بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ تاریخ سے سبق کم ہی لیا جاتا ہے اور ہر دور میں مغرور اور خودسر حکمران وہی غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں‘ جن کے سبب ان کے پیش رو عبرت کا نشان بنے تھے۔ یہ مقولہ کہ ’’جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجانے میں مشغول تھا‘‘ضرور ضرب المثل بن گیا چنانچہ ہر دور کے نیرو اپنی اپنی دل چسپی کے شغل میں منہمک نظر آتے ہیں اور جلتے در و دیوار انھیں اپنے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہماری اپنی خودپسند قیادت کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔
مشرقی پاکستان میں جب آئینی اداروں کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کے نتیجے میں محرومی اور بے چینی کا لاوا پک رہا تھا‘ تو اس وقت کا فوجی حکمران اسے ’’چند شرپسندوں کی بغاوت‘‘ قرار دے کر اعلان کر رہا تھا کہ ’’میں ہتھیاروں کی زبان استعمال کرکے سب کو سرنگوں کر لوں گا‘‘۔ جن اہلِ دانش نے اس کو مشورہ دیا کہ ہتھیاروں کی زبان نہیں‘ دلیل کا ہتھیار استعمال کرو تو اس نے اسے کمزوری اور بزدلی قرار دے کر رد کر دیا اور پھر اسی سال ۱۶ دسمبر کو قائداعظم کے پاکستان کے دوٹکڑے ہوگئے۔ آج ایک دوسرا فوجی حکمران پھر طاقت کی زبان استعمال کرنے کی باتیں کر رہا ہے اور ’’شرپسندوں کو سخت کارروائی کا انتباہ‘‘ دے رہا ہے‘ اور جو سیاسی قیادت جو حالات کی نزاکت کو محسوس کرتی ہے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہتی ہے افسوس ہے کہ وہ کمزوری‘ غفلت اور وقت گزاری کی مرتکب ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے مگر اسے اس مسئلے پر بحث کرنے اور اس کا حل نکالنے کی اجازت نہیں۔ ایک پارلیمانی کمیٹی نے تین چار مہینے کی تگ و دو اور تمام متعلقہ عناصر سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی کچھ واضح راہیں تلاش کیں‘ مگر اس کا کام بھی معرضِ خطر میں ہے___ آخر اس دلدل سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟مستقبل پر بات کرنے سے پہلے صحیح صورت حال‘ اصل مسائل اور ان کے حل کے نقشۂ راہ پر مختصر گفتگو ہوجائے تو پھر شاید سنگ ہاے راہ سے نجات کا راستہ بھی نکالا جا سکے۔
بلوچستان پاکستان کے رقبے کا ۴۵ فی صد اور آبادی کے تقریباً ۶ فی صد پر مشتمل ہے۔ تقریباً ۹۰۰ کلومیٹر کا ساحلی علاقہ اور ایران اور افغانستان سے سیکڑوں کلومیٹر کی مشترک سرحد ہے۔ تیل‘ گیس‘ کوئلے اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے۔ بلوچ اور پشتون‘ آبادی کا تقریباً ۸۸ فی صد ہیں اور آپس میں برابر برابر ہیں‘ جب کہ باقی ۱۲ فی صد وہ آبادکار (settlers) ہیں جو آہستہ آہستہ اس سرزمین کا حصہ بن چکے ہیں۔ قبائلی نظام اب بھی مضبوط ہے اور اس کی روایات معاشرے کی شناخت ہیں۔ معاشی ڈھانچا نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کے دُور دراز علاقوں تک پھیلے ہونے کی وجہ سے مواصلات اور سہولتوں کی فراہمی کا کام مشکل اور نسبتاً مہنگا ہے۔ جو سہولت دوسرے صوبوں میں مثال کے طور پر ایک کروڑ روپے کے خرچ سے میسر آسکتی ہے صوبہ بلوچستان میں تین سے چار گنا زیادہ اخراجات درکار ہیں۔ اس بنیادی حقیقت کو کسی حکومت نے محسوس نہیں کیا۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کا کام کبھی بھی اس صوبے کے لیے انصاف اور ضروریات کی بنیاد پر نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں‘ دیہی علاقے میں غربت پاکستان کی اوسط غربت سے تقریباً دگنی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ گیس جو سوئی سے نکل کر کراچی سے پشاور تک روشنی اور حرارت فراہم کر رہی ہے خود سوئی کی ۹۹ فی صد آبادی اور بلوچستان کی ۹۵ فی صد آبادی اس کی روشنی اور تمازت سے محروم ہے۔
موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس صوبے کے لیے کئی بڑے منصوبے (mega projects) اور ڈھائی ہزار کے قریب دوسرے ترقیاتی منصوبے زیرتکمیل ہیں اور چھے سال میں ۱۲۰ارب روپے اس کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ میرانی ڈیم‘ گوادر پورٹ اور مکران ہائی وے پر کام اس کا کارنامہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بلوچستان میں نفرت اور بے چینی کی لہریں کیوں اٹھ رہی ہیں؟ عالم یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء کے دو سال میں ۱۵۲۹ راکٹ فائر کیے گئے ہیں‘ ۱۱۳ بم دھماکے ہوئے ہیں‘ تین چینی انجینیرہلاک ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ ۱۰۰ سے زیادہ افراد اب تک جاں بحق ہوچکے ہیں اور کئی سو زخمی۔بگتی علاقے کا محاصرہ ہے‘ ڈاکٹر شازیہ کا المناک واقعہ رونما ہوا ہے اور جب سوئی گیس کی رسد متاثر ہوتی ہے‘ اور یہ بار بارہوئی ہے تو ملک کو روزانہ نقصان ۱۵ سے ۲۰ کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع سب سے بڑا المیہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ محض چند سرداروں کی سرکشی شرارت ہے جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر صوبے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں؟ کیا اس میں بیرونی ہاتھ ہے کہ بھارت کے اپنے عزائم ہیں اور وہ گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ امریکا کی اپنی سوچ ہے اور بلوچستان میں چین کے عمل دخل پر وہ مضطرب ہے۔ گوادر ہو یا سینڈک‘ ہر جگہ اسے چینیوں کا کردار نظرآتا ہے۔ ایران کے حوالے سے امریکا کے خفیہ اداروں کا کردار اور بلوچستان کی سرزمین سے خلق کے مجاہدین کے احیا کے اشارے مل رہے ہیں جن کو قوم پرست کہا جاتا ہے‘ ان کے اپنے اہداف ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ ان سب نظریات اور تصورات میں کچھ نہ کچھ صداقت بھی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مخالف قوتیں حالات کو اسی وقت استعمال کر سکتی ہیں جب ان کے لیے حالات سازگار ہوں اور بگاڑ موجود ہو اور مسائل کو بروقت اور صحیح طریقے پر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بس قوت کے ذریعے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
مجھے پچھلے سال بلوچستان کے حالات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کرنے اور صوبے کے چند اہم مقامات کا تفصیلی دورہ کرنے‘ بچشم سر حالات کا مشاہدہ کرنے اور درجنوں ذمہ دار افراد سے حقائق کو جاننے اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ جہاں مجھے یقین ہے کہ آج بھی تمام معاملات سیاسی عمل اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں‘ وہیں میرا یہ احساس اور بھی قوی ہوگیا ہے کہ کچھ برسرِاقتدار قوتیں مسائل کو حل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتیں بلکہ انھیں مزید الجھانے اور بگاڑنے کے درپے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جس کا اعلان چودھری شجاعت حسین نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے مختصر دور میں کیا تھا اور جو اس حیثیت سے ایک منفرد کمیٹی تھی کہ اس میں پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں بشمول قوم پرست جماعتیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس میں برسرِاقتدار جماعتیں اور اس کے حلیفوں کے نمایندوں کی تعداد ۱۶ تھی‘ جب کہ حزب اختلاف سے متعلق نمایندوں کی تعداد ۲۲ تھی۔ یہ کمیٹی ۷ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قائم ہوئی اور اسے ۹۰ دن میں اپنا کام مکمل کرلینا تھا۔
اِس پارلیمانی کمیٹی نے مزید دو کمیٹیاں قائم کیں: ایک سینیٹر وسیم سجاد کی سربراہی میں جس کا کام دستوری معاملات پر سفارشیں پیش کرنا تھا اور دوسری سینیٹر مشاہد حسین سید کی سربراہی میں جسے سیاسی اور معاشی معاملات پر سفارشات مرتب کرنا تھا۔ مجھے دوسری کمیٹی میں کام کرنے کا موقع ملا اور مجھے خوشی ہے کہ اس کمیٹی نے کھلے دل سے اور صرف ملک کے مفاد میں اپنی پوری کارروائی کی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر‘ ملک کے مفاد اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی متفقہ سفارشات مرتب کیں جن کو ۵ جنوری ۲۰۰۵ء کو آخری شکل دے دی گئی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سفارشات آج تک پارلیمنٹ کے سامنے باضابطہ طور پر نہیں آسکی ہیں‘ ان پر عمل درآمد کی بات تو دُور کی چیز ہے۔ اس عرصے میں (مارچ ۲۰۰۵ئ) کے سنگین واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجے میں حالات مزید بگڑ گئے اور اس وقت طوفان کچھ تھما ہوا ہے مگر لاوہ پک رہا ہے اور حکمران اپنی ’’راج ہٹ‘‘ پر نازاں اور کمیٹی کا ارکان اس تغافل پر نالاں ہیں۔
یہ کہنا محال ہے کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کب اور کس طرح پیش کرپاتی ہے لیکن ہماری نگاہ میں وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری پر اس نقطۂ نظر اور ان سفارشات کے جوہر کو بیان کر دیں جو کمیٹی کی اکثریت کی سوچ کی نمایندگی کرتی ہیں اور جس کو ایک متعین شکل دینے میں دوسرے ارکان کے ساتھ راقم نے بھی ایک واضح کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانے میں کوئی تردد نہیں کہ سینیٹر مشاہد حسین سید اور خود چودھری شجاعت حسین کا رویہ مثبت رہا‘ البتہ ہمارے بار بار کے اصرار کے باوجود‘ وہ معاملات کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں‘ معلوم نہیں کیوں؟
۱- مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوسکتا ہے۔
۲- مسئلے کے حل کے لیے تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور کوشش کرنا ہوگی کہ مکمل اتفاق راے اور بصورت دیگر اکثریت کے مشورے سے معاملات کو طے کیا جائے۔
۳- یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ محض ’’مضبوط مرکز‘‘ کا فلسفہ غلط اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ’’مضبوط مرکز‘‘ اسی وقت ممکن ہے جب صوبے مضبوط ہوں اور کامل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ اب توجہ کے اصل محور کو مرکز سے صوبوں کی مضبوطی سے اس انداز سے منتقل ہونا چاہیے کہ مضبوط صوبے مضبوط مرکز کی راہ ہموار کریں۔ مرکز اور صوبوں میں dichotomy کی جگہ مفاہمت‘ ہم آہنگی اور mutuality کا رشتہ ہونا چاہیے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کا بھی یہی تقاضا تھا جسے پورا نہیں کیا گیا۔
۴- چوتھا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس طرح زنجیر کی مضبوطی کا انحصار اس کی کمزور ترین کڑی پر ہوتا ہے‘ اسی طرح ملک کی مضبوطی کے لیے بھی ضروری ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو اتنا مضبوط کیا جائے اور اس سطح پر لایا جائے کہ سب برابر کی مضبوطی اور خوش حالی کے مقام پرآجائیں۔ دوسرے الفاظ میں سب انصاف کے حصول کمزور کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل آرا ہوں۔ انصاف نام ہی توازن اور برابری کا ہے اور یہی چیز آج تک ہماری معاشی منصوبہ بندی اور سیاسی پالیسی میں مفقود رہی ہے۔
۵- اس پورے عمل میں اصل اہمیت افراد‘ علاقے‘ صوبے اور پوری قوم کے حقوق کا تحفظ اور سیاسی اور معاشی عمل میں تمام عاملین کی بھرپور شرکت اور کارفرمائی کو حاصل ہے۔ فردِواحد کی حکومت یا محض ایک خاص گروہ اور مقتدر گروہ کے ہاتھوں میں قوت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا ارتکاز خرابی کی جڑ ہے۔ مسئلہ معاشی ہے مگر اس سے بھی زیادہ صوبوں کے اپنے وسائل پر اختیار اور سیاسی اور معاشی فیصلوں میں شرکت اور ترجیحات کے تعین کی قدرت کا ہے۔ منہ بند کرنے کے لیے کچھ گرانٹس یا مراعات کے دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ملکیت‘ اختیار اور اقتدار اور فیصلوں میں شرکت کے انتظام کو ازسرِنو مرتب کرنا اصل ضرورت ہے۔
۶- اس سلسلے میں فوج کا کردار بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف دفاع وطن کی ذمہ داری سول حکمرانی کے تحت انجام دے۔ ساری خرابیوں کی جڑ سیاسی اور اجتماعی معاملات فوج کی مداخلت اور ایک مقتدر سیاسی قوت بن جانا ہے۔ چھائونیوں کی ضرورت اگر ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہے تو وہ مسئلہ میرٹ پر طے ہونا چاہیے لیکن اگر لوگوں کو یہ خطرہ ہو کہ یہ چھائونیاں سول نظام کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ہیں تو پھر اس کے نتیجے میں سول عناصر اور فوجی قوت کے درمیان کش مکش ناگزیر ہوجاتی ہے۔ فوج کے سوچنے کا انداز (mind-set) سول نظام سے بہت مختلف ہے اور دونوں کا اپنے اپنے حدود میں رہ کر تعاون ہی ملک کے نظام کی صحت کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ تحکمانہ انداز بگاڑ پیدا کرتا ہے‘ اس سے خیر رونما نہیں ہوسکتا‘ اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ کمیٹی فوجی چھائونیوں کے قیام کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دے رہی ہے مگر فوج کے ترجمان کیا زبان استعمال کر رہے ہیں‘ جب کہ ۲۷ جنوری ۲۰۰۵ء کے ڈان میں فوج کے ایک کرنل صاحب کا سوئی میں فوجی چھائونی کے بارے میں اس طرح کا اعلان اصلاح احوال کا ذریعہ کیسے بن سکتا ہے؟
ہم یہاں آئے ہیں اور ہم نے پاکستان آرمی کو الاٹ شدہ ۴۰۰ ایکڑ زمین پر قبضہ حاصل (WE HAVE TAKEN OVER) کر لیا ہے۔ ہم یہاں جلد ہی ایک چھائونی تعمیر کریں گے جو اس علاقے کی ضرورت ہے۔ آج آپ کو یہاں صرف ریت کے ٹیلے نظر آئیں گے لیکن ایک بہت ہی مختصر مدت میں چھائونی کی تعمیر کی جائے گی اور ریت کے تودے سرسبز زمین میں تبدیل ہوجائیں گے۔
یہ وہی منطق ہے جس کا اظہار برطانوی سامراج کی افواج اور حکمران کیا کرتے تھے کہ ہم نے مقبوضہ علاقوں کو ترقی سے ہمکنار کر دیا ہے۔ ترقی بلاشبہہ مطلوب ہے مگر اس انداز میںکہ رشتہ ْحاکم اور محکوم کا نہ ہو بلکہ سب کے فیصلے سے اور سب کی شراکت سے معاملات طے ہوں۔ وسائل پر اختیار بھی آزادی کا لازمی حصہ ہے۔ محض سبزہ اُگانا اور روٹی دینا ترقی کا معیار نہیں۔
ان اصولوں کی روشنی میں کمیٹی کے ارکان کی اکثریت نے جو تجاویز دی ہیں‘ ان میں چند اہم یہ ہیں۔ اوّل: حقیقی صوبائی خودمختاری کے تقاضے پورا کرتے ہوئے دستور میں مرقوم مشترک فہرست (concurrent list) کے ۴۶موضوعات میں سے ۲۹ کو فی الفور صوبوں کے سپرد کردیا جائے‘ باقی ۱۷ اگلے پانچ سال کے اندر اندر منتقل کر دیے جائیں۔ دستور کی مرکزی فہرست کے دوسرے حصے میں جو موضوعات ہیں وہ آیندہ کے لیے مشترک فہرست میں شامل کر دیے جائیں۔ نیز مشترک معاملات کی کونسل (Council of Common Interest) کو ایک مؤثر ادارہ بنایا جائے اور اس کی شش ماہی نشستوں کو دستوری طور پر لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اپنا سیکرٹیریٹ ہو تاکہ یہ دوسروں کی مہربانی پر زندہ نہ رہے۔
دوم: سیاسی فضا کو خوش گوار بنانے کے لیے ہر طرح کے عسکری تشدد کا راستہ بند کیا جائے‘ مذاکرات سے معاملات طے کیے جائیں‘ اور جو سیاسی کارکن گرفتار ہیں‘ ریاستی اور سیاسی ان کی رہائی کا اہتمام کیا جائے۔
سوم: صوبے کو اپنے وسائل پر اختیار دیا جائے اور مرکز سے جو وسائل منتقل ہوتے ہیں‘ ان میں انصاف اور ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں گیس اور معدنیات کی رائلٹی کو نئے فارمولے کی روشنی میں انصاف کے مطابق مقرر کیا جائے۔
چہارم: معاشی ترقی کے ثمرات کو علاقے کے عوام تک پہنچانے کا بندوبست ہو۔ اس کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ معدنی وسائل کو دریافت کرنے اور ترقی دینے والی کمپنیوں کے لیے لازم کیا جائے کہ وہ اپنی کل سرمایہ کاری (investment) کا کم ازکم پانچ فی صد علاقے کے لوگوں کی تعلیم‘ صحت اور دوسری سہولتوں کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جائے‘ نیز معدنیات کی ترقی کے بعد ان کمپنیاں کے نفع کا ۱۵ فی صد اس علاقے کی ترقی کے لیے صرف کیا جائے۔
پنجم: نیز صوبے میں تعلیم‘ صحت‘ پانی کی فراہمی‘ بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ملازمتوں پر مقامی آبادی اور صوبے کے لوگوں کو ترجیح دی جائے‘ اور یہ سب کام میرٹ کی بنیاد پر انجام دینے کے لیے مقامی آبادی کی تعلیم‘ پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھانے کا انتظام کیا جائے۔
ششم: فرنیٹر کور اور کوسٹل گارڈ کو صرف ساحلی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جائے اور ان کا سول کردار ختم کیا جائے۔ نیز اسمگلنگ روکنے کے نام پر جو ۵۰۰سے زیادہ چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں‘ ان کو ختم کیا جائے۔ اسمگلنگ روکنے کا کام فرنٹیرکانسٹیبلری اور کوسٹل گارڈ سے نہ لیا جائے بلکہ یہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو۔ اسی طرح فوجی چھائونیوں کا معاملہ سیاسی بحث و مناقشے کا حصہ نہ ہو اور صرف دفاعی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔ فی الحال ان کے قیام کو ملتوی کر دیا جائے تاکہ بہتر فضا میں صحیح فیصلے ہوسکیں۔
ہفتم: گوادر پورٹ کی اتھارٹی کو فوری طور پر کراچی سے گوادر میں منتقل کیا جائے۔ اس میںصوبے کو مناسب نمایندگی دی جائے‘ اس کی ترقی کے پورے پروگرام میں صوبے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ علاقے کے لوگوں کو ان کا حق ملے‘ زمینوں پر باہر والے قبضہ کر کے علاقے کی شناخت کو تبدیل نہ کر دیں اور جو متاثرین ہیں ان کو قریب ترین علاقے میںآباد کیا جائے۔ نیز اراضی کے بڑے بڑے قطعے جس طرح فوج‘ نیوی اور دوسرے بااثر افراد اور اداروں نے ہتھیا لیے ہیں ان کو سختی سے روکا جائے اور انصاف پر مبنی شفاف انداز میں پورے علاقے کا ماسٹر پلان ازسرِنو تیار کیا جائے۔
ہشتم: بلوچستان میں بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے تمام علاقوں اور باسیوں کی منصفانہ اور متوازن ترقی کے تقاضے بہرصورت پورے ہونے چاہییں۔ خصوصیت سے خشک سالی کی بنا پر جو علاقے گذشتہ آٹھ برس سے متاثر ہیں ان کی ترقی اور تلافی کا اہتمام کیا جائے۔
نہم: بلوچستان میں نظم و نسق کے روایتی انتظام کو جس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت مقامی لیوی کو حاصل ہے‘ برقرار رکھا جائے اور اس کی ترقی کا اہتمام کیا جائے نہ کہ اس کو ختم کرکے پولیس کے نظام کو ان پر مسلط کیا جائے جو اس علاقے میں بھی ناکام ہے جہاں اس وقت اسے قدرت حاصل ہے۔
ہمارا مقصد کمیٹی کی مکمل سوچ کا احاطہ اور اس کی تمام سفارشات کا بیان نہیں۔ ہم سوچ کے اس رخ کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو پارلیمنٹ کی اس کمیٹی نے پیش کیا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچستان ہی نہیں‘ تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں‘ عوام کے مشورے سے ہوں۔ مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے۔ مخصوص مفادات اور فوجی اور سول مقتدرہ (military - civil establishment) کی گرفت کو ختم کیا جائے‘ اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔
صوبائی قیادت کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی صوبائی قیادتیں بھی حالات کے بگاڑ کے سلسلے میں ایک حد تک ذمہ دار رہی ہیں لیکن زیادہ ذمہ داری مرکزی قیادت اور خصوصیت سے حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید یہی وہ طبقہ ہے جو پارلیمانی کمیٹی کے کام کے آگے بڑھنے کی راہ میں حائل ہے۔ مسئلے کا حل پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتوں اور عوام کے اپنے کردار کو مؤثر بنانے میں ہے‘ بقول اقبال ؎
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
ُتو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
اچھے وقتوں کی بات ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہوکر دودھ پلاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اگر تیرے حلق سے کبھی لقمۂ حرام اترا تو تجھے دودھ نہیں بخشوں گی۔ مائیں اس کا اہتمام بھی کرتی تھیں کہ خود ان کے حلق سے بھی لقمہ حرام نہ اترا ہو۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ محاورہ متروک ہونے کے ساتھ ساتھ‘ حرام کے حرام ہونے کا تصور بھی بالعموم ہمارے معاشرے سے متروک ہوگیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ نیا کلچر بس یہ ہے کہ کسی بھی طرح مال آنا چاہیے اور کھانا پینا چاہیے۔ ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
اس حوالے سے حقیقی صورت حال اتنی دگرگوں ہے کہ غالباً بیان اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹروں سے زیادہ مقدس پیشہ کس کا ہو سکتا ہے۔ مریض اس پر اندھا اعتماد کرتا ہے کہ وہ اس کا خیرخواہ ہے لیکن اب یہ بات عام ہے‘ ہر کوئی جانتا ہے اخباروں میں چھپ رہی ہے کہ دواساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو نوازنے میں ہرحد پار کر گئی ہیں اور ڈاکٹر حضرات بھی سب حدوں سے آگے چلے گئے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی حقائق معلوم کرنے کا کمیشن بنے تو ۱۱/۹ کی تفصیلات سے بھی زیادہ ضخیم رپورٹ تیار ہوجائے۔ مفت سیمپل سے شروع ہونے والی بات اب لیزگاڑیوں کی قسطوں‘ فائیوسٹار ہوٹلوں میں مع فیملی ویک اینڈ‘ بیرون ممالک کے دوروں (بلکہ عمرے کے ٹکٹ) تک پہنچ گئی ہے۔ اس سب کے عوض ڈاکٹر متعلقہ کمپنیوں کی تیار کردہ مہنگی سے مہنگی دوائیں تجویز کرتا ہے۔ دواساز کمپنی سے وابستہ لوگ معروف ڈاکٹروں کا نام لے کربتاتے ہیں کہ ہم نے ان کا اتنا اتنا ہزار ماہانہ باندھ رکھا ہے (اور ہمیں تو کوئی ایک کمپنی والا ہی بتاتا ہے‘ دیگر کمپنیوں کا حساب تو ڈاکٹر خود ہی جانتا ہے)۔
ملتان کے ایک ڈسٹری بیوٹر نے مجھے بتایا: ڈی جی خان تک میرا علاقہ ہے اور کوئی ڈاکٹر بھی پاک نہیں ہے‘ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
اندازہ تو کریں کہ اس سے زیادہ کمینگی اور سفلہ پن (میرے پاس مزید سخت الفاظ نہیں) کیا ہوسکتا ہے کہ مجبور اور غریب بیماروں سے اس طرح رقمیں نکلوائی جائیں۔ یہ مصدقہ کہانیاں الگ کہ سرجن صاحب پیٹ کھول کر باہر آگئے کہ اندر تو فلاں چیز نکل آئی ہے‘ اتنے ہزار اور دیں ورنہ میں اس کے بغیر ہی سی دیتا ہوں‘ ثم: اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
دوسری طرف نظر ڈالیں۔ وفاقی حکومت کا ادارہ ہے نیشنل ہائی وے اتھارٹی۔ بائی پاس تعمیر کے لیے زمینیں حاصل کرکے معاوضہ ادا کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں میرے ذاتی علم کے مطابق ایک ادایگی میں ادارے نے ایک کروڑ رقم ادا کرنے سے پہلے اپنا حصہ ۳۰ لاکھ نقد وصول کیا۔ کسی نیب کسی انٹی کرپشن‘ کسی گڈ گورننس کی تقریر نے ان کا بال بیکا نہیں کیا۔اس کو ضرب دیں‘ جہاں جہاں حکومت زمینیں لے کر ادایگی کرتی ہے اور اندازہ کریں کہ اس محکمے کے عمال کتنا مال حرام لے جاکر اپنی آل اولاد کو کھلاتے ہیں۔ کسی صحافی بھائی کو فرصت ملے یا اسائنمنٹ ملے تو وہ معلوم کرسکتا ہے کہ حادثات کی صورت میں مرنے والوں اور زخمیوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے‘ اس کا کتنا فی صد متعلقہ وارث کو ملتا ہے اور کتنا اوپر اور درمیان میں تقسیم ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ فوری اعلانات کا راز جذبۂ ہمدردی نہیں‘ بلکہ یہ ہے۔
زمانہ جدید ہے ‘اس لیے شاطرانہ مہارت سے ناجائز اور حرام کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے ہیں۔ پی ٹی سی ایل خود اور دوسروں کے لیے بھی یہ خدمت انجام دیتا ہے کہ انعامات کا لالچ دلا کر معصوم بچوں اور خواتین سے بلکہ پڑھے لکھے سمجھ دار مردوں سے بھی (کہ لالچ میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں) دھوکا دے کر فون کرائے جاتے ہیں۔ کھلا دھوکا یہ کہ اشتہار میں کسی کونے میں نہایت باریک الفاظ میں لکھا جاتا ہے ۱۴ روپے فی منٹ جو وہ جانتے ہیں کہ لوگ نہیں پڑھیں گے اور انعام کے لالچ میں خوب فون کیے جائیں گے‘ اس لیے کہ سوال بھی ماشاء اللہ یہ ہوتا ہے کہ مزارقائد کراچی میں ہے یا لاہور میں۔ ہر کوئی فون کرتا ہے کہ انعام ملے گا۔پھر لاکھوں میں سے چند ہزار (شاید) بانٹ دیے جاتے ہیں اور سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کیا یہ سرکاری سرپرستی میں جوا اور قمار بلکہ فراڈ نہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اس طرح کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں‘ اسٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی تو بڑے اسکینڈل ہیں۔ ملک میں کون سا کام اس ناجائز اور حرام کے بغیر ہو رہا ہے۔ کون سا دفتر کون سا محکمہ اس سے پاک ہے۔ ہفت روزہ ایشیا(۶ تا ۱۵ جون ۲۰۰۵ئ)میں جیل کے ایک قیدی کا رونگٹے کھڑے کر دینے والا خط شائع ہوا ہے کہ کس بے دردی سے قیدیوں سے جیل کا عملہ رشوت وصول کرتا ہے۔
بات اس سے شروع ہوئی تھی کہ حرام کو حرام سمجھنے کا کلچر تبدیل ہوگیا ہے اور حلال حرام کی تمیز اٹھ گئی ہے۔ اس وقت صرف مالی پہلو زیربحث ہے‘ ورنہ حلال حرام زندگی کے ہر دائرے میں ہے۔ ہر جگہ ہی تمیز اٹھتی جارہی ہے۔ آپ خود ہی اندازہ کریں کہ معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ ان کے اور ان کی اولاد کے منہ میں حرام کا لقمہ نہ جائے۔ یقینا ابھی ایسے لوگ موجود ہیں اور ان کی وجہ سے یہ معاشرہ عذابِ الٰہی کی ایسی گرفت میں نہیں آیا ہے کہ مٹا دیا جائے لیکن عام صورت حال کا اندازہ آپ ان چند مثالوں سے کرسکتے ہیں جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
حرام اور رشوت کا کیا اثر ہوتا ہے۔قرآن میں بنی اسرائیل کے حوالے سے اس کے لیے سحت کا لفظ آیا ہے جس کے معنی جڑ کٹ جانے کے ہیں۔ جس معاشرے میں رشوت ایسے عام ہو جس کا تجربہ اور مشاہدہ ہم کو براہِ راست بھی ہوتا ہے اور واقعات علم میں آتے ہیں اور اخبارات کے ذریعے عام بھی ہوتے ہیں‘ یوں کہیں کہ شیرمادر کی طرح پی جاتی ہے‘ وہ معاشرہ کھوکھلا ہوتا رہتا ہے اور بالآخر اس کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
حرام عام ہو جانا ہی اس کی وجہ ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔کیا ہمارے معاشرے میں دعائیں کرنے میں کچھ کمی ہے۔ لوگ مکہ مدینہ جاکر روتے ہیں‘ گڑگڑاٹے ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا۔ دعا منہ پر مار دی جاتی ہے۔ حدیث کے مطابق بندہ کہتا ہے: اے رب! اے رب! لیکن اس کی نہیں سنی جاتی کیونکہ اس کا کھانا حرام ہے‘ اس کا پینا حرام ہے‘ اس کا لباس حرام ہے۔ جس غذا سے اس کے رگ ریشے پٹھے بنتے ہیں‘ حرام ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک موقع پر رسولؐ اللہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں مستجاب الدعوات ہوجائوں تو آپؐ نے ان سے فرمایا: حلال کھانے کا اہتمام کرو‘ تمھاری دعائیں قبول ہوں گی۔
یہ حلال حرام کا مسئلہ کوئی ذاتی یا انفرادی نہیں‘ قومی مسئلہ ہے۔ اگر کسی جادو کی چھڑی سے اس معاشرے کا ہر فرد صرف حلال پر اکتفا کرے اور حرام سے پرہیز کرے تو آپ چشم تصور سے دیکھ سکتے ہیں کہ گڈگورننس بھی آجائے گی‘ ٹیکس نصف ہوجائیں گے اور ترقیاتی کام دگنے بلکہ چوگنے ہوجائیں گے۔ مہنگائی ختم ہوجائے گی۔ معاشرے میں سکون ہوگا۔ جن ناجائز دوڑوں میں اچھے بھلے سب لوگ لگے ہوئے ہیں‘ وہ ختم ہوجائیں گی۔ دنیا کی زندگی بھی پرسکون گزرے گی اور آخرت میں بھی مغفرت اور نجات کی توقع کی جا سکے گی۔ لیکن کس طرح؟ یقینا ترغیب اور دعوت بھی ہو‘ لیکن اگر حیثیت و مقام کا لحاظ کیے بغیر چند مصدقہ مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے تو یہ کلچر تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کلچر وہ کیوں تبدیل کریں‘ جو اسے رائج کیے ہوئے ہیں۔
ضرورت ہے کہ قوم کے بہی خواہ ایسی کوئی تحریک چلائیں کہ پھر سے حرام کو حرام سمجھنے کا کلچر عام ہو۔ اس حوالے سے حس اتنی تیز ہوجائے کہ بچے والدین سے خود کہیں کہ پیارے ابو‘ خدا کے لیے ہمیں حرام مت کھلائو۔ بیویاں شوہروں کو بتا دیں کہ حلال کی روکھی سوکھی حرام کے پراٹھوں سے بہتر ہے۔ حرام کھانے والے‘ معاشرے میں معزز نہیں‘ ذلیل ہوں۔ حرام کھانے کے راستے بند کیے جائیں‘ حرام کھانے والوں کی گرفت ہو‘ تعزیر ہو‘ کڑی سزائیں انھیں ملیں۔ اگر مجرم کو یقین ہو کہ وہ بچ نہ سکے گا‘ تو ارتکابِ جرم کا حوصلہ کرنے والے بہت کم رہ جائیں گے۔ (اس وقت تو اسے اپنے بھائی بندوں کی طرف سے تحفظ کا یقین حاصل ہوتا ہے۔)
ہمارے دستور کے مطابق یہ حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ وہ ایسے اسباب پیدا کرے کہ ملک کے شہری حرام سے محفوظ رہیں لیکن اگر ارباب حکومت اس سے پہلوتہی کریں (بلکہ حرام عام کرنے میں لگ جائیں) تو معاشرے کے تمام عناصر اخبارات‘ میڈیا‘ استاد‘ طلبہ‘ امام‘ خطیب‘ ممبران اسمبلی ہر کوئی اس تحریک کے حوالے سے ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھے (پہلے خود اپنے کو پاک کرے‘ پھر انگلی اٹھائے) تو حلال کی برکات بچشم سر نظر آئیں گی۔
ایک حدیث کے مطابق ایک پیلو کی لکڑی کے برابر بھی کسی کا کوئی حق غصب کیا ہو تو روز قیامت ادا کیے بغیر چھٹکارا نہیںہوگا۔
سورۂ بقرہ قرآن کی دوسری اور طویل ترین سورت ہے۔ اس میں ۲۸۶ آیات ہیں اور یہ تقریباً اڑھائی پاروں پر مشتمل ہے۔ البقرہ کو قرآن کے آغاز ہی میں رکھا گیا ہے۔ الفاتحہ کے فوراً بعد ہی ہم اس میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح شمار کیا جائے تو یہ دوسری سورت ہے لیکن کئی لحاظ سے یہ پہلی ہے۔ اگر ہم الفاتحہ کو قرآن کا مقدمہ سمجھیں تو البقرہ اس کا پہلا باب ہے۔ اگر الفاتحہ انسانی قلب کی گہرائیوں سے اپنے خالق کے سامنے نکلنے والی پکار ہے جو اس زمین پر درست زندگی گزارنے کی ہدایت کے لیے اپنی فوری ضرورت اور انحصار کا اظہار ہے___ جو کہ یہ ہے ___ تو البقرہ اس انسانی طلب کا اللہ کی جانب سے پہلا جواب‘ درست زندگی گزارنے کا پہلا سبق اور صراطِ مستقیم پر پہلا قدم ہے۔ اگر الفاتحہ کی آیات مکمل قرآن کا بیج‘ بنیاد‘ کُل اوراصل ہیں___ جیسی کہ وہ ہیں___ تو البقرہ اس نئے بیج کا پہلا پھل ہے اور کیا ہی عمدہ پھل ہے! ایک پاک درخت جس کی جڑیں مضبوط ہیں‘ جس کی شاخیں آسمان تک پہنچتی ہیں‘ جو اپنے مالک کی اجازت سے اپنے پھل ہر موسم اور ہر زمانے میں دیتا ہے۔ (ابرٰھیم ۱۴: ۲۴-۲۵)
گو کہ اسے قرآن کے شروع ہی میں رکھا گیا ہے‘ لیکن زمانی اعتبار سے البقرہ کی آیات مدنی دور کے بعد کے زمانے میں مختلف موقعوں پر نازل ہوئیں‘ یہاں تک کہ الواحدی کی روایت کے مطابق آیت ۲۸۱ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے موقع پر‘ یعنی اتنی تاخیر سے نازل ہوئی۔
آخر البقرہ کو قرآن کے بالکل آغاز میں کیوں رکھا گیا ہے؟ خاص طور پر‘ جب کہ اس کے مضامین بنیادی عقائد کے بجاے‘ جو اوّلیت رکھتے ہیں اور اس لیے ابتدائی دور کی وحی میں بنیادی اور نمایاں اہمیت رکھتے ہیں‘ مسلم اُمّت کی برادری اور اس کی اجتماعی زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔ آیئے سب سے پہلے اسی سوال پر غور کریں۔
اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے اور اس کے جواب کو ہمیں اس سورت کے معانی کو سمجھنے کے لیے اہم کلید فراہم کرنا چاہیے‘ اس لیے کہ قرآن میں کوئی بات بھی بغیر وجہ اور مقصد کے نہیں ہے۔ اس اصول کو قرآن فہمی کے لیے ہمارے انداز اور طریقۂ کار میں بنیادی باتوں میں سے ایک ہونا چاہیے۔ ہم ہر موقع پر سوال: ’’کیوں‘‘ کا جواب حاصل نہ کرسکیں‘ ہر بات میں پوشیدہ معنی معلوم نہ کرسکیں لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر نکتے پر یہ سوال اٹھائیں۔لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمیں دو باتیں یاد رکھنی چاہییں:
اوّل: جس مطلب تک بھی ہم پہنچیں‘ یہ بہت اہم ہے کہ ہم ہمیشہ اس کو ایک انسانی کوشش سمجھیں جس میں غلطی ہوسکتی ہے اور ہرگز اسے من جانب اللہ قرار نہ دیں۔
دوم: کوئی ایسا جواب قبول نہ کیا جائے جو اُمّت کے متواتر اجماع سے یا قرآن کے مجموعی مزاج سے ٹکراتا ہو۔
یہ دو تنبیہات ذہن میں ہوں تو قرآن سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر ہر قدم پر سوال: ’’کیوں‘‘ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
البقرہ کے بارے میں مذکورہ بالا سوال اس وسیع تر سوال کا حصہ ہے کہ قرآن کو نزولی ترتیب کے مطابق کیوں مرتب نہیں کیا گیا‘ موجودہ ترتیب کیوں ہے‘ جب کہ اس کا زمانی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ نیز موجودہ ترتیب کی کیا حیثیت ہے؟
بعض علما کے مطابق صحابہؓ نے سورتوں کو اپنے اجتہاد کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ وہ اس سے بہتر ترتیب قائم نہ کر سکتے تھے کہ سب سے طویل کو شروع میں رکھیں اور بتدریج سب سے مختصر کو آخر میں۔ دوسروں کے مطابق‘ رسولؐ اللہ نے خود اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں یہ ترتیب دی‘ جسے توقیفی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ترتیب موضوعاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ شواہد حتمی طور پر دوسری رائے کی تائید کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر مستند روایت کے مطابق جب کوئی نئی وحی آتی تھی تو رسولؐ اللہ کاتبین وحی کو بتاتے تھے کہ اسے کہاں رکھیں (سیوطی)۔ علاوہ ازیں سورتوں کو بھی ان کی موجودہ شکل رسولؐ اللہ کے اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ہی دے دی گئی تھی اور یہ بھی زمانی نہیں ہے۔ وہ نمازوں میں ان کی تلاوت اور ان کی تعلیم اسی شکل اور ترتیب میں کرتے تھے جس میں وہ اب ہیں۔ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ رسولؐ اللہ رمضان میں جبریل علیہ السلام کی موجودگی میں پورے قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے (سیوطی)۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی سورتوںکے اختتام اگلی سورت سے واضح موضوعاتی ربط رکھتے ہیں۔
اوّل: گو کہ قرآن کو زمان و مکان کے ایک خاص موقع پر‘ ایک خاص مقام پر اور کچھ خاص لوگوں میں نازل کیا گیا‘ مگر قرآن آنے والے تمام زمانوں کے لیے اور تمام لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے مستقل ہدایت ہے۔ اس کی تاریخی ترتیب کومکمل طور پر نظرانداز کرکے اور اس ترتیب کا پتا بھی نہ چلنے سے‘ جو بہت سے مستشرقین کے لیے مایوسی اور غصے کا سبب ہے‘ یہ زمان و مکان کے مخصوص تاریخی حوالے سے بلند کر دیا گیا ہے اور لا زمان (timeless) بنادیا گیا ہے۔ اس طرح یہ تمام مواقع کے لیے بامعنی اور قابلِ عمل ہوجاتا ہے۔ اگر اسے زمانی ترتیب دی گئی ہوتی تو یہ وقت اور مقام کے ساتھ قید ہوجاتا اور اس کی افادیت ختم ہوجاتی۔ پھر یہ محض ایک تاریخی واقعہ ہوتا‘ یہ زمانے سے ماورا نہ رہتا۔
وحی کا موقع‘ یعنی شان نزول موجود ہے۔ اس کی اپنی افادیت ہے۔ جہاں ضروری ہو‘ یہ کسی مخصوص وحی کا تاریخی پس منظر بتانے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ہمیں اسے اپنے سیاق میں سمجھنے میں مدد دیتے ہیں‘ اس سے پہلے کہ ہم اس کو ایک عمومی مفہوم دیں یا اس کو ایک نئے سیاق میں سمجھنے کی کوشش کریں‘ یہ قرآن کو اس کے وقت اور مقام کے ساتھ جوڑے بھی رکھتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں برعظیم کے مشہور عالم‘ شاہ ولی اللہ دہلویؒ (۱۷۰۲ئ-۱۷۶۳ئ) کی رائے جاننا چاہیے۔ تفسیر کے اصولوں پر اپنی اہم تصنیف میں وہ یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ قرآن کے کسی بھی حصے کی ’شانِ نزول‘ ، ’انسانیت کو درست عقائد اور عمل کی طرف رہنمائی کرنا‘ ہے۔ ان کے مطابق جو شانِ نزول بیان کی جاتی ہیں‘ ان میں سے بیشتر قرآن کا مطلب سمجھنے کے لیے بالکل ضروری نہیں ہیں۔ ان میں بہت سوں کی سند بھی مشتبہ ہے۔ (الفوز الکبیر فی اصول التفسیر)
دوم: جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا تو اس کے پہلے مخاطب غیر مسلم اور وہ لوگ تھے جو اس کا انکار کرنے پر مصر تھے‘ یا وہ تھے جو ایمان لائے تھے اور مطلوبہ اُمّت مُسلمہ کی شکل میں تشکیل دیے جا رہے تھے۔ تکمیلِ وحی کے بعد‘ اور اُمّت مُسلمہ کی تشکیل کے بعد اور اُس وقت جو انکار اور اختلاف تھا اس کے ختم ہونے کے بعد‘ آنے والے تمام وقتوں کے لیے اس کا پہلا مخاطب اُمّت مُسلمہ کو ہونا تھا۔ اس لیے کہ یہ کتاب اُمّت مُسلمہ کی امانت میں دی گئی ہے اور اسے یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ اس کی حفاظت کرے‘ اس کو سمجھے‘ اس کی تعبیر کرے‘ اس کے مطابق زندگی گزارے اور دوسروں کو بھی دعوت دے کہ وہ اس کے مطابق زندگی گزاریں۔ اس لیے نزولِ وحی کے وقت بنیادی پیغام‘ عقائد اور قرآن کی جو مخالفت کی جارہی تھی‘ اسے اور ساتھ ہی مسلم شخصیت اور مسلم برادری کی تشکیل کے بہت بڑے کام کو اوّلیت دی جانی چاہیے تھی‘ مگر تکمیل کے بعد اُمّت مُسلمہ‘ اس کا مقصد‘ منزل‘ ضروریات اور اجتماعی معاملات کو اوّلیت دی جانی چاہیے۔ یہ اُمّت جو قرآن پر ایمان رکھتی ہے اور قرآن سے اپنی شناخت حاصل کرتی ہے‘ اسے آنے والے تمام زمانوں میں موجود رہنا اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں سب سے پہلے ہونا تھا۔
اگر ہم البقرہ کے مضامین کو اس روشنی میں دیکھیں‘ تو اسے قرآن کے آغاز میں رکھنے کی وجہ بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن البقرہ میں اُمّت مُسلمہ کا مشن بیان کرتا ہے‘ اس کو جذبہ اور تحرک دیتا ہے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے اسے جن بنیادی وسائل اور اداروں کی ضرورت ہے وہ فراہم کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے البقرہ کے فضائل اور خوبیوں کا بہت اچھی طرح ذکر کیا ہے۔ حضرت سہل ابن سعدؓ سے آپؐ نے فرمایا: ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرہ ہے۔ جو کوئی اپنے گھر میں دن میں اس کی تلاوت کرے گا‘ شیطان اس کے گھر میں دن کو داخل نہیں ہوگا‘ اور جو رات کو اس کی تلاوت کرے گا شیطان اس کے گھر میں تین راتیں داخل نہیں ہوگا ۔ (ابن کثیر‘ طبرانی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو۔ شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوتا جس گھر میں البقرہ کی تلاوت ہوتی ہے۔ (مسلم‘ ابن کثیر)
حضرت ابوعمامہؓ الباہری روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: قرآن کی تلاوت کرو‘ یہ اپنے ساتھیوں کی شفاعت کرے گا۔ دو روشن سورتوں البقرہ اور آل عمران کی تلاوت کرو اس لیے کہ قیامت کے دن وہ دو بادلوں یا روشنی سے بھرے ہوئے دو شامیانوں یا پرندوں کے دو غولوں کی طرح آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارش کر رہی ہوں گی۔ البقرہ کی تلاوت کرو‘ اس لیے کہ اس کے سیکھنے میں برکت ہے اور اس کو نظرانداز کرنے میں بڑا پچھتاوا ہے۔ صرف کاہل اور تن آسان اس کی تلاوت نہیں کرتے۔ (مسلم‘ ابن کثیر)
حضرت ابی بن کعبؓ سے آپؐ نے فرمایا: جو اس کی تلاوت کرتا ہے اس پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔اس کو وہ مقام حاصل ہوگا جو اللہ کی راہ میں ایک سال تک استقامت کے ساتھ جہاد کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔مسلمانوں کو ہدایت کرو کہ وہ سورۃ البقرہ سیکھیں۔ (قرطبی)
البقرہ معانی کا سمندر ہے‘ جتنا کوئی اس کے اوپر سوچتا اور غور کرتا ہے اتنا ہی اس کو ہدایت‘ دانش اور روشنی کے بیش قیمت جواہر ملتے ہیں۔ اس میں موجود معانی کے سمندر کے بارے میں‘ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ انھیں صرف سورۃ البقرہ سیکھنے میں آٹھ برس سے زیادہ لگے۔ (سیوطی)
ہر سورت ایک وحدت ہے۔ بظاہر ایک نظر میں اس کے مضامین کتنے ہی منتشر لگیں‘ اس میں معانی اور پیغامات ایک مربوط اور مرتب انداز سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہر سورت کا ایک مرکزی موضوع ہوتا ہے جس کے گرد اس کے تمام مضامین بُنے ہوئے ہوتے ہیں۔ البقرہ کا مرکزی موضوع کیا ہے؟ میری رائے میں اس کا مرکزی موضوع اُمّت مُسلمہ کا مشن ہے: اس کی تعریف کرنا‘ اسے بیان کرنا‘ اُمّت کو اس کی تکمیل کے لیے آمادہ کرنا‘ اُبھارنا اور تیار کرنا‘ اور اس مشن کو ترک کرنے یا اس سے انحراف کرنے کے خلاف تنبیہ کرنا اور تحفظ فراہم کرنا۔ یہ موضوع آیت نمبر ۱۴۳ میں بیان کیا گیا ہے:
ہم نے تم کو اُمّت وَسَط بنایا ہے تاکہ تم انسانیت کے لیے گواہ ہو جائو جیسے کہ رسولؐ تمھارے اُوپر گواہ ہو۔
کس بات کے گواہ؟ ___اللہ کی دی ہوئی ہدایت اور حق کے گواہ‘ اس بات کے کہ اللہ ہی واحد الٰہ ہے (توحید)‘ قرآن اللہ کی کتاب ہے‘ آخری نبی سچے نبی ہیں‘ اس پیغام کے گواہ جو وہ لے کر آئے (رسالت)‘ اور آخرت کے گواہ۔
مسلمانوں کی برادری ایمان کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے‘ اس لیے یہ عقیدے کی برادری ہے۔ ایمان کا مطلب ہے اللہ اور اس کے پیغام کے ساتھ ذاتی طور پر باعمل مکمل وابستگی۔ اس کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو کُل کا کُل اللہ کو دے دیا جائے (آیت ۲۰۸)۔ اور جو قربانی وہ طلب کرے وہ دی جائے‘ حتیٰ کہ جان کی قربانی بھی۔ ایمان‘ اُمّت کی شناخت ہے۔ ایمان انفرادی اور اجتماعی طاقت کی بنیاد ہے۔ شھداء علٰی الناس کا منصب بھی اس لیے مرکزی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ ایمان کا آخری تقاضا ہے۔ اس لیے‘ ایمان کی دعوت پوری سورت میں جابجا پھیلی ہوئی ہے۔
خطاب اجتماعی ہے: یاایھا الذین اٰمنوا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی جگہ قرآن کسی شخص کو ذاتی حیثیت میں مخاطب نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کو اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک اجتماعی وجود پیدا کرنا چاہیے۔ پس‘ مخاطب اُمّت ہے۔ جہاں کسی طویل سلسلہ آیات (آیات: ۴۰ تا ۱۲۳) میں بنی اسرائیل سے خطاب کیا گیا ہے‘ وہاں بھی اصل مقصد یہ ہے کہ ایمان کی بنیاد پر وجود میں آنے والی نئی برادری کو بتایا جائے کہ ایسی برادری کہاں کہاں ٹھوکر کھا سکتی ہے۔ قلب و ذہن کے‘ اخلاق و آداب کے‘ معاملات اور رویوں کے کون کون سے امراض داخل ہوسکتے ہیں جو برادری کے ڈھانچے کو تباہ کرسکتے ہیں۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ البقرہ کو کچھ متعین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن کے اپنے موضوع ہیں لیکن ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ ان حصوں کو مزید ذیلی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بتائی گئی ہے‘ لیکن غوروفکر اور تفہیم کو بہت آسان کردیتی ہے۔ میری فہم کے مطابق سورت کے ایسے سات حصے ہیں:
حصہ اوّل: آیات ۱ تا ۳۹ (۳۹ آیات)۔ ہدایت کی بنیادیں۔
حصہ دوم: آیات ۴۰ تا ۱۲۳ (۸۴ آیات)۔ بنی اسرائیل‘ ایک مسلم اُمّت زوال کی کیفیت میں‘ عہدشکنی اور قلب و عمل کے امراض۔
حصہ سوم: آیات ۱۲۴ تا ۱۵۲ (۲۹ آیات)۔ پیغمبرانہ مشن اُمّت مُسلمہ کے سپرد کرنا۔
حصہ چہارم: آیات ۱۵۳ تا ۱۷۷ (۲۵ آیات)۔ کلیدی انفرادی خصائص‘ دین اور شریعت کے بنیادی اصول۔
حصہ پنجم: آیات ۱۷۸ تا ۲۴۲ (۶۵ آیات)۔ اجتماعی زندگی کے اصول‘ قوانین اور ادارے (عبادت‘ جان‘ مال اور خاندان کا تقدس)۔
حصہ ششم: آیات ۲۴۳ تا ۲۸۳ (۴۱ آیات)۔ مشن کی تکمیل کی کلید: جہاد اور انفاق۔
حصہ ہفتم: آیات ۲۸۴ تا ۲۸۶ (۳ آیات) ۔اخلاقی اور روحانی ذرائع۔ (جاری)
برطانیہ کے ہفت روزہ اکانومسٹ نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھاکہ پاکستان ایک ایسا غریب ملک ہے جس میں امیروں کی ریل پیل ہے۔ فوجی حکومت کے چھے سالہ دورحکومت میں‘ اور خصوصیت سے گذشتہ دو سالوں میں‘ جہاں ملک میں غربت‘ بے روزگاری‘ افراط زر‘ بجٹ کے خسارے اور ملک کے تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا ہے‘ وہیں امیروں کی تعداد میں بھی معتدبہ اضافہ واقع ہوا ہے۔ زمین کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے‘ اسٹاک ایکسچینج کے غبارے میں سٹہ کاری کے ذریعے ہوا بھرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن اور بدعنوانی کے فروغ کے نتیجے میں ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر ہو رہا ہے اور عام آدمی غریب سے غریب تر۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں دراصل گلوبلائزیشن اور عالمی مالیاتی اداروں کے زیراثر آزاد تجارت‘ نج کاری‘ سرمایہ پرستی‘ ڈی ریگولیشن اور کارپوریٹ کلچر کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملک کی معیشت پر بے روک ٹوک چھا جانے کا موقع دینے سے عبارت ہیں۔
اس صورت حال کے نتیجے میں دولت کا ارتکاز خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ملک میں ایک ایسی اشرافی معیشت (elitist economy) پروان چڑھ رہی ہے کہ بیرونی اور ملکی سرمایہ دار معیشت کے پورے دروبست پر قابض ہوتے جائیں اور عام انسان ایک نئی معاشی غلامی کے شکنجے میں کستے چلے جائیں۔ تازہ بجٹ (۲۰۰۶ئ-۲۰۰۵ئ) معیشت کے اس رخ کا پوری طرح عکاس ہے اور اگر اسے اسلام آباد کے ایئرکنڈیشنڈ ایوانوں میںتیار کردہ امیروں کا ایک ایسا بجٹ کہا جائے جو امیروں کو امیر تر بنانے کے لیے ہے تو بے جا نہ ہوگا یعنی:
a budget of the rich, by the rich and for the rich.
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کے عوام‘ پارلیمنٹ اور معیشت کے تمام کارفرما عناصر (stake holders) کا اس کے بنانے میں کوئی دخل نہیں۔ اقتدار پر بیورو کریسی‘ فوجی قیادت اور مفاد پرست عناصر کا قبضہ ہے اور پالیسی سازی پر ان کی گرفت مکمل ہے۔ عوامی واویلا ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اہلِ علم غیرمتعلق ہیں اورخود پارلیمنٹ میں اٹھنے والی آوازیں خواہ ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا سرکاری حلقوں سے‘ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ___یہ بڑی دردناک صورت حال ہے اور اگر اس کی اصلاح کی فوری کوشش نہیں کی گئی تو ایک طرف معیشت تباہی کی طرف بڑھے گی تو دوسری طرف ملک کے عوام اور ان کے نمایندوں کا احساسِ بے بسی قوم کو تصادم اور انقلاب کی راہ پر ڈال سکتا ہے جس کے نتائج ضروری نہیں کہ خیر کی طرف ہوں۔
پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ پالیسی سازی پر عوام اور ان کے نمایندوں کی گرفت نہیں۔ ایک بااثر ٹولہ ہے جو ملک کو جدھر چاہتا ہے لیے جا رہا ہے۔ ۵۸ سال کے اس عرصے میں بیوروکریسی نے ۳۲ بجٹ بنائے اور فوجی قیادت کے بلاواسطہ انتظام و انصرام میں ۲۶ بجٹ بنائے گئے۔ ان میں سے کچھ کا تو صرف ریڈیوا ور ٹی وی پر اعلان ہوا اور جو کسی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے تو صرف انگوٹھا لگوانے کے لیے۔ اس ۵۸ سالہ تاریخ میں صرف ایک بجٹ ایسا تھا جسے پارلیمنٹ نے پیش کیے جانے کے بعد رد کر دیا اور اسے دوبارہ مرتب کر کے اسمبلی میں پیش کیا گیا (یعنی جونیجو دور میں یٰسین وٹو کا بجٹ)۔ لیکن اس بجٹ کے پیش کیے جانے کے بعد مقتدر اور بااثر حلقے متحرک ہوگئے اور سال کے ختم ہونے سے پہلے اس حکومت ہی کا نہیں‘ اس اسمبلی کا بھی بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔
ہم بجٹ پر گفتگو کرنے سے پہلے تین بہت بنیادی امور کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جن کا تعلق ان اداراتی اصلاحات سے ہے جن کے بغیر ہماری نگاہ میں بجٹ سازی اور پالیسی سازی اس یرغمالی نظام (hostage keeping) سے نکل نہیں سکتی جس کی گرفت میں وہ نصف صدی سے ہے۔
ہمارے ملک میں بجٹ سازی آج بھی انھی خطوط اور تحدیدات (limitations) کے شکنجے میں ہوتی ہے جو برطانوی سامراجی دور کا طرہ امتیاز تھا اور جسے ۱۹۳۵ء کے قانون کی شکل میں ملک پر مسلط کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے دستور بنانے والوں نے اس شکنجے کو توڑنے اور مالیاتی امور میں پارلیمنٹ اور عوام کی حاکمیت کو دستور میں منوانے کی کوئی کوشش نہیں کی حالانکہ آزادی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تقاضا تھا کہ ٹیکس لگانے اور تمام مصارف کی اجازت اور نگرانی کا مکمل اختیار پارلیمنٹ کو ہو۔ برطانوی استعمار کی روایت کو باقی رکھتے ہوئے اخراجات کا ایک حصہ جسے charged اخراجات کہا جاتا ہے وہ انتظامیہ کا طے کردہ ہوتا ہے جسے پارلیمنٹ میں پیش تو کیا جاتا ہے مگر اسے اس میں نہ صرف یہ کہ کمی و بیشی کا اختیار نہیں وہ اس پر ووٹ دینے کی بھی مجاز نہیں۔ اسے من و عن قبول کرنا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ موجودہ بجٹ کے جاری اخراجات (Revenue Expenditure) کے تقریباً ایک تہائی‘ یعنی ۰۹۵.۹۶۱ بلین کے اخراجات میں سے ۸۴۵.۳۱۳ بلین روپے charged ہیں اور ترقیاتی اخراجات (Capital Expenditure) کا تقریباً ۹۶ فی صد‘ یعنی ۳۱۷.۲۲۷۱بلین میں سے ۲۱۲.۲۱۸۷ بلین charged ہے اور اس طرح Federal Consolidated Fund سے کل خرچ (authorized disbursement)‘ یعنی ۴۱۲.۳۲۳۲ بلین کا ۷۸ فی صد‘ یعنی ۰۵۷.۲۵۰۱ بلین روپے charged ہیں اور صرف ۳۵۵.۷۳۱ بلین روپے other than chargedہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ Annual Budget Statement 2005-2006‘ ص ۱۹۰)
سرکاری خزانے کے مصارف کی اتنی بڑی رقم کے لیے پارلیمنٹ کے ووٹ کی بھی ضرورت نہیں ؎
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کرے ہے‘ ہم کو عبث بدنام کیا
دوسرا مسئلہ فوج کے بجٹ کا ہے۔ خواہ معاملہ جاری مصارف کا ہو یا ترقیاتی مصارف کا‘ بجٹ میں صرف ایک جملے میں مطالبہ زر آتا ہے اور پارلیمنٹ کو نہ اس کی تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ان مصارف پر پارلیمنٹ کوئی احتساب کر سکتی ہے۔ یہ بھی اطلاع نہیں دی جاتی کہ اس میں سے کتنی رقم فوج کی تین بڑی مدات بری‘ فضائی اور بحری فوج پر خرچ کی جارہی ہے اور دفاع کی عمومی حکمت عملی اور فوجی اخراجات میں کیا مناسبت ہے۔
فوج کا بجٹ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی دسترس سے بھی باہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوج کا اپنا نظامِ احتساب ہے لیکن یہ سب پارلیمنٹ کی دسترس سے باہر ہے حالانکہ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں فوج کا مکمل بجٹ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کے سامنے آتا ہے اور چند حساس دائروں کو چھوڑ کر ہر خرچ پارلیمنٹ کی منظوری سے انجام پاتا ہے۔
ہمارے فوجی بجٹ کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ڈیفنس سروس کے عنوان سے ایک بڑی رقم لی جاتی ہے جو آیندہ سال کے لیے ۵۰۱.۲۲۳ بلین روپے ہے۔ یہ رقم ۲۰۰۱ئ-۲۰۰۰ء کے بجٹ میں ۳۰۱.۱۳۳ بلین روپے تھی اور ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں اسے بڑھا کر ۹۲۶.۱۹۳ بلین کیا گیا تھا اور اضافے کی بڑی وجہ بھارت سے ایک سال کے فوجی تصادم کی وجہ سے فوجی نقل و حرکت کو قرار دیا تھا۔ مگر فوجوں کی محاذ سے واپسی کے باوجود عملاً فوج کا خرچ مزید بڑھ گیا ہے۔ نظرثانی شدہ تخمینے میں اسے بڑھا کر ۲۵۸.۲۱۶ بلین کر دیا گیا ہے جو اب مزید بڑھا کر ۵۰۱.۲۲۳ بلین تجویز کیا گیا ہے۔ نیز فوجی عملے کو دی جانے والی پنشن جو تین سال پہلے تک فوجی بجٹ کا حصہ ہوتی تھی اسے سویلین بجٹ کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور یہ رقم سال آیندہ کے لیے ۹۴۶.۳۶ بلین روپے ہے۔ اس کے علاوہ سول آرمڈ فورسز ہیں‘ جو عملاً فوج کے تحت ہیںلیکن ان کا خرچ سول بجٹ سے لیا جاتا ہے‘ یعنی فرنٹیر کانسٹیبلری (۵۳۱.۱ بلین روپے)‘ پاکستان رینجرز (۷۸۹.۳ بلین روپے) اور پاکستان کوسٹل گارڈ (۱۶۲.۳۵۹ ملین روپے)۔ کیڈٹ کالجوں پر خرچ اس کے سوا ہے جو خود ایک ارب روپے سے متجاوز ہے۔ اس میں اگر ان بیرونی قرضوں کی واپسی مع سود کی مد میں جو فوجی مقاصد کے لیے ‘ لیے گئے قرضے ہیں ان کو شامل کر لیا جائے تو بجٹ پر اس کا بوجھ تقریباً ۳۳۷.۱۶ بلین روپے کا ہے۔ اس میں اٹامک انرجی کمیشن کے اخراجات شامل نہیں ہیں جس کا ایک حصہ فوجی مقاصد کے لیے ہے اور ایک توانائی اور دوسرے پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اگر فوج کے پورے سالانہ بجٹ کا احاطہ کیا جائے تو یہ ۲۸۰ اور ۳۰۰ بلین روپے پر محیط ہے۔
بلاشبہہ فوج کی ہر حقیقی ضرورت کو پورا کرنا ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے ضروری ہے اور ہر قوم اپنے دفاع کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہے اور کرنا چاہیے۔ لیکن قوم اور اس کی پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ دوسرے مصارف کی طرح ضروری احتیاط کے ساتھ ان اخراجات پر بھی نگاہ رکھے اور قومی حکمت عملی سے اسے ہم آہنگ ہی نہ کرے بلکہ وسائل کے بہترین استعمال کو بھی یقینی بنائے۔
تیسرا مسئلہ بجٹ سازی کے طریق کار اور اس عمل میں صرف ہونے والے وقت اور قومی اداروں کی بجٹ سازی میں شرکت کا ہے۔ انٹرنیشنل پارلیمانی یونین نے دنیا کی ۸۰ جمہوری پارلیمنٹوں کا جو جائزہ شائع کیا ہے اس کے مطابق ان تمام ممالک میں بجٹ سازی کے لیے دو سے چھے ماہ کا وقت لیا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ عمل ۷۵ دن میں پورا ہوتا ہے‘ جب کہ برطانیہ‘ کینیڈا‘ سویڈن‘ نیوزی لینڈ‘ برازیل‘ الجزائر‘ ارجنٹنا‘ ڈنمارک‘ بلجیم‘ فرانس‘ جرمنی‘ انڈونیشیا‘ اٹلی‘ جاپان‘ غرض بیشتر ممالک میں تین سے چار مہینے اس کے لیے وقف کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں یہ عمل پورے سال جاری رہتا ہے۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے ساتھ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں بحث ہوتی ہے اور یہ کمیٹیاں عوامی نمایندوں اور معیشت کے مختلف کارپردازوں کو اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ انتظامیہ کے نمایندے پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کے نمایندوں اور دوسرے عوامی اور تجارتی و صنعتی نمایندوں سے بحث و گفتگو اور کچھ لینے اور کچھ دینے کے ذریعے بجٹ کو آخری شکل دیتے ہیں۔ Ways and Means Committee ‘ تخمینہ کمیٹی یا فنانس کمیٹی پورے عمل میں شریک ہوتی ہے اور انتظامیہ کی طرف سے اخراجات کے تخمینوں اور آمدنی کے ذرائع پر کھل کر بحث کی جاتی ہے اور پھر بجٹ کو آخری شکل دی جاتی ہے۔ یہی جمہوریت کی روح ہے۔
اس کے مقابلے میں پاکستان میں بجٹ بنانے میں پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کا عملاً کوئی حصہ نہیں۔ قومی اسمبلی میں بجٹ ایک طے شدہ شکل میں پیش کر دیا جاتا ہے اور بمشکل دو ڈھائی ہفتوں میں (۱۴ سے ۲۰ دن) اسے زبردستی منظور کرا دیا جاتا ہے۔ سینیٹ کا پہلے تو کوئی عمل دخل تھا ہی نہیں حالانکہ ہر وفاقی نظام میں ایوان بالا کا بجٹ سازی میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے اور ۱۹۸۷ء سے پاکستان میں سینیٹ اپنا یہ حق تسلیم کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔ سترھویں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کو تھوڑا سا رول میسرآیا ہے لیکن بس اتنا کہ سات دن کے اندر اپنی سفارشات قومی اسمبلی کو بھیج دے جسے رد و قبول کا مکمل اختیار قومی اسمبلی کو ہے اور قومی اسمبلی کا عملی رویہ یہ ہے کہ گذشتہ تین سال سے سینیٹ نے بڑی محنت سے جو سفارشات پیش کی ہیں نہ ان پر کھل کر بحث کی ہے اور نہ ان کی اہم سفارشات کو بجٹ کا حصہ بنایا ہے۔
اس سال سینیٹ نے ۲۴۶ تجاویز پر غور کر کے ان میں سے ۵۸ کو متفقہ طور پر منظور کر کے قومی اسمبلی کو بھیجا۔ ان میں سے ۱۸ کا تعلق مالیاتی بل کی قانونی اور فنی خامیوں کی اصلاح سے تھا‘ تین کا تعلق قانون کو عدل وا نصاف کے مسلمہ اصولوں کے مطابق لانے کے لیے اساسی تجاویز سے تھا۔ ۱۷ تجاویز معاشی اور مالیاتی اعتبار سے بڑی بنیادی نوعیت کی تھیں جن کے بجٹ پر بڑے دُور رس اثرات مرتب ہونے تھے‘ یعنی روزگار کی فراہمی‘ غربت میں کمی‘ امیروں پر نئے ٹیکس‘ خصوصیت سے اسٹاک ایکسچینج اور زمینوں اور مکانوں کی فروخت پر cvt ‘بچتوں کی ترغیب کے لیے ٹیکس اصلاحات‘ بنکوں پر ٹیکس کی شرح میں کمی کی مخالفت‘ زرعی inputs پر درآمدی اور سیلز ٹیکس میں چھوٹ وغیرہ۔ نیز ۱۲ تجاویز معاشی پالیسی میں تبدیلی اور چھے کا تعلق مالیاتی اداروں‘ سرکاری انتظامی نظام اور دستور اور قانون میں ایسی تبدیلیوں سے تھا جو بجٹ سازی کو زیادہ نمایندہ بنا سکے اور اعداد و شمار کے نظام کو بہتر اور قابلِ اعتماد بنا سکے۔ لیکن ان میں سے چند ضمنی اور صرف ٹیکنیکل سفارشات کو تو اس لیے لے لیا گیا کہ وہ فنانس بل کے بڑے موٹے موٹے سقم (loop holes) دُور کر رہی تھیں اور وزارت خزانہ اور وزارت قانون کی سنگین غلطیوں کا مداوا کر رہی تھیں۔ لیکن نظام کی اصلاح اور بجٹ کو قومی ترجیحات سے ہم آہنگ کرنے والی تمام تجاویز کو بحث کے بغیر ہی رد کردیا گیا جس نے سینیٹ کی تمام کوشش کو ایک خواہ مخواہ کی مشق بنا کر رکھ دیا۔
۱- chargedاور other than charged کی تقسیم کو ختم کیا جائے اور تمام اخراجات اور تمام ٹیکس کے اقدامات بشمول ایس آر اوز جو عملاً ٹیکس لگانے کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں پارلیمنٹ اور صرف پارلیمنٹ کے اختیار میں ہوں۔
۲- سینیٹ کو بجٹ سازی میں مؤثر کردار دیا جائے اور جہاں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اختلاف ہو وہاں ان اختلافات کو مصالحتی کمیٹیوں کے ذریعے حل کیا جائے۔
۳- بجٹ سازی کا عمل سال کے ختم ہونے سے چار مہینے پہلے شروع ہو اور اس کی ترتیب یہ ہونی چاہیے:
ا- جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں وزیرخزانہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پچھلے سال کا معاشی جائزہ‘ معیشت اور مالیاتی اہداف اور ان کے حصول کا پروگرام پیش کریں اور آیندہ کے لیے اپنے اہداف‘ ترجیحات اور لائحہ عمل کے خدوخال رکھیں۔
ب- اس کے فوراً بعد دونوں ایوانوں میں بجٹ کے ان اہداف اور ملک کی ضروریات پر ایک ہفتہ عمومی بحث ہو۔
ج- اس بحث کی روشنی میں دونوں ایوانوں کی مالیاتی کمیٹیاں بجٹ کی تفصیلات پر غور کریں اور پارلیمنٹ کی مختلف وزارتوں سے متعلقہ کمیٹیوں کو موقع دیا جائے کہ دو سے تین ہفتوں میں اپنی سفارشات متعلقہ مالیاتی کمیٹیوں کو بھیج دیں۔
د- دونوں ایوانوں میں مالیاتی کمیٹیاں عوام کو اپنی سفارشات پیش کرنے کی دعوت دیں اور معیشت سے متعلق تمام کارفرما اداروں کو موقع دیا جائے کہ ان کمیٹیوں کے سامنے اپنے مسائل‘ ضروریات اورمشورے رکھیں۔
ھ- یہ کمیٹیاں وزارت خزانہ کے ساتھ الگ الگ یا مشترک اجلاس میں عوام کے مطالبات‘ ضروریات اور عوامی نمایندوں کی تجاویز اور مشوروں پر تبادلہ خیال کر کے اپنی تجاویز مرتب کریں۔
و- ان تجاویز کو حکومت کو مارچ کے آخیر یا اپریل کے شروع تک بھیج دیا جائے تاکہ ان کی روشنی میں وزارت خزانہ بجٹ کو آخری شکل دے‘ جو مئی کے وسط میں بجٹ کو آخری شکل میں دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کر دے۔
ز- سینیٹ دو ہفتے (کام کرنے کے ۱۴ دن) میں اپنی آخری سفارشات اسمبلی کو بھیج دے اور اسمبلی ان پر باقاعدہ بحث کر کے دلائل کے ساتھ قبول یا رد کرنے کا کام انجام دے۔
ک- اسمبلی میں مکمل بحث کے بعد جون کے تیسرے یا چوتھے ہفتے میں بجٹ منظور کیا جائے۔
۴- پبلک اکائونٹس کمیٹی کو وسعت دی جائے ‘ اسے پارلیمنٹ کی مشترک کمیٹی بنایا جائے جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کو برابر کی نمایندگی دی جائے۔
۵- پبلک اکائونٹس کمیٹی سال بھر کام کرے۔ آڈیٹر جنرل کی ذمہ داری ہو کہ ہر تین مہینے بعد اپنی رپورٹ اس کمیٹی کو پیش کرے اور یہ کمیٹی کی ذمہ داری ہو کہ رپورٹ آنے کے تین مہینے کے اندر اندر اس پر غور کر کے اپنی رپورٹ دے دے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ سال کے ختم ہونے کے ایک سال کے اندر پارلیمنٹ کے سامنے آجائے۔ تین تین اور چار چار سال کے بعد رپورٹ کا آنا اسے بالکل بے معنی بنا دیتا ہے۔
دوسرا بنیادی مسئلہ نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ کا ہے جس کے بغیر بجٹ سازی کا پورا عمل غیر دستوری ہی نہیں ہوجاتا‘ عملی اعتبار سے مرکز اور صوبے دونوں کے لیے بجٹ سازی ایک مشکل بلکہ لاحاصل عمل بن جاتی ہے۔ دستور کی دفعہ ۱۶۰ کے تحت ہر پانچ سال بعد ایوارڈ کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کے بغیر مرکز اور صوبوں کو اپنے پورے مالی وسائل کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا جس کی عدم موجودگی میں وہ محض مفروضوں پر بجٹ بناتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان صوبوں کو ہوتا ہے جو بالکل اندھیرے میںبجٹ سازی کرنے پر مجبور ہیں۔
موجودہ حکومت جس ایوارڈ کی بنیاد پر مالی وسائل کی تقسیم کر رہی ہے‘ وہ ۲۰۰۲ء میں ختم ہوچکا ہے اور اس طرح اب یہ تیسرا سال ہے کہ صوبے اپنے حق سے محروم ہیں۔ واضح رہے کہ ۱۹۹۱ء سے پہلے صوبے اپنے بجٹ آزادی سے بناتے تھے اور بجٹ میں خسارے کا بھی ان کو اختیار تھا جسے مرکزی حکومت پورا کرتی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں خسارے کے تصور کو ختم کیا گیا البتہ ترقیاتی منصوبے کی مالی ضرورتیں پوری کرنا مرکز کی ذمہ داری رہی۔ ۱۹۹۷ء کے ایوارڈ کی رو سے صوبوں کے لیے پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام (PSDP) کی مرکزی ذمہ داری کو ختم کر دیا گیا اور صوبوں کو اس کے لیے خود ذمہ دار کیا گیا کہ اپنے وسائل سے یا قرض لے کر اسے پورا کریں۔ پہلے قابل تقسیم فنڈ میں کسٹم ڈیوٹی شامل نہیں تھی اور انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ہی قابلِ تقسیم اجزا تھے جن میں مرکز ۲۰ فی صد رکھ کر ۸۰ فی صد صوبوں کو دے دیتا تھا۔ ۱۹۹۷ء میں کسٹم ڈیوٹی اس میں شامل کر لی گئی اور فنڈ میں تمام ٹیکس شامل ہوگئے‘ البتہ صوبوں کا حصہ کم کر دیا گیا۔ مرکز ۵.۶۲ فی صد اور صوبے ۵.۳۷ فی صد کے حق دار ٹھیرے۔ اس طرح عملاً مرکز نے صوبوں کے حصے کو محدود اور مقید کر دیا اور وسائل کا توازن مرکز کے حق میں اور صوبوں کے خلاف ہوگیا۔
سیلز ٹیکس آزادی کے وقت ایک صوبائی ٹیکس تھا اور دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں فیڈرل نظام ہے یہ ٹیکس صوبائی ہی ہوتا ہے مگر ۱۹۵۴ء میں مرکز نے عارضی طور پر صوبوں سے یہ ٹیکس لے لیا اور آج تک اسے مرکزی ٹیکس ہی بنائے ہوئے ہے جس کا نتیجہ ہے کہ صوبے مالیاتی اعتبار سے مرکز کے محتاج ہوگئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے سلسلے میں ایک نئی اور مستقل افہام و تفہیم ہوجائے اور دستور میں ضروری ترمیم کے ذریعے اس مسئلے کا مستقل حل نکال لیا جائے‘ نیز مالیاتی ایوارڈ کے معاملے کو فوری طور پر طے کیا جائے۔ صرف ایک صوبے کے ایک خاص گروہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورا ملک نقصان اٹھا رہا ہے۔ سینیٹ نے بھی اپنی ۵۸سفارشات میں اس امر کو شامل کیا تھا کہ قومی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان بجٹ کی منظوری سے پہلے کیا جائے لیکن بجٹ اسمبلی نے منظور کرلیا اور مالیاتی ایوارڈ کو ایک بار پھر تعویق میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو صوبوں میں بے چینی اور اضطراب کو بڑھا رہا ہے اور مرکز اور صوبوں میں ہم آہنگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصول طے ہوجانا چاہیے کہ مرکز میں صرف وہ وزارتیں ہوں گی جو مرکزی نوعیت کی ہیں اور دستور کے مطابق تمام صوبائی امور مکمل طور پر صوبوں کے پاس ہوں۔ نیز مالی وسائل کے اعتبار سے صوبے اپنے قدرتی وسائل کے مالک ہوں اور صوبے اور ملک دونوں کے حقوق کے درمیان ایک توازن سے معاملات طے کیے جائیں۔ انصاف اور حقوق کی ادایگی ہی کے ذریعے ملکی سلامتی اور استحکام ممکن ہے اور مالی وسائل کی منتقلی کے بغیر اختیارات کی منتقلی ایک لایعنی عمل ہے۔ اس مسئلے کا فوری حل ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
تیسرا بنیادی مسئلہ معاشی حالات اور کوائف کی صحت اور اعداد و شمار کے قابلِ اعتبار ہونے کا ہے۔ ملک کے سالانہ معاشی جائزے کا کام وزارتِ خزانہ کے بجاے ایک آزاد ادارے کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ نیز شماریات کی وزارت کا خودمختار ہونا ضروری ہے جو دستور یا کم از کم ملکی قانون کے تحت اپنا کام انجام دے۔ سی بی آر‘ وزارتِ تجارت‘ وزارتِ زراعت‘ اسٹیٹ بنک‘ غرض ہر ادارے کی ذمہ داری ہو کہ صحیح صحیح اعداد و شمار‘ مرکزی شماریاتی ادارے کو فراہم کرے اور یہ ادارہ خود اعداد و شمار کی صحت کے تعین اور ان کے حاصل کرنے اور ان کو مرتب کرنے کا کام انجام دے۔ اعداد و شمار اگر قابلِ اعتبار نہ ہوں تو یہ ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے اس لیے کہ صحیح منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا انحصار صحیح اعداد و شمار پر ہی ہوتا ہے۔ اور اگر اعداد و شمار کو سیاسی مصالح اور ضرورتوں کے مطابق بددیانتی سے تبدیل کیا جائے تو یہ ایک ظلم عظیم سے کم نہیں۔
اس سلسلے میں موجودہ حکومت کا ریکارڈ کوئی زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ بجٹ کی جو دستاویزات دی گئی ہیں ان میں بڑے بڑے سقم ہیں۔ بجٹ کی تقریر‘ بجٹ کا اختصار اور تفصیلی دستاویزات میں نمایاں فرق ہیں جن کی وجہ سے بجٹ کے خسارے کی کل رقم مشتبہ ہوجاتی ہے اور جن مالیاتی ماہرین نے ان دستاویزات کا مقابلہ اور موازنہ کیا ہے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ مالیاتی خسارہ قومی پیداوار کے ۸.۳ فی صد سے کہیں زیادہ ہے۔
اگر مزید غوروخوض سے بجٹ کی دستاویزات کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی اپنی کارکردگی دکھانے اور صرف روشن پہلو پیش کرنے کی خاطر اعداد و شمار کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ چند مثالیں بات کو سمجھنے میں مددگار ہوں گی۔
دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ہر پانچ یا سات سال کے بعد معیشت میں تبدیل ہونے والی سرگرمیوں کا احاطہ کرنے کے لیے قومی آمدنی کی بنیادی معلومات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ قومی آمدنی کی پیمایش (National Income Accounting) کا ایک خاص اصول ہے اور اس کے لیے بنیادی سال (base year )کو up gradeکیا جاتا ہے۔ مگر اس طرح کہ ماضی‘ حال اور مستقبل میں موازنہ متاثر نہ ہو۔ پاکستان میں ۸۱-۱۹۸۰ء کے بنیادی سال پر قومی پیداوار GDP کا حساب (calculation) ہورہا تھا‘ اب ۲۰ سال کے بعد ۲۰۰۰ئ-۱۹۹۹ء کو نیا بنیادی سال بنایا گیا۔اس تبدیلی کی وجہ سے کل قومی پیداوار تقریباً ۵.۱۹ فی صد زیادہ ہوجاتی ہے۔ قومی دولت میں تقریباً ۲۰ فی صد کا یہ اضافہ نظام کی تبدیلی کا مرہونِ منت ہے۔ اسے نئی پیداوار نہیں کہا جاسکتا بلکہ جو پیداوار موجود تھی اور حساب کا حصہ نہیں بن رہی تھی اسے صرف حساب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ نئی پیداوار نہیں ہے۔ اگر اس ایک بنیادی حقیقت کو نمایاں نہ کیا جائے تو حکومت کی کارکردگی اور معیشت کی تبدیلیوں کی اصل حقیقت کو سمجھنا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ تو فنی مسئلہ ہے۔ دوسری مثال غربت کی لیجیے۔ ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ کے موقع پر ایک مختصر سروے کی بنیاد پر حکومت نے دعویٰ کیا کہ غربت میں ۴ فی صد کمی ہوئی ہے حالانکہ اس مختصر جائزے اور نارمل ہائوس ہولڈ سروے کے نتائج کا موازانہ فنی اعتبار سے صحیح نہیں تھا لیکن حکومت نے غربت کی کمی کے دعوے شروع کر دیے۔ حالانکہ حقیقی پیداوار‘ روزگار‘ افراط زر‘ قومی بچت‘ سرمایہ کاری اور حقیقی اُجرت کے تمام اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو غربت کے کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس میں اضافے کا امکان زیادہ ہے۔ لیکن سچ کہا کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ اس سال کا معاشی سروے مطالعہ فرما لیجیے۔ اس میں غربت اور تقسیمِ دولت کا باب تو حسبِ سابق قائم کیا گیا ہے لیکن غربت کے بارے میں اعداد و شمار غائب ہیں۔ تقسیمِ دولت کا تو پورا باب ہی غائب ہے۔ جو وعدہ سال گذشتہ کے بجٹ میں کیا گیا تھا اور جن اعداد و شمار کا سہارا لیا گیا اب ان کا ذکر نہیں بلکہ مبہم سے انداز میں بالواسطہ اشاریوں کی روشنی میں نیا دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک اور سروے کی روشنی میں ایک کمرے‘ دو کمرے‘ تین کمرے اور چار کمرے کے مکان میں رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے جس سے غربت کی کمی کا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ حالانکہ مئی ۲۰۰۵ء میں پلاننگ کمیشن نے جو پانچ سالہ وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک (Medium Term Development Framework) شائع کیا ہے اس میں صاف اعتراف ہے کہ:
اس وقت ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی سطح سے نیچے رہ رہی ہے۔ غربت کم کرنے کا MTDF ہدف ۲۰۱۰ء تک ۲۱ فی صد اور ۲۰۱۵ء تک ۱۳ فی صد ہے۔
واضح رہے کہ دو سال قبل جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ۲۰۰۶ء تک غربت کی سطح کو ۲۰ فی صد پر لے آئیں گے۔ یہ سب اعداد و شمار کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔
اسی طرح بے روزگاری کے مسئلے پر بھی حکومت کے ذمہ دار حضرات بشمول وزیراعظم صاحب نے قوم کو صحیح حقائق سے آگاہ نہیں کیا۔ جب پرویز مشرف صاحب برسرِاقتدار آئے اور جناب شوکت عزیز نے وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری سنبھالی تو ملک میں بے روزگاری کی شرح ۵فی صد سے کم تھی۔ ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۰ء کے درمیان اوسط بے روزگاری ۸ فی صد رہی۔ ۲۰۰۴ء میں ۵.۸فی صد تک پہنچ گئی۔ اس سال کے لیے دعویٰ کیا گیا ہے کہ بے روزگاری کم ہو کر ۸.۷ فی صد پر آگئی ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ دو سال میں ۸.۲ ملین افراد کو روزگار ملا ہے۔ لیکن اگر آپ اس لیبرسروے کا مطالعہ کریں جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے تو معلوم ہوگا کہ ان ۲۸لاکھ روزگار پانے والے خوش نصیبوں میں سے ۱۱ لاکھ افراد وہ ہیں جن کو unpaid family helpers (بلامعاوضہ گھریلو معاون)قراردیا گیا ہے۔ روزگار فراہم کیے جانے والوں کی تعداد میں ان کی شمولیت پر خود اسٹیٹ بنک نے اپنی حالیہ سہ ماہی رپورٹ میں جو مئی میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہے‘ دبے لفظوں میں تعجب کا اظہار کیا ہے۔ یہ کیسا روزگار ہے جس میں روزگار پانے والے بلامعاوضہ معاون ہیں۔ اگر اس تعداد کو کم کر دیں تو دو سال میں ۱۷ لاکھ افراد کو روزگار ملا ہے‘ جب کہ اس عرصے میں بے روزگاروں کی تعداد میں مزید ۲۰ لاکھ افراد کا اضافہ ہوگیا ہے اور قومی اسمبلی میں فراہم کردہ تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں ان میں ۳ لاکھ سے زیادہ بی اے‘ ایم اے اور ایم بی اے ہیں۔
پھر اس پورے عرصے میں حقیقی اُجرت میں برابر کمی ہو رہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جو برسرِکار ہیں ان کی بھی قوتِ خرید برابر کم سے کم تر ہو رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بے روزگاری کے طوفان اور اُجرتوں میں حقیقی کمی کا نتیجہ غربت میں اضافے کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر(Social Policy and Development Centre) کے ایک تازہ تحقیقی جائزے کے مطابق ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۰ء کے چارسالوں میں حقیقی اُجرت میں ۱.۳ فی صد کمی واقع ہوئی ہے اور وسیع تر تناظر میں مزدوروں کے تلخ حالات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۹۸۱ء کے مقابلے میں ۲۰۰۳ء میں ایک عام محنت کش کی قوتِ خرید میں ۲۰ فی صد کی کمی ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ متعلقہ رپورٹ‘ ص ۲۱-۲۳)
یہی معاملہ کشکول توڑنے‘ آئی ایم ایف سے نجات پانے اور قرضوں کے بوجھ میں کمی کے دعووں کا ہے۔ حقائق ان میں سے ہر دعوے کی تردید کر رہے ہیں۔ جولائی ۱۹۹۹ء سے دسمبر ۲۰۰۴ء تک بیرونی قرضوں میں ۵.۳ بلین ڈالر کا اور ملکی قرضوں میں ۶۴۱ بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اکانومک سروے کے مطابق ۲۰۰۴ء میں کل بین الاقوامی بوجھ (liability) ۲۶.۳۵بلین ڈالر تھا جو ۲۰۰۵ء میں بڑھ کر ۶۲۵.۳۶ ملین ڈالر ہوگیا ہے‘ یعنی ۳۶.۱بلین ڈالر کا حقیقی اضافہ۔آئی ایم ایف کا بھی بڑا ذکر ہے۔ اسی سروے سے میں ۱۳۲ پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۴ء میں آئی ایم ایف کا قرض ۷۶۲.۱ بلین ڈالر تھا اور ۲۰۰۵ء میں یہ ۷۵۷.۱ بلین ڈالر ہے۔ گذشتہ چھے سال میں ۱۴ بلین ڈالر کی پاکستانیوں کی ترسیلات اور ۲بلین کے قرضوں کی معافی کے باوجود ۱۴ سے ۱۵ بلین ڈالر کے درمیان نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ قرضوں اور سود کی ادایگی کے بوجھ میں کمی کی وجہ تقریباً ۱۵بلین ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ ہے جو نائن الیون میں امریکا کی چاکری کے عوض حاصل ہوئی ہے۔ اس کا کوئی تعلق کشکول توڑنے سے نہیں۔
وزیراعظم صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کے پانچ تیز رفتار ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے اور ان کے حاشیہ نشین یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ چین کے بعد پاکستان سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک ہے۔ لیکن حقائق کچھ دوسری ہی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ابھی مئی ۲۰۰۵ء میں پاکستان ڈویلپمنٹ فورم کی کانفرنس ہوئی ہے جس میں یورپی کمیشن کے سفیر نے اور ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے نمایندوں نے صاف کہا ہے کہ غربت میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافے کا امکان زیادہ ہے اور منہ پھاڑ کر انھوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ بات پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ غربت‘ بے روزگاری وغیرہ کے موضوعات پر بین الاقوامی معیاروں کے مطابق قابلِ اعتماد اعداد و شمار فراہم کرے۔
عالمی ادارے پاکستان کی معاشی زبوں حالی کا جو نقشہ پیش کر رہے ہیں‘ وہ اس تجربے سے صد فی صد مطابقت رکھتا ہے جو ہر شہری اور خصوصیت سے عام صارف صبح و شام محسوس کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ۲۰۰۴ء کی سالانہ رپورٹ میں دنیا کے ۱۷۷ ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۴۲ ہے‘ یعنی ہمارا شمار دنیا کے غریب ترین ۴۰ ممالک میں ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہمارا نمبر سب سے نیچے ہے‘ یعنی بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ اور نیپال سب ہم سے اوپر ہیں۔ فی کس آمدنی کے اشاریے میں ہمارا مقام ۱۷۷ میں ۱۳۴ واں ہے۔ غربت کے اشاریے میں جو صرف ۹۵ترقی پذیر ممالک پر مشتمل ہے ہمارا نمبر ۷۱ ہے۔
اسی طرح ورلڈ ڈویلپمنٹ فورم (جس کا مرکز Davos سوئٹزرلینڈ میں ہے) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق دنیا کے ۱۰۴ ممالک کے معاشی ترقی میں مقابلے کے اشاریے (Growth Competetion Index) میں ہمارا نمبر ۹۱‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۵۵ اور سری لنکا کا ۷۳ ہے۔ اور بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء میں ہماری پوزیشن ۷۳ ویں تھی جو ۲۰۰۴ء میں گر کر ۹۱ویں ہوگئی ہے۔
ملک کے دستوری اور قانونی اداروں کا حال سب سے خراب ہے۔ سرکاری اداروں کے اشاریے (Public Institutions Index) کے مطابق ۱۰۴ ممالک میں ہمارا نمبر ۱۰۲ ہے‘یعنی دنیا کے سب سے بدحال ترین ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی تجارتی ادارے (UNCTAD) نے جو دنیا کے ممالک کی درجہ بدرجہ فہرست تیار کی ہے اس میں کارکردگی کے اشاریے میں پاکستان کا نمبر ۱۴۰ ممالک میں ۱۱۶ واں ہے اور مستقبل کے امکانات کے اشاریے میں ہم اور بھی نیچے آئے ہیں‘ یعنی ۱۴۰ میں ہمارا نمبر ۱۲۹ ہے۔
ماحولیات اور صحت کے قومی فورم (National Forum for Environment and Health )کا جائزہ ابھی جون ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے آلودہ ترین ۱۵ ممالک میں ہے۔ کراچی کے بارے میں یہ رپورٹ اس ہولناک صورت حال کی تصویرکشی کرتی ہے کہ: کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ۱۶ لاکھ گاڑیوں میں سے ۳۰ فی صد (۴لاکھ ۸ ہزار) فٹنس کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔
اسی طرح آبی تحقیقات کی پاکستان کونسل (Pakistan Council of Water Research ) کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جائزے کے مطابق پاکستان کے ۱۷بڑے بڑے شہروں میں عام شہری ایسا آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو پینے کے لائق نہیں ہے۔ دیہات کی تو بات ہی کیا جہاں صاف پانی کی فراہمی کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے بین الاقوامی برادری اور عالمی مالیاتی ادارے ہماری اقتصادی ترقی کے قائل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ [پاکستان کے] اندر بعض دوستوں کو یہ خبر نہیں پہنچی۔ یا یہ کہ انھیں اپنی قوم کی صلاحیتوں پر یقین نہیں۔
جس ’’جراء ت‘‘ اور ’’دریدہ دہنی‘‘ کا مرہونِ منت ہے وہ جنرل مشرف کی ٹیم کے کسی فرد کو ہی نصیب ہو سکتی ہے۔
ملکی معیشت کی تعمیر نو خوش فہمیوں اور شماریاتی مغالطوں سے نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے حقائق کا سامنا کرنا ہوگا اور ایک بالکل نئی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ حکومت کو اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کی اصل کامیابی محض ایک سال میں ۴.۸ فی صد کی شرح نمو ہے جس کی وجہ ۵.۷ فی صد زراعت کی ترقی ہے جس کی وجہ حکومت کی پالیسی نہیں‘ بروقت بارش کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا۔ معیشت کے جن چند دائروں میں نسبتاً صورت حال بہتر رہی ہے اس کا انکار ناانصافی ہوگی۔ نیز چار سال تک macro stabilizationکا اسیر رہنے کے بعد معاشی ترقی (growth) کی طرف توجہ بھی ایک مثبت اقدام ہے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چھے سال تک مکمل اختیارات رکھنے اور نائن الیون کے بعد غیرمعمولی بیرونی اسباب کی وجہ سے وسائل اور امکانات کے رونما ہوجانے کے باوجود حکومت کوئی مربوط اور حقیقت پسندانہ معاشی حکمت عملی اور پروگرام بنانے میں قطعاً ناکام رہی ہے۔ افراط زر کا عفریت آگ اُگل رہا ہے۔ توازن تجارت ایک بار پھر خطرناک حد تک ہمارے خلاف ہوگیا ہے اور ۲۰۰۵-۲۰۰۴ء میں بین الاقوامی تجارت کا خسارہ ۶ بلین ڈالر کی حد کو چھو رہا ہے۔ بجٹ کا خسارہ پھر ڈھائی سو اور تین سو بلین روپے کی حد میں آرہا ہے۔ انتظامی اخراجات پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان میں بجٹ میں فراہم کردہ رقم سے تقریباً ۲۰ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ ترقیاتی اخراجات میں پہلے نو ماہ میں فراہم کردہ رقم کا صرف ۴۹ فی صد خرچ ہوا ہے اور وہ بھی صرف زری (monetary) حد تک۔ اصل برسرِزمین حقیقی کارکردگی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ دفاعی اخراجات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور اس پر نگرانی کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔ ملک میں مالیاتی (fiscal) پالیسی اور زری (monetary) پالیسی میں بروقت رابطے کی کمی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر کو بروقت روکنے کا اہتمام نہیں کیا جا سکا اور اب تاخیر سے زری پالیسی کو متحرک کیا گیا ہے کہ اس کے اثرات سرمایہ کاری پر ہوں گے۔ ٹیکس اور قومی آمدنی کے تناسب میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جو قومی آمدنی کے ۹ اور ۱۰ فی صد پر رکا ہوا ہے اور دنیا میں کم ترین شرح پر ہے‘ جب کہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح ۱۵ سے ۲۰ فی صد تک ہے۔ اسی طرح ملک میں بچت کی شرح ترقی پذیر ممالک کی اوسط شرح سے بہت کم ہے اور یہی صورت سرمایہ کاری کی سطح کی ہے جو عملاً ۱۶فی صد سے کم ہوکر ۱۵ فی صد پر آگئی ہے۔
غیرملکی پاکستانیوں کی ترسیلات ایک ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر ۴ارب ڈالر ہوگئی ہیں اور گذشتہ چار سال میں ۱۴ ارب ڈالر سے زیادہ وصولی ہوئی ہے‘ ان کو پیداآوری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے کوئی پالیسی اور اداراتی انتظام نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ یہ ترسیلات ملک میں افراطِ زر‘ تعیشات‘ بہت زیادہ صرف کے فروغ اور اسٹاک مارکیٹ اور زمین کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ معاشی ماہرین پکار رہے ہیں اور خود سینیٹ کی متفقہ سفارش بھی تھی کہ اسٹاک ایکسچینج پر جو ۰۱.۰فی صد ٹیکس لگایا گیا تھا اسے کم از کم ۰۵.۰ کیا جائے جس سے ۱۵سے ۲۰ ارب سالانہ آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں جو نفع خوری سٹّے کی بنیاد پر ہو رہی ہے اسے بھی لگام دی جا سکتی ہے‘ نیز زمین اور مکان کی فروخت پر cvt کم از کم ۰۵.۰ لگایا جائے تاکہ ان نودولتیوں کی دولت سے قوم کے غربا کا حق وصول کیا جاسکے۔ لیکن حکومت نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی بلکہ بنکوں کے نفع پر بین الاقوامی دبائو کے تحت انکم ٹیکس کی شرح پر ۳ فی صد کی کمی کر دی اور ۱۸۰۰ سی سی اور اس سے زیادہ کی کاروں کی درآمد پر بھی ڈیوٹی میں ۲۵ فی صد کمی کر دی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس بجٹ کو کار دوست (car-friendly)اور فوج دوست (fauj- friendly) قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت کی شاہ خرچیوں کا اندازہ کرنے کے لیے مشتے نمونہ از خروارے چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
ایوان صدر سے بات شروع کریں۔ ۲۰۰۰ئ-۱۹۹۹ء میں ایوان صدارت کا خرچہ ۹ کروڑ سالانہ تھا جو بڑھ کر ۰۵-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں ۲.۲۱کروڑ ہوگیا‘ اب اسے مزید بڑھا کر اب ۱۶.۲۶کروڑ کر دیا گیا ہے۔ صدر کے بیرونی دوروں کے ۵.۳۰ کروڑ روپے اس کے علاوہ ہیں۔
وزیراعظم کے دفتر اور گھر کے اخراجات بھی چشم کشا ہیں۔ ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں یہ رقم ۶۵.۲۲ کروڑ رکھی گئی تھی جو عملاً بڑھ کر ۶۱.۲۶ کروڑ ہوگئی اور اب اگلے سال کے لیے ۴۰.۲۳کروڑ رکھی گئی ہے۔ اس ۴ کروڑ کے اضافے کا کچھ پتا ضمنی گرانٹس کے مطالعہ سے چلتا ہے جہاں اس غریب ملک کے وزیراعظم کے لیے جو سہولتیں فراہم کی گئی ہیں ان کا ذکر اس طرح ہے:
ای سی جی مشین اور ایک کارڈیک ٹریڈ مل مشین (۲۷ لاکھ)‘ مرسڈیز کار کے فریٹ اخراجات (۹۵ لاکھ ۴ ہزار)‘ چارجز ۳ کروڑ ۳۲ لاکھ ۱۴ ہزار‘ رہایش ۱۸ لاکھ۔ سیکرٹریٹ کے لیے گاڑیوں کی خرید ۱۴ لاکھ ۵۰ ہزار)
(کیا یہ مشین ہمارے اچھے بھلے خوش حال وزیراعظم ذاتی جیب سے نہیں لے سکتے تھے؟ یقینا اگلے وزیراعظم کو اس کی ضرورت نہ ہوگی)
وزیراعظم صاحب کے غیرملکی دوروں کے لیے ۱۵ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ (مطالبہ زر ۵۵)
اب ذرا صرف ضمنی مطالبات زر کے دوسرے صفحات پر سرسری نظر ڈال لیجیے کہ قومی خزانے کا بے دردانہ اسراف کس طرح ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ عام بجٹ میں تمام پہلے سے طے شدہ اخراجات موجود تھے اور جو ہزاروں کاریں وزراے کرام اور سرکاری افسران کے استعمال میں ہیں وہ سب اس میں موجود نہیں۔ صرف ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے سال میں اضافی خریداری کے لیے خزانے پر کیا کیا بوجھ ڈالا گیا ہے اس کی ایک جھلک دیکھیے:
کیبنٹ ڈویژن کے پاس کاروں کا سب سے بڑا بیڑا ہے۔ اس کے لیے اضافی مطالبہ زر نمبر۲ کے ذریعے صرف ٹرانسپورٹ کی مد میں ایک ارب ۱۲ کروڑ اور ۴۷ لاکھ کی رقم لی گئی ہے۔ مزید گھر کرائے پر لینے کے لیے ۲۱لاکھ کی رقم اس پر مستزاد ہے۔
وزارتِ مواصلات کے وزیرمملکت کے لیے دفتر کے لیے ۷ لاکھ روپے‘ گھر کے لیے‘ ایک کروڑ ایک لاکھ روپے‘ گاڑی کے لیے ۱۳ لاکھ روپے اور صواب دیدی اخراجات کے لیے ۴ لاکھ روپے (مطالبہ زر ۱۷‘ ص ۲۰)۔ وزارتِ کلچر اور یوتھ کے لیے تین کاروں کی خرید پر ۳۳ لاکھ ۶۰ ہزار (مطالبہ زر ۲۰‘ ص ۲۲)۔ وزارتِ ایکونومک افیرز کے وزیرمملکت کے لیے کار کی خرید ۱۰ لاکھ ۵۰ہزار روپے‘ صوابدید اخراجات ۴ لاکھ روپے (مطالبہ زر ۲۸‘ ص ۳۳)۔ وزارتِ خزانہ کے لیے کرائے کی مد میں ۷۸ لاکھ ۳۷ ہزار روپے‘ وزیر مملکت کے لیے کار کی فراہمی کے لیے ۲۳ لاکھ ۷۸ ہزار روپے‘ کار کی دیکھ بھال کے لیے ایک لاکھ ر۳۵ ہزار روپے‘ صواب دیدی اخراجات کے لیے ۴لاکھ روپے اور خاطر مدارات اور تحائف کے لیے ۲۰لاکھ روپے مزید رکھے گئے (مطالبہ زر۳۷‘ ص ۴۱)۔ وزارتِ ہائوسنگ اور ورکس کے بھی مزید مطالبہ زر میں وزیرمملکت کے گھر کے لیے ۲۳ لاکھ ۸۶ ہزار‘ نئی کار کے لیے ۱۴ لاکھ روپے اور صواب دید اخراجات کے لیے ۳ لاکھ حاصل کیے گئے ہیں۔ (مطالبہ زر ۵۹‘ ص ۶۱)
یہ صرف چند وزارتوں کے اعداد و شمار ہم نے پیش کیے ہیں ورنہ بجٹ کی دستاویزات ان شاہ خرچیوں کے ذکر سے بھری پڑی ہیں اور کوئی نہیں جو اس غریب ملک کے امیر حکمرانوں کی ان مسرفانہ سرگرمیوں پر گرفت کرسکے۔ صدر‘ وزیراعظم‘ وزراے کرام‘ سینیٹ اور اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں گذشتہ تین سال میں ۱۰۰ فی صد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے‘ جب کہ عام شہری کی حقیقی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوئی ہے اور آج عالم یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک میں ۳۰۰ سے زیادہ افراد ہر سال بھوک اور افلاس سے تنگ آکر ہر ماہ حرام موت تک مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون
اب ہم مختصراً یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کے سامنے معیشت کے میدان میں سب سے اہم مسائل کیا ہیں اور حکومت کی پالیسیوں اور بجٹ اور ترقیاتی پروگرام میں ان کا کہاں تک ادراک اور علاج موجود ہے۔
۱- اضافے کی رفتار برقرار رکہنا:سب سے پہلا مسئلہ ملکی پیداوار میں اضافے کی رفتار کو برقرار رکھنے کا ہے۔۸فی صد سالانہ کی رفتار سے اضافہ ماضی میں بھی کم از کم چار بار ہوچکا ہے‘ لیکن کیا اسے برقرار رکھا جاسکا؟ یہی اصل مسئلہ ہے۔ بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ ۴.۸ فی صد اضافے میں خاصا دخل خارجی عوامل کا تھا۔ ملک میں سرمایہ کاری اور بچت دونوں کی رفتار غیرتسلی بخش ہے اور اس کو بڑھائے بغیر قومی پیداوار میں اضافے کی رفتار کو باقی نہیں رکھا جا سکتا۔ الا یہ کہ بڑھتی ہوئی سرمایہ جاتی پیداوار کے تناسب (incremental capital output ratio) میں تبدیلی ہو جس کے لیے کوئی آثار نہیں۔ ماضی میں اضافے میں غیراستعمال شدہ گنجایش (unutilized capacity) کو استعمال کرنے کا بھی دخل ہے۔ اب مزید گنجایش بڑھائے اور پیداواریت میں اضافے کے بغیر ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔ بجٹ میں ان امور کا ادراک نہ ہونے کے برابر ہے۔
۲- عوامی مصائب: اصل مسئلہ معاشی ترقی کی رفتار اور پیداوار میں اضافے کے نتیجے میں عوام کے مصائب میں کمی‘ قوت خرید میں اضافہ‘ زندگی کی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ مغرب کے دانش وروں کے جس آپ سے آپ نیچے آنے (trickle down effect) کے فلسفے پر ہمارے ہاں معاشی منصوبہ بندی ہو رہی ہے وہ دنیا میں ہرجگہ بشمول ہمارے اپنے ملک میں ناکام رہا ہے۔ لیکن ہم مکھی پر مکھی مارنے میں مصروف ہیں۔ جب تک روزگار کی فراہمی‘ صحیح نوعیت کی تعلیم اور ہنرمندیوں کو فروغ دینے کا مؤثر انتظام‘ صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانا اور سب سے بڑھ کر دولت کی ناہمواریوں اور علاقائی عدمِ مساوات کو سختی سے کم کرنے کو معاشی پالیسی کے واضح اور قابلِ پیمایش (measurable) اہداف نہیں بنایا جاتا عوام معاشی ترقی کے ثمرات سے محروم رہیں گے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ قومی دولت میں ہر ایک روپے کا اضافہ ملک کے امیر ۲۰ فی صد کی آمدنی میں ۴۸ پیسے کے اضافے کا ذریعہ بنتا ہے‘ جب کہ نچلی آمدنی والے ۲۰ فی صد کے حصہ میں صرف سات پیسے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۰فی صد آبادی کا حصہ ملک کے کل صرفے (consumption) میں تین فی صد سے بھی کم ہے اور اس پورے عمل سے دولت میں جتنا اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی معاشرے میں تقسیمِ دولت مزید غیرمنصفانہ ہوجاتی ہے۔ گذشتہ ۲۵سال میں Gini coefficientامیروں کے حق میں اور غریبوں کے خلاف سمت میں حالات کی تبدیلی کی خبر دے رہا ہے۔ Social Develpement in Pakistan کی رو سے ۱۹۸۸ء میں آبادی کے ۲۰ فی صد امیر ترین افراد کا دولت میں حصہ ۴۳ فی صد تھا جو ۲۰۰۲ء میں بڑھ کر ۶.۴۷ ہوگیا‘ جب کہ غریب ۲۰فی صد کا حصہ ۸.۸ فیصد سے کم ہو کر۷ فی صد اور غریب ترین ۱۰ فی صد کا ۵۸.۳ فی صد سے کم ہوکر ۷.۲ فی صد رہ گیا۔
ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب غربت کم کرنے‘ روزگار میں تیزرفتار اضافہ‘ تقسیم دولت کی اصلاح اور افراطِ زر کو لگام دینے کو پالیسی کے اہداف بنایا جائے اور محض قومی پیداوار میں اضافے کو ترقی کی علامت نہ سمجھ لیا جائے۔ اس کے لیے زراعت اور چھوٹی صنعت اور کاروبار کو اولین اہمیت دینا ہوگی اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کی سستی فراہمی‘ تعلیم اور صحت کے لیے وسائل کے استعمال اور پیداواری لاگت کو کم کرنے کی پالیسی اختیار کی جانا چاہیے۔ یہ کام معیشت کو محض مارکیٹ اکانومی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے سے انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ریاست معیشت میں ایک مثبت کردار ادا کرے اور انصاف کے حصول اور عوام کی خوش حالی کو معاشی پالیسی کا اصل ہدف بنائے۔ اس کے کوئی آثار اس بجٹ میں نظر نہیں آتے۔
۳- افراطِ زر : اس وقت افراطِ زر جو اب ۱۱ فی صد سے زیادہ ہے‘ بے روزگاری جو ۱۰فی صد کی حد چھو رہی ہے اور تجارتی خسارہ جو ۶ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے سب سے اہم چیلنج ہیں۔ بجٹ کے موجودہ فریم ورک میں ان گھمبیرمسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ یہ پالیسی میں انقلابی تبدیلیوں اور معاشی ترقی کے مثالی نمونے (paradigm )کی مکمل تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے جس کا کوئی نام و نشان موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں نظر نہیں آتا بلکہ اس تبدیلی کے صحیح ادراک اور اسے بروے کار لانے کی صلاحیت کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی نگاہ میں ہر مسئلے کا حل ڈی ریگولیشن اور نج کاری ہے۔ نیز ملک کی منڈیوں کو بیرونی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کھول دینا ہے جو ہماری نگاہ میں حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے‘ اصلاح کا موجب نہیں۔
۴- نج کاری:جس طرح نج کاری کی جا رہی ہے‘ وہ تشویش ناک ہے۔ ملک میں اب تک ۱۰۰ کے قریب صنعتوں کی نج کاری ہوچکی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ایک جائزے کے مطابق ان میں سے صرف ۲۲ ٹھیک کام کر رہی ہیں‘ ۳۰ سے زیادہ بند ہوچکی ہیں جو زمین بیچ کر اپنا کام کر گئیں اور باقی ۴۰‘ ۴۵ کی کارکردگی نج کاری کے دور ماقبل سے بدتر ہے۔ ضرورت ہے کہ نج کاری کے پورے عمل کا آزادانہ جائزہ لیا جائے اور نجی شعبے کے ساتھ پبلک سیکٹر کو بھی باقی رکھا جائے‘ البتہ اسے سیاسی مداخلت اور محض بیوروکریسی کی گرفت سے بچایا جائے اور کارپوریٹ کلچر اور پیشہ ورانہ تقاضوں کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں پیشہ ور انتظامیہ کے ساتھ انجام دیا جائے اور ایک طرف ضروری ترغیبات فراہم ہوں تو دوسری طرف عوامی جواب دہی کے ایک مؤثر اور متحرک نظام کو قائم کیا جائے اور اس طرح ایک ساتھ نیا انتظام و انصرام مرتب کیا جائے۔ دنیا میں اس کے کامیاب تجربات موجود ہیں۔ آخر ہم سرمایہ داری اور استعماری قوتوں کے بتائے ہوئے عالم گیریت اور نج کاری کے نسخے پر آنکھیں بند کرکے کیوں عمل کیے جا رہے ہیں۔
۵- وسائل کی تقسیم: مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی صحیح تقسیم اور ملک میں علاقائی ناہمواریوں کی خطرناک صورت حال بھی بنیادی معاشی مسئلے کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔ اب بات صرف قومی مالیاتی ایوارڈ کی نہیں‘ بلکہ صوبوں کے اپنے وسائل پر حق ملکیت اور اپنے لیے ترقیاتی منصوبوں کو خود بنانے اور اپنے وسائل کو اپنے علاقے کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کے مواقع کی فراہمی کا ہے۔ مالی اور اقتصادی اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کیا یہ ظلم نہیں کہ سوئی کی گیس سے پورا ملک فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن سوئی اور بلوچستان کی آبادی کا بڑا حصہ اس سے محروم ہے۔ سرحد میں گرگری کے مقام پر جو گیس نکلی ہے‘ وہ پورے صوبہ سرحد کی ضرورت پوری کر سکتی ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے دوسرے حصوں کو بھی یہ گیس فراہم کی جاسکتی ہے لیکن صوبے کے جنوبی علاقے جن کا پہلا حق ہے وہ محروم ہیں اور گیس نیشنل گرٹ میں ڈالی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصول طے کرنا ہوگا اور یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ معدنی وسائل پر علاقے کے لوگوں کا پہلا حق ہے۔ ضروری ہے کہ کم از کم ۱۵ فی صد گیس اسی ڈسٹرکٹ کو فراہم کی جائے۔ مزید ۱۵ سے ۲۵ فی صد اسی صوبے کو دی جائے اور باقی ملک کے دوسرے حصوں کو فراہم کی جائے۔ اس وقت بلوچستان اور سرحد بحیثیت مجموعی اور سندھ اور پنجاب کے دیہات اور چند علاقے شدید غربت اور وسائل سے محرومی کا شکار ہیں۔ علاقائی عدل و مساوات بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی انسانوں کے درمیان باہمی عدل و مساوات۔
۶- کرپشن:ملک میں کرپشن اور وسائل کو ضائع کرنا مجرمانہ حدود تک پہنچ چکا ہے۔ تمام ملکی اور بین الاقوامی جائزے اس امر پر شاہد ہیں کہ کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے یہی بتا رہے ہیں کہ ہر سطح پر کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور قومی صرفے کا‘ خصوصیت سے ترقیاتی اخراجات کا ۲۵ سے ۴۰ فی صد کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ خود پلاننگ کمیشن کے ایم ٹی ڈی ایف میں جو مئی ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ہے اعتراف ہے کہ ہر سال قومی دولت کا ۶۵۰ بلین روپیہ ضائع ہو رہا ہے۔اس کے الفاظ میں:
پاکستان زراعت‘ صنعت‘ آبی وسائل‘ تعلیم اور صحت سمیت معیشت کے تقریباً تمام دائروں میں کم سے کم ۶۵۰ ارب روپے سالانہ کا نقصان وسائل کے ضیاع کے باعث اٹھا رہا ہے۔ (ایم ٹی ڈی ایف ۲۰۰۵ئ‘ ۲۰۱۰ء پلاننگ کمیشن‘ ص xviii)
اس میں اگر حکومت کے اخراجات میں کرپشن‘ ضیاع اور اسراف کو شامل کرلیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ رقم ۸۰۰ بلین پر نہ پہنچ جائے جو اس سال کے بجٹ کے ۸۰ فی صد کے برابر ہے۔ جس قوم کے اتنے وسائل ضائع ہو رہے ہوں‘ وہ پس ماندہ نہ ہو تو کیا ہو‘ اور اس میں عام آدمی کی غربت کے ساتھ امیروں کی ریل پیل نہ ہو تو کیا ہو؟
۷- خودانحصاری: ایک اور بنیادی معاشی مسئلہ ملک کی خودانحصاری کا ہے۔ یہ ہمارے نظریۂ حیات‘ ہماری سیاسی آزادی‘ ہماری ثقافتی شناخت اور معاشی معاملات میں ہماری اپنی ترجیحات کے مطابق معیشت کی تعمیروتشکیل اور بجٹ سازی کے لیے ضروری ہے۔ اُمت مسلمہ کو شہداء علی الناس کا منصب دیا گیا ہے اور یہ غیرمسلم دنیا پر انحصار اور محتاجی کے ساتھ ممکن نہیں۔ اس لیے معاشی ترقی اور اقتصادی نظام کی تشکیل کا ایک اساسی مقصد خودانحصاری کا حصول ہے اور بدقسمتی سے گلوبلائزیشن اور آزاد روی (liberalisation) کے شوق میں ہم اپنی آزادی اور قومی شناخت ہی کو دائو پر لگائے جارہے ہیں۔ نئی معاشی پالیسی میں خودانحصاری کو بھی ایک مرکزی ہدف ہونا چاہیے اور اس کے لیے سودی معیشت سے نجات ضروری ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت سے نکلنا ہمارے قومی اہداف میں ہونا چاہیے۔ ہم عالمی تجارت اور انسانیت کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن یہ سب اپنے قومی مقاصد اور ترجیحات کے فریم ورک میں ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے معاملات پر قوت و اختیار رکھتے ہوں اور بیرونی قوتوں کے غلط مطالبات پر ’نہیں‘ کہنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ جس طرح ہماری معیشت کو عالمی طاقتوں کے ہاتھوں گروی رکھا جارہا ہے‘ وہ ہماری آزادی اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور قوم کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔
اس پہلو سے بھی موجودہ بجٹ مایوس کن ہے اور جس طرح دوسروں پر انحصار بڑھ رہا ہے بلکہ خود اپنی معیشت میں ان کے عمل دخل کو بڑھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے‘ وہ بہت تشویش ناک ہے۔
ہم اس جائزے کو ختم کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مقاصد اور اہداف وہ ہیں جو اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے تحریکِ پاکستان کے دوران بیان کیے تھے اور جو آج قرارداد مقاصد اور دستور میں ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے نام سے بیان کیے گئے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کا پہلا اور اولین ہدف اسلامی تشخص کی حفاظت اور ترقی اور ہدایت پر عمل پیرا ہونا اور دنیا کے سامنے اس کا گواہ بننا ہے جو قرآن و سنت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔
دوسری بنیادی چیز اس ملک میں امن اور قانون کی حکمرانی‘ انصاف کی فراہمی‘ اور تمام انسانوں کو آزادی اور جدوجہد کے مواقع کی برابری کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تاکہ انسان زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کر سکے۔ اس کے لیے مکہ ہمارا ماڈل ہے جس کی قرآن نے یہ کیفیت بیان کی ہے کہ: اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِن خَوْفٍ،بھوک اور خوف‘ جب تک معاشرہ ان دونوں لعنتوں سے پاک نہیں ہوتا‘ نہ معاشی ترقی ہوسکتی ہے اور نہ مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام نے عدل وا نصاف کو انسانی معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیا ہے اور انبیاے کرام کی بعثت کا مقصد جہاں اللہ کی ہدایت کو انسانوں تک پہنچانا (تعلیم کتاب و حکمت) اور ان کا تزکیہ کرنا ہے‘ وہیں انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام (لِیَقُومَ النَّاسَ بِالْقِسْطِ) ان کی اولین ذمہ داری ہے۔
اس لیے ہماری معاشی پالیسی کے مقاصد بھی ہدایت‘ کفالت‘ حفاظت‘ عدالت‘ خدمت‘ وحدت اور خودانحصاری کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے۔ اور جب تک معاشی اور ریاستی پالیسی اس نئے محور پر نہیں آتی‘ ظلم‘ غربت‘ ناانصافی اور بے چینی ہمارا مقدر رہے گی۔ وقت کی اصل ضرورت منزل کا صحیح تعین اور اس کی طرف پیش رفت کے لیے قابلِ عمل نقشہ راہ کی تیاری اور سب سے بڑھ کر اس سمت میں سفر اور تمام وسائل کا ایمان دارانہ استعمال ہے تاکہ اس ملک کا ہر شہری عزت کی زندگی گزار سکے‘ کسی کا محتاج نہ ہو‘ انسان انسان کے حقوق پبھی ادا کرے اور اللہ کے بھی کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں ؎
کس نہ گردد در جہاں محتاجِ کس
نکتۂ شرع مبیں ایں است و بس
(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے ، سیکڑے پر رعایت، منشورات‘ منصورہ‘ لاہور-۵۴۷۹۰)
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آئو تو وہ ایک مدتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا۔ (ھود ۱۱:۳)
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ جسمانی طور پر مضبوط ہوں اور آپ کا جسم مصائب و آلام اور آفات و امراض سے محفوظ رہے تواستغفار کیجیے:
اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف پلٹو۔ وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا۔ اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر (بندگی سے) منہ نہ پھیرو۔ (ھود ۱۱:۵۲)
اس وقت تو اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا‘ جب کہ تو ان کے درمیان موجود تھا‘ اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے۔(الانفال ۸:۳۳)
میں نے کہا‘ اپنے رب سے معافی مانگو‘ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا‘ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا‘ تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔(نوح ۷۱:۱۰-۱۲)
اور کہتے جانا حِطَّۃٌ حِـطَّۃٌ [حطۃ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا سے اپنی خطائوں کی معافی مانگتے ہوئے جانا‘ دوسرے یہ کہ لُوٹ مار اور قتل عام کے بجاے بستی کے باشندوں میں درگزر اور عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے جانا] ہم تمھاری خطائوں سے درگزر کریں گے اور نیکوکاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔(البقرہ ۲:۵۸)
استغفار گناہوں اور غلطیوں کا کامیاب علاج اور بہترین دوا ہے۔ اسی لیے اللہ کے نبیؐ ہمیشہ استغفار کا حکم دیا کرتے تھے: اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو اور اسی کی طرف رجوع کرو۔ بے شک میں ایک دن میں ۱۰۰ مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سچے دل سے معافی مانگنے والے سے راضی ہو جاتا ہے‘ اس لیے کہ وہ شخص اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اپنے پالنہار کی طرف رجوع کرتا ہے۔
گویا کہ وہ کہتا ہے: اے میرے رب! میں نے غلطیوں‘ برائیوں اور گناہوں کا ارتکاب کیا ہے‘ تیرے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی اور حدود سے تجاوز کیا ہے‘ اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔ مجھے شیطان نے اپنی چالوں میں جکڑلیا‘ خواہشات نے مجھے مغلوب بنالیا‘ نفس امارہ نے مجھے دھوکے میں ڈالا۔ میں تیرے حلم‘ عفو و درگزر‘ بے پناہ سخاوت اور تیری بے پایاں رحمت پر اعتماد کرکے یہ سب کچھ کرتا رہا ہوں۔ اب میں تیرے حضور نہایت ہی شرمندہ ہوکر معافی کا طلب گار ہوں۔ اے اللہ! مجھے معاف کر دے‘ میری غلطیوں سے درگزر فرما اور میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کر۔ تیرے سوا میرا کوئی رب نہیں ہے اور میں تیری ہی بندگی کرتا ہوں۔
ایک صحیح حدیث میں آیا ہے: ’’جس نے استغفار کی پابندی کی‘ اللہ تعالیٰ اس کو ہر مشکل سے نجات اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ عطا کر دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ جس کا وہ گمان بھی نہیں کرسکتا‘‘۔ ایک دل چسپ واقعہ ہے کہ ایک شخص کی اولاد نہیں ہوتی تھی۔ اس نے بہت سے ڈاکٹروں سے علاج کروایا لیکن کوئی بھی اس کا علاج نہ کرسکا۔ آخرکار اس نے ایک عالمِ دین سے استفسار کیا تو انھوں نے کہا: کثرت سے استغفار کیا کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا مستغفرین سے وعدہ ہے کہ: ’’وہ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا‘‘ (نوح ۷۱:۱۲)۔ اس شخص نے کثرت سے استغفار کرنا شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے صالح اولاد عطا فرما دی۔
اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔(المومن ۴۰:۵۵)
اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی۔ (محمد ۴۷:۱۹)
اللہ سے درگزر کی درخواست کرو وہ بڑا درگزر فرمانے والا رحیم ہے۔ (النساء ۴:۱۰۶)
ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہاں انھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی‘ پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: مالک ہم ایمان لائے‘ ہماری خطائوں سے درگزر فرما اور ہمیں آتش دوزخ سے بچا۔ یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں‘ راست باز ہیں‘ فرماں بردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶-۱۷)
اس وقت تو اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا‘ جب کہ تو ان کے درمیان موجود تھا‘ اور نہ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کررہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے۔ (الانفال ۸:۳۳)
اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یادآجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیوں کہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو‘ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۵)
حضرت اَغَرْمُزَنی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کبھی کبھی میرے دل پر غفلت کا پردہ آجاتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے دن میں ۱۰۰ مرتبہ معافی طلب کرتا ہوں۔(مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’رب کریم کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے دن میں ۷۰سے زائد مرتبہ معافی مانگتا ہوں‘‘۔
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّی لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ ، وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ ، اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، اَبُوئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوئُ بِذَنْبِیْ ، فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ -
میرے اللہ‘ تو تو میرا رب ہے‘ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں‘ جتنا بس میں ہے تجھ سے عہد و پیمان پورا کرتا ہوں۔ میں تیری پناہ چاہتا ہوں‘ جو کچھ کیا اس کے شر سے۔ اپنے اوپر تیری نعمتوں کا اعتراف ہے اور ساتھ ہی اپنے گناہوں کا اقرار۔ پس مجھے بخش دے‘ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔
جس شخص نے دن کے وقت پورے یقین کے ساتھ یہ دعا کی اور اسی روز شام سے پہلے فوت ہوگیا تو وہ جنت میں جائے گا‘ اور جس شخص نے رات کے وقت پورے اعتماد کے ساتھ اللہ سے یہی دعا کی اور وہ صبح ہونے سے پہلے فوت ہوجاتا ہے تو وہ بھی جنت میں جائے گا۔ (بخاری)
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اے میرے رب! مجھے معاف فرما دے اور میری توبہ قبول فرما لے۔ بے شک تو توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (سنن ابی داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
جو شخص استغفار کا التزام کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اسے ہر تنگی سے چھٹکارا اور ہر مشکل سے نجات عطا فرما دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا کہ جو اس کے گمان میں بھی نہ ہوگی۔ (سنن ابی داؤد، ابن ماجہ)
اے مصیبتوں اور دکھوں کے مارے پریشان حال انسان!
استغفار کیا کر‘ اس سے حزن و ملال کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ یہ ایسا مرہم ہے جس سے زخم مندمل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایسی دوا ہے کہ اس کے بعد کسی اور دوا کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ (المجتمع، کویت‘ شمارہ ۱۶۳۹‘ ۱۹ فروری ۲۰۰۵ئ)
بڑی سیدھی سی بات ہے کہ اگر دنیا میں امن وسکون قائم کرناہے اور اسے ظلم و فساد سے پاک کرنا ہے تو عدل و انصاف کا دامن پکڑ لیا جائے۔ جس کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہے ‘اتنا ہی زیادہ عدل کا علم بردار ہو‘ دنیا میں اتنا ہی زیادہ عدل قائم ہوگا۔ حق دار کو حق ملے گا اور کمزور سے اس کا حق چھیننے والا کوئی نہ ہوگا۔ مسلمانوں کو عدل کی تعلیم دی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔ یہ بھی ہدایت ہے کہ عدل کرنے سے اپنے آپ کو یا اپنے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہو تب بھی عدل کرو۔ جب مسلمان صحراے عرب سے نکلے اور ساری دنیا پر چھاتے چلے گئے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس اسلحہ و طاقت زیادہ تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ جہاں وہ پہنچتے تھے لوگ جانتے تھے کہ عدل قائم کرنے والے آگئے ہیں۔ چنانچہ عوام اپنے ظالم حکمرانوں سے نجات پانے کے لیے عدل کے ان علم برداروں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے تھے۔
آج امریکا دنیا کی واحد سوپر پاور ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ۲۱ویں صدی اس کی صدی ہو۔ اس کے پاس بے اندازہ عسکری و مادی قوت ہے جس کا وہ بے محابا اظہار کر رہا ہے۔ دوسرے ممالک کے امور میں عدمِ مداخلت اور کسی ملک کی سرحدات پار نہ کرنے کے اصولوں کی اس نے دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ پیش بندی کے طور پر حملے جیسے لغو کلیے کو پالیسی بنایا گیا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں اس سطح ارض پر امریکا نے ظلم کی جو داستانیں رقم کی ہیں تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اس ظلم و زیادتی کا ہدف مسلمان ہیں۔ نائن الیون کے حملوں کا الزام ایک مسلمان گروہ پر رکھ کر‘ گویا اس نے پوری مسلم دنیا کے وسائل پر عملاً قبضہ کرنے کا کھلا لائسنس حاصل کرلیا ہے‘افغانستان اور عراق کی طرح بلاواسطہ یا پاکستان کی طرح بالواسطہ۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ایک بے بنیاد فلسفہ تراشا گیا ہے اور کیونکہ ایک بڑی طاقت اس کے پیچھے ہے‘ اس لیے لَے میں لَے ملانے والوں کی کمی نہیں ہے اور ہمارے حکمران اور مخصوص قسم کے دانش ور بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے یا بنائے جانے پر فخر سے سینہ پھلاتے ہیں اور چند ڈالروں کے عوض اپنی غیرت و حمیت خوشی خوشی فروخت کرتے ہیں۔
توپ و تفنگ سے دل نہیں جیتے جاسکتے‘ خواہ علاقوں پر قبضے کر لیے جائیں___ اس روشن حقیقت پر تاریخ شاہد ہے۔ واحد بڑی طاقت کے لیے آج سب سے زیادہ پریشانی کا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں اس سے نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے پالیسی سازوں‘ دانش وروں‘ تھنک ٹینکوں اور میڈیا کے بڑوں کو دیوار پر لکھی یہ کھلی حقیقت نظر نہیں آرہی کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے عدل کا دامن چھوڑ دیا ہے اور ظلم و ناانصافی کا وطیرا اپنا لیا ہے۔ اب وہ لاکھوں کروڑوں ڈالر اس پر خرچ کرنے کو تیار ہیں بلکہ کر رہے ہیں کہ اپنے ظلم کے بداثرات ظلم کا شکار لوگوں کے ذہنوں سے مٹائیں اور یہ مظلوم‘ امریکا کو اپنا خیرخواہ اور دوست بھی سمجھیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن چونکہ امریکا بڑی طاقت ہے‘ سکہ رائج الوقت ہے‘ اس کے پاس ڈالر بھی ہیں‘ اسلحہ بھی‘ اس لیے وہ اپنی ناکام کوششیں ترک کرنے پر بھی آمادہ نہیں بلکہ نت نئے طریقے اپناکر مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنے دستیاب ذرائع و وسائل سب اسی کام پر لگا رہا ہے۔
ہمارے لیے یہ بڑی آسانی ہے کہ امریکا اپنے جائزے‘ منصوبے‘ کامیابیاں‘ ناکامیاں خود ہی شائع کرتا رہتا ہے۔ اگر امریکا اس سب کو خفیہ رکھ کر کرتا تو ہمارے لیے پوری اسکیم معلوم کرنا مشکل ہوجاتا۔ اس لیے کہ پھر اس میں محنت اور وسائل صرف ہوتے۔ اب بھی جتنا وہ اپنے بارے میں کھلے عام بتا رہا ہے وہ تک جاننے کا ہمارا کوئی نظام نہیں ہے۔ کوئی بات اتفاقاً کسی کی نظر پڑے اور وہ دوسروں کو اس سے آگاہ کر دے‘ یہی نظام ہمارا ہمیشہ سے ہے اور نائن الیون سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
امریکا کے رسالے US Newsکی ایک ٹیم نے چار ماہ انٹرویو کر کے اور درجنوں اندرونی رپورٹوں اور یادداشتوں کا مطالعہ کر کے ایک جائزہ مرتب کیا ہے کہ امریکا دل جیتنے یا دنیا کے حالات کو اپنے لیے سازگار بنانے کے لیے کیا کیا کر رہا ہے۔ ہم اس سے کچھ جھلکیاں پیش کررہے ہیں۔ یہ کوئی رازکی باتیں نہیں ہیں۔ ہم پاکستان میں ان پر عمل ہوتا ہوا خوددیکھ رہے ہیں۔ ہم خبر نہ رکھیں‘ ساری مسلم دنیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ معلوم نہیں اس میں امریکا کی کیا حکمت ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے‘ ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے‘ شرم و لحاظ کے بغیر کر رہا ہے‘ بتاکر اور جتاکر کر رہا ہے (غالباً اسے ہمارے خوابِ غفلت پر بھرپور اعتماد ہے‘ اس لیے کہ اسے ان کاموں کے لیے نفری بھی ماشاء اللہ کلمہ گو ہی فراہم کر رہے ہیں)۔ یو ایس نیوز کے مطابق:٭
جولائی ۲۰۰۳ء میں دہشت گردی کے خلاف نظریات کی جنگ کے کارفرما عناصر واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں جمع ہوئے۔ اس میں وائٹ ہائوس‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون کے نمایندوں کے ساتھ ماہرین نفسیات بھی جمع تھے۔ مسئلہ زیرغور یہ تھا کہ صدام حسین پر فتح امریکا دشمن لہر پر قابو نہیںپاسکی ہے (یعنی توقع یہ تھی!)۔ حکومت کے ماہرین اطلاعات کو یہ اعصاب شکن سوال درپیش تھا کہ مسلم دنیا میں امریکا کا امیج کیسے بہتر کیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سب سے نازک اور اہم محاذ دل ودماغ جیتنا ہے‘ لیکن اس کے لیے کوئی قومی حکمت عملی نہ تھی‘ کوئی ایک اس کا انچارج نہ تھا اور وسائل کی سخت قلت درپیش تھی۔
روس سے سرد جنگ کے زمانے میں پروپیگنڈے کا جو پورا نظام بنایا گیا تھا وہ کمیونزم کے زوال کے بعد لپیٹ دیا گیا تھا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکا نے اسی طرح کی سیاسی جنگ شروع کی جس کی مثال سرد جنگ کے زمانۂ عروج میں ملتی ہے۔ آج واشنگٹن لاکھوں کروڑوں ڈالر اس مہم پر صرف کر رہا ہے کہ نہ صرف مسلم معاشرے بلکہ خود اسلام پر اثرانداز ہو۔ امریکی افسران مذہبی جنگ میں اپنے کو شامل کرنے سے کتنا ہی بچائیں‘ لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ جب ایک ارب سے زائد پیروکار رکھنے والے سیاست زدہ مذہب کے مستقبل کے لیے اعتدال پسند اور انتہاپسند طاقت آزمائی کر رہے ہوں تو وہ میدان سے باہر بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لیے ایک غیرمعمولی اور روز افزوںکوشش اسلام میں اصلاح (اسلامک ریفارمیشن) کی کی جارہی ہے۔
وائٹ ہائوس نے ایک نئی خفیہ حکمت عملی Muslim World Outreach (مسلم دنیا تک رسائی) منظور کی ہے جس میں پہلی دفعہ یہ کہا گیا ہے کہ اسلام کے داخلی دائرے میں جو کچھ واقع ہو رہا ہے‘ اس کا تعلق امریکا کی قومی سلامتی سے ہے۔ اس لیے اس پر اثرانداز ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ مسلم دنیا میں امریکا کا نام لینا ’radio active‘ یعنی نقصان دہ ہے۔ اس لیے حکمت عملی میں تجویز کیا گیا ہے کہ اعتدال پسند مسلم اقوام مؤسسات (فائونڈیشن) اور اصلاحی تنظیموں کے ذریعے جمہوریت‘ خواتین کے حقوق اور رواداری جیسی اقدار کو پروان چڑھایا جائے۔ کم از کم دو درجن ممالک میں واشنگٹن نے اسلامی ریڈیو ٹی وی شو‘ اسلامی اسکولوں کے نصابات‘ مسلمان تھنک ٹینک اور دوسرے پروگراموں کی جو اعتدال پسند اسلام کو فروغ دیتے ہیں‘ نہایت خاموشی سے مالی مدد فراہم کی ہے۔ وفاقی خزانے سے مساجد کی بحالی‘ قدیم قرآنی نسخوں کے تحفظ‘ یہاں تک کہ اسلامی اسکولوں کی تعمیر جیسے کام کیے جا رہے ہیں۔ سی آئی اے اپنی ان خفیہ کارروائیوں کا احیا کر رہی ہے جن کی مدد سے کبھی اس نے سرد جنگ جیتی تھی‘ لیکن اب اس کا ہدف اسلامی میڈیا‘مذہبی رہنما اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ سی آئی اے کو اپنے کام کے لیے خطیر رقوم فراہم کی جارہی ہیں۔ اس کی ایک کارگزاری امریکا دشمن رہنمائوںکو برا بنانے کے لیے خفیہ مہمیں چلانا ہے۔
قومی سلامتی کونسل کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ اسلامی پروپیگنڈے اور سیاسی سرگرمیوں کے مقابلے کی تدابیر بتانے والے تقریباً ۱۰۰ تحقیقی مقالے تیار کیے گئے لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ حکومت اس کام کے لیے ایک نیا عہدہ ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنانے والی ہے۔ لبنان میں شام دشمن مظاہرے اور مشرق وسطیٰ میں کامیاب الیکشن کا سلسلہ دل و دماغ کی جنگ کے لیے امیدافزا علامات ہیں لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسائل کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ صورت حال بہتر نہیں بدتر ہو رہی ہے۔
امریکا دشمنی کے احساسات مسلم دنیا میں معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ یہ افواہیں کہ امریکی فوجی مرنے والے عراقیوں کے جسم سے اعضا نکال لیتے ہیں‘ یا یہ کہ امریکا نے مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے لیے سونامی طوفان برپا کیا‘ عرب میڈیا میں آتی ہیں۔ جہادی تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے جہادی ویڈیو اور سی ڈی عرب دارالحکومتوں کی گلیوں میں خوب فروخت ہوتی ہیں۔ علاقے کے مؤثر رہنما یہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکا عرب دنیا یا پھر خود اسلام کے ساتھ برسرِجنگ ہیں۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکا نے محسوس کیا کہ اپنی تمام تر قدامت پسندی کے باوجود طالبان پروپیگنڈے کی جنگ میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ بیشتر مسلم دنیا نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ ان حملوں کے پیچھے عربوں کا ہاتھ ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن‘ لندن اور اسلام آباد میں کوالیشن انفارمیشن سنٹر کھولے گئے لیکن الجزیرہ کی خبروں کا جواب دینے کے بعد اس کا وقت نہیں بچتا تھا کہ اسلامی دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑنے کی کسی حکمت عملی پر عمل کیا جائے۔ وائٹ ہائوس نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ کام دراصل سی آئی اے کا ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے ایک خفیہ ہدایت میں صدربش نے سی آئی اے کو دنیا بھر میں القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بلینک چیک دیا۔ فوج نے فضائی ٹی وی ریڈیو اسٹیشن قائم کیے‘ کروڑوں دو ورقے ملکوں پر برسائے گئے اور ذہنوں کو موڑنے کے لیے کامک بکس کے ساتھ بڑی بڑی پتنگیں بھی تقسیم کیں۔ دراصل ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انقلابی اسلام کی عالمی تحریک کا مقابلہ کیسے کریں؟
لاکھوں مسلمانوںکے لیے صدام کو اکھاڑ پھینکنے سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ امریکا کے بدترین دشمن اس کی جو استعماری تصویر پیش کرتے ہیں وہ درست ہے۔ امریکا تیل سے مالا مال ایک عرب ملک پر حملہ کرتا اور قبضہ کرتا ہے۔ فلسطینیوں کی قیمت پر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ جمہوریت کی باتیں کرتا ہے مگر مصر تا پاکستان آمروں پر انحصار کرتا ہے۔ ایک امریکی عرب رسالے میں یہ لکھا گیا کہ اگر امریکا پبلک ریلشنگ کے لیے پیغمبرمحمدؐ کو بھی لے آئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لوگ امریکا کے فلمی ستاروں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ امریکا ان کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے اس سے نفرت کرتے ہیں۔
وائٹ ہائوس میں شکایات جمع ہوگئیں کہ دل و دماغ جیتنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور مناسب وسائل نہیں دیے جارہے۔ یہ کام قومی سلامتی کونسل پر آپڑا کہ وہ اس کے لیے تدابیر کرے۔ کونسل نے کچھ تدابیر اختیار کیں لیکن ان پر مناسب طرح عمل نہ ہوسکا۔ پالیسی ساز ہدف تک پر متفق نہ تھے: عالمی سطح پر دہشت گردی یا اسلامی انتہاپسندی یا اس کے اسباب‘ یعنی سعودی رقوم‘ امریکی پالیسیوں کے بارے میں غلط فہمی یا کچھ اور۔ بہرحال کانگریس اور پریس کی طرف سے تنقید نے یہ ضرور کیا کہ ان کاموں کے لیے فنڈ ملنے لگے۔ انتظامیہ نے غیرملکی نشریات کے دائرے میں کچھ بڑے کام کیے: ۲۰۰۲ء میں ریڈیو ساوا جو ایک پاپ میوزک اسٹیشن تھا اور ۲۰۰۴ء میں الحرہ سیٹلائٹ ٹی وی نیوز نیٹ ورک۔
گذشتہ موسم گرما میں Muslim World Outreach نے نئی شکل اختیار کرلی جس میں دہشت گردی (کے خلاف جنگ) کے لیے رقوم کی فراہمی اور نظریات کی جنگ جیتنا شامل تھا۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ امریکا نے اعتدال پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں بہت زیادہ کوتاہی کی ہے۔ اس دستاویز میں ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بات کہی گئی ہے کہ امریکا اور اس کے حلیفوں کا قومی سلامتی کا مفاد صرف اس سے متعلق نہیں ہے کہ مسلم دنیا میں کیا ہو رہا ہے بلکہ اس سے بھی ہے کہ خود اسلام کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ مگر ایک پریشانی یہ ہے کہ امریکی اپنے بنیادی عقیدے کے مطابق مذہبی آزادی میں رکاوٹ نہیں ڈالتے۔ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا ہمیں اس بحث میں حصہ لینے کا اختیار بھی ہے؟ جواب یہ ہے کہ خاموشی سے کرو۔ آپ رقم فراہم کرتے ہیں اور اعتدال پسند مسلمانوں کے لیے منظم ہونے‘ شائع کرنے‘ نشر کرنے اور ترجمہ کرنے کے لیے مدد دیتے ہیں۔
اس حکمت عملی پر غور کے دوران سعودی عرب کا کردار زیربحث آتا ہے۔ اندازہ ہے کہ سعودیوں نے اپنے بنیاد پرست فرقے وہابیت کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے لیے ۱۹۷۵ء سے اب تک ۷۵ ارب ڈالر صرف کیے ہیں۔ سعودی مالی مدد سے چلنے والے خیراتی ادارے ۲۰ ملکوں میں جہادی تحریکوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے پائے گئے۔ ایک افسر نے پیشنگوئی کی کہ تبدیلی سعودی عرب میں نہیں‘ سعودی عرب کے چاروں طرف سے آئے گی۔
حکمت عملی کے جس دوسرے پہلو پر عمل کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ان اہم انقلابی مسلمان لیڈروں سے معاملات درست کیے جائیں جو تشدد کے مخالف ہیں۔ اس فہرست میں سب سے پہلے اخوان المسلمون ہے۔ سی آئی اے کے ایک افسر نے کہا کہ اخوان مسئلے کا نہیں‘ مسئلے کے حل کا حصہ ہیں۔ امریکا کے خفیہ سفارت کار اخوان ہی سے نہیں پاکستان میں دیوبندی لیڈروں سے بھی ملتے ہیں جنھوں نے طالبان کو تعلیم دی اور القاعدہ کے پیروکاروں کی فوج متحرک کی۔
سی آئی اے کے اہل کار امریکا دشمن خطیبوں اور بھرتی کرنے والے جنگجووں کو بے اثر کرنے کے لیے خوب ڈالر بہا رہے ہیں۔ اگر آپ سڑک کے ایک طرف مُلاعمرپائیں تو دوسری طرف اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ملابریڈلے کو کھڑا کر دیں۔ زیادہ سنگین معاملات میں بھرتی کرنے والوں کو پکڑا جاتا ہے اور تفتیش سے گزارا جاتا ہے۔ سی آئی اے نے بوگس جہادی ویب سائٹ بھی شروع کی ہے اور عرب میڈیا کو اپنا ہدف بنایا ہے لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ تدبیر اُلٹی پڑ جائے اور انٹرنیٹ پر کوئی جوابی کارٹون یا لطیفہ امریکی میڈیا تک پہنچے۔
دل و دماغ جیتنے کی اس جنگ میں سی آئی اے تنہا نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد پبلک ڈپلومیسی کا بجٹ ۴۰ فی صد اضافے کے بعد ۳ئ۱ ارب ڈالرہوگیا ہے‘ اور مزید آرہا ہے۔ نظریات کی موجودہ جنگ میں سی آئی اے کو اصل مدد اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے نہیں بلکہ یو ایس ایڈ سے مل رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد بیرونی امداد کے اس ادارے کا خرچ تین گنا بڑھ کر ۲۱ ارب ڈالر ہوگیاہے اور اس کا نصف مسلم دنیا پر خرچ ہو رہا ہے۔ زیادہ امداد اسلامی گروپوں کو جا رہی ہے۔ ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی ٹیکس دہندہ کی فراہم کردہ یہ امداد کم از کم ۲۴ملکوں میں طرح طرح کے اسلامی گروپوں پر خرچ ہو رہی ہے: ۹ممالک میں مسلم مقدس مقامات کی بحالی (بشمول ترکمانستان‘ پاکستان اور مصر میں تاریخی مساجد)‘ کرغیزستان میں ایک خانقاہ کی تعمیر‘ ازبکستان میں اسلامی مخطوطات (بشمول ۱۱ویں صدی کے ۲۰ قرآن) کا تحفظ [اس بے ضرر اسلام کے لیے تو ہمارے روشن خیال حکمران بھی بسروچشم تیارہیں]۔ بنگلہ دیش میں یو ایس ایڈ ائمہ مساجد کو ترقی کے مسائل پر تربیت دے رہی ہے۔ مڈغاسکر میں ایک بین المساجد سپورٹس ٹورنامنٹ اسپانسر کیا گیا۔ اس کے علاوہ نصف درجن ممالک میں کتابوں کے تراجم سے لے کر ریڈیو‘ ٹی وی ڈراموں تک میں امداد دی جارہی ہے۔
یہ امداد بہت واضح طور پر سب سے بڑے ۲۴ کروڑ آبادی والے مسلمان ملک انڈونیشیا میں دی جارہی ہے۔ اعتدال پسند اسلام کا گڑھ ہونے کے باوجود اس نے جماعت اسلامیہ کو وجود دیا جس نے ۲۰۰۲ء کے بالی کے بم دھماکے میں ۲۰۲ افراد ہلاک کیے۔ یو ایس ایڈ پس پردہ رہ کر ۳۰مسلم انجمنوں کو مدد پہنچاتی ہے۔ بعض پروگرام: میڈیا کی تیاری‘ اسلامی مبلغوں کی ورکشاپ‘ دیہاتی اکیڈمیوں اور اسلامی یونی ورسٹیوں کے نصابات کی اصلاح‘ اسلام اور رواداری پر ایک ٹاک شو ۴۰ شہروں سے ریلے‘ اور ۱۰۰ اخباروں میں ہفتہ وار کالم۔ اس کے علاوہ ایسے اسلامی تھنک ٹینک بھی امداد پارہے ہیں جو جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے مطابق اسلام کو سامنے لاتے ہیں۔
یہ عطیات خفیہ نہیں ہیں لیکن انھیں سلیقے سے دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ امریکا سے تعلق کا انکشاف ان پروگراموں کا اختتام اور اس میں کام کرنے والوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ [مسئلہ تو دل ودماغ جینے کا ہے اور یہاں یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ امریکا کا نام بھی آجائے تو خیر نہیں‘ تو پھر دل و دماغ کیسے جیتے جارہے ہیں! امریکا ہی سمجھے تو سمجھے]۔
اگر یو ایس ایڈ‘ یعنی امریکا کسی کام کا کریڈٹ لینا چاہے تب بھی امریکا دشمن جذبات اسے مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک موقع پر قاہرہ میں سرکاری اہل کار خوشی خوشی بتا رہے تھے کہ ان کے اوپیرا ہائوس کی تعمیر میں جاپانیوں نے مدد دی ہے۔ لیکن وہ اس بات کو نہیں بتانا چاہتے تھے کہ مصر دوارب ڈالر سالانہ امریکی امداد لینے والا ملک ہے۔ قاہرہ کے پانی بجلی نظام میں امریکا نے مدد دی ہے۔ ایک قدیم مسجد (۶۴۲ ہجری) کو بچانے میں مدد دی ہے لیکن وہ یوایس ایڈ کے علامتی لال‘ نیلے اور سفید رنگ کو نمایاں کرنے سے محترز تھے۔
ایک بہت بڑا مسئلہ روایتی اسلامی اسکولوں‘ یعنی مدرسوں کا ہے۔ نائن الیون کمیشن نے ان کو پُرتشدد انتہا پسندی کے incubator (انڈوں سے بچے نکالنے کی جگہ!)قرار دیا ہے۔ ورلڈ بنک کے مطالعے کے مطابق پاکستان میں ان مدرسوںکے ۵ لاکھ طلبہ ہیں۔امریکی کہتے ہیں: we are in the madrasa business۔
گذشتہ برس یوگنڈا میں سفارت خانے نے اعلان کیا کہ ہم تین اسلامی اسکول تعمیر کرنے میں مد ددے رہے ہیں۔ فوجی معلوم کرتے ہیں کہ جنگجو کہاں مدرسہ کھولنے والے ہیں‘ پھر وہ وہاں اس سے پہلے پبلک اسکول اور دوسرے انفراسٹرکچر کے لیے مدد دیتے ہیں۔ امریکی حکام خاموشی سے مدرسے کے اساتذہ کی سائنس‘ سوکس اور صحت کی تدریس کی تربیت میں مدد رہے ہیں۔ سب سے بڑا پروگرام پاکستان میں روبہ عمل ہے جہاں حساسیت اتنی زیادہ ہے کہ امریکی امداد کا الزام اس بات کے لیے کافی ہے کہ والدین بچوں کو مدرسوں سے اٹھا لیں۔ ایجنسی پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم اور نجی فائونڈیشنوں کے ذریعے ایک ماڈل پروگرام پر عمل کر رہی ہے جس کے تحت ایک ہزار اسکول قائم ہوں گے۔
امریکا کے اعلیٰ افسران سمجھتے ہیں کہ انقلابی اسلام کی سیاست زدہ شکل امریکا کی سب سے بڑی نظریاتی دشمن ہے۔ امریکا اور اس کے حلیف خاموش کھڑے نہیں رہ سکتے۔ اس کام پر زیادہ توجہ کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں‘ مثلاً انڈونیشیا میں امریکی افواج کی طرف سے سونامی امداد کے بعد ایک سروے میں معلوم ہوا کہ امریکا کو ناپسند کرنے والوں کی شرح ۸۳ فی صد سے گر کر ۵۴ فی صد رہ گئی ہے۔ اسامہ بن لادن کی حمایت نصف رہ گئی ہے۔ یہ تصور کرنا حماقت ہوگا کہ آگے راستہ آسان ہے۔ اطلاعاتی جنگ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت جو اخراجات کیے جارہے ہیں وہ ناکافی ہیں۔
پٹیسریاہریشا‘ اسسٹنٹ سیکرٹری نے کہا کہ وہ یونانی بادشاہ sisyphusکی طرح ہے جس کو یہ سزا دی گئی تھی کہ وہ شہتیر کو پہاڑی پر لے جائے اور وہ پھر واپس آجاتا تھا۔ وہ کہتی ہے: ’’آپ کبھی فتح کا اعلان نہیں کریں گے کہ تاریخ کا اختتام ہوا‘ اب گھر چلے جائیں۔ شہتیر کو اُوپر اُوپر لیتے جائیں‘‘۔
دل و دماغ جیتنے کی اس پوری کارروائی پرہنسی آتی ہے۔ اس طرح بھی عقل ماری جاتی ہے‘ العیاذ باللہ! اگر امریکا جمہوری اقدار اور رواداری کے اپنے دعوئوں میں سچا ہوجائے‘ دوغلی پالیسی ترک کر دے‘ مسلم ممالک میں جمہوریت کو پنپنے دے‘ روڑے نہ اٹکائے‘ حسب مرضی نتائج کے لیے ڈالر نہ پھونکے‘ نتائج کو ملیامیٹ کرنے کے لیے فوج کی ننگی طاقت کو تھپکی نہ دے تو ۵۰ فی صد نفرت تو کم ہوجائے گی۔
اسلام اور مسلمانوں کو رواداری کا مخالف قرار دیا جاتا ہے‘ لیکن ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آپ ہماری گردن پر پائوں رکھ دیں‘ سینے میں گولیاں اتار دیں‘ مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹیں‘ (وہ کچھ کریں جس کی علامت آج ابوغریب اور گوانتاناموبے ہیں) اور ہم پھر بھی آپ کو خوش آمدید کہیں‘ سر آنکھوں پر بٹھائیں‘ یہ کیسی رواداری کی توقع ہے‘ (یہ تو غیرت کی موت ہے جس کا مظاہرہ ہمارے حکمران آپ کے سامنے کرتے رہتے ہیں)۔ کوئی غیرت مند مسلمان اسے خاموشی سے کیسے برداشت کرے (دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ خود امریکی قوم سے کوئی یہ سلوک کرے تو آپ پر کیا گزرے گی۔ ایک نائن الیون نے ہی آپ کے ہوش و حواس گم کر دیے ہیں‘ ہم کتنے نائن الیون روز سہتے ہیں)۔ اس رواداری کی توقع نہ کریں‘ لیکن حقیقی رواداری میں آپ اپنے کو مسلمانوں سے بڑھ کر نہ پائیں گے۔ اپنی افواج مسلم ممالک سے واپس بلالیں‘ ماضی کی ظلم پر برسرعام معافی مانگیں (ہم معاف کرنے میں بڑے فراخ دل ہیں لیکن کیا آپ کا اتنا بڑا دل ہے)۔ رہ گیا عورتوں کا مسئلہ‘ اس میں آپ رواداری برت لیں‘ ہم اپنے مذہب کے مطابق جو کچھ کرتے ہیں‘ اس میں رکاوٹ نہ ڈالیں‘ ہمارے اسکارف سے نہ بھڑکیں‘ اپنی غیررواداری کی روش ترک کردیں۔ یہ دل و دماغ جیتنے کا آسان نسخہ ہے جس میں خرچ نہیں‘ بچت ہی بچت ہے‘ اور انسانیت کے لیے سکون و فلاح بھی ہے۔ آپ نے تو دل جیتنے جیسے اچھے کام کی کوشش میں دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔
کیا امریکا میں کوئی تھنک ٹینک ‘ کوئی میڈیا کے بڑے‘ کوئی دانش ور‘ کوئی رجل رشید نہیں جو ان کو بتائے کہ دل جیتنے کے لیے دل بدلنا ضروری ہے۔ موجودہ دل و دماغ سے وہ دل و دماغ نہیں جیت سکتے‘ اور نہ امریکا دشمنی کی لہر کم کر سکتے ہیں‘ یہ بڑھتی ہی جائے گی۔
’’پاکستان میں خواتین کے کام کا لائحہ عمل‘‘ (مئی ۲۰۰۵ئ) میں جناب عبدالشکور نے خواتین کے لیے ایک چار نکاتی لائحہ عمل (خو اتین کا حقِ وراثت‘ عزت کے نام پر قتل اور محرکات کی روک تھام‘ ملازم پیشہ خواتین کا تحفظ اور خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ) تجویز کیا ہے۔
بلاشبہہ پاکستان جیسے نظریاتی اور اسلامی ملک میں اس طرح کے مسائل کا موجود ہونا ایک تشویش ناک امر ہے جس کے تدارک کے لیے سنجیدگی سے سوچا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں‘ چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
۱- یہ حقیقت ہر وقت پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ خواتین کے کام کا اصل دائرہ کار اُن کا گھر ہے۔ گھر کے میدان کو چھوڑ کر کسی دوسرے میدان کو ہدف بنانا مجبوری کی حالت میں تو ہوسکتا ہے‘ لیکن اپنے اصل ہدف کو نظرانداز کر دینا یا کسی دوسرے میدان میں اتنا آگے بڑھ جانا کہ واپسی کا راستہ نہ رہے‘ درست نہیں۔ بالخصوص سیاسی حوالے سے جہاں مرد حضرات اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں وہاں خواتین کو بہت زیادہ ملوث کرنا میرے نزدیک صحیح نہیں۔
۲- دیے گئے چاروں نکات مغرب کے لیے بہت زیادہ کشش رکھتے ہیں اور حقیقت میں یہ اُن کے ایجنڈے کا حصہ ہے کہ ان معاملات کو اتنا آگے بڑھایا جائے کہ بالآخر عورتوں کو مردوں کے مقابل بلکہ مخالف کھڑا کر دیا جائے۔ اس لیے مسئلے کی اہمیت اپنی جگہ‘ لیکن دوسروں کے بنائے گئے میدان میں ہمارا کھیلنا درست نہیں ہوگا۔ ہمیں ایسی حکمت عملی ترتیب دینا چاہیے کہ میدان بھی ہمارا اپنا ہو اور اہداف بھی ہمارے اپنے طے کردہ ہوں۔
۳- مثال کے طور پر ’’خواتین کے حق وراثت‘‘ کے لیے خواتین کتنا آگے جاسکیں گی؟ قرآن مجید میں خواتین کے حق وراثت کے بارے میں صراحت موجود ہے۔ ہمارے آئین اور قانون میں بھی اُن کا یہ حق محفوظ ہے اور خواتین کی ۹۰ فی صد سے زیادہ تعداد اس بات سے آگاہ بھی ہے کہ وراثت میں اُن کا حق ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مرد یہ حصہ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ پھر کیوں نہ یہ مہم مردوں کی طرف سے چلائی جائے کہ حق دار کو اُس کا حق ملنا چاہیے۔ جائزہ لیا جائے کہ دینی حلقوں کے گھرانوں میں یہ حق لازمی دیا جا رہا ہے یا نہیں۔
۴- اکثر عزت کے نام پر قتل کے واقعات کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس طرح اصل واقعہ ہوتا ہے۔ یہ مغرب کا ایجنڈا ہے کہ عورت کو مظلوم ہی ثابت کرنا ہے‘ چاہے وہ جو کچھ بھی کرتی رہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ غلطی لڑکی کی طرف سے ہو۔ اگر ایسا ہو تو اُس کے لیے سخت سزا تجویز کرنے میں کیا ہرج ہے کہ دوسری لڑکیوں کے لیے عبرت ہو۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کا ہے اور اگر لڑکی بے قصور ہے تو اُس کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ لیکن ذرا تصور کیجیے کہ ایک عورت اپنے سیاہ کرتوتوں سے پورے خاندان کی عزت کو پامال کرتی ہے اور بار بار سمجھانے کے باوجود سیدھے راستے پر نہیں آتی اور بالآخر گھر والے کوئی کارروائی کرتے ہیں۔ ایسے میں آپ لڑکی کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو آپ کا وزن کس پلڑے میں ہوگا؟ کیا ہمارا معاشرہ ہمارے اس کردار کو قبول کرے گا؟
۵- ’’خواتین کے تحفظ‘‘ کے حوالے سے جو فضا بنتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرہ بڑا بے حیا اور بے غیرت ہے اور عورت بے چاری بہت مظلوم ہے جسے حفاظت درکار ہے۔ یہی وہ فکر ہے جو مغرب دینا چاہتا ہے۔ کیا اس مہم کو ’’خواتین کے مسائل میں اُن کی مدد‘‘ کا عنوان نہیں دیا جاسکتا؟
اب چند گزارشات خواتین کے کام کے حوالے سے ہیں۔ مسلم خواتین کے کام کے لائحہ عمل کو درج ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱- گھر کا میدان ۲- دعوتی میدان ۳- سیاسی میدان۔
خواتین کا اصل دائرہ گھر ہے۔ ایک خاتون اگر اپنے گھریلو فرائض کو احسن انداز میں پورا کرتی ہے اور گھر کے محاذ کو سنبھال لیتی ہے تو اس سے بڑا کام اور کوئی نہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت‘ گھر کے نظام کی دیکھ بھال اور اپنی عزت و ناموس اور شرم و حیا کی حفاظت‘ یہ وہ بنیادی فرائض ہیں جن سے پہلوتہی‘ پورے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ اور رسولؐ نے اس کام کو جتنی اہمیت دی ہے اس کا اندازہ قرآن و سنت سے آگاہی رکھنے والے ہر شخص کو ہے۔
تعلیم: ۱-خواتین کی شرح خواندگی میں اضافے کے لیے جہاں سیاسی سطح پر منظم جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے وہاں موجودہ صورت حال کے پیش نظر مسلم خواتین کا بڑی تعداد میں شعبہ تعلیم کو اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔ تعلیم وتدریس کی اہمیت سے کسے انکار ہوسکتا ہے۔ اگر بچوں کے ذہنوں میں شروع ہی سے اللہ اور رسولؐ کا نقش بٹھا دیا جائے تو مغربی تہذیب کے بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک باعزت پیشہ بھی ہے۔ مہنگائی کا علاج بھی بڑی حد تک اس سے کیا جا سکتا ہے اور دعوتی حوالے سے بھی بہت آسانی سے کام کیا جا سکتا ہے‘ نیز اس کے نتائج بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے حکومت پرائمری اسکولوں میں صرف خواتین اساتذہ کی تقرری کے بارے میں غور کر رہی ہے اور پرائیویٹ اسکولوں میں تو پہلے ہی ایسا ہو رہا ہے۔ اس لیے کوشش ہونا چاہیے کہ تحریک سے تعلق رکھنے والی طالبات تعلیم سے فارغ ہوکر ترجیحاً تدریس کا پیشہ اختیار کریں۔
۲- خواتین اساتذہ میں کام کو منظم کرنے کی بڑی اشد ضرورت ہے۔ یہ پڑھا لکھا‘ اثرونفوذ رکھنے والا اور جلد تحریک سے وابستہ ہوجانے والا طبقہ ہے۔ عموماً اساتذہ برادری ہماری ترجیحات میں بہت پیچھے ہے۔ حالانکہ ان میں بہت کم وقت میں کام بہت زیادہ نتیجہ دے سکتا ہے۔
۳- ایسے تعلیمی اداروں کا قیام جنھیں خواتین چلائیں بہت ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف خواندگی میں اضافہ ہوگا‘ دعوتی کام بھی ہوگا اور معاشی وسائل بھی ہاتھ آئیں گے۔
۴- سلائی کڑھائی‘ ٹیوشن‘ کچن‘ بیوٹیشن اور نرسنگ کے ادارے بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر شعبہ جات جن میں خواتین حجاب کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی مفید کام سرانجام دے سکیں‘ قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ بنانا ممکن نہ ہو تو یہ کام گھروں کے اندر رہ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ گھروںکے اندر رہ کر بہت سے ایسے کام کیے جاسکتے ہیں جن سے کچھ آمدنی بھی ہو۔ کمپیوٹر پر کمپوزنگ اور دیگر کام تو مرد بھی گھر پر کر رہے ہیں۔
۵- قرآن و سنت کی تعلیم کے ادارے‘ مثلاً قرآن انسٹی ٹیوٹ وغیرہ بھی بڑی تعداد میں قائم ہونا چاہییں۔ جہاں مروجہ نصاب اور نظام کے علاوہ مختصر کورس بھی کروائے جا سکتے ہیں۔
۶- اپنے اپنے گھروں میں بچوں کی قرآن کلاسیں جو بے شک صرف ترجمے یا ناظرہ تک ہی محدود ہوں شروع کی جا سکتی ہیں۔ والدین کی اس وقت بڑی ضرورت بچوں اور بچیوں کو ناظرہ قرآن پڑھانا ہے۔ اس کے لیے ہماری تحریکی خواتین کو آگے آنا چاہیے۔ اس سے تحریکی مقاصد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
میڈیا: ۱- خواتین کے رسالوں کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ لیکن ہزارہا رسائل اور چینلوں کے مقابلے میں یہ چند رسائل کیا کردار ادا کریں گے؟ اور حال بھی یہ ہے کہ صرف چند ہی خواتین اہلِ قلم ہیں۔ ادب‘ طنزو مزاح‘ افسانہ نگاری‘ ناول نگاری‘ شاعری وغیرہ ہرچیز میں خواتین کا حصہ موجودہ میڈیا یلغار کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ہماری خواتین اگر گھروں میں بیٹھ کر صرف اس محاذ کو ہی سنبھال لیں تو بہت بڑی بات ہے۔
۲- تنظیمی سطح پر ایک بہت بڑی مہم کی ضرورت ہے کہ ہماری پڑھی لکھی خواتین خوب مطالعہ کرنے کے بعد میڈیا کے محاذ پر ڈٹ جائیں۔ مسلم تہذیب اور شناخت کے حوالے سے لکھے ہوئے مضامین‘ افسانے‘ ڈرامے اور ناول‘ نیز شاعری اگر ہم پوری قوت سے پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بے حیائی کی لہر کو حیا کی فطری قوت میں نہ تبدیل کردیں۔
حجاب کی تحریک: ۱- اپنی شناخت کوقائم رکھنے کے لیے اس تحریک کو زندہ رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ ہماری شناخت ہی نہیں ہماری تہذیب اور کلچر کی اساس بھی ہے۔ حجاب کی اہمیت‘ فرضیت اور شعور کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔ صرف حجاب کو عنوان بناکر مختلف سیمی نار منعقد کرانا‘ مقابلے (تقریری‘ تحریری‘ شاعری) منعقد کروانا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اس کی افادیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ حجاب مخالف قوتوں کے پروپیگنڈے کا بھی دلائل سے جواب آنا چاہیے۔
۲- جماعت کے اپنے اداروں‘ ہسپتالوں اور کاروباری دفاتر میں حجاب کو رائج کرنا بہت ضروری ہے۔ بالخصوص تعلیمی اداروں میں اس کا مکمل اہتمام ہونا چاہیے۔
۳- تحریکی گھرانوں میں یقینی بنایا جائے کہ پردے کی پابندی کی جائے بالخصوص شادی بیاہ کی رسموں اور غمی و خوشی کے مواقع پر اس کا خصوصی خیال رکھا جانا چاہیے۔
۴- عام تعلیمی اداروں‘ بالخصوص سرکاری تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کو مسلسل کوشش سے اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ نقاب کو بطور پالیسی کے نافذ کریں۔
قرآن ہماری بنیاد ہے۔ یہیں سے ہی ہمیں روشنی مل سکتی ہے۔ یہ اللہ کا اپنا کلام ہے اور اس کے اندر دلوں کو بدلنے کی بڑی تاثیر ہے۔ دروس قرآن میں خواتین کا بڑی تعداد میں شریک ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اُن میں قرآن کی دعوت کو قرآن کی زبان میں سننے کی طلب بہت ہے۔ مختلف گھروں کے اندر دروس کا انعقاد اور بالخصوص رسم و رواج کے مواقع کو دعوتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں اس دعوتی میدان کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ناظرہ قرآن‘ ترجمہ قرآن اور دینی حوالے سے مختلف قسم کی کلاسوں کا اہتمام ہمارے ہدف میں رہنا چاہیے۔
تحریکی خاندانوں کے آپس میں میل جول کے لیے مختلف قسم کی تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاسکتا ہے۔ کبھی کوئی پروگرام ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ عیدملن پارٹی میں ارکان جماعت کے اہلِ خانہ شریک ہوں۔ یہ سارے کام حجاب کی حدود کے اندر رہتے ہوئے کیے جائیں۔
۱- بیوائوں اور یتیم بچیوں کی کفالت کا انتظام کرنا۔
۲- سستے بازار‘ مفت یونی فارم‘کتب وغیرہ فراہم کرنا‘ نیز مستحق طالبات کے لیے وظائف کا اہتمام کرنا۔
۳- بے سہارا خواتین کے لیے ’’پناہ‘‘ جیسے اداروں کا قیام۔
۴- غریب بچیوں کے لیے جہیز فراہم کرنا۔
۵- لڑکیوں بالخصوص تحریکی گھرانوں کی لڑکیوں کی شادی کے انتظام میں معاونت کرنا۔
۶-شہدا کے گھرانوں کی خواتین اور بچیوں سے رابطہ اور امداد کا انتظام کرنا۔
۷- میٹرک پاس بچیوں کے لیے کسی ہنر یا ملازمت کا انتظام کرنا۔
۸- خواتین کی امداد کا ایسا شعبہ قائم کرنا جس سے خواتین گھر میں بیٹھ کر کوئی کام کریں اور اُن کی مالی مدد ہوجائے۔
۹- ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے مردانہ نظم کی معاونت سے کوشش کرنا۔ اگر اس طرح کا کوئی شعبہ خواتین ممبرانِ اسمبلی کی سربراہی میں مستقل کام کرے تو زیادہ بہتر ہے۔
۱۰- مظلوم خواتین کی داد رسی کے لیے بھی خواتین ممبران اسمبلی کی قیادت میں ایک مستقل شعبے کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔
۱۱- خواتین ممبران اسمبلی کو خواتین کے لیے الگ تعلیمی ادارے‘ تفریحی مقامات‘ ہسپتالوں میں مناسب سہولیات کی فراہمی‘ جیلوں میں قید خواتین کی مدد‘ مناسب سفری سہولیات‘ بیوائوں اور یتیم بچیوں کی مدد اور ثقافت کے نام پر بے حیائی پھیلانے کے تمام اقدامات کو اپنا موضوع بنانا چاہیے۔ نیز ملازمت پیشہ خواتین کے لیے مناسب قانون سازی کی طرف بھی قدم آگے بڑھانا چاہیے۔
۱۲- عالمی سطح پر مسلم خواتین کے حوالے سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور خواتین کی عزت و حرمت کے خلاف کیے جانے والے تمام اقدامات کا بروقت محاکمہ کرنا۔ نیز اسلامی تہذیب وثقافت کی فطری اقدار کو پیش کرنے کے لیے مختلف سیمی نار منعقد کرانا۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں درست نقطۂ نظر پیش کرنے کو یقینی بنانا‘ اسی حوالے سے اسمبلیوں میں قراردادیں پاس کرانا بھی بہت ضروری ہے۔
یمنی صدر کے بقول: ’’عرب حکمران اُونٹ کی طرح ہیں‘ طیش میں آجائیں تو قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے اور رام ہوجائیں تو بچہ بھی نکیل کھینچے پھرتا ہے‘‘۔ امریکا کی خاتون وزیرخارجہ نے اس تشبیہہ پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ کئی کئی عشروں سے اپنے عوام کی گردنوں پر سوار عرب حکمرانوں کو ایسا رام کیا ہے کہ حکم پر حکم صادر کر رہی ہے اور کسی کو چوں تک کہنے کی جرأت نہیں ہورہی۔ کونڈولیزا نے حالیہ دورئہ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی‘ اُردنی‘ مصری‘ سعودی اور صہیونی ذمہ داران سے بنیادی طور پر دو ہی باتیں کیں۔ مشرق وسطیٰ کا حل اور فوری اصلاحات تاکہ دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے۔
مشرق وسطیٰ کا حل تو صرف اسی صورت ممکن ہے کہ صہیونی ہاتھ‘ فلسطینیوں کی گردن پر امریکی تلوار تانے رکھیں‘ کیونکہ اسرائیلی افواج کے سربراہ کے تازہ بیان کے مطابق: ’’محمود عباس ہم سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ لیکن صرف اس صورت میں کہ اس کی گردن پر رکھی تلوار اسے اپنے تیزدھار ہونے کا یقین دلاتی رہے‘‘۔ محمود عباس سے بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق تحریکِ انتفاضہ کو غیرمسلح کریں۔ جن دہشت گردوں کی فہرستیں ہم دے رہے ہیں انھیں گرفتار کریں اور اگر شارون اپنی مرضی اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ’’بے مثال وسیع الظرفی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف غزہ سے انخلا جیسا ’’عظیم‘‘ کارنامہ انجام دے تو اس پر شادیانے بجائیں اور پوری دنیا کو باور کرائیں کہ اب صہیونی ریاست فلسطین کا مقبوضہ علاقہ نہیں اسرائیل ہے اور یہودی قوم ہماری دشمن نہیں عزیز و عظیم دوست ہے۔
رہیں اصلاحات تو یہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا اہم ترین حصہ ہیں‘ عراق اور افغانستان پر قبضے سے بھی زیادہ اہم۔ یہ الگ بات ہے کہ عراق میں ہونے والے بھاری جانی و مالی نقصانات کے باعث‘ وسیع تر اصلاحات کچھ تاخیر کا شکار ہوجائیں اور بالآخر سارا منظر ہی بدل جائے‘ لیکن فی الحال یہی سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے کہ مسلم ملکوں میں من مرضی کی مکمل تبدیلی کے بغیر ’’نام نہاد‘‘ دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں۔
کونڈولیزا رائس نے مختصر عرصے میں دوسری بار خطے کے حکمرانوں سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور انھیں ’’دوٹوک‘‘انداز میں کہا کہ وہ آزادانہ‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائیں۔ مصری دارالحکومت قاہرہ میں ایک پُرہجوم کانفرنس میں جب انھوں نے اپنا یہ حکم دہرایا تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اخوان المسلمون کے مرشدعام محمد مہدی عاکف نے کہا: ’’رائس نے حق بات کہہ کر باطل مراد لی ہے۔ انھوں نے مصری عوام ہی کا مطالبہ دہرایا ہے لیکن اس کا مقصد واقعی آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخاب نہیں‘ کمزور عرب حکومتوں سے مزید امریکی احکامات تسلیم کروانا ہے۔ عرب حکومتیں اپنے عوام کی بات پر تو کان نہیں دھرتیں لیکن دہرے معیار رکھنے والی امریکی انتظامیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔ امریکا بات تو جمہوریت‘ آزادیوں اور منصفانہ انتخابات کی کرتا ہے لیکن مسلم عوام پر خود وہ تمام مظالم ڈھاتا ہے جن سے اسرائیلی مفادات کی حفاظت و تکمیل ہوتی ہو‘‘۔
قاہرہ یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر حسن نافعہ نے بھی کونڈولیزا کے بیانات پر یہی تبصرہ کیا ہے کہ ’’رائس کے بیانات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ ان امریکی خواہشات کی ترجمانی کر رہی ہیں جو خطے پر امریکی قبضے کے استحکام کے لیے امریکی انتظامیہ کے دل میں مچل رہی ہیں۔ امریکا عرب ملکوں کے نظام نہیں‘ چند چہروں کو بدلنا چاہتا ہے‘‘۔
امریکا عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں لانا چاہتا ہے‘ مصر ہمیشہ کی طرح ان کا سرخیل ہے۔ نظام و نصاب تعلیم میں جو تبدیلیاں اب مسلم ممالک پر مسلط کی جارہی ہیں‘ مصرکیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے ان کا آغاز کرچکا ہے۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو ’’حلالی‘‘ تسلیم کرنے کی جو بات اب مسلم دنیا سے اٹھائی جارہی ہے‘ کیمپ ڈیوڈ اس معراج پر عشروں سے پہنچا ہوا ہے۔مختلف عرب ملکوں میں عوامی بیداری کی جو لہریں ہلکورے کھارہی ہیں‘ مصر میں سر سے اونچی ہورہی ہیں۔ وہی مصر جہاں صدر کے خلاف سرگوشیوں میں بھی بات کرنا ممکن نہ تھا اب کوئی دن نہیں جاتا کہ وہاں نئی سے نئی تنظیم وجود میں نہ آرہی ہو۔ مصری قانون کے مطابق تو عالم عرب کی سب سے بڑی تحریک اخوان المسلمون سمیت یہ سب تنظیمیں غیرقانونی ہیں‘ لیکن ان کے جلسے اور جلوس ملک کے طول و عرض کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔ زندگی کے ہر گوشے سے متعلق افراد نے اپنی الگ تنظیم اعلان کی ہے۔ اب ’’طلبہ براے تبدیلی‘‘، ’’کسان براے تبدیلی‘‘، ’’پیشہ ورافراد براے تبدیلی‘‘ حتیٰ کہ ’’فلمسٹار براے تبدیلی‘‘ کے نام سے نئی نئی تنظیمیں قائم ہورہی ہیں۔
کونڈولیزا نے بھی شاید مصر کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار حکمرانوں کے علاوہ اپوزیشن پارٹیوں کے نو نمایندوں سے بھی ایک اجتماعی ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں سب سے نمایاں‘ سب سے مؤثر اور حکومت کی تمام تر سختیوں اور کوششوں کے باوجو د ایوان پارلیمنٹ میں ۱۷ سیٹیں حاصل کرنے والی تحریک اخوان المسلمون کو دعوت نہیں دی گئی‘ اور کونڈولیزا نے باقاعدہ بیان دیا کہ ’’بش انتظامیہ اخوان سے رابطے میں نہیں ہے اور نہ اس کے ساتھ بات چیت کا ہی فی الحال کوئی ارادہ رکھتی ہے‘‘۔ اخوان المسلمون بھی امریکی وزیرخارجہ کی آمد سے پہلے اپنا یہ قدیم مؤقف دہرا چکے تھے کہ ’’اگر کسی بیرونی ملک کو ہم سے مذاکرات کرنا ہیں تو وہ مصری وزارتِ خارجہ کے توسط سے رابطہ کرے‘‘۔ شاید اس اعلان کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اخوان پر لاتعداد مظالم اس الزام کی آڑ میں ڈھائے گئے کہ یہ بیرونی طاقتوں کی آلۂ کار ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ اخوان کے اس واضح مؤقف کے باوجود اس کے خلاف یہ الزام اب بھی دہرایا جاتا ہے‘ جب کہ جو تنظیمیں اب وجود میں آرہی ہیں‘ جن سے امریکی حکمران باقاعدہ مذاکرات کر رہے ہیں‘ جن کا ایک فرد گرفتار ہوجائے تو پورا مغربی میڈیا احتجاج کا طوفان برپا کر دیتا ہے۔ امریکی یونی ورسٹی کے ایک سابق پروفیسر سعدالدین ابراہیم اور ’’الغد‘‘ پارٹی کے ایک لیڈر ایمن نور کی چند روزہ گرفتاری پر ان کا نام لے لے کر امریکی انتظامیہ سمیت مغربی ممالک نے احتجاج کیا اور بالآخر انھیں رہا کروا لیا۔ ان تنظیموں پر مغربی ممالک کا آلہ کار ہونے کا کوئی الزام نہیں ہے۔ حالیہ ماہ جون میں اخوان المسلمون کے ۸۵۰ افراد گرفتار ہوئے جن میں اخوان کے سیکریٹری جنرل سمیت کئی قائدین شامل تھے‘ مغربی دنیا میں کہیں سے کوئی صداے احتجاج سنائی نہیں دی۔ یہ رویہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ تمام امریکی و مغربی تجزیہ نگار و مبصرین اعتراف کرتے ہیں کہ ’’مصر میں جب بھی منصفانہ و آزادانہ الیکشن ہوں گے‘ اخوان المسلمون کا واضح طور پر جیت جانا یقینی ہے۔
تمام مبصرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ صدرحسنی مبارک اپنے ربع صدی کے دوراقتدار میں اس وقت کمزور ترین پوزیشن میں ہیں۔ سادات کے قتل ہونے سے لے کر اب تک صدر حسنی مصر کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘ تب سے لے کر اب تک ایمرجنسی نافذ ہے۔ صدر پرویز مشرف کی طرح ان کا بھی اصرار ہے کہ ترقی کا سفر جاری اور ملک کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایمرجنسی کی ’’وردی‘‘ ناگزیر ہے حالانکہ ان کے اقتدار کے تقریباً تین عشروں میں مصر کی ۶۰ فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ بے روزگاروں کی تعداد ۷۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ مصری بنکوں سے ۳۰ ارب پائونڈ لوٹے جا چکے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ ۵۵ ارب پائونڈ سے بڑھ چکا ہے۔ ۳۰۰ ارب پائونڈ مالیت کے سرکاری اثاثہ جات نج کاری کے ذریعے صرف ۱۶ ارب میں فروخت کر دیے گئے ہیں۔ اور اب حکومت کے پاس صرف ۱۸ ادارے باقی بچے ہیں۔
مایوسی اور ابتری کے اس عالم میں برطانیہ اور مصر کی دہری شہریت رکھنے والے ان کے بیٹے جمال مبارک کو ان کا خلیفہ بنانے کی کوششیں بھی عروج پر رہیں لیکن تمام امکانات کا جائزہ لینے اور کئی کوششوں میں ناکامی کے بعد حکومتی پارٹی اور شاید امریکی انتظامیہ کا فیصلہ یہی ہوا ہے کہ فی الحال حسنی مبارک ہی آیندہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا جیتنے والا گھوڑا ہوں گے۔ اگرچہ یہ امکان بھی اپنی جگہ پارہا ہے کہ انتخاب جیتنے کے چند ماہ بعد استعفا دے کر ہنگامی طور پر جمال ہی کو لایا جائے۔ ملک گیر مظاہروں اور سنگین عوامی اضطراب کے باوجود امریکا کا بدستور حسنی مبارک کے ساتھ کھڑے ہونا اور صہیونی ذمہ داران کا لگاتار صدر حسنی سے ملاقاتیں کرکے اس کی تعریفیں کرنا امریکی اصلاحات کے دعووں اور وعدوں کی قلعی کھول رہا ہے۔
معاملہ صرف مصر تک ہی محدود نہیں ہے‘ گذشتہ ۳۵ سال (۱۹۶۹ئ) سے برسرِاقتدار معمرالقذافی ہوں‘ گذشتہ ۲۷ سال (۱۹۷۸ئ) سے حکمران یمنی صدر علی عبداللہ صالح ہوں‘ مراکش‘ اُردن اور شام کے ملوک و صدور کی کئی کئی عشروں کی حکمرانی کے بعد اب ان کے صاحبزادوں کا اقتدار ہو یا خلیجی ریاستوں میں اقتدار کا تسلسل ہو‘ امریکا کا رویہ یکساں ہے۔ جمہوریت اور آزادیوں کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے‘ حکمرانوں کو ان کے اپنے ہی عوام کے غیض و غضب سے لرزاں اور ترساں کیا جاتا ہے‘ دورِ جدید کی اہم پیش رفت سیٹلائٹ چینلوں کے ذریعے انھیں وسطی ایشیا کی ریاستوں سمیت مغربی راے عامہ میں عوام کی قوت کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ سقوطِ صدام حسین کے مناظر بار بار دکھائے جاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا کا کسی بین الاقوامی یا اخلاقی ضابطے کو خاطر میں نہ لانا دکھایا جاتا ہے‘ افغانستان و عراق کے کھنڈرات اور مزید بم باری و خونخواری کی فلمیں چلائی جاتی ہیں۔ امریکی اور بالخصوص صہیونی ذرائع ابلاغ سے مسلم ممالک میں دندناتے نام نہاد دہشت گردوں کی موجودگی اور سراغ ملنے کی چنگھاڑتی خبریں سنائی جاتی ہیں اور پھر ہمہ پہلو تبدیلیوں کے لیے امریکی مطالبات کی فہرست تھما دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان ملکوں میں اپنی ڈھب کے مزید مہرے تیار کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے حالیہ دورے میں سعودی عرب سے اصلاحات کے پُرزور مطالبے کے ساتھ ہی ان تین افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا جو ان کے بقول اصلاح پسند ہیں اور سعودیہ میں جمہوریت چاہتے ہیں۔ کونڈولیزا اس حقیقت سے یقینا بے خبر نہیں ہوں گی کہ مصر کی جس سرزمین پر کھڑے ہوکر انھوں نے اپنا یہ مطالبہ دہرایا‘ اسی مصر کی جیلوں میں حقیقی اصلاح کے لیے کوشاں ہزاروں سیاسی قیدی اذیتیں جھیل رہے ہیں۔ اس کے پڑوس لیبیا میں سالہا سال سے ضمیر کے سیکڑوں قیدی لاپتہ ہیں‘ اس کے پڑوس تیونس میں کم و بیش ۱۵ ہزار سیاسی قیدی ۱۸‘۱۸‘ ۲۰‘۲۰‘ سال سے جیلوں میں ہیں اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کا علم ان کے اہلِ خانہ کو بھی نہیں ہے‘ اور خود جس سعودی عرب سے وہ تین اصلاح پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں وہاں ۱۹۹۰ء میں عراق کویت جنگ کے دوران امریکی افواج کی آمد کی مخالفت کرنے پر ہزاروں علماے کرام کو گرفتار کیا گیا تھا اور یہ گرفتاریاں امریکی خوشنودی کا موجب ٹھیریں اور کیا اب بھی وہاں صرف یہ تین ہی قیدی انصاف کے حق دار و منتظر ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گوانتاناموبے اور ابوغریب کی مہیب کالک اور ذلت منہ پر سجائے چند مخصوص افراد کی رہائی کا مطالبہ کرنا ‘ خود تو رب ذوالجلال کی مقدس ترین کتاب کی بے حرمتی کرنے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے انکار کرنا لیکن اوروں سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بات کرنا‘ کیا آپ کو خود اپنی ہی نظروں میں ذلیل نہیں کر دیتا۔
سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے کونڈولیزا کے ان مطالبات پر انھیں مخاطب کرتے کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں جو بھی اصلاحات کرنا ہوں گی اپنے عوام کی تمنائوں اور مرضی کی روشنی میںکریں گے۔ باہر سے تھونپی جانے والی اصلاحات ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہیں‘‘۔ تقریباً یہی بات یمنی صدر علی عبداللہ صالح نے ایک اور انداز سے کی تھی۔ انھوں نے عرب وکلا کے یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پتے کی بات کرتے ہوئے کہا: ’’ہم عالمِ عرب میںدوسروں سے زیادہ ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ پڑوسی ملکوں کے تعلقات آپس میں سخت کشیدہ لیکن ہزاروں میل دُور واقع دوسرے ممالک سے بڑے دوستانہ ہوں گے… ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک دوسرے کا خوف کیسے دُور کرسکتے ہیں…؟ ہمیں سب سے پہلے حاکم اور محکوم کے درمیان پایا جانے والا بُعد اور دُوری ختم کرنا ہوگی… ہمیں اپنے سیاسی نظام کی غلطیاں خود درست کرنا ہوں گی…اس سے پہلے کہ ہمیں باہر سے حکم نامہ موصول ہو… اس سے پہلے کہ دوسرے ہم پر اپنی تہذیب اور اپنے عوام کی خواہشات کے علی الرغم اصلاحات ٹھونسیں… ہمیں خود مطلوبہ اصلاحات کرنا ہوں گی کیونکہ ہماری ایک اساس اور شناخت ہے‘ جب کہ دوسرے صرف ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں‘‘۔
اپنے عوام کو عارضی طور پر مطمئن کرنے اور دوسروں کو جواب دینے کی حد تک تو یہ تقاریر خوب ہیں لیکن عوام تو عمل چاہتے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۶ء میں یمن میں بھی صدارتی انتخابات ہونا ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ علی عبداللہ صالح نے یہ انتخابی مہم کی تقریر کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عملی ’’اصلاحات‘‘ کے طور پر یمن میں پائے جانے والے ۴ ہزار دینی مدارس و مراکز کی چھان پھٹک بھی شروع کر دی ہے اور اس دوران ۱۴۰۰ مدارس بند بھی کر دیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی بدرالدین حسین الحوثی کی قیادت میں ایک مسلح شیعہ گروپ کے خلاف خونی کارروائیاں بھی کی گئی ہیں جس کے دوران ۵۰۰ افراد مارے گئے… یعنی اصلاحات کا وسیع تر عمل پورے عالمِ اسلام میں عروج پر ہے۔ لیکن مسلم حکمران اور خود امریکا یہ حقیقت جانتے ہیں کہ مسلم عوام میں تیزی سے نمو پاتا شعور اور امریکی انتظامیہ اور اس کے پٹھو حکمرانوں کے رخ سیاہ سے تیزی سے سرکتا پردہ اب کسی بڑی تبدیلی پر ہی منتج ہوگا___ حقیقی تبدیلی پر!
پاکستان کے کسی شہرکا کوئی بھی اخبار ہاتھ میں لیں‘ جرائم کی خبریں نظریں کھینچ لیتی ہیں۔ نت نئے جرائم‘ خصوصاً جنسی جرائم‘ اور وہ بھی بچوں کے خلاف ___اعداد و شمار جمع کرنے والے بالکل ناقابلِ یقین اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔ یہ کہانی صرف پاکستانی معاشرے کی نہیں‘ تیونس کے بارے میں المجتمع، کویت (۲۱ مئی ۲۰۰۵ئ) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ وہاں بھی حالات اچھے نہیں۔ والدین اخبارات میں شائع ہونے والی معصوم بچوں کی جرائم سے متعلق تصویریں اور خبریں دیکھ کر پریشان رہ جاتے ہیں کہ ان کے اپنے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا!
تقریباً تین سال قبل ایک لوک ورثہ فن کار کا ایک معصوم بچہ وحشیانہ جنسی تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ واقعہ مقامی ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں کا موضوع بنا رہا۔ اس فن کار کے ایک دوست نے اپنے بچے کو گھر تک چھوڑنے کے لیے کہاتھا مگر اس شقی القلب انسان نے اس بچے سے اپنی جنسی خواہش زبردستی پوری کی اور بعدازاں بھید کھلنے کے خوف سے اسے موت کے گھاٹ اتار ڈالا۔ کچھ عرصے بعد ایک نوجوان بچی کو اسکول سے واپسی پر راستے میں اغوا کرلیا گیا اور بے حرمتی کرنے کے بعد اسے مار ڈالا گیا اور اس کی لاش کو مسخ کر دیا گیا۔ ابھی چند ماہ قبل دو ۱۲ سال کی بچیوں کو‘ جب ان کی استانی نے کلاس میں تجربے کے بعد اسکول کے نزدیکی جوہڑ سے مینڈک لانے کو بھیجا تو انھیں اغوا کرلیا گیا۔ ان کی بے حرمتی کی گئی اور ان کے ہاتھ پائوں تاروں سے باندھ کر ان پر تشدد کیا گیا جس سے ان دونوں بچیوں کی لاشیں بھی مسخ ہوگئیں۔
تیونس کا معاشرہ اس لحاظ سے ایک ’مثالی‘ معاشرہ ہے کہ یہاں وہ سب کچھ نصف صدی قبل سے___ مشہور زمانہ حبیب بورقیبہ کے دور سے ہو رہا ہے جس کی طرف ہمارا آغاز کروایا جارہا ہے۔ آغا خاں بورڈ نے تیونس کے نصابات کو ہی قابلِ تقلید قرار دیا ہے۔ صدرمشرف براہ راست مشاہدے کے لیے تیونس بھجوائے گئے تھے۔ تیونس کہنے کو مغرب کا پیروکار ہے لیکن یہاں زین العابدین علی جیسے سفاک آمر کی حکومت ۱۸ برس سے قائم ہے اور اسلامی تحریکوں کے ہزاروں کارکن پابند سلاسل اور تعذیب کا شکار ہیں۔ جمہوری اقدار خواب و خیال ہیں۔
دوسری طرف معاشرے کی صورت حال یہ ہے کہ تشددکے حوالے سے ۱۹۹۹ء میں ۳۸ہزار ۷ سو ۲۸ مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے ۷۳ فی صد مردوں کے اور ۲۷ فی صد عورتوں کے خلاف تھے۔ ۲۰۰۰ء میں ان مقدمات میں ۷ فی صد کا اضافہ ہوا۔ آج کی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مغربی اقدار کی بلاروک ٹوک ترویج کے معاشرتی زندگی پر اثرات کا اندازہ ۱۹۲ خاندانوں کے سوشل ڈیفنس کے سروے سے ہوتا ہے۔ کل ۱۹۸ پرتشدد واقعات پیش آئے‘ جن میں سے ۷۸ماں کے خلاف تھے۔ ۲۳ واقعات عام توڑ پھوڑ کے تھے۔ ۴۲ باپوں کی طرف سے تھے کیوں کہ ماں نے والد کو بچوں سے ملنے سے منع کیا تھا۔ طلاق کی وجہ سے بچے ذہنی طور پر منتشر ہوگئے تھے۔ اس سے عائلی زندگی کی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تیونس کے اہلِ علم اور ماہرین اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں کہ جرائم کا رواج کیوں بڑھ رہا ہے؟ حیرت ہوتی ہے کہ دیوار پر لکھے اسباب پڑھنے کے بجاے‘ دُور دُور کی کوڑیاں لائی جاتی ہیں۔ مذہب کو زندگی سے بے دخل کر دیا گیا ہو‘ مغربی ٹی وی براہ راست دیکھے جا رہے ہوں‘ اور خود بھی اس کی نقالی سے بہتر نہ سوچ سکتے ہوں‘ شرم و حیا کی اقدار پالیسی کے تحت مٹائی جاتی ہوں‘ خیرکے علم بردار ظلم و جبر کا شکار ہوں اور بدی کے علم بردار سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہوں‘ تو یہ کڑوے کسیلے نتائج کیوں نہ آئیں گے۔
تیونس ایک مثال ہے۔ اس راستے پر متعدد مسلم معاشرے بگٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ سب جگہ انجامِ کار یہی حال ہوگا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ہمارا میڈیا دراصل مغربی معاشرے میں پروان چڑھاتا ہے۔ اس کو آئیڈیل کے طور پر پیش کرتا ہے‘ انھی کی خبریں سناتا‘ دکھاتا‘ پڑھاتا ہے۔ جرائم کی خبریں بھی امریکا و یورپ کی دیتا ہے (تاکہ ہم اس سے سیکھیں!) ۔اگر ہمارے ذرائع ابلاغ جرائم کی خبریں مسلم ممالک‘ مثلاً نائیجیریا‘ مراکش‘ انڈونیشیا‘ مصر‘ ملایشیا اور ازبکستان کی لائیں تو اُمت مسلمہ کے اتحاد کو کچھ نئی بنیادیں فراہم ہوسکتی ہیں۔
سوال: حضرت وائل بن حجر حضرمیؓ سے روایت ہے کہ طارق بن سویدؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ان کو شراب پینے سے منع فرمایا۔ انھوں نے عرض کیا کہ میں تواس کو دوا کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے(مسلم)۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہیومیوپیتھک ادویات الکوحل سے ہی بنتی ہیں اور اس کی طاقتوں کو بڑھانے کے لیے ۹۹فی صد الکوحل اور ایک فی صد دوا استعمال ہوتی ہے اور یہ بھی شفایابی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف دیکھاجائے (جو کہ بعض لوگ ہیومیوپیتھی کو صحیح ہونے کی دلیل دیتے ہیں) کہ ایلوپیتھک ادویات میں بھی کثیر مقدار میں الکوحل استعمال ہوتی ہے‘ جیسے سکون آور ادویات اور کھانسی کے شربت وغیرہ۔ سعودی عرب میں بھی شعبہ طب کے حوالے سے اسے صحیح نہیں سمجھا جاتا اور قانوناً اس کا استعمال جرم ہے۔ اس صورت حال میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی پریکٹس نہ کی جائے۔
میں نے شراب سے متعلق دیگر احادیث بھی پڑھی ہیں۔ ان کے مطابق صرف وہ شراب حرام ہے جو نشہ پیدا کرے۰ لیکن ہیومیوپیتھک ادویات نشہ نہیں پیدا کرتیں‘ بلکہ شفایاب کرتی ہیں۔ میں خود ہیومیوپیتھک ڈاکٹر ہوں لیکن اس مسئلے کی وجہ سے پریشان ہوں اور پریکٹس نہیں کر پارہی۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: دورحاضر کے علما نے تحقیق کے بعد اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ ایسی دوائوں کا استعمال جن میں الکوحل شامل ہو‘ جائز ہے۔ مفتی دارالعلوم دیوبند مفتی نظام الدین فرماتے ہیں: ابتدائی دور میں الکوحل شراب کا جوہر یا پھر شراب کی تلچھٹ ہوتا تھا‘ اس لیے فقہا نے اُسے شراب کے زمرے میں شمار کر کے اس کو ناپاک اور حرام قرار دیا تھا اور اس کے عمومی اور دوا میں استعمال کو ناجائز قرار دیا تھا۔ مگر اب الکوحل سائنٹفک طریقے سے بننے لگی ہے۔ اس طرح وہ شراب نہیں رہتی بلکہ سرکے کے حکم میں آجاتی ہے اس لیے اس کا استعمال جائز ہے‘‘۔ البتہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ الکوحل شراب کا جوہر یا تلچھٹ ہے تو پھر اس کا استعمال ممنوع ہوگا۔
مولانا گوہر رحمن فرماتے ہیں: الکوحل خود نشہ آور اور حرام ہے لیکن دوائوں میں استعمال ہونے والی الکوحل سے نشہ آور مادہ کیمیائی عمل کے ذریعے ختم ہوجاتا ہے۔ فقہا کی تصریح کے مطابق‘ شراب سے اگر سرکہ بنا لیا جائے تو اس کا استعمال جائز ہے۔ ناپاک تیل‘ ناپاک چربی اور مُردار کی چربی سے جو صابن بنایا جائے وہ انقلابِ ماہیت کے سبب پاک ہے۔ اسی طرح الکوحل ملی ہوئی دوائیوں کا استعمال بھی جائز ہونا چاہیے۔
شراب کی اصل حقیقت نشہ آور ہونا ہے‘ دوائوں میں ملانے سے نشہ آور ہونے کی خاصیت اڑ گئی تو شراب ہونے کی خاصیت بھی ختم ہوگئی اور صفت بدلنے سے حکم بھی بدل گیا۔ (تفہیم المسائل‘ ج اول‘ ص ۲۶۴)
لہٰذا آپ ہیومیوپیتھی طریقۂ علاج کو شرح صدر کے ساتھ جاری رکھیں۔ ہیومیوپیتھی دوائیں تیار کرنا‘ ان کا استعمال اور ان کی خرید و فروخت‘ سب جائز ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
س: ایک تحریکی ساتھی نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیرانتظام‘ اپنے ہاں عصری تعلیم کے لیے ایک اسکول بنوایا ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اپنے طور پر مخیر حضرات سے مرکزی اور صوبائی سطح پر زکوٰۃ‘ صدقات‘ اعانت اور چرم قربانی وصول کرتا ہے‘ جب کہ مذکورہ بالا تحریکی بھائی نے دارالقرآن اور المحصنات للبنات کے نام سے رسیدیں بنوا رکھی ہیں اور تحریکی قائدین سے اپنے کام کو بڑھانے کے لیے تزکیہ بھی لے رکھا ہے۔ مگر موقع پر نہ دارالقرآن کا وجود ہے اور نہ المحصنات للبنات کا۔ وضاحت فرمایئے :کہ ۱-کیا ایک ادارے کی رقم دوسرے ادارے پر خرچ ہوسکتی ہے؟
۲-کیا مخیرحضرات کی رقوم جو کہ خالصتاً دینی امور پر خرچ کرنے کے لیے دی جاتی ہیں غزالی اسکول کی تعمیروترقی پر خرچ ہو سکتی ہیں‘ جب کہ طلبہ و طالبات سے داخلہ فیس اور مناسب ماہانہ ٹیوشن فیس بھی وصول کی جاتی ہے؟
واضح رہے کہ مخیر حضرات اپنی رقوم دیتے وقت تخصیص بھی کرتے ہیں کہ اتنی رقم دارالقرآن کے لیے اور اتنی رقم المحصنات للبنات کے لیے مختص ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر یہ بھی صراحت فرمایئے کہ ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟
ج: زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں متعین کر دیے گئے ہیں۔ ان میں تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے۔ ان مدات میں ۱-فقرا‘ ۲-مساکین‘ ۳-عاملین زکوٰۃ‘ ۴- تالیف قلب‘ ۵- غلاموں کو آزاد کرنا‘ ۶- غَارِمِیْن‘ یعنی وہ لوگ جو قرض یا کسی دیگر مالی معاملے میں بوجھ تلے دبے ہوں‘ ۷-فی سبیل اللہ اور ۸- مسافر۔ (التوبہ ۹:۶۰)
فی سبیل اللہ میں جہاد‘ اقامت دین کی جدوجہد اور قرآن و حدیث کی تعلیم شامل ہے۔ لکھائی پڑھائی‘ اسکول‘ کالج اور یونی ورسٹی کی تعلیم جو مسلمان اور کافر سب حاصل کرتے ہیں وہ فی سبیل اللہ میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے غزالی اسکول زکوٰۃ کی رقم اپنی تعمیرات‘ اسکول کی ضروریات اور اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ کے لیے جمع نہیں کرسکتا۔
۲- جو رقم جس ادارے کے لیے حاصل ہو‘ اسے اسی ادارے پر صرف کرنا لازم ہے‘ اور اگر کوئی ادارہ موجود نہیں ہے اور اس کے نام پر زکوٰۃ جمع کر کے کسی دوسرے ادارے پر صرف کی جاتی ہے تو یہ بددیانتی اور خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح کی برائی کا فی الفور خاتمہ کرنا چاہیے۔ جو صاحب اس کے مرتکب ہوں ان کے لیے پہلا حکم تو یہ ہے کہ رقم واپس کریں‘ تاکہ اسے اُس ادارے پر صرف کیا جائے جس کے لیے رقم اکٹھی کی گئی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ رقوم دینے والوں کو واپس کی جائیں۔ اس کے بعد وہ جس مصرف کے لیے دینا چاہیں‘ ان سے اس مصرف کے لیے وصول کریں اور اسی میں صرف کیا جائے۔(ع - م)
س: مجھے عمرے کی سعادت بفضل خدا تعالیٰ نصیب ہوچکی ہے۔ حرم پاک میں گزرے ہوئے لمحات و واقعات اور عبادات کا انہماک یہی وہ جذبہ ہے جو حج کے لیے بار بار اُکسا رہا ہے۔ مگر وسائل کی کمی آڑے آرہی ہے۔ چنانچہ درج ذیل صورتوں میں اگر وسائل میسرآسکیں تو ان کے استعمال سے حج شرعاً جائز ہوسکتا ہے یا نہیں۔
۱- جی پی فنڈ سے رقم نکلوا کر حج کرنا۔
۲- ایڈوانس تنخواہیں لے کر ۔ آج کل بنک ایڈوانس تنخواہ دیتے ہیں جس پر ۱۱ یا ۱۴ فی صد سود لیتے ہیں۔
۳- اپنی کوئی ذاتی ملکیت کی چیز رہن رکھ کر‘ مثلاً زرعی رقبہ‘ رہن رکھنا یا بیوی کی اجازت سے اُس کے زیور رہن رکھنا۔
ج: عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد حج مبرور کی طلب اور تڑپ مبارک ہو!
اللہ تعالیٰ نے اپنے جس بندے کو اپنے گھر میں بلانا ہوتا ہے‘ اس کے دل میں اپنی اور اپنے گھر کی محبت پیدا کر دیتے ہیں اور جب محبت شباب کو پہنچتی ہے تو بلاوا آجاتا ہے اور اسباب و وسائل بھی میسر آجاتے ہیں۔ حلال اور طیب مال سے حج کی سعادت حاصل کرنے کی فکر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ آپ کو حج کی سعادت بھی عطا فرما دیں گے۔ آمین!
جہاں تک آپ کے سوالات کا تعلق ہے تو مختصر جواب یہ ہے کہ جی پی فنڈ میں ملازم کی تنخواہ اورادارے کی طرف سے اس کے برابر جمع کردہ رقم تو اس کی ملازمت کا عوض ہے۔ اگر وہ اتنی مقدار میں مل سکتی ہو کہ اس سے حج کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہو اور حج سے واپسی تک‘ اہل و عیال کے نان و نفقہ کا انتظام بھی موجود ہو‘ توپھر اس رقم سے حج کیا جا سکتا ہے۔ جی پی فنڈ میں ملازم اور ادارے کی طرف سے جمع کردہ رقم تو سود کے شائبے سے پاک ہے‘ اس کو وصول کرنا اور اس سے حج کرنا تو بلاشبہہ جائز ہے۔ البتہ ادارہ اس رقم کو بنک میں جمع کر کے اس پر سود بھی حاصل کرتا ہے اور جب ملازم کو وہ جی پی فنڈ جاری کرتا ہے تو اس میں یہ رقم بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کے سود ہونے کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ رقم سود کے نام سے ادارے کو ملی ہے اور ادارہ اس رقم کو اسی نام سے ملازم کو دیتا ہے۔ لہٰذا اس رقم کو مصارف حج میں شامل نہ کیا جائے بلکہ مستحق فقرا پر صدقہ کر دیا جائے۔ اس لیے کہ سود کی اس رقم کے اصل حق دار تو وہ لوگ ہیں جن سے جی پی فنڈ کی رقم پر سود حاصل کیا گیا ہے۔ لیکن ان افراد کا پتا چلانا ممکن نہیں ہے اور شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جب کسی مال کا مالک معلوم نہ ہو تو وہ ’’لقطہ‘‘ (گری پڑی چیز) کے حکم میں ہوتا ہے۔ ایسے مال کو اصل مالک کی طرف سے فقرا اور مساکین کو دے دیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ رقم ادارہ اور بنک میں نہ چھوڑی جائے بلکہ اسے ادارے سے لے کر فقرا کو دے دیا جائے۔ سود کی رقم کو فقرا کو دینا ان لوگوں تک پہنچانے کے مترادف ہوگا جن سے اس جی پی فنڈ کی رقم پر سود لیا گیا ہے۔
۲- ایڈوانس تنخواہ پر ۱۱ یا ۱۴ فی صد سود دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا حج کے لیے اس صورت کا تصور ذہن سے نکال دیجیے۔
۳- اسی طرح رہن رکھ کر بنک سے قرض لینے پر بھی سود لیا جاتا ہے اس لیے یہ بھی ناجائز ہے۔ یہ بات ہم سب کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ حج کا مقصد تو اللہ تعالیٰ کی محبت میں لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف احرام کی حالت میں نکل کھڑے ہونے کا نام ہے۔ لہٰذا خبیث اور ناپاک مال کو حاصل کرنا‘ پھر اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار کرنا‘ اللہ تعالیٰ سے دعواے محبت کے منافی بلکہ دین کے ساتھ استہزا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کو آدمی اپنے دل میں اس طرح پرورش دے کہ سودی رقم سے حج کر کے بے اعتدالی اور بے راہ روی کا شکار نہ ہوجائے۔
نہ صرف حج‘ بلکہ تمام دینی و دنیاوی کاموں میں سود کی رقم کے استعمال سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔(ع - م)
س:’’رسائل و مسائل‘‘ (جنوری ۲۰۰۵ئ) میں ’’خواتین اور دعوت دین میں رکاوٹیں‘‘ کے تحت پیش کی گئی رائے سے اتفاق نہیں۔ والدین اگر بچیوں کو یونی ورسٹی میں حصولِ تعلیم کی اجازت نہیں دیتے تو بجا ہے۔ اس لیے کہ جامعات کا عربی اور قرآن و سنت کے حوالے سے معیار ناقابلِ اطمینان ہے‘ جب کہ دینی مدارس اس حوالے سے ایک معیار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ عموماً جامعات کی تعلیم لادینی اور مخلوط ماحول میں ہوتی ہے جو شرعاً صحیح نہیں اور والدین کے لیے عدمِ اطمینان کا باعث بھی ہے۔ لہٰذا خواتین کے لیے دینی مدارس کو ترجیح دینا ہی بہتر ہے۔ خواتین کا بنیادی فریضہ گھر اور بچوں کی تربیت ہے‘ جب کہ ہمارے ہاں تعلیم ملازمت کے حصول کے لیے حاصل کی جاتی ہے۔ چنانچہ یونی ورسٹی وغیرہ میں خواتین کے حصولِ تعلیم پر اس قدر زور دینا مناسب نہیں۔
ج:کسی بھی شخص کو دلیل اور تجزیے کی بنیاد پر کسی بھی رائے سے اختلاف کا پورا حق ہے۔ لیکن دینی مدارس اور سرکاری یا غیر سرکاری جامعات سے سندِفراغت لینے والے‘ عربی اور اسلامیات کے شعبوں کے طلبہ و طالبات کی علمی صلاحیت کے بارے میں عمومی فتویٰ شاید کچھ زیادتی ہے۔ میرے اپنے طلبہ میں ایسے افراد شامل ہیں جو کسی دینی مدرسے سے فارغ نہ تھے‘ لیکن انھوں نے ایم اے کا مقالہ عربی زبان میںتحریر کیا جسے عرب ممتحنین نے جانچا اور معیاری قرار دیا۔ ان طلبہ اور طالبات میں سے بعض اس وقت اندرون و بیرون ملک تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ہاں‘ یہ بات درست ہے کہ سرکاری جامعات میں ایم اے اسلامیات کے نصاب میں چونکہ عربی پر عبور نہ شرط ہے اور نہ اس کے لیے دوران تعلیم کوئی اہتمام کیا جاتا ہے اس بنا پر کسی کا اسلامیات میں کسی جامعہ سے ایم اے کرنا‘ عربی پر عبور کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ گذشتہ ۳۵ برس میں جن فارغ التحصیل حضرات کے انٹرویو مَیں نے خود کیے ہیں‘ ان میں یہ معاملہ محض سرکاری جامعات نہیں‘ بلکہ خود دینی مدارس سے فارغ التحصیل حضرات کے ساتھ بھی پیش آیا ہے اور وہ عربی میں تقریباً یکساں معیار کے پائے گئے ہیں۔ الا ماشاء اللہ!
میری گزارشات نظری نہیں‘ بلکہ عملاً تین دہائیوں سے زائد عرصے سے شعبۂ تعلیم سے وابستگی کی بنا پر ہیں۔
جامعات کے ماحول کا مجھے پوری طرح علم ہے لیکن کیا اس بنا پر اصلاح کے عمل کا آغاز ہی نہ کیا جائے۔ کیا اس ملک میں ایسی ہزاروں لاکھوں بچیاں آج موجود نہیں ہیں جو انھی جامعات سے مختلف مضامین میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ‘ اسلام کی دعوت دینے اور اس پر خود عامل ہونے کی اعلیٰ مثالیں پیش کرتی رہی ہیں‘ اور آج انھی میں سے بعض‘ پارلیمنٹ میں اسلامی تشخص کے ساتھ ملک کے معاشرتی‘ سیاسی‘ تعلیمی اور معاشی مسائل پر‘ بربناے علم و تجربہ مناسب مشورہ دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
والدین کے نقطۂ نظر سے اپنی اولاد کا تحفظ اور خصوصاً دین و حیا کی فکر ایک فطری امر ہے لیکن یہ سمجھنا بے بنیاد ہے کہ ہر طالبہ جو یونی ورسٹی میں داخلہ لے گی معصیت کی مرتکب ہوکر رہے گی‘ اور ہر وہ طالبہ جو بی اے یا میٹرک کرکے گھر میں بیٹھ رہے گی‘ لازماً تقویٰ‘ علم اور معروف کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوگی۔
بلاشبہہ‘ اسلام نے ایک معاشرتی ترجیحی حکمت عملی تجویز کی ہے۔ لیکن خود گھر کے اندر اسلام پر عمل کرنے اور کرانے کے لیے بھی خاتونِ خانہ کو اعلیٰ ترین تعلیم کی ضرورت ہے۔ اسلام نے عورت کو نہ صرف اس کی اجازت دی‘ بلکہ ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے دین‘ نسل اور عقل کے تحفظ کے لیے علم حاصل کرے۔
ممکن ہے بعض صورتوں میں ایسا ہی ہو کہ یونی ورسٹی میں تعلیم کا مقصد محض اسناد کا حصول ہے۔ لیکن چند افراد کی اس محدود اور جامد فکر کی بنا پر مصالح عامہ کے خلاف‘ خواتین کو حصولِ علم کے اعلیٰ مواقع سے محروم کر دینا دین کے مقاصد کے منافی ہے۔ اگر موجودہ تعلیمی مراکز میں بعض پہلو کمزور ہیں تو اس کمی کو دُور کیجیے‘ جامعات کے معیار کو بلند کیجیے‘ وہاں ایسے اساتذہ لایئے جو علم پر پورا عبور رکھتے ہوں۔ طالبات کے لیے ایسی جامعات بنایئے جہاں پورے کا پورا عملہ صرف خواتین پر مشتمل ہو۔ لیکن جب تک یہ سارے کام بحسن و کمال پورے نہ ہو جائیں‘ طالبات کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کرنے کی غلطی نہ کریں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
ایک سیرت نگار کی حیثیت سے‘ شاہ مصباح الدین شکیل کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ اس موضوع پر ربع صدی سے تحقیق و تصنیف میں مصروف ہیں۔ ان کی سیرتِ احمد مجتبٰی ؐکو صدارتی اوارڈ ملا‘ بعدہٗ انھوں نے سیرت النبیؐ البم شائع کیا ‘ اب اسے زیادہ بہتر صورت میں نئے نام نشاناتِ ارضِ قرآن سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب قرآن پاک میں مذکور مختلف انبیاے کرام‘ان کے متعلقہ علاقوں‘ مقامات‘ عمارتوں اور مختلف النوع آثار کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ اسے عکسی تصویروں کے ساتھ ساتھ‘ نقشوں اور دیگر دستاویزات کے ذریعے ایک دل چسپ البم کی شکل دی گئی ہے۔ آغاز حضرت آدم ؑسے ہوتا ہے۔ سری لنکا کے کوہِ آدمؑ کے بعد حضرت ہابیل کے مزار واقع دمشق‘ جدہ میں حضرت حوا کے مزار‘ عرفات اور جبلِ رحمت کے ساتھ ساتھ‘ جدہ کے موجودہ مناظر اور ایک سو یا سوا سو سال پہلے کی مختلف تصاویر‘ مسجدخیف کی تصویر (جہاں ایک روایت کے مطابق تیس سے زائد انبیا مدفون ہیں۔) اسی طرح حضرت ادریس ؑ، حضرت ہود ؑ، حضرت صالحؑ، حضرت ابراہیمؑ اور اس ضمن میں مطاف‘ بابِ کعبہ‘ مقامِ ابراہیم‘ غلافِ کعبہ‘ غسلِ کعبہ اور مسجدحرام سے متعلق نئی پرانی بیسیوں تصاویر شامل ہیں۔ کتاب میں حضرت لوطؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت اسماعیل ؑاور حضرت یعقوبؑ کے آثار و مزارات کی تصویریں اور بیت المقدس کی بہت سی تصویری جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں‘ وعلیٰ ہذا القیاس۔
جناب مصباح الدین شکیل نے نئی پرانی‘ چھوٹی بڑی اور سادہ و رنگین نادر تصاویر کی فراہمی پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ بلکہ موضوع سے متعلق تاریخی حقائق‘ واقعات اور ضروری تفصیلات بھی مہیا کی ہیں۔ اس طرح یہ کتاب قدیم و جدید دور کی ایک بیش بہا تاریخی اور تصویری دستاویز بن گئی ہے جس کی ترتیب میں آیاتِ الٰہی‘ احادیثِ نبویؐ اور جغرافیائی معلومات سے مدد لی گئی ہے۔ ہر صفحے کے نیچے ایک شعر دیا گیا ہے جو صفحے کے نفس مضمون کی رعایت سے ہے۔ اس کا اپنا ایک الگ لطف ہے۔
اس جامع مرقعے کی اہمیت‘ اس لیے بھی ہے کہ اس میں جزیرہ نماے عرب اور فلسطین سے متعلق بیسیوں ایسے آثار کی تصویریں شامل ہیں جو اب معدوم ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں‘ حفیظ تائب اور محمد ابوالخیر کشفی کی تقاریظ شامل ہیں۔ معروف سیرت نگار جناب طالب الہاشمی کہتے ہیں: اس البم کو دیکھ کر آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں اور روح جھوم اُٹھتی ہے۔ شاہ صاحب نے اسے مرتب کرنے میں بڑی ژرف نگاہی اور تحقیق و تفحّص سے کام لیا ہے۔
افسوس ہے کہ اس حسین و جمیل مرقعے پر قیمت درج نہیں۔ لیکن قیمت جو بھی ہو‘ ہر مسلمان گھرانے میں‘ جہاں مطالعے سے کچھ بھی دل چسپی یا رغبت پائی جاتی ہو (اور دین سے وابستگی تو الحمدللہ‘ ہوتی ہی ہے)‘ اگر یہ البم مہیا ہوجائے تو افراد خانہ‘ خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کی معلومات میں بے حد اضافہ ہوگا‘ ان شاء اللہ! عازمین حج و عمرہ‘سفر سے پہلے اسے پڑھ لیں تو وہاں پہنچ کر زیادہ اپنائیت اور موانست محسوس کریں گے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سورۂ یٰسٓ اپنے فضائل اور مضامین کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اسے بجا طور پر قرآن کا دل کہا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کا فہم حاصل کیا جائے تاکہ اس کے حقیقی فیوض و برکات سے استفادہ کیا جا سکے۔
محترم خلیل الرحمن چشتی نے سورۂ یٰسٓ کا ایک منفرد مطالعہ پیش کیا ہے۔ تمام آیات کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے انھیں مختلف عنوانات دیے گئے ہیں۔ یہ حقیقی مفہوم تک پہنچنے میں بہت معاون ہے۔ مختلف آیات کو مرکزی مضمون توحید و آخرت سے مربوط کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے اور علوم القرآن کی مختلف اصناف کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سورہ کے اہم مضامین اور مطالب کو نمایاں کرنے اور فہم کو عام کرنے کے لیے ۸۸ ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔
آیات ۱۳ تا ۳۲ کی روشنی میں سچے حقیقی مومن کی ۱۰ صفات اخذ کی گئی ہیں۔ یہ انداز جہاں اچھوتا ہے وہاں عملی پہلو رکھتا ہے اور مطلوب بھی ہے۔
سورۂ یٰـسٓکا یہ مطالعہ فکرافزا اور ہر اس شخص کے لیے مفید ہے جو قرآن فہمی کا ذوق رکھتا ہو اور اسے مزید جِلا بخشنا چاہتا ہو۔ (ڈاکٹر سید منصورعلی)
مصنف نے قرآن میں مذکور حیوانات کا تعارف‘ ان کی نوعیت اور انسانی زندگی میں ان کی اہمیت و افادیت کو بڑے جامع اور خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کی تالیف میں مولانا عبدالماجد دریابادی کی کتاب حیواناتِ قرآنی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن سے استفادہ کیا ہے۔
قبل ازیں اس موضوع پر مصنف کی تین کتابیں اُردو اور پشتو میں شائع ہوچکی ہیں۔ حیوانات کے اس تذکرے میں مؤلف نے واضح کیا ہے کہ جانور‘ انسان کے لیے عطیّہ خداوندی اور بیش بہا نعمت ہیں مگر ان سے ہمارا سلوک انتہائی نامناسب بلکہ سفّاکانہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم جنگلی حیوانات کو تحفظ فراہم کریں اور ان کے ساتھ بدسلوکی سے باز رہیں تو اُن سے بہتر طور پر مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ اس طرح اپنی عاقبت بھی سنوار سکتے ہیں۔
مصنف کا خیال ہے کہ انسان کے برعکس جانور کبھی قانونِ فطرت کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور وہ اس کی پابندی سے خداے واحد کی عبادت اور تسبیح کرتے ہیں۔ مؤلف نے مختلف مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ جانوروں کا وجود انسان کو دعوتِ غوروفکر دیتا ہے۔ پیشِ نظر کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان اور حیوان کا رشتہ ازل سے قائم ہے۔
مجموعی طور پر کتاب دل چسپ اور لائقِ مطالعہ ہے۔ (اے ڈی جمیل)
شمائل ترمذی ، حدیث کی وہ مشہور کتاب ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا کے بارے میں روایت کی گئی تمام احادیث کو یکجا کر دیا گیا ہے اور ان احادیث میں اتنی تفصیل ہے کہ انسان حیران ہوجاتا ہے اور وہ رسول اکرمؐ کے رفقاے کرام یعنی صحابہؓ کے بارے میں سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ انھوں نے کیمرہ اور فلم نہ ہونے کے باوجود اپنے محبوبؐ کی تصویر اتنی جزئیات کے ساتھ محفوظ کی ہے کہ آج برسوں گزرنے کے بعد بھی ہم آپؐ کو گویا کہ نظروں کے سامنے پاتے ہیں۔ سر کے بالوں سے لے کر قدموں تک‘ کیا چیزہے جو بیان نہیں کی گئی۔ میں نے ایک صفحہ کھولا تو عنوان ملا: انگلیاں‘ پوٹ‘ تلوے اور قدمین مبارک۔ دوسرا صفحہ دیکھا تو عنوان ہے: المسربۃ (حلقوم کے نیچے گڑھا) سے ناف تک بالوں کی باریک لکیر۔ اسی طرح آپؐ کی آنکھوں کے بارے میں‘ ہونٹوں کے بارے میں‘ گردن اور بازوئوں کے بارے میں مشاہدہ کرنے والوںنے ہر تفصیل بیان کردی ہے۔ اسی طرح چال ڈھال اور دیگر معمولات کھانے پینے‘ رفع حاجت کے طریقے تک کی تفصیل نظر آئے گی۔ مجلد خوب صورت پہلی کتاب میں مولانا عبدالقیوم حقانی نے شمائل ترمذی کی ۴۸ احادیث اور دوسری میں ۱۲حدیث کی تشریح کی ہے اور یوں جمال محمدؐ کا دلربا منظر پیش کر کے روئے زیبا کی تابانیاں دکھا دی ہیں ؎
اِذَا نَظَرْتُ اِلٰی اَسِـرَّۃِ وَجْھِہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَھَلَّلِ
جب میں نے اس کے روے تاباں پر نگاہ ڈالی تو اس کی شانِ رخشندگی ایسی تھی جیسے کہ کسی لکۂ ابر میں بجلی کوند رہی ہو۔ (مسلم سجاد)
قارئین میں ابھی کچھ لوگ ایسے ضرور ہوںگے جنھوں نے جناب اے کے بروہی (م: ۱۹۸۷ئ) کو سنا ہوگا۔ ان کی انگریزی تقریر کا لطف سننے والوں کے لیے اب بھی تازہ ہوگا۔ انگریزی میں بیان پر ان کی قدرت‘ ان کا نرم و شیریں لہجہ اور اتارچڑھائو کے ساتھ دریا کے بہائو جیسی روانی‘ اور پھر بلند اور اعلیٰ مضامین! عدالت میں انھیں سننے کا موقع ملا اور دانش وروں کے اجلاس میں بھی۔ انھوں نے ۶اور ۷ مارچ ۱۹۷۶ء کو فیصل آباد (اس وقت کے لائلپور) میں سیرتؐ کے موضوع پر دوتقاریر کیں جن کا موضوع یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے معلم تھے اور آخری نبی تھے۔ اس سادہ سی بات کو جناب بروہی صاحب نے جس طرح پیش کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے اور اس کا لطف حقیقی انگریزی جاننے والے اسے پڑھ کر ہی اٹھا سکتے ہیں۔ یہ خطبات زرعی یونی ورسٹی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد نے رفقا کے تعاون سے شائع کیے ہیں۔ (م - س)
سماجی بہبود‘ تہذیب و معاشرت کا ایک اہم موضوع ہے۔ مسلمانوں میں بھی سماجی بہبود کی روایت نہایت پختہ رہی ہے لیکن آج ہم اس موضوع کو مغرب میں سماجی بہبود کے تناظر ہی میں دیکھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و احادیث اس ضمن میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس نے زیرنظر تصنیف میں‘ ہمیں یہی سبق یاد دلایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے خاصے تحقیقی انداز میں موضوع کا احاطہ کیا ہے اور ان تمام سماجی سرگرمیوں کی نشان دہی کی ہے جو سماجی بہبود کی ذیل میں آتی ہیں۔ انھوں نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سماجی بہبود کی اہمیت اور رفاہِ عامہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی اقدامات کی نشان دہی کی ہے مثلاً: معاشرے میں فروغِ علم‘ علاج معالجہ اور بیماروں کی عیادت‘ معذور افراد کی مدد‘ حیوانوں کی فلاح و بہبود‘ ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ‘ پانی کا انتظام اور شادی کا انتظام وغیرہ۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ عمل اور قابلِ قدر کتاب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
زیرنظر فہرست جناب ضیاء اللہ کھوکھر کے ذاتی کتب خانے میں موجود ۱۳۰۰ سفرناموں کی فہرست ہے۔ پہلے‘ بہ اعتبارِ اسماے کتب‘ الفبائی ترتیب سے سفرناموں کی مختصر فہرست (نام کتاب‘ نام مصنف‘ مقام اشاعت) دی گئی ہے‘ بعدہٗ دوسری (بہ اعتبارِ مصنفین) فہرست میں مزید کوائف (ناشر‘ سنہ اشاعت‘ ضخامت‘ نام ملک) بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آخری حصے میں ایسی کتابوں کی فہرست ہے جن میں کچھ جزوی سفرنامے ہیں یا سفرناموں سے اقتباسات یا انتخاب یکجا کیے گئے ہیں--- ’’اشاریہ‘‘ زیرنظر کتاب کی اضافی مگر اہم خوبی ہے‘ اس کی مدد سے قاری کسی خاص ملک کے سفرناموں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے‘ مگر یہ اشاریہ قاری کی صرف جزوی رہنمائی کرتا ہے‘ مگر اس ضمن میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ:
اوّل: اشاریہ صرف ۱۹ عنوانات (تراجم‘ مترجم (نامعلوم) مرتبہ‘ منظوم‘ خواتین‘ حرمین شریفین (حج و عمرہ)‘ پاکستان/آزاد کشمیر‘ بھارت‘ امریکا‘ ایران وغیرہ) پر مشتمل ہے۔ باقی بیسیوں ممالک بہت سے علاقوں اور بعض شہروں کے عنوانات اشاریے میں نہیں بنائے گئے۔
دوم: اشاریے میں پہلی فہرست کے بجاے دوسری فہرست (بہ اعتبار اسماے مصنفین) کا حوالہ دینا بہتر تھا۔
سوم: اشاریے میں دو دو عنوانات (حج /عمرہ‘ پاکستان/آزاد کشمیر‘ سوویت یونین/ روس) کے تحت حوالوں کو ملانا مناسب نہ تھا‘ مثلاً: پاکستان/ آزاد کشمیر کے تحت ۱۲۹ حوالے دیے گئے ہیں۔ اگر قاری صرف آزاد کشمیر کے سفرناموں تک رسائی چاہتا ہے تو اُسے یہ سب ۱۲۹ حوالے دیکھنا ہوں گے حالانکہ آزاد کشمیر کے سفرنامے‘ ممکن ہے/مثلاً: صرف ۲۹ یا اس سے بھی کم ہوں۔
اس سے قطع نظر مؤلف نے یہ فہرست بہت محنت و کاوش اور سلیقے سے مرتب کی ہے اور ان کی یہ کاوش ہر لحاظ سے قابلِ داد ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ انھوں نے یہ کام‘ کسی منصبی مجبوری سے یا کسی ڈگری کے لیے نہیں‘ بلکہ ذاتی ذوق و شوق سے انجام دیا ہے--- یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اپنے والد ماجد عبدالحمید کھوکھر مرحوم کی یاد میںقائم کردہ ان کا کتب خانہ ۳۰ ہزار سے زائد کتابوں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ رسائل و جرائد پر مشتمل ہے۔ مادہ پرستی کے اس دور میں کتب اندوزی کا یہ غیرنفع بخش شغف‘ عشق و دیوانگی کی ایک نادر مثال ہے۔
یہ ایک دل چسپ اور قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ سرورق جاذبِ نظر اور طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ متعدد سفرناموں کے رنگین اور سادہ سرورق بھی شامل ہیں۔ (ر-ہ)
اس کتاب میں کشمیر کے مسئلے کی انسانی لاگت پر نہایت پُرمغز‘ مدلل اور حقائق پر مبنی تحقیق کی گئی ہے۔ اس میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے والے کشمیریوں کی قانونی حیثیت کا جائزہ عالمی‘ پاکستانی‘ بھارتی‘ مقبوضہ و آزادکشمیر کے قوانین کی رو سے لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انھیں قانون کی اصطلاح میں refugee یا displaced pesson کہا جانا چاہیے۔
۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۲ء یعنی بارہ برسوں میں ۷۵۰ کلومیٹر طویل کنٹرول لائن کے اطراف میں کم و بیش ہر علاقے سے ہجرت ہوئی ہے۔ مقبوضہ سے آزاد کشمیر کی جانب ہجرت کرکے آنے والوں کی رجسٹرڈ تعداد ۱۹ ہزار سے زائد ہے جو ۳۲۸۱ خاندانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت مختلف مقامات پر قائم ۱۵ کیمپوں میں پناہ گزین ہے‘ جب کہ غیررجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد ۱۷ہزار کے لگ بھگ ہے۔ معلومات اور لٹریچر کی کمی کی وجہ سے مہاجرین کے بارے میں تحقیق کے لیے فیلڈورک خصوصاً انٹرویوز اور مشاہدات پر انحصار کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ مہاجرین ہجرت کے نتیجے میں بھارت کے جسمانی تشدد یا موت کے خوف سے آزاد ہوگئے ہیں مگر وہ اپنی سرزمین (مقبوضہ کشمیر)کے ساتھ پوری طرح وابستہ ہیں اور واپسی کے خواہش مند ہیں۔ یوں ان کی مستقل بحالی کی حقیقی کوشش تو یہی ہوسکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو اور وہ پُرامن ماحول میں اپنے گھروں کو لوٹ سکیں تاہم موجودہ عارضی قیام میں انھیں انسانی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہنچانا‘ حکومت‘ سول سوسائٹی اور عالمی اداروں کی اہم ذمہ داری قرار پاتا ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر اور پاکستان میں بہت سی سہولتوں کے باوجود غیریقینی کیفیت کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں قانونی دستاویزات کی عدم موجودگی اور اس سلسلے میں منفی حکومتی رویہ ان کی بے چینی اور اضطراب میں کئی گنا اضافے کاسبب ہے (ص ۱۷)۔ پاکستانیات اور کشمیر سے دل چسپی رکھنے والوں اورکشمیری مہاجرین کی امداد کے لیے سرگرم اداروں کے ذمہ داروں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ معلوماتی کتاب ہر لائبریری میں ہونا چاہیے۔ (محمد الیاس انصاری)
ڈاکٹر نجمہ محمود علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں انگریزی کی استاد رہ چکی ہیں۔ سید حامد بھارت کی سول سروس میںاہم انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ آج کل ہمدرد یونی ورسٹی نئی دہلی سے بطور چانسلر وابستہ ہیں۔ ان کا نام بطور دانش ور‘ ادیب اور سماجی راہنما کے بہت اہم گردانا جاتا ہے۔ انھوں نے ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے بھی بھرپور کام کیا ہے۔
نجمہ محمود نے زیرِنظر کتاب میں‘ سید حامد کی شخصیت کے تمام پہلوئوں کو بڑی خوب صورتی اور چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ وہ ان کی شخصیت کو خارجی سطح ہی پر نہیں‘ داخلی سطح پر بھی پرکھنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ انھوں نے سید حامد کی ذات میں چھپے ہوئے اس جذبے کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت سید حامد نہ صرف دانش ور اور سماجی راہنما بلکہ ایک سچے اور پُرخلوص مسلمان نظر آتے ہیں۔ سید حامد کی قومی و ملّی خدمات کے علاوہ ان کی ادبی و تنقیدی اور شعری تخلیقات کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ مجموعی اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ نجمہ محمود کا تجسس انھیں دائرے سے سوئے مرکز لے جاتا ہے اور یہ مرکز اور دائرے مکمل اور مربوط ہیں۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
تاریخ میں قومیں فروخت کرنے کا ریکارڈ ملتا ہے اور سستی فروخت کرنے کا ثبوت تو علامہ اقبال نے چہ ارزاں فروختند کہہ کر نقش کر دیا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران جتنی فروخت کرچکے ہیں اور بقایا فروخت کرنے کے لیے جتنے بے تاب اور بے چین ہیں اس کی مثال غالباً تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ قوموں کی آواز کو زبان دینے والے معلوم نہیں کس خوابِ خرگوش میں ہیں۔ آپ کے ’’اشارات‘‘ اپنی جگہ‘ ہمارے نامی گرامی ادیب و شاعر کہاں ہیں؟ ایسی نظمیں‘ قطعے اور کارٹون نظر نہیں پڑتے کہ اس سرے سے ا س سرے تک آگ لگا دیں۔ ہمارے صدر تو کشمیر طشتری میں لیے بیٹھے ہیں۔ لیکن بھارت طشتری میں لینے کی بھی قیمت مانگ رہا ہے۔ آخر کو بنیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمنعم نے ’’مسلمان معالج: ذمہ داریاں اور تقاضے‘‘ (جون ۲۰۰۵ئ) میں مسلمان ممالک میں ڈاکٹروں کے حوالے سے بہت اہم امور کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں ہسپتالوں میں اور عام علاج معالجے میں دوسرے معاشرتی دائروں کی طرح شرعی تقاضوں کا لحاظ اٹھتاجا رہا ہے۔ حیا بھی ایک اضافی قدر ہوگئی ہے جس کے معانی ڈاکٹر اور مریض یا مریضہ خود طے کرتے ہیں۔ ہسپتالوں کے متعدد واقعات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب سارا تن داغ دار ہو تو علاج کہاں سے شروع کیا جائے؟
سلیم منصور خالد صاحب نے ’آغا خان بورڈ‘ (ستمبر ۲۰۰۴ئ) سے جس جہاد کا آغاز کیا تھا‘ اسے ’’روشن خیال‘‘ تعلیم (جون ۲۰۰۵ئ) عنوان سے بہ خوبی جاری رکھا ہے۔ انھوں نے واقعات و حقائق کے آئینے میں بڑی کربناک تصویر پیش کی ہے۔ پڑھنے والا سوچتا رہ جاتا ہے کہ ہم نے پاکستان کیا اس لیے بنایا تھا؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے حکمران ملک کو ایسی راہ پر لے جا رہے ہیں اور نہایت تیزی سے لے جارہے ہیں جو ملک کے باشندوںکی ضمیر کی آواز کے خلاف ہے۔ لیکن جیسے کوئی ان کو روک نہیں رہا‘ ان کا ہاتھ نہیں پکڑ رہا۔
یقینا یہ حکمران ہماری بداعمالیوں کی سزا میں ہم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ استغفار کی مہم چلائی جائے‘ گلی گلی محلے محلے یہ پکار ہو کہ اللہ کے بندو! اللہ سے بخشش مانگو‘ اس کی طرف پلٹو‘ وہی عزت دینے والا ہے۔ نیک اعمال اختیار کرو تو اچھے حکمران ملیں گے۔ میرا ذاتی تاثر ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس پہلو سے متوجہ نہیں ہیں‘ پھر اللہ ہماری طرف توجہ کیوں کرے؟
۱۰۰ صفحات قارئین کے نام ہوتے ہیں اور صرف دو صفحات ’’مدیر کے نام‘‘۔جون کے شمارے میں آپ نے وہ بھی ضبط کرلیے۔ گزارش ہے کہ آیندہ چار صفحے دے کر حساب برابر کیا جائے۔
نجی تعلیمی اداروں میں ٹیچروں کا آنا جانا رہتا ہی ہے کیونکہ دونوں طرف سے بہتر کی تلاش جاری رہتی ہے۔ الوداع ہونے والے معلم یا معلمہ کو تحفہ دینے کا رواج ہے۔ ہم نے یہ اہتمام کیا ہے کہ الوداع ہونے والے کے نام سال بھر کے لیے ترجمان القرآن جاری کروا دیتے ہیں۔ یوں تحفے کے ساتھ ساتھ تذکیر و تربیت کاسامان بھی ہو جاتا ہے جو ٹیچر چاہے تو جاری رکھ سکتا ہے۔
ترجمان القرآن: اسکولوں‘ کالجوں اور جامعات میں مختلف مقابلوں میں انعامات دیے جاتے ہیں۔یہ ایک ایسا انعام ہے جو ۱۲ ماہ تک چلتا ہے۔ اسی طرح دیگر مواقع کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ شرط نیت و ارادہ ہے۔
خواتین میں دینی شعور پیدا کرنے اور ملک و ملّت کے مسائل سے آگہی میں مسجد اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مگر اس وقت ہماری بیشتر مساجد کے دروازے خواتین پر بند ہیں۔ دوسرے مسلم ممالک میں خواتین کا مساجد میں آنا ایک معمول کی بات ہے۔ ان کی آمدورفت کا راستہ اور حصہ علیحدہ ہوتا ہے۔ اگر ہماری خواتین نماز‘ خطبات جمعہ و عیدین کے لیے ستروحجاب کی شرعی حدود کے ساتھ مسجدوں میں آنا جانا شروع کریں تو اس سے بہتر تبدیلی آئے گی۔ خواتین ہر کام اور ضرورت کے لیے باہر آرہی ہیں تو مساجد ہی کیوں علاقۂ ممنوعہ ہوں۔
یہ وہ تدبیر ہے‘ جس کے ذریعے امید کی جاسکتی ہے کہ اُمت کی خواتین کومنکرات سے بچا کر‘ مغربی تہذیبی یلغار کے مقابلے کے لیے تیار کیاجاسکتا ہے۔ علماے کرام اور قائدینِ ملت کو اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
اصولی حیثیت سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شرعی مسائل میں کسی شخص یا گروہ کا کسی خاص طریق تحقیق و استنباط یا کسی مخصوص مذہبِ فقہی کی پیروی کرنا اور چیز ہے اور اس کا اپنے اس خاص طریقے یا مذہب کے لیے متعصب ہونا اور اس کی بنا پر جتھے بندی کرنا اور اس سے مختلف مذہب رکھنے والوں سے مغائرت و منافرت برتنا اور اس کی پابندی ترک کرنے والوں کو اس طرح ملامت کرنا کہ گویا ان کے دین میں کوئی نقص آگیا ہے‘ بالکل ایک دوسری چیز ہے۔ پہلی چیز کے لیے تو شریعت میں پوری پوری گنجایش ہے‘ بلکہ خود صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے طرز عمل سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے اور دین میں اس سے کوئی خرابی رونما نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری چیز بعینہٖ وہ تفرق فی الدین ہے جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے‘ اور اس تفرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگ فقہی مسائل ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں‘ پھر ان مسائل میں ذرا ذرا سے اختلاف پر ان کے درمیان الگ الگ اُمتیں بنتی ہیں‘ پھر ان فروعی بحثوں میں وہ اس قدر الجھتے اور ایک دوسرے سے بیگانہ ہوجاتے ہیں کہ ان کے لیے اُمت مسلمہ کی زندگی کے اصل مقصد (یعنی اعلاے کلمۃ اللہ اور اقامت دین) کی خاطر مل کر جدوجہد کرنا غیرممکن ہوجاتا ہے۔
… رفع یدین کرنا یا نہ کرنا‘ آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا‘ اور ایسے ہی دوسرے امور صرف اسی وقت تک شرعی اعمال ہیں جب تک کوئی شخص ان کے ترک یا فعل کو اس بنا پر اختیار کرے کہ اس کی تحقیق میں صاحبِ شریعت سے ایسا ہی ثابت ہے‘ یا یہ کہ ایسا کرنا دلائل شرعیہ کی بنا پر ارحج اور اولیٰ ہے۔ مگر جب یہی اعمال کسی مخصوص فرقے کے شعائر بن جائیں اور ان کا ترک یا فعل وہ علامت قرار پائے جس کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جانے لگے کہ آپ کس فرقے میں داخل اور کس سے خارج ہیں اور پھر انھی علامتوں کے لحاظ سے یہ طے ہونے لگے کہ کون اپنا ہے اور کون غیر‘ تو اس صورت میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا یا آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا یا ایسے ہی دوسرے امور کا ترک اور فعل دونوں یکساں بدعت ہیں اور بدترین قسم کی بدعت ہیں۔ اس لیے کہ سنت رسولؐ اللہ میں بجاے خود تو ان اعمال کا ثبوت ملتا ہے‘ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان اعمال کو مسلمانوں کے اندر گروہ بندیوں اور فرقہ سازیوں کے لیے علامات اور شعائر بنایا جائے۔ ایساکرنا دراصل حدیث کا نام لے کر صاحب حدیث علیہ السلام کے منشا کے بالکل برعکس کام کرنا ہے اور اس اصل کام کو غارت کرنا ہے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تھے۔ (’’رسائل و مسائل‘‘، ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۲۷‘ عدد ۱-۲‘رجب و شعبان ۱۳۶۴ھ‘ جولائی و اگست ۱۹۴۵ئ‘ص ۸۴-۸۵)