جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِاقتدار میںزندگی کے ہر شعبے میں خرابی اور بگاڑ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا سب سے خطرناک پہلو وہ ضرب کاری ہے جو ملک کی آزادی اور حاکمیت‘ سلامتی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیی شناخت پر لگی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے آزادی کی ۶۰سالہ تاریخ میں یومِ آزادی کے موقع پر سوگواری‘ بے یقینی اور اضطراب کا جو عالم اس سال تھا وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ قوم کے سر شرم سے جھک گئے جب یہ خبر آئی کہ قبائلی علاقوں میں سیاہ جھنڈے تک لہرائے گئے اور اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ کھلی فضا میں قومی پرچم کی رونمائی کریں۔ اس تقریب کا اہتمام بھی کانفرنس ہال کی پختہ چھت تلے کیا گیا!
اس یومِ آزادی پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونی المیے کا سایہ تھا اور معصوم بچوں اور بچیوں کی دل گداز چیخیں اور قران پاک کے انسانوں کے خونی لوتھڑوں میں گڈمڈ اوراق نوحہ کناں تھے۔ وزیرستان‘ سوات‘ ہنگو‘ بنوں‘ کوئٹہ اور کوہلو میں بندوقوں کی گھن گرج اور بموں کی بارش اور انسانی لاشوں کے کشتے تھے۔ اور ان سب پر مستزاد امریکی انتظامیہ اور صدارتی امیدواروں کی دھمکیاں اور اعلانات تھے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی اوقات پہچانو‘ سیدھے سیدھے ہمارے احکام کی تعمیل کرو اور ساتھ ہی تیار رہو کہ’قابل اعتماد‘ معلومات ملنے پر ہم خود تمھارے علاقوں پر بھی فوج کشی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ کچھ توافغانستان میں امریکا اور ناٹو کے کمانڈر اور واشنگٹن میں ترجمان کہہ رہے تھے‘ جب کہ صدربش خود بھی گول مول انداز میں یہی پیغام دے رہے تھے مگر وہاں کے ایک صدارتی امیدوار نے تو تمام حدود کو پھاند کر صرف پاکستان ہی نہیں‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر بھی بم باری اور لشکرکشی کی دھمکیاں دے ڈالیں۔
امریکی کانگریس نے ۲۷ جولائی کو نائن الیون کمیشن کی سفارشات پر وہ قانون منظور کرلیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کو شرم ناک اور ذلت آمیز شرائط اور سالانہ سرٹی فکیٹ کے اجراسے مشروط کر کے پاکستانی قیادت کو آئینہ دکھایا گیا ہے کہ تمھاری چھے سالہ ’گراںقدر خدمات‘ اور امریکا کی خوش نودی کے لیے خود اپنے مسلمان بھائیوں‘ بہنوں اور بچوں کا خون بہانے کا یہ ہے صلہ۔ ساتھ ہی بھارت سے نیوکلیر تعاون کے معاہدے کو قانون کا درجہ دے دیا گیا تاکہ علاقے پر بھارت کی بالادستی کے قیام‘ پاکستان پر نیوکلیر دبائو میں اضافے اور اس کی توانائی کی ضروریات کے بارے میں ہتک آمیز تمسخر کا مظاہرہ‘ اور پاکستان کے سب سے قابلِ اعتماد دوست چین کے گرد ائرہ تنگ کرنے کا امریکی منصوبہ آگے بڑھایا جاسکے۔
نائن الیون کمیشن کی سفاشات پر مبنی قانون صرف ہماری آزادی اور حاکمیت پر ہی ضرب نہیں لگاتا بلکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے ایک قانونی بنیادی ڈھانچا (infra-structure) وضع کردیتا ہے۔ یہ پاکستان اور اس کی قیادت پر کھلی بے اعتمادی کا اظہار ہے اور پاکستان کو دائمی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا انتظام بھی۔ اس میں یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہرسال صدرِ امریکا کو یہ سرٹی فکیٹ جاری کرنا ہوگا کہ پاکستان امریکی احکام پر قرارواقعی عمل کر رہا ہے اور ان احکام میں صرف نام نہاد دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے فوج کشی‘ گرفتاریاں اور دوسری تمام کارروائیاں ہی شامل نہیں‘ بلکہ پاکستان اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے اثرورسوخ کو ختم کرنا‘ اور پاکستان میں ’سیکولر تعلیم‘ کا فروغ اور ’اسلامی شدت پسندی‘ کے خلاف مستقل کارروائی بھی سرفہرست ہے۔
غلامی کی اس دستاویز کو امریکی کانگریس نے بھاری اکثریت سے منظورکیا ہے اور اس پر عمل کے لیے نہ صرف جنرل پرویز مشرف پر دبائو ہے بلکہ دوسری لبرل قوتوں کو بھی ان کا حلیف اور شریک کار بنانے کے لیے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ملک کے اندرونی نظام میں ہرطرح کی مداخلت کا راستہ استوار کیا جا رہا ہے جس کا کھلا ثبوت برطانیہ میں جیک اسٹراکے ذریعے پیپلزپارٹی کی قیادت کو مشرف سے تعاون پر تیار کرنا‘ امریکی انتظامیہ اور میڈیا کی مشرف بے نظیر اتحاد بنانے کی کوششیں‘ اور ۹ اگست کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کی جنرل پرویز مشرف سے ۱۷منٹ کی ٹیلی فون کال ہے جس کے نتیجے میں ایمرجنسی کے اعلان کوروکا گیا اور انکار کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہوئے کابل یاترا اختیار کرلی گئی۔
۲۰۰۷ء کا یومِ آزادی قوم نے آزادی‘ حاکمیت‘ عزت و وقار اور نظریاتی تشخص پر حملوں کی اس فضا میں منایا ہے___ لیکن غم و اندوہ اور اضطراب اور بے چینی کے ساتھ ساتھ اس نئے احساس اور اس عزم کے ساتھ منایا ہے کہ قوم کو اپنی آزادی اور اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے ایک نئی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ۲۰جولائی کے بعد عدلیہ کی آزادی سے جس دور کا آغاز ہواہے‘ اس کی تکمیل جرنیلی آمریت سے مکمل اور مستقل آزادی کے حصول اور بیرونی استعمار کی نئی زنجیروں سے گلوخلاصی کے ذریعے اپنے انجام تک پہنچانا ہوگا ___ عزت اور آزادی کی زندگی کا صرف اور صرف یہی ایک راستہ ہے۔ اس موقع پر ذرا سی کمزوری بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا اقتدار فوج اور امریکا کی بیساکھیوں پر قائم ہے‘ لیکن وقت آگیا ہے کہ ان دونوں بیساکھیوں سے نجات حاصل کی جائے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو یک سربند کردیا جائے‘ اور امریکا سے تعلقات کو ازسرنو اپنی حاکمیت اور نظریاتی شناخت کی بنیاد پر استوار کیاجائے۔ خصوصیت سے نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جس طرح خارجہ پالیسی اورداخلی سیاست دونوں کو امریکی ایجنڈے کے تابع کردیاہے‘ اس کو یک سر تبدیل کیا جائے تاکہ ملک ایک بار پھر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے عزت سے سر اُٹھاکر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔
امریکا سے پاکستان کے تعلقات کے ابتدائی خطوطِ کار قائداعظم اور قائدملّت لیاقت علی خان کے دور میں مرتب ہوئے لیکن جلد ہی اس آزاد اور باوقاردوستانہ تعلق کو سردجنگ کے پس منظر میں امریکا کی چھتری تلے آنے کے نام پر ایک نئی محکومی اور محتاجی کی شکل دے دی گئی‘ اور خارجہ سیاست کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے اور اس نئی سمت میں ڈالنے میں کلیدی کردار غلام محمد‘ سرظفراللہ خاں اور جنرل محمد ایوب خان کا تھا۔ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت ہے اور ہم برابری کی بنیاد پر اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں امریکا سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ لیاقت علی خان نے بہت کھل کر پاکستان کی آزاد پالیسی اور نظریاتی کردارکا اعلان و اظہار کیا تھا اوریہاں تک کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی آزادی اور ہماری روحانی شناخت کوئی قابلِ فروخت شے نہیںہے۔ لیکن بعد کی قیادتوں نے ان دونوں ہی کا لحاظ نہ رکھا اور امریکی سیاست کے جال میں پھنس گئے۔ امریکا نے خاص طور پر اپنے تعلقات اور اثرات کو محکم کرنے کے لیے فوج سے بلاواسطہ تعلقات کو ذریعہ بنایا اور پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کو کبھی بھی سارے حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ معاشی اور عسکری اعتبار سے کچھ مثبت فوائد بھی حاصل ہوئے لیکن جن بنیادوں کو محفوظ نہ رکھا جاسکا‘ وہ آزادی‘ حاکمیت اور نظریاتی تشخص ہیں جس کی بڑی بھاری قیمت ہر دور میں اور سب سے زیادہ جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں قوم کو ادا کرنا پڑی۔
اس سب کے باوجود پاکستان اور امریکا کے تعلقات پراگر نظر ڈالی جائے تو ان میں بڑے نشیب و فراز صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ کبھی دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں اور کبھی صاف پیٹھ دکھا دی جاتی ہے۔ یہ تجربہ بار بار ہوا اور یہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں‘ امریکا کی خارجہ سیاست کا طریق واردات یہی ہے۔ ایک اسرائیل کو چھوڑ کر کوئی ملک ایسا نہیںہے جس کے ساتھ امریکا نے مستقل دوستی نبھائی ہو۔ ضرورت پڑنے پر ساتھ ملانے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا ہے جسے carrot and stick ،یعنی چارہ اور چابک کی پالیسی کہا گیا ہے۔ اگرچارے (political bribe) سے کام چل گیا تو فہوالمراد‘ورنہ چابک اور ڈنڈا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا گاہک(client) اور غلام (serf)تو حاصل کرسکا ہے مگر کبھی دوسروں کو وہ دوست اور ساتھی نہیں بناسکا۔ پاکستان کو اس کا تجربہ ۱۹۶۵ء میں‘ پھر ۱۹۷۱ء میں‘ پھر ۱۹۷۶ء میں‘ پھر ۹۰-۱۹۸۸ء میں‘ پھر ۱۹۹۸ء میںہوا‘ مگر مجال ہے جو ہماری قیادتوں نے اس سے کوئی سبق سیکھا ہو۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ ع
ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
لیکن افسوس صد افسوس کہ اس ملک کی قیادتوں نے تو ٹھوکریں ہی نہیں‘ جوتے کھانے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔
پاک امریکا تعلقات کا سب سے ذلت آمیز دور پرویز مشرف کا دورِاقتدار ہے۔ اس کا آغاز بل کلنٹن کے دورۂ جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے جس میں بھارت کو اسٹرے ٹیجک پارٹنر بنایا گیا‘ پانچ دن وہاں شادیانے بجائے گئے اور پانچ گھنٹے کے لیے پاکستان میں اس انداز میں آئے کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کوئی تصویر نہیں کھنچوائی‘ کوئی مشترک پریس کانفرنس نہیں کی‘ اور بلاواسطہ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے پاکستانی قوم سے خطاب فرمایا۔ وردی پوش جنرل صاحب نے یہ سب ذلت بخوشی قبول کی اور شکریہ ادا کیا کہ انھیں اس لائق توسمجھا گیا! لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔
۹ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی رعونت اپنے عروج پر تھی اور پاکستان کی گوشمالی کا بدترین دور ۱۲ستمبر کی اس ٹیلی فون کال سے شروع ہوتا ہے جو جنرل کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف کو کی۔ یہ گفتگو اس دھمکی کے زیرسایہ ہوئی تھی جو پہلے ہی امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمی ٹیج نے پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو واشنگٹن میں دے دی تھی‘ اور بش صاحب کا فرمان شاہی پہنچا دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تمھیں پتھر کے دور میں پھینک دیاجائے گا۔ اس کی پوری تفصیل امریکی صحافی باب ووڈورڈ نے اپنی کتاب Bush at Warمیں دی ہے اور دسیوں کتابوں میں وہ پوری صورت حال آچکی ہے جس میں دھونس‘ دھمکی اور ننگی جارحیت کی تلوار دکھا کر پاکستان کی فوجی قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا گیا‘ اور جس کا اعتراف ’محکوم کی دانش مندی‘ کی مغالطہ آمیز منظرکشی کے روپ میں خود جنرل پرویز مشرف نے اپنی خودنوشت In the Line of Fire میں کیا ہے۔
آج جو ہتک آمیز سلوک امریکا‘ جنرل صاحب اور پاکستان سے کر رہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے اس ہمالیہ کے برابر غلطی کا جو ستمبر۲۰۰۱ء میں جنرل صاحب نے کی۔ اس کے بعد سے مسلسل امریکا کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں‘ غلامی کی زنجیروں کو زیور بنا کر پیش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب اس شیطانی گرفت سے نکلنے کی ان کوکوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے۔
بحیثیت سوپر پاور روس کے خاتمے کے بعد سے امریکا کی خارجہ پالیسی کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ پوری دنیا پر اپنی سیاسی‘ عسکری‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا قیام‘ دنیا کے دوسرے ممالک کے وسائل اور خصوصیت سے توانائی کے ذخائر پر قبضہ‘ اور نیوکلیر اثاثوں پر کنٹرول اور اس امر کو واقعی بنانا ہے کہ امریکا کی اس بالادستی کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت کسی شکل میں بھی اُبھر نہ سکے۔ نائن الیون دراصل اس سامراجی عمل (hubris)کا ایک حصہ ہے اور اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انھی مقاصد کو زیادہ بھونڈے اور زیادہ خون آشام انداز میں حاصل کرنے کی عالم گیر جدوجہد کاآغاز ہوا ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ اب ایک فوری ہدف چند مسلمان ممالک (خصوصیت سے افغانستان‘ عراق‘ ایران‘ شام اور پاکستان)‘ اور اسلام کا وہ تصور قرار پایا جسے سیاسی اسلام‘ اسلامی بنیادپرستی‘ جہاد اور زیادہ اکھڑاور صاف الفاظ میں اسلامی دہشت گردی اور اسلامی فاشزم کہا جا رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کو ترغیب اور ترہیب کا ہرحربہ استعمال کرکے اپنا شریک کار بنایا گیا ہے اور یہی وہ جال ہے جس میں جنرل پرویز مشرف بخوشی قدم افروز ہوئے ہیں اور چھے سال تک ذلت آمیز خدمات انجام دینے کے بعد بھی ھل من مزید (more, more and more)کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
صدربش نے اپنے عالمی دہشت گردی کے مقاصد کوکسی پردے میں نہیں رکھا۔ بقول باب ووڈ ورڈ امریکا نے اپنا ہدف بہت صاف لفظوں میں دنیا کو بتا دیا ہے کہ:
ہم اپنی عظیم قوم کے دفاع میں دنیا کے کونے کونے میں موت اور تشدد پھیلائیں گے۔ (Bush At War،باب وڈ ورڈ‘ سائمن اینڈ شوسٹر‘ نیویارک‘ ۲۰۰۲ء‘ ص ۳۵۲)
دیکھیے پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کو قابو میں کر کے کس طرح اس شکنجے میں کساگیا ہے۔ بش صاحب نے نائن الیون کے فوراً بعد اپنی پالیسی کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’ہمیں طاقت کا استعمال کر کے ملکوں سے فیصلے کروانا ہوں گے‘‘۔(ص ۳۳)
آرمی ٹیج نے جنرل محمود سے کہا:
پاکستان کو ایک اہم فیصلہ کرنا ہے ___ یا وہ ہمارے ساتھ ہے یا نہیں ہے۔ یہ سفیداور سیاہ میں سے کسی ایک کا انتخاب ہے۔ درمیان میں کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ الفاظ کہ ’’مستقبل آج شروع ہورہا ہے‘‘ پاکستانی صدر جنرل مشرف کو بتا دو: ’’ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف‘‘۔ (ص ۴۷)
جنرل کولن پاول نے صدربش سے کہہ دیا تھا کہ افغانستان پر حملہ اور بن لادن اور القاعدہ پر گرفت پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں‘ اس لیے :
پاکستانیوں کو نوٹس دینے کی ضرورت ہے… مشرف پر بہت زیادہ دبائو ڈالنے میں اندیشہ ہے‘ لیکن بالکل دبائو نہ ڈالنے میںزیادہ اندیشہ ہے۔(ص ۵۸)
۱۲ ستمبر کورات کو ۳۰:۱۲ بجے کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف سے "As one general to another"بات کی اور ’’یا ہمارے ساتھ ہو، یا ہمارے مقابلے میں ہو‘‘ کی دھمکی دی‘ نیز سات مطالبات کیے جن کے نتیجے میں پاکستان امریکا کے جنگی پشتے (war base)میں تبدیل ہوگیا۔ کولن پاول نے باب ووڈ ورڈ سے کہا اور پھر اپنی خودنوشت میں اعتراف کیا ہے کہ وہ سمجھتا تھا کہ مشرف سات میں سے ایک دو مطالبات مان لے گا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہمارے جنرل صاحب نے ساتوں مطالبات بے چون وچرا ں مان لیے۔ ووڈ ورڈ لکھتا ہے:
پاول کو حیرت ہوئی جب مشرف نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتوں میں سے ہر ایک اقدام میں حمایت کرے گا۔ (ص ۵۹)
بعد میں صدر بش سے جنرل پرویز مشرف نے دو درخواستیںکیں۔ ایک یہ کہ: ’’افغانستان کے بارے میںانھیں خدشہ ہے کہ شمالی اتحاد جسے امریکا بھی مانتا ہے کہ وہ قبائلی ٹھگوں کے گروہ سے زیادہ نہیں‘ افغانستان پر قابض ہوجائے گا‘‘۔ جس کے جواب میں صدربش نے خسروان شاہی سے فرمایا کہ: ’’شمالی اتحاد کے بارے میں آپ کی تشویش کا مجھے بخوبی احساس ہے‘‘۔
ملاقات کے بعد پریس کے سامنے بش نے وعدہ کیا کہ:
ہم اپنے دوستوں کی جنوب میں شامالی میدان کی طرف پیش قدمی کی حوصلہ افزائی کریں گے نہ کہ شہر کابل پر قبضہ کے لیے‘ بش نے کہا۔ (ص ۳۰۴)
اور پھر ہوا کیا؟ پورا افغانستان طشتری میں سجا کر شمالی اتحاد کی خدمت میں پیش کردیا گیا اور جنرل صاحب دیکھتے رہ گئے۔ دوسری گزارش جنرل صاحب نے صدربش سے یہ کی کہ پاکستان کے نیوکلیر اثاثہ جات کو اسرائیل سے خطرہ ہے‘ آپ ان کے تحفظ کا یقین دلائیں۔ بش نے بات کو مذاق میں اڑا دیا اور جنرل صاحب خوش ہوگئے کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر دست درازی نہیں کرے گا۔
جنرل صاحب نے بڑی ہمت کر کے افغانستان میں روس کے خلاف جہادکے خاتمے پر امریکا کے آنکھیں پھیر لینے کے پاکستانی احساس کا ذکر کیا تو بش نے پوری ڈھٹائی سے کہا: ایسا نہیں ہوگا۔ ملاحظہ فرمایئے:
مشرف نے کہاکہ اس کو یہ خطرہ ہے کہ امریکا آخر میں پاکستان کو چھوڑ دے گا اور دوسرے مفادات دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت کم کردیں گے۔ بش نے اپنی نگاہ مرکوز کرکے کہا: پاکستانی عوام کو بتا دیں کہ امریکی صدر نے آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتایا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ (ص ۳۰۳)
حسب عادت امریکا نے وہی کیا اور کر رہا ہے‘ یعنی آنکھیں پھیر لینا۔ بدعہدی اور طوطا چشمی کے علاوہ اس سے کوئی توقع رکھنا خوش فہمی ہی نہیں حماقت ہے۔ اس موقع پر صدر نکسن کی دل چسپ مگر عبرت آموز گواہی بھی ریکارڈ پر لانا مفید ہوگی جس میں امریکا کا ساتھ دینے والے چار کرداروں کا ذکر ہے جن میں سے دو کا تعلق پاکستان سے ہے۔ رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب In the Arena: A Memoir of Victory, Defeat and Renewalمیں جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی تھی‘ لکھا ہے:
بیرونی سفر میں میرا سب سے زیادہ افسوس ناک تجربہ جولائی ۱۹۸۰ء میں‘قاہرہ میں‘ شاہِ ایران کے جنازے میں شرکت تھی۔ واشنگٹن سے کوئی بھی امریکا کی نمایندگی کے لیے ایک ایسے لیڈر کے جنازے میں نہیں بھیجا گیا جو ہمارے نہایت وفادار اور گہرے دوستوں میں سے تھا۔ مجھے پاکستان کے صدر ایوب خان کا ایک جملہ یاد آیا جو انھوں نے ۱۹۶۴ء میں‘ جنوبی ویت نام کے صدر ڈیم کے قتل میں امریکا کی شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ اس واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کا دوست ہونا خطرناک ہوتا ہے۔ غیرجانب دار ہونے کا فائدہ ہوتا ہے‘ اور بعض وقت دشمن ہونے سے کام نکلتا ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں اس وقت پھر آئی جب امریکا کے ایک اور گہرے دوست پاکستان کے صدر ضیاء الحق کی پُراسرار موت کی اطلاع ملی جو ہوائی جہاز کے حادثے میں ہوئی جو بظاہر سبوتاژ کا نتیجہ تھی۔
یہ ہے امریکا کا ٹریک ریکارڈ۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے امریکا کا دامن تھاما اور اس کی چاکری کی خدمات انجام دیں‘ جن میں افغانستان کے اپنے دوست حکمران طالبان سے نائن الیون کے واقعے میں ان کے ملوث ہونے کے کسی واضح ثبوت کے باوجود بے وفائی‘ افغانستان پرفوجی یلغار اور اس کو تباہ و برباد کرنے کی امریکی اور بعد میں ناٹو کی جنگ میں شرکت‘ خود اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی مشترک ۴۰ہزار کی فوج کے مقابلے میں ۸۰ ہزار سے ایک لاکھ فوج کو قبائلی علاقوں میں جھونک دینا‘ ۸۰۰ پاکستانی افسران اور جوانوں اور ایک ہزار سے زیادہ قبائلی مسلمانوں کی جانوں کا اتلاف اور سیکڑوں افراد کو کسی ثبوت اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر گرفتار کر کے امریکا کی تعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے ان کی تحویل میں دے دینا شامل ہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندرونی معاملات حتیٰ کہ سیکولر تعلیمی نظام کو فروغ دینے اور ملک میں امریکا کی مرضی کی سیاسی قیادت کو برسرِاقتدار لانے کے معاملات میں امریکی ایجنڈے کی تعمیل کی راہیںاستوار کیں۔ یاد رکھیے جو پالیسی مالی منفعت یا بہ الفاظ صحیح تر سیاسی رشوت یا بیرونی دبائو‘ بلیک میل‘ ہاتھ مروڑنے اور تازیانہ بازی کا نشانہ بننے کے نتیجے میں بنے گی‘ یا ان دونوں کے امتزاج کا نتیجہ ہوگی وہ کبھی قومی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے حکم اور مطالبے کے تحت قومی مفاد کو جس طرح قربان کیا ہے اور ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیوں میں جو بنیادی تبدیلیاں کی ہیں وہ قوم‘ اور اس کے عزائم سے بدترین بے وفائی اور قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے تقاضوں سے متصادم ہیں۔ اور یہ سب کچھ چند بلین ڈالر حاصل کرنے اورامریکا کے دبائو اور ڈنڈوں کے سائے تلے کیا گیا ہے۔ اس کی چند مثالیں ریکارڈ کی خاطر پیش کی جاتی ہیں۔
امریکا کی ناردرن کمانڈ کا سربراہ (۲۰۰۳ء-۲۰۰۰ء) جنرل ٹامی فرینک اپنی خودنوشت میں جو ۲۰۰۴ء میں American Soldier کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ لکھتا ہے:
میں نے ارادہ کیا کہ سفر جاری رکھتے ہوئے پاکستان میں صدر مشرف سے مل لوں۔ اس لیے کہ اگر بازو مروڑنے کا کوئی موقع تھا تو یہی تھا۔ انھیں فیصلہ کرنا ہوگا‘ اور بہت جلدی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف ہیں۔
اسی کتاب میں جنرل ٹامی فرینک انکشاف کرتا ہے کہ افغانستان پر امریکا کی یورش میں بھارت کی سیاسی‘ سفارتی اور فوجی شرکت بھی تھی جس پر جنرل پرویز مشرف کو اصولی اختلاف نہیں تھا البتہ صرف اس لیے پریشان تھے کہ اس سے ان کی سیاسی پوزیشن خراب ہوتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ معاملہ اس پر طے ہواکہ بھارت کی شرکت کو نمایاں نہیں کیا جائے گا۔ یہ دل خراش داستان انھی کی زبان میں سن لیجیے:
مشرف نے درخواست کی کہ مہم کے منصوبے میں بھارتی حکومت یا بھارتی فوج کی شرکت نہ ہو۔ خاص طور پر کسی بھی صورت میں اس طرح کہ بھارتی فوجیں پاکستان کے بحری اور فضائی حدود میں داخل ہوں۔ انھوں نے یہ بھی چاہا کہ اتحادی بھارت کی سیاسی شرکت کوبھی بہت نمایاں نہ کریں جس سے پاکستان میں جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ میں نے امریکی سفیر وینڈی سے کہا کہ وہ صدر مشرف کو میرا ذاتی شکریہ پہنچا دیں اور انھیں بتائیں کہ میں بھارتی شرکت کا مظاہرہ کم سے کم کرنے کی کوشش کروں گا۔ (ص ۲۷۳)
جنرل ٹامی فرینک اپنی افغان جنگ کے پورے تجربے کا تجزیہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ:
علاقے میں اپنے ساتھی تلاش کرنے کے لیے اپنے ۳۰ سے زیادہ دوروں میں‘ مَیں نے بہت زیادہ چارہ اور چند ہی چابک استعمال کیے۔
اور پھر جنرل پرویز مشرف کی تابع داری کا بیان یوں رقم کرتا ہے:
اور گو کہ دنیا کو اس جنگ میں پاکستان کے فوجی کردار کا کم پتا ہے لیکن پرویز مشرف نے اپنا کہا پورا کیا‘ اور آج بھی وہ اسی طرح ہے۔ پاکستان کے گیارھویں کور کے تجربہ کار فوجیوں نے بھاگنے والے سیکڑوں القاعدہ کے دہشت گردوں کو قتل کیا اور پکڑااور وہ آج بھی وزیرستان کے پہاڑوں میں ان دہشت گردوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جب کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز شہروں میں ان کا پتا چلاتی ہیں۔ حال ہی میں القاعدہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں جاری مہم کی تازہ کامیابیاں ہیں۔ جب صدر بش نے کہا تھا کہ دنیا کی قومیں یا ہمارے ساتھ ہیں یاہمارے مخالف تو پاکستان نے ٹھیک ٹھیک سمجھ لیا (کہ اب اسے کیا کرنا ہے)۔
ٹامی فرینک کی گواہی کافی نہیں۔ تصویر مکمل کرنے کے لیے سی آئی اے کے ڈائرکٹر جارج ٹی نٹ (Tenet)کی شہادت بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ یہ نومبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ ہے اور پس منظر میں پاکستان کی نیوکلیر ٹکنالوجی کے افغانستان جانے کا خطرہ ہے۔صدربش نے خصوصی طیارے سے سی آئی اے کے سربراہ کو پاکستان بھیجا۔باب ووڈ ورڈ نے اپنی دوسری کتاب Plan to Attack میں اس کی اس طرح منظرکشی کی ہے۔ پہلے صدربش کی ہدایت دیکھیے:
بش نے ٹی نٹ سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی وہاں جائو اور جو چاہیے وہ حاصل کرلو۔ اپنا جہاز پکڑو اور ابھی پاکستان چلے جائو۔
جارج ٹی نٹ پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملتے ہیں۔ ذرا زبان اور عزائم ملاحظہ فرمائیں:
وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے خوب خبر لینے (raising holy hell) کے ارادے سے ملنے گیا۔ اگر امریکا میں کوئی ایٹمی ہتھیار ہوا اور یہ چل گیا تو ذمہ داری تمھاری ہوگی‘ مشرف کے بارے میں اس نے کہا۔ ہم نے اس پر خوب دبائو ڈالا۔ ایک اہل کار نے کہا: ہم گوشمالی کرتے رہے (we were turning the screws) یہاں تک کہ اس کے ساتھ ہم اس مقام پر پہنچ گئے کہ پاکستانی ہمارے ساتھ کام کرنے لگے۔ (ص ۴۷)
جنرل پرویز مشرف اور ان کے وزیرخارجہ بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے کسی کے اشارے پر یا دبائو کے تحت کچھ نہیں کیا۔ اس سے بڑا جھوٹ آسمان تلے نہیں ہوسکتا۔ قوم نے جس فوج کو ملک کی آزادی اور قوم کی عزت کی حفاظت کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر تیار کیا تھا‘ اس کی قیادت نے چند ڈالروں کے لیے اور دوسروں کی دھمکیوں کے تحت خود مسلمانوں کا خون بہایا اور امریکا کی بالادستی کے قیام کے لیے خود اپنی جانیں اور عزت قربان کی۔ اقبال نے تو کشمیر کا نوحہ کیا تھا‘ کیا خبر تھی کہ پاکستان کے بارے میں بھی کہنا پڑے گا کہ اس کے جرنیلوں نے ع
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!
امریکا کس طرح ہمارے معاملات میںمداخلت کر رہا ہے‘ وہ صرف افغانستان کے لیے کندھا فراہم کرنے اور وزیرستان میں فوج کشی کرنے تک محدود نہیں۔ چند اور مثالیں مشتے نمونہ ازخروارے پیش خدمت ہیں۔
امریکا اور برطانیہ کے اشاروں پر کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست برداری اختیار کی گئی اور نہ صرف عملاً تحریک آزادیِ کشمیر کی ہر مدد بند کردی‘ بلکہ اسے آزادی کی جنگ بھی کہنے سے توبہ کرڈالی۔ افسوس کہ بالآخر جنوری ۲۰۰۴ء میں یہاں تک اعلان کردیا کہ کشمیر کی کنٹرول لائن جسے پاکستان نے کبھی بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا تھا‘ اسے کشمیری مجاہدین کے لیے بند کردیا جائے گا اور ان کے سرحدپار کرنے کو دہشت گردی کی ایک صورت تسلیم کرلیا۔
اس سلسلے میں ٹونی بلیئر نے صدربش کے کارندے کی خدمات انجام دیں اور جنرل پرویز مشرف کوقائل کرلیا کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کو تحریکِ آزادی بھی نہ کہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل ہی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ایڈوائزر اور پالیسی کے شعبے کے مدیر الیسٹیرکیمپبل کی کتاب The Blair Years شائع ہوئی ہے۔اس میں ٹونی بلیئر کے کارنامے اور پاکستانی جرنیل کا ’تیرا مجبور کردینا، مرا مجبور ہوجانا‘ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے‘ عبرت کے لیے اس کا جاننا ضروری ہے۔ جنرل صاحب سے یہ ملاقات ۷جنوری ۲۰۰۲ء میں‘ اسلام آباد میں ہوتی ہے اور اس کے بعد ۱۲فروری ۲۰۰۲ء کو وہ کشمیر کی جنگ آزادی سے دست برداری کا اعلان فرما دیتے ہیں۔الیسٹیر کیمپبل لکھتا ہے کہ:
بلیئر کا پہلا قدم یہ ہونا تھا کہ مشرف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ سخت ہوجائے۔ بلیئر نے مشرف سے کہا کہ مذاکرات شروع ہونے کے لیے دہشت گردی کی حمایت ختم ہونی چاہیے۔ مشرف نے حیران ہوکر دیکھا۔ بلیئر نے کہا: یہ اس لیے ٹھیک نہیں ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کر رہی ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ اس کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر یہ کہے کہ وہ دہشت گردی کی ہرشکل کا مخالف ہے۔ ہم نے اسے اس پر قائل کرلیا کہ کشمیر کے بارے میں وہاں ہونے والی جدوجہد کو جنگِ آزادی نہ کہاجائے۔ اس لیے کہ یہ ہم اور امریکی راے عامہ نہیں سمجھیں گے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ایک مقامی جدوجہد کہا جائے۔ ہمیں اس پر بہت وقت خرچ کرنا پڑا لیکن بالآخر وہ مان گیا۔ (The Blair Years‘ ص ۵۹۹)
امریکا کی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ہو یا پاکستان کی کشمیرپالیسی‘ نیز بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور دوستی کی پینگیں___ سب کچھ امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو پرہوا لیکن الفاظ و معانی اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ بقول جنرل صاحب یہ سب ’قومی مفاد میں ہوا‘، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
لال مسجداور جامعہ حفصہ کے خلاف جو فوجی آپریشن ہوا وہ بھی امریکا اوراس کے حواریوں کے مطالبات اور مغربی میڈیا اور خود پاکستان میں لبرل قیادت کے شوروغوغا اور اس کی سرخیل محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہہ پر ہوا۔ صدربش‘ گورڈن برائون (برطانوی وزیراعظم) آسٹریلیا کے وزیراعظم اور خود بے نظیر صاحبہ نے باقاعدہ اس اقدام کی تحسین فرمائی اور معصوم بچوں اور بچیوں کے کشت و خون اور مدرسے کی مسماری پر مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔ اب اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ امریکا نے ایکشن سے ایک دن پہلے باقاعدہ ہدایات جاری کیں‘ اس فرق کے ساتھ ان کا مطالبہ تھا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مکینوں کو گرفتار کیا جائے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی یہ تھی ان کو نیست و نابود کیا جائے‘ بلکہ جامعہ حفصہ کو بھی اس طرح مسمار کیا جائے کہ بقول چیف جسٹس آف پاکستان اس آپریشن کے بارے میں ساری معلومات اور شہادتیں بھی ختم ہوجائیں۔ امریکی ہدایات ریکارڈ کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ ۹جولائی ۲۰۰۷ء کے The Nation کے مطابق فوجی ایکشن سے ایک دن قبل(واضح رہے کہ یہی وہ دن ہے جب مصالحت کی کوششیں اپنے عروج پر تھیں‘ معاملات طے ہورہے تھے کہ ان کو سبوتاژ کردیا گیا) یہ ہدایات نازل ہوئیں:
امریکا نہیں چاہتاکہ ان درجنوں خطرناک جنگجوؤں کو جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہیں‘ محفوظ راستہ دیا جائے بلکہ سخت اقدام چاہتا ہے تاکہ وہ گرفتار ہوں۔ بش انتظامیہ کا پیغام یہ تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی کے مطالبے کے مطابق مسجد خالی کرنے اور لڑکیوں کے متصل مدرسے کو خالی کرنے کی شرط پر جنگجوؤں کو محفوظ راستہ نہ دیا جائے… واشنگٹن کو ان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے مقابلے میں گرفتار کرنے میں زیادہ دل چسپی تھی‘ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم سراغ ملیں گے… انھوں نے کہا کہ امریکا کے اعلیٰ سیکورٹی اہل کار پاکستانی دارالحکومت کے واقعات کو مانٹیر کر رہے تھے اور اپنی حکومت کو باقاعدگی سے تازہ اطلاعات پہنچا رہے تھے۔
اسی طرح جنوبی اور شمالی وزیرستان میں جو امن معاہدہ ہوا اس سے امریکاسخت ناخوش تھا۔ اس نے اپنا سارا اثرورسوخ اور بازو مروڑنے (arm-twisting) کے حربے استعمال کرکے شمالی وزیرستان اور اس سے بڑھ کر صوبہ سرحد کے چند اہم مقامات خصوصیت سے سوات‘ بنوں اور دوسرے علاقوں میں فوج بھیجنے کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالا اور بالآخر اس علاقے میں ایک بار پھر خون ریزی اور تصادم کا سماں پیدا کردیا۔ واشنگٹن سے ڈان کے نمایندے کی ۱۶جولائی کی رپورٹ قابلِ غورہے:
امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر نے بتایا کہ امریکا پاکستان کو وہ تمام آلات فراہم کرے گا جن کی انھیں صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے لیے ایک مجوزہ کریک ڈائون کے لیے ضرورت ہوگی۔ اسٹیفن رِڈلے نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ جنرل مشرف نے قبائلی علاقوں میں مزید افواج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور امریکا اس اقدام کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ہمیں اس ملک کو اس حالت میںلاناہے جہاںاس کے پاس دہشت گردی کے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری آلات ہوں‘ جو بدقسمتی سے ہمارے ساتھ طویل مدت تک رہے گا۔
بھارت کے جریدے فرنٹ لائن نے اپنی ۱۰ اگست ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں پاکستان پر تفصیلی کور اسٹوری شائع کی ہے جس میں جان شیریں (John Cherian) نے اپنے دو مضامین میں حالات کی یوں عکاسی کی ہے:
جب انھیں یاد دلایا گیا کہ قبائلی سرداروں نے گذشتہ سال ستمبر کا معاہدہ ختم کردیا ہے تو انھوں نے کہا کہ معاہدے نے اس طرح کام نہیں کیا جس طرح صدرمشرف چاہتے تھے‘ بلکہ اس طرح بھی نہیں کیا جس طرح ہم چاہتے تھے۔ اس ہفتے کے آغاز میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری رچرڈ بائوچر نے کانگریس کو بتایا کہ امریکا قبائلی پٹی اور سرحد کی نگرانی کے لیے پاکستانی فوج کو ہرمہینے ۱۰۰ ملین ڈالر ادا کرتا ہے۔
اگر امریکی احکام پر عمل کیا جائے تو پاکستانی فوج افغانستان سے متصل اپنے سرحدی علاقے میں پشتون قبائل کے ساتھ عملاً حالت ِ جنگ میں ہوگی…
امریکی میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد بش انتظامیہ نے پاکستان پر دبائو ڈال کر اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔ مشرف کو بتایا گیا کہ اگر اس نے طالبان کی حمایت ترک نہ کی تو واشنگٹن بم باری کرکے پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا سکتا ہے‘ اور نئی دہلی کو اشارہ کرے گا کہ پاکستانی کشمیر کے متنازع علاقے پر قبضہ کرلے۔
پاکستانی صدر پرویز مشرف کی حالیہ پریشانیوں کی بڑی وجہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کا احیا ہے۔ امریکا اور ناٹو کی افواج کی طالبان کو شکست دینے میں ناکامی نے پاکستان میں اس کے حامیوں کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ بش انتظامیہ کو سیاسی طور پر یہ مناسب لگتا ہے کہ طالبان اور اس کے عسکری حلیفوں کو افغان سرحدی علاقوں میں قابو کرنے کے لیے کافی کچھ نہ کرنے کے الزام پاکستان پر رکھ دے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے احیا کی حقیقی ذمہ داری واشنگٹن اور اس کے حلیفوں پر ہے۔
بش انتظامیہ حکومتِ پاکستان پر دبائو ڈال رہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں پھر بھرپور حملہ کرے۔ اپنے علانیہ بیانات میں سینئر امریکی اہل کار کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستانی فوج آگے بڑھ کر اقدام نہیں کرتی تو امریکا خود اقدام کرسکتا ہے۔ ماضی میں کئی موقعوں پر امریکی فضائیہ نے القاعدہ کے اہداف کو پاکستانی حدود میں نشانہ بنایا ہے۔ امریکی اسپیشل فورسز بھی محدود پیمانے پر آپریشن کر رہی ہیں۔
امریکی مداخلت کی تازہ ترین مثال مشرف بے نظیر مفاہمت کی کوششیں اور اس کے لیے کی جانے والی طرح طرح کی سازشیں ہیں۔ ایمرجنسی کی بات اور پھر امریکی وزیرخارجہ کی مداخلت اس کی تازہ ترین نظیر ہیں۔ نیویارک ٹائمز ۱۱اگست ۲۰۰۷ء کے اداریے میں امریکا کے کردار کویوں بیان کرتا ہے:
وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے جمعرات کی رات کو ۲ بجے صدرمشرف کو فون کر کے ایک سیاسی طوفان کو دُور کرنے میں مدد دی‘ اور پارلیمنٹ کو معطل کرنے‘ عدالتوں کو بے اختیار کرنے‘ مظاہروں پر پابندی لگانے اور اس کے لیے ایک نئی صدارتی مدت کے سلسلے میں بات کی۔
لیکن یہ بحران شاید صرف ملتوی ہوا ہے۔ آٹھ سال کی مطلق العنان حکومت اور عہدشکنیوں کے بعد مشرف نے وہ حمایت کھو دی ہے جو اسے عام پاکستانیوں میں‘ تعلیم یافتہ پروفیشنل طبقے میں‘ حتیٰ کہ ساتھی فوجی افسروں میں کبھی حاصل تھی۔ مشرف کو صرف یہ بتانا کہ وہ مزید اختیارات حاصل نہ کرے کافی نہیں۔ واشنگٹن کو اسے یہ بتانا چاہیے کہ تاخیر ہونے سے قبل مذاکرات کے ذریعے جمہوریت کی طرف جلدواپس ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ یہاں جمہوریت کے معنی امریکا کی پسندیدہ قیادت کو برسرِاقتدار لانا ہے‘ ورنہ سب کو معلوم ہے کہ امریکا کوجمہوریت کا کتنا پاس ہے۔
اس دل خراش داستان کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم نے صرف چنددستاویزاتی شہادتیں پیش کی ہیں تاکہ ’قومی مفاد‘ کی بات کرنے والوں کااصل چہرہ سامنے آسکے۔ امریکا کے ایجنڈے کے مطابق جنرل پرویز مشرف نے قوم‘ پارلیمنٹ‘ حتیٰ کہ کابینہ اور دفترخارجہ تک کو نظرانداز کرکے وحدت اقتدار (unity of command) کے نام پر خارجہ پالیسی کا جو تیاپانچہ کیا ہے‘ اس سے ملک اور اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے چند اہم پہلوئوں کی نشان دہی کی جاتی ہے:
۱- صدر بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نہ بین الاقوامی قانون کے اعتبار سے جنگ ہے اور نہ اس کا ہدف حقیقی دہشت گردی ہے۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا تو سب سے زیادہ ارتکاب خود امریکا نے کیا ہے یا اس کے حلیفِ خاص اسرائیل اور پھر بھارت نے۔ اس وقت خود امریکی اور یورپی اہلِ علم ’وار آن ٹیررزم‘ کے پورے paradigmکو چیلنج کررہے ہیں‘ اور صاف کہہ رہے ہیں کہ جنگ کا لفظ صرف اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ سویلین افراد کو محارب (combatant) قرار دے کر قانون سے بالابالا ختم کیا جاسکے۔ ان کے بقول جن پر دہشت گردی کا شبہہ ہو جب تک الزام عدالت کے نظام کے تحت ثابت نہ ہو‘ انھیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور جو فی الحقیقت دہشت گرد ہیں وہ بھی محارب نہیں صرف ’مجرم‘ (criminal) ہیں اور ایک مجرم کو جرم کی حد تک قانون کے عام پروسس کے ذریعے ہی سزا دی جاسکتی ہے۔ ’وار آن ٹیررزم‘ ایک قانونی فراڈ ہے اور جنرل پرویز مشرف صدر بش کے ساتھ اس فراڈ میں‘ جو اب انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم (crime against humanity) بن چکا ہے‘ شریک ہیں اور پاکستانی فوج کو اس نے اس میں ملوث کر کے پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کوسخت عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ یہاں تو یہ ہو رہا ہے‘ جب کہ دنیا کی سوچ اب اس طرح بدل رہی ہے کہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم گارڈن برائون نے دو ہفتے قبل یہ ہدایت جاری کی ہے کہ آیندہ کوئی برطانوی وزیر اسے ’وار آن ٹیرر‘ نہ کہے۔
۲- پاکستان کی کشمیر پالیسی کو یک سر بدل کر اور تحریک حریت کشمیر سے غداری کرکے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضرب کاری لگائی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کشمیر کے عوام کو پاکستان سے مایوس اور بددل کرکے نہ صرف ۵لاکھ شہیدوں کے خون سے بے وفائی کی ہے بلکہ جموںو کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو بھارت کے استبداد کا نشانہ بننے اور ان کی زندگی کو جہنم بنانے کا سامان کیا ہے۔ اس کے جو دُور رس اثرات خود پاکستان کی سلامتی‘ معاشی خودانحصاری اور نظریاتی تشخص پر پڑیں گے دل ہلا دینے والے ہیں۔
۳- بھارت سے دوستی کے سراب کے تعاقب میں بھارت کی طرف سے تمام خطرات کو نظرانداز کردیا ہے جو وہ پاکستان اور اس پورے علاقے کے لیے پیدا کر رہا ہے۔ یہاں بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک پارٹنر اور ایٹمی سمجھوتے کی وجہ سے جو مسائل اور خطرات پاکستان‘ چین‘ ایران کو پیش آنے والے ہیں‘ ان سے آنکھیں بند کرلینا اپنے اندر بڑے مہلک امکانات رکھتا ہے۔ ان سارے پہلوؤں کا جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی میں کوئی شعور نظر نہیں آتا۔
۴- افغانستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے‘ بلاشبہہ اس کی اوّلین ذمہ داری امریکا اور ناٹو کی فوجوں پر ہے لیکن پاکستان بھی اس ذمہ داری میں شریک ہے‘ اور یہی وجہ ہے افغان عوام پاکستان سے دُور سے دُور تر ہوتے جارہے ہیں۔ شمالی اتحاد تو اوّل روزسے پاکستان کے خلاف اور بھارت کا حلیف اور آلۂ کار تھا لیکن وہ تمام قوتیں جو پاکستان کے لیے محبت‘ ہمدردی اور احسان مندی کے جذبات رکھتی تھیں‘ وہ بھی نائن الیون کے بعد ہم سے نالاںاور دُور ہوگئی ہیں۔ یہ دُوری اب بداعتمادی اور نفرت کی سرحدوں کو چھو رہی ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنالیا اور دشمن اور زیادہ شیر ہوگیا۔ نیز افغانستان میں بھارت نے بڑی مضبوطی اور عیاری سے اپنے قدم جما لیے ہیں جن کا ہدف بالآخر پاکستان ہے۔ بلوچستان میں اس کے اثرات نظر آنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔
۵- ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اور ایران میں بھی اب پاکستان کے لیے وہ گرم جوشی نہیں جو ایک تاریخی حقیقت اور ہمارا بڑا قیمتی اثاثہ تھی۔ آج ہمارے تمام ہمسایہ ملک پہلے کے مقابلے میں ہم سے دُور اور شاکی ہیں۔یہ سب نتیجہ ہے ایک تباہ کن خارجہ پالیسی کا جو امریکا کے مفاد میں ہے یا اس کا فائدہ ذاتی طور پر گنے چنے افراد کو پہنچ رہا ہے۔
۶- دینی اورتہذیبی اعتبار سے بھی یہ سودا بڑے خسارے کا سوداہے۔ مسلم معاشرے کو محض امریکا کو خوش کرنے کے لیے لبرل اور انتہاپسند طبقوں میں تقسیم کیاگیا ہے اور ان کو باہم تصادم کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے۔ سیاسی مسائل کو ننگی قوت کے ذریعے حل کرنے کی احمقانہ پالیسی پر بگ ٹٹ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دینی مدارس اور دینی تعلیم کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس سے معاشرے میں تصادم اور تشدد پرستی کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ قوم اور اس کے حکمرانوں کے درمیان جنگ کی کیفیت ہے جو سیاسی اور تہذیبی عدمِ استحکام کی طرف لے جا رہی ہے۔
۷- اس پالیسی کا ایک اور بڑا ہی نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ قوم اور فوج میں نہ صرف مغائرت پیدا ہوئی ہے بلکہ یہ بے اعتمادی اب نفرت کو جنم دے رہی ہے۔ وہ فوج جسے قوم اپنی آنکھ کا تارا قرار دیتی ہے اور جس پر عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کرتی تھی آج وہ عوام کے غصے کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ۲۹ جولائی کے اخبارات میں وزارتِ داخلہ کی یہ ہدایت شائع ہوئی ہے اور ہماری اطلاع ہے کہ فوجی ذرائع نے بھی اپنے اپنے گیریژن کو ایسی ہی ہدایات دی ہیں‘ حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف سے بھی یہ بات منسوب کی جارہی ہے کہ انھوں نے ہدایت کی ہے کہ فوجی افسر اور جوان بسوں میں‘ بستیوں میں اپنی وردی میں نہ گھومیں کہ ان پر حملوں کا خطرہ ہے۔
ڈیلی ٹائمز میں ۲۹ جولائی کو اس سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ: ’’فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کو عوام میں وردی پہن کر جانے سے متنبہ کیا گیا ہے‘‘۔ خبر کا صرف یہ جملہ سرپیٹ لینے کے لیے کافی ہے کہ: ’’وزارتِ داخلہ نے پاکستانی فوج‘ فرنٹیئرکانسٹیبلری‘ الائیٹ فورس‘ اینٹی رائٹ فورس‘ پنجاب کانسٹیبلری اور پنجاب رینجرز کے افسران اور سپاہیوں کو متنبہ کیا ہے کہ پبلک مقامات پر وردی میں نہ آئیں اور نہ نجی گاڑی وردی میں چلائیں‘‘۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون
سپریم کورٹ کے محترم جج جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے جو ۲۰ جولائی کے فیصلے سے عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں اورجن کی راے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں‘ انھوں نے ناروے میں وہاں کے وزیرخارجہ کی موجودگی میں پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کی کتنی سچی ترجمانی کی ہے:
پاکستان مغرب کے مفادات کے لیے لڑ رہا ہے مگر اس سب کے باوجود شرمندگی کا سامنا ہے۔ وہ دوست جن کے لیے ہم یہ سب کر رہے ہیں‘ ہمیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک سفارت کار نہیں بلکہ ایک جج ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ کہیں گے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ قربانی دی ہے اور اب بھی دے رہا ہے مگر اس کی قدر نہیں کی جارہی۔
جنرل صاحب کے وردی سے چمٹے رہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب یہ وردی محبت کے بجاے نفرت کا اور حفاظت اور آشتی کی جگہ عدم تحفظ کا نشان اور تصادم اور انتقام کی دعوت کی علامت بن گئی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو حقیقی قانونی جواز تو کبھی بھی میسر نہ تھا اور اس کے حصول کا ایک موقع جو ان کو ۱۷ویں ترمیم نے دیا تھا‘ اسے انھوں نے وردی نہ اتار کر ختم کردیا۔ ان کی آٹھ سالہ کارکردگی نے ان کی ساکھ (credibility)کو تار تار کردیا ہے اور رہی ان کی اور فوجی حکمرانی کے نظام کی کارکردگی (competence) تواس کا بھانڈا بھی اب پھوٹ چکا ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے پہلے ہفتے میں ڈان‘ ڈان نیوز اور سی این این نے جو سروے کیاہے‘ اس کی رو سے پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت (۲ء۶۵ فی صد) ان سے نجات پانے کا اعلان کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ صدارت سے فوراً دست کش ہوجائیںاور ۵ء۵۴فی صد کہتی ہے کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل ختم کیا جائے۔ بی بی سی کے سروے میں چھے ناموں میں میاںنواز شریف سب سے اوّل مقام پر آئے ہیں اور مشرف صاحب سب سے آخر میں۔ یہ پاکستان کے عوام کی دل کی آواز ہے اور ہم بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ ٹائم میگزین کے تازہ شمارے سے یہ جملہ نقل کررہے ہیں جو افغانستان کے حالیہ جرگے کے بعد وہاں کے حالات پر مبنی رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کہ افغانستان میں ’مشرف‘ کا نام اب کتوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے(ٹائم‘ ۲۷ اگست ۲۰۰۷ء)۔ جنرل ایوب تو صرف بچوں کی زبان سے یہ لفظ سن کر اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا تھا لیکن روے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ؟
آخر میں ہم صرف ایک بات اور کہنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے اس تمام ناکامی کی بڑی وجہ ملک میں جمہوریت کا فقدان‘ فوج کی سیاست میں مداخلت‘ فردِواحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کے کردارکا فقدان‘ قومی احتساب کی کمزوری اور عوام کی حکمرانی سے دُوری ہے۔ اداروں کے ذریعے فیصلہ سازی میں بڑاخیرہے اور جہاں یہ نہ ہو وہاں پالیسی سازی کا وہی حشر ہوتا ہے جو جنرل صاحب کے دورِاقتدار میں پاکستان میں ہواہے۔ حالات کی اصلاح کی راہ بھی ایک ہی ہے: یعنی جمہوریت کی بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ اداروں کے ذریعے پالیسی سازی‘ حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کا قومی احتساب‘ اور کسی کے لیے بھی من مانی کرنے کے راستوں کو مسدود کر دینا۔
آیندہ چند مہینے پاکستان کے لیے بڑے اہم ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ قوم اپنا حق حکمرانی غاصبوں سے چھین لے‘ اور دستور اور قانون کی حقیقی بالادستی کا نظام قائم کرے جس میں ایک طرف لوگوں کو عزت اور انصاف مل سکے تو دوسری طرف ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیاں عوام کی مرضی کے مطابق اور ان مقاصد کی روشنی میں تشکیل پاسکیں جن کے لیے پاکستان قائم ہواتھا۔
طوفانِ بادوباراں‘ سیلاب‘ زلزلے اور اسی نوعیت کی آفاتِ سماوی و ارضی نظامِ قدرت کا ایک حصہ اور تاریخ کامنقطع نہ ہونے والا عمل ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر طبیعی عمل اور نظام کی پیداوار ہیں‘ ان کا تعلق انسان کی ان سرگرمیوں سے بھی ہے جو قدرت کے نظام میں دراندازیاں کر رہی ہیں جنھیں عالمی حدت (global warming)اور ماحولیاتی مداخلت (ecological intervention)کا نام دیا جا رہا ہے‘ اور ان کے پیچھے اخلاقی اور تہذیبی عوامل کی بھی کارفرمائی ہے لیکن جو پہلو سب سے زیادہ غوروفکر کا مستحق ہے اس کا تعلق پیش بندی اور اصلاحِ احوال سے ہے جو ایمان‘ عقل اور تاریخی تجربات کا تقاضا ہیں۔
پاکستان کے حکمران اور پاکستانی قوم اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیالیکن قدرتی آفات کے نتائج اور تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے جو نظام National Crisis Management Authority کی شکل میں قائم کیا گیا ہے‘ اس کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہی نہیں‘ مجرمانہ حد تک ناکارہ رہی ہے۔ دو سال ہونے کوآرہے ہیں لیکن زلزلے کے متاثرین کا ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی طرح اب تک اس تباہی کے چنگل سے نکل نہیں سکا۔
اس سال جون کے آخر سے سیلاب اور بارشوں کا جو سلسلہ شروع ہواہے اس کے نتیجے میں ان دو ماہ میں ملک کے بڑے حصے‘ خصوصیت سے بلوچستان‘ سندھ اور صوبہ سرحد کے بالائی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچی ہوئی ہے۔سرکاری سطح پر خوش کن اعلانات کے باوجود آزاد ذرائع سے جو معلومات حاصل ہورہی ہیں اور ملکی اور غیرملکی میڈیا نے جو رپورٹیں دی ہیں‘ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ نقصان بہت ہی وسیع پیمانے پر ہوا ہے اور ریلیف کا کام ہر اعتبار سے غیرتسلی بخش ہے۔ فوج اور نجی خدمتی اداروںنے غیرمعمولی محنت کر کے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی مدد کی ہے مگر عام انتظامی مشینری بالکل ناکام ہوگئی ہے___ اور یہی وہ پہلو ہے جوفوری توجہ کا مستحق ہے۔
سیلاب اور بارشوں کی تباہی کا اب تک کوئی مکمل اور معتبر جائزہ سامنے نہیں آیا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹوں اور سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث سے جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ بڑی دل خراش اور اندوہناک ہے۔ ان دو مہینوں میں ان آفاتِ سماوی کی وجہ سے ۳۲۵ افراد کے ہلاک ہونے اور مزید ۲۲۴ کے لاپتا ہونے کا اندازہ ہے‘ یعنی ۵۵۰ جانیں تلف ہوگئی ہیں۔ ۸۰ہزار سے ایک لاکھ گھروں کے مکمل طور پر تباہ ہونے یا ناقابلِ رہایش ہوجانے اور ۲۵ لاکھ سے زیادہ افراد کے بے گھر ہونے کی اطلاع ہے۔ دو مہینے گزر جانے کے باوجود بھی ہزاروں افراد ابھی تک مختلف علاقوں میں خصوصیت سے بلوچستان میں چھت یا خیمے کی سہولت سے محروم ہیں۔۵ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں بشمول بلوچستان کی کوسٹل ہائی وے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہیں۔ ۲ لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زرعی زمین اور ان پر موجود فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کا ۲۰فی صد اورسندھ کے تعلیمی اداروں کا ۱۰فی صد ناقابل استعمال ہوگیا ہے۔ مجموعی مالی خسارے کا اندازہ ۹۰ سے ۱۵۰ ارب روپے کا ہے۔ ان حالات میں جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان میں متاثرہ ہر خاندان کو ۱۵ ہزار روپے کی سرکاری مدد کی پیش کش کرکے ان کے زخموں پر نمک تو چھڑکا ہے مگر ان کے دکھوں کی تلافی کا کوئی سامان نہیں کیا۔
یہ صورت حال بڑی سنگین ہے۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے جنگی بنیادوں پر ریلیف اور آبادکاری (rehabilitation)کا نقشۂ کار بلاتاخیر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت اور اپوزیشن کی آویزش‘ مرکز اور صوبوں میں کش مکش یا ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے کا موقع نہیں بلکہ پورے ملک کے وسائل کو متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی فوری مدد اور مستقل آبادکاری میں جھونک دینے کا وقت ہے۔ البتہ چند بنیادی سوالات ہیںجن پر حکومت اور پارلیمنٹ کو پوری سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے لیے ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقل حکمت عملی اور مؤثر نظامِ کار وضع کیاجاسکے۔
۲- دوسری چیز مرکز سے لے کرصوبے‘ ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر آفاتِ سماوی کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب نظامِ کاروضع کرنا‘ اس کے لیے مستقل اور والنٹیرکور تیار کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہر طالب علم کو اس کی تربیت دینے کی ضرورت ہے اور ایک مستقل ریلیف کور ہرعلاقے میں موجود رہنی چاہیے۔ اسی طرح ایسی آفات کے نتیجے میں پیداہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے جن آلات اور وسائل کار کی ضرورت ہے وہ ہرعلاقے میں موجود ہونے چاہییں۔ یہ وہ کام ہے جسے اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے بعد پوری تندہی سے پورے ملک میں کرلینا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں عملی پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اُس وقت ایک خطیر رقم کے اعلان کے ساتھ ایک قومی والنٹیر کور کا بھی بڑے طمطراق سے اعلان ہوا تھا مگر جولائی اگست کے ان لمحات میں ان کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آیا۔
۳- تیسری چیز بارشوں اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کرنے کے مستقل انتظامات سے متعلق ہے جس پر ۵۰سال سے بحث ہورہی ہے لیکن کوئی قابلِ عمل اسکیم نہیں بن پارہی۔ بڑے ڈیموں کی بات ہوتی ہے مگر وہ توتکار کی نذر ہوجاتی ہے۔ چھوٹے اور متوسط ڈیموں کی ضرورت بیان کی جاتی ہے مگر کوئی ملک گیر منصوبہ نہیں بن پاتا۔ آخر کب تک ہم ان بحثوں میں وقت ضائع کریں گے؟
۴- شہروں اور قصبات میں نکاسیِ آب کے مستقل انتظام کا مسئلہ ہے۔ملک کے تمام ہی علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔ دریائوں پر ایسے پشتے بنانے کا سوال ہے جن سے نشیبی علاقوں میں آباد بستیوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جاسکتا ہو۔ دنیا بھر میں انسانوں نے اپنی حفاظت بہتر زندگی کی ضمانت اور معیشت کی ترقی کے لیے ہزارہا کامیاب تجربات کیے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اور ہماری قیادت ان کی طرف توجہ نہیں دیتی اور صرف نمایشی کاموںکے ذریعے امیج درست کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے۔
۵- اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بہت سے منصوبے غلط حکمت عملی یا بددیانتی کی وجہ سے رحمت کے بجاے مصیبت کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ بلوچستان کے میرانی ڈیم کی ناقص منصوبہ بندی اور اربوں روپے کی کرپشن کی وجہ سے انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبوں کی خام کاری نے بھی آفاتِ سماوی کی تباہ کاریوں کو دوچند کردیاہے۔ یہ تمام معاملات فوری توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔
۶- ان بنیادوں اور دُوررس اقدامات کے ساتھ فوری ریلیف اور متاثرہ افراد کی جلداز جلد آبادکاری کامسئلہ ہے جس کے لیے مرکز کو اپنے وسائل سے اور عالمی اداروں کے تعاون سے ضروری اقدامات کرنے چاہییں۔
۷- متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ علاقے قرار دے کر ٹیکس‘ آبیانہ‘ قرضوں کی واپسی‘ بجلی اورگیس کی ادایگیوں سے چھوٹ اور ضروریاتِ زندگی کی فوری فرہمی کا اہتمام ضروری ہے۔ اس کام میں مرکز اور صوبوں کو تو اپنے وسائل استعمال کرنے ہی چاہییں لیکن ملک کے ہرحصے میں بسنے والے اور بیرون ملک پاکستانی متمول افراد کا فرض ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی دل کھول کر مدد کریں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والی رفاہی تنظیموںنے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں لیکن ضرورت موجودہ فراہم کردہ سہولتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے یہ سارا کام خدمتِ خلق کے جذبے سے حکومت اور عوام کو مل کر انجام دینا چاہیے۔
رمضان کے مبارک مہینے کی آمد آمد ہے۔ یہ نیکیوں کا مہینہ ہے اور انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کی مشکلات کو دُور کرنے کا زریں موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری اُمت مسلمہ کو مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے اور ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین!
۹ اور ۱۰ اگست ۲۰۰۷ء اسٹاک مارکٹس کی تاریخ کے یادگار دن رہیں گے کیونکہ ۹ اگست سے نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی قیمتیں دھڑا دھڑ گرنا شروع ہوئیں۔ پھر یہ وبا جاپان‘ جنوب ایشیا سے ہوتی ہوئی سارے یورپ میں جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیزرفتاری سے پھیل گئی۔ ہر جگہ مرکزی بنک نے کئی کئی بلین ڈالر سے مارکٹوں کو غرق ___ہاں‘ ہرمعنی میں غرق کردیا مگر یہ گراوٹ نہ رُکنی تھی اور نہ رُکی۔۱۰ اگست اس اعتبار سے اسٹاک مارکٹس کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا کہ اُس دن صرف مرکزی بنکوں نے مارکٹوں کو کئی کئی سو بلین ڈالروں سے ’غرق‘ کیا۔ یہاں تک کہ وہ ان معنوں میں ناکام ہوگئیں کہ ان کے احتیاطی ذخیروں (reserves) کو یہ نہ تھمنے والا طوفان بہا لے گیا۔ پھر کیا ہوتا؟
ہوا وہی جو ہونا تھا۔ ان مرکزی بنکوں کے عالمی بنک‘ یعنی آئی ایم ایف (international monetary fund) کو تھک ہار کر مداخلت کرنا پڑی۔ وہ اس طرح کہ اس فنڈ نے ان مرکزی بنکوں کو ان کے حقوق سمیت drawing rights کو استعمال کرنے کا حکم دے کر ان کے حسابات میں اتنے بلین ڈالر کا اضافہ کریڈٹ کردیا۔ پھر وہ ان نئے کئی کئی بلین ڈالر لے کر اپنے اپنے قومی مارکیٹوں میں ڈالر کی بارشیں کرنے لگے مگر نتیجہ کچھ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ صورتِ حال بڑی گمبھیر حد تک بحرانی ہی رہی۔
جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی ۳۰‘ ۴۰برسوں میں پہلی بار آئی ایم ایف نے عالمی پیمانے پر عالمی بحران پر قابو پانے کے لیے مداخلت کی ہے۔ مجھے تو اس کی کوئی نظیر (precedence) یاد نہیں ہے۔ایسا کیوں ہوا؟کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب یہ خوف ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی مارکیٹ___ مکانوں‘ عمارتوں اور زمینوں کے رہن کی مارکیٹ___ ڈوبنے پر اس لیے تلی ہوئی ہے کہ افراد اور کمپنیاں کئی ٹریلین ڈالر کے قرض سے ذاتی یا کاروباری مقاصد کے لیے خریدے ہوے مکانوں‘ عمارتوں اور زمینوں کی قیمتوں کی ماہوار اقساط ادا کرنے سے عاجز ہوچکی ہے۔ ہے نا یہ ایک حیران کن اور محیر عقل بات!
یہ بات عام آدمیوں کی عقل سے باہر ہے کہ امریکا جیسے ملک کے شہریوں اور کمپنیوں کے پاس اتنا نقد پیسہ (liquid money) نہ ہو کہ وہ ان چھوٹی سی ماہوار اقساط کو ادا کرنے سے عاجز آجائیں جو اس رقم کا بہت ہی چھوٹا حصہ ہے جو ان کو ۱۵‘ ۲۰‘ ۲۵ برس پر ادا کی جانے والی قسطوں کی شکل میں ادا کرنا ہے؟ کیا یہ عام امریکی شہری آبادی‘ اس کی کئی کئی بلین ڈالر کی قیمت کی کمپنیوں اور پوری امریکی معیشت اور امریکی قوم کی افلاس کی علامت بلکہ اعلان نہیں ہے؟
اگر ایسا ہے‘ اور ایسا ہی حقیقت میں ہے تو اس کی تفصیل جاننے کی ضرورت ہے۔
بالفاظ دیگر امریکی فرد اور کمپنیوں اور امریکی معاشرے کا معیارِ زندگی نائن الیون سے لے کر آج تک ۱۰۰ فی صد گرچکا ہے۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ امریکی فرد/کمپنی کی آمدنی ۱۰۰فی صد گھٹ چکی ہے۔ اسے اس طرح بھی ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ ڈالر کی قوتِ خرید یورو کے مقابلے میں ۱۰۰ فی صد گھٹ چکی ہے۔
اب آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ شخص جس نے اب سے سات سال پہلے اپنی آمدنی کو ۱۵۰۰ ڈالر ماہانہ فرض کر کے ۳۰۰ یا ۴۰۰ ڈالر ماہانہ قسط بھرنے کی منصوبہ بندی کی تھی‘ اب کس طرح یہ ۳۰۰ یا ۴۰۰ ڈالر ماہانہ بچا کر اپنی ماہوار قسط ادا کرسکتا ہے‘ جب کہ اس کی حقیقی آمدنی (real income )صرف ۷۵۰ ڈالر رہ گئی ہے؟ اگر وہ یہ قسط ادا کردے تو کیا کھائے پیے گا اور زندگی کے دوسرے اخراجات سے کیوں کر نمٹے گا؟اس لیے وہ قسط/قسطیں ادا کرنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ کلیتاً عاجز ہوچکا ہے۔
اس میدان میں سرگرم کمپنیوں کی طرف آیئے۔ انھوں نے شان دار مکانات اور عمارتیں کھڑی کرلی ہیں اور ماہانہ کرایے بھی مقرر کر لیے ہیں مگر کرایہ دار ۳۰‘ ۴۰ فی صد سے زیادہ نہیں آئے‘ یا جو آئے وہ کرایے ادا کرنے سے عاجز ہوچکے ہیں۔ اس لیے وہ بھی اپنی اپنی ماہانہ قسطیں اداکرنے سے مکمل طور پر ہاتھ اٹھا چکی ہیں۔
بالفاظ دیگر یہ گھر گھر اور فردفرد کی کہانی اور آپ بیتی ہے۔ یہ پوری امریکی معیشت کی خوف ناک دلدل اور دماغوں کو پھاڑنے والی تصویر ہے۔ اس وجہ سے یہ تباہ کن طوفان ٹارنیڈو کی رفتار سے بھی زیادہ تیزرفتاری سے بلکہ برق رفتاری سے___ ساری دنیا میں پھیل گیا اور آئی ایم ایف کی مداخلت بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے۔
مجھے تو یہ صورت حال سابق سوویت یونین کے آخری مہینوں ___ بلکہ آخری دنوں کی یاد دلا رہی ہے۔ جب وہ اسی افغانستان میں آٹھ سال لڑتے لڑتے‘ جب کہ وہ پڑوس تھا اور اس کی سرحدیں ملی ہوئی تھیں‘ مالی حیثیت سے نڈھال ہوکر گر پڑا۔ امریکا نے دو جگہ ___ امریکا سے بہت دُور ___ دو محاذ (افغانی و عراقی محاذ) اور دوسرا اندرونی اور عالمی محاذ کھول کر اپنی معیشت کی جڑیں کھود ڈالیں۔ اگر وہ آئی ایم ایف کے ذریعے دنیا کے سارے بازاروں میں ہر روز بلکہ ہر گھنٹہ ڈالر انجکٹ کرتا رہے گا تووہ اب ایسی مشک میں پانی بھررہاہے جس میں تین بلکہ چار پانچ بڑے بڑے ایسے سوراخ ہیں جوبھرے جانے والے پانی کو مسلسل خارج کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ سوراخ‘ افغانستان‘ عراق‘ اندرونی وبیرونی نظر نہ آنے والے دہشت گرد بھوت کے خلاف جنگ اور دیگر چھوٹی بڑی جنگیں‘ بند نہ ہوںگے‘ یہ ایک سعی لاحاصل ہے اوراس کا انجام پہلے ہی سے معلوم ہے۔ رہے نام اللہ کا!
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ o وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِo (رحمٰن ۵۵:۲۶-۲۷) روے زمین پر جو کوئی اور جو کچھ ہے وہ فنا ہوکر رہے گا اور باقی تو صرف تمھارے ُپرجلال و ُپراکرام رب کا چہرہ رہے گا۔
اسلام کی دعوت جب عرب میں پیش کی گئی تھی‘ اس وقت اس کی مخاطب آبادی تقریباً ۱۰۰فی صد اَن پڑھ تھی۔ قریش جیسے ترقی یافتہ قبیلے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف ۱۷ افراد پڑھے لکھے تھے۔ مدینے میں اس سے بھی کم لوگ تعلیم یافتہ تھے اور باقی عرب کی حالت کا اندازہ آپ ان دو بڑے شہروں کی حالت سے کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اس ملک میں لکھ کر نہیں پھیلایا گیا تھا بلکہ وہ لوگوں کو زبانی سنایا جاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ اس کو سن کر ہی یاد کرتے تھے اور پھر زبانی ہی اسے دوسروں کو سناتے تھے۔ اسی ذریعے سے پورا عرب اسلام سے روشناس ہوا۔ پس درحقیقت لوگوں کا اَن پڑھ ہونا کوئی ایسی دشواری نہیں ہے جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ نہ ہوسکتی ہو۔
آغازِ اسلام میں اس دین کی تبلیغ اَن پڑھ لوگوں ہی میں کی گئی تھی اور یہ محض تبلیغ و تلقین ہی تھی جس سے ان کو اس قدر بدل دیا گیا۔ ایسا زبردست انقلاب ان کے اندر برپا کردیا گیا کہ وہ دنیا کے مصلح بن کر کھڑے ہوگئے۔ اب آپ کیوں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ۸۰ فی صد اَن پڑھ آبادی میں اسلام کی دعوت نہیں پھیلائی جاسکتی؟ آپ کے اندر ۲۰فی صد تو پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ وہ پڑھ کر اسلام کو سمجھیں ‘ اور پھر باقی ۸۰ فی صد لوگوں کو زبانی تبلیغ و تلقین سے دین سمجھائیں۔ پہلے کی بہ نسبت اب یہ کام زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ البتہ فرق جو کچھ ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس وقت جو شخص بھی اسلام کی تعلیمات کو سن کر ایمان لاتا تھا وہ ایمان لاکر بیٹھ نہیں جاتا تھا بلکہ آگے دوسرے بندگانِ خدا تک ان تعلیمات کو پہنچانا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ اس کی تمام حیثیتوں پر مبلغ ہونے کی حیثیت غالب آجاتی تھی۔ وہ ہمہ تن ایک تبلیغ بن جاتا تھا۔ جہاں جس حالت میں بھی اسے دوسرے لوگوں سے سابقہ پیش آتا تھا‘ وہ ان کے سامنے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ وہ ہر وقت اس تلاش میں لگا رہتا تھا کہ کس طرح اللہ کے بندوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں لائے۔ جتنا قرآن بھی اسے یاد ہوتا وہ اسے لوگوں کو سناتا‘ اور اسلام کی تعلیمات جتنی کچھ بھی اسے معلوم ہوتیں ان سے وہ لوگوں کو آگاہ کرتا تھا۔ وہ انھیں بتاتا تھا کہ صحیح عقائد کیا ہیں جو اسلام سکھاتا ہے اور باطل عقیدے اور خیالات کون سے ہیں جن کی اسلام تردید کرتا ہے۔ اچھے اعمال اور اخلاق کیا ہیں جن کی اسلام دعوت دیتا ہے‘ اور برائیاں کیا ہیں جن کو وہ مٹانا چاہتا ہے۔ یہ سب باتیں جس طرح پہلے سنائی اور سمجھائی جاتی تھیں اسی طرح آج بھی سنائی اور سمجھائی جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے نہ سنانے والے کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے نہ سننے والے کا۔ یہ ہروقت بیان کی جاسکتی ہیں اور ہرشخص کی سمجھ میں آسکتی ہیں۔
اسلام نے کوئی ایسی نرالی چیز پیش ہی نہیں کی ہے جس سے انسانی طبائع مانوس نہ ہوں اور جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بڑے فلسفے بگھارنے کی ضرورت ہو۔ یہ تو دین فطرت ہے۔ انسان اس سے بالطبع مانوس ہے۔ اسے پڑھے لکھے لوگوں کی بہ نسبت اَن پڑھ لوگ زیادہ آسانی سے قبول کرسکتے ہیں‘ کیونکہ وہ فطرت سے قریب تر ہوتے ہیں‘ اور ان کے دماغ میں وہ پیچ نہیں ہوتے جو جاہلیت کی تعلیم نے ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کے دماغوں میں ڈال دیے ہیں۔
لہٰذا آپ اَن پڑھ آبادی کی کثرت سے ہرگز نہ گھبرائیں۔ ان کی ناخواندگی اصل رکاوٹ نہیں ہے‘ بلکہ آپ کے اندر جذبہ تبلیغ کی کمی اصل رکاوٹ ہے۔ ابتداے اسلام کے مسلمانوں کی طرح ہمہ تن مبلغ بن جایئے اور تبلیغ کی وہ لگن اپنے اندر پیدا کرلیجیے جو ان کے اندر تھی۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اسلام کی دعوت پھیلانے کے بے شمار مواقع آپ کے منتظر ہیں جن سے آپ نے آج تک اس لیے فائدہ نہیں اٹھایا کہ آپ اپنے ملک کی آبادی میں ۱۰۰ فی صد خواندگی پھیل جانے کے منتظر رہے۔ (ترجمان القرآن‘ جلد ۸۳‘ عدد ۳‘ مئی ۱۹۷۵ء‘ ص۱۳۶-۱۳۷)
کسی بھی زبان اور لہجے کی خوب صورتی اُس کے حُسنِ ادایگی سے ہوتی ہے۔ ہرزبان کا ایک الگ انداز ہوتا ہے اور اگر وہ زبان اُس لہجے اور انداز میں نہ بولی جائے تواُس زبان کی لذّت کو محسوس نہیں کیاجاسکتا۔بعض اوقات تو انداز ولہجے کی تبدیلی سے معنی بدل جاتے ہیں۔یہی بلکہ اِس سے بھی زیادہ عجیب صورتِ حال عربی زبان کی ہے اور خاص طور پر قرآن کامعاملہ توبالکل مختلف ہے۔ عربی زبان کی ادایگی میںزبر‘زیر‘پیش کالحاظ رکھنابہت ضروری ہے اور اسی طرح حروف کی صحیح ادایگی بھی بہت ضروری ہے۔رسولؐ اللہ کاطریقہ تھاکہ جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپؐ نازل شدہ آیات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یاد کرادیتے تھے۔
روایات میں آیاہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کوقرآن مجید پڑھ کے سناتے تھے۔
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے حضرت ابی بن کعبؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں تمھیں قرآن مجید پڑھ کر سنائوں۔انھوںنے عرض کیاکہ کیااللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر فرمایاہے؟۔آپؐ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے تیرانام لے کرمجھے فرمایا ہے۔راوی نے کہاکہ حضرت اُبیؓ یہ سن کر(مارے خوشی کے)رونے لگے۔(متفق علیہ)
حضرت اُبی بن کعبؓ کے بارے میں حضوؐرنے فرمایا: صحابہؓ میں سب سے بڑے قاری اُبی بن کعبؓ ہیں۔(ترمذی‘ ابن ماجہ)
حضوؐر صحابہؓ کو نصیحت فرماتے تھے کہ ’جو شخص چاہتاہے کہ قرآن اُس طرح پڑھے کہ جس طرح نازل ہواہے تواُسے چاہیے کہ وہ ’ابن امّ عبد‘(عبداللہ ابن مسعودؓ)کی طرح پڑھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ قرآن چار شخصیتوں سے سیکھو: ۱-عبداللہ ابن مسعودؓ ۲-سالمؓ (مولیٰ ابوحذیفہؓ)۳-ابی بن کعبؓ ۴-معاذبن جبلؓ (متفق علیہ)
تجوید لغوی معنوں میں’تحسین الشّئی‘یعنی کسی چیز کی خوب صورتی یا عمدگی کوکہتے ہیں‘ اور جب یہ لفظ قرآن مجیدکی تلاوت کے لیے بولاجائے تو اس کامطلب ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حسن کے مطابق کی جائے۔ہم اردو زبان میں اس جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں‘ مثلاًجیّد، تجدید کرناوغیرہ ۔اِن تمام الفاظ کامطلب نیاکرنا،بہترکرنااورعمدہ کرنا ہوتا ہے۔ اِسی لیے حضوؐرنے فرمایاکہ زَیِّنُوا القرُآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ ، ’’اچھی آوازوں سے قرآن کو زینت دو‘‘۔ بخاری‘ نسائی‘ابن ماجہ‘ دارمی اور بیہقی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ دارمی کی ایک روایت میں زَیِّنُواکی جگہ حَسِّنُوا کالفظ آیاہے۔
قرآن مجیدکا یہ اعجاز ہے کہ جب انسان اِسے خوب صورت لہجے میں پڑھتا یاسنتاہے تو اس پر عجیب ساسحر طاری ہوجاتاہے ا ور اِس سلسلے کوموقوف کرنے کوجی نہیں چاہتا۔قرآن مجید کو ٹھیرٹھیر کر پڑھنا ضروری ہے۔ اِس لیے کہ جلدی پڑھنے میں اکثر انسان سے خطا ہوجاتی ہے۔ اِسی لیے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً (المزمل ۷۳:۴)’’قرآن ٹھیرٹھیر کے پڑھو‘‘۔ٹھیرٹھیر کر پڑھنے کافائدہ یہ ہوتاہے کہ جب تجوید کے قواعد کے مطابق انسان تلاوت کرتا ہے تو تلاوت کے دوران اُس کے معانی ومفاہیم بھی ذہن نشین کرتاہے ۔تجوید کے قواعد بالخصوص ’غنّہ‘ اور’مد‘توادا ہی ترتیل سے تلاوت کرنے میں ہوں گے۔ اگر جلدی جلدی پڑھیں گے تویہ دوصفات قرآن مجید کی تلاوت سے خارج ہوجا ئیں گی اور اِس وجہ سے تلاوتِ قرآن کاحُسن باقی نہیں رہے گا۔
مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کاکرم ہے کہ جہاں اُس نے الفاظ کی حفاظت فرمائی اور آج تک تمام الفاظ من وعن اُسی طرح موجود ہیں کہ جس طرح نازل ہوئے‘ اِسی طرح اس نے الفاظِ قرآن کے لہجوں کوبھی محفوظ فرمایا۔ اِس سلسلے میں علماے اُمّت کی قابل قدر کاوشیںہیں۔ اِس لیے اہل عرب کو بالعموم اورغیراہل عرب کو بالخصوص قرآنی رسم الخط اور تجوید کاعلم حاصل کرنابہت ضروری ہے۔ اِس لیے کہ اگر طریقہ قرأت معلوم نہ ہو توجہاں وقف نہیں کرنا‘وہاں وقف کریں گے اور جہاں رُکناہے‘ وہاں پڑھتے چلے جائیں گے اور نتیجہ یہ نکلے گاکہ قرآن کامطلب وہ نہیں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی مراد ہے ،مثلاًاردو میں ہم کہتے ہیں کہ ’اُٹھو،مت بیٹھو‘۔ اِس جملے میںاُٹھنے کاحکم دیاگیاہے اور بیٹھنے سے منع کیاگیاہے۔ اگر کوئی اِس طرح پڑھے کہ جہاں وقف کرناہے وہاں وقف نہ کرے تومعنیٰ برعکس ہوجائے گا کہ’ ’اُٹھو مت، بیٹھو‘، اِس جملے میں بیٹھنے کاحکم ہے اورکھڑے ہونے سے منع کیاگیاہے ۔اِسی طرح قرآن مجید کی تلاوت میں بھی وقوف کاخیال رکھنانہایت ضروری ہے۔
یہ علم ہمیں اِس بات کی تعلیم دیتاہے کہ حروف کو صحیح طریقے سے ان کے مقررہ مخارج سے ادا کیا جائے۔ اِس کافائدہ یہ ہوگاکہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حُسن کے مطابق ہوگی اور معانی و مفاہیم پر بھی کوئی اثرنہیں پڑے گا۔حضوؐرنے فرمایاکہ ’’قرآن اُسی طرح پڑھو جس طرح تمھیں سکھایا گیا ہے، یعنی قرآن مجیدصحیح طریقے سے پڑھوکیونکہ تمھیں صحیح قرأت کی تعلیم دی گئی ہے۔صحیح قرأت سے مراد قرآن مجید کوتجوید سے پڑھناہے کیونکہ قرآن اِسی طرح نازل ہوا ہے۔ اِس حدیث میں حضوؐراُمّت کو نصیحت فرما رہے ہیں کہ قرآن مجیدصحیح طریقے سے پڑھو اور سب سے صحیح اندازتووہی ہے جسے حضوؐرنے بیان فرمایا ہے۔
حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضوؐرنے فرمایا:قرآن عرب کے لہجوں اورآوازوں میں پڑھو اور اپنے آپ کوعشقیہ نغموں اور اہل کتاب کے طریقوں سے بچاؤ۔ میرے بعد ایک قوم آئے گی جو قرآن کوبنابناکرپڑھے گی(یعنی نغموںکے انداز میں)اور گاگاکر جس طرح راگ اور نوحے گائے جاتے ہیں‘ اور حالت یہ ہو گی کہ قرآن اُن کے حلق سے نہ اُترے گا(یعنی دل پر کوئی اثرنہ کرے گایاوہ قبول نہیں کیاجائے گا)۔ اِن لوگوں کے دل فتنے میں پڑے ہوں گے اور اِن لوگوں کے دل بھی جن کویہ گاگاکرپڑھنااچھامعلوم ہوگا‘‘۔ (بیہقی، فی شعب الایمان)
اِس حدیث کامدَّعابھی یہی ہے کہ غیرعرب مسلمانوں کے لیے سب سے بہترطریقۂ تعلیم یہی ہے کہ وہ اہلِ عرب کی پیروی کریں اوراُس لہجے کی ادایگی اور طریقۂ تعلیم پرنگاہ رکھتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت کریں۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خودقرآن مجید اُنھی کے درمیان نازل ہوا، اِس لیے اہلِ زبان ہونے کی وجہ سے قرآنِ مجید کی تلاوت ان سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔
اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ (البقرۃ ۲:۱۲۱ )’’وہ لوگ کہ جن کو ہم نے قرآن عطا کیاہے وہ اِس کی تلاوت کرتے ہیں کہ جیسے تلاوت کرنے کاحق ہے‘‘۔ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کافرمان ہے کہ ’’تجوید حرفوں کا(اُن کے مخرج سے )اداکرنا اور وقوف پرنگاہ رکھناہے‘‘۔حضرت علی ؓ نے اِس قول میں دواُمورکی طرف توجہ دلائی کہ حروف کومخارج سے اداکریں کیونکہ اگر حروف مخارج سے ادانہیں ہوں گے توحروف ہی بدل جائیں گے‘ اوردوسری بات یہ کہ وقوف پر نگاہ رکھنے کامطلب یہ ہے کہ جہاں رکناہے وہاں رکیں‘ کیونکہ جہاں بات ختم ہورہی ہوتی ہے وہاں وقف کرناضروری ہوتا ہے۔
یہ بات بھی حق تلاوت میں شامل ہے کہ قرآن پاک پر عمل کیا جائے۔ جو لوگ قرآن پاک کو خوش الحانی اور تجوید کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے وہ اس کی آیات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
چند مثالوں کے ذریعے ہم یہ بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر حروف مخارج سے ادا نہ ہوں توکس قسم کی شدید غلطیاں ہم سے سرزدہوسکتی ہیں۔(معاذاللّٰہ من ذٰلک)
مذکورہ بالاتمام مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید کو تجوید کے مطابق پڑھنا نہایت ضروری ہے ۔اِ س لیے جہاں ہم دنیاکے دیگر علوم حاصل کرتے ہیںاور اُس میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘اگرہم تھوڑاسابھی وقت قرآن کودیں توقرآن ہماری زندگیاں بدل دے گا۔
اُستاد المجوّیّدین علّامہ جزریؒ علم تجوید کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں اور اُن کی کتاب مقدّمۃ الجزری علم تجوید کے حوالے سے مستند کتاب ہے۔حضرت علّامہ فرماتے ہیں کہ: علم تجوید کا حاصل کرناواجب اور ضروری ہے۔ جوشخص قرآن تجوید کے قواعد کے مطابق نہ پڑھے وہ گناہ گار ہوگا۔ اِس لیے کہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے تجوید کے ساتھ نازل کیاہے۔ اور اِسی شان سے اللہ تعالیٰ نے ہم تک پہنچایاہے۔
رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ: بے شک اللہ تعالیٰ یہ بات پسند فرماتے ہیں کہ قرآن اس طرح پڑھاجائے کہ جس طرح وہ نازل ہوا تھا۔ (رواہ ابن خزیمۃ فی الصّحیح)
اِس حدیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس شخص کی تلاوت کوناپسند فرماتے ہیںکہ جو غلط طریقے سے قرآن مجید کی تلاوت کرے اور حروف کے مخارج کاخیال نہ رکھے ۔قرآن اچھی آوازوں، بہترین ادایگی اور عمدہ قرأت کے ساتھ نازل ہواہے۔اِس لیے اُمّت کوبھی یہی حکم دیاکہ جس طرح قرآن مجیدنازل ہواہے اُسی طرح پڑھو۔رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ: وہ ہم میں سے نہیں ہے جوقرآن کو اچھی آوازوں سے نہ پڑھے۔ اِس حدیث کو امام بخاری ؒ،امام ابوداؤدؒ،امام دارمیؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام بیہقیؒ نے اپنی کتب احادیث میں نقل کیاہے۔ اِسی عنوان کی ایک اور حدیث ابن ماجہؒ نے اپنی سنن میں نقل کی ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن وقاصؓ ہمارے ہاں تشریف لائے ، اُن کی بینائی ختم ہوچکی تھی‘میں نے اُن کوسلام کیا۔فرمایا:کون؟میں نے بتایا‘ توفرمایا: مرحبا بھتیجے! مجھے معلوم ہوا کہ تم خوش الحانی سے قرآن پڑھتے ہو۔ میں نے رسولؐ اللہ کویہ فرماتے سناہے کہ یہ قرآن آخرت کی فکرلے کراُتراہے۔ اِس لیے جب تم تلاوت کروتو(فکرِآخرت سے)رُؤو، اگر رونا نہ آئے تورونے کی کوشش کرواور قرآن کوخوش الحانی سے پڑھو۔ جو قرآن کوخوش الحانی سے نہ پڑھے (یعنی قواعدِتجوید کی رُوسے غلط پڑھے )تووہ ہم میں سے نہیں‘‘۔(سنن ابن ماجہ،باب فی حسن الصّوت بالقرآن، باب نمبر۱۷۶)
اِن دونوں احادیث میں ایک طرح سے سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ اچھی آوازوں سے قرآن مجید پڑھا کرو۔ اِن احادیث کایہ مطلب نہیں کہ ہرشخص کسی بڑے قاری کی طرح خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھے یایہ کہ صرف حسین آوازوں والے ہی تلاوت کریں اور جس کی آوازاچھی نہیں وہ تلاوت ہی نہ کرے‘بلکہ مراد یہ ہے کہ اچھی آوازوں والے توخوب صورتی سے تلاوت کریں گے ہی لیکن سادہ آواز والے بھی مشق اُسی نہج پر کریں تاکہ اُن کا انداز بہتر ہوسکے ۔ حقیقت تویہ ہے کہ اگر سادہ آواز میں صاف شفاف اندازسے تلاوت کی جارہی ہو توسننے میں بہت لطف آتاہے۔ خوش الحانی تو اللہ تعالیٰ کی دین ہے لیکن اچھی طرح اورصاف لہجے میں توہر فردپڑھ سکتا ہے ۔بس یہی مراد ہے کہ قرآن مجید بہتر انداز سے پڑھاجائے۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ (غلط پڑھنے کی وجہ سے)قرآن اُن پر لعنت بھیجتاہے‘‘۔(بیہقی)
بہت سے لوگ خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھنے کی کوشش میں تلاوت کی صحت کاخیال نہیں رکھتے اورحروف کے مخارج وصفات کوبھی مدّنظر نہیں رکھتے۔ اِسی وجہ سے قرآن مجیدکی تلاوت وہ نہیں ہوتی جوقرآن مجیدمیں لکھی ہوئی ہے،بلکہ وہ عجیب وغریب چیزبن جاتی ہے ۔مخارج کاخیال رکھنا انتہائی ضروری ہے ورنہ حروف بدل جائیں گے اور خاص طور پر مشابہت والے حروف کاخیال رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ’ض‘کی جگہ ’ظ‘ادا ہورہاہو اور ’ص‘کی جگہ ’س‘پڑھا جارہا ہو۔اگر کوئی اپنی اصلاح نہیں کرے گاتووہ صحیح تلاوت کبھی نہیں سیکھ سکتا اورہمیشہ غلط طریقے سے قرآن مجید کی تلاوت کرتارہے گا۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایاکہ قرآن لعنت کرتا ہے اُن پرجوقرآن مجید غلط طریقے سے پڑھتے ہوں۔ اسی طرح تجوید اور صحت کے ساتھ پڑھنے والا اس پر عمل نہ کرے تو اس پر بھی قرآن پاک لعنت کرتاہے۔
علمِ تجوید کابنیادی موضوع قرآن مجید کے الفاظ وحروف ہیں‘ تلفّظ اورادایگی میں عمدگی اور بہتری کے اعتبار سے۔اگرچہ یہی حروف توعربی گرامر کابھی موضوع ہیں لیکن وہ بناوٹ کے اعتبار سے ہیں کہ یہ لفظ کس طرح بنااور کس طرح بنے گااوراِس میں کون سا قاعدہ جاری ہوگا۔ علم تجوید حروف کی ادایگی اور صحیح تلفّظ کے بارے میں معلومات فراہم کرتاہے کہ یہ حرف اداکس طرح ہوگااور یہ کہ مشابہت والے حروف میںفرق وامتیاز کس طرح کیاجائے گا۔قرآن مجیدکو آہستہ آہستہ اور حروف والفاظ پرغور کرتے ہوئے ٹھیرٹھیر کے پڑھنے میں کتنااَجر ہے‘ اِس کااندازہ اِس حدیث سے لگایاجاسکتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن پڑھنے والے مسلمان سے قیامت کے دن کہاجائے گا: پڑھتاجا (منازلِ جنت) چڑھتا جا۔ اوردنیامیں جس طرح ترتیل سے (ٹھیرٹھیرکر)پڑھتاتھااب بھی اُسی انداز میں پڑھ (تاکہ زیادہ منزلیںطے کرسکے)کیونکہ جنّت میں تیری آخری منزل وہی ہوگی جہاں تو آخری آیت ختم کرے گا‘‘۔ اِس حدیث کو امام ترمذی ؒ،امام ابوداؤدؒ،امام بیہقی ؒ نے اپنی کتب احادیث میں نقل کیاہے۔
اِس حدیثِ مذکور پر غور کیاجائے تومعلوم ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدکوتجوید سے پڑھنے والے کے لیے کتناعظیم الشّان اَجررکھاہے۔اِس حدیث میں درحقیقت اللہ تعالیٰ مومنوں کو حکم فرمارہے ہیں کہ قرآن مجید تجوید سے پڑھو ۔ تجوید سے قرآن مجید پڑھنے سے جہاں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور جہاں قرآن مجید کی تلاوت کاحق اداہوتاہے‘ وہاںخود قاری ِ قرآن کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں اور جنّت میں بلند درجوں کے اہل لوگوں میںاس کا شمار ہوتاہے۔ یہ قرآن کااعزاز ہے کہ اِ س کے پڑھنے والوں کواللہ تعالیٰ اتناعظیم الشّان اَجر عطا فرمائیں گے۔
خود حضوؐرکو اللہ تعالیٰ نے ترتیل سے قرآن مجید پڑھنے کاحکم دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَقُراٰناً فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ(بنیٓ اسرائیل۱۷:۱۰۶) ’’اور اِس قرآن کوہم نے تھوڑاتھوڑا کرکے نازل کیاہے تاکہ تم ٹھیرٹھیرکراِسے لوگوں کوسناؤ‘‘۔ ’مکث‘ٹھیرنے کے معنیٰ میں استعمال ہوتاہے۔اِس کامقصد بھی وہی ہے جو ترتیل کاہے کہ قرآن مجید آہستہ پڑھنے سے مراد غور وفکر سے تلاوت کرنا ہے۔اگرترتیل سے قرآن مجیدنہیں پڑھیں گے توبجاے ثواب کے گناہ لازم آئے گا۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ہرچیزکاایک زیورہے اور قرآن کازیور خوش الحانی ہے‘‘۔
یہاں زیور سے مراد ’حسن‘ہے اورحقیقت یہ ہے کہ قرآن کاحسن قرآن کوحسین آوازوں سے پڑھناہے ۔اِسی لیے تو حضوؐرنے فرمایا:’’خوب صورت آوازوں سے قرآن کوحُسن دو کیونکہ خوش الحانی سے قرآن کاحُسن دوبالاہوجاتاہے‘‘۔(دارمی)
قرآن مجیدکو اچھی طرح اورصاف صاف پڑھناچاہیے اورگنگنی آوازوں یاالفاظ کو بہت زیادہ کھینچنے سے اجتناب کرناچاہیے۔یہ قرآن کامعجزہ ہے کہ صرف قرأتِ قرآن مجید ہی بہت اثر رکھتی ہے اور سننے والا بے خود ہوکے سنتاہی چلاجاتاہے۔اورجب اِسے توجہ سے سناجائے تویہ دل پر اَثر انداز ہوتاہے اور دل کو انتہائی سکون واطمینان نصیب ہوتاہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ؐخوش الحانی کوبہت پسند فرماتے تھے اور خوش الحان قاریوں کی تلاوت فرمایش کرکے سنتے تھے۔حضوؐرکوخوش الحانی کتنی پسند تھی‘ اِس کااندازہ اِن احادیث سے لگایاجاسکتاہے:
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے اِن سے فرمایا:’’تجھے اٰل داؤدکے لحن سے خوش الحانی کاایک حصہ عطا ہواہے‘‘(متفق علیہ)۔ مسلم کی روایت میںیہ بھی ہے کہ رسولؐ اللہ نے اُن سے فرمایا:’’اگر تم مجھے گذشتہ رات دیکھتے جب میں تمھاراقرآن سن رہاتھا(تو بہت خوش ہوتے)‘‘۔ (مسلم)
روایات میں آتاہے کہ نبی مہربانؐصحابہؓ سے حسن الصّوت سے تلاوت سماعت فرماتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے اِن سے فرمایاکہ ’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے تعجب سے عرض کیا:یارسولؐ اللہ !میں‘ اور آپؐ کوقرآن سناؤں؟آپؐ پر توقرآن نازل ہوا ہے۔آپ ؐ نے فرمایا:’’مجھے دوسروں سے سننا اچھا لگتاہے‘‘۔ چنانچہ میں نے سورۂ نساء آپؐ کو سنائی اورجب میں اس آیتفَکَیْفَ اِذَاجِئْنَامِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ …الخ پرپہنچا توآپ ؐ نے فرمایا: بس کافی ہے ۔تب میں نے آپؐ کی طرف دیکھاتوآپؐ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے موتی گر رہے تھے۔(متفق علیہ)
حضوؐرخودبھی نہایت خوش الحانی سے تلاوت فرماتے تھے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کویہ فرماتے سناہے کہ’’اللہ تعالیٰ کسی آواز کی طرف اتنا متوجہ نہیں ہوتا جتنانبیؐ کی خوش الحانی اور بلند آواز سے قرآن پڑھنے پر متوجہ ہوتاہے‘‘۔ (متفق علیہ)
حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ’ ’میں نے رسولؐ اللہ کو عشاء کی نماز میںوالتِّیْن پڑھتے سنا (تو اُس وقت کی کیفیت بتانہیں سکتا)۔حقیقت یہ ہے کہ میں نے تو ایسی خوش الحانی کبھی نہیں سنی تھی‘‘۔(بخاری،باب قول النّبیؐ)
اِن احادیث کا مقصد یہ ہے کہ حضوؐر کواچھی آوازوں میں تلاوت سننابہت پسند تھااورآپؐ خود بھی انتہائی خوب صورت آوازمیں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔ اس لیے قرآن مجید کواچھی آواز اور اچھی ادایگی سے پڑھنا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی اوررضاکاباعث بھی ہوگی اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت بھی ہوگی۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’قرآن کوٹھیر ٹھیر کرصاف صاف پڑھو اوراِس کے غرائب پرعمل کرو۔ غرائب سے مراد اوامر اور نواہی ہیں‘‘(مشکٰوۃ، باب فضائل القراٰن،فصل الثالث بحوالہ بیہقی)۔ غرائب‘ یعنی حلال وحرام پرنظررکھو،قرآن نے جن چیزوں کو حلال کیاہے اُنھیں حلال جانو اورجن چیزوں کوحرام کیاہے اُ ن کوحرام سمجھتے ہوئے بچو۔اِس حدیث میں دواحکام دیے گئے ہیں: پہلا حکم قرآن مجید کو تجوید سے پڑھنے کااوردوسراحکم قرآن حکیم کو تفسیر سے پڑھنے کادیاہے۔
تجوید القرآن کے حوالے سے تقریباً۱۰۰سے زائداحادیث وارد ہیں۔ یہاں صرف تذکیر کے لیے چند بطورمثال پیش کی گئی ہیں۔
دیگر علوم کی طرح تجویدوقرأت کے بھی کچھ اُصول ہیں‘ اگرتلاوت میں اِن اُصولوں کو پیش نظر رکھاجائے توتلاوت مزیدبہترہوجائے گی:
۱-قرآن کریم کواس کی اصل زبان عربی میں پڑھناچاہیے‘ یعنی مجہول تلاوت سے اجتناب کرناچاہیے۔مجہول تلاوت کی مثال:بسم اللہ کو بَیْسْمِ اللّٰہ پڑھنا۔
۲-حرکات کواتنانہ کھینچناکہ وہ حروف بن جائیں ،کیونکہ زبرآدھاالف،زیرآدھی یا[ی] اور پیش آدھا واو ہوتاہے۔
۳- پُرحروف (موٹی ادایگی والے)کو پُر اور باریک ادایگی والے حروف کو باریک پڑھنا۔ ایسانہ کرنے سے بعض حالات میں حروف بدل جاتے ہیںیاپھرتلاوت کی خوب صورتی ختم ہوجاتی ہے۔
۴-حروف کواُن کے مخارج سے ان کی صفات کے ساتھ اداکرنا۔
۵-عیوبِ تلاوت سے احتراز کرنا۔ عیوبِ تلاوت سے مرادایسے طرزسے تلاوت کرنا جو مکروہ یاحرام ہو‘ مثلاً:گانے کے طریقے پرپڑھنا،کلمے کے بیچ میں وقف کرنااوربجاے پیچھے سے ملاکے پڑھنے کے آگے سے پڑھناشروع کردینا،مخفف کومشدّداورمشدّدکومخفف پڑھناوغیرہ وغیرہ۔
یہ علم ہمیں اِس بات کی تعلیم دیتاہے کہ حروف صحیح طریقے سے ‘مقررہ مخارج سے اداکیے جائیں۔اِس کافائدہ یہ ہوگاکہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حُسن کے مطابق ہوگی اور معانی ومفاہیم پر بھی کوئی اثرنہیں پڑے گا۔اِس کادوسرافائدہ یہ ہوگاکہ انسان تلاوتِ قرآن مجید کے دوران ہرقسم کی غلطیوں سے محفوظ رہے گا۔ اِس کاتیسرا اور بڑافائدہ یہ ہوگا کہ اِس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی۔بہت سے لوگ تلاوت اِس زعم سے کرتے ہیں کہ وہ بہت اعلیٰ تلاوت کر رہے ہیں اور اُنھیں کسی کے پاس جاکرسیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ بات بالکل غلط ہے۔اکثر مشاہدے میں آیاہے کہ جولوگ بزعم خود یہ سمجھتے تھے کہ وہ صحیح تلاوت کررہے ہیں‘ کافی اصلاح کے طالب تھے ۔لہٰذاآج ہی اللہ تعالیٰ سے عہدکریں کہ روزانہ ایک رکوع یاآخری پارے کی آخری سورتوں میںسے ایک سورت تجوید کے قواعد کے مطابق پڑھیں گے۔
اس تحریر کا واحدمقصد یہ ہے کہ مسلمان صحیح طریقے سے تلاوت کریں ۔آج کل تو یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ ہرمحلّے میں قرآن کے قاری موجودہیں ،تجوید کے موضوع وقواعدپر لاتعداد کتابیں موجود ہیںاور اب تو تجوید کے قواعد سی ڈیز پر بھی دستیاب ہیں ۔لہٰذا صرف محنت کی ضرورت ہے اور انسان جب ہمت کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے نیک ارادوں میں برکت عطا فرماتے ہیں۔یہاں تومعاملہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے بندوں کے درمیان ہے‘ تواندازہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کتنی رحمت فرمائیں گے اُس پر جو اُس کاکلام صحیح پڑھنے کی کوشش کرے گا۔تجوید کے مطابق قرآن مجید پڑھنے کاآسان طریقہ یہ ہے کہ روزانہ ایک مخرج کی مشق کریں اور جب تک اُس میں کمال حاصل نہ کرلیں دوسرے مخرج کو شروع نہ کریں۔ جب پہلامخرج ذہن نشین ہوجائے اور اجرا صحیح ہورہاہو تو دوسرامخرج شروع کریں اور مخارج کے بعدتلاوت کی صفات پرغور کریں اور اِس طرح تمام قواعد کو تلاوت کے دوران جاری کریں۔ آپ محسوس کریں گے کہ جلد ہی آپ بہترین انداز میں تلاوت کرسکیں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں تجوید سے قرآن مجید پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور قرآن کو پڑھنے ،سمجھنے ،عمل کرنے اور دوسروں تک اِس کی تعلیم پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
اللہ تعالیٰ کی سخاوت کائنات کی نعمتوں کی شکل میں ہمارے مشاہدے میں ہے۔ موافق‘ مخالف سب کو نوازتے ہیں‘ لیکن اس کی سب سے بڑی سخاوت قرآن پاک اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے کہ اس کے ذریعے دنیا و آخرت بن جاتی ہے اور جنت ملتی ہے جو دائمی عزت اور وسیع و عریض حکمرانی ہے۔ نزول قرآن پاک اور منصب نبوت سے سرفرازی جناب رسول اکرمؐ کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہوئی۔ اسی مہینے میں لیلۃ القدر کی شکل میں سخاوت ہے کہ ایک رات ہزاروں راتوں (۸۴ سال سے) کی عبادت سے بھی افضل ہے۔ اسی مہینے میں روزہ داروں کے لیے شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ (بخاری) اس کا پہلا حصہ رحمت‘ دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے آزادی کا عشرہ ہے۔ جس نے کوئی بھی نفلی کام کیاگویا اس نے ایک فرض کو ادا کیا‘ جس نے ایک فرض ادا کیا اس نے گویا ۷۰ فرض ادا کیے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق زیادہ کیا جاتا ہے۔ جس نے روزے دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہوگی اور اسے روزہ دارکے روزے کا ثواب بھی ملے گا۔ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ جس نے اپنے غلام/ملازم کے کام میں کچھ تخفیف کردی‘ اللہ تعالیٰ اس کی بخشش کردیں گے اور دوزخ کی آگ سے آزاد کردیں گے۔ (مشکوٰۃبحوالہ بیہقیفی شعب الایمان‘ رمضان کی آمد پر آپؐ کا خطبہ روایت سلمان فارسیؓ)
یہ اللہ تعالیٰ کی وہ سخاوتیں ہیں جواس مہینے میں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سخاوت قرآن پاک ہے جو آپؐ کے سینۂ اطہر پر اسی مہینے میں نازل ہوا اور آپؐ کے ذریعے اُمت کو اسی مہینے میں ملنا شروع ہوا‘ اور اسی وجہ سے قرآن پاک کے عالم اور معلم کو آپؐ نے اپنے بعد سب سے زیادہ سخی قرار دیا۔ اس لیے کہ خلقِ خدا کو سب سے زیادہ ضرورت قرآن پاک‘ اس کی تعلیمات اور اس کے نظام کی ہے۔ جو لوگ قرآن پاک کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں‘ سب سے زیادہ سخاوت کا کام کررہے ہیں۔
رمضان المبارک کا پہلا حق یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کی جائے‘ اس کا ذوق و شوق اور جذبے سے استقبال کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا استقبال‘ اس کی فضیلت کو بیان فرمایا کرتے تھے تاکہ اُمت اس کے حقوق کو ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم پر سایہ فگن ہورہا ہے ایک عظیم مہینہ‘ ایک مبارک مہینہ‘ ایک ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزاروں راتوں سے بہتر ہے‘‘۔ (عن سلمان فارسی‘ مشکٰوۃ بحوالہ بیہقی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے بعدرمضان المبارک میں خود بھی روزہ رکھنے‘ تلاوت قرآن‘ قرآن پاک کے دور اور خیر کے تمام کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے۔ صدقہ خیرات‘ مسلمانوں کی ہمدردی‘ عزیزوں سے صلہ رحمی‘ روزہ داروں کے روزے افطار کرانا‘ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے حصول اوربلندیِ درجات کی طلب کے لیے مشغول ہوجانا آپؐ کا معمول تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مہینے میں جومعمول تھے‘ ان کو محدثین نے بیان کیا ہے اور اُمت مسلمہ کے لیے آپؐ کے ان معمولات میں بہت بڑی رہنمائی ہے۔ تمام حقوق اور معمولات کی اساس قرآن پاک کی قدردانی اور تعظیم ہے۔ اس کے تمام اوامر کو عملی جامہ پہنانا اور تمام نواہی سے بچنا اور قرآن پاک کی بنیاد پر اجتماعی نظام قائم کرنا ہے۔ قرآن پاک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ سلم کا سب سے بڑااحسان ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اسی احسان کو یاد دلاتا ہے‘ لیکن آج ہم اسی احسان کو بھولے ہوئے ہیں۔ قرآن پاک کا نظام معطل ہے اور اس وجہ سے ہم آج طرح طرح کے مصائب‘ آفات و بلیات اور خوں ریزوں سے دوچار ہیں اور تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ان سے نکلنے کا راستہ‘ قرآن پاک کی طرف رجوع کرناہے۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہے‘ آپؐ اس قدر اہتمام فرماتے ہیں تو امتیوں کے لیے سُستی کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ اگر نیند کا غلبہ ہوجائے تو پھر سو جانا چاہیے۔ ساری رات بیدار رہنے کے عوض دن کو آرام کرنا چاہیے۔ ساری رات‘ اور سارا دن بیدار رہنا ممکن نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری معمول یہ تھا‘ اس سے پہلے آپ نے پہلے دو عشروں میں بھی اعتکاف فرمایا تھا اور اس کا مقصدلیلۃ القدر کو پانا اور اس میں عبادت کرنا تھا۔ ایک رات میں ہزاروں رات سے زیادہ راتوں کی عبادت کتنی بڑی کمائی ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایک درہم کے بدلے میں ہزار درہم سے زیادہ کا اعلان کردے تو لوگوں کی قطاریں نہیں لگیں گی ‘ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑنے کے لیے ایسا کیوں نہیں ہوتا!
رمضان کی بڑی اور بنیادی عبادتیں دو ہیں: روزہ اور قرآن پاک کی تلاوت۔ باقی نیکیاں ان دونوں کے تابع ہیں اور برائیوں سے بچنا ان دونوں کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
رات کے گھپ اندھیروں میں جب پورا عالم محوِ استراحت ہوتا ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہوتا ہے‘ انسان‘ چرند‘ پرند‘ درند‘ غرض ہرمخلوق اپنے آشیانے میں دبکی پڑی ہوتی ہے کہ کچھ دیوانے نرم و گرم بستر چھوڑ کر محبوب حقیقی کی محبت سے سرشار یکلخت اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ برگزیدہ مخلوق ہے جس کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور ہیں۔ یہ لوگ زمین کی کور باطن مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل مگر آسمانی مخلوق کے سامنے روشن اور تابناک یوں جگمگاتے ہیں‘ جیسے زمین والوں کی نظر میں تارے۔ ان کے دلوں میں ایک سوز ہوتا ہے‘ ایک درد ہوتا ہے‘ جو ہر دم انھیں بے کل اور بے چین رکھتا ہے۔ ان کو اگر کوئی دھن ہے تو ایک ہی‘ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے۔
رات کا ایک بڑا حصہ گزر چکا ہے‘ تمام دنیاخوابِ غفلت میں مدہوش ہے اور یہ عاشق اپنے محبوب کے سامنے جھولی پھیلائے اس سے محبت کی بھیک مانگ رہے ہیں‘ آنسو بہا رہے ہیں۔ ادھر آسمانوں پر رحمت کے دروازے کھل رہے ہیں‘ حورانِ بہشت اپنی غمگین آواز میں ان کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں: ’کوئی ہے جو ہمیںحاصل کرے۔لیکن ان کی نگاہ ’یک بین‘ حوروں پر بھی نہیں پڑتی۔ ان کا منتہاے مقصود تو محبوب حقیقی کا وصال اوراس کی رضاجوئی ہے۔
اب رات کا آخری پہر ہے‘ رحمتوں کی موسلادھار بارش شروع ہوچکی ہے‘ اللہ سوال کرنے والوں کو عطا فرما رہے ہیں‘اعلان ہو رہا ہے: مانگو! کیا مانگتے ہو؟ جو مانگو گے عطا ہوگا۔ پھر رضاے الٰہی کے پروانے جاری ہونے لگتے ہیں۔ یہی ان کا مقصدحیات اور یہی ان کی معراج ہے‘ جس کی خاطر یہ روزانہ اپنے نرم نرم بستر اور میٹھی میٹھی نیند قربان کرکے اُٹھ بیٹھتے ہیں‘ اور دربارِ الٰہی میں پروانہ وار حاضر ہوجاتے ہیں۔ ان کے اسی حال کو شاعرمشرق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
واقف ہو اگر لذتِ بیداریِ شب سے
اُونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پُراسرار
ان سعید روحوں کی سعادت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ قرآن مجید میں فرما رہا ہے‘ فرمایا:
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ ۳۲:۱۶) ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں‘ اس طور پر کہ وہ ا پنے رب کو (ثواب کی) امید اور (عذاب کے) خوف سے پکارتے ہیں۔
علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یَدْعُوْنَ سے مراد یُصَلُّوْنَ ہے‘ یعنی رات کو نماز پڑھنا مراد ہے۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کھپانے والے ان جواں ہمت لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام و اکرام کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمھارے ناقص تصور اور تخیل سے بالا ہے:
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّـآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (السجدہ ۳۲:۱۷)
پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیاہے اس کی کسی تنفس کو خبر نہیں ہے۔
یہاں ان لوگوں کا انعام واضح طور پر بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گی ہے جس کو کوئی نفس نہیں جانتا۔ انعام کے اس اخفا میں اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے‘ نیز اس اخفا سے ان لوگوں کو شوق دلانا مقصود ہے جو اس عظیم عمل سے محروم ہیں۔
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ حضوؐر اور حضوؐر کے واسطے سے اُمت کو تہجد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) اور رات کو تہجد پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہے‘ بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔
مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل نماز تہجد کا حکم دیا گیا اور پھر مقامِ محمود‘ یعنی شفاعت کبریٰ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد کو مقامِ شفاعت حاصل ہونے میں خاص دخل ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۵‘ ص ۵۲۰)
اسی طرح متعدد احادیث میں بھی نماز تہجد کی فضیلت وارد ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: اے لوگو! سلام پھیلائو اور کھانا کھلائو اور رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو۔ (اگر ایسا کرو گے) تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے۔(ترمذی)
عام طور پر لوگ ان اعمال کو بالکل معمولی سمجھتے ہیں لیکن قدر شناسوں سے پوچھیے کہ یہ کیسی دولتِ بے بہااور انمول خزانے ہیں اور پھران پر کوئی زیادہ محنت بھی خرچ نہیں ہوتی‘ بس ذرا سی ہمت چاہیے۔ خود حضور علیہ السلام کی شان یہ تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تہجد میں قیام کرتے کرتے آپؐکے پائوں میں پھٹن آجاتی تھی۔ آگے چل کر فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ آپؐ کے لیے بخشش لکھ دی گئی ہے۔ پھر آپؐ کیوں اتنی مشقت برداشت فرماتے ہیں تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: افلا أکون عبداً شکوراً ،کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟
یہ اس ذات اقدس کا حال ہے جس کے لیے سب سے پہلے جنت میں داخلے کا وعدہ ہے۔ ایک ہم ہیں کہ گناہوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں‘ پھر بھی آخرت کی فکر نہیں‘اعمال کا شوق نہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو جنت کا طلب گار نہ ہوگا لیکن کبھی ہم نے اپنے اعمال کا موازنہ کیا؟ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ہمیں جنت کا حق دار ثابت کرسکیں؟ کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی راتیں نورانی ہیں اور کیا سعادت مند ہیں وہ نوجوان جواس جوانی میں لذتِ بیداریِ شب سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان روزِ قیامت ربِ ذوالجلال کے عرش تلے ہوںگے جس دن اس کے عرش کے سوااور کوئی سایہ نہ ہوگا۔
اے جوانانِ سعادت مند! یہ نعمت اتنی سستی نہیں‘ اس کے لیے آہ سحرگاہی کو اپنانا ہوگا‘ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مالک کو منانا ہوگا‘ اس کے سامنے جھولی پھیلا کر گڑگڑانا ہوگا‘ تب جاکر رضاے الٰہی کا گوہر مقصود حاصل ہوگا۔
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور ان سے ان کا حال دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’عبارات اُڑ گئیں‘ اشارات سب فنا ہوگئے اور ہمیں نفع نہیں دیا مگر ان چند رکعات نے جو ہم نے آدھی رات میں ادا کی تھیں‘‘۔ (تفسیر عزیزی)
میں نے ایک صاحبِ دل سے بارہا سنا‘ فرماتے تھے: ’جس کو جو کچھ ملا ہے تنہائی میں ملا ہے‘۔
اسی بات کو اقبال مرحوم نے یوں سمجھانے کی کوشش کی ؎
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی
صدہزار آفرین ان لوگوں پر جو راتوں کو اُٹھتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ رازو نیاز میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو اوج ثریا پر پہنچتے ہیں‘ ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور زمانے میں علم و حکمت کا آفتاب بن کر چمکتے ہیں کہ جس کی ضیاپاشیوں سے ایک عالم منور ہوتا ہے۔ افسوس صدافسوس ہم پر کہ دن رات ہم جن مقدس ہستیوں کا نام لیتے ہیں اور ان کے مراتب تک پہنچنے کے لیے آہیں بھرتے ہیں‘ان کی زندگی کے عملی گوشے کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ آج بھی ہم ان جیسا اخلاص و عمل اپنے اندر پیدا کرلیں تو ہم میں بھی رومی‘ رازی و غزالی پیدا ہوسکتے ہیں۔ آج بھی عقل کو خیرہ کرنے والی علمی و اصلاحی خدمات دوبارہ وجود میں آسکتی ہیں‘لیکن اس کے لیے اسلاف کی طرح ہمیں بھی بیداریِ شب سے آشنا ہونا پڑے گا‘ راتوں کو نیند قربان کرنا پڑے گی‘ سوز دروں بیدار کرنا پڑے گا۔ بقول شاعر ؎
تو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی اور ان کے اعمال کو اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!
رمضان المبارک کی آمد سے اہلِ ایمان کے ایمان اور عبادت اور بندگی کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگوں کا مساجد کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ نماز کے دیگر احکامات کے ساتھ ساتھ تعدیل ارکان‘ یعنی نماز کو ٹھیر ٹھیر کر ادا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر ایک تحریر نذرِ قارئین ہے۔(ادارہ)
اللہ تعالیٰ کو بندوں کے ایسے اعمال پسند ہیں جو سنوار کر کیے گئے ہوں اور حُسن و خوبی سے متصف ہوں۔ قرآن پاک میں ہے:
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط (الملک ۶۷:۱-۲) اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے زیادہ خوب صورت عمل کس کے ہیں۔
دیکھیے یہ نہیں فرمایا کہ زیادہ عمل کس کے ہیں بلکہ فرمایا خوب صورت عمل کس کے ہیں۔ گویا اللہ کو ہماری طرف سے صرف اعمال نہیں‘ خوب صورت اعمال مطلوب ہیں۔ ہم اپنی نمازوں کو کس طرح مؤثر اور خوب صورت بنائیں؟ اس ضمن میں ہم تعدیل ارکان کا ذکر کریں گے۔
تعدیل کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ارکان و اعمال باہم متوازن و متناسب ہوں‘ مثلاً ایسا نہ ہو کہ رکوع بہت مختصر اور سجدہ بہت طویل ہو‘ یا قومہ (رکوع کے بعد کھڑے ہونے کا وقفہ) بس براے نام ہی ہو اور نمازی رکوع سے سر اُٹھاتے ہی سجدے میں گر پڑے۔ نماز میں حُسن اسی صورت میں پیدا ہوگا جب نماز کے تمام اعمال باہم متناسب و متوازن بھی ہوںاور ادا بھی ٹھیر ٹھیر کر اطمینان سے کیے جائیں۔
عہدنبویؐ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک آدمی نے مسجد نبویؐ میں نماز پڑھی۔ نبی اکرمؐ بھی قریب ہی تشریف فرما تھے۔ نمازی نے جلدی جلدی نماز ادا کی۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا اورسلام کر کے بیٹھ گیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا: لوٹ جا اوردوبارہ نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ راوی حدیث حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس شخص نے تین یا چار مرتبہ نماز پڑھی کیونکہ حضوؐر ہرمرتبہ فرماتے کہ پھر نماز پڑھ‘ تیری نماز نہیں ہوئی۔ آخر اس نے عرض کیا: حضوؐر مجھے سکھایئے کس طرح پڑھوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہر رکن کو اطمینان و سکون سے ٹھیرٹھیر کرادا کر۔ آپؐ نے قومے‘ جلسے‘ رکوع اورسجدے کا علیحدہ علیحدہ ذکر کیا اور ہر ایک کو اطمینان وسکون سے ادا کرنے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ حدیث کی صحیح ترین کتابوں بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے۔
آپ نے غور فرمایا اس آدمی کی نماز میں کیا خامی تھی۔ وہ نماز کو جلدی جلدی اورسر سے بوجھ اُتارنے کے انداز میں پڑھتا تھا۔ آپؐ نے اسے تاکید فرمائی کہ نماز کے سارے اعمال ٹھیرٹھیر کر اور سنوار کر ادا کرے۔ یہی تعدیل ہے اس کے بغیرنماز اللہ تعالیٰ کے ہاںقابلِ قبول نہیں ہوتی۔
ایک اور روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’زید بن وہب نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور رکوع و سجود وغیرہ ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر رہا۔ آپؐ نے اسے بلاکر پوچھا: تو کب سے اس طرح کی نماز پڑھ رہا ہے؟ اس نے کہا: ۴۰سال سے۔ فرمایا: اس ۴۰سال کے عرصے میں تیری کوئی نماز نہیں ہوئی۔ اگر تو مرگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہ مرے گا‘‘۔
ذرا آگے چل کر مکتوب الیہ کومخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’پس چاہیے کہ تعدیل ارکان‘ یعنی رکوع‘ سجود اور قومہ‘ جلسہ کی بخوبی ادایگی کے لیے کوشش کی جائے اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کی جائے‘ کیوں کہ اکثر لوگ اس دولت سے محروم ہیں اور یہ عمل متروک ہوتا جا رہا ہے۔ اس عمل کا زندہ کرنا دین کی ضروریات میں سے ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو شخص میری کسی مُردہ سنت کو زندہ کرتا ہے تو اسے سوشہیدوں کاثواب ملتاہے‘‘۔ (مکتوب ۶۹‘ دفتر دوم)
یہ بھی ضروری ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ کو نمازی زبان سے ادا کرے۔ ہونٹ ہلائے بغیر دل ہی دل میں پڑھنا درست نہ ہوگا۔ نماز انفرادی ہو تو پھر موقع چاہے قیام کا ہو یا تشہد کا‘ رکوع کا ہو یا سجدے کا‘ الفاظ کو اس طرح اداکرناچاہیے کہ پڑھنے والے کے اپنے کان انھیں سنیں۔ نیز ہمیشہ ایک ہی سورت‘ مثلاً سورۂ اخلاص کی تکرار نہ کی جائے۔ سورئہ فاتحہ کے ساتھ دوسری سوروں کو بدل بدل کر پڑھنا چاہیے۔ اس طرح قراء ت میں مشینی انداز ختم ہوگا اور شعوری طور پر پڑھنے کا رجحان پیدا ہوگا۔
نماز میں تیزرفتاری کی عادت نہایت ناپسندیدہ ہے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس کا علاج یہ ہے کہ:
۱- آیات و اذکار کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے ایک ایک جملے کو ٹک کر پڑھتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ نمازی ہر جملہ ارادے سے پڑھے‘ نہ کہ یاد سے۔
۲- انفرادی نمازوں میں رکوع اورسجدے میں صرف تین مرتبہ تسبیح پڑھنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ پانچ یا سات یا دس مرتبہ پڑھی جائیں اور ٹھیرٹھیر کر اطمینان سے پڑھی جائیں۔
۳- وہ دعائیں اور اذکار یاد کر کے پڑھنے کو معمول بنایا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود وغیرہ میں پڑھتے تھے‘ مثلاً قومے میں رَبَّنَا لَکَ الْحَمد کے بعد یہ دعا پڑھی جائے: حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارکاً فِیْہِ (ایسی تعریف جو کثرت والی ہے‘ پاکیزہ ہے اور برکت والی ہے)۔ دونوں سجدوں کے درمیان پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھائی گئی ہے: اَللّٰھُمَ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِیْ وَعَافِنِیْ وَاھْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ (اے اللہ! میری بخشش فرما‘ مجھ پر رحم فرما‘ مجھے عافیت‘ ہدایت اور رزق عطا فرما)۔ علی ہذاالقیاس۔ دعائوں کی تفصیل کے لیے کسی حدیث کی کتاب سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
۴- ’’…اور رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ کو اطمینان سے ادا کرنا چاہیے‘ یعنی رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہوکر ایک تسبیح کی مقدار رکنا چاہیے اوردو سجدوں کے درمیان ایک تسبیح کی مقدار بیٹھنا چاہیے تاکہ قومہ اورجلسہ میں اطمینان حاصل ہو۔ جو شخص ایسانہ کرے وہ چوروں میں داخل ہے‘‘۔ (اشارہ ہے اس حدیث کی طرف جس کا مضمون یہ ہے کہ بدترین چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرے)۔
یہ اقتباس حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے ایک مکتوب سے اخذ کیا گیا ہے۔ جلدبازی کی عادت ختم کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ تدبیر ہے اور احادیث ہی سے اخذ کی گئی ہے‘ یعنی ایک رکن ختم ہونے پر فوراً دوسرا نہ شروع کیا جائے۔ قیام میں قراء ت مکمل ہونے پرفوراً رکوع میں جانے کے بجاے ذرا توقف کیا جائے۔ رکوع کی تسبیحات پڑھ لینے کے بعد فوراً قومے کے لیے کھڑے ہونے کے بجاے معمولی ساتوقف کرلیا جائے۔ یوں اعمالِ نماز میں ایک طرح کا ٹھیرائو اور وقار پیدا ہوگا۔ حضرت مجدد نے صرف قومے اورجلسے کے توقف کا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اسی میں کوتاہی کرتے ہیں۔
اسے ایک اتفاق قرار دے کر نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز ترکی میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے ووٹ ڈالے جارہے تھے‘ اسی روز ترک ساحلوں پر امریکی‘ اسرائیلی اور ترک افواج کی مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز ہو رہا تھا۔ ترک سیاست میں ترک فوج کا یک طرفہ اور جانب دارانہ کردار کسی سے مخفی نہیں ہے اور خود کو ترک سیکولرزم کی محافظ قرار دینے والی اس فوج میں صہیونی و امریکی اثرونفوذ بھی موقع بہ موقع سرچڑھ کر بولتا ہے۔
۲۰ اگست ۲۰۰۷ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج حسب توقع حکمران انصاف و ترقی پارٹی (AKP) کے امیدوار عبداللہ گل کی شکست کی صورت میں نکلے۔ اس مرحلے میں ان کی اصل کامیابی یہ قرار پائی کہ فوج‘ ایوانِ صدر اور اپوزیشن سیکولر پارٹی کی تمام دھمکیوں کے باوجود پارلیمنٹ میں موجود رہنے والے ارکان کی تعداد دو تہائی سے کہیں زیادہ تھی۔ گذشتہ اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اسی نکتے کو بنیاد بناکر اعلیٰ عدالت نے پورا انتخابی عمل کالعدم قرار دے دیا تھا‘ اور اس کے بعد قبل از وقت انتخابات منعقد کروانا پڑے تھے۔
اس انتخاب میں دوسرا امیدوار نیشنلسٹ تحریک کی طرف سے تھا۔ صباح الدین چکماک نامی اس امیدوار کو ۷۰ ووٹ ملے‘بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی (DSP) کے امیدوار تایفون اِچلی نے بھی وقت ختم ہونے سے دوگھنٹے پہلے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے تھے انھیں ۱۳ ووٹ ملے۔ دونوں امیدوارون کی پارٹی ارکان اسمبلی کی تعداد بھی اتنی ہی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں ایک اور اہم عنصر کرد ارکان ہیں۔ ترک پارلیمانی نظام کے مطابق اگر ۲۰ سے زائد ارکان اپنا الگ گروپ بناناچاہیں تو بناسکتے ہیں۔ آزاد حیثیت میں منتخب ہوکر آنے والے یہ ۲۴ ارکان اب کرد آبادی کی نمایندگی کرنے کے لیے ایک مؤثر گروپ ہیں۔ ترکی قانون کے مطابق کسی بھی پارٹی کو اسمبلی میں آنے کے لیے کم از کم ۱۰ فی صد ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے ۱۳ برس تک کوئی کرد رکن پارلیمنٹ میں نہیںآسکا تھا کیونکہ وہ ہر بار ۱۰فی صد کی حد پار نہیں کرسکے تھے۔ اس بار وہ آزاد امیدواروں کی حیثیت سے آئے اور ۲۴ کا گروپ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
۵۷سالہ گل ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۰ء کوقیصری شہر کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ استمبول یونی ورسٹی سے اقتصادیات میں ڈگری حاصل کی‘ پھر برطانیہ سے اقتصادیات ہی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک اسلامی ڈویلپمنٹ بنک میں اقتصادی ماہر کی حیثیت سے کام کیا اور ۱۹۹۱ء میں ترکی واپس جاکر اپنے استاد اور قائد نجم الدین اربکان کے ساتھ انتخابی عمل میں باقاعدہ شریک ہوگئے۔ ۹۱ء سے لے کر اب تک قیصری سے ہر بار انتخاب جیتا۔ ۱۹۹۵ء میں مخلوط حکومت بنی تو عبداللہ وزیرمملکت براے امورخارجہ بنے لیکن ۱۹۹۷ء میں سیکولرزم کی حفاظت کے نام پر فوج نے اربکان حکومت کاخاتمہ کردیا۔ ۱۹۹۸ء میں رفاہ پارٹی ہی کو غیرقانونی قرار دیدیا گیا۔ اربکان نے فضیلت پارٹی بنائی تو گل اس کا نہ صرف حصہ تھے‘ بلکہ انھوں نے پارٹی کا صدارتی انتخاب لڑا‘ اور پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کے معتمدعلیہ ساتھی رجائی قوطان سے مقابلے میں ناکام رہے۔ ۲۰۰۱ء میں ’فضیلت‘ پر بھی پابندی لگی تو اربکان نے ’سعادت پارٹی‘ بنانے کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر گل‘ اردوگان اور تقریباً ۵۰ فی صد ارکان نے اس کا حصہ بننے کا بجاے انصاف و ترقی پارٹی (AKP) کا اعلان کردیا۔ گل اور اردوگان بھی پروفیسر اربکان کے انتہائی معتمدترین ساتھیوں میں سے تھے۔ رفاہ پارٹی کی حکومت اور اس سے پہلے ترک بلدیاتی اداروں میں رفاہ پارٹی کی خدمات میں دونوں کا کردار کلیدی تھا۔ رجب طیب نے استمبول کے میئر کی حیثیت سے انتہائی جانفشانی‘ ایمان داری اور اہلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی تحریک کے بارے میں لوگوں کے عمومی تاثر کو یک سر بدل دیا تھا۔ دونوں نوجوان‘ یعنی صدر اور وزیراعظم اپنی اسلامی شناخت اور اسلامی فکر کے اعتبار سے اتنے ہی یکسو تھے جتنے خود ان کے بزرگ رہنما‘ پروفیسر اربکان اکثر وبیش تر اپنے خصوصی نمایندے کی حیثیت سے عبداللہ گل ہی پر اعتماد کیا کرتے تھے۔ اپنے استاد و رہنما اربکان کی طرح رجب طیب اردوگان پر بھی سیکولرزم کو چیلنج کرنے کا الزام تھا۔ ایک اجتماع میں انھوں نے جب ترک قومی شاعر کی ایک نظم کو استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں اگر ہم پر دہشت گردی کا الزام ہے تو شاید تم درست کہتے ہو‘ دیکھو یہ مسجدیں ہماری بیرکیں‘ ان کے مینار ہمارے نیزے اور ان کے گنبد ہماری ڈھالیں ہیں‘‘ تو ان پر مقدمہ چلا‘ قید کی سزا سنا دی گئی اور سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔
جب اربکان سے علیحدگی اور انصاف و ترقی پارٹی بنالینے کے بعد طیب اردوگان دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تب بھی وہی مسجدوں کے ’دہشت گردانہ‘ استعارے کے الزام میں لگی اس پابندی کی مدت باقی تھی۔ ایک دوسرے کے سائے کی حیثیت اختیار کرجانے والے طیب و عبداللہ نے فیصلہ کیا کہ عبداللہ تب تک وزیراعظم ہوں گے جب تک طیب پر لگی پابندی کی مدت پوری نہ ہوجائے۔ یہ مدت پوری ہوئی‘ طیب رکن اسمبلی بنے‘ عبداللہ گل نے بغیر ادنیٰ تأمل کے وزارت عظمیٰ کی ’امانت‘ طیب اردوگان کے سپرد کی اور خود ان کی کابینہ میں وزیرخارجہ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان لڑکپن ہی سے ’گل‘ اور ’بوے گل‘ جیسا یہ تعلق‘ ایک اکیلا اور دو گیارہ کی عملی تفسیر ہے۔
’انصاف و ترقی‘ کی تشکیل کے اعلان سے لے کران کی واضح جیت تک اور پہلی حکومت سازی سے لے کر حالیہ انتخابات تک ترکی کے اندر اور باہر ایک گہرا تاثر یہ اُبھرا کہ ان نوجوانوں کا یوں الگ ہوکر نئی پارٹی بنانے اور اپنے سابقہ تعارف و نسبت کا یک گونہ پردے میں لے جانے کا فیصلہ‘ بنیادی طور پر باہمی مشورے اور حکمت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ترک ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کا بھی یہی تاثر تھا کہ ’انصاف و ترقی‘ کو پروفیسر اربکان کی خاموش و خفیہ سرپرستی حاصل ہے۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ کمال اتاترک کے ظالم جانشینوں نے سیکولر فوج کی مدد سے جب اربکان اور ان کی تحریک کے سامنے تمام راستے بند کردیے‘ ان کی ملی نظام پارٹی‘ ملی سلامت پارٹی‘ رفاہ پارٹی‘ فضیلت پارٹی اور پھر سعادت پارٹی کا ناطقہ بند کرنے کے لیے کسی اخلاقی و قانونی ضابطے کو خاطر میں نہیں رکھا گیا تو ’انصاف و ترقی‘ کے نام پر آگے بڑھنے کا فیصلہ‘ کسی خفیہ اتفاق راے سے کیا گیا۔ اس تاثر نے پروفیسر اربکان کے لاکھوں متوالوں کے ووٹ بھی اردوگان کے پلڑے میں ڈال دیے۔
حقیقت میں یہ تاثر بالکل خلافِ واقع ہے۔ حالیہ انتخابات میں ڈاکٹر اربکان نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ اگرچہ اس لہجے کا آغاز علیحدگی کے وقت سے ہی ہوگیا تھا‘ لیکن اب اردوگان اور ان کی پارٹی پر نجم الدین اربکان کی تنقید اپنے انتہائی عروج پر ہے۔ مئی کے اختتام میں ان سے تفصیلی ملاقاتوں کا موقع ملا‘ وہ اور ان کی سعادت پارٹی کے اکثر رہنما اس بات پر مکمل طور پر یک سو اور پختہ راے رکھتے تھے کہ ’انصاف و ترقی‘ پارٹی کی قیادت نہ صرف مکمل طور پر امریکی اطاعت قبول کرچکی ہے‘ بلکہ علاقے میں امریکی‘ صہیونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ان کے ایجنٹ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اربکان صاحب کے الفاظ میں: ’’اگر کوئی شخص نماز بھی پڑھتا ہو لیکن سلام پھیرتے ہی صہیونی دشمن کے صدقے واری جاتے ہوئے ان کی غلامی اختیار کرلے تو جوفرق اس میں اور ایک کھرے مسلمان میں ہے وہی فرق انصاف پارٹی اور سعادت پارٹی میں ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب دائیں اور بائیں کی تقسیم ختم ہوچکی ہے۔ اب دنیا کی تقسیم یوں ہے کہ ایک طرف صہیونی اور ان کے حلیف ہیں اور دوسری طرف ان کے مخالفین ہیں‘‘۔ ان کے ایک کارکن گویا ہوئے: پاکستانی اور اسرائیلی وزراے خارجہ کے درمیان ملاقات کروانے میںاردوگان حکومت کا اہم کردار تھا‘ کیا اس کے بعد بھی تمھیں کوئی دلیل چاہیے ان کی صہیونیت نوازی کی؟‘‘
اردوگان اور ان کے رفقاے کار کے بارے میں زیادہ اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت ان کی سب سے اہم ترجیح ہے اور اس مقصد کی خاطر وہ تمام ایسے اقدامات کرتے چلے جارہے ہیں جن کا ان سے تقاضا کیا جائے خواہ وہ اسلامی تعلیمات سے کتنے ہی متصادم کیوں نہ ہوں۔ مثال کے طور پر باہمی رضامندی سے بدکاری کو جرم نہ قرار دینے کے لیے قانون سازی‘ دستور میں خاندان کی اس تعریف کے بجاے کہ ’’خاندان میاں بیوی سے عبارت ہے‘‘، یہ تعریف شامل کرنا کہ ’’خاندان دو افراد کی رضامندی سے تشکیل پاتا ہے‘‘ (یعنی خواہ دونوں ایک ہی جنس سے کیوں نہ ہوں)‘ خنزیر کے گوشت کی کھلے عام فروخت پرسے پابندی ختم کردینا وغیرہ۔ یہ اور اس طرح کے اقدامات کی ایک طویل فہرست پیش کی جاتی ہے کہ اب ان اقدامات کے بعد کوئی کیسے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کے نظریات سے وفادار ہیں اور ان کے یہ سارے اقدامات صرف سیکولر فوج کے شر سے بچنے کی خاطر ہیں۔
اس تناظر میں عالمِ عرب میں یہ بحث بہت شدومد سے چھیڑی گئی کہ اگر ترکی میں ایک جماعت اپنے اسلامی نظریات سے (بظاہر یاحقیقتاً) دست بردار ہوکر کامیابی کے زینے طے کرسکتی ہے تو عالمِ اسلام کی باقی جماعتیں کیوں اپنی اسلامی شناخت پرمصر ہیں۔ وہ کیوں دورِحاضر کے تقاضوں سے مفاہمت کے لیے تیار نہیں ہیں؟ اس سلسلۂ بحث میں انصاف و ترقی پارٹی کے دفاع و ستایش میں بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ معروف امریکی دانش ور گراہم وولر اپنے مضمون ’ترکی میں اسلامیوں کی جیت‘ میں لکھتے ہیں: ’’انصاف پارٹی کے اس اعلان کے بعد کہ وہ ملک میں نفاذِ شریعت کا ارادہ نہیں رکھتے اور سیکولرزم کی تائید کرتے ہیں‘ اس پر غیراسلامی پارٹی ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ کئی اسلامی عناصر اس پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے ترکی کومغرب کے ہاتھوں فروخت کرڈالا ہے۔ آیئے ان الزامات کاتجزیہ کرتے ہیں۔ ترکی کے دستور کے مطابق ہروہ پارٹی جو سیکولر نظام کا خاتمہ چاہتی ہے‘ غیرقانونی ہے۔ ایسے میں وہ اس کے علاوہ اورکیا بیان دے سکتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک فریق انھیں غیراسلامی کہہ رہا ہے اور دوسرا ان پر یہ الزام لگا رہا ہے کہ وہ ’تقیہ‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی اسلامی شناخت کو چھپانے کے لیے سیکولرزم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں‘‘۔
وہ مزید کہتے ہیں: ’’کیا صرف نفاذ شریعت ہی وہ اکلوتا معیاررہ گیا ہے جس سے کسی کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا تعین ہو؟ آج کے جدید معاشرے میں شریعت کے علاوہ اور بڑے گنجلک مسائل ہیں‘ جیسے جنگ یا امن‘ تعلیم اور ٹیکسوں کا نظام‘ عالمی قرضوں کا نظام اور عالمی سرمایہ کاری‘ ٹکنالوجی اور تجارت‘ یہ وہ تمام مسائل ہیں جن کا شریعت سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے‘‘۔
اگرچہ گراہم وولر کے اس پورے استنباط میں شریعت کے بارے میں خود ان کا اپنا تصور بہت ادھورا و ناقص ہوناواضح ہو رہا ہے لیکن اپنے تجزیے میں وہ اس بات پر خصوصی اصرار کرتے ہیں کہ ’’انصاف پارٹی کی جیت سے امریکا اسلامی تحریکوں کے بارے میں اپنے رویے پر نظرثانی کرسکتا ہے۔ امریکا جو ایرانی انقلاب اور خاص طور پر نائن الیون کے بعد اسلامی عناصر کے بارے میں بہت منفی نقطۂ نظر رکھتا ہے‘ اب انصاف پارٹی کی پالیسیوں اور واضح کامیابی کے بعد اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے ترکی میں منصفانہ انتخابات پر ترکی کو مبارک باد پیش کی ہے اور اگر انصاف و ترقی پارٹی اچھی حکومت تشکیل دیتی ہے تو امریکا اس سے اچھے تعلقات کاخواہاں ہوگا۔ یہ امرمستقبل میں دیگر اسلامی تحریکوں کو بھی قبول کرلینے کی نظیربن سکتا ہے‘‘۔ گراہم وولر مؤثر امریکی اداروں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ عالمِ اسلام کے بارے میں ان کی راے اہم قرار دی جاتی ہے۔ وہ جب اسلامی جماعتوں اور مسلم معاشرے کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ دین و شریعت سے سروکار رکھنے والی کسی پارٹی کو اقتدار میں آنا بھی نہیںچاہیے کیونکہ حکومتی معاملات چلانا دینی مسائل حل کرنے سے مختلف چیز ہے۔ دینی مسائل اہم چیز ہیں لیکن اگر کوئی جماعت بنیادی طور پرانھی مسائل کے گرد گھومتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایک دعوتی تحریک بن جائے۔ دینی و اخلاقی خطاب کرے لیکن اسے حکومت نہیں بنانی چاہیے‘‘۔ تب یہ بحث ایک نئی جہت اور نئی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔
تیونس کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ راشدغنوشی نے بھی اس ضمن میں بہت اہم مضمون تحریر کیا ہے لیکن انھوں نے اس نظریے کی مذمت و تردید کی ہے کہ اسلامی تحریکوں کو جیتنے کے لیے اپنے اسلامی تشخص‘ اسلامی پروگرام اور اسلامی اقدار و تعلیمات سے دست بردار ہوجانا چاہیے۔ انھوں نے عالمِ اسلام کے سیکولر عناصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انصاف و ترقی پارٹی ترکی کے سیکولر دستور کا احترام کرتے ہوئے خود کو ایک سیکولر تحریک کے روپ میں پیش کرتی ہے تو پھر عالمِ اسلام کی سیکولر پارٹیوں کو بھی اپنے ممالک کے اسلامی دساتیر کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینا چاہیے۔
ان کے بقول: ’’ترکی کا تجربہ وہاں کے مخصوص حالات کا حتمی نتیجہ ہے۔ یہ دیگر اسلامی ممالک کے لیے مثال نہیں بن سکتا۔ یہ تجربہ وہاں کے جبر اور اضطراری کیفیت کا ماحصل ہے۔ سالہا سال کے تلخ تجربات کے بعد حالات نے اسلامیانِ ترکی کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے اس عقیدے کے خلاف نظریات اپنانے کا اعلان کریں کہ اسلام صرف عقیدہ ہی نہیں کامل منہاجِ حیات ہے… دنیا بھر میں اسلامی بیداری کی مضبوط سے مضبوط تر ہوئی لہر میں بالآخر ترک اسلام کو بھی ضم ہونا ہوگا۔ بالآخر سب کو اسلام کے اسی عظیم چشمۂ صافی سے سیراب ہونا ہے جس میں نہ کوئی تلچھٹ ہے‘ نہ کوئی تحریف‘‘۔
اگرچہ ہردور میں اس سوال کا جواب اپنے اپنے انداز میںدیا گیاہے لیکن اسلامی تحریکوں کو قابلِ قبول بننے اور خود کو عالمی حالات کے مطابق ڈھال لینے یا اکل کھرے انداز سے اپنے نظریات و مقاصد پر جمے رہنے کی اس اہم نظریاتی بحث پر بے لاگ‘ غیر جانب دارانہ‘ غیر معذرت خواہانہ اور مکمل طور پر کھلے دل و دماغ سے غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سید قطبؒ کی مفصل تحریر میںسے یہ مختصر اقتباس بھی پیش نظر رہے:
ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنھیں سب صادق و امین مانتے تھے‘ جنھیں قریش نے بھی حجراسود رکھنے کے معاملے میں فیصلے کا اختیار دیا اور جو بنی ہاشم سے اور قریش میں بھی اعلیٰ ترین نسب رکھتے تھے‘ کے لیے زیادہ مناسب ہو تاکہ وہ پہلے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ جب سب عرب ان کا اقتدار تسلیم کرتے ہوئے انھیں اپنا حکمران و سربراہ تسلیم کرلیتے تو پھر آپؐ اس پورے اقتدار کو عقیدۂ توحید راسخ کرنے اور لوگوں کو اپنا مطیع فرمان بنالینے کے بعد ان کے رب کے اقتدار کے سامنے جھکانے کے لیے صرف کردیتے… لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو علیم و حکیم ہے اپنے رسولؐ کو یہ راہ نہیں دکھائی بلکہ آغازِ کار ہی سے فرما دیا کہ لا الٰہ الا اللہ کا واضح اعلان کردیجیے۔ اس راستے میں آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو جو بھی اذیت پہنچے اسے برداشت کیجیے۔
مستقبل قریب میں ان انتخابات اور انصاف پارٹی کی مقبولیت کے حقیقی اثرات و نتائج سامنے آنا شروع ہوجائیں گے لیکن جو نتائج اس وقت دنیا کے سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ گذشتہ ۸۰برس سے زائد عرصے سے جاری نام نہاد روشن خیال پالیسیوں اور اسلام دشمنی پر مبنی اقدامات کے جواب میں ترک عوام کی واضح اکثریت‘ ایک سروے کے مطابق ۶۵ فی صد نے سیکولر قوتوں سے نفرت کا اظہار کیا ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
نائن الیون کے بعد‘امریکی استعمار دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں‘ مسلم ممالک پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے جن سوچے سمجھے منصوبوں پر عمل پیرا ہے‘ان میں سے ایک نئی نسلوں کی فکروعمل کو اس سانچے میں ڈھالنا ہے کہ وہ اپنی اقدار کے باغی ہوکر‘ مغربی اقدار کے علَم بردار بن جائیں۔ اس حوالے سے اپنے تھنک ٹینکس کی رپورٹس کی رہنمائی میں مسلم ممالک میں متعدد منصوبے زیرعمل ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ایک مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
لنکن کارنرز سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کے نام پر پاکستان کی جامعات اور دیگر بڑے اور نام ور تعلیمی اداروںمیں قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے تعلیمی اداروں میںچار لنکن کارنرز کام کررہے ہیں جن میں پشاور یونی ورسٹی، اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد، کراچی رنگون والا کمیونٹی سنٹر اور آزاد جموں و کشمیر یونی ورسٹی مظفر آباد شامل ہیں۔ ان میں سے ہر لنکن کارنر پر ۵۰ہزار امریکی ڈالر لاگت آئی ہے اور اب اگلا ہدف پنجاب یونی ورسٹی اور ملک کی دیگر نامور جامعات اور تعلیمی ادارے ہیں۔
ان لنکن کارنرز میں ایسی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں امریکی سفارت کار، دانش ور اور دیگر حضرات شریک ہو سکیں اور براہ راست پاکستان کے طلبہ وطالبات سے مخاطب ہوں۔مثلاً ’’امریکی سفیر ریان سی کروکر نے ۷ مارچ ۲۰۰۷ء کو امریکی قونصل خانہ پشاور میں یونی ورسٹی کے طالب علموں کے تیسرے سالانہ مذاکرے کا افتتاح کیا۔ اس سال بحث کا عنوان ہے ’جمہوری مکالمات‘۔ امریکی سفیر نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صدر بش نے جمہوریت کے فروغ کو امریکی خارجہ پالیسی کا کلیدی ستون قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ صدر مشرف نے وعدہ کیا ہے کہ پاکستان میں امسال آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں گے۔ امریکا اس فیصلے کی حمایت کرتا ہے۔ ’جمہوری مکالمات‘ کے شرکا کا انتخاب کڑی شرائط پر پورا اترنے والے طالب علموںمیں سے کیا جاتا ہے۔ اور یہ پشاور کے علاقے میں ۹ جامعات اور اداروں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ (ماہنامہ خبر ونظر ‘اسلام آباد‘ مارچ ۲۰۰۶)
پشارو یونی ورسٹی میں ۲۰ مارچ ۲۰۰۷ء کو ’امریکی فارن سروس میں خواتین کی تاریخ‘ پر خطاب کرتے ہوئے امریکی قونصل خانہ کی پرنسپل آفیسر لین ٹریسی نے کہا:’’امریکی خواتین نے گذشتہ صدی کے دوران مختلف شعبوں بشمول سفارت کاری میں زبردست پیش رفت کی ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’ محض ۳۷ برس قبل امریکی خواتین کو شادی کرنے کے لیے فارن سروس سے استعفا دینا پڑتا تھا۔ آج وزراے خارجہ البرائیٹ اور رائس نے ثابت کر دیا ہے کہ خواتین امریکا کی اعلیٰ سفارت کارکی حیثیت سے مؤثر طور پر خدمات سر انجام دے سکتی ہیں‘‘۔(ایضاً‘اپریل ۲۰۰۷ ء ص ۹)
ان لنکن کارنرز کے ذریعے امریکا کی پالیسیوں کے لیے حمایت حاصل کرنا، امریکا کے مجروح ہوتے ہوئے تشخص کو سہارا دینا اور پاکستانی طلبہ کو اسلام اور پاکستان کی تاریخ کے بجاے امریکا اور امریکیوں کی تاریخ سے آگاہ کرنا پیش نظر ہے۔ اس میں ہونے والی تقریبات ، ورکشاپس اور ڈائیلاگ کے ذریعے ان مقاصد کی آبیاری کی جائے۔
لنکن کارنرز کے بارے میں خبر ونظر ماہ جون۲۰۰۷ء کے صفحہ ۸ پر ملاحظہ ہو: اس میں ملٹی میڈیاسہولیات ، کتابیں اور رسائل موجود ہوتے ہیں جس سے ہر شخص استفادہ کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پروگرام، تقریبات اور مختلف سرگرمیوں کے لیے ریڈنگ روم اور میٹنگ روم بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہاں دستاویزی فلموں، مذاکروں، ورکشاپس، اجلاسوں اور نمایشوںکا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں مختلف امریکی دانش ور شریک ہوتے ہیں او ر پاکستان کے طلبہ و طالبات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن(HEC) نے ا س وقت پاکستان میں اسکالر شپ کی لوٹ سیل لگارکھی ہے اور اندھا دھند ایسے اسکالر شپس بانٹ رہا ہے جن کا فائد ہ نہ تو پاکستان کو ہوگا اور نہ متعلقہ امیدوار کو ہی۔یہ مختلف اسکالر شپس اسکیمیں ہیں جو اس وقت چل رہی ہیں۔ان میں سب سے بڑی اسکیم جو براہِ راست امریکی وزارت خارجہ کے تحت ہے پاکستانی طلبہ کے لیے ہے اور اس میں (HEC) کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔امریکی وزارت خارجہ براہ راست ان کے جملہ امور کو دیکھتی ہے ۔آیندہ پانچ برسوں میں ہرسال‘ ۵۰ پی ایچ ڈی اور ۱۰۰ ماسٹر کے امیدوار امریکا جائیں گے اور اس پر ۱۵۴ ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔
انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات ان کی
انھی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی
پاکستان کے نظام تعلیم کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے اور تعلیمی اداروں میں من پسند نصاب کو متعارف کروانے کے لیے ایک ایسی کمیونٹی کا سہارا لیا گیا جو اپنے نظریات اور عقائد کے اعتبار سے پاکستانی معاشرے سے کٹے ہوئے لوگ ہیں۔ ہماری مراد آغا خان امتحانی بورڈ سے ہے۔پاکستانی قوم کی بھرپور مخالفت اور احتجاج کے باوجود امریکی ایما پر بننے والا آغاخان بورڈ آنے والے حالات میں انتہائی گمراہ کن کردار ادا کرے گا۔ معاشرے میں اس کے خلاف مزاحمت موجود ہے لیکن آہستہ آہستہ ا س کو قابل قبول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس کو امریکا نے ۵ء۴ملین ڈالر کی امداد دی جس سے اس بورڈ نے کام کا آغاز کیا۔ آغاخان بورڈ کے متعلق بہت ساری تفصیلات قارئین کے سامنے پہلے سے موجود ہیں اس لیے ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔
اس پروگرام کے تحت کالج کی بہتری کے لیے امداد دی جاتی ہے۔ اس پروگرام کو بہت خوب صورت پیرایے میں پیش کیا جاتا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت سواے ’ایف سی کالج‘ کے پاکستان کے کسی تعلیمی ادارے کو کوئی مالی معاونت نہیں دی گئی ہے‘ اور ایف سی کالج کی بہتری کے لیے ۵ملین ڈالر کی ابتدائی امداد دی گئی ہے ۔یاد رہے کہ ۲۰۰۳ء میں اس کالج کو حکومت پنجاب نے امریکا کے ایک چرچ کے حوالے کر دیا تھا۔ اب یہ تعلیمی ادارہ عیسائی مشنریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ پاکستان میں اسی طرح کے اور دیگر تعلیمی اداروں پر کام ہورہا ہے ۔ جن میں گورڈن کالج راولپنڈی، مرے کالج سیالکوٹ اور دیگر جن کو حکومت پرائیویٹ کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے تاکہ ایف سی کالج کے طرز پر ہر ڈویژن میں چرچ کا ایک ادارہ ہو جہاں سے عیسائی مشنری اپنا کام آسانی سے سر انجام دے سکیں۔
اس پروگرام کے تحت پاکستان کو ابتدائی پانچ سالوں کے لیے (۰۷-۲۰۰۲ء) ۲۵ ملین ڈالر کی امداد دی گئی تاکہ تعلیمی اداروں میں بنیادی تعلیمی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ یہ وہ پروگرام تھا جس سے ہماری حکومت اگر چاہتی تو کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل کر سکتی تھی۔لیکن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اس بات پر گواہ ہیں کہ کس طرح ’پڑھا لکھا پنجاب ‘ کے نام پر خطیر رقم صرف اشتہار بازی اور دیگر تعیشات پر صرف کی گئی۔ جس کے نتیجے میں قوم جہاں پر کھڑی تھی وہیں پر کھڑی رہ گئی۔ اس پورے پراجیکٹ میں اساتذہ کی تربیت کا پہلو خاص طور پر شامل رہا کہ اساتذہ کو جدیدیت کے نام پر تربیت دی جائے اور اس ’تربیت دینے‘ کا کام آغاخان فائونڈیشن کے سپرد کیا گیا تاکہ استعماری ایجنڈے کی تکمیل کا راستہ ہموار ہوسکے ۔(بحوالہ US Aid from The American People‘ ص ۱)
اس پروگرام کے تحت امریکا کا محکمہ خارجہ طلبہ، اساتذہ، وکلا،صحافی اور دیگر شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات کا چنائو کرتا ہے اورپھر ان حضرات کو امریکا لے جایا جاتا ہے‘ اور قلب و نظرکو خیرہ کرنے والی مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر جب یہ لوگ واپس وطن لوٹتے ہیں تو پاکستان کے تعلیمی اداروں اور سیاسی کلبوں میں امریکا کی سفارت کاری کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ یاد رہے کہ ان تمام لوگوں کا انتخاب خود امریکا کا محکمۂ خارجہ کرتا ہے۔ کسی یونی ورسٹی، وائس چانسلر یا حکومت پاکستان کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
ان تمام تاثرات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کس طرح سے امریکی محکمۂ خارجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں نقب زنی کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کی آبیاری کررہا ہے۔ اور ہر تعلیمی ادارے میں اپنے سفیر تعینات کررہاہے جو دن رات محنت کرکے استعماری ایجنڈے کی تکمیل کی راہ ہموار کررہے ہیں۔
اس پروگرام کا بنیادی مقصد اساتذہ کرام کی تربیت ہے لیکن دوران تربیت ان کو انگریزی زبان میں مہارت پیدا کرنے کے لیے کتابوں کا تحفہ دیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کا خوب صورت نام ’Books in box‘ہے۔ کتابوں اور تربیت کے امتزاج پر مبنی اس پروگرام کا مقصد انگریزی اساتذہ کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے اور اس کے ذریعے دنیا بھر میں انگریزی کی تدریس کو بہتر بنانے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ یہ ان ۴۶ باکس میں سے ایک باکس ہے جس کوامریکی سفارت خانے کا شعبۂ امور عامہ پاکستان میں مختلف تعلیمی اداروں میںتقسیم کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے دفتر براے انگریزی زبان پروگرام نے ایک نئے منصوبے کااعلان کیا ہے جس کے تحت انگریزی زبان کے اساتذہ کے لیے کتابیں اور ماخذ فراہم کیے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں ملک کے اندر ہی ’’ امریکی ماہرین تعلیم سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے‘‘۔ تعلیم کی بہتری کے لیے سرگرم ’Development in literacy‘ کا نیٹ ورک پاکستان بھر میں ۱۵۰ اسکول چلا رہا ہے، جس میں تقریباً ۱۳ ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔(خبرونظر‘مئی ۲۰۰۷ء ‘ص ۱۵)
گویا اساتذہ کی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے فکرونظر کے پیمانوں کو اس انداز میں تبدیل کریں کہ ملک و قوم کو احساس بھی نہ ہو کہ ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
یوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی پروگرام کے تحت پاکستان کے ہائی اسکولوں کے طلبہ و طالبات کو امریکا میں ایک سال کی تعلیم کے لیے اسکالر شپ دیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کے لیے مالی اعانت امریکی محکمہ خارجہ کا شعبہ ثقافتی امور فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے متعدد ملکوں کے ہائی اسکولوں کے طالب علموں کو ایک سال تک امریکی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے اور امریکی میزبان گھرانوں میں قیام کا موقع میسر آتا ہے۔(ایضاً‘مئی ۲۰۰۷ ء‘ص ۱۶)
اس پروگرام کے تحت امریکی محکمہ خارجہ مختلف این جی اوز کے ذریعے پاکستانی طلبہ و طلبات کو انگلش زبا ن و ادب کی تعلیم دیتے ہیں اور آخر میں ان تمام طلبہ وطالبات کو امریکا کا دورہ بھی کرایا جاتا ہے۔ لاہور کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کئیر‘(CARE) کو ۲۰۰۴ء میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر مالیت کی امداد دی گئی جس کے تحت دوسال کی مدت میں مختلف سرکاری اسکولوںمیں زیر تعلیم ۲۰۰ بچوں کو امریکی طرز کے کمرہ جماعت میں تحریری اوربول چال کی انگریزی زبان سکھائی جائے گی۔۲۰۰۶ء میں کئیر کو مزید ڈیڑھ لاکھ ڈالرکی گرانٹ فراہم کی گئی۔ انگریزی زبان کا یہ پروگرام ۲۰۰۴ء میں لاہور میں شروع کیا گیا اور بعد ازاں کراچی، پشاور، راولپنڈی ملتان اور گوادرمیں ایسے پروگرام شروع کیے گئے۔(ایضاً‘ اپریل ۲۰۰۷ء‘ ص ۱۸)
انگریزی زبان و ادب سے شناسائی کے بعد ان ۲۰۰ طلبہ و طالبات کو امریکا لے جایا گیا اور امریکا سے واپسی پر طلبہ و طالبات نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’’ہم نے دوسرے ملکوں سے آنے والے طالب علموں اور اپنے میزبان خاندانوں میں بہت سارے دوست بنائے۔ ہمارا ’ای میل‘ اور ’نیٹ چیٹ‘ کے ذریعے ان سے اب بھی رابطہ ہے۔ ہم ایک دوسرے سے اپنے اپنے ملکوں کے تہواروں، پکوان اور لباس کے بارے میں تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور دنیا میں ہمارے متعلق پائے جانے والے تاثر کے بر عکس ہم کھلے ذہن او رآزاد خیال کے مالک ہیں۔ جانے سے قبل ہمارا اس ملک کے متعلق ایک غلط تصور تھا لیکن وہاں کے لوگوں کی میزبانی نے ہمارے خیالات تبدیل کر دیے ہیں‘‘۔ (ایضاً‘اپریل ۲۰۰۷ ء‘ص ۱۷)
پاکستان کے تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت نے ہر پاکستانی کو پریشان کر رکھا ہے اور اس پر مستزاد پاکستان کے وفاقی وزیر تعلیم کے بیانات اس پر جلتی کا کام کررہے ہیں۔ اس پورے منظر نامے میں امریکا کا محکمۂ خارجہ اور پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم امریکی قونصلیٹ خصوصی کردار ادا کر رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروںجن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک شامل ہیں تعلیم کے میدان میں اپنی شرائط پر پاکستان کو قرضوں کے جال میں کس رہے ہیں، اور ساتھ ساتھ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا کام جاری ہے۔
اس پورے پیکج میں پاکستان کے پرائمری کلاس کے طالب علم سے لے کر یونی ورسٹی کی سطح تک کا طالب علم شامل ہے۔ اس طرح پوری اساتذہ برادری براہِ راست امریکی حملے کی زد میں ہے۔ اس وقت حالات اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ اس پوری تعلیمی جنگ(War on Education) کوسمجھا جائے اور پاکستان کے تعلیمی اداروںمیں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کا سدِباب کیا جائے۔ اس کے نتائج ملک وملّت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایک ہمہ گیر اور واضح تعلیمی پالیسی نظریۂ پاکستان کی روشنی میں ترتیب دی جائے تاکہ جن مقاصد کے لیے ہمارے آباواجداد نے قربانیاں دی تھیں ان کی آبیای کی جاسکے۔
سوال: ہمارے معاشرے میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوغت کے بعد بیٹے کی معاشی کفالت والد کے ذمے نہیں‘ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ جب اولاد بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کردیا جائے‘ نیز جس میں نکاح کی استطاعت نہ ہو‘ وہ روزے رکھے۔ اس ضمن میں چند پہلو وضاحت طلب ہیں۔
معاشی کفالت کے حوالے سے شریعت کا کیا حکم ہے؟ہمارے معاشرے میں والد ۲۵‘۳۰ سال کی عمرتک اولادکابوجھ اٹھاتا ہے اور اس کا مقصد سواے اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ اولاد تعلیم یافتہ ہوکر اچھا روزگار حاصل کرلے اور بقیہ خاندان کو معاشی تحفظ فراہم کرے۔ کیا یہ روش غلط ہے؟ اس ضمن میںجو فرد اولاد میں سب سے بڑا ہوتا ہے‘ وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اس پر یہ دبائو ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھے عہدے پر فائز ہو‘ اور اس کے نکاح پر بھی توجہ نہیں دی جاتی اور یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ اس کی تعلیم مکمل ہوجائے پھر نکاح کیا جائے۔ کیا تعلیم حقیقتاً گھر بسانے کی راہ میں رکاوٹ ہے اورشادی کے بعد تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے؟
بلوغت پر نکاح سے کتنی عمر مراد ہے؟ پاکستان میں لڑکے/لڑکی کی بلوغت کی عمر بالترتیب ۱۲ تا ۱۴ سال اور ۱۱ سے ۱۳ سال ہے۔ اگر اس سے مرادیہی عمر ہے تو ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اس عمر میں شادی کے بعد فرد اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرسکے۔ اگر نکاح کے لیے استطاعت سے مراد معاشی استطاعت ہے تواس کی کوئی حد شریعت میں موجود ہے؟
یہاں وہ حدیث بھی پیش نظر رہے جس میں حضوؐر نے معاشی تنگی پر ایک سے زائد شادی کی ہدایت کی تھی۔ آج ہمارے معاشرے میں میڈیا کے ذریعے فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ گناہ کے مواقع موجود ہیں۔ ان حالات میں نفس کو دبانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ ایک صورت روزہ رکھنا ہے۔ اگر طالب علموں اور ملازمت پیشہ افراد کے لیے روزہ رکھنا ممکن نہ ہو تو کیا کریں‘ اور روزہ تو دن میں ہوتا ہے‘ رات کو کیاکرناچاہیے؟ایک جوان آدمی جو معاشرتی روایات کے باعث نکاح نہیں کرسکتا‘ وہ اگر ان مخصوص حالات میں صوتی یا بصری طریقوں (موسیقی یا فلم)سے کبھی کبھار خواہش کی تکمیل کرلیتا ہو اور اس طرح ایک بڑے گناہ سے بچ جاتا ہو اور دل میں یہ احساس بھی موجود ہو کہ وہ غلط کر رہا ہے تو کیا اس صورت میں وہ گناہ کا مرتکب ہوگا؟
جواب: آپ نے اپنے خط میں تین اہم معاشرتی مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے۔ پہلا مسئلہ والدین پر اولاد کے حقوق سے متعلق ہے۔ قرآن کریم نے والدین اور اعزہ کے جو حقوق متعین کردیے ہیں وہ بالکل واضح ہیں۔ قرآن کریم کا حکم ہے کہ ’’اپنے والدین پر خرچ کرو اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا‘‘(الاحقاف ۴۶:۱۵)۔ اسی طرح سورۂ بنی اسرائیل میں اعلیٰ سلوک و احترام کا حکم دیا گیا(۱۷:۲۳-۲۴)۔ پوری دنیا کی مساجد میں ہرصلوٰۃ الجمعہ میں خطیب قرآن کریم کی سورۂ نحل کی آیت نمبر۹۰ بطور جزوِ خطبہ تلاوت کرتا ہے جس کا مفہوم ہے: اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ وغیرہ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ سورۂ نور میں رشتہ داروں کو ان کا حق نہ دینے سے روکاگیا ہے (النور ۲۴:۲۲)۔ قرآن وسنت میں موجود عمومی اور خصوصی ہدایات پر غور کیا جائے تو جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہیں‘ اسی طرح والدین پر بھی اولاد کے حقوق ہیں جن میں ان کی اسلامی تربیت‘ غذا‘ لباس‘ مکان اور دیگر ضروریات کی فراہمی شامل ہے۔
بلاشبہہ عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ بلوغ طبعی کے بعد ایک اولاد اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے اور اولاد کو اس کی حاجت نہ رہے توپھر والد کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ اگر والد ضرورت کی صورت میں یا بلاضرورت بآسانی اپنی اولاد پر بلوغ کے بعد ان کی تعلیم یا دیگر ضروریات پر خرچ کرتا ہے تو شریعت اس کی تحسین کرتی ہے۔ اسی طرح اگر اولاد بلوغ تک پہنچنے پر اس قابل ہوجاتی ہے کہ اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکے اور نہ صرف اپنے اخراجات بلکہ والدین پر بھی خرچ کرسکے تو یہ اس کے لیے سعادت ہے۔
اسلامی معاشرت میں خاندان ایک سرمایہ دارانہ معاشی یونٹ نہیں ہے بلکہ وسائل‘ احساسات‘ حقوق و فرائض اور احسان کی یک جائی پر مبنی ایک ادارہ ہے۔اولاد کی پرورش کا بنیادی مقصدمعاشی کارکن پیدا کرنا نہیں بلکہ انھیں معاشرے کے لیے فعال‘ متقی‘ مومن اور متحرک کارکن بنانا ہے۔ صلۂ رحمی کا مطلب محض معاشی ضروریات پورا کرنانہیں بلکہ فکر‘ تعلق‘ محبت‘ رشتہ اور نصیحت پر مبنی خاندان کاقیام ہے۔ یہاں کوئی ایسی واضح لکیر نہیں کھینچی جاسکتی کہ ۱۶ یا ۱۸ سال کے بعد والدین پر کسی قسم کی ذمہ دری نہیں رہی اور نہ اس کی ضد کو درست سمجھا جاسکتا ہے کہ ۱۸سال تک والدین سے استفادے کے بعد اب ہر کمایا جانے والا روپیہ اولاد کی ’ذاتی ملکیت‘ ہے۔ اسلامی اجتماعیت نہ سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھتی ہے اور نہ اشتراکیت زدہ ہے۔ اس کا اپنا مزاج اور اپنی اقدار ہیں۔
ہمارے معاشرے میں لازماً بڑی اولاد سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ پورے گھر کا بوجھ اٹھائے جو درست نہیں ہے۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے ‘ پھر اعلیٰ ملازمت اختیار کرے اور اس کے بعد کہیں نکاح پر غور کیا جائے۔ اسلامی معاشرت کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے اور قرآن نے صاف کہا ہے کہ تم میں جو مجرد ہوں ان کے نکاح کردو۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے لیے وسائل پیدا کر دے گا۔یہی بات اُس حدیث میں فرمائی گئی ہے جو آپ نے نقل کی ہے کہ اگر ایک نکاح کے بعد ایک شخص کو کشادگی حاصل نہیں ہوتی تو وہ مزید نکاح کرسکتا ہے۔
تکمیلِ تعلیم کو کبھی بھی نکاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوناچاہیے۔ عصمت و کردار کا تحفظ ہرچیز پر بھاری ہے۔ اس لیے بلوغ کے بعد‘ یعنی اپنے اچھے برے کی عقل آنے پر نکاح کر دینا انتظار کرتے رہنے سے لازماً افضل ہے۔
بلوغ میں جسمانی اور ذہنی دونوں پہلو شامل ہیں اور اس کے لیے کسی عمر کی قید لگانا ایک غیرفطری عمل ہے۔ بعض خِطوں میں لڑکے اور لڑکیاں جلد جسمانی اور ذہنی طور پر بالغ ہوجاتے ہیں بعض میں تاخیر سے۔ آج کے معلوماتی اور انقلابی دور میں ذہنی بلوغ جسمانی بلوغ سے بہت پہلے آجاتا ہے۔ اس لیے جسمانی بلوغ کے بعد نکاح کی فکر ہونی چاہیے۔
اس سلسلے میں کوئی لگابندھا ضابطہ نہیں بن سکتا کہ جس کا نکاح ہوجائے وہ لازماً معاشی طور پر خودکفیل بھی ہو۔ اگر والدین ایک وسیع خاندان میں رہتے ہیں تو گھر میں ایک فرد کے اضافے سے کوئی قیامت نہیں آجاتی۔ اس کے ساتھ اولاد پر بھی یہ غور کرنا فرض ہے کہ وہ کب تک بغیر کوئی کام کیے اپنے والدین کے سہارے رہے۔ گویا یہ ایک باہمی غوروفکر اور باہمی محبت و تعلق کا معاملہ ہے۔ اسے خالص قانونی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ پاکستان کے قانون میں ۱۸سال کی عمر لڑکے کے لیے اور ۱۶ سال کی عمر لڑکی کے لیے جو متعین کی گئی ہے یہ غیرعقلی‘ غیر عملی اور غیرشرعی ہے۔ بلوغت کے لیے عمر کی اس حد کو اس وقت دیکھا جاتا ہے جب بلوغت کے آثار ظاہر نہ ہوں۔
استطاعت کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ اضافی ہوگی اور ایک خاندان اور فرد کے معیارِ زندگی‘ ضروریات و مطالبات کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوگی۔ ہاں‘ اسے عدل‘ توازن‘ قسط اور میانہ روی کے تابع ہوناچاہیے۔ جوشخص استطاعت نہ رکھتا ہو اس کے لیے اسلامی ریاست کو (وہ جب بھی قائم ہو) پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس کے نکاح اور متعلقہ ضروریات کا بندوبست کرے۔ ان شاء اللہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نوجوانوں کو محض اس بنا پر روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ البتہ روزہ رکھنے کا مقصد نفس کو لگام دینا ہے اور یہ لگام دن میں روزے اور رات کو نوافل سے ہی دی جاسکتی ہے۔ خیال رہے کہ اسلام نے نکاح کو بہت آسان بنایا ہے۔ چند گواہوں کی موجودگی میں حسب ِ استطاعت حق مہر اور ولیمہ سے یہ فریضہ بآسانی اداکیا جاسکتا ہے۔ ہم نے معاشرتی رسوم و رواج کے پیش نظر خود اس کو بوجھل اور مشکل بنایا ہے۔
تیسری بات آپ نے یہ اٹھائی ہے کہ آج کے معاشرے میں جہاںفحاشی و عریانی ایک نوجوان کے جذبات کو متاثر کرتی ہے‘ اگر کوئی ناجائز جنسی عمل سے بچنے کے لیے موسیقی یا فلموں سے شوق کرلے تو کیا گناہ کا مرتکب ہوگا؟یہ سوال بہت معصومانہ ہے۔ موسیقی اور فلم‘ وڈیو یا نیٹ پر موجود بے شمار تفریحی پروگرام جنسی بے راہ روی کی طرف لے جانے کا غیرمعمولی مؤثر ذریعہ ہیں۔ ان کے ذریعے آپ کس طرح بڑی برائی سے بچ سکتے ہیں۔ یہ تو اس کی ترغیب دینے والے عوامل ہیں۔
اس بات کو بھی پیش نظر رکھیے کہ زندگی کسی اعلیٰ مقصد کے تحت گزاری جانی چاہیے۔ لوگ محض دنیوی کیریئر بنانے کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دیتے ہیں‘ خواہشات کا خون کرتے ہیںاور کتنی محنت اورجدوجہد کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کے سامنے آخرت میں سرخروئی ‘ نبی کریمؐ کا مشن‘ غلبۂ دین‘ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا اور اسلامی انقلاب جیسے عظیم مقاصد ہوتے ہیں۔ اگر ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے‘ اپنے آپ کو سرگرم رکھا جائے تو بھی انسان نفسانی خواہشات کے غلبے اور شیطانی وساوس سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاذکر‘ اس کی یاد‘ اس کی محبت اور اس کی ناراضی کا خوف ہی وہ ڈھال ہے جو ایک نوجوان کو بے راہ روی سے بچاسکتی ہے۔ اس بنا پر صادق الامین علیہ السلام نے صوم کی تلقین فرمائی کہ اس میں انسان اپنے رب سے بہت قریب ہوجاتا ہے اور اپنے تمام جسم کو بشمول ذہن و روح کو اپنے رب کی بندگی میں دے دیتا ہے اور اس طرح ایک مثبت عمل کے نتیجے میں شیطان کے حملوں کو ناکام بنادیتا ہے۔ وساوس‘ جنسی ترغیبات‘ خیالی بے راہ روی‘ غرض وہ سب اعمال جو برائی کی طرف لے جانے والے ہیں‘ صوم کی وجہ سے انسان ان سب سے بچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجانا خود برائی سے بچ جانے کی ضمانت ہے‘ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
معاشرے میں نفلی حج کا رواج فیشن اور دکھاوے کے طور پر بھی بڑھ رہا ہے‘ اس حوالے سے علامہ یوسف قرضاوی کی ایک تحریر پیش کی جارہی ہے۔ (ادارہ)
وہ شخص جو اسلام کی ترجیحات سے واقف ہو اور ہرچیز کے درست مقام کا علم رکھتا ہو‘ کبھی ان ترجیحات کے سلسلے میں شک و شبہے کا شکار نہیں ہوگا جن کا لحاظ کرنا ناگزیر ہے۔ میں کئی برسوں سے اسی کی طرف توجہ دلا رہا ہوں۔ اسے میں نے ’فقہ ترجیحی‘ کا نام دیاہے۔
ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام نے ہمیں جن چیزوں کا مکلف بنایا ہے‘ وہ ایک درجے کی نہیں ہیں‘ بلکہ ہر عمل کا الگ الگ درجہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ایمان کے ۷۰ سے زائد شعبے ہیں جن میں سب سے بلند مرتبہ لا الٰہ الا اللہ کا ہے اور سب سے کم درجے کا عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے‘‘۔ اس سے پتا چلا کہ سب سے کمتر اور سب سے بلند درجے کے علاوہ بیچ کے بھی درجات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ کوئی شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور خدایا کی راہ میں جہاد کیا؟ یہ دونوں اللہ کے یہاں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے‘‘۔(التوبہ ۹:۱۹)
اس سے معلوم ہوا کہ تمام اعمال آپس میں برابر نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس فقہ سے واقف کرائیں۔ میں ایک مدت سے ایسے لوگوں کو دیکھتا آرہا ہوں جو اپنے مزدوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اپنی زمینوں میں اُجرت پر کام کرنے والوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ میں نے اپنے گائوں کے ان کسانوں کو بھی دیکھا ہے جو دوسروں کی زمینوں میں اُجرت پر کام کرتے ہیں‘ ان کے مالکوں کا حال یہ ہے کہ ان کی زمینیں برباد ہوجاتی ہیں‘ لیکن وہ ان غریبوں کو ایک پیسہ دینا گوارا نہیں کرتے۔ دوسری طرف وہ تین تین بار یہاں تک کہ دس دس بار حج کے لیے جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان غریبوں کے حقوق ادا کرتے توان کا یہ عمل بار بار حج کرنے سے افضل ہوتا۔
علما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرض کی ادایگی سے قبل نوافل کو قبول نہیں کرتا اور جو شخص فرض کی ادایگی کے بعد نفل کی فرصت نہ پائے تو وہ معذور ہے‘ لیکن جس شخص کی نفل میں مشغولیت اسے فرض سے محروم کردے وہ مغرور ہے۔ ہمیں اس وقت اس نکتے کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: آخری زمانے میں لوگ بلاوجہ کثرت سے حج کریں گے۔ ان کے لیے سفر انتہائی آسان ہوگا اور مال و دولت کی فراوانی ہوگی۔ ان میں سے ایک شخص ریگستان اور بے آب و گیاہ زمین میں اپنا اُونٹ دوڑائے گا اور حج کا سفر کرے گا‘ حالانکہ اس کا پڑوسی بدحال ہوگا اور وہ اس کی غم خواری نہ کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ حج کے ارادے سے ریگستانوں اور بے آب و گیاہ زمینوں میں سفر کرے گا اور اپنے پڑوسی کو اس حال میں چھوڑ دے گا کہ وہ بھوک‘ فقر اور ضرورت سے بدحال ہوگا اور کوئی اس کا پرسانِ حال نہ ہوگا۔ یہی آج کل ہو رہا ہے۔
بشر بن حارثؒ جو کہ متصوفین و زہّاد میں شہرت کے حامل ہیں اور جن کا شمار اُمت کے معروف زاہدوں اور اللہ والوں میں ہوتا ہے‘ ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اے ابونصر! میں نے حج کا ارادہ کیا ہے اور آپ کے پاس کچھ نصیحت کی باتیں سننے آیا ہوں‘ تو کیا آپ مجھے کچھ نصیحت کریں گے؟ آپ نے اس سے پوچھا: تم نے حج کے لیے کتنا سفر خرچ اکٹھا کیا ہے؟ اس نے کہا: ۲ہزار درہم (ہزار درہم اس وقت کے لیے ایک بڑی رقم تھی اور اس کی قوت خرید بہت زیادہ تھی)۔ انھوں نے اس سے پھر دریافت کیا: تم اس حج کے ذریعے زہد و تقویٰ حاصل کرنا چاہتے ہو‘ یا بیت اللہ کا اشتیاق تمھیں وہاں لیے جا رہا ہے‘ یا تم رضاے الٰہی کے حصول کے خواہش مند ہو؟ اس نے کہا: خدا کی قسم‘ رضاے الٰہی کا حصول میرا مقصد ہے۔ انھوں نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسا راستہ بتائوں جس سے تمھیں اپنے شہر ہی میں گھر بیٹھے خدا کی خوش نودی حاصل ہوجائے‘ اور اگر میں تمھیں یہ طریقہ بتائوں تو کیا تم اس کے مطابق عمل کرو گے؟ اس نے کہا: ضرور کروں گا۔ فرمایا: جائو اور یہ رقم ۱۰ لوگوں کو دے دو‘ کسی فقیر کو جس سے تم اس کی تنگ دستی دُور کردو‘ یتیم کو جس کی ضرورتیں پوری کردو‘ قرض دار جس کا قرض ادا کردو اور کسی کثیرالعیال شخص کو جس سے کہ تم اس کے اہل و عیال کا بوجھ ہلکا کردو… اس طرح انھوں نے ۱۰ لوگوں کا ذکر کیا اور کہا: اگر تم ان میں سے کسی ایک کو یہ رقم دے دو جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہوجائیں تویہ عمل افضل ہے۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا: اے ابونصر! میں سفر کا پختہ ارادہ کرچکا ہوں۔ فرمایا کہ جب مال گندی تجارت اور مشکوک ذرائع سے اکٹھا کیا جاتا ہے تو انسان کا نفس اسے اپنی خواہشات کے مطابق خرچ کرنا چاہتا ہے‘ یعنی ایسا شخص مسلمانوں کے لیے نفع بخش اور افضل چیزوں کو چھوڑ کر حج کی خوشیاں لوٹنا زیادہ پسند کرتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ بلاوجہ بار بار حج کرنا اور اس طرح سے ترجیحات کو ترک کر دینا بے بصیرتی کا نتیجہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایک مسلمان یہ سمجھے کہ بھوکے کو کھلانا‘ مریض کا علاج کرانا‘ بے سہارا کو پناہ دینا‘ یتیم کی کفالت کرنا‘ بیوہ عورت کی ضروریات پوری کرنا‘ ایشیا یا افریقہ یا کہیں کی بھی اسلامی برادری کے لیے مدرسہ یا مسجد بنانا اور خیر کے کسی بھی کام میں شریک ہونا اللہ کی نظر میں زیادہ بہتر ہے۔
ایک مسلمان پر فرض ہے کہ اس طرح کے ثواب والے کاموں میں بے پناہ سرور اور لذت محسوس کرے۔ اس کا یہ سرور اور لطف اس لذت سے بھی بڑھ کر ہو جس کا احساس اسے دو بار اور تین بار حج کرتے وقت ہوتا ہے‘ جب کہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوتا ہے اور لبیک اللّٰھم لبیک کی صدا بلند کرتا ہے۔ ان عظیم کارہاے خیر کے بجاے دوسری یا تیسری بار کے حج میں کیف و سرور محسوس کرنا یقینا افسوس ناک ہے‘ دین میں بے بصیرت ہونے کی دلیل ہے اور فقہ ترجیحی سے نابلد ہونے کی علامت ہے۔
اگر مسلمانوں کو اس کا شعور ہوجائے تو ہم ہر سال اربوں روپے سے صحیح فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی تنظیم اس کام کو منظم طریقے پر انجام دے اور ایک فنڈ بنائے جس کا نام حج کا متبادل فنڈ ہو اور وہ لوگ جو نفلی حج کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ اور وہ بھائی جو فائیواسٹار حج کرتے ہیں‘ وہ حج کا خرچ ’حج کے متبادل فنڈ‘ میں جمع کریں تاکہ اس رقم کو ساری دنیا کے مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کیا جائے تو ایک بڑی ضرورت پوری ہوگی اور مسلمانوں کی زندگی کا ایک بڑا خلا پُر ہوجائے گا۔ اسی لیے میں کہا کرتا ہوں کہ کاش! اُمت میں یہ بیداری پیدا ہوجائے۔(بہ شکریہ دارالعلوم‘ دیوبند‘ مارچ ۲۰۰۷ء)
تفسیر قرآن میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے تفسیری اقوال کو جو مقام حاصل ہے‘ خلفاے راشدین کے بعد کسی اور صحابیؓ کے اقوال کو وہ مقام حاصل نہیں۔ آپ کو بارگاہِ نبوت سے ’ترجمان القرآن‘ ، ’حبرالامّہ‘ کے خطاب اور تاویلِ آیات کے علم اور تفقہ فی الدین کی دعا سے نوازا گیا۔ کوئی بھی مفسر خواہ وہ قرآن کی فقہی تفسیر لکھنا چاہے یا لغوی و ادبی‘ تفسیر القرآن بالقرآن کا دعویٰ رکھے یا روایات کی روشنی میں تفسیر بالماثور کااہتمام کرے‘ ابن عباسؓ کے تفسیری اقوال سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ان کا علم تفسیر جامع اور تفسیری آرا ہمہ جہت ہیں۔ وہ ادب جاہلی پر گہری نظر اور عربوں کے محاورے و لہجے کا ادراک رکھتے تھے۔ تفسیری روایات انھیں ازبر تھیں اور عہدخلفاے راشدین میں اسلامی تمدن کی وسعت پذیری کے باعث پیش آمدہ نت نئے مسائل کی گتھیوں کو اپنے ذوقِ قرآنی اور فقہی و اجتہادی بصیرت سے سلجھانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔
حضرت ابن عباسؓ کے تفسیری اقوال صحاح ستہ کے علاوہ مسانید و کتبِ سنن میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور تفسیری مجموعے بھی ان سے مروی ہیں جن میں سے ایک مجموعہ تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس ہے جسے صاحب القاموس ابوطاہر محمد بن یعقوب الفیروز آبادی (۷۴۹ھ- ۸۱۷ھ) نے مرتب کیا‘ اور بقول مترجم اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے (ص۷)۔ اگرچہ اس مجموعے میں موضوع و الحاقی روایات بھی ہیں (ص۷)‘اور تفسیری روایات اور شانِ نزول کا موضوع ہردور کے محدثین و مفسرین کے ہاں مختلف فیہ رہا ہے لیکن حضرت ابن عباسؓ جیسے عظیم مفسر کی تفسیری آرا جاننے کے لیے ہمارے پاس اس سے بہتر کوئی مجموعہ نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ علم ابن عباسؓ سے منسوب تفسیری اقوال و آرا کی پرکھ‘ روایت و درایت کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں کریں۔
قرآنی الفاظ اور آیات کی طویل تشریحات اور مفسر کی ذاتی آرا قرآنی مفاہیم کو قاری پر کھولنے کے بجاے قاری اور قرآن کے درمیان حجاب بن جاتی ہیں۔ اس تفسیر کی یہ خاصیت ہے کہ مفہوم کی سادگی‘ مضمون کے اختصار اور متنِ قرآن سے قریب تر ہونے کے باعث یہ مرادِ الٰہی کے سمجھنے میں معاون ہے۔ تفسیر کا موضوع ذاتی آرا و رجحانات کی دخل اندازی کے حوالے سے جس احتیاط کا متقاضی ہے‘ اس تفسیر میں اس کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔
قرآنی مطالب کی تفہیم میں سہولت پیدا کرنے کے لیے عبارات کا تسلسل ضروری ہے اور عربی تفسیر کے ترجمے میں یہ چیز عربی محذوفات کو کھولے بغیر ممکن نہ تھی‘ اس لیے مترجم نے ترجمے کے بجاے ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ اصل تفسیر میں موجود نامکمل واقعات کو مکمل کردیا ہے۔ حسب ضرورت ذیلی عنوانات کے قیام اور پیرابندی کے ذریعے مضامین کی تفہیم میںآسانی پیدا کردی ہے۔ اس طرح قدیم کتابوں کے پڑھنے اور سمجھنے میں عصرِحاضر کے قاری کو جو پیچیدگی اور یبوست محسوس ہوتی ہے اس کا ازالہ احسن طریقے سے کردیا گیا ہے۔
اس تفسیر کی ایک نمایاں خصوصیت آیات اور سورتوں کے شانِ نزول کا بیان ہے۔ اسبابِ نزول سے متعلق امام سیوطی کا ایک رسالہ بھی شاملِ مجموعہ ہے جس سے اسبابِ نزول کے موضوع پر مفسرین کے مختلف نقطۂ ہاے نظر سامنے آگئے ہیں۔ پہلی جلد میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حالات وعلمی مقام‘ علامہ جلال الدین سیوطی اور مؤلف تفسیر محمدبن یعقوب الفیروز آبادی کے تعارف کے باعث تفسیر کی افادیت میںاضافہ ہواہے۔(اختر حسین عزمی)
اگرچہ عہدصدیقیؓ میں بھی جمع و تدوین قرآن کی کوشش کی گئی لیکن قرآن مجید کی حتمی اور کامل ترین تدوین عہدِعثمانیؓ میں ہوئی۔ یوں کسی ایک نسخے اور اندازِ قرأت پر اجماعِ اُمت ہوگیا اور اس کا سہراجناب ذوالنورینؓ کے سر ہے۔ زیرنظر کتاب میں عہدعثمانیؓ میں جمع و تدوین قرآن کی کاوش اور خاص طور پر قرآنی رسم الخط کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس وقت تین عربی رسم الخط رائج تھے۔ قرآنی رسم الخط میں تینوں رسوم کی املا موجود ہے‘ تاہم اختلاف کے سبب صحابہ کرامؓ کے مشورے سے ایک نیا رسم الخط ایجاد کرلیا گیا جسے رسمِ عثمانیؓ کا نام دیا گیا۔
رسمِ عثمانی کیا ہے؟ کس طرح لکھا جاتاتھا اور صحابہ کو اس پر کیا اور کیوں اعتراض تھا؟ زیربحث کتاب میں ان سوالات پر مفصل اور مدلل بحث کی گئی ہے۔ بعض صحابہؓ کو اس سے اختلاف تھا لیکن بعد میں انھوں نے بھی اتفاق کرلیا۔ اسی لیے اس کتاب میں اس کی شرعی حیثیت کا بھی تعین کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عثمانی نسخہ‘ مدینہ سے تاشقند کیسے پہنچا؟
یہ کتاب ایم فل کا تحقیقی مقالہ ہے جو بڑی محنت اور تحقیق سے لکھا گیا ہے۔ کتاب حوالوں سے مزین ہے۔ آخر میں اشخاص اور اماکن کا اشاریہ شامل ہے۔ اس پر نفیس الحسینی شاہ کی تقریظ کتاب کی جامعیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ کتاب کے نام سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حضرت عثمانؓ کے دور کی کسی رسم کی شرعی حیثیت متعین کی جارہی ہے۔ عنوان ’عثمانی رسم الخط اور اس کی شرعی حیثیت‘ زیادہ موزوں تھا۔ مجموعی طور پر یہ ایک حوالے کی کتاب ہے جس سے تحقیق کے طلبہ بہت استفادہ کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب دینی و علمی ذخیرے میں ایک عمدہ اور اہم اضافہ ہے جس میں قرآن مجید پر مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل جوابات بھی موجود ہیں۔(قاسم محمود وینس)
اشاریہ سازی کا کام بلاشبہہ دقت طلب‘ صبر آزما اور عرق ریزی کا کام ہے مگر اشاریے محققین کے لیے تازہ ہوا اور صاف پانی کی مانند ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سفیراختر کے نزدیک کتابیات‘ اشاریہ سازی اور ان سے ملتے جلتے کام ’سبیل‘ کی مانند ہیں۔ تپتی دھوپ میں راہ گیر راستے پر سبیل سے پیاس بجھاتا‘ تازہ دم ہوتا اور دعا دیتا آگے بڑھ جاتا ہے۔
مرتب نے اشاریہ سازی کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوئے اعظم گڑھ سے شائع ہونے والے علمی‘ تحقیقی اور ادبی مجلے معارف کا ایک عمدہ اشاریہ تیار کیا ہے۔معارف کے علمی و تحقیقی مقام و مرتبے کے پیش نظر یہ ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔ زیرمطالعہ اشاریے سے پہلے بھی معارف کے چار جزوی اشاریے مرتب کیے جاچکے ہیں۔ یہ اشاریہ محمد سہیل شفیق نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے طور پر مرتب کیا ہے۔ مرتب نے اس اشاریے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں فقط زمانی اعتبارسے مقالات کی فہرست دی گئی ہے‘ دوسرے حصے میں مقالات کو ۳۶ مختلف موضوعات کے تحت تقسیم کرکے دیاگیاہے۔ موضوعات میں قرآن اور علومِ قرآن‘ حدیث و سنت‘ سیرت نبویؐ‘ فقہ اسلام‘ عقائد و عباداتِ اسلامی‘ اسلام‘ تاریخ‘ مذاہبِ عالم ‘ تہذیب و تمدن‘ اخلاقیات‘ تصوف‘ فلسفہ‘ تعلیم و تربیت‘طب و سائنس‘ سیاسیات‘ خلافت‘ اقتصادیات‘ لسانیات‘ زبان و ادب‘ اقبالیات‘ آثار و مقامات‘ شخصیات‘ آرٹ اور آرکیٹکچر‘ استشراق اور مستشرقین‘ علوم و فنون‘ عالمِ اسلام‘ عرب‘ مسلم اقلیتیں‘ہندستان‘کتب خانے‘ جامعات/تعلیمی ادارے‘ خطبات/ا نجمنیں/ ادارے ‘ تحریکیں‘ قلمی نسخے/مخطوطات‘ کتابیں اور متفرق موضوعات شامل ہیں۔ تیسراحصہ الف بائی ترتیب سے مصنفین کے اشاریے پر مشتمل ہے۔ پھر تبصرہ شدہ کتب کی فہرست دی گئی ہے۔ چھٹے حصے میں وفیات کا الف بائی اندراج ہے۔ساتویں باب میں معارف کے بعض پرچوں میں جلد نمبر‘ مہینہ‘ ہجری سال وغیرہ کے حوالے سے پائے جانے والے چند ایک تسامحات کی تصحیح کی گئی ہے۔ آخری حصے میں اُن کتب خانوں کی فہرست دی گئی ہے جہاں یہ پرچے موجود ہیں‘ پھر مخففات کی وضاحت ہے۔
معارف کے مذکورہ اشاریے کے مطالعے کے بعد مرتب کے علمی اخلاص اور محنت و کاوش کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یقینا یہ اشاریہ اپنی علمی وسعت اور حسنِ ترتیب کی بدولت مسافرانِ علم وادب کو ہرمرحلے پر اپنی اہمیت و افادیت کا احساس دلاتا رہے گا اور محققین و ناقدین مرتب کے لیے جزاے خیر کی دعا کرتے رہیں گے۔(خالد ندیم)
مصنف نے اپنے مقالے کو ’دین، دعوتِ دین اور اقبال‘، ’قرآن اور اقبال‘، ’دعوتی ادب کی تخلیق و ترویج میں اقبال کا کردار‘، ’دعوتی، دینی، تحقیقی انجمنوں اور اداروں کے ساتھ علامہ اقبال کے روابط‘، ’علامہ اقبال کے معاصر علما‘ مشائخ اور اہلِ قلم کے ساتھ دعوتی مقاصد کے لیے روابط‘ اور ’علامہ اقبال کی غیرمسلموں کو دین کی دعوت‘ کے نام سے چھے ابواب میںتقسیم کیا ہے۔ محقق نے جہاں اپنے مقالے کو تحقیقی اعتبار سے بہتر بنانے کی کوشش کی ہے‘ وہیں اس نے اس کے اسلوب کو تحقیقی سے زیادہ تخلیقی بنانے پر توجہ صرف کی ہے ‘چنانچہ قاری مطالعے کے دوران ایک خوش گوار تاثر کے ساتھ آگے بڑھتا چلاجاتاہے۔ محقق کی صحیح نظر کا اندازہ مقالے کے تیسرے باب سے ہوتا ہے‘ جس میں انھوں نے ’قوموں کی زندگی میں ادب کی اہمیت‘، ’عہداقبال کا ادبی منظرنامہ‘، ’معاصر ادب اور تصوف پر علامہ اقبال کی تنقید‘، ’علامہ اقبال کانظریۂ ادب‘، ’اہلِ قلم کو دعوتی ادب تخلیق کرنے کی براہِ راست دعوت‘اور ’علامہ اقبال کاادبی مقام اور ان کے تخلیق کردہ دعوتی ادب کے اثرات‘ کے تحت خوب دادِتحقیق دی ہے۔ اس باب کو حاصلِ مطالعہ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا۔
یہ مقالہ بہت سے نئے موضوعات کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ حیران خٹک نے اس اچھوتے موضوع پر قلم اٹھاکر اقبالیات کی سرحدوں کو مزید توسیع عطا کردی ہے۔ امید ہے کہ یہ مقالہ اقبالیاتی ادب میں تازہ ہوا کاجھونکا ثابت ہوگا۔(خ - ن)
نماز پر ایسی جامع عملی کتاب اس سے پہلے نظر سے نہیں گزری۔ اس میں نماز سے متعلق صرف معلومات ہی نہیں دی گئی ہیں‘ بلکہ ایک جذبے کے ساتھ تذکیر کرتے ہوئے استاد اور مربی کے انداز سے رہبری کی گئی ہے۔ نظری بحث بھی ہے‘ اور عملی ہدایات بھی۔ اُمت کے عروج اور فرد کی سیرت کی تعمیر میں اقامت صلوٰۃ کے کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ نماز اور توحید و آخرت‘ نمازاور ارکانِ اسلام کے تعلق پر مفید گفتگو ہے۔ آخری ۱۶ سورتیں مع ترجمہ دی ہیں۔ دعا کے باب میں تمام قرآنی اور مسنون دعائیں جمع کی گئی ہیں۔ ضروری مسائل کا بیان بھی آگیا ہے۔ ریٹائرڈ اسکواڈرن لیڈر کی تصنیف ہے‘ اس لیے ڈسپلن اور پابندی کا عنصر کچھ زیادہ ہے۔ آخر میں جائزے کے لیے چارٹ اور روزمرہ کے ماڈل نظام الاوقات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو ذاتی اصلاح کے لیے نہایت مفید ہے۔ (مسلم سجاد)
چنار کہانی ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہزاروں کہانیوں سے اخذکردہ وہ منتخب کہانیاں ہیں جنھیں صغیرقمر نے بڑی توجہ کے ساتھ الفاظ کے پیکر میںڈھالا ہے۔ وہ قارئین کی نفسیات کو سامنے رکھ کر لکھتے ہیںاورایسے الفاظ اور جملے استعمال کرتے ہیں جو براہِ راست قاری کے دل پر اثر کرتے ہیں بلکہ دلوں کے تار اس طرح چھیڑتے ہیں کہ آنکھیں باربار نم ہوجاتی ہیں اور بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔
مصنف کی اوّل و آخر شناخت کشمیر اور جہادکشمیر ہے جس کی وہ آبیاری ایک طویل عرصے سے اپنے قلم سے کر رہے ہیں۔ چنارکہانی میں کشمیر‘ افغانستان‘ فلسطین‘ اور دیگر حوالوں سے جسدِ ملّت کے زخموں اور جدوجہد کا تذکرہ ہے۔ یہ تحریریں اس سے قبل جہادکشمیر اور روزنامہ خبریں میں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ کالم دراصل اپنے دین‘ وطن اور اقدار و رویات کے ساتھ وابستگی کا رنگ گہرا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ایسے میں جب الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا روشن خیالی کے نام پر دین و مذہب سے بے زاری اور نفرت پیدا کر رہا ہے‘ زیرنظر کتاب نہ صرف نوجوان نسل بلکہ ہرطبقۂ فکر کے لیے سوچ بچار اور غوروفکر کی نئی راہیں متعین کرتی ہے۔ (عمران ظہور غازی )
ویسے تو جنرل پرویزی دور کے ترجمان القرآن میں لکھے گئے تمام اشارات اہم ہیں مگر ’پاکستان فیصلہ کن دوراہے پر‘ نے نہ جانے کیوں البدر، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، سوناربنگلہ، چہرے جیسی (کتابیں نہیں بلکہ) تاریخی دستاویزات کی یاد دلا دی۔ مجھے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے آپ کے ’اشارات‘ بروقت نہیں بلکہ وقت سے پہلے ایک تاریخی دستاویز بنتے نظر آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں مزید وسعت اور قلم کو مزید بااثر بنائے۔اس دوراہے سے پوری قوم متحدہوکر ہی نکل سکتی ہے۔
پہلے سندھ کے لوگوں کو فوج سے نفرت یا ناپسند کرنے والا سمجھتا جاتا تھا۔ میرا تعلق سندھ سے ہے لیکن میں نے پاکستان کے ہرصوبے اور علاقے میں کئی کئی برس گزارے اور حالات و مزاج دیکھے ہیں۔ کاش! سندھ کے اس وقت کے جذبات کو حقیقی آئینے میں دیکھ کر فوج کو ان کی حدود تک محدود کرنے کا بندوبست کردیا جاتا تو آج سرحد‘ بلوچستان اور پنجاب کے علاقوں میں اس قدر شدید نفرت نہ دیکھی جاتی جو سندھ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اور خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو محفوظ رکھے اور قوم کو زندہ قوم کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین!
’پاکستان ، فیصلہ کن دوراہے پر‘ (اگست ۲۰۰۷ء) میں جن تین اہم واقعات (لال مسجد‘ جامعہ حفصہ اور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی بحالی کا فیصلہ) پر دلائل و براہین کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے‘ اس سے صورت حال پوری طرح واضح ہوگئی اور حکومت کے غلط اقدامات پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ان تینوں واقعات کے بارے میں حکومت نے جورویہ اختیار کیا وہ کسی لحاظ سے بھی درست نہیں تھا۔
’اسلامی ریاست میں دعوت و جہاد کا منہج‘ (اگست ۲۰۰۷ء) تحریکِ شریعت محمدی‘جامعہ حفصہ اور دیگر اسلام کے غلبے کی خواہش مند تحریکوں کے پس منظر میں نہایت برمحل اور فکرانگیز ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے غلبے کے خواہش مند دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ ابھی تک ’طریق انقلاب‘ پر بھی متفق نہیں ہوسکے۔ تحریکِ اسلامی کی جدوجہد کو محض سیاسی کہہ کر استخفاف کیا جاتا ہے۔ مؤلف نے اپنی بات کو کتاب و سنت کے حوالوں سے مستند و مزین کیا ہے۔
’شیعہ سُنی مکالمہ‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) بلکہ مفاہمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مشترکہ ایمانیات‘ اسلامی اقدارِ حیات‘ صحابہ و اہلِ بیت کا اکرام‘ اکثریتی آبادی کے علاقوں میں اکثریت کے مسلک کی فقہ اور اقلیتی مسلک کو پرسنل لا کا تحفظ اتحاد اور بقاے باہمی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
’دورِ جدید میں بین المذاہب اتحاد کا تصور‘ (اگست ۲۰۰۷ء)‘ میںعہدِحاضر کے اہم مسائل میں سے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور غوروفکر اور عمل کے لیے رہنمائی دی گئی ہے۔
’شیعہ سُنی مکالمے‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) کو اُمت مسلمہ کی ضرورت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایسی ضرورت جو اس اُمت کو ہمیشہ رہی۔ اُمت مسلمہ کو ہمیشہ ہی ان دو بنیادی فرقوں کے باہمی اختلافات سے جس قدر نقصان پہنچا اور پہنچایا گیا وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ اہلِ علم‘ مفکرین اور اُمت کے علما کااحسان ہوگا جو وقت کے تقاضوں کے لوازمے کا اس طرح انتخاب کریں کہ عام آدمی تک شریعت کی درست تعلیمات پہنچ سکیں‘ اور پڑھنے والا ہرقاری اس فکروخیال کو آگے بڑھائے۔
امام حسن البناشہیدؒ نمبر (مئی ، جون ۲۰۰۷ء) سرورق سے اختتام تک معلومات کا گراں قدر شاہکار ہے جس کا مطالعہ ایمان کی نئی حرارت دے گیا۔ محنت کرنے والوں کو اللہ جزاے خیر دے۔ آمین
’حسن البناشہیدؒ نمبرسے پرتیں کھلیں‘کئی در وا ہوئے۔ اللہ رب العزت کی رضا کے حصول اور اس کے رنگ میں انفرادی و اجتماعی طور پر رنگ جانے کا علم بلند کرنے والے‘ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست ربط و تعلق اور آپؐ سے پُرخلوص عشق و محبت اور وابستگی و اطاعت کی مہکار میں ڈھلے ہوئے عالمِ اسلام کے قائد حسن البنا شہید کے بارے میں اتنا ضخیم اور وقیع شمارہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایسے بے مثل کردار کے حامل لوگوں کو یاد رکھنا اور اپنے خانۂ دل سے نہ بھلانا اور ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا اچھی روایت ہے۔
ماہ رمضان المبارک کی مناسبت سے دو کتابچے: ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا؟ تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ اور قــرآنی و مسنون دعائیں مع آسان ترجمہ بلامعاوضہ دستیاب ہیں۔خواہش مند خواتین و حضرات 6 روپے کے ڈاکٹ ٹکٹ بنام ڈاکٹرممتاز عمر‘ T-445 ‘ کورنگی نمبر2‘ کراچی -74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔
ہم کبھی اس طرح کی ٹھوکریں کھانے اور چوٹیں سہنے سے نہیں بچ سکیں گے جب تک کہ خود اپنی اُن غلطیوں کو محسوس نہ کریں جن کی بدولت یہ پے درپے زکیں ہمیں اٹھانی پڑ رہی ہیں۔ ہم حقائق سے منہ موڑ کر آرزوؤں اور تمناؤں کے پیچھے چلتے ہیں۔ ہم عقل کی بات بتانے والوں کودشمن اور خوش کُن باتیں بنانے والوں کو دوست سمجھتے ہیں۔ ہم ٹھوس عمل کی کمی کو خیالی ہوائوں سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نصیحت سے نفور اور کذب وفریب کے قدرداں ہیں۔ ہم کسی کو اپنے آگے لگاتے وقت اس کے اخلاقی و ذہنی اوصاف نہیں دیکھتے بلکہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ نعرہ کتنے زور کا لگاتا ہے اور زبان کے استعمال میں کس قدر مطلق العنان ہے۔ ہم اپنے رہبروں اور سربراہ کاروں کے انتخاب میں پیہم غلطیاں کرتے رہے ہیں اوراندھی پیروی کے اتنے خوگر ہوچکے ہیں کہ تباہ کن حوادث میں مبتلا ہونے سے پہلے کبھی آنکھیں کھول کر نہیں دیکھتے کہ ہمارے رہبر ہمیں کدھر لیے جارہے ہیں۔
ہماری یہی کمزوریاں دراصل ہماری سب سے بڑی دشمن ہیں۔ کسی باہر والے کی دشمنی اورکسی گھر والے کی غداری ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتی اگر ہماری اپنی یہ کمزوریاں اس کی مدد نہ کرتیں۔ اب بھی ہم انھیں سمجھ لیںاور ان کی اصلاح پر آمادہ ہوجائیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حیدرآباد کا خون رائیگاں نہ گیا۔ لیکن افسوس کہ سقوطِ حیدرآباد کے بعد فوراً ہی ہم نے اس کی ایسی توجیہات شروع کردیں جن سے اپنی کمزوریوں کے سوا ہر دوسری ممکن التصور چیز پر اس حادثۂ عظیم کی ذمہ داری ڈالی جاسکے۔ گویا ہم اپنے نفس کو یہ اطمینان دلانا چاہتے ہیں کہ ہم خود تو سب کچھ ٹھیک ہی کر رہے تھے‘ صرف فلاں کی غداری اور فلاں کی بے وفائی نے ہم کو اس حادثے سے دوچار کردیا___ درحقیقت یہ وہ افیون کی گولیاں ہیں جو ہر چوٹ کے بعد ہم اس لیے کھایا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی خامیوں کا تلخ احساس نہ ہونے پائے۔ (’اشارات‘ ، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن‘ جلد۳۱‘ عدد۵‘ ذی القعدہ ۱۳۶۷ھ‘ ستمبر ۱۹۴۸ء‘ ص ۱۰-۱۱)