مضامین کی فہرست


فروری ۲۰۰۲

امریکی صدر جارج بش نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابل مذمت واقعات کا سہارا لے کر افغانستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جن بودے ‘ شرم ناک اور ظالمانہ الزامات کے نام پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے انھی کا بہانہ بنا کر اسرائیل اور اس کے فلسطینیوںکے خون کے پیاسے وزیراعظم ایرول شیرون نے غزہ اور فلسطین کے علاقے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بالکل انھی مفروضوں کے بل پر بھارتی قیادت نے پاکستان پر جنگ تھوپنے کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف جو جارج بش کی دھمکیوں میں آکر ان کے زیردام آچکے ہیں‘ اب اس ابتدائی اور بنیادی غلطی (original sin)کی پاداش میں ایک کے بعد دوسری پسپائی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جنرل صاحب کی اَنا کو غذا فراہم کرنے کے لیے وہی مغربی قائدین اور صحافی جو انھیں ۱۱ ستمبر سے پہلے جمہوریت کا قاتل‘ فوجی ڈکٹیٹر اور عالمی محفلوں میں ناپسندیدہ شخص (persona non grata)قرار دے رہے تھے‘ اور صدر کلنٹن ان کے ساتھ اپنا فوٹو کھنچوانا اور ٹی وی پر ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا جانا بھی پسند نہیں فرماتے تھے‘ اب ان کو سینے سے لگا رہے ہیں‘ اور ایک سے ایک بڑھ کر ان کو بہادر‘ معاملہ فہم‘ بالغ نظر اور روشن خیال بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس ذہنی رشوت کے بدلے ان سے ہر روز نت نئی مراعات حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

افغانستان کو تباہ کرنے‘ وہاں اپنی فوجوں کے قدم جمانے اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے بعد اب امریکہ کا ہدف کشمیر کا جہاد آزادی اور پاکستان اور عالم اسلام کی وہ تحریکات ہیں جو دین اسلام کو ایک مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کی داعی ہیں۔ یہ مغرب کے استعمار کے خلاف سب سے بڑی مزاحم قوت ہیں۔ وہی جہاد جو کبھی آزادی اور اشتراکیت کے خلاف جنگ کا روشن نشان تھا ‘اب دہشت پسندی کا دوسرا عنوان قرار دے دیا گیا ہے۔ وہی مجاہد جن کا ۱۹۸۵ء میں صدر رونالڈ ریگن وہائٹ ہائوس میں استقبال کر رہے تھے اور ان کے چہروں پر فرشتوں کا نور دیکھ رہے تھے اور جن کے سروں پر امریکہ کی جنگ آزادی کی قیادت بشمول جارج واشنگٹن کا سایہ تلاش کر رہے تھے‘ اب انھیں زمین پر سب سے زیادہ قابل نفرت اور لائق مذمت گروہ سمجھ کر گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔

بات چلی افغانستان اور القاعدہ سے تھی‘ مگر اب فلسطین ہو یا کشمیر‘ شیشان ہو یا کوسووا یا فلپائن کے مورو __ ہر جگہ اپنی آزادی اور غیر ملکی تسلط کے خلاف مصروفِ جہاد قوتیں ہی اصل ہدف ہیں۔ ان قوتوں کو دبانے کے لیے عسکری قوت اور ملٹری بلیک میل کے ساتھ ان ملکوں کے حکمرانوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے کہ دینی مدارس پر پابندیاں لگائیں‘ مسجد اور منبر کی آزادی کو لگام دیں‘ اور اس اُمت کے جسم و جاں کو روح جہاد سے محروم کرنے کا سامان کریں۔ مغربی استعمار نے اپنے اولیں دور میں بھی جہاد ہی کو نشانہ بنایا تھا اور خود مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں ایسے افراد اور افکار کو فروغ دیا تھا جو جہاد کو منسوخ اور اسے فرسودہ اور خطرناک قرار دینے والے ہوں۔ خواہ جدید تعلیم یافتہ اور لبرل اور ماڈرنسٹ ہوں یا مذہبی لبادہ اوڑھنے    حتیٰ کہ نئی نبوت کی دستار زیب تن کرنے والے‘ سب ہی نے جہاد کو کالعدم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا مگر اللہ کی بات جہاں تھی وہیں رہی اور وہ ناکام و نامراد ہوئے۔ اب نئے استعمار کے لیے زمین ہموار کرنے کے لیے بھی وہی ڈراما رچایا جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے!

۱۲ جنوری کا خطاب

یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف نے ۱۲ جنوری کا وہ خطاب فرمایا ہے جس کا چرچا تقریر سے پہلے ہی پوری دنیا میں تھا اور اس کے اساسی نکات کا اعلان اسلام آباد سے نہیں‘ واشنگٹن سے اور جنرل صاحب کے نفس ناطقہ کی زبان سے نہیں امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان کی زبان سے ہو رہا تھا۔

لشکر طیبہ اور جیش محمد پر پابندی لگا کر حکومت نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ  ہوا کا رُخ کیا ہے۔کس طرح کے اقدامات ان کے پیش نظر ہیں۔ تحریک جعفریہ اور سپاہ صحابہ پر پابندی کی خبریں بھی عام تھیں اور دونوں تنظیموں کو پہلے انتباہ بھی کیا گیا تھا۔ دینی مدارس اور مساجد کے بارے میں مغربی قوتیں ایک عرصے سے مہم چلا رہی تھیں اور ان کے زیراثر پاکستان کی سیکولر اور لبرل لابی اور یہاں کا انگریزی پریس اور انگریزی فیشن میگزین مدارس کی تعلیم و تربیت کے بارے میں عسکریت کے حوالے سے فیچر چھاپ کر مغربی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ خود جنرل پرویز مشرف صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اتاترک کو اپنا آئیڈیل قرار دے کر اپنے اصل عزائم کی ایک جھلک دکھائی تھی مگر فوری عوامی ردعمل سے گھبرا کر قدم پیچھے ہٹا لیے تھے۔ اب حالات کو سازگار سمجھ کر اور مغربی اقوام کی پشت پناہی حاصل کرکے‘ دبے لفظوں میں اور مغالطہ آمیز اعلان کے ساتھ دین و سیاست کی تفریق کی طرف قوم و ملک کو لے جانے کے لیے اولیں اقدام کر کے اصل ایجنڈے کی طرف آ رہے ہیں۔ ان کی تقریر میں دین و سیاست کو الگ رکھنے‘ مدارس اور مساجد کو رجسٹر کرنے اور پیشگی اجازت لیے بغیر کوئی نئی مسجد یا مدرسہ نہ کھولنے کے اعلانات اس سمت میں پہلا قدم ہیں۔

جہاں تک فرقہ وارانہ تعصبات اور فسادات کا تعلق ہے سبھی اسے ناپسند کرتے ہیں۔ ملک میں لسانی تعصبات اور علاقائی نفرتیں بھی عام ہیں۔ ان کے نتیجے میں جو فسادات ہوئے ہیں وہ زیادہ سنگین اور بڑے پیمانے پر تھے اور ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ تھے۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی لسانی اور علاقائی تعصبات والے گروہ موجودہ حکومت کے حلیف ہیں کیونکہ انھیں بھی پرویز مشرف حکومت کی طرح مغربی طاقتوں کی پشتی بانی حاصل ہے۔ اس لیے وہ محفوظ ہیں اور سارا نزلہ مذہبی عناصر پر گرایا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ملک کے اندر فساد پھیلانے والی تنظیمیں چاہے وہ فرقہ وارانہ ہوں یا علاقائی اور لسانی ہوں ملک کی یک جہتی‘ امن و سکون اور معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے زہر قاتل ہیں لیکن اگر ان میں سے ایک ایک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگاکہ ان کی اکثریت کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اس کے لیے مذہبی طبقات کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر ظلم اور بے انصافی ہے۔ نیز فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں حقیقی اور موثر کردار اہل مذہب کا نہیں‘ ملکی اور بیرونی تخریبی عناصر اور ایجنسیوں کا تھا جس کا بار بار اعتراف خود سرکاری ذمہ داروں بشمول وزیر داخلہ نے کیا ہے۔ لیکن اب یہ سب پہلو نظرانداز کر دیے گئے ہیں اور ملبہ صرف کچھ مذہبی عناصر پر ڈالا جا رہا ہے۔

جنرل صاحب نے ایک ہی سانس میں پاکستان کو اسلامی ریاست بھی قرار دیا اور دین کو سیاست سے الگ رکھنے اور مسجد میں سیاست نہ کرنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال کے تصور پاکستان کی باتیں بھی کی ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ اقبال تو دین و دُنیا اور مذہب و سیاست کی یک رنگی کے قائل ہیں اور دُنیا کے پورے نقشے کی‘ بشمول ریاست و معیشت‘ دین کی بنیاد پر تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے قائل ہیں کہ:

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اقبال کا تو سارا پیغام ہی قوت کو دین کے تابع کرنے اور اسے حق کی حکومت کے لیے استعمال کرنے کا پیغام ہے:

لادیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والا اور ان کے اسوئہ حسنہ کی پیروی کو فلاح اور کامیابی کا زینہ سمجھنے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دین اور سیاست الگ ہیں یامسجد میں سیاست کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ پورا قرآن اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اخلاقی اور سیاسی تعلیمات کے حسین اور دل نشین امتزاج پر مشتمل ہے۔ حضور نبی کریم ؐ نے اسلامی حکومت قائم کی ہے۔ آئین اورقانون عطا کیا ہے۔ ایک مصرع میں علامہ اقبالؒ نے حضور نبی کریمؐ کی زندگی کا یہ حصہ کس خوب صورتی کے ساتھ بیان کر دیا ہے:

از کلید دیں در دنیا کشاد

یعنی انھوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔ دین اور دنیا الگ نہیں ہیں۔ دین‘ دُنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ دین سیاست اوراقتدا کے بغیر نامکمل ہے اور سیاست دین کے بغیر گمراہی اور ظلم کا پلندا ہے۔

مسجد کے لیے پیشگی اجازت کی شرط لگا کر پرویز مشرف صاحب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسجدیں تعمیر کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں۔ لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ اس طرح کی پابندی انگریز کے دور استعمار میں بھی علما اور اس اُمت نے قبول نہیں کی۔ آج بھی ناممکن ہے کہ مساجد کو اجتماعی مسائل کے حل کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ مطلق العنان حکومتوں کی ہر دور میں یہ خواہش رہی ہے کہ اس کے خلاف کہیں سے آواز نہ اٹھ سکے اور مسجد و منبر خاص طورپران کا نشانہ بنے ہیں لیکن مسجد کا مقصد ہی مسلمانوں کو عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور اجتماعیت کا درس دینا ہے۔ ان دونوں کے درمیان رشتہ منقطع نہیں کیا جا سکتا۔

جنرل پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ مذہبی جماعتوں میں سے کسی نے بھی افغانوں کی انسانی ضروریات پوری نہیں کیں۔ یہ کام مغربی ممالک کی این جی اوز نے کیا ہے یا عبدالستار ایدھی نے یہ خدمت انجام دی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اور دوسرے اسلامی فلاحی اداروں کی خدمات کا ذکر نہ کر کے انھوں نے صراحتاً حقائق سے چشم پوشی کی ہے اور قوم اور پوری دنیا کو گمراہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مظلوم افغانوں کی دست گیری کے لیے الرشیدیہ ٹرسٹ‘ اُمّہ تعمیرنو الخدمت اور اسلامک ریلیف کی خدمات یو این او کے خدمتی ادارے سے اگر زیادہ نہیں تو کسی صورت کم بھی نہیں۔ خود یو این او کا متعلقہ ادارہ ان مسلمانوںکے ذریعے اپنے بہت سے ریلیف پروگرام چلا رہا ہے کیوں کہ اس کے پاس زمینی سطح پر وہ کارکن اور انتظام نہیں جو اس کام کے لیے درکار ہے۔

اُمّت کا تصور

جنرل پرویز مشرف کی تقریر کا سب سے زیادہ قابل اعتراض حصہ وہ ہے جہاں انھوں نے پاکستانیوں کو دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم خدائی فوج دار نہیں۔ بلاشبہہ ہم خدائی فوج دار نہیں‘ لیکن خدا کے سپاہی اور اُمت مسلمہ کے ارکان تو ہیں۔ یہ اُمت ایک اُمت ہے‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اِنَّ ھٰذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً (الانبیاء ۲۱:۹۲) بلاشبہہ تمھاری یہ اُمت ایک اُمت ہے۔ موصوف کے یہ ارشادات دراصل پاکستان کے نظریے پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اس کا نظریہ اسلام ہے۔ اس کی تشکیل میں برعظیم کے مسلمانوں نے حصہ لیا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں مفتی اعظم فلسطین نے ایک تقریر مکہ مکرمہ میں کی تھی جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو ایک مرکز کی ضرورت تھی اور علامہ محمد اقبالؒ کی خواہش تھی کہ برعظیم میں مسلمان اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک ایسا ملک وجود میں آجائے جو اُمت مسلمہ کو مرکز و محور عطا کرے۔ اس کے لیے برعظیم کے ان مسلمانوں نے بھی اس کی تشکیل میں حصہ لیا جن کو معلوم تھا کہ وہ خود اس میںشامل نہیں ہو سکیں گے۔

قائداعظم نے عالم اسلام کے تمام مسائل کو ہمیشہ اپنے مسائل کے طور پر پیش کیا اور خصوصیت سے مسئلہ فلسطین پر پوری مغربی دنیا کو ناراض کر کے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ فلسطین ہو یا شیشان‘ بوسنیا ہو یا کوسووا‘ خلافت کا مسئلہ ہو یا الجزائر کی جنگ آزادی‘ پاکستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے بھائیوں کا ساتھ دیا اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ آج ’’خدائی فوج دار‘‘ کی پھبتی کس کر اُمت کی وحدت اور مظلوموں کی اعانت سے دست کشی کی باتیں ہو رہی ہیں جو ایمان اور غیرت دونوں کے منافی ہیں۔ اور اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے وژن سے انحراف ہی نہیں‘ بغاوت کے مترادف ہیں۔ اقبال کا پیغام تو ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ تھا۔ جنرل صاحب کون سے اقبال اور قائداعظم کی بات کر رہے ہیں؟

جنرل پرویز مشرف نے اگرچہ نام تو نہیں لیا لیکن ان کے ارشادات میں امریکی اور صہیونی اثرات کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کا فلسطین سے قلبی لگائو ہے۔ مسئلہ فلسطین دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اُمت مسلمہ سے کاٹنا اور اُمت کا تصور ختم کرنا یہودی لابی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ امریکی اور مغربی اقوام اُمت کے تصور کو ختم کر کے مسلمانوں کو وطنیت اور لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ استعماری ایجنڈا ہے۔ اگر آپ اقبال کو مفکر پاکستان مانتے ہیں تو پھر ان کے نظریہ قومیت کو بھی تسلیم کر لیں۔ اقبال نے اسرار و رموز میں مسلم فرد کی شخصیت کی پرورش اور مسلم اُمت کی تشکیل کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی ہے اور اس طرح اسلام کے تصور قومیت کو واضح کیا ہے۔ پاکستانی مسلمانوںکو یہ کہنا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے بے فکر ہو جائیں‘قرآن و سنت کے واضح ارشادات ‘ نظریہ پاکستان اور مفکر پاکستان کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

مغربی اقوام نے خلافت کو ختم کر کے عربوں اور ترکوں کو قومیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن  بنا دیا اور یہی وہ تقسیم در تقسیم ہے جو اُمت کے زوال کا بنیادی سبب ہے۔ اس پس منظر میں یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ دینے کا مطلب یہی نہ ہو کہ پاکستانی قوم کو کل اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ امریکہ نوازسیکولر لابی مدت سے یہ پراپیگنڈا کر رہی ہے کہ پاکستان کو جب ضرورت پڑتی ہے تو کوئی مسلمان ملک اس کی حمایت کے لیے آگے نہیں آتا تو ہم کیوں ان کے مسائل کے لیے اپنے لیے مشکلات پیدا کریں۔

فلسطین کو عربوں کا مسئلہ قرار دینا یا اسے محض فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دینا ہی بنیادی غلطی ہے۔ القدس مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسرا حرم ہے اور پاکستان کے مسلمانوں کے لیے یہ دوسروں کا نہیں خود ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ اگر مسلمانوں کی دوسری حکومتیں ہمارا ساتھ نہیں دیتیں تو اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں اپنی خارجہ پالیسی میںآزاد نہیں ہیں۔ اُمت مسلمہ کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ان کی حکومتوں پر قابض گروہ‘ ان کی تمنائوں اور آرزوئوں کے ترجمان نہیں ہیں بلکہ غیر ملکی استعمار کے مفادات کے تابع ہیں۔

پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر کا اختتام علامہ اقبالؒ کے اس شعر پر کیا:

فرد قائم ربط ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

لیکن ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ جنرل صاحب اقبال کے پیغام کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقبال نے اس شعر میں ملّت اسلامیہ سے مربوط ہونے کی تلقین کی ہے۔ ملّت سے ان کی مراد مسلمانوں کی اُمت ہے اور قومیت کا اسلامی تصور ان کے پورے پیغام کی روح ہے۔ ان کی تو تعلیم ہی یہ ہے کہ:    ؎

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر

یہ تصورِ قومیت قرآن کریم کا پیغام اور حضورنبی کریمؐ کی سیرت کا اصل سبق ہے ۔ پاکستان کی ملّت اسلامیہ اس کے مقابلے میں کسی دوسرے تصورِ قومیت کو قبول نہیں کرے گی۔

یہ درست ہے کہ ہمیں دنیا کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے اپنے ملک کے اتحاد‘ دفاع اور استحکام کو اولیں اہمیت دینی چاہیے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم استحکام پاکستان کے نام پر اس بنیادی تصورِ قومیت کی نفی کر دیں جس پر پاکستان بنا ہے۔

یہ پاکستان اگر مستحکم بن سکتا ہے اور متحد رہ سکتا ہے تو اسلام کے تصورِ قومیت کی بنیاد پر ہی متحد رہ سکتا ہے ورنہ علاقائی اور لسانی قومیتوں کے پرچارک مغربی آقائوں کی سرپرستی حاصل کر کے اس کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔

تصورّ جہاد

جنرل پرویز مشرف صاحب نے ایک اور خطرناک مغالطہ خود جہاد کے تصور کے بارے میں دیا ہے۔ جس حدیث کا سہارا لے کر انھوں نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی بات کی ہے اہل علم جانتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے مفہوم کے معتبر ہونے کے باوجود اس کے الفاظ اور حضورؐ سے اس کی نسبت ثابت اور محکم نہیںنیز اس کی جو تعبیر موصوف نے فرمائی ہے وہ غلطیوں کا مجموعہ اور اسلام کے تصور جہاد کی ضد ہے۔ اس کا مطلب جہاد کا ختم ہونا نہیں‘ جہاد کی تمام جہات کا ادراک اور ان کی وحدت ہے۔ بلاشبہ اسلام کا تصور جہاد بڑا جامع اور منفرد تصور ہے۔ یہ انسانیت کو ظلم و طغیان اور فساد و افتراق سے محفوظ رکھنے اور اللہ کی رضا کے لیے اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے جان اور مال کی بازی لگانے سے عبارت ہے۔ جہاد ایک عبادت ہے اور اللہ کے دیے ہوئے قانون اور شریعت کا ایک لازمی اور ناقابل تنسیخ اور اٹل حکم ہے۔ جہاد سب سے پہلے خود اپنے نفس کی اصلاح سے عبارت ہے تاکہ دل کا تقویٰ حاصل ہو اور انسان محض مال و متاع‘ قوت و اقتدار‘ زمین اور جاہ وحشم کے حصول کے لیے سرگرداں نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کا طالب‘ اس کے دیے ہوئے اخلاقی ضابطے کا پابند اور صرف ان مقاصد اور اہداف کے لیے سرگرم عمل ہو جنھیں اللہ نے معتبر قرار دیا ہے۔ جیساکہ اقبال نے کہا:    ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

جہاد زبان اور قلم سے حق کی بات کو ادا کرنے اور عدل و انصاف اور اطاعت الٰہی کے نظام کے لیے دلوں کو مسخر کرنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرمؐ نے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کو افضل جہادقرار دیا ہے۔

اس کے ساتھ جہاد‘ ظلم اور باطل کی قوتوں سے ٹکر لینے کا نام ہے‘ تاکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ٹھیک ٹھیک ادا ہو اور انسان جبرو ظلم کے نظام سے نجات پاسکے۔ یہ جہاد جسم و جان‘ مال و دولت اور شمشیر و سناں سب سے ہے۔ لیکن جہاد میں مصروف تلوار صرف حق کے دفاع اور مظلوم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کسی پر ظلم کرنے کا ذریعہ نہیں بنتی۔ اور اس سے جہاد اکبر اور جہاد اصغر یک رنگ ہو جاتا ہے۔

معلوم ہوا کہ جسے جہاد اکبر اور جہاداصغر کہا گیا ہے وہ دو الگ الگ چیزیں نہیں‘ ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔ جہاد اکبر قلب کی اصلاح‘ تزکیہ نفس‘ اعلیٰ اخلاقی صفات کی پرورش‘ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی پوری پوری پاسداری کا نام ہے ۔ جہاد بالسیف بھی بعینہٖ انھی مقاصد اور انھی اقدار کے حصول اور تحفظ کے لیے ضرورت کے وقت قوت کے استعمال کا نام ہے۔ میدان کارزار میں بھی تقویٰ اور تزکیہ ہی اصل ہتھیار ہیں۔ اللہ کی رضا کے لیے جان کی بازی لگا دینے کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا ہی مسلمان کی شان ہے۔

اس پس منظر میں جنرل صاحب کا یہ ارشاد کہ ’’غزوئہ خیبر کے بعد حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اب جہاد اصغر ختم ہو گئی ہے لیکن جہاد اکبر شروع ہے یعنی عسکری جہاد جو چھوٹی جہاد ہے وہ ختم ہے اور پس ماندگی اور جہالت کے خلاف جہاد جو کہ بڑی جہاد ہے‘ وہ شروع ہے۔ اس وقت پاکستان کو جہاد اکبر کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی یاد رکھیں کہ عسکری جہاد صرف حکومت وقت کے فیصلے سے ہو سکتی ہے‘‘۔ جنرل صاحب کا اس تحدی کے ساتھ جہاد اصغرکے ختم ہوجانے کی بات کرنا ایک ایسی جسارت ہے جو کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ لازماً ان کے یہ الفاظ کم علمی اور بے احتیاطی کا نتیجہ ہیں ورنہ جہاد اصغرکے ختم ہونے کی بات کسی مسلم کے قلم یا زبان سے نہیں نکل سکتی۔ یہ تو مستشرقین کا مشغلہ اور بہاء اللہ اور غلام احمد قادیانی جیسے دشمنانِ دین کا فکری شاخسانہ ہے ورنہ غزوئہ خیبر (۷ھ) کے بعد خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعادت میں غزوئہ موتہ (جمادی الاول ۸ھ)‘ فتح مکہ (رمضان المبارک ۸ھ)‘  غزوئہ حنین (شوال۸ھ)‘ محاصرہ طائف (شوال ۸ھ) اور غزوئہ تبوک (رجب ۹ھ) واقع ہوئے اور پھر عہد صدیقی (۱۱-۱۳ھ) سے لے کر آج تک جہاد مسلمانوں کا شعار اور اسلام کی قوت اور سطوت کا ضامن رہا ہے۔ یہی وہ تاریخی روایت ہے جسے اقبال نے ’’ترانہ ملّی‘‘ میں یوں پیش کیا ہے:

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے‘ قومی نشاں ہمارا

جنرل صاحب جو اس فوج کے چیف آف اسٹاف ہیں جس کا موٹو ہی ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے بزعم خود جہاد اصغر کے ختم ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اکبر اور اصغر ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جو ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے حسین الفاظ میں مجسم کر دیے گئے ہیںاور ان کے درمیان کوئی فصیل حائل نہیں کی جا سکتی۔

جس عمل کی طرف اس حدیث میں اور قرآن و سنت کے دوسرے احکام میں متوجہ کیا گیا ہے اور جسے یہاں جہاد اکبر کہا گیا ہے‘ وہ تزکیہ نفس‘ اصلاح ذات‘ حصول تقویٰ‘ اخلاقی اور روحانی بالیدگی کا حصول ہے‘ تاکہ انسان کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے استعمال ہوں۔ بلاشبہہ پس ماندگی اور غربت کے خلاف جدوجہد اسلام کی تعلیمات کا ایک حصہ ہے ۔ دین اسلام‘ تمام انسانوں کے لیے روحانی اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ مادّی ضرورتوں کی فراہمی اور حیات طیبہ کے حصول کی ضمانت دیتا ہے‘ تاکہ اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَھُمْ مِنْ خَوْف کی کیفیت پیدا ہو سکے۔لیکن احادیث نبوی ؐ اور احکام شریعت کی تعبیر اور تشریح کا کام بڑی احتیاط اور ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ خیبر سے واپسی پر جہالت اور پس ماندگی کے خلاف جہاد اصل ایشو نہ تھا بلکہ وسیع تر معنی میں تزکیہ نفس اور اخلاقی قوت کی تعمیر تھا۔ حدیث کو اسی معنی میں پیش کرنا چاہیے جو اس کا مدعا ہے۔ غربت اور جہالت کے خلاف جہاد کے لیے دوسرے احکام موجود ہیں۔ اس کے لیے اس حدیث کا استعمال صحیح نہیں۔

عسکری جہاد جسے جہاداصغر کہا گیاہے‘ اس کے ختم ہونے کا ارشاد تو صریح مداخلت فی الدین اور اسلام کے ابدی قانون کو منسوخ قرار دینے کی مذموم کوشش ہی سمجھی جائے گی خواہ یہ حرکت نافہمی ہی پر مبنی کیوں نہ ہو۔ جنرل صاحب کو یہ کس نے بتا دیا کہ عسکری جہاد کے اعلان کا صرف ایک طریقہ ہے۔ بلاشبہہ اسلامی ریاست کا یہ حق اور فریضہ ہے کہ جب حالات جہاد کا تقاضا کریں تو وہ جہاد کا اعلان کرے لیکن حالات کی مناسبت سے اس کی دوسری جائز اور مشروع شکلیں بھی ہیں۔ اگر اسلامی ریاست قائم نہ ہو تو اس کو قائم کرنے کے لیے بھی جہاد کیا جا سکتا ہے۔ اگر مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کے جبری تسلط کے تحت ہوں تووہ اپنی آزادی کے لیے اپنے علما کے مشورے سے عسکری جہاد کرسکتے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ نے تاتاریوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ شیخ یوسف القرضاوی اور علماے اُمت نے فلسطین اور کشمیر میں جہاد کا فتویٰ دیا۔ کوئی حکومت اعلان کرے یا نہ کرے‘ جہاد کا فیصلہ حالات کی روشنی میں شریعت کے اصولوں اور ضوابط کے مطابق کیا جاتا ہے۔ جس علم سے جنرل صاحب واقف نہیں اس پر کرم نہ فرمائیں تو ان کے لیے بھی بہتر ہے اور اس مظلوم اُمت کے لیے بھی اور سب سے بڑھ کر اسلام کے لیے بھی۔

یہ بھی پیش نظر رہے تو مناسب ہے کہ جہاد اسلامی مخالف قوتوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے اور اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ یہی وہ قوت ہے جس سے ان کے غلبے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ان کے ظلم و تعدّی کا مداوا ممکن ہے۔ دور جدید میں جب استعماری قوتوں نے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیا تو ان کے دو ہی ہدف تھے: ایک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اور دوسرا مسلمانوں کا تصور جہاد۔ حضورؐ کی ذات اور تعلیمات اس اُمت کی شناخت اور اس کے عالمی کردار کی صورت گر ہیں اور جہاد وہ قوت ہے جس کے ذریعے شیطانی نظام کو چیلنج کیا جاتا ہے اور انسانیت کو ظلم کے چنگل سے نکالنے کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ یہی چیز غیروں کے غلبے اور تسلط کی راہ میں حائل ہے اور یہی ان کا ہدف ہے۔  اقبال نے ارمغان حجاز کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بتایا ہے کہ ساری سازش مسلمان کو جہاد ہی سے دست بردار کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔

اس میں کیاشک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوے غلامی میں عوام


ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام


کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید؟
’ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام‘

اقبال کی نگاہ میں دورِ حاضر میں ابلیس کی ساری حکمت عملی یہی ہے کہ مسلمان جہاد کو ترک کر دے اور دوسرے مشغلوں میں مصروف رہے۔ اس کا مشورہ یہی تھا کہ:

تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات!

خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات

ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشاے حیات

ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات

جہاد اسی احتساب کائنات کا دوسرا نام اور اس کا موثر ترین ذریعہ ہے اسی لیے ابلیس کا نسخہ یہ ہے کہ:

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

یہ تو ہے شیطان کی حکمت عملی جس کی آواز بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ اقبال نے ان ہدایات کا برملا اظہار کر دیا ہے جو ابلیس نے اپنے سیاسی فرزندوں کو دی ہیں:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ رختن سے نکال دو

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

جہاد کے بارے میں ضرب کلیم میں اقبال نے اپنے دور کے سارے مباحث کو چند شعروں میں بیان کر دیا ہے:

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود بے اثر

تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دُنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

اور پھر ’جہاد اکبر‘ اور ’جہاد اصغر‘ کے حسین امتزاج کی طرف اُمت کو بلایا ہے جو اسلام کی اصل تعلیم ہے:

سوچا بھی ہے اسے مرد مسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار

اس بیت کا یہ مصرِع اوّل ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار

ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار

قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن
یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدر کرارؓ!

حقیقی جہادی کلچر ہی آج ہمارے ایمان‘ ہماری آزادی اور ہماری سلامتی کا ضامن ہے۔

کشمیر پر موقف

جنرل پرویز مشرف صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کے بارے میں ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی تحریک کی اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی تائید حسب سابق جاری رکھے گا اور یہ بھی بجا طور پر کہا ہے کہ کشمیر ہمارے جسم میں خون کی طرح رواں ہے‘ لیکن دو جہادی تنظیموں پر پابندی لگا کر‘ ان کے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر کے‘ جہادی فنڈ کو ضبط کر کے وہ عملاً کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اگر امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے نتیجے میں وہ دبے لفظوں میں کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس سے بھارتی قیادت اور امریکی شاطر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر بھی اس کی زد میں آتی ہے تو جنرل صاحب کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔ بجا‘کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے اور پاکستان میں اتنی بڑی فوج کا کوئی جواز ہے تو وہ کشمیر کی رِگ جان کی حفاظت اور بھارت کے توسیعی عزائم کے مقابلے ہی کے لیے ہے لیکن جو کچھ جہادی تنظیموں کے ساتھ اب کیا جا رہا ہے اور جس طرح جہاد اور جہادی کلچر کو ہدف تنقید و ملامت بنایا جا رہا ہے‘ اور اس سے جو پیغام مقبوضہ کشمیر میں جان کی بازی لگا دینے والے نوجوانوں کو دیا جا رہا ہے وہ تباہ کن ہے۔ اگر فی الحقیقت کشمیر ان رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے تو پھر اسے جہاد آزادی کو سیراب کرنے کا سامان کرنا چاہیے ورنہ :    ؎

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا‘ تو پھر لہو کیا ہے؟

جنرل پرویز مشرف صاحب کی تقریرمیں پسپائی کے بہت سے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی قسمت کے فیصلے‘ شوریٰ اور ملک کے عوام اور ان کے قابل اعتماد نمایندوں کے ذریعے نہیں ہو رہے‘ ساری قوت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے اور ایک فردِواحد نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری اوڑھ لی ہے کہ وہی قومی مفاد کا واحد شناسا اور محافظ ہے۔ آمریت بظاہر مضبوطی کی مدعی ہوتی ہے لیکن   فی الحقیقت اس سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا۔

جمہوریت کے تقاضے

اس وقت ہمارے ملک میں قومی مفاد اور مصلحت کا محافظ کون ہے؟ پارلیمنٹ موجود نہیں ہے‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر دستورِ پاکستان کے بجائے جنرل پرویز مشرف سے وفاداری کا اعلانیہ اقرار کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی ذات میں چیف آف آرمی اسٹاف کے علاوہ چیف ایگزیکٹو اور صدر کے مناصب بھی سمیٹ رکھے ہیں۔ فوج کے کور کمانڈروں اور جرنیلوں کے بارے میں انھوں نے فرانس میں بیان دیا کہ"I command and they follow"  (میں حکم دیتا ہوں اور وہ احکامات بجا لاتے ہیں)۔  کیا ایک ایسے فردِ واحد کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر دینا جو اتفاقاً بری فوج کا چیف آف اسٹاف بن گیا اور جس کو کسی طرح کا عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے‘ ملک کے چودہ کروڑ عوام کی حق تلفی نہیں ہے؟

بد قسمتی سے اسی دور میں۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد وہ شدید بحرا ن پیدا ہو گیا  جس کے با رے میں خو د پرویز مشرف نے سیا ست دا نوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا: ملکی تا ریخ میں اس سے زیادہ خطرناک صو رت حا ل پہلے پیدا نہیںہو ئی اور یہ کہ صدر بش نے ہمیں کہا کہ سا تھ دے کر اکیسویں صدی میں  ترقی اورخو ش حا لی کے راستے پر جا نا چا ہتے ہو یا سا تھ دینے سے انکا ر کر کے پتھر کے زما نے کی طرف لو ٹنا چا ہتے ہو۔ اس مو قع پر امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ اگر بحران اتنا شدید ہے کہ آپ خود فرما رہے ہیں کہ ملکی تا ریخ میں اس سے شدید تربحران پہلے نہیں آیا تو اس بحران کا سا را بوجھ آپ نے صرف تنہا اپنے کندھوں پر کیوںاُٹھا رکھا ہے؟ اس کا کو ئی جواب جنرل پرویز صا حب سے بن نہیں پایا ۔

اس دورا ن میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جن لوگوں کی سرپرستی کر کے افغا نستا ن میں حکمرانی دلوا ئی تھی‘نہ صر ف ہم ان کی تبا ہی میں شریک ہو ئے بلکہ جب طالبان کی حکومت ختم ہو ئی تودُنیا بھر کے سفا رتی آداب کے خلا ف اسی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کے سفیر براے پاکستان کو امریکی حکو مت کے حوا لے کردیا۔ اگر ملک میں کو ئی آئین ہو تا‘ آئینی ادارے ہو تے‘ ملک کے مفا دات اور مصلحتوں کی نگرا نی میں یہا ں کے چو دہ کروڑ عوام کا بھی کوئی حصہ ہوتا تو یہ بے حمیتی اور   بے مروتی ہماری قو م کے حصے میں نہ آتی۔ جیش محمد اور لشکر طیبہ کے مجا ہدین جنھو ں نے ہرمشکل محا ذ پر پاکستانی افوا ج کا سا تھ دیا ، آج امریکی حکم پر اسی فوجی حکومت کے زیر عتا ب ہیں۔ حافظ محمد سعید اور مولانا مسعود اظہربھا رت کی خوا ہش پر زیر حرا ست ہیں۔

۱۲جنوری کی تقریر میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے جیش محمد اور لشکر طیبہ کے ساتھ سپاہ صحابہ‘ تحریک جعفریہ اور تحریک نفاذ محمدیؐ کو بھی کسی عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر خلاف قانون قرار دے دیا ہے اور ان کے سیکڑوں کارکنوں کو زیرحراست لے لیا ہے۔ ان پر جو الزامات تھے اور ان کے گرفتار شدگان پر جو مقدمات قائم ہیں ان کی سماعت اور عدل کے مطابق فیصلے سے انھیں کس نے روکا تھا؟ ان میں جن افراد نے واقعی جرم کیا ہے قانون‘ ضابطہ اور عدالت اس کے لیے قائم ہیں مگر یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے اندھادھند سبھی کو یوں جیلوں میں ٹھونس دینے کا کیا جواز ہے۔ امریکہ کا سیکرٹری آف اسٹیٹ دہلی جاتے ہوئے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں گرفتار شدگان کی تعداد: ۱۹۷۵ کا اعلان کرے تو یہ سمجھنا کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے تحت کیا جا رہا ہے‘ کوئی غلط بات نہیں۔ انھیں قوم کے آزاد فیصلے نہیں کہا جا سکتا۔

اخبا را ت شذرے لکھ رہے ہیں۔تجزیہ نگار اور کالم نویس لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں۔ اخبا ر کے قا رئین خطو ط لکھ رہے ہیں۔سیا ست دان آل پا رٹیز اجتماعات منعقد کر کے عبو ری قومی حکو مت‘ آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور آزادانہ انتخابات کے مطالبے کررہے ہیں‘ لیکن جنرل پر ویز مشرف صاحب بضد ہیں کہ وہ دستور میں اپنی مرضی کے مطا بق ترمیم بھی کر یں گے‘آیندہ کے لئے صدر بھی رہیں گے‘ سیکو رٹی کو نسل قا ئم کر کے پارلیمنٹ پر ایک با لا دست ادا رہ بھی قا ئم کر یں گے اور اقتدار اس وقت چھو ڑیں گے جب وہ اس پر مطمئن ہو ںگے کہ انھوں نے قوم کو ٹھیک کرنے کا اپنا کا م مکمل کر لیاہے۔

اگر اس صورت حال کے خلاف عوام میں آواز اٹھائی جاتی ہے تو بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور اگر فوج سے کہا جاتا ہے کہ: تمھی نے درد دیا ہے‘ تمھی دوا دینا___ تو کہا جاتا ہے کہ: تم فوج کو جانتے نہیں ہو اور فوج میں اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہو‘ فوج تمھیں سبق سکھا دے گی۔ یعنی وہ مطلق العنان حکمران رہنا چاہتے ہیں اور اپنے ذاتی فیصلوں پر تنقید کو ’’فوج کے خلاف تنقید‘‘ کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب فوج کا حکمران ملک کا چیف ایگزیکٹو اور صدر ہو (جو دونوں سیاسی عہدے ہیں) اور جب وہ فوج کی قوت اور قیادت کو اپنے سیاسی پروگرام کی اصل قوت متحرکہ کے طور پر استعمال کرے تو پھر اسے کیا حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی اقدامات کو عوامی تنقید اور احتساب سے بالا رکھے یا فوج کے بنکر (پختہ مورچے) میں بیٹھ کر اور فوج کی چھتری استعمال کر کے سیاست کرے۔ فوج اور اس کی قیادت کو دستور کے تحت احتساب سے بالا نہ ہوتے ہوئے بھی ایک تحفظ حاصل ہے اور وہ ملکی دفاع کے لیے ضروری ہے لیکن یہ تحفظ صرف اس فوجی قیادت کے لیے ہے جو سیاست میں ملوث نہ ہو۔ جب آپ اس سیفٹی لائن کو پار کر کے سیاست کے سیاہ و سپید کے مالک بن بیٹھے ہیں تو پھر آپ میں تنقید اور احتساب کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ ہم تو ہمیشہ سے اس کے قائل ہیں کہ فوج کا اصل کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے مگر اسے سیاست میں کھینچ کر متنازع بنایا جا رہا ہے جس کی ذمہ داری ان پر ہے جو فوج کو اس کی دستوری ذمہ داریوں سے ماورا استعمال کر رہے ہیں۔

اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے جمہوری طریقہ کار یہی ہے کہ سیاست دان مل کر عوامی حقوق اور دستور کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں اور جو مطالبات آل پارٹیز کانفرنس نے طے کیے ہیں ان کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔ لیکن بدقسمتی سے سیاست دانوں نے خرابیِ بسیار کے باوجود بھی سبق نہیں سیکھا۔ ان میں سے کچھ لوگ تو شریک اقتدار ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کے لیے وہ آسان راستہ یہی سمجھتے ہیں کہ جنرل مشرف صاحب کا قرب حاصل کیا جائے اور ان کی بے جا حمایت کی جائے۔جن لوگوں کو کوشش کے باوجود جنرل صاحب کا قرب نہیں ملتا اور وہ جنرل صاحب سے مایوس ہوگئے ہیں وہ بھی دینی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے سے گریزاں ہیں کہ اس طرح امریکہ ناراض ہو جائے گا اور وہ اقتدار سے اور دُور ہو جائیں گے۔ جان لینا چاہیے امریکہ اور فوج کی رضامندی حاصل کر کے جو حکومت بنے گی وہ پچھلی حکومتوں کا تسلسل ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکے گی‘ جبکہ ہمارے ملک میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

بحران سے نکلنے کا راستہ

ہمارا سول انتظامی ڈھانچا‘ معاشی نظام ‘ عدالتی نظام اور افواج پاکستان کا نظم برطانوی استعمار کے تربیت یافتہ گروہ کے ہاتھ سے نکل نہیں سکے ہیں۔ ملک میں ایک طرف غربت ہے اور ۳۰ فی صد سے زیادہ آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یعنی مکمل غذا‘ علاج‘ تعلیم اور رہایش کی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ ایک کم تعداد لوگوں کی ایسی بھی ہے جو ملکی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک جمع کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعدادبڑے سول اور ملٹری بیورو کریٹس کی ہے۔ کرپشن کے خلاف ایک مسلسل تحریک کے نتیجے میں بے نظیر اور نوازشریف کی حکومتیں ختم ہوئیں اور اسی تحریک کے کندھوں پر سوار ہو کر جنرل پرویز صاحب برسرِاقتدار آئے‘ لیکن کرپشن کے خلاف احتساب کو بلیک میلنگ اور سیاسی سودے بازی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ یہی پہلے ہوا اور یہی آج ہو رہا ہے۔ جو سیاست دان جنرل صاحب کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائے وہ ہر طرح کی بدعنوانی کے الزام سے پاک و صاف ہو کر ہم خیال بن جاتا ہے اور جو ہم خیال بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس پر کوئی بھی الزام نہ لگ سکے‘ پھر بھی پابجولاں ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنے لوگ بھی ایسے مل سکیں جو امریکہ یا پرویز مشرف صاحب کی طرف دیکھنے کے بجائے عوام کو ساتھ ملا کر معاشرے کو ایک حقیقی اسلامی جمہوری عادلانہ رنگ میں رنگنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہوں‘ وہ متحد ہو کر آگے بڑھیں اور عوام الناس کو ساتھ لے کر ان مطالبات کے لیے تحریک چلائیں‘ جس پر ملک کی تمام بڑی جماعتیں متفق ہیں‘ یعنی:

  • دستور کی بحالی اور قومی عبوری حکومت کا قیام
  •  آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام
  •  دستور کا تحفظ اور غیر دستوری راستوں سے دستوری ترامیم کی مزاحمت
  •  پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں سے بالاتر کسی سیکورٹی کونسل کا کوئی جواز نہیں۔

ملک کے موجودہ بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اوروہ مندرجہ بالا خطوط پر آزادانہ انتخابات کا انعقاد اور جمہوری عمل کے ذریعے ایک خدا ترس‘ عوام دوست ‘ لائق اور امین قیادت کو زمام کار سونپنا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی اپنی افواج اور ان کی قیادت سے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ وہ پوری حکمت اور دانش مندی کے ساتھ اور کسی تاخیر کے بغیر وہ راستہ اختیار کریں گے‘ جس کے نتیجے میں ملک کا دستور‘ جو اسلام‘ جمہوریت اور اصول وفاق پر مبنی ہے‘ اپنی اصل روح کے مطابق موثر رہ سکے۔ مرکزی مجلس شوریٰ نے واضح الفاظ میں قوم اور قیادت سے کہا تھا:

’’جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ اپنے اس اصولی موقف کا اظہار ضروری سمجھتی ہے کہ ملک ماضی میں مارشل لا کے متعدد تجربات کر چکا ہے اور ہمارے مسائل کا حل مارشل لا نہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ آزمائی ہوئی اور کرپٹ سیاسی قیادتوں کے درمیان محض چہرے بدلنے سے ہم مسائل کی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے‘ جس میں ان مفاد پرست سیاسی بازی گروں نے ملک و ملّت کو دھنسا دیا ہے۔ اسی طرح محض ایسے ٹیکنوکریٹ بھی‘ جن کو عوام کی تائید حاصل نہ ہو اور جو ان کے سامنے جواب دہ نہ ہوں‘ صحیح قیادت فراہم نہیں کر سکتے۔ نیز فوجی قیادت کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ماضی کے دونوں حکمران یعنی بھٹو فیملی اور شریف فیملی جنھوں نے فسطائیت اور کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے‘ مارشل لا ادوار ہی کی پیداوار تھے اور اگر ایسے ہی کچھ لوگ ایک بار پھر آگے آتے ہیں تو نتائج اور عوامی ردّعمل ماضی سے مختلف نہیں ہو سکتا‘‘۔

جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ تجزیہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا ہے۔ افسوس کہ جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب بھی اصلاح کا ایک ہی راستہ ہے اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے حالیہ اجلاس (۷ تا ۹ جنوری ۲۰۰۲ء) میں  ایک بار پھر بہت واضح الفاظ میں ملک کو خطرات اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے دستور کے تحفظ‘ انتخابی عمل کے آغاز‘ معتمدعلیہ حکومت کے قیام اور دستور کے مطابق اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور فیڈریشن کے اصول پر ایک منصفانہ معاشرہ اور جمہوری سیاسی نظام کے قیام کی دعوت دی ہے۔ اس سلسلے میں شوریٰ نے جو مطالبات کیے ہیں‘ ان میں سے چند یہ ہیں:

    ۱-  حکومت پاکستان بیرونی دبائو میں آکر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کی ناپاک سازش میں شرکت سے گریز کرے۔ پاکستان کے آئین اور تحریک پاکستان کے مقاصد اور وعدوں کے مطابق اسے حقیقی معنوں میں ایک مثالی اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔

    ۲-  ۱۹۷۳ء کے متفقہ آئین کو بحال کیا جائے۔ حکومت کو اس میں ترمیم کرنے کا سرے سے کوئی اختیار حاصل نہیں اور کسی عدالت کو بھی اسے یہ اختیار عنایت کرنے کا حق نہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا اقدام ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا دستور میں بیان کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی دستوری ترمیم کرنے سے اجتناب کیا جائے اور جمہوری اداروں پر بالادست کوئی ادارہ کسی بھی نام سے نہ بنایا جائے۔

    ۳- حکومت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوںکے انتخابات کرانے کا عمل بلاتاخیر شروع کرے۔ یہ انتخابات آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے مطابق متناسب نمایندگی کے اصول پر شفاف‘ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہوں۔ سیاسی اور دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بلاتاخیراہل‘ دیانت دار اور قابل قبول افراد پر مشتمل ایک آزاد اور کلیتاً خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔ نیز صدر کا انتخاب بھی آئین میں درج طریق کار کے مطابق کرایا جائے۔

    ۴- انتخابات ایک ایسی عبوری سول حکومت کے تحت کرائے جائیں جو دیانت دار‘ امانت دار اور اہل افراد پر مشتمل ہو اور اس میں شریک افراد خود انتخابات میں حصہ نہ لیں۔

     ۵- سیاسی اور دینی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں۔ عوام کے بنیادی حقوق بحال کیے جائیں۔ جماعتوں کو طے شدہ اصولوں کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ قاضی حسین احمد‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی راہنمائوں کو رہا کیا جائے۔

     ۶-  مسئلہ کشمیر کے بارے میں حکومت شکوک و شبہات کا ازالہ کرے اور اس بات کا کھل کر اعلان کرے کہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت ہمارا فرض ہے اور بھارت اپنی سات لاکھ جارح فوج کو فی الفور واپس بلائے جو برسوں سے دہشت گردی میں ملوث ہے۔

    ۷-  افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی فوجیوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا جائے اور جو ہوائی اڈے اور دوسری سہولتیں ان کو دی گئی ہیں وہ واپس لی جائیں۔ امریکہ میں جن پاکستانیوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان کی فوری رہائی کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ نیز جو پاکستانی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی واپسی کا اہتمام کیا جائے۔

     ۸- بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو تیار کیا جائے اور معذرت خواہانہ رویہ اور اس کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ بھارت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی فوجیں اور جنگی سازوسامان سرحدوں سے پیچھے ہٹائے۔

مجلس شوریٰ کے اس اجلاس نے واشگاف الفاظ میں اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کسی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم اپنے اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوگی۔ قوم کا بچہ بچہ افواج کے شانہ بشانہ دشمن کا مقابلہ کرے گا اور دشمن کو عبرت ناک شکست دے گا‘ ان شاء اللہ!

نیز مجلس شوریٰ نے ملک کی تمام محب وطن سیاسی اور دینی جماعتوں سے بھی ملکی سالمیت‘ بقا اور اسلامی نظام کے قیام اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی مشاورت اور تعاون کی اپیل کی ہے تاکہ ملک کو خطرات سے بچا کر ایک مرتبہ پھر جمہوری پٹڑی پر ڈالا جاسکے تاکہ پاکستان اقبال ؒ اور قائداعظمؒ کے خواب اور تحریک پاکستان کے مقاصد کے مطابق حقیقی معنوں میں ایک فلاحی‘ جمہوری اسلامی مملکت بن سکے۔


پاکستان کے معاشی‘ سیاسی ‘ اخلاق اور نظریاتی مستقبل کا انحصار صحیح جمہوری نظام کے قیام پر ہے لہٰذا جو بھی اس ملک کا حقیقی بہی خواہ ہے اسے اس کو ملک کو قبرستان بنا کر اس پر آمریت مسلط کرنے کی کوشش ترک کر دینی چاہیے۔ کسی کو بھی جمہوری عمل کے احیا کا راستہ نہیں روکنا چاہیے اور جلد از جلد جمہوری اور دستوری عمل کی بحالی کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔

عوامی قیادت کو عوام تک پہنچنے کے راستے کھول دینے چاہییں اور اداروں کے ذریعے مصنوعی قیادت تیار کرنے کا تجربہ کرنے کے بجاے فطری سیاسی قیادت پر پابندیاں ختم کر دینی چاہییں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ تمام محب وطن دینی اور سیاسی قوتوں کے تعاون اور اشتراک سے وہ اجتماعی جدوجہد قوت پکڑے گی جس کے نتیجے میں قوم اپنی منزل کو حاصل کر سکے گی۔

یہ عوامی جدوجہد ایک جمہوری اور نظریاتی تحریک ہے جو تعمیر اور اصلاح کی داعی ہے۔ یہ کسی طرح بھی فوج کے خلاف نہیں۔ بلکہ یہ افواج پاکستان کے استحکام اور قوت کا باعث بنے گی۔ جو اضافی بوجھ افواج پاکستان پر ڈالا گیا ہے اس سے انھیں نجات ملے گی اور افواج پاکستان اپنے اصل کام کی طرف توجہ دے سکیں گی۔ قوم جب بیدار اور متحد ہو تو اس کے تمام ادارے مستحکم ہوتے ہیں اور پوری قوم کے لیے باعث فخر ہوتے ہیں۔ ایک اچھا فوجی اپنی قوم کے منتخب نمایندوں اور اپنے ملک کے دستور‘ قانون اور ضابطوں کی پابندی کی فکر کرتا ہے۔ یہ اصرار کرنا کہ پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں کے بجائے فوجی افسران قوم کو آئین اور ضابطے عطا کریں گے ‘ بے جا اصرار ہے۔ افراد آتے جاتے ہیں لیکن قومی روایات اور مشترک اقدار مستقل اور دیرپا حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی ٹیم پاکستان کے متفقہ دستور کے سامنے جھک جائیں تو اس سے وہ سرخرو اور سرفراز ہوں گے اور اسے ان کی عالی ظرفی سمجھا جائے گا۔ اس سے کسی طرح بھی ان کی سبکی نہیں ہوگی۔ جنرل پرویز مشرف صاحب ان تجاویز اور مطالبات پیش کرنے والوں کو فوج میں اختلاف ڈالنے کاالزام نہ دیں بلکہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھیںاور ملک و قوم کو اس وقت جو مشکلات درپیش ہیں‘ وہ دوسروں کو بھی ان مشکلات کا حل پیش کرنے کا حق دار سمجھیں۔

اگرچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ملک کو زیادہ نقصان سیاست دانوں نے پہنچایا ہے یا سول اور ملٹری بیورو کریٹس نے‘ لیکن پاکستان کی تایخ سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا اور بار بار کی مداخلت سے فوج نے سیاسی عمل کو روکا ہے اور اپنی پسند کی قیادت کی پرورش کی ہے جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے بجائے بیرونی سرپرستی اور فوج کی سرپرستی پر تکیہ کرنے لگی ہیں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک سیاسی انتشار اور فساد پھیل گیا ہے۔ اس بیماری کا مداوا عوام کی طرف رجوع کرنے اور دستوری نظام کو بحال اور متحرک کرنے میں ہے۔ جمہوریت میں جو بھی خامیاں ہوں لیکن جمہوریت کی خامیوں کا علاج جمہوری عمل ہی کے ذریعے ہوتا ہے‘ بادشاہت یا آمریت کے ذریعے نہیں۔ یہ جمہوریت کی خامیوں سے بھی بڑی بلا ہے جس سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنا وقت کی بڑی ضرورت ہے اور یہ ضرورت تقاضا کر رہی ہے کہ محب وطن سیاسی کارکن‘ عوام الناس کو بیداری کی ایک ملک گیر جدوجہد کے لیے تیار کریں تاکہ عام انتخابات جلد از جلد منعقد ہوں اور ایک ایسی قیادت اُبھرے جس کے ہاتھوں ہمارے قومی دکھوں کا مداوا ہو سکے۔

 

]مخلوط انتخاب کے نفاذ کے لیے[اگر کسی مصلحت کی نشان دہی کی جا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ مخلوط انتخاب کا طریقہ رائج کرنے سے مختلف عناصرآبادی کے احساسِ اختلاف کو دبانا‘ ان کے امتیازی نشانات کو مٹانا‘ اور انھیں بتدریج ایک قومیت میں تبدیل کرنا مطلوب ہو۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز اوّل تو ہمیں مطلوب ہی نہیں ہے‘ اور اگر ہے تو اُس طریقے سے مطلوب نہیں ہے جس سے مخلوط انتخاب کے حامی اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں احساسِ اختلاف جس چیز کا نتیجہ ہے وہ دین کا اختلاف ہے۔ اسی چیز نے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان    خط امتیاز کھینچا ہے۔ اسی نے ان کے اصول‘ مقاصد‘ نظریات اور طرزِ حیات ایک دوسرے سے جدا کیے ہیں۔ اسی نے ان کے معاشرے الگ کیے ہیں اور ان کو الگ ملتوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے غیر مسلم ہم وطن مسلم ملّت میں جذب ہو جائیں۔ یہ بلاشبہ ہمیں مطلوب ہے‘ مگر اس مقصد کو ہم مخلوط انتخاب جیسے سیاسی ہتھکنڈوں سے حاصل کرنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرسکتے۔ کسی شخص کو اسلام کے اصول پسند ہوں تو وہ سیدھے طریقے سے آئے اور ہماری ملّت میں شامل ہو جائے۔ ورنہ جس ملّت میں بھی رہنا چاہے‘ رہے‘ ہم اس کے تمام وطنی حقوق پوری فراخ دلی کے ساتھ تسلیم کریں گے۔ اس معاملے میں کسی قسم کی چال بازیوں سے کام لینا ہمارے لیے حرام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ مخلوط انتخاب کے حامی بھی اس کو حلال تسلیم نہ کریں گے۔

اب رہ جاتی ہے اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی دوسری صورت اور وہ یہ ہے کہ یہاں سرے سے اسلام اور غیر اسلام کے فرق ہی کو مٹا دیا جائے اور دین کو تہذیب و تمدن سے بے دخل کر کے ایک ایسے مشترک لادینی کلچر کو نشوونما دیا جائے جو ایک متحدہ وطنی قومیت کی بنیاد بن سکے۔ یہ چیز اگر مطلوب ہو تو اس کے لیے مخلوط انتخاب محض پہلا قدم ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد لازمی طور پر دوسرا قدم لادینی دستورِ مملکت ہی ہونا چاہیے۔ اور پھر آیندہ اس مملکت کی ساری پالیسی یہ قرار پانی چاہیے کہ وہ عقیدے اور عبادات کے سوا زندگی کے باقی تمام شعبوں سے دین کے ایک ایک نشانِ امتیاز کو محو کر دے‘ حتیٰ کہ مسلم و غیر مسلم کے درمیان شادی بیاہ تک کی ہمت افزائی کرے تاکہ ’’پاکستانیوں‘‘ کے درمیان وہ معاشرتی علیحدگی باقی نہ رہے جو عملاً ان کو الگ الگ ملتوں میں منقسم کرتی ہے۔    ہم پوچھتے ہیں‘ کیا یہی چیز مخلوط انتخاب کے حامیوںکو مطلوب ہے؟ اگر یہ انھیں مطلوب ہے تو وہ اس کا صاف صاف اقرار و اعلان کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چند لادینی رجحانات رکھنے والے لوگوں کو مستثنیٰ کرکے پاکستان کا ہر مسلمان اس تخیل پر لعنت بھیجے گا۔ وہ کہے گا کہ اگر مجھے یہی کچھ کرنا ہوتا تو میرے لیے    اکھنڈ ہندستان کیا برا تھا۔ یہ مقصد تو وہاں بھی پورا ہو سکتا تھا۔ اس کے لیے جان و مال کی اتنی قربانیاں دے کر   ایک الگ مملکت قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ (مخلوط انتخاب‘ ص ۷-۱۱)

اللہ تعالیٰ نے ‘ اس دُنیا میں‘ قوموں کے عروج و زوال اور ترقی و تنزل کے چند اٹوٹ قوانین بنائے ہیں جن کو سُنَّۃُ وَسُنَنُ اللّٰہِ فِی خَلْقِہٖ (اپنی خلقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت/سنتیں) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی کسی سے کوئی رشتے داری نہیں ہے‘ نہ کوئی اس کا مائی باپ ہے اور نہ کوئی اس کی بیوی‘ بیٹا یا بیٹی ہے‘ اس لیے یہ قوانین عروج و زوال اور سنتیں سرِمو بدلے بغیر حرکت پذیر ہیں۔ جو کوئی فرد‘ خاندان‘ معاشرہ یا قوم اس کی زد میں آ جائے‘ وہ خمیازہ بھگت کر ہی رہتا ہے۔ اسی لیے فرمایا:  وَلاَ یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَo (یوسف ۱۲:۱۱۰) ’’اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا‘‘۔

سورۃ الفجر میں‘ فجر اور بھیگتی ہوئی رات اور طاق اور جفت عددوں کی‘ جن کا اطلاق ہر قابل شمار چیزپر ہوسکتا ہے‘ قسم کھا کر اللہ تعالیٰ زمانے کے بدلتے ہوئے رنگوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان ہی شب و روز کے تغیر و تبدل سے زمانہ بنتا ہے جس کو انسان تاریخ کا نام دیتا ہے۔ یہ تاریخ انسانی بہت سی عبرت ناک داستانوں سے اَٹی پڑی ہے‘ اگر کوئی ان پر عبرت کی نگاہ سے غوروفکر کرے! اس لیے ان قسموں کے بعد یہ سوال فرمایا:  ھَلْ فِی ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ ط (الفجر ۸۹:۵) ’’کیااس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟‘‘ یعنی کیا اس میں عقل مند کے لیے سامان عبرت نہیں پایا جاتا ہے؟

یہ سوال ایک عام قسم کا سوال تھا جس سے ذہن و نگاہ کہیں بھی منتقل ہو سکتے تھے۔ اس وجہ سے فوراً یہ سوال فرمایا:

اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ o اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ o الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلاَدِ o وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ o وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتََادِ o الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلاَدِ o  فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ o (الفجر ۸۹:۶-۱۲)

تم نے دیکھا نہیں کہ تمھارے ربّ نے کیا برتائو کیا اُونچے ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ جن کے مانند کوئی قوم دُنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی؟ اور ثمود کے ساتھ جنھوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے دُنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور اُن میں بہت فساد پھیلایا تھا۔

یہاں تین قوموں کی بڑی بڑی خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے۔ عاد ___ قومِ ہود علیہ السلام ___کے بارے میں یہ بتایا کہ ان کا اُونچے اُونچے ستونوں والا شہر لق و دق صحرا کے درمیان واقع تھا اور وہ ہر لحاظ سے اور ہر نقطۂ نظر سے اپنی نظیر آپ تھا۔ کیونکہ اس جیسا شہر نگاہِ فلک نے‘ اس وقت تک‘ دیکھا ہی نہیں تھا۔ اب رہی قومِ ثمود تو انھوں نے شمالی جزیرۃ العرب کے مدائن صالح کے علاقے میں‘ پہاڑوں کو موم بنا دیا تھا۔ وہ پہاڑوں میں بڑے بڑے خوب صورت محلات‘ بازار اور گھر تراشا کرتے تھے اور وہ بھی پوری مہارت کے ساتھ۔ جہاں تک قوم فرعون کا تعلق ہے اس کی اہم نشانی اس کی فوجی قوت تھی جس کو صحرا میں فوجی چھائونی کی شکل میں آباد کرنے اور ٹھیرانے کے لیے لاتعداد کھونٹیوں کی ضرورت پڑا کرتی تھی جن کے ذریعے خیموں کو نصب کیا جاتا تھا۔

غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان تینوں قوموں میں مادی قوت بے پناہ پائی جاتی تھی۔ پہلی دو قومیں  لق و دق صحرا اور بے آب و گیاہ پہاڑوں میں اپنے شہربسا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھیں تو تیسری قوم کو اپنی فوجی برتری پر ناز تھا جس کے ذریعے وہ دوسری قوموں کو مرعوب کر سکتی تھی۔

اس مادی برتری اور قوت و طاقت نے ان تینوں کو غرور میں مبتلا کر دیا اور وہ یہ کہنے لگے:  مَنْ اَشَدُّ مِنَّا  قُوَّۃً (کون قوت و طاقت میں ہمارا ہم پلہ ہے؟)۔ اس غرور اور تکبر نے ان کو حد سے زیادہ ظلم و ستم پر اُبھارا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی سرزمین پر فتنہ و فساد اس حد تک برپا کر دیا کہ زمین فتنہ و فساد سے بھر گئی۔ کمزور قوموں‘ جماعتوں اور افراد کا زندہ رہنا ناممکن ہو گیا۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ ہو گیا۔

یہ فتنہ اور فساد زندگی کے سارے ہی میدانوں میں برپا ہو گیا تھا۔ عقائد میں وہ توحید کے دشمن اور شرک کے پرستار تھے۔ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور نہ صرف ان کی دعوتِ توحید کا سختی سے انکار کرتے بلکہ ان کی ذاتِ بابرکت سے اس قدر نفرت کرتے کہ ان کی ہر دھمکی کے جواب میں چیلنج بن کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔

توحید سے نفرت نے انھیں اُس خطرناک ظلم میں مبتلا کیا جس کا نام شرک ہے اور جو بجائے خود ہر قسم کے ظلم کی جڑ ہے۔ پہلے توانھوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر یہ ظلم کیا کہ اس کو مختلف مخلوقات میں تقسیم کرکے ان کو درجۂ مخلوقات سے بڑھا کر الوہیت‘ ربوبیت‘ خالقیت‘ رزاقیت وغیرہ کے ان درجات تک پہنچایا جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں اور ان میں اس ذاتِ بابرکات کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔ یہ دہرا ظلم یوں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے بے مثال‘ بے عیب اور اُونچے درجے سے اُتار کر اسی کی مخلوقات کو مختلف اُونچے درجات پر فائز کر دیا جس کے وہ مخلوق ہونے کے ناطے ہرگز مستحق نہیں تھے۔ اس بندر بانٹ اور ناانصافی نے ان کے معاشروں میں‘ انسان کی شکل میں‘ لاتعداد دیوتا کھڑے کر دیے۔ مندروں اور معبدوں کے دیوتا پجاری‘ زمین کے دیوتا زمین دار‘ کارخانوں اور صنعتوں کے دیوتا صنعت کار اور کارخانہ دار‘ تجارت کے دیوتا تاجر‘ فوجوں کے دیوتا فوجی جرنیل اور ان سب پر حکمران دیوتا ملک کا حاکم وقت جو بعض وقت الوہیت اور ربوبیت کے دعوے کرنے سے بھی نہیں جھجکتا تھا جیسا کہ فرعون کا حال تھا جس نے اعلان کیا: اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰیo (النازعات ۷۹:۲۴) ’’میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘ اور کہا:  قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰھًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۹) ’’اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قیدخانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں‘‘۔ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے:  وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ج (القصص ۲۸:۳۸) ’’اور فرعون نے کہا: اے اہل دربار‘ میں تو اپنے سوا تمھارے کسی خدا کو نہیں جانتا‘‘۔

اس طرح عقیدے میں شرک نے ان کے معاشروں میں لاتعداد چھوٹے بڑے الٰہ اور ارباب پیدا کردیے تھے جو عام لوگوں پر بے انتہا ظلم کیا کرتے تھے اور ان کو اپنی خواہشوں کی چکیوں میں پوری بے دردی اور بے رحمی سے پیسا کرتے تھے۔ اس پر بھی ان کی خواہشات کی تسکین نہیں ہوتی تھی تو وہ پڑوسی قوموں پر چڑھ دوڑتے‘ ان کو زیر کرتے‘ ان کو اور ان کے ملک کو اپنا معیارِ زندگی اُونچا کرنے اور اُونچا رکھنے کی خاطر اور اپنی قوم و ملک کو دوسری دنیا اور تیسری دنیا کے مقابلے میں دنیا کے درجۂ اوّل کا ملک بنانے اور بنائے رکھنے کے لیے دوسری کمزور قوموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑتے ۔ وہ ان کو محض اس لیے فقر وفاقہ اور پریشانی اور مصائب کا شکار کرتے کہ وہ سب سے زیادہ فوجی‘ مالی‘ اقتصادی اور اجتماعی قوت کے مالک بنے رہیں۔ آج یورپ کا یہی حال ہے جو امریکہ کے زیرقیادت ساری دنیا کو غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ جو کوئی بھی ان کی غلامی تسلیم نہ کرے ان پر راکٹوں کی بارش کر کے تباہ و برباد کر دیتے ہیں تاکہ وہ لمبے عرصے کے لیے فقروفاقہ کا شکار رہے اور پھر ان سے قرضوں‘ اناج اور ٹکنالوجی کی بھیک مانگتا رہے‘ اوروہ ان داتا بنے اس کی جھولی میں روٹی کے چند ٹکڑے اور چند ڈالر کی بھیک ڈال دیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بت پرستی کے شرک کے ساتھ مال‘ اولاد اور علم کی کثرت سے پیدا ہونے والے شرک کا بھی ذکر کر دیا جائے۔ یہ بھی اتنا ہی شرک ہے جتنا کہ بت پرستی کا شرک ہے اور اس کے نتائج اور عواقب بھی اتنے ہی خطرناک ہیں جتنے کہ بت پرستانہ شرک کے نتائج اور عواقب خطرناک ہیں۔

قرآن کریم میں کثرتِ مال اور کثرتِ اولاد اور کثرتِ اعوان (حامی و مددگار /خادم/فوجیں/ جتھے) کی بہترین مثال دو باغ والوں کے قصے میں ملتی ہے۔ جس میں ایک شخص نے کثرتِ مال اور کثرتِ اعوان سے دھوکا کھا کر اور غرور میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ لامحدود اور آخرت کی آمد سے انکار کر دیا تھا ۔ اس کو اپنے مال اور عددی قوت پر بڑا گھمنڈ پیدا ہو گیا تھا اور وہ اس حد تک اندھا ہو گیا تھا کہ وہ بہک گیا اور کہنے لگا کہ یہ فصل اور باغ کبھی بھی مرجھا نہیں سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اس کے دوست نے اس کی ان غلط فہمیوں پر اس کو تنبیہ کی اور اعلان کیا:

قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَھُوَ یُحَاوِرُہٗ ٓ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَکَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰکَ رَجُلاً o لٰکِنَّا ھُوَ اللّٰہُ رَبِّیْ وَلَآ اُشْرِکُ بِرَبِّیْ ٓ اَحَدًا o (الکہف ۱۸:۳۷-۳۸)

اس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا ’’کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا؟  رہا میں‘ تو میرا رب تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔

مگر اس مغرور شخص کو اپنے مال اور اولاد کے شرک میں مبتلا ہونے کا احساس اس وقت ہوا جب اس کا باغ تباہ ہو چکا تھا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوا: یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْ ٓ اَحَدًا o (الکہف ۱۸:۴۲) ’’کاش! میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا ہوتا‘‘۔

اب جہاں تک علم کے غرور اور اس کو خدا تصور کرنے کا تعلق ہے تو اس کی مثال قارون کی ذات میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جب اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی دولت اپنے علم کے بل بوتے پر کمائی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے:  قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ط (القصص ۲۸:۷۸) ’’اس نے کہا ’’یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘۔ اس کا انجام    مع خزانہ اور گھر کے زمین میں دھنسنا تھا۔ گویا عقائد میں شرک اور اعمال میں ظلم اور غرور و تکبر اور برتری کا احساس و تصور اور دوسروں کو زیر کرنے اور ان کو روندنے اور چھا جانے کی خواہش‘ تمنا اور اعمال‘ عذابِ الٰہی کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ مغرور‘ مشرک ‘بداعمال افراد اور قومیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اس لیے غافل ہو جاتے ہیں کہ وہ اوّل تو وجودِ خداوندی کے قائل ہی نہیں ہوتے ہیں اور اگر قائل ہوں بھی تو وہ یہ تصور کیے ہوتے ہیں کہ: وَّلَئِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْھَا مُنْقَلَبًا o (الکہف ۱۸:۳۶) ’’تاہم‘ اگرکبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو اس سے بھی زیادہ شان دار جگہ پائوں گا‘‘، یا پھر وہ یہ تصور کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو پیدا کر کے کہیں سو گیا ہے یا غافل ہو گیا ہے یابھول گیا ہے (معاذ اللہ!)۔ بات اس کے بالکل برعکس ہے۔ انبیا کرام کا خدا اس کائنات کو پیدا کر کے کہیں غائب نہیں ہو گیا ہے بلکہ وہ ہر چیز پر نگاہ رکھے ہوئے ہے بلکہ گھات میں بیٹھا ہوا اپنے بندوں کی حرکات کو دیکھ رہا ہے‘ اور جب وہ زمین کو فتنہ اور فساد اور قتل و غارت گری سے بھر دیتے ہیں تو وہ اپنے کمزور بندوں کو ان کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے ان ظالموں پر تازیانۂ عذاب برساتا ہے اور ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے۔

یہی کچھ اس ربِ قادر‘ قدیر و مقتدر نے عاد‘ ثمود اور فرعون کے ساتھ کیا۔ عاد کو ایک ایسی ریت کے باریک ذروں سے بھری ہوئی ہوا سے ہلاک کیا گیا جو ان پر مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک مسلط رہی اور اس نے ہر چیز کو چکنا چور کر کے رکھ دیا اور وہ خود بھی اس حد تک تاریخ کا قصۂ پارینہ بن کر رہ گئے کہ ان کا شہر الربع الخالی کے صحرا میں کہیں عمان اور حضرموت کی وادی حبروت کے درمیان ریت کے تودوں کے بیچوں بیچ غائب ہو گیا ہے۔ جہاں تک ثمود کا تعلق ہے تو ان کو دندناتی ہوئی چیخ کے ذریعے زمین کے برابر کر دیا گیا۔ اب رہا فرعون تو اس کا انجام معروف ہے۔ اس کو اور اس کی فوج کو غرقِ آب کر دیا گیا۔

فرعون کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اور اس کی فوج کا غرقِ آب ہونا آخری انجام تھا۔ اس سے پہلے اس کو اور اس کی قوم کو قحط‘ جوووں‘ مینڈکوں اور خون کے لوتھڑوں کے عذاب سے دوچار کیا گیا تاکہ وہ عبرت حاصل کر کے توحید کی راہ اختیار کرے اور سیدنا موسٰی علیہ السلام کی پیروی کرے اور بنی اسرائیل کو بے گار کی غلامی سے آزاد کر کے ان کے ساتھ یا تو انصاف اور برابری کا معاملہ کرے یا پھر ان کو ملک ِ مصر سے نکل جانے کا حق دے۔ مگر وہ اس قوم کو تباہ و برباد کرنے پر تلا رہا اور بالآخر خود تباہ و برباد ہو گیا۔

عصرحاضر کے عاد اُونچی اُونچی عمارتوں کے معمار بھی فرعون کی راہ پر گام زن ہو کر قوموں کو غلام بناکر اور ان سے بے گار لے کر اپنی خوش حالی کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ اس میں اضافے پر اضافہ کرنے کے چکر میں راکٹوں کی بارش کرنے پر اُتر آئے ہیں۔ ان کا انجام معلوم ہے۔ کیونکہ انھوں نے خونِ بنی آدم کو دریائوں کی طرح بہانا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ اس لیے ان کے دن بھی گنے چُنے ہیں۔ انھیں سنبھلنے کا موقع دیا گیاہے اور لوگ سمجھا بھی رہے ہیں مگر وہ اکڑ میں مزید خون خرابے کی باتیں کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ خودکشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ابھی تو صرف ایک دو ہلکے پھلکے کوڑے برسے ہیں۔ جب مسلسل کوڑے برسیں گے توکمر ٹوٹ جائے گی اور وہ تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ جائیں گے۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزِ (اور یہ بات اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے)

گناہوں کے بے شمار برے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ گنہگار علم سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ علم نور الٰہی ہے جسے اللہ تعالیٰ انسانوں کے قلوب میں القا فرماتا ہے‘ گناہ اس نور کو بجھا دیتے ہیں۔ امام شافعیؒ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت امام مالکؒ سے درس لینے لگے تو ان کی فطانت‘ ذہانت‘ فہم و بصیرت کی بے پناہ کثرت و فراوانی نے امام مالکؒ کو انتہائی حیرت میں ڈال دیا اور فرمانے لگے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے قلب میں نور القا فرما دیا ہے۔ کہیں تم اس نور کو گناہوں کی ظلمت سے بجھا نہ دینا۔

ایک موقع پر حضرت امام شافعی ؒ نے یہ شعر کہے:

شکوت الی وکیع سوء حفظی
فاوصانی الی ترک المعاصی

فان العلم نور من الہ
ونور اللّٰہ لا یعطی لعاصی

امام وکیع کے سامنے میں نے اپنے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی تو انھوں نے مجھے گناہوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا: سمجھ لو کہ علم اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور یہ نور نافرمانوں کو نہیں ملا کرتا۔

گناہ کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ انسان کی روزی اور اس کے رزق میں تنگی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ مروی ہے:

ان العبد لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ (مسند احمد ۵:۲۷۷)

بندہ اپنے ارتکاب گناہ سے روزی و رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔

تقویٰ و پرہیزگاری روزگار کو کھینچ لاتے ہیں اور انحراف و اعراض فقر وافلاس کا سبب بنتا ہے۔ حصول رزق اور فراخی معاش کے لیے ترک گناہ سے بہتر کوئی چیز نہیں۔

گناہوں کے اثرات

وحشت قلبی کی شکایت: گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ گنہگار کے قلب اور خدا کے درمیان ایک خطرناک نامانوسیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ وحشت اس قدر خطرناک ہوتی ہے کہ دنیا و مافیہا کی ساری لذتیں بھی اسے میسر آ جائیں تب بھی زندگی بے کیف ہی رہتی ہے۔ یہ حقیقت خدا کا وہی بندہ سمجھ سکتا ہے جو زندہ دل ہو‘ اور جس کا قلب بیدار ہو۔ مردے کو تو کوئی سا بھی زخم لگایا جائے‘ اسے تکلیف نہیں پہنچتی۔ اگر اس وحشت سے بچنے اور اس گڑھے سے محفوظ رہنے کے لیے ہی گناہوں کا ترک کرنا مفید ہے‘ تو صاحب عقل و بصیرت گناہوں سے بچنے کے لیے صرف اسی ایک سبب کو کافی سمجھ لے۔

کسی شخص نے بعض عارفین کے سامنے اپنی وحشت قلبی کی شکایت کی تو انھوں نے کہا کہ گناہوں کی وجہ سے تم وحشت میں مبتلا ہو تو گناہ کیوںترک نہیں کر دیتے؟ گناہ ترک کر دو گے تو اللہ تعالیٰ سے تمھیں انس پیدا ہو جائے گا اور تمھیں سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔ لہٰذا سمجھ لینا چاہیے کہ پے درپے گناہ کرنے سے قلب پر وحشت کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس سے بدتر بوجھ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

لوگوں سے وحشت: گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ گنہگار کولوگوں سے وحشت ہو جاتی ہے۔ ارباب خیر و صلاح سے خصوصاً اسے کچھ ایسی نفرت ہوجاتی ہے کہ وہ ان سے دُوربھاگتا ہے۔ جس قدر یہ وحشت ترقی کرتی چلی جاتی ہے اسی قدر وہ ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے سے گریز کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایسے لوگوں کے خیر ہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ جس قدر رحمانی گروہ سے دُور ہوتا ہے شیطانی گروہ سے قریب تر ہوتا جاتا ہے۔اس کی وحشت دھیرے دھیرے اس قدر ترقی کر جاتی ہے کہ اسے اپنے بیوی بچوں‘ اقربا‘ اعزہ بلکہ اپنی جان تک سے وحشت و نفرت ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ سلف صالحین میں سے بعض کا قول ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو جائے تو اس کا اثر اپنی سواری کے جانور اور اپنی بیوی کے برتائو سے محسوس کر لو۔

مشکلات میں اضافہ: گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ گنہگار کے معاملات میں طرح طرح کی مشکلات اور دشواریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جس کام کا وہ عزم و ارادہ کرتا ہے اسے اس کا دروازہ بند نظر آتا ہے یا وہ اسے سخت دشوار پاتا ہے۔ برخلاف اس کے جو آدمی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے تمام کام آسان ہو جاتے ہیں‘ اور جو شخص تقویٰ و پرہیزگاری کو چھوڑ دیتا ہے اس کے سارے کام مشکل اور دشوار ہو جاتے ہیں۔

قلب کی تاریکی : گناہ کا ایک اثر یہ ہے کہ نافرمان آدمی اپنے قلب میں ایک خطرناک ظلمت و تاریکی اس طرح محسوس کرتا ہے جیسے تاریک رات کی ظلمت۔ وہ تاریکی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ طاعت و عبادت ایک نور ہے اور معصیت ایک تاریکی۔ معصیت جب بڑھ جاتی ہے تو گنہگار کی حیرانی و پریشانی بھی مزید ہو جاتی ہے‘ رفتہ رفتہ وہ شخص ہمہ وقت کی بدعات اور گمراہیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ مہلک اور خطرناک امور میں پھنس کر اس کی جان وبال میں پڑ جاتی ہے اور پھر طرفہ تماشا یہ کہ اسے اپنی اس حالت کا شعور و احساس تک نہیں رہتا۔ اس کی حالت ایک ایسے اندھے کی سی ہو جاتی ہے جو اندھیری رات میں نکل کھڑا ہو اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرے۔ اور پھر یہ ظلمت و تاریکی رفتہ رفتہ اس پر اس قدر چھا جاتی ہے کہ اس کی آنکھوں سے ظاہر ہونے لگتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس کے چہرے پر بھی چھا جاتی ہے۔ یہ سیاہی ایسی پھیل جاتی ہے کہ ہر شخص اسے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

نیکی سے چہرے پر روشنی ہوتی ہے۔ قلب میں نور‘ رزق میں فراخی‘ بدن میں قوت اور مخلوق کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اور گناہ سے چہرے پر سیاہی آ جاتی ہے‘قبر اور دل میں ظلمت اور تاریکی پیدا ہوتی ہے‘ جسم میں کمزوری اور روزی میں تنگی آجاتی ہے اور مخلوق کے دلوں میں بغض و نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔

قلب و بدن کی کمزوری اور بزدلی : گناہوں کا ایک اثر یہ ہے کہ معاصی سے قلب اور بدن کمزور اور بزدل ہو جاتا ہے۔ پھر قلب کی کمزوری تو ظاہر ہے بڑھتے بڑھتے بالآخر زندگی کو ختم کر دیتی ہے۔

جسم کی کمزوری کی حقیقت یہ ہے کہ مومن کی قوت کا دارومدار اس کے قلب کی قوت پر ہے۔ مومن کا قلب قوی اور مضبوط ہے تو اس کا جسم بھی قوی اور مضبوط ہوتا ہے۔ فاسق و فاجر کا حال اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ اگرچہ جسم و بدن کے لحاظ سے کتنا ہی قوی اور مضبوط کیوں نہ ہو لیکن بزدل و کمزور ہوتا ہے اور بہ وقت ضرورت اس کی جسمانی طاقت بے کار ثابت ہوتی ہے۔جان بچانے کے موقع پر اس کی جسمانی قوتیں اس سے بے وفائی کر جاتی ہیں۔ اہل فارس و روم کے بہادروں کو دیکھیے کہ یہ لوگ کس قدر قوی اور مضبوط تھے لیکن عین تحفظ و دفاع کے موقع پر ان کی قوتوں اور طاقتوں نے ان کے ساتھ کیسی خیانت اور بے وفائی کی اور اہل ایمان اپنی ایمانی قوت اور جسم و قلب کی طاقت سے ان پر کس طرح غالب اور مسلط ہو گئے۔

اطاعت خداوندی سے رُک جانا: گناہوں کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ انسان اطاعت خداوندی سے رک جاتا ہے۔ صرف یہی ایک سزا اس کے لیے طاعت و عبادت کا راستہ بند کردیتی ہے اور پھر اس سے اس کے لیے خیر کا راستہ منقطع ہو جاتاہے۔ اس طرح بندے کے لیے طاعتوں کی راہیں بند ہو جاتی ہیںحالانکہ اس کے حق میں ہر طاعت و عبادت دنیا و مافیہا سے بہتر‘ قیمتی اور موجب خیروبرکت تھی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی کسی ایسی چیز کا لقمہ کھا لیتا ہے جو اسے ایک طویل مرض میں مبتلا کر دیتی ہے‘ پھر وہ اس کے سبب طویل عرصے تک لذیذ غذائوں سے محروم ہو جاتا ہے جن کا ہر لقمہ کہیںزیادہ لذیذ اور بہتر تھا۔

عمر کم ہونا: گناہوں کی ایک تاثیر یہ ہے کہ گناہ عمر کو تباہ کر دیتے ہیں‘ اور عمر کی ساری برکتیں اس سے چھن جاتی ہیں۔ یہ لازمی امر ہے کہ نیکی جس طرح عمر کو بڑھاتی ہے‘ فسق و فجور سے عمر کوتاہ ہوتی ہے۔

عمرکی کوتاہی کا مطلب ہے کہ عمر کی برکتیں کم ہوجاتی ہیں اور عمر اس کے حق میں موجب زحمت وبال بن جاتی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گناہوں کی وجہ سے حقیقی عمر فوت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حقیقی اور اصلی زندگی یہ ہے کہ انسان کا قلب زندہ ہو‘ چنانچہ اسی معنی کی رو سے اللہ تعالیٰ نے کافر کو مردہ کہا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:

اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ ج  (النحل ۱۶: ۲۱) کافر مردے ہیں جن میں جان نہیں۔

پس حقیقی زندگی قلب کی زندگی ہے اور انسان کی عمر اس کی اسی زندگی کے زمانے کا نام ہے۔ انسان کی عمر اس کے وہی اوقات زندگی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ گزریں اور یہی اوقات اس کی عمر کی حقیقی ساعتیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ تقویٰ و پرہیزگاری‘ طاعت و عبادات ان اوقات میںاضافہ اور خیروبرکت پیدا کرتے ہیں۔ یہ انسان کی حقیقی عمر ہے جس کے بغیر عمر کی کوئی حقیقت نہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی جناب سے گریزکرتے ہوئے معاصی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وہ حقیقی زندگی فنا ہو جاتی ہے جس کے فنا ہو جانے کا افسوس اس کو اس دن ہوگا جس دن اس کی زبان سے بے ساختہ نکل پڑے گا:

یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْo (الفجر ۸۹:۲۴) کاش کہ میں اپنی آخرت کی اس زندگی کے لیے پہلے سے کچھ حاصل کر چکا ہوتا۔

یہاںسمجھ لینا چاہیے کہ عملی اعتبار سے بندے کی دو ہی حالتیں ہیں۔ وہ یا تو اپنی دنیوی اور اخروی مصالح سے بے خبر ہو یا باخبر۔ اس سے اگر بالکل بے خبر ہے توساری عمر رائیگاں گئی‘ اور اگر ان مصالح سے بے خبر نہیں ہے مگر معاصی میں گرفتار ہے تو اس نے اپنی زندگی کی راہ میں عوائق و مشکلات پیدا کر لیں جس کی وجہ سے اصل راہ اس کے لیے طویل ہو گئی اور خیروصلاح کے اسباب اس کے لیے اسی قدر دشوار ہوگئے جس قدر خیروصلاح کے مخالف امور میںاس کی مشغولیت رہی۔ بندے کی یہ حالت بھی اس کی حقیقی عمر کا عظیم الشان نقصان ہے۔

مسئلے کا حقیقی راز یہ ہے کہ انسان کی عمر حقیقتاً اس کی زندگی کی مدت کا نام ہے۔ انسان کی زندگی یہی ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرے‘ اس کی محبت و ذکر سے لذت اندوز ہو اور اس کی رضامندی و رضا جوئی کو سب سے مقدم سمجھے۔

گناہ در گناہ: گناہوں کا خاصا یہ ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کے لیے بیج کا کام کرتا ہے۔ اس طرح ایک سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا گناہ پیدا ہوتا ہے‘ یہاں تک کہ آدمی کے لیے گناہ کو چھوڑنا اور اس بھنور سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض سلف صالحین کہتے ہیں کہ گناہ کی سزا دوسرے گناہ کی شکل میں ملتی ہے اور نیکی کا صلہ مابعد کی نیکی کے صلے میں حاصل ہوتا ہے۔ ایک بندہ کوئی نیکی کرتا ہے تو دوسری قریبی نیکی کہتی ہے کہ مجھے بھی انجام دیتے چلو۔ وہ جب اس کو انجام دے لیتا ہے تو ایک اور نیکی اسے یہی دعوت دیتی ہے۔ اس طرح نیکیوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس سے بندے کو بے حساب نفع حاصل ہوتا ہے اور اس کی نیکیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ جو شکل نیکیوں کی ہے وہی گناہوں کی بھی ہے۔ طاعات اور معاصی بندے کے حق میں نہ مٹنے والی تصویریں‘ لازم اور غیر منفک صفات اور ثابت و لازم بن جاتی ہیں۔ جس وقت کسی نیکوکار آدمی سے کوئی نیکی رہ جاتی ہے تو وہ اپنے لیے تنگی اور تکلیف محسوس کرتا ہے‘ اور اس غفلت کی وجہ سے اس پر زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے کو اس مچھلی کی طرح پاتا ہے جو پانی سے الگ کر لی گئی ہو اور وہ پانی میں جانے کے لیے بے تاب ہو۔ مچھلی کو پانی میں جا گرنے ہی سے سکون ملتا ہے اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔

یہی حالت ایک عاصی و گنہگار کی ہے۔ وہ کسی معصیت کو چھوڑ کر نیکی کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس پر بھی زمین تنگ ہو جاتی ہے‘ سینے میں تنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ دوبارہ جب تک یہ گناہ نہ کرے‘ زندگی کی ساری راہیں اس پر تنگ ہو جاتی ہیں تاآنکہ بعض فاسق وفاجر لوگوں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ بلاکسی لذت‘ لطف‘ بلاداعیہ اور خواہش کے بھی ارتکاب گناہ کرتے رہتے ہیں ۔ بات صرف یہی ہوتی ہے کہ گناہوں کی مفارقت سے انھیں تکلیف ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ اس گروہ کے شیخ حسن بن ہانی کا شعر ہے    ؎

وکاس شربت  علی  لذۃ
واخری تداویت منھا بھا

ایک جام شراب میں نے لذت سے نوش کیا‘ اور دوسرے جام سے پہلے سے پیدا شدہ مرض کا علاج کیا۔

اور کسی دوسرے شاعر نے کہا ہے    ؎

وکانت دوائی وھی دائی بعینہ
کما یتداوی شارب الخمر بالخمر

میری دوا بعینہ میرے لیے بیماری تھی‘ جس طرح کہ شرابی آدمی شراب سے اپنا علاج کرتا ہے۔

نیک بندے کی مدد : اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ جب طاعت الٰہی کا اہتمام و التزام کرتا ہے اور طاعت و عبادت سے اسے خاص قسم کا انس اور الفت و محبت ہو جاتی ہے تو اسے ہر چیز سے مقدم سمجھتا ہے۔ بندے کی اس حالت میں حق سبحانہ وتعالیٰ اس کے لیے اپنی رحمت کے فرشتے بھیجتا ہے جو ہر طرح اس کی امداد کرتے ہیں۔ اسے اطاعت الٰہی اور عبادت کا شوق دلاتے ہیں۔ اس کے جذبات ایمانی کو اُبھارتے ہیں‘ بستر تک چھڑا دیتے ہیں۔ کیسی حالت اور کیسی ہی مجلس میںبیٹھا ہوا ہو‘ اسے اٹھا کر طاعت و عبادت میں لگا دیتے ہیں۔

اس طرح جب کوئی بندہ معاصی اور گناہوں سے الفت کرنے لگتا ہے‘ گناہوں کو محبوب رکھتا ہے اور خیرونیکی کے مقابلے میں گناہوں کو ترجیح دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ شیاطین کو اس پر مسلط کر دیتا ہے۔ یہ شیاطین معاصی اور گناہوں میں اس کی معاونت کرتے ہیںاور اس کے جذباتِ شیطانی و نفسانی کو ابھارتے ہیں۔ پس پہلا بندہ وہ ہے جس کی اعانت و امداد کے لیے طاعت و عبادت کا پورا لشکر موجود ہوتا ہے جو اس کی پشت پر رہ کر اس کی بھرپور امداد کرتا ہے اور اس لشکر کی امداد سے بندہ نہایت قوی اور مضبوط ہو جاتا ہے۔دوسرا بندہ وہ ہے کہ جس کی پشت پر معصیت اور گناہوں کا لشکر ہوتا ہے جو معصیت اور گناہوں میںاس کی اعانت و امداد کرتا ہے۔ یہ شیطانی لشکر اسے معصیت و گناہ میں قوی اور مضبوط بنا دیتا ہے۔

 

گذشتہ صدیوں پر نظر ڈالیں تو چند سوال پیدا ہوتے ہیں:

  •  مسلمانوں میں معاشی طور پر آگے بڑھنے کی کوئی تحریک کیوں نہیں چلائی گئی؟
  •  مسلمانوں کی مذہبی تحریکیں معاشی سرگرمیوں اور معاشی قوت حاصل کرنے کو زیادہ اہمیت کیوں نہیں دیتی ہیں؟
  •  مسلمانوں کے معاشی ادب اور اس موضوع پر کی جانے والی تقریروں میں تقسیم دولت پر بڑا زور دیا جاتا ہے مگر تکوین ثروت کا ذکر کم ہی آتا ہے اور اس کے طریقوں پر بھی کم توجہ کی جاتی ہے۔

ان سوالوں کاباہمی ربط واضح ہے مگر بحث کے آغاز سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ جو رائیں اگلے صفحات میں ظاہر کی جائیں گی‘ ان کی حیثیت ایسے نتائج کی نہیں ہے جن پر کافی بحث و تحقیق اور غوروفکر کے بعد پہنچا گیا ہو‘ بلکہ جب یہ سوالات سامنے آئے تو سوچنا شروع کیا اور اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ غوروفکر میں دوسرے اہل نظر کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے تاکہ ایسے نتائج تک پہنچا جا سکے جن کو کسی ایک فرد کی رائے کے بجائے محققین کی معتدبہ تعداد کی تائید حاصل ہو۔ ظاہر ہے کہ اس عمل میں کافی وقت لگے گا‘ مگر اس کے آغاز کے لیے آیندہ صفحات کا مطالعہ مفید رہے گا۔

پچھلی دو صدیوں میں عالم اسلام میں بہت سی تحریکیں اٹھیں اور انھوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے۔ بدعات کے ازالے کی جدوجہد کی اور ساتھ ہی مسلمانوں نے دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی جو بہت سی رسمیں‘ توہمات اور خرافات اپنا لیے تھے‘ ان سے مسلم معاشرے کو پاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ عقائد کی تصحیح پر زور دیا گیا تاکہ مشرکانہ تصورات کی آمیزش سے توحید خالص میں فرق نہ آئے۔ پرسنل لا بلکہ عام طور پر انسانی تعلقات میں اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ضوابط کی پابندی پر زور دیا گیا۔ فقہی امور میں تقلید جامد کے اثر سے خرابیاں پیدا ہوتے دیکھ کر اجتہاد پر زور دیا گیا اور مختلف فقہی مسالک کے درمیان توافق اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ‘اور جب یورپ سے آئے ہوئے لوگوں کا سیاسی غلبہ عام ہوا تو مسلمان علاقوں کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے طاقت ور سیاسی تحریکیں چلیں۔ یہ ایک مسلّمہ بات ہے کہ تمام مسلمان نوآبادیاتی ممالک میں آزادی کی تحریکوں میں مذہبی عناصر کا حصہ فیصلہ کن رہا ہے۔ پھر آزادی کے بعد اور کبھی اس سے پہلے ہی‘ جیسا کہ ہندستان میں ہوا‘ تعلیمی تحریکیں بھی چلیں جنھوں نے مسلمانوں میں تعلیم عام کرنے کی کوشش کی۔ انھی تمام کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمان آج اپنے پیروں پر کھڑے ہیں اور مسلمان بن کر رہ رہے ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسی تحریک نہیں چلی جس نے عام مسلمانوں کو للکارا کہ محنت کرو‘ دولت پیدا کرو۔ کمائو اور اپنی کمائی کا ایک حصہ بچا کر نفع آور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی آمدنی اور دولت میں اضافہ کرنے کی کوشش کرو۔ ایسی تحریک نہیں ملتی جس نے افراد کے مجموعوں یا پوری ملّت اسلامیہ کو معاشی قوت کی اہمیت جتلا کر معاشی طور پر طاقت ور بننے کی خاطر بیش از بیش وسائل حاصل کرنے کی دعوت دی ہو۔

بیسویں صدی تو اسلامی تحریکوں کی صدی تھی۔ بڑی طاقت ور اسلامی تحریکیں چلیں جن کو فکری غذا اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مجددین اُمت اور علما و مفکرین نے فراہم کی تھی۔ حکومتیں ان تحریکوں کے زیراثر آئیں۔ بعض جگہ ان تحریکوں کو حکومت میں شریک ہونے کا موقع ملا اور بعض ممالک میں خود ان کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن کسی جگہ معاشی سرگرمیوں کی عام دعوت ‘ تکوین ثروت کی مہم ‘ افراد اور گروہوں کو اپنی ضرورت سے زیادہ کمانے کی ترغیب‘ تاکہ وہ بچت کر سکیں اور یہ بچت اجتماعی معاشی قوت میں اضافے کی خاطر سرمایہ کاری کے کام آ سکے… یہ تحریک نہیں ملتی۔

بیسویں صدی کے نصف آخر میں مسلم اکثریت والے علاقے آزاد ہوئے اور انھوں نے اپنا نظم و نسق خود سنبھالا تو تقریباً ہر ملک میں یہ تحریک چلی کہ یہ سب کام اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ عرب ممالک میں اخوان المسلمین‘ برعظیم ہند میں جماعت اسلامی‘انڈونیشیا میں ماشومی (مجلس شورائی مسلمانان انڈونیشیا) اور ان کے ہم خیال لوگوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں میں اسلام کے مطابق سماج کی تعمیرنو کا ولولہ پیدا کر دیا۔ قدیم مذہبی حلقے بھی پہلے کی بہ نسبت زیادہ سرگرم ہو گئے۔ آزادی کے بعد خوش حالی میں بھی اضافہ ہوا۔ چند مسلمان ممالک کو پٹرول کی فروخت سے جو غیر معمولی آمدنی ہوئی‘ اس کا فیض دوسرے ترقی پذیر مسلمان ممالک کو بھی اُن مزدوروں اور اہل علم و ہنر کے ذریعے پہنچا جن کی خدمات ان دولت مند مسلمان ممالک کو درکار ہوئیں۔ غرض یہ کہ بیسویں صدی کا آخری چوتھائی حصہ بڑے جوش وخروش اور حرکت و عمل کا حصہ رہا۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ ان مواقع سے پورا فائدہ اُٹھا کر اُمت کو معاشی طور پر طاقت ور بنانے کی طرف کوئی اجتماعی و شعوری توجہ نہیں کی گئی۔ عام مذہبی حلقوں کی وعظ و تلقین ہو یا سیاسی رنگ رکھنے والی اسلامی تحریکوں کے منشور اور قراردادیں‘ مسلمان افراد اور گروہوں کو زیادہ کمانے یا کما کر بچانے اور بچت کی سرمایہ کاری کے ذریعے تکوین ثروت کی دعوت سے دونوں خالی رہے۔ جو کچھ معاشی سرگرمی دیکھی گئی‘ اور اس کے نتیجے میں آزاد مسلم ممالک میں‘ نیز دوسرے ممالک میں آباد مسلمان اقلیتوں میں‘ جو خوش حالی آئی‘ وہ انفرادی محرکات اور ملکی سطح پر قوم پسندانہ حوصلوں کا نتیجہ تھی۔ اس میں مذہبی حلقوں کی ترغیب و تائید یا اسلامی تحریکوں کی تدبیر و تاکید کو دخل نہیں تھا۔

یہ کوئی نئی بات نہیںہے۔ عرصہ دراز سے مسلمانوں کے دینی ادب میں معاشی جدوجہد اور معاشی قوت کے حصول کا چرچا کم ہی ملتا ہے۔ شاید اس کا اثر ہے کہ بیسویں صدی میں جب مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور روسی بلاک کے اشتراکی نظام کو ردّ کرتے ہوئے ان کے بالمقابل اسلامی دانش وروں اور اسلامی تحریکوں نے اسلام کے عادلانہ معاشی نظام کو پیش کرنا شروع کیا تو اس کی تشریح و تعبیر میں زیادہ زور تقسیم دولت پر رہا۔

یہ بات کہ دولت بنتی کیسے ہے‘ اور یہ شعور کہ جب دولت میں بیش از بیش اضافے کی تدابیر نہیں اختیار کی جائیں گی تو ایک روز افزوں آبادی میں‘ اس کی تقسیم ہمیں مطلوبہ نتائج تک پہنچانے سے قاصر رہے گی… کم ہی ملتا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں تالیف کردہ سید قطب شہید علیہ الرحمہ کی معرکہ آرا  کتاب  العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام کا یہ جملہ اس بارے میں ہمارے ذہن کی بہت صحیح ترجمانی کرتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ فقروحاجت مندی صرف مال کے ارتکاز کا نتیجہ ہوتے ہیں‘‘۔ (اسلام میں عدل اجتماعی‘ ترجمہ: محمد نجات اللہ صدیقی‘ ص ۴۸۹)

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی معاشی نظام میں عدل و مساوات پر زور دیا گیا ہے‘ یہ اس کی امتیازی شان ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر صرف زکوٰۃ و صدقات پر زور دیا جائے اور اس بات کا اہتمام کیا جاتا رہے کہ امیروں کی دولت کا ایک حصہ غریبوں تک منتقل ہوتا رہے تاکہ ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں تو‘ آبادی میں ہوتے رہنے والے اضافے کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ایسا معاشرہ اپنی پیدا کی ہوئی دولت کا بیش از بیش حصہ صرف کرتا رہے گا‘ بچت کم ہوتی رہے گی جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری کم ہوگی اور اس کا امکان بڑھتا جائے گا کہ دولت میں اضافے کی رفتار گھٹنے لگے۔ ایک ایسا وقت آئے گا کہ دولت میں اضافے کی رفتار آبادی میں اضافے کی رفتار سے کم ہو جائے گی اور معاشرہ معاشی تنزل کی راہ پر چل پڑے گا۔

ظاہر ہے کہ ایک تنزل پذیر سماج میں‘ جس میں مجموعی دولت کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہو‘ صرف امیروں سے غریبوں کی طرف دولت کی منتقلی سے عدل کے تقاضے نہیں پورے ہو سکتے بلکہ وہ کیفیت رونما ہونے لگے گی جسے ’’تقسیم فقر‘‘ (distribution of poverty)کا نام دیا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ امیروں کی دولت کے طفیل غریبوں کی غربت دُور ہو‘ ایسے معاشرے میں جس میں مجموعی دولت زوال پذیر ہو‘ غریبوں کے مصارف‘ امیروں کو غریبوں کی صفوں میں لاکھڑا کر دیں گے۔

اس ناپسندیدہ صورت حال سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ تکوین ثروت کا بھی اہتمام کیا جائے‘ اور جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے‘ اسلام نے اس بارے میں ایک واضح ایجابی موقف اختیار کیا ہے۔ مگر بحث کے اس مرحلے سے پہلے ہمیں سوچنا ہے کہ جو کیفیت اُوپر بیان کی گئی‘ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بیسویں صدی میں مادیت کا غلبہ رہا۔ مغربی سرمایہ داری پہلے ہی سے چرچ سے بغاوت‘ مذہب سے بیزاری اور جارحانہ سیکولرزم کے زیرسایہ تھی۔ اشتراکیت نے تاریخ کی مادی تعبیر اختیار کر کے اور مذہب و اخلاق کو ڈھکوسلے قرار دے کر ایک ایسی فضا بنا دی تھی جس میں مادّی وسائل کی اہمیت جتلانے اور معاشی قوت پر توجہ مرکوز کرنے میں یہ شبہہ وارد ہوتا تھا کہ ہم بھی غیروں کے راستے پر چل پڑے اور ان کی فکر سے متاثر ہو گئے۔

اسلامی فکر بجا طور پر تاریخ کی مادّی تعبیرکو ردّ کرتی ہے۔ اس کا یہ موقف بھی درست ہے کہ معاشی زندگی میں صرف ذاتی نفع کا حصول محرک عمل نہیں ہوتا بلکہ روحانی اور اخلاقی قدریں بھی کارفرما ہوتی ہیں اور فرد اپنے معاشی فیصلوں میں اجتماعی مصالح کا بھی لحاظ کر سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم پر اسلامی تحریکوں کی یہ تنقید بھی بجا ہے کہ انھوں نے معاش پر زیادہ زوردے کر زندگی کے دوسرے اہم پہلوئوں کی اہمیت کم کر دی ہے جس سے سماج میں حصول دولت کی ایسی دوڑ شروع ہو گئی ہے جس میں محبت اور مروت‘ ہمدردی اور پاس داری جیسے قیمتی انسانی آداب و اقدار کی پامالی عمل میں آ رہی ہے۔ یہ بات بعیداز قیاس نہیں کہ معاشی قوت کے حصول کی طرف سے بے توجہی اور انسانی زندگی میں معاشی عوامل کے واقعی مقام کے اعتراف میں کوتاہی مذکورہ بالا رجحانات کے ردّعمل کے طور پر ہو۔ گویا ایک طرف کے عدم توازن کے ردّعمل میں دوسری طرف بھی غیر متوازن موقف نے جنم لیا ہو۔

توازن بحال کرنے کی ضرورت

اگر پچھلی صدی میں فکر اسلامی کے معاشی عوامل کو صحیح رتبہ نہ دینے کا کوئی عذر رہا بھی ہو تو اب اس کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی کہ یہی صورت حال قائم رہے۔ کیونکہ: اوّلاً‘ پچھلا موقف اصلاً کمزور ہے اور ثانیاً‘ اس موقف پر اصرار سے اُمت کو نقصان پہنچے گا۔

غور فرمایئے کہ اس دنیا میں انسان جس کمزور حالت میں داخل ہوتا ہے‘ اس میں اسے روز اوّل سے ہی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ طفولیت کا نازک مرحلہ ہو یا ہوش سنبھالنے کے بعد بچپن اور عنفوان شباب کے دن۔ سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ غذا ملے‘ بدن پر موسم کی مناسبت سے لباس ہو‘ سر چھپانے کو مکان ہو۔ شروع میں یہ وسائل خاندان کو فراہم کرنے ہوتے ہیں اور جس بچے کو اس کا خاندان یا سماج یہ وسائل فراہم نہ کر سکے وہ ضائع ہو جاتاہے۔ پھر ہوش سنبھالتے ہی اس بات کا شعور پیدا ہو جاتا ہے کہ آیندہ اپنے پیروں پرکھڑے ہونے اور اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے لائق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ علم و ہنر سیکھا جائے۔ بے شک حصول علم کے دوسرے اعلیٰ مقاصد بھی ہیں‘ لیکن اُن گنے چنے خوش قسمت افراد کو چھوڑ کر جن کو وراثت میں بڑی دولت ملنے والی ہو‘ باقی تمام انسانوں کو پانچ سال کی عمر سے ۴۰ سال کی عمر تک سب سے زیادہ فکر ایسا علم و ہنر سیکھنے کی ہوتی ہے جو انھیں باقی ایام زندگی کے لیے روزی کمانے کے قابل بنا سکے۔آپ اپنے قریبی ماحول پر نظر ڈالیے۔ جو لڑکے یا لڑکیاں ۲۰ سال کی عمر تک ناخواندہ رہ گئے ‘ کوئی ایسا ہنر نہ سیکھا جس کے ذریعے روزی کما سکیں‘ کوئی ایسا علم نہیں سیکھ سکے جس سے کوئی کیریر بن سکے‘ ان کی باقی زندگی کتنی تنگی اور پریشانی میں گزرتی ہے! واقعہ یہ ہے کہ ادنیٰ ضروریات سے لے کر اعلیٰ ترین مقاصد حیات تک‘ ہر مقصد کا حصول وسائل کی موجودگی پر منحصر ہے۔ اگر کوئی پختہ عمر پر پہنچنے کے بعد دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتا ہے تو اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جوانی ہی میں اپنے کو اس قابل بنا لے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بھی کچھ وقت اور کچھ مال ان کاموں پر لگا سکے۔ کس کو کن کاموں کے لیے کتنا وقت ملتا ہے‘ اس کا انحصار صرف نیک ارادوں پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پہلے سے وسائل جمع کرنے پڑتے ہیں۔ بلاشبہ معاشی وسائل کی حیثیت صرف ذرائع کی ہے۔ ان کو مقاصد کا درجہ نہیں دینا چاہیے مگر زندگی میں کوئی مقصد وسائل کے بغیرحاصل نہیں کیا جا سکتا۔

دعوت و تبلیغ ہو یا تعلیم و تربیت‘ اصلاح معاشرہ ہو یا اقامت دین… ان میں سے ہر ایک کے لیے وسائل بہرحال درکار ہوتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے معاشی سرگرمی ناگزیر ہے۔

یہ بات ہمیشہ صحیح تھی کیونکہ اس کا تعلق بدلتے ہوئے حالات سے نہیں‘ اس کائنات میں انسانی زندگی کے احوال سے ہے۔ مگر گذشتہ دنوں کچھ ایسی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں جنھوں نے اس بات کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ ان بدلے ہوئے حالات میں معاشی وسائل کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو لیجیے کہ اب انسانوں میں ربط باہمی پہلے کی نسبت آسان ہو گیا ہے۔ ٹیلی فون عام ہوا‘ اس پر آنے والا خرچہ کم ہوا‘ پھر اس کے بعد ای میل اور انٹرنیٹ کے ذریعے ربط باہم کے ذرائع سامنے آئے‘ جنھوں نے دنیا کو ایک کر دیا۔ جس سے چاہیے‘ بات کیجیے‘ جس سے چاہیے‘ استفادہ کیجیے۔ حصول علم ہو یا علاج معالجہ‘ فنی مشورے ہوں یا تعمیراتی منصوبے‘ خرید و فروخت کی سرگرمی ہو یا بچت کے نفع آور استعمال کا مسئلہ… غرض‘ ہر کام کے لیے کوئی بھی فرد دُنیا میں کسی سے بھی تبادلۂ خیال کر سکتا ہے‘ مدد لے سکتا ہے‘ دوسروں کو اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے۔ مگر ان نئے مواقع سے فائدہ اٹھانا اسی کے لیے ممکن ہے جس کے پاس ٹیلی فون کا کنکشن ہو‘ کمپیوٹر ہو‘ گھر میں بجلی ہو… ان وسائل سے محرومی بہت سی مفید چیزوں سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے‘ جن میں دین و اخلاق کے لیے اہمیت رکھنے والی چیزیں بھی شامل ہیں۔

پچھلے ۱۰‘ ۲۰ برسوں میں دنیا میں اور اہم تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ ان میں سے ایک جمہوریت کا فروغ بھی ہے۔ انسانی امور کو متعلقہ افراد اور گروہوں کے باہمی مشوروں سے طے کرنے کا طریقہ زیادہ رواج پکڑ رہا ہے۔ مقامی پنچایت سے لے کر مجلس اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں تک‘ ہر مرحلے پر اب آزادانہ اظہار رائے ‘ تبادلۂ خیالات اور بحث و مباحثے کے بعد کسی نتیجے تک پہنچنے کی اہمیت سمجھ لی گئی ہے۔ ہر سطح پر اس بات کو ایک بنیادی انسانی حق تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جس فیصلے کا کسی انسان کے جسم و مال پر اثر پڑنے والا ہو‘ یاکسی بھی حیثیت سے اس کے مفادات و مصالح اس فیصلے سے متاثر ہونے والے ہوں‘ اس فیصلے کے کرنے میں اس کی شرکت ہونی چاہیے۔ کسی پوپ‘ بادشاہ یا ڈکٹیٹر کو متعلقہ انسانوں کی رائے اور مرضی کے علی الرغم فیصلے کرنے اور ان فیصلوں کو ان پر نافذ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ بڑی خوش آیند تبدیلی ہے‘ اگرچہ اسے تمام و کمال تک پہنچنے میں ابھی برسہا برس لگیں گے‘ مگر یہی رجحان انسانی عزوشرف سے مطابقت رکھتا ہے۔ اُمید ہے وہ دن واپس نہیں آئیں گے جب مذہب‘ نسل‘ ذات‘ رنگ یا قومیت کے نام پرکچھ انسانوں کو دوسرے انسانوں پر حکم جتانے اور ان پر ایسے فیصلے تھوپنے کا اختیار حاصل تھا جن میں اُن انسانوں کے مفاد و مصالح کے بجائے حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والوں کے مفادات و مصالح کو سامنے رکھا جاتا تھا۔ یہ بڑی اچھی تبدیلی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوری طریقے سے فیصلہ کرنے کی لاگت‘ تحکم والے طریقہ (authoritarianism)سے زیادہ آتی ہے۔ لوگوں کو جمع کرنے ‘ ان کو اظہار رائے کی آزادی دینے میں مادی وسائل درکار ہوتے ہیں‘ وقت لگتا ہے اور وقت‘ دولت ہے۔ یہ بات آسان تھی کہ طاقت ور نے اپنا فیصلہ کمزور پر ڈنڈے کے زور پر نافذ کر دیا۔ اس کی لاگت کم تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو ملک یا قوم‘ کوئی انسانی گروہ یا ادارہ‘ وسائل سے محروم ہو‘ وہ جمہوری طریقہ فیصلہ کو پوری طرح کارفرما نہ دیکھ سکے گا۔ کیوں کہ جمہوری عمل میں اخبارات و جرائد‘ ریڈیو اور ٹی وی‘ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ‘ پنچایت گھر اور پارلیمنٹ ہائوس‘ سیمی نار اور کانفرنسیں‘ سب کا ایک مقام ہے‘ اور ان سب کے لیے مادّی وسائل درکار ہیں!

جمہوری طریقہ حکمرانی کے لیے انتخابات کرانے ہوتے ہیں‘ توازن قائم رکھنے کے لیے عدلیہ کو اعلیٰ ترین معیاروں پر قائم رکھنا ہوتا ہے۔ مگر ان سب پر خرچہ بھی آتا ہے۔

ایک نکتہ اور قابل توجہ ہے‘ اور وہ ہے ہزار‘ پندرہ سو سال پہلے کی غربت اور آج کی غربت میں فرق! بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلام کے سنہرے دور میں‘ عہدنبویؐ میں اور خلفاے راشدین کے دور میں معیار زندگی اتنا اونچا نہیں تھا۔ بہت سے صحابہ ؓ  اور بڑے بڑے بزرگ غربت کے حال میں زندگی گزار گئے مگر انھی کے ہاتھوں اسلام پھیلا‘بڑے بڑے کارہاے نمایاں انجام پائے۔ ان کو یہ خیال ہوتا ہے کہ غریبی سے اسلام کے مستقبل پر کوئی اثرنہیں پڑنا چاہیے‘ نہ مسلمانوں کی معاشی پس ماندگی کو کسی دینی تحریک کی توجہ کا مستحق قرار پانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بات بڑی حد تک اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ کے ناقص مطالعہ پر مبنی ہے مگر سب سے پہلے ایک غلط فہمی دُور کرنا ضروری ہے۔

واقعہ یوں ہے کہ آج کی غریبی اور اس زمانے کی غریبی میں بڑا فرق ہے۔ غریبی ہر زمانے میں رکاوٹ بنتی ہے اور انسانی سماج کو اس مقام تک پہنچنے سے روکے رہتی ہے جس میں وہ عزت و اطمینان سے اپنے مقاصد پورے کر سکے لیکن وسائل سے محرومی آج کے انسان کے لیے زیادہ معذور کن ہے۔ دو مثالوں کے ذریعے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی مثال پینے کے پانی کی ہے‘ دوسری ذرائع نقل و حمل کی۔

مدینہ منورہ میں‘ اور دریائوں سے دُور سارے دوسرے علاقوں میں‘ پینے کے پانی کے دو ہی ذرائع تھے۔ کنواں کھود کر زیرزمین پانی حاصل کیا جاتا تھا اور جن علاقوں میں بارش ہوتی تھی‘ وہاں تالاب اور گڑھوں میں جمع پانی بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ پینے کے پانی کی نسبت سے امیروغریب کے درمیان فرق‘ مقدار میں ہو سکتا تھا مگر سب کے لیے ذریعے یہی دو تھے۔ اس صورت حال کا مقابلہ آج ان شہروں کے باشندوں کو پیش آنے والی صورت حال سے کیجیے جو لاکھوں اور بسااوقات کروڑ دو کروڑ کی آبادی والے شہر ہیں۔ تالاب اور گڑھے اب پائے نہیں جاتے‘ دریائوں کا پانی پینے کے لائق نہیں رہ گیا‘ پینے کا پانی یا تو میونسپل کارپوریشن کی سپلائی سے مل سکتا ہے یا پانی کی بوتل خرید کر۔ ہینڈپمپ یا کنویں کے ذریعے زیرزمین پانی کا استعمال تقریباً مفقود ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ ان شہروں کا زیرزمین پانی بھی صاف کیے بغیر استعمال کے قابل نہیں رہا۔ اب مشکل یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں طرح کے پانی پر کچھ لاگت آتی ہے‘ یہ لاگت فرد اپنی جیب سے ادا کرے یا میونسپلٹی سے مفت پانی حاصل ہونے کی شکل میں اس کی لاگت دوسرے افراد سے ٹیکس وصول کر کے پوری کی جائے‘ امر واقعہ یہی رہا کہ بڑے شہروں میں بسنے والوں کو پینے کا پانی مفت نہیں ملتا۔ پہلے ایسی صورت حال نہیں تھی۔ سانس لینے کے لیے ہوا کی طرح پینے کا پانی مفت مل جاتا تھا۔

ہزار پندرہ سو سال پہلے نقل و حمل کے لیے جانور استعمال کیے جاتے تھے۔ خچر‘ گھوڑے‘ اونٹ__ ان پر سواری کی جائے‘ یا بار برداری‘ ان کی پیٹھ استعمال کی جائے یا ان سے گاڑی کھینچنے کا کام لیا جائے۔ نقل و حمل کے کوئی اور ذرائع میسر نہیں تھے۔ امیر اور غریب میں صرف اتنا فرق تھا کہ غریب پیدل چلتا تھا‘ اپنا بوجھ اپنے سر پر اٹھاتا تھا مگر امیر کا بوجھ دوسرے انسان اپنے سر پر اٹھاتے تھے یا جانور‘ اور امیر کو سواری کے لیے جانور میسر تھے۔ فاصلے زیادہ نہ تھے۔ انسانوں کی غالب اکثریت چند ہزار انسانوں پر مشتمل چھوٹے گائوں اور قصبوں میں رہتی تھی‘ پیدل چل کر بھی زندگی بآسایش گزاری جا سکتی تھی۔ مگر اب کسی بڑے شہر میں پیدل چل کر اپنی ضروریات پوری کرنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم ہو یا علاج‘ روزگار کے سلسلے میں دفتر یا کارخانہ پہنچنا ہو یا کسی اور غرض سے شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانا ہو‘ کار‘ بس‘ ریل گاڑی… کوئی نہ کوئی مشینی سواری ضروری ہے۔ اس کے لیے خرچہ چاہیے جس کے پاس خرچ کرنے کو پیسہ نہیں‘وہ نقل و حرکت سے محروم رہے گا۔ نقل و حرکت کے بغیر زندگی کا تصور دشوار ہے۔

اس نکتے کی وضاحت کے بعد کہ آج معاشی وسائل سے محرومی‘ افراد کے لیے معذور کن ہے‘ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گروہوں اور پوری ملّت‘ کسی ملک کی مسلمان اقلیت‘ کسی مسلمان اکثریت والے ملک اور بحیثیت مجموعی‘ پوری دنیا کے مسلمانوں کا معاشی قوت سے محروم رہنا یا ان کے پاس معاشی وسائل کی کمی ان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔ آج دُنیا ایک ہو چکی ہے اور ساری قوموں کے درمیان سخت مسابقت ہو رہی ہے۔ اس مسابقت میں جسمانی صحت‘ علم و ہنر‘ معلومات‘ طریقہ حکمرانی‘ معاشرتی زندگی‘ تجارتی سرگرمیاں‘ پیداواری عمل… ہر بات کو ایک مقام حاصل ہے اور ان میں سے ہر چیز کا اہتمام وسائل کا طلب گار ہے۔ جو ان امور میں پیچھے ہوتا جائے گا اس کی عزت اور وقار خطرے میں ہوگا‘ بساط عالم پر اس کاوزن گھٹتا چلا جائے گا… یہ ایک مشاہدحقیقت اور بدیہی بات ہے۔ لہٰذا اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے‘ اور اسلامی تاریخ کا زرّیں دور معاشی وسائل کے اکتساب اور معاشی قوت کے حصول کے باب میں کیا نمونہ پیش کرتا ہے۔ (جاری)

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اُمت مسلمہ پر بے شمارانعامات میں سے ایک عظیم احسان اہل ایمان کے درمیان رشتہ اخوت و مودت کا قائم فرمانا ہے۔ سورۃ الحجرات میں اس احسان عظیم کا ذکر یوں فرمایا گیا کہ بلاشبہہ اہل ایمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ-الحجرات ۴۹:۱۰)‘ اور ان کے باہمی تعلّق کو قریب ترین قرار دیتے ہوئے ان کی پہچان یہ بتائی گئی کہ وہ آپس میں رحمت و محبت سے پیش آتے ہیں (رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ- الفتح ۴۸:۲۹)۔ اسی طرح اہل ایمان کو ایک دوسرے کا دوست‘ ساتھی‘ رفیق‘ مددگار اور ہم رکاب قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا: وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَیُوْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط (التوبہ ۹:۷۱) ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے اولیا اور رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیںاور برائی سے منع کرتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔

اپنے اس انعام اور احسان کے اظہار کے ساتھ ہی یہ بات بھی فرما دی گئی کہ اخوت کا بنیادی تقاضا باہمی صلح‘ رواداری اور عدل ہے۔ چنانچہ سورہ النحل میں فرمایا: اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ عدل و احسان کو اختیار کرو اور اقربا کودو‘ (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی … النحل ۱۶:۹۰)۔ اس لیے اہل ایمان پر یہ اجتماعی ذمہ داری ڈال دی گئی کہ اگر ان میں اختلاف اور تنازع ہو جائے تو صلح کرائی جائے اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی جائے۔ اس حکم کی اہمیت کے پیش نظر سورہ النحل کی یہ آیت دنیا کے ہر خطے میں خطبہ جمعہ کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر یوں فرمایا:  وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا ج فَاِنْ م بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓ ئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ (الحجرات ۴۹:۹) ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو‘‘۔

اسلامی اخوت کوحضور نبی کریمؐ نے ایک محکم و مضبوط عمارت سے تعبیر فرمایا ہے: المومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ثم ثبت من اصابعہ (بخاری‘ مسلم) ’’مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت پہنچاتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا‘‘۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ ،مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کر دیتا لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کس طرح مدد کروں۔ آپؐ نے فرمایا‘ تو اسے ظلم کرنے سے روک دے۔ یہی اس کی مدد کرنا ہے۔ (بخاری ‘مسلم)

مسلمان بھائی کی خیر خواہی‘ اس کی جان‘ مال ‘ عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق میں سے ہے گویا یہ کوئی احسان کی بات نہیں بلکہ فریضہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ کا واضح حکم ہے کہ اگر کسی بنا پر آپس میں کوئی رنجش ہو جائے تو تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرنا حرام ہے‘ خواہ زیادتی کسی کی بھی ہو۔ بحالی تعلّقات کے لیے‘ ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ سلام کرنے میں پہل کرے۔ چنانچہ حدیث میں فرمایا گیا: ’’ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔ (بخاری ‘  مسلم)

انسانیت کی تشکیل جدید کے لیے اسلام کی نگاہ میں ایک ایسی اُمت کا قیام ضروری ہے جو نہ صرف اخوت و محبت کے جذبات سے سرشار اور متحد اور یک جان ہو بلکہ اس میں وہ صفات موجود ہوں جو زندہ رہنے اور قیادت کرنے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ قرآن کریم نے اہل ایمان کی مطلوبہ صفات کو بے شمارمقامات پر بیان کرنے کے ساتھ سورہ المومنون میں اختصار اور جامعیت سے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’یقینا فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے اعراض کرتے ہیں‘ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل رہتے ہیں‘ اپنے فروج کی حفاظت کرتے ہیں… اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں… یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے…‘‘ (المومنون ۲۳:۱-۱۱)

یہ وہ اجتماعی اخلاق ہیں جو انھیں مصلحین‘ صائمین‘ ذاکرین‘ ساجدین‘ راکعین‘ شاکرین‘ کاظمین الغیظ اور عباد الرحمن بننے میں مدد دیتے ہیں۔ قرآن مقام عبدیت کو اہل ایمان کے لیے سب سے اعلیٰ مقام قرار دیتے ہوئے اس صفت کی بنا پر خیر امۃ اور قائم بالقسط‘ عادل اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے تعبیر کرتا ہے۔

انسانوں کا ایک دوسرا گروہ جو ضابطہ اخلاق اور جادہ عدل کو نظرانداز کرتا ہے۔ پھر یہ گروہ صراط مستقیم اور خالق کائنات کی بندگی کو رَدّ کرتا ہے اور دوسری جانب طاغوت کو ‘ کبر و انانیت کو‘ بغاوت و سرکشی کو‘ ضد اور ہٹ دھرمی کو اختیار کرتا ہے۔ قرآن کریم انھیں ضالین‘ گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ اہل ایمان کی مخالفت میں کمربستہ رہتا ہے اور انھیں کبھی قوت سے اور کبھی چالاکی‘ لالچ‘ طمع‘ حرص اور مادی فوائد کے ذریعے ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرتا ہے۔ نتیجتاً اہل ایمان عظیم اخلاقی مقام پر فائز ہونے کے باوجود کبھی رنگ‘ کبھی نسل‘ کبھی زبان‘ کبھی علاقائیات و قبیلہ و برادری اور کبھی جزوی فقہی اختلافات میں پڑ کر متفرق و منتشر ہو جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اخوت‘ رواداری اور عدل کے علم بردار اہل ایمان فرقہ پرستی‘ منافرت اور باہمی جدال کا شکار ہو جاتے ہیں۔

فرقہ واریت

اس صورت حال کو دیکھ کر ایک مسلمان ہی نہیں ایک غیر مسلم بھی یہ سوچتا ہے کہ کیا مسلمانوں میں فرقہ واریت اور آپس کے جھگڑوں کا اصل سبب فقہی اختلافات کا پایا جانا ہے؟ کیا مسلمانوں کو ان کے مذہب نے ایسا خون آشام بنا دیا ہے کہ باہمی نفرت‘ تصادم اور خون خرابے کے سوا ان کا کوئی شغل نہیں؟ جب ایک عام تجزیہ نگار مسلمانوں کی صورت حال کا مقابلہ غیر مسلموں کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا سبب ہے کہ عیسائیت میں ۲۵۰ سے زیادہ علیحدہ علیحدہ چرچ اور مسلکی و فقہی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف ایسی نفرت و دشمنی نہیں پائی جاتی‘ جیسی کچھ ملکوں اور علاقوں میں آج مسلمانوں کے فرقوں اور مسلکوں میں پائی جاتی ہے۔

اس تاثر کو شدید بنانے میں عالمی ابلاغ عامہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے حوالے سے تشدد اور قوت کے استعمال کا ذکر اپنی سرخیوں میں نہ کرتے ہوں۔

عالمی سطح پر اُمت مسلمہ کے اختلافات‘ باہمی دشمنی اور آپس کے خون خرابے اور تشدد و قوت کے استعمال کی کہانیاں جب بار بار نظروں سے گزرتی ہیں‘ تو غیر ہی نہیں اپنوں کو بھی یقین سا آجاتا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے بارے میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اورکہا جا رہا ہے وہ سچ ہی ہوگا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو صرف امریکہ کے بڑے شہروں مثلاً نیویارک‘ شکاگو‘ لاس اینجلس‘ فلاڈیلفیا اور ڈیٹرائٹ وغیرہ میں جرائم کی رفتار‘ جن میں قتل‘ جنسی جرائم‘ چوری اور ڈاکا ہر چیز شامل ہے‘ کسی ترقی پذیر ملک سے کم نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ٹائم‘ نیوزویک یا  ایشیا ویک‘ نیز سی این این ہو یا بی بی سی کبھی مسافروں کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ ان شہروں کا سفر اختیار کرتے وقت پہلے قریبی پولیس تھانہ سے رابطہ کریں اور اس کے بعد بازار جائیں‘ جب کہ ملتان یا کراچی میں اگر کوئی فرقہ وارانہ واقعہ وقوع پذیر ہو جائے تو اسے عموم کی شکل دیتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں پائی جانے والی کسی بھی درجے کی تفرقہ بازی زیربحث آجاتی ہے اور بین السطوریہ پیغام پہنچا دیا جاتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان تنگ نظری‘ تشدد پسندی اور مذہبی اور لسانی فرقہ بندی کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی بہت شدومد سے کہی جاتی ہے کہ دینی مدارس سے فارغ علما اور ائمہ‘ اسلام سے زیادہ اپنے مسلک کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی یہ انتہا پسندی مذہبی منافرت اور تشدد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ اب تو دینی درس گاہوں کو تشدد اور لاقانونیت کی تربیت گاہیں بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف یہ امر بھی غور طلب ہے کہ مدارس دینیہ میں بڑی حد تک مشترک نصابی کتب کے باوجود  بعض اداروں میں ایک جامد اور متشدد مسلکی ذہن کیوں تعمیر ہوتا ہے؟ جو طلبہ یہاں سے فارغ ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کے نزدیک بعض روایتی رسموں کے بغیر ایمان نامکمل رہتا ہے اورکسی دوسرے کی نظر میں ایسی تقریبات سے دل پر ایمان کی جگہ ضلالت و گمراہی کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو شاید نظری گفتگوئوں سے اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا تھا‘ لیکن نوبت یہاںتک پہنچ جاتی ہے کہ ان میں سے بعض ائمہ و علما نہ صرف اپنے علاوہ دوسرے فرقے اور مسلک کی تضحیک و تذلیل منبر و محراب سے کرتے ہیں‘بلکہ بعض صورتوں میں دوسرے مسلک کے حاملین کے خون کو بھی حلال قرار دے ڈالتے ہیں۔ ان میں بعض شقی القلب تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مخالف فقہی مسلک کے افراد پر عین حالت قیام صلوٰۃ و قیام اللیل‘ حتیٰ کہ ماہِ رمضان میں حملہ آور ہونے کو بھی’’جہاد‘‘ سمجھتے اور ایسے افعال کو مسلکی فتح مندی کے رنگ میں پیش کرتے ہیں‘ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے۔ انھیں رحماء بینھم کا مصداق قرار دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان خوارج کا خون بھی مباح قرار نہیں دیا تھا جو عملاً ریاست سے باغی ہو گئے تھے___ یہ تمام حالات اور واقعات اس بات پر غوروفکر کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ اس مسئلے کی جڑ کو تلاش کیا جائے کہ آخر ٹیڑھ کہاں ہے۔

اسلام کا نقطۂ نظر

ان ابتدائی گزارشات کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے کہ تفرقہ ہے کیا چیز‘کیا یہ محبوب و مقصود ہے یا مردود و مکروہ ہے۔ قرآن کریم میں فرقہ‘ تفرقہ اور تفریق کے حوالے سے تقریباً ۲۱ مقامات پر مختلف سیاق میں ذکر آیا ہے۔کہیں یہ بات فرمائی گئی کہ علم و ہدایت آنے کے بعد فرقوں میں بٹ نہ جائو (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۵) ۔کہیں اس علم کو رَدّ کیا جو شوہر اور بیوی میں فرق ڈلوا دے (البقرہ ۲:۱۰۲)۔ کہیں واضح ترین الفاظ میں یہ بات سمجھائی کہ حق سے منحرف ہونے والے بعض افراد مسجد جیسی جوڑنے والی‘ اعتصام باللہ بپا کرنے اور اخوت و احترام کرنے والی جگہ کو اہل ایمان کے درمیان ضرر و افتراق کے لیے استعمال کرتے ہیں (التوبہ  ۹:۱۰۷)۔ اور اسی حوالے سے سورہ اٰل عمران میں اعتصام باللہ کے حوالے سے وہ حکم بھی آیا‘ جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا تھا‘ کہ فرقوں میں نہ بٹ جائو (۳:۱۰۳)۔ سورہ الشوریٰ میں تفرقہ بندی کو ایک منفی اور سلبی عمل قرار دیتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد کے ذریعے تفرقہ رکھنے والی ذہنیت کو دُور کرنے کی تعلیم دی گئی۔ یہاں سے یہ اصول بھی نکلا کہ اقامت دین کرنے والی تحریکات کا ذہن فرقہ پرستی کا نہیں بلکہ دین کے حوالے سے امت مسلمہ کو جوڑنے کا ہوگا۔ چنانچہ فرمایا: اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۳) ’’قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو‘‘۔

گویا اسلام‘ تفرقہ بندی اور آپس میں تقسیم ہو کر جتھہ بندی کرنے کی مکمل طور پر مذمت و ممانعت کرتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ اسلام اختلاف رائے اور فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی میں فرق نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام‘ قرآن و حدیث پر غوروخوض کرنے کے بعد خلوص نیت سے مختلف تعبیرات اور فقہی آرا قائم کرنے کی مخالفت کبھی نہیں کرتا ‘بلکہ قرآن کریم اسے محبوب و مطلوب قرار دیتا ہے۔ وہ جہاں دین کے قیام و غلبہ کے لیے اہل ایمان کی ایک جماعت کا جہاد بالسیف میں مصروف ہونا ضروری قرار دیتا ہے‘ وہاں دوسری جماعت (فرقہ) پر دینی مصادر کو سمجھنے‘ فہم دین پیدا کرنے اور دین کی دعوت و تعلیم فرض کر دیتا ہے‘ تاکہ اسلام کی معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ ثقافتی تعلیمات کی وضاحت ہو اور ان تعلیمات کی روشنی میں ایک نقشۂ عمل اور حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ سورہ توبہ(آیت ۱۲۲) میں اسے تفقہ فی الدین کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ تقسیم بھی مطلق نہیں ہے کہ مجاہدین اورفقہا کے ہمیشہ دو الگ الگ طبقات یا گروہ ہوں‘ مجاہد اور عالم‘ دونوں اس جہاد کا حصہ ہیں۔امام ابن تیمیہؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شخصیات میں فکروفن اور سیف و جہاد کا اجتماع بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ استثنائی مثالیں نہیں ہیں۔ عصرحاضر میں جدید تحریکات اسلامی کے بہت سے رجال ان دونوں حیثیتوں کو یک جا کرنے والے افراد تھے۔ انھوں نے اجتہاد‘ مسائل اور جہاد فی سبیل اللہ دونوں کو اختیار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں کام بیک وقت انجام دیے جا سکتے ہیں۔

اس اصطلاحی وضاحت کی روشنی میں دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے پھر تفریق و اختلاف ہے کیا؟ کیا یہ مرض اس صدی کا مرض ہے؟ کیا دین میں اس کی گنجایش ہے؟ کیا قرآن و سنت کے علاوہ کسی مسلک کا پیروکار ہونا بھی فلاح و کامیابی کے لیے ضروری ہے؟

قرآن کریم ہر مسلمان مرد اور عورت کو حکم دیتا ہے کہ وہ دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کر لے کہ  حلال و حرام میں فرق معلوم ہو سکے۔ حدیث شریف بھی حکم دیتی ہے کہ ’’حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے‘‘ اس لیے اس واضح حرام و حلال کا علم اور اس کی روشنی میں مشتبہ کو معلوم کرنے کے لیے تفقہ اختیار کرنا ہوگا۔ قرآن کریم جگہ جگہ اپنے ماننے والوں کو تفکر و تدبر و تفہیم پر اُبھارتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر معاملے میں تحقیق و جستجو کرنے کے بعد ایک موقف اختیار کیا جائے۔ ایک موقف پر مطمئن ہونے سے قبل مقدور بھر بحث و مباحثہ کر لیا جائے۔ چنانچہ مشاور ت کو فریضہ قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے تمام معاملات میں مشاورت کرو اور جب قلب و ذہن ایک مقام پر مطمئن ہو کر یکسو ہو جائیں تو پھر عزم الامور کے ساتھ اللہ پر توکل کر کے اس پر عمل پیرا ہو جائو۔ (اٰل عمرٰن ۳:۵۹  اورالشوریٰ ۴۲:۳۸)

کیا ہر مشورہ‘ ہر تحقیق اور ہر تعبیر لازمی طور پر اجماع کی شکل اختیار کر لے گی؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پورے خلوص نیت‘ علمی عبور‘ اور جائزے و تجزیے کے بعد ایک سے زائد آرا و مسالک یکساں طور پر دین کے دائرے میں ہوں‘ جیسا کہ صحابہ کرامؓ کی اس جماعت کے ساتھ پیش آیا جسے نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ فلاں مقام کی طرف جائو اور وہاں پہنچ کر صلوٰۃ عصر ادا کرنا۔ صحابہؓ کی ایک جماعت نے غالباً قرآن کریم کے اس حکم کی روشنی میں کہ صلوٰۃ مومنین پر کتابا موقوتا ہے اور خود حضورؐ کے ارشاد پر کہ عصر کواوّل وقت پڑھ لیا جائے‘ عمل کرتے ہوئے راستے میں نماز پڑھی‘ اور دوسری جماعت نے اس خیال سے کہ شارع علیہ السلام اور مومنین کے سردار نے حکم دیا کہ صلوٰۃ عصرفلاں مقام پر ادا کی جائے‘ وہاں پہنچ کر نماز ادا فرمائی۔ واپسی پر جب معاملہ آپؐ کے حضور پیش کیا گیا تو آپؐ نے کسی پر گرفت نہیں فرمائی۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو‘ سروں پر ہاتھ پھیرلو اور پائوں ٹخنوں تک دھو لیا کرو‘‘ (المائدہ ۵:۶)۔ یہاں مسح کے حوالے سے ایک سے زائد تعبیرات پائی جاتی ہیں اور آج تک علما و مفسرین نے یہ اصرار نہیں کیا کہ صرف ایک تعبیر ہی درست ہے۔

ہماری اپنی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے امام و سربراہ ہونے کے باوجود شوریٰ کے اصول کو عملاً اختیار فرمایا۔ میدان بدر کے انتخاب کا فیصلہ‘ احد میں مدینہ منورہ سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ‘ غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی تعمیر‘ صلح حدیبیہ کے موقع پر حکمت عملی طے کرنا‘ غرض بے شمار مواقع پر آپؐ نے اپنے فیصلہ کرنے کے اختیار کی جگہ شوریٰ کو اوّلیت دی۔

ابھی آپؐ کے وصال کو چند لمحات ہی گزرے تھے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان خلیفہ کے انتخاب پر اختلاف ہوا اور مختلف آرا سامنے آئیں۔ خود آپؐ کی تدفین کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا کہ تدفین کہاں پر عمل میں لائی جائے۔ ابھی ریاست کے معاملات طے ہو رہے تھے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی پر اختلاف پیدا ہو گیا‘ ساتھ ہی منکرین زکوٰۃ سے جہاد کے مسئلے پر صحابہؓ میں اختلاف کھڑا ہوا۔ یہ مسئلہ اٹھا کہ جو لوگ زکوٰۃ کے منکر ہوں مگر صلوٰۃ ادا کر رہے ہوں کیا ان پر تلوار اٹھائی جائے گی؟ ابھی یہ معاملات طے ہوئے ہی تھے کہ یہ سوال پیدا ہوا کہ جن مقامات پر جہاد کیا جا رہا ہے اور مسلم افواج بغیر کسی مقابلے کے املاک پر قابض ہو جائیں تو کیا یہ بھی غنیمت کی طرح تقسیم ہوں گی یا اموال فئے کے لیے کوئی اور اصول اختیار کیا جائے گا‘ جو زمینیں اس طرح زیرنگیں آئیں گی وہ عشری ہوں گی یا خراجی۔ مختصر یہ کہ امور مملکت ہوں یا بنیادی معاشی‘ اعتقادی‘ معاشرتی و انتظامی مسائل‘ ہر نوع پر صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف کی واضح مثالیں موجود ہیں۔    اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کھلے لفظوں میں فرماتی ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ سے فلاں معاملے میں سہو ہوا‘ اصل بات یوں ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ اور دیگر خلفاے راشدین تعزیر کے معاملے میں اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن کیا ان اہم اختلافات کے باوجود کوئی ایک مثال ایسی ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ سے اختلاف کیا ہو تو حضرت علیؓ نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی بند کر دی ہو؟ یا حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سے بول چال بند کردی ہو؟ یا ان کے ایمان و خلوص پر کوئی شک و شبہہ کیا ہو؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ جب حضرت عثمانؓ پر بیرونی افراد یلغار کرتے ہیں تو حضرت علیؓ بنفس نفیس ،حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو مسلح پہرہ دینے کے لیے حضرت عثمانؓ کے گھر پر مامور کرتے ہیں؟

گویا اختلاف مسلک بجائے خود نہ تو مردود ہے اور نہ نفرت و فساد پیدا کرتا ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جب بھی مصنوعی طریقہ سے اُمت مسلمہ پر کسی ایک مسلک کو مسلط کرنے کا خیال پیش کیا گیا‘ اُمت مسلمہ کے خیرخواہ علما نے اس کی مخالفت کی۔ حضرت امام مالکؒکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے خلیفہ وقت کی خواہش کو رَدّ کرتے ہوئے حدود مملکت میں فقہ مالکی رائج کیے جانے کی مخالفت کی اور اس معاملے کو اُمت مسلمہ کے شعور پر چھوڑ دیا کہ وہ جس فقہی رائے کو چاہے اختیار کرے۔

دَور صحابہؓ  اور بعد کے ادوار میں فقہا و علما اُمت کے اختلافات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر ان میں خلوص نیت کے ساتھ نصوص قرآن و سنت پر مبنی اختلاف کا رجحان نظر آتا ہے‘ یعنی وہ اپنی ذات‘ انا‘ یا اپنے مرشد و شیخ کی اندھی تقلید و پیروی کرتے نظر نہیں آتے۔

امام ابویوسفؒ اور امام محمد الشیبانی ؒ سے بڑھ کر امام ابوحنیفہؒ کا احترام و محبت کس کے دل میں ہوگا۔ دونوں ان کے جانشین اور شاگردانِ رشید ہیں‘ لیکن وہ بھی بہت سے معاملات میں اپنے استاد سے اختلاف کرتے ہیں۔ کیا اس اختلاف کی بنیاد پر وہ توہین استادکے مرتکب قرار دیے جائیں گے؟ گویا ہماری علمی و ثقافتی روایت میں اختلاف کا نہ ہونا ایک اجنبی چیز ہے اور دلیل و برہان کی بنا پر اختلاف ایک فطری حقیقت ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں تحمل‘ رواداری‘ کشادہ دلی‘ اکرام و محبت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اختلاف خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ مخالف کا خون تک بہانے میں دریغ نہیں کیا جاتا۔ ہماری نگاہ میں مسئلہ چاہے کتنا پیچیدہ نظر آتا ہو اگر خلوص نیت اور دیانت داری کے ساتھ اس پر غور کیا جائے تو اس کا حل نہ صرف ممکن ہے‘ بلکہ ہمیں اسے جلد از جلد اختیار کرنا ہوگا۔ منافرت‘ مقاطعہ‘ مقاتلہ اور فساد مستحکم سے مستحکم انسانی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مسلم معاشرے میں جب بھی فروعی اختلافات کو بنیادی اہمیت دی گئی‘ اُمت مسلمہ کی ہَوا اکھڑی (اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہَوا اکھڑ جائے گی۔ انفال ۸:۴۶) اور وہ تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود دشمن کے لیے تر نوالہ بن گئی۔ اس لیے ہمیں خود آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔

کیا مسئلہ بنیادی طور پر عقیدے کا ہے؟ کیا ہر مسلک کے ماننے والوں کے اللہ اور رسولؐ مختلف ہیں؟ یا سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولؐ کی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ہر مسلک کا کعبہ الگ ہے یا سب کا قبلہ حرم کعبہ ہی ہے؟ کیا کسی مسلک کے ماننے والے زکوٰۃ کے قائل ہیں اور کسی کے قائل نہیں؟ کیا کسی مسلک میں روزہ فرض ہے اورکسی میں نہیں؟ ان تمام اور دیگر اس جیسے سوالات پر جتنا غور کیا جائے تو بات واضح ہو جائے گی کہ بنیادی عقیدے کے لحاظ سے معروف سنی و شیعہ مسالک میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں پایا جاتا۔  اس بنا پر ان میں سے کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ وہ فلاں جزوی معاملے میں یہ رائے رکھتے ہیں اس لیے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے اور ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہی ہوگی جو مرتد یا مشرک یا کفار کے ساتھ ہوتی ہے‘ فکر ونظر کا یہ زاویہ دین سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ کوئی شخص جو دین کا فہم رکھتا ہو ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔

فرقہ واریت کے اسباب

پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آئے دن ایک فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا رہتا ہے‘ ایک دوسرے پر تبریٰ کرتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے۔ جائزہ لیا جائے تو اس طرزعمل کے پیچھے تین بنیادی عناصر کارفرما نظر آتے ہیں:

اوّل: خود اپنے بنیادی عقیدے اور دوسرے فرقے کے عقیدے کے بارے میں معلومات کی کمی اور غیر مصدقہ معلومات پر بھروسا کرنا۔

دوم: ہر فارغ التعلیم بلکہ طالب علم کا اپنے آپ کو مقام افتا و قضا پر بٹھا دینا۔ نتیجتاً وہ ایسے بہت سے معاملات میں جن میں فیصلے کا حق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو حاصل ہے بلا کسی تردد کے اپنا فتویٰ جاری کر دیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آخر حضور نبی کریم ؐ نے ایک جلیل القدر صحابی کو مخاطب فرماتے ہوئے یہ بات کیوں فرمائی تھی کہ کیا تم نے فلاں شخص کو قتل کرنے سے قبل اس کے دل کو چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں؟ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ دوران جہاد ایک شخص نے عین حالت جنگ میں اپنے آپ کو قتل کیے جانے سے قبل یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد لاشریک ہے اور حضور نبی کریمؐ اللہ کے رسول ہیں۔ سربراہِ لشکر نے یہ سمجھا کہ یہ شخص محض جان بچانے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے اور اس کے قتل سے ہاتھ نہ روکا۔ حضور نبی کریمؐ نے ان کے اس عمل کو ناپسند فرمایا۔ لیکن ہمارا روزہ مرہ کا مشاہدہ ہے‘ ہرکس و ناکس کے بارے میں محض افواہ اور غیرمصدقہ معلومات کی بنا پر بلاکسی تکلف و تردد یہ فتویٰ صادر کر دیتے ہیں کہ وہ منافق ہے‘ بدعتی ہونے کے سبب ضالین میں سے ہوگیا ‘ اس لیے اس پر ہاتھ اٹھانا جائز ہوگیا۔

سوم: معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید اپنے بین الانسانی تعلقات کو بھی اپنی سیاسی وابستگیوں کے تابع کر دیا  گیا ہے اور جب کسی مسلک کے ماننے والوں کا کسی لادینی جماعت کے ساتھ اتحاد ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مسلکی اختلافات کو سیاسی وابستگی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اگر اس سے آگے بڑھ کر کہا جائے کہ ہمارے ہاں مسلکی تشدد عموماً سیاسی عناصر کے مفادات کی روشنی میں ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

پاکستان میں شیعہ سنی کھچائو کی جڑیں عموماً سیاسی مفادات رکھنے والے افراد تک پہنچتی ہیں اور وہ اختلافات کو ہوا دے کر اور یا ایک دوسرے فرقہ کی پشت پناہی کر کے اپنے لیے مناسب سیاسی فضا پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انھیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اس طرح منافرتوں کی جو خلیج ہر تشدد کے عمل کے نتیجے میں گہری ہوتی چلی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جواب دہی تو کرنی ہی ہوگی‘ خود اس دنیا میں بھی کسی وقت احتسابی عمل کے نتیجے میں انھیں اپنے کیے پر جواب دہی کرنی نہ پڑ جائے۔

دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد انسانی جان‘ خون اور رشتہ کا احترام ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک جان کو بغیر کسی حق کے ضائع کیے جانے کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا۔ اسلامی شریعت میں (جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا     تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔  المائدہ ۵:۳۲) قتل نفس کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایسے تشدد پرست گروہ وجود میں آگئے ہیں جو اپنے نام اور اپنی پہچان حضور نبی کریمؐ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کرنے کے باوجود وہ کام کر رہے ہیں جسے خود اللہ‘ اللہ کے رسولؐ اور ان کے صحابہؓنے شدت سے منع کیا گیا ہے؟

فرقہ واریت کا سدباب: ممکنہ حل

ہمارے خیال میں اس کی ذمہ داری مکمل طور پر دینی مدارس‘ ائمہ و مشائخ اور علما پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہمیںتجزیہ کر کے دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی دینی مدارس کے نصاب میں شیخ الحدیث دورہ حدیث کے دوران ٹینک چلانے‘ ہیلی کاپٹر اڑانے‘ ہوائی جہاز چلانے اور کلاشنکوف کی ساخت‘ فوائد اور ترکیب استعمال کی عملی تربیت بھی دیتے ہیں یا وہ اپنے طلبہ کو تفسیر حدیث‘ فقہ اور عقیدہ و کلام کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا تشدد کا رویہ صرف دینی مدارس کے طلبہ اختیار کرتے ہیں یا قومی محرومیوں نے سرکاری یونی ورسٹیوں کے     ہر کیمپس پر ایسے طلبہ کے گروہ پیدا کر دیے ہیں جو اکثر مسلح رہتے ہیں اورآپس میں قتل و غارت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے حوالے سے طالبان کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ وہ محض فقہ و حدیث کے طالب علم نہیں بلکہ عسکری تربیت یافتہ افراد ہیں۔ لیکن یہ بات کہنے والے اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ۱۵۰۰ سال کی اسلامی روایت علم یہ بتاتی ہے کہ آج تک کسی شیخ الحدیث نے اپنے طلبہ کو ٹینک اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت نہیں دی۔ پھر طالبان یہ سب کچھ سیکھ کر کہاں سے آگئے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ جس ہیئت مقتدرہ نے انھیں یہ تربیت دی وہی آج دوسروں پر الزام دھرتے ہیں۔ یہ کون سا انصاف ہے؟ اس جملۂ معترضہ سے  قطع نظر‘ جو حقیقت واقعہ (ground reality) پائی جاتی ہے ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

۱- اس پیچیدہ اور اُلجھے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے پہلا اقدام خود نوعیت مسئلہ کا تعین و تجزیہ ہے اور یہ کام باہر سے آنے والا کوئی امریکی یا برطانوی مستشرق نہیں کرے گا‘ اسے ان افراد کو کرنا ہوگا جو خود کو مختلف ممالک کا ’’نمایندہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ نمایندہ مسالک خواہ وہ شیعہ ہوں‘ دیوبندی ہوں‘ بریلوی ہوں یا اہل حدیث ہوں‘ انھیں مل کر معروضی طور پر ایک تجزیاتی عمل کے ذریعے مسئلے کا تعین کرنا ہوگا کہ اصل سبب کیا ہے؟ اس کی جڑیں کہاں تک پہنچتی ہیں اور اس کے محرکات کیا ہیں؟

۲- فقہی مسالک کے نمایندہ علما کو ایک مرتبہ نہیں بار بار ایک مستقل فورم کی شکل میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے مسلک کے ماننے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ‘ امن عامہ کے قیام‘ نفرتوں کے خاتمے اور اخوت و حق کے قیام کے لیے اپنی مخلصانہ رائے دینی ہوگی۔ وہ دوعملی اختیار نہیں کر سکتے کہ نجی محفلوں میں یا کسی قومی کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر قیام امن اور اتحاد امت کی کسی قرار داد پر دستخط بھی کر دیے جائیں اور ساتھ ہی ان کے مسلک کی ایک سپاہ دوسروں کے اعوان و انصار سے نبردآزما بھی ہو جائے۔

۳- تشدد‘ قتل و غارت اور اختلافات کی پیدا کردہ منافرت کو دُور کرنے کے لیے علما اور مسالک کے رہنما افراد کو آگے بڑھ کر ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات باور نہیں کی جا سکتی کہ ایک مسلک کے سربراہ تو ایک متوازن الفکر معروف عالم دین ہوں لیکن اسی مسلک کا ایک عسکری تربیت یافتہ گروہ بھی ہو‘ جو جہاں جب چاہے شب خون مارنے کے لیے آزاد ہو۔ ظاہر ہے ایسے گروہ کی قیادت جن‘ بھوت یافرشتے تو کرنے سے رہے۔ کسی مسلکی سربراہ کی رائے کے خلاف ایسے افراد کا کوئی کام کرنا عقل نہیں مان سکتی۔ گویا مسالک کے سربراہان کو عوامی سطح پر امن کے قیام‘ انسانی جان کے احترام اور قتل و غارت گری کے خاتمے کے لیے اپنا جوہری کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے مسلک کے پیروکار افراد کے مثبت اور منفی تمام کاموں کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔

۴- ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ انسانی مسائل کا حل تنہا قوت کے استعمال سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ مسلکی گروہ بھی جو غیر دانستہ طور پر ایک دہشت پسندانہ طرزعمل کا شکار ہو گئے ہیں‘ انھیں موجودہ تشدد کی ثقافت کی گرداب سے نکلنے کے لیے جرأ ت مندی اور خلوص نیت کے ساتھ اصلاح حال کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ مسائل کے حل کے لیے حملے اور جوابی حملے کی جگہ عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے باہمی اعتماد اور ملکی یک جہتی کے قیام کے لیے ان تلخ دشمنیوں کو دفن کرنا ہوگا جو وقتاً فوقتاً کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آستین کا لہو زیادہ عرصہ چھپا نہیں رہتا اور جلد یا بدیر حقائق سے پردہ اٹھ کر رہتا ہے‘ اس لیے متعلقہ مسلکی گروہوں کو آنے والی نسلوں کے خیال سے نفرتوں کی اس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانا ہوگا خواہ اس عمل میں ان کے اپنے ہاتھوں پر آبلے پڑ جائیں۔

۵- جماعت اسلامی جو اس خطے میں واحد غیر مسلکی دینی‘ اصلاحی‘ دعوتی اور سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اسے بھی اس ملّی اہمیت کے معاملے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے ارکان‘ امرا‘ ارکان شوریٰ غرض قیادت میں ہر سطح اور درجے پر اہل حدیث‘ دیوبندی اور بریلوی فکر کے افراد و علما شامل ہیں۔ اس میں فقہ جعفریہ سے وابستہ حضرات بھی شامل رہے ہیں۔ یہ وہ واحد دینی جماعت ہے جو دیگر جماعتوں کے سربراہان و مخلصین کو بلا کسی تردد و تکلف ملّی یک جہتی کے لیے دعوت دے سکتی ہے۔ لیکن یہ کام محض کانفرنسوں سے نہیں ہو سکتا۔ اس غرض سے ایک مستقل رابطہ گروپ تشکیل دینا ہوگا‘ جس میں بار بار ملاقاتوں کے نتیجے میں اعتماد کی بحالی اور دلوں میں قربت پیدا ہو سکے۔ اس تعمیری اور طویل عمل میں ایک دوسرے سے واقفیت‘ ذاتی تعلّق اور تعمیر اعتماد (confindence building) بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

۶- مختلف مسالک کے جیدعلماے کرام اور بزرگان دین کو بھی عزم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مسلک کو مزید بدنام نہ ہونے دیں گے اور جو دست شرانگیز ان کے مسلک کے بعض حضرات کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہوں‘ ان کو پہچانتے ہوئے اس دخل اندازی کو جرأت کے ساتھ بند کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ لازمی طور پر ان معاملات میں حکومت کو خلوص نیت اور مکمل عزم کے ساتھ‘ اس عمل میں برابر کا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ ایک طرف اسے اپنے اداروں کو اس غرض سے حرکت میں لانا ہوگا اور دوسری طرف عدلیہ کے احترام کو بحال کرنا ہوگا۔ ابلاغ عامہ کو بھی ایک تعمیری رُخ پر چلنا ہوگا اور اطلاعات کے ذریعے سنسنی پھیلا کر اپنے مذموم کاروبار کو چمکانے کی جگہ ان اداروں اور افراد کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا جو دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اگر اپنے مفادات کے پیش نظر ابلاغ عامہ کے اجارہ دار‘ اقتدار میں شریک دو جماعتوں میں جس کے بارے میں چاہیں اور جب چاہیں تحقیقات پر مبنی جائزے چھاپ سکتے ہیں کہ کس کی کتنی املاک کہاں پائی جاتی ہیں تو کیا دہشت گردوں کے خلاف اس قسم کی تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔

۷- قومی ابلاغ عامہ کی ذمہ داری بھی اس سلسلے میں غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ بعض علما اس دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو حکومتی ابلاغ عامہ (ریڈیو/ ٹی وی) کو کس نے روکا ہے کہ وہ ملک کے بڑے اور چھوٹے تمام نمایندہ علما کو یکے بعد دیگرے ٹی وی پر بلا کر خود ان سے براہِ راست اس مسئلے کا حل دریافت کریں اور معروضیت اور کشادگی کے ساتھ ان کی آرا کو بغیر کسی ترمیم کے نشر کریں۔ یہ سمجھنا کہ اس طرح کشیدگی بڑھ جائے گی‘ بے بنیاد واہمہ ہے۔ ہر فرد اپنی جماعت کی ذات کے حوالے سے خوب سمجھتا ہے کہ کس بات کے کہنے سے مثبت یا منفی تاثر پیدا ہوگا۔ اس لیے براہِ راست ان حضرات کا ٹی وی پر آنا خود یہ واضح کر دے گا کہ آخر اس ہنگامے کے پس پردہ کون ہے؟ اگر یہ علما اپنی بریت کا اعلان کرتے ہیں تو پھر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ تشدد و دہشت گردی کا کون ذمہ دار ہے؟ اور یہ قصہ پیدا کس نے کیا ہے؟ اس قسم کے قومی اہمیت کے حساس موضوعات پر بات کھل کر ہونی چاہیے۔ پس پردہ جوانمردی دکھانا اور سامنے بھولے پن کا مظاہرہ کرنا عوام کی نگاہ سے نہیں چھپ سکتا۔ عوام خوب سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟

تحریک اسلامی کی ذمہ داری

یہ مسئلہ ملک کی بقا سے وابستہ ہونے کے سبب تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اوّلاً تحریک کی بنیاد ہی حریت فقہ پر ہے۔ چنانچہ جماعت کی تاسیس (اگست ۱۹۴۱ء) سے آج تک جماعت نے اپنے دروازے ہر مسلک کے ماننے والے متلاشیان حق کے لیے کھلے رکھے ہیں۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی‘ جو دعوت دین کے بنیادی مزاج کے منافی ہے‘ ہمیشہ کھل کر مخالفت کی ہے۔ ثانیاً تحریک اسلامی کا مقصد اس ملک عزیز میں اقامت دین اور صالح افراد کی قیادت کا قیام ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب دین سے تعلق رکھنے والے افراد میں ایک دوسرے کے لیے احترام‘ محبت اور اخوت کے جذبات ہوں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی ڈھال تھے۔ ان کے ہاتھ‘ ان کی زبان‘ بلکہ ان کے ذہن تک ایک دوسرے کے بارے میں برے خیالات سے محفوظ تھے۔

جو جماعت صحابہ کرامؓ کے اسوہ اور اسوہ رسولؐ کو بنیاد بنا کر معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی و قانونی اصلاح کی داعی ہو‘ اس کے لیے یہ بات فریضے کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ جہاں بھی اپنے دو دینی بھائیوں کو مقابل دیکھے فاصلحوا بین اخویکم کے ابدی عالمی اسلامی اصول کی روشنی میں صلح جوئی کی کوشش اور دلوں کوجوڑنے کے لیے اپنا فرض ادا کرے۔ ثالثاً تحریک اسلامی نے اس ملک کے قیام میں گذشتہ صدی کے چوتھے عشرے سے جو نظری اور عملی کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم لیگ نے محترم مولانا مودودیؒ کی کتاب مسئلہ قومیت (جس میں انھوں نے وجودِ پاکستان کے لیے نظری بنیاد فراہم کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ مسلمان اور ہندو ایک قوم نہیں ہیں‘ چنانچہ ہماری ثقافت‘ ہماری تاریخ‘ ہمارے ہیرو سب ان سے مختلف ہیں) کو کثیر تعداد میں جگہ جگہ تقسیم کیا۔جس طرح اس ملک کے قیام میں تحریک نے کردار ادا کیا اور ایسے ہی اس میں اتحاد و یک جہتی کے قیام کے لیے بھی اسے قیادت کرنی ہوگی۔ رابعاً اس ملک میں نظام اسلامی کے قیام کے لیے تحریک اسلامی کو ان تمام قوتوں کو اپنے سے قریب لانا ہوگا جو خود کو مذہبی جماعتیں کہتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان جماعتوں میں اپنے مخالف مسلک کے افراد کے لیے کم از کم عداوت اور دشمنی کے جذبات نہ ہوں۔

رواداری اور صبروتحمل وہ اعلیٰ دینی اقدار ہیں جن پر عمل کرنا مومن کے ایمان کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ صوبائی ‘ ضلعی‘ شہری اور محلہ کی سطح پر رواداری کے لیے ایک مسلسل تعلیمی جہاد کرنا ہوگا۔ اس جہاد کے نتائج ممکن ہے آج نظر نہ آئیں لیکن یہ کام آنے والی نسلوں کی طرف سے ایک قرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلکی اختلافات سے بلند ہونے کے سبب تحریک اسلامی ہی وہ ادارہ ہے جو  اس کام کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ غیر جانب داری سے کر سکتا ہے۔

 

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا گراں قدر مقالہ ’’معاصر اسلامی فکر: چند غور طلب پہلو‘‘ (اکتوبر‘ نومبر ۲۰۰۱ء) دراصل ان مسائل کی عکاسی کرتا ہے جو تحریک اسلامی کو خاص طور پر اور عالم اسلام کو عام طور پر درپیش تھے اور ہیں۔ اس کو گوشوارئہ مسائل بھی کہا جا سکتا ہے اور ریسرچ پروجیکٹس بھی۔ اس میں انھوں نے مختلف مکاتب فکر کے مختلف میدانوں میں موقف کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ سب حل طلب فکری اور عملی مسائل ہیں۔

مجھے ان میں بعض مسائل کی کمی بہت کچھ کھٹکی۔ مثال کے طور پر معاشی میدان میں کئی کئی بلین ڈالر کی زرکاری کی راہیں‘ وسائل اورذرائع جو فی الحال حصص کے بازاروں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں__ یہ گھمبیر مسئلہ ہے۔ اس کا حل ناگزیر ہے۔

ایک دوسرا مسئلہ‘ میرے نزدیک‘ عصرحاضر کے امن اور جنگ کے وہ مسائل ہیں جو براعظموں کو عبور کرنے والے میزائل‘ بایالوجیکل جنگ اور کیمیکل جنگ کے زیر سایہ اُبھر آئے ہیں۔ یہ سب کے سب کلی جنگ کے تصور کا نتیجہ ہیں جس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے۔ اس سے کسی قوم کے کسی گروہ یا طبقے کو مستثنیٰ قرار دینا تقریباً ناممکن ہے۔ ان ہتھیاروں کی پیداوار ‘ان کی دیکھ ریکھ اور متعلقہ ریسرچ کے لیے مستقبل کی کسی اسلامی معیشت کو اتنا بڑا اور پیداواری (productive)ہونا چاہیے کہ وہ ان بے تحاشا اخراجات کو برداشت کرسکے۔ ظاہر بات ہے کہ مستقبل کی اسلامی ریاست کو ان مستقبل کے ہتھیاروں سے مسلح ہونا ہے۔ اس لیے عورتوں کا نجی پیداواری سرگرمیوں میں‘ شرعی حدود کے اندر حصہ دار بننا ازحد ضروری ہے۔ اس ضمن میں پردہ‘ تعلیم نسواں‘ آزادی نسواں‘ زن و شو کے حقوق وغیرہ کے مسائل ازخود ظاہر ہو کر ہم سے حل کا مطالبہ کرتے ہیں۔

امن و جنگ کے مسائل کے ضمن میں اور ان کی ہمہ گیری کی وجہ سے ایک نئی فقہ کی‘ جس کو     ’’الفقہ الاستراتیجی‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے‘ بنیاد ڈالنے کی ضرورت ہے جو ہمہ گیر نقطۂ نظر اور پہلوئوں سے ہرمیدانِ فکروعمل میں طویل المیعاد لائحہ عمل تیار کر سکے۔ اگر ہم واقعی ۲۱ ویں صدی میں داخل ہونا‘زندہ رہنا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیںتو فکروعمل کی یہ ہمہ گیر حکمت عملی اُمت مسلمہ کی اشد ضرورت ہے۔

ایک قدم آگے بڑھیے تو فتویٰ صادر کرنے والوں__ خصوصاً جنگ و امن کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے والوں کو نئی ضروریات اور صلاحیتوں اور تخصص کی طرف خاص توجہ دینا ہوگی ورنہ بار بار افغانستان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغان مسئلہ دراصل قرونِ وسطیٰ کی ذہنیت کے علما کے فتوئوں کا نتیجہ ہے جن کو بین الاقوامی کش مکش کا کچھ بھی علم نہیں تھا اور نہ آج ہے۔ اس لیے ان امور میں فتویٰ صرف اور صرف استراتیجی فکر پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ حکام وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے۔ اس سلسلے میں جنگ و امن کی عام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ’’الفقہ الاستراتیجی‘‘ کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت کی پکار ہے۔

اب‘ جب کہ جاپان میں شرح سود تقریباً صفر ہے تو کوئی ایسا وسیلہ دریافت کریں جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس شرح سود سے پہلے زرکاری اور بچت اور منصوبوں کے نفع نقصان کے کیا پیمانے جاپان میں تھے اور اب کیا ہیں اور آیندہ کیا ہو سکتے ہیں؟ اسی قسم کے اشارات محدود یا وسیع پیمانے پر امریکہ‘ یورپ اور دوسرے علاقوں اور ملکوں میں شرح سود کے مسلسل گھٹائے جانے کے نتیجے میں بھی مطالعہ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی سود اور غیابِ سود کے نتائج کے گہرے مطالعے کا سنہری موقع ہے۔ اس پر خاص اور فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ عالم اسلام کے دانشور اس طرف بھرپور توجہ دے کر کوئی لائحہ عمل بروے کار لائیں گے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنے مقالے میں جن اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے‘ ان پر کام کی ضرورت کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ آنے والے کل میں تو اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ متحرک اسلام (dynamic Islam) کا تصور اس کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ہر وقت پیش کیا جاتا رہے تاکہ مولانا مودودیؒ کی تعبیرات کو حرفِ آخر سمجھ کر ان بے شمار مشکلات کو پیدا ہونے سے روکا جا سکے جن کی طرف خود مولانا مودودیؒ نے صاف صاف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’میں نے جو کچھ بھی لکھ دیا ہے اس کو تمام حالات کے لحاظ سے اگر حرفِ آخر سمجھ لیا گیا تو بے شمار مشکلات پیدا ہوں گی‘‘ (اسلام‘ معاشیات اور ادب‘ نجات اللہ صدیقی‘ ص ۵۵)۔ یہ ان کے بڑے پن کی ناقابل انکار دلیل ہے۔ یہی ایک کامیاب قائد کی شان بھی ہے!!

اس ضمن میں مولانا علی میاں ؒ کا تبصرہ آنکھیں کھولنے والا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’آپ نے بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کو زیادہ دنوں تک نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کونظرانداز کرنے کی اس عالم اسباب میں اکثر وہی سزا ملتی ہے جو متعدد آزاد ہونے والے ممالک اور مسلم معاشرے کو اس دور میں بھی ملی ہے‘ اور وہ زیادہ تر اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین کے حصہ میں آئی ہے‘‘۔ اس کا آخری فقرہ‘ تو آج خصوصاً طالبان کے اسلام کے تصور کے تناظر میں سو فی صد صحیح ہے۔

اس سلسلے میں‘ صرف پردے کے سلسلے میں مردوں کے ’’مردانہ اسلام‘‘ کا ذکر کروں گا جس کی رُو سے آیاتِ حجاب کی تفسیر مردانہ نقطۂ نظر سے کی گئی ہے۔

یہی معاملہ عورتوں کی تعلیم کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میدان تعلیم و تحقیق میں خواتین کے عنصر کو نظرانداز نہ کیا جائے۔اسلامی تحریک کو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی خدمات کی بھی ضرورت ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس اہم مسئلے پر تحریک سے وابستہ مفکرین اور دیگر اہل قلم و دانش کو دعوت تحریر دینا چاہیے۔

جماعت اسلامی میں اجتہادی فکر اور الفقہ الاستراتیجی کے رواج کی ضرورت ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ محض روایت پسندی یا علما کی تقلید ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ جدید تقاضوں کے پیش نظر    قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کی راہ اپنائی جائے۔ محض تقلید جمود ہے۔ جمود ترقی معکوس ہے اور تنزل کی راہ ہے۔ علما کو بھی جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے روایتی موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے اور تقلید محض کی روش کو ترک کرنا چاہیے۔ ماضی میں بھی جماعت اسلامی اجتہادی فکر کی علم بردار رہی ہے اور آج بھی اسے اس میدان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ایک مثبت‘ طویل المیعاد پروگرام اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ محض وقتی مسائل کی بنا پر لائحہ عمل اور حکمت عملی اپنانا دانش مندی نہیں۔ علماے کرام کو بھی ان امور کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور نئے حالات کا ادراک کرتے ہوئے وسیع تر تناظر میں رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔

یہ علمی و تحقیقی کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے غفلت خودکشی کے مترادف ہے!

 

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کا ذمہ دار جو بھی ہو‘ اس کے یہ اثرات تو سب کے سامنے ہیں کہ بدلی ہوئی دُنیا میںحق و انصاف اور آزادی و حقوق کی ہر طرح کی جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر کے‘ اسے بیخ و بن سے اُکھاڑنے کا کام عالمی سطح پر شروع کر دیا گیا ہے۔ طویل جدوجہد کی خبر دی جا رہی ہے (اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں ۴ سال بھی لگ سکتے ہیں!)‘ اور جہاں جہاں اس طرح کی جدوجہد جاری ہے خصوصاً جہاں مسلمان مظلوم ہیں‘ ظالموں کو ہر طرح کی امداد پہنچائی جا رہی ہے اور دہشت گردی ختم کرنے کے عنوان سے باہمی معاہدے ہو رہے ہیں۔

ایسا ہی ایک منظر فلپائن میں مورو تحریک آزادی کا ہے جہاں مظلوموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

فلپائن ۷ کروڑ سے زائد آبادی اور ۷ ہزار سے زائد جزائر پر مشتمل مسیحی ملک ہے جو انڈونیشیا اور ملایشیا کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ فلپائن کے جنوبی اضلاع مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوب کے ۱۳ صوبوں میں مسلمانوں کی آبادی ۵۰ لاکھ ہے‘ جب کہ مسلمانوں کے مطابق ۹۰ لاکھ ہے۔

جنوبی فلپائن میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مسلمان گذشتہ چار سو سال سے سرگرم عمل ہیں۔ اس جدوجہد کو دُنیا کی طویل ترین جدوجہد میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ پندرھویں صدی کے آغاز میںیہاں مسلمانوں کی دو عظیم الشان ریاستیں سولو اور میگندانو تھیں۔ ۱۵۲۱ء میں ہسپانیہ نے قبضہ کرلیا۔ ۱۸۹۶ء میں امریکہ نے ۲کروڑ ڈالر کے عوض یہ علاقہ خرید لیا اور مسلمانوں کے علاقے جبراً فلپائن کا حصہ بنا دیے گئے۔ یہاں سے مسلمانوں پر ظلم و جبر اور استحصال کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں کو مورو کے نام سے پکارا جانے لگا۔ فلپائن کی آزادی کے بعد ۱۹۶۸ء میں داتو اتوگ متالان نے آزاد اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور مجوزہ آزاد مملکت کا نام بنگسا مورو رکھا۔ ۱۹۷۷ء میں دو گروہ بن گئے۔ ایک مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (MILF) جس کے سربراہ سلامت ہاشم ہیں۔ دوسرا گروہ مورو نیشنل لبریشن فرنٹ (MNLF)ہے جس کے سربراہ نور میسواری ہیں اور ایک تیسری تنظیم بھی ہے جس کی سربراہی ابوسیاف کرتے ہیں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بالآخر مسلمانوں نے مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز کر دیا (تفصیل کے لیے دیکھیے: ترجمان القرآن ‘ اخبار اُمت‘ ستمبر ۱۹۹۵ء)

اس جدوجہد کے نتیجے میں حکومت سے مذاکرات کے کئی دور بھی ہوئے۔ مسلمانوں کی معاشی ‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور تہذیبی حالت کی بہتری کے لیے اقدامات کے دعوے بھی کیے گئے مگر ان پر عمل درآمد نہ ہوا اور مسلمان مسلسل جبرواستحصال کا شکار رہے۔ آخری معاہدہ سعودی عرب‘ انڈونیشیا اور ملایشیا کے تعاون سے ۱۹۹۶ء میں ہوا تھا‘ اسے: Autonomous Region for Muslim Mindanao (ARMM) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا تھا کہ حکومت مسلمانوں کو جنوبی اضلاع میں خودمختاری دے گی‘ دوسرے شہریوں کے برابر حقوق دے گی اور اسلامی تشخص بحال کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے تحت نورمیسواری کو ۱۹۹۶ء میں جنوبی اضلاع کا گورنر مقرر کیا گیا‘ جب کہ سلامت ہاشم نے اس معاہدے کو ردّ کر دیا اور جدوجہد آزادی جاری رکھی۔

عملاً معاہدے پر کس حد تک عمل درآمد ہوا‘ اس کا اندازہ رابطہ عالم اسلامی کی جاری کردہ ایک رپورٹ سے بہ خوبی ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق: فلپائنی حکومت کا ’’مورو غداروں‘‘ کے ساتھ امتیازی سلوک اہتمام سے جاری ہے۔ تعلیم‘ روزگار ‘ ملازمت‘ صحت‘ سرکاری شعبوں اور غیر سرکاری اداروں میں ان غریب مسلمانوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے برعکس سابق ڈکٹیٹر صدر مارکوس نے ممکنہ بغاوت کو کچلنے کے لیے جدید اسلحے سے لیس ہزاروں فوجی تعینات کر دیے تھے تاکہ باغیوں اور حریت پسندوں کا قلع قمع کر سکے۔ چونکہ فلپائن امریکی بلاک میں عرصۂ دراز سے ہے اور امریکی اڈّے بھی موجود ہیں‘ اس لیے کمیونسٹ تحریک سے تعلق کا الزام عائد کر کے مورو قومی محاذِ آزادی (MNLF)کے خلاف مسلسل کارروائی کی جاتی رہی‘ جب کہ اس کا کمیونسٹ تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۱۱ ستمبر کے واقعات کے فوراً بعد حکومت فلپائن نے ۱۳ جنوبی اضلاع سے ۱۹۹۶ء میں ہونے والا معاہدہ یک طرفہ طور پر کالعدم قرار دے دیا۔ امریکہ نے نومبر ۲۰۰۱ء میں ۳۹ ملین ڈالر کی رقم فراہم کی تاکہ دہشت گردی کو نابود کرنے کے لیے جدید ترین اسلحہ خریدے اور اپنے سپاہیوں کو اعلیٰ ترین تربیت دے سکے۔ (ایشیا ویک‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۱ء)

فلپائن کی موجودہ خاتون صدر گلوریا میگاپیگال ارویو نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی سربراہ کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف قرارداد منظور کروائی اور یہ یقین دہانی حاصل کی کہ ان ممالک نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جس طرح امریکہ کے ساتھ تعاون کیا ہے‘ اسی طرح فلپائن کے ساتھ تعاون کریں گے تاکہ جنوب مشرقی ایشیا کو پرامن علاقہ بنایا جا سکے۔

ساتھ ہی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا جاری ہے۔ ولنسنٹ سوٹو میموریل میڈیکل سنٹر کے ڈاکٹر جوز دوکادائو نے قومی روزنامے فلپین سٹار کی ۱۹ ستمبر کی اشاعت میں لکھا: ’’بنی نوع انسان کس قدر احمق ہیں کہ بدی کو پہچانتے ہی نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بنیاد پرستوں کی تلوار نے کتنے ہی انسانوں کو قتل کر کے سمندروں میں پھینک دیا تھا۔ ۱۴ سو سال قبل اسلام کے آغاز سے موجودہ دور تک اس مذہب نے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف تشدد‘ ظلم و زیادتی اور نفرت کو فروغ دیا ہے۔ نفرت کا سرچشمہ آج نہیں‘ ۱۴ سو سال سے قرآن ہے جسے مسلمان رہنمائی کا خزینہ قرار دیتے ہیں۔ کسی بھی وقت پرُامن مسلمان دہشت گردوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ قرآن کی موجودگی انسانیت کے لیے بدی کی علامت ہے‘‘۔

ملایشیا کے معروف دانش ور ڈاکٹر فارش اے نور جنوبی فلپائن کے تازہ ترین حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسلام سے نفرت کرنے والے سرکردہ مذہبی و سیاسی عناصر نے کوشش کی ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کو بنیاد بنا کر کارروائی تیز کر دی جائے۔ مغربی ممالک کی عمومی طور پر اور سابق نوآبادیاتی حاکم امریکہ کی خوشنودی خصوصی طور پر حاصل کر لی جائے۔ صدر ارویو‘ امریکہ‘ سنگاپور‘ ملایشیا اور انڈونیشیا کے دارالحکومتوں کا کئی بار دورہ کر چکی ہیں تاکہ آیندہ کارروائی میں‘ ہمسایوں کی جانب سے مزاحمت نہ ہو۔ امکان ہے کہ ارویو‘ تشدد کے جو نئے حربے اور قوت کے بے محابا استعمال کے جو نئے فارمولے جنوبی فلپائن میںآزمانا چاہتی ہیں‘ اُنھیں بیرونی دُنیا سے کسی مزاحمت کا سامنا نہ ہوگا۔

صدر ارویو جولائی ۲۰۰۱ء میں اعلان کر چکی ہیںکہ جو دہشت گرد تاوان براے اغوا کی سرگرمیوں میں منسلک ہیں اُن کے خلاف مکمل جنگ ہوگی اور کسی قسم کے مذاکرات نہ ہوں گے۔ جزائر جولو کی آبادی ۲ لاکھ ۳۰ ہزار ہے۔ ۵ ہزار فوجیوں کے ذریعے کارروائی کی گئی‘ مساجد کی تلاشی لی گئی اور گھروں کو نذرِآتش کیا گیا۔ حکومتی ذرائع نے اعلان کیا کہ ہم ۸۰ مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا اُن میں مقامی جج‘ مذہبی راہنما‘ تاجر‘ طالب علم اور دیگر نمایاں لوگ ہیں۔ فلپائنی فوج کے سربراہ نے اعلان کیا کہ: یہ توابھی آغاز ہے!

مورو جزائر کے لوگ فلپائن کی فوج کی ستم رانیوں سے خوب آگاہ ہیں۔ امپیکٹ انٹرنیشنل لندن (اگست ۲۰۰۱ء) کی رپورٹ کے مطابق: ’’فوجی دستے دیہاتوں کو گھیر لیتے ہیں اور مقامی آبادی کو ہراساں کیا جاتا ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ اُن کے کس باغی‘ حریت پسند سے تعلقات ہیں۔ جو انکار کریں اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جولو کی آبادی کے بارے میں گماں کیا جاتا ہے کہ وہ چھاپہ ماروں کے ہمدرد ہیں‘ اس لیے اُن پر آفت ٹوٹتی رہتی ہے۔

بحرالکاہل میں امریکہ کی بحری افواج کے سربراہ ایڈمرل تھامس فارگو نے فلپائن کی قومی سلامتی کے مشیر روئے لو گولز سے ملاقات کی اور اُسامہ بن لادن کے جنوبی فلپائن کی تحریک آزادی سے تعلقات اور سدباب کے موضوعات پر تفصیلی بحث کی۔  فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے نمایندے نے اپنی رپورٹ (۱۱اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں لکھا ہے:

۱۹۹۲ء کے بعد سے منیلا اور واشنگٹن کے تعلقات میں کھچائو موجود ہے۔ کانگرس نے رائے شماری کے ذریعے فیصلہ دیا تھا کہ امریکہ‘ فلپائن سے اپنی افواج واپس بلا لے۔ اگرچہ امریکی افواج یہاں ۱۰۰ برس سے موجودچلی آرہی ہیں‘ لیکن سانحۂ نیویارک کے بعددونوں ممالک کے تعلقات میں ازسرنوگرم جوشی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد ایک ہی پرچم تلے ہونا چاہیے۔

حکومت فلپائن نے بن لادن کے خلاف مہم میں امریکہ کی بے حد و حساب معاونت کی‘ اور اس کے جواب میں فلپائن کے دہشت گرد گروہ ابوسیاف کے خلاف ممکنہ امداد کا وعدہ لیا ہے۔ فلپائن کے اعلیٰ افسران اب یک سو ہو چکے ہیں کہ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں اور امریکہ کے تعاون سے مذکورہ گروپ کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں۔

۱۷ جنوری ۲۰۰۲ء کی خبر یہ ہے کہ وزیر دفاع رمس فیلڈ کے اعلان کے مطابق امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فلپائن میں ۶۰۰ فوجی اور ۱۰۷ کمانڈوز اُتارے ہیں جو ابوسیاف گروپ کے مقابلے کے لیے مقامی فوج کو تربیت دیں گے اور اقدام کریں گے۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت حال کے سب سے زیادہ فوائد شاید صہیونی ریاست نے سمیٹے ہیں۔ ایک طرف تو اس نے اور اس کے زیراثر عالمی ابلاغیاتی اداروں نے اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی کے مترادف قرار دے دیا‘ اور دوسری طرف دنیا کی ساری توجہ افغانستان پر مرکوز دیکھ کر نہتے فلسطینی عوام کے خلاف ایک مکمل جنگ مسلط کر دی جس میں ایف ۱۶ طیاروں اور امریکی ہیلی کاپٹروں ’’اباچی‘‘ سے لے کر اپنے سفاک توپ خانے‘ ٹینکوں اور میزائلوں تک ہر نوع کا اسلحہ استعمال کیا۔ دُنیا میں کہیں اس ظلم و دہشت گردی کے خلاف آواز نہیں اٹھی۔ جنگی جرائم سے بھرپور تاریخ رکھنے والے صہیونی وزیراعظم آرییل شارون نے برسرِاقتدار آتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ’’ایک ماہ کے اندر اندر تحریک انتفاضہ کو اس کے انجام تک پہنچا دوں گا‘‘، اس نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ۱۱ ستمبر کے بعد وہ خون کے مزید دریا بہا رہا ہے لیکن جہاد…؟ جہاد مزید توانا ہے!

حالیہ تحریک انتفاضہ کا آغاز ۳ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اس وقت ہوا تھا جب آرییل شارون اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے مسجد اقصیٰ میں جا گھسا تھا اوراعلان کیا تھا کہ یہ سب اسرائیل کا حصہ ہے اور مجھے یہاں آنے کے لیے کسی کی اجازت درکار ہے نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے۔ گذشتہ ۵۳ برس سے قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے والے فلسطینی عوام نے اس کی اس دریدہ دہنی کاایسا عدیم المثال جواب دیا کہ خود یہودی بھی شارون کے اس اقدام کو حماقت قرار دینے لگے۔

تقریباً ڈیڑھ برس سے جاری حالیہ تحریک نے ہزاروں شہدا پیش کیے ہیں۔ ۱۱ ستمبرسے لے کر اب تک تقریباً چار ماہ کے عرصے میں ۸۰۰ سے زائد شہدا اور ۳۵ ہزار سے زائد زخمی‘ صہیونی سفاکیت و درندگی کا شکار ہو چکے ہیں لیکن دہشت گردی اور مجرم پھر بھی فلسطینی اور مسلمان ہی قرار پاتے ہیں۔ذرا ملاحظہ فرمایئے جیسے ہی محکوم عوام یا کوئی فدائی کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ امریکہ سے کیا بیانات آتے ہیں:

صدر بش: ’’یاسر عرفات دہشت گردی ختم کرنے کے لیے صرف بیانات نہ دیں‘ عملی اقدام کریں۔ حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف موثر کارروائیاں کرنا ہوں گی‘‘۔ وزیر خارجہ کولن پاول یاسر عرفات سے فون پر بات کرتے ہوئے: ’’فلسطینی کارروائیوں کے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کریں‘‘۔ پھر بیان دیتے ہوئے کہا: ’’یاسر عرفات اگر ان کارروائیوں کے ذمہ داران کے خلاف فوری اور بھرپور اقدامات نہیں کرتے تو ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے گا‘‘۔ ایک اور بیان میں انھوں نے کہا: ’’اسرائیل اپنا دفاع کرنے کے لیے ہر مناسب اقدام کرنے کا حق رکھتا ہے‘‘۔ امریکی نائب صدر: ’’فلسطینی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں اسرائیل کا حق ہے‘‘۔ امریکی خصوصی نمایندہ انتھونی زینی: ’’یاسر عرفات بلاتاخیر اور بلارد و کد حرکت میں آئیں‘‘

اس ہلاشیری اور عالمی سرپرستی سے تقویت پا کر صہیونی افواج مزید ظلم ڈھاتی ہیں اور یاسر عرفات بھی اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے مزید مجاہدین کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ شیخ احمد یاسین کو نظربند کر دیا گیا ہے اور کئی فلسطینی مجاہد لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

مغربی کنارے میں عرفات کی طرف سے سیکورٹی کے انچارج جبریل رجوب فرماتے ہیں: ’’فلسطینی اتھارٹی ان سیاسی عناصر کو کچلنے میں کوئی نرمی نہیں برتے گی جو ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہوئے ازخود کارروائیاں کریں گے۔ یہاں صرف ہماری اتھارٹی ہے‘ ہماری پولیس ہے اور ہماری ہی بندوق ہے۔ کسی دوسرے کے لیے اجتہاد یا تاویل کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے فدائی کارروائیاں نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور ہم اس وعدے کو پورا کریں گے‘‘۔ ادھر غزہ کے سیکورٹی انچارج محمد دحلان نے اعلان کیا: ’’ہم جنگ بندی کو یقینی بنائیں گے اور اسرائیل کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا خاتمہ کر کے رہیں گے۔ یہاں فلسطینی اتھارٹی ہی اصل اتھارٹی ہے‘‘۔

صہیونی افواج نے امریکی دبائو کے ذریعے ایک طرف تو خود عرفات انتظامیہ کو فلسطینی عوام کے مقابل لاکھڑا کیا‘ مجاہدین اور ان کی قیادت کو گرفتار کروا دیا‘ لیکن دوسری طرف یہ کہہ کر یہ اقدامات ناکافی ہیں‘عرفات انتظامیہ سمیت پوری فلسطینی قوم کے خلاف ظلم کی انتہا کر دی۔ خود فلسطینی اتھارٹی کے کئی مراکز تباہ کر دیے اور ایک روز پوری دُنیا کے سامنے غزہ کا ایئرپورٹ کھود کر رکھ دیا گیا۔

اس ساری صورت حال کے مقابل تحریک جہاد کا موقف ہے کہ ہم ’’امن مذاکرات‘‘ کے نام پر بھی لاتعداد سرابوں کے پیچھے دوڑ چکے ہیں‘ عرب ممالک کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ بات چیت اور کسی درمیانی راہ کی تلاش میں بھی بہت بھٹک چکے ہیں‘ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی باندیوں کے ذریعے بھی کئی کوششیں کر چکے ہیں اور آخرکار ایک ہی نتیجے تک پہنچے ہیں کہ قابض صہیونی افواج کے مقابلے میں صرف اور صرف جہاد کا راستہ ہی کھلا رہے‘ باقی تمام راستے ہماری نہیں صہیونی انتظامیہ کی منزل تک پہنچتے ہیں۔

حماس کے رہنما خالد المشعل کا کہنا ہے کہ ’’حماس نے مزید ۲۰ سال کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے۔ہم شہدا کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور آخرکار اللہ کی نصرت کے حق دار ٹھہریں گے۔ دشمن اتنا نقصان برداشت نہیں کر سکتا جتنا ہم کر سکتے ہیں کیونکہ دشمن اللہ سے وہ کچھ نہیں چاہتا جو ہم چاہتے ہیں‘‘۔ انھوں نے مزید کہا: ’’بعض لوگ امن کے نام پر بھول بھلیوں میں پھنستے رہیں گے‘ تحریک مزاحمت کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں گی لیکن ہم ان شاء اللہ ان تمام مراحل سے سرخرو ہو کر نکلیں گے‘‘۔

۸ اور ۹ جنوری ۲۰۰۲ء کو بیروت میں علما کی ایک کانفرنس ہوئی۔ پاکستان سے مولانا عبدالمالک اور ضیا الرحمن فاروقی صاحب اس میں شریک ہوئے۔ دُنیا بھر سے ۱۳۰ علما تشریف لائے۔ اس کے اختتامی اعلامیے میں بھی یہ بات پوری وضاحت سے کہی گئی کہ صہیونیوں کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے جہاد تب تک جاری رہے گا جب تک قبلہ اول کی سرزمین آزاد نہیں ہو جاتی۔ اس اعلامیے کا ایک نکتہ یہ ہے: ’’فلسطینی عوام کی مددو سرپرستی اور ان کا دفاع تمام مسلم اُمت پر فرض ہے‘ حکومتی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی‘‘۔

واضح رہے کہ حکومت لبنان پر بھی صہیونی انتظامیہ اور امریکہ کا مسلسل دبائو ہے کہ وہ دو جہادی تنظیموں حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے اور ان کی کارروائیاں ختم کروائے‘ لیکن لبنان نے اپنی تمام تر سیکولر شناخت کے باوجود یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

حماس نے اپنی اس پالیسی کا بھی بارہا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنا دشمن صرف صہیونی انتظامیہ کو قرار دیتے ہیں۔ یاسر عرفات کے تمام تر مخالفانہ اقدامات کے باوجود ہم اپنی توجہ صرف اپنے اصل دشمن پر ہی مرکوز رکھیں گے۔ حماس اور دیگر جہادی تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کا اثر خود دشمن نے بھی تسلیم کیا ہے۔ خود شارون نے اپنی ایک بریفنگ میں بتایا ہے کہ: ’’ہم گھمبیراقتصادی بحران سے دوچار ہورہے ہیں‘ خزانہ خالی ہو رہا ہے (تمام تر امریکی سرپرستی اور امداد کے باوجود)‘ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور آبادکاری کا عمل سست پڑ رہا ہے۔ خاصی تعداد میں یہودی ملک سے نکل بھی رہے ہیں‘‘۔

ایک پہلو خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل بھارت تعلقات پہلے بھی ڈھکے چھپے نہیں تھے‘ لیکن گذشتہ چند ماہ میں ان کا باہمی تعاون بہت بڑھ گیا ہے۔ اس وقت خود صہیونی فوجی ذرائع کے مطابق بھارت کو اسلحہ دینے والوں میں اسرائیل‘ روس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور عنقریب پہلے نمبر پر آسکتا ہے‘ جب کہ بھارت اس وقت اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ دونوں کی باہمی تجارت جو ۱۹۹۲ء میں چند ملین ڈالر تھی ۲۰۰۰ء میں ۶۰۰ ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی لحاظ سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں امریکہ اور ترکی کے بعد بھارت تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں پانچ اسرائیلی وفود بھارت آچکے ہیں۔ پہلے تین وفود علانیہ طور پر چوتھا وفد سیکورٹی معاملات پر خفیہ مذاکرات کے لیے اور پانچواں وفد صہیونی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی سربراہی میں۔ چار جاسوسی فیلکن جہاز خریدنے کے لیے ایک ارب ڈالر کے حالیہ معاہدے سے پہلے بھی متعدد عسکری معاہدے ہو چکے ہیں۔ صہیونی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ’’دونوں ممالک کو ایک جیسے خطرات درپیش ہیں‘ دونوں ملکوں میں بڑی مسلمان کمیونٹی رہتی ہے اور دونوں ممالک کے خلاف بیرونی دہشت گردی ہو رہی ہے‘‘۔

اس بھارتی صہیونی گٹھ جوڑ کے مقابلے کی صرف اور صرف ایک صورت ہے کہ مسلم ممالک بھی خطرے کو بھانپتے ہوئے متحد ہوں۔ مسلم حکومتیں ااپنے ہی عوام کے خلاف (دشمن کو خوش کرنے کے زعم میں) کارروائیاں نہ کریں بلکہ عوام کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے سیسہ پلائی دیوار بنیں وگرنہ خاکم بدہن عوام تو آزمایش میں آئیں گے ہی‘ حکمران بھی ’’ٹشوپیپر‘‘ سے زیادہ مقام نہ پائیں گے کہ استعمال ہوا اور پھینک دیا گیا۔ رہے دشمن کے مطالبات تو وہ تو کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ ذرا ملاحظہ ہو القدس پر قابض یہودیوں کا نیا مطالبہ۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ سمیت تمام مساجد سے لائوڈ اسپیکر پر اذان بند کی جائے کہ اس سے ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہے‘ خاص طور پرفجر کے وقت۔

دنیا بھر میں ان کے مطالبات میں اشتراک و مماثلت بھی حیرت انگیز ہے‘ جہادی تنظیموں پر پابندی لگائو‘ سرحد پار دہشت گردی بند کرو‘ لائوڈ اسپیکر پر پابندی لگائو‘ جہاد اور بنی اسرائیل سے متعلقہ قرآنی آیات کی تعلیم ختم کرو‘ یہ سارے کام خود مسلمان حکمران انجام دیں… فاعتبروا یااولی الابصار!

ربّ ذوالجلال نے سچ فرمایا: یہ یہود اور مشرکین تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے دین کی پیروی نہیں کرنے لگ جاتے۔

 

ابلاغ عامہ کے لیے تصویر کا استعمال

سوال: دعوت دین اور اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں ایک بڑا چیلنج ناخواندگی ہے۔ تصویر کی حرمت کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ کی رائے سے تو سب واقف ہیں لیکن ایک چیز مشاہدے میں آئی ہے کہ تصویری پوسٹر ابلاغ میں کہیں زیادہ موثر کردار ادا کرتا ہے اور ایک ناخواندہ یا نیم خواندہ فرد کسی حد تک خود پیغام اخذ کرنے کے لائق ہو جاتا ہے۔ گویا تصویر ناخواندگی کے چیلنج کا ایک حد تک جواب ثابت ہوتی ہے۔ کشمیر فنڈ کے پوسٹر میں اعداد و شمار اور جذبہ انگیز فقرات خواندہ افراد کی ایک مخصوص تعداد کو متاثر کرتے ہیں‘ جب کہ چند تصویریں ہر مرد‘ عورت‘ بوڑھے‘ بچے ‘ پڑھے لکھے‘ ان پڑھ سب کو متاثر کرتی ہیں اور ابلاغ مکمل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جس پوسٹر یا اسٹکر پر قاضی حسین احمد صاحب کی تصویر ہوتی ہے‘ اس سے فوراً پیغام اخذ کیا جاتا ہے یا سوالات کیے جاتے ہیں‘ جب کہ سادہ پوسٹر‘ اسٹکر اَن پڑھ نیم دلی سے وصول کرتا ہے اور عدم دل چسپی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کیا تغیر حالات سے تغیراحکام کا اصول اس معاملے میں لاگو ہو سکتا ہے؟

جواب: آپ کے سوال کا تعلق ایک بہت حساس مسئلے سے ہے۔ اس کے تین بنیادی پہلو ہیں: اولاً‘ کیا ہر قسم کی تصویر حرام کی تعریف میں آتی ہے اور خود تصویر کی تعریف کیا ہوگی؟ ثانیاً‘ اگر تصویر کسی تاریخی شخصیت کی ہو اور عریانی یا فحاشی کی تعریف میں بھی نہ آتی ہو‘ مثلاً قائداعظم کی تصویر‘ محترم مولانا سید سلیمان ندوی کی تصویر یا امیر جماعت اسلامی کی تصویر تو کیا ایسا کرنا مناسب ہے؟ ثالثاً‘ کیا تصویر کے حوالے سے فقہا کی رائے ایک مستقل اور مطلق حکم کی حیثیت رکھتی ہے اور تغیر حالت کے باوجود حکم میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہوگا‘ چاہے وہ سب قباحتیں دُور کر دی جائیں جو تصویر سے وابستہ ہوں‘ اور کیا اس کا استعمال ہرشکل میں ممنوع رہے گا؟

آخری نکتے سے بات کا آغاز کرتے ہوئے ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگاکہ آج جب ٹی وی اور اخبار انسانوں کے رجحانات اور فکری زاویوں کو ایک مسلسل تصویری ثقافت سے متاثر کر رہے ہیں اور ایسی حالت میں جب تصویری ثقافت تعلیم کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے‘ کیا ہم تصویر کو مکمل طور پر نظرانداز کرسکتے ہیں؟ جہاد کشمیر ہو یا چیچنیا‘ فلپائن ہو یا برما اور فلسطین کی تحریکات آزادی‘ ان مقامات پر متاثر ہونے والے بچوں‘ تباہ ہونے والے مکانات‘ مساجد اور بازار ‘اگر ہم ان کی تباہی کی صرف ایک تصویری جھلک دکھاتے ہیں تو کیا ہمارے پیغام کی شدت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ایک تحریر کو پڑھ کر ہوتی ہے‘ یا یہ تصویر بغیر الفاظ استعمال کیے دیکھنے والوں کو زیادہ واضح پیغام پہنچاتی ہے؟

نماز اور حج کی تعلیم کے لیے اگر مراسم کو محض تحریر کیا جائے تو بحث زیادہ واضح ہو گی یااشکال اور نقطوں اور خاکوں کے ذریعے اعمال کی ترتیب ایک ناخواندہ شخص کو بھی سمجھائی جاسکتی ہے۔ مدارس دینیہ کی مالی امداد کے لیے ایک خط یا سالانہ کارکردگی کی ایک رپورٹ زیادہ موثر ہو گی یا مدرسے کی نصف تعمیر شدہ عمارت اور کلاس روم میں تربیت کے لیے ساتھ بیٹھے ہوئے طلبہ کی تصویر یا مدرسے کے کتب خانے کی تصویر طبع کرنے سے بات مستند ہوگی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا مثالوں میں کیا شریعت کے کسی بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کیا تصاویر کا استعمال صرف اشاعت ہی کے لیے ہوتا ہے؟

دوسرے پہلو کے حوالے سے‘ اس سے قطع نظر کہ تصویر مولانا شبلی نعمانی ‘ سید سلیمان ندوی یا شیخ الازہر کی ہے یا حنبلی فقہ کی پیروکار سعودی مملکت کے سربراہ کی‘ اگر تصویر کی حیثیت محض ایک تاریخی دستاویز کی ہے اور اس کا وہ استعمال نہیں ہے جس سے عزت و پرستش کا اظہار ہو‘ تو کیا اس حدیث کی روشنی میں جس میں سیدہ عائشہؓ نے پردے کو چاک کر کے تکیہ‘ غلاف یا پایدان بنا دیا تھا‘ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب تک اس کے مقام احترام و پرستش پر پہنچنے کا امکان نہ ہو‘ اس کا استعمال کیا جا سکتاہے؟

اسی طرح اگر تصویر ایسی ہے جس میں نہ کوئی جان دار ہے نہ وہ مصوری کا کارنامہ ہے اور نہ مصور کو یہ گمان ہے وہ خالق کائنات (المصور) کے مقابلے پر اپنے کمالِ فن کا دعویٰ کر رہا ہے‘ مثلاً گلاب کے پھول کی تصویر‘ طلوع یا غروب آفتاب کا منظر‘ یا فضا میں بلند ہوتے ہوئے شاہین کی پرواز کی تصویر اور ان سب کا مقصد دیکھنے والے کو اللہ سبحانہ کی قدرت‘ قوت تخلیق ‘ ربوبیت اور حاکمیت سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں فرد کو اس کی ذمہ داریوں کی ادایگی پر اُبھارنا ہو‘ تو کیا اس تعلیمی اور دعوتی ابلاغی عمل کو تصویر کے منفی تصور کی بنا پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟

آپ کے ایک سوال نے یہ بہت سے سوالات اُٹھائے ہیں۔ ہمیں ان تمام احادیث کی روشنی میں جن پر محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن جلد چہارم‘ صفحہ ۱۸۰ تا ۱۸۹ سورہ سبا کی ایک آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے گفتگو فرمائی ہے‘ غور کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کیا تصویر کی تعریف میں صرف وہ شبیہ شامل ہے جو رنگ اور برش سے ایک مصور بناتا ہے‘ یافوٹوکیمرے سے جو شبیہ بنائی جاتی ہے‘ یا وڈیو پر جو تصویر نظر آتی ہے وہ بھی اس میں شامل ہوگی۔ اس آخری قسم کے بارے میں ہمیں جو معلومات ہیں وہ یہ بتاتی ہیں کہ وڈیو کیمرے کے ذریعے وڈیو فلم پر نہ کوئی شبیہ بن سکتی ہے نہ خاکہ‘ نہ نقشہ‘ بلکہ صرف چند سگنل ریکارڈ ہوتے ہیں جو وڈیو ریکارڈر پر ایک کہربائی نظام کے ذریعے ایک ٹیوب کی مدد سے شبیہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہوتا‘ نہ ان کا کوئی سایہ بنتا ہے۔ ہماری معروف فقہی کتب میں جو تعریف تصویر کی پائی جاتی ہے وڈیو پر نظر آنے والی شبیہ پر وہ تعریف چسپاں نہیں ہوتی۔ انھی مسائل اور تغیرحالت کے اصول کی روشنی میں اس کا حل تلاش کرنے کے لیے ۸۵-۱۹۸۴ء میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کی طرف سے ملک کے جید علما بشمول شیخ الحدیث مولانا مالک کاندھلوی مرحوم‘ جناب مفتی محمد حسین نعیمی مرحوم‘ مولانا صدر الدین رفاعی مرحوم‘ مولانا اسرار الحق مرحوم‘ مولانا سیاح الدین کاکاخیل مرحوم‘ مولانا سمیع الحق ‘ مولانا عبداللہ خلجی‘ جناب محمد رضی مجتہد مرحوم کے سامنے جب دورِ جدید میں دعوت دین کے لیے سمعی و بصری ذرائع کے استعمال پر مشاورت کی گئی تو ان جید علما نے تعلیمی اور دعوتی غرض سے وڈیو پروگراموں کی تیاری کی تجویز کو منظور فرمایا۔

میری ناقص رائے میں اگر وڈیو یا تصویر کا ابلاغی استعمال شخصیت پرستی کی تعلیم نہ دے رہا ہو اور دین کی تعلیمات کو زیادہ موثرانداز میں سمجھانے میں مددگار ہو تو مثبت طور پر اسے شیطان کی ثقافت کو ردّ کرنے‘ فحاشی و عریانیت کی جگہ اخلاق‘ عصمت و عفت کا درس دینے کے لیے اس کا استعمال کرنا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ شیطان ۲۴ گھنٹے لہوالحدیث کے ذریعے ذہنوں کو مسموم کر رہا ہے اور افراد کی ایک اچھی تعداد ہے جو اسے ناپسند کرنے کے باوجود کسی مثبت متبادل کی عدم موجودگی میں اس شر اور ضلالت کو دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے۔ برائی کا خاتمہ جب تک حسنات سے نہ کیا جائے‘ برائی دُور نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اخلاقی ضابطے کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھنا ہوگا اورابلاغی صنعت سے شیطان کے اثرات کودُور کرنے کے لیے اسلام کی تعلیمات کو دستاویزی پروگراموں‘ معلوماتی مقابلوں‘ تعمیری کہانیوں اور تمثیلات اور شعری ذرائع سے پیش کرنا ہوگا۔

مصر کی تحریک اسلامی کے بانی امام حسن البنا شہیدؒ نے ابلاغ عامہ کی اس جدید ضرورت کے پیش نظر باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا تھا جس نے مصر کے مختلف مقامات پر تاریخی تمثیلات اور ڈرامے پیش کیے اور  اس طرح ایک صحت مند اسلامی تفریح کے ذریعے دعوت کو ان حلقوں تک پہنچایا جہاں شاید سنجیدہ تحریر موثر  نہ ہوتی۔

آج ‘جب کہ انٹرنیٹ اور مواصلاتی سیارچوں کا دَور ہے اور لامحدود معلومات کا سیلاب جغرافیائی سرحدوں کو توڑ کر دُنیا کے ہر خطے میں گھس گیا ہے‘ اگر ابلاغ عامہ کے مروجہ ذرائع کو دعوت اسلامی کے لیے استعمال نہ کیا گیا تو ہم اپنے پیغام اور دعوت کا حق صحیح طور پر ادا نہ کر سکیں گے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

ملک سے نقل مکانی

س: ملکی حالات سے مایوس ہو کر ہماری نوجوان نسل ملک سے نقل مکانی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ:

۱- کیا امریکہ اور مغربی ممالک دارالکفر کی تعریف میں آتے ہیں؟

۲- اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ان ممالک کی طرف ہجرت دینی نقطہء نظر سے کیسا فعل ہے؟

۳- اپنے اور اپنی اولاد کے دین و ایمان کو بچانے کی خاطر ان ممالک کی طرف ہجرت کی جائے تو کیسا ہے؟ کیوں کہ وہاں کم از کم آپ کو اپنے حقوق تو بغیر کسی رشوت اور سفارش کے مل جاتے ہیں‘ جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے؟

۴- جب حالات گھمبیر ہو جائیں تو ہجرت سنت نبویؐ ہے۔ کیا مذکورہ حالات میں ہجرت ضروری ہے؟

ج: آپ نے اپنے سوال میں ایک بہت اہم زمینی حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ بلاشبہ نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سے مسلم ممالک میں ناہموار حالات کے نتیجے میں بہت سے نوجوان اور پیشہ ور افراد نقل مکانی کر کے یورپ و امریکہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا اسے دارالکفر کی طرف ہجرت کہا جائے گا؟ دارالکفرسے مراد وہ جگہ ہے جہاں کفر کا نظام کارفرما ہو اور اہل اسلام کے لیے اپنے اصولوں پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ چنانچہ سورۃ النساء آیت ۹۷ میں ان اہل ایمان کا ذکر کیا گیا جو نظام کفر میں مستضعفین فی الارض بنا دیے گئے۔ ایسے افراد سے موت کے وقت فرشتہ یہ سوال کرتا ہے کہ اگر تم اس زمین میں بے بس بنا دیے گئے تھے تو کیا جہاں اللہ کی زمین پائی جاتی ہے وہ تمھارے لیے تنگ ہو گئی تھی؟کیا کہیں ہجرت کر کے کسی ایسے مقام پر نہیں جا سکتے تھے جہاں دین پر عمل کر سکو؟ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی؟ گویا دارالکفرمیں دب کر‘ مفلوج اور بے بس ہو کر رہنا اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔ ایسی حالت میں ان پر ہجرت فرض ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی نام نہاد مسلم ملک میں دستور تو یہ کہتا ہے کہ وہ اسلامی ملک ہے لیکن برسراقتدار طبقہ اور نظام حکومت جاہلی ہو‘ جب کہ ویسا ہی جاہلی نظام کسی غیرمسلم ملک میں بھی ہو لیکن غیر مسلم ملک میں دعوت اسلامی کے امکانات زیادہ روشن ہوں‘ تقریر و تحریر اور اجتماع کی پوری آزادی ہو‘ لباس‘ طعام اور بودوباش پر کوئی پابندی نہ ہو‘ جب کہ خود نام نہاد مسلم ملک میں اسلام دوست اور تحریکات اسلامی سے وابستہ افراد پر زمین تنگ کر دی گئی ہو‘ تو ہر عقل و شعور رکھنے والا شخص اس بات پر غور کرے گا کہ کیوں نہ زیادہ آزاد فضا میں سانس لے کر دین کی دعوت کودُنیا میں پھیلائے۔

دارالکفرمیں قیام کے سلسلے میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر وہاں پر اسلام کی دعوت پیش کرنے اور آخرکار اسلام کے غالب آنے کے امکانات ہوں تو وہاں پر قیام حرام نہیں کہا جاسکتا۔ اگر اس کا امکان نہ ہو تو وہاں کا قیام ایک قسم کی معصیت شمار ہوگی۔ اگر ایک نام نہاد مسلم ملک میں کوئی کام بغیر رشوت اور سفارش کے نہ ہو رہا ہو‘ اس کے اخبارات مسلسل عریانی کو فروغ دے رہے ہوں لیکن نام کی حد تک وہ ملک مسلمان ہو تو کیا محض نام کافی ہوگا؟ اگر اس نام نہاد مسلم ملک میں اصلاح اور اسلام کے غالب آنے کے امکانات ایک دارالکفر سے زیادہ ہوں تو عقل کا فیصلہ اس نام نہاد مسلم ملک میںقیام کے حق میں ہوگا۔ مکہ میں اشاعت اسلام کے وقت شرک اور کفر کا غلبہ تھا لیکن ۱۳ سال تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پر اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں رہے۔ جب وہاں دعوت اسلامی کے لیے مشکلات ناقابل برداشت ہوگئیں تو مدینہ ہجرت فرمائی جو پہلے سے دارالاسلام نہیں تھا۔ آپؐ کے وہاں ہجرت فرمانے کی وجہ سے وہ  شہر مدینۃ النبیؐ بنا۔ مکہ کے دور ابتلا میں صحابہ کرامؓ کی جماعتوں نے حبشہ ہجرت کی جہاں پر اسلامی حکومت نہ تھی لیکن فرماں روا عادل تھا‘ گو اس کے درباری بڑی حد تک مشرک تھے۔ ان تاریخی حقائق کے پیش نظر اپنی تمام مسلم دشمنی کے باوجودہم امریکہ اور یورپ کو دارالحرب قرار نہیں دے سکتے۔ ہر دو خطوں میں حالیہ نفرت کی لہر کے باوجود سیکڑوں افراد نے اسلام قبول کیا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ کیا بعید کہ آج ہم جن ممالک کو دارالکفر قرار دیتے ہیں کل وہی اسلام کی نشات ثانیہ کا مرکز بن جائیں‘ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ جو ڈاکٹر‘ انجینیر‘اساتذہ اور دیگر کارکن وہاں مقیم ہیں وہ دعوت دین کے فریضے کو کتنی ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ اگر ان کے یورپ اور امریکہ جانے کا مقصد محض دُنیا کا حصول ہے‘ جیسا کہ ایک حدیث کے مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ہجرت ایک خاتون سے شادی کے لیے ہوتی ہے اور کسی کی صرف اللہ کے لیے اور پھر یہ فرمایا کہ اعمال کی بنیاد نیت پر ہے‘ تو اگر ایک ڈاکٹر اس نیت سے ہجرت کرتا ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ میں اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی صلاحیت کا استعمال کرے گا‘ ساتھ ہی ڈاکٹری یا کسی بھی پیشے کے ذریعے دولت بھی کماتا ہے‘ تواس پر ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔

یہ خیال رہے کہ دعوت دین کے حوالے سے اس کا اپنا گھر‘ بیوی اور بچے بھی دعوت کے اوّلین مخاطبین ہیں اور وہ جہاں بھی ہوں وہ ان کی صحیح دینی تعلیم و تربیت کے لیے اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ جس وقت تک ایک مقام پر دعوت دین پیش کرنے کی آزادی اور خود عمل کرنے پر کوئی بندش یا مزاحمت نہ ہو‘ اس وقت تک وہاں سے ہجرت نہ کرنا افضل ہے۔ لیکن اگر پابندیاں اتنی بڑھ جائیں کہ دین کا تحفظ ایک مسئلہ بن جائے تو ہجرت کرنا سنت ہے۔ البتہ ایسے تمام مواقع پر معروضی طور پر جائزہ لینے اور اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے۔(ا-ا)

تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں‘ مولانا عامر عثمانی  ؒ۔مرتبہ: سیدعلی مطہر نقوی امروہوی۔ ناشر: مکتبہ الحجاز پاکستان‘ ۲۱۹۷۱‘ بلاک سی‘ حیدری‘ شمالی ناظم آباد‘ کراچی -۷۵۰۰۰۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۲۵ روپے

گذشتہ صدی عیسوی کے دوران‘ جنوب مشرقی ایشیا میں جس عالم دین کو سب سے زیادہ علما کی منفی اور سوقیانہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ تھے۔اس تنقید یا تنقیص میں دلیل کم‘ اور تعصب کا عنصر زیادہ تھا۔ اس کے باقیات اب بھی کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں۔

مولانا عامر عثمانی  ؒ فاضل دیوبند‘ علامہ شبیر احمد عثمانی   ؒکے بھتیجے‘ مولانا حسین احمد مدنی  ؒکے شاگرد اور دیوبند سے شائع ہونے والے ماہ نامہ  تجلّی کے مدیر شہیر تھے۔ انھوں نے اس افسوس ناک صورت حال میں سچائی کا دفاع کرنے اور فاول پلے کو روکنے کے لیے اپنے علم و فضل کے ساتھ ساتھ‘ حیرت انگیز حد تک ثابت قدمی سے کام لیا۔ مولانا مودودی پر حملہ آور قوتوں کے بارے میں انھوں نے پتے کی بات کہی ہے: ’’جس طرح ’’کوکا کولا‘‘ پینا ایک فیشن بن گیا ہے‘ اسی طرح مولانا مودودی کی تحریر و تقریر پر اعتراض بھی کئی حلقوں میں داخل فیشن ہو گیا ہے‘‘ (ص ۱۷۷)۔ ’’بلاشبہہ غلطیاں شبلیؒ ، اور ابوالکلام ؒاور مودودیؒ اور غزالیؒ اور ابوحنیفہؒ سب سے ہو سکتی ہیں‘ مگر ان کی نشان دہی اور اثبات کے لیے تقویٰ اور تبحر اور بیدار مغزی چاہیے اور طنز و تحقیر سے پرہیز ضروری ہے‘‘ (ص ۵۹-۶۰)

وہ کہتے ہیں: ’’میرے نزدیک مودودی کی دوستی اور دشمنی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ میں مودودی صاحب کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا کہ وہ اللہ کے ایک بندئہ ناہیچ ہیں‘ وہ قرآن و سنت کے مطابق کہیں توجان و مال سے قبول‘ خلافِ قرآن و سنت کہیں تو ہزار بارردّ۔ یہی طریقہ میرے اسلاف کا رہا ہے۔ تمھیں عقل و انصاف اور دیانت و شرافت کے معیار وں پر توجہ کرنی چاہیے۔ تم جو چُھرا اپنے خیال میں مولانا مودودی کی عظمت و عزت کے سینے میں گھونپتے ہو‘ وہ فی الحقیقت اللہ کے دین اور دعوت حق اور تحریک اسلامی کے سینے میں گھونپتے ہو‘‘۔ (ص ۲۳۳-۲۳۴)

ان احساسات کے ساتھ انھوں نے  تفہیم القرآن پر اعتراضات کا تجزیہ کیا تھا‘ جسے رسالہ تجلّی سے اخذ ومرتب کر کے جناب سید علی مطہر نقوی نے زیرتبصرہ کتاب کی صورت میں پیش کر دیا ہے۔

انوارالباری کے مصنف مولانا سید احمد رضا بجنوری کی جانب سے تفہیم میں نسائھن کے ترجمے پر اعتراض وارد کیا گیا اور پھر عجیب و غریب اسلوب میں کھینچاتانی کی گئی ‘ جس کے طول و عرض کا اندازہ جناب عامر عثمانی کے علمی تجزیے سے ہوتا ہے۔ عثمانی مرحوم نے اس اعتراض کا تجزیہ کرتے ہوئے تقریباً چالیس صفحات میں سلف و خلف سے نظائر پیش کر کے اعتراض کے کھوکھلے پن کو علمی سطح پر بے نقاب کیاہے۔

اسی طرح بجنوری صاحب‘ مولانا مودودی کے ایک پارئہ تشریح کو ہدف تنقید بناتے ہیں جس میں مولانا مودودی نے لکھا ہے: ’’عام طور پر یہ جو مشہور ہو گیا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوا کو دامِ فریب میں گرفتار کیا اور پھر انھیں حضرت آدم ؑکو پھانسنے کے لیے آلہ کار بنایا‘قرآن اس کی تردید کرتا ہے…    بہ ظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے‘ لیکن جن لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت حوا کے متعلق اس مشہور روایت نے دنیا میں عورت کے اخلاقی‘ قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں کتنا زبردست حصہ لیا‘ وہی قرآن کے اس بیان کی حقیقی قدروقیمت سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۱۶)

مولانا بجنوری نے اس ٹکڑے کو مولانا مودودی کی ’’تجدد پسندی‘‘ اور ’’مساوات مرد و زن کی علم برداری‘‘ قرار دے کر جو انداز سخن اختیار کیا‘وہ پڑھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ موصوف نے مولانا مودودی کو ردّ کرنے کے جوش میں عورت کی تذلیل اور ’’فطری گھٹیا پن‘‘ کو ثابت کرنے کے لیے اسرائیلیات کے انبار اور ذخیرۂ حدیث سے مختلف ٹکڑوں کو استعمال کرنے کی ایک افسوس ناک روش اختیار کی جسے عامرعثمانی نے وسیع نظائر اور مضبوط دلائل سے واضح کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’پھر ]مولانا بجنوری نے[ عورتوں کو مرد کے مقابلے میں زیادہ مکار‘ کم رتبہ اور گھٹیا ثابت کرنے کے لیے جن روایات کا سہارا لیا ہے… ان کا مطلب وہ ہے ہی نہیں‘ جو ]مولانا بجنوری[ زبردستی نکال رہے ہیں‘‘ (ص ۷۱)۔

کتاب کا دوسرا باب بھی بڑا معرکہ آرا ہے۔ مولانا مودودی نے آدم ؑ کی پسلی سے حضرت حوا کی ولادت والی روایات سے اختلاف کیا ہے۔ بعض علما نے مولانا مودودی کی اس رائے پر جو خاک اڑائی اس کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ عامر عثمانی مرحوم نے دلائل و براہین کے ذریعے معترض حضرات کے داخلی تضاد کو نمایاں کیا۔

باب سوم میں‘ تفہیم القرآن کے بعض دوسرے حصوں پر وارد کیے جانے والے اعتراضات و اشکالات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ جناب عثمانی ہر اعتراض کو علمی ذخیرے کی میزان پر تولتے اور اعتراض کے داخل و خارج کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ ان مباحث میں انھوںنے متعدد احادیث کے متن اور نتائج پر ایسی اعلیٰ درجے کی بحث کی ہے کہ ان کے اسلوب بحث و بیان پر بعض اوقات مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے لہجے کا گمان گزرتا ہے۔

یہ مجموعۂ مضامین ‘ایک طرف مولانا مودودی کے معترضین کے فکروکلام کی کج روی کو واضح کرتا ہے‘ دوسری طرف مولانا مودودی کی سلامتِ فکر ‘اور اس کے ساتھ ہی عامر عثمانی مرحوم کے تبحرِ علمی اور قدرتِ بیان کا ایک اَن مٹ نقش بھی مرتب کرتا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


روح القرآن‘ سید قاسم محمود۔ ناشر: بک مین‘ الشجربلڈنگ‘ نیلا گنبد‘ لاہور۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

یہ ’’آیات قرآنی کا موضوع وار جامع اشاریہ‘‘ ہے۔ آیات قرآنی کے اردو تراجم (اقتباسات) کو مع حوالہ سورہ اور آیت‘ مختلف عنوانات کے تحت جمع کیاگیا ہے۔ مضامین یا عنوانات اس قسم کے ہیں: اتحاد‘ اجر‘ احسان‘ اخلاق‘ اذان‘ تاریکی‘ تبلیغ‘ تجارت‘ تخلیق‘ بارش‘ بادل‘ بجلی‘ بدعت‘ چوری‘ چاند‘ جھوٹ‘ جہنم ‘ جہالت وغیرہ--- بعض عنوانات غیر اہم‘ مبہم اور ضمنی ہیں‘ جیسے: ہوا‘ برکت‘ باغ‘ بچپن‘ تاریکی‘ دودھ‘ جوانی‘ سفر--- ایسے موضوعات کی بذات خود کوئی اہمیت نہیں‘ ان کی معنویت کسی دوسرے اہم موضوع کے تحت ہی بنتی ہے۔ اس کے برعکس بعض بنیادی موضوعات کو عنوانات نہیں بنایا گیا‘ جیسے: آخرت‘ انفاق ‘ حشر یا قیامت وغیرہ۔

اصلاً یہ ایک مفید کام ہے لیکن اس کے لیے جو خاطرخواہ توجہ‘ باریک بینی اور محنت و کاوش درکار تھی‘ اس میں کچھ کمی رہ گئی چنانچہ بعض باتیں کھٹکتی ہیں۔بہت سی آیات ‘ صحیح عنوانات کے تحت نہیں ہیں‘ مثلاً: ص ۴۷ پر آیت ’’اور جو لوگ سونا چاندی جمع...‘‘ عنوان: ’’بشارت‘‘ کے تحت نہیں، ’’بخل‘‘ یا ’’کنجوسی‘‘ کے تحت آنی چاہیے تھی۔ ص ۷۹ پر ’’ختم نبوت‘‘ کے تحت پہلی دونوں آیتوں کا‘ عنوان سے کوئی تعلق نہیں‘ ان کا عنوان ’’اسلام‘‘ یا ’’دین‘‘ صحیح ہے۔ ص ۱۰۰ پر ’’سفر‘‘ کے تحت پہلی آیت کا صحیح عنوان ’’روزہ‘‘ ہے۔ ص ۴۶‘ کالم ۲، ’’اور ویسی یہ کتاب...‘‘ کا صحیح عنوان ’’قرآن‘‘ ہے‘ نہ کہ ’’برکت‘‘--- ص ۱۲۶ پر ’’فتح مکہ‘‘ کے تحت دی گئی آیت کا اشارہ اسلام کی فیصلہ کن فتح کی طرف ہے‘ اس کا ’’فتح مکہ‘‘ سے تعلق نہیں‘ کیوں کہ فتح مکہ ۸ ہجری میں ہوئی اور یہ سورہ ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی۔ ص ۱۹۰ پر ’’نشہ‘‘ کے تحت ’’لوگو‘ اپنے رب سے ڈرو...‘‘ کا موضوع آخرت اور قیامت ہے،’’نشہ‘‘ سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔ ص ۸۰: طلاق اور خلع دو مختلف موضوع ہیں‘ یہاں ’’خلع‘‘ کے تحت طلاق کی آیت درج ہے۔ بعض جگہ ایک ہی آیت کے دو مختلف ترجمے دیے گئے ہیں‘ مثلاً ص ۱۶‘ کالم ۱: ’’جس روز تم اسے...‘‘ اور ص ۱۹۰‘ کالم ۱: ’’لوگو‘ اپنے رب سے ڈرو...‘‘۔

مرتب نے بلاشبہ محنت کی ہے لیکن یہ کام اور زیادہ تامّل اور توجہ سے کیا جاتا تو یقینا زیادہ مفید اور بہتر ہوتا اور اس میں کم سے کم خامیاں ہوتیں۔ ( ر- ہ)


اعلاے کلمۃ الحق کی روایت‘ اسلام میں  ‘ میاں محمد افضل۔ ناشر: مجاہد اکیڈمی‘ ۴۷۰-اے ‘ کینال ویو ہائوسنگ سوسائٹی‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۶۷۴۔ قیمت: ۳۷۵ روپے۔

اعلاے کلمۃ الحق کی روایت ہماری تاریخ کا ایک شان دار‘ قابل قدر اور درخشاں باب ہے۔ کلمہ حق کیا ہے؟ بہ قول مصنف: ’’ایک روشنی ہے‘ نور ہے‘ جس میں ہر شے کی حقیقت نظر آجاتی ہے۔ انسان باخبر ہو جاتا ہے کہ جس راستے پر وہ چل رہا ہے‘ وہ آگے کہیں کسی خوف ناک غار میںتو ختم نہیں ہو رہا‘‘۔ سوا اس کے ’’حق گوئی سے انسان کو اپنی ذات کا عرفان بھی حاصل ہوتا ہے‘‘ (ص ۲۳)۔

مؤلف نے‘ حق گوئی کی مفصل تاریخ مرتب کی ہے۔ دورصحابہؓ سے حضرات ابوذرغفاریؓ، امام حسینؓ،ابن زبیرؓ اور سعید بن جبیرؓ کا ذکر ہے۔ دوسرے دور میں اس روایت کو حسن بصریؒ، ابراہیم نخعیؒ،زید بن علیؒ، امام ابوحنیفہؒ، سفیان ثوریؒ اور بہت سے دوسرے اصحاب نے زندہ رکھا__ اس کے بعد امام احمد ابن حنبلؒ، امام ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانیؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، اور تحریک مجاہدین سے وابستہ بہت سے دوسرے افراد__ اور یہ داستان نسبتاً قریبی زمانے کے محمد علی جوہر‘ حسرت موہانی ‘علی شریعتی‘ امام حسن البناء‘ سید قطب شہید‘ زینب الغزالی‘ بدیع الزمان سعید نورسی اور مولانا مودودی تک پہنچتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ: ’’جان و مال کی آزمایش کے وقت کلمۂ حق کہنے والے دنیا میں بہت کم ہوئے۔ اتنے قلیل کہ ہر زمانے میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے‘‘(ص ۵)۔ اوائل ہی سے بنی اُمیّہ نے لوگوں کو حق گوئی سے باز رکھنے کے لیے دھمکیوں‘ دھونس او رلالچ کے حربے استعمال کرنے شروع کیے جس سے کتمانِ حق اور مصلحت اندیشی کو فروغ ملا اور مسلم معاشرے کو اخلاقی اعتبار سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ضمیر فروشی اور زراندوزی نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو زوال و اِدبار سے دوچار کیا۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’جب مسلمان ڈرپوک اور بزدل ہو گئے‘ جب وہ اپنے ظالم اور جابر حاکموں کے روبرو حق بات کہنے سے ڈرنے لگے تو پھر چنگیز اور ہلاکو   جیسے خونخوار حملہ آوروں کے سامنے کیا پامردی دکھاتے۔ نتیجہ باغ اسلام کی ویرانی کی صورت میں نکلا‘‘(ص۲۴)۔

پاکستان اور افغانستان کے موجودہ حالات کے حوالے سے ایک حدیث نبویؐ قابل غور ہے‘ جس میں آپؐ نے فرمایا: ’’تم اس وقت تک عذابِ الہٰی سے نجات نہ حاصل کر سکو گے جب تک تم ظالموں اور فاسقوں کو نہ روکو۔ خدا کی قسم تم ان (ظالم حکمرانوں) کو اچھی باتوں کے بارے میں کہو اور بری باتوں سے روکو۔ ظالم کے ہاتھ پکڑ لو‘ ان کو حق پر آمادہ کرو ورنہ خدا وند تعالیٰ تم میں سے بعض کے دلوں کو بعض کے دلوں سے وابستہ کر دے گا اور پھر تم پر لعنت کرے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر لعنت کی تھی‘‘(ص ۶)۔ یہاں مصنف بجا طور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کہیں مسلمان اس حدیث کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی لعنت کی لپیٹ میں تو نہیں آچکے؟

میاں محمد افضل نے تاریخ کو دقّت ِ نظر سے دیکھا اور گہرائی میں اُتر کر موضوع سے متعلق تفصیلی لوازمہ فراہم کیا ہے۔ ان کی محنت قابل داد ہے۔ ایک اعتبار سے یہ ضخیم کتاب تاریخ اسلام کے ان درخشاں ستاروں کی کہانی ہے جن کی آب و تاب اور چمک دمک سے تاریخ کے اوراق آج بھی جگمگا رہے ہیں اور انھوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کر کے ملت اسلامیہ کو حیات نو بخشی__کلمۂ حق کا سبق یاد دلانے اور تازہ رکھنے کے لیے ہماری رائے میں اس کتاب کا ایک مختصر ایڈیشن بھی چھاپنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی اشاعت وسیع حلقوں تک ہو سکے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اسلامیہ کالج لاہور کی صد سالہ تاریخ (جلد دوم) از احمد سعید۔ ادارہ تحقیقات پاکستان‘ دانش گاہ پنجاب‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۷۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

عہدِغلامی میں مسلمانوں نے جگرلخت لخت کو جمع کرتے ہوئے‘ اپنی فلاح و بہبود اور اشاعت تعلیم کے سلسلے میں جو ادارے قائم کیے ان میں انجمن حمایت اسلام کا نام نمایاں ہے۔ اس کے تحت قائم شدہ اسلامیہ کالج لاہور نے مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت میں مفید کردار ادا کیا۔ پروفیسر احمد سعید نے بڑی محنت اور جانفشانی سے مذکورہ کالج کی تاریخ مرتب کی ہے۔ حصہ اول کئی سال پہلے چھپا تھا اب اس کا دوسرا حصہ (۱۹۱۰ء تا ۱۹۳۵ء) سامنے آیا ہے۔

مصنف نے انجمن کے ریکارڈ اور اس زمانے کے اخبارات و رسائل کی مددسے ایک تجربہ کار مؤرخ کی سی مہارت کے ساتھ ایک ایسی کتاب تیار کی ہے جو حوالوںاور تصاویر سے پوری طرح مزین ہے۔کتابیات و اشاریے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

زیرنظر کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی ۴۰-۱۹۳۹ء کے تعلیمی سال میں کالج مذکورہ میں ناظم دینیات رہے۔ وہ تدریس کا کام اعزازی طور پر انجام دیتے تھے۔ ایک سال کے بعد انجمن سے اختلافات کے سبب انھوں نے تدریس ترک کر دی ___زیرنظرکتاب میں اس کا ذکر بہت تشنہ اور اُدھورا ہے حالانکہ متعدد اصحاب نے اس کی تفاصیل روایت کی ہیں ___ مزیدبرآں بعض امور تحقیق و تصحیح طلب ہیں۔ ( ر - ہ)


اہتمام مشورہ‘ مولانا مسیح اللہ خان۔ ناشر: زم زم پبلشرز‘ اردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۱۱۲۔قیمت: ۶۰ روپے

’’اہتمام مشورہ‘‘ میں مختلف معاشرتی و سیاسی اداروں کے بگاڑ کا سبب‘ عدم مشورہ کو گردانتے ہوئے‘ کتاب و سنت اور تاریخی حوالوں سے ہر شعبۂ زندگی میں مشورے کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہ مختصر کتاب موضوع کی اہمیت و وسعت کے اعتبار سے بہت جامع ہے۔ مصنف نے اسلام کے اصولِ مشاورت کو انفرادی سطح سے آگے‘ مختلف معاشرتی و سیاسی اور نجی و سرکاری اداروں تک پھیلا دیا ہے اور مشورے کو ہر سطح کی بنیادی تنظیمی ضرورت قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی نظام حکومت میں مجلس شوریٰ کی اہمیت و نوعیت‘ ’’اولوالامر‘‘ اور عظمت صحابہؓ کی ضمنی بحثیں بھی کتاب میں شامل ہیں۔ صاحب کتاب کے بعض علمی نکات کی جزئیات سے دیانت دارانہ اختلاف کی گنجایش تو شاید موجود ہو لیکن اُمت مسلمہ کے لیے اس خیرخواہانہ اصلاحی کاوش کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ (ڈاکٹرمحمد حماد لکھوی)


مغربی میڈیا اور اس کے اثرات‘ نذرالحفیظ ندوی۔ ناشر: مجلس نشریات اسلام‘ ناظم آباد نمبر۱‘ کراچی- ۷۵۰۰۰۔ صفحات:  ۴۲۰۔ قیمت:  ۱۱۹ روپے۔

ایک نہایت اہم موضوع پر نہایت اہم کتاب جس میںخاصی محنت کے ساتھ بڑی حد تک حق ادا کیا گیا ہے ۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن پر‘ اگر مسلم دنیا بیدار ہوتی اور اس کے تحقیقی اداروں میں دن رات کام ہوتا‘ کتابوں کے سلسلے شائع ہوتے تو یقینا اس صورت میں مغربی میڈیا کے لیے مسلم دنیا کو اپنے ساتھ بہا لے جانا اتنا آسان نہ ہوتا۔ آزاد اور بظاہر ممتاز مسلم ممالک کی اتنی بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے‘ بھارت کے ایک ادارے کے حصے میں یہ کام آیا‘ یہ خود ہمارے حالات پر ایک تبصرہ ہے۔

کتاب کے مقدمے ]۶۰ صفحے[ میں نئے عالمی نظام کے خدوخال سے آگاہ کیا گیا ہے۔ پہلے باب  کے ۴۵ صفحات میں مغربی میڈیا کا تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں (۲۰ صفحات) میڈیا کے کردار کے بارے میں صہیونی عزائم پیش کیے گئے ہیں۔ تیسرے باب میں مغربی میڈیا میں مسلمانوں کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے مثلاً شہوت پرست انسان‘ شیطان صفت انسان‘ فتنہ پرور انسان ‘ وغیرہ وغیرہ‘ اسے دکھایا گیا ہے۔ چوتھا باب خصوصی اہمیت رکھتا ہے جس میں مصر‘ سعودی عرب‘ کویت اور دیگر عرب ممالک پر مغربی میڈیا کے اثرات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ ایک باب بھارتی میڈیا پر ہے۔ اسی باب میں پاکستانی معاشرے خصوصاً پاکستانی صوبہ پنجاب کی مثال پیش کی گئی ہے۔ ۸واں باب اسلامی میڈیا‘ نظریہ اور عمل کا ہے۔

تبصرہ نگار کی نظر میں ۴۲۰ صفحات کی یہ کتاب اس لائق ہے کہ جو افراد اور ادارے آنے والے دور میں اسلام کو غالب کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں یا کسی جدوجہد میں مصروف ہیں‘ وہ ضرور کتاب کا مطالعہ کریں۔ انسانی ذہن جیتنے کی لڑائی میڈیا کے ذریعے ہی لڑی جا رہی ہے۔ دشمن بہت آگے تک حملہ کر چکا ہے‘ اورہم نے ابھی صف بندی بھی نہیں کی ہے۔ اگر تیاری ہو تو یہ کہتے اچھے لگیں کہ :  ع شب گریزاں ہو گئی آخر جلوۂ خورشید سے___ جو اس کتاب کے آخری باب کا موضوع ہے۔ (م -س)

تعارف کتب

  •  پس چہ باید کرد‘ سید علی گیلانی ۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۲۱ روپے۔ ]مباحث: ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء۔ پس چہ باید کرد۔ افغانستان پر امریکی حملہ۔ جموں و کشمیر اسمبلی پر حملہ۔ یہ کتابچہ سری نگر سے بھی چھپ چکا ہے۔[
  •  م صلی اللہ علیہ وسلّم‘ غالب عرفان۔ ناشر: بزم تحقیق ادب پاکستان‘ ڈی ۱۲ منیبہ آرکیڈ‘ گلستانِ جوہر‘ بلاک ۷‘ مین یونی ورسٹی روڈ‘ کراچی ۷۵۲۹۰۔ صفحات:  ۹۳۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ ]ایک حمد اور ۳۳ نعتوں کا مجموعہ۔ تقاریظ و تقدیمات از پروفیسر حسنین کاظمی‘ ڈاکٹر عاصی کرنالی‘ سید معراج جامی۔[

نجم جعفری۔ ناشر: احباب پبلشرز‘ ۴۰ جی شمع پلازا‘ ۷۲ فیروز پور روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۷۶۔  قیمت: ۱۵۰ روپے۔]غزلیات اور قومی اور ملی نظموں کا مجموعہ‘ ابتدا میں شاعر کو مختلف اہل قلم کا خراج تحسین۔[

  •  سراغِ زندگی ‘ مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈیمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ برانچ پوسٹ آفس ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ۔ صفحات: ۱۵۸۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ ]ایسے دل چسپ اقتباسات کا مجموعہ‘ جو مولف نے اپنے زمانۂ طالب علمی اور پھر تصنیفی مراحل میں‘ زیرمطالعہ کتابوں اور رسالوں سے اخذ کر کے‘ اپنی ذاتی ڈائری میں جمع کر لیے۔ زیادہ تر تحریریں اکابر اور علما کی ہیں‘ خصوصاً شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی‘ محمد علی جوہر‘ ابوالکلام آزاد وغیرہ کے واقعات‘ ملفوظات __کام کی باتیں۔[
  •  سفر صدیوں کا‘ سعید اکرم۔ ناشر: کمال پبلی کیشنز‘ ۱۶‘ مال پلازا‘ راولپنڈی کینٹ۔ صفحات: ۱۵۹۔قیمت: ۱۲۰ روپے۔ ]ایک پختہ گو‘ قادر الکلام اور مثبت طرزِ فکر شاعر کا خوب صورت مجموعہ شعر۔ سرِآغاز : خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَہُ البیان۔ اشاعت میں خاص اہتمام۔[
  •  سیارہ‘ اشاعت  خاص ۴۸‘ سالنامہ ۲۰۰۱ء۔ نگرانِ اعلیٰ: نعیم صدیقی‘ رابطہ: ایوانِ ادب‘ چوک اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۶۸ روپے ۔ ] نئی ادبی تحریریں‘ حمد‘ نعت‘ غزلیات‘ افسانے‘ مقالات‘ تبصرے ___ ایک گوشہ خاص: سیدمودودی بطور ادیب اور بطور مفکر و داعی۔ ایک حصے میں حادثہ ۱۱ ستمبر اور عالم اسلام پر نظم و نثر۔[

پروفیسر ڈاکٹر احسان الحق ‘ جامعہ کراچی

ترجمان القرآن (جنوری ۲۰۰۲ء) کے اشارات نہایت فکرانگیز‘ وقت کی آواز اور مستقبل کا بہترین لائحہ عمل تھے۔ مولانا مودودیؒ کی یاد تازہ ہو گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر کے بعد جہاں دُنیا معاشی‘ سیاسی‘ جغرافیائی اور سماجی اعتبار سے تہ و بالا ہوئی وہیں فکری اعتبار سے بھی حیرت زدگی (astonishment)‘درماندگی اور بے چارگی کا شکار ہوئی۔ بالخصوص مسلم دُنیا اور اس میں برپا اسلامی تحریکوں کے لیے بالکل ایک نیا چیلنج سامنے آیا اور یہ حقیقت مبرہن ہوئی کہ محض ذہنی و فکری انقلاب اور دلیل و برہان کی طاقت پیش پا افتادہ زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ عسکری و تکنیکی قوت کی برتری ازبس ضروری ہے۔ لیکن کیا مسلم دنیا اگلے ایک سو سال میں بھی (یک قطبی دنیا) یورپ و امریکہ کے مقابلے کی عسکری و تکنیکی قوت فراہم کر سکے گی؟ موجودہ صورت حال میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ بڑھتی ہوئی حرص اور مفادات کی جنگ نے مسلم دُنیا کو ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے۔ ’’اُمت‘‘ ہونے کا تصور عنقا ہو گیا ہے۔ عرب و عجم کی تقسیم اس پر مستزاد ہے۔ مسلم ممالک نفسانفسی کا شکار ہیں۔ اس صورت حال میں ہمیں ایک تازہ فکر اور نئی اسٹرے ٹیجی ’’حکمت عملی‘‘ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ترجمان القرآن کے تازہ اشارات نے اس سلسلے میں کافی رہنمائی کی ہے۔

دراصل ہمیں مغرب کو اپنا حریف سمجھنے کے بجائے دعوت کے ذریعے اسے اپنا حلیف بنانے کی فکر کرنا چاہیے۔ دعوت کے لیے میدان نہایت سازگار ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد جہاں بہت سے ناخوش گوار واقعات سامنے آئے‘ وہیں اس تصویر کے دوسرے رُخ کے بہت سے مثبت پہلو ہیں جو ہماری توجہ کے طالب ہیں۔ میرے حالیہ سفر امریکہ کا مشاہدہ ہے کہ میڈیا کی تمام تر نفرت انگیز مہم کے باوجود‘ عام امریکیوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے ایک نئی تڑپ پیدا ہوئی ہے۔ وہاں کے ذمہ دار مسلمانوں نے سوسائٹی کے اس رجحان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامک سنٹروں میں ’’اسلام کے کھلے گھروں‘‘ Open Houses of Islamکے نام سے دعوہ مہم شروع کی جو نہایت کامیاب ہوئی۔ کنساس کے ایک چھوٹے سے شہر میں اس ’’دعوہ ہائوس‘‘ کو دو دنوں میں ۶ ہزار امریکیوں نے دیکھا۔ اسلام پر تمام لٹریچر فروخت ہو گیا۔ ڈلاس میں ایک ایک امریکی کو قرآن کی باترجمہ کاپی کے حصول کے لیے دو دو گھنٹے لائن میں لگنا پڑا۔ چنانچہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قرآن حکیم کی مانگ اتنی زیادہ ہوئی جسے پورا کرنا مشکل ہو گیا۔ میری رائے میں جس دن امریکیوں پر صہیونی میڈیا کا دجل و فریب کھل گیا ان شاء اللہ امریکہ میں قبولیت اسلام کی رفتار یدخلون فی دین اللّٰہ افواجاً کا منظر پیش کرے گی۔

اس سلسلے میں جان واکر (امریکی طالبان کا ایک فرد) کے والد کے انٹرویو ‘ جو میں نے خود سنا‘ کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کا بیٹا طالبان کا ساتھ دے کر اپنی حکومت سے غداری کا مرتکب کیوں ہوا؟ والد کا جواب تھا کہ میرا بیٹا مئی میں طالبان کا ساتھ دینے افغانستان گیا تھا‘ جب کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ ۱۱ ستمبر کو پیش آیا۔ لہٰذا وہ کسی قسم کی غداری کا مرتکب نہیں ہوا۔ سوال کیا گیا کہ اس نے اپنا عقیدہ چھوڑ کر اسلام کیوں اختیار کیا؟ جواب تھا کہ ’’دراصل میرا بیٹانہایت شریف اور ذہین آدمی ہے۔ لہٰذا اسلام جو امن کا دین ہے وہ اس کی ذہنی تشنگیوں کا سامان (intellectual thirst) اور فکری اُلجھنوں کا مداوا ثابت ہوا۔ لہٰذا اس نے یہ دین قبول کرلیا‘‘۔ اس پر وہ انٹرویو کاٹ دیا گیا اور منظر بدل گیا۔

گذشتہ سال مجھے ایک امریکی نومسلم سفید فام خاتون کا جنازہ پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ تدفین کے وقت اس کی پوری فیملی مسلم قبرستان میں حاضر تھی۔ اس کے خاندان کے ایک فرد نے پوچھا کہ آپ لوگوں کے عقیدے کی تفصیلات کیا ہیں؟ میں اس بارے میں جاننا چاہتا ہوں کیونکہ میری بہن ایک طویل عرصے سے کینسر میں مبتلا تھی اور چھ ماہ قبل جب اس نے اسلام قبول کیا تو وہ بیماری کے باوجود اتنی پرُسکون ہو گئی کہ میں نے پوری زندگی اسے کبھی اتنا پرُسکون نہیں دیکھا۔ چنانچہ انھیں اسلام پر کچھ ضروری لٹریچر اور تعارف فراہم کر دیا گیا۔ غرض یہ کہ اس خطے میں اللہ تعالیٰ پے درپے اپنی نشانیاں دکھا رہا ہے۔ الحمدللہ! وقل الحمدللّٰہ‘ سیریکم آیاتہ فتعرفونھا‘ اور الحمدللہ کہتے رہیے۔اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی نشانیوں کی معرفت عطا کرتا رہے گا‘‘۔ دین اسلام کسی خطہ‘ جغرافیہ اور قوم کا محتاج نہیں ہے   ؎

ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

خلیل الرحمٰن عباسی ‘ دھیرکوٹ‘ آزادکشمیر

’’اشارات‘‘ میں اہم معاملات پر جس طرح لکھا جا رہا ہے حقیقی صورت حال سامنے آ رہی ہے۔ ’’اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘۔ کچھ توجہ طلب امور درج کر رہا ہوں: ۱- مضمون ’’تصورِتوحید‘‘ (جنوری ۲۰۰۲ء) کے ترجمے میں مشکل الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے عام قاری کے لیے بہت مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ۲- ’’بچوں کو فقہ‘‘ کے حوالے سے تعلیم دینے اور مخصوص مسائل (حیض‘ نفاس و طہارت) پڑھانے کے لیے جو جواب دیا گیا ہے (جنوری ۲۰۰۲ء) ‘مناسب ہے۔ البتہ اس میں یہ اضافہ کر دیا جائے کہ ماں کو بیٹیوںکو اور باپ کو بیٹوں کو مسائل سکھانے چاہییں اور اسی طرح معلمین و معلمات کو طلبہ و طالبات کے لیے مواقع فراہم کرنے چاہییں۔ یہ ایک مناسب رابطہ ہے۔ اَن پڑھ والدین بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔

نبیل شوکت وڑائچ ‘ دوحہ قطر

اشارات: ’’نیا استعمار: پس چہ باید کرد‘‘ (جنوری ۲۰۰۲ء) یقینا بہت پرُمغز‘ تحریک اسلامی کو صحیح رہنمائی فراہم کرنے والے‘ اور حکومتی ذمہ داران کو مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی و لائحہ عمل کے لیے اہم نکات کی طرف متوجہ کرنے والے ہیں۔ کاش! ہمارے ذمہ داران اس پر کھلے دل سے توجہ دیں اور ان کی روشنی میں اپنے لیے خطوطِ کار متعین کریں۔ قاضی حسین احمد کا جہاد سے متعلق مضمون سب کے لیے اور خصوصاً نوجوانوں کے لیے اہم ہدایات کا حامل ہے۔

محمود عالم ‘ ریاض‘ سعودی عرب

اشارات (جنوری ۲۰۰۲ء) ہمیشہ کی طرح فکرانگیز ہیں۔ حالات کا تجزیہ جس ایمانی بصیرت اور معلومات کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ اللہ تبارک و تعالیٰ اس میں مزید ترقی عطا فرمائے۔ آمین!

صابر نظامی ‘ الٰہ آباد

’’مغربی میڈیا اور مسلم دُنیا‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) بہت اچھا مضمون اور برموقع ہے۔ فی زمانہ پروپیگنڈا قوموں اور ملکوں کی فتح اور شکست میں بڑا بنیادی کردا ادا کرتا ہے۔ مسلمان حکمرانوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اُمت مسلمہ اور صاحب خیر افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی سطح پر جدید ذرائع ابلاغ کا موثر نظام قائم کرنے کی ترجیحاً کوشش کریں۔ پروپیگنڈے کا مقابلہ پروپیگنڈا سے‘ اسلحے کا مقابلہ اسلحہ سے‘ اور باطل کی ہمت کا ایمان سے مقابلہ کیا جائے۔

افغانستان کی صورت حال کو دیکھ کر بھی اُمت نے قدم نہ اٹھایا تو پھر اس کی تباہی اور بربادی یقینی ہے۔ کسی طاقت سے باطل شر کاکام لے رہا ہے تو اسی طاقت سے خیر کا کام لینا انتہائی ضروری ہے۔ آنکھیں بند کر لینے سے چوہے بلی کی دبوچ سے نہیں بچ سکتے۔ آج کا دور جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ اقوام متحدہ امریکہ کا دوسرا نام ہے۔اب ’’مسلم اقوام متحدہ‘‘ کے قیام کی بھی ضرورت ہے۔

ظہور احمد ‘ لاہور

’’فلم سازی کے اسلامی ادارے کی ضرورت‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) میں عقل کی تشکیل و رہنمائی کے لیے فلم کے موثرترین ذریعہ ہونے کی وجہ سے فلم سازی کے اسلامی ادارے کے قیام کی اہمیت پر تو بہت زور دیا گیا ہے لیکن اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی گئی کہ فلم (خواہ اخلاقی لحاظ سے اچھی ہو یا بری) اپنے تمام مراحل میں جس عمل (process) سے گزر کر تکمیل پاتی ہے‘ اس پر اسلامی نقطہ نظر سے کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ تو مبرہن ہے کہ نقالی یااداکاری کے بغیر فلم بن ہی نہیں سکتی اور دین اسلام میں نقالی کا کوئی جواز نہیں۔ یہ فن انسانی خودی کی تربیت کے لیے بہت مضرت رساں ہے۔ کیونکہ نقالی میں کمال اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ایکٹر اپنی خودی سے بیگانہ ہو جائے۔

واضح رہے کہ میرا اعتراض دستاویزی فلم پر نہیں کیونکہ ایسی فلم نقالی کی آلایش سے پاک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی معاشرت کی ایک اہم قدر پردہ ہے‘ محرم اور نامحرم کی پابندی ہے۔ ڈراما یا فلم میں عورت کا کردار بھی اسی حوالے سے غور طلب اور بنیادی سوال ہے۔

ناصر قریشی ‘ لاہور

’’فلم سازی کے اسلامی ادارے کی ضرورت‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) کے ضمن میں مصر کا ترجیحاً ذکر کیا گیا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں اس ذریعہ ابلاغ کے حوالے سے سب کچھ فراوانی کے ساتھ موجود ہے۔ ضرورت صرف صالح نیت ‘ موقع محل اور سرمائے کی ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ذرائع ابلاغ سے عیش و عشرت اور نمود و نمایش کے بجائے معاشرتی بدعات کے خلاف قلمی اور فنی جہاد کیا جائے۔ کچھ بڑے لوگ پیش رفت کریں۔ ہم اپنی دینی ثقافت پر مبنی بہترین ڈرامے اورفلمیں بنا سکتے ہیں اور اپنی حقیقی ثقافت کا احیا کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر افتخارکھوکھر ‘ اسلام آباد

’’فلم سازی کے اسلامی ادارے کی ضرورت‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) یقینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں‘ ایران میں بنائی جانے والی فلموں کو ماڈل کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

 

نبوت صرف اخلاقی حِس کے بیدار کرنے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ انسان کو ایک نظام نامہ اور مفصل ضابطہ اخلاق دیتی ہے‘ اچھے اخلاق پر اُس سے خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کے محل و مقام کا وعدہ کرتی ہے جس سے بہتر عمل کے لیے کوئی محرک ثابت نہیں ہوا‘ بداخلاقیوں اور قانون شکنی پر اس کے عذاب اور قہر سے ڈراتی ہے جس سے زیادہ کامیاب مانع دنیا میں موجود نہیں‘ خدا کے حاضر و ناظر‘ سمیع و بصیر اور عالم الغیب والشہادہ ہونے کا یقین اس کے دل و دماغ میں پیوست کر دیتی ہے جس سے بڑھ کر انسان کو ضبط میں رکھنے والی کوئی اخلاقی طاقت آج تک دریافت نہیں ہو سکی۔ یہی طاقت ہے جو انسان کو جلوت و خلوت‘ شہر اور صحرا میں پابند قانون رکھتی ہے‘ جو پولیس اور فوج کی طاقت کے بغیر بڑے بڑے جرائم اور صدیوں کی بری عادات کا استیصال کردیتی ہے‘ جو زبان کے ایک اشارہ سے پوری پوری قوم سے منہ لگی شراب چھڑا دیتی ہے‘ جو مجرموں کو شہروں اور صحرائوں سے کھینچ کر عدالت میں حاضر کرتی ہے اور ان کی زبان سے اپنے جرم کا اقبال کراتی ہے۔

جس اخلاقی نظام کی پشت پر نبوت کی یہ طاقت نہ ہو وہ صرف کتابی فلسفہ ہے جو ایک معمولی سے جرم کا انسداد بھی نہیں کر سکتا اور محدود سے محدود رقبۂ زمین میں بھی کوئی پاکیزہ اخلاقی ماحول پیدا نہیں کر سکتا۔

اس کی بہترین مثال امریکہ کی تحریک منع خمر کی ناکامی اور قانون تحریم خمر کی منسوخی ہے۔ اس تحریک اور قانون کی پشت پر دُنیا کی ایک عظیم ترین اور منظم ترین حکومت (ریاست ہاے متحدہ امریکہ)‘ بے پایاں دولت و سرمایہ‘ اعلیٰ علم و تہذیب اور لاانتہا وسائل نشروتبلیغ تھے۔ اندازہ ہے کہ شراب کے خلاف نشرواشاعت کے سلسلے میں صرف چھ سال کے اندر ساڑھے چھ کروڑ ڈالر صرف ہوئے اور وہ لٹریچر جو شائع کیا گیا وہ نو ارب صفحات پر مشتمل تھا۔ قانون کی تنفیذ کے سلسلے میں ۱۳سال کے اندر دو سو آدمی مارے گئے۔ ۵ لاکھ ۳۴ ہزار ۳ سو ۳۵ قید کیے گئے۔ ایک کروڑ ۶۰ لاکھ پونڈ کے جرمانے عائد کیے گئے۔ ۴۰ کروڑ ۴۰ لاکھ پونڈ مالیت کی املاک ضبط کی گئیں۔ لیکن ان انتہائی کوششوں کے باوجود امریکہ کی حکومت و قانون اور اس کے اصلاحی ادارے اور انجمنیں اہل ملک کو قانون کی پابندی اور شراب نوشی سے اجتناب پر آمادہ نہ کر سکیں بلکہ اس کے برعکس ان میں مے نوشی کا جنون پیدا کر دیا اور بالآخر ۱۴ برس بعد ۱۹۳۳ء میں جمہوریت کو مجبوراً اس قانون کو منسوخ اور شراب نوشی کو جائز قرار دینا پڑا  (تفصیلات کے یے ملاحظہ ہو‘ کتاب تنقیحات‘ مضمون’’انسانی قانون اور الٰہی قانون‘‘)۔ (’’رسالت‘‘ مولانا ابوالحسن علی ندوی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ شوال‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۰ھ‘ دسمبر ۱۹۴۱ء‘ جنوری‘ فروری‘ ۱۹۴۲ء‘ ص ۳۶)