مضامین کی فہرست


جون۲۰۰۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کسی بھی حکومت کی کارکردگی اور اس کی کامیابی اور ناکامی کو جانچنے کے لیے پوری دنیا میں چار سے پانچ سال کی مدت کافی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے پارلیمنٹ کی مدت بالعموم زیادہ سے زیادہ پانچ سال رکھی جاتی ہے اور جہاں کسی بھی نوعیت کا صدارتی نظام ہے‘ وہاں بھی عام طور پر صدر کی ایک مدت کے لیے چار یا پانچ سال مقرر کیے جاتے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِاقتدار آئے اور   ان کی معاشی ٹیم اپنی حکمرانی کے سات سال پورے کرنے کو ہے۔ اس پورے زمانے میں     جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور شوکت عزیز صاحب ان کی معاشی ٹیم کے کرتادھرتا کی حیثیت سے کارفرما رہے ہیں۔ جنرل صاحب ایک عرصے سے اپنے اور اپنی ٹیم کے معاشی کارناموں کو اپنی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ امریکا‘ برطانیہ اور بھارت تینوں کے ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے اس چبھتے ہوئے سوال کا کہ: آپ کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ جواب دیتے ہوئے‘ انھوں نے بڑے فخر سے فرمایا: معاشی ترقی اور    خوش حالی کا حصول۔ جناب شوکت عزیز صاحب نے اس دعوے میں مزید رنگ بھرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک میں فی کس آمدنی اب ۸۰۰ ڈالر سالانہ ہوگئی ہے۔ غربت میں ۷ فی صد کی کمی واقع ہوئی۔ بے روزگاری میں بھی کمی ہوئی ہے اور وہ اب ۷ئ۷ فی صد سے کم ہوکر ۵ئ۶ فی صد پر آگئی ہے۔ آخری لیبر سروے کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق‘ ان کا ارشاد ہے کہ ۰۴-۲۰۰۳ء میں بے روزگاروں کی تعداد ۳۵ لاکھ تھی جو ۰۵-۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۳۳لاکھ ۳۰ ہزار رہ گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حقیقت میں شرح نمو ۶ اور ۸فی صد کے درمیان ہے اور پرائمری تعلیم میں اس درجہ اضافہ ہوا ہے کہ پرائمری تعلیم کے لائق بچوں کا ۸۶ فی صد اب تعلیمی اداروں میں داخل ہورہا ہے اور بچوں کی آبادی کا ۸۳ فی صد صحت کی ابتدائی سہولت یعنی immunization سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۰۷ء تک تمام دیہاتوں تک بجلی کی روشنی پہنچ جائے گی اور ملک کی پوری آبادی کو صاف پانی دستیاب ہونے لگے گا۔

جنرل صاحب کی معاشی ٹیم ان خوش نما دعووں کا اس کثرت سے اعلان کر رہی ہے کہ ہٹلر کے دروغ گوئی کے مشہور وزیر گوبلز کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان دعووں کا بے لاگ علمی جائزہ لیا جائے اور صحیح معاشی صورت حال بے کم و کاست قوم کے سامنے رکھی جائے۔ چونکہ جون کے مہینے میں نیا بجٹ بھی آنے والا ہے‘ اس لیے اس جائزے کے لیے اس سے زیادہ اور کوئی موزوں وقت نہیں ہوسکتا۔

ہم معاشی حالات کے جائزے سے قبل اس بات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت کے نمایندوں کے ان دعووں پر ہم ہی انگشت بدنداں نہیں‘ ملک کے اکثر ماہرین معاشیات حیران و ششدر ہیں اور ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک‘ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) اور امریکا کے مشہور رسالے فارن پالیسی کی تجزیاتی ٹیم سب ہی نے ان دعووں کے برعکس اعلان کیا ہے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ اور ملک کا ہر شہری اپنے روزمرہ کے تجربے کی بنیاد پر ان حقائق پر گواہی دے رہاہے کہ اعداد و شمار کا یہ کھیل حقیقت سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ مرکزی حکومت کے ایک سابق سیکرٹری ڈاکٹر جیلانی نے دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں بڑے دل چسپ انداز میں لکھا ہے کہ میں ہی نہیں میرا ڈرائیور‘ باورچی اور خاکروب تک بازار سے جو چیز بھی لینے جاتا ہے‘ اس کا تجربہ سرکاری اعلانات کی ضد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی جو ڈان میں معاشی امور پر  ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں‘ ورلڈبنک میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے ہیں اور ایک عبوری حکومت میں وزیرخزانہ کی ذمہ داری بھی اداکرچکے ہیں‘ حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ:

حکومت کوئی قدم اٹھا سکتی ہے بشرطیکہ وہ دو باتیں پہلے کرے۔ سب سے پہلے اسے یہ خیال جھٹک دینا چاہیے کہ معیشت میں سب اچھا ہے۔ (ڈان، ۱۸ اپریل ۲۰۰۶ئ)

ملک کے توازن ادایگی (balance of payments) میں شدید خسارے کے رجحان‘ اسٹاک ایکسچینج ہی میں نہیں پوری معیشت میں سٹہ اور سٹّے کی بنیاد پر تجارتی سرگرمی اور بنکوں کے نظام کی کمزوری کی روشنی میں موصوف نے اس طرح کے خطرے تک کے امکان کا اظہار کیا ہے جیسا میکسیکو میں چند سال پہلے رونما ہوا تھا۔

جب میں ان باتوں کی طرف دیکھتا ہوں جو میکسو کے بحران سے پہلے پیش آئیں‘ تو میں انھیں آج کے پاکستان میں موجود پاتا ہوں۔(ڈیلی ٹائمز، ۲۶ اپریل ۲۰۰۶ئ)

ایک اور آزاد ماہر معاشیات ڈاکٹر ایس اکبر زیدی اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں:

گو کہ نمو (growth)کے اور اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار پروپیگنڈے کے لیے اچھے نظر آتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ حقیقی معیشت پر ان کا اچھا اثر ہو‘ جیساکہ چند برس پہلے بھارت میں ظاہر ہوچکا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ غربت اور بے روزگاری میں کمی آئی ہے‘ اگرچہ اسے ابھی یہ انکشاف کرنا ہے کہ یہ اعداد و شمار اسے کہاں سے ملے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں عدمِ مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہرکسی کو نظر آتا ہے اور پاکستان کے شہری منظرنامے سے ظاہر ہے۔ کچھ ہی صارف تسلیم کریں گے کہ افراطِ زر اتنا کم ہے‘ زیادہ تر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ معیشت میں ’بہتری‘ کے باوجود ان کی زندگی کا معیار گرا ہے۔ (روزنامہ ڈان، ۷ اپریل ۲۰۰۶ئ)

ڈاکٹر اکمل حسین ٹی ایس ایلیٹ کے مشہور مصرعے: between ideas and reality fall the shadows (تصورات اور حقیقت کے درمیان سائے ہوتے ہیں) کاحوالہ دے کر لکھتے ہیں:

حکومت کی معاشی کارکردگی کے تصور اور عوام کو جن معاشی حقائق کا سامنا ہے‘ ان کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے‘ جب کہ حکومت زیادہ نمو کے کارنامے کی خوشی منا رہی ہے۔ عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات اور افراطِ زر سے حقیقی آمدنی میں کمی کے مسلسل استحصال کا شکار ہے۔ حکومت بتاتی ہے کہ بڑے پیمانے کے صنعتی سیکٹر میں ۱۹ فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے‘ لیکن اس میں پُرتعیش گاڑیوں کا حصہ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت پر بے چینی کا مظہر ہے۔(ڈیلی ٹائمز، یکم مئی ۲۰۰۶ئ)

حکومت کے دعووں‘ عام آدمی کے شدید محرومی کے تجربات اور آزاد معاشی ماہرین کے سرکاری دعووں کے بارے میں واضح تحفظات کے اظہار نے بے یقینی کی جو فضا سی پیدا کر دی ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ حقیقت کو جاننے کی معروضی کوشش کی جائے اور یہ جائزہ علمی بنیادوں پر اور  اعداد وشمار کی صحیح تعبیر کے ساتھ لیا جائے۔ ان صفحات میں اس کی کوشش کی جارہی ہے۔

۱- پہلی بات جو ہم سب کے لیے تشویش کا باعث ہے وہ سرکاری اعدادوشمار کے قابلِ اعتماد ہونے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ایک سانحہ ہے کہ آزادی کے ۵۸سال کے بعد بھی ہم    اعدادو شمار جمع کرنے کے آزاد اور قابلِ اعتماد ادارے سے محروم ہیں۔ بلکہ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ دو سال سے سرکاری شعبہ شماریات سیکرٹری اور شماریات کے علم میں تخصص رکھنے والے ماہرین کے بغیر چلایا جارہا ہے۔ اس ادارے کو جوائنٹ سیکرٹری اور ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے کے افراد چلا رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ یہ اہم ادارہ اعلیٰ فنی ماہرین کی رہنمائی سے بھی محروم ہے۔ بار بار آزاد شماریاتی مقتدرہ (statiscal authority) کے قیام کے وعدے کیے گئے ہیں لیکن اس مرکزی اہمیت کے ادارے کو مناسب بنیادوں پر قائم کرنے کے کام سے مجرمانہ تغافل برتا جا رہا ہے۔ ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور پارلیمنٹ کی کمیٹیاں برسوں سے فریاد کناں ہیں مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی جو اس شبہے کو تقویت دیتی ہے کہ یہ سب کچھ اعداد وشمار کو حسب خواہش مرتب کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف بار بار متنبہ کرچکاہے کہ پاکستان کی وزارتِ خزانہ ہمیں غلط اعداد وشمار دیتی رہی ہے اور یہ بات پوری قوم کے لیے شرمندگی کاباعث رہی۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں ایک جگہ نہیں نصف درجن سے زیادہ مقامات پر کہا گیا ہے کہ یا ہمیں تازہ ترین اعداد و شمار نہیں دیے جا رہے یا ہمارے اعداد و شمار اور  محکمہ شماریات کے اعداد وشمار میں مطابقت نہیں۔ فنی اعتبار سے لاپروائی کا یہ حال ہے کہ صارف کے لیے قیمتوں کا اشاریہ‘ جو ہراعتبار سے ایک بنیادی اہمیت کا حامل اشاریہ ہے‘ اس کے مرتب کرنے کے لیے جن مقامات اور جن منڈیوں (markets) کا انتخاب کیا گیا ہے‘ ان میں دیہی آبادی کا ایک بھی مرکز شامل نہیں۔ صرف شہری آبادی کے ۳۵ مراکز اور ۷۱مارکیٹوں سے ساری معلومات جمع کی جاتی رہی ہیں اور باربار کی گرفت کے باوجود اس کی اصلاح نہیں کی گئی۔ اب وعدہ کیا جا رہا ہے کہ ۲۰۰۷ء میں شہری اور دیہی دونوں آبادیوں سے معلومات حاصل کی جائیں گی اور غالباً بنیادی سال بھی تبدیل کیا جائے گا۔

برآمدات میں اضافے کی بات بڑے کروفر سے کی جارہی ہے کہ اس سال کُل برآمدات ۱۷ یا ۱۸ بلین ڈالر تک پہنچ جائیں گی مگر چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمد کے بارے میں جواعداد و شمار سامنے آئے ہیں‘ اس پر چمڑے کے صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشن کا جو سرکاری ردعمل آیا ہے وہ چشم کشا ہے۔ شماریات کے فیڈرل بیورو کے سرکاری اعداد و شمار کی رو سے اس سال میں چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات میں ۵۷ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ متعلقہ صنعت کے ذمہ داروں کا کہناہے کہ اس اضافے میں بڑا دخل جھوٹے بلوں (fake invoicing) کا ہے جو صرف رعایت (rebate) لینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایسوسی ایشن کے نمایندوں کا کہنا  یہ ہے کہ پچھلے سال کے ۲۴۴ ملین ڈالر کے مقابلے میں اس سال ۳۸۷ ملین ڈالر کی برآمدات دکھائی گئی ہیں جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ جولائی تادسمبر ۲۰۰۵ء کے اعداد و شمار کو چیلنج کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے ذمہ دار ترجمان نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ۲۰۰۴ء کے متعلقہ زمانے میں برآمدات صرف ۷ملین ڈالر تھیں جو اس سال ۶۰ملین ڈالر دکھائی گئی ہیں حالانکہ حقیقت میں اس عرصہ میں برآمدات ۵ ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح سعودی عرب کو ۱۰ملین ڈالر برآمدات دکھائی گئی ہیں‘ جب کہ گذشتہ سال ۲ملین ڈالر تھیں اور اس سال بھی اس سے زیادہ نہیں۔ یہی صورت حال جنوبی افریقہ اور دوسرے ممالک کی ہے۔مختلف صنعتوں کے نمایندوں کا اندازہ ہے کہ صرف زیادہ قیمت کے بلوں (over-invoicing)کی بنا پر برآمدات کے اعداد و شمار میں ۵ئ۱ بلین ڈالر سے ۲ بلین ڈالر تک مصنوعی اضافے کا امکان ہے۔ اس طرح اصل برآمدات ۱۷یا ۱۸ نہیں ۱۵ یا ۱۶بلین ڈالر ہوں گی۔ (دی نیوز‘ ساجد عزیز‘ ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ۔ ڈان‘ ۸مئی ۲۰۰۶ئ)

اس کے ساتھ اگر اس رپورٹ کو بھی سامنے رکھا جائے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو (CBR) کے ایک سابق ملازم نے ذمہ دار حضرات سے گٹھ جوڑ کر کے موجودہ حکومت کے دور میں ۲۰۰۲ء تک ۲۰ ارب روپے refundکے ذریعے نکلوائے۔ گویا ایک طرف برآمدات کو بڑھا کر دکھایا گیا اور دوسری طرف ان کے نام پرrefund کی صورت میں اربوں روپے حاصل کیے۔    یہ بدعنوانی (corruption )اور ملی بھگت (collusion) کی صرف ایک مثال ہے۔

وزیراعظم صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۵ء میں معیشت کاحجم دگنا ہوگیا ہے لیکن اگر اقتصادی سروے اور اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں میں اضافے کی سالانہ رفتار کا مطالعہ کیا جائے تو ۰۱-۲۰۰۰ء میں اضافہ ۸ئ۱ فی صد‘ ۰۲-۲۰۰۱ء میں ۱ئ۳ فی صد‘ ۰۳-۲۰۰۲ء میں ۱ئ۵ فی صد‘ ۰۴-۲۰۰۳ء میں ۴ئ۶ فی صد اور ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۴ئ۸ فی صد تھا۔ اس کا مجموعی input ۲۵ فی صد سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ یہ صرف شماریات کے لیے بنیادی سال کی تبدیلی اور افراط زر کا پیدا کردہ مغالطہ ہے۔ اسے معیشت کے حقیقی طور پر دگنا ہوجانے کا نام دینا یا    صریح غلط بیانی ہے اور یا معیشت کے حقیقی نمو اور مالی شعبدہ بازی کے فرق کو نظرانداز کرکے عوام کو بے وقوف بنانا۔

جس ملک کے اعداد و شمار اور معاشی ٹیم کی ترک تازیوں کا یہ حال ہو‘ اس کی قیادت کے خوش نما دعوئوں پر کون اعتماد کرے گا۔

۲- ہم دلیل کے لیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ صدر اور وزیراعظم صاحبان معیشت کی ترقی کی جس رفتار کا دعویٰ کر رہے ہیں‘ وہ درست ہے یعنی ۰۵-۲۰۰۴ء میں یہ رفتار ۴ئ۸ فی صد سالانہ تھی اور سال رواں میں ہدف تو ۷ فی صد کا تھا مگر توقع ۳ئ۶ سے ۸ئ۶ کے درمیان کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اضافے کے مآخذ (sources) کیا ہیں اور ان میں کتنا دخل حکومت کی پالیسیوں کا ہے اور کتنا بیرونی (exogenous) عوامل کا۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی نے نہایت علمی انداز میں یہ تجزیہ کیا ہے اور ۰۵-۲۰۰۴ء کے ۴ئ۸ فی صد اضافے کو تحلیل کر کے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اس اضافے کے چار مآخذ ہیں جن میں سے دو بیرونی اور ایک اتفاقی ہے۔ رہا چوتھا ماخذ تو وہ بلاشبہہ معیشت کی پیداواری صورت ہے۔ پہلا سبب موسم اور قدرت کی کرم فرمائی ہے جس کا خصوصی اثر زرعی پیداوار پر پڑتا ہے اور اس سال کی زرعی پیداوار میں ۷ فی صد اضافے میں ان قدرتی عوامل کا بڑا دخل تھا جس کا مجموعی قومی پیداوار (GDP) اضافے پر ۵ئ۱ فی صد کی حد تک اثر متعین کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا اہم بیرونی سبب بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ہیں جو اس زمانے میں ایک ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور بڑی حد تک ناین الیون کے اثرات کی وجہ سے ہیں۔ اس میں کوئی دخل حکومت کی کسی پالیسی کا نہیں ہے۔ اس ذریعے کا عملی اثر جی ڈی پی پر ۲ فی صد کے قریب شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان دو عوامل کے علاوہ ایک اندرونی پہلو اور بھی تھا جو دوبارہ پیش نہیں آسکتا۔ یعنی یہ کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۳ء تک آئی ایم ایف کے دبائو تلے جو پالیسی اختیار کی گئی اس کی وجہ سے stabilization کے نام پر نمو کو suppress کیا گیا۔ یہ suppressed growth ۰۳-۲۰۰۲ء کے بعد اپنا اظہار کرتی ہے اور اس طرح ۰۵-۲۰۰۴ء کے اضافے میں ۵ئ۱ فی صد اس کا دخل نظر آتاہے ۔ اگر ان ۵ فی صد کو الگ کیا جائے تو اصل اضافہ صرف ۴ئ۳ فی صد کا ہے جسے structural growth کہا جاسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر ۷ اور ۸ فی صد مسلسل اضافے کی توقعات لگانا سائنسی اعتبارسے درست نہیں۔دوسرے معاشی ماہرین نے بھی ان پہلوؤں کو قابلِ غور قرار دیا ہے اور حکومت کے اس دعوے کو محل نظر قرار دیا ہے کہ مروجہ پالیسیوں کے پس منظر میں کُل پیداوار میں ۷ اور ۸ فی صد سالانہ اضافہ تسلسل کے ساتھ برقرار رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بنک نے ۷ فی صد کے ہدف کو قابلِ حصول قرار نہیں دیا اور سال رواں کے لیے ۳ئ۶فی صد کے لگ بھگ اضافہ کو ممکن قرار دیا ہے اور اس میں بھی بیرونی ترسیلات کے تقریباً ۲فی صد حصہ کو بیرونی عامل کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔

ہم نے یہ فنی تجزیہ صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ عام آدمی تو ۷ اور ۸ فی صد اضافے سے مرعوب ہوسکتا ہے لیکن جن کی نگاہ تمام معاشی عوامل پر ہے‘ وہ sustained rate of growth کے نقطۂ نظر سے ایک دو سال کے رفتار اضافہ کو economic break throughتسلیم نہیں کرسکتے۔

اسی طرح فنی اعتبار سے یہ ایک معما ہے کہ معاشی ترقی کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے وہ ملک میں بچت کی شرح (rate of domestic saving) اور سرمایہ کاری کی شرح (rate of investment) ہے۔ پاکستان میں بچت کی شرح نہ صرف یہ کہ علاقے کے تمام ہی ممالک کے مقابلے میں کم ہے بلکہ مالی سال ۲۰۰۳ء میں جو بچت کی شرح  مجموعی قومی پیداوار کا ۸ئ۲۰ تھی وہ ۲۰۰۴ء میں ۷ئ۱۸ اور ۲۰۰۵ء میں ۱ئ۱۵ رہ گئی۔ اس طرح ملک میں سرمایہ کاری کی شرح مطلوب شرح سے نمایاں طور پر کم ہے۔ ۷ فی صد کی رفتار سے جی ڈی پی میں تسلسل کے ساتھ اضافے کے لیے موجودہ incrementel capital output ratio کے مطابق ۳۰فی صد شرح سرمایہ کاری مطلوب ہے جب کہ یہ شرح ۲۰ فی صد سے بھی کم ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP)کی نسبت سے  domestic investment ratio میں ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کمی آئی ہے جس کی تلافی بیرونی ترسیلات اور بیرونی سرمایہ کاری (FDI) جس میں نج کاری سے حاصل شدہ رقم بھی شامل ہے‘ نے کی ہے۔ لیکن دونوں مل کر بھی مطلوب شرح سرمایہ کاری سے نمایاں طور پر یعنی تقریباً ۳۰ فی صد کم ہیں۔

ان حالات میں جو بھی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے وہ بڑی حد تک consumption based ہے مطلوبہ حد تک investment based نہیں جو بہت fragile ہے اور لمبے عرصے کے لیے قابلِ اعتماد نہیں۔ ان بنیادی معاشی حقائق کی روشنی میں ترقی کے خوش کن دعوے اور break through اور turning the corner کے مبالغہ آمیز بیانات سیاسی نعروں اور تعلّیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

۳-  ہم نے خالص علمی اور فنی نقطۂ نظر سے جو معروضات پیش کی ہیں ان کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ حکومت کے دعووں کی زمینی حقائق سے تائید نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ تو علمی بحث ہے۔ عام آدمی کی دل چسپی مجموعی پیداوار کی شرح نمو یا زرمبادلہ کے ذخائر میں افزونی نہیں__ اسے تو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی‘ بنیادی سہولتوں کے حصول اور روزگار اور خوش حالی کے پیمانے پر حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنا ہوتا ہے اور اس اعتبار سے عام آدمی کی زندگی معاشی محرومی‘ استحصال اور ظلم کی تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ غربت کی شرح ۳۰ سے ۴۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے اور حکومت کے ان دعووں میں کوئی صداقت نہیں کہ ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں ۲۰۰۵ء میں ۷ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ حکومت کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہی ہے‘ کسی کو علم نہیں اور بار بار کے مطالبات بلکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مالیاتی کمیٹی کے متعین مطالبے کے باوجود نہ تو تفصیلی رپورٹ فراہم کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے طریق کار (methodolgy)کو ظاہر کیا گیا۔ ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک نیز ABN-Amro بنک کی رپورٹ میں غربت کو ۳۲ فی صد ہی دکھایا گیا ہے حتیٰ کہ پلاننگ کمیشن کے دس سالہ وسط مدتی منصوبے  میں جو ۲۰۰۵ء میں آیا تھا اور حکومت کے غربت میں کمی کے دعوے کے بعد شائع ہوا ہے‘ غربت کی شرح کو آبادی کا ایک تہائی قرار دیا گیا ہے۔ ابھی امریکی مجلہ فارن پالیسی نے جو Failed States Index شائع کیا ہے اس میں بھی پاکستان میں ۳۲ فی صد غربت کی بات کی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ ایکونومکس کے اپنے جائزے کے مطابق بھی غربت ۳۲ فی صد سے ۳۷ فی صد تک ہے۔

غربت کا مسئلہ اوّلین معاشی مسئلہ ہے۔ پیداوار میں وہ اضافہ جو امیروں کی ضروریات کو پورا کرے یا مبادلہ خارجہ کمانے کا ذریعہ ہو‘ عوام کے لیے غیرمتعلق ہے۔ ان کی ضرورت یہ ہے کہ زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولتیں قابلِ برداشت قیمت پر حاصل ہوں‘ یعنی رسد بھی کافی ہو اور قیمت بھی ان کی دسترس میں ہو___ اور اس وقت دونوں ہی مفقود ہیں۔

ایک زرعی ملک جو تقسیم سے قبل پورے ہندستان کی ضروریات پوری کر رہا تھا اور ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء میں بھی بڑی حد تک زرعی اجناس کی حد تک خودکفیل ہوگیا تھا اب گندم‘ چینی‘ پیاز‘ ٹماٹراور دالوں تک کے لیے دوسروں کا محتاج ہوگیا ہے اور تمام ہی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میںقیمتیں دوسرے ممالک سے کم ہیں لیکن حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ ہم صرف پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت میں چند اشیاے ضرورت کی قیمتوں کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جو انٹرنیٹ سے حاصل کیے گئے ہیں اور پاکستان کی کرنسی میں اپریل کے آخر اور مئی ۲۰۰۶ء کے شروع کی معلومات فراہم کرتے ہیں:

اشیا

پیمانہ

Unit

اسلام آباد

(۰۶-۰۵-۰۴)

ڈھاکہ

(۰۶-۰۴-۲۷)

نئی دہلی

(۰۶-۰۴-۲۷)

آٹا

کلوگرام

۱۶ئ۱۳

۹۴ئ۱۶

۴۴ئ۱۶

ماش کی دال

"

۵۰ئ۷۵

۵۹ئ۴۶

۲۰ئ۸۲

گائے کا گوشت

"

۵۰ئ۱۳۷

۶۰ئ۱۱۸

۳۷ئ۵۱

بکری کا گوشت

کلوگرام

۵۰ئ۲۵۷

۴۳ئ۱۶۹

۵۰ئ۲۶۵

چینی

"

۸۸ئ۳۷

۱۳ئ۴۹

۱۴ئ۳۰

سویابین تیل

لٹر

۰۰ئ۸۲

۵۹ئ۴۶

۶۵ئ۶۱

آلو

"

۵۰ئ۲۶

۸۶ئ۱۱

۷۰ئ۱۳

پیاز

"

۲۵ئ۱۹

۵۵ئ۱۳

۹۶ئ۱۰

پٹرول

"

۷۷ئ۵۷

۱۲ئ۳۸

۳۸ئ۶۱

ڈیزل

"

۸۰ئ۳۸

۴۱ئ۲۵

۵۴ئ۴۲

مٹی کا تیل

"

۰۰ئ۴۰

۶۵ئ۲۹

۳۲ئ۴۹

LPG

کلوگرام

۶۴ئ۴۳

۷۷ئ۲۲

-

CNG

کیوبک میٹر

۳۷ئ۳۱

۳۱ئ۶

۶۶ئ۲۴

DAP

کلوگرام

۰۰ئ۲۳

۷۹ئ۱۲

-

یوریا

"

۰۰ئ۱۱

۲۴ئ۴

-

سیمنٹ

فی بوری

۰۰ئ۳۲۵

۲۱ئ۲۳۷

۹۴ئ۲۲۱

اس جدول سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے عام شہری کو بحیثیت مجموعی اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے مقابلے میں دگنا اور بھارت کے مقابلہ ایک تہائی زیادہ قوت خرید درکار ہے‘ جب کہ عام آدمی کی اوسط آمدنی ان ملکوں میں برابر برابر ہے۔ اقبال نے صحیح کہا تھا   ع

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

پاکستان میں کم سے کم اُجرت قانونی طور پر ۳۰۰۰ روپے ماہانہ ہے لیکن عملاً اس سے نصف اور دو تہائی پر بھی بڑی تعداد کو کام کرنا پڑتا ہے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جس خاندان کی آمدنی ۵ہزار ماہانہ سے ۱۰ ہزار تک ہے وہ بھی اس آمدنی میں ضروریاتِ زندگی پوری نہیں کرسکتا۔ اور اس بنیاد پر ملک میں غربت کی سطح کی گرفت میں ۶۰ اور۷۰ فی صد آبادی آجاتی ہے۔

یہی وجہ ہے یو این کے Human Development Indexمیں دنیا کے ۱۷۷ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۳۵ واں ہے اور گذشتہ ۶ سال میں ہم نیچے گئے ہیں‘ اُوپر نہیں آئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ رخ رفیع خاں کی کتاب Hazardous Home Based Labour جسے اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے ۲۰۰۵ء میں شائع کیا ہے‘ اس میں بچوں کی لیبر کی جس زبوں حالی کا نقشہ کھینچا گیا ہے‘ وہ رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے۔ کارپٹ‘ چوڑیوں کی صنعت‘ پلاسٹک‘ موم بتی بنانے کے کارخانوں میں ۸ سے ۱۲ سال کے لڑکے اور لڑکیاں تک ۱۶ گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں اور ۱۷۰۰ سے ۲۰۰۰روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کو ایک ہزار اینٹ بنانے کے ۶۰ روپے ملتے ہیں اور یہی ہزاراینٹ منڈی میں ۴ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ زراعت میں بھی چھوٹے کاشت کار اور مزارع کی حالت دگرگوں ہے۔ بظاہر زرعی اجناس کے لیے support price کا اعلان ہوتا ہے مگر عملاً بڑا زمین دار ہی اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور چھوٹے کاشت کار کو جس کے اندر اپنی پیداوار کو روک رکھنے کی سکت نہیں‘ کم دام پر فروخت کرنا پڑتی ہے۔

پاکستان قومی ترقیاتی رپورٹ ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر اکمل حسین نے Asymmetric Markets for Inputs and Outputs میں جو حقائق پیش کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا کاشت کار مجبور ہوتا ہے کہ اپنی پیداوار کو بڑے زمین دار کی پیداوار کے مقابلے میں سستا بیچے اور جو زرعی ضروریات اسے درکار ہیں وہ بڑے زمین دار کے مقابلے میں مہنگی حاصل کرے جس کے نتیجے میں انھی اشیا کی خرید و فروخت پر چھوٹے کاشت کار کو بڑے زمین دار کے مقابلے میں اوسطاً ۳۳ فی صد کم آمدن ہوتی ہے یا ۳۳ فی صد زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔

شہری آبادی کے بارے میں بھی متعدد جائزے یہ حقیقت سامنے لاتے ہیں کہ گذشتہ ۱۰سال میں حقیقی اُجرت (real wages) کم ہوئی ہے اس میں اضافہ نہیں ہوا جو غربت میں اضافے کا باعث ہے۔

روزگار کے سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری جتنی زیادہ آج ہے‘ پہلے کبھی نہیں تھی۔ نیز روزگار کی فراہمی کے جو وعدے کیے جا رہے ہیں‘ ان میں صداقت نہیں۔ ایک تو روزگار کی تعریف ہی نہایت ناقص ہے یعنی اگر ایک شخص کو ہفتے میں دس گھنٹے کا کام بھی مل جائے تو وہ برسرِروزگار ہے حالانکہ اتنے گھنٹے کا کام پیٹ بھرنے کے لیے آمدن نہیں پیدا کرسکتا۔ پھر ایک عجیب و غریب قسم برسرِروزگار کی بنائی گئی ہے یعنی unpaid house labourاور ملک میں جن ۲۳ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے ان میں سے ۱۱لاکھ سے زیادہ کا تعلق اسی unpaid house labourسے ہے۔

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے؟

تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی صورت حال لیبر سروے کے تجزیہ پر مبنی     ڈاکٹر جنیداحمد کے ایک مضمون کے مطابق کچھ یوں بنتی ہے کہ ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں ۲۰۰۶ء میں میٹرک تک تعلیم پانے والوں کی بے روزگاری میں ساڑھے دس فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ   اس عرصے میں گریجویشن یا اس سے اُوپر تعلیم حاصل کرنے میں سوا اٹھارہ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دوسالوں کے دوران ان تعلیم یافتہ بے روزگاروں میں ۲۴ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۳۷ لاکھ      بے روزگاروں میں سے ۱۳ لاکھ بے روزگار ایسے ہیں جنھوں نے میٹرک سے زیادہ اور گریجوایشن سے کم تعلیم حاصل کی ہے۔

اُجرت کی کمی‘ قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ‘ سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی خدمات کا فقدان یا ان کی ناگفتہ بہ حالت جیسے تعلیم‘ علاج کی سہولت‘ صاف پانی کی فراہمی‘ مکان‘ سڑکوں اور روشنی تک رسائی‘ ان سب کے مجموعی اثرات کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے اورایمان کی کمزوری اور اخلاقی زوال کے اس دور میں مسلمان معاشرے میں ان حالات کے ردعمل میں ایک طرف تخریب کاری‘ چوری‘ ڈاکا اور قتل و غارت گری طوفان کی شکل اختیار کررہے ہیں تو دوسری طرف مایوسی اور بے بسی کی وہ کیفیت رونما ہو رہی ہے جو جسم فروشی اور خودکشی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس صورت حال کی ذمہ داری سب سے زیادہ حکومت اور معاشرے کے متمول طبقات پر آتی ہے۔

حکومت کے کرتادھرتا کتنے ہی بغلیں بجائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ یونیسف (UNICEF) کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق پاکستان اور جنوب ایشیا میں under nourished اور under weight بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے یعنی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں یہ شرح ۴۶ فی صد ہے جو دنیا کے اوسط سے تقریباً دگنا ہے۔ پاکستان میں ان بچوں کی تعداد ۸۰لاکھ کے قریب ہے۔ (ڈان، ۳مئی ۲۰۰۶ئ)

تعلیم کے لیے وسائل بڑھانے کے تمام دعووں کے باوجود ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ Little Green Book 2006 کے مطابق پاکستان میں تعلیم پر اخراجات قومی پیداوار کے تناسب سے کم ہیں یعنی ۳ئ۲ فی صد‘ جب کہ جنوب ایشیا کا اوسط ۶ئ۳ فی صد اور پوری دنیا کے  کم ترقی یافتہ ممالک کا اوسط ۴ئ۳ فی صد ہے (ڈان، ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ)۔ اور بات صرف تعلیم کے بجٹ کی نہیں اس بجٹ کا استعمال‘ کرپشن‘ اسکولوں کی زبوں حالی‘ اساتذہ کا فقدان اور بے توجہی‘   تعلیمی معیار کی پستی اور شکستہ حالی سب کے سامنے ہے۔

وزیراعظم صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پرائمری عمر کے طلبا کا ۸۶ فی صد اسکولوں میں جارہا ہے‘ جب کہ ورلڈ بنک کی یہ رپورٹ کہہ رہی ہے کہ اس عمر کے بچوں کا صرف ۵۰ فی صد تعلیم کی سہولت تک رسائی پارہا ہے یعنی ۵ سے ۹ سال کے بچوں کی موجودہ تعداد ۲کروڑ کا صرف نصف تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ان میں سے بھی اسکول چھوڑ جانے والوں (drop outs)کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پانچویں تک آتے آتے تعداد نصف رہ جاتی ہے۔

کراچی ملک کا امیرترین شہر ہے‘ اس کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق شہر کا ۵۵ فی صد کچی آبادیوں پر مشتمل ہے جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز، ۴مئی ۲۰۰۶ئ) اور پورے ملک کے بارے میں جائزے بتا رہے ہیں کہ آبادی کا ۵۹ فی صد آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو پیٹ کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۳۱ دسمبر ۲۰۰۵ئ)

یہ ہیں عام آدمی کی زندگی کے حالات ___نہ پیٹ بھر کر روٹی میسر ہے‘ نہ صاف پانی‘   نہ گھرکی سہولت حاصل ہے‘ نہ تعلیم اور صحت کی۔ اور حکومت دعوے کر رہی ہے کہ ہم آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں اور زمین پر دودھ کی نہریں بہا دی ہیں۔

۴-  معاشی صورت حال کا ایک دوسرا دل خراش پہلو دولت کی ناہمواری‘ معاشرے کی طبقاتی تقسیم‘ اور حکومت کی وہ سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں نام نہاد اضافہ‘ بیرونی تجارت کا فروغ اور زرمبادلہ کے ڈھیر اصل ہدف ہیں‘ جب کہ غربت کا خاتمہ‘ روزگار کی فراہمی‘ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدل و انصاف اور ضروریاتِ زندگی پر مبنی آمدنی پالیسی (income policy)کا فقدان ہے۔ سرمایہ داری اپنی بدترین شکل میں پروان چڑھائی جارہی ہے۔ آزاد معیشت‘ منڈی کا نظام‘ نج کاری (privatization) اور de-regulation کے نام پر ایک استحصالی معیشت کو فروغ دیاجا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک اشرافی معیشت (elitist economy)وجود میں آئی ہے جس میں دولت کا ارتکاز ایک محدود طبقے کے ہاتھوں میں ہورہا ہے اور عام افراد غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ چند لاکھ گھرانے ہیں جو دولت کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور ان کا پُرتعیش طرزِ زندگی اسراف اور تبذیر کی بدترین مثال ہی پیش نہیں کر رہا بلکہ معاشرے میں طبقاتی منافرت پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ حکومت اور اس کے کارپرداز جس طرزِ زندگی کو فروغ دے رہے ہیں اور جو مثال قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے عیش و عشرت اور نام و نمود کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک طرف     قومی وسائل کے ضیاع کا باعث ہے تو دوسری طرف قوم کے محروم طبقوں میں نفرت کی آگ سلگا رہا ہے اور معاشرے کو تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔ صرف چند حقائق پیش کیے جا رہے ہیں جن سے  اس خطرناک صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اسٹیٹ بنک نے ملک میں بنک کاری کے نظام اور کارکردگی کے بارے میں جو تازہ ترین اعداد وشمار جاری کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جون ۲۰۰۱ء میں ملک کے تمام بنکوں میں کل کھاتہ داروں کی تعداد ۲کروڑ ۷۲ لاکھ ۷۰ہزار تھی جو جون ۲۰۰۵ء میں کم ہوکر ۲کروڑ ۶۹لاکھ ۸۰ہزار رہ گئی۔ اصل کمی ان کھاتہ داروں میں ہوئی ہے جن کے ڈپازٹ ۴۰ ہزار روپے یا اس سے کم تھے اور اس کے برعکس اضافہ ان میں ہوا ہے جن کے ڈپازٹ پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ ۸۳ ہزار سے بڑھ کر ۳ لاکھ ۹۵ ہزار ہوگئی ہے۔ بنک نج کاری کے بعد جس طرح اپنے کھاتہ داروں کا استحصال کر رہے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں کھاتہ داروں کو جو نفع دیا جا رہا تھا اگر اسے افراط زر سے adjustکرکے real returnمتعین کی جائے تو وہ صرف ۶ئ۰ تھی مگر اب ۲۰۰۵ء اور اس کے بعد کے اعداد و شمار کی روشنی میں کھاتہ داروں کی real returnمنفی ہے یعنی ۸ئ۵-۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنکوں کا spread یعنی جس شرح پر وہ کھاتہ داروں کو نفع/سود دیتے ہیں اور جس شرح سے advance پر سود وصول کرتے ہیں وہ ۷ اور ۵ئ۷ فی صد ہے جو دنیا میں کہیں نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ۲۰۰۶ء کے پہلے تین ماہ میں بنکوں کے نفع میں ۲۰۰۵ء کے پہلے تین ماہ کے نفع پر۵۸ فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم ۱۴ ارب روپے بنتی ہے۔ اس طرح اگر ۲۰۰۵ء میں بنکوں کے نفع کا جائزہ لیا جائے تو ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں ۷ئ۹۸ اضافہ ہوا۔ ٹیکس ادا کرنے کے بعد یہ نفع ۵ئ۴۷ ارب روپے تھا۔ واضح رہے کہ بنکوں کے ٹیکس کی شرح کو بھی گذشتہ سالوں میں کم کیا گیا ہے جو ۴۵ فی صد سے کم کرکے ۳۸ فی صد کردیا گیا ہے اور دعویٰ ہے کہ آیندہ سال مزید ۳ فی صد کم کردیا جائے گا۔

بنک تو پھر بھی کچھ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں جو سٹہ کا کاروبار ہو رہا ہے اور جس میں گذشتہ ۶ سال میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کا index جو ۱۹۰۰ تک گرگیا تھا‘ بڑھ کر ۱۱۰۰۰ سے تجاوز کرگیا ہے۔ چند بڑے بڑے کھلاڑی ہیں جنھوں نے اربوں روپیہ بنالیا ہے‘ جب کہ ہزاروں عام سرمایہ کار ہیں جوبالکل لٹ گئے ہیں۔ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی کی تجویز تھی جسے سینیٹ نے باقاعدہ حکو مت کو بھیجا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار پر capital gains taxلگایا جائے مگر سرمایہ پرست لابی نے اسے نامنظور کردیا بلکہ اسٹاک ایکسچینج کے لیے جو    نگران ادارہ ہے جب اس نے بڑی مچھلیوں پر گرفت کی ہلکی سی کوشش کی تو اس کے سربراہ کو بیک بینی و دوگوش کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر دیا گیا۔ اسی طرح زمینوں کی قیمتوں کا مسئلہ ہے جس میں land mafiaنے اربوں روپے کمائے اور کوئی ٹیکس نہیں‘ نگرانی کا کوئی نظام نہیں۔  چھے سال میں زمین کی قیمتیں ۱۰ سے ۲۰ گنا بڑھ گئی ہیں اور ایک عام آدمی کے لیے گھر بنانے اور سرچھپانے کا اہتمام کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور یہ تمام طبقات ٹیکس کی گرفت سے ہی باہر ہیں۔

قیمتی ترین کاروں کی ریل پیل ہے۔ ہر مہینے ہزاروں کاریں سڑکوں پر آرہی ہے اور ایک سے ایک قیمتی کار درآمد کی جارہی ہے۔ گذشتہ سال صرف کاروں کی درآمد پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ صرف ہوا ہے۔ جو کاریں ملک میںبنائی جارہی ہیں ان کے لیے مشینری اور پرزوں کی درآمد کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو یہ رقم دگنی ہوجاتی ہے۔ اس پر مستزاد اسمگل شدہ گاڑیوںکی مالیت بھی اربوں میں ہے۔ سڑکوں کی جو حالت ہے‘ پٹرول کی درآمد سے جو بوجھ ملک کے زرمبادلہ پر پڑرہا ہے فضا کو خراب کرنے اور آلودگی کے جو تباہ کن اثرات ہورہے ہیں ان سب کا معاشی پالیسی بنانے والوں کو کوئی ادراک نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بری حالت میں ہے۔ ریل کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ جو ۵ ہزار کلومیٹر ریلوے لائن ۱۹۴۷ء میں تھی ۲۰۰۶ء میں بھی وہی ہے۔ اس میں چند کلومیٹر کا اضافہ نہیں ہوا‘ جب کہ بھارت میں ۳۰ ہزار کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ٹرین سروس عام آدمی کے لیے ٹرانسپورٹ کا موثر اور سستا نظام فراہم کر رہی ہے۔ پھر ان کے کرایوں میں بھی بین الاقوامی قیمتوں کا نام لے کر اضافہ روز مرہ کا معمول ہے مگر انرجی پالیسی اور ٹرانسپورٹ پالیسی کا فقدان ہے اور ایسی جامع پالیسی (comprehensive policy) کا توکوئی تصور ہی نہیں جو مواصلات کے جملہ پہلوؤں‘ وسائل اور کم سے کم لاگت کو سامنے رکھ کر بنائی جائے۔

سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ صرف ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کے اخراجات اور وزرا کی فوج ظفرموج پر کیے جانے والے اخراجات پر    ایک نظر ڈالنے سے کیاجاسکتا ہے۔ صرف ان دو عہدوں پر فائز انسانوں پر روزانہ ۲لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہو رہا ہے‘ جب کہ ایک عام شہری کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرا‘ ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری عہدہ داروں کے صرف اس سال کے بیرونی سفر کے اخراجات کا جو تخمینہ سلطان احمد نے ڈان میں پیش کیا ہے اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ڈان کا کالم نگار لکھتا ہے کہ صرف پچھلے چھے ماہ میں ۷۰۵ملین ڈالر ان شاہانہ اسفار پر خرچ ہوئے ہیں۔ سرکاری استعمال کے لیے ۶۰ مرسڈیز سال گذشتہ میں منگوائی گئی تھیں‘ اب اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین متمنی ہیں کہ ان کی پرانی مرسڈیز متروک کر دی جائیں‘ سوا سو کروڑ کی نئی مرسڈیز خریدی جائیں۔ اسپیکراسمبلی اپنے لیے ۱۰کروڑ کا مکان بنوانا چاہتے ہیں۔ نئے وزیروں کے لیے ۲۰کروڑ ۵۰ لاکھ روپے Minister's Enclosure میں اضافے کے لیے منظور کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں بڑے لوگوں کے لیے ۱۱-H میں ایک سوشل کلب بنانے کے لیے ایک ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ کراچی میں کراچی پورٹ کے سامنے سمندر میں ایک ۶۲۰فٹ اُونچا فوارہ ۲۲کروڑ ۵۰لاکھ روپے سے بنایا ہے جو کام نہیں کر رہا۔

اور اس قیادت کے ذہنی افلاس اور اخلاقی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے تازہ ترین فرمان کے ذریعے صدر مملکت‘ وزیراعظم اور چاروں گورنروں کے لیے خصوصی احکام جاری کیے ہیں کہ ان کے لیے منگوائے جانے والے غیرملکی سگریٹ اور سگار فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ (ڈان، ۱۴ مئی ۲۰۰۶ئ)

ایک طرف غربت‘ افلاس‘ بے روزگاری‘ بے چارگی اور دوسری طرف اسراف‘ تبذیر‘ عیاشی اور دولت کی نمایش کا یہ ہولناک تفاوت ہے جو ملک کی معیشت ہی نہیں معاشرے کی تمام اقدار کو گھن کی طرح کھا رہا ہے اور بے چینی اور اضطراب کے اس لاوے کی پرورش کر رہا ہے جو نہ معلوم کب آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے۔

۵-  بین الاقوامی تجارت کا خسارہ جو اس سال بڑھ کر ۱۰ سے ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھونے والا ہے اور سابقہ سال کے مقابلے میں دگنا ہوگیا ہے اور جس کے نتیجے میں توازن ادایگی بھی اب اتنے خسارے میں جا رہا ہے جو ۴ سے ۵ بلین ڈالر ہوسکتا ہے‘ جو سابقہ سال کے خسارے کے مقابلے میں تین گنا ہے‘ خطرے کی ایک اور گھنٹی ہے۔ بیرونی قرضوں میں کوئی نمایاں کمی نہیں ہوئی اور اندرون ملک قرضوں میں اضافہ ہوا ہے اور بجٹ کا خسارہ بھی تقریباً دگنا ہوگیا ہے۔ اپنے وسائل سے بڑھ کر رہن سہن (living beyond means) کی پالیسی تباہ کن ہے لیکن معاشی ترقی کے نشے میں مست قیادت ان تمام warning signals کو نظرانداز کیے ہوئے ہے اور ملک کو بہت ہی خطرناک صورت حال کی طرف لے جا رہی ہے۔

پانی کی قلت کا مسئلہ بڑا اہم مسئلہ ہے مگر اسے بھی سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ گذشتہ ۷سال سے آپ حکمران ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے کیا اقدام کیے؟ ترجیحات کے تعین اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے کیا مساعی کی گئیں؟ پانی کے صحیح استعمال کے طریقوں کو رائج کرنے کے لیے کیا کیاگیا؟ پانی کا مسئلہ آج آپ کے علم میں آیا ہے؟ قیمتوں کے سلسلے میں بھی جنرل مشرف صاحب نے ۱۶مئی ۲۰۰۶ء کو ایک خطاب میں فرمایا ہے کہ کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں ۵۰ فی صد کمی کر دی جائے گی۔ (ڈیلی ٹائمز، ۱۷ مئی ۲۰۰۶ئ)

سبحان اللہ! گویا صرف آپ کے حکم کی کمی تھی۔ لیکن اس فرمان کے جاری فرمانے میں اتنی تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟

چینی کا بحران آج بھی موجود ہے اور اب جو بحث اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اور وزیرتجارت کے درمیان اخبارات میں ہورہی ہے‘ اس نے اس حکومت کے سارے کرداروں کو بالکل بے نقاب کردیا ہے۔ کس طرح ذاتی منافع کے لیے سرکاری پالیسیوں کو تبدیل کیا گیا‘ بنکوں کو استعمال کیا گیا‘ درآمد کی جانے والی چینی کو بھی سرکار میں بیٹھے ہوئے مل مالکوں نے اپنے لیے    نفع اندوزی کا ذریعہ بنایا‘نیب نے مداخلت کی تو اس کو کان پکڑ کر باہر کردیا گیا۔ آج بھی چینی ۳۷روپے کلو مل رہی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کا معاملہ بھی ایک اسیکنڈل سے کم نہیں۔ اس حکومت کے دور میں ۴۵ بار اس میں اضافہ کیا گیا ہے اور صارف کو آج اس قیمت سے تین گنا زیادہ قیمت دینا پڑ رہی ہے جو ۱۹۹۹ء میں دے رہا تھا اور ستم یہ ہے کہ قیمت میں ۴۲ فی صد حصہ سرکاری ٹیکسوں کا ہے۔

پانچ سال پہلے اسی حکومت کی کابینہ نے طے کیا تھا کہ قیمتوں کا تعین تیل اور گیس کی اتھارٹی (OGRA) کرے گی مگر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ پٹرول کی قیمتیں غیرملکی کمپنیاں مقرر کرتی رہیں اور من مانی کرتی رہیں جن میں سیلزٹیکس اور ایکسائز پر بھی اپنا کمیشن لینا شامل ہے   جس مد میں ساڑھے چار ارب روپے پچھلے چند سالوں میں ان کمپنیوںنے عوام سے وصول کیے۔ جب اس راز سے پردہ اُٹھا تو کمپنیوں نے یہ رقم واپس کرنے کے بجاے مزید سرمایہ کاری نہ کرنے کی دھمکیوں سے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ نیب نے نوٹس لیا تو نیب کے پیچھے پڑ گئے اور خطرہ ہے کہ جس طرح چینی کے معاملے میں نیب کی انکوائری کو دفن کر دیا گیا‘ اس طرح اس معاملے کو بھی ختم کردیا جائے گا۔

۶- ایک اور اہم مسئلہ صوبوں کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدترسلوک ہے۔ مرکز نے صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرلیا ہے۔ سارے ٹیکس مرکز لگا رہا ہے اور جو ٹیکس ہمیشہ سے صوبوں کا حق تھے یعنی سیلزٹیکس‘ اسی طرح صوبے کے قدرتی وسائل کی رائلٹی وغیرہ‘ یہ سب اب مرکز کی گرفت میں ہیں اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت تقسیم کا جو نظام تجویز کیا گیا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا حتیٰ کہ   این ایف سی ایوارڈ بھی معرض التوا میں پڑا ہوا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے پر مرکز جو کمیشن لیتا ہے وہ     سی بی آر کے اصل اخراجات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ مرکز نے صوبوں کو نقد ترقیاتی قرضے دیے ہیںوہ بالعموم رعایتی شرح سود پر باہر سے حاصل کیے گئے ہیں مگر مرکز صوبوں سے ۱۴ سے ۱۷ فی صد سالانہ سود وصول کر رہا ہے اور یہ قرضے ۲۰۰ بلین روپے سے متجاوز ہیں۔ صوبے مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم سے قرض واپس لے لیں اس لیے کہ مارکیٹ سے وہ اس سے نصف شرح سود پر قرض لے کر یہ رقم واپس کرسکتے ہیں لیکن ظلم ہے کہ ان کو قرض واپس کرنے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔ این ایف سی کا جو من مانا (arbitrary) ایوارڈ صدر نے دیا ہے اس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صوبوں کو     ۴۴ ارب روپے زیادہ مل رہے ہیں لیکن اس کی سزا یہ دی جارہی ہے کہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام سے ملنے والی اس سے ۱۲ ارب زیادہ رقم یعنی ۵۶ ارب سے ان کو محروم کیا جا رہا ہے۔


خرابی کی جڑ دو چیزیں ہیں: ایک شخصی حکومت‘ پارلیمنٹ کی بے بسی‘ جمہوریت کا فقدان  اور جواب دہی کا عدم وجود اور دوسرا معاشی پالیسی کے بنیادی نمونے (paradigm) کا بگاڑ‘ وژن کا افلاس اور حقائق سے بے تعلقی۔

دوسرے تمام معاملات کی طرح معاشی حالات کی اصلاح کا دارومدار بھی حقیقی جمہوری‘ عوام کی خادم اور عوام کے سامنے جواب دہ حکومت کے قیام پر ہے۔ ایسی حکومت کے ذریعے معاشی ترقی کے ایک بالکل دوسرے ماڈل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کو سرمایہ دارانہ نظام کا دم چھلہ نہ بنائے بلکہ خودانحصاری کی بنیاد پر عوام کی فلاح و بہبود اور انصاف اور عدل اجتماعی پر مبنی ایک ہمہ جہتی معاشی پالیسی تشکیل دے تاکہ معاشی ترقی اور استحکام کے ساتھ تمام انسانوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع ملے‘ اور ملک کے تمام باشندوں اور تمام علاقوں کے درمیان دولت کی تقسیم منصفانہ ہو اور وسائل حیات سب کے لیے یکساں طور پر اور وافر مقدار میں میسر ہوں۔ یہ اسلام کا تقاضا ہے‘ اور یہی ایک مہذب معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔اس انقلابی تبدیلی کے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے جس میں سیاسی طالع آزمائوں اور سرمایہ داری کے اسیر معاشی کارپردازوں نے اس ملک کو پھنسا دیا ہے۔ بقول اقبال     ؎

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات

عامرعبدالرحمن چیمہ کی شہادت نے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک  برقی رو دوڑا دی۔ ہر صاحبِ ایمان کے دل کا وہ تار چھڑ گیا جو اس کا سرمایۂ حیات ہے۔ اس کا  مظاہرہ لاکھوں افراد کے اس عظیم الشان ہجوم سے ہوا جو محض اپنے جذبے کی کشش سے‘ کسی باقاعدہ اعلان و پروگرام اور کسی مہم اور کوشش کے بغیر انتہائی گرم موسم میں خود ہی شہید کے گائوں ساروکی‘ گوجرانوالہ پہنچا۔

ہماری قومی زندگی کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے جذبات اور ترجیحات‘ ان کے مقاصد اور عزائم پاکستان میں بسنے والے عوام کے جذبات اور اُمنگوں کے بالکل مخالف اور متصادم ہیں۔ سید مودودی علیہ الرحمہ نے اپنی مشہور تقریر اسلام عصرِحاضر میں،  میں فرمایاتھا کہ آزادی کے بعد مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ آپس کی کش مکش ہی  سب سے اہم ترین سرگرمی ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیت قوم کی توانائیوں کو کھا جاتی ہے اور عام معاشی ترقی کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔

ہمارے ملک میں اس وقت سرفہرست یہی مسئلہ ہے۔ حکومت کو فکر ہے کہ دنیا کے سامنے پاکستان کا ’سافٹ امیج‘ پیش کیا جائے۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر اور حکومت کی سرپرستی میں    طرح طرح کی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ لیکن کسی ایسے مظاہرے سے‘ جو عامر شہیدؒ کی تدفین کے موقع پر ہوا‘ حکمران طبقے کی ساری کوششوں پر پانی پھرجاتا ہے اور پاکستان کا حقیقی امیج دنیا کے سامنے آجاتا ہے۔

توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے موقع پر بھی دنیا نے یہی دیکھا کہ عوام مطالبہ کر رہے ہیں اور حکومت احتجاج کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ جب سے ہمارے فوجی حکمران نے افغانستان پر حملے کے لیے اپنے کندھے پیش کیے‘ ایک کے بعد ایک ایسے اقدامات ہورہے ہیں جو عوام کی مرضی کے خلاف ہیں۔ ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کے نام پر وہ کچھ ہو رہا ہے جسے پاکستانی عوام کااجتماعی ضمیر تسلیم نہیں کرتا۔ احتجاج ہوتے ہیں‘ ان پر کان نہیں دھرا جاتا۔

ہمارے حکمران بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کوئی عام ملک نہیں۔ یہ دو قومی نظریے کے حوالے سے لا الٰہ الا اللّٰہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ اگر یہاں روز اوّل سے اس کے مطابق کام کیا گیاہوتا تو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) ہم سے جدا نہ ہوتا اور پاکستان اس علاقے کی ایک اہم طاقت ہوتا۔ لیکن حکمرانوں نے عوام سے لڑکر‘ ان کے خوابوں اور اُمنگوں کے خلاف پالیسیاں اختیار کرکے‘ آج پاکستان کو امریکا کی تابع فرمان اور بھارت کے مقابلے میں نہایت کم تر حیثیت کی ریاست کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔

اگر آج پاکستان میں عوام کی آرزوؤں اور اُمنگوں کی نمایندہ قیادت برسرِکار ہوتی تو عامرچیمہ شہیدؒ کے جنازے کا مکمل اہتمام سے استقبال کیا جاتا‘ اہلِ خانہ کی مرضی کے مطابق اور سہولتیں فراہم کر کے راولپنڈی میں نماز جنازہ ادا کی جاتی‘ اور اس طرح دنیا کویہ پیغام دیا جاتا کہ  یہ اُمت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے معاملے میںکتنی حساس اور یک زبان ہے___ اور اس حوالے سے حکومت اور عوام میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ہمارے حکمران ایک ایسی کوشش میں مصروف ہیں جس کے لیے بالآخر ناکامی مقدر ہے۔ مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کو کھرچ کر پھینکا نہیں جاسکتا۔ یہاں مائیں اپنی لوریوں کے ساتھ اللہ کی بندگی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا درس دیتی ہیں۔ ملک کا نظامِ تعلیم ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی تربیت دینے والا ہو تو ہر نوجوان ملکی طاقت وقوت کا ایک خزانہ ہے‘ لیکن اگر تعلیم مخالف سمت کی دی جائے تو نوجوانوں کی طاقت کش مکش کی نذر ہوجاتی ہے۔

عامرشہیدؒ کے جنازے سے اربابِ حکومت کی آنکھیںکھل جانا چاہییں کہ یہ قوم کس طرح سوچتی ہے‘ اس کی طاقت کا اصل منبع کیا ہے‘ اسے کس رخ پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر وہ عوام کی مرضی کے مطابق نہ چلیں تو انھیں ملک پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انھیں خود سمجھنا چاہیے‘ کہ جب عوام ان پر نفرین بھیج رہے ہوں‘ ان کے برسرِحکومت رہنے کا کوئی جواز نہیں۔

اگر پاکستان کو اقوامِ عالم میں اپنا حقیقی مقام حاصل کرنا ہے‘ اس کے قیام کے لیے جو قربانیاںدی گئی ہیں‘ انھیں برگ و بار لانا ہے‘ اگر یہاں کتاب و سنت کی فرماں روائی قائم ہونا ہے‘   تو اس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حکومت کی جائے۔ یہی جمہوریت کی بھی روح ہے۔ جمہوریت یہ نہیں کہ زور زبردستی سے انتخابات کے ذریعے ٹھپا لگوا لیا جائے۔ عامرشہیدؒ کے جنازے اور اس سے پہلے خاکوں کے مسئلے پر جو احتجاج ہوا‘ اس نے بتادیا ہے کہ ملک کے عوام کس طرح سوچتے ہیں‘ کیا چاہتے ہیں۔ اگر شفاف انتخابات میں ان کی عکاسی ہو  تو ملک کا نظام درست ہو اور پاکستان ایک باوقار اسلامی جمہوری ملک بنے۔

پاکستان کو قائم ہوئے ۶۰برس ہونے کو ہیں لیکن یہاں کی بیوروکریسی نے اس ملک کے نظریے کو پنپنے نہیں دیا بلکہ قوم کو انتشار اور بے مقصدیت کا زہر دیے رکھا۔ آج پوری دنیا میں ڈکٹیٹروں کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔ یہاں کے اقتدار پرقابض ٹولے کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہییں کہ ملک کواپنی جاگیر نہ سمجھیں وگرنہ دوسرے ممالک میں کامیاب عوامی احتجاج کے نتیجے میں آمریتوں کے خاتمے کی مثالوں میں پاکستانی عوام کے لیے کرنے کا بہت کچھ سبق موجود ہے۔

حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے واپسی میں حضرت اسامہؓ کے انتظار کی خاطر دیر فرمائی۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک چپٹی ناک والے سیاہ رنگ کے نوجوان (اسامہؓ) آپہنچے (تو آپؐ چل پڑے)۔ یمن کے لوگوں نے (جو اس موقع پر موجود تھے کراہت کا اظہار کرتے ہوئے) کہا: اچھا! ہمیں اس شخص کی خاطر روکا گیا (یعنی اس حقیر چپٹی ناک اور کالے رنگ والے نوجوان کے سبب جو کسی قدروقیمت کا حامل نہیں ہے)۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ نے کہا کہ یمن والے اس تحقیر آمیز جملے کی پاداش میں کافر ہوگئے۔

ابن سعد کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ہارون سے ’کافر ہوگئے‘ کا مطلب پوچھاتو انھوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں جو لوگ مرتد ہوگئے تھے‘ ان میں یمن کے وہ لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے نبی اکرمؐ کے طرزِعمل اور  حضرت اسامہؓ کی شان میں یہ توہین آمیز جملہ زبان سے نکالا۔ اسی کا وبال ان پر مرتد ہوجانے کی شکل میں پڑا۔ (ابن سعد، ج ۴‘ ص ۴۴)

آج کل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس‘ آپؐ کے فرامین‘ اسلامی اقدار و روایات‘ دین اسلام اور اس کے احکام‘ داڑھی‘ پردہ‘ پگڑی اور جہاد وغیرہ کی توہین ہو رہی ہے۔ اسلام پر عمل پیرا اور   اسلامی نظام کے علم برداروں کی تحقیر و تذلیل کی جا رہی ہے۔ ان پر ’دہشت گرد‘، ’انتہا پسند‘ وغیرہ کی پھبتیاں کسی جارہی ہیں۔ توہین کے مرتکب ایسے لوگوں کو دنیا میں ذلت و رسوائی‘ بدامنی‘ قحط سالی‘ معاشی بدحالی‘ قتل و غارت گری‘ دہشت زدگی‘ اور طرح طرح کی آسمانی آفات و بلیات‘ طوفان بادوباراں‘ زلزلوں وغیرہ سے دوچار ہونے کے علاوہ دلوں کی سیاہی‘ کفر و شرک‘ گمراہی‘ الحاد و ارتداد جیسے وبالوں سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے‘ جو دنیاوی وبالوں سے بڑا وبال ہے۔ اس لیے کہ یہ آخرت جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے‘ کی بربادی کا ذریعہ ہے اور انھیں دوزخ کا ایندھن بناتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کی توہین‘ آپؐ کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے والے‘ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لیے آواز اُٹھانے والوں کی تحقیر کرنے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ جو نام نہاد مسلمان ان جرائم کا مرتکب ہوگا تو وہ نعمت ایمان سے محروم ہوسکتاہے۔ قرآن پاک بھی اس کی تائید کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز سے اُونچا نہ کرو اور ان سے اس طرح کی اُونچی آواز میں بات نہ کرو جس طرح تم ایک دوسرے سے اُونچی آواز میں بات کرتے ہو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں (اعمال میں ایمان بھی شامل ہے) اور تمھیں اس کا احساس تک نہ ہو (الحجرات ۴۹:۲)۔ ایمان والوں کے لیے اس میں تسلی بھی ہے کہ اگر وہ ناموس رسالتؐ اور اسلامی شعائر کی توہین کرنے والوں سے انتقام نہ لے سکے تو کوئی بات نہیں‘ وہ انتقام سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ خود انتقام لے لیں گے۔

حضرت طلق ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی ابودرداؓ کے پاس آیا اور کہا: آپ کا گھر جل گیا ہے۔ انھوں نے جواب میں فرمایا: میرا گھر نہیں جلا۔ پھر دوسراآدمی آیا اس نے بھی یہی بات کہی۔ جواب میں حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: میرا مکان نہیں جلا۔ پھر تیسرا آدمی آیا اور اسی طرح کی بات کہی تو حضرت ابودرداؓ نے جواب میں فرمایا: میرا گھر نہیں جلا۔ پھر چوتھا آدمی آیا اور اس نے کہا: اے ابودرداؓ! آگ بھڑک اُٹھی تھی اور آپ کے گھر کے قریب پہنچ گئی تھی کہ اس کے بعد بجھ گئی۔ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: مجھے پتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے گھر کو نہیں جلائے گا۔ اس شخص نے کہا: اے ابودرداؓ! ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ آپ کی دونوں باتیں ’میرا گھر نہیں جلا اور اللہ تعالیٰ نے میرے گھر کو نہیں جلانا‘ میں سے کون سی بات زیادہ عجیب ہے۔ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: کچھ دعائیہ کلمات ہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو آدمی صبح کو یہ کلمات پڑھے اسے شام تک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی۔ وہ کلمات یہ ہیں:

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ ، عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، مَاشَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشأْ لَمْ یَکُنْ ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ، اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ، وَاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًا ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ دَآبَّۃٍ اَنْتَ اَخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا ، اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ، اے اللہ! آپ میرے رب ہیں، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، میں نے تجھ پر بھروسا کیا‘ تو عرش کریم کا رب ہے۔ جو اللہ نے چاہا‘ ہوا‘ اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا۔ نہیں ہے کوئی گردش اور قوت مگر اللہ بلند عظیم ذات کے ساتھ۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہرچیز پرقادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کا علم کی بنیاد پر احاطہ کیا ہوا ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنے نفس اور       ہر جان دار کے شرسے‘ تو اس کی پیشانی کو پکڑنے والا ہے‘ میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔ (بیہقی اسماء و صفات ، ص ۱۱۵)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ایسا یقین ہو جس طرح حضرت ابودرداؓ کو یقین تھا توحضرت ابودرداؓ کی طرح اس یقین کا پھل بھی ملتا ہے۔ دعا اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ مدد کرسکتے ہیں اور مدد کرتے بھی ہیں‘ تب اللہ تعالیٰ کو پکارنے والا کامیاب و کامران ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں اپنا اثر دکھاتی ہیں اور وعدے پورے ہوتے ہیں لیکن اس صورت میں کہ اس کے تمام وعدے اور ہدایات   پیش نظر رکھی جائیں۔ حضرت ابودرداؓ بھی انھی ہستیوں میں سے تھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی تمام ہدایات اور وعدوں کو پیش نظر رکھا‘ ان کو پورا کیا‘ تب وہ یقین رکھتے تھے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگا۔

حضرت ابی اسمائؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّـرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ o (پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ الزلزال ۹۹: ۷-۸) اتری۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کھانے سے ہاتھ روک لیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا ہم جتنی برائیاں کریں ان سب کو دیکھیں گے اور آخرت میں ان کی سزا پائیں گے؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں جو تکلیف دہ حالات تمھیں پیش آئے ہیں‘ یہ ان برائیوں کی سزا ہے جن کا تم سے ارتکاب ہوجاتا ہے‘ اور نیکیاں نیک لوگوں کے لیے آخرت کا ذخیرہ بن جاتی ہیں (وہ سب آخرت میں مل جائیں گی)۔ (کنز العمال، ج ۱‘ ص ۲۷۵)

اللہ تعالیٰ نیک لوگوں پر کتنے مہربان ہیں کہ ان کی نیکیاں آخرت کے لیے جمع ہوجاتی ہیں اور چھوٹی موٹی برائیوں کا حساب اسی دنیا میں تکالیف اورمصائب کی شکل میں بے باق ہوجاتا ہے۔ لہٰذا نیک لوگوں کو نیک کاموں میں فعال اور برائیوں سے اجتناب میں بیدار رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کواپنا وظیفہ بنانا چاہیے۔

حضرت عبدالرحمن بن عائذؓ سے روایت ہے‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی طرف لشکر روانہ فرماتے تو اسے ہدایت فرماتے: لوگوں سے الفت و محبت کا رویہ اختیار کر کے ان کو اپنے ساتھ مانوس کرو‘ اور ان پر حملہ اس وقت تک نہ کروجب تک اپنی دعوت ان کے سامنے پیش نہ کرو۔ زمین پر مٹی کے گھروں اور خیموں میں رہنے والوں کو تم مسلمان بناکر میرے پاس لائو‘ یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ تم ان کے نوجوانوں کو قتل کردو اور ان کی عورتوں اوربچوں کو لونڈیاں اور غلام بناکر لے آئو۔(کنز العمال، ج ۳‘ ص ۱۵۲)

اصل کام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا مطیع فرمان بنانا‘ شیطان اور انسانوں کی غلامی سے آزاد کرنا ہے تاکہ انسان اپنے مالک کے شکرگزار بنیں‘ اس کا حق ادا کریں‘ جنت میں جائیں‘ دوزخ کی آگ سے بچیں اور دنیا میں سکون و اطمینان کی زندگی بسر کریں۔ یہ انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا تقاضا ہے۔ دعوت کا کام خوش اخلاقی اور الفت و محبت کے ذریعے ہوتا ہے جو ہر دور میں جاری رہ سکتا ہے۔ ہرجگہ اور ہرملک میں رہ کر کیا جا سکتا ہے۔قتال مخصوص حالات میں اور شرائط پورا ہونے پر کیا جاتا ہے۔ جب تک قتال کے حالات پیدا نہ ہوں اس وقت تک قتال معطل ہوتا ہے۔ آج جہاد بالقرآن ساری دنیا میں ہوسکتا ہے اورہو رہا ہے لیکن قتال صرف ان ممالک میں ان قوتوں کے خلاف ہے جنھوں نے اسلامی ممالک پر غاصبانہ قبضے کرلیے ہیں۔ اسے جہاد آزادی کہا جاتا ہے‘ جو حصول آزادی تک جاری رہے گا۔    جہاد بالقرآن پر توجہ دینے اور اس کو وسیع کرنے کے لیے پوری صلاحیتوں اور وسائل کو بروے کار    لانا چاہیے۔ مسلمان ممالک میں سیکولرنظام کو ختم کرنا اور اسلامی نظام کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد بھی جہاد بالقرآن ہے۔ اس لیے ان ممالک میں انقلاب کے لیے تلوار اور بندوق اُٹھانا جائز نہیں ہے۔

اقامت دین کے لیے برپا تحریک اور رکنیت کے حوالے سے چند نکات پیش ہیں۔ اگرچہ یہ متنوع اور غیر مربوط ہوں گے مگر ان سب کا مقصد ایک ہی ہے ۔

تحریک اسلامی

اس ضمن میں پہلی بات یہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ تحریک اسلامی کا یہ پورا نظام ایک اجتہادی نظام ہے ۔ اگر ہم قرآن و حدیث میںان اصطلاحات کو تلاش کرنا چاہیں تو وہاں نہیں ملتیں۔ وہاں مومن ‘ مسلم ‘ متقی‘ محسن ‘ یہ ساری اصطلاحات تو ملتی ہیں لیکن رکن ‘امیدوار ‘رفیق اورحامی کی اصطلاحات موجود نہیں ہیں‘ اور نہ کہیں یہ احکام ملتے ہیں کہ اس قسم کا نظام بنایا جائے۔ یہ بات میں نے شروع میں اس لیے کہی ہے کہ بنیادی طور پر دین کا کام کرتے ہوئے دو چیزوں کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا بڑا ضروری ہے۔ ایک وہ چیز ہے جو انسانوں نے اپنے فہم ‘ سمجھ بوجھ اور استنباط و اجتہاد سے وضع کی ہے‘ اور دوسری وہ چیز ہے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر دیا ہے ۔ مثال کے طور پر پانچ وقت کی نماز اجتہاد نہیں ہے بلکہ منصوص ہے ۔ اسی طرح سود کی حرمت اجتہاد نہیں منصوص ہے ‘ جب کہ جو چیزیں اجتہادی ہیں وہ انسان کے اپنے فہم پر مبنی ہیں۔

اس لحاظ سے جب یہ نظامِ رکنیت بنایا گیا تو اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اقامت دین فرض ہے ۔ اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے ‘ مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی۔ چنانچہ اس اجتماعیت کو وجود میں لانے یعنی اسے عملی شکل دینے کے لیے ہم نے اپنے زمانے اور حالات کے لحاظ سے اور اپنی سہولت کے مطابق جس نظام کو بہترین سمجھا‘ وضع کرلیا۔چونکہ مقصد شریعت کا منصوص ہے ‘ اس لیے رکنیت کی ایک دینی و شرعی حیثیت بھی ہو گئی۔

فریضہ اقامت دین

دوسری بات جو اس سلسلے میں ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک اور بھی دینی مقصد منصوص ہے جس کے لیے یہ رکنیت کانظام اور تنظیم بنائی گئی ہے‘ اور وہ ہے اقامت دین کا فریضہ۔ اقامت دین کے فریضے کی ادایگی کے لیے اگر کوئی چیز ہر ایک پر فرض ہے تو وہ دعوت کا کام ہے۔ میں چاہوں گا کہ ان الفاظ پر آپ اچھی طرح غوروفکر کریں اورانھیں جذب کریں کیونکہ رکن بننے کے لیے جہاں جماعت اسلامی کا دستور چند بنیادی شرائط عاید کرتاہے ‘ اوررکن بننے کے بعد جو کچھ کرنا ہے اس کے لیے اپنے سیرت و کردار میں بتدریج کچھ تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے‘ وہاں ہر رکن کے لیے وہ اس بات کو بھی لازم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے حلقۂ تعارف میں دعوت کا کام کرے‘ اور  یہ کارِ دعوت اس کے لیے فرض ہے ۔ لہٰذا ہر رکن دائمی مبلغ ہے ‘ اور شعبہ دعوت و تبلیغ ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس کا ہر رکن اورہر کارکن ممبر اور رکن ہے ۔

اگر یہ دو چیزیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں واضح ہیں ‘ تو پھر اس سے ہٹ کر کچھ اورچیزیں بھی ہیں جنھیں ہر رکن کو سوچ سمجھ کر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔

نئے تھذیب و تمدن کی تعمیر

ہمارا رکنیت کا یہ نظام جو منصوص نہیں ہے‘ دراصل اس لیے بنایاگیا ہے کہ ہم جن حالات میں کام کررہے ہیں ‘ یہ وہ حالات نہیں ہیں جو اس وقت موجود تھے جب قرآن نازل ہو ا اور سنت کی تدوین ہوئی۔ اُس وقت ایک بگڑا ہوا مسلمان معاشرہ جو زوال پذیر ہو موجود نہیں تھا‘ بلکہ ایک طرف کفار تھے اور دوسری طرف مومن ‘نیز وحی الٰہی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں براہِ راست خدا کی رہنمائی موجود تھی ۔ ہمارے پیش نظر ایک بگڑا ہوا اور زوال پذیر مسلمان معاشرہ ہے جس کی اصلاح درپیش ہے۔ ہمیں جہاں ایک طرف حقیقی فہم دین ‘ اہل علم اور علماے دین کی ضرورت تھی وہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ ہم کو تہذیبی اور تمدنی معمار بھی بننا ہے ۔ یہ الفاظ بھی ہمارے ہاں استعمال ہوئے ہیں کہ رکن وہ ہیں جو تہذیبی اور تمدنی معمار ہوں‘ جو دنیا کے اندر ایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدّن کے تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ ان کی سیرت و کردار بھی ایسا ہو‘ جو اُن کی  اپنی اخروی نجات کے لیے بھی ضروری ہے اور اسی سیرت و کردار کے بل پر وہ عوام کے قائد بھی بن سکیں‘ ان کی رہنمائی کر سکیں اور ان کے ملجا بن سکیں‘ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ عوام کے لیڈر بھی بنیں اور تہذیبی و تمدنی معمار بھی اور اپنے بلند کردار کی جاذبیت کی وجہ سے ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھال سکیں اور ان کی ذات عوام کا مرجع بن جائے۔ گویا وہ معاشرے سے الگ تھلگ اور  کٹے ہوئے نہ رہیں‘ بلکہ لوگ خود ان کی طرف رجوع کریں کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کے پاس ہم کو جانا چاہیے۔

یہ چند بنیادی پہلو ’رکنیت کیا اور کیوں‘ کے تصور کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہر رکن کو انھیں سمجھنا اور جاننا چاہیے۔

تعمیر ذات

فریضہ اقامت دین اور دعوت الی اللہ کی ادایگی کے لیے پہلی ضرورت انفرادی   سیرت و کردار کی تعمیر ہے ۔ اگر پیش نظر تہذیبی و تمدنی معمار بننا ہو تو اس کے لیے سب سے بڑھ کر اپنی ذات کی تعمیر ضروری ہے ۔ اگرچہ اپنی ذات کی تعمیر کوئی ایسی ضروری چیز نہیں ہے کہ جس میں آدمی گم ہوجائے اور کھوجائے ‘ بلکہ رکنیت کا فارم بھر کے اور ضابطے کی کارروائی پوری کر کے ‘ کتابیں پڑھ کے اور کچھ اجتماعات میں حاضری دے کے جو رکنیت حاصل ہوتی ہے وہ رکنیت ہمارا مقصود نہیں ہے۔ مقصود تو رکنیت کا وہ تصور ہے کہ یہ ایک فریضہ ہے ‘ اوررکنیت کا یہ معیار مطلوب ہے کہ ارکان مثالی سیرت و کردار کے حامل ہوں تاکہ وہ تہذیبی و تمدنی معمار بن سکیں‘ اور انھیں عوام کی لیڈر شپ حاصل ہو سکے‘ یعنی اپنے اپنے دائرۂ اثر میں لوگوں کو اپنے پیچھے لے کر چل سکیں۔

مسلسل کوشش اور عمل

اس سلسلے میں بھی چند بنیادی باتیں جاننے کی ضرورت ہے ۔

پہلی بات تویہ ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہوں‘کہ ہماری ذات کی تعمیر صرف کسی اجتماعیت سے وابستہ ہو جانے سے ہو جائے گی تو میرا خیال ہے کہ یہ غلط فہمی ہوگی ۔ اگرچہ اپنی ذات کی تعمیر کے لیے اجتماعیت میں شمولیت بڑی ضروری اور ناگزیر ہے اور انسان کی ذات ایسی ہے کہ اجتماعیت کے سانچے میں آکر ہی اس کی تعمیر ممکن ہے‘ لیکن اجتماعیت ‘ وعظ و نصیحت ‘ درس و تقریراور کتاب اور لٹریچر‘ ان میں سے کوئی چیز بھی ذات کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہے ۔ یہ سب بھی موجود ہوں تو ذات کی تعمیر میں نقص اور کمی رہ سکتی ہے ۔ ذات کی تعمیر کے لیے سب سے بڑھ کراپنی کوشش اور عمل کی ضرورت ہے ۔ گویا کہ اپنے آپ کو خود سنبھالنا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو بے پناہ قوتیں اور صلاحیتیں بخشی ہیں۔ ہر نفس کے اندر اس نے اپنی روح پھونکی ہے‘ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ(صٓ۳۸:۷۲) ۔ہر ایک کو سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کی صلاحیتوں سے آراستہ کیا ہے ۔ ہر شخص کی ذات میں ایک دنیا مخفی ہے۔ان سب صلاحیتوں سے کام لینا ‘ ان کی تنظیم و تربیت کرنا ‘ ان کو پروان چڑھانا‘ اپنی ذات کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے ۔ ملک کا انتظام اور دنیا کی امامت سنبھالنے سے پہلے ‘ اپنی ذات کی امامت سنبھالنا اور اپنی ذات پر قابو پانا اور اس پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنا ضروری ہے۔

ہماری ذات ہمارا کردار اور شخصیت کیسی بھی ہو‘ ہمارا نام ارکان کی فہرست میں دیکھ کر فیصلہ نہیں ہوگا‘ بلکہ اعمال نامہ دیکھ کر فیصلہ ہوگا ۔ اسی طرح ناظم کا اور شوریٰ کا فیصلہ بھی اس کی ترازو میں کوئی وزن نہ رکھے گا بلکہ اعمال کی شہادت ہی فیصلے کی اصل بنیاد ہوگی۔ اس حقیقت اور روح کو اگر آپ نے سمجھ لیا اور پا لیا ‘ تب ہی صحیح معنوں میں اپنی ذات کی تعمیر ہو سکے گی۔

اپنی ذات کی تعمیر و تربیت میں اگر صرف دو چیزوں پر خاص طور پر توجہ مرکوز رہے ‘ تو اس کے اندر ساری چیزیں سمٹ آتی ہیں۔

لِلّٰھیت اور تعلق باللّٰہ

پہلی چیز ’للہیت ‘ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے‘ یعنی جو کام کریں اللہ کے لیے کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ سب خرابیاں اخلاص کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح اعمال میں جو وزن پیدا ہوتا ہے وہ اخلاص کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں خلافت کا وعدہ بھی اخلاص کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ جہاں لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ (النور۲۴:۵۵۔  وہ انھیں زمین میں خلیفہ بنائے گا۔) کا وعدہ ہے وہاں یہ شرط بھی ہے: یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ(۲۴:۵۵- یعنی صرف میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کریں)۔ صرف اس صورت میں وہ ان کو زمین میں خلافت اور غلبۂ دین عطا کرے گا اور خوف کوامن سے بدل دے گا۔ یہ اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کا نتیجہ ہے۔ پھر بڑے بڑے عوامی ‘ سیاسی ‘ دعوتی اور تنظیمی کاموں میں بھی یہی رنگ آئے گا۔ صبغت اللّٰہ اللہ کا رنگ غالب آئے گا‘ اور ان میں سے ہر ایک تربیت کا ذریعہ بنے گا۔ دوسری صورت میں اجتماعات میں لوگ آئیں گے اوراٹھ کر چلے جائیں گے۔ خَرَجُوْا کَمَا دَخَلُوْا جس طرح داخل ہوئے تھے‘ اسی طرح نکل کے چلے جائیں گے۔ کوئی رنگ ان پہ نہیں چڑھے گا ‘ اور کوئی چیز ان کے دلوں میں نہیں اترے گی۔

دراصل للہیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اخلاص کا نام ہے ۔ اس کے بغیر دین کا کوئی کام نہیں ہو سکتا اور اللہ کے ہاں قبول بھی نہیں ہوسکتا۔ مشہور حدیث ہے : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ،کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ شہدا کی شہادت ‘ مال داروں کا انفاق اور قرآن کے عالموں کا درس‘ ان میں سے کوئی بھی چیز ان کو فائدہ نہیں دے گی اگراس کے ساتھ للہیت اوراخلاص نہ ہو۔ تحریک اسلامی سے وابستہ ہو کر جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں‘ اس سب کا ہماری ذات کے لیے آخرت میں اگر کوئی فائدہ ہے اور اگر دنیا میں بھی کوئی پھل ملے گا‘ تو وہ صرف للہیت اور اخلاص کی وجہ سے ملے گا‘ خواہ ہم رکن ہوں یا نہ ہوں۔

تعلّق باللّٰہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق تو ایک الگ موضوع ہے۔ مختصراً میں اس کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا ۔ اس ضمن میں چند چیزیں جو مختلف جگہوں پرمختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہیں‘ ان میں سے صرف دو تین دعائیں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ کو یہ اندازہ ہو کہ کس قسم کا بندہ بننا مطلوب ہے۔ ایک دعا کے چند جملے ہیں:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ  ذَکَّارًا ،میرے رب مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں۔

لَکَ شَکَّارًا ، اور بہت کثرت کے ساتھ اپنا شکر کرنے والا بنا دے۔

لَکَ رَھَّابًا ، تجھ سے بہت ڈرا کروں۔

لَکَ مِطْوَاعًا ، تیری بہت فرماں برداری کیا کروں۔

لَکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی) تیرے آگے جھکا رہوں‘ اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں۔

یہ ایک طویل دعا کا مختصر سا حصہ ہے ۔ اس میں آپ کے سامنے پوری تصویر کھینچ دی گئی ہے ‘ کہ   اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیسا تعلق مطلوب و مقصود ہے۔

ایک اور بڑی جامع دعا ہے : اَللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ، اے اللہ تو میرے دل کو منافقت سے پاک کر دے‘ یعنی کہیں پر بھی دو رنگی نہ ہو ‘کہ زبان پر کچھ ہو‘ اورعمل کچھ اور ہو‘بلکہ یکسانیت ہو۔ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَا ، اورجو کام ہو اس کو ریا سے پاک کر دے‘ یعنی دکھاوے کے لیے نہ ہو۔ ہر کام میں صرف تیری رضا پر نظر ہو‘ اور صرف تیرے لیے کام کروں۔ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ اور زبان کو جھوٹ سے پاک کر دے۔ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخَیَانَہِ اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کر دے۔

ایک اور مختصر سی دعا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الرِّضَا بِالْقَضَائِ وَبَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، (اے اللہ تو جو بھی فیصلہ کردے‘ اس پہ مجھے راضی رکھ ‘ اور موت کے بعد جو زندگی ہے اس زندگی کی لذت عطا کر)۔ گویا اصل مطلوب دنیا کی نعمتوں کی لذت نہیں بلکہ خدا کی رضا اورآخرت کی لذتیں ہیں۔ پھر فرمایا: وَلَذَّۃَ النَّظْرِ اِلٰی وَجْھِکَ الْکَرِیْمَ، (اور تیرے کریم چہرے کو دیکھنے کی لذت)۔ اس کے بھی دو معنی ہیں جو عام طور پر سمجھ میں نہیں آتے۔ ایک تو یہ ہے کہ آخرت میں تیرے چہرے پرنظر جمانے کی جو مجھے لذت ملنے والی ہے ‘ وہ مجھے عطا کر۔ لیکن آپ غور کریں تو اس کے ایک اورمعنی بھی ہیں‘ یعنی یہ کہ دنیا کے ہر کام میں ‘ تو اپنے چہرے پرنظر جما کے اپنی رضا طلب کرنے میں لذت پیدا کردے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام جبراً نہ ہو‘  مارے باندھے کا     نہ ہو۔کوئی توجہ دلائے ‘کوئی ترغیب دے یا بالائی نظم کی طرف سے ہدایت یاسرکلر آئے تو کام ہو‘ بلکہ تیری رضا کی طلب میں ہو‘ یعنی یہ کہ جو ہو بس اسی کے لیے ہو جائے اور اس میں لذت پیدا کردے۔ وَالشَّوْقَ اِلٰی لِقَائِکَ، اور تیری ملاقات کا شوق۔

یہ تین دعائیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ ویسے تو بہت سی دعائیں ہیں۔ میں نے دعائوں کو اس لیے وسیلہ بنا لیا‘ کہ دعا دراصل اپنی دل کی پیاس کا نام ہے ۔ انسان وہی چیز مانگتا ہے جس کی ضرورت کا اسے احساس ہوتا ہے ۔ ان چھوٹی سی تین دعائوں میں وہ تمام باتیں بیان ہوگئی ہیںجو للہیت اور تعلق باللہ کے لیے ضروری ہیں اور جن کی پیاس ہونی چاہیے‘ بھوک ہونی چاہیے‘ طلب ہونی چاہیے‘ جستجو ہونی چاہیے۔

عدل اور احسان کا رویہ

میں دو چیزوں میں تعمیر کردار کو سمیٹنا چاہ رہا تھا۔ ایک چیز’’ للہیت‘‘ اللہ کے ساتھ تعلق ہے‘ اور دوسری چیز مخلوق کے ساتھ عدل اور احسان کا سلوک ۔

ہمارے ایک مشہور مصنف کا قول ہے کہ ’’مخلوق کو ایذا نہ پہنچانا‘یہ ساری شریعت کی بنیاد ہے‘‘۔ حکم ہے کہ اگر تین آدمی ایک جگہ اکٹھے ہوں تو دو آدمی الگ ہو کر بات نہ کریں۔ بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح شادی‘ خاندان‘ تجارت‘ ریاست اور سیاست کے سارے اصول اسی بنیاد پر ہیں کہ کسی انسان کو کسی دوسرے انسان سے تکلیف نہ پہنچے ۔ حکم ہے کہ‘ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ‘ مال اور اس کی عزت مکمل طور پر حرام ہے۔ ہمارے معاشرے میں خون بہانے کی نوبت تو بہت کم آتی ہے‘ اورشاید کچھ لوگ دوسروں کا مال بھی جائز ناجائز طریقے سے کھالیں لیکن کسی دوسرے کی عزت پر دست درازی بڑی عام ہے‘ جب کہ اسلام میں برائی کے ایک ایک رخنے کو بند کر کے مسلمان کی عزت کو بحال کیا گیا ہے ۔

ایک تیسری بات بھی قابل غور ہے کہ تربیت کے لیے مصنوعی ذرائع کے بجاے فطری ذرائع پر انحصار کر نا چاہیے۔ تربیت کے لیے بڑے بڑے نصابوں اور تربیت گاہوں سے گزرنا بالکل ضروری نہیں ہے ۔ اگرچہ ان سب سے تربیت میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ذرائع اہمیت کے حامل ہیں۔ تربیت کا فطری طریقہ یہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں ان پہلوئوں پر توجہ مرکوز رہے ‘ یعنی کہیں کسی کو مجھ سے تکلیف نہ پہنچ جائے‘ کسی کا دل خوش کر دوں ‘ کسی سے مسکرا کے مل لوں‘ تو ان اعمال کی بنا پر بھی اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر سکتا ہے ۔ کسی کے راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دی جائے تو اس پر بھی جنت مل سکتی ہے ۔ کسی کی زندگی میں کوئی آسانی پیدا کر دی جائے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا سکتی ہے اور اس کے قرب سے نواز سکتی ہے ۔ اسی طرح اس کے ذکر ‘ شکر اور خوف اور توبہ و استغفار کا معاملہ ہے۔ یہ سب چیزیں تربیت کا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ روز مرہ کام ہی جاری رہیںگے‘ اورمعمول سے ہٹ کر کچھ نہ کرنا ہو گا‘ لیکن ان کے ذریعے سے ہر چیز میں وہ روح پیدا ہو جائے گی جو قلب کو آہستہ آہستہ صاف کرے گی‘ اس کو جلا بخشے گی اور کردار سازی کا ذریعہ ہوگی۔ ان سب باتوں کا تعلق ایک فرد کی ذات اورانفرادی تربیت سے ہے۔

دنیا کی امامت

تربیت کا دوسرا پہلو اجتماعیت سے متعلق ہے ‘ اور وہ یہ کہ ہماری اصل ذمہ داری ایک نئے تہذیب و تمدن کی تعمیر ہے۔ اسلامی تحریک اسی لیے وجود میں آئی ہے ۔ یہ سارے کام جن کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ کسی خانقاہ میں بھی ہو سکتے ہیں‘ اور اس سے قبل ان کو کرنے والے خانقاہوں میں ہی پائے جاتے تھے۔ اسی طرح علمِ دین کسی مدرسے سے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن اصل چیز جس کی وجہ سے ہم سب جمع ہوئے ہیں‘ اورجس نے ہمارا آپس میں تعلق قائم کیاہے ‘وہ اس کے علاوہ اورکیا ہے کہ ہم دنیا کے اندر اللہ کے دین کی بنیاد پرایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ امامتِ عالَم پر ہماری نظر ہے‘ جیسا کہ مکہ اورمدینہ میں بالکل بے بس و بے کس اورمظلوم انسانوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ عرب و عجم اور قیصر و کسریٰ کے خزانے اور ساری دنیا ہمارے قدموں میںہے۔ اسی لیے جیسے ہی وہ مدینہ سے نکلے تو ان کے ہاں یہ بحث نہیں چھڑی تھی کہ ہم سیاست میں پڑ گئے ہیں یا ہم فتوحات اور مالِ غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے ہیں‘ بلکہ اندلس کے ساحل تک پہنچ کر بھی یہی کہا گیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ اس کے آگے بھی کوئی اور زمین ہے تو ہم وہاں بھی اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ضرور پہنچ جاتے ۔یہ تحریک بھی دراصل اسی لیے بنی ہے‘ اور اسی لیے آپ اس کا حصہ ہیں۔ اگر یہ مقصد ذہن سے محو ہو جائے تو پھر یہ تعلق باللہ اور یہ ساری چیزیں اگرچہ بڑی عمدہ اوربڑی اچھی ہیں اور ان شاء اللہ یہ نجات میں بھی مدد دیں گی‘ لیکن یہ مطلوب نہیں ہے۔ مطلوب تو دراصل غلبۂ دین اور ایک نئے تہذیب و تمدن کی تعمیر ہے۔

ہماری تحریک کا بنیادی مقصد اوراہم ترین کام تہذیب و تمدن کی تعمیر ہے۔ اسی لیے ہمارے لٹریچر میں بار بار کہا گیا ہے کہ ہمیں قیادت کا منصب سنبھالنا ہے۔ ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھالنا ہے۔ آپ کی ذات عوام کا مرجع بن جائے‘ آپ تعمیر اقدار کے ساتھ ساتھ اجتماعی قیادت بھی سنبھالیں۔ آپ عوام کے لیڈر ہی نہیں‘ تہذیب و تمدن کے معمار بھی ہوں ‘ اور بہترین سیرت کے حامل بھی ہوں۔ اس کے لیے اسی معاشرے سے ہم کو ہر اُس قوت کو جمع کر لینا اور اپنے ساتھ ملانا ہے جو معاشرے کی تبدیلی اور تہذیب و تمدن کی تعمیر میں ہمارا ہاتھ بٹاسکے۔

شھادت حق کا فریضہ

تحریک اسلامی سے وابستہ یہ گروہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ اپنی ذات میں گم ہو جائے‘ اور اپنی تعداد سے مطمئن ہو جائے کہ ہم نے طے شدہ تنظیمی کام کر لیے ہیں اور یہ کافی ہیں۔ دراصل وہ تمام لوگ جن تک یہ دعوت نہیں پہنچی ‘ وہ سب اس بات کے منتظر ہیں کہ ان تک یہ دعوت پہنچائی جائے۔ وہ قیامت کے روز ہمارا دامن پکڑ سکتے ہیں‘ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ تمھارے پاس تو حق پہنچاتھا‘ مگر تم نے ہم تک اسے نہیں پہنچایا ‘ تم نے ہم کو اپنے دامن میں نہیں سمیٹا ‘ اوراپنے ساتھ  لے کر دین کی راہ پر نہیں چلایا۔ یہ وہ چیز ہے جو سب سے اہم ہے ‘ اورجس کے لیے یہ تحریک برپا ہوئی ہے اور جس کے بغیر ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ۔

اخلاقِ حسنہ کی قوت

اس ضمن میں جو سب سے زیادہ کارگر چیز ہے وہ اخلاق حسنہ ہے ۔ کوئی اور چیز اتنی مؤثر نہیں ہو سکتی جتنا آپ کا اخلاق حسنہ ہوسکتا ہے ۔ جو کام اخلاق حسنہ کر سکتا ہے ‘ وہ کام نہ کتاب کر سکتی ہے ‘ نہ تقریر ‘ نہ وعظ اور نہ اجتماع ہی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہفتے میں دو دن سے زیادہ وعظ کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپؐ کا جمعے کا خطبہ بڑا مختصر ہوا کرتا تھا‘ نیز آپؐ جگہ جگہ تقاریر بھی نہیں کیا کرتے تھے۔ اگر میری بات کو غلط نہ سمجھا جائے اور میں قرآن کی اہمیت کو کسی طرح بھی  کم نہیں کر رہا‘ اگر سیرت النبی ؐ کا جائزہ لیا جائے ‘ واقعات کو دیکھا جائے‘ تو جو لوگ قرآن سن کر یا پڑھ کر ایمان لائے‘ ان کی تعداد انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہے‘ جب کہ وہ لوگ جو حاملِ کتاب کا اخلاق اور چہرہ دیکھ کر ایمان لے آئے ‘ وہ فوج در فوج تھے۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا روشن چہرہ دیکھ کر ایمان لے آیا ‘ کوئی آپؐ کا دل نواز حسنِ اخلاق دیکھ کر متاثر ہو گیا‘ کسی نے آپؐ کی فیاضی دیکھی ‘ اور کسی کے سینے پہ آپؐنے ہاتھ رکھ دیا اور اس کی ٹھنڈک محسوس کر کے وہ آپؐکا گرویدہ ہو گیا۔ اس طرح بڑی تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہی وہ لوگ تھے جن سے وہ قوت بنی جس نے اسپین سے لے کر چین تک اسلام کو غالب کر دیا۔

اگر آپ یہ چاہیں کہ معاشرے سے الگ تھلگ ہوکر اپنے تنظیمی کام میں مصروف رہیں‘ اورایک بڑی تعداد میں عام لوگ ‘ نوجوان ‘ طلبہ و طالبات ‘ مرد و خواتین آپؐ کے اس اخلاق کی ایک جھلک نہ دیکھ پائیں کہ جونبی کریمؐ کے پاس تھا ‘ تو پھر دعوت کا کام وسیع پیمانے پر اور اس مؤثر انداز میں نہیں ہو سکتا جو اس کا فطری تقاضا ہے۔

معاشرے کی استعداد

دعوت دین ‘ شہادت حق اور فریضہ اقامت دین کی بہ احسن ادایگی کے مزید کچھ اور تقاضے بھی ہیں‘ ان کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے‘ مثلاً: معاشرے میں دعوت کو قبول کرنے کی استعداد۔

تہذیب و تمدن کی تعمیر‘ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ معاشرے کے اندر ہوگی ‘ لہٰذا معاشرے کے اندر اس کی استعداد پیدا ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس مقصد کے لیے دین کی بنیادی تعلیم ‘ اللہ سے محبت اور تعلق ‘ اور اللہ کے احکامات کی تعمیل کے لیے آمادگی ‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو معاشرے کے اندر عام ہونی چاہییں۔ اس لیے ہمارا اوّلین فرض معاشرے کی تربیت کرنا ہے۔ عام انسانوں میں دین پھیلانا ہے ‘ ان کو تعلیم دینا ہے اور ان کی تربیت کرنا ہے۔

تعمیرمعاشرہ کے حوالے سے یہ بنیادی بات بھی ہمیشہ سامنے رہنی چاہیے کہ معاشرہ کبھی ایک سانچے میں نہیں ڈھل سکتا‘ تمام لوگوں میں کبھی ایک جیسی استعداد نہیں پیدا ہو سکتی ‘ اور کبھی بھی سب لوگ ایک معیار کے نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم چاہیں بھی تو سب کو ایک جیسا نہیں بنا سکتے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو متنوع اور مختلف سوچ وکردار کا حامل بنایا ہے ۔ پھر انسانوں کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے: وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا o (النساء ۴:۲۸) ، لہٰذا وہ ضعف اور کمزوری کا شکار ہوگا۔ انسان کو عجلت پسند بھی بنایا گیا ہے ۔ وہ عجلت پسندی کا مظاہرہ بھی کرے گا۔ غرض انسان کا بہت سی کمزوریوں کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انھی انسانوں سے ہمیں وہ قوت فراہم کرنا ہے جس سے ہم معاشرے کی تعمیر کر سکیں اور ایک نئی تہذیب و تمدن کی بنیاد اٹھا سکیں۔ اس حقیقت کو اگر سامنے رکھا جائے تو پھر ہم ہر ایک سے کچھ نہ کچھ حاصل کرسکتے ہیں‘ اور ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دے سکتے ہیں۔ اگر ہم ذروں کو جمع کر لیں تو پہاڑ بن جائے گا‘ اور قطرہ قطرہ دریا بن جائے گا۔ پھر یہی پہاڑ اور دریا بالآخر اس نظام کی حقانیت کو ثابت کردیں گے‘ اور اس سیلاب سے پوری دنیا کے اندر اس دین کو پھیلا دیں گے جس کو ہم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ صرف ایک گروہ تیار کر لینے سے کام ہو جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا۔

معیارِ مطلوب

میرا یہ نقطۂ نظر قرآن و حدیث اورسیرت کے مطالعے‘ سوچ ‘ فہم اور تجربے کی بنا پر ہے ۔ ممکن ہے کہ آپ کو میری اس بات سے اتفاق نہ ہو ‘ لیکن مجھے اس لیے کامل یقین ہے کہ جب تک ہم یہ صلاحیت نہیں پیدا کر یں گے کہ ہر قسم کے لوگوں کو ہمارے دامن میں پناہ ملے ‘ گناہ گار بھی آئیں اور وہ بھی ہم سے نرمی اورمحبت پائیں‘ اور ہم ان کو توبہ و استغفار کی تلقین کرسکیں اور وہ بھی ہمارے ساتھی بن سکیں‘ بے کس اور نادار آئیں وہ بھی ہمارے ساتھی بن سکیں___ اس وقت تک کوئی بڑی تبدیلی لانا ممکن نہیں ۔

دراصل یہ وہ چیز ہے جس سے ہم وہ قوت فراہم کر سکتے ہیں جو اس کام کو نتیجہ خیز اور    پایۂ تکمیل تک پہنچا نے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ اس قوت کے حصول کے لیے بھی کچھ بنیادی اصول ہیں۔اس حوالے سے مختصراً دو تین چیزیں بیان کر دیتا ہوں۔

دین میں آسانی اور تدریج

اس ضمن میںایک اہم اصول تیسیرِ دین کا ہے۔ تیسیر عربی کا لفظ ہے جس کے معنی آسان کرنا اور آسان بنانا کے ہیں۔ حضوؐر نے اس کی بہت نصیحت کی ہے۔ جہاں بھی لوگوں کو مبلغ اور داعی بنا کے بھیجا وہاں اور باتوں کے علاوہ یہ ضرور کہا کہ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا ،  یعنی دین اس طرح پیش کرو کہ لوگوں کو بشارت دو‘ آسانی دو تاکہ لوگ اسے قبول کریں اور ان کو متنفرمت کرنا۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ایک جگہ بہت واضح طور پر فرمایا ہے کہ نیکیاں تو ہم وہی قائم کریں گے جن کا اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے‘ برائیاں بھی وہی جڑ سے مٹائیں گے جو اللہ اور رسولؐ نے بتائی ہیں‘ لیکن ہم اس میں تقدیم و تاخیر کرسکتے ہیں۔ البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کن نیکیوں کو ہم پہلے کریں گے اور کن کو بعد میں ‘کن برائیوں کو پہلے مٹائیں گے اورکن کو بعد میں ‘یہ فیصلہ ہم اپنے حالات اور اپنی قوم کی نفسیات کو دیکھ کر ہی کریں گے۔ اگر مریض کی نبض پر ہاتھ رکھے بغیر‘ اور نفسیات کو جانے بغیر ہر ایک کو ایک ہی دوا دی جائے تو     وہ غیرمؤثر ہوجائے گی۔ اسی طرح لوگوں کے مزاج کو جانے بغیر اگر عمل کی ترغیب دی جائے تو وہ اس پر عمل پیرا نہ ہوں گے۔

مؤثر تنظیم: ایک اھم پھلو

تنظیم کے حوالے سے میں دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ جان دار تنظیم وہ نہیں ہے جہاں سارا کام سرکلروں اور بالائی نظم کے حکم پر چلتا ہو۔ روداد جماعت اسلامی حصہ اوّل میں سیدمودودیؒ کے یہ الفاظ بڑے غور طلب ہیں: ’’اصل میں تنظیم وہ ہے جو اُوپر کی ہدایات کے انتظار میں نہ ہو‘ بلکہ اصول و ضوابط معلوم ہوں‘ اور کوئی کہے یا نہ کہے لوگ خود صحیح فیصلے کر کے اپنا کام کریں‘‘۔ جب ہر جگہ اس کی ضرورت پڑے کہ کوئی توجہ دلائے اور آگے بڑھائے تو کام ہو ‘ تو یہ کوئی مؤثر تنظیم نہ ہوگی۔ اصل جان دار تنظیم تو وہی ہو گی کہ کسی بڑے سے بڑے معرکے میں اگر صرف ایک پلٹن بھی میدان جنگ میں ہو تو اس کو معلوم ہو کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ اگر کسی کمانڈر انچیف سے اس کا رابطہ نہ بھی ہو ‘ تو پھر بھی وہ اپنی لڑائی لڑے ۔ اس کو یہ معلوم ہو کہ کس طرح لڑنا ہے ‘ کہاں سے آگے بڑھنا ہے ‘ اور کیا حکمت عملی اپنانی ہے۔ اس کے مقابلے میں جو پلٹن ہمیشہ اس بات کی منتظر رہے کہ وائرلس پر حکم آئے گا تو لڑیں گے ‘ وہ پلٹن کسی بڑی جنگ میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اگر تنظیم سازی اور تربیت میں اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے کہ لوگ از خود کام کریں‘ بغیر اس کے کہ اوپر سے کوئی کہے یا توجہ دلائے۔ نیز ان ضوابط کی حدود میں رہیں جو ضوابط کام کرنے کے لیے متعین ہیں‘ تو اس سے بہت فائدہ ہو گا۔ ایسی تنظیم ایک مؤثر تنظیم کی طرح آگے بڑھ سکتی ہے۔

تنظیمی وسائل کا استعمال

یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ تنظیم ازخود کوئی مقصد یا مطلوب نہیں ہے۔ اگر تحریک کے وسائل اور انسانوں کا بڑا حصہ تنظیم پر صَرف ہونے لگے ‘ تو اس کے معنی ہیں کہ کہیں کوئی نہ کوئی خرابی ہے ۔ اس لیے کہ اصل کام تو دعوت و تربیت ‘ عوام کو تیار کرنا‘ منظم کرنا اور ان تک بات پہنچانا ہے۔ تنظیم تو اس کا ایک ذریعہ ہے ۔ اگر ذریعہ ہی وسائل کا بڑا حصہ کھانا شروع کردے اور زیادہ تر وسائل اسی پر کھپنا شروع ہو جائیں تو یہ سرا سر خسارے کا سودا ہے ۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ اگر مسجد بنانے میں ہی سارا مال اور سب کچھ لگ جائے اورنماز پڑھنے کی فرصت ہی نہ ہو تو پھر مسجد بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ حالانکہ مسجد تو بڑی محترم و مقدس جگہ ہے ۔ لہٰذا یہ وہ پہلو ہے جو تنظیم کے بارے میں سامنے رکھنا بہت ضروری ہے کہ تنظیم دعوت کے کام اور اصل اہداف کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے ‘ وسائل کا بڑا حصہ اس حوالے سے صرف ہو‘ نہ کہ تنظیم کو برقرار رکھنے میں۔

اصول اور حکمت عملی کا فرق

ایک اور اہم بات جو کام کرتے وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے‘ وہ یہ کہ تدبیر اور حکمت عملی ایک چیز ہے اور اصول ایک دوسری چیز ۔ اس اصول کو سامنے رکھیں کہ زمانے اورحالات کے ساتھ ‘ اگر تحریک میں اتنی اہلیت نہ ہو ‘ اتنی قوت اور دماغی صلاحیت نہ ہو کہ اپنی سوچ ‘حکمت عملی اور تدابیر کو حالات کے لحاظ سے بدل سکے تو پھر مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں اس کی مثال ایک ایسے عطار کی ہو گی جس کے پاس نسخوں کی ایک کتاب ہو اور وہ اس کتاب سے ہر ایک کو ایک ہی نسخہ بنا کر دے رہا ہو ‘ یہ جانے بغیر کہ مرض کیا ہے ‘ اس کی حالت کیا ہے ‘ کن مسائل کا اسے سامنا ہے ‘ کس مریض کو کس چیز سے پرہیز کرانا ہے‘ اورکس کو کس دوا سے فائدہ ہوگا‘ اگرچہ بظاہر مرض ایک ہی نظر آتا ہو۔ ایک ایسے عطار کی طرح جو حکمت سے خالی ہو اگر اسلامی تحریک بھی ہر قسم کے    حالات میں ایک ہی حکمت عملی پر عمل پیرا رہے تو وہ دین کے کام کو آگے نہیں بڑھا سکتی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: جماعت اسلامی ، حکمت عملی اور لائحہ عمل‘ ترتیب : خرم مراد‘ ترجمان القرآن‘ جنوری ۱۹۹۳ئ)

غور کیجیے کہ حکمت اور حُکم دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں‘ دونوں کا ایک ہی مادہ ہے ‘ یعنی ح ‘ ک ‘ م۔ حکمت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ نے جہاں کتاب کی تعلیم دی وہاں حکمت کی تعلیم بھی دی۔ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) ’’وہ ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ‘‘۔ میرے نزدیک یہاں کتاب کے معنی احکام کے ہیں‘ اور حکمت کے معنی دراصل ان احکام کو نافذ کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے جس سمجھ بوجھ اورفہم کی ضرورت ہے اس کے ہیں۔ حکمت کے بغیر صرف احکام سے کام نہیں کیا جا سکتا ‘ حکمتِ دین کا فہم ناگزیر ہے۔ لہٰذا اپنی تدبیر اورحکمت عملی میں تغیر و تبدل کی قدرت اور استطاعت رکھنا‘ یہ وہ چیز ہے جس کی دعوت دین اوراقامت دین کے فریضے کی ادایگی کے لیے ہر لمحے ضرورت پڑتی ہے۔

داعیانہ اضطراب

اس کام کو کرتے ہوئے ایک بنیادی بات اضطراب اور بے چینی کا پیدا ہونا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کو مزید بہتر انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف جائزے میں لکھ دیا جائے کہ ہم کو کام بہتر سے بہتر انداز میں کرنا چاہیے‘ بلکہ واقعتاً ایک اضطراب اور بے چینی پائی جانی چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بہتر ہونا چاہیے ۔ اگر یہ احساس نہیں پایا جاتا اور یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ ٹھیک ہو رہاہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی منزل اور اپنے مقصد سے غافل ہیں اور ہمیں کوئی احساس نہیں ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ جو عظیم الشان مقصد ہمارے پیشِ نظر ہے اور اللہ نے  اقامتِ دین کی جو ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ڈالی ہے ‘ اس کو بخوبی نبھانے اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے بہت کچھ سوچنے‘ مضطرب اور بے چین رہنے کی ضرورت ہے ۔ نبی کریمؐ کس قدر مضطرب رہتے تھے‘ اس کی عکاسی اس آیت قرآنی سے ہوتی ہے: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا o (الکھف ۱۸:۶)‘ گویا آپؐ اپنا گلہ گھونٹ ڈالیں گے اس بات کے پیچھے کہ سب لوگ مومن ہو جائیں ‘ اور سب لوگ ہمارے ساتھ آجائیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے ۔ اس میں نہ کوئی ڈانٹ ہے اورنہ کوئی تنبیہہ ‘ بلکہ بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے۔ حضوؐر کی بے پناہ خواہش تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی    طرح لوگ اسلام قبول کر لیں ۔ اس کے لیے آپؐ بڑی تگ و دو کرتے تھے‘ اور مضطرب رہتے تھے ۔ آپؐ کے اسی اضطراب کی بنا پر حضوؐرکو مخاطب ہوکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ تم چاہو تو سیڑھی لگا کے آسمان پہ چڑھ جائو‘ اور سرنگ کھود کے زمین میں گھس جائو‘ لیکن سب لوگ تمھاری بات ماننے والے   نہیں ہیں‘‘۔ یہ بھی کوئی تنبیہہ نہیں ہے بلکہ حضوؐر کی جو قلبی کیفیت تھی‘ آپؐ  کی جو نفسیات ‘ اور آپؐ میں جو اضطراب اور بے چینی تھی‘ دل کی گہرائیوں سے آپؐ کی جو تڑپ تھی کہ لوگ میری بات مان جائیں اور نجات پا لیں‘ یہ اس کی عکاسی ہے‘ اور بڑی خوب صورت عکاسی ہے۔ یہ ایک داعی کے اضطراب کی بہترین مثال ہے۔

اس راہ میں قناعت ایک کینسر کی مانند ہے ‘ جب کہ اضطراب اور بے چینی وہ اصل قوت ہے‘ جس سے کام آگے بڑھتا ہے۔ اسی لیے حضوؐر کو حمد کے ساتھ استغفار کرنے کا حکم دیا گیا ۔ لوگ  جب فوج در فوج دین میں داخل ہو رہے تھے تو فرمایا: فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط (النصر ۱۱۰:۳) ’’پس آپ اپنے رب کی حمد کیجیے اور اس سے مغفرت مانگیے‘‘۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی ‘ حق کی راہ دکھائی ‘ اس راہ پر چلایا‘ اس کا شعور بخشا اور اس کے لیے اضطراب اور بے چینی سے نوازا۔ یہ کوئی کم نعمت نہیں بلکہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن جتنی بڑی نعمت ہے اس کا اتنا ہی بڑا حق ہے۔ اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اسی طرح جہاں شکر کرنے کی ضرورت ہے وہاں استغفار بھی کیجیے کہ جو حق ہے وہ ادا نہیں ہورہا‘ اور اس راہ میں کوئی کمی کو تاہی ہو تو اسے اللہ معاف کر دے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس کام کے کرنے پر کبھی اپنے اوپر یہ زعم نہ کیجیے کہ یہ کام ہمارے کرنے سے ہو گا۔ اس لیے کہ اللہ کو زعم بڑا نا پسند ہے۔ اس سے سارا کام غارت ہو جاتا ہے۔ اللہ کو تواضع اورانکساری پسند ہے ۔ کام تو اللہ کے کرنے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضوؐر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ غزوہ بدر میں تم نے انھیں نہیں قتل کیا بلکہ ان کو اللہ نے قتل کیا‘ اور تم نے وہ مٹھی بھر خاک نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔ گویا جو کام بھی ہو گا وہ اللہ کے کرنے سے ہوگا۔ اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ ماشاء اللّٰہ ولا قوۃ الا باللّٰہ،جو وہ چاہتا ہے وہی ہو گا۔ قوت اس کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا ہماری یہ سوچ ہونی چاہیے کہ دعوت دینے سے کسی کادل نہیں بدلے گا ‘ ہمارے کام کرنے سے کام نہیں ہوگا‘ بلکہ جو کچھ ہو گا اللہ کے کرنے سے ہوگا۔ اگر اضطراب اور بے چینی بھی ہوگی کہ ہم زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھا کام کریں ‘ نئی سے نئی تدابیر اختیار کریں‘ اور ساتھ ہی اپنے اوپر زعم نہ ہو کہ یہ کام ہمارے کرنے سے ہو گا‘ تو اس کے نتیجے میں تواضع و انکساری اور عاجزی بھی پیدا ہوگی۔

تحریکِ اسلامی اور رکنیت اور اس کے تقاضوں سے متعلق یہ چند باتیں ہیں۔ ان سے اختلافِ راے بھی ہو سکتا ہے ‘ مگر جو باتیں اچھی لگیں‘ ان کو قبول کر لیں اور ان پر عمل کیا جا سکے  تو ضرور کیجیے۔ خدا ہمیں عہد رکنیت اور اس کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرنے اور فریضۂ اقامتِ دین کو احسن انداز میں ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)


(کچھ حصے حذف کیے گئے ہیں۔ مکمل متن کتابچے میں دستیاب ہے۔ تحریک اور رکنیت‘ منشورات‘ منصورہ‘لاہور)

قرار دادمقاصد اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں یہ بات طے کردی گئی کہ پاکستان کے عوام اپنی قیادت اور پارلیمنٹ کا آزادانہ طریقے سے خود ہی انتخاب کریں اور اس بات کو بھی طے کردیا گیا کہ پاکستان کے عوام کو اسلامی اصولوں کے مطابق پارلیمانی جمہوریت اور وفاقی نظام کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ہی اپنے ضمیر کے مطابق اپنی راے کاآزاد انہ اظہار کرناہے۔ مگر ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو چوتھی مرتبہ ملک پر جنرل پرویز مشرف کے ذریعے فوج ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوگئی۔ نوازشریف کو پارلیمنٹ کے اندر دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ لیکن آئین سے ماورا اقدام اٹھاتے ہوئے ان کی حکومت کو ختم کیاگیااور قومی اسمبلی ، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کوبیک جنبش قلم تحلیل کردیا گیا اور ۱۹۷۳ء کے دستور کو عملاً غیر مؤثر کر کے ملک میں از سرِ نو مارشل لا کے ذریعے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کو یقینی بنایا گیا۔ اس اقدام کا گرینڈ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (GDA)‘ پاکستان پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی طرف سے خیر مقدم کیا گیااور نواز شریف حکومت کے خاتمے کو درست اقدام قرار دیا۔ جماعت اسلامی غالباً وہ واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے جس کی طرف سے اس فوجی اقدام کی دو ٹوک مخالفت کی گئی ۔ جمہوری نظام کومعطل کرنے کی مذمت کی گئی اور ملک میں فوری طور پر جمہوریت بحال کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔

ملک کے صدر جناب رفیق تارڑ نے جو آئینی سربراہ حکومت تھے جنرل پرویز مشرف کے اس اقدام کے بعد ایوان صدر کے اندر ٹھیرنا منظور کیا اور اس عرصے میں فوجی ڈکٹیٹرشپ جو اقدام کرتی رہی اس پرایوان صدر سے نہ کوئی سرزنش کی گئی‘ نہ کوئی احتجاج کیا گیا اور نہ کوئی ڈائریکشن دی گئی۔ عملاً ڈیڑھ سال تک وہ ایوان صدرمیں رہے۔ ڈیڑھ سال کے بعد جنرل مشرف نے انھیں بھی توہین آمیز طریقے سے رخصت کیا اور چیف ایگزیکٹو کے عہدے کے ساتھ ساتھ صدارت کے عہدے پر بھی قابض ہوئے ۔ ملک میں ۱۲اکتوبر۱۹۹۹ء سے جمہوری ،سیاسی اور آئینی اداروںکی شکست و ریخت کا جوعمل شروع ہوا تھا اس اقدام کے بعد وہ اپنے منطقی اور انتہائی انجام کو پہنچ گیا۔

اس عرصے میںمسلم لیگ(ن)کی قیادت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ فوجی اقدام کو غلط قرار دیاجائے اور آئین کے مطابق ان کی حکومت کو بحال کرتے ہوئے ملک میںآئین کو غیرمؤثر کرنے کے اقدام کو غلط قرار دیاجائے۔ ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ کے بنچ نے عملاً اس چیز کو رد کیا اور بعض تحفظات کے ساتھ فوجی اقدام کے اس عمل کی توثیق کردی۔ ریفرنڈم کے موقع پر امیرجماعت اسلامی پاکستان محترم قاضی حسین احمد نے ریفرنڈم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ کے بنچ نے اس وقت بھی یہ قرار دیا کہ پی سی او کے تحت ریفرنڈم منعقد کیا جاسکتا ہے ۔ عملاً ان فیصلوں کے بعد پرویز مشرف کی داخلہ و خارجہ اور نظریاتی محاذوں پر پالیسی ۱۸۰ درجے کے انحراف کے ساتھ آگے بڑھی۔

اس دوران ۱۷جون۲۰۰۱ء کو متحدہ مجلس عمل وجود میں آئی ۔چھے دینی جماعتوں کے سربراہ اسلام آباد میں جمع ہوئے۔ افغانستان کے حالات کے تناظر میں فوجی ڈکٹیٹرشپ اورلادینیت کے حوالے سے رہنما اصولوں پر مبنی ایک چارٹر پر اتفاق کیا گیااور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ  متحدہ مجلس عمل کی صورت میں دینی و سیاسی جماعتوں کا انتخابی اتحاد وجود میں آیا۔ ابتدا میں یہ خیال تھا کہ یہ مختلف مسالک رکھنے والے لوگ‘ جلد ہی باہم ٹکرائیں گے اور یہ اتحاد تحلیل ہوجائے گا اور    اپنا وجود کھودے گا۔ لیکن مجلس عمل نے اپنی تنظیم سازی، ٹکٹوں کی تقسیم ، حکومت سازی‘ پارلیمنٹ میں کارکردگی اوربین الاقوامی مسائل پر مشترکہ لائحہ عمل اختیارکر کے ان سارے مفروضوں کو ناکام بنادیا۔ مجلس عمل کی قیادت نے حالات کا ادراک کرتے ہوئے بڑے سلیقے کے ساتھ نئے چیلنجوں کے مقابلے میں قوم کو دینی بنیادوں پرمتحد کیا۔

مجلس عمل کو عملاً کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سرحد کے بلدیاتی انتخابات میں مجلس عمل کو دھچکا لگا لیکن اس شر سے یہ خیر برآمد ہوا اور سب کو آگاہی ہوئی کہ اتحاد میں ہی عزت اور وقار ہے اور یقینا یہ اتحاد مستقبل میں بھی ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ انتخابات میں صوبائی ممبران کا انحراف بھی مجلس عمل کی قیادت کے لیے مشکلات کاباعث بنا ہے لیکن اسی صوبے میںاے این پی ، پی پی پی اور مسلم لیگ(ن)کے ممبران اسی دولت کی دہلیز پر ڈھیر ہوگئے ۔لیکن اخباری پروپیگنڈے کے حوالے سے ’بڑی ‘کسی پارٹی کو جرأت نہیں ہوئی کہ اس کی تحقیق کرے اور یہ متعین کرے کہ   ان کے کتنے اور کون کون ارکان صوبائی اسمبلی آتش زر کی حدت سے پگھل کرمرکزی اقتدار کے ساتھ بہہ گئے ہیں۔ مجلس عمل کی قیادت اور پالیسی سازادارے نے اپنے ہی ممبران کے خلاف تادیبی کارروائی کرکے عملاً سیاست کے میدان میں نیا کلچر متعارف کروایا ہے ۔

اس عرصے میں فوجی ڈکٹیٹرشپ تمام غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اقدامات کرتی رہی ۔    ایم ایم اے نے حکومتی چالوں اور عیارانہ رویے پر احتجاج کیا ۔ پاکستان کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں نے سیاسی نظام کے ایکٹ کی ترمیم اور بلدیاتی انتخابات اور منتقلی اقتدار کے تحت انتخابات کے ان مراحل کو‘ پھر عام انتخابات کے بعد اور اس سے پہلے ایل ایف او کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دی۔ کسی دوسری جماعت نے بھی ایل ایف او کے تحت انتخابات کے کسی مرحلے میں سیاسی پیش بندی سے اجتناب نہیں کیا۔ اس کی بنیادی روح یہی تھی اور سیاسی ودینی جماعتیں اس پر متفق تھیں کہ جب پبلک میں بظاہر مقبول جماعتوں نے فوجی ڈکٹیٹرشپ کے کسی اقدام کو چیلنج نہیں کیا، اس ڈکٹیٹر شپ سے چھٹکارے کا راستہ، انتخابات‘ مکالمہ اور پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔پھر ۱۰اکتوبر۲۰۰۲ء کو انتخابات ہوئے اور آئینی ترامیم کے ساتھ سیٹوں میں اضافہ ہوا۔     اس سے قبل قومی اسمبلی ۲۱۷ ارکان پر مشتمل تھی لیکن ترامیم کے بعد یہ تعداد۳۴۲کردی گئی۔  ۲۷۲عام نشستیں، خواتین کی ۶۰نشستیں،اقلیتوں کے لیے ۱۰نشستیں اور اس طرح ۳۴۲کے ایوان کی ہیئت ترکیبی طے پائی۔ سینیٹ کی سیٹوں میں بھی اضافہ کر کے اس کی نشستوں کی تعداد ۱۰۰کردی گئی۔ عام نشستیں۵۶،خواتین ۱۰،اسلام آباد ۴،فاٹا ۸نشستیں، اس طرح سینیٹ کی کل۱۰۰نشستیں کردی گئیںاوریہ تمام صوبوں کے درمیان برابری کی بنیادپر نشستیں ہیں۔

مجلس عمل نے سرحد اور بلوچستان میں کتاب کے نشان کی بنیاد پر انتخابات میںحصہ لیا۔ پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ اور فوجی ڈکٹیٹرشپ کا غلبہ تھا۔یہاں کوشش کی گئی کہ اپوزیشن جماعتوں سے ایڈجسٹمنٹ کی جائے تاکہ فوجی ڈکٹیٹر شپ کا مقابلہ کیاجاسکے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی‘مسلم لیگ(ن) کے درمیان انتخابی عمل طے نہ پاسکا۔ مجلس عمل اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان  نیم دلی کے ساتھ تاخیر سے ایڈجسٹمنٹ ہوئی لیکن عملاً نتائج پر اس کا کوئی بہت بڑا اثر نہیں پڑا۔ ان انتخابات میںجو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں پر ہمارے ۴۳امیدوار کامیاب ہوئے۔ اسلام آباد سے ایک، فاٹا سے۷‘خواتین ۱۲ اور اقلیتوں میں ایک مرد اور ایک خاتون۔اس طرح عملاً ہمارے ۶۵ ارکان منتخب ہوئے ۔ ایک ممبر جن کا جماعت اسلامی سے تعلق تھا اوّل روز سے ہی منحرف ہو گئے اور ایک اور ممبر جن کا تعلق جمعیت علماے اسلام سے تھا وہ بھی مجلس عمل کے فیصلوں سے عملاً پہلو تہی کرنے لگے۔ اس طرح سینیٹ میں پنجاب سے ایک،سندھ سے ایک، سرحد سے۱۰، بلوچستان سے۶، فاٹا سے ۴ نشستیں ملیں۔ اب اس وقت سینیٹ کے اندر ہمارے ۲۶ ارکان موجود ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں مجلس عمل کے ممبران ۱۸ہیں۔ پنجاب میں ۱۱منتخب ہوئے۔ ایک رکن کا انتقال ہوگیا اور ایک صاحب راولپنڈی سے انحراف کرگئے۔ سندھ سے ہمارے ۱۰ممبران منتخب ہوئے، ان میں سے دوانحراف کرگئے۔ ان میں سے ایک کا تعلق اسلامی تحریک اور ایک کا جمعیت علماے اسلام (ف)سے ہے۔سرحد سے ۶۸ارکان اسمبلی منتخب ہوئے۔

مرکزی اسمبلی میںاپوزیشن لیڈر کے لیے ہمارا مطالبہ تھا کہ ایک نشان پر سب سے بڑاگروپ مجلس عمل کا ہے ۔ اس کا حق بنتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے لیے مجلس عمل کو ترجیح دی جائے ۔ بالآخر ۲۵مئی ۲۰۰۴ء کو محترم مولانا فضل الرحمن کو بحیثیت اپوزیشن لیڈرتسلیم کرلیاگیا۔ اسی طرح سینیٹ میںپہلے مرحلے میں مجلس عمل کے ۲۱ارکان موجود تھے۔ حکمران گروپ کے بعد ایک بڑے گروپ کی حیثیت سے مجلس عمل کا حق تھا کہ سینیٹ میں بھی اپوزیشن لیڈر ہمارا ہوجس کے لیے طے بھی پایا کہ محترم پروفیسر خورشید احمد سینیٹ میںاپوزیشن لیڈر ہوں گے اور محترم مولاناگل نصیب  مجلس عمل کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر ہوں گے۔ مگر حکومت نے پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی کو یک طرفہ طور پر اپوزیشن لیڈر بنانے کا اعلان کردیا۔ ہم نے اپوزیشن کے اتحاد کے لیے اس کو برداشت کیاکہ اپوزیشن جماعتوں میں اختلاف نہیں بڑھنا چاہیے حالانکہ مرکزی سپریم کونسل کے فیصلے کے مطابق سینیٹ میں ۲۲ارکان کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کے لیے ہمارا حق بنتا ہے۔

ان چار سالوں میں قومی اسمبلی میںہم نے ۱۲۷۳ سوالات ،بین الاقوامی موضوعات پر ۷۵۱تحاریک التوا ،عوامی مسائل پر ۱۲۳۱توجہ دلاؤ نوٹس، ۲ہزار ۷ سو ۳۱ قرار دادیں جو عوامی قومی اور بین الاقوامی مسائل سے متعلق تھیں، نیز ۱۲۵تحاریک استحقاق پیش کیں۔ ایک تحریک جو ۲۴۱کہلاتی ہے، جس پر بحث ہوئی و دیگر ۲۹۱نوٹس۔ اس طرح رول ۶۹جس کے تحت اہم ایشو پر آٹھ گھنٹے کی بحث ہوسکتی ہے، بجٹ کی بحث میں ۶۹نوٹس، ۱۵۲کٹوتی کی تحریکیں پیش کیں۔اسی طرح سینیٹ میں ۲ہزار ۲ سو۵۷ سوالات، ۱۸۶تحاریک التوا،۳۳۵توجہ دلاؤ نوٹس،ایک ہزار ۹ سو ۱۱ قراردادیں اور ۱۵تحاریکِ استحقاق جمع کرائیں۔ ہمارا ایک باقاعدہ پارلیمانی دفتر ہے جس میں ہمارے ساتھی بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اس سارے کام کوسرانجام دیتے ہیں۔ ہمارے ممبران اور خاص طور پر خواتین ممبران نے اپنے منفرد تشخص، وقار اور عرق ریزی کے ساتھ قومی ایشوز پر نہ صرف بروقت گرفت کی بلکہ دعوتی و تنظیمی اعتبار سے بھی  اپنے کردار کو مؤثر اور جان دار انداز میں پیش کیا۔

منتخب اداروں میں قانون سازی اہم ترین موضوع ہے۔ ہم نے قومی اسمبلی میں ۳۴نئے بل جمع کرائے اور اس وقت تک ۳۶بل زیرِ بحث آئے ہیں۔ ان میں سے ۱۰ کی پہلی خواندگی اور ترامیم کے نتیجے میں حتمی بحث میں بھرپور حصہ لیا ہے ۔ اس طرح فنانس بل۰۴-۲۰۰۳ئ‘ ۰۵-۲۰۰۴ء اور ۰۶-۲۰۰۵ء کی بجٹ ، عام بحث میں حصہ لیا اور ترامیم بھی جمع کرائیں۔ اسی طرح جتنی بھی مجالس قائمہ موجود ہیں ان میں ہماری سرگرم اور بیدار نمایندگی موجود ہے۔

۳۴نئے بل ہم نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں دیے ۔ اس میں سنگین غداری‘ انڈسٹریل ریلیشنز آرڈی ننس جو این ایل ایف کے تعاون سے تیار کیاگیا‘ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کی تنسیخ کابل اور آرمی ایکٹ میں ترامیم شامل ہیں۔ اسی طرح قرآن کی طباعت‘ قومی سلامتی‘ دستور میں ترمیم یا جہیز یا شادی کے تحائف سے متعلق،مختلف عوامی، سماجی ، سیاسی اور بین الاقوامی ایشوزپر مجوزہ مسودہ ہاے قانون (bill) پیش کیے۔

آئین کے مطابق صدر کی یہ ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ کے ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر خطاب کریں۔ انھوں نے ایک سال خطاب کیا ہے‘ مزید پارلیمانی سال ایسے گزرے ہیں کہ وہ اس سے خطاب نہیں کرسکے ہیں۔ صدارتی ویب سائٹس پر سوال کاجواب دیتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ یہ غیرمہذب پارلیمنٹ ہے۔میںا س سے خطاب نہیں کرنا چاہتا۔ان میں خوف اور بزدلی ہے۔ وہ اداروں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر وہ خطاب کی جرأت نہیں کرسکے۔ اسی طرح داخلہ و خارجہ اور مالیاتی امور میں یا پالیسی سازی میں کابینہ یا پارلیمانی پارٹی کوکوئی اختیار نہیں۔ اس کے فیصلے فردِ واحدکے ہاتھ میں ہیں یا کور کمانڈرز کی سطح پر کیے جاتے ہیں۔ عملاً پارلیمنٹ کو غیر مؤثر بنا کے رکھ دیا گیا ہے ۔

کراچی کے حالات ،فاٹا، بلوچستان،ریلوے کے حادثات‘ تخریب کاری‘ امن عامہ کے مسائل اور زراعت کے مسائل پر تحریکیں بھی دیں اور اس پر بحث بھی کی۔  تیل کی قیمتوں میں اضافہ ،بے روزگاری ، جرائم میںاضافہ ،ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا حیاسوز اور فحش مناظر کی بہتات کے خلاف، چینی اور سیمنٹ کے بحران پر قرار دادیں پیش کیں،احتجاج بھی کیا ہے۔ مغرب میںچھپنے والے توہین آمیز خاکوںکے خلاف سب سے پہلے نومبر۲۰۰۵ء میں  قومی اسمبلی میںہم نے تحریک پیش کی اوراس مسئلے کو اٹھایا لیکن اس کے بعد حکومت نے کوئی اقدام نہ کیا۔ پاک فضائیہ میں‘ پی آئی اے میںافسران اور بطور سٹیورڈ افسران کے لیے داڑھی منڈانے کے احکامات‘ یا ائیرہوسٹس کے لیے ایک عمر کی حد کے بعد برطرفی اور دوپٹے کے معاملے پر بھی ایوانوں میں احتجاج بھی کیااور مؤثر آواز اٹھائی۔

حقیقت یہ ہے کہ ان چار سالوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ اراکین اور چاروںاسمبلی کے ممبران کی تمام کوششوں اور تیاریوں کے باوجود جو نتیجہ برآمد ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا اور ملک اور قوم کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ سال ۲۰۰۳ء بہت اہمیت کاسال تھا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس اور    ایل ایف او پر احتجاج ہواجو۲۴دسمبر۲۰۰۵ء تک جاری رہا۔ پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ مجلس عمل اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ مجلس عمل کو پیش کش تھی کہ وہ ڈپٹی پرائم منسٹرشپ، ڈپٹی اسپیکر شپ اور وزارتوں میں حصہ لے لیکن مجلس عمل کے ساتھ حکومتی مذاکرات اس لیے ختم ہوگئے کہ ہم نے ایل ایف او کو پارلیمنٹ میں یا آئینی ترامیم کو یا صدارت کو یا ریفرنڈم کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی توثیق کو قبول نہ کیا۔ حکومت سازی کے لیے ہمارے مذاکرات ختم ہوئے تو پیپلزپارٹی سے حکومت میںحصہ لینے کے تمام مراحل طے پائے۔ مخدوم امین فہیم کو عملاً پرائم منسٹر کے طور پر پروٹوکول ملنا شروع ہوگیا۔ ان کے مذاکرات ایل ایف اویا جمہوریت کی بنیاد پر نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مقدمات کی واپسی میں ناکامی کے باعث ختم ہوئے۔ وہ چاہتے تھے کہ مخدوم امین فہیم کے حلف سے پہلے مقدمات واپس ہوں لیکن فوجی ڈکٹیٹرشپ چاہتی تھی کہ وہ پہلے حکومت کا حصہ بنیں اور اس کے بعد مقدمات واپس ہوں۔

تمام اپوزیشن جماعتوں نے آئینی امور پر مذاکرات میں حصہ لیا ہے ۔مذاکرات میں  ایل ایف اوکے وہ ۲۹بنیادی نکات تھے جن کے ذریعے آئین کی ترامیم کا اقدام کیا گیاتھا۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے ۲۲نکات پر اتفاق کیا۔سات اختلافی نکات تھے۔ اے آر ڈی کی تجویز پر آٹھویںآئینی ترمیم کے طرز پر سترھویں آئینی ترمیم حکومت نے طے کی اور اسی طرح جب سترھویں آئینی ترمیم کا بل تیار ہو کے آیا تو اے آر ڈی، مجلس عمل اورحکمران جماعتوں نے دوشقوں کے علاوہ سترھویں آئینی ترمیم پرمکمل بحث اور حصہ لے کے اپنا کردار ادا کیا لیکن اس پر بعد میں تنقید ہوئی کہ یہ دراصل حکومت کا جال اور بدنیتی تھی۔ اپوزیشن جماعتیں سیکولرشناخت کے ساتھ حکومتی جال کا حصہ بنیں‘ جب کہ مجلس عمل اوردین کی آواز کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ درحقیقت مجلس عمل نے ان بنیادوں پر اس چیز کو طے کیا کہ فردِ واحد کو اس کا حق حاصل نہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے سندجواز ملنے کے بعد حکومت از خود آئین میں ترمیم کاحق نہیں رکھتی۔ دو تہائی اکثریت اس کی بنیاد ہے۔ اس طرح ریفرنڈم کوئی آئینی حیثیت نہیں رکھتا۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کو محفوظ رہنا چاہیے۔ یہ محفوظ نہیں رہتا تو پارلیمنٹ کی جگہ صدارتی نظام آنے کی صورت میں پاکستان کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔

اس وقت مجلس عمل نے جو معاہدہ کیا اس کے مطابق ۳۱ دسمبر۲۰۰۴ء کو جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے فوجی عہدہ الگ کرنا چاہیے تھا۔ یہ معاہدے کی اصل روح تھی۔ ایس ایم ظفر کی کتابDialogue on the Political Chessboard(سیاسی شطرنج کی تختی پر مکالمہ) میں اس کی مکمل تفصیل موجود ہے ۔ اس آئینی ترمیم کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایل ایف او اسی طرح اس قوم کی گردن پر مسلط ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس چیز پر اتفاق کیا ہے کہ ۱۲اکتوبر۱۹۹۹ء کو آئین جس شکل میں تھا اس کی بحالی کی جدوجہد کی جائے ۔ سترھویں ترمیم کا مخمصہ ختم ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں اس اسمبلی کے وجود میں آنے سے پہلے ۳۱۷قوانین اور آرڈر جاری کیے گئے تھے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ۱۹۵۴ء میں آئین بنا پھر ۵۶ء میں بنا اور پھر۱۹۷۳ء میں دستور بنا۔ جنرل پر ویز مشرف کے دور میں دوتین فیصلے موجود ہیں۔ ٹرانسفر آف پاور کے یہ تمام مراحل موجود ہیں۔ایک حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میںکوئی خلا پیدا نہیں ہوتا۔ نئی یاعارضی حکومت جو اقدامات کرتی ہے‘ کوئی مانے یا نہ مانے اس کی اپنی ایک حقیقت اور حیثیت موجود رہتی ہے ۔ پھراب تک بننے والے تمام آئینی اورانتظامی اقدامات کو کسی تعزیر یا قانونی چارہ جوئی سے جو برأت و تحفظ (indemnity) دیا گیا‘ اس کو آئینی ترمیم نہیں بلکہ سادہ اکثریت کے ساتھ کسی وقت بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس نظام کی تبدیلی کے لیے یہ ساری جدوجہد آگے بڑھ رہی تھی‘ جنرل پرویز مشرف اپنی انااور ڈکٹیٹرشپ کو قائم رکھنے کے لیے سول بیوروکریسی اور ملک کے اقتدارپر اپنی گرفت ختم کرنے کے لیے تیار نہیںہیں۔ اس لیے اپوزیشن جماعتوں کے پاس تحریک اور جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

پرویز مشرف کی موجودگی میں نئے انتخابات کا شفاف اور غیر جانب دارانہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس پر اتفاق کیا گیاہے کہ جنرل پرویز مشرف مستعفی ہوں۔ سیاسی جماعتیں اپنے طرزِ عمل سے سبق سیکھیں اور کسی ڈکٹیٹر جنرل کو ریلیف دینے کے بجاے جمہوریت کو      ترجیح دیں۔ سیاسی جماعتوں نے اس پر بھی اتفاق کیا ہے کہ وفاقی پارلیمانی نظام ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہو اور صوبوں کواپنی انتظامی حدود کے اندر مکمل ضروری اختیارات دیے جائیں۔ آئین کے مطابق موجودہ حکومت اور صدر مستعفی ہوں اور عبوری حکومت قائم ہو۔ اگلے الیکشن ایک بااختیار الیکشن کمیشن کی تشکیل کے بعد منعقد ہوں۔

ان چار سالوںمیں ہم نے اپنی حد تک کوشش کی کہ باقاعدہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کریں۔ تمام ایشوز پر اتفاق راے پیدا کریںا ور کوئی بھی ایسا ایشو نہیں ہے جس کو پارلیمانی پارٹی میں زیربحث نہ لایا گیا ہو ۔ مجلس عمل اور اس میں جماعت اسلامی کی تنظیم نے یہ کردار ادا کیا کہ اتحاد کو بھی قائم رکھا جائے اور جو قومی‘ بین الاقوامی اور عوامی ایشوز ہیں‘،ان میں بھی اپنا کردار ادا کیا جائے۔ پاکستان کی اسلامی ثقافت‘ دوقومی نظریے‘ مسجد اور مدرسے پر جو سیکولر یلغار ہے اس کے مقابلے کے لیے ہم نے مسلسل کوشش بھی کی ہے اور ایشوز کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا کرداربھی اداکیا ہے ۔

۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدائی دور کی مشکلات اور پریشان کن حالات کے باوجود‘ نوزائیدہ مملکت میںجو سب سے پہلی قومی کانفرنس منعقد ہوئی‘ وہ پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں تھی۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تعلیم کی تشکیل نو کا مسئلہ ابتدائی اور کس قدر اہم تھا۔ یہ کانفرنس ۲۷نومبر سے یکم دسمبر ۱۹۴۷ء تک کراچی میں منعقد ہوئی‘ یعنی قیام پاکستان کے صرف دو ماہ اور ۱۳ دن بعد۔ قائداعظمؒ بیماری کے باعث شریک نہ ہوسکے‘ مگر کانفرنس کی اہمیت کے پیشِ نظر انھوں نے اپنے پیغام کے ذریعے شرکت کی اور مرکزی وزیرتعلیم کو جو ہدایات دیں‘ وہ کلیدی خطاب میں قوم کے سامنے آئیں۔

کانفرنس کے چیئرمین جناب فضل الرحمن مرکزی وزیر داخلہ‘ اطلاعات و نشریات اور تعلیم تھے‘ جب کہ ۵۷ شرکاے کانفرنس میں متعدد ارکان دستورساز اسمبلی اور چوٹی کے ماہرین تعلیم شامل تھے۔

یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے آزادی کی جنگ لڑی تھی اور اب ایک نئے وطن‘ پاکستان کی تشکیل کا فریضہ انجام دینے چلے تھے۔ انھیں قوم سے کیے گئے اپنے وعدے بھی یاد تھے اور قوم کی منزل کے نقوش بھی ان کے سامنے روشن تھے۔ ان شرکا میں وطن عزیز میں بسنے والے دیگر مذاہب‘ یعنی عیسائیوں اور ہندوئوں کے قابلِ احترام نمایندے بھی شریک تھے۔

اس پانچ روزہ پاکستان تعلیمی کانفرنس کی روداد (proceedings) مرکزی وزارت داخلہ (شعبہ تعلیم) نے شائع کی‘ جو ۹۱صفحات پرمشتمل نہایت اعلیٰ درجے کی دستاویز ہے۔  قائداعظم    محمدعلی جناح نے نہ صرف اس دستاویز۱؎ کا مطالعہ کیا‘ بلکہ اسے سراہا بھی۔ اس کانفرنس کی روداد میں پاکستان کے مستقبل‘ یعنی پاکستان کی نسلِ نو کو درست سمت عطا کرنے کا جذبہ اور شعور‘ گہرے ادراک کی حدوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ لازم ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ‘ بالخصوص فوج‘ سیاست دان‘ بیورو کریسی‘ تعلیم اور قانون سازی کے متعلقین‘ بانیان پاکستان اور تحریک پاکستان کے سنجیدہ و فہمیدہ قائدین کے اس تعلیمی وصیت نامے کو پڑھیں۔ چونکہ آج کل بالخصوص امریکی صدر بش نے‘ مسلم دنیا کے نظام تعلیم کو اپنا مرکزی ہدف قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے کئی مسلم ممالک میں ان کے حلیف حکمران   ان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک کے نظام تعلیم پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور سرکاری اداروں یا وہاں سرگرمِ کار‘ مخصوص این جی اوز کو ہر طرح کی مدد بہم پہنچا رہے ہیں۔

پاکستان کی تخلیق کسی فوجی جرنیل کے دماغ کی اختراع نہیں تھی۔قانون‘ جمہور اور    راے عامہ کے ملاپ اور ایمانی جذبے نے اس تصور کو ایک زندہ ریاست کا روپ عطا کیا تھا۔ اس لیے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ لوگ پاکستان میں کیسا نظام تعلیم چاہتے تھے۔ زیرمطالعہ قومی تعلیمی روداد میں‘ سائنسی ترقی و تحقیقات پر شدت سے اصرار کیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ‘ تحریک پاکستان کی لازوال روح کو بھی پوری دل سوزی سے نظام تعلیم میں سمودینے کا بھرپور اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے بعد معزز شرکا نے مختلف کمیٹیوں کی شکل میں‘ اپنے اپنے دائرے میں تجاویز دیں اور حکمت عملی تجویز کی‘ جسے آخری روز مکمل اجلاس میں شق وار منظور کیا گیا ہے۔ روداد میں اس بات کا بھی اہتمام کیا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات کو مکمل طور پر ریکارڈ پر لایا جائے۔ پھر مکمل اجلاس نے جس لفظ کو حذف کیا یا جس لفظ کا اضافہ کیا‘ اسے بھی دستاویز کا حصہ قرار دیا گیا تاکہ حک و اضافہ اور ناسخ و منسوخ دونوں نگاہ میں رہیں۔ کیسے محتاط لوگ تھے!

اس کانفرنس کی تین کمیٹیوں کی متفقہ سفارشات اور تین قراردادیں ملاحظہ کیجیے:

  • سب سے پہلے ’یونی ورسٹی ایجوکیشن کمیٹی‘ کی تشکیل اور نظریاتی سوچ دیکھتے ہیں: کمیٹی کے چیئرمین میاں افضل حسین (چیئرمین پبلک سروس کمیشن پنجاب و سرحد) تھے اور سیکریٹری ڈاکٹر اخترحسین‘ ایجوکیشن ایڈوائزر‘ جب کہ ارکان تھے: ۱- ڈاکٹر محمود حسین‘ وائس چانسلر ڈھاکہ یونی ورسٹی ۲- ڈاکٹر عمرحیات ملک‘ وائس چانسلر پنجاب یونی ورسٹی ۳-ڈاکٹر اے بی اے حلیم‘ وائس چانسلر سندھ یونی ورسٹی ۴-ڈاکٹر سی ایچ رایس‘ پرنسپل ایف سی کالج‘ لاہور ۵- ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی‘ ممبر دستور ساز اسمبلی ۶- پروفیسر احمد شاہ پطرس بخاری‘ پرنسپل گورنمنٹ کالج‘ لاہور ۷- دیوان بہادرسنگھا‘ اسپیکر مغربی پنجاب صوبائی اسمبلی‘ لاہور ۸- ڈاکٹر کرنل اے کے ایم خان‘ پرنسپل ڈائو میڈیکل کالج‘ کراچی۔

اس کمیٹی نے متفقہ طور پر طے کیا:

  •  پاکستان کا تعلیمی نظام‘ اسلامی نظریے کی بنیاد پر مرتب کیا جائے گا۔
  •       مسلمان طالب علموں کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں دینی تدریس لازمی ہوگی‘ اور یہی سہولت دیگر مذاہب کے حاملین کو بھی فراہم کی جائے گی۔
  • تمام سطحوں پر جسمانی تربیت لازمی دی جائے گی‘ جب کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں لازمی فوجی تربیت دی جائے گی۔ (پروسیڈنگز: دی پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘ ص ۱۸)
  • دوسری رپورٹ ہے‘ کمیٹی براے پرائمری اور ثانوی تعلیم کی۔ اس کمیٹی کے چیئرمین ڈھاکہ کے ابونصر وحید تھے اور سیکریٹری محمد عبدالقیوم ایجوکیشن آفیسر‘ جب کہ ارکان میں شامل تھے: ۱-ایس ایم شریف‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ صوبہ پنجاب ۲-ڈاکٹر قدرتِ خدا‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ مشرقی پاکستان ۳-ڈاکٹر دائود پوتا‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ صوبہ سندھ ۴-محمد اسلم خان خٹک‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ صوبہ سرحد ۵- ایم اے مجید‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ ریاست بہاول پور ۶-وی یو پروانی‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ ریاست خیرپور ۷- آئی ایم خان‘ سپرنٹنڈنٹ ایجوکیشن‘ بلوچستان ۸- شایستہ اکرام اللہ ۹-پروفیسر بی اے ہاشمی‘ پرنسپل سنٹرل ٹریننگ کالج‘ لاہور ۱۰- جی ڈی برنی‘ بشپ آف‘ لاہور ۱۱-بیگم صفیہ احمد۔

اس کمیٹی نے نظریہ تعلیم کے لیے حسب ذیل رہنما اصولوں کی منظوری دی:

                ۱-            تعلیم‘ اسلامی نظریۂ آفاقی اخوت‘ سماجی جمہوریت‘ اور سماجی عدل وا نصاف کی ترویج پر مبنی ہوگی۔

                ۲-            طالب علموں کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنے مذاہب کے بنیادی اصولوں کو پڑھیں۔

                ۳-            تعلیم روحانی‘ سماجی اور فنی امتزاج پر استوار ہوگی۔ (روداد‘ ص ۲۱)

  • ویمن ایجوکیشن کمیٹی کی چیئرپرسن ‘ بیگم سیدہ فاطمہ رحمن اور سیکریٹری ڈاکٹر سید مزمل علی تھے۔ ارکان میں شامل تھے: ۱- ڈاکٹر خدیجہ فیروزالدین‘ ڈپٹی ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ پنجاب  ۲-مس محمد علی‘ انسپکٹریس اسکولز‘ سندھ ۳- بیگم سلمیٰ تصدق حسین ۴- بیگم صفیہ احمد ۵- بیگم شایستہ اکرام اللہ خان ۶- ڈاکٹر قدرتِ خدا ۷- ایس ایم شریف ۸- پروفیسر بی اے ہاشمی۔

کمیٹی نے خواتین کی تعلیم کے لیے مختلف پہلوئوں پر سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا:

  •        تعلیم کی نظریاتی بنیادوں میں: اسلام کے آفاقی تصورِ اخوت و بھائی چارے‘ سماجی جمہوریت‘ سماجی عدل وا نصاف اور جمہوری قدروں کی ترویج ہوگی جس میں برداشت‘ خودانحصاری‘ ذاتی ایثار‘ انسانی ہمدردی اور شہری اشتراک کو ترقی دی جائے گی‘ جب کہ صوبائی تعصبات کی نفی کی جائے گی۔
  •  ثانوی درجہ تعلیم میں لڑکیوں کے لیے جداگانہ تدریس کابندوبست کیا جائے‘ اور جلد از جلد لڑکیوں کے لیے الگ کالج بنائے جائیں۔
  •     ہوم نرسنگ کی تعلیم پر مبنی نصاب کی تدریس لازمی کی جائے۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوم نرسنگ‘ اعلیٰ ثانوی درجۂ تعلیم میں بھی لازمی کی جائے۔
  •  مغربی اور مشرقی پاکستان میں خواتین کے لیے فی الفور ایک ایک میڈیکل کالج قائم کیا جائے۔ (روداد ‘ ص ۲۴‘ ۲۵)

ان سفارشات میں نظریاتی تعلیم کی اہمیت کے ساتھ‘ طالبات کے لیے جداگانہ نصاب کی ضرورت اور مخلوط تعلیم کی نفی قابلِ غور ہے۔

بعدازاں دیگر شعبہ جات جن میں سائنس و ٹکنالوجی‘ زراعت‘ تعلیمِ بالغاں‘ مظلوم طبقات‘ اقوام کے مابین ثقافتی تعلقات وغیرہ پر مشتمل کمیٹیوں کی رپورٹیں بھی منظور ہوئیں۔ یونی ورسٹی ایجوکیشن‘ ویمن ایجوکیشن اور اسکول ایجوکیشن کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس نے پانچ قراردادیں منظور کیں‘ جن میں پہلی چار قراردادیں پیش مطالعہ ہیں:

                ۱-            کانفرنس اس امر پر زور دیتی ہے کہ پاکستان کی تعلیمی سرگرمیوں کو اس کے قومی کردار کا مظہر ہونا چاہیے‘ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسلام کے تصورِ انسانیت کو روبہ عمل لایا جائے اور نسلی و جغرافیائی عصبیتوں سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کی جائے۔ کانفرنس نے اکثریت کے اس عزم کو قبول کیا ہے کہ اس کا نظامِ تعلیم اسلامی تعلیمات سے فیض یاب ہو‘ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اقلیتوں کو ان اصولوں کے تحت تعلیم دی جائے جو انسانیت کے لیے اسلام کے ترقی پسندانہ اور معیاری نشان کے مظہر ہیں۔ عزت مآب جوگندر ناتھ منڈل[وزیر قانون و محنت] اور مسٹر سی ای گبن [صدر اینگلو انڈین ایسوسی ایشن آف پاکستان] اس حوالے سے کانفرنس کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات سے پوری طرح متفق ہیں۔ اس لیے یہ امر متفقہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم‘ اسلامی نظریے ہی کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے کہ جس میں آفاقی بھائی چارے‘ تحمل اور عدل کے امتیازی اوصاف پائے جاتے ہیں۔ (روداد‘  ص ۴۰)

                ۲-            کانفرنس محسوس کرتی ہے کہ جدید طرز زندگی (ماڈرن لائف) کی بہت سی سماجی آفت انگیزیوں کا سبب روحانی اور اخلاقی اقدار کی نفی ہے۔ اس حوالے سے جان لینا چاہیے کہ سماجی تعمیرنو کا کوئی پروگرام اُس وقت تک حصولِ مقصد کاذریعہ نہیں بن سکتا جب تک کہ انسانی روح کے اس خلا کو پر نہیں کیاجاتا۔ کانفرنس یہ پہلو نمایاں کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ بہت سے مغربی ممالک‘ جہاں جدید تعلیمی نظریات نافذ ہیں‘ اب وہ بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ اسکولوں کے نصابات میں دینی تعلیم کا لازمی طور پر نفوذ ہوناچاہیے اور جسے کالج کی سطح پر معتدبہ طور پر بڑھانا چاہیے۔ کانفرنس کی سفارشات میں اس حوالے سے مسلم اکثریت کی خواہش کا عکس موجود ہے‘ تاہم اقلیتوں کی ثقافتی خودمختاری کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اس امر کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ‘ جس طرح مسلمان طالب علموں کے لیے دینی تعلیم لازمی ہو‘ ویسے ہی اقلیتیں اگر خواہش کریں تو ان کے بچوں کے لیے بھی ان کے مذاہب کے مطابق تعلیم و تدریس کا اہتمام کیا جائے۔ (روداد‘ ص ۴۰‘ ۴۱)

                ۳-            کانفرنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم کو ٹوٹ پھوٹ کے اس عمل سے مقابلہ کرنا چاہیے‘ جس نے جدید دنیا (ماڈرن ورلڈ) میں فرد کی شخصیت کو انتشارکا شکار کر کے رکھ دیا ہے۔ لازمی طور پر ایک متوازن نظام تعلیم ہی ایسے پارہ پارہ تصورِتعلیم کا مداوا کرسکتا ہے۔ اس لیے خاکہ نصاب (کریکولا) اور مقررہ نصاب (سلیبس) کی اس انداز سے تشکیل و پشت پناہی کی جانی چاہیے کہ جس سے تعلیم کے مختلف عناصر باہم متحد اور یک جان ہوسکیں۔ (روداد ‘ ص ۴۱)

                ۴-            کانفرنس تسلیم کرتی ہے کہ روحانی‘ ذہنی اور جسمانی پہلو لازمی طور پر طالب علم کی زندگی میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا موجودہ نظام تعلیم محض کمرہ تدریس اور مطالعۂ کتاب پر زور دیتا ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک عام سا طالب علم اپنی صحت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوکر بیماری اور کمزوری کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ جدید تعلیم کا بڑا ہدف ایک اچھے شہری کی تعمیرہے‘ اور صحت کے بارے میں غفلت کا شکار ہونے والا فرد اچھا شہری نہیں بن سکتا۔ اس مقصد کے لیے جسمانی تربیت کے کلچر کو عام کیا جائے‘    بالغ طالب علموں کو اپنے وطن عزیز کی آزادی کے تحفظ کے لیے لازمی فوجی تربیت دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اہتمام کیا جائے کہ اسکائوٹنگ‘ ملٹری ڈرل‘ رائفل کلب‘ کوہ پیمائی‘ پیراکی وغیرہ کو تعلیمی دنیا میں رواج ملے‘ جب کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی سطح پر لازمی فوجی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ (روداد ‘ ص ۴۱)

نصف صدی بعد‘ ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں بانیانِ پاکستان کے متذکرہ بالا محسوسات اور ان کی ہدایات کا ہلکا سا پرتو بھی اپنی تعلیم پر نظر نہیں آتا۔ آنے والے طالع آزما اور مفاد پرست سیاست دانوں نے تعلیم کے اس نقشۂ راہ کو اٹھا کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ آغاخان بورڈ کی اباحیت پسندانہ پالیسی‘ مخلوط تعلیم کی روز افزوں ترویج‘ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کی پامالی اور سیکولر این جی اوز کا تسلّط‘ ہماری اِسی غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہیں    ؎

فطرت افراد سے اِغماض بھی کرلیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف

اس قدیم و عظیم مرکزِ علم و دانش میں مجھے خطاب کی دعوت دی گئی ہے اور میرے نزدیک   یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو مجھے حاصل ہوا ہے۔ مصر اور جامعہ ازہر میں آمدکے موقع پر میں یہ بھی گزارش کروں گا کہ سرزمینِ مصر میرے لیے خصوصی مقام و مرتبے کی حامل ہے‘ یسوع مسیح (علیہ السلام) نے اپنا بچپن اس سرزمین پر بسر کیا تھا‘ اِسی لیے یہ سرزمین بہت سے لوگوں کے لیے قابلِ احترام ہے۔

مجھے اسکالر ہونے کادعویٰ نہیں‘ تاہم میں کیمبرج یونی ورسٹی میں شعبۂ تاریخ کا طالب علم  رہا ہوں اور مجھے ابراہیمی ورثے سے آگاہی کا بے انتہا شوق رہا ہے۔ میری پیدایش بھی     ابراہیم (علیہ السلام )کے پیروکار گروہ میں ہوئی ہے۔ آج میری جو بھی شناخت ہے وہ اسی روایت کا نتیجہ ہے۔ میں آج ابراہیم (علیہ السلام) سے نسبت رکھنے والے مذاہب میں سے ایک مذہب کے پیروکار کی حیثیت سے آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔

ہم ایک خدا پر ایمان رکھنے کی مشترک اساس رکھتے ہیں‘ وہ خدا جو ابراہیم (علیہ السلام) کا خدا ہے‘ اور یہ ایمان ہمیں دائمی اقدار عطا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تبدیلی اور اختلاف سے تباہ حال دنیا کے سامنے اِن اقدار کی باربار جرأت سے بات کریں۔ میں آپ کے لیے یہی پیغام لے کر آیا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کے سبب ہمارے مشترکہ ورثے میں سب سے بلند اور سب سے اعلیٰ قدر ایک دوسرے کا احترام اور اُس کی مخلوق کا احترام ہے۔ رب تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام مخلوقات اور ماحول (environment) کا احترام درحقیقت اللہ تعالیٰ کے احترام و اکرام کا اظہار ہے اور رب تعالیٰ ہی ساری کائنات میں جلوہ نما ہے۔

اسی سے دوسری بات یہ نکلتی ہے کہ ہمارے عقائد اور ہماری اقدار امن کا مطالبہ کرتے ہیں‘ فساد کا نہیں۔ ہمارے درمیان اِس انسانی کمزوری کی موجودگی کا امکان ہے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے پر تنقید بھی کی جائے لیکن ایمان رکھنے والی قوموں کی حیثیت سے‘ ایمان ہم سے باہمی احترام اور مفاہمت سے بڑھ کر اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ عظیم تعلیمات ابراہیمی ایمان کی تلقین کرتی ہیں جو دلوں میں جاگزیں رہتا ہے‘ جو علم و دانش اور تحقیق و تجزیہ سے ماورا ہے۔ معاشرے میں ہمیں جو بھی مقام و مرتبہ دیا گیا ہو‘ تعلیم و صلاحیت کے لحاظ سے ہم میں جو بھی نواقص یا خوبیاں ہوں‘ ہم اپنے ایمان و عقیدے کی سچائیوں کو ’دل کی آنکھ‘ سے تصور میں لاتے ہیں۔ نبی موسیٰ (علیہ السلام) نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ ایمان دل میں قیام پذیر رہتا ہے:

Thou shalt love thy Lord thy God with all thine heart.

تم اپنے پروردگار رب کی پرستش کرو گے پورے دل سے۔

میرا ایمان ہے کہ عظیم مذاہب مقدس کتابوں کے ذریعے دلوں کو مخاطب کرتے ہیں‘ اور جہاں تک ایمان کا تعلق ہے اُس کو صرف دل ہی محسوس کرسکتا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار مذاہب کے درمیان تاریخی روابط کا ذکرکرتے ہوئے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچیں کہ میرے نزدیک وہ ایک اور یکساں ہیں۔ اُن کے درمیان اختلافات موجود ہیں اور ہمیں اِن اختلافات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ لیکن ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری ایک مشترکہ اساس (جڑ) ہے۔ میرے خیال میں‘ ہمیں رب تعالیٰ کے مقصد ِ تخلیق کے بارے میں کسی شک و شبہے کا شکار نہیں ہونا چاہیے: وہ یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے باہم مربوط اور قریب قریب رکھا جائے! تقسیم میں حقیقتاً ایک وحدت ہے۔ قرآن کریم کی    یہ آیت عموماً میرے دل پر شدید اثرات مرتب کرتی ہے:

اے بنی نوعِ انسان! ہم نے تمھیں مرد اور عورت کے واحد جوڑے سے پیدا کیا ہے اور پھر تمھیں قوموں اورقبیلوں میںتقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کرسکو (نہ کہ ایک دوسرے سے دشمنی کرنے لگو)۔ (الحجرات ۴۹:۱۳)

اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کے حوالے سے میں نے اپنی معروضات سب سے پہلے ۱۹۹۳ء میں ایک اور عظیم درس گاہ اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں ایک تقریر میں پیش کی تھیں۔ میں نے اُس وقت جو بات کہی تھی وہ آج بھی میرے لیے مسئلہ بنی چلی آرہی ہے۔ میں نے کہا تھا: ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے میدان میں بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہونے والی ترقی اور   بڑے پیمانے پر سفر اور نسلوں کے باہم گھل مل جانے کے باوجود… اسلام اور مغرب کے درمیان غلط فہمیوں میں برابر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اختلافات مزید بڑھ رہے ہیں۔

افسوس کہ گذشتہ ۱۲ برسوں نے میرے خدشات کی تصدیق کر دی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ تمام برس غیرمعمولی طور پر حوصلہ شکن رہے ہیں۔ تباہی اور موت کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ دیکھ دیکھ کر میرا دل بوجھل ہے اور اس سلسلے کو میں نے خود محسوس کیا ہے۔ میرے پیارے  عم محترم لارڈ مائونٹ بیٹن ۱۹۷۹ء میں دہشت گردوں کے بموں سے جاں بحق ہوئے۔ مذہبی اختلافات کی بنا پر ٹکڑے ٹکڑے معاشروں کا تصور بھی خوف ناک ہے۔ بوسنیا سے بغداد تک‘ چیچنیا سے فلسطین تک یہ ثبوت فراہم ہوئے کہ غلط فہمیاں کس قدر تیزی کے ساتھ بڑھیں اور ان میں   کس قدر اضافہ ہوچکا ہے۔ تشدد‘ جس کے لیے عموماً مذہبی دلیلیں فراہم کی جاتی ہیں‘ کے نتیجے میں دل خطرناک حد تک سخت ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال سے کس بہتری کی امید کی جاسکتی ہے؟

اُسی تقریرمیں‘ میں نے یورپ اور اسلامی دنیا کی تاریخ کے حوالے سے بات کہا تھا کہ کس طرح وہ رسّی کے بلَوں کی طرح باہم مربوط ہیں‘ اور کئی صدیوں تک دونوں اطراف سے اخذ و عطا کے عمل کے سبب کس طرح وہ صورت حال وجود میں آئی جو ہمارا آج بن کر ہمارے سامنے ہے۔

تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ علم و تحقیق‘ سائنس‘ ادب اور فنونِ لطیفہ کے میدان میں   عظیم تخلیقی پیش رفت نے اُٹھان اُس وقت لی تھی جب ابراہیم (علیہ السلام) کے نام لیوا خاندان نے مل جل کر کام کیا تھا۔ کیاہم علم و حکمت و تحقیق کے اُس عظیم الشان مظاہرے سے رہنمائی حاصل نہیں کرسکتے جس کا مظاہرہ نویں اور دسویں صدی میں عباسیوں کے دور میں کیا گیا تھا جب اُن کا دارالحکومت قرطبہ علم و حکمت کا دنیابھر میں سب سے بڑا مرکز تھا‘ یا دسویں سے چودھویں صدی کے ہسپانیہ سے‘ جب قرطبہ اور طلیطلہ جیسے شہروں میں مسلمان‘ عیسائی اور یہودی اسکالروں کا کام    نشاتِ ثانیہ کا سبب بنا؟ ہمیں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اہلِ مغرب پر مسلمان عالموں اور محققین کا یہ احسان ہے کہ جب یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا‘ علم کے قدیم خزانوں کو   انھوں نے مالا مال کیا۔

میں نے اُسی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ خیالات کی زرخیز نشوونما کے باوجود‘ افسوس ناک  حد تک دونوں طرف ایسے لوگ موجود رہے جن کے ایک دوسرے کی تہذیب کے بارے میں  ناقابلِ تفہیم تعصبات ختم نہیں کیے جاسکے۔ باہمی عدمِ اعتماد کا یہ قدیم اور طول طویل سلسلہ ازسرنو بڑھتا جارہا ہے اوراس کے خوف ناک نتائج بھی سامنے آتے چلے جارہے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ اُن مسلمانوں پر کیا گزرتی ہوگی جو یورپ میں رہتے ہیں اور جب اُن کے ہم وطن مغربی ’اسلامی خوف‘ کے بہکاوے میں آکر مسلمانوں کو متفرق اور مسلسل تکلیف دہ ردعمل کا نشانہ بناتے ہیں۔ مجھے یہ بھی خیال آتا ہے کہ کہیں کہیں مسلمان ممالک میں رہنے والے مسیحی سخت حقارت آمیز اور ناروا سلوک ‘پابندیوں اور اپنے مسلم ہم وطنوں کے ہاتھوں بدتہذیبی کے مظاہر برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ میں دنیا بھر میں دہشت گردی اور تشدد کے ان خوف ناک اور بدترین واقعات کے بارے میں بھی سوچتا ہوں جو مذہب کے مسخ شدہ نام پر روبہ عمل لائے گئے۔

میرا دل کہتا ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان باہمی اعتماد بحال کرنے کے لیے ذمہ دار  مرد و خواتین کو ضروراپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘ اور اُس زہرآلود بداعتمادی پر قابو پانا ہوگاجس نے کئی قوموں کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے۔ یقینا کیچڑ اُچھالنے والے کچھ ذرائع ابلاغ اور فضولیات و بے مقصدیت پر مبنی طرزعمل نے اس منزل کا حصول غیرمعمولی طور پرمشکل بنادیا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے عاجزانہ انداز میں‘ میں نے اپنے اداروں The Prince 's Trust نیز Foundation for The Built Environment اور The School of Traditional Arts میں بھرپور کوشش کی ہے کہ مختلف قوموں اور نسلوں کو اکٹھا کرنے کے ذرائع تلاش کیے جائیں اور برطانیہ کے اندر اسلامی تہذیب کی جو موثر اور مبنی بر خیر نمایندگی ہے اُس کو تسلیم و اجاگر کیا جائے۔ میرے خیال میں دیگر  تمام گروہوں کے لیے یہ ایک موثر تجربہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ان اداروں کا دائرۂ کار دیگر ممالک ہیں۔ چھوٹے چھوٹے منصوبوں اور مثالوں کے ذریعے باہمی اعتماد کی بنیادیں‘ احترامِ باہم اور دوسروں کے بارے میں فکرمند رہنے اور رواداری کو ازسرنو رواج دیا جاسکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایسا ماحول تشکیل دیا جائے جہاں مشترک انسانیت کے احساس کو تقویت ملے‘ نہ کہ انسان صرف ٹکنالوجی کے کل پرزے بن کر رہ جائیں جو آج کی مشینی دُنیا میں ہمارے اِردگرد ہر طرف پھیلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

مختلف مذاہب کے درمیان تنازعات اور غلط فہمیوں کی بدولت ہی جنگ اور تشدد کی المناک تاریخ مرتب ہوئی ہے۔ دو غیرمقدس‘ سیکولرمذاہب‘ کمیونزم اور فاشزم (فسطائیت) نے بھی تباہی و بربادی اور ظلم و زیادتی کے اَن گنت سنسنی خیز باب رقم کیے ہیں۔

معاشروں کے ارتقا میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اس تباہ کن ورثے کے دو واضح ردعمل   بار بار سامنے آتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے مذہب کو مزید قوت کے ساتھ تھامے رکھتے ہیں اور اسے وہ اپنی زندگی کے استحکام کا سبب سمجھتے ہیں اور جیسے ہی کوئی خلفشار یا تنازع سر اُٹھاتا ہے‘ ایسا فرد سمجھتا ہے کہ دیگر مذاہب میرے مذہب کے لیے خطرے کی علامت ہیں۔ کچھ اور لوگ ہیں کہ جو مذہب کے تصور ہی سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور مابعد الطبیعیات کے مکمل فلسفے کے ذریعے ایسی منزل کی تلاش میں مگن ہوجاتے ہیں جو ہماری ایمانی حدود سے کاملاً باہرہے۔ وہ خدا میںکسی قسم کے یقین کا ہی انکار کردیتے ہیں اور مذہب کو ’دقیانوس‘، ’ازمنۂ وسطیٰ‘ کا اور ’غلط‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ مذہب سے اس دیدہ دلیری سے لاتعلقی اور بے زاری نے مذہب کے لیے‘ عالمی اقدار اور زندہ روایات کے ورثے کے لیے خطرے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ محض ہمارے روایتی مسیحی کلیسا کی بات نہیں ہے بلکہ مادہ پرستی اور دیگر حقیر مقاصد نے اسے ساری دنیا میں پھیلا دیاہے۔

یورپ میں‘ مختلف مسیحی دھڑوں کے درمیان بظاہر ختم نہ ہونے والی جنگوں کے ایک جزوی ردعمل میں بہت سے مخلص لوگوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم حقیقی لادین (secular) معاشرے تشکیل دے ڈالیں۔ اس سے تشدد‘ کٹر پن اور علمی تکبر (جنھیں مذہب کے ساتھ نتھی کیا جاتا تھا) ختم ہوجائیں گے‘ تنازعات کا خاتمہ ہوجائے گا‘ جنگوں کو جنم دینے والے اسباب مٹ جائیں گے اور ہم سب کے سب بہترین زندگی گزار سکیں گے۔ اُنھیں اُمید تھی کہ (ریاست) اور اداروں کے مالک مذہب کی نسبت‘ مادی خوش حالی اور لوگوں کے تحفظ کے لیے سائنسی ایجادات کا استعمال زیادہ بہتر ثابت ہوگا‘ اور اس طریقے سے یگانگت‘ ترقی اور انسانی مسرت کی طرف سفر بغیر کسی مزاحمت کے ایک تسلسل سے جاری رہ سکے گا۔

ظاہر ہے کہ یہ زیادہ آسان ثابت نہ ہوا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنسی علم ہمارے لیے بہت کچھ لے کر آیا ہے اور ہم اسے بہت بڑا انعام سمجھتے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ علم‘  حکمت و دانش کے برابر نہیں ہے۔ یہ صرف عقل و دانش کا کام ہے کہ عالم گیر اور دائمی حقائق کا انکشاف کرسکے جو کہ تمام مذاہب کی بنیادوں میں مضمر ہیں۔ جن سچائیوں اور اخلاقی اقدار نے ہمارے باپ دادا کی زندگیوں کو ایک محفوظ مقصدِ زندگی کا نقشہ فراہم کیے رکھا‘ آج ہمارے زمانے کے اکثر لوگوں کی زندگیوں میں یہ سچائیاں اور اخلاقی اقدار بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں یا مکمل طور پر مٹ چکی ہیں۔ یہ معاملہ صرف مغرب کے ساتھ نہیں ہے‘ بلکہ ابراہیمی مذاہب کے ہر رنگ و آہن میں اس کی موجودگی نظر آتی ہے۔

اس نقصان کے اطلاقات نہایت گہرے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جدیدیت اُس دانائی سے ملتی ہے جو مذہبی روایت کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ اس روایت کے لیے احترام میں کمی کا انتہا پسندی نے فائدہ اُٹھایا۔ مذہبی ایقان میں کمی کے باعث بہت سے لوگ اس پر مجبور ہوئے ہیں کہ وہ نئے پیمانوں اور اصولوں میں پناہ ڈھونڈیں۔ پرانے دور کے جامد عقائد کی طرح کسی اشتباہ یا سرسری اختلاف کو برداشت نہ کریں اور انتہا پسندی کی مختلف شکلوں کو قوت فراہم کرتے رہیں۔

ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام نے اپنے دورِ عروج میں جس ذہنی ارتکاز‘ وسعت‘ امکانات اور علم و حکمت کے لیے جس احترام کو متعارف کرایا تھا‘ اُس کو ازسرنو زندہ کریں۔ اسلام نے یہودیوں اور عیسائیوں کو اہلِ کتاب قرار دیا کیونکہ وہ بھی مسلمانوں کی طرح مقدس کتابوں‘ یعنی قرآن‘ عبرانی انجیل اور عہدنامہ جدید پر یقین رکھنے والے مذاہب کا حصہ ہیں۔ اسلام کے عروج کے اُس اعلیٰ دور میں وہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ مقدس اِلہامی کتابوں کو سمجھنے کے لیے تعبیر و تشریح کے ایک عمیق علم سے آشنائی ضروری ہے۔ یہ ایک مشکل کام اور پیچیدہ فن ہے۔ تاہم اسلام میں تشریح و تعبیر کے عظیم اصولوں کو رواج ملا اور اس کے بعد فقہی اسکول بھی قائم ہوئے۔

متن اور تشریح کے درمیان تعبیروتوضیح کی ضرورت پیش آتی ہے‘ یعنی ہر دور میں خدا کا پیغام کیا ہے اور اِس دور میں خدا کا پیغام کیا ہے۔ یہ اسلام کی عظمت ہے کہ اسلام نے اس چیلنج کو پوری گہرائی میں جاکر سمجھا۔ اس عظیم تاریخی درس گاہ میں آج کرنے کا یہی کام ہے۔ آپ نہ صرف  اہلِ اسلام کے لیے بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دیگر پیروکاروں کے لیے بھی مثال بن سکتے ہیں۔

موجودہ دور میں یہ رُجحان بہت عام ہے کہ صرف متن کو پڑھا جائے۔ گویا اُس کی تشریح سے آگاہ ہونے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے‘ یعنی ہم صرف اُس کے سطحی مفہوم سے مکمل فہم حاصل کرسکیں گے۔ اس سے الہامی کلام کو نقصان پہنچتا ہے اور اس نقصان سے فرد کو اور آخرکار ساری دنیا کو نقصان پہنچتا ہے۔

جب مقدس کتابوں سے ہمیں سچی باتیں ملتی ہیں‘ جب ہم ربِ کائنات کی رنگین کائنات میں سے صرف سفید اور سیاہ کا انتخاب کرلیتے ہیں‘ تو اُس سے کائنات میں اختلافات کو جنم دینے کا آغاز کردیتے ہیں‘ یعنی اچھا اور بُرا ‘ نیک اور بد‘ دوست اور دشمن۔ اس تقسیم سے نفرت اور تشدد جنم لیتا ہے۔ اس طرح ہم ابراہیمی مذہب کے سب سے اہم اصول کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوجاتے ہیں جس نے ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرنے والے تینوں مذاہب کو جوڑ رکھا ہے۔ یہ یہودیت میں اس طرح ہے کہ ’’اپنے ہمسایے سے بھی اس طرح محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے محبت کرتے ہو‘‘۔ عیسائیت میں یہ اس طرح موجود ہے کہ ’’دوسرے انسانوں سے جوکچھ تم چاہتے ہو کہ وہ تم سے اس طرح سے پیش آئیں‘ اُسی طرح تم بھی اُن کے ساتھ پیش آئو‘‘، جب کہ  اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ’’کوئی شخص اُس وقت تک صاحبِ ایمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔

اگر ہم چاہیں کہ ان تعلیمات پر توجہ دی جائے‘ حکمت و دانش کی بات پر توجہ دی جائے‘ انتہاپسندی کا خاتمہ ہو‘ تو یہ جاننا چاہیے کہ اس سلسلے میں خدا تعالیٰ پر ہمارا ایمان‘ ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ ہم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہیں‘ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں۔ میں تینوں مذاہب کی بات کر رہا ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ کیا مادہ پرستی‘ روحانیت کے زوال اور بے معنی زندگی کے غلبے میں وہ لوگ زیادہ قابلِ احترام نہیں ہیں جو اپنی ذات سے اُوپر اُٹھ کر سوچتے ہیں‘ جو اپنی ذات اور اپنی انا کے گرد گھومتے نہیں رہتے‘ جو سائنس ہی کے پرستار نہیں بنے رہتے اور ایسی کائنات پر یقین رکھتے ہیں کہ جس میں روح‘ جسم اور دماغ متوازن رہتے ہیں‘ اور جو کائنات کو اللہ تعالیٰ کا نہایت حسین تحفہ سمجھتے ہیں۔ یقینا ہمیں اپنے مشترکہ نکات کی بنا پر متحد ہونے کی کوشش کرنا چاہیے۔

ایک دوسرے سے لڑتے چلے جانے‘ یا ثانوی چیزوں ہی پر جھگڑتے رہنے کے بجاے ہمیں اس لیے بھی مشترکہ اقدام کی ضرورت ہے کہ ہمارے پورے سیارے (planet) کو ماحولیاتی خلفشار کا چیلنج درپیش ہے۔ کیا اسلام ہماری رہنمائی نہیں کرسکتا کہ ہم اپنے آپ کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کریں؟ کیا ہم فوری اقدام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ مشرق کی الہامی ذہانت اور مغرب کا عملی ذہن مل جل کر کوئی نہ کوئی صورت نکالے‘ قبل اس کے کہ بہت زیادہ تاخیر ہوجائے۔

ہمارے تینوں مذاہب کی تعلیمات کے اندر ایک بنیادی نکتہ ایک دوسرے کا احترام بھی ہے۔ یہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے سیاسی نعرہ بازی سے بہت آگے کی بات ہے۔ مسلمان‘ مسیحی اور یہودی فرد کی عظمت اور قدروقیمت کے مسئلے پر متفق ہیں۔ ہم میں سے ہرکوئی انفرادیت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں منفرد مقام کا حامل ہے۔ جب ہم اپنے آپ سے آگاہی حاصل کریں گے‘ اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے آگاہ ہوں گے‘ تب ہی ہم دوسروں کو سمجھنے کی اہمیت کو جان سکیں گے اور دوسروں کے نقطۂ نظر کو مقام دے سکیں گے۔

دوسروں کا احترام اور اُس چیز کا احترام جو دوسروں کے نزدیک قابلِ احترام ہے‘ یعنی  اچھے ادب آداب‘ معزز طور طریقے اور دوسروں کو سننے پر رضامند ہونا___ حقیقت میں اپنی اقدار اور اپنے معیارات کے لیے احترام حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ حال ہی میں ڈنمارک سے خاکوں کی اشاعت کے ذریعے ایک گھنائونا کھیل کھیلا گیا جس کے نتیجے میں جو شدید ردعمل سامنے آیا‘ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ جو دوسروں کے لیے مقدس اور محترم ہے اُس کو نہ سننے اوراُس پر توجہ نہ دینے کے نتیجے میں کیا کیا خطرات سامنے آسکتے ہیں۔

میرا اپنا خیال یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے مہذب و معزز ہونے کی حقیقی علامت اس کا وہ احترام ہے جو وہ اقلیتوں اور اجنبیوں کو دیتا ہے۔ عربوں میں اجنبیوں اور اُن کے علاقوں سے گزرنے والے مسافروں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ حقیقتاً عرب ثقافت کا یہ ایک قابلِ فخر پہلو ہے۔ ہم نے بھی اپنی سرزمین‘ برطانیہ میں بھرپور کوشش کی ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کا خیرمقدم کیا جائے‘ اور اُنھیں اس کا موقع فراہم کیا جائے کہ وہ اپنی منفرد شناخت کو بھی محفوظ رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ اُنھیں برطانوی ثقافت میں رچنے بسنے کا موقع بھی دیا جائے۔ اب برطانوی مسلمانوں کی تعداد ۱۵ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ برطانوی مسلمان کئی حوالوں سے برطانوی معاشرے کو مالامال کر رہے ہیں‘ اسی طرح مجھے یقین ہے کہ مسلم ممالک میں مسیحی اقلیتوں کا بھی یہی تعمیری کردار ہے۔

صاحبِ ایمان ہونے کے ناطے‘ ہم جانتے ہیں کہ انسانی روح کو ابدیت کے اُفق کی طرف بلایا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے وجدان سے احساس ہوتا ہے کہ اب ہم ظاہری دُنیا کی طرف غیرمعمولی حد تک راغب ہو گئے ہیں۔ جہاں ہر اُس چیز کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے جس کو ناپا یا تولا نہ جاسکے  اور جس کا وزن نہ کیا جاسکے۔ لیکن ہم ایمان‘ حُسن‘ وفاداری‘ لُطف و مسرت اور بذاتِ خود محبت کو کس طرح ناپ تول سکتے ہیں‘ جب کہ یہی چیزیں زندگی کو رہنے کے قابل بناتی اور ہمارے    جوہر انسانیت کی تعریف متعین کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ کیا یہ خصوصیات ایک داخلی حقیقت کی عکاس نہیں ہیں؟ جب ہم داخلی حقیقت کے بارے میں بات کرتے ہیں‘ تب حقیقتاً ہم اُس سمت کی بات کررہے ہوتے ہیں جو مادے سے ماورا ہے‘ دیگر الفاظ میں ہم دل کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم دل کے بارے میں استعارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ رحم کا منبع ہے۔ سینٹ پال نے بائیبل کے ایک ترجمے میں اسے خیرخواہی قرار دیا ہے اور عیسائیوں کے نزدیک یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔

ثقافتوں اور مذہب کے درمیان افہام و تفہیم کے مسائل جب درپیش آتے ہیں‘ اُس کی وجہ صرف اس تصور کی عدم موجودگی نہیں ہے‘ ایک ایسا تصور دل جو مہربان ہو‘ تبدیلی قبول کرنے والا ہو اور اُس میں قبولیت کی بھرپور صلاحیت ہو۔ یہ ایک ایسا تصور ہے کہ جس میں ہم سب شریک ہوسکتے ہیں اور تینوں مذاہب میں عظیم صوفیا کی تحریروں میں اس کے حوالے موجود ہیں جن میں جولیاں آف ناروچ‘ ربی آئزک لوریا اور امام محمد ادریس الشافعی کے نام سرفہرست ہیں۔ کیا ان عظیم مردوں اور عورتوں نے اپنی سدابہار دانش و حکمت کی بدولت ہمیں نہیں بتایا کہ اپنے جارحانہ اور اکثر سطحی طرزعمل کو نہایت مہربان اور تدبر آمیز رویے سے بدل لیں تاکہ دماغ کے بجاے ہم دل کی اُس سلطنت میں داخل ہوجائیں جہاں ہماری مشترک انسانیت کی خوبی کو ہم پاسکیں؟ میں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ غوروفکر کو ترک کرنے کی بات نہیں ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ اپنے معاملات میں تحرک کے ساتھ شامل ہوجانے کا ایک طریقہ ہے۔ بہرحال ہم الہام اور وحی پر یقین رکھتے ہیں جس نے ہم پر ہمارے مذاہب کی سچائی آشکار کی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ سائنس نے فطرت کے اندر موجود نظم اور ہم آہنگی کو تلاش کرنے کے سلسلے کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے کہ جو قدیم لوگوں کو ہزاروں برس قبل دے دی گئی تھی۔ یقینا اس سے دل کی زندگی کے رب تعالیٰ سے ایک عجب تعلق کی غیرمعمولی سچائی کا اظہار ہوتا ہے۔

میرا اعتقاد ہے کہ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے مذہبی عقائد کے اصولوں کی ترجمانی کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں اپنے مذاہب: اسلام‘ عیسائیت اور یہودیت کے اخلاقی وجود کو محفوظ کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ جو عظیم تنوع ہمیں ملا ہے اُس کو تسلیم بھی کریں اور اُس کی تحسین بھی کریں۔ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے یکساں‘ یک رنگ اور عالمی کلچر کی بالادستی سے نجات مل سکتی ہے چاہے وہ مذہبی ہو یا غیرمذہبی۔

میرے خیال میں روح کی دنیا کو مادہ پرستی سے محفوظ رکھنے کے لیے‘ نیز ہم میں سے ہرایک کے انفرادی احترام کو انتہاپسندی اور تکبر ذات سے بچانے کے لیے ہمیں ایسے طرزعمل کو اختیار کرنے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جس سے شفقت‘ نرمی اور ہمدردی کی خدائی خصوصیات بندوں میں پیدا ہوجائیں۔ اس کے لیے پُرسکون رہنے اور احتیاط سے چلنے کی مشق کی ضرورت ہے۔  مجھے کہنے دیجیے کہ ہمارے مذاہب کے اندر جو حضرات کسی بھی ذمہ داری کے منصب پر فائز ہیں‘ اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِن خدائی صفات کی مسلسل تبلیغ و تلقین کریں۔

تین ہزار سال قبل دائود (علیہ السلام) کے بیٹے شہنشاہ سلیمان (علیہ السلام) نے کہا تھا: ’’جب مستقبل کے بارے میںکوئی خواب نہ ہوگا تو انسان ختم ہوجائیں گے‘‘۔ میں ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھ رہا ہوں جس میں ہمارے اختلافات کواحترام اور مفاہمت کے ساتھ تسلیم کیا جائے‘ اور جو دوسروں کے لیے مقدس ہو‘ اُس کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ میں ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھ رہا ہوں کہ جہاں عظیم مذہبی روایات کے لیے بدزبانی نہ کی جائے اور مذہبی تعلیمات کو خودغرض‘ دنیاوی طاقت کی خدمت کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

اس کام کے مشکل ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے لیکن ہم نے ___ ہم سب نے ___ اس کام کا مشترکہ طور پر آغاز کرنا ہے۔ اپنے مذہب اور روایات کو جنھیں ہم بہت احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ بچانے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ ہم سب کو مل جل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ایسی دنیا وجود میں آجائے جہاں ایمان کے ثمرات ___ افہام و تفہیم‘ برداشت اور ہمدردی ہمارے بچوں اور آیندہ نسلوں کی حفاظت کریں۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور آج کے دور میں یہ چیلنج اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی مخلصانہ‘ پُرعزم اور قلبی کوششوں کو امن کے ساتھ رہنے کے گرد مرکوز کر دیں۔ (۲۱ مارچ ۲۰۰۶ئ)

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکی خارجہ پالیسی دنیابھر میں بالعموم اور مشرق وسطیٰ میں بالخصوص ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کا رخ متعین کرتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں موجود اسرائیل فلسطین تنازعے میں امریکا کی غیرمشروط اور لامحدود اسرائیل نوازی‘ کئی عشروں سے دنیابھر میں سنجیدہ اہلِ علم حلقوں میں سوالیہ نشان بنی رہی ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ آخر امریکا اسرائیل کی اتنے بڑے پیمانے پرمالی‘ عسکری‘ سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی مدد کرنے پر اتنا مجبور کیوں ہے؟

اس سلگتے سوال کا نہایت موثر اور پُرمغز جواب دینے کی کوشش دو مغربی دانش ور پروفیسر حضرات جان میرشیمر (John Mearshimer) اور اسٹیفن ایم والٹ (Stephen M. Walt)نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ Israel Lobby & US Foreign Policy میں کی ہے۔ پروفیسر جان میرشیمر شکاگو یونی ورسٹی میں شعبہ تدریس سے منسلک ہیں‘ جب کہ پروفیسراسٹیفن ایم والٹ ہارورڈ یونی ورسٹی میں بین الاقوامی امور کے ذیلی ادارے میں پڑھاتے ہیں۔

۸۳ صفحات کی اس رپورٹ کو مختصر کرکے لندن ریویو آف بکس نے اپنی ۲۳مارچ   ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں شائع کیا ہے‘ جب کہ اصل رپورٹ بھی انٹرنیٹ پرکسی اچھے سرچ انجن (Google/Yahoo)کی مدد سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ اس رپورٹ کی سب سے اہم خصوصیت اس کے ۲۱۱ حوالہ جات ہیں جو فاضل مصنفین نے اسرائیل نواز سیاست دانوں‘ دانش وروں اور سیاسی کارکنوں کی تحریروں اور بیانات سے اکٹھے کیے ہیں۔

ان محققین کی نظر میں امریکا کی اسرائیل نوازی کی دو اہم وجوہات ہیں: ۱- امریکا میں یہ تصور عام کردیا گیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے عالمی تزویراتی مفادات یکساں ہیں ۲- یہ امریکا کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کی مدد کرے۔

امریکا اور اسرائیل کے تزویراتی مفادات مشترک ہونے کے تصور کا نتیجہ اسرائیل کی بھاری مالی امداد کی صورت میں نکلا ہے۔ گرین بک (جس میں سمندر پار بھیجے جانے والے عطیات اور قرضہ جات کا اندراج ہوتا ہے) کے مطابق اب تک اسرائیل ۱۴۰ارب ڈالر سے زائد کی امداد امریکا سے حاصل کرچکا ہے۔ سفارتی لحاظ سے امریکا کی اسرائیل نوازی کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کی ۳۲ اسرائیل مخالف قراردادوں کو ۱۹۸۲ء سے لے کر اب تک ویٹو (مسترد) کرچکا ہے۔حالتِ جنگ میں بھی امریکا اسرائیل کی بھرپور امداد کرتا رہا ہے مثلاً ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء کی جنگوں میں امریکا کی نکسن انتظامیہ نے دو بار اسرائیل کی امداد کر کے اُسے روسی جارحیت سے بچایا ہے۔ اسی لیے ایک اہم امریکی عہدے دار نے بالکل صحیح کہا ہے: ’’ایسا اکثر ہواہے کہ جب ہم نے اسرائیلی وکیل کی حیثیت سے کام کیا ہے‘‘۔

رپورٹ میں فاضل پروفیسر محققین کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل نواز لابی کی سب سے موثر تنظیم امریکا اسرائیل عوامی امور کمیٹی (American Israel Public Affairs Committee) (AIPAC) نے امریکا کے مقتدر سیاسی حلقوں کو باور کرا دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے مشترکہ تزویراتی خطرات سے نمٹنے میں باہمی تعاون سے دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔

اس مبہم تصور کو اسرائیل نواز لابی نے مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے عقیدے کا درجہ  دے کر اکتوبر ۱۹۷۳ء کی جنگ میں ۲ئ۲ ارب ڈالر کی امداد امریکا سے حاصل کی ہے۔ اسی نے عرب ممالک کو تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے جس کی وجہ سے امریکا کو بھاری معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔

رپورٹ کے مطابق: اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں کرنے کے لیے ہمیشہ یہ دلیل دیتا رہا ہے کہ امریکا اور اسرائیل دونوں ممالک میں امن کو مشترکہ دہشت گردوں سے خطرہ ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پروفیسرز کے مطابق اسرائیل کے ساتھ غیرمشروط تعاون نے امریکی مفادات کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے‘ مثلاً اسامہ بن لادن مسلم دنیا میں اپنے لیے ہمدردیاں‘ اسرائیلی افواج کی یروشلم میں موجودگی اور فلسطینیوں کی مظلومانہ کیفیت کو دلیل بناکر سمیٹتا ہے۔ یہی اسرائیل نوازی ہے جس کی وجہ سے مسلم دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپریل ۲۰۰۴ء میں ۵۲ سفیروں نے وزیراعظم ٹونی بلیر کو خط لکھ کر واضح کیا کہ اسرائیل فلسطین تنازعے نے عالمِ عرب بلکہ عالمِ اسلام میں امریکا کے خلاف نفرت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

رپورٹ میں مختلف حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ اسرائیل امریکا کا قابلِ اعتماد اور وفادار اتحادی نہیں ہے کیونکہ امریکا کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہا ہے‘ مثلاً مقبوضہ بستیوں میں انخلا کے حوالے سے اور فلسطینی رہنمائوں کے منصوبہ بند قتل نہ کرنے کے حوالے سے اسرائیل اپنے وعدوں کی پاس داری میں یکسر ناکام رہا ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیل نے حساس نوعیت کی دفاعی ٹکنالوجی‘ امریکا مخالف ملک چین کو دفاعی لحاظ سے مضبوط بنانے کے لیے فراہم کی ہے۔ ان دلائل کی بنیاد پر مصنفین نے اسرائیل کو امریکا کے لیے ایک تزویراتی بوجھ (strategic burden) قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز حلقے امریکا سے غیرمشروط تعاون کا مطالبہ درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر کرتے ہیں: ۱- اسرائیل ایک کمزور ملک ہے اور دشمنوں میں گھرا ہوا ہے ۲-اسرائیل ایک جمہوری ملک ہے اور کسی بھی حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے حوالے سے زیادہ مستحکم پوزیشن میں ہے۔ ۳- یہودیوں نے ماضی میں بہت زیادہ مظالم برداشت کیے ہیں اس لیے وہ امتیازی نرم رویے کے مستحق ہیں ۴-اسرائیل کی اپنے مخالفین کے مقابلے میں اخلاقی حیثیت بہت بہتر ہے۔

حالانکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔اسرائیل نواز حلقوں کا یہ دعویٰ کہ اسرائیل ایک کمزور ملک ہے قطعاً بے بنیاد ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں ہی اسرائیلی فوج زیادہ آراستہ اور مؤثر اختیارات کی مالک تھی۔ ۱۹۵۹ء اور ۱۹۶۷ء کی جنگ میں شام‘ اُردن اور مصر کے خلاف   یہ کامیابیاں ایک مضبوط ملک اور مضبوط فوج پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں واحد ایٹمی طاقت ہے۔ سیاسی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اُردن اور مصر سے امن معاہدوں کے بعد اسرائیل کی تزویراتی حیثیت زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔

یہ کہنا کہ اسرائیل ایک معیاری جمہوری ملک ہے بالکل غلط ہے کیونکہ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے جس کی بنیاد نسلیت (خون) پر ہے حالانکہ امریکی جمہوریت اس کے برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے اسرائیل میں موجود ۱۳ لاکھ عربوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی سی ہے۔ رہی سہی کسر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں ۳۸ لاکھ فلسطینیوں کو سیاسی حقوق سے یکسر محروم کرکے پوری ہوگئی ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ ناقص ہے۔

اسرائیل نواز حلقوں کا یہ کہنا کہ ماضی میں یہودیوں کی مظلومانہ حیثیت اسرائیل کی امداد اور اُس کے وجود کے برحق ہونے کی اخلاقی دلیل فراہم کرتی ہے ایک غیرمنطقی بات ہے۔ کیونکہ اگر کل یہودی مظلوم تھے تو آج اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد وہ ظالم بن کر رہ گئے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہودیوں کی آبادکاری اور فلسطینیوں کا اُن کے گھروں سے انخلا ظالمانہ طاقت کے استعمال کے ذریعے سے ممکن ہوا ہے‘ مثلاً حکومت عثمانیہ کے تحت ۱۸۹۳ء میں موجودہ اسرائیلی علاقوں میں ۹۵ فی صد عرب آباد تھے‘ جب کہ یہودیوں کی تعداد صرف ۱۵ہزار تھی یعنی ۳۵ فی صد۔ ۴۸-۱۹۴۷ء میں اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ۷۰ہزار فلسطینیوں کو زبردستی ہجرت پر مجبور کیا گیا تاکہ اکثریت کو اقلیت میں بدلا جاسکے اور پروپیگنڈا یہ کردیا گیا کہ فلسطینی رہنمائوں نے فلسطینیوں کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز حلقوں کا آخری دعویٰ کہ اسرائیل کی اخلاقی حیثیت اُس کے مخالفین سے بہتر ہے‘ ایک شرمناک دعویٰ ہے کیونکہ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۶ء کے درمیانی عرصے میں اسرائیلی افواج نے ۵ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔ ان میں سے اکثر نہتے اور غیرمسلح تھے۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۷ء کے درمیانی عرصے میں سیکڑوں مصری قیدیوں کو اسرائیلی افواج نے قتل کیا تھا۔ ۱۹۶۷ء میں ۲ لاکھ ۶۰ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا۔ ۱۹۸۲ء میں صابرہ اور شتیلا کے مہاجر کیمپوں میں ۷۰۰ معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ پہلی انتفاضہ تحریک (۱۹۹۱-۱۹۸۷ئ) میں اسرائیلی افواج میں انسان کی ہڈیاں توڑنے والے آلات تقسیم کیے گئے۔ سویڈن کی ایک تنظیم ’بچوں کو بچائو‘ (save the children) کے تحقیقاتی جائزے کے مطابق ۲۹ہزار ۹سو کے قریب زخمی فلسطینی بچوں کو انتفاضہ تحریک کے پہلے دو سالوں میں ہسپتال لایا گیا۔ ان بچوں میں سے ایک تہائی بچوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ان تمام بچوں کی عمر ۱۰ سال سے بھی کم تھی۔

دوسری انتفاضہ تحریک (۲۰۰۵ئ-۲۰۰۰ئ) کے ابتدائی دنوں میں ۱۰ لاکھ گولیاںچلائی گئیں۔ اس وقت سے اب تک اسرائیل ہریہودی کے بدلے ۴ئ۳ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے‘   جب کہ مقتولین بچوں کی نسبت ایک اسرائیلی بچہ بالمقابل ۷ئ۵ فلسطینی بچے ہیں۔ فلسطینیوں کے علاوہ اسرائیل نے غیرملکی پرامن کارکنوں کوبھی قتل کیا ہے‘ مثلاً مارچ ۲۰۰۳ء میں ایک امریکی خاتون کو اسرائیلی بلڈوزر کے نیچے کچل کر مار ڈالا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم ایہودبارک خود تسلیم کرتا ہے کہ ’’اگر وہ فلسطینی ہوتے توضرور کسی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوجاتے‘‘۔

۱۹۴۴ء سے ۱۹۴۷ء تک صہیونی تنظیموں نے بموں کے ذریعے دہشت گردی کروائی ہے تاکہ برطانیہ کو فلسطین کی طرف راغب کرایا جاسکے۔ ہیم لیون برگ (Haim levenberg)کے مطابق یہودی دہشت گردوں نے ۱۹۳۹ء میں بسوں اور پُرہجوم جگہوں پر بم نصب کرنے کی خوفناک روایت کا آغاز کیا۔

محققین نے بحث کو سمیٹتے ہوئے سوال اٹھایا ہے: اگر تزویراتی اور اخلاقی حیثیت سے اسرائیل قابلِ اعتماد اتحادی نہیں ہے بلکہ تزویراتی بوجھ ہے تو پھر آخر کیوں امریکا کی خارجہ پالیسی کا تمام تر بہائو اسرائیل کی طرف ہے؟

اس کا جواب اُن کی نظر میں صرف ’اسرائیل نواز لابی‘ ہے جس کا مرکزی کردار امریکی صہیونی مختلف سیاسی کمیٹیوں اور تنظیموں کے ذریعے ادا کرتے ہیں مثلاً امریکی اسرائیل عوامی امور کمیٹی (AIPAC) اثرپذیری کے حوالے سے امریکا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے‘ جب کہ ایک اور تنظیم (Conference of Presidents of Major Jewish Organizations) کا تعلق براہِ راست اسرائیل کی توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی لیکوڈ پارٹی (Liquid Party) کے ساتھ ہے۔ اس تنظیم کے ایک رکن کا کہنا ہے: ’’یہ ہمارے لیے ایک معمول کی بات ہے کہ کسی معاملے کی حکمت عملی طے کرتے وقت ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں‘‘۔

یہ لابی اسرائیل نواز عیسائیوں کی پوری کھیپ رکھتی ہے۔ ان میں نمایاں نام گیری بائر (Gary Buer)‘ جیری فارویل (Jerry Forwell)‘ والف ریڈ‘ ڈک آرمیئے (Dick Armey)اور ٹام ڈیلے (Tom Delay) ہیں۔ ان متعصب عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ اسرائیل کا دوبارہ معرض وجود میں آنا بائبل کی پیش گوئی کے مطابق ہے اور اسرائیل پر دبائو ڈالنا‘ خدا کی رضامندی کے خلاف کام کرنے کے مترادف ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز حلقے اپنے مضبوط روابط واشنگٹن میں کانگریس اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داران کے ساتھ رکھتے ہیں۔ لابی میں موجودمتحرک ارکان امریکی کانگریس کے ممبران کے لیے فنڈز اکٹھے کرتے ہیں۔ اُن کے حق میں سیاسی مہمات چلاتے ہیں۔ یوں اُن کی ہمدردیاں ہمیشہ اسرائیل کے مفادات کے حق میں اکٹھی کرلی جاتی ہیں حتیٰ کہ ایوان نمایندگان کے ممبران معلومات کے حصول کے لیے سرکاری لائبریری یا کانگریس ریسرچ سنٹر جانے کے بجاے ایپک  (AIPAC) سے رجوع کرتے ہیں۔ یہی ایپک   اُن کی تقریریں تیار کرکے اور پالیسیوں کے حوالے سے مشورے دے کر اور ایوان نمایندگان کے انتخابی اخراجات کے انتظامی معاملات سنبھال کر اُن کی ہمدردیاں سمیٹتی ہے۔

اس لیے ہمیں تعجب نہیں ہونا چاہیے جب ایریل شیرون نے امریکی سامعین کے سامنے کہا تھا: ’’جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اسرائیل کی مدد کیسے کرسکتے ہیں تو میں اُنھیں یہی کہتاہوں کہ صرف ایپک کی مدد کیجیے‘‘۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز گروہ عوامی سطح پر بھی میڈیا کے ذریعے مسلسل یہ     یقین دہانی حاصل کرتے ہیں کہ امریکی عوام اسرائیل کے بارے میں مثبت راے رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسرائیل نواز لابی کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں آزادانہ مباحثہ نہ ہوسکے کیونکہ کھلم کھلا اور غیر جانب دارانہ مباحثے کے نتیجے میں امریکا سے یہ منطقی سوال لازماً پوچھا جائے گا کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر اسرائیل کی غیرمشروط امداد آخر کیوں کر رہا ہے؟ چنانچہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اہم اور مرکزی ذرائع ابلاغ کے اداروں پر اسرائیلی موقف سے ہمدردی رکھنے والے افراد بٹھائے گئے ہیں۔ جیساکہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی معاملات کے ماہر صحافی ایرک الٹرمین (Eric Alterman) کا کہنا ہے: ’’ذرائع ابلاغ پر وہ لوگ چھائے ہوئے ہیں جو اسرائیل کے بارے میں تنقید کا سوچ بھی نہیں سکتے‘‘۔

لہٰذا اس میں قطعاً مبالغہ آرائی نہیں کہ شکاگو ٹائمز، واشنگٹن ٹائمز، وال سٹریٹ جنرل اور دیگر میگزینوں مثلاً کمنٹری ، نیو ری پبلک اور ویکلی سٹینڈرڈ ہرلمحہ پُرجوش انداز میں اسرائیل کے دفاع کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مشہور رسالے ٹائم کے سابق انتظامی مدیر میکس فرینکلن (Max Franklen) نے اسرائیل نواز رویوں کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: ’’مجھے اعتراف ہے کہ میں اسرائیل کے ساتھ جذباتی طور پر منسلک رہا ہوں‘ میرا اسرائیل کے بارے میں ہمدردانہ رویہ میرے اُن دوستوں کی وجہ سے ہے جو وہاں (اسرائیل میں) ہیں۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے جریدے کے قاری عربوں سے زیادہ یہودی ہیں‘‘۔

اس سب کے باوجود اگر کبھی کونے کھدرے سے نرم الفاظ میں اسرائیل مخالف بات آبھی جاتی ہے تو اس کی سخت مزاحمت کی جاتی ہے مثلاً سی این این کو اسرائیل مخالف رپورٹ دکھانے پر ایک دن میں ۶ہزار مزاحمتی ای میلز وصول ہوئیں جس میں اس رپورٹ کے نشر کرنے پر متعلقہ ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نواز لابی کی ہمیشہ سے انتہائی کوشش رہی ہے کہ تعلیمی اداروں کی فضا کو اسرائیل نواز بنایا جائے کیونکہ اسرائیل کی پالیسیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ  صحت مند تنقید انھی تعلیمی اداروں کی طرف سے کی جاتی ہے۔چنانچہ لابی درس گاہوں کے نصاب پر نظر رکھتی ہے اور مسلسل اس امر کا جائزہ لیتی ہے کہ پروفیسر حضرات کیا پڑھاتے ہیں اور کیا لکھتے ہیں۔ اسی سلسلے کو مزید منظم کرنے کے لیے ستمبر۲۰۰۲ء میں کٹر اسرائیل نواز یہودی دانش ور مثلاً ڈینیل پائپس اور مارٹن کریمر نے کیمپس واچ (campus watch) کے عنوان سے ایک ویب سائٹ بنائی۔ اس کا مقصد اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے پروفیسروں کے نام اور نظریات کا اندراج کرنے کے لیے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ تاکہ اُن دانش وروں و پروفیسروں کو بلیک لسٹ کردیا جائے۔ یا پھر اُن پروفیسروں کی متعلقہ انتظامیہ پر سیکڑوں مذمتی خطوط اور ای میلز کے ذریعے دبائو ڈالا جاسکے مثلاً کولمبیا یونی ورسٹی میں پروفیسر ایڈورڈسعید اور تاریخ دان رشید خالدی کو لابی نے اپنے اس پروپیگنڈا مہم کا نشانہ بنایا۔

رپورٹ میں تفصیلاً بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نواز حلقوں کا پروپیگنڈا ہتھیاروں میںسے سب سے زیادہ پرانا اور خطرناک ہتھیار‘ اپنے مخالفین پر سامیت مخالف یا یہودیت مخالف (antisemitic) ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ حالانکہ یہود مخالف ہونا اور اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرنا دو مختلف باتیں ہیں لیکن اسرائیلی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید کو یہودیت مخالف نفرت پھیلانے کے مترادف سمجھاجاتا ہے۔ یعنی اسرائیل پر تنقید کرتے ہی آپ سامیت مخالف ہوجاتے ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ اسرائیل نواز لابی کامل اطاعت چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۲ء کے شروع میں جب عرب دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت کم کرنے کے لیے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم پر نرم الفاظ میں امریکی انتظامیہ نے ناپسندیدگی کا اظہار شروع کیا تو اسرائیل نواز لابی نے ’مشترکہ دہشت گردی کے خطرے‘ کے حق میں پروپیگنڈا مہم شروع کرکے امریکی انتظامیہ کو اپنا   ہم خیال بنالیا۔ اس لیے یہ بات طے ہے کہ اگر بش انتظامیہ امریکا کو اسرائیل سے دُور رکھنے کی کوشش کرتی ہے یا پھر مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اُسے فوراً اسرائیل نواز لابی اور خود کانگریس کے ارکان کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں انکشافات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فاضل مصنفین لکھتے ہیں: اسرائیل نواز قوتیں امریکی افواج کو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں اپنے مفادات کے مطابق ملوث کرنے میں طویل عرصے سے دل چسپی لیتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملے کی اہم ترین وجہ ’عراقی تیل‘ کے بجاے اسرائیل نواز لابی کا دبائو تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگست ۲۰۰۲ء میں ڈک چینی نے عراق کے خلاف جنگ کے حق میں سخت منفی بیانات کی مہم چلائی جوکہ ریکارڈ پر ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے عراق میں تباہی پھیلانے والے غیرروایتی ہتھیاروں کی موجودگی کے حوالے سے اپنے مرضی کے موقف کے مطابق مبہم تصورات پر مبنی معلومات پھیلانے میں بھرپور حصہ لیا۔ آخر میں صدام حسین نے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کرنے کی بھی یقین دہائی کرا دی تھی جس کی وجہ سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جنگ کے خطرات کم ہوگئے ہیں لیکن اسرائیل کے وزیرخارجہ شمعون پیریز نے ستمبر ۲۰۰۲ء میں ان الفاظ کے ذریعے جنگ پر اصرار کیا: ’’صدام حسین کے خلاف کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے کیونکہ معائنہ کاروں کی قانونی کارروائی مہذب لوگوں کے لیے ہی مناسب ہوتی ہے‘ جب کہ غیرمہذب اور بے ایمان لوگ معائنہ کاروں کی کارروائی کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔

۱۹۹۸ء میںاسرائیل نواز قوتوں نے صدر کلنٹن کے نام کھلے خطوط میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ان خطوط پر دستخط کرنے والے بیش تر افراد آج بھی امریکی انتظامیہ کی پالیسی سازی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں نمایاں نام الیوب ابراہم‘ جان بولٹن‘ ڈگلس نتھ‘ ولیم کوئسل‘ برٹیڈلیوس‘ ڈونلڈ رمس فیلڈ‘ رچرڈ پارلے اور پال وولف وٹرز کے ہیں۔ اُس وقت تو یہ گروہ جنگ شروع کرانے میں ناکام رہا لیکن ناین الیون کے سانحے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس گروہ نے ڈک چینی اور بش کوعراق میں اقتدار کی تبدیلی کے لیے جنگ کرنے پر راضی کرلیا۔

اسرائیل نواز لابی نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر پروپیگنڈا مہم کے ذریعے صدام حسین کی حکومت کو دنیا کی خطرناک دہشت گرد حکومت ثابت کیا اور اپنی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا افسانہ گڑھا۔ امریکا پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے فطری اتحادی ہونے کے حوالے سے دبائو ڈالا گیا حتیٰ کہ ۲۰ستمبر ۲۰۰۲ء میں صدربش کے نام نیوکزرویٹوز (اسرائیل نواز لابی) نے خط میں یہاں تک لکھا: ’’اگر عراق کا    ناین الیون کے حملوں سے براہ راست تعلق ثابت نہ بھی ہوتا تو بھی دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے حکمت عملی کے طور پر دہشت گردی کو فروغ دینے والی قوتوں کا خاتمہ ضروری ہے اور اس بات میں سب سے اہم کام صدام حسین کو عراق میں اقتدار سے الگ کرنا ہے‘‘۔

۲۰۰۳ء کے اوائل میں عراق پر حملے کے جواز کے لیے تفصیلی بریفنگ امریکی انتظامیہ کو دی گئی جس میں عراق کے حوالے سے مفروضوں پر مبنی معلومات کی بنا پر انتہاپسندانہ اقدام کی سفارش کی گئی اور حیرت انگیز طور پر عراق جنگ میں اسرائیل کے انتہائی سرگرم کردار پر پردہ ڈال دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور امریکی صحافی مائیکل کسلے نے ۲۰۰۲ء میں ایک مضمون میں بیان کیا: ’’اسرائیل کے عراق جنگ میں سرگرم کردار کے حوالے سے عوامی سطح پر شاذو نادر ہونے والی مباحث کو ایک مثال سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے جیسے ایک کمرے میں ہاتھی ہو اور ہر کوئی اُسے دیکھ بھی رہا ہو لیکن کوئی یہ نشان دہی کرنے کے لیے تیار نہ ہو کہ یہ ہاتھی ہے‘‘۔

رپورٹ میں یہ بھی تفصیلاً بیان کیا گیا ہے کہ سقوطِ بغداد کے بعد اسرائیل نواز لابی نے شام کے خلاف مہم جوئی کے لیے ایندھن اکٹھاکرنا شروع کیا۔ شیرون کے قومی سلامتی کے مشیر    ابراہم ہالوے‘ وولف وٹرز‘ رچرڈ پارلے‘ یورین کلپن اور دیگر اسرائیل نواز صحافی مثلاً زیوشیف‘   یوی کلائیں نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کو امریکا کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اُسے اقتدار سے ہٹانے کا مطالبہ اپنی تحریروں اور بیانات کے ذریعے کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ایپک نے  اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے امریکی کانگریس میں شام مخالف قانون پاس کروالیا  جس پر ۱۲ستمبر ۲۰۰۳ء کو خود بش نے بھی دستخط کردیے۔ قانون کا واحد مقصد شام پر دبائو بڑھانا تھا۔

اسرائیل نواز لابی کا اب نیا ہدف ایران ہے۔ اس لابی نے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں سے امریکا کو ڈرا کر اُسے ایران کے خلاف نیا فوجی محاذ کھولنے پر اُکسانا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع بن یامین بن ایلیرز کا یہاں تک کہنا ہے: ’’عراق ایک مسئلہ ہے لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کہ ایران عراق سے زیادہ خطرناک ہے‘‘۔

حالانکہ ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے امریکا کو براہِ راست کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اگر واشنگٹن ایٹمی روس‘ ایٹمی چین حتیٰ کہ ایٹمی جنوبی کوریا کے ساتھ رہ سکتا ہے تو پھر وہ ایٹمی ایران کے ساتھ بھی رہ سکتا ہے لیکن اسرائیل نواز لابی کا پروپیگنڈا بدستور جاری ہے جس کا منہ بولتا ثبوت AIPAC کی ویب سائٹ ہے جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف مبہم معلومات پر مبنی مضامین آئے روز شامل ہوتے رہتے ہیں۔

فاضل محققین پروفیسرز نے اپنی رپورٹ کے اختتام میں امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر’’امریکا اسرائیل کے تحفظ کو مضبوط بنانے کی غرض سے‘ مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی تشکیلِ نو میں ناکام رہتا ہے تو پھر اُسے انقلابی عربوں اور مسلم دنیا کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسرائیل تو اپنی طے شدہ حکمت عملی کے عین مطابق امریکا کے کندھوں کے پیچھے رہنے‘ موجودگی کو چھپاکر اپنے خلاف منفی اثرات کو کم کرے گا۔ لیکن امریکا کے خلاف مسلم دنیا میں نفرت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ اس لیے امریکا کے قومی مفاد میں ہے کہ وہ اسرائیل سے فاصلہ رکھے کیونکہ اسرائیل کی قربت امریکا کی قومی سلامتی کو نئے خطرات سے دوچار کر رہی ہے‘‘۔

تہران میں منعقدہ القدس کانفرنس کے اختتام پر جب ایرانی اسپیکر حداد عادل نے دعا کی کہ ’’پروردگار ہم سب کو وہ دن جلد دکھا کہ جب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ معراج    اور قبلہ اوّل میں تیرے حضور سجدہ ریز ہوں‘‘تو میرے ساتھ بیٹھے سراج الحق صاحب آمین کہتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ اس کانفرنس کے تقریباً ایک ماہ بعد ۱۰مئی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں علامہ یوسف القرضاوی کی دعوت پر علماے کرام کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہو رہا تھا۔ اس کے آغاز میں چند منٹ کی ایک وڈیو دکھائی گئی۔ تین ماہ کی فلسطینی بچی ایمان پھولوں کے درمیان نمایاں ترین پھول کی صورت سوئی ہوئی تھی لیکن جیسے ہی کیمرہ چہرے سے چھاتی پر آیا تو دکھائی دیا کہ ایک  صہیونی گولی اسے چھید چکی ہے اور ایمان اپنی مسکان ہونٹوں پر سجائے ابدی نیند سوگئی ہے۔ ہونٹوں کے کنارے دودھ کے چند قطرے ابھی تازہ تھے‘ جب کہ نیچے بچھا بسترسرخ خون سے تر ہوچکاتھا۔   یہ منظر دیکھتے ہی پوری کانفرنس سسکیوں میں ڈوب گئی۔

فلسطینی عوام کی نصرت کی خاطر بلائے جانے والے اس اجلاس کا فیصلہ‘ تیاری اور انعقاد صرف دو ہفتے کے اندر ہوا تھا۔ اس میں اُمت مسلمہ کے اہم نمایندگان کے علاوہ فلسطینی قیادت کی بھرپور نمایندگی تھی۔ محترم قاضی حسین احمد پاکستان ہی نہیں تمام غیرعرب مسلم ممالک کی نمایندگی کررہے تھے۔ افتتاحی تقریب میں میزبان علامہ قرضاوی کی گفتگو کے بعد حماس کے سربراہ خالدمشعل کاخطاب تھا۔ پھر قاضی صاحب کا اور ان کے بعد مختلف فلسطینی قائدین‘ مسلم رہنمائوں اور فلسطینی نومنتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کا اہم ٹیلی فونک خطاب تھا۔

علامہ قرضاوی نے اپنے افتتاحی خطاب میں اس ہنگامی اجلاس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر آنے والا دن ہمارے فلسطینی بھائیوں کے لیے نئی آزمایش کا موجب بن رہا ہے۔ صہیونی اسلحے کی ہلاکت آفرینی کے بعد اب ایک طرف تو ان پر بھوک کاعذاب مسلط کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف انھیں خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں میں الفتح اور حماس کے مسلح دستوں کے درمیان باقاعدہ جھڑپیں ہوئی ہیں۔ دشمن کے لیے اس سے زیادہ خوشی اور اطمینان کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ اس کانفرنس میں الفتح کے ذمہ داران بھی شریک ہوسکیں۔ خالدمشعل نے بھی ان سے رابطہ کیا اور میں نے خود بھی ان میں سے کئی کے ساتھ فون پر بات کی‘ لیکن افسوس ہے کہ انھوں نے ہماری دعوت قبول نہیں کی۔

علامہ قرضاوی نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ بدقسمتی سے صدر محمود عباس (ابومازن) اور ان کا ایوانِ صدر فلسطینی حکومت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ ان کی اس بات کی تائید دوسرے روز کے سیشن میں فلسطینی پارلیمنٹ کے منتخب ارکان نے اپنی تقاریر میں کی۔ انھوں نے کئی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ۱۳فروری ۲۰۰۶ء کو سابق پارلیمنٹ کا الوداعی اجلاس تھا۔ اس میں کوشش کی گئی کہ منتخب وزیراعظم کے وہ اختیارات واپس صدر کو دے دیے جائیںجو اصرار کرکے صدر یاسرعرفات سے چھینے گئے تھے (کیونکہ اس وقت محمود عباس وزیراعظم تھے)۔ نومنتخب پارلیمنٹ نے ۱۸ فروری کو حلف اُٹھایا‘ ان درمیانی پانچ دنوں میں صدرمحمود عباس نے پانچ نئے قوانین ہنگامی طور پر جاری کیے‘ تاکہ وہ پارلیمنٹ میں نہ پیش کرنا پڑیں‘ حالانکہ ایسا صرف ایمرجنسی کی صورت میں ہی ممکن ہے جب کہ ان قوانین کا مقصد صرف منتخب حکومت کو بے دست و پا کرنا ہی تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی بھاری اکثریت کی بنیاد پر ان قوانین کو منسوخ کر دیا ہے لیکن اس مثال سے دنیا ایوانِ صدر کی ’فطرت‘ سے آگاہ ہوسکتی ہے۔ حماس کے ان ذمہ داران نے ارکانِ پارلیمنٹ کی تعداد اور تقسیم بھی واضح کی کہ ۱۳۲ کے ایوان میں ۷۴ نشستیں حماس کی ہیں‘ چار ارکان آزاد جیتے لیکن انھیں حماس کی تائید حاصل تھی۔ اس طرح ہمارے ارکان ۷۸ ہیں۔ الفتح کے ارکان ۴۵ہیں۔ نو ارکان چار مختلف دھڑوں کے ہیں جو یوں ہیں: پاپولر فرنٹ ۳‘ جمہوری اتحاد ۲‘ آزاد فلسطین گروپ ۲ اور تیسری راہ ۲۔ حماس کے ارکان نے بتایا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ   الفتح کے ارکان اسمبلی کو ساتھ لے کر چلیں۔ ہم نے اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں کی تشکیل میں الفتح کو   اہم ترین کمیٹیوں کی سربراہی دی ہے۔

وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کے چچازاد بھائی اور منتخب رکن اسمبلی ڈاکٹر مازن ھنیہ نے شرکاے اجلاس کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو آپ کی طرف سے مالی امداد سے زیادہ اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ فلسطینی عوام اگرچہ بھوکے مررہے ہیں لیکن پھر بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حماس کے ترجمان سامی ابوزھری جو زندگی میں پہلی بار غزہ سے باہر نکل سکے بتا رہے تھے کہ خزانہ خالی ہونے کی بات تو روایتی سمجھی جاتی ہے۔ ہمیں سابقہ حکومت نے انتہائی مقروض چھوڑا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کرپشن کی تفصیلات اتنی ہیں کہ اس کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔ اقربا پروری   کا عالم یہ ہے کہ ۱۳۲ ارکان کے ایوان کے لیے سابق ارکان اسمبلی اور وزرا نے اپنے عزیزوں اور    واسطہ داروں میں سے ۶۰۰ ملازمین بھرتی کر رکھے ہیں اور ان کے لیے بھاری تنخواہیں مقرر کر رکھی ہیں۔ ہم مختلف ضابطے بنا رہے ہیں جن سے تنخواہیں بھی کچھ کنٹرول ہوجائیں گی‘ خاص طور پر   بڑی تنخواہوں پر ضرور نظرثانی اور کمی ہوگی۔

حماس کے ان ذمہ داران نے ایک اور اہم پہلو یہ بتایا کہ اگرچہ فلسطینی عوام کو دورحاضر کے شعب ابی طالب میں حصار کا سامنا ہے لیکن وہ اپنے موقف پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینی حکومت کو ہر ماہ تنخواہیں دینے کے لیے تقریباً ۱۷ کروڑ ڈالر درکارہوتے ہیں جو مختلف ممالک کی اعانتوں سے پورے ہوتے تھے۔ اب یہ امداد روک دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کے چولہے بجھ رہے ہیں۔ وہ بجلی اور گیس کے بجاے‘ تیل کے دیے اور لکڑی جلانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ صہیونی افواج نے مزدوروں کو مزدوری کے لیے نکلنے سے منع کردیا ہے۔ کسان اپنی سال بھر کی محنت کے بعد اپنی فصلیں منڈی لے جانے سے عاجز ہیں‘ کیونکہ کرایہ نہیں اور اگر منڈی پہنچ بھی جائیں تو قیمتیں اتنی کم کر دی گئی ہیں کہ فصلوں کے اخراجات تو کجا کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ گویا کہ پوری کی پوری فلسطینی قوم بے روزگار کردی گئی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ مزدور کسان اور سرکاری ملازمین خاص طور پر اساتذہ فلسطینی حکومت کے خلاف یا تنخواہیں مانگنے کے لیے جلوس نکالنے کے بجاے حماس اور اس کی حکومت کے حق میں جلوس نکال رہے ہیں۔ بوڑھی خواتین اور بچے جلوس نکال رہے ہیں کہ ہمیں عزت کی موت برداشت ہے ذلیل ہوکر اور اپنے حقوق سے دست بردار ہوکر جیناقبول نہیں ہے۔

وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کا ٹیلی فونک خطاب بہت ایمان افروز تھا۔ وہ اپنی پُرثبات آواز میں کہہ رہے تھے: ’’الحمدللہ! ہم اقتدار کے لالچ سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ہمارے سامنے درج ذیل پانچ واضح اور بنیادی اہداف ہیں: ۱- فلسطینی عوام کے حقوق اور مسئلہ فلسطین کے اصول و مبادی کی حفاظت۔ ہماری منتخب حکومت غاصب قوتوں کے سامنے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ ہم کبھی اپنے عوام کے حقوق کا سودا نہیں کریں گے۔ ہم یہاں نہ تو کسی مخصوص تحریک کے نمایندہ ہیں نہ کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ہم قبلۂ اوّل سے صہیونی استعمار کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ یہی ہمارا سب سے بنیادی ہدف رہے گا۔

۲- فلسطینی قوم کی وحدت کی حفاظت‘ فلسطینی خون کی حفاظت‘ خونریزی ایسا سرخ نشان ہے جس سے آگے جانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ گذشتہ دنوں جب الفتح اور حماس کے کچھ عناصر کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تو میں فوراً طرفین کے ذمہ داران کے پاس پہنچا اور دونوں کے درمیان معاہدہ طے کروایا کہ کسی فلسطینی ہتھیار کا ہدف کوئی فلسطینی سینہ نہیں بنے گا۔ فلسطینی حکومت باہم خونریزی کو روکنے کے لیے تمام وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کارروائی کرے گی۔

۳- یہ بات عملاً ثابت کرنا کہ مسئلہ فلسطین محدود فلسطینی مسئلہ نہیں‘ یہ پوری اُمت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ یہ لاکھوں فلسطینیوں کا نہیں‘ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔

۴- فلسطینی قوم کا یہ حق تسلیم کروانا کہ اسے اپنی حفاظت کا مکمل حق حاصل ہے‘ اس کی سرزمین پر اور مقدس مقامات پر استعماری قبضے کے خاتمے کی جدوجہد‘ اسی حق دفاع کا حصہ ہے اور ہمیں جہاد آزادی کے اس حق سے کوئی قوت محروم نہیں کرسکتی۔

۵- ہم نے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تبدیلی اور اصلاح کا جو پروگرام پیش کیا تھا اور فلسطینی عوام کی اکثریت نے جس کی تائید کی تھی‘ اس پروگرام پر عمل درآمد‘ کرپشن اور فساد کا خاتمہ اور ایک خداخوف‘ باصلاحیت و اہل قیادت کا کامیاب تجربہ پیش کرنا جو صرف اپنے رب کی رضا کو اپنے ہر عمل کی اساس سمجھتی ہے۔

وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ آج ہمیں اپنے عوام کو ماہانہ تنخواہیں دینے سے بھی محروم کیا جا رہا ہے‘ لیکن تمام فلسطینی ملازمین جانتے ہیں کہ اگر انھیں تنخواہ نہیں ملی تو ان کے وزیراعظم کو بھی نہیں ملی۔ میں نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی وزیراعظم تنخواہ حاصل کرنے والا آخری شخص ہوگا اور جب بھی تنخواہ ملے گی تو میری پہلے ماہ کی تنخواہ ھدیل غبش نامی اس ۱۲سالہ شہید فلسطینی بچی کے خاندان کو دی جائے گی جسے ۱۱ اپریل کو صہیونی افواج نے بم باری کرکے شہید کردیا تھا۔وزیراعظم ھنیہ نے کہا کہ کچھ لوگ ہمیں ڈراتے ہیں کہ ہماری بات نہ مانی تو چار ماہ کے اندر اندر تمھاری حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہم انھیں کہتے ہیں کہ ’’اقتدار تو دنیا میں اللہ کی ایک امانت اور آخرت میں بڑی جواب دہی ہے‘‘۔ اس کی فکر نہیں لیکن زمینی حقائق تمھیں بھی بتا رہے ہیں کہ ہماری حکومت چار ماہ نہیں اپنی قانونی مدت یعنی چار برس تک ذمہ داریاں ادا کرتی رہے گی۔

وزیراعظم ھنیہ کے خطاب کے بعد ایک فلسطینی تجزیہ نگار عبدالرحمن فرحانہ کا ایک تجزیہ دیکھنے کو ملا جس میں انھوں نے مختلف اسرائیلی ذمہ داران اور صہیونی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں مستقبل کے تین امکانات واضح کیے تھے۔

پہلا تو یہ کہ فلسطین میں انتشار و اضطراب میں اضافہ کیا جائے‘ اور اس مقصد کے لیے حماس کی حکومت کو ناکام بنایا جائے۔ مقامی سطح پر الفتح‘ علاقائی سطح پر اسرائیل اور پڑوسی عرب ممالک اور عالمی سطح پر مختلف اسلامی ممالک اور بڑی عالمی قوتوں کو حماس کے خلاف مزید متحرک اور مشتعل کیا جائے۔ یہ نقشہ امریکا و اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے لیکن اس میں اصل خطرہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے حماس کمزور نہیں مزید مضبوط ہوگی اور فلسطینی عوام کی آنکھوں کا تارا بنے گی۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ انتظار کیا جائے‘ سیاسی و اقتصادی دبائو میں مسلسل اضافہ کیا جائے۔ کم از کم چھے ماہ سے ایک سال کے بعد اس صورت حال کے نتائج کی روشنی میں مزید کوئی فیصلہ کیا جائے‘ جب کہ تیسرا راستہ یہ ہے کہ زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے‘ فلسطینی حکومت کو مشکلات کے بھنور میں پھنساتے ہوئے اور اس سے بے پروا ہوکر اسرائیلی ریاست اپنے طور پر انفرادی اور مستقل نوعیت کے فیصلے کرے اور جو بھی نتائج ہوں ان کا سامنا کرنے کے لیے عالمی برادری (اصل میں امریکا) کا سہارا حاصل کرے۔ اس ضمن میں صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کا یہ بیان اہم ہے کہ  ہم عنقریب اور یک طرفہ طور پر اپنی ابدی سرحدوں کا اعلان کردیں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسا کرنے سے فلسطینی آبادیوں کو مزید غتربود کا نشانہ بنایا جائے گا اور ان کے گرد کھڑی کی جانے والی فصیل کو مزید وسیع اور بلند کرکے فلسطینیوں کو مزید محصور و مقید کردیاجائے گا۔

ان تینوں امکانات کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام اور حماس سے زیادہ مشکل کا سامنا خود اسرائیل کو ہے۔ وہ حماس حکومت کا خاتمہ کرے تو خود بھی مزید پھنستا ہے اور اگر خاتمہ نہ کرے تو بھوک و حصار کاسامنا کرنے کے باوجود حماس کی مقبولیت کو ابدی استحکام حاصل ہوگا۔یکم مئی کو مشرق وسطیٰ میں چار رکنی عالمی اتحاد کے نمایندے جیمزولونسون نے کونڈولیزا رائس کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’کیا ہم سالانہ ایک ارب ڈالر کے اخراجات سے فلسطینیوں کے لیے قائم کیے جانے والے اپنے نظام کو بالآخر خود ہی تباہ و برباد کردیں گے؟‘‘ اور پھر یہ کہتے ہوئے ولونسون نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔

حماس اور فلسطینی عوام کی اکثریت نے اس صورت حال میں یہی فیصلہ کیا ہے کہ قربانیوں کے کاروان کو آگے بڑھائیں گے۔ علامہ یوسف قرضاوی کہہ رہے تھے کہ صہیونی حکومت شاید اس عرب مقولے پر عمل کرنا چاہتی ہے کہ جَوِّعْ کَلْبَکَ یَتْبَعُکَ(اپنے کتے کو بھوکا رکھو تمھارے پیچھے پیچھے آئے گا) لیکن اسے جان لینا چاہیے کہ فلسطینی قوم شیروں کی قوم ہے‘ جسے اگر بھوکا رکھا جائے تو پھر وہ ہرسامنے آنے والے کو چیرپھاڑ ڈالتا ہے۔

دوحہ کانفرنس نے اپنے اعلامیے میں اُمت مسلمہ کے اس فیصلے اور فتوے کا اعادہ کیا کہ پوری سرزمین فلسطین وقف سرزمین اور اُمت کی ملکیت ہے‘ اس کے بالشت بھر علاقے سے   دست برداری بھی شرعاً حرام ہے۔ کانفرنس نے یہ عہد بھی کیا کہ اگرچہ فلسطینی قوم نے اپنا شعار یہ چنا ہے کہ الجوع ولا الرکوع ، ’’ بھوکا رہ لیں گے دشمن کے آگے نہیں جھکیں گے‘‘۔ لیکن اُمت کا عہد ہے کہ لا الجوع ولا الرکوع ، ’’نہ بھوکا چھوڑیں گے اور نہ جھکنے دیں گے‘‘۔ علامہ قرضاوی بتارہے تھے کہ فلسطین کی مدد کے لیے کی جانے والی اپیل کے نتیجے میں اُمت مسلمہ ایثاروقربانی کی   نئی تاریخ رقم کررہی ہے۔ مصر اور اُردن میں اخوان کی اپیل پر شروع کی جانے والی امدادی مہم کے دوران چند گھنٹوں میں کروڑوں جمع ہوگئے ہیں۔ مصر میں مالی مدد کے علاوہ ۲۰کلو سونا بھی جمع ہوا ہے۔ مجھے ایک صاحب نے ایک پیٹی بھجوائی‘ کھولی تو اس میں ۵۰لاکھ ریال (تقریباً سوا آٹھ کروڑ روپے) تھے۔ بھجوانے والے نے اپنا نام نہیں بتایا اور کہا کہ یہ فلسطین بھجوا دیں۔

محترم قاضی صاحب نے بھی اپنے خطاب میں اسی بات پر زور دیا تھا کہ فلسطینی قوم کی سب سے بڑی قوت اس کا حق پر ہونا ہے اور حق پر ثابت قدم رہ کر ہی کوئی قوم فلاح پاسکتی ہے۔ فلسطینی قوم نے اپنے حقوق سے دست بردار نہ ہوکر ثابت کیا ہے کہ اسے غلام نہیں بنایا جاسکتا۔

قاضی صاحب کی اس بات کی تائید نومنتخب فلسطینی حکومت میں وزیر براے امور اسیران انجینیر وصفی کبہا کے انٹرویو سے بھی ہوتی ہے جو خود بھی چھے سال سے زائد عرصے تک صہیونی جیلوں میں گرفتار رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان صہیونی جیلوں میں ۹ہزار۵ سو فلسطینی قیدی ہیں جن میں سے ۳۵۵ بچے اور ۱۴۰ خواتین ہیں۔ ان میں سے ۱۳ فی صد قیدی ایسے ہیں جنھیں ۵۰سال سے زیادہ کی سزا سنائی جاچکی ہے لیکن کسی قیدی کے پاے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔

انجینیر وصفی سے پوچھا گیا کہ کوئی ایسا واقعہ جس نے تمھیں بہت متاثر کیاہو‘ کہنے لگے: میں وزارت کی ذمہ داری ملنے کے بعد دفتر گیا تو ہماری وزارت میں ملنے والی ایک فلسطینی لڑکی    وفا حسن علی نے ملاقات کی اور بتایا کہ میں ۲ اگست ۱۹۸۲ء میں پیدا ہوئی تھی‘ جب کہ میرے والد صاحب کو ۸ اگست ۱۹۸۲ء کو گرفتار کرلیا گیا تھا یعنی کہ میری پیدایش کے چھے روز بعد۔ آج ۲۴ سال ہونے کو آئے ہیں اور میرے والد صہیونی جیل میں ہیں۔ اسی طرح ایک اور خاتون اُم شادی براستی آئیں اور انھوں نے بتایا کہ میرے بیٹے محمد کو تین بار عمرقید کی سزا ہوچکی ہے۔ دوسرا بیٹا رمزی بھی    صہیونی جیل میں ہے اور اسے بھی عمرقید کی سزا سنائی جاچکی ہے‘ تیسرے بیٹے شادی کو چارسال کی سزا دی گئی ہے اور پانچویں بیٹے سعید کو بھی چارسال کی سزا سنائی گئی ہے‘ جب کہ چھوٹا بیٹا صابر شہادت کی دہلیز عبور کرکے رب کے حضور پہنچ گیا ہے لیکن یہ ماں خود ہمیں ثابت قدمی کی تلقین کر رہی تھی۔ جب تک ایسی مائیں زندہ ہیں اور تمام قربانیوں کے باوجود اپنے حقوق اور قبلۂ اوّل سے دست بردار ہونے یا اسرائیل نامی کسی ناجائز وجود کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں انھیں کون شکست دے سکتا ہے۔ ایسے قدسی نفوس کی وارث تحریک حماس کو کون شکست دے سکتا ہے!

وقت اور صلاحیتوں کی تقسیم اور کارِ دعوت

سوال: سعودی عرب میں ہماری ایک دکان ہے۔ میرے والد صاحب جماعت اسلامی کے مخالفوں میں سے ہیں۔ یہاں انھوں نے میرے اوقاتِ کار اتنے سخت رکھے ہیں کہ ۱۸ سے ۲۰ گھنٹے تک مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس لیے بھی کیا کہ میں تحریک کے لیے الگ سے وقت نہ نکال پائوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ وقت اور صلاحیتوں کی  تقسیم کار کے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ مزید یہ کہ ایسے کسب معاش کے ساتھ جو وقت اور صلاحیتوں کے مکمل انہماک کا تقاضا کرتا ہو‘ اسلام کے جملہ احکامات خصوصاً دعوت و جہاد‘ خدمتِ خلق‘ تحریکی‘ تنظیمی و عائلی ذمہ داریاں  بہتر انداز سے کیسے ادا کی جاسکتی ہیں؟

جواب: قرآن وسنت نے انسان کی دنیاوی زندگی کو ایک مہلت‘ فرصت اور قلیل الوقت قیام سے تعبیر کیا ہے۔ یہ تینوں الفاظ وقت کے صحیح استعمال کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ احادیث میں مزید وضاحت سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یوم الحساب ایک بندۂ مومن سے دریافت کیا جائے گا کہ اس نے اپنی جوانی کس کام میں صرف کی‘ اپنا مال کس کام میں لگایا وغیرہ۔ قرآن کریم زمانے کی قسم کے بعد یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ انسان خسارے میں ہے جو ایمان نہیں لایا‘ نہ عمل صالح کیا۔ یہاں بھی وقت کو ایک قیمتی اثاثہ‘ ایک دولت اور ایک نعمت قرار دیا گیا ہے جس کا صحیح استعمال کامیابی اور فلاح و فوز کا باعث بن سکتا ہے اور ضیاع‘ خسارے اور شرمندگی کا سبب بن سکتا ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ نے جو کتابًا موقوتا کہا ہے‘ اس میں وقت کے تعین اور exactness کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز کو اس کے صحیح وقت پر ادا کرنے کے ذریعے پابندیِ وقت اور تنظیمِ وقت (time management )کی عادت ڈالی جائے۔ اس لیے وقت کم ہو یا زیادہ‘ انسان اس کے لیے مکمل طور پر جواب دہ ہے۔

دوسری بات جس کی آپ نے وضاحت چاہی ہے اس کا تعلق صلاحیت سے ہے۔ قرآن کریم نے اس حوالے سے بہت سے مقامات پر ہمیں متوجہ کیا ہے‘ مثلاً حضرت یوسف ؑ اپنی صلاحیت کے حوالے سے ایک عظیم اور مکمل ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ قرآن کسی فرد کے منصب پر فائز کیے جانے کے لیے اہلیت کو شرط قرار دیتا ہے۔ بعض دینی فرائض کی ادایگی کے لیے استطاعت کا پایا جانا بھی صلاحیت ہی کی تعریف میں آئے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اگر ایک شخص کو تحریر‘ تقریر‘ تنظیم یا کسی بھی صلاحیت سے نوازا ہے تو اللہ کے حضور اسے اپنے وقت کے ساتھ اس صلاحیت کے حوالے سے بھی جواب دہی کرنا ہوگی۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بغیر کسی صلاحیت کے پیدا کیا ہے‘ اس لیے کسی نہ کسی حیثیت سے ہر فرد اللہ کی دی ہوئی صلاحیت کی بنا پر‘ چاہے وہ فکری ہو یا عملی‘ جواب دہ ہے۔

اس حوالے سے یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ صلاحیت کی دریافت اور اس کا نشووارتقا اور صحیح استعمال باہم مربوط ہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی حیثیت سے دوسروں سے مختلف صلاحیت نہ دی ہو‘ حتیٰ کہ ایک باضابطہ طور پر غیرتعلیم یافتہ شخص بھی ایسی بہت سی صلاحیتیں رکھتا ہے جو شاید ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص میں نہ پائی جاتی ہوں۔

صلاحیت کی دریافت اور قرآن و سنت کی ہدایات کی روشنی میں اس کے استعمال کا نام عرفانِ نفس ہے۔ اس حوالے سے ہر مومن مرد اور عورت کو جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کن کن نعمتوں سے نوازا ہے اور کیا وہ ان نعمتوں کو جھٹلا تو نہیں رہا جیساکہ سورہ رحمن میں بار بار ہمیں متوجہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر اگر ادا کیا جاسکتا ہے تو صرف اور صرف حسنِ عمل اور اتقان کا رویہ اختیار کر کے ہی کیا جاسکتا ہے (ھل جزاء الاحسان الا الاحسان)۔

کسب معاش کے بارے میں یہ خیال کہ یہ ایک دنیاوی عمل ہے اور دعوت و تبلیغ ایک دینی عمل‘ مناسب نہیں۔ کسب معاش اگر اسلامی اصولوں پر کیا جارہا ہے تو وہ بھی دعوت کا ایک عملی ذریعہ بن سکتا ہے اور صلاحیت کے انحطاط کا باعث نہیں بنے گا۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب فکر پر تحریک اور دعوتِ حق غالب ہو اور کسب معاش کو دعوت کے لیے استعمال کرنے کی لگن دل میں ہو۔

آپ نے لکھا ہے کہ والد صاحب نے جماعت کی سرگرمیوں سے دُور رکھنے کے لیے آپ کے اوقات کار ایسے رکھے ہیںکہ آپ تحریکی کام کے لیے وقت نہ نکال سکیں۔ اس سلسلے میں ایک تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ان کے دل میں دین کی دعوت دینے والوں کے لیے نرمی اور گنجایش پیدا کرے‘ دوسرے‘ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک بندے سے اسی چیز کا حساب لے گا جو اس کے اختیار میں ہو۔ نہ وہ کسی پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہے اور نہ کسی سے اس کی قوت و اختیار سے باہر چیز کے بارے میں جواب طلبی کرتا ہے۔ ہاں‘ جو وقت بھی آپ کے پاس ہے اس کی جواب دہی لازمی ہے۔ چنانچہ کوشش کیجیے کہ جو وقت آپ کے اپنے تصرف میں ہے اس کا صحیح استعمال ہوسکے۔

دکان پر جو گاہک آتے ہیں ان کے ساتھ آپ کی گفتگو‘ آپ کا طرزعمل‘ انھیں مناسب اشیا‘ مناسب قیمت پر دینا اور اشیا فروخت کرتے وقت مناسب انداز میں ایک آدھ کلمۂ خیر کہہ دینا بھی دعوت ہے۔ اگر آپ چاہیں توکچھ پمفلٹ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں جو گاہکوں کو مفت دے دیے جائیں۔ بعض اداروں نے محترم سید مودودیؒ اور جماعت کے دیگر صاحبِ فکر افراد کے مضامین‘ ترجمان القرآن کے اداریے اور بعض مضامین پمفلٹ کی شکل میں جمع کیے ہیں۔ اگر آپ ان میں سے کچھ منتخب پمفلٹ اپنے گاہکوں کو پڑھنے کو دیں تو یہ بھی دعوت کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔

نماز کے اوقات میں مسجد جاتے وقت آپ اس طرح کے پمفلٹ اپنے ساتھ لے جائیں اور لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ اگر گاہک انگریزی خواں ہوں تو انگلش لٹریچر مطالعے کے لیے دیا جاسکتا ہے۔ آپ دکان پر فروخت کے لیے ایسی چیزیں بھی رکھ سکتے ہیں جو خود دکان کی دیگر اشیا کی طرح نفع کے ساتھ فروخت ہوسکیں‘ مثلاً سی ڈی پر قرآن کریم کا متن و ترجمہ وغیرہ۔ اگر دیگر اشیا فروخت کی جاسکتی ہیں تو لوگوں کی ضروریات کے پیش نظر اسلامی اشیا کو بھی فروخت کیا جاسکتا ہے۔

بلاشبہہ دعوت و جہاد‘ خدمتِ خلق اور دیگر تحریکی ذمہ داریوں کا پورا کرنا بجاے خود اللہ کا شکرادا کرنے ‘ اس کا ذکر کرنے اور اس کی اطاعت کرنے کے واضح ذرائع ہیں‘ لیکن جیسا پہلے عرض کیا گیا کہ مالک دکان کی مزاحمت کے باوجوداگر آپ دورانِ کاروبار اپنے ذہن کو استعمال کر کے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں کہ گاہک نہ صرف سامان خریدیں بلکہ آپ کی جانب سے ایک پیغام بھی ساتھ لے کر جائیں تو یہ کاروبار خود دعوت و جہاد کی ایک شکل بن سکتا ہے اور اس کاروبار کے ذریعے بھی آپ خدمت خلق کرسکتے ہیں۔

گھر بھی ایک اہم اور بنیادی تحریکی محاذ ہے۔ قرآن نے اسی لیے کہا ہے: قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم ۶۶:۶) ، یعنی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔  اس لیے دنیا بھر کے لوگوں کو دعوتِ حق دینا اور اہلِ خانہ کا حق مارلینا ‘نہ عدل ہے نہ تحریک کا مدعا۔ تحریکی دعوت کی بنیادوں میں اصلاحِ فرد کے بعد اصلاحِ خاندان اہم جزو ہے اور اسی کی بنیاد پر اصلاحِ معاشرہ اور تبدیلیِ اقتدار کی طرف سفر کیاجاسکتا ہے۔ اس لیے اپنی تمام تر معاشی سرگرمیوں کے باوجود اہلِ خانہ کے لیے وقت ضرور نکالیے‘ چاہے ان کے ساتھ کھانے کی نشست ہی کیوں نہ ہو۔ اس باہمی ملاقات اور گفتگو کے دوران کوئی نہ کوئی مرحلہ ایسا ضرور آتا ہے کہ باہمی رنجشیں ختم ہوجاتی ہیں اور دلوں پر پڑے تالے کھل جاتے ہیں۔

اگر وقت‘ صلاحیتوں‘ تقسیم کار اور دعوت کے حوالے سے مذکورہ بالا امور کو پیش نظر رکھا جائے‘ تو حکمت اور توازن و اعتدال کے ساتھ بہتر انداز میں کام کیا جا سکتا ہے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

فتاویٰ، ڈاکٹر یوسف القرضاوی‘ مترجم: سید زاہد اصغر فلاحی۔ ناشر: دارالنوادر‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۶۳۶۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی عالم اسلام کی ایک معروف علمی شخصیت ہیں۔ قرآن‘ حدیث اور فقہ اسلامی پر ان کی گہری نظر ہے۔ دورجدید کے حالات‘ مسائل اور پیچیدگیوں سے وہ بخوبی واقف اور اسلام کی روشنی میں ان کا معقول حل پیش کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ  کسی فقہی مکتب فکر کے پابند نہیں بلکہ پورے فقہی ذخیرے سے استفادہ کرتے ہیں جس راے کو   قرآن و سنت سے ہم آہنگ پاتے ہیں‘ برملا اسے ترجیح دیتے ہیں۔ اہل سنت کے معروف فقہی استدلال کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہیں اور انھی کی روشنی میں جہاں ضرورت سمجھتے ہیں‘ خود بھی اجتہادی راے قائم کرتے ہیں۔

زیرنظر کتاب موصوف کے ان فتاویٰ پر مشتمل ہے جو انھوں نے قطر ٹی وی پر ایک پروگرام بعنوان: ’ہدی الاسلام‘ میں سائلین کے جواب میں پیش کیے تھے۔ اس میں عقائد و نظریات‘  حکومت و سیاست‘ اقتصاد و معیشت‘ تمدن و معاشرت‘ تعلیم و تربیت‘ طب و سائنس‘ غرض کہ انسانی زندگی کے تقریباً ہر پہلو پر اسلام کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ زندہ اور روزمرہ درپیش مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں موجود  بیش تر فتاویٰ کا تعلق ان موضوعات سے ہے جو عصرحاضر میں دینی و علمی حلقوں میں بالعموم زیربحث رہتے ہیں‘ مثلاً: اسلام کا سیاسی نظام‘ اسلامی ریاست میں سیاسی پارٹیوں کا وجود‘ بنک کا سود‘ بنک کی نوکری‘ کرنسی کی خریدوفروخت‘ اسلام اور جدیدسائنسی تحقیقات‘ رحم مادر کا کرایہ‘ انسانی اعضا کی پیوندکاری‘ عورت کا بغیر محرم سفرحج‘ غیرمسلم خاتون سے شادی‘ عورت اور ملازمت‘ عورت اور سیاست‘ فقہی مسالک میں اتحاد کی ضرورت‘ فقہی مسائل میں تجدید کی ضرورت‘ رویت ہلال اور جدید آلات‘ طیاروں اور مسافروں کا اغوا وغیرہ۔

موصوف نے فتاوٰی میں جوابات کا تفصیلی طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ اختلافی مسائل میں تمام معروف نقطہ ہاے نظر مع دلائل بیان کرتے ہیں اور آخر میں اپنی راے کا اظہار کرتے ہیں۔ مصالح عامہ اور رخصت کے فقہی اصول بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ بیش تر مقامات پر شرعی احکام کی حکمت و معنویت دل نشیں پیراے میں بیان کرتے ہیں۔ اس خوبی کا کریڈٹ کتاب کے فاضل مترجم کو بھی جاتا ہے جنھوں نے مصنف کے استدلال کو بخوبی سمجھا اور شُستہ انداز میں ترجمے کا حق ادا کیا ہے۔

یہ کتاب اگرچہ عالم اسلام کی ایک بڑی دینی شخصیت کے رشحات فکر پر مبنی ہے‘ تاہم اس میں شامل ان کے بعض فتاویٰ سے دلائل کی بنیاد پر یقینا اختلاف کیا جاسکتا ہے (مثلاً: اباحت موسیقی‘ عورتوں سے مصافحہ وغیرہ)۔ لیکن اس اختلاف کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اتنی قیمتی کتاب نظرانداز کردی جائے۔ میری راے میں فقہ اسلامی کے ہر مبتدی و منتہی کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے‘ بالخصوص اصحاب افتا کو اس سے مستغنی نہیں رہنا چاہیے۔ (حافظ مبشر حسین)


زبورخیال ، ابوالامتیاز ع س مسلم۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز، اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۲۔ قیمت: ۲۲۵ روپے۔

کتاب کی نوعیت کا اندازہ‘ ایک تو سرورق کی توضیح: ’تنقید، مقالات، مباحث‘ اور دوسرے‘ فہرست عنوانات سے ہوجاتا ہے۔ یہ مجموعہ مصنف کی مختلف النوع تحقیقی و علمی، تنقیدی، علمی و ادبی، واقعاتی و مشاہداتی اور صحافتی و تجزیاتی تحریروں پر مشتمل ہے۔ موضوعاتی تنوع کے باوجود سبھی تحریریں وقیع اور قابلِ قدر ہیں۔

حضرت آدم ؑ کے جسدِ مبارک اور حضرت حوا ؑکے قدوقامت اور سری لنکا میں قدم گاہِ آدم جیسے موضوعات پر مصنف نے اچھی خاصی تحقیق کی ہے‘ نتیجہ: حضرت آدمؑ اور ان کی اولاد کئی پشتوں تک نہایت طویل القامت تھی اور کوہِ آدم (Adam's Peak) پر آپ ہی کا نقشِ قدم ہے۔  اسی طرح مرقد حوا کے بارے میں اچھی خاصی تفصیل مہیا کرنے کے بعد بتایا ہے کہ ۱۹۲۵ء میں  جدہ پرقبضے کے بعد‘ مرقدِ حوا کو ملک عبدالعزیز کے حکم سے مسمار کردیا گیا۔ دو تین مضامین   (’اسلامی قومیت اور اس کے عملی مضمرات‘، ’قیامِ پاکستان کے مخالف علما کا جائزہ‘ اور ’آشوبِ ملّت‘ کے زیرعنوان دو تحریریں بھی )اُسی دردمندی اور اضطراب کے آئینہ دار ہیں جو اُمت مسلمہ کی  زبوں حالی‘ پس ماندگی ‘ انتشار‘ غلامانہ ذہنیت کو دیکھ دیکھ کر مصنف کو پریشان کیے دیتا ہے۔ بعض تحریروں کو بیرونِ ملک قیام کی یادداشتیں اور سفر کے مشاہدات کہہ سکتے ہیں۔ پھر دنیاے شعروادب کا ذکر اذکار‘ ادیبوں اور شاعروں کی بے اعتدالیاں‘ بعض شعرا کی سوداگرانہ ذہنیت (’بھائی مسلم،  ہم یہاں دبئی میں کچھ کمانے کے لیے آئے ہیں‘ ص ۱۷۰) یا ایسے پیشہ ور نعت خوانوں کا ذکر جو  معاوضے کے لیے ہی نعت خوانی کرتے ہیں (ص ۱۶۳) وغیرہ۔ اس سے ادیبوں اور شاعروں کی کوئی قابلِ رشک تصویر سامنے نہیں آتی۔ دو تحریریں زبان و بیان کے نکات پر اور ایک خالد اسحاق کی یاد میں___

زبورخیال کے مضامین زندگی کے تنوع اور کثیرالجہتی کے آئینہ دار ہیں۔ لیکن دو باتیں بڑی واضح ہیں‘ اوّل: ہر تحریر پوری توجہ بلکہ ارتکاز اور انہماک کے ساتھ لکھی گئی ہے‘ لکھنے والا اپنی سوچ اور اپنے موقف کے بارے میں یکسو ہے‘ اور اس نے اپنا موقف بڑے عمدہ استدلال اور تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ دوم: یہ ساری تحریریں ایک ایسے قلب مضطر کے قلم سے نکلی ہیں جو اُمت کی محبت سے لبریز ہے (انتساب کی عبارت: ’ملّتِ مظلومہ محکومہ پاکستانیہ کے نام، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ جس نے یہ نعمت عظمیٰ ہمیں بخشی، اسے سلامتیِ دین کے ساتھ قائم رکھے‘)۔ ابتدا میں گوانتاناموبے کے اسیر مجاہدوں کے لیے ایک خوب صورت نظم بھی شامل اشاعت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تقلید (تجزیاتی مطالعہ) سرفراز حسین صدیقی۔ ناشر: رائل بک کمپنی‘ BG-5 ‘ ریکس سینٹر‘ فاطمہ جناح روڈ‘ جی پی او بکس نمبر ۷۷۳۷‘ کراچی۔ صفحات: ۳۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔

تقلید کے بارے میں تین مختلف قسم کی آرا اور ان پر مبنی رویے اُمت میں پائے جاتے ہیں۔ ایک رویہ ائمہ مذاہب کی اطاعت کو مقصود بالذات قرار دیتا ہے۔ دوسرا‘ ہر شخص کے براہ راست قرآن و سنت کی پیروی کرنے کا ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ جن مسائل میں ائمہ کے اجتہادات قرآن و سنت کے احکام کے خلاف محسوس نہ ہوتے ہوں ان میں تقلید جائز اور عوام کے لیے ضروری ہوگی۔

مصنف نے تیسرے رویے کو دلائل کے ساتھ شرح و بسط سے بیان کیا ہے۔ اہل علم کے نزدیک کوئی بھی امام مستقل مطاع نہیں ہے۔ ہر ایک کے نزدیک دو اطاعتیں مستقل ہیں اور فقہا کی اطاعت کتاب و سنت کی موافقت کے ساتھ مشروط ہے۔ اسی لیے ہر فقہ میں ہر امام‘ چاہے اس کا تعلق ائمہ اربعہ سے ہو یا اصحاب ظواہر اور اہلِ حدیث سے‘ ہر ایک اپنے قول کے لیے کتاب و سنت سے دلیل پیش کرتا ہے اور ہر ایک کے نزدیک یہ اختلاف فروعی ہے اور اپنی تحقیق کے راجح ہونے اور دوسرے کی تحقیق کے باطل ہونے کی نہیں بلکہ مرجوح ہونے کا قائل ہے۔

مصنف نے تقلیدِ شخصی میں جن کمزوریوں کی نشان دہی کی ہے وہ تقلیدِشخصی کی کمزوریاں نہیں بلکہ عوام کی کم علمی ہے۔ اہلِ علم میں تقلیدِشخصی کا وہی مقام ہے جو جناب سرفراز حسین صدیقی صاحب اُسے دینا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ تجویز مناسب ہے کہ ہرمکتبِ فکرکے محقق‘ علماے کرام کو  مل بیٹھ کر مختلف پیش آمدہ مسائل کے حوالے سے مشترک نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ عوام کے لیے قرآن و سنت پر عمل میں آسانی پیدا ہو اور ایک مسئلے میں مختلف آرا کی وجہ سے وہ پریشانی کا شکار نہ ہوں۔

اسی طرح ان کی یہ راے بجا ہے اور علما میں مسلّم ہے کہ تحقیق کی بنیاد پر کسی مسئلے میں ایک فقہی مذہب سے دوسرے فقہی مذہب کی طرف انتقال کے لیے کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے بشرطیکہ یہ انتقال خواہش نفس کی بنیاد پر نہ ہو۔

یہ ایک دردمند مسلمان کی پکار ہے جو اُمت مسلمہ کو اتحادو اتفاق اور اجتہاد کے اسلحے سے لیس دیکھنے کا متمنی ہے چونکہ یہی ہمارے عروج کا راستہ ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل اور عمدہ پیش کش ہے۔ یہ کتاب دین دار جدید تعلیم یافتہ طبقے کے جذبات و احساسات اور سوچ کی نمایندگی کرتی ہے۔ (خالد محمود)


Promise and Fulfilment : Documented History of All India Muslim League، محمد سلیم احمد۔ پبلشر: شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان‘ اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور۔ صفحات: ۴۳۸۔ قیمت: ۵۵۰ روپے۔

مسلم لیگ کا نام ایک ایسی سیاسی تحریک کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے انگریزوں کے دورِحکومت میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو منظم کیا اور اس برعظیم پاک و ہند کے چند علاقوں میں مسلم اکثریتی حکومت کا تصور کیا‘ جس کے وہ ۶۰۰ برس یکہ و تنہا حکمران رہے تھے۔

مسلم لیگ نے کس طرح آزادیِ وطن کامعرکہ سر کرلیا‘اِس کے مختلف جوابات ہوسکتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمدسلیم احمد‘ دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور میں صدرشعبۂ تاریخ و مطالعہ پاکستان رہے ہیں۔ اِس کتاب میں تاریخی حوالوں کی مدد سے اُس دور کو کھنگالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب مسلم لیگ قائم ہوئی ‘ مختلف صدور کی قیادت میں اُسے کام کرنے کاموقع کیسے ملااور طبقۂ خواص کی نمایندہ جماعت کس طرح مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ یہ کتاب مسلم لیگ کے قیام کے ۱۰۰ برس پورے ہونے کے موقع پر شائع ہوئی ہے۔

اس کتاب کے ۱۳ باب ہیں‘ اس کے پیش لفظ میںوہ تحریر کرتے ہیں کہ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کی خدمات کا ایک نئے پہلو سے جائزہ ہے‘ اُن کے خیال میں اس کتاب کا نمایاں وصف اس کے تاریخی حوالے ہیں جو عموماً سرکاری دستاویزات اورمستند کتابوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔ کتاب کے تعارف میں پروفیسر موصوف اعلان کرتے ہیں کہ مسلم لیگ مذہبی جماعت نہیں تھی‘ سیاسی جماعت تھی جس کا نقطہ نظر عموماً سیکولر رہا۔

مصنف نے بطور تنظیم مسلم لیگ کی خدمات کا جائزہ لیا ہے کہ اس نے کس طرح حقیقی مسائل کی نشان دہی کی اور کس طرح بروقت فیصلے کیے۔ ۱۹۲۰ء میں قائداعظم کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ کو نئی زندگی ملی اور قائداعظم نے نظم و ضبط اور قواعد و قانون کی بالادستی پر خصوصی زور دیا۔محمدعلی جناح جیسی شخصیات ہی تاریخ کا رُخ بدلتی ہیں۔ مصنف کا اصرار ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی اپنی قوتِ بازو کی بدولت تھا‘ وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اصرار کرتے ہیں کہ غیرملکی قوتیں اس میں شریک و دخیل ہیں‘ کتاب کے اختتام پر تفصیلی نوٹ بھی دیئے گئے ہیں۔

پروفیسر موصوف نے تاریخی حوالوں سے ایک اہم تحریر کا جس طرح جائزہ لیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے‘ اُمید ہے سیاسی تحریکات اور اُن کے اثرات کو سمجھنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ بھی ایک مستقل موضوع ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ مفاد پرست طبقات کے ہاتھ کس طرح چڑھی اور ہر سیاسی و فوجی حکومت نے اسے اپنی سواری کے طور پر کیسے استعمال کیا۔ اُمید ہے اس پر بھی کام کیا جائے گا۔ محققین‘ تاریخ کے طلبہ اورسیاسی تحریکات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ غیرمعمولی کتاب ثابت ہوگی۔ (محمدایوب منیر)


پاکستان کی مزدور تحریک ایک نظریاتی مطالعہ، پروفیسر شفیع ملک۔ ناشر: پاکستانی ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ‘ ایس ٹی ۳/۲‘ بلاک ۵‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: ۱۱۷۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

مزدور تحریک کے ساتھ سوشلزم کا تصور وابستہ رہا ہے لیکن پاکستان میں اسلامی نظریہ حیات کے علم برداروں نے اس میدان میںبھی مزدوروں کی رہنمائی کی‘ اور نیشنل لیبر فیڈریشن کے قیام کے ذریعے اسلامی مزدور تحریک پروان چڑھی۔ پروفیسر شفیع ملک اس سے روزِ اوّل سے وابستہ رہے ہیں اور مزدور تحریک پر ان کی گہری نظر ہے۔ یہ کتاب سب سے پہلے ۱۹۶۳ء میںشائع ہوئی۔ اب یہ اس کا نظرثانی شدہ اڈیشن ہے جس میں پاکستان میں مزدور تحریک کی تاریخ‘ بین الاقوامی پس منظر‘ سوشلسٹ اور اسلامی مزدور تحریک سب کا اختصار اور جامعیت سے جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے پہلے اڈیشن کا مقدمہ پروفیسر خورشید احمد نے لکھا تھا جو شاملِ اشاعت ہے۔ (مسلم سجاد)


تعارفِ کتب

  • القرآن الکریم ،ناشر: مکتبہ قدوسیہ‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار لاہور۔ صفحات: ۱۲۹۶۔ ہدیہ: ۴۰۰ روپے۔[عربی متن کے بعد دوسری سطر میں الفاظ الگ الگ کر کے تیسری سطر میں شاہ رفیع الدینؒ کا لفظی ترجمہ دو رنگوں میں دیا گیا ہے اور چوتھی سطر میں مولانا محمد جوناگڑھی ؒ کا بامحاورہ ترجمہ دیا گیا ہے۔ لفظی اور بامحاورہ ترجمے کے تقابلی مطالعے کے لیے مفید‘ خوب صورت پیش کش۔]

خولہ عبدالفتاح ‘ کوہاٹ

’تہذیبوں کا تصادم، حقیقت یا واہمہ؟‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) وقت کے اہم ترین موضوع پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ ’ترجیح آخرت‘ میں مولانا مودودیؒ کے قلم سے فکرِ آخرت کی تربیت کے لیے فکری و عملی رہنمائی میسر آئی۔ ’قومی ذرائع ابلاغ پر ایک نظر‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) میں پیش کیا گیا تجزیہ اور لائحہ عمل عملی اقدامات کی متقاضی ہے۔ حکومت اور ارکان اسمبلی کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنا چاہیے۔آغا خان بورڈ پر کچھ عرصہ قبل ایک اچھی تحریر شائع ہوئی تھی۔ بورڈ کی سرگرمیاں جاری ہیں‘ اس حوالے سے باخبر رکھنے کی ضرورت ہے۔


حمید اللّٰہ خٹک‘ لاہور

’قومی ذرائع ابلاغ پر ایک نظر‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) عنوان دیکھ کر خیال آیا کہ مقالہ نگار نے نظریاتی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا ہوگا۔ لیکن اس میں صرف حکومت اور ذرائع ابلاغ کی کش مکش کی تاریخ بیان کی گئی۔ یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران ایک مسلمان ملک کے ذمہ دار شہری ہیں۔ پاکستان کا دستور بھی ان سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔ مسلم معاشرہ بھی کچھ توقعات قائم کرتا ہے۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کا کیا کردار رہا ہے‘ یہ جائزے میں آنا چاہیے تھا۔ بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالے سے توجہ دلانا چند فرض شناس شہریوں کا فریضہ ہے جو اخباری مراسلات لکھتے رہیں کہ کیا کیا قابلِ اعتراض لوازمہ دکھایا اور پڑھایا جا رہا ہے‘ لیکن ذمہ داروں کو جیسے مادرپدر آزادی حاصل ہے کہ دینی اور معاشرتی اقدار کے خلاف جو چاہیں دکھائیں اور چھاپیں۔ کیا ان کے ضمیر نہیں!


احمد علی محمودی‘ حاصل پور۔  اللّٰہ دتہ جمیل‘ جھنگ

’تہران کی القدس کانفرنس‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) محترم عبدالغفار عزیز کا اپنی نوعیت کا منفرد مضمون ہے۔ ایران اپنے مبنی برعدل موقف پر جس جرأت و استقامت سے عالمی قوت کے سامنے ڈٹا ہواہے‘ دُنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں ایران پر جمی ہوئی ہیں۔ ایسے میں مذکورہ مضمون سے جہاں مفید معلومات سامنے آئیں وہاں براہِ راست ایرانی قوم کے جذبے‘ عزم اور حوصلے کی تصویر دیکھنے کوملی۔ غیرملکی ذرائع ابلاغ پر انحصار اور براہِ راست مشاہدے کا فرق بھی صاف محسوس ہوا۔ کاش! مسلمان اپنی عالمی نیوز ایجنسی تشکیل دے سکیں۔

کانفرنس کی انفرادیت‘ عالمی اسلامی تحریک کے قائدین بالخصوص فلسطین کی پوری قیادت کی شرکت تھی۔ اُم نضال کی ایمان پرور گفتگو‘ حماس کی قیادت کو درپیش عملی مشکلات اور ان کے حل کے لیے جدوجہد اور اپنے اصولوں پر کسی قیمت پرسمجھوتہ نہ کرنے کا عزم‘ اُمت کی طرف سے دل کھول کر مالی امداد کا منظر___ ایک زندہ اُمت اور مسلمانوں کے فقید المثال جذبۂ اخوت ومحبت کی یاد تازہ ہوگئی۔ ایرانی قوم کا یہ عزم یقینا ایک حقیقت ثابت ہوگا کہ ایران پر حملہ پوری اُمت مسلمہ پر حملے کے مترادف ہوگا اور پوری دنیاسے اس کا جواب دیا جائے گا!


اے مراد لعل‘ چترال

تہران کی القدس کانفرنس (مئی ۲۰۰۶ئ) میں سرکاری سطح پر کوئی نمایندگی نہ ہونا افسوس ناک ہے۔ یقینا اسے عالمِ اسلام‘ فلسطینی اتھارٹی اور ایرانی بھائیوں نے محسوس کیا ہوگا‘ اور ان ممالک میں پاکستان کے اس اقدام سے عام طور پر مایوسی ہوئی ہوگی۔ آخر یہ لوگ کب اپنا قبلہ درست کریں گے!


غلام مصطفٰی ‘ قصور۔ خالد فاروق‘ سوات۔ بشیرانور‘ رحیم یارخان۔ عبدالطیف ‘ کرک

ترجمان القرآن کی توسیع اشاعت کا تقاضا ہے کہ اس میں عام فہم اور مختصر مضامین شائع ہوں‘  زبان سہل ہو‘ اور اگر مشکل الفاظ استعمال کیے جائیں تو مفہوم بریکٹ میں دیا جائے۔ مولانا مودودیؒ کے دور ادارت میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جو لٹریچر بھی پیش کیا اس کے بڑے پیمانے پر عام ہونے کی بنیادی وجہ بھی عام فہم اور سادہ زبان ہے۔ ادارے کی جانب سے ترجمان کی توسیع اشاعت کی اپیل بھی کی جاتی ہے لیکن یہ مسائل اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مئی کے شمارے میں ’تہذیبوں کا تصادم ___ حقیقت یا واہمہ‘  ایک فلسفیانہ اور پیچیدہ موضوع ہے‘ جب کہ اپریل میں ’التوحید: عالمی تناظر میں‘ خشک‘ مشکل تراکیب اور عبارت پر مبنی تحریر ہے جس کو سمجھنے میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔ براہ کرم اس پہلو پر خصوصی توجہ دیں۔


منظوراحمد‘ چکوال

وفاقی حکومت جو نئی تعلیمی پالیسی جون ۲۰۰۶ء میں لارہی ہے اس کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ ۴۶اختیاری مضامین کی تعداد گھٹاکر صرف ۲۷ مضامین قابلِ مطالعہ قرار دیے جا رہے ہیں۔ ۱۹مضامین جنھیں  زمرۂ تدریس سے نکالا جا رہا ہے‘ اُن میں سے ایک فارسی ہے۔ اسے نصابِ تدریس سے خارج کرنا کسی طرح قرین مصلحت و انصاف نہیں کیوں کہ: (ا) فارسی اُردوکا منبع اور سرچشمہ ہے۔ فارسی زبان کے ۶۰ سے ۷۰ فی صد تک الفاظ اُردو میں مستعمل ہیں۔ فارسی جانے سیکھے بغیر اُردو کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ (ب)علامہ اقبال کی شاعری کا بیش تر حصہ فارسی اشعار پر مشتمل ہے۔ فارسی سے نابلد رہ کر فکرِاقبال کی حقیقی روح سے آگاہی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ (ج) برعظیم پاک و ہند کے اسلامی عہد کا تمام علمی‘ تہذیبی و تاریخی ورثہ فارسی میں محفوظ ہے اور اس دور سے متعلق ہزاروں مخطوطات پاکستان‘ ہندستان اور یورپ کے بڑے بڑے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ حیرت ہے کہ اسرائیل میں عبرانی زبان کو جو صدیوں سے مُردہ ہوچکی تھی‘ دوبارہ زندہ اور رائج کیا جا رہا ہے‘ جب کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم میں نت نئے تجربات کرنے والے ارباب اختیار کا ہمارے علمی و ادبی‘ ثقافتی ورثے اور قومی زبان کی جڑ کاٹنے کا رویہ سمجھ سے بالاترہے۔

تفہیم القرآن سے…

اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے‘ اور اگر مصیبت کے بعدہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میرے تو سارے دَلِدَّر پار ہوگئے‘ پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔ [ھود ۱۱:۹-۱۰]

یہ انسان کے چھچھورے پن‘ سطح بینی اور قلت تدبر کا حال ہے جس کا مشاہدہ ہروقت زندگی میں ہوتا رہتا ہے اور جس کو عام طور پر لوگ اپنے نفس کا حساب لے کر خود اپنے اندر بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ آج خوش حال اور زور آور ہیں تو اکڑ رہے ہیں‘ فخر کر رہے ہیں‘ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے اور خیال تک نہیں آتا کہ کبھی اس بہار پر خزاں بھی آسکتی ہے۔ کل کسی مصیبت کے پھیر میں آگئے تو بلبلا اُٹھے‘ حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے‘ اور بہت تلملائے تو خدا کو گالیاں دے کر اور اس کی خدائی پر طعن کر کے غم غلط کرنے لگے۔ پھر جب بُرا وقت گزر گیا اور بھلے دن آئے تو وہی اکڑ‘ وہی ڈینگیں اور نعمت کے نشے میں وہی سرمستیاں پھر شروع ہوگئیں۔

انسان کی اس ذلیل صفت کا یہاں کیوں ذکر ہو رہا ہے؟ اس کی غرض ایک نہایت لطیف انداز میں لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرتا ہے کہ آج اطمینان کے ماحول میں جب ہمارا پیغمبر تمھیں خبردار کرتا ہے کہ خدا کی نافرمانیاں کرتے رہو گے تو تم پر عذاب آئے گا ‘اورتم اس کی یہ بات سن کر ایک زور کا ٹھٹھا مارتے ہو اور کہتے ہو کہ ’’دیوانے دیکھتا نہیں کہ ہم پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہے‘ ہر طرف ہماری بڑائی کے پھریرے اُڑ رہے ہیں‘ اس وقت تجھے دن دھاڑے یہ ڈرائونا خواب کیسے نظرآگیا کہ کوئی عذاب ہم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے‘‘، تو دراصل پیغمبر کی نصیحت کے جواب میں تمھارا یہ ٹھٹھا اسی ذلیل صفت کا ایک ذلیل تر مظاہرہ ہے‘ خدا تو تمھاری گمراہیوں اور بدکاریوں کے باوجود محض اپنے رحم و کرم سے تمھاری سزا میں تاخیر کررہا ہے تاکہ تم کسی طرح سنبھل جائو‘ مگر تم اس مہلت کے زمانے میں یہ سوچ رہے ہو کہ ہماری خوش حالی کیسی پایدار بنیادوں پر قائم ہے اور ہمارا یہ چمن کیسا سدابہار ہے کہ اس پر خزاں آنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں۔ (تفہیم القرآن‘ سورۂ ہود‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۱‘ رجب ۱۳۶۵ھ‘ جون ۱۹۴۶ئ‘ ص ۱۸-۱۹)