اسلامی معاشرے کی ایک پہچان اس میں پرورش پانے والی روایت ِعلم ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کا ہر پیرو اپنے عقائد، تعلقات اور معاملات کو علمِ صحیح کی بنیاد پر استوار کرے۔ ایمان کی شہادت خود اس بات کا اعلان ہے کہ ایک شخص ہوش و حواس کے ساتھ، سمجھ بوجھ کر ایک صداقت کی گواہی دیتا ہے کہ وہ صرف اللہ کا بندہ ہے اور اس کے لیے اگر کوئی مثال قابلِ عمل ہے تو وہ صرف اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ علم کی بنیاد پر عمل ایمان کی پہچان ہے ۔ اس کے برخلاف اگر قول و عمل میں تضاد پایا جائے اور وہ کچھ کہے جو وہ خود نہ کرے تو قرآن کریم اس کو سخت ناپسندیدہ عمل قرار دیتا ہے: لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَo (الصف ۶۱: ۲-۳) ’’تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘۔
اس قول وعمل کے تضاد کو ایک دوسرے تناظر میں نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہوگی، یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کردے۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں: جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی سے جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے(عبداللہ بن عمرؓ، بخاری ، مسلم)۔ قول و عمل میں یکسانیت اور عمل سے قولی شہادت کا اظہار، ایک قابل محسوس اور قابلِ پیمایش پیمانۂ ایمان ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ ہم کس طرح کسی کے ایمان کو جانچیں۔ جدید اسلوب میں ایمان کی پیمایش اعمال (outcomes) سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک صاحب ِ ایمان کو پکارا جائے کہ فلاح و کامرانی کی طرف آئو اور وہ تجارتی کاموں میں لگا رہے اور دن میں پانچ مرتبہ بلند ہونے والی اللہ کی کبریائی اور عظمت کی پکار سننے کے بعد بھی اس کے قدم مسجد کی طرف نہ اُٹھیں۔ فلاح و کامرانی کی پکار کو رد کرنے کے باوجود بھی وہ سمجھتا رہے کہ اس کا ایمان محفوظ ہے۔ ایمان کا مطلب ہی یہ ہے کہ بندگیِ رب کو صدقِ دل و جان سے مانتا ہے اور اس کی شہادت اس کا ہرہر عمل پیش کرے۔
اسلامی معاشرے میں وہ فرد قابلِ تحسین ہے جو فروغ علم میں لگا ہو: ’’تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو قرآن کا علم حاصل کریں اور (دوسروں کو) اس کی تعلیم دیں‘‘ (عن عثمان ابن عفانؓ، بخاری)۔ قرآنِ کریم علم کو انسانوں میں وجۂ امتیاز قرار دیتا ہے۔ اسلام نہ مال و دولت کو، نہ عہدہ اور منصب کو، اور نہ ذات برادری سے وابستگی کو امتیازی مقام دیتا ہے، یہ ان اہلِ ایمان کو جو زیادہ علم و تقویٰ رکھتے ہیں دوسروں سے افضل قرار دیتا ہے۔ فرمایا گیا: ’’ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں‘‘ (الزمر ۳۹:۹)۔ قرآن کریم بغیر علم بحث و مکالمہ کو ناپسند کرتا ہے: ’’اور بعض لوگ جو اللہ (کے بارے) میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت اور بغیر کتاب روشن کے جھگڑتے ہیں‘‘۔ (الحج ۲۲:۸)
قرآنِ کریم نے بے شمار مقامات پر علم اور علم سے وابستہ پہلوئوں کی طرف اشارے کیے ہیں اور عملاً ہر اہم مضمون کے ساتھ اس جملے کا اضافہ کردیا ہے کہ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (البقرہ ۲:۴۴)’’کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ (النسائ۴:۸۲) ’’کیا وہ سوچتے نہیں؟ ‘‘ اَفَلاَ یَنْظُرُوْنَ(الغاشیہ ۸۸:۱۷)’’کیا وہ دیکھتے نہیں؟ ‘‘ اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ (السجدۃ ۳۲:۲۶)’’کیا وہ سماعت نہیں رکھتے؟ ‘‘اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا(محمد۴۷:۲۴)’’کیا انھوں نے اپنے قلوب پر تالے ڈال لیے ہیں؟ ‘‘کیا تم گہرائی میں جاکر تلاش نہیں کرتے؟ کیا تم ایسی قوم ہو جو عقل سے عاری ہے؟ کیا تم نے آنکھیں موند لی ہیں؟ کیا تمھارے کان بہرے ہوگئے ہیں؟ کیا تم کائنات پر غور نہیں کرتے؟ کیا تم نے کبھی اپنے اندر چھپی ہوئی کائنات پر غور کیا؟ پھر تم کدھر چلے جارہے ہو؟ تم نے کس کو راہ نما بنا رکھا ہے؟ ان کو جو خود بینائی سے، فہم سے، شعور سے، آگہی سے محروم ہیں؟ جو خود اپنے نفع و نقصان پر قابو نہیں رکھتے؟
یہ وہ ثقافت ِعلم ہے جو قرآن کریم اپنے ہر پیروکار کے اندر جگانا چاہتا ہے اور ہرذہن کو جھنجھوڑ کر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غوروفکر کرے۔ وہ عقل کی آنکھ کھول کر زمین کو، فلک کو، جہان کو دیکھ کر، مشرق سے اُبھرتے سورج کے اُفق، مغرب میں ڈوبتے سورج کی شفق اور فضائوں کی نیرنگی کو تحقیق اور تجسس کی نگاہ سے دیکھ کر، خالق و مالک کی آیات پر غوروفکر کرتے ہوئے یہ عقلی فیصلہ کرے، کہ کیا اصل حاکم، شارع، مالک اور فرماں روا کوئی انسان، کوئی انسانی فکر یا انسانوں کے کسی گروہ کا مل کر کسی بات کو کہنا ہوسکتا ہے، یا ہر صاحب ِ علم کے اُوپر وہ العلیم ہے جو نہ صرف علم بلکہ قوتِ عمل کی تمام ممکنہ صلاحیتوں سے زیادہ قوت رکھنے والا العزیز، القدیر، القوی، العلیم اور اکبر اور اعلٰی ہے!
اسلام جس روایت اور ثقافت ِ علم کو قائم کرنا چاہتا ہے، اس کا مآخذ اور بنیاد اُن تمام بنیادوں سے مختلف ہے جو انسان نے اپنی محدود عقل، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر دریافت کی ہیں۔ ان بنیادوں میں سب سے پہلے انسانی فکر اور تعقل کو شمار کیا جاتا ہے۔ قدیم ترین تہذیبوں میں انسان نے کسی نہ کسی شکل میں اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے بعض باتوں کو درست تسلیم کیا اور بعض کو ردکیا۔ عقل کو حاکم بناتے ہوئے وہ جو فلسفی کہلائے، اس بات پر مُصر رہے کہ انسانی فکر کا منبع اور مآخذ قوتِ فکر ہے جسے تفلسف (philosophization) سے تعبیر کیا گیا، یعنی انسانی ذہن کا فکری زاویے تعمیر کرتے ہوئے اپنے فکری مفروضوں کی بنیاد پر کسی شے کی حقیقت کا دریافت کرنا۔ ظاہر ہے فکری طور پر جب سارا انحصار ایک مفروضے (hypothesis) پر ہوگا اور اگر وہ مفروضہ خود زمان و مکان کی قید سے آزاد نہ ہو، اور بالفرض حقائق پر مبنی نہ ہو تو جو فکر یا دیوار بنے گی وہ کجی سے نہیں بچ سکتی۔ یہی سبب ہے مغربی فکر میں جن فلاسفہ کو ارسطو اور افلاطون سے لے کر ہیگل اور کارل مارکس تک آئیڈیلزم کے مدرسے سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہ انسانی سوچ کو اپنارہنما بناتے ہیں اور اگر انسانی سوچ انھیں یہ بتائے کہ اصل حقیقت مادہ یا matter ہے تو پھر وہ مادیت پرستی کا فلسفہ تعمیر کرتے ہیں، اور اگر عقل یہ کہے کہ تصور یا idea ہر شے کی بنیاد ہے تو وہ idealism کے داعی بن جاتے ہیں اور ظن و گمان کی وادیوں میں گم رہتے ہیں۔
علم کی دوسری بنیاد حواس کے تجربے کو سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ علم حقیقی اور یقینی سمجھا جاتا ہے جس کی تصدیق انسانی حواس سے کی جاسکتی ہو۔ اس کو مشاہداتی حقیقت ( empirical reality) قرار دیا جاتا ہے اور جو چیز مشاہداتی طور پر تجربے میں نہ آسکتی ہو اسے عموماً رد کردیا جاتا ہے۔
علم کا ایک تیسرا ذریعہ اُس ذاتی ، روحانی یامابعد الطبیعیاتی تجربے کو قرار دیا جاتا ہے جو انسان اپنی کوشش اور توجہ سے حاصل کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں اسے بعض مخفی حقائق کا اِدراک ہوتا ہے اور جسے وہ روحانیت سے تعبیر کرتاہے۔ چنانچہ باطنی (esoteric) علم وہ سمجھا جاتا ہے جو پردوں میں چھپا ہوا ہو، اور وارداتِ قلبی کے نتیجے میں آشکارا ہو اور اس ذریعے سے حاصل ہونے والا علم معتبر اور صداقت پر مبنی سمجھا جاتا ہے، کیوںکہ اس طرح وہ جو محدود ہے غیرمحدود کے ساتھ رابطے میں آجاتا ہے۔ اس رابطے کو علم و تجربے کا نقطۂ کمال سمجھاجاتا ہے۔
قیاسی، تجربی اور روحانی تجرباتی ذرائع علم سے آگے نکل کر قرآنِ کریم نے علم کے جس سب سے بلند اور حقیقی ذریعے سے تمام انسانوں کو روشناس کرایا اس کا نام وحی الٰہی ہے، جو کسی انسانی کاوش کے نتیجے میں روحانی تجربے کی شکل میں واقع نہیں ہوتی اور نہ اس کا تعلق انسان کی اپنی ذاتی فکر سے ہے کہ جب انسان خواہش کرے تو وجود میں آجائے اور جب خواہش نہ کرے تو معطل ہوجائے۔ یہ وہ معروضی (objective) حقیقت ہے جس کا مشاہدہ روزِ روشن میں انبیاے کرام ؑ پر نزولِ وحی کے دوران ان کے ہم عصر سیکڑوں افراد نے خود کیا، اور جس کا واضح ثبوت اپنی اصل یا تحریف شدہ شکل میں، ماضی میں آنے والی کتب ِ سماوی میں انسانی تاریخ میں پایا جاتا ہے۔
وحی الٰہی کے علم کے سب سے زیادہ یقینی، حقیقی اور حتمی ذریعہ ہونے کی مثال انبیاے کرام ؑ کا لایا ہوا وہ کلامِ الٰہی ہے جسے انھوں نے کبھی اپنے آپ سے منسوب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ یہ کہا کہ یہ وہ امانت ہے جو ہمیں دی گئی ہے۔ ہمارا کام اس امانت کو جوں کا توں انسانوں تک یا بعض حالات میں مخصوص اقوام تک پہنچانا ہے۔ ہم اس میں نہ اضافہ کرسکتے ہیں نہ کمی۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اپنے اُوپر ظلم کریں گے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری شہ رگ سے پکڑ لے گا۔ گویا وحی کا ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطہ اور حرکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔ نبی ؑ اس میں زیر، زبر کی بھی کمی یا زیادتی نہیں کرسکتا۔ یہ نہ تجربی ہے، نہ قیاسی، نہ وارداتی بلکہ اپنی نوعیت کا الگ اور منفرد کلام، علم، نور اور ہدایت ہے۔ یہ اس ہستی کی طرف سے آتی ہے جس کے علم کی کوئی حد نہیں ہے۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ط اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o(الحج ۲۲:۷۰) کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
چوںکہ اُس نے ہی انسان کو وحی کے ذریعے علم دیا، اس لیے کہ وہ نہ صرف پوری کائنات بلکہ جتنی کائناتیں آج تک وجود میں آئیں اور آیندہ وجود میں آئیں گی، ان سب کا علم رکھتا ہے۔ اس لیے وہ انسان کے مبلغ علم سے بھی مکمل واقفیت رکھتا ہے۔ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ o (النحل ۱۶:۱۹)’’ حالاںکہ وہ تمھارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی‘‘۔
اس علمِ حقیقی کی اشاعت اور اس پر عمل کرنے کی دعوت کا آغاز ان پانچ آیات سے ہوا، جو پہلی وحی کی شکل میں نازل ہوئیں:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔
اس علم کے رکھنے والے، سمجھنے والے، اس پر عمل کرنے والے اور اس کی اشاعت کرنے والے اور وہ جو اس سے آگاہ نہ ہوں، کس طرح برابر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے انسانوں کے مراتب و درجات کا تعین ان کے رنگ، نسل، لسان، قومیت، صوبائیت سے نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر کیا:
اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَـآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ ط قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط اِِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (الزمر ۳۹:۹) (کیا اِس شخص کی روش بہتر ہے یا اُس شخص کی) جو مطیعِ فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے۔ آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے اُمید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰہُ لَکُمْ ج وَاِِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ o (المجادلہ ۵۸:۱۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کردیا کرو، اللہ تمھیں کشادگی بخشے گا۔ اور جب تم سے کہا جائے کہ اُٹھ جائو تو اُٹھ جایا کرو۔ تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
وحی کے ذریعے انسانوں کو جس علم سے نوازا گیا قرآنِ کریم اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک فضل، نعمت اور رحمت سے تعبیر کرتا ہے کیوںکہ اسی علم کی بناپر روشنی رکھنے والی آنکھ میں بینائی اور سوچنے والے دماغ میں جلا ہوتی ہے۔ اگر اس علم کو نکال دیا جائے تو دماغ نامی چیز رکھنے اور ذہن نامی غیرمادی شے کے دعوے کے باوجود ایک انسان، حیوان بلکہ اس سے بدتر بن سکتا ہے۔
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo (اعراف ۷:۱۷۹) اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل و دماغ ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔
قرآن کریم نے اپنے لیے جس مختصر نام کا انتخاب کیا وہ ’’الکتاب‘‘ یعنی The Book ہے جو معرفہ ہونے کی بناپر قیامت تک کے لیے اصل کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، اور اپنے سے قبل آنے والی تمام کتابوں میں جو حق نازل کیا گیا تھا اس کی تصدیق، اور جو اضافے اور تحریف کی گئی اس کی اصلاح کرکے احسن الحدیث کو انسانوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتی ہے۔
قرآن کی دوسری عظیم سورت کا آغاز ہی الکتاب کے تذکرے سے ہوتا ہے جو بیک وقت کم از کم تین اہم پہلوئوں کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔
اوّلاً: ہدایت، رہنمائی، حکمت، دانائی، نور اور صراطِ مستقیم اس کتاب میں متعین (definite) کردی گئی ہے۔ اس میں نہ کوئی ظنی بات ہے، نہ گمان نہ شبہہ بلکہ اعلیٰ ترین علم یقینی اور علم حقیقی اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ الکتاب ہے۔
دوسری جانب یہ کتاب ہے، جسے قیامت تک غور اور تحقیق کے ساتھ پڑھا [قَرَائَ یَقرئُ] جاتا رہے گا۔ الکتاب کو نازل کرنے کا واضح مفہوم ہی یہ ہے کہ آئو اس علم و نور کی طرف ، اسے نہ صرف پڑھو بلکہ اس کے ایک ایک لفظ پر ایک مرتبہ نہیں سیکڑوں مرتبہ غور کرو تاکہ اس کے اندر چھپے ہوئے علم کے خزانے کی چند کرنوں سے فیض یاب ہوسکو۔ قرآنِ کریم کا نزول اور الکتاب کا آنا ایک کتابی ثقافت کا احیا تھا کہ وہ جنھیں آج تک اُمّی کہہ کر خطاب کیا جاتا تھا، وہ اس عظیم کتاب کے حامل بن کر دنیا میں اس کتاب کے ذریعے علمی، فکری، ثقافتی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، قانونی، تعلیمی اور اخلاقی انقلاب برپا کرسکیں۔ اس الکتاب نے باربار متوجہ کیا کہ اس کے بھیجنے والے نے اسے انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ تو کوئی ہے جو اسے پڑھے، بار بار پڑھے اور اس پر غور کرے۔
ایک تیسرا پہلو جو الکتاب سے وابستہ ہے، وہ اس آفاقی کتاب اور تحریر کے ذریعے اس کے ماننے والوں کو خود ایک تحریری روایت کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ علم محض سماعی نہ رہے بلکہ تحریری شکل میں آگے سے آگے بڑھتا جائے۔ جن خوش نصیبوں نے اس پیغام کو پڑھا اور سنا انھوں نے ایک نہیں بلکہ اس الکتاب میں اجمالی علم کی سیکڑوں تشریحات اور تفصیلات تلاش کر کے انسانی تحریری سرمایے میں گراں قدر اضافے کیے اور آج تک کیے جارہے ہیں۔
الکتاب کی اس عظمت اور اہمیت کے علی الرغم آج کا نوجوان اپنے اردگرد کے ماحول سے اپنی وابستگی کی بنا پر سوچتا ہے کہ کتب بینی کی جگہ اگر وہ برقی ذرائع علم کو اختیار کرے تو نہ صرف برق رفتاری کے ساتھ بلکہ وسعت کے ساتھ وہ بہت سی معلومات کو حاصل کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا آج ایک ناقابلِ تردید ابلاغی انقلابی قوت ہے۔ اس کے صحیح استعمال سے سیاسی انقلابات واقع ہوسکتے ہیں۔ یہ توسیع علم کا ایک اہم انقلابی ذریعہ بن چکا ہے۔ لیکن اس تمام فائدے کے باوجود سوشل میڈیا ایک ذریعہ (means) تو ہے، ایک ماخذ (origin) نہیں ہے۔ اس کا ماخذ افراد کے تاثرات، احساسات، تعبیرات، تجزیے اور تجربے ہیں، جو تمام تر دعوئوں کے باوجود محدود، وقتی، قیاسی اور ظنی رہیں گے، جب کہ الکتاب علم کے حقیقی اور جامع مآخذ کا مقام رکھتی ہے اور جس کی بنیاد پر انسانی علم وجود میں لایا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا لازمی طور پر ایک جدید ذریعہ ہے جو علم کے نشرو ابلاغ میں غیرمعمولی طور پر مددگار ہے لیکن اس کا یہ مطلب لینا کہ اب کتاب اور الکتاب کی ضرورت میں کمی ہوسکتی ہے کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہوسکتا۔ ہاں، الکتاب پر مبنی علم کو آج نہ صرف تحریر بلکہ برقی ذرائع سے کم سے کم وقت میں تمام انسانوں تک پہنچایا جاسکتا ہے اور اس کا یہ استعمال ایک دعوتی مطالبے کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب سے رشتہ اور کتاب کی طرف رجوع بہرصورت ایک دینی، تحریکی اور علمی مطالبہ ہے۔ قرآن کریم نے اپنے بارے میں ’مبین‘ کے لفظ کا استعمال اس لیے کیا ہے کہ اس کی ہر بات بیّن، مبنی بردلیل آسان اور واضح ہونے کے ساتھ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ نہ صرف خود یہ الکتاب بلکہ اس کے زیرسایہ وجود میں آنے والا علمی ورثہ اور روایت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس سے استفادہ ایک بار نہیں بار بار کیا جائے۔ شاید بعض نوجوان اس بات کو مبالغہ سمجھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے زیرسایہ جو علمی روایت خود دورِحاضر میں وجود میں آئی خصوصاً مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ہرقسم کی مدافعانہ فکر سے آزاد ہوکر، فکری اعتماد اور دلیل کی قوت کے ساتھ مثبت طور پر قرآن کی فکر کو اپنی سلیس تحریر میں بیان کیا ، وہ بھی اس بات کی مستحق ہے کہ اسے باربار پڑھا جائے۔ وہ تفہیم القرآن کے حواشی ہوں یا قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر ہو یا خطبات اور دینیات یا دعوتِ اسلامی کا مقصد اور طریق کار، ان میں سے ہرہرتحریر کو جتنی مرتبہ بھی پڑھا جائے گا دعوتِ دین اور فہم قرآن کا کوئی نہ کوئی نیا زاویہ ہی علم میں آئے گا۔ الکتاب کا یہ معجزہ ہے کہ اس کے زیرسایہ ہر زمانے میں جو تحریر دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہے وہ خود زندگی کی حامل بن جاتی ہے۔
الکتاب کے تصورِ علم کی اوّلین بنیاد العلیم کی جانب سے بھیجی ہوئی وہ صداقت ہے جو زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر صرف ان پانچ آیات پر غور کیا جائے جو پہلی وحی کی شکل میں نازل ہوئیں تو جہاں علمی سفر کا آغاز اس حقیقت سے ہوتا ہے وہاں ’پڑھنے‘ کا ادب کیا ہوگا۔ کیا انسان صرف اپنی بصارت اور سماعت پر بھروسا کرکے پڑھنے کا عمل کرے یا وہ العلیم اور علم کے خالق کے نام سے مطالعہ کرنے اور غوروفکر کرنے کا آغاز کرے۔
فرمایا گیا: اللہ کے نام سے پڑھو۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اس پڑھنے والے کی اپنی تخلیق اور حیثیت کیا ہے اور نہ صرف وہ بلکہ تمام حیاتیاتی دنیا ( biological world) کس طرح وجود میں آئی ہے۔ وہ انسانی پیدایش کا نقطۂ آغاز ہو یا نباتات و حیوانات اور آبی حیات کا وجود، خالقِ حقیقی نے ہی اسے پیدا کیا ہے اور تمام طبیعیاتی دنیا (physical world) کا خالق بھی وہی ہے جس نے نہ صرف قلم سے انسان کو علم سے فیض یاب کیا بلکہ قلم ہی انسانی تہذیب کی نشوونما، سائنسی تحقیقات، ٹکنالوجی اور ابلاغی ذرائع کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنا۔الکتاب سے مسلسل طالب علمانہ تعلق ہی ایک انسان میں حق و باطل میں فرق، اخلاقی اور غیراخلاقی عمل میں تمیز اور عدل اور ظلم میں تفریق پیدا کرسکتا ہے۔
علم کی اصل بنیاد العلیم کا دیا ہوا علم ہے جس کا کچھ ضروری حصہ تخلیقِ آدم ؑ کے وقت انسانیت کو دیا گیا اور پھر وقتاً فوقتاً کتابوں کے ذریعے اس میں اضافہ کیا جاتا رہا ، حتیٰ کہ الکتاب نے آکر علم کو حتمی شکل دے دی۔ اس قطعی اور حتمی علم کے لانے والے اللہ تعالیٰ کے اپنے منتخب کردہ انبیاے کرام ؑتھے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بے شمار رحمتوں میں سے ایک عظیم رحمت انبیاے کرام ؑ کو حاملینِ وحی بناکر بھیجنا اور وحی کے علمِ حقیقی کے ذریعے انسانوں کی فکروعمل کی تطہیر ہے۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو چار مختلف مقامات پر معمولی تبدیلیِ ترتیب کے ساتھ ہمیں سمجھایا ہے۔ اختصار کی بناپر ہم صرف ایک مقام کا تذکرہ کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ فرمایا گیا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ج وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
قرآن کریم اس آیت مبارکہ اور سورئہ بقرہ (۲:۱۲۹و ۱۵۱) اور سورئہ جمعہ(۶۲:۲) میں بھی اسی پہلو کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ انبیاے کرام ؑ بطور داعی جس مقصد کے لیے بھیجے جاتے ہیں وہ جامع شکل میں چار وظائف ہیں۔
گویا تحریکی کارکن ہو یا قیادت، جب تک وہ اس کلامِ عزیز کے امین کی حیثیت سے اس کے الفاظ کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتے وہ اس بارِ امانت کو صحیح طور پر نہ سمجھے ہیں نہ اس کے اہل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ انبیاے کرام بطورِ معلم اور داعی پہلا کام یہی کرتے ہیں کہ اپنے ماننے والوں کو اس عظیم کلام کو صحیح طور پر ٹھیرٹھیر کر پڑھنے، تلاوت کرنے اور اس پر غور کرنے کی تربیت دیں۔ یہ علمی اور فکری تطہیر کا مقدمہ ہے۔
تزکیے کے عمل کو قرآن کریم نے خود بہت وضاحت سے مختلف مقامات پر بیان کردیا ہے کہ اسے کس طرح کیا جائے اور اس کی سب سے مکمل اور عملی شکل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کی شکل میں، رہتی دنیا تک ہمارے سامنے قابلِ عمل نمونے کے طور پر رکھ دی ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵) ’’فلاح پا گیا جس نے تزکیہ اختیار کیا اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی‘‘۔
اس کی وضاحت یوں کردی: یٰٓاََیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱-۴) ’’اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا اس سے کچھ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘۔
نماز، تہجد اور قرآن کا رشتہ انتہائی قریبی اور حقیقی ہے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی یاد نماز کی شکل میں اور قیام میں رکوع میں، حتیٰ کہ پہلو پر لیٹے ہوئے بھی، اللہ کا ذکر اختیار کرنا تزکیۂ نفس اور تزکیۂ ذات کی اعلیٰ شکل، خود کلامِ عزیز نے متعین فرما دی اور اسوئہ پاکؐ نے اسے تاریخ کی روشن مثال بنادیا۔
مال کے تزکیے کے لیے زکوٰۃ فرض کی گئی اور وقت اور تعلقات کے تزکیے کے لیے روزے کی سنت، لیکن اس میں بھی تزکیہ، نفس کشی کا نام نہیں بلکہ توازن و اعتدال سے سنت پاک کے دائرے میں رہتے ہوئے روزے رکھنا تجویز کیا گیا۔
مشہور حدیث کے مطابق، جب آپؐ کے تین اصحابؓ نے اُمہات المومنینؓ سے یہ سمجھنا چاہا کہ آپؐ کے لیل و نہار کیسے گزرتے ہیں، جب انھیں بتایا گیا تو انھوں نے آپؐ کی عبادت کی مقدار کو کم تصور کیا۔ کہنے لگے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا کیا مقابلہ، ان سے نہ تو پہلے گناہ ہوئے نہ بعد میں ہوں گے۔ ہم معصوم نہیں، ہم تو عام انسان ہیں۔ اس لیے ہمیں عبادت میں کثرت کے ذریعے تزکیۂ نفس کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک نے قصد کیا کہ تمام رات نماز میں مصروف رہے گا۔ دوسرے نے عزم کیا کہ مستقل روزہ رکھے گا اور تیسرے نے طے کیا کہ میں عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا، کبھی شادی نہ کروں گا۔ تزکیے کی ان تینوں شکلوں کو خاتم النبیین نے یک قلم منسوخ کرتے ہوئے توازن و عدل کے ساتھ تزکیے کی تعلیم فرمائی اور یہ اصول طے فرما دیا کہ نیکی سمجھ کر جو کام آپؐ کی سنت کے علی الرغم کیا جائے گا وہ ایسے فرد کو آپؐ کی اُمت سے خارج کردے گا۔ اس طرح دنیا کے تمام مذاہب کے تصور تزکیۂ نفس اور ریاضت ِ باطنی کو ردفرماتے ہوئے آپؐ نے ایک صالح شخصیت، صالح معاشرہ اور عادلانہ تہذیب کی تعمیر کے لیے اپنی سنت پر عمل کو شرطِ اوّل قرار دے کر انحراف کے تمام راستے بند کردیے۔
یہ تزکیہ ایوانِ اقتدار اور خود اقتدار کا بھی کیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت موسٰی ؑاور حضرت ہارون ؑ کو فرعون کے اقتدارِ اعلیٰ کو چیلنج کرنے کے لیے بھیجتے وقت وصیت کی گئی: ’’جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے [حد سے بڑھ گیا ہے] اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔([طٰہٰ ۲۰: ۴۳-۴۴)
یہ تزکیہ میدانِ جہاد میں بھی ہے کہ اپنی جان اور مال کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کو سربلند کرنے کے لیے لگا دیا جائے۔ یہ غیراخلاقی ثقافتی معاملات کا بھی ہے کہ ان سے پاک دامن رہتے ہوئے ان کی جانب کسی رجحان کے بغیر گزر جایا جائے۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o (المومنون ۲۳:۳) ’’اور لغویات سے اعراض کرتے ہیں (دُور رہتے ہیں)‘‘۔
رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں، جو دعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلّت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عملِ صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی بُرائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیساکہ پلٹنے کا حق ہے__ (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر اُن کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ (الفرقان ۲۵: ۶۳-۷۲)
اللہ تعالیٰ نے تزکیے کا کام بعد میں آنے والے کسی فرد یا افراد کی جگہ، خود خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری قرار دے کر، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ دروازے بند کردیے جن میں کوئی اور یہ تعلیم دے کہ میرے تجربے میں فلاں عمل سے یہ بات آئی ہے، اس لیے اس طریقے سے تزکیہ کیا جائے۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تزکیے کی تربیت دینے والا نہ آج تک کوئی پیدا ہوا ہے نہ ہوگا۔ اس لیے تحریک کے ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ قرآنِ کریم اور سیرتِ پاک میں تلاش کرے کہ سچائی کے ان دو سرچشموں نے کن کاموں کے ذریعے نفس کا تزکیہ، عقل کا تزکیہ، مال کا تزکیہ، وقت کا تزکیہ، خاندان کا تزکیہ، ثقافت کا تزکیہ، سیاست کا تزکیہ، باہمی تعلقات کا تزکیہ اور عالمی سطح پر فکر اور عمل کا تزکیہ کرنے کی تعلیم اور عملی مثال ہمارے سامنے رکھ دی ہے، تاکہ اہلِ ایمان ظن و گمان اور قیاس کی جگہ سنت ِ پاک کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مال، اپنے جسم و روح، اپنی صلاحیت، اپنی فکر، اپنے اختیارات، انسانی تعلقات اور معاملات، غرض پوری زندگی کا تزکیہ کرسکیں۔ اس کام میں قائد اور کارکن میں کوئی فرق نہیں۔ جو حکم قائد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا کہ وہ رات کے کچھ حصے کو اللہ کے حضور سرگوشی کرنے کے لیے مخصوص فرما لیں وہی حکم ایک عام کارکن کا ہے تاکہ وہ سیّدہ عائشہؓ کی روایت کردہ حدیث کی روشنی میں کم از کم دو رکعت جیسے مختصر عمل کو اپنا ذریعۂ تزکیہ بنالے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اس بظاہر چھوٹے عمل کو حدیث میں بڑے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے کیوںکہ اس چھوٹے سے عمل سے اگر اللہ اور رسولؐ خوش ہوتے ہیں تو یہ دورکعت ایک بہت بڑی ریاضت ہے۔ اُس سے بھی زیادہ جس کے لیے بعض مذاہب میں سنیاسی اور روحانیت کے متوالے ۳۰،۳۰ سال جنگلوں اور بیابانوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔
تحریکی قیادت اور کارکنوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ غوروفکر کرکے یہ دیکھیں کہ کس طرح آج کے حالات میں سنت اور حکمت کی تطبیق کی جائے گی۔ وہ وقتی سیاسی مفاہمت ہو یا طویل المیعاد دعوتی، فلاحی، سیاسی اور فکری حکمت عملی، ہرہرمعاملے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سنت پاکؐ ہمیں اس حوالے سے کیا بنیاد اور دلیل فراہم کرتی ہے۔ نہ صرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بلکہ دیگر انبیاے کرام ؑ کا اسوہ آج کے سیاسی معاملات میں کن مصالح کو تقویت دیتا ہے اور کن باتوں سے روکتا ہے۔ الکتاب نے اسی بنا پر ہمیں احسن القصص سے نوازا ہے کہ حضرت یوسف ؑ کا اسوہ ہو یا حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسماعیل ؑ ، حضرت موسٰی ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضرت دائود ؑ اور دیگر انبیاے کرام ؑ کا اسوہ، ان سب روشن مثالوں کو سامنے رکھ کر، ہم کس طرح نصوص پر مبنی سیاسی اور دعوتی حکمت عملی وضع کریں۔
ان چار جامع اصولوں کے ساتھ الکتاب نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر انبیا ؑ کی دعوت اور اسوہ کے دو اہم پہلوئوں کی طرف بھی متوجہ کیا ہے، یعنی ان کا انسانوں کے معاشرے سے ظلم، حقوق کی پامالی، فتنہ و فساد، عناد و عداوت کو دُور کرتے ہوئے عادلانہ معاشرے کا قیام، لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ(حدید ۵۷:۲۵) ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔
دعوتِ دین کا بنیادی مقصد ایک ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام ہے، جس میں نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں اور نباتات تک کے حقوق کی ادایگی کو فریضہ قرار دے دیا گیا۔ عدل کا قیام انبیا کے مشن کا ایک اہم پہلو ہے۔ یہ عدل انسان کے اپنے نفس سے شروع ہوتا ہے اور بتدریج اہلِ خانہ، والدین اور بیوی بچے ہوں یا پڑوسی اور محلے دار، ضرورت مند ہوں یا بے کس، یا وہ حیوانات بھی جنھیں وہ باربرداری کے لیے استعمال کرتا ہو، وہ ملازم جن سے وہ کام لیتا ہے، حتیٰ کہ وہ پانی کا ایک قطرہ جو و ہ بلاضرورت بہاتا ہے، یا وہ ایک ننھی سی چڑیا ہے جسے وہ بلاوجہ مار دیتا ہے___ عدل ان تمام اُمور کا احاطہ کرتا ہے۔ غرض یہ عدلِ اجتماعی اسلامی دعوت کا وہ اہم پہلو ہے جس کے بغیر کوئی تحریکِ اسلامی اپنا مشن پورا نہیں کرسکتی۔ تحریکات اسلامی دراصل معاشرتی سیاسی، معاشی عدل کے قیام اور ظلم و استحصال کے خاتمے کے لیے برپا ہوتی ہیں۔ یہ کُلّی معاشرتی تبدیلی کی علَم بردار عادلانہ تحریکات ہوتی ہیں۔
اس کے ساتھ ایک اور اہم پہلو دعوتِ دین اور نظامِ اسلامی کا مکمل طور پر قائم کرنا [لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبہ ۹:۳۳) ’’تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے‘‘] ہے۔ گویا الکتاب جس روایت ِعلم کی طرف بلاتی ہے، وہ دین کی مکمل تعلیمات کو بغیر اس میں کوئی کمی بیشی کیے جوں کا توں، بغیر کسی مداہنت اور معذرت کے، ہر دور کی زبان میں کھل کر پیش کرنے کی تعلیم دیتی ہے، اور دوسری جانب مکمل دین کے نظام کو دنیا میں نافذ اور رائج کر کے انسانیت کی فلاح، عدل کے قیام اور اخوت کے فروغ کا سبب بن جاتی ہے۔ اسلام دین و دنیا کی تفریق کو رد کرتا ہے جیساکہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لیے تمام زمین کو مسجد بنادیا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کا اصل مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کی مکمل بندگی کے نظام کا قیام ہے۔
تحریکِ اسلامی کا ایک بنیادی کام تطہیر افکار اسی بنا پر ہے کہ وہ انبیاے کرام اور خاتم النبیینؐ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے ان چھے بنیادی فرائض کو جیسا ان کا حق ہے ادا کرسکے۔ اس فرض کی ادایگی میں سب سے پہلے تحریک کو اپنی صفوں میں ثقافتِ علم کو تازہ کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم بار بار کہتا ہے کہ اسے ٹھیرٹھیر کر، سمجھ کر پڑھا جائے۔
کیا تحریک میں شامل ہوتے وقت بطور ایک شرط کے چند کتب کا مطالعہ بقیہ تمام زندگی کے دوران ایک شخص کو طلب ِ علم سے بے نیاز کرسکتا ہے؟ کیا تحریکی لٹریچر کا ایک مرتبہ پڑھ لینا مقصد ِ دعوت ، طریقِ دعوت، ہدفِ دعوت، حکمت ِ دعوت، ترجیحاتِ دعوت اور تنظیمِ دعوت کے حوالے سے کافی ہوسکتا ہے؟ کیا کسی کا محض ۲۰سال سے ایک تحریک سے وابستہ ہونا اس بات کی دلیل ہوسکتا ہے کہ وہ مقصد ِ دعوت، حکمت ِ دعوت، طریق دعوت اور تنظیمِ دعوت سے پوری واقفیت رکھتا ہے اور ان میں فرق کو سمجھتا ہے اور ان کے حوالے سے قرآن وسنت سے دلیل پیش کرسکتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے کسی اعلیٰ درجے کی سائنس کی ضرورت نہیں، صرف دو لمحات کے لیے تنہا بیٹھ کر اپنے احتساب کی ضرورت ہے اور ہرکارکن اور قائد جان سکتا ہے کہ وہ کس حد تک علم کے حسن کی خوبیوں سے آراستہ ہے اور اسے کس حد تک تطہیرفکر کے عمل کو دہرانے کی ضرورت ہے۔
تحریکی لٹریچر کے حوالے سے ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ مولانا مودودیؒ اور ان کے رفقاے کار نے ایک خاص دور کی مخصوص ضروریات کے پیش نظر دین کی تشریح کی، جب کہ اب حالات بدل چکے ہیں ، اس لیے وہ لٹریچر اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ مولانا مودودیؒ نے دین کی جو جامع تشریح کی اور دین کے اجتماعیت کے پہلو کو اُجاگر کیا وہ تنہا ان کی تعبیر نہیں، بلکہ ان سے قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی فکر کا رُخ بھی یہی تھا۔ اسی پہلو کو علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں پیش کیا اور سیرت النبیؐ پر جو علمی کتب تحریر ہوئیں ان سب کا مطمح نظر یہی رہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کسی خاص دور کے لیے اور دین کے کسی خاص پہلو پر مرتکز نہیں تھی بلکہ مکمل دین کی دعوت تھی۔ اس لیے سیّدمودودیؒ کا اس دور میں انتہائی عقلی اور نصوص پر مبنی دلائل سے یہ بات پیش کرنا ہر دور کے لیے ایک اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
دین کے اصول وقت کے ساتھ نہ بدلتے ہیں اور نہ ان میں کوئی قدامت ہوتی ہے۔ اگر دین کے اجتماعیت کے پہلو کو اب سے ۷۰سال پہلے اُجاگر کرنا ضروری تھا تو کیا آج اس کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا کل جس اسلامی نظامِ معیشت کا قیام ضروری تھا آج اُس کی ضرورت نہیں ہے؟ کل جس طرح سیاسی اقتدار ان لوگوں کے پاس ہونا چاہیے تھا جو امین اور صادق ہوں تو کیا آج یہ اصول بدل جائے گا؟ کیا کل جس شوریٰ کی ضرورت اور فرضیت تھی آج وہ باقی نہیں رہے گی؟ اس لیے یہ خیال کہ اب کسی اور دعوت کی ضرورت ہے، نہ عقل کا مطالبہ ہے اور نہ دین کے صحیح فہم کا پتا دیتا ہے۔ دین کے اصول چوںکہ عالم گیر اور آفاقی ہیں اس لیے وہ پاکستان سے باہر بھی یکساں قابلِ عمل رہیں گے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ فقہ کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ حالت کی تبدیلی سے حکم بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودی بھی اس سے اچھی طرح واقف تھے لیکن اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے لحاظ سے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ یہ مطلب نہیں کہ کل جو حرام تھا وہ آج حلال ہوجائے گا۔ شراب جیسے حرام تھی ویسی ہی رہے گی۔ اگر شراب کی جگہ کسی نشہ آور شے نے لے لی ہو تو وہی حکم اُس کے لیے ہوگا۔
حکمت عملی میں بھی قرآن کریم نے انبیاے کرام کی خصوصی مثالوں سے جن پہلوئوں کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ مستقل اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے یہ حکم دینا کہ اُس جابر، ظالم، دعواے خدائی کرنے والے سے بھی ’قول لیّن‘ (نرمی سے بات کرنا)کا استعمال کیا جائے۔ آج بھی وہی حکم ہے چاہے دعوت کا مخاطب دنیا کا سب سے زیادہ طاقت کا دعویٰ کرنے والا ملک ہی کیوں نہ ہو۔ قولِ لیّن، موعظہ حسنہ، شہادتِ حق، استقامت، صبر، ایثار و قربانی، اجتہادی طرزِفکر اور جہدِ مسلسل میں لگے رہنا، وہ اصولِ دعوت ہیں جو تحریکی لٹریچر کی جان، اور قرآن و سنت سے براہِ راست ماخوذ ہونے کی بنا پر، ان میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوسکتا۔ ہاں، شہادتِ حق کے لیے دعوت کے کس مرحلے میں ترجیحات کیا ہوں گی، وقت اور حالات کے لحاظ سے توسیع دعوت کے نئے طریقے کیا ہوسکتے ہیں؟ اس کا تعلق اُس فقہی اصول سے ہے جس کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کرتے وقت نہ مداہنت ہوگی اور نہ باطل کے ساتھ وفاداری۔
جب تک اپنی صفوں میں روایت ِعلم کو تازہ نہ کرلیا جائے ایک تعلیمی انقلاب کے عمل کو ملک گیر کرنے کا کام دینی صحت کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ روایت ِعلم کے قیام کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ جب تک ہر کارکن اور ذمہ دار مجتہدانہ مقام تک نہ پہنچ جائے صرف تطہیر فکر ہی کی جاتی رہے۔ اسلام میں پورے داخل ہونے کا آسان مفہوم یہی ہے کہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوکر، اس نیت سے آغاز ہو کہ زیادہ سے زیادہ قرآن و سنت کی پیروی کی جاسکے۔ اس عمل کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلی اور فلاح کے لیے دیگر کاموں کا کرتے رہنا ضروری ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تطہیرفکر کے عمل کے لیے سات سال مخصوص کردیے جائیں، جب تک یہ سات سال نہ گزر جائیں کوئی اور کام نہ کیا جائے۔ ایسا کرنا قرآن و سنت کی ہدایت کے منافی ہوگا۔ ہرآنے والا دن یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جو کچھ ایک انسان کے بس میں ہو وہ اس پر عمل کرے، اور اس انتظار میں نہ رہے کہ جب تک وہ ایک ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے جو اُس کے خیال میں ایک عالم کا ہے وہ دین کی دعوت نہ دے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ بلِّغوا عنّی ولو آیۃ کا واضح مفہوم ہے کہ ۲۳سال تک انتظار نہ کیا جائے کہ جب تک مکمل قرآن سمجھ کر اور عملاً زندگی میں نافذ نہ ہوجائے گا، ایک داعی باہر نکل کر اپنا کام شروع نہیں کرے گا۔ انسان کی جواب دہی بھی جو وہ جانتا ہے اور جو وہ جان سکتا ہے اس پر ہے، جو وہ نہ جان سکتا ہو اور نہ جانتا ہو اس پر نہیں ہے۔
تحریکاتِ اسلامی کا نقطۂ آغاز وہ بنیادی اصول ہیں جن کی طرف قرآنِ عظیم ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ اسلامی دعوت کے ان فکری ستونوں کو شعوری طور پر سمجھ لیا جائے تو پھر تعمیرِعمارت، تعمیرِحیات اور تعمیرِوطن کا نقشہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے، اہداف کا تعین ہوجاتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ اپنی جانب سے روایت ِعلم کی حکمت عملی وضع کرنے میں آسانیاں پیدا کردیتا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالذّٰارِیٰتِ ذَرْوًا o فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا o فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا o فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا o اِِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ o وَّاِِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ o (الذٰریٰت۵۱ :۱-۶) قسم ہے ان ہوائوں کی جو گرد اُڑانے والی ہیں، پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھانے والی ہیں، پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں، حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمھیں خوف دلایا جا رہا ہے، وہ سچی ہے اور جزاے اعمال ضرور پیش آنی ہے۔
یہ سورئہ ذاریات ہے۔ اس کا اصل موضوع تنبیہہ اور آخرت کا برپا ہونا ہے۔ اس میں قسم کھاکر یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے، یعنی مرکر دوبارہ اُٹھنا، اللہ تعالیٰ کے حضور میں سب انسانوں کا جمع ہونا اور جمع ہوکر اپنا حساب دینا، یہ سچا وعدہ ہے۔ یوم الدین، یعنی جزاوسزا کا دن واقع ہونے والا ہے۔
یہاں جس بات پر ان ہوائوں کی قسم کھائی گئی ہے جو بارش کا موسم آنے پر چلتی ہیں وہ یہ ہے کہ آخرت کا وقت آنے والا ہے اور یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ابتدا میں پراگندا ہوائیں چلتی ہیں اور خاک اُڑاتی ہیں۔ اس کے بعد پھر اپنے اُوپر بھاری بادل اُٹھاتی ہیں، یعنی پانی سے لدے ہوئے بادل۔ پھر ان کو لے کر چلتی ہیں۔ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا (۵۱:۴) پھر ایک بڑے کام کی تقسیم کرنے والی ہیں۔ یہاں ’امر‘ سے مراد بارش ہے۔
دراصل اس کی مناسبت یہ ہے کہ ہوائوں کا یہ انتظام اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ اس کائنات اور دنیا کا یہ نظام نہ الل ٹپ بن گیا ہے اور نہ الل ٹپ چل رہا ہے کہ کوئی اندھی بہری طاقتیں ہزاروں لاکھوں سال سے اس نظام کو چلائے جارہی ہیں، بلکہ یہ ایک منظم کائنات ہے جس کی پشت پر ایک قانون بڑی باقاعدگی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں یہ قانون بنایا ہے کہ زمین گردش کرتی ہوئی ایک خاص حصے میں داخل ہوتی ہے تو اس پر گرمی کا موسم آجاتا ہے۔ گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ سمندروں سے بخارات اُٹھتے ہیں۔ جس وقت یہ بخارات بڑی تعداد میں عالمِ بالا میں جمع ہوجاتے ہیں تو اس وقت خاص قسم کی ہوائیں چلنا شروع ہوتی ہیں۔ یہ ہوائیں ان بخارات کو بادلوں میں بدل دیتی ہیں اور پھر ان بھاری بادلوں کو لے کر چلتی ہیں۔سمندروں کے اُوپر سے اور مختلف خطوں کے اُوپر سے باقاعدگی سے گزرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہوائوں کے گزرنے کا قانون مقرر کر رکھا ہے اور ہرعلاقے سے وہ اسی حساب سے گزرتی ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا: فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ’’پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں‘‘۔ ایسا نہیں ہوتا، مثلاً کسی علاقے میں ۵۰منٹ کا اوسط ہے وہاں دو دن بارش ہوجائے اور کسی علاقے میں ۵۰منٹ کا اوسط ہے اور وہاں ایک دن بارش ہوجائے بلکہ باقاعدگی کے ساتھ پورے روے زمین پر بارش کے زمانے میں بارش ہوتی ہے۔ بالعموم جس ملک میں جس موسم میں بارش ہوتی ہے، اس زمانے میں وہاں بارش ہوتی ہے اور اس کی اوسط قائم رہتی ہے۔ اس میں تھوڑی بہت کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن ایک معمول قائم رہتا ہے۔
یہ ساری چیزیں اس بات کی متقاضی ہیں اور لازم ہے کہ اس کائنات میں ایک قدرت کے ساتھ ایک نظم قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے۔ اس نے بڑی حکمت کے ساتھ اپنی زمین پر رہنے والوں اور اپنی زمین کے مختلف حالات کے لحاظ سے نظم قائم کیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ حکیمانہ نظام ہے اور ایسا نظام نہیں ہے جس کو اندھی بہری قوتیں چلاتی ہوں۔ا گر اندھی بہری قوتیں اس نظام کو چلا رہی ہوتیں تو یہ نظام اس باقاعدگی کے ساتھ اور اتنی حکمتوں کے ساتھ قائم نہ رہتا۔
اب، جب کہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے تو پھر پورے نظام کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ اللہ تعالیٰ اس زمین کے اُوپر انسان کو پیدا کرکے، اس کو عقل دے، تمیز دے، اختیارات دے، اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر اس کو قدرتیں عطا فرمائے یا وہ اپنے حاکمانہ اختیار کو استعمال کرے، اور یہ سب کچھ دینے کے بعد اس سے کچھ نہ پوچھے کہ جو کچھ میں نے تجھے دیا ہے اس کا تو نے کیا کیا ہے؟ اس میں اخلاقی حِس پیدا کرے، نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کر کے اس کے اندر یہ احساس پیدا کرے کہ نیکی کا نتیجہ اچھا ہونا چاہیے اور بدی کا نتیجہ بُرا ۔ اس کے ہاتھوں سے اس دنیا میں نیکی بھی ہو اور بدی بھی، وہ ظلم بھی کرے اور انصاف بھی۔ یہ سارے مختلف کام وہ زمین پر کرتا رہے اور اس کے بعد مرکر یہیں مٹی ہوجائے اور نہ کسی نیکی کا کوئی نتیجہ نکلے اور نہ کسی بدی کا کوئی نتیجہ۔ نہ کسی ظالم سے یہ پوچھا جائے کہ تم نے ظلم کیوں کیا ؟ اور نہ کسی مُنصف کو اس کے انصاف پر انعام دیا جائے۔ اس چیز کی توقع کسی حکیمانہ نظام میں نہیں ہوسکتی بلکہ ایک اندھے بہرے نظام سے ہی ہوسکتی ہے۔
اگر یہ اندھا بہرا نظام ہے تو اس میں انسان کو بھی پیدا کیا گیا ہے جس کو اتنا کچھ دیا گیا ہے اور بااختیار بنایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد وہ یہ کہتا ہے کہ اس نظام کو اندھی بہری طاقتیں چلارہی ہیں۔ دوسری طرف ان اندھی بہری طاقتوں میں یہ بات بھی ہے کہ وہ اخلاقی حِس بھی انسان میں پیدا کرتی ہیں اور نیکی اور بدی کی تمیز بھی۔ اس سب کے باوجود اگر کوئی انسان کہے کہ اس نظام کو اندھی بہری طاقتیں چلا رہی ہیں اور وہ اتنا ضدی ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اگر ہٹ دھرم نہیں ہے تو اسے خود یہ محسوس ہوگا کہ جو طاقتیں زمین کو چلا رہی ہیں، گرمی اور سردی اور تپش کا قانون اور مختلف طاقتیں جو زمین میں کارفرما نظر آرہی ہیں، ان میں سے کسی میں بھی کوئی اخلاقی حس نہیں ہے۔ کسی کے اندر نیکی اور بدی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ کسی کے اندر نیک اور بد کی تمیز نہیں پیدا ہوسکتی۔ یہ کوئی حکیم ہی ہے جس نے انسان کے اندر یہ اخلاقی حس پیدا کی ہے، جو مادی طاقتوں کے اندر کسی میں موجود نہیں ہے۔ نہ ہائیڈروجن میں ہے، نہ آکسیجن میں اور نہ پانی اور ہوا میں۔ اس نے صرف انسان میں ہی یہ اخلاقی حس اور نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کی ہے۔
یہ ایک حکیمانہ نظام ہے اور کسی بھی حکیمانہ نظام میں اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی کو اختیارات دیے جائیں اور اس سے پوچھا نہ جائے کہ اس نے ان اختیارات کو کیسے استعمال کیا؟ کسی کو طاقتیں عطا کی جائیں اور یہ دیکھا نہ جائے کہ اس نے ان طاقتوں کو کیسے استعمال کیا؟ نیکی اور بدی کی تمیز پیدا کردی جائے اور پھر نیکی اور بدی کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہوائوں کا جو نظام تمھیں نظر آرہا ہے، یہ بتا رہا ہے کہ قیامت کے آنے کا جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے اور جزا و سزا کے واقع ہونے کی تم کو جو خبر دی جارہی ہے، یہ یقینا سچی ہے۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیکھے گا وہ یہ باور کرے گا کہ فی الواقع یہ چیز ہونے والی ہے اور یہ کائنات الل ٹپ نہیں چل رہی ہے۔
وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکِ o اِِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ o یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ o (۵۱:۷-۹) قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی، (آخرت کے بارے میں) تمھاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے۔
حُبُک کے دو معنی ہیں۔ اس کے معنی راستے کے بھی ہیں اور متفرق شکلوں کے بھی۔ جس طرح ریگستانی علاقوں میں کثرت سے ہوائیں چلنے سے لہریں پیدا ہوتی ہیں اور ان سے ریت کے تودے ٹوٹ پھوٹ کر لہروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ایسے ہی بعض اوقات آسمان پر بادل کٹے پھٹے ہوکر دُور دُور تک جہاں تک نگاہ جاتی ہے، نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قسم ہے اس آسمان کی جس میں راستے بنے ہوئے ہیں یا کٹے پھٹے بادل نظر آرہے ہیں، تم اپنے احوال میں مختلف ہو۔
یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ، ان مختلف احوال سے دھوکا کھاتا ہے، دھوکا کھانے والا شخص یعنی جس آدمی کی طبیعت ہی ایسی ہو اور جس آدمی کا مزاج ہی ایسا ہو کہ وہ دھوکے ہی کو پسند کرتا ہو، اور جو دوسروں کو دھوکا دینے والا ہو اور اسی کی بات سنتا اور قبول کرتا ہو، جو دھوکا دیتا ہے ، وہی شخص مختلف احوال سے دھوکا کھاتا ہے۔
یہاں آسمان پر مختلف بادلوں کی اور آسمان پر تاروں کے درمیان مختلف فاصلوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک تارے اور دوسرے تارے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ پھر دوسرے اور تیسرے تارے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے اور لامحالہ ان کے درمیان کتنے راستے ہوتے ہیں۔ آسمان پر متفرق طور پر جس طرح تارے بکھرے ہوئے ہیں اور متفرق طور پر آسمان میں یہ بادل بکھرے ہوئے ہیں، اسی طرح سے تمھارے احوال بھی مختلف ہیں۔
احوال سے مراد یہ ہے کہ لوگوں میں آخرت کے بارے میں مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ کسی نے یہ تصور قائم کرلیا ہے کہ کوئی آخرت نہیں ہونی ہے۔ انسان کو مر کر مٹی ہو جانا ہے اور کسی کے سامنے جواب نہیں دینا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ انسان پہلے بھی اس دنیا میں بار بار جنم لیتا رہا ہے اور آیندہ بھی باربار جنم لیتا رہے گا۔ جیسے اس کے اعمال ہوتے ہیں مرنے کے بعد وہ دوبارہ ان کے مطابق جنم لیتا رہے گا۔ کسی جنم میں وہ کتا بن کر اُٹھتا ہے، کسی جنم میں بیوی یا لڑکی بن کر اُٹھتا ہے۔کسی جنم میں حیوان بن کر اُٹھتا ہے اور کسی جنم میں چوہا بن کر اُٹھتا ہے۔ کوئی شخص جو تناسخ کا قائل ہے وہ اس طرح سے سوچتا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان زندہ تو ہوگا لیکن اللہ کے کچھ ایسے پیارے بندے ہیں خواہ ہم کچھ بھی کرتے رہیں لیکن وہ ہمیں بخشوا لیں گے کہ یہ تو ہمارے خاص بندے ہیں۔ کوئی دوسرا گناہ کرکے آئے تو وہ پکڑا جائے گا اور سزا کا مستحق ٹھیرے گا لیکن یہ بچ جائیں گے۔ اس طرح آخرت کے بارے میں لوگوں نے مختلف تصورات قائم کر رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے آخرت کے بارے میں جو مختلف احوال، عقیدے اور تصورات قائم کر رکھے ہیں، ان سے وہی شخص دھوکا کھاتا ہے جو دھوکا کھانا ہی چاہتا ہے۔
آدمی دھوکا اسی وقت کھاتا ہے جب آدمی کی طبیعت کا میلان اس طرف ہوتا ہے۔ جب اس سے اس طرح کی بات کی جاتی ہے تو وہ دھوکا کھاتا ہے۔ ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہونا ہے، کوئی آخرت نہیں ہونی، کوئی جواب طلبی نہیں ہونی۔ اس بات کو وہی شخص تسلیم کرتا ہے جس کا یہ دل چاہتا ہے کہ میں زمین میں جو چاہوں کروں، جس ڈگر پر چاہوں چلوں، جس کھیت میں چاہوں منہ مارتا پھروں، جس کے ساتھ جو چاہوں ظلم کروں اور مجھ سے کسی قسم کی جواب دہی نہ ہو اور کوئی جزا و سزا نہ ہو۔ اگر جزا و سزا کو وہ مان لے تو اس کی یہ آزادی ختم ہوجائے گی۔
جزا و سزا کے ماننے کے معنی ہی یہ ہیں کہ جس کا ہے اس کا ہوجائے۔ اگر اس کے دل میں یہ سوچ راسخ ہوجائے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کی جواب دہی خدا کے سامنے کرسکوں گا یا نہیں، یا جو کچھ کر رہا ہوں اس کا خمیازہ آخرت میں جا بھگتوں گا، تو یہ سب کچھ پھر اس طرح ہو نہیں سکتا۔ اس وجہ سے اس کا یہ جی چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح وہ کوئی ایسا عقیدہ اختیار کرے کہ وہ یہ سب کچھ دنیا میں کرتا رہے۔ جس کا چاہے حق مارے، جس سے جی چاہے زیادتی کرے، اور جس طرح چاہے اپنی خواہشات پوری کرے اور ان اعمال کا کوئی نتیجہ اسے نہ بھگتنا پڑے۔ اس وجہ سے وہ دھوکا کھاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوگا۔
اسی طرح سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میں اپنے جرائم کا کوئی نتیجہ نہ بھگتوں وہ اگر آخرت کو مانتا بھی ہے تو اس کے ساتھ شفاعت کا عقیدہ بھی اختیار کرتا ہے۔ شفاعت کا اسلامی عقیدہ یہ نہیں ہے کہ تم اطمینان سے جو چاہے جرائم کرو اور کوئی صاحب تمھیں آخرت میں بخشوانے کی ذمہ داری لے لیں کہ تمھیں بخشوانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ بس تم ہمارا نذرانہ دیتے رہو اور ہم تمھیں خدا سے معافی دلوا دیں گے۔ یہ عقیدہ لازماً ایسا ہی شخص قبول کرتا ہے اور جاکر نذرانے دیتا ہے۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ میں دنیا میں چوریاں کروں، بدمعاشیاں کروں، بدکرداریاں کروں، ظلم و ستم کروں اور کوئی صاحب ایسے ہوں جو مجھے وہاں بخشوا دیں، اور وہاں کسی قسم کے نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔
حقیقت میں نہ کوئی بے وقوفی سے دھوکا کھاتا ہے اور نہ سادہ لوحی سے، جو دھوکا دیتا ہے اور جو دھوکا کھاتا ہے، دھوکا دینے والے اور دھوکا کھانے والے کے درمیان ایک پردہ ہوتا ہے۔ ایک صاحب آخرت کا رونا روتے ہیں اور دل میں اس کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایک صاحب جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں اور پھر اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ یااللہ مجھے آیندہ کے لیے بچانے کا انتظام کر۔ لازماً اس طرح کی باتوں پر دھوکا وہی لوگ کھاتے ہیں جو جرائم پیشہ ہوں، جرم کرنا چاہتے ہیں اور جرم کر کے اس کی سزا سے بچنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح سے تناسخ کا عقیدہ وہی شخص اختیار کرتا ہے جس کا اس دنیا سے جانے کو کسی طرح بھی دل نہیں چاہتا۔ دوبارہ اسی دنیا میں آئے اور کسی طرح رہ لے۔ وہ اس دنیا کو کسی طرح چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔ اس لیے وہ یہ عقیدہ اختیار کرتا ہے کہ اگر بُرے کام کرو گے تو اس دنیا میں ضرور آئو گے خواہ کتا بن کر آئو۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تمھارے ان مختلف احوال میں دھوکا وہی شخص کھا سکتا ہے جو دھوکا کھانا چاہتا ہے۔ اگر کوئی شخص سوچ سمجھ سے کام لے، اس کائنات کے نظام پر غور کرے تو وہ کبھی نہ تناسخ کے عقیدے کو مان سکتا ہے اور نہ اس بات کو مان سکتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوتا، اور نہ اس بات کو مان سکتا ہے کہ تم دنیا میں جرائم کرو اور کوئی ہستی وہاں تمھیں بچا لے۔
قُتِلَ الْخَرّٰصُونَ o الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ غَمْرَۃٍ سَاہُوْنَ o (۵۱:۱۰-۱۱) مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے، جو جہالت میں غرق اور غفلت میں مدہوش ہیں۔
خرص عربی زبان میں قیاس، اندازہ اور تخمینہ لگانے کو کہتے ہیں۔ جیسے کہ کوئی شخص اگر ایک باغ ٹھیکے پر لینا چاہتا ہے تو وہ باغ میں جاکر ایک نگاہ ڈال کر اندازہ کرے گا کہ اس باغ میں کتنا پھل ہے، اور جو شخص ٹھیکے پر دینا چاہتا ہے وہ بھی اندازہ کرے گا کہ اس میں کتنا پھل ہے۔ اس اندازے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان ایک فیصلہ ہوتا ہے۔ گویا اس سے مراد کسی چیز کے بارے میں بغیر علم کے محض قیاس کی بنا پر اندازہ لگانا یا اندازے سے حکم لگانا ہے۔ جو شخص باغ کے پھل کا اندازہ لگاتا ہے وہ اسے گنتا اور تولتا نہیں ہے۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ آندھی آنے پر کتنا پھل ٹوٹ جائے گا اور یہ کہ کتنا پھل پرندے کھا جائیں گے۔ ایک اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باغ اتنا پھل دے جائے گا اور اس کی بنیاد پر وہ سودا کرتا ہے۔
ایسے سودے دنیا کے چھوٹے چھوٹے باغوں اور کھیتوں کے بارے میں تو ہوسکتے ہیں لیکن ایک شخص ایسے اندازے، تخمینے اور اٹکل پچو سے اتنے بڑے معاملے کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس کی صفات کیا ہیں؟ اور اگر نہیں ہے تو یہ دنیا کیسے چل رہی ہے؟ اسی تخمینے اور قیاس کی بنا پر وہ یہ بھی فیصلہ کرلیتا ہے کہ اس دنیا میں میری حیثیت کیا ہے؟ میں کسی کا بندہ ہوں یا نہیں یا شتر بے مہار ہوں جو اس دنیا میں اتفاقاً آگیا ہے اور چُھوٹا پھر رہا ہے۔ مجھے کسی کو جواب دینا ہے یا نہیں؟ جس کے سامنے جواب دینا ہے کیا وہ رشوت خوار تو نہیں یا اس کے کوئی ایسے چہیتے تو نہیں ہیں جو اسے بخشوا لیں گے؟ اس طرح کے اتنے بڑے اور دین کے بنیادی معاملات کو اگر کوئی شخص اٹکل پچو سے طے کرے اور ان کے بارے میں ایک عقیدہ اختیار کرلے اور اس عقیدے پر ایمان رکھے اور لوگوں کو دعوت دے کہ وہ اس کی تصدیق کریں اور اس بات کو مانیں، تو یہ حقیقت میں تباہی کا راستہ ہے۔
اگر ایک باغ کے بارے میں اس نے اندازہ کیا اور اس کے بعد آندھی آئی اور اس کا پھل تباہ ہوگیا تو اس سے جو نقصان ہوگا وہ ایسا تباہ کن نہ ہوگا کہ وہ تباہ و برباد ہوجائے۔ لیکن جو شخص اس کائنات کے بارے میں محض تخمینے اور قیاس کی بنا پر کوئی فیصلہ کرڈالے اور وہ فیصلہ غلط نکلے تو اس آدمی کا کیا حشر ہوگا؟ یا کسی شخص نے یہ فیصلہ کرلیا کہ خدا نہیں ہے، مرنا نہیں ہے، حساب کتاب نہیں دینا ہے۔ اس کے بعد جب وہ مر کر دوسری زندگی یا دوسرے مرحلے میں داخل ہوا اور یکایک اسے جاکر معلوم ہوا کہ خدا بھی ہے، اس کے فرشتے بھی ہیں اور اسے حساب کتاب بھی دینا ہے اور مرنے کے بعد دوسری زندگی بھی ہے۔ دنیا میں اسے جو وقت عمل کے لیے ملا تھا وہ سارا وقت اس نے اپنے اندازے سے ضائع کردیا۔ اب اس سے بڑھ کر تباہی اور بربادی کا سودا اور کیا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ اٹکل پچو لگانے والے مارے گئے اور تباہ ہوگئے، یعنی اپنے ہاتھوں انھوں نے اپنے آپ کو جس خطرے میں ڈال دیا اس سے ان کا سارا کیا کرایا تباہ و برباد ہوگیا۔ ان کا پوری عمر کا سرمایہ تباہ ہوگیا۔ اس نے پوری عمر جن کاموں پر محنت کی، یہاں آکر معلوم ہوا کہ ان سب کے نتیجے میں ازلی جہنم کی سزا ہوگئی ہے۔ جن چیزوں پر اس نے عمربھر کا سرمایہ لگایا وہ سارے کا سارا یہاں آکر ختم ہوگیا۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عقیدے کے معاملے میں محض قیاسات پر بنیاد نہیں رکھنی چاہیے۔ قیاسات پر بنیاد رکھنے والا غلطی کرتا ہے۔ لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عقیدے کی بنیاد علم پر ہونی چاہیے۔ آدمی کو معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے۔
اس کے لیے قرآنِ مجید نے جو راستہ بتایا ہے اسے اگر آپ غور سے دیکھیں گے تو یہ معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نبی ؐ کے ذریعے سے حقیقت کا علم براہِ راست عطا کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام کیا ہے؟ کس نے بنایا ہے؟ اس نظام میں تم کس حیثیت سے آئے ہو؟ تمھاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تمھاری زندگی کا مآل اور انجام کیا ہے؟ تمھارے لیے دنیا میں کام کرنے کی صحیح صورت کیا ہے؟ وہ کیا قانون ہے جس پر چلنا چاہیے؟ کن راہوں پر تمھیں چلنا چاہیے؟ کون سے ضابطے ہیں جن کی پابندی تمھیں کرنی چاہیے؟ کن افعال کا کیا نتیجہ تم دیکھنے والے ہو؟ یہ ساری چیزیں حقیقت کے مطابق امرِواقعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کے سواکوئی صحیح علم رکھنے والا نہیں ہے، اس کے سوا اس حقیقت کو جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ انبیا ؑکے ذریعے اس حقیقت کو اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے۔
آپ کو عقل دی گئی ہے، آپ کو حواس دیے گئے ہیں۔ آپ آنکھیں رکھتے ہیں دیکھنے کے لیے۔ آپ کان رکھتے ہیں سننے کے لیے۔ آپ حواس رکھتے ہیں محسوس کرنے کے لیے۔ یہ ساری دنیا اور کائنات آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جس کا دن رات آپ مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس کے آثار آپ کو نظر آرہے ہیں۔ آپ کے پاس عقل ہے۔ان آثار کا اندازہ لگا کر اور مرتب کر کے آپ منطقی نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ ایک طرف یہ صلاحیت آپ کو دی گئی ہے اور دوسری طرف انبیا ؑکے ذریعے علم دیا گیا ہے۔ آپ کو جو حواس دیے گئے ہیں اور جو ذرائع معلومات دیے گئے ہیں وہ براہِ راست حقیقت تک تو نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن آپ کو اس قابل کرسکتے ہیں کہ جب نبی ؑ کے ذریعے سے آپ کو علم دیا جائے تو آپ اپنے مشاہدے اور حواس سے کام لے کر اسے جانچ اور پرکھ سکیں۔ آپ کے سامنے جو زیادہ سے زیادہ اقوال آتے ہیں انھیں آپ پرکھ سکیں کہ ان میں سے کون سا زیادہ معقول ہے، مثلاً یہ کہ ایک قول یہ آتا ہے کہ خدا نہیں ہے، یا یہ قول آتا ہے کہ بہت سے خدا ہیں، یا نبی ؐکا یہ قول آتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی خدا ہے۔
اب آپ اس کائنات پر غور کریں اور جائزہ لیں کہ کیا اس بات کی کوئی شہادت ملتی ہے کہ اس کائنات کو بہت سے خدا چلا رہے ہیں؟ اب جو شخص عقل سے کام لے گا اور کائنات کا مشاہدہ کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ نبی ؑ جو خبر دے رہے ہیں کہ اس کائنات کا ایک ہی خدا ہے، وہی بات درست ہے۔ اس کائنات کے بہت سے خدا نہیں ہوسکتے۔
اسی طرح ایک قول آپ کے کان میں یہ پڑتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کائنات کا عظیم الشان نظام خود بخود قائم ہوگیا ہے۔ اگر کوئی عقل سے کام لے اور کائنات کا جو مشاہدہ اسے حاصل ہو رہا ہو اور اس سے جو معلومات اسے مل رہی ہیں اگر وہ اپنی عقل کے مطابق انھیں مرتب کرے، اس کا دل یہ گواہی دے گا بشرطیکہ وہ تعصب میں مبتلا نہ ہو کہ اتنا عظیم الشان نظام جو لاکھوں، کروڑوں اور اربوں برس سے چل رہا ہے، وہ نہ بغیر خدا کے بن سکتا ہے اور نہ بغیر خدا کے چل سکتا ہے۔ یقینا انبیا ؑ کی یہ بات صحیح ہے کہ اس نظام کا ایک مالک ہے اور وہی خدا ہے اور وہی اس نظام کو چلا رہا ہے۔
ایسا ہی معاملہ آخرت کا ہے۔ آدمی براہِ راست اپنے تجربے اور مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھنا ہے اور خدا کے ہاں جواب دہی کرنی ہے۔ صرف انبیا ؑ کے ذریعے ہی یہ معلوم ہوسکتا ہے۔یہ علمی طور پر معلوم ہوتا ہے محض قیاس نہیں، کہ یقینا مرنے کے بعد اُٹھنا ہے۔ نبی ؑ آکر ہمیں خبردیتا ہے کہ آخرت برپا ہونی ہے۔ اب ہم اپنی عقل اور مشاہدے سے کام لیں اور اس بات کو جانچ کر دیکھیں کہ جو مختلف اقوال ہمارے سامنے آرہے ہیں، کہ مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوتا، یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد بار بار اس دنیا میں آنا ہے، یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد خدا کے سامنے جانا ہے، لیکن کچھ سفارشیں کرنے والے ایسے ہیں جو ہمارے بُرے اعمال کے نتیجے سے ہمیں بچالیں گے۔ پھر نبیؐ کا یہ قول بھی کہ مرنے کے بعد حساب دینا ہے اور اس کے مطابق ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق فیصلہ ہوگا، اور جیسا عمل کرو گے ویسا نتیجہ ہوگا۔ جب آپ اپنی عقل سے کام لے کر ان مختلف اقوال کو جانچیں گے تو یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انبیا ؑ کا قول ہی صرف معقول ہے۔ نہ یہ بات معقول ہوسکتی ہے کہ انسان دنیا میں ۶۰، ۷۰، ۸۰ برس زندہ رہے اور ہر طرف ظلم و ستم کرتارہے اور کبھی اس کو جاکر کوئی جواب دہی نہ کرنا ہوگی۔
اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ انسان بار بار اس دنیا میں آکر پھر عمل کرے۔ ایک ہی زندگی کے عمل کے نتائج سے انسان فارغ نہیں ہوسکتا کہ دوسری زندگی اور دوسرا عمل شروع ہوجائے۔ لامحالہ اس کا فیصلہ تب ہی ممکن ہوگا کہ اس کا حساب کتاب بند کیا جائے۔ جب یہ بند ہوگا تو تب ہی اس کی جانچ پڑتال ہوگی اور اس کا فیصلہ ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک عمل کے ختم ہونے سے قبل دوسرا شروع ہوجائے اور دوسرے کے ختم ہونے سے قبل تیسرا شروع ہوجائے۔ اس سے یقینا یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آخرت ہونی چاہیے۔ یہی ایک زندگی ہے جس کا موت کے بعد حساب کتاب ہونا ہے اور بار بار کی زندگی نہیں ہوسکتی۔
عقل خود گواہی دے دے گی کہ یہ بات سراسر انصاف کے خلاف ہے کہ ایک آدمی چوری کرے اور اسے کوئی سزا نہ دی جائے اور دوسرا آدمی چوری کرے اور اسے سزا دے دی جائے۔ ایک چور کو محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے کہ اللہ میاں کے کچھ چہیتے کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ یہ میرا متوسِّل ہے ، اور مجھے نذرانے دیتا رہا ہے، لہٰذا اسے نہ پکڑا جائے۔ دوسرا آدمی کسی کو رشوت دے کر نہیں آیا، اس لیے اسے پکڑ لیا جائے اور اسے سزا دے دی جائے۔ انسان کی عقل خود کہہ دیتی ہے کہ یہ بالکل انصاف کے خلاف ہے۔ اگر یہ کائنات کسی حکیم نے بنائی ہے تو اسے ضرور عادل اور منصف ہی ہونا چاہیے، اور اس کے ہاں یہ بے انصافی نہیں چلنی چاہیے کہ لوگوں سے رشوتیں لی جائیں اور سفارشیں سنی جائیں اور اس کی بنا پر ایک گناہ گار چھوڑا جائے اور دوسرے گناہ گار کو پکڑا جائے۔
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ خراصون ، یعنی جو لوگ محض اٹکل پچو کی بنیاد پر اور اپنے قیاس اور گمان کی بنیاد پر اتنے بڑے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں وہ مارے گئے اور یہ تباہی کا راستہ ہے۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ نبیؐ کے ذریعے سے جو علم آتا ہے اسے اپنی عقل کے ذریعے سے جانچو، پرکھو اور دیکھو اور اس کے بعد جب یہ اطمینان ہوجائے کہ جو شخص اپنے آپ کو نبیؐ کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے وہ فی الواقع بالکل معقول بات کہہ رہا ہے اور اس کی اپنی زندگی بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے اور اس کا کام بھی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ آدمی واقعی نبی ہونا چاہیے، لہٰذا اس کی نبوت کو مانو اور اس کے کہنے کے مطابق عمل کرو۔
یَسئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ o (۵۱:۱۲) آخر وہ روزِ جزا کب آئے گا؟
اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ روزِ جزا کے متعلق کفار بھی پوچھا کرتے تھے اور آج بھی بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ دن کب آئے گا؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آخرت کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے ہیں اور ایمان داری سے یہ پوچھتے ہیں کہ قیامت کب برپا ہوگی، کس سنہ میں، کس ماہ اور کس روز اور کس وقت برپا ہوگی؟ اور ان کا منشا یہ ہے کہ اگر آپ نے تاریخ ان کو بتا دی، مثلاً سنہ پانچ ہزار میں، ستمبر کے مہینے میں ہفتے کے روز، صبح ساڑھے آٹھ بجے قیامت برپا ہوگی، تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ یہ ان کی غرض نہیں تھی۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں سنہ اور فلاں مہینے میں قیامت برپا ہوگی تو کسی کے پاس جاننے کا کیا ذریعہ ہے کہ فی الواقع ایسا ہوگا؟
ایمان لانے کے لیے یہ سوال کرنا اور نہ کرنا یکساں اور لاحاصل ہے۔ کسی کو ماننا ہے تو دلیل سے مانے، تاریخ پوچھنے کے کیا معنی؟ درحقیقت جو لوگ تاریخ پوچھتے تھے وہ چیلنج کے انداز میں پوچھتے تھے، نہ کہ ایمان لانے کے لیے۔ وہ مذاق اُڑانے کے لیے اور چیلنج کے طور پر پوچھا کرتے تھے کہ جناب آپ جو فرما رہے ہیں کہ ہم کسی وقت دوبارہ اُٹھیں گے اور اپنے خدا کو حساب دیں گے، ذرا بتایئے تو سہی کہ وہ دن کب آئے گا؟ ہم آپ کو جھٹلا رہے ہیں، پتھر مار رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، اذیتیں دے رہے ہیں، اگر ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی تو وہ عذاب کیوں نہیں آجاتا اور کیوں نہیں ہمیں پکڑ لیتا؟ گویا کہ وہ قیامت کو ایسی حالت میں، جب کہ وہ قیامت کو نہیں مان رہے ہیں، رسولؐ کو جھٹلا رہے ہیں، اس کے باوجود ان کی پکڑ نہیں ہورہی ہے، ان کو جواب دہی نہیں کرنی پڑ رہی ہے، کوئی پولیس نہیں آتی جو انھیں گرفتار کر کے اللہ کے حضور میں لے جائے، اس بات کو وہ اس بات کی دلیل بنانا چاہتے تھے کہ تم بالکل غلط خبر دے رہے ہو کہ کوئی قیامت ہوگی، آخرت ہوگی، جواب دہی کرنا ہوگی اور جزا و سزا ہوگی۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قرآنِ مجید میں ان لوگوں کے اس سوال کا جواب اس انداز میں دیا گیا ہے کہ بعض اوقات آدمی حیران ہو کر سوچتا ہے کہ کوئی شخص علم حاصل کرنے کے لیے پوچھ رہا ہے کہ قیامت کب آئے گی؟ تو اسے کیوں نہیں بتا دیا جاتا کہ قیامت کب آئے گی؟ چونکہ وہ علم حاصل کرنے اور ایمان لانے کے لیے نہیں پوچھ رہے تھے اور ایمان لانے کے لیے اور علم حاصل کرنے کے لیے یہ سوال کرنا بالکل بے معنی تھا، وہ تو چیلنج کے انداز میں اور مذاق کے طور پر پوچھتے تھے۔ اب ان کے سوال کا جواب دیکھیے۔اللہ تعالیٰ ان کے سوال کا جواب دیتے ہیں:
یَوْمَ ھُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ o ذُوْقُوْا فِتْنَتَکُمْ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ o(۵۱:۱۳-۱۴) وہ اس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے۔ (ان سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔
اب بجاے اس کے کہ تم یہ بات سن کر اپنے اعمال، اپنے اخلاق اور کردار کو درست کرتے، بلکہ یہ دھمکی لگانا شروع کر دی کہ ہماری شامت کا وہ وقت آجائے، تو لو وہ تمھاری شامت کا وقت آگیا۔ تم جلدی کر رہے تھے کہ وہ دن آئے جب تمھاری خبر لی جائے، تو لو وہ دن آگیا جب تمھاری خبر لی جائے گی۔ یہ جواب اس لیے دیا گیا کہ وہ مذاق اُڑانے کے لیے پوچھ رہے تھے۔ اس لیے ان سے کہا جا رہا ہے کہ جس چیز کا تم مطالبہ کر رہے تھے، لو اب وہ آگئی ہے اور اب اس کا مزا چکھو![جاری]۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: امجد عباسی)
قرآن وسنت کے مطابق ایمان اور آزمایش آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ بندۂ مومن کو خوشی اور غمی ہر حال میں اجر ملتا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مومن کے لیے ہرحال میں خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے خوشی ملے اور وہ شکر کرے تو یہ اس کے لیے خیر ہے، اور اگر غم سے دوچار ہو اور اس پر صبر کرے تو یہ بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔ اللہ سے عافیت مانگنی چاہیے لیکن اگر آزمایش آجائے تو اللہ سے ہمت واستقامت کی دعا کرنی چاہیے۔ آج پوری امت کسی نہ کسی صورت میں ابتلا کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور حیاتِ طیبہ بڑا سہارا فراہم کرتی ہیں۔
نبیِ رحمتؐ کو اللہ نے اپنی ساری مخلوق میں سب سے نمایاں اور اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا۔جس قدر آپؐ کا مقام ومرتبہ بلند ہے،اسی قدر آپؐ پر شدید آزمایشیں بھی ڈالی گئیں۔بعض اوقات ایک انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ اس پر مشکلات کی یلغار کیوں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو شخص حضورِ پاکؐ کی تعلیمات سے واقف ہو وہ ان مشکلات ومصائب کے ہجوم میں بھی اللہ سے رشتہ استوار رکھے گا اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے گا۔ حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اَشَدَّ النَّاسِ بَلَائً اَلْاَنْبِیَائُ ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ ’’بلاشبہہ تمام انسانوں میں سے سب سے زیادہ آزمایشوں سے انبیاء کو سابقہ پیش آتا ہے،پھر جو لوگ (مقام و مرتبہ میں) ان سے قریب تر ہوتے ہیں،ان کو آزمایا جاتا ہے‘‘۔(تفسیرقرطبی المجلد السابع تفسیر آیت ۳، سورئہ عنکبوت روایت حضرت ابوسعید خدریؓ بحوالہ سنن ابن ماجہ)
اسی حدیث میں آپ کا ارشاد ہے: یُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلیٰ قَدْرِ دِیْنِہٖ ،’’ہر شخص کو اس کی دین کے ساتھ وابستگی کے مطابق ابتلا میں ڈالا جاتا ہے۔‘‘(ترمذی، ابواب الزہد، باب ماجاء فی الصبر علی البلائ)
اللہ کے تمام انبیا ؑکی زندگیاں اس حقیقت کو مکمل طور پر واشگاف کرتی ہیں کہ وہ بہت زیادہ آزمایشوں سے گزرے۔حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال راہِ حق میں ماریں کھائیں، زخمی ہوئے،ستائے گئے اور استہزا کا نشانہ بنتے رہے۔سیدنا ابراہیم ؑ خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا گیا، گھربار سے نکالا گیا،بیٹے کی قربانی کے امتحان سے آزمایا گیا اور اس سے بھی قبل نوجوان بیوی سیدہ ہاجرہؑ اور آنکھوںکے تارے، شیر خوار بیٹے اسماعیلؑ کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں تن تنہا چھوڑنے کا حکم ملا جس کی بلا چون و چراا طاعت کی گئی۔ سیدنا یعقوب ؑ ویوسف ؑ کی زندگیوں میں بھی سخت آزمایشوں کا طویل دور قرآن کے صفحات کی زینت ہے۔ اللہ کے صابر نبی حضرت ایوبؑ کی آزمایشیں ہمہ جہت وہمہ پہلو تھیں۔ جسمانی امراض وتکالیف سے لے کر اہل وعیال کی جدائی وفراق اور نہ معلوم کیا کچھ برداشت کرنا پڑا۔ حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت یحییٰ ؑ کے احوال پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھیں بے ساختہ بھیگ جاتی ہیں۔وقت کے ظالم حکمرانوں نے ان کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا مگر ان عظیم ہستیوں کی عزیمت قابل داد وتحسین ہے کہ اللہ کے در سے ذرہ برابر ادھر ادھر نہ ہوئے۔
حضرت یحییٰ (یوحنا) علیہ السلام نے جب (بنی اسرائیل کی) ان بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اٹھائی جو یہودیہ کے فرماں روا ہیرو دیس کے دربار میں کھلم کھلا ہو رہی تھیں، تو پہلے وہ قید کیے گئے، پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمایش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کرکے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا (مرقس، باب ۶، آیت ۱۷-۲۹)۔ حضرت عیسیٰ ؑ پر بنی اسرائیل کے علما اور سردارانِ قوم کا غصہ بھڑکا، کیوںکہ وہ انھیں ان کے گناہوں اور ان کی ریاکاریوں پر ٹوکتے تھے اور ایمان و راستی کی تلقین کرتے تھے۔ اس قصور پر ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ تیار کیا گیا، رومی عدالت سے ان کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا گیا اور جب رومی حاکم پیلاطس نے یہود سے کہا کہ آج عید کے روز میں تمھاری خاطر یسوع اور برابّا ڈاکو، دونوں میں سے کس کو رہا کروں، تو ان کے پورے مجمع نے بالاتفاق پکار کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے اور یسوع کو پھانسی پر لٹکا۔ (متی، باب ۲۷۔ آیت ۲۰تا ۲۶) (بحوالہ تفہیم القرآن، جلداول، ص ۸۱-۸۲)
حضور اکرم ؐ پر تو اول تا آخر آزمایشوں کی یلغار اور غم و اندوہ کی بھرمار نظر آتی ہے۔ آپؐ کے ہر امتی کو مشکل گھڑی میں اپنے نبیِ مہربانؐ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالنی چاہیے۔آپؐ رحمِ مادر میںتھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ نہ باپ نے اپنے عظیم بیٹے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،نہ عظیم بیٹے نے باپ کی آغوشِ شفقت کا لطف اٹھایا۔ماں نے مامتا کی مثالی محبت دی اور اس درّ یتیم کو بڑی توجہ اور پیار سے پالا پوسا۔ بیچ میں شیر خوارگی اور ابتدائی بچپن کا دور حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر بنو سعد میں گزرا۔ واپس آتے تو ماں کی آنکھوں کا یہ نور، جوانی میں بیوہ ہوجانے والی سیدہ آمنہ کے غم زدہ دل پر مرہم رکھ دیتا۔ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ مدینہ ومکہ کے درمیان مقام ابواپر حالت سفر میں محبوبِ کبریاؐ، ماں کی مامتا کی نعمت ِعظمیٰ سے بھی محروم ہوگئے۔یہ مالک ارض وسما کی مشیت تھی۔ غم کی ان گھڑیوں میں آپؐ کی خادمہ امّ ِایمن نے ننھے درّیتیم کو مامتاکا بدل عطا کیا جو خود ان کے لیے ایک عظیم ترین تاریخی اعزاز اور اللہ کے ہاں بے مثال درجات کا ذریعہ بنا۔
سردار قریش،بزرگ سردارِ قبیلہ، عبدالمطلب جو اپنے پوتے کی سانس کے ساتھ سانس لیتے تھے، محبوب بیٹے کے بعد پیاری بہو کے اچانک وفات پاجانے پر اس دُہرے غم سے دوچار ہوئے تو لختِ جگر محمد و احمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو اور بھی اپنے سے قریب کر لیا۔ بوڑھا سردار مجلسوں کی صدارت بھی کرتا،قومی و قبائلی امور ومعاملات میں فرائضِ منصبی پر بھی توجہ دیتا مگر ہر چیز سے زیادہ اب اس کے نزدیک یہ گلِ نو بہارؐ عزیز تر تھا۔ اس کی صبحیں بھی اسی کے دم قدم سے روشن تھیں اور اس کی راتوں کا سکون بھی اسی روشن چراغؐ سے وابستہ تھا۔ دوسال یوں بیتے کہ دادا نے اپنے بے مثل پوتے کو شفقتِ پدری بھی دی اور ماں کی مامتا کی کمی بھی محسوس نہ ہونے دی۔دوسال کا وقت جیسے پلک جھپکنے میں بیت گیا۔ اللہ نے اب دونوں پیاروں کے درمیان پھر سے جدائی کا فیصلہ کر لیا۔ آٹھ سا ل کی عمر میں یہ شجر سایہ دا ر بھی سر سے اُٹھ گیا۔ غم کے پہاڑ تھے اور صدمات کے ریگ زار مگر جسے خالق نے سید الانبیا وقائدِ انسانیت بنانے کا روزِ اول ہی سے فیصلہ فرمادیا تھا،اس کا قلب ِ نازک ان بھاری صدمات کو بھی سہ گیا۔عبد المطلب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اور محمد بن عبد اللہ کے شفیق چچااپنے خانوادے کے اس درّ نایابؐ کی دل جوئی میں لگ گئے۔ سبھی چچا غم گسار تھے مگر زبیراور ابو طالب نے تو تاریخ میں وہ مثال قائم کردی جس کی نظیر نہ اس سے قبل انسانی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ اس کو بعد کی تاریخ میں دہرانا کسی کے بس میں ہے۔یوں بچپن جوانی میں ڈھل گیا،پاکیزہ جوانی،طیب وتقدس مآب شب وروز،ہر آلایش سے پاک،ہر خوبی سے مزین! خزف ریزوں کے درمیان چمکتا ہوا ہیرا، ہر شخص کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا قیمتی موتی!محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم!!
جوانی میں اللہ نے قدرے سکون و خوش حالی بخشی۔ تجارت خوب چمکی۔مکہ کی سب سے معزز، زیرک اور مال دار خاتون حضرت خدیجہ بنت خویلد کے ساتھ تجارتی کاروبار میں شراکت کا تجربہ طرفین کے لیے انتہائی خوش گوار ثابت ہوا۔ اس منفرد تجربے نے اس عظیم خاتون کو اتنا متاثر کیا کہ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ مکہ کا یہ انمول ہیرا اس کے نصیب میں آجائے۔ خود محسنِ کائناتؐ نے بھی حضرت خدیجہ کی بے پناہ خوبیوں کو قریب سے دیکھ لیا تھا۔ یوں اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ مثالی جوڑا ترتیب دے دیا۔ مکہ کی مال دار بیوہ،زندگی کے ۴۰ سال گزار چکی تھیں، جب کہ آفتابِ رشدو ہدایتؐ ۲۵ بہاریں دیکھ چکے تھے۔یہ مثالی جوڑا تھا جس کی مثال تاریخ انسانی میں سب سے ارفع واعلیٰ ہے۔ اللہ نے دو بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں۔ یہ اس کا عظیم عطیہ تھا۔ دونوں بیٹے قاسم اور عبد اللہ المعروف طیّب اور طاہر یکے بعد دیگرے بالکل ابتدائی عمر ہی میں اللہ نے واپس لے لیے۔ حضرت قاسم ہی کی نسبت سے آپؐ کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ اللہ نے انھیںجنت میں اپنے گل دستے کی زینت بنالیا اور اپنے محبوب کو پھر درد وفراق کی مشکل گھاٹی سے گزارا۔ وہ حکیم ہے،وہ قادرِ مطلق ہے۔ اس کے برگزیدہ بندے نے صبر ورضا کے ساتھ سر تسلیم خم کردیا کہ یہی اس کے شایانِ شان تھا۔
قاسم اور عبد اللہ تو جوانی کاپھل تھے۔بڑھاپے میں اللہ نے ایک اور میٹھا میوہ عطا فرمایا۔ چاند سا بیٹا، جدّ امجد کے اسم گرامی پر ’ابراہیم‘ نام رکھا۔دودھ پیتا ابراہیم سید کونین کی آنکھوں کا تارا،دل کا قرار اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھا۔ اچانک بیماری نے آلیا۔ جنت کا پھول اپنے بے بدل باپ کی آغوش میں ہے،فرشتۂ اجل اپنا فرض ادا کرنے کے لیے آگیا ہے۔وہ بے چارا تو حکم کا پابند ہے ! ابراہیم آخری سانس لیتا ہے ،اس کائنات کا سب سے بڑا انسان ا س لمحے غم کے پہاڑ کے سامنے کھڑا ہے۔تقاضاے فطرت ہے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہیں۔ سعد بن عبادہؓ (سردار خزرج) دیکھ کر عرض کرتے ہیں: ’’ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ بھی رو رہے ہیں؟‘‘فرمایا: کہ دل زخمی ہے،آنکھیں اشک بار ہیں مگر ہم اپنے رب کی رضا پہ راضی ہیں۔ ہماری زبان سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکلے گا جو ربّ کائنات کو نا پسند ہو، اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
چاروںبیٹیوں میں سے رقیہؓ، ام کلثومؓ اور زینبؓ بناتِ محمد ؐ ایک ایک کرکے آپؐ کی زندگی ہی میں آخر ت کو سدھار گئیں۔صرف فاطمۃؓ الزہرا بعد تک زندہ رہیں۔ ان کے متعلق بھی سیدہ عائشہؓ صدیقہ کی ایک روایت ہے کہ مرض الموت میں فاطمہؓ آنحضور ؐ کے پاس بیٹھی تھیں،میں گھر کے کام کاج میں مصروف تھی۔میں نے دیکھا کہ فاطمہؓ بے ساختہ زاروقطار رو نے لگی ہیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد ،میں نے دیکھا کہ فاطمہؓ مسکرا رہی ہیں۔میں نے بعد میں فاطمہؓ سے اس صورت حال کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’امی جان ! بابا جان نے مجھ سے فرمایا کہ ان کے کوچ کا وقت آگیا ہے تو میں فرطِ غم سے رونے لگی، مگر اس کے بعد انھوں نے فرمایا: ’’لختِ جگر! میرے اہلِ بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آکر ملو گی‘‘۔ تو میں خوشی سے مسکرا دی‘‘۔ (امام البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج ۷، مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ، ص ۱۲۱-۱۲۲)
سیدۂ خواتینِ جنت آںحضور ؐ کے وصال کے بعد چھے ماہ زندہ رہیں اور پھر اپنے عظیم والد کے پاس جنت الفردوس میں چلی گئیں۔یہ ہے حاصلِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی اور عائلی احوال کی ایک جھلک۔ہمارے لیے یہ اسوئہ حسنہ ہے۔غم کے پہاڑ آجائیں تو اس عظیم شخصیت اور قائد انسانیت کی طرف دیکھیے۔ دل کو قرار مل جائے گا۔ صبر کیجیے، اللہ نعمتوں سے نوازے گا۔ وہی غموں کا مداوا کرسکتا ہے۔
حضور نبی پاکؐ کی بے شمار دعائیں ہیں جو غموں کے ہجوم سے نجات کے لیے آپؐ نے سکھائیں۔ یہاں حدیث پاک سے ایک مسنون دعا نقل کی جاتی ہے جو آپؐ نے اپنے صحابی حضرت ابو امامہ انصاریؓ کو سکھائی تھی اور اللہ نے ان کو غموں اورمصیبتوں سے نجات عطا فرمادی۔ ہمارے لیے بھی یہ دعا نسخۂ شفا اور دواے مرض ہے بشرطیکہ ہم پورے یقین کے ساتھ اللہ سے ان الفاظ میں طلب کریں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو ایک انصاری صحابی کو (جن کا نام ابوامامہؓ تھا) آپ نے مسجد میں بیٹھے دیکھا۔ آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا: کیا بات ہے کہ تم اس وقت، جب کہ کسی نماز کا وقت نہیں ہے مسجد میں بیٹھے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: حضرتؐ! مجھ پر بہت سے قرضوں کا بوجھ ہے اور فکروں نے مجھے گھیر رکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں ایسا دعائیہ کلمہ نہ بتا دوں جس کے ذریعہ دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ تمھیں ساری فکروں سے نجات دے دے اور تمھارے قرضے بھی ادا کرادے؟ (ابوامامہ نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ضرور بتادیں۔آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: تم صبح و شام اللہ کے حضور میں عرض کیا کرو: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَہْرِ الرِّجَالِ (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے اور بے کسی سے، اور سستی و کاہلی سے، اور بزدلی و کنجوسی سے، اور پناہ مانگتا ہوں قرضے کے بار کے غالب آجانے سے اور لوگوں کے دبائو سے)۔ ابو امامہ نے بیان کیا کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر عمل کیا (اور اس دعا کو اپنا صبح و شام کا معمول بنالیا) تو خدا کے فضل سے میری ساری فکریں ختم ہوگئیں اور میرا قرض بھی ادا ہوگیا۔(سنن ابوداؤد)
یہ مجرّب اور آزمودہ نسخے ہیں، تیر بہدف ہیں مگر جس رسول رحمت ؐنے ہمیں یہ بتائے اس سے حقیقی محبت اور اس پر پختہ ایمان اور جس ذات سبحانہ و تعالیٰ سے ہم طلب کرتے ہیں اس کی مکمل بندگی اور وفاداری کا اہتمام شرطِ قبولیت ہے۔ آئیے آج سچے دل سے عہد کریں کہ باری تعالیٰ اور اس کے رسولِ برحقؐ کے ہر حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کریں گے اور ان کی قائم کردہ تمام حدوں کا ہرحال میں احترام کریں گے۔ اللہ رب العزت ہر مشکل کو آسان بنادے گا اور ہر ابتلا کو اُخروی کامیابی کا ذریعہ بنا دے گا۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا کی زندگی کا ہر پہلو ہراعتبار سے کامل ترین ہے۔ آپؐ نے اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا اور اس کا تعارف آپؐ نے عملاً اس کے قیام [اقامت] کے ذریعے فرمایا۔ معاشی و سماجی اصلاحات کیں، مدینہ کے شہریوں کے رہن سہن کے اصول و ضوابط مرتب کیے۔ شہریوں کی روزمرہ ضروریات کی تکمیل کے لیے باضابطہ لوگوں کو تیار فرمایا۔ مسلمان کو اپنا معاش خود تلاش کرنے کی ہدایت دی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے ممکنہ طریقے بھی ارشاد فرمائے اور اس سلسلے میں ہرممکن حد تک عملی تعاون کا مظاہرہ بھی فرمایا۔
آپؐ کی آمد سے قبل مدینے میں کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ تمام نظام کا آغاز آپؐ ہی نے فرمایا اور اسے ترقی دی اور اس کے تسلسل اور ارتقا کے لیے اصول و ضوابط متعین کیے۔ آپؐ نے اس نظام کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی جو بعد میں چل کر ترقی یافتہ تہذیب کی بنیاد بنے۔
آپؐ نے جدید ترین خطوط پر مدینہ شہر کی منصوبہ بندی فرمائی۔ رہایشی سہولتوں اور آمدورفت میں آسانی کے حوالے سے بھی اصول و ضوابط متعین فرمائے، راستوں کو کشادہ رکھنے کی ہدایت فرمائی، نئے محلے قائم کیے اور کسی ایک مقام پر آبادی کو مرتکز کرنے کے بجاے حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر آبادیاں قائم کی جائیں۔ اجتماعی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مدینہ میں یہودیوں کے بازار کے مقابل اسلامی اصولوں پر ایک نئے بازار کی بنیاد رکھی۔ آپؐ روزانہ اس بازار کا دورہ فرماتے، اوزان و پیمانہ جات کا جائزہ لیتے اور کاروبار کرنے والوں کو غلطی پر ٹوکتے اور ان کی اصلاح فرماتے۔
کسی بھی شہر کی آبادکاری میں عدالت، ہسپتال، گیسٹ ہائوس، سڑکیں، پارک، تعلیم گاہیں، سیکریٹریٹ اور عبادت گاہوں کو بھی کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ رسولِ پاکؐ نے مدینے کی منصوبہ بندی کرتے وقت ان تمام ضروریات و سہولیات کو بھی ترجیحی حیثیت دی اور ان کے انتظام و انصرام کا باقاعدہ انتظام فرمایا۔
زیرنظر تحریر میں نبی رحمتؐ کی ذاتِ اقدس کے اس پہلو کی بعض جھلکیاں پیش کی جارہی ہیں۔
مدینہ منورہ کو قدیم زمانے میں ’یثرب‘ کہا جاتا تھا۔ یثرب ’ثرب‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں: ’شروفساد‘، یا ’تثریب‘ جس کے معنی گناہ پر مواخذہ کرنا اور گرفت کرنا ہے۔ ۱؎ نبی کریم ؐ کی آمد کے بعد اس کا نام طیبہ، طابہ اور مدینۃ الرسول ہوگیا۔ قرآنِ مجید میں اس کے دونوں نام یثرب اور مدینہ آئے ہیں۔ رحمت عالمؐ نے اسے یثرب پکارنے سے منع فرما دیا۔ مدینہ سرسبز و شاداب خطۂ زمین پر واقع ایک نخلستان ہے جہاں پانی کی فراوانی ہے اور جسے چاروں طرف سے سیاہ آتشیں چٹانوں نے گھیر رکھا ہے، جب کہ شہر کے شمال میں احد کا پہاڑ اور جنوب مغرب میں عسیر نامی کوہسار واقع ہے۔ ان کے علاوہ مدینے میں کئی وادیاں ہیں جن میں سے مشہور ترین بطحان، مذینب، مہروز اور عقیق ہیں۔ ان وادیوں کا سلسلہ جنوب سے شمال کی جانب چلا جاتا ہے۔ ۲؎
المدینۃ حرم ما بین عیر وثور ۴؎ مدینہ عیر سے ثور تک حرم ہے۔
جبلِ ثور اُحد کے پیچھے ہے، اور جبلِ عیر ذی الحلیفہ کی میقات کے پاس مکہ کی طرف ہے۔۵؎
اس مؤاخاتی نظام سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اسلامی سنہِ ہجری کے آغاز کے موقعے پر مدینہ منورہ میں کم و بیش مسلمانوں کے ۴۰۰ خاندانوں کے سربراہ پہلے ہی مسلمان تھے اور یقینا مسلمانوں کی حقیقی تعداد اس سے کافی زیادہ تھی۔
اس کے بعد کے مدنی دور میں جن آبادیوں کے افراد متفرق طور پر ایمان لاتے یا کسی جگہ کی چھوٹی آبادی ایمان لاتی تو ان کو مدینے میں لاکر بسایا جاتا، اور ان کی تعلیم و تربیت اور معاش کا انتظام کیا جاتا۔ اس طریقے سے رفتہ رفتہ مدینے کی مسلم آبادی تیزی سے بڑھنے لگی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو ہجری میں جب رسولِ پاکؐ نے ایک موقعے پر غزوہ میں شرکت کے لیے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو ان کی تعداد کوئی ۱۵۰۰ تھی۔ چنانچہ مسلمان مہاجرین کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہوتا چلا گیا اور وہ اپنی قرابت داریوں کی رعایت کرتے ہوئے مدینہ میں قیام پذیر ہوتے رہے۔ یہ تمام آبادکاری ایک مخصوص انتظام و انصرام کے تحت ہوئی۔ ہرآبادی کی ایک مسجد تھی، مارکیٹ تھی اور بعض بستیوں میں اپنا قبرستان تک بھی موجود تھا۔ ۸؎
من سعادۃ المرء الدار الوسیع والمرکب الھنی ۹؎ ، انسان کی خوش حالی کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں ان میں کشادہ مکان اور قابو کی سواری بھی ہے۔
چنانچہ مہاجرین مکہ کو ابتدا میں انصار کے ساتھ ان کے گھروں میں ٹھیرایا گیا، بعد میں نبی کریمؐ نے ان کے لیے قطعۂ اراضی کی فراہمی اور مکانات کی تعمیر کا منصوبہ بنا کر ان کو اپنے گھروں میں آباد کیا۔ ۱۰؎ اس آبادکاری کے لیے آپؐ نے افتادہ زمین کو استعمال کیا اور انصار کی طرف سے ہبہ کردہ آباد جگہوں سے بھی استفادہ کیا گیا۔ اس آبادکاری میں حضرت حارثہ بن نعمانؓ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس کام کے لیے نبی کریمؐ کو اپنی زمین اور مکانات ہبہ کیے۔ (وفاء الوفائ، ج۱،ص ۵۲۷)
ارفع البناء فی السماء واسئل اللّٰہ السعۃ (ایضاً) اُوپر کی منزل تعمیر کرو اور اللہ سے کشادگی کی دُعا بھی کرو۔
ان احکامات اور واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول پاکؐ مدینہ شہر کی آبادی اور اس کے وسائل میں تناسب قائم رکھنے کے لیے غیرضروری طور پر بڑھنے سے روکنے کے حق میں تھے اور دوسرے شہر آباد کرنے کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ یہ وہی پالیسی تھی جس پر بعد میں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے عمل کرتے ہوئے کوفہ اور بصرہ جیسے نئے شہر آباد کیے۔
مسجد نبویؐ جاے وقوع کے اعتبار سے مدینے کے وسط میں واقع ہے۔ جب رسول پاکؐ مکہ سے ہجرت کرکے تشریف لائے تو قبائ، بنوسالم اور کئی محلوں کے لوگوں نے دست بستہ اپنے یہاں قیام کی پیش کش کی، مگر حضور اقدسؐ قبیلہ بنونجار میں حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر فروکش ہوئے جو آج صحن مسجد کا حصہ ہے۔(سیرت النبیؐ، ج۴،ص ۱۱۶)
اس جگہ کے انتخاب کی حکمت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب ہم مدینے کی شاہراہوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہی ریاست کے سربراہِ اعلیٰ کی رہایش گاہ اور سیکرٹریٹ بھی تھا، جہاں منصوبہ بندی کی جاتی، جہاں سے فوج کشی کی جاتی، جہاں سے مبلغین اور معلمین بھیجے جاتے، جہاں حساب کتاب رکھا جاتا اور جہاں سے مختلف گورنروں اور دیگر ممالک کے سربراہوں سے خط و کتابت کی جاتی تھی۔
مرکزِ تعلیم: وہیں ایک چبوترے پر صفہ کی تعلیم گاہ بھی بنا دی گئی، جس کی حیثیت مرکزی اقامتی درس گاہ یا اعلیٰ تعلیمی ادارے کی تھی، کیوں کہ مسلمانوں کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ وہ ابتدائی تعلیم اپنے محلوں کی مساجد میں حاصل کریں۔ صفہ کی حیثیت تعلیم گاہ کے علاوہ نادار مسلمانوں کی پناہ گاہ کی بھی تھی۔ دن میں پانچ مرتبہ لوگوں سے رابطے کے لیے مؤذن کا تقرر کیا گیا۔
عہد نبویؐ میں تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ معلمِ کتاب و حکمت، محسنِ انسانیتؐ پر نازل ہونے والی اوّلین وحی کا اوّلین لفظ اقراء یعنی ’پڑھیے‘ تھا۔ قرآنِ حکیم نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ِ نبوت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۱) (رسولؐ اللہ ) تمھیں کتاب و حکمت اور اس چیز کی تعلیم دیتے ہیں جو تم نہ جانتے تھے۔
ہجرت سے قبل اگرچہ کوئی متعین تبلیغی و دعوتی مرکز نہ تھا جہاں رہ کر مسلمانوں کے لیے اطمینان و سکون کے ساتھ اپنی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ممکن ہوتا۔ اس دور میں نبی کریمؐ کی ذات ہی متحرک درس گاہ اور تبلیغی مرکز تھی۔ تاہم ہجرت سے قبل مدینہ منورہ میں ہی تبلیغی مرکز قائم ہوچکے تھے، جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے قائم کیا گیا تھا۔ قبل از ہجرت اسلام کی تبلیغ میں تیزی بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد آئی تھی۔ اس دور میں آپؐ نے حضرت معصب بن عمیرؓ کو مبلغِ اسلام بنا کر انصار کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج میں بھیجا تھا۔ ان کی محنت سے وہاں کے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے۔ اس دور میں پہلا تبلیغی مرکز مسجد بنی زریق تھی۔۱۲؎ اور تیسرا مرکز مدینہ کے شمال میں کچھ فاصلے پر نقیع الخصمات نامی علاقے میں واقع تھا۔ یہ مرکز درحقیقت حضرت اسعد بن زرارہؓ کے مکان میں قائم تھا ۔۱۳؎
ان درس گاہوں کے علاوہ اس زمانے میں مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں اور قبیلوں میں تعلیمی مجالس اور حلقے جاری تھے۔ جن میں بطور خاص بنونجار، بنو عبدالاشہل، بنوظفر، بنوعمرو بن عوف، بنوسالم وغیرہ کی مساجد میں اس کا انتظام تھا، اور عبادہ بن صامت، عتبہ بن مالک، معاذ بن جبل، عمر بن سلمہ، اسید بن حضیر، مالک بن حویرث رضوان اللہ اجمعین ان کے ائمہ اور معلمین تھے۔۱۴؎
ان تمام مراکز تعلیم و دعوت کی موجودگی کے باوجود آپؐ کی پیغمبرانہ حکمت و بصیرت نے فیصلہ کیا کہ تعلیم و تربیت کا مرکز ایسا ہونا چاہیے جہاں ہر روز مقررہ اوقات پر مسلمانوں کا اجتماع ہو اور اس اجتماع کی حیثیت گویا فرض و واجب کی ہو۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے آپؐ نے مسجد کو منتخب کیا۔ اس اعتبار سے مسجدنبویؐ اسلام کا پہلا مرکز تعلیم و تربیت ہے۔
اس مقصد کے حصول کی خاطرآپؐ نے مسجد نبویؐ کے ایک کنارے پر ایک جگہ مخصوص کرلی، جسے اس کے سائبان کی وجہ سے ’صفہ‘ کہتے تھے۔ یہ دراصل ایک کھلی اقامتی درس گاہ تھی، جس میں ہرچھوٹا بڑا شخص تعلیم و تربیت حاصل کرتا تھا، چاہے وہ اس میں اقامت گزیں ہو یا نہ ہو۔ مسلمانوں کی ایک جماعت جنھوں نے اپنی کُل زندگی دین اسلام سیکھنے اور سکھانے کے لیے وقف کردی تھی، تعلیم و تربیت کے حصول کے لیے اس میں اقامت گزیں ہوگئی۔ انھیں ’اصحابِ صفہ‘ کہتے تھے۔ اس اعتبار سے اگر مسجد نبویؐ کی اس درس گاہ کو عصرِحاضر کی اقامتی اور کھلی درس گاہوں کا پیش خیمہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔۱۵؎
رسول پاکؐ نے اس سلسلے میں دو اُمور کی طرف توجہ فرمائی۔ ایک طرف تو آپؐ نے زراعت اور ملازمت کے مقابلے میں تجارت کی حوصلہ افزائی فرمائی اور اسے فروغ دینے کی ضرورت واضح فرمائی۔ آپؐ نے ایمان دار تاجر کو اجر کے لحاظ سے صدیقین، شہدا اور انبیا علیہم السلام کے ہم رُتبہ قرار دیا۔ حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہت سچا اور امانت دار تاجر (روزِ قیامت) انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔۱۶؎
تجارت کرنے والے افراد کے لیے آپؐ نے برکت کی دعائیں کیں اور بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کی۔ نیز تجارت میں جھوٹ بولنے، دھوکا دینے اور بدمعاملگی کرنے پر پابندی لگائی۔ تاجروں کو یہ تنبیہہ بھی فرما دی کہ مالی اُمور کی نزاکت کے سبب اکثر تاجر روزِ قیامت گناہ گاروں کی صف میں ہوں گے، مگر سچے اور متقی تاجروں کا ان سے استثنا فرما دیا، فرمایا: ’’بلاشبہہ قیامت کے دن (اکثر) تاجر گناہ گار اُٹھائے جائیں گے، سواے ان کے جو اللہ سے ڈرے اور انھوں نے نیکی کی اور سچ کو اپنا شعار بنایا‘‘۔ (ترمذی، الجامع السنن، ج۳،ص ۵، قم: ۱۲۱۴)
حضرت عطا بن یسارؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے لیے مارکیٹ بنانے کا ارادہ فرمایا تو پہلے قینقاع کے بازار تشریف لے گئے، پھر سوق المدینہ کی جگہ آئے، اور آپؐ نے پائوں سے اشارہ فرمایا کہ یہ تمھاری مارکیٹ ہوگی۔(وفاء الوفائ، ج۱،ص ۵۳۹)
حضرت عباس بن سہیلؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی ساعدہ تشریف لائے اور فرمایا: میں تمھارے پاس ایک ضرورت سے رُکا ہوں۔ تم لوگ اپنے قبرستان کی جگہ مجھے دے دو، تاکہ میں وہاں مارکیٹ بنائوں۔ بعض لوگوں نے اپنے حصے کی زمین دے دی اور بعض نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ یہاں ہماری قبریں ہیں اور ہماری عورتوں کے نکلنے کی جگہ ہے، مگر بعد میں باہم گفت و شنید سے وہ جگہ حضوؐر کے حوالے کر دی گئی اور آپؐ نے وہاں مارکیٹ بنادی۔(ایضاً، ص۵۴۰)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مارکیٹ کی مرکزیت ، وسعت اور عوامیت کو برقرار رکھنے کے لیے فرمایا: یہ تمھارا بازار ہے، نہ تو اس کو کم کرو اور نہ اس میں ٹیکس لگائو۔(ایضاً)
اس حکم نامے کی حکمت یہ تھی کہ اگر بازار کی جگہ تنگ ہوگی یا اس میں خریدوفروخت پر ٹیکس لگے گا تو بیوپاریوں کی کثرت نہ ہوگی، لہٰذا ان دونوں باتوں سے گریز کیا جائے۔ رسولؐ اللہ نے اس مارکیٹ میں خریدو فروخت کرنے کی بڑی حوصلہ افزائی فرمائی۔
آپؐ نے فرمایا: ہمارے بازار میں سامان لانے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے مانند ہے اور بازار میں سامان روکنے والا اللہ کی کتاب میں سرکشی کرنے والے کے مانند ہے۔ (ایضاً، ص ۵۴۶)
آپؐ نے مزید فرمایا: سامان روکنے والا مجرم ہے۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء لا یبیع حاضرلباد)
مدینہ کی مارکیٹ کی وسعت اور مرکزیت بعد میں بھی برقرار رہی۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں ایک لوہار نے اس مارکیٹ میں ایک بھٹی لگالی، تو حضرت عمرؓ نے اسے منہدم کردیا اور فرمایا کہ تم رسول ؐ اللہ کی مارکیٹ کا دائرہ تنگ کر رہے ہو۔(وفاء الوفائ، ج۱،ص ۵۴۱)
مدنی زندگی کے آخری دنوں میں، بالخصوص۹ہجری میں، جب مفتوحہ ممالک کے وفود کی آمد کثرت سے ہونے لگی، جن کی تعداد بعض اوقات ۲۰۰ تک پہنچ جاتی تھی، تو بعض بڑی حویلیوں کو مہمان خانہ بنا کر ان کے قیام و طعام کا انتظام کیا جاتا تھا (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج۱، ص۳۴۶)۔ اس طرح رسولِ پاکؐ نے آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے انصار کی روایتی مہمان نوازی کے جذبے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ مہمان خانے بھی قائم فرمائے۔
اس بات سے گویا آپؐ نے دو رویہ ٹریفک اور بلدیاتی منتظمہ کا تصور دیا۔ سڑکیں شہر کے ڈھانچے کا ایک اہم حصہ ہوتی ہیں، انھیں ہر ممکن حد تک وسیع ہونا چاہیے تاکہ آنے جانے کے نظام میں کوئی خلل نہ پڑے۔
ابتدائی دور میں رفع حاجت کے لیے بالعموم مدینہ کے مرد و خواتین جنگل میں نکل جاتے تھے۔ رسولِ پاکؐ نے اس ضروری مسئلے پر بھی توجہ فرمائی۔ سب سے پہلے آپؐ نے سڑکوں اور سایہ دار درختوں اور اِدھر اُدھر رفع حاجت کرنے سے منع فرمایا۔ دوسرے یہ کہ آپ نے گھروں کے ساتھ بیت الخلا بنانے کی تعلیم و ترغیب دی۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ واقعۂ افک کا تذکرہ کرتے ہوئے اُمِ مسطح کے ساتھ ایک شب باہر نکلنے کی بابت فرماتی ہیں: ’’یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہمارے گھروں سے متصل بیت الخلا نہیں بنے تھے اور ہم اوّلین عربوں کی طرح باہر جاکر پاکی حاصل کرتے تھے‘‘۔ (اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن، ج۳، ص ۲۹۶)
ملکِ عرب میں بلدیاتی اور ریاستی سطح پر صفائی اور عوامی مقامات پر روشنی، سینی ٹیشن اور اسٹریٹ لائٹس کے منظم انتظام کی جانب پہلا قدم تھا۔
ایک مرتبہ رسول پاکؐ جب وادیِ عقیق کی سیر سے لوٹے تو آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: میں وادیِ عقیق سے آرہا ہوں، کتنی موزوں جگہ ہے اور کتنا میٹھا اس کا پانی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: پھر کیوں نہ ہم لوگ وہاں منتقل ہوجائیں؟ تو حضورؐ نے فرمایا: اب یہ کیسے ممکن ہے، لوگوں نے مدینے میں گھر بنا لیے ہیں (محولہ بالا)۔ صحابہ کرامؓ میں جو اہلِ ثروت تھے، وہ وہاں جاکر اپنے محلات تعمیر کرلیتے تھے۔ یہ گویا ان کے لیے ’سمرہائوس‘ تھے۔ اہلِ مدینہ کے لیے رسولِ پاکؐ کی طرف سے یہ ایک خوب صورت عطیہ تھا۔
نبی رحمتؐ کی حیاتِ طیبہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو آپؐ کی شخصیت صرف ایک روحانی پیشوا، مذہبی رہنما اور معلم اخلاق ہی کی نظر نہیں آتی بلکہ ایک مفکر، منتظم اور منصوبہ ساز کی بھی نظر آتی ہے۔ آخری رسولؐ ہونے کے ناتے اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کی تعمیر کی اَن گنت صلاحیتیں آپؐ کو ودیعت کی تھیں اور پھر اپنے فیضانِ خاص سے بذریعہ وحی آپؐ کی رہنمائی فرمائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں لحاظ سے آپؐ کامیاب رہنما اور حکمران ثابت ہوئے تھے۔ اس کی ایک مثال شہری آبادکاری اور تعمیرات کے سلسلے میں آپؐ کی وہ منصوبہ بندی ہے جس کی کچھ جھلکیاں اُوپر پیش کی گئی ہیں۔
۱- السمھودی، نورالدین علی بن احمد ، وفا الوفائ، مترجم: محمد زاہد حسینی، تذکرہ دیارِ حبیب، ص۲۲
۲- مدنی معاشرہ عہدِ رسالتؐ میں، اکرم ضیاء العمری، ترجمہ: عذرا نسیم فاروقی، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ، اسلام آباد، ۲۰۰۵ئ، ص ۶۶
۳- عہدنبویؐ کے میدانِ جنگ، ڈاکٹر محمدحمیداللہ ، نئی دہلی، ۲۰۰۱ئ، ص ۲۲
۴- مسلم،ابوالحسین مسلم بن حجاج بن مسلم، القشیری (م: ۲۶۱ھ/الصحیح، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی فیھا بل برکۃ۔
۵- السمھودی، نورالدین علی بن احمد، (م: ۹۱۱ھ)/ وفاء الوفائ، دارالنفائس، ریاض، س-ن، جلداوّل، ص ۹۴۔
۶- ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے بقول مقریزی نے ان کی تعداد ۱۸۶ بتائی ہے، وہ اس سلسلے میں ابن جوزی کے حوالے سے مقریزی کا قول نقل کرتے ہیں (دیکھیے: محمد حمیداللہ ڈاکٹر ،پیغمبرؐاسلام، مترجم: پروفیسر خالد پرویز، ملتان، بیکن بکس ۲۰۱۵ئ، ص ۱۹۴۔
۷- تفصیل کے لیے دیکھیے: عہدنبویؐ کے غزوات و سرایا اور ان کے مآخذ پر ایک نظر، سعید احمد اکبرآبادی، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ ۲۰۰۹ئ، ص ۴۹۔
۸- بہ تغییر یسیر، (دیکھیے: ڈاکٹر محمد حمیداللہ ،پیغمبرؐاسلام، مترجم: پروفیسر خالد پرویز، ملتان، بیکن بکس ۲۰۰۵ئ، ص ۲۲۲۔
۹- احمد بن حنبل، ابوعبداللہ الشیبانی، الامام (م:۲۴۱ھ)، المسند ، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۹۹۱ئ، ج۳،ص ۴۰۷۔
۱۰- ابن سعد اور سہمودی جیسے سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں اس منصوبہ بندی کی تفصیل بیان کی ہے۔
۱۱- احمد بن محمد القسطلانی /المواہب اللدنیہ، پوربندر، گجرات، ۱۴۲۱ھ، ج۱، ص۳۱۱۔
۱۲- ابن قیم الجوزیہ، ابوعبداللہ محمد بن ابی بکر (م:۷۵۱ھ) مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۷۹ئ، زادالمعاد، ج۱، ص ۱۰۰۔ ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی بکر محمد بن الجزری (م:۶۳۰ھ)۔ اسدالغابۃ، تذکرہ رافع بن مالکؓ / داراحیاء التراث العربی، بیروت، س-ن/ج۲،ص ۱۵۷)۔ دوسرا مرکز مدینہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پر واقع قبا کی بستی میں تھا۔ بخاری،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل (م:۲۵۶ھ) / الصحیح/کتاب الاذان، باب امامۃ العبد والمولیٰ/دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض، ۱۹۹۹ئ/ رقم الحدیث: ۶۹۲، ص ۱۱۳۔ ابن عبدالبر، ابوعمر یوسف بن عبداللہ بن محمد القرطبی (م:۴۶۳ھ)/ جامع بیان العلم، باب جامع القول فی العمل بالعلم/ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، مصر، س-ن/ج۲،ص ۶۔
۱۳- ابن ہشام ، ابومحمدعبدالمالک، (م: ۲۱۸ھ)/السیرۃ النبویۃ، العقبۃ الاولیٰ و مصعب ابن عمیر/داراحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۹۹۵ئ/ج۲،ص ۴۷-۴۸/ اسدالغابۃ، تذکرۃ اسعد بن زرارہؓ، ج۱،ص ۷۱
۱۴- مبارک پوری، قاضی محمد اطہر، خیر القرون کی درس گاہیں اور ان کا نظام تعلیم و تربیت، شیخ الہند اکیڈمی،بھارت، ۱۹۹۵ئ، ص ۳۷۔
۱۵- نصیراحمد ناصر، پیغمبر آخر واعظم، لاہور، فیروز سنز، ص ۴۱۶۔
۱۶- ابوعیسیٰ محمد بن عیسٰی الترمذی/الجامع السنن، دارالفکر، بیروت، ۱۹۹۴ئ/تحقیق:صدقی محمدجمیل عطار/ج۳، ص۵، رقم ۱۲۱۳۔
۱۷- بیہقی، ابوبکر ، الامام (م: ۴۰۸ھ)، السنن الکبریٰ، ملتان، نشرالسنۃ، س-ن، ج۶،ص ۱۵۵۔
۱۸- بخاری،الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب کنس المسجد/ج۱، ص ۱۷۵، رقم:۴۴۶۔ مسلم، ابوالحسین مسلم بن حجاج بن مسلم القشیری (م: ۲۶۱ھ)/الصحیح، کتاب المساجد، باب فضل صلاۃ العشائ، ۲:۵۹، رقم:۹۵۶۔
۱۹- حلبی، علی بن برہان الدین (م)،السیرۃ الحلبیۃ، بیروت،لبنان، دارالمعرفۃ، ۱۴۰۰ھ/ ج۲،ص ۲۷۸
۲۰- بخاری، باب الخیمۃ للمرضیٰ فی المسجد، صحیح ابن خزیمہ، باب الرخصۃ فی تمریض المرضیٰ فی المسجد، جزئ، ص ۱۴۸۔
۲۱- واقدی، محمد بن عمر (م:۲۰۷ھ) کتاب المغازی، تحقیق: محمد عبدالقادر احمد عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ، ص ۵۶۱۔
اِسلام کے عائلی نظام کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خاندان کے عناصر کی تعداد بہت وسیع ہے۔ اسلام نے اس حوالے سے جس اہتمام کے ساتھ احکام بیان کیے ہیں، اگر حقیقتاً مسلمان اُن سے آگاہ ہو جائیں، اُن پر اُسی طرح ایمان رکھیں جس طرح ایمان رکھنے کا حق ہے اور حقیقی طور پر اُن کا نفاذ کر لیں تو ایک مضبوط، خوشحال اور باہمی محبت کا خوگر خاندان وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ایک مربوط و مضبوط خاندان کی تشکیل عمل میں آئے۔
مغرب اور اسلام کے تصورِ خاندان میں یہ فرق ہے کہ مغرب میں یہ صرف ایک مرد اور ایک عورت کے جوڑے پر مبنی ہے اور کہیں اولاد میں سے بھی کوئی شامل ہوتا ہے ورنہ بیٹے بیٹیاں جوانی کو پہنچتے ہی اپنی راہ لیتے ہیں۔ بچوں کے جوان ہو جانے کے بعد والدین کا اُن سے کوئی عملی تعلق نہیں رہ جاتا۔ اسلام میں خاندان کی بنیادی اکائیاں اگرچہ میاں بیوی ہیں مگر ان کے ساتھ ماں باپ، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، بھائی بہنیں، چچا اور پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں بھی خاندان کی تشکیل میں شریک ہیں۔ اسلام میں خاندان سمٹا اور سکڑا ہوا نہیں بلکہ وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔ یہ چچائوں اور پھوپھیوں کی اولاد (عَصَبَات) اور ماموئوں اور خالائوں کی اولاد (اَرحام) پر مشتمل ہے۔
اسلام متعدد احکام کے ذریعے خاندان کے باہمی تعلقات کومضبوط اور مربوط کرتا ہے۔ اسلام نے ان خاندانی تعلقات کو احکام کے ایک جال کی صورت باہم مربوط کر رکھا ہے۔ صاحب ِاستطاعت اور کشادہ دست کے اوپر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ تنگ دست اور مجبور و ضرورت مند پر خرچ کرے۔ ایسے مسائل جن میں اس طرح کے مختلف مصارف پر خرچ کرنے کے احکام بیان کیے گئے ہیں انھیں احکامِ نَفَقات (فی سبیل اللہ خرچ کے احکام)کہا جاتا ہے۔ اَحکامِ دیت کے تحت قتلِ خطا کی دیت کا بیان ہے کہ مقتول کے عَصَبَات (باپ کی طرف سے قرابت دار) اور قبیلہ اس کا حق دار ہے۔ احکامِ میراث کے تحت وراثت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں معیّن درجات اور حصوں کے مطابق اقارب کا حق مقرر کیا ہے۔ اسلام کا یہ اہتمامِ احکام بتاتا ہے کہ خاندان کا شیرازہ اس نظام میں متحد رہنا چاہیے۔ کسی شاخ کو اپنی اصل سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔
رشتہ و قرابت کے استحکام اور نشوو ارتقا میں اسلام نے خصوصی ترغیب و تحریص سے کام لیا ہے۔ قریبی رشتہ داروں کا حق بیان کرتے ہوئے فرمایا:
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِط (البقرہ۲:۲۱۵)لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔
کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرہ۲:۱۸۰) تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا (النسائ۴:۷) مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔ خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔
احسان کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی (النسائ۴:۳۶) اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئو۔
وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا (النسائ۴:۱) اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
قطع رحمی کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا:
فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْo اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمْ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَہُمْ(محمد ۴۷:۲۲-۲۳) اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور رشتہ و قرابت کی رسیاں کاٹ ڈالو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور اُن کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔
قرآنِ مجید کی ان تعلیمات اور احکام کی تائید میں احادیثِ رسولؐ بھی وارد ہوئی ہیں: حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ عزّوَجلّ نے فرمایا ہے: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے رحم (رشتے)کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے اخذ کرکے رکھا ہے۔ جو شخص اس رحم کو قائم رکھے گا میں بھی اُس کو قائم رکھوں گا، اور جو اِس کو توڑ دے گا میں بھی اُس کو توڑ دوں گا۔
ایک حدیث میں آیا ہے:مسکین کو صدقہ دینے کا اجر ایک صدقے کا اجر ہے ، جب کہ رشتے دار کو صدقہ دینے کا اجر دوہرا ہے، ایک صدقے کا اور ایک رشتے کا۔
ایک حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے:بہترین صدقہ وہ ہے جو ناراض (مخالف اور دشمن) رشتے دار کو دیا جائے۔ اس لیے کہ اُس کے اور صدقہ دینے والے کے تعلقات میں دراڑ آ گئی ہے، محبت اور مودّت باقی نہیں رہی، لہٰذا اُس کے اوپر صدقہ کرنا اپنے نفس کو مارنا اور اِس کے اُوپر غالب آنا ہے اور یہی نفسِ انسانی کی تربیت اور تزکیہ ہے۔
ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ بھائی اپنے بھائی سے کینہ و کدورت رکھتا ہے۔ دنیا کے مال نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال اُس وقت تو اور زیادہ بُر ی ہو جاتی ہے جب معاملہ کسی وراثت سے حصہ لینے کا ہو۔ ہر کوئی لینا ہی چاہتا ہے دینا نہیں چاہتا۔
عفوودرگزر، رواداری اور برداشت کہاں چلی گئی؟ ایثار اور مودّت کا کیا ہوا؟ حالانکہ یہی بھائی اجنبی لوگوں کے ساتھ نہایت درگزر، بے پناہ محبت و الفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ کمال اخلاق، کشادہ ظرفی اور اعلیٰ انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر بھائی اپنے بھائیوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرا مارے، اُسے تباہ کرکے اپنا آپ سنوار لے۔
یہ درست ہے کہ مفادات کی یہ کش مکش اور جنگ قدیم انسانی تاریخ میں بھی تھی جب انسان واحد کنبہ تھا۔ اُس وقت صرف میاں بیوی اور بیٹے بیٹیاں ہی انسانی خاندان کے کل عناصر تھے۔ اس چھوٹے سے خاندان کے ایک فرد نے بھی اپنے بھائی کوقتل کر دیا تھا اور حسد کا مظاہرہ کیا تھا۔
اس واقعے کی صداقت اپنی جگہ، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آیندہ بھی ایسے ہی واقعات کا تسلسل جاری رہے۔ انسان کیوں یہ پسند کرتا ہے کہ وہ آدم کا شرپسند اور خبیث بیٹا بن جائے۔ وہ اچھا اور طیب ابن آدم بننا کیوں پسند نہیں کرتا؟ یعنی وہ صالح، نفیس اور امن پسند انسان جس نے قتل ہونا گوارا کر لیا مگر اپنے بھائی پر ہاتھ اٹھانا ایمان کے منافی سمجھا۔ اُس موقعے پر کہے گئے اُس کے الفاظ کے اندر اُس کے صالح جذبات اور ایمانی احساسات کا بھرپور مظاہرہ موجود ہے۔ اُس نے کہا:
لَئِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ج اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَo(المائدہ۵:۲۸) اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھائوںگا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔
آج کا انسان قابیل جیسا انسان کیوں بننا چاہتا ہے کہ قیامت تک جو بھی قتل ہو گا اُس کا جرم اور گناہ اُس پہلے قاتل پر بھی ہو گا کیونکہ اُسی نے اس زندگی میں قتل کی روایت کا آغاز کیا ہے۔ خدا کی قسم یہ حقیر دنیا اس قابل نہیں کہ اس کی بنا پر انسانوں کا قتل ہوتا رہے۔ بھائی اپنے بھائی سے دست و گریباں ہو اور تھانے کچہریوں میں مقدمات چلیں، پھر جیلیں اور قید خانے آباد ہوں۔ رشتہ دار اپنے رشتہ دار سے دشمنی مول لیں۔ واللہ یہ دنیا اس قابل نہیں!اگر اس دنیا کا وزن اور قیمت اللہ کے ہاں مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتا تو اللہ کافروں کو اس سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پینے دیتا۔
یہ بات باعث افسوس ہے کہ باہمی عداوتوں اور مخاصمتوں میں مبتلا لوگوں کی اکثریت صاحب مال، اہل دولت اور امیروں کی ہے۔ فقیر اور تنگ دستوں کی مخاصمت کے واقعات بہت تھوڑے ہیں۔ اُن بے چاروں کے پاس ہوتا ہی کچھ نہیں جس کے اوپر وہ نزاع کھڑا کریں،جب کہ نزاع پیدا کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی سوچ اور خیال یہ ہوتا ہے کہ میں کروڑوں نہیں اربوں کیسے حاصل کر سکتاہوں؟ سوچنا چاہیے کہ انسان یہ اربوں حاصل کرکے بھی اپنے استعمال میں کتنا لاتا ہے؟ انسان دولت کے یہ انبار چھوڑ کر چلا جائے گا کچھ بھی ساتھ نہیں لے جائے گا۔ انسان کو اپنے تعلقات ایسے بنانے چاہییں کہ اُس کے بعد دوسرے اُس کے لیے دعائیں کریں، اور یہ کام خاندان کے افراد کے ساتھ تعلق اُستوار کرکے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
دولت کی قیمت پر خاندان کے تانے بانے کو بکھیرنا، بھائیوں کی جمعیت کو پارہ پارہ کرنا بہت ہلکا سودا ہے۔ یہ شیطان کی پیروی ہے۔ شیطان انسان کو اکساتا ہے، سازشیں کرتا ہے، یہاں تک کہ رشتے داریاں تڑوا ڈالتا ہے۔ دین انسانی زندگی کی دو بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ پہلی بنیاد یہ ہے کہ انسان اور اُس کے معبود، یعنی اللہ کے درمیان تعلق مضبوط تر ہو۔ دوسری بنیاد یہ ہے کہ انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات قائم اور اُستوار ہوں، مضبوط اور بہتر ہوں۔ اس تعلق بین الناس کے بھی دو پہلو خصوصی اہمیت رکھتے ہیں:اہل ایمان کے مابین محبت و اُلفت اور اقارب و رشتہ داروں کے مابین تعلقاتِ محبت!چونکہ رشتہ و قرابت کے عناصر کو دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ حقوق حاصل ہیں اس لیے مسلم خاندان کی بقا، تحفظ اور نشوو ارتقا کی خاطر ان روابط اور تعلقات کے معاملے میں ہرلمحے خوفِ خدا سے کام لیا جائے۔ ان معاملات میں اپنی دانش مندی، دین داری اور دین پسندی کا مظاہرہ ہو۔ رب کے قرآن اور رسولؐ کی سنت سے رہنمائی لی جائے۔
محبت و اُلفت اور احترام و اکرام پر مبنی روابط اور تعلقات کو قائم رکھنا سب کا فرض ہے۔ رشتہ و قرابت کے تعلقات کو برابری کی سطح پر قائم رکھنا بے معنی اور بے مقصد ہے۔ حدیث رسولؐ میں آیا ہے: رشتے کے ربط و تعلق کو وہ شخص قائم نہیں رکھتا جو بدلے اور برابری کی سطح پر ایسا کرے، بلکہ وہ شخص رشتہ قائم رکھتا ہے جس سے رشتے کو توڑا جائے تو وہ اُسے توڑنے کے بجاے جوڑے۔
صلہ رحمی وہ نہیں کرتا جو جواباً صلہ رحمی کرے۔ دوسرے سے محبت ملے تو وہ بھی اُس سے محبت کرے، کوئی احسان کرے تو وہ بھی احسان کرے، کوئی میل ملاقات رکھے تو وہ بھی اُسے ملتا رہے، کوئی تحفہ تحائف دے تو وہ بھی ایسا کرے۔ ایسا شخص حقیقی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے۔ صلہ کا معنی ہی ٹوٹی ہوئی چیز کو جوڑنا ہے۔ حقیقی صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو تم سے کٹ جائے اُس سے جڑے رہو، اور جو تمھیں کچھ نہ دے اُسے تم عطا کرو۔ جو تم پر ظلم کرے اُسے معاف کر دو، اور جو تم سے بُرا سلوک کرے اُس سے تم حسنِ سلوک سے پیش آئو۔ یہ ہے وہ شان جو ایک خاندان کے افراد و عناصر کے درمیان ہونی چاہیے۔
جب دولت کم تھی، صرف گزارا ہوتا تھا تب خاندان کے ہر معاملے میں لحاظ رکھا جاتا تھا، اب دولت کی ریل پیل ہے مگر خاندانی روابط کو مستحکم کرنے اور صلہ رحمی کا کوئی اہتمام نہیں۔ تنگی و خوش حالی کی ان دونوں حالتوں کا موازنہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ تنگی کے وہ دن بہتر تھے جب خاندانی تعلقات کو قائم رکھنا اہم سمجھا جاتا تھا مگر آج یہ آسانی کے ایام بے وقعت ہیں جب خوش حالی کی بنا پر باہمی عداوتیں اور مخاصمتیں زوروں پر ہیں۔ تعلقات ٹوٹ رہے ہیں، محبتیں کمزور ہو رہی ہیں، کدورتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ محسن انسانیتؐ نے بجا فرمایا ہے کہ امیری سامان کی کثرت سے نہیں ملتی بلکہ نفس کی بے نیازی اصل امیری ہے۔(qaradawi.net)
یورپ کی نشاتِ ثانیہ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس سے افکارو نظریات میں بہت زبردست انقلاب رونما ہوا۔ یہ انقلاب اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھا، جس نے انسانیت کوہراعتبارسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ اس فکری و عملی انقلاب کا دائرہ اور اثرات انقلاب فرانس اور انقلاب امریکا کا بھی سبب بنے۔ اس طرح مذہب ، سیاست، معیشت، معاشرت پر نئے افکارونظریات نے تبدیلیوں کے راستے کھولے۔ یہ تبدیلیاں تعمیر و تخریب کی دُہری صفات کی حامل تھیں۔ فرد کی سطح پر تعلیم، تربیت، شخصیت اور کردار متاثر ہوئے تو رویوں میں بھی کش مکش ، نئے پن اور پرانے پن میں فاصلوں، مخالفت، حتیٰ کہ نفرت نے بھی جگہ بنائی۔
ان ہمہ گیر تبدیلیوں کو جس انقلاب نے جنم دیا، صورت دی یا وہ ان تبدیلیوں کا جواز ٹھیرا، وہ ’لبرل ازم‘ کا ابھرنا اور براہ راست مذہب و معاشرت کو چیلنج کرنا تھا۔ ’لبرل ازم‘ نے بادشاہت اور پاپائیت کی جنگ سے جنم لیا تھا۔ اس طرح جنگ ، کش مکش، تصادم اور تبدیلی اس کی پیدایشی صفات تھیں۔ سب کچھ تبدیل کرنے والا ’لبرل ازم‘ اپنی ان صفات سے کبھی بھی پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ آج بھی لبرل حکومتوں کا ریکارڈ انھی صفات سے بھرا پڑا ہے۔
’لبرل ازم‘ نے ان صفات میں سے تبدیلی کی صفت سے انسانیت اور معاشرے کو ہمہ گیر طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ اعتراف کرنا ناانصافی ہوگی کہ ’لبرل ازم‘ نے یورپ کو تاریک دور سے نکالا اور اس کے دور خوش حالی اور روشن خیالی کا ایک نیا باب تحریر کیا۔
o لبرل ازم:’لبرل ازم‘ کیاہے؟ یہ بہت آسان سوال ہے۔ ابتدا ہی میں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ ’لبرل ازم‘، سیکولرازم نہیں ہے۔ سیکولرازم منزل ہے،جب کہ ’لبرل ازم‘ راستہ ہے۔
’لبرل ازم‘ ایک سیاسی نظریہ ہے۔ یہ مذہب، اعتقاد یا ایمان سے مختلف ہے۔ اس نظریے یا فلسفے کی بنیاد دو اصولوں پر رکھی گئی ہے: پہلا اصول آزادی ہے اور دوسرا اصول مساوات۔ جس کام، کردار، عمل، رویے، فکر یا عقیدے میں یہ دو اصول موجود نہیں، یا ایک ہے اور دوسرا نہیں، اسے ’لبرل ازم‘ نہیں کہا جاسکتا۔ ان اصولوں سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا فرق ہے جو انسانی زندگی پر مرتب ہوتا ہے، اسے ذیل میں آسان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
ہم پہلے ’آزادی‘ کے اصول کو لیتے ہیں۔ ’آزادی‘ سے سادہ الفاظ میں مراد یہ ہے کہ انسان ایک فرد کی حیثیت سے ہر طرح سے آزاد ہے۔ اس پر کسی قدغن، پابندی، ضابطے ، اخلاق، قید یا سزا کے اطلاق سے اسے انسانی فطرت سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کوئی مذہب، الہامی، روحانی ہدایت یا فلسفہ اسے اس کی آزادیوں سے محروم نہیں کر سکتا۔ انسان کی حیثیت برتر ہے۔ کسی کی حاکمیت، خواہ وہ اللہ، خداوند ، رام، دیوتا ہی کیوں نہ ہو، وہ حاکمیت اعلیٰ نہیں۔ اس لیے معاشروں میں انسان کے سوا کسی کی حاکمیت اعلیٰ تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔ اسی اصول کی رو سے ریاست اور حکومت کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست سیکولر ہوتی ہے اور حکومت اپنے کام، کردار اور پالیسی میں سیکولر ہوتی ہے۔
اب آئیے مساوات کے اصول کی بات کرتے ہیں۔ جس قدر آزادی کا اصول ہمہ گیر سمجھا جاتا ہے مساوات کا اصول بھی اتنا ہی اہم ہے۔ تاہم اس کی اطلاقی حیثیت اور عملی کیفیت ابھی تک وہ نہیں ہے جو آزادی کے اصول کو حاصل ہو چکی یا دی جا چکی ہے۔ اسے یوں بیان کیا جاسکتاہے:
آزادی اور مساوات کے ان دو اصولوں کو تسلیم کرنا ’لبرل ازم‘ کا اولین تقاضا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ دو اصول مختلف اور متنوع اطلاق رکھتے ہیں۔ ان کا اظہار اور استعمال فرد، گروہ ، معاشرت، قوم اور ملک میں مختلف ہے۔ ان کی تشریحات مذہب، عقیدے، نظریے کی رُو سے یکساں نہیں ہیں۔ مغربی معاشروں میں آزادیِ اظہار مذہبی شخصیات کے بارے میں جو کچھ نتائج پیدا کرتی ہے، مسلم معاشروں میں اس سے مزاحمت، نفرت، جارحیت، بے بسی اور مایوسی کے رویے اور جذبات پیداہوتے ہیں۔ ان کیفیات میں ’لبرل ازم‘ ان دونوں اصولوں کو ہی مقدم رکھتا ہے۔
بظاہر تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ’لبرل ازم‘ کا پیروکار، اس کا ماننے اور اس پر عمل پیراہی لبرل ہے، تاہم اس سوال کا نہایت آسان جواب یوں دیا جاسکتاہے کہ لبرل وہ ہے جو:
اُوپر بیان کردہ کیفیات اور شرائط کسی بھی لبرل کی ذات یا شخصیت کا احاطہ کرتی ہیں۔ معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے لبرل کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے:
o قدامت پرست کون؟ اب ہم دیکھیں گے کہ قدامت پرست کون ہے؟ قدامت پرست کو لبرل کا متضاد کہا جاتا ہے۔ جو فرد لبرل نہیں وہ اس اعتبار سے قدامت پرست ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہے، اس کا مذہب کچھ بھی ہے، وہ قدامت پرست ہے۔ تاہم قدامت پرست کا متضاد ہرحال میں لبرل نہیں ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ قدامت پرست کون ہے اور لبرل کون؟ عام طور پر جب کسی کو ’قدامت پرست‘ کہا جاتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے کہ کسی نے اسے گالی دی ہے۔ اس سے جارحیت ابھرتی اور اشتعال پیدا ہوتا ہے۔
یہ بالکل فطری سوال ہے کہ قدامت پرست کون ہے؟ پہلا جواب تو یہی ہے کہ یہ لبرل کا متضاد ہے۔ یہ معاشرت کے طے شدہ اصولوں اور مروجہ نظام کا دفاع کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ یہاں یہ خلط مبحث بھی ہو جاتا ہے کہ ایک طرف قدامت پرست ہے یا روایت پرست ہے تو اس کے مقابل دوسرا فرد روشن خیال ہے، سیکولر ہے یا لبرل ہے یا پھر جدیدیت پرست، جسے انگریزی زبان میں ماڈرن کہا جاتا ہے۔
o لبرل ازم اور قدامت پرستی کا فرق:ان اصولوں اور کیفیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی بڑے خلط مبحث کا خطرہ ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایک مختصر سا موازنہ و تقابل یہاں پیش کر رہے ہیں جس سے واضح طور پر یہ فرق اور قدامت پرستی کا مفہوم سامنے آجائیں گے۔
امریکا میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ جاری ہے۔ ان کے حوالے سے ہم یہ جاننا چاہیں کہ دائیں بازو والا کون ہے اور بائیں بازو سے کس کا تعلق ہے، تو ری پبلکن پارٹی قدامت پرست ہے، اسے گرینڈ اولڈ پارٹی(GOP)بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مضبوط وفاق کی حامی ہے اور اس کے نظریات کو ان کی انتہائی صورت میں فاشزم کے قریب کہا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو ری پبلکن صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ صدر بن گئے تو مسلمانوں کا امریکا میں داخلہ بند کر دیں گے۔ ری پبلکن امیدوار امیگریشن قوانین سخت بنانے کے حامی ہیں۔ یہ جمہوری ہونے کے باوجود ری پبلک کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔دوسرے ممالک بالخصوص مسلم ممالک کو قوت کے استعمال سے جمہوری بنانا چاہتے ہیں۔عراق اس کی مثال ہے۔
ڈیموکریٹ پارٹی لبرل اور ترقی پسند جماعت سمجھی جاتی ہے۔ جمہوریت کو اولیت دیتی ہے اور ہر ریاست کے واضح تشخص کی بات کرتے ہوئے ڈھیلے ڈھالے وفاق پر یقین رکھتی ہے۔ یہ بائیں بازو کی پارٹی ہے اور اپنی انتہائی نظری صورت میں کمیونسٹ نہ ہونے کے باوجود کمیونزم کے قریب چلی جاتی ہے۔
ہم آسان الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیادار فرد ہے۔ یہ مذہب کو ماننے کے باوجود مذہبی نہیں ہے۔ یہ مذہبی اشرافیہ سے بہت فاصلہ رکھتاہے۔ اپنی ذات اور شخصی اوصاف کے اعتبار سے لبرل ہے، قدامت پرست نہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ ’لبرل ازم‘ ابتدا ہے ، راستہ ہے، جب کہ سیکولرازم اظہارہے، منزل ہے۔ ایک سیکولر فرد، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، مذہب یا الحاد کو اپنی شناخت نہیں بناتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ ’لبرل ازم‘ سے فاشزم کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ لبرل نظریات پر عمل کراتے ہوئے یہ خود بھی فاشزم کا اظہار کرنے لگے ۔ امریکا اس کی مثال ہے۔ سیکولر سمجھتا ہے کہ معاشرتی اور معاشی معاملات میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس لیے سرمایہ داری کو معاشی راستہ بھی سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا کے معاشی مسائل کے حل میں مذہب ناکام ہوچکاہے۔ وہ اس بحث کو غیر ضروری سمجھتا ہے کہ مذہب کو ایسا حل پیش کرنے کی اجازت ہی کب دی گئی ہے۔پاکستان کی مثال سامنے ہے جس میں سود کے بغیر کاروبار زندگی کا چلنا ناممکن قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دینی جماعتوں کو مسترد کرنے کی بڑی وجہ بھی ہے۔
o لبرل مسلمان؟ اس مختصر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ جامع انداز میں بتایا جائے کہ ’لبرل ازم‘، قدامت پرستی، لبرل، قدامت پرست اورسیکولر کیا ہیں؟ کون ہیں اور ان کے خیالات کیا ہیں؟ اب ہم نسبتاً متنازع معاملہ زیر بحث لاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آیا مسلمان لبرل ہوتا ہے، ہو سکتا ہے؟ یاد رہے کہ لبرل طبقات کا کہنا ہے کہ لبرل مسلمان ایک گمراہ کن تعارف ہے۔
اس پہلو کو سمجھنے کے لیے ایک مثال مستعار لی جا رہی ہے۔ لبرل کہتے ہیں کہ ایک چڑیا گھر کا تصور کیجیے۔ اس میں پنجروں میں مختلف جانوروں کو قید رکھا جاتا ہے۔ لبرل مسلمان بھی ایک جانور ہے جو مذہب کے چڑیاگھر میں بند کر دیا گیاہے۔ یہ بہت سخت مثال ہے لیکن پورا مفہوم واضح کر رہی ہے۔ بعض مسلمان جب کسی مخصوص طرز یا انداز کااظہار یا مظاہرہ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ روایت سے الگ ہے، روایت مخالف ہے یا روایت شکن ہے۔ مثال کے طور پر :
ایسی مثالیں اور بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ لبرل طبقات کا کہنا ہے کہ ان مثالوں سے ان کی توہین ہوتی ہے حالانکہ ’لبرل ازم‘ کا کھلا پن کہتا ہے کہ: ’’توہین اور غیرت نام کی کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی‘‘۔ وہ آزادیِ اظہار کے نام پر کیسی کیسی توہین کے مرتکب ہو جاتے ہیں، اس کا انھیں احساس بھی نہیں ہوتا۔
o ایک غور طلب پھلو: بات سمیٹنے سے پہلے ایک اہم پہلو پر غور کر لیا جائے تو موجودہ حالات سے بھی قدرے مطابقت پیدا ہوگی۔ جب کسی مسلمان یا اہل ایمان کو قدامت پرست، رجعت پرست یا بنیاد پرست کہہ کے پکارا جاتا ہے تو سننے والا، مخاطب یا جس تک بات پہنچتی ہے، فوری طور پر دو طرح کے ردعمل کا شکار ہو جاتاہے۔ وہ اس ردعمل پر کیوں اتر آتا ہے یہ الگ بحث اور نفسیاتی معاملہ ہے۔ ردعمل کی نوعیت یہ ہوتی ہے:l معذرت خواہی کا ردعملlجارحیت کا ردعمل۔
ظاہرہے کہ یہ دونوں ردعمل نارمل نہیں ہیں۔ جب کوئی کہتاہے کہ: ’’آج کا مسلمان زمانے کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے‘‘ تو فوری ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اس دعوے کو باطل ثابت کیا جائے اور اپنے طرزِ عمل کو حق ثابت کیا جائے۔ اس طرح اس فوری ردعمل سے گویا کہ حق و باطل کا معرکہ چھڑ جاتا ہے۔ یہ معرکہ بحث کا ہو تو اس کا انجام نظر نہیں آتا۔ یہ معرکہ آمنے سامنے ڈٹ جانے کا ہو تو جنگ و جدل کی نوبت آجاتی ہے۔ یہ دونوں نہ ہو سکیں تو بے بسی اور مایوسی کا گھیرا تنگ ہو جاتا ہے۔
یہاں پر دو طرح کے ردعمل بیان کیے گئے ہیں۔ ان پر الگ سے بات کی ضرورت ہے۔ صرف اتنا کہنا ضروری ہے کہ معذرت خواہی کے رویوں نے ہمارے معاشروں میں ایک تعداد کو دین، اس کی تعلیمات، ایمان و اعتقاد اور اس کے اطلاقی پہلوئوں کے بارے میں شک میں مبتلا کردیا ہے، اور پھر قدیم و جدیدکی جنگ کا منظرسامنے آجاتا ہے۔ کچھ تو شکست خوردگی کے عالم میں یہ کہنے لگے ہیں کہ: ’’دین اسلام بعض امور میں عاجز ہے ۔ معاشی مسائل کا حل پیش نہیں کرتا، حالانکہ صورتِ معاملہ یہ ہے کہ بہت سے راست فکر اہلِ دین بھی قرآن و سنت، حدیث و فقہ اور تفسیر و تعبیر کے ذخائر رکھنے کے باوجود عصری امور و مسائل پر ان کے اطلاق کی صلاحیت ، زمانی تبدیلیوں کی تشریح و تعبیر کی ذمہ داری سے خود کو سبکدوش کر چکے ہیں۔
اس عالم میں جارحیت کا ردعمل ابھرتا ہے تو کچھ لوگ مسئلہ بندوق سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ یوں اپنے ہی ملکوں کو تباہی سے دوچار کرتے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ: ’’چونکہ مسلم ممالک کی سرحدیں استعمار نے کھینچی تھیں، اس لیے ہم ان کو اپنے قدموں سے روند دیں گے‘‘۔ یہ ایسا ردعمل ہے جو نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ ردعمل کبھی بھی نتیجے پیدا نہیںکرتا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عراق و شام تباہ ہوگئے۔ یمن و لیبیا برباد ہوگئے۔ افغانستان کئی بار لٹ گیا۔ پاکستان میں بربادی نے ڈیرے ڈال لیے۔ اس کے باوجود ردعمل سے پیدا ہونے والی جارحیت ترک کرنا گویا ’’جہاد کا انکار کرنا خیال کیا جاتا ہے‘‘۔ فی الحقیقت جھنجھلاہٹ میں خود اہلِ دین پر یہ الزام تھوپ دینا ایک گمراہ کن تصور ہے۔
ان سب پہلوئوں پر گہرے غوروغوض کی ضرورت ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ ہرمعرکہ اور ہرنوعیت کا ردعمل جہاد نہیں ہوتا۔ مسلمان طعنہ سن کر بے مزا نہیںہوا کرتا۔ آج وہ طعنہ سنتے ہی شمشیرِ بے نیام بن جاتا ہے۔ علم کے موتی کو جہالت کے اندھیروں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اس خلجان سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ردعمل، اغیارکی پیروی اور اپنے آپ سے علیحدگی سے وہ تباہی بڑھتی جائے گی جس نے آج مسلم اُمہ کو گھیرے میںلے رکھا ہے۔ اسلامی تحریک کو علم و عمل کی دنیا آباد کرنا ہوگی:’’ اجتماعیت سازی کے بغیر عدلِ اجتماعی کی جدوجہد بے معنی ہے‘‘۔ یہی ہمارے افکار ہیں۔ یہ نہ تو ’لبرل ازم‘ ہے اور نہ قدامت پرستی۔ مسلمان کا راستہ اسلام سے وابستگی ہے، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے، تب ہی وہ فرقہ فرقہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔ ہمیشہ ذہن میں رہے کہ مسلمان صرف مسلمان ہوتا ہے، وہ لبرل، قدامت پرست، رجعت پسند یا بنیاد پرست نہیں ہوا کرتا: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔
بلاشبہہ یہ ایک حقیقت ہے کہ متحدہ ریاست ہاے امریکا ایک سامراجی مملکت ہے۔ سوویت یونین کے سقوط کے بعد جب کمیونسٹ بلاک منتشر ہوگیا تو پھر امریکا تاریخ کا سب سے زیادہ بااثر ملک بن گیا جس کا دبدبہ تمام عالم پر چھا گیا۔ اس کے فوجی اڈے دُنیا کے ۱۴۰ ممالک پر محیط ہیں۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء (نائن الیون) کے حادثے سے پہلے بھی امریکی فوج ۷۰ممالک میں مستقلاً اپنے اڈے قائم کیے ہوئے تھی۔ نائن الیون کے حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اور اپنے مفروضہ خدشات کی بنا پر اس نے اپنی فوجی قوت کو دگنا کر دیا۔ اس کی عسکری طاقت کا اندازہ صرف اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس کی افواج اور ملٹری اخراجات کا بجٹ دیگر بڑی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ ظاہر ہے یہ اس کے دفاع اور ملک کی حفاظت سے کہیں زیادہ ہے۔
امریکا نے اس بہانے، کہ وہ دنیا میں امن اور جمہوریت کو فروغ دینا چاہتا ہے، ان وسائل کے حصول کو سند ِ جواز بخشی ہے اور اس زبردست قوت کو مجتمع کیا ہے۔ حالانکہ اگر حقائق پر نظر رکھی جائے تو پچھلے ۵۰برسوں میں امریکا کئی وسیع پیمانے پر ہونے والی جنگوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ جنگیں کوریا ، ویت نام، کمبوڈیا، لائوس، صومالیہ، عراق (دو مرتبہ) اور افغانستان میں ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری مختصر فوجی کارروائیاں کیوبا،پاناما اور سربیا میں بھی کی گئی ہیں۔ مزید فوجی انقلاب (coup) جو ایران، گوئٹے مالا، برازیل، انڈونیشیا، نکاراگوا اور چلّی میں برپا ہوئے ان میں امریکا کی پشت پناہی شامل رہی۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو عوامی تحریکات یونان، فلپائن اور دیگر جنوبی امریکا کے متعدد ممالک میں ہوئیں ان کو ناکام بنانے اور دبانے میں امریکا کا ہاتھ رہا ہے۔ فرڈینڈ مائونٹ ایک برطانوی مبصر کا تجزیہ ہے کہ ۱۶۸ مختلف فوجی اقدامات میں امریکی افواج کا دخل رہا ہے۔ ان جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کئی ملین کے قریب ہے۔ اس طرح یہ سامراجی قوت نہایت سفّاک اور بدطینت ہے، بمقابلہ ان قوتوں کے جو پہلے گزر چکی ہیں۔ اس بات کی تائید رچرڈ فالک (Richard Falk) نے اپنی کتاب Choose and Counter Revolution: After the Arab Spring(انقلاب کا انتخاب اور مقابلہ کیجیے، عرب بہار کے بعد) جو اس سال شائع ہوئی، میں کی ہے۔ انھوں نے ’بہارِعرب‘ کے حوالے سے جو تجزیہ پیش کیا ہے اس میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے:
امریکا کی نہایت اہم حکمت عملی اس خطے کے لیے عام طور پر یہی رہی ہے کہ وہ ظالمانہ اور آمرانہ حکومتوں کی پشت پناہی کرے تاوقتیکہ وہاں کی قیادت مغرب کے ساتھ دوستانہ رہے۔ اگر حکومت کے بارے میں یہ تاثر ہو کہ وہ مخالفانہ رویہ رکھتی ہے یا اپنی مملکت کو قابو میں نہیں رکھ سکتی تو اس صورتِ حال میں وہ امریکی فوجی مداخلت کا نشانہ بن جاتی ہے، تاکہ اس کے بجاے کوئی اور دوستانہ، فرماں بردار اور بااثر قیادت کو اقتدار حاصل ہوجائے۔ (ص۱۴)
فوجی کارروائیوں کے علاوہ بھی امریکی استعماری قوت کا مظاہرہ اس کی عالمی، تجارتی اور مالیاتی سرگرمیوں سے ہوتا ہے، جسے coca-colonization کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ امریکی تجارتی ادارے اپنے مشروبات اور مصنوعات دنیا بھر میں رائج کر کے اپنے کلچر اور ثقافت کو خوب فروغ دے رہے ہیں۔ ہندستانی نژاد راہول مہاجن اپنی کتاب The New Crusede: American War on Terrorism (نئی صلیبی جنگ: امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ)میں لکھتے ہیں:
ترقی یافتہ ممالک کے تجارتی اداروں کو پس ماندہ ممالک کے تجارتی اداروں کے مقابلے میں بہت زیادہ فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ یا تو وہ ان کو ضم کرلیتے ہیں یا بالکل تباہ کردیتے ہیں۔ اس وجہ سے امریکا کے آزادانہ تجارتی معاہدات اصلاً پس ماندہ ممالک کی آزادانہ پالیسی کے لیے پیغامِ موت ہے۔ نئے عالمی نظم (New World Order ) کو بروے کار لانے اور ان ممالک میں اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لیے آئی ایم ایف (عالمی مالیاتی فنڈ)، عالمی بنک، عالمی تجارتی ادارہ جو بظاہر بین الاقوامی ادارے ہیں لیکن حقیقتاً یہ سب امریکا کے کنٹرول میں ہیں،اس کے آلۂ کار ہیں۔ (ص ۱۰۲-۱۰۳)
متحدہ ریاست ہاے امریکا اب ایک نئی سامراجی قوت ہے اور اس کی فوجی قوت کے علاوہ چونکہ آئی ایم ایف اور عالمی بنک بھی اس کے دائرۂ اقتدار میں ہیں، اس لیے اس نے ترقی پذیر ممالک کو قرض کے پھندوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ان ممالک کو ان بین الاقوامی اداروں کی عائدکردہ پابندیوں کو مجبوراً قبول کرنا ہوتا ہے تاکہ ان کو قرض مل سکے۔ انھیں اپنی برآمدات کو بڑھانے کی خاطر اپنے مزدوروں کی تنخواہوں کو کم کرنا پڑتا ہے۔ وہ بین الاقوامی کمپنیوں کو اپنے ملکوں میں تجارت کرنے کی سہولتیں دینے پر مجبور ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مقامی کمپنیاں ان سے مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اس طرح آزادیِ تجارت کے بہانے امریکا اور اس کے تجارتی ادارے بین الاقوامی تجارت پر پوری طرح حاوی ہیں۔ آئی ایم ایف، عالمی بنک اور WTO کی بدولت امریکا کا تسلط ترقی پذیر ممالک پر قائم ہے۔ بظاہر یہ ممالک آزاد اور خودمختار ہیں لیکن حقیقتاً سب امریکا کی غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ امریکی قوت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان ممالک میں آمرانہ اور کٹھ پتلی حکمران برسرِاقتدار رہیں تاکہ وہ اپنے آقا کے احکامات کو نافذ کرسکیں۔ انھیں حقوقِ انسانی اور معاشرے کی فلاح و بہبود کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہوتی اور وہ لوگ جو امریکا کی پالیسیوں سے انحراف کا راستہ اختیار کرنے کی جرأت کرتے ہیں ان کو دست بردار کردیا جاتا ہے اور ان کے بجاے اپنے فرماںبردار لوگوں کو مسلط کردیا جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ سب ڈراما حقوقِ انسانی اور جمہوریت کے نام پر رچایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس صورتِ حال کو حقوقِ انسانی کا امپریلزم کہتے ہیں، جو حقوقِ انسانی کی اصطلاح کی توہین ہے اور ناقابلِ قبول تصور ہے۔
عسکری، سیاسی، تجارتی اور مالیاتی ہتھکنڈوں کے ساتھ میڈیا کی قوت ہے جسے سامراجی مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اب اس نئی سامراجیت کا اصل ہدف اُمت مسلمہ ہے اور خاص طور پر اسلامی تحریکات جو امریکا کے عالمی تسلط کے منصوبے میں مزاحم سمجھی جاتی ہیں۔ مغربی مفکرین برملایہ کہہ رہے ہیں کہ احیاے اسلام کے لیے کوشاں جماعتیں ان کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ فرانسس فوکویاما جو مشہور امریکی دانش ور ہے، اپنے ایک مضمون ’اصلی دشمن‘ (The Real Enemy) میں، جو نیوزویک کے دسمبر۲۰۰۱ء کی خاص اشاعت میں شائع ہوا تھا، ۲۰۰۲ء کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسلامی انقلاب پسند کسی طرح بھی اختلافات کو برداشت نہیں کریں گے۔ یہ لوگ ہمارے دور کے فاشسٹ ہیں اور ہمیں ان کے خلاف جنگ کرنا ہوگی۔ اس کا پیغام بالکل واضح ہے۔ اگر مسلمان مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو وہ اسلامی آئیڈیالوجی ترک کر دیں کیونکہ یہ نہ صرف مذہبی رسومات تک محدود ہے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر ، چاہے وہ سماجی ہوں، سیاسی ہوں یا ثقافتی، حاوی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ جنگ جو ہمارے ایمان اور طرزِحیات پر مسلط کی جارہی ہے اس کے مقابلے کے لیے حکمت عملی کیا ہے؟ ایک نہایت آسان سا راستہ تو یہی ہے کہ ہم یہ سب من و عن قبول کرلیں جو ہم پر تھوپا جا رہا ہے۔ یہ رویہ تو ہمارے بہت سے لیڈر جو مغرب کی طاقت سے بے حد مرعوب ہیں، قبول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان میں اتنی حکمت نہیں ہے کہ وہ یہ چیلنج قبول کریں لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سچائی کی راہ پر چلنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ یہ راہ مشکلات سے گھری ہوئی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ نیکی کی راہ تنگ ہے اور اس پر چلنے والے کم ہی ہوتے ہیں، لیکن بدی کا راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے اور اس پر چلنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ نشیب کی طرف پھسلنا آسان ہوتا ہے لیکن اُونچائی پر چڑھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عقبہ(دشوار گزار گھاٹی) سے سورۃ البلد میں موسوم کیا ہے اور فرمایا: وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ o فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o (البلد ۹۰:۱۰-۱۱)’’ہم نے دونوں نمایاں راستے دکھا دیے ہیں مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی‘‘۔
قرآن میں انبیا علیہم السلام کے متعدد واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت کم لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا لیکن وہ بددل نہیں ہوئے بلکہ اپنے مشن پر مسلسل گام زن رہے۔ انھوں نے مصالحت کی آسان راہ نہیں اختیار کی۔ یہی وہ راہ ہے جو ہمیں اختیار کرنی ہے۔ ایک مرتبہ پُریقین ہوکر اگر ہم نے اپنے آپ کو اس کام پر لگا دیا ہے تو پھر کوئی پس و پیش کا سوال ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں مستقل مزاجی سے تمام مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
اس صورتِ حال میں مسلمان حکومتوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ ایک اہم موضوع ہے جس پر مفصل گفتگو کی ضرورت ہے۔ فی الوقت صرف اُمت مسلمہ کی اور بالخصوص وہ مسلمان جو مغرب میں آباد ہیں ان کی ذمہ داریوں کی نشان دہی مقصود ہے۔ کیوںکہ ان کا سابقہ وہاں کی مقامی آبادی سے رہتا ہے اور ان کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کی دعوت کو وہاں عوام تک اس طرح پہنچائیں کہ وہ اسلام کے بارے میں ان بدگمانیوں کو دُور کرسکیں تاکہ خوف کی فضا (Islamphobia) ، جو بنائی جارہی ہے، وہ دُور ہوسکے۔ خاص طور سے ان حالات میں` جب کہ ہم میں سے کچھ عاقبت نااندیش افراد اور جماعتوں نے جہاد کے نام پر جارحیت اور دہشت گردی کی راہ اختیار کرکے اسلام کو بدنام کیا ہے، اور دعوتِ اسلامی کی کوششوں کو اور مشکل بنا دیا ہے اور اس کی راہ مسدود کی ہے۔ تاہم ان تمام مسائل اور مشکلات کے علی الرغم ہمیں ایک منضبط راہِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پوری اُمت مسلمہ اور خصوصیت سے مغربی ممالک کے مسلمانوں کی خدمت میں کچھ گزارشات غور کرنے کے لیے پیش کی جارہی ہیں۔
۱- سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان ہو اور ہم مسلسل اس کی مدد طلب کرتے رہیں۔ اللہ سے اپنے تعلق کو استوار رکھیں۔ وہ نہایت رحیم و شفیق ہے اور اس کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو تمام مشکلات سے نجات دے گا جو اس پر ایمان رکھتے ہیں:
فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَ نَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ط وَ کَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ o(الانبیاء ۲۱:۸۸) تب ہم نے اس کی(حضرت یونس ؑ) کی دعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی اور اس طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔
ہمیں اپنے مقصد کا پورا شعور ہو کہ ہمیں اللہ کی بات اس کے بندوں تک پہنچانی ہے اور اس کے لیے ہرممکنہ جدوجہد کریں تو ضرور اللہ کی مدد ہمارے شاملِ حال ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ بھی فرمایا ہے:
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًاo( بنی اسرائیل ۱۷:۱۹) اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہرشخص کی سعی مشکور ہوگی۔
۲- ہرانسان کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے خود ہی کی ہے جیساکہ فرمایا: وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ o فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَo (الحجر ۱۵: ۲۸-۲۹)’’ جب تمھارے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں ایک بشر پیدا کر رہا ہوں، جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘، تو پھر ہم کیوں کسی شخص کو اسلام کی نعمت سے محروم رکھیں۔ یہ اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام انسانوں تک جہاں کہیں بھی ہوں اسلام کی دعوت پہنچائے۔ جو بھی ذرائع ہمیں میسر ہیں ہم اپنے دوستوں، رشتہ داروں، ہمسائیوں چاہے قریب ہوں یا دُور، اللہ تعالیٰ کے پیغامِ رحمت و فضل سے محروم نہ رکھیں۔
۳- ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر انسان بدل سکتا ہے۔ برائی کو اچھائی سے بدلا جاسکتا ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo(حم السجدہ ۴۱:۳۴) اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔
ہمیںاپنی تاریخ میں اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ کس طرح دشمن، جانثار دوست بن گئے۔ تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور خلافت ِ عباسیہ کا قلع قمع کر دیا تھا لیکن پھر یہی تاتاری ایمان لاکر اسلام کے داعی بن گئے۔ اقبال نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے ؎
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
۴- انسان کو متاثر کرنے کی کنجی اس کے دل میں ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بڑی حکمت کی بات فرمائی ہے:
دلوں کی کچھ خواہشیں اور میلانات ہوتے ہیں اور کبھی کسی وقت وہ بات سنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور کسی وقت تیار نہیں رہتے۔ تو لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے اندر سے داخل ہو اور اس وقت اپنی بات کہو جب وہ سننے کے لیے تیار ہوں، اس لیے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہوجاتا ہے۔(کتاب الخراج، ابویوسف بحوالہ راہِ عمل، جلیل احسن ندوی،ص ۳۳۲)
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط (النحل ۱۶: ۱۲۵) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔
۵- بہت کم لوگ کتابیں پڑھ کر اور تقریریں سن کر متاثر ہوتے ہیں۔ عمل اور پاکیزہ اعلیٰ اخلاق کے مظاہر الفاظ سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم مزاجی اور اعلیٰ اخلاق اور ساتھ ہی طبیعت کی گرم جوشی اور رحم دلانہ برتائو تھا جس نے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ اس بات کی تصدیق خود قرآن نے کی ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۵۹) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔
یہ ہمارے آبا و اجداد ہی کے اخلاق تھے جن سے ساحل ملہار (جنوب مغربی ہندستان)، ملایشیا اور انڈونیشیا میں لوگ مسلمان ہوئے۔ وہاں یہ لوگ بطور تاجر گئے تھے اور وہاں جاکر انھوں نے اسلامی تعلیمات کو پھیلا دیا اور ملک کے ملک مسلمان ہوگئے۔ ان ممالک میں مسلمانوں نے کوئی فوج کشی نہیں کی۔ ہمیں غیرمسلموں کے دل جیتنے ہیں۔ انھیں اسلام کی طرف راغب کرنا ہے، اس لیے بین المذاہب مکالمات اور آپس کے تعلقات کو بحال کرنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ ہماری کوشش کے باوجود ہم بہت سارے لوگوں کو اسلام کے دامن میں نہ لاسکیں۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ ہم بہت سے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا کرسکیں۔اس طرح اگر ہم اپنی دعوت کو عام کرنے کی کوشش کریں تو اللہ سے اُمید ہے کہ یہ نفرت کی فضا جو اسلام کے خلاف پھیلی ہوئی ہے بدل جائے اور اسلام کی صحیح تعلیمات عوام تک پہنچ جائیں اور ہم ان کے دل جیت سکیں۔
۶- تشدد اور جذباتیت کے بجاے اگر ہم حکیمانہ طور سے لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کریں تو اس میں کامیابی ہوسکتی ہے۔ اگر اس طرح کی نعرے بازی کی جائے جو لوگوں کو خوف زدہ کرے تو وہ کیوں ہماری بات سنیں گے۔ لہٰذا بجاے جارحانہ رویے کے اگر ہم حکمت اور دانائی سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں تو کامیابی ہوسکتی ہے۔ اگر ہم لوگوں کی بھلائی اور ان کے مفاد کے لیے کام کریں تو وہ یقینا اس کو سراہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ جس طرح مغرب کے لوگوں کا اسلام اور مسلمانوں کا کلچر سمجھنا ضروری ہے، اسی طرح ہمیں بھی مغرب کی ان اقدار جیساکہ منصفانہ رویہ، خیرخواہی کا جذبہ، جمہوری طریقۂ کار اور وقت کی پابندی کی قدر کرنی چاہیے۔
۷- مغربی ممالک میں جمہوری طریقۂ کار رائج ہے۔ اقتدار محض مرکزی حکومت کے پاس نہیں ہوتا۔ اپوزیشن پارٹی کے منتخب نمایندے، لوکل کونسلر، میڈیا کے نمایندے، پریشر گروپ اور خود مرکزی اور لوکل گورنمنٹ کی مشینری، ان سب کا اثر حکومت کی پالیسی بنانے میں شامل ہوتا ہے۔ اگر ان اداروں میں بھی ہماری موجودگی ہو یا ان تک ہماری رسائی ہو تو ہم بھی بااثر ہوسکتے ہیں۔
۸- مسلمان بحیثیت مجموعی علم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ علم کے تمام شعبوں میں خاص طور سے سائنس اور ٹکنالوجی میں ہمیں کافی پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم ان علوم میں فوقیت حاصل نہیں کرتے ہم مغرب میں وہ مقام نہیں حاصل کرسکتے کہ دنیا کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش کرسکیں اور اس طرح دنیا کی قیادت کا مقام حاصل کرسکیں۔
مغرب میں اب مسلمان غیرمسلموں کے ہمسایے ہیں۔ وہ یورپ اور امریکا کے کارخانوں، فیکٹریوں، دفتروں، اسکولوں اور کالجوں میں غیرمسلموں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس لیے یہ لازمی ہے کہ ان میں باہم اعتماد اور حمیت کی فضا ہو، نہ کہ شک و شبہے کی۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو اسلام کی دعوت غیرمسلموں تک پہنچانے کے بہترین مواقع حاصل ہیں۔ وہ اپنے کردار اور اخلاق کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔
ہمیں سوپر پاور سے خوف زدہ اور مرعوب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بقول پروفیسر خورشیداحمد: ’’تاریخ ایک دو نہیں بلکہ درجنوں سوپرپاور کا قبرستان ہے‘‘۔ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھ لیا کہ وہ برطانیہ جس کی سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، اس کی یہ شہنشاہیت ختم ہوگئی۔ اسی طرح سوویت یونین جس کا بڑا دبدبہ تھا، شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔ فوکویاما جو The End of History and The Last Man (تاریخ کا اختتام اور آخری انسان)کا مصنف ہے اور اس طرح کے اور لوگ جو سمجھتے ہیں کہ امریکا ہمیشہ کے لیے سوپرپاور رہے گا، انھوں نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔اس کے برعکس نیل فرگوسن جو اگرچہ امپریلزم کا زبردست حامی ہے اور عراق میں جنگ کے حق میں تھا، اس نے اپنی کتاب Colossus: The Rise and Fall of American Empire(عظیم الجثہ: امریکی ریاست کا عروج و زوال)میں پیش گوئی کی ہے کہ امریکا اپنی سامراجی قوت کو قائم نہیں رکھ سکے گا اور اس کا خاتمہ اور تباہی کا سبب اس کی داخلی قوتیں ہی ہوں گی۔
اگرچہ موجودہ صورت حال میں ہمارا کام مشکل ہے، لیکن اس میں ہمارے لیے بڑا اجر بھی ہے۔ ہمیں صبروثبات اور حکمت و دانش مندی سے تمام علوم اور ہنر حاصل کرتے ہوئے اللہ کے دین کی دعوت اوروں تک پہنچانا ہے۔ بلاشبہہ اُمت مسلمہ اس وقت نہایت نازک دور اور کڑی آزمایش سے گزر رہی ہے لیکن ہمیں پُرامید رہنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے ایمان اور دلی وابستگی کے ساتھ اس راہ پر پوری طرح گامزن رہیں تو ان شاء اللہ اس کی مدد ضرور شاملِ حال ہوگی۔
دنیا بھر میں اسلام اوردہشت گردی کو ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت کرنے میں بہت سے ادارے، حلقے اور حکومتیں سرگرم ہیں۔امریکی میڈیا، تھنک ٹینکس، حکومتی ادارے اور دیگر ذرائع اس دوڑ میں سب سے نمایاں ہیں۔ سابق ری پبلکن صدور میں جارج بش سینئیر اورجارج بش جونئیر نے پالیسی کے طور پر اسے اختیار کیا۔ عراق، افغانستان اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ شام کی صورت حال مزید ابتر ہے۔ یمن برباد کردیا گیا۔ پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ کے کردار میں امریکی پالیسی کا ساتھ دینے کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ داعش اور القاعدہ کے نام سے پیدا شدہ ردعمل بھی استعمال کیا جاتا ہے، مگر اس کے ساتھ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جب چاہے، جیسے چاہے فلسطینیوں کا بے دریغ اور بلاروک ٹوک قتل عام کرے۔ اس ساری خطرناک صورت حال کے باوجود امریکا کو ہوش نہیں آسکا کہ اس کا آخری نتیجہ کیا ہوگا؟ امریکا پر اس کے اثرات مثبت ہوں گے یا منفی؟ اور بھی بہت سے سوالات ہیں۔ امریکا میں یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ آخر دہشت گردی کے ہاتھوں خود امریکا کب تک یرغمال رہے گا؟ یہ تحریر اسی تناظر میں پیش ہے۔(مترجم)
امریکا میں اس سال اب تک رجحان یہی غالب رہا ہے کہ آپ مسلمان ہیں تو کسی بھی وقت آپ قتل کیے جاسکتے ہیں۔ آپ مسلمان ہیں تو آپ قاتل ہرگز نہیں ہیں بلکہ مقتول ہیں۔ ہرسال ۱۰ لاکھ مسلمان امریکیوں میں سے، ایک مسلمان اس لیے قتل کردیا جاتا ہے کیونکہ اس کا مذہب اسلام ہے۔ اس کے برعکس ایک کروڑ ۷۰لاکھ امریکیوں میں سے، جو مسلمان نہیں ہیں، ایک امریکی کسی مسلمان جنگجو کے ہاتھوں مارا جارہا ہے۔
خوش قسمتی سے دونوں طرح کا تشدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ۳۰لاکھ ہے۔ شمالی کیرولینا میں تین مسلمان امریکی طالبات ایک پڑوسی امریکی نے اس لیے قتل کردیں، کیونکہ وہ حجاب کرتی تھیں۔ دوسری طرف ۳۱کروڑ ۹۰لاکھ امریکیوں میں سے ۱۹غیرمسلم امریکی دو واقعات میں مارے گئے۔ ایک واقعہ چھٹانوگا اور دوسرا برنارڈینو میں رونما ہوا۔ ان واقعات میں نام نہاد اسلامی ریاست یاداعش کے افراد ملوث تھے۔
ہماری یادداشت اتنی کمزور نہیں ہے کہ ہم بھول جائیں۔ ہر سال ۱۴ہزار امریکی مختلف واقعات میں قتل کردیے جاتے ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ ۱۹کی تعداد بالکل چھوٹی لگتی ہے۔ ہرسال ہر ۲۴ہزار امریکیوں میں سے ایک قتل کردیا جاتا ہے۔ اس ساری صورت حال کے مقابلے میں نظریے کی بنیاد پر قتل ہونے والوں کی شرح براے نام ہی نہیں، بالکل بے حیثیت بھی ہے۔
بعض امریکیوں کا خیال ہے کہ اعداد و شمار کی اہمیت ثانوی ہے۔ ان کے دل و دماغ پر ایک ہی طرح کا تشدد چھایا ہوا ہے اور وہ ہے اسلامی دہشت گردی۔ وہ اس کا حساب نہیں کرتے کہ یہ ہے بھی تو اس قدر نایاب ہے کہ نظر بھی نہیں آتا۔
داعش نے امریکا سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی اپنی پوری کوشش کی ہے۔ وہ یہ کوشش دوسال سے کرتی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں کل بھرتی چند درجن نوجوان ہیں۔ ان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ وہ شام اور عراق میں جاکر جہاد کریں، یعنی لڑیں۔ یہ اعداد و شمار امریکی حکام نے دیے ہیں۔ ان میں سے بھی ۶۰ امریکی مشرق وسطیٰ کا سفر کرنے کے دوران میں گرفتار کرلیے گئے تھے۔ ایک درجن سے کچھ زیادہ لوگوں کو گرفتارکیا گیا، جن کے بارے میں شبہہ تھا کہ وہ امریکا میں بعض مقامات پر دھماکے کرنا چاہتے تھے۔ محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ اب یہ تعداد بھی کم ہے۔ میری معلومات یہ ہیں کہ ان امریکیوں کی تعداد آٹھ ہے جو امریکا میں داعش کے واقعات میں مارے گئے۔ داعش اس صورت حال پر سخت غصے کی کیفیت میں ہے کہ امریکیوں کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟ ان کا آن لائن میگزین ان مسلمانوں کو گمراہ اور بھٹکے ہوئے قرار دیتا ہے` جو مغرب میں رہتے ہیں، جمہوریت کی پوجا کرتے ہیں۔وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اسلام کو امن کا مذہب ثابت کریں جو مسلمانوں کو بجاطور پر غیر مسلموں سے مل جل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
ضرورت تو یہ ہے کہ داعش کی اس کھلی ناکامی کا جشن منایا جائے، مسلمانوں کی تعریف کی جائے۔ اس کے برعکس امریکی یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ان واقعات کو صفر تک لایا جائے۔ ہم ہر وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہماری پالیسیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ ایسے امریکی تو بہت ہی کم ہیں جو داعش کے کہنے پر ہتھیار اٹھا لیں لیکن ہم ان کے بجاے پرامن لوگوں پر تنقید کر رہے ہیں۔
اس سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر واقعے کے بعد بعض طبقات کہنے لگتے ہیں کہ اوباما حکومت کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی بہت نرم ہے۔ یہ بات اس حقیقت کے باوجود کہی جارہی ہے کہ بش حکومت کی نگرانی کی پالیسی، مانیٹرنگ اور انسداد دہشت گردی کے سارے پروگرام اور منصوبے پوری طرح سے جاری ہیں۔ ان پر بھرپور عمل ہو رہا ہے۔ اوباما حکومت ریاستوں کو بار بار نوٹس جاری کرتی رہتی ہے کہ سرویلنس پروگرام مزید موثر بنائے جائیں اور دہشت گردی پر سزائوں میں مزید سختی لائی جائے۔ سان برنارڈینو کے واقعے کے فوری بعد ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکرٹری جیہ جونسن نے کہا کہ: ’’گھر سے، یعنی امریکا کے اندر سے ابھرنے والی دہشت گردی کی اس نئی قسم کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ بالکل نئی اور تازہ حکمت عملی تیار کی جائے‘‘۔
امریکی حکام بش جونیئر کی حکومت کے آخری سال سے اسی خطرے سے عوام کو مسلسل خبردار کر رہے ہیں جو ہر چند کہ نہیں ہے۔ نائن الیون کے مربوط و منظم حملوں کے بعد سے حالات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں۔ تب یقینا ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ ملک کے مختلف حصوں میں فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں، درجنوں شہری مارے جاتے ہیں۔ یہ ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں اور پھر فائرنگ کرنے والے بھی مارے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے مسلمانوں سے متعلق عدم برداشت کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
دوسری طرف داعش سوشل میڈیا پر اپنی مہم جاری رکھتی ہے تو ہم متاثر ہوتے رہیں گے۔ ہم خود ہی شہری آزادیوں اور مذہبی آزادیوں کے بارے میں اپنے اصولوں کا قتل کرتے رہیں گے۔ یہی کچھ تو داعش چاہتی ہے۔ اس کی کوشش یہی ہے کہ مغرب کا ردعمل بہت شدید ہونا چاہیے، تاکہ اس ردعمل کو دیکھ کر مغرب سے مل کر رہنے کے عادی مسلمان بھی اپنے اس عزم کو ترک کردیں۔
آپ تصور کریں کہ امریکا دوسروں کے بارے میں، داعش کے علاوہ، ایسا ہی رویہ اور پالیسی اختیار کرے تو کیا ہوگا؟ امریکا میں تو آئے روز کوئی مرد اٹھتا ہے اور اپنی گرل فرینڈ کو قتل کردیتا ہے یا سابقہ بیوی وغیرہ کو مار ڈالتا ہے۔ ہر سال ایسے سیکڑوں واقعات ہوتے ہیں۔ ایک قومی کمیشن بننا چاہیے جو مردوں کے اس اشتعال کا جائزہ لے اور اس کی وجوہات تلاش کرے۔ کبھی کوئی مسیحی انتہا پسند اشتعال میں آتا ہے اور اسقاط حمل کے کسی کلینک پر حملہ کردیتا ہے، افریقی امریکیوں کے چرچ کو آگ لگا دیتا ہے، کولوراڈو اور جنوبی کیرولینا میں ایسا ہوا بھی ہے۔ اسی سال یہ واقعات ہوئے ہیں۔ پھر وائٹ ہائوس کو ایک سربراہی اجلاس بلانا چاہیے۔ اس میں اعتدال پسند مسیحیوں کو مدعو کیا جائے اور ان پر زور ڈالا جائے کہ اس انقلابیت کو روکا جائے۔ کبھی کسی مسلمان کو کوئی بدمعاش مار دیتا ہے، جیسا کہ چیپل ہل میں ہوا ہے، کانگریس کو چاہیے کہ وہ نوٹس لے اور دیکھے کہ اسلام فوبیا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کا سدباب کس طرح سے کیا جائے۔؟ سلام امن کا مذہب ہے۔ اس کا کردار مسخ کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
ممکن ہے کہ یہ سارے مناظر آپ کو اور ہمیں بے معنی یا مبہم محسوس ہوں تو ایسا ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری عدم برداشت صرف اس دہشت گردی کے بارے میں ہے جسے ہم اسلامی کہتے ہیں۔ دوسری تمام صورتیں ہم ہضم کر جاتے ہیں۔ ان کے لیے ہمارے اندر عدم برداشت نہیں ہے۔ ہم ان کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہم ان واقعات کو دہشت گردی بھی نہیں کہتے، ہم انھیں جرائم کہتے ہیں۔ اسے ہم قومی بحران بھی نہیں کہتے۔ صرف وہی واقعات ہمارے لیے خطرے کا الارم بجاتے ہیں جو کبھی بہت سنگینی کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم تب کہتے ہیں کہ یہ چند عناصر ہیں، چند لوگ ہیں اور یہ ہمارے پُرامن، عدم تشدد کے حامی عوام کی قطعی نمایندگی نہیں کرتے۔
ہم ان میں سے بعض رجحانات کو سنجیدگی سے لے سکتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے علاقوں اور آبادیوں میں تشدد کے واقعات میں کمی لاسکتے ہیں۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ’اسلامی دہشت گردی‘ کے نام سے معروف نہایت ہی کم واقعات کی وجہ سے یرغمال نہ بننے دیں۔
(huffingtonpost.com)
بنگلہ دیش میں اسلام اور دو قومی نظریے کے خلاف بھارتی جارحیت کا تسلسل جاری ہے۔ اہلِ نظر اس معاملے میں یکسو ہیں کہ: ’’ڈھاکا حکومت کا اصل اقتدار نئی دہلی میں ہے۔ ڈھاکا میں تو صرف دکھانے کے لیے مقامی چہرہ ہے‘‘۔ اعلیٰ سول اور فوجی افسران کی ترقیاں، حتیٰ کہ وزارتوں: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی کے قلم دانوں کی تقسیم اور غیرملکی معاہدوں کی ترتیب تک کے معاملات بھارتی: داخلہ، خارجہ اور منصوبہ سازی ڈویژن کے اشارئہ ابرو کے تحت ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے منظرنامے پر چھائے خون کے دھبوں کی جھلک گذشتہ ۲۰روز کی چند خبروں، اطلاعات و تاثرات کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے:
ویکلی ہالی ڈے ڈھاکا نے عوامی لیگی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی دہائی دیتے ہوئے اداریے میں لکھا ہے: ’’حکومت تہذیب اور قانون کی سب حدوں کو پھلانگ رہی ہے۔ اسے بیگم خالدہ ضیا کے اس انتباہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی حرکتوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ: ’’بنگلہ دیش کی فوج اور بیوروکریسی، عوامی لیگ کے کارکنوں کا ٹولہ نہیں ہے۔ خود انھیں بھی قانون، ضابطے اور شائستگی کا خیال رکھنا چاہیے‘‘ (۱۸ دسمبر ۲۰۱۵ئ)۔یہ بیان معاملات کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری طرف خالدہ ضیا نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’جنوری ۲۰۱۴ء کے جعلی انتخابات کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے عوامی لیگ نے ملک کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ سیاسی کارکن زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہیں۔ درندگی کے اس اقتدار سے نجات کے لیے قوم کے تمام طبقوں کو یک زبان اور یک جان ہونا پڑے گا‘‘۔ (پروتھم آلو، ڈھاکا، ۱۰دسمبر۲۰۱۵ئ)
ڈاکٹر شفیق الرحمن ، قائم مقام سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حالات کی سنگینی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ۲۶نومبر کو عالمی ذرائع ابلاغ کے نام خط میں لکھا ہے: ’’حکمران ٹولہ جمہوری اور سیاسی سطح پر جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے بجاے اوچھے، ظالمانہ اور مسلسل غیرقانونی ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے،جس کا بدترین مظاہرہ تو عدل کے نام پر جعلی ٹریبونل بناکر من مانے مقدمے اور من پسند فیصلے لے کر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو سفاکانہ انداز سے قتل کیا جا رہا ہے۔ دن دہاڑے کارکنوں کو پکڑ کر غائب کیا جارہا ہے، وحشیانہ تشدد کر کے زندگی بھر کے لیے ناکارہ بنایا جا رہا ہے یا انھیں بغیر قانونی چالانوں یا پھر جعلی مقدموں کی دھونس سے جیلوں میںٹھونسا اور حبس بے جا میں رکھا جارہا ہے‘‘۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن نے لکھا ہے: ’’بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس انسانیت سوز کردار کی یہ داستان قدم قدم پر ثبت دکھائی دیتی ہے۔ اس حکومت نے مائوں کی گودیں اُجاڑ دی ہیں، عورتوں کے سہاگ لوٹ لیے ہیں، بچوں کے سروں سے ان کے باپوں کا سایہ چھین لیا ہے اور والدین کے جوان بیٹوں کو اپاہج کر دیا ہے یا پھر قبروں کا رزق بنا دیا ہے۔ ان دکھیاروں کے سینے پھٹ رہے ہیں، مظلوموں کے آنسوئوں کا سمندر رواں ہے اور آہوں کے طوفان آسمان تک پہنچ رہے ہیں، مگر سنگ دل حکومت لمحے بھر کے لیے بھی اپنے وحشی اہل کاروں اور غنڈوں کو لگام دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ہم اہلِ اقتدار پر واضح کرتے ہیں کہ ’’جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو قتل اور کارکنوں کو ظالمانہ قیدوبند اور درندگی پر مبنی تشدد کر کے بھی جماعت اسلامی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حکومت کے برسرِاقتدار رہنے کا کوئی انسانی اور اخلاقی جواز نہیں ہے جس کے کارندے اور فیصلہ ساز عدل اور انسانیت کی تمام حدوں کو توڑ چکے ہیں۔(جماعت ویب، روزنامہ سنگرام ،ڈھاکا، ۲۶نومبر ۲۰۱۵ئ)
یہ خبرونظر چیخ چیخ کر حالات کی سنگینی کو ظاہر کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ اس صورتِ حال پر مسلم دنیا سے کوئی مؤثر آواز سنائی نہیں دے رہی۔ صدافسوس کہ دنیا کی مقتدر قوتیں اور عالمی ذرائع ابلاغ رسمی بیان بازی کے بعد خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔اس الم ناک منظرنامے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالباً بنگلہ دیش میں موت کا سکوت ہے اور عوامی لیگ کو یک طرفہ کارروائیاں کرنے میں کچھ بھی روک ٹوک نہیں۔ حکومتی سطح پر یقینا یہی معاملہ ہے ، لیکن جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کارکنان سرفروشی اور استقامت سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کو بہ یک وقت بنگلہ دیشی حکومت اور بھارتی ریشہ دوانیوں سے پنجہ آزمائی کرنا پڑ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہ جدوجہد رنگ لاکر رہے گی۔ اس لیے کہ آمریت بظاہر کتنی ہی مضبوط ہو بالآخر اپنے تمام تر جبر کے باوجود مٹ کر رہتی ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے!
سوال : خدا کے فضل سے جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیمات کافی عرصہ سے اسلام کی خدمت کر رہی ہیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ تحریک سے وابستگان کی بڑی تعداد ابھی تک اپنے گھروں پر خصوصی توجہ نہیں دے پائی۔ بیش تر گھر ایسے ہیں، جن میں مرد تو تحریک کا کام انجام دے رہے ہیں، لیکن خواتین بالکل ناواقف ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
جواب:آپ ایک خاتون ہیں مگرآپ کے سوال سے یہ مترشح ہو رہا ہے کہ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ جن مردوں نے دعوت و تحریک کو سمجھ لیا ہے اور وہ یہ مبارک جدوجہد کر بھی رہے ہیں، مگر اپنی خواتین کو دعوت و تحریک کی طرف متوجہ نہیں کر رہے ہیں، اور آپ کے نزدیک یہ مردوں کی ایک کوتاہی ہے۔ بے شک مرد قوام ہیں، گھر کے سربراہ ہیں۔ انھیں یہ ذمہ داری سنجیدگی کے ساتھ پوری کرنی چاہیے۔ صرف اس لیے نہیں کہ اگر انھوں نے گھر کی طرف توجہ نہ کی تو وہ دعوت و تحریک کا کام یکسوئی کے ساتھ نہ کرسکیں گے، اور گھر ہی ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قرآن نے بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری بتائی ہے کہ وہ گھر والوں کو دین کی تعلیم دیں، دین کی تربیت دیں تاکہ وہ کل جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لّاَیَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَo(التحریم۶۶: ۶) اے ایمان والو! بچائو اپنی جانوں کو اور اپنے گھروالوں کو جہنم کی آگ سے جس کاایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں، جو ہرگز سرتابی نہیں کرتے، اس حکم سے جو اللہ نے انھیں دیا ہے اور وہی کرتے ہیں جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے۔
اس واضح حکم کا صاف اور صریح مطلب یہ ہے کہ مرد جس کو اللہ نے عائلی زندگی کا سردھرا اور قوّام بنایا ہے دوسری ذمہ داریوں کی طرح اس کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس کی نگرانی میں گھر کے جو لوگ دیے گئے ہیں وہ ان کی تعلیم و تربیت کا ایسا بندوبست کرے کہ وہ خدا کے مخلص بندے بن کر رہیں، اور اسلام کے خادم بن کر جئیں، اور کل حشر کے میدان میں وہ جہنم سے نجات پانے والے صالحین میں شامل ہوں۔
مگر میں آپ سے ایک دوسری بات بھی عرض کرتا ہوں ، وہ یہ کہ اگر مرد غافل اور لاپروا ہو تو یاد رکھیں عورتوں کا دین مردوں کے ذمّے نہیں ہے، نہ مرد عورت کی ذمہ داریوں کا جواب وہ ہوگا۔ دین جس طرح مردوں کا ہے ٹھیک اسی طرح عورتوں کا بھی ہے۔ اگر عورتوں کو خدا نے شعور دیا ہے تو وہ خود توجہ کریں۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں غفلت برت رہے ہیں تو خود خواتین آگے بڑھ کر دعوت و تحریک کو سمجھیں اور اللہ کی عائد کردہ دینی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ مردوں کی غفلت اور لاپروائی کو بہانہ نہ بنائیں، بلکہ جہاں مرد دین سے غافل ہوں، عورتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ انھیں متوجہ کریں اور راہِ راست پر لانے کے لیے دل سوزی، حکمت اور تسلسل کے ساتھ کوشش کریں۔
ایک مثالی گھر یا خاندان وہ ہے، جہاں مہرومحبت ہو، سلیقہ اور تہذیب ہو ، خوش گوار تعلقات ہوں، باہم تعاون ہو___ مگر یہ سب کچھ اسلام کی روشنی اور دین دارانہ ماحول میں ہو اور پورا گھر اسلام کی نمایندگی کرنے والا ہو۔ اس نمایندگی میں بلاشبہہ سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے، لیکن اس سے انکار کی کیا گنجایش کہ عورت کا رول بھی اس میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے آپ اس طرح سوچیں کہ بلاشبہہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر والوں پر توجہ دیں لیکن اسی پر تکیہ کیے بیٹھے رہنا اور اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرنا، کسی طرح صحیح نہیں۔ ایک خاتون کو بھی دین کی طرف اسی طرح بطور خود توجہ کرنی چاہیے جس طرح ایک مرد سے توقع کی جاتی ہے۔ مرد اگر توجہ نہیں کرتاہے، تو اس کی شکایت کرنے یا اس کی غفلت پر اظہار رنج و افسوس کرنے سے اپنے فرض کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت حال میں تو عورت کی ذمہ داری دُہری ہوجاتی ہے کہ قوّام کے حصے کا کام بھی کسی نہ کسی طرح اسے انجام دینا ہے۔ قوّام کی غفلت اور لاپروائی نے اس کی ذمہ داری میں اضافہ کردیا ہے اور ایسے گھرانے میں عورت کو اور زیادہ دل سوزی، توجہ اور لگن کے ساتھ دینی فرائض انجام دے کر قوّام کو بھی دینی فرائض کی طرف متوجہ کرنا ہے۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور ان کا حل، ص ۳۲۸-۳۳۰)
س : گھر کے خرچ میں سے (جو کھلا خرچ ہو) بیوی بغیر شوہر کی اجازت کے پیسے یا تحائف اپنے رشتہ داروں، ملنے والوں یا نوکروں کو دے سکتی ہے یا نہیں؟
ج:معروف یہ ہے کہ گھر کے خرچ کے لیے شوہر جو کچھ بیوی کو دیتا ہے اس میں غریبوں پر صدقہ و خیرات، پڑوسیوں کا لینا دینا اور عزیزوں، رشتے داروں کے تحفے تحائف سب شامل ہوتے ہیں۔ رشتہ دار آپ کے ہوں وہ بھی شوہر کے رشتے دار ہیں اور شوہر کے رشتہ دار ہیں تو وہ بھی آپ کے رشتے دار ہیں۔ ان رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی ضروری ہے اور صلہ رحمی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان کو تحفے تحائف بھی دیے جائیں۔ ان کی دوسری ضرورتیں بھی پیش نظر رکھی جائیں اور ان کے ساتھ ممکنہ حُسنِ سلوک کیا جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ایک حدیث اس مسئلے کی وضاحت میں منقول ہے۔ ’’حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ سفیان کی بیوی ہند نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ابوسفیان ایک کنجوس آدمی ہیں۔ وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جس سے میری اور میری اولاد کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔ ہاں، یہ کہ میں خود ہی اس کی لاعلمی میں اس کے مال سے کچھ لے لوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جتنے سے تمھاری اور تمھاری اولاد کی ضرورتیں پوری ہوسکیں، اتنا معروف کے مطابق لے لو‘‘۔(ریاض الصالحین)
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی بعض حالات میں شوہر کا مال اس کی لاعلمی میں بھی خرچ کرسکتی ہے اور اس خرچ کی اسے شوہر کو تفصیل بتانا بھی ضروری نہیں، اور نہ اس کوچوری کہا جائے گا۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کو اس کی ضرورت کے مطابق خرچ کے لیے دے۔ کسی کو تحفہ تحائف دینا، یا رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا بیوی کی ضرورت بھی ہے اور فعل معروف بھی،اس لیے بیوی کا خرچ کرنا کسی طرح بے جا نہیں کہا جاسکتا۔
البتہ بیوی کے لیے یہ کسی طرح مستحسن نہیں ہوگا کہ وہ شوہر کے مال کو اللّے تللّے اُڑائے یا فضول خرچی کرے، اور شوہر کے مالی حالات سے بے نیاز ہوکر اپنی ضرورتیں پھیلائے اور محض دوسروں کی دیکھا دیکھی وقت اور مال خریداری کی نذر کرے۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی، ایضاً، ص ۲۵۰-۲۵۱)
س : بعض لوگ مسجد کے اندر جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھنے کو ناجائز کہتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔ شرعی نقطۂ نظر واضح کر دیجیے۔
ج: مسجد کے اندر جنازہ رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے۔ نمازِ جنازہ ادا ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے میں بھی فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ مسجد کے اندر جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے۔ امام ترمذی [م:۸۹۲ئ] نے امام شافعی [م:۸۲۰ئ]کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امام مالک کا مسلک بھی یہی تھا کہ میت پر مسجد کے اندر نماز نہ پڑھی جائے لیکن خود امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسجد کے اندر نمازِجنازہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس مسئلے میں چونکہ حدیثیں مختلف ہیں، اس لیے فقہا کے مسلکوں میں بھی اختلاف ہے۔ بعض ائمہ اس حدیث کو ترجیح دیتے ہیں جس میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھی ہے، اور فقہ حنفی میں اُن حدیثوں کو ترجیح دی گئی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھنے سے اس کا ثواب کم ہوجاتا ہے۔ لیکن فقہا کے درمیان یہ اختلاف جواز و عدم جواز کا نہیں ہے بلکہ کراہت کا ہے۔ یعنی بعض ائمہ کے نزدیک بلاکراہت جائز ہے اور بعض کے نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے۔(مولانا سیّد احمد عروج قادریؒ، احکام و مسائل، دوم،ص ۲۴۶)
س : مرتے وقت انسان اپنے ہوش و حواس کھودیتا ہے۔ نزعی کیفیت کہہ لیجیے یا دوسری کوئی حالت، ایسے وقت شیطان جو گھات میں ہمہ وقت ہے، اپنی گم راہی کا جال پھینکتا ہے۔ ایک مسلمان سلامتیِ ایمان کے ساتھ مرتے دم دنیا سے رخصت ہو، اس کے لیے بے خطا تدبیر کیا ہے؟
ج:اگر انسان ہوش و حواس کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچا رہے اور اطاعت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سرگرم رہے، کلمۂ طیبہ کا ورد رکھے اور خدا کی توحید کا واضح شعور رکھے، تو پھر اللہ کی ذات سے توقع یہی ہے کہ وہ حالت ِ نزع میں خصوصی حفاظت فرمائے گا اور اپنے لیے ایسے مخلص اور مطیع بندے پر شیطان کا دائو دنیا سے رخصت ہوتے وقت ہرگز نہ چلنے دے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ اہتمام بھی ہو کہ جب یہ کیفیت طاری ہوتی محسوس ہو تو اس وقت سورئہ یٰسین کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پڑھا یا سنایا جائے تو ان شاء اللہ اور زیادہ حفاظت کی توقع ہے۔ یہ بظاہر غیرممکن ہے کہ جو بندہ زندگی میں اللہ اوررسولؐ کا مخلص، وفادار اور اطاعت کیش رہا، جسے اللہ کی توحید کا پورا شعور رہا اور توحید خالص پر ایمان رکھتا ہو، رسولؐ پر ایمان اور آپؐ سے سچی اطاعت و پیروی کا تعلق رکھتا رہا، کسی ایسے بندے کو نزع کے وقت خالقِ کائنات یوں ہی چھوڑ دے کہ شیطان اس پر اپنا جال پھیلائے، نہیںبلکہ خدا اپنے ایسے بندے کی حفاظت ضرور فرمائے گا۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی،مسائل اور ان کا حل،ص ۳۶۲)
س : حدیث نبویؐ ہے کہ :بھلی بات کہو یا خاموش رہو، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟
ج:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے:
مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوْ لِیَصْمُتْ، جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔
رَحِمَ اللّٰہُ اَمْرَئً ا قَالَ خَیْرًا فَغَنِمَ أَوْ سَکَتَ فَسَلِمَ ، اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر، جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حق دار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا۔
بلاشبہہ زیادہ بولنا اور بے وجہ بولتے رہنا انسان کے لیے تباہی کا باعث اور گناہوں کا سبب ہے۔ امام غزالیؒ [م: ۱۸ دسمبر ۱۱۱۱ئ]نے ان گناہوں کی تعداد ۲۰ بتائی ہے، جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالغنی النابلسیؒ [م: ۵مارچ ۱۷۳۱ئ]نے اس تعداد کو ۷۲ تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے اکثر گناہِ کبیرہ کے زُمرے سے ہیں، مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا اور دوسروں کا مذاق اُڑانا وغیرہ وغیرہ۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے۔ خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔
جو لوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیںسرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطائوں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزا کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بندئہ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہر بات نوٹ کر رہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌo (قٓ ۵۰:۱۸) کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگران موجود نہ ہو۔
(ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ص ۵۹-۶۰)
مولانا طاسینؒ روایتی دینی مدارس سے فارغ التحصیل، اُن کی اسناد کے حامل اور انھی مدارس میں استاد، لیکن اسلام کے نظامِ اقتصاد پر روایتی فکر سے ہٹ کر اور مضبوط دلائل کی بنا پر اُس سے اختلاف کرنے والے عالم کی حیثیت سے عرصے تک جانے جائیں گے۔ جیساکہ مصنف خود بیان کرتے ہیں: ’’یہ کتاب اسلام کے معاشی نظام سے متعلق کوئی مستقل اور جامع کتاب نہیں، بلکہ چند ایسے معاشی معاملات سے متعلق چند تحقیقی مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے، جو مسلمانوں کے اندر جانے پہچانے اور عملی طور پر رائج معاملات ہیں، جیسے مزارعت، مضاربت، شرکت اور اجارہ‘‘۔ اسلامی معاشیات پر لکھنے والے اور اسلامی اقتصاد پر مبنی مالیاتی ادارے قائم کرنے اور چلانے والے عام طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ شرکت، مضاربت، لیزنگ اور اس طرح کے کاروبار، اسلام کے معاشی اصولوں اور قوانین کی رُو سے درست اور جائز ہیں، اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی نہیں ہیں، جب کہ مولانا کے نزدیک حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔
مصنف کہتے ہیں: ہم مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کا ایک اپنا مستقل معاشی نظام ہے، جو سرمایہ داری اور اشتراکی معاشی نظاموں سے مختلف ہے۔ لیکن عملی طور پر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے، وہ ’’بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ اور بعض ملکوں میں ادھورا اشتراکی [نظامِ معاش] ہے‘‘۔ قرآن و حدیث میں حیاتِ انسانی کے معاشی پہلو سے متعلق جو ہدایات و احکام دیے گئے ہیں، ان کا بغور مطالعہ کرکے آج کی دنیا میں ان کے اطلاق اور ایک نظام کی تخلیق کا کام ابھی تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکا۔
پیش نظر کتاب میں مزارعت، مضاربہ اور اجارہ سے متعلق تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ ان میں سے ہرطریق اور شعبۂ معاشی پر متقدمین کے ایک گروہ نے جواز اور کچھ نے عدم جواز کے موقف اختیار کیے ہیں۔مصنف کہتے ہیں کہ دونوں موقف اجتہاد پر مبنی ہیں، اور ان سے اختلاف کی گنجایش ہے۔ کون سا موقف اختیار کیا جائے؟ اس سلسلے میں جواب تحقیق و تنقید کی روشنی ہی میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مزارعت پر تفصیلی بحث میں فاضل مصنف کا کہنا ہے کہ یہ طریق ’ربوٰ‘ کے مماثل ہے، کیوں کہ اس میں ’اصل سرمایہ‘ جوں کا توں محفوظ رہتا ہے، اور اس کے استعمال کرنے والے کو اس کا ’معاوضہ‘ دینا ہوتا ہے۔ قرآن سے استدلالِ تمثیلی (analogical argument) کے بعد احادیث کے ذخیرے سے اس سلسلے میں تمام روایات کو لے کر ان کا محاکمہ کیا گیا ہے۔مصنف کہتے ہیں: ’’ان روایات کے پورے مجموعے پر خالی الذہن ہوکر نظر ڈالی جائے تو جو حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ مدینہ منورہ میں مزارعت، مخابرت، محاقلت اور کراء الارض کی مختلف شکلیں رائج چلی آرہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب شکلوں سے مسلمانوں کو منع فرمایا‘‘۔(ص۸۱)
مضاربت کے سلسلے میں مصنف کا کہنا ہے کہ پاکستانی (اور دوسرے بنکوں) میں اس عنوان سے جو کاروبار ہوا ہے وہ ربوٰ ہی کی ایک شکل ہے۔ پاکستان بنکنگ کونسل نے بنکوں میں شرکت و مضاربت کے نام سے ایک شعبہ تجویز کیا کہ جو لوگ اس شعبے میں کھاتے کھولیں گے ان کی رقوم قرض کی طرح محفوظ بھی رہیں گی اور سالانہ ساڑھے ۱۲ فی صد نفع بھی ملے گا… پھر غضب یہ کہ اس شعبے کو اسلامی کا نام دیا گیا‘‘۔ (ص۲۴۱)
مصنف کے نزدیک: ’’ایسے معاملات پر مبنی نظامِ بنکاری و سرمایہ کاری کو اسلامی کہنا اسلام پر افترا اور ظلم اور اُسے بدنام کرنے کی بدترین کوشش ہے، کیوں کہ جہاں تک بنیادی ساخت اور عملی نتائج کا تعلق ہے، اس نظام میں اور صریح ربوٰ پر مبنی نظام میں کوئی خاص فرق نہیں۔ دونوں میں کھاتہ داروں کی اصل رقوم بھی محفوظ رہتی ہیںاور ان کو بغیر کسی محنت و مشقت کے سرمایہ کے فی صد کے حساب سے متعین اضافہ بھی ملتا ہے‘‘۔ (ص ۲۴۱)
مصنف ’مضاربہ‘ کی حقیقی شکل جو جائز اور درست تسلیم کرتے ہیں، اس میں ایک فریق کا مال اور دوسرے کا تجارتی کام یا عمل ہوتا ہے۔ اس تجارت یا معاشی عمل میں اگر نفع ہو، تو دونوں فریق مقررہ تناسب سے شریکِ نفع ہوتے ہیں، اور نقصان کی صورت میں سارا خسارہ ’ربّ المال‘ یعنی سرمایے والے فریق کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی چند شرائط ہیں، جن کے تحت یہ کاروبار جائز قرار پاتا ہے۔ بدقسمتی سے مروج مالیاتی نظاموں اور بنکوں میں مضاربہ کی شرعی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جو کاروبار کیا جا رہا ہے، اس میں ان شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ اس طرح ’’اس معاملے کو ربوٰ کے بجاے شرکت و مضاربت اور اس میں ملنے والے اضافے کو سود کے بجاے نفع کہہ دینے سے حقیقت ِ حال پر کچھ اثر نہیں پڑتا، اور نہ اس کی نوعیت ہی بدلتی ہے‘‘۔ (ص ۲۵۳)
مصنف بجا طور پر یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ جس معاشرے میں سرمایہ دارانہ معاشی نظام قائم ہو، اس میں سرمایہ کاری کے لیے مضاربت، شراکت یا دوسرے نفع بخش معاشی اعمال کی ترویج عملی طور پر ناممکن ہے۔ غالباً اس طرح کا معاملہ کرایے پر مکانات دینے کا ہے، اس کا جواز چند شرائط کے ساتھ ہے، تاہم مکہ مکرمہ کے مکانات میں مسافروں سے کرایہ وصول کرنے کا کوئی جواز نہیں، ہاں خدمات (پانی، بجلی وغیرہ) کا معاوضہ لیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ملک ، بلکہ پورے عالمِ اسلام میں جن بہت سی معاشی سرگرمیوں کو عین اسلامی تصور کیا جاتا ہے ، اور بہت سے مستند علما بھی نہ صرف ان کے جواز کے قائل ہیں، بلکہ ان سرگرمیوں میں عملاً شریک بھی ہیں۔ اُن کے بارے میں فاضل مصنف کی تحقیق ہمارے لیے فکر کے کچھ نئے اور پرانے دریچے کھولتی ہے۔ ان معاملات میں دین کے اصل مصادر کی طرف رجوع اور انھیں اس کاوش اور محنت کے ساتھ سلیقے سے جمع کرکے پیش کرنا اور ان سے اخذ نتائج بلاشبہہ ایک ایسا علمی کارنامہ ہے، جس سے اسلام کے معاشی نظام کے ہرطالب علم اور منتہی کو استفادہ کرنا چاہیے۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
رہنماے تربیت، دعوتِ دین کے کارکنوں کے لیے اپنے موضوع پر ایک غیرمعمولی کتاب ہے۔ڈاکٹر ہشام الطالب کی یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی اور شاہ محی الحق فاروقی نے اس کا اُردو ترجمہ کیا، جسے عالمی ادارہ فکراسلامی (IIIT) نے ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری صاحب کی نگرانی میں شائع کیا۔ یہ کتاب ’خرم جاہ مراد‘ کے نام انتساب کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ہشام الطالب شمالی امریکا کی تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (MSA) کی داغ بیل ڈالنے والے نمایاں افراد میں سے تھے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ دعوتی سرگرمیوں میں گزرا ہے۔ انھوں نے اپنے مشاہدے، تجربے اور سوچ بچار کا حاصل اس کتاب میں قلم بند کیا ہے۔
اس کتاب کا مقصد اسلامی دعوت کے ایسے کارکنوں کی تیاری ہے، جو علم اور حکمت و دانش کے زیور سے آراستہ اور ذہن رسا کی دولت سے مالا مال ہوں، دنیا کے ثقافتی اور معاشرتی مسائل کو سمجھتے ہوں، اور فہم و فراست اور مؤثر ابلاغ کے ذریعے اسلام کی خاطرخواہ خدمت کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے اس کتاب میں تربیت کا ایک ایسا لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے، جس سے زیرتربیت افراد کی لگن میں اضافہ،ان کے علم میں ترقی اور ابلاغ، انتظامی اُمور اور منصوبہ بندی کے شعبوں میں ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوسکتا ہے۔
کتاب کے مندرجات کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نظری سے زیادہ عملی پہلوئوں پر مرکوز ہیں۔ ایک فرد کی شخصی تعمیرسے لے کر دعوتِ اسلامی کی توسیع تک، اور اس سلسلے میں مؤثر انداز کے اجتماعات منعقد کرنے سے لے کر دعوت اسلامی کی منصوبہ بندی تک، اور دعوت و تبلیغ کے معروف طریقوں کے استعمال سے لے کر عصرِحاضر کی بہترین سہولتوں پر غوروفکر جیسے بے شمار مسائل اس میں زیربحث آئے ہیں۔
سرورق پر تعارفی جملہ: ’کارکنان دعوت و تبلیغ کے لیے لائحہ عمل‘ کتاب کی مناسب نمایندگی کرتا ہے۔ اس کتاب میں ۳۷؍ابواب ہیں جو پانچ حصوں میں تقسیم ہیں۔ حصہ اوّل: تربیت کے مناظر، دوم: قیادت کی ذمہ داریاں، سوم: مہارت میں اضافہ اور ذاتی ترقی، چہارم: تربیت دینے والوں کی تربیت، پنجم: نوجوانوں کے کیمپ، نظریاتی عملی حیثیت سے۔
یہ ضخیم کتاب لائبریری کی زینت بنانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اسے مسلسل استعمال میں رکھنا چاہیے۔ اس کا انفرادی اور اجتماعی مطالعہ کرنا چاہیے، اور رُوبہ عمل لاکر نتائج و اثرات اور تحریکی کام کی رفتار کا جائزہ لینا چاہیے۔(مسلم سجاد)
خالص تحقیق، کبھی عام قاری کی دل چسپی کی نہیں ہوتی، پھر بھی علم و ادب سے تھوڑا بہت علاقہ رکھنے والے قارئین، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے اُردو شعبے کے مجلے تعبیر کے بعض مضامین کو شوق سے پڑھیں گے، مثلاً رؤف پاریکھ کا مضمون، جس میں انھوں نے ’’اُردو کی چند نادر و کم یاب خصوصی لغات کا تعارف‘‘ کرایا ہے، یا انیس نعیم کا مضمون جس میں انھوں نے ’مغربی بنگال میں اُردو کے ایک اہم مرکز: مرشدآباد‘‘ کے شعرا و ادبا کی کاوشوں کی جھلک دکھائی ہے، یا میرا جی کی محبت میں ڈوبا ہوا طارق حبیب کا مضمون۔ اسی طرح عامر رشید نے دیوان زادہ کے مختلف نسخوں کے مطالعے میں خاص دیدہ ریزی کی ہے۔ لسانی تحقیق پر ظفراحمد اور رشید حسن خاں کے تدوینی امتیازات پر محمد توقیراحمد نے اختصار اور سلیقے سے بات کی ہے۔ ابرار عبدالسلام نے مومن کے حالات میں پہلا مضمون، افتخار شفیع نے مولانا حالی کا ایک غیرمطبوعہ مضمون (اس کے عنوان میں ’ایک نادر اور‘ کے الفاظ زائد ہیں) اور شفیع انجم نے ایک کم یاب مثنوی یوسف زلیخا کا تعارف کرایا ہے۔ ارشد محمود ناشاد نے گارسین دتاسی کی تاریخ ادبیات اُردو (مرتبہ: معین الدین عقیل) اور ظفر حسین ظفر نے رشیدحسن خاں کے خطوط دوم (مرتبہ: ٹی آر رینا) کا تنقیدی تجزیہ کیا ہے۔
رُموزِ اوقاف اور اِملا وغیرہ کے سلسلے میں انگریزی حصے میں تو معروف و مسلّمہ اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر اُردو حصے میں ایسا نہیں، مثلاً انگریزی کتابوں کے نام کہیں سیدھے (نارمل) اور کہیں ترچھے (italics)، مضامین کے خلاصوں اور اصولِ اَمالہ میں بھی دوعملی___ زیادہ اُلجھن اقتباسات میں ہوتی ہے۔ یہ ایک بالکل نیا اسلوب ہے۔ بعض اوقات اقتباس کے آغاز و انجام کا پتا ہی نہیں چلتا۔ مجلے نے پہلے ہی شمارے (جنوری-جون ۲۰۱۵ئ) میں اپنا ایک تشخص اور معیار قائم کرلیا ہے، امید ہے آیندہ اور بہتر ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
نالۂ نیم شب ۲۱ دعائوں کا ایسا مجموعہ ہے جو تعلق باللہ استوار کرنے اور نشوونما دینے میں بڑا مؤثر ہے۔ عمرہ اور حج پر جانے والوں کے مطابق خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر یہ دعائیں کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ ان کی تاثیر ناقابلِ بیان ہے۔ رات کی تنہائی میں اپنے رب سے یہ مناجات کریں اور آنکھیں نم نہ ہوں ممکن نہیں۔اُردو نہ جاننے والوں کے لیے بنت ِنور اور بنت ِ حنیف نے انگریزی ترجمہ کرکے یہ ضرورت پوری کی ہے۔ تاہم ابوسلیمان صاحب نے ترجمے پر نظرثانی کر کے اور زیادہ بہتر بنادیا ہے۔(مسلم سجاد)
o ہفت روزہ نداے خلافت ، (حُرمت سود نمبر)، مدیر: ایوب بیگ مرزا۔ پتا: ۳۶-کے، ماڈل ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۸۶۹۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات: ۲۷۔ قیمت: ۱۲ روپے۔[انسدادِ سود کے ضمن میں اس خصوصی اشاعت کا اداراتی مضمون ’ڈوب مرنے کا مقام‘ حافظ عاکف سعید کے قلم سے اس اہم فریضے سے غفلت پر احساسِ ندامت کو اُجاگر کرتا ہے۔ lاسلامی بنک کاری: کتنی اسلامی؟ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی lپاکستان میں انسدادِ سود کی کوششیں: ایک جائزہ lمعیشت پر سود کے اثرات، محمد عمرعباسی l Allah's War، محمد فہیم، مسئلے کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرتے اور مختلف تقاضوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔]
o فحاشی کا سیلاب اور اس کا سدباب ، محمد نعمان فاروقی۔ ناشر: مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سینٹر، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار،لاہور۔ فون: ۳۷۳۱۰۰۲۲-۰۴۲۔صفحات:۴۸۔ قیمت:۵۰ روپے۔[۴۸صفحے کے چھوٹے سائز کے اس مختصر کتابچے میں اتنے وسیع موضوع کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو نصف قیمت پر دستیاب ہے۔ جو اس کاروبار میں کسی طرح شریک ہیں انھیں ضرور ڈاک سے بھیج دیجیے۔]
’سیّد عبدالقادر جیلانیؒ: شخصیت کا منفرد پہلو‘ (دسمبر ۲۰۱۵ئ) منفرد تحریر ہے۔ اُن کے عقائد و افکار اور دینی خدمات کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کا پہلو سامنے آیا۔ ہمارے معاشرے میں اولیا اللہ کی تعلیمات کا صحیح رُخ پیش نہیں کیا جا رہا۔ غیرمستند روایات سینہ بہ سینہ منتقل ہورہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اولیا اللہ کی شخصیات، خدمات و تعلیمات کی حقیقی تصویر پیش کی جائے۔
’تحریکِ اسلامی اور فکری چیلنج؟‘ ایک اہم دعوتِ فکروعمل ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ مغرب یا مغرب کے آلۂ کار محض فوجی طاقت کے بل بوتے پر ہی نہیں، بلکہ علمی اور فکری محاذ پر بھرپور توجہ دینے سے اپنے قبضے کو مضبوط بنائے ہوئے ہیں۔ اس چیز کا جواب علمی اور فکری سطح پر ہی دیا جاسکتا ہے۔
’نوجوان نسل کی سیکولرائزیشن‘ عمدہ مضمون ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مغرب کے جو دیگر ادارے اس طرح کا کام کر رہے ہیں، انھیں بھی منظرعام پر لائیں۔
’رسائل و مسائل‘ کے تحت ’انفاق فی سبیل اللہ کے باوجود تنگ دستی کیوں؟‘ کا جواب تشفی بخش ہے۔ یقینا اس جواب سے کافی لوگوں کے علم میں اضافہ بھی ہوا ہوگا اور دلی سکون کا باعث بھی ہوگا۔
ترجمان میں ’دہشت گردی عالمی تناظر میں‘، ’اسلامی تحریکوں کی جدوجہد اور حکمت عملی‘، ’اسلامی دستور سازی کے مسائل اور تقاضے‘ وغیرہ جیسے موضوعات پر جامع مقالات کی ضرورت ہے۔
جو بات عوام اور حکومت، سب کے ذہن نشین ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ دستور کسی تعویذ کا نام نہیں ہے جس کو ریاست کے گلے میں باندھ دینے سے سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائے[گا]۔ دستور میں ہم خواہ کتنے ہی اعلیٰ مقاصد اور پاکیزہ اصول درج کردیں، اُن سے عملاً کوئی فرق واقع نہ ہوگا، جب تک کہ حکومت اور حکام اور باشندگانِ ملک سب کے سب مل جل کر معاشرے کی اصلاح ، اور خصوصاً معاشرے کے اخلاق کی تعمیر کے لیے کوشش نہ کریں۔
ہم ایک ناقص دستور سے بھی بہترین نتائج پیدا کرسکتے ہیں اگر ہماری نیت بخیر ہو، اور ہم سب کا ارادہ اسلام کی بہترین رہنمائی سے فائدہ اُٹھا کر اپنی حالت درست کرنے کا ہو۔ اس کے برعکس کوئی کامل و اکمل دستور بھی، خواہ وہ سو فی صد اسلامی ہو، محض اپنے الفاظ کی طاقت سے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا، بلکہ ہم اپنے اخلاق کی خرابی اور اپنے اعمال کی شومی سے اس کو ناکام کرکے دنیا بھر میں اپنے ساتھ، خود اسلام کی رُسوائی کا سامان بھی کردیں گے۔
دستور کو صحیح اصولوں پر قائم کرنا بلاشبہہ ضروری ہے تاکہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں اس کے نقائص رکاوٹ نہ بن سکیں۔ لیکن دستور کی اصلاح کے بعد معاشرے کی اصلاح کے لیے عملی سعی بھی اتنی ہی، بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے۔ ایک بداخلاق معاشرہ اپنے لیے بھی مصیبت ہے اور اس حکومت کے لیے بھی جو اس کے انتظام کی ذمہ داری سنبھالے۔ کوئی بہتر سے بہتر قانون و دستور بھی ایسے معاشرے میں کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتا۔
اس معاملے میں ضروری ہے کہ سب سے پہلے حکومت پیش قدمی کرے۔ اُسے بھی محض نظم و نسق چلانے والی حکومت بن کر نہ رہنا چاہیے بلکہ معاشرے کی تعمیر صالح کو اپنا نصب العین بناکر کام شروع کرنا چاہیے۔ (’اشارات‘ ، سیّدابولااعلیٰ مودودی ، ترجمان القرآن،جلد۴۵، عدد۵، جمادی الاول ۱۳۷۵ھ، بمطابق جنوری ۱۹۵۶ئ، ص ۲-۳)
_______________