب لڑ سکتی ہیں۔ بنگلہ دیش کا یومِ آزادی ۱۶دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان، جماعت اسلامی، البدر، الشمس اور پاک فوج کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے عوامی لیگ اور بھارت نواز عناصر کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میڈیا پر زہریلا پروپیگنڈا، در و دیوار پر چاکنگ، غرض ایک عجیب ماحول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی فضا میں انتخابی معرکہ عوامی لیگ ہی کے مفاد میں ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی اور بی این پی دونوں جماعتیں چند ماہ کے لیے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
خالدہ ضیا اور ان کی پارٹی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوامی لیگ کی حامی حکومت میں مشیرداخلہ (تمام وزرا مشیر ہی کہلاتے ہیں) حسین ظل الرحمن نے کافی مہارت سے عوامی لیگ کے حق میں فضا ہموار کردی ہے۔ بی این پی کے ۱۴۰ انتخابی حلقوں کو خراب کردیا گیا ہے۔ ۱۰۰ حلقے ایسے ہیں جہاں سے بی این پی کے مضبوط امیدواروں کو مختلف الزامات کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا ہے، جب کہ ۴۰ حلقوں کی حدبندیاں اس طرح بدلی گئی ہیں کہ عوامی لیگ کو زبردست فائدہ پہنچے۔ اس وجہ سے بی این پی کے سیکرٹری جنرل خوندکر دلاور حسین نے انتخابات کے بائیکاٹ کی بھی دھمکی دی ہے۔ اب حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ انتخابات کچھ ہفتوں کے لیے ملتوی ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ۳۲ سیاسی پارٹیوں نے رجسٹریشن کرا لی ہے۔
خالدہ ضیا کی بی این پی کی اتحادی جماعتوں میں جماعت اسلامی، قومی مدارس کی تنظیم، تنظیم اتحاد الاسلامی اور جنرل ارشاد کی نیشنل پارٹی کا ایک گروپ(ناجی الرحمن) شامل تھے۔ انتخابات میں خالدہ ضیا کی پارٹی نے ۲۰۱ نشستیں جیتیں۔ جماعت اسلامی نے ۱۷ (خواتین کی نشستیں ملا کر کُل ۲۰)، اتحاد الاسلامی نے ۳ اور نیشنل پارٹی(ناجی الرحمن) نے ۴ نشستیں جیتیں۔ عوامی لیگ کو صرف ۵۷ نشستیں ملیں۔ اس کے اتحادی صرف ۲ نشستیں حاصل کرسکے۔ باقی چند نشستیں جنرل ارشاد کی نیشنل پارٹی اور چند ایک آزاد امیدواروں کو ملیں۔ خالدہ ضیا کے اتحاد کو پارلیمنٹ میں ۲۳۵ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ خالدہ ضیا کی کامیابی کا دارومدار پہلے بھی جماعت اسلامی کی حمایت پر تھا اور آیندہ انتخابات میں بھی جماعت ہی کے تعاون سے وہ نشستیں جیت سکیں گی۔
ملک میں راے عامہ کے سروے یہ بتاتے ہیں کہ عوامی لیگ کی حمایت تقریباً ۳۵ فی صد ہے۔ دوسرے نمبر پر ۲۹ فی صد کے ساتھ نیشنل پارٹی ہے۔ تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی ہے جس کے حامی ۱۷ فی صد ہیں۔ جنرل حسین محمد ارشاد کی نیشنل پارٹی چند اضلاع تک محدود ہے۔ غالباً وہ ۸سے ۱۰ نشستیں حاصل کرپائیں گے۔ باقی آبادی چھوٹی پارٹیوں اور ضلعی گروپوں کے درمیان تقسیم ہے۔ بی این پی کی دیگر دو اتحادی جماعتیں بھی مجموعی طور پر ۵سے ۶ فی صد تک حمایت رکھتی ہیں۔ عوامی لیگ کے ساتھ اتحاد میں شامل جماعتیں تعداد میں تو بہت ہیں لیکن عملاً وہ محض خانہ پُری ہے۔
عبوری حکومت کے مخصوص عزائم ہیں۔ ان کی ترجیح اول تو یہ ہے کہ اہم سیاسی شخصیات کو میدانِ سیاست سے خارج کردیا جائے اور پاکستان میں پرویز مشرف کے تجربے کے مطابق کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے اپنی من مانی کی جائے۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو ان کی دوسری ترجیح یہ ہے کہ بی این پی اور جماعت اسلامی کا اتحاد کسی صورت برسرِاقتدار نہ آسکے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل معین الدین احمد بھارت کا حامی ہے اور جواب میں بھارتی حکومت بھی اس کے بارے میں خاصا نرم گوشہ رکھتی ہے۔ ان جرنیل صاحب اور عوامی لیگ کے درمیان سیکولر سوچ کے علاوہ بھارت نوازی بھی ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کے درمیان گذشتہ ۱۵برس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی بلکہ بول چال تک بند رہی ہے۔ اب دونوں راہ نمائوں کے درمیان ملاقات کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ عوامی لیگ چاہتی ہے کہ بی این پی بائیکاٹ نہ کرے کیونکہ اس صورت میں انتخابات کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور بی این پی کے سیکرٹری جنرل کے مطابق ایسی حکومت ایک ماہ بھی قائم نہ رہ سکے گی۔
بی این پی کوئی دینی سوچ رکھنے والی جماعت نہیں لیکن عوامی لیگ اور بی این پی کا موازنہ کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جماعت بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے زیادہ قریب ہے اور لادینی خیالات کی حمایت کرنے کے بجاے زبانی کلامی حد تک ہی سہی، اسلامی اقدار وشعائر کو ترجیح دیتی ہے۔ عوامی لیگ پاکستان مخالف ہے اور جماعت اسلامی کو آج تک غدارِ وطن قرار دیتی ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کی قیادت نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے اب تک بڑی حکمت کے ساتھ اپنا راستہ متعین کیا ہے اور ملک کی تیسری بڑی پارٹی کا مقام حاصل کرلیا ہے۔
سابقہ کابینہ میں جماعت اسلامی کے دو وزرا تھے: امیر جماعت مطیع الرحمن نظامی اور قیم جماعت علی حسن محمد مجاہد۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق انھی دووزرا کی وزارتوں میں قاعدے اور ضابطے کی مکمل پابندی کی گئی۔ عبوری حکومت نے بدعنوانی کے مقدمات قائم کرنے کے لیے ریکارڈ کی خوب چھان بین کی لیکن ان وزرا کے خلاف کوئی شواہد نہ تلاش کرسکی۔ ان کی وزارتوں کی کارکردگی کے اپنے اور غیر سب ہی قائل رہے۔ جماعت کی موجودہ بڑھتی ہوئی حمایت میں ان وزرا کی کارکردگی کا نمایاں حصہ ہے۔
جماعت اسلامی نے اسلامی بنک بنگلہ دیش کے ذریعے غیرسودی بنکاری کا قابلِ تحسین تجربہ کیا ہے۔ یہ بنک ملک کے تمام بنکوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب، اکاؤنٹ ہولڈرز کے نزدیک زیادہ قابل اعتماد اور مالیاتی امور اسلامی اصولوں کے مطابق انجام دینے کی وجہ سے انتہائی مقبول ہے۔ بنک نے اپنے حصہ داروں کو اچھا منافع دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اس قدر رفاہی کام کیا ہے کہ تمام مخالفانہ پروپیگنڈا اس کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے۔
جماعت اسلامی نے عوامی سطح تک کسانوں اور مزدوروں کے اندر اپنی تنظیم کو منظم کیا ہے اور ملک کا کوئی حصہ ایسانہیں، جہاں انھیں مؤثر قابلِ لحاظ حمایت حاصل نہ ہو۔ جماعت اسلامی نے اپنی تنظیم میں خواتین کو بھی بڑی تعداد میں شامل کیا ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے وقت جماعت اسلامی پاکستان کے ارکان تقریباً ۲۵۰ تھے۔ ان میں سے کئی شہید ہوگئے، جب کہ بہت سے جلاوطن بھی ہوئے۔ اس وقت مرد ارکان کی تعداد ۱۷ ہزار ۷ سو ۱۳ ہے، جب کہ خواتین ارکان کی تعداد ۶ہزار ۲سو ۱۱ ہے۔ یوں کُل تعداد ۳۰ہزار ۹ سو ۲۴ ہے۔
جماعت اسلامی نے تنظیمی اور مالیاتی شعبے کے علاوہ شعبہ ابلاغ عامہ میں بھی کامیاب پیش رفت کی ہے۔ ملک میں موجود سرکاری اور غیرسرکاری تمام ٹی وی چینل لادین اور ہندونواز عناصر کی آماجگاہ ہیں۔ ان سب میں قدرِ مشترک اسلام، پاکستان اور جماعت اسلامی کی مخالفت ہے۔ جماعت نے کچھ عرصہ قبل اپنا چینل شروع کیا ہے جو دیگانتو(آفاق) کے نام سے پروگرام پیش کررہا ہے اور روز بروز مقبول ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ چینل اپنا ایک روزنامہ بھی اسی نام سے شائع کررہا ہے، جس کی اشاعت اس وقت ایک لاکھ ۵۰ ہزار ہے۔
اگر مجوزہ انتخابات میں عبوری حکومت اور فوج زیادہ مداخلت نہیں کرتی تو بی این پی، جماعت اسلامی اتحاد واضح اکثریت حاصل کرسکتا ہے۔ پچھلے انتخابات میں جماعت اسلامی کو اتحاد کی طرف سے ۳۰نشستیں دی گئی تھیں جس میں سے جماعت نے ۱۷ جیتیں۔ اس مرتبہ جماعت کا مطالبہ ہے کہ اسے کم از کم ۵۰ نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت دی جائے۔ دیکھیے اگلے انتخابات میں برادر مسلم ملک بنگلہ دیش کی تقدیر کا کیا فیصلہ ہوتا ہے۔
شرق اوسط میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف شام پر ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو کیا جانے والا امریکی حملہ ہے جو امریکی عزائم کی نشان دہی کر رہا ہے تو دوسری طرف سفارتی عمل کے ذریعے نئی صورت حال سامنے آتی نظر آرہی ہے۔ سفارتی سطح پر تبدیلی کا آغاز ۲۹ مارچ ۲۰۰۸ء کو دمشق میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس سے ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کانفرنس کے اعلامیے میں عرب پالیسی کا ایک نیا رخ سامنے آیا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے جو اعلامیہ پڑھ کر سنایا اس میں کہا گیا تھاکہ: ’’اسرائیل اگر اپنا رویہ تبدیل کرنے پر تیار ہو تو پھر عرب ملک بھی امن کی پیش کش پر ازسرِنو غور کرنے کو تیار ہوں گے‘‘۔ یہ ’ازسرِنو غور‘ ایک نئی شرط اور ایک نیا عندیہ تھا جو پہلی بار اس کانفرنس میں سامنے آیا۔ اس وقت اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔
’ازسرِنو غور‘ نے جلد ہی پَر پُرزے نکالنے شروع کردیے۔ ۲۲ مئی کو ترکی کی وساطت سے انقرہ میں بالواسطہ شام اسرائیل مذاکرات ہوئے۔ ۲۰۰۰ء کے بعد پہلی بار جولان کی پہاڑیاں موضوع بنیں۔ انقرہ مذاکرات کا کھوکھلاپن اس وقت واضح ہوگیا جب جون کے اوائل میں اسرائیل کے سابق آرمی چیف اور موجودہ نائب وزیراعظم شال موفاز (Shaul Mofaz) نے صحافیوں کو بتایا کہ: ’’جولان شام کے حوالے نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اب تک شام اور اسرائیل میں بالواسطہ مذاکرات کے چار دور ہوچکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے باوجود صدر بشارالاسد بڑے پُرامید ہیں۔ انھوں نے حکمران بعث پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بتایا کہ شام اور اسرائیل میں جولان کے بارے میں بلاواسطہ امن بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے۔ انھوں نے کسی تفصیل کے بغیر بتایا کہ: ’’اسرائیل اچھی طرح سے جانتا ہے کہ شام کا مطالبہ کیا ہے اور اسے کیا قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول‘‘۔
اسی سال چار جون کو امریکا کی طرف سے دھمکی آئی کہ اب شام کو بین الاقوامی جوہری نگران ادارے (IAEA) سے اپنی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرانا ہوگا۔ مسلسل شامی تردید کے باوجود، امریکا کا اصرار ہے کہ شام ایران کا اتحادی ہے اوروہ شمالی کوریا کی مدد سے الکبر کا جوہری پلانٹ بنا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ پلانٹ ہے جو گذشتہ سال ستمبر میں اسرائیل کی فضائی بم باری سے تباہ ہوچکا ہے۔ اس حملے کے لیے یہ بہانہ گھڑا گیا کہ اسرائیل کے جاسوس سیارچے نے اس پلانٹ کی جو تصویریں بھیجی تھیں وہ شمالی کوریا کی تنصیبات سے ’ملتی جلتی‘ تھیں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ شام کی سرحدی فوجی چھائونی تھی جو زیر تعمیر تھی۔ چونکہ شام کا موقف واضح تھا اس لیے اس نے بین الاقوامی جوہری انسپکٹروں کی آمد میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ یہ انسپکٹر ۲۲ سے ۲۴ جون تک شام میں اپنی مرضی سے گھومتے پھرتے رہے، لیکن انھیں کہیں بھی کسی جوہری تنصیب کے آثار نہ ملے۔
امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کو ایک اور تدبیر سوجھی کہ اگر شام اور لبنان سفارتی تعلقات قائم کرلیں تو ایران تنہا رہ جائے گا اور فلسطینی تحریک حماس بھی کمزور پڑ جائے گی۔ واضح رہے کہ ۱۹۴۱ء میں لبنان اور ۱۹۴۶ء میں شام فرانس سے آزاد ہوئے لیکن وہ سفارتی تعلقات قائم نہ کرسکے (تنازع ’عظیم تر شام‘ کے نظریے کا تھا)۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ لبنان طویل عرصے تک براہِ راست شام کے زیرِاثر بلکہ زیرِ تصرف رہا ہے۔ حریری کے قتل کے بعد شامی فوجوں کو نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان تعلقات کے قیام کے لیے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو ذمے داری دی گئی۔ انھوں نے اسی سال ۱۲ جولائی کو پیرس کے صدارتی محل ایلیزیہ میں شام کے صدر بشارالاسد اور لبنانی صدر مائیکل سلیمان کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا اور انھیں سفارتی تعلقات کے قیام پر رضامند کرلیا۔ فرانسیسی صدر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بشارالاسد ایران کو اس کے جوہری پروگرام میں پیش رفت سے باز رکھیں گے۔ دوسری طرف بشارالاسد نے صدر سرکوزی کے سامنے جولان کا مسئلہ پیش کیا کہ وہ امریکا سمیت شام اور اسرائیل کے درمیان بلاواسطہ مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد دیں۔ ۳ستمبر کو فرانسیسی صدر دمشق آئے۔ دوسرے دن قطر کے امیر شیخ حمد بن خلیفہ الثانی اور ترک وزیراعظم طیب اردوگان بھی آئے۔ اس سربراہ کانفرنس میں بشارالاسد نے اسرائیل کے ساتھ قیامِ امن کے لیے تجاویزپیش کیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بلاواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے بھی کڑی شرائط سامنے آئیں کہ اگر شام ایران، حزب اللہ اور حماس سے تعلقات پر نظرثانی کرنے کو تیار ہو تو اس صورت میں اسرائیل کو باہمی مذاکرات سے کوئی عذر نہیں ہوگا۔
۱۴ اکتوبر کو صدر بشارالاسد نے صدارتی حکم نامہ نمبر ۳۵۸ جاری کر کے لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن شام کی وزارتِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا کہ اس نے لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ نہ صرف عرب ملکوں بلکہ ایران نے بھی اس اقدام کو خوش آیند قرار دیا۔ حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصراللہ نے اسے ایک بہت بڑی تبدیلی قرار دیا۔ مرحوم رفیق حریری کے بیٹے تحریک المستقبل کے مرکزی رہنما اور ممبر پارلیمنٹ سعد حریری نے سفارتی تعلقات کے قیام کو ایک مثبت قدم قرار دیا اور ساتھ ہی یہ تبصرہ کیا کہ یہ لبنان کے ثورہ الارز (انقلابِ صنوبر) کی فتح ہے۔ واضح رہے کہ شام کی فوجی موجودگی کے خلاف شروع کیے گئے مظاہروں کو یہ نام دیا گیا تھا۔
سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد لبنان ایک نئے جذبے سے سرشار نظر آرہا ہے لیکن مسائل بے شمار ہیں۔ شام کے ساتھ اس کی سرحدیں ابھی تک غیرمتعین ہیں۔ ۲۵ مربع کلومیٹر پرمشتمل شَبْعافارمز کا زرخیز علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ شام اور لبنان دونوں اس کے دعوے دار ہیں۔ جولان اور شَبْعا فارمز جیسے مسائل لاینحل نہیں۔ اگرچہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے انھیں پیچیدہ ضرور بنا دیا ہے۔ سردست ان کی واپسی کے لیے کسی نظام الاوقات کا تعین مشکل دکھائی دیتا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب شام سفارتی روپ میں لبنان پر اثرانداز ہوگا، بلکہ اس کا سفارت خانہ سفارت کاری کے روپ میں انٹیلی جنس کا مرکز بنے گا۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے شبہات فریقین کے قلب و ذہن سے جب تک دُور نہیں ہوں گے، بدگمانیاںباقی رہیں گی۔ لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام سے بظاہر شام کا جھکائو امریکا کی طرف ہوگیا ہے لیکن اسرائیل اور امریکا دونوں شام کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ حالیہ امریکی حملہ اس کی تازہ مثال ہے جو شامی حدود کے اندر ۴ کلومیٹر گھس کر کیا گیا اور جس کے نتیجے میں ۸ بے گناہ شہری ہلاک ہوگئے۔
شرق اوسط عالمی طاقتوں کا اکھاڑہ ہے۔ سب کے اپنے اپنے مہرے ہیں۔ چالیں چلی جارہی ہیں۔ نقشہ کیا بنتا ہے، آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
سوال: میری دادی جان جب سے میرے والد صاحب کے ساتھ رہایش پذیر ہیں آج تک میری والدہ اور دادی کے درمیان کبھی بھی خوش گوار تعلقات نہیں رہے۔ پہلے صرف میری والدہ کے ساتھ ناچاقی رہتی تھی پھر ان کی اولاد یعنی ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی معاملات خراب رکھنے لگیں۔خدا گواہ ہے کہ ہم نے کبھی آج تک دادی جان کے ساتھ نہ کوئی بدتمیزی کی اور نہ ہی کبھی ان کی کوئی چیز یا رقم وغیرہ نکالی۔ اب والدصاحب پر ڈیڑھ سال سے فالج ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ محتاجی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دوسری طرف دادی جان کی ٹانگ میں بھی ایک سال پہلے گرنے کی وجہ سے فریکچر ہوگیا تھا جس کی انتہائی شدید تکلیف تھی۔ دونوں مریضوں (والد اوردادی جان) کو میری والدہ نے انتہائی جاں فشانی سے سنبھالا جب کہ وہ خود بھی ہائی بلڈپریشر کی مریض ہیں لیکن میرے والدین کے اتنے نرم رویے کے باوجود دادی کا مزاج ان کے لیے دن بہ دن سخت ہوتا جا رہا ہے۔ دونوں کے لیے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتی ہیں اور بددعائیں دیتی ہیں۔
والد صاحب اپنی فالج زدہ زندگی کے ہاتھوں مجبور ہونے کے باعث کبھی کبھار دادی جان کے رویے کو دیکھ کر شدید غصے میں آجاتے ہیں۔ اس لیے اب ان کے لیے دادی جان کا گالم گلوچ اور بددعائوں والا رویہ برداشت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ دادی جان کے مزاج سے تنگ آکر والد صاحب نے اپنی بہنوں سے کہا کہ آپ کی بھی والدہ ہیں، آپ ان کو سمجھانے کی کوشش کریں، یا پھر ہم اپنے بیٹے کے گھر چلے جاتے ہیں۔ پھوپھو دادی جان کو اپنے ہمراہ لے گئیں مگر اب دادی جان نے سب کو یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میرے بیٹے نے اپنی بیوی کے کہنے میں آکر مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ اب میں اپنی باقی زندگی میں کبھی وہاں واپس نہیں جائوں گی۔ والدصاحب وہاں ملنے جاتے ہیں تو دادی جان ان سے بات بھی نہیں کرتیں۔
دادی جان کے اس رویے اور ناراضی کی وجہ سے والدصاحب بہت پریشان ہیں اور رشتے دار بھی باتیںبنا رہے ہیں۔ کیاہماری پھوپھیوں پر دادی جان کی خدمت اور تیمارداری کرنا فرض نہیں یا پھر ان حالات میں بھی میرے والدین ہی اس کے مکلف ہیں، جب کہ والد صاحب تو دادی جان کی خدمت فالج کی وجہ سے نہیں کرسکتے، صرف والدہ ہی کرسکتی ہیں؟ ایسی صورت میں والدصاحب کے لیے کیا حکم ہے، جب کہ معافی مانگنے پر بھی دادی جان ابو کے گھر آنے کے لیے راضی نہیں اور نہ معاف کرنے پر ہی تیار ہیں، نیز ان کے اخراجات والدصاحب ہی اٹھاتے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں میرے والد اور والدہ کے لیے دادی جان کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث تو نہیں، جب کہ والدین کی اطاعت معروف میں ہے نہ کہ منکر میں؟
جواب: یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کے والد صاحب اور آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کی دادی صاحبہ کی بڑی مخلصانہ خدمت کی ہے، البتہ آپ کے بقول ،دادی صاحبہ اپنے مزاج کی بناپر پہلے آپ کی والدہ صاحبہ اور اب والد صاحب سے بھی ناراض ہیں اور آپ نے اس کی تفصیل بھی لکھی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ والدہ کا حق اس قدر زیادہ ہے کہ کبھی بھی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے حق ادا کردیا ہے۔ والدین کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ھما جنتک ونارک، ’’وہ تمھاری جنت اور دوزخ ہیں‘‘، نیز جبریل ؑ نے بددعا کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر آمین فرمائی۔ پہلی بددعا یہ کہ ہلاک ہو وہ جو رمضان کو پائے اور اپنی مغفرت نہ کرائے۔ دوسری یہ کہ ہلاک ہو وہ جس کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اور وہ آپؐ پر درود شریف نہ پڑھے۔ تیسری یہ کہ ہلاک ہو وہ جو اپنے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک کو بڑھاپے میں پائے اور وہ اسے جنت میں داخل نہ کردیں (بخاری)۔ پس ایسی دعا جو جبریل نے کی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر آمین کہی ہو کسی بھی صورت ردّ نہیں ہوسکتی۔ اس لیے یہ تینوں آدمی ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔ وہی بچ سکتا ہے جو اپنے گناہ کی تلافی کرکے اپنا بچائو کرلے۔
آپ کے نزدیک آپ کے والد صاحب اور آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کی دادی صاحبہ کی بڑی خدمت کی ہے لیکن یہ خدمت اس وقت معتبر ہوگی جب والدہ صاحبہ یعنی دادی صاحبہ بھی راضی ہوجائیں اور کہیں کہ اس کے بیٹے اور بہو، یعنی آپ کے والد اور والدہ نے ان کی خدمت کی ہے اس لیے ابھی دونوں مل کر خدمت کریں، والدہ کو راضی کریں۔ لوگوں کی باتوں کی طرف نہ دیکھیں۔ وہ آپ کے پاس واپس آجائیں یا آپ کی پھوپھی صاحبہ کے پاس رہیں، ان کی مرضی پر ہے لیکن راضی کرنا ضروری ہے۔ والدہ، یعنی دادی صاحبہ اگر سمجھتی ہیں کہ ان کے بیٹے نے ان کو اپنے گھر سے نکال دیا ہے تو والد صاحب کوشش کر کے اس تاثر کو زائل کریں۔ یہ بحث و مباحثے اور مناظرے کی بات نہیں ہے کہ پھوپھیوں پر بھی دادی کا حق ہے کہ نہیں۔ حق سب پر ہے لیکن عرف، شریعت اور دنیا کا رواج یہ ہے کہ ماں والد کے فوت ہوجانے کے بعد بیٹوں کے سپرد ہوتی ہے، بیٹیوں کے نہیں۔ آپ کے والد صاحب پر ان کی خدمت اور کفالت واجب ہے، آپ کی پھوپھیوں پر نہیں۔ ابھی آپ لوگوں نے اپنی دادی کا حقِخدمت ادا نہیں کیا اسی لیے وہ آپ کی خدمت کو تسلیم نہیں کرتیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے نیکی ہونے اور کسی کے ساتھ نیکی کرنے نہ کرنے کا معیار بتلا دیا ہے۔ وہ یہ کہ نیکی اتنی زیادہ اور اس قدر کامل اور اس قدر مخلصانہ ہو کہ لوگ کہیں کہ اس نے نیکی کی ہے۔
ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! جب میں کسی کے ساتھ احسان کروں یا برائی کروں تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں نے احسان کیا ہے یا برائی کی ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: جب آپ اپنے پڑوسیوں کو دیکھیں کہ وہ کہیں کہ آپ نے احسان کیا ہے تو پھر فی الواقع آپ نے احسان کیا ہے اور جب آپ کے پڑوسی کہیں کہ آپ نے بُرا کیا ہے تو سمجھ لیں کہ آپ نے بُرا کیا ہے۔ (ابن ماجہ، مشکوٰۃ، ج۲، ص ۴۲۴)
آپ کے والد صاحب بجا طور پر پریشان ہیں۔ وہ جس حالت میں بھی ہیں اپنی والدہ کو راضی کریں اور آپ اور آپ کی والدہ بھی اخلاص کے ساتھ اپنی آخرت سنوارنے کی خاطر ان کو راضی کریں۔ بدنامی کرنے والوں کو خوش کرنے کے بجاے والدہ کو راضی کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق سے نوازے۔ آمین!نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماں باپ کی رضامندی اللہ کی رضامندی ہے اور ماں باپ کی ناراضی اللہ کی ناراضی ہے۔ (بحوالہ ترمذی،مشکٰوۃ)
اس کے ساتھ ساتھ دوسرا پہلو بھی پیش نظر رہے۔ وہ یہ کہ ہر طرح کی خدمت کے باوجود اگر والدہ صاحبہ محض اپنے مزاج کی وجہ سے راضی نہ ہوسکیں تو وہ بھی قصوروار ٹھیریں گی اور اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گی۔ والدہ صاحبہ کو معاملے کی اس نزاکت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کی ناراضی ان کے بیٹے کی آخرت برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے (بدسلوکی کو بھی معاف کردینا چاہیے کہ اولاد آخرت کی پکڑ سے بچ سکے)۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھیر نگری نہیں ہے کہ کوئی شخص بلاوجہ اپنی اولاد کی خدمت کو ٹھکرا دے تو اس سے بازپُرس نہ ہو۔ جہاں اولاد سے ماں باپ کے بارے میں سوال ہوگا، وہیں ماں باپ سے بھی اولاد کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ اگر والدہ صاحبہ کو یہ بات اب سمجھ میں آجائے تو بہتر ہے، اور اگر انھیں بات سمجھ میں نہیں آتی تو پھوپھیوں اور رشتہ داروں اور برادری کو عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ انھیں چاہیے کہ وہ والدہ کو سمجھائیںاور بھائی کا ساتھ دیں، اگر وہ حق پر ہیں۔ صلۂ رحمی صرف یہ نہیں ہے کہ اولاد ماں باپ کا خیال رکھے بلکہ یہ بھی ہے کہ ماں باپ اولاد سے شفقت سے پیش آئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت اور ہمارے عالِم کی قدر نہ کرے (مختصر الترغیب والترھیب)۔ (مولانا عبدالمالک)
س: اگر کوئی مسلمان خاتون اپنے خاندانی نسب اور نام کو جو وجۂ شہرت ہے، قائم رکھنے کے لیے رشتۂ ازدواج میںمنسلک ہونے کے بعد اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام استعمال کرنے کے بجاے اپنے والد کے نام یا خاندانی نام سے منسوب ہونا پسند کرتی ہے تو شرعی حیثیت سے ایسا کرنا کس زمرے میں آئے گا اور اس کے لیے خاتون کو شوہر کی اجازت یا رضامندی کی ضرورت ہوگی یا نہیں!؟
ج: شریعت میں تو اسی بات کو رواج حاصل رہا ہے کہ خاتون ہو یا مرد، دونوں اپنے نام کے ساتھ بطور تعارف اپنے والد، دادا یا پردادا وغیرہ جتنوں کو ذکر سکتے ہیں، کریں۔ کتب اسما الرجال اور احادیث مبارکہ میں خواتین کے نسب کا ذکر کیا جاتا ہے۔ رہا شوہر، تو اسے بطور تعارف ذکر کرنے کا رواج بعد کے ادوار میں شروع ہوا ہے، مثلاً حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماؓ کے ساتھ بنت ابی بکر کا ذکر ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کے اُم المومنین ہونے کا الگ سے ذکر آتا ہے۔ اس لیے کہ ازواجِ مطہراتؓ کا اِسی حیثیت سے یہ تعارف قرآن پاک نے کرایا ہے اور یہ ان کے لیے بہت بڑا شرف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے بارے میں فرمایا: ’’اگر فاطمہ محمدؐ کی بیٹی بھی چوری کرتی (اللہ نے ان کو اس سے بچائے رکھا) تو میں ان کے ہاتھ کو بھی کاٹتا‘‘(بخاری)۔ لہٰذا باپ کا ذکر تو ایک شرعی روایت ہے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ آج کل چونکہ خاتون کے ساتھ اس کی شادی کے بعد اس کے شوہر کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ یہ فلاں کی زوجہ ہے تو یہ تعارف بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے لیکن اصل تعارف تو باپ، دادا ہوتے ہیں۔ تعارف میں ان کا ذکر اس بنا پر بہتر ہے کہ شرعی روایت کی پیروی ہے۔ شوہر سے اجازت کی حاجت نہیں۔ شوہر کو اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م)
اہلِ مغرب کو داد دینی پڑتی ہے کہ جتنی بڑی گمراہی ہو، اس کے حق میں اتنے ہی کثیر علمی دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔ انسان جیسی اشرف المخلوقات کو بندروں کی نسل سے وابستہ کرنے جیسی مضحکہ خیز بات پر کتابوں پر کتابیں لکھیں اور صورت یہ بنا دی کہ اللہ کی انسان کی تخلیق جیسی درست، عقلی اور سچی بات دفاعی انداز میں پیش کی جائے۔ ڈارون نے نہ صرف انسان، بلکہ اس کائنات کے تمام مظاہر حیات کے لیے ارتقا کا نظریہ پیش کیا جو پچھلے ۲۰۰ سال سے علمی اور سائنسی دنیا پر چھایا ہوا ہے اور جس نے صرف حیاتیات ہی نہیں، علوم کے دوسرے دوائر پر بھی اثر ڈالا ہے۔ انسان اور کائنات کی تخلیق کے بارے میں تفہیم القرآن میں متعلقہ آیات کی تشریح کرتے ہوئے سید مودودیؒ نے جو غیرمعمولی تحریریں لکھی ہیں حیاتیات کے پروفیسر شہزاد الحسن چشتی نے اس کتاب میں وہ سب یک جا کردی ہیں۔ ان سے، قدرتی بات ہے، ڈارون ازم کا ابطال ہوتا ہے اور انسان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ہستی اپنی صفتِ تخلیق کی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے، صاحب ِ تفہیم القرآن کی دوسری کتابوں سے، جہاں ڈارون ازم پر سوالوں کے جواب دیے گئے ہیں، وہ بھی جمع کر کے ایک باب میں (۱۷ صفحات) پیش کردیے ہیں۔ اتنا کام بھی اس کتاب کو ایک وقیع کتاب بنا دیتا، لیکن انھوں نے اس پر مزید محنت یہ کی ہے کہ ۳۵ صفحات کے پیش لفظ میں ڈارون ازم کے حق میں پیش کیے جانے والے شواہد کی حقیقت بھی بیان کردی ہے۔
مؤلف خود حیوانیات کے پروفیسر رہے ہیں اس لیے ان پر ان کے طالب علموں کا، بلکہ اس اُمت کا یہ حق ہے کہ وہ صرف ۳۵ صفحات کے پیش لفظ ہی میں نہیں، بلکہ ۳۵۰ صفحات کی ایک پوری کتاب میں، اس باطل نظریے کی تائید میں درسی کتابوں میں طلبہ و طالبات کو جو نام نہاد شواہد پڑھائے جاتے ہیں ان کا کچا چٹھا کھول کر بیان کریں۔ اس کتاب کا ہم انتظار کریں گے۔
ڈارون کے نظریے کے بارے میں مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ ’’یورپ نے جو اس وقت تک اپنے الحاد کو پائوں کے بغیر چلا رہا تھا، لپک کر یہ لکڑی کے پائوں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صرف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علومِ عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کرلیا‘‘ (ترجمان القرآن، جنوری فروری ۱۹۴۴ئ)۔ یہ گمراہ کن نظریہ یورپ میں پیش ہوا تو عیسائی اہلِ ایمان نے بھی اس کی خوب خبرلی اور آج تک لے رہے ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں اس کے مقابل تخلیق سائنس (Creation Science) کی ترویج کے لیے تحریک چلاتے ہیں۔ لیکن مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ مسلمان سائنس دانوں اور حیوانیات کے اساتذہ نے سائنسی بنیادوں پر اس کے تاروپود نہ بکھیرے بلکہ علماے دین ہی عقیدے کی بنیاد پر اس کی تردید کرتے رہے۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ترکی کے ہارون یحییٰ نے اس عقیدے کے خلاف منظم مہم چلائی ہے، استدلال سے مزین دل کش اسلوب میں باتصویر کتابیں پیش کی ہیں۔ ۷۰، ۸۰ وڈیو سی ڈی کا ایک سلسلہ ہے جس کا ان کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی ۸۰زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں(haroonyahya.com)٭۔ لیکن آزادی کے بعد ہماری بھی نصف صدی گزر گئی ہے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں طلبہ نے حیوانیات کی کتابوں میں آمنا وصدقنا کہتے ہوئے اسے پڑھا ہے اورمسلمان اساتذہ نے معلوم نہیں کس طرح اپنا عقیدہ محفوظ رکھتے ہوئے اسے پڑھایا ہے لیکن انگریزی میں ہر طرح کا مواد موجود ہونے کے باوجود اُردو میں ۱۰، ۲۰ کتب اور
شہزاد چشتی صاحب نے ایک اچھا آغاز کیا ہے جو طالب علموں کے ذہن صاف کرنے میں اکسیر ہوگا۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ حیوانیات کی درسی کتب میں اس نظریے کو بطور ایک عقیدہ نہ پڑھایا جائے اور ساتھ ہی اس کے شواہد پر جو جائز سائنسی تنقید ہے اس کو بھی پڑھایا جائے اور سالانہ امتحان میں اس تنقید کو ہی موضوعِ سوال بنایا جائے۔ اب ہم انسان اور گھوڑے کے شجرے پڑھاتے ہیں، رینگنے والے جانوروں سے اڑنے والے پرندوں کا وجود میں آنا ثابت کرتے ہیں، بصارت جیسے کام کے لیے، آنکھ جیسے پیچیدہ عضو کا بننا محض موروثی تبدیلیوں کے ذریعے ارتقا سے ثابت کرتے ہیں اور معلوم نہیں کیا کیا لطیفے پڑھاتے ہیں۔ ہمارے منہ پر یہ ’غیرسائنسی‘ لیکن عقلی بات نہیں آتی کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس بنیادی بات سے زندگی کا پورا تصور بدل جاتا ہے۔ تہذیب بدل جاتی ہے۔ ہم تو اس پر بھی بحثیں ہی پڑھاتے ہیں کہ بے جان مادے سے جان دار وجود کیسے پیدا ہوا اور تُکے لگاتے ہیں لیکن کلاس روم میں کھڑے ہوکر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے زندگی پیدا کی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں لاکھوں طلبہ پڑھتے ہیں لیکن ان کے ذمہ داروں کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ان کے لیے سائنس کی کوئی ایسی کتاب مرتب کروائیں جس کی بنیاد الحاد پر نہ ہو تاکہ ان کے طلبہ سائنسی علوم میں ضروری شُدبُد رکھتے ہوں لیکن الحاد کی جہالت و جاہلیت سے مبرا ہوں۔ (مسلم سجاد)
سیرت پاکؐ کا مطالعہ نوعِ انسانی کے لیے روشنی کا مینار اور مسلمانوں کے لیے ایمان کی رفعتوں کا وسیلہ ہے۔ سیرت پاکؐ کا سب سے بنیادی ماخذ قرآن عظیم ہے، اور پھر احادیث مقدسہ۔ تاہم حدیث پاک کے باب میں روایات، سند اور درایت کی کسوٹی بحث و تمحیص کے در کھولتی اور قرآن وسیرت کے جملہ پہلوؤں کی وضاحت اور جزئیات کی تفصیلات فراہم کرتی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب شیخ محمد ناصر الدین البانی (۱۹۱۴ئ-۱۴۹۹ئ) کی جانب سے اس نقدو جرح پر مبنی ہے، جو انھوں نے سیرت کی دو کتب: فقہ السیرۃ از شیخ محمد الغزالی اور فقہ السیرۃ النبویہ از ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی پر تحریر کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے مصنفین نے ایسی روایات کو بھی سیرتی کتب میں پے درپے نقل کرکے، عمومی سطح پر قارئین کے حافظے کا حصہ بنا دیا ہے، کہ جن پر ابتدائی اور وسطانی عہد کے محققین و محدثین نے واضح طور پر جرح وتعدیل کے بعد لکھا تھا کہ فلاں فلاں روایت ضعیف ہے یا موضوع!
اگرچہ زیرتبصرہ کتاب قدرے تلخ لہجے میں لکھی گئی تھی، لیکن محمدالغزالی نے شیخ البانی کی پوری تحریر کو اپنی کتاب کے ضمیمے میں اس نوٹ کے ساتھ شامل کیا: ’’استاذ محدث ناصرالدین البانی نے میری نقل کردہ احادیث نبویؐ پر تعلیقات پیش کی ہیں، اور انھیں رضاکارانہ طور پر لکھ کر علمی حقیقت کو نمایاں کرنے اور تاریخی حقائق کو صحیح انداز میں پیش کرنے میں تعاون کیا ہے۔ کسی حدیث کی سندوں کی تحقیق کے بعد شیخ ناصر فرماتے ہیں کہ ’’یہ ضعیف ہے‘‘۔ حدیث میں رسوخ و مہارت کے باعث انھیں یہ راے ظاہر کرنے کا حق ہے، لیکن میں اس حدیث کے متن کو دیکھتا ہوں، تومجھے اس کی روایت میں کوئی حرج دکھائی نہیں دیتا،اور اسے نقل کرنے کو کچھ نقصان دہ خیال نہیں کرتا… بیش تر علما نے ضعیف اور صحیح مرویات کے قبول ورّد میں یہی طریقہ اپنایا ہے کہ ضعیف حدیث اگراسلام کے عام اصول اور جامع قواعد سے ہم آہنگ ہو تو وہ قابلِ قبول ہے‘‘۔ (ص ۱۰۷-۱۰۹)
شیخ البانی کی کلاسیکی بحث نے ذخیرۂ حدیث کے مطالعے کو نیا رُخ دیا ہے جس میں انھوں نے قدیم کتب کے نظائر سے بات کی ہے، جب کہ اسی زمانے میں مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے سند اورروایت سے بڑھ کر خود متن حدیث، الفاظ اور استدلال کو قرآن و سنت اور عقل و نقل کی بنیاد پر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ درایت حدیث کے اس باب میں شیخ البانی کا طریق کار زیادہ محتاط ہے۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اس مجموعے کا طبع زاد ترجمہ کیا ہے، جس میں نہ عربی لفظیات کا بوجھ ہے اور نہ اسلوب میں بے جاپیچیدگی۔ (سلیم منصورخالد)
عہدِحاضر کی سائنسی ترقی کے پس منظر میں قدیم سائنس دانوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے جن کے کارناموں کی بدولت آج یہ سب کچھ ممکن ہوپایا ہے۔ مسلمانوں کے عہد ِ زریں میں خصوصاً عہد ِ عباسی میں مسلم سائنس دانوں نے بہت کام کیا اور اس کام کی بنیاد پر اہلِ یورپ نے تحریک احیاے علوم کی نیو ڈالی۔ ایک عرصے تک یورپ کے تعلیمی اداروں میں سائنس سے متعلق مسلمانوں کی کتب پڑھائی جاتی رہیں۔
مسلم اُمہ کے زوال کے بعد تیرھویں صدی میں علم کی یہ قندیلیں یورپ میں روشن ہوئیں۔ زیرتبصرہ کتاب کا آغاز بھی اسی صدی کے ایک نام ور سائنس دان راجر بیکن (۱۲۱۴ئ-۱۲۹۴ئ) سے ہوتا ہے۔ کوسٹر اور گوٹن برگ، کوپرنیکس، گلیلیوگلیلی، ولیم ہاروے، رابرٹ بوائل اور آئزک نیوٹن سمیت ۱۳سائنس دانوں کی حیات و خدمات کو ۱۳ الگ الگ ابواب میں پیش کیا گیا ہے۔ ضمیمے میں مزید ۱۲ سائنس دانوں کی خدمات کا تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ گو مختصر ہے مگر اس طرح مصنف نے سترھویں صدی میں یورپ کے تقریباً تمام نام ور سائنس دانوں کے احوال شاملِ کتاب کردیے ہیں۔
یہ کتاب اُردو کے سائنسی ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اس سے قبل بھی مصنف مسلم سائنس دانوں کے بارے ایک کتاب نام ور مسلم سائنس دان تحریر کرچکے ہیں۔ عموماً سائنسی مباحث خشک قسم کے ہوتے ہیں مگر مصنف نے کوشش کی ہے کہ مذکورہ کتاب کا طرزِ نگارش اور اس کی زبان ادبی معیار کے مطابق ہو اور مصنف اس میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ ان کا اسلوب دل چسپ اور عام فہم ہے۔ سائنس دانوں کے اس تذکرے میں کہیں کہیں کہانی کا سا انداز پیدا ہوگیا ہے جو تحریر کی تاثیر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
سائنس دانوں کی حیات و خدمات کے ساتھ ساتھ اُن کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں مگر یہ تصاویر پرانی اور غیرواضح ہیں۔ مناسب ہوتا کہ نئی اور واضح تصاویر شامل کی جاتیں۔ مجلس ترقی ادب اور مصنف دونوں اس علمی کارنامے پر بجاطور پر فخر کرسکتے ہیں۔ (ساجد صدیق نظامی)
پہلی کتاب میں فاضل مؤلف نے جادو اور جنات کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام کا موقف واضح کیا ہے۔ انھوں نے متعدد اعتقادی گمراہیوں کی نشان دہی کے ساتھ جنات اور جادو کے توڑ کے لیے مسنون علاج بھی تجویز کیے ہیں۔ مؤلف کے عملی تجربات اور مشاہدات بھی کتاب میں شامل ہیں۔ روحانی علاج سے متعلقہ چند اصولی مسائل، نظرِ بد کا علاج اور متعدد جسمانی بیماریوں کے روحانی علاج بھی کتاب کا حصہ ہیں۔
دوسری کتاب میں قرآن و سنت کی روشنی میں دست شناسی، علم جفر، علم عدد، علم اسرار الحروف، علمِ نجوم، علمِ رمل، ریکی، یوگا، ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور مسمریزم کی حقیقت اور پوزیشن واضح کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بدشگونی، نحوست اور فالناموں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں صحیح اسلامی موقف پیش کیا گیا ہے۔ مراقبوں اور چِلّہ کشی کی شرعی حیثیت، خوابوں سے متعلقہ مسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں، اور قیافہ شناسی کی شرعی حیثیت بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ اسی طرح الہام، وسوسہ، کشف اور فراست میں فرق کو واضح کرتے ہوئے، اسلام میں ان کی حیثیت بھی بیان کردی گئی ہے۔ کتاب کے آغاز میں وحیِ الٰہی اور وحیِ شیطانی، اور کہانت و عرافت پر بھی عمدہ مباحث بطور تمہید شامل ہیں۔ (خالد محمود)
’پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ (نومبر ۲۰۰۸ئ) میں قومی و ملّی اُمنگوں کے برعکس فردِ واحد کی غلط اور ناکام پالیسی، اس کے مضمرات اور نئی آزاد خارجہ پالیسی کے حوالے سے مدلل تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جاری یہ جنگ ہماری نہیں، بلکہ یہ ایک گھنائونا سامراجی کھیل ہے جس نے ہمیں دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ اس جنگ سے ہم نے ۱۰ ارب ڈالر حاصل کیے، جب کہ ۵ئ۳۴ ارب ڈالر کا نقصان کیا۔ غیروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف لشکرکشی کرناکہاں کی دانش مندی ہے؟
’عالمی غذائی بحران اور پاکستانی زراعت‘ (نومبر ۲۰۰۸ئ) ایک اچھی تحریر ہے۔ ملکی زراعت کی بہتری کے لیے جو مفید تجاویز پیش کی گئی ہیں، حکومت بھی ان سے باخبر ہے لیکن اصل رکاوٹ وسائل کی کمی اور ہاری اور کسان کو سودی نظام کی وجہ سے عملاً مشکلات کا درپیش ہونا ہے۔ اسی وجہ سے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر اس میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ موجودہ نظام میں بلیک اکانومی کو بھی تحفظ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم وسائل کی کمی سے دوچار ہیں اور سودی نظام کے نفاذ کی وجہ سے خدا کی رحمت سے بھی دُور ہیں۔ خود مضمون نگار نے بھی اپنی تجاویز ۱۲ اور ۱۳ میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ ان تجاویز پر عمل درآمد صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہاں سود سے پاک زرعی نظام نافذ کیا جائے۔ اس کے لیے عملی خاکہ موجود ہے۔ ضرورت صرف عمل درآمد اور سرپرستی کی ہے۔
’قرآن اور یہ کائنات‘ (نومبر ۲۰۰۸ئ) اپنے موضوع پر ایک مفید اور ایمان افروز تحریر ہے جو غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ البتہ فطرت کو اللہ کہنامناسب نہیں۔ یہ تو نیچری نقطۂ نظر کی تائید ہے۔ آخر میں مختلف اعداد وشمار اور آیات کی تعداد اور تناسب کے حوالے سے کائنات کے بعض حیران کن اتفاقات کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس طرح قرآن کی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح کے حسابی ثبوت تلاش کرنا مناسب نہیں۔ قرآن کو اس سے بالا ہی رکھیں۔
مولانا مودودیؒ کی تحریر ’رسموں کی بیڑیاں‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) پڑھ کر ایک عجیب تاثر اور تحرک پیدا ہوا۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ ان رواجوں کے بوجھوں سے لوگوں کی کمریں ٹوٹ رہی ہیں مگر پیش قدمی نہیں کرسکتے۔ یہ پہل اور پیش قدمی کرنا اور سادگی کو رواج دینا تحریک کے وابستگان خصوصاً قائدین کا فرض ہے۔
’فہم دین کا مسئلہ‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) نظر سے گزرا۔ تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دین کے نام پر انتہاپسندی اور تشدد کے جو بھی واقعات سامنے آرہے ہیں ان کے پیچھے طالبان کا ہاتھ ہے۔ ’دہشت گردی‘ کا کوئی واقعہ پیش آجائے، لڑکیوں کے اسکول جلا دیے جائیں تو ہمارے چینل اور ملکی و بین الاقوامی این جی اوز، سب اس کا الزام طالبان پر دھرتے ہیں۔یہ پہلو نہیں دیکھا جاتا کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے طالبان کے روپ میں امریکی، اسرائیلی یا بھارتی ایجنٹ یہ کام دکھا رہے ہیں؟ ہمارے حکمران بھی بلاسوچے سمجھے، یا قصداً امریکا کی ’دہشت گردی‘ کی اس جنگ کو جو دراصل اسلام کے خلاف صلیبی جنگ ہے اپنی جنگ قرار دے رہے ہیں اور پاکستان فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہرطرح سے تعاون کر رہا ہے۔ پاکستان کی خودمختاری روز پامال ہورہی ہے۔ مگر ہماری سرکار اپنے مضحکہ خیز اعلانات میں شرم محسوس نہیں کرتی۔
میں تمام بزرگانِ دین کا احترام کرتا ہوں، مگر پرستش ان میں سے کسی کی نہیں کرتا، اور انبیا کے سوا کسی کو معصوم بھی نہیں سمجھتا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں بزرگانِ سلف کے خیالات اور کاموں پر بے لاگ تحقیقی و تنقیدی نگاہ ڈالتا ہوں، جو کچھ ان میں حق پاتا ہوں اسے حق کہتا ہوں اور جس چیز کو کتاب و سنت کے لحاظ سے یا حکمت عملی کے اعتبار سے درست نہیں پاتا اس کو صاف صاف نادرست کہہ دیتا ہوں۔ میرے نزدیک کسی غیرنبی کی راے یا تدبیر میں خطا پائے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی عظمت و بزرگی میں کوئی کمی آئے۔ اس لیے میں سلف کی بعض رایوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ان کی بزرگی کا بھی قائل رہتا ہوں اور میرے دل میں ان کا احترام بھی بدستور باقی رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ بزرگی اور معصومیت کو ہم معنی سمجھتے ہیں اور جن کے نزدیک اصول یہ ہے کہ جو بزرگ ہے وہ خطا نہیں کرتا اور جو خطا کرتا ہے وہ بزرگ نہیں ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بزرگ کی راے یا طریقے کو نادرست قرار دینا لازمی طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا خیال ظاہر کرنے والا ان کی بزرگی کا احترام نہیں کرتا اور ان کی خدمات پر قلم پھیرنا چاہتا ہے۔ پھر وہ اس مقام پر بھی نہیں رُکتے بلکہ آگے بڑھ کر اس پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھتا ہے۔ حالانکہ علمی معاملات میں ایک شخص کا دوسرے کی راے سے اختلاف کرنا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ جس سے اختلاف کر رہا ہو اُس کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا بھی سمجھے اور بہتر بھی۔ امام محمد اور امام ابویوسف نے بہ کثرت معاملات میں امام ابوحنیفہ کی راے سے اختلاف کیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اختلاف یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ مختلف فیہ معاملات میں اپنی راے کو صحیح اور امام صاحب کی راے کو غلط سمجھتے تھے، لیکن کیا اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ یہ دونوں حضرات امام ابوحنیفہ کے مقام میں اپنے آپ کو افضل سمجھتے تھے؟ (’رسائل و مسائل‘، مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۲۹، عدد ۱، رجب ۱۳۶۵ھ، جون ۱۹۴۶ئ، ص۵۷-۵۸)