مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۰۱

مسئلہ کشمیر کسی زمینی تنازع (land dispute)کا نام نہیں اور نہ یہ دو ملکوں کے درمیان جوع الارض کی کسی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ یہ سوا کروڑ انسانوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جن کی ریاست پر ایک استعماری ملک نے محض طاقت کے بل پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کر کے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل کو سیبوتاج (sabotage) کیا اور صرف قوت کے ذریعے آج بھی ان پر قابض ہے۔ یہ جارح قوت خود اپنے وعدوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوںاور کشمیری عوام کی بے مثال جدوجہد آزادی اور قربانیوں کو یکسرنظرانداز کر کے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے فسطائی اور سامراجی فلسفے کی بالادستی قائم کرنے پر مصر ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی بزدلانہ اور مجرمانہ روش پر قائم ہیں اور علاقے میں اقوام متحدہ کے مبصروں کی موجودگی اور مسئلے کے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود رہنے کے باوجود پچاس سال سے اس مسئلے کے حل کے لیے عملی کوششوں سے دست کش ہیں۔جناب کوفی عنان کے حالیہ دورہ پاک و ہند (مارچ ۲۰۰۱ء) کے بیانات نے ان کی بے بسی ہی نہیں‘ بے حسی اور بے حمیتی کو بھی طشت ازبام کر دیا ہے۔ انھیں اقوام متحدہ کی قراردادیں قصۂ پارینہ معلوم ہوتی ہیں اور اس عالمی تنظیم کے اپنے چارٹر کے تحت قیام امن اور تصفیہ طلب تنازعات کی دفعات سے بھی کوئی غرض معلوم نہیں ہوتی۔ اب لے دے کے اعلانِ لاہور اور دو طرفہ مذاکرات کے وعظ اور اپیلوں کے سوا ان کی جھولی میں کچھ نہیں۔ اور ان کا بھارت کی طرف سے وہی ایک جواب ہے کہ فضا سازگار ہو۔

بھارت کی اصل دل چسپی مسئلہ کشمیر کے حل سے نہیں صرف اس دبائو سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہے جو گیارہ سالہ تحریک جہاد نے اس پر ڈالا ہے اور جس کے نتیجے میں بھارت کی فوج اور ایک حد تک سوچنے سمجھنے والے سیاسی عناصر کسی راہِ نجات کی تلاش میں ہیں۔ بھارتی قیادت پوری عیاری کے ساتھ اصل اسباب کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ’’جنگ بندی‘‘ اور ’’سرحدی دہشت گردی‘‘ کی روک تھام کے لیے راہ پیدا کر رہی ہے اور امریکہ‘ مغربی سیاست کار‘ اور ایک حد تک کوفی عنان صاحب بھی اسی آواز میں آواز ملاتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ سب نہ نیا ہے اور نہ غیر متوقع‘ البتہ سب سے تشویش ناک پہلو پاکستان کی قیادت کے متضاد بیانات اور انگریزی صحافت کے کچھ قلم کاروں کی خلافِ جہاد مہم ہے جس کا بروقت نوٹس لینا اور انحراف اور پسپائی کے ہر امکان کا بروقت سدّباب ملت اسلامیہ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل اور ان کے گماشتوں نے ایک عرصے سے جہاد کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلا رکھی ہے اور اسے دہشت گردی (terrorism) اور تشدد (violence)کے ہم معنی قرار دیا جا رہا ہے۔ ستم ہے کہ خود پاکستان کی انگریزی صحافت میں ’مجاہد‘ کو اب ’جہادی‘ اور ’دہشت گرد‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور دفاع پر اخراجات کو غربت اور پس ماندگی کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیرداخلہ بھی لنگوٹ کس کر اس جنگ میں کود پڑے ہیں اور قانون سازی سے لے کر تعزیری اقدامات تک کی دھمکیاں قسط وار دے رہے ہیں۔ کبھی دینی مدارس پر پابندیوں کی باتیں کی جا رہی ہیں‘ کبھی ان کو دہشت گردی کے مراکز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاد کی تائید و نصرت کے لیے چندہ دینے والوں کو ڈرایا جا رہا ہے اور بلاتحقیق ایک سے ایک شرم ناک الزام ان لوگوں پر لگایا جا رہا ہے جو جہاد کشمیر کی پشتی بانی کر رہے ہیں۔ادھر واجپائی صاحب سیاسی آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف جنگ بندی میں تیسری توسیع کرتے ہیں تو دوسری طرف حریت کانفرنس کے وفد کو پاسپورٹ تک جاری کرنے سے انکار کرتے ہیں‘اور سید علی گیلانی جیسے محترم قائد پر قاتلانہ حملے کیے جا تے ہیں۔ کبھی ’’بات چیت‘‘ شروع ہونے کی نوید دیتے ہیں اور کبھی صاف مکر جاتے ہیں کہ فوجی قیادت سے مذاکرات کا کیا سوال (جیسے برما میں تو جمہوری حکومت ہے جس کے دورے بھی کیے جا رہے ہیں اور جس سے معاہدات کا بازار بھی گرم ہے!)۔ وہ اور ان کے وزیر خارجہ برابر ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ روکنے کا واویلا کر رہے ہیں جیسے جہادی تحریک کا آغاز تو ۱۳ اکتوبر کے بعد ہوا ہو اور اس سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان جو بھی بات چیت اور آمدورفت بشمول لاہور یاترا اور فرینڈشپ بس کا سلسلہ چلا تھا  وہ سب تو کسی ’’سرحدی امن‘‘ کے آغوش میں ہو رہا تھا!)

اس پس منظر میں امریکی سیاسی اور فوجی قیادتوں کے دورے اور خود سیکرٹری جنرل کی پاکستان اور بھارت میں تشریف آوری اور ٹریک ٹو کے نام پر بھارتی اور پاکستانی نام نہاد فاختائوں کی پروازیں اور دبے اور کھلے الفاظ میں کشمیر کے مسئلے کے جلد حل ہو جانے کی ہوائیاں  (kite-flying) ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کا پتا دیتی ہیں۔ پہلے جناب اصغر خان نے فرمایا کہ ’’چند ہفتے میں مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا‘‘ (جنگ‘ ۳مارچ ۲۰۰۱ء)۔  کئی انگریزی کالم نگاروں نے ان کی لے سے لے ملائی اور اب خود جنرل مشرف صاحب نے وسط مارچ ۲۰۰۱ء میں لاہور میں مدیران جرائد کے ظہرانے سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا کہ ’’مسئلے کے حل کا وقت اب بہت قریب ہے‘‘۔ معاف کیجیے‘ اطلاع ہے کہ اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ وہ اس مسئلے کو  حل کرنے کا اعزاز حاصل کرنے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تصور کرتے ہیں۔ (خدا نہ کرے کہ یاسرعرفات کی طرح کہیں نوبل انعام کی تمنا بھی کروٹیں لے رہی ہو۔)

اصغر خان ہوں یا جنرل مشرف‘ واجپائی ہوں یا کوفی عنان‘ سابق فوجی ہوں یا سفارت کار‘ سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی قوم کا ایک اصولی اور تاریخی موقف ہے جس سے ہٹ کر کسی فرد کو اس قوم کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ کسی کو یہ حق اور مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلمانان جموں و کشمیر‘ قائداعظم ؒ سے لے کر آج تک جس موقف پر قائم ہیں اور جس کے لیے انھوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور تنگی اور غربت کے باوجود ایک عظیم الشان فوج کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں اور ملک کو ایک نیوکلیر پاور بنایا ہے وہ اس بارے میں کسی انحراف یا پسپائی یا سمجھوتے کا تصور بھی کرے۔ یہ قوم غریب ہے اور بٹی ہوئی بھی‘ لیکن جہاں تک کشمیر کے مسئلے کا تعلق ہے یہ اس کے لیے ایمان و اعتقاد اور زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔  یہ مسئلہ زمانے اور وقت کی قید کا بھی پابند نہیں۔ اس جدوجہد کے بارآور ہونے میں جتنی مدت بھی لگے لیکن مسلمانان پاکستان اور مسلمانان جموں و کشمیر اس علاقے کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے اپنے حق خود ارادیت سے کم کسی بات کو کبھی قبول نہیں کر سکتے۔

یہ کسی خاص جماعت‘ گروہ یا طبقے کا مسئلہ نہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں قوم اور فوج کے درمیان بھی مکمل ہم آہنگی ہے۔ اعلانِ لاہور کے موقع پر کشمیر کے بارے میں حساسیت کے اظہار کے لیے جس طرح فوج نے سیاسی قیادت کو مجبور کیا اور کارگل کے معاملے میں جن جذبات کا اظہار فوج اور پوری قوم نے کیا وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکہ کی خوشنودی اور بھارت کی دوستی کے مشتاق چند سیاسی طالع آزمائوں کے سوا کوئی پاکستانی اس بارے میں کسی سمجھوتے کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ماضی میں بھی ‘جس کسی نے پاکستانی قوم کے اصولی موقف سے انحراف کی کوشش کی ہے اس کا حشر عبرت ناک ہوا ہے اور مستقبل بھی ان شاء اللہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ خود پاکستان کے دستور  میں دفعہ ۲۵۷ میں یہ بات واضح طور پر مرقوم ہے کہ استصواب ہی کے ذریعے اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اور وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی پاکستان سے ان کا رشتہ اور انتظام و انصرام کا دروبست قائم ہونا ہے۔ اس موقف میں کوئی تبدیلی یا اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں کیوں کہ یہ حق و انصاف پر مبنی اور عالمی قانون اور عہدوپیمان کے مطابق ہے۔ محض غاصبانہ قبضہ‘ خواہ وہ کتناہی طویل کیوں نہ ہو‘ اہل جموں و کشمیر کے اس استحقاق کو متاثرنہیں کر سکتا اور پاکستان کے اس موقف کو کمزور یا غیر متعلق نہیں بنا سکتا۔

پاکستان سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے دلائل اور اس کی تاریخی بنیادیں بھی بڑی محکم ہیں۔ جغرافیائی حیثیت سے دونوں کا ملحق ہونا اور سات سو سال کی مشترک سرحد ہی نہیں‘ سارا فطری اور تہذیبی نظام مشترک ہے۔ دریائوں کے رخ اور سڑکوں کے تسلسل‘ رنگ و نسل کی یکسانی‘ طریق بود و باش کی وحدت‘ دین و ثقافت‘ رسوم و رواج‘ تہذیبی روایات‘ تاریخی جدوجہد‘ سیاسی ہم آہنگی‘ سب نے کشمیر اور پاکستان کو ایک ناقابل تقسیم وحدت بنائے رکھا ہے اور ہمیشہ رکھیں گے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی شانہ بشانہ شریک تھے اور اصول تقسیم کی رو سے ۱۷ جولائی ۱۹۴۷ء میں کشمیر کی اسمبلی کے منتخب ارکان کی اکثریت نے الحاق پاکستان کا اعلان تک کر دیا تھا اور پونچھ اور شمالی علاقہ جات کے مسلمانوںنے باقاعدہ جنگ آزادی لڑ کر اپنے کو ڈوگرہ راج سے آزاد اور پاکستان سے وابستہ کیا تھا۔ لیکن ہم صرف ان حقائق کی بنیاد پر بات نہیں کر رہے بلکہ اس اصول کو بنیاد بنا رہے ہیں جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے‘ جس کی بنیاد پر خود امریکہ کے لوگوں نے برطانیہ کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی تھی اور مسلح جنگ کے ذریعے اپنے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے حق خود ارادی کے اصول کا اعلان فلاڈلفیا کے اعلامیے کی شکل میں کیا تھا۔ اس پر ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی بنیاد پڑی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن نیپہلی جنگ کے بعد ساری دنیا کی قوموں کے لیے اس کا اعلان کیا تھا۔ اسی اصول پر برعظیم کی تقسیم واقع ہوئی اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔

کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے سواکروڑ انسانوں کی قسمت سے کھیلے۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں بھی خود یا کسی بیرونی دبائو سے ان کے مستقبل کو طے نہیں کر سکتیں۔ ان کی اور عالمی ادارے کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ عالمی انتظام میں غیر جانب دارانہ استصواب کے ذریعے ان کو حق خود ارادیت کے استعمال کا موقع فراہم کر دیں۔ اسی حق کی خاطر وہاں کے مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب ان کے لیے سیاسی اور پرامن جدوجہد کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تو اسلام اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے اسی حق کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے مسلح جہاد کا آغاز کیا ۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس نے آج بھارت کو اور عالمی رائے عامہ کو اسے ایک مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے۔ محض امن‘ غربت سے نجات‘ ایٹمی جنگ کے خطرات سے بچائو اور عالمی کمیونٹی کی خواہشات کے نام پر کسی کنٹرول لائن کو (جس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں) مستقل سرحدمیں بدلنے یا تقسیم ریاست کے کسی منصوبے کو جموں و کشمیر کے عوام پر مسلط کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں‘ اسے مزید بگاڑنے اور دائمی فساد کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہوگا۔ جہادی قوتوں کو خاموش یا کمزور کرنے کی ہر کوشش خدا اور خلق دونوں سے غداری کے مترادف ہے۔

کوئی مذاکرات اس وقت تک بامعنی اور نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے جب تک :

۱- بھارت صاف الفاظ میں اس حقیقت کو تسلیم نہ کرے کہ مسئلہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے وعدوں کے مطابق کریںگے۔

۲- مذاکرات کا اصل مقصد ان کی رائے کو معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوںپر آج کے حالات کے مطابق عمل درآمد اور اس کے لیے مناسب انتظام اور اقدامات ہوگا۔

۳- استصواب کے لیے ایک ہی قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی فریم ورک ہے اور وہ اقوام متحدہ کی ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء‘ ۵ جنوری ۱۹۵۱ء اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء کی قراردادیں ہیں۔ البتہ پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوامی نمایندوں کی ذمہ داری ہے کہ سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ایک متفقہ لائحہ عمل حق خود ارادیت کے استعمال کے لیے طے کریں اور جو فیصلہ بھی وہاں کے عوام کریں اسے کھلے دل سے قبول کریں۔

پاکستان کی کسی قیادت‘ اور کسی عالمی راہنما کو ان تاریخی حقائق‘ اور حق و انصاف پر مبنی اس موقف سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کرنے اور جموں وکشمیر کے عوام کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ جس نے بھی اس کے برعکس کوئی راستہ اختیار کیا یا کرے گا اسے بالآخر منہ کی کھانا پڑے گی اور وہ حالات کو سنوارنے اور سنبھالنے کا نہیں مزید بگاڑنے کا باعث ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے جو کسی کی خواہش یاسازش سے ٹالا نہیں جا سکتا۔


اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے حالیہ دورے میں اسلام آباد اور دہلی میں کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر جناب چیف ایگزیکٹو اور وزارت خارجہ کی خاموشی ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ان کے موقف کو تسلیم کر لینے کے بعد اقوام متحدہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور بین الاقوامی قانون‘ معاہدے‘ سلامتی کونسل اور اس کے اداروں کی قراردادیں سب بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ہم ان کے ارشادات عالیہ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اور پھر کشمیر کی جدوجہد کے لیے اس کے منطقی تقاضوں کی طرف اشارہ کریں گے۔

کوفی عنان صاحب نے فرمایا ہے کہ کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر کافی عرصہ گزر گیا ہے اور وہ چارٹر کے باب ہفتم کے تحت نہیں جب کہ مشرقی تیمور اور عراق کے بارے میں قراردادیں قابل تنفیذ تھیں۔ کشمیر کے بارے میں اگر بھارت اور پاکستان دونوں درخواست کریں تب ہی اقوام متحدہ کچھ کر سکتی ہے ورنہ وہ صرف دو طرفہ مذاکرات کی اپیل ہی کر سکتی ہے جس کے لیے انھوں نے کمال مہربانی سے ایک بار پھر اعلانِ لاہور کا ذکر فرمایا ہے۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون‘ جنیوا کنونشن‘ قوموں کے درمیان معاہدات اور

بین الاقوامی یقین دہانیاں کسی زمانی تحدید (time limitation) سے پابند ہیں؟ ہمارے علم میں ایسا کوئی بین الاقوامی قانون‘ اصول یا روایت نہیں۔ یہ ممکن بھی نہیں ۔ اس طرح توقانون محض ایک کھیل بن جائے گا اور معاہدات بے معنی اور بے وقعت ہو کر رہ جائیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مکاوو (Macao)کے علاقے پر پرتگالیوں نے ۱۵۵۷ء میں قبضہ کیا تھا اور وہ ان کے تسلط میں ساڑھے چار سو سال تک رہا۔ لیکن بالآخر ۱۹۹۹ء میں چین نے اسے حاصل کر لیا اور محض ایک لمبی مدت تک قبضہ حقائق کو بدلنے کے لیے وجہ جواز نہ بن سکا۔ کیا ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد منظور ہونے والی قرارداد ۲۴۲ محض وقت گزر جانے سے ازکار رفتہ ہوگئی؟ ۱۷۱۳ء میں یوٹرخت کا معاہدہ واقع ہوا جس کے تحت جبرالٹر کی حاکمیت اسپین سے برطانیہ کو منتقل ہوئی۔ اسپین کے دعووں کے باوجود کیا محض وقت کے گزرنے سے معاہدہ کالعدم ہو گیا؟ ۱۸۹۸ء میں ہانگ کانگ کا علاقہ برطانیہ نے چین سے حاصل کیا تھا لیکن ۹۹ سال گزرنے پر برطانیہ کو معاہدہ کو پورا کرنا پڑا۔ تائی وان کا معامدہ بھی اسی طرح وقت گزرنے کے باوجود ایک زندہ مسئلہ ہے۔ مشرقی تیمور ہی کو لے لیجیے جس کا ذکر کوفی عنان صاحب نے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد تو ۱۹۷۵ء کی ہے لیکن عمل ۲۵ سال کے بعد ۲۰۰۰ء میں ہوا ہے۔ اگر ۲۵ سال میں یہ قرارداد غیر موثر نہیں ہوئی تو کشمیر کی قراردادیں کیوں غیر متعلقہ ہو گئیں۔

پھر کشمیر کی قرارداد کا معاملہ محض ایک قرارداد کا نہیں‘ ایک اصول کا ہے یعنی حق خود ارادیت۔ یہ

اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے۔ دفعہ ۱‘ اقوام متحدہ کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ اس کی شق ۲ میں صاف الفاظ میں اس مستقل اصول کو بیان کیا گیا ہے یعنی:

لوگوں کے حق خود ارادی اور مساوی حقوق کے حصول کے احترام میں۔

اسی طرح دفعہ ۲ (۴) تمام رکن ممالک کو پابند کرتی ہے کہ:

تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی ریاست کی سیاسی آزادی یا ملکی سرحدوں کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے احتراز کریں گے یا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کریں گے جو اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف ہو۔

واضح رہے کہ حق خود ارادیت اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک ہے۔

کشمیر کی قرارداد کا تعلق حق خود ارادیت سے ہے جس پر وقت گزرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۴ء کی دو تاریخی قراردادوں میں بین الاقوامی قانون کو واضح کیا گیا ہے ۔اسے اقوام متحدہ کے تمام ممالک نے بشمول امریکہ‘ بھارت اور پاکستان تسلیم کیا ہے۔ ۱۹۷۰ء کا اعلامیہ: دوستانہ تعلقات اور تعاون کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ ہے اور ۱۹۷۴ء کے اعلامیہ کا عنوان: جارحیت کی تعریف پر قرارداد ہے۔ یہ دونوں قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے اعلامیے کی مزید اہمیت ہے کہ اسے اقوام متحدہ کے ۲۵ سال پورے ہونے پر جس جنرل اسمبلی نے اس کا چارٹر قبول کیا تھا اسی نے اسے منظور کیا ہے۔

ان قراردادوں میں دو بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت ہے اور اس عنوان سے ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ترمیم نہیں‘ ان کی توضیح کی جا رہی ہے۔ ان اصولوں میں حق خود ارادیت اور طاقت کے استعمال کے اصول سرفہرست ہیں۔ اس میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ: طاقت کے استعمال کے نتیجے میں جو علاقہ حاصل ہوا ہو‘ اسے جائزتسلیم نہیں کیا جائے گا۔ نیز یہ کہ: نہ جارحیت کے نتیجے میں ملنے والے کسی خصوصی فائدے کو قانونی تسلیم کیا جائے گا۔

ان اعلانات کو اقوام متحدہ ہی کے اجلاس میں آسٹریلیا کے نمایندے نے چارٹر کی دفعہ ۱۳ کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کا حصہ قرار دیا تھا: بین الاقوامی قانون کی تدوین اور مرحلہ وار ارتقا میں ایک حصہ۔ (ملاحظہ ہو‘ نوام چومسکی کی کتاب  Power and Prospects  ۱۹۹۶ء‘ ص ۲۰۷)۔

بین الاقوامی قانون کی اس پوزیشن کی روشنی میں سلامتی کونسل کی قرارداد مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء پر نگاہ ڈال لیجیے جس میں مقبوضہ کشمیر کی اس نام نہاد دستور ساز اسمبلی کو غیر موثر قرار دیا گیا ہے جس نے بھارت سے الحاق کی توثیق کی تھی اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسمبلی کی قرارداد اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اور اس کے انتظام میں استصواب کا بدل نہیں اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔

اور اگر اس بارے میں کسی کوکوئی شبہ ہو تو عالمی ماہرین قانون کے کمیشن کی اپریل ۱۹۹۴ء کی رپورٹ کا مطالعہ کرے جن میں کشمیریوں کے اس حق کا ان صاف الفاظ میں اعتراف کیا گیا ہے اور اسے وقت کی گردش سے آزاد حق مانا گیا ہے:

کشمیریوں کا حق اُس حق کی بنا پر ہے جو کسی علاقے کے غیر ملکی غلبے سے آزاد ہوتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو اپنے لیے یہ انتخاب کرنے کا ہوتا ہے کہ بعد میں قائم ہونے والی (successor) کس ریاست میں شامل ہوں۔یہ حق ایک قائم شدہ آزاد ریاست سے علیحدگی کے قابلِ بحث حق سے بالکل ممتاز اور علیحدہ ہے اور یہ انڈیا سے اس کے علاقوں میں سے کسی کی علیحدگی کے لیے مثال نہیں بنتا۔

تقسیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام کو جس حق خود ارادی کا استحقاق حاصل ہوا تھا‘ وہ ابھی تک استعمال نہیں ہوا ہے اور نہ ختم ہوا ہے اور اس لیے آج بھی قابل استعمال ہے۔

سیکرٹری جنرل نے یہ بھی صحیح نہیں کہا کہ اگر کوئی قرارداد چارٹر کے باب ہفتم کے تحت منظور نہ ہوئی ہو  تو گویا اس کی تنفیذ ان کی ذمہ داری نہیں۔ اگر وہ اپنے ہی چارٹر کا بغور مطالعہ فرمائیں تو اس میں ان کو صاف مل جائے گا کہ دفعہ ۹۹ کے تحت یہ خود ان کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو جہاں سے بھی خطرہ ہو فی الفور اس کو سلامتی کونسل کے سامنے لائیں:

سیکرٹری جنرل کسی بھی ایسے معاملے کی طرف سلامتی کونسل کو توجہ دلائے گا جو اس کی رائے میں عالمی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں خطرہ بن سکتا ہو۔

اس طرح یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ امن عالم کو درپیش ہرخطرے کا خود نوٹس لے اور تمام ارکان کی طرف سے عملی اقدام کرے۔ دفعہ ۲۴ کے مطابق:

اقوام متحدہ کی جانب سے فوری اور موثر اقدام یقینی بنانے کے لیے اس کے ممبران عالمی

امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اوّلین ذمہ داری سلامتی کونسل پر ڈالتے ہیں۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اس ذمہ داری کے تحت اپنے فرائض کی ادایگی کا عمل سلامتی کونسل وہ ان کی جانب سے کرتی ہے۔

اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ہر ملک کا اتفاق کرنا ضروری ہے یا اس کا اطلاق صرف باب ہفتم کی قراردادوں پر ہے۔ اس شرط کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی جارح کے خلاف اقدام نہ ہو سکے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف اقدام کو کیوں قبول کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ دفعہ ۲۵ میں کہا گیا ہے:

اقوام متحدہ کے ممبران موجودہ چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کے فیصلوں کو قبول کرنے اور بجا لانے کو تسلیم کرتے ہیں۔

پھر دفعہ ۳۳ میں ہر تنازع کے تمام فریقوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خود‘ یا اقوام متحدہ کے ذریعے‘ تمام تنازعات کے پرامن تصفیے کے لیے اقدام کریں گے۔ دفعہ  ۳۶ اور ۳۷ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ مناسب اقدامات اور طریقہ کار تجویز کرے‘ خصوصیت سے ان معاملات میں جہاں دفعہ ۳۳ کے تحت کارروائی نہ ہو پا رہی ہو۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر ان دفعات پر عمل نہ ہو رہا ہو تو یہ سلامتی کونسل کی

ذمہ داری ہے کہ باب ہفتم کی دفعات ۵۱-۳۹ کے تحت کارروائی کا اہتمام کرے۔

تعجب ہے کہ سیکرٹری جنرل ان سب دفعات کو تو بھول گئے اور صرف دونوں پارٹیوں کی آمادگی پر سارا زور تقریر صرف فرما رہے ہیں۔ ان کو یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اعلانِ لاہور اور خود شملہ معاہدہ دو ملکوںکے درمیان معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ۱۳ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں بین الاقوامی معاہدات کی حیثیت رکھتی ہیں جن کے بارے میں ان کے چارٹر کی دفعہ ۱۰۳ یہ کہتی ہے:

اقوام متحدہ کے ممبران کے فرائض میں جو موجودہ چارٹر کے مطابق طے ہیں اور کسی دوسرے بین الاقوامی معاہدے کے تحت فرائض میں اگر کوئی تنازعہ ہو تو موجودہ چارٹر کے تحت متعین فرائض روبہ عمل آئیںگے۔

اس سب کی موجودگی میں سیکرٹری جنرل کا اپنی بے بسی کا اظہار صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ اقوام متحدہ صرف طاقت ور ملکوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔ ان کے مفادات کے لیے تو سب دفعات حرکت میں آجاتی ہیں خواہ معاملہ عراق کا ہو‘ یا مشرقی تیمور کا۔ اور اگر ان کا مفاد نہ ہو تو کمزور ملکوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں اوران کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو راستہ بھی انھیں نظر آئے خود اختیار کریں۔ چومسکی نے صحیح کہا ہے کہ یہی رویہ پورے عالمی نظام کے لیے خطرہ ہے:

ایسے لوگوں کی قسمت دائو پر لگی ہے جنھوں نے سخت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور اب بھی اٹھا رہے ہیں۔  اس کے ساتھ ہی عالمی نظام اور بین الاقوامی قانون کی بنیادیں بھی دائو پر لگی ہیں بشمول طاقت کے استعمال اور ناقابل تنسیخ حق خود ارادی کے یو این چارٹر کے اہم اصول کے‘جو تمام ریاستوں پر لازمی اور فرض ہے۔ (کتاب مذکور‘ ص ۲۰۴)


جب عالی طاقتوں اور خود اقوام متحدہ کا عملاً یہ حال ہو تو پھر کمزور ملکوں اور قوموں کے لیے کیا راستہ رہ جاتا ہے بجز اس کے کہ جو قوت بھی ان کو حاصل ہو--- سیاسی اور عسکری ---اسے اپنے حق کے دفاع اور اپنی آزادی کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ عقل‘ اخلاق اور بین الاقوامی قانون مظلوم کو ظلم کے خلاف جدوجہد اور مقبوضہ علاقوںاور لوگوں کو اپنی آزادی کے لیے قوت استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسے ان کا ایک جائز حق تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قانون طاقت کے ہر استعمال کو تشدد اور دہشت گردی قرار نہیں دیتا۔ مبنی برحق جنگ (just war) جو دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور آزادی اور حقوق کے لیے مثبت جدوجہد بھی‘ ایک معروف حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دفاعی جنگ اور چارٹر کے تحت اجتماعی طور پرقوت کا استعمال اس کی واضح مثالیں ہیں۔ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں‘ اقوام متحدہ نے ان کی تائید کی اور آزادی کے بعد انھیں آزاد مملکت تسلیم کیا۔ یعنی بین الاقوامی قانون نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کا ایک ماہر کرسٹوفر او کوئے (Christopher O. Quaye)  اس اصول کا ان الفاظ میں اعتراف کرتا ہے:

تقریباً تمام ہی آزادی کی تحریکوں کا ایک لازمی عنصر طاقت کا استعمال ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں جس تسلسل سے آزادی کی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کچھ کو جرأت مند قرار دیا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طاقت کے عنصر کو جائز قرار دیتی ہے۔ (Liberation Struggle in International Law فلاڈلفیا‘ ٹمپل یونی ورسٹی پریس‘ ۱۹۹۱ء‘ ص ۲۸۲)

یہی مصنف صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ:

دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد ایک جیسی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ (ص ۱۷)

نیز یہ کہ:

اقوام متحدہ کے تمام ادارے جس ایک چیز پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ حق خود ارادی کی ہر جدوجہد قانونی اورجائز ہے۔ (ص ۲۶۱)

بین الاقوامی امور کے وہ ماہر جو اس پوزیشن کو اتنے واضح الفاظ میں قبول نہیں کرتے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قوت کے ہر استعمال کو دہشت گردی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔

بین الاقوامی تعلقات کی پینگوئن ڈکشنری میں اس بات کو یوں ادا کیا گیا ہے:

دہشت گردی کے مسئلے پر ممانعت کرنے والا کوئی خصوصی معاہدہ تیار نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے حوالے سے اس کی تعریف میں مسائل ہیں۔ ایک آدمی کا دہشت گرد‘ دوسرے کا آزادی کا سپاہی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی قانون ابھی تک اس عمل کا احاطہ نہیں کر سکا ہے۔ (ص ۱۷۷)

لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حق خود ارادیت آج ایک مسلمہ حق ہے جس کا تعلق ایک علاقے کے عوام کے اس حق سے ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔

سیاسی حق خود ارادی لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا اپنے طریقے کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہ تصور ۱۷۷۶ء کے اعلان آزادی اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے اعلان حقوق انسانی میں مضمر ہے۔

اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر یہ کوشش کی ہے کہ اس تصور کو نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرے اور اس طرح اسے محض ایک تمنا نہیں بلکہ قانونی حق اور مثبت فرض قرار دے۔(ص ۴۷۷-۴۷۸)

ہاورڈ یونی ورسٹی کے مشہور زمانہ سیموئل  ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب The Clash of Civilizations  and The Remaking of World Order   (نیویارک‘ ۱۹۹۷ء) میں دہشت گردی کے خلاف سارے غم و غصے کے علی الرغم اعتراف کیا ہے(گویا  ع  نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں۔):

تاریخی طور پر دہشت گردی کمزوروں کا ہتھیار ہے یعنی ان لوگوں کا جو روایتی عسکری طاقت نہیں رکھتے۔ (ص ۱۸۷)

اور اس خطرے سے بھی متنبہ کیا ہے کہ

دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیار علیحدہ علیحدہ غیر مغربی کمزور قوموں کے ہتھیار ہیں۔ اگر‘ یا جب بھی‘

یہ ایک ہوئے‘غیر مغربی کمزور ملک طاقت ور ہو جائیں گے ۔ (ص ۱۸۸)

ہنٹنگٹن کی بات تو ایک طرح جملہ معترضہ تھی لیکن اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کا حق خود ارادیت ایک مسلمہ قانونی حق ہے اور اگر بھارت‘ اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس حق سے ان کو محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیںتو انھیں اپنی آزادی کے لیے ہر طرح کی جدوجہدکا ‘بشمول قابض دشمن کے خلاف قوت کے استعمال ‘ حق حاصل ہے اور اسے کسی طرح بھی دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔


جنرل پرویز مشرف نے کئی بار اس امر کا اعلان کیا کہ دہشت گردی اور کشمیر کا جہاد بالکل مختلف چیزیں ہیں‘ یہی حقیقت بھی ہے۔ لیکن اس وقت سرکاری ذمہ داریوں پر موجود چند افراد اور انگریزی صحافت سے متعلق متعدد قلم کار ذہنی انتشار پیدا کرنے اور جہاد کشمیر کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے موثر جواب اور استیصال کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں مزید تشویش ناک ہو جاتا ہے جب جہادی دبائو کے تحت بھارت کی قیادت اور فوج کوئی راستہ نکالنے کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہے اور بھارت کے چند اہم صحافی اور پالیسی سازی کو متاثر کرنے والی شخصیات کشمیر کی تحریک مزاحمت اور جہاد آزادی کو اس کے حقیقی تاریخی اور نظریاتی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کا اشارہ دے رہی ہیں۔

بھارت کے ایک چوٹی کے وکیل کے بالاگوپال (K.Balagopal)  وہاں کے اہم مجلہ Economic and Political Weekly  (۱۷ جون ۲۰۰۰ء) میں ’’دہشت گردی‘‘ کے مسئلے پر TADA  (بھارت کا انسداد دہشت گردی کا قانون) پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ٹاڈا کے مقاصد کے لیے جسے دہشت گردی کہا جا تا ہے وہ سیاسی عسکریت ہے۔ (ص ۲۱۱۵)

وہ موجودہ سیاسی عسکریت اور دہشت گردی میں فرق کرتے ہیں اور سیاسی عسکریت کو دہشت گردی قرار دینے کو حقیقت سے فرار قرار دیتے ہیں۔

سیاسی اور اجتماعی عسکریت میں دہشت کا ایک عنصر‘ جو ضروری نہیں کہ کم ہو ‘ شامل ہے لیکن یہ اصل بات نہیں ہے۔ اصل چیز جو اس کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں ہے۔ (ص ۲۱۱۵)

بال گوپال سیاسی عسکریت کو مجرمانہ دہشت گردی سے ممیز کرتا ہے اوربھارتی قیادت کو متنبہ کرتا ہے کہ:

اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈ میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد‘ امکان ہے کہ اکثریت‘ دیانت داری سے یہ سمجھتی ہے کہ وہ انڈین نہیں ہیں اور انھیں مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو انڈین سمجھیں۔ یقینا یہ قانون کے لیے بہت ہی نامناسب ہے کہ وہ اس وسیع البنیاد عوامی احساس پر سزا دے خواہ وہ اپنا اظہار کسی بھی شکل میں کرے۔ اور اپنے لیے احترام کا مطالبہ بھی کرے‘ نسبتاً زیادہ پھیلی ہوئی سیاسی سرگرمی کے تحفظ کے لیے۔ (ص ۲۱۲۲)

موصوف کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ ٹاڈا جیسے قوانین جوظالمانہ‘ استبدادی اور کسی بھی جمہوری نظام کے لیے ناقابل قبول ہیں‘  (oppressive, draconian and unbecoming of a democratic polity)  سیاسی عسکریت کا مداوا نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے۔

اس پس منظر میں اب یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ عسکریت کشمیر میں ظلم کی پیداوار ہے اور عوام کی مرضی کے خلاف ان کو محض بندوق کی گولی کی قوت پر زیردست رکھنا ممکن نہیں۔ اکانومک اینڈ پولٹیکل کے ۳ مارچ ۲۰۰۱ء کے شمارے میں واجپائی صاحب کی نام نہاد جنگ بندی کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک مشہور صحافی گوتم ناولکھا (Gautam Navalakha)  لکھتا ہے کہ:

یہ قابل ذکر ہے کہ عسکریت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسے عمل کا نتیجہ تھا جو لوگوں کے ہتھیار اٹھانے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا اور ایسا جب ہوا تھا جب قومی مفاد اور سلامتی کے نام پر ہر جمہوری راستے کو بند کر دیا گیا۔ اختلاف کو کچلا گیا۔ مطالبات مسترد کر دیے گئے۔ حکومت کی فوجی کارروائیاں کشمیری عوام کو مغلوب کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ فدائیوں کے حملے روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کچھ زیادہ نہیں کر سکتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں CRPF کے انسپکٹر جنرل نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے: ’’مجھے صاف کہنا چاہیے کہ خودکش حملے کا سرے سے کوئی جواب نہیں ہے۔ فوج کا کم سے کم ایک حلقہ اس بارے میں واضح ہے کہ فدائی حملے جاری رہیں گے` جنگ بندی ہو یا نہ ہو اورکوئی فوجی حل نہیں ہے۔ ۱۱ برسوں میں فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ دبائو کے تحت فوجیوں کا اپنے ہی ساتھیوں اور افسروں کا قتل کرنا خود اپنی کہانی کہہ رہے ہیں۔ جنوری میں ایسے دو واقعات ہوئے ہیں‘ ایک CRPFمیں‘ ایک BSF میں۔ اس کے نتیجے میں باہمی جھگڑے میں ۵ فوجی مارے گئے۔

یہ احساس اب تقویت پکڑ رہا ہے کہ عوام کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ موصوف لکھتے ہیں:

جو لوگ ظلم و جبر کے تحت زندگی گزار رہے ہوں‘ جن کا وجود شناختی کارڈ سے ثابت ہوتا ہو‘ جن کی پرائیویسی کو جب چاہے  violateکیا جا سکتا ہو‘ جن کو احتجاج کے حق سے محروم کیا گیا ہو‘ ایسے لوگوں کے لیے آزادی اپنے ایک معنی رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے آزادی ان کی اور ان کی تہذیب کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی واحد راستہ ہوتا ہے جس سے وہ اپنی انسانی حیثیت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس عوامی کیفیت (mood) کی بہترین مثال حزب المجاہدین سے ملتی ہے۔یہ مکمل طور پر مقامی سب سے بڑے عسکری گروپ کی حیثیت سے عوامی سوچ کو نظرانداز نہیں کر سکتا ہے۔ عوام کی رضامندی نہ ہو تو عسکری اقدامات نہیں کیے جا سکتے۔ اسی بات نے ان کو مجبور کیا کہ وہ جہادیوں سے فاصلہ رکھیں اور اپنی تحریک کو آزادی کا نہ کہ مذہب کا تشخص دیں۔ وہ اس موقف پر قائم ہیں کہ اصل فیصلہ کن عامل جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔

ان آوازوںکے باوجود بھارت کے لیے یہ کڑوی گولی ہضم کرنا ابھی مشکل ہے لیکن اسے بالآخر استصواب اور حق خود ارادیت کی طرف آنا پڑے گا بشرطیکہ سیاسی اور جہادی دبائوجاری رہے اور پاکستان کی قیادت کسی بزدلی یا جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جموں و کشمیر کے مسلمان جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور آج بھی ایک ایک مجاہد کے جنازے میں ہزاروں افراد شرکت کر رہے ہیں۔ ان کی جرأت کا تو یہ حال ہے کہ سری نگر کے ہوائی اڈے پر شہید ہونے والے پاکستانی مجاہدین کے جنازے پر ۱۰ ہزار سے زیادہ افراد نے گولیوںکا مقابلہ کرتے ہوئے شرکت کی اور ان کو اپنا ہیرو قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے کچھ تجزیہ نگار اب یہ کہنے کی جرأت بھی کر رہے ہیں کہ ’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ کا واویلا مبنی برکذب ہی نہیں حماقت ہے۔ نئی دہلی کے اخبار سنڈے پاینیر نے ’سرحد پار دہشت گردی‘ کے بارے میں کہا ہے کہ:

یہ جھوٹ ہے اور خطرناک حد تک سادہ بات ہے۔دہشت گردی عوامی بے اطمینانی سے پرورش پاتی ہے اور عوامی بے اطمینانی غیر ہمدرد انہ حکمرانی سے پھیلتی ہے۔ (۴ مارچ)

مزید اعتراف کیا گیا ہے کہ:

تنازعہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ بھارتی فوجیں عوام کو قتل کر سکتی ہیں لیکن جدوجہد آزادی کو  قتل نہیں کر سکتیں۔ یہ معلوم کرنا بے حد آسان ہے کہ ہم کشمیر پر کب اور کیوں ہولناک غلطی کا شکار ہوئے۔ جو بات آسان نہیں ہے وہ واپس نکلنے کا راستہ معلوم کرنا ہے۔ جنگ بندی کوئی حل نہیں ہے۔ یہ مقصد کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے۔

جس مقام پر اس وقت بھارت کی قیادت اور دانش ور ہیں وہاں سے اگلا قدم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھیں جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کی بالادستی تسلیم کرنا ہوگی۔ پاکستان اور تحریک مزاحمت کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس نازک مرحلے کو صبروہمت اور جرأت و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنے اور تیز تر کرنے کے لیے استعمال کرے۔ ایک قدم کی لغزش بھی حالات کو متاثر کر سکتی ہے۔


یہاں اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں بھی بھارت کی حکمت عملی یہی تھی کہ ’’جنگ بندی‘‘ تسلیم کر لو مگر استصواب اور مسئلے کے حل کی بات موخر کر دو۔آج بھی وہ ایک بار پھر اسی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے ۔ جنگ بندی ہمارا مسئلہ نہیں‘ بھارت کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اندرونی اور بیرونی دبائونہ صرف جاری رہے بلکہ بھارت کے لیے اپنے قبضے کو باقی رکھنا عسکری‘ سیاسی اور معاشی ہر اعتبار سے ممکن نہ رہے۔ گوتم ناولکا نے بھارت کے طریق واردات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس پر پاکستان کی قیادت اور صحافت کے ان کرم فرمائوں کو غور کرنا چاہیے جو غیر مشروط مذاکرات کے لیے بے چینی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جہادی قوتوں کو کمزور کرنے یا ان کو بھی سیز فائر کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:

ماضی کا ایک پیغام ہے۔ بھارتی حکومت نے کئی بار یہ مظاہرہ کیا ہے کہ یہ اسی وقت سنتی ہے جب لوگ ہتھیار اٹھا لیں۔ مسلح گروپوں کو سر پہ بٹھاتی ہے اور غیر متشدد تحریکوں کو حقیر گردانتی ہے۔ یہ خواہ مخواہ کی بات نہیں ہے کہ ۱۹۹۴ء میں JKLF کی یک طرفہ جنگ بندی کا نتیجہ مذاکرات نہیں بلکہ ان کے ۶۰۰ سے زیادہ ممبروں کی ہلاکت ہوا۔ اسی طرح اگرچہ حریت کانفرنس نے غیر متشدد جدوجہد کو اختیار کیا ہے‘ اسے  پُرامن مہم چلانے یا احتجاجی مظاہرے کرنے کا حق نہیں دیا گیا ہے۔

اس کے بالمقابل باغیوں کو تحریک پر حملہ کرنے اور نفرت کی بنیاد پرقائم شیوسینا ‘سنگ پری وار اور پانن کشمیر جیسوں کو کھلی آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے یہ توقع کرنا کہ جنگجو مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر غیر مسلح ہو جائیں‘ عبث ہے۔ توپیں بھی اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گی جب تک کوئی پرخلوص کوشش نظر نہیں آتی۔ گذشتہ پانچ عشروں سے آزادی کے لیے ناگا تحریک کے ساتھ جو برتائو کیا گیا ہے وہ سامنے ہے۔ زیرزمین ناگا تحریک کے ساتھ کئی بار جنگ بندی ہوئی جس کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر مذاکرات ہوئے (کئی بھارتی وزیراعظم زیرزمین ناگا لیڈروں سے مل چکے ہیں)۔ حکومت نے ہر موقع کو ان میں تفریق ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ ان کے ایک حصے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ تصفیہ کا اعلان کیا اور کہا کہ حالات معمول پر آگئے ہیں اور مسئلہ حل ہو گیا لیکن ناگاعوام ہر بار پھر بغاوت کرتے نظر آئے۔ مسلح جدوجہد کو شکست نہ دی جا سکی بلکہ

بی ایس ایف خصوصاً فوج پھنس کر رہ گئی۔ بھارتی فوج کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو لیکن وہ پرعزم عوام کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ تلخ سبق بھارتی فوج نے ناگا زیرزمین سے اپنی جنگ میں سیکھا ہے۔ اب نہ صرف غیر مشروط مذاکرات ہو رہے ہیں بلکہ تین سال کی ٹال مٹول کے بعد حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ مطالبے کے مطابق جنگ بندی تمام ناگا علاقوںکے لیے ہے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ناگا تحریک کو اپنے اس موقف پر قائل کرلے گی کہ حل انڈین یونین کی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔ غیر مشروط مذاکرات میں یہ بات مضمر ہے کہ بھارتی حکومت کو بھی ناگا نقطۂ نظر سننے اور ماننے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اسی طرح حریت کانفرنس اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے بغیر امن کا عمل سطحی ہو کر رہ جاتا ہے۔

جموں و کشمیر میں ایک طرف ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ قانون کی حکمرانی بحال ہواور دوسری طرف ایسے اشارے ہوں جس سے بھارت اور پاکستان میں امن چاہنے والوں کو تقویت ملے۔ جموں و کشمیر پولیس اور باغیوں کو کارروائی سے روک دینا چاہیے۔ جرائم کی تفتیش ہونی چاہیے اور مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔

حریت کانفرنس کو پاکستان جانے دینا‘ غیر مشروط مذاکرات کے انعقاد کا اعلان‘ پاکستان سے خارجہ سیکرٹری کی سطح پر روابط کی پیش کش‘ کمزور ہوتے ہوئے امن کے عمل میں زندگی ڈالنے کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔ اس سے جمہوری امن کی طرف پیش رفت ہوگی۔ تینوں فریقوں میں مذاکرات سے کوئی حل سامنے آئے گا۔


بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی اور چال بازیوں‘ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی بے حسی اور بے توجہی‘ تحریک مزاحمت کی قربانیوں اور مجاہدین کی کامیابیوں اور خود بھارت میں ایک نئی سوچ کے آثار سب جس حکمت عملی پر ثبات اور مزید اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں وہ اصولی موقف پر دل جمعی سے استقامت‘ جہاد آزادی سے مکمل یک جہتی‘ مجاہدین کی ممکنہ مدد و استعانت اور عالم اسلام اور دنیا کی تمام انصاف اور آزادی پسند قوتوں کو متحرک اور منظم کرنے کی جان دار مہم ہے۔

کشمیر کے مسلمانوں کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ بھارتی ظلم کے خلاف ہر ممکن ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر کارفرما ہو کر اہل جموں و کشمیر اپنے ایمان‘ اپنی آزادی اور اپنی ثقافت و تہذیب کی حفاظت کر سکتے ہیں اور ان کی اس جدوجہد میں مدد ہی کے ذریعے پاکستانی قوم اپنا فرض ادا کر سکتی اور خود اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکتی ہے۔ بلاشبہ جہاداور محض جنگ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور خود قرآن نے حرب کی اصطلاح کو ترک کر کے جہاد کی اصطلاح کو اختیار کر کے ان کے فرق کی ہم کو تعلیم دی ہے۔ جہاد‘فی سبیل اللہ کی شرط سے مشروط ہے اور ان آداب اور احکام کے فریم ورک میں اسے انجام دیا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں۔ نیز جہاد ان ہی حالات میں فرض ہوتا ہے جو شریعت نے طے کر دیے ہیں اور ان تمام امور کی روشنی میں ‘فلسطین ہو یا جموں و کشمیر جو جدوجہد مسلمان کر رہے ہیں وہ جہاد ہے ۔ اس میں ان کی مدد و نصرت تمام مسلمانوں پر اور خصوصیت سے پاکستانی مسلمانوں پر لازم ہے۔

اگرمسلمان جہاد کے راستے کو اس کے آداب کے ساتھ اختیار کریں تو ہمیں یقین ہے کہ احیاے جہاد‘ احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور امت مسلمہ مظلومی اور محکومی سے نکل کر ایک بار پھر اپنے عالمی مشن کو اسی اعتماد اور انکسار کے ساتھ انجام دے سکے گی جس کی تعلیم ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور ایک بار پھر دنیا عدل و انصاف‘ نیکی اور تقویٰ‘ محبت و اخوت‘ علم و فضل اور مادی فراوانی اور اخلاقی فضائل کی بہار دیکھ سکے گی‘ اور اقبال کی یہ تمنا پوری ہو سکے گی:

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے

وہ کیا چیز ہے جو ایک مریض کو کڑوی کسیلی دوائیں خوشی خوشی پینے پر آمادہ کرتی ہے؟ وہ کون سی طاقت ہے جو ایک کسان کو منوں اناج اپنے ہاتھوں گھر سے اٹھا کر کھیت میں بیج کی صورت دبا دینے پر مجبور کرتی ہے؟ وہ کون سا داعیہ ہے جو ایک طالب علم کو رات کا آرام اوردن کے دل پسند مشاغل ترک کر کے پڑھائی کے خشک اور بیزار کن کام کے لیے مستعد کرتا ہے؟--- مریض کے لیے صحت یابی کی امید‘ کسان کے لیے اچھی فصل کی آس‘ اور طالب علم کے لیے تعلیمی کامیابی کی توقع ہی وہ داعیہ ہے جو ان کے نخلِ تمنّا کو سرسبز و شاداب رکھتا ہے۔ یہ اُمید ہے جو ان کی زندگی کی تاریک راہوں کو قندیل رہبانی کی مانند روشن کرتی ہے۔ امید‘ کاہل انسان کو چست اور چست کو سرگرم عمل بنا دیتی ہے۔ امید انسان میں عمل کا داعیہ ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ مداومت عمل پر بھی اسے اُبھارتی رہتی ہے۔ یہ علمی ترقیات‘ یہ ایجادات و اکتشافات کے ہنگامے‘ یہ آمدورفت کے طاقت ور اور تیز رفتار وسائل اور رسل و رسائل اور ابلاغ کے حیرت انگیز ذرائع‘ یہ عظیم الشان تمدن اور پرشکوہ ادارے‘ امید ہی کے کرشمے اور مظاہر ہیں۔

امید کا وہ تصور جو محض مادی اسباب پر اعتماد کرنے سے پیدا ہوتا ہے‘ زندگی پر اپنے اثرات ضرور مرتب کرتا ہے لیکن بہت محدود ہے‘ جب کہ یقین و اذعان اور عقیدہ و ایمان کی بنیادوں پر استوار تصورِ امید اپنے دامن میں لامحدود امکانات اور اثرات رکھتا ہے۔ اس لیے ایک صاحب ایمان سے زیادہ پرامید شخص دنیا میں کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ ایمان ایک ایسی عظیم ہستی کے تسلیم کر لینے کا نام ہے جو پوری کائنات کا نظام اس طرح چلا رہی ہے کہ اس کی نظر سے نہ تو کوئی چیز اُوجھل ہے (وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلاَّ یَعْلَمُھَا‘ درخت سے گرنے والا کوئی پتا ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔الانعام ۶:۵۹) ‘اور نہ ہی وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز

 

ہے (وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآئِ ز تم نہ زمین میں عاجز کرنے والے ہو نہ آسمان میں۔العنکبوت ۲۹:۲۲) ۔وہ ہستی ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دُور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ہر ایک کی پکار کا جواب دیتی ہے جب کوئی اسے پکارتا ہے ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا (البقرہ ۲:۱۸۶) پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ‘ میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔

جس طرح رب کریم کے فضل و رحمت کا کوئی کنارہ نہیں (وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ ط ‘ میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ الاعراف ۷:۱۵۶)‘اسی طرح مومن کی امید بھی بیکراں ہے۔ جب مومن کا جینا اور مرنا اسی کے لیے ہو جاتا ہے تو ہر گھڑی  اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کا تصور اس کے ذہن میں مستحضر رہتا ہے۔

وہ ایک مضبوط ہستی کا دامن تھام لیتا ہے جس کا سہارا مشکل سے مشکل حالات میں بھی ٹوٹنے والا نہیں۔  وَیُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لاَانْفِصَامَ لَھَا ط (البقرہ ۲:۲۵۶) ’’جو کوئی اللہ پر ایمان لے آیا‘ اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا‘ جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘۔ چنانچہ بندئہ مومن کو اپنے رب سے ملاقات کی امید مشکل حالات میں بھی نفسانی ترغیب کے برعکس نیک کام پر کاربند رکھتی ہے۔  فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا (الکہف ۱۸:۱۱۰) ’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے‘‘۔ رب کریم کی ملاقات سے ناامید لوگ ہی دنیا کی زندگی پر فریفتہ ہوتے ہیں (یونس ۱۰:۷)۔

امید‘ ایمان و یقین کی کوکھ سے جنم لیتی ہے‘ جب کہ مایوسی کا خمیر تشکیک و بے یقینی سے تیار ہوتا ہے۔ جو شخص اللہ کے وجود اور اس کے حکیم و عادل ہونے کا پورا یقین نہیں رکھتا ‘اسے نہ لوگوں سے خیر کی امید ہوتی ہے اور نہ خود زندگی سے۔ مایوسی کی سیاہ عینک کے ساتھ دنیا دیکھنے کی وجہ سے اسے ہر چیز میں فساد ہی فساد اور تاریکی نظر آتی ہے۔ اسے روے زمین ایک جنگل اور اس پر بسنے والے انسان درندے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح زندگی اسے ایک ناقابل برداشت بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ گویا جو جتنا زیادہ مایوس ہوگا وہ اتنا ہی بڑا کافر ہوگا۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَلِقَآئِہٖٓ اُولٰئِکَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ (العنکبوت ۲۹: ۲۳) ’’جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہو چکے ہیں‘‘۔ چونکہ مایوسی کفار کا شیوہ ہے اس لیے مسلمانوں کو یہ قطعاً زیب نہیں دیتی۔ لیکن حالات یہ ہیں کہ دین و ایمان کی لذت سے بے بہرہ لوگ تو ایک طرف ‘ خود قوم کا وہ طبقہ جو دین و دانش کا محافظ اور زینت محراب و منبر ہے ‘ اصلاح احوال کی امید کی بجائے مایوسی کا پرچارک نظر آتا ہے۔

جس دین کو صنم خانوں سے کعبہ کے پاسبان مل گئے ہوں‘ جس کتابِ انقلاب نے فضیل بن عیاض جیسے خطرناک ڈاکو کی دنیاے دل بدل کر اسے ولی دوراں بنا دیا ہو‘ جس قرآن نے نبیؐ مہربان کے قتل کے ارداے سے نکلنے والے قریش کے سپوت کو اسلام کا فاروق اعظمؓ بنا دیا ہو‘ اسی قرآن پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے مایوسی کا کیا جواز ہے؟ کیا اب سینوں میں دلوں نے دھڑکنا بند کر دیا ہے؟ کیا اب فطرتِ انسانی میں خدا نے کوئی تبدیلی کر دی ہے؟ کیا سعادت و رحمت کے باب میں قوانینِ الٰہی میں کوئی ردّ و بدل ہو گیا ہے؟ کیا قرآن کے الفاظ کی تاثیر اب ختم ہو گئی ہے؟ نہیں‘ صرف انسان نے قرآن کی پکار کی طرف سے کانوں کو بند کر لیا ہے!

قرآن کی روشنی میں

ایک بندئہ مومن کے لیے قرآن کے الفاظ جا بجا اور ہر گھڑی امید کا چراغ روشن کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے کوئی گناہ سرزد ہو تو قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا (کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ الزمر  ۳۹:۵۳) کے الفاظ امیدِ مغفرت کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے۔ تنگی حالات اور شدائد و مشکلات میں  اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (الم نشرح ۹۴:۶) کا ارشاد اس کے لیے کشایش و فراخی کی نوید بن جاتا ہے۔ معاملات کی پیچیدگی اور حالات کی تاریکیوں میں کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو تو اللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط (جو لوگ ایمان لاتے ہیں‘ ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔  البقرہ ۲:۲۵۷) کی خوش خبری اس کے لیے روشنی کی قندیل بن جاتی ہے۔ جب انسان اپنی خلوت میں اسے یاد کرے تو وہ  فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (تم مجھے یاد رکھو ‘ میں تمھیں یاد رکھوں گا۔ البقرہ ۲:۱۵۲) کہہ کر اپنے فرشتوں کی محفل میں اس کی عزت افزائی کا اعلان فرماتا ہے۔ جب مرض لاعلاج ہو جائے تو اس وقت بھی وہ

وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ o (اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ الشعراء ۲۶:۸۰) کے نسخہ رُوحانی کے سہارے امیدِ صحت کے ساتھ مرض کا مقابلہ کرتا ہے۔کسی حادثہ و نقصان پر بھی  اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶) کا اظہار کرنے والوں کے لیے  اُولٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف (البقرہ ۲:۱۵۷) کے الفاظ مژدئہ جانفزا ثابت ہوتے ہیں۔

غیر اسلامی حکومت کے خاتمے اور خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ

مِنْ قَبْلِھِمْ ص  (اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ  وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔

النور ۲۴:۵۵) کی یقین دہانی اس جدوجہد کے لیے انھیں نئے سرے سے سرگرم عمل کر دیتی ہے۔ فسق و فجور کے ماحول میں جب اہل حق گھر جائیں اور معاش و رزق حلال کے دروازوں پر ہر طرف شیطان کے حواری قابض ہوں تو وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o  وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِبُ  ط (جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ الطلاق ۶۵:۲-۳) کا فرمان کمزوروں کے لیے پیغام مسرت بن جاتا ہے۔ جب دین کے سپاہی اس کی راہ میں جدوجہد کو کٹھن سمجھ کر گھبرانے لگیں تو  وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط (جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ العنکبوت ۲۹:۶۹) کا اعلان ان کی راہیں ہموار کرنے کی نوید بن جاتا ہے۔ جب راہِ حق کے مصائب و شواہد انھیں خوف زدہ و عم زدہ کریں تو لاتخافوا ولاتحزنوا کی خوش خبری ان کے دل کی ڈھارس بن جاتی ہے۔جب اقامت دین کی جدوجہد میں اپنوں کی بے وفائیاں اور غیروں کی سازشوں کی کامیابیاں اہل حق کو بددل اور کم ہمت کرنے لگیں تو وَلاَ تَھِنُوْا وَلاَ تَخْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) کی بشارت ان کے زخمی دل پر مرہم کا پھاہا ثابت ہوتی ہے۔ دنیا میں کفر و باطل کے غلبے کی صورت میں بھی ان الباطل کان زھوقا (بنی اسرائیل ۱۷:۸) کا ارشاد زوالِ باطل کی امید اور استیلاے حق کی نوید بن جاتا ہے۔

دشمنانِ حق کی کثرت و طاقت اور داعیان حق کی قلت تعداد دیکھ کر جب دل ھول کھانے لگیں تو کبھی کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط (بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ البقرہ ۲:۲۴۹) کا فرمان الٰہی چھوٹی جماعتوں کے لیے راہِ حق میں

ثابت قدمی کا ذریعہ بن جاتا ہے‘ تو کبھی  فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ o (اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔ المائدہ ۵:۵۶) کا تشفی آمیز ارشاد طمانیت قلوب اور تقویت اذھان کا باعث بن جاتا ہے۔ مخالفین حق کی ریشہ دوانیوں میں وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ الصف ۶۱:۸) کا یقین افروز خطاب ایمان و استقامت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ جب ظلم و کفر کے غلبے میں دنیاوی اسباب اور سہارے منقطع ہو جائیں تو بھی نظروں سے اوجھل خدائی فوجیں اپنے بندوں کے لیے سرگرم رہتی ہیں۔ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا (التوبہ ۹:۴۰) ’’اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تمھیں نظر نہ آتے تھے‘‘۔ اس کی فوجوں کے لشکری کبھی غارِ ثور کے مکڑے کی صورت دشمنانِ حق کے لیے تلاش رسولؐ کی کوشش ناکام بنا دیتے ہیں‘ اور کبھی بحرِقلزم میں عصاے کلیمی کی ایک ضرب ایک قوم کے لیے راہِ نجات کھول دیتی ہے اور دوسری ضرب لشکر فرعون کی غرقابی کا سامان کر دیتی ہے۔ جیل کی کوٹھڑی میں محبوس شخص کو فرمانرواے مملکت بنانا‘ اور نمرودی بادشاہت کو مچھر کے ذریعے ذلت آمیز موت کا شکار کر دینا‘ ان لشکروں کے لیے معمولی سا کرشمہ ہے۔  وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلاَّ ھُوَ ط  (المدثر۷۴:۳۱) ’’اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا‘‘۔

ایک مسلمان کی حیثیت سے قرآنی تعلیمات کے بعد ہمارے لیے رسول ؐاللہ کی حیات طیبہ ہی بہترین اسوہ ہے اور اس اسوئہ کامل سے رہنمائی کے لیے آدمی کا اللہ کی رحمت کے بارے میں پُرامید ہونا ضروری ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرِ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا  o (الاحزاب ۳۳:۲۱) ’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے‘‘۔

سیرتؐ کی روشنی میں

حضورؐ کی زندگی میں امید کا پہلو ہر جگہ جلوہ گر نظر آتا ہے۔ مکی دورِ دعوت میں طنز و طعن‘ تضحیک و استہزا سے شروع ہونے والی مخالفت کی نوبت ظلم و تشدد اور معاشرتی مقاطعے تک پہنچی لیکن ان کٹھن حالات میں بھی حضورؐ حق کی کامیابی اور غلبے کا امید افزا پیغام سناتے رہے بلکہ حضورؐ اور صحابہؓ کے راستے کی سختیاں جتنی بڑھتی گئیں آپؐ کے چراغ امید کی لَو بھی اتنی ہی بڑھتی چلی گئی۔

حضرت خبابؓ بن ارت جنھیں لوہے کی سلاخوں سے داغا جاتا تھا‘ حضورؐ سے ناقابل برداشت اذیتوں کی شکایت کرتے ہیں اور کفار کے لیے بددعا کی درخواست کرتے ہیں۔ آپؐ حضرت خبابؓ کو صبرواستقامت کی تلقین فرماتے ہیں اور مستقبل کی کامیابی کی امید کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اے خبابؓ ابھی سے گھبرا گئے ‘تم سے پہلے علم برداران حق کو آروں سے دولخت کر دیا گیا اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کا گوشت نوچا گیا۔ اور پھر یقین سے لبریز آواز میں فرمایا: ’’خدا کی قسم! یہ دین ضرور غالب ہو کررہے گا اور ایک تنہا سفر کرنے والا صنعا سے حضرموت تک سفر کرے گا اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہوگا ۔(ریاض الصالحین)

غور کیجیے جس ملک کی بدامنی کی نقشہ کشی اللہ نے  وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِھِمْ ط (ان کے گردوپیش لوگ اُچک لیے جاتے ہیں۔ العنکبوت ۲۹:۶۷) کے الفاظ میں کی ہو‘ اور جہاں مسلمانوںکی کمزوری کی حالت کو تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ (تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں اُچک نہ لے جائیں۔ الانفال ۸:۲۶) کے پیرایے میں بیان کیا ہو وہاں ان یقین افروز ارشادات کے پیچھے پس پردہ کیا چیز بول رہی ہے؟

کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ سے حضورؐ نے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولنے کے لیے چابی مانگی تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ بظاہر مایوس کن حالات میں بھی آپ ؐنے امید افزا اعلان فرمایا: ’’ایک دن یہ چابی ہمارے پاس ہوگی اور ہم جسے چاہیں گے اسے تفویض کریں گے‘‘ ۔

وادی طائف میں لہولہان رسولؐ سے جب حضرت زیدؓ نے عرض کیا کہ آپؐ ان کے لیے بددعا کریں تو غم و خزن میں ڈوبی آواز میں بھی ایک پیغام امید تھا۔ فرمایا: میں ان کے لیے کیوں بددعا کروں۔ اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی آیندہ نسلیں ضرور خداے واحد کی پرستار ہوں گی۔  (محسن انسانیتؐ ‘نعیم صدیقی‘ جولائی ۱۹۸۹ء‘ ص ۱۹۶)

اس وقت آپ ؐکی بے بسی کا کیا عالم ہوگا جب آپ ؐاپنا آبائی شہر اور گھرانہ چھوڑ کر صرف ایک رفیق خاص کے ہمراہ سفر ہجرت پر رواں تھے۔مگر سراقہ بن جعشم نے جب امان طلب کی تو نہ صرف اسے امان نامہ لکھوا دیا بلکہ یہ مژدہ بھی سنایا: ’’اے سراقہ تمھاری اس وقت کیا حالت ہوگی جب کسریٰ ایران کے کنگن تمھارے ہاتھوں کی زینت ہوں گے‘‘۔

جب عرب کے تمام قبائل و احزاب مدینہ پر حملہ آور ہونے والے تھے تو دفاع مدینہ کے لیے خندق کی کھدائی کے دوران ایک بڑا پتھر رکاوٹ بن گیا۔ صحابہؓ کی خواہش پر آپؐ نے دست مبارک سے جب اس چٹان پر کدال چلائی تو اس سے چنگاریاں نکلیں۔آپؐ نے فرمایا: ’’یمن کی کنجیاں میرے حوالے کر دی گئیں‘‘۔ دوسری ضرب پر شعلہ بلند ہوا تو فرمایا: ’’ملک شام کے محلات مجھے دکھائے گئے‘‘۔ تیسری ضرب پر فرمایا: ’’کسریٰ ایران کے محلات میرے لیے کھول دیے گئے‘‘۔ (احمد‘ نسائی)

حضورؐ کی پوری زندگی کے اقوال و اعمال بشروا ولا تنفروا کی تفسیر ہیں۔ آپؐ نے جہاں اپنے دَور کے لوگوں کی عظمت و فضیلت کے بیان کے ذریعے ان کو امید کی کرن دکھائی وہاں آپؐ نے بعد کے ادوار کے لوگوں کو بھی اپنی محبوبیت کے امیدافروز اشارے دیے۔

حضورؐ نے فرمایا: ’’میری اُمت میں سے میرے محبوب ترین لوگ وہ ہوں گے جومیرے بعد پیدا ہوں گے اور آرزو کریں گے کہ اپنے اہل و عیال کے بدلے میں مجھے دیکھ لیں‘‘۔ (مسلم)

ہر دَور کے لوگوں کو پُرامید رکھنے کا یہ کیا خوب انداز ہے کہ فرمایا:--- ’’میری اُمت کی مثال بارش کی مانند ہے۔یہ نہیں جانا جاتا کہ اس کا اوّل بہتر ہے یا آخر۔ وہ اُمت کیسے ہلاک ہو جس کے اوّل میں‘ مَیں ہوں‘ مہدی اس کے وسط میں‘ اور مسیح  ؑاس کے آخر میں ۔ (مشکوٰۃ)

حضرت ابوجمعہؓ صحابی رسولؐ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول ؐاللہ کے ساتھ ہم نے کھانا کھایا۔ حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح ہمارے ساتھ تھے۔ انھوں نے سوال کیا: ’’یارسولؐ اللہ! ہم سے بڑھ کر بھی کوئی بہتر ہو سکتا ہے کیونکہ ہم اسلام لائے اور آپؐ کے ساتھ مل کر جہاد کیا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘ وہ لوگ جو تمھارے بعد پیدا ہوں گے‘ مجھ پر ایمان لائیں گے‘ جب کہ انھوں نے مجھے دیکھا نہ ہوگا (احمد‘ دارمی)۔ اسی طرح فرمایا: میری اُمت کے بگاڑ کے وقت ایک سنت کو زندہ کرنے کا اجر سو شہیدوںکے برابر ہوگا۔ (بیہقی)

ان احادیث کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آخری ادوار میں اگر شروفساد زیادہ ہوگا‘ تو اس دَور میں نیکی اختیار کرنے والوں کا رتبہ بھی اللہ کی نظر میں کتنا بلند ہوگا۔ کتنے ستم کی بات ہے کہ قرب قیامت کے بارے میں حضورؐ کی بیان کردہ علامتوں کو‘ جو ان خرابیوں سے چوکنا اور خبردار رہنے کے لیے بیان کی گئی تھیں‘ احادیث کے یک رخے مطالعے کی بنا پر ان باتوں کو مایوسی کا جواز بنا لیا گیا‘ جب کہ اس دَور میں دعوت و اصلاح کے کام کی عظمت‘ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نظر میں ہے‘ اس کی طرف سے صرفِ نظر کر لیا گیا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے: ’’اسلام کا آغاز اجنبیت میں ہوا۔ عنقریب یہ اجنبی ہو جائے گا۔ پس خوش خبری ہے اجنبی بن جانے والوں کے لیے’’۔ (مسلم)

مایوسی و بددلی کا خاتمہ اسلامی قیادت کے لیے ایک چیلنج اور اُمت میں رجائیت کا احیا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن اس تاریکی میں روشنی کا سماں تو وہی پیدا کر سکتا ہے جس کا سینہ امید کے نور سے منور ہو۔ بجھا ہوا دل دوسروں کے چہروں پر کیسے روشنی بکھیر سکتا ہے: دل میں اگر نہیں تو کہیں روشنی نہیں۔

دلوں کو یہ روشنی اور تازگی اس کلام الٰہی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے جس کی نظر میں انسانوں کی

اصلاح و ہدایت  اور اللہ کی تائید و نصرت سے مایوسی جتنا بڑا گناہ ہے اس کی سنگینی کا احساس شاید ہمارے اہل علم کے ہاں بھی کم ہی پایا جاتا ہے۔ رحمت الٰہی سے مایوسی اہل ہدایت کی نہیں گمراہ لوگوں کی روش ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کو جب بڑھاپے میں بیٹے کی بشارت دی گئی تو آپ ؑ نے فرمایا:  وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلاَّ الضَّآلُّوْنَ o (الحجر ۱۵: ۵۵-۵۶) ’’اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں‘‘۔

حضرت یعقوب ؑ کے دل سے یوسف ؑ سے فرزند کی جدائی کا داغ ابھی محو نہ ہوا تھا کہ برادرانِ یوسف ؑ نے شاہِ مصر کی طرف سے دوسرے بیٹے بن یامین کی گرفتاری کی اندوہ ناک خبر سنائی۔ بڑھاپے میں غموں سے نڈھال اس بندئہ خدا نے امید کا دامن تھامے‘ اپنے بیٹوں کو شاہِ مصر کی طرف دوبارہ ان الفاظ کے ساتھ روانہ کیا:  یٰبَنِیَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَاَخِیْہِ وَلاَ تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (یوسف ۱۲:۸۷) ’’میرے بچو‘ جا کر یوسف ؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگائو‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘۔

جو شخص اللہ کی مدد و نصرت سے مایوسی کا اظہار کرتا ہے وہ گویا قدرت الٰہی کے مقابلے میں دوسرے اسبابِ دنیا کو زیادہ طاقت ور سمجھتا ہے۔ ایسے آدمی کو خدا ان الفاظ میں چیلنج کرتا ہے--- مَنْ کَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاَخِرَۃِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآئِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ ھَلْ یُذْھِبَنَّ کَیْدُہٗ مَا یَغِیْظُ o (الحج ۲۲:۱۵)’’جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی کوئی مدد نہ کرے گا ‘ اسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے‘ پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو ردّ کر سکتی ہے جو اسے ناگوار ہے‘‘۔

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ آیت مذکورہ کی تشریح میں فرماتے ہیں:

یہ سمجھتا ہے کہ قسمت کے بنائو بگاڑ کے سررشتے اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں بھی ہیں‘ اور اللہ سے مایوس ہو کر دوسرے آستانوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ اس بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لے‘ حتیٰ کہ اگر آسمان کو پھاڑ کر تھگلی لگا سکتا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لے کہ آیا اس کی کوئی تدبیر تقدیر الٰہی کے کسی ایسے فیصلے کو بدل سکتی ہے‘ جو اس کو ناگوار ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ص ۲۱۰)

پُرامید اور حوصلہ مند انسان قلت وسائل کے باوجود نصرت الٰہی کے بھروسے پر دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں پامردی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ جب کہ مایوس اور بے حوصلہ اقوام وسائل کی فراوانی کے باوجود پیٹھ دکھاتی ہیں۔ امید اور حوصلہ مندی کی ایک مثال جنگ اُحد کے موقع پر مسلمانوں کی ہے کہ حالات کی سنگینی اور دہشت انھیں دشمن سے خوف زدہ کرنے کے بجائے ان کے ایمان کو مزید جلا بخشنے کا سامان بن جاتی ہے: الَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا ق (اٰل عمرٰن ۳:۱۷۳) ’’اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں‘ ان سے ڈرو‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا‘‘۔

جنگ احزاب میں کہ جب پورا عرب متحد ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوا‘ ان سنگین حالات میں نصرت الٰہی کے امیدوار مومنوں کی روش کیا تھی:  وَلَمَّا  رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ لا قَالُوْا ھٰذَا مَا  وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ز وَمَا  زَادَھُمْ اِلاَّ ٓ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا o (الاحزاب ۳۳:۲۲) ’’اور سچے مومنوں نے جب حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ اسی چیز کا اللہ اور رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا ‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات سچی تھی۔ اس واقعے نے ان کے ایمان اور سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔

اس کے برعکس نصرت الٰہی سے مایوسی اور بددل قوم کی مثال اللہ نے سورہ المائدہ میں بیان کی ہے کہ جب حضرت موسیٰ  ؑنے اپنی قوم کو ارضِ مقدس میں داخل ہونے کا حکم فرمایا‘ تو اسباب ظاہری سے مرعوب قوم نے ’’قوم جبارین‘‘ کی موجودگی میں ارضِ مقدس میں داخلے سے صاف انکار کر دیا۔ ممکن ہے کوئی سمجھے کہ شاید قوم موسیٰ اتنی ہی کمزور اور دنیاوی وسائل سے تہی دامن ہو‘ لیکن ایسی بات بھی نہیں۔ حضرت موسیٰ  ؑحکم دینے سے پہلے انھیں مایوسی سے نکالنے کے لیے‘ ان کے جذبے کو ان الفاظ کے ساتھ اُبھارتے ہیں:  یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ  م         وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا ق وَّاٰتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ o (المائدہ ۵:۲۰) ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تم پر کی ہے۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے‘ تمھیں فرمانروا بنایا‘ اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا گیا‘‘--- یعنی ان کی مایوسی اور مرعوبیت دُور کرنے کے لیے ان کی تین فضیلتیں بیان فرمائیں: ۱- روحانی و نظریاتی برتری ‘ ۲- سیاسی برتری ‘ ۳- معاشی و معاشرتی و دیگر فوائد‘بادلوں کا سایہ‘ من و سلویٰ کے نزول کے ذریعے غم و روزگار سے نجات اور دیگر انعامات۔ ان تین فضیلتوں کے احساس کو اُجاگر کرنے کے بعد حضرت موسیٰ نے فرمایا تھا:  یٰقَوْمِ ادْخُلُوا  الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِ کُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَo (المائدہ ۵:۲۱) ’’اے برادرانِ قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے۔ پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے‘‘۔

اس حکم کے ساتھ بھی تاکید کے لیے دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں: ۱- انھیں فتح و نصرت کا یقین دلایا گیا ‘ ۲- پیٹھ دکھانے کی صورت میں سخت تنبیہ فرمائی ۔ ان تمام ترغیبات و ترہیبات کے باوجود ان کا جواب تھا:  قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْھَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ ق وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْھَا  ج فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا فَاِنَّا  دٰخِلُوْنَ (المائدہ ۵:۲۲) ’’انھوں نے کہا کہ اے موسیٰ وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں‘ ہم وہاں ہرگز نہ داخل ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں‘‘--- مزید یہ کہ قوم کے دو صاحب عزم افراد نے بھی انھیں حوصلہ دیا کہ:  فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ ج وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (المائدہ ۵:۲۲) ’’جب تم داخل ہو جائو گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اللہ پر بھروسا کرو اگر تم مومن ہو‘‘۔ لیکن ان معزز افراد کی نصیحت بھی کسی کام نہ آئی۔ انھوں نے نہایت ڈھٹائی سے پیغمبر وقت کو دوبارہ جواب دیا:  قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَo (المائدہ ۵:۲۴) ’’انھوں نے پھر یہی کہا کہ اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں۔ بس تم اور تمھارا رب دونوں جائو اورلڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘--- اور پھر نتیجتاً اللہ نے انھیں ۴۰ سال تک صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔  فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً  ج۔ فِی الْاَرْضِ ط  (المائدہ ۵:۲۶) ’’اچھا تو وہ ملک ۴۰ سال تک ان پر حرام ہے۔ یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے‘‘۔

ایک داعی کے اندر مایوسی بالعموم دو راستوں سے داخل ہوتی ہے‘ ایک فسق و فجور کی کثرت کے مظاہر‘ اور دوسرے عدل الٰہی پر عدم یقین۔ فسق و فجور میں لتھڑے لاکھوں افراد کو دیکھ کر ایک داعی گھبراتا ہے کہ ان کی اصلاح کیسے ہوگی؟ حالانکہ اللہ کے ہاں ہماری جواب دہی ’کوشش‘ کے بارے میں ہوگی‘ نتائج کی نہیں۔ جب انسان نتائج کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے لگتا ہے تو مایوسی کا دروازہ کھل جاتا ہے کیونکہ ہدایت دینا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا کام صرف انذار اور تذکیر ہے۔  فَذَکِرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ o لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ (الغاشیہ ۸۸:۲۱-۲۲) ’’اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جائو‘ تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو‘کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘۔ پھر ہر شخص پر اصلاح کی ذمہ داری بھی اس کے نفس کی وسعت و استطاعت کے مطابق ہے۔ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّوُسْعَھَا ط (البقرہ ۲:۲۸۶) ’’اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا‘‘۔ اس اعتبار سے ایک فرد کی اصلاح کوبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ داعی کی کوشش سے صرف ایک نوجوان کی اصلاح ہی سے معاشرہ نہ صرف ایک چور‘ ڈاکو‘ قاتل یا غیر ذمہ دار شہری کے اضافے سے بچ جاتا ہے بلکہ ہزاروں انسان اس کے شر سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اسی نوجوان کو اگر خدمت انسانیت میں لگا دیا گیا تووہ ہزاروں انسانوں کے لیے شجر سایہ دار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ غزوئہ خیبر کے موقع پر حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’خدا کی قسم! تیرے ذریعے ایک شخص کا ہدایت پا جانا تیرے لیے سرخ اونٹوں (کے صدقے) سے بہتر ہے ۔(بخاری)

دلوں کا ہدایت کے لیے کھلنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ اصلاح اللہ کے حکم سے ہوتی ہے‘ دل اس کی توفیق سے کھلتے ہیں‘ بات اللہ کی مدد سے اثرپذیر ہوتی ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے: ’’بے شک بنی آدم کے دل اللہ رحمن کی انگلیوں کے درمیان ہیں اور وہ انھیں جیسے چاہے پھیرتا رہتا ہے۔ (مسلم)

عدالت الٰہی کے بارے میں رحمت و مغفرت کا تصور برحق ہے۔ لیکن یہ خیال کرنا کہ وہاں سارے ہی چھوٹ جائیں گے گویا کہ سب کا نتیجہ برابر ہوگا یا جب نجات کے لیے چند عبادات اور اذکار ہی کافی ہیں تو انسان کیوں اپنی جان کوجوکھوں میں ڈالے‘ یہ خیال بھی دعوت و اصلاح کی جدوجہد سے بددلی اور مایوسی کا سبب بنتا ہے۔ حالانکہ عدالت الٰہی کے بارے میں ایسا مایوس کن تصور کفار کا تو ہو سکتا ہے کسی مسلمان کا نہیں۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ قَدْ یَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِo (الممتحنہ ۶۰:۱۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ ان لوگوں کو دوست نہ بنائو جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے‘ جو آخرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر مایوس ہیں‘‘۔

اللہ نے اس سوچ کے بارے میں خود لوگوں سے سوال کیا ہے:  اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ  o مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَo (القلم ۶۸:۳۵-۳۶) ’’کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں؟تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے‘ تم کیسے حکم لگاتے ہو؟‘‘۔ یعنی نافرمان کس طرح اہل ایمان کے برابر ہو سکتے ہیں۔  اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا ط لاَ یَسْتَوٗنَ o (السجدہ ۳۲:۱۸) ’’بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے؟‘‘۔ چند مذہبی مناسک و مراسم کی پابندی جہاد کے عظیم کام کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط لاَ یَسْتَوٗنَ عِنْدَاللّٰہِ ط (التوبہ ۹:۱۹) ’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے والوں کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں‘‘۔ حتیٰ کہ اللہ کے ہاں انفاق و جہاد میں بھی پہل کرنے والے اور بعد والے بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ لاَ یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ م بَعْدُ وَقٰتَلُوْا  ط (الحدید ۵۷:۱۰) ’’تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے‘‘۔

مختصر یہ کہ زندگی کے معمولات میں اگر امید ہم رکاب ہو تو مشکل اور بھاری کام بھی سہل اور آسان ہو جاتے ہیں لیکن مایوسی کی صورت میں آسان ترین کام مشکل اور قریب الحصول مقاصد بھی ناممکن نظر آتے ہیں۔ اس لیے اسلامی قیادت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کٹھن سے کٹھن مراحل میں امید کی شمع فروزاں رکھے اور پورے یقین‘ جرات اور احساس ذمہ داری کے ساتھ جدوجہد کی دعوت دے‘ کہ یہی اسوئہ رسول ہے اور یہی اہل عزیمت کا راستہ ہے    ؎

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے

وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ

 

حدود میں قرائنی شہادت کی مثالیں

زنا میں قرائنی شہادت: جدید سائنسی ترقی کے نتیجے میںیہ ممکن ہو چکا ہے کہ کسی عورت کے متعلق یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس نے زنا کیا ہے یا نہیں؟ مرد اور عورت کی منی کے ذریعے جو کپڑوں کے ساتھ لگی ہو‘ تجزیہ کر کے بتایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بدکاری کی ہے۔ ویڈیو کیمروں کے ذریعے ان کے بلیو پرنٹ نکالے  گئے ہوں تو یہ بھی جرمِ زناکے اثبات کے لیے ایک قرینہ ہیں (اگرچہ اس مقصد کے لیے ویڈیو کیمرے کا استعمال جائز نہیں) مگر اسے قطعی قرینہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں بھی دھوکے کا احتمال ہے ‘ البتہ دیگر شواہد کے ساتھ اس قرینہ سے شہادت کو تقویت مل سکتی ہے۔

بعض اوقات کسی عورت کے ساتھ جبراً زیادتی کی جاتی ہے اور ثبوت کے لیے کوئی گواہی موجود نہیں ہوتی‘ اور نہ عورت کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کے خلاف گواہ پیش کر سکے۔ اگرچہ اس کی مجبوری کی بنا پر شریعت نے اسے حد سے مستثنیٰ ٹھیرایا ہے لیکن اس کے ساتھ جبراً زیادتی بھی تو بہت بڑا ظلم ہے اور کتنی ہی عورتیں ہیں جن کے ساتھ جبراً زیادتی ہوتی ہے اور گواہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے بدکار مرد سزا سے بچ جاتے ہیں اور عورتوں کی عصمتیں ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہتیں۔چند ماہ قبل پنجاب میں ایک کالج کی  لڑکی کے ساتھ بااثر لوگوں نے جبراً زیادتی کی۔ مجرم گواہ نہ ہونے کی وجہ سے بری ہوئے اور لڑکی نے انصاف نہ ملنے اور مجرموں کی طرف سے مزید دھمکیوں کے موصول ہونے پر خودکشی کر لی۔

 

اس طرح کے متعدد واقعات روز بروز پیش آتے رہتے ہیں‘ ان حالات میں کیا عینی شہادت ہی پر اکتفا ہونا چاہیے یا اگر قرائن و واقعات سے جرم ثابت ہوتا ہو تو مجرم کو سزا ملنی چاہیے؟ یہ مسئلہ اس دور میں اہل علم کی خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ اگر شریعت کا منشا عدل کا قیام اور دفعِ ظلم ہے تو ہمارے خیال میں ان قرائن کی بنیاد پر مجرم کو ضرور سزا ملنی چاہیے‘ چاہے وہ تعزیرہی کیوں نہ ہو۔ زنا عموماً رضامندی سے ہوتا ہے اور عہد نبویؐ میں تقریباً باہمی رضامندی سے کیے جانے والے اس عمل پر رجم کی سزائیں دی گئیں اور قرآن حکیم نے بھی چار گواہوں کی شرط ٹھیرائی لیکن جہاں کسی عورت سے جبراً زیادتی کی گئی ہو اور وہ مدعی بھی ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے چار گواہ لانا ممکن نہیں۔ اس صورتِ حال میں ظلم کے انسداد‘ عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ثبوت دعویٰ کے لیے قرائن وغیرہ پر ہی اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

 

جدید دور میں ڈی این اے (DNA) ٹیسٹ کے ذریعے بچے کی ولدیت کے بارے میں بھی بتایا جاسکتا ہے کہ وہ کس کا بچہ ہے؟ اگر کسی عورت پر بدکاری کا الزام ہو اور اسے کسی مرد کے ساتھ متّہم کیا جائے تو پیدا ہونے والے بچے کی ولدیت کی حقیقت اس ٹیسٹ کے ذریعہ معلوم کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت کسی مرد پر زیادتی کا الزام لگائے اور اسے حمل ٹھیر جائے تو نومولود اور متّہم شخص کے ٹیسٹوں سے اصلیت معلوم کی جا سکتی ہے۔

بعض اوقات قرائن انتہائی قطعی اور یقینی ہوتے ہیں۔ وہاں عینی شہادتوں کو بھی جو ان کے بالمقابل ہوں‘ ردّ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر چار گواہوں نے شہادت دی کہ فلاں عورت نے زنا کیا اور معائینے کے بعد قابل اعتماد عورتوں نے بتلایا کہ عورت کنواری ہے تو نہ عورت پر زنا کی حد واجب ہو گی نہ گواہوں پر حدِّ قذف لگائی جائے گی۔(۱) اسی طرح اگر ملزمہ کے متعلق میڈیکل رپورٹ‘ جس سے یہ ثابت ہو کر وہ کنواری ہے‘ ان ڈاکٹروں کی طرف سے جاری ہو جن کے تقویٰ اور تدین پر اعتماد کیاجا سکتا ہے اوروہ رپورٹ عینی شہادتوں کے برخلاف ہو تو یہ ایک قرینۂ قاطعہ ہے جسے شہادتوں کے برخلاف قبول کرنا چاہیے۔

فقہا ارتکابِ زنا میں کنواری‘ غیر شادی شدہ عورت کے حاملہ ہونے کو یا شادی شدہ عورت کے‘ شادی کے بعد چھ ماہ کی مدت سے قبل بچہ جننے کو معتبر قرینہ خیال کرتے ہیں اور حضرت عمرؓ نے ایسی عورت پر اسی قرینہ کی بنا پر حد بھی جاری کی تھی (جیسا کہ گزر چکا ہے) اگرچہ امام ابوحنیفہ اس قرینہ کااعتبار اس وقت کرتے ہیں جب کہ عورت سے زنا کا اقرار کروایا جائے‘ ممکن ہے اس کے ساتھ جبراً زیادتی ہوئی ہو یا شبہ میں مباشرت ہو گئی ہو۔ لیکن اگر حالات و قرائن سے اس کی نفی ہوتی ہو اور رضامندی سے بدکاری ثابت ہوتی ہو تو کم از کم تعزیری سزا ضرور ملنی چاہیے۔ زنا کی سزا چونکہ بہت سخت ہے اس لیے جمہور فقہا عینی شہادت کو ضروری قرار دیتے ہیں‘ ان کے نزدیک اگر حاکم نے بچشمِ خود بھی زنا کا مشاہدہ کیا ہو تو وہ اپنے علم و مشاہدہ کی بنیاد پر مقدمہ کافیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن حکیم میں چارآدمیوں کی گواہی کا ذکر ہے (النساء ۴:۱۵)۔

حضرت ابوبکرؓ سے مروی ہے:  لورأیت احدًا علیٰ حَدٍّ لم احدہ حتٰی تقوم البینۃ عندی (التشریح الجنائی‘ ۲/۴۳۱) (اگر کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی موجب ِ حدِّجرم کا ارتکاب کرتے دیکھوں تب بھی اس وقت تک اپنی طرف سے حد جاری نہیں کر سکتا جب تک میرے سامنے اس کا ثبوت نہ آجائے)۔ اسی طرح جیسا کہ گزر چکا‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی ایک عورت کو اس کی مشکوک حرکتوں کی بنا پر بدکار سمجھتے تھے مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اس پر حدِّرجم جاری نہیں فرمائی گویازنا کی سزا کے لیے قطعی اور یقینی ثبوت ضروری ہے جوعینی گواہوں کے ذریعے ممکن ہے‘ تاہم قرائن قویّہ تعزیری سزائوں کے جاری کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

شراب نوشی میں قرائنی شہادت:  پیچھے گزر چکا ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے شراب کی بو اور نشہ کی حالت میں ہونے پر حد جاری کی تھی‘ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک بھی شراب کی بو کا آنا اور نشے کی حالت حد جاری کرنے کے لیے واضح قرینہ ہیں (شرح فتح القدیر‘ ۴/۱۷۸)۔ اگر دو گواہ گواہی دیں کہ انھوں نے ملزم کو نشے کی حالت میں پایا اور اس وقت اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی تو امام صاحب کے نزدیک ملزم پر حد جاری ہو گی (التشریع الجنائی‘ ۲/۵۱۲)۔

موجودہ دور میں اس سے بھی واضح اور قطعی قرینہ ملزم کے پیٹ سے حاصل ہونے والے مواد کا کیمیاوی تجزیہ ہے‘ جس کے ذریعے اس مواد کا تجزیہ کر کے فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ملزم نے شراب پی تھی یا نہیں؟ یہ شہادت عینی شہادت سے بھی زیادہ یقینی (authentic)  ثابت ہو سکتی ہے۔

سرقہ میںقرائنی شہادت: فقہا کے نزدیک مالِ مسروق کا ملزم سے برآمد ہونا اثبات جرم کے لیے واضح قرینہ ہے۔ موجودہ دور میں چوری کاسراغ لگانے کے لیے جدید وسائل سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے اور ان کی شہادت قرائنی شہادت کہلائے گی۔ مثلاً کوئی شخص قیمتی ہیرا یا موتی وغیرہ چرا لیتا ہے اور پکڑے جانے کے اندیشے سے اسے نگل لیتا ہے تو ایکس ریز یا الٹرا سائونڈ کے ذریعے اسے بآسانی پیٹ میں دیکھا جا سکتا ہے اور ان سے حاصل ہونے والی شہادت عینی گواہی سے زیادہ قطعی اور یقینی ہے۔ واضح رہے کہ شریعت میں چوری کا مقدمہ دو گواہوں کی شہادت یا ملزم کے اقرار سے ثابت ہوتا ہے۔(۲)

اسی طرح ملزم کی انگلیوں کے نشانات (finger prints)‘ پائوں کے نشانات یا بال وغیرہ جائے واردات سے دستیاب ہوں تو ماہرین ان کے تجزیہ سے اصل مجرم کا سراغ لگا سکتے ہیں‘ کیونکہ ہر انسان کے ہاتھوں کی لکیریں‘ انگوٹھے کے نشانات دوسرے سے مختلف ہیں‘ اسی طرح بدن کے بال بھی دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ماہرین اگر جائے واردات سے حاصل شدہ نشانات اور بالوں وغیرہ کا تجزیہ ملزم کے ہاتھ پائوں کے نشانات اور بالوں سے کر کے مکمل مماثلت کا فیصلہ دیں تو یہ بھی ایک واضح قرینہ ہو سکتا ہے۔ اہم مقامات پر جہاں لوگوں کا زیادہ ہجوم ہو‘ کیمرے فٹ کیے جاتے ہیں اور اسکرین پر لوگوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیا جاتا ہے‘ اگر کوئی شخص چوری کرتا نظر آئے تو اس کے خلاف شہادت بمنزلہ عینی شہادت کے ہونی چاہیے۔

جدید دَور میں سراغ رساں تربیت یافتہ کتوں سے بھی مدد لی جاتی ہے جو مقام واردات پر پائے جانے والے ملزم کے کپڑے‘ جوتے یا کسی دوسری استعمال شدہ چیز کو سونگھ کر اصل مجرم تک پہنچ کر اس کی نشاندہی کر دیتے ہیں‘ اسے بھی مکمل طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ دیگر شواہد کے ساتھ یہ قرائن مل کر اثباتِ جرم کا قطعی اور یقینی ذریعہ بن جاتے ہیں۔

قتل میں قرائنی شہادت: فقہا نے قتل کے معاملے میں قرائن کا لحاظ کیا ہے‘ مثلاً کوئی شخص خالی مکان سے اس حال میں باہر نکلا کہ اس کے ہاتھ میں خون آلود چھری تھی اور وہ گھبرایا ہوا تھا اور اسی وقت گھر میں ایک شخص ذبح شدہ پڑا دیکھا گیا تو اس میں شبے کی کوئی گنجایش نہیں کہ قاتل وہی شخص ہے (جو مکان سے نکلا ہے)۔ اس صورت میں محض وہمی باتوں کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کہ ممکن ہے شخص مذبوح نے خودکشی کر لی ہو (مجلہ الاحکام العدلیۃ ‘ ص ۳۵۳)۔

موجودہ دور میں قتل کی سراغ رسانی کے لیے جدید آلات و ذرائع سے بھی کام لیا جاتا ہے اور ان کے ذریعے مجرم کی نشان دہی بآسانی ہو جاتی ہے‘ مثلاً پوسٹ مارٹم کے ذریعے موت کا سبب دریافت کیا جا سکتا ہے کہ میّت کی موت طبعی ہے یاحادثاتی؟ نیز اس کی موت زہر کھانے کی وجہ سے ہوئی ہے یا تشدد و اذّیت سے‘ البتہ صحیح اور درست رپورٹ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ماہر‘ متدین اور قابل اعتماد سرجن میّت کے پوسٹ مارٹم میں شریک ہوں۔ لیبارٹری میں میّت کے خون کے تجزیے سے بہت سے حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ بالوں‘ ہاتھوں اور پائوں کے نشانات کے تجزیے اور موازنے سے بھی ماہرین مجرم تک بآسانی پہنچ جاتے ہیں۔ آلۂ قتل دستیاب ہونے کی صورت میں اس پر پائے جانے والے انگلیوں کے نشانات سے بھی ملزم تک پہنچا جا سکتا ہے۔اگر قتل کے دوران کسی نے تصویر اُتار دی تو قاتل کی نشان دہی کے لیے یہ بھی واضح ثبوت ہے‘ بشرطیکہ دیگر ذرائع سے اس کی تائید ہوتی ہو اور تصویر بنانے میں جعل سازی کا اندیشہ نہ ہو‘ اسی طرح قاتل اور مقتول کے درمیان وقوعِ قتل سے پہلے کسی قسم کا جھگڑا ہوا ہو اور ان آوازوں کو جن میں مقتول کی چیخ پکار شامل ہوبذریعہ ٹیپ ریکارڈر ٹیپ کر لیا گیا ہو اور آواز کے ماہرین تصدیق کریں تو ان کی رائے کو بطورِ شہادت تسلیم کیا جانا چاہیے۔

خلاصۂ بحث:  ۱- گذشتہ تفصیل سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ جرائم کی تفتیش میں محض گواہوں پر انحصار کافی نہیں ہے۔ تمدّنی ترقی نے قرائن کا دائرہ بڑا وسیع کر دیا ہے۔ جرائم کی تفتیش‘ حقوق کے تحفّظ اور انسدادِ ظلم کے لیے ان کی شہادت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور ان کو نظرانداز کرنا کسی صورت میں شریعت کا منشا نہیں بلکہ اس کے مقاصد کو نقصان پہنچانا ہے۔

۲- اگرچہ قرآن حکیم اور احادیث نبویہ میں سچی گواہی دینے کی ہدایت اور تاکید کی گئی ہے اور گواہی چھپانے سے منع کیا گیا ہے (البقرہ ۲: ۲۸۲-۲۸۳)‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں تقویٰ و دیانت کا وہ معیارباقی نہیں رہا جو عہدِ نبوت یا قرونِ اولیٰ میں پایا جاتا تھا۔ موجودہ حالات میں سچی گواہی اس لیے بھی مشکل ہو چکی ہے کہ گواہ عدمِ تحفظ کا شکار ہوتے ہیں‘ انھیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کا تحفّظ فراہم نہیں ہوتا اور بعض اوقات سچی گواہی کے صلے میں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اس لیے گواہی دینے سے عموماً احتراز کیا جاتا ہے‘ ان حالات میں جب کہ سچی گواہی مفقود ہو یا اس کے راستے میں مختلف رکاوٹیں حائل ہوں تو زیادہ تر اعتماد قرائن ہی پر کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے بھی قرائن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

۳- عہد نبویؐ میں زنا کی سزا صرف مجرم کے اقرار پر لگائی گئی نہ کہ گواہوں کی شہادت پر۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ جرمِ زنا کے اثبات کے لیے چار عینی شہادتوں کا فراہم ہونا بہت ہی دشوار ہے‘ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گواہی میں ذرا سے اشتباہ کی بنا پر وہ خود حدِّقذف کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔ ان حالات میں قرائن پر اعتماد مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ محض قرائن پر حدِّزنا جاری نہیں کی جا سکتی۔ البتہ تعزیری سزا دی جا سکتی ہے۔

۴- جرائم کے ثبوت میں عینی شہادتیں فراہم نہ ہونے کی صورت میں اگر قرائن کو نظرانداز کر دیا جائے تو محض اقرار پر اکتفا کرنا پڑے گا اور جرائم کی تفتیش سے متعلق افراد اور ادارے اعتراف کروانے کے لیے جبر و تشدد کا راستہ اختیار کریں گے اور یہ صورت حال عدل و انصاف کے راستے میں بڑی رکاوٹ پیدا کرے گی۔ اسی بنا پر حنابلہ میں سے علامہ ابن قیم اور احناف میں سے ابن غرس نے قرائن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور حدود میں بھی ان کی شہادت کا اعتبار کیا ہے۔ جدید تمدّنی زندگی میں جرائم کی تفتیش میں ان کی اہمیت پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہے‘ اس لیے ہمیں اپنے نظامِ شہادت میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں عصرِحاضرکے تمدّنی نظام کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر دور کے تقاضوں کا بخوبی ساتھ دے سکتا ہے‘ اس لیے ہمیں اسلامی نظام کے نفاذ اور قانونِ اسلامی کی تدوین میں جدید دَور کے تقاضوں اور معاشرتی تبدیلیوں کو بھی سامنے رکھنا ہوگا اور شریعت کے مقاصد و اہداف اور اس کے علل و حکم پربھی توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔

ان معروضات کی حیثیت محض ایک رائے کی ہے نہ کہ فتویٰ کی۔ امید ہے اہل تحقیق اسلامی نظامِ شہادت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسے اپنی بحث و تحقیق کا موضوع بنائیں گے تاکہ کسی متفقہ موقف تک پہنچنے کے لیے ان کی آرا سے استفادہ کیا جا سکے۔


حواشی

۱- ابن قدامہ‘ المغنی‘ مصر‘ مطبعہ المنار‘ ۱۳۴۸ھ‘ ج ۱۰‘ص ۱۸۹۔

۲- کتاب الاختیار (ترجمہ سلامت علی خاں) لاہور‘ خیبر پبلشرز‘ ص ۶۳۔

۱۵۰ سنہ ہجری ہے‘ خلیفہ مہدی بن منصور عباسی کی خلافت کا دور ہے‘ بغداد دارالخلافہ ہے‘  صوبہ کوفہ میں خلیفہ کا چچازادبھائی موسیٰ بن عیسیٰ عباسی امیر (گورنر) ہے۔ کوفہ کے قاضی شریک بن عبداللہ ہیں۔ قاضی صاحب کو خلیفہ نے جب قاضی مقرر کر کے کوفہ بھیجا تو انھوں نے قضا کا عہدہ خود طلب نہیں کیا تھا بلکہ اسے ناپسند کرتے ہوئے بامر مجبوری اس شرط پر قبول کیا تھا کہ ان کا احترام کیا جائے گا‘ صحیح فیصلے پر ان کی تائید کی جائے گی‘ اور عدلیہ اپنے کام میں آزاد ہوگی۔ چنانچہ یہ قاضی بن کر کوفہ آگئے۔

ان کی عدالت کھلے عام منعقد کی جاتی تھی اور بعض اوقات کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھتے تھے۔ ان کے فیصلے کا ایک واقعہ جو تاریخ نے محفوظ رکھا ہے‘ آج کی انتظامیہ اور عدلیہ کے لیے روشن مثال ہے۔

قاضی شریک عدالت میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ ایک عورت حاضر ہوتی ہے اور دہائی دیتے ہوئے عرض کرتی ہے کہ قاضی صاحب! اللہ کے بعد میرا آپ سہارا ہیں! قاضی صاحب نے پوچھا‘ تیرے ساتھ کیا زیادتی ہوئی ہے؟ اس پر اس نے کہا کہ میرا ایک باغ امیر کوفہ موسیٰ بن عیسیٰ نے خریدنا چاہا‘ میں نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر انھوں نے وہ زبردستی مجھ سے لے لیا۔ قاضی صاحب نے اپنے کارندے کو اپنا خط دے کر امیر کے پاس بھیجا اور انھیں عدالت میں طلب کیا۔

امیر نے اپنے پولیس آفیسر کو بلایا اور اس سے کہا کہ قاضی شریک کے پاس جائو اور ان سے کہو: واہ! مجھے آپ کی بات سے بہت ہی تعجب ہوا۔ ایک عورت نے دعویٰ دائر کیا جو صحیح نہیں ہے اور آپ نے فوراً اسے مان لیا اور مجھے طلب کر لیا۔

پولیس افسر نے امیر سے عرض کیا: امیر محترم! مجھے اس کام سے معاف رکھیے اور کسی دوسرے کو بھیج دیجیے۔ اس پر امیر نے ڈانٹ کر کہا کہ میں تمھیں حکم دیتا ہوں‘ جائو اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔ چنانچہ وہ افسر وہاں سے نکلا اور نکلتے ہوئے اپنے خادموں سے کہہ گیا کہ آپ لوگ میرے لیے بستر‘ فرش اور دوسری ضرورت کی اشیا‘ قاضی کی جیل میں رکھ آئو۔ وہ قاضی شریک کے پاس حاضر ہوا اور امیر کا پیغام ان کو پہنچایا۔ قاضی صاحب نے مجلس میں حاضر خادم کو حکم دیا کہ اس افسر کو بازو سے پکڑ کر لے جائو اور جیل میں ڈال دو۔ پولیس افسر نے کہا: بخدا مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ آپ مجھے جیل میں ڈالیں گے۔ چنانچہ جیل میں مجھے جن چیزوں کی ضرورت ہوگی وہ میں نے پہلے ہی بھجوا دی ہیں۔ موسیٰ بن عیسیٰ کو جب اس کی خبر ہوئی تو قاضی کی طرف اپنے حاجب کو بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ جا کر قاضی صاحب سے کہو: ایک پیغام بر پیغام دینے کے لیے آپ کے پاس آیا تو آپ نے اسے کس بنیاد پر جیل میں ڈال دیا؟

جب حاجب قاضی صاحب کے پاس آیا تو انھوں نے اس کی بات سن کر کہا کہ اسے بھی پہلے ساتھی کے ساتھ جیل میں ڈال دو۔ چنانچہ یہ بھی بند کر دیے گئے۔

امیر موسیٰ نے عصر کی نماز پڑھنے کے بعد کوفہ کے ان معززین کو بلایا جو قاضی صاحب کے دوستوں میں سے تھے اور ان سے کہا کہ آپ حضرات قاضی صاحب کے پاس جائیں اور انھیں میرا  سلام پہنچائیں اور انھیں بتائیں کہ آپ نے میری اہانت کی ہے۔ میں کوئی عام آدمی تو نہیں ہوں جو آپ ایسا رویہ اختیار کر رہے ہیں‘ اس انداز سے مجھے بلا رہے ہیں‘ اور میرے نمایندہ افسروں کو جیل میں ڈال رہے ہیں۔

یہ حضرات قاضی صاحب کے پاس آئے ‘ جب کہ وہ نماز عصر پڑھ کر اپنی مسجد میں بیٹھے تھے۔ ان حضرات نے امیر کا پیغام پہنچایا۔ جب یہ اپنی بات سے فارغ ہوئے تو قاضی صاحب نے بآواز بلند کہا کہ محلے کے کچھ نوجوان موجود ہیں؟ اس پر نوجوانوں کے ایک گروہ نے لبیک کہا۔ انھوں نے حکم دیا کہ تم میں سے ہر ایک ان افراد کا ہاتھ پکڑے اور جیل میں لے جائے۔ پھر ان حضرات سے کہا کہ تم لوگ فتنہ باز ہو اور تمھاری سزا جیل ہے۔ وہ بولے: قاضی صاحب! آپ مذاق کر رہے ہیں یا کوئی اور بات ہے؟ انھوں نے کہا: بالکل صحیح بات ہے ‘تاکہ آیندہ تم ظالم کا پیغام لے کر نہ آئو۔ پھر انھیں بھی جیل میں بند کر دیا گیا۔

رات کے وقت امیر موسیٰ جیل کے دروازے پر آئے اور اسے کھلوا کر ان سب لوگوں کو جیل سے نکال کر لے گئے۔

جب دوسرے دن قاضی صاحب آکر اپنی عدالت میں بیٹھے تو جیل کا داروغہ آیا اور رات کی سرگزشت بتائی۔ چنانچہ انھوں نے اسی وقت امیرالمومنین کو خط لکھا اور اپنے خادم سے کہا کہ میرا سامان باندھو اور بغداد پہنچا دو۔ پھر کہا: اللہ کی قسم! یہ ذمہ داری ہم نے ان سے طلب نہیں کی تھی بلکہ انھوں نے زبردستی ہمیں دی تھی‘ اور دیتے وقت انھوں نے‘ ہمیں اس کا احترام و وقار برقرار رکھنے کی ضمانت دی تھی۔ اس کے بعد وہ کوفہ سے بغداد جانے والے اڈے کی طرف روانہ ہو گئے۔

یہ خبر جب امیر کوفہ کو پہنچی تو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ سوار ہوئے اور ان سے آکر ملے اور انھیں اللہ کاواسطہ دے کر‘منت سماجت کرتے ہوئے کہا: ابو عبداللہ‘ (قاضی شریک)! ذرا تحمل سے کام لیں اور غور کریں کہ یہ لوگ آپ کے بھائی ہیں جنھیں آپ نے جیل میں ڈالا ہے اور میرے ساتھی ہیں ‘لہٰذا ان کو چھوڑ دیں۔ قاضی صاحب نے کہا: یہ آپ کی ایسی بات کی سفارش لے کر آئے تھے جس کے لیے ان کا آنا جائز نہیں تھا۔ لہٰذا میں یہ رات یہاں نہیں گزارنا چاہتا۔ یا یہ تمام لوگ جیل میں دوبارہ ڈالے جائیں یا بصورت دیگر میں امیرالمومنین مہدی کے پاس جا کر اپنی ذمہ داری سے استعفا دیتا ہوں۔

اب موسیٰ نے مجبور ہو کر ان کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیا اور خود اسی جگہ اس وقت تک رکے رہے جب تک جیلر نے آکر ان سب کے جیل میں پہنچنے کی اطلاع نہ دی۔ پھر قاضی صاحب نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ امیر کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر میرے سامنے عدالت میں لے چلیں۔ چنانچہ یہ قاضی صاحب کے سامنے چلتے رہے اور آکر مسجد (عدالت کی جگہ) میں داخل ہوئے اور قاضی صاحب مسند قضا پر بیٹھے۔ اس مظلوم عورت کو بلایا اور اپنے سامنے اور امیر کے برابر بٹھایا۔ امیر نے کہا کہ حضور میں حاضر ہو گیا ہوں‘ اس لیے یہ جیل والے لوگ تو آزاد کیے جائیں۔قاضی صاحب نے کہا‘ ہاں! اب انھیں جیل سے نکال دیا جائے۔

اب امیر سے عورت کی شکایت کے بارے میں پوچھا‘ تو انھوں نے اس شکایت کے صحیح ہونے کا اقرارکیا‘ اور وہ باغ مع تمام حقوق کے واپس لوٹا یا۔ عورت نے خیروبرکت کی دعا دیتے ہوئے قاضی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور مجلس سے اٹھ کر روانہ ہوئی۔

جب اس فیصلے سے قاضی صاحب فارغ ہوئے تو اٹھ کر امیر کا ہاتھ پکڑا اور اپنی جگہ پر بٹھایا اور السلام علیک یا امیر محترم !کہہ کر کہا کہ مجھے کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ اس پر امیر نے ہنستے ہوئے کہا: اور کوئی بات رہ گئی ہے! قاضی شریک نے کہا: یہ فیصلہ شریعت کا حق تھا‘ سو ادا کیا‘ اور یہ بات ادب و احترام کا حق ہے۔

اس کے بعد امیر اٹھے اور اپنے محل کی طرف یہ کہتے ہوئے روانہ ہوئے:

جو شخص اللہ کے حکم کی تعظیم کرتا ہے تو اللہ اپنی مخلوق کے بڑے سے بڑے لوگوں کو اس کے سامنے جھکا دیتا ہے۔ (منہاج الصالحین‘ عزالدین بلیق‘ ص ۵۶۲-۵۶۳)

 

سوال : جب آپ ترکی کی پارلیمنٹ میں حجاب کے ساتھ پہلی دفعہ داخل ہوئیں تو آپ کیا سوچ رہی تھیں؟

جواب: ترک جمہوریت کی ۷۶ سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ دو عورتیں جو حجاب لیتی تھیں ترک پارلیمنٹ میں منتخب کی گئیں۔ نسرین اونال ایسی دوسری ممبر پارلیمنٹ تھیںلیکن انھیں اسکارف اُتارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ سب سے پہلی ہونے کی وجہ سے بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ گو کہ میں اُن۷۰ فی صد ترک خواتین کی نمایندگی کر رہی تھی جو اسکارف پہنتی ہیں لیکن ملک میں ایک اقلیتی اشرافیہ ایک طویل عرصے سے حکومت کر رہا ہے ۔جو لوگ اِس طبقے سے متعلق ہیں وہ کھلے ذہن کے مہذب جمہوری نہیں کہ اُن لوگوں کا احترام کر سکیں جو اُن کی طرح کپڑے نہیں پہنتے اور اُن کی طرح سوچتے نہیں۔ مجھے اُن کی جانب سے مخالفت کی توقع تھی لیکن مجھے اِس کا تصور بھی نہیں تھا کہ یہ اتنی تہذیب دشمن اور ظالمانہ ہوگی۔

س : کیا آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ کے عورت ہونے نے بھی سیکولرسٹوں کے برتائو کو متاثر کیا؟

ج :  میرا احساس ہے کہ مجھ سے امتیازی سلوک صرف مذہب کی بنیاد پر نہیں کیا گیا بلکہ اس بنیاد پر بھی کیا گیا کہ میں ایک عورت ہوں۔ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ یہ نام نہاد‘ سیکولر‘ جمہوری خواتین اپنی ایک ساتھی خاتون کی مخالفت کر رہی تھیں اور اُسے نیچا دکھا رہی تھیں۔ ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ وہی کچھ ہے جو امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک کے دوران ہوا تھا۔ ترک عورتیں جو حجاب میں رہنا چاہتی ہیں اور ساتھ ہی کام بھی کرنا چاہتی ہیں ترکی کے کالے لوگ ہیں‘ گو کہ ہم اکثریت ہیں۔

س : آپ کے خیال میں ترک سیکولرسٹوں کے فیصلے کن باتوں سے متاثر ہوتے ہیں؟

ج : کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی تو نام نہاد سیکولر روایت جسے اتاترک کے دَور میں اختیار کیا گیا لیکن بعد میں تبدیل ہو گئی۔ اِس نے دوسرے معنی اختیار کر لیے۔ مذہب کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق اِس کا ہدف بن گئے۔ ترکی میں مذہب ریاست میں مداخلت نہیں کر سکتا لیکن ریاست کو مکمل حق ہے کہ وہ زندگی کے ہر گوشے میں مذہب کے معاملے میں مداخلت کرے‘ یہ بھی بتائے کہ اپنے بچوں کو قرآن کیسے پڑھائیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ سال پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا جس کے تحت ۱۲ سال کے بچوں کو گھر کے اندر یا باہر قرآن پڑھنا منع کر دیا گیا۔ اِس کا اطلاق ۱۲ سے ۱۵ سال تک کی عمر کے بچوں پر ہوتا تھا۔ آپ اپنے بچوں کو صرف گرمیوں کی تعطیلات میں قرآن پڑھا سکتے ہیں۔ ہفتے میں تین دفعہ‘ لیکن ہر دفعہ تین گھنٹے سے زائد نہیں۔

قانون سازوں کا مقصد یہ ہے کہ حفظ کے اسکول ختم کر دیے جائیں اور بچوں کو اوائلِ عمر میںاِس علم کے حصول سے روک دیا جائے۔ یہ قانون زور اور طاقت سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ یہ مغربی طور طریقے اختیار کرنے کے نام پر ہو رہاہے۔

دوسری وجہ بعض لوگوں کے ذہن میں اسلام کے بارے میںیہ ہول ہے کہ ہم ایران یا سعودی عرب کی طرح ہو جائیں گے۔ یہ اِس وجہ سے ہے کہ ہمارا معاشرہ دو انتہائوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ یہ کسی کھلی جگہ آمنے سامنے نہیں بیٹھ سکتے۔ اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ترکی میں ایک کرپٹ سسٹم ہے جسے آپ deep state کہہ سکتے ہیں۔ میں نام لے کر نہیں بتا سکتی کہ یہ deep state   کن لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ کچھ سرکاری افسران اور ممبرانِ پارلیمنٹ‘ سیکرٹیری اور فوجی جنرل اور اندازاً پانچ بزنس مین جو ترکی کی تمام نیوزایجنسیوں کے مالک ہیں ‘ پر مشتمل ہے۔ یہ چھوٹا سا اشرافیہ گروپ جب فیصلہ کرتا ہے کہ ان کے کرپٹ سسٹم کو خطرہ درپیش ہے جس میں ٹیکس دینے والوں کی رقم اُن کی جیبوں میں بآسانی منتقل ہوتی ہے تو وہ مزاحمت کرتے ہیں۔

جو بھی اسلام اور قدامت پسندی یا حجاب کے خلاف نکلتا ہے ہمیں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ غبن  کرنے والے ‘جھوٹی برآمدی اسکیمیںچلانے والے‘ حکومت کو دھوکا دینے والے اور لوگوں کی رقومات لے کر امریکہ یا سوئٹرزرلینڈچلے جانے والے لوگ ہیں۔ اگر کوئی افسر چاہتا ہے کہ افسرانِ بالا کی نظر میں سنجیدہ سمجھا جائے‘ اسے ترقی دی جائے تو وہ اسلام سے لڑتا ہے اور اس پر لعنت کرتا ہے۔ ایک ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے مجھے ہدف بنایا گیا اور اِس گروپ کی طرف سے بہ جبر روکا گیا۔ کیونکہ حجاب نفاست کی علامت ہے اس لیے یہ خطرہ ہے۔

س :  امریکہ میں آپ کا کیسا استقبال کیا گیا؟

ج :  میں اب اپنی نمایندگی نہیں کرتی۔ میں ترکی کی مظلوم قدامت پسند خواتین کی آواز ہوں جو ۲۵ سال سے موجود ہیں اور اُن سے اس لیے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے کہ وہ حجاب پہننا چاہتی ہیں۔ انھیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے کیریئر اور مذہب میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ ان کی کوئی آواز نہیں ہے۔ میں اُن کی آواز کو ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے جہاں تک لے جا سکوں لے جانا چاہتی ہوں۔

س : کیا آپ سمجھتی ہیں کہ سیکولرسٹوں اور اسلام پسندوںکے درمیان کوئی صلح یا سمجھوتہ ہو سکتا ہے؟

ج :  اس سوال کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔ ہم تو بالکل رضامند ہیں کہ کسی فورم پر ساتھ بیٹھیں جہاں مسئلہ طے کرنے کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی ہو۔

س : کیا آپ سمجھتی ہیں کہ وہ ایسا چاہتے ہیں؟

ج : برائے مہربانی یہ سوال اُن سے پوچھیے۔

ہم تو مظلوم فریق ہیں۔ کئی برسوں سے ہمیں ٹھوکریں لگائی جا رہی ہیں یہ اُن کی روایت کا حصہ ہے۔ یہ فیصلہ اُن کے ہاتھ میں ہے‘ کہ کیا وہ صلح چاہتے ہیں اور بیٹھ کر بات کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک بہتر اور پرامن ترکی کے لیے ہم اپنے مسائل حل کر لیں؟ ہم عثمانیوں کے وارث ہیں کہ جو صدیوں تک امن سے رہے۔

میں نے اکثر یہ دلیل سنی ہے کہ جب آپ عام جگہوں پر حجاب پہنیں تو آپ غیر جانب دار نہیں رہتیں‘ لیکن جب آپ حجاب نہ پہنیں اور اسلام سے نفرت کریں اور اُن لوگوں پر لعنت کریں جو اسکارف پہننا چاہتی ہیں تو کیا آپ غیر جانب دار ہیں---؟ یہ خط آپ کہاں کھینچیں گے؟ جو انسانی حقوق بین الاقوامی معاہدوں میں لکھے گئے ہیں جن کی ترکی نے توثیق کی ہے‘ اُن کا اطلاق آخر کب ہوگا؟

س : جو کچھ آپ کر رہی ہیں وہ کرنے کے لیے کیا چیز جذبہ اور قوت دیتی ہے؟

ج : حق کے لیے کام کرنا۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں نے اپنے خیالات دوسروں پر نہیں ٹھونسے‘ میں نے لوگوں کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا اور نہ لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ میری ہی طرح سوچیں۔ میں کبھی بھی بنک فراڈ میں ملوث نہیں ہوئی۔ میں نے کبھی ایسا کام نہیںکیا جو میرے مذہب کی نظر میں غلط ہو یا ترک دستور کی نظر میں غلط ہو۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جو حق کے لیے اٹھتا ہے وہ تکلیف اٹھاتا ہے۔ میں حق کے لیے لڑنے والی ہوں‘ ہماری سچائیاں آفاقی ہیں۔ (ترجمہ: مسلم سجاد- ماہنامہ امپیکٹ انٹرنیشنل‘ مارچ ۲۰۰۱ء)

 

مسلمان یورپی ممالک میں وقتی طور پر گئے تھے مگر اب اپنی دوسری اور تیسری نسل کے ظہور سے وہ ان معاشروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔ لہٰذا ان مسلمانوں کو درپیش مسائل پر توجہ کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا ازبس ضروری ہے۔ ان سطور میں مغرب میں رہایش پذیر مسلم خاندانوں کو درپیش ایک اہم مسئلہ--- پرانی اور نئی نسل میں فکری و ثقافتی رابطہ کی کمی--- کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ آخر میں تین یورپی ممالک سوئٹزرلینڈ‘ پولینڈ اور یونان میں مسلم خاندانوں کو جن پریشانیوں کا سامنا ہے‘ کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے۔

فکری وثقافتی رابطے سے مراد: اس سے مراد مسلم نسلوں اور خاص طور پر والدین اور اولاد کے مابین ایسا دینی‘ فکری اور ثقافتی تعلّق ہے جس کے ذریعے جدید نسل‘ سابق نسل کے ورثے‘ اسلامی اصولوںاور اخلاقی قدروں کی حامل بنے۔ یہ رابطہ ایک تہذیبی ضرورت ہے۔ اس ایجابی رابطے کے بغیر کوئی بھی تہذیب اپنے اصولوںاور روایات کی حفاظت کر سکتی ہے نہ انھیں ترقی دے سکتی ہے۔ مغربی ماحول میں بسنے والے مسلم خاندانوں میں اس رابطے کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ ہماری جدید نسل اس مغربی ماحول میں ڈھل جائے جس کا مذہب اور اخلاق کے بارے میں اپنا مخصوص موقف ہے‘ جہاں ’’مطلق آزادی‘‘ ‘ ’’انفرادی ذمہ داری‘‘ اور ’’والدین کی حاکمیت کا خاتمہ‘‘ جیسے نظریات کی حکمرانی ہے‘ جہاں اسلام کے بارے میں منفی رویہ پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسل کی اکثریت کو اگرچہ اسلام کی طرف نسبت سے انکار نہیں مگر وہ فکروعقیدہ کے لحاظ سے اسلام کی علم بردار بھی نہیں۔ ان میں سے اکثر شدید نوعیت کے مسائل سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے خاندانوں سے بھی کٹ چکے ہیں اور مسلمانوں سے بھی۔

رابطے میں حائل رکاوٹیں

یہ رکاوٹیں دو قسم کی ہیں: داخلی و خارجی۔ داخلی رکاوٹوں کا سبب خود مسلمان ہیں۔ ان میں سے کچھ تو سماجی اور demographic ہیں اور کچھ کا تعلّق اخلاقی مفروضوں سے ہے۔ اہم رکاوٹیں حسب ذیل ہیں:

ماحول کا اختلاف:  ایک اہم رکاوٹ ماحول کا اختلاف ہے۔ والدین مسلم ممالک سے نقل مکانی کر کے گئے ہیں‘ جب کہ اولاد مغربی ماحول میں پلی بڑھی ہے۔ والدین کا اصرار ہے کہ وہ اس مخصوص تربیتی انداز کو جس پر انھوں نے خود پرورش پائی ہے مسلّط کر کے رہیں گے ۔ اسلام اور اس کے اصولوں سے ناواقفیت کے نتیجے میں‘ اسلامی اصولوں اور اس کی اخلاقیات کو مختلف تاریخی و سماجی ماحول سے مربوط تقلیدی عادات و رسوم سے خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک ہی معاملے میں بیٹی اور بیٹے میں فرق کیا جاتا ہے۔ بیٹی پر تو اپنی سہیلیوں سے ملنے پر پابندی لگائی جاتی ہے اور بیٹے کو مرد و زن ہر ایک سے ملنے کی کھلی آزادی دی جاتی ہے خواہ وہ رات گئے تک گھر سے باہر رہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو مفاسد اور گمراہ کن ترغیبات سے بھرا پڑا ہو یہ انداز تربیت نہایت مہلک ہے اور بچے ’’دوہری شخصیت‘‘ کے مالک بنتے ہیں۔ وہ خاندان اور گھر میں اپنے آپ کو دین دار اور پابند نظم و ضبط ظاہر کرتے ہیں مگر گھر سے باہر نکلتے ہی اخلاقی قدروں کو پامال کر دیتے ہیں۔

درحقیقت مسلم نوجوان اپنی ذاتی شناخت کے مسئلے سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دو شناختوں میں بکھرا اور دو نسبتوں میں تقسیم پاتا ہے جن میں مطابقت اس کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ اس معاشرے سے نسبت رکھتا ہے جہاں وہ پروان چڑھا‘ دوسری طرف اس کا تعلّق ایسے دین سے ہے جسے یہ معاشرہ تسلیم نہیں کرتا۔یہ تصادم مسلم نوجوان کو ایسی حالت تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ نفسیاتی ہم آہنگی اور فکری توازن کھو بیٹھتا ہے۔ اسے دینی‘ اخلاقی اور تہذیبی ورثے کو پانے میں عملی مشکلات اور موانع کا سامنا ہے۔

مشکل نفسیاتی و سماجی حالات کا ایک سبب بڑے اور وسیع خاندان سے دُور رہنا ہے‘ جس سے صلہ رحمی اور احساس ذمہ داری پیدا نہیں ہوتا۔

والدین کا منفی رویہ: کچھ ایسے والدین ہیں جو اپنی اولاد کو اسلامی نظریات کا پابند نہیں دیکھنا چاہتے‘ وہ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اور کسی قسم کی رہنمائی نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں کہ جب یورپ میں ہی رہنا ہے تو کیوں نہ ان کی اولاد اس ماحول میں مکمل طور پر جذب ہوجائے۔ بچے ٹیلی ویژن دیکھتے رہتے ہیں۔ ٹیلی ویژن نے ان سے بات چیت‘ کھیل کود اور کام کاج کی فرصتیں چھین لی ہیں۔

اس کے برعکس کچھ والدین‘ اپنی اولاد کے ماحول کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے انھیں پرانی ڈگر پر چلاناچاہتے ہیں۔ وہ مارپیٹ زیادہ اور توجہ و شفقت کم کرتے ہیں۔ وہ بچوں کی مادی‘ عقلی اور جذباتی ضروریات کا اندازہ نہیں لگاتے‘ نہ ان کی صلاحیتوں اور ذہنی میلان کو دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے بچے خوداعتمادی‘ اعلیٰ اخلاق اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے والدین‘ بچوں کو یورپی معاشرے کی کسی فکر‘ عادت یا ثقافت کو اپنانے کی اجازت نہیں دیتے خواہ وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اور اسلامی اصولوں سے بھی متصادم نہ ہو۔

والدین کے اس رویے سے باہمی رابطہ معطل ہو جاتا ہے‘ بچے خاموش رہتے ہیں اور اپنے اندر سے ابھرنے والے خیالات کو ظاہر نہیں کرتے‘ جب کہ باہمی رابطہ کی بنیاد ہی مکالمہ ہے۔

مشرقی ممالک واپسی کی سوچ:  کئی والدین اور سرپرست بچوں کو عجیب تناقض اور

کش مکش میں ڈال دیتے ہیں:’’واپس اپنے ملک جانے کی تیاری کرو اوروہیں اپنا مستقبل تعمیر کرو‘‘، اس نصیحت کے ساتھ ساتھ وہ انھیں یہ بھی حکم دیتے ہیں کہ متعلقہ یورپی ممالک کی زبان پر عبور بھی حاصل کرو اور یہاں کی تعلیم مکمل کرو۔ کچھ بچے یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس ملک میں پڑھائی کا کیا فائدہ؟ وہ کاہل اور سست ہو جاتے ہیں۔ کچھ بچے اپنے بڑوں کے واپسی کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یوں والدین اور اولاد میں غلط فہمی اور تصادم پیدا ہوتا ہے‘ بالآخر بچے گھر والوں سے الگ ہو جانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ ’’واپسی کی سوچ‘‘ رابطہ کی ایک رکاوٹ ہے۔ اولاد ‘ اپنے بزرگوں کو اپنے دکھوں میں شریک نہیں کرتی‘ نہ اُن سے ان اہم موضوعات پر تبادلہ خیالات کرتی ہے جن کا ان کے حاضر و مستقبل سے تعلّق ہوتا ہے۔ والدین شرمندہ تعبیر نہ ہونے والا خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں کیونکہ اولاد کو مغربی ممالک کی شہریت مل چکی ہوتی ہے۔ سن بلوغ کے بعد بالخصوص‘ اولاد نفرت اور علیحدگی کو اپنا لیتی ہے اور وہ کھلے دل سے تبادلہ خیالات سے باز رہتی ہے۔

یہ عوامل نوجوان کو دو متضاد نتیجوں تک پہنچاتے ہیں۔ نتیجتاً یا تو وہ دین سے بالکل الگ ہو جاتا ہے یا پھر وہ انتہا پسندانہ مذہبیت کو اختیار کر لیتا ہے۔ یہ دراصل باہمی رابطے کے فقدان کے نتیجے میں ردعمل کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا نئی اور پرانی نسل میں باہمی رابطے کو موثر بنانے کی ضرورت اہم تقاضا ہے۔

موثر باہمی رابطہ

یورپ میں آباد مسلم خاندانوں کی جدید و قدیم نسل کے مابین رابطے کے تو کئی ذرائع ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ ’’علم رابطہ‘‘ سے استفادہ کیا جائے اور محض قدیم تقلیدی طریقوں پر ہی انحصار نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ نئی نسل فکری‘ علمی اور مہارتوں و ذرائع کی ترقی کے دور میں رہ رہی ہے۔ موثر رابطے کے لیے درج ذیل امور کو خصوصی اہمیت دینا ہوگی:

مسلم شناخت اور معاشرے سے ہم آہنگی:  پرانی نسل کے مسلمانوں کو اس حقیقت کا مکمل احساس ہونا چاہیے کہ انھیں اپنی نئی نسلوں سمیت یورپی ممالک میں ہی رہنا ہے۔ اگر وہ اس نظریے کو قبول نہیں کریں گے تو اپنے حقوق ضائع کریں گے اور اپنے فرائض میں کوتاہی کریں گے۔ انھیں یہاں رہ کر یہاں کے معاشروں سے تصادم کی شدت کو کم کرنا ہے اور ان میں اس طرح گھل مل کر رہنا ہے کہ ان کی اپنی وحدت بھی برقرار رہے۔ اس مقصدکے لیے اسلامی تعلیمات سے استفادے کا طریق کار مقرر کرنا ہوگا اور متعلقہ معاشرے کے ساتھ ہم آہنگی بھی برقرار رکھنا ہوگی۔

اعتدال کی روش :  یورپی معاشرے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں ہمیں اعتدال و انصاف سے کام لینا ہوگا۔ ان کی ہر چیز کو خلافِ اسلام نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ اس معاشرے میں انسانی فضا ہے‘ آزادی ہے‘ قانون کی حکمرانی ہے‘ اور ایسے  راستے ہیں کہ اگر ہم ان سے استفادے کا طریقہ جان لیں تو اپنے بہت سے مصالح و مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے نوخیز مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف نسبت میں بھی اعتماد و اطمینان ملے گا۔ وہ اپنے معاشرے سے کٹیں گے نہ اپنے ماحول کے افراد سے قدرتی تفاعل سے دُور ہوں گے۔ اس ایجابی ادغام سے مسلمانوں کے لیے مغربی معاشرے میں ایک موثر عنصر بننا ممکن ہوگا۔

نوجوانوں کی سرپرستی:  نئی نسل کو جن سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے ‘ ان میں اپنے بزرگوں کی سرپرستی اور قربت کے احساس سے دونوں نسلوں کے مابین خلا کم ہونے میں مددملے گی۔ انھیں اخلاقی تائید میسر ہوگی جس سے وہ نہ صرف بطور مسلم شہری اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں گے اور مغربی رائے عامہ کے سامنے اپنے یورپی شہری ہونے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہونے پائیں گے بلکہ وہ کامل باصلاحیت شہری کے طورپر بہبود عامہ کی دعوت بھی دے سکیں گے۔

نوجوانوں کو درپیش مسائل میں عملی رہنمائی:  نئی نسل کو کئی طرح کے دبائو کا سامنا ہے۔ ایک دبائو نسلی تفریق کا نظریہ ہے جس کی وجہ سے وہ احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ ایک دبائو مادہ پرستانہ معاشرے کا مزاج بھی ہے۔ مسلم نوجوان بالعموم تفریحی ذرائع سے محروم رہتے ہیں تاکہ وہ حرام میں مبتلا نہ ہوں جس سے ان میں نفسیاتی تشنگی پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا نوجوانوں کی ضروریات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ انھیں اپنے مزاج و حالات کے مطابق کھلے دل کے ساتھ مذاکرات اور تبادلہ خیالات کا موقع فراہم کیا جائے‘ ان کے نیک دوست ہوں‘ پاکیزہ تفریحی ماحول میسر ہو ‘اور خاندان کے ساتھ مل کر سیروتفریح کرسکیں۔ انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ وہ حسن سلوک اور زبانی و عملی محبت کے محتاج ہیں۔ ان کی بات پوری برداشت سے سننا ہوگی۔ ان کی اس طرح سے تربیت اور رہنمائی کرنا ہوگی کہ وہ اپنے خیالات پوری آزادی مگر احترام کے ساتھ پیش کر سکیں‘ اپنے حقوق کے بارے میں بات کر سکیں اور کسی سخت ردعمل کے خوف کے بغیر نامعلوم باتیں دریافت کر سکیں۔

اسلامی تنظیموں کا کردار: یہ تنہا والدین کی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں اور اسلامی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دو نسلوں کے مابین تیزی سے بڑھتے ہوئے فکری خلا کو کم کرنے کی کوشش کریں ورنہ نئی نسل مادی اغراض کا شکار ہو کر دین اسلام سے برگشتہ ہو جائے گی۔ یورپ میں کام کرنے والی اسلامی تنظیموں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اختلافات ختم کر دیں اور مسلم بچوں پر توجہ کریں‘ ان کی دینی‘ ثقافتی اور تفریحی ضروریات کا ادراک کریں تاکہ وہ نفسیاتی طور پر متوازن ہوں اور اسلام کے قابل فخر سفیر بنیں۔ وہ والدین اور اولاد میں واسطے کا کردار ادا کریں۔

یورپی ممالک میں مسلم خاندانوں کی حالت زار

یورپ میں جا کر آباد ہونے والے مسلم خاندانوں کو درپیش مسائل کو جاننے کے لیے ہم یہاں پر صرف تین ممالک کا ذکر کرتے ہیں:

سوئٹزرلینڈ: یہاں مسلمانوں کی کل تعداد ۳ لاکھ ۸۵ ہزار ہے جن میں سے ۷۰ ہزار عرب ہیں۔یہاں مسلم خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘ دوسری نسل مغربی معاشرے میں ضم ہو رہی ہے اور اپنی مادری زبان بولنے سے محروم ہے۔ یورپی طور طریقوں اورعادات کو اپنا رہی ہے۔ وہ شرعی پابندیوں کے بجائے ملکی قانون کے احترام کو ترجیح دیتی ہے۔ مسلم خاندانوں میں طلاق کی شرح ۴۰ فی صد ہے۔ ملک کے تعلیمی اور سماجی نیز ٹیلی ویژن کے اثراتِ بد نمایاں ہیں۔ جرمن سوئٹزرلینڈ کے ماتحت علاقوں میں ۵۰ فی صد مسلم لڑکیاں بدچلنی کا شکار ہیں۔ بے بسی کا یہ عالم ہے کہ بلدیہ والے ان مسلم لاشوں کو جلادیتے ہیں جن کے ورثا تدفین میں

دل چسپی نہیں لیتے۔کیونکہ جلانے کے اخراجات دفنانے سے کم ہیں۔ ۳ لاکھ ۵۰ ہزار مسلمانوں کے لیے صرف ۱۰۰ مساجد ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی ضرورت سے بہت کم ہیں۔

عالم اسلام اور اس سے باہر اسلام سے تعلّق کا آخری قلعہ مسلم خاندان ہے۔ مسلم خاندان کا اسلامی تشخص اور اس کی وحدت نہ صرف مسلمانوں بلکہ مشرق و مغرب کے غیر مسلموں کے لیے بھی مفید ہے۔ آزادی کی دو دھاری تلوارمسلم خاندانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مطلق آزادی کے منفی اثرات نے ٹکنالوجی کی ساری ترقیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ یہ آزادی پوری انسانیت کے لیے زبردست خطرہ ہے۔ مطلق آزادی مغرب میں ہماری نژادِ نو کے لیے تباہ کن خطرہ ہے۔

یونان:  یونان میں نقل مکانی کر کے آنے والے کئی مسلم خاندان آباد ہیں۔ عالم عرب سے آنے والے مسلم خاندانوں کا پہلا پڑائو ایتھنز رہا ہے۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران اور پھر جنگ خلیج کے بعد یہاں کافی مسلمان آبسے ہیں۔ کئی مسلم نوجوانوں نے اپنے قیام کو یقینی بنانے اور کچھ نے گناہوں سے بچنے کی خاطر یونانی عورتوں سے شادیاں کر لیں مگر آیندہ نسل اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوئی اور جرائم میں مبتلا ہوئی۔

اپنی پوری عمر ’’مال و زر‘‘ کے حصول میں کھپا دینے والے اور اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت سے غفلت کے مرتکب لوگ اب اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ’’میری بیٹی مسلمان مرد کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کرتی ہے‘‘۔ اولاد نہ صرف اپنے اصل وطن نہیں جانا چاہتی بلکہ اس سے کسی قسم کے تعلّق سے بھی انکار کرتی ہے۔ بہت سے مسلم خاوند اپنی یونانی مسیحی بیویوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں کرتے۔ یونان میں اگرچہ نوجوانوں اور بچوں کی دینی تربیت کا کچھ کام ہو رہا ہے مگروہ انفرادی سطح پر ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ کام وسیع پیمانے پر منظم طریقے سے کیا جائے۔

پولینڈ: پولینڈ میں مسلم خاندانوں کی دینی و اخلاقی حالت‘ تعلیمی و ثقافتی معیار اور عادات و رسوم کے پس منظر الگ الگ ہونے کی وجہ سے مختلف ہے۔ یہاں تاتاری الاصل تقریباً ۵ ہزار مسلمان آج سے ۶۰۰ سال پہلے آباد ہوئے تھے۔ یہ زیادہ تر مشرقی علاقوں میں بسے۔ یہ لوگ ۸۰ کے عشرے تک کمیونزم کے تلخ نتائج کے زیراثر رہے۔ وہ کمیونزم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے مسیحی المذہب معاشرے میں ضم ہونے لگے۔ اسلام کی تعلیمات سے بے خبری ہونے لگی۔ حتیٰ کہ تاتاری مسلمان عورتوں نے عیسائیوں سے شادیاں کیں۔

ان مسلمانوں کو اسلام کی درست تعلیمات سے متعارف کروانے میں کئی عوامل نے کام کیا۔ ۸۰ کے عشرے کے اختتام پر عرب مسلم طلبہ نے تاتاری مسلمانوں میں اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ تقاریر‘ خطباتِ جمعہ اور بہت سے اسلامی لٹریچر کے پولش زبان میں ترجمے کے ذریعے ہمہ جہتی تبلیغ کی۔ بچوں کے لیے اختتام ہفتہ پر دینی تدریس کا بندوبست کیا۔ تاتاری خاندان متحد ہے اور انتشار کا بہت کم شکار ہے۔ پورا خاندان عورتوں‘ بچوں سمیت مختلف اسلامی تہواروں پر یک جا ہوتا ہے۔ رمضان کے پہلے دن‘ نصف رمضان اور ۲۷ رمضان کی رات کو سب مسجدوں میں اکٹھے ہوتے ہیں۔

پولینڈ کے ۲۰۰ مسلمان یہاں کے اصل باشندے ہیں۔ یہ لوگ اپنے خاندان کی تشکیل میں اسلامی نہج کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں‘ البتہ ان کی عام زندگی یورپی طریقے پر گزرتی ہے۔ باہر سے آنے والے عرب اور دیگر مسلمان ۱۵ ہزار ہیں۔ ان میں طلبہ‘ مزدور اور سفارتی عملہ شامل ہے۔ ان میں سے کچھ نے پولینڈ کی عورتوں سے شادی کے ذریعے یہاں کی شہریت حاصل کی ہے جو شادی سے پہلے یا اس کے بعد مسلمان ہو جاتی ہیں۔ مختلف قومیتوں پر مشتمل خاندان (مثلاً خاوند عرب اور بیوی پولش) کی تعداد بہت بڑی ہے۔ اس لیے عرب طلبہ اور مزدور پولینڈ میں رہایش رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ خاندان مختلف حالات سے گزرتے ہیں جس میں زوجین کے مزاج اور مذہبی تعصب کو بھی دخل ہے۔ ایسے خاندانوں کے بچے مختلف مسائل میں مبتلا ہیں۔ ان پر دینی نقطۂ نظر بھی واضح نہیں ۔ یہ شادیاں زیادہ تر ناکامی‘ طلاق اور بچوں کے بگڑنے پر منتج ہوتی ہیں۔ اگر بیوی نے خوشی سے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا ہو اور خاوند دین دار ہو تو خاندان پر اسلامی اخلاق کی چھاپ نمایاں ہوتی ہے ورنہ مسلم خاندان بہت سے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

 

۲۹‘ ۳۰ جنوری ۲۰۰۱ء کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں پہلی عالمی القدس کانفرنس منعقد ہوئی۔ قبلۂ اوّل کے لیے مسلمانان عالم کا یکساں و متحدہ موقف اُجاگر کرنے کے لیے اس کانفرنس کی اہمیت غیر معمولی تھی۔اسلامی تحریکیں ہی نہیں‘ دیگر عناصر بھی بڑی تعداد میں اس میں شریک تھے۔ متعدد عیسائی رہنما بھی القدس کی آزادی کا مطالبہ کرنے کے لیے اس میں شریک رہے۔ ’’القدس کانفرنس‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا‘ تو اس میں بھی قوس قزح کے سارے رنگ موجود تھے۔ شیعہ ‘سنی‘ نیشنلسٹ‘ مسیحی سب بیک آواز القدس کی آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس عالمی کانفرنس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوا ہے کہ دنیا بھر سے شریک قائدین و نمایندگان کو ایک پلیٹ فارم پر مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبر ہونے کا موقع ملا۔

ایسی ہی ایک غیر رسمی مجلس میں سوڈان سے آئے ہوئے تین اہم رہنما یکجا تھے:۱- شیخ یاسین عمر الامام‘ ڈاکٹر حسن ترابی کے دست راست ہیں اور ساری عمر اسلامی تحریک کے لیے جدوجہد میں گزار دی ‘۲- ڈاکٹر احمد محمد عبدالرحمن‘ سوڈانی صدر عمر حسن البشیر کے سیاسی امور کے ذمہ دار ہیں‘ اور ۳-مہدی ابراہیم حکمران پارٹی کے خارجہ امور کے نگران ہیں۔تینوں کو باہم شیروشکر دیکھ کر راقم الحروف نے کہا کہ جتنی خوشی پوری کانفرنس کی کارروائی دیکھ کر ہوئی‘ اتنی ہی خوشی صرف اس ایک منظر کو دیکھ کر ہو رہی ہے کہ آپ تینوں اکٹھے ہیں۔ سب نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ ’’ہمارے اختلافات بھی ہمیں جدا نہیں کرتے!‘‘ اور پھر اس رواداری کے کئی واقعات سنائے۔

بدقسمتی سے سوڈان کی تازہ صورت حال نے ایک بار پھر تشویش بلکہ کرب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ۲۷ دسمبر ۱۹۹۹ء کو قاضی حسین احمد کی زیر قیادت جماعت اسلامی کا تین رکنی وفد خرطوم ہی میں تھا۔ اس موقع پر  ۱۰ روز کے مسلسل مذاکرات کے بعد پارٹی کی شوریٰ نے ایک جامع صلح نامہ اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اس میں صدر عمر البشیر اور ڈاکٹر حسن ترابی کے درمیان تمام اختلافات کا احاطہ کیا گیا تھا‘ ان کی وجوہات کا ذکر تھا‘ ان کا فوری حل بھی تجویز کیا گیا تھا اور ان کا دوررس علاج بھی تحریر کیا گیا تھا۔

سوڈانی رہنمائوں نے ایک دوسرے کو بھی مبارک باد دی‘جماعت کے وفد سے بھی اظہار سپاس و تہنیت کیا اور سب نے کھلتے چہروں سے امید ظاہر کی کہ اب دھیرے دھیرے تمام حالات معمول پر آجائیں گے۔ اس صلح نامے کے بعد ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر عمرالبشیر کے درمیان رو در رو ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ شکوے بھی ہوئے‘ اور یہی امید قوی تر ہوئی کہ جن اختلافات کی بنیاد پر تحریک دو دھڑوں میں منقسم ہو گئی ہے ان کا حل تلاش کر لیا جائے گا۔

ان اختلافات میں سب سے بنیادی امر تحریک‘ پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات کا تعین تھا۔ تفصیل میں جائے بغیر‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر حسن ترابی کے خیال میں فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں حتمی اختیارات پارلیمنٹ کو حاصل ہونے چاہییں‘ جب کہ صدر عمرالبشیر اور ان کے ساتھیوں کی رائے میں سوڈان کے حالات اور درپیش خطرات کی روشنی میں صدارتی نظام کو مستحکم ہونا چاہیے۔ صدر مملکت پارلیمنٹ اور پارٹی سے بھی رہنمائی لے‘ لیکن عوام چونکہ صدر کی بیعت کرتے ہیں‘ اس لیے اس قبائلی ماحول میں صدر ہی کو

قول فیصل کا اختیار ملنا چاہیے۔ ان دونوں آرا میں توافق ممکن تھا‘ لیکن اختلافات کو ہوا دے کر اسے خلیج میں بدل دینے والوں کی کوششیں بدقسمتی سے کامیاب ہو گئیں۔ صلح نامہ معدوم ہو گیا‘ ڈاکٹر حسن ترابی اور ان کے ساتھیوں کو علیحدہ کر دیا گیا۔ انھوں نے اپنی الگ پارٹی پاپولر نیشنل کانفرنس بنا لی۔ حکمران پارٹی کا نام ’’نیشنل کانفرنس‘‘ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مصر‘ لیبیا اور کئی دوسرے ممالک میں موجود اپوزیشن لیڈروں نے واپسی کے راستے تلاش کرنا شروع کر دیے۔ تمام قابل ذکر اپوزیشن رہنما جن میں سابق صدر نمیری‘ میرغنی‘ اور سابق وزیراعظم صادق المہدی بھی شامل ہیں‘ اب تک خرطوم واپس آچکے ہیں۔ حکومت سے صلح بلکہ حکومت میں شرکت کے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔

سب سے بدنما صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب وسط فروری ۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر حسن ترابی اور ان کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر مظاہرے بھی ہوئے اور متعدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ترابی صاحب پر الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ صلح و مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور وہ حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتے ہیں‘ جب کہ ترابی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اگر صدر اُن سابق اپوزیشن لیڈروں سے صلح کی بات کر سکتے ہیں جنھوں نے انھی علیحدگی پسندوں اور مختلف بیرونی عناصر کے ساتھ مل کر سوڈان پر متعدد فوجی حملے کروائے‘ تو ہم بھی جنوبی عناصر سے گفت و شنید کر سکتے ہیں۔ خود حکومت نے بھی ان عناصر کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کیے ہیں۔

وجوہات کا تجزیہ جس طور بھی کیا جائے‘ عملی نتائج بدقسمتی سے یہی سامنے ہیں کہ کل تک ہم پیالہ و ہم نوالہ‘ وہ قائدین کہ جن سے پوری اُمت کی امیدیں وابستہ تھیں‘ ان کے درمیان اس وقت تلخی اوراختلافات عروج پر ہیں‘ تنائو شدید ہے اور واپسی کی راہیں مسدود ہوتی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال سے سب سے زیادہ خطرہ سوڈان کی انقلابی حکومت کو ہے‘ اور سب سے زیادہ خوشی سوڈان کے بدخواہوں کو۔ مختلف مواقع پر صدر عمر البشیر کی حکومت گرانے کے لیے عالمی قوتوں نے‘ پڑوسی عرب ممالک کے ذریعے سرتوڑ کوششیں کیں اور براہِ راست بھی ہلے بولے گئے۔ ’’الشفا‘‘ نامی دواساز فیکٹری پر میزائلوں سے حملہ کیا گیا‘ اکائونٹ منجمد کر دیے گئے‘ سوڈان ایئرلائن پر پابندی لگا دی گئی۔ خود صدر عمربشیر بتا رہے تھے کہ امریکہ نے سوڈانی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ۴۰۰ ملین ڈالر کا بجٹ رکھا ہے۔

ان تمام کارروائیوں کے باوجود بھی یہ امریکی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ چار چار ممالک کی طرف سے مشترکہ فوجی حملے پسپا ہوئے۔ پڑوسی عرب ممالک خود مجبور ہوئے کہ سوڈان سے تعلقات بحال کریں۔ ’’الشفا‘‘ تباہ کر دیے جانے پر کئی ’’الشفا‘‘ بنانے کی پیش کش ہوئیں۔ سوڈان خوراک و ادویات سازی میں خود کفیل ہوگیا۔ پٹرول کا ایسا ذخیرہ دریافت ہوا کہ آیندہ برس سے سوڈان تیل برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو رہا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں ہم جب وہاں گئے تو پٹرول لینے کے لیے پرمٹ جاری ہوا تھا اور رات رات بھر طویل قطاروں میں لگنا پڑتا تھا۔ زمین صرف غذائی سونا ہی نہیں اصل سونا اُگلنے لگی۔ سونے کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ ٹن سے بڑھ گئی۔ جنوبی سوڈان کی لڑائی میں تمام وسائل جھونکے جانے کے باوجود سوڈان مستحکم سے مستحکم ہوتا گیا اور آخرکار پڑوسی و امریکی تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک سوڈانی حکومت کو اندر سے کمزور نہیں کیا جاتا‘ اس کا خاتمہ ناممکن ہے۔

اس خدشے اور اس تجزیے سے دونوں متنازعہ بھائی بھی اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن دُوری ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اب تمام تر امیدیں خود سوڈانی حکومت اور ڈاکٹر حسن ترابی صاحب کی پارٹی میں موجود ان عناصر پر موقوف ہیں جو اب بھی باہم یک جا و یک جان ہیں۔سب تجزیہ نگار اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ عوام تقسیم نہیں ہوئے اور وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ دونوں رہنما حسب سابق مل جائیں۔ اس طرح کا عوامی دبائو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

سب سے زیادہ تسلی کی بات یہ ہے کہ خود صدر عمرالبشیر‘ ان کے وزرا اور ان کی پارٹی کی قیادت‘ سب کے سب اسلام سے گہری محبت رکھنے والے اور اسلامی اصلاحات کا سفرمکمل کرنے کے شدید حامی ہیں۔ان میں متعدد افراد براہِ راست ترابی صاحب کے تربیت یافتہ ہیں۔ تحریک اسلامی ان کی پہلی و آخری محبت ہے اور ان کے ہوتے ہوئے سوڈان کی اسلامی شناخت ہر قسم کے خطرات سے محفوظ ہے۔ خطرہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جن شیاطین نے ترابی و بشیر کو باہم جدا کر کے سوڈان کو ایک بحران کا شکار کیا ہے‘ اور اس بحران میں مزید تندی پیدا کر رہے ہیں‘ وہ لکڑیوں کا گٹھا کھول کر ایک ایک کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ آیئے ہم سب اپنے سوڈانی بھائیوں کے اتحاد و یک جہتی کے لیے دست دعا بلند کریں۔

سوڈان سے آنے والا تازہ ہوا کا جھونکا یہ ہے کہ اخوان المسلمون کی بنیادی تنظیم جو اس سے پہلے حکومت سے باہر تھی‘ اب باقاعدہ حکومت میں شامل ہو گئی ہے‘ اور اس کے ایک نوجوان رہنما ڈاکٹر عصام البشیر کابینہ میں لے لیے گئے ہیں۔ یہ تمام عناصر سوڈان کی اسلامی شناخت کے ضامن اور وحدت کی امید کو مضبوط تر کرنے والے ہیں۔

انڈونیشیا  --- عیسائیت کی زد میں!

محمد ایوب منیر

عظیم اسلامی ملک انڈونیشیا ایک بار پھر بحران کے اندر گھر گیا ہے۔ جنرل سہارتوکے بعد برھان الدین یوسف حبیبی کو صدرِمملکت بنایا گیا لیکن اسلام پرستوں سے ان کی راہ و رسم اور طیارہ سازی کی صنعت میں غیر معمولی خود کفالت ان کے لیے موردِالزام بن گئی۔ ۱۶ ماہ قبل  نہضۃ العلما کے عبدالرحمن واحد نے اقتدار سنبھالا تو گولکرپارٹی‘ جمہوری پارٹی اور متحدہ ترقیاتی پارٹی (پی پی پی) نے واحد کو نجات دہندہ قرار دیا تھا لیکن فسادات عروج پر پہنچے ہیں تو صدر سے استعفا کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس صورت میں جمہوری پارٹی کی سربراہ اور موجودہ نائب صدر سُکارنو کی بیٹی میگاوتی کے صدر بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ میگاوتی کے ’’راسخ العقیدہ اور روشن خیال‘‘ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اُس کی جماعت (پی ڈی پی آئی) کے ۷۰ فی صد عہدے دار چینی النسل ہیں یا مسیحی ہیں‘ اور اس کے مندروں میں جا کر پھول چڑھانے کے کئی واقعات عالمی پریس میں شائع ہو چکے ہیں۔

وسائل سے مالا مال انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کوعلیحدہ کروانے میں استعماری قوتوں کی کامیابی نے اس خوف ناک حقیقت کو واشگاف کر دیا ہے کہ ۹۰ فی صد مسلم اکثریت کے ملک کو ۹‘ ۱۰ فی صد مسیحی اقلیت کے زیرنگیں کیا جا سکتا ہے۔ ۵ فی صد چینی النسل ملیشیائی آبادی‘ تمام تر معیشت پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔اکبر تاجنگ‘ میگاوتی‘ امین رئیس اور جنرل اندرپارتو نوسُتارتو تن تنہا ملک کو خلفشار سے نکالنے‘ اقتصادی بحران ختم کرنے‘ اور ملک کو متحد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عبدالرحمن واحد کو معزول ‘ برخواست یا مستعفی کرایا گیا تو جو فرد برسرِاقتدار آئے گا وہ عیسائی موثر گروہوں کا نمایندہ ہوگا ‘یا اُن کے رحم و کرم پر ہوگا۔ پاکستان کے اندر کوئی غیر مسلم دستوری طور پر صدر‘ وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ‘ مسلح افواج کا سربراہ اور چیف جسٹس نہیں بن سکتا لیکن انڈونیشیا کا دستور ایسی کوئی شق نہیں رکھتا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

آچے‘ ایرپان جایا‘ ریائو اور مدورا صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں عروج پر ہیں۔ جزائر ملاکا میں مسلمان اور عیسائی‘ ایک دوسرے کے خلاف مسلح ہو کر صف آرا ہیں۔ سہارتو کے دورِ حکومت میں بھی اور اُس کے بعد گذشتہ تین برسوں میں ۱۰ فی صد مسیحی اقلیت نے کلیدی مناصب تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ چار اہم ترین وزارتیں ان کے پاس ہیں۔

وزارت صنعت و تجارت لوھوت بنسار پنجایتن کے پاس ہے۔ مذہباً پروٹسٹنٹ اور ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل ہیں۔ سنگاپور میں انڈونیشیا کے سفیر رہے ہیں۔ لوھوت کا وعدہ تھا کہ ۸۰ ارب امریکی ڈالر کا سرمایہ جو صنعت کار انڈونیشیا سے نکال لے گئے ہیں‘ میں یہ واپس لائوں گا۔ لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی‘ تاہم روپے کی قیمت اور بھی گر گئی۔ لوھوت کے سابق حکمران خاندان سے بھی خوش گوار مراسم رہے ہیں‘ نیز اقتصادی شہ رگ کی مالک چینی آبادی کے سربرآوردہ لوگوں سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔

بنگاران سراگی‘ وزیر زراعت اور مذہباً پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں۔ وہ بوگور انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں زرعی اقتصادیات کے استاد رہے اور ان کی کئی تخلیقات منظرعام پر آچکی ہیں۔ انڈونیشیا کے ۱۲ کروڑ مسلمان کسانوں کی حالت زار میں کوئی بہتری نہ آسکی‘ تاہم وزارتِ زراعت میں تعلیم یافتہ عیسائی اہم عہدوں پر ضرور متعین ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر توانائی و معدنیات پرنومویس گیانترو کیتھولک عیسائی ہیں۔ ان کا تعلق جاوا سے ہے اور جاوا کے رہنے والے مسلک کی مجموعی سیاست پر اثرانداز رہتے ہیں۔ وہ جکارتا کی اتماجایا کیتھولک یونی ورسٹی سے طویل عرصہ متعلق رہے اور بعدازاں عالمی بنک کے مشیر بن گئے۔ وہ تیل تلاش اور برآمد کرنے والی کمپنیوں کے بھی انچارج رہے جن کے اثاثے اربوں ڈالر ہیں۔ ان کی امریکی سفیر رابرٹ ایس گیلبا رڈ سے قریبی دوستی ہے۔ مذہب بھی ایک ہے اور امن عالم قائم کرنے کا طریقہ بھی ایک! علاوہ ازیں انڈونیشیا بنک تعمیر نو ایجنسی (IBRA) کے سربراہ ایڈون گروگان بھی عیسائی ہیں۔

اس موقع پر تھیو کا ذکر بھی ضروری ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ تھیوسیافی مسلکًا پروٹسٹنٹ ہیں۔ وہ مکاسار کے رہنے والے ہیں۔ مسلم مسیحی فسادات بھڑکانے میں انھیں ’’یدطولیٰ‘‘ حاصل ہے‘ اور اُن کا یہ جملہ تو مشہور ہے: ’’مجھے یہ پسند ہے کہ انڈونیشیا کی تقسیم ہو جائے بجائے یہ کہ یہاں کوئی مسلمان حکومت کرے‘‘۔ تھیو‘ میگاوتی کے معتمد خاص اور اُن کی جمہوری پارٹی کے نائب سربراہ ہیں۔ میگا اُن پر اس قدر اعتماد کرتی ہیں کہ وہ انھیں کئی بار پارٹی کا سربراہ بنانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اقتدار ملنے کی صورت میں اصل فیصلے اور وزارتوں کی تقسیم تھیو ہی نے کرنا ہے۔ تھیو‘ فی الوقت میگاوتی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ صدر واحد نے میگاوتی کو جن شورش زدہ علاقوں کا انچارج بنایا‘ تھیو کے مشورے پر میگا نے وہاں خاموشی اختیار کیے رکھی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہنگامے اور فسادات بڑھتے ہی چلے گئے۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ میگا اپنے مسیحی عہدے داروں اور مشیروں پر خاص اعتماد کرتی ہیں۔ یہاں ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ انڈونیشیا کی سراغ رساں ایجنسی (BAKIN)کے نائب سربراہ جنرل یوس منکو اور سربراہ لیفٹیننٹ جنرل آری جیفرے کمات ہیں‘ نیزفوج کے اسٹرے ٹیجک سراغ رسانی شعبے کے سربراہ میجر جنرل شیوم بنگ ہیں۔ اتنے اہم عہدوں پر عیسائیوں کا تعینات ہونا‘ حسن اتفاق بہرحال نہیں ہے! اب ‘جب کہ عبدالرحمن واحد پر ۳۶ کروڑ ڈالر‘ قومی ادارے (بلوگ) کے ذریعے غصب کرنے کا الزام ہے اور ۱۶ ماہ قبل کے قریبی حلیف امین رئیس (اب قومی مجلس MPR کے سربراہ)‘ اسپیکر اسمبلی اکبر تاجنگ اور نائب صدر میگاوتی‘ صدر واحد سے کھلم کھلا علیحدگی کا اعلان کر رہے ہیں‘ عیسائی گروہوں نے اپنی کوششیں ایک مرتبہ پھر تیز کر دی ہیں۔

برطانیہ سے شائع ہونے والے جریدے امپیکٹ انٹرنیشنل (مارچ ۲۰۰۱ء) کی رپورٹ کے مطابق عیسائیوں کی تکنیک یہ رہی ہے کہ اسلامی قوتوں کو تقسیم در تقسیم کیا جائے۔ نہضۃ العلما اور محمدیہ دو بڑی اسلامی جماعتیں ہیں۔ ان کے درمیان تفریق پیداکرنے اور خلیج وسیع کرنے میں اِسی گروہ کا اہم کردار ہے۔ نہضۃ کے سربراہ عبدالرحمن واحد ہیں اور چار کروڑ پیروکاروں کے دعوے دار ہیں‘ جب کہ امین رئیس‘ محمدیہ کے سربراہ رہے ہیں۔ جن علاقوں میں فسادات برپا ہوئے یا آج کل جاری ہیں‘وہاں مسلم علما‘ اساتذہ اور قائدین کو اوّلین طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ چاہے مشرقی جاوا ہو یا آچے یا مدورا۔ مشرقی تیمور کی طرز پر عیسائیوں نے مختلف صوبوں میں تربیت یافتہ کمانڈوز اور نیم فوجی افراد کے دستے منظم کر لیے ہیں۔ ملاکا میں ریڈ آرمی آف بینی ڈورو ہے‘ سلاویسی میں بلیک بیٹ آرمی ہے ‘ اور مورچے بند ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔

انڈونیشیا میں مقیم عیسائیوں کا متحرک ترین محاذ میڈیا ہے اور انڈونیشیا کے حوالے سے تازہ ترین اور

گرم گرم خبریں بیرونِ ملک روانہ کی جاتی ہیں۔ انڈونیشیا کو بدنام کیا جاتا ہے اور غیر ملکی اداروں مثلاً عالمی بنک اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کا اثر و رسوخ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

ان حالات کا تقاضا ہے کہ اُمت کا درد رکھنے والے فہیم عناصر انڈونیشیا کو کسی مزید بحران کی زد میں آنے سے روکیں۔ سرکاری‘ غیر سرکاری اور انفرادی طور پر ایسے سیمی نار منعقد کیے جائیں جن میں حالات کا صحیح تجزیہ ہو اور انڈونیشیا کو عیسائیت کی گود میں جانے سے بچایا جا سکے۔ اسرائیل کے قیام‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ اور مشرقی یورپ میں مسلم کشی کے بعد انڈونیشیا کے بحرانوں پر خاموشی اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی!

 

ازدواجی زندگی اور بشری کمزوریاں

سوال :  انسان بشری کمزوریوں کا مجموعہ ہے۔ ازدواجی زندگی میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر شوہر طبیعتاً کم گو شخصیت کا مالک ہے اور بیوی ’’زبان دراز‘‘ ہے یا اگر شوہر زبان دراز ہے اور بیوی صابرہ و شاکرہ‘ دونوں صورتوں میں ازدواجی زندگی کی حقیقی برکات حاصل نہیں ہوتیں۔

ان بشری کمزوریوں کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ ان کے مواخذے کی کیا صورت ہوگی؟ ان خامیوں اور کمزوریوں کو دُور کرنے اور ازدواجی تعلّقات کو خوش گوار بنانے کے لیے شرعی حیثیت سے کیا

لائحہ عمل اختیار کیاجانا چاہیے؟

جواب : شوہر طبعاً کم گو واقع ہوا ہو‘ اور بیوی زبان کے معاملے میں غیر محتاط ہو‘  یا بیوی صابرہ و شاکرہ اور کم گو ہو اور شوہر غصہ ور‘ تنک مزاج اور زبان دراز ہو‘ جب بھی اس قسم کا تضاد شخصیتوں اور مزاجوں میں پایا جائے گا‘ ناخوش گواری کا امکان تو رہے گا‘ گو ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ نے اس کا ’’شرعی حل‘‘ پوچھا ہے۔ بلاشبہ اسلامی شریعت میں زندگی کے تمام معاملات ومسائل کے لیے رہنما اصول و ہدایات موجود ہیں اور معاملات معاشرتی ہوں یا نفسیاتی‘ شریعت کے اصول و ہدایات کی روشنی میں ہی انھیں حل کیا جا سکتا ہے۔

پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ انسان (جنس کی قید سے آزاد ہو کر) جہاں ایک کمزور اور کم علم مخلوق ہے وہاں اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین ۹۵:۴) ایسے ہی انسان کی بولنے اور communicate کرنے کی صفت کے حوالے سے فرمایا: خَلَقَ الْاِنْسَانَ o عَلَّمَہُ الْبَیَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۳-۴) ’’اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا‘‘۔ چنانچہ قرآن انسان کو باربار متوجہ کرتا ہے کہ وہ زبان کے استعمال کے معاملے میں غیر معمولی ذمّہ داری اور احتیاط سے کام

لے مثلاً قول معروف کے بارے میں فرمایا:  قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ  وَّمَغْفِرَۃٌ  خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھَا  اَذًی ط

(البقرہ ۲:۲۶۳) ’’ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دُکھ ہو‘‘۔ گویا میٹھی اور نرم بات کرنا ایسی خیرات اور فیاضی سے بدرجہا بہتر ہے جس میں طعن تشنیع‘ نوک جھونک‘ طنز و استہزا کا دخل ہو اور دوسرے کو اذیت پہنچے۔  سورہ النساء میں اس بات کو یوں فرمایا گیا: ’’اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی دو اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو (۴:۸)۔ والدین کے حوالے سے یہ ہدایت دی گئی کہ ان کے ساتھ قول کریم یعنی انتہائی احترام‘ محبت اور احسان مندی کے ساتھ بات کی جائے اور کبھی اُف تک نہ کہا جائے (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳)۔ امہات المومنینؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ وہ جب بات کریں تو اس میں کوئی لگاوٹ نہ ہو بلکہ سیدھی سادی اور مختصر بات ہو (الاحزاب ۳۳:۳۲) ۔گویا اس طرح تمام اہل ایمان خواتین کو بھی ہدایت کر دی گئی کہ وہ کس طرح دوسروں سے مخاطب ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدگوئی اور زبان درازی کو سخت ناپسند فرمایا ہے اور ایک حدیث میں‘جو  ابوداؤد میں منقول ہے‘ اس بنا پر رشتہ ازدواج کے منقطع کرنے تک کی اجازت دی ہے (یاد رہے کہ طلاق کو جائز قرار دیتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرنے والی چیز کہا گیا ہے)۔ ایک حدیث میں زبان درازی کے حوالے سے ایک ایسی خاتون کا ذکر کیا گیا ہے جو انتہائی عبادت گزار تھی اور رات رات بھر اللہ کی عبادت کرتی تھی‘ دن میں روزہ رکھتی تھی لیکن اس کی زبان سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ تھے۔ فرمایا گیا کہ اس خامی کی بنا پر اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ جو شخص دو چیزوں کی ضمانت دے اس کے لیے جنت مقدر کر دی گئی ہے۔ ان میں سے ایک چیز زبان کی حفاظت بتائی گئی۔ دراصل ہمارے معاشرے میں شوہر اور بیوی کے حوالے سے بعض بنیادی مفروضے ایسے قائم کر لیے گئے ہیں جن کی اسلامی اخلاق میں کوئی گنجایش نہیں ہے ‘مثلاً یہ خیال کہ اگر شوہر اپنا رعب اور دبدبہ اپنے غصّے اور بلند اور گرج دار آواز میں بولنے کے ذریعے قائم نہیں کرے گا تو بیوی سے دب جائے گا۔ یا بیوی اگر شوہر کو دھمکی دے کر بات نہیں کرے گی تو شوہر اسے اپنی باندی بنا لے گا۔ اسلامی معاشرت کی بنیاد ہی اس تصور پر ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے سکون‘ رحمت‘ برکت اور حفاظت کا باعث ہیں۔ یہاں اختیارات کی رسّہ کشی نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تعاون‘ اور معروف کی بنیاد پر ایک پُرسکون خاندان اور معاشرے کی تشکیل ہے۔

ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہ کر نقص نکالنا ‘ الزام دینا اور ہر وقت برائی ڈھونڈنا ایک منفی طرز عمل ہے۔ اسلام بھلائی‘ معروف اور اچھائی کے فروغ کے لیے صرف نظر کرنے‘ وسعت قلب کا مظاہرہ کرنے اور ایک دوسرے کو سہارا دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے شوہر اور بیوی کا تعلّق لباس اور جسم کا بیان کیا گیا ہے۔ جس طرح لباس جسم کو زینت‘ تحفّظ اور آسودگی دینے کے ساتھ عریانیت کو چھپاتا ہے اور شخصیت کے اظہار کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے‘ ایسے ہی شوہر اور بیوی کا تعلّق بھی ایک دوسرے کی خامیوں کوچھپاتے ہوئے اصلاح کے عمل کا نام ہے۔ اس میں صبروتحمل اور حکمت کا استعمال ہر قدم پر کرنا پڑتا ہے اور الفاظ سے زیادہ ان کے معانی پر غور کرتے ہوئے اصلاح حال کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ آپ نے سوال کے دوسرے حصے میں دریافت فرمایا ہے کہ اس بشری کمزوری پر کس طرح قابو پایا جائے اور جو شخص زبان درازی کا مرتکب ہو رہا ہو اس کا مواخذہ کیسے کیا جائے؟

دین نام ہی نصیحت کا ہے ‘یعنی خیرخواہی اور محبت کے جذبے کے ساتھ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش (الدین نصیحۃ … حدیث صحیح)۔ اس لیے مواخذہ اور گرفت کی جگہ محبت‘ افہام و تفہیم اور تعلیم کے ذریعے اس قسم کی بشری کمزوری کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک مومن یا مومنہ کو بھلے انداز میں بات سمجھائی جائے تو خراب سے خراب عادت کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ابھی دو دن قبل میں نے کسی قریبی عزیز سے دوران گفتگو یہ بات کہی کہ عصر کی نماز اگر تاخیر سے پڑھی جائے تو اسے حدیث میں منافق کی نماز کہا گیا ہے۔ وہ صاحب فوراً اٹھے اور غسل خانے کی طرف جانے لگے۔ میں نے پوچھا: خیریت؟ جواب ملا: میں نہیں چاہتا کہ آپ مجھے منافق کہیں۔ مجھے یقین ہے ایک پُرخلوص مشورہ طعنہ‘طنز‘ یاکسی پر گرفت کرنے کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ موثر ہوتا ہے۔ ہاں‘ یہ کام کرنے میں حکمت کے ساتھ صبر شرط ہے۔ وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی رہنما تعلیم یعنی حق کی وصیت اور یاد دہانی ‘ ایک مرتبہ نہیں باربار مختلف پیرایے میں خلوص و محبت کے ساتھ کی جائے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ دلوں کو تبدیل فرما دیتے ہیں۔ تمام انسانوں کے قلب و ذہن اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہیں اور وہ اپنے بندے کی خلوص نیت سے کی گئی ہر دعا اور کوشش میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

زرِسالانہ کی پیشگی وصولی

س :  ایک چیز فی الحال موجود نہیںکیااُس کی بیع (خرید و فروخت) جائز ہے ]مثلاً دسمبر ۲۰۰۱ء میں شائع ہونے والا ماہنامہ ترجمان القرآن کا شمارہ فی الحال اس دنیا پر اپنا وجود نہیں رکھتا تو کیا سالانہ زرخریداری ادا کر کے اس کی بیع جائز ہے؟

ترجمان القرآن کی فی شمارہ قیمت ۲۰ روپے ہے جو کہ ۱۲ شماروں کی ۲۴۰ روپے بنتی ہے لیکن سالانہ خریدار کے لیے ۲۰۰ روپے ہے۔ ۴۰ روپے بچت سود کی مد میں نہیں آتی کہ آپ نے پہلے رقم لی اور اس کو کاروبار میں لگایا بعد میں اپنی مصنوعہ (مطبوعہ) چیز کو کم قیمت پر پہلے ادایگی کرنے والے کو دے دیا؟

ج :  بیع کی ایک صورت یہ ہے کہ چیز نقد ہو اور اس کے عوض میں رقم اُدھار ہو‘ اور دوسری صورت یہ ہے کہ رقم نقد ہو اور چیز اُدھار ہو۔

اخبارات و رسائل کے معاملے میں دونوں صورتیں رائج ہیں اور دونوں جائز ہیں۔ فریقین باہمی رضامندی سے ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر رسالے یا اخبار کی رقم کسی نے وصول کی ہو لیکن رسالہ کسی وجہ سے تیار نہ ہوسکا ہو‘یا خریدار تک نہ پہنچا ہو‘ یارسالہ بند ہوگیا ہو تو ایسی صورت میں وصول کردہ قیمت واپس کرنا ہوگی۔ یہ ساری باتیں طے شدہ ہوتی ہیں اور رسالہ اپنے اوصاف کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے‘ فریقین میں تنازع کا موجب نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کے لیے بیع سلم کی صورتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے (بیع سلم میں رقم پہلے ہوتی ہے اور چیز بعد میں مقررہ مہینہ یا تاریخ پر ادا کرنے کا وعدہ ہوتا ہے)۔ اور اس کے جواز میں کسی شک و شبے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔

ایک شخص جب پیشگی رقم وصول کرنے کی صورت میں رعایت کرے تو یہ سود کے ذیل میں نہیں آتا۔ نیز رسالے کی خریداری ایک لحاظ سے بیع و شرا ہے لیکن حقیقت میں ایک مشن کو پھیلانے کے لیے باہمی تعاون ہے۔ بیع و شرا بھی ہے لیکن درحقیقت ایک آدمی مال خرچ کر رہا ہے تاکہ وہ اس کے عوض میں خود بھی علم حاصل کرے اور دوسروں کی تعلیم کا انتظام بھی ہو۔ (مولانا عبدالمالک)

 

Islamic Jurisprudence  ]اسلامی اصول فقہ [ عمران احسن خاں نیازی۔ناشر: انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ اور اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ فیصل مسجد‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۴۰۵  (بشمول کتابیات و اشاریہ)۔ قیمت: درج نہیں۔

اصول فقہ کے موضوع پر انگریزی زبان میں قانون کے طلبہ اور شریعہ و قانون سے دل چسپی رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے یہ ایک مفید اور کارآمد نصابی کتاب ہے۔ اصول فقہ جیسے موضوع کی تشریح و توضیح میں ایسی باریکیاں قاری کے سامنے آتی ہیں کہ اس کا ذہن اُلجھتا ہے اور پوری بات کو سمجھنے کے لیے اُسے اپنے ذہن پر کافی بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔ عمران احسن خاں نیازی نے اپنی اس کتاب میں نسبتاً آسان پیرایہ اختیار کیا ہے تاکہ ایک عام قاری بھی اصول فقہ کے مشکل اور پیچیدہ قواعد کو آسانی سے سمجھ سکے۔ وہ قانون کے طالب علم کے لیے ایک ٹیکسٹ بک کی حیثیت سے ایک وقیع اور مفید نصابی کتاب کا عالمانہ معیار برقرار رکھنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔

ایک زمانے میں پنجاب یونی ورسٹی لا کالج کے نصاب میںاس موضوع پر بیرسٹر عبدالرحیم کی فقہ محمدی کے اصول (The Principles of Muhammadan Jurisprudence)شامل تھی۔ سرعبدالرحیم مدراس ہائی کورٹ کے جج بھی رہے۔ انھوں نے کلکتہ یونی ورسٹی میں ۱۹۰۷ء میں بطور ٹیگور پروفیسر جو لیکچر دیے تھے‘ ان ہی کو مرتب کر کے انھوں نے یہ کتاب ۱۹۱۱ء میں شائع کی تھی۔ لیکچروں کے سلسلے میں انھوں نے مسٹر میکڈانلڈ کی کتاب ’’محمڈن تھیالوجی‘‘ (Muhammadan Theology)سے بھی مدد لی تھی۔ اگرچہ کتاب کا بیش تر حصہ اصول الفقہ پر صدر الشریعت کی کتاب  توضیح کے انگریزی ترجمے پر مشتمل ہے‘ تاہم اپنی کتاب کے دیباچے کے آخری پیراگراف میں سرعبدالرحیم نے ریورینڈ کینن ایڈورڈسیل کا اس بنا پر شکریہ ادا کیا کہ پادری صاحب نے عربی الفاظ کے انگریزی میںترجمے پر نظرثانی کی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید سر عبدالرحیم اصول الفقہ کے موضوع پر لکھی گئی امہات الکتب سے براہِ راست پوری طرح استفادہ نہیں کر سکے تھے بلکہ انھوں نے غیر مسلموں یعنی مسٹر میکڈانلڈ کی کتاب اور ریورینڈ کینن ایڈورڈ سیل کے ذریعے استفادہ کیا تھا۔

اس کے مقابلے میں زیرتبصرہ کتاب کے مصنف عمران احسن خاں نیازی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ ایک طرف اصول الفقہ کے موضوع پر امہات الکتب مثلاً الثعلبی کی الاحکام فی اصول الاحکام‘ فخر الاسلام بزدوی کی اصول البزدوی اور علائوالدین عبدالعزیز بن احمد کی کشف الاسرار عن اصول فخرالاسلام بزدوی‘ امام غزالی کی المنخول من تعلیقات الاصول اور المستصفٰی من علم الاصول‘ ابن رشد کی بدایۃ المجتہد‘ابوبکر احمد بن علی الجصاص الرازی کی مشہور کتاب الاحکام القرآن اور اصول الجصاص‘ الکرخی کی رسالہ فی الاصول‘ الکاسانی کی بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع اور الماوردی کی الاحکام السلطانیہ جیسی ثقہ کتابوں سے براہِ راست استفادہ کر سکیں ‘اور دوسری طرف جان آسٹن کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب لیکچرز آف جیورس پروڈنس‘ ایڈگر بوڈن ہائمر کی جیورس پروڈنس‘ فلاسفی اینڈ میتھڈ آف لا اور کولسن کی ہسٹری آف اسلامک لا اور بعض دوسرے مغربی مصنّفین کی مفید کتب سے بھی براہِ راست استفادہ کر سکیں۔ اس بنا پر میرے خیال میں زیر تبصرہ کتاب سر عبدالرحیم کی کتاب سے بہتر‘ عالمانہ اور محققانہ نصابی کتاب ہے جو قانون کے طلبہ اور پیشہ وکالت اور عدلیہ سے وابستہ حضرات کے لیے بہت مفید ہے۔

مصنف نے تعارف میں فقہ‘ اصول الفقہ اور بنیادی اصطلاحات کی تشریح کی ہے۔ پہلے حصے میں حکم شرعی یعنی اسلامی قانون کی تعریف و توضیح بیان کرنے کے ساتھ حکم شرعی کی مختلف اقسام (یعنی واجب‘ مندوب‘ حرام‘ مکروہ اور مباح کی وضاحت کی ہے‘ نیز حاکم‘ محکوم فیہ‘ انسانی حقوق اور ان کی اقسام‘ محکوم علیہ) پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے عورت کی حیثیت‘ عورت کی شہادت اور اس عنوان کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۸۹ء کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا ہے جو رشیدہ پٹیل بنام فیڈریشن آف پاکستان مقدمے میں دیا گیا تھا۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ایک عورت کی شہادت پر حد تو جاری نہیں کی جا سکتی‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجرم کو کوئی اور سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں قانون سازی کر کے حد کے برابر دوسری سخت سزا دے سکتی ہے۔ اس باب کے تحت انھوں نے عورت کے وراثت میں حصے‘ طلاق کے حق اور دیت وغیرہ کی بحث بھی کی ہے۔ دوسرے حصے میں فاضل مصنف نے اسلامی قانون  اور تیسرے حصے میں اجتہاد کی تعریف‘ مجتہد کی صفات‘ اجتہاد کے طریقوں اور نسخ اور ترجیح کی توضیح کی ہے۔ چوتھے حصے میں فقیہہ ‘ اس کے طریق کار پر بحث کے بعد بتایا ہے کہ تقلید کی تعریف کیا ہے۔

عمران احسن نیازی نے قانون اور شریعہ کے استاد اور محقق کی حیثیت سے اصول الفقہ کے موضوع پر قدیم و جدید اہم کتب سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے حق تحقیق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ ایک بات قابل توجہ ہے کہ سر عبدالرحیم نے بطور بیرسٹر اور بطور جج ہائی کورٹ اپنے وسیع علمی تجربے کی بنیاد پر اپنی کتاب میں اعلیٰ عدالتوں مثلاً کلکتہ ہائی کورٹ‘ الٰہ آباد ہائی کورٹ‘ مدراس ہائی کورٹ اور بعض دوسری عدالتوںکے ۴۰ اہم مقدمات کے حوالے بھی دیے تھے۔ اس کے مقابلے میں عمران احسن نیازی کے ہاں عدالتی فیصلوں کے حوالے بہت کم ہیں۔ ایک تو وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۸۹ء کے فیصلے کا حوالہ ہے اور چند ایک مزید عدالتی فیصلوں کے حوالے۔ دوسرے ایڈیشن میں اگر وہ مزید عدالتی فیصلوں کے حوالے شامل کر سکیں تو کتاب کی وقعت میں اضافہ ہوگا۔

کتاب کی طباعت و اشاعت اعلیٰ معیار کی ہے۔ کتابیات اور اشاریے نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ (محمد اسلم سلیمی)


اسلام‘ معاشیات اور ادب ]خطوط[‘ مرتبہ: ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی۔ ناشر: ایجوکیشنل بک ہائوس‘ علی گڑھ (بھارت)۔ صفحات: ۴۲۶ (مجلد)۔ قیمت: درج نہیں۔

مصنّف کا نام اگرچہ عالم اسلام کے ایک معروف ماہر معاشیات کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن وہ ادب کے رمزشناس اور عالمی اسلامی تحریک کے ایک نباض بھی ہیں۔ درس و تدریس‘ تحقیق و ترجمے اور تنقید و تجزیہ میں ان کا شمار صف اوّل کی شخصیات میں ہوتا ہے۔

اسلام‘ معاشیات اور ادب بنیادی طور پر مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ جس میں خود مرتب کے لکھے ہوئے خطوط کی تعداد ۳۲ ہے‘ جب کہ کل خطوط ۲۲۲ ہیں۔ کتاب کے ۸۲ مکتوب نگاروں میں سید مودودی‘ ابواللیث ندوی‘ امین احسن اصلاحی‘ ابوالحسن علی ندوی‘ اختر حسن اصلاحی‘ ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘ صدر الدین اصلاحی‘ محمد یوسف بنوری‘ ڈاکٹر ذاکر حسین‘ ڈاکٹر سید عابد حسین‘ ڈاکٹر مشیرالحق‘ پروفیسر خورشید احمد‘ عبدالماجد دریابادی‘ سید منور حسن‘ احمد عروج قادری‘ سعید احمد اکبرآبادی‘ پروفیسر محمد تقی امینی‘ جلال الدین عمری‘ چودھری غلام محمد‘ پروفیسر عبدالحمید صدیقی‘ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی‘مولانا محمدسراج الحسن‘ فضل الرحمن فریدی‘ نعیم صدیقی وغیرہ جیسے اکابرین بھی شامل ہیں۔

یہ مکاتیب رسمی نوعیت کے نہیں‘ بلکہ ان میں فکروخیال کے گہرے رنگ پوشیدہ ہیں۔ علمی اور اجتماعی حوالوں سے بعض ایسے موضوعات زیربحث آئے ہیں‘ جو فائلوں میں پوشیدہ اور بند اجلاسوںتک محدود تھے۔ ان میں فکرمندی کے ایسے پہلو ہیں‘ جنھیں بیان کرتے وقت جھجک محسوس ہوتی تھی۔ ایسے معاملات پر بحث بھی پڑھنے کو ملتی ہے‘ جن کے بارے میں عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ ان پر کہاں بات ہو سکتی ہے؟ خطوط کے بعض جملے تکلیف دہ ہیں‘ مگر اس کے ساتھ بہت سے حصے روشنی کے دیے ہیں۔

یہ کتاب نصف صدی کے دوران تحریک اسلامی کے اہل علم و دانش کے علم‘  تفقہ فی الدین‘ مشاہدے‘ دردمندی‘ تڑپ‘ جستجو‘ عزم‘ مایوسی‘ تحرک اور اختلاف رائے کی منہ بولتی دستاویز ہے۔ عامتہ الناس  سے زیادہ اس میں اہل علم کے لیے دل چسپی کا عنصرملتا ہے۔

ان خطوط سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ تحریک اسلامی کے اہل دانش کی فکری دنیا میں کتنے نشیب و فراز ہیں‘ ان کے شب و روز کن کن تفکرات میں گھلتے ہیں‘ وہ کیسی کیسی تپش محسوس کرتے اور کون سی گرمی بانٹتے ہیں۔ ان کے مابین شخصی سطح پر گہرا اختلاف ہونے کے باوجود اجتماعیت میں اتفاق و یک جہتی کی کتنی مضبوطی ہے۔ کیوں کہ ان رجالِ کار کی تگ و تاز کا محور رضاے الٰہی کا حصول ہے۔

ان خطوط سے یہ حقیقت بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ تحریک اسلامی کا کوئی بھی فرد شخصیت پرستی کے گنبد کا اسیر نہیں ہے بلکہ ان کے لیے قرآن و سنت رسول ؐاللہ ہی حتمی سچائیاں ہیں‘ اور وہ کسی فرد کو ایمان و دانش کا خراج دینے کے روادار نہیں۔ یہ وہ عظمت کردار ہے جسے پیدا کرنے کے لیے قرآن و سنت کا صحیح فہم ضروری ہے۔ اس فہم کو عام کرنے کے لیے مولانا مودودی نے علما‘ صوفیا اور مشائخ کی روایتی ڈگر سے ہٹ کر نیا راستہ اختیار کیا اور اپنے آپ کو ’’پیرومرشد‘‘ بننے سے بچایا۔ اسی چیز نے وہ حریت فکر پیدا کی‘ جس کی متلاطم لہریں اس کتاب کے کینوس پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے نہ صرف ایسے قیمتی سرمایہ مکاتیب کو محفوظ رکھا‘ بلکہ شائع کرنے کا بھی اہتمام کیا۔ چونکہ یہ خطوط اشاعت کی غرض سے نہیں لکھے گئے تھے‘ اس لیے ان میں بے تکلفی کا عنصرغالب ہے۔ ممکن ہے بعض مکتوب نگاروں کو ان کی اشاعت پر ذہنی تحفظ ہو کہ یہ تحریریں عام کرنے کے لیے نہیں تھیں۔  لیکن ہمارے خیال میں ان کی اشاعت بوجوہ مفید ہے--- خصوصاً اسلامی تحریکوں کے وابستگان کے لیے مصنّف کے مشاہدات اور تجربات استفادے کا باعث ہوں گے۔  (سلیم منصور خالد)


عبدہ ورسولُہٗ ‘حکیم شریف احسن۔ پتا: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور- صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اردو شعرا کا سب سے خوش نصیب طبقہ وہ ہے‘ جسے شعر گوئی کی توفیق ملی‘ تو اس نے فقط نعت گوئی ہی کو اپنا شعار بنایا۔ حکیم شریف احسن کی اوّل و آخر حیثیت نعت گو ہی کی ہے۔ ان کے لیے باعث فخر ہے کہ ان کی شعر گوئی سراسر نعت گوئی ہے۔ انھوں نے نعت کے علاوہ کبھی کسی اور صنف شعر پر قلم نہیں اٹھایا۔ اگر شاعر کی افتاد طبع بلند‘ ذوقِ شعری رچا ہوا‘ اور محبت رسولؐ کا جذبہ والہانہ شیفتگی کے درجے کو پہنچا ہوا ہو تو نعت جس درجے اور معیار کی ہوگی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

حکیم شریف احسن اونچے درجے کا علمی ذوق رکھتے ہیں۔ علوم اسلامیہ‘ مشرقیات اور عربی فارسی کا مطالعہ وسیع ہے۔اوائل عمر ہی سے اسلامی تحریکوں سے وابستگی رہی اور تحریر و تصنیف سے بھی علاقہ رہا۔ چنانچہ ان کی نعتیں نعت کی جملہ ادبی و شعری خوبیوں سے متصف ہیں۔ اہم بات تو یہ ہے کہ انھوں نے رسول اکرمؐ سے شدید نوعیت کی محبت اور وابستگی کے باوجود اظہار محبت کا ایک قابل قدر توازن اور معیار برقرار رکھا ہے۔ عرفی نے کہا تھا کہ نعتیہ شعر کہنا تلوار کی دھار پرچلنے کا فن ہے۔ حکیم شریف احسن نے اسی نزاکت کا خیال رکھا ہے۔ ان کے توازن فکر ونظر اور ذوق سلیم نے انھیں بھٹکنے نہیں دیا۔

ان کی نعتیں صرف روایتی پہلو تک محدود نہیں ہیں‘ بلکہ وہ محبت رسولؐ کو اپنے گردوپیش کی صورت حال سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں اور جہاںتہاں تشویق کا اظہار بھی کرتے ہیں    ؎

احسن درِ سرکار سے اِعراض کا انجام

دنیا کہ تھی جنت کبھی‘ ہے آج جہنم

زیرنظر مجموعے کے آغاز میں حافظ لدھیانوی مرحوم (جو خود بھی بہت اچھے نعت گو تھے) اور ڈاکٹر ریاض مجید نے حکیم شریف احسن کی نعت گوئی پر بڑی عمدگی سے ناقدانہ بحث کی ہے۔ اس مجموعے کی ایک منفرد خوبی یہ ہے کہ اشعار پر حواشی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بعض الفاظ‘ اصطلاحات‘ تلمیحات اور تراکیب (قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ تاریخ‘ فقہ‘ اعلام وغیرہ) کی بخوبی وضاحت کی گئی ہے۔ ’’یہ حواشی شائقین نعت کو قرآن و سیرت کے مزید اور براہِ راست مطالعے کی ترغیب دے کر ان کے جذبہ محبت اور اطاعت رسولؐ میں اضافے کا موجب بنیں گے‘‘۔ (ص ۱۴۷)

عبدہ ورسولُہٗ اردو نعت میں ایک قابل لحاظ اضافہ ہے۔بلاشبہ اس کا شمار چند منتخب نعتیہ مجموعوں میں ہوگا۔ حسن معنوی کے ساتھ‘ طباعت و اشاعت میں حسن صوری کا بھی اہتمام کیا گیا ہے ۔(رفیع  الدین ہاشمی)


دامانِ خیالِ وطن‘  محمد انور صوفی۔ ناشر: خود مصنف۔ پتا: پلس کمیونی کیشنز‘ ۵۰۵-ہما بلاک‘ علامہ اقبال ٹائون‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

مصنّف اوائل میں شعبۂ تعلیم سے منسلک رہے‘ پھر پاکستان اور آزاد کشمیر میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ۱۹۷۴ء میں ناروے چلے گئے اور تاحال وہیں مقیم ہیں۔ چونکہ طبعاً قلم و قرطاس سے بھی تعلّق رہا اس لیے وقتاً فوقتاً مختلف جلسوں اور تقاریر کے لیے مضامین قلم بند کرتے رہے۔ زیرنظر کتاب میں انھیں یک جا کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں لکھا ہے: ’’وطن عزیز سے ہزاروں میل دُور آباد ایک عام پاکستانی اپنے آپ کو کس طرح اپنے وطن اور اہل وطن سے منسلک رکھتا ہے‘ اپنی اسلامی اور پاکستانی شناخت کو برقرار رکھنے اور قومی شعور کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے کس قسم کی ریاضت کرتا ہے‘ شاید اس کتاب میں شامل ان مضامین میں اس کی ایک ہلکی سی آنچ آپ کو بھی محسوس ہو۔ یہی اس کتاب کا جواز ہے‘‘۔

پاکستان کی تاریخ‘ آزادیٔ کشمیر اور پاکستانی ثقافت کے علاوہ پانچ مضامین علامہ اقبال پر اور ایک ایک مضمون قائداعظم‘ ضیاء الحق اور محمد صلاح الدین پر ہے۔ ناروے میں اردو کی صورت حال اور وہاں مقیم پاکستانیوں کو درپیش کچھ دُوسرے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ بلاشبہ ان مضامین میں ایک ایسے پاکستانی مسلمان کے احساسات کی خوشبو رچی بسی ہے جس نے یہ سب کچھ خلوص‘ درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ لکھا ہے۔ (ر-ہ)


جدید عربی ایسے بولیے ‘ بدرالزماں قاسمی کیرانوی۔ ناشر: مکتبہ المعارف‘ بنوری ٹائون‘ کراچی۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔

بدرالزماں قاسمی کیرانوی‘ نامور عالم دین وحید الزماںکیرانوی کے صاحبزادے ہیں۔ اس جامع کتاب میں مولف نے مختلف مواقع کی روز مرہ گفتگو کے نمونے دیے ہیں۔ اردو ترجمہ بھی دیا ہے تاکہ عربی زبان سے دل چسپی رکھنے والے‘ عام بول چال کی زبان سے واقفیت چاہنے والے‘ اور جدید عربی گفتگو کے شائقین سبھی استفادہ کر سکیں۔ اس کتاب کی تین نمایاں خصوصیات ہیں: ۱- بنیادی عربی سے آگہی حاصل کرنے کے لیے ضروری الفاظ کو یک جا کر دیا گیا ہے‘ ۲- ایئرپورٹ پر انٹرویو کے موقع پر اور ملاقات اور سفر کے دوران درپیش جملوں کا تفصیلی تذکرہ ہے‘ ۳- سائنس اور ٹکنالوجی کے جو الفاظ عربی زبان میں شامل ہوئے ہیں‘ اُن کا اندراج ہے۔ ابتدا میں ناشر یہ وضاحت کر دیتے کہ یہ کتاب بھارتی مصنف کی ہے تو کوئی حرج نہ تھا۔ بہرحال ایک قابل قدر کاوش ہے اور بنیادی عربی سیکھنے والوں کے لیے ایک اچھا تحفہ ہے! (محمد ایوب منیر)


میڈیا وار ‘  طلعت افشاں فیروز۔ ناشر: ادارہ ابلاغ فن و ادب‘ کراچی۔ پتا: مکتبہ تعمیر افکار‘ عقب بقائی ہسپتال‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۱۲۷۔ قیمت: ۵۰ روپے۔

بقول مصنفہ: برائی ہر زاویے سے‘ ہر پہلو سے محل اور جھگی نشینوں تک یکساں پہنچائی جا رہی ہے‘ اور برائی کا یہ عفریت جس کا نام میڈیا ہے‘ ہر وقت‘ ہر جگہ اپنی اندھیری یلغار سے نیکی اور اخلاق کے چراغ گل کرتا جا رہا ہے ‘تو کیا مسلمان کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ان اندھیروں کو اُجالوں میں بدلنے کے لیے ایک نئی تڑپ اور ولولے کے ساتھ اٹھے! شرما کر نہیں‘ ڈر کر نہیں بلکہ ایک کڑک کے ساتھ برملا دنیا کی پہچان کرا دے‘‘۔

میڈیا کی تعریف‘ اس کی مختلف صورتوں (اخبارات‘ ٹی وی‘ اشتہارات‘انٹرنیٹ‘ انفارمیشن ٹکنالوجی وغیرہ) کے قابل اعتراض پروگراموں اور اخلاقی پہلوئوں وغیرہ کے بارے میں تعارفی معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ ’’میڈیا دراصل وہ میدان ہے جہاں ریس لگانے سے آپ کسی کو نہیں روک سکتے۔ لیکن اگر آپ کھڑے رہے تو لوگ آپ کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے‘‘۔ مصنفہ کہتی ہیں کہ ہمیں پوری قوت اور اعتماد کے ساتھ اپنے ذرائع اور وسائل کو بروے کار لاتے ہوئے اپنے عقائد اور نظریات کو پھیلانا ہوگا۔ (ر-ہ)

تعارف کتب

  •   فہم دین و اسلام  ‘ مرتب: فیروز احمد سمیع‘ ناشر: ادارہ ابلاغ فن و ادب‘ کراچی۔ پتا: تعمیر افکار ‘ عقب بقائی ہسپتال‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۶۰ روپے۔]مصنف نے اپنے حاصلِ مطالعہ کو قدرے مختلف اور نئے انداز میں مختلف عنوانات (ایمان مفصّل‘ عقیدئہ توحید‘ عقیدئہ رسالت‘ فہم دین‘ فہم رسالت‘ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج‘ جہاد‘ شریعت) کے تحت مرتب کر دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ’’جس قدر نیکی سمیٹ لی جائے‘ بہتر ہے‘‘[
  •  ماہنامہ ’’القاسم‘‘   ‘ مفتی کفایت اللہ نمبر‘ عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: جامعہ ابوہریرہ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ۔ صفحات: ۲۲۸۔ جہازی سائز‘ قیمت: درج نہیں۔  ] مولانا مفتی محمد کفایت اللہؒ (م: ۳۱ دسمبر ۱۹۵۲ء) کی حیات اور شخصیت پر الجمعیت دہلی کے خاص نمبروں کی اشاعت ِ نو‘ مع اضافہ متعدد مضامین[
  •  اللہ ہی رب ہے  ‘ عزیز الرحمن کاکاخیل (مرحوم) المعروف بادشاہ۔ پتا: شمس الرحمن کاکاخیل‘ بادشاہ ہائوس‘ کالج روڈ منڈیاں‘ ایبٹ آباد۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ’’آپ سے کسی اجر کا خواہاں نہیں‘‘۔ ]گو کہ فہرست عنوانات میں (ایمان باللہ‘ قرب الٰہی‘ کائنات کی تخلیق‘ فنا باللہ المبدی والمعید‘ ہدہد کی گواہی وغیرہ) موجود ہے‘ مگر اظہار خیال فی البدیہہ‘ خطبات مسلسل کی صورت میں کیا گیا ہے۔ گفتگو کی بنیاد قرآن حکیم ہے یا حدیث[
  •  صراط العزیز الحمید  ‘عزیز الرحمن کاکاخیل (مرحوم) المعروف بادشاہ: پتا: شمس الرحمن کاکاخیل‘ بادشاہ ہائوس‘ کالج روڈ منڈیاں‘ ایبٹ آباد۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت:’’آپ سے کسی اجر کا خواہاں نہیں‘‘۔ ]’’قرآن مجید‘ کتب احادیث اور علماے کرام کی تصانیف سے چنائو… مختلف پھولوں سے… رس چوس کر شہد تیار‘‘ کیا گیا ہے۔ عنوانات: توبہ‘ کلمہ طیبہ‘ شرک‘ حلال و حرام‘ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج‘سود‘ تقویٰ‘ رزق‘ اخلاقیات وغیرہ[
  • پاکیزہ خیال اور تعمیر افکار  ‘ فیروز احمد سمیع۔ ناشر: ادارہ ابلاغ فن و ادب‘ پتا: مکتبہ تعمیر افکار‘ عقب بقائی ہسپتال‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۲۴۷۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ ]مختلف موضوعات (فریضہ اقامت دین‘ نظام معیشت‘ معاشرتی زندگی‘ اخلاقی نظریہ‘ بنیادی حقوق‘ سیاسی نظریہ‘ دعوت و حکمت‘ داعی حق‘ دین کی تعبیر‘ تعلق باللہ وغیرہ) پر مختلف کتابوں سے اخذ کردہ مولف کا حاصل مطالعہ‘ آسان اور عام فہم انداز[
  •  سنت کی حیثیت اور رہنما حدیثیں  ‘ مرتب: فیروز احمد سمیع۔ ناشر: ادارہ ابلاغ فن و ادب۔کراچی۔ پتا: مکتبہ تعمیر افکار‘ عقب بقائی ہسپتال‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۶۰ روپے۔]احادیث (متن + ترجمہ+ مختصر تشریح) کا ایک انتخاب راہ عمل اور زادِ راہ جیسے مجموعوں کے بعض حصوں کی عکسی نقل شامل کی گئی ہے۔ ابتدا میں ’’سنت اور منکرین حدیث‘‘ ‘ ’’سنت کی حفاظت‘‘ اور احادیث نبویؐ کے بارے میں تعارفی معلومات--- عمومی مطالعے کے لیے مفید تربیتی کتاب[

 

محمد ایوب منیر ‘  لاہور

’’عالمی معاشرے میں شادی اور خاندان کا مرکزی کردار‘‘ (مارچ ۲۰۰۱ء) ایک اہم اور چشم کشا مضمون ہے۔ رچرڈ جی ولکنزکا تعلق مسیحیوں کے مارمن فرقے سے ہے جن کے ہاں خاندان اور احترامِ بزرگانِ خاندان کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ طعام‘ اجتماعی تقریبات‘ مخلوط محفلوں سے احتراز اور کئی معاملات میں ان کے معاشرتی رویے مسلمانوں جیسے ہیں۔ ان کے ہاں چائے نوشی حرام ہے۔ رچرڈ جی ولکنز نے قرطبہ کے جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماع میں خطاب بھی کیا تھا (اکتوبر‘ ۲۰۰۰ء)۔ ایسے مضامین سے احساس ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی حقانیت مغرب تک تجربے سے پہنچ رہی ہے۔ ولکنز کو وائیکنز لکھا گیا‘ اس طرح کی غفلت ماہنامہ ترجمان القرآن کے شایانِ شان نہیں ہے (وائیکنز وہ ادارہ ہے جو ملعون سلمان رشدی کے ناول شائع کرتا رہا ہے)۔

محمد عبداللّٰہ  ‘ بھکر

’’رسائل و مسائل‘‘ کے تحت سائل نے ایک اہم دعوتی و معاشرتی پہلو (والدہ اور بیوی کے حقوق) کی نشان دہی کی ہے (مارچ ۲۰۰۱ء)۔ ڈاکٹر انیس احمد نے نہایت متوازن انداز سے سوال کا جواب دیا ہے۔ ’’عالمی معاشرے  میں‘ شادی اور خاندان کا مرکزی کردار‘‘ میں توراکینہ قاضی صاحبہ نے گلوبل ازم‘ گلوبیائی اور گلوبیانے‘ کی اصطلاحات استعمال کی ہیں جو کھٹکتی ہیں۔ بہتر ہے کہ ان کے متبادلات استعمال کیے جائیں۔

صابر نظامی ‘ الٰہ آباد‘ قصور

’’پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج‘‘ (مارچ ۲۰۰۱ء) میں پروفیسر خورشید احمدنے واقعی ایک انقلابی راہِ نجات دکھائی ہے۔ پروفیسر صاحب نے حکمرانوں کو بندگلی سے نکلنے کے لیے بروقت اچھے مشورے دیے ہیں۔ درحقیقت معاشی استحکام‘ جاگیرداری کے خاتمے اور بڑھتی ہوئی عصبیت اور صوبائیت کے خلاف مصلحتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھرپور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد مشتاق احمد‘ کہوٹہ

’’عدم برداشت کا رجحان اور تعلیمات نبویؐ‘‘  (مارچ ۲۰۰۱ء) انتہائی جامع اور اثرانگیز تحریر ہے۔ فاضل مضمون نگار نے بڑے موثر انداز میں اسلام میں تحمل و برداشت‘ حلم و بردباری اور عفو و درگزر کی اہمیت اُجاگر کی ہے۔اگر غور کیا جائے توہم

اہل اسلام آج ان اسلامی صفات کو بڑی حد تک ترک کر چکے ہیں اور اس کے بجائے غرور و تکبر‘ غیض و غضب‘ بدخواہی‘ دھونس اور دھمکی‘ جبروتشدد ‘ مار دھاڑ اور منتقم مزاجی کو اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کا حصہ بنا لیا ہے جس کی وجہ سے ہم نہ صرف یہ کہ آپس میں منقسم اور دست و گریباں ہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی دین اسلام سے دُور کر رہے ہیں۔

پروفیسر محمد یعقوب علی زئی‘  پشاور

خرم مرادؒ کی تحریر ’’مسلم عیسائی تعلقات‘‘ (فروری ۲۰۰۱ء) بہت اہم ہے کیونکہ احیاے اسلام کے آثار کی وجہ سے عیسائی مسلم کش مکش میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا فائدہ یہودیوں اور ہندوئوں کو ہو رہا ہے۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان باہمی تعاون ‘ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے امکانات کے حوالے سے ایک عمدہ کوشش ہے۔

ارشد علی آفریدی ‘ خیبر ایجنسی

’’قرآن کا نظریہ علم و جہل‘‘ (فروری ۲۰۰۱ء) بڑی اہمیت کا حامل مضمون ہے۔ اس سے علم اور جہالت کا تصور واضح طور پر سامنے آگیا ہے۔ یہ اسلام کا ہی امتیاز ہے کہ اس نے ہر شخص پر علم کا حصول لازمی قرار دیا اور ایک انقلاب برپا کر دیا جس کی ابتدا ’’اقرا‘‘ سے ہوئی۔

حسین صحرائی ‘ ٹنڈو محمد خان

’’خدمت و محبت‘‘ (جنوری ۲۰۰۱ء) میں خرم مراد صاحب نے تحریک اسلامی کے کارکنان کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ اگر ہم خدمت و محبت کے جذبے سے سیرت النبیؐ کی روشنی میں کام جاری رکھیں تو ان شاء اللہ تبدیلی آکر رہے گی۔

ڈاکٹر عذرا نعیم ‘ چشمہ‘ میانوالی

خرم مراد صاحب کے لیے حد درجہ دعاگو رہتی ہوں۔ ان کے نرم و نازک محبت بھرے قلم سے میں نے بخدا بہت کچھ سیکھا۔ میں ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی کالونی میں پانچ روز فہم قرآن کی کلاس لیتی ہوں‘ الحمدللہ! جنوری ۲۰۰۱ء کے شمارے میں ’’خدمت و محبت‘‘ سے پوری کلاس کی تیاری کی۔ ترجمان القرآن کے حج کے دنوں کے سارے پرانے شمارے نکال لیتی ہوں اور پھر ان دنوں کی کلاسوں کے لیے بہت اچھا مواد مل جاتا ہے۔ یہی معاملہ رمضان المبارک کا ہے۔ اس رسالے پر صرف نظر نہیں ڈالتی بلکہ دل دماغ میں کوئی نہ کوئی تحریر جا بیٹھتی ہے۔ کوشش عمل کی بھی ہوتی ہے۔

 

… ہمارے لیے دو باتوں میں سے کسی ایک کو مانے بغیر چارہ نہیں‘ یا تو ہم انسان کو خود اپنی ہدایت کا ذمہ دار سمجھیں اور اس صورت میں نبوت بالکل غیر ضروری ہے ‘ یا ہم اس بات کے قائل ہوں کہ راہِ راست بتانا اللہ کا کام ہے اور اس صورت میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے راہِ راست بتانے کا جو کام اپنے ذمے لیا ہے‘ اس کو انجام دینے میں اس کی طرف سے کوئی کوتاہی ہو۔ ناقص استعدادوں کے اشخاص کو پیغام رسانی کے لیے منتخب کرنا‘ یا پیغام کی تعبیر کو پیغام رسانوں کے اوپر چھوڑدینا کہ اپنے ذہن سے جس طرح چاہیں مختلف طور پر اس کو تعبیر کریں‘ یا کسی کے پاس اپنا پیغام غیر واضح صورت میں اور کسی کے پاس واضح صورت میں بھیجنا‘ ان میں سے جس بات کے بھی آپ قائل ہوں‘ اس سے اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت و ہدایت پر حرف آتا ہے‘ اور اُن تمام گمراہیوں کی ذمہ داری اللہ کی طرف عائد ہوتی ہے (معاذ اللہ) جو ناقص ہدایت پانے کی وجہ سے انسانوں میں پیدا ہوں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے پیغمبر بھیجے ہی اس لیے ہیں کہ قیامت میں بازپرس کے موقع پر کوئی یہ حجت پیش نہ کر سکے کہ آپ نے خود ہی تو ہم کو راستہ نہ بتایا۔ پھر غلط روی کے ذمہ دار ہم کیسے ہو سکتے ہیں (لِئَلاَّیَکُونَ لِلنّاسِ عَلٰی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ)۔ لیکن اگر امر واقعہ وہی ہو جو فاضل مصنف نے تجویز کیا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ نے لوگوں کے لیے حجت پیش کرنے کی اچھی خاصی گنجایش چھوڑ دی ہے۔

سود کے مسئلے میں فاضل موصوف نے مسلمانوں کی موجودہ مجبوریوں کو پیش نظر رکھ کر انتہائی متقیانہ احتیاط کے ساتھ ایسے قومی بنک کھولنے کے جواز کی صورت نکالی ہے جن میں محض تاجرانہ اغراض کے لیے سودی لین دین کیا جائے۔ اس تمام بحث کو ہم نے پورے غور کے ساتھ پڑھا۔ کوئی شک نہیں کہ آج کل جو لوگ نہایت بے باکی کے ساتھ سود کی تحلیل کے لیے احکام شرعیہ میں قطع و برید کر رہے ہیں‘ ان کے مقابلے میں مولانا محمود علی صاحب کی روش ایک خدا ترس اور ذمہ دار آدمی کی سی روش ہے‘ اور اس سے بھی انکار نہیں کہ مجبوری و اضطرار کی حالت میں احکام شرعیہ کے اندر وہ تخفیف ہو سکتی ہے جو مولانا نے تجویز فرمائی ہے‘ مگر بہتر ہوتا کہ اس تجویز کو پیش کرنے کے ساتھ مولانا یہ بھی فرما دیتے کہ مسلمانوں کا کام یہ نہیں ہے کہ اضطرار کی حالت کو برقرار رکھ کر حرام کھاتے اور کھلاتے رہیں بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ دنیا کے اس بگڑے ہوئے نظام کو بدلنے کے لیے جان توڑ جدوجہد کریں جس کی بدولت حرام و حلال کی تمیز مٹ گئی ہے اور جس کے تسلّط نے اتنی گنجایش نہیں چھوڑی ہے کہ خدا پرست لوگ خدا کی قائم کردہ حدود کی پابندی کر سکیں۔(دین و دانش‘ مولانا محمود علی پرتبصرہ، ’’مطبوعات‘‘ ،۱-م‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۲‘ صفر ۱۳۶۰ھ‘ اپریل ۱۹۴۱ء‘ ص ۷۰-۷۱)