مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۰۳

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

سپریم کورٹ نے انتخابات اور جمہوریت کی مکمل بحالی کے لیے جنرل پرویز مشرف کو فوجی دخل اندازی کے جواز (validation) کی فراہمی (۱۲ مئی ۲۰۰۰ئ) کے موقع پر تین سال کی جو مہلت دی تھی وہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ختم ہو گئی۔ قومی اسمبلی نومبر میں‘ صوبائی اسمبلیاں دسمبر میں اور سینیٹ ۱۲ مارچ کو معرضِ وجود میں آیا ۔ اس طرح فوجی اقدام کے ۴۱ ماہ اور سپریم کورٹ کی دی ہوئی مدت کے پانچ ماہ بعد دستور اور اس کے بنیادی ادارے (organs) اللہ اللہ کر کے بحال ہوئے۔ مگر یہ بحالی اس طرح ہوئی ہے کہ صدر کے انتخاب کے لیے دستور نے جو واحد طریقہ متعین کیاہے اس کے برعکس ایک نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعہ جنرل صاحب بزعمِ خود صدر بن گئے اور پھر سپریم کورٹ کے کندھوں پر زبردستی سوار ہو کر اور مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے کے قطعاً برعکس انھوں نے ایل ایف او کے ذریعے دستور میں ایسی بنیادی ترامیم کا آمرانہ انداز میں اعلان کر ڈالا جس کے نتیجے میں ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور کا حلیہ بگڑ گیا اور اس کا بنیادی ڈھانچہ جو پارلیمانی جمہوریت سے عبارت تھا تہ و بالا ہو گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر اب دعویٰ ہے کہ محض فردِواحد کے فرمان کے ذریعے ایل ایف او آپ سے آپ دستور کا حصہ بن گیا ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں جو کش مکش برپا ہے‘ اس کی بنیادی وجہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہم نوائوں کی ایک سرتاسر غیرآئینی ‘ غیر جمہوری اور غیراخلاقی پوزیشن کے بارے میں ہٹ دھرمی اور ضد ہے۔

ہم اس امر کا بلاتکلف اعتراف کرتے ہیں کہ ایک فوجی آمریت سے جمہوری نظام کی طرف مراجعت کی اپنی نزاکتیں اور الجھنیں ہیں جن سے بڑی تدبیر اور افہام و تفہیم کے عمل سے ہی نمٹا جا سکتاہے۔ ملک کی تمام ہی سیاسی قوتوں نے تصادم کی جگہ ایک تدریجی اور قانونی طریقے سے جمہوریت کی بحالی کے راستے کو قبول کیا ہے اور اس میں بہت سی ایسی چیزوں کو بھی گوارا کیا ہے جو عام حالات میں روا نہیں رکھی جا سکتی تھیں۔ انتخابات کے انعقاد اور قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے قیام اور مرکز اور صوبوں میں منتخب حکومتوں کے برسرِاقتدارآجانے کے باوجود بحالیِ جمہوریت کا مرحلہ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔اس کے نتیجے میں ملک میں شدید بے چینی ہے اور ملک کے باہر ہمارے عزت و وقار پر تاریک سائے ابھی تک منڈلا رہے ہیں۔

حزبِ اختلاف کا اصولی موقف

ان حالات میں پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا ہے‘ وہ بہت مناسب اور بروقت ہے اور یہ بھی خوش آیند ہے کہ خاصے پس و پیش اور ردّ و کد کے بعد حزبِ اقتدار نے بھی گفت و شنید کے ذریعے اختلاف کے حل پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اندرونی اور بیرونی دونوں حالات کا تقاضا ہے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ذاتی مفادات اور حزبی ترجیحات سے بالا ہو کر‘ مذاکرات کے ذریعے دلیل اور اصولوں کی روشنی میں بنیادی اختلافی امور کو طے کریں‘ تاکہ اس طرح ملک حقیقی جمہوری راستے پر گامزن ہو۔ دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی حاکمیت اس ملک کے اور تمام سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہے۔ اس لیے وقتی مصلحتوں سے بالا ہو کر اس مسئلے کا حل ضروری ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ لیگل فریم ورک آرڈر اور دستور میں ترمیم کے مسئلے کے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور اصول‘ حق و انصاف اور ملک و ملّت کے مفاد میں اس مسئلے کو دلیل کی بنیاد پر طے کیا جائے۔ محض دھونس اور ہٹ دھرمی حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں‘ اصلاح کا نہیں!

سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۳ء تک کے زمانے کی دستوری اور قانونی حیثیت کو متعین کیا جائے۔ ہمارے ملک میں دستور بننے کے بعد‘ چار بار فوجی حکمرانی کے ادوار آئے ہیں۔ ان میں پہلے دو یعنی جنرل ایوب کا مارشل لا اور جنرل یحییٰ کا مارشل لا جوہری اعتبار سے دوسرے دو یعنی جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور سے مختلف تھے۔ جنرل ایوب نے ۱۹۵۶ء کے دستور کو منسوخ کر دیا اور خود ایک نیا دستور ملک پر مسلط کیا۔ جنرل یحییٰ نے جنرل ایوب کے دستور کو منسوخ کر دیا اور ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے نیا انتخاب کرایا اور ایک نئے نظام کے قیام کی راہ پیدا کی۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اس اسمبلی نے بنایا جو جنرل یحییٰ کے لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے وجود میں آئی تھی لیکن ۱۹۷۱ء کے سانحے کی روشنی میں اس اسمبلی اور اس وقت کی قیادت نے ایک بڑا دانش مندانہ اقدام کیا اور وہ یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور محض اکثریت کی بنیاد پر مرتب و مدون نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک قومی اتفاق رائے (national concensus) کی دستاویز بنایاگیا۔ اس کی بنیاد قرارداد مقاصد تھی جو تحریک پاکستان کے مقاصد اور ملّت اسلامیہ پاکستان کی اُمنگوں کی مظہر تھی۔ اس دستور کی تین بنیادیں ہیں یعنی اسلام‘ پارلیمانی نظام اور ریاست کا وفاقی کردار۔ بلاشبہ یہ بھی ایک انسانوں کی تیار کردہ دستاویز ہے اور اس میں تبدیلی اور تجربات کی روشنی میں اصلاح و تغیر کی گنجایش ہے لیکن بنیادی طور پر یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کو قوم کے ہر طبقۂ خیال کی تائید حاصل ہے اور جس پر اس ملک کا شیرازہ قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی حکمرانی کے دور میں‘ اور دونوں مواقع پر سپریم کورٹ کے واضح اعلان کے مطابق ان ادوار میں دستور صرف جزوی طور پر معطل (in abeyance) رہا ہے اور ایمرجنسی اور عبوری دستوری انتظام کے باوجود ۱۹۷۳ء کا دستور ہی بالاتر قانون قرار پایا ہے اور آخرالذکر دونوں ادوار کو ایک قسم کا دستوری انحراف (constitutional deviation) تصور کیا گیا ہے۔ نصرت بھٹوبنام چیف آف آرمی اسٹاف (پی ایل ڈی ۱۹۷۷‘ ایس سی ۶۵۷) میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یہی تھا کہ:

نتیجتاً جو صحیح قانونی صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اب بھی ملک کا بالاتر قانون ہے اس شرط کے ساتھ کہ ریاستی ضرورت کے تحت اس کے کچھ حصے معطل ہیں۔

اور یہی وجہ ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں صاف الفاظ میں لکھا کہ:

عمل دستور کو اٹھا پھینکنے کے بجائے دستوری انحراف کی نوعیت کا تھا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور کے بارے میں بھی سپریم کورٹ نے بالکل یہی پوزیشن اختیار کی ہے۔یعنی:

یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اب بھی ملک کا بالاتر قانون ہے اس شرط کے ساتھ کہ ریاستی ضرورت کے تحت اس کے کچھ حصے معطل ہیں۔

اور یہ کہ:

یہ ایسی صورت نہیں ہے کہ جہاں پرانا قانونی نظام مکمل طور پر دبا دیا گیا ہو یا تباہ کر دیا گیا ہوبلکہ عارضی مدت کے لیے دستوری انحراف کی صورت ہے تاکہ چیف ایگزیکٹو اپنے اعلان کردہ مقاصد حاصل کر سکے۔

سپریم کورٹ نے ان مقاصد کی تحدید بھی واضح الفاظ میں جنرل پرویز مشرف کے   ۱۳ اور ۱۷اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بیانات کی صورت میں کر دی۔ نیز یہ وضاحت بھی کر دی کہ اس عبوری دور میں بھی نظامِ حکومت ۱۹۷۳ء کے دستور کے قریب قریب چلایا جائے گا‘ اور اگر کسی مشکل کو رفع کرنے کے لیے کوئی ترمیم دستور میں ضروری سمجھی گئی تو وہ بھی لازماً ایسی ہوگی جو اس کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہ کرے‘ بنیادی حقوق کو متاثر نہ کرے‘ عدالتوں کے نظام کو کمزور نہ کرے اور فوجی حکومت کے تمام اقدامات اور احکام عدالتی جائزے (judicial review) کے حق کے تابع ہوں۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فوجی حکومت کا دور بھی نہ صرف یہ کہ دستور سے مستغنی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ اسے دستور کے مکمل احیا پر بھی منتج ہونا تھا۔ اس پس منظر میں یہ بات سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا یہ زمانہ ۱۹۷۳ء کے دستور سے انحراف کے عبوری دور کے بعد ۱۹۷۳ء کے دستور کی طرف مراجعت کے سوا کوئی دوسری سمت اختیار کرنے کا مجاز نہیں۔

صدر کا غیر آئینی تقرر

جنرل پرویز مشرف کے دور کا ہم ماضی میں بھی جائزہ لے چکے ہیں اور آیندہ بھی اس پر نقدواحتساب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت دستوری مسئلے کے پس منظر میں ہم ان کے تین اقدامات پر توجہ کو مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔

پہلی چیز ۳۰ اپریل ۲۰۰۲ء کو منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے ذریعے دستور کے طے کردہ طریق کار کے خلاف اور صدر کے لیے دستور کی متعین کردہ شرائط کے علی الرغم‘ قومی اسمبلی کے وجود میں آنے کی تاریخ سے ۵ سال کے لیے صدر بن جانے کا اقدام ہے۔ اول تو جس طرح صدر رفیق تارڑ صاحب کو رخصت کیا گیا اور صدارت پر قبضہ کیا گیا ‘وہ بجائے خود نہایت معیوب تھا لیکن رہی سہی کسر اپریل ۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے پوری ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف کی جو کچھ بھی اخلاقی پوزیشن تھی وہ اس طرح پارہ پارہ ہو گئی اور وہ بھی ذاتی اقتدار کے جویا سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ ریفرنڈم میں جس طرح اور جس پیمانے پر دھاندلی کی گئی اس نے ملک کے اور خود ان کے وقار کو خاک میں ملا دیا۔ اس ریفرنڈم کو ملک اور ملک کے باہر ہر کسی نے ایک عظیم فراڈ سمجھا اور جمہوریت کی بحالی کے سفر کے لیے اسے ایک نہایت منفی اقدام قرار دیا۔

سپریم کورٹ نے بھی اپنے ۲۷ اپریل ۲۰۰۲ء کے فیصلے میں اسے سندِجواز دینے سے احتراز کیا‘ریفرنڈم کو ایمرجنسی اور عبوری آئین کے تحت ایک اقدام قرار دیا اور اس کے جواز و عدمِ جواز (legal status)کے بارے میں یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ اس مرحلے پر عدالت ان سوالات پر محاکمہ نہیں کرسکتی بلکہ:

ہم اس مرحلے پر ان سوالات میں جانا پسند نہیں کریں گے اور ان کو مناسب وقت پر مناسب فورم میں طے کرنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔

دستور کا حلیہ بگاڑنے کی جسارت

ایسے مشکوک و مشتبہ ریفرنڈم کا تاج پہن کر جنرل پرویز مشرف نے دوسری جسارت یہ کی کہ اپنے تین سالہ دور کے اختتام سے تین ماہ قبل لیگل فریم ورک آرڈر کی شکل میں دستور پر ۲۹ ترامیم کا تیشہ چلا ڈالا جس نے دستور کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ ان ترامیم کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو ان کو تین حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے۔ چند چیزیں ایسی ہیں جو دستور کے مقاصد اور روح سے مطابقت رکھتی ہیں اور مناسب مشورے کے ساتھ انھیں دستور میں ترمیم کے جائز طریقے کے مطابق قبول کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ووٹر کی عمر‘ اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد میں اضافہ جیسی نوعیت کی ترامیم کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ترامیم ایسی ہیں جن پر بحث و گفتگو کے ذریعے اور مناسب رد و بدل کے بعد قابلِ قبول بنایا جا سکتا ہے مگر کچھ نہایت بنیادی چیزیں ایسی ہیں جو دستور کے بنیادی ڈھانچے اور اس کی روح سے کلی طور پر متصادم ہیں اور جنھیں کسی صورت میں بھی اپنی موجودہ شکل میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں بنیادی امور یہ ہیں:

۱-  مخلوط انتخاب کا اصول جو نظریہ پاکستان کی ضد ہے۔ اس پر مستزاد ایک طرف اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے مخلوط انتخاب کا اجرا اور دوسری طرف ان کے لیے مخصوص نشستوں کا تعین جو ان کو دوہرا ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ اگر اقلیتیں اپنے جداگانہ تشخص کی قائل ہی نہیں اور مجموعی دھارے سے ہی سیاست میں شرکت کرنا چاہتی ہیں توپھر نشستوں کی تعین کے کیا معنی؟

۲-  صدر کے ایسے صوابدیدی اختیارات جن کے نتیجے میں پارلیمانی نظام ایک طرح سے صدارتی نظام میں تبدیل ہو گیا ہے اور سیاسی نظام ایک قسم کی ثنویت (diarchy) کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم دونوں کے اختیارات پر شب خون کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلسل تصادم کا دروازہ کھولنے کا باعث ہوگا۔

۳-  پارلیمنٹ اور کابینہ سے بالا ایک نیشنل سیکورٹی کونسل کا قیام جس کا سربراہ صدر ہوگا اور جس میں جوائنٹ چیف آف سٹاف اور تینوں افواج کے سربراہ شریک ہوں گے۔ اسے ہزار مشاورتی ادارہ ہی کہا جائے یہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا واضح راستہ ہے جو افواجِ پاکستان کے دستور میں طے کردہ رول کے منافی اور پارلیمانی نظام کو خاکی نظام میں بدلنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ پھر اس ادارے کو ایک دستوری ادارہ بناکر پارلیمانی نظام کا حلیہ بھی بگاڑ دیا گیا ہے۔

۴-  سب سے زیادہ خطرناک تجویز جنرل پرویز مشرف کو بیک وقت صدر اور بری فوج کا سربراہ رکھنا ہے جس سے بحالیِ جمہوریت اور سول حکمرانی کا پورا تصور ہی پراگندا ہو جاتا ہے۔ یہ قانون اور معقولیت ہر دو اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔ جس ملک کا سربراہ فوج کا حاضرسروس افسر ہو اسے جمہوریت سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ دستور فوج کے ہر افسر سے یہ حلف لیتاہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہیں ہوگا۔ صدر دستور کی حفاظت اور اطاعت کا حلف لیتا ہے اور صرف سیاست ہی اس کا کیریر ہوتا ہے اور چیف آف اسٹاف کے لیے سیاست میں آنا ایک دستوری جرم ہے۔ دونوں ساتھ ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ پھر یہ فوج کے ساتھ بھی زیادتی ہے جسے ایک ہمہ وقتی سربراہ کی ضرورت ہے۔ نیز فوج کا سربراہ تین سال کے لیے مقرر ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے تین سال ۲۰۰۱ء میں پورے کرچکے ہیں‘ خود ہی اپنی مدت میں غیرمعینہ اضافہ کرچکے ہیں اور اب صدر اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے مزید پانچ سال تک فوجی وردی اور صدارت کی خلعت دونوں کو زیب تن کرنے پر مصر ہیں۔ پھر مسلح افواج کے درمیان‘ جو تین افواج سے عبارت ہے‘ یہ امتیازی رجحان کو پرورش دینے کا ذریعہ ہوگی۔ تینوں افواج کے سربراہ صدر مملکت کے ماتحت ہیں جو سپریم کمانڈر ہے۔ اس انتظام میں بری فوج کے سربراہ کو ایک ایسی فوقیت حاصل ہو جاتی ہے جو دفاعی نظام کے لیے کسی اعتبار سے بھی مفید قرار نہیں دی جا سکتی۔ یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ بری فوج کا سربراہ‘ صدر‘ وزیردفاع اور سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہے اور گریڈ ۲۲ کے افسرکے برابر ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف بحیثیت صدر‘وزیر دفاع اور سیکرٹری دفاع کے اعلیٰ افسر ہیں اور بحیثیت بری فوج کے سربراہ ان کے ماتحت اور ان کے سامنے جواب دہ ہیں۔تعجب ہے کہ وہ اس کی غیرمعقولیت کو محسوس کرنے کے لیے تیار نہیں؟

بنیادی اور مرکزی مسئلہ سیاست میں فوج کے کردار کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ بحیثیت صدر مملکت وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جو صدر‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے اور صدر کا حلقہ انتخاب قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ بحیثیت صدر ان کا حلقہ یہ سیاسی ادارے ہیں۔ جب کہ بری فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا ابتدائی  حلقہ فوج بن جاتی ہے۔ وہ دو کشتیوں میں سوار رہنا چاہتے ہیں۔ انھیں ایک حلقے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جناب محمدخان جونیجو نے وزیراعظم بننے کے بعد صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ آج پھر یہی مسئلہ درپیش ہے۔ جنرل پرویز مشرف فوجی حکومت اور اس کے دورِاقتدار کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور صدارت اور پارلیمان پر فوج کا سایہ بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں۔

فوج کا جو مقام ہے وہ سرآنکھوں پر۔ اس کی جو ضروریات ہیں ان کا پورا کرنا قوم اور پارلیمنٹ کا فرض ہے۔ سلامتی کے معاملات میں اس کا مشورہ اور اس کے وژن سے استفادہ بھی ایک قومی ضرورت ہے۔ اور فوج کا ہر سیاسی تنازع سے بالا ہو کر پوری قوم کے اعتماد کا مرکز و محور ہونا بھی اس کی دفاعی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب بجا لیکن اس سے آگے بڑھ کر فوجی وردی کے ساتھ صدارت‘ نیشنل سیکورٹی کونسل میں فوجی صدر اور سربراہانِ افواج کی شرکت‘ اور قومی صدر کے ایسے صوابدیدی اختیارات جو انتظامیہ کا اصل سربراہ اسے بنادیں‘ یہ پارلیمانی اور جمہوری نظام میں ممکن نہیں۔ یا قومی حکومت ہوگی یا جمہوریت--- فوجی جمہوریت ایک تضاد اور مسلسل فساد کا ذریعہ ہوگی‘ ملک کے لیے خیروفلاح اور دستوری پارلیمانی جمہوریت کی کوئی شکل نہیں ہو سکتی۔

جنرل پرویز مشرف‘ فوج کی قیادت اور پارلیمنٹ تینوں کو اسی بنیادی سوال کا ایمان داری سے جواب دینا ہے اور دونوں میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے۔ ورنہ دستوری حکومت اور اچھی حکومت اور عوام کی بالادستی محض ایک خواب رہیں گے اور قوم اور اربابِ اقتدار میں مسلسل کش مکش اور تصادم کی صورت رہے گی۔

فردِ واحد کے فرمان سے دستوری ترمیم

جنرل پرویز مشرف صاحب کی تیسری جسارت ان کی اور ان کے مشیروں کی دیدہ دلیری کا بھی شاہکار ہے اور وہ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ایل ایف او محض ان کے فرمان سے دستور کا آپ سے آپ حصہ بن گیا۔ یہ جسارت توجنرل ضیاء الحق نے بھی نہیں کی تھی۔ انھوں نے بھی اپنے Revival of Constitutional Orderکو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا۔ افہام و تفہیم کے ذریعے پارلیمنٹ میں ۳۴ دن بحث کے بعد آٹھویں ترمیم کی شکل میں اسے منظور کرایا۔

دستوری اعتبار سے اگر ان کی فوجی حکمرانی کا دور صرف ایک دستوری انحراف (constitutional deviation) کا دور ہے اور وہ ایک قانونی نظام کی جگہ دوسرا قانونی نظام نہیں لا رہے (جیساکہ حقیقت ہے‘ جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی واضح ہے) تو پھر دستور کا آپ سے آپ حصہ بن جانے کی بات دراصل دستور کے خلاف ایک کاری وار کی حیثیت رکھتا ہے جو دستور کی دفعہ ۶ کے مطابق دستور کی تخریب (subversion) کے مترادف ہے۔ دستور میں ترمیم صرف دستور کے ترمیم کے طریقے کے مطابق ہی ہو سکتی ہے جو دفعہ ۲۳۸ اور ۲۳۹ میں مرقوم ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا دستوری اور قانونی طریقہ نہیں۔

سپریم کورٹ کے ۱۲ مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے سے جس اختیار کے حاصل کرنے کی بات کی جا رہی ہے‘ اس میں کوئی وزن نہیں۔ سپریم کورٹ خود دستور میں ترمیم نہیں کر سکتی اور جو ادارہ خود قانون سازی کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ دوسرے کو یہ حق کیسے دے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت واضح ہے۔ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ اسمبلی اور سینیٹ موجود نہیں ہے جو دستور میں ترمیم کا حق رکھتے ہیں اور چونکہ ریاست کے نظام کو چلانا ضروری ہے اس لیے نظریہ ضرورت کے تحت اگر دستوری انحراف کے اس دور میں کوئی حقیقی مشکل آتی ہے تو اس کی حد تک فوجی حکمران ترمیم کرسکتا ہے لیکن دستور کے ڈھانچے‘ بنیادی حقوق‘ عدالت کے مقام اور عدالتی جائزے کے اختیار کو ہاتھ لگائے بغیر۔ اور گویہ بات ۱۲ مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے میں نہیں کہی گئی لیکن یہ ایک دستوری مسلمہ ہے اور خود پاکستان کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ خواہ ایوب خاں اور یحییٰ خاں کے مارشل لا کا دور ہو یا ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دستوری انحراف والی فوجی حکومت کا--- ان تمام ادوار میں جو بھی قوانین لاگو کیے گئے ہیں بحالیِ جمہوریت کے بعد دستور میں ان کو indemnity  (تحفظ) دیے بغیر ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو سکتی۔یہی وجہ ہے کہ دستور میں دفعہ ۲۶۹‘ ۲۷۰ اور ۲۷۰‘ اے باقاعدہ دستور کی تدوین یا دستور کی ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے جادوگروں نے دستور پر حملہ آور ہو کر بزور شمشیر اپنی ترامیم کو دستور کا حصہ بنانے کی جسارت کی ہے جو دستور کے ساتھ دراز دستی کی شرمناک مثال ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش غلام محمد صاحب نے بھی ۱۹۵۴ء میں کی تھی لیکن فیڈرل کورٹ نے جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں اسے غیرقانونی قرار دیا تھا اور ان کے دستوریہ توڑنے کے اقدام کو سندِجواز فراہم کرنے کے باوجود ان کے اس حق کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ فردِواحدایک نیا دستوری‘ یا قانونی نظام‘ حتیٰ کہ کوئی بھی نیا قانون ملک پر مسلط کر سکتا ہے۔ یہ صرف دستورساز اسمبلی اور مقننہ کا کام ہے کہ وہ دستور اور قانون کے مطابق قانون سازی کرے۔ اور اگر دستوری انحراف کے دور میں بہ صورت مجبوری اور ضرورت کچھ قانون سازی کی بھی جاتی ہے تو اسے سندِجواز صرف اس وقت مل سکتی ہے جب نئی دستوریہ /مقننہ ان قوانین کو قبول کر کے   انھیں تحفظ (indemnity) دے دے۔ یہ قانون کا ایک مسلّمہ اصول ہے اور فیڈرل کورٹ نے  Usif Patel vs. The Crown میں اس اصول کو اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔

گورنر جنرل دستورساز اسمبلی کے قانون کی منظوری دے سکتا ہے‘ یا روک سکتا ہے لیکن وہ خود دستورساز اسمبلی نہیں ہے اور اس کی غیرموجودگی میں وہ ان اختیارات کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو اسے کبھی حاصل نہ تھے اور نہ اسمبلی کے اختیارات سنبھالنے کا دعویٰ کر سکتا ہے (پی ایل ڈی ۱۹۵۵‘ فیڈرل کورٹ ۳۸۷‘ ص ۳۹۲)۔

عدالت نے ایسے حالات میں جس راستے کی نشان دہی کی وہ بہت واضح ہے:

حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہونا چاہیے تھی کہ ایک دوسرے نمایندہ ادارے کو وجود میں لائے جو دستورساز اسمبلی کے اختیارات استعمال کرے تاکہ تمام بلاجواز قوانین کو   نیا ادارہ فوراً جواز دے سکے۔ ایسا طریق کار دستوری روایت کے مطابق ہونا چاہیے جو پیش آمدہ ایسی صورت کے لیے ہے۔

فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے ریفرنس کے جواب میں بھی اسی پوزیشن کو ایک بار پھر واضح کیا اور گورنر جنرل مجبور ہوا کہ نئی دستورساز اسمبلی لائی جائے اور وہ اس دور کے قوانین کو سندِجواز دے۔ جسٹس منیر نے ریفرنس کے جواب میں جو بات کہی اور جس کی فیڈرل کورٹ کے تمام ججوں نے تائید کی وہ یہ ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے ہم صرف جسٹس منیر کی رائے پر اکتفا کرتے ہیں:

That the free exercise of a discretionary or prerogative power at a critical juncture is essential to the executive Government of every civilised country, the indispensable condition being that the exercise of that power is always subject to the legislative authority of parliament, to be exercised ex post facto..........

The emergency legislative power, however, cannot extend to matters which are not the product of the necessity, as for instance changes in the constitution which are not directly referable to the emergency.

کسی نازک بحران میں ہر مہذب ملک میں حکومت کا انتظام چلانے کے لیے  صواب دیدی یا خصوصی اختیارات کا آزادانہ استعمال ضروری ہے‘ لیکن اس لازمی شرط کے ساتھ کہ ان اختیارات کا استعمال ہمیشہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارکے مشروط ہوگا جو بعد از وقت استعمال کیا جائے۔… قانون سازی کے ہنگامی اختیار کو ان معاملات تک توسیع نہیں دی جا سکتی جو ضرورت کی پیداوار نہیں‘ مثلاً دستور میں تبدیلیاںجو ہنگامی حالات سے براہِ راست متعلق نہیں۔ (ایضاً‘   ص ۴۸۵-۴۸۶)

عدالت عالیہ کے ان واضح احکامات اور دستور کی دفعہ ۲۶۹-۲۷۰ اور۲۷۰-اے کی روشنی میں ایل ایف او کے خود بخود یا فردِواحد کے فرمان سے دستور کا حصہ بن جانے کا دعویٰ پادر ہوا ہو جاتا ہے۔ جنرل صاحب اور حزبِ اقتدار کے لیے ایک ہی قانونی اور اخلاقی راستہ ہے اور وہ یہ کہ چونکہ انھیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں اس لیے حزبِ اختلاف سے مذاکرات کے ذریعے دستوری ترامیم کا پیکج تیار کریں اور افہام و تفہیم کے ذریعے جو چیزیں  قابلِ قبول ہیں انھیں دستور کا حصہ بنا لیں اور جن چیزوں پر اتفاق رائے نہیں ہو سکتا ان سے دست بردار ہو جائیں تاکہ قوم اور پارلیمنٹ کے تصادم سے بچیں اور ملکی مسائل کو حل کرنے میں مثبت کردار ادا کریں۔

یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ کے انتخابات ان ترامیم کے تحت ہوئے ہیںاس لیے حزبِ اختلاف نے ایل ایف او کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ بات دستوری اور سیاسی روایات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ جب بھی ایک فوجی نظام سے کوئی ملک اور قوم ایک دستوری اور جمہوری نظام کی طرف مراجعت کرتی ہے تو عبوری دور میں کسی نہ کسی ضابطے اور قاعدے کے مطابق ہی یہ کام ہوتا ہے۔ لیکن جب دستوری ادارے وجود میں آجاتے ہیں تو پھر   وہ بعد از وقت (ex post facto) ان اقدامات کو سندِجواز دیتے ہیں۔ محض ان پر عمل سے ان کو جواز نہیں مل جاتا۔

قانون اور سیاسی تجربہ دونوں اس بارے میں بہت واضح ہیں۔ شریعت کے بھی اضطرار کے اصول سے اسی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔ مجبوری کے عالم میں ایک حرام چیز بھی استعمال کی جاسکتی ہے لیکن رغبت اور طلب کے بغیر اور صرف حدِ ضرورت تک۔ ضرورت کے ختم ہوتے ہی اس کے استعمال کا جواز ختم ہو جاتا ہے اور مقدار ضرورت و حاجت سے تجاوز ناقابلِ قبول ہے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَاعَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌُ رَّحِیْمٌ o (پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیراس کے کہ وہ حدِضرورت سے تجاوز کرے تو یقینا تمھارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ الانعام ۶:۱۴۵)

ہمیں توقع ہے کہ اگر ہمارے اربابِ اقتدار ان گزارشات پر دیانت اور کھلے دل و دماغ سے غور کریں گے تو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنے اور پارلیمنٹ کے ذریعے تمام متعلقہ امور پر بحث و گفتگو کے ذریعے قابلِ قبول ترمیمات کے ذریعے دستوری تنازع کا حل نکال لیں گے۔

اہم قومی مسائل

ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت دستوری مسئلے کے علاوہ پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے دو دوسرے بڑے اہم مسائل ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک ملک کی سیاسی اور معاشی آزادی کا تحفظ اور دنیا میں واحد سوپرپاور کی بالادستی کا جو سامراجی نظام قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کے پس منظر میں اپنی آزادی اور حاکمیت کا تحفظ اور ایسی خارجہ پالیسی کی تشکیل جو ہماری اور تمام کمزور اقوام خصوصیت سے مسلم ممالک کی آزادی اور خودمختاری کی ضامن ہو سکے اور دنیا ایک نئے سامراجی دور کے عذاب اور آزمایش سے بچ سکے اور یک قطبی نظام کی جگہ ایک کثیر قطبی نظام (multi polar system) وجود میں آسکے جس میں قانون کی حکمرانی اور انصاف اور برابری کی بنیادوں پر قوموں کے درمیان معاملات طے ہوسکیں۔

دوسرا مسئلہ ملک کے اندرونی مسائل کا ہے جن میں امن و امان‘ جان و مال و آبرو کا تحفظ اور عوام کی معاشی مشکلات اور مسائل کا حل ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے‘ قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ ملکی پیداوار اور پیداآوری دونوں کی حالت غیرتسلی بخش ہے۔

ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی ۲۰۰۲ء کی رپورٹوں کی رو سے ۱۹۸۹ء میں آبادی کا صرف ۱۲ فی صد غربت کی سطح سے نیچے تھا (یعنی ایک ڈالر یومیہ آمدنی) جب کہ یہ تعداد ۱۹۹۷ء میں ۳۱ فی صد ہوگئی اور اب ۲۰۰۱ء میں ۳۸-۳۷ فی صد کے قریب ہے۔ قحط اور    فاقہ کشی اس مقام تک پہنچ گئے ہیں کہ کچھ علاقوں میں موت اور خودکشی کی نوبت آگئی ہے۔ دولت کی غیرمساوی تقسیم بھی روز افزوں ہے جس سے معاشی ظلم اور بے اطمینانی کا طوفان ہی نہیں اُمنڈ رہا بلکہ معاشرتی اور ثقافتی تصادم کی صورت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ سارے مسائل فوری توجہ کے محتاج ہیں۔ ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی بالادستی اور اقتدار کو عوام کی خدمت اور ان کی آرزوئوں کے مطابق معاشرے اور معیشت کی تشکیل کے لیے متحرک ہونا ہے۔ ان بیرونی و قدرتی مسائل کے حل کے لیے قومی یک جہتی اور نظامِ حکمرانی کی اصلاح ضروری ہیں۔ پارلیمنٹ‘ حکومت اور سیاسی جماعتیں سب کی آزمایش اس میں ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے کس طرح عہدہ برا ہوتی ہیں۔

کربلا پھر خون خون ہے۔ ہلاکو پھر کشتوں کے پشتے لگانے کے درپے ہے۔امریکہ نے قانون‘ اخلاق‘ انسانیت ہر چیز کو وحشی درندے کی طرح روند ڈالا ہے۔ برائی کا محور‘ القاعدہ سے تعلق ‘ عام تباہی پھیلانے کے ہتھیار‘ اسلحہ انسپکٹروں کے کام میں رکاوٹ جیسے تمام الزامات عالمی برادری کی حمایت دلانے میں ناکام رہے تو امریکی بھیڑیے کا پانی اُوپر کی طرف بہ نکلا۔

متعدد امریکی دانش وروں نے سعودی عرب میں سابق امریکی سفیرجیمز آکنز کی یہ بات نقل کی ہے کہ جارج واکربش کی یہ جارحیت ۱۹۷۵ء میں بننے والے کسنجرمنصوبے کا ایک حصہ ہے۔ آکنز کہتا ہے: ’’میں سمجھتا تھا کہ یہ منصوبہ مرچکا ہے لیکن یہ منصوبہ پھر زندہ ہو گیا ہے جس کا ہدف دنیا میں تیل کے اہم ترین ذخائر پر قبضہ کیا جانا تھا‘‘۔ معروف تحقیقاتی رپورٹر رابرٹ ڈریفس کے بقول اس منصوبے پر سخت گیر‘ اسرائیل دوست امریکی ذمہ دارانِ حکومت نے پہلے بھی پیش رفت کی اور اس وقت بھی وہی ٹولہ وائٹ ہائوس‘ پینٹاگون اور وزارتِ خارجہ کے درجنوں اہم مناصب پر فائز ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’اگر ہم عراق پر قبضہ کر لیں تو قطروبحرین پر قبضہ آسان ترین ہدف ہوگا جس کے بعد صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بات ہے‘‘۔ رابرٹ ڈریفس نے Resource Warsکے مصنف مائیکل کلیر کی تحریروں کا خلاصہ بھی ان الفاظ میں نکالا ہے: ’’خلیج فارس پر قبضہ یورپ‘ جاپان اور چین کو اپنی مٹھی میں لے لینے کے مترادف ہے‘‘۔

تیل درآمد کرنے میں امریکہ پہلے‘جاپان دوسرے اور چین تیسرے نمبرپر ہے۔ چینی کسٹم حکام کے مطابق چین نے ۲۰۰۲ء میں ۴۱.۶۹ ملین ٹن خام تیل درآمد کیا تھا جو ۲۰۰۱ء سے ۱۵ فی صد زیادہ ہے۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف انرجی (DOE) کے مطابق ۲۰۰۱ء خود امریکہ کو اپنی ضرورت کا ۵۵ فی صد تیل درآمد کرنا پڑا جو ان کے اندازے کے مطابق ۲۰۲۵ء تک ۶۸ فی صد ہو جائے گا۔ یہ بات تو پہلے بھی آچکی ہے کہ عراق میں سعودی عرب کے بعد دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں جن کی مقدار ۵.۱۱۲ ارب بیرل تو معلوم ہے لیکن یہ مقدار ۱۲۰۰ ارب بیرل بھی ہوسکتی ہے۔ عراقی پٹرول نکالنے پر دنیا میں سب سے کم اخراجات اُٹھتے ہیں‘ یعنی صرف ڈیڑھ ڈالر۔

افغانستان پرحملے سے امریکہ نے بنیادی طور پر وسطی ایشیا کے قدرتی وسائل کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔ اب دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر پر قبضے کے لیے لاکھوں جانوں کا خون کیا جا رہا ہے (واضح رہے کہ صرف بغداد کی آبادی ۵۰ لاکھ ہے اور جس طرح کی خون آشام بمباری کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے بڑی آبادی کا لقمۂ اجل بن جانا کسی طور بعید نہیں)۔ ساتھ ہی ساتھ بحراحمرکے کنارے دریافت ہونے والے تیل کے ذخائر پر تسلط کا انتظام بھی شروع ہے۔ سوڈان میں دریافت ہونے والے تیل پر دسترس کے لیے پہلے متعدد حملے کروائے گئے اور اب جنوبی علیحدگی پسندوں کو کسی طور وہاں لانے کا بندوبست ہو رہا ہے۔

افغانستان اور عراق میں بنیادی کردار بش اور ڈک چینی کے تیل شریکوں کو دیا جا رہا ہے۔ بش کا خصوصی نمایندہ زلمای خلیل زادہ بھی اسی صنعت سے وابستہ رہا ہے۔ افغانستان کے بعد اب عراق میں ایک شمالی اتحاد کی ایجاد اور کرداروں کی تقسیم اسی کے ذمے ہیں۔ سنی‘ کرد‘ شیعہ کی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہوئے کٹھ پتلی انتظامیہ کی تشکیل کے لیے‘ موصوف کئی پڑوسی ممالک میں مصروف ہیں۔ لیکن قبضے کے بعد اصل اقتدار کے لیے امریکی افواج کے سربراہ ٹومی فرینکس کے علاوہ جنرل (ر) جے گارنر کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ جے گارنر کا نام امریکی جنگ پسندوں کی فہرست میں نمایاںہے۔ ان کی اصل خوبی ان کے اسرائیلی لیکوڈ پارٹی میں گہرے اثرات ہیں۔ جے گارنر کا نام سیکرٹری وزارت دفاع براے سیاسی امور ڈوگ فتھ نے ۱۱ فروری ۲۰۰۳ء کو امریکی سینیٹ کی وزارتِ خارجہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا ہے۔

ڈوگ فتھ نے عراق پر قبضہ کرنے سے حاصل ہونے والے اہداف کا بھی ذکر کیا جن میں اس بات کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا کہ ’’عراق میں جمہوری اداروں کے قیام سے فلسطینیوں کو اس پر آمادہ کرنے میں مدد ملے گی کہ وہ اسرائیل سے سنجیدہ مذاکرات کریں‘‘۔ وزیرخارجہ کولن پاول بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’عراق میں جمہوریت سے پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات سے ہم آہنگ حکومتوں کے قیام میں مدد ملے گی‘‘۔

ایک امریکی دانش ور مائیکل کولنز نے ۱۱ مارچ کو دبئی میں ایک لیکچر کے دوران کہا: ’’عراق پرحملے کے دوران اسرائیل بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو ملک بدر کرسکتا ہے۔ یہ سارا منصوبہ عظیم تر اسرائیل کی تشکیل ہی کا ایک حصہ ہے‘‘۔

عراق پر امریکی جارحیت کے بنیادی طور پر یہی دو بڑے اہداف ہیں۔ تیل پر قبضہ‘ اس کے ذریعے پوری دنیا پر عملاً حکمرانی‘ اور اسرائیلی ریاست میں توسیع و استحکام۔ اس کے علاوہ کسی دلیل کو دنیا بھی مسترد کرتی ہے اور حقائق بھی۔ مثال کے طور پر اگر بات واقعی اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں کی ہوتی تو خود امریکی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کے پاس نہ صرف ۴۰۰ سے زائد ایٹم بم ہیں بلکہ وہ ۱۹۹۵ء میں نیوٹران اور ہائیڈروجن بم بھی بنا چکا ہے۔ ہائیڈروجن بم اپنے حجم کے اعتبار سے ایٹم بم کی نسبت ۱۰۰ سے ۱۰۰۰ گنا زیادہ تباہ کن ہے۔ ایٹم بم استعمال کرنے کے لیے اس کے پاس میزائلوں کی بڑی کھیپ اور ایف سیریز کے طیاروں کے علاوہ جرمنی کی بنی ہوئی ڈالفن آبدوز بھی ہے۔ ایٹمی اسلحے کو مزید مؤثر بنانے کے لیے خود امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کو سپرکمپیوٹر Gray2 کے ۱۰ جدید ترین پروگرام فراہم کیے ہیں‘ جن کے استعمال سے ایٹمی اسلحہ بنانے کے اخراجات براے نام رہ جاتے ہیں اور بین البراعظمی میزائلوں کی تیزی سے تیاری ممکن ہو جاتی ہے۔ عراق میں تباہ کن ہتھیار تباہ کرنے کے نام پر تباہی بانٹنے والے امریکہ کو نہ اپنی یہ صہیونیت نواز دلداریاں یاد ہیں‘ نہ اسے اسرائیل کے پاس ۱۸ اقسام کے مختلف کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار ہی دکھائی دیتے ہیں‘ جن میں بعض ایسے کیمیائی ہتھیار بھی شامل ہیں کہ جن سے پھیلنے والی آگ کا درجۂ حرارت ۲۸۰۰ سنٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔ رہا بدنام زمانہ انتھراکس  تو وہ بہت عرصہ پہلے اسے فراہم کیا جا چکا ہے۔

امریکہ کی اسی اسرائیل نوازی اور غنڈا گردی کے باعث پوری دنیا میں امریکہ مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں۔ احتجاج کا سلسلہ عراق کے بارے میں امریکی عزائم واضح ہو جانے  کے بعد شروع ہو گیا تھا اور دنیا کے گوشے گوشے میں ۳‘ ۴ کروڑ سے زیادہ افراد مظاہروں میں شریک رہے ہیں۔

۲۰ مارچ کو عراق پر حملہ شروع ہونے کے بعد مظاہروں کا سلسلہ فزوں ہو گیا ہے۔ اوائل مارچ میں ایک امریکی سروے کے مطابق عرب ممالک میں امریکہ سے نفرت عروج پر تھی۔ جیمززغبی انٹرنیشنل کے اس سروے کے مطابق سعودی عرب کے ۹۷ فی صد عوام امریکہ کے خلاف ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں یہ تناسب ۸۵ فی صد ہے اور اُردن جیسی امریکہ نواز حکومت کے ۸۱ فی صد عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔

نفرت کا یہ لاوا زیادہ دیر تک زیرزمین نہیں رکھا جا سکے گا۔ فلسطین ‘ افغانستان ‘ عراق اور دیگر مسلم ممالک میں روز افزوں امریکی دراندازیاں اس لاوے کے لیے مختلف راستے پیدا کررہی ہیں۔ مصر اور یمن میں کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے اعلان کے بغیر ہی سڑکوں پر آکر عوام نے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں۔ سعودی عرب سے آنے والی اطلاعات کے مطابق لوگوں نے خصوصی صلوٰۃ تہجد اور نفلی روزوں کی خاموش تحریک شروع کر دی ہے جس میں لوگوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ ’’آج اپنی تمام تر دعائیں اپنے عراقی اور فلسطینی بھائیوں کے لیے مخصوص کردیں‘‘۔ امریکہ اور اسرائیل سے اظہارِ نفرت کے ساتھ ہی ساتھ تعلق باللہ کا یہ انوکھا انداز دلوں کی دنیا تبدیل کر رہا ہے۔

خود امریکہ بھی اس زیرزمین لاوے کی تپش محسوس کر رہا ہے اور ارنے بھینسے کی طرح جلد از جلد پوری خلیج پر عملاً قبضے کا منصوبہ مکمل کرنا چاہتا ہے۔ بادی النظر میں اس راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں بچی۔ فرانس‘ جرمنی اور دیگر ممالک نے سیکورٹی کونسل کی حد تک مخالفت کی ہے لیکن عملاً وہ بھی عراق ہی کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کر رہے ہیں۔ گمان غالب یہی ہے کہ عراق میں جنگ کے مخصوص مرحلے تک پہنچ جانے کے بعد فرانس و جرمنی سمیت یہ ممالک بھی تعمیرنو کے نام پر امریکہ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں گے۔ اسے اپنے مفادات کے تحفظ کا نام دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس قیامت کا انحصار آیندہ دنوں میں جنگ کے پانسے پر بھی ہے۔ عراق کی تمام تر کوشش یہ دکھائی دیتی ہے کہ باقی شہروں میں ممکنہ حد تک لیکن بغداد میں آخری سانس تک مزاحمت کی جائے۔ عراقی حکومت نے بغداد کی تقریباً پوری آبادی (۵۰ لاکھ) کو شہر کے اندر ہی رہنے کا حکم دیا ہے۔ تقریباً ہر شہری کو ہتھیار اور خوراک پہنچانے کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ عراق سے آنے والے ایک سیاسی رہنما کے بقول: ’’اگر بغداد کو کئی ماہ بھی محصوررہنا پڑا تو وہ اس کے لیے تیار ہوں گے‘‘۔ ان کے بقول ’’آسمان سے آگ برسا کر وہ نہ ۱۹۹۱ء میں عراقی حکومت ختم کرسکے تھے نہ اب کر سکیں گے‘‘۔ پٹرول اور تسلط کے جنون کی اندھی آگ میں کودتے ہوئے امریکہ اس حقیقت کو فراموش کر گیا کہ کائنات کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والا ہر فرعون و نمرود مالکِ کائنات کے کوڑوں کی زد میں ضرور آیا ہے۔ جلد یا بدیر یہ سنت الٰہی ضرور پوری ہونا ہے۔

الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ o فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ o  فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ o اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ o  (الفجر ۸۹:۱۱-۱۴)

یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور اُن میں بہت فساد پھیلایا تھا۔ آخرکار تمھارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔

عراق پر متوقع امریکی حملے کے خلاف مغربی دنیا میں لاکھوں افراد کے مظاہرے ہوئے تو ایک عام تاثر یہ بھی تھا کہ مسلمان‘ جن کو دراصل تباہی کا سامنا ہے اپنے ممالک میں خاموش ہیں۔ رابرٹ فسک جیسے نامہ نگار نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ تباہی سامنے دیکھ کر عرب چوہوں کی طرح ہوگئے ہیں۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ لندن‘ ۱۸فروری ۲۰۰۳ئ)۔ کریسنٹ انٹرنیشنل میں قاہرہ کے ایک نامہ نگار نے لکھا کہ رابرٹ فسک کو‘ جو عربوں کا ہمدرد شمار ہوتا ہے‘ حالات کا بہتر علم ہونا چاہیے تھا۔ایسا نہیں ہے کہ مظاہرے نہیں ہوئے‘ لیکن اگر وہ اس پیمانے پر نہیں ہوئے جس پر مغربی ممالک میں ہوئے تو اس کی وجوہات صاف اور ظاہر ہیں۔

۱۵ فروری ۲۰۰۳ء کو قاہرہ میں دو مظاہرے ہوئے ۔ بڑا مظاہرہ جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی سیدہ زینب چوک میں دوپہر کے وقت ہوا۔ عراقی اور فلسطینی جھنڈوں کے ساتھ امریکہ مخالف پلے کارڈ بھی تھے اور نعرے بھی لگائے گئے جن میں کوئی کوئی حسنی مبارک کے خلاف بالواسطہ بھی ہوتا تھا۔ مظاہرے کو کئی ہزار نفری پر مشتمل پولیس کے مسلح دستوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ چوک کے قریب کی سڑکوں پر فوجی دستے درجنوں گاڑیوں میں موجود تھے۔ ان سب کے درمیان مظاہرہ مشکل ہی سے دیکھا جا سکتا تھا۔ گزرنے والے بجائے شریک ہونے کے یہ حالات دیکھ کر دُور ہی دُور سے گزرنے میں خیریت سمجھتے تھے۔ دوسرا نسبتاً چھوٹا مظاہرہ امریکی سفارت خانے کے سامنے معطل لیبرپارٹی نے کیا جسے معتدل اسلامی آواز کہا جاتا ہے۔ اس میں پہلے سے بھی زیادہ پولیس اور فوج موجود تھی جس نے علاقے کو کئی گھنٹوں تک محاصرے میں لیے رکھا۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ویلچ نے کچھ دیر کے لیے باہرآکر مظاہرہ دیکھا۔

کم شرکت کی وجہ صرف یہی نہیں تھی کہ موقع پر اتنی پولیس اور فوج تھی۔ مغربی ممالک کی حکومتیں مخالفانہ مظاہروں کا دبائو برداشت کر سکتی ہیں لیکن مصر جیسے ملک میں ۱۹۸۱ء میں انورالسادات کے قتل کے بعد سے ہنگامی قانون نافذ ہے اور سڑکوں پر کسی بھی طرح کے مظاہروں پر پابندی ہے۔ ہنگامی قانون کے تحت کسی کو بھی کوئی وجہ بتائے بغیرگرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھی اسلامی تحریکوں سے وابستہ ۳۰ ہزار افراد جیلوں میں بند ہیں۔ بہت سے کئی برس گزار چکے ہیں۔

گذشتہ دو ماہ میں عراق سے یک جہتی ‘ اور جنگ کے خلاف سرگرمیوں کی بنا پر ۱۵ افراد جن میں کئی صحافی ہیں گرفتار کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار نمایاں افراد جن کی گرفتاری مسئلہ بن سکتی تھی‘ رہا کر دیے گئے ہیں۔ ۱۷ فروری کو پریس سنڈیکیٹ کی فریڈم کمیٹی نے گرفتارشدگان کی حمایت میں ایک پریس کانفرنس کی۔ اس میں اخبار العالم الیوم کے صحافی ابراہیم السحر نے بھی خطاب کیا جو چند گھنٹے قبل ہی رہا کیے گئے تھے۔

ابراہیم السحرنے پریس کانفرنس میں اپنے اوپر گزری ہوئی پوری تفصیل بتائی۔ صبح سویرے گھرسے گرفتاری‘ گھر کی مکمل تلاشی‘ سیکورٹی ہیڈکوارٹر جانا اور پھر جیل مازارات لے جایا جانا---- بغیر کسی قانونی امداد کے موقع یا اہل و عیال سے ملاقات کے--- انھوں نے خاص طور پر ان غیرانسانی حالات کا ذکر کیا جن سے جیل میں اسلام پسند گزر رہے ہیں۔ ہفت روزہ الاہرام (۲۰-۲۶ فروری ۲۰۰۳ئ) کے مطابق انھوں نے کہا:’’میرے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ توکچھ بھی نہیں ۔ مجھے مارا پیٹا گیا‘ گالیاں دی گئیں‘ تذلیل کی گئی۔ یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا جو اسلام پسندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں گرفتار ہونے والوں کو سلام کرتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ عراق کے خلاف جنگ اور امریکی سامراج کے خلاف کھڑے ہوگئے‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ۳۰ ہزار اسلام پسندوں کو سلام کرتا ہوں۔ جنھوں نے مجھے گرفتار کیا‘ میرے ساتھ اچھائی کی   اس لیے کہ اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ اسلام پسند قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ  ہولناک تفصیلات پہلے معلوم نہ تھیں‘‘۔

عالمی مظاہروں کی خبریں آنے کے بعد سے قاہرہ اور دوسرے شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ قاہرہ میں الازہر یونی ورسٹی‘ اسمعیلیہ میںسویز کنال یونی ورسٹی اور بنی سعد (بالائی مصر) میں قاہرہ یونی ورسٹی کی شاخ میں ہزاروں طلبہ نے ۱۸ فروری کو مظاہرہ کیا لیکن انھیں سڑکوں پر نہیں آنے دیا گیا۔ قاہرہ یونی ورسٹی کے کیمپس میں ۲۲ فروری کو ایک بڑا مظاہرہ ہوا۔

اس طرح کے جبرواستبداد کے حالات میں‘ اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عرب ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیوں نہیں ہو رہے۔ مغرب کی حکومتیں مستحکم ہیں‘ جب کہ عرب حکمران اپنے کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ مغرب اس پر خوش ہے کہ یہ حکومتیں مظاہروں پر پابندیاں رکھیں‘ اس خوف سے کہ کہیں یہ حکومت مخالف مظاہروں میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ (ماخوذ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ کینیڈا‘ ۱-۱۵ مارچ ۲۰۰۳ئ)

کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ایک بڑے سائن بورڈ پر جلی حروف میں لکھا ہے: ’’پاکستان: سرمایہ کاروں کی جنت‘‘۔ اس میں بڑی حد تک حقیقت بھی ہے لیکن اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس جنت کو جہنم بنا دیا گیا ہے۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد امریکہ سے اربوں ڈالر نکالے گئے۔ وہاں مسلم سرمایہ کاروں کا ناطقہ بند کیا گیا تو اکثرافراد متبادل مواقع کی تلاش میں امریکہ چھوڑگئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے حقیقی جنت بنایا جا سکتا تھا۔ عرب سرمایہ کاروں کو خصوصی ترغیب دلائی جاتی‘ انھیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پاکستان لا کر سہولتیں فراہم کی جاتیں تو پاکستان کی تعمیروترقی میں ان کا کردار یقینی تھا‘ لیکن عملاً کیا ہوا؟

افغانستان پر حملے کے دوران غیرملکی پاکستان آتے ویسے ہی گھبراتے تھے کہ جنگ زدہ علاقے میں پائوں بھی رکھا تو شاید موت کی وادی سے واسطہ پیش آئے گا۔ لیکن پھر ایف بی آئی کے دھڑا دھڑ چھاپوں اور خود حکومت ِ پاکستان کی طرف سے امریکی انتظامیہ کا دل جیتنے کی خام خیالی نے پاکستان کے تمام عرب دوستوں کو اس سے دُور کر دیا۔اب عالم یہ ہے کہ کسی عرب شہری کے سامنے نام لیں کہ آپ پاکستان آئیں تو وہ فوراً جواب دیتا ہے ’’کیا میں نے القاعدہ کی فہرست میں نام لکھوانا ہے؟‘‘ کئی عرب باشندے ایسے بھی ملے ہیں کہ کبھی تعلیم یا تجارت کے لیے آئے توپاسپورٹ پر پاکستانی ویزا لگ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ویزے یا پاکستان میں داخلے کی مہر کی وجہ سے ہمیں اپنے ملک میں اور مغربی ممالک میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں ہم اگر صرف ایئرپورٹ پر بورڈ لگا کر پاکستان کو سرمایہ کاری کی جنت ثابت کرنا چاہیں یا لاہور ٹرمینل کا افتتاح کرتے ہوئے صدرمملکت سرمایہ کاری کی دعوت دیں تو نتائج کا صفر ہونا یقینی ہے۔اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور دنیا بھر میں اپنے دوستوں کا اعتماد بحال کیا جائے‘ انھیں تحفظ دیا جائے اور سرمایہ کاری کے لیے مواقع کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔

عالم یہ ہے کہ نہ صرف عرب باشندوں پر آئے دن دھاوا بولا جاتا ہے بلکہ خود پاکستانی عوام کو ان سے نتھی کیا جا رہا ہے۔ اور اب افراد ہی نہیں اس ضمن میں جماعتوں کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ گذشتہ ماہ خالد الشیخ کی گرفتاری کے بعد اہم حکومتی کارپردازان انھیں جماعت اسلامی پاکستان سے نتھی کرتے رہے حالانکہ حکومت ہی نہیں امریکہ بھی جانتا ہے کہ جماعت کا طریق کار اور راستہ کیا ہے۔ کسی حکومتی نمایندے نے اس موقع پر یہ نہیں سوچا کہ اس تہمت کے نتائج کیا کیا ہو سکتے ہیں۔ جماعت تو الحمدللہ ہمیشہ اس طرح کے تہمتی طوفانوں سے سرخرو ہو کر نکلی ہے لیکن کیا یہ الزام لگاکر حکومت نے ان بھارتی اور صہیونی ایجنسیوں کی اس مہم کو تقویت نہیں دی جو عالمی ذرائع ابلاغ میں مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں کہ ’’پاکستان کے تمام اسلام پسند عناصر دہشت گردی کو ترویج دیتے ہیں‘‘۔کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اگر ہم ہندو صہیونی لابی کی اس مہم کو مضبوط کرنے میں ارادی یا غیر ارادی طور پر شریک ہوگئے تو ان کے پروپیگنڈے کے اس عنصر کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ’’پاکستان کی روگ آرمی دہشت گردی کی پشت پناہی کرتی ہے‘‘۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈا صرف کارگل کے معرکے کے حوالے سے ہی نہیں اب بھی کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے جماعت اسلامی یا اسلام پسندوں کے خلاف کی جانے والی یہ مہم صرف پاکستان ہی تک محدود نہیں ہے۔ مسلم دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اسی نہج پر دینی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یمن کے معروف عالم دین اور قرآن و سائنس کے عنوان سے خصوصی شغف رکھنے والے تحریکی رہنما کے متعلق گذشتہ دنوں لاس اینجلس ٹائمز میں الزام لگایا گیا کہ یمنی ساحلوں پر تباہ ہونے والے امریکی بحری جہاز ’’کول‘‘ پر حملہ ان کی شہ پر کیا گیا۔ کئی خلیجی ریاستوں میں اس طرح کی فضا بنائی گئی کہ یہاں القاعدہ سے متعلق افراد کا بڑی تعداد میں سراغ ملا ہے اور مارچ کے دوسرے نصف میں ان کے خلاف بڑی کارروائی کی جائے گی۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ فضا عراق پر امریکی جارحیت پر ممکنہ ردعمل کو روکنے کے لیے پیدا کی گئی۔

عالمی پروپیگنڈے اور ہندو صہیونی الزامات کو تو پہلے بھی کسی نے پرکاہ کی حیثیت نہیں دی‘ لیکن اگر باڑھ بھی کھیت کو کھانے لگے‘ ’’پاکستان: سرمایہ کاروں کی جنت‘‘ کے امین خود اسے جہنم ثابت کرنے پر کمر کس لیں‘ تو خاکم بدہن ‘پھر دشمن سکھ کی نیند سو جائیں ہم خود ہی اپنی دشمنی کے لیے کافی ہیں۔

سامراجی قوتوں نے ہمیشہ اور دنیا کے ہر حصے میں تعلیم کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ‘اس لیے کہ جسم پر قبضہ تو فوج اور مالی قوت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر دل و دماغ اور فکروخیال کو صرف تعلیم ہی کے ذریعے پابند سلاسل کرنا ممکن ہے۔ استعمار کے جدید دور میں تعلیم کی اس قوت کو سیکولر تہذیب کے علم برداروں نے بھی استعمال کیا ہے اور مغربی تہذیب نے اپنے تمام سیکولر دعاوی کے علی الرغم اسے مذہب اور مشن کی چھتری تلے استعمال کیا ہے۔ عیسائی مشنری تحریک اور ان کے تعلیمی اداروں کا یہ کردار اب تاریخی حقائق اور ناقابل انکار شواہد سے ثابت ہے۔ خود مغربی جامعات میں دسیوں تحقیقی مقالے اس موضوع پر لکھے جا چکے ہیںاور مذہبی اور فکری تحریکوں کی اعلیٰ قیادت بھی اس کے اعتراف پر مجبور ہوئی ہے۔ ۱۹۷۶ء میں سوئٹزرلینڈ میں شمباسی (Chambasy) کے مقام پر جو کرسچن مسلم مشاورت ہوئی تھی اور جس کے داعی ورلڈ کانگریس آف چرچز جنیوا اور اسلامک فائونڈیشن لسٹر تھے اور خود راقم کو اس کا شریک صدر نشین ہونے کا شرف حاصل ہے‘ اس کے اعلامیے میں اس حقیقت کا اعتراف چوٹی کی عیسائی مشنری قیادت نے ان الفاظ میں کیا تھا:

مسیحی شرکا اپنے مسلمان بھائیوں سے ان زیادتیوں پر ہمدردی کا اعلان کرتے ہیں جو مسلم دنیا کے ساتھ نوآبادکاروں اور ان کے شرکاے جرم کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔ کانفرنس آگاہ ہے کہ مسلم عیسائی تعلقات بے اعتمادی‘ شبہات اور خوف سے متاثر ہوئے ہیں۔ اپنی مشترکہ بھلائی کے لیے تعاون کرنے کے بجائے مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے سے اجنبی اور علیحدہ رہے ہیں۔ استعمار کی ایک صدی کے بعد جس کے دوران بہت سی مشنریوں نے جانتے بوجھتے یا لاعلمی میں نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات کی خدمت کی‘ مسلمان عیسائیوں سے تعاون میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں جن سے وہ اپنے اُوپر ظلم کرنے والوں کے آلۂ کار کے طور پر لڑے۔ گو کہ ان تعلقات میں نیا ورق اُلٹنے کا وقت یقینا آگیا ہے‘ مسلمان اب بھی قدم اٹھاتے ہوئے رکتے ہیں کیونکہ مسیحی اداروں کے بارے میں ان کے خدشات موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بہت سی مسیحی مشنری خدمات کو آج بھی ناپسندیدہ محرکات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی جہالت ‘ تعلیم‘ صحت‘ ثقافتی اور معاشرتی خدمات کی ضرورت‘ مسلمانوں کے سیاسی بحران اور دبائو‘ ان کی معاشی محتاجی‘ سیاسی تقسیم‘ عمومی کمزوری اور زدپذیری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقدس تبلیغ کے علاوہ دوسرے مقاصد کی خاطرمشنری خدمات انجام دی ہیں‘ یعنی مذہب کی کشش کے علاوہ دوسری وجوہات سے عیسائی آبادی میں اضافہ کرنا۔ ان میں سے بعض خدمات کے بارے میں حال ہی میں معلوم ہونے والی اس بات نے کہ ان کے رابطے بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں سے ہیں‘ پہلے سے موجود خراب صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ کانفرنس ان خدمات کے اس طرح کے غلط استعمال کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔ (کانفرنس کی روداد‘ جلد Lxv ‘ اکتوبر ۱۹۷۶ئ)

ہم نے اس حقیقت کا اعادہ اس لیے ضروری سمجھا کہ سامراج اپنے نئے دور میں‘ جس میں اب امریکہ ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے‘ ایک بار پھر مشنری تعلیمی اداروں اور این جی اوز کی چھتری تلے مغرب کی تہذیبی یلغار کو مؤثر بنانے کے لیے پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک میں بالخصوص اور افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں بالعموم ایک نئے جارحانہ اقدام کا آغاز کرچکا ہے۔ اس سلسلے میں ایک محاذ این جی اوز نے سنبھالا ہے تو دوسری طرف عیسائی مشنری ادارے تعلیم کے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر میدان میں آگئے ہیں۔ ایف سی کالج لاہور اور اس کے متعلقہ اداروں کو امریکہ کے پریسبی ٹیرین چرچ کے حوالے کیا جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس ناپاک مہم میں عیسائی مشنری اداروں کے پڑھے ہوئے سول اور فوجی افسران ایک نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایف سی کالج ایک مثالی معاملہ (test case) ہے۔ حکومت نے امریکی اثرات‘ اور ملک کے ذہنی غلامی کے شکار اور مفادات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے افراد کی چالوں کا شکار ہو کر اس اہم تعلیمی ادارے کو چرچ کو واپس کر دیا ہے جس نے اس کے لیے امریکہ سے نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔  اس ادارے کو نج کاری کے نام پر مشنری طاقتوں کو سونپا جا رہا ہے جو صاف اعلان کر رہے ہیں کہ جلد اس ادارے کی مکمل نج کاری ہوجائے گی اور اسے قومی تعلیمی دھارے سے نکال کر مارکیٹ کے نام پر فیسوں کے نئے نظام کے ذریعے اشرافیہ اور دولت مند طبقوں کی اولاد کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ایف سی کالج ہی وہ ادارہ ہے جس کے ایک سابق پرنسپل سے انگریزی حکومت کے دور میں جب اس ادارے کے مشنری سربراہ اورمالیات فراہم کرنے والے نے سوال کیا کہ ہم نے اس ادارے پر اتنا سرمایہ اور اتنا وقت صرف کیا ہے‘ بتائو تم نے کتنے طلبہ کو عیسائی بنایا تو اس پرنسپل کا جواب (جو آج تاریخ کا حصہ اور ملّت اسلامیہ پاکستان کے لیے ایک تازیانہ ہے) یہ تھا: ’’مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ کتنے طلبہ کو ہم نے عیسائی بنایا؟ یہ پوچھو کہ کتنوں کو اسلام پر قائم نہیں رہنے دیا۔ ہم نے ایک ایسی نسل تیار کی ہے جو اب اسلام سے وفادار نہیں رہی اور یہی ہماری محنتوں کا حاصل اور ہماری اصل کامیابی ہے‘‘۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سے غلط کام کیے لیکن جن چند اچھے کاموں کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے ان میں دستور ۱۹۷۳ء کو ایک متفقہ دستاویز بنانے اور نیوکلیر استعداد کے لیے ڈٹ جانے کے ساتھ عیسائی مشنری تعلیمی اداروں کو قومی دھارے میں لانا اور استعماری چھتری کو اکھاڑ پھینکنا تھا۔ ایف سی کالج کو بھی دوسرے مشنری تعلیمی اداروں کی طرح قومی تحویل میں لیا گیا اور اس طرح یہ سامراجی چوکیاں ختم ہو گئیں۔ افسوس کہ پچھلے دو فوجی حکمرانوںکے ادوار میں بیرونی اثرات کے تحت ان اداروں کو بار بار سابق مشنری قوتوں کی تحویل میں دینے کی کوشش ہوئی اور بالآخر اب ایف سی کالج کو پریسبی ٹیرین چرچ کے حوالے کرنے سے اس خطرناک کھیل کو عمل کا جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

ایف سی کالج کے اساتذہ اور طلبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ اس تہذیبی حملے اور مفاد پرست طبقے کے جاں گسل وار کے خلاف سینہ سپرہوگئے ہیں اور پولیس کی لاٹھیاں کھا کر بھی اس خطرناک کھیل کو روکنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن محض ان کو ہدیہ تبریک پیش کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ ان کا ساتھ دینا اور اسے ایک قومی قرارداد کی شکل دینا وقت کی ضرورت ہے۔ ہم ملک کی تمام دینی اور محب وطن قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ گربہ کشتن روزاول کے اصول پر اس رجعت قہقہری کو رکوانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ پنجاب کے گورنر اور وزیراعلیٰ کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ خود اس پر ناخوش ہیں مگر ’’اُوپروالوں‘‘ کے اشاروں پر یہ کچھ ہونے دے رہے ہیں اور خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو وہ بھی برابر کے مجرم ہیں۔ یہ وقت ہے کہ سب اس خطرناک کھیل کا پردہ چاک کرنے اور اس کے آگے سدسکندری بننے کی تحریک میں سرگرم ہوں اور ایف سی کالج کے اساتذہ اور طلبہ کو تنہا نہ چھوڑیں۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور ایک بڑی سازش کا حصہ۔ یہی موقع ہے کہ اس کو ناکام بنا دیا جائے اورایف سی کالج اور ایسے تمام اداروں کو قومی تعلیمی دھارے کا حصہ رکھا جائے اور ان کے تعلیمی معیار اور تعلیمی سہولتوں کو قومی تعلیمی پالیسی کے فریم ورک میں ترقی دینے کی کوشش کی جائے۔ وزیراعظم صاحب ایک طرف تو نظریہ پاکستان اور حب الوطنی پر مبنی مشترک تعلیمی نصاب کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ۳۰ سال سے قومی دھارے کا حصہ ہونے والے تعلیمی اداروں کو محض باہر والوں یا اُوپر والوں کے اشاروں پر عالمی سامراجی اور تہذیبی فوج کشی کا نشانہ بننے کا بے بسی سے نظارہ کر رہے ہیں۔ اسے برداشت کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہوگا     ؎ 

اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے ‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین کام ایسے ہیں کہ ہم ان پر عمل سے بے بس نہ ہو جائیں: امربالمعروف ‘ نہی عن المنکر اور اسلام کے طور طریقوں کی تعلیم۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۵‘ ص ۲۱۶)

اس وقت دنیا مسلمانوں کی بے بسی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ کوئی ہے جو مسلمانوں اور انسانوں کی خوں ریزی کرنے والوں کو معروف کا حکم کرے اور منکر سے روک سکے۔ اُمت مسلمہ کے حکمران تو ظلم کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔ اس بے بسی کے عالم میں الحمدللہ ایسے نفوس اور تنظیمیں موجود ہیں جو نبیؐ کے ارشاد کی تعمیل کر رہی ہیں کہ یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو دنیا کو عدل کی راہ پر قائم رکھ سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں نبیؐ کے اس ارشاد کی اہمیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ کرنے کا کام یہی ہے۔ اس کی طرف سارے مسلمانوں کو پکارا جائے اور اسی کے لیے شب و روز انھیں تیار کیا جائے۔

o

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے     بنی کنانہ کی مہم پر بھیجا۔ رجب کا مہینہ تھا۔ ہم سوافراد تھے‘ بنی کنانہ کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان کے پڑوس میں جہینہ کے لوگ تھے۔ انھوں نے ہمیں پناہ دی۔ پھر ہمارا آپس میں اختلاف ہو گیا۔ کچھ نے کہا کہ قریش کے تجارتی قافلے پر حملہ کیا جائے‘ میں بھی ان میں شامل تھا۔ کچھ نے کہا کہ ہم نبیؐ کے پاس واپس جاتے ہیں اور آپؐ کو صورت حال کی خبر دے کر آپؐ سے ہدایت لیتے ہیں۔ کچھ لوگ کہنے لگے کہ ہم یہیں پر انتظار کرتے ہیں۔ اس طرح ہم تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک گروہ نبیؐ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے آپؐ سے صورت حال کا ذکر کیا۔ آپؐ نے ان سے تفرقے کی تفصیل سنی تو غصے سے آپؐ کا چہرئہ مبارک سرخ ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا تم میرے پاس سے گئے تھے تو مجتمع تھے اور اب واپس آئے ہو تو گروہوں میں بٹ گئے ہو (ہر ایک نے اپنی الگ راہ اپنا لی ہے)۔ تم سے پہلے لوگوں کو گروہ بندی نے ہلاک کیا۔ میں تم پر ایک ایسے شخص کو امیر بناتا ہوں جو تم سے بہتر تو نہیں ہے لیکن بھوک اور پیاس برداشت کرنے میں تم سے آگے ہے۔ پھر ہمارا امیر عبداللہ بن جحش اسدیؓ کو مقرر کیا۔ یہ وہ شخص تھے جنھیں دورِ اسلام میں پہلا امیر بنایا گیا۔ (کنزالعمال‘ احمد ابن ابی شیبہ)

تفرقوں کے نقصانات اور اتحاد کی برکتیں ساری دنیا نے دیکھ لیں۔ آج بھی اتحاد کی برکت سامنے آگئی ہے۔ تفرقے کی خبر سن کر نبی کریمؐ کا غصے میں آجانا تفرقہ کی ہولناکی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ نبیؐ کا ایک ارشاد ہے:  الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب (مسنداحمد‘ ج ۴‘   ص ۲۷۸‘ کنزالعمال‘ ج ۷‘ ص ۵۵۸)‘ اجتماعیت رحمت ہے اور تفرقہ عذاب۔

o

حضرت انس بن مالک انصاریؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ: ہم غار میں تھے۔ میں نے مشرکین کے قدموں کو دیکھا۔ وہ ہمارے سروں پر آپہنچے تھے۔ تب میں نے رسولؐ اللہ سے عرض کیا: یارسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی اپنے پائوں پر نظر ڈالے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ابوبکر! آپ کو ان دو کے بارے میں کیا خطرہ ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔ (بخاری‘ مسلم‘ ترمذی)

اللہ تعالیٰ جو چاہیں وہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ ساری دنیا اپنا سارا زوراورتمام وسائل لگا دے تب بھی اللہ کے فیصلے اور اس کے نفاذ کو نہیں روک سکتی۔ کفر اور ظلم نے بارہا ایمان والوں کا گھیرائو کیا۔ ایمان والے اسباب سے تہی دست تھے لیکن (دوسری طرف) اللہ کی ذات ان کی حامی و ناصر تھی۔ اس نے اپنی طاقت سے کفروظلم کے گھیرے کو توڑ دیا اور وہ ایمان والوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ پس اسی کی طرف رجوع‘ اسی پر توکل کامیابی کی راہ ہے۔

o

حضرت عمرؓ بن الخطاب سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بیٹے کے جرم میں اس کے والد کو نہیں قتل کیا جائے گا۔ (ابن ماجہ)

جرم کی سزا مجرم کو دی جائے‘ یہی عدل کا تقاضا ہے۔ اسلام سے پہلے دنیا عدل سے محروم تھی۔ جرم کی سزا مجرم کے خاندان اور اس کے حلیفوں تک کو ملتی تھی۔ ایک آدمی کے بدلے ہزاروں انسان قتل ہوجاتے تھے۔ آج دنیا نورِ اسلام سے محروم ہے تو پھر وہی اندھیر نگری ہے۔ ایک یا چند انسانوں کی مخالفت کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے کہ نبیؐ اور خلفاے راشدین نے اسلام کے عادلانہ اصول کو اپنایا۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ کو ایک مجوسی نے شہید کیا اور اس نے خودکشی کرلی۔ لیکن خود حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا کہ مدینہ کے مجوسیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ مدینہ میں کسی مجوسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی۔

o

حضرت ابوہریرہؓ  ’’ابین‘‘ جو ان کی برادری کا گائوں تھا‘ تشریف لے گئے۔ ان کے ہاں تنور کے پہلے تائو کی پکی ہوئی روٹیاں لائی گئیں (اس میں تائو اعتدال پر ہوتا ہے اور اس کی روٹی نرم ہوتی ہے)‘ تو حضرت ابوہریرہؓ رو پڑے اور کہا کہ رسولؐ اللہ نے یہ روٹی دیکھی بھی نہ تھی۔ (ابن ماجہ)

اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا احساس آدمی کو خوشی کے آنسو رُلاتا ہے۔ یہ احساس بیدار ہو تو انسان اپنے ماضی کو بھی یاد رکھتا ہے۔ عسرت کی گھڑیاں بھی سامنے آجاتی ہیں۔ آسانیوں کے زمانے کی قدروقیمت یاد آجاتی ہے۔ صحابۂ کرامؓ کی یہی شان تھی‘ وہ اپنی عسرت کی گھڑیوں کو یاد رکھتے تھے اور اس سے زیادہ نبیؐ کی تکالیف کو یاد کرتے تھے۔ وہ آپؐ کی تکالیف کو یاد کر کے رو پڑتے تھے۔ نعمتوں کی فراوانی ان میں تکبر کے بجائے تواضع پیدا کرتی تھی۔ رونا اسی کی علامت ہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر سے نکلتے تھے تو دعا کرتے تھے:

اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں بھٹک جائوں یا پھسل جائوں یا ظلم کروں یا ظلم کا نشانہ بنوں یا لڑائی جھگڑا کروں یا مجھ سے لڑائی جھگڑا کیا جائے۔ (ابن ماجہ)

انسان کو کس قسم کی فکرمندی لاحق ہونی چاہیے اس دعا سے اس کی رہنمائی ملتی ہے۔ گمراہی‘ ظلم‘ لڑائی جھگڑے ہی تو وہ برائیاں ہیں جن کی تباہی سے پوری دنیا دوچار ہے۔ انسان کو جہاں یہ فکر کرنی چاہیے کہ اسے امن ملے‘ اس کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا نہ کرے اور کوئی اسے ظلم کا نشانہ نہ بنائے‘ وہیں اسے یہ بھی احساس کرنا چاہیے کہ وہ کسی کے امن و امان کو تباہ نہ کرے‘ کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرے اور کسی کو ظلم کا نشانہ نہ بنائے۔ اپنی فکر تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن مومن دوسروں کی فکر بھی کرتا ہے۔ اپنے ساتھ معاشرے کو بھی امن و سکون دینا اس کی سیرت اور اس کا دین ہے۔

o

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک سائل آیا۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس سے پوچھا کہ تم کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی گواہی دیتے ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں! پھر پوچھا: رمضان کا روزہ رکھتے ہو؟ (شاید رمضان کا سوال اس لیے کیا کہ مہینہ رمضان کا ہو)۔ اس نے جواب ہاںمیں دیا۔ اس کے بعد کہا کہ تم نے سوال کیا ہے اور سائل کا حق ہوتا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔ ہم پر تمھارا حق ہے کہ ہم صلۂ رحمی کریں۔ اس کے بعد اسے کپڑا دیا اور پھر کہا: میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جو مسلمان کسی مسلمان کو کپڑے پہناتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے جب تک اس کے جسم پر کپڑے کا کوئی ٹکڑا موجود ہو‘‘ ۔ (ترمذی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا جواثر حضرت ابن عباسؓ نے لیا‘ اگر وہی اثر ہر صاحب ثروت اور اہل خیر پر ہو تو معاشرے میں شاید ہی کوئی شخص بھوکا اور ننگا رہ جائے ۔ایسی صورت حال میں فقرا اور مساکین‘ مال داروں کے ساتھ حسد اور بغض کے بجائے ان سے محبت کریں گے۔ ان کے مال اور عزت کے لیے خطرہ بننے کی بجائے ان کی حفاظت کرنے لگیں گے۔ ایک ہم آہنگ معاشرہ تشکیل پائے گا۔

انسانی زندگی ایک کل ہے جس کے مختلف اجزا ہیں‘ ایک وحدت ہے جس کے مختلف پہلو ہیں: مادی اور روحانی‘ انفرادی اور اجتماعی‘ اخلاقی اور معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی۔ اسلام کی نظر میں زندگی کے یہ سارے پہلو توجہ کے طالب ہیں اور عنایت کے مستحق ہیں۔ اپنی اپنی جگہ پر ہر خیر کی ترقی بذاتہ مقصودہے‘ اور پوری زندگی کی تکمیل بحیثیت کل مطلوب ہے۔ اسلام نہ تنہا مادی ترقی چاہتا ہے‘ نہ تنہا روحانی طاقت‘ نہ صرف نفس کا تزکیہ اسے مطلوب ہے اور نہ صرف معاشرے کی تعمیر‘ نہ محض عبادات میں انہماک اس کے پیش نظر ہے‘ نہ محض اخلاق کی تحسین‘ نہ تنہا معاشی فلاح و بہبود عزیز ہے اور نہ صرف سیاسی عدل و انصاف۔ اسلام تمام شعبہ ہاے زندگی کی تکمیل اور یوں زندگی کی بحیثیت کل ترقی چاہتا ہے۔

ہماری تاریخ میں کبھی فلسفہ‘ کبھی تصوف‘ کبھی ذاتی میلان اور کبھی بعض روایات کے زیراثر صرف علم و عرفان کو غایت زندگی قرار دیا گیا ہے‘ کبھی ذات الٰہی میں فنا اور استغراق کو مقصود بتایا گیا ہے اور کبھی ذکروعبادت کو حاصل دین کہا گیا ہے۔ یہ سارے تصورات ناقص اور یک طرفہ ہیں۔

اسلام کو پوری زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل مطلوب ہے۔ اس حقیقت کا اظہار شریعت اسلامی کے تمام ممتاز شارحین اور حکما نے کیا ہے جن میں حجۃ الاسلام امام غزالی  ؒ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، فقیہ اندلس ابواسحاق شاطبیؒ، عزالدینؒ ابن عبدالسلام اور شاہ ولی ؒ اللہ شامل ہیں۔ میں یہاں صرف علامہ شاطبیؒ کا قول نقل کروں گا۔ فرمایا:

الاحکام الشرعیہ انما شرعت لجلب المصالح او درء المفاسد ‘ وھی مسبباتھا قطعاً (الموافقات فی اصول الشریعۃ‘ ابواسحاق الشاطبی ‘تصحیح شیخ عبداللہ دراز‘ المکہ التجارید‘ مصر‘بدون‘ سنہ ‘ ج ۱‘ ص ۱۹۵) شریعت کے احکام مصالح کے حصول اور مفاسد کے ازالے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ یقینا یہی چیزیں ان کی تشریع کا سبب ہیں۔

مصالح اور مفاسد کی تشریح کرتے ہوئے علامہ نے لکھا:

اعنی بالمصالح ما یرجع الی قیام حیوۃ الانسان وتمام عیشہ ونیلہ ما تقتضیہ اوصافہ الشھوانیہ والعقلیۃ علی الاطلاق حتی یکون منعما علی الاطلاق (ایضاً‘ ج ۲‘ ص ۲۵) مصالح سے میری مراد وہ ساری چیزیںہیں جن سے انسانی زندگی کا قیام اور اس کی تکمیل عبارت ہے‘ جن سے انسان کے تمام جسمانی اور عقلی مقاصد پورے ہوتے ہیں اور انسان ہر اعتبار سے خوش اور کامیاب ہوتا ہے۔

زندگی کی ہمہ جہت تکمیل کے مقصد کے پیش نظر شریعت نے زندگی کے تمام شعبوں میں ہمارے لیے اہداف مقرر کیے ہیں۔ ان میں سے بعض اہداف کی تحصیل لازمی اور ضروری قرار دی ہے‘ یہ فرض و واجب ہیں۔ اور بعض کو پسندیدہ کہا ہے اور ان کے حصول کی ترغیب دی ہے‘  یہ مستحب اور مندوب ہیں۔ پھر ان میں کون زیادہ اہم ہے‘ کون کم اہم اور کس کو کس پر ترجیح حاصل ہے‘ اس کی مختلف انداز سے وضاحت بھی شریعت نے کر دی ہے۔ اس کام کو نہ ہماری عقل پر چھوڑا ہے‘ نہ ہماری پسند اور میلان طبع پر‘ اور نہ کسی کے کشف و الہام ہی پر۔

شریعت کے مقرر کردہ لازمی اہداف کی تکمیل اور پسندیدہ و مستحب اہداف کی بیش از بیش تحصیل اور اس کاوش میں ان ترجیحات کا لحاظ جن کی نشان دہی شریعت نے کر دی ہے وہ عبادت جامعہ ہے جسے خالق نے ہماری تخلیق کی غایت قرار دیا ہے‘ فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ o (الذّٰریٰت  ۵۱: ۵۶) میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیداکیا کہ وہ میری عبادت کریں۔

اس عبادت جامعہ کا ایک اہم جز معروف عبادات ہیں۔ دوسرے تمام اجزا کی طرح عبادات بھی بذات خود مقصود ہیں۔ نماز ہو یا روزہ‘ ذکر ہو یا تلاوت‘ حج ہو یا قربانی‘ یہ ساری عبادتیں فی نفسہ مطلوب ہیں۔ بلاشبہہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی اصلاح و تعمیر میں ان کا اہم کردار ہے‘ لیکن یہ ان کی ثانوی حیثیت ہے۔ اولاً واصلاً یہ بذاتِ خود مقصود و مطلوب ہیں۔ یہی ان کی اصل حقیقت ہے۔ دوسرے مقاصد کے حصول میں ان کی افادیت ان کی اصل حقیقت نہیں ہے۔

قرآن و حدیث کی تصریحات کی روشنی میں نماز ایک طرف اللہ رب العزت کی حمدوثنا‘ تسبیح و تقدیس‘ تکبیروتعظیم ہے‘ دوسری طرف انسان کی اپنی بندگی کا اثبات‘ عجزونیازمندی کا اظہار‘ رکوع و سجود ہے‘ تیسری طرف رب کے کلام کی تلاوت‘ اس کے احکامات کا استحضار‘ اس کی اطاعت کا محور‘ اس سے رہنمائی اور مدد کی درخواست‘ اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کی دعا ہے۔

یہی نماز کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے فحش و منکرسے روکنا‘ اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا‘ اطاعت کا خوگر بنانا‘ اجتماعیت کا احساس بیدار کرنا وغیرہ‘یہ نماز کے فوائد ہیں۔ ان سب کی حیثیت ثانوی ہے۔ کسی چیز کی اصل حقیقت اور غایت اور اس کے ذیلی فوائد میں جو فرق ہوتا ہے وہی فرق یہاں بھی کرنا چاہیے۔ قرآن نے اس فرق کی نشان دہی اس طرح فرمائی ہے:

اِنَّ الصَّلٰوۃَ  تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط  وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُط (العنکبوت ۲۹: ۴۵) بے شک نماز فحش اور منکر سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔

روزے کا مقصد قرآن مجید میں تقویٰ بتایا گیا ہے۔ فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان لانے والو‘ تمھارے اوپر روزے ایسے ہی فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے۔ توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

تقویٰ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ناخوشی سے بچنے اور اس کے احکامات بجا لانے کا نام ہے۔ روزہ انسان کے لیے بھوکا‘ پیاسا اور جنسی عمل سے دُور رہنے کی مشق اور ضبطِ نفس کی غیرمعمولی تربیت ہے۔ مگر یہ مشق اور یہ تربیت بذاتِ خود مقصود نہیں‘ مقصود تقویٰ ہے۔ تقویٰ کی تفصیل قرآن مجید میں مختلف مقامات پر آئی ہے‘ جیسے البقرہ ۱ تا ۴ اور ۱۷۷‘ آل عمران ۱۳۳ تا ۱۳۵‘ اللیل ۱۷ تا ۲۱ وغیرہ۔ ان آیات کی روشنی میں تقویٰ اس عبادت جامعہ کی انجام دہی کا ایک اسٹیج ہے جس کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے۔ معروف عبادات میں سے نماز‘ تلاوت قرآن‘ اور ذکر روزے کے اول اجزا ہیں۔ روزے میں انھی کی کثرت ہوتی ہے ‘ اور انھی پر بیشتر قوت صرف ہوتی ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اللہ کی نافرمانی سے بچنا اور اس کے احکامات بجا لانا‘ خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک‘ ہمدردی اور مواساۃ‘ ان ساری چیزوں کا نمبر بعد میں آتا ہے‘ اگرچہ کہ یہ دونوں اجزا‘ ربانی اور انسانی روزے کی حقیقت میں شامل ہیں اور بذاتہ مطلوب ہیں۔

خدا کا ذکر نماز اور روزے میں محصور نہیں ہے۔ قرآن نے کھڑے‘ بیٹھے اور لیٹے ذکر کی تلقین کی ہے اور دو بار ذکرکثیر کی ترغیب دی ہے(الاحزاب ۳۳:۳۵‘ ۴۱)۔ اللہ کے رسولؐ نے بتایا ہے کہ صبح و شام‘ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے‘ گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے‘ مسجد میں قدم رکھتے اور باہر جاتے‘ لباس زیب تن کرتے وغیرہ وغیرہ مختلف اوقات اور مواقع پر اللہ تعالیٰ کو کیسے یاد کیا جائے‘ اور یہ بھی بتایا ہے کہ اس کی وحدانیت کا اثبات کیسے کیا جائے‘ اس کی تسبیح و تقدیس کس طرح کی جائے‘ تکبیر و تعظیم کے لیے کیا الفاظ ادا کیے جائیں۔ اس کی نعمتوں پر شکر‘ آزمایشوں پر صبر‘ اس کے عذاب سے پناہ‘ اس کی مدد کی طلب‘ اور اس سے معافی کی درخواست کس ڈھنگ سے کی جائے‘ ان ہی ساری چیزوں کا اہتمام وہ ’’ذکرکثیر‘‘ ہے جس کا حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔

عبادت اور تعمیر سیرت

عبادات بذاتِ خود مقصود اور مطلوب ہیں‘ اب تک کی گفتگو اس موضوع پر تھی۔ اب عبادات کے دوسرے پہلو‘ یعنی دین کے دوسرے مقاصد کے حصول میں ان سے کیا مدد ملتی ہے‘ اس پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

نماز اور خاص طور پر تہجد کی نمازاللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط بنانے میں بے حد موثر ہے۔ خدا کے ساتھ اخلاص‘ محبت‘ اعتماد اور بھروسے کی کیفیت پروان چڑھانے‘ نتائج اور انجام کو   اللہ کے حوالے کر کے دین کی اشاعت اور اس کی اقامت میں ہمہ تن لگ جانے کے لیے انسان کو تیار کرنے میں تہجد کی نماز کا کردار غیرمعمولی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو کارِ رسالت کی گراں قدر ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیاری کا جو پروگرام تجویز کیا اس میں    قیام لیل سرفہرست تھا۔ فرمایا:

اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلاً o  اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا o وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً o رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًاo (المزمل ۷۳:۶-۹) درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر ہے۔ اور قرآن ٹھیک ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ دن کے اوقات میں تمھارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔ اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔ وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے‘ اس کے سوا کوئی خدا نہیں‘ لہٰذا اسی کو اپنا سرپرست بنا لو۔

بنی اسرائیل نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو پورا کرنے‘ راست روی‘ اظہار حق‘ اقامت صلوٰۃ‘ ایتاء الزکوٰۃ‘ امر بالمعروف ونھی عن المنکرکی بھاری ذمہ داری ادا کرنے میں  رب سے مدد طلب کرنے کی صورت انھیں یہ بتائی گئی:

وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o (البقرہ ۲:۴۵) صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر عاجزی کرنے والے بندوںکے لیے نہیں۔

تحویل قبلہ کی اجازت نے صحابہؓ کی اسلامی جماعت کو ایک علیحدہ تشخص عطا کیا۔ اس نعمت کے ساتھ ایک دوسری بڑی نعمت کی بشارت بھی انھیں دی گئی۔ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمھارے دین کی تکمیل بھی فرما دے گا۔ اولاً نعمت کا شکر ادا کرنے اور دوسرے نعمت عالیہ کے لیے اپنے کو تیار کرنے کے لیے یہ ہدایت دی گئی:

فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط  اِنَّ  اللّٰہَ  مَعَ  الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲: ۱۵۲-۱۵۳) مجھے یاد کیا کرو‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا۔ میرے انعامات کا شکر ادا کرو‘ ناشکری مت کرو۔ اے ایمان لانے والو! نماز اور صبر سے مدد چاہو۔ بے شک اللہ صابرین کے ساتھ ہوتا ہے۔

عبادات کا اسلامی زندگی میں کیا مقام ہونا چاہیے‘ اس کا صحیح جواب نبی کریمؐ اور آپؐ کے اصحابؓ کی سیرت ہی میں ملتا ہے۔ جہاں تک حضورؐ کا تعلق ہے یہ معلوم ہے کہ آپؐ پنج گانہ نمازوں کے علاوہ تہجد کا پابندی سے اہتمام فرماتے۔ ابتدا میں رات کا بیشتر حصہ قیام میں گزرتا حتیٰ کہ پائوں سوج جاتے۔ بعد میں مصروفیات بڑھیں تو آٹھ اور دس رکعتیں پڑھنے لگے۔ طلوع آفتاب کے بعدضحی کی نماز اور مغرب کے کچھ دیر بعد چند رکعتیں پڑھتے۔ ضحی کی نماز کی تو قریبی اصحاب کو تاکید فرماتے۔

میں نماز کے بہت سے اسرار کا ذکر کر چکا ہوں۔ ایک اور کا ذکر یہاں کرنا ضروری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی ساری خطائیں‘ اگلی اور پچھلی معاف کر دی ہیں۔ آپؐ اس قدر طویل نمازیں کیوں پڑھتے ہیں؟ فرمایا: ’’کیا میں خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں‘‘ (صحیح مسلم‘ باب اکتار الاعمال والاجتہاد فی العبادۃ‘ حدیث ۲۸۲۰)

آپؐ پر اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی اور بے شمار نعمتیں کی تھیں آپؐ اس طرح ان کا شکر ادا کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے:

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَنَّکُمْ (ابرٰھیم ۱۴: ۷) اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھیں اور دوں گا۔

نمازوں کے علاوہ حضور صبح و شام ‘ مختلف حالات اور مختلف مواقع کے ذکر کا اہتمام فرماتے۔ خود کرتے اور دوسروں کو ترغیب دیتے۔ زندگی کا ہر لمحہ خدا کی اطاعت اوراس کے کلمے کے اعلاء میں صرف ہوتا‘ لیکن اس کے باوجود یہ احساس آپؐ کو ہمیشہ رہتا کہ مجھے جو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر سکا۔ چنانچہ دن میں سو سو بار استغفار فرماتے۔ آخری دنوں میں تو سجدہ کی حالت میں بھی تسبیحات کے ساتھ بار بار معافی مانگتے (کتاب التفسیر‘ حدیث ۴۹۶۸)۔ جب قرآن کی وہ آیات پڑھتے یا سنتے جن میں رسالت کی ذمہ داریوں کے بارے میں سوال کا ذکر ہے تو آنکھیں اشکبارہو جاتیں (الطبقات الکبریٰ‘ ابن سعد‘ دارالکتب العلمیہ‘ بیروت‘ ۱۹۹۲ئ‘    ص ۲۶۱-۲۶۲)۔ راہِ خدا کی تکلیفیں جب حد سے بڑھ جاتیں تو نماز کا سہارا لیتے۔ فرماتے: ’’نماز میں میرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے‘‘۔ (سنن النسائی‘ کتاب عشرۃ النسائ‘ حدیث ۳۹۴۹)

آپؐ کے اصحاب کا حال مختلف نہیں تھا‘ حضرت ابوبکرؓ کو لیجیے۔ آپ راتوں میں دیر تک قیام کرتے‘ جب قرآن کی تلاوت کرتے تو گریہ طاری ہو جاتا۔ آخرت کی جواب دہی کا احساس اس قدر شدید تھا کہ ہرا بھرا درخت دیکھتے تو کہتے کاش اس جیسا ہوتا کہ جواب دہی نہ کرنی پڑتی (خلفاے راشدین‘ معین الدین ندوی‘ دارالمصنفین‘ اعظم گڑھ‘ ۱۹۵۴ئ‘ ج ۱‘ ص ۸۸)۔

ایک روز رسولؐ اللہ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ آج تم میں سے روزہ سے کون ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: آج کس نے جنازے کی مشایعت کی؟ کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ کس نے مریض کی عیادت کی؟ ان سارے سوالوں کے جواب میں جو زبان گویا ہوئی وہ حضرت ابوبکرؓ  کی تھی۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایک دن میں اتنی نیکیاں جمع کی ہوں وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘ (مسلم‘ کتاب فضائل الصحابہ‘ باب فضائل ابی بکر‘ حدیث ۱۰۲۸)۔ خلیفہ ہونے کے بعد بھی یہ معمولات جاری رہے‘ اگرچہ مصروفیات کی وجہ سے ان میں کمی آگئی۔آپ کی سیرت کے اس انتہائی مختصر تذکرے میں بھی زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے جو اسلام کے پیش نظر ہے۔

شاہ ولی ؒ اللہ نے صحابہؓ کے بارے میں لکھا ہے:

عہدرسالتؐ اور عہدصحابہؓ اور کئی صدیوں بعد تک اہل کمال کی توجہ شریعت کے ظاہری اعمال کی بجاآوری پر تھی‘ دوسری چیزوں پر نہیں۔ ان کا احسان یہ تھا کہ نماز اور روزہ‘ ذکروتلاوت‘ اور حج ادا کریں‘ صدقہ دیں اور جہاد کریں۔ ان میں سے کسی نے بھی ایک لمحے کے لیے مراقبہ نہیں کیا۔ اذکار اور اعمال کے علاوہ کسی اور طریقے سے اللہ کو یاد نہیں کیا۔ ان کے محققین نماز و ذکر میں خدا سے مناجات کا لطف اٹھاتے‘ تلاوت کے دوران اپنا محاسبہ کرتے‘ غیراللہ سے تعلق ختم کرنے اور بخل سے نجات پانے کے لیے زکوٰۃ دیتے۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔

ان میں سے کسی نے چیخ نہیں ماری‘ نہ ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوئی‘ نہ کسی سے غیرمعمولی حرکات سرزد ہوئیں‘ اور نہ نظمات کا صدور ہوا۔ تجلی اور استقار جیسی کیفیات سے وہ بالکل ناآشنا تھے۔ صرف جنت کے طلب گار اور جہنم سے خائف تھے۔ کشف و کرامت‘ خوارق عادات‘ سکرو و غلبات ان کے یہاں پائے نہیں جاتے۔ اگر کوئی چیز ظاہر بھی ہوئی تو اتفاقیہ ہوئی۔ قصد و ارادے کی پیداوار نہیں تھی کہ ذاتی ملکہ سے صادر ہو۔ اگر ان میں سے کسی نے کہا: ’’طبیب ہی نے تو مجھے بیمار کر ڈالا ہے‘‘ تو وہ ایسا ہے جیسے کہ عام آدمی کو کسی چیز میں بصیرت حاصل ہو جائے۔ یہ تھے احوال اس طبقے کے ۔(ھمعات‘ شاہ ولی اللہ‘ تصحیح نورالحق علوی و غلام مصطفی قاسمی‘ شاہ ولی اللہ اکیڈمی‘ حیدر آباد‘ پاکستان‘ ۱۹۶۴ئ‘ ص ۱۶-۱۷)

صحابہؓ کے سلوک کی یہ تصویر مکمل ہو جائے گی اگر اس کے ساتھ اقامت دین کے لیے ان کی جدوجہد‘ اس راہ کی تکالیف اور آزمایشوں میں ان کی استقامت‘ رجوع الی اللہ اور انابت‘ بندگانِ خدا کی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی ان کی کوشش‘ معیشت اور سیاست کو شریعت کا پابند کرنے اور خلق خدا کی خوشی اور خوش حالی کے لیے یہ جامع سلوک صحابہؓ کے بعد بھی ایک دو صدی تک معمول تھا۔ بعد میں دھیرے دھیرے تبدیلیاں ہونے لگیں۔ کچھ چیزیں دوسری قوموں سے لی گئیں‘ اور کچھ تجربات خود کیے گئے۔ اس کے نتیجے میں ایک نئی روحانیت وجود میں آئی۔ نمازوں کی بے حد کثرت ہوئی‘ مسلسل روزے رکھے گئے۔ ذکر کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے‘ اور ان میں ایسا انہماک ہوا کہ دین کے دوسرے پہلو آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ شروع میں ان کی طرف توجہ نہیں ہوئی‘ بعد میں انھیں اعتنا کے قابل نہیں سمجھا گیا۔نماز‘ روزہ‘ ذکرو تلاوت ہی اصل دین اور سارا دین قرار پائے۔ دین کے دوسرے شعبے خاص طور پر جن کا تعلق دین کے اجتماعی نظام اور دنیا کی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے سے ہے وہ دین نہیں دنیا شمار ہونے لگے اور ان کے لیے جدوجہد دین داری نہیں دنیا پرستی قرار پائی۔

گذشتہ صدی میں اسلام کے احیا کی جو تحریکیں برعظیم پاک و ہند‘ ممالک عربیہ‘ اور اسلامی دنیا کے دوسرے حصوں میں اٹھی ہیں‘ انھوں نے دین کے اس محدود اور یک طرفہ تصور پر تنقید کی۔ دین کے اجتماعی پہلو کی اہمیت بتائی۔ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کو اسلامی خطوط پر کیسے استوار کیا جائے‘ اس کی وضاحت کی‘ اور دین کے اس حصے کے قیام کی کوشش کو اسلامی زندگی میں جو اہمیت حاصل ہے اسے اجاگر کیا اور اس طرح شریعت کے اصل مقاصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے اُمت کو منظم اور متحرک کیا۔ البتہ اس امر کا ادراک اور احتساب بھی ضروری ہے کہ احیاے دین اور اقامتِ شریعت کے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے فرد اور اجتماع دونوں کو تیار کرنے کے لیے جس درجے کے تزکیے‘ کردار سازی‘ تعلق باللہ اور فکرِآخرت کی ضرورت ہے اور اسلام کے احیا کی اس کوشش میں عبادات کو جو مقام ملنا چاہیے وہ کہاں تک حاصل کیا جاسکا؟ نماز‘ روزہ‘ ذکرو تلاوت‘ سب بذاتہ مقصود ہیں‘ یہ تصور صحیح معنی میں کہاں تک ہماری زندگیوں میں رچ بس سکا‘ اسلامی زندگی میں انھیں جو جگہ ملنی چاہیے وہ مطلوبہ حد تک ملی یا اس میں کچھ کمی رہ گئی؟---یہ سوال اٹھا کر اور تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اس پر غور کی دعوت دیتے ہوئے میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے توفیق عمل کی دعا کرتا ہوں۔

جملہ انبیاے کرام ؑ کی تمام تر جدوجہد کی غایت یہ تھی کہ بنی نوع انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بھی یہی تھا کہ روے زمین پر اَن اَقِیْمُوا الدِّیْنَ (الشورٰی ۴۲:۱۳) اور لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا (التوبۃ ۹:۳۳)‘ کا ایک مثالی اور عملی نمونہ پیش کیا جائے۔ چنانچہ آں حضوؐر کے برپا کردہ فکری اور ذہنی انقلاب کے ذریعے جاہلی معاشرے کی کایاپلٹ گئی۔ اسلام بساطِ عالم پر ایک غیرمعمولی قوت بن کر اُبھرا اور مشرق و مغرب کے باطل پرستوں کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔

مگر خلفاے راشدین کے بعد کثرتِ اموال اور تمدنی ترقی سے جاہلیت کی روح پھر سے بیدار ہونے لگی۔ نظمِ مملکت غیراسلامی بنیادوں پر استوار ہونا شروع ہوا۔ اس پر مصلحین اُمت کو اصلاحِ احوال کی فکر دامن گیر ہوئی۔ خلفاے راشدین کے بعد حضرت عمربن عبدالعزیز وہ پہلے شخص ہیں‘ جنھوں نے حقیقی معنوں میں احیاے اسلام کی سنجیدہ کوشش کی۔ آپ کے بعد امام احمد بن حنبل‘ امام غزالی‘ مجدد الف ثانی‘ اورنگ زیب عالم گیر‘ شاہ ولی اللہ‘ سیداحمد شہید‘ شاہ اسماعیل شہید اور متعدد دیگر اکابر کی مختلف النوع تجدیدی کاوشیں‘ تاریخ تجدید و احیاے دین کا ایک   روشن باب ہیں۔ بیسویں صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے جن اکابر نے تگ و دو کی‘ اُن میں علامہ اقبال کا نام بہت نمایاں ہے۔

علامہ اقبال کے اسلامی اور دینی مزاج کی تشکیل میں اُن کے آباواجداد کے متصوفانہ رجحانات‘ والدین کی دین داری‘ گھر کا اخلاقی ماحول اور علامہ سیدمیرحسن کی تعلیم و تربیت اورفیضانِ نظر کے علاوہ دو باتوں کو بنیادی دخل ہے--- اوّل: قرآنِ حکیم سے اُن کا گہرا شغف۔ دوم: آں حضوؐر کی ذاتِ گرامی سے والہانہ عقیدت۔ احیاے اسلام کے لیے اقبال نے جو مختلف النوع کوششیں کیں‘ وہ انھی بنیادوں پر تشکیل پانے والے اُن کے دینی مزاج کا حصہ تھیں۔

علامہ اقبال نے شعور کی آنکھ کھولی تو پورا عالمِ اسلام نہایت پیچیدہ مسائل کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ فکری اور سیاسی‘ دونوں اعتبار سے مغربی استعمار اس پر حاوی ہو چکا تھا۔ غلامی کے نتیجے میں مسلم معاشرہ جمود‘ تعصب اور تنگ نظری کا شکار تھا۔زوال پذیری کے ردِّعمل میں جو آوازیں بلند ہوئیں‘ اُن میں سب سے توانا اور بلند آہنگ آواز علامہ اقبال کی تھی جنھوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کی تلقین کی۔مقصود یہ تھا کہ غلامی سے نجات‘ احیاے اسلام کی تمہید بن سکے۔

تجدید و احیاے اسلام کی یہ تمنا بالکل ابتدائی زمانے ہی سے اُن کے ہاں موجود تھی اور یہ کبھی سرد نہیں ہوئی‘ بلکہ عمرکے ساتھ اس جذبے کی حرارت و شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ تجدید و احیاے دین کے لیے اقبال کی مختلف النوع کاوشیں‘ ان کی طویل زندگی میں مختلف شکلوں میں اور کئی سطحوں پر سامنے آتی رہیں۔ ان کی اُردو فارسی شاعری‘ ان کی تمام نثری تحریریں‘ ان کا پورا نظامِ فکروفلسفہ‘ اُن کے جملہ تصورات و نظریات (مثلاً: خودی‘ بے خودی‘ فقر‘ عشق‘ مردِ مومن‘ عقل وغیرہ) نہایت قریبی طور پر احیاے اسلام کے لیے اُن کی مساعی کے ساتھ مربوط ہیں۔

اسلام کی سربلندی کے لیے اُن کے بے تاب جذبوں اور مضطرب تمنائوں کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ انھیں اسلام کی حقانیت کے ساتھ‘ اسلام کے روشن مستقبل پر بھی کامل یقین تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں‘ عالمِ اسلام ایک مایوس کن منظر پیش کر رہا تھا۔ ایسے میں اقبال کی طرف سے غلبۂ اسلام کی یہ نوید :

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

اس قدر ہوگی ترنم آفریں بادِ بہار

نکہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود

پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

دیوانے کا ایک خواب معلوم ہوتی تھی یا محض ایک شاعرانہ تعلّی--- مگر اقبال کو ایک عالم گیر اسلامی انقلاب پر کامل یقین تھا‘ جس کا واشگاف اظہار انھوں نے نثر میں بھی کئی جگہ کیا ہے‘ مثلاً:

اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی اور جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہتوں اور سرمایہ داروں کی گنجایش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کر دے گا۔ غیرمسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض خواب ہو‘ لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے۔ (گفتارِ اقبال‘ ص ۱۷۸)

ایک اور موقع پر فرمایا:

اس وقت جو قوتیں دنیا میں کارفرما ہیں‘ اُن میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں لیکن  لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کے دعوے پر میرا ایمان ہے کہ  انجام کار اسلام کی قوتیں کامیاب اور فائز ہوں گی۔ (ایضًا‘ ص ۱۹)

تجدید و احیاے دین کے لیے علامہ اقبال کے مجموعی کام کو تین دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱- فرد کی تعمیر سیرت ۲- فکری اور علمی کاوشیں ۳- پاکستان کا تصور اور اس کے لیے عملی جدوجہد

  • فرد کی تعمیرسیرت

علامہ اقبال نے تاریخِ عالم کے مطالعے سے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک فرد اپنے اخلاق و اطوار اور سیرت و کردار میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتا ‘ معاشرے میں کسی بڑے انقلاب کی توقع عبث ہے۔ اقبال کے الفاظ میں: ’’دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں‘‘ (مقالاتِ اقبال‘ ص ۵۳)۔    اور: ’’کردار ہی وہ غیرمرئی قوت ہے جس سے قوموں کے مقدر متعین ہوتے ہیں‘‘ (شذراتِ فکراقبال‘ ص ۱۲۴)۔ مسلمان مجموعی اعتبار سے اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ انھیں اس پستی سے نکالنے کے لیے اقبال ان کی اخلاقی تربیت کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اخلاقی تربیت کے لیے: ’’مذہب بے حد ضروری چیز ہے‘‘(گفتارِ اقبال‘ ص ۲۵۵)۔ اور مذہب کی مضبوط گرفت ہی ہمیں بھٹکنے اور گمراہ ہونے سے بچاسکتی ہے۔ اگر: ’’یہ گرفت ڈھیلی پڑی تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ شاید ہمارا انجام وہی ہو جو یہودیوں کا ہوا‘‘ (شذراتِ فکراقبال‘ ص ۸۵)۔ اقبال کے نزدیک انسانی کردار کی تعمیر میں قرآن حکیم اساسی حیثیت رکھتا ہے    ؎

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

ایک بار چند نوجوانوں کو مخاطب ہو کرکہا: ’’یاد رکھو مسلمانوں کے لیے جاے پناہ صرف قرآنِ کریم ہے--- میں اس گھرکو صدہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں جس گھرسے علی الصبح تلاوتِ قرآن مجید کی آواز آئے ‘‘ (گفتارِ اقبال‘ ص ۲۱۳)۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کی کہ: ’’قرآن مجید کا صرف مطالعہ ہی نہ کیا کرو بلکہ اس کو سمجھنے کی کوشش کرو‘‘ (ایضًا)۔ قرآنی تعلیمات کے حوالے سے اقبال نے افراد اُمت کو ارکانِ خمسہ کی پابندی (ملفوظاتِ اقبال‘ ص۳۹) اور فرائض کے ساتھ نوافل‘ شب بیداری‘ اور تہجد کے اہتمام کی تلقین کی (اقبال نامہ‘ ج۲‘ ص ۱۹۳)۔ یہ اہتمام مسلمان کے اندر اخلاقِ فاضلہ کا موجب بنتا ہے۔

علامہ اقبال‘ قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق آں حضورؐ کے اُسوئہ حسنہ کو بھی پیشِ نظر رکھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اسوئہ حسنہ میں اعلاے کلمۃ الحق کو ایک نمایاں اور روشن باب کی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک ایک حقیقی مسلمان کلمۂ حق کا اعلان و اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا‘ مگر سچائی کا اظہار خوداعتمادی کی بنا پر ہی ممکن ہے۔ فلسفۂ خودی کا پس منظر یہی ہے۔

اقبال کے فلسفۂ خودی کی تشکیل میں عشق اور فقر کو اہم عناصر کی حیثیت حاصل ہے۔   جذبۂ عشق میں ایک غیرمعمولی قوت پنہاں ہے اور فقر کی لازوال دولت بھی عشق سے کم اہم نہیں۔ جس قوم کو یہ دونوںقوتیں حاصل ہو جائیں‘ دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کا راستہ نہیں روک سکتی   ؎

خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم

عشق ہو جس کا جسور‘ فقر ہو جس کا غیور

اقبال‘ احیاے اسلام کے لیے جس انقلاب کے داعی ہیں‘ اُسے برپا کرنے کے لیے خودی‘ فقر اور عشق سے متصف ہونا ضروری ہے۔ فرد کے اندر یہ صفات پیدا ہو جائیں تو وہ ’’مردِ مومن‘‘ کا روپ اختیار کرلیتا ہے اور اس جدوجہد میں مردِ مومن کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اُمت مسلمہ کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ضعف ِاسلام کا بہت بڑا سبب اُمت کے اندر فروعی مسائل پر شدید اختلافات‘ اوراس بنیاد پر باہمی دشمنیاں اور مجموعی طور پر انتشار و افتراق کی افسوس ناک صورتِ حال رہی ہے جس کا ایک اہم سبب علماے سوء اور نام نہاد صوفیا کا غلط رویہ تھا۔ علامہ اقبال‘ غیر اسلامی اور عجمی تصوف کو خاص طور پر خرابیِ احوال کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں عجمی تصوف نے’’مسلمانوں کے زوال میں ایک اہم عنصر کے طور پر کام کیا ہے‘‘ (اقبال نامہ‘ ج ۱‘ ص ۷۸)۔علماے سوء اور نام نہاد مدعیانِ تصوف کے متعلق وہ بہت شدید جذبات رکھتے تھے۔

دوسرا طبقہ جس سے اقبال بطور خاص مخاطب ہوئے‘ نوجوانوں کا طبقہ تھا۔ اقبال کی نظر میںاحیاے اسلام کی تحریک میں کامیابی کا انحصار بڑی حد تک نوجوان طبقے پر ہے۔ خود آںحضوؐر کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں اوّلیت کا شرف بھی نوجوان طبقے کو حاصل ہوا۔ اقبال مسلم نوجوانوں کو تن آسانی اور عیش پسندی کے بجائے جفاکشی اور سخت کوشی کی تلقین کرتے ہیں     ؎

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اس طرح احیاے اسلام کے سلسلے میں اوّلین سطح پر اقبال نے فرد کی انفرادی اصلاح اور اس کی تعمیرسیرت پر زور دیا اور پھر معاشرے کے دو اہم طبقوں‘یعنی علماے مذہب و صوفیہ اور نوجوانوں کو متوجہ کیا کہ وہ آگے بڑھ کر اسلامی نشات ثانیہ کی تحریک میں اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کریں۔

فکری اور علمی کاوشیں

مسلمان‘ انگریزوں کی سیاسی غلامی کے ساتھ‘ ذہنی اور فکری اعتبار سے بھی مغرب سے مغلوب ہو چکے تھے۔ اس مغلوبیت کی تین صورتیں تھیں: اوّل: نیشنلزم کا سراب ۔ دوم: دین و دنیا کی دوئی۔ سوم: مغربی تہذیب سے ایک مجموعی مرعوبیت۔ علامہ اقبال نے ان تینوں تصورات پر کاری ضرب لگائی۔

اپنے فکری سفر کے آغاز میں اقبال خود بھی قوم پرست تھے مگر یورپ کو قریب سے دیکھنے پر انھیں نیشنلزم کے کھوکھلے پن کا احساس ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ قیامِ یورپ نے ان کے خیالات میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا تھا۔ اقبال کے الفاظ ہیں: ’’یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا‘‘ (انوارِ اقبال‘ ص ۱۷۶)۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر قوم پرستی کے ’’فرنگی نظریۂ وطنیت‘‘ کی اشاعت کا مقصد ’’اسلام کی وحدتِ دینی پارہ پارہ کرنا ہے‘‘ (حرفِ اقبال‘ ص۲۲۲)۔ اسی بنا پر عرب قوم پرستی کا فتنہ پروان چڑھا اور سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرگیا۔ علامہ نے مغربی تصورِ قومیت کو ایک ’’روحانی بیماری‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عمربھرجہاد کیا۔ اقبال کے نزدیک انسانی اشتراک کا سب سے قوی رابطہ اور ان کے درمیان سب سے زیادہ مضبوط رشتہ کلمۂ توحید کا ہے۔ اسی بنیاد پر انھوں نے تصورِ ملت کی بازیافت کی     ؎

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

اسی تصور ملّت نے آگے چل کر علامہ کے ہاں اتحادِ عالم اسلامی کی شکل اختیار کی (ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے)۔

مسلمانوں کے فکری و ذہنی انحطاط کا دوسرا نمایاں پہلو اُن کا محدود تصورِ دین تھا۔ شہنشاہیت نے اہل مذہب کو مساجد تک محدود کر دیا اور سیاست کی باگ ڈور خود سنبھال لی۔ دین و سیاست میں بُعد پیدا ہو گیا۔ اقبال کے نزدیک: ’’ازروے شریعت محمدیہؐ مذہب و سیاست میں کوئی تفریق نہیں‘‘ (مقالاتِ اقبال‘ ص ۹۲)۔ انھوں نے دین و سیاست کی علیحدگی پر سخت تنقید کی کیونکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ خوں ریزی و چنگیزی اور عالم گیر تباہی کی شکل میں نکلتا ہے۔

درحقیقت احیاے اسلام کی تحریک میں کسی طرح کی پیش رفت اس کے بغیر ممکن ہی نہ تھی کہ دین و سیاست میں دوئی کی نفی کرکے‘ دین کا حقیقی اور (سیاست‘ تمدّن‘ معیشت‘ تعلیم‘ عمرانیات‘ قانون‘ غرض زندگی کے تمام شعبوں پر محیط) ایک جامع تر تصور نہ پیش کیا جاتا۔

تجدید و احیاے دین کی راہ میں تیسری بڑی رکاوٹ مغرب سے ذہنی مرعوبیت تھی۔ علامہ اقبال مغرب اور مغربیت کا بذاتِ خود مشاہدہ کر چکے تھے۔ اس لیے انھوں نے نہایت واشگاف الفاظ میں اس کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا    ؎

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات


فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

خطبات میں ایک جگہ کہتے ہیں کہ ’’یورپ سے بڑھ کر‘ آج انسان کے اخلاقی ارتقا میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں‘‘۔ (تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ‘ ص ۲۷۶)

یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ فکرمغرب کے جو ثمرات ‘سوشلزم اور نام نہاد جمہوریت اور سرمایہ داری کی شکل میںدنیا کے سامنے رونما ہوئے تھے‘ اقبال نے ان سب کو باطل اور بہرطور ناقابلِ قبول ٹھہرایا تھا۔ مغربی جمہوریت کو‘ جس کی بنیاد مادر پدر آزادی ہے‘ انھوں نے رد کر دیا کیونکہ    ؎

گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو

کہ از مغزِ دو صدخر فکرِ انسانی نمے آید

طرزِ جمہوری سے گریز کر‘ کسی مرد پختہ کار کا دامن پکڑ‘ کیونکہ دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے۔

خیال رہے کہ سوشلزم اور اشتراکیت کے بارے میں اُن کے خیالات میں ایک ارتقا ملتا ہے۔ پہلے پہل انھوں نے ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کو سراہا کیونکہ وہ مظلوموں کا حامی بن کر سامنے آیا تھا مگر بہت جلد اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ چنانچہ اقبال نے اس سے براء ت کا اعلان کرتے ہوئے تاریخ کی مادی تعبیر کو سراسر غلط قرار دیا (اقبال نامہ‘ ج ۱‘ ص ۳۱۹)۔

علامہ اقبال کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا ریڈیائی پیغام ‘مغربی فکر اور سیاست پر ایک جامع تبصرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ فی الحقیقت انھوں نے جس طرح مغربی تہذیب اور فکروفلسفے پر  تنقید کی‘ ہماری فکری تاریخ میں ان سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ اُن کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی اس جرأت مندانہ تنقید کے نتیجے میں تعلیم یافتہ مسلمانوں میں مغرب سے مرعوبیت ختم ہونے لگی اور احیاے اسلام کے لیے فضا اورسازگار ہو گئی۔

علامہ اقبال کو اس امر کا بھی شدید احساس تھا کہ ہمارے علماے مذہب‘ اجتہاد کی اہمیت سے غافل ہو چکے ہیں۔ فکری سطح پر علامہ اقبال کی ایک مثبت عطا یہ بھی ہے کہ انھوں نے عصرحاضر میں اجتہاد کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا۔ ان کے انگریزی خطبات میں چھٹا خطبہ ’’الاجتہاد    فی الاسلام‘‘ کے موضوع پر ہے۔ اس سلسلے میں ایک بار فرمایا:

آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت فقہ کی جدید تدوین ہے جس میں زندگی کے ان سیکڑوں ہزاروں مسائل کا صحیح اسلامی حل پیش کیا گیا ہو‘ جن کو دنیا کے موجودہ قومی اور بین الاقوامی سیاسی‘ معاشی اور سماجی احوال و ظروف نے پیدا کر دیا ہے۔ (حیاتِ انور‘ ص ۱۶۵)

اجتہاد پر یہ زور مسلم علما کے اندر صدیوں کے فقہی جمود کے خلاف ایک ردِّعمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ردِّعمل کا ایک مثبت پہلو‘ اقبال کا یہ احساس ہے کہ عصرِحاضر کی مقتضیات ومسائل کی روشنی میں اسلامی فقہ کی ازسرنو ترتیب و تشکیل کی ضرورت ہے۔ ابتدا میں اقبال نے خود اس طرح کے کام کا آغاز کیا (اقبال نامہ‘ ج ۱‘ ص ۳۲۰)۔ لیکن پھر یہ نازک ذمّہ داری کسی روشن دماغ عالم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔غالباً اسی خیال کے پیشِ نظر انھوں نے مختلف اوقات میں مولانا شبلی نعمانی‘ سیدانورشاہ کاشمیری اور سید سلیمان ندوی کو پنجاب منتقل ہونے کی دعوت دی مگر کامیابی نہ ہوئی‘ تاہم پٹھان کوٹ کا ادارہ دارالاسلام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عبدالمجید سالک کے خیال میں اس ادارے کی غایت یہ تھی کہ دینی و دنیاوی علوم کے ماہرین ایک گوشے میں بیٹھ کر‘ علامہ کے نصب العین کے مطابق‘ اسلام‘ تاریخِ اسلام‘ تمدنِ اسلام‘ ثقافت ِ اسلامی اور شرعِ اسلام کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں جو آج کل کی دنیا کے فکر میں انقلاب پیدا کر دیں (ذکرِاقبال‘ ص ۲۱۲-۲۱۳)۔

علامہ اقبال ہی کے ایما اور مشورے پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ۱۹۳۸ء کے اوائل میں حیدرآباد‘ دکن سے ہجرت کر کے جمال پور (پٹھان کوٹ) آگئے تھے۔ علامہ کا ارادہ تھا کہ   وہ بھی ہر سال چند ماہ کے لیے وہاں آکر قیام کیا کریں گے مگر افسوس کہ وہ جلد ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس میں شبہہ نہیں کہ اس ادارے نے قابلِ قدر خدمات انجام دیں جنھوں نے آگے چل کر تجدید و احیاے دین کے لیے ایک عملی تحریک کی صورت اختیار کی۔

  • اسلامی ریاست (پاکستان) کا تصور

ہندستان میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست (جسے بعد میں پاکستان کا نام دیا گیا) کا تصور اور اس کے حصول و قیام کے لیے عملی کوششیں‘ احیاے اسلام کے لیے اقبال کی مساعی میں آخری سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے مغرب کے نظریۂ قوم پرستی کو ردّ کر کے اسلام کے تصورِ ملّت کو اُجاگر کیا۔ ہندستانی سیاست سے ان کی دل چسپی اسی حوالے سے تھی۔ اس سلسلے میں اقبال کی خواہش تھی کہ‘ اوّل: ہندستان آزاد ہو۔ دوم: یہاں اسلامی حکومت قائم ہو۔

ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہونے کی حیثیت سے ‘اسلام ہمیشہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ و رائج کیا جائے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور ان اقیموا الدین کا مفہوم بھی یہی ہے مگر سیاسی قوت کے بغیر اقامت ِ دین ممکن نہیں۔ اقبال کا یہ معروف شعر    ؎

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

اسی نکتے کی شعری تفسیر ہے۔ اقبال کے خیال میں باطل کی بیخ کنی بھی قوت ہی سے ممکن ہے   ؎

تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحرِقدیم

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم

یہاں اُن کا یہ قول لائق توجہ ہے: ’’مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا حکم دیا گیا ہے    ]لیکن[ بغیرطاقت کے امرونہی کیسے ممکن ہے۔ اگر مسلمان امرونہی کے فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے بازوئوں میں طاقت ہونا ضروری ہے‘‘۔ (نقوش، اقبال نمبر‘ اوّل ‘۱۹۷۷ئ‘ ص ۴۰۷)

برطانوی سامراج کی غلامی میں فوری طور پر قوت و طاقت اور اقتدار کا حصول آسان نہ تھا۔ اقبال نے مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور کی بیداری پر پوری توجہ مرکوز کی۔ آزادیِ ہند سے متعلق کوئی معاملہ ہو یا مسلمانوں کا کوئی ملّی مسئلہ‘ وہ برابر کوشاں رہے کہ مسلمان مستقبل کے منظرنامے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں۔ سیاسی سطح پر اقبال نے ہمیشہ مسلمانوں کی علیحدہ قومیت پر زور دیا اور مخلوط انتخاب کی مخالفت کی۔ مسلمانوںکے ملّی تشخص کی خاطر جداگانہ اصولِ انتخاب پر اقبال کا اصرار ‘آگے چل کر ایک علیحدہ مسلم مملکت کے تصور کی شکل میں سامنے آیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ انگریز کے رخصت ہونے کے بعد‘ اصولِ جمہوریت کے تحت ہندستان کا اقتدار ہندوئوں کو منتقل ہو جائے گا اور اکھنڈ بھارت میں مسلمانوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس لیے انھوں نے دسمبر ۱۹۳۰ء میں ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا تصور پیش کیا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: خطبۂ الٰہ آباد)

جس موقع پر اقبال نے ایک ’’منظم اسلامی ریاست‘‘ کا تصور پیش کیا‘ مسلمان شدید انتشار اور مایوسی کا شکار تھے۔ محمد علی جناح ہندستانی سیاسیات سے بددل ہو کر لندن جا بسے تھے اور مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بقول سید نوراحمد: ’’مسلم لیگ کا پلیٹ فارم طفلانہ حرکتوں کا میدان بن گیا تھا‘‘ (مارشل لا سے مارشل لا تک‘ ص ۱۴۱)۔ اس مایوس کن صورت میں اقبال کی پیش کردہ اسلامی ریاست کی تجویز‘ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا سہارا ثابت ہوئی۔

مسلمانوں کے مسائل سے ان کی دل چسپی اور ان کے مستقبل کے بارے میں ان کی فکرمندی سے ‘ قائداعظم کے نام ان کے خطوط سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ خطوط‘ اسلامی نشات ثانیہ کے لیے اقبال کے ولولوں‘ اُمنگوں اور مضطرب جذبوں کا خوب صورت اظہار ہیں۔ اقبال تو ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنے رب سے جا ملے مگر ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کے سات سال بعد‘ ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان‘ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے‘ کرئہ ارض پر نمودار ہوا۔ بلاشبہہ پاکستان کا قیام اسلامی نشات ثانیہ کی جدوجہد میں ایک اہم پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے مگر علامہ اقبال کے خوابوں کی حقیقی تعبیر اُس وقت سامنے آئے گی جب پاکستان میں اسلامی قانون اور شریعت ِ محمدیہؐ کا مکمل اور نتیجہ خیز نفاذ ہوگا اور پاکستان‘ دنیا میں اسلام کے احیا اور مسلمانوں کی سربلندی کی علامت بن جائے گا۔

  • --- کام ابھی باقی ہے

احیاے اسلام کے لیے علامہ اقبال کی اس جدوجہد میں اسلام اور ملّت ِ اسلامیہ کے لیے ا ن کے انتہائی خلوص‘ دردمندی اور دل سوزی کے جذبات بہت نمایاں ہیں۔ اُن کا یہ شعر اسی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔     ؎

اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں

کبھی سوز و سازِ رومی‘ کبھی پیچ و تابِ رازی

پھر اپنی ساری مساعی میں عشقِ رسولؐ، اقبال کے لیے سب سے بڑا source of inspiration رہا۔آں حضوؐر کی ذات اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ کارزارِ حیات میں اقبال کے لیے روحانی تائید کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایک صاحب نے علامہ سے ذکر کیا کہ انھوں نے خواب میں حضورؐ رسالت مآب کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں دیکھا ہے ۔ اس پر علامہ نے انھیں لکھا: ’’میرے خیال میں یہ علامت احیاے اسلام کی ہے‘‘۔ (انوارِ اقبال‘ ص ۲۱۶)


تجدید و احیاے دین کے لیے اقبال کی اس ساری تگ و دو اور جدوجہد کا مقصد بھی سنت ِ رسولؐ کی پیروی ہے۔ اقبال کے نزدیک‘ ایک مسلمان کی جملہ مساعی کا محور یہی ہونا چاہیے     ؎

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی‘ تمام بولہبی است

اُن کے خیال میں آں حضوؐر کی ذاتِ گرامی سے تعلق خاطر‘ نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی مومن کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ احیاے اسلام اور تجدید و احیاے دین کے لیے کی جانے والی کوششوں اور کاوشوں کا منتہاے مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کے قلوب عشق رسولؐ کی سچائی‘ روشنی اور حرارت سے منور ہوکر جگمگا اُٹھیں    ؎

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں

تجدید و احیاے دین کے لیے علامہ اقبال کے ایمان افروز مشن کی داستان‘ اقبال کے نام لیوائوں  اور عقیدت مندوں کے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے نشات ثانیہ کے لیے عمربھر جو کاوشیں کیں‘ ابھی ان کی تکمیل ہونا باقی ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُن کا فرض یاد دلا رہا ہے     ؎

وقتِ فرصت ہے کہاں‘ کام ابھی باقی ہے

نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے

وقت کیا ہے؟

یہ انسانی زندگی کا وہ سوال ہے جو سب سے زیادہ بار بار پوچھا گیا لیکن اُتنا ہی کم سمجھا گیا۔ اس سادے سوال کا سادہ جواب کلائی پر لگی گھڑی کی دو سوئیوں کی حرکت یا آسمان میں سورج کی سمت کو دیکھ کر دیا جا سکتا ہے۔ کیا وقت کے معنی بس یہیں تک محدود ہیں؟ آج ایسی کتابوں کا انبار لگا ہوا ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ کاموں کو گرفت میں لانے اور نظامِ زندگی کو استوار کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تعلیمی و تربیتی ادارے جابجا ایسے کورس لاتے ہیں کہ جو وقت بچانے‘ پیداوار بڑھانے‘ وقت تقسیم کرنے اور منصوبہ بنانے کے سلسلے میں اہلیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح گھڑی ساز‘ کیلنڈر اور ڈائری کے شائع کرنے والے وقت کے لحاظ سے ماضی کو ریکارڈ کرنے اور مستقبل میں جھانکنے کے لیے نت نئے الیکٹرانک طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ وقت دیکھنا ایک ایسا شعار بن چکا ہے کہ گو ہزاروں اور لاکھوں روپے کی گھڑی زیب تن ہوتی ہے--- لیکن وقت کی سمجھ بوجھ‘ اس کی نزاکت کا احساس‘ اس کے تقاضوں کا شعور ناپید ہے۔ وقت کو گھڑی کی دو سوئیوں کی گرفت میں لاکر اور سیکنڈ کو لاکھوں حصوں میں تقسیم کرنے کی صلاحیت پیدا کرکے سائنس دان اس وہم میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے وقت کو فتح کرلیا ہے۔

وقت کے اصول و مبادی اس سطحی سے مشاہدے‘ تجربے اور تعلق کی زد میں نہیں آسکتے ہیں جو عمومی طور پر انسان کا لیل و نہار کی گردش سے ہوتا ہے۔ فہمِ وقت کا سائنسی‘ مذہبی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور معاشی پہلوئوں سے انفرادی و اجتماعی زندگی سے متعلق فکر اور عمل دونوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ نظریات کی کش مکش وقت کے متعلق رویوں کو جنم دیتی ہے کیونکہ زندگی کی قوت اور قدر وقت سے وابستہ ہے۔ چھٹی اتوار کی ہو یا جمعہ یا ہفتہ کی--- حال ہی میں اٹھنے والی اس بحث میں مختلف رویوں کی جھلک نظر آئی۔ نئی صدی اور نئی ہزاروی کے آغاز کے موقع پر ‘ عیسوی و ہجری کیلنڈر کے اختیار کرنے پر یہ بحث ہوتی ہے۔ دفتری اوقات کے تعین اور کاموں کے آغاز و اختتام کو طے کرتے ہوئے بھی نظریاتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔وقت محض ایک گھڑی میں نظرآنے والا وقت نہیں ہے بلکہ عقائد کے مجموعے کا نام ہے۔ اس کے ساتھ مختلف اقوام اور علاقے کے افراد کے ماضی‘ حال اور مستقبل کے بارے میں نظریات‘ثبات و تغیر کے بارے میں آرا‘ پیدایش اور موت کے بارے میں سوچ‘ زندگی کے واقعات جو تجربے اور مشاہدے میںآتے ہیں‘ ان کے حوالے سے وقت کے بارے میں تاثرات شامل ہیں۔ اسی نقطۂ نظر سے زیرنظرمضمون میں پہلے مروجہ فکر کا‘ جو مغربی تہذیب اور جدید سائنسی تحقیقات کی مرہونِ منت ہے‘جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد آیندہ اسلامی تصورات کو پیش کیا جائے گا۔ عالمیت (Globalization) کا ایک ہدف وقت کا محاذ بھی ہے۔ ایک وقت‘ ایک اندازِ وقت‘ ایک فکرِ وقت‘ ایک طریقۂ وقت کے ذریعے اُس عالمی تنوع کو سمونا آسان تر ہوجاتا ہے جو مطلوب ہے۔

سائنسی نظریات

گذشتہ دو عشروں میں وقت‘ وقت کے سیاق و سباق‘ اس کی ابتدا اور انتہا‘ اس کا سکڑائو اور پھیلائو‘ اس کی مختلف حالتوں‘ اس کے مرکز اور اس کی سرحدیں‘ رفتار اور بلندی کے اس پر اثرات‘ مادہ اور روشنی کی لہروں کے ساتھ وقت کا ارتکاز‘ انسانی عقل اور شعور میں‘ اس کے جسم کے پورے نظام میں وقت کا نظام‘ معاشرے کی اٹھان اور اس لحاظ سے وقت کے بارے میں عقائد اور رویے‘ حاکمیت‘ ثقافت‘ تاریخ‘ تعلیم ان تمام امور و معاملات میں وقت کی مداخلت‘ انسانی زندگی میں وقت کا جبر‘ انسان کی وقت کو سمیٹنے‘ پھیلانے‘ مختلف خطوں کے وقت میں ربط کو بڑھانے کے سلسلے میں دل چسپی بڑھ گئی ہے۔

پتھرکے زمانے سے لے کر آج تک‘ جب کہ تہذیب و تمدن اطلاعاتی ٹکنالوجی کہ جس کا ایک اہم کام وقت کو گرفت میں لانا ہے‘ انسان کی فطری نوعیت کی بنیادی ضروریات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لیکن وقت کے بارے میں اس کے شعور‘ تجربے‘ مشاہدے میں بہت بڑا فرق دیکھا گیا ہے۔ وقت کے بارے میں اس وقت سائنسی نظریات کا خلاصہ یہ ہے:

۱- ہم کسی بھی صورت میں حال کے وقت کو نہیں پا سکتے ہیں۔ ہم وقت کو روشنی کی لہر کے ذریعے اور دماغ میں اعصاب کے عمل کے ذریعے پڑھتے ہیں۔ جو وقت ہم جانتے ہیں اور جو وقت عملاً ہوتا ہے اس میں فرق ہوتا ہے۔ جس کو ہم وقت کہتے ہیں وہ عملاً گزر گیا ہوتا ہے۔

۲-  حرکت اور بلندی کی صورت میں وقت ساکت اور سطحی حالت میں وقت سے مختلف ہوتا ہے۔ حرکت وقت کی رفتار کو سست بنا دیتی ہے۔ بلندی وقت گزرنے کی رفتار کو تیز بنا دیتی ہے۔ وقت کی کیفیت ہر جگہ ایک نہیں ہے۔ مختلف دائروں میں وقت کی مختلف لہریں بیک وقت سرگرم عمل ہیں۔

۳-  وقت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مرہم ہے۔ زخم خواہ جسم پر لگیں یا جذبات پر‘ وقت کے ساتھ مندمل ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت ایک ضربِ کاری ہے۔ یہ آبادی کو اُلٹ پلٹ کر دیتا ہے۔ انسان کو بوڑھا کر کے مار دیتا ہے۔ اس کے جبر سے کسی کو قرار یا بچائو نہیں۔ وقت کے اندر ملیامیٹ کرنے‘ اور نشوونما دینے‘ دونوں کی صلاحیت موجود ہے‘ یعنی اگر کوئی اور سبب نہ بھی ہو تو وہ تبدیلی کا بڑا سبب ہے۔ یہ خاموشی سے اپنا کام کرتا ہے اور ہر شے کو اس کی انتہا اور فنا کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ اس سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ وقت کا ایک مرکز ہے‘ اس کی مختلف سمتیں ہیں‘ مختلف انداز اور طریقے ہیں۔

۴-  وقت کبھی کسی کو کافی نہیں ہوا ہے۔ گزرا ہوا وقت ایک لمحے کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا۔ آنے والا وقت تو ظاہر ہے کہ ابھی آیا ہی نہیںہے۔ یہ کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے۔ ہاں‘ انسانی شعور ڈرامائی لمحات میں کسی واقعے کو اچانک اور کسی توقع کے باوجود نہ ہونے والے واقعہ کو موت سے زیادہ تکلیف دہ انتظار کی صورت دے دیتا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے پاس کتنا وقت رہ گیا ہے۔ اکثر کو یہ خبر نہیںہوتی ہے کہ یہ کہاں گیا ہے۔

۵-  وقت وہ کرنسی ہے جس کو خرچ کر کے انسان کسی جانب توجہ دے سکتا ہے۔ یہ وہ شے ہے کہ جو انمول ہے‘ بلاقیمت ہے‘ فطری اور پیدایشی ہے۔ یکساں حالت سے گزرنے والے افراد کا بھی وقت یکساں نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ توجہات‘ شعور کی حرکت‘ ذہن اور قلب کا ردعمل مختلف ہوتا ہے اور اس سے وقت کا تاثر بھی مختلف بنتا ہے۔ جس طرح اگر سب کے پاس ۱۰۰روپے ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب برابر ہیں۔ کسی کے لیے ۱۰۰ روپے زیادہ ہیں توکسی کے لیے کم۔ اسی طرح وقت اگر شے ہے تو ضروری نہیں کہ ہر ایک کے پاس ایک معیار کی ہو۔ وقت کا معیار (quality) مختلف صورتوں میں اور مختلف انسانوں میں مختلف ہو سکتاہے۔

۶-  یقین‘ حرکت اور حافظہ یہ تین صلاحیتیں وقت کے فانی اثرات کو کم کرنے اور ان کو مثبت رُخ میں ڈھالنے کے لیے انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔ حرکت اور عملِ پیہم کے ذریعے گزرنے والے وقت کو ضائع ہونے کے بجائے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ طبیعیاتی نوعیت کی تحقیقات بھی یہ بتاتی ہیں کہ تیزرفتاری اور انتہائی تیزرفتاری کا اثر ہوتا ہے--- اسی طرح حافظہ شعور کی دنیا میں ٹھہرائو کا کام کرتا ہے۔ حافظہ مستقل شناخت اور پہچان قائم کرتا ہے۔ انسانی رویے اور سلوک کو مستقل یکساں انداز سے ڈھال کر وقت کی تبدیلی کے باوجود تبدیل ہونے نہیں دیتا۔ بعض جن چیزوں پر انسان قائل ہو کر یقین کرلیتا ہے وہ وقت کے دھارے میں بہہ نہیں جاتیں بلکہ استقامت اور استقلال فراہم کرتی ہیں۔ وقت کا توڑ یقین اور ایمان‘ حرکت اور عمل‘ حافظہ اور شناخت کے اندر پوشیدہ ہے۔

۷- انسان مٹی سے بنا ہے لیکن وقت میں رہتا ہے۔ مٹی اور وقت ان دونوں کی خصوصیات میں کئی اقدار مشترک ہیں اور کئی مختلف بھی۔ مٹی کو ہاتھ میں پکڑا جا سکتا ہے لیکن وقت کو عمل ہی سے گرفت میں لایا جا سکتا ہے۔ مٹی میں بیج بویا جاتا ہے تو وہ زندگی کو جنم دیتی ہے اور پھر مردہ ہو جاتی ہے نئی زندگی پانے کے لیے۔ وقت میں بھی بیج بویا جا سکتا ہے اور نئی صبح اور نئی شام آتی ہے۔ مٹی ہی انسان کو وہ کچھ دیتی ہے کہ جو اس کی بقا اور ارتقا کے لیے ضروری ہے۔ وقت ہی کے ذریعے بقا اور ارتقا کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انسان مٹی میں دفن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وقت انسان کو تمام تر مواقع و امکانات دے کربالآخر اپنا رشتہ کاٹ لیتا ہے۔ گزرا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔

۸-  وقت ایک وسیلہ ہے جو واقعے کو ماضی سے مستقبل کی جانب منتقل کرتا ہے۔ ماضی کہ جو جلد غائب ہوا چاہتا  ہے اور مستقبل کہ جو جلد ماضی بن جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب بہائو ہے کہ جو ماضی بعید کو ماضی قریب میں‘ یعنی حال سے بالکل متصل منتقل کرتاہے۔ جو کچھ پیچھے ہوا اور جو کچھ آگے آنے والا ہے اس میں رابطہ قائم کرتا ہے۔

۹-  فاصلے کی وقت پر برتری ختم ہو چکی ہے۔ پہلے فاصلہ سے وقت ناپا جاتا تھا‘ اب وقت سے فاصلہ ناپا جاتا ہے۔ فاصلے کو کم سے کم تر وقت میں عبور کرنا یا خاص حد تک غیرموثر‘غیر اہم‘ یا غیرمتعلق بنانا ممکن ہوگیا ہے۔ فاصلے وقت میں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ وقت کے فرق کی وجہ سے  کام میں جو فرق آتا تھا وہ بھی کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بڑے فاصلے کے ہوتے ہوئے قریب ہوکر‘ مل جل کر کام کرنا‘وقت کے گزرنے کے ساتھ ممکن ہے۔ انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ نے یہ سہولت پیدا کر دی ہے۔

۱۰-  وقت کی اقسام‘ اس کی سرحدیں اور اس کے بہائوکی مختلف صورتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وقت کی سب سے کم پیمایش ایک سیکنڈ کے دسویں حصہ کا مزید ۴۳ گنا کم حصہ ہے۔ ایک سیکنڈ کے ایک ارب حصے میں سے ایک حصے کا بھی ایک ارب حصہ اس وقت پیمایش کی صلاحیت کے اندر ہے۔ ایک ایٹمی ذرہ اپنے مالیکیول (molecule) میں ایک سیکنڈ کے ایک ارب حصے کے اندر دھڑکتا ہے۔ ایک کیمرہ عموماً ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں تصویر کا مکمل نقش بنا لیتا ہے۔

ایک سیکنڈ میں زمین اپنے پورے حجم کے ساتھ گیند کی طرح سورج کے گرد ۳۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیتی ہے‘ جب کہ سورج اپنے نظامِ شمسی (galaxy) میں ایک سیکنڈ کے اندر ۲۷۴ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ آنکھ جھپکنے میں ایک سیکنڈ کا دسواں حصہ لیتی ہے۔ انسانی کان بھی اتنے ہی عرصے میں آواز اور اس کی بازگشت کے درمیان فرق کر لیتا ہے۔

ایک سیکنڈ کا عرصہ کارخانۂ قدرت میں ایک خاصا طویل عرصہ ہے۔ انسان کا دل ایک بار دھڑکنے کے لیے اتنا وقت لے لیتا ہے۔ چاند کی روشنی ۳.۱ سیکنڈ میں زمین تک پہنچتی ہے۔ زمین ایک دن میں مکمل گھوم جاتی ہے اور ایک سال میں سورج کے گرد پورا چکر لگاتی ہے۔ ایک سال میں سمندر کی اوسط سطح ۵.۲-۱ملی لیٹربڑھ جاتی ہے۔ ایک سال میں امریکہ اور یورپ جن    خطہ ء ارض پر مشتمل ہیں ان کا فاصلہ تین سینٹی میٹر بڑھ جاتا ہے۔

بہت کم انسان ۱۰۰ سال یا اس سے زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں لیکن ایک بڑا کچھوا تقریباً ۱۷۷ سال زندہ رہتا ہے۔ سی ڈی کی جو compact disk اب ریکارڈ رکھنے کے کام آتی ہے تقریباً ۲۰۰ سال تک ریکارڈ محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اگر ۱۰ لاکھ سال تک روشنی کی رفتار سے سفر کیا جائے تو بھی قریب ترین دوسری کہکشاں تک نصف سفر بھی مکمل نہیں ہوگا۔

اس کائنات میں جو عمل برپا ہیں ان کی عمومی مدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زمین کو بننے کے بعد ٹھنڈا ہونے میں صرف ایک ارب سال لگے تھے۔ اس عرصے میں سمندر وجود میں آئے‘ نباتات کا آغاز ہوا‘ یعنی زمین میں بعض عمل ایسے ہیں کہ جن کے لیے ایک سیکنڈ بھی بہت طویل عرصہ ہے‘ جب کہ بعض اربوں سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔

اس روداد کا مختصر حوالہ صرف اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ یہ اندازہ ہو کہ وقت کے کتنے قسم کے دائرے بیک وقت گردش میں ہیں اور ایک سیکنڈ کے اربوں حصے کا معاملہ ہو یا کھربوں سالوں کا‘ یہ ساری گھڑیاں باہم پیوست ہیں۔ اس کا احاطہ کرنا یقینا آسان نہیں۔ انسان نے ابھی اس کا ابتدائی اندازہ لگایا ہے۔ اس کا مکمل حساب شاید اس کی حدود سے باہر ہے۔

۱۱-  جو اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وقت تبدیل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اشیا کی ہیئت بھی متاثر ہوتی ہے۔ لیکن اس انداز سے کہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ وقت کی تعمیر سے متعلق عمل میں حیرت انگیز باقاعدگی دیکھنے میں آتی ہے۔ زمین کی رفتار اور اس کا سورج کے گرد گھومنا--- یہ بڑی بڑی اشیا کا معاملہ ہے۔ لیکن ان میں سال بہ سال بھی ایک سیکنڈ کے دسویں حصے کا فرق تک نہیں آتا ہے۔ انتہائی باریکی کے ساتھ یہ اور اس طرح کے بہت سارے دوسرے عمل جاری ہیں اور ہزاروں لاکھوں سال سے اپنے طریق پر استوار ہیں۔

ایک جانب چھوٹے سے چھوٹے عمل سے لے کر بڑے سے بڑے عمل کے درمیان ربط اور تعلق نظر آتا ہے۔ دوسری جانب اس ربط کے معمولات میں‘ یعنی اجتماعی طور پر بھی انتہائی باقاعدگی پائی جاتی ہے جس کے برقرار رکھنے میں انسان کا عمل و ارادہ شامل نہیں---! اس نظام میں کوئی خلل یا فرق واقع نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس کے اسلوب میں کوئی کمی یا نقص بھی نظر نہیں آتا ہے۔

۱۲-  یقینا یہ تمام باتیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ کوئی ہے جو وقت کا خالق ہے‘ اس کی تنظیم کر رہا ہے‘ اس کے اصول بناتا ہے‘ ان احکامات کو باریک سے باریک اور بڑے سے بڑے معاملے میں نافذالعمل کرتا ہے۔

وقت نہ صرف خالق کائنات کے وجود کا بلکہ توحید کا شاید سب سے بڑا ثبوت ہے۔ رات اور دن کا آنا اور جانا اور آسمان پر ستاروں کی رونق اگر ان دونوں پر غور کیا جائے تو جو اسرار کھلتے ہیں وہ ایک ایسی ذات کے وجود پر دلالت کرتے ہیں کہ جو یکتا ہے اور حی و قیوم ہے‘ جو وقت کو  خوب صورتی سے ترتیب دیے ہوئے ہے‘ تاہم خود اس کے خول سے باہر ہے۔ جو فانی وقت کا مرکز رجوع ہے اور جو وقت کا نظم و نسق اس کی تمام تر نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہے۔

مغربی نظریات

مضمون کے اس حصے میں مغربی تہذیب کے وقت اور اس کے شعور کے بارے میں کردار پر روشنی ڈالی جائے گی۔ تاریخی طور پر مغربی فکر کے وقت کے بارے میں نظریات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوگا کہ مغرب نے وقت کے حقیقی تصور کو اپنے مہلک مفادات کے تابع بنا دیا ہے۔ مغرب کا تصور وقت کے بارے میں مغرب کے زندگی کے بارے میں تصورات ہی کا شاخسانہ ہے۔

مغرب نے انسانی زندگی کو خود ساختہ سیمابی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج کا انسان اپنے آپ کو وقت کے شدید دبائو میں محسوس کرتا ہے۔ سکون اور راحت کے حصول میں ساری زندگی گنوا دیتا ہے اور پھر بھی اس سے محروم رہتا ہے۔ اس اضطراب اور بے چینی میں ساری دنیا اس لیے نقصان اُٹھا رہی ہے کہ وقت کو وہی سمجھ لیا گیا ہے کہ جو گھڑی اور کیلنڈر بتاتا ہے‘ اور یہ سوچتے ہوئے کہ یہی زندگی بس اصل زندگی ہے۔

افراد‘ اداروں‘ قوموں کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کما لینے اور حاصل کرنے کے لیے وقف ہو جائیں۔ ایک وقت میں کئی کام کرنے کی صلاحیت ایک اچھی صلاحیت ہے جس کا بروے کار لایا جانا ضروری ہے۔ یہ صلاحیت باعث ِ خیر بھی ہے۔ لیکن اس وقت کے استعمال کا مقصد صحیح نہ ہو ‘ جو وقت کو اس کے اصل نقطۂ نظر سے ہم آہنگ کرے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو زندگی کے بے معنی ہو کر خلا سے پُر ہو جانے کی صورت میں نکلا ہے۔ طمع اور لالچ‘ حرص اور اَمَل (خواہش) نے ایک ایسی بھاگ دوڑ میں گھما دیا ہے کہ جو وقت کی مہلت کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے۔

۱-  وقت کو حصوں میں تقسیم کرنا اور مختلف اوقات کی مناسبت کے لحاظ سے اجتماعی کاموں کو ترتیب دینا یقینا ایک مفید کام ہے۔ بدنظمی‘ غیریقینی ابہام‘ من مانی اور شک کا خاتمہ اوقات پر اتفاق کرنے سے ہو سکتا ہے۔ مغرب میں St. Benedict نے تمام راہبوں کو پہلی مرتبہ عبادت‘ کام اور آرام کے لیے مخصوص اوقات کرکے ان کو سختی سے پابند کیا۔ اس طرح لوگ جو عموماً پہلے قدرتی اوقات جو سورج اور چاند کی حرکات سے وابستہ تھے‘ سے بے نیاز ہوگئے اور ایک انسان کے بنائے ہوئے اوقات کے پابندہوگئے۔ انسان کو قدرتی اوقات کے نظام سے لاتعلق کر کے اپنے بنائے ہوئے نظام الاوقات کا پابند بنانے کا نسخہ بالآخر بازار اور تجارت کی سرگرمیوں پر بھی نافذ ہونے لگا۔ یہ تبدیلی ۱۵۰۰ سال قبل آئی۔ رفتہ رفتہ پورا تعلیمی نظام بھی اس تصور کے مطابق ڈھال دیا گیا۔ آج کوئی اس کے بارے میں سوال یا شک نہیں کرتا ہے۔ متفرق نوعیت کے نظام الاوقات جو کارخانۂ قدرت میں چل رہے ہیں ان کے ساتھ وحدت کے بجائے گھڑی کو‘ جو عبادت گاہوں‘ چوراہوں‘ تجارتی عمارات پر بالعموم نصب کی جاتی ہے‘ آلہ بنا لیا گیا۔ انسان کی زندگی گھڑی کی طرح مشینی نوعیت کی ہوگئی۔ مشینی دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مشینی وقت کا تصور رائج کیا گیا۔

۲-  زندگی بجائے خود ایک گھڑی ہے۔ ایک مقرر میعاد اور طے شدہ مہلت ہے۔ گھڑی کی سوئی کو چلتے رہنا ہے لیکن قلب کا گھنٹہ گھر کس وقت دھڑکنا بند کر دے‘ اس کا کوئی پتا نہیں۔ زندگی کا وقت غیریقینی ہے۔ یہ بات وقت کو گھڑی کی سوئیوں تک محدود کر دینے سے عملاً فراموش ہوگئی۔مشینی وقت کا مرکز و محور معاش اور کام بن گیا ہے۔ وقت کو عددی لحاظ سے ناپنا تولنا یہ اپنی جگہ ضروری ہے لیکن اس کے نتیجے میں وقت کا مادّی تصور غالب آگیا۔ گھڑی جیسے وقت کو بناکر دے رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ خیال عام ہوگیا کہ وقت پر حکمرانی انسان کی ہے۔ نتیجتاًانسان کا اپنا وقت رہ گیا‘ نہ زندگی اس کی اپنی ٹھہری۔

وقت زندگی کا محتاج ہے۔ مغرب نے اس ترتیب کو اُلٹ دیا ہے اور اس طرح انسان کو اس کے سب سے قیمتی اثاثے پر حق ملکیت سے محروم کر دیا اور زندگی کے اہم ترین موڑ موت سے بے پروا کر دیا۔ وقت کے اصل مفہوم کے لحاظ سے ذمہ داری کا شعور بھی اسی لحاظ سے تبدیل ہوگیا۔

۳-  انسان کو اس کے خالق سے دُور لے جانے‘ خالقِ وقت کے دیے ہوئے تقاضوں اور قدرتی ربط اور فطری خول سے ذہنی طور پر باہر نکالنے کے عمل کی ساری کوشش تعلیمی نظام کے ذریعے ہوتی ہے۔ تربیت و تزکیہ‘ تعمیرونشوونما کے فطری عمل کے اُوپر اسکولوں کی صورت میں مصنوعی عمل کو جس تصور کے ساتھ مسلط کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو ایک گھڑی کا کل پرزہ ہی سمجھتا ہے۔ وہ اس زندگی کی مہلت عمل میں ہمیشہ کی زندگی کا سودا کرنے کے بجائے اس مہلت عمل ہی کو انتہا اور آخری سمجھ کر صنعتی میدان کے لیے اپنے آپ کو کارآمد بنانے کے لیے خود کو حوالے کر دیتا ہے۔ انسان کلاس روم کے وقت سے سالہا سال کے بعد جب باہر نکلتا ہے تو دفتر اور کاروبار کے وقت میں بغیر کسی مشکل کے گم ہو جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ طالب علم کے سیکھنے کی متوقع رفتار‘ ماضی کی کارکردگی اور دوسروں کی کارکردگی کے لحاظ سے مستقبل کے بارے میں پیش بینی کا سہولت آمیز طریقہ اختیار کرنے سے انسان کی اندرونی دنیا بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس کی خودی اور اس کے اپنے بارے میں تصور کی کوئی اہمیت اس کی نظر میں نہیں رہ جاتی۔ وہ مسلسل خارج کے ساتھ اپنے اندرون کو دبانے ‘ اور ہم آہنگ بنانا سیکھ جاتا ہے۔

۴-  روشن خیالی (Enlightenment) کے دور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عقل اور دلیل کے غلبے کے آغاز کا دور ہے۔ سائنسی طرزِفکر اور تجرباتی تحقیقات کے ذریعے حقائق معلوم کرنے کا دور یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس عرصے میں یہ کلیہ قائم ہو گیا کہ وقت کے ساتھ بتدریج ترقی ہی ہوگی‘ یعنی وقت ترقی کا ضامن ٹھہر گیا۔ آیندہ آنے والی کل میں انسانی تمدن اور تہذیب بہتر شکل میں ہوگی۔ اس طرح افکار کی قبولیت کے لیے جدید اور قدیم کا معیار قائم کیا گیا۔ جو نظریہ قدیم ہے وہ جدید کے مقابلے میں محض قدیم ہونے کی بنا پر قابلِ قبول نہیں ٹھہرتا--- اور جو جدید ہے وہ خواہ صحیح نہیں ہو‘ قابلِ قبول ہو جاتا ہے۔اس طرح جدیدیت (modernism) کے دور اور فلسفے کا آغاز ہوا۔ اِدھر وقت کے بارے میں مادی نظریات نے انسانی تاریخ کے بھی مادی کش مکش کی بنیاد پر ارتقا کا نظریہ دیا۔ تاریخ کہ جو رہنمائی کے لیے اہم ذریعہ ہے اس طرح اپنا اصل مقام کھو دیتی ہے۔

ظاہر ہے کہ خدا کی دی ہوئی رہنمائی سے بے غرض ہو کر انسان اگر اپنی کوشش سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے گا تو وہ ہر آنے والے کل میں پہلے تسلیم شدہ حقائق کو مسترد بھی کرتا جائے گا۔ وقت کے اُوپر یہ اعتبار کہ وہ بالآخر صحیح اور ترقی کی جانب لے جائے گا بہت بڑا دھوکا ثابت ہوا ہے۔ Logical positivism اور بتدریج ترقی (incremental progress) کے اصول کا اطلاق طبیعیاتی نوعیت کی تحقیقات میں یوں مفید ہے کہ انسان مرحلہ بہ مرحلہ ہی تجربات و مشاہدات کا دائرہ وسیع اور گہرا کر سکتا ہے۔ آج کا کیا ہوا کام ہی کل کے لیے بنیاد فراہم کرسکتا ہے لیکن اس نظریے کا اطلاق زندگی کے تصورات اور نظامِ زندگی اور تہذیب کے اصول و مبادی کے دائرے میں کامیاب نہیں رہا۔ معارفِ حق تو ایک طرف‘ حقیقت سے بھی صحیح تعارف نہ ہو سکا۔ ایک خبر کی جگہ دوسری خبر لے لیتی ہے۔ تحقیقی میدان میں آج شک اور گمان کا غلبہ ہے۔ کوئی طریقہ ایسا نہیں کہ جس سے معلوم ہو جانے والی بات پر سب اتفاق کریں کہ یہ یقینا صحیح اور سچ ہوگی۔

۵-  جس تہذیب کا انجن ٹکنالوجی ہے اس میں ’’نئے‘‘ کا ہونا‘ نئے کا پیدا کرنا‘ نئے کا پسند کیا جانا‘ نئے کو ترجیح دینا اور اس کے ساتھ پرانے کو بدل دینا‘ پرانے کو مسترد کرنا‘ پرانے کو کم تر جاننا بھی‘ ایک خاصہ ہے۔ صارفین کا مستقل مطالبہ ہوتا ہے کہ نیا ماڈل‘ نیا تصور‘ نیا طریقہ استعمال میں لایا جائے۔ نئے کو بہتر اور اعلیٰ کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ جو چیز پہلے سے ٹھیک کام دے رہی ہے اس کو حقیر اور بے کار قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لباس‘ سواری‘ ثقافتی طریقہ‘ خاندانی روایات‘ اخلاقیات بھی ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وہ اقدار جن سے بھلائی وابستہ ہے صرف اس لیے نہیں اپنائی جاتی ہیں کہ وہ پرانی ہیں اور پرانی بات یقینا دقیانوسی ہے۔ وہ لباس کہ جو ابھی ٹھیک کام دے رہا ہے صرف اس لیے قابل زینت نہیں ٹھہرتا ہے کہ اب تراش خراش تبدیل ہو گئی ہے۔

وقت کے گزرنے کو صنعت نے کاروبار کو بڑھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسی معیشت کی بنیاد پڑ گئی ہے جس کا اگر غور سے دیکھا جائے تو اصل کام مستقل فائدے کے بجاے عارضی فائدے اور بالآخر وہ اشیا بنانا ہیں جو ضائع ہو جاتی ہیں‘ جن کو بے وقعت ہو جانا ہے۔ مقصد بتایا جاتا ہے کہ value پیدا کرنا ہے ‘ جب کہ نتیجہ waste پیدا کرنا ہے۔

جب نئے اور پرانے کی بحث کا اطلاق معاشرے کے اُوپر کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ  نسلی تفاوت (generation gap) اور بچوں کے والدین کو خبطی سمجھنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

۶-  وقت کے تین مرحلے ہیں: ماضی‘ مستقبل اور حال۔ ان تینوں میں سے مغربی تہذیب اصل اہمیت آج‘ ابھی‘ اسی وقت‘ اسی لمحے کو دیتی ہے‘ یعنی حال میں بھی وہ فوری حال کو حال بعید یا مستقبل قریب کے مقابلے میں قابل ترجیح سمجھتی ہے۔ اس کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ کام کرنے کے لیے اس لمحے کو جو ابھی گزر رہا ہے بڑی اہمیت ہے۔ جب تک کہ آج اور اسی وقت کوئی قدم نہ اٹھایا جائے گا کل بھی کچھ نہ ہوگا۔ آج کی آسانی‘ اس وقت کی کشادگی‘ اس لمحے کی مسرت‘ اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش‘ اور آج کا ہاتھ کو لگتا ہوا فائدہ اس کی اہمیت کل سے یا کسی عہد سے یا کسی اخلاقی پابندی سے یا کسی اور وجہ سے مؤخر کرنے سے زیادہ ہے۔ اس طرح کل جو پیش آنے والا ہے اس سے آنکھیں بند کر کے آج کو بہتر بنانے کی کوشش حاوی ہوگئی ہے۔

فوری خواہش کے اثرات کردار پر گہرے ہوتے ہیں۔ نفسانی جبلت اور دنیاوی رغبتوں کی غلامی کا یہ انداز جرائم اور ظلم کے راستے پر لے جاتا ہے۔ انسان اپنی اولاد کو قتل کر دیتا ہے کہ میرا رزق کم ہو جائے گا‘اپنے والدین سے رشتہ توڑ لیتا ہے کہ یہ میری راحت میں کمی کا باعث ہوں گے۔

آج اور اس وقت کی طلب نے فوری (instantaneous)  رجحان کو فروغ دیا ہے۔ ہر چیز تیار حالت میں ملے۔ اس کے باعث رفتار کے حصول کی اور اس کو بڑھانے کی کوشش ہوئی تاکہ جہاں پہنچنا ہو‘ جو کام کرنا ہو وہ فوراً ہوسکے۔ رفتار میں اضافے کے نتیجے میں وقت کا دبائو کم ہونے کی توقع کبھی پوری نہ ہوئی بلکہ زندگی کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا۔ جس سے نمٹنے کے لیے خودکاری (automation) اور سبک رفتاری (acceleration)کی ٹکنالوجی آئی۔ عصرِحاضر میں انسانی تمدن کے ارتقا میں ٹکنالوجی کا بہت بڑا کردار ہے۔ انسانی معاشرہ اس کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات میں آج گرفتار ہے۔

۷-   زیادہ سے زیادہ پیداوار اور کم سے کم وسائل کی جستجو کوئی بُری بات نہیں۔ اس کے نتیجے میں وسائل ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ وقت کم صرف ہوتا ہے‘ اخراجات کم ہوتے ہیں لیکن اس کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کی قیمت لگ گئی۔ وقت خود قیمتی ہوگیا۔ وقت دولت اور کرنسی کی طرح کی حیثیت اختیار کرگیا۔ پیسہ وقت کا قائم مقام بن گیا۔ قوت کا ایک اظہار اس وقت کی خرید و فروخت اور سودے سے ہونے لگا۔ جہاں بس چلا وہاں غلام بنا کر‘ زنجیروں میں  جکڑ کر اور رنگ و نسل کی تفریق کرتے ہوئے وقت کو پیداوار کے لیے زبردستی حاصل کیا گیا۔   سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام میں وقت پر تسلط قائم کیا گیا۔ وقت دینے کو زندگی دینے کے برابر سمجھ لیا گیا۔ جس سے کچھ وقت لینے کا سودا ہوا ‘ اس کی پوری زندگی کو بھی ساتھ ہی قابل تصرف سمجھ لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مغرب میں ٹریڈ یونین کے ہنگامے ہوتے تھے تو مزدور فیکٹری کی گھڑی ضرور توڑ دیتے تھے‘ اس لیے کہ وہ استحصال کی علامت تھی۔ وہ حاکم کے حق میں اور محکوم کے خلاف فیصلہ دیتی تھی۔

۸-  مغرب نے وقت کے ساتھ ہم آہنگی (time culture) کا تصور اُجاگر کیا ہے تاکہ پھیلتی ہوئی اجتماعی زندگی کو باندھا جائے۔ اس سے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ تصور اور شوق ساری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی معمولات منظم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی تصور ملکیتی وقت‘ یعنی (property time) یا اپنے وقت (self time) کا تھا تو وہ بتدریج سکڑتا چلاگیا۔ قوت کے مراکز ادارے اور افراد کا منشا وقت کے بارے میں بھی حاوی ہو گیا۔ کچھ لوگوں کے پاس وقت زیادہ ہے اور کچھ کے پاس کم۔ کچھ کو محسوس ہوتاہے کہ وقت ان سے چھینا جا رہا ہے‘ جب کہ کچھ حسب منشا لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ غریبوں کے حصے میں انتظار اور پھر امید اور مایوسی ہی آئی۔ کمزور کام کے لیے انتظار کرتا رہتا ہے‘ بہتری کی توقع رکھتا ہے اور وقت کو گزارنے کا بندوبست کرتاہے۔ اِدھر امیر اور بااختیار کا وقت بھی اس طرح مختلف مطالبوں کے شکنجے میں پھنسا ہوا رہتا ہے کہ وہ ساری زندگی self time کے حصول اور اضافے کی کوشش میں سارا وقت گنوا دیتا ہے۔

۹-  میڈیا ٹکنالوجی اسکرین کی مدد سے نشریاتی رابطوں (broadcasting networks) کے تعاون سے ایک جانب شعور اور تاثرات میں یکسانیت اور کسی واقعے اور خبر کے بیک وقت مشاہدے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس سے اثرونفوذ کی راہیں تو بڑھ گئیں   لیکن ہم آہنگی کا ایک غلط تاثر قائم ہو گیا۔ ایک وقت میں مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے افراد کے درمیان یکسانیت پیدا کرنے کے لیے ان کو مشترکہ طور پر کسی عمل میں شریک ہونے کا موقع وقت کے اختلاف‘ فاصلوں کی نوعیت کو زائل کر دیتا ہے۔ عالمیت کو تقویت پہنچانے کے لیے         یہ ہم آہنگی کا سراب (illusion of simultaneity)  اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وقت کو سمیٹنا (time compactness) اور اختلافِ وقت کے نتیجے میں شعور و احساس کے اختلاف کے امکان کو کم کرنا جدید کاروباری کوششوں کا اہم مرکز ہے۔ ایک وقت میں دنیا بھر سے کروڑوں افراد کسی ایک جگہ ہونے والے میچ یا جنگ کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وقت میں جو ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دائرہ کار بڑھ گیا ہے۔ جو پہلے فاصلے کی وجہ سے متعلق نہ تھے  وہ بھی براہِ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ (فہمِ وقت کے اسلامی تصورات پر تحریر آیندہ پیش کی جائے گی)

۱۳ فروری ۱۹۹۷ء کو جب میں عالمی بنک (ورلڈ بنک) کے چیف اکانومسٹ اور سینئروائس پریذنڈنٹ کی حیثیت میں واشنگٹن میں اپنے دفترکی عظیم الشان جدید عمارت میں داخل ہوا‘ تو پہلی چیز جس پر میری توجہ مرکوز ہوئی وہ اس ادارے کا رہنما اصول تھا: ’’ہمارا خواب ہے ایک ایسی دنیا جس میں غربت نہ ہو‘‘ … سڑک کی دوسری جانب سرکاری ثروت کا ایک دوسرا تاب ناک شاہ کار سربلند تھا۔ یہ     بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مانٹیری فنڈ:IMF ) کی عمارت تھی۔ سنگ مرمر  اور پھولوں سے سجی ہوئی۔ اس کی اندرونی ساخت کو دیکھ کر غیرملکی وزراے خزانہ  اس بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آئی ایم ایف دولت و حشمت اور قوت کے مراکز کی نمایندگی کرتا ہے۔ (جوزف اسٹیگ لٹز‘ Globalization and its Discontents)


۱۹۹۹ء میں سیاٹل (seattle) میں جب ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن (WTO) کے اجلاس کے موقع پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوئے اور ہزاروں امریکی سڑکوں پر نکل آئے تو انھوں نے ساری دنیا کو چونکا دیا تھا۔ عالم گیریت٭ کی لہرکے نتیجے میں پس ماندہ اور نام نہاد ’’ترقی پذیر‘‘ ملکوں میں غلط قسم کی ’’کفایت شعاری‘‘ اور نج کاری کے پروگراموں پر عوام کے احتجاج اور مظاہرے کوئی نئی بات تو نہ تھے‘ لیکن امریکہ جیسے ’’ترقی یافتہ‘‘ اور خوش حال ملک میں عوام کو کیا پڑی تھی کہ وہ عالم گیریت کی اس علامت‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے؟ عالم گیریت اور معاشی غلبے کی اس ظالمانہ حکمت ِ عملی کو‘ جس میں کمزور اور طاقت ور کو ایک ہی اکھاڑے میں اُتار دیا گیا ہے‘ ہزار معصومیت کے پردوں میں ملفوف کیا جائے مگر پچھلی (بیسویں) صدی کے اواخر ہی میں محسوس ہونے لگا تھا کہ دنیا کے اربوں عوام کے خلاف دنیا کے قارون اور ہامان ایسی سازشیں کر رہے ہیں جن کے خلاف     مؤثر احتجاج نہ کیا گیا تو عام انسان پھر کبھی سر نہ اُٹھا سکے گا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(IMF)‘ عالمی بنک(World Bank) اور عالمی تجارتی ادارے (WTO) کے خلاف اب ساری دنیا میں چیخ وپکار کا وہ سلسلہ شروع ہوا ہے‘ کہ ان اداروں کا جہاں بھی کوئی بڑا اجلاس ہوتا ہے‘ باشعور اور حسّاس شہری احتجاجاً سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ احتجاجوں کے یہ سلسلے بڑی حد تک ’’ترقی یافتہ‘‘ اور امیرملکوں کے شہریوں ہی نے شروع کیے ہیں‘ اور پس ماندہ ملک اور ان کے شہری‘ جو ان کی پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر اور ان کے غمزوں کے زیادہ گھائل ہیں اب تک خواب سے بیدار ہوتے نہیں محسوس ہوتے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ آلامِ روزگار میں انھیں اس طرح اسیر کر دیا گیا ہے کہ انھیں ہوش ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے!

یہ عالم گیریت‘ بنیادی طور پر ساری دنیا کے ملکوں اور عوام کے درمیان تجارت‘ اور مفادات (بڑی حد تک معاشی مفادات) کے انضمام اور پیوستگی (integration)کا نام ہے‘ جو رسل و رسائل اور ابلاغ کے ذرائع میں عظیم الشان انقلاب کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ آمدورفت‘ رسل و رسائل‘ ابلاغ و اطلاع کی سُرعت اور سہولت کے نتیجے میں ساری دنیا کے ملک اور ان کے شہریوں کے درمیان نہ صرف فاصلے کم ہوئے ہیں‘ بلکہ بہت سی رکاوٹیں بھی دُور ہوئی ہیں‘ اور قدغنیں ڈھیلی پڑتی جا رہی ہیں۔ ان سہولتوں سے اشیا‘ خدمات‘ سرمائے اور اطلاع و آگاہی (علم؟) کے آزادانہ ‘ بے روک ٹوک بہائو میں تیزی اور آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ دنیا ایک ’’عالمی قصبے‘‘ (global village) میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ ملکوں کے درمیان سیاسی لکیریں دُھندلی پڑتی جا رہی ہیں ‘ اور ساری دنیا کے لوگ ایک دوسرے سے جڑتے جا رہے ہیں۔

کیا یہ سب کچھ خوش آیند نہیں؟ کون اپنے بچے کو مرتا دیکھنا چاہتا ہے‘ جب کہ اس کے مرض کو رفع کرنے کی تدبیر اور دوا دنیا میں کہیں نہ کہیں موجود ہو۔ بہتر معاشی مواقع‘ آزاد منڈی‘ اشیا اور خدمات کی آزادانہ خریدوفروخت میں ناروا پابندیوں کے ختم ہونے سے کسے خوشی نہ ہوگی؟ بہت سے دانش وروں (اور بے شعور عوام) کا کہنا ہے کہ رسل و رسائل کے جدید ذرائع اور اُن سے بڑھ کر علم و آگاہی کے نئے وسائل نے جس طرح فاصلوں کو بے معنی بنا دیا ہے‘ اور دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے‘ اس کے زیراثر عالم گیریت نہ صرف ناگزیر ہے‘ بلکہ مستحسن بھی ہے‘ جب کہ بہت سے سوچنے سمجھنے والے ذہن اس کے فوری اور دُور رس نتائج سے مطمئن نہیں۔ جوزف اسٹیگ لٹز(Joseph Stiglitz)کی تازہ ترین تصنیف ’’عالم گیریت اور اس کے اضطراب‘‘ (Globalization and its Discontents)اس نئے رجحان پر روشنی ڈالنے کی ایک وقیع کوشش ہے‘ اگرچہ بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس رجحان سے نہیں‘ بلکہ اس کے کارپردازوں سے غیرمطمئن ہیں۔

جوزف اسٹیگ لٹزبنیادی طور پر ’’ریاضیاتی معاشیات‘‘ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں‘ تاہم عالمی اطلاقی معاشیات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ ۱۹۸۰ء میں وہ چین کے حکمرانوں کو ضابطی معیشت (command economy)سے ’’آزادمعیشت‘‘کی سمت سفر کے سلسلے میں مشورے دے رہے تھے۔ گویا تعلق ان کا بھی اسی معاشی فلسفے سے ہے‘ جس کے برگ و بار میں یہ جدید معاشی رجحان بھی شامل ہے۔ ۱۹۹۳ء میں وہ امریکی صدر کلنٹن کے مشیرانِ معاشیات کی کونسل میں شامل ہوئے‘ جس کے وہ صدرنشین بھی رہے‘ اور وہاں سے وہ ۱۹۹۷ء میں عالمی بنک کے چیف اکانومسٹ اور سینیروائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر پہنچے۔ ۲۰۰۱ء میں انھیں معاشیات میں نوبل انعام دیا گیا۔ انھوں نے کئی امریکی اداروں بشمول جامعہ کولمبیا میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔

جیساکہ اُوپر کہا جا چکا ہے ‘ اسٹیگ لٹزفی نفسہٖ عالم گیریت کے خلاف نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عالم گیریت تو آزادانہ تجارت کی راہ میں رکاوٹوں کو دُور کرنے اور قومی معیشتوں کے درمیان باہم ارتباط کا نام ہے۔ یہ تمام قوموں‘ بشمول غریب اور پس ماندہ ملکوں کی بھلائی اور خوش حالی میں ممدومعاون ہوسکتی ہے۔ لیکن عالم گیریت کو جس رُخ پر ڈالا جا رہا ہے‘ بین الاقوامی تجارت پر سے جس انداز میں پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں‘ خصوصاً غریب ملکوں پر جو پالیسیاں تھوپی جا رہی ہیں‘ ان پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ آزاد معیشت میں بنیادی طور پر اطلاع اور آگاہی کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے مگر ان کا مشاہدہ ہے کہ آزاد معیشت کے علم بردار ملکوں اور وہاں کام کرنے والے تجارتی اداروں کے ہاں اطلاع کی راہیںیک طرفہ ہیں۔ کارکن اور آجر‘ قرض دار اور قرض خواہ‘ انشورنس کمپنی اور انشورنس خریدنے والے کے درمیان آگاہی کا رشتہ دوطرفہ نہیں۔اسی طرح آئی ایم ایف کی پالیسیاں بھی اس فرسودہ نظریے پر استوار ہیں کہ منڈی کی معیشت میں خود درستی کا ایک نظام موجود ہے‘ اور سرکاری دخل اندازی (حکومتوں کے کردار) کے ہٹائے بغیر ملکوں میں معیشت کی اصلاحِ احوال ممکن نہیں۔

عالم گیریت کے حامی ہمیں بتاتے ہیں کہ آزادانہ بین الاقوامی تجارت کے زیراثر  ترقی پذیر ملکوں کی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں میں برآمدی مصنوعات کی تیاری کے لیے صنعتیں وجود میں آئی ہیں‘ کارخانے لگے ہیں‘ لوگوں کو روزگار فراہم ہوئے ہیں‘ اطلاعات کی فراہمی‘ تعلیم و تربیت کے مواقع‘ بہترصحت ‘ بڑے منصوبوں کے لیے قرض اور امداد سے ترقی کی راہیں کھلی ہیں‘ پس ماندہ ممالک اور عوام نئی حرفتوں اور صنعتوں سے آشنا ہوئے ہیں‘ اور لوگوں کی آمدنیوں اور معیارِ زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔     عالم گیریت--- جو اس سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے‘ جس کا سرخیل امریکہ ہے--- اب ترقی کا ہم معنی لفظ بن گئی ہے۔ اس کے بغیر کوئی ملک آگے بڑھنے‘ ترقی کرنے‘ پھلنے پھولنے اور اپنے شہریوں کو بہتر زندگی سے آشنا کرنے کا تصور نہیں کر سکتا۔

ان معصوم آرزوئوں اور جائز خواہشات کا ڈول جولائی ۱۹۴۴ء میں ڈالا گیا۔ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کا اختتام قریب نظر آرہا تھا۔ یورپ زخموں سے چور تھا‘ جس کی بحالی ضروری تھی‘اور پھر ایشیا اور افریقہ میں آزادی کی لہریں تُند ہوتی نظر آتی تھیں۔ مستقبل میں  نوآبادیات کے پرانے نظام کو باقی رکھنا غیردانش مندانہ محسوس ہوتا تھا (یہ رائے صاحب ِکتاب کی نہیں ہے)۔ اب اتحادی طاقتوں کے پالیسی سازیورپ کی ’’تعمیرنو‘‘ کی منصوبہ بندی کے لیے برٹین وڈس (Bretton Woods) میں جمع ہوئے۔ اس کانفرنس میں اُس ’’بین الاقوامی  بنک براے تعمیروترقی‘‘(The International Bank for Reconstruction and Development) کی بنیاد پڑی جسے اب عام طور پر ’’عالمی بنک‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ’’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ‘‘یا آئی ایم ایف کا ڈول بھی وہیں ڈالا گیا اور اس کے ذمے یہ فریضہ تفویض ہوا کہ عالمی معاشی توازن پر نظر رکھے اور اُسے بگڑنے نہ دے۔ پچھلی صدی میں ۳۰ کے عشرے میں امریکہ سے جو عالمی کساد بازاری شروع ہوئی تھی‘ اس طرح کے معاشی جذر اور نشیب پیدا نہ ہونے پائیں۔ فلسفہ یہ تھا کہ بعض اوقات بعض ملکوں میں معاشی سرگرمیاں درست انداز میں نہیں ہوتیں۔ منڈیاں صحیح طریقے سے کام نہیں کرتیں۔ مجموعی طلب میں اگر دنیا کے ایک گوشے میں بھی کمی آنے لگے‘ تو اس کے اثرات دوسرے ملکوں پر بھی پڑتے ہیں۔ وہاں بھی پیداوار کو گھٹانا ناگزیر ہو جاتا ہے‘ اور پیداوار میں کمی کرنے کے لیے لوگوں کو بے روزگار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ صنعتی اور پیداآوری سرگرمیوں میں پستی کے رجحان سے پھر معاشی بدحالی جنم لیتی ہے‘ اور یوں ایک طرح کا زنجیری ردّعمل شروع ہو جاتا ہے۔ کہا یہ گیا کہ ایک ایسے  عالمی بنک کی ضرورت ہے جو معاشی دبائو کے شکار ملکوں کو مطلوبہ سرمایہ مہیا کرسکے‘ یعنی ان کی مالی مدد کرسکے (ایک مہاجن ہو‘ جو سود پر قرض دے سکے!)۔ رسماً توعالمی بنک ایک پبلک ادارہ ہے ‘ جس کا سرمایہ دنیا کے بہت سے ملکوں کے سرمایہ داروں نے مہیا کیا ہے ‘ اور گویا یہ ایک طرح کی ’’مالیاتی اقوامِ متحدہ‘‘ ہے۔ مگر اس میں موثر قوت اور کنٹرول صرف ’’بڑے ترقی یافتہ‘‘ ملکوں ہی کے ہاتھ میں ہے ‘اور عملاً صرف ایک ملک --- امریکہ-- موثر ویٹو کا اختیار رکھتا ہے۔

مصنف کے مطابق اگرچہ اپنی تشکیل کے وقت اس ادارے کا مقصد یہی تھا کہ خراب اقتصادی کارکردگی والے ملکوں پر دبائوڈالے کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں کی اصلاح کریں‘ پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ دیں‘ ٹیکسوں میں کمی کریں‘ شرحِ سود گھٹائیں‘ عوامی خدمات پر خرچ کریں اور سرکاری اخراجات میں اضافہ کریں‘ اور یوں معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کوشش کریں‘ لیکن آج عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف صرف اُسی وقت کسی ملک کو فنڈ جاری کرتا ہے جب وہ ملک اس کی شرائط پر اور اس کی پالیسیوں کے مطابق کام کرنے پر آمادہ ہو‘ اپنے میزانیے کے خسارے میں کمی کے لیے سرکاری اخراجات میںکمی کے لیے راضی ہو جائے‘ یعنی تعلیم‘ صحتِ عامہ اور عوامی مفاد کی ذمّہ داریوں سے دست کش ہونے پر تیار ہو جائے‘ ٹیکسوں کو بڑھانے اور شرحِ سود میں اضافے کو قبول کرے اور یوں مفادِ عامہ کی معیشت کے بجائے ساہوکاری معیشت اپنانے پر تیار ہو جائے۔

مصنف کو اعتراف ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام واشنگٹن کے ایما پر اور اس کی خواہش کے مطابق ‘ حکماً نافذ کیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ان جیسے بین الاقوامی اداروں کے اراکین ’’امداد‘‘ لینے والے ملکوں کے پنج ستارہ ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں‘ وہاں کے مرکزی بنک اور وزارتِ خزانہ کے افسران سے اعداد و شمار کی ٹھنڈی فضائوں میں گفتگو کرتے ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ ’’افراطِ زر کو روکنے‘‘ اور ’’معاشی اصلاحات‘‘ اور ’’نج کاری‘‘ کے جو منصوبے وہ لے کر آئے ہیں ‘ مغربی بنکوں کے قرضوں کی وصول یابی کے جو پروگرام وہ پیش کر رہے ہیں‘ ان سے کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔ بے روزگار ہونے والے تو انسان ہیں۔ ان کے خاندان‘ بیوی‘ بچے اور لواحقین ہیں جن کی زندگیاں اجیرن ہو جائیں گی‘ ان کی پالیسی‘ بلکہ احکام کی وجہ سے کتنے لوگ تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ ’’جدید ہائی ٹیک جنگ اس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ ]متحاربین کے درمیان[ جسمانی رابطے کی نوبت ہی نہیں آتی… ۵۰ ہزار فٹ کی بلندی سے بم گرانے والوں کو یہ ’’محسوس‘‘ نہیں ہوتا کہ ان کے اس فعل کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔ جدید معاشی نظم کاری اور منصوبہ بندی بھی اسی طرح کی ہے۔ اعلیٰ ترین ہوٹل کے پُرتعیش کمروں میں بیٹھ کر کروڑوں عوام کے لیے منصوبہ سازوں کو ’’محسوس‘‘ ہی نہیں ہوتا کہ جن کی قسمتوں کے فیصلے وہ کرنے جا رہے ہیں‘ وہ کس بربادی کا شکار ہوں گے۔ اگر وہ اُن کے درمیان ہوتے‘ ان کو ذاتی طور پر جانتے ہوتے‘ ان سے رابطے میں ہوتے‘ تووہ شاید یہ فیصلے نہ کرتے‘‘۔

کیا یہ مصنف کی سادگی اور بھولپن ہے یا تجاہلِ عارفانہ؟ وہ خود اس بات سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ نصف صدی میں یہ ادارے اور ان کا تیسرا ساتھی ’’عالمی تجارتی ادارہ‘‘ (WTO)  ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ملکوںپر کیا کیا ستم نہیں ڈھا چکے ہیں؟ انھیں اعتراف ہے کہ پچھلی رُبع صدی میں آئی ایم ایف کی ’’کوششوں کے باوصف‘‘ ساری دنیا میں معاشی بحرانوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سرمائے کی منڈیوں کی بے لگام آزادیوں سے غریب ملکوں کی معیشت مزید زوال کا شکار ہوئی ہے‘ اور جب ایک ملک بحران کا شکار ہوتا ہے‘ تو آئی ایم ایف کے قرضے اور اس کے دیے ہوئے پروگرام نہ صرف یہ کہ ا س کے توازن کو بحال کرنے میں ناکام ہوتے ہیں‘ بلکہ ان کے نتیجے میں مرض کی شدت میں اور اضافہ ہی ہوتا ہے۔ خاص طور پر یہ پروگرام ملک کے نچلے طبقے کے لیے مزید غربت اور عذاب کا باعث ہوتے ہیں۔

عالمی تجارتی ادارے نے یہ فلسفہ دیا کہ بہت سے ملک اپنی معیشت کو بچانے یا فروغ دینے کے لیے درآمدات پر بے جا پابندیاں یا محاصل عائدکرتے ہیں‘ جو ایک غلط پالیسی ہے‘ اور اس سے ان کے ’’پڑوسیوں‘‘ کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک ایسا بین الاقوامی ادارہ ہونا چاہیے‘ جو اشیا اور خدمات کی آزادانہ نقل و حرکت کو پروان چڑھائے۔ مگر ہوا یہ کہ اس ادارے اور ’’محصولات اور تجارت پر عمومی اتفاق‘‘ (GATT: General Agreement on Tariffs and Trade) سے خسارہ صرف غریب ملکوں ‘ خصوصاً ان کے معاشی طور پر پس ماندہ طبقوں ہی کے حصے میں آیا ہے۔ تحفظ سے محرومی کے نتیجے میں ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ملک‘ خام مال پیدا اور مہیا کرنے والے اور ترقی یافتہ ملکوں کی مصنوعات کے صارف بن گئے ہیں۔ وہ مصنوعات‘ جو امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان‘ فرانس اور دوسرے ’’ترقی یافتہ ممالک‘‘ تیار کرتے ہیں۔ ’’ترقی پذیر‘‘ ملکوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ تجارتی پابندیاں ہٹائیں اور اپنے ملکوں میں درآمدات کو آزادانہ آنے دیں‘ جب کہ وہ ان کی مصنوعات پر کئی وجوہ سے پابندیاں لگا دیتے ہیں (مصنوعات غیرمعیاری ہیں‘ بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے‘ وغیرہ)۔ غریب ملکوں کی صنعتیں دم توڑ رہی ہیں‘ کارخانے بند اور مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ کئی ملکوں میں توکسان بھی اپنے کھیت کی پیداوار اس قیمت پر فروخت نہیں کر پا رہے‘ جو امریکہ اور یورپ میں حکومتی اعانت کی وجہ سے ارزاں قیمت پر دست یاب ہو جاتی ہے۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں نہ صرف صنعتی سرگرمیاں ختم ہوتی جارہی ہیں‘ بلکہ کسان بھی تباہ حال ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعتی ملکوں کو جس خام مال (بشمول زرعی اجناس روئی‘ پٹ سن‘ چمڑا‘ معدنیات‘ معدنی تیل‘ گیس وغیرہ) کی ضرورت ہے‘ اس کی قیمت کا تعین وہ خود کرلیتے ہیں‘ کیوں کہ انھیں اونے پونے برآمد کیے بغیر یہ غریب ملک وہ اشیا اور خدمات حاصل نہیں کرسکتے‘ جن کا انھیں چسکا لگا دیا گیا ہے۔ کاریں اور کمپیوٹر‘ جدید طبّی آلات و سہولیات‘ برقیات‘ تفریح اور آگاہی کے لیے نئے وسائل اور آلات اور ’’غریبوں کی بہت سی عیاشیاں‘‘ (کوکا کولا‘ پیپسی‘ کے ایف سی کی تلی ہوئی مرغیاں‘ پیزا‘ درآمد شدہ ٹافیاں‘چاکلیٹ اور کھلونے) اس وقت تک دست یاب نہیں ہوں گے جب تک آپ کے پاس زرمبادلہ نہ ہوگا۔ اور زرِمبادلہ کے لیے آپ کو اپنے اثاثے اور خود اپنے آپ کو کسی نہ کسی قیمت پر فروخت کرنا ہوگا کہ جی-سیون (سات اہم ترین (گریٹ!) ترقی یافتہ صنعتی ملکوں: امریکہ‘ جاپان‘ جرمنی‘ کینیڈا‘ اٹلی‘ فرانس اور برطانیہ) کا تقاضا یہی ہے۔

مروّجہ معاشی فلسفے کی ایک حکمت ِعملی نج کاری بھی ہے۔ خود اسٹیگ لٹزبھی اس کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں بہت سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں حکومتیں وہ کام کر رہی ہیں جو انھیں نہیں کرنے چاہییں۔ بھلا حکومت کو فولاد کے کارخانے لگانے اور چلانے سے کیا سروکار؟ اس طرح کے بڑے منصوبوں میں وہ اپنا وقت‘ توجہ اور سرمایہ ’’ضائع‘‘ کرتی ہیں‘ اور بہت سے کرنے کے کام رہ جاتے ہیں‘ تاہم مصنف سے یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہا جاتا کہ دنیا میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے فولادی کارخانے وہ ہیں جو کوریا اور تائیوان کی حکومتیں چلا رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں بات یہ نہیں کہ کوئی صنعت حکومت کی تحویل میں ہے‘ یا نجی ہاتھوں میں‘ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ انھیں چلانے والے کتنے اہل اور دیانت دار ہیں۔

بدقسمتی سے آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے اس مسئلے کو ٹھیٹھ سرمایہ دارانہ فلسفے اور منڈی کی معیشت کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے ملکوں میں قومی اثاثے اور ’’کاروبار‘‘ جو عوام کے خون پسینے ‘ محنت اور سرمائے سے وجود میں آئے تھے‘ اونے پونے     نجی پارٹیوں کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان اور بھارت میں‘ بلکہ ان جیسے بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں ’’کارپوریٹ گلوبلائزیشن‘‘ کی پالیسی‘ تمام معاشی‘ سماجی اور سیاسی بیماریوں کی واحد دوا کے طور پر پیش کی جا رہی ہے‘ اس کی حمایت اور وکالت کی جا رہی ہے۔ معاشی بزرجمہراور سیاسی دانش ور ’’تجارتی جسدکاری‘‘ (corporatization) اور نج کاری کے حق میں دلائل دیتے نہیں تھکتے‘ اور تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں کے حکمراں اپنے مادرِ وطن کے قدرتی وسائل‘ اثاثے‘ اور وہ بنیادی ڈھانچے جو ایک صدی میں وجود میں آئے تھے‘ ملکی اور غیر ملکی آڑھتیوں کو بیچنے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں۔ ملکی تعلیم اور تعلیمی ادارے‘ صحت‘ بجلی‘ گیس‘ تیل‘ کوئلہ‘ لوہے اور فولاد کی صنعت‘ ٹیلی فون‘ رسل و رسائل‘ سڑکیں‘ ریلوے اور قومی علَم بردار فضائی کمپنیاں اور بندرگاہیں‘ حتیٰ کہ پینے کے پانی (بوتلوں کی شکل میں) نج کاری کے نتیجے میں عالمی ساہوکاروں کی نذرکیے جا رہے ہیں 

قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند

کیا دنیا کے اربوں عوام کے خلاف کوئی بڑی سازش ہوئی ہے؟ مصنف کے خیال میں ایسانہیں۔ ابتدا میں نیتیں تو نیک تھیں لیکن ان بین الاقوامی اداروں کے کردار میں تبدیلیاں ۱۹۸۰ء کے عشرے سے واقع ہوئیں‘ جب امریکہ میں رونالڈ ریگن اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر نہ صرف اپنے اپنے ملکوں میں بلکہ ساری دنیا میں منڈی کی معیشت کا پرچار کر رہے تھے۔ دعویٰ یہی تھا کہ یہ نظام ساری دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو فلاح اور خوش حالی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ اگرچہ وال اسٹریٹ اور آئی ایم ایف کے خلاف ایسی شہادتیں مہیا کرنا دشوار ہے جنھیں عدالت میں ثابت کیا جا سکے‘ مگر اقوامِ عالم کے خلاف ان کی سازشوں کے انداز نہایت ’’لطیف‘‘ اور خفیہ ہیں۔بند دروازوں کے عقب میں ایک خفیہ اجلاس‘ کسی کے بیان یا گفتگو کا ایک مخصوص لہجہ‘ ایک بظاہر سادہ سی دستاویز--- کروڑوں انسانوں کی زندگی پراثراندازہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی نہایت شُستہ معذرت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ ان ترقی پذیر ملکوں کے کروڑوں عوام کو جو سختیاں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں‘ وہ بہشت کی طرف جانے والے راستے کی سختیاں اوردشواریاں ہیں۔ انھیں توانگیز کرنا ہی ہوگا۔ یا پھر وہ اس طرح کی شکایات کو ایک محکوم نوآبادی کی صداے احتجاج کے طور پر حقارت سے ردّ کر دیتے ہیں۔

یہ ایک نیا استعمار ہے ‘ جس میں حاکموں کی ذمہ داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر آپ نے جانور پالے ہیں کہ ان کا دودھ اور گوشت حاصل کریں‘ تو آپ کی یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے  کہ انھیں کھلائیں پلائیں‘ اُن کی دیکھ بھال کریں اور ان کی حفاظت کریں۔ لیکن جب آپ جنگل میں شکار کے لیے نکلتے ہیں‘ توشکار ہونے والے کسی جانور کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہوتی۔ آپ بھی آزاد ہوتے ہیں اور وہ بھی!

(Joseph E. Stiglitz, Globalization and its Discontents, London, Allen Lane, Penguin Books, 2002, pp 282, £16.99)

شیخ احمد یاسین سے ایک انٹرویو

ترجمہ:  حافظ محمد عبداللہ

حماس کی جدوجہد کو ۱۵ برس ہو چکے ہیں۔ حماس کے اس سفر کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

یہ ہم سب پر بلکہ پوری دنیا پر اللہ کا فضل ہے کہ حماس کی جڑیں ملّت اسلامیہ فلسطین‘ عالم عرب بلکہ عالم اسلام تک پھیل چکی ہیں اور اب یہ ایک ایسی قوت بن چکی ہے جسے نظرانداز کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ کئی ممالک کے ساتھ حماس کے مستقل روابط ہیں۔ عالم اسلام اور عرب‘ دنیا میں ہر جگہ سے انھیں تعاون حاصل ہو رہا ہے۔ ان شاء اللہ اب یہ تحریک بہتر سے بہترین کی جانب گامزن رہے گی۔

کئی لوگ تحریک انتفاضہ کے عسکری پہلو کے خاتمے کی بات کرتے ہیں- اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟

یہ لوگ ہم سے شکست تسلیم کرلینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم صلح کا سفید پرچم لہرا دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہتھیار ڈال دینے والے شکست خوردہ سپاہی کو شکست کی قیمت ضرور چکانا پڑتی ہے اور اگر ان کی بات مان لی جائے تو قضیے کے اختتام پر ہماری بھی یہی حالت ہوگی۔ ہم سے مذاکرات کی میز پر دب کر ‘ شرم ناک صلح کرلینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایسی صلح سے قوم کے سارے حقوق ضائع ہو جائیں گے۔ جان لینا چاہیے کہ جہاد و مزاحمت ہی کے سبب‘ قوم نے اپنا وجود اور اپنے دفاع کا حق حاصل کیا ہے۔ ماضی میں دشمن ہمارے وجود ہی سے انکاری تھا۔ پہلے بھی انتفاضہ ہی کے نتیجے میں اسے ہمارا وجود تسلیم کرنا پڑا۔ اب بھی یہ موجودہ تحریک ہی کا ثمرہ ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی بات بھی ہونے لگی ہے۔ یہاں تک کہ لیکوڈ پارٹی بھی جو فلسطینیوں کے وجود کی سرے سے ہی انکاری تھی‘ اب فلسطینی مملکت کے قیام کی بات تو کرنے لگی ہے (اگرچہ بغیر کسی سرحد کے)۔ جہاد و مزاحمت کی انھی کارروائیوں کے سبب ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور دشمن پسپائی پر مجبور ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم اسے کچھ مہلت دیں تاکہ وہ قوم کا حوصلہ پست کرسکے۔ قوم نے نام نہاد امن کے اِن جھوٹے نعروں کو مسترد کر دیا ہے۔ قوم کے تمام طبقات میں مزاحمت جاری رکھنے پر مکمل اتفاق ہے۔ اس مزاحمت نے دشمن میں مایوسی اور نااُمیدی کو جنم دیا ہے اور اب وہ اپنی پالیسی پر ازخود نظرثانی کر رہا ہے۔

آپ نے بعض ایسے وسائل حرب کیوں اختیار کر رکھے ہیں جن کا نقصان دہ اور بے فائدہ ہونا سب کے سامنے ہے‘ جیسے فدائی کارروائیاں‘ مارٹر بموں اور القسام میزائلوں کا استعمال وغیرہ؟

ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں: مزاحمت یا شکست تسلیم کرلینا۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ مزاحمت کی کوئی متعین شکل نہیں ہوتی۔ دشمن ہم پر حملہ آور ہے اور ہمیں قتل کیے دے رہا ہے۔ کیا اس نے بھی کبھی ہم سے پوچھا ہے کہ جناب ہم آپ کے خلاف کون سا ہتھیار استعمال کریں اور کون سا نہیں؟ بلکہ اس نے تو جنگ کے تمام دروازے ہمارے خلاف کھول رکھے ہیں۔ وہ ہمارے خلاف جنگی طیارے‘ ٹینک‘ میزائل اور کیا کچھ نہیں جو استعمال کر رہا ہے۔ پھر ہمیں سے کیوں مطالبہ ہے کہ ہم لڑائی میں کسی ایک معین طریقے پر کاربند رہیں؟ ہمیں اختیار حاصل ہے کہ ہم اپنے وسائل اور صلاحیتوں کے مطابق لڑائی کا نقشہ خود ترتیب دیں۔ دشمن ہمارے کمزور حصوں پر ضرب لگا رہا ہے‘ ہم بھی اس کے کمزورپہلوئوں کو نشانہ بنائیں گے۔ ہمیں قتل اور خوف کی اذیت میں مبتلا کر کے وہ خود تل ابیب‘ حیفا‘ لدّ اور رملہ میں کیسے محفوظ زندگی گزار سکتا ہے؟ ہمارے لیے امن و سکون نہیں ہے تو اس کے لیے بھی کوئی جاے پناہ نہیںہوسکتی۔

کیا خطے میں اور عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں پر بھی حماس کی نظر ہے؟ اور کیا ان کے بارے میں عصری تقاضوں کے مطابق حماس کی اپنی کوئی رائے اور پالیسی بھی ہے؟

اگر ہم مملکت اسرائیل کو تسلیم کرلیں‘ یہودی نوآبادیوں کو جائز مان کر ۱۹۶۷ء کی سرحدوں کو مستقل تسلیم کر لیں تو اسے ہماری سیاسی بصیرت کہا جائے‘اور اپنے مکمل حق کے حصول پر اصرار کو ہماری سیاسی بے بصیرتی سے تعبیر کیا جائے‘ تو اس سے زیادہ غیر متوازن اور نامنصفانہ بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ حماس کا اپنا سیاسی اور فوجی نقطۂ نظر ہے جو دنیا کے مسلّمہ اصولوں پر مبنی ہے۔ ہماری فکر‘ دین اسلام کی روشنی سے منور ہے۔ دشمن ہماری سرزمین پر قابض ہے اور ہم اس کی آزادی چاہتے ہیں۔ ہم یہاں سے یہود اور غیر یہود کا اخراج نہیں چاہتے بلکہ ہم اپنی سرزمین پر مملکت اسلامیہ کا قیام چاہتے ہیں۔ ایسی مملکت جہاں مسلمان اور یہود و نصاریٰ سب لوگ اسلام کے جھنڈے تلے زندگی گزاریں جیسا کہ وہ پہلے بھی اسلامی جھنڈے تلے اپنی زندگیاں گزارتے آئے ہیں۔ ہماری سیاسی بصیرت اور ہمارے موقف کے بارے میں جو بھی کوئی حکم لگانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ پہلے حماس کو اچھی طرح سمجھے۔

اب آپ حکمت عملی اور تدبیر کے لحاظ سے کس مرحلے میں ہیں؟

ہر انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں حکمت عملی سے کام لیتا ہے۔ ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ ارضِ مقدس کی آزادی کے لیے تحریکِ مزاحمت کو ہر حال اور ہر انداز سے جاری رکھا جائے۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے یک طرفہ طور پر فدائی کارروائیوں کو روکنے کا جو اعلان کیا تھا وہ ہماری جنگی تدبیر کا حصہ تھا۔ یہ تدبیر اگرچہ ہماری بنیادی حکمت عملی کے خلاف تھی‘ تاہم ضرورت اور حالات کے مطابق ایک وقت میں کبھی کارروائی روکی جاتی ہے تو دوسرے وقت میں اسے جاری رکھا جاتا ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاسی حکمت عملی کی خاطر اپنے اصل راستے کو ہمیشہ کے لیے چھوڑدیا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ آپ کی پالیسی کا مقصد فلسطین میں حکومت یا اقتدار کا حصول ہے؟

اس وقت یہ باتیں بے فائدہ اور لاحاصل ہیں۔ ہم نے ہر جگہ اور ہرمحفل میں اپنا یہ موقف دہرایا ہے کہ ہم موجودہ انتظامیہ کا بدل نہیں ہیں۔ ہماری قوم‘ سرزمین اور فلسطینی انتظامیہ کوئی بھی آزاد نہیں ہے۔ غلامی میں اقتدار ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہم نے کبھی ایسے اقتدار کی خواہش ہی کی ہے۔ قابض قوتیں تو فلسطینی انتظامیہ اس لیے بنانا چاہتی ہیں کہ وہ ان کے ساتھ مل کر اپنی ہی قوم اور تحریکِ مزاحمت کا قلع قمع کرے اور ان کے دیے ہوئے امن منصوبے کی حمایت کرے۔ البتہ آزادی حاصل کر لینے کے بعد قوم کی مرضی اور بیلٹ بکس کے راستے سے اس پر بھی بات ہو سکتی ہے‘ تاہم فی الحال ہم جہاد و شہادت اور آزادی کے لیے جدوجہد کے مرحلے میں ہیں۔

اختلافات کے اسباب میں سے ایک وال چاکنگ اور مساجد کے باہر سائن بورڈ لگانا بھی ہے- آپ ان اسباب کا خاتمہ کیوں نہیں کر دیتے؟

انتفاضہ نام ہے جدوجہد اور اس کے اعلان کا۔ وال چاکنگ ان سرگرمیوں کو اُجاگر کرنے کا ذریعہ ہے۔ اصل چیز ان ذرائع کا استعمال ترک کرنا نہیں بلکہ مسئلے کی جڑ اور مشکل کا حل تلاش کرنا ہے۔ ہم سب سے بڑھ کر قومی وحدت اور تحریک کے تسلسل کے متمنی ہیں۔ ہم اپنے عوام اور شہدا کے خون کی حفاظت چاہتے ہیں۔ دوسروں کو چاہیے کہ مشکلات کھڑی کرنا چھوڑ دیں اور معاملات کو احسن انداز میں آگے بڑھنے دیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تحریک کی راہ میں مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں۔ اصل مسئلہ ذرائع ابلاغ کا استعمال نہیں‘ آئے دن کی نئی سے نئی مشکلات ہیں۔ لیکن ہماری بھی یہ سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ مواقع کی تلاش میں رہنے والوں کو ہرگز کوئی موقع فراہم نہیں کریں گے۔ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘ کش مکش اور جھگڑے میں نہیں پڑیں گے۔ اگر کوئی فرد ایسا کام کرتا بھی ہے تو یہ اس کا انفرادی اور ذاتی فعل ہے۔ یہ حماس کا اجتماعی فیصلہ اور طریقہ ء کار نہیں۔

فلسطینی وزیر خوراک ابو علی شاہین نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ حماس نے قاہرہ میں امریکی انتظامیہ سے مذاکرات کیے ہیں اور الفتح سے مذاکرات صرف ایک پردہ اور آڑ تھی- کیا یہ صحیح ہے؟

ہم جب امریکہ سے مذاکرات کرنا چاہیں گے تو کسی سے ڈریں گے نہیں۔ ہم ایک ایسے دشمن سے نبردآزما ہیں جس نے ہماری سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہم ایک کو ہٹا کر کسی دوسرے کو اپنے اُوپر مسلط نہیں کرنا چاہتے۔ ہم نے مصری سرپرستی میں الفتح سے قاہرہ میں مذاکرات کیے ہیں۔ اگر الفتح خود کو امریکہ سے مذاکرات کے لیے آڑ بنانا چاہتی ہے تو یہ اس کی اپنی سوچ ہے۔ اس حوالے سے ہمارا موقف سب پر واضح ہے۔ ہم اپنے کسی اقدام سے شرمندہ نہیں ہیں۔ ہم مغلوب اور شکست خوردہ نہیں ہیں۔ ہم اپنا حق کبھی نہیں چھوڑیں گے جو فرد بھی یہ الزام لگا رہا ہے اسے اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ کے مقابل ہم ہیں‘ اس سے کوئی بات ہوگی تو برابری کی سطح پر ہوگی نہ کہ اس کے ایجنٹ ‘ خادم اور تابع مہمل بن کر۔

ہم نے الفتح سے مذاکرات اس لیے کیے ہیں کہ ہم دشمن کے مقابلے میں قومی وحدت و مفاہمت چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں جو کوئی بھی چاہے‘ ہم بغیر کسی ڈر اور خوف کے اس سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ہم صہیونی دشمن کے علاوہ کسی کے ساتھ مذاکرات سے انکاری نہیں ہیں اس لیے کہ ہم اپنے موقف کی سچائی اور مبنی برحق ہونے کا پختہ یقین رکھتے ہیں۔

اسرائیلی قیادت کا گمان ہے کہ آنے والا سال انتفاضہ کے خاتمے کا سال ہوگا۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ اسرائیل اور نہ امریکہ ہی بلکہ پوری دنیا بھی اس تحریک کو ختم نہیں کر سکتی۔ دشمن کبھی اتنا قوی نہیں ہو سکتا‘ بشرطیکہ ہماری اپنی قوم کا ایک قلیل حصہ دشمن سے تعاون پر آمادہ نہ ہو جائے۔ دشمن خود بھی اعتراف کر چکا ہے اور اس نے بارہا اقرار کیا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کی مدد کے بغیر انتفاضہ کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی انتظامیہ بھی دشمن سے تعاون پر آمادہ ہے؟ اگر ہاں‘ تو یہ تعاون کس چیز کے عوض کیا جا رہا ہے؟ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ اوسلو معاہدے کے چھ سالہ وعدے کہاں گئے؟ اور کیا شارون ایک ہی وقت میں جنگ اور امن کا بھی چیمپئن بننا چاہتا ہے اور دشمن کے لیے امن وسلامتی کا مظہر بھی؟

        اس دنیا میں جس نے بھی آزادی‘ عزت اور عظمت چاہی ہے اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ ہم روے ارض کی قوی ترین قوم ہیں جس نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانی دینے کی استطاعت رکھتی ہے۔ اسرائیلی قبضہ زیادہ سے زیادہ دو یا تین عشروں میں ختم ہو جائے گا۔ خود انھوں نے اس کا اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کے آثار ابھی سے واضح بھی ہونے لگے ہیں۔ ہمارا کام ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہنا ہے۔

۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء اور بعدازاں ۱۵ جنوری ۲۰۰۳ء کے انتخابی نتائج پاکستان میں تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ دینی جماعتوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں اس تعداد میں حاصل ہوئیں کہ ملک کی قابل لحاظ قوت بن کر اُبھری ہیں اور توازنِ اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔

یہ تاریخی کامیابی جہاں تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے بے انتہا خوشی و مسرت کا باعث ہے‘ وہیں یہ لمحۂ فکریہ ہے اور نئی ذمہ داریوں اورمختلف النوع چیلنجوںکا پیش خیمہ بھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے‘ کبھی لے کر اور کبھی دے کر۔ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ ط (الانعام ۶:۱۶۵) ’’تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کریں‘‘۔  آج کی یہ کامیابی بھی تحریکِ اسلامی کے لیے ایک امتحان اور آزمایش ہے۔ اس امتحان کے تقاضے کیا ہیں؟ اس آزمایش سے نبردآزما ہونے کے لیے کس زادِ راہ کی ضرورت ہے؟ افکار کی دنیا کو حقیقت میں کیسے بدلا جا سکتا ہے اوراس کے لیے کون سے اسباب (tools) درکار ہیں؟ یہ چند سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں۔ ان کا تنقیدی جائزہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ منزل کے نشانِ راہ واضح ہوں۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنوں سے اولین تقاضا ہمیشہ یہ ہوگا کہ وہ اُن مقاصد کو اپنے ذہن میں تازہ رکھیں جس کے لیے وہ میدانِ عمل میں اُترے ہیں۔ ہمارا مقصد محض ایک سیاسی نظام    کو ایک دوسرے سیاسی نظام سے بدلنا نہیں‘ نہ ہمارا مقصد حکومت میں آنا یا پھر حکومت سے باہر بیٹھ کرنکتہ چینی اور عیب جوئی ہی ہے۔ یہ دونوں‘ حکومت سازی اور اپوزیشن میں بیٹھنا‘ ذرائع ہیں اُس ہمہ گیر انقلاب کو رونما کرنے کے لیے جس سے زندگی کے پورے نظام کو عدل و انصاف‘ محبت و اخوت‘ فلاح و ترقی اور مساوات و جمہوریت کے اُن اصولوں پر قائم کیا جاسکے جو اسلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اقامت ِ دین کا یہ کام ہی تحریکِ اسلامی کا مقصدِوجود اور فرضِ منصبی ہے۔ یہی رضاے الٰہی کا ذریعہ اور حصولِ جنت کا ضامن ہے۔ اس مقصد کی تذکیر‘ مختلف انداز سے‘ جس کی تفصیل ہمارے لٹریچر میں موجود ہے‘ ہر وقت ہوتی رہنی چاہیے۔

جہاں مقصد کا نگاہوں سے اوجھل ہوجانا اور رضاے الٰہی کی طلب ماند پڑ جانا ہماری اُخروی ہی نہیں دنیوی ناکامی کو یقینی بنا دیتا ہے‘ وہیں حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ نہ کرپانا بھی تحریکِ اسلامی کے پیشِ نظرمقاصد کے لیے شکست کا باعث ہو جاتا ہے۔لہٰذا ماضی کے تجزیے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس نعرے ہیں‘ جذبہ ہے‘ محنت ہے‘ ہم قربانیاں دے سکتے ہیں لیکن اگر اخلاص حکمت و اجتہاد سے آراستہ نہ ہوتو اس اخلاص کا کوئی حاصل نہیں۔ اسلام اُن تمام چیزوں کا جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے ‘ اور مزید کا مطالبہ کرتا ہے ‘ مگر بغیر حکمت کے نہیں۔

انتخابی نتائج کی روشنی میں حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے خطوط کار طے کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرلینے کی ضرورت ہے:

۱-  تبدیلی اللہ کی مرضی سے آتی ہے‘ نہ کہ مغرب یا کسی اور کی مرضی سے۔ ۲- مغرب اسلامی انتہاپسندی ہی سے نہیں ‘بلکہ اسلامی اعتدال پسندی سے بھی خائف ہے۔ ۳-  ذرائع ابلاغ کا کردار نہایت اہم ہے۔ ۴-  اسلامی نظام کے نفاذ کا تجربہ زمانہ قریب میں نہیں ملتا۔  ۵- اتحاد ہی کامیابی کی کلید ہے۔

یہ وہ پانچ بنیادی باتیں ہیں جن کا ادراک مستقبل کی حکمت ِ عملی وضع کرنے میں مفید ہوگا۔

۱-  تبدیلی‘ اللّٰہ کی مرضی سے: احیاے اسلام کی جو لہر آج اُمت مسلمہ میں ہے‘ وہ جہاں تحریکِ اسلامی کی ان تھک محنت اور قربانیوں کے عملی ثمرات ہیں‘ وہیں حالات کی ناسازگاری کے باوجود اللہ کی نصرت و تائید اور اُس کی رحمت کا مظہر بھی ہے۔ یہ جملہ زبان زدعام ہے کہ ہماری حکومتیں امریکہ کے ایما پر بنتی اور بگڑتی ہیں۔ یقینا امریکہ اپنی چالیں چلتا ہے مگر درحقیقت وہ طاغوت کے لیے اللہ کی ڈھیل اور اہل ایمان کے لیے اللہ کی آزمایش ہوتی ہے۔تبدیلی اللہ ہی کی مرضی سے آتی ہے نہ کہ مغرب یا کسی اور کی مرضی سے۔ ۱۰ اکتوبر سے قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ دینی جماعتوں کو اتنی قوت حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ مرکز میں قائد حزبِ اختلاف کا کردار ادا کریں‘ سرحد میں اُن کا وزیراعلیٰ ہو اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم کریں‘ لیکن امریکہ اور باقی تمام اندرونی و بیرونی قوتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا ہوا۔ اس سے قبل بھی استعماری طاقتیں بڑے ناموافق تغیرات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ انقلابِ چین و ایران کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ خود پاکستان کا قیام اور اُس کا وجود اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر مسلم عوام تحریکِ اسلامی کا ساتھ دیں تو طاغوتی طاقتیں (جس کا فی زمانہ امریکہ سرخیل ہے) اسلامی اصولوں پر قائم فلاحی ریاست کے خلاف کچھ نہیں کرسکتیں۔

۲-  مغرب کا خوف: جہاں یہ ایک حقیقت ہے وہیں یہ بھی سمجھ لینا نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ مغربی دنیا اسلامی انتہا پسندی ہی نہیں بلکہ اسلامی اعتدال پسندی سے بھی خائف ہے۔ لہٰذا باطل نظام اور افکار ونظریات سے مداہنت کی جو آوازیں مختلف حلقوں سے اٹھائی جاتی رہتی ہیں وہ لاحاصل ہیں۔ ماضی قریب ہی کے تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ کے مفادات پر ضرب نہ بھی لگے‘ تب بھی مسلمانوں کے خلاف اس کا ردعمل شدید رہا ہے۔حکومت جو بھی ہو‘ اسلامی یا غیر اسلامی‘ مغربی دنیا اُس کو صرف اس صورت میں برداشت کرسکتی ہے کہ وہ محض اُس کے مفادات ہی نہیں بلکہ اس کے افکار و نظریات اور احکامات کے بھی تابع رہے۔ ترکی میں رفاہ اور سوڈان میں اسلامی قوتوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ شاید متوقع تھا مگر آج پاکستان اور سعودی عرب جیسے حلیف و اتحادی ممالک جہاں پر تحریکِ اسلامی حکومت میں شامل نہیں اُن کے ساتھ بھی کوئی مختلف رویہ نہیں برتا جا رہا۔ پھر مداہنت کی پالیسی کا آخرکیا حاصل؟

۳-  میڈیا کی طاقت: مغربی دنیا کی اسلام دشمنی جتنی شدید ہے اُتنی ہی یہ سطحی ہے۔ مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخالفانہ رویہ چند مخصوص وجوہات پر مبنی ہے جن کا تعلق مسلم مغرب تاریخ سے ہے۔ اس پر مستزاد‘ مسلمانوں کی بحیثیت مجموعی اپنے داعیانہ کردار سے بے اعتنائی نے طاغوتی طاقتوں کے مغرب کے شریف النفس عوام کے اندر اسلام سے متعلق تعصب پھیلانے کے مشن کو تقویت دی ہے۔ اسلام کی نشاتِ ثانیہ عالمی و مقامی ذرائع ابلاغ کے چیلنج کا سامنا کیے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس کی اہمیت واضح ہے اور اس کی طرف توجہ عصرِحاضر کی اہم ترین ضرورت۔ماضی قریب کے مسلم تجربات بھی اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے جدید میڈیا کی قوتوں کو مسخر کیا تو اُن کو خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ بڑی  دل چسپ اور مطالعے کے لائق بات ہے کہ انقلابِ ایران کے تشکیلی دور میں اور بوقت ِ انقلاب امام خمینی ایران میں نہ تھے۔ اُن کی دعوت اور ان کا پیغام آڈیو کیسٹوں کے ذریعے عوام تک پہنچا جس سے ایک عظیم الشان تحریک برپا ہوئی۔

۴-  نفاذِ اسلام کی حکمت عملی: اسلام معاشرے میںانقلاب لانے اور نظامِ حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے جو حکمت ِ عملی تجویز کرتا ہے وہ جامد نہیں بلکہ حرکی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو منکر کوہوتا دیکھے‘ اسے ہاتھ سے مٹا دے‘ اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے بُرا کہے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو پھر دل میں بُرا جانے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘(مسلم)۔ گویا جہاں درجہ بندیاں کر دیں وہیں گنجایش بھی دے دی‘ تاکہ موقع و محل کو مدنظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل وضع کیا جا سکے۔

رسولؐ اکرم کی حکمت ِ انقلاب میں تدریج و تحلیف کو بڑا دخل رہا۔ جہاں تک ممکن ہو سکا آںحضورؐ نے ایک سے زائد محاذ نہ کھولا۔ مقصدِتحریک کے مطابق ترجیحات قائم کیں اور قوت کے باوجود فروعی مسائل میں نہ اُلجھے۔ مشہور حدیث ہے کہ رسولؐ اللہ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ وہ کعبہ کی حضرت ابراہیم ؑ کے نقوش پر تعمیرنو کرنا چاہتے ہیں‘ جس میں حطیم کعبہ کا حصہ ہو‘ مگر ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ اس سے اُن کی قوم خوش نہ ہوگی۔

عصرِجدید میں نفاذِ اسلام کا ایسا کوئی عملی نمونہ نہیں جس کو سامنے رکھ کر تقلید کی جا سکے ۔  لہٰذا جو لوگ اِس کام کو کرنے کے لیے میدان میں اُتریں‘ اُن کے لیے یہ نہایت اہم ہے کہ وہ  حکمت و دانش کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تدریج سے کام لیں۔ رسول رحمتؐ معاذ اللہ داروغہ نہ تھے‘ بلکہ اُن کو بشارت کے لیے مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اسلام پابندیاں لگانے نہیں آیا ۔ اسلام تو حریت کی اذان ہے۔ اسلام کے علم برداروں کے لیے یہی نقطۂ آغاز ہے اور یہی نقطۂ اختتام۔

۵-  ا تحاد ، کلیدِ کامیابی: سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو کامیابی دینی جماعتوں کو نصیب ہوئی ہے وہ سراسر متحدہ مجلسِ عمل کے فیوض و برکات کا مظہر ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی جماعتوں میں اتحاد و یک جہتی کو مزید مستحکم کیا جائے بلکہ اس کے دائرے کو وسیع کرکے اُن تمام قوتوں کو شامل کیا جائے جو ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہیں۔ حتیٰ کہ مشترک مقاصد کے حصول کے لیے مخالفینِ تحریک اسلامی سے تعاون میں بھی تامل نہیں ہونا چاہیے۔

رسول اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ روزِمحشر اپنی اُمت کی تعداد اُن کے لیے افتخار کا سبب ہوگی۔ معیار (quality) یقینا ضروری ہے لیکن تعداد (quantity) کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ رسولؐ اللہ نے اپنی ۲۳سالہ نبوت میں اسلام میں داخلے کے لیے کوئی مخصوص شرائط نہیں رکھیں۔ جو آیا اُس کو اپنے ساتھ شامل کرلیا اور جہاں تک ممکن ہوسکا اُس کی تربیت کا سامان کیا۔ لیکن ہر انسان مختلف معیار اور صلاحیتوں سے متصف ہوتا ہے۔ تحریکِ اسلامی اگر کامیابی کی منازل طے کرنا چاہتی ہے تواُس کو دینی جدوجہد کے لیے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو جمع کرنا ہوگا۔ جو جس حد تک ساتھ دے اُس کو قبول کیا جائے اور مزید توفیق کے لیے دعا کی جائے۔ دینی جماعتوں کا اتحاد تو آغاز ہے۔ اتحاد کے اس دائرے کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک مرد و زن‘ بچے اور بوڑھے سبھی دین کی خدمت کے لیے متحد و مستعد نہ ہوں گے‘ اسلام کی سرفرازی ممکن نہیں۔

اقامت ِ دین کا کام محض ایک جماعت یا انجمن نہیں کرسکتی۔ جماعتیں شعور دے سکتی ہیں‘ افکار پھیلا سکتی ہیں‘ عوام کو منظم کرسکتی ہیں‘ لیکن جب تک عامۃ الناس ساتھ نہ دیں کچھ ممکن نہیں۔ ہم جب لوگوں کی عدالت میں پیش ہوں گے تبھی لوگ ہمارے ساتھ آئیں گے اور جب لوگ ہمارے ساتھ آئیں گے تو فتح و نصرت بھی آئے گی ۔اس کا نسخہ آج بھی وہی ہے جو کل تھا اور قیامت تک یہی نسخہ کامیابی کا ضامن ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ o اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ج وَاِنْ یَّخْذُ لْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹-۱۶۰) (اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ اِن کے قصور معاف کر دو‘ اِن کے حق میں دُعاے مغفرت کرو‘ اور دین کے کام میں اِن کو بھی شریک مشورہ رکھو‘ پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں‘ اور وہ تمھیں چھوڑدے‘ تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔

والدین کے دبائو پر پردہ ترک کرنا

سوال: میری جب شادی ہوئی تو میں نے بیوی سے کہا کہ تم پردہ کرو۔ میری بیوی نے میری بات کو مانتے ہوئے پردہ کرنا شروع کر دیا۔ والدین اور قریبی رشتے داروں کی وجہ سے مجھے بہت طعنے ملے کہ تم دین کے بڑے پابند ہو! لیکن میں اور میری بیوی ڈٹے رہے۔ آخر میںمیرے والدین نے بہت زور دیا یہاں تک کے ناراض ہوگئے۔ ماں باپ کی ناراضی کو مول نہ لیتے ہوئے میں نے اپنی بیوی کا پردہ ترک کروا دیا۔ کیا میں نے صحیح کیا ہے؟ کیا میں اس کے لیے جواب دہ ہوں گا؟

جواب: آپ نے اپنے خط میں جو سوالات اُٹھائے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں موجود بعض ناخوش گوار حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عموماً جو حضرات پردہ یا حجاب کی مخالفت کرتے ہیں‘ وہ قیاسی بنیاد پر اپنی طرف سے یہ دلیل تراشتے ہیں کہ اصل پردہ تو دل اور آنکھ کا ہے ۔ اگر انسان کا مقصد بدنگاہی اور بدنیتی نہ ہو تو پردہ کرنے یا نہ کرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے جذبات اتنے اعلیٰ ہیں کہ ہمارے گھرانے میں پردے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان قیاسی موشگافیوں کی قرآن و سنت میں نہ کوئی دلیل ہے نہ نظیر۔ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں حجاب کا حکم یوں بیان ہوا ہے: ’’اے نبیؐ ،اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اُوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں‘‘ (الاحزاب ۳۳:۵۹)۔ گویا مسلمان عورت کی پہچان ہی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے جسم کو چادر میں چھپا کر اور اُوپر سے پلّو لٹکا کر ان لوگوں کے سامنے جائے جن سے حجاب کا حکم ہے۔ آپ ماشاء اللہ خود حافظ قرآن ہیں اس لیے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ والدین کی اطاعت کا حکم معروف میں ہے‘ منکر میں نہیں۔ حدیث شریف نے اس بات کو یوں واضح کردیا ہے کہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی رُوگردانی ہوتی ہو   تو کسی حاکم کی اطاعت نہیں ہوگی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ کے والدین آپ کو اپنے گھر کی عزت بڑھانے کے لیے بیوی سے پردہ کروانے پر اُبھارتے اور اس پر اصرار کرتے۔ لیکن اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور ایک غیراسلامی عمل کرنے کا حکم دیا تو ان کے حکم کی پیروی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔ یقینا     یہ بات ان کے علم میں نہیں ہوگی ورنہ وہ نہ خودکو اور نہ آپ کو اور آپ کی بیوی کو حکمِ قرآنی کی  خلاف ورزی پر مجبور کرتے۔

گو‘ قانون سے لاعلمی انسان کو قانون شکنی کے الزام سے بری نہیں کر دیتی لیکن یہ جان لینے کے بعد کہ والدین نے آپ کو اللہ کے حکم کے منافی کام پر مجبور کیا‘ آپ کا فرض بن جاتا ہے کہ والدین کو بھی عزت و احترام اور محبت کے ساتھ ان کی غلطی سے آگاہ کریں اور خود بھی اپنی اصلاح کرلیں۔ رہا سوال والدین کا آپ سے ایک غلطی کروانے پر جواب دہی کا معاملہ‘ تو اس پر غور کیجیے کہ اگر آپ اپنے والد‘ یا بیوی یا کسی دوست کے دبائو میں آکر اپنے پڑوسی کو لاٹھی مار کر مجروح کر دیں تو کیا ذمہ داری صرف آپ کے والد یا دوست کی ہوگی یا آپ بھی ایک عاقل بالغ شخص ہونے کی بنا پر یکساں اس ظلم کے ذمہ دار ہوں گے؟

واضح قرآنی ہدایات کے بعد یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ اب آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی احکام پر چلنے اور جاہلی رسوم و رواج سے بچنے اور انھیں ردّ کر کے خالق کی بندگی میں آنے کی توفیق دے۔ (پروفیسر ڈاکٹرانیس احمد)


عورت کی کمائی اور جایداد

س : میں ورکنگ وومن کے بارے میں اسلام کے حوالے سے آپ کی ماہرانہ رائے معلوم کرنا چاہتی ہوں۔ اسلام کا اس حوالے سے کیا نقطۂ نظر ہے کہ اگر خاوند اور بیوی دونوں کما رہے ہوں اور خاوند اپنی کمائی سے اپنے والدین کی دیکھ بھال کرتا ہے اس لیے کہ وہ ان کا بیٹا ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے لیکن اگر بیوی اپنی کمائی سے اپنے والدین کی مدد کرے تو کیا یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے‘ جب کہ وہ اپنے والدین کی اپنے خاوند کی کمائی میں سے کوئی مدد نہ کر رہی ہو؟ اگر وہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے رشتہ داروں کی مدد کرے تو اس کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ کیا عورت کی ذاتی جایداد کا بھی کوئی تصور ہے؟ اگر عورت کام کرتی ہے تو اس کے خاوند کو کچھ قربانی بھی کرنا پڑتی ہے‘ وہ گھر کی دیگر ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ کیا عورت اس تعاون کی بنا پر اپنی مرضی سے اس پیسے کو اس لیے خرچ نہیں کر سکتی کہ یہ دونوں کی مشترکہ کمائی ہوتی ہے؟ والدین اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت پر رقم صرف کرتے ہیں‘ اسے محبت سے پروان چڑھاتے ہیں‘ اس کی شادی کرتے ہیں لیکن شادی کے بعدوہ ان کی کوئی خدمت کیا محض اس لیے نہیں کرسکتی کہ وہ ان کا بیٹا نہیں ہے؟

ایک اور سوال کی بھی وضاحت فرما دیں کہ اگر کوئی عورت امیر ہے‘ اس کی ملکیت میں گھر‘ زمین اور زیورات ہیں‘ اور اس کی صرف ایک بیٹی ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کے خاوند‘ بیٹی اور رشتے داروں میں یہ جایداد کیسے تقسیم ہوگی؟ وہ اپنی زندگی میں اپنے خاوند یا کسی دوسرے کو کتنا حصہ تحفتاً دے سکتی ہے؟ کیا ایک تہائی؟ کیا وہ اپنے خاوند کی مرضی کے بغیر انفاق فی سبیل اللہ کرسکتی ہے؟

ج : آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک کا تعلق شوہر اور بیوی دونوں کے ملازمت یا کاروبار کرنے کی صورت میں ملکیت اور حقوق و فرائض سے ہے اور دوسرے کا ملکیت کی تقسیم اور میراث سے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم نے خاندان میں شوہر کی سربراہی کو جن وجوہات کی بنا پر فضیلت دی ہے ان میں سے ایک اس کا خاندان کو معاشی تحفظ فراہم کرنا ہے‘ چنانچہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی پرورش‘ رہایش‘ تحفظ‘ جسمانی اور اخلاقی ضروریات پوری کرنے کے لیے ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ اس بنیادی حق کے ساتھ جس کی طرف (سورۃ النساء ۴:۳۴) میں اشارہ ہے‘ قرآن کریم نے والدین پر خرچ کرنے کا واضح حکم بھی دیا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں‘ ہم کیا خرچ کریں‘ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین‘ رشتے داروں پر‘ یتیموںاور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے‘ اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘ (البقرہ ۲:۲۱۵)۔ اس خصوصی ہدایت کے ساتھ عمومی اصول یہ طے کر دیا گیا کہ والدین کے ساتھ احسان کا رویہ‘ یعنی احترام‘ محبت اور ان پر خرچ کرنے کا رویہ اختیار کیا جائے (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۳-۲۴‘ العنکبوت ۲۹:۸ اور لقمان ۳۱:۱۴)۔ حقوق و فرائض کے بارے میں اسلام کا اصول بڑا واضح ہے اور اس میں مسئلہ کسی انتخاب کا نہیں ہے کہ اگر آدمی نماز پڑھ لے تو روزے سے اپنے آپ کو فارغ سمجھ لے بلکہ اسے چاہیے کہ حقوق الٰہی کے ساتھ حقوق العباد بھی پورے کرے۔ چنانچہ    یہ مفروضہ کہ شوہر اپنی کمائی اپنے والدین پر خرچ کرے اور بیوی گھر کا خرچ چلائے اسلامی اصول کے منافی ہے۔ بیوی اور بچوں کو نفقہ فراہم کرنا شوہر کا فرض ہے‘ احسان نہیں۔ ہاں‘ اگر بیوی   باہمی مشاورت و اتفاق سے ملازمت یا کاروبار کرتی ہے اور اپنی خوشی سے بغیر کسی مطالبے یا دبائو کے گھر یا بچوں اور شوہر پر خرچ کرتی ہے تو یہ اس کی طرف سے ایک صدقہ ہے۔ وہ اس کے لیے مکلف نہیں ہے۔ ایک صحابیہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی ہیں اور کچھ صدقہ کرنا چاہتی ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ تمھارا شوہر غریب ہے اس پر خرچ کرو۔ گویا اس طرح ان صحابیہ کو صدقہ کا اجر بھی ملا اور شوہر کی امداد بھی ہوئی۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ چونکہ بیوی معاشی وسائل فراہم کرنے پر مکلف نہیں ہے اس لیے اگر وہ کوئی کام کرتی ہے جس سے اس کی گھریلو ذمہ داریاں‘ یعنی بچوں کی تربیت اور شوہر کے حقوق متاثر ہوتے ہیں تو اولیت بچوں اور شوہر کے حقوق کی ہوگی۔ مگر جیسا کہ عرض کیا گیا باہمی مشاورت سے اور حقوق کے متاثر ہوئے بغیر وہ کوئی کام کر سکتی ہے تو اسے اس کی پوری آزادی دی گئی ہے اور اس کے حق ملکیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ حق اکتساب کو قرآن کریم نے سورۃ النساء (۴:۳۲) میں تسلیم کیا ہے اور حق ملکیت ہی کی بنا پر مومنات پر زکوٰۃ فرض کی ہے اور نہ ان کے ترکے سے شوہر یا اولاد کوئی حصہ نہ پا سکتے تھے۔

شوہر اور بیوی کے باہمی مشاورت و اتفاق کے بعد ایک خاتون جو کچھ کماتی ہے اس کی مالکہ وہ خود ہی ہوگی‘ شوہر اس کا مالک نہیں بن سکتا۔ اس لیے اگر بیوی اپنی کمائی اپنے والدین پر‘ اولاد پر‘ یا شوہر پر خرچ کرتی ہے تو اسے اس کا پورا حق حاصل ہے۔ شوہر بیوی کو جو کچھ خرچ گھر کے لیے دیتا ہے یا کوئی رقم ہر ماہ بطور جیب خرچ دیتا ہے اور بیوی اس جیب خرچ کو اپنے اُوپر خرچ کرنے کے بجائے اپنے والدین پر یا گھر کے کسی کام پر خرچ کرتی ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ سمجھا جائے گا۔ اسے اپنے جیب خرچ کے صرف کے لیے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی اگر شوہر ایک مقررہ رقم بیوی کی صوابدید پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اسے گھر میں خرچ کرے یا اپنے اُوپر یا کسی اور پر‘ تو اس شکل میں بھی بیوی پر کوئی اخلاقی یا قانونی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ لیکن اگر شوہر نے متعین طور پر ایک رقم صرف گھر میں کھانے پینے اور کپڑوں وغیرہ کے لیے یا بچوں کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے دی ہے تو وہ اسی کام میں صرف کی جائے گی‘ اسے وہ اپنے والدین پر خرچ نہیں کرسکتی جب تک شوہر بیوی کو اس کی اجازت نہ دے کہ وہ جہاں اور جس طرح چاہے اس کی دی ہوئی رقم کو خرچ کرسکتی ہے۔

اگر بیوی گھر سے باہر کام کرتی ہے اور شوہر گھرکے معاملات میں ہاتھ بٹاتا ہے تو یہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے اور اس وقت بھی فرض ہے جب بیوی گھر سے باہر کام نہ کررہی ہو۔ حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے اُمہات المومنین کا ہاتھ گھرکے کاموں میں بٹایا‘ جب کہ وہ ورکنگ ویمن نہیں تھیں۔ اس لیے اگر کوئی شوہر گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کرتا ہے تو سنت کی پیروی کرتے ہوئے بیوی سے نہیں اللہ سے اجر کا مستحق بنتا ہے بلکہ اسے بیوی کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی بنا پر اسے ایک سنت نبویؐ پر عمل کا موقع مل سکا۔ اگر گھر کے کام میں مرد کا ہاتھ بٹانا آپ کے خیال میں اتنا بڑا تعاون ہے کہ وہ اپنی بیوی کی محنت کی کمائی میں حق دار بن جائے تو پھر شوہر جو گھر کے باہر کام کرتا ہے اس کی کمائی میں بیوی کو جو اس کی اولاد اور گھر کی نگرانی کرتی ہے شریک اور حق دار کیوں نہ تصور کیا جائے؟

جہاں تک تنہا ایک لڑکی کے وارث ہونے کا سوال ہے سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۱ میں وضاحت ہے کہ ’’اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے‘ (۴:۱۱)۔ رہا ایک فرد کی زندگی میں اپنی ملکیت کو تقسیم کرنا تو وہ اس کے لیے مختار ہے لیکن نیت جائز ورثا کو محروم کرنے کی نہ ہو اور اگر اولاد میں تقسیم کی جائے تو عدل کی بنیاد پر ہو‘کسی کو دوسرے پر فوقیت نہ دی جائے۔ اس میں ۳/۱ کی قید نہیں ہے۔ یہ قید وصیت میں ہے کہ ایک فرد اپنے ترکہ میں حد سے حد ایک تہائی وصیت کرسکتا ہے کہ کسی عزیز کو یا کسی نیک کام میں اسے دیا جائے۔ دو تہائی کی تقسیم بہرحال اسلام کے قانونِ وراثت کے مطابق کی جائے گی۔ ایک خاتون اپنی ملکیت میں سے جتنا چاہے اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتی ہے۔ آخر حضرت زینب ؓ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ لمبے تھے‘ یعنی وہ اُمہات المومنین میں انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں میں بڑھ کر تھیں۔ ایک امیرخاتون اپنی زندگی میں اپنی ملکیت میں سے اپنے شوہر یا اولاد یا والدین یا اقربا میں سے جسے چاہتی ہو بلاقید دے سکتی ہے اور ایسے ہی اپنی ملکیت میں سے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے کسی اجازت کی محتاج نہیں ہے۔ (ا - ا)


’’سورہ‘‘ کی رسم کی شرعی حیثیت

س : ہمارے ہاں ایک رواج ’’سورہ‘‘ معروف ہے جس میں کسی قاتل یا زیادتی کرنے والے شخص کی بیٹی یا بہن کو بطورِ جرمانہ مقتول پارٹی کے کسی فرد کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے۔ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟

ج :  آپ نے پشتونوں کے جس رواج کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی بھی جرم کے ارتکاب کے نتیجے میں مجرم کو مالی تاوان کے علاوہ بعض اوقات اپنے گھرانے کی ایک یا زیادہ لڑکیاں بھی بطور تاوان دوسرے فریق کو نکاح میں دینا پڑتی ہیں اور اس کو مقامی اصطلاح میں ’’سورہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ رسم اگرچہ مقامی قبائلی لوگوں نے اس لیے قائم کی کہ اس طرح دو خاندانوں کی باہمی رقابت اور دشمنی کو رشتے کے ذریعے سے دوستی میں بدل دیا جائے‘ اور خونی رشتہ قائم ہو جانے کے بعد وہ ایک دوسرے سے مل کر شیروشکر ہو جائیں۔ لیکن اس میں ایک پہلو جو انسانی تحقیرکا ہے وہ قابل توجہ ہے۔ ایک مجرم کے جرم کی سزا اس کی بہن یا بیٹی کو اس طرح دی جاتی ہے کہ وہ چاہے یا نہ چاہے لیکن اس لڑکی کو تاوان کے طور پر دوسرے فریق کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے‘ اور بالعموم وہ لڑکی ایک مدت تک بلکہ بعض اوقات تاحیات ایک زرخرید لونڈی سے بھی زیادہ حقیر دیکھی اور سمجھی جاتی ہے۔ بسااوقات اولاد پیدا ہوجانے کے بعد یہ داغ دھل بھی جاتا ہے اور وہ ایک ماں کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔

شریعت اسلامی نے ہمیں ایک ضابطہ اور اصول دیا ہے کہ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط (فاطر۳۵:۱۸)‘ یعنی کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ گویا باپ بیٹے کے کیے کا ذمہ دار نہیں اور اسی طرح بہن بھائی کے کسی فعل کی سزا نہیں پائے گی۔ سورہ کی رسم اس قاعدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے جس میں ایک بیٹی یا بہن اپنے باپ یا بھائی کے جرم کی پاداش میں بیاہی جاتی ہے اور اس طرح اس کے تمام ارمانوں اور حسرتوں کا خون کر دیا جاتا ہے۔ وہ خوشی خوشی بیاہی جانے کے بجائے روتی پیٹتی اور سرمیں خاک ڈالتی دوسرے گھر تاوانِ جنگ کی حیثیت سے منتقل ہو جاتی ہے‘ جب کہ شریعت کی زبان میں کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ رَھِیْنَۃٌ o (المدثر ۷۴:۳۸)‘ یعنی ہر آدمی اپنے کیے کو بھگتتا ہے نہ کہ دوسرے کے کیے کو۔

دوسری بات یہ کہ کسی بھی لڑکی کو شادی کے سلسلے میں اپنے باپ یا بھائی کے فیصلے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سرپرست اور ولی کی مرضی کے ساتھ ساتھ لڑکی کی اپنی مرضی بھی بڑی اہم ہے۔ لیکن اس رسم میں لڑکی کی رائے لینے کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو مجبور پا کر انکار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

لہٰذا شریعت نے ایک لڑکی کو جس عزتِ نفس سے نوازا ہے اور اس کو جو احترام دیا ہے‘ اس کو ’’سورہ‘‘ کی صورت میں داغ دار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے ’’سورہ‘‘ کی رسم شریعت کی نظر میں ایک انتہائی بھیانک‘ مکروہ اور ناپسندیدہ رسم ہے۔ اسلام کے معاشرتی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے‘ اور مسلم معاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ بے شک اللہ اور اس کا رسولؐ اور آپؐ کا لایا ہوا دین اسلام اس ظلم سے بری الذمہ ہیں۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی‘ ماہنامہ دعوۃ‘ فروری ۲۰۰۳ئ‘ ص ۴۶‘۴۷)

اُردو صحافت ‘انیسویں صدی میں‘ ڈاکٹر طاہر مسعود۔ ناشر: فضلی سنز‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۱۲۳۱+] ۵۳[ = ۱۲۸۴۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

کتاب کے عنوان سے موضوع کی جامعیت و وسعت اور اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی سندی تحقیق (پی ایچ ڈی) کے لیے ایک بحرذخار جیسا موضوع انتخاب کیا ہے۔ ایک صدی کے طویل دورانیے کا یہ جائزہ مختلف عنوانات کے تحت لیا گیا ہے: فارسی صحافت۔ اُردو صحافت کا آغاز۔ پہلا دور‘ ۱۸۳۷ء سے ۱۸۵۷ء تک۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور اُردو صحافت۔ سرسیداحمد خاں اور مقصدی صحافت۔ سیاسی و سماجی صحافت۔ مذہبی صحافت۔ ذولسانی صحافت۔ طنزیہ و مزاحیہ صحافت۔ روزنامہ صحافت۔ تخصیصی (تعلیمی‘ قانونی‘ تجارتی‘ طبّی‘ ادبی اور خواتینی) صحافت۔

برعظیم میں خبرنویسی کے آغازو ارتقا کی کہانی دل چسپ ہے اور معلومات افزا بھی۔ زمانۂ قدیم سے تیز رفتار گھوڑے اور کبوترنظامِ برید (خبررسانی) کا اہم ذریعہ تھے۔ سلاطینِ دہلی نے اس نظام کو بہتر بنایا اور خبررسانی کے لیے خوب دیکھ بھال کر کے نہایت معتبر نمایندوں کو مقرر کیا۔ ان کے نظامِ سلطنت کی فعالیت اور کامیابی کا انحصار خاصی حد تک اسی نظامِ برید پر تھا۔ بعض سخت گیر اور نسبتاً زیادہ ہوش مند حکمران (غیاث الدین بلبن‘ علاء الدین خلجی‘ شیرشاہ سوری‘ اکبر اور اورنگ زیب) نظامِ برید کو مختلف تدبیروں سے بہتر بناتے رہے۔

ڈاکٹر طاہرمسعود (استاد‘ شعبہ صحافت‘ کراچی یونی ورسٹی) کی تحقیق یہ ہے کہ برعظیم میں اخبار نویسی کے آغاز کو انگریزوں کی آمد سے وابستہ کرنا غلط ہے۔ وقائع نگاری کا ایک موثر اور جدید نظام یہاں صدیوں سے موجود تھا۔ انگریزوںکی آمد کے بعد اس قلمی اخبار نویسی نے مطبوعہ صحافت کی شکل اختیار کرلی۔ اوائل میں بعض اخبارات نے انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں کا کچاچٹھا بھی خوب کھولا۔ اس وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے وقتاً فوقتاً صحافت کا    گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی۔ سب سے پہلے لارڈ ولزلی نے صحافت کو پابند زنجیرکرنا چاہا اور  ’’راہِ راست‘‘ پر نہ آنے والے کئی برطانوی صحافیوں کو واپس انگلستان بھیج دیا گیا۔

ابتدا میں زیادہ تر اخبارات فارسی میںچھپتے تھے۔ کلکتہ سے شائع ہونے والا  جام جہاں نما اُردو کا پہلا اخبار تھا۔ مصنف نے اخبارات کے بارے میں تفصیل فراہم کرتے ہوئے اس دور کی صحافت کے مختلف رجحانات اور ان کی مشکلات و مسائل کا بھی ذکر کیا ہے۔ رپورٹنگ کے انداز و اسلوب اور تبصروں کے نمونے بھی دیے ہیں‘ اور یہ سب کچھ مصنف کی برسوں کی تحقیق کے بعد ممکن ہوا۔ اس سلسلے میں انھوں نے پاکستان کے معروف کتب خانوں کے علاوہ بھارت جاکردہلی‘ پٹنہ‘ کلکتہ‘ علی گڑھ اور لکھنؤ کے کتب خانوں میں بڑی محنت سے چھان بین کی اور ایسی اطلاعات فراہم کی ہیں جن میں سے بعض کا آیندہ ماخذشاید ان کی یہی کتاب ہوگی‘ کیونکہ بوسیدہ اخبارات کا زیادہ دیر تک محفوظ رہنا ممکن نہ ہوگا۔

ڈاکٹر طاہر مسعود کی یہ تحقیق صحافت کے ساتھ ساتھ‘ اُردو زبان و ادب‘ تاریخ‘ تہذیب‘ معاشیات‘ سیاسیات اورعمرانیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے بھی بہت اچھا اور قابل مطالعہ لوازمہ مہیا کرتی ہے۔ اس سے ہمیں انگریزوں کی بدعنوانیوں‘ رشوت ستانیوں‘ہوس زر اور  فریب کاریوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں حاکم و محکوم کے رشتوں اور فاصلوں ‘ اسی طرح ہندو مسلم تعلقات کی استواری اور باہم کشیدگی وخرابی‘ نیز زمانۂ محکومی میں ہندستانی معاشرے میں رونما ہونے والی سماجی تبدیلیوں کی نوعیت معلوم ہوتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ غلامی میں دل و دماغ اور ذہنیتیں کیسے بدلتی ہیں اور حکمِ حاکم‘ مرگِ مفاجات بن جاتا ہے۔ مزیدبرآں اُردو نظم و نثرکے مختلف اسالیب بیان‘ بلکہ قدیم املا کے نمونوں تک کا علم بھی ہوتا ہے۔ ۱۸۶۱ء کی ایک دل چسپ خبر دیکھیے: ’’بڑودہ سے بمبئی ریل گاڑی جاری ہوئی۔ ہزارہا آدمی اس کو دیکھنے کے واسطے جمع ہوئے۔ مدت سے اس طرف کے تمام آدمیوں کو اس کے دیکھنے کا انتظار تھا۔ سات بجے صبح کی گاڑی چلنے کے وقت ریلوے کے جنرل مینیجرنے اپنے ہاتھ سے بہ طور شگون کے‘ گاڑیوں کے پہیوں پر شراب کی بھری ہوئی ایک بوتل چھڑکی‘۵۰۰ گاڑیوں کی قطار تھی اور ۴۰۰ آدمی سوار تھے‘‘ (ص ۵۱۷)۔

مصنف نے آخر میں نہایت عرق ریزی سے ۴۰ صفحات کا ایک گوشوارہ مرتب کیا ہے جس سے ایک نظر میں ہر اخبار کے ضروری کوائف سامنے آتے ہیں۔ قدیم اخبارات کے عکس اور اشاریے نے‘ قابلِ ستایش عمدہ معیارِ تحقیق کی اس علمی کتاب کو اور بھی وقیع بنا دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


خاندانی منصوبہ بندی ‘الزبتھ لیاگن ‘ترجمہ: محب الحق صاحب زادہ۔ ناشر: بک ٹریڈرز‘ بہ اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف سیون‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۱۹۔قیمت: ۱۵۰ روپے۔

خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع پر الزبتھ لیاگن کے مضامین امپیکٹ‘لندن میں پڑھنے کو ملتے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ مغرب کی یہ دختر تیسری دنیا میں آبادی کے اضافے کو روکنے کی امریکی اور عالمی ایجنسیوں کی امداد اور تعاون کے پس پردہ اصل کھیل سے ہمیں آگاہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے افریقہ کے حوالے سے اس موضوع پر امریکہ کی قومی سلامتی کونسل‘ سی آئی اے‘ ورلڈ بنک اور دوسرے اداروں کی رپورٹوں اور دستاویزوں کا مطالعہ کیا اور سارا کھیل اس کتاب میں کھول کر رکھ دیا۔

مرکزی خیال یہ ہے کہ مغربی دنیا میں گذشتہ صدیوں میں جو ترقی ہوئی‘ وہ ان کے علاقوں میں آبادی میں اضافے کا دور تھا۔ ۱۷۹۰ء میں امریکہ کی آبادی ۴ ملین تھی‘ جو ۱۹ویں صدی کے آخر تک بڑھ کر ۷۶ ملین ہو گئی۔ ۲۰ ویں صدی کے نصف اوّل میں اضافے کی شرح ۳فی صد تھی۔ (ص ۱۶۰)

الزبتھ لیاگن کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ مغربی ملک خاصے عرصے سے اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ اگر ترقی پذیر دنیا میں آبادی کا اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو یہ اپنے اندر اتنی بڑی طاقت رکھتا ہے کہ محض اضافۂ آبادی کی بنا پر ہی مغرب کو مغلوب کرلے گا اور اس کی ٹکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ ان کی سلامتی کی رپورٹیں اور منصوبے سب اس کے عکاس ہیں۔ وہ اسے صحت کی بہتری اور غربت کو دُور کرنے کے پردے میں چھپاتے ہیں۔ خود سامنے آنے کے بجاے ورلڈ بنک کو سامنے کرتے ہیں۔ جو ممالک یا لیڈر اس پروگرام کو نہ لینا چاہیں‘ ان پر بھی ٹھونستے ہیں‘ اقتصادی قرض اور امداد کو اس سے مشروط کر دیتے ہیں۔ تیسری دنیا کے حکمرانوں کو اپنا آلۂ کار بنا کر‘ ان کے عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی مدد دیتے ہیں اور اس طرح اپنے  منصوبے روبہ عمل لاتے ہیں۔ غرض ایک بڑی وحشت ناک تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ہم سے خود ہی کروایا جا رہا ہے۔

افریقہ کے اس مطالعے میں کچھ حوالہ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کا بھی آیا ہے۔ اسلامی ممالک اور تہذیبوں کے تصادم کا بھی ذکر ہے۔

انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے آنکھیں کھولنے والی یہ کتاب شائع کی۔ اچھا ہو اگر آئی پی ایس ‘پاکستان کے حوالے سے بھی اس موضوع پر اسی انداز کا تفصیلی مطالعہ تیار کر کے شائع کروائے تاکہ امداد دینے والے اداروں اور ملکوں کے اپنے شواہد ہمارے سامنے آئیں کہ یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اور ہماری خواتین کی صحت اور معاشرے کی غربت کی اتنی فکر عالمی ایجنسیوں کو کیوں ہو گئی ہے؟ (مسلم سجاد)


مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‘ حیات و افکار کے چند پہلو‘ ترتیب و تدوین: سفیراختر۔ ناشر: ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۳۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

بیسویں صدی کے دوران مسلم دنیا کے نمایاں ترین اہل قلم میں ایک بڑا نام مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ کا ہے۔ دنیاے فانی سے رخصت ہونے پر ان کی یاد میں دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف سطحوں پر تذکرہ و تجزیہ اور داد و تحسین کی سرگرمی کا ہونا ایک فطری چیز تھی۔ اس حوالے سے ادارہ تحقیقات اسلامی کے فاضل ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے ۲۱فروری ۲۰۰۰ء کو علی میاں کی یاد میں دو روزہ سیمی نار کا انعقاد کیا۔ زیرنظر کتاب کا محرکِ ترتیب وہی سیمی نار بنا۔ ڈاکٹر انصاری لکھتے ہیں: ’’سیمی نار میں پیش کردہ مقالات اہل نظر کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے ادارہ خوشی محسوس کر رہا ہے‘‘ (ص ۱۰)۔ مگر یہ کتاب تمام تر سیمی نار کے مقالات پر مشتمل نہیں ہے۔ فاضل مرتب نے بتایا ہے کہ اس کتاب کی تدوین میں تاخیر کی وجہ سے سیمی نار کے چند مقالات دوسری جگہ چھپ گئے‘ اس لیے انھیں اس مجموعے میں شامل نہیں کیا گیا (ص ۱۱‘ ۱۲)۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ مرتب نے زیرتبصرہ کتاب میں خاصی تعداد میں پرانی اور چھپی ہوئی تحریریں بھی شامل کردی ہیں‘ مگر ان کی نشان دہی نہیں کی۔ چنانچہ نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیمی نار میں کیا پیش ہوا اور نہ یہ کہ مدتوں پہلے کی چھپی ہوئی چیزیں کون سی ہیں اور کہاںسے اور کس معیار یا جواز کی بنیاد پر شاملِ اشاعت کی گئی ہیں؟ اگر صرف سیمی نار کی چیزوں کو معیار بنایا جاتا تو یہ ایک معقول بات ہوتی اور مطبوعہ غیرمطبوعہ کی اس ’’کراہت اورمرتبانہ پرہیز‘‘ سے بھی  بچا جاسکتا تھا‘جو ڈاکٹر انصاری اور فاضل مرتب کے بیانات کے باہم ٹکرائو سے پیدا ہوتا ہے۔

لیکن اس سے قطع نظر‘ یہ اپنے موضوع پر نئی پرانی تحریروں کا ایک معلومات افزا اور عمدہ مجموعہ ہے‘ جو مولانا علی میاں کی شخصیت اور کارناموں کو سمجھنے کے لیے نہایت مفید ہے۔ جن اہل قلم کی تحریریں شامل ہیں ان میں جلیل احسن ندوی‘ ملک نصراللہ خاں عزیز‘ رضوان علی ندوی‘ پروفیسر خورشیداحمد‘ ڈاکٹر خالد علوی‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ محمد الغزالی‘ سہیل حسن اور خود فاضل مرتب شامل ہیں۔

ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ : ’’دینی حلقے میں ابوالحسن علی ندوی پہلے بلندپایہ عالم ہیں‘ جو اقبال سے متاثر ]ہوئے… اُن کی[ اس کتاب میں فکراقبال کے تمام اہم مباحث آگئے ہیں‘‘ (ص ۱۵۲-۱۵۳)۔ یہ بیان مبالغہ آمیز اور فقط جوشِ عقیدت کا مظہر ہے۔ ایک اور مضمون: ’’برصغیرکی تاریخ اصلاح و جہاد‘‘ باہم ربط و امتزاج سے خالی ہے۔ علی میاں کے فکری ارتقا اور اس باب میں ناہمواری کی متعددمثالوں کے تجزیے سے یہ مضمون خصوصی مطالعے کی بنیاد بن سکتا تھا۔

علی میاں کے جو (زیادہ تر مطبوعہ) مکتوبات کتاب میں شامل کیے گئے ہیں‘ معلوم نہیں ان کے انتخاب میں کیا معیار مدنظر رہا؟ ایک مکتوب میں یہ ذکر آتا ہے کہ دمشق کی ایک کانفرنس میں مولانا مودودی اور علی میاں دونوں شریک تھے۔ علی میاں لکھتے ہیں:’’مودودی صاحب… یونی ورسٹی ہال… میں سٹیج پر آئے تاکہ… مسئلہ فلسطین کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں تو انھوں نے منتظمین جلسہ سے خواہش ظاہر کی کہ ان کی اُردو تقریر کا میں ترجمہ کروں۔ میں بعض وجوہ سے اس کو اچھا نہیں سمجھتا تھا لیکن انھوں نے کئی بار اس کا تقاضا کیا… مجبوراً طبیعت کے انقباض کے ساتھ یہ خدمت انجام دینی پڑی اگرچہ تقریر کا تعلق صرف مسئلہ فلسطین سے تھا اور اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو میرے لیے موجب ِ انقباض ہوتی ] پھر بھی[ مجھے اس میں تردد تھا… بس طبیعت پر ایک انقباض طاری ہوگیا ---اور کئی روز اس کا اثررہا‘‘ (ص ۲۹۷-۲۹۸)۔ معلوم نہیں یہ خط کس کی تحسین یا کس کی تنقیص کے لیے‘ خصوصاً اس  یادگاری مجموعے میں شامل کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں پرانے رسائل سے علی میاں کی کتب پر مطبوعہ تبصرے‘ مکتوبات اور خود ان کی خودنوشت ۵۰ صفحوں پر مشتمل بھی شامل کی گئی ہے‘ لیکن مطبوعہ چیزوں کے ماخذ کا حوالہ دینے سے پہلوتہی کی گئی ہے۔ (سلیم منصورخالد)


مسلمان عورت  ‘شیخ وہبی سلیمان عاوجی الالبانی‘ ترجمہ: مولانا عبدالصبور بن مولانا عبدالغفور‘ ناشر: مکتبہ غفوریہ‘ مکان ۱‘ گلی ۴۸‘ جمیل ٹائون‘سبزہ زار سکیم‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۷۔ قیمت: درج نہیں۔

زیرنظر کتاب میں: اسلام میں عورت کی حیثیت‘ بعض دائروں میں مرد و زن کے مساوی حقوق‘ مگر بعض (حیاتیاتی‘ نفسیاتی اور دینی) پہلوئوں سے مرد اور عورت کی نوعیت و حیثیت میں تفاوت و تفریق‘ مردوزن کے تعلق کے معاشرتی پہلو‘ ازدواجی زندگی اور حقوق و فرائض‘ پردہ‘ عورت بطور خاتون خانہ‘ اور عورتوں کی گمراہی کا ذمہ دار کون؟ اور مسلمان عورت کیسی ہو؟ --- جیسے امور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ بعض مصنفین کے مشاہداتِ مغرب کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

اپنے موضوع پر اچھی کتاب ہے لیکن‘ اوّل: مترجم نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ مصنف کون ہے؟ ممکن ہے طبقۂ علما میں وہ محتاجِ تعارف نہ ہوں مگر ان کے مختصر تعارف کے لیے‘ قاری کی خواہش فطری ہے۔ دوم: فاضل مصنف نے یہ کتاب اپنے مخصوص ماحول اور (کسی عرب خطے) کے حالات کو سامنے رکھ کر لکھی مگر طبقۂ نسواں کے حوالے سے‘ پاکستانی معاشرہ کن مسائل سے دوچار ہے؟ صورتِ حالات کیا ہے؟ اور جدید ذرائع ابلاغ‘ میڈیا اور اباحیت زدہ سیکولر طبقہ‘ ہمارے خاندانی نظام کو تلپٹ کرنے اور عائلی زندگیوں میں زہرگھولنے اور اسے فتنوں سے دوچار کرنے میں جس غیرمعمولی مستعدی سے سرگرمِ عمل ہے‘ اُس کا دفاع کرنے کی کیا صورت ہے؟--- یہ کتاب اس بارے میں خاموش ہے--- خیال رہے کہ نہ تو محض وعظ و تبلیغ سے فتنوں کا سدِّباب ہوسکتا ہے‘ اور نہ کافروں اور یہودیوں کو برا بھلا کہہ کر‘ اور حکومتی اداروں کی مذمت کر کے اصلاح احوال کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔

یہ خوش آیند امرہے کہ مشینی کتابت کے نتیجے میں دینی اور مذہبی حلقوں کی اشاعتی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں مگر تصنیف و تالیف کے جدید اسالیب‘ اصولِ تدوین اور کتاب کے رنگ ڈھنگ (فارمیٹ) کے حوالے سے‘ ابھی بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ تقریظ کا دوسرا کتابت شدہ صفحہ‘ پیسٹنگ میں کہیں غتربود ہوگیا‘ اور کتاب اِسی طرح چھاپ کر جاری کر دی گئی ہے۔ (ر-ہ)


شعورِ حیات ‘مولانا محمد یوسف اصلاحی۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۱۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

۹۸ مضامین کا یہ مجموعہ دراصل مجلہ ذکرٰی ‘ رام پور کے اداریوں پر مشتمل ہے۔ یہ مضامین قبل ازیں مختلف مجموعوں کی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ اب انھیں یکجا کر کے پیش کیا گیا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کل اُمت مسلمہ گوناگوں مصائب و آلام کا شکار ہے۔ ہر چوراہے پر مسلمان ٹکٹی سے بندھے نظر آتے ہیں اور ظلم و جبر اور استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مولانا اصلاحی کے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ’’اُمت نے اپنا ]وہ[ فرض بھلا دیا ہے جس کے لیے خدا نے اس کو پیدا کیا تھا‘‘۔ وہ فرض قرآنی اصطلاح میں امربالمعروف ونھی عن المنکرہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دورِحاضر میں جب انسان اپنے مقاصدِ تخلیق سے ناواقف ہو چکا ہے‘ یہ کتاب اُسے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کا مفہوم سمجھاتی ہے۔

مصنف نے زندگی کے مختلف اور متنوع پہلوئوں پر قلم اٹھایا ہے۔ خیر کا اصل چشمہ‘ سماجی اصلاح کا گر‘ اسوۂ حسینؓ کا پیغام‘ عیدقربان‘ تلاوتِ قرآن‘ موت کے دروازے پر‘ روزہ کس لیے؟ چند لمحے رسولؐ کی مجلس میں‘ جب آپ کی بیٹی کا پیغام آئے‘فقروفاقہ‘ ایک آزمایش وغیرہ--- زندگی ہی کی طرح اس کتاب کا دائرہ‘ عبادات سے اعمال تک اور معاشرت سے معیشت تک وسیع ہے۔ مصنف کا مقصد یہ ہے کہ قاری کو حقیقی معنوں میں شعورِ حیات حاصل ہو۔

زبان عام فہم اور سادہ ہے۔ انداز و اسلوب‘ تحریر سے زیادہ تقریر کا ہے۔ انفرادی تربیت و تزکیے کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (قاسم محمود وینس)


تعارف کتب

  • فکر امروز‘ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی۔ ناشر: خورشید گیلانی ٹرسٹ ۲۲‘ ایچ مرغزار آفیسرز کالونی‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۱۔قیمت: ۱۲۰ روپے۔]یہ اس کتاب کی دوسری اشاعت ہے۔ (طبع اول ۱۹۹۵ئ) اہم دینی‘ ملّی‘ ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر فکرانگیز تبصرے اور تجزیے‘ جیسے: عالمی قیادت کا امریکی خواب‘ بنیاد پرستی‘ اسلامک ورلڈ آرڈر‘ ارباب اقتدار کی نفسیات‘ اسلام کیسے نافذ ہوا اور کون نافذ کرے؟ وغیرہ۔[
  • اُردو سرکاری زبان‘ چودھری احمد خاں۔ ناشر:ادارہ منشورات اسلامی‘ بالمقابل منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۴۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔] ’’پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی‘‘ (قائداعظم)۔ مگر یہ کیوں نہ ہو سکا؟ یہ کتاب اس کی دل خراش داستان ہے۔ طبع اوّل (اکتوبر ۱۹۹۶ئ) پر تبصرہ دیکھیے: ترجمان‘ جنوری ۱۹۹۶ئ۔ یہ دوسرا ایڈیشن ہے۔[
  • شرح شمائل ترمذی‘ اوّل‘ مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ۔ صفحات: ۶۴۰۔ قیمت: درج نہیں۔] شمائل ترمذیکی شرحوں پر ایک اضافہ۔ احادیث کا متن اعراب کے ساتھ مع اسناد‘ تحت اللفظ اُردو ترجمہ اور تشریحات بہ شمول: راویان حدیث کا تذکرہ۔[
  • انفاق فی سبیل اللہ‘ منیراحمدخلیلی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت:۱۶۵ روپے۔ ] ۱۸‘ ۲۰ سال قبل‘ یہ کتاب پہلی بار چھپی تھی۔ اب مؤلف نے نظرثانی کی اور متعدد اضافے کرکے‘ اسے جامع تر بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایک اخوانی رہنما عبدالبدیع السید صقر کی  نظر میں یہ ’’حقیقی علمی و نظری مباحث سے مالا مال‘‘ ہے اور ’’عام مسلمانوں کے لیے اور خاص طور پر زکوٰۃ و صدقات کے امور سے بحث و شغف رکھنے والے حضرات کے لیے بڑی مفید ثابت ہوگی‘‘۔[

محمد رفیق وڑائچ ‘ لاہور

’’سامراج کی لغت میں دوستی کا مفہوم‘‘ (مارچ ۲۰۰۳ئ) میں مولانا مودودیؒ نے سامراج کی دوستی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ آج کے امریکہ کے رویے پر پورا اترتا ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے اس تحریر کا بروقت انتخاب فرمایا۔ البتہ اس مضمون میں بیان کیے گئے مقامات کے نام بدل گئے ہیں۔ سیاسی جغرافیہ تبدیل ہو چکا۔ آج کے قارئین کے لیے وہ معلومات قصہ پارینہ بن چکیں جو گذشتہ صدی میں تاریخ انگلستان اور یورپ کے حوالے سے اسکولوں میں شامل نصاب ہوتی تھیں۔ اس لیے اس مضمون کے عصرِحاضر میں پورے فہم و شعور کے لیے کئی جگہ وضاحتی حاشیوںکی ضرورت محسوس ہوئی۔


ڈاکٹر معراج الھدیٰ صدیقی  ‘ کراچی

’’عالم اسلام کے لیے امریکی منصوبے‘‘ (مارچ ۲۰۰۳ئ) میں جن امریکی عزائم کا ذکر کیا گیا ہے بلاشبہہ وہ کسی انکشاف سے کم نہیں۔ امریکی سامراج پوری مسلم دنیا کو محاصرے میں لینے کی تیاریاں کر چکا ہے اور ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کاش! ہمارے مسلم حکمران ہوش مندی سے کام لیں اور سوچیں کہ عراق پر جس آگ و خون کی بارش ہونے والی ہے کیا اس کی چھینٹیں ان پر نہیں پڑیں گی اور چھینٹیں توکیا‘ خود ان کی باری آنے میں کتنی دیر رہ جائے گی۔ آج عالمی اُفق پر جو گھٹائیں چھا رہی ہیں بلاشبہ ملّت کا درد رکھنے والا ہر فرد اس سے مضطرب‘ دل گرفتہ اور پریشان ہے۔ بے سمتی کا سفر ترک کر کے سمت متعین کرنا اور اُمت کی شیرازہ بندی کرنا وقت کی ضرورت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی! دیکھیے پردئہ تقدیر سے کیا ظہور ہوتا ہے۔ حبس کے بعد بارش ضرور ہوتی ہے جو نئی زندگی کا جانفزا پیغام ہوتی ہے۔


ڈاکٹر عبدالباری عتیقی‘ کراچی

’’انسانی کلوننگ‘‘ (فروری ۲۰۰۳ئ) پر علامہ یوسف القرضاوی کا مضمون دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اس مختصر مضمون میں اس پیچیدہ مسئلے کے تقریباً تمام پہلوئوں کا کافی و شافی طریقے سے احاطہ کیا گیا ہے۔ ہر نئی چیز کو بلاسوچے سمجھے ناجائز قرار دے دینے اور ہر نئی چیز کو اس کے نقصان دہ اور غیراخلاقی پہلوئوں سے بھی صرفِ نظر کرکے جائز قرار دے دینے کی دو انتہائوں کے درمیان کم از کم اس معاملے میں یہی عین راہِ صواب نظرآتی ہے۔ میرا احساس ہے کہ مستقبل میں انسانیت کا اجتماعی ضمیر‘ اگر وہ ہے اور میرا خیال ہے کہ ہے‘ کلوننگ کے مضر اورغیراخلاقی استعمال کو قبول کرنے سے انکار کر دے گا اور اس کے صرف مفید اور اخلاقی استعمالات باقی رہ جائیں گے۔ ان شاء اللہ!


سید حامد عبدالرحمٰن الکاف ‘ یمن

’’کتاب نما‘‘ (فروری ‘ ۲۰۰۳ء ) میں لکھا ہے کہ ’’مولانا فراہی قرآنی علوم کے معروف محقق‘ مفسراور ترتیب و نظم قرآن میں ایک نئے مکتب فکر کے بانی تھے‘‘(ص ۹۹)--- نظم قرآن کا مکتب فکربہت پرانا ہے اس کی عمر ایک ہزار دو سو بلکہ تین سو سال ہے۔ مولانا فراہیؒ اس آخری دور میں ہندوپاک میں نظمِ قرآن کے علم بردار ضرور رہے ہیں‘ مگر بانی ہرگز نہیں۔ یہی حقیقت ہے۔


عبدالحنان ‘ گکھڑمنڈی

شذرات ’’مفت تعلیم کی طرف قدم‘‘ (فروری ۲۰۰۳ئ) میںاچھی توجہ دلائی گئی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں ماہانہ فیس معاف کر دینے سے تعلیم ہرگز سستی نہیں ہو سکتی۔ اصل فیس تو اسکول کے بعد ٹیوشن پڑھانے کی فیس ہے جو نرسری تا میٹرک عملاً لازم ہوگئی ہے۔ کچھ اساتذہ اسکول میں ملازمت ہی صرف اپنی پرائیویٹ اکیڈمی کو بارونق بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ ایسے بھی اساتذہ ہیں جو طلبہ کو زبردستی ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ حکم عدولی کی صورت میں طرح طرح سے ستایا جاتا ہے‘ مارا پیٹا جاتا ہے‘ اسکول سے نام خارج کر دیا جاتا ہے اور زیرعتاب رکھا جاتا ہے۔ تعلیم و تعلم ایک مقدس فریضہ ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اسے ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اسکول کی فیس معاف کرنے کے ساتھ ٹیوشن کی لعنت سے چھٹکارا بھی ضروری ہے۔ حکامِ بالا اس کے لیے بھی عملی قدم اٹھائیں۔


محمد نجات اللّٰہ صدیقی ‘ جدہ

یوں تو یاد رفتگان کے کالم میں آپ جو کچھ لکھتے ہیں پڑھنے کے لائق ہوتا ہے مگر جنوری ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ خاص چیز ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب سے اپنی دوملاقاتوں سے متعلق کچھ باتیں سامنے لانا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے میری طرح دوسرے بھی مستفید ہوسکیں۔

پہلی ملاقات دسمبر ۱۹۷۲ء کے تیسرے ہفتے میں ڈاکٹر صاحب کے پیرس والے فلیٹ میں ہوئی تھی۔  سہ پہر کا وقت تھا۔ کچھ دیر بعد ایک نومسلم نوجوان آگئے‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ ان کو قرآن کریم (ناظرہ) پڑھاتے ہیں اور موعودہ وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ اتنا بڑا عالم اور محقق ناظرہ پڑھا رہا تھا‘ میری طبیعت بہت متاثر ہوئی۔

جن مسائل پر ڈاکٹر صاحب سے استفادہ رہا ان میں سے ایک کا تعلق قاضی ابویوسفؒ کی کتاب الخراج کے ترجمے اسلام کا نظام محاصل‘ مکتبہ چراغ راہ کراچی ‘ ۱۹۶۶ء اور اسلامک پبلی کیشنز‘ لاہور سے تھا جس کی تفصیل اس وقت سامنے نہیں ہے۔ مگر اہمیت کی بات یہ ہے کہ سیکڑوں صفحات میں سے ڈاکٹرصاحب نے اس ایک مقام پر انگلی رکھ دی جس کا ترجمہ ان کی نظر میں تشفی بخش نہیں تھا اور جس کے بارے میں وہ عرصہ سے تحقیق میں مصروف تھے۔

دوسرا مسئلہ عملی تھا۔ ملاقات سے کچھ عرصہ پہلے امپیکٹ‘ لندن میں ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے نظر سے گزری تھی کہ کرئہ ارضی کے انتہائی شمالی علاقوں میں بعض موسموں میں جب رات کے غیرمعمولی طور پر چھوٹی ہو جانے کی وجہ سے مغرب‘ عشا اور فجر کی نمازوں کے اوقات بہت جلد جلد آتے ہیں‘ یا دن کے بہت لمبے ہونے کی وجہ سے روزہ بہت لمبا ہوجاتا ہے‘ نمازوں اور افطار کے اوقات مکّہ مکرمہ کے اوقات کے مطابق یا پھر قریب ترین نارمل علاقوں کے اوقات کے مطابق کیے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے تو یہی فرمایا تھا کہ بعض لوگ ان کی رائے پر عمل بھی کرتے ہیں مگر آج تک نہ اس کا ثبوت ملا نہ یہ سمجھ میں آیا کہ یہ مشکل کیسے حل ہو۔

ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب سے میری دوسری اور آخری ملاقات اسلام آباد میں فکرِاسلامی پر دوسری  بین الاقوامی کانفرنس‘ منعقدہ جنوری ۱۹۸۲ء کے موقع پر ہوئی۔ ایک موضوع پر کسی کے مقالے سے متعلق آیت قرآنی  اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُم(مسلمانوں کے معاملات ان کے درمیان باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں۔ الشوریٰ ۴۲:۳۸) زیربحث آگئی۔ میں نے سوال کیا کہ آیت کے دوسرے اجزا  وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o (اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں‘ ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ الشوریٰ ۴۲:۳۸) میں جس طرح ھم کی ضمیر میں مسلمان مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل کیا ہے ‘کیا اسی طرح شوریٰ سے متعلق بات بھی ان دونوں سے متعلق نہیں ہے؟ بالفاظِ دیگر شوریٰ میں مردوں کی طرح عورتیں بھی شریک ہیں۔ صاحب ِ مقالہ نے تو سوال پر ہی تعجب کا اظہار کیا اور بہرصورت میرے موقف کی تائید نہیں کی مگر ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف میری تائید آیت کے فہم کے سلسلے میں کی بلکہ قرنِ اوّل سے نظائر بھی پیش کیے‘ جن میں سب سے اہم نظیرحضرت عمرؓ کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے سلسلے میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا بعض خواتین کی رائے معلوم کرنا ہے۔

  • مارچ ۲۰۰۳ء کے شمارے میں درست آیت: اِذَا ذُکِرَاللّٰہُ (ص۴۴‘سطر۲۰) ہے۔ (ادارہ)

معمار کا صبر

         جو عظیم الشان مقصد ہمارے سامنے ہے اور جن زبردست طاقتوں کے مقابلے میں ہم کو اُٹھ کر اس مقصد کے لیے کام کرنا ہے اس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہم میں صبر ہو تدبر ہو اور معاملہ فہمی ہو اور اتنا مضبوط ارادہ موجود ہو جس سے ہم دور رس نتائج کے لیے لگا تار ان تھک سعی کر سکیں۔ بے صبری کے ساتھ جلدی جلدی نتائج برآمد کرنے کے لیے بہت سے ایسے سطحی کام کیے جا سکتے ہیں جن سے ایک وقتی ہلچل برپا ہو جائے ، لیکن اس کا کوئی حاصل اس کے سوا نہیں ہے کہ کچھ دنوں تک فضا میں شور رہے اور پھر ایک صدمے کے ساتھ سارا کام اس طرح برباد ہو کہ مد تہائے دراز تک دوبارہ اس کا نام لینے کی بھی کوئی ہمت نہ کرسکے۔ یہ چیز جن لوگوں کو مطلوب ہے ان کے لیے مناسب یہ ہے کہ ہمیں پریشان کرنے کے بجائے ہو ہم سے الگ ہو جائیں اور آزادی کے ساتھ جو ہنگامہ برپا کرنا چائیں کریں۔  مگر جو لوگ اس مقصد کے لیے واقعی کوئی صحیح کام کرنا چاہتے ہیں انہیں شوق فضول سے مجتنب ہو کر معمار کے سے صبر کی عادت ڈالنی چاہیے جو تعمیر شروع کرنے سے پہلے سامان تعمیر جمع کرتا ہے ، پھر دیوار اُٹھانے سے پہلے بنیادیں کھودنے اور ان کو مضبوطی کے ساتھ بھرنے میں کافی وقت اور محنت صرف کرتا ہے ، پھر ایک ایک اینٹ چنتا ہے اور جب تک این کو مستحکم نہیں کر لیتا دوسر ی اینٹ کو ہاتھ نہیں لگا تا ۔ جس معمار میں اتنا صبر نہیں ہے اور جو بنیاد کھودنے سے پہلے چھت ڈالنا چاہتا ہے اس کے لیے کا م کا صحیح میدان زمین نہیں بلکہ ہوا ہے۔  (,,اشارات ،، ابوالاعلیٰ مودودی ، ترجمان القرآن، جلد ۱۳۶۲ھ اپریل ۱۹۴۳ ئ، ص ۷۳،۷۴)