۱۴ اگست ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے سال کے ۳۶۵ دنوں میں سے محض ایک دن نہیں--- یہ وہ دن ہے جب برعظیم پاک و ہند میں تاریخ نے ایک نئی اور فیصلہ کن کروٹ لی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے ایک جاں گسل جدوجہد کے بعد نہ صرف یہ کہ برطانوی سامراج کی دو سو سالہ غلامی کا جوا اپنے کندھوںسے اُتار پھینکا بلکہ نئے ہندو سامراج کے تسلط سے بھی نجات حاصل کرلی تاکہ کم از کم ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے یہ ملّت اپنے دین‘ ایمان‘ روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں ایک آزاد فضا میں اپنے مستقبل کی تعمیرکرسکے۔
تحریک آزادی‘ پس منظر اور جدوجہد: برعظیم پاک و ہند پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی اور یہاں کی تمام اقوام کے ساتھ انسانی شرف واکرام اور عدل و انصاف کے ساتھ معاملہ کیا۔البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دین کی دعوت و تبلیغ کے باب میں وہ شدید غفلت کے مرتکب ہوئے‘ خصوصیت سے ان کے حکمران اور بااثر طبقات۔ یہ اسی غفلت کا نتیجہ تھا کہ مسلمان عددی اعتبار سے آبادی کا صرف ایک چوتھائی حصہ رہے جن کا نصف ان صوبوں میں تھا جہاں انھیں عوامی اکثریت حاصل تھی اور باقی ملک کے دوسرے تمام صوبوں میں پھیلے ہوئے تھے جہاں وہ اقلیت میں تھے۔ برطانوی سامراج کے دَور میں مسلمانوں نے بہ حیثیت مجموعی بیرونی استعمار کی مخالفت کی اورکچھ طبقات کو چھوڑ کر ایک بڑے حصے نے اس سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً حکمرانوں سے مسلسل تصادم اور سیاسی‘ معاشی اور تعلیمی میدانوں میں امتیازی سلوک کا نشانہ ہونے کی وجہ سے ان کی قوت کم ہوتی گئی۔ نیزانگریز ارباب اقتدار اور ہندو اکثریت میں ایک نیا گٹھ جوڑ قائم ہوا جس نے سیاسی نقشے کو تبدیل کر دیا۔
انگریزی سامراج کے خلاف عسکری اور جہادی مخالفت میں مسلمان ہی پیش پیش تھے اور جب سیاسی میدان میں جنگ آزادی شروع ہوئی تو یہاں بھی سرخیل مسلمان ہی تھے۔ تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات میں اصل جدوجہد اور قربانیاں مسلمانوں ہی نے دیں۔ مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ جنگ آزادی کی کامیابی میں اقتدار انھی کو حاصل ہوگا‘ کیوں کہ برطانیہ نے انھی سے اقتدار چھینا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ حقیقت سامنے آگئی کہ آزادی کی صورت میں جونیا نظام سیکولر جمہوریت کی بنیاد پر بنے گا اس میں ملک کی قسمت کا فیصلہ اور تمام دستور سازی اور قانون سازی عددی بنیادوں پر ہوگی۔ گاندھی اور نہرو کی قیادت میں کانگریس نے اس ہدف کے لیے ساری پیش بندی کی اور سیاست کا رخ ایک ایسی سمت میں موڑ دیا جس کے نتیجے میں فطری طور پر اس کی اصل قوت ہندو اکثریت کو حاصل ہو جائے۔ جس کے صاف معنی یہ تھے کہ سیاسی آزادی کے باوجود مسلمان نظریاتی‘ دینی‘ تہذیبی اور معاشی آزادی سے محروم رہیں۔
سائمن کمیشن (۱۹۲۸ء) کی رپورٹ‘ ۱۹۳۵ء کے قانون کے تحت انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی کانگریسی حکومتوں نے ہندو سامراج کے خدوخال اور مسلمانوں کے لیے غلامی کے نئے نظام کے تمام دروبست کو بالکل بے نقاب کر دیا۔ ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت نے جدوجہد آزادی کے نئے اہداف مرتب کیے تاکہ ایک طرف ملت اسلامیہ کے دینی اور تاریخی تشخص کی حفاظت ہو سکے اور دوسری طرف جمہوری سیاست کے جو اصول اور ضابطہ کار ہیں ان کے تقاضوں کو بھی پورا کیا جا سکے۔ برعظیم کی ملت اسلامیہ نے اپنا ایک واضح اورمتفقہ موقف اختیار کیا جس کی بنیاد یہ تھی کہ مسلمان محض ایک اقلیت نہیں‘ ایک قوم ہیں جو اپنا نظریاتی تشخص رکھتی ہے۔ ان کے لیے آزادی محض برطانوی اقتدار سے آزادی نہیں بلکہ ان آزاد مواقع کا حصول ہے جن میں وہ اپنے نظریات‘ اقدار اور تہذیبی روایات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کر سکیں۔
مسلمانوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ یہ حق ان کو پورے برعظیم میں حاصل ہو سکے۔ اس کے لیے آخری کوشش کرپس پلان کے تحت تین قومی زونوں پر مشتمل کنفیڈریشن کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش کی جسے ایک مدت کے بعد مکمل آزادی کا اختیار بھی حاصل ہوتا‘ مگر کانگریس نے اسے سبوتاژ کر دیا ۔اس کے بعد ۳ جون ۱۹۴۷ء کے پلان کے تحت مسلم اکثریت کے صوبوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت پاکستان اور باقی حصوں میں کانگریس کی قیادت میں بھارت کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ اس میں بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے‘ جن کا تحریک پاکستان میں بڑا فیصلہ کن حصہ تھا‘ سب سے زیادہ قربانی دی اور برعظیم میں ایک آزادمسلمان مملکت کے قیام کی خاطر اپنے لیے نیم آزادی کی حیثیت کو بہ خوشی قبول کیا اور اس امید پر کیا کہ پاکستان میں ایک مضبوط اسلامی معاشرہ اور ریاست قائم ہوگی اور وہ بالآخربھارت کے مسلمانوں کے حقوق کی بھی محافظ ہوگی۔
قائداعظم اور دو قومی نظریہ: آج بھارت کی قیادت خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا اور ہندستان کی تقسیم عمل میں آئی اسے انگریز‘ کانگریس اور مسلم لیگ تینوں نے قبول کیا۔ کانگریس نے تو پنجاب‘ بنگال اور آسام کے مسلم اکثریتی صوبوں کے پاکستان کا حصہ بننے پر صرف اس قیمت پر رضامندی ظاہر کی کہ ان تینوں صوبوں کو مزید مسلم اکثریتی اور ہندو اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ یہ مطالبہ کانگریس نے کیا اور اس طرح تقسیم ہند کے نظریاتی اصول کو صراحت سے تسلیم کیا۔یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے بار بار اس حقیقت کا اظہار کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد صرف ’’آزادی‘‘ نہیں ’’اسلامی نظریہ‘‘ ہے جس کے لیے آزادی خودایک ذریعہ بھی ہے اور زینہ بھی۔ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں ۸ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے خطاب میں قائد نے صاف الفاظ میں کہا کہ:
مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے‘ نہ وطن نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندووں کی تنگ نظری تھی اور نہ انگریزوں کی چال--- یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔
اور پاکستان بننے کے بعد ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے اسی بات کا اعادہ کیا تھا:
پاکستان کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔
اور ۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائد نے کہا:
اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
اور ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کوسبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون (Law Giver)پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق ہے کہ ’’مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی مشوروں سے کیا کرو‘‘۔
یہ صرف قائداعظم ہی کے خیالات نہیں یہ ملت اسلامیہ پاک و ہند کا وہ وژن ہے جس پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور جس کی حیثیت اللہ اور بندوں کے درمیان ایک عہدو پیمان اور تحریک پاکستان کی قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کے ساتھ ایک عمرانی معاہدے کی ہے--- اور یہی وہ حقیقت ہے جس پر پاکستان کی اساس قائم ہے اور یہی اس ملک کو اقوام عالم میں ایک امتیازی مقام دیتی ہے۔
اساس پاکستان: قیام پاکستان اور تقسیم ہند جس اصول اور نظریے پر ہوئی اس کے تین اجزا ہیں ‘ یعنی:
۱- مسلمان ایک قوم ہیں جس کی تشکیل رنگ‘ نسل اور جغرافیائی حدود پر نہیں بلکہ ایمان‘ دین ‘ مشترک اقدار زندگی اور تصور حیات اور ان پر مبنی تہذیب و تمدن سے ہوئی ہے۔ اور مسلمان دنیا میں جہاں بھی ہوں وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری ممکنہ حد تک اپنے نظریہ حیات کے مطابق کرنے کے پابند ہیں۔
۲- برعظیم پاک و ہند میں جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان کے وفاق پر مشتمل ایک آزاد ریاست پاکستان کے نام سے قائم ہوگی تاکہ وہ اپنے تصورات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر نو کر سکیں۔
۳- دونوں ملکوں میں اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں گے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ بھارت میں مسلمان اقلیت کو مکمل تحفظ دیا جائے گا اور پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کو پورا تحفظ اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں گے۔
سیکولر تہذیب اور مغربی لبرلزم کے علم برداروں سے اس اصول کو تسلیم کرا لینا اور مغربی تہذیب کے دور استیلا میں جو دین و دنیا ‘ مذہب و ریاست اور اخلاق و سیاست کی دوئی کے اصول پر قائم ہے‘ اس نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا قیام بیسویں صدی کا ایک معجزہ تھا--- یہ ملت اسلامیہ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم و انعام اور برعظیم کے عام مسلمانوں کی بے لوث قربانیوں کا ثمرہ تھا۔ اور یہ بھی قدرت کا ایک حسین اشارہ تھا کہ قیام پاکستان کے مبارک دن یعنی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ۲۷ رمضان المبارک کی شکل میں دو سعادتوں کا اجتماع ہوا۔
آج سیکولر طبقہ خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ تاریخی حقائق ناقابل تردید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیروں کی ریشہ دوانیوں اور اپنوں کی بے وفائیوں کے باوجود پاکستان کی یہ اساس اور امتیازی شان‘ قرارداد مقاصد اور ۱۹۵۶ء‘ ۱۹۶۲ء‘ ۱۹۷۳ء کے دساتیر کی اسلامی دفعات کی شکل میں قائم و دائم ہے۔ جس نے بھی ان بنیادوں سے ہٹنے یا ان کو معدوم یا کمزور کرنے کی کوشش کی ہے وہ خس و خاشاک کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے۔
مسلمان کے لیے ہر دن بیداری کا پیام لے کر آتا ہے اور ہر رات اپنے اندر تذکیر کے بے شمار پہلو رکھتی ہے ۔ اس قوم کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ یہ اٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ عالم استراحت میں اپنے ربّ اور اپنے مقصدوجود کو یاد رکھتی ہے۔ (یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوبِھِمْ اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) لیکن کچھ ایام ایسے ہیں جو تذکیر اور یاد دہانی سے بڑھ کر تجدید عہد کے دن ہوتے ہیں--- اور پاکستانی قوم کے لیے ۱۴ اگست ایک ایسا ہی دن ہے جو اپنے جلو میں بے شمار روشن تاریخی یادیں لے کر آتا ہے۔ یہ دن ہر پاکستانی کے دل ودماغ کو بیدار کرنے اور مقصد حیات سے رشتے کو تازہ کرنے کے لیے ایک مہمیز کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس سال ۱۴ اگست غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ ہم ہر پاکستانی مسلمان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ سنجیدہ غوروفکر کرے‘ اپنے رب سے اپنے عہد کی تجدید کرے اور جن حالات میں ملک و ملّت گرفتار ہیں ان سے انھیں نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم کرے اور سرگرم عمل ہو جائے۔
نظریاتی اساس کا تحفظ: آج اس مملکت کی نظریاتی اور دینی اساس کو خطرات درپیش ہیں جن کا مردانہ وار مقابلہ ضروری ہے۔ ایک گروہ مسلسل اس بنیاد کو کمزور اور پاکستان کے حقیقی وژن کو گرد آلود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں وہ طبقات اورلوگ پیش پیش ہیں جن کا تحریک پاکستان میں کوئی حصہ نہیں تھا اور جنھوں نے آزادی کے بعد محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس ملک کی زمام کار پر قبضہ کرنے اور ملک کے وسائل کو اپنی ذات یا گروہ اور طبقے کے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ یہ گروہ بڑی دریدہ دہنی سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اقبال اور قائداعظم تو ایک سیکولر ملک قائم کرنا چاہتے تھے اور یہ مولوی اور مذہبی انتہا پسند ہیں جنھوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور اب پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانے اور قرون وسطیٰ کی طرف لوٹانے میں لگ گئے ہیں۔ اس کے لیے کبھی کمال اتاترک اور ترکی کی بات کی جاتی ہے اور کبھی طالبان کے خوف سے ڈرایا جاتا ہے۔ اور اب تو اس ’’طبقہ زہّاد‘‘ میں رخصت ہونے والے امریکی سفیر ولیم مائلم صاحب بھی شریک ہو گئے ہیں جن کی نگاہ میں جہاد اور امت مسلمہ کی بات کرنا جناح مخالف وژن (anti-Jinnah vision)کا حصہ ہے۔ سیرت کے جلسے میں جہادی قوتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اسلام پر فخر کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں۔ اس شتر گربگی کا مظاہرہ مختلف سطح پر کیا جا رہا ہے اور تاریخ اور زمینی حقائق سے مکمل صرفِ نظر کر کے کیا جا رہا ہے۔ اس خطرناک رجحان پر گرفت پاکستان کے حقیقی تصور کے تحفظ کے لیے بے حد ضروری ہے۔
تحریک پاکستان کوئی خفیہ تحریک نہیں تھی اور نہ اس کا میدان ڈرائنگ روم کی سیاست تھی۔ یہ تحریک ایک عوامی جمہوری تحریک تھی جو شہر شہر‘ گائوں گائوں اور قریہ قریہ چلی اور جس میں برعظیم کے ۱۰ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت نے حصہ لیا۔ وہ جاگیردار‘ نواب اور دانش ور جو تحریک کے آخری ایام میں ہوا کا رخ دیکھ کر شریک ہوئے وہ اس کے دست وبازو نہ تھے۔ اس تحریک کی اصل قوت مسلمانوں کے تمام طبقے خصوصیت سے عوام تھے۔ علما کے ایک طبقے نے اگر کانگریس کا ساتھ دیا تو علما کے ایک بہت بڑے طبقے نے اپنے اپنے انداز میں تحریک پاکستان کے فروغ کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ اقبال کے بعد جس شخص نے دو قومی نظریے کا موقف مثبت اور محکم دلائل سے پیش کیا وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے جنھوں نے متحدہ قومیت کا نعرہ بلند کرنے والے علما (مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عبیداللہ سندھی) کو برملا چیلنج کیا اور ان کے دعووں کا مسکت جواب دیا۔ اس تحریک میں قائداعظم اور لیاقت علی خاں کے شانہ بہ شانہ مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مفتی محمد شفیع‘ مولانا احتشام الحق تھانوی‘مولانا عبدالحامد بدایونی‘ مولانا عبدالستار نیازی‘ مولانا اطہر علی‘ مولانا راغب احسن‘ مولانا ظفر احمد انصاری‘ مولانا ابن الحسن جارچوی‘ پیر صاحب مانکی شریف‘ پیر صاحب زکوڑی شریف وغیرہم نے حصہ لیا اور گھر گھر پاکستان کے پیغام کو پہنچایا۔ جمعیت علماے اسلام نے برعظیم کے طول و عرض میں تحریک کی تائید میں مہم چلائی اور مسلمانوں کو پاکستان کے محاذ پر جمع کیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے تحریک کی تائید کی اور ان کے انتقال پر مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے قائداعظم کی صدارت میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔علما کو طعنہ دینے والے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور تاریخی حقائق کو جھٹلانے کی کوشش نہ کریں۔
سیکولر عناصر کی کوتاہ نظری: پاکستان کی ۵۴ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جس طبقے نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور جو اس کے نظام پر قابض اور اس کی تباہی اور کمزوری کا باعث ہے وہ سیکولر قیادت ہے۔ یہ کبھی سیاست دانوں کی شکل میں‘ کبھی بیوروکریسی کے روپ میں اور کبھی فوجی قیادتوں کے لبادے میں ملک پر مسلط رہے ہیں۔ دینی قوتوں نے تو ہمیشہ آمریت کو لگام دینے اور عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی خدمت انجام دی ہے ۔ آج جو بھی خیر دستور کی اسلامی دفعات‘ بنیادی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ‘ قومی سلامتی کے معاملات میں مضبوط موقف‘ دفاع وطن اور جمہوری اقدار کی بحالی کے باب میں پایا جاتا ہے‘ اس میں سب سے نمایاں حصہ دینی قوتوں کی کوشش کا ہے۔
اقبال اور قائد اعظم کے وژن کو پراگندہ اور غبار آلود کرنے کی جو بھی کوشش ہوئی ہے وہ سیکولر طبقے کی طرف سے ہوئی ہے اور بری طرح ناکام رہی ہے--- اور اس لیے ناکام رہی ہے کہ وہ مبنی برحق نہیں ہے۔ ترکی کی مثال بار بار دی جاتی ہے مگر اس پر کوئی غور نہیں کرتا کہ سیکولرزم نے ترکی کو کیا دیا۔ وہ قوم جو اسلام کا علم لے کر اٹھی تو مشر ق و مغرب پر چھا گئی لیکن سیکولرزم کی پرستار بننے کے بعد مغربی اقوام کی مقروض اور محتاج ہو گئی ہے اور ذہنی افلاس کے ساتھ معاشی تباہی اور سیاسی انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اقبال نے اسی کو مخاطب کر کے کہا تھا :
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
اور یہ سب اس لیے کہ
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
آج ترکی میں سیکولرزم کے خلاف جو عوامی تحریک ہے اسے وہی نظرانداز کر سکتا ہے جو بصیرت ہی نہیں بصارت سے بھی محروم ہو۔ پھر ترکی کی آزادی اور بقا کی جنگ میں فوج کا حصہ اور تحریک پاکستان کے باب میں فوج کے کردار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ ترکی میں فوج ملک کے مسائل کو حل کر سکی اور نہ پاکستان میں فوج کے بار بار کے سیاسی کردار نے کوئی خیر پیدا کیا۔ یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ ترکی کی فوج کا مزاج سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہزاروں قابل اور باصلاحیت افسروں کو محض دین سے وابستگی کی بنا پر فوج سے الگ کر کے ‘ فوج کو ان کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ فوج اور ملک دونوں کی کمزوری کا باعث ہوا ہے‘ جب کہ پاکستان کی فوج خصوصیت سے سقوط ڈھاکہ کے بعد ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے موٹو پر منظم کی گئی ہے۔ اسے سیکولرزم کا علم بردار اور محافظ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ جو بھی فوج یا قوم پر سیکولر نظریات مسلط کرنے کی کوشش کرے گا وہ ملک کو کش مکش اور باہم پیکار کی آماجگاہ بنا دے گا۔ اس ملک کا کوئی خیرخواہ ایسی حماقت کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔
سیکولر نظریات آج عالمی استعمار اور مغرب کی بالادستی قائم کرنے کا ایک ذریعہ اور آلہ ہیں۔ عالم گیریت صرف معاشی اور سیاسی استیلا ہی سے عبارت نہیں ‘اس کا ایک نظریاتی اور تہذیبی ایجنڈا بھی ہے جس کا ہدف ریاست کے اداروں کو کمزور کر کے اور این جی اوز کو آلہ کار بنا کر دنیا کے تمام ممالک اور خصوصیت سے مسلمان ممالک پر مغرب اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ جو حضرات سیکولرزم اور لبرلزم میں اس ملک کا مستقبل دیکھ رہے ہیں وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مغربی استعمار کے آلہ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انھیں اس ملک و ملّت کا دوست نہیں کہا جا سکتا۔
ہم یہ سوال بھی اٹھانا چاہتے ہیں کہ آخر سیکولرزم اور لبرلزم کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کیا ہے؟ مغرب میں مذہبی استبداد کے خلاف جو تحریک اٹھی اس میں سیکولرزم نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اصلاً یہ محض ایک منفی تحریک ہے۔ مثبت طور پر سیکولرزم کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ یہ قومیت‘ سرمایہ داری‘ جمہوریت یا سوشلزم کے ایک معاون اصول کی حیثیت سے یعنی اس تثلیث کے ایک جزو کے طور پر‘ ایک کردار رکھتی ہے۔ صرف سیکولرزم کے پاس فرد‘ معاشرہ اور انسانیت کا کوئی ایسا وژن نہیں جو دنیا کو ایک بہتر نظام حیات سے روشناس کرا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج خود مغربی دنیا میں مذہب‘ یا کسی اعلیٰ اخلاقی نظام اقدار کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ان کا عیسائی مذہب کا تجربہ کوئی اچھی یادیں لیے ہوئے نہیں لیکن اس کے باوجود اہل فکر ودانش کا ایک بڑا طبقہ کسی مذہب یا روحانی خلا کو پر کرنے والے کسی نظام کی خواہش اور ضرورت محسوس کررہا ہے اور اس کی تلاش میں ہے بلکہ جدید تہذیب کی بقا کے لیے اسے ضروری سمجھتا ہے۔
دستور کی تین بنیادیں: ہم اس طبقے سے اور خصوصیت سے زندگی کے ہر شعبے کی قیادت سے پوری دل سوزی سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ چیزیں جو اس قوم میں متفق علیہ ہیں انھیں متنازع بنانے کی جسارت اور حماقت نہ کریں۔ وہ متنازع تو نہیں بن سکیں گی لیکن قوم میں کنفیوژن اور پراگندہ فکری ضرور پیدا ہو سکتی ہے۔ نئی نسلوں کے ذہنی سکون کو متاثر کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم میں اندرونی کش مکش رونما ہو سکتی ہے جو قومی قوتوں کے ضیاع پر منتج ہو گی جب کہ آج ضرورت ساری قوتوں کو مثبت تعمیری مقاصد کے لیے منظم اور متحرک کرنے کی ہے۔ اس کے لیے ایک محکم بنیاد ملک کا دستور ہے جس پر پوری قوم کا اجماع ہے۔ اس دستور کی تین بنیادی خصوصیات ہیں اور ان میں سے ہر خصوصیت کے اساسی تصورات دستور میں دو اور دو چار کی طرح متعین کر دیے گئے ہیں۔ ہماری خرابیوں اور کمزوریوں کا ایک بڑا سبب اس دستور پر عمل نہ کرنا ہے۔ ظلم ہے کہ ہر ایک نے اس دستور سے وفاداری کا حلف لیا ہے اور ہر کوئی اس سے بے وفائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس دستور کی پہلی بنیاد اسلام ہے۔ قرارداد مقاصد دستور کا دیباچہ ہی نہیں اس کی ایک قابل تنفیذ دفعہ ہے۔ دفعہ ۲ اور دفعہ ۲ الف ریاست کے اختیار اور نظریاتی حدود کو متعین کر دیتی ہیں۔دفعہ ۲۲۷ قانون سازی کے اصول اور حدود کی نشان دہی کرتی ہے۔ نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت سے متعلق دفعات پالیسی سازی اور قانون سازی کے لیے معاونت اور محاکمے کا نظام قائم کرتی ہیں۔ پالیسی کے رہنما اصولوںکا پورا باب اسلام کی روشنی میں حکومت کے پورے دائرہ کار کے لیے واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ دستور اس تسلسل میں سالانہ جائزہ رپورٹ بھی ضروری قرار دیتا ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ دستور سات سال میں پورے نظام قانون کو شریعت اسلامی سے ہم آہنگ کرنے کی ہدایت دیتا ہے لیکن دستور کو نافذ ہوئے ۲۸ سال ہو گئے ہیں اور ہنوز دلی دُور است! دستور کی دفعہ ۶۲-۶۳ قیادت کے لیے معیار طے کرتی ہیں اور دستور میں دیے ہوئے حلف ایک قومی عہدکا درجہ رکھتے ہیں۔ دستور کے تحت قائم ہونے والی نظریاتی کونسل نے ۴۰سے زیادہ رپورٹوں کی شکل میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلامی ہدایات مرتب کر دی ہیں۔ ان سب کے بعد بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلامی ماڈل کہاں ہے؟ ہم کس اسلام پر عمل کریں؟ ہمارے لیے نہ ایران ماڈل ہے‘ نہ سعودی عرب یا سوڈان۔ ہمارا ماڈل قرآن و سنت ہیں اور خود ہمارے دستور نے اس ماڈل کے خطوط کار واضح کر دیے ہیں اور دستوری اداروں نے رہنمائی فراہم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ناکام اگر کوئی ہے تو سیاسی قیادت اور وہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں اور رہنما ہیں جو ان سب کو نظرانداز کر کے اپنے اپنے مفادات کی دوڑ میں مصروف رہے ہیں۔
دوسرا اصول پارلیمانی جمہوری نظام ہے۔ اس سلسلے میں بھی دستور نے کوئی خلا یا ابہام نہیں چھوڑا ہے۔ تقسیم اختیارات اور ہر ہر ادارے کی ذمہ داریاں اور کردار متعین کر دیا گیا ہے لیکن نہ الیکشن دستور کے مطابق ہوتے ہیں اور نہ پارلیمنٹ اپنا کرداراد ا کرتی ہے۔ عدالتیں بھی سیاست اور اقربا پروری کی آماجگاہ بن گئی ہیں اور اگر کوئی شک ہے تو سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی خود نوشت Law Courts in A Glass Houseکا مطالعہ کر لیجیے جس میں ’’عدالت کے کانچ گھر‘‘ اور ’’ سیاست کے حمام‘‘ میں سب لباس سے فارغ نظر آتے ہیں۔
دستور کی تیسری بنیاد وفاقیت ہے۔ یعنی مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم اور فیصلہ کرنے کے عمل کا اُوپر سے نیچے تک متحرک ہونا۔ دستور کو بنے ۲۸ سال ہو گئے ہیں اور آج تک نہ اختیارات کی منتقلی کا عمل مکمل ہوا ہے اور نہ دستور میں قائم کیے ہوئے اداروں کو موثر بنایا گیا ہے۔ خود پسندی اور اپنی ذات میں اختیارات کے ارتکاز کے مرض نے ملک میں وہ خلفشار پیدا کیا ہے کہ مرکز گریز رجحانات ترقی پا رہے ہیں اور عوام انصاف اور حقوق سے محروم ہیں۔
اگر دستور کی ان تینوں بنیادوں پر‘ دستور کے فریم ورک میں‘ دیانت سے عمل ہو تو ہمیں کسی ’’مسیحا‘‘ کی ضرورت ہے اور نہ ’’قومی مرمت سازی‘‘ کے کسی ادارے کی!
لندن کے نہایت معتبر میگزین امپیکٹ انٹرنیشنل نے اپنی جولائی ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں سابق صدر رفیق تارڑ جیسے مرنجان مرنج سربراہ ریاست کی فارغ خطی کے جن اسباب کا ذکر کیا ہے وہ خطرے کی ایک بڑی گھنٹی ہیں۔ ویسے تو تارڑ صاحب نئے حکمرانوں سے ہر طرح تعاون کر رہے تھے لیکن ہائی کورٹ میں میرٹ اور اصول کو نظرانداز کر کے نئے ججوں کی تقرری کی سفارش کو انھوں نے غالباً پہلی بار نظرثانی کے لیے واپس کر دیا اور اصرار کے باوجود دستخط نہیں کیے۔ لاہور میں منعقد ہونے والی پنجابی کانفرنس کے اس واقعے کا کھلے بندوں نوٹس لیا کہ ’’پاکستان تلاوت کے لیے نہیں بنا‘‘۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان تلاوت قرآن ہی کے لیے بنا ہے اور جب تک پاکستان ہے تلاوت ضرور ہو گی۔ جس پر روایت ہے کہ چیف ایگزیکٹو نے ان سے کہا کہ ’’آپ کیا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ریمارکس دیتے ہیں‘‘۔ یہ بھی روایت ہے کہ سیرت کانفرنس میں جنرل مشرف صاحب نے جہادی تنظیموں کے بارے میں جو ارشادات فی البدیہہ فرمائے تھے تارڑ صاحب نے غالباً زندگی میں پہلی بار اپنے دستوری صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو کو ایک خط کے ذریعے متوجہ کیا کہ ایسے غیر محتاط اور غیر متوازن بیان سے جہاد آزادی کی تحریک میں مصروف جاں بازوں پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اگر تارڑ صاحب کی رخصتی کا یہی پس منظر ہے تو یہ ایک بڑی تشویش ناک بلکہ خطرناک صورت حال کا پتا دیتا ہے جو قوم کو ایک بڑی کش مکش کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اس لیے ہم صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ دستور کی ان تینوں بنیادوں کا تحفظ اور احترام سب کے لیے ضروری ہے۔موجودہ حکومت کو سپریم کورٹ نے جو سند جواز ایک متعین مدت کے لیے دی ہے وہ مذکورہ بالا تین بنیادوںکے ساتھ مشروط ہے۔ یہ قوم کتنی بھی کمزور ہو ‘کسی کو بھی ان بنیادوں کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ غلام محمد‘ اسکندر مرزا‘ جنرل ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے اپنے دَور میں اور اپنے اپنے انداز میں اس کی کوشش کر کے دیکھ چکے ہیں اور اپنے انجام کو پہنچے۔ عقل مند وہ ہے جو ماضی کے ان نشانات عبرت سے سبق لے اور قوم کو کسی نئی آزمایش میں مبتلا نہ کرے ورنہ اس کا انجام بھی اپنے پیش روئوں سے مختلف نہیں ہو سکتا۔
انتخابات اور انتقال اقتدار : اس سال ۱۴ اگست جن حالات میں آ رہا ہے ان میں ایک اور غور طلب پہلو احیاے جمہوریت اور انتقال اقتدار کا وہ پس منظرہے جس میں ضلعی نظام کے انتخابات کے بعد ۱۴اگست کو اس نظام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس وقت اس نظام کے حسن و قبح پر گفتگو پیش نظر نہیں۔ برا یا بھلا جو بھی نظام ہے اگر اسے آپ نے نافذکر ہی دیا ہے تو اب اس کا احترام کریں اور جو زمینی حقائق سامنے آئے ہیں ان کو کھلے دل سے تسلیم کر کے اس میں دراندازی کا کھیل نہ کھیلیں۔
شروع میں تو عوام نے اس نظام میں کوئی خاطر خواہ دل چسپی نہیں لی لیکن بعد کے مراحل میں دل چسپی بڑھی اور اب ضلعی نظام کے مرحلے پر تو یہ واضح ہو گیا کہ ملک کی اصل قوت آج بھی سیاسی جماعتیں ہیں جو مختلف گروپوں کے نام سے متحرک ہو گئی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ نہ سیاست کا کوئی متبادل ہے اور نہ سیاسی جماعتوں کا۔ دونوں کی اصلاح کے لیے جو بھی ممکن ہو کیا جائے لیکن ان کا کوئی بدل نہیں۔ اگر غیر فطری انداز میں ان پر پابندیاں لگائی گئیں یا آرڈی ننسوں کے ذریعے منتخب لوگوں کو جیسے بھی وہ ہوں‘ محض سیاسی وفاداری یا تعلق کی بنیاد پر ہٹایا گیا تو یہ پورا نظام وجود میں آنے سے پہلے ہی دھڑام سے گر جائے گا۔ یہ عوام ہی کا حق ہے کہ وہ اپنے نمایندے چنیں۔ان پر اپنی پسند کے لوگ مسلط کرنا جمہوریت‘ انصاف اور دیانت ہر ایک کے خلاف ہے اور ظلم اور آمریت کا راستہ ہموار کرنے والا ہے۔ اس سے بچنا بہترہے۔ پاکستانی جمہوریت کا المیہ ہی یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے خود کوعقل کُل سمجھ لیا ہے اور قوم کو اپنے معاملات طے کرنے کا موقع دینے کے بجائے قوم پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قومی مفاد کے اصل حکم وہ ہیں۔ یہ بدترین آمریت اور انسانوں کے استحصال کا راستہ ہے۔
۱۴ اگست کی تقدیس کا اگر کچھ بھی پاس ہے تواس کا تقاضا ہے جو نظام بھی آپ نے بنایا ہے اسے کسی مداخلت اور سیاسی کھیل کے بغیر بروے کار آنے کا موقع دیں۔ عوامی نمایندوں کے لیے احتساب کا آزاد اور قابل اعتماد نظام ضرور بنائیں لیکن من مانی سازباز کا دروازہ بالکل بند کر دیں۔ اس نظام کو نچلی سطح پر محدود اور متعین اختیارات اور انتظام تک محدود رکھیں۔ اسے صوبائی یا مرکزی نظام کے لیے زینہ بنانے کی جسارت نہ کریں بلکہ دستور کے تحت اور دفعہ ۶۲-۶۳ کے فریم ورک میں بااختیار اور قابل اعتماد الیکشن کمیشن کے ذریعے صوبائی اور مرکزی انتخابات کا اہتمام کریں۔ ہم ایک بار پھر یہ کہنا چاہیں گے کہ قومی مشاورت کے ذریعے متناسب نمایندگی کا ایک معقول نظام وضع کیا جا سکتا ہے جو ہمارے بہت سے مسائل کے حل کرنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ آزاد اور شفاف انتخابات ہی نئی قیادت کو بروے کار لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ۱۴ اگست کو اس کا واضح ٹائم ٹیبل اور نقشہ کار (road map)قوم کے سامنے آجاناچاہیے۔
پاک بھارت مذاکرات اور مسئلہ کشمیر: اس سال ۱۴ اگست کی اہمیت پاک بھارت مذاکرات کے پس منظر میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں جنرل پرویز مشرف کے انداز حکمرانی اور ان کی کچھ ترجیحات سے جتنا بھی اختلاف ہو‘ اور ہم نے اس کا برملا اظہار کیا ہے ‘لیکن کشمیر کے معاملہ میں ان کا قومی موقف پر ڈٹ جانا‘ بھارت سے مذاکرات سے پہلے قوم اور اس کی قیادتوں کو اعتماد میں لینا اور دہلی اور آگرہ میں قومی اتفاق رائے کے فریم ورک میں جرأت اور دانش مندی سے اپنی بات پیش کرنا اور حق و انصاف پر مبنی موقف کو کسی قیمت پر سمجھوتے کی بھینٹ نہ چڑھنے دینا ایسے پہلو ہیں جن پر ہم انھیں مبارک باد دیتے ہیں اور ان کے لیے اس موقف پر مزید استقامت کی دعا کرتے ہیں۔
بھارت نے بڑی ہوشیاری بلکہ عیاری سے ایک خاص فضا بنائی تھی جس میں ایک طرف تو جنرل صاحب کی اَنا کی تسکین اور ان کو ذاتی اکرام کے ذریعے رام کرنے (win over)کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعے ایک ایسا سوچا سمجھا اور گھمبیر حملہ کیا گیا کہ وہ کشمیر کی مرکزیت سے ہٹ کر ضمنی معاملات میں اُلجھ جائیں۔ ترغیب اور ترہیب کا ہر حربہ پوری چابک دستی سے استعمال کیا گیا اور بالکل وہی حکمت عملی دہرائی گئی جو گاندھی جی نے قائداعظم کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں استعمال کی تھی--- مٹھاس اور عیاری‘ چاپلوسی اور بلیک میلنگ‘ ذاتی اکرام اور قومی موقف سے ہٹانے کی کوشش۔ خدا کا شکر ہے کہ جس طرح قائداعظم نے گاندھی جی کی ساری چالوں کو پادَر ہوا کر دیا تقریباًاسی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے مشرف صاحب نے بھی واجپائی ایڈوانی جال سے اپنے آپ کو بچا لیا۔ ان کو ہندو کی سیاست کا بلاواسطہ اور براہِ راست تجربہ ہو گیا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا ایک الہامی شعر ہے جس میں ہندو سیاست کے دو کرداروں کی بڑی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ساورکر ہندو مذہبی انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کا نمایندہ تھا اور گاندھی جی ہندو مفادات کے بڑے سمجھ دار محافظ۔ دونوں کے بارے میں مولانا ظفر علی خاں کا جچا تلا تجزیہ ہے کہ ؎
دنیا میں بلائیں دو ہی تو ہیں‘ اک ساورکر اک گاندھی ہے
اک جھوٹ کا چلتا جھکّڑ ہے‘ اک مکر کی چلتی آندھی ہے
آج ساورکر اور گاندھی‘ ایڈوانی اور واجپائی کے روپ میں اسی طرح پاکستان کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح پاکستان کے قیام کو روکنے کے لیے کبھی ساورکر اور گاندھی سرگرم عمل تھے۔ گاندھی جی نے جناح کو ’’قائداعظم‘‘ تسلیم کیا اور بھارت کا وزیراعظم بنانے کی پیش کش کی لیکن قائداعظم اس کھیل سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے ’’کٹا پھٹا‘‘ پاکستان قبول کر لیا لیکن گاندھی کے جال میں نہ آئے--- آج بھی سارا کھیل یہی ہے کہ پاکستان کو کسی طرح کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے ہٹا کر پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں بُعد اور تصادم پیدا کر دیا جائے‘ پاکستانی قیادت اور پاکستانی قوم کو لڑا دیا جائے تاکہ بھارت کشمیر پر اپنے قبضے کو دوام بخش سکے۔ حریت کانفرنس کی قیادت سے وہ خود بات کرنے کو تیار نہیں مگر پاکستان سے ان کی ملاقات پر برافروختہ ہے۔ کشمیر کے بارے میں اپنے سارے وعدے وعید‘ مسئلے کی پوری تاریخ‘عوامی جدوجہد اور ہزاروں لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کو بالکل نظرانداز کر کے ویزا کی سہولتوں اور تجارت کے معاملوں میں اُلجھانے کی کوشش--- ایک طرف کشمیر میں عوامی تحریک اپنے عروج پر ہے‘ ہزاروں افراد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں‘ ہر شہید کا جنازہ بھارتی تسلط کے خلاف ایک عوامی ریفرنڈم ہے--- اور بھارت کی قیادت ہے کہ اسے مسئلہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں اورہماری قیادت کو لیپاپوتی والے معاملات میں اُلجھانے پر ساری توجہات مرکوز کر رہی ہے۔
کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا ذکر کیا جاتا ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے فلسطینیوں کو کیا حاصل ہوا؟ ہم خود معاہدہ تاشقند سے آج تک اعتمادپیدا کرنے والے اقدامات (Confidence Builiding Measures - CBM's) کی بات سن رہے ہیں لیکن چالیس سال میں ان سے کیا حاصل ہوا؟ ۱۹۷۲ء (شملہ معاہدہ) سے دوطرفہ مذاکرات کی بات ہو رہی ہے لیکن ۵۰ سے زیادہ بار مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے حاصل کیا ہوا؟ اوسلو کے بارے میں اس وقت اسرائیل کے بڑے سے بڑے موید بھی یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ یہ راستہ مسائل کے حل کا راستہ نہیں۔
انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے ۱۷ جولائی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں دو یہودی دانش ور ایک ہی بات کہتے ہیں جو غور طلب ہے۔ ہنری سیگمین (Henry Seigman)جو امریکہ کی مشہور زمانہ Council on Foreign Relations کا سینیرفیلو او ر اسرائیل کا ہمدردہے ‘ یہ لکھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ:
اوسلو معاہدہ کئی وجوہات سے ایک مستقل حیثیت کے معاہدے کی راہ ہموار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سب سے بنیادی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی اپنے لیے وہ واحد ہدف تسلیم نہیں کیا جو اس طرح کے معاہدے کو ممکن بناتا‘ یعنی مغربی کنارے اور غزہ میں ایک مستحکم اور خودمختار فلسطینی ریاست۔ اعتماد کوئی خیالی چیز نہیں ہے جو محض اپنی خاطروجود رکھتا ہو‘ یہ کسی مقصد کے حوالے سے ہی کوئی معنی و مفہوم پاتا ہے۔ اعتماد یہ ہونا چاہیے کہ یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اوسلو کے حوالے سے اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات سے مراد صرف وہی اقدام ہو سکتے ہیں جن سے فلسطینی یہ یقین کرنے لگیں کہ وہ مستحکم ریاست کا مرتبہ حاصل کر لیں گے۔بامعنی ریاستی حیثیت بنیادی آرزو ہے۔ اگر اس کے بارے میں گفتگو کے آغاز کا مقصد بھی اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات سے متعلق نہ ہو تو اس طرح کے مجرب نسخے پر عمل کا بے معنی پن (absurdity) ذہن کو ششدر کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ امریکی سفارت کاری کی بنیاد ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۱ء)
ہمارا مسئلہ بھی بالکل یہی ہے۔ اصل سوال اہل جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ اس کی بات نہ کرو صرف اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات کی کرو‘جن معاملات کا کوئی تعلق اصل مسئلے سے نہیں ہے ان میں اُلجھ جائو۔ پھر نتیجہ بھی معلوم ہے۔ بات کبھی ان اقدامات سے آگے اصل مسئلے کی طرف نہیں جاتی۔ جب بھی اصل مسئلے کو موخر کیا گیا ہے یا مبہم چھوڑ دیا گیا ہے کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ خواہ مسئلہ فلسطین کاہو یاکشمیر کا۔ یہی اسرائیل کا کھیل ہے‘ یہی بھارت کا‘ یہی امریکہ کا۔ ہم کب تک ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے رہیںگے۔ ٹربیون کے اسی شمارے میں صیہونیت کا ایک مبلغ جافری وہیٹ کرافٹ (Geoffrey Wheatcraft) اپنے مضمون میں لکھتا ہے:
یہ امر واقعہ شک و شہبے سے بالاتر ہے کہ اوسلو (اسے کلنٹن بھی کہا جا سکتا ہے) کا پورا عمل پٹڑی سے اتر گیا ہے۔
اوسلو طریق کار کے بارے میں یہ دو تبصرے چشم کشا ہیں۔ آزمودہ را آزمودن جہل است۔ اور یہی وہ کھیل ہے جو بھارت ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے۔ پہلے مرحلے میں جنرل مشرف صاحب اس جال سے دامن بچا کر نکل آئے ہیں لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ اگلے مراحل کی تیاری‘ جہادی قوتوں کی حوصلہ افزائی‘ اصولی موقف پر استقامت‘ عالمی راے عامہ کو متاثر اور متحرک کرنے کی کوشش‘ بھارت کے عوام اور اہل دانش کی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش‘ خود اپنی قوم پر اعتماد اور اسے ساتھ لے کر چلنا ---یہ سب ۱۴ اگست کے تجدید عہد کے چند پہلو ہیں۔
آگرہ میں سربراہی ملاقات کے موقع پر بھارت کی قیادت کو سب سے زیادہ جو چیز کھٹکی وہ جنرل پرویز کی بھارتی اخبارات کے مدیروں سے ملاقات میں کھلی کھلی باتیں اور ان کا بھارت کے میڈیا پر آجانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وعدے کے باوجود اور جنرل پرویز کی خواہش کے علی الرغم روانگی سے قبل ان کو ورلڈ میڈیا سے خطاب کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہمارے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مدمقابل پر چوٹ کہاں سب سے زیادہ موثر ہو سکتی ہے۔
جنرل پرویز نے بھارت سے دہلی اور آگرہ میں جس طرح معاملہ کیا وہ ان کے لیے ‘ ہماری فوج کے لیے اور پوری قوم کے لیے باعث اطمینان ہے اور اس میں سابقہ قیادت خصوصیت سے بے نظیر صاحبہ‘ نوازشریف صاحب اور ان کے رفقا کے لیے بھی بڑا سبق ہے۔ قومی مفاد پر استقامت میں کامیابی اور اس پر سمجھوتہ کرنے میں دنیا میں بھی رسوائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی اس پر بڑی پکڑ کا خطرہ ہے۔
۱۴اگست کا پیغام : اس سال ۱۴ اگست کا یوم تجدید عہد جن حالات میں آ رہا ہے ان میں ملک کی معاشی مشکلات اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔معاشی خلفشار کی اصل وجہ وسائل کی کمی نہیں غلط معاشی پالیسیاں‘ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی محکومی‘ کرپشن اور بدعنوانی‘ غلط ترجیحات اور ہمہ گیر معاشی بدانتظامی ہیں۔ موجودہ معاشی ٹیم بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس سے اصلاح احوال کی توقع عبث ہے۔ البتہ ان معاشی حالات سے پریشان ہو کر یا ان کی بنیاد پر قیادت کو گھبراہٹ میں مبتلا کر کے ورلڈبنک اور گلوبلائزیشن کے نظام کو مزید مستحکم کرنے کے خطرات سے متنبہ کرنا ہمارا قومی فرض ہے۔ قوم کو جھوٹی تسلیاں دینے اور مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے ۔ اسے ترک کر کے ایک انقلابی حکمت عملی وضع کیے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے مقابلے میں فوجی حکومت کے لیے کسی انقلابی حکمت عملی کو اختیار کرنا آسان ہوتاہے۔ ہمیں اس رائے سے اتفاق نہیں لیکن موجودہ حکومت نے تو اس راستے کو پہلے دن ہی سے بندکر دیا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی شرائط پر جس تابع داری سے اس زمانے میں عمل ہو رہا ہے‘ کبھی نہیں ہوا۔ اس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ اس لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایک نئی قیادت کے بغیر کسی بڑی معاشی پہل قدمی (initiative)کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس لیے اس حکومت سے نہ کسی بہتر معاشی پالیسی کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ کسی موثر‘ شفاف اور مبنی بر عدل نظام احتساب کی۔ فوج کی قیادت کا سیاست میں مزید اُلجھا رہنا فوج اور ملک دونوں کے مفاد میں نہیں۔
اس سال ۱۴ اگست پر قوم کو تجدید عہد کے ساتھ موجودہ حکمرانوں کو یہ پیغام بھی دے دینا چاہیے کہ جتنی جلد ملک میں نئے منصفانہ انتخابات کے ذریعے دستور کے تحت ایک نئی‘ دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو زمام کار سونپی جا سکے ملک و ملّت کے لیے بہتر ہے۔ مخصوص طبقات سے اُبھرنے والی قیادتوں نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور بگاڑ میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ اب ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام میں سے ہو اور عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس کا دامن پاک اور شہرت اچھی ہو۔ یہ قیادت دستور کی پابند اور وفادار ہو‘ دستور کو اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ دستور کے مطابق عوام اور ملک کے مفاد میں کام کرے۔ وقت کی اصل ضرورت قوم کو بیدار کرنا اور متحرک کرنا ہے تاکہ عوام مخصوص طبقات کے ہاتھوں میں ڈھور ڈنگر کی طرح نہ کھیلیں بلکہ اپنی قسمت کے خود مالک بنیں اور اس ملک کو سنوارنے اور بنانے کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اس حیثیت کو محسوس کرے کہ وہ پاکستان کا محافظ اور خادم ہے اور خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔
۱۴ اگست جس تجدید عہد کا ہم سے مطالبہ کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک تحریک پاکستان کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو اور اس جذبے سے کام کرے کہ اسے پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی مملکت بنانا ہے‘ اس ملک سے جہالت‘ غربت‘ ناداری اور محتاجی کو دُور کر کے علم کی شمع کو روشن کرنا اور اعلیٰ اخلاق اور عدل و انصاف کا بول بالا کرنا ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے بندوں کو اللہ کے دیے ہوئے دین کی برکتوں سے شادکام کرنے اور بالآخر آخرت میں اپنے ربّ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرنا ہے۔ قائداعظم نے مسلم لیگ کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے ۳۱ اکتوبر ۱۹۳۹ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جس تمنا کا اظہار کیا تھا آج اس کی تذکیر کی ضرورت ہے۔ اس تمنا کو اپنے دلوں میں اتار لینے اور زبان اور عمل سے اس کے اظہار کا عزم اس سال ہمارے لیے ۱۴ اگست کا بہترین تحفہ ہوسکتا ہے۔
قائد نے کہا تھا:
’’میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی‘ تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔ میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘ میرا اپنا ایمان‘ میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح‘ تم نے واقعی مدافعت ِاسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح‘ تم مسلمانوں کی تنظیم‘ اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علَم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے‘‘۔
(یوم آزادی پر تقسیم کرنے کے لیے اس مضمون کا کتابچہ ۳۰۰ روپے فی سیکڑہ کے حساب سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور - ۵۴۵۷۰)
سب سے پہلے یکسو ہو کر اور دل کو تمام وساوس سے پاک کر کے بار بار پوری سورت کو پڑھ کر اس کا مرکزی مضمون اور اس مضمون کا قرآن کے اصل موضوع سے تعلّق معلوم کیجیے۔ پھر سورت کے مضامین اور مومنین و منافقین‘ مشرکین و کافرین کے ساتھ جو اندازِ خطاب اختیار کیا گیا ہے اس پر غور کرکے یہ معلوم کیجیے کہ جب یہ سورہ نازل ہوئی اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کس مرحلے میں رہی ہوگی اور دعوت کو کس رہنمائی کی ضرورت تھی جسے اس سورت میں پورا کیا گیا۔ نیز جن لوگوں نے اس دعوت کو صدق دل سے نہیں مانا تھا اور جو اس کے مخالف تھے ان کے ساتھ کیا طرزعمل اختیار کرنے کی اس سورہ میں ہدایت فرمائی گئی۔ یہ بات سمجھ آجانے کے بعد پھر سورہ کو بار بارپڑھ کر یہ معلوم کیجیے کہ سورہ کتنے خطابات پر مشتمل ہے اور کون سا خطبہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔ پھر ہر خطبے کے مرکزی مضمون کا سورہ کے مرکزی مضمون سے تعلّق‘ ربط آیات‘ ربط مضامین‘ دلائل اثبات‘ طرز استدلال اور انداز خطاب پر غور کرتے رہیے۔ پھر ہر تفسیر کو پڑھیے‘ اس کے مباحث کو سمجھیے اور ہر کتاب کے مباحث سے تقابل کرتے رہیے اور ذہن میں جو سوال پیدا ہوں ان کے جواب تلاش کرتے رہیے‘ یہاں تک کہ ہر بات سمجھ میں آجائے۔ اس کے بعد جن چیزوں کے سلسلے میں مختلف اقوال اور آرا منقول ہوں‘ ان میں عبارت کے سیاق و سباق اور اس مرحلے کے پس منظر میں جس میں کہ متعلقہ خطبے کا نزول ہوا ہے‘ قول راجح اور اس کے وجوہ و اسباب تلاش کیجیے۔ یہ سارا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد‘ مولانا نے ہدایت فرمائی تھی کہ ساری کتابیں رکھ دیجیے اور اپنا قرآن مجید اٹھا کر پوری یکسوئی کے ساتھ اس طرح ٹھیرٹھیر کر پڑھیے کہ آپ کا دل محسوس کرتا رہے کہ یہ لفظ زبان سے نہیں دل سے نکل رہا ہے۔ (تذکرہ سید مودودی‘ ج ۲‘ ص۳۰۳-۳۱۳‘ ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور)
مولانا حکیم خواجہ اقبال ندوی نے لاہور اور دارالاسلام پٹھانکوٹ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒسے قرآن کریم درساً درساً پڑھا اور مولانا کے تعلّق قرآن اور تدبر قرآن کو بہت ہی قریب سے دیکھا اور سمجھا۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ مولانا نے قرآن کے مضامین و مفاہیم پر غوروفکر کرنے کے لیے کس اسلوب اور منہاج کی طرف رہنمائی فرمائی ‘جو بیان کیا وہ مذکورہ بالا الفاظ میں درج کیا گیا ہے۔
ہم ان ہدایات کو مرحلہ بہ مرحلہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی تفصیل و شرح حسب مقدور عرض کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
۱- یکسوئی اور دل کو وساوس سے پاک کرنا: یہ قرآن فہمی کی شاہ کلید ہے۔ ہم دراصل شعوری یا لاشعوری طور پر اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ہی پڑھتے ہیں۔ اللہ کی شیطان سے پناہ مانگتے ہیں اور اللہ کے نام سے ہی ابتدا کرتے ہیں لیکن یکسو نہیں ہوتے۔ زبان دل کا ساتھ نہیں دیتی۔
یکسوئی انسان کو درجۂ امامت تک پہنچاتی ہے۔ اس کو قرآن کی زبان میں حنیفیت کہتے ہیں جو ابوالانبیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا طرئہ امتیاز ہے۔ اسی چیز نے ان کو انسانوں کا امام بنایا۔
یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دل کو تدبرقرآن کے علاوہ ہر چیز سے خالی کر لو اور صرف قرآن کریم اور اس کے مطالعے کی طرف دل و دماغ کا رخ پھیر کر متوجہ ہو جائو تاکہ تفکّرمرکوز کر کے گوہر قرآنی کو اپنے دامن میں سمیٹ سکو۔
رہا وساوس سے پاک کرنا‘ تو وہ اس لیے ضروری ہے کہ ہدایت کی راہ میں مختلف روڑے اٹکانا شیاطین جن و انس کا خاص الخاص مشغلہ ہے۔ اسی وجہ سے سورئہ توحید (سورہ اخلاص) کے بعدجس میں اس دین کی بنیاد کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے‘ معوذتین کو رکھا گیا تھا تاکہ یہ بتایا جائے کہ سارے ہی قرآن میں ہدایت کی جو راہ روشن کی گئی تھی‘ اس کی حفاظت کی خاطر اللہ کی صفات‘ ربوبیت و خالقیت‘ مالکیت اور الوہیت کی پناہ طلب کی جائے تاکہ ان ہدایت کے دشمنوں اور توحید سے نفرت کرنے والوں کے ہتھکنڈے بے اثر اور بیکار ثابت ہوسکیں۔
یہی مقصد ہے قرآن کریم یا احادیث نبویہ شریفہ کی تلاوت سے پہلے تعوذ اور بسملہ پڑھنے کا۔ اسی کی تعلیم مولانا مودودیؒ نے قرآن کے تدبر میں آگے بڑھنے والوں کو دی ہے۔
۲- سورہ کا مرکزی مضمون: یہ دوسری ہدایت ہے کہ پوری یکسوئی اور وساوس سے پاک ہو کر بار بار کسی بھی سورت کو اس نیت سے پڑھو کہ اس کا مرکزی مضمون ہاتھ آجائے۔ مرکزی مضمون وہی چیز ہے جس کو مولانا حمیدالدین فراہی ؒ سورہ کا عمود اور سید قطب شہید ؒ محور کہتے ہیں۔ ان سب کا مقصود سورت کا وہ نکتہ ہے جس کے اطراف اس کے مضامین گھومتے رہتے ہیں۔ اس طرح سورت میں مرکزیت کی وجہ سے وحدت ہدف اور مرکزی مباحث کے خدوخال اُبھرنے لگتے ہیں جن کو ہم outlines کا نام دے سکتے ہیں۔ ان میںتفصیلی رنگ بھرنے کا طریقہ آگے بیان کیا جا رہا ہے۔
مولانا نے بات صرف سورت کے مرکزی مضمون تک محدود نہیں کر دی بلکہ ہر ہر سورت کو قرآن کے مرکزی مضمون سے باندھنے پربھی اصرار کیا ہے تاکہ ہر سورت خود قرآن کے مرکزی مضمون سے منسلک ہو کر موتیوں کے ہار کی طرح ایک لڑی میں پروئی جائے۔ اس طرح خود قرآن کے مرکزی مضمون کے اطراف قرآن کی ساری ہی سورتوں کے مرکزی مضامین قرآن کی وحدت کو جگمگانے کا باعث بنیں۔
اس طرح مولانا نے سارے ہی قرآن کوایک وحدت گردانا اور دوسروں کو بھی اس وحدت کو دریافت کرنے کی تعلیم دی۔ اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
۳- سورہ کے مضامین اور مختلف گروہوں سے اندازِ خطاب: اوپر میں نے جن خطبوں میں رنگ بھرنے کی طرف اشارہ کیا تھا یہ وہی مضامین رنگ و بو ہیں۔ مختلف گروہوں سے اندازخطاب کو وحدت سورت کے اصل جسم پر گوشت پوست کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے بعد سورت کی شخصیت اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ شخصیت انگلی اُٹھا کر اس ماحول اور ان حالات کی طرف اشارہ کردیتی ہے جن میں وہ نازل ہوئی تھی بلکہ اس کے مختلف خطبے اس خاص ماحول اور مرحلے کے مختلف اجزا کو نظروں کے سامنے لا کر سینما کی ریل کی طرح‘ ایک لمبے مرحلے کو جو مختلف چھوٹے بڑے مناظر سے عبارت ہوا کرتا ہے‘پیش کر دیتے ہیں۔مناظر کا یہ تسلسل ان کے مختلف رنگوں ‘ خصوصیات‘ کیفیات اور ان میں پیش آنے والے حالات کی سچی تصویرکشی کر کے ان کے چھوٹے سے چھوٹے گوشے اور جزئیات تک کو واضح کر دیتا ہے۔
اسی کو تفسیری اصطلاح میں ’’شانِ نزول‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن یہ شانِ نزول سورتوں کے مضامین اور مختلف گروہوں کو مخاطب کرنے کے انداز سے ازخود نمودار ہوئی ہے اور اپنی زبان سے خود کہہ رہی ہے کہ مجھے ان اسباب اور ان حالات میں اتارا گیا تھا۔ یہ قرآن کی اپنی اندرونی اور منہ بولتی شہادت ہے جس کی سچائی میں کسی قسم کے شک کی گنجایش نہیں ہے۔
یہیں سے حرکی اور متداول تفاسیر میں فرق پیدا ہوتا ہے۔ حرکی تفاسیرشانِ نزول کو دعوت اسلامی کے مختلف مراحل سے جوڑ کر شان نزول کے بہت سے دقیق مباحث سے دامن بچا لیتی ہیں۔ اس سے قرآن فہمی آسان ہو جاتی ہے۔
سب ہی جانتے ہیں کہ عصرحاضر کی پہلی حرکی تفسیر اردو میں مولانا مودودیؒ کے قلم سے نکلی تھی ‘ جب کہ عربی میں پہلی حرکی تفسیر سید قطب شہید ؒ کے خون کی سرخ روشنائی سے لکھی گئی ہے۔ یہ حرکی اسلوب تفسیر اس خاص ماحول اور ان خاص حالات کی طرف صاف اشارہ کرتا ہے جن میں داعی اوّلؐ اور ان کی دعوت اور جماعت گھرے ہوئے تھے اور پھر وہ خود ان ضروریات کو واضح کرتا ہے جو اس وقت دعوتِ اسلامی کو لاحق تھیں‘ اور اس رہنمائی کو بھی عیاں کرتا ہے جس کی طلب تھی اور وہ اس سورت اور اس کے مختلف مضامین سے پوری کی گئی۔
اسی حقیقت کا دوسرا رخ وہ اندازِ خطاب‘ وہ دلائل اثبات و انکار‘ وہ تعریف و توصیف اور وہ دھمکی و وعید ہے جو اس مرحلے میں حصہ لینے والے مختلف گروہوں کے لیے اختیار کی گئی تھی۔
۴- سورہ کے خطبات یا اجزاء تکوینی: یہ کسی بھی سورت کی صورت گری کا بہت اہم مرحلہ ہے۔ اس سے پہلے خدوخال اور خطوط عامہ تک نوبت پہنچی تھی اور اب صورت گری کا معاملہ درپیش ہے۔ یہ ان خطبوں سے عبارت ہے جن سے مل کر سورت بنتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے بقول قرآن دعوتِ اسلامی کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور داعی اوّلؐ کی رہنمائی‘ تسلی اور دل جوئی کے لیے خطبات کی شکل میں نازل ہوا کرتا تھا جو اس کتاب عزیز میں اور عام کتابوں میں فرق کا حقیقی سبب ہے۔ یہ خطبات کبھی تو حقائق کون و مکان (سورج‘ چاند‘ ہوا‘ پانی‘ دن رات) کے بارے میں اور ان کے مختلف قابل غور اور عبرت ناک پہلوئوں‘ توحید خالق سبحانہ وتعالیٰ کے مختلف زاویوں اور جواب دہی اور حتمیت ساعۃ (قیامت) کے اشارات لیے ہوئے ہوتے‘ تو کبھی حقائق دین (توحید‘ رسالت‘ آخرت‘ ملائکہ) کے بارے میں ہوا کرتے‘ یا پھر ان پر صدق دل و جان سے ایمان لانے والوں‘ منافقین‘ مشرکین‘ کفار‘ اہل کتاب کی کیفیات اور احوال ‘ اس خاص وقت یا تاریخ کے کسی پچھلے مرحلے کے بارے میں ہوا کرتے‘ اور کبھی وہ احکام و ہدایات حیات کے روپ میں نازل ہوتے۔ ایک ہی سورت خصوصاً طویل سورتیں (البقرہ‘ آل عمران‘ النساء‘ المائدہ وغیرھا) اس قسم کے کئی کئی خطبات پر مشتمل ہیں بلکہ یہ خطبات ایک ہی موضوع پر پلٹ پلٹ کر مختلف پہلوئوں اور زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں اور سامانِ رہنمائی مہیا کرتے ہیں۔
ان خطبات میں مشابہت کے باوجود‘ اختلاف مقصد و بیان اور اسلوب بیان کو دریافت کرنا اور ان کا مختلف زاویوں کے اختلاف کو ملحوظ خاطر رکھ کر ان کا مرکزی مضمون دریافت کرنا‘ اور اس مرکزی مضمون کو سورت کے مرکزی مضمون سے جوڑنا‘ نہایت مشکل‘ باریک بینی اور گہرے غوروفکر کا متقاضی امر ہے۔ یہ کام اسی طرح مربوط ہے جیسا کہ ہاتھ ہے جس میں انگلیاں ہیں‘ پھر پنجہ ہے‘پھر پنجے سے کہنی تک کا حصہ ہے اور آخر میں کہنی سے مونڈھے تک کا جز ہے۔ یہ جوڑ ویسے ہی ہیں جیسا کہ کسی سورت کے خطبات ۔جس طرح مختلف جوڑوں کے ملنے سے ہاتھ بنتا ہے‘ اسی طرح مختلف خطبات کے باہمی ربط سے مرکزی مضمون مربوط ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بات ربط آیات‘ ربط مضامین‘ دلائل اثبات اور انداز خطاب تک جا پہنچتی ہے۔ گویا ہاتھ کے جوڑوں کے درمیان واقع اجزاے ترکیبی پر غوروخوض کرنا۔ انگلی ہے تو اس میں تین تین پور ہیں‘ ہڈیاں ہیں‘ ناخن ہیں‘ ان پر گوشت چڑھا ہوا ہے‘ ان میں خون دوڑتا ہے‘ وہ مڑسکتی ہیں‘ ان سے اشیا کو چھوا یا چکھا جا سکتا ہے اور ان کو ملا کر پکڑا اور اٹھایا جا سکتا ہے۔ یوں ایک ایک آیت اور اس کے ایک ایک لفظ تک کا ربط معلوم کرنا ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سورت کے مرکزی مضمون سے آیت اور اس کے الفاظ تک غور کرنا گویا بلندی سے نشیب کی طرف اترنا اور اس راہ میں جو جو پہاڑ‘وادیاں اور میدان آئیں ان کو عبور کر کے بالکل تہ تک پہنچنا ہے۔ مولانا مودودیؒ کا ربط آیات و مضامین پر لفظاً لفظاً غور فرمانا گویا پہاڑ سے ذرے تک پہنچنے کے مترادف ہے۔
۵- دیگر تفاسیر سے استفادہ: ان سارے مراحل کو اپنی کوشش اور اپنے بل بوتے پر طے کرنے اور اس راہ میں پوری اجتہادی صلاحیتوں اور کوششوں کو صَرف کرنے کے بعد مزید توضیح‘ تنقیح اور اطمینان کی خاطر ان بزرگ ہستیوں کی کاوشوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے جنھوں نے اپنی زندگی کے بہترین لمحات کتاب اللہ پر غور کرنے میں صَرف کیے تھے۔
اس سے قبل ایک سوال کے جواب میں حکیم خواجہ اقبال ندوی صاحب کہہ چکے ہیں کہ مولانا نے ایک شاگرد کو--- ایک مبتدی کو --- تفسیر ابن جریر‘ ابن کثیر‘ تفسیر کبیر‘ کشاف اور راغب اصفہانی کی مفردات اور احکام القرآن میں سے جصاص اور ابن عربی مطالعہ کے لیے دی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محنتی طالب علم کے لیے بہت کچھ باقی ہے جس سے اس کو استفادہ کرنا چاہیے۔ تفہیم القرآن ان تفاسیر کے حوالوں سے ماشا اللہ مالا مال ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ان سب تفاسیر سے بھرپور استفادہ فرمایا ہے۔
ان تفاسیر سے رجوع کرنے کا اصل مقصد ان میں منقول مختلف آرا اور اقوال کا احاطہ کرکے‘ پھر اپنی کاوشوں کی طرف پلٹ کر ان کو عبارت کے سیاق و سباق اور نبی کریمؐ کو درپیش مرحلے کے پس منظر میں رکھ کر ان تفاسیر میں وارد قول راجح کے وجوہ و اسباب تلاش کرنا ہے۔
قول راجح کو اکثر --- نہ کہ ہمیشہ ---اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ متداول تفاسیر کے دائرے سے نہ نکلا جائے کیونکہ یہ امت کے متفق علیہ امور میں سے ہے ورنہ شاذ کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر قول راجح کسی وجہ سے اختیار نہ کرنا پڑے تو ان ہی تفاسیر کے کسی اور قول کو اختیار کر کے اسباب و وجوہ کو تلاش کیا جانا چاہیے جیسا کہ قول راجح کے سلسلے میں عمل کیا گیا تھا۔
۶- قرآنی الفاظ کا دل سے نکلنا: آخری اور فیصلہ کن مرحلہ وہ تلاوت قرآن پاک ہے جس کو ٹھیرٹھیرکر پڑھا جائے ‘اس طرح کہ پورے استغراق کی حالت میں قرآن پاک کے الفاظ دل سے نکلتے ہوئے محسوس ہوں۔ گویا صرف دماغ اور زبان سے الفاظ کا نکلنا کافی نہیں ہے بلکہ ان کا دل سے نکلنا ضروری ہے‘ خصوصاً ایسے دل سے جو یکسوئی اختیار کر چکا ہو اور وساوس سے یکسر پاک و صاف ہو چکا ہو۔
یہ اپنے نتیجے پر بھروسا پیدا کرنے کی ترکیب ہے تاکہ غلطی‘ غلط فہمی اور غلط روی کا کم سے کم امکان پایا جائے۔ انسان ہونے کے ناطے کوئی معصوم نہیں ہے الا معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کے۔
یہ مولانا مودودیؒ کے تفکر و تدبر کے چھ اصول ہیں۔ ان اصولوں کو انھوں نے تفہیم القرآن میںبرتا ہے۔ اس حقیقت کو ہر سورہ کے مقدمے میں عموماً اور مرکزی مضامین اور تاریخی پس منظر میں خصوصاً دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مولانا مودودیؒ نہ صرف ایک ’’صاحب دل‘‘ بلکہ ’’صاحب حال‘‘ آدمی بھی تھے!!
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔
شکر: ہر وقت ہمیں بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہوتی ہیں: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْھَا ط (ابراہیم ۱۴:۳۴) ’’اگراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گنو تو شمار نہ کر سکو گے‘‘۔ کچھ نعمتیں تو ایسی ہیں کہ کوئی چیز مل گئی جیسے رزق مل گیا‘ کپڑا مل گیا‘ مال مل گیا‘ ان کو وجودی نعمتیں کہتے ہیں۔ اور کچھ نعمتیں عدمی ہیں کہ چیز ہم سے دُور نہ ہوئی‘ مثلاً اس وقت ہم آرام سے بیٹھے ہیں چھت نہیںگری‘ دیوار نہیں گری‘ آسمان سے پتھر نہیں برس رہے‘ سانپ اور بچھو اور درندہ ہمیں نہیں ستا رہا‘ چور‘ ڈاکو حملہ نہیں کر رہے‘ کوئی زہرنہیں کھلا رہا‘ کوئی قتل نہیں کر رہا۔قبض نہیں ہے‘ بدہضمی نہیں ہے ‘ لقمہ گلے میں اَٹکا ہوا نہیں ہے‘ پانی گلے سے اُتر رہا ہے۔ ہاتھ پائوں‘ آنکھیں‘ کان کام کر رہے ہیں۔ ان سب نعمتوں کا پورا شکر تو ہم کر ہی نہیں سکتے لیکن جتنا کر سکتے ہیں ہم تو اتنا بھی نہیں کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ تو۲۴گھنٹوں میں ایک دفعہ بھی ہم الحمدللہ نہیں کہتے۔ کوئی کہے کہ نماز میں تو الحمدللہ پڑھا ہے‘ تو جواب یہ ہے کہ یہ چھلکے کے درجے میں شکر ادا کیا ہے‘ مغز کے درجے میں ادا نہیں کیا۔ مغز یہ ہے کہ نعمت کی اور نعمت دینے والے کی دل سے قدر ہو۔ کوئی بہت ہی پیارا دوست کوئی ہدیہ بھیجے اور پہلے وہ منہ نہ لگاتا تھا تو اس ہدیے کی کتنی قدر ہوتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے عمربھر اللہ تعالیٰ کے ایک ہدیے کی بھی قدر کی؟ حالانکہ ہر وقت نعمتوں کی بارش ہم پر ہو رہی ہے۔ اگرچہ نعمت پرجوش و خروش ہمارے اختیار میں نہیں‘ لیکن اس کے اسباب تو ہمارے اختیار میں ہیں‘ جیسے تحصیل دار لگ جانا تو ہمارے اختیار میں نہیں‘ اس کے اسباب جیسے امتحان پاس کرنا‘ درخواست دینا وغیرہ‘ یہ تو اختیار میں ہیں۔
ہم میں شکر کا کوئی درجہ نہیں ہے۔ نہ عقلی شکر ہم کرتے ہیں نہ طبعی۔ کیونکہ شکر کے لیے لازم ہے کہ نعمت دینے والے کے حق ادا کیے جائیں اور اس کی نافرمانی نہ کی جائے اور ہم صبح سے شام تک نافرمانی کر رہے ہیں۔ ہم نے صرف چند چیزوں کو ہی نافرمانی سمجھ رکھا ہے: چوری‘ زنا‘ غصب‘ قتل‘ شراب۔ حالانکہ گناہ ہاتھ سے بھی ہوتا ہے اور پائوں سے بھی‘ آنکھ سے بھی ہوتا ہے اور دل سے بھی‘ جیسے حسد‘ تکبر‘ حرص‘ حب مال و جاہ‘ کینہ۔
صبر: یہ تو شکر کا حال تھا۔ باقی رہا صبر‘ تو اس کے دو موقعے ہیں: ایک مصیبت‘ وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶)‘کہ خوش خبری دے دیں ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں‘ جب ان کو مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو سب اللہ تعالیٰ کے ہیں اور ان ہی کی طرف لوٹیں گے۔ یعنی وہ شکوہ شکایت نہیں کرتے اور ان کے دل میں حق تعالیٰ سے ناشکری اور حق تعالیٰ سے بے تعلّقی نہیں ہوتی۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ذرا سی تکلیف میں شکوہ شکایت زبان پر یا کم از کم دل میں آجاتا ہے۔ دوسرا موقع صبر کا عبادت ہے۔ تو نماز میں حال یہ ہے کہ خشوع و خضوع تو دُور کی چیز ہے‘ رکوع و سجدہ بھی ہماراٹھیک نہیں ہے۔ آپ کسی دوست سے کہیں کہ ہمیں ایک آدمی لا دو۔ وہ چارپائی پر ڈال کر ایک اندھا‘ گونگا‘ لنگڑا‘ ہاتھوں سے لنجا لا دے تو آپ خوش ہونے کی جگہ ناراض ہوں گے۔ ایسے ہی ہماری نماز سے اللہ تعالیٰ خوش ہونے کی جگہ ناراض ہوتے ہیں۔ اب یہ نہ کرو کہ چھوڑ دو‘ بلکہ اصلاح کرتے رہو‘ کرتے رہو یہاںتک کہ نماز اعلیٰ ہوجائے۔ پوری کوشش کے بعد جس درجے کی بھی نماز ہو جائے گی آقا قبول فرما لیں گے۔ فَاُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ (الفرقان ۲۵: ۷۰)۔ حسنات کی تفسیر حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ توبہ کی برکت سے وہ ہماری نماز کو‘جو گناہ کہلانے کے قابل ہے‘ عبادت ہی شمار فرما لیتے ہیں‘ جیسے غریب لوگ مٹی کے تربوز اور خربوزے تحفہ لاتے ہیں تو سخی رئیس ان کو ہی قبول کر لیتے ہیں۔ خشوع کی آسان صورت یہ ہے کہ ہر لفظ اور ہر رکوع اور سجدہ ذرا سوچ کر کر لے۔ شروع میں کچھ مشق ہو گی‘ پھر عادت سے آسانی ہو جائے گی۔ ایسے نہ پڑھیں جیسے گھڑی کو ایک دفعہ چابی دے دیتے ہیں‘ پھر وہ ۲۴ گھنٹے تک چلتی ہی رہتی ہے۔ چند دن ضرور مشق کرنی ہوگی۔ یہ نہیں کہ ایک دن میں مکمل ہو جائے ؎
صوفی نشود صافی تا در نہ کشد جامے
بسیار سفر باید تاپختہ شود خامے
صوفی صاف دل والا اس وقت تک نہیں ہو تا جب تک کہ مشقت کا پیالہ نہیں پیتا۔ پختہ ہونے کے لیے بہت سے سفر کی ضرورت ہے۔
مجذوب بن جانا کمال نہیں‘ سنت کی پیروی کمال ہے۔ ایک مجذوب نماز میں کھڑا ہوا جب تک آواز نہ آئی رکوع نہ کیا لیکن یہ کمال نہیں ہے۔ کمال صرف اتباع سنّت میں ہے۔ بیماری میں بھی درمیانہ درجہ یہ ہے کہ ضرورت کے وقت ظاہر کرے‘ ہر وقت نہ گاتا پھرے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار تھے۔ کسی نے حال پوچھا تو فرمایا: طبیعت اچھی نہیں۔ کسی نے کہا‘ آپ شکایت کرتے ہیں؟ فرمایا: کیا میں اللہ میاںکے سامنے پہلوانی کروں؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا تھا: اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ (یوسف ۱۲:۸۶)‘ کہ میں تو اپنے درد و غم کی شکایت صرف اللہ تعالیٰ سے کرتا ہوں۔
ہرحال میں صبروشکر: ہماری ایک حالت ایسی بھی ہے جس میں صبر اور شکر دونوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ موقع مصیبت ہی کا ہوتا ہے‘ مثلاً طبیب ناراض ہو گیا۔ وہ جلاب کی دوا لکھ کر نہیں دیتا ہے۔ کوشش کے بعد جب وہ راضی ہوا تو نسخہ لکھ دیا‘ تو اب ہم اس کے شکرگزار ہوں گے۔ اب یہاںتکلیف پر صبر بھی ہے اور طبیب کا شکر بھی ادا ہو رہا ہے۔ ایک طبیب کا تو ہم شکر ادا کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اگر جلاب دیں تو ہم شکر کیوں ادا نہیں کرتے؟ مصیبت روحانی جلاب ہے کیونکہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ بات احادیث سے ثابت ہے۔ کسی کا بچہ فوت ہو جائے تو اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جاتا ہے جس کا نام بیت الحمد رکھا جاتا ہے۔ اب یہ نام اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ موقع اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کا ہے‘ یعنی شکر کرنے کا ہے۔ اگر یہ صرف مصیبت ہی ہوتی تو نام بیت الصبر ہوتا۔
ایک دفعہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب ؒ مصیبت کے فوائد بیان فرما رہے تھے کہ یہ بھی ایک نعمت ہے۔ اتنے میں ایک آدمی آگیا جو درد کی وجہ سے آہ آہ کر رہا تھا۔ اس نے آکر کہا: حضرت بہت تکلیف ہے‘ دُعا فرمایئے کہ دُور ہو جائے۔ اب اگر وہ دعا نہ فرمائیں کہ ابھی جو بیان فرما رہے تھے کہ مصیبت بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے خلاف ہوگا تو اس آنے والے کی دل شکنی ہوتی۔ حضرت نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے کہ یااللہ بیماری بھی نعمت ہے لیکن ہم کمزور ہیں‘ بیماری کی نعمت کو صحت کی نعمت سے بدل دیجیے۔ پس جب بیماری اور مصیبت نعمت ہے تو یہ موقع صبر کا بھی ہے اور شکر کا بھی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اگر مصیبت ہے تو نعمت نہیں اور اگر نعمت ہے تو مصیبت نہیں‘ تو جواب یہ ہے کہ صورت کے لحاظ سے مصیبت ہے اور حقیقت کے لحاظ سے نعمت ہے۔ جیسے بیماری ہے کہ درد کو دیکھیں تو مصیبت ہے‘ اگر یہ دیکھیں کہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں‘ تو نعمت ہے۔ یہ دیکھیں کہ اس سے نفس میں تہذیب پیداہوتی ہے تو اس لحاظ سے بھی نعمت ہے۔ اسی طرح راحت ظاہری طور پر نعمت ہے اور شکر کا موقع ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے یہ صبر کا موقع ہے۔ کسی کے پاس مال آیا‘ اب شکر کا موقع ہونا تو بالکل ظاہر ہے۔ لیکن یہ صبر کا بھی موقع ہے کہ شریعت کی حد سے آگے خرچ نہ کرے اور بہت زیادہ خوشی کا اظہار بھی نہ کرے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ مصیبت میں شکر بھی واجب ہے اور صبر بھی۔ راحت میں صبر بھی واجب ہے اور شکر بھی‘ اور عبادت میں بھی صبراور شکر دونوں واجب ہیں۔ میری یہ بات الحمدللہ ثابت ہوگئی کہ صبر اور شکر ہر وقت واجب ہیں۔ اگر کسی کو شبہ ہو کہ ہر وقت صبر اور شکر ضروری ہے تو ہر وقت صرف الحمدللہ اور اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھیں‘ نماز روزہ وغیرہ کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ اس شبے کی وجہ سے میں یہ نہ کہوں گا کہ مجھ سے غلطی ہوئی‘ صبر اور شکر ہر وقت ضروری نہیں۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ صبر اور شکر صرف اناللہ پڑھنے کا اور الحمدللہ پڑھنے کا نام نہیں ہے۔ صبر کیا ہے؟ نفس کو روکنا۔ یہ روکنا نماز میں بھی ہے‘ روزے میں بھی ہے اور ہر عبادت میں ہے۔ شکر کے معنی قدردانی کے ہیں۔ اناللہ پڑھنا صورت ہے صبر کی‘ اور الحمدللہ پڑھنا صورت ہے قدردانی کی۔ پس نماز میں صبر بھی ہے شکر بھی ہے۔ روزے میں صبر بھی ہے شکر بھی۔ حج میں صبر بھی ہے شکر بھی ہے۔
خوف اور محبت کی کیفیت: اس ساری تقریر سے آپ کی سمجھ میں یہ تو آگیا ہوگا کہ صبر اور شکر کی ہر وقت ضرورت ہے۔ اب یہ سمجھیے کہ ہر وقت ہم صبروشکر کیسے کریں؟ اس مقصد کے لیے آپ کو دو چیزوں کی اور ضرورت پیش آئے گی۔ ایک اللہ تعالیٰ کا خوف و خشیت‘ اور دوسرے اللہ تعالیٰ سے محبت۔ جب خشیت ہوگی تو نفس کو آپ ایک حد پر لے جا کر روک سکیںگے۔ یہ صبر پایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی تو اس نعمت دینے والے آقا کی خوب قدر کرو گے اور یہ شکر ہے۔ اگر خوف اورمحبت نہ ہوں گے تو صبر اور شکر بھی نہ ہوں گے۔ کیونکہ اگر محبت نہ ہو‘ صرف خوف ہو تو نعمت ملنے سے لذت نہ آئے گی تو شکر ادا نہ ہوگا۔ اگر صرف محبت ہو‘ ساتھ خوف نہ ہو‘ تو محبت کی وجہ سے ناز پیدا ہو جائے گا اور نفس حد پر جا کر نہ رُکے گا بلکہ حد سے آگے نکل جائے گا اس لیے صبر پیدا نہ ہوگا۔
اگر کوئی یہ کہے کہ ایک ہی شخص سے محبت بھی ہو اور اسی سے خوف بھی ہو‘ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جواب یہ ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ناراضی کا خوف بھی ہوتا ہے۔ دونوں جمع ہو جاتے ہیں۔
صبروشکر کا طریقہ: اب یہ سمجھیے کہ خوف اور محبت پیدا کیسے ہوں گے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ متعین وقت روزانہ نکالو۔ اس میں سے آدھا اپنی نافرمانیوں کو اور ان کی سزائوں کو سوچو کہ اس گناہ کی یہ سزا ہے‘ اس گناہ کی یہ سزا ہے‘ خطرہ ہے کہ فرشتے گھسیٹ کر دوزخ میں لے جائیں‘ اور دوسرے آدھے میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں سوچو۔ سزائیں سوچنے سے خوف پیدا ہوگا اور نعمتیں سوچنے سے اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا ہوگی۔ یہ تو طریقہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا خوف کیسے پیدا ہو۔ اب یہ سمجھیے کہ پیدا ہونے کے بعد یہ دونوں چیزیں محفوظ کیسے رہیں۔ محفوظ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ ۱۵ منٹ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزاریں اور ۱۵ منٹ اہل اللہ کی صحبت اور خدمت میں گزاریں۔ ان دونوں کاموں سے صبر اور شکر محفوظ رہیں گے بلکہ ان میں ترقی ہوگی اور صبروشکر کا اعلیٰ درجہ پیدا ہوگا اور پھر اس آیت کا فائدہ آپ کو معلوم ہوگا: اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍo (ابراہیم ۱۴:۵) ’’ اس میں البتہ نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو بہت صبر کرنے والا بہت شکر کرنے والا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب چیزوں پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔ آمین! (تلخیص: مولانا صوفی محمد سرور۔ تدوین: مسلم سجاد) (بہ شکریہ ماہنامہ الحسن‘ جون ۲۰۰۱ء)
پروپیگنڈا دراصل نفسیاتی جنگ کا ہتھیار ہے۔ دشمن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پروپیگنڈے کے ذریعے خوف اور ہیجان کی کیفیت پیدا کر کے فرد یا اجتماع کے رویّے میں حسب خواہش تبدیلی لائے۔ ذہنی تنائو کی اس کیفیت کو انگریزی میں نفسیاتی جنگ (psychological warfare)اور جدید عربی اصطلاح میں ’’الحرب النفسیۃ‘‘ کہا جاتا ہے (اسلام اور ذرائع ابلاغ‘ استاد فہمی قطب الدین النجار‘ ترجمہ: ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی‘ ص ۴۴)۔ اس جنگ میں توپ و تفنگ استعمال نہیں ہوتے بلکہ یہ جنگ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ دنیا میں پروپیگنڈے پر خوب رقم خرچ کی جاتی ہے اور اس سے وہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں جو عملی جنگ سے حاصل نہیں ہوتے۔ پروپیگنڈے کی غرض و غایت مدِّمقابل کو ذہنی شکست سے دوچار کر کے اس کے حوصلے پست کرنا ہوتا ہے(ابلاغ عام‘ مہدی حسن‘ ص ۱۵۴‘ مکتبہ کارواں‘ لاہور)۔پروپیگنڈے کی تہہ میں نظریاتی‘ معاشی اور سیاسی مفادات اور احساسِ کمتری پیدا کرنے کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ ایک بھرپور جنگ ہوتی ہے مگر آتشیں اسلحے کے بغیر لڑی جانے کے سبب اس کو ’’سرد جنگ‘‘ یعنی cold warکا نام دیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا‘ مقاصد اور طریقہ کار کا حسن و قبح اِسے مثبت یا منفی بنا دیتا ہے۔
اگرچہ پروپیگنڈے کی اصطلاح ۱۶۲۲ء میں پہلی دفعہ ایک عیسائی مشن کے لیے استعمال ہوئی جو روم سے باہر تبلیغی مقاصد کے لیے گیا تھا اور وہاں کی حکومت ان عیسائیوں کے مخالفانہ خیالات کی تشہیر سے خائف تھی‘ تاہم مذہبی حوالے سے بھی پروپیگنڈے کا وجود نہایت قدیم اور ازلی ہے۔ شیطان نے پروپیگنڈے کے
ہتھیار سے حضرت آدم ؑ اور ان کی بیوی حوا کو اُس شجر ممنوعہ سے پھل کھانے پر آمادہ کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے انھیں منع فرمایا تھا۔
پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے شواہد قبل از اسلام تاریخ میں ملتے ہیں۔ قبائل کے سرداران اور عمائدین دشمنوں میں فتنہ انگیزیاں کرنے‘ آپس میں پھوٹ ڈالنے ‘ دوسروں کے لیے خود کو پرہیبت اور طاقت ور ظاہر کرنے کے لیے متعدد حیلے اور طریقے استعمال کرتے تھے۔
انبیا علیہم السلام کے خلاف‘ جو اللہ کی طرف سے خبر پہنچانے اور رسالت پر مامور تھے‘ پروپیگنڈے کا حربہ بنی اسرائیل نے اپنایا۔ کفار و فجار کی طرف سے پیغام ربانی کو بے اثر کرنے کے لیے نفسیاتی حربوں کے آثار تاریخ میں ملتے ہیں اور قرآن جگہ جگہ اقوامِ سابقہ کی اِن افترا پردازیوں کی وضاحت کرتا ہے۔ خود جزیرہ عرب کے اندر مشرکین‘ یہود اور منافقین نے خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبردست نفسیاتی جنگ برپا کر رکھی تھی۔ منفی پروپیگنڈے‘ آیات الٰہی کی تکذیب اور دھمکیوں کا ایک طوفان تھا۔ حضورؐ اور اُن کے صحابہؓ کو خوف زدہ کرنے اور لالچ دینے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے گئے۔
قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ o (حٰمٰ السجدۃ ۴۱:۲۶)
یہ منکرین حق کہتے ہیں ’’اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو‘ شاید کہ اسی طرح تم غالب آجائو‘‘۔
وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً نِ اَوْ لَھْوَنِ انْفَضُّوْآ اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o (الجمعہ ۶۲:۱۱)
اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو ‘ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
علامہ شبلی ؒ فرماتے ہیں: ’’عربوں میں شاعری کا وہ اثر تھا جو آج یورپ میں بڑے بڑے دانش وروں کی تقریروں اور نامور اخبارات کی تحریروں کا ہوتا ہے‘‘ (ایضاً)۔ جب نظام ابلاغ اسلامی نے باطل کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کا فیصلہ کیا تو راے عامہ سے اسلام کے خلاف منفی اثرات کو ختم کرنے اور مثبت اثرات مرتب کرنے میں حضرت حسان ؓبن ثابت، حضرت عبداللہ ؓبن رواحہ ، کعبؓ بن مالک، حضرت ثابتؓؓبن قیس نے وہ اہم کردار ادا کیا جو آج کل کے مسلم صحافیوں کے لیے نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔
کفار اور مشرکین نے اپنے آبا و اجداد کے دین پر تعصب اور ناحق طرف داری کے سبب نہ صرف آسمانی صداقت اور بے لاگ حقیقت کو ٹھکرا دیا بلکہ اس کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کی بھینٹ چڑھانے کی
اَن تھک کوشش کی۔ حق و باطل کے ابلاغ میں اُس دَور کے ماہرین ابلاغ کی مسابقت کی کوششیں برابر جاری رہیں مگرغلبہ بالآخر حق اور صداقت کا ہوا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ابن خلدون اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’دورِ اسلامی کے شعراے عرب کا کلام بلاغت و فصاحت میں شعراے جاہلیت کے کلام سے کیوں بلند اور ارفع ہے؟ نظم کی طرح نثر میں بھی یہی حال ہے۔ اسی لیے حسان بن ثابتؓ، عمر بن ابی ربیعہ‘ حطیہ‘ جریر‘ فرزدق‘ نصیب‘ عیلان‘ ذی الرمّہ‘ احوص ‘ بشار کے اشعار‘ خطبات اور عبارات و محاورات (یعنی صحافت اور ادب) کا پلّہ نابغہ‘ عنترہ‘ ابن کلثوم‘ زہیر‘ علقمہ بن عبدہ‘ طرفہ بن العبد کے کلام سے بہت اونچا ہے۔ صاحب نظر شخص کا ذوقِ سلیم خود اس فرق کو محسوس کر لیتا ہے۔ اس حقیقت کی وجہ یہ ہے کہ دورِ اسلامی کے ماہرین ابلاغ کو خوش قسمتی سے قرآن و حدیث کے معجزانہ کلام کا اسلوب سننے کا اتفاق ہوا اور اُن کی طبائع میں یہ اسلوب رچ بس گیا۔ اس لیے وہ آسمانِ بلاغت کے ستارے بن کر چمکے‘‘۔ (مقدمہ ابن خلدون‘ ترجمہ: مولانا سعد حسن خان‘ ۴۹ ویں فصل‘ مطبع جاوید پریس‘ آرام باغ‘ کراچی)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف یہودیوں کے پروپیگنڈے کے سبب قریش کا جوشِ انتقام اس حد تک بھڑک اُٹھا کہ قریش نے بنونظیر کو پیغام بھیجا کہ ’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دو ورنہ ہم خود آکر تمھارا استیصال کر دیں گے‘‘۔ (سیرت النبیؐ از مولانا شبلی نعمانی‘ ج ۱‘ ص ۴۰۹)
ابن جریر طبریؒ فرماتے ہیں: کعب بن اشرف یہودی کفارِ قریش کے مشرکوں کے پاس گیا اور ان کو نبیؐ کے خلاف ہمت دلائی اور اُن کو آمادہ کیا کہ وہ آپؐ کے خلاف جنگ کریں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری‘ ج۵‘ ص ۷۹)
جہاں تک کعب کے پروپیگنڈے کا تعلق تھا تو صحابہؓ اور شاعرہ صحابیاتؓ نے اشعار ہی میں ان کے جوابات دیے۔ مگر اس یہودی نے عین اس وقت جب جنگ بدر کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی دوبارہ جنگ کی آگ بھڑکانے کی علانیہ سازشیں شروع کر دیں اور مکہ جا کر قریش کو آمادئہ جنگ کیا۔ اس پر حضورؐ نے اذنِ الٰہی سے مداخلت کی اور کعب بن اشرف کو قتل کر دیا گیا۔ (تاریخ ابن ہشام‘ ج ۲‘ ص ۵۲-۶۰)
اس واقعہ کے بعد یہودی قبائل سخت مرعوب ہو گئے ۔پروپیگنڈے اور افواہوں کے پھیلانے میں یہودیوں اور قریش مکہ کے ساتھ مدینہ کے منافقین بھی پیش پیش تھے۔ بنونظیر کو جب حضورؐ نے مدینہ سے جلاوطن کیا تو دوسرے یہودی قبیلہ بنوقریظہ نے بنونظیر کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنونظیر اپنے آپ کو اونچی ذات کے یہودی تصور کرتے تھے اور اپنے مقتولوں کا پورا خون بہا لیتے تھے‘ جب کہ بنوقریظہ کے مقتول کی دیت آدھی ہوتی تھی۔ آنحضورؐ نے بنوقریظہ پر یہ احسان کیا کہ دیت اور دوسرے معاملات میں ان کو بنونظیر کے برابر قرار دیا۔ مدینہ کے منافقین نے بنونظیر کی جلاوطنی کے وقت اُن کو پیغام بھیجا کہ عبداللہ بن ابی دو ہزار آدمیوں کے ساتھ اُن کی امداد کرے گا۔ قرآن نے یہود اور منافقین کی اس گٹھ جوڑ کی طرف اِن الفاظ میں اشارہ کیا:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِھِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلاَ نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا لا وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ ط (الحشر ۵۹:۱۱)
تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنھوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے؟ یہ اپنے کافر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں ’’اگر تمھیں نکالا گیا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے‘ اور تمھارے معاملے میں ہم کسی کی بات ہرگز نہ مانیںگے‘ اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمھاری مدد کریں گے‘‘۔
کفر کی اس ملّت واحدہ کا اہل ایمان کے خلاف درپردہ سازشوں کا سلسلہ عرصے سے جاری تھا۔ اس لیے منافقین مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے اور پروپیگنڈے کے ذریعے بدگمانیاں پھیلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے حالانکہ بنونظیر کا حضورؐ نے جب محاصرہ کیا تو یہودیوں نے منافقین کی مدد کا انتظار کیا مگر عبداللہ ابن ابی اپنے گھر میں دبک کر بیٹھ گیا۔ سلام بن مشکم اور کنانہ نے حّی بن اخطب سے پوچھا‘ بتائو بھائی! کہاں ہے ابن ابی اور کہاں ہیں اس کی فوجیں اور اس کے حلیف؟ حّی نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’ہماری تقدیر میں یہ جنگ اور بربادی لکھی تھی‘ اس سے اب کوئی مفر نہیں‘‘ (ضیاء النبیؐ‘ پیر محمد کرم شاہ الازہری‘ ج ۳‘ ص ۶۰۶‘ ضیا القرآن پبلی کیشنز‘ لاہور)۔ بنونظیر کی جلاوطنی کا واقعہ غزوئہ احد کے بعد وقوع پذیر ہوا‘ جب کہ غزوئہ بدر اور غزوئہ احد کے درمیان ۳۸۰ دن کا فصل ہے۔ جنگ بدر ۱۷ رمضان۲ھ بمطابق ۱۵مارچ ۶۲۴ء کو لڑی گئی تھی اور اُحد کے میدان میں حق و باطل کا معرکہ ۱۵ شوال ۳ھ بمطابق ۳۱ مارچ ۶۲۵ء کو پیش آیا تھا(الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلّم‘ محمد رفیق ڈوگر‘ ج ۲‘ ص ۳۸۳)۔ غزوئہ احد کے دوران یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ رسولؐ اللہ قتل کر دیے گئے۔ حضرت انس ؓ بن نضر نے اس مخالفانہ پروپیگنڈے کے جواب میں یہ موقف اختیار کیا :پھر زندگی کا فائدہ کیا؟ اور بے جگری سے لڑ کر شہید ہوئے۔
پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے دوران منافقین مختلف اصطلاحات اور طنزیہ الفاظ کا سہارا لیتے تھے۔ ان میں سے ایک اصطلاح انصار کے لیے ’’عزت دار‘‘ (اعز) اور مہاجرین کے لیے ’’ذلیل‘‘ یعنی (اذل) کی اصطلاح وضع کی گئی۔
شعبان ۶ھ میں حضورؐ کو بنی المصطلق کی جنگ کے لیے تیاریوں کی اطلاع ملی۔ ایسی اطلاعات کی بروقت وصولی کے لیے حضورؐ خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔خبر ملتے ہی حضورؐ ایک لشکر لے کر اُن کی طرف روانہ ہوئے تاکہ فتنے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جائے۔ ابن سعد کے بیان کے مطابق مریسیع کے مقام پر آنحضرتؐ نے اچانک دشمن کو جا لیا اور تھوڑے سے مقابلے کے بعد پورے قبیلے کو مال و اسباب سمیت گرفتار کر لیا۔ ابھی لشکر اسلام مریسیع کے مقام پر ہی پڑائو ڈالے ہوئے تھا کہ ایک روز حضرت عمرؓ کے ایک ملازم جہجاہ بن مسعود غفاری اور قبیلۂ خزرج کے ایک حلیف سنان بن وبرجہنی کے درمیان پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک نے انصار کو پکارا تو دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ دو گروپوں کے درمیان لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی خزرجی نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بات کا بتنگڑ بنایا اور انصار کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کر دیا:’’یہ مہاجرین ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ہمارے حریف بن بیٹھے ہیں۔ ہماری اور ان قریشی کنگلوں کی مثال ایسی ہے کہ ’’کتے کو پال تاکہ تجھی کو بھنبھوڑ کھائے‘‘ --- یہ سب کچھ تمھارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم ہی لوگوں نے ان کو اپنے ہاں لابسایا اور مال و جایداد میں حصے دار بنایا۔ آج اگر تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظرآئیں۔ پھر اُس نے قسم کھا کر کہا: ’’مدینے واپس پہنچنے کے بعد جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کرے گا‘‘۔
قرآن نے اُن کی اس گفتگو کی شہادت دی:
یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ ط (المنٰفقون۶۳:۸)
یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں اس پروپیگنڈے کا جواب دیا‘فرمایا:
وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (المنفٰقون ۶۳:۸)
حالاں کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے‘ مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔
یہ بھی فرمایا گیا:
ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ط (المنٰفقون۶۳:۷)
یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہو جائیں۔
اس پروپیگنڈے کے پس منظر میں مسلمان مہاجرین کا معاشی مقاطعہ اور اُن کو دیوالیہ کرنا مقصود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بڑائی اور کمتری‘ عزت اور ذلت کے جس تصور کا ابلاغ منافقین کر رہے تھے اور انصار کی معاشی بالادستی اور مہاجرین کی مالی احتیاج کا جس انداز سے اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے استحصال کرنا چاہتے تھے‘ اس کے پس پردہ محرکات نہایت شر انگیز تھے۔ اُن کے نزدیک اللہ اور اس کے رسُول ؐپر ایمان کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ جس کے لیے معاشی مفادات کو دائو پر لگا دیا جائے۔ ان کا مطمح نظر دنیوی آسایش اور بہتر ’’معیار زندگی‘‘ تھا۔ وہ ’’ترقی یافتہ‘‘ کو عزت دار اور معزز اور غربت کے مارے ہوئے غریب یا ’’ترقی پذیر‘‘ افراد کو ذلیل اور کم تر تصور کرتے تھے اور دو مسلمانوں کی چپقلش سے فائدہ اٹھا کر منافقین اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے اہل ایمان کو بہت بڑے فتنے سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور مہاجر مسلمانوں کو ذلیل اور کمتر کے القاب سے نواز کر معاشی پس ماندگی کے سبب احساسِ کمتری میں اُن کو مبتلا کرنا مقصود تھا۔
وہ اس نفسیاتی جنگ کے حربے کے ذریعے مسلمانوں کو نفسیاتی دبائو میں رکھنا چاہتے تھے۔ ان منفی عزائم کے باوجود منافقین کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ جب حضرت زید بن ارقم ؓ نے سن کر یہ باتیں حضورؐ کو بتا دیں تو منافقین نے حضرت زید بن ارقم ؓ کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ زیدؓ ذاتی دشمنی کی بنیاد پر یہ افواہ پھیلا رہے ہیں۔ خود ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے منفی عزائم کو درپردہ رکھ کر حضرت زیدؓ کی حقیقت بیانی کو ڈِس انفارمیشن‘ افواہ اور جھوٹا پروپیگنڈاقرار دینا چاہتے تھے۔مگر اللہ نے اصل حقیقت کا پردہ اس آیت سے چاک کر کے رکھ دیا اور اُن کے اپنے الفاظ دہرا کر منافقین کے اس راز کو فاش کر دیا جس کو وہ چھپانا چاہتے تھے۔ اس پر حضور ؐ نے حضرت زید بن ارقمؓ سے کہا کہ اللہ نے تیری سچّی خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ اس طرح حضرت زیدؓ کا وہ ذہنی دبائو بھی ختم ہو گیا جو ہر سچّے رپورٹر یعنی راوی کو اُس کی سچّی خبر کو جھٹلانے پر ہوا کرتا ہے۔
یوں صدق کے علم بردار پیغمبر صادق اور ان کے پیروکاروں کو ہر قسم کی جسمانی اور ذہنی تعذیب و تکذیب سے گزارا گیا تاکہ سچ اور سچائی کے پیغام کو پھیلنے نہ دیا جائے مگر اللہ کا فیصلہ تھا کہ سچائی کی روشنی کو ظالموں کی افواہوں اور پروپیگنڈے سے روکا نہیں جا سکے گا۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلاَمِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ ط وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۷-۸)
اب بھلا اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سراطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جا رہی ہو؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
منافقین اور خاص طور پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کی نیچ حرکت کا پول کھلنے کے بعد حضرت عمرؓ بے تاب ہو گئے اور حضورؐ سے اجازت مانگی کہ منافق کی گردن اڑا دیں۔ آپؐ نے فرمایا: اے عمرؓ! کیا تم یہ چرچا پسند کرتے ہو کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیا کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری ‘ ص ۷۲۸)
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ افواہ سازی کے جرم میں دین کسی کے خلاف پرتشدد کارروائی کی اجازت نہیں دیتا‘ چاہے پس پردہ منافقین طشت از بام ہی کیوں نہ ہوں۔ حکمت عملی کے لحاظ سے بھی پروپیگنڈے کا پرتشدد جواب دینے سے اُن مقاصد کی تکمیل کی راہ ہموار ہوتی ہے جو افواہ کی تہہ میں کارفرما ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ رئیس المنافقین کے فرزند حضرت عبداللہؓ نے‘جو ایک مخلص مسلمان تھے‘حضورؐ کے پاس آکر گزارش کی کہ ’’اگر آپؐ اجازت دیں تو میں خود ہی اپنے باپ کا کام تمام کر دوں؟‘‘ تو آپؐ نے اطمینان دلایا کہ قتل کے بجائے میں اُس پر مہربانی کروں گا۔ یہاں تک کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو حضورؐ نے اس کے جنازے میں شرکت کی اور جنازے پر ڈالنے کے لیے اپنی چادر پیش کر دی(تفہیم القرآن‘ جلد ۲‘ ص۲۲۰)۔یہ اُن لوگوں کے ساتھ رحمت للعالمینؐ کا سلوک تھا جو دعویٰ ایمان میں سچّے اور مخلص نہ تھے اور آپؐ کو اذیت پہنچاتے رہے۔
تہمت‘پروپیگنڈے اور افواہ سازی کی بدترین کارروائی جو آنحضرتؐ کے خلاف کی گئی وہ افسانۂ افک تھا جو غزوہ بنی المصطلق کے سفر کے دوران پیش آیا۔منافقوں کے سرغنہ عبداللہ بن اُبی کو پروپیگنڈے کا یہ زریں موقع ہاتھ آیا اور اس نے حضرت عائشہؓ اور حضرت صفوانؓ پر بدکاری کی تہمت لگائی‘ اور حسد اور نفاق کی چنگاری سے افواہوں کی آگ خوب بھڑکائی۔ جب حضورؐ مدینہ آئے تو تہمت تراشوں نے خوب جم کر پروپیگنڈا کیا۔ جھوٹ اور افواہ کس تیزی سے پھیلتی ہے‘ اس کا اندازہ واقعہ افک سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس افواہ اور تہمت کی بازگشت سے مسلم معاشرے میں ہلچل مچ گئی اور کئی مخلص مسلمان بھی جھوٹ اور پروپیگنڈے کے اس زور سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس جھوٹ کا مصنف عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھ زید بن رفاعہ تھا جو یہودی منافق کا بیٹا تھا‘ مگر اس سے متاثر ہونے والے مخلص مسلمانوں میں حضرت مسطح ؓبن اثاثہ،حضرت حسانؓ بن ثابت اور حضرت حمنہؓ بنت جحش پیش پیش تھے۔ اس بے بنیاد خبر سے عام مسلمانوں اور خود آنحضورؐ کو سخت ذہنی کوفت ہوئی۔آپؐ خاموش تھے اور وحی کے منتظر تھے مگر دیر تک وحی نہ آئی۔
ام المومنین کے خلاف یہ جھوٹی خبراس انداز سے پھیلائی گئی کہ مسلم معاشرے کی راے عامہ بدظن ہونے لگی تھی۔ اس لیے حضورؐ نے سروے کے طور پر چند مرد اور چند خواتین کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ اس افک کے پھیلانے میں بدقسمتی سے زوجۂ رسولؐ حضرت زینبؓ بنت جحش کی بہن حضرت حمنہؓ بنت جحش بھی ملوث تھیں۔ اس لیے آنحضورؐ نے حضرت زینبؓ سے بھی دریافت کیا ’’تمھاری کیا رائے ہے؟ تمھاری معلومات کیا ہیں؟ انھوں نے عرض کی: احمی سمعی وبصری واللّٰہ ما علمت علیھا الاخیرا‘ میں اپنے کانوں اور آنکھوں (یعنی سمع و بصر) کی حفاظت کرتی ہوں ۔ خدا کی قسم میں عائشہؓ کے بارے میں خیر ہی خیر جانتی ہوں (تاریخ خمیس‘ ج۱‘ ص ۴۷۷۔ ضیاالنبیؐ ‘ ج ۳‘ ص ۶۵۲)۔ یہ اُس سوکن کی گواہی تھی جس کے بارے میں خود حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ازواج رسولؐ میں سب سے زیادہ زینب سے ہی میرا مقابلہ رہتا تھا۔
اس خلاف حقیقت الزام تراشی پر صحابہ کرامؓ اپنی نجی محفلوں میں بھی گفتگو کرتے تھے ‘ایک ماہ تک اس خبر کی بازگشت اور اس پر ردّعمل کا اظہار ہوتا رہا ‘کیونکہ رسولؐ اللہ کی شخصیت اتنی عظیم تھی کہ آپؐ کا فرمان ’’اہم ترین خبر‘‘(breaking news) کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے آپؐکے خلاف خبر کی اشاعت بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔
اس واقعے سے سخت کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ حضرت صفوانؓ نے بقول ابن ہشام ‘حضرت حسانؓ بن ثابت پر قاتلانہ حملہ کیا مگر حضورؐ نے مصالحت کرا کر معاملہ رفع دفع کر دیا۔ یہ افترا پردازی اور سیکنڈل کی خبر اپنی عین فطرت کے مطابق ایک زبان سے دوسری زبان پر چڑھتی اور پھیلتی جا رہی تھی‘ بالآخر اللہ تعالیٰ نے خود ہی حقیقت حال کھول کر رکھ دی۔ علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں: ’’محققین کی رائے کے مطابق حضرت یوسف ؑپر تہمت ِزنا لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک شیرخوار بچے کی زبان سے آپ کی برأت کی۔ حضرت مریم ؑپر الزام لگایا گیا تو عیسٰی ؑ جوابھی چند دنوں کے بچے تھے انھوں نے آپ کی برأت کی ۔مگر جب منافقین نے حضرت عائشہؓ کو اپنے پروپیگنڈے اور صریح بہتان کا موضوع بنایا اور ہرزہ سرائی کی جسارت کی تو خود ربّ کائنات نے آپ کی پاکیزگی اور طہارت کی شہادت دی اور سورۃ النور کی ابتدائی ۱۰ آیات جس کا براہِ راست تعلق اس واقعے سے ہے‘ نازل فرمائیں۔ (سیرت ابن ہشام‘ ج ۲‘ ص ۳۰۴)
افک کے معنی قطعی جھوٹ‘ افترا اور خلاف حقیقت بات ہے۔ اور اگر یہ الزام تراشی کے طور پر بولاجائے تو اس کے معنی سراسر بہتان کے ہوتے ہیں۔کسی بھی شریف زادی کے خلاف جھوٹے سیکنڈل اور منفی پروپیگنڈے کے ردّعمل میں جو آئیڈیل معاشرتی رویہّ ہو سکتا ہے ‘ ایک اسلامی معاشرے میں وہ یہی رویہّ ہے جس کی قرآن نشان دہی کرتا ہے۔ اگر اہل ایمان صبرو تحمل اور حسنِ ظن سے کام لیں اور پروپیگنڈے کی رَو میں بہنے کے بجائے افواہوں کا سدّباب کریں تو خفیہ دشمن وہ مقاصدحاصل نہیں کر سکتا جو مسلمانوں کو نفسیاتی اُلجھن‘افتراق اور آپس کی بدگمانیوں میں مبتلا کر کے اور اُن کا عمومی تاثر خراب کر کے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سورہ النور میں اس واقعے کو غیر معمولی قرار دیا گیا: اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ھَیِّنًا ق وَّھُوَ عِنْدَاللّٰہِ عَظِیْمٌ o (النور ۲۴:۱۵) ’’(ذرا غور تو کرو‘ اُس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے) جب کہ تمھاری ایک زبان سے دُوسری زبان اِس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمھیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے‘ حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی‘‘۔
اس انتباہ کے ساتھ ہی قرآن نے معاً یہ نصیحت بھی کر دی:
وَلَوْلْآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّا یَکُوْنَ لَنَآ اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌo یَعِظُکُمْ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٖٓ اَبَدًا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (النور ۲۴: ۱۶-۱۷)
کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ’’ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا‘ سبحان اللہ‘ یہ تو ایک بہتان عظیم ہے‘‘۔ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آیندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا ‘ اگر تم مومن ہو۔
مسلمانوں کے آپس میں حسنِ ظن کی مزید تاکید یوں کی گئی:
لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْکٌ مُّبِیْنٌo لَوْلاَ جَآئُ وْعَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاِذْلَمْ یَاْتُوْا بِالشُّھَدَآئِ فَاُولٰئِکَ عِنْدَاللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَo (النور ۲۴:۱۲-۱۳)
جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟ وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں) چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں‘ اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے کے مرد و زن کا آپس میں نیک گمان اور حسنِ ظن ایک ایسی ڈھال ہے جس سے ٹکرا کر تمام بے بنیاد افواہوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ چاہے پس پردہ مکار دشمن کا سرمایہ‘ منصوبہ اور وسائل کا زور ہی کیوں نہ ہو۔ اگر مسلمانوں کے نظریاتی دشمنوں کی من گھڑت خبریں اور گمراہ کن افواہیں ہماری زبان اور ہمارے قلم پر نہ چڑھ جائیںتو پھر کیا مجال کہ یہ شر پھیل کر ہمارے دلوں میں کدورتوں اور ہماری صفوں میں انتشار کو جنم دے؟ لہٰذا ہمیں فکر دشمن کی افترا پردازیوں کی نہیں بلکہ اپنے ذرائع ابلاغ کے کردار اور اپنے معاشرتی رویّے کی ہونی چاہیے۔ اسی وجہ سے اسلام نے اسلامی معاشرے پر یہ حکم نافذ کر دیا کہ زنا کی تہمت بذریعہ تقریر و تکلم لگائی جائے یا بذریعہ تحریر و تصویر‘ بہرصورت الزام تراشی کرنے والے کو چار گواہوں کے ساتھ ثبوت پیش کرنا ہوگا ورنہ ’’حدِّقذف‘‘ کے تحت ۸۰ کوڑوں کی سزا بھگتنا ہوگی۔اس طرح اشاعت فحش کے تمام وسائل و ذرائع کا سدّباب کرنا بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ مسلم معاشرے کے اندر دوسروں کی عزت سے کھیلنا کوئی تماشا نہیں جسے تفریح طبع کے لیے ڈرامائی اور رومانوی شکل دی جائے بلکہ اللہ کے نزدیک یہ جرم عظیم ہے۔ اس لیے ریاست کی قوتِ قاہرہ سے اس کو روکنا ضروری ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہتک عزت کی ایسی سزائوں کے نظائراور شواہد موجود ہیں (ملاحظہ ہو‘ البدایۃ والنہایۃ‘ حافظ ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۸۱-۸۲)۔ قرآن نے اسلامی معاشرے میں اشاعت فحش کے ذمہ داروں کی ان الفاظ میں تنبیہ کی: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط (النور ۲۴:۱۹) ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں‘‘۔ یہ آیت میڈیا پالیسی کے خدوخال کا تعین کرتی ہے۔
واقعہ افک اسلامی تمدّن میں قوانین اور ضوابط میں اضافے کا موجب بن گیا۔ معاشرتی زندگی‘ قذف‘ لعان‘ اشاعت فحش کے قوانین کے علاوہ پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے حکمت عملی بتائی گئی تاکہ دشمن کا شر مسلمانوں کے لیے خیرثابت ہو جائے۔
شریعت اسلامی کفار اور منافقین کے پروپیگنڈے کے ردّعمل میں معاشرتی رویّے اور اسلامی مملکت کے شہریوںکے جرائم پر عمومی قابل تنفیذ احکام میں واضح تفریق کرتی ہے۔ سورہ یونس میں ارشاد ہوا: فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَo (یونس ۱۰:۱۱) ’’ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے‘ اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھوٹ دے دیتے ہیں‘‘۔ دوسری جگہ پر حضورؐ کو حکم ہوا: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا اَذًی کَثِیْرًا ط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۶) ’’تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے‘ اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے ‘‘۔یہ بھی فرمایا گیا: فَمَھِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْھِلْھُمْ رُوَیْدًا o (الطارق ۸۶:۱۷)’’پس چھوڑ دو اے نبیؐ، اِن کافروں کو اک ذرا کی ذرا اِن کے حال پر چھوڑ دو‘‘۔ یعنی کفر و نفاق کے پیروکاروں کو فوری سزا دلوا کر اسلام اُن کی اخروی سزا میں کمی نہیں کرنا چاہتا بلکہ اُن کو ڈھیل دینا چاہتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت حسان ؓبن ثابت، حضرت حمنہؓ بنت جحش اور حضرت مسطح ؓبن اثاثہ کو باضابطہ قذف کی سزائیں دی گئیں اور زید بن رفاعہ اور رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کو حضورؐ نے کوئی سزا نہیں دی۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کو جذباتی ہونے سے روک دیا گیا۔ حضورؐ کی اس حکمت عملی کا یہ نتیجہ نکلا کہ عبداللہ بن اُبی اپنے معاشرے میں نکو بن کر رہ گیا اوراس کی عزت خاک میں مل گئی۔ یہاں تک خود اس کے اپنے ساتھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ تب حضورؐ نے حضرت عمرؓ سے کہا: اے عمرؓ! کیا خیال ہے ؟ دیکھو واللہ! اگر تم نے اس شخص کو اُس دن قتل کر دیا ہوتا جس دن تم نے مجھ سے اسے قتل کرنے کی بات کہی تھی تو اس کے بہت سے ہمدرد اُٹھ کھڑے ہوتے لیکن آج انھی ہمدردوں کو اس کے قتل کا حکم دیا جائے تو وہ اسے قتل کر دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: واللہ! میری سمجھ میں خوب آگیا ہے کہ رسولؐ اللہ کا معاملہ میرے معاملے سے زیادہ بابرکت ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام‘ ج ۲‘ ص ۲۹۳۔ الرحیق المختوم‘ ص ۵۴۳)
پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے یہ حضورؐ کی حکمت عملی تھی کہ آپؐ کی قیادت میں اہل ایمان نے منافقین کے پروپیگنڈے اور توہین آمیز افواہوں کا جواب نہایت باوقار اور اخلاقی معیار کے عین مطابق دے کر دنیا کے سامنے اپنا وہ تاثر برقرار رکھا جو ایک بھلائی کی دعوت دینے والی خیر امت کا ہونا چاہیے۔ ایک قلیل تعداد کی معمولی فروگذاشت پر اللہ نے بروقت ہدایات دے کر اس طرح کے واقعات میں آیندہ نسلوں کے لیے صاف اور شفاف شاہراہ کی نشان دہی کی اور ان واقعات کا تفصیل سے قرآن میں اندراج کر کے تاقیامت یہ حجت قائم کر دی کہ آنحضورؐ کے نام لیوا نفسیاتی جنگ کے مقابلے میں بھی یہ رویہ اختیار کریں جو اللہ کو مطلوب اور رسولؐ کو محبوب تھا۔کیونکہ جھوٹے اور گمراہ کن الزامات اور بہتان تراشی کے جواب میں شریفانہ اور باوقار ردّعمل جہاں افواہوں کا نشانہ بننے والی قوم یا جتھے کی اعلیٰ اخلاقی صفات کا مظہر ہوتا ہے وہاں مخالفین اور افواہ سازوں (propagendists) کے گرتے ہوئے اخلاقی معیار جانچنے کا پیمانہ بھی ہے۔ اگر دشمنوں کے پروپیگنڈے کی اس نہج کا تقابل حضورؐ کے اس منہج سے کیا جائے جو آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنایا اور مکّہ کے ارد گرد پہاڑیوں پر آدھی رات کو ۱۰ ہزار سے زائد آگ کے الائو جلا کر دشمنوں کو نفسیاتی طور پر مرعوب کر دیا تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ باوقار اُمت کی نفسیاتی جنگ کے اصول کتنے معیاری‘ نرالے اور مدبرانہ ہوتے ہیں--- کیا پیروی کے لیے ہمارے لیے اسوئہ رسولؐ کافی نہیں!
چونکہ پروپیگنڈا اپنے وسیع تر مفہوم میں سرد جنگ کی سیاست کا احاطہ کرتا ہے اس لیے post cold war era میں مغرب کی بدلتی پالیسیوں کا ادراک مسلم ذرائع ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر سموئیل ہنٹنگٹن لکھتے ہیں: ’’سردجنگ کے خاتمے کے بعد ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کا مقصدِ اولین ‘ مغرب مخالف معاشروں میں بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت کو روکنا ہے… اس کام کی انجام دہی کی کوشش مغرب‘ بین الاقوامی معاہدوں‘ معاشی دبائو اور ٹکنالوجی کی منتقلی کو روک کر کرتا ہے‘‘ (The clash of civilizations, p 49) ۔ اس ضمن میں قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ ’’تم دشمن کے مقابلے میں جتنا تمھارا بس چلے طاقت مہیا رکھو‘‘۔ اور حصول قوت کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ ’’تم اس کے ذریعے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرائو اور اُن مخفی طاقتوںکو بھی جن کو تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘۔ چونکہ نفسیاتی جنگوں میں خفیہ اداروں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے لہٰذا ذرائع ابلاغ کو بالادست طاقتوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے اپنے اپنے دائرہ کار میں معاشی اور دفاعی طاقت اور ٹکنالوجی کے حصول کی ضرورتوں کو اسلامی دنیا کے میڈیا میں اُجاگر کرنا چاہیے۔ امام قرطبی ؒ نے سورۃ انفال کی چھٹی آیت میں استعمال ہونے والے لفظ ترھبون کا ترجمہ تخیفون کیا ہے یعنی مسلمانوں کو اُن کے بقول مرعوب ہونے کے بجائے طاقت کا رعب جمانا چاہیے اور آخرین من دونھم (ان کے علاوہ دوسرے) سے مراد انھوں نے فارس اور رُوم لیا ہے جو کہ وقت کی سپر طاقتیں تھیں (الجامع لاحکام القرآن‘ ج ۸‘ ص ۳۸۔ تشریح سورہ انفال)۔ قرآن کی یہ ہدایت دو مستحکم عالمی طاقتوں کے مقابلے میں اُبھرنے والی اسلامی طاقت کو دی گئی تھی تاکہ deterenceقائم رہے۔
چونکہ پروپیگنڈا زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے اور زمانہ جنگ میں بھی۔ زمانہ جنگ میں افواہ سازی اور پروپیگنڈا اپنے پورے عروج پر ہوتا ہے۔ اس لیے ذرائع ابلاغ کی ذمّہ داری بہت بڑھ جاتی ہے تاکہ پروپیگنڈے سے خوف و ہراس نہ پھیلے اور دشمن اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو۔ ایسے مواقع پر ذرائع ابلاغ کیا کردار ادا کریں؟ اُس کی وضاحت قرآن کریم میں یوں کی گئی:
وَاِذَا جَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ط وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ط وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لاَ تَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلاَّ قَلِیْلاً o (النساء ۴:۸۳)
جب بھی اُن کے پاس امن یا جنگ کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو یہ اُس کو فوراً نشر کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اُس کو رسول کی طرف یا اپنے میں سے اولی الامر کی طرف لوٹا دیتے تو اُن میں سے جو بھی لوگ اس (خبر) کی تحقیق کر سکتے ہیں وہ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے اور اگر تم لوگوں پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اُس کی رحمت شا ملِ حال نہ ہوتی تو تم بھی شیطان کے پیچھے چل پڑتے سوائے چند لوگوں کے۔
یہ آیت منافقین کی شرارتوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو افواہیں پھیلا کر معاشرے میں خوف و ہراس پیدا کرتے تھے۔ اس آیت سے یہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ افواہیں پھیلانا شیطانی کام ہے اور منافقین کی نشانی ہے (تفہیم المسائل‘ مولانا گوہر رحمن‘ ج ۱‘ ص ۴۲۶‘ مکتبہ تفہیم القرآن‘ مردان)۔ لہٰذا ذرائع ابلاغ کے نمایندوں اور میڈیا مینیجرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ خبر اور افواہ یعنی news اورdisinformation میں تمیز کریں اور اس کام کی خاطر کوئی مخصوص ادارہ یا سیکشن قائم کریں جو تحقیق و تجزیے کا ذمہ دار ہو اور وہ خبر کی حقیقت معلوم کرے۔ ایسے تجزیاتی اور تحقیقی ادارے (research & analysis wing) زمانہ جنگ میں خصوصی طور پر فعال ہونے چاہییں۔ خبر چاہے جنگ چھڑنے سے متعلق ہو یا جنگ بندی سے‘ بہرحال دُور رس اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ لہٰذا محض مالی مفاد کی خاطر دوسرے اخبار یا نشریاتی اداروں سے مسابقت کی خاطر افواہوں کی سرخی جمانا ‘یا بلاتحقیق خبر نشر کردینا کوئی قابل تحسین عمل نہیں ہے۔ اس طرح کی جلدبازی شیطان کے اتباع کے مترادف ہے جو اپنی فطرت میں شرپسند اور شرانگیز واقع ہوا ہے۔
دشمن کا پروپیگنڈا اسٹرے ٹیجک مقاصد کے لیے ہو‘ یا ڈپلومیٹک‘ یا پھر کسی لیڈر یا سپہ سالار کی ہتک عزت کے لیے افواہ اڑائی جا رہی ہو‘ حالات کا اور خبروں کا معروضی اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا ذمہ دارانہ ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ اس میں نظریے کی integrety بھی ہوتی ہے اور ملک و قوم کے جائز مفادات کا خیال بھی۔ اپنی جامع معنویت کے اعتبار سے سورہ النساء کی اس آیت میں اولی الامر سے مراد ہر وہ ذمّہ دار شخص ہے جو سول یا فوجی حکام میں سے ہو‘ کسی نیوز ایجنسی یا نشریاتی ادارے کا کرتا دھرتا ہو‘ یا مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کا کوئی ذمّہ دار شخص ہو جس کے ادارے کے متعلق ایسی اطلاع بہم پہنچائی جائے جو dis- information یا افواہ اور پروپیگنڈے کے غلبے کے سبب عوام الناس کے لیے باعث پریشانی بن سکتی ہو۔ ڈس انفارمیشن کی نفسیات کے عنوان سے ابلاغ عام کے مصنف لکھتے ہیں: ’’بعض اوقات افواہیں حکومت کے لیے درد سر بن جاتی ہیں اور ان سے ملک و قوم کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ خصوصاً جنگ اورقومی ابتلا کے زمانے میں افواہوں سے نمٹنا اہم مسئلہ بن جاتا ہے‘‘۔
ذرائع ابلاغ کی حیثیت چونکہ امیج بلڈرز کی سی ہوتی ہے۔ اپنے صدق و عدل سے راے عامہ کو متاثر کر کے وہ معاشرے کی مثبت رہنمائی کر کے اُس کو معروف یعنی the best کی طرف موڑ سکتے ہیں اور منکر یعنی the worstسے بچا بھی سکتے ہیں۔ اس کے برعکس منفی پروپیگنڈا کر کے وہ معاشرے کو ’’خیر‘‘ اور ’’بہترین‘‘ کے بجائے بدترین نتائج سے بھی دوچار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ’’اطلاع‘‘ یعنی information وہ قوت ہے جو فائدہ بھی دے سکتی ہے اور نقصان بھی۔ میڈیا دراصل فروغِ ابلاغ اور ترسیل اطلاع کا موثر ذریعہ ہے جس میں نت نئی ٹکنالوجی اور جدت آنے سے دنیا کی طنابیں کھچ گئی ہیں اور عالمی بستی کا تصور عمل کے قالب میں ڈھل چکا ہے۔ اس لیے مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ کا کردار نہایت ذمّہ دارانہ‘ مثبت اور قرآن و سنت کی ہدایات کے عین مطابق ہونا چاہیے تاکہ دشمن کے شرانگیز پروپیگنڈے کو ’’خیر‘‘سے بدلا جا سکے۔
خدمت خلق کے کیا معنی ہیں؟
عام طور پر ہم کسی بھی لفظ یا اصطلاح کے وہی معنی سمجھتے ہیں جو ہم اپنے تجربے اور مشاہدے سے جانتے ہوں‘ یا جن معنوں میں ہم نے اس لفظ کو استعمال ہوتا دیکھا اور سنا ہو۔ اس لحاظ سے خدمت خلق کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک شعبے کا نام آتا ہے۔ اس کے ساتھ عموماً قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی تصویر بھی ذہن کے پردے میں آتی ہے۔ اسی طرح دوائیں اور ڈاکٹر لے کر چلتی ہوئی گاڑیاں‘ مریضوں کو لے جانے والی گاڑیاں‘ میت گاڑیاں--- یہ بھی خدمت خلق کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں نمودار ہو جاتی ہیں۔ یا پھر ایسی جگہ کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے جہاں پر محتاج و مساکین اور غریب طالب علم درخواستیں لے کر جائیں اور ان کی امداد کر دی جائے۔
یہ سارے معنی ہم نے اپنے تجربے اور مشاہدے سے اختیار کیے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی غلط نہیں لیکن یہ خدمت خلق کے حقیقی اور مکمل تصور کا احاطہ نہیں کرتے۔
خدمت خلق کا تصوربہت وسیع اور جامع ہے۔ اس کے لیے کسی دفتر یا شعبے کا قیام بھی ضروری نہیں ہے۔ اس کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ گاڑیوں میں ڈاکٹر دوائیں لے کر‘ یا کسی مقام پر بیٹھ کر مریضوں کا معائنہ کریں‘ یا پھرمریضوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جائے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ میت کو قبرستان تک پہنچا دیا جائے‘ یا غریب غربا سے درخواستیں وصول کر کے ان کی مالی اعانت کی جائے۔ درحقیقت خدمت خلق کا جو تصور ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور دین اسلام سے معلوم ہوتا ہے‘ وہ ان سب سے کہیں زیادہ وسیع اور اس سے بہت مختلف ہے۔
اگرچہ یہ چیزیں اس کے اندر شامل ہو سکتی ہیں‘ لیکن یہ خدمت خلق کے اس جامع تصورکا ایک بڑا مختصر اور محدود حصہ ہے جس کی تعلیم اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم کو دی ہے۔
خدمت خلق--- یہ لفظ اللہ اور اس کے رسولؐ نے صرف ان معنوں میں استعمال نہیں کیا کہ انسانوں کی خدمت کی جائے بلکہ ’’خلق‘‘ کے اندرانسان بھی شامل ہیں اور جانور بھی۔’’خلق‘‘ میںتو خدا کی ہر مخلوق شامل ہے۔ ان کے ساتھ سلوک اور برتائو کی ہدایات قرآن مجید میں بار بار آئی ہیں اور نبی کریم ؐ کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ بھی اسی سے متعلق ہے۔ اگر ہم ایک دفعہ یہ سمجھ لیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خدمت خلق کو اپنے دین میں اور اپنی تعلیمات میں کیا مقام دیا ہے‘ تو یہ بات خود بخود ہم پر واضح ہو جائے گی کہ خدمت خلق کا کام صرف شعبے قائم کرنے‘ یا قربانی کی کھالیں جمع کرنے‘ یا شفاخانے بنانے اور سفری شفاخانے دوڑانے سے پورا نہیں ہو سکتا--- اس لیے کہ جس کام کو اتنا عظیم الشان مقام دیا گیا ہو‘ وہ صرف اتنی سی بات تک محدود نہیں ہو سکتا!
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق کے لیے کچھ کرنے کا ذکر ایمان کے بعد سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔ جہاں ایمان کا ذکر آئے گا وہاں پر اللہ کی راہ میں ’’دینے‘‘ کا بھی ذکر آئے گا۔ دینے کے لیے کہیں ’’ینفقون‘‘ کا لفظ آئے گا کہ وہ خرچ کرتے ہیں۔ کہیں دینے ہی کا لفظ آئے گا‘ اَتٰی یعنی اس نے دیا۔ اور کہیں اس دینے کی جو بہت ساری صورتیں ہیں‘ اُن کا ذکر آئے گا‘ مثلاً کھانا کھلانا‘ کھانا کھلانے کی ترغیب دینا اور مل جل کر کھانا کھانا وغیرہ۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس کا ذکر ایمان کے فوراً بعد ہوتا ہے۔ گویا یہ ایمان کا ایک لازمی تقاضا ہے بلکہ ایمان کا ایک حصہ ہے۔
آپ سورہ البقرہ میں پڑھنا شروع نہیں کرتے کہ ایمان کے بعد اقامت صلوٰۃ کا‘ جو ایمان کی عملی صورت ہے‘ تذکرہ ہے‘ اور اس کے بعد ہم نے جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں کی صفت کا ذکر آجاتا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ ’’رزق‘‘ سے مراد محض مال نہیں ہے بلکہ رزق کا لفظ اللہ تعالیٰ نے مال کے علاوہ ہر اس چیز کے لیے استعمال کیا ہے جو اس نے ہمیں بخشی ہے۔ ہمارا وقت بھی اس کا رزق ہے‘ عمر بھی اس کا دیا ہوا رزق ہے ‘ اور دل و دماغ بھی اس کے دیے ہوئے رزق کے اندر شامل ہیں۔ ہمارا جسم بھی اس کا دیا ہوا رزق ہے۔ غرض ہم کو جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے۔ صرف مال ہی رزق نہیںہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ رزق کی شکل میں اللہ نے دیا ہے‘ اس کو خرچ کرتے ہیں۔ اسے مومن کی ایک صفت قرار دیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ موثر اور زوردار تصویر قرآن مجید میں آخرت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کی کھینچی گئی ہے جو جہنم میں ڈالے جائیں گے‘ جن کو ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ فرمایا:
اور جس کا نا مۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کہے گا: کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت (جو دُنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی! آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہو گیا۔ (حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو‘ پھر اسے جہنم میں جھونک دو‘ پھر اس کو ستّر (۷۰) ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یارغم خوار ہے اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا‘ جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔ (الحاقۃ ۶۹: ۲۵-۳۶)
یہاں بھی بس دو ہی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی ایمان نہ لانا اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا۔
اسی طرح سورہ المدثر میں ہے کہ جولوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے ان سے اصحاب الیمین‘ جو جنت میں ہوں گے‘ پوچھیں گے:
تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی ہے؟ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘ اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے‘ یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا (المدثر ۷۴: ۴۰-۴۷)
یہاں بھی پہلے تو نماز کا ذکر آیا ہے جو کہ ایمان کا عملی ثبوت ہے اور اس کے فوری بعد یہ کہ ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے--- یہ بھی بہت صاف صاف بتا رہا ہے کہ اللہ کی نظر میں مخلوق کی خدمت کا کیا مقام ہے!
نبی کریم ؐ کی پوری دعوت میں شروع سے آخر تک برابر اس بات کا ذکر ہے۔ ایک صحابی عمرو بن عبسہؓ روایت کرتے ہیں کہ میرا شروع سے بتوں پر ایمان نہ تھا۔ میراخیال تھاکہ یہ غلط کام ہے۔ پھر میں نے سنا کہ ایک آدمی مکّہ میں ایک اور چیز کی دعوت دے رہا ہے--- میں نے سواری کا کجاوہ کسا ‘ اس پر بیٹھا اور مکّہ پہنچ گیا۔ یہ ایسا زمانہ تھا کہ حضورؐ کا پتا چلنا ہی مشکل تھا۔
میں نے آپ ؐ کا پتا لیا اورآپ ؐ سے ملا اور پوچھا: آپ ؐ کون ہیں؟
آپ ؐ نے کہا: میں نبی ہوں۔
میں نے پوچھا: نبی کیا ہوتا ہے؟
آپ ؐ نے کہا: مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔
میں نے پوچھا: اللہ نے آپ ؐ کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟
اس پر حضورؐ نے فرمایا: صلۃ الارحام یعنی قرابت داری کے رشتے قائم کرنے کے لیے‘ اور بتوں سے بچنے کے لیے‘ اور ایک اللہ کی بندگی کرنے کے لیے۔
یہاں بھی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آگئی کہ حضورؐ نے اس وقت بھی جو دعوت پیش کی‘ اللہ کے احکام اور پیغام پیش کیا‘ اس میں سب سے پہلے صلۃ الارحام کہا۔ یہ صلہ رحمی (قرابت داری کے رشتے قائم کرنا) بھی خدمت خلق ہے۔
حضرت جعفر طیارؓ سے جب نجاشی نے دربار میں پوچھا کہ تم کو کیا تعلیم دی گئی ہے؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ہم پہلے بتوں کی پوجا کرتے تھے ‘ مردار کھاتے تھے اور ظلم ڈھاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انھوں نے ہمیں دعوت دی۔ اب ہم بیوائوں کی خبرگیری کرتے ہیں‘ یتیموں کی خدمت کرتے ہیں اور اللہ کی بندگی بھی کرتے ہیں۔
دیکھیے‘ بین الاقوامی پیمانے پر اسلام کا تعارف ہو رہا ہے لیکن یہاں بھی اللہ کی بندگی اور انسانوں کی خدمت دونوں باتیں ساتھ ساتھ ذکر کی گئی ہیں۔
جب نبی کریم ؐ ایک نیا دین‘ ایک نئی ریاست‘ ایک نئی تہذیب قائم کرنے کے لیے مدینہ تشریف لائے اور آپؐ نے پہلا خطبہ دیا تو ارشاد فرمایا:
افشو السلام‘ واطعموا الطعام‘ وصلو الناس القیام وادخلوا الجنۃ بالسلام
یہاں چار باتیں فرمائی گئی ہیں: پہلی یہ کہ سلام پھیلائو‘ یعنی سلامتی پھیلائو ‘ اپنی زبان اور اپنے رویے سے۔ دونوں کو سلامتی کا نمونہ بنائو۔ یہ بھی خدمت خلق کی ایک صورت ہے۔ دوسری یہ کہ کھانا کھلائو‘ یعنی جو ضرورت مند ہیں‘ بھوکے ہیں‘ ان کو کھانا کھلائو۔تیسری یہ کہ جب لوگ سوتے ہوں تو نماز پڑھو۔ اور چوتھی یہ کہ جنت میں سیدھے سیدھے داخل ہو جائو۔گویا جو نئی تہذیب‘ نئی ریاست اور نیا معاشرہ بننے والا تھا‘ اس کو آپ ؐ نے پہلی ہدایت کے طور پر یہ تین باتیں کہیں‘ اور جنت کے داخلے کی بشارت بھی ان ہی تین چیزوں کے ساتھ وابستہ کی۔
اس بات سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کا کتنا اہم کام ہے جس کو قرآن مجید نے اور اللہ کے نبیؐ نے یہ مقام عطا فرمایا۔
اگر میں یہ کہوں کہ ایک پہلو سے سارے دین کا مقصد ہی خدمت خلق ہے تو میری یہ بات غلط نہیں ہوگی۔
دین کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو جہنم میں گرنے سے بچایا جائے۔ اگر کسی کا گھر جل رہا ہو اور اس کو بچایا جائے تو یہ خدمت خلق ہے‘ اور اگر موت کے بعد وہ آگ میں گرنے والا ہو اور اس کو بچایا جائے تو کیا یہ خدمت خلق نہیں ہے؟ یقینا یہ خدمت خلق ہی ہے!
دعوت کی تعریف بھی یہی ہے ۔ لیکن بات اتنی نہیں ہے بلکہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے رسول اس لیے بھیجے اور کتابیں اس لیے اُتاریں‘ تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ گویا یہ بھی خدمت خلق ہے۔ لوگوں کو انصاف پر قائم کرنا اور لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنا‘ فی الواقع اس سے بڑی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے۔ یہی رسولوں کا مقصد ٹھیرا‘ یہی کتابوں کے اُتارنے کا مقصد قرار پایا‘ اور یہی مومنین کی جماعت کا مقصد قرار پائے گا کہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵) ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ‘ اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دین کا پورا مقصد ہی خدمت خلق ہے۔ اس کا ذکر ایمان کے ساتھ ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ بعض جگہ اس کا ایمان سے پہلے ہی ذکر کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سورہ مدثر میں ہے۔ بعض آیات جو بالکل ابتدائی دَور کی ہیں ان میں بھی اس کی ہدایت کی گئی ہے‘ مثلاً: فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْ م بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰیo (الیل ۹۲: ۵-۱۰) ’’ جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا ‘ اور بھلائی کو سچ مانا‘ اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیںگے‘‘۔ یعنی جو راہِ خدا میں مال دینے والا ہو‘ لینے والا نہ ہو‘ اللہ نے جو کچھ اور جتنا دیا ہو اس میں سے خرچ کرنے والا ہو‘ سائل اور مستحق کی مدد کرنے والا ہو‘ خدا کی نافرمانی سے بچنے والا‘ تقویٰ اختیار کرنے والا ہو اور بھلی بات کی تصدیق کرنے والا یعنی ایمان لانے والا ہو‘ اس کے لیے اللہ جنت کے راستے کو‘ اس پر چلنے کے راستے کو آسان کر دیتے ہیں۔
بعض آیات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کی تو تعبیر ہی یہ ہے کہ آدمی اللہ کے بندوں کی خدمت کرے۔ سورہ الماعون جو نماز میں اکثر پڑھی جاتی ہے‘اس کی بہت اچھی مثال ہے:
اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنَ o وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ o (سورہ الماعون ۱۰۷: ۱-۷)
تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ‘ اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں‘ جو ریاکاری کرتے ہیں‘اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔
قیامت کا جھٹلانا کیا ہے؟ یتیموں کو دھکے دینا اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا‘ یہ قیامت کا جھٹلانا ہے۔ یہ نہیں کہ آدمی کھڑے ہو کر یہ کہہ دے کہ میں قیامت کو نہیں مانتا۔ کوئی زبان سے اقرار کرتا ہو‘ لیکن عمل یہ ہو تو یہ عملاً جھٹلانا ہے۔ اس طرح پورے ایمان کی تعبیر خدمت خلق بن گئی۔ عبادت کی تعبیر بھی یہی ہے۔ نماز سے غفلت یہ ہے کہ دکھاوے کے لیے پڑھے‘ اس میں بندگی کی روح نہ ہو۔ اور روز مرہ استعمال کی معمولی چیزیں آدمی مارے بخل کے دینے سے روک لے۔
ایک دوسری جگہ جہنم کی آگ سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے والوں کا تذکرہ یوں کیا گیا:
وَمَآ اٰدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍo یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o (البلد ۹۰: ۱۲-۱۸)
اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا‘ یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مکین کو کھانا کھلانا ۔ پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہوجو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔
اس کے بعداب اس بات میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ خدمت خلق کا دین میں کیا مقام ہے! یہ کام تواتنا اہم ہے کہ انسان کی پوری زندگی‘ سوچ‘ ذہن‘ دل و دماغ‘ غرض ہر چیز سے اس کی عکاسی ہونی چاہیے نہ یہ کہ آدمی ایک شعبہ قائم کر کے یا کھالیں جمع کر کے مطمئن ہو جائے‘ یا چند درخواستیں لے کر اور نمٹا کر سمجھے کہ ہم نے خدمت خلق کا کام کر دیا ہے۔ دین کی تعلیم سے تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خدمت خلق کوئی ایسی چھوٹی چیز ہے بلکہ یہ کام اپنے اندر بڑی جامعیت اور وسعت رکھتا ہے۔
یہ اہمیت کیوں ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہماری پوری زندگی مخلوق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ خالق کو تو ہم نے نہیں دیکھا اور خالق سے ہم اپنا تعلق سوچ سمجھ کے‘ جان بوجھ کے‘ اور بڑی مشکل اور کوشش کر کے قائم کرتے ہیں لیکن مخلوق سے تو ہمارا رشتہ پیدا ہونے سے پہلے قائم ہو جاتا ہے۔ ایک مرد اور عورت مل کر ‘ اپنا آرام اور اپنی لذت اور اپنا سب کچھ بھول کے‘ اگر چاہتے ہیں تو انسان وجود میں آتا ہے۔ اس کے بعد بچپن میں اگر والدین بچے کو نہ پوچھیں تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا‘ اسی وقت مر جائے بلکہ سانس بھی نہ لے پائے۔ اسی طرح انسانی زندگی کا ہر لمحہ دوسروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ انسان کے ساتھ‘ جانوروں کے ساتھ‘ اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ۔ اگردین پوری زندگی کو اللہ کی بندگی میں دینے کا نام ہے تو زندگی کا ۹۰ سے ۹۵ فی صد حصہ خلق کے ساتھ تعلق پر مبنی ہے۔
اس تعلق کی جڑ دل میں ہے‘ ایمان میں ہے۔ جیسے بیج زمین سے پھوٹتا ہے اسی طرح جب ایمان پھوٹے گا ‘ درخت بن کے نکلے گا تواس کی ساری شاخوں کو کہیں نہ کہیں اللہ کی مخلوق کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہوگا۔ آدمی گھر میں ہو‘ بازار میں ہو‘ کھیت میں ہو‘ حکومت کر رہا ہو‘ ملازمت کر رہا ہو‘ غرض کوئی بھی کام کر رہا ہو‘ اس کا واسطہ انسانوں سے پڑتا ہے۔ گھر میں جاتا ہے بیوی بچے ہوتے ہیں‘ مسجد میں جاتا ہے نمازی ہوتے ہیں‘ دکان پر جاتا ہے گاہک آتے ہیں--- کوئی کام ایسا نہیں ہے جہاں اس کا تعلق مخلوق کے ساتھ نہ ہو۔ مخلوق کے ساتھ اسی تعلق سے اس کی زندگی کا ایک ایک تار‘ ایک ایک حصہ‘ اور ایک ایک لمحہ بندھا ہوا ہے۔ اسی لیے مخلوق کی خدمت کا یہ مقام اللہ کی تعلیم میں اور رسولؐ اللہ کی تعلیم میں ہے۔
اگر غور کیا جائے تو خدمت خلق کا جو تصور اور مفہوم اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں سکھایا ہے وہ بہت جامع اور وسیع ہے۔ نبی کریم ؐ کے بہت سے ارشادات ہیں‘ جن میں آپؐ نے بہت سے ایسے طریقوں کی تعلیم دی ہے جن سے آدمی مخلوق کی خدمت کر سکتا ہے۔ ان سب کو اگر ہم الگ الگ دیکھیں تو خدمت خلق کے بہت سے پہلو ہمیں معلوم ہو سکتے ہیں۔
خدمت خلق کا سب سے کم تر درجہ لیکن شاید سب سے اہم درجہ یہی ہے کہ آدمی اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔
ہم کوئی بھی خدمت نہ کر سکتے ہوں‘ لیکن خدمت کے اس پہلو سے تو کوئی عذر پیش نہیں کیاجا سکتا۔ ایک آدمی کہہ سکتا ہے کہ میری جیب میں پیسہ نہیں ہے‘ کھانا کیسے کھلائوں؟ وقت نہیں ملتا‘ خدمت کیسے کروں؟ یتیموں اور بیوائوں کی خبرگیری کیسے کروں؟ لیکن کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس کے بس سے یہ چیز باہر ہو کہ اپنی ذات سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اس میں کچھ خرچ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ اپنے دل میں کچھ چیزیں ہوتی ہیں جنھیں قربان کرنا پڑتا ہے۔ وہ بعض دفعہ زیادہ مشکل ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا خلق کی پہلی خدمت یہی ہے کہ آدمی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ ایک طویل حدیث میں نبی ؐ نے بہت ساری چیزوں کی تعلیم دی تو لوگوں نے کہا کہ اگر ہم یہ بھی نہ کر سکیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ پھر کم سے کم اپنی برائی سے دوسروں کو بچائو‘ دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچو۔
بعض علما کے نزدیک ساری شریعت اسی اصول پر قائم ہے۔ شریعت کے جتنے بھی احکام ہیں‘ نکاح و طلاق کا مسئلہ ہو یا طرز حکومت کا‘ تجارت کے آداب ہوں یا کسی بھی شعبے سے متعلق‘ جو تعلیم دی گئی ہے‘ سب کا بنیادی اصول یہی ہے کہ کوئی مخلوق خدا کو ایذا نہ پہنچاے حتیٰ کہ اپنے منہ سے‘ ہاتھ سے‘ اور پائوں سے بھی۔ اگر یہ حکم ہے کہ تین آدمی ہوں‘ تو دو آدمی الگ ہو کر بات نہ کریں تو اس کی حکمت بھی یہی ہے کہ تیسرے کو تکلیف ہوگی۔ آدمی اگر کسی کے گھر جائے تو تین بار دروازہ کھٹکھٹائے ‘ دروازہ نہ کھلے تو واپس چلا جائے‘ بغیر اجازت کے داخل نہ ہو۔ یہ بھی اسی لیے ہے۔ اس نوعیت کے دین کے بے شمار احکامات ہیں۔ جس حکم پر بھی غور کیا جائے‘ خواہ کسی بھی دائرے سے تعلق رکھتا ہو‘ یہی حکمت واضح ہوگی کہ انسان انسان کو تکلیف نہ پہنچائے۔ ایک انسان سے دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ خدمت خلق کی بنیاد اور روح یہی ہے۔
اگر پوری شریعت کو فی الحال ہم ایک طرف بھی رکھ دیں لیکن ہر آدمی کم از کم یہ ارادہ کر لے کہ اپنے کام سے‘ اپنی بات سے‘ یا اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچائے گا تو یہ بھی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اس سے ہمارے گھر ‘ ہمارے محلے‘ ہماری بستیاں‘ ہمارا معاشرہ اور ہماری زندگیاں اتنی پرُسکون اور بابرکت زندگیاں بن جائیں گی کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنی زبان سے وہ بات نہ نکالیں جس سے کسی کا دل دُکھتا ہو۔ وہ کام نہ کریں جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ چہرے پر ایسی کوئی ادا نہ آئے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔ کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھیں کہ اس سے اسے دکھ ہوگا--- یہ ساری تعلیمات ہمارے دین میں بڑی تفصیل سے موجود ہیں اور ان میں یہی بنیادی اصول کارفرما ہے۔
یہ خدمت خلق کے حوالے سے سب سے پہلی بات ہے۔ اس سے کوئی بھی آدمی یہ کہہ کر انکار نہیں کر سکتا کہ یہ میرے بس سے باہر ہے یا میرے پاس وسائل نہیں ہیں یا پیسے نہیں ہیں۔ اس کے لیے کسی شعبے کی یا شفاخانے کی یا ایمبولینس کی‘ یا کھالیں جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ صرف یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ جس سے بھی میل جول ہو یا ملاقات ہو‘ خواہ قریبی عزیز ہوں یا دُور کے‘ ماں باپ ہوں یا بیوی بچے‘ کام کرنے والے ملازم ہوں یا دفتر میں کام کرنے والے ساتھی یا ماتحت--- منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکالے یا ہاتھ سے کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے کسی کو ایذا پہنچے یا تکلیف ہو۔ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر یہ بات نہ ہو تو بڑے بڑے خدمت خلق کے کام بھی ضائع ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کو ایذا پہنچانا کینسر کی بیماری کی طرح ہے۔ بڑے بڑے نیک کاموں کے ساتھ اگر یہ بیماری لگ جائے تو سارے اعمال اکارت اور بیکار ہو جاتے ہیں۔
خدمت خلق کے لیے ایک لفظ جو قرآن اور حدیث میں استعمال ہوا ہے‘ وہ صدقے کا لفظ ہے۔ صدقے سے مراد صرف پیسہ دینا ہی نہیں ہے یا یہ صرف خیرات کرنا نہیں ہے‘ بلکہ صدقے کے لفظ کے اندر بہت ساری باتیں شامل ہیں۔ قرآن مجید میں صدقے کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور انفاق کا لفظ بھی آیا ہے۔ یہ چند احتیاطوں کا متقاضی ہے۔
اس لیے سب سے پہلی بات جس کے بارے میں انسان کو سوچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ مجھ سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جس سے دوسروں کو ایذا پہنچے یا تکلیف ہو۔ یہ خدمت خلق کی وہ صورت ہے جو ہم میں سے ہر آدمی کر سکتا ہے۔ کسی کے بھی بس سے باہر نہیں ہے۔ اس میں نہ پیسہ لگتا ہے ‘ نہ وقت‘ بس صرف اپنے نفس کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ غصہ آ رہا ہے‘ انتقام لینے کو دل چاہ رہا ہے‘ اس وقت اپنے آپ کو قربان کر دینا‘ نفس پر قابو پا لینا‘ یہ بہت بڑی بات تو ضرور ہے لیکن خدمت خلق کی راہ میں بہرحال پہلی چیز ہے۔
خدمت خلق دینے‘ خرچ کرنے‘ انفاق اور ایتا کا نام ہے۔
کھانا کھلانا‘ علاج کرنا‘ خدمت کرنا اور عبادت کرنا--- سب اسی کے اندر آتا ہے۔ لیکن اصل چیز یہ کہ آدمی خود غرض نہ ہو بلکہ دینے کو تیاررہے‘ اور دینے کے اندر جو چیز آدمی کو سب سے پیاری ہے وہ ہے مال و دولت۔ ویسے تو وقت بھی ہے اور بھی بہت سی چیزیں انسان کو پیاری ہوتی ہیں لیکن عزت و آبرو کے بعد سب سے پیاری چیز پیسہ ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے جہاں بھی خدمت خلق کا ذکر آیا ہے وہاں پر دولت کو سینت سینت کر رکھنے سے منع کیا گیا ہے ‘ یا اس کی برائی بیان کی گئی ہے۔ سورہ الھمزہ میں ہے:
وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃِ لُّمَزۃِ نِ o الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ o (الھمزہ ۱۰۴: ۱-۲)
تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے‘ جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا۔
گویا مال جمع کرنا‘ اسے گن گن کر رکھنا‘ بنک بیلنس شمار کرتے رہنا‘ اور اپنا مال تھیلیوں اور تجوریوں میں بھر بھر کر رکھنا--- یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ قرآن نے مال جمع کرنے اور اسے سینت سینت کر رکھنے کو اس بات سے بھی جوڑا ہے کہ ایسا شخص لوگوں کو طعنے دینے اور برا بھلا کہنے کا خوگر ہوتا ہے اور انھیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ گویا دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے پیچھے بھی مال کی محبت کا محرک کارفرما ہوتا ہے۔
ایک دوسرے مقام پر انسانی نفسیات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب ہم انسان کو عزت اور نعمت دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے عزت دار بنا دیا‘ اور جب آزمایش کرتے ہیں اور اس کا رزق تنگ کر دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے ذلیل کر دیا۔ مگر حقیقت کیا ہے‘ اس کی نشاندہی قرآن یوں کرتا ہے:
کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o وَتَاکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰)
ہرگز نہیں‘ بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے‘ اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اُکساتے ‘ اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو‘ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔
یہاں بھی مال کی محبت اور دوسروں کو تکلیف دینا‘ دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔
نیکی کی تعریف قرآن مجید میں‘ ایک مقام پر اس طرح سے کی گئی ہے:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ ……… وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (البقرہ ۲:۱۷۷)
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف‘ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر‘ مسکینوں اور مسافروں پر‘ مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے‘ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں‘ اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
یہاں بھی اللہ‘ یوم آخر‘ ملائکہ‘ کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لانے کے بعد جس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ہے اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور نادار و محتاج لوگوں پر خرچ کرنا۔ نماز‘ زکوٰۃ اور جہاد کا حکم اس کے بعد دیا گیا ہے۔ اس سے بھی راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
عَلٰی حبہٖ کے معنی ہیں: اللہ کی محبت میں دینا‘ مال کی محبت کے باوجود دینا۔ دونوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ مال کی محبت کے باوجود آدمی اسی وقت دے سکتا ہے جب مال سے زیادہ کوئی اور چیزپیاری ہوجائے‘ اور وہ ہے اللہ! اللہ کی محبت میں بھی آدمی اسی وقت دے سکتا ہے‘ جب مال کی محبت‘ اللہ کی محبت سے کم ہو۔ مقصد یہ ہے کہ جو مال اللہ نے ہمیں دیا ہے‘ جس سے ہمیں بڑی محبت ہے‘ اسے اللہ کی راہ میں دوسرے بندوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ لہٰذا کنجوسی سے مال کو بچانے کے بجائے کھلے دل اور کھلے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں دینا‘ یہ خدمت خلق کی دوسری صورت ہے۔ یہ چیز نہ ہو تو اجتماعی کاموں کی عمارت کھڑی کرنے سے خدمت خلق کے کام کا وہ حق ادا نہیں ہوتا جو اللہ اور رسولؐ نے ہم پر عائد کیا ہے۔
مال دینے کے لیے مال کا ہونا ضروری ہے لیکن بہت زیادہ مال ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ دل کے اندر بہت سی جگہ ہو۔ دو پیسے بھی آدمی دے تو اس کے لیے بہت ہیں۔
نبی کریم ؐ نے اسی پہلو کو حدیث میں یوں واضح کیا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ آدمی اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا‘ درمیان میں کوئی پردہ نہ ہوگا‘ رُوبرو ہوگا اور آگ بھڑک رہی ہوگی۔ سوچے گا کہ آگ سے کیسے بچے؟ دائیں بائیں سہارا دیکھے گا۔ پھر دیکھے گا کہ جو کچھ مال میں نے دُنیا میں آگے بھیجا ہے اس میں سے کچھ نہیں ہے‘ سوائے عمل کے۔
پھر فرمایا: ’’آگ سے بچو--- اگر کھجور کا ایک ٹکڑا بھی دے کر بچ سکتے ہو تو بچو‘‘۔
یعنی آگ سے بچنے کے لیے خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دیا جائے یا صرف ایک پیسہ‘ جو کچھ بھی ہو‘ دینا چاہیے۔ اللہ کے ہاں اجر مقدار کی بنا پر نہیں بلکہ دینے کی نوعیت کے لحاظ سے ملے گا۔ اگر اتنا مفلس اور قلاش ہو کہ کچھ بھی نہ دے سکے‘ تو کم از کم اس بات پر رنجیدہ تو ہو کہ میں دے نہیں سکتا۔ آنکھ میں آنسو اور دل میں افسوس ہی ہو کہ کاش میرے پاس کچھ ہوتا تو میں دے دیتا۔ اس کا بھی بڑا اجر و ثواب ہے۔
اپنا مال قربان کرنا‘ اللہ کی راہ میں دینا اورمال کی محبت دل سے نکالنا--- اس کے بغیر خدمت خلق نہیں ہو سکتی۔ مال کی محبت دل میں ہو تو آدمی وقت کے بارے میں بھی کنجوس ہوتا ہے‘ جسمانی صلاحیتوں اور توانائیوں کے استعمال میں بھی کنجوس ہوتا ہے اور ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں‘ غرض بہت سی کنجوسیاں آجاتی ہیں۔ اسی طرح اگر مال کے بارے میں دل کھلا ہو تو ہر چیز کے بارے میں دل کھلا ہوتا ہے۔ جو بخیل ہوتا ہے اس کے کردار میں ہر طرح کی خرابیاں آجاتی ہیں۔ فیاض آدمی میں بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیں--- دل اتنا کھلا ہو کہ جو دولت اللہ نے دی ہے‘ جتنا بھی دیا ہے‘ خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی دے سکتا ہو‘ اللہ کی راہ میں دے۔ اتقوا النار ولو کان شقۃ--- یہ ہے خدمت خلق کی روح!
تیسری چیز یہ ہے کہ آدمی ایسی بات کہے کہ جو دوسرے کے دل کو خوش کر دے‘ اس کو نفع پہنچائے۔
ایک حدیث میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اگر کھجور کا ایک ٹکڑا بھی راہِ خدا میں دینے کے لیے نہ ہو تو اچھی بات کے ذریعے اس آگ سے بچو۔ کم از کم یہ بات تو ایسی ہے جو آدمی ضرور ہی کر سکتا ہے۔ ایک اچھی اور میٹھی بات منہ سے نکالنے میں نہ پیسہ لگتا ہے نہ دمڑی‘ بلکہ کچھ بھی نہیں لگتا۔ مسکرا کر ملنے سے‘ مسکرا کر دیکھنے سے‘ اچھی اور میٹھی بات کرنے سے کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ پھر آدمی اس میں بخل کیوں کرے‘ کنجوسی اور تنگ دلی کا مظاہرہ کیوں کرے۔
اچھی بات کر دینے سے آدمی کا دل کتنا خوش ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیسے دینے سے وہ فائدہ نہیں ہوتا‘ جو میٹھی بات سے ہوتا ہے۔ پیسہ روک دینے سے دل پر وہ زخم نہیں لگتا جو کڑوی بات سے لگتا ہے۔ کڑوی بات کا زخم کسی طرح نہیں مٹتا۔ تلوار یا بندوق کا زخم دوائوں سے مٹ جاتا ہے‘ مندمل ہو جاتا ہے لیکن کڑوی بات کا زخم جب دل پر لگتا ہے تو کوئی مرہم اس پر کام نہیں کرتا۔ چنانچہ اگر کھجور کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو تو نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ‘ پھر اچھی بات سے اپنے آپ کو آگ سے بچائو۔
خدمت خلق کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جو وقت‘ جسم و جان‘ صلاحیتیں اور توانائیاں عطا کی ہیں‘ انھیں راہِ خدا میں لگائے۔ اس کی بے شمار صورتیں ہیں۔ نبیؐ نے اپنے زمانے کی مناسبت سے ان کو بیان فرمایا اور ان کی تعلیم دی ہے۔
آپؐ نے فرمایا کہ اگر بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دو‘ تو یہ بھی خدمت خلق ہے۔ اگر کسی کو سواری پر ہاتھ پکڑ کر بٹھا دو‘ تو یہ بھی خدمت خلق اور صدقہ ہے۔ اگر اندھے کو راستہ نہیں ملتا‘ تم نے اسے راستہ بتا دیا تو یہ بھی خدمت خلق کا کام ہے۔ کسی کے لیے کچھ کما کر اس کی خدمت کر دی‘ مالی مدد کر دی‘ تو یہ بھی خدمت خلق ہے۔ کسی کو سودا سلف لا دینا‘ یہ بھی خدمت ہے۔ اس طرح کی بے شمار صورتیں ہیں جن سے آدمی اپنے جسم و جان سے خدمت کر سکتا ہے۔
محلّے کے اندر کوئی عورت بوڑھی ہے یا بیوہ ہے‘ جاتے جاتے اس کی طبیعت ہی پوچھ لی۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے جسے لوگ نہیں کرتے۔حالانکہ اس میں بھی بہت خدمت خلق ہے۔ ممکن ہے کہ اس نے کچھ منگوانا ہو۔ لیکن اتنا پوچھ لینا کہ ا مّاںسودا تو نہیں لانا--- یہ پوچھنابھی اس کے دل کو خوش کر دے گا۔ اس کی خوشی سے اللہ کا رسولؐ خوش ہوگا اور اللہ خوش ہوگا۔ یہ ایسی خوشی ہے جو نماز‘ روزہ یا تسبیح و تہلیل سے نہیں ہوتی بلکہ صرف اللہ کے بندوں کو خوش کرنے سے اللہ کو اور اس کے رسولؐ کو ہوتی ہے!
یہ سب خدمت خلق کی انفرادی صورتیں ہیں جو ایک فرد اپنے ہاتھوں سے انجام دے سکتا ہے۔ ان کا ذکر پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ جو بھی اجتماعی کام ہیں خواہ کوئی شعبہ قائم کیا جائے‘ کوئی شفاخانہ بنایا جائے‘ کھالیں جمع کی جائیں‘ اسکول بنایا جائے‘ مدرسہ بنایا جائے‘ یا کوئی بھی کام کیا جائے--- یہ افراد ہی انجام دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ ہم محض اجتماعی ڈھانچوں کے قیام سے خدمت خلق کا حق ادا کر دیںگے اور جو لوگ خدمت خلق کا فریضہ ادا کر رہے ہیں‘ خود ان کی ذات سے اس کی عکاسی نہ ہوتی ہو‘ تو یہ صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف اجتماعی ڈھانچے کھڑے کر دینے سے خدمت خلق کا حق ادا نہیں ہوتا۔ قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (جاری)
آج کے انسان کے لیے سائنسی اور مادّی ترقی کی معراج پر پہنچ کر بہت سے امکانات کے دَر وا ہورہے ہیں ‘لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ روحانی طور پر اتنے ہی بڑے صدمے‘ نفسی طور پر اتنی ہی بڑی بے اطمینانی‘ اور جذباتی طور پر اتنی ہی زیادہ تنہائی اور بے چارگی کا شکار ہے۔آج کا انسان چاہے مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ شمال میں ہو یا جنوب میں‘ پاکستان میں رہتا ہو یا امریکہ میں‘ مشرق وسطیٰ کا باسی ہو یا افریقہ کا‘ یورپ کے قلب میں ہو یا مشرق بعید کے ساحلوں پر‘ شہروں میں ہو یا دیہاتوں میں--- اپنے طرزفکر‘ طرزمعاشرت‘ طرززندگی‘ ترقی اور پس ماندگی کے تمام تر فرق کے باوجود ‘ نوعیتوں اور درجوں کے لحاظ کے ساتھ ایک بہت بڑے روحانی بحران‘ جذباتی ابتلا اور احساس تنہائی کا شکار ہے۔ مختلف معاشروں میں اس روحانی بحران کا اظہار‘ نفرت‘ غصّے‘ انتقام‘ لاتعلّقی‘ عدم برداشت‘ خود غرضی‘ لذت کوشی اور جرائم کی مختلف شکلوں میں ہوتا رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی رنجشوں اور رقابتوں کے علاوہ بڑے بڑے جرائم کی تہہ میں بھی نفسیاتی عوارض اور جذباتی عدم توازن کارفرما ہوتا ہے۔
مغرب میں انسان کو اس کی نفسیات اور جذبات کی مختلف حالتوں کے ذریعے سمجھنے کی قابل قدر کوششیں کی گئی ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا بے انصافی ہوگی۔ ہمیں ان کے نتائج وتحقیق سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے لیکن یہ حقیقت بھی نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب کا انسان کے بارے میں مخصوص تصور ہے۔ ان کا زندگی کا اپنا مخصوص فلسفہ‘ مخصوص اقدار اور مخصوص پیمانے ہیں۔ یہ عوامل نفسیاتی تحقیقات کو ایک مخصوص رخ دیتے ہیں اور عام طور پر انھی موضوعات کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو مغرب کے تصور زندگی سے ہم آہنگ ہیں۔
آسٹریا کے یہودی نژاد نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کے نظریات خصوصاً ان کا تحلیل نفسی کا نظریہ جدید دَور میں بے حد مقبول ہوا۔ انھوں نے نفسیاتی امراض کے مطالعے کے ضمن میں جنسی تقاضے پر بڑا زور دیا ہے جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس زمانے کی تہذیب و ثقافت میں جنسی تعلّق کو بہت حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اسے ایک قبیح فعل سمجھا جاتا تھاجس سے ہر صورت میں بچنا ضروری تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فرائیڈنے نفسیاتی امراض کی تشریح میں جنس کے مسئلے کو مبالغہ آمیز حد تک اہمیت دی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ نفسیاتی امراض جنسی محرک کو دبانے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے زیراثر اور مغرب میں جنسی جذبے پر موجود بے حد دبائو اور پابندیوں کے ردّعمل میں آج کا مغربی معاشرہ پیدا ہوا‘ جس میں اس جذبے کے ہر طرح کے اظہار اور بے راہ روی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ مغرب میں بغیر شادی کے مردوں اور عورتوں کے اکٹھے رہنے اور ایک فطری جذبے کی غیر فطری تسکین کا رجحان پیدا ہونے کا ایک سبب غالباً یہ بھی ہے کہ عیسائیت میں عیسائی علما کے مطابق شادی کے بعدطلاق کی اجازت نہیں تھی‘ اور ناکام شادی شدہ جوڑوں کے لیے اس بندھن سے نجات کی کوئی راہ نہیں تھی۔ چنانچہ یہی مناسب جانا گیاکہ شادی کے جھنجھٹ سے ہی آزادی حاصل کر لی جائے۔
فرائیڈ نے اپنی تحقیق میں انسانی نفس پر اثرانداز ہونے والے تین عناصر ’’ذات‘ انانیت اور خودی‘‘ کی نشان دہی کی ہے۔ اس کے نزدیک ’’ذات‘‘ نفسیاتی توانائی کا وہ وسیلہ ہے جو اِن حیوانی خواہشات کو تیز تر کرتا ہے جو کسی فرد کے حیاتیاتی وجود کے لیے ضروری ہوتی ہیں‘ مثلاً حرص‘ طاقت‘ شہوت‘ حسد اور غرور و تکبر۔ ’’خودی‘‘ ہماری نیکی‘ اخلاق اور خطا کے تصور کا وسیلہ ہے جو اعلیٰ و ارفع کوششوں کی جانب ہمارے لیے کشش پیدا کرتی ہے ‘ جب کہ ’’انانیت‘‘ اس ذہانت کو کہتے ہیں جو ’’ذات‘‘ کی ضروریات کو کنٹرول کرکے ان میں اعتدال پیدا کرتی ہے اور اس سلسلے میں معاشرے اور خودی کے مطالبات کو سامنے رکھتی ہے۔ جرمن نژاد امریکی نومسلم جیفرے لینگ نے انسانی نفس کی ان تینوں ترغیبات کا منبع اسلامی نظریے میں موجود ’’شیطانی‘‘،’’ذاتی‘‘ اور ’’ملکوتی‘‘ تصورات میں تلاش کیا ہے۔ شیطان اللہ کی وہ مخلوق ہے جو ہمارے دلوں میں وسوسے ڈالتی ہے تاکہ ہماری جھوٹی خواہشات کو اُبھار سکے۔ فرشتے روحانی عظمت اور ایثار و قربانی کے جذبات پیدا کرتے ہیں‘ اور ذات وہ انسانی شخصیت ہے جسے ان ترغیبات میں اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جیفرے لینگ نے مسند ابن حنبل ؒ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی اس حدیث کا حوالہ دیا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان کو پیدا کیا جاتا ہے جو اس کی گھٹیا نفسانی خواہشات کو انگیز کرتا ہے‘ اور اس کے ساتھ ایک فرشتہ پیدا کیا جاتا ہے جو اس کے اعلیٰ تصورات اور نیک خواہشات کو تحریک دیتا ہے۔ جب حضورؐ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپؐ کے ساتھ بھی شیطان پیدا کیا گیا ہے تو حضورؐ نے جواب دیا: ’’ہاں‘ مگر اللہ نے میری مدد کی تاکہ میں اس پر حاوی ہو جائوں اور وہ مغلوب ہو کر مجھے اچھائی کے علاوہ کسی اور کام کی ترغیب نہیں دیتا‘‘۔ (ابن حنبل‘ مسند ‘ جلد اول‘مطبع المیمنہ پریس‘ ص ۳۸۵‘ ۳۹۷‘ ۴۰۱)
مندرجہ بالا معروضات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرائیڈ انسان کے نفسیاتی عدم توازن کی وجوہات کا سراغ لگاتے ہوئے اور نفس انسانی کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی حد تک حقیقت کے قریب پہنچا لیکن زندگی اور انسان کے بنیادی تصور میں کجی کی بنا پر اس نے ان امراض کا وہ علاج تجویز کر دیا جو ان کے مزید بگاڑ کا سبب بن گیا۔
ڈاکٹر محمد اجمل کا‘ جو برعظیم پاک و ہند کے علوم نفسیات و فلسفہ کے اکابرین میں سے ہیں‘ کہنا ہے کہ آج کا انسان اپنے نفسیاتی زخموں کے لیے مرہم کی تلاش میں ہے‘ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مسائل کا جو بھی حل وہ تلاش کرتا ہے وہ اس کے لیے خود ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ یہ بات آج کی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں درست ہے۔ خواہ وہ اقتصادیات کا شعبہ ہو یا انتظامی امور کا یا نفسیاتی معاملات کا۔ کسی ستم ظریف نے تحلیل نفسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا ’’یہ وہی مرض پیدا کرتی ہے جس کا اسے مداوا سمجھا جاتا ہے‘‘۔ (نفسی طریق علاج میں مسلمانوں کا حصہ‘ ترجمہ شہزاد احمد)
مغربی تاریخ میں ریاست اور کلیسا کی جنگ ایک معروف حقیقت ہے جس نے بالآخر ریاست کی فتح اور مذہب کی موت کے نام سے موجودہ مغربی معاشرے اور نظام کو جنم دیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج جب مغربی معاشرہ اور نظام اپنے انہدام کی آخری سیڑھی پر ہے اور مغرب خود مایوسی کا شکار ہے‘ ہم دُنیا کواور انسان کے کردار کو اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے ان مغربی نظریات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے بارے میں خود مغرب شش وپنج کا شکار ہے۔ ہم میں سے بہت سے اسی کو ترقی کا درست راستہ سمجھنے پر مصر ہیں۔ ایک امریکی مصنف جے ڈبلیو کرچ نے اپنی کتاب Modern Temper میں مغرب کی مایوسی کا اظہار یوں کیا تھا کہ ’’ہم اپنے مقصد حیات سے محروم ہو چکے ہیں اور اب اس فطری کائنات میں ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں رہی۔ لیکن ہمیں (کم از کم) اب بطور انسان ہی مرنا چاہیے‘ بطور حیوان نہیں‘‘۔
مذہب کے انکار کے بعد مغربی انسان کے لیے حصول مسرت ہی واحد مقصد حیات ٹھیرا اور زندگی میں اس کی تمام جدوجہدکا نکتہ اوّل و آخریں زیادہ سے زیادہ مراعات کا حصول اور زیادہ سے زیادہ حصول لذت قرار پایا۔ یقینا دُنیا اور مادّی زندگی کو اپنا محور و مرکز بنا کر مغرب اپنے معیارِ زندگی کو بہت بہتر بنانے میں کامیاب ہو گیا لیکن اپنی تمام تحقیق و جستجو میں روحانی زندگی اور قلبی اطمینان کی اہمیت کو نظرانداز کر کے اس نے خود اپنی روح پر وہ زخم لگائے ہیں جن کا مداوا اب اس کے پاس نہیں۔
دوسری جانب مسلمان معاشروں میں بے چینی اور ناکامی کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ مغربی استعمار کے چنگل میں پھنس کر اپنی ذہنی اور فکری توانائیاں زائل کر بیٹھے‘ اور دوسری طرف انھوں نے اپنے امراض کے علاج کے لیے اپنے منابع و مصادر سے رجوع کرنے کے بجائے مغرب سے متاثر ہو کر اسی کی خوشہ چینی شروع کر دی ہے۔ لیکن وہ اپنی صدیوں کی ذہنی و فکری تربیت کے باعث مغرب کی طرح مذہب سے مکمل طور پر اپنا پیچھا نہ چھڑا سکے اور نتیجتاً دین و دُنیا کے بیچ ذہنی اُلجھاوئوںکا شکار ہو کر رہ گئے۔ بھلا جو شخص ہمیشہ دوراہے پر کھڑا رہے وہ اپنی منزل کیسے پائے!
مشرق و مغرب کی بحث کو چھوڑتے ہوئے اگر ہم آج کی دُنیا کے انسان کی ذہنی‘ جذباتی اور روحانی حالت زار کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں آج کا انسان انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر غم‘ غصّے‘ نفرت‘ خودغرضی‘ حسد اور انتقام کے جذبات سے بھرا ہوا ملے گا۔ کسی بھی گزرگاہ پر راہ چلتے انسانوں کے چہروں اور ان کے تاثرات پر نظر ڈالیں‘ کسی بھی بازار یا دفتر میں لوگوں کو لین دین کرتے‘ کام کرتے اور بات چیت کرتے دیکھیں‘ کسی بھی گھر میں جھانک کر (چلیے اپنے ہی گھر میں) افراد خانہ اور رشتہ داروں کے باہمی تعلّق کا جائزہ لیں‘ کسی بھی بس یا ویگن میں سفر کرتے لوگوں کو غور سے دیکھیں‘ چہروں پر لکھی وحشتیں اور ایک دوسرے سے لاتعلّقی ایک بے حد تشویش ناک منظر پیش کرتی ہے۔ اس اضطراب کے کچھ اسباب معاشرتی ہیں‘ کچھ ذاتی ہیں‘ کچھ خارجی ہیں‘ اور کچھ داخلی ہیں۔ کچھ کا تعلّق معاشرتی ناانصافیوں‘ حکومتوں کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کی بنا پر عوام کے غیر یقینی مستقبل سے ہے اور کچھ کا تعلّق انسانوں کے اپنے اعمال و کردار سے ہے۔
دو بڑے اسباب بھوک اور خوف ہیں۔ معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم‘ امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتا ہوا فرق‘ اپنے حقوق غصب کیے جانے اور اپنی عزت نفس کے ہر دم مجروح ہو جانے کا احساس معاشرے کے لوگوں میں عمومی طور پر غم اور غصّے کو جنم دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہر وقت لٹ جانے‘ تباہ ہو جانے‘ عدم تحفظ ‘ بیماریوں اور غیر یقینی مستقبل کا خوف ان میں نفسیاتی عوارض اور جذباتی ہیجان کا سبب بن رہا ہے۔ جب تک معاشرتی انصاف کا تقاضا پورا نہیں کیا جائے گا اور عوام کو احساس تحفظ میسر نہیں آئے گا ان کے اندر یہ لاوا پکتا ہی رہے گا اورنہ جانے کس وقت ایک خوف ناک ردّعمل کی صورت میں ظاہر ہو جائے۔ لیکن بھوک اور خوف کا زیادہ تعلّق معاشرے کے درمیانی اور نچلے طبقے سے ہے۔ مراعات یافتہ طبقے معاشی پریشانیوں اور غیر یقینی مستقبل کے خوف سے بڑی حد تک آزاد ہیں۔ اس کے باوجود یہ آسودہ حال لوگ بھی ذہنی‘ جذباتی اور روحانی صحت کے اچھے درجے پر نہیں ہیں۔ غم و غصّے اور تشویش کی علامات اس طبقے میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان کے نفسی مسائل مغربی طرزمعاشرت اور طرزفکر کے زیادہ گہرے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے زیادہ تر مغربی معاشرے کے مسائل سے مشابہ ہیں۔ معروف برطانوی فلسفی برٹرینڈرسل نے ایسے ہی مراعات یافتہ طبقوں کی تشویش اور غم و اندوہ کا تجزیہ اپنی کتاب Conquest of Happiness (تسخیر مسرت) میں کیا ہے۔ رسل نے لکھا ہے کہ اس دولت کا کیا فائدہ جو انسان کو خوشی نہ دے سکے۔ انسان فطری طور پر اپنی حدوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتاہے لیکن وہ موت کو شکست نہیں دے سکتا جس سے بالآخر ہر زندہ مخلوق کو دوچار ہونا ہے۔ اسی طرح انسان ناقابل خطا اور یقینی علم حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے جو رسل کے بقول اسے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس کے نزدیک اچھی زندگی گزارنے کا راز یہ ہے کہ ناقابل حل معموں اور ناممکن الحصول خواہشوں کو ترک کر دیا جائے۔
انسانی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے رسل نے انسانی ناخوشی کے بہت سے اسباب گنوائے ہیں جن سے انسان بہت سی نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان میں (۱) نرگسیت(narcissism) جسے حد سے بڑھی ہوئی خودپسندی یا خود محبتی بھی کہا جاسکتا ہے‘ (۲) خبط ِ عظمت‘ یعنی اپنی اہمیت و طاقت کا مبالغہ آمیز تصور اور دوسروں سے بھی اپنے لیے اقرار عظمت کی توقع رکھنا اور (۳) احساس گناہ سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر عناصر میں قنوطیت‘ مسابقت‘ بوریت‘ تھکاوٹ‘ حرص‘ دوسروں کی طرف سے اذیت پہنچنے‘ اور دھوکا کھانے کا خوف (persecution mania)اور عوامی رائے کا خوف شامل ہیں۔
رسل کے تجزیے میں بہت سے قابل غور پہلو ہیں لیکن دیگر علماے یورپ کی طرح ان کے افکار میں بھی مادّی رجحانات کا غلبہ ہے اور روحانی اور دینی پہلوئوں کو اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ ظاہر ہے جب روح اور دین بنیادی تصور زندگی سے ہی غائب ہو جائیں تو وہ کسی بھی پہلو سے سوچ کا حصہ کیسے بنیں۔ فکر کی یہی وہ بنیادی غلطی ہے جو انسان کو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے نہیں دیتی اور لب بام سے دو چار ہاتھ کی دُوری بھی اس کے لیے عمر بھر کا فاصلہ بن جاتی ہے۔
آج مسلمان خود اپنے سینوں میں جھانک کر دیکھ لیں توقرآن و سنت میں انھیں وہ نسخہ کیمیا ہاتھ آسکتا ہے جو صرف انھی کے امراض کا علاج نہیں بلکہ مغرب کے زخموں کا مداوا بھی کر سکتا ہے۔ مگر ایمان کی اس کمزوری کا کیا کیا جائے جو جدید انسان کے مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت پر غوروفکر اور تدبر کا موقع ہی نہیں دیتی۔ کیونکہ قرآن کی نعمتیں تو ان لوگوں کے لیے ہیں جو اس پر مکمل ایمان رکھیں۔’’ان سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے‘ مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے‘‘ (حٰم السجدہ۴۱:۴۴)۔ جو لوگ قرآن کی اس شرط اوّل پر معترض ہیں وہ امریکہ کے ماہر نفسیات ولیم جیمز کا اعتراف بھی سن لیں جن کا کہنا ہے کہ ’’انسان کے دکھ درد کا سب سے بڑا علاج ’’ایمان‘‘ ہے۔ ایمان انسان کی زندگی میں بے پناہ قوت پیدا کرتا ہے جو انسان کے تمام نفسیاتی اور جسمانی اعمال پر اثرانداز ہوتا ہے‘‘۔ (محمد عثمانی نجاتی‘ القرآن اور علم النفس‘ ص ۳۶۶)
کمزور ایمان کے ساتھ تشکیک زدہ ذہن جب قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں اس مطالعے سے فائدہ کے بجائے نقصان ہی ہوتا ہے۔ قرآن کی یہ آیت اس معاملے میں بہت بڑی تنبیہ ہے یعنی: ’’ہم اس قرآن کے سلسلۂ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے‘مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۲)۔
ڈاکٹر محمد اجمل ذہنی امراض اور ایمان کے تعلّق کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’تمام نفسیاتی فاصلے جو انسان اور انسان کے درمیان یا انسان اور فطرت میں موجود ہیں اس فاصلے کا شاخسانہ ہیں جو خدا اور بندے کے درمیان پیدا ہو چکا ہے ‘ چنانچہ ذہنی صحت کا دارومدار نفسیاتی طور پر خدا سے قریب ہونے میں ہے۔ ایمان‘ میں پھر کہتا ہوں صرف ایمان‘ مفروضہ نہیں‘ بے شک صرف خدا کی وحدت پر ایمان‘ ایک طرف تو ذات کی اکائی کی علامت ہے اور دوسری طرف فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا احساس ہے--- خدا سے دُوری کا مطلب ہی ذہنی مرض ہے۔ یہ جدید نفسیات کی الم ناک غلطیوں میں سے ایک ہے کہ اس نے ذہنی فتور کو طبعی بیماری کی حیثیت میں دیکھنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ (حوالہ بالا)
واضح رہے کہ ذہنی مرض سے مراد وہ انتہائی ذہنی اور نفسیاتی بگاڑ یا عدم توازن نہیں ہے جس کے نتیجے میں انسان کسی بھی طرح کا ذہنی کام انجام دینے کے قابل نہیں رہتا اور معاشرہ اسے مکمل طور پر ردّ کر کے پاگل خانوں‘ عقوبت گاہوں یا جیل خانوں میں پہنچا دیتا ہے‘ بلکہ نفاق‘ شک‘ حسد‘ انتقام‘ غصّہ‘ خود غرضی اور لاتعلّقی کی مختلف حالتیں ذہنی مرض ہی کی مختلف علامتیں ہیں۔ ان میں وہ تمام نفسیاتی عوارض بھی شامل ہیں جن کا ذکر برٹرینڈرسل کے حوالے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اور یہ صرف بالائی طبقوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر طبقے کے افراد ان میں مبتلا ہیں۔ وجوہات‘ علامات اور اظہار مختلف ہو سکتا ہے لیکن ذہنی اور باطنی ناہمواری کا بنیادی سبب خدا سے دُوری ہے۔
ذہنی مرض کو سمجھنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی اس طرح فرمائی ہے کہ ’’یہ جان لو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جس پر اس کے نیک و بد ہونے کا انحصار ہے۔ گوشت کا یہ لوتھڑا صحت مند ہو تو انسان (روحانی طور پر) صحت مند رہتا ہے اور جب یہ صحت مند نہ ہو تو انسان بھٹک جاتا ہے۔ اور گوشت کا یہ لوتھڑا قلب انسانی ہے‘‘۔ قرآن حکیم مرض پر گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے: فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ (البقرہ ۲:۱۰)‘ یعنی ان کے دلوں میں مرض ہے اور اس مرض میں مسلسل اضافے کی علامت یہ ہے کہ انسان اپنے تکبر میں ہیجان کا شکار ہو جاتا ہے۔ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ (البقرہ ۲:۱۵)۔
باطنی ناہمواری: ڈاکٹر محمد اجمل کے نزدیک خدا سے دُوری اور قلب کی اس بیماری کے سبب انسان باطنی ناہمواری کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ باطنی ناہمواری لوگوں کے باہمی تعلّقات میں اختلاف اور انتشار پیدا کرتی ہے۔ پھر لوگ اپنی بے قرار روح کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے مضبوط اَنا (ego) تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ’’صالحین‘‘ کا نام دے دیتے ہیں۔ لوگوں اور معاملات کے ساتھ ان کا تعلّق استحصال اور شناخت کا تعلّق ہوتا ہے۔ خود نمائی ان کی حرص بڑھا دیتی ہے اور جوں جوں ان کی حرص بڑھتی ہے ‘ وہ گھمنڈی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جوں جوں ان کا تعلق غیرمتعلق لوگوں اور مادی اشیا کے ساتھ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے‘و یسے ہی وہ خود بھی غیر متعلق اور مادّے جیسے مردہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بے شمار لالچ اور ترغیبات ان کا دامن کھینچتی ہیں اور وہ بہت سی عادات کے غلام بن جاتے ہیں‘ تحفظ ان کا قوی ترین جذبہ اور حصول مسرت ان کا واحد اصول بن جاتا ہے۔ (حوالہ بالا‘ ص ۱۳)
باطنی کرب: قلب کی یہ بیماری انسانوں کو ایک ایسے باطنی کرب میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ ایک ایسے فکری دائرہ شر میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں جہاں سے نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ خواجہ عبداللہ انصاری ؒ اپنی تفسیر میں اس بیماری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ ایک بیماری ہے جس کی کوئی حد نہیں‘ یہ ایک درد ہے جس کا کوئی مداوا نہیں‘ یہ ایک رات ہے جس کی کوئی صبح نہیں‘ منافقت کی ذہنی حالت سے زیادہ قابل رحم ذہنی حالت اور کون سی ہو سکتی ہے؟ یہ شروع سے آخر تک ذہنی طور پر کٹ جانے کی حالت ہے۔ آج وہ باطنی کرب میں مبتلا ہے اور کل وہ دائمی مایوسی کا شکار ہوگا‘‘۔ ایک اور مقام پر خواجہ انصاری مرض کو ’’شک‘‘ اور ’’نفاق‘‘ کہتے ہیں۔ آج کے دَور کا انسان اسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ (ایضاً)
ضمیر کی کش مکش : اللہ تعالیٰ کا انسان پر یہ ایک بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کی فطرت میں ایک ایسی کسوٹی رکھ دی ہے جس سے اسے خود بخود اپنے افعال کے اچھے یا بر ے ہونے کا پتا چلتا رہتا ہے۔ اور جب بھی وہ فطرت کے خلاف شعوری یا غیر شعوری طور پر مختلف ذہنی رجحانات کے زیراثر کوئی کام سرانجام دیتا ہے یا اس کی سوچ فطرت سے ہم آہنگ نہ ہو تو اسے اپنے اندر ایک خلش کا احساس ضرور ہوتا رہتا ہے۔ اگر وہ اپنے ضمیر کی اس آواز کو مسلسل دباتا چلا جائے تو ایک فکری دائرہ شر میں داخل ہو جاتا ہے‘ ذہنی طور پر فطرت سے کٹ کر رہ جاتا ہے اور پھر اس میں سوائے بدی کے کوئی قدر باقی نہیں رہ جاتی۔
پرُمسرت زندگی کا حصول: ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ضمیر کی آواز پر کان دھرا جائے اور اس کو اہمیت دی جائے۔ قرآن مجید میں سورۃ القیامہ کا آغاز یوں ہوتا ہے: ’’نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ‘ اور نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی‘‘ (۷۵: ۱-۲)۔ نفس لوامہ وہ روح ہے جو الزام دیتی ہے اور خامیوں سے آگاہ رکھتی ہے۔ یہی ضمیر ہے‘ ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو گناہوں پر ندامت پر آمادہ کرتی ہے۔ ندامت کی بھی تین قسمیں بیان کی جاتی ہیں:
۱- حال کی پشیمانی: اس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے گناہوں پر توبہ استغفار کرے۔
۲- ماضی کی پشیمانی: یہ انسان کو دوسروں کے حقوق انھیں واپس دینے کی ضرورت یاد دلاتی ہے۔ اگر انسان نے کسی انسان کی ناجائز ملامت کی ہو‘ اس کا حق غصب کیا ہو تو وہ اس سے اپنی زیادتی کی معافی مانگے۔ اگر اس نے بدی کا کام کیا ہو تو خدا سے معافی کا خواست گار ہو۔
۳-مستقبل کی پشیمانی: انسان یہ فیصلہ کرے کہ وہ دوبارہ گناہ نہ کرے گا۔
روحانی اور ذہنی صحت کی ابتدا ندامت سے ہوتی ہے۔ انسان کو سب سے پہلے اپنے ساتھ سچ بولتے ہوئے اپنی غلطیوں کے جواز گھڑنے کے بجائے اپنی حالت کو قبول کرنا چاہیے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی اس سلسلے میں یہی ہدایت دی ہے کہ اپنی حالت کو قبول کیا جائے۔ قبول کرنے کے بعد ہی انسان کے اندر کوئی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔ اپنے فکری اضطرار کو اخلاقی ارادے کے زیراثر لایا جائے۔ یوں انسان اپنے خدا کے قریب آجاتا ہے۔ یاد رہے کہ ندامت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہر وقت اپنے گناہوں کا ذکر کرتے رہیں کیونکہ بار بار ذکر کرنے سے انسان کو باطنی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ایذا پسندی کا رجحان پیدا ہوتا ہے جو آگے چل کر آدمی کی شدید اعصابی ضرورت بن جاتی ہے۔ جس قدر زیادہ کوئی گناہوں کی ندامت میں گھرا رہے گا اسی قدر زیادہ وہ اپنے گناہوں کو دہرانے پر مائل ہوگا۔ ایک عام اصول یہ ہے کہ اگر آپ کسی شے کی آخری حد تک جانے کی کوشش کریں تو آپ کو اس کا متضاد حاصل ہوگا۔ بہت سے لوگ شر کے اس چکر میں پھنس جاتے ہیں اور اپنے لیے ایسی صورت حال پیدا کر لیتے ہیں جو ان کے مقاصد کے برعکس ہوتی ہے۔
’’توبہ کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ندامت ہی میں پھنس کررہ جائے‘ یا خود رحمی کا شکار ہو‘ یا اپنی ناقدری کرنے لگے۔ روحانی تبدیلی کا عمل شروع کرنے کے لیے بہترین وقت حال--- یہیں اور ابھی ہے۔ جو بار بار ماضی کا تذکرہ کرتا رہتا ہے‘ تاسف اور ندامت کے ہاتھوں وہ ماضی کا اسیر بن جاتا ہے۔ وہ جس میں اپنے آپ سے ارفع جانے کی ہمت ہے‘ وہی اپنے آپ کو پا سکتا ہے‘‘۔ (ڈاکٹر محمد اجمل‘ ص ۸۸)
روحانی طور پر خوش گوار زندگی بسر کرنے کا آسان کلیہ یہ ہے کہ انسان خدا کی خوشنودی کے حصول کو اپنی زندگی کی پہلی ترجیح قرار دے‘ اور اپنے تمام معمولات کو احکامات خداوندی اور نبی کریم ؐ کی ہدایت کے مطابق انجام دینے کی کوشش کرے۔ جوں جوں اس کے ضمیر سے بوجھ اترنے لگیں گے اور وہ خدا سے اپنے تعلق کو جتنا زیادہ مضبوط کرے گا اتنا ہی وہ اپنے آپ کو فطرت سے زیادہ ہم آہنگ محسوس کرے۔ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ ہی وہ زندگی میں دکھ درد کی حقیقت کو سمجھنے اور اس پر مثبت ردّعمل اختیار کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ قرآن کی بشارت ہے کہ ’’سنو! جو اللہ کے دوست ہیں ‘ جو ایمان لائے اور جنھوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا‘ ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (یونس ۱۰: ۶۲-۶۴)
عبادات‘ ذکر‘ دعا‘ مغفرت طلبی‘ انسان دوستی‘ عفو و درگزر‘ قناعت‘ صلہ رحمی‘ انفاق فی سبیل اللہ جیسے
بے شمار ہتھیار اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو اپنے احکامات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے ذریعے عطا فرمائے ہیں جن سے زندگی کے تمام دکھوں‘ پریشانیوں‘ کٹھنائیوں‘ آزمایشوں اور غم و اندوہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ‘ قربانی اور مذہبی اخلاقیات ایک فرد کو تمام عمر سہارا دیتے ہیں۔ وہ اسے اس کا مقصدحیات یاد دلاتے ہیں اور باطنی قوت کی مضبوطی‘ قوت فیصلہ کی راستی اور کردار سازی میں مدد دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری بہت سی پریشانیاں ہماری اپنی ناشکری اور بے صبری کی پیداوار ہوتی ہیں۔ دُنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے پاس خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے کچھ نہ ہو‘ اور جو ایسا سوچتا ہے بالآخر اس سے خدا ‘ شکر اور خوشی کے تمام جواز چھین بھی لیا کرتا ہے۔ جو شخص اس انتہائی محرومی سے بچنا چاہتا ہے اسے ان نعمتوں کو پہچاننے ‘ ان کا حق ادا کرنے‘ ان پر خوش ہونے اور ان کا شکر ادا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ خدا ان سے خود اپنا تصور بھی چھین کر ایسا تنہا کر دے کہ ان کی بینائی کے لوٹ آنے کی امید نہ رہے۔
یقینا اللہ تعالیٰ ظالموں اور فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ’’پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے‘ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ (الصف ۶۱:۵)۔ اللہ ان کی رہنمائی کرتا ہے جو اس کے احکامات پر چلتے ہیں‘ مخلص اور نیک نیت ہیں‘ اور اسے پکارتے ہیں:’’پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے‘ میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۶)۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے ان کی برائیاں ہم ان سے دُور کر دیں گے اور انھیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے‘‘ (العنکبوت ۲۹:۷)۔ ’’ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے‘‘ ۔(الاعراف ۷:۴۳)
تحریک اسلامی کے حوالے سے خرم بھائی کی لمحات اور میاں طفیل محمد صاحب کی مشاہدات‘ دونوں کتابیں‘ تحریک کے لٹریچر میں بڑا قیمتی اضافہ ہیں۔ گو دونوں کا اپنا منفرد مزاج اور اسلوب اظہار ہے لیکن موضوع ایک ہی ہے: برعظیم پاک و ہند میں تحریک اسلامی۔ دونوں ہی گو بظاہر آپ بیتی ہیں لیکن دراصل تحریک کی کہانی اس کے دو مرکزی کرداروں کی زبانی ہے۔ صرف تحریک کے کارکنوں ہی کے لیے نہیں اُمت مسلمہ کے ہر فدائی کے لیے ان میں بہت کچھ ہے۔ ہمیں ان کتابوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
مشاہدات کے چار پہلو قابل توجہ ہیں:
آگے بڑھنے سے پہلے اپنے اس قلبی تاثر کا اظہار کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ مشاہدات ہی میں نہیں‘ میاں صاحب سے ۵۰ سالہ تعلق خاطر کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ان کی زندگی ایک مسلمان کی زندگی ہے‘ ایک مجاہد کی زندگی ہے۔ قرآن پاک کی جو دو آیات بار بار میرے ذہن میں آتی ہیں ان میں سے ایک ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (حم السجدہ ۴۱:۳۰) ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔ اور دوسری آیت: اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔
میاں صاحب کی زندگی میں ہمیں ان دونوں کیفیتیوں کے حصول کے لیے انسانی کوشش کی ایک بڑی اچھی مثال ملتی ہے۔
میاں صاحب کی زندگی میں ’’جدید‘‘ سے مطلوب اور معیار کی طرف مراجعت کی ایک بڑی روشن مثال نظر آتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک نوجوان نے حق کو پا لیا‘ تو پھر وہ اپنے کو حق کے رنگ میں رنگنے کے لیے کس طرح سینہ سپر ہو گیا۔ جماعت کی رکنیت اختیار کرتے وقت میاں صاحب نے کس انوکھے عزم کا مظاہرہ کیا۔ ایک سوٹڈ بوٹڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ کلین شیوڈ نوجوان ۷۵ نفوسِ قدسیہ کے درمیان آتا ہے اور جس طرح حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ میں کمزور ہوں اور میری آنکھوں میں آشوب چشم بھی ہے لیکن میں آپ ؐکا ساتھ دوں گا‘اسی جذبے سے میاں صاحب نے کہا کہ میرے ظاہر کو نہ دیکھیے‘ میں بھی آپ کے ساتھ اس دعوت اور پیغام کا علم بردار بننا چاہتا ہوں۔ اس پر بعض علما نے اپنے تامّل کا اظہار کیا کہ اس شکل و صورت اور حلیے میں ایک فرنگ زدہ نوجوان کو ہم کیسے قبول کر لیں؟ میاں صاحب نے کہا: آپ مجھے چھ مہینے دیجیے اور پھر دیکھیے کہ میں ان شرائط کو کیسے پورا کرتا ہوں۔کئی علما کی آنکھوں میں بے یقینی کا خوف تھا لیکن مولانا مودودی ؒنے اس نوجوان کے سر پر اعتمادکا ہاتھ رکھا اور پھر میاں صاحب نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا۔ پھر چھ مہینے ہی نہیں‘ بلکہ ۶۰سال پوری استقامت سے اپنے آپ کو اس دعوت کی نذر کر دیا۔
میاں صاحب کی زندگی میں ہمیں قبول حق کے ساتھ حق کے تقاضوں کا بدرجہ اتم احساس ملتا ہے۔ یعنی استقامت کے ساتھ ساتھ یہ عزم کہ اس حق پر جو بھی حملہ آور ہوگا‘ میں اس کے دفاع کے لیے ڈٹ جائوں گا۔ اس میں کوئی بزدلی نہیں دکھائوں گا۔ میاں صاحب پہاڑ کی طرح ڈٹ جاتے ہیں اور دوسری طرف اس حق پر ساتھ دینے والے تحریک کے لوگوں کے لیے‘اپنے اہل خانہ کے لیے‘ اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کے لیے سراپا شفقت‘ سراپا محبت‘ اور سراپا رحمت نظر آتے ہیں۔ بقول اقبال ؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
میاں صاحب کی زندگی میں بڑی سادگی ہے۔ کسی قسم کی بناوٹ‘ ظاہرداری‘ تصنّع یا ملمّع سازی نظر نہیں آتی۔ کسی شخص کے کردار کی یہ بڑی نادر خوبی ہے۔ ہماری زندگیوں سے ایسی خوبیاں اب ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب پر اپنا فضل و کرم کیا ہے کہ ہم نے بہ چشم سر ان کی زندگی میں ان خوبیوں کو دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہمیشہ اس پر قائم رکھے اور ہمیں ان سے سبق لینے کی توفیق دے۔
میاں صاحب کے ہاں اس سادگی‘ اس شفافیت کے باوجود‘ کسی قسم کا زعم‘کوئی غرور یا کوئی اِدّعا کہیں نظر نہیں آتا۔
مشاہدات کو میں اس پہلوسے بڑی اہمیت دیتا ہوں کہ محترم میاں صاحب نے اس میں ایک پورے دَور کو جس سادگی سے مفصّل اور مؤثر انداز میں پیش کر دیا ہے‘ وہ ہماری تحریکی زندگی اور تجربات کا خلاصہ ہے۔ سلیم منصور خالد نے ان کی باتوں کے ذریعے سے معلومات اور تاثرات و تعبیرات کا جو خزانہ جمع کیا ہے اور اسے جس طرح ۱۷ ابواب میں سجا کر ہمارے سامنے پیش کیا وہ ایک بڑا ہی قیمتی تحفہ ہے۔
میں علامہ اقبال کی طرح شکوہ تو نہیں کر سکتا لیکن اپنی اس خواہش اور تمنّا کا اظہار کرتا ہوں کہ کاش! سلیم منصور خالد ۱۰ سال پہلے پیدا ہوئے ہوتے اور مولانا مودودیؒ سے بھی ان کی باتوں کو اسی طرح جمع کر لیا ہوتا۔ اصغرگونڈوی نے بڑی پیاری بات کہی ہے ؎
اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہیں
جو لوگ شخصی حیثیت میں میاں صاحب کو قریب سے نہیں دیکھ سکے‘ وہ بھی مشاہدات کے ذریعے ان کی اصل شخصیت‘ ان کے حسن سیرت ‘ ان کے توازن‘ ان کی سادگی‘ ان کی تحریکیت اور ان کی للہیت کو ان اوراق میں دیکھ سکتے ہیں‘ یہ سب چیزیں اس مرقع میں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
میاں صاحب‘ بحیثیت طالب علم ہندو اساتذہ سے جس طرح متاثر ہوئے اور جس طرح انھوں نے استفادہ کیا‘ خصوصیت سے فزکس کے استاد سے جس طرح اللہ کے وجود کی روشنی پائی‘ کاش آج کا ہمارا معلّم اس سے کچھ سبق سیکھے اور یہ دیکھے کہ کس طرح تعلیم فی الحقیقت روشنی اور ایمان کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لیکن صرف علم کافی نہیں‘ جب تک کہ نور ایمان نہ ہو‘ محض تعلیم بے کار ہے۔
میاں صاحب نے مشاہدات میں اپنی اہلیہ کا جس طرح سے ذکر کیا ہے اور اس تذکرے میں جو پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ ہر مسلمان خاتون کے لیے ہی نہیں‘ ہرمسلمان اور خاندان کے ہر فرد کے لیے اس کے اندر بڑا اچھا نمونہ ہے۔ مختصر یہ کہ محترم میاں صاحب نے اپنے آپ کو تحریک کے سپرد کر دیا اور وہی کیفیت پیدا ہو گئی جسے فنا فی التحریک کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی اَنا اور اپنی ذات کو بالکل بالاے طاق رکھ دیا۔ فی الحقیقت یہ ایک ایسا دل آویز نمونہ ہے‘ جو قابل تقلید ہے اور فقید المثال بھی۔
تحریک اسلامی کی اصل دولت اور اصل سرمایہ کیا ہے؟ کردار‘ مقصدیت‘ ایثار و قربانی‘ شفقت و محبت‘ رحمت و رافت--- مشاہدات میں ہمیں یہی روشنی نظر آتی ہے اور یہ ایک ایسی روشنی ہے جو قلب و نظر کو منور ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی ٹھنڈک دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے--- اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان تمام خوبیوں کو اپنے میں سمو سکیں‘ آمین!
میں مشاہدات کو تحریکی لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ‘ سلیم منصور خالد کو بہترین جزا دے کہ انھوں نے ۲۰‘ ۲۲ سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے لوازمے کو اخذ و جمع کیااور پھر اُسے ترتیب دے کر ایک گلدستے میں سجا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا۔ ایک ایسا گلدستہ جس میں اگر ایک طرف حسن نظر کی تسکین کا سامان ہے تو دوسری طرف فضا کو معطر کرنے والی خوشبو بھی بہ افراط موجود ہے۔ (ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ طبع دوم‘ قیمت ۲۵۰ روپے۔ مجلد مع اشاریہ)
سوال : میں ایم بی بی ایس سال آخر کا طالب علم ہوں۔ ۴ سال سے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوں اور آیندہ بھی تحریک اسلامی کے ساتھ کام کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔ میری والدہ نماز کی پابند ہیں۔ روزانہ قرآن باترجمہ پڑھتی ہیں لیکن میری ان سرگرمیوں کی سخت مخالف ہیں اور شدت سے منع کرتی ہیں۔ دین میں والدہ کی اطاعت کی اتنی زیادہ تاکید ہے۔ میں سخت پریشانی میں ہوں‘ کیا کروں؟ (سوال میں تفصیل ہے‘ یہاں اختصار کر دیا گیا ہے)۔
جواب : والدہ صاحبہ اور دیگر اہل خانہ کی طرف سے تحریکی سرگرمیوں اوراسلام کا مطالعہ کرنے پر برہمی اور مخالفت کے بارے میںآپ نے جو تفصیل خط میں لکھی ہے اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ ہدایت اور رہنمائی فی الواقع اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس لیے والدہ صاحبہ کی مزاحمت کے باوجود الحمدللہ آپ پرُعزم طور پر تحریک سے وابستہ ہیں اور اسلام کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے پر شعوری طور پر قائم ہیں۔ یہ بڑے نصیب اور حوصلے کی بات ہے۔ اس پر آپ جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کریں کم ہے۔ دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی بھلائی‘ اچھائی اور فلاح کے بارے میں مخلص ہونے کے باوجود انسان ہونے کے سبب غلطی کر سکتے ہیں اور بعض معاشرتی رجحانات اور جاہلی خاندانی روایات کی بنا پر اولاد سے اپنے اخلاص و محبت کے باوجود غیر عقلی اور غیر اسلامی رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیشہ ان کے لیے دُعا کرنی چاہیے کہ اللہ انھیں حق کو پہچاننے ‘ سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے اور وہ روایتی اور رسمی اسلام سے نکل کر حقیقی اور قرآن و سنت پر مبنی اسلام کی برکتوں سے فیض یاب ہوسکیں۔
آپ کے خط میں آخر میں جو بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کا سامنا دَور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک ہر طالب علم کرتا رہا ہے اور قیامت تک کرتا رہے گا۔ جب حضرت ابراہیم ؑ ‘ حضرت موسٰی ؑ اور دیگر انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنے اہل خانہ اور اہل قریہ کو دعوت حق دی تو جواب یہی تو تھا،’’ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے ہوئے نہیں پایا۔ اگر ہم نے تمھاری بات مان لی تو خاندان اور قبیلے والوں کے سامنے ناک کٹ جائے گی۔ دین و ملک خطرے میں پڑ جائے گا‘‘۔ لیکن انبیاے کرام نے اپنے والدین کی اور اہل خانہ کی مخالفت کے باوجود دین حق کو متاع حیات بنایا اور اس کے باوجود آذر جیسے باپ کے لیے محض اس بناپر ربّ کریم سے دعا کی کہ باپ سے وعدہ کر لیا تھا کہ میں آپ کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کروں گا۔
آپ کو علم ہے حضرت ابوہریرہؓ جب اپنے خاندان کی روایات کے خلاف دین حق قبول کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کسی سفاک اور ظالم فرعون نے نہیں‘ ان کی اپنی والدہ نے ان کے جسم سے کپڑے تک اُتروا لیے اور وہ ایک مانگے کی چادر سے اپنے جسم کو چھپاتے‘ پرُعزم اور باہمت طور پر دعوت حق سے بال برابر پیچھے نہ ہٹے!
قرآن کریم نے سورہ بنی اسرائیل اور دیگر مقامات پر والدین کی اطاعت و فرماں برداری کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے‘ یعنی اگر والدین اللہ کی اطاعت کی راہ میں حائل ہوں اور اللہ کے ساتھ شرک کا حکم دیں تو ان کی اطاعت معصیت اور ان کی نافرمانی دینی فریضہ ہوگی۔ اسلام کا اصول ہے‘ ’’خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں‘‘۔
صبح کی خواب آور فضا میں جب مؤذن مسجد کی طرف بلاتا ہے تو ابلیس اور اس کی ذریت اللہ کی بندگی کی جگہ نفس کی بندگی کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اگر ابلیس کی بات مان لی جائے تو گویا چند لمحات کے لیے ایک شخص نفس کو اللہ کی حاکمیت میں شریک کر لیتا ہے‘ اور یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ جب خاندانی رسوم و رواج اسلام کی واضح تعلیمات سے ٹکراتی ہوں اور ایک شخص بزرگوں کے کہنے پر ان رسوم و رواج کی پیروی کرے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے کہ اس نے بندئہ ربّ ہوتے ہوئے رسوم و رواج کو اپنا خدا بنا لیا۔
والدین کی اطاعت قرآن و سنت کی رُو سے مشروط ہے‘ مطلق نہیں ہے‘ اور جس طرح والدین کی اطاعت فرض ہے اسی طرح دین کے علم کا حصول بھی فرض عین ہے اور دعوت و تبلیغ یا امربالمعروف ونہی
عن المنکر بھی ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ اگر آپ کی والدہ صاحبہ قرآن باترجمہ پڑھتی ہیں تو انھیں محبت و احترام سے یہ بات سمجھایئے کہ کیا وہ چاہتی ہیں کہ ان کا چہیتا بیٹا ہدایت کی روشنی کو چھوڑ کر جاہلیت کی تاریکی کی طرف لوٹ جائے اورچاہے اس دنیا کے مادی فوائد حاصل کر لے لیکن آخرت میں نقصان میں رہے۔
بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی والدہ صاحبہ کو زندگی کے کسی مرحلے میں کسی ایسے تلخ تجربے کا اتفاق ہوا ہے جس میں انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اللہ کے دین کے لیے کام کرنے والے ان معاملات میں جنھیں ہم دُنیاوی کہتے ہیں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کی پہنچ حد سے حد مسجد کی امامت تک ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر والوں اور کاروبار کو چھوڑ کر مہینوں دین کی تبلیغ کے لیے باہر رہتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ صرف نماز‘ روزہ اور وہ بھی گھر میں بیٹھ کرکر لینے سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جائیں گے اور اعلیٰ سرکاری ملازمت یا کسی تجارتی ادارے میں سربراہ بن کر مادی فوائد حاصل کر لینے سے زندگی کامیاب ہو جائے گی۔
دین اور دُنیا کی تفریق کا یہ تصور قرآن و سنت کے منافی ہے۔ قرآن و سنت زندگی کے تمام معاملات میں توحیدی اتحاد چاہتے ہیں ‘ٹکرائو اور تضاد کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی طرح قرآن و سنت دعوتی اور تحریکی کاموں کے ساتھ والدین کے حقوق کی ادایگی‘ حصول علم اور معاشرے میں فعال فرد کی حیثیت سے ایک اچھے خاندان اور اخلاقی معاشی کردار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دین کی جامع فکر اور دین کی رسمی فکر میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اول الذکر حیات انسانی کے تمام معاملات میں ہم آہنگی اور عدم تضاد چاہتا ہے‘اور ثانی الذکر دین کی جگہ ’’رسمی مذہبیت‘‘ کے ساتھ شان دار مادّہ پرستی‘ رسم پرستی‘ خاندان پرستی اور نفس پرستی سے خوش ہوتا ہے۔
بلاشبہ جنت ماں کے پائوں تلے ہے لیکن اس وقت جب ماں بیٹے کو جنت کی طرف جانے کے راستے پر عمل کرنے دے اور اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ اولاد سے صحیح محبت وہ ہے جو قرآن و سنت کی پیروی میں ہو۔ اسلام محض کلمہ گوئی کا نام نہیں ہے۔ یہ کلمے پر عمل کا نام ہے۔ منہ سے کہہ دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی رہنما ‘ آخری رسولؐ اور ہادی اعظمؐ ہیں‘ اور عملاً مادّی منفعت کو اپنا خدا بنا لینا‘ رسوم و رواج کو پوجنا کلمے کے انکار کے مترادف ہے۔
جیسا کہ اُوپر کہا گیا ہے کہ فرائض دین میں اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اگر اللہ نے اقامت صلوٰۃ کا حکم دیا ہے اور ایک شخص گھر میں نماز پڑھتا ہے تو وہ بنیادی تعلیم کا انکار کرتا ہے۔ یہ اختیار کسی بندے کو نہیں ہے‘ وہ والدین ہوں یا حکومت وقت۔ اسی لیے قرآن کا واضح اصول ہے کہ اولوالامر کی اطاعت صرف اس وقت تک ہے جب تک ان کا حکم قرآن و سنت کے مطابق ہو ورنہ کوئی اطاعت نہیں ہے۔ لیکن یہ مناسب نہیں ہے کہ والدین کے ساتھ بے ادبی اور بدتمیزی اختیار کی جائے بلکہ محبت و احترام سے انھیں سمجھایا جائے اور بار بار سمجھایا جائے اور کسی موقع پر بھی کوئی سخت لفظ استعمال نہ کیا جائے‘ چاہے ان کا رویہ اہل مکّہ کی طرح کا ہی کیوں نہ ہو۔
اگر آپ کی والدہ کے ذہن پر بوجوہ کوئی اثرات ہیں تو اس کے علاج کی فکر کیجیے تاکہ ان کی سوچ مثبت اور تعمیری بن سکے۔ دعوتی کام تو زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے‘ اسے کسی قیمت پر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہاں‘ یہ نہ بھولیے کہ خود والدین کوحکمت و محبت سے دعوت دینا بھی آپ کے فرائض میں شامل ہے اور گھر کے باہر کام کرنے کے ساتھ ساتھ واجب ہے۔ اس لیے اگر وہ ترجمان القرآن پڑھنے پر آمادہ نہ ہوںتو گفتگو میں اس کے کسی اچھے مضمون کا خلاصہ بیان کر دیجیے۔ کبھی قرآن کریم کی کسی آیت کی تشریح تفہیم القرآن کی مدد سے بغیر یہ بتائے کہ کون یہ کہتا ہے‘ ان کے سامنے رکھیے۔ اگر کسی اجتماع سے آپ کوئی بات سمجھ کر آئے ہیں تو اسی موضوع پر کسی مناسب موقع پر والدہ سے بات کیجیے اور ان سے اس کا حل پوچھیے اور پھر عاجزانہ رائے کے طور پر جو آپ نے خود مطالعہ کیا ہو یا کسی سے سمجھا ہو‘ا نھیں بتایئے۔ اور اس پورے کام کو دعوتی کام ہی سمجھیے۔ ساتھ میں اللہ تعالیٰ سے دعا لازماً کیجیے۔ ہمارے قلوب اسی کی گرفت میں ہیں‘ وہی دین کے لیے سینہ کو کشادہ کرتا ہے‘ وہی راہ راست دکھاتا ہے اور وہی راہ راست پر قائم رکھتا ہے۔ فنعم المولٰی ونعم النصیر۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : آج کل بالوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے‘ یعنی جلد میں آپریشن کے ذریعے مصنوعی بال لگائے جاتے ہیں۔ ایک جھلی پر بال (مصنوعی) چپکا کر جھلی سر پر جہاں بال نہ ہوں چپکا دی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا دونوں صورتوں میں بال ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ کیا غسل اور وضو اس صورت میں ہوجاتے ہیں یا نہیں؟
ج : اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا جسم و جان امانت کے طور پر عطا کیا ہے ۔ اس امانت کا حق اس طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق استعمال کیا جائے۔ لہٰذا ترک و اختیار میں شریعت سے انحراف اس امانت کا ناجائز تصرف ہوگا۔
۱- بالوں کی پیوند کاری تغیر فی خلق اللہ کے زمرے میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مصنوعی اور غیرفطری کاموں سے منع کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ لا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۰)
اس فطرت پر قائم ہو جائو جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی‘ یہی بالکل درست دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث جو حدیث کی معتبر ترین کتب میں مذکور ہیں‘ ان میں آپ نے صریح الفاظ میںاس مصنوعی فعل سے منع فرمایا ہے۔ حدیث میں آتا ہے: ’’لعن الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ (مسلم‘ عن ابن عمر‘ کتاب ا للباس‘ ترمذی‘ ابواب الادب‘ ابوداؤد‘ کتاب الترجل)۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے والیوں اور جڑوانے والوں پر لعنت فرمائی‘‘۔ البتہ انسانی بالوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے بنے ہوئے مصنوعی بال جوڑنے کی گنجایش موجود ہے۔ آپ نے جس صورت کے بارے میں سوال کیا ہے اگر اس میں جھلی اور بال کسی درخت وغیرہ سے بنائے گئے ہیں تو ان کا استعمال جائز شمار ہوگا۔ ایسی صورت میں غسل میں جہاں تک پانی پہنچایا جا سکتا ہو پہنچایا جائے۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے کہ ’’عورت کے لیے اس میں حرج کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے بالوں کی مینڈیوں میں پشم کی کوئی چیز جوڑے‘‘ ۔(الفتاویٰ الھندیۃ‘ کتاب الکراھیۃ‘ الباب التاسع عشر‘ ج ۴‘ ص ۱۱۳)
اصطلاح میں غسل کے معنی بدن کو دھونا ہے اور اس کا اطلاق بدن کے ظاہر اور باطن پر ہوتا ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ جس میں پانی کا پہنچانا ناممکن یا مشکل ہو جیسا کہ بحرالرائق میں ہے: ’’غسل سوائے کسی تکلیف کے حتی الوسع تمام جسم پر پانی بہانا ہے‘‘۔
اس لیے جو مصنوعی غیر انسانی بال سرجری کے لیے سر میں پیوست ہوچکے ہیں اور جسم کا حصہ بن چکے ہیں‘ اگر غسل کی صورت میں پانی سر تک نہیں پہنچتا بلکہ مصنوعی جھلی تک پہنچتا ہے تو غسل یا وضو ہو جائے گا۔ البتہ جن بالوں کو سر سے جدا کیا جا سکتا ہے ان کو غسل کے وقت جسم سے جدا کیا جائے اور سر تک پانی پہنچایا جائے ‘ اس کے بغیر غسل یا وضو نہ ہوگا۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س : میں ایک دکان میں بطور ملازم کام کرتا ہوں۔ دکان کا کاروبار ٹی وی‘ وی سی آر‘ ٹیپ ریکارڈر اورریڈیو کے پرزوں پر مشتمل ہے۔بعض مقامی علما اس کاروبار کو جائز نہیں سمجھتے۔ کچھ دوست بھی نکتہ چینی کرتے ہیں۔
ج : ٹی وی‘ ریڈیو‘ وی سی آر‘ ڈش انٹینا اور ویڈیو وغیرہ جدید زمانے کے ذرائع ہیں۔ یہ جدید آلات ہیں۔ ان سے قرآن پاک کی تلاوت اور دیگر اسلامی پروگرام بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس لیے اس شعبہ میں کام کرنا برا نہیں۔ اس وقت اقتدار لادینوں کے پاس ہے اور وہ ان آلات کے ذریعے بے حیائی اور فحاشی و عریانی کی ترویج و اشاعت کا کام کرتے ہیں۔ وہ اس کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس لیے کاروبار محض اس وجہ سے حرام نہیں ہوگا کہ یہ آلات فحاشی پھیلانے کے ذرائع ہیں۔ آپ اگر ان آلات کی مرمت کا کام کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جس طرح ایک دکان دار چھری‘ چاقو اور اسلحہ فروخت کرتا ہے تو یہ جائز کاروبار ہے۔ اگر کوئی شخص چھری‘ چاقو کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرے گا تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا‘ دکان دار نہیں۔ اس لیے آپ جو کام کر رہے ہیں اسے کر سکتے ہیں۔ واللہ اعلم! (ع - م )
س : ۱- امریکہ میں میرے ایک بھائی نے ایک دن برگر کھا لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں جھٹکے کا گوشت تھا۔ ان کے ایک دوست نے کہا کہ یہ حرام نہیں ہے۔ کیا یہ کھانا حرام ہے؟
۲- بسنت‘ مائوں کا دن‘ باپوں کا دن وغیرہ منانا اسلام کی رُو سے جائز ہے؟
۳- آج کل بازار میں فلالین کی ایسی قمیصیں مل رہی ہیں جن کے ساتھ پاجامہ ہوتا ہے‘ یہ تنگ نہیں ہوتے۔ کیا ان کا استعمال درست ہے؟
۴- باہر آنے جانے کے لیے برقع لیا جائے‘ جب کہ تعلیمی ادارے اور صرف لڑکیوں کی موجودگی میں گلے میں دوپٹا لیں‘ کیا یہ درست ہے؟
۵- اگر ایک ادارے کی بہت فیس ہو ‘ اس کے طلبہ کو لائبریری سے رسالہ درکار ہو‘ یا کوئی پودا پسند آئے تو کیا لے سکتے ہیں‘ جب کہ اجازت لینے کی بھی جرأت نہ ہو؟ اسی طرح خالہ‘ ماموں‘ چچا کے گھر سے بھی چیز لی جا سکتی ہے؟
۶- گرمیوں میں گرمی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ کیا کوئی لڑکی صرف لڑکیوں کی موجودگی میں ایسی چھجے والی ٹوپی پہن سکتی ہے جس کا پرنٹ رنگ بالکل لڑکیوں والا ہو؟ ویسے تو مردوں کی سی چیزیں حرام ہیں مگر ایسی ٹوپی جو کوئی مرد نہ پہن سکے‘ اس میں بھی حرج ہے؟
۷- کیا ابرووئں کے درمیان کے چند بال ختم کیے جا سکتے ہیں؟
ج : ۱- برگر میںجھٹکے کا گوشت ہو تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ جھٹکے کا گوشت حلال ہے اس کی بات صحیح نہیں ہے۔
۲- بسنت اور اس جیسے تہوار یہودیوں‘ ہندوئوں اور عیسائیوں کے رسوم و رواج ہیں۔ ان میں وقت کا ضیاع اور خلاف اسلام عقائد کی آمیزش ہے۔ ان کا منانا کفار کی جاری کردہ تفریحات میں اُلجھ کر اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ایسے رسوم و رواج اور کھیل جو اسلام کے منافی نہ ہوں ان کی بھی صرف اس وقت اجازت ہے ‘جب کہ ان میں دینی اور دنیوی فائدہ ہو۔
۳- خواتین کو ایسا لباس استعمال کرنا چاہیے جس سے مردوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔ لباس کو دیکھ کر اندازہ ہو کہ یہ خاتون ہے۔ لباس مکمل طور پر ساتر ہو۔ قمیص کے ساتھ پاجامہ ہو تو اس سے جسم کے پیچ و خم بھی نظر آتے ہیں ۔اس لیے یہ لباس‘ لباسِ ساتر نہیں ہے۔
۴- جہاں پر مرد موجود نہ ہوں صرف خواتین ہوں وہاں دوپٹا اوڑھنے کی رخصت ہے۔ جہاں غیر محرم مردوں کی آمدورفت جاری رہتی ہو وہاں پورے ستر کو ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے۔
۵- ادارے کی اشیا کو بغیر اجازت استعمال میں لانا جائز نہیں۔ البتہ خالہ‘ ماموں اور چچا کے گھرسے کھانے پینے کی چیزیں اس وقت استعمال کی جا سکتی ہیں‘ جب کہ صراحت سے یا عرفاً اجازت ہو۔
۶- خواتین ٹوپیاں استعمال نہ کریں کیونکہ ان میں مردوں کے لباس کے ساتھ مشابہت موجود ہے اور خواتین کو مردانہ یا اس سے مشابہ لباس پہننے کی اجازت نہیں۔
۷- ابرو کے درمیان والے بال کیمیکل سے صاف کر دینا یا استرے سے منڈوانا جائز نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )
دینی مدارس قومی اور ملّی سطح پر بین الاقوامی تناظر میں ایک گرم موضوع بن گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی کامیابی نے ان مدارس کو ایک نئی اہمیت دی ہے۔ مغرب بھی مسلمان معاشروں کو زیر کرنے میں انھیں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ ہمارے سیکولر ارباب اقتدار کوبھی ان کا وجود ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ ان پر حملے بھی ہوتے ہیں اور اصلاح کے لیے تدابیر و تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی کا نام اس لحاظ سے معروف ہے کہ سرگرم اور فعال حیثیت میں بہ خوبی دفاع بھی کرتے ہیں‘ اور دردمندی سے اصلاح کے لیے تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر عملی اور حالات حاضرہ کا لحاظ رکھنے والی اور راست فکر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
یہ ان کی کوئی مربوط کتاب نہیں ہے بلکہ اس موضوع کے حوالے سے ان کے رسالے الشریعہ اور دیگر اخبارات میں شائع شدہ مختلف تحریروں کی یک جا اشاعت ہے جسے عبدالوحید اشرفی صاحب نے جمع کر دیا ہے۔ عنوان کتاب کے مندرجات کی وسعت کا احاطہ نہیں کرتا جس میں خدمات‘ زبان‘ مسائل اور مستقبل کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ ۱۲ تحریروں میں سے کئی برطانیہ کے مدارس سے متعلق ہیں اور وہاں کی ضروریات کے لحاظ سے جامع نصاب تجویز کیا گیا ہے‘ البتہ طالبات پر گفتگو نہایت تشنہ ہے۔
مولانا زاہد الراشدی کا دفاع کا جارحانہ انداز چشم کشا ہوتا ہے۔ائمہ مساجد چندوں پر گزارا کیوں کرتے ہیں‘ محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ اس کے جواب میں انھوں نے یہ اصول بیان کیا کہ اجتماعی کام کرنے والوں کے اخراجات اجتماعی آمدنی میں سے ہی دیے جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کو تنخواہ بھی اسی طرح ادا کی جاتی ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ اسے ٹیکس کہتے ہیں اور حکومت کے نظام کے تحت جمع کیا جاتا ہے۔ جج بھی تو نیکی کے کام کرتے ہیں‘ وہ تنخواہ نہ لیں‘ محنت مزدوری کرکے پیٹ پالیں۔ اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں کہتے! (ص ۷۲)
تبدیلی کی بات شروع سے کہی جا رہی ہے لیکن ذمہ داران مدارس‘ معاشرے کی مخصوص ضروریات پوری کرنے کو اوّلیت دیتے ہیں اس لیے اس نوعیت کی تبدیلیوں سے احتراز کرتے ہیں جو ان کے طلبہ کو دنیاوی مسابقت کی دوڑ میں لے جائیں۔ یہ قربانی کا سوچا سمجھا رویہ ہے۔ نظام حیدرآباد کی پیش کش تھی کہ ریاست کی ضروریات کے لحاظ سے نصاب میں تبدیلی کریں تو ملازمت بھی دی جائے گی اور مکمل اخراجات بھی اٹھائیں گے۔ مگر یہ پیش کش ردّ کر دی گئی ۔(ص ۲۴)
جمود‘ اور تبدیلی کی مزاحمت کی شدت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ترجمہ قرآن پڑھانے‘ اور ڈاک خانہ‘ ریلوے کے قواعد اور تعزیرات ہند پڑھانے کی تجاویز پیش کرتے کرتے تھک گئے کہ اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا ۔(ص ۱۰)
مصنف نے متعدد مفید اور عملی تجاویز پیش کی ہیں اور اس پر زور دیا ہے کہ مختلف مسالک کے مدرسوں کے ذمہ داروں کی باہمی مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ تبدیلی کا کچھ نہ کچھ عمل جاری ہے لیکن ضرورت درست سمت میںرفتار بڑھانے کی ہے۔ (مسلم سجاد)
مصنف نے اُمت مسلمہ کی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ کے ان حوادث و سانحات اور عبرت ناک واقعات کو بڑی کاوش اور محنت و تحقیق کے ساتھ جمع کیا ہے جو اگرچہ بہت تلخ‘ ناخوش گوار اور پریشان کن ہیں لیکن مصنف کا مقصد اس تفصیل سے سبق آموزی اور حصول عبرت ہے۔ سقوطِ بغداد (عذاب الٰہی کا پہلا کوڑا)‘ سمرقند سے عذاب الٰہی کا ظہور (فاتح اعظم تیمور اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار)‘ دہلی میں تیمور کی تلوارِ بے نیام (تذکرہ ایک قیامت ِ صغریٰ کا)‘ سرزمین اندلس مسلمانوں پر کیسے تنگ ہو گئی؟ وسط ایشیا اور قفقاز‘ روسی مسلمان اژدھا کے چنگل میں‘ سلطنت ِ مغلیہ کی ٹوٹ پھوٹ اور نادرشاہ کی شکل میں خدائی عذاب‘ تخت گاہ سے قتل گاہ تک (ہنگامہ ۱۸۵۷ء) ‘مسلمانوں کی آخری بڑی سلطنت (عثمانیہ) کی بربادی کی دل خراش داستان‘ سقوط ڈھاکہ (بیسویں صدی میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قیامت کی کہانی) جیسے عنواناتِ ابواب سے کتاب کے وسیع کینوس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بقول مصنف: ’’اسلامی تاریخ میں ملت کو پیش آنے والے صدمات و حادثات میں سے ہم نے صرف انھی واقعات کو منتخب کیا ہے جن کے اثرات صدیوںتک محسوس کیے گئے یا کیے جائیں گے۔ یہ وہ دردناک حوادث ہیں جن کے لگائے ہوئے زخموں سے اب تک خون رِس رہا ہے‘‘۔ (ص ۱۴)
ملتِ اسلامیہ کو یہ حادثات کیوں پیش آئے ؟مصنف نے دیباچے میں متعدد وجوہ کی طرف اشارہ کیا ہے: ’’مسلمان گذشتہ کئی صدیوں سے فلسفہ توحید کو مکمل طور پر جزو ایمان نہ بنانے کی وجہ سے ذلت و نکبت میں مبتلا ہیں‘ خصوصاً اس قوم کے طبقہ اُمرا کے دل سے غیرت‘ حمیت اور ایمان کا نور بالکل ہی نکل چکا ہے‘‘۔ مصنف کہتے ہیں کہ خرابی ہمیشہ اندر سے واقع ہوتی ہے اور پھر سرطان کی طرح پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب پھوڑا متعفن ہو جاتا ہے تو پھر نشتر اور آپریشن ناگزیر ہو جاتا ہے۔ قدرت کا کوڑا برستا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کے نشان چھوڑ جاتا ہے‘ یہ کوڑا کبھی چنگیز کی شکل میں نمودار ہوتا ہے‘ کبھی ہلاکو کی شکل میں‘ کبھی تیمور کی صورت میں اور کبھی آپس میں لڑلڑمرنے کی صورت میں۔
’’قدرت کی طرف سے یہ عذاب اس وقت نازل ہوتے ہیں جب اصلاح کا جذبہ اجتماعی طور پر ختم ہو جائے یا اصلاح کی طرف متوجہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کی بات نہ سنی جائے بلکہ ان کی تذلیل کی جائے‘‘ (ص ۱۸)۔مصنف نے حوادث وواقعات کے اسباب بھی بیان کیے ہیں اور ان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ ان کے نزدیک بعض اسباب ہر سانحے میں کارفرما نظر آتے ہیں ‘جیسے :عدم اتفاق‘ فرقہ وارانہ افتراق اور حکمرانوں کا شدید بے غیرتی اور فسق و فجور میں مبتلا ہونا۔
پوری کتاب عبرت ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ نادر شاہ کی فوج دلی کی طرف بڑھی چلی آرہی تھی اور محمد شاہ رنگیلا (بلکہ بیش تر دہلی والے) عیش و عشرت میں ایسے منہمک تھے کہ نادر شاہی فوج کی آمد کی خبر سب سے پہلے ان گھسیاروں کو ملی جو صبح سویرے گھوڑوں کا چارہ حاصل کرنے کے لیے دلّی سے تین چار میل باہر چلے گئے تھے اور کسی طرح بچ بچا کر زخموں سے چور گرتے پڑتے واپس دلّی پہنچے۔ مگر اس سے بھی زیادہ عبرت ناک بات سقوطِ بغداد سے متعلق ہے۔ ہلاکو خان نے فتح بغداد کے بعد آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو کھانے پر بلایا‘ اس کے سامنے سونے چاندی کے ڈھیر رکھ دیے اور کہا: ’’اسے تناول فرمایئے‘‘۔ خلیفہ: ’’میں سونا کس طرح کھا سکتا ہوں؟‘‘۔ ہلاکو: ’’پھر آپ نے سونے کو اتنی حفاظت اور اہتمام سے کیوں رکھا ہوا تھا‘‘۔ ہلاکو نے سیم و زر اور جواہرات سے لبریز بڑے بڑے آہنی صندوقوں کی طرف تلوار سے اشارہ کرتے ہوئے خلیفہ سے کہا: ’’آپ نے ان صندوقوں کے فولاد سے فوج کے لیے تیر کیوں نہ بنوائے؟ اور یہ تمام سونا اور جواہر اپنے سپاہیوں میں تقسیم کیوں نہ کیے اور آپ نے بغداد سے باہر نکل کر پہاڑوں کے دامن ہی میں مجھے روکنے اور مقابلہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟‘‘۔ خلیفہ: ’’مشیت ایزدی یہی تھی‘‘۔ ہلاکو: ’’اچھا تو اب ہم جو سلوک آپ سے کریں‘اُسے بھی مشیت ایزدی سمجھنا‘‘۔ ہلاکو نے مستعصم اور اس کے بیٹوں کو نمدے میں زندہ لپیٹ کر سلوایا اور پھر خونخوار تاتاری سپاہیوں نے ان نمدوں پر گھوڑے دوڑائے اور سموں کے نیچے انھیں مکمل طور پر روند ڈالا۔ بغداد کی تباہی اسلامی تاریخ کا نہایت الم ناک واقعہ ہے۔ بغداد اس وقت مرکز خلافت تھا اور ’’دنیاے اسلام کا سب سے شان دار اور آباد شہر تھا۔ قلعہ بندیاں مضبوط تھیں ‘لیکن نہ دل اور نہ ایمان مستحکم تھے‘‘ ۔(ص ۲۲)
مصنف کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی نہیں ہے‘ وہ ہر جگہ ذلت و خواری میں مبتلا ہیں۔ کشمیر‘ بوسنیا‘ کوسووا‘ چیچنیا‘ عراق‘ افغانستان‘ بھارت‘ فلسطین غرض دنیا کے ہر گوشے میں مسلمانوں ہی کا خون بہہ رہا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اُمت مسلمہ جس اعلیٰ مشن کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئی تھی وہ اس سے غافل ہو چکی ہے اور اس نے مادّی ضروریات کی تکمیل ہی کو مقصد زندگی بنا لیا ہے اور اسی لیے وہ حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ مصنف نے ملتِ اسلامیہ کی جو دل خراش داستان بیان کی ہے وہ عبرت انگیز ضرور ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ قدرت ابھی تک مسلمانوں سے مایوس نہیں ہوئی۔ یہ سانحے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ہیں۔ اگر قدرت اس قوم سے مایوس ہو چکی ہوتی تو یہ جھٹکے بار بار نہ لگائے جاتے۔ عضومعطل کو بحال کرنے کے لیے ہی بار بار جھٹکے لگائے جاتے ہیں۔
کتاب تمام تاریخ پر مبنی ہے‘ مگر افسانہ و داستان سے زیادہ دل چسپ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فکرانگیز بھی۔ بیش تر واقعات و احوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُمرا کی عیش کوشی‘ جاہ و مناصب اور اقتدار کی ہوس ‘ زر و مال سے محبت‘ شراب نوشی‘ باہمی نفاق و بغض‘ فریب کاری‘ دغابازی کے ساتھ ساتھ علما و صوفیا کی بے عملی اور ذہنی جمود‘علمی تحقیقات سے غفلت‘ اور جہاد سے بے اعتنائی بھی زوال و ادبار کی وجوہ میں شامل تھے۔ جب تلواریں کند ہو کر رہ جائیں تو قوموں کی تاریخ میں سانحات کا پیش آنا غیر فطری نہیں۔
اس بے اعتنائی‘ بے نیازی بلکہ بے حمیتی کو کیا نام دیا جائے کہ جب غرناطہ کے مجبور و محصور مسلمانوں نے سلطنت ِ عثمانیہ سے‘ جو اس زمانے میں ایک مضبوط و مستحکم قوت تھی‘ اسلامی اخوت کے نام پر مدد چاہی تو ترک شہنشاہ نے وہ خط پاپائے روم کو‘ اور اس نے غرناطہ کا محاصرہ کرنے والے عیسائی شاہ فرڈی ننڈ کو بھیج دیا۔
میاں محمد افضل صاحب نے جس محنت و تحقیق‘ خلوص و دل سوزی اور نہایت درجہ دردمندانہ ملّی جذبے کے ساتھ کتاب لکھی ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے‘ خصوصاً نوجوانوں کے لیے اس کا مطالعہ نسبتاً ضروری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مولانا سید مناظر احسن گیلانی ؒ (۱۸۹۲ء-۱۹۵۶ء) نے دارالعلوم دیوبند کے مجلہ القاسم میں اس کے اجرا کے موقع پر چھ قسطوں میں’’دارالعلوم کے بانی کی کہانی‘ انھی کی زبانی‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مقالہ شائع کیا تھا۔محمد عامر قمر نے مذکورہ مقالے کے ساتھ قاری طیب کی ایک تحریر ’’بانی دارالعلوم‘‘ بھی شامل کرکے زیر نظر کتاب مرتب کر دی ہے۔ پیش لفظ‘ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کا ہے جس میں علامہ سیدمناظر احسن گیلانی ؒ کی انشا پردازی اور اسلوب نگارش پر اظہارخیال کیا گیا ہے۔
علامہ سید مناظر احسن گیلانی ؒکو اللہ تعالیٰ نے ذہن رسا‘ طبیعت اخاذ اور نکتہ آفرینی عطا فرمائی تھی۔ وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تو ان کے سامنے معلومات کا انبار اور ذہن میں افکار و خیالات کا ہجوم ہوتا۔ پھر چھوٹا سا عنوانِ مقالہ بھی ایک ضخیم تصنیف کی صورت اختیار کر لیتا۔ مولانا گیلانی ؒنے مختلف موضوعات: قرآن‘ حدیث سیرت‘ فقہ‘ تاریخ‘ مذاہب عالم‘ تصوف‘ معاشیات‘ تعلیم و تربیت وغیرہ پر علمی و تحقیقی تصنیفات یادگار چھوڑی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے سیکڑوں مقالات مختلف علمی و تحقیقی رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ ان تحریرات کو محفوظ کرنے اور ازسرنو مرتب کرنے کے لیے ’’مجلس یادگار گیلانی‘‘ کا قیام عمل میںلایا گیا ہے اورزیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
زیرنظر مقالے کے علاوہ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒنے بعدازاں سوانح قاسمی کے عنوان سے مولانا قاسم نانوتوی ؒکے حالات زندگی پر ضخیم اور مبسوط کتاب تحریر کی‘ مگر زیرنظر تحریر کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ مولانا گیلانی ؒ‘سوانح قاسمی کے مقدمے میں رقم طراز ہیں: ’’انشا و علم نگاری کی ابتدا بھی القاسم ہی سے ہوئی تھی اور انتہا بھی القاسم پر ہو جائے‘‘۔ مولانا گیلانی ؒنے اپنے مقالے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے جسے فاضل مرتب نے پانچ ابواب (سوانح حیات پر ایک سرسری نظر‘ تالیفات و تصنیفات‘ سیرت جلیلہ کا ایک زریں ورق‘ حضرت قاسم العلوم کی فطرت سلیمہ‘ شاہ جہان پور کا میلہ خدا شناسی) کے عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ مولانا گیلانی ؒنے سیرت کا جو حسین مرقع تیار کیا ہے اس میں بانی دارالعلوم کا زہد و تقویٰ‘ علم و عرفان‘ اخلاص و للہیت‘ کمال استغنا اور عشق حبیب کبریا ؐکی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا گیلانی ؒ ان قدسی صفات حضرات کی سیرت کے عملی مظاہر پیش کرتے ہوئے قارئین کو بھی ان صفات سے متصف ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ کتاب عمدہ انداز میں شائع ہوئی ہے۔ (حافظ محمد سجاد تترالوی)
یہ کتاب قائداعظم پر مختلف کتابوں اور مضامین سے اخذ کردہ اقتباسات کا مجموعہ ہے۔ اقتباسات سے بقول مرتب ’’قائداعظم کی ایک زندہ اور متحرک تصویر‘‘ بنتی ہے۔ ہر اقتباس اپنی جگہ مکمل ہے اور اُس پر عنوان بھی دیا گیا ہے۔ کتاب کہیں سے کھولیں اور پڑھنا شروع کر دیں۔ قائداعظم کی شخصیت کا کوئی نہ کوئی دل چسپ پہلوسامنے آئے گا۔ ہر اقتباس کے ساتھ مصنف کا نام تو دیا گیا ہے مگر کتاب یا رسالے کا حوالہ نہیں دیا اور یہ اس کتاب کی بنیادی خامی ہے۔اشاعت معیاری ہے۔ (ر-ہ)
’’امریکی کردارسے بے زاری کے اسباب‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) میں دو بین الاقوامی اداروں سے امریکہ کی بے دخلی کی روشنی میں امریکی حکومت اور ابلاغ عامہ کے ردّعمل پر خوب صورت انداز سے بحث کی گئی ہے۔ یہ قارئین کو بدلتے حالات سے خبردار رکھنے کی درست سعی ہے۔ مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ مدا ہنت سے نہیں‘ بلکہ حالات کے بے لاگ تجزیے کے ذریعے امریکی قیادت اور پوری دنیا کو آگاہ کیا جائے کہ عالمی سیاست میں بگاڑ کا باعث اور انسانی معاشرے میں ظلم و استحصال کا ذریعہ بننے والے اسباب اور عوامل کیا ہیں؟ اسباب کے زمرے میں امریکہ پر عالمی بے اعتمادی اور اس کے پرُرعونت طریقۂ کار کو موردالزام ٹھہرایا گیا۔ حالانکہ مذکورہ دونوں اسباب نہیں‘ بلکہ نتائج ہیں۔ قارئین کو بنیادی اسباب سے خبردار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ عناصر روز بروز نہ صرف اپنی گرفت عالمی سیاست ‘ معیشت اور عسکری قوتوں پر مضبوط کر رہے ہیں بلکہ کھلے انداز سے میدان میں کود پڑے ہیں۔ مضمون میں عالم اسلام کے کردار پر بہت ہی کم بحث ہوئی ہے۔ کیا ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری نہیں رہی ہے؟
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے ’’قرآن: اندازِ نزول کی حکمت‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) میں جس طرح حکمت اور دلائل کے ساتھ قرآن کے تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کی حکمتیں بیان کی ہیں‘ اس سے بڑی حد تک ان سوالات کا جواب مل جاتا ہے جو قرآن مجید کا مطالعہ کرتے وقت ذہن میںپیدا ہوتے ہیں۔ ’’اتحاد قومی: پانچ بنیادی اُصول‘‘ موجودہ حالات کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ ہمارے عوام اور بعض علماے کرام بھی اختلاف اور مخالفت میں فرق نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہماری مساجد میدانِ جنگ بنی ہوئی ہیں۔
’’قومی بیداری‘ وقت کا تقاضا‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) فوجی حکومت کے لیے لمحہ فکرہے اور اس میں آنے والے طوفان سے پیشگی خبردار کیا گیا ہے۔ سید مودودیؒ کے بتائے ہوئے اتحاد قومی کے پانچ بنیادی اصول ہمارے موجودہ قومی مسائل کے حل کے لیے آج بھی نسخہ کیمیا ہیں‘ کاش ان پر عمل کیا جائے! ’’قرآن: اندازِ نزول کی حکمت‘‘ بہت عمدہ ہے‘ تاہم اس کے ص ۲۶ کی آخری سطر میں ’’نوبت‘‘ کی بجائے ’’نبوت‘‘ شائع ہوا ہے جس سے بڑی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔
ڈاکٹر فخرالاسلام کی تحریر ’’غیر حکومتی تنظیمیں: حقائق‘ کرنے کا کام‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) پڑھ کر معلوم نہ ہو سکا کہ یہ تحریر این جی اوز کی مخالفت میں لکھی گئی ہے یا حق میں۔ رسائل و مسائل کی کمی محسوس ہوئی۔
.....دُنیا کو یہ سن کر حیرت ہوگی‘ لیکن کیا کیا جائے واقعہ یہی ہے کہ ۱۰ ہزار ہی نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں حدیثیں عہد نبوتؐ و عہدصحابہؓ میں کتابی شکل اختیار کر چکی تھیں۔ آخر آپ خود جوڑ لیجیے۔ محدثین لکھتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیثوں اور مرویات کی تعداد ۵ ہزار ۳ سو ۷۴ ہے اور ایک ذریعے سے نہیں مختلف ذرائع سے یہ ثابت ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ خود اپنی یادداشت کے لیے بھی اپنی روایت کردہ حدیثوں کو کتابی شکل میں لے آئے تھے۔ حافظ ابن عبدالبر نے جامع میں ان کی اس کتاب کے واقعے کو اس طرح درج کیا ہے کہ مشہور صحابی عمروؓ بن امیہ ضَمْرِیْ جن کو طلسم ہوشربا اور داستان امیرحمزہ نے عمروعیار کے نام سے بہت مشہور کر دیا ہے‘ اُن کے صاحب زادے حسن بیان کرتے ہیں:
میں نے ابوہریرہ ؓ کے سامنے ایک حدیث بیان کی۔ اُنھوں نے اس کا انکار کیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس حدیث کو میں نے آپ ہی سے سنا ہے۔ بولے: اگر تم نے مجھ سے حدیث سنی ہے تو پھر وہ میرے پاس لکھی ہوئی ہوگی۔ پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے میںلے گئے۔ مجھے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی حدیثوں کی بہت سی کتابیں دکھائیں۔ اسی (ذخیرے) ُمیں وہ حدیث بھی پائی گئی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اس کے بعد فرمایا: میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں نے اگر کوئی حدیث تم سے بیان کی تھی تو وہ میرے پاس لکھی ہوئی ہے۔
حافظ ابن حجر نے بھی دوسری سند سے فتح الباریمیں اس روایت کو درج کیا ہے۔ اس سے صرف یہی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ابوہریرہ ؓ کے پاس صرف چند حدیثیں لکھی ہوئی تھیں‘ بلکہ جو کچھ وہ روایت کرتے تھے کتابی شکل میں ان کے پاس وہ موجود تھا۔ جب یہ معلوم ہے کہ ان کی مرویات کی تعداد ۵ ہزار سے اُوپر ہے‘ اس کے بعد اگر کہا جائے کہ ۵ہزار سے اُوپر حدیثیں اس وقت لکھی ہوئی تھیں تو کیا اس روایت سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی؟ (’’تدوین حدیث‘‘۔ مناظر احسن گیلانی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۴‘۵‘ ۶‘ ربیع ا لآخر‘
جمادی الاولیٰ‘ جمادی الاخریٰ ۱۳۶۰ھ‘ جون‘ جولائی‘ اگست ۱۹۴۱ء‘ ص ۱۹۶-۱۹۷)