ہر دور میں جنگ‘ جنگ کا اسلوب اور جنگی ہتھیار بدلتے رہے ہیں اور نئے نئے ہتھیار اسلحہ خانے کی زینت اور انسانیت کے لیے مصیبت بنتے رہے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اگست ۱۹۴۵ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کے ایٹمی حملے نے اجتماعی تباہی کے ہتھیار Weapons of Mass Destruction (WMD)کی اصطلاح کو عالمی سیاست اور جنگ و صلح کی لغت میں ایک خاص مقام دے دیا۔ کیمیاوی‘ حیاتیاتی اور گیس پر مبنی اسلحے کے لیے یہ لفظ اس سے پہلے بھی استعمال ہوتا تھالیکن دورِ جدید میں ڈبلیو ایم ڈیز نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ’دہشت گردی‘ اور ’خودکش حملوں‘ کو بھی ایک قسم کا ڈبلیو ایم ڈی ہی بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا کو نہ صرف دہشت گردی کے ایک بدترین عفریت کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے‘ بلکہ اس نام نہاد جنگ کے پردے میں کچھ دوسری ہی قسم کے اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں سے دنیا کے مختلف ممالک اور تہذیبوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان میں میڈیا کی ثقافتی یلغار اور مسلم ممالک کے تعلیمی نظام پر ایک کاری وار خصوصیت سے اہمیت اختیار کرگئے ہیں‘ جن کو ہم ڈبلیو ایم ڈیز ہی کی تازہ ترین شکل سمجھتے ہیں۔ اجتماعی تباہی کے ہتھیار جس طرح انسانوں اور شہروں کو جسمانی طور پر تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں‘ اسی طرح یہ نئے علمی اور فنی ہتھیار قلب و نظر کو مسخر کرنے‘ افراد‘ معاشروں اور تہذیبوں کے تشخص کو تہ وبالا کرنے اور ایک نوعیت کی نظریاتی نسل کشی (ideological genocide) کا مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ویسے تو استعماری قوتوں نے ایسے حربے ہمیشہ ہی استعمال کیے ہیں اور اکبرالٰہ بادی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ع
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے!
لیکن اپنی کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے تعلیم پر جدید حملے تباہی کے مہلک ہتھیار کی شکل اختیارکرگئے ہیں۔ اس حملے کے اہداف کیا ہیں؟ علامہ اقبال نے اس خداداد صلاحیت کی بنیاد پر جو فراست ایمانی اور تاریخی اور تہذیبی شعور کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دی تھی‘ اُن سے اُمت مسلمہ کو بہت پہلے متنبہ کر دیا تھا۔ ضربِ کلیم میں ’نصیحت‘ کے عنوان سے شیطان کے اس حربے کو وہ یوں بیان کرتے ہیں:
اک لُردِ فرنگی نے کہا اپنے پسر سے
منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر
بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم
بَرّے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر
سینے میں رہے رازِملُوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے‘ اسے پھیر
تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
امریکا کی سامراجی اور صلیبی قیادت اس وقت عالمِ اسلام اور خصوصیت سے اس کی احیائی تحریکوں اور جہادی قوتوں کو زیر کرنے کے لیے جس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے‘ اس میں فوجی قوت‘ معاشی دبائو اور پروپیگنڈے کی نفسیاتی جنگ کے ساتھ جو سب سے خطرناک ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے وہ تعلیم کے نظام کو تبدیل کرواکے ذہنوں کو مسخر کرنے کے ذریعے اُمت کو غلامی کے نئے شکنجوں کی گرفت میں لینا ہے۔ فوجی قوت سے بلاشبہہ کچھ تھوڑے عرصے کے لیے مقابل قوت کو قابو میں کیا جا سکتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہر استعمار اور قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت جلد یا بدیر رونما ہوتی ہے۔ معاشی دبائو بھی ایک عرصے تک چلتا ہے اور نفسیاتی حربے اور پروپیگنڈے کی تاثیر بھی محدود ہے۔ البتہ ذہنی غلامی‘ تعلیم کے ذریعے دل و دماغ کو مسخر کرنا‘ سوچنے کے انداز اور نفع و نقصان‘ خیروشر اور مطلوب اور نامطلوب کے پیمانوں کو بدل دینا ہی وہ حربہ ہے جس سے محکومی کو دوام دیا جاسکتا ہے--- اور اس وقت امریکی دانش ور اور سیاسی قیادت اور اس کے ’مراکز دانش‘ (think tanks)عوامی تباہی کے جس ہتھیار کواستعمال کرنے کے لیے سب سے زیادہ بے چین ہیں‘ وہ نظام تعلیم کی تبدیلی اور نصاب تعلیم میں ایسے تغیرات ہیں جو سوچنے کے انداز کو بدل سکیں اور اسلام کے انقلابی پیغام کو کسی ایسی شکل میں تبدیل کرسکیں کہ مذہبی حِس بھی تسکین پالے اور اسلام کا جہاں بانی اور تاریخ سازی کا کردار بھی ختم ہوجائے۔
اصل ہدف اسلام کا تصور‘ اس کا تاریخی کردار اور وہ احیائی قوتیں ہیں جو اسلام کو محض گھر اور مسجد تک محدود نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے تابع لانا چاہتی ہیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر دنیا میں ظلم کے ہر نظام کو چیلنج کر کے انسانوں کو انصاف اور عزت کے حصول کے راستے کی دعوت دیتی ہیں۔ استعمار کا یہ وہی حربہ ہے جسے اقبال نے یوں بیان کیا تھا:
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رمِ آہُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہٗ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
سارا ہدف یہ ہے کہ اسلام ایک اجتماعی قوت کی حیثیت اختیار نہ کرے‘ دین و سیاست میں تفریق ہو‘ اور اہل ایمان کفر اور ظلم کی قوتوں کے خلاف ایک تحریک اور ایک چیلنج بن کر نہ ابھر سکیں‘ آپس میں بٹ جائیں اور ہر ملک اور ہر گروہ صرف اپنے آپ میں مگن ہو (’سب سے پہلے پاکستان‘ میں اس کی بازگشت سنی جاسکتی ہے)‘ اور ایک دوسرے کا معاون و مددگار بن کر انصاف کے حصول اور ظلم کے خلاف جدوجہد سے پہلوتہی کرلے--- اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ:
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد
اے مردِ خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اُس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد جس نقشۂ جنگ کو ترتیب دیا گیا ہے اس میں فوج کشی‘ معاشی دبائو اور نفسیاتی اور ابلاغی جنگ کے ساتھ مسلمانوں کے دینی تعلیمی نظام کو سبوتاژ کرنا اور اسے دنیاوی علوم اور عصری مسائل کے نام پر اپنی جڑوں سے اکھاڑدینا ہے۔ جدید تعلیمی نظام میں جس حد تک بھی اسلام کے انقلابی تصورِ حیات اور خصوصیت سے حق و باطل کی کش مکش میں مسلمانوں کے کردار اور اجتماعی مقاصد اور وحدت اُمت کے تصورات پائے جاتے ہیں‘ ان کو تار تار کرنا اور محض دنیاطلبی‘ عیش پرستی‘ ہوس رانی‘ اور طائوس و رباب کی زندگی کا رسیا بنانا ہے۔اس کے لیے اصل ہدف اسلام کا یہ تصور زندگی ہے کہ مسلمان ایک نظریاتی اُمت ہیں‘ ایک جسم کے اعضا کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا اپنا اخلاقی‘ معاشی‘ سیاسی‘ تہذیبی‘ مالیاتی اور ثقافتی نظام ہے۔ وہ ایک نظامِ نو کے داعی اور تہذیب و تمدن کے ایک منفرد تصور کے مطابق انفرادی اوراجتماعی زندگی کی تشکیل کی جدوجہد میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں۔ یہ تصور آج کی امریکی قیادت کی نگاہ میں اس کے مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ اسے ’خطرہ‘ بناکر ایک طرف مسلمانوں کی عسکری قوت کو غیرمؤثر بنانے‘ ان کے معاشی وسائل کو گلوبلائزیشن کے نام پر اپنی گرفت میں لانے اور سب سے بڑھ کر فکری یلغار اور تعلیم کے بطور ایک مہلک ہتھیار کے بے محابا استعمال سے ان کو اپنی غلامی میں لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ کام سرکاری ذرائع کے ساتھ مسلمان ملکوں کے اپنے حکمرانوں‘ لبرل طبقات اور بیرونی سرمایے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ذریعے انجام دینا چاہتے ہیں جس کے لیے سرمایہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور مفید مطلب حکمرانوں کو آلۂ کار بنایا جا رہا ہے۔
اسلام کے تصورِحکومت‘ ملّت کی وحدت‘ جہاد اور ظلم کے خلاف جدوجہد کے جذبے کو اصل ہدف بنایا گیا ہے۔ بنیاد پرستی‘ عسکریت‘ تشدد‘ انتہاپرستی اور اس نوعیت کے تمام اتہامات مسلمانوں پر اور خصوصیت سے دینی قوتوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ مسلم دنیا میں حکمرانوں اور عوام میں کش مکش برپا کرنے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراکرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے جارہے ہیں‘ اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے لیے چھتری کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ایک طرف حفظ ماتقدم حملے(pre-emptive strike) اور حکومتوں کی تبدیلی (regime change)کی حکمت عملی پر عمل ہو رہا ہے تو دوسری طرف دینی تعلیم کے نظام کو تبدیل کرنے‘ اسے سرکاری گرفت میں لانے‘ اور ملکی تعلیمی نظام میں نصاب اور تعلیمی اہداف کو تبدیل کرانے اور ذہنوں کو تبدیل کرنے اور اپنا ہم نوا بنانے کے منصوبوں پر پوری شدومد کے ساتھ عمل کیا جا رہا ہے۔ افغانستان اور عراق کو تو مکمل طور پر اپنے زیرتسلط لے آیا گیا ہے لیکن اس تہذیبی اور تعلیمی جنگ کا ہدف پورا عالمِ اسلام ہے جس میں خصوصیت سے اس وقت سعودی عرب‘ مصر اور پاکستان نشانہ ہیں۔
امریکا کی اس حکمت عملی کی یہ جھلکیاں صدربش سے لے کر ان کے دفاع کے وزیررمزفیلڈ‘ قومی سلامتی کی مشیر کنڈولیزا رائس اور وزیرخارجہ کولن پاول کے بیانات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کا بہت واضح اور مکمل اظہار حال ہی میں شائع ہونے والی دو اہم رپورٹوں میں ہوا ہے جس میں جنگ کا پورا نقشہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ وہاں کے مشہور تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے قومی سلامتی کے تحقیقی شعبے نے تیار کی ہے اورCivil Democratic Islam: Partners, Resources and Strategiesکے عنوان سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اسےCheryl Benardنے مرتب کیا ہے۔ اس کی تیاری میں آٹھ دوسرے دانش وروں نے شرکت کی ہے جن میں کابل میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد بھی شریک ہیں۔
رپورٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ آج اسلام ایک دھماکا خیز شکل اختیار کرگیا ہے جو اندرونی اور بیرونی جدوجہد میں مصروف ہے تاکہ اپنی اقدار اور اپنے تشخص کو ابھارسکے اور ان کی روشنی میں دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکے۔ اس پس منظر میں امریکا اور مغربی دنیا کا مفاد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اسلامی دنیا ایک ایسی صورت اختیار کرے جو مغرب کے ساتھ ہم آہنگ ہو--- یعنی جمہوری اس معنی میں کہ سماجی اعتبار سے ترقی پسند (socially progressive) ہو اور بین الاقوامی طور پر قابلِ قبول رویہ اختیار کرے۔ اس کے لیے امریکی پالیسی کیا ہو؟ رپورٹ کہتی ہے:
اس لیے دانش مندی کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو عالمی امن اور عالمی برادری سے ہم آہنگ ہیں اور جمہوریت اور جدیدیت کو پسند کرتے ہیں۔
۱- بنیاد پرست (fundamentalists)جو مغربی تہذیب کے خلاف ہیں اور اسلامی قانون اور اخلاقیات کا وہ تصور رکھتے ہیں جو رپورٹ کے مصنفین کی نگاہ میں جدیدیت سے متصادم ہے۔ یہ مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور نتیجتاً اہم ترین دشمن ہیں۔
۲- دوسراگروہ قدامت پسندوں (traditionalists)کا ہے جو تبدیلی‘ تجدد اور جدیدیت سے خائف ہیں اور روایت کے اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ہمارے دشمن ہیں مگر نمبر ایک کے مقابلے میں غنیمت ہیں۔
۳- تیسرا گروہ جدیدیت پسندوں (modernists)کا ہے جو اسلامی دنیا کو آج کی مغربی دنیا (جسے رپورٹ عالمی برادری global community قرار دیتی ہے)سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اسلام کو جدید بنانے کے خواہاں ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں باوجودیکہ یہ گروہ اسلام سے رشتہ باقی رکھنا چاہتا ہے۔
۴- چوتھا گروہ جو مغرب کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے وہ لادینیوں (secularists)کا ہے جو دین و دنیا اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے کھلے کھلے قائل ہیں‘ اور مغرب کے ماحول کی مکمل پیروی کرتے ہوئے مذہب کو ذاتی مسئلے اور اجتماعی امور کو مغربی صنعتی جمہوریوں کے طور طریق پر چلانا چاہتے ہیں۔
اصل رپورٹ میں ان چاروں کے درمیان بھی تقسیم در تقسیم کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سب سے ’فسادی‘ اور خطرناک وہ بنیاد پرست ہیں جو ان کی نگاہ میں تشدد کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ تمام بنیاد پرست دہشت گرد نہیں خطرناک ضرور ہیں۔ اسی طرح قدامت پسندوں‘ جدیدیت پسندوں اور لادینیوں میں بھی کم از کم دو دو گروہ ہیں۔
۱- قائدین اور رول ماڈل تیار کرنا۔ وہ جدیدیت پسند جن کے ستائے جانے کا اندیشہ ہے ان کو شہری حقوق کے حوصلہ مند قائدین کے طور پر سامنے لایا جائے جو وہ فی الحقیقت ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ یہ مفید مطلب ہے۔
۲- سیاسی حد رسائی (out reach)کے معاملات میں جدیدیت پسند عام مسلمانوں کو شامل کیا جائے تاکہ آبادی کی بنیاد پر حقیقی صورت حال کی صحیح عکاسی ہو۔ مسلمانوں کی اسلامیت کو مصنوعی طور پر ابھارنے سے احتراز کیا جائے۔ اس کے بجاے ان کو اس بات کا عادی بنایا جائے کہ اسلام ان کی شناخت کا بس ایک حصہ ہو سکتا ہے۔
۳- اسلامی دنیا میں سول سوسائٹی کی حمایت کی جائے۔ یہ بحرانی حالات‘ میں مہاجروں کی دیکھ بھال میں اور تنازعے کے بعد کی صورت حال میں خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اس صورت میں ایک جمہوری قیادت سامنے آسکتی ہے اورمقامی این جی اوز اور دوسری شہری انجمنوں کے ذریعے عملی تجربہ حاصل کر سکتی ہے۔ دیہی اور پڑوسی کی سطح پر بھی یہ انجمنیں ایک ایسا انفراسٹرکچر ہیں جو سیاسی شعور بیدار کرسکتی ہیں اور معتدل جدیدیت پسند قیادت ابھار سکتی ہیں۔
۴- مغربی اسلام ‘ جرمن اسلام اور امریکی اسلام وغیرہ کو تشکیل دینا۔ اس کے لیے ان معاشروں کی ہیئت کا اور ان کے ہاں رائج فکروعمل کے ارتقا کا بہتر فہم حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کے نظریات کا استنباط کرنے‘ اظہار کرنے اور ان کو قانونی شکل دینے (codifying)میں مدد دی جائے۔
۵- انتہاپسند اسلام سے وابستہ افراد اور موقفوں کو بے جواز قرار دیا جائے۔ بنیاد پرست خودساختہ قائدین کے غیراخلاقی اور منافقانہ افعال کو عام کیا جائے۔ مغرب پر بداخلاقی اور سطحیت کے الزامات‘ بنیاد پرستوں کے اسلحہ خانے کا پرکشش حصہ ہیں‘ جب کہ انھی نکات پر وہ خود بہت زیادہ حملے کی زد میں ہیں۔
۶- عوامی ذرائع ابلاغ میں عرب صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنا کہ وہ بنیاد پرست قائدین کی زندگیوں‘ عادات و اطوار اور بدعنوانیوں پر تفتیشی رپورٹنگ کریں۔ ان واقعات کی تشہیر کی جائے جو ان کی بے رحمی کو ظاہر کرتی ہے‘ مثلاً حال ہی میں آتش زنی کے واقعے میں سعودی اسکول میں لڑکیوں کی اموات‘ جب کہ مذہبی پولیس نے آگے بجھانے والوں کو جلتے ہوئے اسکول کی عمارت سے لڑکیوں کو نکالنے سے ہاتھ پکڑ کر روکا کیونکہ وہ باپردہ نہ تھیں۔ اور ان کی منافقت جس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ سعودی مذہبی انتظامیہ تارک وطن کارکنوں کو اپنے نئے پیدا ہونے والے بچوں کی تصویریں منگوانے سے اس بنیاد پر روکتی ہے کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ہے‘ جب کہ ان کے اپنے دفاتر میں شاہ فیصل وغیرہ کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں ہیں۔
۷- دینی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے نظام کو درہم برہم کیا جائے‘ اس لیے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو وسائل فراہم کرنے میں خیراتی اداروں کا کردار ۱۱ستمبر کے بعد زیادہ واضح طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ سرکاری سطح پر تحقیقات ہوں اور مسلسل جاری رہیں۔
۸- خوش حال اور معتدل اسلام کے نمونے کے طور پر مناسب نظریات رکھنے والے ممالک اور علاقوں یا گروپوں کی شناخت کرکے اور ان کی سرگرمی سے مدد کرکے تشہیر کی جائے۔ ان کی کامیابیوں کو شہرت دی جائے۔
۹- تصوف کے مقام ومرتبے کو بلند کیا جائے۔ مضبوط صوفی روایات کے حامل ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی تاریخ کے اس حصے کو اہمیت دیں اور اسے اپنے اسکول کے نصاب میں شامل کریں۔ صوفی اسلام پر زیادہ توجہ دی جائے۔
۱۰- انقلابی اسلامی تحریکوں کے بڑی عمر کے وابستگان کے نظریات تبدیل ہونے کی آسانی سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر جمہوری اسلام کا پیغام متعلقہ ممالک کے اسکول نصابات میں اور سرکاری میڈیا میں داخل کر دیا جائے تو ان کی نوخیز نسل پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ انقلابی بنیاد پرستوں نے تعلیم میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے بہت بڑی کوششیں کی ہیں اور اس کا امکان بہت کم ہے کہ وہ کسی لڑائی کے بغیر اپنی قائم شدہ جڑیں چھوڑ دیں۔ یہ میدان ان سے واپس حاصل کرنے کے لیے ایک بھرپور کوشش کی ضرورت ہوگی۔
اس ۱۰ نکاتی حکمت عملی کو بروے کار لانے کے لیے ایک مفصل پروگرام اور ترجیحات ہی نہیں بلکہ پورے سیاسی اور نظریاتی کھیل کا نقشۂ کار بھی رپورٹ کی زینت ہے۔ میکاولی کی سیاست تو مشہور تھی ہی‘ مگر بش کے امریکا نے میکاولی کی سیاست کا جو اکیسویں صدی کا ایڈیشن مرتب کیا ہے‘ اس کے خدوخال ہی دیکھ لیں اور اس آئینے میں غیروں ہی کے نہیں اپنوں کے بیانات‘ عزائم اور اعلانات کی تصویر بھی دیکھ لیں کہ کس طرح ماڈرن اور ماڈریٹ اور روشن خیال اسلام کا تانابانا بنا جا رہا ہے:
مجموعی حکمت عملی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوگاکہ درج ذیل خصوصی سرگرمیاں بھی کی جائیں:
___ ان کے افکار کی توسیع واشاعت کی جائے۔
___ ان کی عوام اور نوجوانوں کے لیے لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔
___ اسلامیات کے نصاب میں ان کے افکار کو متعارف کروایا جائے۔
___ ان کو عوامی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔
___ مذہب کے بنیادی تصورات کے بارے میں ان کے افکار ونظریات کو ان بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کے مقابلے میں عام کیا جائے جو پہلے سے ہی اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے ویب سائٹس‘ اشاعتی ادارے‘ تعلیمی ادارے اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔
___ غیرمطمئن مسلم نئی نسل کے لیے جدیدیت کو متبادل ثقافت کے طور پر پیش کیا جائے۔
___ قبل از اسلام اور غیر اسلامی تاریخ اور ثقافت سے متعلق بیداری کو سہولت پہنچاکر اور حوصلہ افزائی کرکے متعلقہ ممالک کے میڈیا اور نصاب کے ذریعے عام کیا جائے۔
___ لادینی شہری اور ثقافتی اداروں اور پروگراموں کی حوصلہ افزائی اور امداد کی جائے۔
___ روایت پسندوں کی بنیاد پرستوں کے تشدد اور انتہاپسندی پر تنقید کو عام کر کے‘ اور روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دے کر۔
___ روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان اتحاد کی روک تھام کرکے۔
___ ان جدیدیت پسندوں اور روایت پسندوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جائے جو اس تناظر میں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ روایت پسندوں کے اداروں میں جدیدیت پسندوں کی موجودگی اور حیثیت کو بڑھا یا جائے۔
___ روایت پسندوں کے مختلف حلقوں کے درمیان امتیاز برتا جائے۔
___ ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو جدیدیت سے قریب تر ہیں--- جیساکہ دوسروں کے مقابلے میں فقہ حنفیہ۔ ایسے فتاویٰ جاری کیے جائیں جو قبولیت عام حاصل کرکے دقیانوسی وہابی فتووں کی حیثیت کو کمزور کریں۔
___ صوفی ازم کی شہرت اور مقبولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
___ اسلامی تعبیرات کے سوال پر ان کے نقاط نظر میں پائے جانے والے اختلافات کو چیلنج کرکے اور بے نقاب کر کے۔
___ غیرقانونی گروپوں اور سرگرمیوں سے ان کے تعلقات کو بے نقاب کر کے۔
___ ان کی پُرتشدد سرگرمیوں کے نتائج کو عام کر کے۔
___ اپنی اقوام کی فلاح و بہبود کے صحیح رخ پر تعمیروترقی کرنے کی نااہلیت کو ظاہر کرکے۔
___ ان پیغامات کوبالخصوص نوجوانوں‘ نیک روایت پسند آبادی‘ مغرب میں مسلم اقلیتوں اور خواتین کو پہنچاکر۔
___ انتہا پسند بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے کارہاے نمایاں کی تعریف کرنے اور انھیں احترام دینے سے اجتناب کرکے اور اس کے بجاے انھیں خبطی اور بزدل‘ نہ کہ بدی کے ہیرو کے طور پر پیش کر کے۔
___ صحافیوں کی حوصلہ افزائی کر کے کہ وہ بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے حلقوں میں تفتیشی رپورٹنگ کے ذریعے بدعنوانی‘ منافقت اور اخلاقی گراوٹ کے معاملات کو سامنے لائیں۔
___ بنیاد پرستی کو بطور مشترکہ دشمن تسلیم کرنے کی حوصلہ افزائی کر کے‘ قوم پرستی اور بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پر امریکا مخالف قوتوں کے ساتھ لادینی عناصر کے اتحادوں کی حوصلہ شکنی کر کے۔
___ اس نظریے کی حمایت کر کے کہ مذہب اور ریاست اسلام میں بھی جدا جدا ہوسکتے ہیں اور اس سے ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ (ص ۶۱-۶۶)
تہذیبی‘ فکری اور تعلیمی جنگ کا پورا نقشۂ کار آپ کے سامنے ہے۔ اگر اب بھی کسی کو امریکی سامراج کی تازہ ترین صلیبی جنگ کے اصل اہداف‘ مقاصد اور مضمرات کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو اس کی وجہ امریکی دانش وروں کی صاف گوئی کی کمی نہیں‘ اپنی کج فہمی یا تغافل جاہلانہ ہوسکتی ہے۔ رہے ہمارے حکمران اور لبرل دانش ور‘ تو ذرا امریکا بہادر کے ان ارشادات کا موازنہ اپنے حکمرانوں‘ وزراے تعلیم بلکہ کچھ ’علماے کرام‘ کی گوہرافشانیوں سے کرکے دیکھ لیجیے۔ صاف نظر آجائے گا کہ ؎
انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زباں میری ہے بات ان کی
انھی کی محفل سنوارتا ہوں‘ چراغ میرا ہے رات ان کی
دوسری طرف اس سے بھی زیادہ اہم رپورٹ وہ ہے جو ایک اعلیٰ اختیاراتی مشاورتی گروپ نے مرتب کی ہے جس میں ۱۴ اہم سابق سفیر اور چوٹی کے دانش ور تھے اور جس کے صدر سابق سفیر ایڈورڈ پی ڈجرجن(Edward P. Djerejan) تھے اور جسے امریکی ایوان نمایندگان کی Committee on Appropriationنے مرتب کرایا ہے۔ اس گروپ نے مسلم دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کیا اور جہاں نہ جا سکا وہاں ٹی وی کانفرنس کے ذریعے وہاں کے اہم لوگوں سے رابطہ کیا۔ مدیر ترجمان القرآن کو بھی ایک ایسی ہی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ رپورٹ اکتوبر ۲۰۰۳ء میںChanging Minds Winning Peace: A New Strategic Direction for U.S. Public Diplomacy in the Arab and Muslim World کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ اور امریکی کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس سے استفادہ کیا ہے۔۱؎
اس رپورٹ کا مثبت پہلو تو یہ ہے کہ اس میں امریکا کے بارے میں عالمِ اسلام اور عرب دنیا میں پائی جانے والی بے چینی بلکہ نفرت کا واضح اعتراف موجود ہے۔ البتہ اصلاحِ احوال کے لیے امریکا کی پالیسیوں پر نظرثانی کا تو بالکل ضمنی طور پر ذکر کرتی ہے لیکن اصل توجہ اس پر ہے کہ دنیا ہمیں صحیح طور پر سمجھ نہیں رہی‘ اس لیے خوب وسائل خرچ کر کے امریکی نقطۂ نظر کو دنیا کو سمجھانے اور عرب اور اسلامی دنیا کے تعلیمی‘ سیاسی اور سماجی نظام میں ایسی تبدیلیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو امریکا کی ساکھ کو بڑھانے اور ان کو امریکا کا ہم نوا بنانے میں موثر ہوسکیں۔ سرمایے کا بے محابا استعمال‘ نظام تعلیم کو متاثر کرنا‘ ریڈیوا ورٹی وی کا موثر استعمال‘ وفود کے تبادلے‘ طلبہ قیادتوں‘ فوجی ذمہ داروں کے تبادلہ پروگراموں‘ امریکی لٹریچر کی ان ممالک کی زبانوں میں فراہمی‘ امریکی سینٹرز کا قیام‘ امریکا میں ان ملکوں کی زبانوں کے جاننے والوں کا خصوصی پروگرام وغیرہ بھی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ اس خدشے کا بھی اعتراف ہے کہ جمہوریت کے فروغ سے کہیں مذہبی انتہاپسند ان ممالک میں غلبہ نہ حاصل کرلیں۔
ہم ان تمام اخباری مضامین اور بیانات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں جن میں مدرسے کی تعلیم‘ جہادی کلچر کی فسوں کاریوں اور نام نہاد بنیاد پرست تنظیموں کی سرگرمیوں کو ہدف تنقیدوملامت بنایا گیا ہے اور جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پیالی میں طوفان (storm in a cup of tea) کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ امریکا کے کارفرما عناصر کے ذہن کو بنانے اور خود پالیسی ساز اداروں کو متاثر کرنے میں اس کا بھی بڑا دخل ہے۔ پالیسی ساز اداروں اور ’مراکز دانش‘ کی رپورٹوں کے جائزے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم اس وقت خاص ہدف ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کے ذریعے جو تبدیلیاں نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں لائی جا رہی ہیں‘ ان کے بے لاگ جائزے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے کہ سرکاری اعلانات برأت کے علی الرغم یہ ایک حقیقت ہے کہ ان نام نہاد اصلاحات کے ڈانڈے امریکی پالیسی اور مطالبات سے ملتے ہیں جس کا اعتراف امریکی وزیرخارجہ جناب کولن پاول نے امریکا کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے اپنے ایک بیان میں ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو ان الفاظ میں کیا کہ: ’’پاکستانی مدارس دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں جس کے لیے ہم مشرف اور دیگر اسلامی ممالک کے سربراہوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘‘۔ اسی طرح امریکا کی سلامتی کی مشیر کونڈولیزارائس کا یہ بیان بھی ایک جہانِ معنی اپنے اندر رکھتا ہے کہ ’’اسلامی ممالک بشمول پاکستان کا تعلیمی نصاب بڑا مسئلہ تھا اور ہم اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی مشاورت سے بڑی تبدیلیاں کررہے ہیں‘‘۔
ہماری وزیرتعلیم خواہ کتناہی یہ کہتی رہیں کہ: ’’نصاب میں تبدیلی اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی منصوبہ بندی ہماری اپنی ہے‘ کوئی امریکی یا بیرونی دبائو کا شاخسانہ نہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے پیچھے امریکا کی عالمی حکمت کا دبائو موجود ہے اور ایک موقع پر تو کونڈاولیزارائس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ: ’’پاکستان میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے پیچھے ہماری ہدایات کارفرما ہیں‘‘۔اب تو ’زبانِ خنجر‘ اور ’آستیں کا لہو‘ دونوں پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب دونوں میں کی جانے والی تبدیلیوں کی اصل شان نزول کیا ہے؟
بلاشبہہ یہ تبدیلیاں ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھیں اور ان میں سے کچھ جنرل پرویز مشرف کے اپنے سیکولر اور لبرل رجحانات کے زیراثر بھی ہوسکتی ہیں لیکن تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی مہم میں تیزی ۱۱ستمبر کے بعد کی امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں آئی ہے۔
اس پس منظر میں کچھ تبدیلیاں تو وہ ہیں جو خاموشی سے وزارتِ تعلیم کے ذریعے لائی جارہی تھیں لیکن ایک دھماکا اس رپورٹ کی اشاعت سے ہوا جسے مغربی سرمایے کے بل بوتے پر ایک این جی او نے سیکولر اور لبرل دانش وروں کے ایک گروہ سے تیار کروایا اور The Subtle Subversionکے نام سے یہ رپورٹ اے ایچ نیر اور احمدسلیم کی ادارت میں Sustainable Development Policy Institute (SDPI)نے شائع کی جس پر وزارت تعلیم کی ایک کمیٹی نے باقاعدہ غور کیا۔ خدا بھلا کرے ان اہلِ قلم اور پارلیمنٹ کے ارکان کا جنھوں نے اس پر بروقت گرفت کی اور وزارتِ تعلیم کو ایک دفاعی پوزیشن میںڈال دیا۔ یہ رپورٹ اس ذہن کی کھلی عکاسی کرتی ہے جو تعلیم کے نظام کو کلی طور پر غیراسلامی بناکر مغرب کے لبرل فریم ورک میں لانا چاہتا ہے اور جو امریکا کے اصل اہداف کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اس گروہ نے کوشش تو یہ کی تھی کہ وزارتِ تعلیم کے ذریعے اپنے مذموم اہداف کو حاصل کر لے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے کہ وہ شر سے کبھی کبھی خیر بھی نمودار کرتا ہے‘ اسی طرح جس طرح رات سے دن رونما ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مخالف قوتوں کا پورا کھیل سامنے آگیا اور قوم جو ایک حد تک غفلت کا شکار تھی‘ چونک اٹھی اور جو تبدیلیاں خاموشی سے لائی جارہی تھیں وہ ایک دم سب کے سامنے آگئیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ نواے وقت و روزنامہ انصاف اور اسلامی جمعیت طلبہ ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور تنظیم اساتذہ نے بھی بہت کلیدی کردار ادا کیا۔
اس طرح نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کا مسئلہ قومی بحث اور پارلیمنٹ میں احتساب کا موضوع بن گئے۔ ہم نے جو پس منظر پیش کیا ہے اس میں اس بحث کی اصل معنویت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم آیندہ شمارے میں ان شاء اللہ‘ ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ اور وزارتِ تعلیم کے مختلف اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
حضرت علی ؓ کا مشہور فرمان ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک حد تک ہی ظالم کو مہلت دیتا ہے‘ پھر جلد ہی اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے اور بالآخر زمین اس کے پائوں تلے سے نکل جاتی ہے۔
امریکا کی موجودہ قیادت کی رعونت ہی اس کے زوال کو قریب لانے کے لیے کیا کچھ کم تھی کہ اب اس کے ظلم اور انسانیت سوز حرکتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے جس نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے اور بش انتظامیہ کی چولیں ہلنے لگی ہیں۔
جن کی نگاہ امریکا کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت‘ قانون کی بالادستی‘ احترام انسانیت‘ بنیادی حقوق اور آزادیوں کے علم برداروں کے دعووں اور حقیقت میں کتنا بُعد رہا ہے اور امریکا کے اصل باشندوں (ریڈ انڈینز) سے لے کر ایفرو امریکنوں اور دوسری غیرملکی اقوام کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں کیا رویہ اختیار کیا گیا ہے لیکن جو تصویر تہذیب نو کی علم بردار اس واحد سوپر پاور کی عراق کی کارگزاریوں کی صورت میںاب سامنے آرہی ہے وہ شرمناک ہی نہیں‘ انسانیت کے لیے ہولناک بھی ہے۔ ابوغریب کے جیل خانے کی جو تصاویر گذشتہ چند ہفتوں میں ساری دنیا کے سامنے آئی ہیں‘ ان میں مظلومیت اور بربریت کے وہ مناظر چشم انسانیت نے دیکھے ہیں جو دلوں ہی کو نہیں پھاڑ دیتے بلکہ مستقبل کی کسی بہت بڑی تباہی کی بھی پیش گوئی کرتے ہیں۔ عراق کے معصوم مردوں‘ عورتوں اور جوان بچوں کو جس سفاکی اور بربریت سے جسمانی اور جنسی تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ ظلم‘ بے حیائی‘ فسطائیت اور بہیمیت کی تاریخ میں ایک تاریک ترین اور خون آشام باب کا اضافہ ہے۔ امریکی افواج نے اسلام اور عربوں سے نفرت کا جس طرح اظہار کیا ہے اور تشدد اور تعذیب کے جو ہتھیار ابوغریب جیل خانے کے بے بس قیدیوں پر استعمال کیے ہیں وہ جنگی جرائم کی بدترین مثال ہیں اور ان سے امریکی فوج اور اس کی قیادت کی ذہنی‘ اخلاقی حالت کی جو تصویر دنیا کے سامنے آئی ہے وہ اتنی شرمناک ہے کہ الفاظ بیان سے قاصر ہیں۔پال بریمر جو عراق کا امریکی وائسرائے ہے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:
جو کچھ ہوا ہے اس کا بیان کرنا ہولناک ہے‘ ناقابل برداشت‘ غیر انسانی اور انسانی شرف‘ عالمی امن اور اخلاقی اقدار کے خلاف۔
لیکن افسوس کہ اس اعتراف کے باوجود کہ اس کی اپنی راجدھانی میں اس کی اپنی افواج کے کیا کارنامے ہیں‘ نہ اسے استعفا دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ فوج کے کمانڈر‘ وزیردفاع اور خود جارج بش کو--- حالانکہ جو کچھ امریکی افواج نے کیا ہے اس کی ان سب پر اخلاقی ہی نہیں قانونی ذمہ داری بھی آتی ہے اس لیے کہ اوپر سے آئے ہوئے احکامات کی پیروی (chain of command) کے اصول کے تحت اور ان بیانات کی روشنی میں جو چند فوجیوں نے اپنے کیریئر کو خطرے میں ڈال کر دیے ہیں‘ کہ یہ سب کچھ ایک باقاعدہ اور طے شدہ پالیسی کاحصہ تھا اور اوپر کے احکام یا کم از کم واضح اشاروں اور اجازتوں پر مبنی تھا۔
جو کچھ ابوغریب کے عقوبت خانے میں ہوا ہے اس کی کچھ تفصیل اخبارات میں آگئی ہے اور ابھی اس سے زیادہ اندوہناک کارگزاریوں کی تصاویر حکومت اور کچھ دوسرے اداروں کے قبضے میں ہیں وہ بھی شاید آہستہ آہستہ سامنے آجائیں گی۔ ہم ان تفصیلات کویہاں بیان کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ البتہ چند غورطلب امور ہیں جن کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔
اولاً جو کچھ ابوغریب میں ہوا‘ وہ صرف اس ایک عقوبت خانے تک محدود نہ تھا بلکہ سارے شواہد اشارہ کرتے ہیں اور ریڈکراس‘ ہیومن رائٹس واچ اور غالباًخود امریکی فوج کی خفیہ رپورٹوں سے یہ ثابت ہے کہ ہزاروں افراد اس ظلم وستم اور ذلت و تعذیب کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔ یہ سب وہ افراد تھے جن کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا‘ صرف تفتیش کے لیے ان کو ان مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ظلم صرف ان انسانوںہی پر نہیں بلکہ پوری انسانیت پر ہوا ہے اور امریکا کی موجودہ قیادت انسانیت کی مجرم اور سزا کی مستوجب ہے۔
ثانیاً اس سے جدید تہذیب کے علم برداروں کے اخلاق اور کردار کی جو تصویر سامنے آتی ہے‘ وہ انتہائی گھنائونی ہے اور جو خوب صورت لبادے اس تہذیب نے اوڑھ رکھے ہیں‘ وہ اب تارتار ہوگئے ہیں۔ کوئی معذرت اور کوئی تاویل اس کے کریہہ چہرے پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ بلکہ جارج بش اور ان کے وزیردفاع ڈونلڈرمزفیلڈ نے جو سہارا لیا ہے کہ یہ چند افراد کی غلطی ہے اس سے بڑا جھوٹ اور دھوکا اور کوئی نہیں ہوسکتا جو اس قیادت کے اخلاقی دیوالیے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس میں غلطی کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت بھی نہیں۔
ثالثاً ان واقعات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اب عالمی انصاف اور انسانیت کے معاملات کو کسی قاعدے اور قانون کے مطابق طے کرنے اور جواب دہی کا کوئی نظام باقی نہیں رہا ہے اور دنیا ایک جنگل کے قانون کے دور کی طرف واپس جارہی ہے۔ یہ صورت حال سارے انسانوں کے لیے ایک انتباہ (wake up call) کا درجہ رکھتی ہے کہ آج جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے کل یہی سب کچھ دوسروں کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اور اگر کسی کو اپنی عزت‘ آزادی اور آبرو کی فکر ہے تو آج ظالم کا ہاتھ روکے اور ظلم کی اس روش کو برائی کے اولیں اظہار ہی پر کچلنے کے اصول پر اس ظلم کی مزاحمت کرے اور بالآخر نیست و نابود کرنے کی کوشش کرے۔
استعمار، ظلم اور تعذیب کے اس گھنائونے باب کا آخری حملہ‘ بلکہ حملہ وہ اطلاع ہے جو ۲۵مئی کے اخبارات کی زینت ہے کہ امریکی حکومت نے قید خانوں اور تفتیش کے مقامات کی فوٹوبندی اور فلم بندی پر آیندہ کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ اخلاقی زوال کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہوگی کہ جرم کی بیخ کنی کے بجاے جرم کو جاننے کے ذرائع کو ختم کیا جائے۔
اس پس منظر میں ۲۲ مئی کو لندن میں وہاں کے میئر کین لیونگسٹن کی قیادت میں ایک عوامی مظاہرے کا انعقاد تاریکی میں روشنی کی کرن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں لیبرپارٹی کے سینیرلیڈر ٹونی بین اور رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے کی تقاریر یہ امید دلاتی ہیں کہ انسانیت کا ضمیر مردہ نہیں ہوا۔ کین لیونگسٹن نے اس موقع پر کہا ہے کہ:
ان ہولناکیوں کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہماری افواج کو عراق سے فی الفور واپس بلا لیا جائے‘ اور بش پر اُن جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے جو اس کی نگرانی میں ہوئے اور اس نے شروع کروائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ آزادی دلانے آرہے ہیں لیکن وہ تعذیب کا نشانہ بنانے والے ثابت ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جمہوریت لائیں گے لیکن اس کے بجاے وہ خونخوار کتے اور قاتلوں کے کن ٹوپ لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انسانی حقوق لارہے ہیں لیکن اس کے بجاے وہ قیدیوں کی خوراک کو بیت الخلا میں پھینکنے اور وہاں اسے انسانوں کو کھانے پر مجبور کرنے والے ثابت ہوئے۔
امریکی اور برطانوی حکومتیں جارحیت کی مرتکب ہوئی ہیں۔ انھوں نے عراق پر ناجائز طور پر قبضہ کیا ہے۔ تعذیب قبضے کا ناگزیر حصہ ہے۔
لندن میں عراق میں کیے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف عوامی ردعمل رونما ہورہا ہے لیکن عالمِ اسلام اور خصوصیت سے اس کی حکومتیں سو رہی ہیں۔ کسی کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ امریکا کی کھل کر مذمت کرتا‘ امریکی سفیروں کو بلا کر اپنی اور اپنے عوام کے غم و غصے کا موثر اظہار کرتا‘ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کا عندیہ دیا جاتا‘ امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک چلائی جاتی‘ یو این او کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کیا جاتا‘ جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا‘ او آئی سی اپنا سربراہی اجلاس بلاتی‘ مسلم ممالک میں امریکا کے خلاف عوامی مظاہرے ہوتے اور امریکا نے عراق میں جو رویہ اسلام‘ مسلمانوں‘ مسلمانوں کے مقدس مقامات اورعرب عوام کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے‘ اس کے خلاف عوامی اور سرکاری سطح پر تحریک کا آغاز کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ کا قانون تو ان شاء اللہ ضرور اپنے وقت پر اپنا اظہار کرے گا اور ظالم کی کشتی ڈوب کر رہے گی لیکن کیا مسلمان اُمت اور اس کی قیادتیں محض خاموش تماشائی بنی رہیں گی؟--- ہم اپنے ضمیر‘اپنے عوام‘ تاریخ اور سب سے بڑھ کر اپنے اللہ کو کیا جواب دیں گے؟
بھارت کی چودھویں لوک سبھا کے انتخابات مقررہ وقت سے چھ ماہ قبل اپریل اور مئی ۲۰۰۴ء میں چار مرحلوں میں منعقد ہوئے اور ۱۲ مئی کو سامنے آنے والے نتائج نے بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو چونکا دیا۔ بی جے پی اور اس کے اتحادی جو اپنی متوقع فتح کے نشے میں چور تھے‘ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے۔ کانگریس اور اس کے اتحادی جنھیں فتح کی کوئی امید نہ تھی اولاً ۲۱۷ نشستیں لے کر اور پھر دوسری جماعتوں کی تائید سے‘ لوک سبھا میں ۳۲۰ ارکان کی تائید حاصل کر کے وزارت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس انتخاب کا گہری نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
بھارت‘ پاکستان اور مغربی دنیا کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں تبصروں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہم بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اہم تبدیلی کے چند ضروری پہلوئوں پر کلام کریں اس لیے کہ پاکستانی حکومت کے ذمہ دار حضرات کے بیانات سے احساس ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک اس غیر متوقع حادثے کے مالہ اور ماعلیہ کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔
جمہوریت میں اصل فیصلہ کن قوت عوام کی رائے اور ان کا فیصلہ ہوتی ہے۔ بھارت سے ہمیں جو بھی شکایات ہوں لیکن چار باتیں ایسی ہیںجن کا اعتراف حق پسندی کا تقاضا ہے۔ اول: وہاں سیاست میں کرپشن‘ پارٹیوں کے انتخابات میں دھاندلی اور مفاد پرستی کی شکایات بھی موجود ہیں اور اقلیتوں خصوصیت سے مسلمانوں اور پست طبقوں سے امتیاز برتا اور ان کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بحیثیت مجموعی ملک میں انتخابات منصفانہ ہوتے ہیں (ریاست جموں و کشمیر کو چھوڑ کر کہ وہ ملک کا حصہ نہیں‘ ایک مقبوضہ ریاست ہے)۔ اس کی بڑی وجہمسلسل انتخابات کا انعقاد اور ایک مختصر سے عرصے کے انحراف (اندرا گاندھی کے دور کی ایمرجنسی) کے سوا انتخابی عمل کے دستور کے مطابق کام کرنے اور ان کے نتائج کو بہ رضا و رغبت قبول کرنے کی روایت قائم ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ عوام میں بھی اپنے حق کا احساس اور اپنی قوت کے استعمال کا دم خم پیدا ہوگیا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں نے بھی تمام تحدیدات اور ترغیبات کے علی الرغم اپنے ووٹ کی قوت اور اہمیت کو محسوس کرلیا ہے اور اسے استعمال بھی کیا ہے۔ فوج اور اسٹیبلشمنٹ اپنی حدود کے اندر ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے وہاں جمہوریت کے پودے کو پنپنے اور ایک سایہ دار درخت بننے کا موقع دیا ہے۔ اس سے اس اصول کی صداقت بھی ایک بار پھر واضح ہوجاتی ہے کہ ساری خرابیوں کے باوجود جمہوریت کی کمزوریوں اور خرابیوں کا حل مزید جمہوریت اور اس تجربے کو مزیدمستحکم کرنے میں ہے‘ مسیحائوں کی تلاش اور وقتی ٹوٹکے (short cuts) آزمانے میں نہیں کیوں کہ ان کا نتیجہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس میں پاکستان کے طالع آزمائوں کے لیے بڑا سبق اور پاکستانی عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے بڑا مثبت پیغام بلکہ راہ نمائی ہے۔
دوم: جمہوریت کے فروغ اور انتخابات کو ایک فیصلہ کن نظام بنانے میں بڑا دخل الیکشن کمیشن کی آزادی‘ اس کے اختیارات کی وسعت‘اور بحیثیت مجموعی الیکشن کمیشن کی بے داغ کارکردگی پر بھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے کو سرکاری دبائو اور سیاسی جماعتوں کے اثرات سے محفوظ رکھا ہے۔ ۷۰۰ کروڑ ووٹروں سے ربط‘ ان کے حق راے دہی کے صحیح استعمال کے لیے مناسب انتظامات‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بے لاگ تعاون‘ اور جدید ترین مشینوں اور طریقوں کا استعمال‘ ہر حوالے سے اس نے اپنی کارکردگی ثابت کی ہے۔ ان انتخابات میں الیکٹرانک ووٹ کا طریقہ استعمال کیا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ امریکا سے بہتر انتظامات کیے گئے۔ صدربش کے ساڑھے تین سال پہلے منعقد ہونے والے انتخاب میں الیکٹرانک نظام نے خاصی جانب داری کا مظاہرہ کیا تھا مگر بھارت جیسے کم ترقی یافتہ ملک نے شفاف طریقے سے اپنی خدمات انجام دیں۔ ووٹر کو صرف اپنے مطلوب نشان پر انگلی رکھنا تھی‘ باقی سارا کام کمپیوٹر نے انجام دے دیا۔ اس کامیابی میں الیکشن کمیشن اور اس کی کارکردگی کا بڑا دخل ہے۔
سوم: بھارت میں عدلیہ کا کردار بھی اہم ہے جس نے انسانی حقوق کے تحفظ اور سیاسی جنبہ داری کے ہر سائے سے اپنے کو محفوظ رکھتے ہوئے دستور کے مطابق قانونی نظام کو ترقی دینے میں بڑا شاندار کردار ادا کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی پشت پر بھی عدلیہ کی آزادی اور قوت موجود ہے۔
چہارم: ان کے ساتھ بھارت میں پریس کی آزادی نے بھی جمہوریت کے فروغ میں بڑا اہم حصہ لیا ہے۔ پریس اور میڈیا کا اپنا اپنا تعصب اپنی جگہ‘ اسی طرح کچھ لوگوں کا اپنے زعم میں قومی مفاد کی خاطر خاص عناصر کو زیادہ اہمیت دینا بھی ایک حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ بھارتی پریس نے دوسرے نقطہ نظر کی اشاعت اور ابلاغ میں بھی آزادی سے کام لیا ہے۔
ان چاروں عناصر کی نشان دہی کے ساتھ اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ سب سے اہم کردار عوام کا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی قوت سے آگاہ ہو رہے ہیں اور اس کے استعمال کی جرأت اور سلیقے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی نے پروپیگنڈے کی قوت کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ اس کا پورا انتخابی بجٹ بی بی سی کے ایک جائزے کے مطابق ۵۰۰ کروڑ روپے کا تھا جو پاکستان کے پورے سالانہ بجٹ کا ۷۰ فی صد ہوتا ہے۔ صرف میڈیا کے اشتہارات پر بقول کلدیب نیر ۲۰ ملین ڈالر خرچ کیے گئے۔ لیکن بھارتی ووٹر نے محض میڈیا کی چکاچوند میں ’روشن بھارت‘ (Shining India) پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ اس کا کریڈٹ عوام ہی کو جاتا ہے جن میں تعلیم اور خواندگی کا تناسب پاکستان سے خواہ تھوڑا سا بہتر ہو‘ لیکن عالمی سطح سے وہ ابھی بہت پیچھے ہیں۔
انتخابات کے مثبت پہلوئوں میں انتخابی نتائج کو سب کا خوش دلی سے قبول کرنا اور انھیں ناکام کرنے یا ہارس ٹریڈنگ اور مصنوعی اکثریت سازی کے ذریعے عوام کے فیصلے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کا نہ ہونا بھی جمہوری اداروں کے بلوغ (maturity)کا اظہار ہے۔
ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اپنے تمام سیکولرزم‘ لبرلزم اور قانون کے احترام کے دعووں کے ساتھ جس طرح بی جے پی نے سونیا گاندھی کے وزیراعظم بننے کا راستہ روکا اور انتہاپسندی کے ساتھ ہندو شیونزم کا مظاہرہ کیا‘ تشدد اور خلفشار کے سمندر میں ملک کو ڈبونے اور معاشی انتشار اور بحران کی فضا پیدا کی‘ وہ جمہوریت کے چہرے کے ایسے بدنما داغ ہیں جن پر نظر رکھے بغیر بھارت کی سیاسی نفسیات کا صحیح ادراک ممکن نہیں۔
انتخابی نتائج کے اس پہلو پر بڑے شرح و بسط کے ساتھ کلام ہوا ہے کہ بی جے پی کی معاشی حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ یہ حکمت عملی وہی ہے جس پر ہم بھی آنکھیں بند کرکے عمل کر رہے ہیں۔ ہماری معیشت کی شرح نمو اب ۲ئ۵ یا ۸ئ۵ فی صد ہے مگر بھارت کی ۸فی صد سالانہ تھی۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ۱۲ بلین ڈالر ہیں ‘بھارت کے ۱۱۸ بلین ڈالر تھے۔ ہماری زراعت ۲ فی صد اور بھارت کی ۹ فی صد کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ لیکن اس تمام ترقی کا فائدہ بمشکل ۵ فی صد اہل ثروت کو ہو رہا تھا اور عوام کی اکثریت اس کے ثمرات سے محروم تھی۔ آندھراپردیش جسے دنیا میں کامیابی کی مثال( success story )کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا‘ جہاں کی IT کی برآمدات ۶ ارب ڈالر سالانہ کو چھو رہی تھیں اور جس کے وزیراعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کو بل کلنٹن اور بل گیٹس سینے سے لگا رہے تھے‘ ان کی وزارت خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔ اس سے لبرل معیشت‘ نج کاری اور گلوبلائزیشن کے سہارے معاشی پالیسی سازی کے افلاس کا پتا چلتا ہے۔ اس میں پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے پالیسی سازوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے۔ یہی کچھ ارجنٹاٹنا میں ہوا‘ یوروگوا میں ہوا اور اب ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں ہوا۔ کیا اب بھی ہمارے معاشی معالج اسی نسخے پر عمل جاری رکھیں گے؟
بھارت کے انتخابات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یک پارٹی یا دو پارٹی نظام کے دن گنے جاچکے ہیں۔ اب اتحادوں کی سیاست ہے اور اس میں عوامی مسائل کے ساتھ مقامی مسائل نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے۔ دونوں ہی بڑی پارٹیوں کو علاقائی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلناپڑا ہے۔ ایک اتحاد میں ۲۷ پارٹیاں ہیں تو دوسرے میں ۲۰۔ کانگرس نے سابقہ انتخاب میں ناکامی سے بروقت سبق سیکھا اور اتحاد کی سیاست کا نقشہ بڑی محنت اور چابک دستی سے بنایا‘ خصوصاً جنوب کی علاقائی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اس نے ایک کامیاب حکمت عملی وضع کی۔ اسی طرح محروم طبقات اور اقلیتوں کو اس نے سمجھ داری سے اپنی طرف ملتفت کیا اور اس کا اسے بھرپور فائدہ پہنچا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا زوال فروری ۲۰۰۲ء میں شروع ہوگیا تھا جب اس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کے سوچے سمجھے منصوبے پر منظم طریقے سے عمل کیا اور پھر گجرات کے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا۔ بھارت کا مسلمان پہلے ۲۴ سال پاکستان کی طرف دیکھتا رہا۔لیکن سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے نے اسے اس طرف سے مایوس کر دیا تو اسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا خیال آیا۔ اب ہندو انتہاپسندی نے اس کی کمر توڑنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں بابری مسجد کی شہادت اور گجرات کے مسلم کُش فسادات اہم ترین حربے تھے۔ لیکن حالیہ انتخابات میں مسلم ووٹر نے پہلی بار ایک واضح انتخابی حکمت عملی پر عمل کیا‘ اس نے اپنے ووٹ کی قوت کو کامیابی سے استعمال کیا۔ بی جے پی کے نمایشی اقدامات کے باوجود جن میں مولاناابوالکلام مرحوم کی نواسی اور راجیہ سبھا کی سابق مسلمان ڈپٹی چیئرپرسن نجمہ ہبت اللہ کی تائید اور جامع مسجد دہلی کے امام کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے‘ مسلمان ووٹر نے تقریباً پورے ملک میں اپنا ووٹ صرف اسی نمایندے کو دیا جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ بی جے پی کے نمایندے کو شکست دے گا۔ اس طرح ۱۴فی صد ووٹروں کے فیصلہ کن ووٹ نے بیسیوں انتخابی حلقوں میں پانسہ پلٹ دیا۔ کانگریس کو اس کا احساس ہے اور یہی وجہ ہے بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ۶۷ افراد کی کابینہ میں ۷ مسلمان وزرا شامل کیے گئے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے تشخص کی حفاظت کے ساتھ اچھی انتخابی حکمت پر مستقبل میں بھی عمل پیرا ہوتے ہیں تو توقع ہے کہ وہ بھارت کی سیاست اور اجتماعی زندگی میں اپنا قرارواقعی مقام حاصل کرسکیں گے۔
ان انتخابات کا ایک اور پہلو (جس کے اثرات شاید صرف بھارت تک ہی محدود نہ رہیں) بائیں بازو کی جماعتوں کا تیسری سیاسی قوت بن کر ابھرنا اور گلوبلائزیشن کے عالمی سرمایہ داری کے منصوبے کو روک لگانے کے عزم کا اظہار ہے۔ لاطینی امریکا میں بھی یہ رجحان واضح ہورہا ہے اور امکان ہے کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی بے وفائی (betrayal) کے علی الرغم یورپ کے دوسرے ممالک میں یہ رجحان تقویت پائے گا اور خود برطانیہ میں لیبر کی سیاست میں آیندہ تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ علاقائی اور عالمی دونوں تناظر میں یہ تبدیلیاں گہرے مطالعہ اور صحیح ردعمل کی متقاضی ہیں۔
پاک بھارت تعلقات کا مسئلہ بھی بہت گہرے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ انتخاب سے پہلے ہماری قیادت نے اپنے سارے انڈے بی جے پی اور زیادہ صحیح الفاظ میں اٹل بہاری واجپائی کی ٹوکری میں ڈال دیے اور ان کے لیے دعائیں بھی شروع ہوگئیں۔ اسی طرح جس طرح وزیراعظم صاحب نے اس وقت جب ساری دنیا بش پر لعنت بھیج رہی ہے‘ ان کے لیے دعائوں کا تحفہ پیش فرمایا ہے۔ یہ سادگی نہیں ڈپلومیسی کی زبان میں نہایت بھیانک غلطیاں (blunders) ہیں جن سے احتراز کرنا چاہیے۔
انتخابی نتائج کے بعد سونیا گاندھی اور ڈکشٹ کے بیانات کا سہارا لیا جانا شروع ہوگیا ہے اور ایک بار پھر وہی مذاکرات کی رٹ لگائی جا رہی ہے حالانکہ ابھی بھارت میں وزارت نے اپنے قدم بھی نہیں جمائے ہیں۔ ایسی عجلت بڑی عاقبت نااندیشانہ سیاست ہے۔ کیا ہم صبروہمت کا دامن بالکل ہی چھوڑ چکے ہیں؟
کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی سیاست کا بغور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت کمزور ہے اور جو تھوڑی بہت گنجایش موجود تھی‘ ایک اقلیتی فرقے کے وزیراعظم کی وجہ سے وہ اور بھی کم ہوگئی ہے۔ کانگریس کی صدر بھی بھارت نژاد نہیں۔ سونیا گاندھی کی وزارت عظمیٰ کا راستہ روکنے کے لیے بی جے پی کی مرکزی قیادت نے جس طرح حلف برداری کی تقریب کے بائیکاٹ سے لے کر بڑی بڑی سورما خواتین کے استعفوں‘ سر کے بال منڈوانے اور ماتمی اجتماع کی دھمکیاں دیں‘ ان سے بی جے پی کی سیاست کے طریق واردات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ واجپائی نے بھی ایک ہی سانس میں دوستی اور جنگ دونوں کی باتیں کی تھیں۔ اب کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل کی مشکلات بڑھ گئی ہیں اس لیے کہ حکومت کی کمزوری اور اپوزیشن میں ہندو سیاست کے چیلنجوں کونظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کانگریس کی حکومت کے ترجمانوں کی طرف سے دو اعلان بڑے اہم اور معنی خیز ہیں۔ ایک شملہ معاہدے کا اعادہ اور دوسرے دیوارِ برلن کے گرنے کی بات۔ من موہن سنگھ صاحب کا حافظہ خطا کر رہا ہے۔ دیوار برلن تو پندرہ سال پہلے گرچکی تھی اور اس کے گرنے کا تصور نہ ہونا تو بہت پہلے کی بات ہے۔ لیکن دیوار برلن کی تلمیح میں کن عزائم کا ڈھکا چھپا اعلان ہے؟ وہی جو پنڈت نہرو‘ کانگریس ورکنگ کمیٹی اور اچاریہ کرپلانی نے بھارت اور پاکستان کے دوبارہ ملنے کی توقعات کی شکل میں کیا تھا اور جن کی طرف ایڈوانی صاحب کنفیڈریشن کی بات کرکے اشارے کر رہے تھے؟ آغاز ہی ان اعلانات سے ہواہے‘ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
مذاکرات ضرور کیجیے۔ ہم سب اس کے حق میں ہیں لیکن ان سے کسی قسم کی توقع رکھنا ایک حماقت ہوگی اور ان کی توقع پر متبادل راستوں اور حکمت عملیوں سے صرفِ نظر کرنا مجرمانہ اور بھیانک غلطیوں کے ارتکاب کے مترادف ہوگا۔ پورے منظرنامے کو سامنے رکھ کر گہرے سوچ بچار اور ضروری حکمت عملیاں تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں اگر سیاسی اور مزاحمتی دبائو ذرا بھی کم ہوتا ہے تو مذاکرات کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ آخر سورن سنگھ بھٹو مذاکرات بھی کانگریس ہی کے زمانے میں ہوئے تھے۔ ڈکشٹ صاحب اسلام آباد میں سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ جامع مذاکرات(composite dialouge) کا آغاز بھی کانگریس ہی کے زمانے میں ہوا تھا جوآگے نہ بڑھا تھا۔ اب بھی امن کے قیام اور معنی خیز مذاکرات کے انعقاد کی ہرکوشش کرنا ہمارا فرض ہے مگر سمجھ داری‘ صبر‘ متانت اور قومی وقار کے ساتھ۔ اس موقع پر قائداعظم کے دو ارشادات اگر سامنے رہیں اور ان سے کچھ روشنی بھی حاصل کرلی جائے تو بڑا مفید ہوگا۔ قائداعظم نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو مسلم لیگ کے لکھنؤ کے اجلاس میں بڑی پتے کی بات کہی تھی:
کمزور فریق کی جانب سے امن و صلح کی پیش کش کا مطلب ہمیشہ کمزوری کا اعتراف اور جارحیت کو حملہ کرنے کی ترغیب ہوتا ہے۔ تمام تحفظات اور معاہدات‘ اگر ان کی پشت پر طاقت نہ ہو‘ محض کاغذ کے پرزے ہوتے ہیں۔ سیاست کا مطلب انصاف کے نعروں یا رواداری یا خیرسگالی کی چیخ پکار پر بھروسا کرنا نہیں۔ سیاست کا مطلب ہے طاقت اور صرف طاقت۔
۱۱ مارچ ۱۹۴۸ء کو سوئٹزرلینڈ کے صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم نے جو بات کہی وہ آج ۱۹۴۸ء سے بھی زیادہ بامعنی اور برمحل ہے۔
سوال: کیا امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کبھی اپنے اختلافات اور تنازعات پُرامن طور پر حل کرلیں گے؟
جواب: بشرطیکہ بھارتی حکومت احساسِ برتری ختم کر دے‘ پاکستان کو برابر کی حیثیت دے اور اصل حقائق کا سامنا کرے۔
سوال: کیا بین الاقوامی معاملات میں پاکستان اور بھارت مل جل کر کام کریں گے اور کیا بیرونی حملے کی صورت میں بّری اور بحری محاذوں پر مشترکہ دفاع کریں گے؟
جواب: مجھے ذاتی طور پر ذرا بھی شبہہ نہیں کہ ہمارے اعلیٰ ملکی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کو بین الاقوامی معاملات میں اپنا اہم کردار انجام دینے کے لیے مل جل کر کام کرناچاہیے۔ دو آزاد اور خودمختار مملکتوں کی حیثیت سے پاکستان اور بھارت کو بیرونی حملے کا مقابلہ باہمی تعاون سے کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا دارومدار سراسر اس بات پرہے کہ پاکستان اور بھارت پہلے اپنے اختلافات اور تنازعات ختم کرلیں۔ اگر ہم پہلے اپنے گھر کو مضبوط اور استوار کرلیں تو پھر اس قابل ہوسکتے ہیں کہ بین الاقوامی معاملات میں ثابت قدمی سے بہت زیادہ حصہ لے سکیں۔
قائداعظم کے دونوں اقوال ان زریں اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہماری پاک بھارت دوستی کی بنیادیں استوار ہوسکتی ہیں۔ ان کو نظرانداز کرکے جذباتی اندازمیں یا بیرونی دبائو کے تحت سیاست کاری ملک و ملّت کے لیے مہلک ہے۔
یہ وقت ہے کہ پارلیمنٹ اور تمام سیاسی اور دینی قوتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ٹھوس بنیادوں پر خارجی اور داخلی پالیسی تشکیل دیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کی اب تک کی کارگزاری ہر اعتبار سے سخت مایوس کن اور مستقبل کے لیے اپنے دامن میں مہیب خطرات لیے ہوئے ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اور ان انتخابات کے جو اثرات اس پر مرتب ہوں گے ان کے فوری اور گہرے جائزے کی اور ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے تحریک مزاحمت کو صحیح پیغام پہنچے۔ جلدبازی میں اور وقتی مصالح یا بیرونی دبائو میں بنائی جانے والی پالیسیاں تارِعنکبوت کی طرح ہوتی ہیں۔ اس جال سے ہم جتنی جلد نکل جائیں ہمارے لیے بہتر ہے۔
حضرت عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ لوگوں نے آپؐ سے میرے متعلق عرض کیا‘ یہ عدی بن حاتم ہیں۔ میں کسی معاہدے اور امان کے بغیر حاضر ہوا تھا۔ جب مجھے آپؐ کے قریب کیا گیا تو آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑلیا۔ اس سے پہلے آپؐ فرما چکے تھے کہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس (عدی) کے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں دے دے گا۔ پھر آپؐ مجھے لے کر چل پڑے۔ راستے میںآپؐ کو ایک عورت اور ایک بچہ ملے۔ انھوں نے عرض کیا: ہمیں آپؐ سے کام ہے۔ ان کی بات سن کر آپؐ ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کا کام پورا کر دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے گھرلے آئے۔ لونڈی نے مسند بچھا دی‘ آپؐ اس پر بیٹھ گئے اور میں آپؐ کے سامنے بیٹھ گیا۔
آپؐ نے اللہ کی حمدوثنا کی۔ اس کے بعد فرمایا:عدی! تمھیں کون سی چیز لا الٰہ الا اللہ کہنے سے روکتی ہے؟ کیا تمھارے علم میں اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ عدی ؓکہتے ہیں: میں نے عرض کیا‘ نہیں۔ پھر آپؐ نے تھوڑی دیر مزید گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم اللہ اکبر کہنے سے بھاگتے ہو؟ اللہ سے کوئی اور بڑی ذات تمھارے علم میں ہے؟ میں نے عرض کیا‘ نہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: یہود مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ ہیں اور نصاریٰ گمراہ۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے عرض کیا: میں تو تمام ادیانِ باطلہ سے منہ موڑ کر مسلم ہوگیا ہوں۔ تو میں نے دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ پھر مجھے ایک انصاری کے ہاں ٹھیرانے کا حکم دیا۔ میں وہاں ٹھیرگیا اور صبح شام حضوؐر کی خدمت میںحاضر ہوتا رہا۔
ایک دفعہ پچھلے پہر میں آپؐ کے پاس حاضر تھا کہ دھاری دار اونی چادریں باندھے کچھ لوگ آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ نے انھیں صدقہ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: جس کے پاس ایک صاع ہے تو وہ ایک صاع لائے‘ نصف صاع ہے تو وہ نصف لائے‘ ایک مٹھی یا مٹھی کاکچھ حصہ ہے تو وہ وہی لے آئے اور اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے‘ اگرچہ ایک کھجور یا کھجور کے ایک چھلکے سے سہی۔ تم میں سے ایک آدمی اللہ سے ملے گا اس حال میں کہ اللہ اس سے وہ بات فرمائیں جو میں تمھیں ابھی بتلا دیتا ہوں۔ اللہ فرمائے گا: کیا میں نے تجھے مال اور اولاد نہ دی تھی؟ جواب میں وہ شخص کہے گا: کیوں نہیں‘ اے رب! پھر اللہ فرمائیں گے: کیا ہے وہ جو تم نے اپنے لیے آگے بھیجا؟ وہ اپنے آگے پیچھے‘ دائیں بائیں دیکھے گا توکسی چیز کو نہ پائے گا جس کے ذریعے سے اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے۔(اس کے بعد آپؐ نے فرمایا:) تم میں سے ہر ایک اپنے چہرے کو آگ کی حرارت سے بچائے اگرچہ کھجور کے ایک چھلکے ہی سے۔ وہ بھی نہ ملے تو عمدہ بول سے۔ مجھے تمھارے بارے میں فقروفاقے کا ڈر نہیں ہے۔ اللہ تمھاری مدد کرنے والا ہے۔ وہ تمھیں مال دار کر دے گا یہاں تک کہ ایک ’’پردہ نشین‘‘ عورت اپنی اونٹنی پر یثرب ]مدینہ[ سے حِیرہ ]یمن[تک یا اس سے بھی زیادہ طویل سفر کرے گی اور اسے چوروں اور ڈاکوئوں کا کوئی ڈر نہ ہوگا۔ (عدیؓ کہتے ہیں کہ) میں اپنے دل میں کہتا تھا‘ طے قبیلے کے ڈاکو کہاں چلے جائیں گے؟ (لیکن نبیؐ کا فرمایا پورا ہوگیا‘ ڈاکو ختم ہوگئے) (ترمذی‘ کتاب التفسیر‘ تفسیر سورۂ فاتحہ)
رحمت للعالمینؐ کی رحمت و شفقت کے دل کش‘ ایمان افروز‘ رقت آمیز چار مناظر آپ کے سامنے ہیں۔
پہلا منظر: حضرت عدی بن حاتمؓ نصرانی ہیں‘ اسی حالت میں آپؐ کے پاس حاضر ہوتے ہیں‘ پھر کیسی شفقت اور کیسا پیار اور انس پاتے ہیں۔ آپؐ محبت سے ان کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے جاتے ہیں‘ گھر تک ہاتھ میں ہاتھ ہے۔ کیسے پیارے انداز سے اسلام کی دعوت پیش کرتے ہیں‘ کس طرح قیام و طعام کا انتظام کرتے ہیں‘ سبحان اللہ! محبت ہی محبت اور رحمت ہی رحمت ہے۔ ہے کوئی جو اس کی مثال پیش کرے!
دوسرا منظر: خاتون اور اس کا بچہ اپنے کام کے لیے حاضر ہوتے ہیں تو آپؐ ان کی حاجت پوری کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
تیسرا منظر: فقروفاقے سے دوچار اور بدن پر پورے لباس سے محروم مجاہدین آتے ہیں تو دل میں ان کے لیے تڑپ لے کر لوگوں کو صدقے کی ترغیبات دے رہے ہیں۔
چوتھا منظر: اسلام کی بدولت امن و امان کے منظر کی خوش خبری آپؐ نے دی۔ آپؐ فرماتے ہیں: ڈاکے ختم ہوجائیں گے‘ دنیا کو امن و امان ملے گا اور وہ سکھ کا سانس لے گی۔ آپؐ کی پیش گوئی کی صداقت دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
آج دنیا کی سب سے بڑی ضرورت اگر ظلم و جور‘ فتنہ و فساد اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے تو پھر انسان کی سب سے بڑی ضرورت اسلام ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ محبت کرتے ہیں‘ اور تین ایسے ہیں جن سے ناراض ہوتے ہیں۔ جن سے محبت کرتے ہیں‘ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو لوگوں کے پاس آتا ہے اور ان سے رشتے داری کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ اللہ کے نام پر سوال کرتا ہے۔ لوگ اسے کچھ نہیں دیتے‘ وہ واپس ہوجاتا ہے۔ پھر ایک آدمی اس کے پیچھے چلا جاتا ہے اور چپکے سے اس کی وہ حاجت اس طرح پوری کر دیتا ہے کہ اس کا علم اللہ اور اس شخص کے سوا کسی کو نہیں ہوتا جس کا سوال اس نے پورا کیا۔ دوسرا وہ شخص ہے کہ لوگ رات کے وقت سفر کرتے رہے۔ جب رات کا آخری پہر آیا جس میں نیند مسافر کو ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتی ہے‘ لوگ سوگئے لیکن وہ کھڑا ہوگیا اور میری آیات کی تلاوت اور طرح طرح سے میری حمدوثنا کر کے مجھے راضی کرنے میں لگ گیا۔ تیسرا وہ شخص ہے جو ایک جہادی دستے میں شامل ہے۔ لوگ شکست کھاکر بھاگ گئے لیکن وہ آگے بڑھا‘ حملے کرتا رہا یہاں تک کہ فتح حاصل کی یا جامِ شہادت نوش کرلیا۔ اور تین شخص اللہ کو ناپسند ہیں: بوڑھا زانی‘ فقیرتکبر کرنے والا‘ دولت مند جو ظلم کرنے والا ہو۔ (ترمذی)
آج بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کی راہ سب کے لیے کھلی ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے والے‘ اللہ کو راضی کرنے کے لیے راتوں کو اٹھ کر تلاوتیں اور دعائیں اور اس کی ثنا اور اس سے آہ و زاری کرنے والے‘ اور جہاد سے رخ موڑ لینے کے بجاے استقامت کا مظاہرہ کرنے والے‘ اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حیض کی حالت میں یہود اپنی بیویوں سے میل جول ختم کردیتے۔ کھانا پینا‘ رہایش‘ ہر چیز الگ کرلیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی یہ آیت نازل فرمائی: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِط قُلْ ھُوَ اَذًی (البقرہ۲:۲۲۲) ’’آپؐ سے پوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے؟ آپؐ کہہ دیجیے: حیض ایک تکلیف دہ حالت ہے۔ اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جائو‘ جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں‘‘۔ یہود نے جب یہ آیات سنیں تو کہنے لگے کہ یہ شخص ہر معاملے میں ہماری مخالفت کرتا ہے۔ یہود کی یہ بات عباد بن بشرؓ اور اسید بن حضیرؓنے سنی تو حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کو ان کی اس بات کی اطلاع دی۔ ساتھ ہی یہود کی اس بات کا مزید سخت جواب دینے کی خاطر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم یہود کی مزید مخالفت کرتے ہوئے بیویوں سے ہم بستری نہ کریں؟ یہ بات سن کر حضوؐر کے چہرئہ انور کا رنگ بدل گیا جس سے ہم سمجھے کہ رسولؐ اللہ ان پر غصہ ہوگئے۔ (آپؐ کے غصے کا سبب یہ تھا کہ یہود یا کسی بھی گروہ کی مخالفت میں آدمی اس قدر آگے نہ بڑھ جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی بھی پرواہ نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن پاک کی ایک آیت میں ہے: لَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط (المائدہ ۵:۸) ’’تمھیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل سے کام نہ لو۔ اس کے بعد وہ دونوں صحابیؓ اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے سامنے سے ایک آدمی نبیؐ کے لیے ہدیے کے طور پر دودھ لے کر آرہا تھا۔ آپؐ نے انھیں واپس بلایا تاکہ وہ دودھ پی لیں۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ آپؐ ان سے ناراض نہیں ہوگئے۔ (ترمذی)
مخالفین کی مخالفت میں حد سے نہ گزرنا چاہیے کہ آدمی کو اپنے اصول اور طریقے بھی یاد نہ رہیں۔ اور ضد میں دینی احکامات کی مخالفت بھی کر گزرے‘ یہ بات اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناراض کرنے والی ہے۔ جوش میں بھی ہوش کا دامن نہ چھوٹے۔
اس واقعے سے ناراضی کے اظہار کے بعد شفقت اور حسنِ سلوک کا سبق بھی ملتا ہے۔
الجزائرکے مسلم مفکرمالکؒ بن نبی (۱۹۰۵ئ-۱۹۷۳ئ) کے افکار و خیالات میرے ذہن میں اکثر گردش کرتے رہتے ہیں۔ نئی نسل مالکؒ بن نبی سے واقف نہیں جو علمی اعتبار سے ایک دائرۃ المعارف تھے۔ آج اگر ہم ان کے افکار کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اولیں دور کے اور آج کے مفکرین نے کس قدر عرق ریزی سے فکری رہنمائی کا سامان کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جن علما اور مفکرین کی تحریروں نے اُمت مسلمہ کی فکری غذا کی فراہمی کا سامان کیا‘ ان میں محمدعبدہ‘ جمال الدین افغانی اور طہٰ حسین وغیرہ معروف ہیں۔ انھوں نے عالمِ عرب کی ثقافت اور فکر کو متاثر کیا اور اپنے معاشرے میں نئے افکار روشناس کرائے جو پہلے سے معروف نہیں تھے‘ لیکن اس فہرست میں مالکؒ بن نبی نظر نہیں آتے۔ میری خواہش ہے کہ قارئین کو ان کی فکر سے روشناس کروایا جائے۔
مالکؒ بن نبی مشہور اسلامی مفکرہیں۔ الجزائر کے شہر قسطنطنیہ میں ۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئے۔ اسلامک انسٹی ٹیوٹ سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۳۵ء میں پیرس سے الیکٹریکل انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ تمام مسائل کو تہذیبی مشکلات اور مسائل کا نام دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی تمام تالیفات مشکلات الحضارۃ کے نام سے طبع ہوئیں۔ پیرس میں قیام کے دوران ان کی کئی کتب فرانسیسی زبان میں شائع ہوئیں جن میں انھوں نے اُمت مسلمہ کے مسائل اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کو موضوع بنایا۔ ۱۹۵۶ء میں وہ قاہرہ چلے آئے۔ یہاں بھی ان کی کئی کتب شائع ہوئیں اور فرانسیسی زبان میں لکھی گئی کتب کے عربی ترجمے بھی شائع ہوئے۔ الجزائر کی آزادی کے بعد وہ وطن واپس آگئے۔ ۱۹۶۳ء میں الجزائر میں اعلیٰ تعلیم کے ڈائرکٹر جنرل کے طور پر کام کیا لیکن اس کے بعد تصنیف و تالیف سے وابستہ ہوگئے۔ اس عرصے میں ان کی ۱۷کتب شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے مشہور الجزائری مفکر ابن بادیس کے حالاتِ زندگی اور خدمات پر ایک کتاب تصنیف کی۔ انھوں نے عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کے فکری مسائل‘ الظاہرۃ القرآنیۃ اور ثقافت کی مشکلات جیسی گراں قدر تصانیف بھی لکھیں۔ تہذیبی اور فکری مسائل کے بارے میں مالکؒ بن نبی کے افکار اور خیالات ان کتابوں کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں۔
پیرس میں دورانِ تعلیم انھوں نے علمی اور عملی دونوں لحاظ سے تعلیم حاصل کی اور فکری لحاظ سے انھیں غوروفکر کرنے کا موقع ملا۔ اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ انھوں نے الجزائر میں گزارا جہاں عربی اور اسلامی تہذیب کی جڑیں ان کے دل و دماغ میں پیوست ہوگئیں۔ قاہرہ میں قیام کے دوران انھیں عالمِ عرب کے مسائل اور مشکلات کو جاننے اور مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں الجزائر اپنی آزادی کے لیے تگ و دو میں مصروف تھا۔ قاہرہ میں قیام کے دوران ہی انھیں مشرقی فکر سے آگاہی ملی‘ خاص کر انھیں علامہ محمد اقبال ؒکی فکر سے واقفیت ہوئی۔ اسلام کے مبنی بر اعتدال تصور کو انھوں نے علامہ محمد اقبالؒ کی فکر سے مستعار لیا۔ ۳۱ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو الجزائر میں ان کا انتقال ہوا۔
اقوام کے استعمار (امپریلزم) سے سامنا کرنے کے حوالے سے ایک معروف عرب اسکالر ڈاکٹر کمال ابودیب استعمار کی نمایاں خصوصیات کے حوالے سے لکھتے ہیں: بعض اوقات یہ استعمار تعمیری اور مثبت اقدار پر مبنی ہوتا ہے اور اکثر اوقات صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ تاریخ میں جتنے بھی قابلِ ذکر انقلابات برپا ہوئے ہیں انھوں نے وسیع پیمانے پر استعمار کی تحریک کو جنم دیا ہے۔ اس میں اقتصادی اور مادی پہلو بھی بہت نمایاں نظرآتا ہے۔ پہلی صدی عیسوی سے لے کر اکیسویں صدی تک‘ اس طرز پر کئی ایک انقلابات صفحۂ ہستی پر برپا ہوئے۔ ان کے اثرات کا اگر ہم جائزہ لیں تو چار بڑے انقلابات نظرآتے ہیںجنھوں نے تاریخ انسانی پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ پہلا اسلامی عربی انقلاب‘ دوسرا جغرافیائی آگہی کا انقلاب‘ تیسرا علمی اور صنعتی انقلاب‘ چوتھا برقی ترقی اور بیالوجیکل انقلاب جس سے آج ہم گزر رہے ہیں۔
پہلے انقلاب میں عرب تہذیب دنیا میں وسعت پذیر ہوئی اور دنیا میں اسے فروغ حاصل ہوا۔ دوسرے اور تیسرے انقلاب میں مغربی استعمار کو فروغ پانے کا موقع ملا۔ اندلس‘ پرتگال‘ فرانس اور برطانیہ سے اس کا آغاز ہوا اور ساری دنیا کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
چوتھا انقلاب برقی ترقی کا انقلاب ہے۔ اس کے ساتھ امریکی استعمار کا آغاز ہوتا ہے۔ گذشتہ سارے انقلابات زمان و مکان کے لحاظ سے محدود پیمانے پر رونما ہوئے جو ایک انقلابی معاشرے کے لیے فکری اور اقتصادی تقاضوں پر پورے نہ اترتے تھے۔ اس لیے ان انقلابات نے یکساں نوعیت کے گہرے اثرات نہیں چھوڑے‘ جیساکہ مشرق سے مغرب تک‘اورایشیا سے لے کر یورپ‘ بلکہ امریکہ تک ان کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک سمندر سے لے کر دوسرے سمندر تک‘ بحرِمتوسط سے لے کر اٹلانٹک اور بحرالکاہل تک یہ سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ہراستعمار نے واضح جغرافیائی وسعت حاصل کی اور مختلف خطوں میں انسانی نقل مکانی عمل میں آئی۔ دُور اور قریب میں انسان آباد ہوئے لیکن یہ توسیع دو بنیادوں پر عمل میں آئی۔ عسکری قوت میں اضافہ اور مقبوضہ علاقوں کی طرف انسانی نقل مکانی اور ان علاقوں سے اس استعمار کے مرکز کی طرف نقل مکانی۔ عربوں نے دنیا میں عسکری اور انسانی دونوں لحاظ سے وسعت اختیار کی۔ جن علاقوں پر قبضہ کیا انھیں اپنا وطن بنایا اور اس علاقے کے مقامی باشندوں کے ساتھ گھل مل گئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ پھر ان علاقوں سے انھیں واپس بھی آنا پڑا۔
امریکی استعمار کا پھیلائو یا وسعت سابقہ استعماروں سے جس لحاظ سے نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ امریکی استعمارمیں عسکری‘ اقتصادی اور ثقافتی وسعت شامل ہے۔ خام مال کا استعمال‘ امریکی مصنوعات کے لیے مارکیٹ کی تلاش اور امریکی مرکزسے دُور‘ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اڈوں کا قیام‘ وہ ضروری اور نمایاں اوصاف ہیں جو امریکی استعمار اپنی بقا اور تحفظ کے لیے کر رہا ہے۔ جنھیں وہ اپنا دشمن خیال کرتا ہے‘ ان سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے وہ ان اقدامات کو ضروری خیال کرتا ہے۔
آج اہلِ عرب بہت سے اسباب کی وجہ سے مفکر ابن نبی کو یاد کریں گے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم نئے سرے اور نئے زاویے سے ان کے افکار کا مطالعہ کریں۔ اس مطالعے کے نتیجے میں ہم دیکھیں گے کہ انھوں نے اس علمی حقیقت کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی ہے کہ اقوام‘ استعمار کا تر نوالہ کیسے بنتی ہیں‘ استعمار کو قبول کرنے پر کیسے راضی ہوجاتی ہیں‘ اور استعمار کا مقابلہ کرنے کی حقیقت کیا ہے؟ اگرچہ وہ اس فکر کے بانی تو نہیں‘ لیکن ایک نیا زاویۂ نگاہ ضرور سامنے لائے ہیں۔ اس موضوع پر مالکؒ بن نبی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ استعمارکا شکار ہونے والی اقوام کے بارے میں ان کے خیالات اور افکار کسی قوم یا نسل کے ساتھ مخصوص نہیں کہ کسی قوم کے لیے بدبختی ہمیشہ کے لیے مقدر کر دی گئی ہو۔
اسلامی تاریخ بالخصوص اور روے زمین کی دیگر اقوام کی تاریخ شاہد ہے کہ ایک قوم عزت‘ اقتدار اور خوش حالی سے سرفراز ہوتی ہے۔ اس کے بعد آنے والی نسلیں ذلت‘ ادبار اور نکبت کا شکار ہوجاتی ہیں اور غلامی کا مزا چکھتی ہیں۔ پھر اس کے بعد کچھ نسلیں ایسی آتی ہیں جو اس قوم کی عظمت رفتہ کی بحالی کا سبب بنتی ہیں۔ یہ معروف تاریخی فلسفہ ہے جو ازل سے کارفرما ہے۔ برطانوی مفکر آرنلڈ ٹائن بی نے بھی اسے بیان کیا ہے۔
مالکؒ بن نبی کہتے ہیں کہ بعض اقوام اپنی تاریخ کے کسی خاص مرحلے پر استعمار کا نشانہ بننے کے لائق ہوتی ہیں اور اس مرحلے میں وہ قوم کمزوری اور غفلت کا شکار ہوتی ہے۔ علمی انقلاب اپنی آستین میں استعمار کو بھی چھپا کر لاتا ہے۔ وہ اقوام‘ استعمار کا لقمۂ تر ثابت ہوتی ہیں جو فکری اور تحقیقی میدان میں پیچھے رہ جاتی ہیں اور ان کی کمزوری میں دن بدن اضافہ ہوتا جاتاہے اور وہ استعمار کی گود میں بے حس و حرکت‘ پکے ہوئے پھل کی طرح آگرتی ہیں۔ ابودیب نے بھی استعمار اور علمی انقلاب کے باہمی تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے ایک دوسرے اسلوب میں یہی بات کہی ہے جو مالکؒ بن نبی نے کہی ہے۔ بن نبی نے اپنی معرکہ آرا کتاب vocation de I'islamمیں اسلامی دنیاکی حالت اور نشات ثانیہ پر اپنے خیالات کو وضاحت سے پیش کیا ہے۔ ان کا تجربہ آج کے بہت سے مسلم ممالک پر بھی چسپاں ہوتا ہے۔ مختصراً وہ یہ کہتے ہیں کہ مغربی نوآبادیاتی استعمار لازمی طور پر ایک اہم عنصر تھا جس نے مسلم دنیا میں دورِ غلامی کا آغاز کیا۔ لیکن اس استعمار کے قبضے سے زیادہ اس کے قبضے کو ذہناً تسلیم کرلینازیادہ سنگین تھا۔ اور جب تک مسلمان ذہن اس مغلوبیت سے نہیں نکلتا وہ ترقی اور نشات ثانیہ میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا۔
مالکؒ بن نبی کے خیال میں ایک طویل عرصے سے عالمِ عرب کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ گویا مستقبل کے لیے اس کا کوئی نصب العین اور ہدف ہی نہیں ہے۔ یعنی مریض نے بیماری کے سامنے سپرڈال دی ہے اور درد اور تکلیف کا احساس مریض کو نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ وہ مرض کو اپنے جسم کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔
بیسویں صدی سے پہلے اس کی بیماری کا چرچا ہونے لگا اور عالمِ عرب اپنی طویل اور گہری نیند سے بیدار ہونے اور اس بیماری کا احساس کرنے لگا۔ اس خاموش بیداری اور تاریخ کے اس عرصے کو مالکؒ بن نبی نشات ثانیہ کا عنوان دیتے ہیں۔
اس نشات ثانیہ یا اس پیش رفت کا کیا مفہوم ہے؟ اس حوالے سے مالکؒ بن نبی کہتے ہیں کہ محض مرض کا احساس ہونا‘ اس مرض سے شفایاب ہونے کے لیے کافی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بیسویں صدی کے نصف اول پر نظرڈالی جائے۔ اس کے نتیجے میں عالمِ عرب کی موجودہ کیفیت کے اسباب سمجھ میں آجائیں گے۔
مالکؒ بن نبی کے نزدیک گذشتہ ۵۰سالہ جدوجہد کے دو متضاد نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایک لحاظ سے اس جدوجہد کا نتیجہ موافق یا مثبت ہے‘ اور ایک دوسرے لحاظ سے یہ نتیجہ ناکامی کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق عوام نے اپنے اہداف اور جدوجہد کی سمت کا تعین نہیں کیا۔ عالمِ عرب میں جمہوریت‘ عوام کی شرکت اور علمی پیش رفت مفقود رہی۔
اس عرصے کی تاریخی دستاویزات اور وثائق کا ہم آج مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اخبارات‘ جرائد اور کانفرنسوں کی رودادیں ہمیں ترقی یا نشات ثانیہ کے موضوع پر ہونے والے کام یا پیش رفت کے بارے میں پتا چلانے کے لیے ممدومعاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان دستاویزات کا مطالعہ استعمار‘ جہالت‘ غربت اور نظم ونسق کے بگاڑ اور ان کے حل کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ لیکن مرض کا حقیقی تجزیہ اس سارے ذخیرے میں نظرنہیں آتا‘ یعنی مرض کی ایسی تشخیص جس میں وہم و گمان کو بنیاد نہ بنایا گیا ہو‘ بلکہ مرض کے اصل اسباب معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہو جن میں عالمِ عرب کا جسدِخاکی مدتوں سے مبتلاے اذیت ہے۔ ان دستاویزات کے مطالعے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہرمصلح نے وقتی صورت حال کا علاج اپنے ذوق‘ رائے اور انھی مشکلات کی روشنی میں تجویز کیا۔
اس مشکل کا علاج عقیدے کی اصلاح اور وعظ و نصیحت سے ہو سکتا ہے‘ جیسا کہ محمد عبدہ نے کیا۔ یہ ساری تجاویز مرض کو ختم کرنے کے لیے نہیں‘بلکہ اس مرض کی علامات کو ایک ایک کرکے ختم کرنے کے لیے پیش کی گئیں۔ نتیجہ وہی نکلا جو ایک ڈاکٹر تپ دق کے مریض کے لیے اس مرض کے جراثیم کو ختم کرنے کے بجاے محض بخار کی شدت کم کرنے کی دوا تجویز کرے اور مریض بھی اس طریق علاج کو پسند کرتا ہو۔ گذشتہ ایک صدی سے یہی ہو رہا ہے۔ استعمار اور اس کی سازشوںکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بجاے ایک ایک اثر کو ختم کرنے کی تجاویز دی جاتی رہی ہیں۔ کوئی ناخواندگی کا رونا روتا ہے اور کوئی غربت کو اصل مسئلہ قرار دیتا ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس مرض کی حقیقت کو نہیں جانتے اور بے شمار لوگ ایسے ہیں جو مرض کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے‘ بلکہ درد محسوس کرنے کی صورت میں اس درد کو ختم کرنے اور وقتی آرام کے لیے طرح طرح کی گولیاں اور شربت استعمال کیے جاتے ہیںاور جگہ جگہ ڈسپنسریوں میں یہ سہولت موجود ہے۔
مالکؒ بن نبی کی رائے میں اس صورت حال سے چھٹکارا پانے کی دو ہی صورتیں ہیں: یا تو مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکاجائے یا مریض کو ختم کر دیا جائے۔ لیکن بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اس صورت حال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘ کیونکہ ان کے مفادات کا تحفظ صرف اسی صورت میں ممکن ہے۔ یہ عنصر ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہے اور معاشرے سے باہر بھی۔
یہ مریض‘ مغرب کی ڈسپنسری میں شفا کی تلاش میں دستِ سوال دراز کرتا ہے۔ لیکن کس غرض سے؟ کون سی دوا سے؟ اور اس کی مدتِ علاج کے بارے میں بھی ہم کچھ نہیں جانتے۔ لیکن گذشتہ ۵۰ برسوں میں پس ماندگی اور زوال میں اضافہ ہوا ہے‘ کمی نہیں ہوئی۔ ضروری ہے کہ ہم سنجیدگی کے ساتھ اس صورت حال کا تجزیہ کریں اور اس کا حل سوچیں۔جب ہم اس کا تجزیہ کریں گے تو اس صورت حال کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے آجائے گی جس سے ہم آج گزر رہے ہیں۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے اعتدال کا وصف ہونا بھی ضروری ہے۔
مالکؒ بن نبی کے خیال میں نشات ثانیہ کے لیے تین سطحوں پر مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور وہ تین دائرے فرد‘ وطن اور وقت ہیں۔ محض مادی اشیا تک اپنے آپ کو محدود کرلینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
پہلا دائرہ فرد ہے‘ یعنی اصلاح یا نشات ثانیہ کی اس تحریک کا آغاز فرد سے ہونا چاہیے۔ انسان یا فرد کو بدلنا اور پھر اس کو جماعت میں مناسب جگہ پر رکھنا اور بہترمنصوبہ بندی سے مسائل کو حل کرنا پہلی شرط ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل انسان یا فرد سے شروع ہوگا‘ کیونکہ انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو تعمیری تحریک کی قیادت کرسکتا ہے۔ رہا مادی اشیا کا مسئلہ تو انھیں اچھا یا بُرا نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے استعمال کی نوعیت اور کیفیت اسے اچھا یا بُرا بناتی ہے۔
مالکؒ بن نبی کے خیال میں افرادی قوت اصل سرمایہ ہے‘ اور یہ وہی نظریہ ہے جو ماہرین عمرانیات نے نصف صدی کے غوروخوض کے بعد پیش کیاہے۔ انسان میں فی الواقع کیسے تبدیلی واقع ہو؟ اس حوالے سے بن نبی کہتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے۔ انسان دوسروں کو بھی پہچانے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور نہ انھیں نظرانداز کرے۔ یہ دوسری شرط ہے۔
تیسری شرط یہ ہے کہ دوسرے افراد کو اپنی جگہ پر رکھ کر محبت اور احترام کے جذبے کے ساتھ پہچاننے کی کوشش کرے۔ لیکن ایسی واضح صورت میں کہ استعمار کو قبول کرنے اور پس ماندگی پر راضی ہونے کی کوئی گنجایش موجود نہ ہو۔ مالکؒ بن نبی کے خیال میں فرد اصل ہدف ہے اور تعمیر اور تبدیلی کا نقطۂ آغاز بھی فرد ہے۔
بعض اوقات مصنوعات کی خریداری‘ ٹکنالوجی کا حصول اور اس طرح کی دیگر کوششیں اس صورتِ حال کا علاج تصور کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ساری کوششیں بارآور نہیں ہوسکتیں‘ کیونکہ ہم نے نقطۂ آغاز کے انتخاب میں غلطی کی۔ اس صورت حال کا ایک ہی حل ہے کہ ایسا فرد تیار کیا جائے جو اپنے نصب العین کا حامل ہو اور اپنی فکر کے لیے دوسروں کی رہنمائی کا محتاج نہ ہو۔
آج مادی علوم سے زیادہ اخلاقی‘ معاشرتی اور نفسیاتی علوم کی ضرورت ہے۔ جب تک لوگ اپنے آپ کو نہیں پہچانیں گے اور تہذیبی ادوار میں فرد کے کردار کو نہیں جانیں گے‘ صورت حال جوں کی توں رہے گی۔ آج ہمارے معاشرے میں ان علوم کے سندیافتہ ماہرین کی کمی نہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ مستند ماہرین محض ڈگریوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں‘ یہ عمل شاہراہ ترقی پر چلنے کے لیے مضرثابت ہورہا ہے۔ آج پس ماندہ معاشروں کی قیادت ان مستند ماہرین کے ہاتھوں میں ہے لیکن وہ آسان اور معمولی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اگر ایسی صورت حال نہ ہوتی تو آج ہم اس پس ماندگی سے نجات حاصل کرچکے ہوتے۔
فرد کی تعمیر کے سلسلے میں ہمیں کیا لائحہ عمل اور حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے‘ اس پر اچھی طرح غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تبدیلی کے طریقے کو ڈائیلاگ یا مکالمے کے ذریعے طے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ مکالمہ‘ افکار کے تبادلے اور آرا سے آگاہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ مکالمہ محض اخلاق یا رواداری کا تقاضا نہیں بلکہ اس حکمت عملی کا اساسی عنصرہے۔ استعارے کی زبان میں ہم قدیم زمانے کی اس کہانی سے سبق حاصل کرسکتے ہیں جس میں بابل کے برج کی تعمیر محض اختلافِ رائے کی وجہ سے ناممکن ہوگئی۔ یہ معاملہ محض کانفرنسوں‘ جلسوں اور دیگر مجالس میں گفتگو کے آداب طے کرنے سے مختص نہیں ہے‘ بلکہ ہمیں واقعتا ایسا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا جس پر عمل کرنا ہمارا منتہاے نظرہو‘ جس میں اخلاقی اور منطقی دونوں پہلوئوں کو ملحوظ رکھا جائے ۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں فعال اور مؤثر کردار ادا کرنا ہے یا محض بے نتیجہ سرگرمیاں ہی ہمارے پیش نظر ہیں جن میں ہم صدیوں سے مبتلا ہیں۔
مالکؒ بن نبی پس ماندگی کے اصل اسباب بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ضروری بھی نہیں اور نہ ممکن ہے کہ ایک معاشرہ جو پس ماندہ ہو ‘ اس کی ترقی اور نشات ثانیہ کے لیے ڈالروں یا سونے کے ڈھیر لگا دیے جائیں تو وہ ترقی یافتہ بن جائے گا۔ بلکہ اس معاشرے کی ترقی کا انحصار اس سرمائے پر ہے جو قدرت نے اسے افراد‘ وطن اور وقت کی شکل میں عطا کیا ہے۔
انقلاب راتوں رات نہیں آجاتا‘بلکہ یہ ایک طویل سفر سے عبارت ہے جس میں انقلاب سے پہلے اور بعد کے مراحل بھی یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ مراحل محض اضافت زمان ومکان سے حاصل نہیں ہوجاتے‘ بلکہ اس میں مسلسل اور تاریخی ارتقا سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی نشوونما میں اگر کوئی خرابی واقع ہوجائے تو اس کا نتیجہ مایوس کن اور امیدوں پر پانی پھیرنے والا ہوتا ہے۔ تہذیبی ارتقا کی باگ ڈور افکار کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ لیکن استعمار اور استبداد کے اس دور میں ہماری تہذیب کی باگ ڈور اس پیغام رسانی پر منحصر ہے جو استعمار کے تحفظ کی کمین گاہوں سے نشرہوتے رہتے ہیں‘ اس کے نتیجے میں عالمِ اسلام اور عالمِ عرب میں تبدیلی اور حوادث رونما ہوتے ہیں۔ بالآخر تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ اصل مسئلہ افکار کا ہے۔ کیونکہ اس فکرکے بل بوتے پر ہی ہم منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اپنی طاقت اور وسائل کو ارادے سے عمل میں ڈھالتے ہیں۔
ہر تہذیب کا ایک خاص اسلوب‘ طریق کار اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ مغربی دنیا کے افکار کا منبع رومی مشرکانہ عقاید اور نظریات ہیں‘ جب کہ عالمِ اسلام کی تہذیبی اساس‘ عقیدۂ توحید پر استوار ہے۔ غیب پر ایمان اور مابعد الطبیعیاتی امور اس کے خصائص اور امتیازات ہیں۔ انسان معاشرتی تعلقات کی بنیاد اس فکر پر استوار کرتا ہے جو اس کا تہذیبی ورثہ ہوتا ہے۔ پس ماندہ ممالک میںپس ماندگی کا سبب مادی اشیا کی قلت قرار دیا جاتا ہے اور مادی اشیا کے ڈھیر اور انبار لگانے کو اس کا حل تجویز کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ محض فضول خرچی ثابت ہوتی ہے اور اصل مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں مادی اشیا کی کثرت معاشرے کے افراد میں چشم سیری پیدا کرتی ہے۔ نتیجتاً انسان اپنے ارد گرد خود ساختہ حالات سے گھبرا کر ترقی یافتہ ممالک کو اپنا آئیڈیل قرار دیتا ہے اور اسے اپنے لیے سفینۂ نجات تصور کرتا ہے۔ لیکن ایک شخص کے اندر بغاوت یا سرکشی سیاسی اور معاشرتی نظام کے انہدام کا باعث بنتی ہے اور زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک میں یہی حربہ استعمال کیا جاتا ہے اور من پسند نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔
اس لیے ان تین عناصر فرد‘ وطن اور وقت میں عدمِ توازن ہماری معاشرتی شکست و ریخت کا اصل سبب ہے۔ عالمِ اسلام اور عالمِ عرب ایک طویل عرصے سے اس انحراف کا شکار ہے۔ اس کی پس ماندگی اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں نہ داخلی سطح پر سوچا گیا اور نہ خارجی سطح پر۔ معاشرتی زندگی میں فکر کی اہمیت اظہرمن الشمس ہے۔ یہ معاشرتی زندگی کی اصلاح اور ترقی یا معاشرتی زندگی کی پس ماندگی اور بگاڑ کا سبب ہے۔
جدید دنیا میں افکار کی اہمیت مزید دوچند ہوگئی ہے۔ انیسویں صدی میں اقوام کے باہمی تعلقات کا انحصار فیکٹریوں کی تعداد‘ اسلحہ خانے کی قوت اور بحری بیڑوں کی تعداد پر تھا۔ لیکن بیسویں صدی میں ان تعلقات کا انحصار افکار پر ہوگیا ہے۔ بہت سارے پس ماندہ ممالک اس نمایاں تبدیلی سے ابھی غافل ہیں۔ ان پس ماندہ ممالک کے ہاں ترقی اور پس ماندگی کی کسوٹی محض مادی اشیا کی قلت اور کثرت ہے۔ ایک پس ماندہ انسان اپنی پس ماندگی اور درماندگی کا سبب ٹینک‘ جہاز اور دیگر اشیا کی قلت کو قرار دیتا ہے۔ اس لیے معاشرتی زندگی میں وہ فعال کردار ادا کرنے سے محروم رہتا ہے‘ اور مشکلات کے انبار کو اپنے راستے میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ درحقیقت جدید دنیا میں واقع ہونے والی تبدیلی کا محور ’’فکر‘‘ ہے۔ فرد‘ وطن اور وقت کے تینوں عناصر کا ایک متوازن آمیزہ ایک قالب میں ڈھالا جائے تو صحیح تہذیبی اقدار کی صورت گری ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر کسی ایک عنصر میں بھی توازن کی کمی آجائے تو دیگر عناصر اسے اپنی سرکشی کا نشانہ بنالیں گے۔ایسے سوار کو تاریخ ترقی کی دوڑکے مقابلے سے خارج کر دیتی ہے۔ (مجلہ الکویت‘ شمارہ ۲۳۶)
اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہوگا کہ تحریک اسلامی کی کامیابی کے لیے اسے حاصل انتہائی قیمتی اور محدود وسائل کا بھرپور اور بہترین استعمال‘ ایک بیدارمغز تحریک اور اُس کی قیادت کے لیے انتہائی ضروری امر ہے۔ یہ نہ صرف دینی شعور اور دانش کا تقاضا ہے بلکہ موجودہ حالات بھی اس کی طرف نشان دہی کرتے ہیں۔
خواتین کی صلاحیتوں کے استعمال کی بات کی جاتی ہے تو ذہن فوراً اُن کی صنفی ذمہ داریوں کے باعث روایتی تحدیدات کی طرف مبذول ہوجاتا ہے‘ اور بہ سہولت یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ خواتین کے لیے مزید ذمہ داریاں ان کے وجود کے لیے ضرر رساں ہوں گی‘ یا یہ کہ موجودہ حالات میں خواتین سے اس سے زیادہ کی توقع کم و بیش نہیں رکھی جاسکتی۔ اس طرح کے سہل فیصلے کرنے میں خواتین اور مرد حضرات دونوں ہی شامل ہیں۔ اس طرح کے خیالات کے پیچھے اکثر تاریخ کا ایک بہائو ہوتا ہے جس میں طے شدہ روایات سے انحراف یا اس کا دوبارہ تجزیہ بالعموم نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات میں وہ کیا جوہری تبدیلی ہوگئی ہے کہ تقریباً اس طے شدہ امر کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اس بات کا احاطہ کیا جانا چاہیے کہ دنیا کے مادی طور پر تبدیل شدہ موجودہ معاشرتی حالات کی وجہ سے خواتین کے عمومی حالات‘ ذمہ داریوں‘ اور وسائل میں کیا تبدیلیاں ہوئی ہیں‘ اور اس کے باعث وہ کون کون سی جہتیں ہیں جنھیں تحریک‘ طے شدہ اصولوں اور امور کو قربان کیے بغیر‘ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ ہماری بحث معاشرتی تبدیلیوں سے متعلق ہے‘ اس لیے اُن تغیرات کے عوامل اور عواقب اور ان کے صحیح اور غلط ہونے پر اظہارِ خیال سے اجتناب کیا گیا ہے۔
دوسرا اہم اصول جو اس تجزیے میں اختیار کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرتی حالات کا موازنہ آج سے ۲۵ سے ۵۰سال پہلے کے حالات سے کیا گیا ہے‘ کیونکہ آج بھی کسی نہ کسی انداز میں وہی پیمانے معاشرے کے روایتی تجزیوں کا معیار بنے ہوئے ہیں۔
یہ مضمون تحریکِ اسلامی کی جدوجہد کو مزید تقویت دینے کی تجویز کے طور پر پیش کیا گیا ہے‘ اور صرف اُن جہتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن سے تحریک بجا طور پر فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ یہ تجزیہ نگاروں اور منصوبہ سازوں اور صاحبانِ امرکے لیے دعوتِ فکر بھی ہے۔ حالات کا بھرپور ادراک رکھنے والے بہترین دماغ اسے مزید بہتر کرسکتے ہیں۔
۱- لڑکیوں میں جدید تعلیم کا حصول عام ہونا اور اُس میں اکثر جگہ لڑکوں کے مقابلے میں امتیاز حاصل کرنا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس میں لڑکیوں کی طبعی مستقل مزاجی و یکسوئی‘ distractions (دیگر مصروفیات)کی نسبتاً عدم موجودگی اور تعلیم کا مقصد بمقابلہ ملازمت کے حقیقی علم سے نسبتاً زیادہ استوار رہنا وغیرہ شامل ہیں۔
۲- تعلیم میں لڑکوں کے مقابلے میں حقیقی علم سے قربت کی بنا پر علم کو سنجیدگی سے زندگی میں برتنے کے لیے (معاشی بندھنوں کی منزل کے حصول کی تگ و دو کے بغیر) آمادگی‘یعنی افکار سے جذباتی وابستگی۔
۳- لڑکیوں کا‘ ماضی کی نسبت‘ دیر سے ازدواجی ذمہ داریوں سے منسلک ہونا جس کے باعث تقریباً پانچ سال‘ یا اُ س سے زیادہ‘کسی بڑی اور ہمہ وقتی مصروفیت کے بغیر نوجوان اور طرار ذہن کے لیے فارغ اوقات کا مہیا رہنا۔
۴- جدید مادی سہولتوں کی بنا پر ازدواجی گھریلو زندگی میں منہمک خواتین کا جسمانی طاقت کا کم سے کم استعمال (تھکن کی کمی‘ ہسپتال کی سہولت وغیرہ)‘ ذمہ داریوں میں کمی اور زیادہ وقت کا مہیا ہونا۔
۵- لڑکیوں اور خواتین کا جدید رسل و رسائل کی بدولت قریبی سفر کے لیے کسی مرد یا ساتھی کی احتیاج کے بغیر نسبتاً آسانی سے سفراختیار کرسکنا۔
۶- مشترکہ خاندانی نظام کے منفی بندشی پہلوئوں سے آزادی‘ جو خصوصاً خواتین کو نسبتاً introvert(اپنی ذات تک محدود ہونا)بناتا تھا۔ موجودہ خاندانی اکائی نے جو خصوصاً خواتین میں تنہائی کا موجب بنی۔ انھیں extrovert (خارجی امور میں دل چسپی لینے والا)بنایا جس میں نقل و حمل اور پیغام رسانی کی موجودہ سہولیات نے بھرپور مدد دی۔
۷- والدین کا پہلے کی بہ نسبت بیٹیوں کی اور شوہروں کا بیویوں کی جائز خواہشات کا احترام۔ اس معاملے میں تحریکی گھرانوں کا خصوصی طور پر معاون ہونا۔
۸- مسلمانوں کے موجودہ حالات میں مردوں کے سوادِاعظم کی بے بسی اور بے حسی پر ممکنہ دائرۂ کار میں کچھ کر گزرنے کی اشد خواہش (اس سلسلے میں خواتین کا جذباتی ہونا بھی محرک ہے)
موجودہ دور نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانانِ عالم کے بہترین دماغوں کو سائنسی‘ فنی اور دوسرے ادارتی شعبوں میں شتربے مہار کی طرح جھونک دینے کی وجہ سے ہم نظریاتی اور تحقیقی افلاس کے خلا میں زندہ ہیں (ذرا اندازہ تو کریں کہ اگر اس دور میں دبستانِ مودودیؒ کا سایہ بھی نہ ہوتا تو اس یتیمی کی کیفیت کیا ہوتی)۔ اس سے نکلنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ ہم نظریاتی علم اور تحقیقی عمل کو‘ جو عملی معاملات کی جہت اور معاشرے کو صحیح الفہم قیادت فراہم کرتا ہے اور جس کی طرف سیدانِ مرحوم و مغفور (سید مودودیؒ اور سیدمحمدسلیمؒ) نے نہ صرف واضح نشان دہی کی‘ بلکہ عملی اقدامات بھی کیے‘ قرار واقعی اہمیت دیں اور ان کے حصول کے لیے اپنی مہم تیز تر کر دیں۔ ہمارے جو تحقیقی ادارے آج اس میدان میں بیش بہا کام کر رہے ہیں‘ وہ رجالِ کار اور وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ اس کمی کو دُور کرنے کے لیے اور ایک بہترین آغوش مادری کی تخلیق کے لیے کیوں نہ ہم اُن غیر روایتی وسائل کو بروے کار لائیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
۱- تحریک کے جتنے تحقیقی ادارے ہوں اُن میں ایک فعال شعبۂ خواتین بھی قائم کیا جائے جس کا باضابطہ ایک ادارتی منتظم یا coordinator ہو۔ اسی طرح اس سے منسلک خواتین کی ایک محدود کمیٹی ہو جو ادارے سے عملی تعاون کی ذمہ دار ہو۔
۲- یہ ادارے تحقیقی کتب اور تراجم وغیرہ پر مبنی تمام مطلوب کاموں کی جامع فہرست بنائیں‘ جس کے لیے وہ تعاون کے متلاشی ہوں اور ساتھ ساتھ اُن وسائل کا تخمینی جائزہ بھی لیں جس سے یہ تقریباً متعین ہو جائے کہ ان کاموں کے لیے کن کن صلاحیتوں کی ضرورت ہوگی‘ کتنا وقت لگے گا‘ اور مزید معلومات اور مطالعے کے لیے کس لوازمے کی ضرورت پڑے گی۔
۳- ان تمام امور کے لیے باقاعدہ نظامِ کار ہو‘ تاکہ کام کی ابتدا سے لے کر اختتام تک کا سارا ریکارڈ رکھا سکے اور کام کی رفتار اور اُس کے مسائل سے ہمہ وقتی طور پر آگاہی حاصل ہوتی رہے‘ نیز جہاں ضروری ہو وہاں عملی اقدامات کیے جائیں۔
۴- اقتدار کے ایوانوں سے تحریک کی قربت کی بنا پر حکومتی پالیسیوں کی تحقیق کی نسبتاً نئی ذمہ داری آپڑی ہے۔ یہ تحقیقی معلومات حکومتی پیش رفت کا صحیح اور واضح ادراک رکھنے کے لیے ممبران اسمبلی‘ سینیٹ و دیگر کمیٹیوں کے لیے بے حد اہم (critical) ہیں۔ اس سے ان کی اُن ایوانوں میں اور ایوانوںکے باہر کارکردگی پر اثر پڑے گا۔ اس ضرورت کو خواتین ممبرانِ اسمبلی کی موجودگی میں خواتین پر مبنی مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں پوری کر سکتی ہیں۔ امریکہ میں یہ افراد page کہلائے جاتے ہیں ہم معاون تحقیق کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف مفید معلومات اور تجزیے سامنے آتے ہیں بلکہ حکومتی مناصب پر تعیناتی سے قبل اُن افراد کی عملی تربیت بھی ہو جاتی ہے۔
۵- یہ تجویز اوپر دی گئی تجاویز کی فوری معاون نہیں مگر آیندہ کے لیے کارگر ہوگی۔ تحریکی لڑکیاں بھی عام لڑکیوں کی طرح‘ تعلیم کی جہت متعین کرنے میں کسی باضابطہ تعلیمی مشاورتی سروس (educational consultancy service)کے بغیر‘ ہرسال ہزاروں کی تعداد میں بھیڑچال کا شکار ہوکر‘ لگے بندھے بے شعوری تعلیم کی قربان گاہوں میں اپنے وقت اور صلاحیتوں کے ساتھ‘ جو کہ تحریکی امانت ہیں‘ بے تکان و بے مصرف بھینٹ چڑھائی جا رہی ہیں۔ یقین کریں کہ اگر تحریکی بنیادوں پر صرف اس وقت لڑکیوں کے لیے ہی تعلیمی مشاورت (educational counselling)کا اجرا کیا جائے تو ہم سب اس اجتماعی بربادی اور غفلت سے نہ صرف مبرا ہوں گے‘ بلکہ اس کا یقینی فائدہ آنے والی نسلوں کو بھی ملے گا۔ نہ صرف والدین کو دنیا اور آخرت میں سکون ملے گا بلکہ اُن لڑکیوں کے لیے آخرت کا سوال جو جوانی سے متعلق ہوگا اس کا جواب بھی آسان ہوگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ آپؐ اپنے ساتھیوں کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے اور ان کی بہترین صلاحیتوں کو نشوونما دینے پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ آپؐ باصلاحیت افراد کی تلاش میں بھی رہتے تھے۔ اس کی مثال وہ دعا ہے جس میں آپؐ نے اللہ سے دو عمرمیں سے ایک مانگا تھا‘ یعنی عمربن خطاب یا عمربن ہشام۔اس اقدام کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے آپؐ کے پاس بہترین افراد کی ایک ٹیم تیار ہوگئی۔ قائد تحریک اسلامی مولانا مودودیؒ بھی اس بات کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور رفقا کو ان کے ذوق و شوق اورصلاحیتوں کے جائزے کے بعد کام سونپتے تھے۔ موجودہ دور تو تخصص کا دور ہے ‘ مجلس دانش (think tank)کو خاص اہمیت حاصل ہے‘ لہٰذااس پہلو کو پیش نظر رکھ کر منصوبہ بندی اور اقدام ناگزیر ہے۔
راقم کو اس کوتاہی کا احساس ہے کہ ان تجاویز کی عملی تصویر کے بروے کار لانے میں جو مشکلات درپیش آسکتی ہیں اُسے ان کا صحیح ادراک نہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ مسلم اُمہ کے ایک بے بہا سرمائے کو کسی طرح ضائع ہونے سے بچانے کی تدبیر کی جا سکے۔ اس سلسلے میں کبارعلما اور تحریکی قائدین ہی صحیح رہنمائی کرسکیں گے۔
دونوں کا بچپن محرومی سے عبارت تھا۔ احمد ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوا۔ بمشکل چار برس کا تھا کہ والد یاسین اسماعیل اللہ کو پیارے ہوگئے۔ چھ بہنوں اور تین بھائیوں میں سے احمد سب سے چھوٹا تھا۔ بڑے بھائی نے پڑھائی چھوڑ کر محنت مزدوری شروع کی۔ بہنوں اور بھائی کو پڑھانا چاہا۔ احمد ابھی چوتھی کلاس میں تھا کہ اسرائیلی فوج نے آبائی گائوں ’الجورہ‘ سے نکال باہر کیا ۔لٹا پٹا خاندان غزہ میں ساحل سمندر پر واقع مہاجر کیمپ میں پناہ گزین ہوا اور غربت کے ساتھ ساتھ مہاجرت و آزمایش کا نیا دور شروع ہوگیا۔
عبدالعزیز ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پیدا ہوا۔ سات ماہ کا بھی نہیں ہوا تھا کہ ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی فوج نے عسقلان اور یافا کے درمیان واقع آبائی گائوں یبنا پر بم باری کر دی۔ آٹھ بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل آل رنتیسی کا کنبہ خانیونس مہاجر کیمپ میں پناہ گزین ہوا۔ پیٹ پالنے کے لیے بڑے بھائی نے حجام سے لے کر اینٹیں ڈھونے تک ہر طرح کی مزدوری کی اور عبدالعزیز نے بھی مزدوری کے کسی کام میں عار نہیں سمجھی۔ گولر کے بے قیمت پھل بھی بیچے اور قریبی قصبے سے صابن بھی لاکر بیچا۔ ۱۵ برس کے تھے کہ یتیم ہوگئے۔ ساری ذمہ داری بڑے بھائی پر آن پڑی‘ عبدالعزیز نے بھی پوری طرح ہاتھ بٹایا۔
احمد اور عبدالعزیز دونوں بچے بیوہ ماں اور بھائی بہنوں کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کرتے تھے۔ لیکن قدرت دو مختلف مہاجر کیمپوں میں حالات کے تھپیڑے سہتے ان دو یتیموں کو اُمت کی قیادت کے لیے تیار کر رہی تھی۔ دونوں کے سرپرست ان کے بڑے بھائی گواہی دیتے ہیں کہ ان کے بچپن سے ہی ہمیں اندازہ ہوتا تھا کہ ’’مستقبل میں ان کا بڑا مقام ہوگا‘‘۔
احمد الشاطی مہاجر کیمپ کے اسکول بھی جانے لگا۔ ۱۶ سال کا تھا کہ ایک روز ساحل سمندر پر ورزش کرتے ہوئے سر کے بل گرا‘ گردن کے مہرے ٹوٹ گئے‘ ۴۵ دن تک پلستر میں جکڑا رہا۔ پلستر کھلا تو معلوم ہوا کہ نیم معذوری مستقلاً لاحق ہوگئی ہے۔ یہی نیم معذوری بعد میں بڑھتے بڑھتے گردن سے نچلے دھڑ کے مکمل فالج میں بدل گئی۔ احمد کو ساحل سے اٹھا کر ہسپتال پہنچانے والے ان کے دوست اور عم زاد کویت میں ہوتے ہیں۔ انھوں نے راقم کو بتایا کہ پلستر کھلنے کے بعد احمد یاسین پھدک پھدک کر اور ہاتھ قدرے پھیلا کر چلاکرتے تھے۔ ہم ہمجولی کبھی ان کا مذاق بھی اڑاتے‘ لیکن اس نے تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ ۱۹۵۸ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پہلی پوزیشن سے پاس کر لیا۔
احمدیاسین کے بڑے بھائی کہتے ہیں کہ اساتذہ کی بھرتی شروع ہوئی تو ۱۵۰۰ امیدوار پیش ہوئے۔ احمد یاسین نے بھی انٹرویو دیا‘ راستے میں ایک شخص نے کہا: تم اپاہج ہو‘ تدریس نہیں کر سکتے۔ احمد یاسین نے مسکرا کر کہا: ’’وفی السماء رزقکم وما توعدون‘ تمھارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمانوں میں ہے‘‘۔ انٹرویو لینے والے بورڈ نے توقع کے مطابق احمد یاسین کو ملازمت دینے سے انکار کر دیا۔ چند روز نہ گزرے تھے کہ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ ایک اجنبی نے آکر کہا: احمدیاسین فوراً فلسطین اسکول پہنچے۔ ہم وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ غزہ کے گورنر نے احمد یاسین کی بطور مدرس تقرری کے احکامات جاری کیے ہیں۔
یتیم احمد اب استاد احمدیاسین تھا۔ تعلیمی و تربیتی دور شروع ہوا۔ ملازمت تو براے نام تھی۔ جو تنخواہ ملتی‘ احمد یاسین آدھی محتاجوں میں بانٹ دیتے اور آدھی گھر لے آتے۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ کوئی سائل آجاتا اور وہ باقی آدھی بھی انھیں دے دیتے۔ اہلیہ پوچھتیں: سب کچھ بانٹ دیا؟ ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بچا؟ احمدیاسین مسکراتے ہوئے اپنا معروف جملہ کہہ دیتے: ’’اللّٰہ المستعان، اللہ ہمارے لیے بھی بھیج دے گا‘‘۔ تعلیم و تربیت اور معاشرے کی حقیقی خیرخواہی سے ہی احمد یاسین مدرس سے مربی اور مربی سے قائد بنتے چلے گئے۔
عبدالعزیز نے بھی مزدوری کے ساتھ ہی ساتھ پڑھائی پر پوری توجہ دی۔ ۱۹۶۲ء میں والد کی وفات کے بعد بھائی نے حجام کا کام شروع کر دیا‘ لیکن گھر کا چولہا پھر بھی اکثر ٹھنڈا رہتا تھا۔ ۱۹۶۴ء میں بھائی مزدوری کرنے کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔ اس دن کا ذکر کرتے ہوئے‘ عبدالعزیز رنتیسی لکھتے ہیں: ’’نماز فجر کے بعد ہم والدہ کے ہمراہ بھائی جان کو خدا حافظ کہنے کے لیے مہاجرکیمپ سے غزہ ریلوے اسٹیشن کی طرف چلے۔ میں اس وقت ہائی اسکول میں داخلہ لینے والا تھا۔ داخلے کی تیاری کے لیے میں نے چند ٹکے جمع کر کے استعمال شدہ بوٹ خریدے تھے۔ اس وقت بھی میں نے وہی بوٹ پہنے ہوئے تھے۔ اچانک امی کی آواز آئی: بیٹے! آپ کے بھائی جان ننگے پائوں سعودی عرب جا رہے ہیں‘ اپنے جوتے انھیں دے دو اور میں جوتے بھائی کو دے کر ننگے پائوں اسٹیشن سے کیمپ آگیا‘‘۔
عبدالعزیز کی والدہ بھی ایک باہمت‘ دبنگ خاتون تھیں۔ شوہر کی وفات کے بعد خود بھی کھیتوں میں مزدوری شروع کر دی اور بچوں کی تعلیم جا ری رکھی۔ عبدالعزیز نے بھی احمدیاسین کی طرح انٹرمیڈیٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اسی بنیاد پر مہاجرین کی مدد کرنے والے ادارے اونروا نے ان کے لیے مصر سے اسکالرشپ حاصل کی اور عبدالعزیز فلسطین کے مہاجر کیمپ سے مصر کے شہر اسکندریہ کے میڈیکل کالج پہنچ گئے۔ ۱۹۷۶ء میں عبدالعزیز تعلیم مکمل کر کے واپس غزہ پہنچے تو وہ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی تھے۔
سات ماہ کی عمر میں بے گھر ہونے کے بعد سے عبدالعزیز رنتیسی یہودی مظالم مسلسل دیکھتے چلے آ رہے تھے۔ مصر میں قیام کے دوران‘ دکھ اور یہودیوں سے نفرت کا الائو‘ اخوان المسلمون کے نظام دعوت و تربیت کے باعث ایک مقصد اور تحریک میں ڈھل گیا۔ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی نے غزہ جاکر معاشرے کے ہر محتاج کی خدمت اپنا فرض گردانا۔ وہ بچوں کے خصوصی معالج تھے۔ مریضوں سے فیس لیے بغیر‘ کئی کئی کلومیٹر پیدل جاکربدوی قبائل کا مفت علاج کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر رنتیسی اپنی ایک یادداشت میں لکھتے ہیں: ’’میں بچپن ہی سے یہودیوں کے مظالم کا عینی شاہدہوں۔ آبائی گائوں سن ادراک پہلے ہی یہودیوں نے ہتھیا لیا تھا۔ میں اب بھی اپنے گائوں سے گزرتے ہوئے وہ دو منزلہ گھر دیکھتا ہوں جس کے اردگرد میرے والد مرحوم کے ہاتھوں کے لگے مالٹے کے درخت اب پھل دے رہے ہیں‘ لیکن میں اپنے گھر میں نہیں جاسکتا۔ اس پر یمن سے لائے گئے ایک یہودی خاندان کا قبضہ ہے۔ پھر ۱۹۵۶ء میں جب مصر پر اتحادی افواج نے حملہ کیا تو خانیونس کیمپ پر بھی حسب عادت دھاوا بولا گیا۔ میرے اکلوتے‘ سگے چچا حامد رنتیسی بھی اسی کیمپ میں ہمارے قریب رہتے تھے۔ یہودیوں نے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ فوجیوں نے ان پر بندوق تانی تو ان کا نوسالہ بیٹا ابا‘ ابا چلاتے باپ سے لپٹ گیا۔ ظالم پھر بھی نہیں پسیجے اور دونوں پر فائر کھول دیا‘ چچاشہید ہوگئے اور نوسالہ موفق شدید زخمی۔ پھر دشمن ساتھ والے گھر گئے اور اہل خانہ کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے شہید کردیا۔ اس ایک روز میں صہیونی فوجوں نے ۵۲۵ فلسطینی شہری شہید کیے‘ یہاں تک کہ سڑکوں پر لاشوں کا تعفن پھیل گیا‘‘۔
ڈاکٹر رنتیسی انھی زخموں کو دل میں سجائے غزہ کے ہر زخمی دل اور بیمار جسم کا علاج کرنے میں جُت گئے۔ ہر آنے والا دن ان سے محبت کرنے والوں اور سرزمین اقصیٰ پر قابض صہیونی افواج سے آزادی کے لیے ان کی جہادی پکار پر لبیک کہنے والوں میں اضافے کا دن ہوتا۔
دوسری طرف استاذ احمد یاسین بھی غزہ میں اخوان المسلمون سے سیکھا سبق‘ نئی نسل کو منتقل کر رہے تھے۔ صہیونی استعمار نے فلسطین پر قبضے کے بعد سب سے زیادہ توجہ فلسطینیوں میں دین بیزاری کی تحریک عام کرنے پر دی تھی۔ ۵۰کی دہائی میں کہ جب ناصریت کی لہر عروج پر تھی۔ دینی تعلیمات پر عمل کو عیب‘ قابل تضحیک اور باعث تذلیل بنا دیا گیا تھا۔ استاذ احمد یاسین نے اس طوفان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا: ہمارا اور یہودیوںکا اصل جھگڑا آیندہ نسلوں پر ہے۔ یا تو یہودی انھیں ہمارے ہاتھوں سے چھین کر ہمیں شکست دے دیں گے‘ یا پھر ہم اپنی نسلوں کو یہودیوں کے پنجے سے چھین کر یہودیوں کو شکست سے دوچار کر دیں گے‘‘۔ اس محاذ پر استاذ احمد یاسین کو بہت سے معرکے پیش آئے۔ ایک بار استاذ کے پڑوس کے گھر سے چار جوان لڑکیوں کا انتخاب کیا گیا کہ وہ غزہ کی سرکاری تقریبات میں رقص پیش کریں گی۔ استاذ ان کے اہل خانہ کے پاس گئے‘ تذکیر و نصیحت کی تو والدین نے فیصلہ کرلیا کہ بچیوں کو نہیں بھیجیں گے۔ اس پر انھیں کالج انتظامیہ کی طرف سے دھمکی دی گئی کہ بچیاں نہ آئیں تو نام کاٹ دیا جائے گا۔ استاذ احمد یاسین نے بچیوں کے والدین اور اہل محلہ کے ہمراہ جاکر غزہ کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں کہا کہ اگر ان طالبات کا نام خارج کیا گیا تو پورا الشاطی مہاجر کیمپ کل احتجاجی مظاہرہ کرے گا۔ نتیجتاً فوراً پرنسپل کی جواب طلبی کی گئی اور رقص کی تقریب منسوخ کر دی گئی۔
استاذ احمد یاسین نے اب غزہ کی مساجد میں خطابت کا محاذ بھی سنبھال لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دروس و خطبات کا سلسلہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ انھیں مردوں‘ خواتین اور بچوں کے لیے علیحدہ علیحدہ پروگرام تشکیل دینا پڑے۔ ان کی یہ سرگرمیاں دیکھ کر ۷۰ کی دہائی کے اوائل میں انھیں تدریس کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اب استاذ احمد یاسین‘ شیخ احمد یاسین بن چکے تھے۔ انھوں نے غزہ میں ایک ہمہ پہلو تحریک کھڑی کر دی۔ انھوں نے یہودی قبضے میں آنے والے مختلف شہروں اور آبادیوں میں جاکر بے آباد ہوجانے والی مساجد کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ مفلوک الحال گھرانوں کی مدد کے لیے کئی ایک رفاہی تنظیمیں کھڑی کر دیں‘ نئی نسل میں جہاد کی روح بیدار کرنا شروع کر دی۔ لوگ جب سنتے کہ ایک مفلوج شخص اسرائیلی درندوں کی موجودگی میں مسجد کے منبر سے یہ خطبہ دیتا ہے کہ ’’خواہ ہمارا ایک ہی فرد باقی بچے‘ خواہ ایک ہی پتھر‘ ایک ہی گولی‘ ایک ہی بندوق ہاتھ میں رہے‘ ہم اسرائیلی فوجوں کا مقابلہ کریں گے۔ ہم بہرصورت مقابلہ کریں گے اور بہرصورت فتح یاب ہوں گے کہ یہ رب کائنات کا اپنے مومن بندوں سے وعدہ ہے‘‘۔ تو ہر سننے والا جسم میں ایمانی قوت کی بجلیاں محسوس کرتا۔
شیخ احمد یاسین کی سب سے بڑی قوت لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے پائی جانے والی محبت اور عقیدت تھی‘ اور اس محبت کی بنیاد شیخ کے دل میں لوگوں کے لیے موجزن خلوص اور اللہ وحدہ لاشریک کے لیے اخلاص تھا۔ شیخ احمد یاسین صرف سیاسی قائد‘ روحانی پیشوا‘ مربی‘ مجاہد اور خطیب ہی نہیں تھے‘ بلکہ ہرفلسطینی گھر انھیں اپنا سرپرست سمجھتا تھا۔ شیخ کے پاس لوگ اپنے ذاتی مسائل لے کر آتے‘ میاں بیوی انھیں اپنے جھگڑوں میں فیصل مانتے اور روز مرہ ہونے والے کئی جھگڑوں‘اختلافات اورواقعات میں انھیں اپنا جج بناتے تھے۔ شیخ نے بھی کبھی کسی پر اپنا دربند نہیں کیا‘ کبھی پیشانی پر بل یا ناگواری نہیں آئی۔ ایک بار رمضان میں عین افطار کے وقت ایک سائل آیا اور شیخ سے ملنے پر مصر ہوا۔ ساتھیوں نے انھیں دروازے ہی سے پھر کبھی آنے کا کہہ کر لوٹانا چا ہا‘ لیکن شیخ کی نظر پڑگئی‘ سائل کو بلایا اور اپنے ساتھی کو سخت تنبیہہ کی: ’’آپ تھک گئے ہیں تو جایئے آرام کر لیں‘ میں نہیں تھکا‘‘۔ اور پھر پورا گھنٹہ اس کی بات سنی۔ اس کے جانے کے بعد اپنے اسی ساتھی کو بلا کر کہا:’’دعوت یوں دی جاتی ہے۔ داعی کے لیے صبربنیادی صفت ہے‘‘۔
ایک دولت مند شخص نے ایک خاتون سے نکاح کر کے اس کے سارے زیورات ہڑپ کر لیے‘ اس کو زدوکوب بھی کیا اور گھر سے نکال دیا۔ وہ شیخ کے پاس آئی‘ تو بذات خود وہیل چیئر پر شیخ اس شخص کے پاس گئے۔ وہ دیکھ کر گھبرا گیا۔ شیخ نے فرمایا کہ یہ میری بیٹی ہے‘ اس کے ساتھ انصاف کرو اور کبھی ظلم نہ کرو۔ وہ شخص بہت متاثر ہوا اور شیخ کے نیازمندوں میں ہوگیا۔
رام اللہ شہر کے بسام رباح (عیسائی) کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۸ء میں ایک فلسطینی نے دھوکے سے ہمارا مال لے لیا۔ اس نے جب ادایگی میں ٹال مٹول کیا تو میں بلاتکلف شیخ کے پاس گیا۔ مجھے یقین تھا کہ شیخ اس فلسطینی سے ہماری رقم دلوائیں گے۔ وہ بڑا دولت مند بھی تھا۔ پھر یہی ہوا کہ لاکھوں کی رقم چند گھنٹے میں مل گئی۔ ہم نے شکریہ اور احسان مندی کے جذبے سے اس میں سے ایک رقم غزہ میں مسجد کی تعمیر کے لیے دے دی۔
شیخ احمد یاسین ‘ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی اور ان کے کئی ساتھی جس تندہی سے تحریک جہاد کی نرسری اور لشکر تیار کر رہے تھے‘ دشمن بھی اس سے غافل نہ تھا۔ اس نے پہلے تو مختلف رکاوٹیں اور پابندیاں لگاکر انھیں روکنا چاہا لیکن بس نہ چلا تو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ ہزاروں فلسطینی اور دسیوں قائدین کئی کئی بار اور کئی کئی سال جیل میں رہے۔ لیکن ہر بار جیل میں جانے کے بعد ایمان مزید پختہ‘ ارادہ مزید مضبوط اور قوت کار کئی چند ہوجاتی۔
دنیا بھر نے جن فلسطینی مظلوموں سے منہ موڑ لیا تھا‘ پوری قوم کو مایوسی اور معاصی میں دھکیل دیا تھا‘ مساجد سے پھوٹنے والی اس تحریک نے انھیں پھر سے زندگی عطا کردی۔ ۹دسمبر ۱۹۸۷ء کو شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حماس کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ ’حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ: اسلامی تحریک مزاحمت‘ کے پہلے حروف سے مل کر بننے والے لفظ حماس کا مطلب ہے جوش و جذبہ‘ ہمت و قوت۔ ’حماس‘ کے پرچم تلے باوضو بچے ہاتھوں میں غلیل اور پتھر لے کر ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے اور آج ۱۷ سال گزرجانے کے باوجود امریکی ٹینکوں پر سوار اسرائیلی فوجی اور امریکی میزائل ان کا خاتمہ نہیں کر سکے۔
رحمت و عنایت خداوندی کا سایہ ہمیشہ ان دونوں قائدین اور ان کے لاکھوں مجاہدین کے ساتھ دکھائی دیتا ہے‘ یتیمی کی گرد میں رل کر بھی یہ موتی رل نہ پائے۔ تعلیمی میدان میں سب ہمجولیوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور پھر بھرپور تحریکی و جہادی زندگی شروع کر دی۔ اسی دوران دونوں کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے کثیر اولاد دی۔ شیخ احمد یاسین کے ۳ بیٹے اور ۸بیٹیاں ہیں اور عبدالعزیز رنتیسی کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ دونوں کے بڑے بیٹوں کا نام محمد ہے۔ اس حوالے سے دونوں کو ابومحمد کہہ کر ہی پکارا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رنتیسی کی اہلیہ رشاالعدلونی اپنی شادی کا ایک عجیب واقعہ بیان کرتی ہیں۔ کہتی ہیں: ۱۹۷۳ء میں ابومحمد کے گھر سے میرے لیے پیغام آیا۔ یہ پیغام نماز عشاء کے بعد میرے والد کو موصول ہوا۔ انھوں نے گھر میں کسی سے بھی ذکر نہیں کیا‘ میری والدہ سے بھی نہیں۔ اگلی صبح ہی صبح اچانک میری دادی آگئیں۔ انھوں نے آتے ہی امی سے کہا: کسی نے رشا کا ہاتھ مانگا ہے؟ امی نے کہا: نہیں۔ دادی کہنے لگیں: ناممکن۔ میں نے رات خواب میں دیکھا ہے کہ سبز پوشاک میں ملبوس ایک جوان ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں لا الٰہ کا پرچم اٹھائے‘ تیزی سے گھوڑے پر جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے لوگوں کا ایک جم غفیر ہے۔ اسی دوران مجھے آواز آئی۔ اگر اس جوان کی طرف سے پیغام ملے تو اسے اپنا بیٹابنا لو۔ دادی کی بات سن کر والد صاحب نے ابومحمد کے پیغام کا بتایا اور ہم نے ہاں کر دی۔ حالانکہ میں نے تب تک اسلامی تعلیمات کا زیادہ مطالعہ اور پابندی نہیں کی تھی‘‘۔
شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر رنتیسی کی شخصیت پر یتیمی سے تعلیم‘ تعلیم سے عملی اور پھر بھرپور تحریکی و جہادی زندگی تک ہر جگہ اسی طرح ربانی ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر رنتیسی اپنی یادداشت میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’شیخ احمد یاسین ہمارے لیے قائد‘ والد‘ مربی‘ استاد اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ پوری تاریخ میں ان جیسا باہمت شخص دکھائی نہیں دیتا کہ اس کے چاروں ہاتھ پائوں شل ہوچکے ہوں اور وہ عظیم جہادی تحریک کی قیادت کر رہا ہو۔ ان کی سب سے عجیب صفت یہ تھی کہ وہ تنہا دس آدمیوں جتنا کام کرتے تھے۔ پھر بھی نہ کبھی تھکن کی شکایت کی نہ کسی تکلیف کا ذکر کیا۔ وہ اپنی ہرمصیبت کا توڑ تلاوت قرآن کریم سے کرتے تھے۔ ہم ہمیشہ ان کے قریب رہ کر اس چشمہ ٔ صافی و شیریں سے سیراب ہونا چاہتے تھے۔ ایک بار ہم تمام ذمہ داران گرفتار تھے لیکن شیخ کو ہم سے دور کفاریونا جیل میں رکھا گیا تھا۔ میں ایک صبح‘ اور یہ رمضان کا آخری دن تھا‘ اٹھا اور میں نے دوستوں کو اپنا خواب سناتے ہوئے کہا کہ میں شمال کی طرف جانے والی بس میں سوارہوں۔ ابھی میں نے خواب پورا نہیں کیا تھا کہ اعلان ہوا: ’’قیدی عبدالعزیز سامان باندھ کر جیل کے مرکزی احاطے میں حاضر ہو‘‘۔ پہنچتے ہی بس میں سوار کیا گیا اور شمال کی جانب رملہ جیل کی زیرزمین کوٹھڑی میں پہنچا دیا گیا۔ دودن رکھنے کے بعد کفاریونا جیل میں شیخ کے پاس پہنچا دیا گیا۔ شیخ کی کوٹھڑی پر ایک نہیں تین تالے لگے تھے۔ میں نے ہنستے ہوئے سنتری سے کہا کہ شیخ تو ہاتھ کی جنبش تک نہیں کر سکتا‘ پھر اتنے تالے؟ اس نے روایتی جملہ کہا: اوپر سے حکم ہے۔
شیخ نے بہت محبت و بے تابی سے خوش آمدید کہا اور پھر میں اور ایک دوسرا ساتھی شیخ کی خدمت میں جُت گئے‘ انھیں کھلانے‘ نہلانے سے لے کر ان کی ہر ضرورت کا ہمیں ہی خیال رکھنا تھا۔ ایک روز شیخ کو لے کر کوٹھڑی میں سے نکل رہے تھے کہ سیڑھیوں میں ایک یہودی ڈاکو سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس نے لپک کر شیخ کا ہاتھ پکڑا اور چومتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ ایک اور یہودی قیدی نے انگریزی میں پکار کر کہا: یہاں احتیاط سے رہو۔ یہ تمھیں یہاں اس لیے لائے ہیں کہ تم دونوں کی گفتگو ریکارڈ کر سکیں۔ ہم تو پہلے بھی محتاط تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود دشمن کے ذہن میں ہمیں یکجا کر دینے کی بات ڈال دی۔ اس قیدخانے میں شیخ سے جی بھر کے استفادے کا موقع ملا اور کئی عجیب و غریب واقعات کا مشاہدہ ہوا۔ ہر ہفتے ہمارے اہل خانہ کو آدھ گھنٹے کے لیے ملاقات کے لیے لایا جاتا تھا۔ ایک بار سب کے ملنے والے آگئے‘ میرے گھر والے نہ آئے۔ بے حد اداسی ہوئی‘ میں نے کوٹھڑی کے ایک کونے میں جاکر ہاتھ اٹھا دیے۔ پروردگار! میں تیرے بندے احمد یاسین کی جو خدمت کر رہا ہوں اگر تو اس سے راضی ہے تو مجھے میرے اہل خانہ کی طرف سے اطمینان نصیب فرما۔ اس ذات کی قسم جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا‘ ابھی میرے ہاتھ نیچے نہیں آئے تھے کہ ایک سنتری نے پکارا: ’’عبدالعزیز رنتیسی تمھاری ملاقات آئی ہے‘‘۔ اس سنتری کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم ملاقات کے لیے جا رہے تھے کہ وہ میرے کان میں کہنے لگا: ’’شیخ کا خیال رکھا کرو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے شاید اس سے یہ الفاظ اس لیے کہلوائے تھے کہ مجھے شیخ کی خدمت کے قبول ہوجانے کی نوید مل جائے۔
حماس کے قائدین نے تمام اسلامی قائدین کی طرح جیلوںکو مؤثر ترین تربیت گاہوں میں بدل دیا تھا۔ ڈاکٹر رنتیسی کے الفاظ میں ’’جیل کا سب سے عظیم فائدہ یہ ہے کہ قرآن کی صحبت میں زیادہ وقت گزرتا ہے‘‘۔ ایک بار انھیں اور دو دیگر قائدین کو تین ماہ کے لیے سخت ترین قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا۔ ڈاکٹر رنتیسی کہتے ہیں: ’’ہمیں روزانہ صرف ایک گھنٹے کے لیے باری باری چہل قدمی اور بیت الخلا جانے کے لیے نکالا جاتا۔ ہفتے کے روز یہ وقفہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہمارا سارا وقت قرآن کریم دہرانے میں ہی گزرتا۔ انجینیرابراہیم رضوان نے صرف ان تین مہینوں میں پورا قرآن حفظ کرلیا‘ جب کہ میں شیخ کے ساتھ کفاریونا جیل میں حفظ کرچکا تھا۔ یہاں دہرائی کرتا رہا۔
آزمایش کی ان بھٹیوں سے حماس کی قیادت ایسا کندن بن کر نکلی کہ سفاک ترین دشمن ہر ہتھکنڈے کے باوجود ان کی برپا کردہ تحریک جہاد کو مضبوط سے مضبوط تر ہونے سے نہیں روک سکا۔ ۱۹۸۷ء میں اعلان حماس کے بعد بنی صہیون نے یاسرعرفات کے ساتھ جاری امن مذاکرات کو جلدی میں معاہدہ اوسلو تک پہنچا دیا‘ جس کے بعد اسرائیلی جیلوں کے علاوہ خود فلسطینی جیلیں بھی مجاہدین سے بھرنے لگیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی ہر چال کو انھی پر لوٹا رہا ہے۔ نام نہاد امن معاہدے کا یہ ہتھکنڈہ‘ سیکڑوں شہید اور بالآخر ستمبر۲۰۰۰ء میں ارییل شارون کا مسجد اقصیٰ میں جاگھسنا‘ تحریکِ انتفاضہ کے اس بھرپور دوسرے مرحلے کا سبب بنا جو اب تک جاری ہے۔ سب تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اسے جاری رہنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
فرعون شارون نے بستیوں کی بستیاں خاکستر کر دینے کے باوجود‘ جہاد ختم کر دینے میں ناکامی پر فلسطینی قیادت کے قتل کا ظالمانہ منصوبہ بنایا۔ شیخ احمد یاسین اور ڈاکٹر رنتیسی ہٹ لسٹ میں سرفہرست تھے۔ صلاح شحادہ اور ابراہیم مقادمہ جیسے دسیوں لیڈر شہید کر دیے گئے۔ پھر ۲۲ مارچ کی صبح شیخ احمد یاسین اور ۱۷ اپریل کی شام ڈاکٹر رنتیسی پر امریکی ہیلی کاپٹراپاچی کے ذریعے راکٹ برساتے ہوئے دونوں کو ہمیشہ کے لیے جنت الخلد میں یکجا کر دیا گیا۔
دونوں کی شہادت پر پوری دنیا کے باشعور مسلمانوں اور عدل پسند انسانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ شارون اور اس کے وزیردفاع موفاز نے خوشی سے معمور ہوتے ہوئے کہا: ’’یہ لوگ عبرانی ریاست کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے‘ ان کا خاتمہ ضروری تھا‘‘۔ لیکن کیا عبرانی ریاست کو لاحق خطرات ان دونوں کے خاتمے سے ختم ہوگئے؟ خود صہیونی اخبارات اس کا جواب دیتے ہیں۔
روزنامہ یدیعوت احرونوت کے ایک اہم ترین تجزیہ نگار عوفر شیلح نے لکھا: ’’شارون نے ان لوگوں کے قتل کے احکامات جاری کر کے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں اسرائیلیوں کی موت کا پروانہ جاری کر دیا ہے۔ شارون نے یہ اقدام اپنے خلاف روز افزوں نفرت کی رفتار کو کم کرنے کے لیے کیا‘ لیکن اسرائیلی عوام خود کو مزید غیرمحفوظ پاتے ہوئے شارون کو مکروہ سمجھنے میں مزید حق بجانب ہوں گے‘‘۔
اسرائیلی رکن کینٹ اور میرٹس تحریک کے سابق سربراہ یوسی سارید نے کہا: ’’تمام کے تمام ذمہ داران کو قتل کر کے بھی ہم حماس کا خاتمہ نہیں کرسکتے‘ بلکہ ہر لیڈر کے قتل کے بعد حماس پہلے سے زیادہ قوی تر ہوگی۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔ شارون کو ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجاے اسے سمجھنا چاہیے‘‘۔
اسرائیلی ٹی وی چینل ۲ کے مبصر اَمنون ابراموفتیش نے شیخ احمد یاسینؒ کی نماز جنازہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’کسی کو ہماری حکومت کے احمق ہونے اور وزیراعظم کے گھامڑ ہونے میں شک ہے تو اس جنازے کو دیکھ لے۔ احمد یاسین کے قتل سے حماس کو قوت کے سوا کچھ نہیں دیاجاسکا۔ اسے اب لاتعداد ایسے نوجوان ملیں گے جو انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں۔ کیا دفاعی پالیسیاں یونہی بنتی ہیں‘‘۔
روزنامہ ہآرٹسنے اپنے ۲۳مارچ ۲۰۰۴ء کے اداریے میںلکھا: ’’شارون کو اس اقدام سے پہلے اسرائیل کی طرف سے عباس موسوی کے قتل کے نتائج دیکھ لینے چاہییں تھے۔ اس کے بعد حسن نصراللہ حزب اللہ کا سربراہ بن گیا‘ جس کی قیادت میں حزب نے اسرائیلیوں کی نیندیں حرام کر دیں اور کسی عرب تنظیم کی طرف سے اسرائیل کو وہ شکست اٹھانا پڑی‘ جس کی نظیر ہماری تاریخ میں نہیں ملتی‘‘۔
یدیعوت احرونوت کے تجزیہ نگار الیکس فیشمان نے ایک بہت بڑی اور اہم حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: ’’آج عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں کروڑوں نوجوان’اسرائیل مردہ باد‘ کا نعرہ بلند کر رہے ہیں‘ انھیں دیکھ کر دل لرز اٹھتا ہے۔ احمدیاسین کا قتل ہمارے اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ میں ایک اہم موڑ واقع ہوگا۔ اب اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہا کہ اس قتل سے ہماری جنگ اسرائیلی فلسطینی محدود محور سے نکل کر پورے عالمِ عرب بلکہ پورے عالمِ اسلام کے ساتھ اسرائیل کی جنگ بن گئی ہے‘‘۔
شیخ احمد یاسینؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کی شہادت کے بعد مراکش کے دارالحکومت رباط‘ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم‘ لبنان کے دارالحکومت بیروت اور کویت جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر جگہ پروگراموں میں سب سے زیادہ جوش و جذبہ شیخ احمد یاسین ؒاور ڈاکٹر رنتیسی کے نام پر پیدا ہوتا تھا۔ ہر جگہ ایک ہی نعرہ تھا: کُلنُّا احمد یاسین‘ کُلنُّا حماس، ہم سب احمد یاسین ہیں‘ ہم سب حماس ہیں۔یاشھید ارتاح ارتاح ، سنُو اصِلُ الکِفاح، اے شہید‘ اب آرام و راحت سے رہو‘ جدوجہد و جہاد ہم جاری رکھیں گے۔
شارون کے خلاف نفرت میں سے برابر کا حصہ صدربش کے حصے میں بھی آیا کہ اس سے ملاقات و حوصلہ افزائی کے بعد ہی یہ جرمِ عظیم کیا گیا تھا۔ کویت میں منعقدہ تعزیتی اجتماع میں ایک کویتی نوجوان نے نظم پڑھی تو پورا مجمع شاملِ جذبات ہوگیا۔
تبت یداک زعیم امیریکا وتب - صدر امریکا تیرے دونوں ہاتھ ٹوٹیں تو ہلاک ہو۔
تبت یدا شارون نمرود الشغب - دہشت گردی کے سرخیل نمرود عصرشارون کے ہاتھ ٹوٹیں
تبت یدا العملاء من کل العرب - تمام عرب ایجنٹوں کے ہاتھ ٹوٹیں۔
احمد یاسینؒ اور عبدالعزیز رنتیسیؒ نے شہادت سے پہلے عجیب سرشاری کے دن گزارے۔ شیخ جو مجموعہ امراض بن چکے تھے‘کی حالت اس رات بے حد نازک تھی۔ سیکورٹی کے باعث نوجوان انھیں ہسپتال سے بھی لے گئے اور گھرسے بھی۔ عشاء کی نماز کا وقت ہوا تو شیخ نے حسب معمول مسجد جانے پر اصرار کیا اور پھر کہا: آج رات یہیں اعتکاف کروں گا۔ سحری تک تلاوت و نوافل کا سلسلہ جاری رہا۔ پیرکے مسنون روزے کی نیت کی‘ نماز فجر ادا کی اور پھر مسجد سے باہر آتے ہی تین امریکی میزائلوں نے چہرے کے علاوہ باقی سارے جسم کے چیتھڑے اڑا دیے۔ قیامت برپا ہوگئی۔ الجزیرہ نے شہید کا ایک جملہ بار بار سنایا جو شہید کا تعارف اور خلقِ خدا کی ان سے محبت کی اصل وجہ بیان کرتا ہے: أمَلی أن یرضی اللّٰہ عَنِّی، میںامید کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے راضی ہوگا۔
ڈاکٹر رنتیسی پہلے ہر ہفتے دو تین روز گھر آجاتے تھے۔ شیخ کی شہادت کے بعد ہفتے میں دو تین گھنٹے کے لیے ہی آپاتے تھے‘ وہ بھی بہت رازداری سے۔ ۱۷ اپریل کو فجر سے کچھ پہلے گھر آگئے۔ سب اہلِ خانہ کو جمع کر لیااور دن بھر ان کے ساتھ رہے۔ نمازِ مغرب کے بعد غسل و عطر کا اہتمام کیا۔ چھوٹے بھائی نے شوخی سے پوچھا: آج کہاں کی تیاری ہے؟ اپنی عادت کے بغیر ایک ترانے کے بول دہرانے لگے: أنْ تُدخِلَنِی رَبِّی الجَنَّۃ ، ھذا أقصٰی ما أتَمَنَّی،میرے پروردگار تو مجھے جنت میں داخل کر دے‘ یہی میری سب سے بڑی تمنا ہے۔ گھر سے نکلے چند منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ امریکی ہیلی کاپٹر اپاچی حملہ آور ہوا‘ شہید کی تمنا ہی نہیں‘ فیصلہ بھی اللہ نے پورا کر دیا۔ چند دن پہلے ہی انھوں نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’موت تو ہر ذی روح کو آنا ہے۔ مجھے اگر ہارٹ اٹیک یا اپاچی میں سے کسی ایک کے ذریعے مرنے کا اختیار دیا جائے تو میرا انتخاب اپاچی ہوگا‘‘۔
مولاناابوالکلام آزاد نے ایک تقریر میں تاج محل کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کے حسن اور دلآویزی سے مبہوت انسانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اس حسن مجسم کی جتنی تعریف چاہے کرلو لیکن یہ نہ بھولو کہ اس کی شان و شوکت اور دلربائی مرہون منت ہے ان نظر نہ آنے والے پتھروں پر جو اس کی بنیاد میں پیوستہ ہیں اور فنِ تعمیر کے اس عجوبے کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں--- کشمیر کی تحریکِ آزادی کا معاملہ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ ۱۹۸۰ء کے وسط میں مقبوضہ کشمیر میں جو تحریکِ مزاحمت شروع ہوئی‘ اور ۱۹۸۹ء کے انتخابی معرکے کے بعد جس سیاسی جدوجہد نے جہاد آزادی کا روپ دھارا‘ اس کی قیادت اگر حزب المجاہدین اور دوسری جہادی تنظیمیں کر رہی ہیں‘ اور اس کی سیاسی رہنمائی کی سعادت سید علی گیلانی اور ان کے رفقاے کار کو میسر آئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے کئی اہم شخصیات کی وہ مساعی ہیں جو تاج محل کی نیو کے پتھروں کا درجہ رکھتی ہیں اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس تاریخی تحریک کی صورت گری میں ان کا بڑا حصہ ہے--- اور ان کا مقام اس سے اور بھی بلند ہوجاتا ہے کہ انھوں نے ساری خدمات اللہ کے لیے اور اپنی مظلوم قوم کی آزادی کے حصول کے لیے انجام دیں اور ہر نام و نمود سے بالا ہوکر!
مولانا عبدالباری مرحوم اس تحریکِ مزاحمت و جہاد کے گم نام بانیوں میں سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ مولانا عبدالباری ہی نے اس جدوجہد کی سرپرستی کے لیے مولانا سعدالدین مرحوم کو آمادہ کیا۔ ۱۹۸۰ء میں انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں تین ہفتے گزارے۔ کام کا ایک نقشہ ان کے ذہن میں تھا۔ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں اور جماعت اسلامی کی قیادت سے تحریکِ آزادی کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی۔ نئے خطوطِ کار مرتب کیے گئے۔ نوجوانوں نے کام شروع کر دیا۔ پھر ۱۹۸۳ء میں مولانا سعدالدین پاکستان تشریف لائے اور تحریک آزادی کے سلسلے میں اعلیٰ ترین سطح پر مشورے ہوئے اور بالآخر چار پانچ سال کی تیاری کے بعد ۱۹۸۸ء میں تحریک نے نئی کروٹ لی--- نوجوانوں میں ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ ڈاکٹر غلام نبی فائی‘ تجمل حسین اور ان کے رفقا کا کردار سب سے اہم تھا تو بزرگوں میں مولانا سعدالدین‘ سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی کا--- اور ان سب کے پیچھے جس شخص نے خاموشی‘ حکمت اور لگن کے ساتھ اس تحریک کے دروبست کی شیرازہ بندی کی وہ مولانا عبدالباری تھے‘ جو اس تحریک کو خاک و خون کی منزلیں طے کرتے دیکھتے ہوئے اور اس کے لیے دعائیں کرتے ہوئے ۲۶ فروری ۲۰۰۴ء کو اس دارفانی سے اپنے رب حقیقی کی طرف رخصت ہوگئے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالباری نے اکتوبر ۱۹۱۹ء میں وادی کشمیر کی تحصیل باندی پور (بارہ مولہ) کے ایک معزز دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ۱۸ سال کی عمر میں جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک میں شرکت اختیار کی‘ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں شرکت کی‘ اور تحریک کے ہرمرحلے میں مردانہ وار شریک رہے۔ ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو جس اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی ‘اس میں وہ بھی شریک تھے۔ ۱۹۴۷ء کے آخری ایام میں پاکستان ہجرت کی۔ بالاکوٹ میں چند سال قیام کے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئے۔
جماعت اسلامی سے ذہنی اور عملی رفاقت کے ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس آزاد کشمیر سے وابستگی جاری رکھی اور اس کے سینیرنائب صدر اور مجلس عاملہ کے فعال رکن رہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب جماعت اسلامی آزاد کشمیر قائم ہوئی تو اس کے صدر منتخب ہوئے اور یہ ذمہ داری۱۹۸۱ء تک انجام دی۔ جس لگن سے امیرجماعت کی حیثیت سے کام کیا‘ اسی لگن سے کرنل رشید عباس اور عبدالرشید ترابی کی امارت میں بحیثیت رکن خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۴ء میں کار کے ایک حادثے کے نتیجے میں صاحبِ فراش ہوگئے مگر اسلام‘ تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے اسی طرح فکرمند رہے اور آخری سانس تک اپنے رب سے وفاداری کا جوعہد کیا تھا اس پر قائم رہے۔
مجھے مولانا عبدالباریؒ سے ملنے کا پہلا موقع ۱۹۷۸ء میں ملا جب میں انگلستان سے اسلام آباد منتقل ہوا۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے دورے میں بھی ساتھ رہے۔ ان کے انگلستان اور سعودی عرب کے دوروںمیں بھی‘ مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا بھرپور موقع ملا۔ تحریکی مشاورتوں اور اجتماعات میں بھی ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے اس پورے عرصے میں مولانا عبدالباریؒ کو ایک بڑا صاف ستھر انسان پایا۔ اسلام کی دعوت‘ تحریک اسلامی کی خدمت‘ دینی تعلیم خصوصیت سے مساجد اور مدرسوں کی کفالت‘اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد‘ ان کے شب و روز کا مرکزومحور تھے۔ اس کے ساتھ اولاد کی تربیت اور ان کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلام اور تحریکِ اسلامی کے رنگ میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش‘ ان کی مساعی کا حاصل ہیں۔ سیاسی معاملات میں ان کی رائے بڑی صائب اور خصوصیت سے کشمیر کے حالات کا تجزیہ بڑا چشم کشا ہوتا تھا۔ خود مجھے تحریکِ آزادی کشمیر میں سراپا کھینچ لانے میں ان کا بھی حصہ ہے۔گو اس سلسلے میں مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ برادرم الیف الدین ترابی اور عزیزی حسام الدین کا بھی بڑا ہی موثر کردار رہا ہے۔
مولانا عبدالباری سے ۲۵ سالہ تعلق میں‘ میںنے محسوس کیا کہ ان کی زندگی میں تین چیزیں بڑی نمایاں ہیں۔ سب سے پہلی چیز ان کا اسلام اور تحریکِ اسلامی سے کمٹ منٹ ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک عقیدے اور نظامِ عبادت کے طور پر ہی قبول نہیں کیا تھا بلکہ اسے زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ اس کے لیے جدوجہد‘ قربانی اور اس پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی تڑپ اور جذبہ‘ ان کی پہچان بن گیا تھا۔ دین کو ہر شعبۂ زندگی میں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ مساجد اور مدارس کا قیام ہو یا دعوت و تحریک کی مساعی‘ صحافت ہو یا خطابت‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو بھی صلاحیتیں ودیعت کی تھیں اور جو بھی وسائل عطا کیے تھے‘ ان کو انھوں نے پوری دیانت اور دلجمعی کے ساتھ اللہ کی راہ میں صرف کیا اور بڑی کشادہ دلی کے ساتھ کیا۔ اور جب قضاے الٰہی سے وہ ایک حادثے کی بناپر صاحبِ فراش ہوگئے‘ تب بھی صبروشکر کی کیفیت میں ذرا فرق نہ آیا۔ انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ان کا دل‘ ان کے ہاتھ‘ ان کی آنکھ اور ان کی زبان‘ اللہ کے ذکر میں مصروف رہی۔
دوسری چیز پاکستان سے ان کی محبت اور شیفتگی تھی اور یہ محبت محض وطن کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ وہ پاکستان کو اسلام کا گھر اور قلعہ سمجھتے تھے اور مسجد کی طرح اس کی حفاظت اور خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔
مولانا عبدالباری ؒکے عشق کا تیسرا مرکز و محور کشمیر اور خصوصیت سے اس کی آزادی کی تحریک اور پاکستان سے اس کے الحاق کی خواہش اور کوشش تھی۔ یہ چیز ان کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز تھی‘ اور میں نے ان کو اس سے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ پایا خواہ اس کا تعلق کشمیر کاز کو سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کرنا ہو یا جہادی قوت کو متحرک کرنا ہو کشمیر کی آزادی کے لیے ان کی خدمات ایک زریں مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔
ان تینوں مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کو وقف کر دیا اور اپنی اولاد اور اپنے دوستوں‘ ساتھیوں اور رفقا کو آمادہ اور متحرک کیا۔ یہ کام انھوں نے ہمت اور بالغ نظری سے انجام دیا۔ انھوں نے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کے باب میں بے پناہ جرأت کا مظاہرہ کیا۔ کتنا ہی مضبوط دشمن ہو اور راہ کی مشکلات کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہوں‘ وہ اپنے مشن کے لیے جدوجہد میں سرگرم رہے۔ وہ مخالفتوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند تھے۔ انھیں اپنے اللہ پر اور اپنے مشن کی صداقت پر بھروسا تھا اور یہی ان کی طاقت اور استقامت کا راز تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور انھیں اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔آمین!
۱۱ فروری ۲۰۰۴ء کو جب میں آکس برج کے ہسپتال میں برادرم حاشر فاروقی اور برادرم کمال ھلباوی کے ساتھ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں اپنے عزیز بھائی اور تحریک آزادی کشمیر کے عظیم مجاہد ڈاکٹر ایوب ٹھاکرسے ملا‘ تودل ایک خطرے کے احساس سے کانپ رہا تھا اور زبان ارض وسما کے مالک سے التجا کر رہی تھی کہ اسلام کے اس سپاہی کو نئی زندگی دے اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے مزید مہلت دے جس میں اس نے اپنی طالب علمی‘ اپنی جوانی اور اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ ایوب ٹھاکر زبان سے کچھ کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے مگر اصرار کر کے کاغذمنگوایا اور کانپتے ہاتھوں سے مجھے گواہ بناکر لکھا کہ میری زندگی کا مقصد اسلام‘ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر ہے--- آکسیجن لگی ہوئی تھی لیکن قلب و نگاہ انھی مقاصد پر مرکوز تھے۔ ہاں‘ یہ بھی لکھا کہ میرے بیٹے مزمل کا خیال رکھنا‘ اسے اس راہ میں آگے بڑھنے کے لیے تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔
ایوب ٹھاکر مرحوم سے میری پہلی ملاقات ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے ایک تربیتی کیمپ میں ۱۹۸۰ء میں ہوئی‘ جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تھے اور سری نگر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس نوجوان نے اپنے خلوص‘ اپنی فکری اصابت اور مقصد سے اپنی لگن کے باب میں مجھے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں نوجوان ایوب ٹھاکر سے یہ پہلی ملاقات اہم سنگ میل ہے۔ ہم جتنے دن ساتھ رہے‘ ایک ہی موضوع ہماری گفتگو کا محور تھا--- کشمیر کے لیے کیا کیا جائے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کو اس کے لیے کیسے متحرک کیا جائے؟ اس پہلی ملاقات ہی میں ان کا جو نقش دل و دماغ پر مرتسم ہوا وہ اقبال کے اس جوان کا تھا جس کے بارے میں انھوں نے کہا تھا ؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
یہ ایوب ٹھاکر اور ان جیسے نوجوان ہی تھے جنھوں نے مجھے یہ یقین دیا کہ کشمیر کے مسلمان بھارت کی غلامی پر کبھی قانع نہیں ہوں گے‘ اور ان شاء اللہ ایک دن ان زنجیروں کو توڑکر رہیں گے جن میں انھیں پابندسلاسل کردیا گیا ہے۔ ایوب ٹھاکر کا وژن بہت صاف اور نقشۂ راہ بالکل واضح تھا۔ انھوں نے خود اس پر چل کر کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو اپنے خون اور پسینے سے سینچا اور عالمی سطح پر کشمیرکاز کو پیش کرنے میں جتنی خدمت انجام دی وہ دوسری کسی جماعت‘ گروہ‘ بلکہ مملکت کی خدمت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ایوب ٹھاکر کے وژن میں کشمیر کی آزادی‘ پاکستان سے اس کی وابستگی اور صرف اسلام کی بالادستی‘ ایک ہی حقیقت کے تین روپ اور ایک ہی منزل کے تین نشان تھے۔ اس سلسلے میں‘ میں نے ان کو کبھی کسی کنفیوژن کا شکار نہیں پایا۔ جس قوم نے ایوب ٹھاکر جیسا نوجوان‘ مجاہد اور مفکر پیدا کیا وہ ان شاء اللہ کبھی غلام نہیں رہ سکتی--- آزادی اور عزت کی زندگی اس کا مقدر ہے‘ وقت جتنا بھی لگے!
ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم مقبوضہ کشمیر کے قصبہ شوپیاں (اسلام آباد) میں ۱۹۴۹ء میں پیدا ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے ناظم اعلیٰ رہے۔ کشمیر یونی ورسٹی سے نیوکلیرفزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ سری نگر میں مسئلہ کشمیر پر ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کے ’جرم‘ میں گرفتار ہوئے اور ملازمت سے برطرف کیے گئے۔ ۱۹۸۱ء میں جدہ کی عبدالعزیز یونی ورسٹی میں استاد کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی اور پھر وہاں انھوں نے پانچ سال خدمات انجام دیں جس کے بعد ۱۹۸۶ء میں انگلستان منتقل ہوگئے جہاں تن‘ من دھن سے آزادی کشمیر کی جدوجہد میں شب و روز مشغول ہوگئے۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ میری ہی دعوت پر وہ انگلستان آئے‘ انٹرنیشنل سینٹر فار کشمیر اسٹڈیز قائم کیا‘ پھر ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے بانی صدر بنے‘ مرسی انٹرنیشنل اور جسٹس فائونڈیشن انھی کی محنتوں کا ثمرہ تھے۔ انگلستان‘ یورپ اور پوری دنیامیں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے موثر خدمات انجام دیں۔ خود مقبوضہ کشمیر میںتحریک کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
وہ عالمی سطح پر تحریک کے دماغ تھے اور دست و بازو بھی خود ہی فراہم کرتے تھے۔ ہندستانی حکومت نے ایک جھوٹے مقدمے میں ان کو گھیر لیا تھا (جس میں مجرموں کی فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا)‘ اور اسی بنیاد پر ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا گیا تھا‘ نیز بی جے پی کے دور حکومت میں ایل کے اڈوانی ان کے بطور قیدی واپسی (repatriation)کے لیے ذاتی طور پر کوشش کرتا رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی دسترس سے محفوظ رکھا۔ برطانیہ میں سیاسی‘ سفارتی اور علمی حلقوں میں انھوں نے بے پناہ کام کیا اور بڑی عزت کا مقام بنایا۔ مسلم کمیونٹی کو بھی متحرک کرنے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ امریکہ‘ یورپ اور عرب دنیا‘ ہر جگہ انھوں نے تحریکِ آزادی کشمیر کو متحرک کیا اور اس کی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔
ڈاکٹر ایوب ٹھاکرمرحوم بہت سلجھی ہوئی فکر کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اعلیٰ ذہنی اور تنظیمی صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کو انھوں نے اپنے مقصد کی خدمت کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ ادارہ سازی (institution making) کا بھی ان کو ملکہ حاصل تھا۔ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ مقصد کے لیے قربانی اور اَن تھک محنت ان کی شخصیت کے دلآویز پہلو تھے۔ تحریکِ اسلامی کے وفادار سپاہی تھے اور نازک سے نازک وقت پر بھی ان کی وفاداری پر کوئی آنچ نہ آئی ع
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو خود ہی خوب جانتا ہے اور اس کا ہر فیصلہ قبول‘ لیکن ایک پختہ کار انسان کی حیثیت سے ۵۵ سال کی عمر میں جدوجہد کے اس عالم میں جب کشتی بالکل منجدھار میں تھی‘ ان کا ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو رخصت ہو جانا‘ ایک ایسا نقصان ہے جس کا تصور بھی نہیں کیاتھا اور ان کے رخصت ہو جانے سے ایک ایسا خلا واقع ہوگیا ہے جس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے
جس رب السمٰوٰت والارض نے یہ نعمت دی تھی‘ اس نے واپس لے لی ہے اور اس سے ہی دعا ہے کہ اس خلا کو پر کرے اور اس نقصان کی تلافی کا سامان بھی اپنے قبضۂ قدرت سے فرمائے اور اپنے اس مخلص اور وفادار بندے کی خدمات کو قبول فرمائے‘ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے‘ اور جس مظلوم قوم کی آزادی کی جدوجہد میں اس نے اپنی جان آفریں کے سپرد کی اس قوم کی اس جدوجہد کو کامیاب فرمائے کہ اس کی خاطر لاکھوں جانیں تلف ہوگئی ہیں اور ہزاروں جوانیاں لُٹ گئی ہیں۔میں نے ایوب ٹھاکر کو کبھی مایوس نہ پایا۔ وہ ہر حال میں اچھے مستقبل کی امیداور امنگ رکھتے تھے کہ ؎
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے
’اسلام کی حقیقی تعلیمات ہماری بنیاد‘ انصاف ہمارا راستہ اور ترقی و کامیابی ہماری منزل ہے‘ اس جلی بینر تلے مراکش کی اسلامی جماعت ’انصاف و ترقی پارٹی‘ کا پانچواں اجتماع عام ہوا۔ ہرچار سال بعد ہونے والے اس اجتماع میں پارٹی کے انتخابات بھی ہوتے ہیں اور اہم پالیسیوں کا اعلان بھی۔ ۱۱‘ ۱۲اپریل ۲۰۰۴ء کو رباط میں ہونے والے اس اجتماع میں پہلی بار عالمِ اسلام سے بھی قائدین کو مدعو کیاگیا۔ محترم قاضی حسین احمد مہمانِ خصوصی تھے۔
افتتاحی اجلاس میں بیرونی مہمانوں کے علاوہ ملک کی تمام پارٹیوں کی قیادت‘ تمام غیرملکی سفرا اور حکومتی ذمہ داران کو بھی مدعو کیا گیا۔ یہ اجتماع رباط کے مدخل پر واقع ایک وسیع و عریض سپورٹس سنٹر میں ہوا۔ ملک بھر سے آئے شرکا کے قیام و طعام اور پروگرام کے لیے مختلف بڑے ہال اور خیمے سجائے گئے تھے۔
انصاف و ترقی پارٹی کے پہلے سربراہ عبدالکریم خطیب کی تاریخ پیدایش ۲مارچ ۱۹۲۱ء ہے۔ ان کا شمار مراکش کی تحریک آزادی کے اہم کارکنان و قائدین میں ہوتا ہے۔ اسلام کو مکمل نظامِ حیات کے طور پر سمجھنے کے بعد وہ مسلسل اس نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے مؤسسین اور رہنمائوں سے ان کا قریبی تعلق رہا ہے۔ ۱۹۶۹ء میں‘ سیدمودودی رحمہ اللہ‘ مراکش میں اسلامی یونی ورسٹی کی تاسیسی کانفرنس میں شرکت کے لیے رباط گئے‘ تو ان کے گھر بھی تشریف لے گئے تھے۔
انھوں نے پہلے بھی پارٹی کی قیادت کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی جو کارکنان کو قبول نہ ہوئی۔ لیکن اب ۸۳ سال کی عمر میں قویٰ زیادہ مضمحل ہوگئے تو حالیہ اجلاس میں ان کی سرپرستی میں‘ ایک متحرک‘ دانش مند اور فعال نوجوان ڈاکٹر سعدالدین عثمانی کو پارٹی کا سربراہ منتخب کرلیا گیا۔ انصاف و ترقی پارٹی کا طریق انتخاب بھی جماعت اسلامی پاکستان کے نظام سے بہت مشابہ ہے۔ کوئی شخض خود امیدوار نہیں بن سکتا۔ ارکان نے خفیہ ووٹنگ سے چار افراد کے نام تجویز کیے‘ چاروں نوجوان تھے۔ ان میں سے مصطفی رمیدنے بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر باصرار معذرت کرلی۔ باقی تین کے انتخاب کے لیے ہال میں متعدد بیلٹ بکس رکھ دیے گئے۔ ارکان نے اپنے اپنے رکنیت کے کارڈ دکھا کر بیلٹ پیپر حاصل کیے اور چند گھنٹوں کے بعد نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ ۱۵۹۵ ارکان نے ووٹ ڈالا تھا۔ ۲۰ ووٹ منسوخ ہوگئے‘ باقی میں سے ڈاکٹر عثمانی کو ۱۲۶۸ ووٹ ملے۔ پاکستان کی طرح مراکش میں بھی انصاف و ترقی ہی اکلوتی اسلامی پارٹی ہے‘ جس میں پارٹی کسی لیڈر کی باجگزار نہیں‘ ارکان جماعت صالح تر اور موزوں ترین کو‘ شفاف انتخابات کے ذریعے اپنا قائد چنتے اور تسلیم کرتے ہیں۔
انصاف و ترقی پارلیمنٹ میں‘ بادشاہ کی پارٹی کے بعد دوسری بڑی پارٹی ہے۔ سب قومی و عالمی تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ پارٹی جب بھی فیصلہ کرلے کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی بننا ہے‘ تو اس کا راستہ روکنا ممکن نہ ہوگا۔ مراکش کی تاریخ‘ اردگرد کے حالات اور ملک میں راسخ ملوکیت کے نظام میں پارٹی کا فیصلہ‘ خود حکومت سنبھالنے یا حکومت میں شریک ہونے کے بجاے‘ مثبت اپوزیشن کے طور پر کام کرنا ہے۔ اس پالیسی کا اظہار ڈاکٹر عثمانی نے اپنی افتتاحی تقریر میں ان الفاظ میں کیا:’ ’ہماری پارٹی نے پوری بصیرت اور ذمہ داری سے اپوزیشن کا کردار چنا ہے‘ ایک مثبت‘ ناصح اور فعال اپوزیشن کا کردار‘‘۔
مراکش میں ملوکیت کا نظام ہے۔ موجودہ شاہ محمد السادس ابن شاہ حسن الثانی بھی اپنے باپ دادا کی طرح خود کو امیرالمومنین کہلاتا ہے۔ امارۃ المؤمنین کو ایک تقدس اور دوام حاصل ہے۔ حسن الثانی تو باقاعدہ عالمِ دین تھے۔ اکثرخطبہ بھی دیتے تھے۔ امیرالمومنین کی بیعت کا نظام بھی وراثت سے چلا آ رہا ہے۔ عبدالکریم الخطیب نے اپنے مختصر خطاب میں اس امر کا اعلان و اظہار بھی کیا کہ ’’میں اوائل عمر ہی سے امارۃ المؤمنین کے ادارے کومضبوطی سے تھامے رکھنے کا قائل ہوں کہ یہ ہمارے عقیدے کی شناخت ہے۔ اسی شناخت کی وجہ سے مراکش کو اسلام سے دُور لے جانے کی تمام سیکولر کوششیں ناکام رہیں‘‘۔الخطیب کا یہ اعلان مراکش کے نظامِ ملوکیت میں نسبتاً آزادی سے کام کرنے کا سبب بیان کر رہا تھا۔
کانفرنس میںمراکش کی اسلامی شناخت‘ پارٹی کے جامع پروگرام اور اُمت مسلمہ کے مختلف مسائل پر اپنا موقف واضح کرنے کے لیے بہت جوش و خروش اور من موہ لینے والے انداز سے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ ان کے نعروں کا اسٹائل پاکستان سے یوں مختلف تھا کہ جو بول نعرے لگوانے والا کہتا وہی بول اس کے تمام شرکا بھی دہراتے۔ اس وقت سب کا جوش و خروش دیدنی ہوتا‘ جب پوری قوت سے پورے کا پورا اسٹیڈیم کہہ رہا ہوتا: لا الٰہ الا اللّٰہ- علیھا نحیا- وعلیھا نموت وفی سبیلھا نجاھد وعلیھا نلقی اللّٰہ۔ یہ ان صلاتی ونسکی کا خوب صورت بیان تھا۔ فلسطین‘ کشمیر اور فلوجہ کے لیے بھی بار بار پکارا گیا: کلنا فداء فداء - فلسطین الصامدہ‘ کلنا فداء فداء - کشمیر الصامدہ، اے ثابت قدم فلسطین ہم سب تم پر سو جان سے فدا‘ اے ثابت قدم کشمیر… درج ذیل نعرہ پارٹی کی شناخت اور اسلام کو بطور کامل نظامِ حیات ماننے کا اعلان تھا: اسلام یا حاضرین‘ دین و دولۃ مجتمعین- قولوھایا سامعین ‘ لدعاۃ العلمانیۃ‘ حاضرین کرام اسلام دین بھی ہے‘ ریاست بھی‘ سامعین کرام یہ بات سیکولرازم کے پرچارکوں کو واضح طور پر بتا دو۔ شیخ احمد یاسین کی تصاویر بہت عقیدت و احترام سے سجائی گئی تھیں اور یہ نعرہ بار بار گونجتا تھا: عھداللّٰہ لن ننسی - یاسین والاقصٰی‘ اللہ کی قسم یاسین اور اقصیٰ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے!
پارٹی کی قیادت کے علاوہ دیگر پارٹیوں کی نمایندگی کے لیے استقلال پارٹی کے ایک بزرگ رہنما ابوبکر الکیلانی کو دعوت دی گئی۔ انھوں نے بھی مکمل اسلامی تعلیمات‘ اُمت اسلامی کی وحدت‘ اُمت کے خلاف تیار کی جانے والی سازشوں اور ان کے مقابلے کے لیے دین کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مہمانِ خصوصی محترم قاضی حسین احمد کو دعوت دی گئی تو پورے مجمع نے کھڑے ہوکر بھرپور استقبال کیا۔ کشمیرالصامدہ والا نعرہ دیر تک لگایا اور پھر سراپا خاموشی بن کر امیرجماعت کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب فرما رہے تھے: میں یہاں اسی مقدس رشتے کو مضبوط و تازہ کرنے آیا ہوں جو طارق بن زیاد اور یوسف بن تاشفین کے عہد سے ہمارے درمیان قائم ہے۔ جس رشتے کی وجہ سے ہم سب یک دل‘ یک زبان اور یک رنگ ہیں‘‘۔ انھوں نے اندلس کی تہذیب رفتہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’علامہ اقبال جب یورپ میں سلسلۂ تعلیم مکمل کر کے بحری جہاز میں سوار صقلیہ سے گزر رہے تھے تو انھوں نے صقلیہ میں اسلامی تہذیب کے زوال کا مرثیہ لکھا جس کا پہلا شعر ہے ؎
رو لے اب دل کھول کر اے دیدئہ خوننابہ بار
وہ نظر آتاہے تہذیب حجازی کا مزار
کچھ مدت بعد وہ ہسپانیہ کے سفر میں جامعہ قرطبہ کے جوار میں‘ دریاے کبیر کے کنارے‘ شان دار ماضی کے ذکر کے ساتھ‘ روشن مستقبل کی تصویر دکھا رہے تھے ؎
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
انھیں یہ تو یقین تھا کہ قافلۂ سخت جان محوسفر ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ کس وادی میں ہے ؎
کون سی وادی میں ہے‘ کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں
آج یہ قافلۂ سخت جاں پوری دنیا میں اپنی منزلیں طے کر رہا ہے۔ مشکلات و مصائب ہرجانب سے امڈے چلے آ رہے ہیں‘ لیکن یہ تندی باد مخالف‘ شاہین کو اونچا اڑانے کے لیے ہے۔ امیر جماعت نے ۱۱ستمبر کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغانستان اور عراق پر کی جانے والی جارحیت اور فلسطین و کشمیر سمیت مختلف خطوں میں ریاستی دہشت گردی کے شکار اعضاے اُمت کا بھی ذکر کیا اور اتحاد‘ تعلیم‘ حصول ٹکنالوجی‘ بھرپور محنت اور انصاف وترقی اور اس سب کچھ سے پہلے ایمان و تقویٰ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
دیگر کئی ممالک سے بھی اسلامی تحریکوں کے قائدین آئے ہوئے تھے جن میں حسن البنا شہیدؒ کے صاحبزادے سیف الاسلام‘ اُردن سے اسلامی فرنٹ کے سربراہ حمزہ منصور‘ لبنان سے جماعت اسلامی کے رہنما اسعد ہرموش‘ فلوجہ سے عراقی علما کے نمایندے ڈاکٹرکبیسی اور تیونس‘ الجزائر‘ موریتانیا‘ ترکی سمیت کئی ممالک سے آئے رہنما نمایاں تھے۔ ایک اور نمایاں ترین شخصیت برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے تھے۔ عراق میں امریکی جارحیت اور جنگ کے خلاف‘ ایک ہی دن پوری دنیا میں لاکھوں افراد کے مظاہروں کے پیچھے قوت محرکہ کے طور پر کام کرنے والی ٹیم کے نمایاں ترین رکن جارج گیلوے ہی ہیں۔ جنگ مخالف تحریک (anti war movement)کی نمایندگی کرتے ہوئے انھوں نے مختصر لیکن جان دار خطاب کیا۔ انھوں نے امریکا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: تمھیں عراق سے بالآخر نکلنا ہے‘ کئی خونیں شامیں دیکھ کر نکلنے سے پہلے آج ہی عراق سے نکل جانا چاہیے‘‘۔ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’مشرق وسطیٰ میں ایک ہی ملک ایسا ہے کہ جس کے ہتھیاروں کی وجہ سے پوری دنیا کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اس ریاست کو اسرائیل کہا جاتا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ میں نے جنین کیمپ پر ہونے والی جارحیت کے بعد وہاں کا دورہ کیا۔ وہاں شہریوں کے پاس سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ گھربار‘ کھانا پینا۔ صرف ایک ہی چیز باقی تھی اور وہ تھی: ’’حصول آزادی تک مزاحمت کا جذبہ‘‘۔ پورا مجمع پکار اُٹھا: الشعوب تقاوم- الانظمۃ تساوم‘عوام مزاحمت کر رہے ہیں لیکن حکومت سودے بازیاں۔ جارج گیلوے کی جامع‘ جذباتی اور مختصر تقریر ختم ہوئی‘ تو اسٹیڈیم دیر تک ایک ہی لَے سے گونجتا رہا: یکفینا یکفینا یکفینا الحروب - امریکا امریکا عدوۃ الشعوب‘قوموں کے دشمن امریکا‘ بس بس بہت جنگیں ہوچکیں۔
انصاف و ترقی پارٹی کو مراکش کی اسلامی تحریک کا سیاسی بازو کہا جاسکتا ہے۔ دعوتی اور تربیتی سرگرمیوں کے لیے بنیادی تحریک اسلامی ’تحریک توحید و اصلاح‘ کے نام سے کام کر رہی ہے۔ توحید و اصلاح کی علیحدہ سے منتخب قیادت‘ مجلس شوریٰ اور مکمل تنظیمی ڈھانچا ہے۔ یہ تحریک ۶۰کی دہائی سے کام کر رہی ہے۔ آغاز میں اس کا نام سید مودودیؒ اور ان کی تحریک کی نسبت سے‘جماعت اسلامی مراکش رکھا گیا۔ پھر مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد ۱۹۹۶ء میں دو تنظیموں: الاصلاح والتجدید اور رابطہ المستقبل الاسلامی کے انضمام کے بعد اس کا نام ’تحریک توحید وا صلاح‘ رکھا گیا۔ اس کے پہلے صدر ڈاکٹر احمد الریسونی تھے جو بڑے اسکالر اور مفکر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں‘ لیکن ملوکیت کے بارے میں ان کے ایک انٹرویو کو فرانسیسی اخبارات کی طرف سے بہت زیادہ اچھالے جانے پر‘ پارٹی کی مشاورت سے ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو محمدالحمداوی کو سربراہِ تحریک چنا گیا۔ تحریک توحید واصلاح اور انصاف و ترقی پارٹی کو مختصر الفاظ میں ’یک جان دو قالب‘ کہاجا سکتا ہے۔ تحریک کے مرکز میں تمام مہمانوں کے اعزاز میں ایک عشائیہ اور عصرانہ دیا گیا۔ اس دوران‘ اُمت کے مختلف مسائل پر سیرحاصل گفتگو بھی ہوئی۔
اس اجتماع کے بارے میں تفصیلات کے بعد‘ مراکش کی ایک اور اسلامی تحریک کا مختصر ذکر مناسب ہوگا۔ مراکش کی اس اسلامی تحریک کا نام ’تحریک عدل وا حسان‘ ہے۔ اس کے سربراہ ایک درویش خدامست‘ شیخ عبدالسلام یاسین ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق تعداد کے اعتبار سے یہ مراکش کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ لیکن شیخ عبدالسلام کو نظامِ ملوکیت پر بہت سخت اعتراض ہے۔ وہ کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ دسیوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔ اس لیے ان کی پارٹی خلافِ قانون قرار دی جاچکی ہے اور شیخ سالہا سال کی قید اور نظربندی کی سزا بھگت چکے ہیں۔’العدل والاحسان‘ کے کارکنان بھی دنیا میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور خاموش و پُرامن جدوجہد پر ایمان رکھتے ہیں۔ انصاف و ترقی پارٹی کے اجتماع عام میں وہ بھی موجود تھے اور باقی سب شرکا کے ساتھ مل کروہ بھی بآواز بلند کہہ رہے تھے: لا الٰہ الا اللّٰہ - علیھا نحیا - وعلیھا نموت وفی سبیلھا نجاھد وعلیھا نلقی اللّٰہ ، لا الٰہ الا اللہ‘ اسی پر جییں گے‘ اسی پر مریں گے‘ اسی کی خاطر جہاد کریں گے‘ اسی پر خدا سے ملیں گے!
۲۰۰۴ء کو انتخابات کا سال کہا جا رہا ہے‘ اس لیے کہ اس سال ۸۰ ممالک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس فہرست میں بہت سے مسلم ممالک بھی ہیں۔ انتخابات تو بھارت میں بھی ہوئے ہیں جن میں بڑے بڑے مسلم ممالک سے زیادہ مسلمان ووٹروں نے حق ووٹ استعمال کیا ہے۔ مسلم ممالک پر عموماً الزام یہ ہے کہ یہاں جمہوریت نہیں ہے اور انتخابات بھی ۹۹ فی صد کامیابی والے ہوتے ہیں۔ اسلام اور جمہوریت کی بحث اپنی جگہ‘ جمہوریت اور انتخابات کی بحث بھی کافی وزن رکھتی ہے۔ انتخابات کو جمہوریت کی علامت کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسے انتخابات بھی ہوتے ہیں کہ جمہوری اقدار کو نشوونما دینے کے بجاے ان کا کریا کرم ہی ہوجائے۔ گذشتہ عرصے میں تین مسلم ممالک انتخابات سے گزرے‘ ان کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔
انڈونیشیا کو دنیا کے سب سے بڑے مجمع الجزائر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ۱۸ہزار جزائر میں ۲۲ کروڑ انسان بستے ہیں‘ جب کہ ۸۸ فی صد مسلمان‘ ۹ فی صد عیسائی‘ اور ۲ فی صد ہندو یہاں آباد ہیں۔ شرحِ تعلیم ۸۳ فی صد ہے۔ جنرل سوہارتو کے اقتدار کے ۳۲ سال نہ ہوتے تو انڈونیشیا کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ آج کے انڈونیشیا میں ۲۱ کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ جب کہ ایک کروڑ افراد ملازمت سے محروم ہیں اور ۳ کروڑ افراد کو صرف جُزوقتی روزگارمہیا ہے۔ ان حالات میں ریاستی بدعنوانی‘ حکومتی نااہلی اور اقتصادی مسائل کے موضوعات ہی تمام انتخابات پر چھائے رہے کیونکہ ان مسائل کے حل کے لیے نہ گولکر پارٹی کچھ کرسکی نہ جمہوری پارٹی۔
سابق صدر سوہارتو کی گولکر پارٹی نے ۵۵۰ کے ایوان میں ۱۲۸ نشستیں حاصل کرلی ہیں اور آیندہ صدارتی انتخابات میں جنرل ورانٹو گولکر پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ اُن کے بارے میں گمان ہے کہ انڈونیشیا کے لیے وہ ایک مربوط اقتصادی پروگرام ترتیب دے سکیں گے۔ اُن کے مخالفین اُن پر الزام لگاتے ہیں کہ سوہارتو اور اُس کے اہلِ خانہ‘ نیز اُن کے اعزہ و اقربا ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے تین عشروں تک لُوٹتے رہے ہیں اور ورانٹو ان کے دستِ راست بنے رہے۔ اُن پر دوسرا بڑا الزام یہ ہے کہ مشرقی تیمور میں جب علیحدگی کی تحریک چل رہی تھی تو مشرقی تیمور کے عیسائیوںکے ساتھ فوج نے ظلم و زیادتی کی اور اُس وقت اُس علاقے میں فوج کے کمانڈر جنرل ورانٹو تھے۔ ڈھائی برس قبل چینی متمول آبادی کے خلاف عوامی ردعمل میں فوج کچھ نہ کرسکی۔ جب کئی شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور لُوٹ مار کا بازار گرم تھا اور اس لُوٹ مار میں فوجی بھی مالِ غنیمت حاصل کر رہے تھے۔
آزادی کے ۵۵ برسوں میں ہونے والے دوسرے قومی انتخابات میں برسرِاقتدار جمہوری جدوجہد پارٹی نے اندازے سے بہت کم ۱۰۸ نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ انتخابی نتائج نسبتاً چونکا دینے والے ہیں۔ جمہوری پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غریبوں کی پارٹی ہے‘ اور مزدور کسان دوست پارٹی ہے۔ یہ اسلام پسند یا تعصب پھیلانے والی پارٹی نہیں۔ لیکن انتخابی نتائج میں راے دہندگان نے میگاوتی کی کارکردگی پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اگر میگاوتی دوسری چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ بھی ملا لے‘ تب بھی اُس کی جماعت کے لیے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونا مشکل ہے۔ اسی لیے پارٹی نے ایک سابق جرنیل کو صدارتی اکھاڑے میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ یہ پارٹی معروف دانش ور اور اسلامی رہنما امین رئیس کو نائب صدارت کا عہدہ دے دے گی۔ انڈونیشیا کے صحافتی حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ سابق صدر عبدالرحمن واحد کو کچھ نظر نہیں آتا تھا لیکن میگاوتی کو کچھ سنائی نہیں دیتا اور کئی اہم سیاسی مسائل حل طلب پڑے رہتے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں ۲۴ پارٹیوں نے حصہ لیا۔ کئی فٹ چوڑے بیلٹ پیپر کی خبریں پریس میں آچکی ہیں۔ ان انتخابات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سابق صدر عبدالرحمن واحد کی پارٹی کو ۷فی صد ووٹ ملے ہیں اگرچہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ۳ کروڑ حامی ہیں۔ اسی طرح دائیں بازو کی بیداری پارٹی PANکو بھی ۶ فی صد ووٹ ملے جس کی سربراہی امین رئیس کر رہے ہیں اور اُن کو سابقہ انتخابات میں بھی اتنے ہی ووٹ ملے تھے۔ امین رئیس آیندہ انتخابات میں صدارتی امیدوار بننے کے لیے صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ اُن کی شناخت مسلم دانش ور کی ہے۔
انڈونیشیا کی سیاست میں ایک اہم پیش رفت انصاف و خوش حالی پارٹی (PKS)کے ووٹ بنک میں اضافہ ہے۔ اس پارٹی میں تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت ہے اور یہ قومی و عالمی معاملات پر راے عامہ کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ۱۹۹۹ء میں ہونے والے انتخابات میں اس پارٹی نے ۵.۱ فی صد ووٹ حاصل کیے تھے‘ جب کہ اس بار اس نے ۴.۷ فی صد ووٹ اور ۴۵ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس جماعت نے صاف ستھرا معاشرہ‘ نیز بدعنوانی‘ سازش‘ اقربا پروری نامنظور کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آیندہ پانچ برسوں میں اس جماعت نے تنظیمی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو آیندہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ عراق پر ۲۰ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکا نے حملہ کیا تو اس جماعت نے احتجاجی مظاہروں میں ۳ لاکھ افراد کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا تھا۔ ربڑ‘ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال اس ملک کو ایک باصلاحیت قیادت ہی تعمیروترقی کے راستے پر ڈال سکتی ہے‘ ورنہ بدعنوانی اور کھربوں کے غبن نے اس کی اقتصادیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسلامی فکر کی حامل جماعتوں اور جہادی گروہوں پر حکومت ہاتھ ڈال چکی ہے اور ابوبکر بشیر ان کا مشقِ ستم بنے ہوئے ہیں‘ نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف مہم‘‘ کا خاتمہ بھی اہلِ انڈونیشیا کے دل کی آواز ہے۔
۱۹۵۷ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد یہاں پارلیمان کے انتخابات باقاعدگی سے ہورہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے گیارھویں انتخابات ۲۱ مارچ ۲۰۰۴ء کو منعقد ہوئے۔ ۱۹۷۸ء سے یونائیٹڈ مَلے نیشنل آرگنائزیشن (UMNO) یہاں برسرِاقتدار ہے۔ اُس کے قائدین کا اعلان ہے کہ ہماری جماعت قدامت پرست نہیں‘ بلکہ روشن خیال اسلام پر یقین رکھتی ہے اور ڈاکٹر مہاتیرمحمد اس کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔مہاتیر کی اقتدار سے برضا و رغبت دست برداری کو انتہائی مثبت اقدام کے طور پر دنیا بھر میں سراہا گیا اور نائب وزیراعظم عبداللہ بداوی نے وزیراعظم کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ بطور وزیراعظم بداوی اور کابینہ کے لیے یہ انتخابات سب سے بڑا امتحان تھے۔ وزارتِ عظمیٰ کا تمام دور اُنھوں نے حزبِ اختلاف کو کمزور کرنے اور ’امنو‘ کی جڑیں گہری کرنے میں گزارا جس میں وہ بے انتہا کامیاب رہے۔ پارلیمان کی ۲۱۹میں سے ۱۹۰نشستیں ’امنو‘ نے جیت لی ہیں۔ آیندہ پانچ برس ’امنو‘ کو کسی مضبوط حزبِ اختلاف کا سامنا نہیں رہے گا۔ اگر جمہوری روایات کے اتباع میں حزبِ اختلاف کو نشوونما پانے کا حق دیا گیا تو یہ خوش آیند اقدام تصور کیا جائے گا۔
اسلامی نظریات کی حامل اسلامی پارٹی ملایشیا (پاس) نے خلافِ معمول قابلِ قدر کامیابی حاصل نہ کی۔ کلنتان کے صوبے میں ’پاس‘ تین بارپہلے بھی حکومت بنا چکی ہے اور ان انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں اس بار اتنی نشستیں بمشکل حاصل کی ہیں کہ آیندہ حکومت بناسکے۔ لیکن ترنگانو کے صوبے میں اس جماعت کو واضح شکست ہوئی ہے۔ ’پاس‘ کے مرشدعام نک عبدالعزیز اور اس کے مرکزی صدر عبدالہادی آوانگ صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں‘ جب کہ وفاقی اسمبلی میں ’پاس‘ نے صرف سات نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ نتائج اُن کے لیے بھی مایوس کن ہیں۔ وہ انتظامیہ کی ملی بھگت کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے ہیں۔
ملایشیا کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بداوی کی مہم کی نگرانی براہِ راست مہاتیرمحمد نے کی اور ۱۱ستمبر کے واقعات اور جدید اسلام کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی گئی۔ ’پاس‘ کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ یہ دو رکعت کے امام‘ ملّا لوگ ہیں‘انھیں جدید چیلنجوں کا علم نہیں ہے۔ یہ عورتوں کے حقوق کے مخالف ہیں اور غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک پر یقین رکھتے ہیں۔ طالبان نما اسلام اس دور میں نہیں چلے گا‘ شریعت کی باتیں کرنا حالات سے ناواقفیت اور قوم کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ظاہر ہے ملایشیا کے عوام ۱۹۹۸ء کے اقتصادی بحران کے بعد کوئی نیا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ امریکا بہادر کی دہشت گردی مخالف مہم نے بھی اس میں کردار ادا کیا۔ کلنتان اور ترنگانو میں ’پاس‘ کی صوبائی حکومتیں جو مثبت اقدامات کرتی رہی ہیں اُن کو بھرپور انداز میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے متعارف نہ کرایا گیا۔
ممکن ہے کہ ’امنو‘ کو دو تہائی اکثریت ملنے کے بعد بداوی کی حکومت ایسے قوانین پاس کروا لے جس سے ملک کے وقار کو دھچکا پہنچے۔ ’روشن اسلام‘ کی پیروی کرتے ہوئے مغربی ثقافت کے لیے راہیں ہموار کر دے اور عوام کے لیے نظریاتی و اخلاقی مشکلات پیدا ہوجائیں‘ کیونکہ بے انتہا طاقت اندھا کر دیتی ہے۔ داخلی سلامتی کے ایک قانون پر تو پہلے ہی عمل درآمد ہو رہا ہے کہ کسی بھی شخص کو وجہ بتائے اور مقدمہ چلائے بغیر جیل میں غیرمعینہ مدت تک رکھا جاسکتا ہے۔ سابقہ نائب وزیراعظم انور ابراہیم کا مقدمہ بھی سب کے علم میں ہے۔ انھیں سیاسی مخالفت کی بنا پر عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ انور ابراہیم کی بیگم نے انصاف پارٹی قائم کی اور صرف ایک نشست حاصل کر سکیں۔ اقتصادی میدان میں حکومت کو ایسی متوازن پالیسیوں کی تشکیل کی شدید ضرورت ہوگی جس سے درمیانہ طبقہ اور غریب طبقہ بھی خوش حالی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکے اور ملک کی اکثریت سیاسی انتقام اور قانونی بندشوں سے نجات حاصل کرسکے۔ امید ہے مہاتیرمحمدجوغلطیاں باصرار دُہراتے رہے ہیں‘ بداوی اُن سے پرہیز کریں گے۔
پانچ برس قبل بھی صدارتی انتخابات ہوئے تھے اور حکومت نے سرکاری مشینری کو بے دریغ اور کھلے عام اس طرح استعمال کیا کہ انتخابات سے عین ایک روز قبل تمام صدارتی امیدواروں نے انتخابات کا مقاطعہ کر دیا تھا۔ موجودہ انتخابات اس لحاظ سے دل چسپ تھے کہ اسلامی نجات محاذ پر حسب معمول پابندی عاید ہے۔ ۶لاکھ حاضر فوج سے ووٹ ڈلوائے گئے اور یہ سہولت بھی تھی کہ چاہیں تو اپنے افسران کے سامنے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ دیگر صدارتی امیدواروں کو جلسے منعقد کرنے اور ریلیاں نکالنے کی محدوداجازت دی گئی۔ ۳کروڑ ۴۰ لاکھ آبادی کے اس ملک میں ایک کروڑ ۸۰ لاکھ راے دہندگان ہیں۔ اُن کی ۵۸ فی صد تعداد نے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالے اور ظاہر ہے استبداد پسند صدر نے واضح اکثریت حاصل کرنا ہی تھی‘ سوکرلی۔ صدر عبدالعزیز بوتفلیکا نے من پسند نتائج کے لیے دھڑلے سے نوکرشاہی کو استعمال کیا۔ صدارتی انتخابات کے لیے کاغذات جمع کرانے والوں کی اکثریت کو بے بنیاد الزامات کی بنا پر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ نے بوتفلیکا کی گراں قدر قومی خدمات اور ملکی استحکام میں تابناک کردار کے فسانے شب و روز عوام کو سنائے۔
ان نام نہاد انتخابات میں اسلام پرستوں کے نمایندے کے طور پر عبداللہ جاب اللہ‘ الاصلاح پارٹی کی طرف سے حصہ لے رہے تھے‘ نتائج کا تو علم ہی تھا‘ تاہم تمام تر پابندیوں کے باوجود وہ اسلام پسند اور حکومت مخالف ووٹروں کو کسی نہ کسی طرح پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کامیاب رہے اور کُل ڈالے گئے ووٹوں کا ۵فی صد حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے۔ ان کی شکست پر اُن سے تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ: جو کچھ عالمِ عرب میں اور جو کچھ الجزائر میں ہوتا چلا آ رہا ہے‘ اس لحاظ سے یہ جمہوریت بھی غنیمت ہے۔
عبدالعزیز بوتفلیکا کے صدارتی انتخابات اہلِ پاکستان کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ پاکستان کے دو سابقہ فوجی حکمران یہ کام احسن طریقے سے ریفرنڈم کے نام پر انجام دے چکے ہیں۔ عبدالعزیز بوتفلیکا ۸۵ فی صد ووٹ حاصل کر کے صدارت کے منصب پر دوبارہ فائز ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں بربر مخالفین جو پہاڑوں میں روپوش ہیں اور ان کے استبداد سے تنگ ہیں‘ آیندہ کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں‘اس کا تعین آنے والا وقت ہی کرے گا۔
سوال: کچھ عرصہ قبل میری ایک عزیزہ کی شادی ہوئی۔ ایک سال تو بخیروخوبی گزر گیا لیکن پھر لڑائی جھگڑوں کا ایک طوفان بپا ہوگیا۔ لڑکے والوں کا خیال ہے کہ لڑکی والے ان پر تعویذ گنڈے اور جادو ٹونا کروا رہے ہیں۔ اسی دوران لڑکی کے سسر کا انتقال ہوگیا اور یہ موت اچانک نہیں ہوئی۔ مرحوم برسوں سے ہائی بلڈپریشر کے مریض تھے۔ اس پر لڑکے والوں کا شک یقین میں بدل گیا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ لڑکی والوں نے شک دُور کرنے کے لیے قرآن پر قسم اٹھا لی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بہ ظاہر وہ مان گئے مگر ان کے دل مطمئن نہ ہوئے۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد لڑکے نے کہا کہ وہ خود عامل ہے اور اس نے استخارہ کیا ہے اور اسے اپنے سسرال والوں کی شبیہہ نظرآئی ہے کہ وہ جادو کرتے ہیں۔ اس دوران لڑکی کا بھائی حادثے کا شکار ہوا اور ساتھ ہی اس کی دادی پر فالج کا حملہ ہوگیا تولڑکے نے کہا کہ یہ اس نے کروایا ہے۔
اب ایک طرف لڑکی والے قرآن پر قَسم اٹھا کریقین دہانی کروا چکے ہیں کہ وہ جادو وغیرہ نہیں کر رہے ہیں اور دوسری طرف لڑکا استخارے کی بنیاد پر انھیں ہی موردالزام ٹھیراتا ہے اور مؤخر الذکر واقعات کو اپنا کارنامہ سمجھتا ہے۔ ان حالات میں قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ:
جواب: یہ معلوم کر کے انتہائی دکھ ہوا کہ آپ کی عزیزہ کے شوہر جو آپ کے عزیز بھی ہیں‘ اپنی اہلیہ کے بارے میں بلاجواز وہم و گمان کا شکار ہیں۔ آپ کی عزیزہ اوراس کے والدین نے قرآن پاک پر حلف بھی اٹھایا لیکن ان کا وہم و گمان پھر بھی دُور نہیں ہوا۔ ایسے لوگوں کا علاج سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اِناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا جائے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی جائے۔
ایک مسلمان کے لیے رہنمائی کا ذریعہ قرآن و سنت ہیں‘ جن میں بلاجواز وہم و گمان سے سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الحجرات۴۹:۱۲) ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔
جب کوئی شخص حلف اٹھا لے تو اس کے بعد بدگمانی ختم ہوجانی چاہیے‘ نیزبدگمانی کے اسباب و آثار سامنے نہ آئیں تو پھر بدگمانی بھی بلاوجہ ہونے کے سبب گناہ شمار ہوگی۔ کیا آپ کی عزیزہ اور خاندان کی طرف سے تعویذ گنڈے اور جادو کے ایسے نشان ملے ہیںکہ جس کی بنا پر شوہر اور ان کے خاندان والے بدگمانی میں مبتلا ہوئے؟ ظاہر بات ہے کہ ایسے کوئی نشان نہیں ملے۔ جہاں تک بلڈپریشر اور دوسری بیماریوں کا تعلق ہے۔ وہ اس بات کی علامت قطعاً نہیں ہیں کہ مریض پر جادو کیا گیا ہے اور فلاں شخص جادو کا مرتکب ہوا ہے۔
استخارہ ایک جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں دعاے خیر کی مخصوص صورت کا نام ہے۔ اس کا کسی الزام یا بدگمانی کی تحقیق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ استخارے یا خواب کے ذریعے سے کسی پر جادو کے الزام کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ شریعت میں خواب کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ کسی نے کسی پر جادو کیا ہے۔ یہ خواب سے ثابت ہونے والی چیز نہیں کہ کسی کی شبیہہ کے نظرآنے سے سمجھا جائے کہ صاحبِ شبیہہ نے جادو کیا ہے۔
جادو ظاہری اسباب کا نہیں‘ بلکہ مخفی اسباب کے ذریعے عمل کا نام ہے۔ بلڈپریشر‘ ایکسیڈنٹ تو ظاہری اسباب ہیں‘ ان کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جادو تو ایسا عمل ہے جس کے ذریعے کوئی شخص کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوکر کمزور ہو جاتا ہے کہ حکیم اور ڈاکٹر اس کا سبب معلوم نہ کر سکیں۔ لیکن جس شخص کو ایسی بیماریاں لاحق ہوں جو ڈاکٹروں اور اطبا کو معلوم ہوں‘ یا موت کے ایسے اسباب ہوں جو لوگوں میں معروف ہوں‘ جیسے ایکسیڈنٹ وغیرہ‘ تو اس کو جادو کا نتیجہ نہیں کہا جائے گا۔ آپ کی عزیزہ کے شوہر جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھوں نے بذاتِ خود جادو کیا ہے اور ان کے جادو کے سبب فلاں فلاں واقعات ہوئے ہیں‘ یہ بھی ان کا وہم ہے۔ وہ اپنے آپ کو گنہگار کر رہے ہیں اور لوگوں کی تکلیف اور حادثات کو اپنے جادو کا نتیجہ قرار دے کر گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ فی الحقیقت ان حادثات کا تعلق ان کے عمل سے نہیں ہے۔ اس لیے آپ کسی قسم کی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔ آپ کا اور آپ کی عزیزہ اور خاندان کا رویہ اسلام کے مطابق ہے اور شوہر اور ان کے خاندان کا رویہ شریعت سے ہٹا ہوا ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ وہم کے دبائو سے اپنے آپ کو آزاد کریں۔ شرعی ثبوت کے بغیر کسی پر جادو اور کسی دوسرے جرم کا الزام عاید نہ کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو تعویذ گنڈوں اور جادو کے وہم سے نکالے۔ بہت سے گھر اس وہم اور بدگمانی کی وجہ سے اجڑ گئے ہیں۔ آپ کی عزیزہ کے شوہر کی بدگمانی کو اللہ دُور کرے۔ اس کو اور اس کے بچوں کو ظلم سے محفوظ فرمائے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)
س : مجاہدین کی صفوں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو یا تو جہاد فی سبیل اللہ کے مقصد اور فلسفے سے ناواقف ہوتے ہیں یا اپنے کسی مفاد کی خاطر جہادی تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بعض اوقات مجاہدین کو عوامی سطح پر بہت نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی روک تھام کیسے ہو؟ ان سے کیسا سلوک کیا جائے اور کیا حکمت عملی اختیار کی جائے کہ دشمن ایسے افراد کو ہماری صفوں میں بھیج کر انتشار نہ پیدا کر سکے؟
ج: آپ کے سوال میں تین اہم پہلو ہیں۔ ایک کا تعلق جہاد فی سبیل اللہ کے مقصد اور ایسے افراد سے ہے جو اس مقصد سے صحیح طور پر آگاہ نہ ہوں۔ دوسرا پہلو ایسے افراد کی پہچان سے ہے جو محض دکھاوے اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ساتھ شامل ہوجائیں۔ ایسے افراد سے ہمارا طرزعمل کیا ہو۔ اور آخری بات جو آپ نے اٹھائی ہے کہ اگر ایسے افراد کو پہچان لیا جائے تو آیندہ پیش بندی کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشی اور رضامندی کے لیے مجبور‘محکوم و مظلوم انسانوں کو ظلم سے نجات دلانا اور ان کے حقوق بحال کرنے کے لیے اپنی جان اور مال کے ساتھ جدوجہد کرنا ہے۔ یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے اور جب بھی اُمت مسلمہ کے کسی گروہ کو محکوم بنالیا جائے‘ اس پر ظلم کیا جائے تو صاحب ِ استطاعت افراد پر ان کی امداد کرنا اور انھیں نجات دلانے کے لیے جدوجہد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اور تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب‘ ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر‘‘۔(النساء ۴:۴۹)
جہاد کے آغاز کے بعد مجاہدین کی صفوں میں اگر ایسے افراد بھی شامل ہوجائیں جو بظاہر تو جہاد کی غرض سے آئے ہوں‘ لیکن ان کا اصل مقصد مجاہدین کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا یا اپنے مفادات کا حصول ہو‘ تو عام حالات میں کسی کے لیے یہ کھوج لگانا آسان نہیں ہوگا۔ کیونکہ دلوں کے حال سے تو صرف اللہ ہی واقف ہوسکتا ہے۔ البتہ اگر ان کا طرزِعمل مشتبہ ہو تو ان پر نگرانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ شریعت کے احکام کا نفاذ ظاہر پر ہے باطن پر نہیں۔ اگر ان کی نقل و حرکت سے ثابت ہوجائے کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور دشمنِ اسلام قوتوں کے اشارے پر تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں تو پھر باقاعدہ تحقیق کے بعد‘ ثبوت ملنے پر اور ان کو صفائی کا موقع دے کر انھیں جماعت سے علیحدہ کیا جائے۔ محض شبہے کی بنا پر کسی کے خلاف کارروائی کرنے کی کوئی گنجایش اسلام میں نہیں ہے‘ بلکہ قرآن کریم واضح طور پر اہلِ ایمان کو حکم دیتا ہے کہ کسی فاسق کی اطلاع پر وہ کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھیں جس کے بعد انھیں شرمندگی ہو۔
جو لوگ درپردہ مخالفینِ اسلام کے ساتھ ہوں‘ لیکن ان کے ظاہری اعمال ایسے ہوں جو ایک مومن سے متوقع ہیں‘ ایسے افراد کے بارے میں قرآن و سنت سے جو ہدایات ملتی ہیں ہم عموماً ان کی پابندی نہیں کرتے۔ کسی کے بارے میں اُڑتی ہوئی اطلاع پر اعتماد کر کے اس کے نشرمیں مصروف ہوجانا ایک منافق کا کام ہے۔ عبداللہ ابن ابی جو نماز‘ روزے اور دیگر اسلامی عبادات کا پابند اور صحابہؓ کی جماعت میں شامل تھا۔قرآن و سنت سے یہ ہدایت نہیں ملتی کہ اسے ماروپیٹو یا قتل کر دو کہ وہ منافق ہے‘ بلکہ انھی کے صاحبزادے اور آنحضورؐ کے جاں نثار صحابیؓ نے آپؐ سے اپنے منافق باپ کے قتل کی اجازت طلب کی تو رحمۃ للعالمینؐ نے اس سے منع فرما دیا۔
اتنی واضح اور مستند سنت کے باوجود آج کسی حافظ قرآن یا داعی کے بارے میں کہیں صرف یہ افواہ اڑا دی جائے کہ اس نے کسی صحابی کے بارے میں نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں‘ یا وہ کسی جماعت مجاہدین کے سربراہ کے بارے میں یہ بات کہتا ہے‘ تو بغیر کسی تحقیق کے ہم وہ کچھ کربیٹھتے ہیں جس کی اجازت ایک منافق بلکہ مشرک کے بارے میں بھی نہیں ہے۔
اس لیے جماعت مجاہدین ہویا کوئی دوسری تنظیم جو اسلام کے اصولوں پر قائم ہوئی ہو‘ اس میں افواہوں‘ نجویٰ‘ غیبت اور بلاتحقیق الزامات لگانے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ دین کا مدعا اصلاً‘ تربیت و فلاح ہے۔ وہ زبردستی کسی نہ کسی عذر سے خواہ مخواہ افراد کو تعذیب‘ تکلیف اور تعزیر دینے کا قائل نہیں ہے۔ ہاں‘ جہاں بربناے تحقیق ایک جرم ثابت ہوجائے اور بات محض الزام کی نہ ہو‘ وہاں اسلام سخت سے سخت سزا دیتا ہے۔ اسی لیے ایسے جرائم کی سزا مخفی نہیں‘ بلکہ سرعام دی جاتی ہے‘ تاکہ وہ محض سزا کا کام نہ کرے بلکہ معاشرے میں برائی کو روکنے اور کم کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکے۔
عوامی سطح پر جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ خلوص‘ قربانی اور دینی ہدایات پر حتی المقدور عمل ہے۔ بلاشبہہ پبلسٹی کی مہم بعض اوقات اچھے خاصے بھلے افراد کی تصویر کو مسخ کردیتی ہے۔ لیکن حق بہرحال آخرکار غالب آتاہے‘ مثلاً مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے سے یہ بات پھیلا دی گئی کہ وہ جہاد کشمیر کو درست نہیں سمجھتے‘ جب کہ ان کی تحریریں نہ صرف جہاد کی سب سے زیادہ پُرزور حمایت کرنے والی ہیں‘بلکہ بیسویں صدی میں جرأت اور بغیر کسی مدافعانہ ذہنیت کے قرآن و سنت کی بنیاد پر‘جہاد کو ایک اصلاحی عمل اور فریضہ قرار دیتے ہوئے‘ اس کی اشاعت کرنے والی ہیں۔ خود ان کی برپا کردہ جماعت نے جہاد کشمیر کو مقبوضہ اور آزاد کشمیر ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں متعارف کرایا اور اس کے لیے عالمی مہم چلائی۔
ایسے افراد پر بھی‘ جو کسی جماعت کی صفوں میں انتشار پھیلانے کے لیے داخل ہوں‘ دعوتی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا قوی امکان رہتا ہے کہ وہ تربیت و اصلاح کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنی غلط روش سے تائب ہوکر خلوصِ دل کے ساتھ اہلِ حق کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور وہ اپنے ذاتی مفاد کے بجاے اُمت کے مفاد کے لیے اپنی جانیں اور اپنا مال بطور نذرانہ پیش کردیں۔ اس لیے ان کو بھی مسلسل خلوصِ دل کے ساتھ دعوت ِدین دیتے رہنا چاہیے۔(ا-ا)
قرآن پاک کے ترجمے‘ تشریح‘ تفسیر اور توضیح کا سلسلہ دیگر زبانوں کی طرح اُردو میں بھی سیکڑوں برس سے جاری ہے۔ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُراٰنَ وَعَلَّمَہٗ (تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے)۔ زیرنظر کتاب کے مرتب و مؤلف شیخ عمرفاروق صاحب نے بھی اسی جذبے کے تحت چند برس پہلے ہفت روزہ ایشیا میںتشریحِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا جسے بعدازاں خوب صورت انداز میں طبع کرکے تقسیم کیا گیا۔ وہ جلد پارہ اول پر مشتمل تھی‘ زیرنظرجلد سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کو محیط ہے۔
شیخ صاحب نے تفہیم و تشریح میں عربی اور اردو کی قدیم و جدید اور معروف تفسیروں‘ کتب ِ لغت اور عربی قواعد سے مدد لی ہے۔ ہرآیت کا ترجمہ‘ مختلف الفاظ کے معانی‘ افعال کی نوعیت‘ صیغے‘ مادہ اور اجزاے کلام کی وضاحت پھر مختلف مفسرین کی آرا بصورتِ اقتباسات‘ بعدازاں آیاتِ مبارکہ کی حکمت و بصیرت کو واضح کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ مختلف نکات کی توضیح اور آیاتِ مبارکہ کے مطالب کا حالاتِ حاضرہ خصوصاً عالمِ اسلام اور پاکستان کے حالات سے ربط قائم کرکے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآنی ہدایت سے روگردانی کا نتیجہ عبرت انگیز ہوتا ہے۔
شیخ عمرفاروق ایک گہرے دلی جذبے اور دردمندی کے ساتھ قرآنی دعوت اور پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کی تدبیر میں لگے ہوئے ہیں۔پارہ اول کا ایڈیشن اُنھوں نے بطورِ تحفہ تقسیم کیا تھا اور زیرنظرجلد بھی بلامعاوضہ ہے جسے ان سے (بذریعہ ڈاک نہیں) دستی وصول کیا جاسکتا ہے۔ فون نمبر ۷۵۸۵۹۶۰-۰۴۲۔
کتابت ‘ طباعت اور اشاعت‘ ہر اعتبار سے حسین و جمیل اور معیاری۔ (رفیع الدین ہاشمی)
فہم القرآن اس لحاظ سے ایک منفرد کتاب ہے کہ اس میں روایتی عربی تدریس اور صرف ونحو سے ہٹ کر علامات کے ذریعے قرآن مجید کا ترجمہ سکھایا گیا ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ یہ عطیۂ خداوندی ہے اور انھیں پہلی بار اس طریقے کو متعارف کروانے کا شرف حاصل ہوا ہے‘ کیسے؟۔ مصنف لکھتے ہیں: جنوری ۱۹۷۹ء کی ایک شام‘ امام سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نظرعنایت نے فقیر کو مالا مال کر دیا جب انھوں نے فرمایا کہ اب آپ سائنس نہیں بلکہ دین پڑھیں گے۔ میں آپ کو سعودی عرب کی کسی اچھی یونی ورسٹی سے دین کی تعلیم دلوانا چاہتا ہوں… میں اس جواب کی تلاش میں رہا کہ آخر میرا ہی انتخاب کیوں؟ …آخرکار اللہ علیم وخبیر نے اپنی کتاب عظیم اور بقول امام مودودیؒکی ’شاہ کلید‘ کو سمجھانے کے لیے علامات کا علم عنایت فرما کر فقیر کی جھولی بھر دی۔(پیش لفظ)۔
مصنف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کے ۹۸ فی صد الفاظ اردو میں مستعمل ہیں۔ صرف ۵ئ۱ فی صد الفاظ خالص عربی کے ہیں جن کے لیے لغت کی ضرورت پیش آتی ہے‘ جب کہ ۵ئ۰ فی صد الفاظ وہ ہیں جو بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ صرف ۴۰ گھنٹے (یعنی ایک دن اور ۱۶ گھنٹے) کی مشق کے بعد ایک شخص خود قرآن مجید کا ترجمہ کر سکتا ہے اور اس کا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔ صاحب ِ کتاب سعودی عرب کی چار مایہ ناز جامعات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ۱۹۹۱ء سے ۴۰ روزہ فہم قرآن کورس کے ذریعے مرد و خواتین اور نوجوانوں کو قرآن کا فہم ایک مشن کے انداز میں پہنچا رہے ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب اسی علامتی طریقے اور طریق تدریس پر مبنی ہے۔ بات کو واضح کرنے کے لیے کمپیوٹر کے استعمال سے جدید انداز میں تیر کے نشان اور اسکرین وغیرہ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ ایک باب ’’علامات‘ ایک نظر میں‘‘ تمام علامتوں کو جمع کیا گیا ہے اور مثالوں سے وضاحت کی گئی ہے تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے۔ مزیدبرآں ان الفاظ کی فہرست کے ساتھ (جو بار بار دہرائے جاتے ہیں) آخر میں ان الفاظ کی فہرست بھی دی گئی ہے جن کا مادہ معلوم کرنے میں عموماً غلطی ہوجاتی ہے۔
خوب صورت سرورق اور سفید کاغذ پر مجموعی طور پر پیش کش عمدہ ہے‘ تاہم پروف ریڈنگ مزید توجہ چاہتی ہے۔ پیرابنانے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ فونٹ کا استعمال بھی یکساں نہیں۔ قطع نظر اس پہلو کے فہم قرآن کے حوالے سے یہ منفرد کاوش نہایت قابلِ قدر ہے۔ (امجد عباسی)
۱- Taking The Qur'an As a Guide‘صفحات: ۹۷۔
۲-Some Secrets of the Qur'an‘ صفحات: ۱۵۱۔
۳-Miracles of the Qur'an‘ صفحات:۱۰۰۔
۴- Signs of the Last Day‘ صفحات: ۱۳۶۔
۵-Why Darwinism is Incompatible with The Qur'an‘ صفحات:۱۳۶۔ مصنف: ہارون یحییٰ۔ ناشر: گلوبل پبلشنگ‘ استنبول‘ ترکی۔ ملنے کا پتا: پیراڈائز بک سنٹر‘ پی او بکس ۷۱۴۷‘ صدر ‘ کراچی۔ قیمتیں: درج نہیں۔
نظر کو اپنی گرفت میں لے لینی والی یہ انتہائی دل کش اور خوب صورت پانچ کتابیں ۴۸سالہ ترک مصنف ہارون یحییٰ (یہ قلمی نام ہے) کی بے شمار کتابوں میں سے چند ہیں جو دنیا کی ۱۵سے زائد زبانوں (روسی‘ ترکی‘ فرانسیسی‘ جرمن‘ اُردو‘ عربی‘ انڈونیشی‘ اسپینی‘ اُردو وغیرہ) میں قبول عام حاصل کر رہی ہیں۔ اشاعت کتب کا آغاز ۱۹۸۰ء میں ہوا اور سلیقے اور جذبے سے کام کی بدولت سائنس کے حوالے سے قرآن فہمی کی بنیاد پر تجدید ایمان اور شک و ریب دور کرنے کی یہ دعوت آج بھارت سے امریکہ‘ انگلینڈ سے انڈونیشیا‘ پولینڈ سے بوسنیا اور اسپین سے برازیل تک‘ ہر جگہ پھیل رہی ہے۔ آڈیو ویڈیو کیسٹ اور سی ڈی بھی دستیاب ہیں اور ویب سائٹ (www.harunyahya.com)پر بھی جایا جا سکتا ہے۔
ہارون یحییٰ کا موقف یہ ہے کہ بے عقیدگی غالب نظریہ ہوگیا ہے۔ جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ وہ بھی اس کا شکار ہیں۔ مادی اور بے خدا تہذیب کی بنیاد نظریۂ ارتقا ہے جس کے مطابق انسان کسی پیدا کرنے والے کے بغیر پیدا ہوگیا ہے۔ ان کا اصل سائنسی اور مدلل حملہ نظریۂ ارتقا پر ہے جس پر علاحدہ کتاب بھی ہے‘ لیکن وہ اسے اتنا بنیادی سمجھتے ہیں کہ دوسری کتابوں کے آخر میں بھی اس کی تلخیص ایک باب کے طور پر شامل کرنا ضروری سمجھا ہے۔
ہارون یحییٰ کی تحریروں کا سرچشمہ قرآن کریم کی آیات ہیں۔ جن آیات سے ایک عام قاری گزر جاتا ہے‘ انھوں نے وہاں ٹھیر کر سائنسی حوالے سے غوروفکر کیا ہے اور ہدایت کا راستہ کھول کر بیان کیا ہے۔ تفہیم القرآن کے اُردودان قارئین کے لیے شاید کوئی بہت نئی بات نہ ہو‘ لیکن مختصر مضامین میں‘ ایک خاص ربط کے ساتھ‘ خوب صورت کئی رنگی تصویروں کے ساتھ‘ انسان اور کائنات کے صحیح تصور کو پیش کرنا اور کسی تنظیمی پشت پناہی کے بغیر تجارتی بنیادوں پر پھیلانا یقینا ان کا کارنامہ ہے۔
پانچوں کتابوں کے عنوانات سے ان کے مشمولات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یومِ قیامت کی نشانیوں میں احادیث سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ہمارے کالجوں کے میگزین میں یہ مضامین شائع ہوں اور ہر طالب تک پہنچیں۔ نظریہ ارتقا والی کتاب ان اساتذہ حیوانیات کو ضرور پڑھنی چاہیے جو نصاب کے اتباع میں ارتقا کے ’سائنسی فراڈ‘ کو ایک امرواقعہ کے طور پر بلاتکلف پڑھاتے ہیں۔ پوری پوری کتابیں آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہیں۔ سرورق دیدہ زیب اور فن کا شاہکار ہیں۔ (مسلم سجاد)
ڈاکٹر سہیل حسن نے علمِ حدیث کی بے لوث خدمت انجام دی ہے اور تدریس و تصنیف کے میدان میں بھی وہ اپنا ایک علمی مقام پیدا کرچکے ہیں۔ زیرنظر معجم اصطلاحات حدیث اردو میں ان کی پہلی مبسوط علمی کاوش ہے۔ اس میں انھوں نے اصطلاحاتِ حدیث کو خوبی اور خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اور اپنے موضوع پر یہ ایک سنجیدہ اور معقول کاوش ہے۔ مرتب کے بقول مصطلحات حدیث کی زیرنظر معجم میں انتہائی کوشش کی گئی ہے کہ اس فن سے متعلق تمام اصطلاحات جمع کر دی جائیں‘ چنانچہ مصنف نے بساط بھر ایسا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس معجم میں بعض ایسے مباحث بھی شامل کیے ہیں جو شاید کسی اور کتاب میں یکجا نہ مل سکیں‘ مثلاً تحویل کی صورت میں اسناد پڑھنے کا طریقہ‘ مختلف صحابہ کرامؓ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد‘ محدثین عظام اور ان کی مؤلفات کا تعارف وغیرہ۔ کتاب کی ترتیب حروفِ تہجی کے اعتبار سے کی گئی ہے۔ جو لوگ علمِ حدیث کو اعلیٰ سطح پر سمجھنا چاہتے ہیں‘ ان کے لیے یہ کتاب نہایت مفید اور کارآمد ہے۔ کمپوزنگ اچھی اور جلد عمدہ ہے۔ (عبدالوکیل علوی)
یہ کتاب جدید ترکی اور جنگِ عظیم اول سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک ترکی کی سیاسی تاریخ کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ مصنفہ نے خلافتِ عثمانیہ کے بارے میں مغربی مؤرخین کے غیرحقیقت پسندانہ اور متعصبانہ رویے اور جدید ترکی اور مصطفیٰ کمال سے متعلق جانب دارانہ اندازِ فکر کا پردہ چاک کرتے ہوئے ترکوں کی گذشتہ صدی کی سیاسی تاریخ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
مصنفہ نے سلطنت ِعثمانیہ کی مختصر تاریخ‘ ترکی میں مغربی ممالک کے عمل دخل‘ ترکی پر جنگِ عظیم اول کے اثرات‘ ترکوں کی جدوجہدآزادی اور جمہوریہ ترکی کی تشکیل کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے۔ پھر عصمت انونو کے دورِ حکومت‘ جنگِ عظیم دوم اور ترکی میں ۱۹۶۰ء کے فوجی انقلاب‘ ترکی میں اسلامی تحریکوں کی تخم کاری اور اسلامی نظریات کی آبیاری کی کوششوں پر نظر ڈالی ہے۔ ترکی میں گذشتہ ربع میںہونے والے انتخابات اور ان میں پارٹی پوزیشن کے گوشوارے بھی دیے گئے ہیں۔ آخر میں جدید ترکی کی فکری زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والی چند اہم ادبی شخصیات کے سوانحی خاکے موضوع کی تفہیم میں بڑی مدد کرتے ہیں۔ مصنفہ نے ترکی سے متعلق تاریخی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور وہ موضوع پر پوری گرفت رکھتی ہیں۔ ترکی کے قومی رنگ میں اپنے خوب صورت سرورق کے ساتھ کتاب بہت دلآویز نظرآتی ہے اور اپنے مندرجات کے اعتبار سے تاریخ کے طلبہ کے لیے یہ کتاب ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔(سعید اکرم)
قیامِ پاکستان کے بعد قومی زندگی کے بعض دوسرے شعبوں کی طرح اردو زبان بھی زوال و انحطاط کا شکار ہوئی ہے۔ اس اعتبار سے کہ بظاہر تو اُردو زبان میں مختلف موضوعات پر کتابوں اور رسالوں کا ایک عظیم الشان ذخیرہ وجودمیں آیا ہے لیکن صحت زبان و املا اور تلفظ کا معاملہ ہماری سہل انگاری‘ لاپروائی اور ایک بے نیازانہ روش کی بدولت مسلسل ابتری اور غلط روی کی زد میں رہا ہے۔ ہماری غلامانہ ذہنیت نے ہمارے لسانی احساس یا عصبیت کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ چنانچہ اردو زبان اس وقت املا‘تلفظ اور بیان و انشا کے اعتبار سے ایک افسوس ناک آلودگی اور توڑ پھوڑ کی زد میں ہے۔
جناب طالب الہاشمی ہمارے دور کے ایک معروف فاضل ادیب اور اسکالر ہیں اور بیسیوں کتابوں کے مصنف۔ وہ لغت و زبان سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ قومی زبان کی صحت کی طرف سے برتی جانے والی عمومی غفلت نے انھیں زیرنظر کتاب مرتب کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس کے بعض مباحث یہ ہیں: صحت تلفظ‘ املا کے اہم اصول اور قواعد‘ بہت سے ہم شکل الفاظ‘ امالہ‘ اُردو کے بعض مسلّمہ تصرفات‘ بعض تاریخی شخصیتوں کے ناموں کا تلفظ‘ زبان و بیان کی بعض عام غلطیاں (برا منانا‘ براے کرم‘ انکساری تقرری جو‘ ناراضگی‘ بمعہ‘ پرواہ---یہ سب غلط ہیں)۔
مصنف کی زیرنظر کاوش بہت اہم‘ بروقت اور بہ ہراعتبار مستحسن ہے۔ قطع نظر اس کے کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کوئی سنتا ہے یا نہیں‘ صاحبانِ احساس و عرفان کو اپنی بات کہتے رہنا چاہیے۔ کبھی تو اثر ہوگا‘ سب نہیں‘ چند لوگ تو سیکھیں گے‘کچھ تو اصلاح ہوگی۔ ممکن ہے زبان و لغت اور تلفظ سے دل چسپی رکھنے والے بعض اصحاب کہیں کہیں فاضل مؤلف سے اختلاف کریں لیکن اس سے کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔
ہمارے خیال میں نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ‘ اہل قلم‘ ابلاغیات اور صحافت سے وابستگان‘ اور عام قارئین کو اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ کتابِ حوالہ کی طرح اسے مستقلاً زیرمطالعہ رکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے اپنے مختصر مقدمے میں مؤلف کی کاوش کو سراہا ہے۔ اس اہم کتاب کا اشاعتی معیار اور سرورق زیادہ بہتر اور خوب صورت ہونا چاہیے تھا۔(ر-ہ)
زیرنظر کتاب کا موضوع پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ۲۸ ہزار مربع میل پر مشتمل گلگت اور بلتستان کا وہ علاقہ ہے جسے بالعموم ’شمالی علاقہ جات‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مارچ ۱۹۴۹ء میں ایک معاہدے کے تحت یہ علاقہ براہِ راست حکومت پاکستان کے زیرانتظام دے دیا گیا تھا۔ تب سے اس علاقے کے معاملات کی نگرانی وزارت امور کشمیر کے ذمے ہے اور عملی طور پر ایک ریذیڈنٹ وہاں کا حاکم ہے۔
زیرنظر کتاب مصنف کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جس میں شمالی علاقہ جات کی تاریخ اور جغرافیے کے ساتھ وہاں کی سیاسی اور معاشرتی صورت حال اور شمالی علاقہ جات کے عوام کے مسائل اور احساسات کا ذکر کیا گیا ہے۔
مصنف کی تحقیق یہ ہے کہ گلگت اور بلتستان قانونی و آئینی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ اس لیے اسے آزاد کشمیر میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ یہ آئینِ آزاد کشمیر کے دائرے میں آئے۔ عوام کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ موجودہ صورت حال میں یہاں کے لوگوں کو پاکستان یا آزاد کشمیر کے جمہوری اداروں میں کوئی نمایندگی حاصل نہیں ہے۔ نہ یہ علاقے اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں‘ اور یہ بہت نامناسب اور نامنصفانہ صورت حال ہے۔
شمالی علاقہ جات کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی تجویز بھی سامنے آتی رہی ہے‘ مصنف کے خیال میں یہ قطعی عاقبت نااندیشانہ اقدام ہوگا۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو نقصان پہنچے گا اور بھارت اس سے فائدہ اٹھائے گا۔
موضوع سے متعلق بعض اہم دستاویزات اور معاہدوں وغیرہ کا متن بھی شامل کتاب ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ قدر علمی کاوش ہے۔ (ر - ہ)
سیرتِ رسولؐ اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بحرِذخّار ہے۔اس ذخیرے کی وسعتوں سے کماحقہ استفادہ کرنے میں‘ خود انسان کی اپنی کم مایگی رکاوٹ بنتی رہی ہے۔ دو سال قبل مسلم اہل علم و دانش کی ایک عالمی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تھی‘ اس قاموسی کام کا محرک وہی کانفرنس بنی۔
سیرت و حدیث کے ذخیرے میں رسولؐ رحمت کے فیصلوں اور ان فیصلوں کی حکمتوں پر بہت سے افراد نے مختلف اوقات میں کام کیا ہے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کتاب دیکھیں تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس میں ایک ہی فیصلے سے متعلق مختلف کتب سے ایک ایک ارشاد نبویؐ کو چن کر مربوط پیراگراف بنانے کے لیے مولف نے بہت محنت کی ہے۔ شاید اسی لیے کتاب اس دعوے کے ساتھ پیش کی گئی ہے: ’’اسلامی عدالتوں کے فیصلوں پر مبنی انسائی کلوپیڈیا‘‘ --- کتاب میں سب سے پہلے ایک ایک موضوع پر عدالتی فیصلوں کے بنیادی نکات درج کیے گئے ہیں اور پھر ان نکات کو متعلقہ احادیث (مع حوالہ جات) سے مرصع کیا گیا ہے۔
آیندہ ایڈیشن لانے سے قبل کتاب کے پورے متن‘ خصوصاً بنیادی نکات کو مزید باریک بینی سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کتاب میں ترجمے اور پروف کی غلطیاں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ تعجب ہے کہ ترجمہ اور نظرثانی‘ نیز پروف خواں اصحاب نے اس باب میں مطلوبہ احتیاط کیوں نہیں کی؟
بعض جگہ محسوس ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ کے کسی مشورے یا بیان کو بھی ’’عدالتی فیصلہ‘‘بنا دیا گیا ہے‘ لیکن ایسی مثالیں خال خال ہیں۔ بعض احادیث کی استنادی حیثیت پربھی نظر ڈالنا ضروری تھا۔ پھر بھی یہ کتاب کئی حوالوں سے اپنے موضوع پر سابقہ کتب سے اچھی محسوس ہوتی ہے۔
کتاب کے موضوعات کی وسعت اور پیش کاری کا اسلوب خوش آیند ہے جسے طبقہ وکلا اور تمام سطحوں کے جج صاحبان کے زیرمطالعہ آنا چاہیے۔ (سلیم منصور خالد)
ڈاکٹر محمدحمیداللہ کی وفات ان کی شخصیت‘ علمی و فکری کارناموں اور قرآنی و دینی خدمات پر مضامین‘ کتابوں اور رسالوں کے خصوصی نمبروں کا سلسلہ جاری ہے۔ معارفِ اسلامی کا یہ شمارہ اسی سلسلے کی تازہ کڑی اور ’’حمیدیات‘‘ میں ایک بڑا قابلِ تحسین اضافہ ہے جسے نام وَر اہلِ قلم سے بطور خاص مضامین لکھوا کر‘ محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ ضخیم اشاعت مرحوم کی سوانح اور تحقیق کے تقریباً تمام ہی پہلوئوں کو محیط ہے اور خطوط کی بڑی تعداد بھی ذخیرۂ حمیدیات میں اچھا اضافہ ہے۔ پورا شمارہ حوالے کی چیز ہے۔ حافظ محمد سجاد صاحب کی مرتبہ کتابیاتِ حمیداللہ (ص ۵۴۹-۵۷۵) اس موضوع پر تحقیق و مطالعہ کرنے والوں کے لیے ایک کارآمد راہ نما ہے۔(ر - ہ)
مصنف حالاتِ حاضرہ اور بین الاقوامی امور پر تواتر سے لکھنے والے اہلِ قلم میں شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کا خاصا حصہ مغربی معاشرے کو سمجھنے سمجھانے میں گزارا ہے۔ چنانچہ ان کا خیال ہے کہ ۱۱ستمبر کے واقعات کی سائنسی بنیادوں پر تحقیقات نہیں کی گئیں۔ کتاب کے ۳۸ابواب میں امریکا اور اتحادی ممالک کی توسیع پسندانہ پالیسیاں‘ دہشت گردی کے مختلف اسلوب اور اس کے اسباب‘ مسلم دنیا کے مصائب اور تضادات وغیرہ جیسے موضوعات تفصیل سے زیربحث آئے ہیں۔ جہاد‘ اسامہ بن لادن‘ بنیاد پرستی‘ ڈینیل پرل قتل کیس‘ نیز اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے حوالے سے بھی کتاب میں گفتگو کی گئی ہے۔
مصنف کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی خودساختہ کوششوں میں عالمی استعمار اس قدر زیادتیاں کرچکا ہے کہ نیویارک کے جڑواں میناروں کا سانحہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ مسلم دنیا کو درپیش مشکلات کا احاطہ کرتے ہوئے مصنف نے دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ غربت‘ تعلیم کا فقدان اور سیاسی اداروں کے عدمِ استحکام نے مسلم دنیا کو اس حالت تک پہنچا دیا ہے کہ اُن کی حیثیت خوف زدہ بھیڑوں کی سی ہوگئی ہے۔ جنگل کا ہر خونخوار اُن کے خون کا پیاسا ہوچکا ہے اور اُن کے لیے کوئی خطہ محفوظ نہیں ہے۔
مصنف نے سید قطبؒ اور سید مودودیؒ کے حوالے سے کہا ہے کہ ان مفکرین نے تشدد کی ہر قسم کی مخالفت کی لیکن اسرائیل ہر قسم کے ظالمانہ ہتھکنڈے روا رکھے ہوئے ہے۔ اقبال حسین کا خیال درست ہے کہ واشنگٹن کے پالیسی ساز ادارے‘ دانش ور اور عوام الناس اپنی حکومت کو سمجھائیں کہ وہ اپنی ہمہ پہلو قوت کے استعمال سے پہلے ہزار بار سوچے ورنہ ردعمل میں ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ نائن الیون کا سانئحہ گرد میں چھپ جائے گا۔(محمد ایوب منیر)
جہاد مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور ملّی بقا کا ضامن ہے۔ اس رکن عظیم کی فرضیت و اہمیت کے بارے میں قرآن و سنت میں بدیہی احکامات موجود ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام مخالف قوتوں کے غلبہ واستیلا کے خلاف سب سے بڑی مزاحم قوت مسلمانوں کا جذبۂ جہاد ہی رہا ہے۔
صلیبی اور استعماری قوتیں صدیوں سے جہاد کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتی چلی آرہی ہیںخصوصاً ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد مغرب میں ہنود ویہود نے جہاد کے خلاف ایک مسموم فضا تیار کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ ان حالات میں اسلام کے تصور جہاد کو اس کی اصل روح کے ساتھ پیش کرنا عصرِحاضر کا ایک مقدم تقاضا ہے۔ زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک اچھی کاوش ہے۔
اس کے مباحث یہ ہیں: قرآن و سنت اور علما و فقہا کے اقوال کی روشنی میں جہاد کا اصطلاحی مفہوم اور احکامات‘ جہاد اور قتال میں فرق اور ان کا باہمی تعلق‘ جہاد کی فرضیت اور فضائل‘ جہاد سیرت النبیؐ کے آئینے میں‘ جہاد کی بنیادی شرائط اور آداب و ضوابط۔ اسلامی تاریخ میں جہاد کی ایک جھلک‘ خلفاے راشدینؓ، اموی اور عباسی ادوار‘ سلطنت عثمانیہ‘ سلاطین دہلی اور مغلیہ سلطنت کے اہم جہادی اقدامات‘ اسلامی دنیا کے عصرِحاضر کے مسائل‘ مسئلہ قومیت‘ مغرب اور اسلام کی کش مکش‘ اقوامِ متحدہ کی جانب داری اور او آئی سی کی عدم کارکردگی‘ موجودہ دور کی نمایاں جہادی تحریکوں کا تعارف وغیرہ۔ جہادی تحریکوں کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی مصنف کے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہے۔ مصنف کے گہرے مشاہدے اور تحقیق و جستجو سے مرتب کردہ ان مفید تجاویز سے جہادی تحریکات کو استفادہ کرنا چاہیے۔
مصنف نے سید مودودیؒ کی الجہاد فی الاسلام سے اخذ و استفادے کا اعتراف کرتے ہوئے اسے جہاد کے موضوع پر بہترین کتاب قرار دیا ہے۔ تاہم مصنف کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے زیرنظرکتاب میں کچھ نئے اور اچھوتے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ مصنف نے جہاد کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں ایک متوازن اور فکرانگیز مؤقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)
خواتین اور معاشرتی برائیاں ‘ ڈاکٹرصادقہ سیّد۔ ناشر: قرطاس۔ پوسٹ بکس ۸۴۵۳‘ کراچی یونی ورسٹی۔ صفحات: ۹۰۔ قیمت: ۶۰ روپے۔
انسانی زندگی کو خیروفلاح سے ثمربار کرنے کے لیے انذار و تبشیر سے بڑھ کر کوئی اور موثر طریقہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں بھی سب سے زیادہ اکمل‘ متوازن اور انسانی فطرت کا پاس ولحاظ رکھنے کا ذریعہ قرآن و سنت ہی ہیں۔ بے جا قصہ گوئی سے روشنی لینے کے بجاے‘ روشنی اورنور کے قرآنی اور نبویؐ سرچشموں سے رہنمائی لینا ہی دانش مندی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب اپنے موضوع‘ مندرجات کی وسعت اور اسلوب بیان کی سادگی کے باعث ایک موثر دستاویز ہے۔ مصنفہ جسمانی امراض کی معالجہ ہیں‘ انھوں نے روحانی امراض کا علاج بھی نہایت خوب صورتی سے تجویز کیا ہے۔ انھوں نے انسانی زندگی اور خاص طور پر مسلمان خواتین میں فکروعمل کی مختلف النوع کوتاہیوں کی نشان دہی کرنے کے ساتھ‘ شافی علاج بھی پیش کیا ہے جسے تجربے میں لاکر دنیا میں فلاح اور آخرت میں کامیابی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ قرآن و سنت کے حوالے اور ذاتی مشاہدے کو‘ توازن اور اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)
سید مودودی نمبر نہایت دل چسپ اور اہم معلومات سے پُر ہے۔ میں مولانا مودودی کی علمی وسعت کا ہمیشہ قائل رہا ہوں‘ مگر اُن کی صاحبزادی سیدہ حمیرا مودودی صاحبہ کا مضمون پڑھ کر‘ مولانا مودودی کی شخصیت اور ان کی بیگم صاحبہ کی شخصیت نے دل پر گہرا اثر کیا۔ سیدہ حمیرا کے قلم اور اندازِ تحریر میں اپنے محترم والد کی جھلک ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
ترجمان کے خصوصی شمارے میں‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے سے آپ نے کیا اچھا مواد یکجا کر دیا ہے۔ ان شاء اللہ یہ دستاویز ہم طالب علموں کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی اور اہلِ علم بھی اس سے فیض یاب ہوںگے۔
اشاعت ِ خاص‘ مولانا مودودیؒ کی مجتہدانہ بصیرت اور مجاہدانہ تڑپ کی نہایت طاقت ور پکار ہے۔
اشاعت ِ خاص دوم‘ اشاعت خاص اول (اکتوبر ۲۰۰۳ئ) کی طرح ایمان پرور ہی نہیں‘ بلکہ تحرک آفرین بھی ہے۔ اس کے مضامین‘ ایک خادم دین کی سرفروشانہ زندگی کی وہ پرتیں ہمارے سامنے کھولتے ہیں کہ مولانا محترم کی شخصیت سے مرعوبیت کے بجاے ایمان اور جہاد کی راہوں پر چلنے کا بے پناہ جذبہ اور حوصلہ ملتا ہے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد کے دونوں مضامین وسعت مطالعہ اور دانش ورانہ گہرائی کا مظہر ہونے کے ساتھ مستقبل کا نقشۂ کار بھی مہیا کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیدہ حمیرا مودودی صاحبہ کا مضمون اس اشاعت کی جان ہے‘ جو اپنے قاری کو آبدیدہ بھی کرتا ہے اور پُرعزم بھی بناتا ہے۔ انھوں نے جس خوب صورتی‘ حلاوت اور راست کلامی سے مضمون کو بُناہے‘ وہ مدتوں روح کو تازگی اور زندگی کو روشنی دیتا رہے گا۔ دوسرے مضامین بھی بہت شان دار ہیں‘ خصوصاً میاں طفیل محمد‘ ڈاکٹر مالک بدری‘ جلال الدین عمری‘ خالد علوی‘ حسن صہیب‘ ثروت جمال‘ ہارون الرشید کے مضامین--- رفیع الدین ہاشمی کی پیش کش سے مولانا محترم کے قلمی آثار کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ ایک خاص چیز جو ان اشاعتوں سے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ تحریک سے وابستہ خواتین کا اسلوبِ بیان اور طرزِ پیش کش‘ ہمیں خوداعتمادی اور تشکر کی وادیوں میں سجدۂ شکر بجا لانے کی دعوت دیتی ہے۔میں مدیر اشاعتِ خاص کو ان کی اس عظیم کاوش پر قلب کی گہرائیوں سے ہدیۂ تبریک پیش کرتی ہوں۔
اشاعت ِ خاص نے نہ صرف مولانا مودودیؒ کی شخصیت کی خوب صورتی کو آشکارا کیا ہے‘بلکہ ایک ایسا لائحہ عمل بھی پیش کیا ہے کہ جس پر عالم حضرات دادِ تحقیق دیں اور اہلِ عمل‘ دعوت کو وسعت عطا کریں۔
مضامین پڑھ کر سالارِ قافلہ کی عظمت اور کاروانِ عزیمت کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا ہے۔
مضامین پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ اتنی عظیم شخصیت اور مردِ مومن کی علما نے جو مخالفت کی‘ اس کے محرکات‘ تعصبات یا گوناگوں اسباب پر بھی دو تین مقالات ہونے چاہییں تھے‘ کیونکہ یہ ایک زندہ موضوع ہے‘ جس میں آج بھی یک طرفہ طور پر مختلف علما کی جانب سے دل آزار تحریریں پڑھنے اور تقریریں سننے کو ملتی ہیں۔ مجلسِ عمل کے سیاسی تقاضے اپنی جگہ لیکن علمی موضوع کی اہمیت کے اپنے مطالبات ہیں۔
اتنے خوب صورت تحفے پر مبارک باد! اس جامع نمبر نے واقعی ایک تاریخی خدمت انجام دی ہے۔ تمام ہی مضامین روح پرور‘ دل کی گہرائیوں پر اثر ڈالنے اور خیالات کی دنیا میںہلچل پیدا کرنے والے ہیں۔
اشاعت ِ خاص ایک خوش آیند دستاویز ہے‘ تاہم اس چیز کی وضاحت ہوجاتی تو اچھا تھا کہ مولانا مودودیؒ ایک عادلانہ معاشی نظام کا کیا نقشۂ کار پیش کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ایک فرسودہ سماجی ڈھانچے کو وہ کن بنیادوں پر نئے سرے سے‘ اسلامی تعلیمات کے زیرسایہ پروان چڑھانا چاہتے ہیں؟ آیندہ ان موضوعات پر مقالات کا انتظار رہے گا۔ عبدالرشید ارشد کے مضمون‘ ص ۱۳۹ میں بیرون بھاٹی گیٹ کو غلطی سے بیرون موچی گیٹ لکھا گیا ہے‘ اس کی تصحیح کر لی جائے۔
اشاعت ِ خاص کے دونوں حصے‘ مولانا مودودیؒ کی علمی و عملی جدوجہد کا متاثر کن تذکرہ سمیٹے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس برگزیدہ بندے کی محبت اور تذکرے کو ہمارے اعمال حسنہ میں شامل فرمائے۔
خصوصی اشاعت اول میں مدیر ترجمان کا مضمون ’’یادیں ان کی‘ باتیں میری‘‘ بہت خوب ہے اور صاحبِ مضمون نے حتی الامکان اپنی یادوں کے سبھی دریچے وا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تاہم ایک جگہ پائی جانے والی فروگزاشت کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے--- اپنے مرحوم والد ماجد کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’جماعت اسلامی کی تاسیس سے قبل‘ مولانا نے جو ادارہ دارالاسلام قائم کیا تھا‘ اس کے پہلے پانچ بنیادی افراد میں والد صاحب بھی شامل تھے‘‘ (ص ۱۹۳)۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ادارہ دارالاسلام کی تاسیس کے لیے جن حضرات کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی‘ ان میں ۱۲ حضرات بنفس نفیس شریک ہوئے تھے جن میں پروفیسر خورشید صاحب کے والد گرامی (نذیراحمد قریشی مرحوم) بھی شامل تھے۔ اس اجتماع کی پوری روداد ترجمان القرآن‘ جلد۱۳‘عدد۱ کے صفحہ ۱۵ اور ۱۶ پر مولانا مرحوم کے قلم سے درج ہے۔ مولانا نے رپورٹ کے آخری حصہ میں تحریر فرمایا ہے: ’’۱۷ سے ۱۹ شعبان تک تین روز مسلسل اجتماع رہا… پانچ اشخاص نے اپنے آپ کو رکنیت کے لیے پیش کر کے باقاعدہ حلف لیاجن کے نام یہ ہیں: ۱-مستری محمد صدیق صاحب ۲- سید محمد شاہ صاحب ۳- عبدالعزیز شرقی صاحب ۴-صدرالدین اصلاحی صاحب ۵- ابوالاعلیٰ مودودی‘‘۔ (ایضاً)
٭ بروقت توجہ دلانے اور تصحیح پر میں آپ کا ممنون ہوں۔ (مدیر)
مدیر ترجمان نے ’’اشارات‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) میں لکھا ہے کہ ’’قائداعظمؒ نے کانگریس کی قیادت سے پچاس سال چومکھی لڑائی لڑی اور بالآخر پاکستان حاصل کر کے رہے‘‘(ص ۲۰)‘ یعنی قائداعظم نے یہ معرکہ سر کیا۔ تاریخی طور پر تو ۱۹۰۶ء سے ۱۹۴۷ء تک بھی ۵۰ سال نہیں بنتے‘ جب کہ محمدعلی جناح مرحوم نے تشکیل آل انڈیا مسلم لیگ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا‘ بلکہ نومبر ۱۹۱۳ء میں انھوں نے مسلم لیگ میں شرکت کے لیے درخواست دی تھی۔ اس طرح ۱۹۱۳ء سے ۱۹۴۷ء تک کے عرصے کو ۳۴ سال ہی شمار کیا جاسکتا ہے۔
٭ میں ممنون ہوں کہ آپ نے ایک تسامح پر متوجہ کیا۔ یہ درست ہے کہ قائداعظمؒ مسلم لیگ میں ۱۹۱۳ء میں شریک ہوگئے تھے لیکن کانگریس سے کش مکش ۱۹۳۵ء میں انگلستان سے واپس آنے کے بعدشروع ہوئی۔ اس سے پہلے مسلم لیگ اور کانگریس اپنے اختلافات کے باوجود کسی نہ کسی درجے میں تعاون کر رہے تھے۔ مجھے جو بات کہنا چاہیے تھی وہ یہ تھی کہ قائداعظم محمدعلی جناح ؒنے مسلمانوں کے حقوق کے لیے تمام عرصہ جدوجہد کی‘ البتہ کانگریس سے نزاع کا عرصہ دس بارہ سال پر ہی محیط تھا۔ (مدیر)
دیارِ غیر میں وطن سے رابطے اور جماعت سے تعلق کی واحد اور بہترین صورت ترجمان القرآن ہے۔ اسی حوالے سے چند معروضات پیش ہیں: ۱- ’’اشارات‘‘ نہایت جامع اور اہم موضوع پر ہوتے ہیں‘ تاہم اگر یہ مختصر ہوں تو اور بھی زیادہ موثر ہوسکتے ہیں۔ پھر ان میں ملک کے گوناگوں مسائل بھی زیربحث آنے چاہییں۔ ۲- ’’شذرات‘‘ کا سلسلہ خوش آیند ہے‘ لیکن ان کا بوجھ مدیر ترجمان پر ڈالنے کے بجاے دیگر اہلِ قلم کو ہاتھ بٹانا چاہیے۔ ۳-ڈاکٹر انیس احمد بڑے الجھے اور نازک موضوعات کے جواب دیتے ہیں‘ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں‘ البتہ بعض جگہ وہ واضح موقف اختیار کرنے کے بجاے بات کو مبہم رہنے دیتے ہیں‘ جو مناسب نہیں۔ ۴- ’’کلام نبویؐ کی کرنیں‘‘ اور ’’یادرفتگاں‘‘ کا سلسلہ انتہائی قابلِ تحسین ہے۔
ہم اِن لوگوں سے کسی جذبۂ نفرت و غضب کے بغیر خالص جذبۂ خیرخواہی کے ساتھ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جنگ اور اس کی ضروریات کتنی ہی شدید سہی‘ مگر براہِ کرم اپنے حواس بچا رکھو۔ تم وقتی فائدہ ونقصان کی فکر میں اتنے کھوئے جا رہے ہو کہ اپنی حرکات کے دُور رس اخلاقی نتائج سے تم نے آنکھیںبند کرلی ہیں۔ تم بھول گئے ہو کہ زندگی کی کش مکش میں اخلاقی شکست کھا جانے کے بعد کوئی فوجی فتح تم کو عزت کے مقام پر برقرار نہیں رکھ سکتی اور نہ مجرد مادی طاقت کے بل پر تم زیادہ مدت تک دنیا میں برسرِاقتدار رہ سکتے ہو۔ تمھیں یہ بھی یاد نہیں رہا ہے کہ زمانہ ساکن نہیں بلکہ متحرک ہے‘ اور وہ شخص سخت نادان ہے جو آج کی مصلحت بینیوں میں گم ہوکر کل کی مصلحت کو فراموش کر دے۔
وقت ‘خواہ کتنا ہی برا ہو‘ بہرحال گزرجاتا ہے‘ مگر اپنی ایک مستقل یادگار تاریخ میں چھوڑ جاتا ہے اور اس کے برے اثرات نسلوں تک چلتے رہتے ہیں۔ تم نے اگر اس وقت کو ظلم و زیادتی کے ساتھ گزارا تویہ ہم پر سے بھی بہرحال گزرے گا اور تم پر سے بھی‘ مگر اس طرح کہ تم اپنی آیندہ نسلوں کے لیے تاریخ میں ایک ایسی شرمناک میراث چھوڑ جائو گے جس پر وہ صدیوں تک دنیا میں نظر اُونچی نہ کر سکے گی۔ امریکا میں تمھارے اسلاف نے تمھارے لیے ایسی ہی میراث چھوڑی تھی جس کا نتیجہ آج یہ دیکھ رہے ہو کہ ہر امریکن کے سامنے تمھاری نگاہ نیچی ہے۔ آئرلینڈ میں تم نے یہی میراث چھوڑی‘ اور آج تم کو تجربہ ہوگیا کہ تمھارے قریب ترین ہمسایے نے تمھارے اخلاق کا کیا اثر لیا ہے۔اب کیا تم ہندستان میں بھی ایسی ہی میراث چھوڑنا چاہتے ہو؟ تمھارے اصل کارنامے وہ نہیں ہیں جو تم آپ ہی اپنی مدح میں بیان کرلیا کرتے ہو‘ بلکہ وہ ہیں جو تاریخ میں باقی رہ جائیں۔ اور تاریخ میں سیہ رُو قوموں کی تصویریں تم دیکھ چکے ہو۔ پھر کیا تم نے عزم کرلیا ہے کہ اپنی تصویر کے لیے بھی اسی گیلری میں کوئی بلند جگہ محفوظ کرائو گے؟ (’’اشارات‘‘، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن‘ جلد ۲۴‘ عدد ۵-۶‘ جمادی الاولیٰ‘ جمادی الاخریٰ ۱۳۶۳ھ‘ مئی‘ جون ۱۹۴۴ئ‘ ص ۶)