پروفیسر خورشید احمد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخِ انسانی کا ہر باب ظلم، ناانصافی اور خوں آشامی کی دل خراش داستانوں سے بھرا پڑا ہے، وہیں یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ظلم کی بالادستی کو کبھی     دوام حاصل نہیں ہوسکا۔ جب بھی مظلوم اور ستم زدہ انسانوں نے ظلم اور محکومی کی زنجیریں توڑ کر غاصب آقائوں کے نظام کو چیلنج کیا ہے، اور مزاحمت اور مقابلے کا راستہ اختیار کیا ہے تو بالآخر وہ ظلم کے نظام کو پاش پاش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، چاہے اس جدوجہد میں کتنا بھی وقت کیوں نہ لگا ہو۔ اس کے برعکس اگر ظلم کے نظام کو چیلنج نہ کیا جائے یا اس سے سمجھوتا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، تو پھر ظلم کی رات طویل اور تاریک سے تاریک تر ہوتی جاتی ہے، اِلاَّ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو اور تاریخ ایک نئی کروٹ لے لے۔

زندگی حق و باطل کے درمیان کش مکش ہی سے عبارت ہے۔ ظلم، ناانصافی اور حق تلفی کرنے والی قوتیں بظاہر کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں، بالآخر حق اور انصاف کو غلبہ حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ صبر، استقامت اور حکمت کے ساتھ اس کے مقابلے کے لیے جدوجہد کی جائے اور غالب نظام کی کمر توڑنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کی جائیں۔ پھر چشم تاریخ بار بار یہ منظر دیکھتی ہے کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ،’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور باطل تو بلاشبہہ مٹنے والا ہے‘‘(بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ تاریخ نے یہ منظر بھی بار باردیکھا ہے کہ حق کے غلبے   کے لیے مظلوموں کی جدوجہد مادی اور عسکری قوت کی قاہری اور طرح طرح کے منفی ہتھکنڈوں کے باوجود بھی رُونما ہوجاتی ہے جس کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے متوجہ کیا ہے کہ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۹)، ’’بارہا ایسا ہوا ہے  کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ شرط اللہ پر بھروسا، مقصد کی حقانیت اور صداقت اور جدوجہد میں صبر اور استقامت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ظلم کی تاریک رات کبھی ختم نہ ہو، اور جو ظالم اور غاصب ایک بار غالب آجائے پھر اس سے نجات کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس حکمت ِربانی کا یہ جلوہ تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے کہ:

وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِج وَ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ط وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o(اٰل عمرٰن۳:۱۴۰) یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت  اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں، کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔

الحمدللہ، تاریخ کے اس تاب ناک عمل کا نظارہ ہم اپنی مختصر زندگیوں میں باربار کر رہے ہیں۔ عالمی اُفق ہو یا مسلم دنیا کے دروبست، غالب اور غاصب قوتوں کے ایوانوں میں ہلچل ہے اور ایک کے بعد دوسرا بت گر رہا ہے۔ عرب دنیا نئی کش مکش اور مثبت تبدیلیوں کی رزم گاہ بنی ہوئی ہے۔ جنھیں اپنی قوت کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا دعویٰ تھا، ان پر قوت کے محدود ہونے کی حقیقت کا انکشاف ہو رہا ہے۔ جو مدمقابل کو تہس نہس کردینے، صفحۂ ہستی سے مٹادینے اور مدمقابل کو پتھر کے دور میں پھینک دینے کے دعوے کرتے تھے، وہ جنگ بندی اور ایک دوسرے کی سرحدوں کو پامال  نہ کرنے کی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

امریکا کی مکمل تائید اور شہ پر اسرائیل نے جس زعم اور رعونت کے ساتھ غزہ پر تازہ یورش کی تھی اور آگ اور خون کی بارش کا آغاز کیا تھا، آٹھ دن تباہی مچانے کے بعد خود اس کی اور اس کے سرپرستوں کی کوششوں کے نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ وجود میں آیا ہے، جس کے بڑے دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر معاملات کو حکمت اور جرأت سے آگے بڑھایا جائے تو ایک نیا نظام وجود میں آسکتا ہے جس کے نتیجے میں شرقِ اوسط کو ایک نئی جہت دی جاسکتی ہے۔

۱۴نومبر ۲۰۱۲ء کو اسرائیل نے غزہ پر ایک بڑا حملہ کیا۔ چشم زدن میں ۸۰ سے زائد میزائل اور تباہ کن بم داغے گئے اور حماس کے ایک اہم ترین کمانڈر اور سیاسی اعتبار سے دوسری بڑی شخصیت احمدجعبری  کو شہید کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ F-16 کے ذریعے غزہ پر تابڑتوڑ حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو آٹھ دن تک جاری رہا۔ اس اثنا میں اسرائیل نے ۱۵۰۰ اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے پہلے جو جنگ مسلط کی تھی اور جو ۲۲دن جاری رہی تھی، اس کے مقابلے میں، خود اسرائیلی وزیراعظم کے بقول، جس بارودی قوت کو استعمال کیا گیا وہ اس سے دس گنا زیادہ تھی۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کی روشنی میں حماس نے جو جوابی کارروائی راکٹ اور میزائل کے ذریعے کی ہے، اسرائیلی قوت کا استعمال اس سے ایک ہزار گنا زیادہ تھا۔

 ان آٹھ دنوں میں غزہ میں ۱۶۳؍افراد شہید ہوئے، جن میں سے دوتہائی بچے اور خواتین تھیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے اور ان میں بھی بچوں اور خواتین کا تناسب یہی ہے۔ اسرائیل نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تین چوتھائی سے زیادہ اہداف سول اور غیرسرکاری مقامات تھے، جن میں عام مکانات، باغات، بازار، پُل، سرکاری، نجی اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت چلنے والے اسکول، ہسپتال، سڑکیں، راہداری کی سرنگیں اور خوراک کے ذخیرے سرفہرست ہیں۔ سرکاری عمارتوں میں بھی نشانہ بننے والی عمارتوں میں وزیراعظم کے دفاتر، تعلیم اور ثقافت کی وزارت کی عمارتیں اور پولیس اسٹیشن نمایاں ہیں۔ مغربی میڈیا نے انسانی اور مادی نقصانات کا تذکرہ اگر کیا بھی ہے تو سرسری طور پر، ان کی  ساری توجہ اسرائیل کے لوگوں کے حفاظتی بنکرز میں پناہ لینے اور خوف پر مرکوز رہی ہے، جب کہ فلسطین کے گوشت پوست کے انسانوں، معصوم بچوں اور عفت مآب خواتین کا خون، ان کے زخم اور مادی نقصانات اس لائق بھی نہ سمجھے گئے کہ ان کا کھل کر تذکرہ کیا جاتا، حالانکہ اسرائیل اور غزہ کے لوگوں کے جانی نقصان کا تناسب ۱:۳۱ اور مالی نقصان کا تناسب ۱:۱۰۰ تھا۔

اسرائیل کا دفاع، دعوے کی حقیقت

اسرائیل اور اس کے پشتی بان امریکا اور مغربی ممالک کی طرف سے ایک بار پھر وہی گھسی پٹی بات دہرائی گئی ہے کہ: ’’اسرائیل نے یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کیا‘‘۔ ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ  حالیہ تنازع کی شروعات بھی فلسطینیوں ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی بڑے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آگئے ہیں۔ کمانڈر احمد جعبری کو نشانہ بنانے کی تیاریاں کئی ماہ سے ہورہی تھیں۔ اسی طرح یہ اسرائیل کی مستقل حکمت عملی ہے کہ وقفے وقفے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں کرے اور اس طرح وہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی قوت کو وقفے وقفے سے کچل دے۔ فلسطینیوں کو اتنا زخم خوردہ کردیا جائے کہ وہ آزادی کی جدوجہد تو کیا، اس کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں اور مکمل اطاعت اور محکومی کی زندگی پر قانع ہوجائیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اس تجزیے کی تائید میں ہم چند عالمی مبصرین کی راے بھی پیش کردیں، تاکہ یہ بات سامنے آسکے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کا پروپیگنڈا خواہ کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، وہ سب کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا:

لندن کے اخبار دی گارڈین کا بیت المقدس کا نمایندہ ہیریٹ شیروڈ اخبار کی ۱۴نومبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں غزہ سے جانے والے اِکا دکا راکٹوں کا حوالہ دے کر صاف الفاظ میں لکھتا ہے کہ: ’’کئی مہینوں سے آپریشن پِلر آف ڈیفنس (Pillar of Defence) کی توقع کی جارہی تھی‘‘۔

واضح رہے کہ یہ رپورٹ اس دن کئی گھنٹے پہلے نشر کی گئی جس دن بڑے حملے کا آغاز ہوا اور کمانڈر احمد جعبری کو شہید کیا گیا۔ اسرائیلی دانش ور اور سابق رکن پارلیمنٹ یوری ایونری  اخبار  کاؤنٹر پنچ  (۱۶-۱۸ نومبر ۲۰۱۲ء ) میں لکھتا ہے:

اس کا آغاز کس طرح ہوا؟ یہ ایک احمقانہ سوال ہے۔

غزہ کی پٹی پر تنازعات کا ’آغاز‘ نہیں ہوتا۔ یہ دراصل واقعات کی ایک مسلسل زنجیر ہے۔ ہر ایک کے بارے میں یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ کسی سابق اقدام کا ردعمل ہے یا اس کے ردعمل میں کیا جا رہا ہے۔ عمل کے بعد ردعمل آتا ہے۔ اس کے بعد جوابی حملہ، اور اس کے بعد ایک اور غیرضروری جنگ،Another superfluous war  ۔

دی گارڈین لندن کا ایک اور مشہور کالم نگار سیوماس ملن اس راز کو، اگر اسے راز کہا جائے تو بالکل فاش کردیتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے دعوے دھوکے اور چوری اور سینہ زوری کی مثال ہیں:

مغرب کے سیاست دانوں اور میڈیا نے غزہ پر اسرائیل کے حملے پر جس طرح زعم و ادعا پر مبنی انداز اختیار کیا ہے، اس سے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ اسرائیل کو ایک بیرونی طاقت کے بغیر اُکسائے حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مغرب کے بیش تر میڈیا نے اسرائیل کے اس دعوے کو تسلیم کیا اور آگے بڑھایا ہے کہ اس کا حملہ حماس کے راکٹ حملوں کی محض جوابی کارروائی ہے۔ بی بی سی اس طرح بات کرتا ہے جیسے کہ پرانی نفرتوں کی بنیاد پر  آپس کا جھگڑا ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ ایک مہینے کے واقعات کے تسلسل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کو بڑھانے کے لیے خرطوم میں ایک اسلحہ ساز فیکٹری پر حملے سے لے کر جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ حماس کو اسلحہ فراہم کرتی ہے، گذشتہ اکتوبر میں ۱۵ فلسطینی مجاہدین کو قتل کرنے، نومبر کے شروع میں ایک ذہنی طور پر معذور فلسطینی کو قتل کرنے، اسرائیل کے ایک حملے میں ایک ۱۳سالہ بچے کوقتل کرنے، اور حماس کے لیڈر احمد جعبری کو پچھلے بدھ کو عارضی صلح کے لیے مذاکرات کے عین موقع پر قتل کرنے تک ایک کے بعد ایک اقدام کرکے جنگ کو آگے بڑھایا ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو کافی تحرک ملا کہ وہ خون ریزی کا ایک نیا دور شروع کردیں۔ اسرائیلی انتخابات کے سامنے ہونے کا تقاضا تھا (فلسطین پر اسرائیلی حملے اسرائیلی انتخابات سے پہلے کی ایک کارروائی ہیں) کہ مصر کے نئے اخوان المسلمون کے صدر محمد مرسی کو جانچا جائے، اور حماس پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ دوسرے فلسطینی گوریلا گروپوں کو جھکا دے، اور ایران سے کسی مقابلے سے قبل میزائل کو تباہ کردیا جائے، اور ساتھ ہی یہ بھی پیش نظر تھا کہ Iron Dome کے میزائل شکن نظام کو آزمایا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو اس طرح پیش کرنا کہ وہ مظلوم ہے اور اسے سرحدوں سے باہر کے حملے کی صورت میں اپنے دفاع کا ہرحق حاصل ہے، حقائق کو بُری طرح مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پر ناجائز قبضہ کیے ہوئے ہے، جہاں کی آبادی کا بیش تر حصہ ان مہاجروں کے خاندانوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۴۸ء میں فلسطین سے نکالے گئے تھے۔ اس لیے اہلِ غزہ مقبوضہ لوگ ہیں اور مزاحمت کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں بشمول فوجی مزاحمت کے(لیکن شہریوں کو ہدف نہ بنائیں)، جب کہ اسرائیل ایک قابض قوت ہے جو واپس ہونے کی پابند ہے، نہ کہ جن سرحدات پر اس کا کنٹرول ہے ان کا دفاع کرے اور محض فوجی طاقت کے بل پر سامراجی اقتدار کو مستحکم کرے۔

سیوماس ملن نے جن اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کی مطابقت اس امر کی یاددہانی سے بڑھ جاتی ہے، کہ یہ حملے اسرائیل کی مستقل حکمت عملی کا حصہ ہیں اور امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل کے اپنے انتخابات کے ہرموقعے پر ایسا ہی خونیں ڈراما رچایا جاتا ہے۔ دسمبر۲۰۰۸ئ- جنوری ۲۰۰۹ء کا اسرائیلی آپریشن امریکی صدارتی انتخابات اور صدارت سنبھالنے کے دوران ہوا، اور حالیہ آپریشن، امریکی صدارتی انتخاب کے چند دن بعد۔ خود اسرائیل کے انتخابات ۲۲ جنوری ۲۰۱۳ء کو طے ہیں اور نیتن یاہو اور اس کے دائیں بازو کے اتحادی اور فلسطینیوں کے سب سے بڑے دشمن لیبرمین کا مشترکہ منصوبہ تھا کہ انتخاب سے پہلے غزہ کی تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑ دیں اور انتخابات کے بعد ایران پر حملے کے لیے اپنی پشت کو محفوظ کرنے کا سامان بھی کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی مقصود تھا اور سچ ہے کہ اللہ کی تدبیر ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے: وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o اٰل عمرٰن ۳:۵۴)، ’’اور وہ خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی۔ اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘۔

جارحیت کا اصل ھدف

اس جنگ سے ان تمام مقاصد کے ساتھ جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، اسرائیل کا اصل مقصد فلسطین کی تحریکِ آزادی کی اصل قوت حماس کو عسکری، مادی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے تباہ کرنا تھا۔ فلسطینی حریت پسند تحریک ’الفتح‘ کو گذشتہ ۴۰برس میں اسرائیل نے قوت اور ڈپلومیسی، عسکریت اور سیاسی رشوت،خوف اور لالچ کا ہرحربہ استعمال کرکے غیرمؤثر کردیا۔ پہلا وار اپنے حلیفوں کے ذریعے اُردن میں ۱۹۷۰ء میں کیا گیا۔ پھر تحریکِ مزاحمت کے دوسرے بڑے مرکز لبنان میں ۱۹۸۲ء میں تصادم کا خونیں ڈراما رچا کر وہاں سے بے دخل کیا گیا۔ تیونس میں بھی کھلی کھلی جارحیت کے ذریعے ضرب پر ضرب لگائی گئی اور بالآخر ہرطرف سے دائرہ تنگ کرکے اوسلو معاہدے اور کیمپ ڈیوڈ کے ڈرامے (۱۹۷۸ئ) کے ذریعے فلسطینی لیڈر یاسرعرفات اور ’تحریک آزادی فلسطین‘  (PLO) کو امن اور دو ریاستی نظام کے چکر میں ڈال دیا اور تحریکِ آزادیِ فلسطین کو کچھ دیے بغیر اپنے دونوں بنیادی مطالبے منوائے، یعنی اسرائیل کو تسلیم کرانا اور جہاد اور مزاحمت کے راستے کو خیرباد کہہ کر نام نہاد سفارت کاری اور مذاکرات پر مکمل انحصار۔

 اسرائیل کی عیارانہ حکمت عملی کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ اوسلو معاہدے میں پانچ سال کے اندر مستقل انتظامات کا لالچ دیا گیا تھا، لیکن ۲۰سال کے بعد صورت یہ ہے کہ ارضِ فلسطین کے صرف ۲۲فی صد کاجو وعدہ فلسطینیوں سے کیا گیا تھا، اس پر اسرائیلی تسلط اسی طرح موجود ہے جس طرح ۱۹۶۷ء کے بعد قائم ہوا تھا۔ اس ۲۲ فی صد کے نصف سے زیادہ علاقے پر اسرائیلی آبادکار قابض ہیں اور یہ ۶لاکھ مسلح آبادکار جنوبی افریقہ کے ماڈل کی طرح نسلی امتیاز کی بنیاد پر  (apartheid)  ریاست قائم کیے ہوئے ہیں۔ تمام سڑکیں ان کے پاس ہیں، سیکورٹی کا نظام ان کے ہاتھ میں ہے، فوج اور کرنسی ان کی ہے۔ محصول وہ وصول کرتے ہیں اور نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کو کچھ خیرات دے دیتے ہیں اور ان کی ہرنقل و حرکت پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔ غزہ کے چند سو مربع کلومیٹر کا جو علاقہ حماس کی جرأت اور حکمت کی وجہ سے فلسطینیوں کے پاس ہے، اس کی حیثیت بھی کرئہ ارض پر سب سے بڑے کھلے قیدخانے کی سی ہے اور یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ اسرائیل کی ساری ناکہ بندیوں کے باوجود ۱۷لاکھ اہلِ ایمان اس محاذ کو سنبھالے ہوئے ہیں، گویا   ع

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جارہے ہیں

نومبر ۲۰۱۲ء کی فوج کشی اور فضائی جارحیت کا اصل مقصد حماس کی کمر توڑنا اور غزہ کو تہس نہس کرنا تھا، تاکہ بالآخر مغربی کنارے کو مدغم کرلیا جائے اور اس طرح فلسطین کے مسئلے کا ان کی نگاہ میں آخری حل (final solution) ہوجائے۔ اسرائیلی قیادت نے اپنے ان عزائم کا اظہار کھلے الفاظ میں کردیا تھا، اس کے لیے پوری تیاری تھی۔ امریکا کی پوری پوری اعانت اور شراکت داری تھی اور یہ سب کچھ اسی مجبور اور کمزور بستی کے لیے تھا، جسے پہلے ہی نہ صرف ایک جیل خانہ بنادیا گیا تھا، بلکہ ہرسہولت سے محروم کردیا گیا تھا اور آہستہ آہستہ موت کے شکنجے میں کَس دیا تھا۔ نوم چومسکی نے اسرائیلی حملے سے صرف ایک ماہ پہلے اسی غزہ میں چند دن گزار کر اس بستی کی حالت کی جو منظرکشی کی ہے، وہ نگاہ میں رکھنا ضروری ہے:

غزہ میں یہ معلوم کرنے میں ایک دن بھی نہیں لگتا کہ یہ احساس کیا جاسکے کہ زندہ بچ جانا کیسا ہوگا؟ جہاں۱۵ لاکھ انسان مسلسل وقت بے وقت کی اور اکثر ہولناک دہشت گردی کا شکار ہوں اور من مانی سزائیں زندگی کا ایسا معمول بن جائیں جن کا اس کے سوا کوئی مقصد نہ ہو کہ محکوم انسانوں کی تذلیل اور تحقیر کی جائے۔

غزہ کو نوم چومسکی نے the World's largest open air prison  (دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل) قرار دیا۔ (دی نیشن، ۱۵ نومبر ۲۰۱۲ئ)

غزہ پر حملے اور اس کو نیست و نابود کرنے کے اسرائیلی عزائم، امریکا اور دوسری مغربی قیادتوں کے اعلانات، ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔امریکا میں اسرائیل کا سفیر مائیکل ڈورن، حماس کی یہ تصویر امریکا اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے:’’کھلی یہودیت دشمنی اور نسل کشی کے مذہب کی پابندی کی وجہ سے حماس کو کسی امن معاہدے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، ہاں اسے جنگ سے روکا جاسکتا ہے‘‘ (ہیرالڈ ٹربیون، ۲۲نومبر۲۰۱۲ئ)۔موصوف نے یہ بھی کہا کہ: ’’ہمیں انھیں ختم کردینا چاہیے تاکہ ہم اعتدال پسندوں کے ساتھ بیٹھ سکیں اور امن کی گفتگو کرسکیں‘‘۔

اسرائیلی قیادت نے حماس کو ایک نہ بھولنے والا سبق سکھانے کے دعوے سے اس سال یلغار کا آغاز کیا اور اسرائیل کے وزیرداخلہ ایلی یشائی  نے اس عزم کا اظہار کیا کہ:غزہ کو ہمیں  قرونِ وسطیٰ تک واپس پہنچادینا چاہیے۔ایک دوسرے وزیر نے کہا: کہ ہم غزہ کو پتھرکے زمانے (stone age) میں پھینک دیں گے۔ سابق وزیراعظم ایرل شیرون کے صاحب زادے نے بھی حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے عزم کا اظہار کیا۔

 یہ تھے وہ اعلانات، جن کے ساتھ اسرائیل نے اس تازہ جنگ کا آغاز اکتوبر ۲۰۱۲ء میں سوڈان میں کارروائی کرکے کیا اور اسے نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں اپنے انجام تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ امریکی صدر نے یہ کہہ کر اس کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی تھی کہ:

ہم اسرائیل کے ا س حق کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ اسے لوگوں کے گھروں، اور کام کرنے کی جگہوں پر، اور شہریوں کے امکانی قتل کے لیے گرنے والے میزائلوں سے دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم اسرائیل کے دفاع کے اس حق کی حمایت جاری رکھیں گے۔

امریکی صدر اوباما کے اس ارشاد میں قتل کی ایک نئی قسم کا اضافہ کردیا گیا ہے، یعنی potentially killing ۔ گویا قتل کیا جانا ضروری نہیں، جس اقدام میں صرف ہلاکت کا امکان بھی ہو تو وہ بھی جارحیت، یعنی فوج کشی اور دوسروں کی سرزمین پر بم باری کے لیے جواز فراہم کرتا ہے۔ اور یہ فرمانا اس صدر کا ہے، جس کی طے کردہ kill-list کے تعاقب میں ڈرون حملوں کے ذریعے ہزاروں معصوم افراد پاکستان، یمن اور صومالیہ میں شب و روز ہلاک کیے جارہے ہیں اور جن کو اپنے دفاع میں کوئی کارروائی کرنے کا یا جارح قوت پر ضرب لگانے کا دُوردُور تک بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ یہی وہ فسطائی ذہن ہے جس کے ردعمل میں تشدد اور دہشت گردی جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے۔

صدراوباما جس اسرائیل کو ’خود دفاعی‘ کے نام پر قتل و غارت اور بڑے پیمانے پر نسل کشی اور تباہ کاری کی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں، اس کی اصل حقیقت کیا ہے، یہ بھی بین الاقوامی قانون کے غیرجانب دار ماہرین کے الفاظ میں سُن لیں، تو امریکی اور یورپی قیادتوں کی حق پرستی، انسان دوستی اور اصولوں کی پاس داری کی قلعی کھل جاتی ہے:

بلاشبہہ جیسے جیسے غزہ کا حالیہ تصادم لامحالہ کم ہونا شروع ہوجائے گا، یہ بات کھل کر سامنے آتی جائے گی کہ اسرائیل کا غزہ میں اور اسی طرح مغربی کنارے پر بھی بڑے پیمانے پر افواج کو لانا، اور وہاں کے عوام کے خلاف بلاامتیاز اسلحے کا استعمال کرنا، یہ محض جنگی جرائم نہیں ہیں بلکہ یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، اور امن کے خلاف بھی۔ آخرکار اسرائیل کتنا ہی چاہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسے سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہو، اس کے اقدامات امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ، شام کی حکومت کی اپنے لوگوں کے خلاف جنگ، یا دوسری ریاستوں کا اپنے شہریوں کے خلاف تشدد کا  ایک سوچے سمجھے نظام کے تحت استعمال، جیسے ہیں۔ اس کا تعین اس سے ہوگا کہ اس نے عالمی قانون کو عالمی تعبیرات کے مطابق تسلیم کیا ہے یا ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل جتنے طویل عرصے تک فلسطینیوں کو بلاامتیاز اور بے خوف ہوکر قتل کرتا ہے، اور مغربی کنارے اور غزہ کے ناجائز اور پُرتشدد قبضے کو جتنا عرصہ برقرار رکھتا ہے، اور    ان پالیسیوں کو برقرار رکھتا ہے، اسی قدر اس کو ان پالیسیوں کے غیرقانونی ہونے کی بناپر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔

اسرائیلی قیادت کو اپنے نئے حفاظتی حصار پر بھی بہت ناز تھا، جسے امریکی سرمایہ اور مہارت کی مدد سے آہنی گنبد (Iron Dome) کے نام سے گذشتہ چار سال میں تیار کیا گیا تھا اور جس میں ایسا خودکار نظام نصب کیا گیا تھا کہ جو خود بخود، باہر سے اندر  آنے والے میزائل کی شناخت کرتا ہے اور پھرانھیں ناکارہ بنادیتا ہے۔

اس تمام سازوسامان اور تیاری کے ساتھ اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ چند ہی دن میں حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا اور پھر اپنی شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کر کے جس طرح پی ایل او اور الفتح کو اپنے قابو میں کیا تھا، اسی طرح حماس کو بھی زیرنگیں کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ پھر جنوری کے انتخابات جیت کر نیتن یاہو اور اس کے دست ِراست لیبرمین کے اس عظیم تر اسرائیل کے قیام کے منصوبے پر گامزن ہوجائیں گے جو صہیونیت کا اصل خواب ہے۔

حماس نے اللہ پر بھروسا کیا اور اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور دستیاب وسائل کے بہترین استعمال کے ذریعے اسرائیل کے ان تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ بلاشبہہ مجاہداکبر احمد جعبری نے جامِ شہادت نوش کیا اور ان آٹھ دنوں میں ۱۶۳ مجاہد اور معصوم جوان، بچے اور خواتین شہید ہوئے، ایک ہزار زخمی ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، لیکن حماس اور پوری غزہ کی آبادی کے عزم میں ذرا کمی اور ان کے پاے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔ بچے بچے کی زبان پر کلمۂ شہادت اور دلوں میں جہاد جاری رکھنے کا عزم اور ولولہ تھا۔۱۰ہزارسے زیادہ افراد بے گھر ہوئے، مگر دوسروں نے ان کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔

 میزائل کی جنگ معرکے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔ حماس کے مجاہدین نے وسائل اور ٹکنالوجی میں ہزار درجے سے بھی زیادہ کم تر ہونے کے باوجود، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور لڑائی کو اسرائیل کے طول و عرض میں پھیلا دیا، حتیٰ کہ تل ابیب جو غزہ سے ۷۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اس کو بھی اپنی زد میں لے لیا۔ بلاشبہہ اسرائیلی ہلاکتیں کم ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کی وجہ حماس کے میزائلوں کا نشانے پر نہ لگنا ہے، یا پھر ارادی طور پر حماس کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ عام آبادی کو خوف و ہراس میں تو مبتلا کیا جائے، مگر سول ہلاکتوں سے اجتناب کیا جائے۔ ایک امریکی تجزیہ نگار جولیٹ کیین نے اپنے مضمون میں بڑے اہم سوال اُٹھائے ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:

غزہ کی پٹی کی منتخب فلسطینی حکومت حماس کے لیے Iron Domeکی کامیابی اس سے کم مایوس کن تھی جیساکہ بظاہر نظر آیا۔ حماس نے یہ میزائل اس لیے نہیں چلائے تھے کہ اسرائیلیوں کو ماریں۔ اگر ان کا یہ مقصد ہوتا تو یہ ناکام ہوتے۔ دراصل اس کا مقصد اپنے دشمن اسرائیل کے مقابلے میں حماس کی مضبوطی دکھانا تھا۔ Iron Dome کی وجہ  سے شہری ہلاکتوں میں کمی ہوئی ہوگی لیکن اس سے ان راکٹوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی جو حماس نے چھوڑے۔ حماس کے راکٹ لانچر اسرائیلیوں کو محض مارنے کے لیے نہیں تھے، بلکہ یہ ایک منقسم فلسطینی قیادت میں حماس کے مقام کو بڑھانے کے لیے تھے۔

اسرائیل کے لیے Iron Dome کی کامیابی اور جس اندیشے کے پیش نظر اسے استعمال کیا گیاتھا، یہ تھی کہ یہ  یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں نے حکومت کو مجبور نہیں کیا کہ وہ غزہ میں ایک بڑی زمینی جنگ شروع کرے۔

امریکا کے لیے Iron Dome کا پیغام یہ نکلا کہ وہ مسائل جو براے تصفیہ ہیں اور جو اسرائیل اور فلسطین کو تقسیم کرتے ہیں، ان کا حل بات چیت کے ذریعے ہو۔

حماس کی حکمت عملی

اس پس منظر میں حماس کی حکمت عملی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے ہراندازے کے برعکس حماس نے ساری بے سروسامانی کے باوجود اسرائیلی جارحیت کے ہرنہلے پر دہلے کی مار دی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے لیے کوئی اور چارہ نہیں رہا کہ جو تہس نہس کرنے کے دعوے سے میدان میں آئے تھے، اور جنھوں نے اپنی پونے دولاکھ مستقل فوج کی مدد کے لیے ۷۵ہزارریزرو بھی بلا لیے تھے، جنھوں نے   زمینی حملے کی پوری لام بندی کرنے اور اس کے واضح اعلان کے علی الرغم جو وزیردفاع ایہود بارک نے حملے کے دوسرے ہی دن کیا تھا کہ:’’ہم اس وقت تک نہیں رُکیںگے جب تک حماس     اپنے گھٹنوں کے بل نہ گر جائے اور جنگ بندی کی بھیک نہ مانگے‘‘، خود جنگ بندی کی بات کرے۔

اسی اسرائیل نے خود اپنے ہی حملے کے پانچویں دن جنگ بندی کی بات شروع کردی اور وہی صدر اوباما جو اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر مصر کے صدر ڈاکٹر مرسی سے ملاقات کو تیار نہ تھے، انھیں دو دن میں چار بار ٹیلی فون کرتے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کو مصر اور فلسطین بھیجتے ہیں اور آٹھویں دن ایک معاہدہ طے پاجاتا ہے، جس میں اسرائیل کا کوئی بڑا مطالبہ جگہ نہیں پاسکا۔ حماس کے دونوں مرکزی مطالبات کہ دونوں طرف سے بیک وقت ایک دوسرے کی سرحدات کی خلاف ورزی اور دراندازی بند ہو، محض یک طرفہ جنگ بندی جس کا مطالبہ اسرائیل کررہا تھا، اس کا کوئی سوال نہیں۔ دوسری بڑی اہم شرط یہ تھی کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے اور انسانی اور مال برداری کی نقل و حرکت معمول پر لائی جائے اور اس طرح ۲۰۰۷ء کے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی (blockade)  کو ختم کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات اس معاہدے کا حصہ ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کو بجاطور پر حماس کی فتح اور اسرائیل کے لیے باعث ِ ہزیمت قرار دیا جارہا ہے، جس کے بارے میں اس راے کا اظہار اب عالمی میڈیا میں کھلے بندوں اور اسرائیل کی حزبِ اختلاف کی طرف سے برملا کیا جارہا ہے۔ لیکن اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے چند بنیادی باتوں کا اِدراک ضروری ہے:

بلاشبہہ فلسطینیوں کا جانی اور مالی نقصان زیادہ ہوا، لیکن اگر نقصان کے تناسب کا ۲۰۰۸-۲۰۰۹ء کی ۲۲روزہ جنگ سے کیا جائے تو بڑا فرق نظر آتا ہے۔ چارسال پہلے کے اسرائیلی آپریشن میں ۱۰۰ فلسطینیوں کی شہادت کے مقابلے میں صرف ایک اسرائیلی ہلاک ہوا تھا۔ اب یہ تناسب اس کا ایک تہائی ہے یعنی ۳۱ فلسطینیوں پر ایک اسرائیلی کی ہلاکت۔

اصل مقابلہ میزائلوں اور راکٹوں کی جنگ میں ہوا ہے۔ اسرائیل کا منصوبہ یہ تھا کہ جس طرح جون ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس نے پہلے ہی ہلے میں مصر کی پوری فضائیہ اور ہوائی حملے کی صلاحیت کا خاتمہ مصر کے ہوائی اڈوں پر ہی کردیا تھا، اسی طرح موجودہ فوج کشی کے پہلے دنوں میں حماس کی راکٹ اور میزائل چلانے کی صلاحیت کو ختم کردیا جائے گا ۔ اس نے حملے کے لیے دوسرا دن فیصلہ کن اقدام کے لیے رکھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ پہلے دن کے حملے کے ردعمل میں حماس جو کارروائی کرے گی، اس سے اس کے راکٹ اور میزائل کے ٹھکانوں کی نشان دہی ہوجائے گی۔ دوسری خفیہ معلومات کی روشنی میں دوسرے دن حماس کی اقدامی صلاحیت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ نیز اربوں ڈالر خرچ کرکے اسرائیل نے جو آہنی حصار (Iron Dome) بنالیا ہے، اس کے ذریعے حماس کی جوابی کارروائی کو بے اثر کردیا جائے گا۔ ان کا اندازہ تھا کہ غزہ سے آنے والے میزائلوں اور راکٹوں کے ۸۵ سے ۹۰ فی صد میزائل یہ نظام تباہ کردے گا اور اس طرح دوسرے دن ہی سے فضا پر اسرائیل کی مکمل حکمرانی ہوگی اور غزہ اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہوجائے گا۔ لیکن  ع  اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

لندن اکانومسٹ نے ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے علاوہ تین تحقیقی اداروں کی جمع کردہ معلومات کی روشنی میں جو تفصیلی نقشے شائع کیے ہیں، ان کے تجزیے سے یہ دل چسپ صورت حال سامنے آتی ہے کہ حماس نے ہر روز مقابلے کی قوت کا مظاہرہ کیا، حتیٰ کہ آخری دن بھی کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس جنگ میں کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار انسانی جانوں کی ہلاکت نہیں بلکہ اس جنگی ٹکنالوجی کے میدان میں مقابلہ ہے، جس نے اسرائیل کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیااور وہ مجبور ہوا کہ نہ تو زمینی یلغار کرے جس میں اس کے لیے ہلاکتوں کا زیادہ خطرہ تھا بلکہ فضائی جنگ کو بھی روکے کہ یہ غیرمؤثر ہورہی تھی۔

اسرائیل اور حماس کے ایک دوسرے کے اہداف پر حملے (یومیہ صورتِ حال)

۱۴ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۶ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۷ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۸ نومبر ۲۰۱۲ء

۱۹نومبر ۲۰۱۲ء

۲۰ نومبر ۲۰۱۲ء

۲۱ نومبر ۲۰۱۲ء

۲۲ نومبر ۲۰۱۲ء

اسرائیل کے حماس پر حملے

۱۰۰

۲۷۰

۳۲۰

۳۰۰

۱۳۰

۸۰

۱۰۰

۲۰۰

x

حماس کے اسرائیل پر حملے

۸۰

۳۱۰

۲۳۰

۲۳۵

۱۶۰

۱۴۰

۲۱۵

۱۲۰

x

حماس کے وہ حملے جنھیں اسرائیل نے ناکارہ بنادیا

۴۰

۱۴۰

۱۲۰

۹۰

۶۰

۶۵

۶۵

۲۰

x

حماس کے وہ حملے جنھیں اسرائیل کے دفاعی حصار نے متاثر نہیں کیا

۴۰

۱۷۰

۱۱۰

۱۴۵

۱۰۰

۷۵

۱۵۰

۱۰۰

x

اس آٹھ یوم کی جنگ میں اسرائیل کی ہزیمت اور امریکا کی شرمندگی کو سمجھنے کے لیے مندرجہ بالا جدول میں دی گئی معلومات کا تجزیہ ضروری ہے:

۱- اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ پہلے ہی دو دن میں حماس کو مفلوج کردے گا، لیکن حماس نے کسی اعلیٰ صلاحیت کے جدید ترین حفاظتی حصار کے بغیر اپنی اقدامی اور دفاعی صلاحیت کو محفوظ رکھا ، اور پہلے دن اسرائیل کے ۱۰۰ حملوں کے جواب میں۸۰، دوسرے دن ۲۷۰ کے جواب میں۳۱۰، اور آخری دن ۲۰۰ کے جواب میں ۱۲۰ حملے کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا اور اسرائیل اور امریکا کو ششدر کردیا۔

۲- اسرائیل کے نہایت ترقی یافتہ (sophisticated) اور مہنگے حفاظتی حصار کے باوجود حماس کے تقریباً ۵۰ فی صد میزائل اور راکٹ اس نظام کی گرفت سے بچتے ہوئے اپنا کام دکھانے اور ٹھکانے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

۳- یہ بات درست ہے کہ تباہی مچانے والے بارود کی مقدار اور صلاحیت کے میدان میں اسرائیل اور حماس کے میزائلوں میں بڑا فرق ہے۔ یہ دعویٰ اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت نے کیا ہے کہ اسرائیل کی تباہ کرنے کی صلاحیت ایک ہزار گنا زیادہ تھی۔ اس اعتبار سے جو اصل تباہی ہوئی ہے وہ اسرائیل کے منصوبے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن یہ حقیقت کہ وسائل اور صلاحیت کے اس عظیم فرق کے باوجود حماس نے آخری دم تک مقابلہ کیا اور جنگ بندی کے آخری لمحات تک اپنے میزائل برساتا رہا، جو اس کے مقابلے کی صلاحیت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آیندہ کے لیے اس میں اپنی صلاحیت کو ترقی دینے اور اسرائیل کا بھرپور مقابلہ کرنے کی استعداد موجود ہے۔

۴- اسرائیل کا خیال تھا کہ حماس کے میزائل اور راکٹ ۱۵ سے ۳۰کلومیٹر سے آگے نہیں جاسکتے، لیکن الحمدللہ، حماس نے اسرائیل کی آخری حدود تک اپنی پہنچ کا ثبوت دے کر اسرائیل اور امریکا کو انگشت بدنداں کردیا۔ تل ابیب، بیت المقدس اور تیسرے بڑے شہر بیرشیوا (Beersheva) کے قرب و جوار میں ہی نہیں، بلکہ اسرائیل کے نو ایٹمی تنصیبات کے مرکز ڈایمونا (Dimona) تک حماس کے میزائل پہنچے ہیں، اور یہ وہ حقیقت ہے جس نے اسرائیل کو اپنے پورے نقشۂ جنگ پر نظرثانی پر مجبور کردیا ہے۔

۵- بلاشبہہ میزائل اور راکٹ ٹکنالوجی کے حصول میں حماس نے دوسرے مسلمان ممالک خصوصیت سے ایران سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حماس نے میزائل اور راکٹ دونوں کو بنانے اور انھیں ہدف پرداغنے کی صلاحیت مقامی طور پر حاصل کرلی ہے۔ اسرائیل اور امریکا کی تمام پابندیوں کے باوجود نہ صرف باہر سے اجزا حاصل کیے ہیں، بلکہ ان اجزا کو اندرونِ غزہ جمع کرنے (assemble) اور مؤثر طور پر کام میں لانے کا (operationalize ) نظام قائم کیا ہے، اور اسے اسرائیل کی خفیہ نگرانی اور تباہ کن جارحانہ صلاحیت سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر مغربی نامہ نگاروں کی یہ روایت صحیح ہے کہ اسرائیل کی فوجی قیادت نے اعتراف کیا ہے کہ جو میزائل اورراکٹ اسرائیل پر داغے گئے ہیں، ان میں سے کم از کم ایک بڑی تعداد غزہ ہی میں بنائی گئی ہے، تو اس پر اللہ کے شکر کے ساتھ حماس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہدیۂ تبریک پیش کرنا اعترافِ نعمت کا ہی ایک رُخ ہے۔

اگر اسرائیل اور حماس کی اس فضائی جنگ کی حکمت عملی کا ملٹری سائنس اور انٹرنیشنل ہیومینٹیرین لا کی زبان میں موازنہ کیا جائے تو اسرائیل کے میزائل اور F-16 سے آگ اور خون کی بارش ہمہ گیر تباہی کی، جسے Weapons of Mass Destruction کہا جاتا ہے، قبیح ترین شکل ہے۔ اسرائیل نے ان تباہ کن ہتھیاروں کا بے دریغ اور بے محابا استعمال کیا ہے۔ اس کے برعکس حماس نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس میں اہتمام کیا گیا ہے کہ دشمن کی صفوں میں بھی جاں کا ضیاع نہ ہونے کے برابر ہو، البتہ اسی کے ذریعے مقابلے کی قوت کو جنگ بندی اور مذاکرات کے  ذریعے مسائل کے حل کی طرف لایا جاسکے۔ یہی وہ چیز ہے جسے اصل  سدِّجارحیت (deterrance)  کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کی ھزیمت ، حماس کی بالادستی

یہ ہے وہ اصل جنگی منظرنامہ جو اسرائیل اور امریکا کو جنگ بندی اور اس معاہدے تک لایا جو ۲۱ نومبر کو طے پایا اور ۲۲ نومبر سے اس پر عمل شروع ہوا۔ اس معاہدے کے تجزیے اور اس کے ان اثرات پر بھی تفصیل سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، جو اس سے متوقع ہیں۔ فی الحال اس حقیقت کے اعتراف پر بات کو مکمل کرتے ہیں کہ بلاشبہہ حماس اور اہلِ غزہ نے جانوں اور قربانیوں کا نذرانہ کہیں زیادہ ادا کیا، لیکن اسرائیل اور اس کی پشت پر امریکا کی قوت کو چیلنج کرکے اور بے سروسامانی کے باوجود انھیں جنگ بندی کی طرف آنے اور ناکہ بندی کو ختم اور راہداری کھولنے پر مجبور کر دیا ہے جوبڑی کامیابی ہے۔ اس نے نقشۂ جنگ ہی نہیں، سیاسی بساط کو بھی بدل دیا ہے۔ اب اس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کر رہے ہیں۔ لندن دی اکانومسٹ نے اسرائیلی وزیردفاع ایہودبارک کے ایک مشیر کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ:’’حماس نے جنگی میدان میں شکست اور سیاسی میدان میں فتح حاصل کی‘‘۔

لندن کا اخبار دی گارڈین جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ادارتی کالم میں حالات کی یوں تصویرکشی کرتا ہے:

اسرائیل کی انتخابی مہم کو نہ دیکھا جائے تو غزہ پر فضائی بم باری کے آخری آٹھ دنوں کو کسی حکمت عملی کی کامیابی قرار دینا مشکل ہے۔ اسرائیل کے دفاعی انتظامی نقطۂ نظر سے یہ ایک خوشی کے لمحے سے شروع ہوا ___ فلسطینی کمانڈر احمد جعبری کی کار پر حملے سے___ اور حماس اور دو دوسرے فوجی گروپوں کو ناکام بنانے پر جنھوں نے تل ابیب پر باربار راکٹ پھینکے، جو کہ حزب اللہ نے بھی دوسری لبنانی جنگ کے عروج پر نہیں کیا تھا،اور بسوں پر بم باری کی حکمت عملی کی طرف واپسی سے روکنا۔ اگر بدھ کی رات ہونے والا معاہدہ قائم رہتا ہے تو حماس مکمل واپسی کے بعد بھی جنگ بندی نہیں کررہی۔

نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کو ناکارہ کردیا ہے، اور زمینی حملے کے بارے میں تنبیہات کو وزن دینے سے اس نے اپنے لیے مغربی حمایت کو مضبوط بنالیا ہے۔ لیکن اس کی یہ قیمت ادا کی کہ عرب دنیا میں حماس کا مقام بلند ہوگیا۔ اس نے تنظیم کے ساتھ وہ کیا ہے جو اس نے خالدمشعل کے ساتھ کیا تھا۔ جب اس نے زہر سے اس کے قتل کا حکم جاری کیا تھا اور پھر اُردن کو تریاق فراہم کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں مشعل کے قدکاٹھ میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح حماس بھی پی ایل او کی قیادت کے مقابلے میں آگے بڑھنے کی بہتر پوزیشن میں آگئی ہے۔ کیا اسرائیلی وزیراعظم یہی چاہتا تھا یا اسے طاقت کی قوت کے استعمال کا اب احساس ہوا ہے؟ نیتن یاہو کو طاقت سے حماس کو ختم کرنے کے بجاے شاید ان سے گفتگو کرنا چاہیے۔

ایک مغربی سفارت کار نے اسرائیل کی عسکری بالادستی کو tactical کامیابی ضرور قرار   دیا ہے لیکن ساتھ ہی آٹھ روزہ جنگ کے حاصل کو حماس کے لیے اسٹرے ٹیجک جیت قرار دیا ہے، اور خود اسرائیل کے اخبارات نے فوج کے عام سپاہیوں کا یہ احساس ریکارڈ کیا ہے کہ: Bibi (Benjamin Natan Yahu) is a loser.   (ایکسپریس ٹربیون، ۲۴نومبر ۲۰۱۲ئ)

اسرائیلی راے عامہ کے جائزوں سے بھی یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ اسرائیل کی ۷۰ فی صد آبادی اس جنگ بندی کے معاہدے پر ناخوش ہے، جب کہ صرف ۲۴فی صد نے اس کی تائید کی ہے۔

بحیثیت مجموعی عالمی سیاست پر نظررکھنے والوں کا احساس ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا فوجی حل، جو اسرائیل اور خود امریکا کی حکمت عملی تھا، اس کی کامیابی کے امکانات کم سے کم تر ہورہے ہیں اور اس کی جگہ افہام و تفہیم کے ذریعے کسی سیاسی حل کی ضرور ت کا احساس روزافزوں ہے۔

پہلو اور بھی بہت سے ہیں جن پر غوروفکر اور مباحثے کی ضرورت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اس طرف اشارہ کررہی ہے کہ ایک بڑے شر میں سے بھی کسی نہ کسی صورت میں خیر کے رُونما ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ بلاشبہہ ابھی کش مکش اور جدوجہد کے بے شمار مراحل درپیش ہیں۔ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ ہرلمحہ آنکھیں کھلی رکھنے اور معاملات کا ہرپہلو سے  جائزہ لے کر مقصد سے وفاداری اور حقیقت پسندی کے ساتھ حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت جتنی پہلے تھی، اب اس سے کچھ زیادہ ہی ہے۔

صاف نظر آرہاہے کہ ان شاء اللہ اب امریکا کی محکومی اور امریکی سامراجیت کے زیراثر مفادات کی سیاست کا باب ختم ہونے جارہا ہے۔ شہدا کے خون اور مظلوموں کی تمنائوں اور قربانیوں کا یہی تقاضا ہے، تو دوسری طرف یہی ایمان، آزادی اور عزت کا راستہ ہے۔ اب جن نئے امکانات کی راہیں کھل رہی ہیں ان سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ کے    سلگتے ہوئے مسائل کو حل کیا جائے اور اتحاد اور خودانحصاری کی بنیاد پر تعمیرنو کی سعی و جہد ہوسکے۔  اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کی رہنمائی فرمائے، اور ہم سب کو درست اور بروقت فیصلے کرنے اور صحیح راستے پر چلنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآن پاک نے افراد اور اقوام کی زندگی میں بار بار واقع ہونے والی اس صورت حال کو بڑے مختصر مگر جامع انداز میں بیان فرما دیا ہے کہ انسان اپنے طور پر طرح طرح کی منصوبہ سازیاں اور تدبیریں کرتا ہے مگر بالآخر اللہ ہے جس کی تدبیر غالب ہوکر رہتی ہے۔ وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔

پاکستان کی تاریخ میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر کی کارفرمائی کا نظارہ ہم نے بار بار دیکھا ہے اور اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخاب کے فیصلہ کن مرحلے میں پاکستان کو شمالی وزیرستان پر فوج کشی کی آگ میں دھکیلنے اور اس سے امریکی ووٹروں کے دل جیتنے کا جو شاطرانہ منصوبہ بنایا گیا تھا وہ کانچ کے گھر کی طرح پاش پاش ہو گیا ہے۔

۱۴؍اگست پاکستانی قوم کے لیے خوشی اور شکر کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اس سال عین اس دن، امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری لیون پانیٹا نے امریکی عوام کو یہ مژدہ سنایا کہ پاکستان اور امریکا کی اعلیٰ فوجی اور سیاسی قیادت نے اس امر پر اتفاق کرلیا ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں جلد فوجی آپریشن شروع کردے گا اور اس طرح امریکی حکام کے الفاظ میں: ’’تاریخ کے سب سے زیادہ عرصے تک مؤخر کیے جانے والے اقدام‘‘ (most delayed operation) کا آغاز ہوجائے گا۔ اس کے لیے پاکستان پر دبائو اور لالچ دونوں حربوں کے استعمال کے ساتھ امریکی کانگریس کی طرف سے امریکی سیکرٹری خارجہ کو ’حقانی نیٹ ورک‘ کو افغانستان پر فوج کشی کے ۱۱سال کے بعد ’دہشت گرد گروہ‘ قرار دینے کا مطالبہ بھی داغ دیا گیا، اور وزارتِ خارجہ نے ۳۰ دن کے اندر اس راز کو، اس گروہ کے بارے میں جس سے سیاسی مذاکرات کے لیے سرتوڑ کوشش کی جارہی تھی فاش کردیا ہے جسے ۱۱سال سے اپنے سینے میں چھپایا ہوا تھا۔

یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ ۱۴؍اگست ۲۰۱۲ء ہی کو کاکول اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے چیف آف اسٹاف  جنرل پرویز کیانی نے پاکستان کی آزادی، سلامتی اور اسلامی شناخت کے بارے میں کچھ بڑی دل کش باتوں کے ساتھ بڑے چپکے سے یہ بھی ارشاد فرمادیا کہ انتہاپسندی ایک قسم کا شرک ہے، دہشت گردی اسی ذہنیت کی پیداوار ہے، اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل امریکا کی نہیں ہماری اپنی جنگ ہے، اور ہے تو بڑا ہی مشکل اور تکلیف دہ کام، لیکن فوج کو خود اپنی قوم کے خلاف بھی لام بندی کرنا پڑجاتی ہے۔ البتہ اتنی گنجایش رکھی کہ اس کام کے لیے قوم کی تائید اور سیاسی قیادت کی سرپرستی ضروری ہے۔ ملک کی لبرل اور امریکا نواز لابی نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر شمالی وزیرستان پر لشکرکشی کے لیے مہم چلا دی اور پی پی پی اور اے این پی کی قیادت نے کبھی ہلکے سُروں میں اور کبھی اُونچی آواز سے اسی لَے میں لَے ملانا شروع کر دی۔ اب یہ بھی ایک معما ہے کہ عین اس ماحول میں سوات کی ایک معصوم بچی پر اور اس کی دو سہیلیوں پر حملہ ہوتا ہے اور حسب ِ سابق پاکستانی طالبان نے اس کی نہ صرف ذمہ داری بھی قبول کرلی بلکہ اس کا جواز بھی بڑھ چڑھ کر پیش کردیا۔

پاکستان کی دینی اور سیاسی قیادت نے بجاطور پر اس ظالمانہ حملے کی بھرپور مذمت کی اور پوری قوم نے یک زبان ہوکر اس خلافِ اسلام اور خلافِ انسانیت کارروائی کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے مطابق قرارِ واقعی سزا کے دیے جانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس معصوم بچی کا نام استعمال کرکے شمالی وزیرستان میں فوج کشی کے لیے ایک دوسرا ہی نقشۂ جنگ تیار کر لیا گیا۔ امریکی قیادت، ناٹو کے جرنیل اور سیاست دان، عالمی میڈیا، خود پاکستان کی پی پی اور اس کے اتحادیوں کی قیادت اور لبرل امریکی لابی سب نے یک زبان ہوکر اس مطالبے کی تائید کی اور وزیرداخلہ نے صاف لفظوں میں فوجی آپریشن کا بھاشن دے ڈالا۔ اس بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ محض اتفاق تھا یا کسی سازش کا حصہ، یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ایک معصوم لڑکی کے ساتھ اس ظلم کو، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ایک کاری وار کیاگیا لیکن اللہ کی مشیت کااپنا نظام ہے۔ قوم کے باشعور افراد، خصوصیت سے دینی قیادت، بالغ نظر صحافی اور کئی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اس کھیل کا بروقت توڑ کیا۔ غلط کو غلط کہا اور پوری قوت سے کہا، مگر اس ظالمانہ اقدام کی آڑ میں، ملک کو ایک نئی جنگ کے جہنم میں دھکیلنے کے جس خطرناک کھیل کا آغاز ہونے والا تھا، اسے ناکام بنا دیا اور وہی وزیرداخلہ جو تلوار نکال کر حملے کے لیے پَر تول رہے تھے یوٹرن لیتے نظر آئے اور زرداری صاحب بھی قومی اتفاق راے کے مفقود ہونے کا نوحہ کرنے لگے۔

نئی جنگ میں دہکیلنے کی سازش اور میڈیا کا کردار

پاکستانی اور مغربی میڈیا اور خصوصیت سے سوشل میڈیا پر اب جو کچھ آگیا ہے، اس نے پورے کھیل کے سارے ہی پہلو کھول کر سامنے رکھ دیے ہیں اور اس خونیں ڈرامے کے تمام ہی کرداروں کے چہروں سے پردہ اُٹھا دیا ہے۔ ہم صرف ریکارڈ کی خاطر تین افراد کی شہادت اور تجزیہ پاکستانی قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کے غوروفکر کے لیے بیان کرنا چاہتے ہیں۔

سب سے پہلے ہم اس صحافی، یعنی سید عرفان اشرف کی شہادت اور اس کے احساسِ ندامت کو پیش کرنا چاہتے ہیں جس نے وہ پہلی دستاویزی فلم (documentary) بنائی جس میں ۱۱سال کی معصوم بچی کے جذبات محض تعلیم سے اس کی محبت کے تذکرے کی خاطر ریکارڈ کیے گئے تھے اور پھر اس سے کیا کیا گل کھلائے گئے اس پر خود اس کا کیا احساس ہے۔ سید عرفان اشرف اس وقت امریکا کی سائوتھ اِیلی نوئس (Illinois) یونی ورسٹی (بمقام کاربون ڈیل) سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ان کا مضمونPredatory Politics and Malala  ڈان، کراچی میں شائع ہوا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک معصوم سے تعلیمی منصوبے کے ذریعے سیاست کاری کے کیاکیا گل کھلائے گئے اور میڈیا اور میڈیا کی ڈورہلانے والے سیاسی شاطر کیا کیا کھیل کھیلتے ہیں:

پھر دوبارہ مشق ہم سب کے لیے تہلکہ آمیز تھی۔ پس اس نے مجھے صحافیانہ اخلاقیات سے بھی اندھا کر دیا اور اپنے دوست ضیاء الدین کی حفاظت سے بھی۔ مجھے یہ احساس ایک بار بھی نہ ہوا کہ اس صورت حال میں نوعمر ملالہ کے لیے خطرہ ہے۔ یہ جزوی بات تھی اس لیے کہ دستاویزی فلم تعلیم سے متعلق تھی اور فلم کے مختلف حصوں کی وڈیو بنانا روز کا معمول تھا۔ مجھے مسئلے کی نوعیت کی شدت کا احساس اس وقت ہوا جب نیویارک ٹائمز نے  Class Dismissed کے نام سے ایک مختصر دستاویزی فلم جاری کی۔  آدم بی الیک اور میری مشترکہ پیش کش پر مبنی اس فلم نے جو ضیاء الدین کے گھر اور اسکول میں بنائی گئی اور جس میں ملالہ مرکزی کردار تھی، غیرملکی ناظرین کو بہت متاثر کیا۔    اسی وقت سے اس خوف نے مجھے گھیر لیا کہ اس طرح ملالہ ایک دہشت ناک دشمن   کے سامنے expose ہوگئی ہے۔ جب میں اسے ٹیلی ویژن پر دیکھتا تھا تو یہ خوف احساسِ جرم میں بدل جاتا تھا۔

اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منصوبوں سے الگ کرلیا۔ پھر میڈیا نے اگلے تین برس میں ملالہ کی تعلیم کی حمایت کو تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف ایک بھرپور مہم میں بدلنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ سیاست دان ملالہ کی جواں توانائیوں کواستعمال کرنے میں میڈیا کی مدد کے لیے اس جھگڑے میں کود پڑے۔ TTP مخالف ایک مضبوط ڈھانچا اس کے نازک کاندھوں پر کھڑا کردیا گیا۔

یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ یہ میڈیا کے کردار کے بارے میں تشویش کا باعث ہے کہ یہ نوجوانوں کو کس طرح ایک گندی جنگ میں گھسیٹ لاتا ہے جو معصوم لوگوں کے لیے ہولناک نتائج کا باعث ہے۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ گذشتہ عشرے میں اگر عوام کی بڑھتی ہوئی وابستگی نے ایک طرف سیاست دانوں کو اپنی بڑی بڑی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے سموک سکرین مہیا کی ہے، تو دوسری طرف ان قربانیوں نے سیکورٹی فورسز کو ایک مشکل دشمن کے ساتھ آنکھ مچولی جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

ایک مسئلے سے دوسرے مسئلے تک میڈیا کے ذریعے مبالغے کے ساتھ مسائل کو بڑھایا جاتا ہے، جب کہ لوگ مذمت کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس ظالمانہ سیاست سے حقیقت مجروح ہوجاتی ہے اور خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں عسکریت کو فروغ ملتا ہے۔ سیکورٹی آپریشن واضح طور پر مؤثر ہوتے ہیں اور ورکنگ فارمولا مسلح دستوں کو یہ موقع فراہم  کرتا ہے کہ اُس علاقے کے ۹۰ فی صد حصے پر کنٹرول حاصل کرلیں اور بقیہ عسکریت پسندوں کے لیے چھوڑ دیں۔ معاملات کی یہ گنجلک کیفیت، برسرِاقتدار اشرافیہ کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ تنازعے کو طول دے سکیں، لیکن وہ عسکریت کو شکست نہیں دے سکتے۔ مرکزی رَو کی سیاسی جماعتیں یہ برداشت نہیں کرسکتیں کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے منظر پر اُبھر کر سامنے آئیں اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے واضح پالیسی کا اعلان کریں۔ پس اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں کون جیتے گا؟ کیا اس تنازعے کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے مزید شہریوں کے خون کی ضرورت ہے؟ (ڈان، کراچی، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

اس دل خراش داستان کا ایک پہلو یہ ہے۔ ایک دوسرا پہلو بھی غورطلب ہے جسے خاصی تفصیل کے ساتھ ڈیو لنڈوف (Dave Lindorff) نے کاؤنٹر پنچ کی ۱۸؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں پیش کیا اور جو عالمی طاقتوں اور اربابِ سیاست کے دوغلے پن (duplicity) اور  بے ضمیری (hypocracy) کا آئینہ دار ہے:

افغانستان اور پاکستان میں پچھلے ہفتے چھے بچوں پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ تین نوبالغ (teenage) لڑکیاں پاکستان میں جن میں سے ایک ملالہ یوسف زئی شدید زخمی ہوئی۔ دوسرا حملہ افغانستان کے ہلمند صوبہ کی تحصیل ناوا میں جس میں امریکی ہوائی جہاز کے حملے میں تین بچے ہلاک ہوئے: ۱۳سالہ بارجان، ۱۰سالہ سردار ولی اور ۸سالہ خان بی بی۔ تینوں ایک ہی خاندان کے چراغ تھے جو اپنے گھر کے لیے ایندھن کے لیے گوبر جمع کر رہے تھے۔ تین پاکستانی بچوں پر حملہ طالبان نے کیا (گو، وہ بچ گئیں) اور افغانستان میں تین معصوم بچوں پر حملہ امریکا کی فوج نے کیا جسے اپنے ٹھیک ٹھیک نشانے (precision attack) پر ناز ہے اور تینوں جان کی بازی ہار گئے۔

اس دوسری تفصیل سے کئی سوالات فوری طور پر اُبھرتے ہیں: سب سے پہلے، یہ اگر تین بچے اس قدر قریب تھے کہ وہ اس ’تیر بہ ہدف‘ حملے سے مارے جاتے تو پھر یقینی طور پر وہ اتنے قریب بھی تھے کہ طالبان مجاہدین کی کارروائی کی نگرانی کرنے والے جہاز کو بھی نظر آجاتے اور اُس فضائی حملے کی ضرورت ہی نہ پڑتی جس کا بندوبست کیا گیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ امریکا الزامی طور پر کوشش کر رہا ہے کہ شہریوں کی جان کے اِتلاف کو     کم کرے۔ اب فرض کرلیجیے کہ فضائی حملے متقابل فوجوں کی جھڑپ (rules of engagement) کے قانون کے مطابق کیے جارہے ہیں، تب بھی حملوں کی اجازت اُس وقت ہوتی ہے جب ’امریکا یا اتحادی افواج کے لیے خطرہ منڈلا رہا ہو۔

LED کی تنصیب کس طرح منڈلاتا ہوا خطرہ بن گئی؟ اگر حقیقی مقام معلوم ہو، اُس علاقے کے فوجی دستوں کو خبردار کیا جاسکتاہے۔ LED ہٹایا بھی جاسکتاہے اور اُڑایا بھی جاسکتا ہے۔ شناخت کردہ LED منڈلاتا ہوا خطرہ نہیں ہوسکتا۔ امریکی ذرائع ابلاغ، تین پاکستانی لڑکیوں اور حوصلہ مند لڑکیوں کی تعلیم کے باب میں وکیل ملالہ پر حملے کی کوریج کرتے ہوئے لبریز دکھائی دیتے ہیں۔ تین افغان بچوں کی موت پر یہ سب کچھ نہیں ہوا، تاہم نیویارک ٹائمز نے ایک نام نہاد حملے میں مقبوضہ افغان اتحادیوں کے ہاتھوں ہلاکت پر امریکی فوجیوں کی ’سبز پر نیلی اموات‘٭ نامی مضمون کے اختتام کے نزدیک چند پیراگراف لگادیے۔

پاکستان اور امریکا، دو ایسے ممالک ہیں کہ جہاں بچوں پر ہونے والے دو حملوں کا ردعمل انتہائی واضح طور پر مختلف ہے۔ ملالہ اور اُس کی دو ہم جماعت ساتھیوں پر حملے کے بعد پاکستان میں ہزاروں پاکستانی سڑکوں پر نکل آئے تاکہ طالبان جنونیوں کے اقدام پر احتجاج ریکارڈ کراسکیں اور اُن کی گرفتاری اور اُن کو سزا دینے کا مطالبہ کرسکیں (جرم میں معاونت کرنے والے دو ملزموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے)۔ حکومت ِ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ قرار پانے والے قاتلوں کو سزا دی جائے گی۔ نیز ملالہ کی برطانیہ میں ایک بہتر اور محفوظ ہسپتال میں منتقلی کے اخراجات بھی برداشت کیے ہیں۔ دوسری دو لڑکیوں کے تحفظ کے لیے بھی مسلح گارڈ فراہم کردیے گئے ہیں۔

اسی اثنا میں، امریکا میں بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن کی اپنی ملٹری نے تین افغان بچوں کو بھون کر رکھ دیا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اگر اُنھیں اس کا علم ہوبھی جاتا، تب بھی وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتے۔سڑکوں پر ایسے بھرپور مظاہرے نہ ہوتے جن میں مطالبہ کیا جاتا کہ فضائی حملے بند کیے جائیں اور ڈرون حملے کے ذریعے قتل کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صرف ۲۸ فی صد امریکی کہتے ہیں کہ اُنھیں ڈرون کے ذریعے حملے جاری رکھنے پر اعتراض ہے۔اگرچہ یہ واضح ہے کہ ڈرون حملے سیکڑوں___ شاید ہزاروں معصوم شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے ہیں۔

پاکستان میں اسکول کی لڑکیوں پر حملہ کرنے والوں کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔   یقینی طور پر اُن کو مکروہ جرم کی پاداش میں قید کی سزا ملے گی، یہ سلوک اُس پائلٹ اور  حملہ کرنے والے افراد کے ساتھ نہ کیا جائے گا جنھوں نے اس ہلاکت خیز حملے میں حصہ لیا جس کے باعث تین افغان بچے زندگی سے محروم ہوگئے۔

واپسی پر اُن کا خیرمقدم ، اُن سے ملنے والے جنگ سے واپس آنے والے ’ہیرو‘ کے  طور پر کریںگے۔ لوگ اُن کے قریب سے گزریںگے اور کہیں گے: ’’آپ کی خدمات پر آپ کا شکریہ‘‘۔ چاہے اُس خدمت میں معصوم بچوں کو ہلاک کرنے کی ’خدمت‘ بھی شامل ہو۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ جن تین بچوں کو نشانہ بنا کر امریکی فوجیوں نے ہلاک کرنے کا جو اقدام کیا ہے وہ افغان حکومت کے ساتھ، قوت کے استعمال کے جن اصولوں پر اُنھوں نے اتفاق کر رکھا ہے، اُس کی بھی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اگرچہ ٹائمز نے جو شہ سرخی لگائی ہے اُس کا عنوان ہے: ’’اتحادیوں کے حملے میں افغان بچوں کی ہلاکت پرسوالات اُٹھائے گئے‘‘ لیکن اس سوال کا ذکر کہیں نہیں ملتا؟ نہ ٹائمز نے ہی ایمان داری سے  یہ رپورٹ کیا کہ یہ امریکی حملہ تھا، جوابی حملہ نہیں تھا۔(کاؤنٹر پنچ،۱۸ ؍اکتوبر۲۰۱۲ئ)

لیکن بات صرف ان چھے بچوں تک محدود نہیں۔ صرف پاکستان میں ڈرون حملوں سے امریکی یونی ورسٹی کی تحقیق کے مطابق ۳ہزار۳سو سے زیادہ افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں جن میں سے صرف ۴۱ کے بارے میں معلومات ہیں کہ ان کا کوئی تعلق القاعدہ یا طالبان سے تھا۔ ۹۸ فی صد عام شہری تھے جن میں سیکڑوں بچے شہید ہوئے۔ یہی خونیں داستان افغانستان کی ہے، عراق کی ہے، کشمیر کی ہے، فلسطین کی ہے، برما کی ہے___ اور نہ معلوم کہاں کہاں روے زمین پر معصوم انسانوں کا خون اسی طرح بہایا جارہا ہے اور ظالم کا ہاتھ روکنے والا اور قاتل کو قرارواقعی سزا دینے والا کوئی نہیں۔ کیا یہی ہے تہذیب و تمدن کا عروج اور جمہوریت کا فروغ؟

اس سارے گھنائونے کھیل کو کیا نام دیا جائے؟ پاکستان کے ایک سابق نام ور سفیر اور تجزیہ نگار جناب آصف ایزدی نیوز انٹرنیشنل میں اپنے مضمون Malala and the Terrorist Mindset میں یہ کڑوا سچ بڑے صاف الفاظ میں رقم کرتے ہیں:

سینٹ میں ایک تقریر کے دوران وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ ملالہ پر حملے   کے پیچھے ’کارفرما ذہن‘ کے ساتھ جنگ کی جائے۔ اُنھیں یہ ضرور جان لینا چاہیے کہ دہشت گردی کے تخلیقی سبب کی تلاش ایک کے بعد دوسری پاکستانی حکومت کی اُن پالیسیوں میں ملے گی جن کی وجہ سے تنخواہوں میں بہت بڑا فرق ہے، بدعنوانی کا چلن ہے اور عام آدمی کو تعلیم اور سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں شرکت کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ جب تک ان مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاتا، اس ذہنی رویے کے، جس کی اُنھوں نے نشان دہی کی ہے، پھلنے پھولنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور کسی بھی قسم کا  فوجی آپریشن نہ صرف بے نتیجہ بلکہ ضرر رساں ہو گا۔

ملالہ ایک بچہ سپاہی ہے جسے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کے پروپیگنڈا محاذ پر غیرمسلح اورتنہا روانہ کردیا گیا۔ اُس کے لیے وہی کردار طے کیا گیا جو طالبان کے    ۱۵/ ۱۸ برس کے خودکش بم باروں کا ہوتا ہے، تاہم اُس کے بچ جانے کے امکانات نسبتاً بہتر تھے۔ یہ معجزے سے کم نہیں کہ وہ ابھی تک ہمارے پاس ہے۔

ملالہ اس قدر کم عمر ہے کہ اُس کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کس کے خلاف کام کر رہی ہے اور اُس کی اپنی ذات کے لیے اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ ملالہ پر جو کچھ گزری ہے اُس کی ذمہ داری مکمل طور پر اُن کے سر ہے جنھوں نے اُ س نظریہ پرستی کا تنفرانہ استحصال کیا، صرف اس لیے کہ اس طریقے سے وہ اسٹرے ٹیجک اہداف اور سیاسی مقاصد حاصل کرسکیں۔

ایک طرف، جب کہ ہم دعاگو ہیں کہ وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے، ہمیں اُن کو یہ اجازت نہ دینی چاہیے کہ وہ اپنے گناہ کو مذمت کے خنک دار بیانات سے چھپائیں یا گولی مارنے کے افسوس ناک واقعے کو، ہمارے ملک میں قتل عام اور تنازعات میں گہرا دھکیلنے کے لیے استعمال کریں۔ (نیوز انٹرنیشنل، ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

ملالہ بلاشبہہ ایک مظلوم بچی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم سب اس کی صحت یابی اور روشن مستقبل کے لیے دعاگو ہیں لیکن وہ صرف اس لیے مظلوم نہیں کہ اس معصوم بچی پر قاتلانہ حملہ ہوا، بلکہ وہ اس لیے بھی مظلوم ہے کہ اس بچی کو کون کون اور کس کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گولی کے نشانے پر لگنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس بچی کو دنیا بھر کے لیے معجزانہ طور پر بچالیا اور یہ بھی اس کا کرم ہے کہ پاکستان کو جس آگ میں دھکیلنے اور پاکستان اور افغان قوم کے ایک بڑے حصے کو تصادم، منافرت، بدلے اور نہ ختم ہونے والی جنگ کی آگ میں دھکیلنے اور امریکی انتخابات میں  اس خونیں کھیل کو ایک شعبدے کے طور پر استعمال کرنے کا جو شیطانی منصوبہ بنایا گیا تھا وہ خاک میں مل گیا۔وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)

امریکی جنگ سے نکلنے کی حکمت عملی

الحمدللہ! وہ سیاہ بادل جو مطلع پر چھا گئے تھے چھٹ گئے ہیں مگر کیا خطرہ فی الحقیقت ٹل گیا؟ جہاں ہمیں اللہ کی رحمت اور اعانت پر پورا بھروسا ہے، وہیں اس امر کا اِدراک بھی ضروری ہے کہ پاکستان شدید اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے جن کا اِدراک اور مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی اور مؤثر کارفرمائی ازبس ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہم بہت ہی اختصار کے ساتھ چند گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے بلاشبہہ دہشت گردی ایک جرم ہے، خواہ اس کا ارتکاب افراد کریں، یا گروہ یا حکومتیں۔ دہشت گردی انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور اس کا مقابلہ بھی کیا گیا ہے اور کامیابی سے افراد اور معاشرے کو اس سے محفوظ کیا گیا ہے۔ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کا نیویارک کے ٹریڈٹاور اور واشنگٹن کے پینٹاگان پر حملہ دہشت گردی کے اندوہناک واقعات تھے مگر دہشت گردی کا آغاز نہ اس واقعہ سے ہوا اور نہ اس کے نتیجے میں  دہشت گردی کی نوعیت میں کوئی جوہری فرق ہی واقع ہوا۔ البتہ امریکا نے اس واقعے کو جنگ کا نام دے کر اور اس کے مقابلے کے لیے قانون، افہام و تفہیم، تعلیم اور اصلاحِ احوال کے لیے سیاسی اور معاشی تدابیر کا مجرب راستہ اختیار کرنے کے بجاے، جنگ اور قوت کے بے محابا استعمال کا حربہ استعمال کیا اور پوری دنیا کو ان ۱۱برسوں میں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کو دہشت گردی اور جنگ کو جنگ رکھا جائے اور سیاسی مسائل کے عسکری حل کی جو خون آشام حماقت کی گئی ہے، اس سے جلد از جلد نجات پانے کا راستہ نکالا جائے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جس طرح دہشت گردی اور جنگ کو خلط ملط کیا گیا ہے   اسی طرح دہشت گردی اور تشدد، اور تشدد اور انتہاپسندی اور انتہاپسندی اور جدت کو گڈمڈ کرنا   ژولیدہ فکری اور کوتاہ اندیشی کا تباہ کن شاہکار ہے۔ ان میں سے ہراصطلاح کا اپنا مفہوم ہے اور ہرایک کا اپنا کردار ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں ردعمل دینے (respond) کا    اپنا انداز ہے۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس خطرناک مغالطے کا نتیجہ ہے کہ بات ذہنی رویے اور سوچ (mindset) کی کرتے ہیں اور اس کے مقابلے کے لیے اقدام فوج کشی تجویز کرتے ہیں، حالانکہ خیالات کا مقابلہ خیالات سے، نظریات کا نظریات سے، دعوے کا دلیل سے کیا جاتا ہے، ڈنڈے اور گولی سے نہیں۔

 یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں دہشت گردی کا مقابلہ اس سے بڑی دہشت گردی سے کرنے کی جب بھی کوشش کی گئی ہے، وہ ناکام رہی ہے۔ دل اور دماغ کی جنگ دلیل اور نظریات کے ذریعے جیتی جاتی ہے۔ سیاسی، معاشی اور سماجی بنیادوں پر رُونما ہونے والے تشدد کا مداوا بھی ان اسباب کو دُور کر کے ہی کیا جاسکتا ہے، جو لوگوں کے اختلافات اور شکایات کو تصادم اور تشددکی طرف لے جانے کا باعث ہوتے ہیں۔ امریکا کے محکمۂ دفاع کا ایک ہمدرد تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن ہے جس نے اس موضوع پر اپنی تحقیق کے نتائج میں نمایاں طور پر یہ بات کہی ہے کہ دہشت گردی کا حل قوت کا استعمال نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سیاسی معاملہ بندی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ مائیکل شینک لندن کے اخبار دی گارڈین (۲۵جولائی۲۰۱۲ئ) میں اپنے مضمون بعنوان The Costly Errors of American Wars میں لکھتا ہے:

 ہماری جنگیں اس قدر مہنگی کیوں ہوچکی ہیں؟ امریکی وزارتِ دفاع سے قربت رکھنے والی رینڈ کارپوریشن کی راے ہے کہ ۸۴ فی صد دہشت گردتنظیموں کو ختم کرنے یا    بے دست و پا کرنے میں پولیس ، سراغ رسانی اور مذاکرات انتہائی اہم اسٹرے ٹیجک اقدامات کررہے ہیں، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خطیر وسائل، بھاری فوجی اور فضائی لائولشکر کی قدر کر رہے ہیں، بشمول ۴۰،۴۰؍ارب ڈالر والی مشترکہ حملہ کرنے والی مہنگی آنٹرمز۔ یہ اسٹرے ٹیجک ہتھیار تیزی سے حرکت کرنے والے اور جگہ جگہ    پائے جانے والے گروہوں کے مقابلے میں غیرمؤثر ہیں۔ اس قدر انحصار کیوں؟ چونکہ دفاعی صنعت نے ہرریاست میں اور کم و بیش کانگریس کے ہر ڈسٹرکٹ میں ایسے آپریشن شروع کیے ہیں اور چونکہ اُس کی لابی واشنگٹن میں انتہائی طاقت ور ہے۔   رینڈ نے جو تجویز کیا ہے ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے اور بہت کم اخراجات میں کئی اور ممالک میں صلاحیت پروان چڑھانا چاہیے۔

امریکی افواج کے ادارے رائل یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور مستقبل کے بارے میں کوئی افہام و تفہیم (understanding) ایسی مشکل بات نہیں ہے۔ طالبان میں گفت و شنید کے راستے کو اختیار کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ اسی طرح شریعت کی تعبیر، تعلیم اور خصوصیت سے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں وہ اتنے کٹّر اور انتہاپسند نہیں جتنا کہ ہمیں خطرہ ہے۔ اور پھر اس رپورٹ میں صاف الفاظ میں عسکری راستے کی جگہ سیاسی راستے کے امکانات کا ذکر کیاگیا ہے:

مذاکرات کے ذریعے اُن غلط فہمیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کی وجہ سے تنازعے نے آگ پکڑ لی ہے۔ جیساکہ شورشوں (insurgencies) سے نجات کے کئی اور واقعات میں ہوا۔ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے تشدد کی شدت اور ہونے والے واقعات کی تعداد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر تشدد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ چونکہ طالبان اور طاقت رکھنے والے دیگر گروہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ناٹو کی ہنگامی روانگی کے بعد خلا کو بھریں، افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کی جو خامیاں ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں توقع رکھنا چاہیے کہ طالبان کا دیہی شہری جنوب، جنوب مشرق اور مغرب میں کنٹرول بڑھ جائے گا۔ اس تمام سے واضح ہوجاتا ہے کہ راے عامہ کے سروے اور تحقیق کیوں ظاہر کرتے ہیں کہ افغانوں کی غالب اکثریت چاہے مرد ہوں یا عورتیں، مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ اہمیت اس چیز کو دی جائے کہ کسی بھی شرط کے بغیر کثیرجماعتی ٹھوس بنیاد رکھنے والے کھلے مذاکرات کا اہتمام کیا جائے۔ جس رفتار سے فوجی دستوں اور امداد میں کمی آرہی ہے۔ اسی رفتار سے عالمی برادری کی مختلف جماعتوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت، امن کے عمل کے قیام اور ۲۰۰۱ء کے بعد حاصل ہونے والے فوائد سمیٹنے میں واقع ہورہی ہے۔ متفقہ مصالحت کاروں اور ثالثوں کی موجودگی، مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ اب موجود نہیں ہیں۔ پاکستان کے تعاون کے بغیر کوئی بھی ذریعہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو مذاکرات میں ایک نشست ملے یا نہ ملے، اس کے افسران کو لازمی طور پر مذاکرات میں شریک رہنا چاہیے۔ جوں جوں مذاکرات قوت حاصل کریں گے اُسی قدر شمالی اور وسطی افغان سیاسی گروہ اِن میں شمولیت اختیار کرتے رہیں گے۔ (ملاحظہ ہو Matt Waldman کا مضمون بعنوان Why It's Time for Talks with the Taliban ،  دی گارڈین، ۱۰ستمبر ۲۰۱۲ئ)

 امریکی قیادت طاقت کا کتنا ہی استعمال کیوں نہ کرڈالے سیاسی حل کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ حالات کی اصلاح کے لیے پاکستان ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن وہ کردار شمالی وزیرستان میں جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے سے ادا نہیں ہوسکتا۔ وہ جنگ کی آگ کو ٹھنڈاکرنے سے ہی ہوسکتا ہے، لیکن دانا اور طاقت کے نشے میں مست نادان میں فرق یہ ہی ہے کہ نادان پہلے حالات کو بگاڑتا ہے اور پھر وہی کچھ کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو دانائی کا تقاضا ہے کہ   ؎

ہرچہ دانا کند، کند ناداں

لیک بعد از خرابیِ بسیار

(ترجمہ: جو کچھ دانا کرتا ہے، نادان بھی بالآخر وہی کچھ کرتا ہے، لیکن خرابی بسیار کے بعد )۔

یہی وہ حکمت عملی ہے جو پاکستان کی پارلیمنٹ  نے اپنی تین متفقہ قراردادوں میں طے کی ہے اور جس کی تفصیل پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے ایک واضح نقشۂ کار کی شکل میں مرتب کی ہے لیکن اکتوبر ۲۰۰۸ئ، اپریل ۲۰۰۹ء ، مئی ۲۰۱۱ء اور اپریل ۲۰۱۲ء کی ان تمام ہدایات کوعملاً ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور امریکا کے اشارئہ چشم و آبرو اور ترغیب وترہیب (carrot & stick) دونوں کے بے محابا استعمال کے نتیجے میں ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیاگیا اور اسے مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کی مہم امریکا، امریکی لابی، اور امریکا کی باج گزار قیادت پوری قوت سے چلارہی ہے۔

امریکا عراق اور افغانستان میں ناکام رہا ہے۔ عراق کو جلتا ہوا اور تباہ حال چھوڑ کر رخصت ہوگیا ہے اور افغانستان کو تباہ و برباد کر کے اور خود اپنے فوجیوں کی ۲ہزار اور ناٹو کی ۸۰۰ سے زیادہ ہلاکتوں، نیز ان سے ۱۰گنا زیادہ کے شدید مجروح ہونے اور دماغی اور جسمانی امراض اور محرومیوں کا نشانہ بنانے، خود ان دونوں مظلوم ممالک کے ۲لاکھ سے زیادہ افراد کو لقمۂ اجل بنانے، لاکھوں کو   بے گھر کرنے اور خود اپنے ۴ہزار ارب ڈالر سے زیادہ پھونک دینے کے باوجود ناکام و نامراد  واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں دیکھتا ہے۔ لیکن اس پر بضد ہے کہ مسئلے کا عسکری حل ہی تھوپنے کی کوشش جاری رکھے گا اور پاکستان کو اپنے برادر ہمسایہ ملک اور اس کے باسیوں سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اُلجھا کر جائے گا۔ ویسے تو ۲۰۱۴ء میں فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن امریکا کے سیاسی تجزیہ نگار اور تھنک ٹینک یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انخلا اس سے پہلے کیا جائے۔

نیویارک ٹائمز نے ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں اپنی تاریخ کا طویل ترین اداریہ لکھا ہے جو ۱۸۵۶ الفاظ پر مشتمل ہے اور اس کا ماحصل یہ ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جاسکتی، اس لیے جلد واپسی کا راستہ اختیار کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ ۲۰۱۳ء کے آخیر تک امریکی اور ناٹو کی افواج واپس آجائیں۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل فاگ راسموسن(Fog Rasmussen) نے بھی اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ۲۰۱۴ء سے پہلے ہوجانا چاہیے۔ اسی راے کا اظہار کابل میں برطانیہ کے سفیر نے کیا ہے۔ فرانس نے ۲۰۱۲ء ہی کے اختتام تک اپنی فوجوں کی واپسی کااعلان کردیا ہے۔ ان حالات میں اصل ایشو جنگ کو بڑھانا نہیں، اسے سمیٹنا اور ختم کرنا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے اداریے کے یہ الفاظ امریکا اور ناٹو کے اس وقت کے ذہن کی پوری عکاسی کرتے ہیں:

ریاست ہاے متحدہ امریکا کی افواج کے لیے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ افغانستان چھوڑ دیں (کیونکہ) امریکا صدر اوباما کے محدود مقاصد کو حاصل نہ کرسکے گا اور جنگ کو طول دینے کا مقصد صرف یہ ہوگا کہ نقصان بڑھ جائے۔

اس سوچ کو فروغ دینے میں عسکری اہداف میں ناکامی، اور بڑھتی ہوئی معاشی قیمت اور امریکا اور یورپی ممالک کے روزافزوں مالیاتی خساروں کے علاوہ راے عامہ کی تبدیلی اور خود افغان عوام ہی نہیں، ان افغان افواج تک کے ہلاکت خیز حملے ہیں جن کی تربیت امریکی افواج نے کی ہے اور جن کو آیندہ افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔

دھشت گردی کا مقابلہ امن اور دستور سے

ان حالات میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنا صرف اپنی تباہی کو دعوت دینے  کے مترادف ہے، اور اس جنگ کو اپنی جنگ کہنا حقائق کا منہ چڑانا اور عوام کے، جن کی ۹۷ فی صد عظیم اکثریت امریکی فوجی کارروائیوں کی مخالف ہے، کے منہ پر طمانچا مارنا ہے۔

اصول اور سیاسی حکمت عملی، دونوں ہی اعتبار سے اس سے بڑا خسارے کا کوئی اور سودا نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخارمحمد چودھری نے اس ہفتے ’قیامِ امن بذریعہ قانون‘ کے موضوع پر ایک نہایت پُرمغز خطبہ دیا ہے جس میں ’دہشت گردی کے نام پر جنگ‘ کی حکمت عملی کے مقابلے میں انصاف، آئین اور قانون کی بالادستی پر مبنی حکمت عملی کا نقشہ پیش کیا ہے۔ پارلیمنٹ نے جو خطوطِ کار طے کیے تھے اور چیف جسٹس نے جن کو اپنے انداز میں بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ اس آگ سے نکلنے اور ملک و قوم کو امن اور خوش حالی کے راستے پر گامزن کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔

ہم جناب چیف جسٹس کے خطاب سے چند اقتباس دینا ضروری سمجھتے ہیں:

اگر پاکستان آج ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہے جن میں امن ایک سہانا خواب لگتاہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ماضی میں کیے گئے گناہوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔ یہ ایک ناگوار حقیقت ہے کہ عرصۂ دراز سے ہم نے اپنے آئین کے ساتھ وہ برتائو نہیں کیا جس کا وہ حق دار تھا۔ قانون کی ناتواں حکمرانی نے عسکری نظریات کو جنم دیا۔ جو قومیں آئین کااحترام کرتی اور اسے حقیقی طور پر نافذ کرتی ہیں، وہ چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ آئین شکنی اور قانون کی حکمرانی سے انحراف نے ہمیں بھٹکا دیا اور قانون کی حکمرانی کو پاکستان میں نابود کیا۔ یہی وہ اسباب ہیں جنھوں نے تشدد اور لاقانونیت کی فضا قائم کی۔

ان حقائق کی روشنی میں جناب چیف جسٹس نے پارلیمنٹ سے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے حتمی طور پر عسکری تنظیموں کے بارے میں قانون سازی کرے اور حکومت ضروری اقدام کرے۔ ساتھ ہی انھوں نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر پائی جانے والی بدامنی کا اصل سبب بھی ظلم اوربے انصافی ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ:

پیچیدہ اور جڑوں تک پہنچے ہوئے جھگڑوں نے دہشت گردی، ماوراے عدالت قتل، انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور دیگر برائیوں کو جنم دیا ہے، جو انتہاپسندی اور بنیادپرستی کی افزایش کرتے ہوئے عالمی امن کو مسخ کرنے کی وجہ بن رہی ہیں۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قانون، امن اور تہذیب کی اصولی تعلیمات کو بنیاد بناتے ہوئے افراد اور ریاستوں کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کیا جائے اور ان مواقع کو تلاش کیا جائے جو عالمی امن کے قیام میں مددگار ہوں۔ قانون کی   حکمرانی کے ذریعے امن کا قیام چاہے مقامی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر،تنازعات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمیشہ انتہائی مفید ثابت ہوا ہے۔ میری راے میں تنازعات میں اُلجھے ہوئے لوگوں کے مابین حقیقی امن منصفانہ تصفیے کی بدولت ہی قائم ہوسکتا ہے۔ اور یہ تصفیہ متحارب جماعتوں کے لیے تب ہی قابلِ قبول ہوگا جب انھیں یقین ہو کہ اسے جائز اور قانونی طریقے سے بروے کار لایا جارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتاہے کہ کوئی بھی تصفیہ جس کی پشت پر قانون کی ضمانت نہ ہو، وہ دیرپا نہیں ہوگا اور ایسے منصفانہ تصفیے کے بغیر قیامِ امن ناممکن ہے۔

زمینی حقائق، عالمی حالات اور تاریخی تجربات سب کا حتمی تقاضا ہے کہ پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جلد از جلد امریکا کی اس جنگ سے نکلے اور خود امریکا کو دوٹوک انداز میں مشورہ دے کہ جتنی جلد افغانستان سے اپنی اور ناٹوافواج کی واپسی کا اہتمام کرے، یہ جتنا پاکستان اور امریکا کے مفاد میں ہے اتنا ہی افغانستان اور اس پورے علاقے کے لیے بہتر ہے۔ اس کے لیے تمام متعلقہ قوتوں سے مذاکرات کا جلد از جلد آغاز ہونا چاہیے۔ افغانستان میں بیرونی مداخلت کے تمام راستوں کو بند کیا جائے اور افغانستان کی تمام دینی اور سیاسی قوتوں کی باہم مشاورت سے ایک ایسا  سیاسی انتظام کہا جائے جسے افغان تسلیم کریں، اور جس کی باگ ڈور بھی انھی کے ہاتھ میں ہو۔ پھر اس کو عملاً نافذ کرنے کا اہتمام بھی کیا جائے۔ پاکستان اس میں ایک شفاف انداز میں شریک ہو اور افغان عوام کی نگاہ میں، امریکا کے مفادات کے نگہبان کی حیثیت سے نہیں، بلکہ پاکستان اور افغانستان دو برادر مسلم ممالک کے مشترک مفادات کا نقیب بنے۔ امن کا راستہ انصاف اور حقوق کے احترام ہی سے مسخر کیا جاسکتا ہے۔

نئے انتخابات : وقت کا تقاضا

آخری بات ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے جس طرح جنرل پرویزمشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور امریکی مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ بڑھ کر آگے بڑھایا، اس سے اسے نہ ملک میں ساکھ (credibility) حاصل ہے اور نہ افغان عوام اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں جلداز جلد نئے انتخابات نہایت شفاف انداز میں منعقد کیے جائیں تاکہ عوام ایک نئی قابلِ اعتماد اور بالغ نظر قیادت کو برسرِاقتدار لاسکیں جو امریکا سے بھی باعزت دوستی کا راستہ اختیار کرے، ملک کی معیشت کو عوام دوستی اور خدمت خلق کی بنیادوں پر استوار کرے، اور افغانستان کے مسئلے کا بھی افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب سیاسی حل نکالنے کی کوشش کرے۔ ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرے جسے پوری قوم کی تائید حاصل ہو۔ اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ سینیٹ کی کمیٹی براے دفاع کے ایک اجلاس میں ڈیفنس سیکرٹری جناب لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یٰسین ملک نے پہلی بار کھل کر اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف کی اجازت سے ۲۰؍اگست ۲۰۰۱ء سے شمسی ایئربیس امریکا کے زیراستعمال تھا اور وہ وہاں سے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کرتا رہا۔ اس ایئربیس سے یہ سلسلہ ۱۱دسمبر ۲۰۱۱ء کو ختم ہوا۔ واضح رہے کہ اس شرمناک دور میں موجودہ حکومت کے پورے چار سال بھی شامل ہیں۔ جنرل صاحب نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ:the attacks were carried out with the governments approval.  (ڈان، ۲۲اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

فوجی اور سیاسی قیادت دونوں اس پورے عرصے میںامریکی ڈرون حملوں میں پاکستانی حکومت کی شراکت اور اجازت کا انکار کرتے رہے اور قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے متعدد اجلاسوں میں، جن میں راقم الحروف شریک تھا، ہرسطح کے ذمہ داروں نے پاکستان کی شراکت داری سے برملا انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ حکومت کی اجازت اور تائید ان حملوں میں شامل نہیں۔ لیکن اب اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے، جو قوم اور پارلیمنٹ سے دھوکا اور ایک قومی جرم ہے جس کا پارلیمنٹ اور عدالت کو قرارواقعی نوٹس لینا چاہیے۔ لیکن ان سب حالات کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں جلد از جلد نئے منصفانہ انتخابات کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام ان لوگوں سے نجات پاسکیں جنھوں نے قوم کو امریکا کی غلامی میں دے دیا اور امریکا کی جنگ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ خود اپنی قوم کے خلاف فوج کشی کی اور امریکا کو خود ہماری اپنی سرزمین سے ہم پر ہی گولہ باری کا موقع دیا اور اس کی سرپرستی کی۔

 قوم اور دستور سے غداری اور کس چیز کا نام ہے!

 

کتابچہ دستیاب ہے، تقسیم عام کے لیے ۸۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲

فردہو یا قوم، دونوں کے وجود کے دو پہلو ہیں: ایک جسمانی اور طبیعی اور دوسرا روحانی، اخلاقی، نظریاتی اور تہذیبی جس سے اس کی شناخت واضح ہوتی ہے۔ جس طرح نفس اور جسم پر ہروہ حملہ یا ضرب جو قانون سے ماوراہو، ایک جرم اور لائق تعزیر ہے، اسی طرح روحانی اور نظریاتی وجود اور شناخت پر حملہ ناقابلِ برداشت ہے اور اس پر جارحیت کے خلاف مزاحمت، ہر فرد اور قوم کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ معاملہ ملک کے اندر ہو یا اس کا تعلق اقوامِ عالم سے ہو، انسانوں، معاشروں اور تہذیبوں کے درمیان امن و آشتی اور سلامتی و استحکام کا انحصار قانون اور ضابطوں کے احترام اور ان پر عمل اور ان کی نگرانی پر ہے۔ ان حدود کو پامال کرنے کا نتیجہ انتشار، تصادم اور فساد فی الارض کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔

 ۱۱ستمبر ۲۰۱۲ء کو اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر جو حملہ امریکا کی کچھ شیطانی قوتوں نے یوٹیوب پر جاری ہونے والی ایک فلم کی شکل میں کیا اور جس سوچے سمجھے انداز میں پوری چابک دستی کے ساتھ مسلمانوں کے ایمان، نظریاتی وجود اور عزت و غیرت کو چیلنج کیا، اور پھر  جس تحدی اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے آزادیِ اظہار کے نام پر سرکاری تحفظ فراہم کیا گیا، اس نے   فطری طور پر عالمِ اسلام میں ایک آگ سی لگا دی۔ امریکی حکومت، میڈیا، دانش وروں اور دوسری مغربی اقوام کے کرتادھرتا عناصر نے، خصوصیت سے فرانس کے میڈیا اور حکومت نے جو رویہ اختیار کیا، اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مصر کے صدر کے استثنا کے ساتھ، تمام ہی مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور بے عملی نے مسلمان عوام کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے ایمان اور ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے میدان میں اُتریں۔ یہ ان کا حق ہی نہیں، فرض تھا جسے انھوں نے اور ان کی دینی قیادت نے پورا کیا۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ کچھ مقامات پر اس ردعمل نے تشدد کا رُخ اختیار کرلیا جس کے نتیجے میں ۳۰ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بدنما صورت بہت ہی محدود اور انگلیوں پر گنے جانے والے مقامات پر رُونما ہوئی ہے اور وہاں بھی مظاہرین کے بے قابو ہوجانے سے بھی کہیں زیادہ نقصان سرکاری اہل کاروں کے قوت کے استعمال اور تصادم کے نتیجے میں واقع ہوا ہے۔ لیبیا کے واقعے کے علاوہ کہیں بھی پہل مظاہرین نے نہیں کی حالانکہ مغربی میڈیا اور ان کے مقامی نام نہاد لبرل حاشیہ نشین اصل مسئلے سے توجہ کو ہٹاکر، تشدد یا بے اعتدالی کے معدودے چند واقعات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ اُمت مسلمہ کی اپنی قیادت نے تشدد کی مذمت کی ہے اور احتجاج کو پُرامن اور جمہوری اور اخلاقی حدود میں رکھنے کی سختی سے تلقین کی ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی ان آداب کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے۔ بلاشبہہ ایک جان کا بھی ناحق جانا غلط اور ناقابلِ معافی ہے، لیکن اُمت مسلمہ کے دینی اور قانونی ردعمل کو مسلمانوں کے غصے (rage)اور انتقام (revenge)کا نام دے کر بحث کا رُخ بدلنا ایک شرم ناک کھیل ہے جس کا اسی طرح پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح اصل کروسیڈی اور صہیونی حملے کا مؤثر جواب اور مسئلے کے مستقل حل کے لیے منظم اور مؤثر کوشش ضروری ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس مسئلے کے تمام اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالی جائے، بگاڑ کے اصل اسباب کی نشان دہی کی جائے، اور حالات کو سدھارنے کے لیے جس حکمت عملی کو اختیار کرنا ضروری ہے اس کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے۔

ناموسِ رسالتؐ پر حملہ یا نئی تھذیبی جنگ

امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جن قبطی، عیسائی شدت پسند اور اسرائیلی صہیونی شرپسندوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک نہایت گھٹیا، مکروہ اور غلیظ فلم کے ذریعے اسلام اور   اس کے پاک نبیؐ کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بناکر پوری اُمت مسلمہ کے خلاف جس جارحیت کا ارتکاب کیا ہے، اس کے بنیادی حقائق ہرکس و ناکس کے سامنے آگئے ہیں، اس لیے ان کے اعادے کی  ضرورت نہیں۔ نیز یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسلام اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کو سب و شتم، جھوٹ اور افترا اور خبث باطن اور زہرناک دشمنی پر مبنی خیالی الزامات اور اتہامات کا نشانہ بنانا مغربی اہلِ قلم، مشنری اداروں اور میڈیا کا شیوہ رہا ہے، اور اس کا اعتراف مشہور عیسائی مؤرخ  ڈبلیو منٹگمری واٹ نے ان الفاظ میں کیا ہے:’’دنیا کے تمام عظیم انسانوں میں سے کسی کو بھی         محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ بدنام نہیں کیا گیا‘‘۔

لیکن آج جس طرح، جس زبان میں اور جس تسلسل سے یہ جارحانہ کارروائیاں ہورہی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ پھر اس پر مستزاد، میڈیا اور سوشل میڈیا کی نئی قوت کہ چشم زدن میں یہ آگ دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج مغربی میڈیا، دانش وروں کی اکثریت اور امریکا اور یورپی اقوام کی سیاسی قوت، سب اپنے اپنے انداز میں اس خطرناک کھیل میں شریک ہیں جس کی وجہ سے مسئلے کی جوہری نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ آج امریکی دستور کی پہلی ترمیم جس کا تعلق مذہب اور ریاست کی علیحدگی اورآزادیِ راے اور اظہار کی آزادی سے متعلق ہے، اور اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے اعلامیے کا سہارا لے کر اسلام، پیغمبرؐاسلام اور   اُمت مسلمہ کو مطعون کرنے اور ان کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکانے اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے عزائم اور منصوبوں کا پرچار ہی نہیں، ان پر دعوتِ عمل دینے کا جو کام ہورہا ہے اس کا نوٹس نہ لینا اور حالات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے بروقت اقدام نہ کرنا ایک مجرنامہ غفلت ہوگی۔

علمی تنقید اور اور دلیل پر مبنی اختلافِ راے نہ کبھی محل نظر تھا اور نہ آج ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا جو غلغلہ مغربی اہلِ قلم نے برپا کیا، وہ بھی کسی نہ کسی طرح براشت کرلیا گیا۔ لیکن جس نظریاتی، تہذیبی اور سیاسی جنگ کو اب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلط کیا جارہا ہے، وہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپی اقوام کی عسکری قوت اور سیاسی معرکے کا اصل ہدف مسلم دنیا بن گئی ہے، اور عالمِ اسلام کے سیاسی، معاشی اور تہذیبی نقشے کو اپنے حسب ِ خواہش تبدیل کرنے کا عمل بڑی چابک دستی سے کارفرما ہے۔ امریکی قیادت بڑی معصومیت سے کہہ رہی ہے کہ اس فلم سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، اور ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ بہت سے افراد ایسی مذموم اور قبیح حرکتوں کو ناپسند بھی کرتے ہوں گے، لیکن یہ کہنا کہ امریکی اور یورپی قیادت کا دامن اس پورے کھیل سے پاک ہے جو تسلسل کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، کسی طرح بھی قابلِ یقین نہیں۔ نائن الیون کے معاً بعد جس جنگ کا آغاز جارج بش نے Crusadeکی تاریخی اصطلاح کو استعمال کر کے   کیا تھا، وہ محض زبان کی لغزش (slip of the tongue) نہ تھی اور بعد کے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ   ع

ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ

گوانتاناموبے میں بار بار قرآنِ پاک کی بے حُرمتی کی گئی ہے، افغانستان کے بگرام کے عسکری اڈے پر ۱۰۰ سے زیادہ قرآنِ پاک نذرِ آتش کیے گئے ہیں، امریکا کے اعلیٰ فوجی ادارے جوائنٹ فورسز اسٹاف کالج میں اسلام کے خلاف لیکچرز نصاب میں شامل کیے گئے، جن میں اسلامی دنیا کو دشمن قرار دیتے ہوئے مکہ اور مدینہ کو ایٹم بم سے اُڑا دینے تک کا پیغام دیا گیا۔ اسی طرح ڈینش رسالے میں ہتک آمیز خاکے چھاپے گئے۔ امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآنِ پاک جلانے کی ملک گیر مہم چلائی ، فرانس کے رسالے چارلی ہیس فور میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تضحیک آمیز خاکے شائع ہوئے۔ ہالینڈ میں پارلیمنٹ کے رکن نے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی، ناروے میں اسلام دشمنی کے نام پر خود اپنے ۷۰ سے زیادہ نوجوانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا ___ یہ سب غیرمربوط واقعات نہیں ایک پوری اسکیم کا حصہ نظر آتے ہیں اور اُمت مسلمہ کا ضمیر اس خطرے کو بھانپ رہا ہے، اور حکمرانوں کا رنگ ڈھنگ جو بھی ہو ، عوام امریکا اور مغربی اقوام پر بھروسا نہیں کرتے اور اپنے دفاع کے لیے مضطرب ہیں۔ اب یہ منظرنامہ اتنا واضح ہوتا جا رہا ہے کہ خود مغرب کے اہلِ نظر کا ایک طبقہ اس خطرناک کھیل پر اپنی پریشانی کا اظہارکر رہا ہے اور اسے خود مغربی اقوام اور خصوصیت سے عوام کے مفاد کے منافی محسوس کر رہا ہے۔

آزادیِ راے کی آڑ میں مذموم مقاصد

سام بیسائل کی ’مسلمانوں کی معصومیت‘ (Innocence of Muslims)کے نام پر امریکی اور یہودی سرمایے سے بنائی ہوئی یہ شیطانی فلم امریکی سفیر رچرڈ گلینڈ کے الفاظ میں:   ’’ایک شخص کا ذاتی فعل ہے، یہ سارے امریکا کی راے نہیں‘‘ مگر یہ راے تسلیم کرنا عقل اور تاریخ دونوں کے ساتھ مذاق ہوگا۔ فلم کتنی قبیح اور اشتعال انگیز ہے اس کے بارے میں صرف ایک پاکستانی صحافی جناب حامدمیر کے یہ الفاظ پڑھ لینا کافی ہیں کہ:

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک اور القاعدہ کے حملوں سے ۳ہزار امریکی مارے گئے تھے لیکن ۱۱ستمبر ۲۰۱۲ء کو یوٹیوب پر جاری کی جانے والی اس فلم نے کروڑوں مسلمانوں کی روح کو زخمی کیا۔ میں اس فلم کو چندمنٹ سے زیادہ نہیں دیکھ سکا۔ اس خوف ناک فلم کی تفصیل کو بیان کرنا بھی میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ بس یہ کہوں گا کہ اس فلم کے چند مناظر دیکھ کر سام بیسائل کے مقابلے پر اسامہ بن لادن بہت چھوٹا انتہاپسند محسوس ہوا۔ یہ اعزاز اب امریکا کے پاس ہے کہ اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد سام بیسائل اپنی انتہائی گندی اور بدبودار ذہنیت کے ساتھ صدراوباما کی پناہ میں ہے۔(روزنامہ جنگ، ۱۷ستمبر ۲۰۱۲ئ)

امریکا ، مغربی حکمران اور میڈیا ’آزادیِ اظہار راے‘ کے نام پر اس صہیونی اور صلیبی جنگ کے کمانڈروں کا پشتی بان ہے اور مسلمانوں کو درس دے رہا ہے کہ’’ معاملہ آزادی کے بارے میں دوتصورات کا ہے‘‘ (ملاحظہ ہو: Behind Clashes, Two Versions of Freedom انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون، ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ئ)۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی اور اس کے تصورات سے اس معاملے کا دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ بات تہذیبوں کے تصادم سے آگے بڑھ کر امریکا اوریورپی اقوام کے اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں عزائم کی ہے، اور جو کردار یہ فلم ساز، خاکہ نگار، صحافی، سیاسی اداکار انجام دے رہے ہیں وہ امریکا اور یورپ کی سامراجی قوتوں کے نقشۂ جنگ میں اپنے مقام پر بالکل ٹھیک فِٹ ہوتا ہے اور اب اس کا اعتراف خود ان کے درمیان سے شاہد منھم سے بھی آنے لگا ہے۔

دی گارڈین کا کالم نگار سیماس ملن اپنے ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء کے مضمون میں (جس کا عنوان بھی چونکا دینے والاہے، یعنی: ’’تعجب کی بات صرف یہ ہے کہ شرق اوسط میں اور زیادہ پُرتشدد مظاہرے کیوں نہیں ہوئے‘‘)لکھتا ہے:

رُشدی کے معاملے اور ڈنمارک سے شائع ہونے والے متنازعہ خاکوں کے تناظر میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین عام طور پر مسلمان اپنے اجتماعی تشخص پر حملہ سمجھتے ہیں جیساکہ نعروں اور اہداف سے واضح ہے۔ جس چیز نے احتجاج کو بھڑکایا وہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو پہنچنے والا زخم گویا کہ ایک غرور سے بھری طاقت نے لگایا ہے جس نے کئی عشروں سے عرب اور مسلم دنیا پر حملہ کیا ہے، انھیں غلام بنایا ہے، اور ان کی تذلیل کی ہے۔

ایک اور دانش ور جیمز روزلنگٹن جو کیمبرج یونی ورسٹی میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کا محقق ہے، الجزیرہ میں اپنے مضمون میں کہتا ہے:

بیش تر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی مسلم دشمن ویڈیو امریکا کے لذت پرست کلچر اور اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کا فطری نتیجہ ہے۔ مختصراً یہ کہ بہت سے مسلمانوں کے لیے یوٹیوب کی کلِپ ان کی زندگیوں اور کلچر پر امریکا کے بگاڑ پیدا کرنے والے اثرات کی علامت ہے۔

Counter Punch جو ایک مشہور آن لائن رسالہ ہے اس کے ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں جیف سپیرو اپنے مضمون Islamophobia, Left and Right میں لکھتا ہے:

لیکن خود فلم کے بارے میں کیا کہا جائے؟ غیرپیشہ ورانہ فلم کاری کا اتنا پھٹیچر نمونہ ایسا شعلۂ جوالہ (فلیش پوائنٹ) کیوںبن گیا؟ یہ فلم ایک ایسے وقت میں تیار کی گئی ہے، جب کہ یورپ اور امریکا میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں نے ایک ایسا اسلام دشمن نظریہ اپنا لیا ہے جو تقریباً بالکل ٹھیک ٹھیک روایتی یہود مخالف کلیدی طریقوں کو دُہراتا ہے۔

بات صرف اس فضا کی نہیں، اس فضا کو بنانے، اسے تقویت دینے، اسے اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہے۔ ہدف اُمت مسلمہ کی شناخت اور اس کا سیاسی اور تہذیبی کردار ہے۔ مسئلہ دینی، اخلاقی اور تہذیبی ہے اور بلاشبہہ ایک خاص سیاسی اور geo-strategic تناظر نے اسے اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ بات اب صرف ان افراد تک محدود نہیں جو اس میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں، اصل مسئلہ ان قوتوں کا ہے جو ان کو پناہ دیے ہوئے ہیں اور جن کی پالیسیاں،    جن کے تضادات اور دوعملیاں اور جن کے سیاسی اور عسکری مفادات ہی نے ان کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اظہار راے کی آزادی اور امریکا اور یورپی ممالک کے جن دستوری حقوق کے نام پر اسلام اور پیغمبرؐاسلام اور مسلم اُمہ پر جو وَار کیے جارہے ہیں ان کی حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔

امریکی دستور اور آزادیِ راے کے دعوے کی حقیقت

امریکی صدر، وزیرخارجہ، سفرا، دانش ور اور صحافی ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں وہ ہے امریکی دستور کی پہلی ترمیم۔ نیز اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اورانسانی حقوق کا یورپی کنونشن (European Convention on Human Rights)  ہیں۔ دعویٰ ہے کہ ان دستاویزات کی روشنی میں مغربی تہذیب اور امریکا اور یورپ کے سیاسی اور قانونی نظام کی بنیاد فرد کی آزادی ہے اور یہ وہ بنیادی قدر ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں اور خواہ    اس کی زد دنیا کے دوسرے مذاہب، اقوام اور انسانوں کے ایمان، عزت، تہذیب، اقدار اور ثقافتی اور دینی وجود اور شناخت پر کچھ بھی پڑے اور کتنے ہی انسانوں کی دل آزاری اور ان کی مقتدر شخصیات کی بے حُرمتی اور تضحیک ہو۔

ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے کہ آزادی بلاشبہہ ایک بنیادی انسانی قدر ہے اور ہم  اس کی اہمیت اور قدردانی میں کسی سے پیچھے نہیں، لیکن آزادی تو ممکن ہی کسی ضابطۂ کار کے اندر ہوتی ہے ورنہ مادرپدر آزادی جلد انارکی بن جاتی ہے۔

جرمن مفکر ایمانویل کانٹ نے بڑے دل نشیں انداز میں اس عقدہ کو یہ کہہ کر حل کردیا تھا کہ ’’مجھے ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے لیکن میرے ہاتھ کی جولانیاں وہاں ختم ہوجاتی ہیں جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے‘‘۔ آزادی اسی وقت خیر کا ذریعہ ہوگی جب وہ دوسروں کی آزادی اور حقوق پر دست اندازی کا ذریعہ نہ بنے۔ اظہار راے کی آزادی کے معنٰی نفرت، تضحیک اور تصادم کے پرچار کی آزادی نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کو باقی تمام اقدار سے الگ کرکے نہیں      لیا جاسکتا۔ اس کا واضح ترین ثبوت یہ ہے کہ ہرشخص آزاد ہے لیکن اسے یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی دوسرے شخص کا غلام بن جائے۔ حتیٰ کہ دنیا کے بیش تر قوانین میں آج بھی خودکشی ایک جرم ہے، اس لیے کہ آپ خود اپنی جان لینے کے لیے آزاد نہیں ہیں۔ نہ کوئی دوسرا بلاحق کے آپ کی جان لے سکتا ہے اور نہ آپ خود اپنی جان کو تلف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

مغرب کے اربابِ اقتدار اور اہلِ دانش اور خود ہمارے ممالک میں ان کے نام نہاد لبرل پیروکار امریکی دستور کی پہلی ترمیم کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکی دستور کی بنیاد جیفرسن کا یہ مقولہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور قانون اور دستور کے تحت سب کا مساوی مقام ہے۔ امریکی دستور کی پہلی ترمیم اپنی جگہ اہم ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ:

کانگرس کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو کسی مخصوص مذہب کا احترام کرتا ہو، یا ان کے آزادانہ استعمال کو منع کرتا ہو، یا آزادیِ اظہار میں کمی کرتا ہو، یا راے کی آزادی، پریس کی آزادی، عوام کے جمع ہونے کا حق اور شکایت پیدا ہونے پر حکومت کے پاس درخواست دینے کے حق سے روکتا ہو۔

اس میں ترمیم نمبر۴ بھی ہے، جو کہتی ہے:

عوام کا اپنی ذات کی حد تک تحفظ کا حق، مکانات، کاغذات اور سامان کے تحفظ کے حق، اور غیرمعقول تلاشیوں اور ضبطیوں کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔کوئی وارنٹ جاری نہیں کیا جائے گا جسے کسی ممکنہ جواز کی تائید حاصل نہ ہو، اور جس جگہ کی تلاش مقصود ہو اور چیزیں قبضے میں لینا ہوں ان کو وضاحت سے بیان نہ کیا گیا ہو۔

اسی طرح ترمیم ۵ ہے جس کے ذریعے جان، مال اور آزادی کے لیے due process of law کے بغیر محرومی کوممنوع کیا گیا ہے۔ ترمیم نمبر۸ ہے جس میں excessive (بہت زیادہ، ظالمانہ) زرضمانت، جرمانہ اور سزا کو منع کیا گیا ہے اور یہ اصول ترمیم نمبر۹ میں تسلیم کرلیا گیا ہے کہ :

دستور میں کسی خاص حق کے اندراج کے یہ معنی نہیں لیے جانے چاہییں کہ عوام کو حاصل دوسرے حقوق سے انھیں محروم کیا جائے یا ان کی تحقیر کی جائے۔

سوال یہ ہے کہ پہلی ترمیم جہاں اظہارِ راے کی آزادی دیتی ہے یا ریاست کی طرف سے مذہب کو مسلط کرنے کا دروازہ بند کرتی ہے وہیں مذہب کی آزادی بھی دیتی ہے۔ نیز اگر دستور میں دیے ہوئے باقی تمام حقوق کو قانون اور اخلاق کا پابند کیا گیا ہے تو اظہارِ راے کی آزادی کو اس سے آزاد اور مبرا کیسے کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی سپریم کورٹ نے ۱۹۴۲ء کے اپنے ایک اہم فیصلے میں اس امر کو واضح کردیا ہے مگر امریکی حکمران اور دانش ور اس کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے:

تقریروں کی کچھ ایسی متعین اور محدود قسمیں ہیں جن کو روکنے یا سزا دینے پر کوئی دستوری مسئلہ کبھی نہیں اُٹھایا گیا۔ اس میں فحش اور ناشائستہ، ملحدانہ، جھوٹے الزام لگانے والے یا ایسے توہین آمیز اور اشتعال انگیز الفاظ جو اپنی ادایگی سے ہی امن کا فوری بگاڑ پیدا کریں شامل ہیں۔ اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس طرح کے الفاظ کسی بھی نقطۂ نظر کی وضاحت کا لازمی حصہ نہیں ہوتے اور سچائی تک پہنچنے کے لیے اتنی کم سماجی قدروقیمت رکھتے ہیں کہ نظم اور اخلاقیات میں کوئی بھی سماجی مفاد جو ان سے پہنچ سکتا ہو، واضح طور پر بے وزن ہوجاتا ہے۔

آزادیِ راے اور مغرب کا دھرا معیار

الجزیرہ میں ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء کو ایرک بلیخ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی عوام اور اہم ادارے ایسی قانون سازی کے حق میں ہیں جس کے نتیجے کے طور پر نفرت پھیلانے والے خیالات کے اظہار کا دروازہ بند کیا جاسکے، جیساکہ کتاب قانون کی حد تک یورپ کے کئی ممالک بشمول ڈنمارک میں ایسے قوانین موجود ہیں۔ گو وہ بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے طوفان کو نہیں روک سکے۔

پروفیسر ایرک بلیخ جو مڈل برے کالج میں علمِ سیاسیات کا پروفیسر ہے، کہتا ہے کہ امریکی  راے عامہ کے تمام سروے جو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۸ء تک ہوئے ہیں ظاہر کرتے ہیںکہ امریکی عوام کی اکثریت اس کے حق میں ہے کہ ایسی آرا کے پبلک اظہار پر پابندی ہونی چاہیے جو نفرت پھیلانے اور خصوصیت سے دوسری نسل کے لوگوں کے خلاف زہر اُگلنے والے ہوں۔

امریکا اور یورپی اقوام کے دوغلے پن کا سب سے بڑا ثبوت صہیونیت، اسرائیلی اور خصوصیت سے جرمنی میں ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر توڑے جانے والے مظالم جن کو ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے ، کے بارے میں قانون سازی اور عملاً anti-Semitism (یہود مخالف)کے نام پر اسرائیل، یہودیت، صہیونیت کے بارے میں کسی بھی مخالف راے کا اظہار یا ہولوکاسٹ کے انکار،  حتیٰ کہ ان کے بارے میں صہیونیوں کے پروپیگنڈے کے بارے میں کسی بھی شک و شبہے تک کا اظہار قانوناً جرم بنا دیا گیا ہے۔ دسیوں افراد کو ان قوانین کے تحت سزائیں دی گئی ہیں، اس سے اظہارِراے کی آزادی کے مقدس اصول پر کوئی حرف نہیں آیا۔

رابرٹ فسک نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ کے ۱۳ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں   نیوزی لینڈ کے ایک ایڈیٹر سے اپنی گفتگو نقل کی ہے، جس نے بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ اس نے      نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنانے والے ڈینش کارٹون اپنے اخبار میں شائع کیے :

جب میں نے اس سے یہ پوچھا کہ جب اسرائیل لبنان پر دوبارہ حملہ کرے گا تو کیا     تم ایک ایسا کارٹون شائع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہو جس میں ایک ربی (rabbi) کے سر میں بم لگا ہو، تو اس نے مجھ سے فوراً اتفاق کیا کہ یہ یہود مخالف ہوگا۔

امریکی دستور کی پہلی ترمیم کی دہائی دینے والوں اور آزادیِ اظہارِ راے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہی وہ تضاد ہے جس نے ان کی اصول پرستی، آزادی نوازی اور جمہوریت پسندی کا پول کھول دیا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے خبث باطن کو واشگاف کردیا ہے۔

یورپ کے ۳۴ ممالک میں anti-Semitism اور ہولوکاسٹ کے خلاف قوانین    موجود ہیں جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہارِ راے جرم ہے جس پر قید اور جرمانے کی     سزا دی جاسکتی ہے۔ امریکا میں بھی ایک دوسرے انداز میں قانون تک موجود ہے جسے:      Global Anti-Semitism Review Act of 2004 کہا جاتا ہے اور عملاً جس کے نتیجے میں یہودی مذہب تک کو تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ اگر صہیونی لابی کے زیراثریہ قانون سازی ہوسکتی ہے تو ۶ئ۱ ارب مسلمانوں اور ان کی ۵۷ آزاد مملکتوں کے جائز دینی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی     قانون سازی کیوں نہیں کی جاسکتی؟

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے The Universal Declaration of Human Rightsکی دفعہ ۲۹ میں قانون کے تحت معقول پابندیوں کا ان الفاظ میں واضح ذکر موجود ہے:

اپنے حقوق اور آزادیوں کے استعمال میں ہرشخص ایسی حدود کا پابند ہوگا جن کا تعین قانون محض اس مقصد سے کرے گا کہ دوسروں کے حقوق اور آزادی کا تحفظ اور احترام ہو، اور اخلاقیات اور امن و امان اورجمہوری معاشرے میں عوامی بہبود کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔

اسی طرح European Convention on Human Rights کی دفعہ ۱۰ میں اظہارِ راے کی آزادی اور اس کی حدود دونوں کا واضح الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے:

۱- ہرشخص کو آزادیِ اظہارکا حق حاصل ہے۔ اس میں راے قائم کرنے کی آزادی، سرکاری مقتدرہ کی مداخلت یا سرحدات سے بے نیاز ہوکر معلومات اور خیالات کو وصول کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔ یہ دفعہ حکومت کو اس بات سے نہیں روکے گی کہ براڈ کاسٹنگ، نشرواشاعت، ٹیلی ویژن اور سینما کے لیے لائسنس جاری کرے۔

۲- ان آزادیوں کے استعمال میں، چونکہ ان کے ساتھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں، ایسی شرائط، پابندیوں یا جرمانوں کی پابندی ہوگی جو قانون نے طے کیے ہوں اور کسی جمہوری معاشرے میں ضروری ہوں۔ ملک کی سلامتی، علاقائی یک جہتی، عوامی تحفظ، امن و امان کے تحفظ، جرائم کی روک تھام اور صحت عامہ اور اخلاق کے تحفظ، دوسروں کی شہرت اور حقوق کا تحفظ، اور ایسی معلومات کے پھیلائو کو روکا جاسکے جو اعتماد اور نیک نیتی سے دی گئی ہوں، اور عدلیہ کی بالادستی اور عدالت کی غیر جانب داری کو برقرار رکھ سکیں۔ (آرٹیکل ۱۰)

آزادیِ راے: حددو کے تعین کی ضرورت

امریکا سے آنے والی فلم اور اس پر عالمِ اسلام کے ردعمل کی روشنی میں اس وقت پوری مغربی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی ایک تعداد میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ آزادیِ اظہارراے کی حدود کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ آزادی اور اس کا ذمہ دارانہ استعمال ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں، جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کی قیادت ان حالات میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور جو قربانیاں مسلمان عوام دے رہے ہیں، کیا ان کو کسی مثبت پیش رفت کا ذریعہ بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟

انڈی پنڈنٹ اخبار نے اپنے حالیہ ادارتی کالم میں اس ضرورت کا اعتراف کیا ہے۔ فرانسیسی اخبار Charlie Hebo میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے کے بارے میں انڈی پنڈنٹ کہتا ہے:

ایک آزاد پریس کا دفاع کرنے کی اس کی خواہش قابلِ تعریف ہوسکتی ہے لیکن اس نتیجے سے بچنا ناممکن ہے کہ اس کا رویہ (یعنی ایسے خاکوں کی اشاعت)غیرذمہ دارانہ ہے۔ اس اقدام سے لازماً دوسرے مشتعل ہوں گے۔ اس سے بھی زیادہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ یہ لازماً تشدد کو اُبھارے گا اور اموات واقع ہوں گی۔ سنسرشپ کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن دوسروں کے گہرے عقائد کا لحاظ نہ کرنا بھی قابلِ مذمت ہے۔ اخبار کے ایڈیٹر کو   اپنا رسالہ فروخت کرنے سے پہلے ان خاکوں کو ہٹا لینا چاہیے اس سے قبل کہ دیر ہوجائے۔

لندن کے اخبار دی آبزوَر ۲۳ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں Henry Porter اپنے مضمون میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ: ’’ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہم آزادیِ راے کو ذمہ داری سے استعمال کریں۔ یورپ اور امریکا میں مذہبی اور نسلی جذبات اُبھارنے کے خلاف قوانین موجود ہیں  جن کو فلم اور کارٹونوں نے توڑا ہوگا‘‘۔

نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا مضمون Free Speech Issue Bedevils Web Giants(آزادیِ راے کے مسئلے نے ویب کے بڑوں کو چکرا دیا ہے)میں یہ چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے گئے ہیں کہ اگر گوگل کے خیال میں اس بے ہودہ فلم کو یوٹیوب پر ڈالنا اظہارِ راے کی آزادی کا حصہ ہے تو پھر اسی گوگل نے لیبیا اور مصر کے لیے اس کی اشاعت کیوں روک دی ہے۔ اسی طرح انڈیا اور انڈونیشیا کے لیے بھی اسے روکا گیا ہے۔ اگر ان ممالک کے لیے روکا جاسکتا ہے تو باقی دنیا کے لیے کیا چیز مانع ہے؟ کیا اسی کا نام اصول پرستی ہے؟

بات صرف اس حد تک دوغلے پن اور دھاندلی کی نہیں۔ Counter Punch کے ایک مضمون نگار نے ۱۴ستمبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں گوگل کے بارے میں ناقابلِ انکار شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ Jewish Press کی یکم اگست ۲۰۱۲ء کی اشاعت کے مطابق گوگل نے ایک نہیں ۱۷۱۰ویڈیو جن میں خاصی بڑی تعداد کا تعلق ہولوکاسٹ سے تھا ۲۴ گھنٹے کے اندر اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیے۔ اسی طرح جولائی ۲۰۱۱ء میں فیس بک نے اسرائیل کے کہنے پر فلسطینی اداروں کے درجنوں اکائونٹ بند کردیے حالانکہ ان کے مندرجات کسی قانون سے متصادم نہ تھے۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ فرانس کی حکومت نے مشہور مصنف اور نام وَر فلسفی روجر گارودی کو اسرائیل کے بارے میں ایک کتاب لکھنے پر قید کی سز دی تھی اور آسٹریا میں ۱۹۸۹ء میں انگریز مؤرخ ڈیوڈ ارونگ کو ہولوکاسٹ کے بارے میں اپنی تحقیق شائع کرنے پر تین سال جیل کی سزا بھگتنا پڑی تھی۔

اس وقت جو احتجاج پوری دنیا میں ہوا ہے اس سے مغربی اخبارات میں پہلی بار یہ آواز اُٹھنا شروع ہوئی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، اور آزادیِ اظہار راے کے نام پر کیا جارہا ہے، اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ ہے وہ وقت کہ جب مسلم اُمہ کی  سیاسی قیادت اپنی ذہنی غلامی اور سیاسی محکومی کے شکنجے سے نکلے اور اُمت کے اور اپنے دین کے حقوق کی پاس داری کے لیے مؤثر اور متحدہ اقدام کرے۔

۲۳ستمبر ۲۰۱۲ء کے دی آبزوَر نے ’مسلم غصہ اور برہمی‘ کے عنوان سے اپنے اداریے کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے کہ خود مغرب کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ تصادم کے بجاے تعاون کا کوئی راستہ نکل سکے:

اس لیے کہ اسلامی دنیا کو بالغ نظری سے ہرسطح پر سمجھنے کا متبادل یہ ہے کہ مغرب عالمی آبادی کے ایک بڑے حصے کو صرف دشمن کی نظر سے دیکھے۔ بجاے اس کے ان اختلافات اور سطحات اور دائروں کا احساس کرے جہاں گفتگو اور رضامندی ممکن ہے۔ یہی وہ کانٹے کی بات ہے جو لامحالہ تنازع اور تصادم کی بنیاد ہے۔

مسئلہ کسی خوش فہمی کا نہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت اپنے مفادات کا صحیح اِدراک کرے اور اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اختیار کرے تو نئے راستے استوار ہوسکتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کے لیے حکمت عملی

ہم ایک بار پھر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امریکا اور مغربی اقوام اور مقتدر حلقوں کا رویہ معاندانہ ہے اور ان کے کھیل کو سمجھ کر اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے حکمت عملی بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وار کیے جارہے ہیں ان پر مؤثر اور بروقت احتجاج اور اپنی اصولی پوزیشن کو جرأت کے ساتھ پیش کرنا اولین ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں قرآن نہ فرار اور مداہنت کو گوارا کرتا ہے اور نہ عدل اور توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے اور انتقام میں حدود کو پامال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، ان کی اطاعت اور ان سے وفاداری اسلام کی اساس اور مسلمان کی شناخت ہے اور ناموسِ رسولؐ کی حفاظت ہر مسلمان کا تقاضاے ایمان ہے۔ یہ رشتہ ایمان کا، اطاعت کا اور محبت کا رشتہ ہے۔ آپؐ رحمت للعالمین تھے اور ہرمسلمان کے لیے   فرداً فرداً اور پوری اُمت کے لیے نمونہ ہیں (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، الاحزاب ۳۳:۲۱)۔ اتباعِ رسولؐ ہی اللہ سے محبت کا تقاضا ہے (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo اٰلِ عمرٰن ۳:۳۱)، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ محترم اور مقدم ہیں (اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ، الاحزاب ۳۳:۶)۔قرآن پاک میں صاف ارشاد ہے کہ ’’ہم نے اللہ کے رسولؐ کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائو اور اس کا (یعنی رسولؐ کا) ساتھ دو۔ اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو (اِِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا o لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا o الفتح ۴۸:۸-۹)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رُسواکن عذاب مہیا کردیا گیا ہے (اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًاo الاحزاب ۳۳:۵۷)۔

ان آیات کی روشنی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تعلق امت مسلمہ کا قائم ہوا ہے اس کا تقاضا ہے کہ آپؐ کی اہانت کو کسی صورت میں بھی برداشت نہ کیا جائے اور ہر وہ اقدام کیا جائے جس سے آپؐ کی عزت قائم و دائم ہو۔ ان حالات میں جب اسلام اور مسلمانوں سے زیادتی کی جارہی ہو تو مسلمانوں کا رویہ انصاف اور حق پر مبنی مزاحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ ہدایت ربانی ہے کہ:

اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ برائی کا بدلہ ویسی ہی بُرائی ہے، پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(الشورٰی ۴۲:۳۹-۴۲)

ہمیں یہ اصولی ہدایت بھی دی گئی ہے کہ: ذٰلِکَ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْہِ لَیَنْصُرَنَّہُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌo (الحج ۲۲:۶۰)، ’’یہ تو ہے ان کا انجام۔ اور جو کوئی بدلہ لے، ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ معاف کرنے ولا اور درگزر کرنے والا ہے‘‘۔ اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی بہت واضح الفاظ میں دے دی ہے کہ اصل اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ برائی کو برائی سے بدلنے کے بجاے اسے نیکی، خیر اور حسن سے بدلنے کی سعی کی جائے، تاکہ اللہ کی زمین برائی سے پاک ہو اور خیر اور حسنات سے معمور ہوسکے۔ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَo (المومنون ۲۳:۹۶)،’’اے نبیؐ، برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہے‘‘۔ نیز ارشاد ربانی ہے کہ: وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌٌَ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴)، ’’اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔

مختصراً یہ ہے وہ ہدایت ِ ربانی جس کی روشنی میں آج مسلم اُمت کو آج کے حالات میں اپنی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ہمیں ہر مداہنت سے اپنے دامن کو بچانا ہے اور پوری دیانت سے دین اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور آپؐ کی عزت و شخصیت کا دفاع کرنا ہے تو دوسری طرف اپنے مخالفین کے مقابلے کے لیے وہ طریقے اختیار کرنا ہیں جن سے بالآخر خیر رُونما ہو اور دنیا ان مقاصد کی طرف بڑھ سکے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلوب ہیں۔

بات بہت واضح ہے۔ جو کچھ آج ہورہا ہے وہ نہ صرف غلط اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی کھلی جارحیت ہے بلکہ اس کے پیچھے جو مقاصد ہیں اور جو جو قوتیں پشت پناہی کررہی ہیں  ان کا اِدراک اور توڑ دونوں ضروری ہیں۔ امریکی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا کوئی ہاتھ اس کے  پیچھے نہیں ہے، ناقابلِ یقین ہے۔ امریکی ریاست اور سول سوسائٹی بشمول میڈیا ڈھکے اور چھپے کردار اداکررہے ہیں۔ آزادیِ اظہار کے نام پر ان قوتوں کو تحفظ دینا اس کی کھلی مثال ہے۔معاملہ محض چندسرپھرے انتہاپسندوں اور مذہبی جنونیوں کا نہیں، اس پردہ زنگاری کے پیچھے بہت سے کردار ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔  بلاشبہہ ہرواقعہ افسوس ناک، دل خراش اور مناسب ردعمل کا متقاضی ہے   اور اس سلسلے میں اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کا فرض ہے کہ بروقت اس کا نوٹس لے اور مناسب   اور مؤثر ردعمل کا اظہار کرے لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا اصل مسئلہ ان واقعات کے پیچھے جو       ذہن (mind-set) ، جو پالیسیاں، جو خطرناک عزائم اور دیرپا اور اسٹرے ٹیجک منصوبے اصل کارفرما قوت ہیں ان کا مقابلہ اس سے بھی کچھ زیادہ ضروری ہے۔

  • حکمت عملی کے تین اھم پھلو:اس سلسلے میں جو حکمت عملی بنائی جائے اس کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جن میں سے ہرایک اہم ہے اور ہر ایک کے لیے ضروری اقدام اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کی ذمہ داری ہے:
  • اوّل:  اسلام کی دعوت کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنے کا اہتمام اور کم از کم مسلم ممالک میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام جو اس پیغام کا صحیح نمونہ اور علَم بردار ہو۔ اسلام کے خلاف جو طوفان برپا کیا ہوا ہے اس کا جواب بھی اسلام کی صحیح دعوت کو پہنچانے میں ہے۔ ہرمخالفت دعوت کے لیے ایک تاریخی موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ جو بات جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے اس کا پردہ چاک کیا جاسکے اور حقیقت اپنے اصل رنگ میں سب کے سامنے آجائے۔
  • دوم: سیاسی، سفارتی اور قانونی سطح پر ایسے انتظامات کا اہتمام کرنا، جس سے اللہ اور    اس کے رسولوں کی توہین کا یہ سلسلہ ختم ہوسکے اور آزادیِ اظہار کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ اور ان آداب کے فریم ورک میں ہوسکے جو مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کا ذریعہ بنیں اور نفرتوں کے طوفانوں سے انسانیت کو محفوظ کیا جاسکے۔ اس کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں بشرطیکہ صحیح خطوط پر مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش کی جائے۔
  • سوم:  مسلم ممالک میں تعلیم اور اخلاقی اقدار کے فروغ اور انصاف اور حقوق و فرائض کے احترام اور معاشی اور سماجی فلاح پر مبنی معاشرے اور ریاست کا قیام ۔ مغربی اقوام سے مشترک مقاصد اور مفادات کی بنیاد پر باعزت دوستی اور اچھے معاشی تعلقات سب کے لیے مفید اور تقویت کا باعث ہوسکتے ہیں، لیکن موجودہ محکومی کا جو نقشہ آج نظرآتا ہے وہ دُنیوی اور دینی ہردواعتبار سے بڑے خسارے کا سودا ہے۔ انسانی اور مادی وسائل کے باب میں اُمت مسلمہ کسی سے پیچھے نہیں لیکن آج ہمارے وسائل دوسروں کی خدمت کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور مسلمان عوام ظلم کی چکی میں    پس رہے ہیں اور حکمران ذاتی عیش و عشرت اور مغربی اقوام کی خوش نودی کے حصول میں مصروف ہیں، بلکہ اپنی بقا اور اپنے اقتدار کے لیے ان کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور اُمت کے مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ جب تک گھر کی اصلاح نہ ہو اور اُمت کے وسائل اُمت کی فلاح، استحکام اور تقویت کے لیے استعمال نہ ہونے لگیں، حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ صحیح قیادت ہی حالات کو نیا رُخ دے سکتی ہے۔

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اسلام، اللہ کے رسولؐ اور اُمت مسلمہ کے خلاف عالمی سطح پر    کیا کچھ ہورہا ہے اور مسلمان حکمران اپنے خول میں بند اور اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہیں۔ صرف ایک سربراہ مملکت نے امریکا کے صدر سے صاف الفاظ میں کہا کہ امریکی سفارت کاروں کی ہلاکت پر افسوس ہے لیکن اصل مسئلہ اسلام کے خلاف وہ جارحانہ اقدام ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو احتجاج پر مجبور کیا ہے۔ ہمارے اپنے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ اصل واقعہ کے سات دن کے بعد جب ملک بھر میں احتجاج کی گونج برپا ہوگئی تو انھیں ہوش آیا اور پھر بھی ناموسِ رسالتؐ پر حملہ کرنے والوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کے بجاے عشق رسولؐ کے نام پر تعطیل میں عافیت تلاش کی۔ احتجاجی تحریک میں اس قیادت کا کوئی وجود نظر نہ آیا اور امن و امان کے قیام اور احتجاج کو صحیح انداز میں مؤثر بنانے میں ان کا کوئی کردار نہ تھا۔ عالمی سطح پر بھی اُمت کے نقطۂ نظر کو پیش کرنے اور مسلم ممالک کو منظم کرنے اور متحرک کرنے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ یہ بڑی اندوہناک صورتِ حال ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام اور قیادت کی سوچ اور ترجیحات میں بُعدالمشرقین ہے۔ اغیار کی جارحانہ کارروائیوں پر احتجاج اُمت کا حق بھی ہے اور فرض بھی___ لیکن اصل مسئلہ صرف احتجاج کا نہیں، اپنے گھر کو درست کرنے،    صحیح قیادت کو بروے کار لانے اور اپنی قوت کو اس طرح مجتمع کرنے اور ترقی دینے کا ہے کہ اُمت     اپنا تاریخی کردار ادا کرسکے۔

اصل چیلنج یہ ہے کہ کیا ہم اغیار کی اس کثیرجہتی جارحیت کا مؤثر جواب دینے کو تیار ہیں؟

 

کتابچہ دستیاب ہے۔منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ قیمت: ۱۲ روپے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

زرداری حکومت نے امریکی اور ناٹو افواج کے لیے افغانستان میں اپنی جارحانہ جنگی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے سپلائی لائن بحال کردی ہے۔ یہ ایک نہایت عاقبت نااندیشانہ، بزدلانہ اور محکومی پر مبنی فیصلہ تھا جس کے نتائج اور تباہ کن اثرات رُونما ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ڈرون حملے حسب سابق جاری ہیں اور اب مشترک فوجی آپریشن اور شمالی وزیرستان میں زمینی اور فضائی حملوں کی منصوبہ بندی آخری مراحل میں ہے۔

واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے خفیہ اداروں کے سربراہان نے خاموشی سے نیا جنگی منصوبہ تیار کرلیا ہے اور کور کمانڈروں کے اجلاس نے بھی اخباری اطلاعات کے مطابق، امریکی مطالبات پر کچھ پاکستانی شکرچڑھا کر ایک بظاہر تدریجی عمل کے ذریعے فوجی اقدامات کا نقشہ بنا لیا ہے۔ ایک طرف حکومت کے طے شدہ منصوبے کے مطابق قوم کی توجہ کو پارلیمنٹ اور عدالت میں محاذ آرائی کی دھند (smoke-screen) میں اُلجھا دیا ہے تو دوسری طرف الزام تراشیوں کی  گرم گفتاری توجہ کا دوسرا مرکز بنی ہوئی ہے، نیز توانائی کا بحران اور معاشی مصائب قوم کی کمر توڑ رہے ہیں اور اسے فکرِمعاش کی دلدل سے نکلنے کی مہلت نہیں دے رہے۔ مبادلہ خارجہ کے بیرونی ذخائر کی کمی اور حکومت کی فوری مالیاتی سیّال اثاثے (liquidity )حاصل کرنے کی ضرورت اور امریکا سے اپنی ہی جیب سے خرچ کیے ہوئے ۳؍ارب ڈالروں میں سے ۱ئ۱؍ارب روپے کی وصولی کا ڈراما بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس سیاسی اور معاشی دُھندکا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، پارلیمنٹ کے واضح فیصلوں اور عوام کے جذبات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے امریکا کے فوجی اور سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا پورا انتظام کیا جا رہا ہے۔ جس تباہی اور بربادی سے ملک کو بچانے کے لیے سیاسی اور دینی قوتیں احتجاج کر رہی تھیں اور جس کے لیے پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اپنے طور پر ایک بظاہر متفقہ لائحہ عمل دیا تھا ،اسے دربا بُرد کر کے پاکستان اور افغانستان دونوں کو ایک نئی جنگ اور تصادم کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے۔

امریکا نے ۴جولائی ۲۰۱۲ء کو اپنی آزادی کے دن پاکستان کے نامۂ شکست پر جشن فتح منانے کے لیے ۲۴گھنٹے کے اندر اندر پاکستانی سرزمین پر تین ڈرون حملے کر کے نومبر ۲۰۱۱ء میں شہید ہونے والے ۲۴جوانوں کی فہرست میں ۳۴ نئے شہیدوں کا اضافہ کردیا تھا، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ قیادت ڈرون حملوں کو تو کیا رکواتی، وہ خود اس جنگ کے سب سے خطرناک مرحلے میں امریکا کی شریکِ کار بننے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اس طرح جو اصل امریکی مطالبہ تھا، یعنی پاکستانی فوج کے ذریعے شمالی وزیرستان میں مشترکہ آپریشن، اس کا سلسلہ شروع ہوتا نظر آرہا ہے اور امریکا کا  جنگی جنون آخری فیصلہ کن دور میں داخل ہونے والا ہے۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے اس کی پوری ذمہ داری امریکا کی قیادت اور اس کی سامراجی سیاست کے ساتھ خود پاکستان کی حکومت اور اس کی موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت پر آتی ہے۔ قوم کو جان لینا چاہیے کہ اگرماضی میں کچھ پردہ تھا بھی تو وہ اب اُٹھ گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ جو جوہری تبدیلی اب سر پر منڈلا رہی ہے، اسے اچھی طرح سمجھا جائے اور قوم کو اس سے پوری طرح باخبر کیا جائے تاکہ اسے احساس ہوسکے کہ اس کی آزادی، عزت و وقار، قومی مفادات اور علاقے میں امن و آشتی کی خواہش، سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔ ضرورت ہے کہ قوم اس خطرناک کھیل کو سمجھے اور اس کے اہم کرداروں کو پہچان لے ، اور اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کے لیے نئی حکمت عملی بنائے اور اس پر عمل کے لیے مؤثر جدوجہد کا نقشہ بنا کر ضروری اقدام کرے۔ اس کام کو سلیقے اور حقیقت پسندی سے انجام دینے کے لیے ضروی ہے کہ اس سلسلے کے بنیادی حقائق کو ذہن میں ایک بار پھر تازہ کرلیا جائے تاکہ ان زمینی حقائق کی روشنی میں نیا نقشۂ کار تیار کیا جاسکے۔

پاکستانی عوام امریکا کی اس جنگ کو پاکستان، افغانستان اور پورے علاقے کے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس میں پاکستان کی حکومت اور اس کی افواج کی شرکت کو ایک قومی جرم    تصور کرتے ہیں۔ راے عامہ کے تمام سروے اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستانی قوم کی عظیم اکثریت اس جنگ کو ننگی جارحیت سمجھتی ہے، اور خصوصیت سے ڈرون حملوں کو جو اَب امریکی جارحیت کی مضبوط ترین علامت ہیں، ملک کی آزادی، سالمیت اور حاکمیت پر بلاواسطہ حملہ قرار دیتی ہے۔ انگلستان کے ہفت روزہ نیو اسٹیٹس مین کی ۱۳جون ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں شائع ہونے والے مضمون میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ:

ایک حالیہ پیو (Pew) جائزے سے معلوم ہوا کہ ۹۷ فی صد لوگ ان حملوں کو منفی نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ طے ہے کہ یہ انتخابات میں ایک کلیدی مسئلہ ہوگا۔ پاکستان کی خودمختاری پر ایک اور حملہ سمجھتے ہوئے اس نے ملک میں امریکا دشمن شدید جذبات کو مزید طاقت ور بنا دیا ہے۔(http://www. newstatesmen.com )

بات صرف پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے اس دوٹوک اعلان تک محدود نہیں کہ امریکا کے ڈرون حملے ہوں، یا امریکی افواج یا نیم فوجی عناصر کی ہماری سرزمین پر موجودگی اور خفیہ کارروائیاں، انھیں ختم ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ان کی حقیقی نوعیت دراصل یہ ہے:

ا : یہ پاکستان (یا جس ملک میں بھی یہ کارروائیاں ہوں، اس ملک) کی حاکمیت اور آزادی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ب: انھیں عملاً اس ملک اور قوم کے خلاف ’اقدامِ جنگ‘ شمار کیا جائے گا جو عالمی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی تعلقات کی روایات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ج: ان کے نتیجے میں غیرمتحارب عام شہریوں کی بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوتی ہیں جو  نشانہ لے کر قتل کرنے (targettted assasination) کی تعریف میں آتی ہیں اور انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ نیز عام انسانوں کی بڑی تعداد زخمی اور بے گھر ہوتی ہے جو خود عالمی قانون اور روایات کی رُو سے جرم ہے اور اس کی قرارواقعی تلافی (compensation) کو قانون کا کم سے کم تقاضا شمار کیا جاتا ہے۔

د: تمام شواہد گواہ ہیں کہ یہ پالیسی اپنے اعلان کردہ مقصد، یعنی دہشت گردی کو ختم کرنے اور خون خرابے کو قابو کرنے یا کم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس کے نتیجے میں دوسرے تمام نقصانات کے ساتھ خود دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، اور متعلقہ اقوام اور ممالک کے خلاف نفرت اور شدید ردعمل کے جذبات میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔

’دھشت گردی‘ کی جنگ کے خلاف عالمی ردعمل

یہ وہ حقائق ہیں جن کو اب عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جا رہا ہے جس کے صرف چند شواہد ہم پیش کرتے ہیں: (بلامبالغہ گذشتہ چند برسوں میں میرے علم میں ایک درجن سے زیادہ کتب اور ۱۰۰ سے زیادہ مضامین آئے ہیں جن میں کسی نہ کسی شکل میں اس ردعمل کا اعتراف کیا جارہاہے)۔

لندن کے اخبار دی گارڈین میں سیماس ملر اپنے مضمون America's Murderous Drone Campaign is Fuelling Terror (امریکا کی قاتلانہ ڈرون مہم دہشت گردی کو ایندھن فراہم کر رہی ہے) کے عنوان کے تحت رقم طراز ہے:

جارج بش کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو شروع کرنے کے ۱۰سال بعد یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ کم ہورہی ہے۔ امریکا کا عراق پر فوجی قبضہ ختم ہوچکا ہے اور ناٹو افغانستان سے باہر نکلنے کا راستہ دیکھ رہی ہے، گو کہ قتل و غارت جاری ہے۔ لیکن دوسری جانب غیرعلانیہ ڈرون جنگ، جو ہزاروں انسانوں کو ہلاک کرچکی ہے، اب نہایت تیزی سے بغیر کسی روک کے بڑھائی جارہی ہے۔ پاکستان سے صومالیہ تک سی آئی اے کے بغیر پائلٹ کے جہاز مشتبہ دہشت گردوں کی ہمیشہ بڑھتی رہنے والی ہٹ لسٹ پر ہیل فائر میزائلوں کی بارش برساد یتے ہیں۔ ابھی بھی وہ سیکڑوں شاید ہزاروں شہریوں کو اس عمل میں ہلاک کرچکے ہیں۔ اس ماہ یمن میں کم از کم ۱۵ ڈرون حملے ہوئے ہیں اور اتنے ہی گذشتہ پورے عشرے میں ہوئے ہیں اور درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گذشتہ ہفتے پاکستان میں بھی ڈرون حملوں کا ایک سلسلہ مفروضہ شدت پسند اہداف کو نشانہ بناکر شروع کیا گیا ہے۔ ۳۵؍افراد جل گئے اور ایک مسجد اور بیکری بھی زد میں آئی۔

درحقیقت یہ ہلاکتیں فوری قتل (summary executions) ہیں جنھیں عام طور پر بین الاقوامی قانون دان بشمول اقوام متحدہ کے ماوراے عدالت ہلاکتوں کے اسپیشل رپورٹر فلپ آلسٹون، امکانی جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔ سی آئی اے کے ریٹائرڈ کونسل نے جو ڈرون حملے کی منظوری دیتے تھے خود اپنے بارے میں کہا کہ وہ قتل میںملوث رہے ہیں۔

تمام ناٹو ریاستوں میں افغانستان کی جنگ کی حمایت نچلی ترین سطح پر آچکی ہے۔ امریکا میں ڈرون جنگ مقبول ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، اس لیے کہ اس سے امریکی افواج کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ کوئی برابری کا مقابلہ تو ہے نہیں، جب کہ  دہشت گرد مارے جارہے ہیں۔لیکن یہ ہائی ٹیک موت کے دستے ایک خطرناک عالمی مثال قائم کرر ہے ہیں جس سے امریکا کی سلامتی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

ایک عشرہ پہلے ناقدوں نے متنبہ کیاتھا کہ یہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دہشت گردی کو ختم کرنے کے بجاے اس میں اضافہ کرے گی۔ بالکل یہی ہوا۔ اوباما نے ان مہموں کا نام بیرون ملک حسب ضرورت آپریشن رکھ دیا ہے، اور اب اس کا زور زمین پر بوٹوں کے بجاے روبوٹس پر ہے۔

 لیکن جیساکہ پاکستان کے غیرمستحکم ہونے اور یمن میں القاعدہ کی طاقت میں اضافہ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا اثر ایک جیسا ہی ہے۔ ڈرون جنگ مسلم دنیا پر مسلط ایک سفاک جنگ ہے جس سے امریکاسے نفرت کو غذا مل رہی ہے اور دہشت گردی کو ایندھن فراہم ہو رہا ہے، اس سے لڑا نہیں جا رہا۔(دی گارڈین، ۲۹مئی ۲۰۱۲ئ)

بین الاقوامی قانون کا ماہر اور برطانیہ کا چوٹی کا قانون دان اور کئی کتابوں کا مصنف  کوئیس کونسل جیفرے رابرٹسن نیو اسٹیٹس مین میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتا ہے:

ایک احساس یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون ناکام ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ۵۱ کا صرف اُن حملوں پر اطلاق ہوتا ہے جو دوسری ریاستیں کریں نہ کہ دہشت گرد گروپ۔ کسی نے بھی ابھی تک جنگ اور قانون کے اس معاملے پر دہشت گردی کا اطلاق کرنے کا نوٹس نہیں لیا۔ جنیوا کنونشن اور معمول کے حقوق کا دہشت گرد اور قانون نافذ کرنے والے پر یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔ اگر اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور حماس کے کمانڈروں کو ہلاک کرنا قانوناً جائز ہے، تو ان کے لیے بارک اوباما، بن یامین نیتن یاہو، ان کے جرنیلوں اور حلیفوں کو قتل کرنا بھی جائزہے، حتیٰ کہ ملکہ بھی سربراہِ ریاست ہونے کے ناتے اس فہرست میں آسکتی ہے۔

جو لوگ دہشت گردی پھیلانے کے لیے معصوم شہریوں کی جانیں لیتے ہیں، ان کے ساتھ خطرناک ملزموں کا برتائو کیا جانا چاہیے اور جب ضرورت ہو، انھیں قتل کیا جانا چاہیے، نہ کہ ان کو وہ مقام دیا جائے جو ان جنگ جوئوں کا ہوتا ہے جو ریاستوں سے برسرِجنگ ہوں۔

انسانی حقوق کے قانون کے تحت کیا صورت حال ہوگی؟ اگر دہشت گردوں کے ہمدردوں کو دوسروں کی حوصلہ شکنی کے لیے نشانہ بنایا جائے، جب کہ گرفتاری ممکن ہو، تو یہ انسان کے حقِ زندگی کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔ جو دہشت گرد شہریوں کو مارنے کے مشن پر مامور ہوں یا ان سازشوں میں شریک ہوں جو انھیں مارنے کے لیے کی جائیں، انھیں ہلاک کرنا معقول بات ہوگی۔لیکن ڈرون حملوں کا ریکارڈ یہ بتاتاہے کہ افراد کو اس وقت نشانہ بنایا جاتا ہے جب ان کی طرف سے کوئی واضح یا فوری خطرہ نہ ہو۔

یمن اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں ان افراد کو ہدف بنایا گیا جو مسلح تھے یا سازشی اجتماعات میں تھے لیکن دوسروں کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ کسی شادی یا جنازے میں شریک ہیں، یا کسی مسجد یا ہسپتال سے باہر آرہے تھے۔ پاکستان میں یہ واقعات بھی ہوئے کہ پاکستان کے حامی لیڈروں ، ان کے اہل و عیال، حتیٰ کہ فوجی جوانوں کو بھی غلطی سے قتل کیا گیا ہے۔ ان حملوں نے امریکا کے ایک ایسی قوم سے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے جو سیاسی طور پر دبائو کا شکار ہے، ایٹمی اسلحے سے مسلح ہے اور اس کے ساتھ برسرِجنگ نہیں ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے سی آئی اے کو اہداف کے انتخاب کے لیے کھلی چھٹی دے دی ہے اور اسے قانون کے پروفیسر Koh کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے، جو اَب ایک جلاد ہے۔ جو لوگ نیو ادا میں بیٹھ کر ہیل فائر کے بٹن دباتے ہیں، یہ سوچنے کے لیے لمحہ بھر نہیں رُکتے کہ ان کا ہدف واقعی برسرِجنگ ہے۔ فہرست میں شامل کرنے یا قتل کرنے کے معیارات کے بارے میں اندازہ لگانے کا کوئی مقصد نہیں، اس لیے کہ عدالت کے دائرۂ کار اور فریڈیم آف انفارمیشن ایکٹ کی دفعات سے ماورا یہ سی آئی اے کا خفیہ استحقاق ہے۔

ایک خیال یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون ناکام ہوچکا ہے۔ یو این چارٹر، کنونشنز اور عدالتوں کی معمول کی کارروائیوں میں بے جوڑ لڑائیاں لڑنے کے لیے کوئی اطمینان بخش رہنمائی نہیں دی گئی ہے۔ اسی لیے ریاستوں کی خاموشی ہے اور حال ہی میں یو این کے ہیومن رائٹس کمشنر کی ایک درخواست سامنے آئی ہے کہ قانون کی فوری وضاحت کی جائے۔ آگے جانے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے ہوسکتا ہے کہ قابلِ لحاظ فوج اور متناسب طاقت کے لیے پیچھے جانے کا راستہ ڈھونڈنا ہو۔ فی الحال بہت سی ڈرون ہلاکتوں کو فوری قتل کہا جاسکتا ہے۔ جیساکہ سرخ ملکہ کی سزا ظاہر کرتی ہے کہ فیصلہ پہلے، مقدمہ بعد میں، جو حقِ زندگی، معصوم فرض کرنے کے حق اور مقدمے کی منصفانہ سماعت کے حق سے انکار کرتا ہے۔ (’’ڈرون حملے کتاب میں درج انسانی حقوق کے ہراصول کے خلاف ہیں‘‘، جیفرے رابرٹسن، نیو اسٹیٹس مین، ۱۳ جون ۲۰۱۲ئ)

ظلم یہ ہے کہ ان حملوں میں جو افراد بھی مارے جاتے ہیں، انھیں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایک پاکستانی میجر جنرل محمود غیور صاحب تک نے مارچ ۲۰۱۲ء میں ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۰ تک شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں کی توجیہ کرتے ہوئے بلاکسی ثبوت کے یہ تک فرما دیا کہ a majority of those eliminated are terrorists, including foreign terrorist elements. (مارے جانے والوں کی اکثریت دہشت گرد ہوتی ہے اور ان میں غیرملکی دہشت گرد بھی شامل ہوتے ہیں) حالانکہ تمام وہ ادارے جو کسی درجے میں بھی ان اُمور پر تحقیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہہ رہے ہیں شہریوں کی اموات غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں۔ امریکا کے مشہور تحقیقی ادارے  بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے بارے میں کہا گیا ہے:

درست اعدادو شمار جمع کرنا مشکل ہے مگر مقامی افراد کہتے ہیں کہ وزیرستان میں ۳ہزار ہلاکتوں میں صرف ۱۸۵ القاعدہ کے نشان زد سرگرم افراد تھے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کا تخمینہ ہے کہ ہرجنگ جُو کے ساتھ ۱۰ شہری بھی ہلاک ہوتے ہیں۔ (نیو اسٹیٹس مین، ۱۳جون ۲۰۱۲ئ)

پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکت کے سلسلے میں تازہ ترین معلومات سٹیٹ آف پاکستان کی کمیٹی براے دفاع و دفاعی پیداوار کی جولائی ۲۰۱۲ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ایک چارٹ کی شکل میں دی گئی ہے جو گھر کی گواہی (شَھِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا)   کے مصداق ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں:عسکریت پسند :۶۴۶، عام شہری: ۱۵۷۶، خواتین و بچے: ۵۶۵ کُل: ۲۷۸۷۔

یہ اعدادو شمار ۲۰۱۲-۲۰۰۴ء تک کے ڈرون حملوں کے سلسلے میں دیے گئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ ڈیفنس کمیٹی کے سامنے پیش کردہ معلومات کی بنیاد پر ۲ہزار ۷سو ۸۷ میں سے صرف ۶۴۶؍افراد پر عسکریت پسندی کا شبہہ تھا، باقی ۲ہزار ایک سو۴۱ عام شہری تھے جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد ۵۶۵ تھی۔

خود امریکا کا ایک اور ادارے American Civil Liberties Union  اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان، یمن اور صومالیہ میں امریکی ڈرون حملوںکے نتیجے میں ۴ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد شہریوں کی تھی۔

اس رپورٹ میں اس حقیقت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ پہلے افراد کو نشانہ بنایا جاتا تھا اور اب ہدف علاقوں اور اجتماعات کو بنایا جارہا ہے جن کے بارے میں محض فضائی نگرنی کی بنیاد پر میزائل داغ دیے جاتے ہیں۔ اس طرح اجتماعی اموات واقع ہورہی ہیں۔ اس کے لیے امریکی سیکورٹی کے اداروں نے ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے، یعنی "signature strikes" اور خود اوباما صاحب نے اس کی اجازت بلکہ ہدایت دی ہے۔

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے ڈائرکٹر ایان سیڈرمن نے اس لاقانونیت کے بارے میں کہا ہے کہ: بین الاقوامی قانون کے ڈھانچے کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا تھا۔ (Drone strikes threaten 50 years of International Law by Owen Bowcott، دی گارڈین، ۲۱ جون ۲۰۱۲ئ)

محض شبہے کی بنیاد پر یا لباس اور ڈاڑھی کے ’جرم‘ میں امریکا کی نگاہ میں مشتبہ علاقوں میں کسی بھی ایسے مرد یا مردوں کے اجتماع کو ہدف بنایا جاسکتا ہے جو ۱۵ سے ۶۰ سال کی عمر کا ہو اور ان علاقوں میں پایا جائے۔ دہشت گرد کی یہ وہ نئی تعریف ہے جو امریکا نے وضع کی ہے اور جس کے مطابق وہ اب پاکستانی فوج سے ،اقدام کرانے پر تُلا ہوا ہے۔

اس سے زیادہ ظلم اور انسانی جانوں کے ساتھ خطرناک اور خونیں کھیل کی کیا مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں جنوبی افریقہ کے ایک پروفیسر اور ماوراے عدالت ہلاکتوں کے اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے کرسٹاف ہینز نے ان تمام اقدامات کو ’جنگی جرائم‘ (war crimes) قرار دیا۔ اس نے اس امر پر شدید اضطراب کا اظہار کیا کہ نہ صرف ایک خاص شخص یا جگہ کو ہدف بنایا جا رہا ہے بلکہ ان افراد اور اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں لوگ ہلاک ہونے والوں کی تجہیزو تکفین میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس سار خونیں کھیل پر اس نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ بھی کہا ہے کہ:

اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ۲۰۱۲ء میں ہونے والی کتنی ہلاکتوں کا جواز ۲۰۰۱ء میں ہونے والے واقعے کے ردعمل سے فراہم ہوتا ہے۔

اس میں یہ اضافہ بھی ضروری ہے کہ ۲۰۰۱ء میں نیویارک میں ہونے والے واقعے کے بدلے میں پاکستان اور افغانستان میں یہ کھیل کھیلا جارہا ہے، جب کہ نیویارک میں مبینہ دہشت گردوں میں کسی کا بھی تعلق پاکستان یا افغانستان سے نہیں تھا۔

تقریباً تمام ہی سنجیدہ تحقیق کرنے والے افراد اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور خاص طور پر ڈرون حملوں سے دہشت گردی میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ان اسباب کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے جو دہشت گردی کو  جنم دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب رابرٹ پیپ اور جیمز فولڈمین کی ہے جو ۲۰۱۰ء  تک سے دہشت گردی کے تمام واقعات کے بے لاگ علمی جائزے پر مبنی ہے اور جس میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی کی مکمل ناکامی کو علمی دلائل اور اعداد و شمار کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔(دیکھیے: Cutting the Fuse، عالمی خودکش دہشت گردی کا دھماکا اور کیسے اس کو روکا جائے، رابرٹ اے پیپ، جیمز کے فلڈمین، یونی ورسٹی آف شکاگو پریس، شکاگو ، ۲۰۱۰ئ)

خاص طور پر ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا اور جرمنی کے دو پروفیسروں کی تحقیق بھی اس نتیجے کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے ہم بھی بہ چشم سر دیکھ رہے ہیں۔ البتہ اگر کسی کو یہ نظر نہیں آتی  تو وہ امریکی اور پاکستانی قیادت ہے!

امریکی رسالہ فارن پالیسی کے مئی اور جون کے شمارے میں ان کی تحقیق کا ماحصل  خود ان دونوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کی دہشت گردی پر ڈرون حملوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ ان کا بدترین پہلو یہ ہے کہ یہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو مختصر وقت میں بڑھا دیتے ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ء سے ستمبر ۲۰۱۱ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو ہم نے پایا کہ القاعدہ اور طالبان کے افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں پر ڈرون حملے غیر مؤثر ہیں۔ دوسری طرف ڈرون حملوں کے بعد ہفتوں تک پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کے حملوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے جب ڈرون حملے اپنے ٹارگٹ کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

اگرچہ بعض ڈرون حملے مختلف نوعیت کے مقاصد پورے کرتے ہیں لیکن ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ وہ القاعدہ اور طالبان کی افغانستان میں دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہیں۔ پاکستان میں ایک مختصر مدت کے لیے دہشت گردی بڑھا دیتے ہیں۔ اگر اوباما کی حکمت عملی کے مقاصد میں ایک محفوظ پاکستان ہے تو ان کو اندازہ ہوگا کہ ڈرون حملے اپنے مقاصد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ (فارن پالیسی، مئی جون ۲۰۱۲ئ، ص ۱۱۰)

جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ ہمارے پاس حوالوں کی بھرمار ہے لیکن جگہ کی قلت کے باعث صرف ان چند حوالوں پر اکتفا کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد توجہ کو اصل ایشوز پر مرکوز کرنا ہے۔

لبرل دانش وروں کی دیدہ دلیری

یہ تصویر کا ایک پہلو ہے جس میں امریکا کا کردار، وہ عالم گیر تباہی جو اس جنگ کے نتیجے میں رُونما ہوئی ہے اور پاکستان کی وہ درگت جو اس جنگ میں امریکا کے آلۂ کار بننے کی وجہ سے ہمارا مقدر بن گئی ہے(اس سلسلے میں ترجمان کے جولائی اور اگست ۲۰۱۲ء کے شماروں میں شائع ہونے والے ’اشارات ‘ کو ذہن میں تازہ کرنا مفید ہوگا)،لیکن اس تصویر کا دوسرا رُخ اور بھی ہولناک، شرم ناک اور خون کھولا دینے والا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پر بھی کھل کر بات ہو اور قوم کو تمام حقائق سے بے کم و کاست روشناس کرایا جائے۔ ہماری تاریخ میں جو کردار عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ ابن سبا سے لے کر میرجعفر اور میرصادق تک انجام دیتے رہے ہیں، آج بھی ایسے ہی کرداروں سے ہمارا سابقہ ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ آج انھیں دانش وروں، صحافیوں اور میڈیا کے گوئبلز ٭کی اعانت بھی حاصل ہوگئی ہے۔یہ کردار امریکا سے پاکستان تک ان اداکاروں کی ایک فوج ظفرموج کا ہے جو پوری دیدہ دلیری کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ ضمناً لبرل لابی کے ایک اہم اخبار ایکسپریس ٹربیون ( ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ) میں لبرل صحافیوں کے سرخیل خالد احمد کے ایک تازہ ترین مضمون میں ایک اعتراف سے ناظرین کو روشناس کرانادل چسپی کا باعث ہوگا کہ ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘۔ ان کا اشارہ ملک کی سپریم کورٹ کے موقف اور لبرل حلقوں کی سوچ کے درمیان پائے جانے والے بُعد کی طرف ہے لیکن یہ بات صرف سپریم کورٹ کے آزاد اور عوام دوست رویے تک محدود نہیں۔ امریکا کے کردار، ڈرون حملوں کی توجیہ اور اب شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے زمین ہموار کرنے سے متعلق تمام ہی امور پر صادق آتی ہے:

ایک حالیہ ٹی وی مباحثے میں میرے پسندیدہ وکیل سلمان اکرم راجا نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ان آرا کا ۸۰ فی صد جو پاکستان میں انگلش میڈیم پریس میں چھپتا ہے، ہماری فعال عدلیہ کے حق میں نہیں ہے۔ دوسری طرف اُردو میڈیا میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں میں عمومی اتفاق راے پایا جاتا ہے۔

پاکستانی قوم پرستی کی زبان اُردو ہے۔ اُردو میڈیم تعلیم کی مارکیٹ پر ریاست کو غلبہ حاصل ہے۔ ذریعۂ اظہار کے طور پر اُردو کی شاعری اور جذباتی اظہار میں مضبوط بنیادیں ہیں۔ جدید زبان میں معاشیات اور اس کا بتدریج اثرانداز ہونے والا نظریے کے بجاے موقع پرستی کا پیغام ابھی تک اُردو میں داخل نہیں ہوا۔ انگلش میڈیم تعلیم کی مارکیٹ میں کرسچین مشنری اسکولوں نے جگہ بنائی جن کا امتحان بیرونی ادارے سے ہوتا ہے۔ یہاں کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ بنیاد پرستانہ نظریے کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ اُردو  کالم نگار نے کچھ حقائق کو یکساں طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ جب وہ قومی معیشت کی بات کرتا ہے تو آئی ایم ایف اور مغرب مخالف ہوتا ہے۔ وہ اسلام کے خلاف خصوصاً پاکستان کے خلاف ایک عالمی سازش پہ یقین رکھتا ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ پوری دنیا میں امریکا بھارت کے ہندووں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملے کی قیادت کر رہا ہے۔

 جب بھارت سے تعلقات پر بات ہو رہی ہو، تو وہ ایک لڑاکا ہے اور اسے یقین ہے کہ پاکستان کی لبرل سوسائٹی غدار ہے، اور یہ کہ پورے ملک میں کام کرنے والی این جی اوز ایجنٹ ہیں اور غداری کی مرتکب ہورہی ہیں۔

پاکستان میں قوم پرستی کا اظہار انگریزی کے مقابلے میں اُردو میں زیادہ ہوتا ہے۔ حالانکہ قوم پرستی قومی معیشت کو تباہ کردیتی ہے۔(دی ایکسپریس ٹربیون، ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ئ)

بات زبان کی نہیں ذہن کی ہے۔ تعلیمی پس منظر کی نہیں، فکری اور سیاسی وفاداری کی ہے۔ قومی مفاد اور مفاد پرستی کی ہے۔ البتہ اس تحریر کے آئینے میں پاکستان کی قسمت سے کھیلنے اور پاکستان کو ان مشکل حالات میں دلدل سے نکالنے والے کرداروں کی تصویر بھی دیکھی جاسکتی ہے، جو غالباً صاحب ِ مضمون کا تو اصل مقصد نہ تھا مگر اس تحریر سے وہ ذہن پوری طرح سامنے آجاتا ہے جس کی نگاہ میں نہ قومی حاکمیت، آزادی اور عزت کی کوئی اہمیت ہے اور نہ حقیقی قوم پرستی کوئی مقدس شے ہے ۔ اس اخبار نے چند دن پہلے ادارتی کالم میں یہ تک لکھ دیا ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے اور جو لوگ حاکمیت (sovereignity) اور قومی مفاد کی بات کرکے امریکا سے تعلقات کے اس نام نہاد نئے باب اور ناٹو سپلائی کی بحالی پر گرفت کر رہے ہیں، وہ زمانے کے تقاضوں سے ناواقف ہیں۔ ہمارے یہ دانش ور بھول جاتے ہیں کہ برطانوی اقتدار کے دور میں بھی ہمیں یہی سبق سکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ   ع

چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

لیکن بالآخر تاریخ کا دھارا ان لوگوں نے موڑا جو محض طاقت اور غلبے کی چمک دمک سے مرعوب نہیں ہوتے اور اپنے عقائد، نظریات اور حقیقی قومی مفادات کے لیے زمانے کو بدلنے کی جدوجہد کرتے ہیں، یعنی زمانہ با تو نہ سازد تو بازمانہ ستیز۔

جملۂ معترضہ ذرا طویل ہوگیا لیکن جن حقائق کو ہم اب قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ان کو سمجھنے میں اس ذہن کو سامنے رکھنے اور معاشرے کے اس نظریاتی اور اخلاقی تقسیم کو سمجھنا ضروری ہے جو ہمارے بہت سے مسائل اور مشکلات کی جڑ ہے۔

ڈرون حملے اور سیاسی و عسکری قیادت کا اصل چھرہ

ناٹو سپلائی کی بحالی اور امریکا سے تعلقات کو امریکی احکام اور مفادات کے مطابق ڈھالنے کا جو کام موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت انجام دے رہی ہے، وہ ڈھکے چھپے انداز میں تو ایک مدت سے جاری ہے مگر ۲۰۰۱ء کے بعد اس کا رنگ اور بھی زیادہ چوکھا ہوگیا تھا۔ پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ئ، ۱۴؍مئی ۲۰۱۱ء اور اپریل ۲۰۱۲ء کی قراردادیں ایک بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ یہ قراردادیں عوامی جذبات اور عزائم سے ہم آہنگ تھیں اور ۲۷؍نومبر ۲۰۱۱ء کی کھلی امریکی جارحیت اور اس کے بعد اس کی رعونت نے اس کے لیے پالیسی میں تبدیلی کا ایک تاریخی موقع بھی فراہم کیا تھا لیکن جس نوعیت کی قیادت بدقسمتی سے ملک پر مسلط ہے اس نے اس موقعے کو ضائع کرتے ہوئے اب زیادہ کھلے انداز میں امریکی غلامی اور کاسہ لیسی کے راستے کو اختیار کرلیا ہے۔ یہی وہ تاریخی لمحہ ہے جب قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اب اسے پاکستان کی تقدیر کن لوگوں کے ہاتھوں میں دینی ہے ___ وہی قیادت جو قومی مفادات اور قومی آزادی اور وقار کا سودا کرتی رہی ہے یا  ایسی نئی قیادت جو ایمان، آزادی، عزت اور قومی مفادات کی حفاظت کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دَور سے اب تک کی قیادت کی جو اصل تصویر امریکا اور مغرب کے پالیسی ساز اور راے عامہ کو بنانے والے ادارے اور افراد کی پسندیدہ تصویر ہے، وہ اب قوم کے سامنے بھی بے حجاب آجائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔

ڈیوڈ سانگر کی کتاب Confront and Conceal اس وقت امریکا اور پاکستان میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ہم نے اگست کے ’اشارات‘ میں اس سے کچھ اہم اقتباسات پیش کیے تھے۔ New York Review of Books نے اپنی تازہ ترین اشاعت (۱۶؍اگست ۲۰۱۲ئ) میں اس پر مفصل تبصرہ کیا ہے اور اسے امریکا کی پالیسی کے لیے ایک آئینے کی حیثیت دی ہے۔ اس میں ہماری قیادت کی کیا تصویر ہمارے سامنے آتی ہے، اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، کہ امریکا کو ایسی ہی قیادت مطلوب ہے۔

جہاں تک پاکستانی عوام کے جذبات اور ترجیحات کا تعلق ہے ڈیوڈ سانگر بالکل اچھی طرح جانتا اور اعتراف کرتا ہے کہ:

پاکستانیوں سے اوباما کے دورِ صدارت کے کارناموں کے بارے میں پوچھیے تو ڈرون حملوں سے شہریوں کی ہلاکت کے موضوع پر شروع ہوجائیں گے۔ (ص xviii)

وہ پاکستانی عوام کے اصل اضطراب کا بھی شعور رکھتے ہیں!

 پاکستانیوں نے جو سوال مجھ سے کیا وہ یہ تھا کہ پاکستان میں اور کتنے ریمنڈ ڈیوس گھوم رہے ہیں اور ہم ان کے بارے میں نہیں جانتے۔

یہ تو عوام کے جذبات ہیں لیکن جو برسرِاقتدار ہیں، ان کی کہانی کیا ہے؟ یہ بھی سن لیجیے:

لوگر اعتراف کرتا ہے کہ ’’ڈرون حملے اہلِ پاکستان کی نگاہ میں بجا طور پر پاکستان کی حاکمیت کی خلاف ورزی ہیں‘‘ (ص ۱۳۵)۔ نیز یہ حملے ’ایک جنگی عمل‘ (an act of war) شمار کیے جائیں گے (ص ۱۳۷)۔ یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ یہ اقدام ناجائز ہیں جو قتل عمد کے مترادف ہیں (ص ۲۵۳)۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ چشم کشا اوردل خراش انکشاف محض سیاسی قیادت کے بارے میں ہی نہیں، فوجی قیادت کے بارے میں بھی کرتا ہے، یعنی خود آئی ایس آئی نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف نے ان کی اجازت دی تھی:

آئی ایس آئی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ملک میں جو کوئی بھی امریکی خفیہ اہل کار ہے،   اس کے بارے میں بتایا جائے اور ڈرون حملے بند کیے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ جب مشرف مُلک چلا رہا تھا تو واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان حملوں کی اجازت کا ایک خفیہ معاہدہ تھا لیکن یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ڈرونز کی تعداد بڑھائی گئی اور ڈرون حشرات الارض کی طرح نکل آئے اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی عوام کا غم و غصہ بھی۔ اب دُور سے، بہت دُور سے ایک ڈرون حملہ پاکستان پر لانچ کیا جاسکتا ہے۔ امریکی یہ ظاہر کرتے تھے کہ انھوں نے اس مطالبے کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ اوباما کے لیے ڈرونز ہی وہ واحد چیزتھے جو پاکستان میں نتائج دے رہے تھے۔(Confront and Conceal: Obama's Secret Wars and Surprising Use of American Power, by David E. Sanger, Crown Publisher, New York, 2012, p. 87-88)

یہ بات ۲۵ نومبر کے واقعے کے بعد ہوئی ہے۔ ۴جولائی نے پھر ہمیں وہیں پہنچا دیا ہے جہاں یہ بدقسمت ملک مشرف کے دور میں تھا  ع

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

سیاسی اور عسکری قیادت کا چہرہ ایک بار پھر اس آئینے میں یوں دکھایا جاتا ہے۔ گو، اب چہرے کچھ نئے ہیں:

اپریل ۲۰۱۲ء میں پاکستانیوں نے اوباما ڈاکٹرائن کے لیے بہت بڑا چیلنج پیش کیا۔ اس وقت تک امریکا نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ۲۵۰ امریکی ڈرون حملوں کا یہ کہہ کردفاع کیا تھا کہ ان حملوں کو کرنے کے لیے انھیں حکومت کی منظوری حاصل تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منظوری کو کبھی عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ منظوری جنرل کیانی اور    اس کے فوجی ساتھیوں سے حاصل کی گئی تھی نہ کہ منتخب قیادت سے۔ یہ بڑی حد تک   لفظی منظوری تھی۔ پھر جب پاکستانی پارلیمنٹ نے امریکا کے ساتھ تعلقات کا ایک مکمل جائزہ لیا تو اس نے بہت بڑی اکثریت کے ساتھ پاکستانی علاقے پر ڈرون حملوں سے منع کیا۔ یہ مطالبہ اوباما کے اس موقف کے لیے ایک چیلنج تھا کہ وہ امریکا کے سلامتی کے مفادات کی حفاظت افواج کے باقاعدہ استعمال کے بغیر کرسکیں گے، جب کہ اس طرح ہم جمہوری حکومت کی خودمختاری کا احترام بھی کریں گے۔(ص ۱۳۶)

داد دیجیے کہ ایک جمہوری ملک کی حاکمیت کا ڈرون حملوں کی بارش کے ساتھ کس عیاری سے ’احترام‘ کیا جا رہا ہے اور ملک کی فوجی قیادت کس طرح وہی کردار ادا کرتی نظر آرہی ہے جو سیاسی قیادت نے انجام دیا تھا۔ لیکن دل تھام کر بیٹھیے۔ اس کتاب کے صفحہ ۲۵۸ پر یہ چشم کشا انکشاف بھی موجود ہے کہ ہماری قیادت نے ان حملوں کی افادیت کا اعتراف بھی کیا ہے اور جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ میجر جنرل محمود غیور٭ کے بیان سے بھی اس کی توثیق ہوتی ہے:

ایک سینیرخفیہ اہل کار کا (جو پروگرام کی نگرانی کا ذمہ دار ہے) اصرار ہے کہ امریکا ان قواعد کی پابندی کرتا ہے۔ اگر ایک ملک میں کوئی باقاعدہ حکومت ہو تو ہم اسے میزبان حکومت کی اجازت سے استعمال کرتے ہیں۔ جب میں نے اس سے چاہا کہ وہ تفصیل بتائے کہ روزمرہ ’حملہ کریں یا نہ کریں‘ کے فیصلے کس طرح کیے جاتے ہیں؟ تو اس نے کہا: اگر وہ نہ چاہیں تو ہم عام طور پر حملے نہیں کرتے، الا یہ کہ ہماری افواج کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہو۔

بلاشبہہ عملاً واشنگٹن اور دنیا کے لیڈروں کے درمیان ڈرون کے استعمال کے بارے میں نازک توازن کبھی اس طرح واضح ہوتا اور نہ اجازتیں اس طرح واضح ہوتی ہیں جیسے  اگر کوئی امریکی اہل کاروں کی باتوں کو سنے تو سوچ سکتا ہے۔ وکی لیکس کے ذریعے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جو پیغامات شائع ہوئے ہیں، ان سے ڈرون کے استعمال کی  عجیب و غریب صورت حال زیادہ واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں پاکستان آرمی کے چیف آف اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دورے پر آئے ہوئے امریکی ایڈمرل ولیم جے فالن کو القاعدہ کے گڑھ وزیرستان پر مسلسل اور مستقل ڈرون کوریج کے لیے کہا۔

چھے ماہ بعد یہ پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھا جو قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں پر ڈرون حملوں کے بارے میں خود اپنے وزیرداخلہ کے اعتراضات کو مسترد کر رہا تھا اور امریکی سفیر اینی پیٹرسن کو یہ کہہ رہا تھا: ’’مجھے اس کی پروا نہیں، یہ اسے اس وقت تک کرتے رہیں جب تک مطلوب آدمی نہیں ملتے‘‘۔ جیسے ہی یہ باتیں عوام میں آئیں، اوریقینا بن لادن آپریشن کے بعدانھی پاکستانی افسروں نے ملک کے اندر ڈرون حملوں کو ملک کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے روکنے کا مطالبہ کیا۔ (ص ۲۵۸-۲۵۹)

۴جولائی کے بعد ڈرون حملوں کا جاری رہنا اور شمالی وزیرستان میں مشترک یا امریکی معلومات کی فراہمی پر پاکستانی فوجیوں کی کارروائی کے عندیے نے نہ صرف مشرف، زرداری، گیلانی، کیانی کی سابقہ حکمت عملی کی بحالی کا منظرنامہ پیش کرنا شروع کر دیا ہے، بلکہ اب عملاً کھلی اجازت  کا سماں ہے اور کوئی پردہ باقی نہیں نظر آرہا۔ صرف ریکارڈ کے لیے یہ بات بھی اس سلسلے میں بیان کرنا ضروری ہے کہ زرداری صاحب نے بنفس نفیس نومبر ۲۰۰۸ء میں امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں مشرف کی پالیسی کو جاری رکھنے کی اشیرباددی تھی جس کا واضح بیان باب ووڈورڈ کی کتاب Obama's Warsمیں ان الفاظ میں پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے:

۱۲ نومبر (بدھ) کو امریکا کے سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیک ہیڈن نیویارک گئے تاکہ ڈرون حملوں پر پاکستان کے صدر سے بات چیت کرسکیں۔ ۶۳سالہ ہیڈن ایئرفورس کا چار ستاروں والا جنرل ہے جو ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۵ء تک این ایس اے کا ڈائرکٹر رہا۔ پاکستانی صدر اور ہیڈن کی ایک گھنٹے کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ زرداری چاہتا تھا کہ ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت سے ہونے والی کشیدہ فضا کو دُور کیا جائے۔

وہ ستمبر میں صدر بنا تھا اور اپنی پسندیدگی کی شرح میں کمی برداشت کرسکتا تھا۔ معصوم لوگوں کی ہلاکت القاعدہ سے معاملات کرنے کی قیمت تھی۔ زرداری نے کہا: سینیرز کو ہلاک کردیں۔ امریکیو! تمھیں ضمنی نقصان پریشان کرتا ہے، یہ مجھے پریشان نہیں کرتا۔ زرداری نے سی آئی اے کو سبز جھنڈی دکھا دی۔ ہیڈن نے حمایت کی تحسین کی لیکن اسے معلوم تھا کہ القاعدہ کو تباہ کرنے کا مقصد اس سے حاصل نہیں ہوسکے گا۔      (ص ۲۵۸-۲۵۹)۔ (Obama's Wars The Inside Story by Bob Woodwork, Simon and Schuster, 2010, pp. 25-26)

رہا معاملہ ہمارے سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کا، تو کچھ ذکر تو ان کا اُوپر آگیا ہے لیکن پوری بات ذرا زیادہ صاف الفاظ میں اناطول لیون نے اپنی کتاب میں جو  حیرت انگیز طور پر پاکستان کے خلاف آنے والی کتابوں کی یلغار میں نسبتاً متوازن اور ہمدردانہ علمی پیش کش ہے اور پاکستان میں طویل قیام کے بعد لکھی گئی ہے، بیان کی ہے اور سنجیدہ غوروفکر کی متقاضی ہے۔ یہ بات لیون نے اپنے گہرے غوروخوض اور تجزیے کے نتیجے میں امریکی اور برطانوی پالیسی سازوں کو مخاطب کرکے کہی ہے۔ کاش! پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت بھی اس کو قابلِ توجہ سمجھے:

اس بات پر باوجود حکومتی تردید کے عام طور پر یقین کیا جا رہا تھا کہ پاکستانی ہائی کمانڈ اور حکومت نے امریکا کو معلومات فراہم کی ہیں تاکہ پاکستانی طالبان لیڈروں پر حملہ کیا جاسکے۔ اس کی تصدیق وکی لیکس نے بھی کی ہے۔ جیساکہ ۲۰۰۸ء میں امریکی حکام کو بتایا کہ مجھے پروا نہیں کتنی مدت تک یہ کام کریں گے۔ ہم قومی اسمبلی میں احتجاج کریں گے اور پھر نظرانداز کردیں گے۔

ڈرون حملے کے مقابلوں میں پاکستان کے جھک جانے سے معاشرے میں فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچا اورعام سپاہی کے اس احساس میں اضافہ ہوا کہ فوج کرایے کے لیے حاضر ہے۔ اس لیے یہ کوئی سوال طلب بات نہیں ہے کہ ان حملوں کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا تک وسعت دینا مقامی لوگوں کو مزید غضب ناک کردے گا۔ پاکستانی طالبان کو نئے علاقوں میں پہنچائے گا، اور پاکستان کا امریکا سے تعاون کو کم کردے گا۔

اس سے بھی زیادہ خطرناک بات پاکستانی سرزمین پر امریکا کی اسپیشل فورسز کی موجودگی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی رپورٹوں کو مبالغے سے پیش کیا جاتا ہے۔

اس کتاب نے استدلال کیا ہے کہ فاٹا میں امریکی زمینی افواج کی کھلی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے پاکستانی فوج میں کھلی بغاوت کا خدشہ ہے۔ اس سلسلے میں احتیاط کو لازماً ملحوظ رکھا جائے۔ امریکا پر نیا دہشت گردی کا حملہ ہو تو اس مداخلت کو روکنے کے لیے برطانیہ کو واشنگٹن میں جو بھی اثرورسوخ حاصل ہے اسے استعمال کرنا چاہیے۔اس سے دہشت گردی اور برطانیہ میں ثقافتی اور نسلی تعلقات پر ہولناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ افغان طالبان سے پاکستان کے روابط مغرب میں عام طور پر ایک مسئلے کے طور پردیکھے جاتے ہیں لیکن انھیں افغانستان سے نکلنے کے لیے ایک اہم اثاثہ بھی سمجھنا چاہیے۔ (Anatal Lievein Pakistan: A Hard Country, by Anatal Lievein, Allen Lane, London 2011, p. 479)

۲۰۱۲ء میں اہم عالمی تجزیہ کار اس امر پر متفق ہیں کہ ماضی میں ڈرون حملے جن مقامات سے کیے جارہے ہیں ان میں پاکستان میں امریکی ہوائی بیس شامل تھے اور غالباً یہ صرف شمسی ایئربیس ہی نہیں تھا۔ دوسرے مقامات بھی استعمال کیے جارہے ہیں جن کے بارے میں شبہہ ہے کہ وہ اب بھی امریکی افواج کے تصرف میں ہیں۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے جاسوسی کے وسیع جال کے بغیر یہ نہ پہلے ممکن تھا اور نہ اب ممکن ہے۔ اس امر کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کا اس کارروائی میں بڑی حد تک ایک مشترک کردار بھی رہا ہے جس پر پردہ ڈالے رکھا گیا مگر اب یہ سب راز طشت از بام ہوگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو اور پارلیمنٹ کو سیاسی اور عسکری قیادت نے غلط بیانی اور کتمانِ شہادت کا پوری بے دردی سے نشانہ بنایا ہے۔ کیا اب بھی منہ زور گھوڑوں کو لگام دینے کا وقت نہیں آیا؟

ہمارے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کی صرف چند جھلکیاں دل پر جبر کرکے پیش کی جارہی ہیں۔ پہلے باب ووڈورڈ کی شہادت ملاحظہ ہو۔ اوبامااور اس کے سکیورٹی ایڈوائزر ہیڈن کا مکالمہ سننے کے لائق ہے:

اوباما نے پوچھا: تم پاکستان میں کتنا کچھ کر رہے ہو؟ ہیڈن نے بتایا کہ امریکا کے دنیا بھر میں کیے جانے والے حملوں کا ۸۰ فی صد وہاں ہوتے ہیں۔ ہم آسمان کے مالک ہیں۔ ڈرون پاکستان میں خفیہ ٹھکانوں سے اُڑتے ہیں۔ القاعدہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کو تربیت دے ر ہی ہے جن کو اگر تم ڈلس میں ویزہ لینے والوں کی قطار میں دیکھو تو خطرہ نہیں سمجھو گے۔ (Obama's Wars، ص ۵۲)

لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ میں ۱۰ جون ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں پیٹرک کاک برن کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں یہ چشم کشا حقیقت بیان کی گئی ہے:

شمال مغربی سرحدی اضلاع میں ڈرون حملوں کا سب سے زیادہ چونکا دینے والا لیکن  کم بتایا جانے والا پہلو یہ ہے کہ یہ پاکستانی فوج اور اس کی طاقت ور خفیہ شاخ     آئی ایس آئی کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ یمن میں بھی کچھ سرکاری حمایت ضروری ہوتی ہے لیکن یمنی ریاست کی کمزوری کی وجہ سے پاکستان سے کم۔

مسئلہ یہ ہے کہ ٹھیک نشانے پر حملہ کرنے والے اسلحے کو بھی ہدف کی شناخت کے لیے زمین پر کی جانے والی خفیہ کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں، آئی ایس آئی نجی طور پر یہ بتاتی ہے کہ اس کے ایجنٹ تفصیلات مہیا کرتے ہیں کہ ڈرون کس کا تعاقب کریں۔ دُور بیٹھ کر کمانڈ پوسٹ سے ڈرون کی رہنمائی کرنا، دوسری جنگ ِ عظیم میں نشانہ پر لگنے والی بم باری یا عراق میں ۱۹۹۳ء اور ۲۰۰۳ء میں ٹھیک نشانے پر لگنے والے میزائل حملے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس بارے میں لمحے لمحے کی خفیہ اطلاع کہ کون کس گھر میں ہے اور جب وہ وہاں ہو، اس کی اطلاع کے لیے مقامی ایجنٹوں کے نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے جو ان معلومات کو فوراً پہنچا سکے۔

یہ بہت ناپسندیدہ ہوگا کہ آئی ایس آئی، سی آئی اے کو اس طرح کا نیٹ ورک بنانے  کی اجازت دے۔ وہ فیصلہ کن اطلاع جس کی وجہ سے امریکا نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو تلاش کیا، خود آئی ایس آئی نے دی تھی۔ بلاشبہہ جو قتل کا ہدف ہو شاید ہی اتنا بے وقوف ہو کہ وہ اپنی پوزیشن موبائل یا سیٹلائٹ فون یا برقی اطلاع کا ذریعہ استعمال کرکے دے۔ لیکن بعض باغی گروپ آج بھی ایسے ہیں جو اپنی پوزیشن آسانی سے بتادیتے ہیں۔ آئی ایس آئی پر اعتبار کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستانی فوج کے افسران ہیں نہ کہ صدراوباما یا ان کا سلامتی اور عسکری سٹاف جو درحقیقت فیصلہ کرتے ہیں کہ ڈرون کس قسم کے مشکوک شخص کو ہلاک کرے گا۔ یہ پاکستان کی نائن الیون سے امریکا سے معاملہ کرنے کی کامیاب حکمت عملی ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں بہترین ساتھی بھی ہے اور بدترین دشمن بھی۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۱۰ جون ۲۰۱۲ئ)

مضمون نگار نے صدر اوباما کو ڈرون حملوں کے شدید ردعمل  سے بچانے کے لیے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے وہ بجا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور نیویارک ٹائمز کی مفصل رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد تو اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ڈرون حملوں کاآخری فیصلہ صدراوباما خود کرتے ہیں اور وہ بلاواسطہ اس قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں۔ اس سلسلے میں Counter Punch پر بھی Bill Quigby کا بڑا چشم کشا مضمون Five Reasons Drone Assassination is Illegal (ڈرون قتل غیرقانونی ہونے کی پانچ وجوہات) (دی انڈی پنڈنٹ،۱۶ مئی ۲۰۱۲ئ) بڑا مدلل اور ناقابلِ انکار شواہد کا حامل ہے۔

نیو اسٹیٹس مین کی ۱۳جون کی اشاعت میں کرس ووڈز کا مضمون Drones: Barack Obama's Secret War (ڈرونز: باراک اوباما کی خفیہ جنگ)شائع ہوا ہے جس میں عام شہریوں کی ہلاکت پر بڑے لائق اعتماد اور ہولناک شواہد دیے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں کی ٹھیک ٹھیک نشانہ بازی اور صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے دعوے مضمون نگار کے الفاظ میں جھوٹے (bogus) ہیں، نیز اس کے ساتھ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس سے تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ:

القاعدہ کو اس مہم میں یقینا کافی نقصان پہنچاہے۔ ۴جون کو اس کے ڈپٹی لیڈر یحییٰ اللّیبی کی ہلاکت کے بعد یہ دہشت گرد گروپ نہ ہونے کے برابر ہوگیا ہے، امریکی فضائی حملوں نے اس کو قیادت سے محروم کیا اور اس سے قبل دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ آپریشن کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے برسوں تک اپنی سرزمین پر امریکی حملوں کو خاموشی سے برداشت کیا ہے۔ گذشتہ ۱۸مہینوں میں یہ تعاون آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اب پاکستان ہرحملے کی مذمت کرتا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ اس دوران امریکا اپنے حلیف کو سادگی سے نظرانداز کردیتا ہے۔(Chriswoods Drones: Barack Obama's Secret War.، نیو اسٹیٹس مین، ۱۳ جون ۲۰۱۲ئ)

بات اب نظرانداز کرنے سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب تو کھیل شراکت داری کا ہے جو نئی آگ بھڑکانے کا نسخہ ہے جس خطرے کی طرف اناطول لیون نے بھی اُوپر واضح اشارہ کیا ہے۔

اس خطرناک کھیل کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس کی طرف ۸جون ۲۰۱۲ء کی ایک on line (۲۸ جون ۲۰۱۲ئ) رپورٹ میں کہا گیا ہے (شائع شدہ دی نیشن، ۱۰جون ۲۰۱۲ئ) ۔ یہ خبر جولائی کے ایم او یو سے تین ہفتے پہلے کی ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جب امریکا سے پاکستان کے تعلق کو ’کُٹّی‘ کا دور کہا جاسکتا ہے لیکن اس دور کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ شمسی ایئربیس سے امریکیوں کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کی سرزمین کے دوسرے مقامات سے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری تھا، اور یہ اس پر مستزاد ہے جس کا دعویٰ اس وقت کے وزیردفاع نے کیا تھا کہ ’’راستہ صرف زمین کا بند ہے، فضائی حدود کی پامالی تو ہماری اجازت سے جاری ہے‘‘۔ اس اطلاع سے مزیدتصدیق ہوئی ہے کہ امریکی بوٹوں کی موجودگی کا معاملہ صرف شمسی ایئربیس تک محدود نہیں تھااور (جون ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کی روشنی میں) ۴جولائی کے رسد کی بحالی کے انتظامات سے پہلے کے دور میں بھی سی آئی اے کے دوسرے اڈے موجود تھے اور ان کو یہ خطرہ بھی تھا کہ ان کے دوسرے غیرعلانیہ یا خفیہ (undeclared) اڈوں سے بھی انخلا کی بات ہوسکتی ہے:

نام نہ بتانے کی شرط پر امریکی اہل کاروں نے خفیہ معلومات کے بارے میں بتایا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان سی آئی اے کو باقی رہنے والا ہوائی اڈا بھی خالی کرنے کا کہے گا جس سے افغانستان کی سرحد پر پاکستان میں پناہ لیے ہوئے عسکریت پسندوں کو وہ اپنا ہدف بناتے ہیں۔ امریکا ۲۰۰۴ء سے اسلام آباد کی انتظامیہ کی خفیہ منظوری سے ڈرون حملے کر رہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور اس کے لیڈر ان حملوں کے خاتمے   کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انھیں ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔    (دی نیشن، ۱۰ جون ۲۰۱۲ئ)

امریکا کے مؤقر جریدے فارن پالیسی میں پیٹربرگن اور کیتھرین ٹائیڈمین کا مقالہ The Effects of the Drone Programme in Pakistan (پاکستان میں ڈرون پروگرام کے اثرات) شائع ہوا ہے جس میں امریکا کے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے کہ  کیا فی الحقیقت ان ڈرون حملوں سے القاعدہ کی قیادت کا صفایا ہوگیا ہے؟ ان کی تحقیق کی روشنی میں اوسطاً سات میں سے صرف ایک میزائل کسی عسکریت پسند لیڈر کو ہلاک کر پاتا ہے اور یہاں بھی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مارے جاتے ہیں وہ بالعموم بہت معمولی درجے کے عسکریت پسندہوتے ہیں۔

قابلِ ذکر قیادت کے صرف دو فی صد لوگ حملوں کی زد میں آنے کی مصدقہ اطلاعات ہیں، البتہ عام شہریوں کی ہلاکت بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے ۔ گو، تفصیلی معلومات ہر دو کے بارے میں عنقا ہیں، یعنی عسکریت پسند اور عام شہری۔ زیادہ تر اعتماد اندازوں اور سنی سنائی پر ہے۔ البتہ نصف سے زیادہ مقامی آبادی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے جس کے خلاف عوام میں شدید ردعمل ہے۔ ان حقائق کا اعادہ اور اعتراف کرنے کے بعد جو اہم بات اس مقالے سے بھی کھل کر سامنے آئی ہے وہ پاکستانی قیادت کا دوغلا کردار ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

جس آپریشن میں بن لادن کو قتل کیا گیا، پاکستانی اہل کاروں نے شور مچایا کہ ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ پس پردہ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے کبھی کبھار دیے جانے والے احتجاجی بیانات کے ساتھ ڈرون حملوں کی حمایت کی۔ اسلام آباد کے تعاون کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ پروگرام اب بھی جاری ہے۔ اس لیے کہ اس پروگرام میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا تعاون چاہیے، جیساکہ ایک امریکی اہل کار نے تبصرہ کیا کہ تمھیں زمین پر لوگ چاہییں جو تم کو بتائیں کہ ہدف کہاں ہے اور یہ اطلاع فاٹا کے آس پاس بھاگ دوڑ کرنے والا کوئی سفیدفام نہیں دے سکتا۔(پاکستان ٹریبون، ۱۴ جولائی ۲۰۱۲ئ)

فیصلے کی گہڑی

ان تمام اطلاعات اور حقائق پر غور کرنے سے جو باتیں واضح ہوتی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- امریکا کی عسکری حکمت عملی میں ڈرون حملوں کو اب ایک مرکزی اہمیت حاصل ہے اور وہ اسے اپنے اقتدار اوراثرورسوخ کو مستحکم کرنے کا مؤثر ترین حربہ سمجھتا ہے۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے، اور آزاد اور خودمختار مملکتوں کے درمیانی تعلقات کے اصول و ضوابط سے متصادم ہے، نیز جنگ اور دوسرے ممالک میں مداخلت کے متفق علیہ آداب کی بھی ضد ہیں، بلکہ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ خود امریکا کے دستور اور قوانین میں جو اختیارات اور تحدیدات موجود ہیں، ان سے بھی ہولناک حد تک متصادم ہیں۔ اس لیے اب عالمی امن کے علَم بردار اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ایک تعداد امریکی صدر کو ’قاتل صدر‘ (Killer President) اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے رہی ہے۔

۲- اس نئی جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی میں کمی کی کوئی صورت رُونما نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب وہ دنیا کے طول و عرض میں پھیل رہی ہے۔ نیز ان حملوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں معصوم شہری بشمول خواتین اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں،  اس سے امریکا کے خلاف نفرت کے طوفان میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر امریکی قیادت اس سب سے بے نیاز ہوکر بدستور اپنے ایجنڈے پر عمل پیراہے۔

۳- اس مکروہ عمل میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت برابر کی شریک رہی ہے جو خود اپنے عوام اور اپنی پارلیمنٹ کو دھوکا دیتی رہی ہے، غلط بیانیوں کا کاروبار کرتی رہی ہے، اور اب اگر ڈھکے چھپے تعاون اور شراکت داری کا اعتراف کرنا پڑ رہا ہے تب بھی کہہ مکرنیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ عالمی میڈیا اور خود امریکا کے سرکاری اور نیم سرکاری بیانات نے ان کو مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے۔پاکستانی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ان کا بے لاگ احتساب ہو اور اس گندے کھیل کو جتنی جلد ختم کیا جاسکتا ہو اس کا اہتمام کیا جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا دستور اور قانون سیاسی اورعسکری قیادت کو ملک کے مفادات کی حفاظت، اس کی آزادی اور سلامتی کو اوّلین ترجیح دینے اور دستور اور قانون کی مکمل اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ ان سب نے اپنے اپنے مناصب کی مناسبت سے دستور سے وفاداری اور اس کی مکمل پاس داری کا حلف لیا ہوا ہے۔ دستور کی دفعہ۴ ہر شہری کو مکمل قانونی تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تو دفعہ۵ کی رُو سے ’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔اور دفعہ ۲۴۵ کی رُو سے افواجِ پاکستان کی اولیں ذمہ داری پاکستان کا دفاع ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت یہ حلف لیتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک ’’خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار ہوگا‘‘ اور ’’پاکستان کے دستور کے اور قانون کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری، سالمیت، استحکام، یک جہتی اور خوش حالی‘‘ کے لیے خدمات انجام دے گا۔

اس عہد اور دستور کے ان واضح مطالبات کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت کا جو کردار امریکا کی اس ناجائز اور ظالمانہ جنگ میں رہا ہے وہ دستور کو مسخ (subvert) کرنے کے ذیل میں آتا ہے اور دفعہ۶ کے تحت احتساب اور کارروائی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا قوم، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں دستور کے ان تقاضوں کوپورا کرانے کی ہمت ہے؟ بلاشبہہ اس ظلم و ستم کی اولیں ذمہ داری امریکا اور اس کی خارجہ سیاست پر ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ان ممالک کے حکمران اور ذمہ دار جہاں امریکا کا یہ خونیں کھیل کھیل رہے ہیں وہاں اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں ،بلکہ شاید ان کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی ہے کہ ان حالات میں ان کا فرض تھا کہ سامراجی قوتوں کے آگے سینہ سپر ہوجاتے، نہ کہ ان کے معاون اور مددگار کا کردار ادا کریں۔

موجودہ قیادت اور پوری انتظامیہ (establishment) قوم کی مجرم ہے اور احتساب کا عمل جتنا جلد شروع ہو وہ وقت کی ضرورت ہے، ورنہ اس نئے ایم او یو (Mou )کے بعد تو نظر آرہا ہے کہ ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے اور ان میں اضافے کے دبائو اور معاشی اور فوجی امداد کی ترغیب و ترہیب (carrot and stick) کے ماہرانہ استعمال سے فوج کو شمالی وزیرستان کے جہنم میں بھی دھکیل دیا جائے گا اور امن اور علاقے کی سلامتی کے اصل اہداف کو پسِ پشت ڈال کر اس آگ کو مزید پھیلایا جائے گا۔ کیا کوئی یہ تضاد نہیں دیکھ سکتا کہ ایک طرف طالبان سے مذاکرات اور فوجی انخلا کی بات ہوتی ہے اور دوسری طرف جنگ کو وسعت دینے اور جو حکومت اور جس ملک کی فوجی قیادت مذاکرات کے راستے کسی مثبت تبدیلی کے امکانات روشن کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے، اسے دشمن بنا کر اس کردار ہی سے محروم نہیں کیا جارہا بلکہ اس کے افغان قوم کے درمیان نہ ختم ہونے والی دشمنی اور تصادم کا نقشہ استوار کیا جارہا ہے۔

یہی وہ نازک لمحہ ہے جب پاکستانی قوم کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا اور وہ دوٹوک الفاظ میں یہ ہے کہ:

۱- امریکا کی اس جنگ میںکسی نوعیت کی بھی شرکت پاکستان اور علاقے کے مفاد کے خلاف ہے اور ہمارے لیے واحد راستہ اس سے نکلنے اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کرنے کا ہے___ اس دلدل میں مزید دھنسنا صرف اور صرف تباہی کا راستہ ہے۔

۲- امریکا اور ناٹو کے لیے بھی صحیح راہِ عمل مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہے۔ جنگی حل ناکام رہا ہے اور اس کی کامیابی کے دُور دُور بھی امکانات نظر نہیں آرہے۔ اپنے وسائل اور افواج کو دوسرے ممالک اور ان کے فوجی یا سیاسی عناصر کو اس جنگ کو تیز تر کرنے کی پالیسی سب کے لیے خطرناک ہے اور ضرورت اسے بدلنے کی ہے۔ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے دوسروں کو آگ میں دھکیلنے سے بڑی حماقت نہیں ہوسکتی۔

۳- بیرونی دبائو کی جو شکل بھی ہو، پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے مفادات، علاقے کے مفادات اور سب سے بڑھ کر اپنی حاکمیت، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اس جنگ سے نکلے اور اپنا الگ راستہ بنائے، افغان عوام سے اپنے تاریخی رشتے کو   خلوص کے ساتھ بحال کرے، تعلقات میں جو بگاڑ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے آچکا ہے، اس کی اصلاح کرے اور ملک کی اپنی معیشت جس طرح تباہ ہوئی ہے، اسے ازسرِنو بحال کرنے پر  توجہ صرف کرے۔ نیز علاقے کی دوسری تمام قوتوں خصوصیت سے چین، ایران، وسط ایشیائی ممالک اور عرب دنیا سے مل کر علاقے میں امن کی بحالی اور اسے بیرونی مداخلت سے پاک کرنے میں ایک مثبت اور فعال کردار ادا کرے۔

یہ سب ایک بنیادی تبدیلی (paradigm shift) کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عوام کو تمام حقائق سے پوری طرح باخبر کیا جائے۔ تمام محب وطن قوتیں مل کر حالات کامقابلے کا نقشۂ کار تیار کریں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ عوام کو متحرک کیا جائے اور ان کی تائید سے ایک نئے مینڈیٹ کی بنیاد پر نئی قیادت ملک کی باگ ڈور سنبھالے اور موجودہ خلفشار اور تباہ کن صورت حال سے ملک کو نکالے۔ ملک کی محب وطن سیاسی اور دینی قوتوں نے دفاعِ پاکستان کونسل کے پرچم تلے جو اہم خدمات انجام دی ہیں، اب ان کو مربوط کرنے اور ملک کو نئی سمت دینے کے لیے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اس حکمت عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی دور کے ابتدائی پُرآشوب زمانے میں اختیار فرمائی اور جس کے نمایاں پہلوئوں کو سورئہ انفال میں اُمت کی ابدی ہدایت کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔ ہم قوم اور ملک کی قیادت کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ غلامانہ ذہن سے نکل کر قرآن اور سیرت نبویؐ کی روشنی میں اپنے حالات کے بے لاگ جائزے اور ان حالات کے لیے قرآن کریم کے راہ نما اصولوں کے مطابق اپنی منزل اور اہداف کا تعین کرے اور ان کو حاصل کرنے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی تیار کرے۔ اس لیے کہ یہ اُمت اپنے بعد کے اَدوار میں بھی اسی راستے کو اختیار کر کے ترقی کرسکتی ہے جو اس نے اولیں دور میں اختیار کیے تھے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ آج  سورئہ انفال میں بیان کردہ ان رہنما اصولوں کے سوا ہمارے لیے نجات کا کوئی دوسرا راستہ نہیں:

اَلَّذِیْنَ عٰھَدْتَّ مِنْھُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَھُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّ ھُمْ لَا یَتَّقُوْنَo فَاِمَّا تَثْقَفَنَّھُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْبِھِمْ مَّنْ خَلْفَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَo وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ م  اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآئٍ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ o وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا ط اِنَّھُمْ لَا یُعْجِزُوْنَo وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ o وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo  وَ اِنْ یُّرِیْدُوْٓا اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ         وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَo (الانفال ۸:۵۶-۶۲) پس اگر یہ لوگ تمھیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لوکہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں اُن کے حواس باختہ ہوجائیں۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ منکرین حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے ، یقینا وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔

اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعدا کو خوف زدہ کردو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔

اور اے نبیؐ! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجائو اور اللہ پر بھروسا کرو، یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔

آیئے! اپنے حالات پر ان آیات کی روشنی میں غور کریں، اللہ سے مدد و استعانت اور رہنمائی طلب کریں اور اس ملک کی شکل میں جو امانت ہمارے سپرد کی گئی ہے اس کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ زندگی اور عزت کا یہی راستہ ہے اور جس قوم نے بھی یہ راستہ خلوص، دیانت اور بھرپور تیاری سے اختیار کیا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوئی:

وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت ۲۹:۶۹)، جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بالآخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا ___ امریکا نے ایک بار پھر پاکستان کے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جو کچھ ستمبر ۲۰۰۱ء میں کیا تھا، وہی کردار جولائی ۲۰۱۲ء میں آج کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ہزار کہہ مکرنیوں کے ساتھ ادا کر کے پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت و وقار اور اسٹرے ٹیجک مفادات پر کاری ضرب لگائی ہے۔پرویز مشرف نے بھی ’قومی مفادات‘ کا راگ الاپا تھا اور آج کی حکومت اور اس کے میڈیا کے ہم نوا بھی یہی کچھ دہرا رہے ہیں۔ شرم کا مقام یہ ہے کہ اس عبرت ناک پسپائی کو ’ایک سوپر پاور کو معذرت کے اظہار پر  مجبور کرنے‘ اور ’۵۰ممالک سے تعلقات نہ بگاڑنے‘ کا نام دے رہے ہیں۔ حالانکہ اس قیادت کے ہاتھوں پاکستان کی آزادی، عزت اور حیثیت کا جوط حشر ہوا ہے وہ بین الاقوامی محاذ پر ’جوتے اور پیاز‘ دونوں کھانے کی بدترین مثال ہے___  فاعتبروا یااُولی الابصار!

امریکا نے جس طرح بلیک میل کرتے ہوئے پاکستان کو ’دہشت گردی‘ کے خلاف نام نہاد جنگ میں گھسیٹا وہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان نے جو جو نقصانات اُٹھائے اورتمام تر نقصانات اُٹھانے کے باوجود امریکا نے جس جس طرح پاکستان کو ذلیل وخوار کیا، اس کے نتیجے میں ۲۰۱۱ء وہ فیصلہ کن سال بن گیا جس نے دونوں ملکوں کے جدا راستوں کو بالکل دوٹوک انداز میں واضح کردیا تھا۔

۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو سلالہ کی فوجی چوکی پر امریکا کا جارحانہ حملہ اور اس میں پاکستانی مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں کی شہادت نے پاکستان اور امریکا کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں تعاون کے رشتے کو تارتار کر دیا۔ قوم نے سوگ و الم اور غصے اور انتقام کے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے ایک باوقار، اور متوازن ردعمل کا اظہار کیا۔ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی نے ناٹوسپلائی کے فوری طور پر  معطل کرنے، شمسی ایئربیس سے امریکیوں کے انخلا اور دوسرے فوجی اور نیم فوجی آپریشن میں دی گئی سہولتوں کی واپسی کی شکل میں اس کی تائید کی۔ نیز سب سے اہم چیز یہ طے کی کہ: پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف اس کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کے کردار کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور پارلیمنٹ سے اس سلسلے میں واضح رہنمائی لی جائے۔ اس طرح پاکستانی قوم اور قیادت کو ایک ایسا تاریخی موقع حاصل ہوا جس کی روشنی میں وہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرسکے اور مستقبل کے لیے خارجہ پالیسی اور پاک امریکا تعلقات کو ایک نئی سمت دے سکے۔ لیکن ہماری تاریخ کا یہ ایک الم ناک سانحہ ہے کہ اس وقت ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے اس تاریخی موقع کو نہ صرف یہ کہ ضائع کر دیا، بلکہ پارلیمنٹ کی رہنمائی سے مکمل انحراف کا راستہ اختیار کرتے ہوئے، نہ صرف امریکا کی غلامی کے طوق کو دوبارہ پہن لیا، بلکہ عزت و وقار کو اس طرح خاک میں ملا دیا کہ جو کچھ تھوڑی بہت حیثیت باقی تھی، وہ تباہ کی اور امریکا سے تعلقات کو برابری، مفادات کی پاس داری اور توازن کی سطح پر لانے کا جو سنہری موقع ملا تھا وہ بھی اپنی حماقت سے ضائع کر دیا۔

پاک امریکا تعلقات کا پس منظر

پاکستان اور امریکا کے تعلقات ۱۹۵۰ء ہی سے غیرمتوازن رہے ہیں اور بار بار تنائو، تصادم اور بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ چار بار امریکی امداد بند ہوچکی ہے اور تین بار عملاً پابندیاں بھی لگ چکی ہیں، لیکن ہربار کسی نہ کسی بیرونی عالمی دبائو کی وجہ سے تعلقات پھر استوار ہوگئے ہیں۔ گو کبھی بھی ا ن میں حقیقی اعتماد باہمی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کی ہم آہنگی کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔ ہمیشہ وہ وقتی مصلحتوں کے تابع، یا پھر زیادہ سے زیادہ متعین طور پر چند معاملات میں لین دین اور تعاون سے عبارت رہے۔

۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۱ء تک سخت کھچائو کا عالم تھا اور پاکستان پر ایٹمی دھماکے کی پاداش میں سخت پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ مشرف حکومت کو فوجی آمریت قرار دے کر  ایک ناپسندید حکومت کا مقام دیا ہوا تھا، حتیٰ کہ جب امریکی صدر کلنٹن پاک و ہند کے دورے پر آئے اور پانچ گھنٹے پاکستان کی سرزمین پر بھی گزارے، تب بھی پاکستان کی فوجی حکومت سے نفرت کے اظہار کے لیے اس امر کا اہتمام کیا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ان کی تصویر تک نہ بننے پائے۔ ستمبر ۲۰۰۱ء میں   نائن الیون کے خونیں اور اور اَلم ناک حادثے نے اور مشرف کے اپنے اقتدار کے لیے سندِجواز حاصل کرنے کے کھیل نے امریکی صدر بش اور مشرف کو دوستی اور تعاون کے ایک نئے جال میں پھنسا دیا، اور اس کے بعد کے ۱۱ سال ہماری قومی زندگی کے تاریک سال بن گئے۔

جہاں تک پاکستانی قوم کا تعلق ہے، اس نے پہلے دن سے اس جنگ کو صرف امریکا کی جنگ قرار دیا، اور ایک ایسی جنگ سمجھا جو امریکا نے افغانستان کے ساتھ پاکستان اور پھر عراق پر اپنے مخصوص مفادات کے حصول اور علاقائی عزائم کو پروان چڑھانے کے لیے مسلط کی تھی۔   جنرل مشرف کو نہ صرف دھونس، دھمکی، دبائو اور لالچ کے ذریعے اس میں اپنا شریکِ کار بنایا، بلکہ پاکستان کی سرزمین اور اس کی فضائی حدود کو پاکستان کے ایک برادر ہمسایہ مسلمان ملک کے خلاف جارحیت کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ: جو دوست تھے وہ دشمن بن گئے،  ملک کا امن و امان تہ و بالا ہوگیا اور خود پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی آماج گاہ بن گئی۔ پاکستان کے ۴۰ہزار سے زیادہ عام شہری اور ۶ہزار سے زیادہ فوجی اور دوسرے سرکاری اہل کار ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ خونیں ڈراما جاری و ساری ہے۔ ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ ملک میں امن و امان تباہ اور نظم و نسق کا حال پراگندہ ہے۔ معاشی اعتبار سے جو ملک عالمی برادری میں اپنا مقام بنا رہا تھا زوال و انحطاط اور بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، توانائی اور پانی کی شدید قلت ہے، سرمایہ کاری رُوبہ زوال ہے اور ملک سے سرمایے کی منتقلی روزافزوں ہے۔

سرکاری اندازوں کے مطابق جنگ میں شرکت کے پہلے آٹھ برسوں میں ملک کو ۶۸؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جس میں اگر مزید تین برسوں کے خسارے کو شامل کیا جائے تو یہ رقم ۱۰۰؍ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ اس میں وہ معاشی نقصان شامل نہیں جو ہزاروں افراد کے ہلاک،  زخمی اور بے گھر ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے۔ نیز ملک کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا ہے اور اس کی تباہی میں ناٹو کو سپلائی فراہم کرنے والے ہرماہ ۶ہزار سے زیادہ ٹرکوں کی آمدورفت  ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہ سپلائی افغانستان پر امریکا اور ناٹو کے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے فراہم کی جاتی رہی ہے اور جسے خود ملک میں اسلحے اور دوسری اشیا کی اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔

یہ تمام نقصانات اور مصائب و آلام اپنی جگہ، لیکن اس زمانے میں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ عملاً امریکا کا عمل دخل ہماری اجتماعی زندگی میں اتنا بڑھ گیا کہ ملک کی آزادی خطرے میں پڑگئی۔ پاکستان کی سرزمین کو عملاً امریکا نے اپنا بیس کیمپ (base camp) بناڈالا۔ ہوائی اڈے قائم کیے گئے، ٹریننگ کے نام پر فوجوں کی ایک فوج ظفر موج یہاں براجمان ہوگئی اور جب انھوں نے محسوس کیا کہ فوجیوں کی برسرِعام موجودگی منفی ردعمل کا ذریعہ بن رہی ہے، تو پھر ایک محدود  تعداد میں فوجیوں کو باقی رکھتے ہوئے جاسوسی، تخریب کاری اور دوسری سرگرمیوں کے لیے نیم عسکری   اہل کاروں کو بڑی تعداد میں لے آئے اور خود پاکستان سے کرایے کے مددگارحاصل کیے ۔ امریکا کی اس نوعیت کی موجودگی کا اعتراف بڑے کھلے الفاظ میں سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائرکٹر  لیون پینٹا نے وائٹ ہائوس میں منعقدہ ایک اجلاس میں ان الفاظ میں کیا ہے:

اصل متبادل راستہ یہ تھا کہ خفیہ جنگ کو بہت بڑے پیمانے پر پھیلا دیا جائے۔دہشت گردی کا تعاقب کرنے والی ٹیموں ( CTPT) کے ۳ہزار افراد اب پاکستان کی سرحد کے پار کارروائیاں کر رہے تھے۔ (ملاحظہ کیجیے:Obama's Wars: The Inside Story ، باب وڈورڈ، ص ۳۶۷)

یہی وہ امریکی اہل کار اور ان کے پاکستانی معاونین تھے جو ڈرون حملوں کے لیے خفیہ معلومات فراہم کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ،   ۲مئی کو ایبٹ آباد پر حملہ، اور پھر ۲۶ نومبر کا سلالہ پر حملہ___ یہ سب ایسے  تکلیف دہ واقعات تھے جنھوں نے پاکستان کی قیادت کو مجبور کیا کہ ناٹو کی سپلائی کا راستہ بند کریں، شمسی ایئربیس خالی کرائیں اور امریکا سے اس جنگ کے سلسلے میں تمام تعلقات اور امور پر نظرثانی کریں۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ تمام اُمور کا جائزہ لے کر اور خارجہ، داخلہ، اور دفاعی شعبوں کے ذمہ داروں سے ضروری معلومات  اور تفصیل (بریفنگ) لے کر نئی پالیسی کے خطوطِ کار تجویز کرے۔ امریکا کی جارحانہ کارروائیوں نے سفارتی تعلقات پر یکسر نظرثانی کرنے کا ایک تاریخی موقع فراہم کردیا تھا اور پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر کی سیاسی اور دینی قوتوں نے متفقہ طور پر ایک نیا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا___ سارے وعدے وعید کے علی الرغم صدر زارداری، وزیراعظم پرویز اشرف، جنرل پرویز کیانی، اور پورے حکمران ٹولے نے ایک بار پھر وہی پسپائی اور امریکا کی غلامی کا راستہ اختیار کرلیا ہے جو مشرف نے ۱۱سال پہلے اختیار کیا تھا اور اپنی آزادی، حاکمیت، قومی عزت و وقار اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے بھرپور تحفظ کا جو موقع تاریخ نے دیا تھا، اسے ضائع کردیا ہے۔ بلاشبہہ اس شرم ناک اور اَلم ناک پسپائی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ لیکن بات محض ماتم کی نہیں احتساب، جواب دہی، غلامی سے نجات کی جدوجہد اور قیادت کی تبدیلی کی ہے تاکہ ملک و قوم ذلت کی اس زندگی سے چھٹکارا پاسکیں اور پاکستان کو جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا، قوم ایک بار پھر اس کے حصول کی طرف گامزن ہوسکے۔

امریکی مفادات اور جارحانہ رویہ

نیویارک ٹائمز کے چیف نمایندے ڈیوڈ ای سانگر کی ایک بڑی اہم کتاب Confront And Conceal: Obama's Secret Wars and Surprising Use of American Power چند ہفتے پہلے شائع ہوئی ہے جس کا موضوع صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کا جائزہ ہے۔ اس میں نائن الیون کے بعد کے پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور امریکا کی افغان جنگ اور خصوصیت سے بن لادن کے سلسلے میں ایبٹ آباد کے حملے کے اصل حاصل کو متعلقہ باب کے عنوان میں پانچ لفظوں میں یوں سمیٹ دیا ہے: Getting Bin Ladin, Losing Pakistan۔

موصوف نے اس امر کا بھی برملا اعتراف کیا ہے کہ اس پوری جنگ میں جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے وہ نہ امریکا ہے اور نہ افغانستان، نہ القاعدہ اور نہ طالبان___ وہ بدقسمت ملک پاکستان ہے جو علاقے کی اس جنگ میں بڑا خسارے کا سودا کرنے والا ملک ہے۔

امریکا نے پاکستان سے کس طرح معاملات طے کرائے ہیں، اس کا کھلا اعتراف ڈیوڈ سانگر نے بھی دوسرے سیاسی مبصرین اور سفارت کاروں کی طرح صاف الفاظ میں کیا ہے۔ اس کی چند جھلکیاں بھی پاک امریکا تعلقات کو سمجھنے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہیں:

جب امریکا نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی تو اس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ یا تو طالبان اور القاعدہ کا ساتھ دے یا واشنگٹن کا۔ اپنے سر پر بندوق لگی دیکھ کر پاکستان کے فوجی آمر پرویز مشرف نے وہی کیا جو کرسکتا تھا اور اس کا ملک افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم بن گیا۔

۲۰۱۲ء میں ایک مختلف دنیا کا سامنا کرتے ہوئے امریکا اس حکمت عملی کو اُلٹ رہا ہے۔ افغانستان میں مستقل موجودگی کا مقصد یہ ہے کہ امریکا کی اسپیشل آپریشن فورسز کو اور ڈرونز کو پلیٹ فارم مل جائے، جہاں سے وہ علاقے میں کہیں بھی جاسکیں۔ اگر القاعدہ دوبارہ جان پکڑتی ہے، یا کوئی ایٹمی اسلحہ کسی کے ہاتھ لگتا ہے تو وہ پاکستان کے اندر حملہ کریں، یا اگر افغان حکومت کو زوال آتا نظر آئے، یا اگر ایران سے معاملہ کرنا پڑے تو کابل میں موجودگی بہت کام آئے گی۔ ابوظبی میں جنرل کیانی کو ڈونی لون کے پیغام کا اصل مرکزی نکتہ یہ تھا۔کم از کم امریکا کے لیے یہ درست اسٹرے ٹیجک تصور ہے۔ (ص۱۲۹-۱۳۰)

پاکستان کی حاکمیت، سرحدوں کے احترام اور پاکستان کی سرزمین پر یک طرفہ فوجی کارروائیوں کے سلسلے میں امریکا نے پاکستان کو ٹکا سا جواب دے دیا ہے اور وہ اس پر قائم ہے۔  سانگربجاطور پر تسلیم کرتا ہے کہ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد حملے کے پانچ ماہ بعد، جس کی وجہ سے پاکستان، پاکستانی فوج اور خود جنرل کیانی سب سے بڑی ذلت (humiliation) سے دوچار ہوئے ہیں، اور سلالہ حملے سے صرف ایک ماہ پہلے، یعنی اکتوبر ۲۰۱۱ء میں ابوظہبی میں امریکی صدر کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ٹام ڈونی لون (Tom Donilon) نے منہ در منہ کہہ دیا تھا کہ امریکا اپنے مفاد میں اگر پاکستان کی حدود میں کارروائی ضروری سمجھے گا تو ضرور کرے گا۔ سانگر لکھتا ہے:

پھر آخری بات آئی: ’’میں جانتا ہوں کہ تم ہم سے ضمانت چاہتے ہو کہ (بن لادن والے واقعے کی طرح) ہم تمھارے ملک میں آیندہ یک طرفہ آپریشن نہیں کریں گے‘‘۔’’یہ ضمانت میں تم کو نہیں دے سکتا‘‘۔

اور دلیل یہ تھی کہ : امریکیوں کا تحفظ امریکا کے صدر کی آخری ذمہ داری ہے۔ (ص ۸)

یہ ہمت کس میں تھی کہ کہے کہ پاکستان کے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور پاکستان کی سرحدوں کے تقدس کی پامالی سے روکنے کی ذمہ داری بھی کسی سیاسی اور عسکری قیادت پر ہے یا نہیں؟

سانگر اعتراف کرتا ہے: پاکستان کے خلاف یک طرفہ ڈرون حملے کیے گئے جو بالکل لغوی مفہوم میں ایک جنگ کا عمل ہیں (ص۱۳۷)۔ یہ بھی اعتراف ہے کہ: عملی مفہوم میں کسی متعین شخص کو ہدف بنا کر قتل کرنے اور ڈرون کے ذریعے قتل کرنے میں امتیاز کرنا مشکل ہے۔(ص ۲۵۵)

بین الاقوامی قانون میں کسی غیرمتحارب کا نشانہ زدقتل ایک جنگی جرم ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت کا اصرار ہے کہ دنیا میں جہاں وہ اپنے زعم میں اپنے کسی شہری کے لیے خطرہ محسوس کریں گے تو محض اس اندیشے پر ان کو ڈرون حملے کرنے کا حق ہے۔ پاکستان میں تمام عوامی احتجاج اور اب حکومت اور پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود وہ ڈرون حملوں کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔

وائس آف امریکا کی ۶جون ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق:امریکا کے وزیردفاع لیون پینٹا نے کہا کہ امریکا کا پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ دہشت گرد لیڈروں کو ہدف بنانے کا تعلق ہماری خودمختاری سے ہے۔

یہ ۶ جون ۲۰۱۲ء کا ارشاد ہے۔ ۴جولائی کو پاکستان سے سودے بازی کرنے کے بعد ہیلری کلنٹن اور پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے( جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ڈرون حملوں پر خوش نہیں ہیں، اور یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ انھیں معلوم نہ تھا کہ ان کی سفارت کاری میں انسانوں کے قتل میں شرکت بھی شامل ہوگی) ۴جولائی کے اعلان کے تین دن بعد ہی فاٹا میں ڈرون حملوں کا دفاع کیا اور ان کے جاری رہنے کی ’نوید‘ سنائی ہے۔

یہ ہے امریکاکا ذہن اور عالمی منظرنامہ جس میں پاکستان کی وزیرخارجہ نے امریکی سیکرٹری خارجہ سے گفتگوکرتے ہوئے ان کے ایک موہوم اور مجہول اظہارِ افسوس اور ہمدردی کے بعد، پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے تمام مطالبات کو بالاے طاق رکھ دیا۔ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اس نے اس سلسلے میں فیصلہ کیا ہے، اس کے اجلاس سے ۱۲گھنٹے پہلے، ناٹو کے لیے پاکستان کے راستوں کو کھولنے کا مژدہ امریکا کو سنایا، اور اس کے یومِ آزادی پر پاکستان کے مفادات، پارلیمنٹ کی قرارداد اور پاکستانی قوم کے جذبات کو بھینٹ چڑھا دیا، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

حکومت کا شرم ناک طرزِعمل

پاکستان کی موجودہ قیادت نے یہ قلابازی کب کھائی؟ کھچڑی تو نہ معلوم کب سے پک رہی تھی، مگر اعلان کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہورہا تھا۔ اس لیے زمین ہموار کرنے کے لیے مئی اور جون میں کارستانیاں شروع ہوگئیں مگر دھیمے سُروں میں، بظاہر مشاورت کا بڑا شور ہے مگر اس کا کوئی ثبوت ۴جولائی ۲۰۱۲ء سے پہلے نہیں تھا۔ البتہ یہ یقین ہے کہ ’کسی‘ نے فیصلہ کرلیا تھا اور پھر سرکاری ذرائع اور میڈیا کو فضا سازگار بنانے کے لیے ’جہاد‘ میں جھونک دیا گیا۔

اپریل ۲۰۱۲ء تک برابر یہی اعلانات آتے رہے کہ: ’’ملک کی آزادی، خودمختاری، سرحدات کی پاس داری اور حفاظت، قومی عزت و وقار اور پاکستان کے ملکی اور علاقائی مفادات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور پارلیمنٹ کی قرارداد پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل ہوگا، خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘‘۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپریل میں بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا: ’’میں اس ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ جو قرارداد آج یہاں منظور کی گئی ہے اس کو الفاظ اور روح کے مطابق نافذ کیا جائے گا‘‘۔ (واشنگٹن پوسٹ، ۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ئ)

 واشنگٹن پوسٹ کے مطابق:

اسلام آباد میں دو روزہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے بعد پاکستان نے امریکی مذاکرات کاروں کو گذشتہ ہفتے بتایا کہ جب تک امریکا نومبر کے اس حملے کی غیرمشروط معافی نہیں مانگتا، جس میں ۲۴پاکستانی فوجی افغان سرحد کے قریب ہلاک کیے گئے تھے، وہ ناٹو کے قافلوں کو اپنی سرحد سے نہیںگزرنے دے گا۔ اگرچہ اوباما انتظامیہ نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو اس کے مطابق اتفاقیہ تھیں، تاہم پینٹاگان کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں پر برابر کا الزام آتا ہے۔ (واشنگٹن پوسٹ، ۲۹؍اپریل ۲۰۱۲ء ، رپورٹ:  Richard Leiby and Karen Deyoung)

اس رپورٹ میں (جس کا وقت بھی بہت اہم ہے) اس بات کا بھی اعتراف اور اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے امریکا سے معاملات طے کرنے کے لیے واضح خطوط کار دے دیے ہیں، جن میں ’غیرمشروط معافی‘ کے لیے جو بنیاد بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے: ’’نومبر میں امریکا کے ہیلی کاپٹروں اور جیٹ فائٹروںکا سرحدوں پر بلااشتعال قابلِ مذمت حملہ‘‘۔ اور پھر اس رپورٹ میں پاکستان کے سرکاری ترجمان کا یہ عزم بھی درج ہے کہ:

جب ایک باقاعدہ منتخب جمہوری حکومت تین دفعہ یہ کہتی ہے کہ یہ نہ کرو اور امریکا وہی کرتا رہتا ہے ، تو اس سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔ ان ڈرون حملوں سے دہشت گرد ہلاک ہوسکتے ہیں، لیکن اصل نقصان آزادی اور جمہوریت کا ہوتا ہے۔

۲۷؍اپریل کے پاکستانی اور عالمی اخبارات میں وزیرخارجہ صاحبہ کا یہ بیان شائع ہوا:

پاکستان نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ اس کی سرحدوں کے اندر شدت پسندوں پر امریکا کے ڈرون حملے روک دیے جائیں لیکن واشنگٹن نہیں سمجھ رہا۔ حناربانی کھر نے کہا: ’’ڈرون حملوں پر بات واضح ہے، یعنی ڈرون حملوں کا مکمل طور پر ختم ہونا۔ میں اس موقف پر قائم ہوں۔ ہم نے پہلے بھی ان کو بہت واضح طور پر بتا دیا تھا لیکن وہ نہیں سنتے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی سماعت بہتر ہوگی‘‘۔ (عرب نیوز، ۲۷؍اپریل ۲۰۱۲ئ)

امریکا میں پاکستان کی سفیرصاحبہ نے تو ۲۹ جون تک خود واشنگٹن میں یہ فرمایا کہ سلالہ کے واقعے پر امریکا کی معافی (apology) بے حد اہم ہے، اس لیے کہ:

ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے امریکی دوست ہماری خودمختاری اور سرحدات کا احترام کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرون حملے نہ ہوں اور پاکستان کی سرحدات میں کوئی مداخلت نہ ہو۔ (دی نیوز، اسلام آباد، ۲۰جولائی ۲۰۱۲ء ، بحوالہ واشنگٹن پوسٹ)

اور اسی دن اسلام آباد میں سیکرٹری خارجہ نے برملا فرمایا:

پاکستان سلالہ کے واقعے پر امریکا سے معافی (apology) سے کم کوئی لفظ قبول نہ کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے موقف سے نہ ہٹے گا اور معافی مانگنے سے   کم کے لیے کسی دلیل کو قبول نہ کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ مستقبل میں سلالہ جیسا واقعہ پیش نہ آئے۔ (پاکستان ٹوڈے، ۲۰جون ۲۰۱۲ئ)

اب غور طلب امر یہ ہے کہ اواخر مئی اور جون میں وہ کیا انقلاب واقع ہوا کہ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، وزیرخارجہ، وزیردفاع اور پورے برسرِاقتدار گروہ نے سجدۂ سہو کرڈالا اور ’’تھا جو نا خوب‘‘ چشم زدن میں وہ ’خوب‘ بن گیا؟

ا س سلسلے میں سب سے پہلا شوشا اس وقت کے وزیردفاع جناب احمدمختار نے چھوڑا اور یہ انکشاف فرمایا کہ: ’’رسد صرف زمین کے راستے سے بند ہے، فضائی حدود امریکا اور ناٹو کے لیے   کھلی ہوئی ہیں اور ان پر کبھی پابندی نہیں لگی‘‘۔ حالانکہ پارلیمنٹ کی قرارداد میں زمینی اور ہوائی ہرراستے کا واضح طور پر ذکر ہے۔ پھر ایک دم کئی وزیروں پر یہ عقدہ کھلا کہ ناٹو اور ایساف میں تو ۴۸ممالک ہیں اور ہم ان سب کی مخالفت کیسے مول لے سکتے ہیں۔ غضب بالاے غضب کہ ان ممالک میں ہمارا دوست ملک ترکی بھی شامل ہے۔ پھر ایک بھرپور مشاعرہ شروع ہوگیااور وزرااور سرکار کا ہم نوا میڈیا یہ راگ الاپنے لگا۔ اس زمانے میں ایک اور موضوع پر سخن طرازی شروع ہوگئی کہ: ’’اصل چیز معافی (apology) ہے۔ ڈرون کا مسئلہ اس سے الگ ہے جس پر جداگانہ بات چیت جاری رکھی جارہی ہے‘‘۔ حالانکہ دونوں میں اصل مسئلہ ملک کی حاکمیت اور سرحدات کی  خلاف ورزی کا تھا ، جب کہ خود پاکستانی سفیرصاحبہ نے ۴جولائی کے اعلان سے صرف ۱۴ دن پہلے تک دوسرا موقف اپنائے رکھا۔

پھر اس لَے میں ایک اور لَے یہ شریک ہوگئی کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے جذبات پر نہیں حقائق پر استوار ہوتے ہیں۔ گویا نومبر ۲۰۱۱ء میں ناٹوسپلائی کی بندش، امریکی افواج کے انخلا اور شمسی ایئربیس سے امریکا کی خلاصی وغیرہ تو بس جذباتی فیصلے تھے اور اصل حقائق اب اس قیادت پر کھلے ہیں۔ اور پھر ٹیپ کا یہ بند لگایا گیا کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہوتے ، اس کے پاس یہ پیشہ ورانہ مہارت نہیں کہ ایسے معاملات طے کرسکے۔یہ تو صرف انتظامیہ طے کرسکتی ہے۔  یہ بڑی حماقت ہوئی کہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ اور اس کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا اور   اس طرح قیادت ایک مصیبت میں گرفتار ہوگئی۔ وہ جو پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے اور جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اس اظہارِخیال پر بھی برہم ہیں کہ ’اصل بالادستی دستوراور قانون کی ہوتی ہے اور دستور کے دیے ہوئے اختیارات کے اندر ہر ایک اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا پابند ہے، وہ اب ببانگِ دہل فرما رہے ہیںکہ اس کھڑاگ میں پارلیمنٹ کو اپنی ٹانگ نہیں پھنسانا چاہیے۔

ریکارڈ کی درستی کی خاطر ایک انگریزی اخبار کے اداریے کا یہ حصہ قارئین کی نذر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ یہ اداریہ اس پورے ذہن کا عکاس ہے جو ایک طرف لبرل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دن رات جمہوریت کی دہائی اور آزادیِ صحافت کا واویلا کرتا ہے، لیکن دراصل مخصوص مفادات کے  تحفظ اور ترجمانی کے علاوہ اس کا کوئی کردار نہیں۔ روزنامہ Express Tribune کا ۶جولائی ۲۰۱۲ء کا اداریہ پوری لبرل لابی کے تصورات اور احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس اداریے نے قوم کے لیے جو سبق نکالے وہ بھی پڑھ لیں اور اس دانش وری پر سر دُھنیں:

پاکستان کا پھندوں میں خود جاکر پھنسنے کا ایک طریقہ ہے لیکن اس کو وہ طویل مدت تک نہیں چلا سکتا۔ مئی ۲۰۱۱ء میں، اس بات کا احساس کیے بغیر کہ باہر کی دنیا کو کیسا لگے گا، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر فوج کا صبر جواب دے گیا۔ اور جب  نومبر میں سلالہ کاواقعہ پیش آیا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور غم و غصے کا اظہار کیاگیاجس کو قومی مفادات کے تحت قابو میں رکھنا چاہیے تھا۔ پھر میڈیا کو اجازت دی گئی کہ وہ  غیض و غضب کی کیفیت میں آکر ملک میں انتقام کے جذبات کو پھیلائے۔

دوسری غلط بات یہ کی گئی کہ مسئلے کو پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا گیا جہاں قومی غیرت کا ذکر کچھ زیادہ ہی ہونا تھا۔ ریاست کمزور ہو یا مضبوط، اس کی خارجہ پالیسی کو قومی تفاخر کے معاملات سے الگ ہونا چاہیے، تاکہ مدبرانہ سوچ پر عمل کیا جاسکے اور تنازعے سے بچاجاسکے۔

ایک بڑی خرابی یہ ہوئی کہ مختلف مبصرین نے جلد ہی یہ محسوس کیا کہ پارلیمنٹ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تیاری میں دیر لگا رہی ہے۔ یہ انتقام کے اسفل جذبات کے آگے سپرانداز ہوگئی اور اس میں وہ لمحہ گزر گیا جب امریکا پاکستان کے موقف کوتسلیم کرنے پر آمادہ تھا۔

باہمی تنائو کے اس عرصے میں پاکستانی اپنے زیادہ اہم بحران کو بھول گئے اور امریکا کی معافی پر یکسو ہوگئے۔ان کا خیال تھا کہ اس سے خود ہی انتہائی تذلیل ہوگی۔ کیا اس میں پاکستان کے لیے کوئی سبق ہے؟ ہاں، تین سبق ہیں: غیرت کے جذبات میں نہیں بہنا چاہیے، کیونکہ ریاستیں ایسا نہیں کرتیں۔ سفارت کاری کو پارلیمنٹ کے حوالے مت کرو، کیونکہ اس سے لازماً حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ اور چاہے کچھ بھی ہو، خود  کو دنیا میں تنہا  نہ کرو کیونکہ آج کے بین الاقوامی قانون میں تنہائی شکست کا دوسرا نام ہے۔

حکومت کے نمایندوں اور اس کے ہم نوا پریس اور الیکٹرانک میڈیا کے تمام ارشادات کا تجزیہ کیا جائے تو چھے نکات سامنے آتے ہیں، جن میں سے ہر ایک نہایت بودا اور تارِعنکبوت کے مانند ہے لیکن انھیں بڑی تعلّی،بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔

جذبات نھیں ’حقائق‘

پہلا دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے اور اس کا درس دیا جا رہا ہے کہ خارجہ اور سلامتی کے امور کے فیصلے جذبات کے تحت نہیں کیے جاتے، ان کے لیے ٹھوس دلائل اور زمینی حقائق کا اِدراک ضروری ہے۔ ہمیں اس اصولی بات سے اتفاق ہے کہ قومی فیصلے محض جذبات کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو فیصلے بھی قوم کے جذبات، قومی خواہشات، عوام کے عزائم، توقعات اور ترجیحات کو نظرانداز کر کے ہوں گے ان کی اہمیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہوگی۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا نہ صرف عراق بلکہ افغانستان میں بھی عملاً یہ جنگ ہارچکا ہے اور اس کے اتحادی ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ۱۱سال پر محیط اس جنگ میں دنیا کی واحد سوپرپاور نے ۵لاکھ سے زیادہ اعلیٰ ترین ٹکنالوجی اور کیل کانٹے سے لیس فوجی سورما جھونکے اور ۳ہزار ارب ڈالر سے زیادہ پھونک دیے ہیں۔ اس میں نائن الیون کے ۳ہزار ہلاک ہونے والے انسانوں کے انتقام میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں ملاکر ۵لاکھ سے زیادہ افراد موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، مگر چند سو القاعدہ کا قلع قمع نہیں ہوسکا۔ اور جنھیں دہشت گرد کہا جارہا تھا وہ آج درجنوں ممالک تک پہنچ گئے ہیں۔ افغانستان کے ۷۰ فی صد زمینی رقبے پر طالبان کا عمل دخل ہے اور وہ جب چاہتے ہیں کابل کے محفوظ ترین علاقوں پر پانچ حفاظتی حصار توڑ کر یا عبور کر کے اقدام کرڈالتے ہیں۔ پاکستان جو نقصانات اُٹھا چکا ہے اور اُٹھا رہا ہے، وہ محض جذباتی گلہ شکوہ نہیں، زمینی حقائق ہیں۔

راے عامہ کے امریکی ادارے Pew ریسرچ سنٹر کے تازہ ترین سروے کی روشنی میں، جو ۲۷جون ۲۰۱۲ء کو شائع ہوا ہے: ’’پاکستان کی آبادی کا ۷۴ فی صد ۲۰۱۲ء میں امریکا کو ایک دشمن ملک سمجھتا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں یہ تعداد ۶۴ فی صد تھی۔ اور جن کی نگاہ میں امریکا ایک ناپسندیدہ ملک ہے، وہ ۸۰ فی صد ہیں۔ اسی طرح ۴۰ فی صد کی نگاہ میں امریکی امداد کے اثرات منفی ہیں۔ ڈرون حملے کی مخالفت کرنے والے ۹۴ فی صد ہیں، جو اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ان ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہری ہیں۔

پاکستانی عوام اور خواص کا یہ پختہ یقین ہے کہ امریکا اور پاکستان کے عزائم، اہداف اور مفادات متضاد ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک امریکا کی قیادت بھی کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت اور فوج کے رویے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اعتماد میں لینے سے گریز کرتے ہیں اور موقع پاتے ہی چوٹ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس حکومت کو اس کا اِدراک ہو یا نہ ہو، عوام اس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور امریکا کے اہلِ نظر اس کا کھلے بندوں اعتراف کرتے ہیں، جس کی ایک تازہ مثال وہ مضمون ہے جو مشہور امریکی تجزیہ نگار اسکالر اسٹیفن پی کوہن اور معیدیوسف نے مشترکہ طور پر ۲۱جون ۲۰۱۲ء کی انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کی اشاعت میں لکھا ہے:

یہ بات درست نہیں ہے کہ پاکستان کے شہری اور واشنگٹن پاکستان کی قومی سلامتی کے معاملات کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے شہری پاکستان کے لیے امریکی پالیسی پر فوج ہی کی طرح پریشان ہیں۔

اگر پاکستانی قوم امریکا سے دوستی کو آنکھ بند کر کے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، اور اسے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو وہ حق بجانب ہے، اس لیے کہ اس کے بارے میں امریکا کے جو عزائم اور پالیسیاں ہیں، انھیں پاکستانی قوم اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔

امریکا کے بارے میں یہ منفی تصور صرف پاکستان کا نہیں بلکہ یہ پوری دنیا اور خصوصیت سے اسلامی دنیا میں بھی ہے۔Pew ہی کے ۱۰جولائی ۲۰۱۲ء کے سروے میں چند مسلمان ممالک میں امریکا پر اعتماد کی جس کیفیت کی تصویرکشی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں پاکستان میں امریکا کو ناپسند کرنے والوں کی تعداد ۸۰ فی صد ہے، وہاں ترکی میں ۷۲ فی صد، مصر میں ۷۹ فی صد اور اُردن میں ۸۶ فی صد ہے۔ یہ سب وہ ممالک ہیں جنھیں امریکا کا دوست ترین ملک کہا جاتا ہے اور جہاں کے حکمرانوں کی امریکی حکمرانوں سے گاڑھی چھنتی ہے۔

ڈیوڈ سانگر جن کا حوالہ ہم اُوپر دے چکے ہیں، مصر کے حالیہ انقلاب کے بعد وہاں کی جو فضا ہے اور جس کا تازہ ترین مظہر ہیلری کلنٹن کے دورے کے موقع پر اسکندریہ کا مظاہرہ تھا، وہاں کی تمام ہی انقلابی ، اسلامی اور سیکولر قوتوں کے بارے میں موصوف کو جو اِدراک ہوا وہ یہ ہے:

ایک مسئلے پر سب کا اتفاق تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ امریکا حسنی مبارک کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی مصر کے مسئلے کا حصہ ہے۔راینا نے کہا: ’میں سمجھتی ہوں کہ میں امریکا سے  لڑ رہی ہوں‘۔ ’فوج امریکا کی بنائی ہوئی ہے۔ مبارک امریکا کا بنایا ہوا تھا۔ امریکا کی مالی امداد عوام تک نہیںجاتی‘۔

یہ سب زمینی حقائق ہیں یا جذبات کی پروازیں؟

مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ افغانستان میں امریکی جنگ جلداز جلد ختم ہو اور وہاں سے غیرملکی افواج کا مکمل انخلا واقع ہو، تاکہ افغانستان اور علاقے میں امن کا حصول ممکن ہوسکے۔ جنگ ختم کرنا اور مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے۔ اس کے سوا جو راستہ اختیار کیا جائے گا وہ تباہی کا راستہ ہے۔ نومبر ۲۰۱۱ء میں جو فیصلہ قوم نے کیا تھا اور جس پر قوم کے ہرطبقے کو اطمینان تھا اور جس کی بھرپور تائید برسرِاقتدار جماعتوں اور حزبِ اختلاف نے کی، وہ حقائق پر مبنی تھا محض جذبات پر استوار نہیں تھا۔ اس اقدام کی پارلیمنٹ نے قوم کے جذبات اور پاکستان کے مفادات اور عزائم کو سامنے رکھ کر توثیق کی اور ان کو آگے بڑھاتے ہوئے حالات میں تبدیلی کے راستے کی نشان دہی کی۔ اسے جذباتیت قرار دے کر اسی گھسی پٹی امریکی لائن کو آگے بڑھانے کو عقلیت اور حقیقت پسند قرار دینا حقائق سے انکار اور قوم کے عزائم اور ترجیحات کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔

اس بحث کا ایک اور دل چسپ شوشا بڑے طمطراق سے چھوڑا جا رہا ہے کہ: ’’عقل اور فراست کے تمام متوالوں کے ارشاداتِ عالیہ کو نظرانداز کر کے ان لوگوں کی باتوں کو اہمیت دی جارہی ہے جو محض غیرت کے نام پر ملک کو کسی تصادم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ کون تصادم کی طرف لے جارہا ہے اور کس نے اس ملک کو ایک تصادم نہیں بلکہ تصادموں کے ایک سلسلے میں جھونک دیا ہے؟ ایک قابلِ تحقیق امر ہے، لیکن ان تمام افراد اور اداروں بشمول پارلیمنٹ کو مطعون کرنا جو قوم و ملک کی آزادی، عزت و ناموس اور خودمختاری، شناخت کی حفاظت اور اس کے لیے ہرقربانی کے لیے آمادگی کا عزم رکھتے ہیں، صرف بے غیرتی ہی نہیں ایک قومی جرم ہے۔

ایمان اور عزت و ناموس وہ قیمتی متاع ہیں، جن کے لیے جان کی بازی لگانا زندگی کی سب سے بڑی معراج ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جس قوم میں اخلاقی حُسن اور عزتِ نفس باقی نہ رہے، وہ پھر غلاموں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ جس کو اپنی آزادی، عزت اور شناخت عزیز ہو وہ بڑی سے بڑی استعماری طاقت سے بھی ٹکر لیتی ہے اور بالآخر اسے پاش پاش کردیتی ہے۔ خود ہمارے اس عہدِحیات میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کابڑی بڑی مضبوط اور دیوہیکل استعماری قوتوں کے چنگل سے آزادی حاصل کرلینا ایک زندہ حقیقت ہے۔ تیونس اور مصر میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اور شام میں جو معرکہ برپا ہے وہ آزادی اور عزت ہی کے حصول کی خاطر ہے۔ لیکن افسوس ہمارے نام نہاد آزاد خیال اور لبرل طبقے کا حال یہی ہے کہ  ع

حمیّت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے

قائداعظمؒ نے مارچ ۱۹۴۸ء میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کے اجتماع میں اپنے صدارتی خطاب کو جن الفاظ پر ختم کیا تھا وہ ایمان، اخلاق، عزتِ نفس، نظریاتی اور ثقافتی شناخت یا  بہ الفاظ دیگر اس شے لطیف کے بارے میں تھا، جسے ایک لفظ میں ’غیرت‘ کہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا:

جس اہم مقابلے میں ہم مصروف ہیں وہ نہ صرف مادی فوائد کے لیے ہے بلکہ وہ مسلم قوم کی روح کی بقا کے لیے بھی ہے۔ اسی لیے میں نے بسااوقات یہ کہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے، سودے بازی کی بات نہیں۔ مسلمانوں کو اس بات کا پورا احساس ہوچکا ہے۔ اگر ہم اس جدوجہد میں ہار گئے تو سب کچھ کھو جائے گا۔ ولندیزی ضرب المثل کے مصداق ہمارا موٹو یہ ہونا چاہیے: ’’دولت کھوئی تو کچھ نہیں کھویا، حوصلہ کھویا تو کافی کچھ کھویا، عزت کھوئی تو بہت کچھ کھویا،   روح کھوئی تو سب کچھ کھو دیا!!‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد دوم، ص ۴۵۵)

پارلیمنٹ کا کردار

دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں پارلیمنٹ کو کیوں گھسیٹ لیا گیا وہ تو اس کی اہل ہی نہیں۔ بلاشبہہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مختلف اداروں اور مختلف علوم پر مہارت رکھنے والوں کا کردار ناقابلِ تردید ہے۔ لیکن جمہوریت جہاں قانون کی حکمرانی کا نام ہے، وہیں پالیسی سازی میں عوام کی مرضی،ان کے عزائم، ترجیحات اور خواہشات کو بھی ایک فیصلہ کن حیثیت دیتی ہے۔ پاکستان کے دستور میں خارجہ پالیسی کے اصولی نکات درج ہیں اور اس سلسلے میں دفعہ ۴۰ بڑی محکم ہے۔ اور یہ بھی دستور نے لازم کیا ہے کہ ہرسال حکومت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو مطلع کرے کہ پالیسی کے اصولوں پر کہاں تک عمل ہوا ہے۔

دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے تمام اہم پہلوئوں پر گفتگو ، تبصرے اور پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں خارجہ پالیسی اور سلامتی کے متعلقہ امور پر نہ صرف نگرانی (oversight) کی ذمہ داری ادا کرتی ہیں بلکہ احتساب اور censor بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔ امریکا میں تو دستور صدرِمملکت کو پابند کرتا ہے کہ جنگ کا کوئی فیصلہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا۔ معاملات جنگ کے ہوں یا صلح و امن کے، دوستی کے ہوں یا کش مکش اور تصادم کے، پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں تمام امور کے بارے میں اپناکردار ادا کرتی ہیں۔ صرف اصول اور کلیدی معاملات میں نہیں بلکہ بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات  تک پر نہ صرف بحث کرتی ہیں بلکہ فیصلہ تک کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ یہ جو ایک ایک ملک کو معاشی امداد اور   فوجی امداد کے سلسلے میں پارلیمنٹ سے رجوع کیا جاتا ہے اور اس کی کمیٹیوں کی کارروائی کے بعد ہائوس میں ووٹ کے ذریعے ایک ایک ڈالر کا معاملہ طے کیا جاتا ہے، یہ پارلیمنٹ کا خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور میں کردار نہیں تو کیا ہے؟

امریکا سے دشمنی کا خوف

تیسرا ارشادِ گرامی یہ ہے کہ پاکستان امریکا سے نہیں لڑسکتا، اس کے لیے امریکا سے دوستی کے سواکوئی چارہ نہیں۔ امریکا کو آنکھیں دکھانا ایک غلطی تھی اور اب اس کی سزا ہم کو بھگتنا پڑے گی۔ اچھا ہوا کہ سات مہینے ہی میں ہماری آنکھیں کھل گئیں، ورنہ اور بھی تباہی ہمارا مقدر ہوتی۔

اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ تباہی سے ہم بچ گئے ہیںیا ایک نئی تباہی کے منہ میں داخل ہوگئے ہیں، اور ۴جولائی کے بعد سے ان چند دنوں ہی میں کتنے نئے حملے ہمارے مظلوم شہریوں پر ہوئے ہیں، اور ہمارے خلاف کتنے نئے محاذ (بشمول افغانستان کی طرف سے محاذ آرائی) کھولنے کا بار بار اعادہ ہورہا ہے؟  ان تمام مسائل کے اصولی پہلوئوں پر گفتگو کرنا ہرعاقل پاکستانی کا فرضِ منصبی ہے۔ مگر حکمران طبقہ یہ کہتا ہے کہ عوام اور عوام کے منتخب نمایندوں کا ان بحثوں سے بھلا کیا تعلق؟

بہرحال یہ شوشے اور ارشادات جن مفروضوں پر مبنی ہیں، وہ خام اور ناقابلِ التفات ہیں اور صرف شکست خوردہ اور غلامانہ ذہنیت کے غماز ہیں۔

 دوستی اور غلامی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دوستی کا کون منکر ہے، بات دوطرفہ تعلقات اور برابری کی بنیاد پر تعلقات کی ہے۔ حقیقی دوستی اعتماد پر مبنی ہوتی ہے اور مقاصد، اقدار اور مفادات کے اشتراک سے اسے مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ امریکا سے اچھے تعلقات کا کوئی مخالف نہیں ہے، لیکن کوئی وجہ تو ہے کہ دنیا میں صرف دو ملکوں کو چھوڑ کر، یعنی اسرائیل اور بھارت، کسی ملک کے عوام بھی امریکا پر بھروسا نہیں کرتے۔ اس کی دوستی کے دعوئوں کو اس کے الفاظ کی بنیاد پر نہیں پرکھتے بلکہ دوستی کے پردے میں جو کھیل وہ عالمی میدان میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کھیل رہا ہے، اس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ  ع

ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟

دنیا بھر میں امریکا سے بے زاری کیوں ہے؟ ٹکنالوجی پر اس کی دست رس، معاشی وسائل میں فوقیت اور بہ نظر ظاہر اس کی جمہوری اقدار اور اداروں کی وجہ سے نہیں، اس کی ان پالیسیوں کی وجہ سے ہے جن کے نتیجے میں دنیا کے ہر گوشے کے لوگ اس کے ظلم و ستم کا نشانہ ہیں اور اس کے اس کردار پر برافروختہ ہیں۔ وہ امریکی استعمار کے خلاف برسرِپیکار ہیں اور برملا کہہ رہے ہیں کہ  ع

جہاں سے اُٹھا ہے جو بھی فتنہ، اُٹھاتیری رہ گزر سے پہلے

امریکا کی خارجہ سروس کے ایک اعلیٰ عہدے دار پیٹر فان بورین نے ۲۳سال تک  تائیوان، جاپان، کوریا، عراق، انگلستان اور ہانگ کانگ میں سفارتی خدمات انجام دی ہیں، اس نے عراق میں امریکا کے مجرمانہ کردار کی تفصیلی داستان اپنی تازہ ترین کتاب We Meant Wellمیں بیان کی ہے۔ یہ کہانی صرف عراق کی نہیں، افغانستان، پاکستان، مصر، شام، اُردن سب کا یہی حال ہے۔

پیٹر بورین الجزیرہ کے ویب پیج پر اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی صدر کی جو تصویرکشی کرتا ہے، ڈرون حملوں سے زخم خوردہ ہر پاکستانی کا تصور بھی اس سے مختلف نہیں۔

ہمارے وقت کی سادہ حقیقت یہ ہے کہ صدر نے اپنے آپ کو (اور اپنے مشیروں کو اور جو ان کے احکامات کی تعمیل کریں ان کو) قانونی اور اخلاقی ہرلحاظ سے قانون سے بالاتر قرار دے دیا ہے۔ اب ان کو اور صرف ان کو تنہا یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ڈرون حملوں سے کون ہلاک ہوگا اور کون زندہ رہے گا۔ وہی میڈیاتقسیم کاروں کو خفیہ اطلاعات سے نوازیں گے یا ان صحافیوں کی پٹائی لگائیں گے جو ان کو اور ان کے ساتھیوں کو مقدمات سے پریشان کرتے ہیں اور بدترین بات یہ ہے کہ وہ خود ہی یہ طے کریں گے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔

نوام چومسکی امریکا کی ایک مشہور یونی ورسٹی کا پروفیسر ہے، وہ امریکی لغت کے مطابق نہ کوئی اسلامی فنڈامنٹلسٹ ہے اور نہ القاعدہ کا ہمدرد، وہ برطانوی ہفت روزہ New Statesman میں ایک انٹرویو میں امریکی صدر اوباما کے بارے میں اپنے کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہے کہ:

اوباما نے خود اپنا جو تشخص بنایا ہے، (آج کل اس کے لوگ جارحانہ انداز میں اُسے اور بڑھا رہے ہیں) وہ ایک قاتل کا ہے جو’دہشت گردوں‘ اور ان کے ساتھیوں کو ختم کرنے  کے لیے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگتا ہے۔

وہ اس وقت بھی جنگی جرائم میں مبتلا ہے۔ مثال کے طور پر ہدف زدہ ہلاکتیں جنگی جرائم ہیں۔ ان میں اوباما کے دور میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ شہریوں پر حملوں کی بھی متعدد مثالیں ہیں۔ (نیواسٹیٹس مین، ۱۳ ستمبر ۲۰۱۰ئ)

امریکا سے دو طرفہ دوستی اور اور سیاسی اور معاشی تعلقات کا کوئی مخالف نہیں۔ ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ ان تعلقات کو ان حدود کے اندر ہونا چاہیے، جو آزاد اور خودمختار ممالک کے درمیان ہوتے ہیں اور مشترک مقاصد اور ایک دوسرے کی حاکمیت، خودمختاری اور مفادات کے احترام کے فریم ورک کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے بالکل صاف الفاظ میں کہی ہے، جس کی تائید پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اتفاق راے سے کی گئی ہے لیکن افسوس ہے کہ وہ نہ امریکا کو قبول ہے اور نہ پاکستان میں امریکی لابی اسے ہضم کرپارہی ہے۔

رہا تصادم کا راستہ، تو وہ اگر کسی نے اختیار کیا ہے تو امریکا ہے۔ وہ قوت اور جبر کے تمام حربوں، دھونس اور بلیک میل کے تمام ہتھکنڈوں اور میڈیا اور پروپیگنڈے کی پوری یلغارکے ساتھ اپنی پالیسیاں دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے اور کر رہا ہے۔ وہ مظلوم اقوام کو ظلم اور قوت کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کے حق کو تصادم کا نام دیتا ہے۔ ہماری مخالفت امریکا کی غلامی اور اپنے قومی مفادات کو قربان کر کے اس کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے حوالے سے ہے۔ مناسب حدود میں عزت و احترام کے ساتھ تعلقات کے ہم بھی خواہاں ہیں، لیکن کیا امریکا اس کے لیے تیار ہے؟ اور اگر وہ تیار نہیں، جیساکہ ظاہر ہے تو پھر ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عوام کے جذبات کی پاس داری کے لیے اس کے آگے سپر نہ ڈالیں۔

 ہم اس میدان میں تنہا نہیں ہیں۔ دنیا کے کم قوت رکھنے والے ممالک نے بھی عزت اور آزادی کا راستہ اختیار کیا ہے اور امریکا اپنی تمام اکڑفوں کے باوجود ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔ جنوبی امریکا کے ممالک میں کیوبا، ارجنٹینا، نیکوروگوائے اور چلّی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایران اور شمالی کوریا نے امریکا کی ہردھمکی اور دست درازی کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور وسائل اور قوت کے فرق کے باوجود اپنی عزت، اپنی آزادی اور اپنے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ امریکا کی ناراضی ہمارے لیے بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ ۱۹۶۵ء ، ۱۹۷۱ئ، ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۸ء میں ہم اس کا بھرپور تجربہ کرچکے ہیں اور اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور امریکا کے ناروا مطالبات کے آگے جھکنے سے انکار کرچکے ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ    ۱۹۹۹ء میں پاکستان، لیبیا کے بعد سب سے زیادہ پابندیوں میں جکڑا ملک تھا مگر ہم نے اس دور کو بھی بحسن و خوبی گزار دیا۔ آج بھی قیامت نہیں ٹوٹے گی اور عراق اور افغانستان کے بے سروسامان عوام نے مزاحمت اور امریکا کے دانت کھٹے کرنے کی جو نظیر قائم کی ہے، وہ دوسروں کے لیے  نشانِ راہ ہے۔ چین نے اپنی ہوائی حدود کی خلاف ورزی پر امریکی جہاز کو اُتار لیا تھا اور امریکا کے واضح معافی کے بغیر جہاز کا ملبہ بھی واپس نہ کیا۔ ایران نے حال ہی میں امریکی ڈرون اُتار لیا اور واپس کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ کیا غلامی اور چاکری صرف ہمارے ہی مقدر میں لکھی ہے اور کیا اپنے مفادات کا تحفظ، تصادم اور اعلانِ جنگ کا درجہ رکھتے ہیں؟

ہمارا اصل مسئلہ باصلاحیت اور دیانت دار قیادت کا فقدان ہے، ورنہ قوم میں بڑی جان ہے اور وسائل کی بھی کمی نہیں۔ جس ملک میں قومی ادارئہ احتساب (NAB) کے سربراہ کے الفاظ میں ہر روز ۶ سے ۸ ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہو، اس کے بارے میں وسائل کی کمی کی بات تو نہیں کی جاسکتی۔ اور ملک اچھی حکمرانی کے فقدان، امن و امان کی تباہ شدہ حالت، امریکا کی ساری ریشہ دوانیوں اور کرپشن کے اس طوفان کے باوجود زندہ رہ سکتا ہو اور تین سے چار اشاریہ کی رفتار سے جی ڈی پی میں اضافہ بھی کرسکتا ہو، اور جس کے بیرونِ ملک سے پاکستانی محنت کش ہر سال ۱۲سے ۱۵؍ ارب ڈالر بھیج رہے ہوں، وہ ایسی خارجہ پالیسی پر کیوں کاربند نہیں ہوسکتا جو آزادی اور عزت کی حفاظت کرسکے، اور سب سے دوستی اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں ممدومعاون ہوسکے    ؎

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

تنھا رہ جانے کا ڈراوا

چوتھی بات اس سلسلے میں یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’پاکستان ساری دنیا سے کٹ کر ترقی نہیں کرسکتا ،اور اگر ہم امریکا کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرتے تو ایک نہیں ۴۹ممالک کی مخالفت مول لینا ہوگی‘‘۔ پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس قیادت اور ان دانش وروں کو یہ اطلاع کب ملی کہ افغانستان میں صرف امریکا نہیں مزید ۴۸ ممالک برسرِعمل ہیں۔ کیا یہ ممالک ۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء سے پہلے وہاں نہیں تھے یا ۲۷ نومبر کے فیصلے کے وقت آپ کے علم میں یہ نہ تھا۔ ۲۷نومبر کے فیصلے کے بارے میں تو ایک آواز بھی اختلاف کی نہ اُٹھی اور حکومت اور اس کے اتحادی بڑے فخر سے اس کا کریڈٹ لے رہے تھے۔ پھر یہ سارے انکشافات کب ہوئے؟ کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے؟

دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم ان ممالک سے کب برسرِپیکار ہیں اور ان سے اُلجھنے کی کون دعوت دے رہا ہے۔ یہ ممالک تو خود افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔ اسپین اور اٹلی نکل چکے ہیں، فرانس سارے دبائو کے باوجود دسمبر ۲۰۱۲ء تک نکلنے کے عزم پر قائم ہے۔ بہت سے ممالک صرف براے وزنِ بیت وہاں ہیں اور الحمدللہ بحیثیت مجموعی سب ہی سے ہمارے اچھے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات ہیں۔ یہ بھی صرف ایک مجرمانہ مغالطہ انگیزی ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔

معیشت کی بدحالی

پانچویں بات کا تعلق پاکستان کے اپنے معاشی حالات سے ہے اور کہا جا رہا ہے کہ: ’’ہم ان حالات میں امریکا سے کسی قسم کے کھچائو کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘‘۔ یہاں بھی یہ سوال اہم ہے کہ معاشی اثرات اور نتائج کا انکشاف کب ہوا؟ کیا ۲۰۱۱ء میں حالات بہت مختلف تھے؟ اگر نہیں     تو صرف ان حالات کا حوالہ دے کر ایک ایسی پالیسی کے لیے جواز کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے،      جو ہردوسرے اعتبار سے خسارے کا سودا ہے۔ لیکن دوسرا زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ معیشت کی اس خراب صورت حال میں حکومت کی غلط پالیسیوں، بہتر انتظامی صلاحیت کے فقدان، نااہلی اور بددیانتی کا کتنا حصہ ہے اور اس معاشی فساد میں بیرونی اسباب کا کیا کردار ہے؟ پاکستان کے عوام کا یہ تجزیہ سامنے آگیا ہے کہ ۴۰ فی صد کی نگاہ میں امریکی امداد کے نہ صرف یہ کہ کوئی مثبت اثرات نہیں نکلے ہیں، بلکہ منفی اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔ اس میں اگر دہشت گردی میںجنگ کی شرکت کی وجہ سے جو ہرسال ۱۰ سے ۱۱؍ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اس سے بچا جائے تو معیشت کے بحران سے نکلنا آسان اور تیزتر ہوسکے گا۔ اگر ہم اپنی معاشی حماقتوں اور تباہ کن فیصلوں کا سدِّباب کرلیں تو معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا مشکل نہیں ہے۔ صرف کرپشن پر قابو پاکر اس خسارے کو ایک بڑی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔ نیز ہم یہ بات بھی کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قومیں اپنی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور عزت کے تحفظ کے لیے معاشی قربانیاں بھی دینے کو غلامی اور محکومی کی زندگی پر ترجیح دیتی ہیں، بلکہ اقبال نے تو یہاں تک کہا تھا کہ    ؎

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

یہ محض شاعرانہ تعلّی نہیں، آزاد اور خوددار قوموں کا شعار ہے، اور دنیا میں کوئی بڑا کام اگر کسی نے کیا ہے تو وہ وہی لوگ ہیں جو اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور اپنے نظریات کے مطابق زندگی کی تشکیل کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں، اور ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ    ؎

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث میں

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

اس سلسلے کی چھٹی بات یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’دیکھو ہم نے امریکا سے معذرت تو حاصل کرلی، کیا ہوا اگر کوئی اور بات نہ منوا سکے۔ بات چیت تو جاری ہے۔ ہیلری کلنٹن نے جو اظہارِافسوس کردیا ہے ،وہ نئی شروعات کے لیے کافی ہے‘‘۔

حکومت اور اس کے ہم نوا جو دلیلیں دے رہے ہیں ان میں سب سے کمزور اور شرم ناک دلیل یہی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس کا جائزہ پارلیمنٹ کی قرارداد کی روشنی میں لیا جائے، تاکہ قوم کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح آجائے کہ اس قیادت نے پارلیمنٹ کی خلاف ورزی کرکے کس بے تدبیری اور کج فکری اور اخلاقی دیوالیے پن کے ساتھ امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں اور ملک و قوم کو غلامی کے ایک بدتر جال میں پھنسایا جا رہا ہے، جس سے نکلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

پارلیمنٹ پر تاخیر کا الزام

پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹی پر دو الزامات پوری دریدہ دہنی سے لگائے جارہے ہیں، جن کا مقصد پارلیمنٹ کی اہلیت اور اس کی دی ہوئی رہنمائی کو بے وقعت کرنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ: ’’پارلیمنٹ نے وقت ضائع کیا اور امریکا سے معاملات کو درست کرلینے کا جو کام جھٹ پٹ ہوجانا چاہیے تھا وہ غیرمعمولی تعویق کا شکار ہوگیا‘‘۔اصل حقائق کیا ہیں ذرا ان کو بھی دیکھ لیں۔

۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد اسی شام کو کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی نے ان اقدامات کا اعلان کیا، جن کے نتیجے میں ناٹو کی سپلائی بند کردی گئی، شمسی ایئربیس کو خالی کرا لیا گیا، امریکی فوجیوں اور آپریشن کی ایک تعداد کو واپس بھیج دیا گیا اور امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کا عمل شروع ہوا۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کو نئی پالیسی کے خطوطِ کار تجویز کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔

 چنانچہ ۲۸نومبر کے کابینہ کے اجلاس نے اس تجویز کی توثیق کی اور وزیراعظم نے ۳۰نومبر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیکرٹریٹ کو اس پر عمل کی دعوت دی۔ کمیٹی نے ۳دسمبر کو پہلا اجلاس منعقد کیا اور خود وزیراعظم، متعلقہ وزرا اور سروسز کے نمایندوں نے بریفنگ لی اور اپنے کام کا منصوبہ تشکیل دیا۔ ۱۵ دسمبر سے ۵جنوری تک کمیٹی نے آٹھ اجلاس منعقد کیے، جن میں تمام متعلقہ اداروں اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین سے تفصیلی بریفنگ لی، اور ۵جنوری کو اپنی ابتدائی سفارشات کا مسودہ تیار کر کے وزارتِ دفاع، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ خزانہ کو ان کے تبصرے کے لیے بھیج دیا، تاکہ وہ اپنے اپنے دائرے میں فنی اعتبار سے تجاویز کو جانچ پرکھ لیں۔ ان کے تبصروں کی روشنی میں کمیٹی نے ۱۱جنوری کو، یعنی ۴۰ دن کے اندر اندر اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے کر ۱۲جنوری کو اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیج دیا۔ باقی جو بھی تاخیر ہوئی ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر ہے جس نے اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کو بلانے میں غیرضروری تاخیر کی اور پھر اجلاس کے دوران کمیٹی کی تجاویز کو تبدیل کرانے کی کوشش کی، جو پوری طرح کامیاب نہ ہوسکی۔ بالآخر پارلیمنٹ نے وسط اپریل میں سفارشات منظور کرلیں۔ لیکن نہ صرف یہ کہ حکومت نے ان پر عمل نہیں کیا بلکہ جو کچھ ۳اور۴جولائی کو ہوا، وہ ان سفارشات کی بلااستثنا خلاف ورزی ہے۔ ان سفارشات کا کیا حشر ہوا اور پارلیمنٹ کی بھی اس حکومت نے اسی طرح خلاف ورزی کی جس طرح عدالت ِ عالیہ کے احکامات اور فیصلوں کی کررہی ہے، یعنی ۴۱فیصلے عدالت عظمیٰ اور عدالت ہاے عالیہ کے ہیں جن پر عمل نہیں ہوا، اور ۴۰سفارشات پارلیمنٹ کی ہیںجنھیں عملاً دریابُرد کردیا گیا۔

ہم حکومت کے اس شرم ناک کارنامے پر مزید گفتگو کرنے سے پہلے چاہتے ہیں کہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے کام پر جو دوسری تنقید کی جارہی ہے اس کے بارے میں بھی صحیح صورت حال قوم کے سامنے رکھیں۔ کمیٹی نے صرف اپنے ارکان کی مہارت اور بصیرت پر انحصار نہیں کیا بلکہ حکومت کے متعلقہ اداروں کے سربراہوں اور ماہرین سے بھرپور استفادہ کیا۔ حالات کو سمجھتے ہوئے بھی اور ایسی تجاویز مرتب کرنے کے مقصد کے حصول کے لیے بھی جو پروفیشنل اعتبار سے کسی طور بھی کمزور نہ ہوں ہرطرح سے کوشش کی۔ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ افسران ، سفیروں کی کانفرنس کی تجاویز، وزارتِ دفاع کے ماہرین کی آرا، وزارتِ خزانہ کے متعلقہ افراد بشمول وزیرخزانہ اور سیکرٹری خزانہ سب کو مشاورت میں شریک رکھاگیا۔ مجوزہ تجاویز کو بھی ایک بار پھر متعلقہ وزارتوں کے تبصرے کے لیے بھیجا گیا۔ اسی طرح ملک میں امورِخارجہ، امورِ معیشت اور امورِ دفاع کے جو بھی ماہرین موجود ہیں، ان سے کسی نہ کسی حد تک بڑے محدود وقت میں استفادہ کیا گیا۔

پارلیمنٹ کی سفارشات

دیکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ ان سفارشات میں کیا ہے؟ اور یہ کہ ان کا حکومت نے کیا حشر کیا ہے؟

پارلیمنٹ نے سفارشات کو جس آخری شکل پر منظور کیا وہ ۱۶نکات پر مشتمل ہیں اور ان میں ۳۸ متعین سفارشات ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق اصولی ہدایات سے ہے، کچھ میں متعین اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، اور کچھ میں اس طریق کار کی نشان دہی کی گئی ہے جس پر عمل کرنے سے خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور زیادہ مؤثر انداز میں ادا کیے جاسکتے ہیں۔

ہم پہلے  طریق کار کے اُمور کو لیتے ہیں جن پر سفارشات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ کمیٹی کو تفصیلی جائزے کے دوران محسوس ہوا کہ حکومت کا نظام بڑی بے تدبیری سے چل رہا ہے اور فیصلے کرنے کے طریقے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں تین بڑی اہم کمزوریاں کمیٹی نے محسوس کیں:

۱- بہت سے اہم فیصلے زبانی کیے گئے ہیں،ان پر عمل بھی ہوگیا ہے، مگر نہ ان فیصلوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ ہے، نہ وہ دلائل اور معاہدے صفحۂ قرطاس پر موجود ہیں جن کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہوا ہو اور نہ اس کی کوئی خبر ہے کہ اس فیصلے میں کون کون شریک تھا۔کمیٹی نے سفارش کی کہ آیندہ ہر فیصلہ اور معاہدہ تحریری طور پر کیا جائے۔ اس کے سارے حقائق اور دلائل ضبطِ تحریر میں لائے جائیں۔ فیصلے میں شرکا کا بہ صراحت ذکر ہو اور یہ تمام سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہوں۔

۲- دوسری بات جو کمیٹی کے لیے اچنبھے کا باعث تھی وہ یہ کہ کسی بھی اہم فیصلے، معاہدے یا کسی پالیسی کے بناتے وقت اس مسئلے کے سلسلے میں جو بھی متعلقہ وزارتیں ہیں ان میں مشورہ اور ربط و تعاونِ باہمی (coordination) مجرمانہ حد تک کم ہے۔ خارجہ امور کے کتنے ہی معاملات ہیں جو دفترخارجہ کے علم میں لائے بغیر طے کردیے گئے ہیں۔ کتنے ہی معاہدے ہیں جن کا بغور جائزہ  (vetting)  وزارتِ قانون اور وزارتِ خارجہ نے نہیں لیا، اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کے مالیاتی واجبات یا نتائج کے بارے میں وزارتِ خزانہ کو پہلے سے کوئی اطلاع نہیں اور نہ ان کو طے کرنے میں اس وزارت کا کوئی دخل ہی ہے۔کمیٹی نے تجویز کیا کہ ایسے تمام اُمور نہ صرف تحریری طور پر طے کیے جائیں بلکہ ان کے طے کرنے سے پہلے اور اس عمل کے دوران تمام متعلقہ وزارتوں کو شریک کیا جائے، اور خارجہ اُمور سے متعلق جو بھی فیصلے یا معاہدے ہوں وہ وزارتِ خارجہ ہی کے ذریعے ہوں۔

۳- تیسری بڑی کمی پارلیمنٹ اور ان کے اداروں کا عدم باہمی تعامل تھا جو معروف جمہوری اقدار و روایات کے  بالکل منافی ہے ۔ پارلیمانی نگرانی اور پارلیمانہ مرحلہ بہ مرحلہ جائزہ دستور کا تقاضا ہے اور جمہوری عمل کا ناقابلِ انقطاع حصہ ہے۔ اس کے لیے تجویز کیاگیا کہ متعلقہ عناصر (تمام اسٹیک ہولڈرز) سے مشاورت کے بعد جو بھی معاہدے طے ہوں اور فیصلے لیے جائیں ان کو پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کے علم میں تحریری طور پر لایا جائے، اور ان معاہدات اور فیصلوں کے بارے میں جو مرکزی اصول اور مقاصد ہیں ان سے متعلقہ وزیر پارلیمنٹ کے فلور پر پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لے۔ نیز معاہدے کوئی فرد نہ کرے بلکہ مرکزی کابینہ ان کو باقاعدہ منظور کرے۔

یہ تینوں سفارشات بڑی اہم اور دُور رس نتائج کی حامل ہیں لیکن ان سب کو ۳؍۴جولائی کے ڈرامائی اقدام میں نظرانداز کردیا گیا ہے۔

اخبارات کی اطلاع کے مطابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے ۳جولائی کی رات اور ۴جولائی کی صبح کو امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں انھوں نے ۲۶نومبر کے امریکی جارحانہ حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں پر اپنے ’گہرے تاسف ‘ (deepest regrets) کا اظہار کیا اور ان کے ورثا کے لیے تعزیت کے کلمات ارشاد فرمائے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی وزیرخارجہ نے ان کو یہ مژدہ سنادیا کہ ہم نے آپ کی اور ناٹو کی سپلائی لائن کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان پر فوری عمل ہورہا ہے۔ بظاہر فیصلہ۴جولائی کی رات کو کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی میں ہوا جس کی توثیق دو دن کے بعد کابینہ نے کی مگر اس فیصلے کی اطلاع امریکی سیکرٹری خارجہ کو فیصلے کے کیے جانے سے ۱۴گھنٹے پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل فیصلہ کس نے کیا اور امریکی آقائوں کو اس کی اطلاع محض دفاعی کمیٹی نہیں بلکہ کابینہ کے فیصلے سے پہلے کیسے دے دی گئی؟ اور فیصلہ بھی ایسا جسے صرف یوٹرن ہی کہا جاسکتا ہے۔

انھی اطلاعات میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی گئی ہے کہ درپردہ مذاکرات چل رہے تھے اور ان میں اصل کارپرداز ہیلری کلنٹن کے ایک معاون تھامس آرنائیڈز اور پاکستان کی طرف سے اس کے وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تھے۔ معاملات درپردہ انھوں نے طے کیے۔ نام نہاد معذرت کے الفاظ کی صورت گری بھی انھی کے ہاتھوں ہوئی اور باقی تمام قول وقرار، مذکورہ اور غیرمذکورہ بھی انھی کے ذریعے طے ہوئے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے کے اصل کرتا دھرتا وزیردفاع اور وزیرخارجہ تھے مگر اس ٹیم میں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ وزیرخارجہ صاحبہ غالباً آخری پیغام بر تو ضرور ہیں مگر معاملہ بندی میں ان کا حصہ نظر نہیں آتا۔ پھر یہ پہلو بھی نظرانداز کرنے کے لائق نہیں کہ امریکا کی طرف سے تو خارجہ سیکرٹری کا ایک معاون معاملات طے کر رہا ہے اور پاکستان کی طرف سے ایک وزیرباتدبیر اس ٹیم میں شریک ہیں۔ کیا سفارتی پروٹوکول کا امریکا سے معاملات طے کرنے میں کوئی عمل دخل نہیں؟ معاملہ ناٹو کی سپلائی کھولنے کا تھا، اس کا کیا تعلق وزارتِ خزانہ سے ہے ، جب کہ بظاہر بڑے بڑے مطالبات کے بعد یہ بات طے ہوگئی تھی کہ راہداری کے سلسلے میں امریکا کوئی فیس دینے کو تیار نہیں اور پاکستان کو اسی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا۔ پھر وزیرخزانہ وہاں کیا خدمات انجام دے رہے تھے؟

تیسرا پہلو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے واضح مطالبے کے باوجود کوئی تحریری معاہدہ آج تک وجود میں نہیں آیا ہے۔ دو دن پہلے ہی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی تحریری معاہدہ نہیں، سب حسب سابق زبانی جمع خرچ ہے۔ اس نام نہاد معذرت کی بھی بس اتنی حقیقت ہے کہ ٹیلی فون پر دو خواتین کے درمیان بات ہوئی ہے اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اخباری بیان میں اس کا خلاصہ شائع ہوا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک کوئی سرکاری نوٹیفیکیشن امریکا سے معاملات طے کرنے کے بارے میں جاری نہیں ہوا۔

ہم ابھی پارلیمنٹ کی سفارشات کے قابلِ عمل(substantive) پہلو کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہے، صرف طریق کار کے نکات پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات حسب سابق ہیں۔ پرنالہ وہیں گر رہا ہے۔ اہم ترین معاملات کو طے کرنے اور معاہدات میں حکومتوں اور قوموں کو جکڑنے کا عمل اسی پرانے اور غیرذمہ دارانہ انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ فیصلہ کس نے کیا؟ کب کیا؟ کس طرح اس کا اظہار کیا گیا؟ پورے عمل میں کون کون شریک تھا؟ ان سب کا ریکارڈ کہاں ہے اور اصل ذمہ داری کہاں اور کس کی ہے؟

پارلیمنٹ کی بالادستی اور آخری فیصلہ کرنے والے ادارے کے بارے میں دعوے اور چرچے تو بہت ہوتے ہیں لیکن اصل حقیقت بہت تلخ ہے، یعنی  ع

وہی ہے چال بے ڈھنگی ، جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے!

اھم سفارشات

اب پارلیمانی سفارشات کے قابلِ عمل  حصے کا حال بھی دیکھ لیں۔ اہم ترین سفارشات یہ تھیں:

۱- اصل مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ازسرِنو جائزہ لے کر اس میں ایسی بنیادی تبدیلیاں لانے کا ہے جو اسے صحیح معنی میں آزاد اور صرف پاکستان کے مقاصد اور مفادات کا پاسبان بنا دیں۔ اس سلسلے میں امریکا سے تعلقات اور ’دہشت گردی‘ کی جنگ میں شرکت میں پاکستان کے کردار کو ازسرِنو مرتب کرنا ضروری ہے اور یہ کام اس طرح ہونے چاہییں کہ جملہ امور ایک تحریری پیکج کی صورت میں طے ہوسکیں۔

حکومت نے اس سلسلے میں کوئی ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا۔ اس ہدایت کے برعکس صرف ایک مسئلے کو (یعنی راہداری کے مسئلے کو) باقی تمام معاملات سے کاٹ کر امریکا کی خواہش کے مطابق طے کرڈالا اور اس طرح پارلیمنٹ کی سفارشات کے اصل مقصد کو کلُی طور پر  ناکام کردیا۔

۲- پارلیمنٹ کی سفارش تھی کہ وقت کی اصل ضرورت مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش اور امن کے قیام کے لیے مذاکرات کا آغاز ہے۔ فوجی کارروائیوں کا خاتمہ نہیں تو تعطل ضروری ہے اور تمام متعلقہ افراد اور اداروں (اسٹیک ہولڈرز) کو اس عمل میں شریک کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت نے اسے یکسر نظرانداز کیا اور اس تباہ کن جنگ کو مزید تقویت دینے والے اقدام میں دست تعاون بڑھا دیا۔ جو دروازہ بڑی مشکل سے اور بڑی بھاری قیمت دینے کے بعدبند ہوا تھا، اسے کسی تحفظ  کے بغیر دوبارہ کھول دیا گیا تاکہ خون کی ندیاں برابر بہتی رہیں اور ’دہشت گردی‘ کی جنگ جس طرح گرم تھی، اسی طرح نہ صرف گرم رہے اور اس کی زہرناکی اور بھی بڑھ جائے۔

۳- پارلیمنٹ نے ایک نہیں تین بار یہ کہا تھا کہ ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ ہماری اپنی حاکمیت اور سرحدوں کی حفاظت کا ہے۔ ہماری سرزمین پر امریکی نقوش پا (footprints)  کسی قیمت پر منظور نہیں۔ ڈرون حملے ہماری حاکمیت، آزادی اور سلامتی پر حملہ ہیں، بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں، ہمارے عام شہریوں کے قتل کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اور امریکا مخالف جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔ اس لیے انھیں فی الفور بند ہونا چاہیے۔ اگر بند نہیں ہوتے تو حکومت ان کو رکوانے اور ان کے خلاف عالمی راے عامہ منظم کرنے کے لیے مؤثر اقدام کرے۔ جو ذرائع بھی اسے حاصل ہیں ان کو ان حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے استعمال کرے اور کم از کم سپلائی کی سہولت کو بالکل بند کردے، تاآنکہ ڈرون حملوں اور پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزیاں ختم کرائی جاسکیں۔

پارلیمنٹ کی قرارداد میں ناٹو کی سپلائی کی بحالی اور ڈرون حملوں کا خاتمہ اور امریکا سے تعاون کے دوسرے اہم اقدامات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے بے تعلق (de-link) نہیں کیا جاسکتا۔

حکومت نے پارلیمنٹ کے اس واضح اور اہم ترین مطالبے کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اس طرح پارلیمنٹ کی توہین کی ہے اور قومی مفادات کے تحفظ میںیکسر ناکام رہی ہے۔

واضح رہے کہ آج خود یورپ اور امریکا میں ڈرون حملوں کے خلاف مؤثر آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ حال ہی میں جنیوا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں روس اور چین سمیت ۲۰ممالک نے باقاعدہ ایک قرارداد کے ذریعے ان کی مذمت کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ایک درجن سے زیادہ ماہرین نے اپنے مضامین اور تقاریر میں بھی ان کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی چارٹر   براے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور یہ بات بھی اب پوری صراحت سے کہی جارہی ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے متعلقہ ممالک کی قومی حاکمیت کو پامال کیا جا رہا ہے، نیز تمام غیرمتحارب شہریوں کی ہلاکت جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے چوٹی کے دو مشیروں (consultants)  نے جو انسانی حقوق کے معاملات کے ذمہ دار ہیں نہ صرف ان حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ذمہ داروں کا احتساب کرے اور بین الاقومی قانون کے احترام کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ عوامی دبائو اور عالمی اداروں کی تحریک پر جرمنی، برطانیہ اور خود امریکا میں ڈرون حملوںکا نشانہ بننے والے غیرمتحارب افراد کے خاندانوں کی طرف سے امریکی، جرمنی اور برطانوی حکومتوں کے خلاف ان کے اس مذموم عمل میں شریک ہونے کے ناتے مقدمات قائم کر دیے گئے ہیں جو اس وقت ان ممالک کی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ پاکستان میں بھی پشاور اور اسلام آباد کی عدالت ہاے عالیہ میں ایسے مقدمات شروع ہوگئے ہیں لیکن حکومت نے ڈرون حملوں کے سوال کو باقی امور سے کاٹ کر پاکستانی قوم کے سینے میں خنجر گھونپا ہے اور امریکا کو قتل و غارت گری اور پاکستان کی حاکمیت اور سرحدی حدود کی پامالی کے لیے کھلی چھٹی دے دی ہے۔ اس جرم میں پہلے اگر حکومت خفیہ طور پر شریک تھی تو اب کھل کر شریک ہوگئی ہے اور مزید حکمرانی کے باب میں اپنی سندِجواز (legitimacy) سے، جو پہلے ہی مشکوک تھی، مکمل طور پر محروم ہوگئی ہے اور پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے خلاف امریکی اعلانِ جنگ کی حصہ دار بن گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے جرائم میں یہ جرم سب سے زیادہ قبیح جرم ہے اور اس حکومت سے  جلد از جلد نجات کی جدوجہد کے لیے یہی سب سے مضبوط دلیل ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ قوم کے سامنے پارلیمنٹ کی سفارشات میں سے چند اہم حصے رکھیں تاکہ اس حکومت کی دریدہ دہنی ، پارلیمنٹ کی توہین اور ملک و قوم سے بے وفائی کی حقیقی تصویر سب کے سامنے آجائے۔

پارلیمنٹ کی سفارشات کی پہلی شق یہ تھی کہ: ’’پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اور یہ کہ ’’امریکا سے تعلقات دونوں ریاستوں کی خودمختاری، آزادی اور سرحدات کے باہمی احترام پر مبنی ہوں گے‘‘۔

شق ۲ میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ اس کا مطلب ہے:

۱- پاکستان کی سرحدوں کے اندر ڈرون حملوں کا خاتمہ۔

۲- پاکستانی سرحد کے اندر نہ گرم تعاقب (hot pursuit) ہوگا اور نہ فوجی آئیں گے۔

۳- غیرملکی نجی سیکورٹی کنٹریکٹرز کی سرگرمیاں شفاف ہوں گی اور پاکستانی قانون کے تابع ہوں گی۔

یہ بات محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈرون حملے اپنے دعویٰ کردہ مقصد کی نفی کرتے ہیں۔ قیمتی جانوں اور جایداد کو ضائع کرتے ہیں۔ مقامی آبادی کو جذباتی اور انقلابی بناتے ہیں۔ دہشت گردوں کے لیے حمایت پیدا کرتے ہیں اور امریکا دشمن جذبات کے لیے ایندھن فراہم کرتے ہیں۔

اسی طرح پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور ہونے والی ۱۴مئی ۲۰۱۲ء کی قرارداد میں بھی پارلیمنٹ نے واضح الفاظ میں یہ اصول طے کردیا تھا کہ سپلائی روٹ اور ڈرون حملوں کے روکے جانے اور پاکستان کی حاکمیت اور سرحدوں کے تقدس کی پامالی میں ایک لاینفک تعلق ہے:

(یہ ایوان) پُرزور طور پر کہتا ہے کہ یک طرفہ اقدامات جیساکہ امریکی افواج نے  ایبٹ آباد میں کیے اور پاکستان کی حدود میں مسلسل جاری ڈرون حملے نہ صرف   ناقابلِ قبول ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں، بین الاقوامی قانون اور انسانی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور ایسے ڈرون حملے فوراً روک دیے جانے چاہییں۔ حملے بند نہ کیے جانے کی صورت میں حکومت مجبور ہوگی کہ ضروری اقدامات کرے بشمول ناٹوسپلائی کی جو سہولت دی گئی ہے اسے واپس لینے کے۔

یہ کہ یک طرفہ اقدامات دہشت گردی کو ختم کرنے کے عالمی مقصد کو آگے نہیں بڑھاتے اور پاکستان کے لوگ ایسے اقدامات کو زیادہ برداشت نہیں کریںگے اور یک طرفہ اقدامات کو دہرائے جانے سے خطے اور دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔

یہ کہ حکومت اور عوام کا یہ عزم ہے کہ وہ پاکستان کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو ہرقیمت پر برقرار رکھیں گے جو ایک مقدس فریضہ ہے۔

پارلیمنٹ کی ان واضح ہدایات کے بعد جو کچھ اس حکومت نے ۴جولائی کو کیا ہے، اس کے بعد ایک دن کے لیے بھی اس کے اقتدار کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ واضح رہے کہ امریکا نے ۴جولائی کو رسد کی بحالی کے ۲۴گھنٹے کے اندر دو بار ڈرون حملے کر کے (جن میں ایک درجن سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے) پاکستان کی قیادت کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا ہے اور اس کے بعد سے جارحیت کا یہ سلسلہ اب تک بلاروک ٹوک جاری ہے، جب کہ پاک فضائیہ کے سابق سربراہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے اور پبلک پلیٹ فارم سے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم ڈرون گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انتظار صرف سیاسی قیادت کے فیصلے کا ہے۔ ایران نے ایک امریکی ڈرون اُتار کر یہ ثابت کردیا ہے کہ ڈرون حملے آسانی سے روکے جاسکتے ہیں اور تو اور خود امریکا کے ٹیکساس کالج کی نوجوان ریسرچ ٹیم نے اپنے استاد پروفیسر ٹوڈ ہمفریز کی قیادت میں امریکا کی نیشنل سیکورٹی اتھارٹی کے ذمہ دار افراد کے سامنے ڈرون کو کامیابی سے اس کے پروگرام کیے ہوئے راستے سے ہٹا کر اپنی مرضی کے مطابق زمین پر اُتارنے کا کارنامہ کر دکھایا ہے۔ پروفیسر صاحب کا دعویٰ ہے کہ:

چند سو ڈالروں کے لیے ان کی ٹیم نے spoofing کی تکنیک استعمال کرکے ایسا sophisticated سسٹم بنایا جیسا اب تک نہیں بنایا گیا۔ اس نے ڈرون کو چکمادے کر نئے احکامات کے مطابق اُڑنے اور زمین پر اُترنے کا پابند کر دیا۔ سپوفنگ دراصل کسی جہاز کو اغوا کرنے کا طریقہ ہے۔

ایک امریکی کالج کا استاد اور اس کے ریسرچ کرنے والے طلبہ نے حکومت کے ذمہ داروں کے سامنے یہ کام کردکھایا۔ کیا پاکستان کی ایئرفورس اور ہمارے سائنس دان اپنے ملک کی حفاظت، شہریوں کی ہلاکت اور اپنی سرحدوں کی جارحانہ خلاف ورزی کو روکنے کے لیے یہ بھی نہیں کرسکتے؟

۵- پارلیمنٹ کی سفارشات کا ایک اور نہایت اہم نکتہ سلالہ چوکی پر امریکی حملے کے بارے میں ایک دوٹوک موقف تھا:

ناٹو/ ایساف کا قابلِ مذمت بلااشتعال حملہ (جس کے نتیجے میں پاکستان کے ۲۴فوجی شہیدہوگئے) بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے،اور ملکی خودمختاری اور سرحدات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان کو امریکا سے مہمند ایجنسی میں ۲۵، ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کو ہونے والے اس بلااشتعال واقعے پر غیرمشروط معافی طلب کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ اقدامات کیے جائیں:

__ مہمندایجنسی حملے میں جو ذمہ دار قرار پائیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

__ پاکستان کو یقین دہانی کرائی جائے کہ ایسے حملے اور ایسے اقدامات جن سے پاکستان کی خودمختاری اثراندازہوتی ہو، آیندہ نہیں ہوں گے۔

__ ناٹو،ایساف اور امریکا آیندہ خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔

__ پاکستان کے اڈوں یا فضائی حدود کو بیرونی قوتوں کے کسی بھی استعمال کے لیے پارلیمنٹ کی اجازت ضروری ہوگی۔

__ سرحدی ملحقہ علاقوں کے لیے وزارتِ دفاع پاکستانی فوج/ ایساف/ امریکا/ ناٹو کے لیے نئی فضائی ضوابط مقرر کیے جانے چاہییں۔

پارلیمنٹ کے اس واضح موقف سے چند باتیں سامنے آتی ہیں:

۱- سلالہ چوکی پر حملہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ بلاجواز تھا، یعنی (unprovoked) جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان کی حاکمیت اور اس کی سرحدوں کی تقدیس پر کاری ضرب کی حیثیت رکھتاہے، اور یہی سبب ہے کہ امریکی حکومت اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور غیرمشروط معافی مانگے (unconditional apology)۔

۲- جو افراد اس کے ذمہ دار ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

۳- ایسے حملوں کے مستقبل میں نہ ہونے کے بارے میں واضح ضمانت دی جائے۔

۴- پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کا استعمال پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہ ہو۔     یہ بڑا اہم نکتہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے اقدام سے پہلے منظوری (prior approval) کے اصول کو منوایا گیا۔

۵-  وزارتِ دفاع اور متعلقہ ادارے سرحدوں کے پاس، فضائی حدود کے استعمال کے سلسلے میں نئے قواعد و ضوابط مرتب کریں۔

سفارشات پر عمل کا جائزہ

پارلیمنٹ کے ان واضح احکامات کا کیا حشر ہوا ہے، ذرا اس کو بھی دیکھ لیں:

۱- امریکا نے سلالہ چوکی کے حملے کو ایک غلطی ماننے سے انکار کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ معافی ( apology) اپنے قانونی اور اخلاقی مفہوم میں غلطی کے اعتراف اور اس پر افسوس کا اظہار ہے، جب کہ sorry یا regret کے الفاظ میں یہ مفہوم شامل نہیں۔ صدر صاحب، وزیراعظم صاحب اور نہ معلوم کون کون بغلیں بجارہے ہیں کہ ہم نے امریکا سے معذرت لے لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے ہرگز اپنی غلطی کا اعتراف کر کے معافی یا تاسف کا اظہار نہیں کیا، بلکہ اگر ہیلری کلنٹن کے الفاظ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ سلالہ کے واقعے کو بالکل گول کرگئی ہیں اور ہماری وزیرخارجہ کو غچّہ دے کر صرف یہ کہہ رہی ہیں کہ ’’اسے فوجیوں کے ہلاک ہونے کا دکھ ہے‘‘ جو معاملے کی پوری نوعیت ہی کو بدل دیتا ہے۔

۲- بات صرف یہی نہیں کہ غلطی کا اعتراف اور اس پر معذرت نہیں کی گئی، بلکہ اُلٹا ہیلری کلنٹن نے حناربانی کھر سے یہ اعتراف کرا لیا ہے کہ سلالہ کا واقعہ دونوں طرف سے غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ گویا معافی توہم کیا حاصل کرتے، ہم خود مجرم بن گئے اور پاکستانی فوج نے سلالہ واقعے پر امریکا کی جس نام نہاد رپورٹ کو کھلے بندوں رد کیا تھا اور جس میں دونوں طرف سے غلطی اور غلط فہمی کی بات کی گئی ہے، ہماری وزیرخارجہ نے اسے قبول کرلیا ہے۔ تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!

۳- پارلیمنٹ نے سلالہ واقعے کا ارتکاب کرنے والوں پر مقدمے اور سزا کی بات کی تھی، وہ سب پادر ہوا ہوگئی۔

۴- معافی کے بغیر اور پاکستان کی سرحدوں کے احترام اور سلالہ اور ۲مئی جیسے واقعات کے دوبارہ رُونما نہ ہونے کی واضح یقین دہانی، نیز ڈرون حملوں کے روکنے کے وعدے کے بغیر ناٹو سپلائی کا کھلنا، ایک قومی جرم اور ملک کے دستور اور پارلیمنٹ سے بے وفائی ہے۔

پارلیمنٹ کی قرارداد میں اور بھی کئی اہم سفارشات تھیں جن پر اس وقت کلام کی ضرورت نہیں۔صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ان کا حشر بھی ان پانچوں باتوں جیسا ہوا ہے جن کا اُوپر ذکر کیاگیا۔

’قلابازی‘ کی وجہ

اس مسئلے پر گفتگو ختم کرنے سے پہلے ایک بات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ آخر حکومت نے امریکا کے سامنے اس بوکھلاہٹ اور بے غیرتی کے ساتھ ہتھیار کیوں ڈالے؟ امریکا اور یورپ کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں آنے والے تبصروں کی روشنی میں دو نظریات ہیں جو قوی مفروضوں (hypothesis) کی حیثیت سے سامنے آرہے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کے غوروفکر کے لیے ان کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔

پہلا نظریہ یہ ہے کہ حکومت مختلف وجوہ سے ڈانواںڈول ہے۔ گیلانی صاحب کی بیک بینی و دوگوش رخصتی کے بعد غیریقینی کی کیفیت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ان حالات میں ایک غیرعلانیہ این آر او امریکا کی قیادت اور موجودہ حکومت کے درمیان ہوا ہے جس میں امریکا نے اس حکومت کو مزید زندگی (lease of life) کی ضمانت دی ہے، اور اس نے کسی باقاعدہ معاہدے اور پاک امریکا تعلقات کے پورے فریم ورک کو ازسرِنو مرتب کرنے کے بجاے ایک غیرتحریری معاہدے کے ذریعے امریکا کو وہ کچھ دے دیا ہے جو امریکا چاہتا تھا۔زرداری صاحب کے بیرونِ ملک اثاثوں کی حفاظت اور ان کو چند ماہ کے لیے مزید اقتدار کی یقین دہانی پر چشم زدن میں سارے معاملات طے کردیے گئے ہیں۔ اس میں ملک کی دوسری قوتیں بھی کہاں تک شریک ہیں، کہنا مشکل ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اصل معاملات ابھی صیغۂ راز میں ہیں۔ کیا کیا لین دین ہوئے ہیں یا ہونے ہیں، ابھی مخفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو چیز سامنے آئی ہے وہ بڑی معمولی اور عجیب ہے۔   اگر اس نوعیت کے مبہم اور افسوس کے گول مول الفاظ پر تمام اختلافات کو ختم ہونا تھا اور work as usual کو بحال کرنا تھا، تو اس سے تو کہیں بہتر موقع وہ تھا جب سلالہ کے حادثے کے ایک ہفتے بعد اوباما اور زرداری میں ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تھا اور The News کی ۴دسمبر کی اشاعت میں اس کا یہ احوال شائع ہوا۔ اسے ذرا غور سے دیکھیں اور پھر اس کا موازنہ اس اعلامیے سے کریں جو ہیلری کلنٹن اور حناربانی کھر میں ۴جولائی کی گفتگو کے بارے میں جاری ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ    جس بات کو ۴جولائی کو تسلیم کیا گیا ہے وہ اس سے مختلف نہیں جسے پارلیمنٹ اور حکومت دونوں نے ۴دسمبر کو ردکردیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں:

ناٹو کے فوجی حملے میں ۲۴ پاکستانی فوجیوں کی اموات پر ذاتی طور پر تعزیت کے لیے صدراوباما نے اتوار کے دن فون کیا۔ وائٹ ہائوس کے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ صدراوباما نے واضح کردیا کہ یہ قابلِ افسوس واقعہ پاکستان پر سوچا سمجھا حملہ نہیں تھا اور مکمل تحقیقات کے وعدے کو دہرایا۔ (دی نیوز، ۴دسمبر ۲۰۱۲ئ)

یہ سوال بہرحال پاکستانی عوام کو غلطاںو پیچاں رکھے گا کہ ۳دسمبر کو اظہارِ افسوس (regret) کیوں قابلِ قبول نہیں تھا اور ۳جولائی کو دونوںطرف سے غلطیوں کے اعتراف کے اضافے کے ساتھ وہی ناقابلِ التفات لفظ کیو ں قابلِ قبول ہوگیا___ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے؟

دوسرا نظریہ اور بھی ہولناک ہے۔ اس میں بڑے تیقن کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ اصل چیز امریکا کی کچھ ایسی دھمکیاں تھیں جنھیں موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نظرانداز نہیں کرسکی اور امریکا نے وہی ڈراما رچایا جو ستمبر ۲۰۰۱ء میں کامیابی سے رچایا جاچکا تھا۔

سب سے پہلے ایک ہمہ گیر میڈیا جنگ شروع ہوئی اور اپریل سے جون کے آخیر تک تابڑتوڑ حملے کیے گئے جن میں پاکستان کو غیرذمہ دار، جھوٹا، دھوکے باز، دوغلا، دہشت گرد اور نہ معلوم کیا کہا اور لکھا گیا۔ مقصد پاکستان کو ہی اصل مسئلہ بناکر پیش کرنا تھا۔ پاکستان کے سفارت کار اور لابی اس کا کوئی مؤثر توڑ نہ کرسکے۔ بی بی سی کے ایک پروگرام میں پاکستان کو دنیا کے لیے ایک دردِسر ثابت کیا گیا۔

پھر امریکا کی قیادت نے پاکستان کے بارے میں اپنے صبر کے پیمانے کے لبریز ہونے کا اعلان کرنا شروع کیا۔ بھارت سے خصوصی تعلقات استوار کرلیے اور بھارت کی سرزمین پر امریکی قیادت نے پاکستان کے خلاف سخت جارحانہ رویہ اختیار کیا اور پاکستان کو ڈھکے چھپے اور کھلے دھمکیاں دینے کے عمل کو بھی تیز تر کردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں پاکستان کو ڈالروں سے خریدنے اوربیچنے کے ساتھ ساتھ اوقات میں رہنے کی دھمکی بھی دی؟

 اس پس منظر میں سلالہ واقعے کے بعد چند ہفتوں کے تعطل کے بعد خود امریکا نے ڈرون حملے پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں شروع کردیے۔ اس کے ساتھ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملوں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور ہندستان سے بھی پاکستان کی سرحدوں پر بوفورتوپیں نصب کردیں۔

اس پس منظر میں پے بہ پے چار واقعات رونما ہوئے:

۱- امریکی کانگرنس میں پاکستان کے خلاف کئی قوانین کے مسودات کا داخل کیا جانا    جن میں معاشی اور عسکری امداد تخفیف یا اس کی مکمل معطلی، ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی ہیرو بنا کر  اس کی واپسی کا مطالبہ، اور پھر سب سے بڑھ کر حقانی نیٹ ورک اور لشکرطیبہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا بل جس کے پاکستان کے لیے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے تھے، یعنی اسے بلاواسطہ ایک دہشت گرد ملک قرار دیے جانے کا امکان یا خطرہ۔ ان چیزوں کو پاکستان میں امریکی لابی نے سیاسی اور عسکری حلقوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔

۲- سیاسی اور معاشی میدان میں ان آپریشنز کو ایک عسکری جہت دینے کے لیے امریکا نے ایک بڑا ہی خطرناک اقدام کیا۔ اپنے بحری بیڑے Carrier Strike Group Twelve کے ایک نہایت تباہ کن ایٹمی صلاحیت سے آراستہ جنگی جہاز یو ایس ایس انٹرپرائز کو گوادر کے قریب پاکستانی سمندری حدود میں لاکھڑا کیا۔ اس نیوکلیر پاور سے آراستہ جہاز پر ۴۶۰۰؍افراد کا عملہ ہے۔ اس پر جنگی ہوائی جہازوں کے ۱۸ اسکوارڈن ایستادہ ہیں۔ یہ ایک طرح کی وارننگ تھی جو اس سے پہلے امریکانے نہیں دی تھی۔ راستے کھلنے کے دو دن بعد یہ جہاز گوادر کے ساحل سے چلاگیا اور امریکی بیڑے میں شامل ہوگیاجس سے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ۲۰۱۲ء میں یہ وہ پستول تھا جو زرداری کیانی کی کنپٹی پر رکھا گیا؟

۳-  چین اور پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے شرانگیز اقدامات کیے گئے۔ چین کی مسلم اکثریت کی ریاست شین چانگ (سابق سنکیانگ) میں کارروائیوں اور خیبرایجنسی میں دہشت گردی کی تربیت کی خبروں کو بڑی سُرعت سے اُچھالا گیا۔ بھارت، پاکستان پر دونوں طرف سے دبائو ڈال رہا ہے، یعنی ممبئی کے حادثے کا سہارا لے کر پاکستان کے مشرقی محاذ پر اور افغانستان میں اپنے کردار کو بڑھا کر اور شمالی الائنس کے ساتھ مل کر مغربی محاذ پر۔

۴- پھر اسی زمانے میں سعودی عرب سے ممبئی حملوں کے سلسلے کے ایک مطلوب فرد کو   (جسے ابوجندل کہا جا رہا ہے) بڑے رازدارانہ انداز میں بھارت روانہ کیاگیا جہاں اسے ایئرپورٹ پر گرفتار کر کے پاکستان پر دبائو کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کی مہم شروع ہوگئی اور پاکستان پر دبائو کی اس یلغار میں ایک دیرینہ دوست ملک کو بھی گویا شامل کرلیا گیا۔

دبائو اور بلیک میل کا یہ سارا کھیل بالآخر رنگ لایا اور پاکستان کی قیادت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ شاید غالب نے کسی ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا کہ    ؎

دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا

عشق نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا

امریکا کو یہ اندازہ ہے کہ پاکستان کی قیادت ایک حد سے زیادہ دبائو کو برداشت نہیں کرسکتی اور ٹمپریچر کو اس حد سے آگے بڑھا کر اسے دبایا جاسکتا ہے۔ امریکا اپنے اس زعم کا برملا اظہار کرتا ہے۔  باب وڈورڈ اپنی کتاب Obama's Wars میں امریکا کے چوٹی کے پالیسی سازوں کی خود وائٹ ہائوس میں گفتگو نقل کرتا ہے، جسے دل پر پتھر رکھ کر، محض اپنی قیادت کی آنکھیں کھولنے اور پاکستانی عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ امریکہ کیا کیا حربے استعمال کرتا ہے ہم نقل کر رہے ہیں:

پاکستانی قیادت کا دعویٰ تھا کہ ان کی حکومت اتنی کمزور اور خستہ ہے کہ اگر امریکا نے چھڑیاں استعمال کیں تو یہ گر جائے گی۔ دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے: ’’آپ یہ نہیں چاہتے کہ ہم ختم ہوجائیں۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں؟ اس لیے کہ پھر سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔

بلیر کا خیال تھا کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں صرف ۱۰منٹ کی دیانت دارانہ بحث سے معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان پر حقیقی دبائو (leverage) کیا ہے۔ فرض کریں کہ صدر خلوص سے پوچھتے کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ تم کیا کرسکتے ہو؟ بلیر کا کہنا تھا کہ اگر پوچھا جاتا تو اس نے یہ کہا ہوتا: ’’ہم سرحدپار کچھ حملے کریں گے اور پاکستان کے اندر انتہاپسند گروپوں پر بم باری کریں گے‘‘۔ صدر اور دوسروں نے ضرور پھر یہ پوچھا ہوگا کہ’’ڈینی! اس کے نتائج کیا ہوتے؟‘‘ ’’میرے خیال میں پاکستان مکمل طور پر زیر ہوجاتا۔٭ شاید وہ ہمارے خلاف کچھ اقدام کرتے لیکن پھر وہ فوراً ہی ایڈجسٹ کرلیتے۔ اور کون سے حملے، کون سی باتیں، میرا خیال ہے ہم اس میں سے نکل آتے‘‘۔

یہ ہے امریکی قیادت کا ذہن پاکستان کی قیادت اور اس کے محافظوں کے عزم و فراست اور قوتِ مدافعت اور جوابی کارروائی کے بارے میں۔ ۲۰۰۱ء میں بھی وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہے اور ۲۰۱۲ء میں بھی ایک بار پھر وہ کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

کیا ان حالات کو انقلابی تبدیلیوں کے بغیر بدلا جاسکتا ہے؟ کیا پاکستان کا مقدر ایسی ہی قیادت ہے؟ یا اس قوم میں ایسی نئی قیادت برسرِاقتدار لانے کی صلاحیت اور عزم ہے جو غلامی کی زنجیروں کو اسی طرح کاٹ پھینکے جس طرح قائداعظم کی قیادت میں ۱۹۴۷ء میں کاٹ کر اسی قوم نے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا تھا۔ موجودہ قیادت کا اخلاقی، نظریاتی اور قوتِ کار کے اعتبار سے دیوالیہ پن تو واضح ہوگیا ہے۔ اب امید کے چراغ روشن ہوسکتے ہیں تو وہ کسی نئی اہل اور دیانت دارانہ قیادت اور نئے نظام ہی سے ممکن ہیں۔ تاریخ ایک بار پھر اس قوم کو عزمِ نو اور نئی جدوجہد کی طرف پکار رہی ہے ___ ہمارے لیے زندگی اور عزت کا راستہ اس پکار پر لبیک کہنے اور پھر منزلِ مراد کو حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینے میں ہے    ؎

یہ مصرع کاش! نقش ہر در و دیوار ہوجائے

جسے جینا ہو، مرنے کے لیے تیار ہوجائے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قیادت کے لیے جن اوصاف کی ضرورت اولین اور ناگزیر حیثیت رکھتی ہے ان میں خلوص، دیانت اور صداقت کے ساتھ فراست اور معاملہ فہمی، صلاحیت کار اور قوم اور پارلیمنٹ کا اعتماد سب سے زیادہ اہم ہیں۔ قوتِ فیصلہ اور فیصلوں پر استقامت و جرأت سے کاربند ہونے کا وصف بھی قیادت کے لیے بدرجہ اتم مطلوب ہے۔ اقبال نے اپنے مخصوص انداز میں اس ضرورت کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا کہ    ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

قرآن پاک نے ان تمام پہلوئوں کو ایک جامع اصول کی شکل میں اس طرح بیان فرما دیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ           اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النسائ۴:۵۸) ’’مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔

پاکستان نہ ایک ناکام ریاست تھا اور نہ ان شاء اللہ کبھی ہوگا، لیکن ملک کی اجتماعی زندگی میں سارے بگاڑ، فساد اور افراتفری کی بنیادی وجہ قیادت کی ناکامی اور صحیح قیادت کا فقدان ہے۔ اس قوم کو جب بھی اچھی قیادت میسر آئی ہے اس نے تاریخ کو نئی بلندیوں سے روشناس کیا ہے اور زوال اور انتشار کے ہر دور اور ہر پہلو میں قیادت ہی کے فساد کا پرتو دیکھا جاسکتا ہے۔ تحریکِ پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح جیسی قیادت میسر آئی تو سات سال کے مختصر عرصے میں ایک منتشر قوم  ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی صورت میں سینہ سپر ہوگئی اور انگریزی سامراج اور ہندو کانگریس کی منظم قوت کا مقابلہ کر کے آزادی کی جدوجہد کو اللہ کے فضل اور اپنی حکیمانہ مساعی کے ذریعے کامیاب و کامران کیا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خاں کی قیادت میں نوزائیدہ ملک کو تمام مصائب، مشکلات اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مضبوط و مستحکم کیا۔ تباہ شدہ معیشت کو بحال کیا، ڈیڑھ کروڑ مہاجرین کو خوش اسلوبی کے ساتھ نئی ریاست میں بسایا اور ۱۰ سال کی مختصر مدت میں علاقے کی ایک اُبھرتی ہوئی قوت کی حیثیت حاصل کرلی۔ ملایشیا، سنگاپور اور جنوبی کوریا جو آج معاشی ترقی کے باب میں نمونے کی ریاستیں قرار دی جاتی ہیں، ان کے پالیسی ساز اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے اُس دور کے پاکستان کے معاشی منصوبوں سے خوشہ چینی کی تھی، لیکن افسوس کہ جس قوم نے یہ چراغ جلائے تھے اور جس کے چراغوں سے دوسروں نے اپنے چراغ روشن کیے تھے، وہ مفاد پرست سیاست دانوں اور طالع آزما فوجی جرنیلوں کی ایسی گرفت میں آگئی کہ  ع

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

پاکستان کے گذشتہ ۵۰ سال کے حالات کا جو بھی دیانت اور غیر جانب داری کے ساتھ جائزہ لے گا، یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ جس ملک کو اللہ تعالیٰ نے وسائل سے مالا مال کیا تھا، (قدرت کے وسائل سے وہ اب بھی مالا مال ہے) اور جس کی پوری اسلامی دنیا میں ایک ساکھ تھی، اسے ایک ایسی قیادت نے تباہ و برباد کردیا جو اخلاص اور دیانت سے محروم، صلاحیت کار سے عاری اور مفادات کی پرستش میں مگن رہی ہے۔ ہمارے بیش تر مسائل او ر مصائب کا سبب صحیح قیادت کا فقدان اور اقتدار پر ایسے افراد کا قبضہ رہا ہے، خواہ وہ وردی پوش ہوں یا جمہوری لبادے میں ملبوس، جن کی توجہ کا مرکز قومی مفادات اور مقاصد کے مقابلے میں اپنے ذاتی، گروہی یا زیادہ سے زیادہ جماعتی اور حزبی مفادات رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے عرصے میں الا ماشاء اللہ ’گاؤآمد و خررفت‘ کا سا سماں رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک ایک عذاب کے بعد دوسرے عذاب میں مبتلا ہوتا چلا آرہا ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ جب تک کرسیوں کا یہ کھیل جاری رہے گا سیاسی گرداب سے نکلنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں ایک نہیں ۱۰ وزراے اعظم تبدیل کرلیں، حالات میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔ واحد راستہ عوام کو بیدار اور متحرک کرنا اور نئے انتخابات کے ذریعے ایک ایسی قیادت کو زمامِ اقتدار سپرد کرنا ہے جو مخلص، دیانت دار اور باصلاحیت ہو، جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کی حفاظت کرسکے اور جو اس کی اسلامی شناخت کی ترویج و ترقی کے ساتھ عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے اور قومی وسائل کو ملک و قوم کی تعمیروترقی پر صرف کرنے کی صلاحیت اور عزم و ارادہ رکھتی ہو، جو عوام میں سے ہو اور ان کے سامنے جواب دہ ہو اور جو دستور  اور قانون کی پاس داری کرنے والی اور حقیقی جمہوری اقدار اور روایات کی امین ہو۔ اس بنیادی انقلابی تبدیلی کے بغیر قوم صرف کرسی کرسی (musical chairs) کے کھیل کی تماشائی تو ہوسکتی ہے، اپنی قسمت کی مالک اور اپنے مستقبل کی تعمیر کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی۔

حکومت عدلیہ محاذ آرائی کا پس منظر

ہم پوری دردمندی کے ساتھ اس بنیادی حقیقت کی یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ جو ڈراما  پچھلے چند ہفتوں میں جناب گیلانی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے اور عدالت عظمیٰ کی تضحیک و تحقیر کا رویہ اختیار کرنے پر سزا کے حکم سے شروع ہوا تھا اور جسے اربابِ سیاست نے عدلیہ اور پارلیمنٹ میں تصادم اور عدلیہ پر پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ کا رنگ دے کر ایک خطرناک اداراتی بحران میں تبدیل کر دیا تھا، اس طرح کے ڈرامے اب مزید نہیں چل سکتے۔ افسوس ہے کہ قومی اسمبلی کی محترمہ اسپیکرصاحبہ نے بھی اپنے اب تک کے معتدل اور متوازن رویے کو بالاے طاق رکھ کر جناب زرداری اور جناب گیلانی کے اس کھیل میں شرکت اختیار کرکے پوری سیاسی بساط کو  معرضِ خطر میں ڈال دیا۔اس نازک موقعے پر حکمران جماعت اور میڈیا کے کچھ عناصر کی ملی بھگت سے عدالت عظمیٰ کو، خاص طور پر چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب پر ایک خطرناک حملہ کیا گیا جس سے مقصود یہ تھا کہ عدالت عظمیٰ پر پوری قوم کے وقار، احترام اور اعتماد کو پارہ پارہ کیا جاسکے اور اس طرح سیاسی قیادت اور اس کے سرکاری اور غیرسرکاری اعوان و انصار کی بدعنوانیوں اور دستور اور قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزیوں پر احتساب اور گرفت کی جو تھوڑی بہت کوششیں ہورہی ہیں، وہ بھی ختم کی جاسکیں۔

ایک طرف ملک شدید معاشی بحران میں گرفتار ہے، بجلی اور گیس کی قلت نے ایسی تباہی مچادی ہے کہ لوگ گھروں سے نکل آئے ہیں اور گرمی کی اس شدت میں بے قابو ہوکر تشدد پر اُترآئے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اور کساد بازاری نے عام آدمی سے دو وقت کی روٹی بھی  چھین لی ہے۔ ملک قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال خراب سے خراب تر ہورہی ہے۔ امریکا کی ننگی جارحیت نے ملک کی آزادی، خودمختاری، قومی وقار اور سرحدوں کی حفاظت ہر چیز کو پامال کردیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور ذی اثر اور برسرِاقتدار طبقے کے ۱۰ فی صد سے بھی کم  لوگ، ہر طرح کی مراعات سے فیض یاب ہورہے ہیں اور ۹۰ فی صد سے زیادہ عوام محرومی اور زبوں حالی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اچھی حکمرانی کا فقدان ہے۔ ارباب حکومت صرف اپنی ہوس کی پوجا میں مصروف ہیں اور میڈیا میں سارا کچا چٹھا کھل کر آنے کے باوجود پوری بے غیرتی کے ساتھ لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

بات صرف پیپلزپارٹی ہی کی نہیں جو اپنے منشور، عوامی وعدوں اور اپنے تمام بلندبانگ دعوئوں کو بھول کر صرف اپنی قیادت کی دولت اور اقتدار کی ہوس کو پورا کرنے میں مصروف ہے، بلکہ اس کے اتحادی بھی( جن کے بغیر اس کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی) اس بگاڑ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہمیں اس عام تاثر کا اظہار کرنے میں کوئی باک نہیں کہ پارلیمنٹ اور حزبِ اختلاف بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہے ہیں۔ انگلیوں پر گنی جانے والی چند مثالوں کو چھوڑ کر، معلوم ہوتا ہے کہ اس تکلیف دہ کھیل میں سب ہی کسی نہ کسی درجے میں شریک ہیں۔ عوام کے اس احساس کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ گو فوج نے بظاہر سیاسی مداخلت سے احتراز کیا ہے جو دستور کا تقاضا ہے، لیکن عملاً فوج بھی پاکستان کی حاکمیت اور سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری کو پوری طرح ادا نہیں کر پا رہی ہے۔ امریکا کے ڈرون حملے اور دوسرے عسکری اقدامات بلاروک ٹوک جاری ہیں اور معصوم انسانوں کو بے دریغ ہلاک کر رہے ہیں اور ایٹمی اسلحے سے مسلح فوج ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ ظلم بالاے ظلم یہ کہ فوج خود اپنے لوگوں ہی سے برسرِجنگ ہے اور خفیہ ایجنسیاں بھی وہ کردار ادا کر رہی ہیں جو حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ بگاڑ کی ان تمام قوتوں پر ایک بریک کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بڑی بڑی مچھلیاں ہر کانٹے کو توڑ کر اپنا رقص جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میڈیا نے بھی ایک حد تک خرابیوں کو واشگاف کرکے اور ظلم و زیادتی کو منظرعام پر لانے کی کوشش کی ہے مگر وہاں بھی کھلے اور درپردہ نہ معلوم کیسے کیسے کھیل کھیلے جارہے ہیں اور کون کون تار ہلا رہا ہے۔ اب یہ راز نہیں رہا۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے ۱۹ جون ۲۰۱۲ء کے فیصلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ محض ایک فرد جناب سید یوسف رضا گیلانی کے توہینِ عدالت کے جرم اور اس کے دُور رس اثرات اور نتائج کا نہیں، گو وہ بھی ایک اہم اور متعلقہ معاملہ ہے___ اصل مسئلہ اس سے زیادہ بنیادی ہے اور اسے سمجھے بغیر حالات کی اصلاح اور موجودہ بحران سے نکلنے کی کوئی حکمت عملی مؤثر نہیں ہوسکتی۔

قومی مفاھمت کی سیاست کی آڑ میں

قومی مفاہمت کے نام پر جس این آراو پر ستمبر۲۰۰۷ء میں پرویز مشرف کے وردی میں دوسری بار منتخب ہونے سے ایک دن پہلے دستخط ہوئے تھے، وہ فوجی آمر پرویز مشرف اور امریکی سامراج کے ایما پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس دروبست میں شریک کرنے کی وہ معرکے کی تدبیر (master stroke ) تھی جو  امریکا، برطانیہ اور پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کے عالمی منصوبے میں ایک مستقل کردار ادا کرنے کے لیے تیار کی تھی۔ پرویز مشرف کے سامنے اپنے اقتدار کو دوام دینا، اور تبدیلی کے اس منظرنامے کو ناکام کرنا تھا جو میثاقِ جمہوریت کی شکل میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مرتب کیا تھا اور اس سے متوازی کُل جماعتی جمہوری تحریک (APDM) نے جولائی ۲۰۰۷ء میں پاکستان میں اسلامی، جمہوری اور فلاحی انقلاب برپا کرنے کے لیے قوم کے سامنے پیش کیا تھا۔

 معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت بیک وقت دو چالیں چل رہی تھی۔ ایک طرف وہ میثاقِ جمہوریت اور جولائی ڈیکلریشن میں شریک تھی، لیکن دوسری طرف اس عہدوپیمان کے ساتھ ساتھ کہ کوئی سیاسی جماعت فوجی حکمرانوں کے ساتھ شریکِ اقتدار نہیں ہوگی اور نہ ان سے کوئی معاملہ بندی کرے گی، وہ برطانیہ اور امریکا کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق (جس کا کونڈولیزا رائس نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں کھل کر ذکر کیا ہے)، جنرل پرویز مشرف سے بھی سلسلہ جنبانی جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اقتدار میں آنے کے لیے اس وقت کی فوجی حکومت اور امریکا دونوں کی سیڑھی کا سہارا ضروری ہے۔ مشرف کے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام نے پیپلزپارٹی کو ایک مخمصے میں ڈال دیا اور اس نے بحیثیت پارٹی کھل کر چیف جسٹس اور برطرف عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ کر دیا اور پرویز مشرف کو وردی میں اپنی بلاواسطہ تائید سے صدر  منتخب کرانے کے باوجود اس سے راستہ الگ کرنے کی کوشش کی جو بالآخر ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء کے  خونیں حادثے پر منتج ہوئی۔ آصف علی زرداری نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر ایک مشتبہ وصیت کا سہارا لے کر پیپلزپارٹی پر قبضہ کرلیا اور پورے سیاسی عمل کو اپنے مقاصد، عزائم اور مفادات کے لیے بڑی چابک دستی سے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک طرف فوج سے رشتہ جوڑا، امریکا کو اس سے کہیں زیادہ دیا جس کی وہ توقع رکھتے تھے اور دوسری طرف برطرف عدلیہ کی بحالی سے منحرف ہوگئے اور عملاً ڈوگر عدالت سے مک مکا کرلیا۔ گیلانی صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کے حلف سے بھی پہلے ججوں کی رہائی کا اعلان کردیا مگر عدلیہ کی بحالی کی طرف ایک قدم بھی نہ اُٹھایا بلکہ سارا وزن ڈوگر عدالت کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کیا، حتیٰ کہ نئے ججوں کا تقرر بھی اسی نظام کے تحت کیا۔ ان حالات میں آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا دوسرا دور شروع ہوا اور ۱۶؍مارچ ۲۰۰۹ء کو عدالت عالیہ کی بحالی کا جو کارنامہ انجام دیا گیا، اس کا کوئی کریڈٹ زرداری گیلانی حکومت کو نہیں جاتا۔ اس کا سہرا وکلا اورسول سوسائٹی کی تحریک، حکومت سے باہر سیاسی اور دینی جماعتوں کی سرتوڑ کوشش اور میڈیا کی مؤثر کوششوں کا رہینِ منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کی بحالی کے باوجود  آزاد عدلیہ کے کردار کو اس حکومت نے ایک دن کے لیے بھی دل سے تسلیم نہیں کیا، اور صرف نجی محفلوں میں عدلیہ اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف زہرافشانیاں ہی نہیں عملاً اس کے ہر اس فیصلے کو تسلیم  نہ کرنے یا غیرمؤثر بنا دینے کی سرگرم کوشش کی ہے جس کو وہ اپنے مفاد کے خلاف سمجھتی ہے۔

عدلیہ کے خلاف اس محاذ کے اصل سرخیل جناب آصف علی زرداری اور ان کی پیپلزپارٹی کی قیادت کا بڑا حصہ ہے لیکن اس محاذ کو تقویت دینے والوں میں ان کے وہ تمام اتحادی بھی شامل ہیں جو حکومتی ٹولے کا حصہ ہیں اور جن میں اب ایک عرصے سے مسلم لیگ (ق) بھی، جو پرویزمشرف کی اصل ساتھی اور اس کے ہر جرم میں برابر کی شریک تھی ، بھی کھل کر شامل ہوگئی ہے۔ گویا  ع

پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا!

جمھوری روایات اور حکومتی روش

جمہوریت محض انتخابات اور نمایشی اداروں کا نام نہیں۔ انتخاب اور پارلیمنٹ تو ہٹلر، اسٹالن، مسولینی، جمال ناصر، حسنی مبارک، بورقیبہ، بن علی، حافظ الاسد اور بشارالاسد کے آمرانہ نظام میں بھی ہوتے رہے۔ جمہوریت نام ہے دستور اور قانون کی حکمرانی کا۔ جمہوریت نام ہے انسانی حقوق کے مکمل تحفظ اور آزادیِ اظہار و اجتماع کا۔ جمہوریت نام ہے آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ کا، ایک ایسی عدلیہ جو انتظامیہ اور اس کے ہرشعبے کو، خواہ سول ہو یا عسکری، دستور اور قانون کے دائرے میں رکھ سکے اور ہر کوئی جو دستور اور قانون کی حدود کو پامال کرے، اس پر بھرپور گرفت کرسکے اور قانون شکن کو قرارواقعی سزا دے سکے۔ جمہوریت نام ہے آزاد میڈیا کا اور حکومت کے بنانے اور بدلنے میں عوام کے آزادانہ کردار کا۔ جمہوریت نام ہے ہر سطح پر قانون کے مطابق اربابِ اختیار کے احتساب اور جواب دہی کا۔ جمہوریت نام ہے ملک کے وسائل ملک کے عوام کے مفاد میں استعمال کیے جانے کا، اور عوام کے تصورات اور ضروریات کے مطابق معاشی، معاشرتی اور تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کا۔ جمہوریت نام ہے ملک کے تمام شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا، اور جمہوریت نام ہے ملک کی آزادی اور حاکمیت اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کے احترام اور ترویج کا۔

اگر اس کسوٹی پر پاکستان کی موجودہ حکومت کو جانچنے کی کوشش کی جائے تو بدقسمتی سے یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت نظر آتی ہے۔ ملک کی آزادی دائو پر لگی ہوئی ہے اور امریکا جس طرح چاہتا ہے ہماری اس آزادی اور حاکمیت کو مجروح کرتا ہے اور پھر طعنہ بھی دیتا ہے کہ تمھاری حاکمیت ہے کہاں؟ ہیلری کلنٹن صاحبہ نے اپنے تازہ ترین عتاب نامے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جس حاکمیت کی تم بات کرتے ہو، اس کا وجود کہاں ہے؟ ہر روز امریکی ڈرون حملے ہماری حاکمیت کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں دہشت گرد، بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز دندناتے پھرتے ہیں اور زرداری اور عبدالرحمن ملک جیسے لوگ چین کی بنسری بجا رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ میں ۲۰۰۸ء کے مقابلے میں تین سے چار گنا اضافہ ہوگیا ہے اور اگر ۰۷-۲۰۰۶ء میں تین یا چار گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی تو آج وہ بڑھ کر ۱۸ سے ۲۰ گھنٹوں پر پہنچ گئی ہے۔ عوام بلبلارہے ہیں، صنعتیں بند ہورہی ہیں، سرمایہ ملک سے باہر منتقل ہورہا ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، کاروبارِ مملکت قرض پر چل رہا ہے اور صرف   ان چار برسوں میں قرضوں میں اتنا اضافہ ہوا ہے (ساڑھے چھے ٹریلین روپے) جو اس سے قبل کے ۶۰برسوں کے قرضوں سے زیادہ ہے۔ روپے کی قیمت ۴۵ فی صد کم ہوگئی ہے اور ملک میں نئی سرمایہ کاری براے نام رہ گئی ہے۔ افراطِ زر کا طوفان ہے، ہر روز ۲،۳؍ارب کے نوٹ چھاپے جارہے ہیں اور اگر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات نہ ہوتیں (جو اس وقت ۱۲بلین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں، یعنی کُل برآمدات کی آمدنی کا تقریباً ۵۵ فی صد ) تو ملک کب کا دیوالیہ ہوچکا ہوتا۔

یہ انتظامیہ اور سیاسی قیادت کی ناکامی ہے کہ عوام مجبور ہوکر ہرمسئلے کے حل کے لیے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں اور عدلیہ بھی مجبور ہوکر ایسے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے جن میں عام حالات میں اسے دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ دستور بنانے والوں نے ایسے ہی غیرمعمولی حالات کے احتمال کے پیش نظر، آج نہیں ۱۹۷۳ء ہی سے، دستور میں دفعہ ۱۸۴ رکھی تھی جس کے تحت عدلیہ قومی اہمیت کے ایسے معاملات میں ازخود بھی مداخلت کرسکتی ہے جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہو۔ آج یہی چیز عوام کے دُکھ درد کے، جزوی ہی سہی، مداوے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ عدلیہ پر کام کا بوجھ غیرمعمولی طور پر بڑھ گیا ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے اُمور ہوں، قانون اور ضابطوں کی پامالی کے معاملات ہوں، اقرباپروری اور ناجائز تقرریوں، تبدیلیوں اور تصرفات کے مسائل ہوں، قیمتوں میں اضافے اور سرکاری اداروں کے خسارے کا مسئلہ ہو، لاپتا افراد کی اندوہناک مظلومیت کی بات ہو یا سرکاری نیم سرکاری اور غیرسرکاری ایجنسیوں کی غیرقانونی حرکات اور چیرہ دستیوں اور ستم کاریوں کا___ اعلیٰ عدالتیں ہی عوام کی اُمید کی آخری کرن بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ اور اس کی ایجنسیاں عدلیہ کو اپنے راستے کا کانٹا سمجھنے لگی ہیں اور ان کی حکم عدولی ہی نہیں، تحقیر اور تذلیل پر اُترآئی ہیں، اور آخری حملہ چیف جسٹس اور اعلیٰ عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے ایک بدنام ارب پتی کی ’سرمایہ کاری‘ اور اس کے ڈرامائی افشا کی شکل میں کیا گیا جو الحمدللہ کارگر نہ ہوا اور خود سازش کرنے والوں کے گلے پڑ گیا۔

عدلیہ سے تصادم کا سبب

موجودہ حکومت نے سپریم کورٹ کے کم از کم ۴۰ فیصلوں پر عمل نہیں کیا اور این آر او کے سلسلے میں تو عمل نہ کرنے کا برملا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ اعلانِ جنگ ہی وہ اصل ایشو ہے جو اس وقت وجہِ نزاع بنا ہوا ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ بالکل کھل کر قوم کے سامنے یہ حقیقت رکھیں کہ اصل مسئلہ یوسف رضا گیلانی کا نہیں___ اصل مسئلہ دستور اور قانون کی حکمرانی کا ہے، دستور اور قانون کے باغیوں کو قانون کی گرفت میں لانے کا ہے، مسئلہ اداروں کے ٹکرائو کا نہیں، اداروں کو دستور اور قانون کے دائرے میں کام پر مجبور کرنے کا ہے۔ امیر اور غریب اور طاقتور اور کمزور سب کے لیے ایک قانون اور انصاف کے باب میں مساوات کا ہے۔

این آر او کیا ہے؟ یہ وہ کالا قانون ہے جس کے ذریعے ان تمام مجرموں کو جنھوں نے قتل سے لے کر قومی دولت کی لُوٹ مار تک، جو بھی جرم ۱۹۸۶ء سے لے کر اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کیا ہے، اس سے بریت سے نوازا گیا ہے۔ اس کے تحت ۸ ہزار سے زیادہ قومی مجرموں کو نیک چلنی سے سرفراز کیاگیا بلکہ فرار کا دروازہ کھولا گیا ہے، اور اس گنگا میں اشنان کرنے والوں میں عزت مآب آصف علی زرداری، جناب عبدالرحمن ملک، جناب الطاف حسین، جناب فاروق ستار، اور ان جیسے دسیوں سیاسی لیڈر، بیورو کریٹ، تاجر اور بااثر افراد شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے دسمبر۲۰۰۹ء میں اس قانون کو اس کے نفاذ کے پہلے دن ہی سے کالعدم (null and void) اور غیرمؤثر قرار دیا ہے اور اس کے تحت سہولت لینے والے تمام افراد کو اس سہولت سے محروم کرکے صورتِ حال کو اس حیثیت پر بحال کردیا ہے  جس پر وہ ستمبر ۲۰۰۷ء سے پہلے تھا۔ زرداری صاحب کے سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں۶کروڑ ڈالر کا معاملہ بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ کا اصل ’جرم‘ یہ ہے کہ اس نے اس قومی دولت کو ملک میں لانے کا حکم جاری کیا ہے اور غیرقانونی طور پر پاکستان کے اس سرمایے سے این آر او کے تحت اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم کے اس خط کو غیرمؤثر بنایا ہے جس کے ذریعے اس مقدمے کو واپس  لیا گیا تھا جس میں حکومت پاکستان نے پاکستانی عوام کی اس دولت کو واپس لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے وزیراعظم سے کس بات کا مطالبہ کیا ہے؟ قانونی طور پر اس میں صدرزرداری کا نام کہیں نہیں آتا۔مطالبہ صرف یہ ہے کہ جو غلط اقدام این آر او کے کالے اور اب کالعدم قانون کے تحت کیا گیا، اسے واپس لیا جائے اور قانون کو اپنا عمل پورا کرنے کا موقع دیا جائے۔ وزیراعظم یا ان کے وکیل کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ عدالت سے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت کسی استثنا کی درخواست کریں۔ اس لیے کہ ان کو پتا ہے کہ دفعہ ۲۴۸ کا اطلاق اس معاملے پر نہیں ہوتا۔ یہ صرف ان اُمور کے بارے میں ہے جو صدارت کے دوران ہوں۔ نیز صرف ایسے فوج داری معاملات اس کے دائرے میں آتے ہیں جو خواہ پہلے کے ہوں لیکن ان پر صرف عمل درآمد متعلقہ شخص پر اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس عہدے پر فائز ہو۔ سوئس عدالتوں میں پاکستان کا مقدمہ سول مقدمہ (civil suit) کی حیثیت سے ہے، کریمنل نہیں۔ اور بات صرف زرداری صاحب کی نہیں ان تمام افراد سے متعلق ہے جو مقدمے میں فریق ہیں۔ استثنا کا اگر کہیں دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو وہ سوئس عدالت میں ہی کیا جاسکتا ہے۔ جس خط کا مطالبہ سپریم کورٹ کر رہی ہے اس پر وہ لاگو ہی نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ اسے زرداری صاحب اور ان کے حکمران ٹولے اور ان کے وکیلوں کی فوج نے سیاسی مسئلہ بنادیا ہے۔ محترمہ کی قبر کا نام استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ محترمہ اب اس جہاں میں جاچکی ہیں جہاں سے ان کا کوئی رشتہ اس دنیا کے معاملات سے باقی نہیں ہے۔ سوال قوم کی دولت واپس لانے کا ہے اور عدالت ہی نہیں پوری قوم کا مطالبہ ہے۔ قانونی عمل کے ذریعے اسے قوم کے مفاد میں حل کیا جائے۔ واضح رہے کہ اس مقدمے میں سوئس جج نے آصف علی زرداری اور دوسرے شریک افراد کو منی لانڈرنگ کے الزام میں چھے ماہ قید اور ۵۰ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی تھی اور انھیں حکم دیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کو ۱۱بلین ڈالر واپس کریں۔

 یہ صرف ایک کیس کا معاملہ ہے ورنہ اگر نیویارک ٹائمز (جنوری ۱۹۸۸ئ) میں شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ کا تعاقب کیا جائے تو تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر حکومت کے سودوں میں رشوت کے ذریعے حاصل کرنے کی تفصیلات موجود ہیں جو سب پاکستانی خزانے کی رقم ہے اور اس لیے یہ پاکستان کے غریب عوام کا حق ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران پوری ڈھٹائی کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے حکم کو ماننے اور عوام کا حق ان کو واپس دلانے کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں   اور اس سلسلے میں حکمران پارٹی سے متعلق کچھ وکلا اور عہدے دار مقدمہ چلنے کی مدت ختم ہونے (law of limitation) کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف خود سوئس حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے ۲۰۱۱ء میں ایک نیا قانون نافذ کردیا ہے جس نے پاکستان اور ان تمام ممالک کے لیے جو اپنی لُوٹی ہوئی دولت کو غاصبوں سے واپس لینے کے لیے مستعد ہوں،نئے نئے امکانات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے مشہور وکیل فرانسس مائیکل کے بقول اس قانون کے تحت اگر کوئی ریاست جس کا سرمایہ غیرقانونی طور پر سوئٹزرلینڈ میں موجود ہے اور کسی وجہ سے وہ خود  اپنے ملک میں مقدمہ چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تو وہ اس قانون کی رُو سے یہ رقم حاصل  کرسکتی ہے۔ (ملاحظہ ہو، دی نیوز ۲۳جون ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں شائع ہونے والی رپورٹ۔  New Swiss law allows easy opening of black money cases’’یعنی سوئس قانون اب کالے دھن کے مقدمات کو کھولنے کا آسان راستہ فراہم کر رہا ہے‘‘۔

اب اس سے زیادہ شرم ناک بات اور ملک دشمنی اور عوام دشمنی اور کیا ہوگی کہ جہاں رقم موجود ہے وہ ملک کہہ رہا ہے کہ لے جاسکتے ہو، مگر ہم وہ رقم واپس یہاں لانے کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔

عدالت عظمٰی پر اعتراضات

اس پس منظرمیں بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاملہ بلاشبہہ توہین عدالت کا تو ہے ہی، لیکن صرف توہین عدالت کا نہیں ہے۔ سرکاری ذرائع اور بھارتی اور مغربی میڈیا، اپنی قانون اور  انصاف پرستی کے تمام دعوئوں کو بھول کر اس طرح پیش کر رہے ہیں کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک منتخب وزیراعظم کو بیک بینی و دوگوش اقتدار اور اسمبلی کی رکنیت تک سے محروم کر دیا ہے۔ اس  کے لیے امریکی اور بھارتی اخبارات تسلسل کے ساتھ عدالتی ’کو‘ (coup) اور دوسرے ذرائع سے ’کو‘  کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت کا کوئی بھی بڑا اخبار ایسا نہیں ہے جس نے ایک ہی لَے میں سپریم کورٹ کے اس اقدام اور جمہوری عمل کو درہم برہم کرکے،اپنی حدود سے تجاوز کرنے، اور ایک ایسی حکومت کو کمزور کرنے کا مرتکب قرار نہ دیا ہو، جو پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں سرگرم ہے۔ مغربی اور بھارتی میڈیا کی یلغار کا ذکر ہم بعد میں کریں گے لیکن پہلے اصل اعتراض کا جائزہ لینا ضروری ہے جو بیرونی میڈیا اور عناصر کے ساتھ حکمران جماعت کے قائدین، ان کے ہم نوا اہلِ قلم اور کالم نگار، حتیٰ کہ کچھ اداریہ نگار بھی کر رہے ہیں:

  • پہلا اعتراض یہ ہے کہ عدالت نے اپنے دائرۂ کار سے تجاویز کیا ہے اور ایک منتخب وزیراعظم کو مجرم قرار دے کر اقتدار سے محروم کیا گیا ہے۔
  • دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عدالت نے جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بے شمار مقدمات اس کے زیرسماعت ہیں لیکن اس نے جلدبازی سے ایک خاص جماعت اور ایک خاص فرد کو نشانہ بنایا ہے۔
  • تیسرا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے کے پیچھے درپردہ کوئی اور ہاتھ ہے جو جمہوری عمل کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے اور دانستہ یا نادانستہ طور پر عدالت اس کا آلۂ کار بن گئی ہے۔ درپردہ اشارہ فوج کی طرف ہے اور یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ عدالت اس proxy war کا حصہ بن گئی ہے۔
  • چوتھا اعتراض یہ ہے کہ عدالت نے دفعہ ۲۴۸ کو نظرانداز کردیا ہے۔
  • پانچواں اعتراض یہ ہے کہ عدالت اور پارلیمنٹ اس معاملے کی وجہ سے باہم دست و گریباں ہورہے ہیں۔

 ہم چاہتے ہیں کہ آگے بڑھنے سے پہلے کیے جانے والے اعتراضات میں سے کچھ کو نمونے کے طور پر ریکارڈ کا حصہ بنا لیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اس بارے میں کیا کیا گل افشانیاں ہورہی ہیں۔

سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے بڑھ چڑھ کر دعوے کیے ہیں کہ وہ دستور کی دفعہ ۲۴۸ کا دفاع کر رہے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو دفعہ ۶ ان پر لاگو ہوسکتی ہے جس کی سزا موت ہے۔ اس لیے وہ اپنے من پسند وکلا کی تائید سے اس جرم کا ارتکاب کررہے ہیں جس کی سزا چھے ماہ ہے،  گو ان کو صرف ۳۰سیکنڈ کی سزا ملی۔ یہ دعویٰ کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دستور میں ایک دفعہ ۱۹۰ بھی ہے جو تمام انتظامی مشینری کو پابند کرتی ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر عمل کرے۔کیا دفعہ ۱۹۰ کی خلاف ورزی دفعہ ۲۴۸ کی خلاف ورزی سے، جو مشتبہ ہے، مختلف امر ہے اور کیا ۱۹۰ کی خلاف ورزی پر دفعہ ۶ لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔

پاکستان کے دستور پر حلف اُٹھانے والے ایک اور مہربان جناب صدرآصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ پارٹی کا فیصلہ ہے کہ کوئی بھی سوئس عدالت کو خط نہیں لکھے گا ، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ اور یہ کہ خط کا مطالبہ دراصل محترمہ کی قبر کا مقدمہ ہے، حالانکہ اب محترمہ سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا ہے۔ زرداری صاحب نے بار بار عدلیہ کا مذاق اُڑایا ہے اور اپنے تازہ ترین ارشاد میں تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ ’’وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے پر تحفظات ہیں، اسے احتجاجاً قبول کیا ہے۔ عدالتی فیصلے کو پارلیمنٹ میں زیربحث لائیں گے۔ جمہوریت کی خاطر دوسرا وزیراعظم لارہے ہیں۔ نیا قائدایوان بھی بے نظیر کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دے گا۔ پیپلزپارٹی کو کمزور کرکے اس ادارے کا فردِ واحد بھی جلد چلا جائے گا‘‘۔ (ایوان صدر میں پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب، جنگ، جسارت، نوائے وقت، نئی بات،۲۱ جون ۲۰۱۲ئ)

پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ یہ سب ’بدمعاشی‘ ہے اور میں اس کے مقابلے میں بڑی بدمعاشی کر رہا ہوں ___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ بڑے دُکھ کے ساتھ ایک اہم جملہ معترضہ کے طور پر جناب آصف علی زرداری صاحب کے اس کردار کا بھی یہاں ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جو وہ دستور کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایوانِ صدر سے مسلسل کر رہے ہیں۔

صدر زرداری صاحب بعینہٖ وہی بات کہہ رہے ہیں جو گیلانی صاحب نے کہی تھی اور جس پر توہینِ عدالت کا اطلاق ہوا تھا۔ پھر وہ عدالت عظمیٰ اور اس کے فیصلوں کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے لانے کی دعوت دے رہے ہیں جو اسمبلی اور سینیٹ کے رولز آف بزنس کے خلاف ہے۔ نیز وہ پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے والے ادارے کے لیے ’فردِ واحد‘ کے جلد چلے جانے کی بات بھی فرما رہے ہیں جو ایک خطرناک دھمکی اور خوف ناک عزائم کی غماز ہے۔ یہی وہ فسطائی ذہن ہے جو قانون اور عدل کی بالادستی کو گوارا نہیں کرتا اور جو تصادم اور انتقام کی آگ کو بھڑکانے کا ذریعہ بنتا ہے۔

صدرصاحب بھی تمام عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کرکے توہینِ عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ سنگین اس جرم کا مسلسل ارتکاب کر رہے ہیں کہ صدر ہوتے ہوئے ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کا کردار ادا کر رہے ہیں، اور ملک کی سیاست میں پاکستان اور فیڈریشن کی نہیں بلکہ ایک پارٹی کی وکالت کر رہے ہیں اور اس کے مفادات کے لیے سرکاری وسائل اور حیثیت کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور تیسرا جرم یہ ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد دستور نے حکمرانی کا جو نقشہ مقرر کیا ہے اس کے برعکس انھوں نے پارلیمانی نظام پر صدارتی نظام کو مسلط کردیا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو پارلیمان کی بالادستی کی رٹ لگاتے نہیںتھکتے وہ وزیراعظم کے دستوری اور پارلیمانی اختیارات کو ایک ایسے شخص کو دینے کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں جسے دستور نے صرف فیڈریشن کی علامت بنایا ہے۔ یہ اور بھی زیادہ تشویش ناک ہے کہ ایک مجرم وزیراعظم کی جگہ ایک اور بدنام شخص کے انتخاب سے پہلے انھوں نے فوج کے چیف آف سٹاف سے مشورہ کیا جو خود ان کے اور چیف آف سٹاف کے حلف کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ خوش آیند ہے کہ انھوں نے مشورہ دینے سے انکار کیا لیکن اس سے مشورہ حاصل کرنے والے کے جرم میں کمی نہیں آتی۔

عدلیہ کی بحالی کے سلسلے میں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بڑی خدمات ہیں لیکن سپریم کورٹ بارکونسل کے سالِ گذشتہ کے انتخابات کے بعد سے ان کے تیور خاصے بدل گئے ہیں اور اپنے   تازہ ترین انٹرویو میں ارسلان افتخار کے معاملے کے حوالے سے ان کے ارشادات ناقابلِ فہم ہوتے جارہے ہیں، ان کا ارشاد ہے کہ:

اس واقعے کے بعد سے عدالت عظمیٰ نے بڑی تیزی سے جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کا آغاز کیا ہے۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب کھلم کھلا مارشل لا لگا دیا جائے۔ لیکن ایک سویلین چہرے کے پیچھے فوجی بیٹھے ہوتے ہیں اور اب اس کی بدبو آنا شروع ہوگئی ہے۔ جب سے عدلیہ بحال ہوئی ہے اس نے اداروں کو بار بار دھچکا لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن حکومت کی بقا اس میں ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو تسلیم کرے۔ انھوں نے کہا کہ عدالتی فیصلہ جمہوریت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ افسوس کہ عدلیہ ، پارلیمان اور اپوزیشن ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔

بلاشبہہ ہرشخص کو اپنی راے کا حق ہے لیکن عدالت کے فیصلوں سے فوجی بوٹوں کی بو آرہی ہے یا نہیں،محترمہ کے بیان میں زرداری اور گیلانی صاحب کی آواز کی بازگشت صاف سنی جاسکتی ہے۔

روزنامہ ڈان کے نامہ نگار راجا اصغر نے اس پورے عمل کو A Judicial Blow to Politics (سیاست پر عدالتی ضرب)کا عنوان دیا ہے (ڈان، ۲۰ جون ۲۰۱۲ئ)، اور بالواسطہ طور پر جسٹس منیر کا ریفرنس دیتے ہوئے Constitutional Coup(دستوری ’کو‘)کی یاد تازہ کی ہے۔

بہارتی میڈیا کا واویلا اور حقائق

یہ اشارے تو ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کے انداز کے ہیں لیکن امریکی میڈیا اور اس سے بھی بڑھ کر بھارتی میڈیا تو عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر بڑا چراغ پا ہے اور بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج صاحب تو تلوار اور بھالا سنبھال کر حملہ آور ہوگئے ہیں اور تعجب ہے کہ ان کے اس وار کو عارف نظامی جیسے مدیر اور دانش ور نے بھی نیم تائیدی انداز میں اپنے مضمون میں شامل کرنا ضروری سمجھا ہے ۔ (ملاحظہ ہو پاکستان ٹوڈے، Exit Gilani ، ۲۳ جون ۲۰۱۲ئ)

اب ذرا بھارتی اخبارات کی گل افشانیوں کو بھی انھی کے الفاظ میں ملاحظہ فرما لیجیے۔ نہایت معتبر اور بالعموم متین اخبار The Hindu ادارتی کالم میں لکھتا ہے:

ان حالات میں، جب کہ ایک منتخب حکومت اور نئی زندگی پانے والی سپریم کورٹ، دونوں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی اداراتی حدود کا دوبارہ تعین کریں، تصادم ناگزیر تھا۔ پریشان کن سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض جمہوری رسہ کشی سے زیادہ ہے؟ جس یکسوئی کے ساتھ سپریم کورٹ نے حکومت کے ساتھ اپنی لڑائیاں جاری رکھی ہیں، اس نے دوسرے ذریعے سے ’کو‘ کے الزامات کو راہ دی ہے۔(۲۰جون ۲۰۱۲ئ)

بھارتی اخبار Deccan Chronicle سب سے زہرآلود تبصرہ کرتا ہے:

درحقیقت چیف جسٹس نے موجودہ حکومت اور ملک کی سیاست کو مزید اُلجھائو سے نکالنے کے بجاے قدم بہ قدم گرائے جانے کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ یہ ایک کلاسیکل فوجی ’کو‘ نہیں ہے (اس لیے کہ فوج سے اقتدار سنبھالنے کی توقع نہیں ہے) بلکہ یہ پی پی پی کے زیرقیادت نظام کو جو فوج کا ناپسندیدہ ہے، قدم بہ قدم تباہ کرنا ہے۔ شاید ممکنہ طور پر میموگیٹ کے پس پردہ بھی یہی جذبہ کارفرما تھا، جس نے گذشتہ برس صدر کے قائم مقام نمایندوں کو امریکیوں کے سامنے فوجی انقلاب کا خوف بیان کرنے پر آمادہ کیا۔      یہ امراہم ہے کہ چیف جسٹس نے دوسرے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کا  آغاز نہیں کیا ہے۔ اس طرح ہمارے سامنے پاکستان میںدوسرے ذرائع سے ’کو‘ آتا ہے جو بھارت اور پاکستان میں تعلقات کی سنجیدہ کوشش میں رکاوٹ ہے۔ جن انتخابات کے تار فوج ہلاتی ہے زیادہ دُور نہیں ہوسکتے۔

Indian Express ایک اور نام وَر روزنامہ ہے، وہ کیوں پیچھے رہتا، ارشاد ہوتا ہے:

لگتا ہے کہ گھڑی کی سوئیاں پیچھے کر دی گئی ہیں۔ زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ زندہ کرنے سے انکار پر توہینِ عدالت کے مقدمے نے ۲۰۰۹ء کی یاد تازہ کردی ہے جب عدالت نے سابق صدر مشرف کی زرداری اور ان کے ساتھیوں کی معافی کو رد کر دیا تھا۔ لیکن سول حکومت کو کمزور کرنے والا حملہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کے لیے ناگزیر تھا، خاص طور پر اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد۔  نہ یہ بات غیرمتوقع تھی کہ یہ عدلیہ کی طرف سے آسکتا تھا ۔ پاکستان کی فوج اور عدلیہ   اکثر وقت کی سول حکومت کے خلاف ایک دوسرے سے مل گئے ہیں اور اس فیصلے کو بھی اس کے ظاہری مفہوم تک نہیں لینا چاہیے۔

اب بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈی کاٹجو کے تابڑ توڑ حملے بھی دیکھیے:

مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ اور خاص طور پر اس کے چیف جسٹس نے مکمل عدم برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے اس کی توقع نہیں کی جاتی۔ درحقیقت عدلیہ اور س کے چیف جسٹس عوام کو خوش کرنے کے لیے عرصے سے کھیل رہے ہیں۔ یہ بالکل عیاں ہوگیا ہے اوراس نے تمام دستوری معیارات کو پامال کردیا۔ میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ بدعنوانی کے الزامات جو واضح طور پر مجرمانہ نوعیت کے ہیں، پاکستانی صدر کے خلاف کس طرح شروع کیے یا جاری رکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک عدالت وزیراعظم کو کس طرح نکال سکتی ہے؟ جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وزیراعظم اس وقت تک اپنے منصب پر رہتا ہے جب تک کہ اسے پارلیمنٹ کا ، نہ کہ عدالت عظمیٰ کا اعتماد حاصل رہتا ہے  کہ دستور نے مملکت کے  تین ستون، یعنی عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک نازک توازن قائم کیا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے دائرۂ کار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ دوسری صورت میں نظام نہیں چل سکتا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے  اپنا توازن کھو دیا ہے اور جنونی (berserk) ہوگئی ہے۔ اگر یہ اب بھی ہوش میں نہیں آتی تو مجھے ڈر ہے کہ وہ دن دُور نہیں جب دستور ختم ہوجائے گا اور الزام پورے کا پوراعدالت پر ہوگا، اور خاص طور پر اس کے چیف جسٹس پر، (دی نیوز، پاکستان ٹوڈے، ۲۲ جون ۲۰۱۲ئ)

جناب زرداری صاحب کو بھارت کے ان ’ہمدردوں‘ کی شکل میں وہ ترجمان مل گئے جو ان کی اپنی لیگل ٹیم سے بھی بازی لے گئے ہیں۔

اصل مسئلہ کیا ھے؟

اس ساری شعلہ بیانی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اور ان تمام اعتراضات کے وزن کو بھی متعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل حقائق پر کھلے دل سے غور کیا جائے اور پھر وقت کا قاضی جو فتویٰ بھی دے، قبول ہے۔

اصل ایشو کسی منتخب یا غیرمنتخب شخص کو سزا دینا یا نہ دینا نہیں، اصل ایشو دو ہی ہیں:

  • ایک: این آر او جسے عدالت کی فل کورٹ کی جانب سے اوّل دن سے ہی خلافِ دستور اور خلافِ قانون ہونے اور بدنیتی پر مبنی اور عالمی سازشوں کے ذریعے رُونما ہونے والا ایک ظالمانہ اور جمہوریت کش اقدام قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے حالیہ اقدامات کا تعلق نہ جمہوریت کے مستقبل سے ہے، نہ منتخب لوگوں کے معتبر یا غیرمعتبر ہونے سے۔ یہ تو سوال ہی نہیں اُٹھتا کہ عدالت وزیراعظم پر عدمِ اعتماد کر رہی ہے اس لیے کہ عدالت تو صرف ایک ’جرم‘ کے مرتکب سے قانون کے مطابق معاملہ کر رہی ہے۔ کسی پر اعتماد یا عدمِ اعتماد، نہ اس کا میدان ہے اور نہ وہ اس بارے میں کچھ کہہ رہی ہے۔ لیکن کیا اگر ایک جرم پارلیمنٹ کا رکن یا انتظامیہ کا اعلیٰ ترین عہدے دار کرے تو وہ جرم نہیں رہتا؟

واضح رہے کہ حکومت این آر او کو پارلیمنٹ میں لانے کے بعد اسے واپس لینے پر مجبور ہوئی۔ حکومت کے وکیل نے عدالت عظمیٰ میں اس کے دفاع سے معذرت کرلی اور عدالت نے محکم دلائل کے ساتھ اسے ایک bad law قرار دے کر منسوخ کردیا۔ بعد از خرابی بسیار، حکومت کی طرف سے ریویو کی اپیل بھی مسترد ہوگئی جس نے بحث کے باب کو بند کر دیا۔ اب مسئلہ صرف اس فیصلے کے نفاذ کا ہے اور جن لوگوں نے، خواہ وہ کوئی بھی ہو، اس سے جو فائدے اُٹھائے ہیں ان کو اس سے محروم کرنے کا ہے۔ یہ حق و انصاف کا کم سے کم تقاضا ہے۔ نیز اس معاملے میں قانون کی نگاہ میں سب کی برابری اصل اصول ہے۔ کسی کے لیے بھی کوئی مراعات نہ دستورہی دیتا ہے اور نہ قانون اور اخلاق میں اس کی گنجایش ہے۔ رہا زرداری صاحب کے لیے دفعہ ۲۴۸ کا معاملہ تو جیسا ہم نے پہلے عرض کیا قانونی طور پر نہ اس کا سہارا لیا گیا ہے اور نہ بنتی ہے۔ معاملہ فوج داری کا نہیں، سول ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج صاحب نے اصل حقائق معلوم کرنے کی زحمت کی ہوتی تو اپنے بیان میں ایسی فاش غلطی نہ کرتے۔ پاکستان کی حکومت کی جو درخواست سوئس عدالت کو گئی تھی وہ سول قانون کے تحت تھی، یعنی پاکستان کی دولت کی واپسی۔ فوج داری الزام سوئس پراسیکیوٹر کی طرف سے تھا، پاکستان کی طرف سے نہیں۔ جسٹس رمدے نے اس معاملے پر بڑی تفصیل سے اورفیصلہ کن روشنی ڈالی ہے، اس لیے دفعہ۲۴۸کو اس بحث میں لانا خلط مبحث ہے۔

  • دوسرا بنیادی ایشو یہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کے سلسلے میں فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو ہے___ وزیراعظم کو، صدرِ مملکت کو، وزراے کرام کو، ارکانِ پارلیمنٹ کو یا ملک کی عدالتوں کو۔ دستور اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے طے کرچکا ہے اور وہ یہ ہے کہ عدالت اور عدالت ہی ایسے  معاملات کا فیصلہ کرسکتی ہے اور اس کا فیصلہ آخری اور حتمی ہے۔ نظری طور پر اس سے انکار نہیں ہوسکتا ہے کہ اس کا احتمال ہے کہ کبھی عدالت سے بھی غلطی ہوجائے لیکن اس کا راستہ بھی عدالتی نظام میں ریویو کے دائرے میں ہے، اس سے باہر نہیں۔ اسی طرح قانون بنانا مقننہ کا کام ہے، مگر قانون کی تعبیر صرف عدالت عظمیٰ کا حق ہے۔ پارلیمنٹ نئی قانون سازی کرسکتی ہے لیکن عدالت کے judicial review کے حق کو غصب نہیں کرسکتی اور تقسیم اختیارات اور اقتدار کی تکون (Trichotomy of power)کے یہی معنی ہیں۔ اگر عدالت کے فیصلوں کے بارے میں بھی کوئی یہ استحقاق حاصل کرنا چاہے کہ جس فیصلے کو چاہے تسلیم کرے اور جسے نہ چاہے اسے تسلیم نہ کرے تو یہ مہذب معاشرے کی بنیادوں کو مسمار کرنے کے مترادف اور جنگل کے قانون کی طرف مراجعت ہے۔

موجودہ حکومت اعلیٰ عدالت سے مسلسل برسرِپیکار ہے اور ۴۰ سے زیادہ فیصلوں ( بشمول این آر او کے فیصلے) پر عمل پیرا ہونے سے گریزاں ہے۔ یہ ایک جرمِ عظیم  ہے اور ایسے جرم کے مرتکبین اپنے حق حکمرانی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ دستور کی خلاف ورزی ہی نہیں، اس کے خلاف بغاوت ہے اور دفعہ۶ کی زد ایسے تمام اقدامات پر پڑتی ہے جس کی سزا موت تک ہوسکتی ہے۔

ہمیں تعجب ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج اور ان کے بھارتی اور پاکستانی ہم نوا بڑی دیدہ دلیری بلکہ دریدہ دہنی سے کہہ رہے ہیں کہ ایک جمہوریت میں ایک منتخب وزیراعظم کو غیرمنتخب عدالت کیسے ہٹاسکتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں قانون کی نگاہ میں حاکم اور رعایا میں کوئی فرق نہیں اور جہاں کسی درجے کا استثنا دیا گیا ہے وہ غیرمحدود نہیں۔ خودبھارت میں ۱۲ جون ۱۹۷۵ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جگ موہن لعل سنہا نے الیکشن میں بدعنوانیوں کے الزام میں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ اندراگاندھی کو سزا دی تھی اور انھیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کردیا تھا۔ عدالت نے ان کو اپیل کا حق دیا تھا جس کا اندراگاندھی نے فائدہ   نہ اُٹھایا اور پھر وہ دستوری ’کو‘ آیا جس کا خوف یہ بھارتی قانونی سورما پاکستان کو آج دلا رہے ہیں، یعنی بھارت میں چند ہی ہفتوں میں ایمرجنسی کا نفاذ، دستور کو معطل کرنا، اپوزیشن کے قائدین کی گرفتاریاں اور اندراگاندھی اور سنجے گاندھی کا آمرانہ اقتدار!

ایک جائزے کے مطابق صرف گذشتہ صدی میں دنیا میں ۲۰ صدور اور ۲۲ وزراے اعظم ایسے ہیں جن کو سزائیں ہوئی ہیں اور ان کے جرائم میں کرپشن کے علاوہ جنگی جرائم، بے حُرمتی، قتل اور دیگر سنگین الزامات شامل ہیں۔ اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں قاہرہ کے قاضی نے مملوک حکمران کو امارت سے معزول کردیا تھا۔

پروفیسر جان ایسپوزیٹو اسلام اور جمہوریت پر بحث کرتے ہوئے اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ عثمانیہ دور میں کم از کم چار ایسے خلیفہ تھے جن کو قاضی القضاۃ نے معزول کر دیا۔ پروفیسر محمود احمد غازی کی تحقیق یہ تھی کہ یہ تعداد چار نہیں نو ہے۔ تعداد جو بھی ہو، بات تعداد کی نہیں، اصول کی ہے اور ہمیں تعجب ہے کہ تحقیق کے بغیر بڑے بڑے قانون دان اور صحافی ایسے دعوے کر رہے ہیں اور پاکستان کی عدالت عظمیٰ کو دوش دے رہے ہیں کہ اس نے ایک منتخب وزیراعظم کو جرم کی  سزا دے دی۔ حالانکہ عدالت نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جتنے مواقع حکومت کو قانون کی  پاس داری اور دستور کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے دیے، اس کی مثال مشکل ہے۔ عدالت نومبر۲۰۰۹ء سے خط لکھے جانے کا مطالبہ کر رہی ہے مگر حکمرانوں نے محض اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے تین سال ضائع کردیے، بلکہ عدالت کا تمسخر اُڑایا جس پر عدالت کو گرفت کرنا پڑی۔ گیلانی صاحب اور ان کے لائق وکیل نے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا اور معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔ پھر پارلیمنٹ کو استعمال کرنے کی قبیح کوشش کی اور اسپیکر سے ایک ایسی رولنگ دلوائی گئی جس کی دستور، قانون اور سیاسی روایات میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس پر  مستزاد، قومی اسمبلی سے رولنگ کے حق میں قرارداد پاس کرائی گئی جو خود ایوان کی بے حُرمتی اور اسپیکر کے اختیارات کو غصب (arrogate) کرنے کے مترادف تھا۔

عدالت نے ان تمام نازیبا حرکات سے صرفِ نظر کیا لیکن حکمران ٹولہ اور بھی جری ہوکر کھل کھیلنے میں مشغول رہا بلکہ عدالت اور خود چیف جسٹس کے خلاف ایک نہایت گھنائونا سازشی جال بُننے کی کوشش کی گئی جو اللہ کی حکمت سے خود ان کے اُوپر لوٹ آیا ۔ اربابِ دولت اور اصحابِ صحافت سب کو ملوث کرنے کی کوشش کی اور فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر بھی چھینٹے اُڑائے گئے حالانکہ عدالت عظمیٰ لاپتا افراد اور بھتہ خوری اور لاقانونیت کے مسائل پر (عوامی درخواستوں پر یا خود اپنی صواب دید پر)، دستور کی دفعہ ۱۸۴ کے تحت گرفت کررہی ہے اور سیاست دانوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کے ہر گرفت سے بالا (untouchable) افراد تک اور ایجنسیوں اور ایف سی کے ذمہ داروں پر قانون لاگو کرنے کی مہم میں مصروف ہے۔ بلاشبہہ عدل ہر حال میں ہونا چاہیے، ہرکسی کے باب میں ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ نیز احتساب سے کوئی بالا نہیں۔ نہ سیاست دان، نہ علما، نہ جج، نہ جرنیل،   نہ صحافی، نہ تاجر اور نہ عام شہری۔ جس طرح امتیازی انصاف ناقابلِ قبول ہے اسی طرح عدلیہ کے فیصلوں کے باب میں کسی کو تسلیم کرنے اور کسی کو نہ کرنے کی بھی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ عدالت نے بہت سے اہم فیصلوں میں وقت ضرور لیا ہے مگر کسی جانب داری کا کسی درجے میں بھی مظاہرہ نہیں کیا۔ عدالتی فعالیت کا اگر مظاہرہ ہوا تو وہ عوام کے حق کی حفاظت اور دستوراور قانون کا احترام کرانے کے لیے ہوا ہے، اور اس کے برعکس حکومتی افراد اور خصوصیت سے حکمران پارٹی کے افراد کے باب میں بار بار کے مواقع دے کر عدالتی تحمل (restraint) کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس پر عوام مضطرب رہے ہیں۔

بحران کا حل

موجودہ حالات میں اعلیٰ عدالت نے دستور اور قانون کی پاس داری، عوام کو ان کے حقوق دلانے اور ملک سے بدعنوانی، کرپشن، بدحکمرانی اور اقرباپروری  کے خاتمے کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ بلاشبہہ حالات بہت خراب ہیں اور جو کچھ کیا جاسکا ،    وہ بہت ہی محدود ہے مگر جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ بہت قیمتی ہے۔ آزاد عدالت اور آزاد اور ذمہ دار صحافت پر ضرب لگانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں وہ قابلِ مذمت ہیں۔ عدلیہ کو مضبوط کرنا اور عدلیہ کی پشت پر پوری عوامی تائید کو منظم کرنا جمہوریت کی بقا اور فروغ کے لیے نہایت ضروری ہے۔

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جناب یوسف رضا گیلانی نے عدالت کے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور شہید بننے کے شوق میں بے توقیر ہوکر ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے پاکستان کے وزیراعظم سے زیادہ جناب زرداری صاحب کے مفادات کے محافظ اور پارٹی کارکن کا کردار ادا کیا۔ زرداری صاحب نے بھی عدالت کے فیصلے کوتسلیم نہیں کیا، عدالت کا مذاق اُڑایا اور ان کی ساری تگ و دو عدالت کے فیصلوں کو  ناکام کرنے کی ہے۔ راجا پرویز اشرف کا نئے وزیراعظم کے طور پر انتخاب بھی اسی مذموم کھیل کا حصہ ہے۔ سب معترف ہیں کہ موصوف میں ایسی کوئی خوبی نہیں کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کے کم سے کم تقاضے بھی پورے کرسکیں۔ وہ ایک ناکام وزیر اور ایک بدنام سیاست دان ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے ایک رفیق وزیر نے ان کے خلاف بدعنوانی اور کرپشن کا مقدمہ عدالت عظمیٰ میں دائر کیا اور وہ آج بھی اس پر قائم ہیں۔

خود عدالت نے رینٹل پاور کے مقدمے کے فیصلے میں دو بار ان کے خلاف تحقیق اور کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ ایک ایسے شخص کو وزیراعظم بنانے اور برملا اس سے بھی وہی خدمت لینے کا اعلان جو یوسف رضا گیلانی صاحب کی برخاستگی کا سبب بنی، تصادم اور کش مکش بلکہ کھلی جنگ کی دعوت ہے۔ یہ تباہی کا راستہ ہے اور جمہوریت کو اصل خطرہ جمہوریت کے ان دعوے داروں سے ہے جن کے بارے میں یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ وہ نادان دوست ہیں یا دانا دشمن؟ صاف نظر آرہا ہے کہ عدالت اپنے فیصلے پر عمل درآمد کا مطالبہ کرے گی اور اسے یہی کرنا چاہیے اور پوری مستعدی سے کرنا چاہیے۔ امکان یہی ہے کہ نئے وزیراعظم اس پرانی لن ترانی کا اعادہ کریں گے اور قانون اپنا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگا۔ ان حالات میں دو ہی راستے ہیں:

۱- حکمران اپنی روش کو بدلیں، عدالت کے فیصلے کو قبول کریں اور سوئس عدالت کو فوری طور پر خط لکھیں تاکہ یہ کش مکش ختم ہو، اور پھر مشاورت کے ذریعے جلد از جلد اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہو جو ایک معتمدعلیہ اور غیر جانب دار الیکشن کمیشن کے تحت اور قابلِ قبول اور غیر جانب دار نگران حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوں۔

۲- اگر حکومت یہ راستہ اختیار نہیں کرتی تو تمام اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایک ایسا متفقہ لائحہ عمل تیار کریں جس کے نتیجے میں پُرامن عوامی تحریک کے ذریعے موجودہ حکومت کو دستور، قانون اور نظامِ عدل کے خلاف اس کی جنگ سے روکا جائے۔ اگر وہ نہ رُکے تو پھر اس کو اقتدار سے ہٹاکر ایک غیر جانب دار عبوری حکومت کے تحت جلد از جلد نئے انتخابات منعقد کیے جائیں، الیکشن کمیشن کو دستور کے مطابق تمام اختیارات دیے جائیں اور عبوری حکومت شفاف انتخابات کا اہتمام کرے تاکہ قوم اس دلدل سے نکلے اور ایک حقیقی اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام اور اپنے حقیقی مقصد اور مشن کے حصول کے لیے سرگرم ہوسکے۔

 بہت وقت اور بہت وسائل ضائع ہوچکے ہیں۔ اب مزیدنقصان کی گنجایش نہیں۔ تبدیلی دستک دے رہی ہے اور عوامی قوت کے ذریعے ایک صالح انقلاب ہی کے ذریعے حقیقی اور صحت مند تبدیلی آسکتی ہے۔ اس کے لیے سب کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اسی طرح مشترک جدوجہد کرنا ہوگی جس طرح تحریکِ پاکستان میں سب نے مل کر انگریز اور ہندو قیادت دونوں کے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے کی تھی اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت قائم ہوئی۔ اسی طرح آج    اس مملکت کی بقا اور استحکام کے لیے اس کو اس کے اصل مقصد وجود کے حصول کے لیے سرگرم کرنے کے لیے اور اسے ان غاصبوں سے نجات دلانے کے لیے جو ایک عرصے سے اس پر قابض ہیں  متحدہ ملّی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی قوم، خصوصیت سے اس کے نوجوان اپنے وطن عزیز کو غاصبوں کے چنگل سے چھڑانے اور اسے ۱۸کروڑ انسانوں کے لیے خوشی، خوش حالی اور خودمختاری کا گہوارا بنانے کی جدوجہد میں ہرمفاد اور ذاتی پسند و ناپسند سے بلند ہوکر سردھڑ کی بازی لگا دیں گے   ؎

نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

  پس پردہ حقائق اور مضمرات

تاریخ کا شاید ہی کوئی دور ایسا ہو جس میں اقوامِ عالم خطرات کی یورش سے محفوظ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم کی زندگی میں خطرات کی یلغار سے بھی کہیں زیادہ خطرناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب اسے خطرات کا صحیح اِدراک اور شعور ہی نہ ہو اور وہ ان کے مقابلے کے لیے مؤثر حکمت عملی اور نقشۂ کار سے محروم اور غافل ہو، اصل ایشوز سے صرفِ نظر کرے، اپنے قومی مقاصد اور مفادات کے بارے میں سہل انگاری یا بے اعتنائی و بے نیازی کا رویہ اختیار کرے اور محض جزوی یا ثانوی امور میں اُلجھ جائے، یا اس سے بھی بدتر صورت یہ ہے کہ محض شخصی اور ذاتی مفادات کی ادھیڑبن میں  مصروف رہے۔ شاید اقبال نے ایسے ہی تغافل سے متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا    ؎

فطرت افراد سے اِغماض بھی کرلیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف

پاکستان بحیثیت ملک و ملّت اور اس کی قیادت آج ایک ایسی ہی اندوہ ناک صورت حال سے دوچار نظر آرہی ہے___ دنیا کا نقشہ بدل رہا ہے، عالمی قوتیں اپنے اپنے عزائم اور مفادات کے لیے نئے نئے نقشہ ہاے جنگ ترتیب دے رہی ہیں، پاکستان کے گرد گھیرا بڑی چابک دستی سے تنگ کیا جا رہا ہے مگر اس وقت وطنِ عزیز کی زمامِ کار جن ہاتھوں میں ہے، ان کو نہ خطرات کا اِدراک ہے اور نہ مقابلے کے لیے وژن، تیاری اور صف بندی کا۔ ہرکوئی ذاتی مفادات کی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور ملک بچانے، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کی فکر کرنے اور عوامی مسائل و مشکلات کے حل کے لیے صبح و شام ایک کرنے کے بجاے کرسی بچانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا  کھیل کھیلا جارہا ہے۔

بلاشبہہ افغانستان پر قابض امریکی اور ناٹوافواج کے لیے رسد کی بحالی یا اس دروازے کو مزید مضبوطی کے ساتھ بند کرنے کا مسئلہ اصولی اور عملی سیاست، ہردو اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اسے جذباتی انداز میں یا بیرونی دبائو اور معاشی بول تول کے فریم ورک میں حل کرنے کی کوشش نہ صرف غیرحقیقت پسندانہ ہوگی بلکہ یہ کھلی کھلی تباہی کا راستہ ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس سوال کو اس کے اصل پس منظر اور تمام متعلقات سے کاٹ کر توجہ کا مرکز بنانے اور پاک امریکا تعلقات کے گمبھیر مسئلے کو مختصر بتاکر اس پر منحصر ہونے کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اُسے سمجھا جائے۔  قومی زندگی کے اس نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر تمام متعلقہ امور اور پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور صرف پاکستان کی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور اس کے اپنے قومی مفادات اور مستقبل کے امکانات کی روشنی میں فوری اور دیرپا پالیسی سازی کے اقدام کیے جائیں۔

امریکا اور ناٹو افواج کا ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کا پاکستان کے خلاف اقدام کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا۔ اس کا ایک طویل پس منظر ہے اور علاقے کے بارے میں امریکا کی حکمت عملی میں اس کا ایک کلیدی مقام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر قوم کا ردعمل ملک کے حقیقی مفادات اور اہداف کا تقاضا تھا اور اسے قوم کی مکمل تائید حاصل تھی، اور یہ تائید ایسی محکم اور واضح تھی کہ امریکی اور لبرل لابی کے لیے بھی چپ سادھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت نے چھے قیمتی مہینوں میں   نئی حکمت عملی بنانے اور قومی اتفاق راے کے ساتھ امریکا سے تعلقات کے سلسلے میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے کے بجاے وہی مفادات کا کھیل کھیلا، نان ایشوز(non-issues) میں قوم کو  اُلجھایا، بشمول نئے صوبوں کے قیام کا مسئلہ، مرکز اور صوبوں میں کھچائو، عدالت اور دوسرے قومی اداروں سے ٹکرائو، لاقانونیت کے عفریت کو کھل کھیلنے اور نت نئے مواقع فراہم کرنا، سیاسی انتقام اور تصادم کی سیاست کے نئے پھندے، بھارت سے تجارت کے نام پر ان مسائل سے اغماض جن پر پاکستان کے وجود اور مستقبل کا انحصار ہے، یعنی کشمیر اور پانی کا مسئلہ ، نیز کرپشن اور بدعنوانی کے نئے ریکارڈوں کا قیام۔ امریکا سے تعلقات کی نئی شرائط اور خارجہ پالیسی سے متعلق مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کا ڈراما بھی اسی کھیل کا حصہ نظر آتا ہے۔ اب ساری بحث کو ملک میں اور بیرونِ ملک حکومت کے کارپرداز، امریکا نواز دانش ور اور میڈیا میں اس کی فکر کے ترجمان اور سب سے بڑھ کر خود امریکی حکومت اور عالمی میڈیا رسد کی بحالی کو اصل مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں جس کا نمایاں ترین ثبوت شکاگو میں منعقد ہونے والی ناٹو کی ۲۵ویں سربراہی کانفرنس اور اس کی کارروائی ہے۔ پورے سیاسی تناظر کو جھٹلانے (falsify) کی یہ مکروہ کوشش ایک بہت ہی خطرناک سیاسی اور خونیں کھیل کا حصہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے پر دلیل کے ساتھ بات کی جائے اور   یہ مسئلہ جن دوسرے مسائل سے جڑا ہوا ہے اور جن کے سلسلے میں صحیح حکمت عملی اختیار کیے بغیر    اس کے بارے میں کوئی فیصلہ ممکن نہیں اس پر قرارواقعی توجہ دی جائے ، اس لیے کہ ع

یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے

معروضی حقائق اور حکومتی موقف

اصل مسئلے پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اس نازک موقعے پر جو تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے لیے جن امور کو سامنے رکھنا ضروری ہے، ان کو مختصراً بیان کردیں:

۱- جناب سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج نے جو فضابنانے کی کوشش کی ہے، اس پر گرفت سب سے پہلی ضرورت ہے۔ یہ تو انھوں نے بالکل بجا فرمایا کہ قوموں کی زندگی کے ایسے اہم فیصلے جذباتی انداز میں نہیں ہوتے اور نہیں ہونے چاہییں۔ ہم اگر اس سوال کو نظرانداز بھی کردیں کہ اس ’ارشادِ عالیہ‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی، اور کیا ان کا خیال ہے کہ ۲۶نومبر کی امریکی جارحیت کے ردعمل میں جو فیصلہ قوم اور قیادت نے کیا وہ کوئی ’جذباتی فیصلہ‘ تھا جسے اب عقل و فراست اور تاریخ اور تجربے کی میزان پر پرکھنے اور ان کی نگاہ میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن چونکہ اس بارے میں انھوں نے ابہام رکھا ہے اس لیے ہم بھی اسے نظرانداز کرتے ہیں، تاہم ان کی اس دعوت کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ فیصلے ٹھوس حقائق، حقیقی تاریخی تجربات، عالمی قوتوں کے عزائم اور ایجنڈے کے بارے میں علم و تحقیق اور دیانت اور فراست پر مبنی جائزوں اور خود   اپنے قومی مفادات اور مقاصد و اہداف کی روشنی میں ہونے چاہییں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ کھلے اور شفاف انداز میں، بے لاگ بحث و مباحثے اور قومی ڈائیلاگ کے ذریعے ہونے چاہییں، اور عوام کی خواہش اور عزائم کے مطابق اور ان کو اعتماد میں لے کر ہونے چاہییں۔ اس میں پارلیمنٹ، تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں، اہلِ علم و تجربہ اور میڈیا ہر ایک کا کردار ہے۔ بلاشبہہ فیصلے بروقت ہونے چاہییں اور لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ پالیسی سازی کے لیے صحیح طریقہ کار اختیار کیا جائے، اس لیے کہ تمام متعلقہ عناصر (stake holders) کی شرکت اور اطمینان کے بغیر جو فیصلے ہوتے ہیں وہ جلد پادر ہوا ہوجاتے ہیں اور انھیں کبھی بھی جواز اور ساکھ حاصل نہیں ہوپاتی۔

ہم صاف الفاظ میں یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں فیصلے محض جذبات کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم کے جذبات، اس کے عزائم اور تصورات، اس کے مقاصد اور حقیقی مفادات، زمینی حقائق اور مطلوبہ اہداف، تاریخی تجربات اور راہ کے موانع اور مشکلات میں سے ہر ایک کا احاطہ ضروری ہے ،اس لیے کہ ان معاملات میں ہر ایک کا کردار ہے اور کسی ایک کو بھی نظرانداز کرنا مہلک ہوسکتا ہے۔ توازن اور تمام اُمور کو سامنے رکھ کر جو فیصلے کیے جاتے ہیں، وہی موجوں کے تلاطم کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح جو فیصلے بیرونی دبائو اور اندرونی لابیز (lobbies) کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں کیے جاتے ہیں، وہ صرف اور صرف نقصان کا سودا ثابت ہوتے ہیں، جیساکہ پرویز مشرف کے دور میں کیے جانے والے فیصلوں کے بارے میں ہوا، جس کا اعتراف آج وہ ’گل ہاے سرسبد‘ بھی کر رہے ہیں جو اس وقت پرویز مشرف کے حلقہ یاراں کا حصہ تھے اور اس وقت اس کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے۔ اقبال نے اس خطرے سے بہت پہلے آگاہ کیا تھا کہ    ؎

محکوم کے اِلہام سے اللہ بچائے

غارت گرِ اقوام ہے وہ صورت چنگیز

ہم حکومت اور اس کے کارپردازوں کی اس روش پر بھی گرفت کرنا چاہتے ہیں کہ جذباتیت کی بات کرنے کے ساتھ چند ایسے اعلانات بھی کیے گئے ہیں جن کا دلیل اور دیانت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، لیکن جو غالباً ہوا کے رُخ کی تبدیلی اور حکومت کے بدلتے اطوار کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اگر گذشتہ چند دن خیریت سے گزر گئے ہیں اور شکاگو کانفرنس کے لیے جو ڈراما تیار کیا جارہا تھا وہ اسٹیج نہ کیا جاسکا، تو اس کی وجہ وہ عوامی ردعمل اور ملک کی دینی اور بعض سیاسی قوتوں کا بروقت انتباہ تھا جس نے شرم ناک ہزیمت سے ملک کو بچا لیا۔ نیز یہ امریکا کی قیادت کا غرور اور نشۂ قوت کا خمار تھا جس نے آخری وقت میں قوم کو پھسلنے سے بچا لیا۔ ورنہ وہی وزیرخارجہ صاحبہ جو قومی مفاد اور  وقار پر ڈٹ جانے کی بات کر رہی تھیں اور جس پر امریکی سفارت کار مارک گراسمین نے صرف ایک مہینہ پہلے میڈیا کو اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’وہ ناتجربہ کار ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنا مشکل ہے‘‘۔ (دی ٹائمز، اسلام آباد،۱۵مئی ۲۰۱۲ئ)

ان کی مئی ۲۰۱۲ء کی برطانیہ یاتراکے واپسی کے موقع پر ہوائی جہاز ہی میں ایسی قلب ماہیت ہوگئی کہ ’آگے بڑھنے‘ کی باتیں کرنے لگیں اور ان پر یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ معاملہ صرف امریکا کا نہیں، دوسرے ۴۸ ممالک کا بھی ہے اور ان میں ہمارا جگری دوست ترکی بھی شامل ہے۔ پتا نہیں ان تمام حقائق کا انکشاف برطانیہ کے سفر میں ہو، یا یہ ۴۸ممالک بشمول ترکی ۲۰۱۲ء میں افغانستان کی امریکی جنگ میں شریک ہوئے ہیں اور ۲۰۰۴ء سے جاری ڈرون حملوں کی بارش، پاکستان کی حاکمیت اور سرحدات کی مسلسل خلاف ورزی، ۲مئی کے سنگین واقعات اور ۲۶نومبر کے خونیں حملے کی ان کو ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ وزیراعظم گیلانی اور حناربانی کھر ملک کی حاکمیت، قومی مفاد اور  عزت و وقار کی دہائی دیتے نہیں تھکتے تھے اور اب مفاہمت، حقیقت پسندی، معاشی مجبوریوں اور عالمی سطح پر تنہائی کے ڈرائونے خواب ان پر سایہ فگن ہوگئے ہیں۔ وزیردفاع پاکستان اور اس کے مفادات اور خود اپنی فوج پر کیے جانے والے حملوں کا دفاع کرنے کے بجاے یہ درس دے رہے تھے: ’’رسد روکنا بین الاقوامی قانون اور معاہدات سے متصادم ہے‘‘۔ وزیرخارجہ صاحبہ یہاں تک فرماگئی ہیں کہ ناٹوسپلائی بالآخر کھولنا ہوگی اور اگر اسے بحال نہ کیا گیا تو بڑی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہے، ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے، ہم نے خارجہ پالیسی کو مسلسل ارتقائی عمل بنادیا ہے۔ وزیراطلاعات تو سب پر بازی لے گئے ہیں، فرماتے ہیں کہ ڈرون حملوں پر اسلام آباد، لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں میں احتجاج زیادہ اور فاٹا میں  کم ہوتا ہے، اور ہم پہلے دن سے ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا سے روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں مگر وہ ہماری بات نہیں مانتا۔ اس سے بڑھ کر وہ بات ہے جو امریکی اور مغربی سفارت کار کہتے ہیں اور جس کی تائید و تصدیق وکی لیکس سے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت زرداری صاحب اور گیلانی صاحب سمیت بلکہ کیانی صاحب بھی اس میں شامل ہیں، یہ کہتی ہے کہ ہم عوامی سطح پر   ان کی مخالفت کرتے رہیں گے اور آپ عملاً اپنا کام جاری رکھیں اور ہمارے اس زبانی واویلا کی فکر نہ کریں۔

یہ دوغلاپن اور اپنی قوم اور پارلیمنٹ اور تاریخ سے مذاق ہی وہ مرض ہے جس کے نتیجے میں امریکا شیر ہورہا ہے اور پاکستان دہشت گردی کی آماج گاہ بن گیا ہے۔ ۴۰ ہزار سے زیادہ   عام شہری بشمول خواتین اور بچے اور ۵ہزار سے زیادہ فوجی جوان اور افسر لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ اور خود اپنے ملک میں بے گھر ہوجانے والوں کی مجموعی تعداد ۳۰سے ۴۰ لاکھ کے درمیان ہے۔ اس پر مستزاد وہ معاشی اور مالی نقصان ہے جو ان ۱۱ برسوں میں ملک اور اس کے عوام نے اٹھایا ہے اور جو وزارتِ خزانہ کے اپنے اندازے کے مطابق صرف پہلے آٹھ سال میں ۶۷ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ اگر ۱۱ برسوں کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے تو ۱۰۰ارب ڈالر سے کسی طرح کم نہیں۔ اس کے علاوہ ناٹو کی سپلائز سے جو نقصان ملک کی سڑکوں، پُلوں اور دوسرے انفراسٹرکچر کو پہنچا ہے وہ ۱۰۰؍ارب روپے سے زیادہ ہے اور ان تمام نقصانات میں وہ مستقل نقصان شامل نہیں ہے جو ۴۵ہزار افراد کی ہلاکت اور ایک لاکھ کی معذوری کی شکل میں اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں ملک اور قوم کو برداشت کرنا پڑا ہے۔

 اس سب کے باوجود امریکا نے جس طرح پاکستان پر اپنی سیاسی، معاشی اور ثقافتی گرفت مضبوط کی ہے، جاسوسی کا جو نظام پورے ملک کے اندر بچھایا ہے، تجربہ کار عناصر کو جس طرح مضبوط کیا ہے، مسلح کیا ہے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے اور دنیا کے سامنے خود پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ملک کی حیثیت سے پیش کیا ہے، اور جس کھلے انداز میں ملک و قوم اور خود اس قیادت کی جو ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے،  تضحیک اور تحقیر کی جارہی ہے، وہ اس انتہا پر پہنچ گئی ہے کہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی کے بغیر ملک کی آزادی، بقا اور استحکام ممکن نہیں رہا۔

یہ ہے اصل پس منظر جس میں امریکی اور ناٹو افواج کے لیے پاکستان کی سرزمین کے ذریعے رسد کے مسئلے کے بارے میں صحیح فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ چند ڈالروں کی فیس کا نہیں___مسئلہ کہیں زیادہ گمبھیر اور ہمہ جہتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ اور اس میں پاکستان کی غیرمشروط اور تباہ کن شرکت، افغانستان اور وسط ایشیا میں امریکی عزائم اور اس کھیل میں بھارت کا کھلا اور خفیہ کردار اور خود افغانستان کے اپنے استحکام اور علاقے کے امن سے اس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ امریکا اور پاکستان کے مجموعی تعلقات اور بدلتی ہوئی عالمی سیاسی بساط میں امریکا، اُمت مسلمہ، ایشیا اور خصوصیت سے چین کے مستقبل کے کردار اور اس میں پاکستان کے مفادات کے تعین اور ان کی حفاظت کا پہلو بھی ہے۔ سوال عالمی سطح پر پاکستان کی تنہائی کا نہیں، رسد کی بحالی کے مسئلے کو باقی تمام اُمور سے الگ (isolate) کرکے کوئی شکل دینے کے خطرناک کھیل کو سمجھنے اور اس چیلنج کی روشنی میں معاملات کا حل تلاش کرنے کا ہے جو بحیثیت مجموعی ملک اور اس پورے خطے کو درپیش ہیں۔

پارلیمنٹ کی مجموعی کارکردگی خواہ کتنی بھی مایوس کن رہی ہو لیکن کم از کم اس مسئلے پر پارلیمنٹ کی قراردادیں اور پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی کی رپورٹیں بہت واضح ہیں۔ نیز اس میں آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے جس میں پارلیمنٹ سے باہر جماعتوں کی قیادت نے بھی شرکت کی۔ ان سب میں جو اُمور مشترک ہیں، وہ یہ ہیں:

۱- پاکستان کی آزادی اور خودمختاری معرضِ خطر میں ہے اور اس کے لیے فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ پرویزمشرف کے دور میں جو خارجہ پالیسی اور ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جو کردار پاکستان نے اختیار کیا اسے فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔ ا س پالیسی کا     جاری رکھنا ملک، قوم ، علاقے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کی تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

۲- پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے اور اسے امریکا کے ایجنڈے سے بے تعلق(de-link) کرکے پاکستان کے اپنے مقاصد، مفادات اور سیاسی، معاشی، انسانی اور علاقائی سلامتی کے تصورات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

۳- ’دہشت گردی‘ کے خلاف جو جنگ امریکا نے نائن الیون کے بعد شروع کی، وہ  دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ سیاسی حل کے لیے مذاکرات ہی صحیح راستہ ہیں۔ انتہاپسندی اور تشدد نامطلوب ہیں لیکن ان پر قابو پانے کے لیے ان کے اسباب کا جائزہ لینا ہوگا اور جب تک ان اسباب کو دُور نہ کیا جائے، صورت حال بہتر نہیں ہوسکتی۔

۴- اصل مسئلہ جنگ کو جاری رکھنا نہیں، جنگ کو ختم کرنا اور امن کے لیے حالات کو سازگار بنانا ہے، چاہے یہ بات کھلے الفاظ میں نہ کہی گئی ہو لیکن اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت راے عامہ کے ہر جائزے میں یہ بات واضح کرچکی ہے کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کی حیثیت قابض افواج کی ہے اور جب تک بیرونی قبضہ ختم نہیں ہوتا، علاقے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہر وہ اقدام جو جنگ کو تقویت دینے والا ہو، ہمارے قومی مفاد اور علاقے کے سلامتی کے خلاف ہوگا۔

۵- اس جنگ میں شرکت سے پاکستان نے پایا کم اور کھویا زیادہ ہے۔ جان، مال،  عزت و آبرو اور آزادی اور قومی سلامتی، سب دائو پر لگ گئے ہیں۔ اس پر مستزاد ملک کے معاملات میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت اور کھلے بندوں ہماری حاکمیت پر حملے اور سرحدوں کی خلاف ورزی ہے۔ ڈرون حملے جن میں اضافہ ہی ہوا ہے، امریکی فوجوں کی زمینی کارروائیاں، فضائی حدود کی پامالی اور ہماری سرزمین پر کھلے (overt) اور خفیہ (covert)، دونوں قسم کے اقدامات (operations) اس کا بین ثبوت ہیں۔ یہ سب ناقابلِ برداشت ہیں لیکن احتجاج کے باوجود نہ صرف یہ کہ امریکا اور اس کے اعوان و انصار نے اپنی روش میں سرمو تبدیلی نہیں کی بلکہ مزید رعونت سے ان میں اضافہ کیا اور ملک اور اس کی قیادت کی تحقیر و تذلیل میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔

پارلیمنٹ کی قراردادوں میں آزاد خارجہ پالیسی کی ضرورت، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنے کی راہوں کی تلاش، قومی سلامتی کے پورے تصور پر نظرثانی، مسئلے کے فوجی حل کی جگہ سیاسی حل کی طرف مراجعت، تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشاورت اور ڈائیلاگ میں شریک کرکے     نئی راہوں کی تلاش اور ملک میں امن و امان کے قیام، انصاف کی فراہمی، معاشی ترقی اور سماجی فلاح کو پالیسی کے اصل اہداف بنانے کی ہدایت کی گئی۔ پہلی قرارداد ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی اور آخری ۱۲؍اپریل ۲۰۱۲ء کو۔

سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور اسے رہنمائی اور پالیسی سازی کا سرچشمہ بنانے کے دعوے داروں نے پارلیمنٹ کی قراردادوں پر کتنا عمل کیا اور عوام کے جذبات و احساسات کا لحاظ رکھا یا انھیں بُری طرح پامال کیا؟

حکومت کے کچھ ترجمان دبی زبان سے اور پاکستان میں امریکی لابی کے سرخیل ببانگ دہل بلکہ پوری سینہ زوری کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کا کام خارجہ پالیسی بنانا نہیں۔ یہ تو ایک بہت ہی پیشہ ورانہ (professional) کام ہے جسے خارجہ امور کے ماہرین ہی انجام دے سکتے ہیں۔ ان تمام موشگافیوں کی اصل وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ اور کُل جماعتی کانفرنس کی قراردادوں میں جن اصولوں اور اہداف کا تعین کیا گیا ہے، اور جن امور کو قومی مفاد اور ترجیحات قرار دیا گیا ہے، وہ ان کے مفیدمطلب نہیں، اور پارلیمنٹ کی ہدایات اور عوام کی خواہشات سے گلوخلاصی حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ خارجہ پالیسی کے امور کو پارلیمنٹ کی دسترس سے باہر نکالا جائے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا تو بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ تمام پالیسیوں کا سرچشمہ عوام کی مرضی کو ہونا چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ ہرپارٹی کے منشور میں داخلی امور، نظریاتی اہداف، تعلیمی، ثقافتی اور فلاحی پروگرام کے ساتھ خارجہ پالیسی کے خدوخال بھی قوم کے سامنے رکھے جاتے ہیں اور ان تمام اُمور پر ان سے مینڈیٹ حاصل کیا جاتا ہے۔ دستور میں خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال واضح الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں اور ریاست کی پالیسی کے بنیادی اصول کے طور پر ان کو دستور کی دفعہ ۴۰ میں بیان کیا گیا ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں داخلہ پالیسی، معاشی اور مالیاتی پالیسی کی طرح خارجہ پالیسی پر بھی بحث ہوتی ہے اور قراردادوں اور قانون سازی کی شکل میں پارلیمنٹ واضح ہدایات دیتی اور حکومت کو پابند کرتی ہے۔ امریکا میں ایک ایک ملک سے تعلقات کا مسئلہ قانون سازی کے ذریعے طے کیا جاتا ہے اور صدرمملکت صلح و جنگ کے معاملات میں کانگریس کی ہدایات کا پابند ہے۔  امریکی دستور کے تحت اعلانِ جنگ کانگریس کی منظوری کے بغیر نہیں کیا جاسکتا اور یہ جو ہر روز کمیٹیوں میں اور پھر قوانین کی شکل میں بیرونی امداد کے لیے رقوم مختص کی جاتی ہیں اور سیاسی بنیادوں پر   ان میں کمی بیشی کی جاتی ہے، یہ خارجہ پالیسی کی تشکیل نہیں تو کیا ہے؟

کیری لوگر بل کا بڑا چرچا ہے مگر کیا اس بل کے ذریعے امریکا نے پاکستان سے اپنے خارجی اور معاشی تعلقات کے دروبست طے نہیں کیے۔ یہ جو رسد کا مسئلہ ہے اس پر امریکا کی پارلیمنٹ نے فوراً ہی ترامیم کے ذریعے نئی شرطیں لگائی ہیں اور رسد نہ کھولنے پر امریکی امداد میں کمی، حتیٰ کہ ملک کے ایک غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی، جسے ایبٹ آباد کمیشن نے اور پھر ملک کی ایک عدالت نے جرم ثابت ہونے پر سزا دی ہے، اس کی پشت پناہی میں ۳۳سال کی قید کے جواب میں ۳۳ملین ڈالر کی تخفیف کا بل فوری طور پر منظور کردیا گیا ہے ،یہ خارجہ پالیسی کو لگام دینا نہیں تو کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی ہدایات اس حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہیں جسے وہ نہ نگل پارہی ہے اور نہ اُگل پا رہی ہے!

ملکی بحران اور مایوس کن حکومتی کارکردگی

حالات جس مقام پر آگئے ہیں اور آگے جو خطرات درپیش ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ  پاک امریکا تعلقات کے سلسلے میں موجودہ حکومت کی جو کارکردگی رہی ہے اس کا کھل کر جائزہ     لیا جائے، اور قوم کو شعور دلایا جائے کہ اس قیادت نے ملک کو کس خطرناک دلدل میں پھنسا دیا ہے۔

اب سوال یہ نہیں ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کیا کیا تھا، اس نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے، اب اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ان ساڑھے چار برسوں میں کیا کیا؟ اور قوم کے واضح مطالبات اور پارلیمنٹ کی کھلی کھلی ہدایات کے باجود اس حکومت کا کیا کردار رہا؟

۱- عوام نے مشرف ہی کو نہیں اس کی پالیسیوں کو بھی رد کیا تھا لیکن زرداری گیلانی حکومت نے ان تمام ہی پالیسیوں کو، ان کے تباہ کن نتائج، عوام کے احتجاج اور پارلیمنٹ کی آہ و بکا کے باوجود جاری رکھا بلکہ ان کو اور بھی تباہ کن بنا دیا۔ امریکا کی گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی۔ امریکی سفارت کاروںاور خفیہ اداروں کو زیادہ دیدہ دلیری سے اپنا کھیل کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ بلاتحقیق ہزاروں ویزے دیے گئے۔ امریکی کارندوں پر نگرانی کا کوئی مؤثر نظام قائم نہ کیا گیا۔ ریمنڈڈیوس کے واقعے نے تو صرف واضح حقائق کے صرف سرے (tip of the iceberg) کو بے نقاب کیا جو ہمارے ملک کی سلامتی روندنے کا ذریعہ بنا ہوا تھا اور ایک حد تک اب بھی ہے۔ ڈرون حملوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔ ملک میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا طوفان آگیا۔ فاٹا ہو یا بلوچستان یا کراچی___سب کے ڈانڈے امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور ناٹو کے لیے سپلائی فراہم کرنے والے کنٹینرز سے جاملتے ہیں۔ ابھی لیاری آپریشن میں جس اسلحے کا استعمال ہوا ہے، جو راکٹ داغے گئے ہیں اور جو پستول پکڑے گئے ہیں، ان سب پر امریکی ساخت کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں۔

ان ساڑھے چار برسوں کا ریکارڈ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو اس کٹہرے میں لاکھڑا کرتا ہے جس میں پرویز مشرف اور اس کے ساتھی ہیں___اور یہ بات بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ پرویز مشرف کے بہت سے سابق ساتھی، اس حکومت کے بھی ساتھی اور سانجھی ہیں!

۲- پارلیمنٹ، عوام اور قومی اُمور پر نگاہ رکھنے والوں کے بار بار کے مطالبات کے باوجود اس حکومت نے امریکا سے تعلقات کے شرائط کار (terms of engagement) اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کی شکلوں (modalities) پر کوئی نظرثانی نہیں کی، بلکہ قوم کو اسی طرح اصل حقائق سے تاریکی میں رکھا جو مشرف کی فوجی اور شخصی آمریت کے دور میں کیا جا رہا تھا۔ ہم پوری ذمہ داری سے قوم کے علم میں یہ بات لانا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں تک کو صحیح معلومات بار بار مطالبات کے باوجود نہیں دی گئیں ۔ ہم چند مثالوں سے بات کو واضح کرنا چاہیں گے:

۱- مشرف کے دور میں امریکا سے کیا معاہدات ہوئے، نیز کن کن اُمور پر کوئی قول و قرار ہوا، اس سے وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ نے پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کی کمیٹی کو مطلع نہیں کیا اور ہمیشہ یہی کہا کہ کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے۔ حالانکہ حکومت کے ضابطۂ کار میں یہ موجود ہے کہ معاہدات تحریری ہوتے ہیں جن کی منظوری کوئی فرد نہیں بلکہ کابینہ دیتی ہے، اور جو اُمور صرف زبانی طے ہوتے ہیں ان کی بھی تحریری روداد رکھی جاتی ہے اور وہ ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہے۔ صرف سلالہ کے واقعے کے بعد وزارتِ دفاع مجبور ہوئی اور بڑے ردوکد کے بعد دو معاہدات کے کچھ مندرجات سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔ ایک مفاہمتی یادداشت (MOU) ۱۹جون ۲۰۰۲ء کی ہے جو وزارتِ دفاع اور ایساف (ISAF) کے درمیان ہے جس پر ایساف کی طرف سے برطانیہ کی حکومت نے دستخط کیے ہیں۔ دوسرا ۹فروری ۲۰۰۲ء کا امریکا کی وزارتِ دفاع کے ساتھ ہے جو فروری ۲۰۱۲ء میں اپنی ۱۰ سالہ مدت پوری کرکے ختم ہوگیا لیکن کمیٹی کو بھی ۲۰۱۲ء سے پہلے اس کی کوئی ہوا نہیں لگنے دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کمیٹی نے سختی سے یہ ہدایت دی ہے کہ امریکا ہی نہیں، کسی بھی ملک یا ادارے سے جو بھی معاہدہ ہے وہ لازماً تحریری شکل میں ہونا چاہیے، تمام متعلقہ وزارتوں کے مشورے سے ہونا چاہیے، کابینہ کی منظوری سے ہونا چاہیے، اور پارلیمنٹ یا کم از کم قومی سلامتی کی کمیٹی کو اس سے مطلع ہونا چاہیے۔

مشرف حکومت نے خفیہ معاملہ کرنے (secret dealing) کا جو ریکارڈ قائم کیا تھا اس حکومت نے بھی اسے باقی رکھا، اور چار برسوں پر پھیلے ہوئے اس جرم میں یہ بھی برابر کی شریک ہے۔

۲- کمیٹی کے بار بار کے مطالبات کے باوجود وزارتِ دفاع نے ان ہوائی اڈوں کے بارے میں کوئی معلومات کمیٹی کو نہیں دیں جو امریکی افواج کے زیراستعمال تھے، بلکہ ہردفعہ یہی کہا گیا کہ کسی تحریری معاہدے کے بغیر یہ سہولت دی گئی تھی جو اب جاری نہیں۔ بس ٹریننگ کے لیے کچھ سہولتیں باقی ہیں۔ لیکن ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد بلوچستان میں شمسی ایئربیس کو خالی کرانے کا اقدام کیا گیا اور گیلانی زرداری حکومت اس کا کریڈٹ لے رہی ہے۔ لیکن سوال خالی کرانے کا نہیں، سوال جنوری ۲۰۱۲ء تک اس حکومت اور اس فوجی قیادت کی ناک تلے اس ایئربیس کی موجودگی، اس پر امریکا کی مکمل مطلق حاکمیت (sovereignty) کہ اس کی حدود میں پاکستانی فوج اور ایئرفورس کا سربراہ بھی پَر نہیں مار سکتا تھا، کی جواب دہی اسی حکومت کو کرنا ہوگی۔ کم از کم اس اڈے کے حوالے سے تو اب یہ اعتراف کیا جا رہا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس اڈے سے ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء تک ڈرون حملے کیے جاتے رہے۔ کیا حکومت کو ۲۶نومبر کے بعد اس اڈے کا علم ہوا اور یہ بھی ایبٹ آباد میں اسامہ کے موعود قیام گاہ کی طرح اس کی نظروں سے اوجھل رہا؟ یا یہ اس کی مرضی سے امریکا کے زیرتصرف تھا اور حکومت قوم اور پارلیمنٹ کو گمراہ (mislead) کر رہی تھی؟ قوم اور پارلیمنٹ کے ساتھ یہ دھوکا دہی غداری (high treason) کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کی جواب دہی کون کرے گا؟

۳- امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان کی سرزمین پر سرگرمی اور امریکی سفارت کاروں کا کردار بھی قومی سلامتی کو متاثر کرنے والے اہم امور میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں بلاتحقیق ویزے جاری کیے جانا اور اس حوالے سے واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے اور دبئی میں پاکستان کے سفارت خانے کا کردار بھی ایسا نہیں جسے قومی جواب دہی کے سلسلے میں نظرانداز کیا جاسکے۔

۴- امریکا نے افغانستان میں تو جو کچھ کیا، وہ سب کے سامنے ہے اور ہمارا کردار اس میں بالواسطہ ہے جس نے افغان عوام کو ہم سے بدگمان کیا اور افغانستان پر امریکی قبضے کا مقابلہ کرنے والے تمام عناصر کو ہمارا بھی دشمن بنا دیا، حالانکہ سارے اختلافات اور مختلف پاکستانی قیادتوں کی کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں کے باوجود، افغان عوام بحیثیت مجموعی پاکستان کے بہترین دوست تھے۔  ان مواقع پر بھی جب ہمارے تعلقات افغان حکومت سے کشیدہ تھے۔ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغان حکومت نے واضح طور پر یقین دلایا کہ آپ اپنی ساری توجہ بھارت کی سرحد پر رکھیں، افغان سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا، اور اپنے اس قول پر وہ پکے رہے۔ لیکن مشرف کے زمانے میں جو کردار ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کا رہا اور جس کا تسلسل زرداری گیلانی دور میں باقی رہا، اس نے دوستوں کو دشمن بنا دیا اور جنھیں ’بنیاد پرست‘ سمجھ رہے تھے وہ دشمنوں سے بھی بدتر نکلے۔ اس ہمالیہ جیسی غلطی کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر بھی اتنی ہی ہے جتنی مشرف حکومت پر تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ اسے تبدیلی کا جو موقع ملا تھا، اس نے اسے ضائع کر دیا اور جو دبائو  نائن الیون کے معاً بعد تھا اس دبائو کے کم ہوجانے کے باوجود ملک کی آزادی، خودمختاری، سلامتی، عزت اور وقار کی حفاظت کے لیے اس نے کچھ نہ کیا۔ اور جو تحقیروتذلیل پہلے دن ہورہی تھی یا بہت کم تھی وہ اب سکہ رائج الوقت بن گئی۔

۵- قوم کے علم میں اب یہ بھی آجانا چاہیے کہ مشرف دور میں اور اس کے بعد موجودہ دور میں کوئی کوشش کسی بھی سطح پر ایسی نہیں ہوئی کہ امریکا کو جو جو مراعات اور سہولتیں آنکھیں بند کرکے دے دی گئی تھیں، اور جن کی وجہ سے ملک معاشی، سیاسی اور تہذیبی، ہراعتبار سے تباہی کا شکار تھا  ان کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے، بلکہ جن دو معاہدات کا ذکر ہم نے اُوپر کیا ہے خود ان پر امریکا اور ایساف سے جو ٹیکس اور خدمات کا معاوضہ وصول کیا جاسکتا ہے اور جو سالانہ اربوں روپے میں ہوسکتا ہے، ان کے بارے میں کوئی کوشش کی جائے۔ امریکا ہر ٹرک اور کنٹینر پر جو وسط ایشیا کے ذریعے افغانستان پہنچاتا تھا آٹھ سے دس ہزار ڈالر خرچ کر رہا تھا، جب کہ پاکستان میں اس کا خرچ صرف ۲۵۰ ڈالر فی کنٹینر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ رقم سرکاری، نیم فوجی اور دوسرے مفاد پرست عناصر وصول کر رہے تھے لیکن ملک کے خزانے کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہماری نگاہ میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے نام پر افغانستان پر قبضے کے اس شرم ناک کھیل میں کسی بھی شکل میں تعاون کوئی جائزعمل نہیں تھا لیکن جو اس کھیل میں شریک تھے اور رہے ہیں، ان کی عقل کو کیا ہوگیا تھا کہ   ع  قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند!

معاشی امداد کی بھیک مانگتے رہے اور ان ’خدمات‘ کا کوئی معاوضہ وصول نہ کیا۔ ان کی جنگ میں شرکت پر اپنے غریب عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر (تقریباً ۱۳۵؍ارب روپے سالانہ) خرچ کرتے رہے جس کی ادایگی امریکا بڑی ردوکد اور کٹوتیوں کے بعد سال دوسال کے بعد کرتا رہا اور یہ اپنے پروفیشنلزم پر بغلیں بجاتے رہے___مشرف اور زرداری و گیلانی اور کیانی کسی کو نظر نہ آیا کہ ع  ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا!

۶- وزیردفاع احمدمختار صاحب نے ایک شام خاموشی سے یہ اعلان بھی فرمایا: امریکا اور ناٹو کی رسد رسانی پر پابندی صرف زمینی راستے سے ہے، فضائی راستے سے کبھی پابندی نہیں لگائی گئی حالانکہ کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے اعلان کے مطابق پابندی کلّی تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے   بھی کبھی یہ بات نہیں آئی کہ فضائی راستے سے رسد جاری ہے، بلکہ کمیٹی کی اولین سفارشات میں   یہ شامل تھا کہ: ’’پاکستان کے کسی اڈے یا فضائی حدود کے غیرملکی فوجوں کے استعمال کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری کی ضرورت ہوگی‘‘۔

وزارتِ دفاع نے کمیٹی کو کبھی اس امر سے آگاہ نہیں کیا کہ فضائی حدود کا استعمال ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلامتی کمیٹی کی ان ترمیم شدہ سفارشات میں سے جو ۱۲؍اپریل ۲۰۱۲ء کو منظور ہوئی ہیں، یہ جملہ نکال دیا گیا ہے۔

کم از کم یہ چھے اُمور ایسے ہیں جن پر موجودہ حکومت کو بھی قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کرنا ہوگی اور آیندہ انتخابات میں قوم ان سے پوچھے گی کہ مشرف نے تو جو کیا، وہ کیا___یہ بتائیں کہ خود آپ کا ریکارڈ کیا ہے؟

امریکا کی مذمت اور حکومت کا معذرت خواھانہ رویہ

حکومت کی کارکردگی کا جائزہ نامکمل رہے گا اگر اس حقیقت کو واشگاف نہ کیا جائے کہ،   گو امریکا کا رویہ شروع ہی سے جارحانہ، جانب دارانہ ، مغرورانہ اور پاکستان کے لیے حقارت پر  مبنی تھا، مگر زرداری گیلانی دور میں ان چاروں پہلوئوں میں اضافہ ہوا، اور یہ حکومت، پاکستان کے مفادات اور عزت و وقار کی حفاظت میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ صرف چند تازہ معاملات    ان پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے اور ریکارڈ کی درستی کے لیے پیش کیے جاتے ہیں:

۱- امریکا کا رویہ یک رُخا (unilateral) رہا ہے اور ہماری قیادت پاکستان کے مفادات، ترجیحات اور تحفظات کسی کے بارے میں بھی کوئی گنجایش (space) حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت سے جس طرح امریکا نے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ قائم کی، اسے    نیوکلیر سہولت فراہم کرنے کا راستہ اختیار کیا، کشمیر کے مسئلے پر اوباما نے انتخابی مہم کے دوران     وعدہ وعید کرنے کے باوجود سارا وزن بھارت کی تائید کے پلڑے میں ڈال دیا، پانی کے مسئلے کو  جس طرح نظرانداز کیا اور ممبئی کے واقعے کو بنیاد بناکر جو جو دبائو پاکستان پر ڈالا، وہ بڑی الم ناک داستان ہے۔ اس کا آخری وار وہ بیان ہے جو ہیلری کلنٹن نے کولکتہ میں حافظ محمدسعید کے سر کی قیمت ۱۰ ملین ڈالر کی شکل میں رکھ کر کیا ۔ پھر ہمیں طعنہ بھی دیا کہ ایمن ظواہری پاکستان میں ہے اور ہماری قیادت کا حال یہ رہا ہے کہ ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم!

ریمنڈ ڈیوس کو امریکا چھڑا کر لے گیا اور جان کیری نے سب کے سامنے کھلا وعدہ کیا کہ امریکا خود اس پر مقدمہ چلا کر انصاف کا تقاضا پورا کرے گا، دونوں باتیںکس طرح ہوا میں تحلیل ہوئیں اور یہ باتیں ہر سچے پاکستانی کے دل پر نقش ہیں جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ کیری لوگر بل میں جو جو پابندیاں پاکستان اور اس کی افواج پر لگائی گئی ہیں، وہ شرم ناک داستان ہے لیکن اس  حکومت نے ان سب پر آمنا وصدقنا کی روش اختیار کی۔ ڈرون حملوںمیں پاکستان کے ہراحتجاج اور پارلیمنٹ کی ہرقرارداد کے بعد اضافے ہوئے، اور بالآخر جنوری ۲۰۱۲ء میں صدراوباما نے    پہلی بار ان کی ذمہ داری قبول کی اور وہائٹ ہائوس کے ایڈوائزر جان برینن نے پوری ڈھٹائی سے ووڈرو ولسن سنٹر فار اسکالرز میں ایک خطاب میں ان کا دفاع کیا اور فرمایا کہ: ’’وہ قانونی، اخلاقی اور دانش مندانہ اقدام ہیں‘‘۔ حالانکہ بین الاقوامی قانون کے درجنوں ماہر صاف الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون، جنگی روایات، حتیٰ کہ خود امریکی دستور اور قانون کے خلاف ہیں۔ تازہ ترین اعلان ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۵۰ ویں سالانہ رپورٹ میں پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے مسلسل کیے جانے والے ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کہا ہے۔ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کے قتل کے لیے مہلک جنگی قوت کے استعمال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: ’’امریکی حکومت کی جانب سے کسی مزید وضاحت نہ ہونے کی صورت میں، اسامہ بن لادن کا قتل بظاہر غیرقانونی تھا‘‘۔

ایمنسٹی نے امریکا کے اس دعوے کی کھل کر نفی کی ہے کہ وہ ’عالمی دہشت گردی کے  خلاف جنگ‘ کے نام پر انسانی حقوق کے تحفظ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا حق رکھتا ہے۔

امریکا جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ ڈرون حملے کر رہا ہے اور اس کا جس   بے بسی سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نظارہ کر رہی ہے، وہ ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر ہی کاری ضرب نہیں بلکہ ملک و قوم کی کھلی کھلی تذلیل و تحقیر بھی ہے۔

امریکا کے سیکرٹری دفاع لیون پانیٹا نے پاکستان کے سارے احتجاج، پاکستانی قوم میں امریکا مخالف جذبات کے سارے طوفان کو نظرانداز کرتے ہوئے، اور عالمی راے عامہ اور ماہرین قانون کی آرا کو حقارت کے ساتھ رد کرتے ہوئے ۶مئی ۲۰۱۲ء کو اعلان کیا ہے کہ: ’’امریکا جنگ جوئوں کی پناہ گاہوں پر ڈرون حملے جاری رکھے گا خواہ ملک کی حکومت ان کی مخالفت کرتی رہے‘‘۔

یہ رعونت اور یہ کھلی دھونس اس کے باوجود ہے کہ ۸۰۰سے زیادہ ڈرون حملوں اور   ۳ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کے اتلاف کے باوجود، نہ اُن کی تعداد میں کوئی کمی ہوئی ہے جن کو ’دہشت گرد‘ کہا جارہا ہے، اور نہ کسی بھی محاذ پر امریکا کو فوجی یا سیاسی کامیابی   (باقی: ص ۱۰۰)

(بقیہ: ص ۱۸- اشارات)حاصل ہوسکی ہے جس کا سب سے واضح ثبوت عالمی میڈیا اور آزاد  مبصرین کا تقریباً متفق علیہ اعتراف ہے کہ افغانستان میں امریکا جنگ ہارچکا ہے۔ طالبان اس وقت ملک کے ۵۰ سے ۷۰ فی صد پر اصل حکمران ہیں اور کابل میں امریکی، ناٹو اور افغان فوج کے پانچ حصاروں کے باوجود طالبان جب چاہیں قصرصدارت ناٹو کے ہیڈکوارٹر اور خود امریکی اور مغربی ممالک کے سفارت خانوں پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ خود امریکا میں اس وقت ۶۷ فی صد  عوام افغانستان سے امریکی فوجوں کے جلد از جلد انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں اور شکاگو کانفرنس کے ہال کے اندر جو کچھ ہو رہا تھا، اس کے باہر ہزاروں امریکی جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ افغانستان اور عراق کی جنگ سے  واپس آنے والے فوجی (veterans) اپنے وہ تمغے ندامت کے ساتھ حکومت کو واپس کر رہے تھے جو جنگی خدمات پر ان کو دیے گئے تھے، اور ان کا اعلان بش اور اوباما کی جنگی پالیسیوں کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ایک عوامی استصواب کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔

لندن کے اخبار دی گارڈین کی ۲۱مئی ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں اس کے نمایندے برنارڈ ہارکورٹ کی رپورٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ افغانستان کی جنگ کے ستم زدہ یہ امریکی فوجی کہہ رہے تھے:

کتنے ہی میڈل، ربن اور جھنڈے کیوں نہ ہوں، جنگ نے جس پیمانے پر انسانوں کو اذیت میں مبتلا کیا ہے، اس کو چھپا نہیں سکتے۔ میرے پاس صرف ایک لفظ ہے اور وہ ہے شرم! یہ افغانستان اور عراق کے عوام کے لیے ہے۔ مجھے افسوس ہے۔ میں آپ سب کے سامنے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ آج میں اپنا تمغہ واپس کررہا ہوں، کیونکہ میں اپنی زندگی اپنے ضمیر کے مطابق گزارنا چاہتا ہوں، نہ کہ ایک ضمیر کے مجرم کی طرح۔ میں عراقی اور افغان عوام سے ان کے ممالک کو تباہ کرنے پر ایک بار پھر معافی چاہتا ہوں۔

افسوس صد افسوس امریکا کی قیادت اور اس کے شرکاے جرم بشمول قیادتِ پاکستان کے ضمیر میں کوئی چبھن نظر نہیں آتی، بلکہ پاکستان کی قیادت تو روایتی جوتے اور پیاز دونوں ہی کھارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکا کے گن بھی گائے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری اور سزا پر جس طرح امریکا نے ایک قومی مجرم اور پاکستان کے غدار کا دفاع کیا ہے، اور پاکستان کی معاشی مدد میں تخفیف کا جو طمانچا ہمارے منہ پر رسید کیا ہے، وہ بھی ایک آئینہ ہے جس میں امریکا پاکستان کو جو مقام دیتا ہے، اس کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان پر دوغلی پالیسیوں کا الزام، ۲مئی ۲۰۱۲ء کو افغانستان سے اسٹرے ٹیجک معاہدہ اور اس پورے عمل میں پاکستان کو نظرانداز کرنا، افغانستان میں بھارت کے مشکوک کردار کے بارے میں پاکستان کے تحفظات سے مکمل لاپروائی، حتیٰ کہ طالبان سے گفتگو میں بھی پاکستان کو نظرانداز کرنے کی کھلی کھلی کوششیں، صرف پاکستان اور امریکا میں اعتماد کی کمی (trust deficit) ہی کا مظہر نہیں بلکہ اس پورے علاقے اور اس کے مستقبل کے بارے میں دونوں کے وژن اور  نقشۂ کار میں بُعدالمشرقین کی گواہی دیتے ہیں۔ امریکا جس طرح پاکستان پر معاشی، سیاسی اور عسکری دبائو ڈال رہا ہے، اس کے بعد اسے دوست ملک سمجھ کر معاملہ کرنا اپنے پائوں پر کلھاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

شکاگو کانفرنس: ایک کہیل

پاکستان کی تحقیر و تذلیل اور خود زرداری صاحب کو ان کی اوقات دکھانے کے لیے جو  کچھ امریکا اور ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے شکاگو کانفرنس میں کیا وہ بھی ایک درسِ عبرت ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔

جس طرح پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آنے سے پہلے برطانیہ، امریکا اور متحدہ امارات کے ذریعے جنرل پرویز مشرف سے معاملہ کیا، معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح شکاگو کانفرنس سے پہلے برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے توسط سے اپنے اقتدار کو طول دینے اور امریکا سے معاملات طے کرنے کے لیے ایک کھیل (gimmick) کھیلا گیا۔ زرداری صاحب اور ان کے وزرا کے بیانات جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں وہ اس کھیل کا حصہ بلکہ تمہید تھے۔ ناٹو کے   سیکرٹری جنرل اور امریکی قیادت نے سارا دبائو اس امر پر ڈالا کہ افغانستان کے مسئلے کے حل، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مستقبل اور علاقے کے بارے میں علاقے کے ممالک کے مشورے سے سلامتی کے معاملات پر غوروفکر کو مؤخر کرکے صرف ناٹو کی سپلائی روٹس کی بحالی کے مسئلے پر توجہ مرکوز کی جائے اور اسے محض ڈالروں کے بارے میں مسودہ کاری کا مسئلہ بنالیا جائے۔ شکاگو کانفرنس کی پاکستان کے لیے کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بون کانفرنس میں ۸۰ اقوام نے شرکت کی تھی اور اس کا پاکستان نے بائیکاٹ کیا تھا۔ شکاگو کانفرنس تو ایک ایسے وقت ہورہی تھی جب مغربی اقوام ایک نئے معاشی اور مالیاتی بحران کی گرفت میں تھے اور ناٹو ممالک تک اس سے براہِ راست متاثر ہورہے تھے۔ یہی وجہہے کہ اس کانفرنس سے پہلے کیمپ ڈیوڈ میں جی-۸ کی کانفرنس منعقد کی جارہی تھی۔ عملاً اس کانفرنس سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکا، حتیٰ کہ امریکا جو ۲۰۱۴ء کے بعد افغانستان میں اپنے کردار اور فوجوں کی وہاں موجودگی اور اس کے مصارف کے بارے میں دوسرے ممالک سے شراکت داری کے اہداف حاصل کرنا چاہ رہا تھا، وہ بھی ٹھیک سے حاصل نہیں ہوسکے۔ لیکن پاکستان کی تحقیر اور تذلیل کے لیے اسے بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا۔ پہلے ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے اعلان کیا کہ پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا ہے اور جب تک پاکستان ناٹو کی رسد بحال نہیں کرتا، اسے بلایا نہیں جائے گا۔ پھر لندن میں گیلانی کیمرون ملاقات کے فوراً بعد دعوت نامہ دیا گیا اور ۴۸گھنٹے کے نوٹس پر زرداری صاحب ’حاضر جناب‘ کہتے ہوئے واشنگٹن پہنچ گئے۔

الحمدللہ ملک کی دینی قوتوں نے بروقت خطرات کو بھانپ لیا، اور ناٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف قوم کو متحرک کرنے کے لیے کمربستہ ہوگئے۔ اس میں جماعت اسلامی اور دفاعِ پاکستان کونسل   نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ تحریکِ انصاف نے بھی اپنے انداز میں اس متوقع اقدام کو چیلنج کیا۔  مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماے اسلام (ف) نے بھی برملا اختلاف کا اظہار کیا۔ ہمارا گمان ہے کہ خود پی پی پی میں بھی دبے لفظوں میں اس مسئلے پر اختلاف تھا۔ امریکا کی رعونت اور ہاتھ مروڑنے کی حکمت عملی (arm twisting) کے اس باب میں شکاگو کانفرنس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے، اور زرداری صاحب کی طرف سے جو عندیہ دیا گیا تھا یا جو توقعات ناٹو کی قیادت اور امریکا کو ہوگئی تھیں، وہ پوری نہ ہوسکیں۔ امریکا نے اس موقعے کو پاکستان کی مزید تحقیر اور تذلیل کے لیے استعمال کیا۔ اوباما نے اپنی تقریر میں پاکستان کا ذکر تک نہ کیا۔ پریس کانفرنس میں بھی سوال کے جواب میں رویہ تحکمانہ رکھا اور اسے حل کے بجاے مسئلے کے طور پر پیش کیا۔ زرداری صاحب سے ملاقات کی درخواست کو درخوراعتنا بھی نہ سمجھا، جب کہ صدر کرزئی سے کانفرنس سے پہلے ایک گھنٹے کی ملاقات کی۔ کانفرنس ہال کے باہر بھی زرداری صاحب کو کوئی خاص اہمیت نہ دی اور رسمی مصافحے کے موقع پر  کچھ نصیحت ہی پلانے کو ترجیح دی۔ تمام شرکا اور میڈیا نے اسے SNUB (ڈانٹ ڈپٹ) اور پاکستان کو cut to size (اپنی اوقات میں رہو) کرنا قرار دیا۔ حد یہ ہے کہ کرزئی صاحب نے بھی سی این این کی اسکرین پر جو بیان دیا اس میں یہ فرما دیا کہ پاکستان اور امریکا کی دو طرفہ یا پاکستان، امریکا اور افغانستان کی سہ طرفہ ملاقات ولاقات میں کوئی صداقت نہیں۔ یہ تو بس اتفاقی مصافحہ   اور فوٹو کھنچوانے کا موقع تھا، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلس ٹائمز، گارڈین، ڈیلی ٹیلی گراف، غرض پورے میڈیا نے اوباما کی طرف سے زرداری کے لیے اسے ایک SNUB اور پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام قرار دیا۔

حکومت: ملک کے لیے خطرہ

ناٹو کی سپلائی کی بحالی کا معاملہ اس وقت تو اللہ کی بالاتر تدبیر سے ٹل گیا مگر خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں اور قوم کو چوکنا اور متحرک رہنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارا موقف کیا ہو؟ اور دلدل سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ اس پر مختصر گفتگو کرنے سے پہلے ہم دل پر جبر کرکے لیکن قوم کے  وسیع تر مفاد میں ایک واقعے کو ریکارڈپر لانا ضروری سمجھتے ہیں جس نے کم از کم راقم الحروف     کے دل و دماغ میں ہلچل پیدا کردی، اور پی پی پی کی قیادت کے بارے میں جو خوش فہمی تھی، اسے پارہ پارہ کر دیا۔ امریکا اس وقت جس طرح ہر ممکن دبائو ڈال رہا ہے اور جس طرح ہر حد کو پھلانگ جانے کا عندیہ دے رہا ہے، اس میں حالات کہاں تک جاسکتے ہیں، ان خطرات سے متنبہ کرنے کے لیے ہم اس واقعے کا ذکر کر رہے ہیں۔

سابق سفیر ظفرہلالی ان سفارت کاروں میں سے ہیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہت قریب تھے اور ان کے بارے میں کوئی یہ شبہہ بھی نہیں کرسکتا کہ وہ محترمہ کے سلسلے میں کوئی غلط بیانی کریں گے۔ وہ اپنے ایک تازہ مضمون On Divergent Paths میں لکھتے ہیں کہ: محترمہ تو پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجیوں کے قیام اور کارفرمائی کے لیے بھی تیار ہوگئی تھیں جس سے زرداری صاحب گریزاں ہیں:

مجھے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کی ایک گفتگو یاد آتی ہے۔ سوات کی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم  (سوات میں) طالبان کو نہیں روک سکتے، یا نہیں روکیں گے، اس لیے ان کا ارادہ ہے کہ ’’خود آئیں اور یہ کام کر یں‘‘۔ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا: ’’سوات میں امریکی؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں، اور جتنی جلدی ہم اس خطرے سے آگاہ ہوجائیں اتنا ہی بہتر ہے‘‘۔ پھر بے نظیر بھٹو نے وضاحت کی کہ کیوں یہ ایک امکان ہے اور کیوں یہ ایسی بُری بات بھی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہم اس سے اکیلے نہیں نمٹ سکتے‘‘۔ اس جنگ میں امریکی فوجی اور مالیاتی پشت پناہی ناگزیر ہے اور اس کے بغیر ہم اس میں بُری طرح پھنس جائیں گے۔ بجاے اس کے کہ یہ ہونے دیا جائے،  بی بی امریکی امداد قبول کرنے کے لیے تیار تھیں اور اس آنے والی امریکی مالی امداد کو استعمال کرکے معیشت بحال کرنا چاہتی تھیں، خواہ اس کی وجہ سے انھیں امریکا کا ساتھی (collaborator) ہی قرار دیا جائے۔

زرداری صاحب کے ساتھ انصاف کیا جائے تو اگر وہ اس لائحہ عمل پر اصرار کرتے جس پر چلنے کا بی بی نے فیصلہ کرلیا تھا، یعنی پاکستان میں بڑے پیمانے پر امریکی فوج کے قدم، تو قیامت گزر جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بہت زیادہ مخالفت تھی۔(دی نیوز، ۱۷مئی ۲۰۱۲ئ)

ظفرہلالی صاحب نے ملاقات کی تاریخ اور گفتگو کا حاصل تو بیان کردیا ہے لیکن وہ پس منظر کی طرف اشارہ نہ کرسکے جس میں این آر او، اور بش اور مشرف کی سیاست اور بیساکھیاں نمایاں تھیں۔ آج زرداری صاحب سوئٹزرلینڈ میں مخفی دولت سے محرومی کے خاتمے اور گیلانی صاحب نااہلی کی تلوار تلے وقت گزار رہے ہیں، اور ایسے ہی وہ حالات ہیں جن میں سامراجی قوتیں محکوم حکمرانوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان حکمرانوں کے اندھے مقلد ، کچھ دانش ور اور میڈیا کے بہت سے ’لائوڈاسپیکر‘ سامراج کے اس پورے ایجنڈے کو وقت کی ضرورت اور معاشی وجوہ سے ایک ناگزیر تدبیر اور دنیا میں مقبول ہونے کا نادر نسخہ قرار دیتے ہیں۔ ۲۰۰۷ء کی طرح ۲۰۱۲ء بھی ایک منظرنامے کی خبر دے رہا ہے۔ العیاذ! یارب العالمین!

سامراجی عزائم اور ھماری ترجیحات

ہم نے زیربحث مسئلے کے ان چند اہم پہلوئوں کی طرف قوم کو متوجہ کیا ہے جو بالعموم نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور توجہ کا مرکز بس وہ بات بن جاتی ہے جو اولین ہدف ہے۔ امریکی اور ناٹو افواج کے لیے رسد کی فراہمی کا مسئلہ اصل مسئلہ نہیں ہے، اور ۲۵۰ڈالر یا ۵ہزار ڈالر یہ کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔ اصل مسئلہ وہ تباہ کن جنگ ہے جو امریکا نے افغانستان اور اس خطے پر مسلط کردی ہے اور جس کا کوئی تعلق نہ القاعدہ سے ہے اور نہ طالبان سے جن کے نام پر اس آگ کو بھڑکایا گیا ہے۔ امریکا افغانستان سے فوجی انخلا اپنی معاشی اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کرنا بھی چاہتا ہے اور افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا بھی ضروری سمجھتا ہے۔اس کے لیے جہاں ایک طرف اس جنگ سے امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد کو بچانا مقصود ہے تاکہ امریکا میں انسانی جانوں کے اتلاف اور جنگ کے زخم خوردہ افراد کو عتاب سے بچاسکیں، وہیں ٹکنالوجی کی مدد سے اور مقامی فوج کو توپوں کا بارود بناکر اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کو بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ڈرون ٹکنالوجی اور ریموٹ کنٹرول جنگی اسلحہ اس نقشۂ جنگ میں مرکزی اہمیت اختیار کرگئے ہیں، اور لوکل اشرافیہ سے گٹھ جوڑ اور مفادات کے اشتراک کا ایک جال بچھا کر ان ممالک کے وسائل کا ناجائز انتفاع اور افغانستان اور پاکستان کی جغرافیائی سہولتوں کے ذریعے وسط ایشیا میں اپنے اثرات کو مستحکم کرنا پیش نظر ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۴ء میں فوجیوں کی واپسی کے پردے کے پیچھے ۲۰۲۴ء تک فوجی اڈوں کا وجود، تعلیم و تربیت اور نگرانی کے نام پر ۲۰ہزار یا اس سے کچھ زیادہ فوجیوںکا قیام، اور اس کے ساتھ مارکیٹ اکانومی کا قیام اور بیرونی سرمایہ کاری کے سازگار ماحول اُس اسٹرے ٹیجک معاہدے کا اہم حصہ ہیں جو ۲مئی ۲۰۱۲ء کو بگرام ایئربیس پر افغانستان پر مسلط کیا گیا ہے اور جس کی طالبان اور  حزبِ اسلامی نے مخالفت کا برملا اعلان کیا ہے۔ امریکا کا ہدف جنگ کے اس نئے دور کے لیے پاکستان کو مجبور کرنا ہے، جب کہ پاکستان کا حقیقی مفاد اس میں مضمر ہے کہ امریکا کا افغانستان سے مکمل انخلاہو، امریکا کے ساتھ افغانستان میں بھارت کے کردار سے بھی نجات پائی جائے، اور افغانستان صحیح معنوں میں خود اپنے پائوں پر کھڑا ہو اور علاقے کے ممالک کے تعاون سے اپنا استحکام بھی حاصل کرے اور علاقے کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور اسے سامراجی قوتوں کے کھیل سے پاک کیا جاسکے۔ امریکا کا ہدف نئی شکل میں جنگ کے تسلسل کے لیے شرائط کار کا تعین ہے، جب کہ پاکستان اور خود افغانستان اور علاقے کے دوسرے ممالک خصوصیت سے ایران اور چین کا مفاد اس میں ہے کہ امن، اور بیرونی کھیل سے پاک سلامتی اور ترقی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پوری بحث اور جستجو کا اصل مرکزی نکتہ جنگ سے امن، تصادم سے تعاون، اور مداخلت سے مفاہمت کی طرف منتقل کیا جائے۔ امریکا سے تصادم اور دشمنی کی پالیسی نہ ہمارے مفاد میں ہے اور نہ علاقے کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکا کے ٹینک پر بیٹھ کر اس کے جنگی اور سیاسی و معاشی ایجنڈے کے حصول میں شریک بننا بھی ہمارے اور علاقے کے مفاد میں نہیں۔

سب سے پہلی بات مقصد اور منزل کا تعین ہے۔ اس وقت سب سے اہم ایشو یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کس طرح جلد از جلد ختم ہو، امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا واقع ہو، اور افغان قوم اپنے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لے۔

دوسری بات افغانستان میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ کے کھیل سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے اور باہم اعتماد کو مستحکم کرتے ہوئے قومی مفاہمت کے عمل کو تقویت دینا اور اس کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔

تیسری بات جو پاکستان کے مستقبل کے اعتبار سے بہت اہم ہے، وہ پوری شائستگی سے امریکا سے یہ کہنا ہے کہ ہمیں آپ کی معاشی اور فوجی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہم تجارتی اور سیاسی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، اور دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر مشترکات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن غلامی اور محکومی کا جو فریم ورک بن گیا ہے اس سے نکلنا بے حد ضروری ہے۔ امریکا اور پاکستان کے وسائل اور سیاسی، عسکری اور معاشی قوت میں فرق ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہم اپنے کو محکومی کی زنجیروں میں جکڑ ڈالیں۔ پاکستان کی ۱۷۵؍ارب ڈالر کی معیشت کے لیے ایک ارب ڈالر کی معاشی امداد کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کے لیے ہم اپنی سیاسی آزادی، نظریاتی تشخص، معاشی خودانحصاری اور تہذیبی شناخت کو دائو پر لگادیں۔ اگر ہم اپنے وسائل کو دیانت، محنت اور اعلیٰ صلاحیت سے ترقی دیں تو بہت کم وقت میں اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ آج بھی امریکا کی ایک ارب ڈالر سالانہ کی معاشی امداد کے مقابلے میں بیرونِ ملک پاکستانی ۱۲؍ارب ڈالر سالانہ اپنے ملک بھیج رہے ہیں اور اگر صحیح پالیسیاں اختیار کی جائیں تو اسے دگنا کیا جاسکتا ہے۔

اچھی حکومت، کرپشن سے پاک قیادت، تعلیم اور انصاف کی مرکزیت پر مبنی ترقیاتی  حکمت عملی، عوام پر اعتماد اور عوام کی بہبود کے لیے تمام مساعی کا اہتمام ہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اپنے اصل مقصد کے حصول اور اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کرسکتا ہے۔ یہ وہ اہداف ہیں جو حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ملک کو ایک دیانت دار اور باصلاحیت قیادت میسر آجائے اور قوم کے تمام مادی اور انسانی وسائل لوٹ کھسوٹ اور تصادم کے بجاے ایسی ترقی کے لیے صرف ہوں   جس میں سب کا بھلا ہو۔ موجودہ حالات میں یہ اسی وقت ممکن ہے جب روایتی سیاسی شکنجوں سے ہم اپنے کو آزاد کریں اور نظریاتی اور اخلاقی سیاست کا راستہ اختیار کریں۔ موجودہ قیادت نے قوم کو بُری طرح مایوس کیا ہے لیکن جمہوری عمل اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود تبدیلی کا بہترین طریقہ ہے۔ موجودہ حکومت حکمرانی کے اُس مینڈیٹ سے محروم ہوچکی ہے جو اسے فروری ۲۰۰۸ء میں حاصل ہوا تھا۔ اس پس منظر میں پانچ سال پورے کرنے کی رَٹ لگانا ملک کو بحران میں مبتلا رکھنے کا نسخہ ہے۔ حکومت کے لیے سوا چار سال بہت بڑا وقت ہے۔ اگر اس حکومت نے عوام کی ’خدمت‘ کی ہے تو اسے انتخابات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر اسے بھی یقین ہے کہ عوام اس سے بے زار ہیں تو اس کے لیے بھی معقولیت کا راستہ یہی ہے کہ عوام کو نئی قیادت بروے کار لانے کا موقع دے۔ ہماری نگاہ میں ملک کی فوری ضرورت امریکا کی محکومی کے سایے سے نکلنا اور افغانستان میں جنگ نہیں امن کے عمل کو متحرک کرنا ہے۔ یہی عوام کی طرف جلد از جلد رجوع کی ضرورت ہے تاکہ نئی قیادت نئی سندجواز (مینڈیٹ) کے ساتھ ملک کو اس دلدل سے نکال سکے جس میں وہ   اس وقت پھنسا ہوا ہے۔

 

(منشورات، منصورہ، لاہور سے کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۹ روپے۔ سیکڑے پر رعایت)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۷مارچ ۲۰۱۲ء کو صدر آصف علی زرداری صاحب نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور پانچویں بار تسلسل کے ساتھ خطاب کو ایک تاریخی کارنامہ قرار دیا۔ تاریخ کا فیصلہ تو  ان شاء اللہ ضرور آئے گا اور تاریخ کا قاضی ہمیشہ بڑا بے لاگ فیصلہ دیتا ہے، لیکن جس طرح     ان چاربرسوں میں صدرزرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عوام کے عطا کردہ اس تاریخی موقعے کو نہ صرف ضائع کیا، بلکہ ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، اس نے ۶۵سالہ آزادی کے ان چار برسوں کو پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور بنا دیا ہے۔ یہ تقریر قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق اور اپنے اور اپنی قوم کو دھوکا دینے کی بڑی افسوس ناک کوشش ہے۔ بلاشبہہ جناب آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے اپنے اقتدار کو بچانے اور طول دینے کے لیے سیاسی چالاکیوں اور نمایشی اقدامات (gimmicks)کی فراوانی کے باب میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ہمیں افسوس اور دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بظاہر اس کھیل میں پیپلزپارٹی کی یہ قیادت تو کامیاب رہی ہے لیکن پاکستان اور پاکستانی قوم ہار گئی ہے۔ ملکی زندگی کے ہرشعبے میں بگاڑ اور تباہی کے آثار روزافزوں ہیں لیکن اس قیادت کا حال یہ ہے کہ  ع

کاررواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

صدرصاحب کی تقریر کو بار بار پڑھ جایئے لیکن جن کامیابیوں اور فتوحات کا وہ ذکر فرما رہے ہیں زمین پر ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ نہ معلوم صدر صاحب کس دنیا کی باتیں کر رہے ہیں اور کسے یقین دلا رہے ہیں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘۔

اصولی طور پر صدر مملکت کے سالانہ دستوری خطاب کا مرکزی نکتہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا منصفانہ جائز ہوتا ہے، جس میں کامیابیوں اور ناکامیوں اور کوتاہیوں کی بے لاگ  نشان دہی کی جاتی ہے اور آیندہ سال کے لیے حکومت کے منصوبوں، نئی پالیسیوں اور خصوصیت سے قانون سازی کے لیے ایک مکمل پروگرام دیا جاتا ہے۔ لیکن زرداری صاحب کی یہ پانچویں تقریر کسی اعتبار سے بھی صدرمملکت کی تقریر نہ تھی___ بس زیادہ سے زیادہ اسے پیپلزپارٹی کے  شریک چیئرمین کی تقریر کہا جاسکتا ہے۔ اس سال کی تقریر میں ایک نئی بات یہ تھی کہ صدرصاحب نے وزیراعظم صاحب کی تعریف و توصیف کی اور ان کی سمجھ داری اور جرأت کو خراجِ تحسین پیش کیا جس کا کوئی تعلق وزیراعظم صاحب کی کارکردگی سے نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ این آر او کیس کے سلسلے میں زرداری صاحب کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے انھوں نے عدالت ِ عالیہ سے محاذآرائی کا جو ڈراما رچایا ہے اور ’شہادت‘ اور کسی متوقع شش ماہی جیل یاترا کے بارے میں جو گوہرافشانیاں وہ فرما رہے ہیں، ان کا صلہ دینے کے لیے زرداری صاحب نے وزیراعظم صاحب پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے کا کام انجام دیا ہے۔

زرداری صاحب نے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے بارے میں اس تقریر میں کوئی نئی بات نہیں کہی۔ امریکا سے تعلقات جس نازک دور میں ہیں، اس کی بھی کوئی جھلک اس تقریر میں نہیں ملتی۔ افغانستان میں جس طرح امریکا بازی ہارگیا ہے اور پاکستان کو جس طرح وہ نشانہ بنا رہا ہے اس کی مذمت کے لیے، پھر ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، اور ۲مئی اور ۲۶نومبر کے سلالہ کے واقعات___ ان سب پر کچھ کہنے کے لیے ان کے پاس ایک جملہ بھی نہیں ہے۔کشمیر کے مسئلے کو ٹالنے کے لیے ایک جملۂ معترضہ میں اس کا بے جاسا ذکر کیا ہے۔ ڈرون حملوں پر مذمت کا ایک لفظ بھی ارشاد فرمانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کے برعکس اپنے کارناموں میں ان باتوں کا اعادہ فرماتے ہیں جو ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء میں بھی بیان کرچکے ہیں، یعنی این ایف سی اوارڈ (۲۰۰۹ئ) اور اٹھارھویں ترمیم (اپریل ۲۰۱۰ئ)۔ بلوچستان کے سنگین مسئلے کے بارے میں اُسی معافی کی درخواست کا اعادہ کردیا ہے جو تین سال پہلے کرچکے تھے اور اس کے بعد نہ صرف مسئلہ اور بھی سنگین ہوگیا ہے، بلکہ لاپتا افراد کی مسخ شدہ لاشوں کے تحفوں نے مسئلے کے حل کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے اصل قاتلوں کے سلسلے میں بھی ان کی تقریر خاموش ہے۔

اس وقت ملک کا اصل مسئلہ ملک کی آزادی، حاکمیت، عزت و وقار اور نظریاتی شناخت کی حفاظت کا ہے لیکن صدر صاحب کی تقریر میں اس کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ ملک میں لاقانونیت، غربت، بے روزگاری، مہنگائی کا جو طوفان ہے اور توانائی کے بحران نے جس طرح صنعت کے ۶۰،۷۰ فی صد کو مفلوج کردیا ہے، اس کا کوئی اِدراک صدرمملکت کو نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ صدرصاحب اور عوام کے درمیان خلیج اتنی بڑھ گئی ہے کہ انھیں عوام کے مسائل اور مصائب کا کوئی احساس ہی نہیں، اور ان کی نگاہیں اشرافیہ اور مفاد پرست طبقات کی خوش حالی اور شاہ خرچیوںکی چکاچوند سے اتنی خیرہ ہیں کہ ان کو عوام کی زبوں حالی اور کس مپرسی کی کوئی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ وہ معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کا ایسا نقشہ کھینچ رہے ہیں اور سرکار کی پالیسیوں کی ایسی حسین تصویرکشی کر رہے ہیں کہ انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا وہ اور عوام ایک ہی پاکستان میں رہتے ہیں؟ یونیسیف کے تازہ ترین سروے کے مطابق آج پاکستان کی آبادی کا ۵۸ فی صد کم غذائیت کا شکار ہے۔ گذشتہ چار برس میں ۲کروڑ۸۰لاکھ افراد مزید غربت کی لکیر سے نیچے گرچکے ہیں۔ اسی طرح  شدید غربت  کے شکار افراد کی تعداد ۷کروڑ ۴۰لاکھ ہوگئی ہے لیکن صدرصاحب کا ارشاد ہے کہ: ’’حکومت کی معاشی پالیسیوں کا صرف ایک ہدف تھا: عام آدمی تک فوائد پہنچنے کو یقینی بنانا‘‘۔

صدرصاحب نے معاشی حالات کے بارے میں جو اعداد و شمار دیے ہیں وہ اتنے گمراہ کن ہیں کہ ان کی دیدہ دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ افراطِ زر اور مہنگائی کو ۲۵ فی صد سے  کم کرکے ۱۲ فی صد پر لے آیا گیا ہے۔ گویا اسے آدھا کردیا گیا ہے لیکن حقائق کیا ہیں؟ فروری ۲۰۰۸ء میں جب پی پی پی اقتدار میں آئی ہے مہنگائی کی شرح۱۲ فی صد تھی جو ان کے دور کے پہلے چھے مہینوں میں بڑھ کر ۲۵ فی صد ہوگئی۔ ۲۰۱۱ء کے بجٹ میں ہدف ۱۰ فی صد سے کم کا رکھا گیا تھا، یعنی زیادہ سے زیادہ ۹ فی صد، لیکن اسٹیٹ بنک کی ۲۰۱۱ء کی سالانہ رپورٹ کی رُو سے سالِ رواں میں افراطِ زر ۵ئ۱۲ فی صد ہوگا۔ اور اگر ان چار برسوں میں واقع ہونے والی مجموعی مہنگائی کو لیا جائے تو وہ ۱۰ فی صد سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ان کا دعویٰ ہے کہ ملک کی برآمدات ۲۵ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس اضافے کی وجہ برآمدات میں اضافہ نہیں، عالمی منڈی میں کپاس کی قیمت میں اضافہ ہے جو ۹۸ سینٹ فی پونڈ سے بڑھ کر دو ڈالر اور ۴۰ سینٹ ہوگئی تھی اور جس کی وجہ سے برآمدات میں ۵ئ۳ ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا تھا۔ اب قیمتیں پھر گر گئی ہیں اور گذشتہ تین ماہ میں برآمدات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح مبادلۂ خارجہ کے ذخائر کا دعویٰ بھی ایک مغالطے پر مبنی ہے۔ ۱۸ارب ڈالر کا جو دعویٰ کیا ہے وہ بھی ایک دھوکا ہے۔ یہ صورت حال جون ۲۰۱۱ء کی ہے۔ مارچ ۲۰۱۲ء میں جب صدرصاحب خطاب فرما رہے تھے یہ ذخائر صرف ۱۶ارب ڈالر ہیں اور ان میں بھی ساڑھے سات ارب ڈالر آئی ایم ایف سے حاصل شدہ قرض ہے جس کی ادایگی اس سہ ماہی سے شروع ہوگئی ہے۔

صدر صاحب نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ جب وہ برسرِاقتدار آئے ہیں ملک پر بیرونی قرضے کا بار ۴۰ ارب ڈالر تھا جو اب بڑھ کر ۶۱ ارب ڈالر ہوگیا ہے، یعنی ۲۱ارب ڈالر کا اضافہ ان چار برسوں میں ہوا ہے۔ اگر ملک کے اندرونی قرضوں کو لیا جائے تو ان میں ۱۰۰ فی صد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں بیرونی اور اندرونی قرضوں کا حجم ۴ہزار۸سو ارب روپے تھا جو ۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۱۰ہزار ۴ سو ارب روپے ہوگیا ہے اور اگر سالِ رواں کے نئے قرضوں کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو قرض کا مجموعی بوجھ ۱۲ہزار ارب روپے کو چھو رہا ہے۔ یہ ہے وہ خطرناک معاشی دلدل جس میں اس قیادت نے ملک کو پھنسا دیا ہے۔

صدرصاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دور میں بجلی کی پیداوار میں ۳۳۰۰ میگاواٹ کا اضافہ ہوا۔ یہ دعویٰ بھی صریح مغالطے پر مبنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فی الحقیقت اتنا اضافہ ہواہے تو پھر بجلی کی لوڈشیڈنگ کیوں ہورہی ہے؟ بجلی کی پیداواری صلاحیت تو کسی وقت بھی کم نہیں تھی۔ ملک ۱۹ہزار میگاواٹ پیدا کرسکتا ہے مگر عملاً پیداوار ۱۰ سے ۱۲ہزار میگاواٹ کے درمیان ہورہی ہے، جو کچھ مواقع پر ۸ اور ۹ہزار میگاواٹ تک گرچکی ہے۔ اس کی اصل وجہ بدانتظامی اور کرپشن ہے۔ گردشی قرض بھی اس کی ایک وجہ ہے جسے چاربرس میں بھی ختم نہیں کیا جاسکا ہے، اور اس سال بھی یہ ۳۰۰؍ارب روپے سے متجاوز ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ حکومت کی شاہ خرچیوں اور مصارف کا آمدن سے کہیں زیادہ ہونا ہے، جس کے نتیجے میں مالی خسارہ بڑھ رہا ہے جس کے لیے قرضے لیے جارہے ہیں اور نوٹ چھاپے جارہے ہیں۔ اب صرف سود کی مد میں سالانہ ایک ہزار ارب روپے ادا کرنے پر نوبت آگئی ہے جو دفاع اور ترقیاتی بجٹ دونوں کے مجموعے سے بھی زیادہ ہے۔

یہ ساری چیزیں نہ صدرصاحب کو نظرآرہی ہیں اور نہ ان کی تقریر میں ان مسائل اور چیلنجوں کے حل کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی پایا جاتا ہے۔ اس تقریر میں حقائق سے اغماض اور جھوٹے دعوئوں اور خوش فہمیوں کی بہتات کے سوا کچھ نہیں۔ جب ملک کی قیادت حقائق سے آنکھیں بند کرلے اور خیالی دنیا میں مگن ہو تو اصلاحِ احوال کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ملک کے حالات کو سنبھالنے کا اب اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا کہ جلد از جلد نئے، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کیا جائے، تاکہ قوم دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو زمامِ کار سونپ سکے جو پوری قوم کو اعتماد میں لے کر اور ان کے دُکھ درد کے پورے احساس کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ ان کی مشکلات کو اپنی مشکلات بناکر زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح اور تعمیرِنو کا کام انجام دے۔ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں، کمی دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی ہے، جو اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کے مفاد میں کام کرے، جو اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر قوم کو مشکلات سے نکالے اور جو سیاست کو عبادت کے جذبے سے انجام دے___ عوام میں سے ہو، عوام کے دکھ درد میں شریک ہو، عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اوردستور ، قانون اور اخلاقی اقدار کے فریم ورک میں اچھی حکمرانی کے ذریعے، پاکستان کی اس کی اس منزل کی طرف پیش قدمی یقینی بنائے جس کے لیے اقبال کے وژن اور قائداعظم کی قیادت میں برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی اور جسے تین لفظوں میں اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست اور معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، الحمد للّٰہ رب العالمین۔ والصلوۃ والسلام علٰی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔

جناب چیئرمین! میرے لیے آج کا دن غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس معزز ایوان میں ۱۲ مارچ ۱۹۸۵ء کو میں نے قدم رکھا اور چیئرمین صاحب کے انتخاب کے بعد پہلی تقریر میں نے کی اور آج میں الوداعی خطاب کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، جماعت اسلامی کی تائید اور آپ حضرات کے تعاون سے میں نے اس ایوان میں ۲۱ سال گزارے ۔ یہ دور ایسا ہے کہ جس پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں پاتا کیونکہ یہ میری زندگی کے بڑے فیصلہ کن سال رہے ہیں۔ وسیم سجاد صاحب کے ساتھ مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ ہم اس ایوان کے سب سے زیادہ لمبی مدت تک خدمت انجام دینے والے رکن ہیں۔ اس کی یادیں ہمیشہ رہیں گی اور میں ہمیشہ اس ایوان کے مضبوط تر، مؤثر ہونے اور پاکستان کی تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے دعا گو رہوں گا۔

جنا ب والا! میں اپنے فرض میں کوتاہی کروں گا اگر سب سے پہلے آپ کا شکریہ ادا نہ کروں ۔ ہر چیئر مین نے اپنے اپنے اندازمیں اس ایوان کو چلانے کی کوشش کی ہے لیکن میری نگاہ میں آپ کا ایک قابل قدر کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف آپ نے لیاقت کے ساتھ دستور، قانون اور ضوابط کی پابندی کا اہتمام کیاہے، تو دوسری طرف (جو سب سے مشکل کام تھا) ایک سیاسی پارٹی سے وابستگی کے باوجود آپ نے اس منصب کے تقدس کا پاس کیا اور اس کے کام کو چلانے میں آپ نے توازن، اعتدال ، افہام وتفہیم اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا مظاہرہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے یہ اچھی مثال قائم کی ہے۔ میں آنے والے چیئرمین صاحب سے بھی بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ وہ اس روایت کو قائم رکھیں۔ یہ جمہوریت کی جان ہے اور اس ایوان کی عزت، تقدس اور حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ میں کھلے دل سے آپ کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور آپ کے لیے اپنی نیک دعائیں پیش کرتا ہوں۔ اس موقعے پر ڈپٹی چیئرمین جناب جان جمالی صاحب کی خدمات کا اعتراف بھی ضروری ہے۔ انھوں نے آپ کی عدم موجودگی میں ایوان کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اور شگفتہ اندا ز میں چلایا اور تمام معاملات کو انجام دینے میں مثبت کردار ادا کیا۔

سینیٹ کا عملہ بھی ہمارے شکریے اور مبارک باد کا مستحق ہے، خصوصیت سے راجا محمدامین صاحب اور ہمارے سیکرٹری افتخار اللہ بابر صاحب، ان کے معاونین محبوب صاحب، انور صاحب اور وہ دوسرے تمام افراد جو اس ایوان کو چلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر میں ان افراد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو سٹیج پر تو نہیں بیٹھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی خدمات بڑی گراں قدرہیں، حالانکہ وہ خود گمنامی میں ہیں مگر ان کی وجہ سے ہم سب اپنا اپنا کام مؤ ثر اندا ز میں  ادا کرسکے ہیں۔ اس سلسلے میں خصوصیت سے اخباری رپورٹرز حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے ہماری تقاریر کو محفوظ کیا ہے۔ انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے گو، ابھی مزید بہتری کی گنجایش اور ضرورت ہے لیکن بہر حال میں ان کی حسن کارکردگی کا اعتراف کرتا ہوں۔  اسی طرح میں سینیٹ کے تمام نائب قاصدوں اور محافظ حضرات کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔  نیز پریس، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے متعلق تمام افراد کو  ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں جنھوں نے ہماری بات کو قوم تک پہنچانے میں نمایاں کردار اد اکیا۔

  • استحکامِ سینیٹ کے  لیے اقدامات: جناب والا! مجھے اجازت دیں کہ میں سب سے پہلے خاص طور پر ان چیزوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائوں جنھیں ان دودہائیوں میں  اس سینیٹ کا اہم کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔

 ___ اس سلسلے کی اہم ترین چیز سینیٹ قواعد کی از سر نو تدوین اور ترتیب ہے۔ یہ کام  ملک کی آزادی کے فوراً بعدہونا چاہیے تھا مگر کسی نے اس کی فکر نہ کی۔ یہ سینیٹ تھا جس نے میری تحریک پر اس کام کا آغاز کیا اور ۱۹۸۸ء میں ایسے قواعد و ضوابط مرتب اور نافذ کیے جو اس ایوان کی کارکردگی کو دستور کے تقاضوں کے مطابق مؤثر انداز میں انجام دینے میں ممدو معاون ہوں۔

 ___  دوسرا بڑا اہم کام ملک کی تاریخ میں پہلی بارپارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں شعبۂ تحقیق (Research Departmnet)قائم کرنے سے متعلق ہے۔ الحمدللہ اس شعبے کے قیام کی تجویز بھی میں نے دی تھی اور اس کے قیام کے بعد، اس کی نگرانی میں بھی چیئرمین سینیٹ اور دوسرے رفقاے کار کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی تقریباً اسی انداز میں یہ دونوں کام کیے، یعنی قواعدِکار کی تشکیلِ نو اور تحقیقی شعبے کا قیام۔ گو،سینیٹ میں ابھی ارکان کے لیے تحقیق اور معاونت کی وہ سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہیںجو ان کا حق ہے لیکن اس سمت میں آغاز کار ہوگیا ہے۔مجھے خوشی ہے سینیٹ میں قومی اسمبلی کے مقابلے میں ارکان کی تعدادایک تہائی سے بھی  کم ہے لیکن سینیٹ کے شعبۂ تحقیق میں اس وقت ۱۱؍افراد کام کر رہے ہیں، جب کہ قومی اسمبلی میں یہ تعداد صرف نو ہے۔

 ___  اسی طرح میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سینیٹ نے اپنے گریڈ ایک سے ۱۶ تک کے ملازمین کی ضرورت کے وقت مدد کے لیے اسٹاف ویلفیئر فنڈ قائم کیا جو ایک نیا تصور ہے۔میں   اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کے آغاز کی تجویز و تحریک کی سعادت بھی مجھے حاصل ہوئی۔  اس کے نتیجے کے طور پر گریڈ ایک سے ۱۶ تک کے ملازمین میں سے ایک بڑی تعداد کو ہر سال ۳۰،۴۰ لاکھ روپے کی مدد مل رہی ہے۔ میں اس وقت خاص طور پر سینیٹ کے آنے والے اراکین سے درخواست کروں گا کہ اس ادارے کو مضبوط اورمزید مستحکم کریں اور اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں۔ یہ بڑی روشن روایت ہے جو ہم نے قائم کی ہے۔ اس کو جاری رکھنا ضروری ہے۔

 ___  اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ ہمیں یہ بات بھی اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ سینیٹ نے ان ۲۰ سالوں میں خود اس ادارے کے وقار اور کارکردگی کو بڑھانے میں مفید خدمات انجام دی ہیں۔ بلاشبہہ یہ کام خواہ سُست رفتاری ہی سے ہواہو، لیکن اس سلسلے میں ہمارے قدم آگے ہی بڑھے ہیں۔ جب ۱۹۷۳ء میں سینیٹ قائم ہوا تو اس کے ارکان کی تعداد صرف ۶۳تھی۔ اس کے بعد اس میں ٹیکنو کریٹس کا اضافہ ہوا، خواتین کا اضافہ ہوا، غیر مسلموں کا اضافہ ہوا جس سے یہ تعداد بڑھی اور آج ہماری تعداد ۱۰۴ ہے۔ بات صرف تعداد کی نہیں، اس سے بھی اہم چیز      اس ادارے کو فیڈریشن کے ایوان بالا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات حاصل ہونے چاہییں، ان کے حصول کے لیے بھی ہم نے برابر کوشش کی اور آج سینیٹ کئی اعتبار سے زیادہ بااختیار اور زیادہ متحرک ادارہ ہے۔

مثال کے طور پراگر آپ اختیارات کو دیکھیں تو جس وقت یہ قائم ہوا، اس وقت بالکل لولا لنگڑا سینیٹ تھا اور اس کے اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن آٹھویں ترمیم اور، اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے سے ہم نے بڑی منظم کوشش کی ہے کہ سینیٹ کے کردار کو زیادہ مؤثر بنایا جاسکے اور آہستہ آہستہ اس کے قدم آگے بڑھے ہیں، لیکن ابھی بہت سے مراحل طے کرنا باقی ہیں۔ اس لیے میں آج یہ بات کہنا چاہتا ہوں اور خاص طور پر جو ارکان اب اس ایوان میں شامل ہورہے ہیں، میں ان سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی سینیٹ کو وہ مقام نہیں ملا ہے جو ایک فیڈریشن کے پورے نظام کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لیے ضروری ہے۔

 ___ اس سلسلے میں دو تین چیزیں بڑی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ سینیٹ کو وہی پوزیشن حاصل ہونی چاہیے جو قومی اسمبلی کی ہے، اور یہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک سینیٹ کے ممبران کاانتخاب بالغ راے وہی کی بنیاد پر عوام کے بلاواسطہ ووٹوں سے نہ ہو ۔ میں نے جتنا بھی غور کیا، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلاواسطہ انتخاب کے بغیر سینیٹ فیڈریشن کی حفاظت کا وہ کردار ادا نہیں کرسکتا جس کے بغیر فیڈریشن مکمل نہیں ہوتی۔ البتہ میں اس راے کا سختی سے قائل ہوں کہ یہ انتخاب متناسب نمایندگی کی بنیادوں پر ہونا چاہیے تاکہ تمام سیاسی قوتوں کواس ایوان میں  ان کی عوامی تائید کے تناسب سے نمایندگی مل سکے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جہاں ہم سینیٹ کے بلاواسطہ انتخاب کو ضروری سمجھتے ہیں، وہیں طریقہ انتخاب کے لیے بھی متناسب نمایندگی کے اصول پر اصرار کرتے ہیں تاکہ اس میں تمام نقطہ ہاے نظر اپنا اپنا مقام حاصل کر سکیں۔ یہ ایک نہایت اہم ضرورت ہے۔ اس کا پورا ہونا بہت ضروری ہے۔

اس موقعے پر میں یہ اعتراف بھی کرناچاہتا ہوں کہ موجودہ طریقۂ انتخاب میں روپے پیسے کا چلنا ، سیاسی جوڑ توڑ اور مقتدر اداروں اور افراد کے کردار سے جو تصویر سامنے آرہی ہے وہ اس ادارے کے دامن پر ایک بڑا ہی بدنما دھبا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں بھاری اکثریت کا دامن پاک ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں کچھ مقامات پر یہ گندپھیلایا گیا ہے جس کی وجہ سے اس مقتدر ادارے پر لوگوں کے اعتماد کو بڑی ٹھیس لگی ہے۔ وجہ واضح ہے کہ اگر دیگ کے چند چاول بھی زہر آلودہوں تو اس سے سارا پکوان متاثرہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمارا دستوری کردار مؤثر ہونا چاہیے اور ہماری اخلاقی پوزیشن بھی مستحکم اور بے داغ ہونی چاہیے۔مستقبل میں دونوں پہلو ئوں سے اصلاح فیڈریشن کو اور اس ملک کو مضبوط کرنے اور جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے معاون ہوں گی۔

  • قانون سازی کے لیے اقدامات: اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ گو، قانون سازی اس ایوان کی ایک اہم ذمہ داری ہے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو قانون سازی کے سلسلے میں ایک بڑا کلیدی کردار ادا کرناہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ تین مزید وظائف (functions)ہیں جن کا ذکر ضروری ہے اور یہ سب بھی قانون سازی سے کچھ کم اہم نہیں ہیں۔ ہم نے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ خدمات انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ہمیں ان تمام امور کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور سینیٹ کی کارکردگی کا جب بھی آپ جائزہ لیں اس میں تمام وظائف کار کو سامنے رکھ کر ہی انصاف کیا جاسکتا ہے ۔

 ___ سینیٹ اور قومی اسمبلی عوام کے جذبات و احساسات کے اظہار کاایک ادارہ ہے۔  یہ قوم کی زبان ہے، اس لیے قرادادوں ، توجہ دلائو نوٹس اور وقت کے مسائل پر آواز اٹھانا ایک کار منصبی ہے۔ اس کے لیے ہم نے ضوابط کار میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور اب قراردادوں کے علاوہ صفر گھنٹہ (Zero Hour) کااضافہ کیا ہے جو ایک مفیدتبدیلی ہے۔ اس طرح ارکان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ہر روز issues of the day(آج کے مسائل)کو اٹھا سکیں۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے اور عوام کے جذبات کے اظہار کے لیے بہت ضروری ہے۔، ساتھ ہی آپ کو معلوم ہے کہ تحریکِ التوا وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام کی مشکلات ، ان کے مسائل کو  ایوان میں لایا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلوسے سینیٹ نے بڑی اہم خدمات انجام    دی ہیں۔ اگر آپ تحریکِ التوا کی تعداد لے لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس اعتبار سے ہم نے کیا کردار ادا کیاہے۔اوسطاً ۱۸۰۰ سے ۲۰۰۰ تک التوا کی تحریکیں ہر سال آتی رہی ہیں اور مجھے اور    جماعت اسلامی کے دوسرے ارکان کو بھی سعادت حاصل رہی کہ ان میں تقریباً ۲۰فی صد، یعنی ۱۰۰سے زیادہ تحریکیں ہم نے پیش کی ہیں۔

___تیسری چیز پالیسی سازی میں کردار ہے۔ بلاشبہہ پالیسی بنانااور اس کی تنفیذ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن صحیح پالیسی کی نشان دہی میں سینیٹ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں بھی پارلیمنٹ کے سامنے بنیادی پالیسیوں کو پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ نے اپنا کردارقرارِ واقعی ادا نہیں کیا ۔ یہ بات ریکارڈ پر لاتے ہوئے ہمیں دکھ ہوتا ہے کہ ریاستی پالیسی کے رہنما اصول کے بارے میںدستور جولازم کرتا ہے کہ ہر سال اس کی رپورٹ آئے، پہلے قومی اسمبلی اور اب دونوں ایوانوں میں ، لیکن یہ خانہ برسوںسے خالی رہا ہے اور کسی نے بھی اس کی فکر نہیں کی۔ سینیٹ نے اس مسئلے کو اُٹھایا ہے اور اس سال پہلی بار حکومت نے مجبور ہو کر نئے سال کی رپورٹ اس ایوان میں پیش کی ہے۔ پہلے یہ نہیں آیا کرتی تھی۔    جناب چیئرمین! اس سلسلے میں آپ کا بھی کردار ہے کہ ہمارے مسئلہ اٹھانے پر آپ نے اصرار کیا اور اب  وہ رپورٹیں آرہی ہیں۔ اس طرح سینیٹ پالیسی سازی میں بھی بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔

___ پارلیمنٹ کا چوتھا کردار میری نگاہ میں بہت ہی اہم ہے اور وہ انتظامیہ (executive) پر نگرانی (oversight)اور ان کی جواب دہی (accountability) ہے۔ یہ عمل ماضی میں بہت کمزور اور غیر مؤ ثر تھا۔ لیکن اس سینیٹ نے کمیٹی سسٹم کو مؤثر بنا کر انتظامیہ کے محاسبے کومضبوط کیاہے۔ جناب والا! کمیٹی سسٹم کے بارے میں آپ کو یاددلائوں گا کہ ہم نے سینیٹ کی کمیٹیوں کو اپنے صدر کو منتخب کرنے کا اختیار دیا، جب کہ ماضی میں متعلقہ وزیر صدر ہوتا تھا اور اس طرح احتساب ناممکن ہوگیا تھا۔ پھر کمیٹیوں کو از خود مسائل پر کارروائی کرنے کا اختیار دیا اور انھیں معلومات حاصل کرنے کے لیے با اختیار بنایا گیا ۔ یہ ایک تاریخی تبدیلی اور اضافہ (historic innovation) ہے، یعنی مجالسِ قائمہ سے آگے بڑھ کر Functional Committees (مجالسِ عمل درآمد)کا تصور بھی متعارف کیا۔ فنکشنل کمیٹی کا تصور یہ ہے کہ وہ مسائل کی بنیاد پر  قائم کی گئی ہیں، اور ان میںجن معاملات کے لیے کمیٹیاں قائم کیںان میں بنیادی حقوق کا مسئلہ  ،کم ترقی یافتہ علاقوں کے مسائل اور حکومت کے اعلانات اور وعدوں کے فالواَپ کے کاموں کو اہمیت دی۔ اس طرح انسانی حقوق، کم ترقی یافتہ علاقوں اور انتظامیہ کے احتساب اور عوامی مسائل پر توجہ کو مرکوز کرنے اور ضروری سفاشات مرتب کرنے کا کام شروع کیا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان چاروں وظائف کو سامنے رکھ کر ہمیں سینیٹ کی کارکردگی اور اس کے کردار کے ارتقا کو دیکھنا چاہیے۔ میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جہاں اس پہلو سے سینیٹ نے میری نگاہ میں بڑا مثبت کردار ادا کیا ہے، وہیں چند مسائل ایسے ہیں جو میں اپنے اس الوداعی خطاب میں چاہتا ہوں کہ ریکارڈ پر بھی آجائیں اور آنے والے سینیٹ کے ارکان بھی اس کی فکر کر سکیں ۔

  • سینیٹ کے ایامِ کار میں اضافے کی ضرورت: پہلی چیز یہ ہے کہ جتنا وقت سینیٹ نے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں دیا ہے، میری نگاہ میں وہ بہت ناکافی ہے۔ بلاشبہہ دستور کے مطابق ۹۰ ایامِ کارکوبڑھا کر۱۱۰دن کیاگیا ہے لیکن ان ایام میں جو کام کیا جا رہا ہے، وہ ناکافی ہے۔ ایک ادارے پلڈاٹ (PILDAT) (Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency)  نے اس معاملے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اجلاس ہمیشہ آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک تاخیر سے شروع ہوئے ہیں۔ ہم نے جو اصل وقت صرف کیا ہے، وہ اوسطاً تین گھنٹے یومیہ ہے، جب کہ بھارت کی راجیہ سبھامیں اوسطاً کارکردگی کا وقت چار گھنٹے سے زیادہ رہا ہے اور برطانیہ میں اس سے بھی زیادہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایوان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ہم یومیہ زیادہ وقت صرف کریں، حاضری بہتر ہو اور اجلاس بھی وقت پر شروع کیے جائیں۔

جناب والا! دوسری بات جس کا آپ نے بھی نوٹس لیا اور ہمیں بھی اس کو بار باراٹھانا پڑا  وہ وزرا حضرات کی عدم دل چسپی ہے۔ دستوری اعتبار سے پوری کابینہ بشمول وزیر اعظم سینیٹ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس باب میں لا پروائی اور سہل انگاری کارویہ کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ ہم نے آیندہ کے لیے اپنے قواعد میں یہ بھی ایک بہت اہم نیا اضافہ کیا ہے کہ وزیراعظم سینیٹ میں آئیں اور وقت دیں۔ PILDAT کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء میں وزیراعظم صاحب پورے سال میں صرف ۲۵منٹ کے لیے اس ایوانِ بالا میںتشریف لائے۔ ۲۰۱۰ئ-۲۰۱۱ء میں یہ ۲۵منٹ بھی کم ہو کر ۱۵منٹ رہ گئے ہیں۔ یہ شرمناک بات ہے۔میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کو اُٹھائیں کیونکہ ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ قانون سازی کے باب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تین سال میں سینیٹ میں کل آٹھ قوانین پیش ہوئے ہیں اور کل ۴۹ قوانین ایسے ہیں جو یہاں سے منظور ہوئے ہیں۔جب میں اس کا بھارت کی راجیہ سبھا سے موازنہ کرتا ہوں تو راجیہ سبھا میں ان تین برسوں کے اندر ۱۳۲قوانین منظور کیے گئے ہیں۔ امریکا میں قانون سازی کی سالانہ اوسط ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ہمار ے ہاں قانون سازی اب بھی بہت پیچھے ہے اور آرڈی ننس اب بھی جاری ہو رہے ہیں۔ گو، اس پر دستورکی۱۸ویں ترمیم کے ذریعے پابندیاں لگادی گئیں ہیں لیکن آیندہ سینیٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میدان میں زیادہ فعال کردار ادا کرے۔

  • حکومتی کارکردگی اور احتساب: سوالات حکومت کی کارکردگی پر احتساب کا ایک مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ اس کے بارے میں پوزیشن یہ ہے کہ ہر سال اوسطاً تقریباً ۱۸۰۰سے ۲۰۰۰ سوالات ارکان کی طرف سے حکومت کو بھیجے گئے ہیں لیکن عملاً جو جوابات آئے وہ صرف ۳۵فی صد سوالوں کے ہیں،یعنی ۶۵فی صد سوال جواب سے محروم رہے۔ یہ ایوان کے استحقاق کی نفی ہے۔واضح رہے کہ جو سوالات سینیٹ نے وصول کیے ہیں ان میں سے تقریباً ۲۰ فی صد سینیٹ کی انتظامیہ نے قبول نہیں کیے اور ۸۰ فی صد قبول ہوئے، لیکن ان قبول شدہ سوالات میں سے بھی صرف ۳۵ فی صد کے جواب حکومت کی طرف سے آئے۔ یہ بہت ہی سنگین کوتاہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں سینیٹ کو اپنے اختیارات کو مؤثر انداز میں استعمال کرنا چاہیے اور حکومت کو بھی آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ بروقت جواب دے۔ نئے قواعد میں ہم نے اس سلسلے میں کچھ نئے اقدام اور ضوابط تجویز کیے ہیں لیکن اصل چیز حکومت کا تعاون اور ذمہ داری سے تمام سوالات کے جواب فراہم کرنے کا اہتمام ہے۔

اس کے بعد تحاریک استحقاق کا مسئلہ ہے۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ زمرہ ہے جس میں برابر اضافہ ہواہے، یعنی۲۰۰۸ئ-۲۰۰۹ء میں استحقاق کی تحریکوں کی تعداد ۲۵تھی۔ ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء میں یہ تعداد ۳۱ ہوگئی اور ۲۰۱۰ئ-۲۰۱۱ء تو معلوم ہوتا ہے کہ استحقاق کی تحریکوں کے لیے فصل بہار کا   درجہ رکھتا ہے۔ اس سال ۶۱تحریکات ایوان میں پیش ہوئیں لیکن ان میں سے بیش تر کا تعلق  چھوٹے چھوٹے ذاتی مسائل سے تھا۔ قومی اور اصولی معاملات پر بمشکل چار یا پانچ قراردادیں تھیں۔ اس معاملے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریکِ التوا اور توجہ دلائو نوٹس کے بارے میںایک خاص پہلو کی طرف مَیں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء میں ۹۳توجہ دلائو نوٹس سینیٹ نے وصول کیے لیکن ۹۳میں سے صرف آٹھ پر ایوان میں گفتگو ہوسکی۔۲۰۱۰ئ- ۲۰۱۱ء میں ۱۰۲توجہ دلائو نوٹس آئے لیکن صرف تین پر بحث ہوسکی۔ ایوان میں زیر بحث آنے والی تحاریک کے بارے میں ہماری یہ کارکردگی کوئی اچھی مثال پیش نہیں کررہی۔

تحریکات التوا کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء میں ۱۸۲ایسی تحریکیں ارکان کی طرف سے داخل ہوئیں لیکن ان میں سے صرف ۱۱؍ایوان میں بحث کے لیے منظور ہوسکیں اور ان ۱۱ میں سے بھی صرف تین پر بحث کی گئی ۔ یہی کیفیت تقریباً ہر سال رہی ہے جو نہایت تشویش ناک صورت حال کی غمازی کرتی ہے ۔

اس موقعے پر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت بھی جو ہمارا نامکمل ایجنڈا ہے اس میںصرف تحاریکِ التوا کے سلسلے کی ۱۷تحریکیںبحث کے لیے ایجنڈے میں ہونے کے باوجود ایوان میں بحث سے محروم ہیں۔ان پر آج تک کوئی بحث نہیں ہوئی۔ ان میں سے چھے ایسی ہیں  جن میں ، میں خود اور جماعت اسلامی کے میرے دوسرے ساتھی تجویز کنندہ ہیں۔ قواعد کے مطابق اب وہ ختم ہوجائیں گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس موقعے پر آپ لوگوں کو یہ یاد دلائوں کہ یہ کام کرنے کے ہیں۔ سینیٹ فقط مجلسِ مباحثہ (debating society)نہیں ہے۔ ہمیں ان چاروں ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے جو دستور اور جمہوری روایات کی روشنی میں ہمارے سپرد ہیں۔اس لیے زیرالتوا کام پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ملک کو درپیش چیلنج

اس کے بعد میں نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ صرف مختصر نکات کی شکل میں ان امور کی نشان دہی کروں گا جو میری نگاہ میں اس وقت سینیٹ، پارلیمنٹ ، حکومت اورقوم کے سامنے سب سے اہم مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی بات اسی پر ختم کروں کہ ان مسائل کی طرف توجہ دینا اصل چیلنج ہے اور اس میں اگر ہم نے کوتاہی برتی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

  • ملکی سالمیت و خودمختاری: سب سے پہلا مسئلہ میری نگاہ میں ملک کی آزادی ، اس کی حاکمیت، اس کی خودمختاری اور اس کی عزت اور وقار کا تحفظ ہے۔ اس پر پچھلے ۱۲برسوں میں جو چرکے لگے ہیں، جو ہز یمتیں ہمیں اٹھانی پڑی ہیں، جس طرح ہماری آبادیوں پر ڈرون حملے ہوئے ہیںاور جس طرح ہمیں دنیا بھر میں بلیک میل کیا گیا ہے، دبائو ڈالا گیا ہے،   حتیٰ کہ ریمنڈڈیوس جیسا واقعہ بھی یہاں رُونما ہوا ہے، ۲مئی کا واقعہ بھی یہاں رونما ہوا ہے، ۲۶نومبر کا واقعہ بھی رونما ہوا ہے، ان حالات میں ہماری آزادی خطرے میں ہے۔ جو قوم اپنی آزادی کھودے وہ پھر زندہ رہنے کے لائق نہیں رہتی۔ اس لیے ہمارا سب سے پہلا مسئلہ آزادی کا تحفظ ہے۔ اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنی پڑے وہ کم ہے۔ قومیں اگر اپنی آزادی کے لیے قیمت ادا نہ کریں تو وہ پھر محکوم اور غلام بن کر رہتی ہیں۔
  • نظریاتی تشخص کا تحفظ: دوسرا مسئلہ میری نگاہ میں ملک کی نظریاتی شناخت کی حفاظت اور پرورش کا ہے۔ ہمارا ملک ایک نظریاتی ملک ہے۔ ہم نے اس ملک کو قائم کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے اور بڑی قربانیاں دی ہیں۔ مسلمانانِ ہندو پاک نے لاکھوں کی تعداد میں جانیں دی ہیں اور ایک ڈیڑھ کروڑ افراد نے ہجرت کی ہے، اور یہ سب اس لیے تھا کہ ہم اپنے دین، اپنے عقیدے اور اپنی تاریخ کی روشنی میں اپنی زندگی کو ترتیب دے سکیں۔ قائداعظمؒ نے ۱۰۰سے زیادہ مواقع پر ۱۹۳۹ء سے لے کر ۱۹۴۸ء تک اس کا نظریاتی اور دینی پہلو اُجاگر کیا ہے  جس کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔ یہ نظریاتی پہلو قوم سے عہدو پیمان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس موضوع کے بارے میں انھوں نے کبھی نہ کوئی سمجھوتا کیا اور نہ معذرت خواہا نہ رویہ اختیار کیا ۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کو اسی حیثیت سے ہمیں آگے بڑھانا ہے لیکن آج ہمارا نظریاتی تشخص مجروح ہو رہا ہے۔ معذرت خواہانہ روش اختیار کی جارہی ہے۔ ایسی باتیں کہی جار ہی ہیں جن کو  دیکھ کر ، پڑھ کر انسان سرپیٹ لیتا ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھوں نے تحریک پاکستان میں الحمدللہ حصہ لیا ہے اور ایک طالب علم کی حیثیت سے اس جدوجہد میں، مَیں نے اور میرے  اہلِ خاندان نے قربانیاں دی ہیں۔ آج جب میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس لیے میں آج کے اس خطاب میں پاکستان کی نظریاتی شناخت اور اس کے اصل مقصد کو جو ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کا قیام ہے پوری شدت اور قوت سے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ آزادی کا تحفظ اور نظریاتی شناخت کی حفاظت اور ترویج ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
  • ھمہ گیر اخلاقی انحطاط: تیسری چیز جو میں کہنا چاہتا ہوں اور جس کا میں   بڑے دُکھ سے اظہار کر رہا ہوں اور جسے دوسرے سیاسی اور معاشی مسائل سے بھی پہلے اٹھا رہا ہوں وہ ملک و قوم کا ہمہ گیر اخلاقی انحطاط ہے۔ اخبار اٹھا کر دیکھیے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں، بچیوں، عورتوں اور مجبور انسانوں کے ساتھ کس طرح ظلم کیا جا رہا ہے۔ وڈیروں، زمین داروں اور بااثر افراد کے پرائیویٹ جیل خانے موجود ہیں۔ سوسائٹی کو کس طرح تقسیم کردیا گیا ہے۔ معزز شہریوں کو لاپتا کیا جارہا ہے اور قانون اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر بے حس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس ملک میں قوم کی اخلاقی حس مُردہ ہوجائے پھر وہ قوم اور اس کے افراد انسان کہے جانے کے لائق نہیں رہتے۔ اس لیے ہمیں اس اخلاقی مسئلے کو بڑی اہمیت دینا چاہیے۔ اس میں حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، لیکن یہ محض حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے اور ہر فرد کی    ذمہ داری ہے۔ قرآن صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ آخرت میں ہر فرد سے بحیثیت فرد احتساب اور جواب د ہی ہوگی۔ پھر اس میں میڈیا، تعلیمی نظام، والدین اور خاندان، معاشرے کے بزرگ ،مسجد اور منبر، ان سب کی ذمہ داری ہے۔

آزادی اور نظریاتی شناخت کے بعد ملک کی اخلاقی قوت کی حفاظت اور ترقی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اخلاقی حالت کو بہتر کرنا اور یہ دیکھنا کہ ہم کہاں تک خیر اور شر کے درمیان فرق کر رہے ہیں، یہ ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ مسلمان اور غیر مسلم میں یہ فرق نہیں ہے کہ ان کی شکل ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ وہی دو آنکھیں ، وہی دوکان ، وہی ایک ناک، وہی ایک زبان اور وہی دودو ہاتھ پائوں___ پھر فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ مسلمان ایک اخلاقی معیار کو شعوری طور پر قبول کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے آخری سانس تک ان اخلاقی اقدار کی پاس داری کروں گا۔ اگر ہم ان اقدار کی پاس داری نہیں کر رہے ہیں تو ہم دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی۔ جناب والا! یہی وجہ ہے کہ دوسرے مسائل کی طرف آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو جس طرف متوجہ کروں گا، وہ ملک کی اخلاقی اصلاح اور تعمیر ہے۔

  • بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ: اس کے ساتھ چوتھی بات جو بہت ضروری ہے وہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے۔ بنیادی حقوق جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں ذکر فرمایا ہے، ہمارے لیے سب سے اہم چیز ہے۔ بحیثیت مجموعی ہماری تاریخ میں خامیاں رہی ہیں، کوتاہیاں رہی ہیں لیکن مسلمان ہو یا غیر مسلم ، طاقت ور ہو یا کمزور، حقوق کی پاس داری ہماری امتیازی شان رہی ہے۔ آج جو صورت حال ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ ہر طرف لاقانونیت کا بازار گرم ہے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ ہے۔ ہماری بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کس طرح دوسروں کے قبضے میں ہے اور ہم اسے وطن واپس نہیں لاسکتے۔ خود یہاں مسخ شدہ لاشیں آرہی ہیں۔ ہر روز یہ واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں کہ کسی کا بیٹا یا کسی کا بھائی اٹھالیا گیا ہے اور پھر عورتوں کو بھی اس ناپاک کھیل میں بخشا نہیں جا رہا ہے۔ جناب والا! انسانی حقوق کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے، اس لیے میں اس مسئلے کو بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
  • معیشت کی زبوں حالی: چوتھا نکتہ یہ ہے کہ معیشت کی جو صورت حال اس وقت ہے، یہ اتنی خراب کبھی نہیں ہوئی تھی۔ غربت بڑھی ہے، بے روزگاری بڑھی ہے اور چار سال کے اندرملک کے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں ۱۰۰ فی صد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں اگر کُل قرض ۴ ہزار ۸سو ارب روپے تھا تو وہ بڑھ کر اب ۲۰۱۲ء میں ۱۲ ہزار ارب کی حدوں کو      چھو رہاہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر فرد ہربوڑھا، جوان اور بچہ ۶۰ہزار روپے کا مقروض ہے۔Standard and Poor'sکی جو رپورٹ حال ہی میں آئی ہے اس کے مطابق پاکستان ایشیا کا سب سے مہنگا ملک ہے جس میں افراط زر اور مہنگائی اس پورے علاقے میں سب سے زیادہ ہے۔ آج بھی جو رپورٹ ایک بین الاقوامی ادارے کی آئی ہے، اس میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ہماری بین الاقوامی ساکھ ہر روز نیچے جا رہی ہے۔ جناب والا! اس کو سنجیدگی سے لیجیے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیجیے۔

اگلا مسئلہ کرپشن کا ہے جس کے بارے میں میرے دوسرے ساتھیوں نے بھی کہا ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جا رہا ہوں لیکن یہ ایک سرطان کی طرح قومی معیشت کو کھارہی ہے۔ صرف گذشتہ چار برسوں میں ۸ہزار۶سو ارب کا نقصان اس کی وجہ سے ہوا ہے ۔ یہ ایک بڑا ہی سنگین مسئلہ ہے۔ پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری بقا کے لیے دو چیزوں کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ غذا صاف اور خالص میسر آئے، اور دوسرے توانائی کی ضروریات پوری ہوں۔ یہ دونوں اس وقت مفقودہیں۔اس کے لیے فوری طور پرمنصوبہ بندی اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

  • بلوچستان کی سنگین صورت حال: ایک اور اہم ترین مسئلہ بلوچستان کا ہے۔ یہ صرف بلوچوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ میرا، آپ کا، پورے ملک کا اور ہر طبقے کا مسئلہ ہے۔ اس لیے خدا کے لیے اس کو اہمیت دیجیے ۔ فوری طور پر پرکوشش کیجیے کہ جو اصل مسائل ہیں ان کا سامنا کیا جائے۔ لوگوں کو گفتگو کی میز پر لایا جائے اور انھیں شراکت کا احساس دیا جائے، ملکیت (ownership) کا احساس دیا جائے اور میں آپ سے یقین سے کہتا ہوں کہ ابھی بھی کچھ نہیں گیا، یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے مگر اس کو حل کرنے کے لیے فوری ،بھر پور اور ہمہ جہتی کوشش بہت ضروری ہے۔
  • ’دھشت گردی‘ کی جنگ اور افغانستان کا حل: اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے نام پر امریکا کی تباہ کن جنگ سے نکلنا ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ یہ جنگ نہ کبھی ہماری جنگ تھی اور نہ آج ہماری جنگ ہے۔ ہم نے دوسروں کی جنگ میں ان کے دبائو میں آکر اپنے کو جھونک دیا ہے۔ ۴۰ہزار سے زیادہ پاکستانی اس جنگ میں جان دے چکے ہیں، اور اربوں اور کھربوں کا نقصان ملک کی معیشت برداشت کرچکی ہے۔ اس لیے ہماری اولیں ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم اس جنگ سے نکلیں۔ دوسرے یہ کہ امریکا افغانستان سے نکلے تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔ جب تک امریکا کی یہ جنگ ختم نہیں ہوتی علاقے میں امن ممکن نہیں۔ امریکا نے افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا ہے اور پاکستان بھی بالواسطہ اس کے قبضے میں ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہاہوں بلکہ شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر نے اپنی تازہ ترین کتابCutting the Fuseمیں کہی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ: Afghanistan is under US occupation and Pakistan is under the indirect occupation of United States of America (افغانستان پر امریکا کا قبضہ ہے، اور پاکستان پر امریکا کا بالواسطہ قبضہ ہے)۔ ’دہشت گردی‘ کی جنگ کو ختم کرنا، افغانستان کے ساتھ معاملات کو سلجھانا اور وہاں قومی مفاہمت کا حصول فوری ضرورت ہے۔ افغانستان میں ہر کسی کی دخل اندازی ختم ہو نا چاہیے ۔ مسئلے کا سیاسی حل وقت کا تقاضا اور اصل ضرورت ہے۔
  • مشرف دورِ حکومت کا احتساب: ایک آخری معاملہ جس کے بارے میں کہنا ضروری سمجھتا ہوں وہ ہے مشرف دور کا احتساب ۔ جو مظالم اس شخص نے کیے ہیں دستور کی    خلاف ورزی کے اعتبار سے، انسانی حقوق کی پامالی کے اعتبار سے، امریکا کی غلامی کے اعتبار سے، اور پاکستا ن کے مفادات کو نقصان پہنچوانے بلکہ اس کے وجود کی بازی لگا دینے کے حوالے سے، ان سب پر اس کا احتساب ضروری ہے۔ ملک میں جنگ کی کیفیت اور دہشت گردی کا سیلاب اس دور کی ناکام پالیسوں کا نتیجہ ہے ۔پھر اس شخص نے طاقت کے نشے میں اکبر بگٹی جیسے پاکستانی کو شہید کیا، لال مسجد میں جو کچھ کیا، عدلیہ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیااسے کیسے بھولا جا سکتا ہے۔     یہ سب اس تاریک دور کے سنگین جرائم ہیں اور اس کے لیے مشرف اور اس کے حواریوں کا  احتساب اور قرار واقعی سزا انصاف کا تقاضا ہے ۔اس کے ساتھ مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے جیساکہ جان جمالی صاحب نے کہاہے: سچائی اور مفاہمت (truth and reconciliation) کا راستہ اختیار کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے اور ایسا کرنا ازحد ضروری ہے۔

آخری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے گذشتہ تین سالوں میں کئی اہم قوانین اس ایوان میں پیش کیے ہیں جو ا بھی منظور نہیں ہوئے ہیں، ان میں لاپتا افراد کے بارے میں دستوری ترمیم، مہنگائی کے مسئلے پر قانون ، صحافیوںکے حقوق کا قانون، بے روزگار اور معذور افراد کی مدد کرنے کا قانون اور مہنگائی پر کنٹرول کا مسئلہ جیسے قانون زیادہ اہم ہیں۔     یہ پانچ چھے قوانین بل کی صورت میں اس وقت زیر غور ہیں۔ ان کو جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے پیش کیاہے۔ ان میں سے ایک جس کا تعلق صحافیوں سے ہے اس کومسلم لیگ کے ساتھیوں نے co-sponsorکیا ہے وہ جاری رہے گا۔ میرے علم کی حد تک پارلیمانی روایات یہ ہیں کہ ایک مرتبہ جو مسودۂ قانون ایوان میں زیر غور آجائے وہ ایوان کی ملکیت ہے۔ قانون تجویز کرنے والے ممبراگر ممبر نہ بھی رہیں تب بھی ایوان کا فرض ہے کہ وہ اس پر غور کرے، اسے قبول کرے یا رد کرے۔ لیکن میں چاہوں گا کہ اس ایوان کے دوسرے ارکان ان تمام قوانین کےco-sponsorبن جائیں تاکہ یہ قوانین معلق نہ رہیں اور جلد ازجلد کتابِ قانون کا حصہ   بن جائیں ۔

آخر میں، میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے جس احساس کا اظہار کرناچاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں تین دن کی اس پوری بحث کو سنتا رہا ہوں اور پارٹی کی وابستگی سے بالاتر ہوکر میرے معزز بھائیوں اور بہنوں نے جس طرح میرا ذکر کیا ہے، اس کے لیے جہاں مَیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہیں اس حقیقت کا بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی فراخ دلی اپنی جگہ لیکن میرا دیانت دارانہ احساس یہ ہے کہ میں حق ادا نہیں کرسکا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جو بھی کوتاہی اس پورے دور میں میری طرف سے رہی ہو ، یا میرے کسی بھی ساتھی کو خواہ اس کا تعلق انتظامیہ سے ہو یا اراکین سے، اگر میری کسی بات سے کبھی کوئی دکھ پہنچا ہو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ میری نیت کبھی نہیں تھی اور میں ان سے معذرت خواہ ہوں۔ اگر میری وجہ سے انھیں کوئی تکلیف پہنچی ہو تو یقین ہے کہ وہ مجھے معاف کردیں گے۔

آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان مشکلات اور خرابیوں کے باوجود الحمدللہ پاکستان جمہوریت کی طرف گامزن ہے اور میں پاکستان اور خود اس ایوان کے مستقبل کے بارے میں بہت پُراُمید ہوں۔ جہاں حالات کا حقیقت پسند انہ جائزہ ضروری ہے تاکہ ہم کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، وہیں دوسری طرف اُمید رکھنا بھی ایمان کا تقاضا ہے، اور تاریخ کا پیغام ہے کہ انسانوں کی کوششیں بالآخر ثمربار ہوتی ہیں۔ اس لیے اپنی تقریر کو اس احساس کے اظہار پر ختم کرنا چاہتا ہوں کہ:

یوں اہل توکل کی بسر ہوتی ہے

ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

شکریہ ،و آخردعوانا ان الحمدللّہ رب العالمین!

جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تین اراکینِ سینیٹ پروفیسر خورشیداحمد، پروفیسر محمد ابراہیم اور محترمہ عافیہ ضیا صاحبہ قومی ، بین الاقوامی، دینی اور عوامی ایشوز پر سینیٹ میں  اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرچکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر پروفیسر خورشیداحمد نے۱۱مارچ ۲۰۱۲ء کو پریس کانفرنس کے ذریعے جماعت اسلامی کے اراکین سینیٹ کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کیا۔

  •  سینیٹ میں کام کے لیے دائرۂ کار: جماعت اسلامی کے اراکینِ سینیٹ نے عوام کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیے سینیٹ آف پاکستان کے اندر سوالات، تحاریکِ التوا، قراردادوں، توجہ مبذول کرانے کے نوٹس، تحاریک زیرقاعدہ ۱۹۴، تحاریکِ استحقاق اور حکومتی بلوں اور نئے بلوں کو جمع کرا کر اپنا موقف پیش کیا۔ گذشتہ تین برسوں میں جمع کرائے گئے سوالات کی تعداد ۱۰۰۰ سے زائد، تحاریکِ التوا کی تعداد ۴۰۰ سے زائد، جب کہ قراردادزیر قاعدہ۱۹۴ کی تعداد ۲۴۶ اور توجہ دلائو نوٹس ۲۸۸، قراردادوں کی تعداد ۳۱۰، اور رولز کی خلاف ورزی پر تحاریکِ استحقاق کی تعداد چار ہے۔
  •  پٹرول کی قیمت میں اضافہ، مھنگائی و بے روزگاری:موجودہ حکومت کے دور میں سب سے زیادہ اضافہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیا گیا۔ جماعت اسلامی کی    طرف سے اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کے حوالے سے ایک بل   ’اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنے کا بل ۲۰۱۰ئ‘ کے عنوان سے سینیٹ میں جمع کرایا گیا۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے سینیٹ میں خودکشیوں کو روکنے سے متعلق ’آئینی ترمیمی بل ۲۰۱۰ئ‘     کے عنوان سے بل جمع کرایا گیا۔ قدرتی گیس کا بحران، پٹرولیم مصنوعات میں متعدد مرتبہ اضافہ،  سی این جی، لوڈشیڈنگ اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال، رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے خلاف تحریکِ التوا اور توجہ دلائو نوٹس جمع کرائے گئے۔
  • بزرگ شھریوں اور معذور افراد کی فلاح و بھبود:جماعت اسلامی نے معذور افراد کے مسائل کو نہ صرف توجہ مبذول کرانے کے نوٹسوں کے ذریعے ایوانِ بالا میں اُجاگر کیا بلکہ اس حوالے سے آٹھ صفحات پر مشتمل ’معذور افراد کی فلاح و بہبود کا بل ۲۰۱۰ئ‘ کے عنوان سے بل جمع کرایا گیا۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ معذور افراد کو ان کے گھر کی دہلیز پر قومی شناختی کارڈکی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ پی آئی اے، ریلوے، نجی اور سرکاری ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں معذور افراد کے لیے ۵۰ فی صد رعایت کو یقینی بنائے گی۔ حکومت گاڑیوں اور دیگر اشیا کی درآمد پر بھی معذور افراد کے لیے خصوصی رعایت فراہم کرے گی۔ معذور افراد کو مفت اور نجی ہسپتالوں میں صرف ۶۰ فی صد ادایگی کے ساتھ علاج معالجے کی سہولت فراہم کرے گی۔

وفاقی حکومت یوٹیلٹی سٹوروں میں مختلف اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں معذور افراد کے لیے ۳۰ فی صد کی خصوصی چھوٹ فراہم کر ے گی۔ حکومت ہوائی اڈوں، پارکوں، ریلوے اسٹیشنوں اور دیگر عوامی مقامات پر معذور افراد کے لیے وہیل چیئرز کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ حکومت پاکستان بیت المال اور زکوٰۃ اور عشر کے محکموں میں معذور اور محتاج افراد کو ماہانہ بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی بھی پابند ہوگی۔ اس کے علاوہ معذور افراد کے بچوں کی شادی پر انھیں مبلغ ایک لاکھ روپے کی رقم بطور خصوصی امداد فراہم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ معذور افراد کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے کے لیے مبلغ ۵۰ہزار روپے کے بلاسود قرضے کی فراہمی کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

اس بل میں ایسے سافٹ ویئر اور ہارڈویئر ٹکنالوجی کے ذریعے معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کی سفارش کی گئی ہے جو نابینا، بہرے اور جسمانی معذور افراد کے لیے ایک عام سہولت کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔ ٹیوب ویل آپریٹر، دفتر شکایات جیسے محکموں اور یوٹیلٹی بلوں: گیس، بجلی اور محکمہ پانی جیسے محکموں میں حکومت کو تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایسے تمام اداروں میں معذور افراد کے تقرر کو   ترجیح دی جائے۔ کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری یا نجی ادارے، کمپنی میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والے تمام معذور افراد کو اس بل کی منظوری کے چھے ماہ کے اندر اندر مستقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ۷۰سال سے زائد عمر کے سول و فوجی پنشنروں کی حالت ِ زار پر تحاریک جمع کرائی گئیں۔

  • صحافیوں کی فلاح و بھبود: صحافیوں کے اغوا، تشدد، زخمی، اور انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیوں کے خلاف بروقت زوردار آواز اُٹھائی گئی اور جماعت اسلامی نے صحافیوں اور میڈیا کارکنان کے تحفظ اور فلاح و بہبود کابل ۲۰۱۱ء بھی سینیٹ میں جمع کرایا جو کہ قائمہ کمیٹی براے اطلاعات و نشریات کے پاس زیرالتوا ہے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی بندش اور پیمرا کی طرف سے میڈیا پر پابندی کا معاملہ بھی اُٹھایا گیا۔
  • امن و امان: سانحۂ پشاور اور کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی شہادت، سیالکوٹ میں دو معصوم طالب علموں کی پولیس سرپرستی میں تشدد سے شہادت، عامرچیمہ کو شہید کرنے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹس کا مطالبہ کیا گیا۔ ملک میں سوات آپریشن اور اس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات اور بلوچستان کے مسائل پر مسلسل آواز اُٹھائی گئی۔ امریکی بلیک واٹر تنظیم کی ملک کے اندر سرگرمیاں بھی زیربحث لائی گئیں۔ پرویز مشرف کو کھلی چھٹی دینے اور اس کے خلاف مقدمات درج نہ کرنے کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ کراچی میں معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ، نیز کے ای ایس سی کے ملازمین کے لیے آواز بلند کی گئی۔
  • قانون سازی و قانونی اُمور: این آر او سمیت تمام متنازع آرڈی ننسوں پر نامنظوری کے نوٹس جمع کرائے گئے اور بار بار اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ قانون سازی کا یہ طریقہ معقول نہیں ہے، بلکہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی قانون سازی ہونی چاہیے۔ حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے اکثر قوانین میں جماعت اسلامی نے اپنی ترامیم جمع کرائیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق قانون سازی کرنے، اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کا مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا۔ الیکٹرانک کرائم آرڈی ننس زائد المیعاد ہونے کے باوجود سینیٹ میں پیش کیے جانے کے خلاف تحریکِ استحقاق ، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی آرڈی ننس ۲۰۰۹ء پر تحریکِ التوا اور نامنظوری نوٹس، پارلیمانی کمیٹی میں تمام ترامیم پر بھرپور کردار ادا کیا گیا۔ انیسویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنے ۱۸ماہ گزرنے کے باوجود حکومت کی سالانہ رپورٹ اور مشترکہ مفادات کونسل کی رپورٹ کا سینیٹ میں پیش نہ کیے جانے پر احتجاج اور بیسویں ترمیم میں ترامیم جمع کرائی گئیں۔
  • پیش کردہ بل:جماعت اسلامی کی طرف سے مندرجہ ذیل بل سینیٹ میں جمع کرائے گئے: صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کا بل ۲۰۱۱ئ، اشیاے صَرف کی قیمتوں اور مہنگائی پر کنٹرول کرنے کا بل ۲۰۱۰ئ، معذور افراد کی فلاح و بہبود کا بل ۲۰۱۱ئ، پانچ تا ۱۶ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کا بل ۲۰۱۱ئ، لاپتا افراد کی بازیابی کا بل ۲۰۰۹ئ، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۲ئ۔ قرآن مجید کو ناظرہ، حفظ اور تجوید کے ساتھ سیکھنے اور سکھانے کا بل ۲۰۱۲ئ، آئینی (ترمیمی) بل ۲۰۱۰ء (اس بل میں سوشل سیکورٹی کور کے ذریعے خودکشیوں کو روکنے کے لیے عملی حل تجویز کیا گیا ہے)، اُردو کو عملی طور پر دفتری زبان بنانے میں تاخیر اور آئین کی خلاف ورزی پر سینیٹ میں قرارداد کے ذریعے بحثوں میں بھرپور موقف اُجاگر کیا گیا۔
  • ترامیم: دی انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹکنالوجی ۲۰۱۰ء کی کلاز۴، پیراگراف XXV اور کلاز ۵ میں ترامیم۔ پبلک ڈی فینڈر اینڈ لیگل ایڈ آفس بل ۲۰۱۰ء کے پیراگراف (h)، (i)، ایرا (ERRA) بل ۲۰۱۰ء میں ترمیم، ’’دستور (بیسویں ترمیم) ایکٹ ۲۰۱۲ء کے آرٹیکل ۴۸، ۲۱۴، ۲۱۵، ۲۲۴ میں ترمیم کا بل۔ سروس ٹریبونل ایکٹ ۱۹۷۳ء میں ترامیم، پٹرولیم، ڈویلپمنٹ لیوی آرڈی ننس ۲۰۰۹ء کی عدم منظوری کا نوٹس، صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے بل ۲۰۱۱ء میں مزید ترمیم (میڈیا کارکنان کو بھی بل میں شامل کرنے کا مطالبہ)، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بنک آف پاکستان ایکٹ ۲۰۱۰ء سمیت دیگر ترامیم شامل ہیں۔
  • تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے لیے جدوجھد: تحفظ ناموسِ رسالتؐ ایکٹ کے خاتمے کی ناپاک کوششوں اور اس کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی ہرزہ سرائی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی گئی۔ پاکستان میں تحفظ ناموسِ رسالتؐ ایکٹ سے متعلق پوپ بینی ڈکٹ کے غیر ذمہ دارانہ اور مذہبی تعصب پر مبنی بیان کی سخت مذمت کی گئی۔
  • دینی اُمور: جماعت اسلامی نے اسلامی اقدار اور روایات کے حکومتی اقدامات کے خلاف سمیت تمام ایشوز پر بھرپور آواز اُٹھائی جن میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف بھرپور ردعمل، ملک میں اخلاقی بے راہ روی، انٹرنیٹ کیفے، فحش سی ڈیز، فلمیں، سنوکرکلب، شیشہ سنٹروں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ مساجد، امام بارگاہوں اور مذہبی شخصیات کے عدم تحفظ، داتا دربار، عبداللہ شاہ غازی اور پاک پتن مزارات سمیت پاکستان بھرمیں بم دھماکوں کے معاملات کو سینیٹ میں اُٹھایا گیا۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر گنیزوی میں ذلیل پادری کی قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے کی ناپاک جسارت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا۔ ملک میں فحاشی اور عریانی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے اقدامات نہ کرنے کے خلاف، پی ٹی وی اور زی ٹی وی کے باہمی اشتراک کے خلاف، پاسپورٹ بنانے میں تاخیر، حاجیوں کو رقم جمع کرانے کے باوجود حج کوٹہ میں شامل نہ کرنا، پارلیمنٹ لاجز میں نمازیوں کے لیے باقاعدہ مسجد کا نہ ہونے کی طرف توجہ مبذول کرانے کا نوٹس جمع کرایا گیا۔ امریکی سفارت خانے میں ہم جنس پرستوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے وزیراعظم اور وزیرمملکت براے امورخارجہ کو خطوط لکھے گئے۔
  • خواتین اور بچوں کی فلاح و بھبود: ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے، اور معصوم اور بے گناہ افراد اور خاندانوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے قتل کرنے کے خلاف مسلسل احتجاج کیا گیا۔ خواتین اور بچوں کے اغوا اور ظلم و زیادتی اور قتل کے واقعات کے سدباب کا مطالبہ کیا۔ ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مسائل کو اُجاگر کیا اور بہتری کے لیے ترامیم جمع کرائی گئیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے رہا نہ کرانے کے معاملے کو بار بار اُٹھایاگیا اور ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے کے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ نہتے اور بے گناہ چیچن مرد و خواتین کو شہید کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ لڑکیوں کے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تمام مردانہ سٹاف کو فی الفور تبدیل کرنے اور خواتین سٹاف کو تعینات کرانے کا مطالبہ ، اجوکا تھیٹر میں این جی او کے تعاون سے Burqavaganza کے نام سے غیراخلاقی، غیراسلامی ڈرامے کے خلاف تحاریکِ التوا، توجہ مبذول کرانے کے نوٹس اور قراردادیں جمع کرائی گئیں۔
  • خارجہ اُمور: پاکستان کے معاملات میں امریکی مداخلت، ناکام خارجہ پالیسی کے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی گئی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے بارے میں امریکی مداخلت کے خلاف، ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے کے خلاف ، دمشق (شام) میں پاکستانی انٹرنیشنل اسکول میں اساتذہ کے تقرر میں اقربا پروری کے خلاف، ایران کی طرف سے بجلی مہیا کرنے کے معاہدے کے باوجود حکومت کی طرف سے سردمہری کے رویے کے خلاف آواز اُٹھائی گئی۔ پاکستان میں امریکی سفیر کی رہایش گاہ پر Defence of Democracies نامی نیوکنزرویٹیو تھنک ٹینک کی طرف سے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے ڈنر پر احتجاج، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے خواتین، بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں پر مظالم، پاکستان کی فضائی اور زمینی راستوںکو ناٹو کو دینے کے خلاف مسلسل آواز بلند کی گئی۔ میمو ایشیو پر اعلیٰ سطح اور بااختیار جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ اور کراچی کی صورت حال پر امریکی سفیر کیمرون منٹر کے بیان پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
  • داخلہ اُمور: انسانی سمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات، ملک بھر کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی، غیراخلاقی رویوں اور غیرقانونی معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ شمالی وزیرستان میں امن جرگہ پر امریکی ڈرون حملہ، جس کے نتیجے میں ۸۴ معصوم پاکستانیوں کو شہید کرنے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اسلام آباد میں پولیس کی تنخواہ میں مناسب اضافہ نہ ہونا، سیلاب کے حوالے سے خبروں پر اقدامات کرنے کا مطالبہ، نیز ایرا بل میں ترامیم جمع کرائی گئیں۔ کراچی میں علما کو شہید کرنے کے معاملے پر تحاریکِ التوا جمع کرائی گئیں۔ راولپنڈی اور گردونواح میں عوام کے احتجاج پر گولیاں چلانے کے خلاف توجہ مبذول کرانے کا نوٹس، ملک بھر میں بچوں کے اغوا اور ڈکیتیوں کے خلاف احتجاج، عوام الناس کو پاسپورٹ کے حصول میں شدید مشکلات، کراچی میں مفت راشن کے حصول کے لیے آئے ہوئے لوگوں میں بھگدڑ کے باعث ۱۸خواتین کی ہلاکت، مناواں پولیس ٹریننگ سنٹرلاہور پر دہشت گردوں کا حملہ، قومی شناختی کارڈ پر درج تاریخ تنسیخ کے خاتمے، وزارتِ داخلہ کی طرف سے نادرا ڈیٹا کی امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کو فراہمی، پی ٹی سی ایل کی طرف سے صارفین کو پرنٹڈ بل میں ٹرنک اور موبائل کالز کی تفصیلات نہ دینا، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بااثر شخصیات کی سرپرستی میں مہنگی اور غیرمعیاری ادویات کی فروخت اور پاکستان میں ’بلیک واٹر‘ کی خفیہ سرگرمیاں جیسے اہم قومی مسائل کو بھی اُٹھایا گیا۔
  • دفاع:ناٹو سپلائی بند کیے جانے کے بعد بحالی کی خبروں پر مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ نے دبائو کے تحت کیے گئے اس یک طرفہ اشتراک کو یکسر مسترد کردیا ہے، لہٰذا اسے ختم کیا جائے۔ اس مسئلے کے حل کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ امریکی اور ناٹوفوجی کارروائیوں کے نتیجے میں پاکستان ناقابلِ برداشت معاشی، سیاسی اور انسانی نقصانات سے دوچار ہوا ہے۔ شمالی وزیرستان میں امن جرگہ پر امریکی ڈرون حملے کی سخت مذمت، نیوکلیئر اثاثہ جات کو خطرے کے حوالے سے حکومت کو وارننگ، تحفظ ملک کے لیے متحد ہونے کی اپیل، نیز پی این ایس مہران پر حملے کے خلاف حکمرانوں سے ملک کی عزت، آزادی، خودمختاری، شناخت، نظریاتی محاذوں کی حفاظت کا مطالبہ کیا گیا۔
  • اداروں کی کارکردگی کو زیربحث لانے کا مطالبہ اور دیگر اُمور: حکومت کی داخلہ و خارجہ پالیسی، وزارتِ ترقی نسواں، تعلیم، نج کاری کمیشن، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن، مواصلات، داخلہ، خارجہ، قانون، اطلاعات و نشریات سمیت تقریباً تمام وزارتوںکی کارکردگی کو زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا ۔ وزارتِ قانون انصاف اور پارلیمانی اُمور کی کارکردگی، گیس قلت کے باعث پیدا شدہ صورت حال، وزارتِ پانی و بجلی کی کارکردگی، مسئلۂ کشمیر پر حکومت کی پالیسی، ایف آئی اے کی کارکردگی، وزارتِ صنعت کی کارکردگی، اسٹیٹ لائف انشورنش کارپوریشن کی کارکردگی، پاکستان ریلوے کی کارکردگی، پی آئی اے کی کارکردگی، نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کی کارکردگی، وزارتِ تجارت کی کارکردگی، او جی ڈی سی ایل کی کارکردگی، وزارتِ سائنس و ٹکنالوجی کی کارکردگی، نیپرا (NEPRA) کی کارکردگی، نادرا کی مجموعی کارکردگی، وزارتِ اطلاعات و نشریات کی کارکردگی، حکومت ِ پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان معاہدات، حکومت کی تجارتی پالیسی، حکومت کا ڈیپ سی بڑے ٹرالرز کے کام کو ریگولیٹ نہ کرنا، ملک میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، انسانی سمگلنگ بالخصوص بچوں اور عورتوں کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات، زرعی پالیسی، تعلیمی پالیسی، صحت پالیسی، پاکستان بھر میں وفاق کے زیرانتظام چلنے والے ہسپتالوں کی کارکردگی، حکومت کی بھرتیوں کے حوالے سے پالیسی اور خارجہ پالیسی کو زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔

وزیراعظم کی طرف سے تیل کی قیمت میں اضافے کو عوامی دبائو کے تحت واپس لینے کے فیصلے پر امریکی اہل کاروں کی تنقید، پی آئی اے کی طرف سے ترکش ایئرلائن کے ساتھ کیا گیا معاہدہ، ریمنڈڈیوس کی رہائی کے خلاف، مستونگ میں ایران جانے والے زائرین کو بس سے اُتار کر قتل کیے جانے کے خلاف، کے ای ایس سی انتظامیہ کی طرف سے تقریباً ساڑھے چار ہزار ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کے خلاف، وزارت قانون و انصاف کی طرف سے جاپان حکومت کو قرض کے لیے معاہدات کی مطلوبہ قانونی ضرورت کی بروقت تیاری نہ کرنے کا معاملہ، صوبہ پنجاب میں گیس لوڈشیڈنگ کے باعث صوبے بھر میں صنعتی یونٹس کی بندش، ووٹرلسٹوں میں   ۴۵فی صد سے زائد بوگس ووٹ، اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر میں تاخیر، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے ۱۹۹۹ء سے لے کر ۲۰۱۰ء تک نکالے گئے ملازمین، تحصیل پھالیہ کے یونین کونسل چک جانوکلاں کے دیہات میں کسانوں کے رقبے پر سائنس ایویلوایشن ڈویژن نیوکلیئر پاور پراجیکٹ لگانے کے منصوبے پر مبنی مسائل اُٹھائے گئے۔ حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لانے کے لیے کیے گئے اقدامات، بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز اور ان کے ایجنڈے کو زیربحث لانے اور آئوٹ آف ٹرن مکانات کی الاٹمنٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ، آل پاکستان گورنمنٹ ایمپلائز کوارڈی نیشن کونسل کے مطالبات، نیب کے نئے چیئرمین فصیح بخاری کا تقرر، نئے پاور پراجیکٹس کے حوالے سے نیپرا کی کارکردگی کو زیربحث لانے، سندھ میں سیلاب کی وجہ سے متاثرین کی مشکلات اور حکومت کا رویہ، وفاقی محتسب کے عہدے کا طویل عرصہ تک خالی رہنا، نارنگ منڈی میں نادرا سوئفٹ سنٹر کا قیام، مختلف فوڈ آئٹمز میں سُور کی چربی کے اجزا کی آمیزش، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن شدید مالی مشکلات سے دوچار، آئیسکو کا غیرقانونی طور پر بجلی صارفین سے خفیہ چارجز کی مد میں اربوں روپے کی وصولی، پی آئی اے انتظامیہ کی طرف سے سپیئرپارٹس کی سپلائی کے لیے کنٹریکٹ میں پبلک پروکیورمنٹ رولز ۲۰۰۴ء کی خلاف ورزی و دیگر مسائل کو اُٹھایا گیا۔

  • بلوچستان: بلوچستان کی دگرگوں صورت حال اور بلوچستان کے مسائل پر گذشتہ تین سال مسلسل آواز بلند کی گئی۔ حبیب جالب کا قتل، سعید بلوچ کا اغوا، کوئٹہ اخروٹ آباد میں بے گناہ معصوم چیچن مرد و خواتین پر ظلم ڈھانے کے واقعے کی کوریج کرنے والے صحافی جمال ترکئی اور کراچی میں نوجوان پر سفاکیت کے واقعے کی کوریج کرنے والی آواز چینل کی ٹیم کے افراد اور دیگر صحافیوں کو مسلسل دھمکیوں سمیت دیگر ایشوز کو بروقت اُجاگر کیا گیا۔
  • مواصلات:قومی ٹرانسپورٹ پالیسی کو زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں گانے بجانا اور وڈیو فلمیں چلانے کے خلاف، راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان چلنے والی ویگنوں اور بسوں کے کرایوں میں ناروا اضافہ، لاہور-نارووال سیکشن پر نارنگ منڈی سے نارووال، سیالکوٹ اور لاہور کے لیے ہفتہ وار چھٹیوں میں متعدد ٹرینوں کی بندش، پی ٹی سی ایل ملازمین پر رمضان میں تشدد اور گرفتاریاں، غیرمعیاری سی این جی سلنڈرز کٹس پھٹنے کے باعث معصوم جانوں کا ضیاع، سی این جی اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال، لواری ٹنل پراجیکٹ پر اچانک ماہِ نومبر ۲۰۱۰ء کے دوران تعمیراتی کام بند کرنا، پاکستان پوسٹ کی نج کاری اور پاکستان پوسٹ کے تحت دی جانے والی سروسز کے حوالے سے وقتاً فوقتاً تحاریکِ التوا، توجہ دلائو نوٹسوں کے ذریعے آواز اُٹھائی گئی۔
  • تعلیم : پاکستان میں خواندگی کی شرح کا خطرناک حد تک کم ہونا، نوشہرہ کے نواحی دو دیہاتوں میں مڈل اور ہائی اسکولز کی سطح پر تعلیم کی عدم فراہمی، بنوں میڈیکل کالج کے طلبہ و طالبات کی طرف سے مذکورہ کالج کو صوبے کے تیسرے بڑے کالج کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی طرف سے تسلیم نہ کیے جانے کے خلاف توجہ دلائو نوٹس جمع کرایا گیا، نیز تعلیم کے دیگر مسائل کو بھی زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ تقریباً دو سال سے زائد   کا عرصہ گزرنے کے باوجود اور گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول ریڑکا بالا منڈی بہائوالدین کی بطور    ہائی اسکول منظوری اور بلڈنگ تعمیرہونے کے باوجود کلاسز کا اجرا نہ ہونا، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کی طرف سے طلبہ سے لیٹ فیس کی مد میں ناجائز وصولیاں، اور طلبہ یونینز پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ۱۷ہزار اساتذہ اور ملازمین کے مطالبات کے حق میں آواز بلند کی گئی۔
  • سوات، قبائلی علاقہ جات: قبائلی علاقہ جات میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں  بے گناہ لوگوں کی شہادت پر وقتاً فوقتاً توجہ دلائو نوٹسوں، تحاریکِ التوا کے ذریعے معاملے کو پارلیمنٹ میں زیربحث لاکر فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ لوئردیر میں ’آپریشن فلش آئوٹ‘ کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
  • کرپشن: ای او بی آئی میں کرپشن، رینٹل پاور منصوبوں میں کرپشن، پاکستان اسٹیل،   پی آئی اے، ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان، نیشنل بنک اور پورٹ قاسم میں رولز سے ہٹ کر بھرتیاں، سی ڈی اے انتظامیہ کی طرف سے محکمے میں کروڑوں کی کرپشن، پنجاب واٹر پروجیکٹ میں   ۴۷ئ۴ ارب روپے کے گھپلے پر پلاننگ کمیشن سے وضاحت، پی ٹی سی ایل یونین ایکشن کمیٹی کا    پی ٹی سی ایل کی نج کاری کے دوران کروڑوں ڈالروں کے گھپلوں کی نشان دہی، پی پی پی کے مرکزی عہدے داران اور صدر آصف زرداری کے قریبی رفقا میں سول اوارڈز کی تقسیم، علامہ اقبال     اوپن یونی ورسٹی کی طرف سے ۵۲۹ طلبا کو ایم اے TOEFL کا امتحان پاس کرنے کے بعد فیل کرنا، پی ٹی سی ایل کی نج کاری میں مالی بے قاعدگیاں، پاکستان ریلوے کی بحرانی صورت حال پر مسلسل آواز اٹھائی گئی۔ ریلوے کرایوں میں ۳۰۳ فی صد اضافہ اور ملازمین کے مسائل کو بھی اُجاگر کیا گیا۔
  • لاپتا افراد کے لیے جدوجھد:لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے آئین کے آرٹیکل ۹ اور ۱۰ میں ترامیم دی گئی ہیں۔ اس بل کا مقصد بغیر عدالتی کارروائی کے حراست میں رکھنے پر مؤثر پابندی لگانا، اس کے مرتکب افراد کے لیے سزا وضع کرنا، کسی پاکستانی یا پاکستانی سرزمین سے گرفتار شدہ کسی فرد کو بغیر عدالتی کارروائی اور عدالت کی اجازت کے کسی غیرملک کے حوالے کرنے پر پابندی لگانا تھا۔ اسی حوالے سے سینیٹ میں جمع کرائی گئی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔
  • مزدوروں، کسانوں اور ملازمین کے مسائل: ۲۰۱۲ء میں مزدوروں کی بہتری کے لیے ترامیم دیں۔ کسانوں کے مسائل کو خصوصاً بجٹ کے موقع پر اُجاگر کیا گیا۔ اساتذہ، ڈاکٹر اور کلرکوں کی مشکلات، آل پاکستان ایمپلائز کوارڈی نیشن کونسل کا اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ، قائداعظم یونی ورسٹی کی طرف سے ڈاکٹروں کے امتحانی پیٹرن کی بغیر اطلاع تبدیلی، کے ای ایس سی کا اپنے ساڑھے چارہزار ملازمین کو فارغ کرنا جیسے مسائل کے حل کے لیے آواز اُٹھائی گئی۔

 

پلڈاٹ (PILDAT) (Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency) کے مطابق جماعت اسلامی کے سینیٹروں کی کارکردگی بے حد نمایاں رہی۔ ان تین برسوں میں کُل۳۷ تحاریکِ التوا پیش کی گئیں جن میں سے ۲۶ جماعت اسلامی کے سینیٹروں نے پیش کیں۔ کُل ۲۷نجی بل پیش کیے گئے جن میں سے ۸ جماعت اسلامی کے سینیٹرز نے پیش کیے۔ صرف ۲۰۰۸-۲۰۰۹ء میں ۱۰۶ توجہ دلائو نوٹسوں میں سے ۷۳ جماعت اسلامی کے سینیٹروں نے پیش کیے۔ (اسکورکارڈ، ۲۰۰۸-۲۰۱۱ئ، پلڈاٹ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تبدیلی قدرت کا قانون ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ترقی اور تشکیلِ نو کا عمل اُمید اور تبدیلی کی جدوجہد ہی سے عبارت ہے، لیکن تبدیلی براے تبدیلی سے زیادہ مہمل کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی خیر اور صلاح کا باعث صرف اس وقت ہوتی ہے جب اس کی سمت اور منزل کا  صحیح صحیح تعین کیا جائے اور بروقت ساری توجہ اصل مقصد کے حصول پر مرکوز کی جائے۔ اگر یہ نہ ہو تو صرف چہرے بدلنے سے حالات میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ تبدیلی کا عمل ترقی کے بجاے تنزل اور مزید بگاڑ پر منتج ہوتا ہے۔ اس کا تجربہ پچھلے چندبرسوں میں پاکستان اور امریکا دونوں میں ہوا ہے۔ قوم مشرف کے آمرانہ اور نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے تباہ کن دَور سے نجات چاہتی تھی، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں اس نے مشرف اور اس کے ساتھیوں کو اُٹھا پھینکا اور تبدیلی کی اُمید دلانے والوں کو منصب اقتدار اسے نوازا لیکن ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے پرویز مشرف ہی کی پالیسیوں کو مزید بگاڑ کے ساتھ جاری رکھا۔ امریکا کی غلامی کی زنجیروں کو اور بھی مضبوط کردیا۔ معیشت کی چولیں ہلا دیں اور اپنے چارسالہ دورِحکمرانی میں پاکستان کو بیک وقت تین تباہ کن بحرانوں کی دلدل میں دھکیل دیا: ۱-خراب حکمرانی ۲-نااہلیت ۳- بدعنوانی (کرپشن)۔

قوم آج پھر تبدیلی کی بات کر رہی ہے اور سیاسی فضا میں ہرسمت سے اس کا شور بلند ہورہا ہے لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں ٹھیر کر اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ تبدیلی، ایک اور دھوکا اور سراب نہ بن جائے، اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ٹھیک ٹھیک اس امر کا تعین کرلیا جائے کہ کون سی تبدیلی مطلوب ہے۔ اس کی سمت ،منزلِ مقصود اور نقشۂ کار طے کرنا اولین ضرورت ہے۔

دوسری تازہ مثال خود امریکا کی ہے۔ اوباما صاحب تبدیلی کے نعرے پر برسرِاقتدار آئے تھے اور امریکا کے تمام ہی راے عامہ کے جائزے یہ خبردے رہے تھے کہ امریکی عوام بش کے دور کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور سیاسی زندگی میں ایک نیا ورق پلٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن پہلے ہی سال میں ان کے سارے بلندبانگ دعووں کے باوجود، یہ بات واضح ہوگئی کہ اوباما صاحب بھی اسی طرح امریکی مقتدرہ (establishment) اور مقتدر اداروں اور مخصوص مقاصد پیش نظر رکھنے والے گروہوں کے اسیر ہیں جس طرح بش تھا۔ چنانچہ اس کے اقتدار کے تین سال، کسی تبدیلی کے نہیں بلکہ تسلسل اور بگاڑ میں اضافے اور ملکی اور بین الاقوامی دونوں محاذوں پر امریکا کی ناکامی کے سال ثابت ہوئے ہیں۔

ان دونوں مثالوں کی روشنی میں اس امر کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے کہ پاکستان کے عوام ۲۰۱۲ء میں اپنے مستقبل کے لیے جس تبدیلی کے لیے سرگرمِ عمل ہیں، اس کے خدوخال اس جدوجہد کے آغاز ہی میں بالکل واضح ہونے چاہییں، اور قوم سیاسی قیادت کو اس کسوٹی پر پرکھے جس سے معلوم ہوسکے کہ مطلوبہ تبدیلی کے لیے کس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور وہ کون سے کھوٹے سکّے ہیں جن سے نجات مطلوب و مقصود ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان نے اس سلسلے میں اپنا نہایت واضح اور مفصل منشور سال کے آغاز ہی میں قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے اور اس میں تبدیلی کے لیے جس نمونے کا تعین کیا ہے وہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست ہے جس کی صورت گری خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاے راشدین کے ہاتھوں ہوئی اور جس نے تاریخِ انسانی کے رُخ کو موڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہرزمانے کے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی دلی خواہش ہے کہ ان کا اجتماعی نظام خلافت ِ راشدہ کے نمونے پر قائم ہو۔ وہ خلفاے اربعہ کے دور کو تاریخِ انسانی کا مثالی دور سمجھتے ہیں اور ماضی میں بھی برابر اس بات کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس نمونے کو رنگ و بو کی دنیا میں دوبارہ زندہ و قائم کریں۔ اُمت مسلمہ کے قلب و نظر کو کبھی کسی ایسی تحریک نے اپیل نہیں کیا،   جو خلافت ِ راشدہ کے مقابلے میں کوئی دوسرا معیار اور نمونہ پیش کرے۔ دوست اور دشمن سب    اس بات کے معترف ہیں کہ اسلام کا وہ مثالی دور ہی ہمیشہ مسلمانوں کی توجہ کا مرکز اور ان کا حقیقی مطلوب و مقصود رہا ہے اور اس کے احیا کے لیے مسلمان ہرزمانے اور ہرملک میں جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ان کی پکار ہمیشہ یہی رہی ہے کہ  ع

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

یہ اعلان مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کا پیامبر ہے اور ان کے حقیقی جذبات و احساسات کا آئینہ دار ہے۔ مسلمان دل سے چاہتے ہیں کہ خلافت ِ راشدہ کے دور کا احیا ہو اور ان کی       یہ خواہش اس لیے ہے کہ وہ دور انسانی تاریخ کا بہترین دور تھا۔ نیز خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کو آنے والوں کے لیے معیاری دور قرار دیا ہے اور اس کے اتباع کی دعوت دی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’پس تمھارا فرض ہے کہ میری سنت کو اختیار کرو اور اس پر مضبوطی سے جمے رہو اور اس کو دانتوں سے پکڑ لو… خبردار! ان باتوں کے قریب نہ پھٹکنا جو میرے طریقے اور خلفاے راشدین کے طریقے سے ہٹ کر نئی ایجاد کرلی جائیں‘‘۔

حضوؐر کا یہی ارشاد ہے جس کی تعمیل میں مسلمان ہمیشہ احیاے خلافت راشدہ کی جدوجہد کرتے رہے ہیں اور آج بھی ملت ِ اسلامیہ کے سامنے یہی نصب العین ہے لیکن خلافت ِ راشدہ کے احیا کے معنی کسی خاص دورِ تاریخ کو، اپنے تمام جزوی مظاہر اور تکنیک کے ساتھ دوبارہ زندہ کرنا نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے جو اصول، اقدار اور ضابطے اس زمانے میں اختیار کیے گئے، انھی کو ازسرِنو قائم کیا جائے۔ اس لیے کہ وہ اصول ابدی صداقت رکھتے ہیں اور ہر دور اور ہر زمانے میں معاشرے کی قلب ماہیت اسی طریقے پر کرسکتے ہیں جس پر اس سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے اربعہ کے زمانے میں کرچکے ہیں۔ خلافت راشدہ کے قیام کے معنی انھی اصولوں کا قیام ہے۔

سوال یہ ہے کہ وہ اصول کون سے ہیں؟ خلافت ِ راشدہ کے قیام کی بنیادیں کیا ہیں؟ اور اس دورِ تاریخ کی خصوصیات کیا کیا ہیں؟ اس لیے کہ اگر ہم خلافت ِ راشدہ کا احیا چاہتے ہیں تو ہمیں انھی اصولوں، انھی بنیادوں اور انھی اجتماعی خصوصیات کا احیا کرنا ہوگا۔

دستوری حکومت

خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ اس کا نظامِ حکومت شخصی نہیں، دستوری تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا کے تمام معلوم سیاسی نظام بادشاہی کی بنیاد پر قائم تھے یا  شخصی آمریت کی۔ آپؐ نے جو نظامِ حکومت قائم کیا وہ شخصی بنیاد کے بجاے قانون کی بالادستی اور ایک معین دستور کی حکومت کی اساس پر تھا۔ اس میں نہ شہنشاہیت کی گنجایش تھی اور نہ آمریت کی، نہ خاندان پرستی تھی اور نہ شخصیت پرستی کی۔ حاکمیت کے اصل اختیارات اللہ تعالیٰ کو حاصل تھے اور  اس کا عطا کردہ، قانون مملکت کا قانون تھا۔ امیر اور غریب اور اپنے اور پرائے سب اس قانون کے تابع تھے اور کوئی اس سے سرمو انحراف نہ کرسکتا تھا۔ یہی چیز ہے جس کا اظہار حضرت ابوبکرؓ نے  اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا ہے:’’لوگو! میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں فلاح و بہبود کے کام کروں تو میری امداد کرنا ورنہ اصلاح کردینا۔ میں خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا لیکن خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے‘‘۔

پھر حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو روانہ کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا: ’’میرا مقام  صرف متبع کا ہے، میں بہرحال کو ئی نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔ پس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر استوار ہوں تو میری پیروی کرنا اور اگر اس راہ سے ہٹ جائوں تو مجھے راہِ راست پر لے آنا‘‘۔

یہاں دستوری حکومت کا نقشہ پیش کیا جا رہا ہے۔ امیر جو کچھ چاہے وہ کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے۔ وہ خود ایک قانون کا پابند ہے اور اس کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اس قانون کو نافذ کرے۔ یہی قانون خود اس کے اُوپر بھی قائم ہوتا ہے اور یہی تمام مسلمانوں پر بھی۔ وہ لوگوں پر اپنی مرضی تھوپنے کا حق دار نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس حقیقت کو اس طرح ادا کیا ہے:’’ایک حاکم کو سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ لوگوں کے اندر جو چیز دیکھنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو حقوق و فرائض ان پر عائد ہوتے ہیں ان کو وہ ادا کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہمارا فرض صرف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  ہم کو جس اطاعت کا حکم دیا ہے اس کا حکم دیں، اور جس نافرمانی سے روکا ہے اس سے روکیں‘‘۔

امیر اپنی ذات میں مطاع نہیں ہوتا۔ اس کی اطاعت صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ شریعت کو قائم کرنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست کا بنیادی اصول ہے کہ اطاعت صرف معروف میں ہے منکر میں نہیں، اور یہ اصول شخصی حکومت کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔

قرآن میں ارشاد ہوا ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۱)معاونت کرو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں اور تعاون نہ کرو گناہ اور برائی کے کاموں میں۔

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

اسلامی حکومت کے اصحاب امر کی اطاعت واجب ہے جب تک کہ وہ خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔ اور جب خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ ماننا ہے۔

پھر امیر اس قانون کو صرف اوروں ہی پر نافذ نہیں کرتا بلکہ خود اپنے اوپر بھی نافذ کرتا ہے اور خود بھی اس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جس طرح کہ دوسروں سے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’میں ایک عام مسلمان اور ایک کمزور بندہ ہوں۔ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد کا مجھے بھروسا ہے۔ میں جس منصب پر مقرر کیا گیا ہوں ان شاء اللہ  وہ میری طبیعت میں ذرّہ برابر بھی تغیر پیدا نہیں کرسکے گا۔ بزرگی اور بڑائی جتنی بھی ہے سب     اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ بندوں کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں۔ تم میں سے کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ عمرخلیفہ بن کر کچھ سے کچھ ہوگیا۔ میں اپنی ذات سے بھی حق وصول کرلوں گا اور جس معاملے میں ضرورت ہوگی خود بڑھ کر صفائی پیش کروں گا۔ میں تمھارے اندر کا ایک آدمی ہوں، تمھاری بہبود مجھے عزیز ہے، تمھاری خفگی مجھ پر گراں ہے اور جو امانت میرے سپرد کی گئی ہے مجھے اس کی جواب دہی کرنی ہے‘‘۔

خلافت ِ راشدہ کی یہی دستوری نوعیت ہے جس کی وجہ سے امیر کو بیت المال پر بے قید تصرف کا اختیار نہیں۔ وہ اس کو استعمال کرنے کا تو مجاز ہے مگر اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ شریعت کے احکام کے مطابق۔ خلافت ِ راشدہ میں نہ امیرخود اپنے اُوپر بیت المال کی رقم کو  بے محابا خرچ کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کے اُوپر۔ اس اصول کو حضرت عمرؓ نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’میں نے اپنے لیے اللہ کے اس مال کو یتیم کے مال کے درجے پر رکھا ہے۔ اگر میں اس سے مستغنی ہوں گا تو اس کے لینے سے احتراز کروں گا اور اگر حاجت مند ہوں گا تو دستور کے مطابق اس سے اپنی ضرورتیں پوری کروں گا‘‘۔

یہی حال حضرت علیؓ کا تھا جو بیت المال سے بے جا طور پر نہ خود ایک پیسہ لیتے تھے اور   نہ کسی دوست اور رشتہ دار کو دیتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے یہ گوارا کرلیا کہ بہت سے لوگ خواہ ان سے کٹ کر دمشق کے اصحابِ اقتدار سے جاملیں لیکن یہ گوارا نہ کیا کہ کسی کو ایک پائی بھی بغیر حق دے دیں۔

خلافت ِ راشدہ کے دور میں اگر کوئی شخص بیت المال کی کوئی رقم غلط خرچ کرتا تھا تو اس پر سخت کارروائی کی جاتی تھی اور حضرت عمرؓ نے تو حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے جرنیل تک کو ۱۰ہزار درہم غلط طور پر استعمال کرنے کے جرم میں معزول کردیا تھا۔

یہ ساری بحث ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ تھی کہ حکومت شخصی نہیں دستوری ہے، اور دستورعمل کی حیثیت خدا کی نازل کردہ شریعت کو حاصل ہے جس کی اطاعت امیرومامور سب کو کرنی ہے اور جس کی اطاعت سے انحراف کے بعد کوئی طاقت باقی نہیں رہتی ہے۔ اس اصول نے آمریت کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، اور قانون کی حکمرانی کے اس دور کا آغا ز کیا جس کا اصول یہ تھا کہ ’’خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدؐبھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ قلم کردیا جائے گا‘‘۔

شورائی اور جمھوری نظام

خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد یہ تھی کہ اس کا پورا نظام شورائی اور جمہوری تھا۔ اسلام میں شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نبی اکرمؐ سے فرماتا ہے:

وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (اٰل عمران ۳:۱۵۹) اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا کرو۔

اور ملّت کے نظامِ اجتماعی کے متعلق قرآن کی واضح ہدایت یہ ہے کہ: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ(الشورٰی ۴۲:۳۸) ان کے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں۔

خلافت ِ راشدہ کا نظام اسی نصِ قرآنی کی اساس پر قائم تھا اور حکومت کے ہرشعبے میں مشاورت کی اسپرٹ کارفرما تھی:

ا- خلیفہ کا انتخاب باہم مشورے سے ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کو ثقیفہ بنوساعدہ میں     باہم مشاورت کے بعد منتخب کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کی تجویز پر تمام مسلمانوں نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو  برضا و رغبت اپنا خلیفہ چُنا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عمرؓ کو نامزد کرنے سے پہلے حضرت ابوبکرؓ نے تمام صحابہ ؓ سے مشورہ کیا اور حضرت عمرؓ نے بیعت ِ عام کے بعد اپنے منصب کو سنبھالا۔ حضرت عثمانؓ کے انتخاب میں بھی مدینہ کے ایک ایک فرد سے مشورہ کیا گیا اور مسلمانوں کی راے سے آپ خلیفہ منتخب ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانے کی تجویز دی گئی تو حضرت علیؓ نے صاف کہا: میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوسکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہوسکتی ہے۔ آپؓ نے اسی موقع پر اسلام کے نظامِ انتخاب کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’تمھیں ایسا کرنے کا (یعنی کسی کو خلیفہ بنانے) کا اختیار نہیں ہے۔یہ تو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے جس کو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر خلیفہ بنانا چاہیں گے، وہی خلیفہ ہوگا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے‘‘۔

اس طرح خلافت ِ راشدہ کے دور کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خلافت ایک انتخابی منصب تھا اور مسلمان اپنی آزاد مرضی سے اپنے میں سے بہترین شخص کو اس کام کے لیے منتخب کرتے تھے۔ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہ تھا کہ وہ اُوپر سے اُمت پر مسلط ہوجائے۔ جب مسلمانوں میں قیصروکسریٰ کے اس مکروہ طریقے کا آغاز ہوگیا تو خلافت راشدہ ختم ہوگئی اور ملوکیت کا دور شروع ہوگیا!

ب- خلافت ِ راشدہ میں عمال اور گورنر بھی متعلقہ صوبوں کے لوگوں کے مشوروں سے مقرر کیے جاتے تھے اور اگر کسی مقام کے لوگ کسی شخص کو ناپسند کرتے تھے تو اسے تبدیل کردیا جاتا تھا۔

ج- حکومت کے سارے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے تھے۔ امیر تمام اہم معاملات میں پالیسی بنانے سے پہلے ارباب حل و عقد سے مشورہ کرتا تھا اور ان کے مشورے سے جو پالیسی طے ہوتی تھی اسے نافذ کرتا تھا۔ اس مقصد کے لیے دو ادارے تھے۔ ایک مجلس شوریٰ اور دوسرا مسلمانوں کا اجتماعِ عام۔ بالعموم معاملات مجلس شوریٰ ہی میں طے ہوتے تھے لیکن اگر کسی مسئلے پر بڑی مشاورت کی ضرورت محسوس ہوتی تو عام منادی کر دی جاتی اور مسجد میں جمع ہوکر بحث و تمحیص کے بعد اس مسئلے کو جمعیت مسلمین طے کرلیتی۔

یہ بحث و مشورہ پوری طرح آزادانہ فضا میں ہوتا اور ہرشخص اپنی حقیقی راے کا بے لاگ اظہار کرتا۔ ایک مجلس مشاورت کی افتتاحی تقریر میں حضرت عمرؓ نے صحیح اسلامی پالیسی کو اس طرح بیان فرمایا: ’’میں نے آپ لوگوں کو جس غرض کے لیے تکلیف دی ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مجھ پر آپ کے معاملات کی امانت کا جو بار ڈالا گیا ہے اسے اُٹھانے میں آپ میرے ساتھ شریک ہوں۔ میں آپ ہی کے افراد میں سے ایک فرد ہوں اور آج آپ لوگ وہ ہیںجو حق کا اقرار کرتے ہیں۔ آپ میں سے جس کا جی چاہے میرے ساتھ اتفاق کرے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں‘‘۔

مولانا شبلی نعمانی نے الفاروق میں اس نظامِ مشاورت کی پوری تفصیل دی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خلافت ِ راشدہ کا نظام، شوریٰ کی بنیاد پر قائم تھا۔

د- قانون سازی کا اختیار امیر کو حاصل نہیں تھا۔ اصل قانون قرآن اور سنت ہے لیکن جن چیزوں میں قرآن و سنت خاموش ہیں، امیر کا اجتہاد بھی ایک اجتہاد ہے۔ قانون کا درجہ اسے صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس پر اُمت کے ارباب حل و عقد کا اجماع ہوجائے۔ قانون ساز ادارے (Legislative Organ)کی حیثیت اجماع کو حاصل ہے، امیر کی راے کو نہیں۔  اپنے زمانے میں یہ ایک ایسا انقلابی اقدام تھا کہ ایک عرصے تک تاریخ اس کی اصل اہمیت کو محسوس بھی نہ کرسکی۔ آج جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل وظائف حکومت کی مختلف اداروں میں تقسیم تھی اور اس کے ذریعے نظامِ حکومت میں محاسبہ و توازن کا ایک نظام قائم کیا گیا تھا۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد شوریٰ تھی یہی اسلام کی اصل روح ہے۔ اگر یہ باقی نہ رہے تو پھر خلافت کا نظام بے معنی ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے خلفاے اربعہ کے زمانے میں مناسب ادارے بھی بنائے گئے تھے تاکہ شوریٰ کا اصول عملی طور پر بروے کار آسکے۔ جب خلافت آمریت اور ملوکیت میں بدل گئی تو شوریٰ کا یہ نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ اسلام کے اس شورائی نظام کو اسلامی جمہوریت کہا جاسکتا ہے جس میں جمہور کی راے اور کردار ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طے کردہ حدود کے اندر واقع ہوتا ہے اور ان حدود سے باہر جانے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں۔

ریاست کا فلاحی تصور

خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیاد ریاست کا فلاحی تصور تھا۔ ریاست محض ایک منفی ادارہ نہیں ہے جو محض اندرونی خلفشار اور بیرونی حملہ سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے وجود میں لایاگیاہو، بلکہ معاشری تنظیم کی وہ صورت ہے جس کے ذریعے مثبت طور پر ایک خاص طرزِ زندگی کو ترویج دینے کی منظم سعی و جہد کی جائے۔ اس ادارے کا اصل مقصد نیکی کا فروغ، بدی کا استیصال اور ایک فلاحی معاشرے کا قیام ہے جو انسانوں کی حقیقی ضرورتوں کا اہتمام کرے، اور ان کو مادی اور اخلاقی اعتبار سے اس لائق بنا دے کہ وہ زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار مؤثرانداز میں ادا کرسکیں۔

خلافت ِ راشدہ کا مقصد اجتماعی فلاح کا قیام تھا اور اس سلسلے میں خلافت ِ راشدہ نے تین بنیادی اقدامات کیے:

۱- پہلا اقدام کتاب و سنت کی تعلیم، اور ان کا فروغ اور قیام تھا۔ حضور اکرمؐ نے جب عمرو بن حزمؓ کو یمن کا گورنر بنایا تو ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ حق پر قائم رہیں، جیساکہ اللہ نے حکم دیا ہے، اور لوگوں کو بھلائی کی خوشخبری اور نیکی کا حکم دیں اور لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور ان میں اس کی سمجھ پیدا کریں اور لوگوں کی دل داری کریں یہاں تک کہ لوگ دین کا فہم پیدا کرنے کی طرف مائل ہوجائیں۔

اسی پالیسی پر خلافت ِ راشدہ کے پورے دور میں عمل کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! میں اپنے تمام علاقوں کے عہدے داروں پر تجھ کو گواہ ٹھیراتا ہوں کہ میں نے ان کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ وہ لوگوں کو اِن کے دین اور ان کے نبیؐ کی سنت کی تعلیم دیں‘‘۔

ایک دوسرے خطبے میں آپؓ نے فرمایا: ’’میں نے اِن کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ تم کو تمھارے پروردگار کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کی تعلیم دیں۔

خلفاے اربعہ قیامِ فلاح کے لیے سب سے ضروری اس امر کو سمجھتے تھے کہ لوگوں کو فلاح کا صحیح اور اس کا اصل راستہ بتا دیں اور یہ علم قرآن اور سنت نبویؐ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ان کا مقصد دنیاوی اور اُخروی فلاح تھا اور اس کے حصول کے لیے سب سے پہلی ضرورت قرآن اور سنت کی تعلیم اور تنفیذ تھی۔

۲- دوسری بنیادی چیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، یعنی ریاست تمام اچھی چیزوں کی ترویج کرے، نیکیوں کو پھیلائے، صدقات کو عام کرے اور خیر کی روایت قائم کرے، نیز ان تمام چیزوں کی حوصلہ افزائی کرے جو کسی طرح بھی حسنات کو فروغ دینے والی ہوں۔ اسی طرح ریاست ان تمام چیزوں کو ختم کرے جو بُرائی اور منکر کو پھیلانے والی ہوں اور معاشرے میں کسی قسم کی بھی گندگیوں کو نہ پنپنے دے تاکہ فرد اور ملت دونوں کو صحیح خطوط پر ترقی کرنے کا پورا پورا موقع ملے۔ حکومت کی اس پالیسی کی اساس قرآن کا یہ حکم ہے کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ(اٰل عمران ۳:۱۱۰) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جو انسانیت کی طرف بھیجے گئے ہو، پس نیکیوں کا حکم کرو، برائیوں کو روکو، اور تم مومن ہو‘‘۔

۳- اس سلسلے کی تیسری چیز یہ ہے کہ حکومت عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے، ان پر ظلم و جبر نہ کرے، ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالے جس کے وہ متحمل نہ ہوسکتے ہوں۔ نیز حسنات زندگی کو فروغ دے ، اور اس بات کی کوشش کرے کہ اس کے دائرۂ اثر میں کوئی متنفس بلالحاظ مذہب و ملّت ایسا نہ رہے جو اپنی بنیادی ضرورتیں پوری نہ کر رہا ہو۔

حضرت عمرؓ اس بات کا اہتمام کرتے تھے کہ مجاہدین زیادہ عرصے تک اپنے اہل و عیال سے جدا نہ رہیں، اور کہا کرتے تھے کہ ’’اور تمھارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمھیں تباہی میں نہ ڈالوں اور تم کو سرحدوں میں روکے نہ رکھوں‘‘۔

اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو ایک خط میں حضرت عمرؓ نے لکھا کہ ’’سب سے زیادہ خوش نصیب حاکم اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا خوش حال ہو، اور سب سے بدبخت حاکم وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا بدحال ہو۔ تم خود بھی اپنے آپ کو کج روی سے بچانا تاکہ تمھارے ماتحت کج روی اختیار نہ کریں‘‘۔

اس حقیقت کو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا تھا کہ: ’’ اے اللہ! جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا جائے اور وہ اِن کو مشقت میں ڈالے تو، تو بھی  اِس کو مشقت میں ڈال۔ اور جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا تو، تو بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر‘‘۔

خلافت ِ راشدہ کی تمام پالیسیوں میں لوگوں تک حسنات زندگی پہنچانے اور ضرورت مندوں کی کفالت کرنے کا جذبہ کارفرما تھا، بلکہ حضرت عمرؓ تو فرمایا کرتے تھے کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں  زندہ رہا تو صفاء کے پہاڑوں میں جو چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا ہوگا، اس کو بھی اس مال سے اس کا حصہ پہنچے گا اور اس کے لیے اس کو کوئی زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی‘‘۔ اور یہ کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں اہلِ عراق کی بیوائوں کی خدمت کے لیے زندہ رہ گیا تو ان کو اس حال میں چھوڑ جائوں گا کہ میرے بعد ان کو کسی اور امیر کی مدد کی احتیاج باقی نہ رہے گی‘‘۔

خلافت ِ راشدہ ایک صحیح اور معیاری خادم خلق ریاست تھی اور عوام کی حقیقی فلاح و بہبود اور ان کے لیے آسانیوں کی فراہمی اس کا اصل مقصد تھا اور حکومت کا یہی فلاحی تصور خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیادی خصوصیت تھا۔

حقوق اور آزادیوں کا تحفظ

خلافت ِ راشدہ کی چوتھی بنیاد تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی شخصی اور سیاسی آزادی کی ضمانت تھی۔ حضرت عمرؓ نے حقوق کی ضمانت ان الفاظ میں دی تھی کہ: ’’میں کسی شخص کو اس بات کا موقع نہیں دوں گا کہ وہ کسی کی حق تلفی یا کسی پر زیادتی کرسکے۔ جو شخص ایسا کرے گا میں اس کا ایک گال زمین پر رکھوں گا اور اس کے دوسرے گال پر اپنا پائوں رکھوں گا یہاں تک کہ وہ حق کے آگے جھک جائے‘‘۔

حضرت ابوبکرؓ نے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کا اعلان اس بلیغ انداز میں فرمایاتھا کہ: ’’تمھارے اندر جو بے اثر ہے، وہ میرے نزدیک بااثر ہے یہاں تک کہ میں اس سے چھینا ہوا حق اس کو واپس دلا دوں۔ اور تمھارے اندر جو بااثر ہے وہ میرے نزدیک بے اثر ہے یہاں تک کہ میں اس سے اس حق کو وصول کرلوں جو اس نے غصب کر رکھا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ خلفاے اربعہ نے یہ کام کرکے دکھا دیا۔ جب بھی کسی عامل نے کوئی زیادتی کی، انھوں نے فوراً اس پر مواخذہ کیا اور اس کا تدارک کیا۔

حضرت عمرؓ کا ارشاد تھا کہ: ’’میں اپنے عاملوں کو تمھارے پاس اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ تمھیں ماریں پیٹیں یا تمھارے مالوں کو ناجائز طریقے پر لیں، بلکہ اس لیے بھیجتا ہوں کہ تم کو تمھارا دین سکھائیں اور تمھارے نبی کا طریقہ سکھائیں۔ اگر کسی کے ساتھ اس قسم کی کوئی زیادتی کی گئی ہو تو وہ میرے علم میں لائے۔ اس ذات کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے، میں اس کو زیادتی کرنے والے سے اس کا قصاص ضرور دلائوں گا‘‘۔

اس نظام میں لوگوں کی آزادیوں کا جو لحاظ رکھا جاتا تھا وہ حضرت عمر ؓ کے ان تاریخی الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے جو آپ نے والیِ مصر حضرت عمرو بن عاصؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا، حالانکہ ان کی مائوں نے ان کو آزاد جنا تھا‘‘۔

آپ نے اس بات کی بھی ضمانت دی کہ کسی کو عدل اور قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا:

وَاللّٰہِ لاَ یُوْسَرُ رَجُلٌ فِی الْاِسْلَامِ بِغَیْرِ عَدْلٍ،خدا کی قسم! اسلام میں کوئی شخص بغیر عدل کے قید نہیں کیا جاسکتا۔

حد یہ ہے کہ اس نظام میں اس شخص تک کو آزادی حاصل ہوتی تھی اور اس پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی تھی جو خواہ نظری طور پر حکومت کا باغی ہی کیوں نہ ہو مگر عملاً بغاوت نہ کر رہا ہو۔  حضرت علیؓ نے خوارج کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ: ’’تم کو آزادی حاصل ہے کہ جہاں چاہو رہو، البتہ ہمارے اور تمھارے درمیان یہ قرار داد ہے کہ ناجائز طور پر کسی کا خون نہیں بہائو گے، بدامنی نہیں پھیلائو گے اور کسی پر ظلم نہیں ڈھائو گے۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی بات تم سے سرزد ہوئی تو پھر میں تمھارے خلاف جنگ کا حکم دے دوں گا‘‘۔

اس سے وسیع تر آزادی کا کون سا تصور ہے جو انسان کرسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کی بڑ ی اہم خصوصیت اس کا وہ نظام تھا جس میں آزادی اور حقوقِ انسانی کی کُلّی ضمانت تھی… اور یہ محض ضمانت نہ تھی بلکہ اس ضمانت کے ایک ایک حرف پر پوری راست بازی کے ساتھ عمل ہو رہا تھا۔

تنقید و محاسبہ

خلافت راشدہ کی پانچویں بنیاد اس کا نظامِ تنقید و محاسبہ تھا۔ دنیا کے دوسرے نظام ہاے سیاست میں تنقید کو ایک حق مانا گیا ہے اور سیاسیات کے طالب علم اس امر سے اس طرح واقف ہیں کہ کتنی جدوجہد، کتنی قربانیوں اور کتنی کش مکش کے بعد عوام کا یہ حق دنیاے تہذیب میں تسلیم کیا گیا ہے، لیکن خلافت ِ راشدہ کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں پہلے دن سے تنقید و محاسبے کی فضا قائم تھی۔ ہرشخص نظامِ حکومت پر نگاہ رکھتا تھا، اور جہاں کہیں بھی جو بُرائی دیکھتا تھا، اس کو دُرست کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتا تھا، بلکہ گہری نگاہ سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خلافت ِ راشدہ اور خود آج کے جمہوری نظام میں تنقید و محاسبے کے مقام کے سلسلے میں ایک بڑا باریک لیکن بڑا اہم فرق تھا۔ دوسرے نظاموں میں تنقید زیادہ سے زیادہ عوام کا ایک حق رہی ہے لیکن خلافت ِ راشدہ میں یہ صرف حق ہی نہیں بلکہ ایک فریضہ بھی تھی۔ یہ بات لوگوں کی مرضی پر چھوڑ نہیں دی گئی تھی کہ چاہے محاسبہ کریں اور چاہے نہ کریں، بلکہ ان کو یہ تربیت دی گئی تھی کہ دین کی خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہرمسلمان صحیح طریقے پر تنقید و محاسبہ کرتا رہے اور اگر کوئی شخص اپنے اس فریضے کو ادا نہیں کرتا تو وہ  اس کوتاہی پر اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔

تنقید و محاسبے کی بنیاد خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات میں ہے:

الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ،دین نام ہے خیرخواہی کا، خیرخواہی اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسولؐ کی، مسلمانوں کے قائدین کی اور سب مسلمانوں کی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمھیں لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو، اور بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے حق کی طرف موڑ دو‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ’’اگر برائی کو دیکھو تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دو، اگر اس کی استطاعت نہ رکھتے ہو تو زبان سے اس کے خلاف آواز بلند کرو، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو کم از کم دل میں اس کو بُرا جانو، اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘۔

آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ان میں یہ عیب نہ پیدا ہوجائے کہ اپنے سامنے بُرے اعمال ہوتے دیکھیں اور انھیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر اللہ عام اور خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘۔

خلافت ِ راشدہ کے نظام کی بنیاد زبانِ رسالت مآبؐ سے نکلی ہوئی انھی ہدایات پر تھی۔  اس نظام میں معاشرے کا ضمیر بیدار تھا اور فضا صحت مند تنقید اور مخلصانہ محاسبے سے معمور تھی اور    یہ مقدس ذمہ داری ایک طرف کسی مداہنت کے بغیر انجام دی جاتی تھی تو دوسری طرف اس کو ان حدود میں رکھا جاتا تھا جو بدنظمی، انتشار، افتراق اور انارکی کے فساد سے معاشرے اور ریاست کو محفوظ رکھیں۔

حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد جو تاریخی خطبہ دیا اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے: ’’اے لوگو! میں اس جگہ اس لیے مقرر نہیں کیا گیا ہوں کہ تم سے برتر بن کے رہوں۔ میری خواہش تو یہ تھی کہ کوئی اور اس جگہ کو سنبھالتا، میں تمھارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں۔ جب تم دیکھو کہ میں سیدھے راستے پر چل رہا ہوں تو میری پیروی کرو۔ اور اگر دیکھو کہ میں راستی سے ہٹ گیا ہوں تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔

حضرت عمرؓ نے خلافت کا بار اُٹھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’اے لوگو! تم نفس کے مقابلے میں میری مدد اس طرح کرسکتے ہو کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو۔ نیز خدا نے تمھاری جو   ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے اس کے بارے میں میری خیرخواہی اور مجھے نصیحت کرتے رہو‘‘۔

دورِ خلافت راشدہ میں امیرالمومنین ہر جمعہ کو پبلک سے خطاب کرتا تھا۔ جمعہ کے خطبے میں اپنی پالیسی بیان کرتا تھا ۔ اپنے کو خود پبلک کے سامنے پیش کرتا تھا اور پبلک کو پورا پورا موقع دیتا تھا کہ وہ اس پر تنقید کرے، اس سے اختلاف کرے، اس کے سامنے شکایت پیش کرے۔ مختصراً یہ کہ وہ اپنی پالیسی پر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت ِ راشدہ میں خطبۂ جمعہ دینی عبادت کے ساتھ ایک سیاسی ادارہ تھا اور اس کی حیثیت بحث و مباحثے اور افہام و تفہیم کے  ایک پلیٹ فارم کی بھی تھی۔

حضرت عمرؓ کے مزاج کی سختی کے متعلق تو ہرشخص بہت کچھ جانتا ہے لیکن دورِ خلافت راشدہ کے طالب علم کی نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں کہ سب کو آپ تنقید و محاسبے کی دعوت دیتے اور اسے صبروسکون سے برداشت کرتے بلکہ اس تنقید سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے میں بھی ان سے بڑھ کر کوئی نہ تھا۔ انھوں نے کبھی بھی لوگوں کو اس حق سے کسی درجے میں بھی محروم کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جو پوزیشن انھوں نے اختیار کی وہ ایک ایسی اعلیٰ مثال ہے جو انسانوں کے لیے ہمیشہ روشنی کا مینار رہے گی۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ مسجد سے نکلے، چند قدم چلے ہوں گے کہ ایک خاتون (خولہ بنت حکیم) دوسری طرف سے آئیں۔ آپ نے ان کو سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیا اور فوراً برس پڑیں: ’’عمر ؓ! تمھارے حال پر افسوس ہے، میں نے تمھارا وہ زمانہ دیکھا ہے کہ تم عمیرعمیر کہلاتے تھے اور لٹھیا لیے دن بھر عکاظ میں بکریاں چراتے تھے۔ اس کے بعد میں نے تمھارا وہ زمانہ بھی دیکھا جب تم عمر کہلانے لگے اور اب یہ زمانہ ہے کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ امیرالمومنین بنے پھررہے ہو۔ رعایا کے معاملے میں خدا سے ڈرو اور اس بات کو یاد رکھو کہ جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا وہ آخرت کے عالم کو بالکل اپنے آپ سے قریب پائے گا اور جس کو موت کا ڈر ہوگا وہ ہمیشہ  اس فکر میں رہے گا کہ خدا کی دی ہوئی فرصت رائیگاں نہ ہونے پائے‘‘۔حضرت عمرؓ نے ان کی تقریر کو بڑے غور سے سنا اور جن صحابہ نے ان کی سختی کی شکایت کی ، ان کو خاموش کردیا۔

اسی طرح ایک اور شخص نے حضرت عمرؓ کو سختی سے ٹوکا اور آپ سے کہا: ’’اے عمر! اللہ سے ڈر! اللہ سے ڈر! (اور اس جملہ کو تین بار کہا)، ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اب بس بھی کرو، بہت ہوچکا تو حضرت عمرؓنے یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے: ’’ان کو کہنے دو، اگر یہ ہم کو یہ باتیں نہ کہیں تو ان میں کوئی خوبی نہیں، اور اگر ہم ان کی ان نصیحتوں کو قبول نہ کریں تو ہم میں کوئی خوبی نہیں‘‘۔

خدا کی قسم! یہ الفاظ انسانی آزادی اور حق تنقید و محاسبے کا سب سے بڑا چارٹر ہیں، اور خلافت ِ راشدہ کا نظام اس تنقید و محاسبے کی بنیاد پر قائم تھا۔ اسی کی وجہ سے حکومت راہِ حق پر قائم رہتی تھی اور ہرکجی سے محفوظ رہتی تھی۔ استحکام اور ترقی کے لیے اس سے بڑی ضمانت اور کون سی ہوسکتی ہے؟

پارٹیاں اور پارٹی پرستی

خلافت ِ راشدہ کی ایک اور بنیادی خصوصیت پارٹی پرستی سے کامل احتراز تھا۔ سیاسیات کا یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ معاملات کی انجام دہی میں نمایندگی (representation) کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں بلاواسطہ رابطہ قائم کرنا ممکن نہ ہو۔ یونان کی شہری حکومت میں کسی نمایندہ اسمبلی کا وجود نہ تھا۔ اس لیے کہ وہاں پوری شہری آبادی ایک اسمبلی کی حیثیت رکھتی تھی اور جب بھی حکومت کو مشورے کی ضرورت پیش آتی تمام لوگوں کو جمع کیا جاتا اور اسی اجتماع میں فیصلہ کرلیا جاتا۔ جب ہیئت ِ اجتماعی وسیع ہوا تو بلاواسطہ جمہوریت کے مقابلے میں نمایندہ جمہوریت کا ظہور ہوا۔ اور اس نمایندگی کے نظام میں نمایندوں کو شہریوں کی راے اور ان کی مرضیات کا حقیقی نمایندہ بنانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کا نظام وضع کیا گیا۔ اس لیے کہ اگر عوام کے نمایندوں کو ان کے نظریات کا نمایندہ ہونا چاہیے تو ضروری ہے کہ پروگرام اور پارٹی کی ذمہ داری کا نظام موجود ہو۔

اس پارٹی کے نظام نے جہاں بہت سی حقیقی ضرورتوں کو پورا کیا، نیز جہاں وسیع و عریض ممالک اور لاکھوں اور کروڑوں کی آبادی میں اس کا قیام ناگزیر ہوگیا ،وہیں اس میں ایک بڑی خرابی بھی رونما ہوئی اور وہ پارٹی پرستی، یعنی پارٹی کو حق و باطل کا معیار جان لینا، اصول اور اقدار کی بالادستی سے صرفِ نظر اور اپنے ضمیر کی آواز کے مقابلے میں محض پارٹی کی موافقت کے جذبات سے کام کرنا۔

دورِ خلافت ِ راشدہ میں ہمیں یہ اہم چیز نظر آتی ہے کہ اس میں اپنے دور کے قبائل، برادریوں اور مشترک اجتماعی وجود رکھنے والے گروہوں کو ختم نہیں کیا گیا لیکن پارٹی بازی اور خاندانی، قبائلی یا گروہی مفادات کو حق و باطل کا معیار ماننے کا اصول بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکا گیا۔ گروہ اور احزاب اس لیے تھیں کہ لوگ ایک دوسرے کو جانیں، اجتماعی نظام زیادہ آسانی سے کام کرسکے۔ ہرشخص کی راے معلوم کرنے کے بجاے ایک گروہ اور پارٹی کے قائدین کی راے معلوم کرلی جائے اور اس طرح اس پورے گروہ کے نقطۂ نظر سے آگاہی حاصل کرلی جائے لیکن تربیت اور تعلیم کے ذریعے سے لوگوں میں پارٹی کی عصبیت کو، پارٹی بازی اور پارٹی پرستی کو ختم کیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ  خلافت ِ راشدہ نے کسی جبروتشدد کے بغیر، غلط احساسات کو زیادہ سے زیادہ دبا دیا، اور پارٹی پرستی کے فتنے کو اخلاقی سنوار کے ذریعے ختم کر دیا۔

دورِ خلافت راشدہ میں سب سے پہلے تو مہاجرین اور انصار کے دو گروہ تھے اور ان کے سربراہ اپنی پارٹی کے نمایندوں کی حیثیت سے امورِ سلطنت میں تعاون کرتے تھے۔ پھر خود انصار کے دو اہم قبیلے اوس اور خزرج کی شکل رکھتے تھے اور جس شخص نے بھی ثقیفہ بنوساعدہ کی بحثوں کا مطالعہ کیا ہے وہ ان کے سیاسی وجود اور اس کی اہمیت کو اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے۔ اسی طرح مہاجرین میں کم از کم تین نمایاں پارٹیاں نظر آتی ہیں۔ بنواُمیہ، بنوزہرہ اور بنوہاشم۔۱؎

حضرت ابوبکرؓ نے ثقیفہ بنوساعدہ میں اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ امیرمہاجرین میں سے ہوگا اور انصار ان کے وزیر ہوں گے۔ خلفاے اربعہ نے مناصب کی تقسیم کے سلسلے میں اس بات کا پورا لحاظ رکھا کہ مختلف گروہوں میں سے اہل لوگوں کو مناصب دیے جائیں اور اس طرح ہرپارٹی کو نمایندگی ملتی رہے اور شکررنجی نہ پیدا ہو۔

حضرت عمر ؓ نے پارٹیوں کو ختم نہیں کیا، صرف پارٹی پرستی سے لوگوں کو منع کیا۔ ان کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کی شریعت کو قائم نہیں کرسکتا وہ شخص جو حق کے معاملے میں اپنی پارٹی کی ناانصافیوں کو گوارا کرنے والا ہو۔ ولا یکظم فی الحق علٰی حِزْبِہٖ، یہاں ضرب حزب کے وجود پر نہیں پارٹی کی ایسی پرستش پر ہے کہ حق و ناحق کا اختیار ہی ختم ہوجائے۲؎، اور غالباً یہی خود قرآن پاک کے اس ارشاد کا بھی منشا ہے کہ

ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۳) ، لوگو! ہم نے   تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ

۱-            مولانا امین احسن اصلاحی اپنی کتاب اسلامی ریاست، شہریت کے حقوق و فرائض (۴) میں تحریر فرماتے ہیں: انصار اور مہاجرین کی ان دو پارٹیوں کے علاوہ خود مہاجرین کے اندر تین نمایاں پارٹیاں موجود تھیں۔ lبنواُمیہ کی پارٹی عثمان غنیؓ کی قیادت میں، lبنوزہرہ کی پارٹی سعد اور عبدالرحمن    بن عوفؓ کی سرکردگی میں، lبنوہاشم کی پارٹی حضرت علیؓ اور عباسؓ ابن عبدالمطلب کی رہنمائی میں۔ اور ان میں سے بعض کا اختلاف حکومت کے ساتھ کھلا ہوا تھا لیکن حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی حکومت نے انتہائی رواداری کے ساتھ اس اختلاف کو انگیز کیا۔ یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر کئی مہینے تک بیعت نہیں کی۔ (ص ۳۲)

۲-            خود خوارج کے سلسلے میں جو پالیسی حضرت علیؓ نے اختیار فرمائی وہ بھی اسی مسلک پر روشنی ڈالتی ہے۔ خوارج کی حیثیت ایک متشدد حزب اختلاف کی تھی مگر آپؓ نے ان کو تحریر فرمایا کہ جب تک تم بدامنی نہیں پھیلاتے اور کشت و خون نہیں کرتے ہم تم سے تعرض نہیں کریں گے اور تمھیں اجازت ہوگی کہ جہاں چاہے رہو۔

ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ نیکوکار اور پرہیزگار ہے۔

یہاں نہ صرف یہ کہ ’شعوب‘ اور ’قبائل‘کے وجود کو ختم کرنے کی طرف کوئی اشارہ نہیں بلکہ اس کی ایک اہم ضرورت اور افادیت بیان کی گئی ہے۔ یعنی لتعارفوا،تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، امتیازات کو محسوس کرسکو، لیکن ساتھ ہی قبائل پرستی، گروہ پرستی اور قوم پرستی کی جڑ یہ کہہ کر کاٹ ڈالی گئی ہے کہ لتعارفوا کی حد سے آگے نہ بڑھنا کیوں کہ اسلام کی نگاہ میں حق اور شرف کا معیار قوم، قبیلہ اور گروہ نہیں ہیں بلکہ تقویٰ ہے۔

یہی اصول پارٹیوں کے سلسلے میں خلافت ِ راشدہ نے اختیار کیا، یعنی پارٹیوں کے وجود کو ختم نہیں کیا گیا صرف پارٹی پرستی کو ختم کیاگیا ۔ حق کا معیار سب کے لیے قرآن اور سنت نبویؐ قرار پایا اور ہر ایک نے اسی سے استدلال کیا۔ باقی نقطۂ نظر اور دوسرے اختلافات کی پہچان کے لیے پارٹیاں موجود رہیں اور نظامِ خلافت کو صحت مند بنیادوں پر ترقی دینے میں ممدومعاون ثابت ہوتی رہیں۔

معیارِ قیادت

خلافت ِ راشدہ کی آخری خصوصیت امیر کا ایک خاص کردار ہے جسے اچھی طرح سمجھے بغیر اس دور کی تصویر مکمل نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کا امیر ان کا بہترین شخص ہوتا تھا۔ فہم و تدبیر ، اور تقویٰ اور صلاحیت کار میں سب پر فوقیت رکھتا تھا اور اس کے ہر کام کا محرک خدا کا خوف اور اُمت کی فلاح تھا۔

حضرت ابوبکرؓ کا کیا عالم تھا۔ اس کا ذکر حضرت علیؓ کی زبان سے سنیے: یہ تقریر حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے آپ کی وفات کے وقت کی تھی: اے ابوبکر! اللہ تم پر رحم کرے، واللہ! تم پہلے آدمی تھے جس نے رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا، ایمان و اخلاص میں تمھارا ہم پلّہ کوئی نہ تھا۔خلوص و محبت میں تم سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ اخلاق و قربانی، ایثار و بزرگی میں تمھارا کوئی ثانی نہ تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کی جو خدمت تم نے کی اور رسولؐ اللہ کی رفاقت میں جس طرح ثابت قدم رہے اس کا بدلہ اللہ ہی تمھیں دے…واللہ تم اسلام کے حصن حصین تھے۔ کافروں کے لیے تمھارا وجود انتہائی اذیت بخش تھا۔ تمھاری کوئی دلیل وزن سے خالی نہ ہوتی تھی اور تمھاری بصیرت فہم و کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ تمھاری سرشت میں کمزوری کا ذرا سا بھی دخل نہ تھا۔    تم ایک پہاڑ کی مانند تھے جسے تند و تیز آندھیاں بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتیں۔ اگرچہ تم جسمانی لحاظ سے کمزور تھے لیکن دینی لحاظ سے جو قوت تم کو حاصل تھی اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تم دنیا والوں کی نظر وں میں واقعی ایک جلیل القدر انسان تھے اور مومنوں کی نگاہوں میں انتہائی رفیع الشان شخصیت کے مالک، لالچ اور نفسانی خواہشات تمھارے پاس نہ پھٹکتی تھی۔ ہر کمزور انسان تمھارے نزدیک اس وقت تک قوی تھا اور ہر قوی انسان اس وقت تک کمزور تھا جب تک تم قوی سے کمزور کا حق لے کر نہ دلوا دیتے تھے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمھارے اجر سے محروم نہ رکھے اور ہمیں تمھارے بعد بے یارومددگار نہ چھوڑدے بلکہ ہمارے سہارے کے لیے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کردے‘‘۔

حضرت ابوبکرؓ میں ذمہ داری کا احساس اتنا تھا کہ گھنٹوں رویا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کاش! میں پتھر ہوتا مگر امارت کے اس بار سے آزاد ہوتا۔ شخصی سیرت کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی پر زیادتی نہ کی، کبھی کسی کو دُکھ نہ پہنچایا اور حق کی راہ میں کبھی کوئی کمزوری نہ دکھائی۔ خدمت خلق کا یہ عالم تھا کہ خلافت سے پہلے محلے کی جن بیوائوں کا سودا لا کر دیتے تھے اور جن کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے خلافت کے بعد بھی اس کام کو اسی طرح جاری رکھا۔ دن کو امورِ خلافت کی دیکھ بھال اور رات کو عبادت کا اہتمام ان کا روزمرہ کا شعار تھا۔ ہمہ وقتی خدمت کے باوجود کوئی معاوضہ لینے پر تیار نہ ہوتے تھے اور بہ مشکل تیار ہوئے تو بھی وفات کے وقت ساری رقم اپنا مکان بیچ کر ادا کردی۔

یہ تھی خلیفۂ اوّل کی سیرت! اسی لیے آپؓ کی وفات پر حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ:     ’’اے خلیفۂ رسولؐ اللہ! تمھاری وفات نے قوم کو سخت مصیبت اور مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے، ہم تو تمھاری گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے، تمھارے مرتبے کو کس طرح پاسکتے ہیں؟

حضرت عمرؓ جب خلیفہ ہوئے تو حضرت علیؓ نے ان کو یہ نصیحت کی تھی کہ ’’اگر آپ اپنے پیش رو کی جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو قمیص میں پیوند لگا لیجیے، تہمد اُونچی کیجیے، جوتے اپنے ہاتھ سے گانٹھ لیجیے، جرابوں میں پیوند لگا لیجیے، ارمان کم کیجیے اور بھوک سے کم کھایئے‘‘۔

حضرت عمرؓ اس معیار پر سختی سے قائم رہے کہ اس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ حضرت عمرؓ کسی کرّوفر کے قائل نہ تھے۔ زمین پر سوتے، پیدل پھرتے، اپنے اُونٹ کی نکیل تھام کر خود چلتے اور اپنے غلام کو آرام کرنے کے لیے اُونٹ پر بٹھا دیتے۔ اپنے کپڑے خود دھوتے اور کپڑے اتنے کم تھے کہ ایک مرتبہ مسجد وقت پر اس لیے نہیں آسکے کہ کوئی دوسرا جوڑا نہ تھا اور آپ اپنی قمیص دھو کر سُکھا رہے تھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ سفرشام کے دوران میں ایک جگہ راستے میں پانی عبور کرنا پڑا تو بے تکلف اُونٹ سے اُترے، چرمی موزے ہاتھ میں لیے اور اُونٹ کی نکیل تھام کر پانی میں گھس گئے۔ فوج کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہؓ ساتھ تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ آپ کی اس بات کو دیکھ کر بڑا تعجب کریں گے، تو آپؓ نے فرمایا: ا ے ابوعبیدہؓ! کاش یہ بات تمھارے سوا کوئی اور کہتا۔ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ہم سب سے زیادہ ذلیل تھے، ہم سب سے زیادہ حقیر تھے اور ہم سے زیادہ کم تعداد کوئی اور قوم دنیا میں نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام کے ذریعے عزت دی۔ یاد رکھو! اگر تم اسلام کی بخشی ہوئی عزت کے سوا کوئی اور صورت عزت کی حاصل کرنا چاہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ذلیل کردے گا‘‘۔

تقویٰ کا یہ حال تھا کہ دن بھر عوام کی خدمت میں اور اُمورِ سلطنت کی انجام دہی میں سرگرداں رہتے اور رات بھر عبادت کرتے اور کہتے کہ اگر میں دن کو غافل ہوجائوں تو اُمت تباہ ہوجائے اور اگر رات کو غافل ہوجائوں تو میں تباہ ہوجائوں۔ بیت المال سے بقدر کفالت لیتے اور اگر اپنے بچوں کے پاس بھی کوئی غیرمعمولی چیز دیکھ لیتے تو اس کو فوراً بیت المال میں داخل کرادیتے۔ قحط کے زمانے میں خود گوشت اور گیہوں کھانا ترک کردیا اور فرمایا کہ جب تک میں  خود وہی تکلیف نہ اُٹھائوں جو عوام اُٹھا رہے ہیں، مجھے اِن کی مصیبت کا صحیح اندازہ کیسے ہوسکتا ہے۔ بیت المال کی چیزوں کی ایسی نگرانی کرتے تھے کہ ایک ہبّہ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جاسکتا تھا۔ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوئی رعایت نہ کرتے تھے اور ایک مرتبہ جب ان کی بیٹی نے اہل و عیال کو آرام پہنچانے کے لیے کہا تو فرمایا کہ اے بیٹی! تو نے اپنی قوم کے ساتھ تو خیرخواہی کی لیکن اپنے باپ کے ساتھ بدخواہی کی ہے۔ میرے اہل و عیال کا حق میری جان اور میرے مال میں ہے لیکن میرے دین اور میری امانت کے اندر انھیں دخل انداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ایک مرتبہ بیت المال کا ایک اُونٹ کھو گیا تو آپ دھوپ میں مارے مارے پھرے تاکہ اس کو ڈھونڈھ لائیں۔ حضرت علیؓ نے یہ حال دیکھا تو بے ساختہ کہا: قَدْ أَتْعَبْتَ الْخُلَفَائَ بَعْدَکَ، ’’آپ نے اپنے بعد آنے والوں کو تھکا دیا‘‘۔

حضرت عمرؓ گلیوں میں پھرتے تھے کہ کوئی مستحق حکومت کی مدد سے محروم نہ رہ جائے اور اگر کسی کی مصیبت کا کوئی واقعہ سامنے آتا تو کانپ اُٹھتے۔ خود سامان اُٹھا کر لاتے، کھانا پکا کر کھلاتے اور کیا کیا کچھ نہ کرتے!

اور اس سب کے بعد بھی آخیر عمر میں کہا کرتے تھے کہ اگر برابر سرابر چھوٹ جائوں، نہ انعام ہی پائوں اور نہ ہی سزا کا مستحق ٹھیرایا جائوں تو بڑی بات ہے۔

حضرت عثمانؓ کا حال بھی یہ تھا کہ اپنا مال اور اپنی دولت دین اور اہلِ دین کی ضرورتوں کے لیے وقف کر رکھی تھی اور اُمت کی بہبود کی خاطر اپنا آرام تج دیا تھا، حتیٰ کہ قوم کو فتنے سے بچانے کے لیے اپنی جان تک قربان کردی۔

یہی عالم حضرت علیؓ کا تھا کہ ان کی زندگی میں کوئی کھوٹ نظر نہیں آتا اور وہ اپنی ہرصلاحیت اور اپنی طاقت کی ہر رمق اُمت کی بہبود کے لیے وقف کردیتے ہیں اور اپنی ذات کے لیے معمولی سے معمولی چیز بھی نہیں لیتے۔

خلفاے راشدینؓ نے اپنی ذاتی سیرت اور خدمت دین و مسلمین کے ذریعے اُمت کا اعتماد حاصل کیا اور اس دور کی جو بھی خوبیاں نظر آتی ہیں ان کے فروغ میں انسانیت کے انھی بہترین نمونوں کا بڑا دخل ہے۔ خلافت ِ راشدہ کا مزاج اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دین کے بے لوث خادم اس نظام کو چلائیں جبھی وہ کامیاب ہوسکتے ہیں، اور جب یہ نظام قائم ہوجاتاہے تو زمین اپنے خزانے اُگل دیتی ہے اور آسمان اپنی نعمتیں برسانے لگتا ہے ، اور دنیا خیروصلاح سے بھر جاتی ہے۔

اُمت مسلمہ نہ انگلستان کا نظام چاہتی ہے نہ روس کا، نہ امریکا کے طریقوں سے اسے   دل چسپی ہے نہ فرانس کے۔بلاشبہہ اپنے زمانے اور اپنی ضرورتوں کے مطابق ان کو اختیار ہے کہ سیاسی اور اداراتی دروبست کا اہتمام کریں، لیکن اصولِ اقدار اور معیار کے باب میں وہ تو خلافت راشدہ کے اصولوں کا احیا چاہتی ہے اور ہراس پیکر کو پسند کرے گی جو ان اصولوں کو ٹھیک ٹھیک قائم کرسکے    ؎

اقبال لکھنؤ سے نہ دلّی سے ہے غرض

ہم تو اسیر ہیں خم زلفِ کمال کے