مضامین کی فہرست


مارچ۲۰۰۷

پاکستان کی موجودہ جرنیلی حکومت کی کشمیر ’پالیسی‘ (جسے پالیسی کہنا لفظ پالیسی کے ساتھ ناانصافی ہے کہ یہ پالیسی نہیں صرف ’پسپائی ہی پسپائی‘ ہے) نے پاکستان اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو ایک خطرناک صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ آج تک پاکستان کی کسی حکومت نے اس اصولی پالیسی سے انحراف نہیں کیا کہ کشمیر پر بھارت کا تسلط ناجائز اور غاصبانہ ہے اور مسئلے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست کے عوام کی آزاد راے سے (عالمی نگرانی میں منعقد ہونے والے استصواب کے ذریعے) اپنے مستقبل کو طے کرنے کے سوا کوئی نہیں۔ پاکستانی قوم اپنے اس موقف پر جو ایک قومی عہد (national covenant) کی حیثیت رکھتا ہے‘ قائم ہے جس کا بھرپور اظہار اس سال ۵فروری کے یوم یک جہتی پر ایک بار پھر ہوا ہے۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت بھی بھارت کے تسلط کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنی آزادی کے لیے اب تک ۵لاکھ سے زیادہ جانوں کا نذرانہ پیش کرچکی ہے اور اب بھی مقبوضہ کشمیر کی عوامی جدوجہد پر تھکاوٹ اور اضمحلال کا کوئی سایہ نظر نہیں آتا‘ بلکہ پاکستان کی طرف سے شدید مایوسیوں کے باوجود کشمیری اپنی جدوجہد اور قربانیاں پورے جوش و خروش سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی قوم سے اب بھی مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا تازہ ترین اعتراف بھارت کے موقر مجلے Economic & Political Weekly نے اپنے ۲۷جنوری ۲۰۰۷ء کے اداریے میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ:

’’دونوں طرف خودمختار مملکتوں کے بغیر لائن آف کنٹرول کو نرم کرنا کوئی قابلِ عمل تجویز نہیں ہے۔ یہ امر اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان نے تو اپنے مقاصد کے لیے لائن آف کنٹرول کی حوصلہ افزائی کی اور اس سے فائدہ اٹھایا‘لیکن ۱۹۸۹ء سے وادی میں جو جنگجویانہ شدت ظاہر ہوئی‘ وہ دراصل ریاست میں جاری طرزِحکمرانی کے خلاف مضبوط کشمیری مخالفت کا نتیجہ تھی۔ اسی وجہ سے دہشت گردی نے ریاست میں جڑیں پکڑلیں۔ جوں ہی سری نگر جنسی اسیکنڈل یا افضل گوروکی سزاے موت جیسے مسائل سامنے آتے ہیں‘ احتجاج کا سلسلہ وادی کو ہلا ڈالتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بیگانگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ‘‘۔

کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا مسئلہ نہیں اور نہ اس کا تعلق سرحدوں کو تسلیم کرنے یا نرم کرنے سے ہے۔ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت اور تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا ہے۔ موجودہ حکومت اس سے دست بردار ہونے کی تاریخی غلطی کر رہی ہے جسے نہ پاکستانی قوم تسلیم کرے گی اور نہ جموں و کشمیر کے مسلمان۔ موجودہ حکومت وہی بات کہہ رہی ہے جو بھارت چاہتا ہے اور بھارت ابھی اس سے بھی زیادہ پاکستان کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ Economic & Political Weekly اپنے اس اداریے (۲۷ جنوری ۲۰۰۷ء) میں جنرل پرویز مشرف کی کشمیرپسپائی کا پول اس طرح کھولتا ہے کہ گو ابھی تک:

’’کوئی بھی واضح بات طے نہیں ہوئی ہے‘ جیساکہ وزیرخارجہ پرتاپ مکرجی کے گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے دورے میں ظاہر ہوا‘‘۔

لیکن پھر بھی امیدوں کے چراغ جلائے جارہے ہیں۔

’’تاہم بھارت پاکستان پر نظر رکھنے والوں میں ایک نئی تقریباً ناقابلِ محسوس اُمید کی کیفیت ہے‘‘۔

لیکن اس کی وجہ اصل مسئلے کے حل کی کوئی راہ نہیں بلکہ پاکستان کی موجودہ قیادت کے دل و دماغ اور عزائم اور اہداف کی تبدیلی ہے۔ اس اداریے میں کہا گیا ہے کہ:

’’یہ بنیادی طور پر لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرنے پر پاکستان کی رضامندی اور بھارت کی طرف سے اس لائن کو نرم کرنے اور جموں و کشمیر میں خودمختار حکومت کی خواہش کے لیے گنجایش پیدا کرنے پر آمادگی سے پیدا ہوتی ہے۔ اُمت کے لیے خودمختاری اور لائن آف کنٹرول کے حوالے سے مجوزہ تبدیلیاں مستقل لیکن ___سرحد کو تسلیم کرنا‘ دونوں باتیں بھارت کے مفاد میں ہیں‘‘۔

اس خطرناک پس منظر میں قوم کو ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسئلے کا اصل حل کیا ہے۔ ہم اس موقع پر ذیل میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی وہ تقریر شائع کر رہے ہیں جو انھوں نے ۲۵ نومبر ۱۹۶۵ء کو مظفرآباد (آزادکشمیر) کے کالج گرائونڈ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ اس جلسے کی صدارت اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان نے کی اور مولانا کا استقبال ان الفاظ میں کیا:’’میں حاضرین جلسہ کی طرف سے امیرجماعت اسلامی پاکستان مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے رفقا کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے یہاں آنے کی تکلیف فرمائی۔۱؎  ان کی آمد ہمارے لیے باعثِ سعادت ہے۔ کشمیر کے لیے مولانا مودودی نے ناقابلِ فراموش کام کیا ہے۔ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کی خدمات تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کشمیر کے لیے جماعت اسلامی نے جو کام کیا ہے‘ اسے ہم کبھی نہیں بھول سکتے‘‘۔

مولانا مودودی نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے متاثرین سے ہمدردی اور ان کی پامردی پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد جو کچھ فرمایا وہ آج ۲۰۰۷ء میں بھی مشعلِ راہ ہے۔(مدیر)

حضرات! یہ سوال آج ہر شخص کی زبان پر ہے کہ کشمیر کے اس مسئلے کا ‘جو ہمیں درپیش ہے آخر حل کیا ہے؟ ہر پاکستانی خواہ وہ مغربی پاکستان میں ہو یا مشرقی پاکستان میں‘ پوچھ رہا ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟ اور جلدی سے جلدی کشمیر میں اپنے مسلمان بھائیوں کو مظالم سے کیسے نجات دلائی جائے؟ میں جہاں کہیں بھی جاتاہوں‘ جن لوگوں سے بھی ملتا ہوں وہ بار بار اس سوال کو اُٹھاتے ہیں اور یہاں بھی جب سے آیا ہوں بار بار یہی سوال سامنے آیا ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی زیادہ سے زیادہ چار صورتیں ہیں۔ اگر یہ حل ہوسکتا ہے تو ان میں سے کسی ایک صورت سے حل ہوسکتا ہے۔ ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ ان صورتوں میں سے کون سی صورت اپنے اندر کتنا کچھ امکان رکھتی ہے:

  •  بہارت پاکستان مذاکرات: اس کے حل کی ایک صورت یہ ہوسکتی تھی کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان باہمی بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا۔ دنیا کی مختلف بڑی بڑی قومیں بار بار یہ کہتی رہی ہیں اور  ان میں سے بعض اب بھی یہ کہتی ہیں کہ آپس میں بیٹھو اور بات چیت سے اس مسئلے کو حل کرو۔ ابھی حال ہی میں روس کی حکومت نے بھی یہ دعوت دی ہے کہ آئو اور ہمارے سامنے بیٹھ کر آپس میںبات چیت کرو___ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارتی حکومت سے بات چیت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پچھلے ۱۸سال کی تاریخ‘ جس میں سے کشمیر کا مسئلہ گزرا ہے‘ بھارت کی بددیانتی کی کھلی ہوئی تاریخ ہے۔ یہ مسئلہ تو پیدا ہی نہ ہوتا اگر ہندستان کی حکومت میں کوئی دیانت موجود ہوتی۔ جو شخص بھی برعظیم ہند کے نقشے پر نگاہ ڈالے گا‘ ایک نظر میں کہہ دے گا کہ کشمیر پاکستان ہی سے تعلق رکھتا ہے‘ بھارت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ محض نقشے پر نگاہ ڈالنے سے ایک آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ برٹش انڈیا کی تقسیم جس اصول پر ہوئی تھی اس کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے بھارت کو کشمیر لینے کا کوئی حق سرے سے پہنچتا ہی نہیں۔ تقسیم اس اصول پر ہوئی تھی کہ مسلم اکثریت کے متصل علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ اس اصول کو مان لینے کے بعد جب ہندستان کے ہندو لیڈر اس بات پر راضی ہوگئے کہ ملک تقسیم ہو تو اگر ان کے اندر ذرہ برابر دیانت موجود ہوتی تو وہ ارادہ ہی نہ کرتے‘ اس بات کا کہ کشمیر پر قبضہ کرلیا جائے۔

فی الواقع یہ بددیانتی ہی تھی جس نے اُن کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تقسیم کے وقت اپنے ہمسائے کے ایک حصے پر بھی قبضہ کرلیا۔ پھر اُن کے اندر اتنی انسانیت اور اتنا اخلاق بھی موجود نہیں تھا کہ اپنے قول و قرار کا پاس کرتے۔ کیوں کہ اگر تھوڑی دیر کے لیے حق اور انصاف کے سوال کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو خود انھوں نے جس چیز کا اقرار کیا تھا وہ ڈوگرہ راج کی دستاویز الحاق کو قبول کرتے وقت ان کا اپنا یہ اعلان تھا کہ ہم اسے عارضی طور پر قبول کر رہے ہیں اور اس کا آخری فیصلہ جموں اور کشمیر کے باشندوں کی راے پر ہوگا۔ یہ خود ان کا اپنا قول و قرار تھا‘ ان کا اپنا اعلان تھا جس سے وہ منحرف ہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ جو قوم اتنی بدعہد ہے اور جس کے لیڈر اس قدر انسانی اخلاق سے عاری ہیں کہ اپنے قول و قرار سے پھر جانے اور اپنی بات کو نگل جانے میں بھی انھوں نے کوئی تامّل نہیں کیا‘ ان سے بات چیت کس بات پر کی جائے؟ تمام دنیا کی قوموں کے سامنے بیٹھ کر اُنھوں نے  یہ عہد کیا تھا اور ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں مجلس اقوامِ متحدہ میں انھوں نے اس بات کو قبول کیا تھا کہ  کشمیر کے باشندوں کو راے شماری کے ذریعے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا اور اس طرح وہ خود فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس قرارداد کو بھارت نے خود مانا اور ۱۹۵۸ء تک برابر اس کو مانتا رہا لیکن آج اس کے لیڈروں کو یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی کہ کشمیر بھارت کا غیرمنفک حصہ ہے۔ آج وہ اس کو اپنا ’اٹوٹ انگ‘ کہتے ہیں اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرہ برابر شرم نہیں آتی۔ نہ ان کا فلسفی صدر اس پر شرماتا ہے اور نہ ان کے شاستری صاحب (صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن اور شاستری وزیراعظم) اس پر شرماتے ہیں۔

سوال یہ ہے جس قوم کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اس کا ایک ایک فرد جانتا ہے کہ کشمیر پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور خود تقسیمِ ہند کی رُو سے اسے پاکستان ہی میں شامل ہونا چاہیے اور پھر وہ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے اپنے قول و قرار اس معاملے میں کیا ہیں‘ اس کے باوجود وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں___ سوال یہ ہے کہ ان سے بات کرنے کا آخر کیا فائدہ ہے اور ان سے بات کرنے میں وقت آخر کیوں ضائع کیا جائے؟

جو لوگ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ آئو اور ان کے ساتھ بات چیت سے مسئلہ طے کرو ان سے ہمیں یہ کہنے کے بجاے کہ صاحب آپ بلاتے ہیں تو ہم بات کرنے کو تیار ہیں‘ یہ کہنا چاہیے کہ پہلے دوسرے فریق سے اس بات کا اقرار تو کرا لو کہ کشمیر کے متعلق واقعی کوئی جھگڑا ہے۔ آخر جب بھارت یہ کہتا ہے کہ کشمیر کوئی متنازع فیہ علاقہ ( disputed  territory) ہے ہی نہیں‘ کشمیر میں نزاع کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور نہ کشمیرکے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہے تو بتایا جائے کہ اس طرح کی بات چیت سے مسئلہ کشمیر کیوں کر حل ہوسکتا ہے۔

  •  اقوام متحدہ کے تحت استصواب راے: دوسری صورت اگر کوئی ممکن ہے تو وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہو۔ آپ دیکھیں کہ اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ ۱۹۴۸ء میں گیا اور آج ۱۹۶۵ء ختم ہو رہا ہے۔ اس پوری مدت میں یعنی ۱۷سال سے زیادہ عرصے میں اقوام متحدہ نے کیا کیا ہے؟ اقوام متحدہ کا اپنا یہ فیصلہ تھا کہ کشمیر سے پاکستان اور ہندستان دونوں کی فوجیں ہٹ جائیں گی اور اقوام متحدہ کے زیرنگرانی  کشمیر میں راے شماری کرائی جائے گی اور وہاں کے باشندوں کو بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنے کا حق حاصل ہوگا___  یہ فیصلہ اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء میں کیا۔ ۱۹۴۹ء میں اس فیصلے کو اور زیادہ واضح الفاظ میں دُہرایا۔لیکن ۱۹۶۵ء تک اس پوری مدت میں اس فیصلے پر عمل درآمد کے بجاے محض وقت گزاری ہوتی رہی۔ کبھی فلاں مشن آرہا ہے اور کبھی فلاںمشن آرہا ہے‘ کبھی استصواب راے کے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کیا جا رہا ہے (جس کو اب تک تنخواہ دی جارہی ہے) لیکن عملاً کیا قدم اٹھایا گیا؟ْ

اس معاملے میں مجلسِ اقوام متحدہ کی بے حسی بلکہ اس کی بداخلاقی کا حال یہ ہے کہ پہلے جن چیزوں کا فیصلہ وہ کرچکے ہیں اور جو فیصلے لکھتے ہوئے بھی دستاویزی صورت میں ان کے سامنے موجود ہیں آج ان فیصلوں کا اعادہ کرنے اور ان کا نام لینے میں ان کو تامّل ہے۔ انھوں نے اسی سال ۴ستمبر اور ۲۰ستمبر اور اس کے بعد اب ۵نومبر کو جتنے ریزرولیوشن پاس کیے ہیں ان میں سے کسی میں ان فیصلوں کا حوالہ تک موجود نہیں ہے۔ ان کو بار بار یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ پہلے آپ یہ فیصلے کرچکے ہیں چنانچہ اس امر کا ذکر کرنا چاہیے کہ ان فیصلوںکے مطابق اس مسئلے کو حل کیا جائے لیکن سرے سے اس بات کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اقوام متحدہ کو خود اپنے فیصلوں کا بھی کوئی احترام نہیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر بھارت کے وزیرخارجہ صاحب علی الاعلان یہ کہتے ہیں کہ کشمیر تو بھارت کا ایک حصہ ہے‘ کشمیر کے متعلق ہم سرے سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ نہ اقوام متحدہ کو یا کسی اور کو کشمیر کے معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق پہنچتا ہے کیونکہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے ___ یعنی ایک قوم اس قدر بے حیائی کے ساتھ خود اقوام متحدہ میں بیٹھ کر تسلیم کیے ہوئے سارے فیصلوں کو ماننے سے انکار کردے اور سلامتی کونسل کے ممبروں میں سے کوئی نہیںجو کھڑے ہوکر اسے ٹوکے اور کہے کہ تم یہ کس طرح اور کس زبان سے کہہ سکتے ہو کہ کشمیر کا معاملہ تمھارا داخلی معاملہ ہے اور اس میں کسی کو دخل دینے کا حق نہیں ہے___  اگر کسی کو دخل دینے کا حق نہیں ہے تو ۱۹۴۸ء میں یہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیسے ہوا اور آج بھی اس کے ریکارڈ پر کیوں موجود ہے؟ اگر یہ کوئی مابہ النزاع مسئلہ نہیں تھا تو یہ یہاں کیسے آیا؟ اقوام متحدہ میں اس مسئلے کا آنا خود اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ یہ ایک مابہ النزاع مسئلہ ہے۔

لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسی کوئی آواز اُن مہذب اقوام کے پلیٹ فارم سے سنائی نہیں دی۔ اسی سے آپ اندازہ کیجیے کہ اقوام متحدہ کی اخلاقی حالت کیا ہے اور کس حد تک ان کے ہاں دیانت اور امانت اور انصاف موجود ہے اور یہ بھی کہ کس حد تک وہ خود اپنے فیصلوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں___  میرا خیال یہ ہے کہ جس طرح ہندستان سے بات چیت کرکے اس مسئلے کے طے ہونے کا کوئی امکان نہیں‘ اسی طرح اقوام متحدہ کے ذریعے اس مسئلے کو طے کرانے کی کوئی اُمید نہیں۔ یہ بالکل ہماری نادانی ہوگی‘ اگر ہم آیندہ بھی اس اُمید پر بیٹھے رہیں جس طرح ۱۷ سال سے بیٹھے ہوئے ہیں۔

  •  عالمی طاقتوں کا کردار:اب اس کے بعد تیسری صورت رہ یہ جاتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس معاملے میں مداخلت کر کے اس مسئلے کو حل کرائیں۔ آیئے! ذرا ان  بڑی طاقتوں پر بھی ایک نظر دوڑالیں۔

ان بڑی طاقتوں میں سے ایک برطانیہ ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پیدا ہی برطانیہ کی بددیانتی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے تقسیم اتنے غلط طریقے سے کرائی اور ریڈکلف اوارڈ میں ایسی تحریف کی کہ اس کے نتیجے میں ایک مستقل تنازع پاکستان اور ہندستان کے درمیان پیدا ہوگیا۔ اگر یہ تقسیم غلط طریقے سے نہ ہوتی اور ہندستان کوکشمیر تک پہنچنے کا وہ راستہ ناجائز طور پر نہ دیا جاتاجو اُسے کسی صورت میں حاصل نہیں ہوسکتا تھا تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ جس طاقت نے اپنی بددیانتی سے‘ اور اس بنا پر کہ اس کے اندر کسی اخلاقی ذمہ داری کا احساس موجود نہیں تھا‘ خود اس مسئلے کو پیدا کرنے کے اسباب فراہم کیے اور اس سارے فساد کی بنیاد ڈالی‘ اس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اب کوئی کوشش اس مسئلے کوحل کرنے کی کرے گی؟ اگر اس قوم کے اندر ذمہ داری کا احساس موجود ہوتا تو یہ مسئلہ پیدا ہی کیسے ہوتا؟

ایک دوسری بڑی طاقت روس ہے۔ میں یہ صاف صاف کہتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے کو اتنا پیچیدہ بنانے میں بہت بڑا دخل روس کاہے۔ جب تک روس نے ہندستان کی حمایت میں اپنا ویٹو استعمال کرنا شروع نہیں کیا تھا اُس وقت تک ہندوستان کو کبھی یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی کہ کشمیر کا سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ‘ کشمیر تو ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ ہے۔ یہ باتیں بھارت نے اس وقت سے شروع کی جب روس نے مستقل اپنا ویٹو استعمال کر کے بھارت کو اس امر کا اطمینان دلا دیا کہ تم اب کشمیر پر آسانی سے قبضہ برقرار رکھ سکتے ہو۔ روس کے وزیراعظم نے خود کشمیر میں آکر کھلم کھلا اس ظلم کا اعلان کیا کہ ہم کشمیر کو ہندستان کا ایک حصہ مانتے ہیں۔ فی الحقیقت اس مسئلے کو اس حد تک الجھا دینے میں اس ظلم کا بہت بڑا حصہ ہے۔ روس کا ویٹو استعمال ہونے سے پہلے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اس حیثیت سے آتا رہا کہ استصواب کیسے کرایا جائے اور کیا کیا انتظامات کیے جائیں۔ لیکن جب سے روس نے ویٹو استعمال کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے استصواب کا لفظ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے غائب ہوگیا ہے۔

اب ایک ایسی بڑی طاقت سے ہم کیا اُمید قائم کرسکتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ کوئی ہمیں بلائے تو ہمارے اخلاق کا تقاضا ہے کہ ہم دعوت کو قبول کریں لیکن دعوت اگر کسی زہریلے پلائو کے کھانے کی ہو توایسی دعوت کو قبول کرنا مسنون نہیں ہے۔۱؎

ایک اور بڑی طاقت امریکا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ دنیا میں امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد دوست شاید ہی کوئی ہوگا۔ اس قوم نے جس کمال کا مظاہرہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے   یک طرفہ دوستی چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ہر ایک اُس کے کام آئے مگر وہ کسی کا ساتھ نہ دے۔ بلکہ جب بھی موقع پیش آئے تو اپنے دوست کے ساتھ بے وفائی کرے۔ واقعہ یہ ہے کہ امریکا ہی کی وجہ سے پاکستان نے روس کی دشمنی مول لی۔ اگر ہم سیٹو اور سنٹو میں امریکا کے ساتھ شامل نہ ہوتے تو شاید روس ہمارا اس قدر دشمن نہ بنتا کہ بار بار ویٹو استعمال کر کے کشمیر کے مسئلے کو اتنا الجھا دیتا ۔ پاکستان نے امریکا کی دوستی میں اس حد تک نقصان اٹھایا لیکن جب ہمارا معاملہ آیا تو     اُس وقت اُس نے کھلم کھلا ہمارے ساتھ بے وفائی کی۔ جب اس کا حال یہ ہے تو ہم سے زیادہ نادان کون ہوگا اگر ہم یہ اُمید باندھیں کہ امریکا دبائو ڈال کر اس مسئلے کو حل کرے گا۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہم اگر امریکا پر اعتماد کریں اور اس اُمید پر بیٹھے رہیں کہ وہ اسے حل کرائے تو وہ اسے ایسے طریقے سے حل کرائے گاکہ کشمیر کو حق خود ارادیت تو درکنار خود پاکستان کی آزادی و خودمختاری بھی باقی نہیں رہے گی۔ جو کچھ اُن کے ارادے سننے میں آتے ہیں اور جس طرح کے مضامین کھلم کھلا  ان کے ہاں لکھے جاتے ہیں اور اخباروں میں شائع ہوتے ہیں‘ اُن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اسکیم کشمیر کے مسئلے کو ایسے طریقے سے حل کرانے کی ہے کہ خود پاکستان کی آزادی وخودمختاری بھی ضم ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے ہمارے نزدیک اس سے بڑی کوئی حماقت نہیں ہے کہ امریکا پر اعتماد کیا جائے اور اس کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کرانے کی اُمید باندھی جائے۔

  •   واحد حل ___ جھاد: اب صرف ایک آخری صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے بھروسے پر اُٹھیں اور اپنے خدا پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے دست و بازو سے اس مسئلے کو حل کریں۔ میرے نزدیک بس یہی ایک صورت ہے۔ اس سے پہلے بھی برسوں سے میں یہ بات کہتا رہا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے جہاد___ آج بالکل صریح طور پر یہ بات ہر ایک کے سامنے آچکی ہے کہ اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے۔

لیکن جہاں تک اس حل کا تعلق ہے‘ بعض لوگوں کے ذہنوں میں’حساب‘ کے مختلف سوال پیدا ہوجاتے ہیں۔ جب اس مسئلے پر بات ہوتی ہے تو بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان اور ہندستان کی طاقت میں بہت بڑا فرق ہے۔ وہ کئی گنا بڑی طاقت ہے‘ اس وجہ سے ہم لڑ کر   اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔ کچھ لوگ یہ بات کھل کر کہتے ہیں اور بعض لوگ دبے دبے الفاظ میںاس خیال کا اظہار کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آج ہمارے سامنے مسئلہ زندگی اور موت کا ہے‘ غیرت اور بے غیرتی کا ہے‘ عزت اور ذلّت کا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم ایک مرتبہ کشمیر کے معاملے میں دبتے ہیں تو یہ ایک مرتبہ کا دبنا نہیں ہوگا بلکہ اس کے بعد ہم کو مسلسل دبتے چلے جانا پڑے گا۔ یہاں تک کہ ہماری آزادی بھی چھن جائے گی۔ یعنی اب پاکستان کا باقی رہنا بھی اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستان دنیا میں اس بات کو ثابت کرے کہ یہ ایک باعزت قوم کا ملک ہے‘ ایک زندہ قوم کی سرزمین ہے اور یہ قوم اپنی عزت کے لیے مرمٹ سکتی ہے‘ لیکن جھک نہیں سکتی۔

میرے بھائیو! جب تک ہم اپنے عمل سے اس بات کو ثابت نہیں کریں گے ‘ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ صرف یہ کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ہم ایک آزاد اور باعزت قوم کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکیں گے۔

جہاںتک حساب لگانے کا تعلق ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ مسلمان کو بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی طاقت پر اعتماد کرتے ہیں وہ اپنے سے دس گنا طاقت سے بھی لڑکر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ کم من فئۃٍ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللّٰہِ  [یعنی] ایک قلیل تعداد‘ بارہا ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک کثیرتعداد کے اُوپر غالب آجاتی ہے۔

اور آج تو یہ محض ایمان بالغیب کی بات بھی نہیں رہی۔ پچھلے ۱۷ روز کی جنگ میں مسلسل اور پے درپے اس بات کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔ کوئی شخص اس بات کو کیسے باور کرسکتا ہے کہ تین رجمنٹ فوج تین ڈویژن سے بھڑجائے اور وہ تین ڈویژن اس پر غالب نہ آسکیں۔ ایک بٹالین فوج پوری کی پوری تین ڈویژن کو روکے رکھے اور وہ لاہور کی طرف نہ بڑھنے پائے۔ اگر’حساب‘ کرکے دیکھاجائے تو ہماری فضائی طاقت کتنی تھی اور ہندستان کی طاقت کتنی۔ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ ہم میں سے کئی گنا زیادہ تھے اور صرف یہی نہیں کہ وہ بہت زیادہ تھے بلکہ ان کے ہوائی جہاز ہمارے ہوائی جہازوں سے زیادہ بہتر نوعیت کے تھے لیکن تجربے نے آپ کو بتا دیا کہ اگر اللہ کی تائید شاملِ حل ہواور مسلمان اللہ کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں تو اللہ کی تائید معجزے دکھا سکتی ہے اور اس زمانے میں بھی اس نے معجزے دکھائے ہیں۔ ہم سب اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں اللہ کے بھروسے پر اُٹھنا چاہیے اور اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے ___لیکن ایک بات اچھی طرح سمجھ لیجیے۔

یاد رکھیے کہ اللہ سے تائید کی اُمید رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی نافرمانیاں کرنا‘  یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چلا کرتیں۔ اس جنگ سے پہلے سترہ اٹھارہ سال جو کچھ ہمارے ہاں ہوتا رہا ‘ جو فسق و فجور بپارہا‘ جس طرح اسلامی تہذیب کے گلے پر چھری چلائی جاتی رہی اور غیراسلامی ثقافت کو رواج دیا جاتا رہاوہ سب کو معلوم ہے‘ اس کی داستان کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ یہ قوم اللہ کا نام لیتی تھی اور اس قوم کے اندر خدا سے بغاوت کا ارادہ نہیں تھا بلکہ یہ فسق و فجور اس پر زبردستی مسلّط کیا جا رہا تھا‘ اللہ نے ہم پر رحم کیا اور اس آزمایش کے موقع پر اللہ کی ایسی غیرمعمولی تائید آئی کہ دشمن بھی ششدر رہ گیا۔ لیکن جان لیجیے کہ اپنے خدا کے ساتھ  یہ کھیل ہم بار بار نہیں کھیل سکتے۔ اگر ہمیں اس سے تائید چاہنی ہے‘ اگر ہم یہ اُمید لگاتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے گا تو ہمیں اس کے ساتھ بغاوت کا رویّہ چھوڑنا پڑے گا۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ کہ لڑنے کے وقت کلمے پڑھے جائیں‘ جنگ میں اس کی مدد کے بھروسے پر اطمینان ظاہر کیا جائے اور لڑائی ختم ہوتے ہی فوراً پھر وہ سابق فسق و فجور شروع ہوجائیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ آج ہماری فوجوں کو ورائٹی شو دکھانے شروع کر دیے جائیںاورورائٹی شو اس طرح سے کہ عین فرنٹ کے اُوپر لے جاکر آدھے سپاہیوں سے کہا جائے کہ تم مورچوں میں بیٹھو اور آدھے جاکر ورائٹی شو دیکھیں۔ گویا صلوٰۃ خوف کی طرح اب یہ آدھے جاکر وہاں رقص دیکھیں‘ العیاذ باللہ!

یہ چیزیں خدا کی مدد حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہیں۔اگر ہمیں خدا کی مدد حاصل کرنی ہے تو پھر خدا کی اطاعت کی طرف آنا پڑے گا۔ اُس سے بغاوت کی راہ چھوڑنا پڑے گی۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہم خدا کی اطاعت اور فرماں برداری اختیار کریں تو جتنی تائید پچھلے سترہ روز میں خدا نے کی ہے‘ اس سے بدرجہا زیادہ تائید اس کی طرف سے پھر ہوگی اور بہت جلدی نہ صرف یہ مسئلہ حل ہوگا بلکہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے متعلق بھی ہمیں پوری طرح سے اطمینان حاصل ہوجائے گا جیساکہ سردار عبدالقیوم صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اب مسئلہ صرف کشمیر کا نہیں ہے‘ مسئلہ پاکستان کا ہے اور اس بات کا کہ پاکستان کو عزت کے ساتھ جینا ہے یا نہیں؟

تو اس مسئلے کو صرف خدا کی تائید ہی حل کرسکتی ہے۔ اور کوئی طاقت ایسی نہیں ہے۔ ہرطرف سے نظریں ہٹاکر ایک خدا سے اُمیدیں باندھی جائیں۔ نہ روس کی طرف سے آپ کو کوئی امداد ملنی ہے نہ امریکا کی طرف سے‘ نہ برطانیہ کی طرف سے اور نہ اقوام متحدہ کی طرف سے۔ ہرطرف سے نظریں ہٹا کر ایک خدا کے بندے بن جایئے اور خدا کے بھروسے پر اپنے دست و بازو سے اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہی آخری راستہ ہے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے حکمرانوں کو اتنی ہمت اور اتنا عزم عطا کرے کہ وہ اُس کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں اور اس مسئلے کو حل کرلیں۔ میں تمام مسلمانوں کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنا فرماں بردار بنائے‘ ان کو اپنی اطاعت کی توفیق بخشے اور ان کے اُوپر رحم فرمائے۔ (۵-اے ذیلدار پارک‘ جلد دوم‘ مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی‘ ص ۵۳-۶۳)

کتابوں میں لکھا ہے کہ کسی حکومت کی کارکردگی جانچنا ہو تو دیکھو کہ اُس ملک کے شہریوں کی جان‘ مال اور آبرو کتنی محفوظ ہے۔ نواب شاہ کی غریب لڑکی سکینہ پر ایک وڈیرے کا بیٹا رات کو  گھر میں گھس کر تیزاب ڈال جاتا ہے اور اُسے یقین ہے کہ کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ ایک فوجی ایتھلیٹ فیصل آباد سے ایک ایتھلیٹ لڑکی کو ملازمت دلانے کے بہانے لاہور بلاتا ہے اور اگلی صبح ہوٹل سے اس کی لاش ملتی ہے۔ اس کے بعد اس کا ذکر اخبارات سے غائب ہوجاتا ہے۔ اجتماعی آبروریزی کی کوئی بہت ہی لرزہ خیز واردات ہو اور سیاسی مصلحت آڑے نہ آرہی ہو تو وزیراعلیٰ جاکر ہمدردی کے دو بول بولتے ہیں اور ایک دو لاکھ روپوں سے زخموں پر نمک چھڑک آتے ہیں۔ یقینا اخبارات میں سیکڑوں میں سے چند ہی واقعات آپاتے ہیں۔

مال کی حفاظت کایہ عالم ہے کہ کراچی جیسے شہر میں گاڑیاں اور موبائل چھیننے کے واقعات سیکڑوں ہوتے ہیں (گذشتہ برس موبائل چوری میں مزاحمت پر ۴۰ شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے) اور مجرم آٹھ دس بھی نہیں پکڑے جاتے۔ گھروں میں ڈاکو دستک دے کر آتے ہیں اور گھروں کا صفایا کرجاتے ہیں۔ صاحبِ خانہ مزید لٹنے کے لیے تیار نہیں‘ اس لیے پولیس میں رپورٹ درج نہیں کراتے۔ بنکوں سے رقم لے کر نکلنے اور جمع کرانے آنے والوں کا لٹنا معمول کی بات ہے۔ بسوں اور ریل گاڑیوں میں سوار ہوکر اور ناکے لگاکر باوردی ڈاکو کئی کئی گھنٹے کارروائی کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے نہیں آتا۔ کئی موقعوں پر تو وردی جعلی نہیں‘ اصلی پائی گئی۔اگر معاشرے میں جان کی حفاظت کا عالم دیکھنا ہو تو اخبارات میں قتل کی وارداتوں کی کثرت پر نظر ڈالیں۔ کوئی تحقیق کار  ملک بھر کے اخبارات سے صرف ایک دن کا چارٹ بنالے تو تعداد تین ہندسوں تک پہنچ جائے گی۔

اس مہذب اور ترقی یافتہ دور میں قانون کی حکمرانی‘ یعنی Rule of Law کا بڑا ذکر ہے۔ عدالتوں کا پورا نظام‘ پولیس کا ہمہ دم مزید سہولتیں پانے والا محکمہ اسی لیے ہے لیکن قانون کی حکمرانی کا عالم دیکھنا ہو تو یہ دیکھیے کہ اس ملک کا بزعم خود صدرجلسۂ عام میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلاکر دن دہاڑے دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیرتا ہے‘ اور ڈنکے کی چوٹ بکھیرتا ہے لیکن کسی الیکشن کمیشن کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور نہ کسی عدالت کو سوموٹو کا خیال آتا ہے اور نہ کوئی شہری فریاد لے کر جاتا ہے‘ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ ایسی فریاد کی شنوائی نہ ہونے کی روایت محکم ہے اور فریاد کرنے والے کا حشر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے قانون توڑنے والے صدر کو ۱۰ بار بلکہ ۱۰۰ بار باوردی منتخب کرنے کا‘ چہرے پر کسی شرم کا تاثر لائے بغیر‘ اعلان کرنے والے بھی موجود ہیں۔

جان‘ مال اور آبرو کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی سے غافل بلکہ اس کی دشمن حکومت کی کارگزاری پر نظر ڈالی جائے تو صحافی اغوا ہورہے ہیں‘ قتل ہورہے ہیں‘ لاپتا افراد کے ورثا احتجاج کرتے کرتے تھک گئے ہیں‘ عدالت عظمیٰ بھی بے بس ہے۔ اتنی پولیس اور فوج دھماکے روکنے میں ناکام ہے لیکن میڈیا سے راگ الاپے جا رہے ہیں کہ سب چین ہے اور پورے ملک میں زبردست معاشی ترقی ہورہی ہے‘ دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں (خودکشی اور بچے فروخت کرنے کی خبروں کو ایک طرف رکھیں)۔ معاشی ترقی ضرور ہو لیکن ایسا بھی کیا کہ اُس کا خبط ہوجائے اور ترقی بھی بس  یہ کہ ہم کسی طرح امریکا و برطانیہ کی طرح ہوجائیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی سوچ نہیں‘ کوئی    نصب العین نہیں۔ آزادی کے ۶۰سال بعد بھی غلام کے غلام! انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون!

بات صرف معاشی ترقی کی نہیں۔ دوسرا خبط اپنی دینی اور معاشرتی اقدار و روایات کو  ترک کرکے ہرطرح سے مغرب کے سانچے میں ڈھل جانے کا ہے۔ اس کا اظہار صرف میراتھن ریس سے نہیں بلکہ ہر سرگرمی سے ہوتا ہے( بسنت‘ سیاحت کا سال‘ ہر وقت ناچ گانے…)۔  حال ہی میں ریڈیو پاکستان جیسے قومی ادارے کی تقسیم ایوارڈ کی تقریب منعقد ہوئی‘ جس میں  شوکت عزیز‘ محمد علی درانی اور اشرف قاضی جیسی ہستیوں کی مسکراہٹوں کی جلو میں گلوکارائیں حاضرین کو اُٹھنے اور ناچنے کی اور بیٹھے بیٹھے بھنگڑا ڈالنے پر ہر طرح کے انداز و ادا سے اُبھارتی رہیں۔

کیا ہم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں واقعی اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے بدترین لوگ  ہم پر مسلط کردیے گئے ہیں! وہ حکومت جس کے لیے دستور پاکستان میں یہ ہدایت مرقوم ہے کہ اپنے شہریوں کی زندگی کو قرآن وسنت کے مطابق گزارنے میں تعاون کرے گی‘ اس کی ساری پالیسیاں اس کے خلاف ہیںاور کسی شرمندگی کے ساتھ نہیں‘ ببانگ دہل خلاف ہیں۔ اس کے لیے سارے قومی وسائل بے دردی سے خرچ کیے جا رہے ہیں۔

ایک محدود اقلیت طاقت و اختیار کے سرچشموں پر قبضہ کرکے اور عالمی سازشوں میں حصہ دار بن کر ملک کی اکثریت کا قبلہ و کعبہ بدلنے کے درپے ہے۔ کیا اسے ایسا کرنے دیا جائے؟   اس اقلیت کے سرخیل اپنے اُوپر ’اعتدال پسندی‘ کا جھوٹا لیبل لگاکر پروپیگنڈے کے بل پر    حقیقی اکثریت کو اقلیت ہونے کا یقین دلا رہے ہیں۔

 ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اقلیت کے لیے‘ حکومت و اختیار کے باوجود بھی‘ یہ ممکن کیوں ہے؟

اس کا سبب یہ ہے کہ معاشرے میں جو مجموعی خیر ہے‘ وہ منظم نہیں‘ اس لیے مقابلے پر نہیں آتا اور برائی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ اس اقلیت کی طاقت کا راز اکثریت کی نیکی کا غیرمنظم ہونا ہے۔ جو آدمی خود کو نیک سمجھتا ہے‘ وہ اس سے آنکھیں بندکرلیتا ہے کہ معاشرے کا شر اس کے ماحول کو اور آس پاس افراد بلکہ اُس کی آل اولاد تک کو گھیرے میں لے رہا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ جب تک یہ حکمران تبدیل نہیں ہوں گے‘ معاشرہ صرف دعائوں سے نہیں بدلے گا۔ خیر کی بہت ساری کوششیں علیحدہ علیحدہ منظم ہیں لیکن مجموعی طور پر منتشر ہیں‘ اس لیے بے اثر ہیں۔ دراصل حکمران طاقت کو تبدیل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خیر کی طاقتیں مجتمع ہوں‘ ورنہ منظم برائی کے آگے غیرمنظم نیکی شکست کھا جائے گی اور مغلوب ہوجائے گی۔ اس وقت تو چیلنج بھی دیا جارہا ہے کہ مقابلے کا سال ہے‘ ان نیکوکاروں کو فنا کردو۔ اس کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پورے ملک کے ہر قریہ و شہر کی ہر چھوٹی بڑی مسجد کے سب نمازی ہر روز مغرب کے بعد باہر آئیں اور بازار میں کھڑے ہوکر مرگ بر امریکا کی طرز کا نعرہ تین دفعہ لگا کر منتشر ہوجائیں۔ یہ لَے بڑھتی جائے اور یہ نعرے ملک کے طول و عرض میں ۳۰‘ ۳۵ منٹ گونجیں تو بدی کے علَم برداروں کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ ایسا وقت آگیا ہے کہ نیک لوگوں کو‘ سب نیک لوگوں‘ مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے تاکہ بدی اور فساد کے علَم بردار شکست کھاکر اپنے بلوں میں واپس جائیں۔ ہماری خون پسینے کی کمائی ‘ ہمارے فراہم کردہ وسائل ہماری دنیا اور آخرت خراب کرنے کے لیے استعمال نہ کریں۔

قرآن صرف اس لیے نازل نہیں ہوا کہ لوگ نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں اور رسولؐ اللہ بھی صرف نماز روزوں کے لیے نہیں آئے تھے۔ نماز‘ روزہ ضروری ہیں لیکن ان کی بنا پر وہ قوت پیدا ہونا چاہیے جو بدی کو برداشت نہ کرے اور نیکی کو نافذ کرنے کے لیے ہرطرح کی تدابیر کرے اور کامیابی حاصل کرنے تک چین سے نہ بیٹھے۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نیکی کے محدود تصور پر   قانع ہیں اور قرآن کے پیغام اور اُسوۂ رسول ؐ سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔اس کے باوجود بھی معاشرے میں اتنا خیر ہے کہ بدی کی طاقتیں حکومتی وسائل‘ فوج‘ پولیس‘ اقتدار‘ عالمی سرپرستی وغیرہ سے محروم ہوں‘ اور ملک کے سیکولر عناصر کا دین اسلام کے غلبے کے خواہاں لوگوں سے منصفانہ مقابلہ ہوتو بڑے بڑے طرّم خاں دم دبا کر بھاگتے نظر آئیں گے۔ وہ اپنے عوام کی عظیم مسلمان اکثریت پر چڑھ دوڑنے کے لیے وردی اور اسلحے کے محتاج ہیں۔ یہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی لیے شفاف انتخابات کی ہرتجویز کو رد کرتے ہیں اور اپنے مذموم عزائم کے سرپرست بیرونی ماہرین سے انتخابات منصفانہ ہونے کا سرٹیفیکٹ لیتے ہیں۔

تبدیلی آئے‘ معاشرے کا خیرحکومت کے ایوانوں تک پہنچے‘ حکومت دستور اور قرارداد مقاصد  کے تقاضوں کو اخلاص اور جذبے سے پورا کرے‘ تب ہی اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی اور شہریوں کی جان‘ مال اور عزت وآبرو محفوظ ہوگی۔ پولیس فرض شناس ہوگی۔ عدلیہ کو معلوم ہوگا کہ اگر وہ ممانعت کردے گی تو کوئی آرڈی ننس بسنت منانے کی اجازت نہیں دے گا‘ کوئی آبروریزی کی جرأت کرے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ اسی شام یا اُسی ہفتے اُسے تختہ دار پر لٹکنا ہوگا۔ ایسا ہوجائے تو پھر یہ ملک ہمارے لیے اور ہماری آیندہ نسلوں کے لیے رہنے کی جگہ ہوگی اور ہم یہاں پُرسکون زندگی گزار کر آخرت میں بھی سرخ رو ہوسکیں گے۔ان شاء اللہ!

 

مسلمانوں کے لیے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حوادثِ عالم کے تسلسل میں وہی طرزِعمل کامیابی اور فلاح کی ضمانت ہے جو اُسوۂ رسولؐ کے عین مطابق ہو اور قرآن کریم کے معیار حق و صداقت پر پورا اترتا ہو ۔حق و صداقت کیا ہے اور جھوٹ کیا؟یہ معلوم کرنے کے لیے ہمیں نہ نصاریٰ اور اہل کتاب کی طرح افراط و تفریط کا رویہ اپنانا چاہیے اور نہ فلاسفہ کی فلسفیانہ موشگافیوںکا سہارا لینا چاہیے۔بحیثیت حق جو’ مسلمان ہمارا رویہ کتاب اللہ اور سیرت رسول کی طرف رجوع کا ہونا چاہیے کیونکہ قوموں کے عروج و زوال اس حدیث کے مطابق قرآن کے ساتھ ان کے سلوک سے مشروط ہے۔اسی لیے ارشاد ہوا:’’اﷲ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو عروج نصیب کرتا ہے اور دوسری قوموں کو زوال سے دوچار کرتا ہے‘‘(مسلم)۔ بطور تشریعی امر قرآن ہمیں سمع و طاعت کا پابند بناتا ہے۔البتہ اس شرع کا اطلاق عصر حاضر کے تکوینی امور پر کرنے سے پیش تر زمینی حقائق پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے۔

گذشتہ پانچ برسوں کے دوران وقوع پذیر حالات و واقعات،دہشت گردی کے نام پر  حق و باطل کی کش مکش، خدائی قوانین کو بدل کر سیکولر قوانین کے اجرا کی جدوجہد، اباحیت، عالمی ذرائع ابلاغ پر پیغمبرآخر الزمان کی ذات اقدس کا تمسخر،قرآن مجید کی علانیہ بے حرمتی اور اسلامی شعار کا مذاق،نیو یارک میں خانہ کعبہ کی شبیہہ پر شراب خانے کی تعمیر، امریکا میں چنگیز خان کے مجسمے کی تنصیب، افغان جیلوں، عراقی عقوبت خانوں اور گوانتاناموبے میں مسلمانوں پر مظالم اور سفاکیت،مظلوم فلسطینیوں اورکشمیریوں کے خلاف یہود و ہنود اور صلیبی قوتوں کے گٹھ جوڑ اور امریکا کی طرف سے امتیازی طور پر بھارت کے ساتھ سول نیوکلیر معاہد ے کے توثیق نے استعمار کے اصل مقاصد کو واضح کر دیا ہے جو عصر حاضر میں فرعونیت کی علامت ہیں۔

تاریخی طور پر فرعونی استعمار کے عزائم اور ان کی پالیسیوں کے ادراک کے لیے قرآن مجید ہمیں جو روشنی فراہم کرتا ہے اس کا سورۂ قصص میں یوں احاطہ کیا گیا ہے: ’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوںکو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا،اس کے لڑکوں کو قتل کرتااور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریںان لوگوں پرجو زمین پر ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور انھی کو وارث بنائیں۔اور زمین میں انھیں اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کاانھیں ڈر تھا‘‘۔ (القصص۲۸: ۴-۶) قرآن کے مطابق فرعونی استعمار کی پشت پر اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (النازعات۷۹:۲۴) ’’میں ہی تمھارا پروردگارِ اعلیٰ ہوں‘‘کا استکبارکارفرماتھاجس کا وہ عوام میں اعلان کرتا پھرتا تھا۔   اسی لیے اس کو آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ کر اﷲ نے عبرت کا نشانہ بنا دیا ہے۔ہر ’فرعونے را موسی ‘کے مصداق اس مقصد کے لیے ’دشمن‘ کی پرورش فرعون کے محل میں ہوتی رہی۔ جب یک قطبی قوت کے حامل فرعون جارحیت کے مرتکب ہوئے اور ملکوں کو روند ڈالا: الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلاَدِo(الفجر۸۹:۱۱) اور دنیا کو فساد سے بھر دیا: فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ o (الفجر ۸۹:۱۲) تو پھر اﷲ نے اس پر اپنے عذاب کاکوڑا برسایا اور اسی ’دشمن‘ کے ہاتھوں اسے غرقاب کیا اور مستضعفین کو نجات دلا دی۔فرعون کی حنوط شدہ محفوظ لاش ۲۱ویں صدی کے مستعمرین کے لیے عبرت کی ایک کھلی نشانی ہے۔

قرآن مجید میں ایک ایسے ہی خود ساختہ عالمی نظام کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے جو مصر کے فرعونوں نے قائم کیا تھا‘ اس کے بنیادی عناصر کی نشان دہی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس نظام کے علَم برداروں نے زمین میں اپنی بڑائی قائم کی(اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ)، باشندگانِ ملک کو ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم کیا(جَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا)،کچھ لوگوں کو کمزور کیا اور ان کی نسل کشی کی (یَّسْتَضْعِفُ طَـآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ھُمْ)اور زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے کے موجب ہوئے،(اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ- القصص ۲۸:۴)یہ نظام جو ہزاروں سال پہلے فرعون نے قائم کیا تھا اپنے اندر وہ تمام خصائص رکھتا ہے جو بعد میں سامنے آنے والے دوسرے عالمی نظاموں میں اپنائے گئے لہٰذا قرآن مجید کی رو سے ہر وہ خود ساختہ عالمی نظام فرعونی نظام ہے جو یہ مقاصد رکھتا ہو۔

مستقبل کا لائحہ عمل تعلیمات قرآنی کی روشنی میں

ماضی اور حال کے مستکبرین کے مکر و فریب اور چال بازیوں کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے : قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَاَتَی اللّٰہُ بُنْیَانَھُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْھِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِھِمْ وَ اَتٰھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَo (النحل۱۶:۲۶)’’ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں کر چکے ہیں تو دیکھ لو اﷲ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اُوپر سے ان کے سر پر آگری اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا‘‘۔

قرآن مجید کی روشنی میں تکوین میں وقوع پذیر حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے سے احکام تشریع کے اطلاق میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا اور امت مسلمہ کے مخلص افراد ان تعلیمات کی روشنی میں آیندہ کا کوئی لائحہ عمل اور پالیسی ترتیب دینا چاہیں تو قرآن ان کے لیے ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ــ سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات میںبدعہد مشرکین کو چار ماہ کا نوٹس دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔جس کے اعلان کے لیے حج اکبر کے دن کا تعین کیا گیا تھا اس وقت ابوبکر صدیقؓ حج کے لیے نکل چکے تھے تو حضوؐر نے حضرت علیؓ کو بھیجا کہ مجمع عام میں حاجیوں کو سنائیں اور انھوں نے منیٰ کے اندر جا بجا یہ آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائیں‘ جب کہ حجاج کی قیادت بدستور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں ہی رہی:

’’اعلان براء ت ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لواور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو‘ اور یہ کہ اللہ منکرین ِحق کو رسوا کرنے والا ہے ۔ اطلاع عام ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ   اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی۔اب اگر تم توبہ کر لوتو تمھارے ہی لیے بہتر ہے جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔اور اے نبیؐ! انکار کرنے والو ں کو سخت عذاب کی خوش خبری سنا دو بجز ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے پھر انھوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدتِ معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اﷲ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (التوبہ ۹: ۱ -۴)

دوسری جگہ حکم ہوا: فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ’’جب حرام مہینے (ذی القعد،ذی الحج،محرم اور رجب) گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ،قتل کر دو‘‘۔(۹:۵)

سورئہ توبہ کی آیات ۷ تا ۱۵ میں اس نوٹس کے پس منظر میں کفار کو ان الفاظ میں چارج شیٹ دی گئی ہے: ’’ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہو سکتا ہے‘ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ـ۔ تو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہوکیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے___مگر اُن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہو سکتا ہے‘جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پاجائیںتو نہ تمھارے معاملے میںکسی قرابت کا لحاظ کریں اور نہ کسی معاہدے کی ذمہ داری کا؟ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کو شش کرتے ہیںمگر دل ان کے انکار کرتے ہیںاور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔انھوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی پھر اللہ کے راستے میں سدّراہ بن کر کھڑے ہو گئے۔بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔کسی مومن کے معاملے میں نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیںاور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادتی ہمیشہ انھی کی طرف سے ہوتی ہے‘‘۔(۹:۷-۱۰)

آگے چل کر اسی سورہ کی آیات ۱۳ ،۱۴ اور ۱۵میں یہ حکم دیا گیاہے :’’کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو‘ اللہ تمھارے ہاتھ سے ان کو سزا دلوائے گااور انھیں ذلیل وخوار کرے گااور ان کے مقابلے میں تمھاری مدد کرے گااور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا‘ اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا۔اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہیـ‘‘۔

بدعھدی کا انجام

بے شک معاہدات انسانی تعلقات کی قدیم ترین بنیادیں ہیں۔عمرانی زندگی میں اگر میثاق وعہد کی خلاف ورزی اور نقضِ عہد کو وطیرہ بنایا جائے تو قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں بدترین فساد اور فتنہ لازمی ہوجاتا ہے۔اس لیے قرآن نے مخصوص صورت حال کے علاوہ عہد کی پابندی کا درس دیا ہے۔جس پیچیدہ صورت حال سے آج پاکستان اور عالمِ اسلام کے ممالک گزر رہے ہیں اور دہشت گردی کے حوالے کیے جانے والے معاہدات ہمارے حکمرانوں کے پاؤں کی زنجیریں بن رہے ہیں۔

تفصیل میں جائے بغیر صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کرنے والے مشرکین کی طرف اشارہ کافی ہوگاجو کہ اسلام اور اسلامی مملکت کو پنپتے دیکھ کر ہر بندش سے خود کو آزاد کر کے اسلام پر آخری وار اور مسلمانوں کو مطعون کرنا چاہتے تھے جس نے آنحضوؐر کو خلافِ معمول اسٹرے ٹیجی بدلنے پر مجبور کر دیا جو بالآخر قیصرِ روم کی شکست پر منتج ہوا۔ کیونکہ آنحضوؐر نے صریح بد عہدی کے بعد احزاب یعنی coalition forcesکو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔سورئہ انفال، سورئہ احزاب اور سورئہ توبہ میں تفصیل موجود ہے جو تاریخی تقابل اور واقعاتی تطابق کے حوالے سے موجودہ حالات سے موافقت رکھتے ہیں۔سورئہ انفال کی آیات ۵۵ تا ۵۸ کے تاکیدی ارشادات ملاحظہ ہوں:

یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیںجنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔(خصوصاً)ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اورذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔پس اگر یہ لوگ تمھیں لڑائی میں   مل جائیںتو ان کی ایسی خبر لوکہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہو جائیں ۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو اور برابر ہو جائو یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔

اتحادیوں کی عبرت ناک شکست

سورئہ احزاب میں ان اتحادی فوجوںکے انجام بد کی طرف نشان دہی کی گئی ہے جنھوں نے عظیم سلطنت روم کی شہ پر مسلمانوں سے لڑائی کی تھی اور ساتھ ہی یہودیوں کی سرکوبی کی بھی  نوید سنائی گئی ہے جو نہ صرف جزیرۃ العرب میں بدامنی پھیلانے کے ذمہ دار تھے بلکہ وہ عالمی سطح پر شروفساد کی پشت پناہی کرتے تھے اور غزوۂ احزاب کے روحِ رواں تھے۔ارشا د ہوا:

اللہ نے کفا ر کا منہ پھیر دیا‘وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یوں ہی نامراد پلٹ گئے‘ اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا‘ اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ پھر اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا‘ اللہ ان کی گڑھیوں سے انھیں اتار لایا اور ان کے دلوں میں اُس نے ایسا رعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہواور دوسرے گروہ کو   قید کررہے ہو۔ اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیااور وہ علاقے تمھیںدیے جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا۔اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (احزاب ۳۳:۲۵-۲۷)

ایک اور جگہ پر دین حق کی حتمی فتح کی بشارت دیتے ہوئے ارشاد ہوا:

اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(التوبہ۹:۶۱)

امت مسلمہ کے اھداف کا ازسرنوتعین

شریعت اسلامی کی ان اصولی ہدایات اور احکام کی روشنی میں اللہ کے رسولؐاور ان کے جاںنثار صحابہؓ نے جو تکوینی حکمت عملی اپنائی وہ رہتی دنیا تک تمام انسانیت کے لیے عموماً اور مستضعفین اہل ایمان کے لیے خصوصاً مشعل راہ ہیں۔لہٰذا موجوہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں قرآن اور سیرت رسول کو اپنانا پڑے گا۔اور ہمیں ہر سطح پر اپنی عسکری اور سیاسی پالیسی اور حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہو گی اور یہی اقدام بدلتی دنیا میں امت مسلمہ کی حیات نو کی ضمانت ہو گی۔  شرع اسلامی میں تکوین میں وقوع پذیر تمام واقعات اور انسانی مسائل کا اصولی حل موجود ہے‘ تاہم اختصار کے ساتھ ان ہدایات کی طرف اشارہ کروں گا جو امت مسلمہ کو یک جہتی اور اپنے اہداف کے ازسر نو تعین میں راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

  •  اعلاے کلمۃ اللّٰہ: امت مسلمہ کا پہلا ہدف اعلاے کلمۃاللہ، یعنی کلمۂ حق کی بلندی ہونا چاہیے۔ ارشاد خداوندی ہے : تکون کلمۃاﷲ ھِیَ العلیا ’’ تاکہ اللہ کا کلمہ سربلند ہو جائے‘‘۔ قرآن کی مخالفت اور استہزا کے جواب میں امت کو تمسک بالقرآن والسنۃ کا رویہ اپنانا چاہیے تاکہ کلمۂ کفر سرنگوں ہو جائے اور طاغوتی طاقتیں اپنے انجام بد سے دوچار ہوں۔اللہ کے کھلے اور چھپے دشمنوں کو مرعوب کرنے کے لیے مسلمانوں کے لیے قوت اور ٹکنالوجی کا اصول ضروری ہے۔ ارشاد ہوا : ’’ان کے مقابلے کے لیے جہاں تک تمھارا بس چلے قوت فراہم کرو ‘‘۔
  •  اتحاد امت اور اصول رازداری: امت کا دوسرا ہدف مکمل اتحاد و یک جہتی ہونا چاہیے۔ ارشا د خداوندی ہے : وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳)’ ’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔

مسلمانوں کے درمیان افتراق اور انتشار کے اسباب فراہم کرناشیطانی چالیں ہیں۔ جغرافیائی و طبقاتی تقسیم،مذہبی و سیاسی تفریق ،نسلی اور لسانی امتیاز اور جنس اور رنگ کی بنیاد پر  تعصب و کش مکش کا خاتمہ صرف اعتصام بحبل اللہ کی لڑی میں پرونے اور اختلافات مٹانے میں پوشیدہ ہیں۔اس لیے اولین شرط یہ ہے کہ ہم دوسروں کو اپنا رازدار نہ بنائیں۔حکم ہوا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔تمھیں جس چیزسے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے، ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں‘ اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتوگے)‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۸)یہ آیت مسلمانوں کے خفیہ اداروں کے لیے ایک رہنما اصول کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا intelligence sharing کے ڈھکوسلوں کا سہارا لینا ناعاقبت اندیشی اور خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔

  •  احترام آدمیت اور مظلوم انسانوں کی مدد: ارشاد ہوا : وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ،(بنی اسرائیل۱۷:۷۰)’’ہم نے بنی آدم کو فضیلت بخشی ہے‘‘۔

احترام آدمیت اور اولاد آدم کی یگانگت کا اصول ہمارا ہدف ہونا چاہیے ۔خدا کے آزاد بندوں کو اپنا بندہ بنانے کے لیے مستکبرین کی تگ و دو کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہونا اور مدد طلب کرنے پر دنیا بھر کے مستضعفین کی بلا امتیاز مدد کرنا اُمت ِمسلمہ کا طرۂ امتیاز ہونا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ، (انفال۸:۷۲) ’’اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے‘‘۔

  •  جھاد فی سبیل اللّٰہ: مستکبرین کے تمام غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کا توڑ صرف ڈپلومیسی سے ممکن نہیں بلکہ یہ جہاد فی سبیل اللہ سے ممکن ہے قرآن کریم میں اس کے لیے کئی مقامات پر تاکیدی احکامات موجود ہیں چند آیات کی طرف اشارہ کافی ہو گا ارشاد ہوا: اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا  وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ (الحج۲۲:۳۹) ’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے‘ کیوںکہ وہ مظلوم ہیں‘ اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے‘‘۔ دوسری جگہ حکم دیا گیا: اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (التوبہ ۹:۴۱)’’نکلو اللہ کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور لڑو اللہ کی راہ میں اپنے مال وجان سے‘‘۔ یہ بھی ارشاد ہوا :وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا (البقرہ۲:۱۹۰)’’جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اﷲ کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا‘‘۔ ارشاد خداوندی ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ (التوبہ ۹:۷۳) ’’اے نبیؐ! تم کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کرو اور ان سے سختی سے پیش آؤ ‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ (الحج۲۲:۷۸)’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔

جہاد اور قتال وہ ہدف ہے جس سے رو گردانی ذلت و رسوائی کا باعث ہے۔ ما ترک قوم الجھاد الا ضلوا (حدیث)افغانستان اور عراق کے علاوہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد ہماری پالیسی کا جزولاینفک ہونا چاہیے تا کہ برہمن اور سامی النسل مستکبرین کا استکبار و غرور خاک میں مل جائے۔اور دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کو حوصلہ تازہ مل جائے۔قرآن کا حکم واضح ہے:’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوںکی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیںاور فریاد کر رہے ہیںکہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہماراکوئی حامی و مددگار پیدا کر‘‘۔ (النساء۴:۷۵)

  •  تیز رفتار ڈپلومیسی: مذکورہ بالا تکوینی حالات میں قرآنِ کریم کے احکامات ایک تیز رفتار ڈپلومیسی کے بھی متقاضی ہیں جس کا مقصد مقاتلین belligerents کو عالمی سطح پر تنہائی (isolation) کا شکار کرناہوگا لہٰذا ہدایاتِ الٰہی Divine Guidance کی روشنی میں عالمِ اسلام کی قیادتوں اور سفارتی حلقوں کو OICاور UNOکے پلیٹ فارم سے مستکبرین کی گرتی ہوئی عہد شکن طاقتوں کے سامنے اپنے واضح موقف کا اعلان کرنا چاہیے جس کے چیدہ نکات درجِ ذیل ہوسکتے ہیں:
  •     عالمِ اسلام کے خلاف امریکا اور برطانیہ اپنی امپیرئیل گرینڈ اسٹرے ٹیجی پر عمل درآمد فوری روک دیں۔
  •     افغانستان اور عراق سے اتحادی افواج کی چار ماہ کے اندر واپسی کا عمل شروع کرنے کو یقینی بنا یا جائے۔
  •      اسلام کو evil ideology اور انتہا پسند نظریے کی بنیاد پر ابلاغی پروپیگنڈے کا موضوع بنانے ، نیز قرآن اور شعائرِ اسلامی کی بے حرمتی کو روکا جائے۔
  •     بین الاقوامی تعلقات میں انصاف کے اصولوں کو بالاے طاق رکھ کر آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی سے منسوب نہ کیا جائے۔
  •    اسرائیل اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کی عالمی سطح پر حمایت بند کی جائے۔
  •     فلسطین اور کشمیر کی آزادی اور خود مختاری اور حقِخود ارادیت کو یقینی بنایا جائے۔
  • معاشرت اور معیشت کی تنظیم نو: عالم گیریت کے نام پر اسلامی معاشروں کی موجودہ ہیئت اور رویوں میں تبدیلی ،نجی اور سرکاری تنظیموں ،ابلاغ اور قوانین کے بل بوتے پر معاش کے وسائل کو ملٹی نیشنل اداروں کے حوالے کرنا ،اسلامی معاشرے کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کو کمزور اور بے عمل بنانا بالادست استعمار کے اہداف ہیں جس نے زیر دست معاشروں اور افراد کو ظلم ،نا انصافی اور استحصال کے سوا کچھ نہیںدیا۔بنا بریں قرآن کریم کی سورئہ حجرات اور دوسری آیات میں دی گئی ہدایات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی رویوں کی درستی ضروری ہے۔ اُمت مسلمہ کو اپنی معاشرتی زندگی میں بد گمانیوں کے بجاے حُسنِ ظن کے اصول کو اپناناچاہیے۔یتیموں، بے کسوں کی کفالت کو شعار بنانا چاہیے جو کہ اسلامی سماجی نظام کفالت کا لازمی جزوہے۔حقوق اللہ اور  حقوق العباد کی ادایگی میں مسلم معاشروں کو استقامت کا رویہ اپنانا چاہیے۔اولاد کے لیے حلال کی کمائی کو ترجیح دینا چاہیے ۔فرد اور معاشرے کی سطح پر لالچ خود غرضی اور بخل کے امراض سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سادگی اور انکساری کی زندگی پر کاربند ہونا چاہیے۔ گلوبلائزیشن کے ضمن میںملکی سطح پرمعاش کی جدوجہد میں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور منفی سرگرمیوں کی حا مل این جی اوز کا آلہ کار بننے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سودی معیشت کا خاتمہ اور ملکی اور عالمی سطح پرمسلم اداروں کے استحکام کو ہدف بنانا چاہیے۔سفارتی تعلقات اور امت مسلمہ کی آپس میں تجارت کے فروغ اور مشترکہ منڈی کے قیام کے لیے جدو جہد کرنا چاہیے اور ڈالر اور یورو کے مقابلے میں مسلم ممالک کے لیے مشترک طلائی سکہ رائج کرنا چاہیے اور امت مسلمہ کو ان مقاصد کے حصول کے لیے مسلم ریڈیو و ٹی وی چینل کے قیام اور ابلاغی اداروں کی اصلاح کو ہدف بنانا ہو گا۔معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے ابلاغی پالیسی مرتب کرنا ہو گی تا کہ ابلاغ حق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ریاستی سطح پر انجام دیا جاسکے۔

جدید معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ امریکا اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد‘ ادارہ تحقیقات اسلامی‘ آئی آئی یو جیسے مراکزِدانش کی  سائنٹی فک تحقیق اور عالمِ اسلام کے دینی و اصلاحی تحاریک کی اجتماعی دانش سے استفادہ کیا جائے اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے لیے بھی تحاریکِ اسلامی کے تربیت یافتہ کارکن مزّکی کا کردار اداکر سکتے ہیںتاکہ اجتماعی عمل معاشرے میں عملِ صالح کے قالب میں ڈھل جائے۔ اور عالمی بستی میں خیر کو شرپر غلبہ حاصل ہو سکے نیز عدل و احسان پر مبنی فلاحی ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔تطہیرِ افکار اور تعمیرکردار کا یہ کام جدید ترکی کو ماڈل بنانے سے حاصل نہیں ہوسکتا  لہٰذا ماضی کے استعماری قوانین کو جاری رکھنے کے بجاے پاکستان کی اسلامی آئینی شناخت کو بر قرار رکھا جائے، خاندان کی اکائی اور مشرقیت کا تحفظ کیا جائے،عورتوں کی اسمگلنگ اور flesh trade کا راستہ روکا جائے، این جی اوز کے پریشر گروپس اور ملٹی نیشنل لابیوں کی ترغیبی وترہیبی حربوں کے سامنے   گھٹنے ٹیک کر متفرق نہیں ہوا جائے۔ لہٰذا پروپیگنڈے کے بجاے حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو ۳۰نومبر کو منظور ہونے والا حقوقِ نسواں کا ناقص بل پاکستان کی آئینی اور اسلامی اہداف کے حصول کے مقصد کو پورا نہیں کرتا۔لہٰذا حقوقِ نسواں اور جنسی امتیاز کا مسئلہ آسمانی ہدایت وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(البقرہ۲:۲۲۸) ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں‘‘کی بنیاد پر حل کرنا ہوگا‘‘۔ عورتوں کے اور ان کے ناموس کی حفاظت کے لیے سورئہ نساء اور سورئہ نور کی روشنی میں قانون سازی حقوق نسواں کے تحفظ کو یقینی بنا کر معاشرے میں عورت کو عزت کا مقام عطا کر سکتا ہے۔

  •  تنظیمِ نو کا عالم گیر ماڈل: معاشی اور معاشرتی رویوں کی اصلاح اور تنظیمِ نو کے سلسلے میں ہمیں نمونے کے طور پر سیرتِ رسولؐ سے رہنما اصول اخذ کرنے ہوں گے کیونکہ قرآن کریم ہدایت کو اتباعِ رسول کے ساتھ مشروط کرتا ہے ۔وَاِنْ تُطِیعُوْہُ تَھْتَدُوْا (النور ۲۴:۵۴)’’ اگر تم رسولؐ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے‘‘۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب۳۳:۲۱)’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا‘‘۔

سیرتِ رسولؐ میں ہمیں دین و دنیا کی جدائی کا تصور نہیں ملتا بلکہ آخرت کے مقاصد یعنیends کے حصول کے لیے دنیا کے وسائل کا استعمال سیرتِ نبویؐکا ایک اہم پہلو اور قرآن کی اس تعلیم کا نچوڑ تھا : وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا (القصص ۲۸: ۷۷) ’’اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو‘‘۔ اُخروی مقاصد کی خاطر دنیا کے وسائل برتنے کے آسمانی اصولوں اور پیغمبرانہ ضابطے کو اصطلاح میں ’شریعت ‘ کہتے ہیں۔اس لیے آنحضوؐر نے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا: الدنیا مزرعۃ الآخرۃ۔ ماڈل کے طور پر سردارِ دو عالم کے دونوں جہاں میں واحد کامیاب رہنما کی شہادت خود مغرب کے مفکرین بھی دیتے ہیں۔مائیکل ایچ ھارٹ (Michael H.Hart) سو عظیم تاریخ ساز شخصیات کی درجہ بندی میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے نمبر پر شمار کر کے رقم طراز ہے:

محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تاریخ میں وہ واحد شخصیت ہیں جو دین اور دنیا دونوں سطحوں پر سب سے زیادہ کامران اور کامیاب قرار پائے۔

عالم گیریت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں سرکارِ دوعالمؐ سے بڑھ کر کوئی اورعظیم قائد نہیں مل سکتا جس کی تعلیمات زمینی اور زمانی قیود سے آزاد ہوںاورجس تک پہنچنا کامیابی کی دلیل ہو۔ اسی لیے شاعرِ مشرق نے فرمایا ہے:    ؎  بمصطفیٰؐ برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست

  • خلافت کا قیام : آفاق میں دینِ حق کے غلبے کی واحد صورت زمین پر خلافت علی منہاج النبوۃ کا احیا ہے۔ ماضی کے استعمار کا پہلا ہدف مسلمانوں کی ٹوٹی پھوٹی خلافت کا خاتمہ تھاجسے ۱۹۲۴ء میں سرانجام دیا گیا ۔ لہذا عصر حاضر کے بحران سے نمٹنے کے لیے امت مسلمہ کا اصل ہدف سیاسی طور پر اجتماعی خلافت کے نظام کا قیام ہونا چاہیے جو حق و انصاف اور نیابت الٰہی کے اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔دور جدید میں ریاستی اداروں کی سطح پر مقننہ،عدلیہ،انتظامیہ اور پریس اور سفارتی و دفا عی اداروں کو ہر حال میں شرعی تقاضوں کا پابند ہونا چاہیے اوراسلامی ممالک اپنے آئین اور قوانین کو اسلام کے دیے ہوئے قرارداد مقاصد کے تحت مرتب کریں۔اجتماعی قیادت ان خامیوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے جو جمہوریت اور آمریت اور شخصی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ خلافت کے ضمن میںماضی کے تحقیقی کام کو ضابطے کی صورت میں مرتب کرنا ہو گا اس مقصد کے لیے عالمِ اسلام کی سطح پر مسلم اور مخلص مراکز دانش (ThinkTanks)کا قیام ضروری ہے ۔مسلمانوں کی خلافت ِارضی کے حوالے سے قرآن کریم کا ارشاد ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا (النور۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا  ہے‘ ان کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میںپسند کیا ہے‘ اور اُن کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا۔

بلا شبہہ اصول جہان بانی اور دنیا کو امن آشتی اور انصاف کی فراہمی کے لیے مسلمانوں کے لیے شریعت کے مقرر کردہ اہداف کا حصول شرط اولین ہے جس سے صرف ِنظر کر کے وہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام نہیں حاصل کر سکتے۔

  •  مسلم ورلڈ آرڈر کی تشکیل: ۲۱ویں صدی میں نیو رورلڈ آرڈر کے خاتمے اور مستکبرین کی گرینڈ اسٹرے ٹیجی کے انہدام کے صورت میں دنیا ایک عالمی بحران سے دوچار اور    نظامِ حیات میں ایک بڑا خلا رونما ہو نے والا ہے ۔ اﷲ کی مدد سے اس خلا کو پر کرنے کے لیے  قرآن و سنّت کے مطابق ایک اعلیٰ اسٹرے ٹیجی اور ارفع حکمتِ عملی action plan کی ترتیب اور دنیا بھر کے ستائے ہوئے مستضعفین کو امن اور انصاف کی فراہمی دراصل وہ چیلنج ہے جس سے عنقریب امتِ مسلمہ کو نبرد آزما ہونا ہے۔ مسلمانوں کی ترقی اور ان کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے مصالحتی کمیشن Inter muslim conflict resolution  جیسے ادارے تشکیل دے کر حل کیا جائے جس کے لیے قرآن سے یہ بنیاد فراہم کی ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات۴۹:۱۰)  ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘ لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو‘‘۔

بلا شبہہ سیرتِ نبویؐاور سیرتِ خلفاے راشدینؓ کی روشنی میں ایک بے لوث مجاہد قیا دت کی فراہمی،صلاحیت و صالحیت کی دو دھاری صفات سے متصّف سول و ملٹری انتظامیہ کی تشکیل،   ایمان دارانہ اور بے لاگ نظامِ قضاۃ کا قیام نیز سچائی کے علَم بردار دیانت دار میڈیا مینیجرز اور مخلص باصلاحیت سفارت کاروں کی فراہمی کو یقینی بنا کر ہی امتِ مسلمہ اس چیلنج سے عہد ہ برآ ہو سکتی ہے۔ نصر من اﷲ و فتح قریب

 

اگر گذشتہ دو صدیوں میں مغربی مستشرقین اور مغرب زدہ مسلمان دانش وروں کی تحریرات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں گروہوں کا اس بات پر اجماع نظر آتا ہے کہ وہ تحریکات اسلامی کی دعوتِ اصلاح اور تبدیلیِ زمام قیادت کو Political Islam اور کسی شدت پسند مذہبی ٹولے کے اقتدار پر قابض ہوجانے یا تھیوکریسی (theocracy) کے غلبے سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح عقیدے کی اصلاح کی ہر تحریک کا رشتہ جزیرہ نماے عرب کے معروف مجدد محمدبن عبدالوہاب کی تحریک سے جوڑ کر اسے وہابی تحریک قرار دیتے رہے ہیں‘ ماضی میں بھی یہ حربہ استعمال ہوتا رہا ہے۔سیداحمدشہید کی تحریک نفاذ شریعت و خلافت کو ہندستانی وہابی تحریک کا خطاب دے دینا۔ دورِجدید میں اس فکر میں ایک جزوی تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں بیرونی سامراج سے سیاسی آزادی کے حصول کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور پاکستان‘ مصر‘ سوڈان‘ اُردن‘ انڈونیشیا اور ملایشیا میں اُبھرنے والی تحریکات اسلامی نے سیاسی آزادی کے ساتھ فکری‘ ثقافتی‘ معاشی اور قانونی آزادی کے حصول کے لیے نوآزاد ممالک میں نفاذ شریعت اور دستوری اصلاحات کی تحریکات کا آغاز کیا۔ آزادی کا تصور محض بیرونی استعمار سے سیاسی آزادی تک محدود نہ تھا بلکہ اپنے دین اور ثقافت کے مطابق اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کی آزادی اس کا مرکزی نکتہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نئی مملکت کے قیام میں آنے کے ساتھ ہی اسلامی دستور اور اسلامی نظامِ معیشت و معاشرت کے قیام کی جدوجہد شروع کردی گئی۔ یہ جدوجہد بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے قوم سے کیے گئے وعدے اور ان کے ۵۰ سے اُوپر خطابات میں دہرائے گئے عزم کا ایک منطقی نتیجہ تھی۔ گویا جو کام بانیِ پاکستان اپنی حیات میں پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکے پاکستان میں نفاذ نظامِ اسلامی اور شریعت کے نفاذ کی تحریک اسی مقصد کے حصول کی جدوجہد تھی۔

اسلامی تحریکات کی اس جدوجہد کو مغربی سامراجی ذہن نے جو محض مغرب تک محدود نہ تھا بلکہ خود مسلم ممالک میں برسرِاقتدار طبقے میں بھی‘ جس کی ذہنی تربیت مغربی نظام تعلیم میں ہوئی تھی‘ روایتی تصورِ مذہب کی روشنی میں یہ تصور کرلیا گیا تھا کہ تحریکاتِ اسلامی کے نظام اسلام کے نفاذ کا نتیجہ دور جدید کی ایجادات کو تین طلاقیں دینے کے بعد بجلی اور انجن کی ایجاد سے قبل کے زمانے کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ان کے اس خیال کا بظاہر سبب یہ تھا کہ وہ اسلام کو بھی عیسائیت پر قیاس کرتے ہوئے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اسلامی نظام کا مطلب ایک مخصوص بنیاد پرست مذہبی ٹولے کی اجارہ داری ہے اور جس طرح یورپ میں کلیسا نے تھیوکریسی کی شکل میں سائنسی تحقیقات اور جدید افکار کا راستہ روکا تھا ایسے ہی ’مذہب‘ کے نام پر جو کام بھی کیا جائے گا اس کا نتیجہ پاکستان ہو یا مصر و سوڈان‘  ترقیِمعکوس کی شکل میں ظاہر ہوگا۔

بعض سادہ لوح افراد نے تحریکات اسلامی کے تبدیلیِ اقتدار اور اصلاحِ نظام کے مقصد کو روایتی مذہبی سوچ کی بنا پر روحانیت کے منافی ایک سیاسی نعرہ سمجھا‘ اور وہ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ اگر بات قلبی جِلا اور تزکیے کی ہو تو یہ چیز اسلام کی روح کے مطابق ہے لیکن اگر الہامی ہدایت‘ دین اور اخلاقی اقدار و احکام کی روشنی میں سیاسی‘ معاشی اور قانونی تبدیلی کی ہو تو پھر یہ سیاست ہے ۔ مزید یہ کہ اگر اسلام کو سیاسی‘ معاشی اور دیگر شعبوں میں نافذ کیا گیا تو مروجہ نظام (status quo) درہم برہم ہوجائے گا اور شاید اس کے نتیجے میں ان کا اقتدار و اثر باقی نہیں رہے گا۔ یہ قیاس کرتے ہوئے انھوں نے یہ زحمت بھی نہ کی کہ تحریکات اسلامی کی دعوت کا براہِ راست مطالعہ و مشاہدہ کرکے مبنی برحقائق راے قائم کرتے۔ یہ حضرات فرد کی ذاتی اصلاح کے توقائل رہے لیکن دین کو ’مذہب‘ سمجھنے کی وجہ سے مذہب کے معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی کردار کو ہضم نہ کرسکے اور غلط العام اصطلاح ’بنیاد پرستی‘ یا ’سیاست زدہ دین‘ کا عکس تحریکات اسلامی میں دیکھنے لگے۔

یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ تحریکات اسلامی نے کسی لمحے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ رجعتی تحریکات ہیں بلکہ روزاوّل سے دعوت و اصلاح کو ایک اجتہادی عمل سمجھا‘ لیکن ان تحریکات کے اپنے بارے میں یہ اعلان کرنے کے باوجود کہ ان کا مقصد تجدید و اصلاح ہے اور وہ جدید علوم  و ٹکنالوجی کے حصول کو اسلام کے نفاذ کی مہم کا حصہ سمجھتی ہیں۔ ان تحریکات کے بارے میں یہ بات پھیلا دی گئی کہ یہ قدامت پرست اور محض روایت کی علَم بردار تحریکات ہیں۔

اس کے مقابلے میں یورپ و امریکا کی بعض معروف سیاسی پارٹیوں کے اپنے بارے میں اس اعلان کے باوجود کہ وہ روایت پرست اور رجعتی ہیں انھیں بنیاد پرست قرار نہیں دیا جاتا۔ بڑی واضح مثال امریکا کی جی او پی یا ری پبلکن پارٹی ہے جس کی سربراہ آج کل neo-conservative فرقے کے ’امامِ حاضر‘ بش اصغر ہیں۔ یہ پارٹی اپنی قدامت پرستی کے اعلان کے باوجود آج تک fundamentalist یا extremist یا terroristکے نام سے نہیں پکاری گئی۔ ایسے ہی برطانیہ  کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک قدامت پسند اور دوسری لبرل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور اسی بناپر ووٹ بنک میں اپنا اثر بڑھاتی ہے لیکن کسی مغربی مفکر نے ان کے لیے fundamentalist کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تحریکات اسلامی کے لیے جو اجتہاد کو اپنا منہج قرار دیتی ہیں‘ اس اصطلاح کا استعمال نہایت فیاضی سے اور بے محل کیا جاتا رہا ہے۔

بنیاد پرستی

اس سوال کے جواب سے قبل مناسب ہوگا کہ بنیاد پرستی کے مفہوم پر چند لمحات کے لیے غور کرلیا جائے۔

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ تحریکات اسلامی جس قرآن و سنت پر مبنی اسلام کی دعوت دیتی ہیں وہ کھلے الفاظ میں غلو‘ روایت پرستی اور آبا پرستی کا رد کرتا ہے۔ روایت پرستی کے بارے میں قرآن کا تبصرہ ہے: ’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے‘‘ (البقرہ ۲:۱۷۰)۔ قرآن کریم ان کے طرزِعمل اور ذہنی ساخت کے بارے میںبتاتا ہے کہ روایت پرستی اور بزرگوں کی اندھی پیروی میں وہ ایسے مقام تک چلے جاتے ہیں کہ ’’یہ لوگ جب کوئی شرم ناک (فحش) کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے (الاعراف ۷:۲۸)۔ (مزید ملاحظہ ہو الزخرف ۴۳:۲۳)

۲۱ویں صدی میں بھی آبا پرستی کی مثالیں روز دیکھنے میں آتی ہیں۔ یورپ اور امریکا میں ہم جنس پرستی کی تحریک حضرت لوطؑ کی قوم سے اپنے فکری اور نسلی رشتہ کو جوڑ کر اپنے شرم ناک عمل کو انسانی حقوق اور آزادی کا نام دیتی ہے اور ہم جنس پرست اپنے عالمی اجتماعات منعقد کرتے ہوئے فخر سے اپنے غیرفطری عمل کو عین مطابق ’اخلاق‘ قرار دیتے ہیں۔ اپنی اصل اور تاریخ سے ناواقف بعض حضرات اس ملک عزیز میں بھی قبل اسلام کی ہندو اور بدھ تہذیبوں سے آبائی رشتہ جوڑنے کو روشن خیالی کا نام دیتے ہیں اور بسنت اور ویلنٹائن ڈے جیسے مشرکانہ تہواروں کو منانے میں بھی تکلف محسوس نہیں کرتے۔

قرآن کریم ہر آباپرستی اور روایت پرستی کو شدت سے رد کرنے کے ساتھ اپنے قاری کو  عقل و فہم کی بنیاد پر زندگی کے ہرمعاملے میں اخلاقی فیصلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے اور شعورو آگہی کی بنیاد پر نظامِ حیات کو چلانے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسلام کا تصور حلال و حرام ایک اخلاقی‘ شعوری‘ ارادی اور قانونی عمل ہے۔ زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ ہو یا اہم ترین ریاستی امور‘ معاشی پالیسی ہو یا ابلاغ عامہ کی حکمت عملی‘ پانی کا ایک گھونٹ کا پینا ہو یا کسی ملک کے ساتھ صلح و جنگ کا معاملہ‘ اس کاحتمی فیصلہ کسی فردِواحد کی عقل پر چھوڑنے کے بجاے قرآن و سنت کے معیار پر اور حلال و حرام کی بنا پر طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ اُمت مسلمہ کی سادہ لوحی ہے کہ اس نے حلال و حرام کو ذبیحہ یا طلاق بائن سے وابستہ کر کے حلال و حرام کے دائرے کو اپنی کوتاہ عقلی کی بناپر محدود و مقید کر دیا ہے‘ جب کہ قرآن و سنت نے دین کے حرکی تصور کی بنا پر اور روایت پرستی کا رد کرتے ہوئے تمام معاملات میں انسانی فیصلوں کے لیے قرآن و سنت کے عالم گیر اصولوں کی روشنی میں عقل اور مشاہدے کی بنیاد پر فیصلہ کرنے اور حکمت عملی وضع کرنے کی تعلیم دی ہے۔ تحریکات اسلامی کا یہی امتیاز ہے کہ وہ     اپنی حکمت عملی طے کرتے وقت چاہے اس کا تعلق دیگر جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد سے ہو‘ کسی خاص معاملے پر تعاون سے متعلق ہو یا کسی مسئلے پر اصولی فیصلہ ہو‘ حلال و حرام کی کسوٹی پر پرکھ کر طے کرتی ہیں کہ ان کا فیصلہ کہاں تک مقاصدِ شریعت کو پورا کرتا ہے اور کہاں تک مصالح عامہ اور سیاستِ شرعیہ سے مطابقت رکھتا ہے۔

تحریکات اسلامی کے اس اجتہادی ذہنی عمل اور حلال و حرام کے حوالے سے وسیع تر تصور سے ناواقفیت‘ اور ایک حد تک خود تحریکات اسلامی کی طرف سے ان کی اس حکمت عملی کی مناسب انداز میں وضاحت نہ کرنے کے سبب مغربی مستشرقین اور ان سے تربیت پانے والے مسلمان یہ فرض کرلیتے ہیں کہ تحریکات اسلامی جو قرآن و سنت کی صداقت‘ کمال اور عملیت پر یقین رکھتی ہیں‘ ان کا ذہنی سفر ساتویں صدی پر آکر رک گیا ہے اور یہ تحریکات تاریخ کی قید میں گرفتار ہیں۔ ظاہر ہے تحریکات اسلامی اور اسلام کے بارے میں اگر بنیادی مفروضہ ہی غلط ہو تو حدآسمان اس پر تعمیر ہونے والا قیاسی محل ٹیڑھا ہی ہوگا اور اس کی کلیں سیدھی کیوں ہوں گی۔ نتیجتاً مغرب اور مغرب زدہ ذہن کے اخذ کردہ نتائج بظاہر مربوط ہونے کے باوجود بنیاد کے غلط ہونے کی بنا پر اسلام اور تحریکات اسلامی کی منفی‘ رجعت پسندانہ اور جامد تصویر پیش کرتے ہیں۔

بنیاد پرستی کی پھچان

بنیاد پرستی کی ایک نمایاں پہچان اور صفت اس کا اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر ہونا اور ہرمعاملے میں مطلقاً درست ہونے کا احساس ہے۔ اس زاویے سے اگر دیکھا جائے تو مغربی مفکرین جس جدید تثلیث پر غلو کی حدتک ایمان رکھتے ہیں اس کے ارکان خود ان کے بقول انفرادیت‘ لادینیت اور جمہوریت ہیں‘ وہ ان کے مطلق (absolutely) حق ہونے پر نہ صرف خود ایمان رکھتے ہیں بلکہ ہر اس شخص کو جو اس تثلیث سے اختلاف کرتا ہو’کافر‘، ’گردن زدنی‘ اور ایک دوسری دنیا کا باشندہ (alien) سمجھتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اس اندھے ایمان ہی کو مغربی مفکرین اور ماہرین تقابلِ ادیان بنیاد پرستی کہتے ہیں۔ گویا ایک شخص چاہے وہ مصطفی کمال ہو‘ یا مصطفی کمال کی قسم کے افراد کو اپنا ہیرو ماننے والا کوئی فوجی آمر‘ جب وہ یہ کہتا ہے کہ سیکولرزم ہی مسائل کا حل ہے اور صرف اس کے ذریعے ہی مذہبی منافرت اور شدت پسندی کو دُور کیا جاسکتا ہے تو وہ عملاً اور غیرشعوری طور پر سیکولرزم پر اس اندھے عقیدے کی بنا پر اپنے بنیاد پرست ہونے کا اعلان کر رہا ہوتا ہے‘ یا کوئی شخص جب یہ کہتا ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیم شدت پسند بناتی ہے‘ اور اس کے مقابلے میں اس کی اپنی ناقص و نامکمل عقل کی تخلیق کردہ روشن خیالی ‘گروہی تعصب‘ تشدد‘ معاشی عدمِ مساوات‘ غیرمنصفانہ عدلیہ اور معاشرتی استحصال اور بدامنی اور عدمِ تحفظ سے نجات دلا سکتی ہے تو وہ اپنے اس بلادلیل دعوے کی بنا پر دن کی روشنی میں اپنے بنیاد پرست ہونے کا ثبوت فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے ہی کوئی یک قطبی قوت جب دنیا پر اپنی اجارہ داری کے دعوے کے ساتھ محض اس اندیشے کی بنا پر کہ کوئی ملک اس پر حملہ آور نہ ہوجائے بغیر اُکسائے اور بغیر کسی جارحانہ اقدام کے اس ملک کا کشتہ بنا دے (اس فلسفے کو جدید اصطلاح میں پیشگی حملے (preventive strike ) کا نام دیا جاتا ہے) تو حقیقی معنوں میں قوت پر اندھا عقیدہ رکھنے کی بناپر اسے صرف بنیادپرست ہی کہا جاسکتا ہے۔اسی بنا پر نصف صدی قبل بعض امریکی مفکرین نے سیکولر قومیت پرستی اور مارکس ازم کو ’نیم مذہب‘ (pseudo religion)کا عنوان دیا تھا۔۱؎ یہ دونوں نظام بنیاد پرستی کی اعلیٰ ترین مثال پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ اپنے علاوہ کسی اور کو زندہ رہنے کا حق دینے کے قائل نہیں ہیں‘ کثرتیت (pluralism) کا انکار کرتے ہیں۔

اسلام کا رویہ اس کے برعکس ہے۔قرآن کریم بار بار اسلام کو الدین القیم قرار دینے اور خود اپنے آپ کو کلامِ الٰہی‘ الحق‘ الفرقان ‘البیان کہنے کے باوجود اسلامی معاشرے میں غیرمسلم کو‘ چاہے وہ اہلِ کتاب ہو یا نہ ہو‘ اپنے مذہب‘ ثقافت اور طرزِزندگی میں پوری آزادی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔قرآن بار بار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی تعلیمات خالق انسانیت کی طرف سے نازل کردہ ہیں لیکن انسان کو اس بات کا بھی پورا حق دیتا ہے کہ وہ ہدایت اختیار کرکے فلاح اور فوز حاصل کرلے یا ضلالت و گمراہی کی تاریکی میں پڑ کر اپنا مستقبل سیاہ کرلے۔ قرآن کریم دوسرے تمام انسانوں کے بارے میں حتیٰ کہ وہ مشرک ہوں تب بھی یہ حکم دیتا ہے کہ انسانوں سے محبت اور ان کی بھلائی کے جذبے کے تحت ایک مشرک کو بھی‘ اگر وہ اسلامی ریاست اور معاشرے سے پناہ طلب کرے‘ تو اسے پناہ دی جائے حتیٰ کہ وہ قرآن کی تعلیمات سے آگاہ ہوجائے۔ اس کے بعد اگر وہ کفروشرک کی ملت میںواپس جانا چاہے تو اسے مسلمان اپنے تحفظ میں اس کی جاے امن تک پہنچائیں!

قرآن کسی مقام پر یہ نہیں کہتا کہ ایک مشرک کو پناہ دے کر اور قرآن سنا کر اگر وہ ایمان لے آئے تو خیر ورنہ گوانتاناموبے کے قیدیوں کی طرح اذیت دے دے کر ہلاک کردو! سورۂ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘(۹:۶) ۔ قرآن کریم کا مدعا واضح ہے کہ مشرک جو دین کا علم نہیں رکھتا اور اس بنا پر گمراہی میں پڑا ہے‘ اگر قرآن کو سننا چاہتا ہو تو اسے پناہ دے کر موقع فراہم کیا جائے اور اگر پوری کوشش کے باوجود وہ دین اسلام کو قبول نہ کرے تو بلاکسی خطر اور ضرر کے حفظ و امان کے ساتھ اس کے مقام تک اسے پہنچا دیا جائے۔ رواداری‘ مخالف کا احترام اور باوقار طرزعمل کی کوئی اور ایسی مثال ہمیں تاریخ عالم میں کہیں نظر نہیں آتی۔

ایک مشرک یا ظالم کے ساتھ قرآن کریم نے جس رویے کی تعلیم دی ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ دین اسلام کے حق اور آخری مکمل نظام ہونے کے باوجود نصوص کی بنیاد پر وہ کثرتیت کا قائل و محرک ہے‘ جب کہ سیکولرزم اور نام نہاد مغربی اباحیت جسے بعض دشمنانِ عقل و دانش’روشن خیالی‘ کہتے ہیں ایک بنیاد پرست ذہن کی غمازی کرتا ہے جو صرف اور صرف اپنی بقا اور دوسروں کی فنا پر اندھا عقیدہ رکھتا ہے۔

یہ تصور کہ قرآن ہر غیرمسلم کے خون کو بہانے کا حکم دیتا ہے اور جہاں کہیں بھی کوئی غیرمسلم مل جائے اسے بلاتردد و تحقیق گولی کا نشانہ بنانے کی ترغیب دیتا ہے‘ نہ قرآن میں پایا جاتا ہے نہ اسلام کی تاریخ میں۔ اس قسم کا خیالی نقشہ ہالی وڈ کے تخلیق کردہ تصور اسلام ہی میں پایا جاتا ہے کہ وہ دارالاسلام ہو یا دارالکفر‘ کسی صاحبِ ایمان کو جہاں کہیں کوئی غیرمسلم ہاتھ لگ جائے وہ اسے مارے بغیر دم نہ لے۔ قرآن کریم توحید کی دعوت اور شرک کی شدت سے رد کے باوجود شرک کو    توعقلی دلائل کی بنیاد پر ظلم قرار دیتا ہے لیکن ہرمشرک و کافر کو ایک امکانی (potential) مسلمان قرار دیتے ہوئے عدل و امن کے ساتھ دعوت کا مخاطب تصور کرتا ہے اور لا اکراہ فی الدین کے زریں اصول کے تحت ہرشخص کو عقیدے اور راے کی آزادی کا اختیار دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جہاد کے حوالے سے سورۂ الحج میں یہ بات بطور ایک اصول کلید کے بیان کی گئی ہے کہ: ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتارہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘(الحج ۲۲:۴۰)۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ آخر قرآن مسجد کے ساتھ ان تین مختلف قسم کی عبادت گاہوں کا ذکر کیوں کر رہا ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر مذاہب کے مراکز عبادت کی حفاظت اورمذہبی آزادی کا تحفظ کرنا بھی جہاد کے مقاصد میں شامل ہے۔ جو قرآن مذہبی آزادی کا احترام کرتا ہو‘ مشاورت اور اختلاف کے حق کو دین کا بنیادی تصور قرار دیتا ہو‘ وہ کس طرح اپنے قاری کو بنیاد پرست‘ بند ذہن رکھنے والا‘ غلو کرنے والا‘ شدت اختیار کرنے والا بنا سکتا ہے۔ قرآن سے وابستگی اور واقفیت رکھنے والا کوئی شخص نہ تو خود بنیاد پرست ہوسکتا ہے‘ نہ دوسروں کو بنیاد پرستی کی تعلیم دے سکتا ہے۔ ہاں‘ یہ الگ بات ہے کہ جس نے قرآن کو نہ پڑھا ہو‘ نہ سمجھا ہو وہ لاعلمی کی بنا پر غلو اور شدت پسندی اختیار کرلے اور عقیدتاً قرآن کو ماننے کے باوجود اس کی راے میںشدت اور محدودیت پیدا ہوجائے۔ اُمت مسلمہ کو اس مرض سے بچانے کی صرف ایک ہی دوا ہے کہ اس کا تعلق قرآن کریم سے زیادہ سے زیادہ پیدا کیا جائے اور قرآن کریم کی تفہیم کے لیے ہرسطح پر تعلیم کا بندوبست کیا جائے ‘ اسے محض تبرکاً بغیر سمجھے بوجھے پڑھ کر نہ گزرجایا جائے۔ گویا جتنا مسلمان قرآن کو اختیار کریں گے اتنا ہی بنیاد پرستی سے محفوظ رہ سکیں گے۔

جدید معاشی بنیاد پرستی

اگر ایک وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو ’بنیاد پرستی‘ کے تصور کو محدود اور روایتی مذہبیت‘ غلو‘ اندھی روایت پرستی اور مذہبی شدت پسندی تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقتِواقعہ یہ ہے کہ جدید بنیاد پرستی‘ معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ثقافتی اور ابلاغی سطح پر اپنے اثرات کے لحاظ سے نام نہاد مذہبی  بنیاد پرستی سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک اثرات کی حامل ہے۔ معاشی میدان میں جدید بنیاد پرستی نے نئی سرمایہ دارانہ فکر کو بڑے جاذب نظر عنوانات کے تحت ابلاغ عامہ کی ماہرانہ حکمت عملی کے ساتھ ذہنوں میں اُتار دیا ہے۔ چنانچہ نیا عالمی نظام یا عالمی نظمِ تجارت کی اصطلاحات سے آج ہر تعلیم یافتہ شخص متعارف ہے۔ اپنے اثرات و نتائج کے لحاظ سے ’نیا عالمی نظام‘ شمال کی معاشی طور پر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ اقوام کی‘ کم وسائل رکھنے والی جنوبی اقوام پر‘ ایک جدید نوآبادیاتی سامراج کو مسلط کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اس کے اعضاے تنفیذی عالمی منظمہ تجارت‘ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈبنک‘ سب کا بنیادی مقصد جنوبی اقوام پر جدید سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط ہے کیونکہ یہ نظام اپنے آپ کو حتمی (ultimate) نظام قرار دیتا ہے۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تاریخ اپنا سفر کرتی ہوئی اُس مقام پر آگئی ہے جہاں پر صرف اور صرف مغربی لادینی جمہوریت اور استحصالی سرمایہ دارانہ نظام واحد فتح مند قوت کے طور پر اُبھرے ہیں۔ اب دیگر اقوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوکر سرمایہ دارانہ مادہ پرستی کے خدا پر ایمان لے آئیں۔ اگر معروضی طور پر مغرب کی خود تجویز کردہ‘ بنیاد پرستی کی تعریف کی روشنی میں دیکھا جائے تو معاشی بنیاد پرستی اور مادی قوت کا فیصلہ کن اور حتمی مقام حاصل کرنے کا دعویٰ جدید بنیاد پرستی کی تعریف پر پورا اُترتا ہے۔

لیکن چونکہ اس معاشی بنیاد پرستی کو عالمی ابلاغ عامہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک‘ بشمول مسلم ممالک کے فرماںروا ٹولے کے‘ جو اپنے وجود کے لیے مغرب کے کھوٹے سکوں کی دوستی پر ناز کرتا ہے اور اپنی بقا کو مغربی شاطروں کی رضا سے وابستہ کرتا ہے‘    اس لیے یہ ٹولہ اس استحصالی نظام کے گُن دن رات گاتا ہے اور آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک کے کسی سودی قرضے کے حصول کو اپنے لیے ’کارنامہ‘ تصور کرتا ہے اور دن بہ دن اس سودی دلدل میں دھنستے چلے جانے کے باوجود قوم کو ترقی کے مصنوعی باغ دکھاتا رہتا ہے۔

عالمی معاشی استحصالی اداروں کے خودساختہ ضوابط اور قوانین وہ عالمی نظم تجارت کی شکل میں ہوں یا آئی ایم ایف اور ورلڈبنک کی پالیسی کی شکل میں‘ اس معاشی بنیاد پرستی کو تحفظات اور ترقی پذیر ممالک کے مفادات کو غیرمحفوظ اور غیریقینی بنانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ جاننے بلکہ بعض اوقات ان عالمی اداروں میں بطور مزدور کام کرنے کے بعد کسی ملک کے وزیراعظم بن جانے والے افراد بھی مغرب کی اس معاشی بنیاد پرستی پر لب کشائی نہیں کرتے۔ ہاں‘ اگر کہیں ملکیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پر کوئی ہنگامہ ہوجائے تو مذہبی بنیاد پرستی پر اُچک اُچک کر باتیں کرنے میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی نہیں کرتے۔

یہ معاشی بنیاد پرستی عام تاجر‘ صنعت کار‘ کاشت کار اور محنت کار کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے‘ اس پر معاشی ترقی کا دروازہ بند کرنے اور بڑی مچھلیوں کو بغیر ڈکار لیے چھوٹی مچھلیوں کو نگلنے کے لیے کھلے مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ عالمی مارکیٹ صرف ان اداروں کے لیے معاشی ترقی کے دروازے کھولتی ہے جو جدید معاشی بنیاد پرستی پر اندھا ایمان رکھتے ہوں اور عالمی تجارتی اداروں کے استحصالی مقاصد میں ان کے دست راست بننے پر آمادہ ہیں۔

ابلاغی بنیاد پرستی

اگر دیکھا جائے تو عالمی سطح پر نیوورلڈ آرڈر کے نام سے اس معاشی استحصالی اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی میں ابلاغی بنیاد پرستی کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔ ۲۱ ویں صدی کو انفارمیشن ٹکنالوجی کی انقلابی صدی کہا جاتا ہے۔ آج مائیکرو سافٹ انٹل کے بغیر کسی بھی معاشی ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انفارمیشن ٹکنالوجی یا معلومات کی تخطیط و تحلیل کے ذرائع کو قوت کا اصل سرچشمہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ معروف ہے کہ معلومات ہی قوت و طاقت (power) فراہم کرتی ہیں اور جس کے پاس زیادہ معلومات ہیں وہ زیادہ قوت والا ہے۔ آج معیشت ہو یا سیاست‘ معلومات کی فراہمی اور مناسب استعمال کے بغیر کسی بھی شعبے میں ایک قدم آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ معلومات کی صحیح ترتیب و ترجیح و استعمال اور تطبیق ہی ایک قوم کو کامیاب یا پس ماندہ بنا سکتی ہے۔ مائیکروسافٹ کی یہ اجارہ داری معلومات کی شاہ راہوں (highways of information) پر تسلط اور نظربینی فراہم کرتی ہے اور اس طرح صرف وہی معلومات دوسروں تک پہنچتی ہیں جو پہنچانی مقصود ہوں۔ اس معلوماتی بنیاد پرستی نے دنیا کی آبادی کو واقعات و حقائق کو اسی انداز سے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے جس طرح ان معلومات کو استعمال (manipulate) کرنے والے ادارے دکھانا چاہتے ہوں۔

مظلوم فلسطینیوں کے گھربار کو تباہ کرنے کو امن عالم کی راہ ہموار کرنے کے ایک اقدام کے طور پر اتنی بار پیش کیا جاتا ہے کہ ہر مظلوم فلسطینی اور ان کا خیرخواہ خود کو مجرم سمجھنے پر مجبور ہوجائے‘ دنیا کے بے شمار مقامات پر ہونے والے تشدد میں سے صرف وہ منتخب شدہ واقعات سرخیاں بنتے ہیں جنھیں کسی طرح الزام مسلمانوں پر ‘ القاعدہ پر یا طالبان پر رکھا جاسکتا ہو۔ امریکی جارحیت کے ہرقدم کو عالمی امن‘ حقوق انسانی کی بحالی اور جمہوریت کے احیا سے وابستہ کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نام ابلاغی بنیاد پرستی ہے اور یہ اُس مذہبی بنیاد پرستی سے زیادہ مہلک و خطرناک ہے جس پر صبح و شام پیشہ ور نوحہ گروں کی طرح سینہ کوبی کی جاتی ہے کہ ہاے مذہبی بنیاد پرستی نے فرقہ واریت کو بڑھادیا!

اس بنیاد پرستی سے نجات کیسے حاصل کی جائے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس پر ہم کچھ دیر بعدبحث کریں گے لیکن یہاں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی ایک محدود (limited) تصور ہے‘ جب کہ جدید بنیاد پرستی وہ معاشی ہو یا ابلاغی‘ اس کا زہر زیادہ قاتل ہے اور آج دنیا کی بیش تر اقوام مذہبی بنیاد پرستی کے مقابلے میں عالمی یک قطبی نظام کے زیراثر آجانے کی بنا پر معاشی اور ابلاغی بنیادپرستی کی گھائل‘ زخم خوردہ اور اسیر ہیں۔

سیاسی بنیاد پرستی

بعینہٖ یہی شکل سیاسی بنیاد پرستی کی ہے۔ آج مغربی سیکولر جمہوریت کوانسانیت کے بنیادی عقیدے اور ایمان کی حیثیت سے نہ صرف دنیا کے سب سے بڑے جابر و ظالم یک قطبی ملک نے بلکہ مظلوم مسلم ممالک کے زرخرید نام نہاد اور باہر سے مسلط کردہ فرماں روائوں نے بھی وظیفۂ زبان بنا رکھا ہے اور اپنے تمام آمرانہ اقدامات کے باوجود تمام مسائل کے حل کے طور پر سیکولر جمہوریت ہی کی تسبیح پڑھتے ہیں‘ چلّے کاٹتے ہیں اور پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہیں! ان کے خطابات کا آغاز ہی اس سے ہوتا ہے کہ ان کی آمریت کے زیرسایہ ممالک میں جمہوریت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ ان کے عوام معاشی ترقی کے پھلوں سے مالا مال ہو رہے ہیں۔ ان کے معاشرتی اور سیاسی عدل سے محروم عوام ان کے لیے مساجد میں دعاگو ہیں اور ان کی عطا کردہ جمہوریت میں انھیں ۹ء۹۹ فی صد ووٹ دے کر عوام بے تابانہ طور پر انھیں منتخب کر کے ان کی مدت‘ ظلم واستحصال میں مزید اضافے کے لیے جانیں قربان کرنے پر آمادہ ہیں۔ یہ طلسماتی سیاسی بنیاد پرستی مصر میں ہو یا پاکستان میں‘ زمان و مکان کی قید سے آزاد کھیل اور کھلاڑی میں مشابہت کی مثال پیش کرتی ہے۔ یہ نام نہاد فرماں روا اپنے ملک کے عوام کو مفتوح اور قیدی بناکر اپنی فتح مندی کے پرچم گاڑنے کو جمہوریت کے بت کی سربلندی قرار دیتے ہیں چاہے اس بت کی قربان گاہ پر وہ پوری قوم کو قربان کردیں۔ اس بت کی اندھی پرستش ہی جدید سیاسی بنیاد پرستی کی ایک اعلیٰ اور اکمل ترین شکل ہے۔

معاشرتی بنیاد پرستی

معاشرتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مغرب کی انفرادیت پرستی پر اندھے ایمان کا دعویٰ کرنے والے افراد دوسروں پر اپنے تصورِمعاشرہ اور خاندان کو مسلط کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے خاندان کے نظام کو پامال اور برباد کرنے کے درپے  نظر آتے ہیں۔ ان کی اس معاشرتی جنگ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اباحیت کے فروغ کے ذریعے خاندان کے نظام کو تباہ کردیا جائے۔

جدید معاشرتی بنیاد پرستی پر ایمان لانے والے مسلم ممالک کے نام نہاد فرماںروا‘ جو مغرب کے سامنے بالعموم یا عادتاً سربسجود رہتے ہیں‘ یہ چاہتے ہیں کہ خاندان کی وحدت کاتصور پارہ پارہ کردیا جائے۔ نکاح‘ حقوق و فرائض‘ شرم و حیا‘ حلال اور حرام‘ جنسی تعلقات‘ غرض معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کی جگہ معاشرے میں مادی بنیادپرستی کو رائج کردیا جائے۔ یہ سرکاری اور قرض پر حاصل کیے ہوئے وسائل کو اس ’نیک مقصد‘ کے لیے نئے نئے عنوانات سے استعمال کرنے میں اپنی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ اکبر الٰہ آبادی کے بقول اپنے وقت کے فرعون بن کر بچوں کا قتل ’چالیس پاروں‘ والے نظامِ تعلیم کے ذریعے ان کے کردار اور فکر کو زہرآلود کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ’ماں کی صحت‘ کے بھلے عنوان کے تحت بچوں کی آمد پر اس لیے پابندی لگادیں کہ ۱۹ویں صدی کے مالتھس کے نظریات پر عمل کرسکیں۔یہ سمجھتے ہیں ہر آنے والا بچہ ان کے ہاتھ کا نوالہ چھین لے گا۔ یہ ’خوش حال گھرانا‘ اور ’محفوط تعلق‘ جیسی اصطلاحات استعمال کرکے آخرکار خاندان کے ادارے کو تحلیل کردینا چاہتے ہیں۔ یہ اس سلسلے میں ادویات اور ’احتیاطی‘ ذرائع کو فروغ دے کر قوم کے ضمیر سے احساس ذمہ داری اور اخلاقی جواب دہی کے تصور کو ایک فرد کی ’انفرادیت‘ کے نام پر ختم کرنے پراندھا ایمان رکھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس اندھے ایمان اور مالتھس کی روایت کی پیروی کا نام ہی بنیاد پرستی ہے۔

ھمارا المیہ

ہمارا المیہ یہ ہے کہ تنقیدی اور غیرجانب دار ذہن سے سوچنے کے بجاے ہم صدیوں کی محکومی سے اخذ کردہ غلامانہ ذہن پر بھروساکرتے ہیں جو مغربی تہذیب و ثقافت و اخلاقیات کی اندھی پیروی کو ’روشن خیالی‘ اور’توازن و اعتدال پسندی‘ کہتا ہے اور مغرب کی کاسہ لیسی اور نقالی کو فن کی معراج قرار دیتا ہے۔ یہ غلامانہ ذہن ریاستی وسائل اور بالخصوص ابلاغ عامہ کا بے دریغ استعمال کرکے یہ چاہتا ہے کہ عوام الناس کی سوچ کو بھی غلامانہ اور لذت پرست بنا دے۔ یہ اپنے قومی مفادات کو بھی مغربی آقائوں کی رضامندی کے حصول کے لیے بھینٹ چڑھانے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔ اسی غلامانہ طرزِعمل اور اندھی تقلید کا نام حقیقی جدید بنیاد پرستی ہے۔ اس بنیاد پرستی کا اظہار عموماً سیاسی آمروں کی انانیت اور خودرائی پر مبنی فیصلوں سے ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ عموماً ’قومی مفاد‘ کا نام لے کر  فی الحقیقت اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرتے ہیں جو ان کے بیرونی آقائوں کو  ان کی اطاعت و بندگی کا یقین دلا سکے۔ یہ آمر اپنی ذاتی راے کو اپنے عوام پر مسلط کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور عوام پر یہ ظلم کرتے وقت بلندآواز سے جمہوریت کی تسبیح پڑھنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کا ہر غیرجمہوری عمل سرکاری ابلاغ عامہ میں عوام سے محبت کی بنا پر ایک فلاحی عمل کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے۔ زمینی حقائق کے انکار اور ابلاغ عامہ کی قوت سے جھوٹ کو سچ کہہ کر مسلط کرنا ہی حقیقی ابلاغی بنیاد پرستی کی تعریف میں آتا ہے۔

ابلاغ عامہ خصوصاً کہربائی ذرائع ابلاغ کایک طرفہ استعمال کرتے ہوئے مغربی عریانیت‘  فحاشی اور صنفی بے راہ روی کا پھیلانا ان آمروں کا ایک مشترکہ حربہ ہے۔ اس کا مقصد جہاں عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹاکر فحش و منکرات میں الجھا دینا ہوتا ہے بلکہ لوگوں کے مقصدحیات کو ابلاغی بنیاد پرستی کے ذریعے تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

تحریکات اسلامی کی حکمت عملی

مسئلے کا حل کیا ہو؟ کیا تحریکات اسلامی بھی مغربی لادینی جمہوریت کی تثلیث کے جواب میں جہاں کہیں انھیں موقع ملے اپنے نظریات کودوسروں پر مسلط کردیں یا دعوت و اصلاح کا منہج اس سے کچھ مختلف ہے؟

اگر عریانیت کا ریاستی سرپرستی میں فروغ، ’حقوق نسواں کے نام پر حرام کو حلال قرار دینے کا عمل‘ خاندان کے ادارے کو تباہ کردینے کی حکمت عملی‘ شرم و حیا کا جنازہ نکال دینے کی پالیسی   جدید بنیاد پرستی ہے تو اسلامی نظام عوام پر نافذ کردینا بنیاد پرستی کیوں نہیں ہے؟ اگر ایک آمر کا  مغربی لادینی جمہوریت کے نام پر فردِ واحد کی آمریت مسلط کرنا بنیاد پرستی ہے تو اسلامی نظام سیاست و معیشت و معاشرت کو کسی ملک میں رائج کرنا بنیاد پرستی کیوں نہیں ہے؟ یہ اور اس نوعیت کے سوالات اٹھائے بغیر ہم مسئلے کا حل تلاش نہیں کرسکتے۔

اسلام دین فطرت اور تشریعی دین ہونے کے سبب چاہتا ہے کہ ایسے سوالات اٹھائے جائیں اور ان پر معروضی اور تنقیدی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے۔ وہ بار بار یاد دہانی کرتا ہے کہ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل ۱۶: ۴۳) ’’اہلِ علم سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘۔

اسی طرح مشاورت اور راے کے آزادانہ استعمال کے بعد معاملات میں یک سوئی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) ’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ کرو پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘‘۔

یہ حکم محض عوام الناس کو نہیں بلکہ خود قائد انسانیت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جاتا ہے کہ وہ بھی معاملات میں مشورہ کریں اور اس کے بعد عزم الامور اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے مسائل کا حل کریں۔ اس لیے اس قسم کے سوالات کا اٹھایا جانا اور اٹھنا اسلامی نقطۂ نظر سے مطلوب اور ذہنی صحت کی علامت ہے۔

اختصار کے ساتھ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف قرآن و سنت کے زیرسایہ بلکہ اگر انسانی تہذیب و ثقافت کی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عریانیت کا چھپانا اور اخلاقی رویے کا اختیار کرنا‘ معاملات میں عدل و توازن برتنا انسانیت کی میراث ہے‘ اور جس کا سبب قرآن کریم نے   یہ بتایا ہے کہ اللہ رب العزت نے پہلے انسان کو بھی بغیر ہدایت کے نہیں بھیجا‘ اور جب سے انسان کا وجود زمین پر ہے اس وقت سے ایک عالمی اخلاقی ضابطہ تاریخ کے ہردور میں انسانوں پر نازل کیا جاتا رہا جس نے انسانیت کے ذہن کا ایک اجتماعی مزاج بنادیا کہ دنیا میں ہرجگہ حق و باطل میں امتیاز کا ایک مشترکہ جذبہ پیدا ہوسکے۔ چنانچہ قرآن کریم نے دنیا میں انسان کو نیابت و امامت کے فریضے پر مامور کرتے وقت عادلانہ رویہ‘ حق‘ صداقت اور پاک بازی کی تعلیم دی جو نسلاً بعد نسلٍ شعوری طور پر منتقل ہوتی رہی۔ یہی سبب ہے کہ انسان دنیا میں کہیں بھی ہو‘ سچ بولنا ایک اخلاقی قدر ہے اور جھوٹ ایک مردود فعل ہے۔ اسی طرح اسلام انسانوں میں شرم و حیا کو انسانیت اور حیوانیت کے درمیان بنیادی فرق سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کردہ ایک صفت سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ اسے عدل کا تقاضا سمجھتا ہے اور زندگی کے تمام معاملات میں عادلانہ رویہ اختیار کرنے کو ایک شعوری اور اختیاری عمل قرار دے کر انسانوں کو اپنے طرزِعمل کا اخلاقی فیصلے کی روشنی میں تعین کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ جبر اور ظلم کا رد اور حریت و آزادیِ عمل کا علَم بردار بن کر انسانیت کے احیا کی دعوت دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے کے ساتھ شعوری طور پر آزاد ذہن کے ساتھ ایک اخلاقی اور عادلانہ طرزِعمل اختیار کیا جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ کہربائی ابلاغ کے جبرواستحصال سے آزاد ہوکر انسان خود یہ طے کرے کہ اسے حق کو ماننا ہے‘ یا باطل کو‘  اخلاقی رویے کو یا فحش اور منکر پر مبنی فساد و ظلم کے رویے کو۔

تحریکات اسلامی کی دعوت کا بنیادی نکتہ اجتماعی اصلاح ہے۔ اس غرض سے انھوں نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ انبیاے کرام کے اسوہ کی روشنی میں ایک دعوتی حکمت عملی ہے‘ یعنی وہ اپنی دعوتِ حق کو انفرادی‘ اجتماعی‘ معاشرتی اور ریاستی‘ ہر ہرسطح پر دلائل و براہین کی بنیاد پر پیش کرتی ہیں اور ایک شخص کو چاہے وہ اپنے وقت کا فرعون یا جارج بش ہو یا اپنے وقت کا سقراط و بقراط ہو مکمل آزادیِ فکر کے ساتھ اسے یہ طے کرنے کا موقع دیتی ہیں کہ وہ فرعون یا باوردی فوجی آمر بننا چاہتا ہے یا عبداً شکوراً۔ وہ اپنے نفس کے شیطان سے نجات چاہتا ہے یا خودساختہ خدائوں کی بندگی کرتے ہوئے غلو‘ معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور ابلاغی شدت پسندی اور بنیاد پرستی کو اختیار کرنا چاہتا ہے۔

تحریکات اسلامی ایک تعمیری اور بامعنی مکالمے کے ذریعے‘ جیساکہ حضرت ابراہیم، حضرت موسٰی، حضرت سلیمان اور دیگر انبیا علیہم الصلوات والسلام نے اپنے وقت کے رائج نظاموں اور اصحابِ اقتدار کے ساتھ مکالمہ کیا تھا‘ بالکل اسی روح کے ساتھ عصری تہذیبوں اور افکار کے ساتھ مکالمہ چاہتی ہیں۔ ان کی یہ دعوت ایک غیرمشروط دعوت ہے‘ کھلی دعوت ہے اور شوریٰ کے تصور پر مبنی ہے۔ اس دعوت میں کہیںآس پاس بھی آمریت‘ جبر اور بنیاد پرستی کی خاصیت نہیں   پائی جاتی۔

تحریکات اسلامی قرآن و سنت کے تصور شوریٰ کی پابندی کرتے ہوئے اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات میں آزادیِ راے کا احترام کرتے ہوئے‘ ادب اختلاف پر عمل اور تنقیدواحتساب کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ایک تہذیبی مکالمے کے ذریعے معاملات کے تصفیے کی خواہش رکھتی ہیں۔ ان کی یہی صفت انھیںبنیاد پرستی کے اتہام سے پاک کرنے کے لیے کافی قرار دی جاسکتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ تحریکات اسلامی خود اپنی قیادت کو بھی تنقیدواحتساب سے بالاتر نہیں سمجھتیں اور نہ قیادت کے گرد تقدس و کرامت کاہالہ ہی بناتی ہیںکہ ان کی جنبش لب کو حتمی فیصلہ سمجھ  لیا جائے اور سجدۂ تعظیمی کے ساتھ ان کی ہر بات کو مان لیا جائے۔ یہاں شخصیت پرستی کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ وہ اطاعت امیر کو اطاعت رب اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشروط رکھتے ہوئے یقین رکھتی ہیں کہ مطلق اطاعت صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے‘ جب کہ امیر جس وقت تک اللہ اور رسولؐ کی پیروی کر رہا ہو ‘ اس کی بات سنی اور مانی جائے لیکن اگر وہ    اللہ اور رسولؐ سے انحراف کرے تو نہ اطاعت ہے نہ تعاون۔ تحریکات اسلامی کی یہ اصول پرستی اور شخصیت پرستی کو پاش پاش کرنے کی حکمت عملی انھیں بنیاد پرست بننے سے روکنے کا ایک بڑا سبب ہیں۔تحریکات اسلامی کی دعوت سے معمولی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ بات جانتا ہے کہ ان کے اصول اور ان کا نظام اختلاف راے‘ تنقید و احتساب اور مسلسل عملِ مشاورت (interactive discourse) کی بنا پر تقلید‘ اندھی عقیدت (my party right or wrong) جیسے تصورات کو رد کرتی ہیں۔ اسی بنا پر وہ ’حقیقی روشن خیالی‘ کی علَم بردار کہی جاسکتی ہے۔ اس حقیقی روشن خیالی کے خدوخال کیا ہیں۔ یہ ایک مزید قابلِ غور موضوع ہے۔

 

اپنے بارے میں دوسروں کا نقطۂ نظر جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کسی وقت یہ بڑا چشم کشا ہوتا ہے۔ اس وقت مسلم دنیا میں امریکا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ سب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن امریکا ہی کے دانش ور نے اس کی تفصیلات پہلے ہی بیان کردی ہیں۔ پھر بھی مسلمان سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک تحریر پیش ہے۔ (ادارہ)

ریاست ہاے متحدہ امریکا کو اس وقت اسلامی قوتوں کی جانب سے ایک عظیم ‘ لامتناہی اور تباہ کُن خطرے کا سامنا ہے۔ ۱۱ستمبر سے جاری دہشت گردانہ بم باری اس امر کی علامت ہے کہ یہ خطرہ عالم گیر سطح پر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پہلے تو امریکا کمیونزم کے خطرے سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف رہا‘ اور اب امریکا کے خلاف ایک اور معاندانہ عالم گیر نظریے کی موجودگی یہ اشارہ دے رہی ہے کہ یہ خطرہ آنے والی کئی نسلوں کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ نیوکلیرٹکنالوجی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے اثرات مستقبل پر اس قدراثرانداز ہوسکتے ہیں کہ امریکا کے دو ایک بڑے بڑے شہر نیوکلیر حملے کی زد میں آکر تباہی کا شکار ہوجائیں اور یہ بھی ممکن ہے امریکی معاشرہ بھی بذاتِ خود ہولناک نیوکلیر آگ میں جل کر بھسم ہوجائے۔

عراق میں موجودہ بغاوت اور شورش کو سُنّی آبادی کی حمایت حاصل ہے۔ سُنّی آبادی کے اس رویے کے باعث دنیابھر میں اسلامی عسکریت پسندوں کی طاقت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسلامی دہشت گردوں کا عالمی سطح پر قائم نیٹ ورک جس میں زیادہ تر سُنّی انتہا پسند شامل ہیں‘ طاقت پکڑ چکا ہے اور اسے ایک باقاعدہ حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود تمام اسلامی قوتیں امریکا‘ اس کے اتحادیوں‘ اور عمومی طور پر مغرب کے خلاف صف آرا ہوچکی ہیں۔ امریکا کی موجودہ انتظامیہ‘ خاص طور پر صدر بش کی حماقت کے سبب ہم اس خطرناک حالت میں گرفتار ہوچکے ہیں تو سب سے اہم سوال اب یہ ہے کہ ہم اس سے نجات کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ اس کے لیے ممکنہ طریقے: لبرل‘ روایتی قدامت پسند اور جدید قدامت پسند طرزِفکر کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں۔ یہ سب طریقے پہلے بھی آزمائے جاچکے ہیں اور ان کے نتائج سے سبھی واقف ہیں۔

لبرل عناصر عوامی بحث مباحثے میں پیش پیش ہیں‘ اور اسی لیے‘ زیادہ تر عمومی حل‘ انھی کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں۔ ان طریقوں میں عام طور پر تکنیکی یعنی تدبیری حفاظتی اقدام‘ مثلاً بہتر ذرائع سراغ رسانی‘ فضائی اور سمندری مستقروں پر جانچ پڑتال کے بہتر اور مناسب انتظامات اور پھر حال ہی میں‘ زمین دوز سفری راستوں میں سفر کے دوران دستی سامان کی جانچ اور پٹرول لے جانے والے ٹرکوں کی نگرانی شامل ہیں۔ ان حفاظتی اقدامات میں تبدیلی کی ضرورت اتنی نہیں جتنی امریکی خارجہ حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک سے آئے ہوئے اور امریکا میں موجود غیر ملکی اور خطرناک پناہ گزینوں کے متعلق حکمتِ عملی میں بنیادی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ لبرل عناصر کا خیال ہے کہ شدید معاشی اور سیاسی تنازعات‘ اعلیٰ درجے کے ماہرین اور افسران   (جولبرل ہیں) کی وضع کردہ فوری پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔ اسلامی دہشت گردی کے معاملے میں‘ کوئی فوری حل کیا جائے‘ تو دہشت گرد زیادہ دیر تک انتظار کرسکتے ہیں‘اور کوئی سطحی حل ہو تو وہ اس پر قابو پاسکتے ہیں۔

امریکا‘ اس کے اتحادیوں اور مغرب کو اسلامی قوتوں کی جانب سے پیدا کی گئی خطرناک صورتِ حال سے نکالنے کے لیے ممکنہ تجاویز میں سے ایک‘ امریکا کی خارجہ حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ اسرائیل کی حمایت‘ اسلامی ممالک میں امریکی نواز حکومتوں کا قیام اور پھر حال ہی میں عراق میں مسلح کارروائیاں‘ ان کے باعث اکثر مسلمان بُری طرح برانگیختہ ہیں۔ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی تجاویز اکثر روایتی قدامت پسندوں کی جانب سے پیش کی جاتی ہیں۔ اس قسم کی تجاویز خارجہ پالیسی کے متعلقہ افسران اور پیشہ ور ماہرین‘ خاص طور پر ان کی جانب سے جو اَب ریٹائر ہوچکے ہیں‘ پیش کی جاتی رہی ہیں۔ بش انتظامیہ اور جدید قدامت پسند‘ اصولی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ امریکا کو اب اسلامی ممالک میں آمر حکمرانوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ لوگ اب بھی اسرائیل کی حمایت اور عراق میں مسلح کارروائیوں کی پالیسی بدلنے کے حق میں نہیں ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر امریکی خارجہ حکمت عملی تبدیل کردی جائے تب بھی عالم گیر سطح پر موجود اسلامی قوتوں کی معاندانہ روش اسی طرح جاری رہنے کاامکان ہے۔ اس طور القاعدہ اور اس کی حلیف جماعتیں ‘ امریکا کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کردینے کا سہرا یقینا اپنے سر باندھیں گی اورپھر وہ اپنے لیے نئے اور زیادہ انقلابی اہداف‘ مثلاً اسلامی ممالک سے مغربی اثرات مٹانے   اور مغربی ممالک میں اسلامی اثرونفوذ میں اضافے کے لیے نئے جذبے اور توانائی کے ساتھ  میدانِ عمل میں اُتریں گی۔

درحقیقت‘ بش انتظامیہ اور جدید قدامت پسندوں کی جانب سے پیش کیے جانے والا حل بھی اپنے طور پر‘ ایک انقلابی حل ہے۔ نہ صرف امریکی خارجہ حکمت ِ عملی میں تبدیلی ان کے پیش نظر تھی بلکہ مشرق وسطیٰ ‘ خاص طور پر اسلامی ممالک کی فطرت یا کم از کم کلچر میں تبدیلی کو بھی انھوں نے اپنے مقاصد میں شامل کیا۔ وہ اسلامی ممالک میں آزاد جمہوریت‘ آزاد تجارت‘ آزاد معاشرے اور انسانی حقوق کو رواج دے کر اسلامی دہشت گردوں کو توانائی بخشنے والے چشمے خشک کرنا چاہتے تھے۔ جدید قدامت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ عالم گیر سطح پر وہ اس منصوبے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بیش تر مسلمان اس عمل کو‘ ماضی کے استعماری ہتھکنڈوں ہی کی طرح کا ایک اور ہتھکنڈا سمجھتے ہیں۔

بہرحال ‘ جیسا بھی ہے‘ غیر روایتی قدامت پسندوں کے ان عزائم نے ہم کو عراق میں دھکیل دیا جس نے اسلامی دنیا کی بغاوت کو ایندھن فراہم کیا‘ جب کہ امریکا اپنے کسی بھی خودساختہ مقصد کے حصول میں واضح طور پرناکام ہوگیا اور اب امریکا‘ ایک عظیم ناکامی اور رسوائی کی طرف چلا جارہا ہے۔

اس وقت امریکا کے خلاف اسلامی دنیا میں پھیلے ہوئے اشتعال اور مخالفت کو زائل کرنے کے لیے لبرل عناصر‘ روایتی قدامت پسندوں اور غیرروایتی قدامت پسندوں کی طرف سے پیش کیے جانے والا کوئی بھی حل‘ اُمید نہیں دلاتا۔ اب وقت آچکا ہے کہ اس خطرے کے سدِّباب کے لیے کوئی نیا طریقہ اختیار کیا جائے‘ یا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو حقیقی معنوں میںایک پرانا طریقہ ہے‘ جسے نصف صدی قبل‘ امریکا نے عالمی سطح پر کمیونزم کی تحریک سے نمٹنے کے لیے اختیار کیا تھا۔

سرد جنگ کے دور میں کمیونزم کی عالم گیر تحریک کے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکا نے اُس وقت جو اقدامات کیے تھے‘ اِس وقت بھی وہی اقدامات‘ عالم گیرسطح پر موجود اسلامی قوتوں کی طرف سے پیش آنے والے خطرات کو کم کرنے بلکہ ختم کرنے کے لیے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ اسلامی دنیا کو تقسیم کرنے کے اقدامات کا انحصار اسلامی دنیا میں موجود مختلف طبقات پر ہے‘ مثلاً اعتدال پسند مسلمان بالمقابل انتہاپسند مسلمان اور سُنّی مسلمان بالمقابل شیعہ مسلمان۔

سردجنگ کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی مخالف سیاسی نظریے کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ اس نظریے کے اعتدال پسند اور انتہاپسند پیروکاروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا جائے۔ خاص طور پر یورپ میں ۵۰ کے عشرے میں امریکا اس طریقے کے سبب‘ اعتدال پسند مارکسٹوں___سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹس___ کو انتہاپسند مارکسٹوں یعنی کمیونسٹوں سے علیحدہ کرنے میںکامیاب رہا اور یہ تقسیم سردجنگ کے بقایا عرصے میںزیادہ ترقائم رہی۔ تقسیم کرنے کی یہ حکمت عملی تیسری دنیا میں زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ وہاں ’اعتدال پسند مارکسٹ‘ کہیں کہیں موجود تھے‘ اور جہاں موجود تھے انھیں انتہاپسندمارکسٹوں یا امریکا کی حلیف کمیونزم مخالف حکومتوں نے ختم کردیا۔

آج بھی‘ عالمی سطح پر اسلامی اثرات کوزائل کرنے کے لیے بہترین طریقہ یہی نظر آرہا ہے کہ اعتدال پسند اور انتہاپسندمسلمانوں کے راستے جدا جدا کردیے جائیں۔ ایک دفعہ پھر یورپ میں‘ سیاسی جمہوریتوں‘ ترقی یافتہ معیشتوں اور آزاد معاشروں کے قیام کے باعث اعتدال پسند اور انتہاپسند مسلمانوں کو باہمی طور پر جدا کرنے کا طریقہ معقول وجوہات کی بنیاد پر قابلِ غور ہے۔ یورپی حکومتوں کے پاس ایسے بہت سے وسائل اور ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے ممالک میں رہایش پذیر معتدل مسلمانوں سے کامیاب سودے بازی کرسکتی ہیں تاکہ یہاں سے انتہاپسند مسلمانوں کو ملیامیٹ کردیا جائے۔ مشرق وسطیٰ‘ جنوبی مغربی ایشیا اور جنوبی مشرقی ایشیا میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی یہ حکمت عملی زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ ان ممالک میں آمرانہ حکومتوں‘ وسیع پیمانے پر غربت اور طبقاتی امتیاز کے باعث انتہاپسند اسلامی عناصر کی سرگرمیوں کو پنپنے کا موقع فراہم ہوجاتا ہے۔

سردجنگ کے دور میں‘ تقسیم کرنے کی انتہائی کامیاب حکمت عملی کو چین اور روس کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس حکمت عملی کا آغاز ۱۹۷۰ء کے عشرے کے اوائل میں رچرڈ نکسن اور ہنری کسنجر نے کیا۔ درحقیقت‘ امریکا کی طرف سے چین اور روس کے درمیان اختلاف کو ہوا دینے سے پہلے ہی ان دونوں ممالک کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوچکے تھے لیکن نکسن انتظامیہ نے ویت نام میں جنگ بند کروانے کی خاطر ۱۹۷۱ء-۱۹۷۳ء کے دوران چین اور روس کے درمیان پیدا شدہ اختلافی صورت حال کا فائدہ اٹھایا۔ پھر بعد میں‘ چین اور روس کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی حکمت عملی کو امریکی انتظامیہ نے کمیونسٹ طاقتوں کے حصے بخرے کرنے کی حکمت عملی کی بنیاد بنایا۔ امریکی انتظامیہ کی یہ کوشش سردجنگ میں سوویت یونین پر امریکا کی حتمی فتح کے لیے اہم عنصر ثابت ہوئی۔

عصرحاضر میں اسلامی دنیا پر اس مثال کا اطلاق ان کے درمیان فرقہ بندی‘ یعنی سُنّی اور شیعہ تقسیم کے ذریعے ہوتا ہے۔ عراق میں سُنّی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان جاری پُرتشدد فرقہ واریت کے ذریعے عراق میں موجود تقسیم کی شدت کے متعلق اشارہ ملتا ہے۔ لیکن سُنّی اور  شیعہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت‘ شکوک و شبہات اور اختلافات‘ کئی دیگر اسلامی ممالک‘   خاص طور پر لبنان‘ شام‘ سعودی عرب اور پاکستان میں بھی کافی ہیں۔ عام طور پر سُنّی شیعوں کو کافر اور کم تر جب کہ شیعہ سنّیوں.ُ کو منافق اور ظالم سمجھتے ہیں۔

پوری اُمت مسلمہ میں مجموعی طور پر سُنّی بہت زیادہ اکثریت میں ہیں‘ یعنی تقریباً ۸۳ فی صد‘  جب کہ شیعوں کی تعداد ۱۶ فی صد ہے اور بقایا ایک فی صد چھوٹے چھوٹے فرقے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک میں سُنّی اکثریت میں ہیں لیکن شیعہ اسلامی دنیا کے نہایت حسّاس علاقوں لبنان سے خلیج فارس ہوتے ہوئے ایران تک اور آگے دیگر علاقوں میں زیادہ تعداد میں ہیں۔ ایران اور عراق میں شیعہ اکثریت میں ہیں‘ جب کہ لبنان میںسب سے بڑی اقلیت کی حیثیت شیعوں کی ہے۔ وہ سعودی عرب کے تیل سے مالا مال اہم مشرقی صوبے میں بھی واضح اکثریت میں موجود ہیں۔

تقریباً تمام اسلامی ممالک میں وہ افراد حکمران ہیں‘ جنھیں کسی نہ کسی طرح سُنّی سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ دور میں تمام بڑے اسلامی ممالک میں سے صرف ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں شیعہ حکمران رہے ہیں۔ لیکن اس وقت عراق میں شیعہ حکمرانی کا امکان‘ اچانک بڑھتے ہوئے مسئلے کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ (شام میںاس وقت حکمران افراد کا تعلق علوی فرقے سے ہے اور یہ فرقہ‘ شیعہ مسلک سے علیحدہ ہوکر وجود میں آیا ہے) اسلامی دنیا میں آبادی اور سیاسی  لحاظ سے سنّیوں.ُ کا غلبہ ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ شیعہ انھیں ظالم و جابر تصور کرتے ہیں۔

سنّیوں.ُ کے انتہاپسند عناصر اسلامی خلافت کے احیا کا خواب دیکھتے ہیں تاکہ پوری دنیا میں اسلامی قوانین کی حکمرانی ہو۔ ۱۹۲۲ء میں آخری اسلامی خلافت‘ یعنی خلافتِ عثمانیہ کو ختم کردیا گیا تو مسلم دنیا مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوگئی اور ان کے درمیان باہمی مسابقت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔  نئی اسلامی خلافت کے قیام سے ریاستوں اور ان کے مُرتد اور کافر حکمرانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن چونکہ سُنّی شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں لہٰذا اُمت مسلمہ کی سچی خلافت کو یہ درست اقدام کرنا ہوگا کہ انصاف کے تقاضے کے تحت شیعوںکے اثرات کم کرے اور انھیں ماتحت بنائے۔ اس لیے اسلامی خلافت کے قیام کا یہ خواب عملی طور پر حقیقت کے جتنا قریب ہوتا جائے گا‘ شیعوں کی طرف سے انتہاپسند سنیوں کے خلاف مزاحمت اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ اسلامی خلافت کے احیا کا یہ منصوبہ اسلامی تحریک میں ایسی دراڑہے جو ٹائم بم کی طرح کسی بھی وقت اسے دو ٹکڑے کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔جس کے نتائج نہایت تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔

عراق شیعہ سُنّی تفریق کے لیے ایک ٹسٹ کیس اور امکانات سے پُر کٹھالی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تصور کرنا اب بہت آسان ہے کہ عراق میں حالیہ پُرتشدد اور شکوک و شبہات پر مبنی تفرقہ بازی‘ سُنّی اور شیعہ مسلمانوں یا زیادہ صحیح طور پرسُنّی اور شیعہ عربوںکے درمیان خانہ جنگی کا پیش خیمہ ہے‘ کیوں کہ سُنّی کُرد ان دونوں جماعتوں سے خود کو علیحدہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان حالات میں عالمی اسلامی تحریک کیسی نظر آئے گی؟ اس کی جو کشش اور معنی آج ہیں تبدیل ہوجائیں گے۔ ممکن ہے کہ اسلامی شناخت کا تصور کچھ مسلمانوں کے لیے باعثِ کشش ہو لیکن یہ اسلامی شناخت‘ برسرپیکار شیعہ اور سُنّی شناختوں کے مقابلے میں یقینا بہت کم ہوجائے گی۔اگر سنّیوں.ُ  اور شیعوں کے درمیان اس اختلاف کے اثرات ہمسایہ ممالک تک پھیل گئے تو اس میں اضافہ ہوگا۔ بلاشک و شبہہ‘ اگر سُنّی اور شیعہ مسلمانوں میں یہ اختلاف نہ صرف شدید اور وسیع ہوجائے بلکہ طویل عرصے تک چلے‘ تو یہ معاملہ سردجنگ کے آخری تین عشروں میں پیدا ہونے والے چین روس تنازع سے کسی طور  کم حیثیت کاحامل نہیں ہوگا۔ اس صورت میں عالم گیر اسلامی تحریک اپنے معنی اور افادیت کھو بیٹھے گی اور کوئی بھی اس کا نام لیوا نہ رہے گا۔ مسلم دنیا میں سُنّی اسلام پسند اور شیعہ اسلام پسند ہوں گے اور یہ دونوں جماعتیں‘ امریکا کے بجاے ایک دوسرے کو اپنا سب سے زیادہ بڑا دشمن تصور کریں گی۔

عراق میں سُنّی عربوں کی تعداد ہمیشہ سے ہی اقلیت میں رہی ہے (اس وقت یہ تعداد ۱۵سے ۲۰ فی صد ہے)۔ شیعہ عربوں اور سُنّی کردوں پر ظلم و ستم کی طویل تاریخ اور اسلامی مزاحمت کی حالیہ حمایت کے باعث جس کا نشانہ شیعہ اور سُنّی کرد بھی ہیں، سُنّی عربوں کو بہت کچھ جواب دہی کرنی ہے۔ اس طرح انھوں نے ایک خوف ناک خانہ جنگی کی بنیاد رکھ دی ہے۔

سُنّی عرب رہنمائوں کے عوامی بیانات کچھ بھی ہوں‘ لیکن درحقیقت وہ عراق پر اپنی اقلیتی حکومت کے خواہاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایسا جابرانہ نظام چاہتے ہیں جس کے تحت ان کے مفادات کا تحفظ اسی طرح ہوسکے‘ جس طرح برطانیہ کے ہاتھوں عراق کی تخلیق اور اس سے بھی‘ قبل سلطنت عثمانیہ کے دور میں ہوتارہا۔ چونکہ سُنّی عرب ایک چھوٹی سی اقلیت تھے‘ اس لیے قائم ہونے والی کوئی بھی سُنّی حکومت‘ خاص طور پر جابرانہ حکومت تھی اور اپنی اقلیتی بنیاد کی تلافی اس حکومت  میں شامل افراد کی طرف سے شیعہ اور کُرد آبادیوں پر غیرمعمولی ظالمانہ اقدامات سے کرتی تھی۔ ۲۰ویں صدی میںعراقی معاشرہ جدید ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا تھا‘ اسی دوران شیعوں اور کُردوں نے آہستہ آہستہ زیادہ معاشی اور تعلیمی وسائل حاصل کرلیے جس نے ان کے سیاسی تحرک اور نظم کو ممکن بنادیا۔ اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ بعد میں آنے والی سُنّی حکومتوں نے بتدریج زیادہ ظالمانہ روش کیوں اختیار کی جس کے باعث بعث پارٹی کی ظالمانہ حکومت قائم ہوگئی اور صدام حسین کے سفاک دورِ حکمرانی کا آغاز ہوگیا۔ حکومت اوپر سے دبائو بڑھاکر ہی‘ زیادہ متحرک و منظم ہونے والے کُردوں اور شیعوں کے نیچے سے آنے والے دبائو کا مقابلہ کرسکتی تھی۔

صدام حسین کی حکومت کا تقابل اکثر سوویت یا نازی حکومت سے کیا جاتا ہے۔ بیرونی تنظیمی ڈھانچے کی کارکردگی کے لیے زیادہ تر سوویت ماڈل اختیار کیا گیا‘ جب کہ اندرونی نظریاتی ڈھانچے کے لیے زیادہ تر نازی اندازفکر کو مثال بنایا گیا۔ دوسرے تقابل کے مطابق‘ صدام حسین  ہٹلر‘ بعث پارٹی‘ نازی پارٹی اور عراقی عوام جرمن عوام کا کردار ادا کرتے تھے۔ مزیدبرآں اس سے بھی زیادہ صحیح تقابل یہ ہوسکتا تھاکہ بعث پارٹی کو نازی پارٹی کے خاص شعبے ایس ایس‘ اور سُنّی عربوں کو مجموعی حیثیت سے نازی پارٹی کے متماثل قرار دے دیا جاتا‘جب کہ نازی پارٹی کی تعداد کُل جرمن آبادی کا صرف ۱۵ فی صد تھی۔

۱۹۹۰ء کے عشرے کے آخر تک سُنّی عربوں نے نہ صرف اس جابر حکومت کے ذریعے بے شمار  فوائد حاصل کیے بلکہ انھوں نے اس نظامِ حکومت کے متبادل کے طور پر کسی قابلِ قبول نظامِ حکومت کا تصور تک نہ کیا تھا‘ کسی جمہوری نظام کا تو ہرگز نہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور ان کے محافظ اداروں کو ختم کردیاگیا تو پھر ملک میں مکمل افراتفری کا راج ہوگا‘ اور طویل عرصے سے ستم رسیدہ شیعہ اور کُرد یقینا انتقام پر اُتر آئیں گے۔

اپریل ۲۰۰۳ء میں جب امریکا نے صدام حسین کی حکومت کو تباہ و برباد کردیا تو سنّیوں.ُ  کے نقطۂ نظر سے یہ بہت بُرا ہوا۔ تاہم ابھی بھی عراقی فوج اور بعث پارٹی کے بقایا جات کی صورت میں ان کے لیے تحفظ کا سامان موجود تھا۔ لیکن مئی ۲۰۰۳ء میں‘ امریکا کی قابض فوج کے متکبّر لیکن  نااہل سربراہ پال بریمر نے عراقی فوج اور بعث پارٹی دونوں کو یکسر ختم کرنے کا حکم جاری کردیا۔ اس نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ تمام حکومتی اداروں کی بشمول صحت اور عوامی سہولیات کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے‘ بعث پارٹی سے تطہیر کردی جائے۔ بریمر کے احکامات کا مطلب یہ تھاکہ لاکھوں سُنّی بے روزگار ہوجائیں۔

معاشی طور پر سُنّی امریکا کے گریٹ ڈیپریشن کی طرح انتہائی مایوسانہ کیفیت کا شکار ہوگئے۔ اس سے بھی بدتر صورت حال یہ ہوگئی کہ جب انھوں نے دیکھا کہ جس طرح مشرق وسطیٰ میں دیگر  قتل عام (مثلاً ۱۹۱۵ء-۱۹۱۸ء میں آرمینیا میں نسل کُشی‘ ۱۹۷۵ء-۱۹۹۰ء میں لبنان کی خانہ جنگی اور پھر۱۹۸۷ء-۱۹۹۰ء میں صدام حسین کے ہاتھوں کُردوں کی نسل کُشی) ہوئے‘ انھیں بھی اسی طرح قتل عام اور نسل کُشی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ امر باعثِ حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ ان حالات میں سُنّی مایوس ہوجاتے بلکہ ان کے لیے ’زندگی یا موت‘ جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی اور وہ پھر ہرممکن طریقے سے امریکی قبضے کے خلاف منظم مزاحمت کا آغاز کردیتے۔ بعث پارٹی کے زیرزمین چلے جانے والے فوجیوں اور سُنّی اسلامی تحریکوں سے اچانک اُبھرنے والے باغی دستوں نے انھیں یہ موقع فراہم کردیا۔ اس میں زیادہ وقت نہ لگا کہ بدنامِ زمانہ سُنّی مثلث میں مکمل تربیت یافتہ بغاوت برپا ہو اور اس میں بھی زیادہ وقت نہ لگا کہ سُنّی عسکریت پسندوں نے شیعہ آبادی پر شدید اور مستقل حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا‘ جن سے اب وہ ڈرتے تھے اور جن سے وہ طویل عرصے سے نفرت کرتے رہے تھے۔

عراق کو جمہوری لحاظ سے ایک واحد اکائی بنانے یا اس کا شعبدہ دکھانے کے لیے بش انتظامیہ مسلسل اپنی کوششوں میں مصروف ہے‘ لیکن ان کا یہ مقصد ممکنہ طور پر غیرحقیقی اور ناقابلِ حصول نظر آتا ہے۔ عراق تقسیم کی حکمت عملی کے لیے مناسب تجربہ گاہ ہوسکتا ہے‘ اور واقعاتی طور پر سُنّی بمقابلہ شیعہ‘ اور کرد ملیشیا بمقابلہ سُنّی دہشت گرد کے درمیان تقسیم یہاں روبہ عمل آسکتی ہے۔ امریکا کے تربیت یافتہ اور مسلح کردہ شیعہ اور کُرد ملیشیا‘ اپنے علاقوں میں سُنّی مزاحمت کاروں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے قابل ہوں گی (بلاشبہہ اس وقت بھی امریکی نگرانی میں تیار ہونے والی نئی عراقی محافظ فوج زیادہ تر شیعہ یا کرد افراد پر مشتمل ہے۔ فطری طور پر وہ اب شیعہ اور کُرد فوج کی شکل اختیار کرلیں گے)۔ ان حالات میںقدرتی اور فطری طور پر شیعہ اور کُرد مسلح افراد یا افواج کا طریقہ کار بے رحمانہ ہوگا اور وہ اپنے اپنے علاقوں سے زیادہ تر سُنّی آبادی کو اس طرح نکالیں گے جیسے یوگوسلاویہ میں نسل کُشی کی گئی تھی۔ اس طرح سُنّی آبادی مرکزی اور مغربی عراق‘ اور بغداد اور موصل کے بعض حصوں تک محدود ہوسکتی ہے۔

اگر امریکا شیعہ اور کُردمسلح افراد کے ذریعے سُنّی عسکریت پسندوں کو شکست دینے کی حکمت عملی نہیں بھی اپناتا‘ تب بھی وہ شیعہ اور کُرد‘ جن پر سنّیوں.ُ      نے مخالفانہ حملے کر کے اشتعال دلا دیا تھا‘ اپنے طور پر ہی سُنّی عسکریت پسندوں کو شکست سے دوچار کرنے کی حکمت عملی اپنا سکتے ہیں۔ ایران پہلے ہی شیعہ ملیشیا کو مدد مہیا کر رہا ہے اور کُرد ملیشیا ایک مکمل فوج کی صلاحیت حاصل کرنے ہی والے ہیں۔ آخرکار عراق بھی یوگوسلاویہ کی مانند‘ کئی ایک باہم مخالف نسلی ریاستوں میں تقسیم ہوتا نظرآتا ہے۔ لیکن اس تقسیم کے باعث‘شیعہ اور کُرد علاقوں میں اسلام پسندوں کی شورش ختم ہوجائے گی۔

یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ سُنی‘ شیعہ اور کُرد علیحدہ علیحدہ ریاستوں کے قیام کے لیے ان فریقین کے درمیان جنگ یا عراقی خانہ جنگی امریکی مفادات کے خلاف ہوگی اور یہ امریکا کو مشکل اور پریشان کن صورت حال میں ڈال دے گی۔ بہرحال‘ اگر امریکی مسلح افواج عراق میں مزید قیام نہیں کرتیں تو پھر بھی عراقی نسلی گروہ یا ریاستیں ایک دوسرے کی عظیم دشمن ہوں گی۔ عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی عراقی عوام کی اکثریت کے دلوں میں امریکا‘ ایک عظیم دشمن کی حیثیت سے موجود رہے گا‘ سُنّی اور شاید شیعہ بھی یقینی طور پرامریکا کو اپنے دشمن کی حیثیت سے یاد رکھیں گے‘ اور امکانی طور پر کُرد بھی‘ اس لیے کہ امریکا ایک دفعہ پھر انھیں تنہا چھوڑ دے گا‘ لیکن بحیثیت ایک نسلی گروہ‘ وہ جماعتیں فوری اور عملی طور پر ان کی دشمن ہوں گی جو انھیں اس وقت قتل کرنے میں مصروف ہیں۔

عراق میں امریکا کے خلاف حالیہ شورش اور بغاوت سے اسلام پسندوں اور اسلامی دہشت گردوں کے بین الاقوامی نیٹ ورک کی طاقت اور اپیل میں بہت اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے برعکس عراق میں مختلف ریاستوں کے درمیان جنگ کے باعث‘ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں نہیں تو کم از کم عراق میں اسلامیت بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔ اگر سُنّی عرب مسلمان‘ شیعہ عرب مسلمانوں کو (سُنّی کرد مسلمانوں کو بھی) ہلاک کر رہے ہوں اور اس کے جواب میں شیعہ عرب مسلمان‘ سُنّی عرب مسلمانوںکو قتل کر رہے ہوں گے تو اسلام کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟

اس قسم کی جنگ کے باعث عراق کے سُنّی عرب‘ بڑی حد تک سُنّی مسلمانوں کے انتہائی انتہاپسند مسلکوں یعنی وہابیت اور سلفیّت کی طرف مائل ہوجائیں گے لیکن ردعمل کے طور پر شیعہ اور کُرد بچے کھچے سُنّی علاقوں‘ سُنّی مثلث اور بغداد و موصل کے سُنّی اضلاع پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ اگر عراق کی مختلف ریاستوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور اس جنگ نے طول پکڑ لیا تو سُنّی ‘ شیعوںاور کُردوں کے پاٹوں درمیان پِس جانے کے عظیم خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

حالیہ مایوسی اورافسردگی کے عالم میں‘ معلوم یہ ہوتا ہے کہ سُنی‘ اپنی قوم اوربقا کو درپیش اس امکانی خطرے سے بے نیاز کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اپنی انتظامی صلاحیتوں اور مہذب و شایستہ طورطریقوں‘ انصاف پروری اور اپنی سلطنت میں دیگر افراد پر مؤثر حکمرانی کے سبب‘  اپنے عروج اور ناقابلِ شکست ہونے کا احساس رکھتے ہیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اُن پر بھی تباہی و بربادی نازل ہوسکتی ہے۔ آج بھی بڑے بڑے سُنّی یہ مغالطہ انگیز دعویٰ کرتے ہیں کہ عراق میں سُنّی عربوں کی اکثریت ہے۔

سُنّی عرب اپنے آپ کوحقیقی جنگ جو.ُ  اور کمزور و بے بس شیعوں پر حکمرانی کو اپنا موروثی حق تصور کرتے ہیں۔ اگر وہ یہ یاد کریں تو بہت اچھا ہو کہ ۱۹۴۵ء میں‘ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جرمن فاتحین پر کیا گزری‘ ۳۰لاکھ افراد ہلاک ہوگئے‘ ۸۰لاکھ افراد کو اپنا وطن ہمیشہ کے لیے چھوڑنا پڑا اور ۹۰ لاکھ افراد کو مشرقی جرمنی میں سوویت حکومت کی جانب سے ۴۰ برس تک کمیونسٹ حکومت برداشت کرنی پڑی اور پھر بلاشبہہ ممتاز افراد کی حیثیت ان فاتحین کا نام و نشان مٹ گیا۔

شیعوں کے متعلق کسی بھی گفتگو کے ضمن میں ایران کا حوالہ لازمی ہے۔ ایران شیعوں کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی اسلامی حکومت ۱۹۷۹ء ہی سے امریکا کے سخت خلاف ہے‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا نے طویل عرصے سے اسلام کے شیعہ فرقے کو سنّیوں.ُ    کی نسبت اپنے لیے اسی طرح ایک عظیم خطرہ تصور کیا جس طرح ایک دفعہ (خاص طور پر ۱۹۶۰ء کے عشرے میں) سوویت کے بجاے چینی کمیونزم کو اپنے لیے عظیم خطرہ محسوس کیا تھا۔ ایران کی طرف سے زیادہ خطرہ اسی طرح کی ایٹمی صلاحیت کے حصول کا ہے جیسے ۵۰ کے عشرے کے اواخر اور ۶۰ کے عشرے کے اوائل میں چین نے حاصل کرلی تھی اور پھر ۱۹۶۴ء میں کامیاب ایٹمی تجربہ کرڈالا تھا۔

ایران کے شیعہ ہوں یا دنیا میں کسی اور جگہ کے شیعہ ہوں‘ وہ امریکا کو مسلسل شک و شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ اس کے خلاف نفرت حتیٰ کہ حقارت اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ شیعہ‘ امریکا کے سچے اتحادی نہیں ہوسکتے‘ لیکن وہ کسی انتہاپسند سُنّی تحریک یا ریاست کے خلاف جو ان دونوں کی دشمن ہے‘ امریکا کے حربی اتحادی ہوسکتے ہیں۔ یہی معاملہ القاعدہ اور اس کے دہشت گرد ساتھیوں کا ہے اور اگر انقلاب پسند وہابی اور سلفی سعودی عرب میں حکومت حاصل کرلیں تو یہی معاملہ ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

ایران پہلی مسلم ایٹمی قوت نہیں‘ پاکستان میں بھی اسلامی عناصر موجود ہیں اور اس کے پاس پہلے ہی اپنے ایٹمی ہتھیار ہیں۔ کچھ معاملات میں‘ پاکستان اور ایران ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ ایران میں حکومت‘ امریکا کی سخت مخالف ہے‘ جب کہ عوام کا رویہ نسبتاً دوستانہ ہے۔ اس کے برعکس‘ پاکستان میں حکومت زیادہ تر امریکا سے تعاون کرتی رہی ہے‘ جب کہ عوام ہمیشہ ہی امریکا کے شدید مخالف رہے ہیں۔ مزیدبرآں‘ ایران میں آبادی کی بہت بڑی اکثریت شیعوں کی ہے لیکن سُنّی بھی واضح اقلیت (تقریباً ۱۰ فی صد) میں ہیں۔ اس کے برعکس‘ پاکستان میں سنّیوں.ُ     کی واضح اکثریت ہے لیکن شیعہ بھی واضح اقلیت (تقریباً ۱۵ فی صد) میں ہیں۔

ان دونوں خطرناک اسلامی بموں کے خلاف امریکا کے پاس کوئی اچھی متبادل حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ بش انتظامیہ کے شور مچانے کے باوجود امریکا کے پاس ایران کے ایٹمی منصوبے کو مکمل اور مستقل طور پر تباہ کرنے کے لیے کسی عملی مسلح کارروائی کا راستہ نہیں ہے اور پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان تو مزید کم ہے۔ جہاں تک تقسیم کرنے کی حکمت عملی کا تعلق ہے‘    پہلا طریقہ (اعتدال پسند بمقابلہ انتہا پسند عناصر) شاید‘ پاکستان یا ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے ضمن میں مؤثر ثابت نہیں ہوگا۔ دونوں ممالک کے معتدل اور انتہاسند عناصر اپنی اپنی اقوام کو ایٹمی قوت دیکھنا چاہتے ہیں۔ تقسیم کرنے کی دوسری حکمت عملی (سنّیوں.ُ     اور شیعوں کے درمیان) میں اچھے اور برے دونوں امکانات ہیں۔ ایران کی اکثریتی شیعہ آبادی اور پاکستان کی اکثریتی سُنّی آبادی‘ اپنے اپنے ملک میں اقلیت کے خلاف ناروا کارروائیوں میں مصروف ہے جو دوسرے ملک میں اکثریت میں ہے۔ دونوں ممالک میں موجود یہ صورت حال‘ دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کے لیے کافی امکان مہیا کرتی ہے۔ مزیدبرآں‘ دونوں ممالک کے درمیان سرحد بھی متنازع ہے‘ جس کے ذریعے بلوچستان تقسیم ہوجاتا ہے۔

اگر دونوں ممالک ایٹمی قوت ہوں تو دونوں ممالک کے مابین ایٹمی جنگ کا خطرہ اور بحران پیداہونے کا بھی کافی امکان ہے۔ اگر عراق میں شیعہ سُنّی تنازع نہایت ہی شدید اور طویل خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو پھر ایران اور پاکستان میں شیعہ سُنّی تنازع بڑھنے کا امکان زیادہ ہوجائے گا۔ ان حالات کے باعث عراق کے ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان میں سُنّی اور شیعہ آبادی کی علیحدہ علیحدہ شناخت اور ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ رویے میں مزید اضافہ ہوتا  نظر آتا ہے۔ وسیع پیمانے پر سُنّی شیعہ تقسیم کے سبب ایٹمی ایران اور ایٹمی پاکستان نہایت ہی خطرناک اور تباہ کُن طور پر ایک دوسرے کے سامنے آسکتے ہیں۔ امریکی خارجہ پالیسی کا کوئی بھی معقول پیشہ ور ماہر اس قسم کی صورت حال کے پیدا ہونے کا خواہاں نہیں ہوگا۔

بہرحال‘ اس وقت امریکا کی جو بھی حکمت عملی ہو‘ بالآخر ایرانی بم کے پڑوس میں پاکستانی بم ہوگا جس طرح کہ اب بھارتی بم کے پڑوس میں پاکستانی بم ہے۔ بہ الفاظ دیگر‘ اس کرئہ ارض کے ایک انتہائی آتش فشاں اور پُرتشدد علاقے میں تین نئی اور غیرمعتبر ایٹمی طاقتیں ایک ہی صف میں کھڑی ہوںگی۔ سہ فریقی مسائل کی طرح ان تین ایٹمی طاقتوں کی حرکیات کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن جب یہ حرکیات روبہ عمل آئیں گی تو عالمی اسلامی تحریک کے بہت سے حالیہ فیصلوں پر حاوی ہوکر انھیں ماضی کا حصہ بنا دیں گی۔ ان حالات کے باعث شیعہ ایٹمی ایران اور ہندو ایٹمی بھارت کے درمیان سُنّی ایٹمی پاکستان عراق میں سنّیوں.ُ    کی مانند تباہی و بربادی کے مہیب خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔

امریکا نے جیسے پہلے کمیونزم کے حوالے سے چین اور سوویت یونین کو باہم تقسیم کرنے کی حکمت عملی شروع نہیں کی‘ اسی طرح اسلام کے تناظر میں امریکا نے سُنّی اور شیعہ کو باہم تقسیم کرنے کا آغاز نہیں کیا ہے۔ بہرحال‘ جس طرح سرد جنگ کے دوران امریکا نے تقسیم کے عمل سے فائدہ اٹھایا‘ اب بھی امریکا تقسیم کے عمل سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

امریکا کو جب ویت نام سے نکال باہر کیا گیا تو اسے ہندچینی کے علاقے میں غیرکمیونسٹ حکومتیں قائم کرنے کے منصوبے کو ترک کرنا پڑا۔ بہرحال‘ نصف عشرے کے دوران‘ پہلے تو سوویت روس کے حلیف کمیونسٹ ویت نام نے چین کے ایک حلیف‘ کمیونسٹ کمبوڈیا پر حملہ کردیا اور  پھر کمیونسٹ چین نے کمیونسٹ ویت نام کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا۔ امریکا کے اس منظرنامے سے  ہٹ جانے کے باعث فطری طور پر کمیونسٹ ریاستیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے خلاف جنگوں میں اُلجھ گئیں۔ امریکا ریگن انتظامیہ کی سربراہی میں‘ اس صورت حال اور کمیونسٹ ریاستوں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا۔ اسی اصول کے تحت‘ اگر امریکا عراق سے نکل جاتاہے تو اسے مشرقِ وسطیٰ میں جمہوری حکومت کے قیام کے اپنے غیرحقیقی منصوبے کو ترک کرنا ہوگا۔ ایک مختصر سی مدت میں اُمت مسلمہ کا مرکزی تنازع وہ ہوجائے گا جو سنّیوں.ُ اور شیعوں کے درمیان اُبھرے گا۔ یہ پہلے تو عراق کے سنّیوں.ُ    کا مقدر ہوگا اور پھر کچھ مزید عرصے بعد پاکستانی  سنّیوں.ُ    کا مقدر بنے گا۔ اور یہ عمل حیرت انگیز طور پر سنّیوں.ُ کو متحد ہونے پر مجبور کردے گا۔ اس تناظر میں‘ سُنّی مسلمانوں کی امریکا کی طرف توجہ بے جا اور درحقیقت بے معنی ہوگی۔

امریکا کو اسلامی دنیا میں ترقی کے حوالے سے اجنبی اور نامانوس تصورات مسلط کرنے کی بے سود کوشش کے لیے عراق پر حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب امریکا کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ عراق سے نکل جائے اور اُمت مسلمہ میں موجود اندرونی اور فطری اختلافات کو اپنے انداز میں بڑھنے دے۔ کسی بھی حقیقی عظیم طاقت کے لیے دیگر ممالک میں اپنا اثرونفوذ بڑھانے کے لیے منطقی حکمت عملی یہ نہیں کہ بالکل نرالی اور انوکھی روایات قائم کرنے کی کوشش کی جائے جن کی مقامی حالات میں کوئی بنیاد نہ ہو۔ اسے اقوام اور ممالک میں موجود مقامی حقائق اور پہلے سے موجود اختلافات سے اپنے طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔

 

سعادت پارٹی کا عزم اور جدوجھد

سعاد ت پارٹی کی استنبول برانچ کے زیرا ہتمام ایک اور بڑے اور منظم پروگرام میں شامل ہونے کا موقع بھی ملا جس میں کشمیر کی صورت حال پر ہم نے بریفنگ رکھی اور ان کی تنظیمی صورت حال اور کام کی تفصیلات بھی معلوم ہوئیں۔ استنبول سے انقرہ تک ہر جگہ سعادت پارٹی متحرک نظر آئی۔ اسے گذشتہ انتخابات میں محض ۵ء۲ فی صد ووٹ ملے تھے اور بری طرح شکست ہوئی تھی۔ اب وہ پُرامید ہیں اور یہ موقف رکھتے ہیں کہ گذشتہ انتخابات میں طیب اردگان کی پارٹی کو بھی لوگ   اربکان صاحب ہی کی پارٹی سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کو کامیاب کیا۔ اب قوم کے سامنے صورت حال واضح ہوگئی ہے اس لیے ہمارا ووٹ بنک ہمیں واپس ملے گا۔ نیز یہ بھی بتایا گیا کہ اربکان صاحب کی پارلیمنٹ میں جو ۱۶۳ ارکان تھے ان کی اور ان کے پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک بڑی تعداد  سعادت پارٹی سے وابستہ ہے جو یقینا آیندہ کارکردگی دکھائے گی۔

 اگر قوم پرست اور بائیں بازو کے عناصر متحرک ہوگئے اور حق پارٹی اور سعادت پارٹی کے درمیان خلیج موجود رہی تو اس سے ان دونوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ نیزسعادت پارٹی کو اردگان حکومت کی پالیسیوں پر سخت تحفظات ہیں ۔ ان کے مطابق انھوں نے جناب اربکان سے بے وفائی کی اور محض حکومت بچانے کے لیے اسرائیل اور فوج کے ساتھ معاملات کرنے میں اپنے موقف سے پسپائی اختیار کی ، حتیٰ کہ حجاب کے مسئلے پر بھی دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود کوئی قانون سازی نہ کرسکے ۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان انتخابات میں خلیج بڑھنے کا امکان ہے اور ووٹ بنک بھی تقسیم ہوگااس لیے کہ سعادت پارٹی نے بھی زور و شور سے اپنی تنظیم اور سرگرمیوں کو مؤثر بنا لیا ہے۔

یورپی یونین میں شمولیت کا مسئلہ

ایک اہم مسئلہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کا ہے جو گذشتہ چار عشروں سے زیر التوا ہے۔ ترکی کی ہر حکومت کی خواہش رہی ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت سے اس کے لیے اقتصادی میدان میں نئے مواقع پیدا ہوں۔لیکن یونین کی طرف سے آئے روز نئی نئی شرائط کی تکمیل کا ایجنڈا دے دیا جاتا ہے جس کے اہم نکات یہ ہیں: (۱) آئینی اور قانونی اصلاحات  کے ذریعے ترکی میں حقیقی جمہوریت قائم کی جائے اور سیاسی نظام سے فوج کا کردار ختم کیا جائے۔ (۲)ترکی کے معاشی انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ (۳)قانون میں ایسی اصلاحات کی جائیں جو یورپ کے بنیادی حقوق کی تعریف پر پورا اترسکیں ، نیز ان سے متصادم قوانین مثلاُ پھانسی کی سزا وغیرہ ختم کی جائے۔ (۴)ترک معاشرے کو زیادہ لبرل کیا جائے۔

ہر حکومت یورپی یونین کے معیار پر پورا اُترنے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات کرتی رہی ہے اور موجودہ حکومت بھی یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔مختلف دانش وروں اور سیاسی رہنمائوں سے یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ یہی نکتہ سامنے آیا کہ اگرچہ یورپی یونین میں شمولیت کے نتیجے میں معاشی ترقی کے مواقع پیدا ہوں گے اور فوج کے سیاسی کردار سے  بھی جان چھوٹ جائے گی جو وہاں اچھے نظام کے قیام اور فروغ کے راستے میں رکاوٹ ہے‘   لیکن اس کے ساتھ ساتھ یورپ کی تہذیبی گندگی سے ترک معاشرہ مزید آلودہ ہوجائے گا، بالخصوص مسلم معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان بری طرح متاثر ہوگا۔موجودہ حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی ساری کاوشوں کے باوجود یور پ کے تحفظات ختم نہیں ہوئے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ترکی کی شمولیت سے یور پ کی آبادی کا تناسب متاثر ہوگا۔ترکی کی موجو دہ آبادی اس وقت ساڑھے چھے کروڑ سے زائد ہے۔یورپ میں پہلے سے چار کروڑ کے لگ بھگ مسلمان آبادہیں۔  یہ سب مل کر آیندہ چند عشروں میں یورپ کی عیسائی شناخت کو متاثر کرسکتے ہیں۔ انھی تحفظات کی وجہ سے یورپی یونین کے کرتا دھرتا ابہام کا شکار ہیںاور آئے روز ایسے حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ترکی کا یونین میں داخلہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

ترکی اور کردستان کا مسئلہ

ترکی کے اہم داخلی مسائل میں کردستان کی تحریک اہم مسئلہ ہے۔ کرد ترکی ، عراق، ایران اور آذربائیجان میں مقیم ہیں۔ نسل اور زبان کے اعتبار سے یہ وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں اور ایک طویل عرصے سے ان تمام ممالک میں آزاد کردستان کے حصول کے لیے تحریک چل رہی ہے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کردوں کا ایک بڑا حصہ یعنی ترکی کا ایک چوتھائی حصہ کردوں پر مشتمل ہے۔ کر د آزادی کے لیے ماضی میں مسلح جدوجہد بھی کرتے رہے۔ ترکی نے آزادی کی اس مسلح تحریک کو بالجبر ختم کرنے کی کوشش کی جو کافی حد تک کامیا ب رہی لیکن سیاسی سطح پر اب بھی یہ تحریک موجود ہے ۔ اس حوالے سے سیاسی اور عسکری تمام تنظیموں پر قانونی لحاظ سے پابندی ہے۔ نجم الدین اربکان نے کردوں کی بے اطمینانی کو ختم کرنے کے لیے انھیں ممکنہ طور پر بااختیار بنانے کی کوشش کی۔ اس تسلسل کو موجودہ حکومت نے بھی جاری رکھا ۔ کردستان کی آزادی کے کرتا دھرتا قوم پرست سیکولر اور سوشلسٹ عناصر ہیں ۔ سرد جنگ کے دوران میں انھیں روس اور اس کے ہم خیال حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔

اسلامی تحریک سے وابستہ حلقے ترکی کے مزید حصے بخرے کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ اربکان اور طیب اردگان کو بنیادی طور پر انھی حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس وقت موجود  کرد ارکان پارلیمنٹ میں سے اکثریت کی حمایت طیب اردگان کی حکومت کو حاصل ہے۔ ترکی کی  سا لمیت کے حوالے سے یہ مسئلہ اس حد تک حساس ہے کہ عراق پر امریکی حملے کے مقاصد میں  آزاد کردستان کا قیام بھی شامل تھاجو ترکی کی مخالفت اور مزاحمت کی وجہ سے رک گیا۔ ترکی مسلم دنیا میں امریکا کا سب سے بااعتماد حلیف ہے ۔ بالخصوص ناٹوکا ممبر ہونے کی حیثیت سے اس کی    فوج کے نہایت ہی گہرے روا بط امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ استوار ہیں لیکن اس قومی مسئلے پر ترکی کی حکومت اور فوج نے امریکا کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ اگر آزاد کردستان بنانے سے امریکا   باز نہ آیا تو ترکی نتائج سے بے پروا ہو کر کھلی جنگ سے دریغ نہ کرے گا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک کی دفاعی حکمت عملی کی ایک سرخ سرحد ہوتی ہے جس پر کوئی ملک بھی سمجھوتا نہیں کرتا۔ افسوس ہے کہ پاکستان کے حکمران ایسی کوئی سرحد بھی قائم نہ رکھ سکے۔

مسئلہ کشمیر اور تازہ صورت حال

دورے میں میڈیا سے متعلق مختلف اداروں اور سیاسی سطح پر ہونے والی ملاقاتوں میں تحریک آزادی کشمیر کی تازہ صورت حال ، بھارتی مظالم  اور عالمی اور اسلامی برادری کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بات ہوئی ۔ یہ پہلو اطمینان بخش تھا کہ ہر جگہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک گونہ  ہمدردری کی فضا موجود ہے اور لوگ دل چسپی بھی رکھتے ہیں ۔ لیکن خود حکومت پاکستان کی طرف سے مذاکرات پراظہار اطمینان او ر اپنے دیرینہ موقف سے پسپائی کی وجہ سے ہمدردی کی یہ ساری آواز یں خاموش ہوتی چلی جا رہی ہیں ۔ پروفیسر نجم الدین اربکان سے لے کر حکمران پارٹی تک سب نے تقریباً ایک ہی نوعیت کی راے کا اظہارکیا ۔ترکی جیسا دوست ملک جہاں سے ہمیشہ غیرمشروط تعاون ملا ہے ، اس کے ذمے داران کی طرف سے یہ توجہ پالیسی سازوں کے لیے بھی  لمحۂ فکریہ ہے۔ ترکی کے کئی دفاتر میں آویزاں دنیا کے نقشے پرکشمیر کو بھارت کاحصہ دکھایا گیا ہے۔ اس پر بھی ہر جگہ ہم نے اداروں کو متوجہ کیا اور ہماری توجہ کو نوٹ بھی کیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ اور سفارت خانے آخرکس مرض کی دوا ہیں؟ترکی جیسے برادر ملک میں یہ منظر دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت  ایک مرتبہ پھر قومی موقف کا اعادہ کرے اور دنیا کی راے عامہ اس کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کرے ۔

اھل پاکستان کے لیے محبت کا بھتا زمزمہ

ترکی میں ہر ملک کی طرح داخلہ اور خارجہ مسائل پر راے عامہ تقسیم ہے لیکن پاکستان کے ساتھ محبت کے حوالے سے پوری قوم ایک ہے۔ اسلام سے محبت رکھنے والے تو زیادہ پُرجوش ہیں لیکن قوم پرست اور ترقی پسند اور بائیں بازو کے حلقے بھی پیچھے نہیں۔ لاشعور میں برصغیر کے مسلمانوں کا وہ کردار ہے جو انھوں نے مشکل وقت میں ادا کیا۔ اس کے بعد آج یہ تیسری چوتھی نسل گزر رہی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ محبت کا جذبہ نسل در نسل منتقل ہورہا ہے۔ اس تعلق سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ قوموں کی آزمایش کے وقت  میں مدد کس قدر دیر پا اثرات رکھتی ہے۔ ایک طرف ترکی میں یہ زمزمۂ محبت بہتا دیکھ کر میں خوش ہورہا تھا اور دوسری طرف سوچ رہا تھا کہ جس طرح پاکستان کی موجودہ حکومت نے افغانستان کو تاراج کرنے میں ساتھ دیا ہے اس نے افغانوں کی آیندہ نسلوں میں کس قدر نفرت کے بیج بو دیے ہیں اور کانٹوں کی یہ فصل نہ جانے کب‘ کون‘  کس طرح کاٹ سکے گا؟ اور آنے والی نسلوں تک اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ اسی طرح سید علی گیلانی اور مقبوصہ کشمیر میں نظریہ پاکستان کے علم برداروں اور تحریک آزادی کے ساتھ مخلص وفاداروں کو جس طرح حکومت پاکستان دیوار کے ساتھ لگا رہی ہے اس کے عوامی اثرات کیا ہوں گے؟ اس کا تصور کرکے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ترکی کے عوام کی پاکستان سے محبت اپنے اند ر یہ پیغام رکھتی ہے کہ ہمیں حکومتوں کے بجاے قوموں سے دوستی کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ یہ دوستی دیر پا ہوتی ہے۔  اس پس منظر میں آج پاکستان میں ذہنی طور پر شکست خوردہ ایک طبقہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتا ہے ۔ انھیں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ، عالم عرب اور عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایسی حماقت ہوئی تو فلسطینی اور عرب عوام میں پاکستان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ اور جب کل وہاں حالات بدلیں گے تو پاکستان منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا۔  بہرحال ترک عوام کی اس محبت کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ میں نے ہرجگہ یہ کہا کہ حکومتی اور عوامی سطح پر آپ نے زلزلہ زدگان کا جس طرح تعاون کیا ہے ہماری نسلیں کبھی فراموش نہیں کریں گی۔ یوں یہ دو طرفہ محبت کے جذبات اور بڑھ گئے۔ اللہ انھیں قائم و دائم رکھے۔ عوامی سطح پر روابط بڑھانے اور اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔

ترکی کے دانش ور

اس دورے میں ترک دانش وروں کی مختلف مجالس میں شرکت کا موقع ملا۔ ترکی کے معروف اسلامی دانش ور اور مفکر جناب پروفیسر ڈاکٹر صباح الدین زعیم کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کی جس میں ممبران پارلیمنٹ‘ یونی ورسٹی کے اساتذہ ، دانش ور اور تاجر برادری کے اہم افراد بھی شریک تھے۔ یہ مجلس دو تین گھنٹوں سے زیادہ جاری رہی۔انھوں نے کل‘آج اور ہم کے موضوع پر لیکچر بھی دیا اور سوال و جواب کی نشست کا اہتمام کیا۔ ان کا ترک دانش ور حلقوں میں بہت احترام ہے۔ اس طرح انقرہ کے اکنامک اور سوشل ریسرچ سنٹر میں اس نوعیت کا پروگرا م تھا۔  ESSAM کے نام سے یہ تنظیم ترک دانش وروں میں ایک عرصے سے کام کررہی ہے اور یہ بھی جناب اربکان کا صدقہ جاریہ ہے ۔ ترکی کے سابق صدر ترگت اوزال تک اس کے ممبر رہے ہیں ۔ اس کے صدر جناب قوطان ہیں اور سیکر یٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹرعارف ارساے اور نائب صدر سلیمان بالگن ہیں ، ان حضرات سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی ۔اسی طرح ترک بار کونسل کے صدر جناب نجات جیلان اور او آئی سی کے لیے این جی او کی ایسوسی ایشن کے صدر علی کرف کے ہمراہ  چند دیگر ایسی ہی مجالس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ دیکھ کر بہت مسرت ہوئی کہ ترکی کا دانش ور طبقہ نہ ذہنی طور پر مرعوب ہے اور نہ مایوس ۔ بلکہ حالات کا صحیح تجزیہ کرتے ہوئے وہ پُرعزم ہیں کہ ترکی کے حالات بھی بدلیں گے اور ترکی اسلامی دنیا میں ایک کردار بھی ادا کرے گا۔ ترکی کے دانش ور حلقوں میں پاکستان کے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد بہت مقبول ہیں۔ دانش وروں کی مجالس میں ہر جگہ ان کا تذکرہ ہوا۔ بالخصوص یورپ میں تعلیم اور دعوت کے محاذ پر لیسٹر اور مارک فیلڈمیں موجود ان کے ادارے کی بے پناہ تحسین کی گئی۔ ترکی کی انتہائی مصروف اور مشینی زندگی کے معمولات میں اہل دانش کا کئی کئی گھنٹے آپس میں مل بیٹھ کر مسائل پر غور کرنا اور ان کے حل کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار‘ ترکی کے شان دار مستقبل کی نوید ہے۔

ترکوں کی خوداعتمادی اور ترک زبان

ترکی کی ایک اور قابل تقلید مثال ان کی اپنی زبان سے محبت اور اس پر اعتماد ہے۔ آپ پورے ترکی میں گھومیں ، خال ہی کوئی سائن بورڈ انگریزی میں نظر آئے گا۔ پارلیمنٹ کی کارروائی سے لے کر خط و کتابت تک تمام معاملات ترکی زبان میں چلائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ یونی ورسٹی اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں نصاب کو ترکی زبان میں ڈھا ل لیا گیا ہے۔ انگریزی متبادل زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اور لوگ انگریزی سیکھتے تو ہیں لیکن اس کااستعمال صرف ناگزیر حالات ہی میں کیا جاتا ہے بلکہ انگریزی میںخوامخواہ اظہار خیال کرنا اپنی زبان کی توہین سمجھتے ہیں۔ نجم الدین اربکان اور طیب اردگان انگریزی زبان سمجھنے کے باوجود اپنی گفتگو ترکی زبان میں کرتے ہیں اور ترجمان کی وساطت سے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر پاکستان کی اشرافیہ کی ذہنی غلامی پر بجا طور پر دکھ ہوتا ہے کہ جس نے ایک عظیم قوم کو عظیم زبان سے محروم رکھا ہوا ہے۔انگریز کی سدھائی ہوئی مٹھی بھر سول اور ملٹری بیوروکریسی اس قوم کو انگریزی کی مار دے رہی ہے ۔ کاش پاکستانی قیادت اعتماد کے ساتھ اردو کو فروغ دے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی شناخت اور حلقۂ اثر وسیع تر ہو سکتا ہے ۔

اسی طرح لباس کا معاملہ ہے ۔ اسلام میں اگرچہ کسی خاص لباس کو فرض نہیں کیا گیا ، آداب بتادیے گئے کہ لباس شرعی اور باحیا اور باوقار ہونا چاہیے ۔ اس لحاظ سے ہمارے قومی لبا س کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مجھے متعدد بار دنیا کے مختلف حصوں میں جانے کے مواقع ملے۔ میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ قومی لباس میں زیادہ احترام ملا۔ ترکی کے اس دورے کے موقعے پر بھی قدم قدم پر اپنے لباس کی قدر و قیمت کا احسا س ہوا۔ جہاںبھی گئے ’کاردیش پاکستانی‘کہتے ہوئے لوگ گلے لگ جاتے۔ مساجد میں نمازوں کے لیے گئے تو بھی محبت کا جوش دیکھا۔ حتیٰ کہ توپ کاپی کے قومی عجائب گھر گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام کے نوادرات اور آثار سمیت عثمانی خلافت کی تمام تاریخ کو محفوظ کرلیا گیا ہے، وہاں بھی سیکڑوں لوگ موجود تھے لیکن سکیورٹی پر مامور ایک افسر نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور تمام آثار دکھائے اور ساتھ ساتھ پروٹوکول دیتا چلا گیااور ہمارے فارغ ہونے تک ہمارے ساتھ رہا۔ میں نے اپنے ہم سفر ساتھیوں سے کہا کہ دیکھیے قومی لباس کا کرشمہ کہ کس قدر اس کا احترام ہے۔ اب تیونس اور الجزائر میں یہ مقبول ہور ہا ہے ۔ میں نے تو امریکا اور یورپ میں بھی دیکھا کہ جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ اسے مغربی لباس پر ترجیح دیتے ہیں ۔

سید مودودی اور علامہ اقبال کا مقام

ترکی میں پاکستان کے سفیر جنرل(ر)افتخار حسین شاہ ہمارے پرانے مہربان ہیں۔ انقرہ پہنچ کر انھیں اطلاع دی تو انھوں نے بہت پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ترک عوام علامہ اقبال اور پاکستان کے ہیروز کا بہت احترام کرتے ہیں اور مسئلہ کشمیر اور اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کو اپنے مسائل سمجھتے ہیں۔ ان سے کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔ کشمیر کی صورت حال پر  تبادلہ خیال ہوا۔ وہاں کے حالات پر انھوں نے بہت فکر مندی کا اظہار کیا اور بہتر دنوں کی یاد تازہ کرتے رہے۔ اپنے دورے کے تاثرات سے انھیں بھی آگاہ کیا اور تجویز بھی دی کہ ترک این جی اوز کو متاثرین کی خدمت کے لیے مزید متوجہ کیا جائے ۔ نیز ترکی کی یونی ورسٹیوں میں پاکستانی طلبہ کے داخلوں کا بھی اہتمام کیا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے کام کررہے ہیں اور حال ہی میں ڈاکٹر عطاء الرحمن یہاں کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور یہاں کی ٹیکنیکل اور انجینیرنگ یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں۔ محمد خان کیانی صاحب ایک اور پاکستانی دانش ور ہمارے دیرینہ دوست ہیں۔ وہ بھی اب یہاں کے شہری بن چکے ہیں۔ وہ ترک رائٹر فورم کا اہم کردار ہیں۔ انھوں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن اور دیگر کتابوں کا ترکی میں ترجمہ کیا ہے ۔ وہ اب بھی مختلف موضوعات پر ریسرچ کررہے ہیں ۔ ان کی وساطت سے تفہیم القرآن  اور سید مودودی کے لٹریچر کے پبلشر حسن جنیش سے ملاقات ہوئی جو’انقلاب‘ کے نام سے ایک بڑا اشاعتی ادارہ اور بک سنٹر چلا رہے ہیں۔ یہاں ان سے معلوم ہوا کہ ترکی زبان میں مولانا مودودی کے لٹریچر بالخصوص تفہیم القرآن کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ حیرت انگیز حد تک اردو زبان سے بھی زیادہ۔ یہ فیڈبیک یہاں دوسرے ملنے والوں سے بھی ملا۔ باکوز بلدیہ کے مئیر محرم ارگول نے تو یہاں تک کہا کہ ترکی میں شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں تفہیم القرآن نہ ہو۔ صرف اسلامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ہی نہیں بلکہ سیکولر لوگ بھی تفہیم زیر مطالعہ رکھتے ہیں۔

اسی طرح علامہ اقبال کا ہرجگہ تذکرہ سنا۔ ان کا کلام‘ اور سید قطب شہید کی فی ظلال القرآن بھی بہت زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے۔ ڈاکٹر حمیدا للہ مرحوم کی کتب بھی بہت پڑھی جاتی ہیں۔ ہر مجلس میں ان عظیم مفکرین کی خدمات کا تذکرہ ہوا۔ یہاں اسلام اور سیکولرازم کی کش مکش میں جو لوگ اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں وہ شعوری مسلمان ہیں اور اسلام کی پیاس بجھانے کے لیے وہ ان مفکرین کی کتب سے اردو دان حلقوں سے زیادہ استفادہ کر رہے ہیں۔ ایک دانش ور نے کہا کہ ہمارے فکری استاد مولانا مودودی اور علامہ اقبال ہیں ، جہاں ہم کسی مسئلے میں الجھ جاتے ہیں ان کی تحریروں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہمیں شافی جواب مل جاتا ہے۔ کاش کہ پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے میں بھی یہی پیاس ہوتی اور تفہیم القرآن اور کلام اقبال کو اس اہتمام کے ساتھ پڑھتے تو ایک بھرپور فکری انقلاب بر پا ہو چکا ہوتا۔ تحریک اسلامی سمیت جو حلقے پاکستان کی نظریاتی سمت کو درست رکھنے کا عزم رکھتے ہیں انھیں اس بارے میں فکر مند بھی ہونا چاہیے اور منصوبہ بھی بنانا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ ساری دنیا میں تجدیدو احیاے اسلام کی لہر آگے بڑھتی ر ہے اور اہل پاکستان چراغ تلے اندھیرے کے مصداق اس سے محروم رہ جائیں۔ ترکی پر اس فکری اور دعوتی کام کے   یہ اثرات گذشتہ سالوں کی نسبت زیادہ گہرے نظر آتے ہیں ۔ خواتین بالخصوص نوجوانوں، بچوں اور بچیوں میں اس کے زیادہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ حالانکہ ملکی نظام مسلسل اس لہر کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ عجیب منظر نامہ ہے کہ ترکی ۸۰ سال کے سیکولر دور کے بعد اسلام کی طرف مراجعت کررہا ہے۔ اس کے وزیر اعظم اور کابینہ کے تمام ارکان کی بیگمات حجاب اور اسکارف کا اہتمام کرتی ہیں اور یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں بھی اسکارف پہن کر ہی شرکت کرتی ہیں لیکن پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور جس نے احیاے اسلام اور اسلامی تہذیب کی پشتیبانی کرنا تھی اسے سیکولر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

اسلامی ادارے اور میڈیا

ترکی میں مختلف دینی اور دعوتی حلقے اپنے اپنے انداز سے کام کررہے ہیں ۔ ان کے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینل ہیں جو ۲۴گھنٹے کی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ پہلو بہت حوصلہ افزا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں ترک تحریکوں نے اس جانب بہت توجہ دی ہے ۔ ان میں ایسے اخبارات بھی ہیں جن کی تعدا دلاکھوں میں ہے اور ٹی وی چینل بھی بہت مقبول ہیں۔ ان چینلوں کے ذریعے معیاری پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔اسی طرح بچوں کا اسلامی لٹریچر اور بصری تربیتی پروگرام اور کھیل وغیرہ سی ڈی پر یکساں دستیا ب ہیں۔ چینل ۵ سعادت پارٹی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے جو ترکی کے علاوہ بلقان کی ریاستوں ، سنٹرل ایشیا اور جرمنی میں بھی مقبول ہے۔ اس کا معیار مسلسل بہتر ہو رہا ہے۔ اس طرح message  کے نام سے ایک چینل جو یہاں کے صوفی حلقے کا ترجمان ہے ، بھی کافی مقبول ہے۔ Halal ٹی وی یہاں کے اسلامی دانش وروں کے گروپ نے شروع کیا ہے ، جس کے سربراہ مصطفی اسلام اوغلو ہیں ۔ ایک نہایت ہی بالغ نظر اسکالر ہیں ۔ AKABE کے نام سے وقف چلا رہے ہیں جس نے حالیہ ریلیف میں اہم خدمات سرانجام دی ہیں۔ دعوتی ، تعلیمی اور میڈیا کے محاذ پر مفید کام کررہے ہیں۔ ان سارے چینلوں نے ہمارے انٹرویو کیے۔ میں نے سوال کیا کہ ایسا چینل قائم کرنے پر کتنا خرچ آتا ہے تو بتایا گیا کہ کم از کم چار ملین ڈالر۔یہ یقینا ایک بڑی رقم ہے لیکن یہاں کے اسلامی حلقے اس بات پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے میڈیا کے اس چیلنج کو قبول کرکے متبادل حل پیش کردیا ہے۔ پاکستان کے دینی حلقوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔

ترکی کی مساجد

یہاں کی مساجد بہت صاف ستھری اور شفاف ہیں۔ پہلے کی نسبت مساجد میں حاضری میں بہت اضافہ ہوا ہے۔  البتہ وضو کے لیے گرم پانی کا انتظام یہاں کی مرکزی اور تاریخی مساجد میں بھی نہیں ہے ۔ اس پر میں نے حیرت کا اظہار کیا تو ڈاکٹر ندیم صاحب نے بتایا کہ یہاں گرم پانی کا انتظام گھروں میں بھی خال خال ہی ہے۔ ترک اسے اپنی جفا کشی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ مذہباً حنفی ہونے کے باوجود معتدل ہیں۔ نمازیں بہت خشوع اور خضوع سے پڑھتے ہیں اور انتہائی مصروف زندگی کے باوجود نمازوں کے بعد مسنون تسبیحات اور اذکار کا اہتمام کرکے مساجد سے اٹھتے ہیں۔ عام طور پر ہر نماز کے بعد سورۂ بقرہ کا آخری حصہ یا سورۂ حشر کا آخری رکوع بآواز بلند تلاوت کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اجتماعی دعا ہوتی ہے۔ فجر کی نماز کے بعد بعض اوقات امام  سورۂ یٰسین تلاوت کرتے ہیں۔ تمام خطیب‘ امام حضرات عربی میں گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ترکی کی مساجد اور مدارس یا جامعہ ازہر سے فارغ ہیں۔ بعض اَئمہ بغیر داڑھی کے بھی ہیں۔ وہ صرف نماز کے وقت مصری کلاہ اور چغہ پہن لیتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں پہچاننا مشکل ہوجاتاہے۔ ترکی کے مفتی اعظم بھی داڑھی کے بغیر ہیں۔ البتہ نوجوان علما اب بڑی تعداد میں داڑھی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم نے کوشش کی کہ مختلف مساجد میں نمازیں ادا کی جائیں ۔ اس کے بعد نمازی حضرات اور اَئمہ سے بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔جنھیں اپنی دعائوں میں کشمیر کے مسلمانوں کو یاد رکھنے کی درخواست کرتے۔ وہ ڈھیروں دعائوں کے ساتھ رخصت کرتے رہے۔

اھم جھات

ترکی میں عوامی اور تحریکی سطح پر تعلقات نہایت مفید ہوسکتے ہیں۔ اس کے لیے تدابیر اختیار کرنا چاہییں۔ ہم نے ریلیف کے کام کی طرف متوجہ کیا۔ سب اداروں نے یقین دہانی بھی کرائی ، البتہ حکومتی اداروں سے لے کر الخدمت تک سب کے بارے میں یہ شکایت کی کہ بروقت فیڈ بیک نہیں ملتا اس لیے وہاں کی این جی اوز سے کام لینے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے تقاضوں کے مطابق فیڈ بیک کا اہتمام کیا جائے ۔

ہماری حکومت کے اس پروپیگنڈے نے بھی کہ زلزلہ زدگان کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیںاور اب کوئی مشکل باقی نہیں ہے این جی اوز کو ابہام کا شکار کردیا ہے ۔ این جی اوز پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکومتی اداروں اور بیوروکریسی کے رویے کو بھی کام میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتی ہیں۔ استنبول بلدیہ کے ذمہ داران نے بتایا کہ وہ آزاد کشمیر میں ایک dialysis centre قائم کرنا چاہتے تھے ۔ اس سلسلے میں مشینری بھی خرید لی۔ لیکن اس کے متعلق مراسلت کرتے رہے مگر کسی ادارے نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیںکی۔ ایک سال کے انتظارکے بعد انھوں نے عطیہ دہندگان کی اجازت سے یہ سنٹر اب استنبول ہی کے ایک غریب علاقے میں قائم کردیا ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ اس لیے حکومت، ایرااور الخدمت سمیت تعاون حاصل کرنے والی این جی اوز کو چاہیے کہ وہ بروقت فیڈ بیک فراہم کریں اور روایت سے ہٹ کر کام کریں ورنہ یہ سارے ذرائع دوسری طرف منتقل ہوتے چلے جائیں گے۔

اس کی بھی ضرورت ہے کہ ترک تعلیمی اداروں میں پاکستانی نوجوان زیادہ سے زیادہ جائیں۔ بزنس فورم فعال ہوکر تجارت میں اضافہ کرے اور مختلف دائروں میں تحریکی پس منظر کے وفود کا باہمی تبادلہ ہو۔

اختلاف راے علم و تحقیق کے لیے رحمت ہے۔ یہ صرف کھلی بحث‘ تنقیدی جائزے اور دیانت دارانہ بحث کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ صحیح علمی قدروقیمت کا تعین ہوسکے۔ حقیقی مکالمے کے مفہوم میں یہ شامل ہے کہ دلائل کے لیے وسعت قلبی‘حقائق کا ادراک‘ اختلاف راے کے لیے  تحمل و برداشت ہو‘ جب کہ اہم ترین پہلو علمی دیانت اور اخلاقی بلندی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو باقی سب کی کوئی اہمیت نہیں۔

پاکستان دنیا کے سیاسی نقشے پر ۱۹۴۷ء میں اُبھرا۔ اس نے مسلمانان ہند کی جمہوری جدوجہد کے نقطۂ عروج کی عکاسی کی جس کے تحت انھوں نے برطانوی راج سے ایک نئے دستوری نظام کے تحت آزادی حاصل کی۔ اس نے مسلمانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست قائم کرسکیں جہاں وہ اپنے ایمان‘ اقدار‘ نظریات اور تاریخی روایات کی روشنی میں سماجی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور ثقافتی ترقی کرسکیں۔ یہ ان کی اسلامی تشخص سے وابستگی اور تعلق ہی تھا جس نے پوری سیاسی جدوجہد کے دوران مسئلے کو زندہ رکھا‘ خاص طور پر تحریکِ خلافت (۱۹۱۱ء-۱۹۲۵ء) اور تحریک پاکستان (۱۹۴۰ء-۱۹۴۷ء) کے دوران۔ محمداقبال کا مسلم لیگ کے اجلاس سے صدارتی خطاب (۱۹۳۰ء)‘ قائداعظم محمدعلی جناح اور دیگر مسلم لیگی قائدین کے سیکڑوں بیانات اور پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا قرارداد مقاصد (مارچ ۱۹۴۹ء) کا منظور کرنا‘ ان سب پر ایک محتاط نظر‘ اس بات میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہنے دیتی کہ اسلام ہی تحریکِ پاکستان اور ریاست اور معاشرے کا مرکزی نکتہ تھا‘جو اس تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ایک حقیقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔

سیکولرلابی نے آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران پہلی مرتبہ سر اُٹھایا۔ اس موقع پر‘ قائداعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ہندو ممبران اسمبلی نے جن کا تعلق کانگریس پارٹی سے تھا‘ پورے زوروشور سے اُٹھایا۔ آئین ساز اسمبلی کے مسلم ممبران نے لیاقت علی خان‘ عبدالرب نشتر اور مولانا شبیراحمدعثمانی کی قیادت میں اس دعوے کو رد کردیا اور قراردادمقاصد تقریباً متفقہ طور پر منظور ہونے سے سیکولرلابی کا پول کھل کر رہ گیا۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ سیکولر لبرل لابی اسی غبارے میں پھر ہوا بھرنے کے عمل پر مصر ہے۔ جسٹس محمدمنیر فریب اور تحریف کے اس کھیل کے مرکزی کھلاڑی تھے۔ اپنی کتاب: From Jinnah To Zia (وین گارڈ بکس‘ لاہور‘ ۱۹۸۰ء) میں انھوں نے جناح کا پاکستان بطور سیکولر ریاست کے تصور کے حق میں مبینہ دلائل پیش کیے۔ پاکستان اور بیرون ملک میں پائی جانے والی تمام سیکولر لابی اس کتاب میں جناح سے وابستہ کیے جانے والے بیانات کو اس بحث میں بنیادی حوالے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اگرچہ جسٹس منیراور سیکولرلابی کے الزامات کو بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار نے چیلنج کیا ہے ‘ لیکن زیرتبصرہ مختصر اور جامع کتاب: سیکولرجناح میں سیکولر حضرات کے موقف پر بہت بھرپور‘ جان دار اور شواہد کے ساتھ کڑی تنقید کی گئی ہے۔ سلینہ کریم نے انتہائی محتاط تحقیقی کام سے جسٹس منیر اور تمام ہم خیال سیکولر لابی کے اسکالر ادیبوں کے ٹولے بشمول اردشیر کاؤس جی ‘ اشتیاق احمد‘ پرویز ہود بھائی‘ اے ایچ نیر وغیرہ جیسے مریضانہ ذہنیت کی حد تک لکھنے والوں کے موقف کا بھرپور اور زوردار انداز میں رد کردیا ہے۔

یہ کتاب اس بات کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں چھوڑتی کہ قائداعظم کو جانتے بوجھتے غلط نقل (quote)کیا گیا ہے۔ درحقیقت انھیں نہ صرف چھانٹ چھانٹ کر اور سیاق و سباق سے ہٹتے ہوئے نقل کیا گیا ہے بلکہ جو الفاظ انھوں نے کبھی نہیں کہے‘ وہ ان سے منسوب کردیے گئے ہیں۔ مزیدبرآں ان مصنفین نے بڑی تعداد میں اور بکثرت پائے جانے والے ان شواہد سے صرفِ نظر کیا ہے جو قائداعظم کے اس نقطۂ نظر اور وژن کو واضح کرتے ہیں‘ جو وہ پاکستان کے بارے میں اسلام کے اصولوں پر مبنی اور ملّت اسلامیہ کی آرزؤں اور تمنائوں کے مطابق ریاست کے طور پر رکھتے تھے۔سلینہ کریم نے نہایت محتاط انداز میں قائداعظم کے رائٹر کے نمایندے کو دیے گئے اس انٹرویو کا جس کا عام طور پر حوالہ دیا جاتا ہے‘ اصل متن تلاش کیا ہے‘ اور حتمی طور پر ثابت کیا ہے کہ جسٹس منیر نے جو الفاظ ان سے منسوب کیے تھے‘ وہ اصل بیان میں تھے ہی نہیں۔ جسٹس منیر نے ان سے یہ منسوب کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید ریاست ہوگی جس میں اعلیٰ ترین اختیار (sovereignty)  عوام کے ہاتھ میں ہوگا‘‘۔

یہ بات دل چسپی کا باعث ہوگی کہ گرامر کی ایک غلطی کی وجہ سے مصنفہ اس رخ پر پڑیں اور بالآخر تحقیق کے بعد یہ دریافت ہوا کہ یہ اقتباس محض لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک جعل سازی تھا‘اور سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ بات ایک چیف جسٹس نے کی جسے انصاف اور سچائی کا نگہبان تصور کیا جاتا ہے۔

کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب اس بیان سے متعلق ہے جو قائداعظم سے منسوب کیا جاتا ہے جوکہ جعل سازی کا ایک نمونہ ثابت ہوچکا ہے۔ باقی تین ابواب جناح سے متعلق دوسری ۱۲ فرضی باتوں کے بارے میں ہیں‘ جن کا تعلق ان کے مبینہ سیکولرزم یا ان کے اپنے نام نہاد سیکولر طرززندگی سے ہے۔ اس بحث میں محتاط محققہ نے ۴۰ سے زیادہ اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے جناح کی اسلام کے عقیدے اور نظریے سے گہری وابستگی‘ اور انھوں نے ملّت اسلامیہ سے اسلام کے تحرک‘ تشخص اور پاکستان کی منزل کے تناظر میں جو پختہ عہد کیا تھا‘ ثابت ہوتا ہے۔ مصنفہ نے اپنے دعوے کو شک و شبہے سے بالاتر ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کیا ہے۔ انھوں نے سیکولر اور لبرل لابی کے اخلاقی اور علمی دیوالیہ پن کا بھی انکشاف کیا ہے جنھوں نے اپنے موقف کو‘ واقعات کو مسخ کر کے‘ حقائق سے انکار کرکے اور قبیح و ناروا علمی فروگذاشت کی بنیاد پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیکولر لابی کے ہردعوے کو حقائق اور ٹھوس دلائل سے رد کیا گیا ہے۔ بہرحال جناح کے ساتھ بالآخر انصاف کیا گیا ہے‘ جب کہ پاکستان میں انصاف تقسیم کرنے والوں نے ان کے سر ناانصافیاں منڈھی ہیں۔

اگرچہ زیرتبصرہ کتاب جناح کے پاکستان کے وژن اور جسٹس منیر اور ان کے پیرو اہلِ قلم کی فریب کاری جو انھوں نے برسوں پھیلائے رکھی‘ کے حوالے سے بھرپور ہے‘ تاہم مصنفہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کی حیثیت ایک تاریخ کی کتاب کی نہیں ہے۔ یہ اب بھی مفید ہوگا اگر اس بحث کے تاریخی تناظر میںاسی طرح کا قابلِ قدر علمی مطالعہ پیش کیا جائے۔

بحث کا پہلا مرحلہ ۱۹۴۹ء میں آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد سے پہلے اور دوران بحث سے متعلق ہے۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں قادیانی مسئلے پر حکومت مخالف تحریک کے بعد کے اثرات کو سامنے لاتی ہے۔ جسٹس منیر کا اسلامی ریاست کے تصور اور جناح کے مبینہ سیکولر وژن کے بارے میں پہلا حملہ تحقیقاتی عدالت کی پنجاب میں فسادات کے بارے میں رپورٹ میں کیا گیا جو پنجاب ایکٹ II‘ ۱۹۵۴ء کے تحت قائم کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ عام طور پر منیر رپورٹ ۱۹۵۶ء کے طور پر جانی جاتی ہے‘ اور اس پر مکمل تنقیدی جائزہ جماعت اسلامی پاکستان نے منیر رپورٹ کا تجزیہ ‘ (پنجاب ڈسٹربنس انکوائری رپورٹ کا تنقیدی جائزہ) کے عنوان سے شائع کیا‘ جو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا اور اس تبصرہ نگار نے اس کا ترجمہ کیا۔

منیر رپورٹ  میں جناح کے ڈوم کیمپلز کے انٹرویو پر مبنی اسی مبینہ اقتباس (ص ۲۰۱) کا حوالہ دیا گیا ہے ‘جس کی حقیقت زیرتبصرہ کتاب میں بہت واضح طور پر کھول دی گئی ہے۔ہمارے جواب الجواب‘ منیر رپورٹ کا تجزیہ میں قائداعظم کے بارے میں اس موقف کو رد کردیا گیاتھا‘ مگر مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ فریب دہی پوری طرح کھل کر سامنے نہیں آئی تھی جب تک کہ موجودہ کتاب سامنے نہیں آئی۔ اس تحقیق کا سہرا یقینا سلینہ کریم کو جاتا ہے۔

شریف المجاہد (قائداعظم جناح: اسٹڈیز ان دی انٹرپرٹیشن، قائداعظم اکیڈیمی‘ کراچی‘ ۱۹۷۸ء) اور دیگر بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار (کیا قائداعظم ایک دھوکا باز تھے؟  نیوایرا، کراچی‘ ۲۸ جنوری ۱۹۵۶ء) نے اس موضوع پر لکھا ہے اور قائداعظم کی اس مسئلے پر پوزیشن کو واضح کیا ہے۔بعض مقامات پر دھیمے‘ خوش گوار اور مناظرانہ انداز میں --- جس مشقت سے  سلینہ کریم نے تحقیق کی اور جس طرح سے انھوں نے جعل سازوں کی فریب دہی کا انکشاف کیا ہے‘ اپنے موضوع پر قابلِ تحسین کاوش ہے جو ریکارڈ درست رکھنے میں بھی مددگار ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ کتاب ایک آئینے کی مانند ہے جو قائداعظم کے پاکستان کے بارے میں حقیقی تصور اور سیکولر لابی کے مسخ شدہ بیانات دونوں کی عکاسی کرتی ہے۔

سلینہ کریم بجا طور پر دعویٰ کرتی ہیں کہ جناح نے اپنی تقریروں‘ تحریروں اور انٹرویو میں محض ایک بار بھی سیکولرزم کے نظریے کی واضح طور پر حمایت نہیں کی‘ یا پاکستان کے ایک سیکولر ریاست کے طور پر کوئی اشارہ بھی دیا ہے۔ درحقیقت انھوں نے بارہا پاکستان کے لیے ’مسلم ریاست‘، ’اسلامی ریاست‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ قیامِ پاکستان کے پیچھے جو تصور کارفرما تھا وہ ’اسلامی اصولوں‘ اور’اسلامی قانون‘ پر عمل درآمد تھا۔ تاہم ان سے قائد کے کئی بیانات میں اہم متعلقہ بیانات رہ گئے۔ مثال کے طور پر مسلمانانِ ہند کے لیے اپنے ایک پیغام (۸ستمبر‘ ۱۹۴۵ء) میں انھوں نے سیکولرزم کے نظریے پر ایک شدید ضرب لگائی۔ انھوں نے کہا:

ہرجہت میں مسلمان اپنی ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ محسوس کررہے ہیں۔ ہرمسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی امور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول: اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے‘ نہ صرف دینیات کے اعتبار سے بلکہ سول اور فوج داری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیرمبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔ جہلا کے سوا ہر شخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطہ حیات ہے۔ ایک دینی‘ معاشرتی‘ سول‘ تجارتی‘ فوجی‘ عدالتی‘ فوج داری ضابطہ ہے۔ رسومِ مذہب ہی سے متعلق نہیں‘بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔ روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک‘ حقوق العباد سے لے کر فردِواحد کے حقوق تک‘ اخلاقیات سے لے کر جرائم تک اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا کہ ہرمسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کرسکے۔ لہٰذا اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے‘ زندگی کے ہرشعبے پرمن حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلدسوم‘ ترجمہ:اقبال احمد صدیقی‘ بزمِ اقبال‘لاہور‘ ص ۴۷۴)

سیکولرزم سے متعلق ایک اور بہت اہم حوالہ‘ جو غالباً واحد حوالہ ہے جسے میں نے ان کی تقاریر اور بیانات میں پایا‘ پارٹیشن پلان کے اعلان کے بعد اور کراچی روانگی سے قبل‘ ۱۳ جولائی ۱۹۴۷ء کی ایک اہم پریس کانفرنس کے موقع پر سامنے آیا۔ان سے براہِ راست یہ سوال کیا گیا: پاکستان سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی ریاست؟مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’آپ مجھ سے ایک احمقانہ سوال کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مذہبی ریاست کے معنی کیا ہوتے ہیں‘‘۔ (ایک اخبار نویس نے کہا کہ مذہبی ریاست ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں صرف کسی مخصوص مذہب کے لوگ‘ مثلاً مسلمان تو پورے شہری ہوسکتے ہیں اور غیرمسلم پورے شہری نہیں ہوسکتے)۔ مسٹر جناح نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’پھر مجھے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میں نے جو کچھ کہا ہے (یعنی پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق )وہ ایسے تھا جیسے چکنے گھڑے پر پانی گرا دیا جائے‘‘ (قہقہہ)۔ خدا کے لیے اپنے ذہن سے وہ واہیات باتیں نکال دیجیے جو کہی جارہی ہیں۔ مذہبی کا کیا مطلب ہے میں نہیں جانتا۔ (ایک صحافی نے کہاکہ ایسی ریاست جو مولانا چلائیں)۔ مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’اس حکومت کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہندستان میں پنڈت چلائیں گے؟‘‘ (قہقہہ)۔ مسٹر جناح نے کہا: ’’جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت کا سبق تیرہ سو برس پہلے پڑھا تھا‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلد چہارم‘ ایضاً‘ ص ۳۵۲)

سلینہ کریم نے کتاب کا آخری باب قائد کے ریاست اور معاشرے کے بارے میں وژن کے مختلف پہلوؤں کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جائزے کے لیے مختص کیا ہے۔ یہ بحث مسٹر جناح کے اسلامی اقدار‘ اصولوں اور اسلامی روایات سے اور ان کے نقطۂ نظر کی گہری وابستگی کے کسی حد تک ادراک میں مددگار ہے‘ تاہم قرآن کے اقتصادی نظام اور خاص طور پر زکوٰۃ کا ایک سیاسی مسئلے کی بحث کے دوران تذکرہ باعثِ حیرت ہے۔ البتہ بحیثیت مجموعی کتاب میں جناح کے تصورِپاکستان پر بحث اُٹھائی گئی ہے جو اپنے موضوع پر لٹریچر میںمفید اضافہ ہے۔ مطالعہ پاکستان میں دل چسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا لازماً مطالعہ کرنا چاہیے۔(ترجمہ: امجد عباسی)

(Secular Jinnah: Munier's Hoax Exposed, by Saleena Karim, Laskeard, UK, Exposure Publishing, 2005, pp 148, ISBN: 1905363753)

 

افغانستان پر فوج کشی کا مرحلہ درپیش تھا تو ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کردیا گیا۔ پھر جنرل صاحب سے لے کر ادنیٰ وزرا اور گویوں.ّ  تک سب انھی الفاظ کی جگالی کرنے لگے۔ اس وقت اُمت کی بات کرنے والوں کو ‘کشمیر وفلسطین کی بات کرنے والوں کو بے حکمت‘ غیرمتوازن اور جذباتی کے طعنے دیے گئے۔ انھیں پرایوں کی لڑائی میں کودنے کے کوسنے دیے گئے۔ پھر افغانستان تباہ ہوگیا‘ ہزاروں بے گناہ انسان خاک میں ملا دیے گئے۔ کئی عشروں پر محیط افغان پالیسی کے نتیجے میں ہم نے وہاں جتنے بھی دوست بنائے تھے‘ سب کھو دیے‘ وہاں امریکا سمیت ناٹو ممالک کی افواج اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا جال وسیع تر ہوتا چلا گیا اور برادر حقیقی کی حیثیت رکھنے والے ملک کی ہوائیں پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے زہریلی ہوتی چلی گئیں۔

 ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی بنیادوں پر ہم نے بھی مزید ردّے چڑھا دیے۔ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں معاونت کا بوجھ تو گردن پہ تھا ہی‘ اب ہم نے اپنے قبائل کو بھی کچلنا شروع کردیا۔ باڑھ ہی کھیت کو کھانے لگی تو ہم اس فکر سے بھی آزاد ہوگئے کہ چھری خربوزے پہ گرتی ہے یا خربوزہ چھری پر۔ دونوں طرف اپنے ہی بھائی بندوں کے لاشے گر رہے تھے‘ فوجی جوان بھی پاکستانی اور قبائل بھی پاکستانی۔

ایسے المیوں کا جو انجام ہوتا ہے ہم اب اسی کا سامنا کر رہے ہیں ۔ جس بے وفا کے لیے جان سے گزرے تھے وہ اب بھی ہمیں موردالزام ٹھیرا رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں سرحدپار  کھل کھیل رہی ہیں۔ کوئی بھی دھماکا ہو‘ کیسا ہی حادثہ ہو‘ جو بھی شکایات پیدا ہوں الزامات ہمارے ہی سر منڈھے جارہے ہیں۔ وہی طالبان جنھیں ہم نے خود پکڑپکڑ کر گوانتاناموبے بھجوا دیا‘ افغانستان کی خاک میں ملا دیا‘ ہمارے اور امریکیوں کے اندازے سے زیادہ سخت جان نکلے۔ افغان تاریخ و روایات کے عین مطابق جب انھوں نے قابض فوجوں سے عملاً نبردآزما ہونا شروع کیا‘ تو سارا نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرنے لگا۔ ساری خدمت اور چاکری کرنے کے باوجود ہم ہی گردن زدنی ہیں‘ ہرطلوع ہونے والے دن ہمارے لیے دشنام و الزامات کا نیا ذخیرۂ الفاظ ایجاد ہو رہا ہوتا ہے۔ اب نہ روشن خیالی کی کوئی تدبیر کام کر رہی ہے اور نہ نسلوں کو تباہ کرنے والی تعلیمی و ثقافتی قلابازیاں اثر دکھا رہی ہیں۔

اصل بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی تاریکی میں بھی اندھوں کو ایک بار پھر بڑی دُور کی سوجھی ہے۔ اب ’سب سے پہلے پاکستان‘کے بجاے زیادہ ’حقیقت پسندی‘ کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ بالکل اُلٹی سمت میں جاکر اعلان کیا گیا ہے کہ اصل مسئلہ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ہے۔ اسے حل کیے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب جنرل صاحب نے ایک دو نہیں پورے ۹مسلم ملکوں کے طوفانی دورے کیے ہیں۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے بعد اب وہ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کے سنہری فارمولے کی دلالی کر رہے ہیں۔ برادر مسلم ممالک تو ہم سے ہمیشہ دوستی‘ تعاون اور مضبوط تعلقات ہی چاہتے ہیں۔ انھوں نے حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ہمیں سب سے پہلے پاکستان کا  نسخۂ کیمیا تھمایا گیا تھا‘ تب امریکی کولھو میں جتے دیگر تمام مسلم ممالک کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکا جا رہا تھا۔ اس وقت جدھر سنتے تھے‘ ایک ہی نغمہ الاپا جا رہا تھا: ’سب سے پہلے اُردن‘، ’سب سے پہلے لبنان‘، ’سب سے پہلے مصر‘، ’سب سے پہلے…۔ اب کیسٹ اُلٹی چلنی شروع ہوئی ہے تو توقع ہے کہ عنقریب ہر جانب سے ایک ہی راگ کانوں میں رس گھولے گا: ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘۔

آخر یہ نیا فارمولا ہے کیا؟ اسلام آباد نے تو اعلان کیا ہے کہ ابھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا‘ لیکن نئے سال کے دوسرے مہینے‘ دوسری بار مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئی ہوئی امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے اس کی کئی جھلکیاں دکھا دی ہیں۔ حماس الفتح مذاکرات اور معاہدۂ مکہ سے یہ تاثر اُبھرا تھا کہ اب فلسطینیوں کو فلسطینیوں سے لڑانے کی سازش ناکام ہوجائے گی۔ اب دونوں بھائی مل کر اپنے دشمن کا سامنا کرسکیں گے‘ اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کی فکر کریں گے۔ لیکن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں رسمی تقاریر ہی کے دوران میں صدر محمود عباس نے   اصل ایجنڈے کی نشان دہی کردی۔ انھوں نے کہا: ’’بالآخر ہماری قومی حکومت تشکیل پاگئی ہے۔ اب حماس کو ان تمام عالمی معاہدوں کا احترام کرنا ہوگا جو ہم نے عالمی برادری کے ساتھ کیے ہیں‘‘۔ روسی صدر پوٹن نے جو خود بھی ان دنوںمشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے‘ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’معاہدۂ مکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پہلا عملی قدم ہے‘‘۔ ظاہر ہے محمود عباس نے تو عالمی برادری کو شیشے میںاُتارا ہی اس بنیاد پر تھا کہ وہ ان کے احکام بجا لائیں گے۔ محمودعباس اپنے عقیدے کے بارے میں زبان زدعام اطلاع کی نفی کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں  ’بہائی‘ نہیں۔ لیکن عملاً اسی بات کا پرچار کرتے ہیں جو قادیانیت اور بہائیت کی اصل بنیاد ہے‘ یعنی ’’جہاد کا انکار اور مجاہدین سے دست برداری‘‘۔ محمودعباس‘ حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ہروہ خدمت بجا لائے جو اسرائیل و امریکا کو مطلوب تھی۔ امریکی وزیرخارجہ نے جواباً ان کی اپنی سیکورٹی فورسز کے لیے ۸۶ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔

اُردن و مصر کے راستے‘ فلسطینی انتظامیہ کے مقابل صدارتی افواج کے لیے اسلحے کے انبار فراہم کر دیے گئے اور محمودعباس کے ساتھیوں میں سے سب سے متنازع شخص محمد دحلان صدارتی فوج لے کر اپنے فلسطینی مجاہدین پر ہی چڑھ دوڑا۔ غزہ یونی ورسٹی جلا ڈالی گئی۔ مساجد میں علماے کرام اور کتاب الٰہی پر گولیوں کی برسات کردی گئی اور جہاں کبھی صرف صہیونی بم باری اور فائرنگ ہوا کرتی تھی وہاں فلسطینیوں کو خود فلسطینی مارنے لگے۔ اور یہ خوں ریزی عین اس وقت ہورہی تھی جب قابض صہیونی افواج مسجداقصیٰ سے ملحق حصے کو شہید کر رہے تھے۔ حرم قدسی کے باب المغاربہ کے باہر بنے حجرے کو گرا کر وہاں ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھنے کی تیاریاں کر رہے تھے اور اسلامی تحریک کے کارکنان ان سے برسرپیکار تھے۔ فلسطینیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی یہ خوں ریزی فلسطین کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھی‘ لیکن بالآخر فریقین مکہ مکرمہ میں ایک معاہدے پر متفق ہوگئے۔ محمودعباس نے مذکورہ بالا بیان تو دے دیا لیکن یہودی اخبارات نے واویلا مچایا کہ حماس سے   عالمی معاہدوں کے احترام کی بات بہت کمزور اور ناکافی ہے۔ محمود عباس کو تاکیداً کہنا چاہیے تھا کہ ہم حماس سے ان معاہدوں کی پابندی کروائیں گے۔

رائس نے حالیہ دورے میں صہیونی وزیراعظم اولمرٹ اور محمودعباس سے ملاقاتیں کرنے کے بعد دو ٹوک اور مختصر بات کی ہے کہ‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دہشت گردی (یعنی فلسطینی جہاد) کو ترک کرنے سے کم کوئی اور بات قابلِ قبول اور قابلِ عمل نہیں ہوگی۔ ان مکرر ارشادات عالیہ اور گذشتہ تقریباً پون صدی کے حقائق‘ ’سب سے پہلے مشرق وسطیٰ‘ کی وحی مستور کی جھلک دکھانے کے لیے کافی ہیں۔

ویسے اُمت مسلمہ ہی نہیں خود امریکی اور صہیونی بھی اب اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ فلسطینی مجاہدین کو کچلنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ وہ یہ راز سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فلسطینیوں کے سروں کی فصل‘ جتنی کاٹتے ہیں‘ اس سے زیادہ پھر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ انھیں نہیں معلوم کہ اسی سفر معراج میں جس کا آغاز مسجداقصیٰ سے ہوا تھا‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ کائنات نے خود اس راز کی حقیقت سے آگاہ فرما دیا تھا‘ اور پوچھنے پر بتایا تھا کہ  ’’یہ آپؐ کی اُمت کے جہاد کی فصل ہے… یہ کبھی ختم نہیں ہوگی‘ جتنی کٹے گی… اتنی ہی بڑھے گی‘‘۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’سب سے پہلے اسرائیل ‘ کا فارمولا تیار کرنے والے ’مسلم‘ حکمران اس حقیقت پر کتنا ایمان رکھتے ہیں۔

۲۱ دسمبر ۲۰۰۶ء صومالیہ کی تاریک تاریخ میں ایک اورسیاہ باب رقم کرنے کے لیے طلوع ہوا۔ ۱۶برس کی بدترین خانہ جنگی‘ قحط سالی اور عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے نڈھال صومالی قوم ہمسایہ ملک ایتھوپیا کی جدید ترین امریکی اسلحے سے لیس فوج کا مقابلہ نہ کرسکی۔ یوں ایک ہی ہفتے کے اندر صومالیہ کے تمام قابلِ ذکر شہر یکے بعد دیگرے کالی آندھی کے سامنے ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ اسلامی عدلیہ یونین سے پٹ کر بھاگنے والے جنگی سردار ایتھوپیائی ٹینکوں اور امریکی طیاروں کی بم باری کی آڑ میں موگادیشو پر قبضہ جمانے میںکامیاب ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صومالیہ میں ایسی کیا بات ہے کہ عالمی طاقت امریکا اور افریقہ کی سب سے بڑی فوجی قوت ایتھوپیا اس پکے ہوئے پھل پر اتنی بے تابی سے ٹوٹ پڑے ہیں؟

صومالیہ کے ساتھ ایتھوپیا کے کئی اسٹرے ٹیجک مفادات وابستہ ہیں۔ یہ ۴۰ کے عشرے کی بات ہے جب برطانوی سامراج شاہانہ فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے ہرکس و ناکس کو بڑے بڑے ارضی خطے تحفتاً پیش کر رہا تھا۔ بے وطن یہودیوں کو فلسطین کی زمین بے داموں دی جارہی تھی۔ جنت نظیر خطۂ کشمیر اور پنجاب کے ملحقہ اضلاع ہندوؤں کو عطا کیے گئے تھے۔ اسی طرح براعظم افریقہ میں قدیم بازنطینی عیسائی سلطنت کے وارث شہنشاہ حبشہ کو ارض صومال کا سب سے بہترین زرخیز اور معدنی دولت سے مالامال مسلم اکثریت کا صوبہ اوگادین عطا ہوا۔ استعماری طاقتوں کی یہی بندربانٹ آج دنیا میں تصادم اور جنگوں کا حقیقی سبب ہے۔

صوبہ اوگادین کے تنازعے پر صومالیہ اور ایتھوپیا میں دو نہایت خوف ناک جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ ایتھوپیا کی یہی پالیسی رہی ہے کہ صومالیہ کے عوام کی نمایندہ کوئی طاقت ور مرکزی حکومت نہ آنے پائے۔ یہ ملک خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہے اور اوگادین کی آزادی کے لیے کوئی مربوط اور منظم کوشش نہ ہوسکے۔

دوسری جانب اریٹیریا کی آزادی کے بعد ایتھوپیا عملاً سمندر تک رسائی سے محروم (land locked)  ملک بن گیا ہے۔ سمندر تک اس کا سب سے مختصر راستہ صرف صومالیہ سے ہوکر گزرتا ہے۔ لہٰذا صومالیہ میں دوستانہ بلکہ کٹھ پتلی حکومت کا وجود ناگزیر سمجھا گیا ہے۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے‘ وہ ہمیشہ ہی سے صومالیہ پر اثرورسوخ بلکہ مستحکم قبضے کا خواہاں رہا ہے۔ اس خواہش کے پیچھے ایک تو سمندروں پر حکمرانی کی خواہش ہے۔ صومالیہ کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں پر قبضہ جمائے بغیر بحیرۂ احمر کی اہم ترین سمندری گزرگاہ پر تسلط ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ دوسرے‘ اسے   تیل اور دوسری قیمتی معدنیات یورینیم وغیرہ کی بھوک ہے۔ علاوہ ازیں امریکا کو موگادیشو میں کھائی ہوئی ۱۹۹۴ء کی شرم ناک شکست بھولے سے بھی نہیں بھولتی۔ واشنگٹن کے انٹرنیشنل اسٹرے ٹیجک اسٹڈی سنٹر کے صدر جان ہیمبرے اس سلسلے میں کہتے ہیں: ’’صومالیہ ہماری خارجہ پالیسی تشکیل دینے والوں کے سر پر ایک کابوس کی مانند سوار ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے منفی اثرات سے ہم کبھی چھٹکارا حاصل نہیں کرپائے‘‘۔ لہٰذا اب امریکا ایتھوپیا کا عملاً ساتھ دے کر اپنے شرم ناک ماضی کے داغ کو دھونا چاہتا ہے۔ اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے پہلے پہل تو کمیونزم کے علَم بردار ایتھوپیا کے فوجی ڈکٹیٹر ہیل سلاسی کے مقابلے میں صومالی ڈکٹیٹر جنرل سیدبرے کی حکومت کی مدد کی گئی۔ ۱۹۷۷ء کی اوگادین جنگ میں مالی و فوجی مدد کے ذریعے جنرل سیدبرے کے ہاتھ مضبوط کیے گئے۔ پھر ۱۹۹۱ء میں سیدبرے کا تختہ اُلٹ جانے کے بعد خوراک اور امداد کی تقسیم کی آڑ میں براہ راست فوجی مداخلت کا جواز تراشا گیا‘ لیکن آفرین ہے صومالی حریت پسندوں پر‘ جنھوں نے صومالیہ کی آزادی کی خاطر امریکی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ اور ۱۹۹۴ء کا سال امریکی تاریخ کا تاریک ترین سال قرار پایا جب صومالیہ کے حریت کیش مجاہدین نے ۱۸امریکی میرین شکار کیے اور انھیں موگادیشو کی سڑکوں پر گھسیٹا۔ اس پر امریکا اپنی ساری نخوت بھول کر صومالیہ سے نکل گیا۔ اب امریکی حکمران اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے پھر سے نکلے ہیں لیکن ذرا ایک اور طریقے سے۔

صومالیہ کے عوام کو سبق سکھانے کی خاطر موگادیشو پر قابض جنگی سرداروں کو Alliance for the Restoraion of Hope and anti Terrorismکے نام پر جمع کیاگیا اور ان پر اسلحے اور ڈالروں کی بارش برسائی جانے لگی۔ ان جنگی سرداروں کی بے مقصد جنگ و جدل سے اُکتائے ہوئے عوام مزید خون ریزی سے بچتے ہوئے ملک و قوم کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے ’اسلام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے‘ کے نعرے تلے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ ابتدا میں ایک قبیلے میں اور بعدازاں ہر قبیلے کی سطح پر ایک ایک اسلامی عدلیہ کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں جہاں اسلامی عدالتوں کا قیام عمل میں آتا گیا وہ علاقے امن و امان کے حوالے سے مثالی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ اسلامی عدلیہ کے احکامات کی تنفیذ کے لیے نوجوان رضاکار موجود تھے۔ انھی قبائلی سطح پر منظم ہونے والی اسلامی عدالتوں نے آگے چل کر ایک یونین بنا لی جسے اسلامی عدلیہ یونین کا نام دیا گیا۔ یہ یونین اپنی ساخت کے لحاظ سے وسیع البنیاد عوامی تحریک تھی جس میں جہاں سخت گیر اسلامی فکر کے حامل سلفی تھے تو صوفیا اور مشائخ بھی شامل تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاشرے کے نمایاں تجار‘ سابقہ فوجی جنرل اور دیگر مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے سبھی   امن پسند عناصر موجود تھے۔ اس یونین کا آغاز اگرچہ صرف عدالتی امور نبٹانے کے لیے عمل میں  لایا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور دیگر اسلامی تنظیموں کی مدد سے اس نے سماجی‘    طبی اور تعلیمی خدمات کا آغاز بھی کردیا۔ یہاں تک کہ برسرِاقتدار آنے سے قبل موگادیشو میں   تین یونی ورسٹیاں اسلامی عدلیہ یونین کے زیراہتمام کام کر رہی تھیں۔تمام تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ ۱۶ برس کی خانہ جنگی میں صومالی تاریخ میں اگر کوئی سنہری کارنامہ وقوع پذیر ہوا ہے تو وہ ان اسلامی عدالتوں کا قیام ہے۔

جنگی سرداروں کی چھیڑ چھاڑ کے جواب میں گذشتہ جون میں یونین کے رضاکاروں نے سخت جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں نہ صرف دارالحکومت موگادیشو بلکہ جنوبی صومالیہ کا بیش تر حصہ امریکی حمایت یافتہ جنگی سرداروں کے چنگل سے آزاد ہوگیا۔ عوام نے یونین کی ان کامیابیوں کا بھرپور خیرمقدم کیا اور پورے ملک میں امن و امان پوری طرح بحال ہوگیا۔ بیش تر جنگی سردار ایتھوپیا کی پناہ میں چلے گئے۔ اب ایتھوپیا کو عبوری حکومت کی حمایت کی خاطر صومالیہ میں فوجی مداخلت کا جواز مل گیا۔ اگرچہ یہ بھیڑیے اور میمنے کی کہانی والا جواز ہی تھا لیکن چونکہ اسے امریکا کی عملی تائیدو حمایت حاصل تھی‘ لہٰذا ایتھوپیا نے صومالیہ پرحملہ کرنے میں بالکل دریغ نہ کیا۔

ایتھوپیائی فوج کوئی دو ماہ سے صومالیہ کے سرحدی علاقوں میں برسرپیکار تھی‘ تاہم کھلا فوجی حملہ ۲۱دسمبر سے شروع کیا گیا۔ فضائی بم باری اور توپ و تفنگ کا خانہ جنگیوں سے   ُچور ہونے اور اقوام متحدہ کی جانب سے اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی کے باعث کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ اس پر مستزاد گھر کے بھیدی‘ ملک و قوم کے غدار بھگوڑے جنگی سردار ایتھوپیائی فوج کی رہنمائی کے لیے پیش پیش تھے۔ ان سبھی جنگی سرداروں کا ماضی عوام کے قتلِ عام اور باہمی خون ریزیوں سے عبارت ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے‘ ان سبھی جنگی مجرموں کے سرخیل عبوری حکومت کے سربراہ عبداللہ یوسف احمد کو لیا جائے تو ان کا تعارف یہ ہے کہ موصوف صومالی فوج میں کرنل رہے ہیں۔ کئی    فوجی بغاوتوں میں ان کا نمایاں ہاتھ رہا ہے۔ خانہ جنگی کے دور میں صومالیہ ہی کے ایک نیم خودمختار صوبہ پُنٹی لینڈ کے سربراہ بنے۔ اقتدار سے اس قدر پیار ہے کہ ۲۰۰۱ء میں اپنی مدت صدارت کی تکمیل پر بھی کرسیِ اقتدار کو چھوڑنا گوارا نہ کیا بلکہ اُلٹا اپنے سیاسی مخالفین کو بے دردی سے قتل کرنا شروع کیا اور اب ایتھوپیا کی فوج کے سہارے ایک بار پھر موگادیشو میں وارد ہوئے ہیں۔

اب ایتھوپیا اور امریکا کی مدد سے عبوری حکومت موگادیشو تک پہنچ تو گئی ہے لیکن اس حکومت کا وجود برسرِزمین کہیں نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت کو امریکی بھی محسوس کررہے ہیں۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے صدر کہتے ہیں: ’’عبوری حکومت بے حد کمزور ہے اور اب تک کی تمام رپورٹیں یہی بتا رہی ہیں کہ صومالی عوام اس حکومت کے ہرگز حامی نہیں ہیں‘‘۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ صومالیہ کے عوام نے اپنے مقبوضہ علاقے اوگادین کی خاطر ایتھوپیا سے طویل جنگیں لڑی ہیں اور موگادیشو میں ایتھوپیائی فوجوں کو غاصب فوج کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اسی لیے امریکا اور مغربی طاقتیں لالچ اور خوف کے تمام ہتھکنڈے لیے اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ کسی طرح افریقی یونین کی افواج کو صومالیہ لانے میں کامیاب ہوجائیں تاکہ ایتھوپیائی قبضے کا تاثر دُور ہوسکے۔

اس وقت تک ان کی تمام کوشش رائیگاں جاتی نظر آتی ہیں۔جنوبی افریقہ نے دانش مندی سے امریکی کھیل میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے اپنی فوجیں بھیجنے سے انکار کیا ہے۔ ۸ہزار امن فوج میں یوگنڈا اور برونڈی جیسے ممالک سے صرف ۴ہزار فوج کا انتظام ہوسکا ہے۔

اگلا مرحلہ یہ بتایا گیا ہے کہ موگادیشو کو اسلحے سے پاک شہر بنایا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شہر کو امریکا اور ایتھوپیا اپنی کھلی جارحیت سے اسلحے سے پاک شہر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو کیا افریقی یونین کی کمزور سی آدھی فوج یہ معرکہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوسکے گی؟ حالات اس کی نفی کر رہے ہیں۔ موگادیشو میں تقریباً روزانہ مسلم حریت پسندوں اور ایتھوپیائی فوجوں کے درمیان مسلح جھڑپیں ہورہی ہیں۔ نظر یہی آرہا ہے کہ صومالیہ کے عوام اپنی آزادی کو  رہن رکھنے کے لیے ہرگزتیار نہیں ہیں اور غاصب فوجوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمت صومالیہ کے    عزمِ آزادی پر دلالت کر رہی ہے۔

اسلامی بنکوں میں سرمایہ کاری

سوال: اسلامی بنکاری سے متعلق میں اور میرے دوسرے احباب اپنے آ پ کو  ایک مشکل میں پاتے ہیں۔ ہم ایک لاکھ تک کی رقم بچاپاتے ہیں لیکن اس بچت کو سود کے خوف سے کسی بھی منافع بخش اسکیم میں لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں چاہتے اس رقم کو کرنٹ اکائونٹ میں لگا کر ضائع کردیں۔ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ہماری مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ اس رقم کے ساتھ کوئی اور کاروبار بھی نہیں کرسکتے۔ مہربانی کر کے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم آخر کیا کریں؟ اگر ممکن ہو تو بنک آف خیبر یا کسی اور اسلامی بنک کی اسلامی بنیادوں پر جاری کردہ منافع بخش اسکیموں کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ فرمائیں۔

جواب: آپ نے جس مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے‘ یہ ایک عام آدمی‘ خصوصیت سے متوسط آمدنی والے افراد کا بڑا اہم مسئلہ ہے اور اسلامی قانون سے ہم آہنگ‘ قابلِ اعتماد بچت اور سرمایہ کاری کے مواقع کی عدم موجودگی کی وجہ سے‘ ان تمام افراد کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے جو سود سے بچنا چاہتے ہیں‘ اور شریعت کے مطابق اپنی بچت کو نفع بخش مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

این آئی ٹی یونٹ کی شکل میں ۱۹۷۹ء سے‘ اس مد میں سرمایہ کاری کی ایک ایسی شکل موجود ہے۔ اس ادارے میں جو اصلاحات ۸۹-۱۹۷۸ء میں کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ  این آئی ٹی کی سرمایہ کاری کی مدات (invest portfolio)  ایسی ہوں جو سودی کاروباریا شریعت سے کھلے کھلے متصادم کاروبار سے پاک ہوں۔ یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ ہر سال کے منافع کے اعلان کے وقت انوسٹمنٹ ٹرسٹ اس بات کا بھی اعلان کرے کہ بنک کے سودی ڈیپازٹ میں جو رقوم اس نے رکھی ہیں اس پر سود ان کی کل آمدنی کا کتنا حصہ ہے تاکہ یہ رقم خیرات کی جاسکے اور باقی نفع سے کسی اضطراب کے بغیر استفادہ کیا جاسکے۔ یہ صورت اس وقت سے آج تک موجود ہے اور ان یونٹس میں جائز سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔

الحمدللہ، پچھلے پانچ چھے سال میں کئی اسلامی بنک میدان میں آگئے ہیں اور بہت سے روایتی بنکوں نے بھی اسلامی بنکاری کی شاخیں قائم کرلی ہیں۔ میں اس بارے میں اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر صرف اتنی بات کہہ سکتا ہوں کہ ان بنکوں کے شریعہ بورڈ ہیں اور وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے کاروباری معاملات شریعت سے متصادم نہ ہوں۔ اس توقع پر کہ یہ بورڈ اپنا کام   ٹھیک طور پر انجام دے رہے ہیں‘ ایک عام مسلمان کے لیے ایک مسلمان ادارے کی گواہی کے بعد کہ وہ شریعہ بورڈ کی نگرانی میں ان معاملات میں شریعت کے مطابق کام کر رہے ہیں‘ ان اسلامی بنکوں میں یا روایتی بنکوں کی اسلامی بنکاری کی شاخوں میں اپنی رقوم ڈیپازٹ کرنا اور ان کے مختلف مالی پروڈکٹس یا انوسٹمنٹ اکائونٹ میں اپنی بچت ڈالنا بظاہر سود سے آلودہ ہونے اور بچنے کی ضمانت دیتا ہے اور اسے بھی سرمایہ کاری کی ایک جائز شکل قرار دیا جاسکتاہے۔

اب ایک عام انسان اور خاص طور پر متوسط آمدنی والے لوگ جو خود بلاواسطہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتے‘ ان کے لیے ا ن بنکوں کے مختلف سرمایہ کاری کے حسابات یا دوسرے پروڈکٹس کے ذریعے اپنی بچت کی نسبتاً محفوظ اور شریعت کے مطابق سرمایہ کاری کرنے کا موقع فراہم ہوگیا ہے۔

بلاشبہہ اسلامی بنکاری سے متعلق ادارے ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں لیکن بظاہر قانونی حد تک سود سے بچتے ہوئے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم ہوگئے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہرشخص کا  اپنا کام ہے کہ ایک ایسے بنک کا انتخاب کرے جو قابلِ اعتماد بھی ہو اور مالی اعتبار سے بھی مضبوط بنیادوں پر کام کر رہا ہو۔ ذاتی طور پر جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے المیزان بنک کے مختلف کھاتے اور پروڈکٹس شریعت کے احکام سے ہم آہنگ ہیں اور اس کا شریعہ بورڈ مولانا تقی عثمانی کی قیادت میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح بنک آف خیبر کی اسلامی شاخوں میں بچت کھاتے اور سرمایہ کاری شرعی حدود کے اندر ہے۔ اس کا شریعہ بورڈ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ معاملات شریعت کی طے کردہ حدود کے اندر ہوں اور بنک کے تمام لین دین کا شرعی اور سائنسی بنیادوں پر مسلسل آڈٹ کیا جائے۔ البرکۃ بنک کے بارے میں معلومات مثبت ہیں۔ دوسرے بنکوں کی اسلامی شاخوں کی کارکردگی بھی اسی انداز میں دیکھی جاسکتی ہے۔

موجودہ حالات میں جو بنک بھی اس انداز میں کام کر رہا ہے وہ ان تمام افراد کے لیے جو اپنی بچتوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں سرمایہ کاری کا ایک قابلِ اعتماد موقع فراہم کر رہا ہے۔ انسان ظاہر کی بنیاد پر ہی بات کہہ سکتا ہے اور شریعت بھی معاملات کی ظاہری شکل پر ہی حکم لگاتی ہے۔ دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ بلاشبہہ آخری فیصلہ تو سارے علم کی بنیاد پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔

میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ جو گفتگو میں کررہا ہوں اس کی حیثیت فتوے کی نہیں اور میں اپنے آپ کو اس ذمہ داری کا اہل بھی نہیں سمجھتا۔ میری راے کا انحصار حاصل شدہ معلومات پر ہے اور اسلامی معاشیات کی حد تک جو علم مجھے حاصل ہے اور جس حد تک اسلامی بنکوں کے حالات سے میں واقف ہوں‘ اس کی بنیاد پر اس راے کا اظہار کر رہا ہوں۔ ایک ایسے معاشرے میں جوایک مدت سے اسلامی بنیادوں سے محروم ہو اور جس کے کم و بیش تمام ہی ادارے شرعی احکام کو ہمہ پہلو سامنے رکھنے سے قاصر رہے ہوں‘ انسان ظاہر ہی پر معاملات استوار کرسکتا ہے۔ اس کی مثال خوراک کے معاملات میں حلال گوشت پر اعتبار کی طرح ہے۔ جس طرح ایک آدمی خود     یہ دیکھے بغیر‘ کہ قصائی نے ذبیحہ شرعی اصولوں کے مطابق کیا ہے یا نہیں‘ ایک مسلمان قصائی کے قول پر اعتماد کرکے گوشت حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح ان بنکوں کے ساتھ بھی ان کے شریعہ بورڈوں کی شہادت پر‘ کھاتہ رکھنے اور سرمایہ کاری کرنے میں کوئی انقباض محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ وماتوفیقی الا باللّٰہ ۔ (پروفیسر خورشید احمد)

 

فتنۂ انکارِ حدیث کا منظر و پس منظر، پروفیسر افتخاراحمد بلخی۔ ناشر: المطبوعات‘ ۲۷-آر‘ ڈیسنٹ ٹائون‘ بلاک۷‘ گلستانِ جوہر‘ کراچی۔ صفحات جلد اوّل: ۲۰۸‘ دوم: ۴۰۲‘ سوم: ۵۸۶۔ قیمت: جلد اوّل: ۱۲۵روپے‘ دوم: ۲۱۰ روپے‘ سوم: ۲۶۵ روپے

فتنۂ انکار حدیث کا منظر و پس منظر میں فکر انکار حدیث کا اجمالی تعارف اور برصغیر میں اس کے محرکِ اوّل سرسیداحمدخان کے مجلے تہذیب الاخلاق اور غلام احمد پرویز کے طلوع اسلامکی فکر اور مساعی کا ایک تحقیقی‘ مربوط اور فاضلانہ مربوط محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔  مؤلف کے نزدیک خلافت علی منہاج النبوۃ اس فتنے کا اولین محرک ہے اور علماے سُو ء نے اس فتنے کو نشوونما دی اور اس کی آبیاری کی۔ ان علما کی یہ ’کاوشیں‘ اگرچہ شخصی حکمرانی کو جواز اور استحکام  بخشنے کے لیے تھیں لیکن اس طرح کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو پس پشت ڈالا جا رہا تھا۔ اس روش اور طرزِفکر نے جب حدود سے تجاوز کیا تو قرآنِ مجید ہی میں تشکیک کی جسارتیں ہونے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ قرآن کے مفاہیم اور معانی کو نظرانداز کرکے خالص  عقلی توجیہات کی گئیں جن کا نتیجہ انکارِ حدیث کی صورت میں ظاہر ہوا۔ برصغیر میں سرسیداحمدخان اس فکر کی اولین چنگاری تھے تو غلام احمد پرویز کی فکر کو اس کے عروج کے طور پر پیش کیا گیاہے۔

منکرینِحدیث کی اس فہرست میں مذکورہ دو اصحاب کے علاوہ ان کے فکری نمایندوں اور اس فکر سے وابستہ اہلِ قلم کی تحقیق کے نام سے تحریف دین کا محاکمہ پیش نظر رہا ہے۔ مؤلف کا انداز رواں اور خطیبانہ ہے لیکن تحقیقی اسلوب بھی نمایاں ہے۔

کتاب کی پہلی جلد انکارِ حدیث کے پس منظر پر مشتمل ہے۔ دوسری جلد میں طلوع اسلام کے ان افکار کا محاکمہ ہے جو سیدمودودیؒ اور جماعت اسلامی پر تنقید کرتے ہوئے غلام احمد پرویز اور دیگر کے قلم سے سامنے آئے۔ تیسری جلد میں مذکورہ پرچے کی عمومی فکر کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کے مطالعے سے منکرینِحدیث کی علمی و تحقیقی خیانت پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔ اس فکر کے نمایندوں کی حدیث اور دیگر عربی عبارتوں میں قطع و برید کے ذریعے اپنے موقف کو حق ثابت کرنے کی تحقیقی مساعی کا پول مؤلف نے اصل مآخذ سے تقابل کر کے کھول دیا ہے۔ ان اصحاب کی تحریروں کے بین السطور جو مفہوم قاری کے ذہن میں پختہ کرنا مقصود تھا‘ مصنف نے اس سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔

انکارِ حدیث کی نفسیات کو سمجھنے اور موجودہ دور میں ایسی فکر کے تجزیے اور محاکمے کے لیے اس کتاب سے استفادہ بہت مفید ہوگا۔ کتاب کی کمپوزکاری اور پروف خوانی میں سقم رہ گیا ہے۔ بعض حواشی متن کے اندر ہی دے دیے گئے ہیں جس سے عبارت کی روانی میں خلل آگیا ہے۔ اس اہم کتاب کو پوری احتیاط کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے۔ (ارشاد الرحمٰن)


اسلام کا عائلی نظام، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی‘ کراچی۔ مکتبہ معارفِ اسلامی‘ کراچی۔ ڈی-۳۵‘ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ فون: ۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۱۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

اسلامک ریسرچ اکیڈیمی نے پاکستان میں مولانا جلال الدین عمری کی کتب کی اشاعت شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں یہ ایک تازہ اور اہم کتاب ہے جس میں آج کے اہم ترین مسئلے‘ یعنی عورت کے حوالے سے تقریباً تمام ہی مباحث پر اختصار سے گفتگو کی گئی ہے اور اسلامی نقطۂ نظر کو اجتہادی شان سے پیش کیا گیا ہے۔

اب تو یہ کہنے والے بھی ہیں کہ خاندان کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ فاضل مصنف نے اس کا مبسوط و مدلل جواب دیا ہے اور اسلامی خاندان کے خدوخال بیان کیے ہیں۔صحیح جنسی رویے کے باب میں رہبانیت‘ اباحیت اور نکاح کے رویوں کو زیربحث لایا گیا ہے‘ اور شوہر اور بیوی کے حقوق و ذمہ داریاں‘ باہمی اختلافات حل کرنے کی تدابیر‘ چار نکاح کی اجازت کاعدل سے مشروط ہونا اور عورت کی ظلم سے حفاظت‘ طلاق کا طریقہ وغیرہ بیان کیے گئے ہیں۔

’دورحاضر میں مسلمان عورت کے مسائل‘ کتاب کا اہم باب ہے۔ ’عورت اور معیشت‘ کے عنوان کے تحت فاضل مصنف نے آئی پی ایس اسلام آباد میں ۲۵مارچ ۲۰۰۵ء کے ایک سیمی نار کے اپنے مقالے اور شرکا کے سوالات کے حوالے سے عورت کا ملازمت کے ساتھ نان و نفقہ‘    نان ونفقہ کی نوعیت‘جائز ملازمتیں‘ ناجائز ملازمت کی مجبوری‘ عورت کی ملازمت کے لیے نئے قواعد کی ضرورت‘ چادر اورچاردیواری‘ مرد کی قوامیت‘ طلاق کے بعد نفقہ‘ مطلقہ کا تاحیات نفقہ‘ عورت کے لیے ہی حجاب کی پابندی کیوں؟‘ اختلاطِ مردوزن‘ مساجد میں خواتین کی حاضری‘ مملکت کی سربراہی‘ عورت اور منصب قضا اور خواتین کے لیے کوٹا سسٹم جیسے جدید مسائل پر اسلامی موقف واضح کیا ہے۔ ’بعض فقہی احکام کے تحت‘ مسجد میں عورت کی نماز باجماعت میں شرکت‘ اسلامی ریاست میں عورت کی قیادت‘ نکاح میں ولی کی شرط اور اس کا اختیار‘ غیرمسلم عورت سے نکاح‘ محرم کے بغیر سفرِحج‘ زمانۂ عدت میں ملازمت اور کاروبار میں اولاد کی شرکت جیسے سوالات کے جوابات بھی   اس کتاب میں شامل ہیں۔

خاندان جیسے قدیم ترین سماجی ادارے کو آج جس درجہ خطرات لاحق ہیں اور مسلم معاشروں کو بھی اسی لپیٹ میں لانے کی جو کاوشیں ہو رہی ہیں‘ ان کے نقصانات کو سمجھنے اور اپنی ذمہ داریاں بحیثیت مسلمان ادا کرنے میں یہ کتاب نہایت مفید اور مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ تحقیقی کتاب  جدید اُردو اسلامی کتب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ یوں یہ مختصر ہونے کے باوجود ایک بہت وسیع موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)


شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور وہابی تحریک‘ توراکینہ قاضی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۵۱۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

گذشتہ دو اڑھائی برسوں کے دوران میں مسلم دنیا پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے ایک اہم فرد شیخ محمد بن عبدالوہابؒ (م: ۲۲ جون ۱۷۹۲ء) ہیں۔ نجد کے ایک علمی گھرانے میں   آنکھ کھولنے والی اس شخصیت نے عقیدۂ توحید کی آبیاری کے ساتھ اوہام پرستی‘قبر پرستی اور بدعات کی بیخ کنی کے لیے پختہ کار ساتھیوں کی جمعیت تیار کی‘ جس نے آل سعود سے مل کر سرزمین حجاز پر آخرکار کنٹرول سنبھالا۔

زیرمطالعہ کتاب کی مصنفہ نے ان حالات کو وضاحت سے بیان کیا ہے‘ جن سے شیخ محمدبن عبدالوہابؒ نے کار دعوت و اصلاح کا آغاز کیا‘ اور یہ بتایا ہے کہ کس طرح عزیمت کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے وہ اس تحریک کو سیاست و ریاست کے ایوانوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ (تاہم یہ سوال بحث طلب ہے کہ وجود پذیر ہونے والی حکومت اسلام کی مطلوب حکومت کے معیار پر کس حد تک پوری اترتی ہے)۔

شیخ محمد بن عبدالوہاب مرحوم پر مختلف اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے مصنفہ نے لکھا ہے: ’’اگر ان [شیخ] کے متبعین میں سے کسی نے ناحق کسی کو قتل کیاہے‘ اور زیادتی کی ہے‘ تو اس سے شیخ الاسلام کے دامن پر چھینٹے اڑانا اور ان کی تحریک کی مذمت کرنا ہرگز تقاضاے انصاف نہیں‘ اور تقریباً ہر تحریک میں ایسے شوریدہ سر لوگ ضرورداخل ہوجاتے ہیں‘ جن کی حماقتوں سے تحریک کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے‘‘ (ص ۱۱۹)۔ ’’شیخ الاسلام نے نہ صرف قبروں پر بنے ہوئے مقبرے اور قبے ڈھا دیے‘ بلکہ جو درخت شرک کے اڈے بن چکے تھے‘ انھیں بھی کٹوا دیا‘‘ (ص ۱۲۱)۔ آگے چل کر لکھا ہے: ’’وہابیت کوئی نیا مذہب نہیں‘ اہل سنت والجماعت ہی کا دوسرا نام ہے‘‘۔ (ص ۱۲۰)

اس تحریک کو وہابی تحریک یا وہابیت کہنا کوئی اعزاز یا انصاف کی بات نہیں ہے‘ بلکہ یہ یورپی سامراج کی جانب سے ایک گھناؤنے پروپیگنڈے اور کسی ’نئے اسلام‘ سے منسوب ایک اصطلاح ہے‘ جسے انھوں نے افریقہ‘ وسطی ایشیا‘ قفقاز‘ جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے منطقوں میں ہر اس تحریک پر چسپاں کیا‘ جس نے مسلمانوں میں اصلاح عقائد کے ساتھ ساتھ سامراجی آقاؤں کا راستہ روکنے کے لیے بامعنی کوشش کی۔ آج بھی وہابیت‘ جہادی‘ بنیاد پرستی‘ سیاسی اسلام اور دہشت گرد اسلام کی اصطلاحیں کم و بیش اسی تعصبانہ مفہوم میں برتی اور تھوپی جارہی ہیں۔ شیخ کی تحریک کو      یا معاصر اسلامی تحریکات کو ’وہابی‘ کہہ کر پکارنا نام بگاڑنے اور ایک پھبتی بنا دینے کے ہم معنی ہے۔ اس لیے اس اصطلاح سے اتفاق ممکن نہیں۔ بہرحال یہ کتاب مذکورہ موضوع پر مفید معلومات کا ذخیرہ پیش کرتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


بائبل اور محمد رسولؐ اللہ، حکیم محمد عمران ثاقب۔ مکتبۂ قدوسیہ‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘    اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۸۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تورات‘ زبور اور انجیل میں پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں ویدوں کی گرنتھوں میں خصوصاً رگ وید‘ اتھروید‘ کانڈوید‘ بھوشیہ یوران‘ سنگران یوران وغیرہ میں آج بھی یہ پیش گوئیاں موجود ہیں۔

مصنف نے اناجیل اربعہ کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ اس سے ایک عام غیرمسیحی قاری کو عیسائیت کے بارے میں معلومات ملتی ہیں اور ان میں تناقض بھی سامنے آتا ہے۔ فاضل مصنف نے حضرت عیسٰی ؑ، حضرت موسٰی ؑ اور حضرت محمدؐ کی شخصیت اور شریعت کا تقابل جدولی انداز میں کیا ہے (ص ۱۰۶ تا ۱۰۸)۔ اس کتاب کی ایک اور خصوصیت‘ ہر باب کے آخر میں خلاصۂ کلام ہے۔ ابواب کے عنوان ہیں: ۱-عہد کا رسول ۲- تورات اور محمد رسولؐ اللہ ۳- زبور اورمحمد رسولؐ اللہ ۴-انجیل اور محمد رسولؐ اللہ ۵- انجیل بربناس اور محمد رسولؐ اللہ۔

مکالمۂ ادیان بالخصوص مکالمۂ عیسائیت میں دل چسپی رکھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ کتاب معلومات کے ایک خزانے سے کم نہیں۔ (م - ا- ا)


فتاویٰ نکاح وطلاق‘ تالیف: حافظ عمران ایوب۔ ناشر: نعمانی کتب خانہ‘ حق سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۵۲۔ قیمت: ۳۸۰ روپے۔

جدید تہذیب کے اثرات کے سبب ہر جگہ مسلمان نوجوان مردوں اور خواتین اور خاندانوں کو جو متنوع مسائل درپیش ہیں‘ زیرنظر کتاب میں‘ ان کے جوابات کتاب و سنت کی روشنی میں  عرب علما خصوصاً شیخ محمد بن صالح المنجد‘ شیخ عبداللہ بن باز‘ شیخ ابن عثیمین کی جانب سے تفصیل سے دیے گئے ہیں۔ اسے صنفی امور کے لیے ایک دینی راہنما کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ حافظ عمران ایوب نے عربی رسائل و جرائد اور انٹرنیٹ سے یہ فتاویٰ جمع کرکے انھیں ترتیب دیاہے اور ان کی تخریج کا فریضہ انجام دیا ہے۔ تحقیق و تعلیق ناصرالدین البانی کی ہے۔ یہ کتاب علماے کرام اور مفتیان عظام کے ساتھ ساتھ ہرخاص و عام کے لیے مفید ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت خاندانی نظام کے  کیا مسائل ہیں اور وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تدبر فی القرآن اور تفقہ فی الحدیث کی کتنی ضرورت ہے‘ اور علماے اُمت کا حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا کتنا ضروری ہے۔ تاہم یہ شدت کہ شوہر نماز نہ پڑھتا ہو تو نکاح قائم نہ رہے‘ فی زمانہ قابلِ عمل نہیں۔ (فاروق احمد)


میری آخری منزل، جنرل محمد اکبرخاں۔ ناشر: الفیصل‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۳۸ (بڑی تقطیع)۔ قیمت: ۷۵۰ روپے۔

جنرل محمد اکبرخاں (۱۸۹۵ء-۱۹۸۴ء) کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں متعدد امتیازات حاصل ہوئے۔ وہ برطانوی ہند کی فوج میں پہلے کمیشنڈ افسر بنے۔ انھیں افواجِ پاکستان کے سب سے سینیرافسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ بھی ان کاایک امتیاز ہے کہ ۱۹۴۹ء کے آخر میں جب افواجِ پاکستان کے انگریز سالاراعلیٰ جنرل گریسی اپنی مدتِ ملازمت کے اختتام پر سبک دوش ہونے والے تھے تو اپنے استحقاق کے باوجود‘ جنرل اکبرخاں نے فوج کا سب سے بڑا منصب قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ (جنرل موصوف اور مابعد جرنیلوں کے ذہن‘ سوچ ‘ خواہشات اور طرزعمل میں کس قدر تفاوت ہے۔ تعجب انگیز اور عبرت خیز! پاکستان کن کن المیوں سے دوچار ہوا!)۔

جنرل اکبر کی زیرنظر آپ بیتی فقط پاکستان کے اوّلین جنرل کے شخصی حالات اور اس کی سپاہیانہ زندگی کی تفصیل ہی پیش نہیں کرتی بلکہ اس میں قیامِ پاکستان کے لیے اسلامیانِ ہند کی تاریخی جدوجہد‘ قائداعظم کی پُرخلوص کاوشوں‘ کانگریس اور انگریزوں کے غیرمنصفانہ طرزعمل (زیادہ صحیح الفاظ میں‘ دونوں کے معاندانہ رویوں‘ سازشوں اور مسلم دشمنی کے گوناگوں حربوں) کااندازہ ہوتا ہے۔ پتا چلتا ہے کہ برطانیہ اور بھارت نے پاکستان کی کیا کیا حق تلفیاں کیں۔ جنرل اکبرخاں جو ایک قلم کار بھی ہیں اور حربی فنون و موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ‘ آپ بیتی میں ایک صاف گو اور سیدھے ذہن کے فوجی نظر آتے ہیں‘ تاہم وہ ہندو ذہنیت اور برطانوی ذہن کا بخوبی اِدراک رکھتے تھے۔ طویل فوجی ملازمت میں طرح طرح کی آزمایشوں سے دوچار رہے مگر صبر اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے سازشوں کی زد سے بچ نکلتے رہے۔ تقسیمِ ہند کے موقعے پر نہ صرف گاندھی اور نہرو بلکہ پٹیل نے بھی انھیں بھارت ہی میں ٹھیرنے کی دعوت دی مگر انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ پھر یہاں ہر مخلص اور خیرخواہِ پاکستان پر جو کچھ بیتی‘ وہ ایک دل خراش داستان ہے۔ جنرل اکبر نے قائداعظم کے پہلے اے ڈی سی کے طور پر انھیں قریب سے دیکھا۔ وہ ان کی تعریف میں ایک عقیدت مند کی طرح رطبُ اللسان ہیں مگرباقی بیش تر سیاست دانوں اور نوابوں کے بارے میں ان کا تجربہ ومشاہدہ افسوس ناک ہے (اسی کے نتائج اہلِ پاکستان بھگت رہے ہیں)۔

ایک واقعہ بہت عبرت انگیز ہے۔ نواب جوناگڑھ کی درخواست پر انھیں اور ان کی قیمتی اشیا اور زروجواہر لانے کے لیے حکومت نے دو ہوائی جہاز کراچی سے جوناگڑھ بھیجے۔ جہازوں کی واپس کراچی آمد پر ان سے نواب کے شکاری اور پالتو کتے اور ملازمین برآمد ہوئے۔ دو کتوں پر  کم خواب کی جھولیں پڑی ہوئی تھیں۔ نگران ملازم نے فخریہ کہا: اس کتے اور کتیا کی حال ہی میں شادی رچائی گئی اسی لیے وہ اپنے شادی کے جوڑے پہنے ہوئے ہیں۔ دوسرے پھیرے میں نواب صاحب اپنی تین بیگمات اور ان کے زیورات اور سازوسامان کے ساتھ تشریف لائے۔ قیمتی سامان اور زروجواہر جو حکومت کے لیے کچھ نہ کچھ مالی کشادگی کا ذریعہ ثابت ہوتے‘ وہیں رہ گئے۔ (ص ۱۳۹)

میری آخری منزل ایک دل چسپ اور معلومات افزا آپ بیتی ہے اور جدوجہدِ آزادی‘ قیامِ پاکستان اور نظمِ حکومت کی ایک عبرت خیز تاریخ بھی۔ جنرل اکبر نے یہ داستان سادہ بیانیے میں لکھی ہے‘ تاہم علامہ اقبال‘ غالب‘ حالی‘ اکبرالٰہ آبادی‘ اسد ملتانی اور جوش جیسے نام وَر شعرا کے (اور خود اپنے) اُردو اور فارسی اشعار کا برمحل استعمال ان کے عمدہ ذوقِ شعر کی دلیل ہے۔     یہ وضاحت ضروری ہے کہ راول پنڈی سازش والے جنرل اکبر‘ ایک دوسرے شخص تھے۔

اس کتاب کا سب سے تکلیف دہ پہلو املا‘کمپوزنگ‘ پروف اور متن اشعار کی بلامبالغہ وہ ہزاروں اغلاط ہیں جن سے کتاب کا ہر صفحہ بری طرح داغ دار ہے___ پروف خوانی‘ غالباً بالکل نہیں کی گئی۔ کتاب کی تقطیع کم اور کتابت قدرے خفی ہوتی تو بہتر تھا۔(رفیع الدین ہاشمی)

تعارف کتب

  • ۵۲ دروس قرآن ، سید طاہر رسول قادری۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی‘ ۳۵-ڈی‘ بلاک ۵‘    فیڈرل بی ایریا‘ کراچی-۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۲۸۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[اوسطاً ۳‘ ۴ صفحات پرمشتمل ۱۰‘۱۲ منٹ میں پڑھے جاسکنے والے متعین موضوعات پر ایک نصاب کے تحت ۵۲ دروس قرآن جن سے قرآن کی تعلیمات کی ایک جامع تصویر سامنے آجاتی ہے۔ مفصل مقدمہ از قاضی حسین احمد۔ تعلیمی اداروں اور تحریکی حلقوں میں استعمال کرنے کے لیے سیدطاہر رسول قادری کی محنت و کاوش‘ معیاری پیش کش۔ پہلے بھی شائع ہوچکی ہے۔   یہ جنوری ۲۰۰۷ء کا اڈیشن ہے۔]
  •  الفرقان، سورۃ البقرہ، ترتیب و تدوین: شیخ عمر فاروق۔ مقامِ اشاعت: ۱۵-بی‘وحدت کالونی ‘ لاہور- فون:۷۵۸۵۹۶۰-۰۴۲‘ صفحات: ۸۱۶ (اڈیشن‘نومبر ۲۰۰۶ء)۔قیمت: وقف لِلّٰہ ۔[قرآن فہمی کی ایک  قابلِ قدر کوشش ہے۔ ہر آیت کی تفسیر میں اہم الفاظ کے معانی بیان کرنے کے بعد کسی متداول تفسیر سے استفادہ کیا گیا ہے۔ خوب صورت پیش کش ‘ صحت کا اہتمام ۔ بطور ہدیہ حاصل کرنے کے لیے رابطہ کر کے تفصیل معلوم کریں۔]
  •  اقبال ریویو، پروفیسر سید سراج الدین نمبر۔ ناشر: اقبال اکیڈیمی‘ گلشن خلیل‘ ۱/۷-۵‘ ۱۰-تالاب ماں صاحبہ‘ حیدرآباد-۵۰۰۰۲۸‘ آندھرپردیش‘ بھارت۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت:۵۰ روپے۔ [پروفیسر سید سراج الدین عمر (بنیادی طور پر انگریزی کے استاد) اقبال اکیڈیمی‘ حیدرآباد کے صدر‘ اُردو‘ فارسی‘ انگریزی ادب کے ماہر‘ فرانسیسی‘ اطالوی اور جرمن زبانوں سے آشنا‘ ماہراقبالیات (کلامِ اقبال کے مترجم اور نقاد) نام و نمود سے    بے نیاز‘ انکسارپسند شخصیت‘ م: ۱۵جولائی ۲۰۰۶ء___ ان کی یاد میں دوستوں‘ مداحوں اور عقیدت مندوں کے مضامین و تاثرات پر مشتمل خاص نمبر۔]

 

راشد الیاس ‘لاہور

’ٹیلی وژن یا پنڈورا باکس‘ (فروری ۲۰۰۷ء) اپنے موضوع پر بہت متاثرکن تحریر تھی۔ شاہ نواز فاروقی نے بجاطور پر توجہ دلائی ہے کہ میڈیا کے خلاف معاشرے میں انفرادی ردعمل تو موجود ہے لیکن اجتماعی سطح پر ردعمل نہیں پایا جاتا‘ اگر ہے تو مؤثر نہیں۔

فراز احمد‘ گوجرانوالہ

’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ ہمیں کہاں لے جائے گی___ ! اب تو بھارت پاکستان مشترکہ تعلیمی کمیشن بن گیا‘ اس کا دہلی میں اجلاس بھی ہوگیا اور ہم نے یہ خبر بھی پڑھ لی کہ پرائمری سطح پر ہمارے بچوں کو ہندو مذہب کی تفصیلات پڑھائی جائیں گی۔ اس پس منظر میں دیکھیں کہ اسلامی تعلیمات کو درسی کتب سے نکالا جارہا ہے۔

شبیراحمد انصاری ‘کراچی

’عزیمت و استقامت کی ایمان افروز داستان‘ (فروری ۲۰۰۷ء) نے دورِصحابہ ؓ کی یاد تازہ کردی۔

حمید اللّٰہ خٹک ‘ کرک

ایک خبر قارئین کے لیے: ٹونی بلیر حکومت میں خواتین کے امور کی وزیر رتھ کیلی نے کہا ہے کہ برطانیہ میں مسلم خواتین کو حجاب کی آزادی حاصل رہنی چاہیے۔ یہ بات انھوں نے ۷ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو لندن میں کابینہ کی میٹنگ میں اپنے ساتھی وزیر جیک سٹرا کے اس موقف پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہی کہ برطانیہ میں آباد مسلم خواتین کو نقاب استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ وزیرخارجہ جیک سٹرا کے اس موقف پر کابینہ کے دوسرے ممبروں نے بھی تنقید کی۔ رتھ کیلی نے کہا:’’ پہلے میں بھی اسلامی حجاب کی مخالف تھی لیکن برطانیہ کی چند اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سے گفتگو کے بعد میری راے بدل گئی ہے‘ خواتین اپنی مرضی سے حجاب کرتی ہیں۔ کمیونٹی کی طرف سے ان پر کوئی زورزبردستی نہیں۔برطانیہ میں مسلم خواتین کا حجاب سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں‘‘۔ (دی آبزرور‘ ۸ اکتوبر ۲۰۰۶ء‘ بحوالہ  سہ روزہ دعوت، دہلی)

شیر علی ‘ لاہور

میرے والد  ’نومسلم کی سرگذشت‘ (جولائی ۲۰۰۶ء) کے راوی حسن علی گذشتہ دنوں (۱۰ محرم ۱۴۲۸ھ/ ۳۰جنوری ۲۰۰۷ء کو) قضاے الٰہی سے انتقال کرگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ ان کی سرگذشت نے بہت سوں کو متاثر کیا۔اللہ ان کے درجات بلند کرے‘لغزشوں سے درگزر فرمائے۔آمین!

ہم صرف اصل اسلام اور بے کم و کاست پورے اسلام کو لے کر اُٹھے ہیں اور مسلمانوں کو ہماری دعوت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آئو ہم سب مل کر اس کو عملاً قائم کریں اور دنیا کے سامنے اس کی شہادت دیں۔

اجتماع کی بنیاد ہم نے پورے دین کو قرار دیا ہے‘ نہ کہ اس کے کسی ایک مسئلے یا چند مسائل کو۔ اجتہادی مسائل میں ہم تمام ان مذاہب و مسالک کو برحق تسلیم کرتے ہیں جن کے لیے    قواعد شریعت میں گنجایش ہے‘ ہر ایک کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ ان مذاہب و مسالک میں سے‘   جس کا جس پر اطمینان ہو وہ اپنی حد تک اس پر عمل کرے‘ اور کسی خاص اجتہادی مسلک کی بنیاد پر  گروہ بندی کو ہم جائز نہیں رکھتے۔

اپنی جماعت کے بارے میں بھی ہم نے کوئی غلو نہیںکیا ہے۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حق صرف ہماری جماعت میں دائرو منحصرہے۔ ہم کو اپنے فرض کا احساس ہوا اور ہم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ کو آپ کا فرض یاد دلا رہے ہیں۔ اب یہ آپ کی خوشی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں‘ یا خود اُٹھیں اور اپنا فرض ادا کریں‘ یا جو بھی آپ کو یہ فرض ادا کرتا نظر آئے اس کے ساتھ مل جائیں۔

امارت کے باب میں بھی ہم کسی غلو کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔ ہماری یہ تحریک کسی شخصیت کے بل پر نہیں اٹھی ہے جس کے لیے کسی خاص منصب کا دعویٰ کیا گیا ہو‘ جس کی کرامتوں اور الہامات اور تقدس کی داستانوں کا اشتہار دیا جاتا ہو‘ جس کی ذاتی عقیدت پر جماعت کی بنیاد رکھی گئی ہو‘ اور جس کی طرف لوگوں کو دعوت دی جاتی ہو۔ دعووں اور خوابوں اور کشوف و کرامات اور  شخصی تقدس کے تذکروں سے ہماری تحریک بالکل پاک ہے۔ یہاں دعوت کسی شخص کی طرف نہیں ہے بلکہ اُس مقصد کی طرف ہے جو قرآن کی رو سے ہر مسلمان کا مقصد زندگی ہے اور ان اصولوں کی طرف ہے جن کے مجموعے کانام اسلام ہے۔ (’شہادتِ حق‘، سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۳۰‘ عدد ۴‘ ربیع الثانی ۱۳۶۶ھ‘ مارچ ۱۹۴۷ء‘ ص ۲۲۵-۲۲۶)