مضامین کی فہرست


جنوری۲۰۰۵

۲۰۰۴ء کے امریکا کے صدارتی انتخابات امریکا کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ انتخابات بظاہر امریکا کی سرزمین پر اور امریکی ووٹروں کی شرکت سے واقع ہوئے لیکن عملاً ووٹ کے بغیر‘ دنیا بھر کے باشعور اور عالمی سیاست پر نگاہ رکھنے والے افراد اس انتخاب میں شریک تھے جو امریکا اور دنیا کو جارج بش کی خطرناک اور جنگجویانہ سیاست سے نجات دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہر بڑا شہر‘ ہر ٹی وی اسٹیشن‘ ہر اخبار کا دفتر اور ہر سیاسی چوپال پولنگ اسٹیشن کا منظر پیش کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پوری دنیا کے باسی اس انتخاب میں بش اور کیری کے انتخابی معرکے میں خود اپنے مستقبل کو تلا ش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے چشمِ فلک نے امریکا کے کسی بھی انتخابی معرکے میں یہ منظر نہیں دیکھا۔

جہاں تک امریکا سے باہر کی دنیا کا تعلق ہے‘ ہر اخباری جائزہ اور ہر راے عامہ کا سروے بھاری اکثریت سے جارج بش کے مقابلے میں جان کیری کی کامیابی کا اعلان کر رہا تھا۔ بات صرف عرب‘ مسلم اور تیسری دنیا تک محدود نہ تھی‘ بلکہ یورپ اور جنوبی امریکا کے تمام ممالک بشمول انگلستان میں دیکھی جا سکتی تھی۔ اگرچہ برطانیہ کی حکومت بش کی استعماریت کی طرف دار تھی لیکن وہاں کے عوام بھی بھاری اکثریت سے (کچھ جائزوں کے مطابق ۷۰ اور ۸۰فی صد) بش کی شکست کے متمنی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری نتائج آنے سے پہلے ہی کیری نے شکست تسلیم کرلی تو ان کی امیدوں پر اوس پڑگئی اور امریکی ووٹروں کی اکثریت سے (گو مقابلہ قریبی تھا اور بش کو عمومی ووٹوں کا ۵۱ فی صد اور کیری کو ۵.۴۸ فی صد ملا اور انتخابی ادارے میں بش کو ۲۷۰ اور کیری کو ۲۵۲ ووٹ ملے) جارج ڈبلیو بش مزید چار سال کے لیے امریکا کے  صدر منتخب ہوگئے۔

عالمی ردعمل

حالات کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا حقیقت سے قریب تر ہوگا کہ عالمی راے عامہ اور امریکا کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے امریکی ووٹروں کی اکثریت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ جارج بش کی جیت سے زیادہ سینیٹر کیری کی شکست ہے۔ اس لیے کہ وہ اور ان کی انتخابی حکمت عملی اُس جارج بش کو نہ ہلا سکے جس کی خود امریکی عوام کی تائید ۲۰۰۱ء میں ۹۰ فی صد سے کم ہو کر ۲۰۰۴ء میں الیکشن سے چند دن پہلے صرف ۴۹ فی صد رہ گئی تھی (ٹائم میگزین‘ ۱۵نومبر ۲۰۰۴ئ‘ ص ۲۷)۔ یہ سب امریکی جمہوریت کے مخصوص آہنگ‘ میڈیا کی قوت‘ منظم اور طاقت ور لابیوں کی اثرانگیزی اور اصول اور اخلاقی اقدار کے بارے میں امریکی عوام کے مسخ شدہ اور ناقص وژن کا کرشمہ ہے کہ تباہ کاریوں کے تشویش ناک چار سالہ ریکارڈ کے باوجود جارج بش صدر منتخب ہوگئے اور اب امریکا اور اقوامِ عالم کو نئی آزمایشوں سے دوچار کریں گے۔

صدر بش نے اپنے مخصوص اندازمیں دعویٰ کیا ہے کہ ’’امریکا نے فیصلہ دے دیا ہے‘ اور مجھے اپنی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے عوام کی جانب سے اختیار (مینڈیٹ) حاصل ہوگیا ہے‘‘۔ لیکن یہ دعویٰ اس اعتبار سے بہت محل نظر ہے کہ امریکا بری طرح تقسیم ہوگیا ہے اور دنیا کے سارے ہی ممالک کے عوام کی سوچ‘ جذبات اور توقعات اور امریکی قیادت کے عزائم اور اعلان میں اتنا بُعدواقع ہوگیا ہے کہ دنیا امن و سکون‘ قانون کی حکمرانی‘ بین الاقوامی انصاف کے حصول      اور جنگ وجدل سے پاک زندگی کے لیے‘ اپنے دیرینہ خوابوں کو پراگندا ہوتے دیکھ رہی ہے۔ ہرگوشۂ ارض پر بشمول امریکا بے یقینی‘ بے اطمینانی اور عدمِ تحفظ کے مہیب سائے منڈلا رہے ہیں۔ بش صاحب یہ انتخاب خوف (fear) کی فضا پیدا کر کے جیتے ہیں اور اب ساری دنیا اس خوف کی لپیٹ میں آرہی ہے۔ اگر کہیں کوئی خیر کا کلمہ ادا ہو رہا ہے تو وہ یہ ہے ’’بھلا ہو امریکی دستور کا‘ یہ بش کے آخری چار سال ہیں!‘‘ (امریکی دستور کے تحت کوئی تیسری مدت کے لیے صدرنہیں ہو سکتا)

۲۰۰۴ء کے امریکی انتخاب کا ایک غیرمعمولی پہلو یہ بھی تھا کہ امریکا اور یورپ کے اہم اخبارات نے ‘ جن کی روایت تھی کہ مضامین تو ہر مکتب فکر کے شائع کرتے تھے مگر ادارتی کالموں میں کسی صدارتی امیدوار کی تائید نہیں کرتے تھے‘ انھوں نے اس روایت کو توڑتے ہوئے سینیٹرکیری کی کمزوریوں کے اعتراف کے باوجود ووٹروں کو امریکا اور عالمی امن کے مفاد میں ان کو ووٹ دینے کا مشورہ دیا تھا۔ اس بات میں نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ اور اکانومسٹ لندن‘ یک آواز تھے جو دراصل ’’زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘ پر عمل کرتے ہوئے امریکا اور دنیا کو مزید کش مکش اور تصادم سے بچانے کے لیے کوشاں تھے۔ جب انتخابی نتائج میں بش کو فتح ہوئی تو جرمنی کے مشہور ہفت روزہ Der Spiegel نے سرورق پر امریکا کے مجسّمۂ آزادی کی آنکھوں پر امریکی جھنڈا باندھ کر امریکی عوام کی بند آنکھوں کا گلہ کیا۔ لندن کا ڈیلی مرر چیخ اٹھا کہ:

How can 59,054,087 people be so dumb?

۰۸۷‘۰۵۴‘۵۹ افراد اتنے نہ سوچنے سمجھنے والے کس طرح ہوسکتے ہیں؟

اور ماسکو کا پراودا یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ:

امریکا کے بنیاد پرست عیسائی طالبان کا عکس ہیں۔ دونوں اپنے خدا کی توہین کرتے ہیں اور انکار کرتے ہیں (اکانومسٹ‘ اسپیشل رپورٹ، ’’امریکی اقدار‘‘ ۱۳ نومبر ۲۰۰۴ئ‘ ص ۲۹)

انھی جذبات و احساسات کا اظہار امریکا کے ہمسایہ ممالک کے عوام کر رہے ہیں۔ جارج بش انتخاب کے بعد دو ملکوں میں گئے۔ ایک چلی‘ جہاں انتخابی نتائج کے فوراً بعد ایشیاپیسفک اکانومک کارپوریشن فورم کا سربراہی اجلاس ہوا اور اس میںہزاروں انسانوں نے صدربش کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ یہ بینر اٹھائے ہوئے تھے:

You have blood on your hands. We do not want you here.

تمھارے ہاتھ خون سے آلودہ ہیں۔ ہم تمھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتے۔

۲۰ سربراہانِ حکومت اور ۵۰۰ سے زیادہ کارپوریشنوں کے ذمہ داران میں سے سیاہ جھنڈیوں سے صرف ایک شخص کا استقبال کیا گیا اور وہ صدر بش تھے۔ یہ تھا عوامی ردعمل‘ جارج بش کے انتخاب کے بعدپہلے بیرونی دورے کے موقع پر۔ اس کے بعد ۳۰ نومبر ۲۰۰۴ء کو وہ دوسرے ہمسایہ ملک کینیڈا گئے۔ وہاں بھی دونوں شہروں میں‘ یعنی اوٹاوا اور ہیلی فیکس میں ہزارہا انسانوں نے اسی طرح احتجاجی نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ کینیڈا کے وکلا کی بڑی تعداد نے کینیڈا کے وزیراعظم پال مارٹن کو ایک یادداشت پیش کی جو انسانیت کے خلاف جارج بش کے جرائم کی چارج شیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں جارج بش اور امریکا کے ان جرائم کی فہرست دی گئی ہے  جو گذشتہ چار سال میں ان کی قیادت میں وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ ان وکلا نے مطالبہ کیا کہ   جارج بش کا استقبال نہ کیا جائے بلکہ جنگی جرائم کے خلاف ان پر اسی طرح مقدمہ چلایاجائے جس طرح جرمنی کی سیاسی قیادت پر دوسری جنگ کے بعد نیورمبرگ ٹرائل کے ذریعے چلایا گیا تھا۔ الیکشن میں کامیابی‘ حقائق پرپردہ نہیں ڈال سکتی اور پروپیگنڈے کا کرّوفر عوامی جذبات اور احساسات کو دھندلا نہیں کرسکتا۔ امریکا کی موجودہ قیادت اور اس کے حواری حکمرانوں کو ہوا کے رخ کا کچھ نہ کچھ اندازہ کرنا چاہیے کہ    ؎

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

انتخابی نتائج: بنیادی عوامل

بلاشبہہ ہر ملک کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کو مناسب سمجھیں‘ مسندِقیادت پر سرفراز کریں لیکن عالم گیریت کے ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ممالک جو عالمی کردار ادا کررہے ہیں‘ ان کی قیادت اور پالیسیوں کی تشکیل میں ان ممالک کے عوام اور قیادتیں بھی حصہ لیں (مداخلت کے بغیر) جو ان کی پالیسیوں سے متاثر ہو رہی ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہمارے عوام اور سوچنے سمجھنے والے عناصر ان اسباب و عوامل کا گہری نظر سے جائزہ لیں جو امریکا کے انتخابات‘ اس کے نتائج‘ اور عالمی پالیسیوں پر اس کے اثرات سے متعلق ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی انتخابات کے جو نتائج نکلے اس کے اہم اسباب کیا ہیں اور ان سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا ایک ملک نہیں‘ عملاً ایک بّراعظم ہے۔ ۱۱۸ ملین ووٹروں نے اس انتخاب میں شرکت کی ہے لیکن تمام معروضی جائزے اس امر پر گواہ ہیں کہ امریکا کے عوام کی دل چسپی کا اصل مرکز و محور بین الاقوامی مسائل اور خارجہ پالیسیوں کے امور کبھی بھی نہیں رہے۔ ان کی اصل دل چسپی اندرونی مسائل سے ہوتی ہے۔ امریکی عوام کی معلومات دوسرے ممالک کے بارے میں بس واجبی سی ہیں۔ گو امریکا ایک مدت سے ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔ اس وقت اس کی ۳ لاکھ فوجیں صرف عراق‘ افغانستان اور جنوبی کوریا ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے ۸۰ سے زیادہ ممالک میں موجود ہیں اور عسکری‘ معاشی اور ابلاغی‘ ان تینوں راستوں سے وہ دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس لیے امریکا کی قیادت اور اس کی پالیسیوں کی صحیح تفہیم ساری دنیا کے پالیسی بنانے والوںکے لیے ضروری ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت اور میڈیا دونوں نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ ہمارے ملک میں پالیسی سازی کے اجتماعی‘ شورائی اور اداراتی نظام کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں فردِواحد جو چاہتا ہے کرتا ہے اور سرکاری پارٹی کے ارکان اور ذرائع ابلاغ اس کی ہربات پر تعریف اور توصیف کے ڈونگرے برسانا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور یہی ہماری اصل کمزوری ہے۔ ضروری ہے کہ امریکی معاشرہ ‘اس کے سیاسی نظام کی موجودہ کیفیت‘ وہاں پالیسی سازی کے طریق کار اور موثر قوتوں کا صحیح ادراک کیا جائے تاکہ پاکستان‘ اُمت مسلمہ اور دنیا کے دوسرے ممالک اپنے سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی اور نظریاتی مقاصد‘ عزائم اور مفادات کی روشنی میں صحیح خطوط پر پالیسی وضع کرسکیں اور متبادل حکمت عملی وجود میں لاسکیں۔ اسی لیے ۲۰۰۴ء کے انتخابات اور ان میں کارفرما عوامل کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی ضرورت ہے۔

۱- خوف کا احساس

ان انتخابات پر تحقیقی کام کے لیے تو ابھی کچھ عرصہ لگے گا لیکن فوری طور پر جو بات کہی جاسکتی ہے اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان انتخابات میں فیصلہ کن عنصر‘ کوئی مثبت ہدف یا کارکردگی نہ تھی بلکہ غالب چیز خوف کا احساس تھا جسے صدربش اور ان کی انتخابی مہم چلانے والوں نے بڑی کامیابی اور چابک دستی سے استعمال کیا۔ امریکا کی ایک امتیازی خصوصیت مادی خوش حالی اور عوام کا احساس امن وسلامتی ہے۔ گذشتہ ۲۰۰ سال میں کوئی لڑائی امریکا کی سرزمین پر نہیں لڑی گئی۔ دونوں عالمی جنگوں کا میدانِ جنگ یورپ‘ ایشیا اور افریقہ تھے۔ امریکی افواج نے شرکت ضرور کی مگر لڑائی امریکی سرزمین پر نہیں ہوئی‘ اس لیے امریکی عوام و خواص جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کا تجربہ نہیں رکھتے۔ پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد ۱۱ستمبر کو نیویارک کے جڑواں ٹاوروں کی تباہی جس میں دنیا کے ۴۰ ممالک کے ۲ ہزار ۷ سو ۵۲ افراد ہلاک ہوئے دوسرا واقعہ ہے جس نے امریکیوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا۔

بش انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عدمِ تحفظ کے احساس کو نہ صرف اپنی پالیسی کا مرکز و محور بنایا بلکہ پوری انتخابی مہم جنگی خوف زدگی کی نفسیات (war-psychosis) کی بنیاد پر منظم کی اور اس جھانسے (trap) میں سینیٹر جان کیری بھی آگئے۔ انھوں نے بھی عراق اور ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ کے سلسلے میں وہی زبان استعمال کی بلکہ بش سے زیادہ شعلہ بیانی کی کوشش کی جو بالکل مصنوعی تھی۔ فطری طور پر امریکی ووٹر نے زمانہ جنگ کے صدر کو ہی اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے ترجیح دی۔  یہی بش کا ترپ کا پتا تھا کہ جنگ کے دوران کمانڈر تبدیل نہ کرو۔ اس کے باوجود عراق کی جنگ اور دہشت گردی امریکی ووٹروں کی نگاہ میں فیصلہ کن عامل کے طور پر تیسرے نمبر پر تھے‘ یعنی ۱۹ فی صد‘ جب کہ معیشت اور روزگار دوسرے (۲۰ فی صد) اور اخلاقی اقدار اور خاندان کے نظام کا تحفظ پہلے نمبر (۲۲فی صد) پر تھے۔

یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ بش اور ان کی سیاسی ٹیم نے عراقی جنگ اور دہشت گردی (بین الاقوامی اور ملکی سطح پر) اور لبرل کیری کی وجہ سے خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار (خصوصیت سے ہم جنس پرستی‘ اسقاطِ حمل اور جنسی بے راہ روی) کو خطرے کے دورخ بناکر    پیش کیا۔ اور یہی وہ منفی عامل ہے جس کی وجہ سے بش امریکا کے عوام کے مذہبی جذبات اُبھار کر خصوصیت سے قدامت پسند عناصر کی تائید کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ برازیل کے   صدر لولاڈی سلوا (Lula de Silva) نے اس پہلو کو بڑے صاف الفاظ میں یوں بیان کیا:

خوف کا استحصال ایک بہت ترقی یافتہ اعلیٰ درجے کی سائنس ہے لیکن برازیل اس کلچر کا قائل نہیں ہے جسے امریکی انتخابات میں فتح حاصل ہوئی۔ ہمیں جس بات پر تشویش ہے وہ یہ کہ اپنی سلامتی کے دفاع کے نام پر امریکا ان جنگوں کوآگے بڑھائے گا جو اس نے شروع کیں۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ یکم دسمبر ۲۰۰۴ئ)

اسی احساس کی بازگشت کو فرانس سے لے کر ملایشیاتک تمام اہم تجزیہ نگاروں کی تحریروں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج امریکا ہی نہیں پوری دنیا ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیرمحفوظ اور احساسِ خطر میں مبتلا ہے۔ اس کا سیاسی فائدہ جارج بش نے بھرپور انداز میں حاصل کیا ہے۔

۲-  عیسائی قدامت پرست عنصر

دوسرا اہم پہلو امریکا کی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں مذہب اور مذہب میں بھی عیسائی قدامت پرستوں اور انتہا پسندوں کا کردار ہے۔ امریکا دنیا کے دوسرے ملکوں میں سیکولرزم اور آزاد خیالی (لبرلزم) کا علم بردار ہے‘ مسلمان ممالک کو اپنے زعم میں مذہبی عناصر سے پاک کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی تک کر رہا ہے‘ خصوصیت سے پاکستان‘ سعودی عرب اور ایران کو ہدف بنایا ہوا ہے اور دینی تعلیم کو سیکولر سانچے میں ڈھالنے کے لیے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے‘ اور ان ملکوں کی قیادتوں کو سرکاری اور این جی اوز کے ذریعے زیردام لانے میں مشغول ہے۔ دین اور سیاست کے رشتے کو توڑنا اصل ہدف ہے۔ لیکن خود امریکا کا اپنا کیا حال ہے اور اس میں خصوصیت سے اس موثر‘ منظم اور نہایت طاقت ورگروہ کا جسے نیوکونز (neo-cons) کہا جا سکتا ہے کیا کردار ہے؟ یہ بات قابلِ غور بھی ہے اور چشم کشا بھی۔دستور میں ضرور ریاست اور مذہب کی تفریق کا اصول بیان کیا گیا ہے مگر تازہ ترین جائزے کے مطابق آبادی کا ۸۰ فی صد کہتا ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھتا ہے اور ۶۰ فی صد کا دعویٰ ہے کہ اس کی زندگی میں مذہب ایک موثر اور کارفرما قوت ہے (PEW کا سروے‘ مارچ مئی۲۰۰۴ئ‘ بحوالہ اکانومسٹ‘ ۱۳ نومبر۲۰۰۴ئ)۔ تقریباً اسی تناسب سے اسرائیل کی تائید اور فلسطینیوں سے بے اعتنائی اور مخالفت کی کیفیت ہے۔ اس کی تائید گیلپ کے سروے سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ۵۰ فی صد سے زیادہ امریکی اس کے قائل ہیں کہ چرچ کو سیاست میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

جارج بش نے اس مذہبی جذبے کو بڑی کامیابی سے اپنی سیاسی مہم میں استعمال کیا۔ اپنے کو new-born عیسائی کی حیثیت سے سامنے لایا۔ یہاں تک دعویٰ کیا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ فرمانِ خداوندی کے مطابق کر رہا ہوں۔ اس کی الیکشن مہم کا اصل دماغ کارل روو  (Karl Rove) تھا۔ اس کی انتخابی حکمت عملی انتہائی کامیاب ثابت ہوئی۔ آیندہ بھی وہ پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

یہ عجیب تضاد ہے کہ بش اور اس کے پالیسی سازوں کو امریکا میں تو مذہب کے کردار کا استحکام مطلوب ہے اور عالم اسلام میں مذہب کے کردار کا استرداد--- وہاں انتہاپرستی کو سینے سے لگانا اور یہاں جسے انتہاپرستی کا نام دیا جا رہا ہے اس کے خلاف جنگ اور روشن خیال اعتدال پسندی کی تبلیغ بلکہ اسے قوت کے ذریعے مسلط کرنے کی سعی بلیغ۔ یہی وہ تضاد ہے جسے اقبال نے جہاد اور جنگ کے پس منظر میں یوں واضح کیا تھا:

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

تعلیم اُس کو چاہیے ترکِ جہاد کی

دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے

یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تاکمر

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے درگزر

۳- انتخابی مھم کا منفی پھلو

امریکا کے صدارتی انتخابات کا تیسرا اہم پہلو اس کا منفی رنگ ہے۔ بش صاحب نے خود بھی اور ان کی پوری میڈیا ٹیم نے بھی‘ جان کیری کی شخصیت کو ہدفِ تنقید بنایا اور اسے منہدم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ نجی زندگی‘ جنگی خدمات‘ ووٹنگ ریکارڈ کون سی چیز ہے جسے استعمال نہیں کیا گیا۔ پوری انتخابی مہم پر ۴ ارب ڈالر خرچ ہوئے جس میں سے ۴۵.۱ ارب ڈالر صرف ٹی وی کی اشتہاری مہم پر خرچ کیے گئے اور ایک نہیں دسیوں کتابیں اس مرکزی خیال پر لائی گئیں کہ کیری دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ (ملاحظہ ہو‘ Unfit for Command  از John E.O. Neil اور Jerome Corsi)

اگر دنیا کی سب سے ترقی یافتہ جمہوریت کا یہی معیار ہے تو ’’پھر کسے رہنما کرے کوئی؟‘‘ ٹی وی پر دونوں امیدواروں کے مقابلے میں جان کیری کی ذہنی برتری اور پالیسی کے معاملات پر مضبوط گرفت کا اعتراف بلااستثنا سب نے کیا لیکن غیراخلاقی چالیں اس برتری کو بہا کر لے گئیں اور  ع

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا ’’سرمایہ دار‘‘

امریکی ایجنڈا

بش صاحب کا دعویٰ ہے کہ انتخابی نتائج نے ان کی عالمی پالیسیوں کی تائید کر دی ہے  اور اب وہ پہلے سے بھی زیادہ جرأت کے ساتھ اس پالیسی پر گامزن ہوسکیںگے جو مندرجہ ذیل  خونی خصوصیات سے عبارت ہے:

۱- تن تنہا دنیا کے معاملات کو طے کرنے کی سعی اور اس کے لیے قوت کا بے محابا استعمال۔

۲- عالمی اداروں کو غیر موثر بنانا یا اپنی چاکری پر مجبور کرنا‘ خصوصیت سے اقوامِ متحدہ کو بے اثر کرنا‘ اس کے سیکرٹری جنرل کو بلیک میل کرنا اور اس طرح عالمی اداروں کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرنا۔

۳- کسی متبادل قوت کو وجود میں نہ آنے دینا۔

۴- کسی بھی خود ساختہ خطرے کی بنیاد پر پیشگی حملوں کے ’’اصول‘‘ کا سہارا لے کر فوجی اقدام کرنا۔

۵- دنیا کے دوسرے ممالک میں‘ جہاںقیادت سے ناخوش ہوں ‘اسے اپنے اور دنیا کے لیے خطرہ قرار دے کر تبدیلیِ قیادت پر عمل ۔

۶- دنیا میں کسی بھی دوسرے ناپسندیدہ ملک کو کسی بھی صورت میں اور کسی بھی درجے کی نیوکلیر طاقت بننے سے بہ جبر روک دینا۔

۷-  دنیا کے دوسرے ممالک میں قومی تعمیراور فروغِ جمہوریت کے نام پر تبدیلی کی تائید اور معاونت۔

۸- دنیا کے تیل کے وسائل پر قبضہ اور دنیا کی منڈیوں کو اپنی مصنوعات کے لیے آزاد عالمی تجارت کے نام پر حاصل کرنا‘ اور خود اپنی معیشت میں طرح طرح کی درآمدی پابندیوں اور  اعانتوں(subsidies) کو جاری رکھنا۔

یہ وہ بنیادی ایجنڈا ہے جس پر صدر جارج بش اپنی دوسری مدت صدارت میں کاربند رہنا چاہتے ہیں اور ان کے دست و بازو اس کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ انتخابی نتائج کے فوراً بعد جو اقدامات انھوں نے کیے ہیں وہ ہوا کے اس رخ کا پتا دیتے ہیں مثلاً:

۱-  کولن پاول سے نجات اور ان کی جگہ کنڈولیزا رایس کو سیکرٹری خارجہ مقرر کرنا جو نیوکونزکی گل سرسبد اور پیشگی حملوں اور حکومتوں کی تبدیلی کے فلسفے کی خالق ہیں۔

۲-  سیکرٹری دفاع رونالڈ رمس فیلڈ اور اس کے دست راست پال وولفورٹز کو باقی رکھنا حالانکہ ابوغریب کے واقعے کے بعد سے ان دونوں کی برطرفی کا مطالبہ ہر طرف سے ہو رہا ہے لیکن یہ بش صاحب کی آنکھ کے تارے ہیں۔

۳- اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے عراق کی جنگ کو برملا ناجائز (illegitimate)  قرار دیا اور امریکا کے مطالبات تسلیم کرنے میں تردد کا اظہار کیا تو ان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور اقوام متحدہ کی کرپشن کی باتیں کی جانے لگیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کے شدید احتجاج پر یہ لے فی الحال کچھ مدہم پڑگئی ہے لیکن اگر کوفی عنان       راہِ راست پر نہ آئے تو پھر اس لے کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

۴-  فلوجہ پر حملہ اور عراق میں اجتماعی مزاحمت کی تحریک کو قوت سے کچلنے کے لیے فلوجہ کو ایک نشانِ عبرت بنانے کی کوشش۔ بش کے انتخاب کے بعد فلوجہ میں دو سو کے قریب امریکی فوجی مارے گئے ہیں اور عراقی شہریوں کی ہلاکت کا کوئی ریکارڈ نہیں لیکن اندازہ ہے کہ کئی ہزار افراد شہید ہوئے ہیں۔ فلوجہ میں حکمت عملی کا ایک اہم اور دردناک پہلو یہ تھا کہ سب سے پہلے امریکی فوج نے وہاں کے ہسپتال پر قبضہ کیا تاکہ ہلاک ہونے والوں کا ریکارڈ دنیا کے سامنے نہ آسکے اور زخمیوں کی آہ و بکا بھی دنیا تک نہ پہنچ سکے۔

اس کے ساتھ ہی یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ صدر بش کے قریبی اور اندرونی حلقے کے جو دانش ور بش کی پالیسیوں کے لیے زمین ہموار کرنے کا کام کرتے ہیں‘ وہ بڑھ چڑھ کر شام‘ شمالی کوریا‘ ایران اور سعودی عرب کو آیندہ ہدف بنانے کی باتیں کررہے ہیں‘ البتہ خود پاکستان کے صدر ان کے پسندیدہ اور محبوب افراد میں سرفہرست ہیں‘ ان کی تو تعریف کی جاتی ہے مگر ہر تحریر کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان پر مزید دبائوڈالا جائے کہ وہ دہشت گردی کی مہم میں اور     بڑھ چڑھ کر حصہ لے‘ خود اپنے لوگوں کو نشانہ بنائے‘ مدرسوں کا مزاج لادینی بنائے‘ دینی سیاسی قوتوں کو غیرموثر بنائے‘ آزاد خیال سیاسی عناصر کو آگے لائے‘ حدود قوانین اور ناموسِ رسالتؐ کے قانون کو تبدیل کرے‘ پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ نکالے اور معیشت کو بیرونی مصنوعات کے لیے کھول دے۔

ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرف سے یلغار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو اس پوری مہم میں اپنے اصل ساتھی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے بلکہ جمہوریت پسندی کے سارے دعوئوں کے ساتھ ان کی وردی کو بھی (جو فوجی آمریت کی علامت ہے) اس کام کو انجام دینے کے لیے ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر جنرل صاحب کا بھی حال یہ ہے کہ ایک سال میں چار بار امریکا تشریف لے گئے ہیں۔ بش اور مشرف کے رازونیاز کا یہ عالم ہے کہ  ع

تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

امریکی عزائم

امریکی صدر کے قریب ترین حلقوں کی سوچ کے انداز کو سمجھنے کے لیے ہم صرف یہ اقتباس پیش کر رہے ہیں‘ انھیں دیکھیے اور اندازہ کیجیے کہ امریکی قیادت دنیا کو کہاں لے جانا چاہتی ہے اور مسلم ممالک کے سربراہ اس کے آلہ کار بننے کے لیے کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔

فرانس کا ایک مشہور دانش ور پیٹرک سیل (Patrik Seale) اپنے ایک تازہ مضمون میں امریکا کے ذہنی منظرنامے کا یوں جائزہ لیتا ہے اور اسے جمہوریت بذریعہ فتح (democracy by conquest) کا نام دیتا ہے:

نوقدامت پسندوں کا استدلال ہے کہ عربوں پر تبدیلی باہر سے‘ اگر ضروری ہو تو طاقت کے ذریعے مسلط کی جانی چاہیے۔ پیشگی فوجی حملہ ایک آپشن رہنا چاہیے۔ عرب اسرائیلی تنازعے پر عربوں اور مسلمانوں کی مایوسی کو بآسانی نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ امریکا دشمنی محض گرم ہوا ہے‘ جیسے ہی امریکا کے دشمنوں کو کچلا جائے گا‘ یہ اُڑ جائے گی۔ ڈگلس فِیتھ اور ولیم کرسٹل دو سربرآوردہ نیوکونزہیں جو اپنے اپنے طریقے سے پورے گروپ کی سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ فِیتھ پینٹاگون کی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے۔ عام طور پر اسی کو کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اس نے وہ خفیہ معلومات وضع کیں اور استعمال کیں جن کی وجہ سے امریکا نے جنگ شروع کر دی۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ وہ برسرِمنصب ہے اور بش کی دوسری مدت میں اس کے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا امکان ہے۔

فِیتھ نے‘ جسے اسرائیل کا گہرا دوست کہا جاتا ہے‘ یروشلم پوسٹ سے ۱۲دسمبر کے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اگر ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ترک کرنے میں لیبیا کی پیروی نہ کی تو ایران کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف فوجی حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس نے پیش گوئی کی کہ عرب دنیا بشمول مصر‘ سعودی عرب اور اُردن جیسے حلیف ممالک میں آیندہ چار سال میں بش کی خارجہ پالیسی کا محور جمہوری اصلاحات کو ہونا چاہیے۔

ولیم کرسٹل حکومت میں شامل نہیں ہے اس لیے وہ زیادہ کھل کر بات کر سکتا ہے۔ وہ امریکی پریس کا اسامہ بن لادن ہے۔ ہمیشہ عرب دنیا اور ایران کے خلاف امریکی جہاد کی دعوت دیتا ہے۔ وہ مکالمے‘ سفارت کاری اور نیم دلانہ اقدامات میں یقین نہیں رکھتا۔ اس کی تکنیک تشدد پر کھلم کھلا اُبھارنا ہے۔

نیوکونز کے ترجمان ویکلی اسٹینڈرڈ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس نے صدام کا تختہ اُلٹنے کی مسلسل مہم چلائی۔ اب وہ امریکا کو علاقے کے دوسرے ممالک خصوصاً شام پر حملہ کرنے کے لیے اُکسا رہا ہے۔

اپنے مضمون میں کرسٹل گرجتا ہے: شام ایک دشمن حکومت ہے۔ ہم نے نرم و گرم دونوں طرح کی بات چیت کو آزمایا ہے۔ بات چیت ناکام ہوئی ہے۔ ہمیں اب  اسد کی حکومت کو سزا دینے اور روکنے کے لیے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اس طرح کے فیصلہ کن اقدام کوجائز ثابت کرنے کے لیے وہ شام پر ان سرگرمیوں کی اجازت دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کا الزام لگاتا ہے جو نہ صرف ہمارے عراقی دوستوں کی بلکہ براہِ راست امریکی افواج کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہیں۔

کرسٹل کیا سفارش کرتا ہے؟ ’’ہم شام کی فوجی تنصیبات پر بم باری کر سکتے ہیں۔   ہم دراندازی روکنے کے لیے طاقت کے ساتھ سرحد سے کچھ پار جاسکتے ہیں۔ ہم مشرقی شام میں سرحد سے کچھ دور قصبہ ابوکمال پر قبضہ کرسکتے ہیں جو عراق میں شام کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور تنظیم کا مرکز معلوم ہوتا ہے۔ ہم شام کی حزبِ اختلاف کی کھلے اور چھپے حمایت کرسکتے ہیں‘‘۔

وہ اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہے: یہ وقت ہے کہ عراق اور وسیع تر مفہوم میں شرق اوسط میں جنگ جیتنے کے لیے ہم شام کے معاملے میں سنجیدہ ہوجائیں۔ (روزنامہ Star ‘لندن ‘۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

امریکا کی The Inter-Press News میں جم ہوب(Jim Hobe) بش کے ساتھیوں کے عزائم کو یوں بیان کرتا ہے:

میڈیا کی مہم کا آغاز گذشتہ ہفتے ہوا۔ فائونڈیشن براے دفاع جمہوریت (F.D.D) کے تین تجزیہ نگاروں نے واشنگٹن ٹائمز میں ایک مضمون شائع کیا‘ عنوان تھا: ’’شام کا خونی کردار: اسد عراق کی دہشت گرد بغاوت کو امداد بہم پہنچا رہا ہے‘‘۔ ایف ڈی ڈی (ایک قدامت پرست گروپ ہے جو عموماً اسرائیل کی دائیں بازو لیکوڈ پارٹی کی حمایت کرتا ہے)۔

پھر ولیم کرسٹل نے جو منصوبہ براے نئی امریکی صدی (PNAC) کا بااثر صدر ہے ویکلی اسٹینڈرڈ کا ایڈیٹرہے‘ اپنے اداریے: شام کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت میں اسی موضوع کو لیا اور اس نتیجے تک پہنچا کہ عراق کی وجہ سے امریکی فوج پر حقیقی دبائوکے باوجود دمشق سے معاملہ کرنے کے لیے حقیقی راستے موجود ہیں۔

وال اسٹریٹ جنرل شرق اوسط کے بارے میں نیوکونز کی رائے کا قابلِ اعتبار اشارہ ہے۔ اس نے اپنے اداریے میں الزام لگایا: ’’شام دہشت گرد گروہوں کو مادی امداد پہنچا رہا ہے۔ عراق میں امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے اور عراقیوں کو کھلے عام مزاحمت میں شامل ہونے کی دعوت دے رہا ہے‘‘۔

اداریہ ’’شام کے بارے میں سنجیدگی؟‘‘ میں بش انتظامیہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اشتعال انگیزیوں پر ملے جلے سیاسی اشارے اور کمزور ردعمل دے رہی ہے اور اس بات پر ابھارا کہ جس طرح ۱۹۹۸ء میں ترکی نے کردوں کی حمایت کرنے پر دمشق پر حملہ کرنے کے لیے جنگی تیاری کی تھی کم سے کم اسی طرح کے فوجی اقدام کی دھمکی دی جائے۔

حالانکہ شام امریکا سے ہرطرح کا تعاون کر رہا ہے اور اختلاف کا کوئی موقع نہیںدے رہا۔

مقابلے کی حکمت عملی

امریکا کی موجودہ قیادت کے عزائم کے بارے میں نہ کسی خوش فہمی کی گنجایش ہے اور نہ غلط فہمی کی۔البتہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے دو باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

ایک یہ کہ امریکا آج خود اوپر سے نیچے تک بٹا ہوا ہے۔ بلاشبہہ صدر بش اور ان کے قریبی ساتھی ملک کو ایک خاص رخ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اس میں مذہبی انتہاپرست‘ صہیونی قوتیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی وہ قیادت جو فوجی صنعتی طاقت (Military- Industrial Complex)  سے تعبیر کی جاتی ہے اس وقت اصل فیصلہ کن قوت ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دانش وروں ‘ لبرل قوتوں اور عوام کا بڑا حصہ ان حالات پر دل گرفتہ ہے اور کسی دوسرے راستے کی تلاش میں ہے۔ جارج بش کو ۵۱ فی صد ووٹ ضرور حاصل ہوئے ہیں اور ہر طرح کے سیاسی کرتب کرکے حاصل ہوئے ہیں لیکن جن تقریباً نصف ووٹروں نے ووٹ نہیں دیے اور جن ۴۹ فی صد نے کیری اور دوسرے نمایندوں کو ووٹ دیے وہ بھی ملک کی ایک اہم سیاسی قوت ہیں اور کل فیصلہ کن قوت بن سکتے ہیں۔ اس لیے امریکا کو ایک سیاسی وحدت نہیں سمجھنا چاہیے اور اس سے مکالمے میں حکومت کے ساتھ دانش وروں اور دوسرے سیاسی عناصر اور قوتوں تک بھی رسائی حاصل کرنا ضروری ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا اور اس کی قیادت دنیا میں جتنی ناپسندیدہ آج ہے‘ کبھی نہ تھی۔ کبھی امریکا آزادی‘ خوش حالی‘ عالمی امن‘ جمہوریت ‘ ترقی اور انسانی مساوات کی  علم بردار قوت کے طور پر جانا جاتا تھا اور ابراہم لنکن اور ووڈر ولسن سے لے کر جان کینیڈی اور جمی کارٹر تک (امریکا کی ساری خرابیوں کے باوجود) دنیا کو ایک مثبت پیغام دیتے تھے لیکن بش سینیر اور بش جونیئر کے دور میں امریکا کا جو چہرہ دنیا کے سامنے آیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو بُعد اور دُوری دنیا بھر کے عوام اور بہت سے ممالک کی قیادتوں کی طرف سے واقع ہوئی ہے‘ وہ عالمی سطح پر دنیا میں امن اور انصاف کے قیام کی تحریک کے نقطۂ نظر سے ایک مثبت شے ہے۔ اسے نظرانداز کرکے حالات کا صحیح جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔

پھر امریکا کی معیشت بھی ایسے دبائو کا شکار ہے کہ یہ اس کے موجودہ سیاسی کردار کو طویل عرصے تک سہارا نہیں دے سکتی۔ اس وقت بھی امریکا دنیا کا سب سے مقروض ملک ہے اور دنیا کے بجٹ کا ۸۰ فی صد امریکا ہڑپ کررہا ہے ‘یعنی تقریباً ۲.۱ بلین ڈالر روزانہ۔ اس کا بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ دونوں اژدہے کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں اور یہ صورت حال بہت عرصے نہیں چل سکتی۔ ڈالر پر برابر دبائو ہے اور یورو ایک متبادل عالمی کرنسی کے طور پر روز بروز ترقی کررہا ہے۔ یورپ میں امریکا سے بے زاری اور آزاد سیاسی اور معاشی پالیسی سازی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ چین اور جاپان اپنے اپنے طور پر عالمی قوت کے نئے مرکز کے طور پر رونما ہو رہے ہیں۔ لاطینی امریکا شمالی امریکا کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور وہاں ایک بار پھر بائیں بازو کے رجحانات ترقی کر رہے ہیں۔ روس بھی امریکا کی زور زبردستی سے بے زار ہے اور نئے راستوں کی تلاش میں ہے۔

دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے امریکا واحد آپشن نہیں اور مستقبل میں سیاست کو ایک بار پھر کثیرقطبیت (multi-polarity)کی طرف بڑھنا ہے۔ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو امریکا کے دامن سے نتھی نہ کرے اور اپنے اختیار کو کھلا رکھے اور آہستہ آہستہ خارجہ پالیسی میں آزادی سے قدم بڑھانے کی جگہ(independent space ) پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

پھر یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دنیا کے عوام ایک بڑی قوت ہیں اور ان کو طویل عرصے کے لیے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ محض حکومتوں کا نہیں عوامی قوت کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ عوامی طاقت کو نظرانداز کر کے کسی پالیسی کو زیادہ دیر تک نہیں چلایا جاسکتا۔ اس لیے خارجہ پالیسی کے دروبست درست کرتے وقت اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔

ان حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر خصوصیت سے امریکی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ امریکا ‘یورپ‘ چین‘ روس‘ افریقی اور ایشیائی ممالک سے تعلقات کے ساتھ ساتھ اُمت مسلمہ کے سیاسی اور معاشی اتحاد کے لیے اقدامات اور کسی نہ کسی شکل میں مشترک دفاع کے نظام کو حقیقت کا روپ دینا‘ ہمارے وجود‘ آزادی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے ہرسطح پر کھلی بحث ہونی چاہیے۔ جس سہل انگاری اور کوتاہ بینی کے ساتھ جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم نے پاکستان کو بالکل امریکا کی جھولی میں ڈال دیا ہے اور مکمل طور پر امریکی ’گھڑے کی مچھلی‘ کے طور پر خارجہ پالیسی کی تشکیل کی جارہی ہے‘ وہ ملک کے مفاد سے متصادم اور تاریخ کے رخ کے حقیقی فہم سے عاری ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ان امور پر کھل کر بحث ہو‘ پالیسی سازی کا کام تمام سیاسی قوتوں کے مشورے سے انجام پائے‘ پارلیمنٹ یہ کام کرے اور کسی ایک فرد کو سیاہ و سپید کا مالک نہ بننے دیا جائے۔ ہماری کمزوریوں کا بڑا سبب پارلیمنٹ کی بے بسی اور اجتماعی اور اداراتی انداز میں پالیسی سازی کا فقدان ہے۔ اب اس روش کو یکسر بدلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے لیے دستور کی مکمل بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور تمام جمہوری‘ سیاسی اور دینی قوتوں کا یک جان ہو کر ملک اور اس کے نظریاتی‘ سیاسی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق ملک کی تعمیروترقی کے لیے جدوجہد کرنا ناگزیر ہے۔ عزت اور آزادی کا یہی راستہ ہے۔ اس وقت ذرا سی غلطی بڑے دُوررس اثرات اور نتائج پر منتج ہوسکتی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ  تمام جمہوری قوتیں اس بنیادی مقصد کے لیے مل جل کر جدوجہد کریں۔

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں سید مودودی علیہ الرحمہ کی کتاب ہے جسے ان کی فکر میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں رب‘الٰہ‘ عبادت اور دین ان چار الفاظ کی لغوی تحقیق اور حقیقی مفہوم کی بنیاد پر کلامِ الٰہی میں اترنے کے لیے نئے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ اس کے مطالعے سے اسلام کا انقلابی تصور اجاگر ہوکر سامنے آتا ہے۔ آج جب اسلام پر مغرب کے حملوں کے دفاع میں بعض عناصر دین اور سیاست کے جداگانہ تصور کو پیش کر رہے ہیں‘ ہم مذکورہ کتاب سے ’’دین‘‘ کا باب پیش کررہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ قارئین مکمل کتاب کا مطالعہ کر کے اپنے علم کو تازہ کریںگے۔ (ادارہ)

الہ‘ رب‘ دین اور عبادت‘ یہ چار لفظ قرآن کی اصطلاحی زبان میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن کی ساری دعوت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رب و الٰہ ہے‘ اس کے سوا نہ کوئی الٰہ ہے نہ رب‘اور نہ الوہیت و ربوبیت میں کوئی اس کا شریک ہے‘ لہٰذا اسی کواپنا الٰہ اور رب تسلیم کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی الہٰیّت و ربوبیت سے انکار کر دو‘ اس کی عبادت اختیار کرو اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘ اس کے لیے اپنے دین کو خالص کر لو اور ہر دوسرے دین کو رَد کر دو…

اب یہ ظاہر بات ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھنے کے لیے ان چاروں اصطلاحوں کا صحیح اور مکمل مفہوم سمجھنا بالکل ناگزیر ہے۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ الٰہ اور رب کا مطلب کیا ہے؟ عبادت کی کیا تعریف ہے؟ اور دین کسے کہتے ہیں؟ تو دراصل اس کے لیے پورا قرآن بے معنی ہوجائے گا۔ وہ نہ توحید کو جان سکے گا‘ نہ شرک کو سمجھ سکے گا‘ نہ عبادت کو اللہ کے لیے مخصوص کر سکے گا‘ اور نہ دین ہی اللہ کے لیے خالص کر سکے گا۔ اسی طرح اگر کسی کے ذہن میں ان اصلاحوں کا مفہوم غیر واضح اور نامکمل ہو تو اس کے لیے قرآن کی پوری تعلیم غیرواضح ہوگی اور قرآن پر ایمان رکھنے کے باوجود اس کا عقیدہ اور عمل دونوں نامکمل رہ جائیں گے۔ وہ لا الٰہ الا اللہ کہتا رہے گا اور اس کے باوجود بہت سے اربابٌ من دون اللّٰہ اس کے رب بنے رہیں گے۔ وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ کہے گا کہ میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا‘ اور پھر بھی بہت سے معبودوں کی عبادت میں مشغول رہے گا۔ وہ پورے زور کے ساتھ کہے گا کہ میں اللہ کے دین میں ہوں‘ اور اگر کسی دوسرے دین کی طرف اسے منسوب کیا جائے تو لڑنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ مگر اس کے باوجود بہت سے دینوں کا قلاوہ اس کی گردن میں پڑا رہے گا۔ اس کی زبان سے کسی غیراللہ کے لیے ’’الٰہ‘‘ اور ’’رب‘‘ کے الفاظ تو کبھی نہ نکلیں گے‘ مگر یہ الفاظ جن معانی کے لیے وضع کیے گئے ہیں ان کے لحاظ سے اس کے بہت سے الٰہ اور رب ہوں گے اور اس بیچارے کو خبر تک نہ ہوگی کہ میں نے واقعی اللہ کے سوا دوسرے ارباب و الٰہ بنا رکھے ہیں۔ اس کے سامنے اگر آپ کہہ دیں کہ تو دوسروں کی ’’عبادت‘‘ کر رہا ہے اور ’’دین‘‘ میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ پتھر مارنے اور منہ نوچنے کو دوڑے گا مگر عبادت اور دین کی جو حقیقت ہے اس کے لحاظ سے واقعی وہ دوسروںکا عابداور دوسروں کے دین میں داخل ہوگا اور نہ جانے گا کہ یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں یہ حقیقت میں دوسروں کی عبادت ہے اور یہ حالت جس میں مبتلا ہوں یہ حقیقت میں غیراللہ کا دین ہے…

پس یہ حقیقت ہے کہ محض ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑ جانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم‘ بلکہ اس کی رُوح نگاہوں سے مستور ہوگئی ہے‘ اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائدو اعمال میں جو نقائص نظر آرہے ہیں ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کی مرکزی تعلیم اور اس کے حقیقی مدعا کو واضح کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان اصطلاحوں کی پوری پوری تشریح کی جائے۔(ص ۷-۱۳)

دین: لغوی تحقیق

کلامِ عرب میںلفظ دین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

۱-  غلبہ و اقتدار‘ حکمرانی و فرمانروائی‘ دوسرے کو اطاعت پر مجبور کرنا‘ اس پر اپنی قوتِ قاہرہ (sovereinty) استعمال کرنا‘ اس کو اپنا غلام اور تابع امر بنانا۔ مثلاً کہتے ہیں دَانَ النَّاسَ، اَیْ قَھَرَھُمْ عَلَی الطَّاعَۃِ (یعنی لوگوں کو اطاعت پر مجبور کیا)۔ دِنْتُھُمْ فَدَانُوْا اَیْ قَھَرْتُھُمْ فَاَطَاعُوْا (یعنی میں نے ان کو مغلوب کیا اور وہ مطیع ہوگئے) دِنْتُ الْقُوْمَ اَیْ ذَلَّلْتُھُمْ وَاسْتَعْبَدْتُّھُمْ (میں نے فلاں گروہ کو مسخرکرلیا اور غلام بنالیا) دَانَ الرَّجُلُ اِذَا عَزَّ (فلاں شخص عزت اور طاقت والا ہوگیا) دِنْتُ الرَّجُلَ حَمَلْتُہٗ عَلٰی مَا یَکْرَہُ۔ (میں نے اس کو ایسے کام پر مجبور کیا جس کے لیے وہ راضی نہ تھا)۔ دِیْنَ فَلانٌ - اِذَا حَمَلَ عَلٰی مَکْرَوْہٍ (فلاں شخص اس کام کے لیے بزور مجبور کیا گیا)۔ دَنْتُہٗ اَیْ سُسْتُہٗ وَمَلَکْتُہٗ (یعنی میں نے اس پر حکم چلایا اور فرمانروائی کی) دَیَّنْتُہُ الْقَوْمَ وَلَّیْتُہٗ سَیَاسَتَھُمْ (یعنی میں نے لوگوں کی سیاست و حکمرانی فلاں شخص کے سپرد کردی) اسی معنی میں حطیّہ اپنی ماں کو خطاب کر کے کہتا ہے    ؎

لَقَدْ دَیَّنْتِ اَمْرَ بَنِیْکِ حَتّٰی

تَرَکْتِھِمْ اَدَقَّ مِنَ الطَّحِیْنِ

تو اپنے بچوں کے معاملات کی نگراں بنائی گئی تھی۔ آخرکار تو نے انھیں آٹے سے بھی زیادہ باریک کر کے چھوڑا۔

حدیث میں آتا ہے: اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمُوْتِ ، یعنی   عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو مغلوب کر لیا اور وہ کام کیا جو اس کی آخرت کے لیے نافع ہو۔ اسی معنی کے لحاظ سے دیّان اس کو کہتے ہیںجو کسی ملک یا قوم یا قبیلے پر غالب و قاہر ہو اور اس پر فرماں روائی کرے۔ چنانچہ اعشی الحرمازی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے کہتا ہے: یَاسَیِّدَ النَّاسِ وَدَیَّانَ الْعَرَبِ۔ اور اسی لحاظ سے مَدْیَنْ کے معنی غلام اور مَدِیْنَہ کے معنی لونڈی‘ اور ابن مدینہ کے معنی لونڈی زادے کے آتے ہیں۔ اخطل کہتا ہے ربت وربانی حجرھا ابن مدینۃ۔ اور قرآن کہتا ہے:

فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْـنِیْنَ o تَرْجِعُوْنَھَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o  (الواقعہ: ۵۶: ۸۶-۸۷)

یعنی اگر تم کسی کے مملوک ‘ تابع‘ ماتحت نہیں ہو تو مرنے والے کو موت سے بچا کیوں نہیں لیتے؟ جان کو واپس کیوں نہیں پلٹا لاتے؟

۲-  اطاعت‘ بندگی‘ خدمت‘ کسی کے لیے مسخر ہوجانا‘ کسی کے تحتِ امر ہونا‘ کسی کے غلبہ و قہر سے دب کر اس کے مقابلے میں ذلّت قبول کرلینا۔ چنانچہ کہتے ہیں: دِنْتُھُمْ فَدَانُوْا اَیْ قَھَرْتُھُمْ فَاَطَاعُوْا (یعنی میں نے ان کو مغلوب کرلیا اور وہ لوگ مطیع ہوگئے) دِنْتُ الرَّجَلَ، ای خَدِمْتُہُ (یعنی میں نے فلاں شخص کی خدمت کی) حدیث میں آتا ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: اُرِیْدُ مِنْ قُرَیْشٍ کَلِمَۃً تَدِیْنُ لَھُمْ بِھَا الْعَرَبُ اَیْ تُطِیْعُھُمْ وَتَخْضَعُ لَھُمْ (میں قریش کو ایک ایسے کلمے کا پیرو بنانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ اسے مان لیں تو تمام عرب اُن کا تابع فرمان بن جائے اور اُن کے آگے جھک جائے)۔ اسی معنی کے لحاظ سے اطاعت شعار قوم کو قومِ دیّن کہتے ہیں۔ اور اس معنی میں دین کا لفظ حدیثِ خوارج میں استعمال کیا گیا ہے‘ یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیّۃ-۱؎

۳-  شریعت‘ قانون‘ طریقہ‘ کیش و ملت‘ رسم وعادت۔ مثلاً کہتے ہیں: مَازَالَ ذٰلِکَ دِیْنِیْ وَوَیْدَنِیْ ، یعنی یہ ہمیشہ سے میرا طریقہ رہا ہے۔ یُقَالُ دَانَ ’ اِذَا اعْتَادَ خَیْرًا وَشَرًّا، یعنی آدمی خواہ بُرے طریقہ کا پابند ہو یا بھلے طریقہ کا‘ دونوں صورتوں میں اس طریقے کو جس کا    وہ پابند ہے دین کہیں گے۔ حدیث میں ہے: کَانَتْ قُرَیْشٌ وَمَنْ دَانَ بِدِیْنِھِمْ، ’’قریش اور وہ لوگ جو اُن کے مسلک کے پیرو تھے‘‘۔ اور حدیث میں ہے اِنَّہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ عَلٰی دِیْنِ قَوْمِہٖ-نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے اپنی قوم کے دین پر تھے۔ یعنی نکاح‘ طلاق میراث اور دوسرے تمدّنی و معاشرتی امور میں انھی قاعدوں اور ضابطوں کے پابند تھے جو اپنی قوم میں رائج تھے۔

۴-  اجزاء عمل‘ بدلہ ‘ مکانات‘ فیصلہ‘ محاسبہ۔ چنانچہ عربی میں مثل ہے: کمَا تدین تدان، یعنی جیسا تو کرے گا ویسا بھرے گا۔ قرآن میں کفار کا یہ قول نقل فرمایا گیا ہے: اَئِ نَّا لَمَدِیْنُوْنَ ’’کیا مرنے کے بعد ہم سے حساب لیا جانے والا ہے اور ہمیں بدلہ ملنے والا ہے‘‘۔ عبداللہ ابن عمرؓ کی حدیث میں آتا ہے: لَا تَسُبُّوا السُّلْطٰنَ فَاِنْ کَانَ لَا بُدَّ فَقُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ دِنْھُمْ کمَا یدینون، ’’اپنے حکمرانوں کو گالیاں نہ دو۔ اگر کچھ کہنا ہی ہو  تو یوں کہو کہ خدایا جیسا یہ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں ویسا ہی تو ان کے ساتھ کر‘‘۔ اسی معنی میںلفظ دیّان بمعنی قاضی و حاکمِ عدالت آتا ہے۔ چنانچہ کسی بزرگ سے جب حضرت علیؓ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا : کان دیان ھذہ الامّۃ بعد نبیّھا،’’ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اُمت کے سب سے بڑے قاضی تھے‘‘۔

قرآن میں لفظ دین کا استعمال

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ دین کی بنیاد میں چار تصورات ہیں‘ یا بالفاظِ دیگر یہ لفظ عربی ذہن میں چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے:

۱-  غلبہ و تسلط‘ کسی ذی اقتدار کی طرف سے‘

۲- اطاعت ‘ تعبد اور بندگی صاحب ِ اقتدار کے آگے جھک جانے والے کی طرف سے‘

۳- قاعدہ و ضابطہ اور طریقہ جس کی پابندی کی جائے‘

۴- محاسبہ اور فیصلہ اور جزا و سزا۔

انھی تصورات میں سے کبھی ایک کے لیے اور کبھی دوسرے کے لیے اہلِ عرب مختلف طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے تھے‘ مگر چونکہ ان چاروں امور کے متعلق عرب کے تصورات پوری طرح صاف نہ تھے اور کچھ بہت زیادہ بلندبھی نہ تھے۔ اس لیے اس لفظ کے استعمال میں ابہام پایا جاتا تھا اور یہ کسی باقاعدہ نظامِ فکر کا اصطلاحی لفظ نہ بن سکا۔ قرآن آیا تو اس نے اس لفظ کو اپنے منشا کے لیے مناسب پاکر بالکل واضح و متعین مفہومات کے لیے استعمال کیا اور اس کو اپنی مخصوص اصطلاح بنالیا۔ قرآنی زبان میںلفظ دین ایک پورے نظام کی نمایندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزا سے ہوتی ہے:

۱- حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ‘

۲- حاکمیت کے مقابلہ میں تسلیم و اطاعت‘

۳- وہ نظامِ فکروعمل جو اس حاکمیت کے زیرِاثر بنے‘

۴- مکافات جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت کے صلے میں یا سرکشی و بغاوت کی پاداش میں دی جائے۔

قرآن کبھی لفظ دین کا اطلاق معنی ٔ اوّل و دوم پر کرتا ہے‘ کبھی معنی ٔ سوم پر‘ کبھی معنی ٔچہارم پر اور کہیں الدین بول کر یہ پورا نظام اپنے چاروں اجزا سمیت مراد لیتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے حسب ذیل آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں:

دین بمعنی غلبہ و تسلط اور اطاعت و بندگی

اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآئَ بِنَـآئً وَّصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَتَبٰـرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ - ھُوَ الْحَیُّ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (المومن ۴۰: ۶۴-۶۵)

وہ اللہ جس نے تمھارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس پر آسمان کا قبہ چھایا‘ جس نے تمھاری صورتیں بنائیں‘ جس نے پاکیزہ چیزوں سے تم کو رزق بہم پہنچایا‘ وہی اللہ تمھارا رب ہے اور بڑی برکتوں والا ہے‘ وہ رب العالمین ہے‘ وہی زندہ ہے‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہٰذا تم اسی کو پکارو‘ دین کو اسی کے لیے خاص کر کے‘ تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ … قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہُ دِیْنِیْ o فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ … وَالَّذِیْنَ اجْتَنَـبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ لَھُمُ الْبُشْرٰی - (الزمر ۳۹: ۱۱-۱۷)

کہو‘ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خاص کر کے اسی کی بندگی کروں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود سرِاطاعت جھکائوں… کہو میں تو دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کروں گا۔ تم کو اختیار ہے اس کے سوا جس کی چاہو بندگی اختیار کرتے پھرو۔ اور جو لوگ طاغوت کی بندگی کرنے سے پرہیز کریں اور اللہ ہی کی طرف رجوع کریں۔ ان کے لیے خوش خبری ہے۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَo  اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ - (الزمر  ۳۹: ۲-۳)

’’ہم نے تمھاری طرف کتاب برحق نازل کر دی ہے لہٰذا تم دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے صرف اسی کی بندگی کرو۔ خبردار! دین خالصتاً اللہ ہی کے لیے ہے۔

وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّیْنُ وَاصِبًا ، اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَتَّقُوْنَ (النحل ۱۶: ۵۲)

زمین اورآسمانوں میں جو کچھ ہے اللہ کے لیے ہے اور دین خالصتاً اسی کے لیے ہے۔ پھر کیا اللہ کے سوا تم کسی اور سے تقویٰ کرو گے؟ (یعنی کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہے جس کے حکم کی خلاف ورزی سے تم بچو گے اور جس کی ناراضی سے تم ڈرو گے؟)

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَـہٓٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ ( اٰل عمرٰن۳:۸۳)

کیا یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کادین چاہتے ہیں ؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی مطیعِ فرمان ہیں اور اسی کی طرف ان کو پلٹ کر جانا ہے۔

وَمَآ اُمِرُوْآ اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَـآئَ (البینہ ۹۸:۵)

اور ان کو اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ یکسو ہوکر دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے صرف اسی کی بندگی کریں۔

ان تمام آیات میں دین کا لفظ اقتدارِاعلیٰ اور اُس اقتدارکو تسلیم کرکے اُس کی اطاعت و بندگی قبول کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے لیے دین کو خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی حاکمیت‘ فرمانروائی‘ حکمرانی اللہ کے سوا کسی کی تسلیم نہ کرے‘ اور اپنی اطاعت و بندگی کو اللہ کے لیے اس طرح خالص کر دے کہ کسی دوسرے کی مستقل بالذّات بندگی و اطاعت اللہ کی اطاعت کے ساتھ شریک نہ کرے۔۲؎

دین بمعنی قانون و شریعت اور نظامِ فکروعمل

قُلْ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللّٰہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ              مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ- (یونس ۱۰:۱۰۴-۱۰۵)

کہو کہ اے لوگو! اگر تم کو میرے دین کے بارے میں کچھ شک ہے (یعنی اگر تم کو صاف معلوم ہوتا ہے کہ میرا دین کیا ہے) تو لو سنو! میں ان کی بندگی و عبادت نہیں کرتا جن کی بندگی و اطاعت تم اللہ کو چھوڑ کر کر رہے ہو‘ بلکہ میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو تمھاری روحیں قبض کرتا ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوجائوں جو اسی کے ماننے والے ہیں‘ اور یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ تو یکسو ہوکر اسی دین پر اپنے آپ کو قائم کر دے اور شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہو۔

اِنِ الْحُکْمُ  اِلاَّ  لِلّٰہِط اَمَرَ  اَلاَّ  تَعْبُدُوْٓا  اِلَّا ٓ اِیَّاہُط  ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ-(یوسف۱۲:۴۰)

حکمرانی اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا فرمان ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو‘ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔

وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط کُلٌّ لَّہٗ قَانِتُوْنَ … ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَـلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْط ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَـآئَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآئٌ تَخَافُوْنَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْط … بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَھْوَآئَ ھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ … فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (الروم ۳۰:۲۶-۳۰)

زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اسی کے مطیعِ فرمان ہیں… وہ تمھیں سمجھانے کے لیے خود تمھارے اپنے معاملہ سے ایک مثال پیش کرتا ہے۔ بتائو یہ غلام تمھارے مملوک ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی ان چیزوں میں جو ہم نے تمھیں دی ہیں تمھارا شریک ہے؟ کیا تم انھیں اس مال کی ملکیت میں اپنے برابر حصہ دار بناتے ہو۔ کیا تم ان سے اپنے ہم چشموں کی طرح ڈرتے ہو؟… سچی بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ علم کے بغیر محض اپنے تخیلات کے پیچھے چلے جارہے ہیں… پس تم یکسو ہوکر اپنے آپ کو اس دین پر قائم کر دو۔ اللہ نے جس فطرت پر انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی کو اختیار کرو۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلا نہ جائے۔۳؎ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔ مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔

اَلزَّانِیْۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ (النور ۲۴:۲)

زانی اور زانیہ دونوں کو سو سو کوڑے مارو اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو ان پر رحم نہ آئے۔

اِنَّ  عِـدَّۃَ  الشُّھُوْرِ  عِنْدَ  اللّٰہِ  اثْـنَا  عَـــشَرَ  شَـــھْرًا  فِــیْ  کِــتَابِ اللّٰہِ یَـوْمَ  خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط  ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ-(التوبہ ۹:۳۶)

اللہ کے نوشتے میں تو اس وقت سے مہینوں کی تعداد ۱۲ ہی چلی آتی ہے۔ جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے ۴ مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔

کَذَالِکَ کِــدْنَا لِــیُوْسُفَ مَــا کَـانَ لِیَأْخُذَ  اَخَــاہُ  فِـیْ دِیْنِ الْــمَلِکِ (یوسف ۱۲:۷۶)

اس طرح ہم نے یوسف ؑ کے لیے تدبیر نکالی۔ اس کے لیے جائز نہ تھا کہ اس بادشاہ کے دین میں اپنے بھائی کو پکڑتا۔

وَکَذٰالِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِھِمْ شُرَکَـآؤُھُمْ لِیُرْدُوْھُمْ وَلِیَلْبِسُوْا عَلَیْھِمْ دِیْنَھُمْ ط  (انعام ۶:۱۳۷)

اور اس طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں۴؎ نے اپنی اولاد کے قتل کو ایک خوش آیند فعل بنا دیا تاکہ انھیں ہلاکت میں ڈالیں اور ان کے لیے ان کے دین کو مشتبہ بنائیں۔۵؎

اَمْ لَـھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَـھُمْ مِّـنَ الـدِّیْنِ مَالَمْ یَـاْذَنْم بِـہِ اللّٰہُ ط (الشوریٰ ۴۲:۲۱)

کیا انھوں نے کچھ شریک ٹھہرا رکھے ہیں جو ان کے لیے دین کی قسم سے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کا اللہ نے اذن نہیں دیا ہے؟

لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ  (الکافرون۱۰۹: ۶ )

تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین۔

ان سب آیات میں دین سے مراد قانون‘ ضابطہ‘ شریعت‘ طریقہ اور وہ نظامِ فکروعمل ہے جس کی پابندی میں انسان زندگی بسر کرتا ہے۔ اگر وہ اقتدار جس کی سند پر کسی ضابطہ و نظام کی پابندی کی جاتی ہے۔ خدا کا اقتدار ہے تو آدمی دین خدا میں ہے ۔ اگر وہ کسی بادشاہ کا اقتدار ہے تو آدمی دین بادشاہ میں ہے۔ اگر وہ پنڈتوں اور پروہتوں کا اقتدار ہے تو آدمی انھی کے دین میں ہے۔ اور اگر وہ خاندان‘ برادری‘ یا جمہورِ قوم کا اقتدار ہے تو آدمی ان کے دین میں ہے۔ غرض جس کی سند کو آخری سند اور جس کے فیصلے کو منتہاے کلام مان کر آدمی کسی طریقے پر چلتا ہے اسی کے دین کا وہ پیرو ہے۔

دین بمعنی محاسبہ اور جزا و سزا

اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ o وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ o (الذاریات ۵۱:۶)

وہ خبر جس سے تمھیں آگاہ کیا جاتا ہے (یعنی زندگی بعد موت) یقینا سچی ہے اور دین یقینا ہونے والا ہے۔

اَرَ ئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنٍ o  (الماعون ۱۰۷ : ۱-۳)

تم نے دیکھا اس شخص کو جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اُکساتا۔

وَمَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ o ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا یَـوْمُ الدِّیْنِ o یَـوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًاط وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ - (انفطار ۸۲: ۱۷-۱۹)

تمھیں کیا خبر کہ یوم الدین کیا ہے۔ ہاں تم کیا جانو کیا ہے یوم الدین۔ وہ دن ہے کہ جب کسی متنفس کے اختیار میں کچھ نہ ہوگا کہ دوسرے کے کام آسکے‘ اس روز سب اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔

ان آیات میں دین بمعنی محاسبہ و فیصلہ و جزائے اعمال استعمال ہوا ہے۔

دین ایک جامع اصطلاح

یہاں تک تو قرآن اس لفظ کو قریب قریب انھی مفہومات میں استعمال کرتا ہے جن میں یہ اہلِ عرب کی بول چال میں مستعمل تھا لیکن اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لفظ دین کو ایک جامع اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرتا اور اس سے ایک ایسا نظامِ زندگی مراد لیتا ہے جس میں انسان کسی کا اقتدارِ اعلیٰ تسلیم کر کے اس کی اطاعت و فرمانبرداری قبول کرلے‘ اس کے حدود و ضوابط اور قوانین کے تحت زندگی بسر کرے‘ اس کی فرمانبرداری پر عزت‘ ترقی اور انعام کا امیدوار ہو اور اس کی نافرمانی پر ذلّت و خواری اور سزا سے ڈرے۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں کوئی اصطلاح ایسی جامع نہیں ہے جو اس پورے نظام پر حاوی ہو۔ موجودہ زمانے کا لفظ ’’اسٹیٹ‘‘ کسی حد تک اس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ لیکن ابھی اس کو ’’دین‘‘ کے پورے معنوی حدود پر حاوی ہونے کے لیے مزید وسعت درکار ہے۔

حسبِ ذیل آیات میں ’’دین‘‘ اِسی اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صَاغِرُوْنَ - (توبہ۹:۲۹)

اہلِ کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ کو مانتے ہیں (یعنی اس کو واحد مقتدراعلیٰ تسلیم نہیں کرتے) نہ یومِ آخرت (یعنی یوم الحساب اور یوم الجزائ) کو مانتے ہیں نہ ان چیزوں کو حرام مانتے ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے‘ اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہیں۔

اس آیت میں ’’دین حق‘‘ اصطلاحی لفظ ہے جس کے مفہوم کی تشریح واضح اصطلاح جل شانہ نے پہلے تین فقروں میں خود کو دی ہے۔ ہم نے ترجمہ میں نمبر لگا کر واضح کر دیا ہے کہ لفظ دین کے چاروں مفہوم ان فقروں میں بیان کیے گئے ہیں اور پھر ان کے مجموعے کو ’’دین حق‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَن یُّـبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ (المومن۴۰: ۲۶)

فرعون نے کہا چھوڑو مجھے ‘ میں اس موسٰی ؑ کو قتل ہی کیے دیتا ہوں اور اب پکارے وہ اپنے رب کو۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ تمھارا دین نہ بدل دے‘ یا ملک میں فساد نہ کھڑا کر دے۔

قرآن میں قصۂ فرعون و موسیٰ کی جتنی تفصیلات آئی ہیں ان کو نظر میں رکھنے کے بعد اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ یہاں دین مجرد ’’مذہب‘‘ کے معنی میں نہیں آیا ہے بلکہ ریاست اور نظامِ تمدن کے معنی میں آیا ہے۔ فرعون کا کہنا یہ تھا کہ اگر موسیٰ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے تو اسٹیٹ بدل جائے گا۔ جو نظامِ زندگی اس وقت فراعنہ کی حاکمیت اور رائج الوقت قوانین و رسوم کی بنیادوں پر چل رہا ہے وہ جڑ سے اکھڑ جائے گا اور اس کی جگہ یا تو دوسرا نظام بالکل دوسری ہی بنیادوں پر قائم ہوگا‘ یا نہیں تو سرے سے کوئی نظام قائم ہی نہ ہوسکے گا بلکہ تمام ملک میں بدنظمی پھیل جائے گی۔

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)

اللہ کے نزدیک دین تو دراصل ’’اسلام‘‘ ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ - (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)

اور جو ’’اسلام‘‘ کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ - (التوبہ ۹:۳۳)

وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولوں کو صحیح رہنمائی اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اگرچہ شرک کرنے والوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ - (انفال ۸:۳۹)

اور تم ان سے لڑے جائو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین بالکلیہ اللہ ہی کا ہوجائے۔

اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ o وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا o فَسَبِّحْ بِحَـمْدِ رَبِّکَ وَاسْـتَغْفِرْہُط اِنَّـہٗ کَانَ تَـوَّابـًا o (النصر ۱۱۰:۱-۳)

جب اللہ کی مدد آگئی اور فتح نصیب ہوچکی اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اب اپنے رب کی حمد وثنا اور اس سے درگزر کی درخواست کرو‘ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔

ان سب آیات میں دین سے پورا نظامِ زندگی اپنے تمام اعتقادی‘ نظری‘ اخلاقی اور عملی پہلوئوں سمیت مراد ہے۔

پہلی دو آیتوں میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صحیح نظامِ زندگی صرف وہ ہے جو خود اللہ ہی کی اطاعت و بندگی (اسلام) پر مبنی ہو۔ اس کے سوا کوئی دوسرا نظام‘ جس کی بنیاد کسی دوسرے مفروضہ اقتدار کی اطاعت پر ہو‘ مالکِ کائنات کے ہاںہرگز مقبول نہیں ہے‘ اور فطرۃً نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ انسان جس کا مخلوق‘ مملوک اور پروردہ ہے‘ اور جس کے ملک میں رعیت کی حیثیت سے رہتا ہے‘ وہ تو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ انسان خود اس کے سواکسی دوسرے اقتدار کی بندگی و اطاعت میں زندگی گزارنے اور کسی دوسرے کی ہدایات پر چلنے کا حق رکھتا ہے۔

تیسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اسی صحیح و برحق نظامِ زندگی‘ یعنی اسلام کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کے مشن کی غایت یہ ہے کہ اس نظام کو تمام دوسرے نظاموں پر غالب کر کے رہے۔

چوتھی آیت میں دین اسلام کے پیروئوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دنیا سے لڑو اور اس وقت تک دم نہ لو جب تک فتنہ‘ یعنی اُن نظامات کا وجود دنیا سے مٹ نہ جائے جن کی بنیاد خدا سے بغاوت پر قائم ہے اور پورا نظامِ اطاعت و بندگی اللہ کے لیے خالص نہ ہوجائے۔

پانچویں آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر خطاب کیا گیا ہے جب کہ ۲۳سال کی مسلسل جدوجہد سے عرب میں انقلاب کی تکمیل ہوچکی تھی‘ اسلام اپنی پوری تفصیلی صورت میں ایک اعتقادی و فکری‘ اخلاقی وتعلیمی‘ تمدنی و معاشرتی اور معاشی و سیاسی نظام کی حیثیت سے عملاً قائم ہوگیا تھا‘ اور عرب کے مختلف گوشوں سے وفد پر وفد آکر اس نظام کے دائرے میں داخل ہونے لگے تھے۔ اس طرح جب وہ کام تکمیل کو پہنچ گیا جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور کیا گیا تھا تو آپؐ سے ارشاد ہوتا ہے کہ اس کارنامے کو اپنا کارنامہ سمجھ کر کہیں فخر نہ کرنے لگنا‘ نقص سے پاک بے عیب ذات اور کامل ذات صرف تمھارے رب ہی کی ہے‘ لہٰذا اس کارِعظیم کی انجام دہی پر اس کی تسبیح اور حمدوثنا کرو اور اس ذات سے درخواست کرو کہ مالک! اس ۲۳ سال کے زمانۂ خدمت میں اپنے فرائض ادا کرنے میں جو خامیاں اور کوتاہیاں مجھ سے سرزد ہوگئی ہوں انھیں معاف فرما دے۔ (ص ۱۲۱-۱۳۶)


حواشی

۱؎  اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خوارج دین بمعنی ملت سے نکل جائیں گے کیونکہ حضرت علیؓ سے جب ان کے متعلق پوچھا گیا: اَکُفّارٌھُمْ کیا یہ لوگ کافر ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا: من الکفر فروا، کفر ہی سے   تو وہ بھاگے ہیں۔ پھر پوچھا گیا: افمنافقون ھم، کیا یہ منافق ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: منافق تو خدا کو کم یاد کرتے ہیں اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ شب و روز اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اسی پر یہ متعین ہوتا ہے کہ اس حدیث میں دین سے مراد اطاعتِ امام ہے۔ چنانچہ ابن اثیر نے نہایہ میں اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں: اراد بالدین الطاعۃ ، ای انھم یخرجون من طاعۃ الامام المفترض الطاعۃ وینسلخون منھا، جلد۲‘ ص ۴۱-۴۲)

۲؎  یعنی اللہ کے سوا جس کی اطاعت بھی ہو اللہ کی اطاعت کے تحت اور اُس کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہو۔ بیٹے کا باپ کی اطاعت کرنا‘ بیوی کا شوہر کی اطاعت کرنا‘ غلام یا نوکر کا آقا کی اطاعت کرنا اور اسی نوع کی دوسری تمام اطاعتیں اگر اللہ کے حکم کی بنا پر ہوں اور ان حدود کے اندر ہوں جو اللہ نے مقرر کردی ہیں تو یہ عین اطاعتِ الٰہی ہیں۔ اور اگر وہ اس سے آزاد ہوں‘ یا بالفاظِ دیگر بجاے خود مستقل اطاعتیں ہوں‘ تو یہی عین بغاوت ہیں۔ حکومت اگر اللہ کے قانون پر مبنی ہے اور اس کا حکم جاری کرتی ہے تو اس کی اطاعت فرض ہے اور اگر ایسی نہیں ہے تو اس کی اطاعت جُرم۔

۳؎  یعنی اللہ نے جس ساخت پر انسان کو پیدا کیا ہے وہ تو یہی ہے کہ انسان کی تخلیق میں‘ اس کی رزق رسانی میں‘ اس کی ربوبیت میں خود اللہ کے سوا کوئی دوسرا شریک نہیں ہے‘ نہ اللہ کے سوا کوئی اس کا خدا ہے‘ نہ مالک اور نہ مطاعِ حقیقی۔ پس خالص فطری طریقہ یہ ہے کہ آدمی بس اللہ کا بندہ ہو اور کسی کا بندہ نہ ہو۔

۴؎  شریک س مراد ہے خداوندی وفرماں روائی میں اور قانون بنانے میں خدا کا شریک ہونا۔

۵؎  دین کو مشتبہ بنانے سے مطلب یہ ہے کہ جھوٹے شریعت ساز اس گناہ کو ایسا خوش نما بنا کر پیش کرتے ہیں جس سے عرب کے لوگ اس شبہہ میں پڑ گئے ہیں کہ شاید یہ فعل بھی اس دین کا ایک جز ہے جو ان کو ابتداًء حضرت ابراہیم و اسماعیل سے ملا تھا۔

تم کو اللہ کا مہمان بننا مبارک ہو‘  اللہ تمھارے حج کو قبولیت بخشے اور تم کو تمھارے گناہوں سے اس طرح پاک کردے جیسے ابھی ابھی تم نے اپنی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔

اے اللّٰہ کے مھمانو!

احرام باندھتے ہوئے‘ طوافِ کعبہ کرتے ہوئے‘ زم زم پیتے ہوئے‘ صفا مروہ کی سعی کرتے ہوئے‘ منیٰ میں قیام کرتے ہوئے‘ عرفات میں وقوف کرتے ہوئے‘ مزدلفہ میں رات گزارتے ہوئے‘ شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے‘ قربانی کرتے ہوئے‘ حلق کراتے ہوئے ‘ غرض ہر قدم پر اور ہر موقع پر اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے رہو‘ اپنا احتساب کرتے رہو اس دن سے پہلے جب سب سے بڑا حساب ہوگا۔ اور یاد رکھو خدا کی قسم وہ حساب ضرور ہوگا!

ذرا سوچو!

ہمارے باپ ابراہیم ؑ نے یہ امور کیوں انجام دیے تھے۔ ایسا کون سا جذبہ کارفرما تھا‘  ان اعمال کی کیا روح تھی ‘  اللہ کو یہ کام کیوں اتنے پسند آئے کہ اس نے انھیں رہتی دنیا تک امر کردیا۔ بس کوشش یہ کرنا کہ ہمارا کوئی بھی عمل روح سے خالی نہ ہو ۔ یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ کوئی بھی جان دار بغیر روح کے جان دار کہلانے کا مستحق نہیں رہتا۔ تمھارے اپنے پیاروںکے‘ اپنے چاہنے والو ںکے جسم جب روح سے خالی ہو جاتے ہیںتو تم ہی کو بہت جلدی ہوتی ہے کہ ان کو ان کے اصلی گھر پہنچا دیں۔

کیوں؟… کیا کبھی سوچا تم نے؟…

اگر تمھارا جواب نہیں میں ہے تو میں تمھیں حقیقت بتاتا ہوں:

یہ تم اس لیے کرتے ھـو کہ!

ان کا جسم اب تمھارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا‘

اس سے بات کرنا چاہتے ہو تو وہ بات نہیں کرتا‘

اس کو کچھ سنانا چاہتے ہو لیکن وہ تمھاری کچھ بھی سننے سے قاصر ہوتا ہے‘

تم اس کی پیاری سے پیاری چیز اس کو دکھانا چاہتے ہولیکن وہ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا‘

اگر زیادہ دیر اسے گھر میںرہنے دو  تو اس کا وہ جسم جس کاہونا کل تک تمھارے گھر کی مہک تھا‘ تعفن بن جائے گا۔

غرض ثابت ہوا کہ اصل چیز اس کی روح تھی ۔ جو اس کے وجود کو باقی رکھے ہوئی تھی۔ جب وہ اس کے جسم سے پرواز کر گئی تو گویا اس کا جسم محض ایک کھلونے سے بھی گیا گزرا ہوگیا کیونکہ کھلونابھی کم از کم بچوں کے کھیلنے کے کام تو آتا ہی ہے۔

یاد رکہو!

تمھارا یہ حج اپنی روح سے خالی نہ رہنے پائے‘  اگر یہ اپنی روح سے خالی ہوا تویقین جاننا اس بناوٹی حج کی بھی وہی وقعت ہوگی جو ایک مردہ جسم کی ہوتی ہے ۔ جو اپنے اندر نقصان تو رکھتا ہے لیکن فائدہ کوئی نہیں رکھتا۔

اے سنتِ ابراہیمی ؑ کے پیروکارو!

  • جب احرام باندھو تو اپنے آخری لباس کفن کو مت بھولنا کہ آخر کار یہی تمھارا لباس ہوگا۔ جب طوافِ کعبہ کروتو اس میں مرکزیت کا جو درس پنہاں ہے اس پر ضرور غور و فکر کرنا۔
  • جب زم زم پیو تو اسماعیل کی تڑپ اور حاجرہ کے اللہ پر توکل کو نظروں میں رکھ کر اپنی آیندہ کی زندگی کی منصوبہ بندی کرنا۔
  • جب سعی کرو تو حاجرہ کی بے چینی اور اسباب کے لیے جدوجہد کو بھی خیال میں رکھنا کہ یہی کامیابی کی سیڑھی ہے۔
  • جب سر منڈواؤ تو غلامی سے آزادی کو یاد کرلینا کہ آج کے خداؤں سے جن کی ہم پیروی کرتے ہیں آزادی حاصل کرنی ہے۔
  • جب منیٰ میں قیام ہوتو اللہ کی عظمت کو یاد کرلینا کہ کل تک جو جگہ ایک بیابان کے سوا کچھ نہ تھی‘ آج ایک عظیم الشان بستی کا نظارہ پیش کررہی ہے اور کل پھر ایک ویرانہ ہوگی۔
  • عرفات کے میدان میں یومِ حشر آنکھوں کے سامنے رکھنا کہ اُس روز اسی طرح ایک ساتھ سب اکھٹے ایک ہی لباس میں اُٹھائے جاؤ گے ۔
  • مزدلفہ کی وادی میں قیام کے دوران اللہ کے عذاب سے پناہ مانگنا کہ جو اس کی خدائی میں شرکت چاہتے ہیں ‘اُس کا تکبّر مٹانے کے لیے بالشت بھر پرندے ہی کافی ہوجاتے ہیں۔
  • شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے اپنے نفس کے شیطان کو مارنا مت بھولناکہ اگر تم نے اسے زندہ چھوڑ دیا تو وہ تم کو جہنم کی سیر ضرور کروائے گا۔
  • قربانی کرتے ہوئے رضاے الٰہی کی خاطر اپنے آپ کو ہر قربانی کے لیے تیار رکھنا‘  چاہے یہ قربانی تمھارے مال کی ہو‘ وقت کی ہو‘ صلاحیتوں کی ہو‘ امنگوں کی ہو‘ خواہشوں کی ہو یا جان کی۔
  • احرام اُتارتے ہوئے یاد رکھنا کہ اب واپس دنیا میں جانا ہے اور دنیا میں رہ کر آخرت کو ترجیح دینی ہے۔

اگر تم نے حج کی اصل روح کو پالیااور اللہ کرے تم ضرور اس روح کو پاؤ ‘ تو یاد رکھنا تمھاری زندگی میں ایک انقلاب آنا چاہیے۔ جو گناہ پہلے کرتے تھے اب ان سے کنارہ کش ہوجانا اور اچھے کام کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا۔

ذرا غور کرو !

ہر آنے والا دن تمھاری زندگی کی کتاب کا ورق اُلٹ رہا ہے ‘ اورتم خود ایک کتاب تصنیف کررہے ہو ۔ اس کتاب میں تم ہر وہ چیز لکھ رہے ہو جو سوچتے ہو‘ جو بولتے ہو‘ جو دیکھتے ہو‘ جو سنتے ہو‘  جوکرتے ہو اور جو کراتے ہو۔ اس کتاب میں کسی کو بھی ذرا سا بھی اختیار نہیں کہ کچھ گھٹا سکے یا بڑھا سکے۔ ایک دن اس کتاب کاآخری ورق اُلٹ جائے گا‘ اور یہ کتاب تمھارے ہاتھوں میں ہوگی۔ اگر اپنی زندگی میں تم وہ انقلاب لے آئے جو معبودِ حقیقی کو مطلوب ہے تو یہ کتاب تمھارے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی اور دائیں ہاتھ میں اس کتاب کا ملنا کامیابی کی علامت ہے:

اُس وقت جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ’’لو دیکھو‘ پڑھو میرا نامۂ اعمال ‘ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے‘‘۔ پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا‘ عالی مقام جنت میں‘ جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے۔ (ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھائو اور پیو اپنے اُن اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں۔ (الحاقہ ۶۹:۱۹-۲۴)

اگر خدانخواستہ اُس روز یہ کتاب بائیں ہاتھ میں ملی تو یہ اللہ کے دربار سے دُھتکارے جانے کی علامت ہوگا۔ اور جسے یہ کتاب بائیں ہاتھ میں دی جائے گی اُس کے لیے قرآن کا آئینہ دیکھ لو:

اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: کاش! میرا     نامۂ اعمال مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش! میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کُن ہوتی۔ آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہوگیا‘‘۔ (حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو‘ پھر اسے جہنم میں جھونک دو‘ پھر اس کو سترہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یارِ غم خوار ہے اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا‘ جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔ (الحاقہ ۶۹: ۲۵-۳۷)

اب فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے !

یہ کتاب کس ہاتھ میں لینی ہے--- دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں؟

 

جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۰ء میں اعلان کیا تھا کہ قانون توہینِ رسالتؐ کا غلط استعمال ہو رہا ہے‘ اس لیے اس کے ضابطہ ٔ کار (procedural law) کو تبدیل کرنا ہوگا۔ راقم نے ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کی جانب سے اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ موجودہ طریقۂ کار میں تبدیلی‘ اس قانون کو غیر مؤثر بنانے کی ناروا کوشش ہے جو قومی اشتعال کا باعث ہوگی اور اس کے پس پردہ امریکا اور یورپ کی متعصب ذہنیت کارفرما ہے۔

پاکستان کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے اس ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ اس دوران‘ جنرل موصوف بیرون ملک دورے پر تھے‘ وہاں انھیں اس بگڑتی ہوئی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ اس لیے انھوں نے واپسی پر ایئرپورٹ ہی سے قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حکومت کے چند اہل کاروں کی طرف سے صرف ایک تجویز تھی جو نادانستہ طور پر پیش ہوگئی۔ قوم اگر اسے ناپسند کرتی ہے تو ہم قانون توہینِ رسالتؐ کے طریق کار میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کیسے کرسکتے ہیں؟ اس لیے یہ تجویز فوری طور پر واپس لے لی گئی۔

امریکا اور یورپ یہ جانتے تھے کہ جنرل مشرف نے یہ بات مصلحتاً کہہ دی ہے لیکن اس بات کو بھی وہ برداشت نہ کر سکے۔ امریکا کی نیوکون (نئی قدامت پسند عیسائی) گورنمنٹ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ڈیموکریسی اور ہیومن رائٹس بیورو کے حوالے سے ۲۰۰۳ء کی انٹرنیشنل رپورٹ تیار کی ہے‘ (جو ۲۰۰۴ء میں منظرعام پر آئی)۔ اس میں قانون توہینِ رسالتؐ کا سختی سے محاسبہ کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے مذہبی آزادی اور حقوق انسانی سلب ہو رہے ہیں۔ اقلیتوں‘ خاص طور پر قادیانی/احمدی گروہ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کی زندگی اور جان و مال محفوظ نہیں۔ اگرچہ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس قانون کے سال ۱۹۹۱ء میں نافذ ہونے کے بعد سے اب تک ہائی کورٹ‘ فیڈرل شریعت کورٹ یا سپریم کورٹ سے کسی شخص کو بھی سزاے موت نہیں دی گئی اور نہ کوئی سزایاب ہی ہوا ہے۔ ۱۵ کروڑ آبادی کے اس ملک میں ۶۷ مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان کی نظر میں یہ بھی تشویش ناک صورت حال ہے۔

جوں ہی یہ رپورٹ جنرل مشرف کے نوٹس میں آئی یا لائی گئی‘ ان کو ہمہ مقتدر صدر امریکا جارج ڈبلیو بش کی دست راست کنڈو لیزا رایس کی وہ وارننگ یاد آگئی کہ اگر پاکستان نے امریکی حکومت کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیاتو گاجر کی مدارات ختم کر کے چھڑی کے زور سے اسے راہ راست پر لایا جائے گا۔ چونکہ ہمارے صدر بڑے ہی امن پسند اور صلح جو جنرل ہیں‘ اس لیے انھوں نے نہایت پھرتی سے یوٹرن لیا اور الٹی زقند لگائی۔ ایسی زقند وہ کنڈولیزا کے پیش رو کولن پاول کی ایک کال پر‘ بش کی خوش نودی کے لیے مسلم ملک افغانستان کے خلاف ان کے اعلانِ صلیبی جنگ (کروسیڈ) پر بھی لگا چکے ہیں۔ اس مرتبہ یوٹرن لیتے ہوئے جنرل موصوف نے ضابطہ ٔ کار سے بھی آگے بڑھ کے خود قانون توہینِ رسالتؐ پر نظرثانی کا اعلان داغ دیا (مئی ۲۰۰۴ئ) ۔ اس اعلان میں حدود قوانین کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ یہ قوانین بھی انسانی ذہن کی تخلیق ہیں‘ یعنی سرقہ‘ ڈکیتی/حرابہ‘ بدکاری‘ قذف کے جرائم کی قرآن و سنت میں مقررہ سزائیں ماڈرن اجتہاد کی روشنی میں معاذ اللہ وضعی یا انسان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ اس پر مسلمان عوام‘ ان کے قائدین اور دینی رہنما تڑپ اٹھے اور حکومت کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔ دوسری طرف سے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج بھی میدان میں اتر گئی۔ سیکولر دستے پہلے ہی سے ان کی مدد کے لیے موجود تھے‘ مگر مصلحتِ وقت کے پیشِ نظر طے پایا کہ تمام اسلامی قوانین پر نظرثانی کی جائے جس کی رو سے کاروکاری یا قتلِ غیرت (honour killing) کو ’’قتلِ عمد‘‘ میں شامل کیا گیا۔ یہ ترمیم پرائیویٹ بل کے  طور پر پیش کی گئی تھی۔ اس میں قانون توہینِ رسالتؐ میں کسی قسم کی کوئی ترمیم شامل نہ تھی۔

یہاں اس بات کا ذکر نامناسب نہ ہوگا کہ پاکستان میں ٹی وی چینل نے ۱۳ مئی ۲۰۰۴ء کو توہینِ رسالتؐ کے سلسلے میں ایک اہم مذاکرے کا اہتمام کیا تھا جس میں راقم‘ وزیرمذہبی امور جناب اعجاز الحق اور مشمولہ سرکار پی پی پی کی رکن قومی اسمبلی مسز فوزیہ وہاب کے علاوہ محبوب صدا ڈائرکٹر کرسچین اسٹڈیز کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس میں یہ امور زیربحث تھے کہ کیا حکومت‘ امریکا کے دبائو میں توہینِ رسالتؐ کا قانون ختم کرنا چاہتی ہے؟ کیا طریقۂ کار میں تبدیلی سے قانون کا غلط استعمال رک جائے گا؟ کیا سزاے موت ختم کرنے سے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی؟

امریکی دبائو کے بارے میں ہمارا موقف بالکل واضح تھا کہ یہ امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کی تائید میں امریکن ہیومن رائٹس بیورو کی رپورٹ کا دستاویزی ثبوت پیش کیا گیا لیکن وزیرمذہبی امور اور مسز فوزیہ وہاب نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکا کے زیراثر ایسا کوئی کام نہیں کرتا۔ جناب محبوب صدا اور مسز فوزیہ وہاب کی رائے تھی کہ اس قانون کو ختم کر دینا چاہیے اور یہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ ایک بااختیار ادارہ ہے اور اسے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے ایک متبادل تجویز یہ پیش کی کہ توہینِ رسالتؐ کی کم از کم سزا سات سال ہونا چاہیے۔ جب موصوفہ سے پوچھا گیا کہ تنسیخ یا ترمیم کے مطالبے کا کیا جواز ہے جس پر انھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایسے معاملات میں عفو اور درگزر کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایذا دینے والوں کو معاف کر دیا تھا۔ مزید دریافت پر کہ کیا آپ قرآن سے یا ریاست مدینہ میں قیام کے بعد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایسا عمل بتلا سکتی ہیں کہ جب آپؐ نے توہین رسالتؐ کے ملزموں کو معاف فرما دیا ہو؟ اس پر موصوفہ نے تسلیم کیا کہ اس سلسلے میں ان کا مطالعہ اتنا وسیع نہیں ہے کہ فی الوقت اس کا جواب دے سکیں۔

کرسچین کمیونٹی کے نمایندے جناب محبوب صدا کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ خود بائیبل میں پیغمبروں کی توہین کی سزا‘ سزاے موت ہے۔ کہنے لگے: بائیبل کا قانون کہیں لاگو نہیں۔ جب بتلایا گیا کہ برطانیہ‘ یورپ اور امریکا میں جو اپنے آپ کو سیکولر ہونے کے دعوے دار ہیں‘ وہاں بھی سزاے موت موقوف ہونے کے بعد توہینِ مسیحؑ کی سزا عمرقید کردی گئی ہے تو کہا گیا کہ ہمارا یورپ‘ برطانیہ اور امریکا سے کوئی تعلق نہیں‘ ہم تو یہاں کی بات کرتے ہیں۔ اگر برطانیہ اور امریکا میں کوئی فیصلے ہوئے ہیں تو ہمیں اس کا کوئی علم نہیں۔ لیکن انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان میں ابھی تک کسی ایک شخص کو بھی توہینِ رسالتؐ پر سزا نہیں دی گئی۔

وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق نے برملا اعتراف کیا کہ توہینِ رسالتؐ کی سزا‘  سزاے موت ہے۔ پارلیمنٹ کو توہینِ رسالتؐ کی سزا میں ترمیم یا تنسیخ کا کوئی اختیار نہیں اور نہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ ہے‘ لیکن چونکہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ اصل قانون میں کسی تبدیلی کے بغیر طریقۂ کار (procedural law) میں تبدیلی کی جائے۔ کیسی تبدیلی؟ کے جواب میں بتلایا کہ اگر کسی نے توہینِ رسالتؐ کا مقدمہ درج کرایا اور تفتیش یا انکوائری میں مقدمہ غلط ثابت ہو یا عدالت سے ملزم بری ہو جائے تو مقدمہ درج  کرانے والے کو سزاے موت دی جائے گی۔

ایک مسلمان کی نفسیات تو یہ ہے کہ وہ توہینِ رسالتؐ کو بالکل برداشت نہیں کر سکتا اور اس کے مرتکب کو موقع پر ہی جان سے مار دینا چاہتا ہے۔ وہ توہینِ رسالتؐ کے ملزم کو عدالت میں صفائی کا حق بھی نہیں دینا چاہتا جیسا کہ ہمارے مقدمہ توہینِ رسالتؐ میں وفاقی حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی نے فیڈرل کورٹ کے سامنے اپنا ذاتی اور حکومت پاکستان کا موقف بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھی یہی موقف تھا کہ ملزم گستاخِ رسولؐ کو موقع پر ہی اس کی نیت‘ ارادے اور قصد جانے بغیر ہی جان سے مار دینا چاہیے‘ جب کہ ہمارا واضح موقف شروع ہی سے فیڈرل شریعت کورٹ‘ ہائی کورٹ‘ سپریم کورٹ اور پریس کانفرنس میں یہی چلا آ رہا ہے کہ توہینِ رسالتؐ کے قانون کا مقصد ہی یہ ہے کہ ملزم کو پوری طرح اپنی صفائی پیش کرنے کا حق قرآن‘ قانون اور عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ نیت اور ارادے کے بغیر توہینِ رسالتؐ یا حدود میں سزا نہیں دی جاسکتی۔

اب رہ گیا یہ اہم سوال کہ کیا توہینِ رسالتؐ کے طریقۂ کار میں ترمیم سے اس قانون کا غلط استعمال رک جائے گا؟ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ کاروکاری/ قتلِ غیرت کے پرائیویٹ بل میں توہینِ رسالتؐ کے قانون میں یا اس کے طریقۂ کار میں ترمیم کا کہیں ذکر موجود نہیں۔ لیکن سرکار کے وزیر انچارج نے کاروکاری اور قتلِ غیرت (honour killing) جیسے گھنائونے جرائم کو نمایاں کرکے توہینِ رسالتؐ کے طریقۂ کار میں ترمیم کو کمال ہوشیاری سے قصاص اور دیت کے بل میں خلط ملط کر دیا اور ترمیم کی غرض و غایت کے بیان میں بھی اسے نظرانداز کردیا گیا۔ قصاص ودیت کے ترمیمی بل پر سرکار دربار کے حاشیہ نشینوں کے سوا ملک کی اپوزیشن‘ ایم ایم اے‘ اے آرڈی اور پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی سخت احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کرگئے۔ ملک کے تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے ان غیراسلامی ترمیمات کو یکسر مسترد کر دیا۔

این جی اوز تک نے بھی غیرپارلیمانی اور دھونس کا طریقہ اختیار (بل ڈوز) کرنے پر اس اہم قومی بل کو متنازع قرار دیا۔ اس لیے یہ بل اور خاص طور پر توہینِ رسالتؐ کے طریقۂ کار کا ترمیمی بل قانون بن جانے کے بعد بھی قلب و ذہن کے لیے ناقابلِ قبول رہے گا۔

پہلے ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۱۵۶ کی رو سے پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر کو قابلِ دست اندازی پولیس جرائم‘ قتل‘ توہینِ رسالتؐ اور دیگر سنگین جرائم میں اطلاع دینے یا رپورٹ کرنے پر مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش کا اختیار حاصل تھاجس سے مدعی کو یک گونہ اطمینان ہوجاتا کہ ملزم کے خلاف قانون حرکت میں آگیا ہے۔ اس طریقۂ کار میں ملزم پولیس کی تحویل میں آجانے سے قاتلانہ حملے یا وارداتِ قتل سے بھی محفوظ ہو جاتا تھا۔ علاقے یا ملک سے اس کے فرار ہونے کے راستے بند ہوجاتے کیوں کہ جرائم کے انسداد اور لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کے لیے پولیس کے تھانے اور چوکیاں شہر کے اندر  قریب قریب اور دیہاتوں اور قریہ قریہ میں ہمہ وقت موجود ہیں‘ یا ان کے افسر گشت کرتے ہوئے فریادیوں کو مل جاتے ہیں۔

دفعہ ۸-۱۵۶ ضابطہ ء فوجداری میں اضافی ترمیم کے ذریعے توہینِ رسالتؐ کے جرم سی-۲۹۵تعزیرات کی تفتیش کا اختیار صرف پولیس کے اعلیٰ افسر ایس پی کو دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایس پی کو اپنے ہیڈ کوارٹر آفس سے ملک بھر کے شہروں اور دیہاتوں کے تھانوں کے اندر لاکر تو بٹھایا نہیں جا سکتا۔ ایس پی صاحبان تو صدرمملکت‘ گورنر‘ قطار اندر قطار وزیروں‘ مشیروں اورافسرانِ سرکار کے جان و مال کے تحفظ کے لیے شب و روز مصروفِ کار ہوتے ہیںکیوں کہ

انھی کے دم قدم سے اس ملک کی بقا اور استحکام وابستہ ہے۔ مزیدبرآں اپوزیشن کے جلسے جلوسوں کی روک تھام بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ایسے ہمہ مصروف اعلیٰ پولیس افسروں کو توہینِ رسالتؐ کے ملزموں کے خلاف رپورٹ کی تفتیش اور انکوائری کی مہلت کہاں؟ ان حالات میں توہینِ رسالتؐ کا مدعی‘ جس کے دل میں رسول اکرمؐ کی عزت اور حرمت اس کی جان ومال‘ ماں باپ اور اولاد سے بڑھ کر ہوتی ہے‘ ایس پی صاحبان کی تلاش کے سلسلے میں ان کے دفتروں کے چکر لگانے کے لیے صبرایوب کہاں سے لائے گا۔

تاریخ کے واقعات کا تسلسل ہمیں بتلاتا ہے کہ توہینِ رسالتؐ کا قانون موجود نہ ہو تو پھر جس کسی مسلمان کے سامنے اس گھنائونے جرم کا ارتکاب ہوگا‘ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر مجرم کو موقع واردات پر ہی سزا دے گا۔ توہینِ رسالتؐ کا قانون ہونے کے باوجود ایسے سرفروش لوگوں کی بھی کمی نہیں جو توہینِ رسالتؐ کے ملزموں کے مقدمات میں تاخیر بھی برداشت نہیں کرتے۔ چنانچہ لاہور کی جیل کے اندر ہمارے ہی مقدمہ توہینِ رسالتؐ کے ملزم یوسف کذاب کے متعلق ایک قیدی کو معلوم ہوا کہ گستاخ رسولؐ قیدی کو ضمانت پر رہا ہونے کے بعد یورپ کی ایجنسیاں پاکستان سے باہر اپنے ملک میں لے جانے کے لیے منتظر ہیں تو اس قیدی نے اسے جیل کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اقرارِ جرم بھی کرلیا۔ اس گستاخِ رسولؐ کو مسلمانوں نے اپنے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہیں دی۔

چند ماہ قبل لبنان کی ایک گلوکارہ نے حضوؐر اکرم کے خلاف توہین آمیز گانے گائے تو اس کے شوہر نے اس کا گلا کاٹ دیا۔ نیوزویک کے ماہ نومبر۲۰۰۴ء کی ایک رپورٹ کے مطابق جب ہالینڈ کے ایک بدقماش فلم ساز تھیووان گوخھ نے قرآنِ ناطق صلی اللہ علیہ وسلم کی آیات وحی کی ایک نیم برہنہ اداکارہ کے ذریعے تضحیک اور بے حرمتی کرائی تو ایک مراکشی نوجوان نے اس کا کام تمام کر دیا۔

ملکی اور عالمی حالات کے تناظر میں قانون توہینِ رسالتؐ کے ضابطہ ٔ کار میں ترمیم کے ذریعے اسے غیرمؤثر بنانے کی کوشش ملک اور قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔ اس سے مسلمانوں کے برانگیختہ جذبات کا طوفانی بند (flood gate)کھل جائے گا جسے بند کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ اس لیے ایسی مجوزہ ترمیم کو روبہ عمل لانا‘ کسی بھی لحاظ سے حکومت کا دانش مندانہ اقدام نہیں ہوگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذھب البأس وحمداً للّٰہ علی السلامۃ، ’’تکلیف سے نجات ملی‘ اس سلامتی پر اللہ کالاکھ لاکھ شکر ہے‘‘۔ یہ کتابچہ اس حدیث کی روشنی میں مریضوں کی عیادت‘ ان کے روحانی علاج اور تسلی و تشفی کے پیش نظر لکھا گیا ہے۔یہاں ہم نے اجمالی طور پر ۲۳ نسخے بیان کیے ہیں جو ان شاء اللہ مصیبت زدگان اور مریضوں کے لیے--- جو انسانیت کا دسواں حصہ ہیں--- روحانی مرہم ثابت ہوں گے۔ (مولف)

پھلا نسخہ: بیماری‘ باعث خیر

پیارے مریض بھائی! پریشان نہ ہو‘ صبر کرو۔ آپ کی بیماری آپ کے لیے نقصان دہ نہیں بلکہ یہ دراصل ایک دوا ہے۔ اس لیے کہ زندگی‘ سرمایے کی مانند ہے‘ اگر اس سے نفع حاصل نہ ہو تو پوری زندگی اکارت جانے کے مترادف ہے‘ خصوصاً جب زندگی آرام اور غفلت کے ساتھ گزرے اور اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھتی رہے۔ بیماری زندگی کی حقیقی قدروقیمت کا احساس دلاتی ہے۔ دورانِ علالت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تیزی سے گزرنے والے لمحات   رک گئے ہوں‘ وقت تھم گیا ہو‘ بلکہ بیماری اور تکلیف کے باعث وقت کٹتا ہی نہیں۔ تکلیف کے یہ طویل لمحات جو زندگی کی رفتار کو سست کر دیتے ہیں‘ کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ گزری ہوئی زندگی پر ٹھیر کر سوچنے کا موقع دیتے ہیں۔یہ غوروفکر‘ ذاتی احتساب اور جائزہ زندگی کے سرمایے کی حقیقی قدر کو اجاگر کرتا ہے اور انسان آیندہ بہتر زندگی گزارنے پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے۔ علالت کے یہ طویل لمحات زندگی کی قدر کا باعث بنتے ہیں اور صحت یاب ہونے کے بعد ٹھیری ہوئی زندگی ایک بار پھر پوری قوت سے صحیح سمت میں دوڑنے لگتی ہے۔ لہٰذا بیماری کو صبروحوصلے سے کاٹنا چاہیے‘ یہ بھی باعث خیر ہے‘ یقینا مومن ہر حال میں خیر ہی سمیٹتا ہے۔

دوسرا نسخہ: صبر پر بیش بھا اجر

اے انتہائی صبر کرنے والے مریض! صبر کا زیور پہنے رہو‘ بلکہ شکر کرکے اپنے آپ کو اس کی زینت سے مزین کرو۔ ممکن ہے کہ آپ کی زندگی کے یہ مختصر لمحے طویل عبادت میں بدل جائیں۔ اس لیے کہ عبادت کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ عبادت ہے جس میں اعضا کے ساتھ    اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا جاتا ہے‘ جیسے نماز‘ دعا وغیرہ۔ دوسری وہ عبادت ہے جس کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ اس میں مصیبت زدہ شخص دل ہی دل میں اپنے رب کے سامنے اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے اور اسی سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیماری اور مصائب کے دوران احساس و شعور کی گہرائی کے ساتھ اپنی عاجزی و کمزوری کا ادراک کرتا ہے‘ اور اس کے وجہ سے وہ ہر قسم کے ریا سے پاک روحانی عبادت تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

اس حوالے سے کئی احادیث صحیحہ ہمیں ملتی ہیں جو رہنمائی کرتی ہیں کہ زندگی امراض اور بیماریوں کا مجموعہ ہے جو مومن کے لیے عبادت کی حیثیت رکھتی ہیں بشرطیکہ آدمی اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرے اور اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یہ بات متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صابرین اور شاکرین کی بیماری کا ایک لمحہ پورے گھنٹے کی عبادت کے برابر ہے‘ اور جو لوگ تقویٰ اور پرہیزگاری کے اعلیٰ مقام پر ہوتے ہیں اُن کی بیماری کا ایک لمحہ پورے دن کی عبادت کے برابر ثواب رکھتا ہے۔ اس لیے اے برادر عزیز! آپ اس بیماری پر گلہ شکوہ نہ کریں جو آپ کی زندگی کے ایک مشکل ترین لمحے کو بیش قیمت لمحات میں تبدیل کر دیتی ہے اور آپ کی مختصرعمر کو عمردراز میں بدل دیتی ہے۔ آپ کو تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

تیسرا نسخہ: ایک مخلص واعظ و ناصح

اے مریض بھائی! انسان اس دنیا میں محض عیش وعشرت کے لیے نہیں آیا۔ جو بھی آیا ہے بالآخر اسے ایک روز سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جانا ہے۔ ہر گزرنے والا لمحہ موت سے ہم کنار کر رہا ہے‘ جوانی تیزی سے بڑھاپے میں ڈھل رہی ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پرتعیش زندگی اور اپنی دنیا میں مگن ہیں اور خدا اور خوفِ خدا سے بالکل بے نیاز ہوتے ہیں۔ اگر کبھی گردشِ زمانہ سے تنگ دستی ودرماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں تو اپنے ماضی کو یاد کر کے اور اپنی موجودہ مصائب دیکھ کر لرز جاتے ہیں اور زندگی ہی سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

یہ بیماری ہی ہے جو غفلت میں مبتلا شخص کو جو پُرتعیش زندگی گزار رہا ہو اور اپنی دنیا میں گم ہو‘ زندگی کی حقیقت سے باخبر کرتی ہے اور آخرت کی فکر سے ہم کنار کرتی ہے اور اس کی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ گویا کہ بیماری اس سے کہہ رہی ہے:تم یہاں ہمیشہ نہیں رہو گے‘ تم آزاد نہیں ہو کہ جو چاہو کرو‘ بلکہ تم ایک ڈیوٹی پر مقرر ہو‘ دھوکے میں نہ آئو‘ اپنے رب کو یاد کرو اور جان لو کہ تم قبر میں جانے والے ہو‘ اس کے لیے تیاری کرو۔ اس طرح بیماری ایک واعظ‘ مرشد اور بیدار کرنے والے کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے بعد شکوہ و شکایت کی کوئی گنجایش نہیں رہتی‘ بلکہ شکر کے سائے میں پناہ لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یوں زندگی کی حقیقی قدر کا احساس ہوتا ہے۔ اگر تکلیف بہت زیادہ ہو جائے تو صبرجمیل سے کام لو۔

چوتہا نسخہ: خود شناسی اور خدا شناسی

اے شکایت کرنے والے مریض! یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ آپ کو شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے‘ الٹا آپ پر شکر اور صبر لازم ہے‘ اس لیے کہ آپ کا جسم‘آپ کے اعضا اور سامان دنیا آپ کی ملکیت نہیں ہے۔ آپ نے ان میں سے کون سی چیز خود بنائی ہے؟ جب اس کا جواب آپ کے پاس نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ یہ کسی اور کی ملکیت ہیں۔ ان چیزوں کا مالک جس طرح چاہے اُن میں تصرف کرسکتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مالدار اور ماہر ڈیزائنر کسی آدمی کو مقررہ اُجرت پر اس کام پر لگادیتا ہے کہ وہ ایک گھنٹے تک ایک ’ماڈل‘ کا کردار ادا کرے۔ وہ اسے کبھی بٹھاتا ہے‘ کبھی کھڑا کرتا ہے‘ کبھی ایک قسم کا لباس پہناتا اور کبھی دوسری قسم کا‘ کبھی کوئی تبدیلی کرتا ہے اور کبھی کوئی۔ کیا اس پر اس شخص کو اعتراض کا کوئی حق حاصل ہے؟ اس لیے نہیں کہ اسی بات کی تو اس نے اُجرت لی ہے۔

اگر ایک مزدور کو یہ بات کرنے کا حق حاصل نہیں ہے تو جو سب سے بڑا معبود ہے‘ اس کو آپ کیسے اس طرح کی بات کہہ سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے آپ کے جسم کوبنایا ہے‘ آپ کو حواسِ خمسہ سے نوازا ہے‘ پھر وہ اپنے اسماے حسنیٰ کے نقوش کو ظاہر کرنے کے لیے اس میں مختلف تبدیلیاں کرتا ہے اور آپ کے جسم کو مختلف صورتوں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ جب آپ بھوک پیاس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں تو آپ کو اس کی رزاقیت کا تعارف حاصل ہوجاتا ہے اور جب آپ بیمار پڑجاتے ہیں تو آپ کو اس کے شافی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ آپ اپنے آپ کو جانیں گے اور اپنے رب کو پہچانیں گے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو بیماری کے حجاب کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔

پانچواں نسخہ: حقیقی تندرستی کا پیغام

اے مصیبت زدہ! بعض لوگوں کے لیے بیماری ایک طرح کا احسان اور خدائی تحفہ ہے۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو زیادہ بیماری کے درد و کرب میں مبتلا ہوتا ہے وہ آخرت کے بارے میں زیادہ فکرمند ہوتاہے۔ وہ عام لوگوں کی طرح غفلت میں مدہوش نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ اپنی بیماری اور مصیبتوں کی وجہ سے کسی حد تک اپنے نفس کو حیوانی خواہشات سے بچاتا ہے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تندرستی کی نعمت سے مالا مال ہیں مگر اپنی ابدی زندگی کو سنوارنے والے اعمال کا کوئی خیال ہی نہیں رکھتے‘ بلکہ دنیوی زندگی کے چند لمحوں کو خوب صورت بنانے کے لیے خدا کے حکام کو ڈھا دینے سے بھی دریغ نہیںکرتے۔ وہ نماز کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اور آخرت کو بھلا کراللہ تعالیٰ سے بے پروا ہوجاتے ہیں‘ جب کہ بیمار اپنے مرض کے سبب اپنی آنکھوں سے اپنی قبر کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوتا ہے جو اس کا یقینی گھر ہے اور وہاں جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس طرح مریض کے اندر تحرک پیدا ہوتا ہے اور اُس کے مطابق وہ اپنا عمل درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے یہ بیماری تو آپ کے لیے حقیقی تندرستی کا پیغام ہے۔

چہٹا نسخہ: درد و غم کی حقیقت

اے درد و الم کی شکایت کرنے والے مریض! آپ اپنی گذشتہ زندگی پر غور کریں۔ اس کے خوش گوار ایام کو بھی یاد کریں اور مشکل لمحات کو بھی ذہن میں تازہ کریں۔ آپ کی زبان سے بے اختیار ’آہ‘ یا ’آہا‘ کی آواز نکلے گی۔ گویا آپ یا تو خوش ہو کر اپنی زندگی پر اللہ کی حمدوثنا بیان کریں گے ‘یا پھر غم و اندوہ کی وجہ سے ڈوبتی ہوئی آواز میں اظہارِافسوس کریں گے۔ اب آپ غور کریں کہ گزری ہوئی تکالیف اور مصیبتیں جب آپ کے ذہن میں آتی ہیں تو کس طرح آپ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرتے ہیں اور آپ کتنی روحانی لذت محسوس کرتے ہیں اور آپ کی زبان سے بے اختیار ’الحمدللہ‘ کے الفاظ نکلتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تکلیف ختم ہوتی ہے تو اس سے ایک قسم کی لذت اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ رہے خوشی کے لمحات تو وہ چھن جانے اور احساس محرومی کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے حسرت و یاس کے کرب سے دوچار کر دیتے ہیں‘ جب کہ بیماری تو عارضی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ اُس لذت روحانی کے علاوہ‘ جو بیماری ختم ہونے پر فطرتاً آدمی کو محسوس ہوتی ہے‘ اس میں آدمی کے لیے آخرت کے حوالے سے بھی ثواب اور اجر کا سامان ہوتا ہے۔ اس لیے آپ عارضی بیماری‘ جس میں آپ مبتلا ہیں‘ کے نتائج پر نگاہ رکھیے اوراس کے پہلو بہ پہلو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور ثواب کے بارے میں سوچیے۔ شکر کا دامن تھامے رکھیے اور شکوہ و شکایت سے بالاتر رہیے۔ اور یہ بات ذہن میں رکھیے کہ کوئی حالت بھی ہمیشہ باقی نہیں ہوتی۔

بیماری جب ہمیں اس لطیف اور دقیق نکتے کی طرف متوجہ کرتی ہے تو درحقیقت وہ ہمارے دل کی گہرائیوں میں یہ سرگوشی کرتی ہے کہ: دھوکے سے نکل آئو اور اپنی حقیقت پہچانو۔ اپنی ذمہ داری کا احساس کرو اور یہ بات جاننے کی کوشش کرو کہ دنیا میں تمھارے آنے میں کیا حکمت اور مقصد پوشیدہ ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ دنیا کی لذتیں ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتیں ‘ خصوصاً جب ناجائز ہوں‘ اور صرف یہ نہیں کہ وہ دائمی نہیں ہوتیں بلکہ آدمی کو گناہ اور جرم پر آمادہ کرتی ہیں۔ چنانچہ آپ اس بات پر بالکل نہ روئیں کہ بیمار ہو کر آپ نے دنیوی لذتیں کھو دی ہیں‘ آپ کو تو اس پر الٹا خوش ہونا چاہیے۔ آپ عبادت کے روحانی معنی جو آپ کی بیماری کے ضمن میں موجود ہیں اور اخروی اجر پر‘ جو اس نے آپ کے لیے چھپا رکھا ہے‘ غور کریں اور کوشش کریں کہ یہ خالص اور پاکیزہ ذائقہ چکھیں۔

ساتواں نسخہ: احساسِ نعمت

اے مریض جو تندرستی کی نعمت کھو چکے ہو! آپ کا مرض اللہ تعالیٰ کی اُن نعمتوں کی لذت کو مٹاتا نہیں جو تندرستی میں آپ کو ملتی ہیں‘ بلکہ اس کے برعکس وہ آپ کو یہ لذت چکھا دیتا ہے اور اس میں اضافہ کر کے مزید خوش ذائقہ بنا دیتا ہے۔ اس لیے کہ ایک چیز جب دائمی ہوجاتی ہے اور اس کی حالت ایک جیسی رہتی ہے تو اس کے ذائقے اور اثرات میں کمی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصحابِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ چیزوں کی صحیح پہچان اس کی ضد سے ہوتی ہے۔ اگر اندھیرا نہ ہوتا تو روشنی کا کسی کو احساس ہی نہ ہوتا اور وہ بغیر کسی لذت کے گزر جاتی‘ اگر ٹھنڈک نہ ہوتی تو گرمی کسی کو معلوم ہی نہ ہوتی اور اُس کا کوئی مزا نہ ہوتا‘ اگر بھوک نہ ہوتی تو کھانے سے کسی کو کوئی مزا اور ذائقہ ہاتھ نہ آتا‘ اگر پیاس نہ ہوتی تو پانی پینے سے ہمیں کوئی لذت حاصل نہ ہوتی۔ اسی طرح اگر بیماری نہ ہوتی تو تندرستی بے مزہ ہوکر رہ جاتی۔

خالقِ حکیم جب انسان کو اپنے مختلف احسانات کا احساس دلا کر اور اپنی نعمتوں کا مزا چکھاکر اپنے دائمی شکر کی طرف لانا چاہتا ہے تو اس کو بے شمار طریقوں سے اس امر کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ مختلف قسم کی ہزاروں نعمتوں کا ذائقہ چکھ لے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مقصد کے لیے جس طرح صحت و عافیت سے سرفراز کر کے احسان فرماتا ہے‘ اسی طرح بیماریاں اور تکلیفیں بھی نازل کرے۔

میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بیماری‘ جس میں آپ مبتلا ہیں‘نہ ہوتی تو کیا آپ کے بس میں یہ بات تھی کہ آپ صحت میں چھپی ہوئی نعمت کو محسوس کرتے؟ اور کیا آپ کی قدرت تھی کہ اس نعمت ربانی کا مزا چکھتے جس سے یہ نعمت وجود میں آئی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ شکر کے بجاے نسیان کا شکار ہوتے‘ یا اس تندرستی کا مصرف یہ ہوتا کہ آپ غفلت و نادانی میں مبتلا ہوتے اور آپ کو اس کا احساس تک نہ ہوتا۔

آٹہواں نسخہ: معرفتِ رب

اے اپنی آخرت کو یاد کرنے والے مریض! آپ کی بیماری تو صابن کی طرح ہے‘ یہ آپ کے میل کچیل کو دُور کرتی ہے‘ آپ کے گناہوں کو مٹاتی ہے اور خطائوں سے معافی کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بیماریاں گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں (بخاری)۔ اس لیے کہ گناہ‘ ابدی زندگی کے لیے دائمی بیماری کی حیثیت رکھتا ہے‘ اور اس دنیا میں بھی یہ دل‘ روح اور وجدان میں غیرمحسوس بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ جب آپ صبر کریں گے اور شکوہ شکایت سے اجتناب کریں گے تو آپ اس موجودہ بیماری کے ذریعے اپنے آپ کو بہت سی دائمی بیماریوں سے بچا لیں گے‘ اور جب آپ اپنے گناہوں سے غافل ہوں گے‘ آخرت کو بھلا دیں گے اور اپنے رب سے بے پروا ہوں گے تو میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ آپ ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں‘ جو اس وقتی بیماری کے مقابلے میں ہزاروں اور لاکھوں گنا زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔ اس مہلک بیماری سے بچیے۔ اس لیے کہ آپ کا دل و جان اور آپ کی روح سب دنیا کے سازوسامان کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہ چیزیں یقینا فراق اور زوال کی تلواروں سے کٹنے والی ہیں۔

اس کا لازمی تقاضا ہے روح کی بہتری اور حقیقی شفا کی فکر کی جائے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ علاج آپ کو ایمان کے بعد اوراس کے شفا دینے والے مرہم کے علاوہ کہیں اورسے مل سکے گا۔ اور جان لو کہ اس علاج تک پہنچنے کا مختصر ترین راستہ یہ ہے کہ ’عاجزی اور فقیری‘ اختیار کی جائے۔ یہ دونوں صفات انسان کی جبلت میں پیدا کی گئی ہیں۔ یہ بیماری ہی ہے جو آخرت کی فکر پیدا کرتی ہے‘ عاجزی و درماندگی اور فقر کا احساس اجاگر کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ قادر ذوالجلال کی قدرت اور اس کی وسیع رحمت کی معرفت بھی حاصل کرلیں گے۔

نواں نسخہ: موت کے خوف کی حقیقت

اے اپنے خالق پر ایمان لانے والے مریض! بیماری سے فکرمند ہونا ‘ اس سے خوف کھانا اور اس سے پریشانی لاحق ہونا‘ یہ ایسے احساسات ہیں جن کی بنیاد پر یہ خیال ہوتا ہے کہ بیماری کبھی کبھی موت اور ہلاکت کا ذریعہ بنتی ہے‘ اور غافل نگاہوںسے دیکھیں تو موت بظاہر ایک وحشت ناک اور ڈرائونی چیز ہے۔ لہٰذا جو بیماریاں اس ڈرائونی موت کا ذریعہ بنتی ہیں اُن کے آنے سے پریشانی اور اضطراب کا پیدا ہونا فطری ہے۔ لیکن آپ اچھی طرح جان لیں اوراس پر قطعی ایمان لائیں کہ: زندگی کا آخری وقت معین ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

موت‘ جس طرح عام مشاہدہ ہے‘ فی نفسہٖ ڈرانے والی نہیں ہے۔ موت تو مومن کے لیے عافیت ہے‘ اس سے وہ زندگی کی ذمہ داریوں اور اس کی کلفت و مشقت سے آزاد ہوجاتا ہے۔ موت اُس عبودیت سے آزادی کا نام ہے جو دنیا کے آزمایشی میدان میں اس کی تعلیم و تربیت کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ مزید یہ کہ موت‘ آدمی کے لیے اپنے حقیقی وطن اور دائمی سعادت کے ابدی مقام و مرتبے تک پہنچنے کا وسیلہ بنتی ہے۔ یہ دنیا کی کوٹھڑیوں سے نکلنے اور جنت کے باغیچوں میں داخل ہونے کی ایک دعوت ہے اور یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آدمی اپنی محنت کی اجرت وصول کرنے کے قابل ہو جاتا ہے‘ وہ اجرت جو خالقِ رحیم کے خزینۂ احسان کا منہ کھول دیتی ہے۔

جب موت کی حقیقت یہ ہے تو پھر یہ مناسب نہیں کہ اس کو ایک ڈرائونی چیز سمجھا جائے بلکہ یہ بات لازم ہے کہ موت کو رحمت و سعادت کی بشارت سمجھا جائے۔ یہاں تک کہ بعض   اہلِ اللہ موت سے اس وجہ سے نہیں ڈرتے تھے کہ یہ ایک ڈرائونی چیز ہے بلکہ وہ موت کی تاخیر اس وجہ  سے چاہتے تھے کہ اگر زندہ رہیں تو مزید نیکیاں کر کے زیادہ ثواب کما سکیں--- پس موت اہلِ ایمان کے لیے رحمت کا دروازہ ہے اور گمراہ لوگوں کے لیے ابدی اندھیروں کا اندھا کنواں۔

دسواں نسخہ: اضطراب و بے چینی کا علاج

اے مضطرب مریض! آپ بیماری کی شدت سے مضطرب ہیں‘ اگر یہ اضطراب اسی طرح برقرار رہا تو اس سے آپ کی بیماری میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا مرض ہلکا ہو جائے تو کوشش کریں کہ آپ اضطراب کا شکار نہ ہوں۔ آپ کو چاہیے کہ بیماری کے خیر کے پہلو‘ اس کے ثواب اور اس بات پر غور کریں کہ یہ بیماری حقیقت میں شفا کا پیش خیمہ ہے۔ اپنے دل سے اضطراب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں تو بیماری خود بخود ختم ہو جائے گی۔

اضطراب اور وہم بیماری کو دوبالا کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ اضطراب ظاہری بیماری کی آڑ میں دل کے اندر نفسیاتی بیماری کو پھیلا دیتاہے جس سے جسمانی بیماری بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے برعکس جب آپ اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیں‘ بیماری کی حکمت کو پیشِ نظر رکھیں‘ اور راضی بہ رضا رہنے والے اضطراب و وہم کو اپنے دل سے دور کردیں تو جسمانی بیماری اپنی ایک مضبوط جڑ سے محروم ہوجائے گی اور پھر آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔ اس کے برعکس اگر اوہام اور پریشانیاں آپ کی جسمانی بیماری کا ساتھ دیں تو یہ اوہام آپ کے اضطراب کی وجہ  سے دسیوں گنا بڑھ جاتے ہیں۔

پریشان ہونا بذاتِ خود ایک بیماری ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بیماری کی حکمت پر غور کیا جائے۔ جب آپ اس کی حکمت اور فوائد کو سمجھیں گے تو یہ ایک مرہم ہوگا جو آپ کی بیماری کو ختم کرے گا اور آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ بیماری میں ’ہائے‘ افسوس‘ کی جگہ ’الحمدللہ علیٰ کل حال‘ کہنا چاہیے۔ ایک بندے کو اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے کہ یہی مالک کی مرضی ہے۔ یہ کیفیت اضطراب کو صبرواستقامت میں بدل دیتی ہے اور مصیبت و پریشانی ہلکی محسوس ہونے لگتی ہے۔

گیارہواں نسخہ: شکوہ نھیں صبر

اے مریض بھائی جس کا صبر تمام ہوچکا ہے! یہ بات ٹھیک ہے کہ بیماری سے آپ کو عارضی طور پر تکلیف ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بیماری دور ہو جاتی ہے تو آپ کو ایک روحانی لذت اور جسمانی مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ آج کے بعد آنے والے زمانے میں آپ بیماری کی کوئی تکلیف محسوس ہی نہیں کریں گے۔ جب بیماری کے دن گزر گئے تو اس کے ساتھ ہی اُس کا درد بھی جاتا رہا۔ البتہ بیماری کا ثواب اور اس کے ختم ہونے کی لذت باقی رہے گی۔ ایسی صورت حال میںآپ پر لازم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صبر کے ذریعے جو بدلہ دیتا ہے اس کی خوشی کو یاد کر کے اپنا شرح صدر کریں۔

رہی یہ بات کہ اگلے دنوں میں کیا ہوگا‘ تو آپ کو اس کے بارے میں فکرمند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ تو ابھی آئے نہیں ہیں۔ یہ تو نادانی ہے کہ آپ ابھی سے اس چیز کے بارے میں فکرمند ہوں جو ابھی موجود نہیں‘ اور اس بیماری سے پریشان ہوں جوابھی آئی نہیں ہے‘ اور اس مصیبت پر متفکر ہوں جو ابھی نازل نہیں ہوئی۔ اس قسم کے وہم کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ایسی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں جن سے آپ کا اجر تمام ہوجاتا ہے۔

پس اے میرے بھائی! آپ کو اللہ تعالیٰ نے صبر کی جو بے پایاں قوت دی ہے اس کو ضائع نہ کریں بلکہ اس کو جمع کر کے رکھیں تاکہ تکلیف کے موقع پر آپ کے کام آئے۔ اور جب آپ کو تکلیف ہو تو ’’یاصبور‘‘ کا ورد کریں اور صبر کرتے ہوئے اس کو ثواب کا ذریعہ سمجھیں۔

بارہواں نسخہ: عبادت کی کمی کا بدل

اے مریض‘ جو اپنی بیماری کی وجہ سے عبادت اور ذکر و اذکار سے محروم ہو‘ اور اس محرومی کی بنا پر افسوس کا اظہار کرتا ہو! آپ کے پیشِ نظر اس حدیث کا مفہوم رہنا چاہیے جس کے مطابق مومن جب کسی عبادت کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کا ثواب اس کو بیماری کے دنوں میں بھی‘ جب کہ وہ عبادت نہیں کرپاتا--- مسلسل ملتا رہتا ہے (احمد‘ بخاری)۔ بیماری اس کے ثواب میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ جو مریض صحت کی حالت میں فرائض اور بقدر استطاعت نوافل ادا کرتا ہے‘ بیماری اس کے لیے ان سب کی قائم مقام ہوجاتی ہے۔ جب مریض صبر‘ توکل اور فرائض کی ادایگی کی زینت سے مزین ہو جاتا ہے تو یہ سخت تکلیف کے موقع پر اس کے لیے اللہ کی طرف لوٹ جانے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا حالتِ صحت میں جتنی بھی عبادت تسلسل اور دوام کے ساتھ کی جاسکے ضرور کرنی چاہیے۔

اسی طرح جب بیماری انسان کو اس کی کمزوری اور عاجزی کا احساس دلاتی ہے تو مریض نہ صرف زبان سے بلکہ دل کی گہرائیوں سے گڑگڑا کر دعا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتہائی عاجزاور کمزور اسی لیے تو بنایا ہے تاکہ یہ ہمیشہ کے لیے بارگاہِ الٰہی کی طرف رجوع کرتا رہے اور امیدورجا کے ساتھ دعا کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤْکُمْ (الفرقان ۲۶:۷۷) ’’اے نبیؐ، لوگوں سے کہو‘ میرے رب کو تمھاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اُس کو نہ پکارو‘‘۔ جب بیماری انسان کی پیدایش کے بنیادی مقصد اور اہم ترین حکمت‘ یعنی پرخلوص دعا کا سبب ہے تو اس کی شکایت کرنا درست نہیں‘ اس پر شکرکرنا لازم ہے۔

تیرہواں نسخہ: ایک بیش قیمت اثاثہ

اے بیماری کی شکایت کرنے والے عاجز بندے! بیماری تو بعض لوگوں کے لیے سرمایۂ حیات بن جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بیش قیمت تحفہ ثابت ہوتی ہے۔ ہر مریض اپنی بیماری کو اسی قسم کی بیماری سمجھ سکتا ہے۔ یہ حکمت الٰہی ہے کہ کسی بھی انسان کو اپنا آخری وقت معلوم نہیں‘ تاکہ انسان ہمیشہ کے لیے ناامید بھی نہ ہو اور دائمی غفلت میں بھی نہ پڑے‘ بلکہ وہ امیدورجا کے مابین رہے۔ اس طرح اس کی آخرت ہی نہیں دنیا بھی نقصان و خسارے کا شکار ہونے سے بچ جاتی ہے۔ گویا کہ انسان کا آخری وقت کسی بھی لمحے آسکتا ہے‘ اگر یہ وقت آجائے اور انسان اخروی زندگی کو دائمی تباہی کے گڑھے میں پھینکنے والی غفلت میں پڑا ہوا ہو تو یہ اس کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ بیماری اس غفلت کو ختم کر دیتی ہے اور آخرت کی یاد کو ازسرنو تازہ کر دیتی ہے۔ اس طرح وہ ایک بڑی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے اور محض چند دنوں میں اُن تمام گناہوں سے چھٹکارا پا لیتا ہے جن کا ارتکاب وہ برسوں سے کر رہا تھا۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کا اللہ کے ہاں ایک مقام ہوتا ہے جس کو وہ اپنے اعمال سے حاصل نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے جس کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنا مقام حاصل کر لیتا ہے۔ (حدیث حسن‘ مسندابویعلٰی ۴؍۱۴۴۷‘ ابن حبان ۶۹۳)

جب بیماریوں میں یہ بڑے بڑے فوائد مستور ہیں تو شکایت کے کیا معنی؟ ہمیں تو چاہیے کہ رحمت الٰہی پر اعتماد کریں اور حمدوشکر کرتے ہوئے ان پر قانع ہو جائیں۔

چودہواں نسخہ: بینائی سے محرومی پر اجرعظیم

اے بیمار‘ جو بینائی سے محروم ہوگیا! جب آپ کو معلوم ہوجائے کہ دنیا میں روشنی بھی ہے‘ اگرچہ میری آنکھوں پرپردے ہیں لیکن اہلِ ایمان کی آنکھوں پر پڑے ہوئے ان پردوں کے پیچھے ایمان کی روشنی موجود ہے تو یقینا آپ بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ میرے مہربان پروردگار ہزار بار شکریہ۔

جب ایک مومن کی آنکھوں پر پردہ آیا ہو اور اس صورت میں وہ وفات پاجائے تو وہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے عالم نورانی کو دوسرے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ وسیع نظروں سے دیکھ سکے گا‘ جس طرح کہ دنیا میں ہم اپنی آنکھوں سے اکثر چیزیں دیکھ سکتے ہیں اور اندھے لوگ ان چیزوںکو نہیں دیکھ سکتے۔ اس طرح مرنے کے بعد یہ نابینا‘ اگر مومن ہوں تو وہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے دوسروں سے زیادہ اچھی طرح دیکھ سکیں گے۔ وہ جنت کے باغات اور اس کی نعمتوں کا مشاہدہ کریں گے‘ گویا کہ اُن کا سرمایۂ آخرت ان کے لیے جمع کیا گیا تھا۔ ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق جنت کے خوب صورت مناظر کو دیکھے گا۔

اس لیے‘ میرے بھائی! جتنا ممکن ہو‘ آپ کوشش کریں کہ آپ اُن نورانی نگاہوں کے مالک بن جائیں جو جنت کے پیچھے دیکھ سکیں درآں حالیکہ آپ تحت الثریٰ میں پڑے ہوئے ہوں گے۔ اور یہ تب ہوگا کہ آپ اس پردے پر صبر کریں جو دنیا میں آپ کی آنکھوں پر آگیا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ آپ کو جان لیناچاہیے کہ روحانی آنکھوں کا اسپیشلسٹ اور آپ کی معنوی نگاہوں پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹانے والا ڈاکٹر‘ قرآن ہے۔ اس سے جب آپ کے روحانی پردے ہٹ جاتے ہیں تو آپ کو آخرت میں سب چیزیں صاف نظر آئیں گی۔

پندرہواں نسخہ: مھلک بیماری پر مقامِ بلند

اے فریاد کرنے والے مریض! آپ فریاد نہ کریں اور نہ اپنی مہلک بیماری کو دیکھ کررونا دھونا شروع کریں۔ آپ کو چاہیے کہ اس کے مقصد اور چھپی ہوئی حکمت کی طرف دیکھتے ہوئے ’الحمدللہ‘ کہیں۔

اگر بیماری کا مقصد کوئی اچھا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ترین بندوں کو بیماریوں میں مبتلا نہ کرتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’سب سے زیادہ آزمایشیں انبیاے کرام پر آتی ہیں‘ اس کے بعد اولیا پر اور پھر درجہ بدرجہ باقی لوگوں پر۔ ان سب نے اس طرح کی بیماریوں کا سامنا کیا‘اس کو ایک خالص عبادت اور ربانی تحفہ سمجھا اور صبر کا دامن پکڑ کر گویا اپنی مصیبتوں پر اللہ کا شکر ادا کیا۔

اس لیے اے درمند اور فریادی مریض! اگر آپ اس عظیم نورانی قافلے کے ساتھ ملنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انھی کی طرح صبروشکر ادا کریں۔

کچھ بیماریاں ایسی بھی ہیں کہ اُن میں آدمی کو موت آجائے تو آدمی اولیا اللہ کی صفوںمیں پہنچ جاتا ہے۔ گویا کہ یہ ایک معنوی شہادت ہے۔ ان میں سے ایک خواتین کا درد زِہ ہے اور دوران زچگی موت پر شہادت۔ اسی طرح پیٹ کا خراب ہونا‘ پانی میں ڈوب جانا‘ آگ میں جل جانا اور طاعون ایسی بیماریاں ہیں کہ ان میں مبتلا شخص اگر اپنی بیماری کے دوران مر جائے تو اس کو شہید کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اس طرح بہت ساری بابرکت بیماریاں ہیں‘ جن میں مبتلا شخص اگر مرجائے تو ولایت کا درجہ پا لیتا ہے۔ بیماری جس طرح حبِ دنیا کی شدت کو کم کرتی ہے اسی طرح یہ اپنے احباب سے فراق کے اُس دردناک اور کڑوے گھونٹ کی شدت کو بھی کم کرتی ہے جو موت کے وقت آدمی کو نگلنا ہوتا ہے۔

سولہواں نسخہ: جذبۂ اخوت و محبت کا موجزن ہونا

اے پریشان حال مریض! بیماری انسان کو اجتماعی زندگی کی اہم ترین کڑیوں اور خوب صورت ترین رشتوں‘ یعنی احترام اور محبت کی تلقین کرتی ہے کیوں کہ یہ انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ دوسروں سے مستغنی نہیں ہے کہ وہ انفرادیت اختیار کرے اور اس کا دل رحم اور شفقت کے جذبات سے خالی ہو۔ یہ بات قرآن کی آیت سے واضح ہے کہ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓیo اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰیo (العلق۹۶: ۶-۷) ’’انسان جب اپنے آپ کو بے پروا دیکھتا ہے توسرکش ہوجاتا ہے‘‘۔ استغنا کے جال میں پھنسا دینے والا نفسِ امارہ صحت و عافیت سے وجود میں آتا ہے اور وہ تعلقاتِ اخوت کے احترام کا کماحقہٗ احساس نہیں کرتا۔ اس طرح اس کو شفقت اور رحم کے اُن جذبات کا احساس نہیں ہوتا جس کی مریض اور مصیبت زدگان ضرور محسوس کرتے ہیں۔

جب انسان پر خود بیماری غالب آتی ہے اور وہ بیماری کی حالت میں آنے والی عاجزی و احتیاج کا ادراک کرتا ہے تو اس کو مومنوں کے اُس احترام کا شعور حاصل ہو جاتا ہے جو وہ اس کے ساتھ برتتے ہیں اور اس کی عیادت کے لیے آتے ہیں۔ اسی طرح اس کو احساس ہوتا ہے کہ مصائب میں مبتلا لوگوں کے ساتھ شفقت کرنا چاہیے‘ اور اس کے دل میں ان کے لیے رحم و شفقت اور محبت کے جذبات موجزن ہوجاتے ہیں جو اسلام کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے۔ پھر جب اس کو موقع ملتا ہے تو اُن کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتا ہے‘ اگر تعاون کی طاقت نہ ہو تو اُن کے لیے دست بُدعا ہوجاتا ہے۔ اُن کے ہاں آنے جانے اور اُن کا حال احوال پوچھنے کا اہتمام کرتا ہے‘ اس طرح وہ ایک مسنون عمل کرتے ہوئے بڑے ثواب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔

سترہواں نسخہ: بیمارپرسی‘ عمل صالح کی بنیاد

اے بیمار‘ جو اس بات کی شکایت کرتا ہے کہ وہ اعمال صالحہ سے قاصر ہوگیا ہے! آپ شکر کریں۔ بیماری ہی تو ہے جو خلوصِ نیت سے بھرپور اعمالِ صالحہ کا دروازہ کھولتی ہے‘ اور بیمار کی خدمت کرنا نہ صرف دائمی ثواب کا ذریعہ ہے بلکہ یہ قبولیت دعا کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ثابت ہوتا ہے۔

بیمار کی خدمت اہلِ ایمان کو بڑے ثواب کا مستحق بناتی ہے اور اُن کی عیادت کرنا اُن کی صحت و عافیت معلوم کرنا‘بشرطیکہ اُن پر بوجھ نہ بنا جائے‘ ایک مسنون عمل ہے‘ اور یہ گناہوں کا کفارہ بھی ہے۔ اس مفہوم کی ایک حدیث وارد ہوئی ہے کہ ’’مریض سے دعا کے لیے کہو‘ اس کی دعا قبول ہوتی ہے‘‘۔ خصوصاً جب مریض قریبی رشتہ دار ہو‘ مثلاً والد یا والدہ ہو تو ان کی خدمت ایک گراں قدر عبادت بھی ہے اور ایک بہت بڑا ثواب بھی۔ مریضوں کو مطمئن کرنا اور اُن کی ڈھارس بندھانا‘ ایک بابرکت صدقے کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ اولاد کتنی خوش قسمت ہے جو بیماری میں اپنے والد یا والدہ کی خدمت کرتی ہے اور اُن کے نرم اور پریشان دلوں کو مطمئن کرتی ہے۔ اس طرح وہ اُن کی دعائیں سمیٹ لیتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں اس روایت کا احترام بھی ہونا چاہیے اور اسے مقام بلند ملنا چاہیے بالخصوص والدین کی تیمارداری اور خدمت ایک   بلند درجہ ہے جس سے اولاد کی عظمت اور انسانیت کی رفعت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جس پر تمام مخلوقات یہاں تک کہ ملائکہ بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ اولاد کی یہ شان دیکھ کر ان کی زبان سے بے اختیار ’ماشاء اللہ‘ اور ’بارک اللہ‘ کی دعائیں نکلتی ہیں۔

مریض کے ساتھ رحمت اور شفقت سے پیش آیا جائے تو اس سے بیمار کی تکلیف معدوم ہوجاتی ہے اور اس کے بدلے میں اُسے ایک خوش گوار لذت محسوس ہوتی ہے۔

مریض کی دعا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ دعا بذاتِ خود بھی ایک عبادت ہے اس لیے کہ انسان کو جب اپنی عاجزی کا احساس ہوجاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحم کا محتاج ہوجاتا ہے۔ جب دعا اخلاص نیت کے ساتھ کی جائے اور یہ عموماً بیماری‘ ضعف اور عاجزی کے مواقع پر ہوتا ہے‘ ایسی حالت میں دعا جلد قبول ہوتی ہے اور بیماری اس قسم کی دعا کے لیے ایک بنیاد ہوتی ہے۔ چنانچہ مریض اور اس کی بیمار پرسی کرنے والے مسلمانوں کو اس طرح کی دعا سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

اٹہارہواں نسخہ: زندگی کی قدر کا احساس

اگر زندگی ایک ہی انداز میں صحت و عافیت کے ساتھ گزرتی رہے تو زندگی کی قدر نہیں رہتی بلکہ کبھی کبھی اس زندگی کے بالکل بے مقصد ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی بے مقصد زندگی کو عیش و عشرت کی نذر کر دیتا ہے اور اخروی پہلو اس کی نظر سے محو ہو جاتا ہے‘ لیکن اگر زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا ہو توزندگی انسان کو اپنی اہمیت سے آگاہ کرتی ہے۔

آپ کسی مال دار اور فارغ البال شخص سے‘ جس کے پاس سب کچھ موجود ہو‘ پوچھیں کہ آپ کا کیا حال ہے؟ تو مجھے یقین ہے کہ آپ اُس کی زبان سے درد اور افسوس کے کلمات سنیں گے۔ وہ کہے گا: ’’ہائے! وقت ہے کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہا‘‘ یا آپ اس کی زبان سے ایسی شکایتیں سنیں گے جو لمبی لمبی امیدوں کا نتیجہ ہوتی ہیں کہ میرا فلاںفلاں کام نہیں ہوا‘ کاش! کہ میں یہ یہ کر چکا ہوتا۔ اس کے برعکس جب آپ کسی غریب‘ بے کس اور مسائل و مشکلات کے گرداب میں پھنسے ہوئے آدمی سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا کیا حال ہے؟ وہ اپنے مصائب کے باوجود خدا کا شکر ادا کرے گا اور بہتری کے لیے تگ و دو میں مصروف ہوگا۔

اے بیمار بھائی! آپ کو جان لینا چاہیے کہ مشکلات و مصائب اور اسی طرح گناہوں کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ معدوم ہونے والے ہیں۔ جب حقیقت یہ ہے تو آپ جس بیماری میں مبتلا ہیں وہ آپ کے پاس بھیجا ہواایک مہمان ہے جو اپنی بہت ساری ذمہ داریوں کو انجام دینے کے لیے آیا ہے۔ وہ آپ کی زندگی کو پاک و صاف کرتا ہے‘ وہ آپ کے جسم میں موجود تمام آلات کو اس بیمارعضو کی طرف متوجہ کرتا ہے اورزندگی کی حقیقی قدر کا احساس دلاتے ہوئے رخصت ہوجاتا ہے۔ اس احساس کی قدر کیجیے۔

انیسواں نسخہ: مرض کی حقیقت

اے علاج کی تلاش میں سرگرداں مریض! جان لو‘ کہ مرض کی دو قسمیں ہیں: ایک حقیقی مرض ہوتا ہے اور دوسرا صرف وہم۔

اگر مرض حقیقی ہو تو اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے (لکل دائٍ دوائ)، اور اس علاج کو اپنے وسیع مطب‘ یعنی کرئہ ارض میں پھیلا دیا ہے۔ لہٰذا دوا کا استعمال بالکل جائز ہے‘ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دوا کا اثرانداز ہونا اور شافی ہونا اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس لیے وہ جس طرح بیماری لاتا ہے اسی طرح شفا بھی دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ ایک تجربہ کار ڈاکٹر کے مشوروں پر عمل کرے۔ زیادہ تر بیماریاں چیزوں کے غلط استعمال‘ مشوروں سے بے پروائی‘ حد سے تجاوز‘ غفلت‘ عدم احتیاط اور گناہوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایک اچھا ڈاکٹر مرض کے علاج کے ساتھ ساتھ مریض کو تسلی بھی دیتا ہے اوراُسے پُرامید رکھتا ہے۔ مریض کا کام یہ ہے کہ ڈاکٹر کے مشوروں پر یقین رکھے۔ اس طرح بالآخر مریض صحت یاب ہوکر پریشانی سے نجات پائے گا اور خدا کا شکرگزار ہوگا۔

مرض کی دوسری قسم وہم ہے۔ اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ دی جائے۔ اس لیے کہ وہم پر آپ جتنی توجہ دیں گے اتنا ہی وہ مضبوط ہوتا ہے اور دل و دماغ پر اس کا اثر گہرا ہوتا ہے۔ اگر اس کی کوئی پروا نہ کریں تو آخرکار یہ ختم ہوجاتا ہے‘ جیسے اگر انسان مکھیوں کے چھتے کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرے تو وہ یکجا ہو کر انسان پر حملہ آور ہوتی ہیں لیکن اگر اُن کو کچھ نہ کہیں تو وہ خود بخود منتشر ہوجاتی ہیں‘ یا کوئی آدمی اندھیرے میں رسی کو دیکھ کر سانپ گمان کرلے تو وہ خیال اس کے ذہن میں جڑپکڑ لیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ اس سے بے پروا ہوجاتا ہے تو اس پر جلد ہی واضح ہوجائے گا کہ یہ رسی ہے‘ سانپ نہیں۔ لہٰذا مرض کی حقیقت کو جان کر اللہ پر توکل کرنا چاہیے اور ذہنی الجھنوں کا شکار نہیں ہوناچاہیے۔ یہی مومنانہ رویّہ ہے۔

بیسواںنسخہ: خلوص و محبت کا حصول

اے مریض بھائی! یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ کی بیماری جسمانی دردوالم کا ذریعہ ہے لیکن ایک اہم معنوی لذت بھی آپ کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو جسمانی درد کو بھلا دیتی ہے۔ اس لیے کہ آپ کا جسمانی درد اُس رحم اور شفقت سے زیادہ اہم نہیں ہے جسے آپ نے بچپن کے بعد سے بھلا دیا ہے۔ وہ محبت و شفقت اب آپ کے والدین اور رشتہ داروں کے دلوں میں نئے سرے سے اُبھر رہی ہے۔ محبت و شفقت سے بھرے یہ جذبات اور بچپن کی یاد ایک بار پھر آپ کی روح کو تازگی بخشتی ہے۔ آپ کے احباب اور پیاروں کے دلوں سے وہ مخفی حجاب ایک بار پھر اٹھ رہا ہے اور وہ نئے سرے سے آپ کا خیال رکھنے کے لیے آپ کے گرد جمع ہورہے ہیں۔ وہ آپ کی بیماری کی وجہ سے پیارومحبت کے ساتھ آپ کی طرف متوجہ ہیں۔

آپ غور کریں کہ آپ کی یہ جسمانی تکلیف اُن خدمات و جذبات کے آگے کیا حیثیت رکھتی ہے جو اس تکلیف کے بدلے میں آپ کو محبت و شفقت کی صورت میں مل رہی ہیں۔ آپ کے شفیق دوستوں میں اضافہ ہوا ہے‘ آپ انسان کی فطری شفقت اور رحم دلی کی بنا پر اُن کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ جب آپ بیمار ہو گئے تو گویا آپ نے مشکل ذمہ داریوں کو اٹھانے کا حوصلہ پالیا۔ اب آپ نہ صرف مشکل کاموں کی مشقت سے بآسانی گزر سکیں گے بلکہ اس میں آپ کو ایک لذت محسوس ہوگی۔ ان ساری معنوی لذتوں کے بعد آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنا رخ شکر کی وسعتوں کی طرف موڑ دیں اور شکوہ و شکایت کی کیفیت سے باہر نکل آئیں جو آپ کی عارضی تکلیف کی وجہ سے آپ کے اوپر غم و اندوہ کی صورت میں چھا گئی تھی۔

اکیسواں نسخہ: توکل اور تزکیہ نفس

اے فالج کی بیماری میں مبتلا بھائی! میں آپ کو خوش خبری سناتا ہوں کہ فالج ایک مومن کے لیے بڑی برکت والی بیماری شمار کی جاتی ہے۔ یہ بات میں ایک عرصے سے نیک لوگوں سے سنتا تھا لیکن میں اس راز سے بے خبر تھا۔ اب یہ راز مجھ پر کھلا ہے۔ وہ اس طرح کہ: اولیاے کرام دنیا کے بڑے بڑے معنوی خطرات سے بچنے کے لیے‘ اور اخروی سعادت کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے ارادے سے دو بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں:

۱- پہلا یہ کہ وہ دنیا کے عارضی ہونے اور موت کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔

۲- دوسرا یہ کہ نفسِ امارہ کو مجاہدوں اور روحانی ریاضیتوں کے ذریعے مار دیا جائے تاکہ اس کی ہلاکتوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔

اے پیارے بھائی‘ جو اپنی آدھی صحت کھو چکے ہو! میں یہ دو آسان اور مختصر اصول آپ کے سپرد کر رہا ہوں جو آپ کے ابدی سعادت کے راستے کو آسان کر دیں گے اور وہ ہمیشہ آپ کو آخرت کی یاد دلائیں گے۔ اس کے بعد دنیا آپ کی سانسوں کو گھٹن زدہ نہیں کرسکے گی اور غفلت آپ کی آنکھیں اندھی کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گی‘ اور نہ نفسانی خواہشات آپ کو راستے سے بھٹکا سکیں گی حالانکہ فالج کی وجہ  سے آپ کا آدھا جسم بے کار ہوگیا ہے۔ جب یہ ساری چیزیں آپ کو گمراہ کرنے میں ناکام ہوں گی تو آپ ان کے شر سے جلد از جلد نجات پالیں گے۔

مومن اگر ایمان‘ تسلیم و رضا اور توکل کی صفات سے متصف ہو تو وہ فالج جیسی بیماری کے ذریعے مختصر ترین وقت میں اتنا زیادہ فائدہ اٹھا لیتا ہے جتنا ایک ولی اللہ سالہا سال کے مجاہدات اور ریاضتوں سے بھی نہیں حاصل کر سکتا۔ اگر مومن ان صفات سے متصف ہو تو یہ بیماری کمزور ہوتی جاتی ہے اور اس کا برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

بائیسواں نسخہ: خصوصی نظرِکرم

اے عاجز مریض‘ جو تنہائی کی وجہ سے اجنبی سا ہوکر رہ گیا ہے! بیماری تو ایک طرف‘ اگر آپ کی اجنبیت اور کسی تیماردار کی عدم موجودگی‘ لوگوں کے دلوں کے آپ کی طرف مائل ہونے اور شفقت سے بھرجانے کا ذریعہ بنتی ہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اس رحیم ذات کا‘ جو تجلیات کی مالک ہے‘ آپ کی حالت سے بے خبر ہوگی؟ اس نے سورئہ فاتحہ میں اپنی کیفیت‘ اپنی اس عظیم الشان صفت کے ساتھ بیان کی ہے کہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اس کی شفقت اور رحمت کی ایک جھلک یہ ہے کہ ماں کے دل میں بچے کی پرورش کا جذبہ رکھ دیا ہے اور اس کی تجلی ٔ رحمت سے آخرت کی ابدی زندگی‘ جنت اور اس کی رنگینیوں کی صورت میں مجسم ہوجائے گی۔ آپ کا ایمان کے ذریعے اُس کے ساتھ نسبت پیدا ہو جانا‘ بیماری کی وجہ سے عاجزی پر آمادہ زبان سے اس سے التجا کرنا‘ اس سے امیدیں رکھنا اور اس کے سامنے عاجزی کرنا ایک وسیلہ بن جاتا ہے جس کے ذریعے ذات باری تعالیٰ کی نظرِرحمت آپ کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ یہ ایسی نظرِکرم ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔

ذاتِ موجود جب آپ کے اوپر نظر رکھے ہوئے ہو تو آپ کے لیے سب کچھ موجود ہے۔ حقیقت میں اجنبی اور تنہا تو وہ آدمی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان اور تسلیم و رضا کا رشتہ نہیں رکھتا اور نہ اس رشتے میں کوئی دل چسپی رکھتا ہے۔

تیئسواں نسخہ: حقیقی شفا

اے بیمار بھائی! اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ ایک نفع بخش ربانی علاج کے محتاج ہیں اور آپ کو ایسی دوائی کی ضرورت ہے جو ہر بیماری میں کام دے کر لذتِ حقیقی سے سرشار کردے تو اپنا ایمان تازہ کریں اور اس کو صیقل بنا دیں‘ یعنی توبہ واستغفار‘ نماز اور عبادت کے ساتھ تاکہ یہ آپ کی بیماری کے لیے علاجِ ربانی ثابت ہو۔

جولوگ دنیا کی محبت اور اس کے ساتھ گہرے تعلق کی وجہ سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور اُن کی حالت یہ ہے کہ گویا وہ دنیا کے بندے ہیں‘ ایسی صورت میں ایمان آگے بڑھتا ہے اور اس زوال و فراق کی ماری ہوئی حالت کے لیے شفا دینے والا مرہم پیش کرتا ہے جو ان زخموں اور ناسوروں سے نجات کا ذریعہ بنتاہے۔ دراصل ایمان ہی آدمی کو حقیقی شفا دیتا ہے۔

میں طوالت سے بچتے ہوئے مختصراً صرف یہ کہوں گا کہ:

ایمان کا علاج اپنا اثر اس طرح دکھاتا ہے کہ آدمی فرائض کی ادایگی اور اپنی حد تک ان کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں غفلت‘جہالت اور خواہشاتِ نفسانی اور ناجائز لہوولعب اس علاج کے اثر اور کارکردگی کو ضائع کر دیتے ہیں۔

جب یہ حقیقت ہے کہ بیماری آنکھوں کے پردے ختم کرتی ہے‘ شہوت کی آگ کو بجھاتی ہے اور حرام لذتوںمیں پڑنے سے روکتی ہے‘ تو کیوں نہ آپ اس سے فائدہ اٹھائیں اور توبہ و استغفار کے ساتھ دعا اور قبولیتِ دعا کی امید باندھے‘ ایمان کے حقیقی علاج کو کام میں لائیں تاکہ حق تعالیٰ آپ کو حقیقی شفا سے سرفراز فرمائے اور آپ کی بیماریوں کو گناہوں کے مٹانے کا ذریعہ بنائے۔ آمین ثم آمین!

_____________

اجتماعی زندگی مختلف سطحوں پر رواں دواں رہتی ہے جس میں حالات میں خرابی‘ الجھائو اور سدھار کی موجیں پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ بلاشبہہ دوسری اقوام کی بھی قومی زندگی کو گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہوگا‘ لیکن پاکستان کئی حوالوں سے منفرد نوعیت کے حالات و واقعات کے بھنور میں گھرا نظر آتاہے۔

بدقسمتی سے ہماری یونی ورسٹیوں میں‘خصوصاً سماجی علوم پر ہونے والی تحقیق اور تجزیہ کاری‘ بیش تر صورتوں میں بے رنگ‘ بے لطف اور بڑی حد تک بے مغز بھی ہے۔ ان دانش کدوں میں زندہ موضوعات پر دادِ تحقیق دینا غالباً شجرممنوعہ ہے‘ اسی لیے تحقیق ایک لگے بندھے (stereotype) اسلوب میں لڑکھڑاتی نظرآتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم و صحافت کو‘ ہماری جامعاتی سطح کی تحقیقات سے کوئی قلبی رغبت نہیں ہے۔ اس تناظر میں ایسے اہلِ قلم غنیمت ہیں جو ’’چراغ اپنے  جلا رہے ہیں‘‘۔ عبدالکریم عابد ایسے دانش وروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں‘ جنھوں نے مختلف اخباروں میں کالم نگاری اور اداریہ نویسی کے ذریعے قوم کی بروقت رہنمائی کی ہے۔

عبدالکریم عابد کی تازہ کتاب سیاسی‘ سماجی تجزیے موضوعات کی بوقلمونی کے ساتھ علمی گہرائی اور مشاہداتی وسعت کا ایک قیمتی نمونہ ہے۔ ان کے ہاں کسی نام نہاد اسکالر کا سا جامد اسلوب نہیں ہے اور نہ کارزارِ سیاست کے کھلاڑی جیسا یک رخا پن‘ بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے مضامین میں انصاف‘ اظہار اور اطلاع کا جھرنا پھوٹ رہا ہے۔ وہ فلسفے‘ سیاسیات‘ ادب‘ آرٹ اور تاریخ کی عبرت آموز تفصیلات اور وجدآفریں تجزیے پیش کرتے ہیں۔ ان کی یادداشت قابلِ رشک ہے اور سماجی سطح پر تعلقات کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ انداز نگارش رواں دواں ہے اور لکھنے والے کے ذہنی توازن اورپختہ فکری کا پتا دیتا ہے۔ یہ کتاب عبدالکریم عابد کے ۴۹ مضامین پر مشتمل ہے‘ جن میں بیشتر کی اشاعت جسارت اور فرائیڈے اسپیشل میں ہوئی۔

جناب عابد نے اپنی زندگی کی ساٹھ بہاریں صحافت و سیاست‘ اور ادب و دانش کے ویرانوں (یا مرغزاروں) میںگزاری ہیں۔ وہ ایمان اور عقیدے کی پختگی اور تشخص کا امتیاز رکھنے کے باوجود‘ پیشہ ورانہ دیانت اور تجزیاتی معروضیت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔

ہماری قومی تاریخ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں: ’’پاکستان پان اسلام ازم کے جذبے کی پیداوار ہے اور اس جذبے کے بغیر پاکستان کو نہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے‘ نہ چلایا جا سکتا ہے      (ص ۱۷۳)--- پاکستان کی سیاسی زندگی میں‘ اہلِ سیاست کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی نااہلی‘ ناعاقبت اندیشی ‘ اور مرغِ بادنما جیسی فطرت کے ہاتھوں وطن عزیزکو کھیل تماشے کی طرح برتنے میں ]کوئی[ عار محسوس نہیں کرتے‘ لیکن جوں ہی عوام میں کوئی بے چینی پیدا ہوتی ہے تو یہ لیڈر حضرات اپنی توپوں کا رخ دوسری قومیت کی طرف پھیر دیتے ہیں‘‘۔

پاکستان کے تمام المیوں کا ذمہ دار پنجاب کو قرار دینا ہماری سیاست میں ایک چلتا سکّہ ہے‘ عابد صاحب نے تفصیل سے اس کا تجزیہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ہماری سیاست کا فیشن پنجاب کو مطعون کرنا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خداوندان پنجاب کے جرائم بہت ہیں… لیکن دوسرے صوبوں کے اہلِ سیاست نے کیاکسی اچھے کردار کا مظاہرہ کیا (ص ۱۷۹)… یہ حسین شہید سہروردی تھے جنھوں نے مسلمانوں کے اتحاد ] کے نظریے [ کو زیروجمع زیرو قرار دے کر اینگلو امریکی طاقتوں کے سامنے سجدہ ریزی کا مسلک پورے دھڑلے سے اختیار کیا (ص ۱۸۱)… جمہوریت کی تباہی کے عمل میں پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادت کی بے اصولی اور موقع پرستی بھی شامل ] رہی ہے[۔ صورتِ حال ہرگز یہ نہیں تھی کہ پنجاب میں صرف حکمران طبقہ تھا‘ بلکہ یہاں جمہوریت‘ وفاقیت‘ صوبائی خودمختاری اور منصفانہ اقتصادی نظام کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ موجود اور خاصے منظم تھے لیکن دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادتوں نے ان سیاسی عناصر کے ساتھ اشتراکِ عمل کے بجاے ] پنجاب کے[ حکمران طبقے کے ہاتھوں کھلونا بننا پسند کیا۔ انھوں نے اپنا سارا وزن‘ جمہوریت اور وفاقیت کے بجاے آمریت اور غیر جمہوری مرکز کے پلڑے میں ڈال دیا (ص ۱۲۵)… سرحد کے قیوم خاں کوئی معمولی رہنما نہیں تھے] انھوں[ نے اتحاد کے لیے کبھی پنجاب کی عوامی قوتوں کو پسند نہیں کیا]بلکہ[ ان کا گٹھ جوڑ اوپر کے اس حکمران طبقے سے تھا جس نے ظلم و جبر کی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے سائے میں خود خان قیوم کی حکومت بھی حزبِ اختلاف کو کچلنے کی کارروائیاں بے جھجک کرتی رہی۔ انھوں نے مانکی شریف کا لحاظ کیا نہ دوسرے مسلم لیگیوں کا‘ اور سرحد کا مردِ آہن بن کر اپنے ہتھوڑے سے جمہوریت کا سر کچلتے رہے۔ ادھر غفار خاں کو سواے پختونستان کی رَٹ لگانے کے‘ دوسری کوئی بات ہی نہیں سوجھتی تھی (ص ۱۲۶)… بھٹوصاحب نے سرحد‘ بلوچستان میں نمایندہ حکومتوں کو ختم کیا‘ بلوچستان پر فوج کشی کی تو ایک طرف اکبربگٹی نے ] بھٹو صاحب کا ساتھ دے کر[ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا‘ اور دوسری طرف سندھ سے حفیظ پیرزادہ‘ ممتاز بھٹو‘ طالب المولیٰ نے تالیاں بجا کر اس کا خیرمقدم کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ جمہوریت نہ کسی کو عزیز ہے نہ کسی کو مطلوب۔ اب بلا سے اگر جمہوریت ذبح ہوتی ہے تو ہوجائے‘ ہم کیوں اس کا غم کریں۔ یہی ذہنیت تھی جس نے آخرکار جمہوریت اور سندھی رہنمائوں کے چند روزہ اقتدار‘ سب کو ختم کر دیا (ص ۱۲۹)… سب کھیل جو آمریت‘ چھوٹے صوبوں کے جغادری لیڈروں کی مدد سے کھیلتی رہی ہے‘ اور اب بھی کھیل رہی ہے اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ بے شک پنجاب کا حکمران طبقہ بڑا لعنتی ہے‘ مگر اس لعنتی گروہ کے ساتھی ہر صوبے میں پائے جاتے ہیں۔ جب تک یہ لوگ اپنی ضمیرفروشی ترک کر کے‘ پنجاب کے حکمران طبقے کے بجاے‘ پنجاب کے جمہوریت پسند اور سیاسی عناصر کو تقویت نہیں پہنچائیں گے‘ اس وقت تک ] پاکستان[ آمریت کے چنگل میں پھنسا رہے گا۔ اس لیے چھوٹے صوبوں کے لوگ اپنے لیے پرانی ضمیرفروش قیادت کے بجاے نئی قیادت تلاش کریں‘ جس کا اصولوں پر واقعی ایمان ہو‘ اور وہ استقامت کا مظاہرہ کرے‘ورنہ صرف پنجاب کو گالیاں دیتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا‘‘ (ص ۱۲۹‘ ۱۳۰) وغیرہ۔

یہ تبصرہ تو ماضی پر تھا‘ اب دورِ جنرل مشرف میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ابھرنے والے ان ناسوروں کی ایسی سچی تصویرکشی بھی کی ہے۔ میرظفراللہ خاں جمالی کا بے آبرو ہو کر کوچہ بدر ہونا‘ آنسو بہانا اور پھر کپڑے جھاڑ کر‘ حکمران طبقے کی تعریف پر کمربستہ ہونا عبرت کی جا ہے۔ پنجاب کے چودھریوں اور وڈیروں کا اپنے جیسے خاندانی خدمت گاروں اور پارہ صفت انسانوں کو جمع کر کے ملازمین ریاست کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کرانے کی خواری مول لینا ایک گھنائونافعل ہے۔ کراچی سے ایم کیو ایم قسم کی بھتہ خور قیادت کا کذب و دہشت گردی وغیرہ۔

سماجی زندگی پر ادب کے کردار و احوال پر بھی بڑے جان دار تبصرے سامنے آتے ہیں۔ اس کے ساتھ علامہ اقبال کے کارنامے اور ان کے بارے میں نام نہاد ترقی پسندوں کا رویّہ زیربحث آیا ہے‘ لکھتے ہیں: ’’وہ قنوطیت اور بے عملی کے خلاف ساری زندگی جہاد کرتا رہا‘ اور اس جہاد کے سبب ہی برصغیر کے مسلمان عوام نے اقبال کو ملّت کے اقبال کا ستارہ سمجھا‘ لیکن ترقی پسندوں کو یہ ناگوار گزرا۔ اخترحسین رائے پوری نے رسالہ اردو‘ جولائی ۱۹۳۵ء میں لکھا:’’اقبال فاشتّیت کا ترجمان ہے۔ وہ مسلمانوں اور ہندستان کے لیے خطرناک ہے‘ یہی بات روزنامہ پرتاپ کے مدیرمہاشے کرشن نے ایک اداریے میں لکھی تھی: ’’شمالی ہند کا ایک خطرناک مسلمان‘‘۔ ]تاہم[ اقبال جب مسلمان عوام کا شاعر بن گیا تو ترقی پسندوں نے یہ کوشش کی کہ اسے ترجمان اشتراکیت ظاہر کریں‘ لیکن وہ دھوکا دہی کی اس واردات میں کامیاب نہیں ہوسکے…اس ضمن میں سب سے شاہکار چیز علامہ اقبال پر وہ رنگین فلم تھی‘ جو فیض احمد فیض نے کرنل فقیر وحید الدین کے سرمائے سے بنائی تھی۔ اس فلم کو میں نے بھی کراچی میں دیکھا‘ اور جب ہال سے باہر نکلا تو ممتاز حسن آگ بگولا نظرآئے۔ وہ کہنے لگے: ’’اس فلم سے اصل اقبال جو مسلمان تھا‘ غائب کر دیا گیا ہے‘ اور وہ جعلی اقبال رکھ دیا گیا ہے‘ جو مارکس اور لینن کا پیرو نظرآتا ہے‘‘۔ ہم دونوں کرنل فقیر سید وحید الدین کے مکان پر بھی گئے۔ ممتاز صاحب نے ان سے کہا: ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کے سرمائے سے اقبال پر ایسی فلم بنی‘ جس میں اقبال کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے‘‘۔ کرنل صاحب نے ان کی گفتگو سن کر فیصلہ کیا کہ یہ فلم عوام میں نمایش کے لیے پیش نہیں کی جائے گی ‘ اور اسے ضائع کر دیا جائے گا۔ کرنل صاحب نے کہا: ’’میں یہ سمجھ لوں گا کہ جو سرمایہ اس فلم پر صرف کیا گیا‘ وہ کوئی چور لے اڑا‘‘۔ اس کے بعد فیض صاحب اور کرنل صاحب کے تعلقات میں کھنچائو پیدا ہوگیا (ص ۱۱۱-۱۱۴)وغیرہ۔

اس نوعیت کے تجزیاتی نکات سے عابد صاحب نے ان دقیق بحثوں کو ایک عام فہم اسلوب میں سمو کر رکھ دیا ہے۔

کتاب کا سب سے زیادہ دل چسپ اور فکرانگیز حصہ وہ ہے‘ جس میں انھوں نے  تحریکِ آزادی‘ تحریکِ پاکستان‘ جدید مسلم قیادت اور علما کے حرکی تجربات وغیرہ کو موضوع بحث بنایا ہے۔ تاریخ کے سیاسی اور منطقی پہلو کو ایسے قائل کر دینے والے لہجے میں بیان کیا ہے کہ ایک اوسط درجے کی تعلیمی قابلیت رکھنے والا فرد بھی اس سے روشنی حاصل کرکے مستقبل کی تاریکیوں کو ختم کرنے پر سوچ بچار شروع کر دیتا ہے۔ سید احمد شہید کی تحریک‘ علامہ شبلی نعمانی کے نظریات‘ مغرب زدہ حکمران‘ پاکستانی سیاست میں جاگیردار طبقے کا کردار‘ جدید تعلیم اور ماڈرن اسلام اور موجودہ اقتصادی نظام وغیرہ کے حوالے سے ایک جہان معانی‘ نظرنواز ہوتا ہے۔

عبدالکریم عابد کہتے ہیں:’’ایک مثالی اسلامی لیڈرشپ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تعلق باللہ اور تعلق بالعوام دونوں کی مالک ہوتی ہے۔ اس کا خدا اور خلقِ خدا ہر دو سے رابطہ ہوتا ہے۔   (ص ۱۷۲)… اسلام کے نام لیوائوں پر یہ خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وقت کے اقتصادی چیلنج کا جواب پیش کریں۔ اگر ان کے پاس اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اسلام اصلی اسلام نہیں ہے‘ کیونکہ وہ اصلی اسلام ہوتا تو اس کے پاس عوام کے اقتصادی اطمینان کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا اور یہ محرومی جو نظر آرہی ہے نہ ہوتی‘‘ (ص ۲۳۱)۔

معاشی ناہمواری کے موجودہ ظالمانہ شکنجے پر عابد صاحب نے جان دار بحث کی ہے۔ اس نگارخانہ دانش و حکمت کے دلآویز رنگ گوناگوں ہیں: موضوعات کا تنوع ہے‘ بحث       کی وسعت‘ نقطہ نظر کی کشادگی اور اسلوب تحریر سادہ مگر دل چسپ اور پُرکشش۔ ابتدائیہ جناب سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ ہر مضمون کے آخر میں اس کی تاریخِ اشاعت بھی درج ہوتی۔ اس کتاب کو منشورات (منصورہ‘لاہور) نے شائع کیا ہے۔ صفحات ۳۶۰ اور قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے حکمرانوں اور اہلِ ثروت نے مادہ پرستی کی دوڑ اور عیش و عشرت کے ریکارڈ قائم کرنے میں ایک دوسرے کا خوب مقابلہ کیا ہے‘ تاہم عرب ممالک کے ان مال دار مسلمان حکمرانوں نے کسی نہ کسی انداز میں خود کو اسلام کا خادم ثابت کرنے کی بھی ضرور کوشش کی ہے۔ سعودی عرب‘ کویت‘ قطر اور بحرین کے مختلف ادارے دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات‘ لٹریچر اور دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دینے کے لیے خاصے خطیر بجٹ مختص کرتے ہیں۔ لیبیا بھی تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ یہاں بھی ملک کے مقتدر حاکم اعلیٰ کرنل معمر القذافی نے سرکاری سرپرستی میں انقلاب کے بعد ایک تنظیم  ۱۹۷۲ء میں قائم کی جس کا نام جمعیۃ الدعوۃ الاسلامیہ العالمیہ ہے۔ انگریزی میں اسے World Islamic Call Society لکھا جاتا ہے جس کا مخفف وکس (wicks) ہے۔

رابطہ عالم اسلامی اور دارالافتا کے انداز میں اس تنظیم نے بھی دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے مبعوثین‘ معلمین اور دعاۃ مقرر کیے‘ مدارس قائم کیے اور لٹریچر پھیلانے کے علاوہ رفاہی کاموں کے ذریعے اپنے ملک کے لیے خیرسگالی کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس تنظیم کے بانی تو خود قذافی صاحب ہیں مگر اس کے پہلے سیکرٹری جنرل اور روح رواں شیخ محمود صبحی صاحب تھے۔ شیخ محمود وضع قطع اور لباس سے بھی روایتی عالمِ دین نظر آتے تھے۔ اب اس طرح کا    ایک بھی شخص لیبیا میںنظر نہ آیا۔ آج کل اُس تنظیم کے سیکرٹری جنرل قذافی صاحب کے قریبی ساتھی‘ معتمد اور لیبیا کی ایک مؤثر و طاقت ور شخصیت الشیخ ڈاکٹر محمد احمد شریف ہیں۔ یہ تنظیم ہر چار سال بعد اپنی عالمی کانفرنس منعقد کرتی ہے۔ گذشتہ کئی چارسالہ کانفرنسیں دیگر ممالک میں منعقد ہوتی رہی ہیں کیونکہ لیبیا آنے جانے میں بھی مہمانوں کو مشکلات تھیں اور اشیاے ضروریہ کی فراہمی میں دقت کی وجہ سے یہاں ان کی مہمان نوازی بھی محال تھی۔ اس مرتبہ پابندیاں ہٹنے کے بعد یہ کانفرنس طرابلس میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ چار روزہ کانفرنس کی تاریخیں ۲۵ تا ۲۹نومبر ۲۰۰۴ء طے ہوئیں۔ سابقہ کانفرنس جکارتہ میں منعقد ہوئی تھی۔

شیخ محمود صبحی صاحب کے دور میں کئی مرتبہ لیبیا کی کانفرنسوں میں شرکت کا دعوت نامہ ملتا رہا مگر میں بوجوہ معذرت ہی کرتا رہا۔ اس مرتبہ مجھے جماعت اسلامی کی طرف سے اس کانفرنس میں شرکت کی ہدایت کا حکم ملا تو سوچا کہ لیبیا کے بدلے ہوئے حالات کا کچھ مطالعہ کرنے کا بھی موقع مل جائے گا اور مختلف ممالک سے آنے والے پرانے دوستوں سے بھی ملاقات کی سبیل نکل آئے گی۔ خواہش کے پہلے حصے کا محدود ہی موقع مل سکا کیونکہ ایک تو وقت مختصر تھا اور وہ سارا کانفرنس کے طے شدہ اجلاسوں میں شرکت ہی کے لیے مختص تھا۔ دوسرے‘ ہمارا قیام طرابلس ہی میں تھا‘ کہیں اور جانے کا موقع اور وقت دستیاب نہ تھا۔ تیسرے‘ یہ معاشرہ اپنی بعض اسلامی اور بدوی خوبیوں کے باوجود خاصا جکڑا ہوا اور محدود ہے۔ اشتراکی خصوصیات اور یک جماعتی نظام کی جملہ ’’برکات‘‘ یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ہر شخص دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سہما ہوا اور خوف زدہ معاشرہ کبھی کھلے اور بے تکلف ماحول سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً معلومات خاصی محدود اور چھنی چھنائی ہوتی ہیں۔ صحافت بہت ترقی یافتہ نہیں ہے۔ لیبیا کا سرکاری ٹی وی الجماھیریہ بھی بالکل محدود نوعیت کی معلومات اور کنٹرولڈ پروگراموں پر مشتمل نشریات و ابلاغیات فراہم کرتا ہے۔ قطر کا الجزیرہ چینل یہاں مقبول ہے اور آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔

اس کانفرنس میں دنیا کے تقریباً ۱۲۵ ممالک سے مندوبین مدعو تھے۔ مرد بھی تھے اور خواتین بھی اور کانفرنس بالکل مخلوط نوعیت کی تھی۔ ایسی اسلامی کانفرنس راقم نے زندگی میں    پہلی مرتبہ دیکھی۔ مردوں اور عورتوں کو کانفرنسوں میں شریک تو دیکھا تھا مگر حدود‘ نشستوں کا تعین ہمیشہ ملحوظ رہا۔ اس کانفرنس کا رنگ بالکل دوسرا تھا۔ اس پر تفصیلاً لکھنے کا یہ موقع نہیں۔ غیرملکی مندوبین کی تعداد ۳۵۰ سے زائد تھی۔ کئی ممالک سے ایک سے زائد تنظیموں کی نمایندگی تھی۔ تنظیموں کی تعداد ۲۰۰ سے زائد تھی۔ پاکستان سے مولانا فضل الرحمن‘ مولانا سمیع الحق‘ راجا ظفرالحق اور راقم کے علاوہ حکمران پارٹی کے حافظ طاہر اشرفی اور جامعہ بنوریہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر شریک تھے‘ جب کہ اہم مہمانوں میں افغانستان کے دو سابق صدور صبغۃ اللہ مجددی اور پروفیسربرہان الدین ربانی‘ تنزانیہ کے سابق صدر علی حسن موینیی اور کئی ممالک کے سابق اور موجودہ وزرا کے نام نظر آئے۔ اتفاق سے افغانستان اور تنزانیہ کے سابق صدور سے پرانی ملاقات تھی۔ جناب علی حسن سے تجدید ملاقات بہت مفید رہی۔ انھوں نے کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اب انھوں نے عملی سیاست چھوڑ دی ہے اور خود کو دعوتِ اسلام کے لیے وقف کر دیا ہے۔

کانفرنس کا ایجنڈا پہلے سے طے شدہ تھا۔ تنظیم کی کارکردگی رپورٹ‘ عالمی جدوجہد اور سرگرمیوں کا جائزہ‘ سرمایہ کاری کے منصوبے اور ان کی رپورٹ‘ لیبیا میں قائم الکلیۃ الاسلامیہ اور دیگر بیرون ملک قائم ہزاروں تعلیمی و نشریاتی اداروں کا تعارف سامنے آیا۔ مختلف لیکچر بھی ہوئے مگر سب کچھ طے شدہ پروگرام کے تحت تھا۔ کانفرنس کا افتتاح کرنل قذافی صاحب کی نیابت میں سیرالیون کے پہلے مسلمان صدر احمد تیجانی کعبہ نے کیا۔ قذافی صاحب ملک میں موجود تھے مگر وہ کانفرنس میں تشریف نہیں لائے۔ افتتاحی سیشن میں فلپائن کے نائب صدر‘ پوپ جان پال کے نمایندے‘ قبطی چرچ مصر کے آرچ بشپ کے نائب اور یونانی گرجا کے چیف کے نمایندے نے بھی شرکت کی اور خیرسگالی جذبات کا اظہار کیا۔ مختلف اجلاس مختلف اہم عالمی شخصیات کی صدارت میں منعقد ہوئے۔ ان میں کوئی ایشیائی ریجن سے نہیں تھا۔ کسی بھی صدر کا صدارتی خطاب پروگرام میں شامل نہ تھا۔ ہر صدر محض مقررین کے نام پکارنے اور انھیں وقت کی تحدید اور یاد دہانی کا فرض ادا کرتا رہا۔ آخری سیشن میں ۳۶ رکنی مجلس انتظامیہ کا انتخاب بصورت تقرر عمل میں آیا۔ پاکستان سے پہلے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ممبر تھے۔ اس مرتبہ راجا ظفرالحق کو شامل کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد احمد شریف حسب سابق سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ مشترکہ اعلامیہ پڑھا گیا اور اس تجویز کو بڑی پذیرائی ملی کہ ’’قائد انقلاب‘‘ کو ان کی خدماتِ جلیلہ پر مبارک باد کا تار بھیجا جائے۔ پاکستان کے معروف عالم دین اور تنظیم کے بانی رکن مولانا علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم کے لیے اسٹیج سے خصوصی طور پر دعاے مغفرت کرائی گئی۔ کانفرنس میں اسلام کو دین گوسفنداں کے طور پر پیش کرنے کا تجربہ کیا گیا مگر سامعین جہاد کے حقیقی معنوں سے آشنا تھے۔ اس کا اظہار بھی ہوتا رہا جودل چسپ اور ایمان افروز تھا۔

یہ توکانفرنس کے متعلق چند اشارات تھے۔ اب عمومی مطالعے اور تاثرات کے حوالے سے چند باتیں پیش خدمت ہیں۔

لیبیا شمال مغربی افریقہ میں واقع ایک اہم ملک ہے۔ اس ملک کی تاریخ تابناک ہے۔ گذشتہ دو صدیوں کی اہم اصلاحی و تجدیدی سنّوسی تحریک کا مولد و مرکز اور ہماری تاریخ جہاد کے عظیم بطلِ جلیل عمر المختار کا مسکن و موطن ہونے کا اعزاز اس ملک کو حاصل ہے۔ ملک کا رقبہ ۱۷لاکھ ۵۹ ہزار مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان سے تقریباً دگنا ہے‘جب کہ آبادی صرف ۵۶ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس آبادی کا بھی بیشتر حصہ دو بڑے شہروں دارالحکومت طرابلس (۲۴ لاکھ افراد) اور بن غازی (ساڑھے سات لاکھ) میں آباد ہے۔ باقی ماندہ آبادی چھوٹے چھوٹے قصبات اور نخلستانوں میں مقیم ہے۔

ملک میں یک جماعتی نظام رائج ہے۔ یکم ستمبر ۱۹۶۹ء سے لیبیا پر کرنل معمرالقذافی کی حکومت ہے۔ پورے ملک میں ایک ہی شخصیت اور ایک ہی نام زبانوں اور ذہنوں میں جاگزین ہے اور یہ قائد‘ فاتح الاخ معمرقذافی کاہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ اور انتظامیہ کے دیگر عہدے سبھی موجود ہیں مگر کوئی اجنبی چند ایام کے لیے یہاں مقیم رہنے کے باوجود ذرائع ابلاغ سے مشکل ہی سے کسی نام سے مانوس ہوسکتا ہے۔ الاخ القائد کے بعد اگر کوئی دوسرا نام سامنے آتا بھی ہے تو وہ خانوادئہ قذافی کا ’’ہونہار‘‘ نوخیز سپوت سیف الاسلام القذافی ہے۔

لیبیا کے انقلاب ستمبر‘ جسے مقبول اصطلاح میں انقلابِ فاتح کہا جاتاہے‘ کے وقت ملک کی آبادی ۲۰ لاکھ سے بھی کم تھی۔ اس وقت پٹرولیم کی دولت دریافت ہوئے ۱۱ سال بیت گئے تھے اور ملک میں خوش حالی کا دور شروع ہوگیا تھا‘ تاہم عام آدمی اور بالخصوص فوجی جوان و افسران عدمِ اطمینان کا شکار تھے۔ ۲۷ سالہ کرنل معمر قذافی نے ملک کے تاجدار شاہ ادریس سنوسی کا   تختہ الٹ کر ملک میں یکم ستمبر ۱۹۶۹ء کو فوجی راج قائم کر دیا۔ لیبیا بادشاہت سے آزاد ہو کر فوجی تسلط کے ’’مزے لوٹنے‘‘ لگا۔ قذافی صاحب نے آخر کار اسے جماھیریہ (جمہوریہ) لیبیا بنا دیا۔ اس کے نام کے ساتھ سوشلسٹ‘ اسلامی اور عرب وغیرہ کے سابقے لاحقے لگتے اور اترتے رہے مگر جماھیریہ کا جھومرمسلسل اس کے ماتھے پر درخشاں رہا۔

معمر قذافی صاحب نے ملک میں اصلاحات کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا۔ پیپلز کانگرس (پارلیمنٹ) وجود میں آئی۔ سیاسی جماعت قائم کی گئی۔ کمیونٹی مراکز بنے اور یک جماعتی نظام کے ذریعے نیچے سے اوپر تک نمایندے ’’منتخب‘‘ ہوئے۔ جماھیریہ کی جمہوریت ہمارے دورِ ایوبی کی بنیادی جمہوریتوں‘ سابقہ کمیونسٹ روس کے نظامِ جماعت (پولٹ بیورو) اور انڈونیشیا کے فوجی دورکے نظامِ حکمرانی کا ملغوبہ ہے۔

پولٹ بیورو کے طرز پر حکمران جماعت ملک کا نظام چلا رہی ہے۔ اس کے مقابلے پر کوئی جماعت بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ طرابلس کی سڑکوں پرسب سے زیادہ مقبول اور عام نظرآنے والا نعرہ چاکنگ یا بینرز اور ہینگرز کی صورت میں ’’فاتح ابداً‘‘ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک فقرے سیاسی فکر کو اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عام فقرہ طرابلس کی دیواروں پر آپ کو نظرآئے گا: من تحزّب فقد خان‘ یعنی جس کسی نے (یک) جماعتی نظام کے اندر گروہ بندی کی کوشش کی‘ گویا اس نے خیانت کا ارتکاب کیا۔

معمر قذافی ایک حکمران ہی نہیں ’’مفکر‘‘ بھی ہیں اور ’’مبلغ‘‘ و ’’داعی‘‘ بھی۔ انھوں نے اس صحرائی ملک کے عوام کو نئی سوچ اور جہت سے ہم کنار کیا ہے۔ وہ عالمی راہنما بننے کا داعیہ اور عزم رکھتے تھے۔ سرخ کتاب کی طرز پر سبز کتاب (Green Book) مرتب کی۔ ان کے ایک قریبی مشیر کے بقول‘ عالم اسلام نے ان کو مایوس کیا۔ پھر انھوں نے عرب ممالک کو متحد و منظم کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور محنت کی مگر یہ تو مینڈکوں کی پنسیری تولنے جیسا ناممکن عمل   ثابت ہوا۔ آخرکار ان کی توجہ براعظم افریقہ پر مرتکز ہوئی۔ برطانیہ میں مقیم ان کے ایک مشیر نے جس کا اپنا پس منظر بھی افریقی ہے‘ ان کے اس نئے تصور کی بہت تحسین کی اور کہا کہ عالمِ اسلام اور عالمِ عرب میں اقدارِ مشترک کم اور تضادات زیادہ ہیں‘ جب کہ افریقہ میں (اس کے بقول) غربت‘ پس ماندگی‘ محرومی‘ بیماری اور جہالت مشترک ہیں۔ قذافی صاحب مبلغ بھی ہیں اور شارحِ دین بھی۔ وہ اپنے صحرائی خیمہ ہائوس میں خود ہی نماز کی امامت کراتے ہیں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق غیر مسلموں کو اپنی دعوت سے مسلمان بھی بناتے ہیں۔ میڈیا یہ مناظر پوری باقاعدگی سے دکھاتا ہے۔ ہمیں بھی ایسا ایک منظر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ آٹھ مرد اور دو خواتین نے ان کے خیمے میں بیرونی مہمانوں کی موجودگی میں ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ یہ سب افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے مزدور تھے جو یہاں تلاشِ معاش کے لیے مقیم ہیں۔

کرنل قذافی کی قیادت میں لیبیا نے گذشتہ ۳۵ سالوں میں بڑے بڑے تجربات کیے ہیں۔ کئی ممالک سے اتحاد و وفاق کی کوششیں ہوئیں۔ وفاق و وصال ختم ہوا تو عناد و محاذ آرائی کا مرحلہ آیا۔ سب سے اہم معاملہ مغربی بلاک اور خصوصاً امریکا سے محاذ آرائی سے متعلق ہے۔ اس کاڈراپ سین بھی عجیب ہے۔ برطانیہ کی کامیاب سفارت کاری کے طفیل اور امریکا کے عراق میں جمہوریت و آزادی کی مہم جوئی کے بالواسطہ نتائج و ثمرات کے نتیجے میں قذافی صاحب نے ’’مدبرانہ‘‘ فیصلہ کیا کہ محاذآرائی اور تصادم کی پالیسی ترک کرکے مکالمہ و مذاکرہ اور افہام و تفہیم کی راہ نکالی جائے۔ ہتھیاروں سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ ہتھیار بنانے کا جنون چھوڑ کر پرامن بقاے باہمی بلکہ گاندھی جی کے نظریے کے مطابق اہنسا (عدمِ تشدد) ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ اسے آزمانے میں کیا ہرج ہے۔

لیبیا پر اس کی سابقہ پالیسیوں کی وجہ سے کم و بیش ۱۳ برس تک امریکی دبائو کے تحت  اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مکمل معاشی مقاطعہ اور گوناگوں پابندیوں کا زمانہ خاصا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ تیل کی دولت کے باوجود معاشی حالات شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے۔ لیبیا کے دینار کی قیمت مایوس کن حد تک گر گئی۔ اشیاے ضروریہ حتیٰ کہ عام مشروبات تک کی دستیابی ناممکن ہوگئی‘ دوائوں کا حصول بھی ایک پریشان کن دردِسر کی صورت اختیار کرگیا۔ اہلِ لیبیا کے لیے سفر اوردنیا میں اِدھر اُدھر جانے آنے کے راستے مسدود ہوکررہ گئے۔ افراطِ زر اور کرپشن نے ڈیرے ڈال دیے۔ یہ صورت حال عالمی مقاطعہ ختم ہونے کے بعد ہنوز کسی حد تک قائم ہے۔ طرابلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترتے ہی احساس ہوتا ہے کہ کسی تیل پیدا کرنے والے مال دار ملک کی بجاے تیسری دنیا کے کسی مفلوک الحال علاقے میں آپہنچے ہیں۔ سڑکوں کی حالت بھی ناگفتہ ہے اور عام آدمی عسرت میں زندگی گزار رہا ہے۔ سرکاری ملازمین اپنی ملازمت کے علاوہ کئی اور کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ گزربسر کر سکیں۔

حکومت نے زرعی شعبے کو ترقی دینے کی طرف خصوصی توجہ دی ہے مگر ملک بنیادی طور پر زرعی ماحول نہیں رکھتا۔ زمین زرخیزتو ہے مگر پانی دستیاب نہیں۔ بارشوں پر دارومدار ہے اور بارشوں کا کوئی بھروسا نہیں ہوتا۔دارالحکومت کے گرد و نواح کے مضافاتی علاقوںمیں زیتون‘ انگور‘ مالٹے اور نارنجی کے چھوٹے چھوٹے باغات دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مرکز شہر سے ہوائی اڈے تک جانے والی سڑک کے ساتھ ساتھ دونوں جانب بھی باغات ہیں۔ شہر کے مرکزی حصے میں بلندوبالا عمارتیں‘ بنکوں کے دفاتر‘ سرکاری عمارتیں اور وزارتوں کے ہیڈ کوارٹر تیل کی دولت کا تاثر دیتے ہیں۔دارالحکومت کے بیشتر بڑے بڑے ہوٹل سمندر کے کنارے واقع ہیں۔ ہمارا قیام فندق باب البحرمیں تھا۔ اس کے جوار میں فندق باب المدینہ اور فندق باب الجدید واقع ہیں‘ جب کہ ذرا فاصلے پر فندق المہاری کی بلندوبالا اور نسبتاً جدید عمارت سیاحوں کا مرکز ہے۔

لیبیا کے عام لوگوں بالخصوص انقلاب کے بعد کی نسل کے نوجوانوں کی بڑی تعداد فوجی تربیت سے گزری ہے۔ کئی شعبوں میں پاکستان کی طرح فوجی جوان و افسران خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کا رویہ عموماً سخت اور ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا ہوتا ہے۔ پرانی نسل کے لوگ مقابلتاً زیادہ مذہبی اور روحانیت کی طرف مائل ہیں۔

فقہی مسلک مالکی ہے مگر صوفیا کا معاشرے پر بڑا گہرا اثر ہے۔ تیجانی‘ شاذلی‘ قادریہ اور کسی حد تک دیگر سلسلہ ہاے تصوف سے وابستگان مساجد میں نمازوں کے بعد بلند آواز سے ذکر اللہ کرتے ہیں جو مسنون دعائوں اور کلامِ نبویؐ کے الفاظ و اوراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نہایت   خوش آیند بات ہے۔ مذہبی حلقوں میں جامعۃ الازہر کا بھی بڑا اثر ہے۔ مسجدوں کے ائمہ اور خطبا میں کوئی ایک بھی باریش نظر نہ آیا۔ یہ نئی تبدیلی ہے۔ شاہی دورِ حکومت میں ایسا نہ تھا۔ خود     شاہ ادریس کی بھی مکمل اور مسنون ڈاڑھی تھی۔ جمعیت اسلامی کے پہلے سیکرٹری جنرل جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا برعظیم کے مسلمان علما کی تصویر تھے مگر اب وہ سب کچھ قصۂ پارینہ ہے۔

امریکا جیسے ملک کو سجانے سنوارنے اور بامِ عروج پر فروزاں کرنے کا کریڈٹ کسی ایک مذہب‘ قوم یا نسل کو نہیں دیا جاسکتا۔ یہ سب کی مشترکہ کاوش و کوشش تھی۔ امریکا کو ’یکساں مواقع کی سرزمین‘ (land of equal opportunities) کہا جاتا رہا ہے۔ جہاں انسانوں کی قدر ان کے مذہبی و لسانی پس منظر کے بجاے ان کی قابلیت‘ ہنر اور محنت سے کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکا کے ہر حصے میں دنیا کے ہر حصے کا باشندہ اپنے حصے کا رزق سمیٹتا نظر آئے گا۔ تھامس جیفرسن کے دورِ صدارت میں جب امریکی کانگرس نے تارکینِ وطن کے لیے قوانین کو آسان اور نرم کرنے کی منظوری دی تو اس بل کے ناقدین نے بہت شوروغوغا کیا جس پر صدر ریاست ہاے متحدہ امریکا کے یہ الفاظ آج امریکا کے مقتدر حلقوں کے لیے سوالیہ نشان ہیں جہاں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے:

we are for their skills, not for their skins.

امریکا کی ایک معتبر مسلم آرگنائزیشن کے مرکزی ذمہ دار سے جب میں نے یہ سوال پوچھا کہ مسلمانوں کے ساتھ تفریق و امتیاز اور تعصب وعناد کی یہ لہر اگر قابو میں نہ آئی تو کیا یہ خود اس ریاست کے وجود کے لیے باعث خطرہ نہ ہوگا جس نے اپنی نَیوہی غیر جانب داری‘ انصاف‘ عدل اور سب کے یکساں مواقع پر ڈالی تھی؟

نئے عالمی نظام یا تہذیبوں کے تصادم کی پشت پر کارفرما ذہن اور امریکا کی اصل   ہیئت مقتدرہ عشروں کے تقابل‘ تجزیے اور تحقیق کے بعد اس بات پر یکسو ہوگئی ہے کہ مسلمان وہ واحد قوم‘ اور اسلام وہ واحد نظریہ ہے جوہر طرح کے معاشروں‘ تہذیبوں اور نظام میں جذب ہونے سے اپنے آپ کو حتی الوسع بچائے رکھتا ہے جو کسی بھی رائج نظام کی بقا اور دوام کے لیے  چیلنج سے کم نہیں۔ اس لیے تاریخی‘ مذہبی‘ تہذیبی اور معاشی اختلافات کی وہ لَے جو ہمیشہ سے زیرزمین (under current)موجود رہی ہے‘ اب اسے ابھار کر سامنے لایا جا رہا ہے تاکہ منصوبے کے مطابق اس کش مکش کو تیز کیا جا سکے۔ ویسے بھی یہ ذہن اب اس رائے میں پختہ ہوچکا ہے کہ ادیان اور تہذیبوں کے درمیان عالمی سطح پر مذاکرے‘ مباحثے اور بالادست و زیردست کرنے کا جو عمل صدیوں سے علمی و تدریسی سطح پر جاری رہا ہے‘ اب دنیا اس کے خاتمے اور   کھلی مزاحمت کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود عراق پر فوج کشی‘ بے انصافی کی آخری حد تک جاکر اسرائیل کی پشت پناہی‘ اور دنیا میں ہونے والی ہر نوعیت کی تخریب اور زیادتی کو اسلام سے وابستہ کرنے کا امریکی طرزعمل‘ کیا اس چیز کی توثیق نہیں کرتا۔

چندسال قبل ہی کی بات ہے جب ویٹی کن (روم) نے یہودیوں کو حضرت عیسٰی ؑکے قتل سے ’باعزت‘ بری کر دیا۔ عیسائی اور یہودیوں کی قربت کے پس منظر میں کچھ حلقے یہ خیال آرائی بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ معروف عیسائی عقیدے اور قدیم کتب کے مطابق نزول مسیح سے قبل یہودی پوری دنیا پر غالب آئیں گے۔ گویا اس طرح اب یہودی ریاست کا قیام عیسائیوں کی بھی ایک تاریخی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کا ایوینجلیکل چرچ ۵۰ کے عشرے سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کے ساتھ مالی تعاون کر رہا ہے تاکہ تاریخ کے اس عمل کو تیز کیا جا سکے۔ یہودیوں کا امریکی اداروں‘ مالی کارپوریشنوں اور سیاست میں اثرونفوذ اب کسی تحقیق کا محتاج نہیں۔ گذشتہ دنوں میساچیوسٹس کی ایک معروف درس گاہ میں لیکچر دیتے ہوئے نیویارک ٹائمز کے معروف کالم نگار تھامس ایل فرائڈمین نے اظہار خیال کیا کہ ’’میری دعا ہے کہ امریکا ہمیشہ تیل کا محتاج رہے ۔اس لیے کہ اس دولت نے عرب قوم کو جس طرح ناکارہ‘ آرام پسند اور کاہل بنایا ہے میں اس انجام سے ڈرتا ہوں‘‘۔ آپ لوگ عرب دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں عوام الناس اِدھر اُدھر (فارغ و بے کار) بیٹھے نظر آئیں گے۔ اس نے دنیا بھر سے  علم کے لیے امریکی دانش گاہوں کا رخ کرنے والے طلبہ و اساتذہ کو گواہ بناتے ہوئے عربوں کو تنبیہہ کی کہ:

Keep the (oil) pumps open, keep the prices low and 'be nice to the jews'.

تیل کے چشمے جاری رکھو‘ قیمت کم رکھو اور یہودیوں سے اچھا سلوک کرو۔ (اس جملے کا آخری حصہ موصوف نے فنکارانہ سرگوشی کے انداز میں ادا کیا)

امریکا کے طول و عرض میں مسلم تنظیمیں اپنی بساط بھرسیاسی و معاشرتی جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں میں سیکڑوں مساجد اور اسلامک سنٹروں کی ایک معتدبہ تعداد تہذیبی احیا اور تحفظِ اقدار کے جذبے کے ساتھ مصروفِ عمل ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی جدوجہد کے ان مظاہر کا اگرچہ ۱۱ستمبر کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں‘ اس کے باوجود امریکی ادارے اور نت نئے قانون ان اداروں کے منتظمین اور معاونین کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ امریکی میڈیا اور اس کے رخ کو متعین کرنے والا ذہن کس قدر مؤثر اور ہدف آشنا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ راے عامہ کے ایک سروے کے مطابق ہر چوتھا امریکی یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی اکثریت (ذاتی مشاہدے اور رابطے کی حد تک) واپسی کے دروازے کو کھلا رکھنا چاہتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسلمان ملکوں کے معاشی‘ سیاسی اور انتظامی حالات انھیں اپنے اس فیصلے پر قائم نہیں رہنے دیتے۔

کیا امریکا وہی خطہ ہے جس نے ہر مذہب‘ ملک اور رنگ کے لوگوں کو خوش آمدید کہا ہے‘ تو اس کا جواب ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد نفی میں نظر آیا ہے۔سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے حال ہی میں منظور ہونے والے قوانین نے مسلمانوں کی بے چینی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ پبلک اسکول اور آزاد معاشرے میں پلتی بڑھتی نوجوان نسل کی اپنی دیرینہ روایتی اقدار سے بے نیازی یا بیزاری اس پر مستزاد ہے جس نے ۷۰‘ ۸۰‘ ۹۰ کے عشروں میں امریکا میں آکر بس جانے والوں کو مزید اضطراب اور تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بہرحال محض معاش کی خاطر امریکا میں وارد ہونے والے ’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ والی سوچ کے گرداب میں ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو صلابت فکر‘اجتماعی جدوجہد اور خوداعتمادی کے خوگر ہیں۔

ایک صاحبِ علم کی رائے کے مطابق یہودی سازش‘ ریاستی حکمت عملی اور اُمت مسلمہ میں قیادت کا قحط الرجال اپنی جگہ‘ امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی موجودہ صورت حال    ان کے دعوتی کردار سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔ مسلمان امریکا کے طول و عرض میں آباد ہونے کے باوجود اپنی اپنی قومی و ریاستی وحدتوں کے اسیر رہے۔ ان کے سماجی تعلقات‘ رشتہ داریاں‘ تبادلۂ خیالات سبھی ایک مخصوص دائرے سے باہر نہ نکل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج سیاسی و سماجی تنہائی (political and social alienation)کا شکار ہیں۔ مسلم تنظیمیں توبہت دیر سے معرضِ وجود میں آئیں ہیں پھر وہ بھی ان حدود سے بالاتر نہ ہوسکیں‘ جب کہ اس دوران چینی‘ انڈین اورہسپانوی اقوام کے لوگ اس خلا کو پُرکرتے چلے گئے جو معیشت‘ سیاست اور ذرائع ابلاغ کے دائروں میں کبھی مسلمانوں کا منتظرتھا۔

سمندر کی وسعت رکھنے والی جھیل مشی گن کے اُوپر پرواز کرنے والے طیارے سے شکاگو شہر کا دلفریب فضائی منظر دیکھتے ہوئے میں نے تسلیم کیا کہ امریکی زندگی کا ظاہری حسن انتظام اور نظم نسق جاننے کے لیے برسرِزمین ہونا ضروری نہیں‘ فضا سے ہی اس کا اندازہ ہوجاتاہے۔ کیا انسانوں کی سہولت‘ آسایش اور آرام کے لیے حیرت زدہ کرشمے برپا کرنے والی مادی تہذیب اور معاشرے کے مقدر میں وہی بڑی ہلاکت اور تباہی ہے جو مغرور قوموں اور سرکش انسانوں کے لیے لکھ دی گئی ہے‘ یا ابھی وہ وقت آنا ابھی باقی ہے جب بندگانِ سیم و زر کو مسخر کر کے ایک نئی تہذیب کی بنا استوار کی جانے والی ہے۔ یہ سوال اسلامی تحریکوں‘ اس کے ذمہ داران اور دین کے غلبے کی تڑپ رکھنے والوں کو بہت کچھ سوچنے اور کر گزرنے پر متوجہ کرتا ہے!

۵۲ سالہ بشیرالخطیب کو آج سے آٹھ سال قبل پیش کش کی گئی تھی کہ اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف اور اس پر اظہار ندامت کر لو تو فوری رہائی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس وقت اسے گرفتار ہوئے ۱۷ سال گزر چکے تھے۔ الخطیب نے کہا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا اور اخوان المسلمون سے تعلق کا جو الزام تم لگاتے ہو‘ میں اس پر نادم نہیں‘ اس کا اقراری ہوں۔ جواب سن کر اسے دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ اب بشیرالخطیب اور ان کے ۱۱۹دیگر ساتھیوں کو ۲۵‘۲۵سال قید کے بعد اچانک اور کسی کارروائی کے بغیر رہا کر دیا گیا ہے۔ شام کی مختلف جیلوں میں ربع صدی گزارنے والے ان قیدیوں کے اہل خانہ میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے یہ عزیز کہاں اور کس حال میں ہیں۔ اب بھی ہزاروں خاندانوں کو معلوم نہیں کہ ان کے جن اعزہ کو آج سے کئی سال پہلے گرفتار کیا گیا تھا وہ زندہ بھی ہیںیا موت کے آئینے میں رخِ دوست پر نظریں جمائے‘ شہادت کے جام نوش کر گئے۔

۱۲۰ مفقود الخبر افراد کی رہائی کی نوید سن کر یہ ہزاروں خاندان ایک بار پھر انتظار کی سولی پر چڑھ گئے ہیں۔ یہ خاندان اپنے عزیزوںسے محروم ہوجانے کے بعد نہ تو ان کی موت کا سوگ مناسکتے ہیں کہ وراثت اور یتیموں کی سرپرستی کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے‘ اور نہ ان کے زندہ ہونے کو حقیقت قرار دے سکتے ہیں کہ ۲۰‘ ۲۰ اور ۲۵‘ ۲۵ سال سے ان کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہ ساری تفصیل مجھے بشیرالخطیب کے خالہ زاد بھائی نے شام کے صدر بشار الاسد کے اس اعلان کے بعد سنائی کہ ہم سیاسی قیدیوں کو رہا کر رہے ہیں۔

اخوان المسلمون شام کے سربراہ صدرالدین البیانونی نے بھی ان رہائیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں اسے ایک مثبت لیکن ادھورا اقدام قرار دیا ہے۔ انھوں نے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں شام میں ایک مکمل سیاسی مفاہمت اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے جامع تجاویز پیش کی ہیں‘ لیکن فی الحال شامی حکومت کی طرف سے ان تجاویز کا واضح جواب نہیں دیا گیا۔

رہا ہونے والوں کی اس کھیپ سے پہلے بھی کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا تھا اور یہ بات عرصے سے زبان زدِعام ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خفیہ مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں‘ حالانکہ اس سے پہلے اس موضوع پر اشارتاً بھی بات نہیں کی جاسکتی تھی۔ حکومتی پالیسی میں اس اچانک تبدیلی کی ایک وجہ بشارالاسد کا اپنے باپ حافظ الاسد سے مختلف ہونا بھی ہوسکتی ہے‘ لیکن اصل وجہ ۱۱ستمبر کے بعد روپذیر ہونے والی عالمی تبدیلیاں ہیں۔ بش‘ شام کو محورِشر کا ایک زاویہ قرار دینے کے بعد عراق میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ شام پر مسلسل یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ عراق میں جاری مزاحمت کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ فلوجہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد کہا گیا کہ فلوجہ کے کھنڈرات سے سراغ و ثبوت ملے ہیں کہ ’’دہشت گردوں‘‘ نے شام کے کیمپوں میں تربیت حاصل کی تھی۔ ادھر شارون نے اعلان کیا ہے کہ شام میں پناہ گزیں دہشت گردوں کا پیچھا ان کے ٹھکانوں تک کریں گے۔ متعدد فلسطینی رہنمائوں پر شام کے مختلف علاقوں میں قاتلانہ حملے بھی کیے جاچکے ہیں۔ امریکی اخبارات اور صہیونی کالم نگار مسلسل زور دے رہے ہیں کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شام پر بھی فوج کُشی ناگزیر ہے۔ جو تباہ کن اسلحہ عراق میں نہیں ملا‘ اس کی شام میں موجودگی کی ’مصدقہ اطلاعات‘ نشر کی جارہی ہیں۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ۸دسمبر کو اپنی بریفنگ میں شام اور ایران پر الزام لگایا ہے کہ دونوں ملک عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انھیں اس سے باز رکھنے کی ضرورت ہے۔ خطے میں امریکی ترجمان‘ کئی مسلم حکمران بھی امریکا کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ اُردن جس کی سرحدیں شام‘ عراق‘ فلسطین‘ لبنان اور سعودی عرب سے ملتی ہیں کے شاہ عبداللہ نے بھی خطے میں شیعہ کمان کے وجود سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عراق‘ شام اور لبنان میں شیعہ حکومتیں قائم کرتے ہوئے ایران پورے خطے پر تنی ایک کمان تشکیل دینا چاہتا ہے۔ دنیا کو اس خطرے سے خبردار رہنا چاہیے‘‘۔

اس تناظر میں شام کی قیادت نے کئی اہم اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ حقیقت بن جاتا ہے اور سالہا سال سے جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے دسیوں ہزار خاندانوں کو ملک واپسی کی اجازت دے دی جاتی ہے‘ ملک میں افہام و تفہیم اور سیاسی آزادی کی فضا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ تو یقینا مقابلے کے لیے تیاری کا یہ سب سے اولیں اور ضروری تقاضا پورا ہو سکتا ہے کہ پوری قوم یک جان ہو اور اندرونی محاذ مضبوط تر ہو۔ اس وقت سیاسی و صحافتی آزادیوں کا عالم یہ ہے کہ ملک میں صرف ایک ہی حکمران پارٹی ہے‘ کوئی دوسرا پارٹی تشکیل دینے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ ابلاغیات کے دور میں بھی شام میں صرف تین سرکاری اخبار بعث‘ الثورہ‘ تشرین ہی شائع ہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق بیرون ملک مقیم شامی شہریوں نے مختلف ممالک میں ۱۰۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے‘ لیکن انھیں ملک واپسی کی اجازت نہیں ہے۔

شامی حکومت نے وقت کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے عالمِ اسلام سے بھی روابط مضبوط کرنا شروع کیے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شامی علما اور دانش وروں کے ایک وفد نے متعدد مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ وفد پاکستان بھی آیا اور متعدد حکومتی شخصیتوں کے علاوہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کی۔ محترم قاضی حسین احمد سے اپنی ملاقات میں انھوں نے شام کی اسلامی تاریخ اور بشارالاسد کی اسلام پسندی کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔ قاضی صاحب نے انھیں یہی مشورہ دیا کہ عالمِ اسلام سے رابطہ بہت اہم ہے لیکن ملک کے اندر اعتماد و آزادی کی فضا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ پوری قوم متحد ہو کر اللہ کی رسی کو تھامے گی‘ تو کوئی خطرہ‘ خطرہ نہیں رہے گا۔

بشارالاسد نے اندرون ملک بعض اصلاحات کا عندیہ دینے کے ساتھ ہی بعض سیاسی کارڈ بھی پھینکے ہیں۔ عراق کے پڑوسی ممالک کی مصری سیاحتی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کانفرنس میں شامی وزیرخارجہ نے بھی شرکت کی اور کانفرنس کے امریکی میزبانوں کو عراق میں امن کی خاطر ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ بشارالاسد نے حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم شارون کو بھی مذاکرات کی غیرمشروط پیش کش کی ہے۔ لیکن نہ تو شارون نے اس پیش کش کا کوئی مثبت جواب دیا اور نہ اس غیرمعمولی پیش کش سے ہی امریکی خوشنودی کا کوئی امکان پیدا ہوا‘ بلکہ بش نے مزید رعونت سے کہا کہ اس وقت میری ساری توجہ مسئلہ فلسطین حل کرنے پر ہے۔ اس سے فراغت کے بعد شام کی پیش کش کا جائزہ لیں گے۔

سابق روسی وزیرخارجہ یفجینی پریماکوف اپنے ۱۹ دسمبر کے ایک کالم میں شام کے تذبذب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’میں حافظ الاسد سے مشرق وسطیٰ کے حالات پر گفتگو کر رہا تھا تو حافظ الاسد نے کہا: ’’شام نہیں چاہتا کہ کوئی شام کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ ہم سے پہلے اسرائیلیوں کے ساتھ صلح کرے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ شام اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے والا پہلا ملک ہو‘‘۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطین اور لبنان میں اپنے گہرے اثرونفوذ کے باوجود شام خطے کے واقعات پر اپنا نقش ثبت نہیں کر سکا۔ یقینا جنوبی لبنان‘ جولان کی پہاڑیوں اور فلسطینی تنظیموں کے حوالے سے کوئی بھی شام کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اور اب عراق میں جاری مزاحمت کے حوالے سے‘ عراق شام سرحدیں حساس ترین اور اہم ترین ہوگئی ہیں لیکن معاملات کا تمام تر انحصار   شامی حکومت کے یکسو ہونے پر ہے۔ اگر شام یکسو ہوکر پوری قوم کو اسلامی اصولوں پر ساتھ لیتا ہے اور قبلۂ اول کے حوالے سے دمشق‘ حمص اور حلب کے تاریخی کردار کو زندہ کرتا ہے تو تجزیہ نگاروں کا یہ تجزیہ ایک زندہ و عظیم حقیقت بن جائے گا کہ ’’عراق میں امریکی فوجوں کی حالت‘ خطے کے باقی ممالک کی سلامتی کی علامت ہے‘‘۔

۲۱ دسمبرکو موصل کے امریکی اڈے پر میزائلوں کا حملہ اور سیکڑوں امریکی فوجیوں کا اس کی زد میں آنا (واضح رہے کہ حملے کے وقت ۵۰۰ امریکی فوجی ظہرانہ کھا رہے تھے) پورے فلوجہ کو زمین بوس کر دینے کے باوجود‘ عراقی مزاحمت میں روز افزوں اضافے ہی کی نہیں نئی اور‘ زیادہ مؤثر حکمت عملی کی خبردے رہا ہے۔ ۳۰ جنوری کو عراقی انتخابات کا ڈراما اسٹیج ہو بھی جاتا ہے‘ تب بھی نہ تو اس مزاحمت کو روکا جا سکے گا اور نہ امریکا کوئی ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کر سکے گا جو وہاں امریکیوں کی جنگ لڑے۔ البتہ ان انتخابات کے ذریعے عراقی عوام کو تقسیم کرنے کی سازش کامیاب ہونے کا خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شاہ عبداللہ نے واشنگٹن پوسٹ کو اپنے سابق الذکر انٹرویو میں ایران پر الزام لگایا ہے کہ ’’عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے ایران نے اپنے ۱۰ لاکھ شہری عراق میں داخل کیے ہیں جو اپنے ووٹ کے ذریعے وہاںشیعہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ تقریباً تمام سنی جماعتوں کی طرف سے الیکشن کے بائیکاٹ اور آیۃ اللہ سیستانی سمیت اہم شیعہ رہنمائوں کی طرف سے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کے بیانات اور کربلا و نجف میں حالیہ خوفناک بم دھماکے‘ اسی تقسیم کے خطرے کو ہوا دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

سیکڑوں ارب ڈالر کے اخراجات‘ ہزاروں فوجیوں کی لاشیں‘ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افواج اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کے۳ ہزار اہلکار (جن کی قیادت وہی امریکی سفیر جون نیگروبونٹی کر رہا ہے جس نے ویت نام میں امریکی شکست کا یقین ہونے کے بعد وہاں سے امریکی افواج کے انخلا کا مشن سرانجام دیا تھا)‘عراق میں امریکی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بش کے دوسرے عہدصدارت میں امریکی ناکامیوں کی فہرست مختصر ہونے کے بجاے طویل تر ہوگی ‘ کیونکہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجاے مزید غلطیوں پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں شام اور دیگر مسلم ممالک کے لیے نجات کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ دلدل میں دھنسے‘ پھنکارتے بدمست ہاتھی کے ساتھ بندھنے کے بجاے اپنے عوام کے ساتھ صلح کریں‘ اپنے خالق اور کائنات کے مالک سے رجوع کریں۔

شام کے حالیہ واقعات نے دنیا کو ایک اور حقیقت سے بھی دوبارہ روشناس کروایا ہے کہ دسیوں سال جیلوں میں رکھ کر‘ ہزاروں خاندانوں کو عذاب و اذیت میں مبتلا کر کے اور سیکڑوں افراد کو شہید کر کے بھی اسلام اور اسلامی تحریک کے وابستگان کو کچلا نہیں جاسکتا۔ مظالم ڈھانے والوں کو خدا کے حضور جانے کے بعد جس انجام کا سامنا کرنا پڑے گا وہ تو قرآن کریم میں ثبت کردیا گیا۔ دنیا میں بھی ان کا انجام ٹالا نہیں جاسکتا۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ (الشعرائ:۲۶:۲۲۷)، ’’جنھوں نے ظلم کیا وہ عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے!‘‘

استعماری طاقتیں فوجی قبضے کے بغیر بھی اپنے طویل المیعاد مقاصد کس کس طرح حاصل کر رہی ہیں‘ اس کا ایک اندازہ ہمیں اپنے ملک میں بھی ہے جہاں ابتدائی عمر کے تدریسی نصابات سے قرآن کی ان تعلیمات کو حذف کیا جا رہا ہے جو ان کو پسند نہیں ہیں۔ لیکن بات کہاں تک پہنچ سکتی ہے‘ اس کا اندازہ مصر کی اس خبر سے کیا جاسکتا ہے جو المجتمع کے حوالے سے دعوت‘دہلی میں اس کے ایک قاری کی جانب سے شائع ہوئی ہے۔

دشمن نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ جب تک مسلمان کا تعلق قرآن سے قائم ہے‘ اسے دین کے بنیادی تقاضوں سے بے تعلق نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے ہر مسلمان کو اس بات کی اہمیت کو ازسرنو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ابتدائی عمر ہی سے قرآن سے زندہ تعلق اور پھر عمر کے ہرحصے میں اس کو برقرار رکھنا اس کی دنیا و آخرت کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ان استعماری طاقتوں کو جو آلۂ کار ملے ہیں وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے‘ ہر ہدایت پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہیں‘ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ کسی دبائو کے بغیر کر رہے ہیں۔ المجتمع کی خبر کچھ اس طرح ہے:

مصری وزارت اوقاف نے اس بار ماہ رمضان المبارک میں روزانہ نماز تراویح میں قرآن کریم پڑھنے اور سننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے مطابق کسی مسجد میں تراویح میں قرآن ختم کرنے کے لیے انتظامیہ کی منظوری ضروری قرار دی گئی۔ حکومت نے ملک کی ۵۰ہزار ۸ سو ۷۰ مساجد میں سے صرف ۵۱مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کریم کی اجازت دی تھی۔ گویا ہر ۱۶۸۲ مساجد میں صرف ایک مسجد میں قرآن کریم ختم کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

قاہرہ کی وزارت اوقاف کے ترجمان شیخ فواد عبدالعظیم نے ان پابندیوں کی خبر دی اور بتایا کہ شہری مساجد (جن کی تعداد تقریباً ۱۵ ہزار ہے) کے لیے لازم کیا گیا تھا کہ وہ تراویح میں ختم قرآن کریم کے لیے حکومت سے اجازت حاصل کریں۔ قاہرہ کے گورنر ڈاکٹر عبدالعظیم وزیر نے کہا کہ قاہرہ میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت صرف تین مساجد میں دی گئی: (۱) مسجد نور (۲) مسجد ازہر (۳) مسجد عمرو بن العاص۔

مصری وزیر اوقاف نے ان نئی پابندیوں کو یہ کہتے ہوئے جائز و درست ٹھیرایا کہ وزارت ملک کی تمام مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت نہیں دے سکتی‘ ہاں مساجد کے قریب آباد باشندوں کی ختم قرآن کی درخواست پر وہ اس کی منظوری دے سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ۵۱ مساجد میں مکمل ختم قرآن کی اجازت کافی ہے۔ کیونکہ بہت سے نمازی بوڑھے اور بیمار ہوتے ہیں‘ پورا قرآن کریم سننا ان کے لیے زحمت اور تکلیف کا باعث ہوگا۔ (المجتمع سے ترجمہ‘ محمد جسیم الدین قاسمی‘ بحوالہ دعوت‘ دہلی‘ ۴ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

 

غیرمسلموں میں دعوت کی حکمت

سوال : مجھے حصولِ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانے کا موقع ملا ہے۔ یہاں غیرمسلموں سے بھی ملاقات رہتی ہے اور اسلام کی دعوت دینے کا موقع بھی میسرآتا ہے۔ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) سے تو مشترک بنیاد‘ یعنی توحید‘ رسالت اور آخرت پر بات ہو سکتی ہے لیکن دیگر مذاہب‘ مثلاً کسی ہندو کو دعوت دینا ہو جو اس کے قائل نہیں ہیںتو کیا حکمت پیش نظر رکھی جائے؟ قرآن و سنت سے رہنمائی فرما دیں۔

جواب: اس سوال کا تعلق بنیادی طور پر دعوت کی حکمت سے ہے۔ قرآن کریم نے سورۂ نحل (۱۶:۱۲۵) میں اس اصول کا تعین کر دیا کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت‘ یعنی اسلام کی دعوت حکمۃ اور موعظہ حسنہ سے دی جائے گی اور اگر نوبت بحث و تکرار کی آجائے‘ یعنی بات شدت اختیار کرجائے تو جدال بھی احسن طریقے سے ہوگا۔ گویا بھونڈے انداز میں مخاطب کو للکارنا‘ غیرضروری مباحث میں الجھنا‘ اس کی تضحیک کرنا‘طنز یا ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا دعوت کا طریق نہیں ہے بلکہ عقلی اور سوچے سمجھے انداز میں بات کرنا ہوگی۔

دوسرا اصول سورۂ آل عمران(۳:۶۴) میں یہ بیان کر دیا گیا کہ اہلِ کتاب ہوں یا دیگر افراد‘ آغاز قدر مشترک سے کیا جائے گا‘ یعنی ان موضوعات پر بات کی جائے جن میں بظاہر بنیادی اختلاف نہ پایا جاتا ہو۔ اسلام کے قرنِ اول میں یہ مشترک بنیاد توحید‘ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کو خالق‘ مالک اور رب ماننا اور ساتھ ہی اخلاقی طرزعمل کو اختیار کرنا تاکہ آخرت میں حساب کتاب میں آسانی ہو‘ قرار دی گئی۔ ان دو بنیادوں کو بیان کرنے سے قرآن کریم کا مدعا یہ نظر آتا ہے کہ رسالت جو دین کے تین بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ممکن ہے مختلف فیہ ہو کیونکہ عموماً ایک عیسائی حضرت عیسٰی ؑکو‘ ایک یہودی حضرت موسٰی ؑ کو یا حضرت دائود ؑ اور حضرت یعقوب ؑکو اپنا قائد مانے گا لیکن خالق کائنات اور انسانی اعمال کی جواب دہی کا منکر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان دو موضوعات کو دعوت دین کی حکمت سمجھانے کے لیے بطور مثال بیان کر دیا گیا۔

آج کے دور میں ان کے علاوہ اور بہت سے مسائل (issues) ایسے ہیں جن سے بات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انسانی جان کی حرمت‘ خواتین پر جبروتشدد‘ معاشی اور اخلاقی زوال کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات اور جس مذہب سے مخاطب کا تعلق ہو اس کے مذہب میں ان مسائل کے بارے میں موقف۔

ایک مرتبہ جب گفتگو کا آغاز ہو جائے تو زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ مخاطب کو پڑھنے کے لیے اسلام کے بعض پہلوئوں پر لکھے گئے آسان اور مدلل کتابچے دیے جائیں۔ موٹی موٹی کتابوں کے دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر مخاطب دل چسپی کا اظہار کرے تو قرآن کریم کا کوئی آسان ترجمہ‘ مثلاً انگریزی میں محمد اسد کا ترجمہ‘ عبداللہ یوسف علی کا ترجمہ‘ یا مولانا عبدالماجد دریابادی کا ترجمہ دیا جائے۔ ایسے ہی اسلامک فائونڈیشن کی طبع کردہ Our'an Basic Teachings جس میں بعض عنوانات پر قرآن کریم کی آیات مع ترجمہ مرتب کی گئی ہیں‘ دی جاسکتی ہے۔ اس طرح مخاطب کو قرآن کریم کو پڑھنے کا موقع ملے گا۔ اس پورے عمل میں کوشش کیجیے کہ مخاطب مطالعہ کے دوران سوالات اٹھائے جن پر آپ بھی بطور طالب علم غور کریں اور اُس سے یہی بات کہیں کہ ہم مل کر ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ قرآن کریم کے مطالعہ میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب اس کے پاس پہلے سے تیار ہو لیکن مجھے یقین ہے جب آپ اس طرح مطالعہ کریں گے اور کرائیںگے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی حکمتیں آپ پر خود کھولنی شروع کر دے گا۔

کسی ہندو یا عیسائی یا کسی بھی فرد کو مسلمان کرنا ایک ایسے دور میں جب مسلمان خود اسلام پرکم عمل کرتے ہیں‘ آسان نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے اخلاصِ نیت کی قدر کرتے ہوئے ایسے بہت سے کام آسان کر دیتا ہے۔ اس لیے اگر آپ خلوصِ نیت سے کوشش کریں گے تویہ کام بہت آسانی سے ہوجائے گا۔ ہاں ‘آپ کا اپنا طرزِعمل ہمدردانہ ہو۔ مخاطب سے باعزت طور پر پیش آیئے۔ اس کے ساتھ اپنے معاملات کو صاف رکھیے اور ساتھ ہی رب کریم سے دعا کیجیے کہ وہ آپ کو اس نیک کام میں اپنی نصرت سے نوازے۔ اس کی مدد کے بغیر تو انبیا بھی یہ کام نہیں کرسکتے تھے‘ ہم کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات آغاز سے واضح کر دیجیے کہ آپ بھی اسلام کے طالب علم ہیں اور اسی کی طرح قدم بقدم اسلام کا مطالعہ اور اس پر عمل کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوران ہندوازم کا مطالعہ بھی کیجیے تاکہ ہندو ازم کی بنیادی تعلیمات آپ کے علم میں آجائیں۔

ایک ہندو عالم Sen کی چھوٹی سی کتاب Hindus کے عنوان سے پینگوین سیریز میں طبع ہوئی ہے‘ اسے پڑھ لیجیے تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ ہندو ازم کیا ہے اور کس طرح اس کا تقابل اسلام سے کیا جا سکتا ہے۔ اسلام سے متعارف کرانے کے لیے Towards Understanding Islamاور Let us be Muslimsیہ دو کتابیں ان شاء اللہ بہت مددگار ہوں گی۔ انھیں آپ خود بھی پڑھیں اپنے دوست کو بھی پڑھنے کو دیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


خواتین اور دعوت دین میں رکاوٹیں

س :  میں متوسط گھرانے کی لڑکی ہوں۔ میٹرک کے بعد اسلامی جمعیت طالبات میں آئی۔ دو سال تک میں نے قریبی کالج میں نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔ اس کے بعد میں زون کی ناظمہ بھی رہی اور جتنا مجھ سے کام ہوتا تھا میں کرتی تھی۔ بی اے کے بعد یونی ورسٹی میں حصولِ تعلیم کی اجازت نہیں ملی۔ اب گھر کے کام اور ٹیوشن پڑھانا میرے ذمے ہیں اور اس صورت میں میرے لیے کام کرنا بہت مشکل ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں؟ حتیٰ کہ نظم کی اطاعت کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ والدہ محترمہ اِس حق میں نہیں ہیں کہ جمعیت کا کام کیا جائے۔

میرے ابا جان تحریک سے تعلق رکھتے ہیں اور گھرانہ پڑھا لکھا ہے لیکن والدہ اس بات کو پسند نہیں کرتی ہیں۔ ان حالات میں کہاںجائوں اور کیا کروں؟ ہفتہ وار درسِ قرآن  گھرمیں ہی کرواتی ہوں۔ اس کے علاوہ بچوں کو قرآن پڑھاتی ہوں اور جہاں بھی کوشش ہو دین کی دعوت پھیلانے سے دریغ نہیں کرتی۔ براہ مہربانی آپ مجھے ضرور بتائیں کہ اس سلسلے میں عورتوں کو کس حد تک چھوٹ دی گئی ہے؟

ج: قرآن کریم نے دعوتِ دین کا فریضہ ہر مسلمان مرد و عورت پر عائد کیا ہے۔ چنانچہ امربالمعروف ونہی عن المنکر میں عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی رفیق و ساتھی قرار دے کر اس غلط فہمی کو دُور کر دیا گیا ہے کہ عورتیں دعوتِ دین سے مستثنیٰ ہیں۔ لیکن قرآن و سنت نے نہ صرف دعوتِ دین بلکہ دین کے تمام معاملات میں جواب دہی کو استطاعت کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔ اگر ایک شخص کے ہاتھ پائوں رسیوں سے باندھ کر اسے بے بس کر دیا گیا ہے یا مرض کے غلبے سے وہ یہ قوت نہ رکھتا ہو کہ اٹھ کر نماز پڑھ سکے تو وہ اشاروں سے نماز پڑھ سکتا ہے۔ گویا ایک کام کے کرنے کا تعلق صلاحیت و استطاعت کے ساتھ ہے۔ اگر حالات ایسے ہیں کہ باوجود خواہش اور  تڑپ کے ایک شخص ایک کام نہیں کرپاتا تو وہ اس کے لیے جواب دہ نہیں ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرتے وقت صدقِ دل سے جائزہ لے لیا جائے کہ کیا واقعی ممکنہ ذرائع کا جائزہ لینے کے بعد ایک شخص اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ اور کیا جن حالات میں وہ شخص ہے کسی اور طریقے سے دعوت نہیں دی جاسکتی۔

خصوصی طور پر جو بات آپ نے دریافت فرمائی ہے اس میں اس بات کی کوشش کیجیے کہ اپنی والدہ اور والد کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان سے اپنی تعلیم کے حوالے سے بات کیجیے تاکہ  آپ یونی ورسٹی میں تعلیم مکمل کرسکیں۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے فاصلاتی نظام کے ذریعے ایم اے کی کوشش کیجیے۔ یونی ورسٹی لکھ کر معلوم کیجیے کہ آپ جس مضمون میں ایم اے کرنا چاہتی ہیں اس کے لیے کیا کرنا ہوگا۔

بچوں کو قرآن کریم پڑھانا خود دعوت ہی کی ایک اہم شکل ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو خود قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے وہ سب سے اچھا انسان ہے۔ اس لیے آپ اس کام کی عظمت کو محسوس کرتے ہوئے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے کے ساتھ اس کے معنی و مفہوم سے بھی آگاہ کیجیے تاکہ ان میں اسلامی فکر پیدا ہوسکے۔ یہی بچے آیندہ چل کر تحریکِ اسلامی میں شامل ہوں گے اور جب تک وہ دعوتی کام کریں گے آپ کا اجر مسلسل بڑھتا جائے گا۔

ہفتہ وار درس قرآن باقاعدگی سے کرایئے لیکن اس میں بھی کوشش کیجیے کہ شرکا محض سامع نہ ہوں بلکہ انھیں آپ اس حد تک قرآن کریم کے الفاظ و معانی سے آگاہ کر دیں کہ وہ خود اپنے اپنے گھروں میں اس طرح کے اجتماعات کر سکیں گویا آپ trainersکو تیار کریں۔ اس غرض کے لیے انھیں خود تیاری کروا کے درس دینے پر آمادہ کریں۔ ان کے لیے ہر درس کے بعد ایک سوال نامہ مرتب کریں جس میں قرآن کے جس حصے کا مطالعہ کیا گیا ہے اس پر سوالات ہوں۔ ان سوالات کے جوابات کا جائزہ لینے کے بعد اگلے درس میں آپ انھیں اصلاح شدہ پرچے واپس کر دیں تاکہ وہ اپنی اغلاط سے آگاہ ہوں اور اپنی اصلاح کرلیں۔اس طرح آپ جو کام کررہی ہیں وہ خود دعوت کا بہترین نمونہ بن جائے گا۔

دین کی حکمت کا مطلب یہی ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں اور جس حالت میں ہوں‘ اس کا بہترین استعمال اللہ کے راستے کی طرف بلانے کے لیے کیا جائے۔ اگر آپ اپنے وقت کا استعمال اس طرح کریں گی تو پھر کسی کالج یا محلے میں جاکر دعوتی کام نہ کرسکنے کا افسوس آپ کو نہیں ہوگا اور نتائج کے لحاظ سے ان شاء اللہ آپ کو مکمل اطمینان اورسکون ہوگا۔ (ا-ا)


مساجد میں بچوں کے ساتھ رویہ

س  : مساجد میں بڑوں کے ساتھ بچے بھی نماز کے لیے آتے ہیں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ کی امامت میں جب خواتین نماز ادا کرتی تھیں توآپؐ کسی بچے کے رونے پر نماز مختصر فرما دیتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ مسجد میں کیا رویہ ہونا چاہیے؟ عام طور پر نمازی حضرات بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں‘ جھڑکتے ہیں اور بسااوقات مارنے سے بھی نہیں چوکتے جس کا بچوں پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ دوسری طرف بچے بھی ہنسی مذاق اور شرارتوں سے نماز میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیں۔

ج : مساجد کو اللہ تعالیٰ کے گھر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور قرآن و حدیث نے کہیں یہ بات نہیں کہی کہ اللہ کا گھر بچوں یا عورتوں کے لیے بند ہے۔ لیکن کسی بھی گھر کے آداب کی طرح مسجد کے بھی آداب ہیں۔ مسجد کے آداب میں خشوع و خضوع اور خاموشی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ صفوں کے سلسلے میں نمازیوں کے مراتب کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ احادیث میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ امام کے فوری پیچھے وہ افراد ہوں جو قرآن کا علم زیادہ رکھتے ہوں تاکہ اگر امام سے سہو ہو تو وہ فوراً اس کی اصلاح کر دیں۔ صف بندی میں آغاز امام کے پیچھے سے کیا جائے اور پھر پہلے داہنی پھر بائیں جانب بالترتیب افراد صف بناتے جائیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ بچوں کو بعد کی صف میں رکھا جائے اور آخر میں خواتین تاکہ وہ مردوں سے دُور رہیں۔ نیز احادیث میں اس بات کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ عورت کی نماز گھر میں‘ مسجد میں نماز ادا کرنے کے مقابلے میں افضل ہے۔ اس لیے عام حالات میں خواتین کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنا چاہیے۔ مسجد میں نماز کے لیے اسی وقت آئیں جب ان کے لیے مسجد میں آنا ضروری ہے‘ مثلاً خطبہ جمعہ‘ درس قرآن‘ درس حدیث وغیرہ سے استفادہ کرنا۔ ایسی صورت میں مسجد میں حاضری دیں‘ نماز بھی باجماعت پڑھیں اور وعظ و درس سے بھی استفادہ کریں۔

آپ نے بالکل صحیح نشان دہی کی ہے کہ بچوں کے حوالے سے ہمارا رویہ افسوس ناک ہے۔ اگر بچوں کے مساجد میں آنے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی تو آیندہ نسلوں کا اسلام سے تعلق بھی کمزور ہوگا۔ اس لیے بچوں کو مساجد میں آنے پر ابھارنے اور ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ مساجد میں ان کے لیے ان کے ہم عمر بچوں کے تعاون سے ایسے پروگرام ہونے چاہییں جن سے وہ نہ صرف نماز میں پابندی کے عادی ہوں بلکہ دینی معلومات بھی حاصل کر سکیں۔

بچوں کو شرارت سے روکنے کا ایک انتہائی آسان طریقہ یہ ہے کہ مردوں کی صف میں اگر دومردوں کے درمیان ایک بچہ کھڑا کر دیا جائے تو بچے نہ شورغل کر پائیں گے ‘ نہ ایک دوسرے کو کہنی ماریں گے اور نہ کسی دینی اصول کی خلاف ورزی ہوگی‘ نیز بچوں کو آخر سے پہلی صف میں رکھنے کا جومقصد ہے اس کے لیے انھیں تیار کیا جائے۔ جب وہ اس قابل ہو جائیں تو پھر تربیت یافتہ بچوں کی صفیں مردوں کی صفوں کے بعد بنائی جائیں۔(ا - ا)

احکاماتِ الٰہی، مرتبہ: انجینیرمحمد یوسف صدیقی۔ ملنے کا پتا: دارالاشاعت‘ اُردو بازار‘ ایم اے جناح روڈ‘ کراچی ۔صفحات: ۴۱۰ (بڑی تقطیع ‘ آرٹ پیپر)۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

موجودہ دور میں اسلامی معاشروں میں رجوع الی القرآن کا روز افزوں رجحان عام مشاہدے میں آتا ہے۔ اس کا ایک اظہار قرآن کے حوالے سے مختلف نوعیت کی کتب کی تحریر و اشاعت میں اضافہ ہے۔ اب لکھنے والوں کا دائرہ علماے دین تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ جدید تعلیم یافتہ افراد بھی علم حاصل کر کے اس میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مصنف نے اسی حوالے  سے زیرتبصرہ کتاب‘ مفتی محمد نوراللہ فاضل دیوبند اور محمد حنیف (سی‘ اے) کے تعاون سے   مرتب کی ہے۔ اس کتاب کا دوسرا انگریزی چہرہ بائیں طرف ہے جہاں سرورق پر اس کا عنوان Quranic Commandments درج ہے۔

قرآن کے حوالے سے احکام القرآن ایک الگ مبحث ہے۔ اس پر متعدد کتابیں ملتی ہیں‘یہاں مصنف کا مقصد احکامات کی حکمت یا ان پر بحث نہیں ہے بلکہ اس کی ایک فہرست مرتب کرنا اور قاری کے لیے متعلقہ آیت تک رسائی کو سہل بنانا ہے۔ تبصرہ نگار کی رائے میں مصنف اس میں کامیاب ہے۔ مصنف کی سکیم کو سمجھ لیا جائے تو پھر اس سے فائدہ اٹھانا مضمون نگاروں‘ مقرروں اور مطالعہ کرنے والوں کے لیے بہت آسان ہے۔ مصنف کے اپنے الفاظ میں یہ کتاب صرف اور صرف احکاماتِ الٰہی پر مشتمل آیاتِ قرآنی کا مجموعہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو صاحبان مکمل قرآن کریم کے مطالعے کے لیے وقت نہ نکال سکیں تو وہ کم از کم اس کتاب کو پڑھ کر احکاماتِ الٰہی سے واقف ہوجائیں‘ خواہ مسلم ہوں یا غیرمسلم۔

کتاب کے پہلے حصے میں ’’مضامین احکاماتِ الٰہی‘‘ کے عنوان سے آٹھ موضوعات (ایمانیات‘ اخلاقیات‘ عبادات‘ معاملات حدود و تعزیرات‘ حلال و حرام‘ آداب‘ متفرقات) کی فہرست دی گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہر حکم جہاں جہاں قرآن میں آیا ہے‘ اس کا سورہ نمبر اور آیت نمبر درج ہے۔ دوسرے حصے میں ’’فہرست قرآنی احکاماتِ الٰہی‘‘ کے عنوان سے سورۃ فاتحہ سے سورۃ والناس تک ان ۵۵۴ احکامات کو ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے آگے سورۃ اور آیت نمبر‘ اور تیسرے حصے میں جس صفحے پر متعلقہ آیت ہے‘ اسے درج کیا گیا ہے۔ پہلے دونوں حصے اردو اور انگریزی میں اپنی اپنی طرف سے دیے گئے ہیں۔ تیسرے حصے (ص ۹۷ تا ۳۲۰) میں آیات کا متن اور اردو انگریزی ترجمہ تین علیحدہ کالموں میں دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایمانیات کے تحت ۱۹ نمبر پر حکم ہے: طاغوت سے اجتناب کرو جو سورہ نمبر۲ اور آیت نمبر۲۵۶-۲۵۷ ہے۔ دوسرے حصے میں اسی کا صفحہ نمبر ۱۲۸ ملتا ہے۔ تیسرے حصے میں صفحہ ۱۲۸ پر متعلقہ آیت مل جاتی ہے۔ یہ ایک مفید خدمت ہے جسے ہر لائبریری میں ضرور ہونا چاہیے۔ لکھنے پڑھنے والوں کی میز کے لیے بھی ناگزیر ہے۔(مسلم سجاد)


مقالاتِ تاریخی، پروفیسر علی محسن صدیقی۔ ناشر: قرطاس‘ پوسٹ بکس ۸۴۵۳‘ کراچی یونی ورسٹی‘ کراچی-۷۵۲۷۰۔فون: ۹۲۴۳۹۶۶۔ صفحات: ۳۳۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

پروفیسر علی محسن صدیقی طویل عرصے تک کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ معارفِ اسلامی و تاریخ اسلام سے وابستہ رہے اور اس حیثیت میں انھوں نے بیش بہا علمی خدمات انجام دی ہیں۔ زیرنظر مجموعہ‘ اسلامی علوم و تاریخ کے موضوع پر ان کے پندرہ گراں قدر تحقیقی مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالات قبل ازیں مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب انھیں یک جا پیش کیا جارہا ہے۔ یہ مقالات مصنف کی نصف صدی کی تحقیق و ریاضت کا نتیجہ ہیں۔

ان مقالات میں خاصا تنوّع ہے۔ (قرآن میں غیر عربی الفاظ کی حقیقت۔ لفظ ’مولیٰ‘ کی اصطلاحی اور لغوی تشریح۔ عرب جاہلیت میں موالی کی حیثیت۔ اسلام کا نظام احتساب وغیرہ) بعض مقالات شخصیات پر ہیں (نظام الملک طوسی کے سیاسی نظریات۔ فاتح صقلیہ قاضی اسد بن فرات۔ امام ابوالفرج ابن الجوزی)۔ دو مقالات بغداد کے تعلیمی اداروں (جامعہ نظامیہ۔ جامعہ مستنصریہ) پر ہیں۔ اس مجموعے کی خاص خوبی یہ ہے کہ مصنف نے حواشی تحریر کرکے مقالات کی اہمیت کو دوچند کر دیا ہے۔ کتاب میں اگرچہ حوالہ جات اور کتابت پر خاص توجہ دی گئی ہے‘ اس کے باوجود چند غلطیوں کی طرف توجہ مبذول کرانا بے جا نہ ہوگا۔ ص ۱۵ پر سورہ النّباء کی آیت درج کی گئی ہے: اِلاَّ جَھِیْمًا وَّغَسَّاقًا، اصل میں اِلاَّ حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًاہے۔ ص ۴۱ پر مولی کا مادہ ’دل ی‘ نہیں بلکہ ’ول ی‘ ہے۔ اسی طرح ص ۵۴ پر مشہور عرب شاعر کا نام ’فرزوق‘ نہیں، ’فرزدق‘ ہے‘ وغیرہ۔

علی محسن صدیقی کی تحقیق میں دِقّت نظری اور باریک بینی نمایاں ہے۔ وہ تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُن کے مقالات خالصتاً علمی تحقیق (اکیڈمک ریسرچ) کا نمونہ ہیں۔ یہ مجموعہ ہماری علمی دنیا میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ (محمد ایوب لِلَّہ)


Ethnic Cleansing and Maiming ]نسلی صفائی[‘ انور ایچ سید۔ ناشر: الرحمن پبلشرٹرسٹ‘ ]مقام اشاعت اور پتا درج نہیں[صفحات: ۵۸۸۔ قیمت: درج نہیں۔

نسلی صفائی سے ذہن بوسنیا کی طرف جاتا ہے لیکن کتاب اٹھا کر دیکھیں تو یہ قصص القرآن کی کتاب ہے۔ حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ،قومِ عاد و ثمود‘قومِ لوطؑ، حضرت شعیبؑ، حضرت یوسف ؑ، حضرت موسٰی ؑاور بنی اسرائیل کے دیگر انبیا کے حالات ملتے ہیں۔ آغاز میں اللہ کے تصور پر بحث ہے‘ بدھ تصور‘ ہندو تصور وغیرہ‘ ۹۹اسماے حسنہ پر اس کو ختم کیا گیا ہے۔ کتاب میں دوسری آسمانی کتب میں رسولؐ اللہ کا جو ذکر آیا ہے آخر میں اس کا حوالہ ہے۔ قصص کا بیان قرآن پر مبنی ہے اور بیشتر تفہیم القرآن سے لیا گیا ہے ‘مصنف نے اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ اور عیسائی عقائد پر تفصیل ملتی ہے۔ (م - س)


بیادِ رحیم بخش شاہین، مرتب: محمد وسیم انجم۔ ناشر: انجم پبلشرز‘ کمال آباد نمبر۳‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ڈاکٹر رحیم بخش شاہین (۱۹۴۲ئ-۱۹۹۸ئ) اردو زبان و ادب کے معروف معلّم‘ ادیب‘ محقّق اور اقبالیات کے متخصص تھے۔ شخصی اعتبار سے وہ ایک خوددار‘ درویش منش اور قناعت پسند انسان تھے۔ اوائل میں انھوں نے حصولِ علم کے لیے بہت محنت کی‘ پھر وہ وقت آیا جب علمی حلقوں میں وہ ایک مسلّمہ اقبال شناس‘ دانش ور اور ممتاز ادیب تسلیم کیے گئے۔ صدر شعبۂ اقبالیات جامعہ مفتوحہ (اوپن یونی ورسٹی) کے منصب پر فائز ہوئے‘ مگر ان کا عالمانہ انکسار برقرار رہا۔  ان کے اٹھ جانے سے قحط الرّجال کا احساس مزید گہرا ہوا ہے۔

زیرنظر کتاب میں ان کے فکروفن اور شخصیت پر مضامین‘ ان کے مجموعۂ کلام پر آرا و تاثرات‘ منظوم خراج تحسین اور متفرق تاثرات و مکالمات اور دیگر مفید معلومات کو یکجا کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے ان کی شخصیت کا ایک مجموعی مثبت تاثر سامنے آتا ہے۔ یہ نفسانفسی کا دور ہے۔ لوگ قربت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں‘ مگر جانے والوں کو جلد بھلا دیتے ہیں‘ آج مرے کل دوسرا دن۔ لیکن ڈاکٹر شاہین‘ خوش بخت ہیں کہ ان کے ہونہار شاگرد وسیم انجم نے اپنے استاد سے     بے لوث محبت کا ثبوت دیتے ہوئے‘ پہلے تو ان کا شعری مجموعہ چھاپا اور اب یہ دوسرا مجموعہ لائے ہیں۔

کتاب کی تدوین اور گٹ اَپ میں بہتری کی کافی گنجایش کے باوجود‘ وسیم انجم کی یہ کاوش قابلِ داد اور لائقِ ستایش ہے۔ اس سے ڈاکٹر شاہین کے احوال و آثار کی جامع تصویر سامنے آتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


پرویزیت کے الٰہیاتی تصورات‘ (دو حصے)‘ ظفر اقبال خان۔ ناشر: ادارہ اسلامیہ‘ حویلی بہادرشاہ‘ جھنگ۔  صفحات: ۷۲۹۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔ملنے کا پتا: سہ ماہی اسلامائزیشن‘ معرفت مہرنور سیال ‘ جی-۳۳۲‘ سبزہ زار ‘اسکیم موڑ‘ لاہور۔

اس تحقیقی اور تجزیاتی کتاب میں انکارِ حدیث کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ‘ اگرچہ بظاہر موضوع بحث تو چودھری غلام احمد پرویز کے فکروفن کو بنایا گیا ہے‘ لیکن مصنف نے مختلف پہلوئوں سے بحث کی وسعت اور موضوع کے پھیلائو میں ‘مختلف مذہبی تصورات پر بھی ایک جان دار محاکمہ پیش کر دیا ہے۔

پرویز صاحب کے ہاں مسلمہ دینی شعائر سے فرار‘ استدلال کی کمزوری‘ موقف میں تبدیلی‘ یکسوئی کے فقدان اور تضاد فکری کو جس پیرائے اور ربط کے ساتھ پیش کیا گیا ہے‘ وہ خود پرویز صاحب کے مریدوں کے لیے ایک چشم کشا آئینہ ہے۔

جدیدیت کی لہر اور امریکا کی زیرنگرانی تحریف فی الدین کی تحریک کا ہراول دستہ منکرین حدیث یا ان کے آس پاس کے خود ساختہ ’’ماہرین علوم اسلامیہ‘‘ ہیں۔ ان عناصر کے استدلال کی داخلی کمزوری کو سمجھنے میں بھی یہ کتاب مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر کتاب کے اسلوبِ بیان میں آسان نویسی پر توجہ دی جاتی تو اس کا دائرۂ تفہیم وسیع تر ہوجاتا۔ تاہم‘ اب بھی اہلِ شوق اس سے دلیل کی قوت حاصل کر کے معرکۂ حق وباطل میں ایک کمک حاصل کرسکتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)


Policy Perspectives، پہلا شمارہ اپریل ۲۰۰۴ئ‘ مدیر: خالد رحمن۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکزایف سیون‘ اسلام آباد۔ صفحات ۱۵۰۔ قیمت: درج نہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے اردو میں مختلف موضوعاتی مجلّوں کے بعد‘ ادارے کے ایک جامع تحقیقی مجلے کا آغاز‘ زیرنظر وقیع پیش کش سے کیا ہے۔ موضوعات کے تنوع اور معیار کے ہر لحاظ سے یہ تحقیقی مجلوں میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ عالمی‘ملّی اور قومی مسائل کے حوالے سے پروفیسر خورشید احمد (عالمی سرمایہ دارانہ نظام)‘ ڈاکٹر انیس احمد (عالمی امن اور انصاف)‘ خالد رحمن (امریکا کی مزاحم قوتیں) اور نواب حیدر نقوی (پاکستانی معیشت) کے مقالات کے علاوہ خارجہ امور میں چین سے تعلقات اور داخلی امور میں شمالی علاقوں نیز خاندان کے ادارے پر انسٹی ٹیوٹ کی مطالعاتی رپورٹیں بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ انگریزی کی وجہ سے اسے پاکستان کے عالی مقام حلقوں میں اور بین الاقوامی تحقیقی دنیا میں بھی جائز مقام ملنا چاہیے‘ یقینا اس طرح مسائل پر درست نقطۂ نظر کے ابلاغ کا راستہ کھلے گا۔ (م - س)


مادرِ ملت ، ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ ناشر: مکتبہ شال ‘۲۷۲‘ اے‘ او بلاک ۳‘ سٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ صفحات:۱۸۵+ ۵۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

قائداعظم محمد علی جناح کی خواہر محترمہ فاطمہ جناح کا ذکر قائداعظم کی سیاسی سرگرمیوں اور سماجی مصروفیات کے ساتھ ناگزیر ہے۔ وطن عزیز کے قومی حلقوں نے ۲۰۰۳ء کو ’’مادرِ ملت کا سال‘‘ قرار دیتے ہوئے مختلف تقریبات‘ بچوں کے تقریری مقابلوں‘ مطبوعات کی اشاعت‘ مضامین اور کتب نویسی کے انعامی مقابلوں کے ذریعے مرحومہ کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی کہ ممکن ہے اس طرح اس بااصول اور جرأت مند خاتون کی زندگی سے ہم کچھ سبق سیکھ سکیں۔

زیرنظر کتاب فاطمہ جناح کی توضیحی کتابیات ہے۔ پہلے حصے میں اُن کے بارے میں لکھی جانے والی ۹۳ کتابوں کا تفصیلی تعارف ہے۔ دوسرے حصے میں ۲۰۰۳ء کے دوران میں اخبارات و رسائل میں مطبوعہ مضامین کے حوالے یکجا کیے گئے ہیں۔تیسرے حصے میں مختلف شخصیات‘ طلبہ و طالبات اور بعض ایسی عام خواتین و حضرات کے تاثرات ہیں جنھیں محترمہ فاطمہ جناح کو دیکھنے اور ان سے ملنے کا موقع ملا۔ آخری حصے میں کچھ تصاویر اور فاطمہ جناح کے مضامین کی فہرست اور انگریزی کتابیات وغیرہ شامل ہیں۔

اپنے موضوع پر یہ ایک اچھی کتاب ہے جو فاطمہ جناح کا بخوبی تعارف کراتی اور مزید مطالعے کے لیے رہنمائی کرتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی محنت لائق ستایش ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ علمی و ادبی لحاظ سے بلوچستان کے سنگلاخ ماحول میں وہ بڑے استقلال اور لگن سے تصنیف و تالیف کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)


ورلڈ آرڈرز اور پاکستان، عبدالرشید ارشد۔ ناشر: النور ٹرسٹ‘ جوہرآباد۔ صفحات: ۱۸۷۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

محترم عبدالرشید ارشد کی تقریباً ۵۰ تصنیفات و تالیفات کی ایک مشترکہ خوبی یہ ہے کہ ان سب میں اسلام سے گہری جذباتی وابستگی اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک سنجیدہ فکرمندی نظر آتی ہے۔

زیرنظر کتاب میں اسلام اور دیگر ادیان کا مطالعہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسلام بنی نوع انسان کی‘ بلارنگ و نسل بھلائی چاہتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایک طرف تو یہود و نصاریٰ اسے ختم کرنے کے درپے ہیں اور دوسری طرف خود مسلمان بھی اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالے ہوئے ہیں۔ کتاب میں یہود کے عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہود کا مقصد محض ایک ملک حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے دیرینہ خواب (عظیم تر اسرائیل) کی تعبیر کے بعد ساری دنیا کی معیشت پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہودی تعلیمات کو فروغ دینے کے ساتھ وہ دیگر تمام مذاہب کے پیروکاروں خصوصاً مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس طرح فحاشی و بدکاری اور جنسی بے راہ روی کے ذریعے بھی وہ معاشروں میںانتشار پھیلانے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے ذریعے یہود کے عزائم پورے ہوئے‘ کلنٹن کو جنسی اسیکنڈل کے ذریعے پیچھے ہٹاکر جارج بش کی پشت پناہی کی گئی اور عراق و افغانستان میں مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں کو صف آرا کیا گیا۔ کتاب میں خاص طور پر پاکستان کے بارے میں اسرائیلی عزائم کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہماری قیادت کس طرح پکے ہوئے پھل کی طرح یہود و نصاریٰ کی جھولی میں گرپڑی ہے۔ مصنف نے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو بھی طشت ازبام کیا ہے۔ ہربات کے دلائل و شواہد اور حوالے پیش کیے گئے ہیں۔ (محمد ایوب لِلَّہ)


بالآخر کیا ہوگا؟ ڈاکٹر سفربن عبدالرحمن۔ ناشر: مبشرات‘ پوسٹ بکس ۱۲۶‘ شائی گان‘ اسلام آباد۔ ملنے کا پتا: ادارہ تعلیمات القرآن‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۴۵ روپے۔

ڈاکٹر سفرالحوالی (پ: ۱۹۵۰ئ) نے خلیج کی جنگ کے زمانے ہی سے تحریر و تقریر کے ذریعے عالمِ اسلام کو خبردار کرتے رہے کہ امریکی افواج کی آمد‘ یہود کی برسوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ الحوالی کی فیتہ بند تقریریں عربوں میں خوب خوب مقبول ہوئیں مگر ۱۹۹۴ء میں حق گوئی کی پاداش میں انھیں قیدوبند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ اور ان کی کیسٹیں بھی ممنوع قرار پائیں۔

سفرالحوالی نے زیرنظر خطبہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو اسپین میں منعقدہ مشرق وسطیٰ امن کانفرنس کے پس منظر میں دیا تھا۔ مذکورہ کانفرنس میں امریکا اور روس کے صدور اور اسرائیل کے وزیراعظم بھی شریک ہوئے تھے اور یہ اسرائیل کو عربوں کے لیے قابلِ قبول بنانے (فلسطینیوں کے بقول ’قدس کی فروخت‘)کی مہم کا نقطۂ آغاز تھا۔

مصنف کے نزدیک مسئلہ فلسطین سیاسی اور نسلی نہیں بلکہ اس کا بنیادی تعلق قبلۂ اول سے ہے اور یہ ایمان کامسئلہ ہے۔ زیرنظرخطبے میں انھوں نے مسلمانوں اور اہلِ کتاب کی عداوت اور نصاریٰ پر یہودی عقائد کے غلبے کی وجوہ پر روشنی ڈالی ہے اور وضاحت کی ہے کہ عیسائی‘ بشمول  ریگن و بش عقیدہ ہرمجدون (Armageddon) کے قائل ہیں۔ پوری عیسائی دنیا حضرت مسیحؑ کی آمد کی منتظر ہے جس کے بعد ان کے عقیدے اور توقعات کے مطابق‘ عیسائی ہزار سال تک دنیا پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔

سفرالحوالی نے امریکا میں سرگرم بہت سی یہود نواز شخصیات اور تنظیموں‘ صہیونی منصوبوں اور اس پس منظر میں عالمِ اسلام کے بارے میں مغرب کے اہداف اور مذموم مقاصد کا ذکر کیا ہے‘ مثلاً: فلسطین میں جہاد کا خاتمہ‘ دعوت الی اللہ سے روکنا‘ عربوں کی فوجی قوت کا خاتمہ‘ عسکری لحاظ سے عربوں کو یہودیوں کے تابع کرنا‘ ابلاغ عامہ اور تعلیمی نصاب میں تبدیلی‘ معیشت پر یہودیوں کی پوری گرفت‘ خلیج کے تیل اور پانیوں پر ڈاکازنی‘ اخلاقی پستی اور گراوٹ کا فروغ‘ ارضِ حجازکو یہودیوں کا خطہ بنانا وغیرہ۔ الحوالی نے اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے اور درپیش معرکے کی تیاری کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔

مبشرات (ناظم: محمد صہیب قرنی) نے اپنی پہلی کتاب‘ اہتمام سے شائع کی ہے۔ (ر-ہ)


تعارف کتب

  • تشریح الآیات، توفیق احمد ناصر صدیقی۔ ناشر: تحریک حی علی الفلاح‘ اے‘ ۱۰‘ سپراپارٹمنٹ‘ بلاک۷‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ صفحات: ۳۸۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[تفہیم القرآن‘ تفسیر عثمانی اور احمدرضا بریلوی کی کنزالایمان سے تیسویں پارے کے ترجمے اور تشریحات کا تقابلی مطالعہ۔]
  • نگارشات ڈاکٹر محمد حمیداللہ، مرتب: محمدعالم مختار حق۔ناشر: بیکن بکس‘ قذافی مارکیٹ لاہور‘ صفحات: ۶۹۶۔ قیمت:۴۱۰ روپے۔ [قرآن‘ سیرت‘ فقہ‘ اکابرین‘ تاریخ‘ قانون‘ خطۂ عرب‘ مستشرقین‘ ادب‘ سود کے عنوانات کے تحت تقریباً پچاس مقالات و مضامین اور ۱۷ مکاتیب کا مجموعہ۔]

پروفیسر عبدالحق ‘ اسلام آباد

سید اسعد گیلانی مرحوم کا ’’ایک مکتوب‘ دوست کے نام‘‘ (دسمبر ۲۰۰۴ئ) انتہائی موثر‘ایمان افروز اور تحریکیت سے بھرپور ایک شاہکار مضمون تھا۔ میں نے دو بار پڑھا جیسے یہ نامہ میرے ہی نام تھا۔ مضمون کا ایک پیرا ہمارای موجودہ صورت حال پر کس قدر لفظ بہ لفظ منطبق ہوتا ہے۔ قوسین کے تصرف کے ساتھ:

دشمنِ حق (بش) نے آخر تم ہی کو نرم چارہ سمجھ کر‘ کیوں مقصدِحیات سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ پھر وہ اتنا جری کیوں ہوگیا ہے کہ علی الاعلان (ایک فون کے ذریعے) تمھیں احساسِ شکست دلا رہا ہے کہ میں نے تم (عالمِ اسلام) پر قابو پا لیا ہے۔ یہ تو بڑی شرم کی بات ہے بلکہ یہ بات حمیتِ مومن کے خلاف اور اُس کی مردانگی (کمانڈو صفت) کو کھلا کھلا چیلنج ہے۔ اُس (بش) نے اگر تمھیں یہ احساس دلایا ہے کہ وہ تم پر قابو پاگیا ہے تو تم بھی اُسے خم ٹھونک کر جواب دو کہ بندئہ مومن کو مفتوح کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ فرعون و نمرود بھی جس مومن کی سطوت سے پناہ مانگیں اُس پر چند اندیشہ ہاے دُور دراز کا جال پھیلا کر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔(ص ۵۲)


خبیب انس ‘کراچی

سید مودودیؒ کی ۵۰‘ ۶۰ سال پہلے کی تحریریں آج بھی بالکل حسب حال محسوس ہوتی ہیں۔ صدی نئی آگئی ہے لیکن غالباً ابھی دور تبدیل نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کیا خوب کہا ہے‘ شیر کا منصب ادا کرنے کے لیے بس شیر کا دل درکار ہے۔ وہ شیر نہیں جو بکریوں کی کثرتِ تعداد یا بھیڑیوں کی چیرہ دستی دیکھ کر اپنی شیریّت بھول جائے۔(دسمبر۲۰۰۴ئ)


پروفیسر الطاف طاہر اعوان ‘سرگودھا

مغرب میں آزادی راے کے دعوے دار کیا کسی مسلمان ملک میں عیسائیت اور انجیل کی کسی فلمی اداکارہ کی طرف سے اس طرح توہین برداشت کریں گے جس طرح فلم Submission میں اسلام‘ قرآن مجید‘  اسلام کے عائلی نظام اور پردہ کی کی گئی ہے۔ اُلٹا الزام بھی ہم پر ہے۔ (مسلمان عورت پر اشتعال انگیز فلم‘ دسمبر ۲۰۰۴ئ)


محمد صہیب عمر ‘کراچی

رفیع الدین ہاشمی صاحب نے علامہ اقبال کی زبان سے ہمیں جو پیغام دیا ہے (دسمبر ۲۰۰۴ئ) وہ آج اُمت مسلمہ کے ہر نوجوان کی ضرورت ہے۔ اقبال کے نام پر قائم اداروں کو چاہیے کہ ۱۱؍۹ کے بعد کے   حالات کے تناظر میں ان کے کلام سے ایک بیداری کا پیغام منتخب کر کے دنیا کی ۱۵‘ ۲۰ زبانوں میں ترجمہ کر کے   عام کریں۔


افتخار چودھری ‘لاہور

’’کشمیر پر کمانڈو صدر کی اُلٹی زقند‘‘ (دسمبر ۲۰۰۴ئ) کا پوسٹ مارٹم وقت کی ضرورت اور چشم کشا حقائق سے آگاہی کا مکمل سامان رکھتا ہے۔سنابل العلم کا سلسلہ انتہائی مفید ہے۔ ہرماہ اپنا محاسبہ کرنے اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے اور اپنی خفی اور تحریکی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا موقع عطا کرتا ہے۔ میری تجویزہے کہ اب تک چھپنے والا سارا لوازمہ کتابی شکل میں آجائے تو محفوظ ہوجائے گا اور استفادے کی صورت بھی بہتر ہو جائے گی۔

اسلام زیرسایۂ کفر

ایک آخری دلیل یہ تصنیف کی گئی کہ مسلمانوں کی ترقی و فلاح‘اور بعض حالات میں ان کی زندگی کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ وہ نظامِ کفر کے عدالتی‘ تشریعی‘ انتظامی‘ فوجی‘ صنعتی‘ غرض تمام شعبوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں ورنہ اُمت کے وفات پاجانے یا کم از کم ترقی کی دوڑ میں غیرمسلموں سے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہے… دین میں یہی وہ عظیم الشان ترمیم تھی جس کی بدولت بڑے بڑے متقی و دین دار حضرات تسبیحوں کو گردش دیتے ہوئے وکالت اور منصفی کے پیشوں میں داخل ہوئے تاکہ جس قانون پر وہ ایمان  نہیں رکھتے اس کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کریں اور کرائیں‘ اور جس قانون پر ایمان رکھتے ہیں اس کی تلاوت صرف اپنے گھروں میں کرتے رہیں۔ اسی ترمیم کی بدولت بڑے بڑے صلحا و اتقیا کے بچے نئی درس گاہوں میں داخل ہوئے اور وہاں سے بے دینی و مادہ پرستی اور بداخلاقی کے سبق لے لے کر نکلے اور پھر اس نظامِ کفر کے صرف عملی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ اکثر حالات میں اخلاقی و اعتقادی حیثیت سے بھی خدمت گزار بن گئے‘ جو ان کے اسلاف کی غفلتوں اور کمزوریوں کی بدولت ان پر ابتداء ً محض اوپر سے مسلط ہوا تھا۔ پھر اسی ترمیم نے یہاں تک نوبت پہنچائی کہ مردوں سے گزر کر جاہلیت اور ضلالت اور بداخلاقی کا طوفان عورتوں تک پہنچا۔ وہی فرض کفایہ جسے ادا کرنے کے لیے پہلے مرد اٹھے تھے‘ عورتوں پر بھی عائد ہوگیا اوران بیچاریوں کو بھی آخر اس ’’دینی خدمت‘‘ کی بجاآوری کے لیے نکلنا پڑا۔ نہ نکلتیں تو خطرہ تھا کہ کہیں غیرمسلم ان سے بازی نہ لے جائیں…

جس حقیقی فارمولے پر فی الواقع یہ لوگ کام کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ ’’جب ہم نے اس دین پر یہ احسان کیا ہے کہ اس کو اپنے ایمان سے سرفراز کیا تو اس کے بدلے میں کم سے کم جو فرض اس دین پر عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہمارے آگے چلنے کے بجاے ہمارے پیچھے چلنا شروع کردے‘ یعنی اب ہمارا اور اس کا تعلق یہ نہ ہو کہ ہم اسے اپنے اوپر اور خدا کی زمین پر قائم کرنے کی سعی کریں اور اس سعی کے سلسلے میں جو جو ضرورتیں ہم کو پیش آتی جائیں یہ انھیں پورا کرنے کی ضمانت لیتا جائے‘ بلکہ تعلق کی صورت اب یہ ہونی چاہیے کہ ہم اس کی اقامت کا کام حتیٰ کہ اس کا خیال تک چھوڑ کر اپنے نفس کی پیروی میں جس جس وادی کی خاک چھانتے پھریں اُس میں یہ ہمارے ساتھ ساتھ گردش کرتا رہے اور جن جن ادیانِ باطلہ کے ہم تابع فرمان بنتے جائیں ان کے ماتحت ساری غلامانہ حیثیتیں یہ بھی اختیار کرتا چلا جائے…‘‘ (’’حضرت یوسف ؑ اور غیر اسلامی نظامِ حکومت کی رکنیت‘‘، نواب محمد ذکاء اللہ خان‘ حاشیہ مولانا مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۶‘ عدد ۱-۲‘ محرم و صفر ۱۳۶۴ھ‘ جنوری و فروری ۱۹۴۵ئ‘ ص ۶۸-۶۹)