پروفیسر خورشید احمد


۱۴؍اپریل ۲۰۱۰ء میں سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ابھی راستہ ہی میں تھا کہ موبائل فون سے ’مختصر پیغام‘ پڑھ کر دل سے ایک آہ نکلی___ اسرار بھائی ایک عالم کو سوگوار چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

’مختصر پیغام‘ بھیجنے والے نے ڈاکٹر اسرار احمد کی حرکت ِ قلب کے بند ہونے سے انتقال کی خبر اور نمازِ جنازہ میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے آخری دیدار اور نمازِجنازہ میں شرکت سے محروم رہا، لیکن دل کی گہرائیوں سے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعائیں کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر بھر کی مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے، بشری لغزشوں سے عفوودرگزر فرمائے، ان کی قبر کو گوشۂ فردوس بنادے اور ابدی زندگی میں ان کو جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے نوازے، آمین، ثم آمین!

اسلامی جمعیت طلبہ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سب سے اہم زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور اہداف کا شعور اور رب کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے کا عزم، شوق، کوشش اور دین حق کی شہادت اور اس کے قیام کی جدوجہد کے لیے زندگی کو وقف کرنے کا عہد ہے۔ تاہم عام لوگوں کی نظر میں بظاہر ایک معمولی اور حقیقت میں بڑا ہی قیمتی احسان یہ بھی ہے، کہ اس کی آغوش میں شعور کی منزلیں طے کرنے والے ایک ایسے رشتۂ اخوت میں جڑ جاتے ہیں، جسے زمانے کی کروٹیں اور اختلافات کے طوفان بھی کمزور نہیں کرپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد ایک عالمِ دین، ایک داعیِ خیر، ایک معتبر شخصیت ہونے کے ساتھ’ڈاکٹر اسرار‘ ہی ہوں گے، لیکن میرے لیے اور جمعیت کی پوری برادری کے لیے        وہ اوّل و آخر اسرار بھائی تھے، ہیں اور رہیں گے  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

میری اور اسرار بھائی کی پہلی ملاقات ۱۹۵۰ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سالانہ اجتماع منعقدہ لاہور میں ہوئی۔ میں جمعیت کا نیا نیا رکن بنا تھا اور ساتھ ہی کراچی جمعیت کی نظامت کا بار ڈال دیا گیا تھا۔ اسراربھائی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے غالباً پہلے سال میں تھے۔ برادرم ظفراللہ خان جمعیت کے ناظم اعلیٰ تھے اور ہماری سرگرمیوں کا گہوارا محترم نصراللہ خان عزیز صاحب کا گھر تھا۔ اس ملاقات میں جن تین ساتھیوں نے بہت متاثر کیا ان میں نسیم بھائی، اسراربھائی اور مسلم سرحدی نمایاں تھے۔ اخوت کا جورشتہ اس موقع پر قائم ہوا، اس نے ساری عمر ہم کو ایک دوسرے کے لیے اسراربھائی اور خورشید بھائی ہی رکھا___ اگرچہ ۶۰سال کے اس طویل عرصے میں اتفاق اور اختلاف، قربت اور عدمِ ارتباط کے شیریں اور تلخ لمحات سفینۂ حیات کو ہچکولے دیتے رہے۔ جمعیت میں ہم نے چار سال ساتھ گزارے۔ ۱۹۵۰ء میں نسیم بھائی ناظم اعلیٰ بنے، ۱۹۵۱ء میں خرم بھائی، ۱۹۵۲ء میں اسرار بھائی، اور ۱۹۵۳ء میں یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ پھر جماعت اسلامی میں بھی ہمارا ساتھ رہا۔ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں میرے اور ان کے موقف میں بڑا فرق تھا، لیکن ذاتی محبت کا وہ رشتہ جو ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا وہ کبھی نہ ٹوٹا: الْحَمْدُلِلّٰہ عَلٰی ذٰلِکَ۔

اسرار بھائی اور مَیں ایک ہی سال اس دنیا میں آئے۔ وہ جمعیت میں میرے سینیر رہے۔ تقسیم سے قبل اسرار بھائی رہتک، ہریانہ میں ابتدائی تعلیم اور تحریکِ پاکستان میں شرکت کے مراحل سے گزرے۔ میں نے دہلی میں آنکھیں کھولیں اور وہاں تحریکِ پاکستان میں بھرپور شرکت کی۔ ہمارے یہ ابتدائی تجربات زندگی کے رُخ کو متاثر کرنے کا ذریعہ بنے لیکن اصل فیصلہ کن دور، اسلامی جمعیت طلبہ میں گزارے ہوئے چند سال ہی رہے۔ پہلے دن سے اسرار بھائی کی خطابت اور خوداعتمادی کا نقش دل پر ثبت ہوگیا۔

اللہ تعالیٰ نے اسرار بھائی کو دل و دماغ کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ علمی، دعوتی اور تنظیمی، تینوں اعتبار سے وہ منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ قرآن سے شغف اور زبان و بیان پر قدرت کے باب میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ بے پناہ خوداعتمادی کے حامل تھے جو کبھی کبھی   شدتِ اظہار میں غلط فہمی کا باعث بھی ہوجاتی تھی اور قائدانہ صلاحیت جو ان کو نمبر ایک پوزیشن سے کم پر ٹھیرنے نہیں دیتی تھی، ان کے مزاج اور کردار کی امتیازی شان تھے۔

وہ ایک اچھے اور مہربان ڈاکٹر تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے طبّی علاج معالجے سے کہیں بڑا کام لینا تھا۔ علامہ اقبال، مولانا مودودی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کی فکر اور شخصیت کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔ دین کا جامع تصور ان کے رگ و پے میں سماگیا تھا۔ پھر اپنی محنت اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فیضان سے انھوں نے قرآن کریم کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ اسلامی انقلاب کے طریق کار کے بارے میں انھوں نے مولانا مودودی کے تجزیے اور عملی جدوجہد سے اختلاف کیا، لیکن یہ حقیقت ہے جماعت سے رشتہ توڑ لینے کے باوجود وہ زندگی کے ہردور میں، اور اپنے آخری لمحے تک اسلام کے انقلابی تصورِ دین کے   علَم بردار رہے۔ اپنے علم اور ادراک کے مطابق پورے خلوص، یکسوئی اور جانفشانی کے ساتھ قرآن کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے اور دین کو غالب قوت بنانے کی جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی جہاد زندگانی میں جاں جانِ آفریں کے سپرد کی۔

اسرار بھائی نے جدید اور قدیم، دونوں علوم سے بھرپور استفادہ کیا اور اس علم کو دعوتِ دین کے لیے بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ ان کی شخصیت کے سب سے اہم پہلو ان کی یکسوئی، خوداعتمادی اور خدمتِ دین کے لیے خطابت تھے۔ قرآن کو انھوں نے اپنا وظیفۂ حیات بنا لیا تھا۔ اس کے پیغام کو گہرائی میں جاکر سمجھا تھا اور جس بات کو حق جانا اس پر نہ صرف خود قائم ہوئے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کے قیام کی منظم جدوجہد میں شریک کیا۔ ان کے درسِ قرآن کے پروگرام ملک اور ملک سے باہر دعوت کا اہم ذریعہ بنے۔ پھر الیکٹرانک میڈیا پر قرآن کے پیغام کو پھیلانے   کے لیے انھوں نے منفرد خدمات انجام دیں۔ بلاشبہہ ان کو اللہ تعالیٰ نے تحریر کی صلاحیت سے بھی نوازا تھا، تاہم ان کی تحریر میں بھی خطابت کی شان نمایاں رہی۔ جو کتابیں انھوں نے جم کر لکھی ہیں،       وہ ہراعتبار سے علمی شاہکار ہیں۔ البتہ ان کے لٹریچر کا بڑا حصہ ان کی تقاریر اور دروسِ قرآن کا مرہونِ منت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں اعلیٰ تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انھوں نے     اسلامی جمعیت طلبہ، انجمن خدام القرآن، تنظیم اسلامی اور عالمی تحریکِ خلافت کے ذریعے      اپنی بہترین صلاحیتیں دین کی خدمت میں صَرف کیں۔ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام تھا اور بلاشبہہ ان کی شعوری کوششوں کا بھی اس میں بڑا دخل تھا کہ ان کا پورا خاندان دین حق کی خدمت میں ان کا شریکِ سفر تھا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جو چراغ انھوں نے جلائے ہیں وہ ہمیشہ روشن رہیں۔ گذشتہ کئی سال سے ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ میری آخری ملاقات ان سے امریکا میں ہارٹ فورڈ سیمینری میں ہوئی، جہاں مجھے لیکچرز کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان کے حلقے سے چند نوجوانوں کے ذریعے جو میرے لیکچرز میں بھی شریک تھے، ان کے ساتھ ایک شام گزارنے کا موقع ملا۔ پروفیسر ابراہیم ابوربیعہ کے گھر پر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا اور پرانے تعلقات کی تجدید کی۔

اختلافی امور پر بھی ملک میں اور ملک سے باہر بھی بارہا بات ہوئی، لیکن محبت اور اعتماد  کا جو رشتہ ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا تھا، وہ زندگی بھر قائم رہا۔ یہ سب اللہ کا فضلِ خاص اور طریق کار      کے بارے میں اختلاف کے باوجود اصل مقصد کے اشتراک اور باہمی اخوت اور اعتماد کا نتیجہ تھا۔ اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے    ؎

ساز دل چھیڑ کے بھی، توڑ کے بھی دیکھ لیا

اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بلاشبہہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام کی اصطلاح اللہ اور اس کے رسولؐ کے پیغام کی حقیقت کا احاطہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس بات کو بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اسلام کے ساتھ تحریک کے لفظ کا اضافہ کرنے کی جسارت کیوں کی ہے، اور تحریکِ اسلامی سے ہماری کیا مراد ہے؟

دراصل تحریکِ اسلامی کے لفظ سے مراد نہ دین میں کسی چیز کا اضافہ ہے اور نہ کمی، البتہ ہمیں اپنے حالات میں یہ دیکھنا ہے کہ جو پیغام، جو مشن، جو دعوت اور جو نمونہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم کیا ہے، فی زمانہ اس کی زیادہ سے زیادہ حقیقی اور صحیح تفہیم اور پھر اس کا اظہار کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ دورِ رسالت کے ۲۳سال دیکھیے، خواہ مکے کا دور ہو یا مدینے کا، ان میں تسلسل ہے ، یک رنگی ہے۔ حالات کی مناسبت سے کب کس چیز کو زیادہ اہمیت دینی ہے، کون سے طریقے اختیار کرنے ہیں اور کس طریقے سے گریز کرنا ہے، یہ سب اس عمل کا حصہ ہے۔ یہ پوری زندگی ایک مسلسل اور مربوط زندگی ہے، ایک دعوت اور جدوجہد ہے۔

اگر اسے ہم چند الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کریں تو اس میں پہلی چیز ربانیت ہے، یعنی اپنے خالق و مالک اور آقا کوپہچاننا اور دنیا سے کٹ کر اس سے جڑنا۔ اس کی ہدایت اور اپنے خلیفہ اور نائب ہونے کی ذمہ داری جو اس نے بحیثیت انسان ہم پر عائد کی ہے، یہ استخلاف کی حیثیت ہے اور یہ ایک مسلمان کی زندگی کی بنیاد ہے۔ استخلاف کی ذمہ داری ہدایت کے بغیر ادا نہیں ہوسکتی اور ہدایت کا سرچشمہ دو چیزیں ہیں: ایک قرآن، اللہ کی کتاب اور دوسرے: اللہ کے رسولؐ کا اسوہ حسنہ___ یہ وہ ہدایت ہے جو ہمیں استخلاف کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق بناتی ہے۔ لیکن استخلاف کا ہدف ہے کیا؟ یہ بڑا نازک معاملہ ہے کہ اس میں ہمارا اصل مقصود صرف اپنے مالک اور خالق کے احکام کی اطاعت، اس کے ساتھ جڑنا، اس سے محبت، اس کی طرف پلٹنا، اور اس کی رضا اور اس کی خوشنودی کا حصول ہے اور اس کا مظہر جنت ہے جس کا حصول ہماری تمنا اور ہماری آرزو ہے۔

ایک مفکر نے بڑے خوب صورت انداز میں اس بات کو چار نکات کی شکل میں ادا کیا ہے کہ پہلا مرحلہ دنیا سے پہلوتہی کرکے رب کی طرف مراجعت ہے، یعنی مِن الخلق اِلَی اللّٰہ، یعنی دنیا سے اورانسانوں سے رشتے کو کاٹ کر اللہ سے رشتہ قائم کرنا یا صرف اس سے جڑ جانا۔ دوسرا مرحلہ مع اللّٰہ کا ہے، یعنی صبغۃ اللّٰہ کے رنگ میں رنگ جانا۔ صرف اللہ کا ہوجانا تاآنکہ اللہ کی رضا کے طریقوں اور ہمارے طریقِ حیات میں کوئی فرق نہ رہے، یہ مع اللّٰہ ہے۔ لیکن یہ سفر کا اختتام نہیں۔ اس بلندی کو حاصل کرنے کے بعد سب سے اہم سفر کا آغاز ہوتا ہے، یعنی دوبارہ   اللہ کے بن کر دنیا کی تعمیرنو کے ہنگامہ خیز اور پُرخطر راستے کو اختیار کرنا۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ یہی فرق ہے نبیؐ اور صوفی میں۔ صوفی کے معیار کی انتہا یہ ہے کہ وہ اللہ کا قرب پالے۔ گویا اس نور اور معرفت سے اتنا قرب حاصل کرنے کے بعد اس نے سب کچھ پالیا۔ لیکن نبیؐ کا مقام یہ ہے کہ وہ قرب الٰہی کی معراج پر پہنچ کرپھر انسانوں کے درمیان آتا ہے۔ جو روشنی اسے حاصل ہوئی ہے، جو نور اسے حاصل ہوا اور جو ہدایت اسے حاصل ہوئی، اسے انسانوں تک پہنچاتا ہے، اور اس کے ذریعے سے انسانوں کی زندگیوں کو اور پوری کائنات اور پوری تاریخ کو منور کرتا ہے۔

اس بزرگ نے پھر اس تیسرے مرحلے کو من اللّٰہ الی الخلق کے الفاظ میں ادا کیا ہے کہ اللہ کے دروازے پر جانے کے بعد پھر دوبارہ اسے انسانوں کے پاس جانا ہے۔ اسی دنیا میں جانا ہے جو ظلم اور فسق کی دنیا ہے، کفر اور نافرمانی کی دنیا ہے۔ اس دنیا کو تبدیل کرنا ہے۔ اس پیغام کو انسانوں تک پہنچا کر دنیا کی تعمیرنو کرنا ہے۔ ہمارا بھی یہی ہدف ہے لیکن یہ بھی اختتامِ سفر نہیں۔ آخری مرحلہ پھر اللہ کی طرف لوٹنے کا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اب ساری انسانیت کو اپنے ساتھ لے کر اور رب کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے سب کو اللہ کی طرف لے جانا ہے، یعنی مع الخلق الی اللّٰہ۔ اب انسانوں کو ساتھ لے کر اللہ کی طرف چلنا ہے تاکہ اللہ اور اس کے دین کی طرف جانے کا جو بڑا ہدف ہے، یہ زندگی کا ہدف بن جائے۔

بس یہی تحریک کا مفہوم ہے___ اسلام جو ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، اسے تھام کر اللہ سے جڑنا اور اللہ کا ہوجانا، یہ اس کا اوّلین تقاضا ہے۔ اللہ کے اس پیغام کو قبول کرنے کے ساتھ اپنے آپ کو اور دنیا کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی ہدایت انسانوں تک پہنچانے کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ انبیا و رسل ؑبھیجے، لیکن یہ مقام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ جنھیں ہدایت کے ساتھ دین حق دیا گیا، تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردیں:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا o (الفتح ۴۸:۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔

تحریک کے تین دائرے

تحریکِ اسلامی کے تین دائرے ہیں اور ہمیں ان تینوں دائروں کو سامنے رکھنا چاہیے:

پہلے دائرے میں، میری ذات، میرا خاندان، میرے عزیز واقارب، میرے دوست احباب، میرے ساتھی اور میری جماعت ہے۔ بلاشبہہ اگر ہم اپنی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے، اپنی ذاتی زندگی، اپنے وسائل کو اللہ کی راہ میںجھونک نہیں دیتے، تو پھر ہم اپنے دعوے میں سچے نہیں ہیں۔ اپنی اور اپنی تحریک کی اصلاح، مضبوطی، فکرمندی، استحکام ہی ہماری پہلی ذمہ داری ہے۔

دوسرا دائرہ وہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے، ملک اور اُمت مسلمہ کا وہ خطہ کہ جس کا ہم حصہ ہیں، وہاں پر اگر ہم محض تحریکِ اسلامی کے خول میں بند رہتے ہیں اور اپنے معاشرے، اپنے ملک، اپنی دنیا اور اپنی اُمت کی تبدیلی اور اصلاح کی فکر نہیں کرتے تو پھر شاید اپنی بھی حفاظت نہ کرسکیں۔ اس لیے کہ یہ دعوت امربالمعروف ونہی عن المنکر خود ہماری اپنی اصلاح، اپنی استقامت کے لیے ضروری ہے۔

ایک تیسرا دائرہ ہے: پوری انسانیت اور عالمی کش مکش کا۔ چاہے چند افراد ہوں یا     انبوہِ کثیر___ اسی عقیدے، اطاعت، دعوت اور اقامتِ دین کی جدوجہد کا نام اسلام ہے ___  اور تحریکِ اسلامی کی اصطلاح اسی مفہوم کو آج کی زبان میں ادا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ الحمدللہ آج ہم چند افراد نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کا ایک نہایت قابلِ قدر حصہ اس قافلے کا ہمراہی ہے۔لیکن اگر ہم چند ہوں تب بھی ہمیں پوری دنیا کی فکر کرنا ہے۔ ہم اس سے غیرمتعلق نہیں رہ سکتے اور آج کی دنیا پر تو عالم گیریت کا سحر طاری ہے جس میں ہم تنہا نہیں رہ سکتے، ہمیں اس سحر کو توڑنا اور حقائق کی دنیا کو نکھارنا ہے۔

یہ تینوں دائرے ہمارے سامنے رہنے چاہییں۔ ان تینوں کا صحیح صحیح ادراک،اپنے ہدف کا تعین اور اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے صحیح منصوبہ بندی، صحیح حکمت عملی، طریق کار کا تعین، اور پھر سعی و جہد___ یہ دراصل ہمارے کرنے کا کام ہے۔

نظریاتی کش مکش

نظریاتی کش مکش نہ دنیا میں کبھی ختم ہوئی ہے نہ ہوگی۔ مفادات کا تصادم بھی ہوتا ہے اور مادی ذرائع کے حصول کے لیے تصادم بھی ایک حقیقت ہے۔ لیکن انسانیت کی پوری تاریخ میں نظریات کی کش مکش ایک بنیادی حقیقت ہے اور یہ کش مکش روزِاوّل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ سورئہ فاتحہ جس کی تلاوت ہم نماز کی ہر رکعت میں کرتے ہیں، ہمارے سامنے انسانیت کی دو قوتوں کو پیش کرتی ہے:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o (الفاتحہ ۱:۵-۶) ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا جو معتوب نہیں ہوئے،جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔

مراد یہ ہے کہ انعام یافتہ لوگوں اور گمراہوں کے درمیان یہ کش مکش ابدی ہے اور انسانی تاریخ میں جابجا ہمیں اس کا عکس نظر آتا ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔

آج جس عالم گیر کش مکش سے انسانیت گزر رہی ہے میری نگاہ میں اس کے دو بڑے  مثالیے (paradigms) ہیں۔ ایک وہ مثالیہ ہے جس کی بنیاد اللہ سے بغاوت یا اللہ کا انکار، یا کسی شکل میں اللہ کو ماننے کے باوجود اللہ کی ہدایت پر اپنے نفس، اپنی عقل اور اپنے مفادات کا غلبہ منوانے کی جسارت ہے۔ یہ لادینی ماڈل ہے اور سرمایہ داری، اشتراکیت یا فسطائیت کا روپ لیے دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بے شمار شکلیں ہیں اور یہ تہذیبی کش مکش میں ایک منزل اور ماڈل ہے۔

دوسرا ماڈل وہ ہے جس کی صحیح شکل اسلام پیش کرتا ہے، اور جسے تحریکِ اسلامی نے اس دور میں نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایمان اور انکار کی یہ کش مکش روزبروز زیادہ سے زیادہ نکھرتی چلی جارہی ہے۔ اس کش مکش کی بڑی قدروقیمت ہے۔ اس راہ میں ایثار، جدوجہد کے نتیجے میں جو مصائب حق کے غلبے اور وسعت کے لیے برداشت کیے جائیں، وہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس حقیقی کش مکش میں اسلامی تحریک اور اس کے کارکنوں اور خصوصیت سے  ذمہ دار افراد کو یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ دنیوی اعتبار سے اپنے سے بہت زیادہ قوی قوتوں کا وہ کیسے مقابلہ کرسکتی ہے؟ ایک طرف تو ہمیں اللہ کی ذات پر بھروساہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ قوی ہے۔ وہی ہمارا اصل سہارا ہے اور صرف اس کی خوشنودی کی خاطر ہم یہ کام کررہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو خطرات، مشکلات اور حالات ہیں، ان کا پورا پورا ادراک ہو، اور پھر ان حالات ہی میں سے ہم اپنا راستہ نکالیں۔

افغانستان میں اشتراکی روس کی شکست، تاریخ میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا ذریعہ بنی ہے۔ ایران کے انقلاب ۱۹۷۹ء اور اسلامی تحریکات کے وجود اور ان کی جدوجہد کو ہمیں اس عالمی پس منظر میں دیکھنا ہے۔ ہمیں اس چیز کا جائزہ لینا ہے کہ افغانستان کے کامیاب جہاد کے ثمرات سے افغانستان کو، اسلامی تحریکات اور اُمت مسلمہ کو کیونکر محروم کیاگیا۔ اس المیے پر تدبر کی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے، اور پھر اس کی روشنی میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آگے کے مراحل میں ہم یہ کام کس طرح کریں؟

تحریف دین کی کوششوں کا جائزہ

تحریکِ اسلامی نے دین کا جو واضح تصور پیش کیا تھا اور جو عالمِ اسلام میں ایک نئی لہر    اور بیداری کا سبب بنا، آج وہ تصور تنقید کا ہدف بنا ہوا ہے۔ اس تصور پر جہاں ایک طرف مغرب حملہ آور ہے تو دوسری جانب اس کے مقاصد اور اہداف کی عملی خدمت کرنے والوں میں خود مسلمانوں میں سے ایک طرف تجدّد پسند حضرات ہیں تو دوسری طرف نادان دوستوں کا بھی ایک کردار ہے جو حالات کو مزید بگاڑنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔

تحریکِ اسلامی کے لیے پہلا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تصور کی جامعیت، اس کے توازن اور اس کو اس کی اصل روح کے ساتھ پیش کرے، اس کا دفاع کرے، اس کی بالادستی اور برتری کو دنیا پر ثابت کرنے کی سعی و جہدکرے۔ علامہ محمداقبال، مولانا مودودی، حسن البنا شہید، سیدقطب شہید، یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے اپنے اپنے انداز میں دین کے اس تصور کو نکھار کر   اُمت مسلمہ اور دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آج اس تصور کو مختلف انداز میں بگاڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کہیں اس کو پولیٹیکل اسلام (سیاسی اسلام) کہا جاتا ہے اور کہیں صوفی اسلام کو اسلام کا اصل ماڈل قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کہیں اس طریق کار کے اس توازن کو درہم برہم کیا جارہا ہے، جس میںاصلاح اخلاق و کردار، معاشرے کی تعمیر، انقلابِ قیادت، اخلاقی تعلیمات کی تلقین، تعلیم و تربیت اور تبدیلی کے لیے جدوجہد کا واضح نقشۂ کار پیش کیا گیا ہے۔

ہم اس دعوت اور پیغام کے امین ہیں۔ ہمیں خود بھی اس پر اعتماد ہونا چاہیے اور جو کام  سید مودودی علیہ الرحمہ نے اس تصور کو پیش کرنے، اس کی صحت اور اس کی برتری ثابت کرنے   کے لیے کیا اور جس کی وجہ سے واقعہ یہ ہے کہ ۲۰ویںصدی کی دینی سوچ کا رُخ بدل گیا، آج تحریکِ اسلامی کو اس کام کو جاری رکھنا اور وسعت اور گہرائی دونوں کے اعتبار سے آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے علمی و تحقیقی کام، ابلاغ اور ابلاغ کے مؤثر ترین ذرائع اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ہمیں لکیر کا فقیر نہیں ہونا چاہیے۔ ابلاغ کے مؤثر ذرائع کا بہترین استعمال، پہلا چیلنج ہے جو ہمیں قبول کرنا ہے۔ اس کے لیے تحریکِ اسلامی کو مردانِ کار کی تیاری، اداروں کی تقویت، وسائل کی فراہمی اور تقسیم کار کی ضرورت ہے، تاکہ ہرشخص سے ایک ہی کام نہ لیا جائے بلکہ جو ہماری ضرورتیں ہیں، جو اسلام کے تقاضے ہیں اور تحریکِ اسلامی کی کامیابی کے لیے جو کام ضروری ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے پاس ایک نظام ہو، ادارے ہوں، افراد ہوں اور اس کام کو حُسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا جائے۔

تبدیلیِ نظام کی حکمت عملی

دوسری چیز جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریکِ اسلامی نے تبدیلی کا جو طریقہ بتایا ہے، وہ بہت اہم ہے۔ اس میں ایمان، قلب و نظر کی تبدیلی، شخصیت، اخلاق و کردار کی تعمیر، خدمتِ خلق، معاشرے کو ظلم، محکومی و مجبوری اور فسق و فجور سے پاک کرنا، اور پھر انقلابِ قیادت ہے۔ انقلابِ قیادت کے معنی صرف سیاسی قیادت کی تیاری کے نہیں ہیں۔ بلاشبہہ سیاسی قیادت اس کا ایک بڑا اہم پہلو ہے۔ درحقیقت اس سے مراد قیادت کی ہمہ گیر تبدیلی ہے بشمول فکری قیادت، معاشی قیادت، سماجی قیادت، تعلیمی قیادت، غرض زندگی کے ہرشعبے میں تبدیلیِ قیادت ہے۔    نظامِ کار کی تبدیلی کے لیے جو خدا اور اس کے رسولؐ کے متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے حکومت اور ریاست کے وسائل کو حق اور عدل کے قیام، اور اسلامی نظامِ زندگی کے غلبے کے لیے استعمال کرنا بھی ازروے ایمان لازم ہے۔

یہ توازن، یہ طریق کار ازحد ضروری ہے۔ اس کے لیے کوئی شارٹ کٹ یا مختصر راستہ نہیں ہے۔ اس میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ جبر اور قوت کے ذریعے سے نظریات اور اخلاقی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ یہ تحریک اسلامی کی غیرمعمولی خدمت ہے۔ اس معاملے میں اگر ہم نے توازن کو چھوڑ دیا تو ہم اپنے مقصد کے ساتھ بے وفائی کا ارتکاب کریں گے۔ ذمہ دارانِ تحریک کے لیے اس تصور کو زندہ رکھنے اور اس کی برتری کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ احسن طریق کار کی صحت، اس کی کامیابی اور برتری اور اسی کے موثر ہونے پر یقین اور اس پر عمل ناگزیر ہے۔ وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ہی ہمارا طریق کار اور دنیا میں اصلاح اور آخرت میں کامیابی کا راستہ ہے۔

دعوت کے عمل سے غفلت

اس کے ساتھ ساتھ تیسری اہم بات یہ ہے کہ دعوت جو ہمارا سب سے اہم ذریعہ اور ہتھیار ہے، اس کا ہم حق ادا نہیں کر رہے۔ ہم میں ایک قسم کے اطمینان اور قناعت کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے حالانکہ دعوت کے معنی یہ ہیںکہ ہم اللہ کے بندوں تک اللہ کے پیغام کو پہنچانے کے لیے بے چین رہیں۔

اس ضمن میں سب سے پہلی ذمہ داری ہمارا خاندان ہے: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔ پھر ہمارا محلہ ہے اور معاشرہ ہے۔ کیا ہم دیانت داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے گھر کے افراد، اپنے عزیز و اقارب، اہلِ محلہ اور وہ لوگ جن کے ساتھ ہم دفاتر میں کام کر رہے ہیں، یا کہیں بھی جہاں ہمارا لوگوں کا ساتھ ہے، میل جول ہے، ہم ان تک دعوت پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ اس سلسلے میں ہم غفلت اور کوتاہی کا شکار ہیں اور اس کی اصلاح کے بغیر نہ تو ہم تحریک کے ساتھ وفاداری برت سکیں گے اور نہ اللہ کو منہ دکھا سکیں گے۔ سیاسی کام بے حد اہم ہے لیکن وہ بھی ہمارے لیے دعوت کا ذریعہ ہے۔ ہمیں لوگوں تک پہنچنا اور ان تک دعوت پہنچانا ہے۔ ہماری بنیادی دعوت اللہ کی طرف ہے اور اللہ کے دین کی طرف ہے، اور اللہ کے دین کو قائم کرنے والی تحریک کی طرف ہے۔ اس میں کوتاہی یا لاتعلقی کی کوئی وجہ یا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔

اس لیے میرے اور آپ کے وقت کا بڑا حصہ دوسروں تک دین کے پیغام کو پہنچانے، ان کے شکوک دُور کرنے، ان کے سوالوں کا جواب دینے، ان کو خیر کے لیے منظم کرنے اور ان کے دل کو مطمئن کرنے میں صَرف ہونا چاہیے۔ اگر دعوت کے راستے کو اختیار کریں گے تو معاشرے اور سیاست میں تبدیلی واقع ہوگی۔ اگر دعوت کمزور ہوگی تو پھر سیاسی نتائج بھی غیرتسلی بخش ہوں گے۔ اس کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری دعوت ملک کے تمام طبقات جن میں خواص بھی ہیں اور عوام بھی، ان سب تک پہنچنی چاہیے۔ میں یہ بات خاص طور پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ تحریکِ اسلامی کے کارکن ایک قسم کے ذاتی خول کے اسیر بنتے جارہے ہیں، حالانکہ ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ ہماری زندگی دوسروں کے لیے وقف ہو۔ ہم دوسروں کے لیے جئیں اور دوسروں کی خدمت کریں۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوں، ان کی مشکلات کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے غم کو اپنا غم اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھیں۔ یہ کیفیت جب تک پیدا نہیں ہوگی دعوت کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔

کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ وہ خاتون جو محسنِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھاتی تھی، آپؐ نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ جب آپؐ نے یہ دیکھا کہ آپؐ کے راستے میں کانٹے نہیں ہیں، تو کیا آپؐ خود اس کی مزاج پُرسی کے لیے نہیں گئے؟

کیا ہم اس واقعے کوبھول سکتے ہیں کہ مکّی دور میں دن بھر کی محنت اور مشقت کے بعد آپؐ دارارقم میں آرام کے لیے تشریف لاتے ہیں کہ اتنے میں اطلاع آتی ہے کہ ایک نیا قافلہ آیا ہے۔ باوجود اس کے کہ آپؐ تھکے ہوئے ہیں، آپؐ اُٹھ بیٹھتے ہیں کہ مجھے ان تک اللہ کے دین کا پیغام پہنچانا ہے۔ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ یارسولؐ اللہ! آپؐ  تھکے ہوئے ہیں، آپؐ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے، آپؐ  ذرا آرام فرما لیں اور کل ان کو دین کا پیغام پہنچا دیں۔ آپ کو علم ہے کہ اس موقع پر آپؐ نے کیا فرمایا تھا؟ آپؐ نے فرمایا تھا: کیا پتاوہ قافلہ صبح تک یہاں سے رخصت ہوجائے، اور کیا خبر کل تک میں رہوں، یا نہ رہوں۔ چنانچہ اسی حالت میں آپؐ  نے قافلے والوں تک خدا کا پیغام پہنچایا۔یہ دعوت ہے جسے ہماری زندگیوں کا مرکز ہونا چاہیے اور ان شاء اللہ اسی دعوت، اور اسی  شوقِ دعوتِ حق سے تبدیلی آئے گی اور ضرور آئے گی، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔

جدوجھد کی کامیابی کا یقین

دعوت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ یقین بھی ہونا چاہیے کہ ہماری دعوت حق ہے اور بالآخر غالب آکر رہے گی۔ اس بارے میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دعوت کے علَم بردار چند سرپھروں نے بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکر لی ہے اور تاریخ کا رُخ بدل کر  رکھ دیا۔ اس دنیا کی تاریخ سوپرپاورز کا قبرستان ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کوئی سوپر پاور   عالمی طاقت بننے کے بعد ہمیشہ کے لیے غالب نہیں رہی۔

ہم نے خود اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ جب برطانیہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ برطانیہ عظمٰی یا گریٹ برٹن ہے۔ اس لیے کہ دنیا کے اتنے بڑے حصے پر اس کی حکومت ہے کہ اس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا، اور سمندر کی لہروں پر اس کی حکمرانی ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وہ سوپرپاور کس طرح ایک معمولی سا یورپی ملک بن کر رہ گئی اور اس کو ایک دن یورپی یونین کی رکنیت اختیار کرنے کے لیے درخواست دینا پڑی۔

روس کا کیا دبدبہ تھا۔ خروشیف جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں گیا تو اپنے جوتوں سمیت پائوں اُٹھا کر میز پر رکھ کر اس نے کہا کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ مجھے سرمایہ داری کو دفن کرنا ہے۔ آج اس سوویت یونین کا وجود تک باقی نہیں رہا۔ امریکا کے بارے میں بھی آپ سے کہتا ہوں کہ ان شاء اللہ عراق اور افغانستان میں اسے جوہزیمت اٹھانا پڑرہی ہے، جو عالمی معاشی بحران آیا ہے اور جس نے اس کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں، یہ اب امریکا کے زوال اور پسپائی کی نوید ہے۔

گویا کوئی سوپرپاور ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہی ہے۔ ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ حق غالب آکر رہے گا، لیکن یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ حق آپ سے آپ غالب نہیں ہوگا۔ اس کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، اس کے لیے قربانیاں دینا ہوں گی۔ الحمدللہ آج دنیا کے گوشے گوشے میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں اسلامی تحریک، اسلام کی صحیح فکر اور جامع تصور پیش نہ کر رہی ہو۔

جدید سوپرپاور کے ذریعے آج جو خطرات رونما ہو رہے ہیں، ان سے یہ بات بھی واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ سوپرپاور عالمی طاقت تو ہوسکتی ہے، لیکن وہ جو چاہے کرنہیں سکتی۔ اس کا سارا کروفر، اس کی ساری ٹکنالوجی، اس کی ساری دولت اور وسائل اور منصوبوں کو ایک معمولی سی چیز درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔ دنیا میں asymetry of power یعنی طاقت کا عدم توازن پایا جاتا ہے۔ آج نظر آرہا ہے کہ کمزور، طاقت ور کو چیلنج کرسکتا ہے اور طاقت ور بے بس ہوکر رہ جاتا ہے۔

ان حالات میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ایک طرف تحریک کی فکر اور وژن کو ہرقسم کی تحریف، آمیزش،دراندازی اور کمزوری سے پاک رکھیں، اور اگر تحریک کایہ وژن نظروں سے اوجھل  ہوگیا تو پھر ہم کچھ نہیں کرسکیں گے۔ دوسری طرف تحریک نے تبدیلی کا جو راستہ دکھایا ہے، اس کا جو طریق کار متعین کیا ہے، اس پر صبرواستقامت کے ساتھ قائم رہنا ہے۔ بلاشبہہ مایوس کن نتائج بھی رونما ہوں گے لیکن مثبت نتائج کا نکلنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا کام تو پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ السَّعْیُ مِنَّا وَالْاِتْمَامُ مِنَ اللّٰہِ تَعالٰی کے مصداق کوشش اور جدوجہد کرنا ہمارا کام ہے اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا اللہ کا انعام ہے۔ روزِ جزا، ہم سے   کوشش کے بارے میں پوچھا جائے گا، لہٰذا کوشش میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کوشش میں جو طریق کار ہے، جو توازن ہے اور جس طریقے سے وہ خیروبرکت کا باعث ہے، جس کے ذریعے سے وہ رحمت کا نظام قائم ہوگا، جو اللہ کے رسولؐ نے دیا اور قائم کرکے دکھایا ہے، اس کے لیے اگر جذبہ ماند پڑجاتا ہے یا اس میں کوئی کمی آجاتی ہے توپھر ناکامی ہے۔

جدید تقاضوں سے ھم آھنگ منصوبہ بندی

ہماری دعوت، جدوجہد اور کوشش کا مرکز و محور رضاے الٰہی کا حصول ہے۔ اس دعوت کا ایک اہم تقاضا مردانِ کار کی تیاری، اداروں کو مستحکم کرنا ہے اورتقسیم کار کے ذریعے سے ہر محاذ پر پہنچنا ہے۔ الحمدللہ، آج لوگوں کی ایک بڑی تعداد تحریک کے ساتھ وابستہ ہے، لیکن زندگی کے مختلف شعبوں میں جو ہمارے اثرات تھے اور زندگی کے ہر میدان میں ہم جس طرح سے راستہ نکال رہے تھے، ایک بار پھر ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ اس کام کو کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اُمت کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی بے حد ضروری ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں روزمرہ کا کام اہم ہے، ہر سال کا منصوبہ اہم ہے، وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنی سوچ میں کچھ مزید وسعت پیدا کریں۔ اس دنیا میں، میںاور آپ نہیںہوں گے لیکن یہ پیغام، یہ دعوت، یہ تحریک، یہ جدوجہد  ان شاء اللہ آگے بڑھے گی اور اپنا کردار ادا کرکے رہے گی، لیکن اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں۔ کیا حضرت یوسف ؑ کے واقعے میں یہ سبق نہیں ملتا کہ انھیں سات سال غلے کی فراوانی اور سات سال قحط اور خشک سالی کا سامنا تھا اور اس کے لیے انھوں نے منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ منصوبہ بندی انبیا ؑ کا طریقہ ہے اور ہم اس معاملے میں کچھ غفلت برت رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ مردانِ کار کی تیاری اور درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے درمیانی مدت اور طویل المدت منصوبہ بندی کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل اور حکمت عملی تیاری کریں۔

اس منصوبہ بندی کا ایک اور اہم تقاضاجسے ہم بھول جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہرایک کی ذمہ داری ہونی چاہیے اور ہماری یہ سوچ ہونی چاہیے کہ ہماری جگہ لینے والے ایک نہیں  کئی ہوں اور صلاحیت و استعداد میں وہ ہم سے بہتر ہوں، مگر دکھائی یہ دیتا ہے کہ ہم جو کچھ کرسکتے ہیں کرگزریں، باقی دیکھا جائے گا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک فرد جب اُٹھتاہے تو اس کا   خلا پُر کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔

نبی پاکؐ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں لیکن دو چیزیں بہت اہم ہیں: ایک یہ کہ جو شہادتِ حق انھوں نے دی، اس شہادت کی ذمہ داری اُمت مسلمہ کے ذمّے ہے اور اس کام کا ایک تسلسل سے جاری رہنا ضروری ہے۔ دوسری اہم بات اپنے پیچھے ایسے مردانِ کار کو چھوڑ جانا جن میں سے ہر ایک روشن ستارے کی مانند تھا اور نور کا منبع تھا۔ کتنی بڑی بات ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: علیکم بِسنَّتِی وسنۃ خلفائے الراشدین، جس کے معنی یہ ہیں کہ میں تمھارے درمیان   وہ عمل چھوڑکر جا رہا ہوں اور اس کے ساتھ وہ قیادت اور نظامِ کار بھی چھوڑے جارہا ہوں جس سے یہ کام آگے بڑھے گا۔

کیا انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری سوچ بھی یہ ہے؟ کیا ہمیں بھی یہ فکر ہوتی ہے کہ ہماری جگہ لینے والے ہم سے بہتر ہوں؟ کیا ہم اس فکر اور کوشش میں رہتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے    آس پاس ہیں، جن لوگوں تک ہم دعوت پہنچا رہے ہیں، ان میں سے کون کس صلاحیت کا مالک ہے، اور اس صلاحیت کو کیسے آگے بڑھایا جائے، اور اس فرد سے کیسے بہتر سے بہتر انداز میں کام لیا جائے؟ اگر ہم یہ ذہن نہیں رکھتے، اس کی فکر نہیں کرتے تو یہ بڑی غفلت اور خلافِ حکمت بات ہے۔ ہم میں سے ہر فرد تحریک کا ایک ذمہ دار فرد ہے، اور اسی مناسبت سے اس کا فرض ہے کہ   اپنی جگہ لینے کے لیے اپنے سے بہتر فرد کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ یہ دعوت، یہ پیغام،   یہ تحریک کامیاب ہو اور ان شاء اللہ یہ کامیاب ہوگی، لیکن ہمیں اس کے لیے اپنا فرض اور اپنی    ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔(اُس تقریر پر مبنی جو مدیر ترجمان نے ۸مارچ ۲۰۱۰ء کو جماعت اسلامی پاکستان کے کُل پاکستان اجتماعِ ذمہ داران ، لاہور میں کی)

مولانا عبدالحق بلوچ دو سال کی صبرآزما علالت کے بعد جو زندگی اور موت کی کش مکش سے عبارت تھی، ۲۹ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ (۱۶ مارچ ۲۰۱۰ئ) ربِ حقیقی سے جا ملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

مولانا عبدالحق ۵ جنوری ۱۹۴۷ء کو مکران کے شمالی علاقے زمران میں پیدا ہوئے۔ وہ پیدایشی طور پر ہی ایک گردے سے محروم تھے، اس طرح صرف اس ایک گردے نے ۶۳ سال تک ان کا ساتھ دیا۔ آخری دو سال ڈائی لیسز پر زندگی گزار رہے تھے اور بالآخر ڈاکٹروں کے مشورے پر گردے کی تبدیلی (transplant) کا فیصلہ ہوا اور ان کے ایک صاحبزادے نے باپ کی زندگی بچانے کے لیے اپنا گردہ پیش کیا لیکن اللہ کا حکم کچھ اور تھا۔ جسم نے اس گردے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بالآخر مولانا نے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی، اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں اور اپنے خاندان ہی کو سوگوار نہیں چھوڑا، بلوچستان کے ہرطبقے اور ہرمسلک اور ہرسیاسی وفاداری کے حامل ہزاروں انسانوں کو اَشک بار چھوڑ کر عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف عازمِ سفر ہوگئے۔

مولانا عبدالحق سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ۱۹۸۵ء کی قومی اسمبلی میں تربت سے منتخب ہوکر پہنچے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں جماعت اسلامی کو نمایندگی ملی تھی۔ مولانا عبدالحق نے تربت سے قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کی نشستیں جیتی تھیں اور پھر مرکزی اسمبلی کی سیٹ کو رکھ کر قومی سطح پر انھوں نے ایک کامیاب کردار کا آغاز کیا۔ پھر ۱۹۸۸ء میں وہ صوبہ بلوچستان کے امیرجماعت اسلامی مقرر ہوئے اور یہ ذمہ داری انھوں نے ۱۵ سال تک بڑی حکمت اور جانفشانی سے انجام دی۔ ۲۰۰۳ء میں مرکزی نائب امیر کی ذمہ داری سنبھالی اور آخری لمحے تک صحت کی خرابی کے باوجود تحریکِ اسلامی اور ملک و ملّت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ آخری ایام میں بھی جب بیماری نے جسمانی قوت کو شدید مضمحل کردیا تھا تحریکِ اسلامی اور پاکستان کے مسائل کے بارے میں ان کی فکرمندی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔    اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبول سے نوازے، بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازے، آمین!

مولانا عبدالحق بلوچ ہر اعتبار سے ایک ایسے قومی اور تحریکی رہنما تھے جنھوں نے اپنے خلوص اور اپنی شب و روز کی محنت سے قیادت کے اعلیٰ مقامات کو حاصل کیا۔ ابتدائی زندگی دیہات کے زرعی ماحول میں گزاری۔ تعلیم کا آغاز اپنے شوق سے، زمین داری اور گلہ بانی کی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنے والد مولانا محمد حیات اور اپنے چچا مُلّا شفیع محمد کے دست شفقت پر کیا۔ تربت کے    ہائی اسکول سے میٹرک کی سند حاصل کرکے دینی تعلیم کے لیے کراچی منتقل ہوئے۔ یہاں پہلے مدرسہ مظہرالعلوم، لیاری میں ایک سال تعلیم حاصل کی اور پھر حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے دارالعلوم کراچی کورنگی میں داخلہ لیا جہاں سے وہ ۱۹۷۳ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔

مولانا مودودیؒ کی کتب سے والد محترم کی لائبریری ہی سے تعلق قائم ہوگیا تھا۔ پھر کراچی کے قیام کے دوران تحریک کا پورا لٹریچر پڑھا اور عملاً جمعیت اور جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ البتہ باقاعدہ رکنیت کا تعلق ۱۹۸۰ء میں قائم ہوا، اور پھر اپنے خلوص، محنت، مسلسل جدوجہد اور علمی اور تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک قومی سطح کے لیڈر کی حیثیت سے اپنے نقوش چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔

مولانا عبدالحق کی زندگی بڑی سادہ اور ہرقسم کے تصنع سے پاک تھی۔ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری نقش ان کی سادگی، اور ظاہر اور باطن کی یکسانی ہی کا اُبھرتا ہے۔ دنیا پرستی کا کوئی سایہ ان کی زندگی پر نظر نہیں آتا۔ مجھے اپنے ۲۵ سالہ ربط و تعلق میں دنیوی مفادات کے باب میں دل چسپی کا کوئی ایک واقعہ بھی یاد نہیں۔ روایتی دینی اور مشرقی تہذیب کا وہ ایک بے مثال نمونہ تھے اور حق کی تلاش، حق کا قبول اور حق کی راہ پر استقامت ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ علمی اعتبار سے میں نے ان کو بہت بلندمرتبہ انسان پایا۔ ان کا مطالعہ وسیع اور حافظہ اور استحضار قابلِ رشک تھا اور اس کے ساتھ بے مثال انکسار۔ ان کی گفتگو سے ادعاے علم کا دُور دُور بھی کوئی شائبہ کبھی محسوس نہیں ہوا لیکن میں نے علمی اعتبار سے ان کو بہت ہی محکم پایا۔ کتابوں سے ان کو غیرمعمولی شغف تھا۔ ۱۹۹۳ء میں کابل میں ایک ماہ ہمیں ایک ساتھ ایک کمرے میں رہنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں ان کی شخصیت کو سمجھنے کا نادر موقع ملا۔ سادگی کے ساتھ بذلہ سنجی اور لطیف مزاح ان کی شخصیت کا حصہ تھے لیکن ان سب سے مستزاد ان کا علمی شوق اور دعوت و خدمت کا جذبہ تھا۔ کابل کے قیام کے دوران صبح و شام میزائلوں کی بارش کے ماحول میں بھی وہ، پروفیسر ابراہیم اور یہ خاکسار بار بار کابل کے بازاروں میں پرانی کتابوں کے انبار میں گوہرمطلوب کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے، اور   مولانا عبدالحق کا انہماک ہم میں سب سے زیادہ تھا۔ مولانا کا علمی ذوق بہت ہی ستھرا اور متنوع تھا۔

بلوچستان اور ملک کے مسائل پر مولانا سے جب بھی بات کرنے کا موقع ملا ان کو بہت زیرک پایا۔ معلومات کا ایک خزانہ ان کے پاس ہوتا اور یہ صرف اخباری اطلاعات پر مبنی نہیں تھا۔ ان کا ذاتی ربط ہر مکتب ِ فکر اور ہر سیاسی نقطۂ نظر کے حامل افراد سے رہتا تھا اور اس طرح ان کے سامنے مسئلے کے تقریباً تمام ہی رُخ ہوتے اور سب جماعتوں اور گروہوں کی راے اور تجزیے سے  وہ واقف ہوتے تھے۔ سیاسی مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ وسعتِ نظر اور حقیقت پسندی بے حد ضروری ہے۔ ہمارے حلقے میں سب ساتھی اس کا پورا اہتمام نہیں کرتے لیکن مولانا عبدالحق کا ربط و تعلق ہرگروہ سے تھا اور وہ ان کے فکر اور تجزیے سے بخوبی واقف ہوتے تھے، بلکہ میں یہاں تک کہنے کی جسارت کروں گا کہ ان کو سب حلقوں کا اعتماد حاصل تھا اور یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کی سیاسی قیادت کو لازماً فکر کرنی چاہیے۔ ان کی وفات پر جس طرح جماعت اسلامی کے تمام کارکن اور قیادت افسردہ اور غم زدہ ہے، اسی طرح دوسرے سیاسی مسلک، حتیٰ کہ ان کے موقف کے بالکل برعکس راے رکھنے والے بھی ان کی کمی کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے لیے اَشک بار ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مسلک بقول ماہر القادری کچھ ایسا تھا کہ    ؎

وہ کوئی رند ہو، یا پارسا ہو

فقیروں کا تو یارانہ ہے سب سے

مولانا عبدالحق بلوچ کے انتقال پر جن تاثرات کا اظہار سید منور حسن، قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ نے کیا ہے اس سے ملتے جلتے جذبات ہی کا اظہار نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک، ڈاکٹر اسماعیل بلیدی اور بلوچ نیشنل فرنٹ کے ترجمانوں نے بھی کیا ہے۔ اسی طرح افغانستان اور ایران کے رہنمائوں نے بھی اس غم میں شرکت کا اسی طرح اظہار کیا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے ان کا جنازہ تربت کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں بلوچستان ہی نہیں تمام ملک سے سوگواروں نے شرکت کی اور نمازِ جنازہ پڑھانے کی ذمہ داری محترم نعمت اللہ خان صاحب نے انجام دی۔ اللہ تعالیٰ مولانا عبدالحق مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کی بیوہ اور بچوں کو اور تمام رشتہ داروں اور محبت کرنے والوں کو صبرجمیل سے نوازے، اور جو خلا ان کے اُٹھ جانے سے پیدا ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے، آمین!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

افغانستان بلاشبہہ آج دنیا کے پس ماندہ اور غریب ترین ممالک کی فہرست میں بھی   پست ترین مقام پر آتا ہے، اور کم از کم ۳۰ سال سے جنگ اور خانہ جنگی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ حکمرانی کے آداب کی زبوں حالی، کرپشن اور بدعنوانی کی فراوانی میں بھی سرفہرست ہے۔ برطانوی استعمار کی ۱۰۰سالہ خون آشام عسکری جولانیاں اور دخل اندازیاں، روس کا ۱۰سالہ قبضہ اور پسپائی، اور امریکا اور ناٹو اقوام کی نوسالہ بے نتیجہ فوج کشی اور بالآخر افغان دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے کی سعی و جہد تاریخ کے اس ناقابلِ انکار سبق کی یاد تازہ کرتے ہیں کہ افغانستان کے غیور عوام کو ان کی تمام بے سروسامانی کے باوجود کوئی طاقت ور طالع آزما غلامی اور محکومی کے طوق نہیں پہنا سکا۔

یہ تاریخ کا ایک عجوبہ نہیں تو کیا ہے کہ یہ پس ماندہ ترین ملک گذشتہ صدی کی دو عالمی طاقتوں کے ناپاک عزائم کا قبرستان بنا، اور آج تیسری اور بظاہر دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا کی بالادستی کا ۵۰۰ سالہ دور اپنے انجام کی طرف جا رہا ہے اور افغانستان جیسے ایشیا کے کمزور، چین جیسے طاقت ور ملک ایک بار پھر اپنے اپنے انداز میں تاریخ کے نئے باب کے آغاز کے لیے ورق گردانی کر رہے ہیں۔ تقریباً ۸۰سال پہلے    اقبال نے اپنی خداداد بصیرت کی بناپر جاویدنامہ میں افغانستان کے ماضی اور حال کی جھلک دکھائی تھی:

آسیا یک پیکرِ آب و گل است

ملّتِ افغاں درآں پیکر دل است

از فسادِ او فسادِ آسیا

در کشادِ او کشادِ آسیا

اقبال کے یہ اشعار، افغانستان کی موجودہ صورت حال کی روشنی میں اس کے مستقبل کے امکانات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے ’دہشت گردی‘ کے واقعات کو امریکا کی قیادت نے اپنے عالمی عزائم کے حصول کے لیے کامل عیاری کے ساتھ استعمال کیا۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن ایک گھنائونی استعماری جنگ کا عنوان بن گئے۔ جس فوجداری جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں افغانستان سے کوئی ایک فرد بھی شریک نہ تھا اور جس کی منصوبہ بندی جرمنی کے شہر ہیمبرگ اور خود امریکا میں ہوئی، اس کو بہانہ بناکر افغانستان پر حملہ کیا گیا، پاکستان کو دھمکیاں دے کر اپنا آلۂ کار بنایا گیا، اور پھر عراق پر فوج کشی کی گئی اور پوری دنیا کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک عالمی ہیجان اور لاقانونیت میں مبتلا کر کے عملاً میدانِ جنگ بنادیا گیا۔

صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں عراق کی جنگ کو نشانہ بنایا لیکن افغان جنگ کو  ’ضرورت کی جنگ‘ قرار دیتے ہوئے جاری رکھنے کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا پیغام بھی دیا، لیکن مسندِ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد ان کی پالیسیاں تضادات کا شکار اور اپنے کیے ہوئے عہدوپیمان سے روگردانی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ حلف برداری کے فوراً بعد انھوں نے افغانستان میں ۱۷ہزار تازہ دم فوجی بھجوائے اور اب افغان پالیسی پر سال بھر کے نظرثانی کے عمل کے بعد مزید ۳۰ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ ۱۸ مہینے کے بعد فوجوں کی واپسی کا آغاز کردیا جائے گا۔ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کو ایک سال میں بند کرنے کا اعلان حلف برداری کے بعد ہی کیا تھا، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ قیدی عدل و انصاف سے بدستور اسی طرح محروم ہیں جس طرح بش کے دور میں محروم تھے۔ تفتیش کے دوران معلومات حاصل کرنے کے لیے اذیت اور تشدد کے حربوں کو استعمال کرنے کا کاروبار یکسر ختم کرنے کے دعوے کیے گئے تھے مگر وہ بھی اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کی جو اُمید امریکا کے ووٹروں اور دنیا کے عوام کو تھی وہ دم توڑتی نظرآرہی ہے اور صدر اوباما کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرنا شروع ہوگیا ہے۔

ان حالات میں یکم دسمبر ۲۰۰۹ء کو مہینوں کی مشاورت اور بحث و مذاکرے کے بعد افغانستان کے بارے میں جس ’نئی پالیسی‘ کا اعلان کیا گیا ہے وہ نئی اور توقعات سے کہیں کم اور بش کی پالیسی کا تسلسل کہیں زیادہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف لابیوں کو مطمئن کرنے کے لیے  نئی پالیسی کے نام پر ایک ایسا ملغوبہ تیار کیا گیا ہے جو تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اصول، قانون، انصاف اور حقیقی امن کے قیام کے امکانات ایک بار پھر دم توڑ گئے ہیں۔ زمینی حقائق سے صرفِ نظر کیا گیا ہے اور حق اور عدل کے تقاضوں کا خون کرتے ہوئے صرف مفادات کے کھیل کو آگے بڑھانے کی ایک اور کوشش کی گئی ہے۔ پالیسی کے مرکزی اجزا میں کسی تبدیلی کے بغیر جو بھی     ملمع سازی اور لفظی ہیرپھیر کیا گیا ہے، اس سے حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو اوباما کی تازہ افغان پالیسی نئی خرابیوں اور مشکلات کو جنم دے گی اور حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث ہوگی، اس لیے ضروری ہے کہ اس پالیسی پر نقدواحتساب سے پہلے امریکا کی افغان جنگ کی اصل حقیقت، اس جنگ میں پاکستان کے کردار، اور افغانستان کے  اس وقت کے حالات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے تاکہ اس دلدل سے نکلنے اور حقیقی راہِ نجات کے خدوخال کو سمجھنے اور ان پر عمل کے لیے نقشۂ کار تیار کرنے کا کام انجام دیا جاسکے۔

افغان جنگ کے حقائق

پہلی بات جسے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ امریکا جو بھی دعوے کرے اور مغربی مفادات کا محافظ میڈیا جو بھی گل افشانیاں کرے، یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ افغانستان پر امریکا کی فوج کشی بین الاقوامی قانون، اصولِ سیاست اور اخلاقی اقدار و ضوابط ہر ایک کے اعتبار سے ایک استعماری اور جارحانہ اقدام تھا، ایک ایسا بین الاقوامی جرم جو بہراعتبار ناقابلِ قبول تھا اور رہے گا۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے اور ایشوز کو الجھانے کی منظم کوششوں کے باوجود، اب اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں (بشمول امریکا) جنگ کے خلاف اہلِ علم ہی نہیں، سول سوسائٹی کے اہم عناصر کی طرف سے بھی آواز بلند ہو رہی ہے اور جنگ مخالف (anti war) تحریک  تقویت پکڑ رہی ہے۔ اوباما کے یکم دسمبر کے پالیسی خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی دانش ور سائمن جنکنز نے لندن کے روزنامے گارڈین میں اپنے مضمون میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ: ’’افغانستان پر حملہ سزا دینے کے لیے تھا لیکن یہ ایک قبضے میں بدل گیا۔ یہ کام نہ صرف بری طرح انجام دیا گیا بلکہ ابتدا ہی بغیر سوچے سمجھے کی گئی تھی‘‘۔ (۲ دسمبر ۲۰۰۹ء)

امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ماتھیو ہوہ نے(جو سابق میرین بھی ہے)   افغان پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے اکتوبر ۲۰۰۹ء میں استعفا دے کر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ اس استعفے کو رکوانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر ناکام رہی۔ اسے چھپوانے سے روکنے کی سعی بھی لاحاصل ثابت ہوئی۔ اب اس بات کا بھی اعتراف کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں امریکی سفیر کارل ایکنبری اور خود امریکی نائب صدر جوبیڈن اس استعفے پر فکرمند ہیں۔ (ملاحظہ ہو، گیلیز ڈورون سو کا مضمون دی گارڈین لندن میں، ۲۸؍ اکتوبر۲۰۰۹ء)

ماتھیو ہوہ کے استعفے کے یہ حصے بڑے قابلِ غور ہیں:

میرا افغانستان میں امریکا کی موجودگی کے مقاصد کے بارے میں اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ مجھے موجودہ حکمت عملی اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں شکوک وتحفظات ہیں لیکن میرا استعفا اس پر نہیں ہے کہ ہم کس طرح لڑ رہے ہیں بلکہ اس پر ہے کہ ہم کیوں اور کس لیے لڑ رہے ہیں؟

اس نے اپنے استعفے میں صاف الفاظ میں وہ بات بھی کہی ہے جسے کہنا اور سمجھنا تو چاہیے تھا پاکستان کی قیادت کو، جو امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’افغانستان میں ہماری موجودگی نے پاکستان میں عدم استحکام اور بغاوت میں اضافہ ہی کیا ہے‘‘۔

اس نے اس استعفے میں امریکا کی افغان پالیسی کے تباہ کن منطقی تقاضوں کو بیان کرنے کے بعد یہاں تک کہہ دیا ہے:

دیانت دارانہ طور پر اگر ہم القاعدہ کی بحالی یا تنظیمِ نو کو روکنا، اور افغانستان کو القاعدہ سے محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہماری حکمت عملی کا تقاضا یہ ہوگا کہ ہم اس کے بعد پاکستان، صومالیہ، سوڈان اور یمن وغیرہ پر بھی حملہ کریں اور قبضہ کرلیں۔ خطرہ جغرافیائی یا سیاسی سرحدوں کے اندر محدود نہیں ہے۔

ماتھیو ہوہ نے یہ بھی صاف لکھا ہے کہ اگر ہم نے اس جنگ کے بارے میں بنیادی سوچ نہ بدلی تو پھر یہ جنگ لامتناہی ہوسکتی ہے اور عشروں اور نسلوں تک جاری رہ سکتی ہے۔

دی گارڈین کے مضمون نگار گیلیز ڈورن سو، نے اس استعفے پر ایک جملے میں یوں تبصرہ کیا ہے: ’’افغانستان میں امریکی افسر کی حیثیت سے میتھیو ہوہ کا استعفا جنگ پر ایک واضح درست اور سخت تنقید ہے‘‘۔ وہ مزید کہتا ہے: ’’ہوہ کی بات درست ہے کہ ۱۱ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی زیادہ تر جرمنی میں کی گئی تھی اور افغانستان میں جنگ امریکا کو زیادہ محفوظ نہیں بناتی‘‘۔ (دی گارڈین، ۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

افغانستان پر امریکی فوج کشی اور قبضے کے غیرقانونی اور ناجائز ہونے کا کھلاکھلا اعتراف خود امریکا کے اعلیٰ قانونی حلقوں میں کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب    Rules of Disengagement ہے جو تھامس جیفرسن اسکول آف لا کی پروفیسر اور امریکا کی نیشنل لایرز گلڈ کی صدر پروفیسر مارجوری کوہن نے لکھی ہے اور ۲۰۰۹ء کے اواخر میں شائع ہوئی ہے۔ اپنی اس کتاب کے نتائج کو پروفیسر مارجوری کوہن نے اپنے ایک مضمون (Counter Punch ، ۲۱ دسمبر ۲۰۰۹ء)میں بیان کیا ہے اور پاکستان کے لیے اس میں ایک پیغام ہے کہ موصوفہ نے مضمون کا عنوان: Why Af/Pak war is illegal[افغان پاکستان جنگ کیوں غیرقانونی ہے؟]    رکھا ہے۔ ہم اس مضمون کے چند اقتباس پیش کرتے ہیں:

  • افغانستان پر امریکا کا حملہ عراق پر حملے کی طرح غیرقانونی تھا لیکن پھر بھی بہت سے امریکی اسے ۱۱ستمبر کے حملوں کا درست ردعمل سمجھتے تھے۔ ٹائم کے سرورق پر اس کو درست جنگ قرار دیا گیا۔ اوباما کی مہم یہ تھی کہ عراق میں جنگ ختم کریں گے لیکن افغانستان میں بڑھائیں گے، مگر اب امریکیوں کی اکثریت اس کی بھی مخالف ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہے کہ ریاستیں اپنے بین الاقوامی تنازعات پُرامن طریقے سے طے کریں گی اور کوئی قوم اپنے دفاع کے علاوہ فوجی قوت استعمال نہیں کرسکتی،     یا جب تک کہ سلامتی کونسل اس کی اجازت نہ دے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد سلامتی کونسل نے دوقراردادیں منظور کیں مگر ان میں سے کسی ایک میں بھی افغانستان میں فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حملے کے ثبوت نہیں ملے، لہٰذا طالبان نے بن لادن کو حوالے نہیں کیا لیکن   بش نے افغانستان پر بم باری شروع کر دی۔

  • افغانستان پر حملے کے لیے بش کا جواز بے بنیاد تھا۔ اسی بنیاد پر ایرانی امریکا پر حملہ کرسکتے تھے جب انھوں نے ۱۹۷۹ء میں رضاشاہ پہلوی کا تختہ اُلٹا اور امریکا نے اسے پناہ دی۔ اگر حکومتِ ایران نے مطالبہ کیا ہوتا کہ ہم شاہ کو اس کے حوالے کریں اور ہم نے انکار کیا ہوتا تو کیا ایران کے لیے قانونی طور پر جائز ہوتا کہ امریکا پر حملہ کر دیتا؟ یقینا نہیں۔
  • افغانستان میں اپنی افواج میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے اوباما نے نائن الیون کے حملوں کا ذکر کیا۔ افغانستان میں بش کی جنگ جاری رکھنے اور اسے بڑھاتے ہوئے اوباما بھی یو این چارٹر کی خلاف وزی کر رہا ہے۔ نوبل امن انعام وصول کرتے ہوئے اوباما نے اعلان کیا کہ اسے یک طرفہ طور پر جنگ کرنے کا حق حاصل ہے۔ [حالانکہ] یک طرفہ طور پر فوجی طاقت کا استعمال اپنے دفاع میں نہ ہو تو غیرقانونی ہے۔
  • جن لوگوں نے ۹ستمبر کو ہوائی جہاز اغوا کرنے اور ہزاروں آدمیوں کو مارنے کی سازش کی، انھوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کی شناخت ہونی چاہیے اور قانون کے مطابق انصاف ہونا چاہیے۔
  • لیکن افغانستان پر حملے کا جواز نہ تھا۔ اس سے امریکیوں اور افغانیوں کی ہلاکت میں اضافہ ہوا ہے،اور امریکا کے خلاف نفرت بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
  • قومی مباحثے میں یہ سیاسی تجزیہ غائب ہے کہ نائن الیون کا المیہ کیوں رونما ہوا؟ ہماری ضرورت ہے کہ یہ بحث ہو اور امریکی خارجہ پالیسی کو ازسرِنو تشکیل دینے کے لیے جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ ہم امریکی استعمار سے نفرت کرنے والوں کے     غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ اس ملک میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو بغیر تنقید کے بیش تر لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ دہشت گردی دشمن نہیں، ایک تدبیر ہے۔ تدبیر کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی بنیادی وجوہات (بشمول غربت، تعلیم کی کمی اور بیرونی قبضہ) کو جانا جائے اور ان وجوہ کو دُور کرنے کو ہدف بنایا جائے۔
  • اوباما نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وہ افغانستان میں ۳۰ہزار مزید امریکی فوج بھیجے گا، پاکستان کا براے نام تذکرہ کیا لیکن اس کی سی آئی اے نے پاکستان کے خلاف بش سے زیادہ ڈرون حملے کیے۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ ان حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر پاکستانی اس کے مخالف ہیں۔ گیلپ کے گذشتہ جائزے میں ۶۷ فی صد مخالف تھے اور صرف ۹ فی صد حامی تھے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے طالبان یا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے زیادہ امریکا کو پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیا۔
  • پاکستان میں ڈرون کا استعمال یو این چارٹر اور جنیوا کنونشن دونوں کی خلاف ورزی ہے جن میں ارادے سے قتل کی ممانعت ہے۔ اس طرح کے ماوراے عدالت قتل کسی حکومت کے حکم پر یا اس کی مرضی سے کیے جاتے ہیں مگر ان کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا، حتیٰ کہ حالتِ جنگ میں بھی نہیں۔ یہ جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔

امریکی جارحیت اور عالمی ردعمل

اس جنگ کے نتیجے میں اگر ایک طرف بین الاقوامی اصولِ عدل وا نصاف،جنیوا کنونشن اور اخلاقی اقدار و ضوابط کا خون ہوا ہے، تو دوسری طرف ۳ہزار انسانوں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان میں دسیوں ہزار اور عراق میں ۱۰ لاکھ افراد کو بے رحمی کے ساتھ ہلاک کیا جاچکاہے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں اور کم از کم دو ملک بالکل تباہ ہوگئے ہیں، جب کہ پوری دنیا میں   دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور جو مصیبت ایک محدود علاقے میں محصور تھی، اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ صرف دہشت گردی نہیں بلکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، وہ خود اصل مسئلہ ہے۔

امریکا کی اوہایو یونی ورسٹی کے علمِ سیاسیات کے پروفیسر جان موئیلر نے اپنی کتاب Overblown میں بڑے واضح الفاظ میں حکمت عملی کے اس تباہ کن رُخ کی نشان دہی کی ہے:

دہشت گردی یا اس کے خلاف ہمارا ردعمل___ زیادہ بڑا خطرہ کس میں ہے؟ ایک خطرہ جو حقیقی ہے لیکن اس کا دائرہ محدود ہے، اسے بڑے پیمانے پر بڑھاچڑھا کر پیش کر کے، بلاجواز پریشانی پیدا کردی گئی ہے۔ اس عمل سے غیرضروری اخراجات اور پالیسی میں ضرورت سے زیادہ ایسے ردعمل ہوئے ہیں جنھوں نے عام طور پر اس سے زیادہ نقصان اور اخراجات کروائے ہیں جو دہشت گرد پہنچا سکتے تھے۔

ایک دوسرے امریکی پروفیسر رابرٹ پاپ نے جو شکاگو یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور معروف کتاب Dying to Winکے مصنف ہیں، نیویارک ٹائمز (۱۵؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) میں اپنے مضمون میں امریکا کی افغان پالیسی کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ چند پہلو قابلِ غور ہیں:

  • جنرل میک کرسٹل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی اور ناٹو کی فوجیں بذاتِ خود حالات کے بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہیں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ مغربی افواج کو   بیرونی قابض افواج سمجھا جاتا ہے۔ جنگی طاقت پر بہت زیادہ انحصار کی وجہ سے افغان عوام کی نظروں میں بین الاقوامی سلامتی کی فوج کے جواز کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ امریکا کے پسندیدہ حامد کرزئی کی قیادت میں کام کرنے والی مرکزی حکومت بہت زیادہ بدعنوان ہے اور اسے ناجائز سمجھا جاتا ہے۔
  • بدقسمتی سے یہ سیاسی حقائق گذشتہ برسوں کے میدانِ جنگ کے حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں اپنی چند سو افواج کے ساتھ امریکا نے طالبان کا تختہ اُلٹا اور القاعدہ کو افغانستان سے نکال باہر کیا۔ یہ امریکا کی فضائی طاقت اور شمالی اتحاد کی زمینی فوجوں کے اشتراک سے ہوا۔ پھر آیندہ برسوں میں امریکا اور ناٹو نے اپنی فوج کی تعداد ۲۰ہزار تک پہنچا دی، جب کہ ان کا اصل مشن صرف کابل کی حفاظت تھا۔ ۲۰۰۴ء تک افغانستان میں بہت کم دہشت گردی تھی اوربہت کم احساس تھا کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔

l ۲۰۰۵ء میں پورے افغانستان میں امریکا اور ناٹو نے اپنی افواج کو باقاعدہ بڑھایا۔ اس کے مقاصد اس وقت موجود معمولی سی بغاوت کو کچلنا، پوست کی فصلوں کو تباہ کرنا  اور مرکزی حکومت کے لیے مقامی حمایت بڑھانا تھا۔ یہ افواج جنوب اور مشرق کے پشتون علاقوں تک لگائی گئیں اور آج وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہیں۔

  • مغربی قبضے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دونوں شکلوں، خودکش حملے اور بم دھماکوں میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۱ء سے پہلے افغانستان میں خودکش حملے ریکارڈ پر نہیں ہیں۔ امریکا کی فتح کے فوراً بعد بہت کم ہوئے، ۲۰۰۲ء میں ایک بھی نہیں، ۲۰۰۳ء میں دو، ۲۰۰۴ء میں پانچ اور ۲۰۰۵ء میں نو۔  لیکن ۲۰۰۶ء سے خودکش حملوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۶ء میں ۹۷، ۲۰۰۷ء میں ۱۴۲، ۲۰۰۸ء میں ۱۴۸، اور ۲۰۰۹ء کے پہلے نصف میں ۶۰۔ ۸۰ فی صد سے زیادہ حملے امریکا اور اس کی اتحادی افواج پر ہوئے نہ کہ افغان شہریوں کے خلاف، اور کرنے والے ۹۵ فی صد افغان تھے۔
  • دہشت گرد حملوں کا انداز بیش تر ایک ہی ہے۔ سب سے خطرناک سڑک کے کنارے لگے بم ہوتے ہیں جو ریموٹ کنٹرول سے یا چھونے سے پھٹ جاتے ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں صرف ۷۸۲ حملے ہوئے تھے لیکن اس کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں ۱۷۳۹، ۲۰۰۷ء میں ۲ہزار اور گذشتہ برس ۳ہزار ۲ سو۔ یہ حملے بھی زیادہ تر مغربی افواج کے خلاف ہوئے ہیں نہ کہ افغان اہداف پر۔
  • تصویر واضح ہے، افغانستان میں ہم نے جتنی زیادہ افواج بھیجی ہیں مقامی لوگوں نے اتنا ہی ملک کو بیرونی تسلط کے تحت تصور کیا ہے جس سے خودکش اوردوسرے دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کوئی بیرونی مسلح طاقت امن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے، ہم یہی صورت دیکھتے ہیں مغربی کنارے سے کشمیر اور سری لنکا تک۔
  • جنرل میک کرسٹل افغانستان میں طرزِ عمل بدلنے کی توقع کرتے ہیں۔ ترجیح مزید فوجی بھیجنے کی نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بیرونی قابض افواج ہونے کا تاثر ختم کرنے کی ہے۔ افغانستان میں ہمارا مقصد مستقبل میں نائن الیون جیسے حملوں کو روکنا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ امریکا دشمن دہشت گردوں کی ایک نئی نسل کی پرورش کو روکا جائے۔ خاص طور پر خودکش دہشت گرد جو بڑی تعداد میں معصوم لوگوں کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ خودکش دہشت گرد کو جو چیز تحریک دیتی ہے، وہ ان کے علاقے میں غیرملکی فوجوں کا وجود ہے۔

پروفیسر رابرٹ پاپ کا یہ تجزیہ کہ اصل مسئلہ غیرملکی افواج کی موجودگی اور قبضہ ہے جو دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں، پالیسی سازوں کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اس کی تجویز کردہ حکمت عملی سے اتفاق نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان ہو یا عراق، فلسطین ہو یا کشمیر، جب تک بیرونی قوتیں ان ممالک پر قابض ہیں، مزاحمت اور ردعمل رونما ہوگا اور وہ خونی اور تباہ کن بھی ہوسکتا ہے، بلکہ ہوتا جا رہا ہے۔ مسئلے کا حل فوج کشی اور قوت کا بے محابا استعمال یا خانہ جنگی کو ہوا دینا نہیں۔ اگر افواج میں اضافہ ہوگا تو یہ چیز بذاتِ خود تصادم، خون خرابے اور ہلاکتوں میں اضافے کا باعث ہوگی، اصلاحِ احوال کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔

امریکا کی ناکام حکمت عملی

افغانستان کے زمینی حقائق کے معروضی مطالعے سے جو حقیقت سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا اور ناٹو کی فوجی حکمت عملی یکسر ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے کہ افغانستان کی ۳۴ ولایات میں سے ۳۳ پر طالبان کا عملاً قبضہ ہے اور ان میں ان کے متبادل گورنر (shadow governor) تک موجود ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں امریکی، ناٹو اور خود افغان فوج کا وجود ہے مگر باقی تمام مضافات پر طالبان کی حکمرانی ہے اور شہروں میں بھی رات کو انھی کا حکم چلتا ہے۔ ناٹو کے کمانڈر، برطانیہ کے فوجی تجزیہ نگار، حتیٰ کہ خود امریکی فوجی قیادت اب کھل کر اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے    بی بی سی سے اپنے انٹرویو میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ یہ جنگ ہاری جاچکی ہے اور اخراج کی حکمت عملی ہی وقت کی ضرورت ہے۔ اب یہ بات امریکی کمانڈر اسٹنیلے میک کرسٹل بھی کہنے پر مجبور ہوا ہے اور ہالبروک، رابرٹ گیٹس اور ہیلری کلنٹن بھی اعتراف کر رہی ہیں کہ طالبان افغان حقیقت کا حصہ ہیں اور ان سے معاملہ کیے بغیر افغانستان سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے وہ شیطنت کا ایک دوسرا مظہر ہے، یعنی ایک طرف فوج اور قوت کے استعمال کو بڑھا دیا جائے اور دوسری طرف تحریکِ مزاحمت کو تقسیم کرنے، طالبان میں پھوٹ ڈلوانے اور رشوت اور روزگار کا لالچ دے کر طالبان کے تمام سپاہیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، اور افغان حکومت اور اس کا ساتھ دینے والوں کے ذریعے ملک کا نظم و نسق اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ حکمت عملی بدنیتی اور دھوکے پر مبنی ہے اور زمینی حقائق اور تاریخی تجربات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ حالات کو بگاڑنے کا نسخہ ہے، اصلاحِ احوال کی تدبیر نہیں۔

امریکا کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ حقائق کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں۔ اوباما کو اس طرح گھیر لیا گیا ہے کہ عملاً اس نے ’بش کی جنگ‘ کو اب ’اوباما کی جنگ‘ بنا لیا ہے۔ اوباما کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ اس نے حالات کا آزاد اور معروضی جائزہ نہیں لیا اور وہ بہت جلد امریکی نیوکونز اور بش انتظامیہ کے شاطر پالیسی سازوں کے نرغے میں آگیا ہے اور امریکا کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اس پر حاوی ہوگیا ہے۔ اس کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے بااثر عناصر اس کی پالیسیوں سے پریشان ہیں کہ  ری پبلی کنز اور بش کے حواری پالیسیوں کا رُخ متعین کر رہے ہیں۔ امریکی محقق پیٹربیکر کا مضمون نیویارک ٹائمز کے بلاگ (blog)  پر Obama's War Over Terrorکے عنوان سے ۱۷جنوری ۲۰۱۰ء کو شائع ہوا ہے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح پالیسی سازی پر بش کے دور کے لوگ چھا گئے ہیں۔ رابرٹ گیٹس جسے بش نے وزیردفاع بنایا تھا اور دو سال اس نے بش کی ٹیم میں کام کیا، اوباما کا وزیردفاع بھی وہی ہے۔ جان برینان جو بش کی ٹیم کا ایک اہم ستون تھا، اس کے بارے میں پیٹر بیکر کا یہ تبصرہ قابلِ غور ہے کہ صدر کے لیے اس کی راے اہم ترین ہوگئی ہے۔

چیف آف اسٹاف رہن ایمونیل صہیونی لابی کا ایک فرد ہے جو اسرائیل میں جنگی خدمات تک ادا کرچکا ہے۔ فوجی قیادت وہی ہے جو بش کے زمانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی تھیں، یعنی ایڈمرل مولن، جنرل اسٹینلے میک کرسٹل۔ بیکر نے تقریباً ایک درجن سول، خفیہ سروس اور فوج کے شعبوں کے متعلق کلیدی شخصیات کی نشان دہی کی ہے جو اوباما کی ٹیم کا حصہ اور پالیسی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ بش کے دور کے سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیل ہائیڈن کے الفاظ میں:

یہ بش انتظامیہ کا تسلسل ہے۔ میرے خیال میں اسے ’بش کی طرح‘ کہنا بھی درست نہیں، یہ بش ہی ہے۔ دونوں میں کوئی بامعنی فرق نظر نہیں آتا۔کافی محنت نظر آتی ہے کہ معاملات کو نئی طرح پیش کیا جائے مگر اس سے خاص فرق نہیں پڑتا۔

یہی وجہ ہے کہ اوباما کی صدارت سے پالیسی کی تبدیلی کے باب میں جو توقعات مختلف حلقوں نے وابستہ کر لی تھیں وہ بُری طرح مجروح ہوئی ہیں، اور امریکا اسی طرح دہشت گردی کی دلدل میں مزید پھنستا چلا جا رہا ہے جس طرح بش کے دور میں یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔

امریکی اور یورپی تجزیہ نگار تو یہ بات کہہ ہی رہے ہیں مگر خود افغانستان سے وہ خاتون  رکن پارلیمنٹ جسے ہیرو بناکر پیش کیا گیا تھا، یعنی مالائی جویا، اوباما کی یکم دسمبر کی تقریر سے صرف ایک دن پہلے اپنے ۳۰نومبر ۲۰۰۹ء کے ایک مضمون میں جو گارڈین لندن میں شائع ہوا ہے، کہتی ہیں:

کئی مہینوں کے انتظار کے بعد اوباما افغانستان کے لیے نئی حکمت عملی کا اعلان کرنے والے ہیں۔ تقریر کا طویل عرصے سے انتظار ہے لیکن کم ہی لوگوں کو کسی حیران کن بات کی توقع ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ وہ جنگ میں کسی بڑے اضافے کا اعلان کریں گے۔ یہ کرتے ہوئے وہ ’غلطی‘ سے بہت زیادہ کریں گے۔ یہ میرے ملک کے تکلیف اٹھانے والے عوام کے خلاف جنگ کے جرم کا تسلسل ہے۔ اس سال ہم نے افواج میں اضافے کا اثر دیکھا ہے، یعنی زیادہ تشدد اور زیادہ شہری ہلاکتیں۔ جنگ کے آٹھ سالوں کے بعد صورت حال عام افغانوں کے لیے خاص طور پر عورتوں کے لیے ہمیشہ کی طرح خراب ہے۔

محترمہ جویا امریکی عوام کے جذبات کے بارے میں یہ تک کہتی ہیں:

راے عامہ کے جائزے تصدیق کرتے ہیں کہ امریکی عوام جنگ میں اضافہ نہیں، امن چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اوباما سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ بش اور اس کی انتظامیہ کو جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھیرائیں۔ خارجہ پالیسی کے دائرے میں امید اور تبدیلی کے بجاے اوباما پہلی پالیسی پر پہلے سے سے زیادہ عمل پیرا ہیں۔ (دی گارڈین، ۳۰ نومبر ۲۰۰۹ء)

ورلڈ سوشلسٹ موومنٹ (International Committee of the Fourth International) نے اپنی ویب پر ۴ جنوری ۲۰۱۰ء کو امریکا کی افغان جنگ کے خلاف ایک تفصیلی چارج شیٹ شائع کی ہے جس میں ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں اس جنگ کے نتیجے میں افغانستان اور خود پاکستان میں جو تباہ کاریاں اور ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں ان کو اعداد وشمار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،  اور یہ اعدادو شمار اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ فوجی کارروائیوں کے اضافے سے تشدد اور   دہشت گردی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، بلکہ اس میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۰۹ء افغانستان کی تازہ تاریخ کا سب سے خونیں اور بدترین سال رہا ہے۔ بالعموم ۲۰۰۹ء میں ۲۰۰۸ء کے مقابلے میں اس جنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں اور دوسری تباہ کاریوں میں ۵۰ سے ۸۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ہم اس رپورٹ سے کچھ اقتباس دیتے ہیں:

  • اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ سال کے پہلے ۱۰ مہینوں میں ۲۰۳۸ شہری ہلاک ہوئے جس میں صوبہ فرح میں مئی میں امریکی حملے میں ۱۵۰، اور ستمبر میں صوبہ کندز میں جرمن افواج کے کروائے ہوئے حملے میں ۱۴۲ افراد شامل ہیں۔ بعد کے دو مہینے میں بھی سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جس میں صوبہ کندز کے دُوردراز علاقوں میں ناٹو افواج نے ۱۰ افراد قتل کیے، ان میں آٹھ اسکول کے طالب علم تھے۔
  • اوباما کے دور میں امریکی فوج نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کے مشتبہ قائدین کو مارنے کے لیے غیرقانونی قتل و غارت کی مہم میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔ اس عمل میں متعدد مرد و خواتین، بچے، راہ گزر ہلاک ہوتے ہیں جنھیں ایک معمول کے ضمنی نقصان کے طور پر بیان کر دیا جاتا ہے۔
  •  پاکستانی حکومت پر شمال مغربی علاقے میں فوجی آپریشن تیز کرنے کا امریکی دبائو ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ اسلامی دہشت گرد حملوں اور ردعمل کی دوسری کارروائیوں میں ۵۰۰ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں۔ پاکستان میں امریکی پالیسی کی مخالفت بہت عام اور بہت زیادہ ہے۔ واشنگٹن سے طویل مدت سے تعلقات کے باوجود پاکستانی فوج کے بعض عناصر میں سخت ناراضی اور مخالفت کے  آثار پائے جاتے ہیں۔
  •  یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے اور نہ پاکستان یا افغانستان کو مدد دینے کے لیے ہے بلکہ یہ آس پاس کے توانائی سے بھرپور علاقوں پر امریکی بالادستی قائم کرنے کی کوشش ہے۔ امریکا کے حکمران طبقے کی طرف سے اوباما افغانستان کو ایک نوآبادیاتی امریکی علاقہ اور وسطی اور جنوبی ایشیا اور شرق اوسط میں مزید سازشوں کے لیے ایک مرکز بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہزاروں جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔

مذاکرات یا نیا جال

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکا کی افغان پالیسی ہر اعتبار سے ناکام رہی ہے اور افغانستان اور پاکستان خصوصیت سے اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جس طرح اوباما بش کی پالیسیوں پر کارفرما ہے، اسی طرح پاکستان کی موجودہ قیادت (زرداری گیلانی حکومت) جنرل مشرف کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور ملک کو ہر روز نئی مصیبتوں اور ہلاکتوں میں جھونک رہی ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس (اکتوبر ۲۰۰۸ء) میں ایک متفقہ قرارداد کے بعد خارجہ پالیسی کو آزاد بنیادوں پر ازسرِنو مرتب کرنے اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کی پالیسی کو تبدیل کرنے کی سفارش کی تھی۔ ڈرون حملوں کی مذمت ہی نہیں مزاحمت کا مطالبہ کیا تھا  اور فوجی حل کی جگہ سیاسی حل اور مذاکرات پر مبنی پالیسی کو ملک کے لیے تجویز کیا تھا، مگر حکومت نے ۱۵مہینے ضائع کردیے اور پالیسی اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور ملک تباہی کی دلدل میں مزید دھنستا چلا جارہا ہے۔

لندن کانفرنس میں جو حکمت عملی تجویز کی گئی ہے بظاہر اس میں طالبان سے مذاکرات کو اس کا مرکزی پیغام قرار دیا جا رہا ہے مگر یہ ایک دھوکا ہے۔ اس لیے کہ اس حکمت عملی کا اصل مقصد مذاکرات اور مفاہمت نہیں بلکہ طالبان میں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو (divide and rule)کی سامراجی پالیسی پر عمل ہے۔ ایک طرف فوج کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے اور دوسری طرف ۵۰۰ ملین ڈالر سے لے کر ڈیڑھ ارب ڈالر تک کے فنڈ کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں، اور توقع کی جارہی ہے کہ ڈالروں کے ذریعے طالبان کے ایک بڑے حصے کی وفاداریاں خریدی جاسکیں گی۔ طالبان کی قیادت نے اس کا صاف الفاظ میں جواب دے دیا ہے کہ ہمارا ایمان اور ہماری وفاداریاں کوئی قابلِ خریدوفروخت شے نہیں۔ اگر ڈالر اور اقتدار ہماری منزل ہوتی تو بہت پہلے یہ کچھ حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اصل ایشو امریکا اور ناٹو افوج کا قبضہ ہے اور جب تک افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا نہیں ہوتا اور اس کا واضح ٹائم ٹیبل طے نہیں ہوتا، کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ طالبان نے دوبڑے اہم بیانات دیے ہیں، ایک نومبر ۲۰۰۹ء میں عیدالاضحی کے موقع پر اور دوسرا لندن کانفرنس کے جواب میں۔ ان کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں کھلے الفاظ میں اور بین السطور طالبان کی تازہ سوچ کو اور آیندہ ان کی حکمت عملی کے رُخ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تعجب ہے کہ طالبان کے ان بیانات کا پاکستان اور عالمی میڈیا نے قرار واقعی نوٹس  نہیں لیا اور ان میں نئی سوچ کے جوروشن اشارے ہیں ان سے صرفِ نظر کرلیاگیا ہے۔ صرف نیویارک ریویو آف بکس کے تازہ شمارے میں مُلا عبدالسلام ضعیف کی خودنوشت پر،جس کا ترجمہ حال ہی میں امریکا سے My Life with the Talibanکے نام سے شائع ہوا ہے، احمدرشید کے تبصرے میں نومبر۲۰۰۹ء والے بیان کا ذکر اس اعتراف کے ساتھ ہے کہ افغان طالبان اب ایک ایسی تحریک ہیں جس کا اثر ملک کے تمام علاقوں میں ہے اور صرف جنوبی افغانستان تک محدود نہیں۔

طالبان کے تصورِ حکمرانی کے بارے میں مضمون نگار کا یہ تبصرہ غوروفکر کا متقاضی ہے:

دریں اثنا طالبان نے لچک کا پہلا اشارہ دیا ہے جیساکہ نومبر ۲۰۰۹ء میں عید کے موقع پر ۱۰ صفحے کے بیان میں ظاہر ہوتا ہے۔ طالبان رہنما ملاعمر نے اپنے جنگجوئوں سے امریکا کے خلاف جہاد کی اپیل کے ساتھ یہ وعدہ کیا ہے کہ مستقبل کی طالبان حکومت امن قائم کرے گی، بیرونی افواج کی مداخلت ختم ہوگی اور پڑوسی ممالک کے لیے کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ اس میں یہ مضمر ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ القاعدہ واپس نہیں آئے گی۔ ملاعمر نے انتہاپسند سے زیادہ ایک مدبر کے طور پر کہا ہے کہ اسلامی امارت افغانستان تمام ملکوں کے ساتھ مل کر باہمی تعاون اور معاشی ترقی اور باہمی احترام کی بنیاد پر   اچھے مستقبل کے لیے تعمیری اقدام کرے گی۔

ایک ہفتے بعد اوباما کی تقریر کے ردعمل میں ایک بدلے ہوئے رویے کا اشارہ ملتا ہے۔ جہاد یا اسلامی قانون نافذ کرنے کا ذکر ہی نہ تھا۔ اس کے بجاے طالبان نے افغانستان کی آزادی کے لیے حب وطن اور قومیت کی بنیاد پر جدوجہد کی بات کی اور کہا کہ       اگر بیرونی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں تو وہ قانونی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں۔ نئے سال کے پیغام میں طالبان نے امریکی فوج کے اضافے کی مذمت کی لیکن اوباما کے ساتھ یہ کہہ کر ہمدردی بھی کی کہ امریکی صدر کو اپنے ملک میں بہت سارے مسائل اور مخالفت کا سامنا ہے۔ (نیویارک ریویو آف بکس، جلد۵۷، نمبر۳، ۲۵، جنوری ۲۰۱۰ء)

سوچ کا یہی رُخ طالبان قیادت کے ۲۸ جنوری ۲۰۱۰ء کے بیان میں بھی واضح ہے جو لندن کانفرنس کے اعلامیے پر ان کا بروقت ردعمل ہے:

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امیرالمومنین ملاعمر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی قانون چاہتے ہیں۔ ہم پڑوسی ممالک اور دنیا کے ممالک کا نقصان نہیں چاہتے اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائیں۔ ہم اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اسلامی امارت باہمی احترام کے ماحول میں پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے مثبت تعلقات چاہتی ہے، اور دو طرفہ تعاون، معاشی ترقی اور خوش حال مستقبل کے لیے دیرپا اقدامات کرنا چاہتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ارادوں کے جواب میں ایسے ہی ارادے رکھیں۔ مزیدبرآں اسلامی امارت اسلامی بنیادوں اور عصرحاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے عوام کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کی پابند ہے۔ اسلامی امارت افغانستان کسی لسانی یا نسلی تعصب سے پاک خوش گوار ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے، تاکہ لوگ   اتحاد اور قوت کے جذبے سے مل کر کام کرسکیں۔ اس طرح وہ اسلامی حکومت کی حمایت کریں گے جو ہمارے شہدا کی تمنائوں کی عملی شکل ہوگی اور جان و مال، عزت و حیثیت اور قومی اور تاریخی اقدار کی محافظ ہوگی۔

یہ امر افسوس ناک ہے کہ امریکا کی قیادت میں حملہ آور مسئلے کے فوجی حل پر مصر ہیں۔ ہم وضاحت سے کہنا چاہتے ہیں کہ حملہ آور اپنے آپ کو مزید مالی اور جانی نقصان سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے عوام کو پُرفریب منصوبوں اور حکمت عملی سے دھوکا نہیں دینا چاہیے، ان پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے، اور ہمارے عوام کے لیے زیادہ تکلیف اور پریشانیوں کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ انھیں اسلامی امارت کا پیش کردہ حل قبول کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک سے حملہ آور فوجیں مکمل طور پر چلی جائیں۔ اس میں حملہ آوروں کے لیے نجات اور تحفظ ہے۔ اگر وہ واقعی مسئلے کے حل کے لیے اقدام کرنا چاہتے ہیں تو انھیں افغانستان، پاکستان، گوانتانامو اور دوسری جیلوں میں موجود لوگوں کو رہا کردینا چاہیے۔ تمام عالمی اصولوں کے خلاف انھیں اتنے برس جیل میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ انھیں اپنی بلیک لسٹ مکمل ختم کر دینا چاہیے تھی اور مزید فوج نہیں بھیجنا چاہیے تھی۔ جو وہ کہتے ہیں وہ کرنا چاہیے تھا۔

آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ حملہ آوروں کی غارت گری اور سفاکیت کے خلاف ہمارے مسلمان اور غیور عوام کی مزاحمت اور جہاد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ دشمن مختلف ہتھکنڈوں سے ان کی قوت کو نہ کمزور کرسکا ہے اور نہ ختم کرسکا ہے۔ انھوں نے ماضی میں بھی کوشش کی ہے اور اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے بہادر مسلمان عوام اور ان کی قیادت اسلامی امارت کو الجھائیں۔ کبھی وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ جو مجاہدین جہاد کا راستہ ترک کرنے کے لیے تیار ہوں، وہ انھیں مال و دولت، روزگار اور ملک سے باہر ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریںگے۔و ہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین نے رقم حاصل کرنے کے لیے، یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے ہتھیار اٹھائے ہیں یا انھیں مجبور کیا گیا ہے کہ ہتھیار اٹھائیں۔ یہ بے بنیاد اور مہمل بات ہے۔ اگر اسلامی امارت کے مجاہدین کا مقصد مادی مقاصد حاصل کرنا ہوتا تو وہ پہلے ہی حملہ آوروں کے غلبے کو تسلیم کرلیتے اور ان کی حمایت کرتے۔ ہر چیز ان کی پہنچ میں تھی، آرام دہ زندگی، مال و دولت اور اقتدار۔ لیکن اسلامی امارت، عقیدے، ضمیر اور اپنی سرزمین کا مادی مفادات کے لیے سودا نہیں کرے گی اور نہ ذاتی مراعات اور دھمکیوں کی بنیاد پر ان کو دبایا جاسکے گا۔ افغانستان کے غیور عوام کی تاریخ میں اس طرح کا گھنائونا کھیل کبھی کامیاب نہیں ہوا۔

مجوزہ افغان پالیسی: بنیادی خطوط

طالبان قیادت کے یہ بیانات غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں اور بحران سے نکلنے کے لیے ابتدائی خطوطِ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکا اور پاکستان دونوں کے لیے صحیح افغان پالیسی وہی ہوسکتی ہے جس میں مندرجہ ذیل امور کو مرکزی حیثیت حاصل ہو:

                ۱-            فوری جنگ بندی اور افغانستان سے تمام غیرملکی فوجیوں کا ایک طے شدہ نظامِ کار کے مطابق مکمل انخلا۔

                ۲-            افغانستان میں قومی مفاہمت کا آغاز جس میں ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی مذاکرات میں شرکت اور قومی جرگے کے ذریعے نئے نقشۂ کار پر اتفاق کا حصول۔

                ۳-            بیرونی افواج کے ساتھ دوسری بیرونی قوتوں کے بارے میں واضح پالیسی اور افہام و تفہیم کے ذریعے اور مہمان داری کی اسلامی اور افغان روایات کے مطابق، اور ان مقاصد اور حدود کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے جو حالات کا تقاضا ہے، مناسب کارروائی۔

                ۴-            افغانستان کے معاملات میں بھارت کے کردار پر نظرثانی اور امریکا اور بھارت کی ملی بھگت سے جو کھیل وہاں تعمیروترقی اور تربیت کے نام پر کھیلا جارہا ہے، اس کا مکمل سدّباب۔

                ۵-            قومی مفاہمت اور علاقائی امن کے حصول کے عمل میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا مشورہ اور شراکت، اور ایک دوسرے کے معاملات میں مکمل عدم مداخلت اور شفاف تعلقات کے نظامِ کار پر اتفاق، نیز باہم رضامندی سے تاریخی تعلقات اور روایات کی روشنی میں تعاون اور امداد باہمی کے نظام کا قیام۔

                ۶-            افغانستان کی معاشی، تعلیمی اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے فوری اور لمبے عرصے کی  منصوبہ بندی، وسائل کی فراہمی اور عملی نقشۂ کار اور تقسیمِ کار کا اہتمام۔

                ۷-            عالمی سامراجی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور عالمی سطح پر حقیقی دوستی اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور نقشۂ کار۔

                ۸-            افغانستان نے گذشتہ ۳۰ سال میں اور خصوصیت سے گذشتہ ۱۰ سال میں جو نقصانات اُٹھائے ہیں ان کا سائنسی بنیادوں پر تخمینہ اور تعین اور ان کی تلافی اور آیندہ کی ترقی    کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے اُمت مسلمہ اور عالمی سطح پر قابلِ عمل منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے نظام کا قیام۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اور ___صدر زرداری کا طبلِ جنگ

جمہوریت میں عوام کے ووٹ اور انتخابی عمل کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے لیکن جمہوریت پر اس سے بڑے ظلم کا تصور مشکل ہے کہ اسے محض انتخابی عمل تک محدود کردیا جائے۔ قیادت کا انتخاب بلاشبہہ عوام کی آزاد مرضی سے ہونا چاہیے اور عوام کے سامنے قیادت کی بار بار جواب دہی انتخابی عمل کا اہم ترین حصہ ہے۔ تاہم جمہوریت کا اصل جوہر قانون کی حکمرانی اور  دستور کے تحت تمام اداروں کی کارفرمائی ہے، اور ان حدود کی پاس داری ہے جو کاروبارِ ریاست کی   انجام دہی کے ضمن میں ہرادارے کے لیے دستور نے قومی اتفاق راے سے مقرر کی ہیں۔ جمہوری نظام کی کامیابی کے لیے بنیادی حقوق کا تحفظ، عدلیہ کی آزادی، راے کے اظہار کی ضمانت، صحافت کی آزادی اور قیادت کا پارلیمنٹ، قانون اور عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ضروری ہے۔

جمہوری ریاست اور معاشرے میں تمام ادارے دستور اورقانون کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے درمیان مکمل تعاون اور توازن ہی جمہوری نظام کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں۔ جو بھی قانون سے بالاتر ہونے یا دستوری تحدیدات اور مواقع سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ دراصل جمہوریت پر تیشہ چلانے کا مجرم ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ یہاں جمہوری عمل کو خطرہ باہر کی قوتوں سے کہیں زیادہ، اندر کے طالع آزمائوں اور ذاتی مفاد کے اسیروں سے رہا ہے۔ اگر قوم اور ملک کی سیاسی قیادت موجودہ حالات میں دستوری نظام اور جمہوری عمل کے آداب و روایات کی مکمل پاس داری کے باب میں کسی طرح کی کوتاہی دکھاتے ہیں تو یہ ملک اور اس کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہوگا۔ فوجی آمر سے نجات، عدلیہ کی بحالی اور صحافت کی آزادی سے جمہوری عمل کے فروغ اور استحکام کے جو مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ ذرا سی غلطی سے خطرے میں پڑسکتے ہیں۔

قومی مصالحتی آرڈی ننس (این آر او) کے بارے میں ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ء کے سپریم کورٹ کے ۱۷ رکنی فل بنچ کے متفقہ فیصلے سے ملک میں قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے اور اسے کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست سے بچانے کے جو روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں، وہ زرداری گیلانی حکومت کے جارحانہ اور گاہے بچگانہ رویے سے معرضِ خطر میں پڑ سکتے ہیں۔ ۲۷ دسمبر کو بے نظیر بھٹو صاحبہ کی دوسری برسی پر صدر آصف علی زرداری صاحب نے جو تقریر کی ہے اور جس لب و لہجے میں کی ہے، وہ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک فالِ بد اور قومی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ زرداری صاحب اور ان کے حواریوں کی طرف سے پہلے بوکھلاہٹ اور پھرتصادم کی سیاست کے اشارے تو ۱۷دسمبر ہی سے ملنے لگے تھے، لیکن طبلِ جنگ اب ۲۷ دسمبر کو بجایا گیا ہے۔

نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کو جس طرح پاکستان کی جنگ بنا دیا گیا ہے، اس نے ایک طرف ملک کی آزادی اور خودمختاری پر کاری ضرب لگائی ہے، دوسری طرف ملک کو لاقانونیت، تشدد، خانہ جنگی، اور معاشی تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جس قومی یک جہتی اور سیاسی بالغ نظری کی ضرورت ہے، موجودہ برسرِاقتدار قیادت کادامن اس دانش سے خالی نظر آرہا ہے، اورجس راستے پر یہ قیادت آگے بڑھنے لگی ہے   وہ تصادم اور تباہی کا راستہ ہے۔ امریکا کی جنگ سے خلاصی، معاشی مسائل کے حل اور ملک      اور جمہوریت کی اصل دشمن قوتوں سے نبردآزما ہونے کے بجاے، وہ عدلیہ، فوج، میڈیا اور    حزبِ اختلاف کو نشانہ بنانے کی خطرناک حکمت عملی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان کا یہ عمل خود ان  کے لیے اور پھر وطن عزیز کے لیے ایک خودکش حملے سے کم نہیں۔ یہ وقت تصادم کا نہیں، قومی سلامتی اور پاکستانی قوم اور معاشرے کی حقیقی ترجیحات کی روشنی میں حقیقی قومی مفاہمت پیدا کرنے، اور دستور کی مکمل پاس داری کے ذریعے درپیش سنگین مسائل کا حل تلاش کرنے کا ہے۔

عوام نے پیپلزپارٹی کو جو اختیارِ حکمرانی فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے ذریعے دیاتھا، بدقسمتی سے اسے موجودہ حکمرانوں نے یکسر نظرانداز کر دیا ہے، اور اس کی ساری تگ و دو ذاتی مفادات کے حصول پر مرکوز نظر آرہی ہے۔ بدانتظامی اور بدعنوانی کے سیلاب نے پورے ملکی نظام کی چولیں ہلادی ہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور اصل مسائل کے حل کے لیے مل جل کر حکمت عملی اور نقشۂ کار بنانے اور اس پر سختی سے کاربند ہونے کا راستہ اختیار کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے ۳۱جولائی اور ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلوں کے ذریعے جو شمع روشن کی ہے، اس سے تاریکیوں کا سینہ چیرکر ملک کو ایک روشن مستقبل کی طرف لے جایا جاسکتا ہے۔ اس کا راستہ باہم مشاورت، دستور کا احترام، قانون کی پاسداری، مفاد کی سیاست سے اجتناب اور ملک کی آزادی، سلامتی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے ساتھ عوام کی مشکلات اور مصائب کو حل کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔ پاکستان نہ کل ایک ناکام ریاست تھا اور نہ آج ایسا ہے۔ ناکامی اگر ہے تو وہ قیادت کی ہے اور ابھی وقت ہے کہ حالات کو تباہی کے راستے پر جانے سے بچانے کے لیے    قومی یک جہتی کے حصول اور صحیح حکمت عملی کی ترتیب و تنفیذ کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نام نہاد قومی مصالحتی آرڈی ننس کی اصل حقیقت اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے مضمرات اور تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے۔ این آر او زدہ قیادت نے حالات کو جو زاویۂ نظر دینے کی کوشش کی ہے، اس کا پردہ چاک کر کے اصلاح اور نجات کی راہ کو واضح کیا جائے۔ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری، دستور، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے تاکہ بدعنوانی کی سیاست سے نجات اور عوام کے حقوق کی حفاظت اور مسائل کے حل کی عوامی جدوجہد میں سرگرم حصہ ادا کیا جاسکے۔

ملکی تاریخ کا شرمناک باب

وہ آرڈی ننس جو جنرل پرویز مشرف نے فوجی وردی میں اپنے ناجائز صدارتی انتخاب (۶؍اکتوبر ۲۰۰۷ئ) سے صرف ۲۴گھنٹے پہلے ’قومی مصالحت‘ کے نام پر جاری کیا تھا، وہ پاکستان کی تاریخ کا نہایت شرمناک فرمان تھا۔ یہ فرمان دنیا کی تاریخ میں اس پہلو سے منفرد تھا کہ بدعنوانی تو انسانی زندگی پر ایک بدنما اور قابلِ مذمت داغ کی حیثیت سے ہمیشہ سے رہی ہے، لیکن اس داغ کو ’مفاہمت‘ کے نام پر دستور، قانون، اخلاق اور سیاسی اصول و آداب کا خون کرکے بے حمیتی کے ساتھ دو سیاسی قوتوں کا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسے قانون قرار دینا، اور اس سیاہ کاری کو ’تمغاے بحالی جمہوریت‘ کا نام دینا نہ ماضی میں کہیں دیکھنے میں آیا اور نہ مستقبل میں کسی مہذب معاشرے میں یہ ممکن ہوگا لیکن یہ سیاہی جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے نہ صرف اپنے چہرے پر مَلی بلکہ پاکستان کے چہرے کو بھی داغ دار کیا۔ اب کہ جب سپریم کورٹ نے سیاسی قیادت کو اصلاحِ احوال کا ہر موقع فراہم کرنے کے بعد اس نام نہاد ’قانون‘ کو کالعدم قرار دیا ہے تو اپنی غلطی کے اعتراف کے بجاے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا افسانہ تراشا جا رہا ہے اور ملک کو ایک نئے تصادم اور انتشار کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

ریکارڈ کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے تمام حقائق بے کم و کاست پیش کیے جائیں۔ حق وانصاف اور پاکستان اور جمہوریت کے مفاد میں وہ راستہ اختیار کیا جائے، جو   اصلاحِ احوال کا ذریعہ بنے، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت کسی کو ادا کرنی پڑے۔ ہم ان تمام حقائق کو جن کو سمجھے بغیر قوم اصل صورتِ حال کا ادراک اور خرابیوں کی تلافی کا اہتمام نہیں کرسکتی، پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

میثاقِ جمہوریت جس پر لندن میں ۱۴ مئی ۲۰۰۶ء کو دیگر چھوٹی پارٹیوں کے علاوہ پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے دستخط کیے اور جس کی تیاری میں تقریباً دو سال لگے، اس معاہدے کو سب ہی نے پاکستان میں جمہوریت اور دستور کی بالادستی کی طرف ایک سنگِ میل قرار دیا۔ اس میں مِن جملہ اور عہدوپیمان کے، یہ باتیں طے کی گئی تھیں:

ا- بدعنوانی اور سیاسی انتقام سے نجات اور اربابِ اختیار کی حقیقی اور مبنی بر انصاف   جواب دہی کے لیے ایک ’سچائی اور مفاہمت کا کمیشن‘(Truth and Reconciliation Commission)قائم کیا جائے گا ،جو ۱۹۹۶ء سے تمام حالات کا جائزہ لے کر ملک کے مجرموں کی گرفت کرے، اور سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والوں کی پاک دامنی کے اظہار کی راہ ہموار کرے۔

ب- عوام کے مینڈیٹ کے مکمل احترام کے ساتھ اس میں یہ بھی عہدوپیمان کیا گیا تھا کہ:

ہم کسی فوجی حکومت، یا فوج کی حمایت یافتہ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ کوئی پارٹی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے، یا اقتدار میں آنے کے لیے فوج کی حمایت حاصل نہیں کرے گی۔

لیکن جس وقت اس میثاق کی نوک پلک درست کی جارہی تھی اور اس پر دستخط ثبت کیے جارہے تھے، اسی وقت پیپلزپارٹی کی قیادت، دوسری سیاسی پارٹی (مسلم لیگ ن) اور قوم کو تاریکی میں رکھ کر جنرل پرویز مشرف اور اس کے باوردی نمایندوں سے سیاست کے نئے نقشے کے خدوخال طے کر رہی تھی جس کا حاصل نام نہاد ’قومی مصالحت کا آرڈی ننس‘ ہے۔اس کا اعلان پرویز مشرف نے ۵؍اکتوبر ۲۰۰۷ء کو کیا اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے اسمبلیوں سے استعفا دینے کے بجاے پرویز مشرف کے بے معنی صدارتی انتخاب کے بعد، اس کے ساتھ سیاسی اشتراک کا معاملہ طے کیا۔ اس طرح ملک پر وہ قانون مسلط کیا جس کے ذریعے قومی دولت لوٹنے، اختیارات کے غلط استعمال کرنے اور حتیٰ کہ فوجداری جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو دستور، قانون اور اخلاق کے تمام تقاضوں کو بالاے طاق رکھ کر ’پاک دامنی‘ کا سرٹیفیکیٹ دیا جاسکے، تاکہ وہ اس ناپاک غسل کے ذریعے ایک بار پھر قوم کی قسمت سے کھیلنے کے لیے اقتدار پر براجمان ہوسکیں۔

جنرل پرویز مشرف سے اس زمانے میں سارے معاملات طے کرنے کی داستان خود  بے نظیرصاحبہ نے اپنی کتاب Reconciliation (مفاہمت)میں بیان کی ہے، جس سے چند اقتباس صرف اس لیے پیش کیے جا رہے ہیں کہ اس دوغلی سیاست کا اصل چہرہ خود ان کے الفاظ میں دیکھا جاسکے: ’’مشرف کے دور کے آغاز سے ہی اس کی حکومت اور پیپلزپارٹی کے درمیان مسلسل مکالمہ جاری رہا‘‘۔ (ص ۲۲۳)

اس کا ایک نمونہ موصوفہ کے الفاظ میں وہ رابطہ بھی ہے جو ۲۰۰۲ء میں آئی ایس آئی کے  اعلیٰ باوردی ذمہ داروں کی آصف زرداری صاحب سے ملاقات کی صورت میں سامنے آیا جس کے دوران میں خود ان سے، جب وہ کیلی فورنیا، امریکا میں تھیں مشورہ کیا گیا اور معاملہ طے کرنے   کے لیے شرائط پیش کی گئیں۔ پھر ۲۰۰۴ء میں آصف زرداری صاحب کی رہائی عمل میں آئی۔    اس کے بعد جنرل مشرف سے بے نظیر صاحبہ کی ملاقات کا انتظام شروع ہوا اور بقول بے نظیر بھٹو، جنرل صاحب کے نمایندوں سے بات چیت کرنے کے لیے میری اس شرط پر عمل ہوا کہ      جنرل مشرف نے خود مجھ سے ٹیلی فون کر کے اپنے نمایندوں کے مینڈیٹ کا اعتراف کیا۔        ادھر مئی ۲۰۰۶ء کے ’میثاقِ جمہوریت‘ پر دستخط ہو رہے تھے اور ساتھ ہی مشرف سے سلسلہ جنبانی   اپنے عروج پر تھا اور بالآخر اگست ۲۰۰۶ء میں جنرل مشرف سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا اور بطور    اعتماد سازی اقدام اس قانون کو اسمبلی سے منظور کرایا گیا، جس میں حدود قوانین میں ترمیم کی گئی تھی۔

جنرل مشرف اور اس کی ٹیم سے جو معاملات طے ہو رہے تھے، ان میں لندن اور واشنگٹن کے حکمران بھی شریک تھے اور فوجی قیادت میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ بھی۔ اس سیاسی جوڑتوڑ اور معاملہ طے کرانے میں، یہ سبھی کردار گویا ’ضمانت کار‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر جنوری ۲۰۰۷ء اور جولائی ۲۰۰۷ء میں بے نظیر صاحبہ اور جنرل مشرف کی ملاقاتیں ابوظبی میں     شیخ زاید کے محل میں ہوئیں اور اس طرح ہر دو اطراف کے نمایندوں کی شب و روز کی محنت سے اکتوبر ۲۰۰۷ء میں این آر او کی ولادت واقع ہوئی (ملاحظہ ہو، ص ۲۲۷-۲۳۰)۔ امریکا، انگلستان، بے نظیر صاحبہ اور جنرل مشرف میں جرائم کی سیاہی کو پاک دامنی کا چوغا پہنانے کا جو معاہدہ ہوا،  اس کا اصل مقصد انھی کے الفاظ میں یہ تھا کہ موڈریٹ یعنی ’روشن خیال‘ قیادت کو برسرِاقتدار لایا جائے اور جنرل مشرف اور پیپلزپارٹی مل کر آگے کے مراحل کو طے کریں:

جنرل مشرف اور ان کے نمایندے مجھے برابر یقین دلاتے رہے کہ اسٹرے ٹیجک فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، اعتدال پسند فورم بناکر مل جل کر کام کیا جائے۔

اس سلسلے میں دستاویزات کا باقاعدہ تبادلہ ہوتا رہا ،اور بے نظیر صاحبہکے الفاظ میں:  ’’این آر او کے تبادلے میں ہماری طرف سے یہ کیا گیا کہ ہم نے اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیے،  گو کہ اس کو ووٹ بھی نہیں دیا‘‘۔ (ص ۲۲۹)

اس کہانی سے صاف ظاہر ہے کہ این آر او کا قانون اپنی اصل کے اعتبار سے دستور، قانون، سیاست اور اخلاق، ہر پہلو سے غلط اور گندا قانون تھا، بلکہ انگریزی محاورے میں:    it was conceived in sin and fraud [اس کی تشکیل میں دھوکا دہی اور گناہ دونوں شامل تھے]۔

اب یہ جناب نواز شریف ہی کی ’وسعت قلبی‘ ہے کہ اس پوری داستان سے واقفیت کے باوجود وہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں شریک ہوئے، پھر وعدہ خلافیوں کے نام پر باہر نکلے اور اب تک ’فرینڈلی اپوزیشن‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

قانون اور انصاف کا خون

آیئے اب دیکھیں کہ یہ قانون تھا کیا اور اس کے ذریعے کس طرح دستور، قانون، انصاف، سیاست اور اخلاق کو قتل کیا گیا۔

۱- اس کے ذریعے ۱۸۹۸ کے ضابطہ قانون فوجداری (Code of Criminal Procedure) کی دفعہ ۴۹۴ میں یہ ترمیم کی گئی کہ وہ تمام فوجداری مقدمات جو یکم جنوری ۱۹۸۶ء سے لے کر ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء تک قائم کیے گئے ہیں، ان کو مقدمے کی تکمیل کے بغیر ایک نظرثانی بورڈ کے ذریعے مرکز اور صوبوں میں ختم کیا جاسکتا ہے۔

۲-  عوامی نمایندگی کے قانون ۱۹۷۶ء میں یہ ترمیم کی گئی کہ ریٹرننگ افسر الیکشن کے نتائج کی ایک نقل امیدوار اور اس کے نمایندوں کو دے گا۔

۳- ’قومی احتساب آرڈی ننس ۱۹۹۹ئ‘ میں یہ ترمیم کی گئی کہ کسی رکن پارلیمنٹ اور  صوبائی اسمبلی کو، کسی پارلیمانی اخلاقی کمیٹی کی سفارش کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکے گا۔

۴- اسی ’قومی احتساب آرڈی ننس‘ میں یہ ترمیم کہ، نیب کے وہ تمام مقدمات جو ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل ملک کے اندر یا ملک سے باہر چلائے گئے ہیں، فوراً واپس لے لیے جائیں گے۔

اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ فوجداری اور بدعنوانی کے وہ تمام مقدمات جو ۱۹۸۶ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان قائم کیے گئے ہیں، قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر محض سیاسی مفادپرستی اور نام نہاد ’روشن خیال‘ قوتوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے لیے ختم کردیے جائیں گے اور اس طرح دیوانی اور فوجداری دونوں نوعیت کے ملزموں کو ’مفاہمت‘ کے نام پر غسلِ بے گناہی دے کر فارغ کر دیا جائے گا۔

بلالحاظ اس امر کے کہ اس آرڈی ننس کا فائدہ کس کو پہنچا ہے اور کس کس قسم کے جرائم کی اس کے ذریعے ’تطہیر اور صفائی‘ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، ہم پہلے چند اصولی باتیں    عرض کریں گے جن کی تائید عدالتِ عظمیٰ کے مختصر فیصلے سے بھی ہوتی ہے:

ا- قانون کو سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے بالاے طاق رکھا جا رہا ہے اور ملزموں کو ان کے دفاع کا پورا موقع دے کر جرم کے ارتکاب کے تعین یا بے گناہی کے تعین کو یکسر نظرانداز کرکے، حتیٰ کہ سچائی اور اعترافِ گناہ کے قانون اور اخلاقی عمل تک سے بے نیاز ہوکر، محض سیاسی بنیادوں پر اور جوڑ توڑ کے ذریعے ملزموں کو قانون اور عدالت کی گرفت سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ عمل انصاف اور قانون کی حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں کی کھلم کھلا اور شرمناک خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ ریاست، مجرموں کو معاشرے کے نمایندے کے طور پر انصاف کے کٹہرے میں لاتی ہے۔ اصولِ قانون کا یہ مسلّمہ کلیہ و قاعدہ ہے کہ جو چیز معاشرے کے خلاف جرم ہے، اس کے مرتکب کو قانونی ضابطے کے عمل سے گزارے بغیر جرم کے الزام سے بری نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کا یہ اختیار ہے ہی نہیں کہ جب ایک مقدمہ عدالت کے سامنے آگیا تو وہ اسے واپس لے سکے۔ جرم کا اثبات یا انکار اب عدالت کا کام ہے، سیاسی قیادت یا حکومت کی اجارہ داری نہیں ہے۔ حکومت کا دائرہ کار وہاں ختم ہوجاتا ہے، جب استغاثہ کسی مقدمے کو عدالت کے سامنے   لے آتا ہے۔ اس لیے یہ قانون اپنے پہلے ہی دن سے اصولِ قانون کے مسلّمات کے خلاف تھا اور قانون کی نگاہ میں ایک ’گھنائونا قانون‘ تھا، جس کا نفاذ ہی ایک جرم تھا، جس کی سزا اس قانون کے بنانے والوں کو ملنی چاہیے نہ کہ اس کے سہارے ملزموں کو غسلِ صفائی دیا جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کے جرائم کو داخل دفتر کردیا جائے۔ معاشرہ اور ان جرائم کا نشانہ بننے والے مظلوم انسانوں کو بے سہارا چھوڑ دیا جائے اور ملک اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو غاصبوں کی ہوسِ زر پوری کرنے کے لیے چاندی کی پلیٹ پر سجا کر دے دیا جائے۔

ب- دستور نے جن بنیادی حقوق کی ضمانت تمام انسانوں کو دی ہے، ان میں قانون کی نگاہ میں برابری اور مساوات ایک بنیادی حق ہے (دفعہ ۲۵)۔ اس نام نہاد صدارتی فرمان کی شکل میں دستور کی اس شق اور انصاف کے بنیادی اصول کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے کہ یکم جولائی ۱۹۸۶ء اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کے درمیان کیے جانے والے جرائم، بدعنوانی اور لوٹ مار کو کھلی چھوٹ مل جائے۔ البتہ ان تاریخوں سے پہلے یا ان کے بعد کیے جانے والے جرائم تو جرائم رہیں اور مجرموں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے۔ نیز ان تاریخوں کے درمیان بھی فوجداری اور جواب دہی کے قانون کی گرفت میں آنے والے سب ملزموں کو خلاصی کی یہ سہولت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ صرف [اُن خصوصی] ملزموں یا مجرموں کو رعایت حاصل کو ہوگی، جن کے مقدمات کو سرکار واپس لے۔ اس عمل کو قانون کی زبان میں discrimination[امتیازی یا جانب دارانہ سلوک] کہا جاتا ہے جو دستور، قانون اور اخلاق کے خلاف ہے۔ اس طرح ’قانونی برابری‘ کے اصول کا خون کیا گیا ہے اور ایسا قانون ایک لمحے کے لیے بھی قانونی درجہ نہیں پاسکتا۔

قرآن و سنت اور دستور کی صریح خلاف ورزی

یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ دستور نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو محکم بنیادوں پر قائم کرنے کے ساتھ پارلیمنٹ پر دو پابندیاں لگائی ہیں۔ ان پابندیوں کی خلاف ورزی پارلیمنٹ اپنے قانون سازی کے اختیار کے استعمال کے باب میں نہیں کرسکتی ،اور نہ ان کے برعکس کوئی آرڈی ننس ہی انتظامیہ لاسکتی ہے۔ یہ پابندیاں دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۸ اور دفعہ۲۲۷ میں درج ہیں، یعنی بنیادی حقوق کے خلاف اور قرآن و سنت کے احکام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی اور یہ قانون ان دونوں دفعات کی رُو سے دستور پاکستان کے خلاف ہے۔

دستور کی دفعہ ۸ صاف الفاظ میں کہتی ہے:

آرٹیکل ۸- بنیادی حقوق کے نقیض یا منافی قوانین کالعدم ہوں گے:

۱- کوئی قانون یا رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو۔

۲- مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا    کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے، اس   خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا۔

دستور کی دفعہ ۲۷۷ کہتی ہے:

تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے، اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔

قرآن و سنت کے احکام اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ (النساء ۴:۵۸) مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں    اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

مسلمانوں کی صفت قرآن کے الفاظ میں یہ ہے کہ: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ o (المومنون ۲۳:۸) ’’اور جو امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔

خیانت کی ہر شکل کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الانفال ۸:۲۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو جانتے بوجھتے اللہ اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ بنو حالانکہ تم جانتے ہو۔

وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۱) اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہوجائے گا اور ہر نفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔

اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزِ قیامت جب حساب کتاب کے لیے بارگاہِ الٰہی میں پیشی ہوگی اور آدمی کے پائوں اپنی جگہ سے سرک نہ سکیں گے جب تک    مِن جملہ اور باتوں کے، اس سے یہ پوچھ گچھ نہ کرلی جائے گی: وَعَنْ مَالِہِ مِنْ أیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَا أَنْفَقَہٗ، یعنی مال کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں سے اسے حاصل کیا اور کن کاموں پر اور کن راہوں میں اس کو صرف کیا۔

ارشادِ نبیؐ برحق ہے کہ جس شخص نے کسی دوسرے کی کچھ بھی زمین ناحق لے لی تو قیامت کے دن وہ اس زمین کی وجہ سے (اور اس کی سزا میں) زمین کے ساتوں طبق تک دھنسا دیا جائے گا۔

وَمَنْ اَخَذَ مِنَ الْاَرْضِ شَیْئًا بِغَیْرِ حَقّہِ خُسِفَ بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِلٰی سَبْعِ أَرْضِیْن (بخاری)

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ اِنْتَھَبَ نَھْبَۃً فَلَیْسَ مِنَّا (ترمذی) ’’جس نے کسی کی کوئی چیززبردستی چھین لی اور لوٹ لی تو وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے جہاں مسلمانوں کے درمیان ہدیوں کے تبادلے کو محبت میں اضافے کا ذریعہ قرار دیا ہے وہیں  حاکمِ وقت اور فرماں روا کے لیے ہدیوں کے لینے کی مخالفت کی ہے اور انھیں خیانت اور ایک طرح کی رشوت قرار دیا ہے: ھَدَایَا الْاِمَامِ غُلُوْل (امام وقت کے ہدیے غلول، یعنی ایک طرح کی رشوت اور خیانت اور ناجائز استحصال کی قبیل سے ہیں)

راشی اور رشوت دینے والے دونوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے: الرَّاشِیِ وَالْمُرْتَشِیِ کِلَاھُمَا فِی النَّار، اور حضوؐر کا ارشاد ہے:

لاَ یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ یَتَصَدَّقُ مِنْہٗ فَیُقْبَلَ مِنْہُ ، وَلَا یُنْفِقُ مِنْہُ فَیُبَارَکَ لَہٗ فِیْہِ ، وَلاَ یَتْرُکُہُ خَلَفَ ظَھْرِہِ اِلَّا کَانَ زَادُہُ اِلَی النَّارِ (مسند احمد) ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ کسی ناجائز طریقے سے حرام مال کمائے اور اس میں سے پہلے صدقہ کرے، تو اس کا صدقہ قبول ہو اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میںبرکت ہو، اور جو شخص حرام مال (مرنے کے بعد) پیچھے چھوڑ جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہی ہوگا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قانون کے نفاذ میں انسانوںکے درمیان تفریق نہ کرو اور وہ قومیں جو کمزور لوگوں کو تو قانون کے مطابق سزا دیتی ہیں، مگر صاحب ِ اختیار اور طاقت ور اور بالائی طبقے کے لوگوں کو سزا سے بچا لیتی ہیں وہ تباہی کا راستہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر     فاطمہؓ بنت محمدؐ نے بھی چوری کی ہوتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔

یہ ہیں اللہ، اللہ کے رسولؐ اور خود ہمارے دستور کے واضح احکامات۔ این آر او ان سب کی کھلی کھلی خلاف ورزی تھا اور اپنے اعلان کے پہلے دن ہی سے ایک ناجائز حکم نامہ تھا۔ اچھا ہوا سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے ختم کر دیا، خس کم جہاں پاک۔

اس قانون سے فائدہ اُٹہانے والے

یہ تو اس قانون کے بارے میںاصولی پوزیشن تھی لیکن ذرا یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اس قانون سے فائدہ اٹھانے والوں پر کیا کیا الزامات تھے اور ان میں کیسے کیسے نام وَر شامل تھے    ؎

نہ من تنہا دریں میخانہ مستم

جنید وشبلی و عطار ہم مست

اس بدنامِ زمانہ قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کی کُل تعداد ۸۰۴۱ بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے ۷۷۹۳ کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ ۳۰۰ اہم سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے اپنے مقدمات ختم کرائے ہیں، جس کے نتیجے میں صرف ان ۳۰۰ افراد نے این آر او کے تحت۱۶۵ ارب روپے کی بدعنوانیوں، اختیارات کے غلط استعمال اور غبن کے مقدمات معاف کروا کر اپنے کو ’پاک‘ کرا لیا۔ دی نیوز اخبار کی ۲۰ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں یہ اطلاع قابلِ اعتبار ذرائع سے دی گئی ہے: ۱۶۵ ارب روپے کا اندازہ اصل رقم سے بہت کم ہے، جب کہ صحیح رقم ایک ہزار ارب روپے بنتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے اور اغلب یہی ہے کہ اصل رقم ایک ہزار ارب ہے تو صرف اتنی بات پیش نظر  رکھی جائے کہ صرف یہ رقم جو ۱۲؍ارب ڈالر بن جاتی ہے پانچ سال میں امریکا سے ملنی والی مدد (۵ئ۷ بلین ڈالر) سے کہیں زیادہ ہے اور ملک کے لیے بیرونی امداد کی بھیک مانگنے والی تمام رقوم سے زیادہ ہے۔ حکومتِ پنجاب نے جو ۷۷ افراد کی فہرست عدالتِ عظمیٰ کو بھجوائی ہے اس میں صرف ایک سابقہ رکن قومی اسمبلی نے ۱۷۰ ملین ڈالر کا فائدہ اٹھایا ہے۔

پیپلزپارٹی کے مرکزی حکومت کے وزیرمملکت براے قانون افضل سندھو نے جو فہرست عدالت کو دی ہے (اور اب وہ اس وزارت سے فارغ کردیے گئے ہیں اور ان کی جگہ ایک ایسے سینیٹر کو وزارتِ قانون و انصاف کا قلم دان سونپ دیا گیا ہے جن پر حارث اسٹیل مل کے مقدمے میں ساڑھے تین کروڑ روپے ججوں کو خریدنے کرنے کے لیے دیے جانے کا الزام ہے اور بحیثیت وزیرقانون ’قومی احتساب بیورو‘ (NAB) کا محکمہ خود ان کے ماتحت ہوگا) اس فہرست کی رُو سے اس قانون سے عظیم ترین ’فائدہ‘ اٹھانے والوں میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن اور موجودہ صدرمملکت جناب آصف زرداری ہیں۔ ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنوں کی بڑی تعداد یعنی ۳ہزار ۷ سو ۷۵ افراد بھی اس سے مستفید ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے لیڈر جناب الطاف حسین کے  خلاف ۷۱ مقدمات تھے، جن میں سے ۳۱ کا تعلق قتل اور ۱۱ کا اقدامِ قتل سے تھا۔ واضح رہے کہ روزنامہ دی نیشن کی اطلاع کے مطابق (۱۹ نومبر ۲۰۰۹ئ) اس قانون کے آنے کے بعد ان آٹھ ہزار سے زائد مقدمات کی واپسی کے علاوہ نیب سے ۳۰۰ مزید ان مقدمات کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، جو ابھی زیرتفتیش تھے۔ اس کے علاوہ ساڑھے پانچ ہزار کے قریب مزید مقدمات ہیں جن کی ’قومی احتساب بیورو‘ اب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پیروی میں مشکل محسوس کر رہا ہے۔

قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں لیکن پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت صدرمملکت اور گورنر صاحبان کو ان کے دورِ اقتدار میں ہرقسم کی فوجداری جواب دہی سے مستثنیٰ قرار دیا گیاہے، جو اسلامی احکام و روایات اور خود جمہوری ممالک کے تعامل سے متصادم ہے۔ کیا امریکا کے دو سابق صدور رچرڈ نکسن اور کلنٹن صاحبان پر عدالت کے ذریعے فوجداری تفتیش و جواب دہی کا معاملہ  نہیں ہوا، کہ جس کے نتیجے میں ۱۹۷۴ء میں صدرنکسن کو استعفا دینا پڑا۔ کیا اٹلی کے موجودہ وزیراعظم سلوایو بریاسکونی کو ایسی رعایت ختم کر کے وہاں کی عدالتِ عظمیٰ نے، ان کے خلاف مقدمات کا دروازہ نہیں کھولا۔ حتیٰ کہ اسرائیل میں اس کے ایک صدر اور ایک وزیراعظم پر دورِاقتدار میں کیا فوجداری اور کرپشن کے مقدمات قائم نہیں ہوئے؟ کیا اس مشق سے وہاں کا سیاسی نظام اور جمہوریت کسی خطرے کا شکار ہوئے؟ زرداری صاحب نے این آر او سے جس فیاضی سے فائدہ اٹھایا ہے، اس کی تفصیل سینیر قانون دان جناب محمد اکرم شیخ نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ دی نیوز (۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ئ) میں دی ہے، جو اہلِ نظر کے لیے چشم کشا ہے۔

l ۱۵ فروری ۲۰۰۸ء کو زرداری صاحب نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنے تمام زیرسماعت مقدمات سے این آر او کے تحت گلوخلاصی کی درخواست دی، اور ۲۸ فروری کو اس وقت پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے عدالت کو ہدایت دی کہ عدالت ان کے مقدمات کو تیزی سے نمٹا دے، نتیجہ یہ کہ ۲۴گھنٹے میں سندھ ہائی کورٹ نے معاملہ ختم کر دیا۔

  • مارچ ۲۰۰۸ء کو زرداری صاحب نے محمدنوازشریف صاحب کے ساتھ ’معاہدۂ مری‘ کیا۔ اس کے چار دن بعد ۱۲مارچ کو سوئٹزرلینڈ کے ایس جی ایس کوٹیکنا مقدمے سے زرداری صاحب کو بری کر دیا گیا۔ ۱۴مارچ ۲۰۰۸ء کو ’بی ایم ڈبلیو مقدمہ‘ ختم ہوا۔ ۲۴ مارچ ۲۰۰۸ء کو جسٹس نظام اور ان کے صاحبزادے کے قتل کے مقدمے سے زرداری صاحب کو بری قرار دیا گیا۔ ۸؍اپریل ۲۰۰۸ء مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے مقدمے سے نجات مل گئی۔ ۱۶؍اپریل ۲۰۰۸ء عالم بلوچ کے قتل کے مقدمے سے موصوف کو فارغ کر دیا گیا۔ ۱۳ مئی ۲۰۰۸ء کو موصوف اور ان کے دوسرے شریکِ جرم واجد شمس الحسن (برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر اور سوئس مقدمے کی دستاویزات کے ۱۲ڈبوں کو بنفسِ نفیس سوئس عدالت سے لانے کی شہرت کے مالک) کے ساتھ اسمگلنگ کے مقدمے سے نجات مل گئی۔ اسی طرح ۱۹ مئی ۲۰۰۸ء کو لاہور سے اسمگلنگ ہی کے ایک مقدمہ کاتیا پانچا کردیاگیا۔ یوں جناب چیئرپرسن مکمل ’غسل‘ کرنے کے بعد مملکت خداداد پاکستان کی صدارت کی کرسی پر رونق افروز ہوگئے۔

بلاشبہہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے سب افراد اب آزمایش کی کسوٹی پر ہیں۔ انھیں اپنے اُوپر عائد شدہ الزامات کا کھلے انداز میں مقابلہ کرنا چاہیے اور ایک غیر جانب دار عدالتی انتظام کے سامنے اپنی بے گناہی کو ثابت کرنا چاہیے، یا پھر اپنے کیے کی سزا بھگتنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ اب اس دلدل سے نکلنے کا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری خود جناب آصف علی زرداری کی ہے۔

سب سے پہلے یہ پاکستان کے مجبور و مقہور عوام کا حق ہے کہ ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والوں کا احتساب ہو اور حقیقی مجرموں کی قرارواقعی سزا ملے۔ قوم کی دولت ان سے واپس لی جائے، نیز جو لوگ بے جا طور پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنے ہیں، ان کی پاک دامنی قابلِ بھروسا اور شفاف عدالتی عمل کے ذریعے ثابت ہو، اور پاکستان کے عوام ان کے بارے میں مطمئن ہوسکیں۔ اس کے ساتھ پاکستان کی ساکھ کو ساری دنیا میں جو شدید نقصان پہنچا ہے، اس کی تلافی بھی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اب بڑے اور چھوٹے سب کو عدالت کے سامنے لایا جائے ،اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ ۱۶ دسمبر ۲۰۰۹ء کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ملک ہی میں نہیں پوری عالمی برادری میں آصف زرداری صاحب کے معاملے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ محض سیاسی شعبدہ بازی سے اب اس مسئلے کو قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا۔ ۱۷؍دسمبر کے اخبارات نے جو کچھ لکھا، وہ ایک آئینہ ہے۔ اس آئینے میں موجودہ برسرِاقتدار قیادت اپنا اصل چہرہ اور پاکستان کو درپیش اصل چیلنج کے صحیح خدوخال دیکھ سکتی ہے۔ ریکارڈ کی خاطر چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

لندن کے اخبار دی ٹائمز کی رپورٹ ملاحظہ ہو:

پاکستان کے سیاسی لیڈروں میں بدعنوانی بہت پھیلی ہوئی ہے لیکن زرداری کی سرگرمیاں مبینہ طور پر جس بڑے پیمانے پر جاری ہیں اس نے تجربہ کار مبصرین کو بھی صدمے سے دوچار کر دیا۔ صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے غیرقانونی ذرائع سے دنیا بھر میں ۵ئ۱ارب ڈالر جمع کیے ہیں۔ نیب نے عدالت کو جو رپورٹ دی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ زرداری کی دولت ذرائع آمدن سے بہت زیادہ ہے۔ بیورو کے عہدے دار نے بتایا کہ کمیشن اور رشوت سے جمع رقم میں سے ۶۰ ملین ڈالر سوئس بنک میں زرداری اور بے نظیر بھٹو کے اکائونٹ میں ہیں۔ ایک سوئس عدالت نے زرداری اور بے نظیربھٹو کو مجرم قرار دیا اور چھے ماہ کی سزاے قید دی جسے اپیل پر معطل کردیا گیا۔ جناب زرداری عدالت میں کبھی پیش نہیں ہوئے۔

نیویارک ٹائمز اس طرح اس مسئلے کو بیان کرتا ہے:

کسی دہشت گرد کے حملے کا نشانے بننے سے خوف زدہ مسٹر زرداری ایوانِ صدر سے شاذ ہی باہر آتے ہیں۔ گذشتہ ۱۰ دنوں میں جب سپریم کورٹ ان کے اختیارات پر بحث کر رہی تھی وہ بیش تر وقت ایوانِ صدر میں رہے۔ گذشتہ ہفتے جب این آر او پر سماعت شروع ہوئی توپاکستان کے ایک معروف اخبار نے ایک دفعہ پھر انھیں ایسے آدمی کی حیثیت سے پیش کیا جسے عام طور پر بدعنوان سمجھا جاتا ہے۔

خلیج ٹائمز بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے: ’’بدھ کو آنے والے فیصلہ مایوس کن حد تک غیرمقبول زرداری پر ایک بڑا حملہ تھا جو اس کے زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔

حقائق کا سامنا کرنے کی ضرورت

بات صرف پاکستانی دانش وروں، سیاسی کارکنوں، صحافیوں ہی کی نہیں، پوری دنیا زرداری صاحب کے معاملے کو ایک ’ٹیسٹ کیس‘  سمجھتی ہے، اور اب اس سے فرار کی کوئی راہ نہیں بچی۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ: ’’الزامات عدالت میں ثابت نہیں ہوسکے اور ہم نے اتنی قید کاٹ لی ہے، اس لیے اب ہم قانون کی گرفت سے آزاد ہیں یا یہ کہ سب کچھ سیاسی انتقام کا شاخسانہ تھا‘‘۔

ہر کوئی جانتا ہے اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے اور مشہور قانون دان ایس ایم ظفر صاحب نے، کہ جو حقائق سے واقف ہیں، صاف لفظوں میں کہا ہے کہ بدعنوانی کے مقدمات کے فیصلے    نہ ہونے میں بڑا دخل اس حکمت عملی کا تھا کہ ملزموں نے عدالتی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے، باربار اور مسلسل تاخیری حربے استعمال کیے۔ اس کا ثبوت وہ حلفیہ بیانات بھی ہیں جو ملزموں کے یا ان کے وکیلوں نے عدالت کے سامنے پیش کیے اور پیشی پر پیشی لیتے چلے گئے۔ سوئٹزرلینڈ کی عدالت کے سامنے زرداری صاحب کے وکیلوں نے ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ تک دیے کہ وہ ایسی بیماری (Dementia) میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے حافظہ متاثر ہوتا ہے اور مریض بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کھلی عدالت میںشفاف طریقے سے جب تک کوئی الزام ثابت نہ ہو، وہ الزام ہی رہتا ہے۔ لیکن عدالتی عمل کی طوالت کا بہانہ بناکر جرم سے فرار کا کوئی جواز نہیں ہے۔ زرداری صاحب کے معاملے میں تو بین الاقوامی اداروں اور آزاد اخبارات کی اپنی تحقیق، کئی مغربی ممالک بشمول سوئٹزرلینڈ، اسپین، فرانس اور انگلستان میں عدالتوں کی تحقیق اور کارروائیاں بھی موجود ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ۹جنوری ۱۹۹۸ء کی اشاعت میں اپنے نمایندے جان ایف بورس (John F. Burus) کی مفصل رپورٹ جو House of Graft: Tracing the Bhutto Millions ___ A Special Reportکے عنوان سے شائع کی ہے، جس میں اخبار نے اپنے ذرائع سے تحقیق کا بھی حوالہ دیا ہے، جوقابلِ توجہ ہے:

بھٹو خاندان کے بارے میں پاکستانی تفتیش کاروں کی جانب سے دستاویزات سامنے آنے کے بعد مسٹر بھٹو اور مسٹر زرداری کے بارے میں کچھ تفصیل گذشتہ برس یورپی اور امریکی اخباروں میں آنا شروع ہوئی۔ لیکن زیادہ واضح تصویر اس وقت اُبھر کر سامنے آئی جب اکتوبر میں نیویارک ٹائمز کو دستاویزات کی کئی جلدیں فراہم کی گئیں۔ ٹائمز نے پاکستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں تین ماہ تک خود تحقیقات کی اور ان مرکزی شخصیات سے انٹرویو بھی کیے جن کا ذکر پاکستانی تفیش کاروں نے کیا تھا۔ پاکستان میں تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت تک جن ۱۰۰ ملین ڈالر کا پتا چلا ہے۔ وہ بدعنوانیوں کی کل یافت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ۱۹۹۶ء میں بے نظیر بھٹو کی برطرفی کے بعد جو تحقیقات شروع کی گئی تھیں ان سے معلوم ہوا تھا کہ ان کے خاندان اور ساتھیوں نے سرکاری کاموں کے تقریباً ہر دائرے میں___ چاولوں کے سودے، سرکاری زمین کی فروخت اور سرکاری ویلفیئر اسکیموں سے حصہ___ غیرقانونی منافع اور رشوت کی شکل میں ۵ئ۱ارب ڈالر تک جمع کیے۔

اس سلسلے کی سب سے ہوش ربا شہادت امریکا کے ادارے ’نیشنل سیکورٹی ایجنسی‘ (NSA) کی وہ ٹیلی فون ریکارڈنگ ہے ،جو نومبر ۲۰۰۷ء میں خود محترمہ نے اپنے صاحبزادے بلاول زرداری سے دوبئی سے کی تھی، اور جس میں اپنے بنک اکائونٹس کی تفصیل اور ضروری ہدایات دی گئی تھیں۔ یہ پوری تفصیل رون سسکند (Ron Suskind) نے اپنی کتاب The Way of The World (مطبوعہ ۲۰۰۸ئ) میں دی ہے۔

یہ سب باتیں ساری دنیا میں زبان زدِخاص و عام ہیں اور ان کا سامنا کیے بغیر ان الزامات سے گلوخلاصی ممکن نہیں۔ ہم اب بھی یہی کہتے ہیں کہ الزامات میں بڑا وزن ہے اور واقعاتی شہادت زوردار ہے، تاہم مسئلے کا حل وہی ہے جو عدالت ِعظمیٰ نے تجویز کیا ہے، یعنی مقدمات اور الزامات کا کھلی عدالت میں مقابلہ۔ سب کو اپنے دفاع کا پورا حق اور موقع ملنا چاہیے مگر محض سیاسی انتقام کا واویلا حقائق سے فرار اور الزامات کو ختم نہیں کرتے بلکہ شبہات کو بڑھا دیتے ہیں۔

سرے محل اور سوئس بنک کے ۶۰ ملین ڈالر تو زرداری صاحب کے اپنے تحریری اعتراف کے مطابق ان کی ملکیت ہیں۔ لیکن جو دستاویزات موجود ہیں ان کے مطابق تو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کے پاس یہاں پاکستان میں ۲۲ کروڑ اور ملک سے باہر ۵ئ۱ بلین ڈالر کے اثاثہ جات ہیں۔ اگر یہ ہوائی بات ہے تو سچائی کو ثابت کرنا چاہیے اور اگر یہ رقوم اور اثاثہ جات ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کیسے حاصل کی گئیں۔ اس لیے کہ زرداری صاحب نے ۱۹۹۰ء میں پارلیمنٹ کے سامنے اپنے اثاثہ جات میں اپنی جس دولت اور آمدنی کا ذکر کیا ہے، اس سے تو آج کی دولت کے عشرعشیر کی بھی توجیہہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی محاذآرائی مسئلے کا حل نہیں۔ حقائق کا سامنا کرنے کے سواکوئی چارۂ کار نہیں ہے۔

ہم یہ سب حقائق بڑے دکھ بلکہ شرمندگی کے احساس کے ساتھ نذرِ قارئین کر رہے ہیں لیکن یہی ہے وہ داستان جس نے پوری دنیا میں پاکستان کی عزت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ پورے عالمی میڈیا میں ہماری سیاسی قیادت اور کارفرما عناصر کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے، وہ ہرپاکستانی کے لیے شرم اور خفت کا باعث ہے۔ ملک کو بدعنوانی کا جو ناسور کھائے جا رہا ہے، اس نے ملک کو اخلاقی بگاڑ، معاشی تباہی اور سیاسی خلفشار کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔

ہماری اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے کہ کھلی کھلی بدعنوانی و بددیانتی کے مرتکب افراد اپنے گھنائونے کرتوتوں پر نادم ہونے کے بجاے چوری اور سینہ زوری کی راہ پر گامزن ہیں۔ قتل اور اغوا کے ملزم سرعام کہہ رہے ہیں کہ ہم پر کرپشن کا تو کوئی الزام نہیں ہے۔ گویا مال لوٹنے والوں کے مقابلے میں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا، بوریوں میں لاشوں کے ’تحفے‘ بھیجنا اور زندہ انسانوں کو تعذیب اور ان کی ہڈیوں کو برموں سے چھیدنا (drilling) کوئی جرم نہیں، اجتماعی خدمت تھی۔ جو قوم اپنے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لاسکے، وہ اجتماعی بگاڑ اور تباہی سے بچ نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پوری قوم نے عدالتِ عظمیٰ کے ۱۶دسمبر کے فیصلہ پر سُکھ کا سانس لیا ہے اور عدلیہ کے اس اقدام سے مظلوم انسانوں کی آنکھوں کو اُمید کی ایک کرن نظر آنے لگی ہے۔ لیکن جہاں اس ملک کے عوام اور تمام مظلوم طبقات نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور چین کا سانس لیا ہے، وہیں اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ مفاد پرست عناصر اور ان کے نام نہاد لبرل دانش ور میدان میں کود پڑے ہیں اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں اور اداروں کی کش مکش کا واویلا کر رہے ہیں۔

عدلیہ کے فیصلے پر اعتراضات

یہ بھی ایک عجب تماشا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیپلزپارٹی کے ترجمانوں اور اس کے ہم نوا دانش وروں اور صحافیوں نے کھل کر تنقید کی ہے۔ بلاشبہہ ہر فیصلے کا قانون اور مسلّمہ اصولِ انصاف کی روشنی میں جائزہ لیا جاناچاہیے، تاہم جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم  کیا جاسکتا ہے: ایک سیاسی اعتراضات جن میں کہا گیا ہے عدالت نے مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا ہے اور فیصلے میں ایک سیاسی پیغام بھردیا ہے۔ کچھ نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے کہ جج انتقام    لے رہے ہیں۔ کچھ تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ اسے ججوں اور فوجی مقتدرہ کی طرف سے ’جوابی حملہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

ہماری نگاہ میں یہ تمام اعتراضات نہ صرف یہ کہ حقائق سے کوئی نسبت نہیں رکھتے، بلکہ  بیمار ذہنوں اور مجرم ضمیروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کی ۲۷دسمبر ۲۰۰۹ء کی نوڈیرو کی تقریر بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی پوزیشن کو مزید کمزور کرنے کا باعث ہوئی ہے۔  ہمارا مشورہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت فرار اور تصادم کایہ راستہ اختیار نہ کرے۔ اس میں اس کا اور ملک کا خسارہ ہے۔ حقائق کا سامنا کرے اور دستور اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا دفاع کرے۔ اس کے بغیر اسے نہ سندِجواز حاصل ہوسکتی ہے اور نہ اعتبار ہی بحال ہوسکتا ہے۔

رہے دوسرے اعتراضات، تو ان کا دلیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم مختصراً ان کا جائزہ لیتے ہیں:

  • اختیارات سے تجاوز: پہلا اعتراض یہ ہے کہ سپریم کورٹ عدالتی فعالیت (judicial activism) کا راستہ اختیار کر رہی ہے اور یہ اس کا اپنے دائرۂ کار سے باہر جانے اور انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے دائرۂ کار میں مداخلت کے مترادف ہے‘‘___ ہماری نگاہ میں عدالتی فعالیت اور عدالتی نظم و ضبط دونوں کے حق میں مضبوط دلائل موجود ہیں اور دنیا کے مہذب اور جمہوری ممالک میں دونوں ہی کی مثالیں ملتی ہیں۔

ہماری دیانت دارانہ راے ہے کہ مارچ ۲۰۰۹ء میں عدلیہ کی بحالی کے بعد سے عدلیہ نے پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے اور دستور کے تحت دیے گئے اختیارات سے کہیں تجاوز نہیں کیا۔ دستور کی دفعہ (۳) ۱۸۴ بڑی واضح ہے کہ عدالت کو بنیادی حقوق کی حفاظت کے باب میں عوامی اہمیت کے مسائل پر ازخود کارروائی کا اختیار ہے۔ عدالت نے اس اختیار کو عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے پوری احتیاط سے استعمال کیا ہے۔ لیکن چونکہ اس کی زد حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں پر پڑتی ہے، اس لیے وہ اس پر چیں بہ جبیں ہیں۔ اس نوعیت کی عدالتی فعالت کی مثالیں امریکا، یورپی ممالک اور خود بھارت میں بے شمار موجود ہیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے تو دہلی میں بسوں سے خارج ہونے والے دھوئیں تک کا نوٹس لیا اور حکومت نے عدالت کے احکام کی پاس داری کی۔

ہماری نگاہ میں اداروں کے تصادم کی جو بات کی جارہی ہے وہ حقائق کے منافی تو ہے ہی لیکن اس کے اندر ملک میں فساد، خرابی اور بگاڑ کی کیفیت پیدا کرنے کا خطرہ ہے اور یہ سب کے لیے بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے ملک کی سیاسی قیادت، خصوصیت سے حزبِ اختلاف اور میڈیا کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور برائی کو آغاز پر ہی مٹانے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

  • فرد یا جماعت کو ھدف بنانا: دوسرا بڑا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ: ’’اس فیصلے کے نتیجے میں خاص طور پر ایک فرد یا جماعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میڈیا کے کچھ عناصر اس سلسلے میں بہت منفی کردار ادا کررہے ہیں‘‘۔ ہماری نگاہ میں یہ الزام بھی کُلی طور پر بدنیتی پر مبنی ہے۔ عدالت کے مذکورہ فیصلے میں کسی فرد کا ذکر نہیں ہے۔ تمام بات اصولی اور عمومی حوالہ لیے ہوئے ہے۔ اب اگر اس کی زد چند خاص افراد یا جماعتوں پر پڑتی ہے تو یہ ان کو سمجھناچاہیے کہ اس کی وجہ ان کے اپنے رویے اور طور طریقے ہیں، جن کی اصلاح کے لیے انھیں فکر کرنی چاہیے نہ کہ آئینے میں چہرے کے داغ دیکھ کر وہ آئینے کو چکناچور کرنے کی سعی بلیغ فرمائیں۔

اس باب میں یہ بات بھی بڑی پریشان کن اور نقصان دہ ہے کہ میڈیا کی آزادی اور خصوصیت سے چند لائقِ احترام صحافیوں اور اینکرپرسنز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صدر سے لے کر وزیروں اور پارٹی لیڈروں تک نے ان پر رکیک حملے کیے ہیں۔ یہ آمرانہ ذہن اور مجرم ضمیر کی علامت ہے۔ قوم کو ایسی جارحیت کا دلیل کے ساتھ اور جم کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ ان پر اقتدار کا یہ حملہ ہرگز قابلِ برداشت نہیں۔ صحافیوں کو نشانہ بنانے کی بات تو اب اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ وزرا کے بچے تک ان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر اس روش کا فوری طور پر اور سختی سے سدباب نہ کیا گیا تو یہ شاخسانہ ملک کی آزادی اور اس کے اداروں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

  • مھلت کیوں دی؟ ایک تیسرا اعتراض یہ ہے:’’اگر عدالت کو اس آرڈی ننس کو اس کے یومِ پیدایش سے  باطل قرار دینا تھا تو اس کو چار مہینے کی نئی زندگی عطا کرکے پارلیمنٹ کو کیوں بھیجا؟‘‘ بلاشبہہ ہماری نگاہ میں اس کی ضرورت نہیں تھی اور عدالت اپنے ۳۱ جولائی کے فیصلے میں بھی اسے باطل قرار دے سکتی تھی، لیکن غالباً اس نزاکت کی بنا پر ایسا نہ کیا گیا، چونکہ اس کو بظاہر سیاسی مصالحت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اس لیے یہ موقع پارلیمنٹ اور سیاسی عمل کو دیا جائے کہ وہ خود اس کی اصلاح کرلیں۔ پارلیمنٹ کا کام محض اس آرڈی ننس کی تائید اور منظوری نہیں بلکہ اس کی تبدیلی بھی ہوسکتا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلے تو اس کو اندھادھند طریقے سے منظور کرانے کی کوشش کی اور کمیٹی میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے اسے تقریباً منظور کرا لیا، لیکن پھر پارلیمنٹ اور عوام کا ردعمل دیکھ کر اسے واپس لیا۔ یہ ساری کارستانی حکومت کی بدنیتی کا بین ثبوت ہے۔ حالانکہ حکومت کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی پارٹیوں کو شریکِ مشورہ کرکے اس کو یکسر بدل ڈالتی اور بدعنوانی کی ’دھلائی‘ کے بجاے اسے حقیقی بدعنوانی پر گرفت کا قانون بنا دیتی۔ چونکہ پارلیمنٹ اس امتحان میں ناکام رہی اور عدالت نے بجاطور پر ایک غلط قانون کو غلط قرار  دے کر اپنی ذمہ داری ادا کی ہے، اس پر اس کی تحسین ہونی چاہیے، نہ کہ نکتہ چینی!
  • دستور کی اسلامی دفعات پر اعتراض: چوتھا اعتراض سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے اوراس ملک کے نام نہاد لبرل طبقے کے ذہن کا ترجمان ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی حقوقِ انسانی کی علَم بردار خاتون بھی اس فیصلے پر تلملا اُٹھی ہیں کہ عدالت نے دستور کی دفعہ ۲ الف، ۶۲، ۶۳ اور ۲۲۷ کا حوالہ کیوں دے دیا۔ یہ اس طبقے کے اسلام سے گریزپا (الرجک) ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ ان کو یہ بھی اعتراض ہے کہ دستور میں یہ ترامیم جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوئیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ پارلیمنٹ نے ان کی توثیق کی ہے، تمام جماعتوں نے ان کو قبول کیا ہے   اور میثاقِ جمہوریت میں دستور کے ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی کا جو عہدوپیمان کیا گیا ہے  اس میں یہ سب دفعات من و عن شامل ہیں۔ ایوب خان کے مسلط کردہ مسلم فیملی لاز پر توکبھی     یہ تشویش اس طبقے کونہیں ہوئی کہ ایک آمرمطلق نے اسے مسلط کیا تھا اور دستور میں بھی اسے تحفظ ایک آمر ہی نے دیاتھا، لیکن پاکستان کے اسلامی تشخص اور کردار کو دستور میں واضح کرنے والی جو ترمیم بھی ہوئی وہ ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔

اسی سلسلے میں یہ بے ہودہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ: ’’امانت، دیانت اور صادق و امین ہونے کا تعین کون اور کیسے کرے گا؟‘‘ حالانکہ دنیا کے تمام قانونی اور اخلاقی ضابطوں میں یہ   باتیں معروف ہیں۔ برطانوی دستور و قانون کے بہترین شارح سر آئیور جیننگز نے اپنی کتاب Cabinet Government(وزارتی حکومت) میں کھل کر یہ بحث کی ہے کہ جمہوریت میں اربابِ اختیار و اقتدار کے لیے سب سے ضروری وصف دیانت اور امانت ہے۔ اگر اہلیت کی کمی ہو تو وہ مشیروں اور اہل ترین افراد کی مشاورت سے دُور کی جاسکتی ہے، لیکن اگر دیانت نہ ہو تو پھر ایسے فرد کا حکمرانی کا حق ختم ہوجانا چاہیے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے بددیانت اور بدعنوان افراد کبھی بھی عوام یا قانون کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکے۔

ان اعتراضات کے علاوہ ایک سلسلہ اس بدزبانی اور یاوہ گوئی کا ہے، جس کا سہرا   زرداری صاحب کے خاص حواریوں کے سر ہے۔ زرداری صاحب خود اداروں کے تصادم اور مخالفین کی آنکھ پھوڑنے کی باتیں کر رہے ہیں اور من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید کے مترادف جو گُل کھلا رہے ہیں ان پر ماتم تو کیا ہی جائے گا، لیکن وہ خطرے کی گھنٹی کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سینیر راہنما اور اسمبلی میں چیف وہپ خورشید شاہ صاحب ذرا محتاط انداز میں  ’سندھ کارڈ‘ ان الفاظ میں استعمال کرتے ہیں کہ:’’سندھ نے وفاق کے لیے دو وزراے اعظم کی قربانی دی ہے، اب مزید کوئی قربانی نہیں دیںگے‘‘، جب کہ سندھ کے صوبائی وزیر اور قومی اسمبلی کی اسپیکرصاحبہ کے شوہر نامدار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پاکستان کو توڑنے اور بموں سے جہاز اڑانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی صدر رانا آفتاب صاحب، سینیرصوبائی وزیر راجا ریاض مزاحمت کی سیاست کی وارننگ دیتے ہیں، لاشوں کو گرانے کی بات کرتے ہیں۔

یہ سارے بیانات بڑے تشویش ناک اور خطرناک رجحانات اور عزائم کی خبر دیتے ہیں۔ جمہوریت کو خطرہ عدلیہ یا صحافت سے نہیں، بدعنوانی کے مرتکب افراد اور تصادم کی سیاست کے   ان دعوے داروں سے ہے۔ اس روش کو برداشت کرنا ملک و قوم کے لیے زہر قاتل کی مانند ہے۔ تمام دینی اور سیاسی قوتوں کا فرض ہے کہ سیاست کے اس رُخ پر سختی سے احتساب کریں اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہ اُترنے دیں۔

احتساب کے مؤثر نظام کی ضرورت

آخر میں ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں حکومت کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ عدالتِ عظمیٰ کے اس  اور دوسرے تمام فیصلوں پر دیانت سے ان کے الفاظ اور اس کی روح کے مطابق عمل کرے اور اس دوغلی سیاست کو ترک کردے کہ زبان سے کہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن عملاً اس فیصلے کے ہر تقاضے کو نہ صرف نظرانداز کرے بلکہ اس کے برعکس اقدام کرے۔

ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر قومی احتساب کا مؤثر اور قابلِ اعتماد نظام قائم کیا جائے۔ نیب کا ادارہ اپنی افادیت کھو چکا ہے اور  یہ وزارتِ قانون کی گرفت میں ہے جس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ آزادانہ قانونی کارروائی اور  ایسی قابلِ بھروسا عدالتی اتھارٹی جو سب کو شفاف انصاف دے سکے وقت کی اولین ضرورت ہے۔ میثاقِ جمہوریت میں دونوں بڑی جماعتوں نے اس کا وعدہ بھی کیا ہے۔ کرپشن کے عفریت کو قابو میں کرنے کے لیے تفتیش اور تحکیم کے آزاد اور قابلِ اعتماد ادارے کا وجود ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں جو مسودہ قانون حکومت لائی ہے، وہ غیرتسلی بخش اور ناقابلِ قبول ہے۔ وہ بدعنوانی کے تحفظ کا ذریعہ تو بن سکتا ہے، اس کے خاتمے کا منبع نہیں بن سکتا۔ اس لیے اولین اہمیت احتساب اور تفتیش کے مناسب ادارے اور انتظام کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی اور بے لاگ طور پر اس ادارے کا قیام ہے ورنہ ملک بدعنوانی کی لعنت سے نجات نہیں پاسکے گا اور قومی دولت، قوم کی بہبود کے لیے استعمال ہونے کے بجاے چند مفاد پرستوں کی عیاشیوں کا سامان فراہم کرتی رہے گی۔ اس طرح ملک کو بالآخر تصادم اور انارکی کی طرف جانے سے روکنا مشکل ہوگا۔

تفتیش کا آزاد نظام، احتساب کا قابلِ اعتماد ادارہ اور آزاد میڈیا ملک کو اس دلدل سے نکالنے میں سب سے مؤثر کردار اداکرسکتے ہیں، نیز قانون کے ساتھ اخلاق کی قوت کا استعمال بھی وقت کی ضرورت ہے۔ کسی قوم کی قوت کا آخری منبع افراد اور قوم کا اخلاق ہے۔ خود قانون بھی اخلاق کے بغیر اپنا اصل کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اخلاق محض وعظ و نصیحت کا نام نہیں ہے، بلکہ ہرسطح پر کردارسازی اور قیادت کا بہتر نمونہ اس کا اصل سرمایہ ہے۔ مقصد کا شعور، خوداعتمادی، نظم و ضبط اور اتحاد اور یگانگت کے اصول ہی قوموں کو ترقی کی راہ پر لے جاتے ہیں۔ خود غرضی، ظلم اور حقوق کی پامالی، نفسانفسی اور تصادم زوال کا باعث ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے وقت ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو دستور ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا تھا، اس میں ایک بڑا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ کرپشن اور بدعنوانی کے ساتھ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ لا اینڈ آرڈر کے قیام اور جان و مال کے تحفظ کے بعد جس چیز کو قائداعظم نے سب سے اہم قرار دیا وہ رشوت اور کرپشن سے نجات ہے۔ قائداعظم کا ارشاد تھا:

(رشوت اور بدعنوانی) دراصل یہ ایک زہر ہے۔ ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کردینا چاہیے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں مناسب اقدامات کریں گے، جتنی جلد اس اسمبلی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ص ۳۵۸)

۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد قائداعظم کے اس ارشاد پر فوری عمل  کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کیا یہ قوم اور قومی قیادت ایک بار پھر اس نادر موقع کو ضائع کر دے گی، یا وقت کی ضرورت کا احساس کرکے ہم سب اس لعنت کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون، اخلاق، راے عامہ اور اجتماعی اصلاح کا پُرامن اور معقول راستہ اختیار کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں گے؟

قائداعظم نے اپنا آخری پیغام اس قوم کو ۶؍ اگست ۱۹۴۸ء عیدالفطر کے موقع پر دیا اور آج ہم پاکستان کے تمام لوگوں کو اس پیغام کی یاد دیانی کراتے ہیں:

میں آپ سے یہ اپیل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں، آپ اسے الفاظ اور زبان کا کوئی سا جامہ پہنا دیں، میرے مشورے کا لُبِ لباب یہی نکلے گا کہ ہر مسلمان کو دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ (ایضاً، ص ۵۰۲-۵۰۳)

پاکستان آج اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہرطرف سے سنگین خطرات کی یورش ہورہی ہے اور گمبھیر بحرانوں کے ایک خوف ناک سیلاب بلکہ سونامی نے زندگی کے ہرشعبے کوتہ و بالا کر دیا ہے۔ عوام بے چین ہیں، دانش ور انگشت بدنداں ہیں، نوجوان مایوس ہیں،  دوست اوربہی خواہ دل گرفتہ ہیں لیکن حکمران جن پر سب سے بڑی ذمہ داری ہے، بے حسی اور   بے تدبیری کی تصویر بنے ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مفاد پرستوں کو  من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ ہے، ادارے تباہ ہو رہے ہیں، امن و امان کی صورت ابتر ہے،   شب وروز کا اطمینان و سکون اور چین رخصت ہوچکا ہے، اور معیشت کا حال دگرگوں ہے۔ غربت، فاقہ کشی اور بے روزگاری میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے، کرپشن کا طوفان ہے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے۔

’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ نے اب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ صوبہ سرحد، صوبہ بلوچستان اور مرکز کے زیرانتظام علاقہ جات (فاٹا) میں فوجی آپریشن جاری ہے، جس سے عملاً سارا ملک اس آگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ پاکستان کی قومی فوج اور عوام ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ امریکا کی مداخلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب اس کے سفارت کار کھلے بندوں حکمرانی (مائیکرومینجمنٹ) کرتے نظر آرہے ہیں۔ امریکی ڈرون حملے روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں، جن پر رسمی احتجاج کا تکلف بھی روا نہیں رکھا جا رہا۔ امریکا کی    خفیہ ایجنسیوں کے کارندے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں سرگرم ہیں اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایسی جارحانہ دراندازیوں پر پوری بے حمیتی کے ساتھ عملاً ممنونیت کے پھول نچھاور کر رہے ہیں۔ ایک نہیں متعدد امریکی ذمہ دار اپنی نجی گفتگو میں اس امر کا فخر سے اظہار کر رہے ہیں کہ: موجودہ صدر آصف زرداری سابقہ صدر جنرل مشرف سے بھی زیادہ خوش دلی کے ساتھ امریکا کے ہر اشارے پر عمل کر رہے ہیں___ یہی وجہ ہے کہ ۲۰ ماہ ہی میں موجودہ حکمرانوں نے عوام کو بُری طرح مایوس کر دیا ہے، یوں ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو روشنی کی جو کرن اُفق پر اُبھری تھی وہ دم توڑ کر رہ گئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی نمایندہ پامیلا کونسٹیبل پاکستان کے اپنے حالیہ دورے کے بعد ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات کو یوں بیان کرتی ہے:

طالب علم، دکان دار عام شہری غرض جس سے بھی پچھلے ہفتے بات کی گئی، اس نے شکایت کی کہ زرداری حکومت نے ملک کے کسی بھی پیچیدہ مسئلے میں عوام کو سہولت نہیں دی۔ سب نے کہا کہ فوجی حکومت کے بجاے سول حکومت کے آنے پر ہم نے جو اُمیدیں باندھی تھیں وہ ختم ہوگئی ہیں۔

پامیلا کونسٹیبل، قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے ایک پروفیسر کا یہ تبصرہ نقل کرتی ہے:

یہ تاثر عام ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب قوم کو مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، حکومت بے پتوار کشتی کی مانند ہچکولے کھا رہی ہے۔ مسٹر زرداری کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے بہترین آدمیوں کو اپنے سے دُور کر دیا ہے اور کابینہ میں ان لوگوں کو بہ کثرت شامل کررکھا ہے جو تعمیل کے لیے احکامات کے منتظر رہتے ہیں۔ اس لیے حکومت سے توقعات ختم ہوگئی ہیں۔

برٹش کونسل کے زیراہتمام پاکستانی نوجوانوں کے ایک سروے کے مطابق جو The Next Generation Report (نئی نسل کے بارے میں رپورٹ)کی شکل میں ۲۱ نومبر ۲۰۰۹ء کے اخبارات میں شائع ہوا ہے، نوجوانوں کے صرف ۱۵ فی صد نے حکومت کے رُخ اور کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، جب کہ ۸۵ فی صد غیرمطمئن ہیں اور ۷۲ فی صد نے کہا ہے کہ اس زمانے میں ہمارے معاشی حالات بگڑے ہیں۔ رپورٹ کے الفاظ میں:

نتائج زیادہ تر تشویش ناک ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ بیش تر پاکستانی ادارے بدعنوانی سے آلودہ ہیں۔ زیادہ تر یہی سمجھتے ہیں کہ حکومت کسی بھی سطح پر کچھ کرنے میں ناکام ہے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۲نومبر ۲۰۰۹ء)

یوں تو اس حکومت کی کارکردگی روزِ اول ہی سے مایوس کن تھی، لیکن گذشتہ دو ماہ میں  حالات نے بڑی فیصلہ کن کروٹ لی ہے۔ ایک طرف امریکا کے شدید دبائو کے تحت سوات اور مالاکنڈ کے بعد جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز، اور اس کے ردعمل میں صوبہ سرحد ہی   میں نہیں اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں بھی تشدد کا لاوا کچھ اس طرح پھٹا ہے کہ ان دو مہینوں میں سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن گئے ہیں اور پورے ملک کا سیکورٹی کا نظام درہم برہم ہے، حتیٰ کہ  تعلیمی ادارے تک محفوظ نہیں رہے ہیں۔

فیصلہ کن موڑ

اس پس منظر میں دو اہم ترین واقعات ایسے ہیں، جنھوں نے وطن عزیز کو ایک فیصلہ کن  موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ پہلا ’کیری لوگر بل‘ کی شرمناک شرائط اور اس کے بعد امریکا کا منظور کیا جانے والا اسی نوعیت کی شرائط سے بھرپور فوجی امداد کا قانون۔ دوسرا این آر او (’قومی مفاہمتی آرڈی ننس‘) کے بدنامِ زمانہ قانون کا سپریم کورٹ کے فیصلے کے تقاضے کے نام پر قومی اسمبلی میں پیش کرنا، پھر اسے واپس لینا۔ عوامی دبائو کے تحت ہزار پس و پیش کے بعد ۸۰۴۱ این آر او زدہ افراد کی فہرست کی اشاعت، جس میں صدرِ مملکت سے لے کر مرکزی اور صوبائی وزرا تک اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لیڈر سرفہرست ہیں۔ اس میں متعدد سفیر اور بیورو کریسی کے بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ پہلے نے ہماری سیاسی حاکمیت کو پارہ پارہ کیا تو دوسرے نے ملک کی اخلاقی ساکھ اور عزت کو خاک میں ملا دیا۔

ان تمام ایشوز پر جس بھونڈے انداز میں اور جس بے غیرتی کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہے اس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور حکومت بلکہ خصوصیت سے صدر زرداری، پیپلزپارٹی اور   ایم کیو ایم کی قیادت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آج پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے   پست ترین مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اور اگر این آر او کے آئینے میں اس بدقسمت ملک کی قیادت کی بدنما شکل میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ ۲۰۰۹ء کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے پوری کر دی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ان حالات کا بے لاگ جائزہ لے کر خرابی کی اصل جڑ کا تعین کیا جائے۔ اب لیپاپوتی سے کوئی کام نہیں چل سکتا۔ تلخ حقائق کا کھل کر سامنا کرنا ہوگا۔ قوم کو اور   خود اپنے کو دھوکا دینے کے لیے اس وقت مفادپرست قیادت جو تین بڑی گمراہ کن باتیں کر رہی ہے، ان کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔

بے بنیاد خدشات

  •  جمھوریت کے خلاف سازش: پہلی بات یہ کہی جارہی ہے کہ: ’’یہ سب کچھ جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہے۔ جب بھی جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے، اس قسم کے الزامات شروع کر دیے جاتے ہیں۔ دراصل یہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے‘‘۔

ہم صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ آمریت فوجی ہو یا سول، تباہی کا راستہ ہے اور پاکستانی قوم باربار کے تجربے کے بعد یکسو ہے کہ فوج کی سیاسی مداخلت یا خفیہ قوتوں کا سیاسی کھیل کسی شکل میں بھی قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ قوم اور اعلیٰ عدلیہ نے پہلی بار دوٹوک انداز میں فوجی مداخلت کے امکان (option) کو رد کر دیا ہے اور متفقہ طور پر طے کر دیا کہ آیندہ کسی کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی ناقابلِ برداشت ہے کہ آمریت اور خفیہ قوتوں کا نام لے کر سیاسی قیادت اپنی مجرمانہ حرکتوں کے لیے سندِجواز یا رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ بلاشبہہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت پر قابلِ ترجیح ہے، لیکن بدترین جمہوریت خود جمہوریت کی   تباہی کا راستہ بناتی ہے۔ جمہوریت کو عوام کے لیے خیروفلاح اور عدل و ترقی کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اس لیے کہ جمہوریت محض پرچی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا نام نہیں۔ جمہوریت دستور اور قانون کی حکمرانی، عوام کے مفادات، احساسات اور عزائم کی بالادستی، پارلیمنٹ کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق کی حفاظت اور پارلیمنٹ، میڈیا اور عوام کے سامنے حکمرانوں کی جواب دہی کا نام ہے۔ محض آمریت کا ہوّا دکھا کر جمہوریت کی خوبیوں سے قوم کو محروم کر کے زبانی جمع خرچ سے جمہوریت کا واویلا کرنا بھی ایک ایسا مجرمانہ فعل ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ انتقام غلط ہے لیکن انصاف اور احتساب، جمہوریت کی روح اور اسلام کا تقاضا ہے اور جمہوریت ہی کے نام پر احتساب اور انصاف سے بچنے کی کوشش مجرمانہ فعل ہے۔ کرپشن ایک سرطان (کینسر) ہے اور محض یہ کہہ کر کہ: ’’ہمیں عوام نے ووٹ دیا ہے‘‘، کرپشن پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قانون اور انصاف کی گرفت سے بچا جاسکتا ہے۔

  •  نظام کو خطرہ: دوسری نہایت گمراہ کن دلیل بار بار یہ دی جارہی ہے کہ: ’’نظام کو خطرہ ہے‘‘۔ خطرہ نظام کو نہیں بلکہ بدعنوان عناصر اور مفادات اور طاقت کے اس شیطانی شکنجے کو  خطرہ ہے جس کا سیاہ چہرہ پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے اور جس نے اصل دستوری اور جمہوری نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ دستور اور قانون کی بالادستی ہی نظام کے استحکام کا ذریعہ ہے۔ تبدیلی، دستور اور قانون کے مطابق آنی چاہیے اور سسٹم کی کامیابی کے معنی ہی یہ ہیں کہ حکمرانی کا نظام دستور اور قانون کے مطابق چلے، اور اگر حکمران ناکام ہورہے ہوں یا قانون کی گرفت میں آرہے ہوں تو دستور اور قانون کے مطابق ان کا احتساب ہو اور تبدیلی قانون کی حدود میں لائی جائے۔

درمیانی مدت کے انتخابات (مڈٹرم الیکشن) بھی اس کا ایک ذریعہ ہیں اور یہ ایک معروف جمہوری و دستوری عمل ہے۔ دنیا کے تمام ہی جمہوری ممالک میں یہ عمل جاری و ساری ہے۔ امریکا میں تو دستوری نظام ہی ایسا ہے کہ ہر دوسرے سال قیادت کو عوام کی عدالت میں جانا پڑتا ہے۔ برطانیہ جسے پارلیمانی جمہوریت کا گہوارا کہا جاتا ہے وہاں ایک دو بار نہیں، دسیوں بار پارلیمنٹ کا انتخاب مقررہ مدت سے پہلے ہواہے۔ اس لیے درمیانی مدت کے انتخابات کو گالی بناکر پیش کرنا دراصل اپنی ناکامیوں اور مجرمانہ افعال کے احتساب سے بچنے کی کوشش ہے، جو ہر اعتبار سے جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں اور روایات کے خلاف ہے۔ درمیانی مدت کے انتخابات ہی مسئلے کا حل نہیں اور نہ ابھی قوم نے اس کا مطالبہ کیا ہے۔ اس وقت تو مطالبہ صرف یہ ہے کہ: ’’پارلیمنٹ کو بالادست کیا جائے، عدالت کی آزادی اور غیر جانب داری کی مکمل حفاظت ہو، اور قانون کے مطابق ہر ایک کا احتساب اور جواب دہی ہو‘‘۔ لیکن ان معقول مطالبات پر ’نظام‘ کے ’درہم برہم‘ ہونے کی دہائی دی جانے لگتی ہے اور اس میں حکومت ہی نہیں دوسری سیاسی جماعتیں جن کو عوام کے حقوق اور دستور اور قانون کی پاس داری کا علَم بردار ہونا چاہیے، خود وہ بھی سخت الجھائو اور ذہنی انتشار کا شکار نظر آتی ہیں۔

اس لیے ہم یہ بات برملا کہنا چاہتے ہیں کہ دستور اور قانون کے مطابق مکمل، شفاف اور بے لاگ احتساب اور انصاف سے کسی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ نظام کے تحفظ اوراستحکام کے لیے ضروری ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہوں اور قانون کے مطابق ہر حکمران اور اس کے ہراقدام کا احتساب ہو، خصوصیت سے کرپشن کے باب میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے۔ نہ کسی کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے اور نہ اصل مجرموں کو قانون کی گرفت سے فرار کا موقع دیا جائے۔ قانون اور عدالت کے سامنے سب کو پیش ہونے کا موقع ہو، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب فوری طور پر احتساب کا ایک قابلِ اعتماد اور غیر جانب دار ادارہ قائم کیا جائے اور کھلی عدالت میں پورے شفاف انداز میں اُوپر سے نیچے تک ان تمام افراد کو جن پر یہ الزامات ہیں، اپنی صفائی کا پورا موقع ملے۔ ان کے اور قوم کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ جو بے قصور ہیں وہ عزت سے بری ہوں اور جنھوں نے قوم کاسرمایہ لُوٹا ہے اور طاقت کا غلط استعمال کیا ہے ان کوقرار واقعی سزا ملے اور عوام کی دولت ان کو لوٹائی جائے۔ حق و انصاف کا یہی راستہ ہے اور اس سے انحراف کی جو کوشش بھی کی جائے گی، اسے قوم کبھی قبول نہیں کرے گی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بارے میں بھی پیپلزپارٹی کی قیادت بڑی بے سروپا باتیں کہہ رہی ہے، جس کے پردے کے پیچھے مجرم ضمیر کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آج نہیں آئی ہے، ۱۱ سال سے اس کی رپورٹیں آرہی ہیں۔ یہ محض پاکستانی ادارہ نہیں ایک عالمی تنظیم ہے جس کا طریقۂ کار معروف ہے۔ اس کی رپورٹ  محض ہوائی خیالات و تصورات پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس کے اپنے جائزے کے علاوہ اس بارے میں دوسرے بین الاقوامی اداروں کے تیار کردہ جائزوں سے بھی استفادہ کیا جاتاہے، جن میں عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک بھی شامل ہیں۔

یہ توایک آئینہ ہے۔ اگر اس آئینے میں آپ کی شکل بدنما اور داغ دار نظر آرہی ہے تو آئینے کو برا بھلا کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فکر آپ کو اپنی کرنا چاہیے  ع

زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا

  •  میڈیا پر الزام: اس سلسلے میں تیسری بات بڑے دھڑلے سے یہ بھی کہی جارہی ہے کہ: ’’یہ سب کچھ پریس اور خصوصیت سے الیکٹرانک میڈیا کا کیا دھرا ہے اور اسے لگام دینے کی ضرورت ہے‘‘۔ ہم صحافت کی آزادی کے ساتھ اس کے ذمہ دار کردار کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ بنیادی سیاسی ایشوز کے سلسلے میں گذشتہ دو تین برسوں کے دوران میں میڈیا کا کردار بحیثیت مجموعی مثبت رہا ہے اور قومی زندگی کو جو خطرات درپیش ہیں، ان کو اس نے بروقت نمایاں (highlight) کیا ہے۔ آمریت کے خلاف عوامی جدوجہد، عدلیہ کی آزادی کی تحریک اور برسرِاقتدار طبقوں اور بااختیار افراد کے اجتماعی احتساب کے سلسلے میں میڈیا کا کردار مفید اور حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ممد اور مددگار رہا ہے۔ اربابِ حکومت کو ان بے جان حیلوں کا سہارا نہیں لینا چاہیے بلکہ حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔ اس کے سوا اب ان کے لیے بچائو کا کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ اسی سے نظام کی اصلاح کی راہیں استوار ہوں گی۔

اس وقت ’زرداری گیلانی حکومت‘ جن بحرانوں کے گرداب میں ہے، ان کی حقیقت کو  سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ ملک اور خصوصیت سے اس کی سیاسی قیادت جس بحران کا شکار ہے،   وہ کثیرجہتی (multi-dimensional) ہے۔ ضروری ہے کہ قوم اور پارلیمنٹ دونوں کے سامنے اس بحران کے اہم ترین پہلو کھول کر رکھ دیے جائیں، تاکہ اصلاحِ احوال کی مؤثر تدبیر کی جاسکے۔

ہماری نگاہ میں اس کے مندرجہ ذیل پہلو اہم ہیں:

سندِ جواز کا بحران

۱-  اولین طور پر زرداری حکومت اپنی سندِ جواز کے بحران (crisis of legitimacy) کی گرفت میں ہے اور اس کے بھی تین پہلو ہیں: دستوری، سیاسی اور اخلاقی___ اور ہر ایک اپنے طور پر انتہائی اہم ہے۔

  •  دستوری پھلو: اکتوبر ۱۹۹۹ء کی فوجی بغاوت اور اس وقت کی سپریم کورٹ کی جانب سے مجرمانہ معاونت کے نتیجے میں جنرل پرویز کی دستوری ترمیمات نے دستور اور سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا۔ سترھویں ترمیم ایک سیاسی سمجھوتا تھا، جس کے ذریعے کچھ خرابیوں کو دُور کیا گیا تو      کچھ دوسری خرابیوںکو سندِجواز بھی فراہم کی گئی۔ پھر جنرل پرویز کے اس معاہدۂ عمرانی کو، جس کے تحت سترھویںترمیم پارلیمنٹ کے لیے قابلِ قبول ہوئی تھی، تار تار کر دینے کے عمل نے ایسے  دستوری بحران کو جنم دیا جس کی تباہ کاریوں میں ملک اب تک مبتلا ہے۔ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور ہماری تاریخ کا تاریک ترین باب شروع ہوا۔

الحمدللہ ۱۵ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدلیہ کی بحالی اور ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے عدالت عالیہ کے فیصلے نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے ذریعے صحیح دستوری اور قانونی پوزیشن کو واضح کیا۔ لیکن جو بنیادی خرابیاں (deformities)  دستور اور ملک کے سیاسی نظام پر مسلط کر دی گئی ہیں،  وہ موجود ہیں اور اس کی بڑی ذمہ داری ’زرداری گیلانی حکومت‘ اور ان کے اتحادیوں پر ہے۔    میثاقِ جمہوریت میں دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا اور یہی ان جماعتوں کا انتخابی منشور تھا، جس پر ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو عوام نے ان کو حکمرانی کا اختیار دیا۔ لیکن زرداری صاحب کی قیادت میں پی پی پی اور اس کے اتحادیوں نے ۲۰ماہ کے اقتدار میں اس سمت میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اور یوں جنرل پرویز مشرف کے جرم میں برابر کے شریک بن گئے۔ زرداری صاحب نے دو بار پارلیمنٹ کے سامنے اعلان کیا کہ دستور کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا، مگر عملاً ساری قوت کو اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھا۔پارلیمنٹ اسی طرح بے اختیار ہے اور عدلیہ ہاتھ پائوں مار رہی ہے لیکن عملاً ایوانِ صدر اقتدار کا سرچشمہ بنا ہوا ہے، اور سارے بگاڑ کی وجہ  ہے۔

بجاے اس کے کہ زرداری صاحب اس جواز کے فقدان (lack of legitimacy) کا مداوا کرتے، انھوں نے صدارت کے حلف کے بعد بھی پارٹی کی صدارت کو باقی رکھ کر اور صوبوں میں جنرل پرویز مشرف کے دور کے گورنروں کو باقی رکھ کر اپنے دستوری جواز کو اور بھی داغ دار کردیا۔ صدارتی انتخاب کے ڈرامے کے باوجود دستور کی زبان میں وہ منتخب صدر سے زیادہ عملاً غاصب کا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اس چیز نے دستوری بحران میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایوانِ صدر پارٹی کا دفتر بن گیا ہے اور تمام سیاسی کھیل وہیں سے کھیلا جارہا ہے۔

  •  سیاسی پھلو:سندِجواز کو مجروح کرنے والا دوسرا پہلو امریکا سے ان کے تعلقات، امریکا کی مدد سے این آر آو کی بیساکھیوں پر ان کی حالیہ سیاست میں آمد، اور امریکا کی تائید سے حکمرانی کا انتظام و انصرام چلانا ہے۔ اس وقت ان کا اصل سرچشمۂ قوت پاکستانی عوام نہیں، امریکا اور اس کی تائید ہے۔ جس طرح پرویز مشرف اپنے ۲۰۰۱ء کے بعد کے دور میں امریکا کے سہارے برسرِاقتدار رہا بالکل اسی طرح اب زرداری صاحب امریکا کی تائید اور امریکی پالیسیوں کی تعمیل کے سہارے کرسیِ صدارت پر براجمان رہنا چاہتے ہیں۔

’کیری لوگر بل‘ کے بارے میں ان کے کردار نے اس تعلق کوبالکل الم نشرح کر دیا ہے۔ صدر اوباما نے اس بل کا اعلان زرداری صاحب کے دورۂ واشنگٹن کے موقع پر کیا اور زرداری صاحب نے اسے اپنا عظیم کارنامہ قرار دیا۔ پھر عوام، پارلیمنٹ، فوج، میڈیا سب کے منفی ردعمل کے باوجود ان کی حکومت نے اس بل کو گلے سے لگایا، اور بالآخر بھونڈے انداز میں پارلیمنٹ کو نظرانداز کر کے اس بل کو اس کی تمام شرمناک شرائط کے ساتھ قبول کرلیا۔ اس بل کے بعد ایک دوسرے فوجی امداد کے بل کو بھی بالکل ویسی ہی شرائط کے ساتھ قبول کیا۔ امریکی احکام کے مطابق جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کو شروع کیا اور پاکستان میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں افغانستان کی ایجنسیوں اور افغانستان کے راستے بھارت کی ایجنسیوں کے کردار کو نظرانداز کیا۔ پھر انتخابی ڈھونگ کے نتیجے میںبرسرِاقتدار آنے والے افغانستان میں کٹھ پتلی صدر حامدکرزئی کی تقریب حلف برداری میں ذاتی طور پر شریک ہوکر امریکی منصوبے سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ ان سب اقدامات نے پاکستان میں زرداری صاحب کے سیاسی جواز کو اور بھی داغ دار کر دیا ہے۔ اسی لیے آج اہلِ پاکستان کی نگاہ میں ان کی عزت و وقار اپنی پست ترین سطح پر ہے۔

  •  اخلاقی پھلو:کسی ملک کی قیادت کے لیے دستوری اور سیاسی جواز کے ساتھ اخلاقی جواز بھی نہایت ضروری ہے، لیکن اس باب میں بھی صدر زرداری کا ریکارڈ بہت ہی مایوس کن ہے۔ بے نظیر بھٹوصاحبہ کے شوہر کی حیثیت سے وہ سیاست میں آئے، تاہم پیپلزپارٹی کی تنظیم اور حکومت کے نظام میں ان کی کوئی خدمات ریکارڈ پر نہیں ہیں۔ البتہ مالی خیانت کی بدنامیاں ان کے اپنے اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے دامن کو داغ دار کرنے کا ذریعہ بنیں۔ وہ این آر او کے کندھے پر سوار ہوکر ملک میں واپس آئے اور اس پس منظر میں آئے کہ یہاں صحت مند اور صحیح و سالم تشریف آوری سے چند ماہ پہلے ہی سوئٹزرلینڈ کی عدالت کے سامنے مشہورزمانہ Cotecna کیس کے سلسلے میں میڈیکل سرٹیفیکیٹ کے ذریعے حاضری سے معذوری کی درخواست پیش کی ہوئی تھی کہ موصوف ایک ایسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ  سے وہ گواہی دینے اور عدالت میں پیش ہونے سے معذور ہیں۔ این آر او، جنرل پرویز مشرف کا سیاہ ترین اقدام تھا جس کی تشکیل میں برطانیہ کے سابق وزیر جیک اسٹرا اور سابق ہائی کمشنر گرانٹ لائل اور امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کا فیصلہ کن کردار تھا۔ اس پورے کھیل کا مقصد پاکستان کی سیاست پر ایسے لوگوں کو مسلط کرنا اور رکھنا تھا جن کا کردار  داغ دار ہو اور جو امریکا اور برطانیہ کے مرہونِ منت ہوں اور ان کے مقاصد کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکیں۔ اس سلسلے میں خواہ زرداری صاحب ہوں یا ان کے دوسرے ہم مشرب اور ہم راز افراد،   وہ سب اخلاقی جواز سے اس وقت تک محروم ہیں اوررہیں گے جب تک وہ آزاد اور بااختیار عدلیہ سے پورے شفاف اور کھلے عدالتی عمل کے ذریعے اپنی پاک دامنی ثابت نہیں کرلیتے۔ محض یہ کہنا کہ ہم جیل میں رہے ہیں اورہم پر کوئی چیز ثابت نہیں ہوسکی کوئی وزن نہیں رکھتے، اس لیے کہ متعدد چیزیں ایسی ہیں جو ان تمام دعوئوں کو مشکوک بنادیتی ہیں۔

’سیاسی انتقام‘ کے الزام کا بھی اسی طرح جائزہ لیا جانا چاہیے جس طرح بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزام کا۔ زمینی حقائق این آر او زدہ افراد کے کردار کو بلاشبہہ مشکوک بناتے ہیں اور ان حضرات کی اخلاقی ساکھ اس وقت تک بحال نہیں ہوسکتی جب تک آزاد اور شفاف عدالت کی کسوٹی پر وہ پورے نہیں اُترتے۔

سرے محل ایک حقیقت ہے۔ اس سے زرداری صاحب اور خود بے نظیر صاحبہ کا انکار بھی ایک حقیقت ہے اور پھر زرداری صاحب کا برطانوی عدالت کے سامنے یہ دعویٰ بھی حقیقت ہے کہ یہ محل ان کا تھا اور اس کے نیلام سے حاصل ہونے والی رقم ان کو ملنا چاہیے اور وہ مل بھی گئی۔   سویس عدالت نے ان کو مجرم قرار دیا ہے اور سوئٹزرلینڈ کے بنک میں رقم کا وجود ایک حقیقت ہے۔ ۶۰ملین ڈالر این آر او کے تحت ان کو واپس کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ۶۰ ملین اور دوسرے کروڑوں ڈالر جو ان کے بیرونی ممالک کے بنکوں میں موجود ہیں اور مغربی میڈیا حتیٰ کہ ایک معروف انسائیکلوپیڈیا وکی پیڈیا کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اسی طرح NASA کے ریکارڈ پر وہ ٹیلی فون گفتگو موجود ہے، جس میں ماں اور بیٹے کے درمیان بنکوں کی رقوم کے بارے میں بات چیت ہے۔ کیا قوم کو یہ حق حاصل نہیںکہ وہ صرف زرداری صاحب ہی نہیں، بلکہ ان سب اربابِ اقتدار سے پوچھیں جن کے باہر کے ملکوں میں حسابات میں یہ اربوں ڈالر ہیں کہ: ’’جناب،یہ رقوم آپ نے کیسے حاصل کیں؟ آپ کی جو آمدنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے گوشواروں میں ظاہر کی گئی ہے اس میں تو اس کا ذکر نہیں‘‘۔ آگسٹا آب دوز کی ناجائز کمیشن (kickbacks) ایک معروضی حقیقت ہے۔ آپ کے بنک کے حساب میں رقوم آئی ہیں۔ کیا قوم کو یہ حق نہیں کہ کم از کم یہ پوچھیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی ہے اور آپ کی کون سی خدمات کا صلہ ہے؟ اسلام آباد میں آپ کے اور آپ کے صاحبزادے کی تجارتی کمپنی پارک لینڈ کو تین ہزار ایکڑ اراضی کوڑیوں کے مول دی گئی اور ملک کی صدارت کے دوران دستور کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ اس کے ڈائرکٹر ہیں۔

اسی طرح این آر او کے دوسرے مقدمات سے محض دستور کے آرٹیکل ۲۴۸ کے سہارے آپ کیسے پناہ لے سکتے ہیں۔ اخلاقی سندِجواز کے بغیر کوئی حکمران اور کوئی حکومت اپنے اقتدار کے لیے جواز حاصل نہیں کرسکتی۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ این آر او کے زیربحث کے آتے ہی کتنے اربابِ اقتدار و سیاست ایسے ہیں جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے این آر او کے تحت کوئی رعایت حاصل نہیں کی۔ لیکن اب اسی حکومت کے وزیرمملکت نے جو فہرست شائع کی ہے، اس میں یہ سارے نام موجود ہیں۔  یہ فہرست کسی دشمن نے نہیں بنائی، آپ کی اپنی حکومت کی فراہم کردہ ہے۔ اور اس حالت میں ہے کہ ڈان کے نمایندے نے دعویٰ کیا ہے اور اپنے اس دعویٰ پر قائم ہے کہ اس فہرست میں یہ گڑبڑ کی گئی ہے کہ اصل فہرست میں ہرفرد کے نام کے ساتھ خردبرد کی جانے والی رقم درج تھی، مگر اس آخری فہرست میں سے رقم کا خانہ نکال دیا گیا ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ رقم ۱۰ کھرب سے زیادہ کی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائدین نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے این آر او سے فائدہ نہیں اٹھایا لیکن اب جو نام آئے ہیں ان میں ایم کیو ایم کی پوری قیادت اور اس کے ۳ ہزار سے زیادہ کارکن شامل ہیں اور عملاً ان سب نے فروری ۲۰۰۸ء کے بعد اس بدنامِ زمانہ کالے قانون سے فائدہ اٹھایا ہے۔

وزیراعظم صاحب کی اہلیہ کا نام اس میں نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے دومختلف زرعی قرضوں کی شکل میں ۲۰۰ ملین روپے کے قرض لیے جو سود کے ساتھ نادہندگی کی وجہ  سے ۵۷۰ ملین کا قرض بن گئے۔ پھر راضی نامے کے ذریعے ۵ء۴۵ ملین روپے کی ادایگی کے بعد پورے قرضے کو ساقط کر دیا گیا۔ گویا ۵۲ کروڑ سے زیادہ رقم معاف کر دی گئی۔

مسئلہ صرف این آر او کی زد میں آنے والی بدعنوانیوں کا نہیں، بدعنوانی کے پورے کلچر کا ہے جس کے نتیجے میں ملک دیوالیہ ہورہا ہے۔ امیر امیر تر بن رہے ہیں اور غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ صرف این آر او زدگان ہی نہیں تمام قرض معاف کرانے والے سرمایہ داروں، زمین داروں، جاگیرداروں، سرکاری افسروں، تاجروں اور جرنیلوں کا احتساب ہونا چاہیے۔

حکومت پر عدم اعتماد

۲- دستوری، سیاسی اور اخلاقی جواز کی کمی کے ساتھ ساتھ ’زرداری گیلانی حکومت‘ ساکھ کے بحران (credibility crisis)کا بھی شکار ہے۔ زرداری صاحب وعدے توڑنے اور اعلان کر کے مُکرجانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پھر یہ بھی کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے کہ سیاسی عہدوپیمان کوئی قرآن و حدیث ہیں کہ ان کو بدلا نہ جاسکے۔ وزیراعظم صاحب نے بھی پارلیمنٹ کے قائد منتخب ہونے کے وقت سے جو اعلانات کیے ہیں اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے  ع

دُور تک ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا

انھوں نے بار بار کہا کہ اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں گے، لیکن آج تک کسی اہم مسئلے پر پارلیمنٹ میں فیصلے کی نوبت نہیں آئی ہے۔ حتیٰ کہ ’کیری لوگر بل‘ پر بھی بحث تک مکمل نہ کی گئی، پارلیمنٹ میں فیصلے کا تو کیا سوال۔ نیز جن معاملات پر پارلیمنٹ نے واضح قرارداد متفقہ طور پر منظور کی، اس پر نہ صرف یہ کہ عمل نہیں ہوا بلکہ عمل اس کے برعکس ہوا اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کے دیے ہوئے روڈمیپ پر عمل تو درکنار، کمیٹی کے اس فیصلے کے باوجود کہ حکومت اس رپورٹ پر کارکردگی رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرے، آج تک کوئی رپورٹ تک نہیں دی گئی۔

پارلیمنٹ کے منظور کردہ ’مالیاتی ذمہ داری کے قانون‘ (Fiscal Responsibility Act) کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور ملک پر قرضوں کا بار آنکھیں بند کر کے بڑھایا جا رہا ہے۔ ان دو برسوں میں بیرونی قرضوں میں ۱۵ ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا ہے اور اب کُل بیرونی قرضوں پر سالانہ ۵ ارب ڈالر صرف سود وغیرہ کی ادایگی پر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں، جو قرض لے کر ادا کیے جارہے ہیں۔ قول وفعل کا یہ تضاد شدید بحران پیدا کر رہا ہے۔

ناقص حکومتی کارکردگی

۳- بحران کا تیسرا بڑا پہلو حکمرانی کے بحران (crisis of governance) سے متعلق ہے۔ ایک طرف مرکز اور صوبوں میں وزیروںکی فوج ظفرموج ہے اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ کسی شعبے میں بھی اچھی حکمرانی کا کوئی نشان دُور و نزدیک نظر نہیں آتا۔ قانون اور ضابطوں کو  بے دردی سے توڑا جارہا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کا تقرر مارچ ۲۰۰۹ء میں ہوجانا  چاہیے تھا اور اس وقت سے سیکڑوں اُمیدوار انتظار میں ہیں، لیکن حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ وزیراعظم صاحب قواعد کو نظرانداز کر کے ۲۱ اور ۲۲گریڈ کی تقرریاں تھوک کے بھائو کررہے ہیں۔ ۵۰ سے زیادہ سینیر سرکاری افسر عدالت جانے پر مجبور ہوئے ہیں کہ جنھیں قواعد کے خلاف نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ سفارش، اقرباپروری، دوست نوازی کا دور دورہ ہے۔ حکومت کے ہر شعبے میں میرٹ اور قاعدے قانون کا کھلے بندوں خون ہو رہا ہے، جس سے انتظامی ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔    اے اہلِ نظر! نظام پر ضربِ کاری ان حرکتوں سے لگا کرتی ہے، بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے والی اطلاعات سے نہیں۔

ملکی سلامتی کو سنگین خطرہ

۴- بحران کا ایک اہم ترین اور بے حد خطرناک پہلو حاکمیت کا بحران (crisis of sovereignty ) ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکا کی بالادستی اور ملکی معاملات میں دراندازی کا دروازہ جس طرح کھلا، موجودہ حکومت نے اسے اور بھی چوپٹ کھول دیا ہے۔ اور اب امریکا، اس کے نمایندے، کارندے اور خفیہ ایجنسیوں کے کارپرداز، سیکورٹی اور معیشت دونوں میدانوں میں عملاً حکمرانی کر رہے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت کی جوقیمت اس ملک نے ادا کی ہے، وہ تباہ کن ہے۔ ہماری سرزمین پر امریکا کے فوجی اڈے آج بھی قائم ہیں۔ افغانستان کی جنگ میں امریکا نے ۵۷ہزار سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین سے کیے ہیں۔ افغانستان سے پاکستان پر ڈرون حملوں کا عدد ۱۰۰ کا ہندسہ عبور کرچکا ہے۔ جس میں امریکی ترجمان کے مطابق القاعدہ کے مبینہ طور پر ۱۸ یا ۲۰ افراد مارے گئے ہیں، لیکن پاکستان کے عام شہریوں کی ہلاکت ۸۰۰ افراد سے زیادہ ہے، جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔ اس میں سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ مشرف کے زمانے میں حملہ امریکی کرتے تھے، مگر پاکستان کا حکمران ٹولہ اس کا سہرا اپنے سر باندھتا تھا اور بقول سیمور ہرش: ’’مشرف نے خود کہا کہ چاہے حملہ امریکی کریں لیکن اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا کریں‘‘۔ ’زرداری گیلانی حکومت‘ میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ڈرون حملوں کو ملک کی سالمیت اور حاکمیت پر ضرب قرار دیا اور انھیں روکنے کے لیے ہرراستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن عملاً ڈرون حملے، امریکی صدر اوباما کے دورِحکومت میں بڑھ گئے۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امریکا کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ان حملوں میں پاکستان کی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کی معاونت موجود ہے۔ گویا یہ سب امریکا اور ’زرداری گیلانی حکومت‘ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے، جو قوم بھگت رہی ہے۔

دیکھیے خود امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے کن صاف الفاظ میں پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوجیوں کے وجود کا اعتراف کیا ہے۔ اپنے حالیہ دورے کے بعد موصوفہ نے کہا ہے: ’’انتہاپسندی اور دہشت گردی کو شکست دی جائے گی، کہ ہم نے افغانستان اور وزیرستان میں اپنے فوجی کھوئے ہیں‘‘۔ (دی نیوز، ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

ڈان اخبار نے اپنی ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں امریکی سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر کا یہ اعتراف شائع کیا ہے: ’’ڈرون کے ذریعے میزائل حملوں کے لیے سی آئی اے، پاکستان کے تعاون پر انحصار کرتی ہے۔ ان حملوںسے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں مشتبہ انتہاپسند ہلاک کیے گئے ہیں‘‘۔ نیز امریکی فوج کی مرکزی کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے واشنگٹن میں اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے: ’’امریکا میزبان ممالک کی رضامندی کے بغیر ڈرون حملے نہیں کرتا‘‘۔ انھوں نے پاکستان میں ڈرون حملوں کی کامیاب کارکردگی کے دعوے کے ساتھ دیکھیے کیا کہا ہے:

جاسوس اور ڈرون طیاروں کے استعمال نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس قسم کے حملوں سے ۲۰ سے زائد انتہاپسند ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ حملے میزبان ملک کی مرضی کے خلاف نہیں کیے جاتے ہیں۔ وہاں [پاکستان میں] ہمارا کام پاکستانی فوجی ہم منصبوں کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہے۔ (نواے وقت، ۱۶نومبر ۲۰۰۹ء)

اس پس منظر میں اگر سیمور ہرش کے نیویارک کے مضمون کے مندرجات پر غور کیا جائے تو مجہول سرکاری وضاحتوں کے برعکس حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ مشرف نے ہرش سے کہا: ’’میں نے امریکیوں سے کہا: ہمیں ڈرون طیارے دو۔ مجھے انکار کیا۔ میں نے امریکیوں سے کہا کہ صرف علانیہ طور پر کہہ دو کہ تم ہمیں یہ دے رہے ہو۔ تم ان سے حملے کرتے رہو، لیکن ان پر پاکستان ایئرفورس کے نشانات لگادو، مگر امریکیوں نے اس سے بھی انکار کیا‘‘۔ سیمور ہرش کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ: ’’امریکا پاکستانی فوج سے پاکستان کے ایٹمی اسلحے کی سلامتی کے بارے میں انتہائی حساس نوعیت کے امور پر بات چیت کرتا رہا ہے‘‘۔ ہرش مزید کہتا ہے: ’’صدرمشرف نے تسلیم کیا کہ ان کی حکومت نے امریکا کے محکمۂ خارجہ کے عدم پھیلائو کے ماہرین کو پاکستانی اسلحے کے کمانڈ اور کنٹرول، اس کے برموقع تحفظ اور حفاظت کے طریقۂ کار کے بارے میں آگاہ کیا‘‘۔

اور اب ہرش کا یہ بیان بھی پڑھ لیجیے کہ صدر زرداری نے اپنی خدمات کا کس طرح اعتراف کیا ہے: "we give comfort to each other, and the comfort level is good". (ہم نے ایک دوسرے کو سہولت فراہم کی ہے، ایسی سہولت جس کی سطح بلند ہے)

جس قوم کی قیادت کا یہ حال ہو، وہ اس کے سوا کیا کہے کہ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

جنرل مشرف اور پی پی پی کی قیادت میں تعاون اور این آر او سب اسی کہانی کے حصے ہیں۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سین میک کورمڈ نے فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے موقع پر صاف لفظوں میں کہا تھا:

ہمارا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے اور پاکستان کا بھی بہت کچھ دائوپر لگا ہوا ہے، خصوصاً پاکستان کے مستقبل کے لیے فکرمندی بھی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ پینٹاگان نے صدرکرزئی کے ساتھ طویل مدت تک معاملات کیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ کوئی فوج بھی اس کے قریب رہ کر کام کرنا پسند نہیں کرے گی۔ (دی نیوز،    انجم نیاز، Last Tango in Washington، ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

اس سلسلے میں امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا کی قیادت میں این آر او کا ڈھونگ رچایا گیا۔ اسی لیے مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے: ’’این آر او کی پیدایش اسلام آباد میں نہیں، واشنگٹن میں ہوئی ہے‘‘۔اور یہ بھی کہ: ’’واشنگٹن جو چاہتا ہے اسے مل جاتا ہے‘‘۔

پاکستان کی سرزمین پر امریکی کمانڈروں اور خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کا وجود ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ وزیرداخلہ رحمن ملک جو بھی کہیں یہ حقیقت ہے کہ آج     اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی ہر جگہ امریکیوں نے قدم جما لیے ہیں۔

امریکی اور ان کے زرخرید پاکستانی کارندے ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں۔ امریکی فوج اور کمانڈر بلاروک ٹوک ملک میں داخل ہوتے ہیں اور وزارتِ داخلہ ان کے اس داخلے میں سہولت فراہم کرتی ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ، سامراجی حکمرانی کا قلعہ بن چکا ہے۔ اسلام آباد میں ۳۰۰ سے زیادہ مکان امریکیوں کے تصرف میں ہیں۔ سہالہ کی پولیس ٹریننگ فیکلٹی کے ایک حصے پر بھی ان کا قبضہ ہے اور وہ وہاں تربیت کے نام پرفوجی اڈا قائم کیے ہوئے ہیں۔

محب وطن کالم نگار، دانش ور اور سیاسی قائدین اس امریکی یلغار پر احتجاج کر رہے ہیں، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

دی نیشن نے اپنی ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں یہ خبر دی ہے:

اسلام آباد کے علاقے جی-۶/۳ میں مشتبہ غیرملکیوں کی موجودگی نے جو ’بلیک واٹر‘ کے اہل کار ہوسکتے ہیں، تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان میں سے ایک کو سڑک سے  گزرنے والے ایک مقامی شخص سے لڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ ’بلیک واٹر‘ جس کا نام  ’ایکس ای سروسز‘ ہوگیا ہے کا عملہ نومبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد پہنچا۔ ۲۰؍اگست ۲۰۰۹ء کے نیویارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے ۲۰۰۴ء میں القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کو تلاش کرنے اور قتل کرنے کے خفیہ پروگرام کے لیے ’بلیک واٹر‘ کی خدمات حاصل کیں۔

دی نیشن ہی نے اپنی ۱۰ نومبر کی اشاعت میں سفارتی عملے کے ان افراد کی نشان دہی کی جو مسلح ہوکر شہر میں گھومتے پھرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق: چار امریکی اور دو ڈچ سفارت کاروں کو اسلحہ اور گرنیڈ کے ساتھ پکڑا گیا مگر وزارتِ داخلہ نے انھیں فوراً رہا کرا دیا۔ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو اسلام آباد کے اخبارات نے ایف-۸/۳ میں ایسے مسلح امریکیوں کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر دی، جو افغانوں کے لباس میں تھے اور مسلح گشت کر رہے تھے، لیکن امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر ان کو رہا کر دیا گیا۔ ۴نومبر ۲۰۰۹ء کے دی نیشن نے ایکس ای سروسز کے ۲۰۲کمانڈوز کے پی آئی اے کی فلائٹ ۷۸۶-PK سے لندن ہیتھرو ہوائی اڈے سے اسلام آباد آنے کی خبر شائع کی، جنھیں کسی جانچ پرکھ کے بغیر وزارتِ داخلہ کی ہدایت کے مطابق ملک میں آنے دیا گیا۔ ایئرپورٹ پر متعلقہ افسر کا بے بسی سے یہ کہنا تھا: ’’ہمیں ہدایات ہیں کہ غیرملکیوں کو کسٹم کے بغیر داخلہ دیا جائے‘‘۔

اسلام آبادمیں امریکی سفارت خانے کی توسیع اور ۱۸؍ایکڑ مزید اراضی کا حصول ایک جانی بوجھی بات ہے۔ پشاور، لاہور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی قونصل خانوں کو توسیع دی جارہی ہے۔ پاکستانی وزیرداخلہ نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی پرائیویٹ سیکورٹی کی ایجنسی Dyn Corp   (ڈین کور) کو پاکستان میں آنے اور امریکیوں کو حفاظت فراہم کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔   سہالہ کے پولیس ٹریننگ کالج میں جو بہارہ کہو اور سملی ڈیم کے قریب ہے، امریکیوں کو ٹریننگ کے نام پر اڈا قائم کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ سہالہ پولیس کالج کے ذمہ داروں کو بھی اس جگہ      پَر مارنے کی اجازت نہیں۔ امریکیوں کی مشتبہ سرگرمیوں سے پریشان ہوکر پولیس کالج کے سربراہ نے اس اڈے کو وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا، جس سے ہمارے پولیس کالج کے انچارج کی نوکری خطرے میں پڑگئی ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور ہمارے ملک کے حکمرانوں کا اس میں کیا کردار ہے؟ یہ سوالات اب نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔۱؎

جنوبی وزیرستان پر فوجی آپریشن امریکا کے دبائو اور مطالبے پر ہوا ہے اور اب امریکی صدر کا پیغام صدر زرداری کے لیے آیا ہے کہ اس کو شمالی وزیرستان اور اورکزئی ایجنسی تک بڑھایا جائے۔ امریکی صدر کے پیغام کے بعد سی آئی اے کے ڈائرکٹر لیون پینیٹا (Leon Panetta) کی آمد ہوئی ہے اور ان کا حکم ہے:’’پاکستان فوجی آپریشن سے قبائلی علاقوں کے تمام انتہاپسندوں کو نشانہ بنائے‘‘۔

اس خدمت کو انجام دینے کے لیے امریکا کی پوری قیادت پاکستان کے ’دفاعی نظام‘ اور ’خطرے کے تصورات‘ کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ اوباما، ہیلری کلنٹن، ایڈمرل مولن،  ہال بروک سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ:’’ پاکستان کو اصل خطرہ بھارت سے نہیں،  القاعدہ اور طالبان سے ہے‘‘۔

امریکا خود طالبان سے بات چیت کرنے اور افغانستان کے چھے صوبوں میں ان کو شریعت نافذ کرنے کی اجازت دینے کی باتیں کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کے سوچنے سمجھنے والے ادارے اور راے عامہ کے جائزے سب اس سمت اشارہ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا اور سیاسی حل کے سوا کوئی حقیقی آپشن نہیں ہے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کی افواج کو پشتون علاقے میں پھنساکر مسلسل اور مزید جنگ کی آگ میں جھونکنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

یہ واضح ہے کہ امریکا اور ناٹو کو بہرصورت افغانستان سے جانا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس پر غور کرکے پاک افغان تعلقات اور خصوصیت سے پاکستان سے ملحق پشتون علاقوں کے درمیان تعاون اور تعلقات کیسے استوار ہوں گے؟ اس کے لیے فوری اور لمبے عرصے کی حکمت عملی بنانے کا یہ وقت ہے۔ خود افغانستان میں جو سوچ اور رجحانات اس وقت فروغ پارہے ہیں، ان کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں اپنے ملکی اور ملّی مفاد کی روشنی میں حکمت عملی وضع کرنے اور نیا نقشۂ کار مرتب کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ہم آنکھیں بند کرکے امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھ رہے کہ افغانستان میں حالات کس رُخ پر جارہے ہیں اوروہاں طالبان کا مستقبل میں کیا کردار ہونا ہے۔

خلیج ٹائمز نے اپنی ۱۶ مارچ کی اشاعت میں ایک چشم کشا حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ: ’’کیپٹن یا میجر سطح کا کوئی ایک افغان افسر بھی چھے سال کی جنگ میں ہلاک نہیں ہوا ہے، اس لیے کہ افغان اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتے‘‘۔ کیا اس میں ہمارے دفاعی حکام کے لیے کوئی سبق کا پہلو نہیں ہے!

قومی تحریک کی ضرورت

پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲ اکتوبر۲۰۰۸ء کی قرارداد میں متفقہ طور پر یہ ہدایت دی تھی کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پوری حکمت عملی اور ملک کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے مثالیے پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے فوجی حل کی جگہ سیاسی حل اور قوت کے استعمال کے بجاے مذاکرات، ترقی اور سدّجارحیت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی ڈرون حملوں کا مقابلہ کرنے اور ان کو روکنے کی ضرورت ہے مگر حکومت نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ مسئلے کی اصل جڑ افغانستان پر امریکا اور ناٹو کی فوجوں کا قبضہ اور ہماری خارجہ پالیسی اور فوجی حکمت عملی کو امریکا کے مقاصد کے تابع کردینا ہے۔ ملک کے وجود اور اس کی حاکمیت اور سالمیت کو خطرہ امریکا کے ساتھ نتھی ہوجانے سے ہے اور دہشت گردی اور شدت پسندی بھی انھی حالات کی پیداوار ہے جس کے دیرپا حل کے لیے ان  حقیقی اسباب کی طرف توجہ دینا ہوگی۔

معاشی اعتبار سے بھی ملک اس جنگ میں شرکت کی جو قیمت ادا کر رہا ہے وہ ہوش اُڑا دینے والی ہے۔ پاکستان ۲۰۰۲ء سے اب تک محتاط اندازے کے مطابق ۴۰ سے ۴۵ ارب ڈالر کی مالیت کا نقصان اُٹھاچکا ہے اور صوبہ سرحد اور فاٹا کے حالیہ آپریشن کے نتیجے میں عملاً سالانہ ۳ سے ۴ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، جس میں انسانی جانی نقصان شامل نہیں۔ اس جنگ میں شرکت ہر پہلو سے ہمارے لیے خسارے اور تباہی کا سودا ہے جس سے جتنی جلد نجات حاصل کی جائے بہتر ہے۔

وزیراعظم صاحب آج امریکا سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ اپنی افغان پالیسی کے بنانے میں ہم سے بھی مشورہ کرو اور ہم پر رونما ہونے والے اثرات کا بھی لحاظ رکھو۔ لیکن یہ مقصد    بھیک مانگنے سے حاصل نہیں ہوسکتا، اس کے لیے حکمت اور خودداری کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، جس سے جنرل مشرف کا دامن خالی تھا اور موجودہ حکومت کا بھی دامن خالی ہے۔

ملک کو درپیش بحران کے چار اہم پہلوئوں کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ معاشی بحران بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور بحران کے اس پورے عمل کا حصہ ہے اور اس کے ساتھ ملک شدید اخلاقی بحران اور نظریاتی شناخت کے بحران میں جھونک دیا گیا ہے۔ بحران کے یہ چھے پہلو باہم مربوط ہیں اور ان کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتیں سرجوڑکر بیٹھیں اور ملک کو اس انتشار سے نکالنے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کریں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام امور پر کھل کر بحث ہو اور اصول اور ملکی اور ملّی مفاد کی بنیاد پر قوم کو ایک واضح منزل کا شعور دے کر منظم اور متحرک کیا جائے۔ جس طرح برعظیم کی تاریخ میں ۱۹۴۰ء میں مسلمانوں نے ایک واضح منزل اور مقصد کا تعین کرکے جدوجہد کی، اسی طرح آج پاکستان کو بچانے، اس کو امریکا کی نئی غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جس طرح اس وقت برطانیہ کے ساتھ مقابلہ ان ہم وطنوں سے بھی تھا جو برطانیہ کے نقشے میں رنگ بھرنے اور اس کے مقاصد کو پورا کرنے میں اس کے آلۂ کار تھے، اسی طرح آج امریکا کے ساتھ امریکا کے پاکستانی حواریوں اور امریکی استعمار کو فروغ دینے والی این جی اوز کے خلاف بھی منظم سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ملک کے نوجوان اور غیور عوام ہماری اصل قوت ہیں اور ان کو بیدار اور منظم و متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی نے اس تاریخی جدوجہد کاآغاز کر دیا ہے لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ تمام محب وطن اور اسلام دوست قوتیں ایک ہوکر امریکی استعمار کی اس خطرناک یلغار کا مقابلہ کریں۔ مہلت کم ہے اور خطرات روزافزوں ہیں۔ زندگی اور عزت کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ حق کی پہچان اور اس پر استقامت کا راستہ ہے۔ اور   حق کے غلبے کے لیے مسلسل جدوجہد اور جہاد کا راستہ ہے۔ یہ وقت تذبذب اور انتظار کا نہیں،  فیصلہ اور پیکار کا ہے۔ ہمیں ہرگز بھولنا نہیں چاہیے کہ   ؎

یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

 

ایک مسلّمہ اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، تاریخ انھیں سبق سکھا کر رہتی ہے۔ انسانوں کے منصوبے اور چالیں اپنی جگہ، لیکن اللہ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب ہوکر رہتی ہے۔۱؎

بہت سی چیزیں ہم ناپسند کرتے ہیں لیکن بسااوقات انھی ناپسندیدہ چیزوں کے شر سے خیر کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور جس طرح رات کی تاریکی کے بطن سے دن کی روشنی رونما ہوتی ہے، اسی طرح وہی ناپسندیدہ شر، خیر اور بھلائی کی تمہید اور بعض بنیادی تبدیلیوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔۲؎

دراصل اس طرح کی تبدیلی اللہ کی سنت ہے اور وہ اسی طرح زمانے کو کروٹیں دیتا رہتا ہے۔ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ(اٰل عمرٰن ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔

تاریخ کے اوراق میں انسان، صدیوں سے یہ ’تماشا‘ دیکھتا چلا آرہا ہے  ع

ہوتا ہے شب و روز تماشا ، مرے آگے!

کسے خبر تھی کہ ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو طاقت کے نشے میں مست ایک پاکستانی جرنیل امریکی صدر بش کی پوری پشت پناہی کے زعم میں، پاکستان کے چیف جسٹس کو برطرف کرکے عدالت عالیہ اور نظامِ عدل پر حملہ آور ہوکر اسے اپنی مٹھی میں لینے کا جو اقدام کرے گا، اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو عدلیہ پر ایک دوسرا اور زیادہ بھرپور وار کر کے اپنے تئیں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کا جو کھیل کھیلے گا، وہ کس طرح خود اس کی اپنی تذلیل، شکست اور بالآخر ملک سے اس کے فرار پر منتج ہوگا اور قوم دستور کی دفعہ ۶ کے تحت اس کے جرم کا محاسبہ کرنے اور اسے قرارواقعی سزا دینے کا مطالبہ کرے گی اور وہ دَر دَر بھٹکتا پھرے گا۔

بلاشبہہ ۹مارچ ۲۰۰۷ء اور ۱۵مارچ ۲۰۰۹ء میں ۲۴ مہینے کا فاصلہ ہے۔ تبدیلی میں دو سال لگ گئے (اس دوران وکلا برادری، سول سوسائٹی، سیاسی کارکنوں اور میڈیا نے تاریخی مزاحمتی کردار ادا کیا) لیکن اس شر سے ایک بڑا خیر نمودار ہونے سے ملک میں آزاد اور خودمختار عدلیہ کے پروان چڑھنے کے امکانات روشن ہوگئے۔

شاید آج کچھ لوگوں کو یہ امکان دُور ازکار اور یہ بات بھی مجذوب کی بڑ محسوس ہو مگر کیا   بعید ہے کہ جس طرح بش کی سرپرستی میں مشرف کے مجرمانہ اور ہتک آمیز اقدامات ہی عدلیہ کی تاریخ کے ایک نئے باب کے آغاز کا ذریعہ بنے، اسی طرح کیری لوگر بل کی شکل میں مغرور امریکا کا حاکمانہ، استعماری اور ہتک آمیز اقدام بالآخر ملک میں ایک حقیقی طور پر آزاد خارجہ پالیسی کے فروغ کی تمہید ثابت ہو، اور امریکا کی ۶۰سالہ سیاسی اور معاشی غلامی سے نجات کا پیش خیمہ بن جائے۔

لیکن مستقبل کی دھندلی تصویر کو حقیقی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کے اصل اہداف کا دقّت نظر سے تجزیہ کیا جائے، خصوصاً گذشتہ ۶۰ سال کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور اس کے نتائج کو معروضی انداز میں سمجھا جائے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قوم کو بیدار اور متحرک کیا جائے تاکہ وہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے اسی طرح کمربستہ ہوجائے جس طرح انگریزی سامراج اور ہندو کانگریس کے خطرناک کھیل کا مقابلہ کرنے کے لیے تحریکِ پاکستان کے دوران سرگرم ہوئی تھی، اور جس طرح ۲۰۰۷ء تا ۲۰۰۹ء میں مشرف کے آمرانہ اقتدار سے نجات اور پھر زرداری کی عدلیہ کو محکوم رکھنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے دو سال تک شب وروز جدوجہد کی اور بالآخر پرویزی اقتدار سے نجات پائی۔ پھر زرداری کا کھیل بھی خاک میں مل گیا۔

بل کی ھتک آمیز شرائط

کیری لوگر بل کے مندرجات کی زہرناکی کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جنھیں اچھی طرح سمجھنا ازبس ضروری ہے۔

اس بل کے حامیوں کی یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ امریکا اپنی امداد پر ہمیشہ شرائط لگاتا ہے اور یہ بھی غلط نہیں کہ معاشی اور فوجی امداد دینے والے ملک امداد کو اپنی خارجہ پالیسی اور  اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ خالص انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دی جانے والی بے لوث مدد اس دَور میں عنقا ہے۔ عالمی سیاست طاقت کا کھیل ہے اور جیساکہ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد امریکا کی خارجہ سیاست کی صورت گری کرنے والے مفکر جارج کینان نے بہت ہی صاف الفاظ میں کہا تھا کہ خارجہ پالیسی وغیرہ کا اخلاق اور قانون کی پاس داری سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو صرف مفاد کا کھیل ہے۔

اس لیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امریکا کا مفاد کیا ہے اور ہمارا مفاد کیا ہے اور اگر ان میں کوئی مطابقت اور ہم آہنگی نہیں تو پھر ہمارے درمیان اشتراکِ عمل اور حقیقی شراکت کیسے وجود میں آسکتی ہے؟ متضاد مقاصد، اہداف اور مفادات کے ساتھ ہم ایک دوسرے کے ہم سفر کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور اگر طاقت ور اور استعماری قوت فی الحقیقت ہماری آزادی اور مفادات کے لیے خطرہ ہوتی ہے تو پھر  ع

جس کو ہو جان و دل عزیز ، اُس کی گلی میں جائے کیوں؟

بلاشبہہ امریکا شروع ہی سے ہم پر کچھ نہ کچھ شرائط لگاتا رہا ہے۔ روئیداد خان کی مرتّبہ دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ امریکا ۱۹۵۴ء ہی سے فوجی اور معاشی دونوں نوعیت کی امداد کے سلسلے میں اپنے مقاصد اور اہداف کو مختلف شکلوں میں ہم پر مسلط کرتا رہا ہے اور کہیں پاکستان کی قیادت نے سپر ڈالی ہے اور کہیں پابندیوں سے فرار کی راہیں بھی نکالی ہیں۔ لیکن اس اولیں دور میں شرائط کی زبان سخت اور نگرانی کا نظام حاکمانہ نہیں تھا۔

سب سے بڑھ کر یہ سب چیزیں سرکاری دستاویز اور خط کتابت میں دفن تھیں اور قوم اور پارلیمنٹ سے بالا ہی بالا سارے معاملات طے ہو رہے تھے۔ ۱۹۸۰ء میں امریکا نے اسرائیلی اور بھارتی لابی کے زیراثر زیادہ واضح شرائط اور پابندیوں کا راستہ اختیار کیا۔ سیمنگٹن، پریسلر اور گلین ترامیم ان کی مثال ہیں لیکن ان کا تعلق بڑی حد تک جوہری صلاحیت سے تھا اور افغانستان میں  روس کی مداخلت کے پس منظر میں گو یہ تمام تحدیدات کتابِ قانون میں موجود تھیں لیکن انھیں لاگو کرنے سے عمداً چشم پوشی کی گئی، حتیٰ کہ جب روسی فوجوں کی واپسی کا اعلان ہوگیا تو ہم پر معاشی پابندیاں لگ گئیں۔

۲۰۰۱ء کے بعد پھر حالات نے نئی کروٹ لی اور ۱۹۹۸ء کے جوہری تجربات کے بعد جو پابندیاں لگی تھیں، وہ مصلحت کے ایک ہی جھونکے میں پادر ہوا ہوگئیں۔ اس پس منظر سے چار باتیں بالکل واضح ہیں:

۱- پابندیاں مختلف شکلوں میں لگتی رہی ہیں،وہ نئی چیزیں نہیں ہیں لیکن سوال صرف پابندیوں کا نہیں ان کی نوعیت، اثرانگیزی، زبان اور وسیع تر اثرات کا ہے۔

۲- پابندیوں پر عمل درآمد، مفادات اور سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تابع رہا ہے اور بالعموم امریکا نے صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر انھیں استعمال کیا یا نظرانداز کیا۔

۳- یہ پابندیاں برابر بڑھتی رہیں اور اب ان پابندیوں نے ایک ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ وہ اپنی وسعت، گہرائی اور کاٹ کے اعتبار سے تباہ کن ہوگئی ہیں۔

۴- اس پورے دور کے مطالعے سے جو حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا سے ہمارا تعلق سارے زبانی جمع خرچ کے باوجود، نہ اصولی بنیادوں پر اشتراکِ مقاصد کا تھا اور نہ اسے حقیقی اور دیرپا دوستی (جسے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کہا جاتا ہے) کے فریم ورک کی حیثیت حاصل رہی۔ اس کا امکان ماضی میں تھا نہ آج ہے، مستقبل میں بھی دُور دُور تک یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ سارا معاملہ خالص امریکی مفادات کے فریم ورک میں لین دین پر مبنی تھا اور آج بھی ہے۔ اگر کوئی امریکا کا حقیقی پارٹنر رہا ہے تو وہ صرف برطانیہ اور اسرائیل ہیں، اور اب بھارت اس محدود دائرے میں داخل ہوچکا ہے۔ پاکستان کبھی اس کا حقیقی حلیف تھا اور نہ آج ہے اور مستقبل میں بھی اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ خواہ دل خوش کرنے (مگر درحقیقت دھوکا دینے) کے لیے اسے کبھی نہایت قریبی حلیف کہا جائے اور کبھی ناٹو کا غیررکن حلیف کے القابات سے نوازا جائے، حقائق بہت واضح ہیں۔ ہمیں اپنے کو دھوکا نہیں دینا چاہیے اورنہ دوسروں سے دھوکا کھانا چاہیے۔

اس پس منظر میں پھر وہ کیا بات ہے جس نے کیری لوگر بل کو ایک مختلف حیثیت دے دی ہے؟ ہماری نگاہ میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب کمیت اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے جو شرائط اور پابندیاں اس کے ذریعے لگائی گئی ہیں اور تھوک کے بھائو سے یک مشت لگائی گئی ہیں، وہ اپنی موجودہ شکل میں نہایت سخت ہتک آمیز اور ’غلام آقا‘ تعلقات کی بدترین مثال ہیں۔ اس طرح جو عمل ۱۹۵۴ء میں شروع ہوا تھا، وہ اب اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ کر امریکا کے قانون کا حصہ بن گیا ہے، جو آیندہ بھی ہرقانون اور معاہدے کے لیے نمونے کا کام انجام دے گا۔ اب ہم محکوم اور   تابع مہمل بنا دیے گئے ہیں اور امریکا نے اپنے لیے حاکم اور آقا کے سارے اختیارات لے لیے ہیں۔ پھر اس قانون میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو عادی مجرموں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ آزاد اور خودمختار ممالک کے درمیان معاملات اس زبان میں اور اس انداز میں نہیں کیے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ قانون اپنے تمام پیش روؤں پر بازی لے گیا ہے۔ اب امریکی عزائم اور ہمارے لیے غلامی کی زنجیریں بالکل برہنہ ہوکر سامنے آگئی ہیں اور اس قانون پر پردہ ڈالنے کی جو آخری کوشش پاکستانی عوامی ردعمل کے جواب میں پانچ صفحات پر مشتمل نام نہاد مقاصد کے توضیحی بیان کی شکل میں کی گئی ہے،  وہ دھوکے اور طفل تسلی کے زمرے میں آتی ہے جس سے حقائق میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اس قانون کا جو بھی دیانت داری سے مطالعہ کرے گا وہ اسے دوستی کا پروانہ نہیں، غلامی کا طوق اور قومی تذلیل اور تحقیر کی دستاویز قرار دے گا، جیساکہ ہم آگے شواہد سے ثابت کریں گے۔

قومی ردعمل

دوسرا پہلو جو اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اب سے پہلے امریکی امداد کی شرائط کا تعین فوجی حکومت کے دور میں ہوا یا فوج کی قیادت کا اس میں زیادہ عمل دخل رہا۔ اس بار ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے نمایندوں نے یہ گل کھلائے ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ آج آزاد پریس کی فضا میں یہ قانون سازی ہوئی ہے، اور گو دیر سے سہی امریکا کے سینیٹ اور ایوانِ نمایندگان میں اختلاف کے بعد جو آخری مسودہ منظور ہوا ہے وہ کھلی کتاب کی مانند پاکستانی قوم کے سامنے آگیا ہے۔ نیز عالمی میڈیا اور خود پاکستان کے میڈیا اور سیاسی قیادت نے خصوصیت سے حزبِ اختلاف نے اسے اجتماعی غورو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی پہلی بار کھل کر بات ہوئی ہے۔     گو پارلیمنٹ کو کسی فیصلے پر پہنچنے کا موقع نہیں دیا گیا اور حکومت نے بحث کے دوران مسئلے کو ہائی جیک کر کے ایک نمایشی سمجھوتے کا ڈھونگ رچایا لیکن اس بار کلھیا میں گڑ نہیں پھوڑا گیا اور معاہدے کی ہانڈی چوراہے پر پھوٹی ہے۔ پوری قوم کو احساس ہے کہ ’دوستی کی دستاویز‘ کے نام پر اسے محکومی اور غلامی کا طوق پہنایا گیا ہے۔ قوم نے اسے رد کر دیا ہے اور ہرسطح پر اپنی بے زاری کا اظہار کردیا ہے جس کا تازہ ترین ثبوت گیلپ پاکستان کا سروے ہے جس میں قوم کے فیصلے کی بازگشت صاف   سنی جاسکتی ہے اور یہی جماعت اسلامی کے زیراہتمام عوامی ریفرنڈم کا فیصلہ ہے جس کے مطابق ۹۹فی صد عوام نے کیری لوگر بل کو مسترد کردیا ہے۔ گیلپ کے چار سوال اور ان کے جواب بھی  قوم کے فیصلے کے مظہر ہیں:

اس سروے کے مطابق ۵۲ فی صد نے کہا: مسترد کر دیں، ۱۵ فی صد نے کہا: قبول کرلیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا کیری لوگر بل کے تحت امداد پاکستان کی معاشی ترقی میں مددگار ہوگی؟ ۶۰ فی صد نے نفی میں جواب دیا۔ پھر یہ کہ کیا یہ امداد ایک عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لائے گی؟ ۶۹ فی صد نے نہیں میں جواب دیا۔ کیا پاکستان امریکا اور دوسرے ملکوں کی امداد پر چل رہا ہے یا یہ اپنے وسائل سے بھی ترقی کرسکتا ہے؟ اس آخری سوال کے جواب میں ۶۲ فی صد نے برملا کہا کہ پاکستان اپنے وسائل سے بھی ترقی کرسکتا ہے۔

اس پس منظر میں امریکا سے تعلقات کا مسئلہ اب خواص اور مفاد پرست قیادت کے اختیار سے نکل کر عوام کی عدالت میں آگیا ہے اور اب ان شاء اللہ اس کا آخری فیصلہ واشنگٹن کے   وائٹ ہائوس یا اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں نہیں، پاکستان کے گلی کوچوں میں ہوگا۔ اگر پارلیمنٹ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عوام نے جس طرح عدلیہ کی بحالی کا مسئلہ طے کیا، ان شاء اللہ اسی طرح یہ مسئلہ بھی طے کریں گے خواہ اس میں کتنا بھی وقت لگے اور عوام کو اپنے حق اور آزادی اور خودمختاری سے محروم کرنے کے لیے اپنے اور غیر کیسی ہی چالیں کیوں نہ چلیں۔

نیا عالمی منظرنامہ

تیسرا پہلو بہت ہی بنیادی اور شاید سب سے اہم ہے اور معاملات کی تہہ تک جانے کے لیے سب سے زیادہ فیصلہ کن ہے۔

۵۰ کے عشرے سے لے کر ۲۰۰۹ء کے حالات تک دنیا بہت بدل گئی ہے اور خود امریکا کے عالمی عزائم اور اس خطے کے بارے میں اس کے ایجنڈے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جن کی تفہیم بہت ضروری ہے۔

۱۹۴۵ء سے ۱۹۸۹ء تک دنیا سردجنگ کی گرفت میں تھی اور امریکا کی ساری سیاست اسی کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس میں امریکا نے سیاسی اور معاشی حلقہ بندیوں کی جو حکمت عملی اختیار کی، اس میں پاکستان کا ایک خاص کردار تھا۔ ۱۹۹۰ء میں حالات بالکل بدل گئے اور امریکا اور مغرب نے نیا ایجنڈا بنایا جس میں ایک یک قطبی دنیا اور عالم گیریت، عالمی سرمایہ داری، سیکولر جمہوریت، آزاد معیشت اور امریکا کی عالمی بالادستی کی بنیاد پر نیا نقشہ تعمیر کیا گیا۔ ایک طرف تہذیبوں کے تصادم کا راگ الاپا گیا تو دوسری طرف مغرب کے تہذیبی نظریے کو، جسے سیاسی اور معاشی آزاد روی (political & economic liberalism) کا نام دیا گیا، پوری دنیا پر مسلط کرنے اور ان کے نظریے سے اختلاف یا اسے چیلنج کرنے والے کسی دوسرے نظریے کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینے کے عزائم کو پروان چڑھایا گیا۔ اس سلسلے میں اسلام اور اسلامی دنیا کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا۔   نائن الیون اسی سلسلے کی اہم ترین کڑی تھا لیکن آٹھ سال تک دنیا کو ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے ایک نہ ختم ہونے والے ہیجان اور انسانی اور معاشی تباہی کے جہنم میں جھونکنے کے باوجود امریکا اور ناٹو اقوام اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکیں۔

اس کے نتیجے میں ایسا نظرآرہا ہے کہ آیندہ کے لیے نئی صف بندی ہو رہی ہے اور اب امریکا، اسرائیل اور بھارت کا ایک نیا گٹھ جوڑ وجود میں آرہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یورپ، جاپان اور چین میں بھی اہم تبدیلیاں کروٹ لے رہی ہیں۔ اس نئے نقشۂ جنگ میں شرق اوسط اور خصوصیت سے پاکستان اور ایران کی بڑی اسٹرے ٹیجک اہمیت ہے۔ان دونوں ملکوں کے لیے بڑی خطرناک منصوبہ بندیاں کی جارہی ہیں، خصوصیت سے پاکستان کو قابو کرنے، اسے کمزور کرنے اور خانہ جنگی اور اندرونی انتشار میں مبتلا کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے مختلف النوع حکمت عملی وضع کی جارہی ہیں۔ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھارت کو خصوصی کردار دیا گیا ہے۔ ایران کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے اور پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ اب جملہ کارروائیوں کا مرکز افغانستان سے پاکستان کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے اور افغانستان میں بھی، ناکامی کا سبب پاکستان کے کردار کو قرار دے کر، اسے نہ صرف ہراعتبار سے اپنی گرفت میں لینے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے بلکہ فوج کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اُلجھا کر اور فوج اور قوم کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرکے اپنے ہاتھوں میں کھیلنے والی سیاسی قیادت کو آلۂ کار بناکر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قوت، رشوت اور بلیک میلنگ کے ہتھیار پوری چابک دستی سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے اب ایک نئی پروپیگنڈا وَار کی دھمکی دے دی ہے۔

امداد کی حقیقت

ان حالات میں عوامی مخالفت اور پارلیمنٹ کی مزاحمت کے باوجود کابینہ نے کیری لوگر بل کو جس طرح منظور کیا ہے، وہ انتہائی افسوس ناک ہے اور مشرف دور کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی اقدام ہے جیسا پرویز مشرف نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو کیا تھا۔ اگر اس اقدام کا ہدف عدلیہ اور اس کی آزادی تھی تو اِس مرتبہ اصل ہدف ملک کی آزادی اور خودمختاری ہے اور عزت و وقار کا سودا کر کے اسے امریکا کی گرفت میں دینے کی سازش ہے۔ اسے زرداری صاحب اور ان کے وزیرخارجہ ایک ’تاریخی کامیابی‘ قرار دے رہے ہیں اور دعویٰ ہے کہ اب امریکا سے ’مستقل دوستی‘ اور لمبے عرصے کے فریم ورک میں امداد حاصل کی جارہی ہے،  حالانکہ کیری لوگر قانون ان دونوں باتوں کی تردید کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ کہ پہلی بار پانچ سال کے لیے امداد کا وعدہ کیا جارہا ہے، واقعاتی اعتبار سے غلط ہے۔ اس لیے کہ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ڈاکٹر محبوب الحق کی وزارتِ خزانہ کے دور میں بھی پانچ سال کے لیے امریکی امداد دی گئی تھی اور اس کے نتائج قوم  دیکھ چکی ہے۔

جہاں تک موجودہ امداد کے لیے پانچ سال کے فریم ورک کا سوال ہے تو یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ کیری لوگر بل کے مطابق ہرسال جائزہ لیا جائے گا اور اس کے لیے ہر چھے ماہ بعد امریکا کی وزارتِ خارجہ رپورٹ تیار کرے گی اور پاکستان میں احتساب، نگرانی اور آڈٹ کا بھرپور نظام قائم کیا جائے گا۔ نیز ان ۴۲ شرائط (benchmarks) کی روشنی میں، جو اس قانون کا حصہ ہیں، اگر  رپورٹ میں ذرا بھی خلاف ورزی پائی گئی تو امداد کی اگلی قسط کو روک دینے کی سفارش قانون کا حصہ ہے۔ اس کی موجودگی میں نہ امداد کا تسلسل یقینی ہے اور نہ معاشی ترقی کے منصوبوں کے دیرپا ہونے کی کوئی ضمانت ہوسکتی ہے۔

۵ء۷ ارب ڈالر کو ایک ’خطیر امداد‘ قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ ۱۹۸۴ء میں صرف ایک سال میں ۱ء۵ ارب ڈالر کی امداد بھی پاکستان کو مل چکی ہے۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۲ ارب ڈالر کی امداد کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور اگر اس زمانے میں افراطِ زر اور ڈالر کی قوتِ خرید اور اس کی عالمی قیمت میں کمی کو سامنے رکھا جائے تو حقیقی طور پر ۵ء۱ ارب ڈالر سالانہ کی امداد مونگ پھلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ پھر اس ۵ء۱ ارب ڈالر میں سے ۲۰۰ ملین ڈالر امداد پر امریکا کی نگرانی کے   نظام کے لیے وقف ہیں۔ باقی ۳ء۱ ارب میں سے کتنا امریکا کے پاکستانی منصوبوں پر خرچ ہوگا   وہ ایک معما ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ صرف امریکی سفارت خانے کی توسیع کے لیے ۶۰۰ سے ۷۰۰ ملین ڈالر درکار ہوں گے۔ اگر اس سے صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تب بھی ہمارا اپنا اور دنیا کے سارے ممالک کا تجربہ ہے کہ معاشی امداد کا ۵۰ فی صد امداد دینے والے ملک کے ادارے اور مشیر واپس لے جاتے ہیں اور باقی ۵۰ فی صد میں سے ۲۰ فی صد امداد لینے والے ملک میں بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔ ملک اور اس کے عوام کے حصے میں بمشکل ۲۰ یا زیادہ سے زیادہ ۳۰ فی صد آتا ہے اور وہ بھی ان منصوبوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو امداد دینے والے ملک کی ترجیح ہوتے ہیں (قطع نظر اس کے کہ امداد لینے والے ملک کی ترجیح میں وہ کہاں آتے ہیں اور اُسے کتنا حقیقی فائدہ ہوتا ہے)۔ یہ بھی مشتبہ ہے کہ ان میں سے کتنے منصوبے مکمل ہوتے ہیں، کتنے صرف کاغذ پر بنتے ہیں اور فائلوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کی خودمختاری

کیری لوگر بل میں غیرحکومتی اداروں کو خصوصی کردار دیا گیا ہے اور پالیسی کی یہ ترجیح واضح الفاظ میں موجود ہے کہ حکومتی ذرائع کے علاوہ امداد کا ذریعہ این جی اوز ہوں گی۔ ٹائٹل J کے سیکشن ۱۰۱ میں صاف بیان کیا گیا ہے:

صدر کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اس سیکشن کے تحت امداد فراہم کرنے کے لیے پاکستانی اداروں، کمیونٹی اور مقامی این جی اوز بشمول میزبان ملک کے ساتھ معاہدوں اور مقامی لیڈروں کے ساتھ کام کریں۔

سارا کام یو ایس ایڈ اور اس فنڈ کے لیے پاکستان کے سربراہ کے ذریعے انجام دیا جائے گا جو مانٹیرنگ کے فرائض بھی انجام دے گا۔ اس امداد پر تصدیق نامہ جاری کرنے کا نظام ہوگا جو سیکرٹری آف اسٹیٹ کے اختیار میں ہوگا اور اسے نظرانداز کرنے (waiver ) کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔ امریکا نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ کے منصوبوں میں دخل اندازی کریں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آڈٹ کا پورا نظام امریکی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ منصوبوں اور پروگراموں کو روبہ عمل لانا، ان کا انتظام، ان کا آڈٹ اور ان کی نگرانی اس کی ذمہ داری ہوگی۔

بات ارادوں سے بہت آگے جاچکی ہے۔ امریکا عملاً بہت کچھ اپنے ہاتھ میں لے چکا ہے۔ اب کیری لوگر بل نے اس عملی انتظام کے لیے قانونی ڈھانچا تجویز کیا ہے اور یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ باہر کے محققین جن کی نگاہ پاکستان کے حالات اور امریکی امداد کے طریقۂ واردات پر ہے، وہ اس کا برملا اعتراف کر رہے ہیں۔

لندن کے اخبار دی گارڈین کا نامہ نگار اپنے مضمون Pakistan's American Aid Dilemma میں امریکا اور پاکستان دونوںکو ان الفاظ میں آئینہ دکھاتا ہے:

پاکستان میں جو بات لوگوں کو خوف زدہ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ امداد پاکستان کی سلامتی کے پورے نظام کے حساس ترین پہلوئوں کی امریکی نگرانی سے مشروط ہے۔ ان اقدامات پر اتنا شدید احتجاج ہوا کہ کانگریس کو ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا     جس میں وعدہ کیا گیا کہ امریکا ریاست کے انتظامی امور میں جزئیات کے انتظام (micro management) تک نہیں جائے گا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اس وقت بھی جزئیات کے انتظام میں دخل انداز ہے۔ اب بڑا فرق یہ ہوگیا ہے کہ امریکی انتظامیہ جب یہ کرے تو کانگریس کو زیادہ جواب دہ ہوگی۔ (دی گارجین، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

اس مضمون میں دی گارڈین کے نامہ نگار کا مندرجہ ذیل تبصرہ بھی غور کرنے کے لائق ہے:

یہ ایک ہمہ گیر قانون ہے جو عملاً پاکستان کے ریاستی امور، تعلیم اور ماحولیات سے لے کر سلامتی کے معاملات تک، ہر پہلو کا ذکر کرتا ہے۔بلاشبہہ یہ واضح نہیں ہے کہ کتنی امداد پاکستان کو براہِ راست دی جائے گی اور کتنی امداد امریکا اور نجی مشیران اس کے انتظامی امور پر خرچ کریں گے۔

پاکستان کے وزیرخزانہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انتظامی اخراجات امداد کو نصف کردیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امدادی پیکج کے ساتھ جو شرائط لگائی گئی ہیں، وہ پاکستان کا بازو موڑنے کو چھپانے کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ محکمہ خارجہ اور اس کے ساتھ  کم تر درجے میں کانگرس اور پینٹاگون کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ  یہ امداد کرپشن کی نذر نہ ہو۔ بہرحال یہ ادارے غیرجانب دار اور آزاد نہیں ہیں۔  افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی بقا کے لیے امریکا پر انحصار کرتا ہے۔

کیا اب بھی اس میں کوئی شک ہے کہ بات جزئیات کے انتظام کو ہاتھ میں لینے سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ اگر اس قانون پر پورا عمل ہوتا ہے (اور امریکا کروائے گا) تو پاکستان ایک محکوم ملک ہوگا اور امریکاکی حیثیت ریاست بالاے ریاست کی ہوگی، محض ریاست کے اندر ریاست کی نہیں!

بل کے مضمرات

یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ کیری لوگر بل ایک مربوط اور جامع قانون ہے جس میں معاشی اور سیکورٹی امداد کے لیے الگ الگ سیکشن تو ضرور قائم کیے گئے ہیں لیکن یہ دونوں باہم مربوط ہیں۔ قانون کے اولین حصے کا سیکشن ۳ بہ عنوان Findings ۱۲ نکات پر مشتمل ہے، اور اس کے سیکشن ۴ بہ عنوان Statement of Principles میں پانچ اصول بیان کیے گئے ہیں۔ پانچویں اصول کے ذیل میں ۱۴نکات سموئے گئے ہیں۔ یہ حصے پورے بل پر حاوی ہیں اور معاشی اور سیکورٹی امداد دونوں ان کے تابع ہیں۔ یہ حصے پورے قانون کے مقاصد اور مزاج کو متعین کرتے ہیں۔ پورے امدادی نظام کے لیے جو مانٹیرنگ اور تصدیق کا دروبست طے کیا گیا ہے، وہ بھی ناقابلِ تقسیم ہے۔ سب سے بڑھ کر خود پاکستان اور حکومت ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ کچھ شرائط کا تعلق صرف سیکورٹی امداد سے ہے، ایک مغالطہ ہے۔ جیسا کہ امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بجاطور پر لکھا ہے، یہ تفریق ناقابلِ عمل ہے۔ (دی نیوز، ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۰ء)

نسیم زہرہ کی بات بھی غورطلب ہے:

اس بل سے پاکستان میں اقتدار کے معاملات کو غیرمستحکم کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس بل سے سول اور فوجی حکام کے درمیان اعتماد کی کمی ظاہر ہوتی ہے۔ حزبِ اقتدار کی جماعتوں اور سیکورٹی کے اداروں میں ایک راے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ حکمران سیاسی قیادت کے ایک حصے نے ان شرائط کی شمولیت کے لیے جن کا نشانہ پاکستان کے سیکورٹی کے ادارے اور پالیسیاں ہیں، اگر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی تو ساتھ ضرور دیا ہے۔

اس قانون کے مطالعے سے جو ناقابلِ انکار حقائق سامنے آتے ہیں وہ ہم ڈاکٹر ملیحہ لودھی ہی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ محترمہ ملیحہ لودھی حکومتی نظم کا بہت اہم حصہ رہی ہیںاور ان پر تعصب یا امریکا دشمنی یا بنیاد پرستی کا الزام نہ زرداری صاحب لگا سکتے ہیں اور نہ صدر اوباما، یا  محترمہ ہیلری کلنٹن یا سینیٹر جان کیری۔

  •  قانون امریکی انتظامیہ کو پابند کرتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو اور دہشت گردی کے خلاف متعین دائروں سے لے کر فوجی بجٹ اور ترقیوں کے طریقۂ کار تک کی نگرانی کرے، یا اس میں پاکستان سے تعاون حاصل کرے۔
  •  یہ ایکٹ ایسے مستقل معیارات (benchmarks) طے کرتا ہے جو نہ صرف فوجی امداد کو، بلکہ دوسرے دائروں میں بھی تعلقات کو مشروط کریں گے۔ درحقیقت یہ ایسا فریم ورک فراہم کرتا ہے کہ آیندہ تعلقات انھی شرائط اور فریم ورک پر منحصر و محدود ہوں گے اور ممکن ہے کہ دوسری مغربی قومیں بھی اس کے مطابق معاملہ کریں۔
  •  یہ شرائط طویل عرصے سے قائم اس تصور کو تقویت دیتی ہیں کہ امریکا اپنی امداد کو پاکستان کی داخلہ و خارجہ پالیسیاں طے کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتاہے۔
  •  یہ اعتماد کے فقدان کا تاثر دیتی ہیں، خصوصاً پاکستان کی مسلح افواج پر۔ اس سے وہ تعاون بھی قابلِ بحث ہوجاتا ہے جو اس نے پیش کیا ہے۔
  •  یہ  شرائط پریسلر لا کی طرح تعلقات پر تلوار کی طرح لٹکتی رہیں گی۔
  •  بعض دفعات کو ملا کر پڑھا جائے تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کھوجنے (probe) کی کوشش نظر آتی ہے۔
  •  ان شرائط کے ہوتے ہوئے پاکستان شدت پسندی کے خلاف جو اقدام اٹھائے گا، ملک میں اسے واشنگٹن کے احکامات سمجھا جائے گا اور اس سے جو قومی مفاہمت حال ہی میں قائم ہوئی ہے، اسے نقصان پہنچے گا۔
  •  اس قانون کے بعض حصوں میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ بھی قابلِ گرفت ہے، مثلاً دفعہ ۲۰۳۔ اس میں انتظامیہ کی اس تصدیق کو لازمی کیا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان، پاکستانی فوج کے اندر بعض عناصر یا اس کی خفیہ ایجنسی کی طرف سے انتہاپسند اور  دہشت گرد گروہوں کی حمایت ختم کرنے پر آگے بڑھ رہی ہے___ اور اس قرارداد جرم کا ہدف یہ ہے کہ امریکا کو مطلوبہ تعاون ملے!

بل: غیر جانب دارانہ نقطۂ نظر

اس قانون کا جو مفہوم پیپلزپارٹی کے اربابِ اقتدار کو چھوڑ کر پاکستان کے دانش وروں، صحافیوں اور خود فوج کی قیادت نے سمجھا ہے، اس کی تصدیق امریکا کے غیر جانب دار اہلِ قلم بھی کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کی ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ان کے مضمون نگار ڈیوڈ اگناشیس (David Ignatius) نے اہلِ پاکستان کے جذبات کی پوری دیانت اور جرأت سے ترجمانی کر دی ہے۔ یہ مضمون امریکی قیادت کو آئینہ دکھاتا ہے اور پی پی کی قیادت کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے چند اقتباس ملاحظہ کیجیے:

کانگریس نے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے امداد کو تین گنا کیا ہے لیکن ممبران نے جو ہمیشہ دوسروں کو یہ بتانے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں کہ وہ کیا کریں، ایسی شرائط داخل کردی ہیں جو پاکستانیوں کو توہین آمیز لگتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ امداد اور دوستی کو خوش آمدید کہنے کے بجاے پاکستانی [عوام] امریکی مداخلت پر ناراض ہیں۔ گذشتہ ہفتے میں اسلام آباد میں تھا تو اس وقت پاکستانی پریس امریکا مخالف جذبات سے بھرا ہوا تھا۔

پاکستانیوں پر کچھ حرف گیری کرنے کے بعد ڈیوڈ اگناشیس کام کی بات کہتا ہے:

یہ دراصل ان بلاجواز الفاظ کا نتیجہ ہے جنھیں ان تنبیہات کے باوجود قانون میں لکھا گیا کہ اس سے اس طرح کا ردعمل پیدا ہوگا۔ امریکی سیاست دان دوسروں کو لیکچر دینے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیںکہ وہ دوسرے ملکوں میں ان کے الفاظ سے جو مفہوم لیا جائے گا، اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ لیکن جب کچھ بلاجواز جملے القاعدہ کے خلاف ہمارے سب سے اہم اتحادی کے ساتھ تعلقات کو غیرمستحکم کرسکتے ہیں تو پھر یہ ہمارا مسئلہ بھی ہے۔

مضمون نگار اس کے بعد بل کی تاریخ بیان کرتا ہے کہ کس طرح سینیٹ میں منظور ہونے والا بل کم از کم زبان کے اعتبار سے نسبتاً نرم تھا مگر ایوانِ نمایندگان کے مسودے کے ذریعے ایسی شرائط کا اضافہ کردیا گیا جو کسی بھی باغیرت قوم کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتیں۔ مضمون نگار کے الفاظ میں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ:

پاکستان کو فوجی امداد نہیں ملے گی جب تک کہ وہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف اپنے مضبوط عہد کا مظاہرہ نہ کرے اور دہشت گرد گروپوں کے لیے اپنی حمایت ختم نہ کرے اور کوئٹہ اور مریدکے (جہاں لشکرطیبہ کا مرکز ہے) کے دہشت گرد اڈوں کو ختم نہ کردے۔ اگرچہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ان گروپوں سے ماضی میں تعلقات رہے ہیں لیکن کانگریس کی طرف سے اس برسرِعام ڈانٹ ڈپٹ نے پاکستانی خفیہ سروس کے افسران اور فوجی حکام کو پریشان کرنا ہی تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے سپاہی طالبان اور دوسرے انتہاپسند گروپوں کے خلاف لڑائی میں اپنی جانیں دے رہے ہیں اور انھیں کانگریس کی طرف سے کسی رعب کے اظہار کی ضرورت نہیں۔

امریکا کے ایک اور رسالے ورلڈ پولٹیکل ریویو میں اس کے مقالہ نگار ڈاکٹر کلاڈ رکی سٹس (Claude Rakisits )٭ نے اس بل کے ایک اور خطرناک پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:

کیری لوگر بل کی بعض شرائط بہت سخت ہیں اور انھوں نے پاکستان کی سول اور فوج کی مقتدرہ کے درمیان ایک گہری دراڑ ڈال دی ہے جو اس ملک میں جمہوریت کے استحکام میں مددگار نہیںہوگی۔ ایک شرط جس نے پاکستانی فوج کو بہت زیادہ ناراض کیا ہے، یہ ہے کہ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن ہر چھٹے ماہ کانگریس کو رپورٹ کریں گی کہ حکومت پاکستان فوج پر مؤثر سول کنٹرول کر رہی ہے یا نہیں؟ وزیرخارجہ کو دوسری باتوں کے علاوہ     یہ اندازہ بھی لگانا ہوگا کہ حکومت کس حد تک فوجی بجٹ، فوج کی قیادت، رہنمائی     اور منصوبہ بندی اور سینیرافسران کی ترقی پر نظر رکھتی ہے۔ پاکستانی فوج کے افسران    کے لیے یہ بیل کے سامنے سرخ جھنڈا لہرانے کے مترادف ہے۔

کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، پاکستان میںفوج نے ظاہری یا خفیہ طور پر ملک کے سیاسی   فیصلہ سازی کے عمل میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ منتخب سول قائدین کو بالآخر فوج پر بالادست ہونا چاہیے لیکن یہ یقین کرنا کہ ایسا چند مہینوں میں ہوجائے گا بہت سادگی کی بات ہے اور خاص طور پر اس وقت، جب کہ یہ کوشش واشنگٹن سے مسلط کی جارہی ہو۔ گذشتہ سال اس کا مظاہرہ ہوا ہے جب صدر آصف زرداری نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ آئی ایس آئی کوسول کنٹرول میں لے رہے ہیں۔اگلے ہی دن انھیں جنرل کیانی کی مخالفت کی وجہ سے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔

کیری لوگر بل کے لیے زرداری کی بہت شدید کھلی حمایت نے پاکستانیوں کے اس تاثر کو گہرا کر دیا ہے کہ ان کا صدر امریکا کی ہر بات مانتا ہے، یہاں تک کہ وہ سخت ضروری رقوم کی خاطر پاکستان کی خودمختاری کے کچھ حصے سے بھی دست بردار ہونے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایسے ملک میں جہاں امریکی مخالفت عام ہے اور اس وقت سب سے زیادہ ہے، ایسے صدر کو جو پہلے ہی سیاسی طور پر کمزور ہو، مزید کمزور کردیتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ سول اور فوجی قیادت میں بداعتمادی کو بڑھادے گا مگر اس سے امریکا کو پاکستان میں حکمرانی کو بہتر کرنے کے اپنے مقصد میں مدد    نہیں ملے گی۔ ان سب باتوں سے پاکستانی فوج میں یہ احساس تقویت پاتا ہے کہ واشنگٹن ان پر اعتماد نہیں کرتا۔

بات صرف فوج اور امریکا کے درمیان اعتماد کی نہیں، بلکہ پوری پاکستانی قوم کے بارے میں امریکا کے اور امریکا کے بارے میں پاکستانی قوم کے اعتماد میں کمی کی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور بالآخر دونوں کے راستے ایک دوسرے سے جدا ہوکر رہیں گے۔ مضمون نگار جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے:

کیونکہ اسلام آباد کو رقم کی سخت ضرورت ہے، اس لیے اس کے پاس اس کڑوی گولی کو نگلنے اور اس بل کو جیسا یہ ہے قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس سے  منہ بدذائقہ ہوجائے گا اور یقینا دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد قائم نہیں رہے گا۔

امریکیوں کی نظر میں

یہ تو پھر بھی دوسروں کا تجزیہ اور تبصرہ ہے، اگر خود امریکی ایوانِ نمایندگان کے کچھ ارکان کے ارشادات پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے تو امریکی کانگریس اور حکمرانوں کا اصل ذہن سامنے آجاتا ہے، اور قانون کے مقاصد کے بارے میں کسی نمایشی یافرمایشی بیان کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایوانِ نمایندگان میں اس بل کے مجوز کانگریس کے ڈیموکریٹک رکن ہاورڈ برمین کا بیان ہے:

ہم القاعدہ یا کسی دوسرے دہشت گرد گروپ کو جو ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں، اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ قبائلی علاقوں میں یا پاکستان کے کسی دوسرے حصے میں کسی اندیشے کے بغیر کارروائی کریں، نہ ہم یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ طالبان ریاستِ پاکستان اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرلیں۔

ایوان کے ایک دوسرے رکن ڈانا روہرباخر (Dana Rohrbochar) بل کی تائید میں کہتے ہیں:

چین اور پاکستان، دونوں حکومتیں ہمیشہ ہمارے مفادات کے خلاف منصوبے بناتی اور کارروائیاں کرتی ہیں۔ انقلابی اسلام کا خطرہ حقیقی ہے لیکن یہ ہمارے اپنے ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے کے بارے میں غیر ذمہ دار ہونے سے حل نہیں ہوگا۔

سینیٹر جان کیری امریکا کے بڑے معتبر سیاست دان ہیں، انھیں پاکستان کادوست ہونے کا بھی دعویٰ ہے لیکن یادش بخیر جب وہ ۲۰۰۴ء میں صدارتی امیدوار تھے تو ان کا ارشاد تھا کہ اگر میں امریکا کا صدر منتخب ہوگیا تو میری اولین ترجیح پاکستان کے نیوکلیر ایٹمی اسلحے پر قبضہ ہوگا۔ خود اس  بل پر بحث کے دوران ان کا کہنا ہے:

بغاوت کے خلاف حکمت عملی کے برخلاف دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی اس نظریے پر مبنی ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات کو حقیقی خطرہ پاکستان میں ہے افغانستان میں نہیں۔ پاکستان اہم مرکز ہے اور امریکا کے لیے سب سے بڑا سیکورٹی رسک ہے، اور یہ ساری مشق بالآخر ہماری اپنی سلامتی سے متعلق ہے۔

اپنے حالیہ دورے میں بھی جب وہ پاکستانی صحافیوں اور سیاست دانوں کو (پی پی کے ٹولے کو چھوڑکر) قائل نہ کرسکے تو ان کے منہ سے سچی بات ان الفاظ میں نکل ہی پڑی: ’’یہ قانون امریکا کی پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ ہم مدد دے رہے ہیں، پاکستان کواختیار ہے کہ وہ مدد نہ لے‘‘۔

پاکستان کے ردعمل پر امریکا کے سرکاری ترجمان کا تبصرہ  جو دی نیوز کے واشنگٹن کے نمایندے نے اپنی رپورٹ مورخہ ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء میں بھیجا ہے، سنجیدہ غوروفکر کے لائق ہے:

اس رپورٹر کو ایک سینیر امریکی افسر نے بتایا: ’’شاید کیری لوگر بل کی زبان پاکستانیوں کے لیے زیادہ حساس ہوسکتی تھی لیکن موجودہ زبان ہماری کانگریس کی راے کی عکاس ہے۔ کانگریس کے دونوں ایوانوں کے ۵۰۰ ممبران بعض وقت دوسرے ملکوں کے بارے میں شدید غیر محتاط زبان استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں امریکا کی سفیر محترمہ پیٹرسن نے ۸؍اکتوبر کو لاہور میں اس قانون کے  ۴۲ ہتک آمیز مطالبات کی توجیہ کا بالعموم یہی آسان حل نکالا ہے کہ بس کیری لوگر بل کی زبان نامناسب تھی۔ گو فوج کے بارے میں دفعات کے باب میں یہ بھی ان کی زبان سے نکل گیا کہ یہ دفعات    "a big mistake" (ایک بڑی غلطی) تھیں۔

بل کے مجوزین کی طرف سے توضیحی بیان کا سارا زور بھی اس پر ہے کہ زبان کو سمجھنے میں ابہام رہا ہے اور مسئلے کا حل الفاظ کی بہتر تعبیر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ الفاظ کی بہتر تعبیر سے معاملہ  رفع دفع تو کیا جاسکتا ہے لیکن زبان جن خیالات اور مطالبات کی ترجمان ہے ان کی کوئی دوسری تعبیر یا توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ ہمارا اصل مسئلہ وہ اہم بنیادی موضوعات اور مسائل (substantive issues) ہیں، جن میں پاکستانی قوم اور امریکی قیادت کی سوچ اور اہداف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیری لوگر بل کے الفاظ ہی بقول سرکاری ترجمان: امریکی پارلیمنٹ کے ذہن کے عکاس ہیں اور توضیحی بیانات کی لیپاپوتی سے حقائق پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس بات کی توثیق اس تازہ ترین قانون کی شکل میں ہوگئی ہے جو اس ساری بحث کے بعد امریکی ایوانِ نمایندگان نے ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو Fiscal 2010 Defence Authorization Bill کی شکل میں منظور کیا ہے اور جسے ۲۳؍اکتوبر کو سینیٹ نے بھی منظور کرلیا ہے۔ اس بل میں عملاً وہ شرائط ایک تازہ ترمیم کے ذریعے شامل کردی گئی ہیں جن پر کیری لوگر بل کے حوالے سے تنقید ہورہی ہے اور جسے پاکستانی قوم نے یکسر رد کر دیا ہے۔ سی بی این نیوز کی رپورٹ US Congress Quietly Okays New  Curbs on Military Aid (۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) پڑھنے کے لائق ہے:

میڈیا کو بتایا گیا کہ محکمہ دفاع کے بل میں ایک ترمیم شامل کردی گئی ہے تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ پاکستان کو جو فوجی امداد دی جارہی ہے، حقیقی طور پر اپنے مقصد یعنی طالبان اور القاعدہ سے لڑنے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اس کے مطابق امریکا کے وزیرخارجہ اور وزیردفاع پاکستان کو امداد دینے سے پہلے یہ تصدیق نامہ دینے کے پابند ہیں کہ یہ ادایگی قومی سلامتی کے مفادات کے تحت ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر نہیں کرے گی۔

واضح رہے کہ اس تازہ ترین قانون کے مطابق امریکی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ امداد کی رقم اور اس کے تحت دیے جانے والے اسلحے کے استعمال پر نگاہ رکھے، یعنی یہ کہ کتنا اور کون سا اسلحہ کہاں، کیسے اور کب، کس طرح اور کس لیے استعمال ہوا؟ ہراسلحے اور ہرڈالر کے استعمال پر امریکا کی ایسی نگاہ ہو کہ وہ صرف امریکی سیکورٹی مقاصد کے لیے استعمال ہو اور علاقے میں قوت کا توازن  متاثر نہ ہو جس کے معنی بھارت کے مفادات اور اس کی عسکری برتری کی حفاظت ہے۔

یہ تازہ ترین قانون زرداری حکومت کے منہ پر ایک اور طمانچا ہے لیکن اسی حکومت نے امریکا کی ہر زیادتی اور ہر ناروا مطالبے پر سرتسلیم خم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے (بالفاظِ دیگر امریکی غلامی کو طوق در طوق قبول کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے) اور اس وقت جب خود امریکا کے کچھ صحافی اور سیاست دان یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ امریکا کی یہ سامراجی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی، پاکستان کے مفاد پرست حکمران اپنے ہی ملک کی آزادی اور خودمختاری کاجنازہ نکالنے کے لیے کندھا دینے میں پیش پیش ہیں۔

کیری لوگر بل پر امریکی کانگریس کے ایک رکن گیری ایکرمین کا یہ تبصرہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو عبرت اور پاکستان کے غیور عوام کو حالات کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے پیشِ خدمت ہے:

ہماری کامیابی کا سارا انحصار ان اصلاحات پر ہوگا جو پاکستانی پاکستان میں کریں گے اور مجھے اس بل میں کوئی ایسی یقین دہانی نظر نہیں آتی کہ اس طرح کی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر پاکستان کے سرپرست بن رہے ہیں نہ کہ شراکت دار۔ آخر میں یہ ہوگا کہ جو کچھ ہم دے رہے ہیں، وہ اس کو ہضم کرلے گا اور رہے گا وہی پاکستان۔ سب سے بُری بات یہ ہے کہ پھر بھی یہی دعویٰ کریں گے کہ ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

ایکرمین کا یہ تبصرہ پاکستان سے دوستی اور فکری ہم آہنگی پر مبنی نہیں، اس لیے کہ اس کا اصل ذہن تو یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کی اساس، سوچ اور مفادات متصادم ہیں۔ اس نے صاف الفاظ میں کہا ہے: ’’امریکا اور پاکستان کے مفادات قریب قریب یکساں نہیں ہیں‘‘۔

لیکن اگر مخالف کے منہ سے بھی سچی بات نکل جائے تو اس کی ناقدری نہیں کرنی چاہیے۔

منظم جدوجھد کی ضرورت

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے ماضی، حال اور مستقبل کی جو تصویر ۶۰سالوں پر   پھیلی ہوئی اس داستان سے اُبھرتی ہے، کیری لوگر بل اور امریکی کانگریس کے منظورشدہ تازہ ترین The Defence Authorization Bill for 2010 میں صاف نظر آتی ہے۔ اس سے دیانت داری کے ساتھ صرف یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مفادات میں   کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ ہمارے لیے آزادی، عزت اور ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ایسی آزاد خارجہ پالیسی کے اختیار کرنے میں ہے جس میں ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ ہمارے خارجہ تعلقات کی بنیاد بڑی طاقتوں کے مفادات اور ان کی کاسہ لیسی سے عبارت نہ ہو، بلکہ خود  اپنے نظریاتی اور تہذیبی وجود اور سیاسی اور معاشی عزائم اور مفادات پر مبنی ہو اور دوست اور دشمن کی صحیح تمیز کی بنیاد پر تعلقات کو مرتب اور مستحکم کیا جائے۔ پاکستانی عوام امریکا کو اپنا دوست نہیں سمجھتے اور اس علاقے کے بارے میں امریکا کی پالیسیوں کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔   کم و بیش یہی جذبات پارلیمنٹ کے مشترک اجلاس کی اس قرارداد میں بھی سامنے آئے تھے جو ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو   متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی اور جس پر پورا ایک سال گزر گیا، حکومت نے  رتی بھر بھی عمل نہیں کیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں اور عوام کی خواہشات میں کوئی مطابقت نہیں، بلکہ حکومت کی کارکردگی انتہائی غیراطمینان بخش ہے۔ حالات روز بروز بگاڑ کی طرف جارہے ہیں۔ اس صورت حال میں ضرورت کس بات کی ہے؟

تبدیلی کے لیے جدوجہد کی___ غلط پالیسیوں کے خلاف عوامی اور جمہوری جدوجہد، امریکا کی سیاسی اور معاشی گرفت سے نکلنے اور اپنی آزادی، خودمختاری اور عزت و وقار کی حفاظت، معاشی خودانحصاری کے حصول اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کو پروان چڑھانے کے لیے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔

کیری لوگر بل نے ’گو امریکا گو‘ کی تحریک کی ضرورت، افادیت بلکہ ناگزیریت کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے۔ کیری لوگر بل کا تازیانہ اگر قوم کو بیدار کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، ملّت اسلامیہ پاکستان کی آزادی، خودمختاری، خودانحصاری اور عزت و وقار کی بحالی کی تحریک اگر آگے بڑھتی ہے اور یہ تحریک عوامی اور جمہوری قوت کے ذریعے استعماری قوتوں اور ان کے حواریوں سے نجات کا راستہ استوار کرتی ہے تو پھر یہ ایک تاریخی تبدیلی کی نقیب بن سکتی ہے___ اور یہی وہ راستہ ہے جو آزادی، زندگی، قوت اور عزت کی منزل کی طرف لے جاسکتا ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو.ُ عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے


(کتابچہ:  کیری لوگر بل اور پاک امریکا تعلقات دستیاب ہے، قیمت: ۱۰ روپے۔ سیکڑے پر خصوصی رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور)

فرد ہو یا قوم، نظریے اور مقصود حیات کے بغیر اس کی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس نکتے کو بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے:

زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن
مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات

(اسرار و رموز)

(فرد کی زندگی جان و تن کے تعلق سے قائم ہے، اور قوم کی زندگی اپنی قدیم روایات کے تحفظ سے قائم رہتی ہے۔ فرد کی موت جوے حیات خشک ہوجانے سے واقع ہوجاتی ہے، اور قوم کی موت مقصودِ حیات ترک کردینے سے ہے۔)

پاکستان اپنے قیام کے ۶۲ سال بعد ایک مخصوص لابی کی شرانگیز عالمی مہم کے نتیجے میں  جن حالات سے دوچار ہے، وہ ’حفظ ناموس کہن‘ کے لیے خطرہ اور ’ترک مقصود حیات‘ کے تباہ کن راستے کی طرف دھکیلے جانے کا سامان ہے۔ ان خطرات اور اس بین الاقوامی یلغار کا بروقت مقابلہ آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

فرد اور قوم دونوں ہی کی زندگی میں نظریہ، تصورِ حیات اورزندگی کے مقصود کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ قرآن نے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت کو قرار دیا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اس کی سب سے بنیادی دعا ہے اور ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اس دعا کا جواب ہے۔ قرآن پاک میں تخلیق آدم ؑکے واقعے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس کا مرکزی نکتہ انسان کا مقصدِ وجود ہے، یعنی خلافت اور نیابتِ الٰہی اور پورا قرآن اس ہدایت کا امین ہے جو انسان کو یہ کردار ادا کرنے کے لائق بناتا ہے۔

اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز یہ ہے جس انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا، اسے علم الاشیاء سے نوازا۔ اسے عقل، ارادے اور اختیار کی دولت سے مالا مال کیا۔ اس کے اندر خیر اور شر دونوں کا داعیہ رکھا: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس ۹۱:۸)، اسے حق و باطل اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت سے نوازنے کے بعد، ہدایت سے بھی نوازا اور کامیابی کی شاہراہ کو روشن کرکے اسے بتادیا کہ جو ہدایت کی پیروی کرے گا وہی کامیاب ہے اور جو اس سے رُوگردانی کرے گا وہ ناکام و نامراد ہے:

فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸-۳۹) پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے،     وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسانی زندگی کی سب سے کارفرما قوت نظریہ اور ہدایت ہے۔ اس مثالیے (paradigm ) میں تین چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں:

۱۔ علم الاشیاء، یعنی انسان کو اس کائنات کے وسائل اور خزانوں کا علم اور ادراک عطا کیا گیا ہے۔ اسی چیز نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی اور اسے نیابت و خلافت کا اہل بنایا۔

۲- عقل اور انتخاب کی آزادی انسانوں کو عطا کی۔ فرشتوں نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ فساد کرے گا‘‘۔ گویا رد وقبول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کوجبر میں نہیں کسا بلکہ اس کو آزادی اور انتخاب کی صلاحیت بھی دی ہے۔ یہ دونوں چیزیں تو سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں مشترک ہیں۔ البتہ اس سلسلے کی تیسری چیز (ہدایت) کے بارے میں (جو انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے) سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں بعدالمشرقین نظر آتا ہے اور یہیں سے اختلاف کی بنیاد سامنے آتی ہے۔

۳- ہدایت سے مراد اس زندگی کو گزارنے کا اسلوب ، احساس ذمہ داری کی میزان اور آخرت میں جواب دہی کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے انبیاورسل علیہم السلام کو بھیجا گیا، کتابوں اور ہدایت کی روشنی دی گئی اور خاتم الابنیاء محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی اس ابدی ہدایت کی تکمیل کی۔ فرمایا: اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ o [البقرہ ۲:۲۸۵]’ ’رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں ، اور اس کی کتابوں، اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں، اور ان کا قول یہ ہے کہ : ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک، ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری طرف پلٹنا ہے‘‘۔ مرادیہ ہے کہ ہدایت وہ چیز ہے جو مقصد تک پہنچنے کی تمام تر جدوجہد کو سہارا عطا کرتی ہے، علم کو انسانیت کے لیے نافع اور سودمند بناتی ہے، اور نیابت و خلافت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے رہنمائی عطا کرتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں علم الاشیاء، آزادیِ انتخاب اور ہدایت کے تین ستونوں پر ہی نظریے،  مقصد اور منزل کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر نہ زندگی میں انضباط پیدا ہوتا ہے، نہ اصل جوہرِ انسانیت کا اظہار ہوتا ہے، اور نہ تحریک و تحرک کو کوئی راستہ ہی ملتا ہے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے نظریہ ناگزیر ہے، اور یہ سبھی معاشروں اور انسانوں کے لیے ضروری ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہدایت، انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کے لیے   یہ اصول طے کر دیا گیا:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo (فاتحہ۱:۵-۶)ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔


انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ  جن قوموں اور انسانوں کے سامنے کوئی نظریہ اور منزل تھی، انھی نے اوراقِ تاریخ اور دامنِ تہذیب میں نام پیدا کیا۔ نظریہ غلط ہو یا درست، شر پہ مبنی ہو یا خیر کا علم بردار، دونوں ہی صورتوں میں وہ ہمیشہ زندگی کی نشوونما اور پیش رفت اور ترقی کے لیے، ایک بنیادی محرک رہا ہے۔ البتہ نظریہ اگر حق پر مبنی ہے تو اس سے انسانی زندگی اور دنیاے تہذیب میں خیر اور فلاح کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اگر وہ باطل پر مبنی ہے تو یہ جہان تگ و دو فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

تاریخ کے اس فتوے کو ایک طرف تو ابن خلدون[م:۱۴۰۶ء] نے اپنے انداز میں مقصد، شریعت اور عصبیت کے فریم ورک میں پیش کیا ہے، اور دوسری جانب خود دورِ جدید کے فلاسفۂ تاریخ نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر پی اے ساروکن [م:۱۹۶۸ء]، آرنلڈ جے ٹائن بی[م:۱۹۷۵ء] اور عصرِ حاضر کے دیگر ماہرین تاریخ نے بھی اپنے اپنے انداز میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔ ان سب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہی قومیں انسانی تاریخ کے اسٹیج پر ابھری ہیں، جن کے سامنے ایک اعلیٰ نصب العین تھا، اور جو اس نصب العین اور نظریے کی بنیاد پر فکری، سماجی، معاشی اور نفسیاتی زندگی کے چیلنجوں کا جواب دینے کا داعیہ، صلاحیت اور جذبہ رکھتی تھیں۔ اس چیز کو گذشتہ ربع صدی کے ماہرین تہذیب و تاریخ: ’انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریے اور افکار کی فیصلہ کن کار فرمائی‘ کے جملے میں پیش کرتے ہیں۔ اس اصول کو ہمارے اہلِ دانش نے فکری و عملی جدوجہد سے مربوط کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء] نے اسے ’اجتہاد اور جہاد‘ سے تعبیر کیا ہے، اور شعرو ادب نے اسے ’قلم اور تلوار‘ کی علامات کی شکل میں پیش کیا ہے۔

یہ تاریخ انسانی کا نہایت صاف اور واضح فیصلہ ہے کہ تہذیبی تبدیلی کے لیے فیصلہ کن عامل قلم ہی ہے۔ قلم سے مراد ہے فکرو دانش اور اخلاق و اصول، جب کہ اس تبدیلی کو روبہ عمل لانے اور اس کی حفاظت کے لیے قوت، تنظیم اور تلوار کا وجود ناگزیر ہے۔ یوں قلم اور تلوار انسانی تاریخ، تہذیب اور زندگی کے لیے دست راست اور ایک دوسرے کے زبردست معاون اور پُشتی بان ہیں۔

۲۰ویں صدی ایک طرف بے خدا فلسفوں کے درمیان کش مکش اور دوسری طرف یورپی قوموں کے درمیان تجارتی و معاشی رقابت کی بنا پر خوں ریز تصادم کی صدی تھی___ اس سے ماقبل متصل ۱۹ویں صدی میں ایوان ترگینف [م:۱۸۸۳ء] نے نہل ازم Nihlism (’زندگی ایک   بے معنی اور محض وجودی چیز ہے‘) کے نظریے کو بڑے دعوے سے پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ گذشتہ  دو صدیوں میں جواب دہی کے تصور سے بالا انسان کی مزعومہ سوچ کا سرچشمہ اسی فکر سے پھوٹتا ہے۔ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں اشتراکیت اور پرولتاری، یعنی مزدوروں کی آمریت کا نعرہ بلند ہوا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے وسیع حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے افکار کو تہہ وبالا کر دیا، مگر اپنی غیر فطری بنیاد کے باعث ۷۰، ۸۰ سال کے بعد ہی اشتراکیت کا سورج ڈوب گیا۔اسی درمیان میں فاشزم(فسطائیت) کا ڈنکا بھی بجا مگر ایک دوعشروں میں ہی، یہ انسانی تاریخ کی بدترین اصطلاح بن کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ انسانیت کے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ وہی مغربی تہذیب جس نے ۲۰ویں صدی میں سائنسی ترقی کا سہارا لے کر دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا تھا، آج مسلمانوں کو امن کا درس دے رہی ہے؟ پھر سوویت یونین کے انہدام [۱۹۹۱ء] کے بعد فرانسس فوکویاما [پ:اکتوبر ۱۹۵۲ء] نے End of the History میں گویا نظریاتی تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا اور مگر چند ہی برسوں میں یہ فکر بھی پانی کے بلبلے کی طرح تحلیل ہوگئی۔

آج دنیا میں ایک بار پھر نظریات کی بالادستی، مقاصد اور ’اقدار بطور اصل کار فرما قوت‘ کے  فہم اور حصول کی پیاس بڑھ رہی ہے۔ عصر حاضر میں پیدا شدہ عالمی، تہذیبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی بحران کا حل ایک بار پھر نظریاتی آدرشوں میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اصل بحران،  اخلاقی بحران ہے، نظریاتی شعور کی پستی کا بحران ہے، جس نے انسانی زندگی اور اس کے مستقبل کو خوف ناک چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔

آج اہل فکر ونظر، اقدار اور اخلاق کی کارفرمائی کو زندگی کے فیصلہ کن مظہر کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل اسی وقت روشن قرار دیا جاسکتا ہے، جب ایک ایسا عالمی نظام معرض وجود میں آئے، جو احترامِ آدمیت، اخوت، حریت اور مساوات اور بے لاگ انصاف پر استوار ہو، جو استحصال سے پاک اور انسانوں کے درمیان محبت، امداد باہمی اور مؤدت کا داعی ہو۔ پاکستان کے فکری بانی علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:

وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے، اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت میں سے اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیا جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللّٰہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے، اور اخوت، حریت اورمساوات کے شان دار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو پائیں گے [یکم جنوری۱۹۳۸ء کو  سالِ نو کا پیغام، آل انڈیا ریڈیو، لاہور]

اسی طرح علامہ محمد اقبال ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں:

جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے، اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے، جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نظر کو یکسر بدل کر، اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے… یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ تو قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی، نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اس کا مقصد، باوجود تمام فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔

۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا:

اسلام، فرد کی زندگی کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک ہی کُل کے جزو ہیں، اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ انسان اس آلایشوں سے لبریز اور ناپاک دنیا کا کوئی باشندہ ہے اور وہ اسے کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے، جہاں روح رہتی ہے، اسلام کے نزدیک مادہ روح کا وہ روپ ہے جو قیدمکان و زمان میں گھرا ہوا ہے۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کی زندگی سے مذہب عیسوی تقریباً خارج ہوگیا ہے… میری خواہش ہے [اور مجھے یقین ہے کہ] شمال مغربی ہندستان کے مسلمانوں کو ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

گویا اسلام ان نسلی اور علاقائی امتیازات سے بلند ہو کر انسان کو اس کی فطرت کی جانب بلاتا اور اسے ایک تصور جہاں (ورلڈ ویو) کی روشنی دیتا ہے کہ جس کی بنا پر منصفانہ نظامِ جہاں  (ورلڈ آرڈر) نموپذیر ہوتا ہے۔

اس وقت جو لوگ نظریے کی کار فرمائی اور اس کی اہمیت کا انکار کر رہے ہیں، وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ مقصد حیات، نظریے، اخلاقی اور سماجی اقدار سے کٹ کر، اور مفاد وعصبیت کی دلدل میں پھنس کر انسان حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنا وہ نظریے اور اخلاق سے دُور ہوتا ہے، اتنا ہی وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے تباہی وبربادی کا سبب بنتا ہے۔نہ اس کی قوم پرستانہ جمہوریت، انسانیت کے لیے ہمدردیِ عمل کا پروگرام پیش کرتی ہے اور نہ ملوکیت یا ڈکٹیٹرشپ ہی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر پاتی ہے۔ ان طرزِ ہاے حکومت کی طرح معاملہ قوموں اور ملکوں کا بھی ہے۔


پاکستان میں نظریہ پاکستان کو سمجھے بغیر تحریک پاکستان اور اس تحریک کی اصل قوتِ محرکہ کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے وجود کو سمجھنے کی کنجی تحریک پاکستان کا نظریہ ہے۔ اس مناسبت سے سمجھنا چاہیے کہ مسلمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اسلام ہی مسلمانوں کے تشخص کی علامت ہے اور مسلمان ہی اسلام کی پہچان ہیں۔ اس حوالے سے یہ نظریہ کہ’’ مسلمان ہونا تو ٹھیک ہے، مگر اس کا اسلامی ہونا کوئی ضروری تقاضا نہیں ہے‘‘، ایک احمقانہ اور تباہ کن تصور ہے۔ مسلمان اپنی تعریف کے اعتبار سے ایک اُمت کا حصہ ہے، ایک مشن اور مقصد کا علم بردار ہے، جسے مسلمانیت کی پہچان نے ایک خاص ذمہ داری سونپ دی ہے۔ مسلمان گناہ گار ہو سکتا ہے، مگر وہ اسلام کے تصور جزا و سزا، اور اُخروی جواب دہی کے تصور سے اپنے آپ کو الگ کرلے یا اس کی مسلسل نفی کرے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اس لیے عقیدہ ہی اول وا ٓخر مسلمان کی پہچان ہے۔

یہ عقیدہ انسان کے ذہن میںتین بنیادی تصورات راسخ کر دیتا ہے: lغیر اللہ سے بغاوتl اللہ پر ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگیlزندگی گزارنے کے لیے اللہ، رسولؐ، قرآن اور آخرت پر ایمان اور قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کی جدوجہد ___یہ تینوں تصورات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہی مسلم اُمت کی بنیاد ہیں، اور اسی مناسبت سے ہر مسلمان مرد اور عورت کی شناخت متعین ہوتی ہے۔

یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس چیز کو ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے یہ ہندستانی مسلمانوں کی اختراع نہیں ہے، بلکہ وہ پہلے دن سے اسلام کے ایمانی، فکری، تہذیبی تصورات اور اہداف کو قائم کرنے والا نظریہ ہے۔ سورۂ فاتحہ دو قوموں اور دوامتوں کے خدوخال واضح کرتی ہے، فرمایا:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o

قرآن کریم کا یہی افتتاحیہ اس دو قومی نظریے کو وجود بخشتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ سے دوراستے متعین کرکے، انسانوں کو رد و قبول کا اختیار دے دیا گیا ہے، یعنی ایک سیدھا راستہ اور دوسرا اس کے برعکس اللہ کی ہدایت سے انحراف اور انکار کا راستہ۔ ایک راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں سے تشکیل پاتا ہے، اور دوسرا راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے انکار، مخالفت یا اپنی خواہشات کی پیروی سے منسوب ہے۔ اس دو قومی نظریے میں جو بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت دراصل انھی دو بنیادی قافلوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں قافلوں میں فکر، صورت، ہیولا، شکل اور منزل جدا جدا ہے۔ ایک قافلہ انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے اور دوسرا انحراف اور بغاوت کو اپنائے ہوئے ہے۔

اس نظریے کے تین مضمرات ہیں جن کا سمجھنا از بس ضروری ہے:

  • پہلی یہ کہ افراد اور اقوام کو اس امر کی آزادی حاصل ہے کہ وہ کون سی منزل اور کس نظریے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی انتخاب کے مطابق وہ اجتماعی زندگی میں نتائج بھگتیں گے اور انفرادی طور پر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔
  • دوسری یہ کہ ہر قوم کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے تصور اور منزل کے انتخاب کے مطابق اپنے تشخص اور تہذیبی اور معاشرتی دروبست کا انتظام و انصرام کرے، اور اس میں مسابقت و بہتری کے امکانات کو بروے کار لائے۔
  • تیسری جہت، انسانی زندگی کے اُس پہلو سے وابستہ ہے، جس کا ذریعہ ہدایت الٰہیہ ہے۔ صرف اس ایک پہلو سے جو عقیدے پر مبنی ہے، اس میں تو لازماً یک رنگی ہے، تاہم احوال و ظروف اور زمان و مکان کی مناسبت سے، اس عقیدے کے تحت یک سو اور باہم مربوط ہوتے ہوئے، افراد اور ممالک کے لیے کثرتیت کی گنجایش پوری طرح موجود ہے۔ اسلام نے اس جزوی اختلاف اور تنوع کو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کے پیش کردہ ضابطے کے فریم ورک میں اختیار کرنے اور راستے نکالنے کی اجازت دی ہے۔

یہی چیز ہے دوقومی نظریے کی اساس اور وسیع تر بنیاد۔ اسی بنا پر ایک مسلمان کے لیے  لازم ہے کہ تصور حیات اور الہامی ہدایت کی بنیاد پر دنیا میں علم پھیلائے، رہنمائی دے اور دوسروں کے لیے قابل اتباع نمونہ پیش کرے۔ یہی حق دو قومی نظریہ دوسروں کو بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے تصورات و عقائد کے مطابق انفردی اور اجتماعی زندگی کے معاملات کو چلائیں۔ یہ نظریہ مغرب کے قومی ریاستوں (nation states) کے تصور سے بالکل مختلف سوچ کا حامل ہے۔ اس میں قومی ریاست کا نہیں، قوموں کی ریاست کا تصور ہے جس میں یہ اہتمام موجود ہے کہ ہر قوم کو اپنے تشخص کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، تاہم جس کو اکثریت حاصل ہے، اس کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اصولوں اور اقدار کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے، وہیں اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اختلاف اور تنوع کا احترام کرے اور اقلیتوں کے لیے آسودگی پیدا کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس فریم ورک کی مختلف اور متنوع صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں، مگر ان میں مسلمانوں کے لیے تین کو مرکزیت حاصل ہے:

۱- وہ ملک، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے اور اس میں انھیں اقتدار بھی حاصل ہے۔

۲- وہ ملک جس میں مسلمانوں کی اکثریت تو ہے، مگر اقتدار سے محروم ہیں۔

۳- وہ ملک، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورانھیں اقتدار بھی حاصل نہیں ہے۔

پہلی صورت میں اسلامی نظریے کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کانظام، اسلام کی روشنی میں وضع کیا جائے جس میں اکثریت نظام زندگی اور منزل کو متعین کرے اور دوسری تمام اقوام کو انفرادی، تہذیبی اور اجتماعی حقوق حاصل ہوں، تاکہ وہ اس نظریاتی ریاست میں اپنے مذہبی اور نظریاتی تشخص کے لیے مناسب جگہ (space) پا سکیں۔ اس طرح اکثریت اور اقلیت، دونوں عدل و انصاف اور افہام و تفہیم کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

دوسری صورت میں مسلمانوں کی فطری طور پر خواہش اور کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اکثریت کو اختیار اور اقتدار دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ ان کاجائز حق ہے۔ اگر انھیں اس میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ پہلی صورت میں آ جاتے ہیں، ورنہ جدوجہد کے مرحلے میں شامل رہتے ہیں۔

رہی تیسری صورت، تو اس میں اسلام نے یہ بات قبول کی ہے کہ جن کو اکثریت اور اقتدار حاصل ہے، انھیں اجتماعی زندگی میں انصاف اور دوسروں کے حقوق کی پاس داری کے ساتھ حکمرانی کا موقع ملنا چاہیے۔ دوسرے مذہبی اور تہذیبی تشخص کے حاملین کو قرار واقعی جگہ اور سہولت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ وہ باوقار اور منصفانہ انداز سے زندگی گزار سکیں۔

مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں دو قومی نظریہ، انسانی تاریخ و تہذیب اور زندگی سے مطابقت رکھتا ہے، تاہم حالات کی مناسبت سے اس میں تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے۔ اس نظریاتی فریم ورک میں برعظیم پاک و ہند کے حالات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ۹۰۰ سالہ دور حکمرانی میں اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ وہ بڑی حد تک شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک کار فرما قوت بنانے کا اہتمام کریں۔ انھیں اس میں کامیابیاں بھی ملیں اور ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس طرز احساس کا منہ بولتا ثبوت اس خطۂ ارضی میں تجدیدِ دین اسلام کی متعدد تحریکیں ہیں، مگر اس تمام تر احساس کے باوجود خطۂ ہند کی تاریخ یہ ثبوت پیش نہیں کرتی کہ مسلمانوں نے جبر اور قوت کے ذریعے یہاں بسنے والی اکثریت کو اپنے مذہب، اپنی زبان اور اپنے تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے پر کبھی مجبور کیا ہو، بلکہ اس کے برعکس انھیں اس چھتری کے تحت پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا موقع دیا گیا اور اجتماعی امور میں معاشرے کے تمام طبقوں کو برابر کے مواقع میسر رہے۔

مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ہندستان کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندومت کے پیرو کاروں کو جب بھی اقتدار ملا، انھوں نے دوسرے مذہب کو نیست و نابود کیا۔ اس کے پیروکاروں کو ملک بدر کیا یا اپنے نظام میں تحلیل کرنے کے لیے ہر ناجائز کوشش کی، یا ان کی انفرادی شناخت کو ختم کرکے دم لیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی ۹۰۰سالہ حکمرانی کے زمانے کا ریکارڈ   پوری دنیا کے سامنے موجود ہے، اور ان لوگوں کے پاس بھی موجود ہے جنھیں ’ہندوسیکولرازم‘ میں ’روشن خیالی‘ کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ اس زمانے کا ریکارڈ گواہی دیتا ہے کہ مسلمانوں نے سیاسی غلبے کے باوجود، دوسرے مذاہب کی شناخت کو ختم کرنے یا ان کے پیروکاروں کو اس مناسبت سے کبھی شہری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کی (البتہ متحارب اور جنگ میں مصروف عناصر کا معاملہ دوسرا ہے)۔ یوں سرزمین ہند پر مسلم دور حکومت میں تمام افکار و مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ، باغ کے مختلف اور رنگارنگ پھولوں کی طرح پھلتے پھولتے اور اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

بعدازاں برطانوی استعمار کے قبضے کے اولین دور میں شعوری طور پر، ہوشیاری اور  چابک دستی کے ساتھ، اس نو آبادیاتی طاقت نے کوشش کی کہ یہاں مسلمانوں کو کمزور اور غیر مؤثر بنادیں کیونکہ انھیں اصل چیلنج مسلمانوں سے تھا، جن سے انھوں نے اقتدار چھینا تھا اور اسی مناسبت سے ہندو نفسیاتی طور پر برطانوی استعمار کے حلیف تھے۔ اسی استعمار نے سیاسی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے اپنے ہم نوائوں کی ایک قوت تیار کی جس کے لیے عیسائی مشنری قوتوں، جدید تعلیم کی تحریک اور دوسرے تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کی بالادست قوت کو ہرممکن سہولت مہیا کی۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک مراعات یافتہ طبقہ   پیدا کیا، جو دور غلامی میں انگریزوں کا وفادار، اور مسلمانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا رہا۔  قیامِ پاکستان کے بعد اس طبقے نے اپنے اس کردار کو پوری وفاداری سے انجام دے کر ملک کو نظریاتی کش مکش اور تہذیبی انتشار کی دلدل میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہندستان میں چونکہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک چوتھائی تھی اور ہندوغالب اکثریت رکھتے تھے، اس لیے بھی ہندوئوں کو اجتماعی نظام میں بالادستی دی گئی۔ اس پس منظر میں تحریک آزادی اُبھری۔

انگریزوں کے اس دور حکمرانی میں جو پہلی عوامی تحریک زبان زدِ خاص و عام ہوئی، جس کی بازگشت سمندر پار بھی سنی گئی اور جس نے اہلِ ہند میں ایک عوامی شعور بیدار کیا، وہ تحریکِ خلافت تھی۔ اس تحریک کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ تب مسلمان دو قومی نظریے کی روشنی میں اپنے سیاسی حقوق اور نظریاتی و تہذیبی تشخص کو ہندستان کے اجتماعی وجود ہی میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کررہے تھے۔ اس ضمن میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، مسلم شناخت کا تحفظ، حقوق کا حصول، سیاسی جدوجہد میں نظم و ضبط کا احساس اورتقسیم اختیارات بنیادی ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کے قیام ہی نے وفاقی اور صوبائی اختیارات کی بحث کو ایک رخ دیا۔ اس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگریس اختیارات کی مرکزیت چاہتی تھی۔ سائمن کمیشن اور نہرو رپورٹ میں کانگریس کی اس سوچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت قائم شدہ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلمانوں کا جو حشر کیا، وہ ٹھیک اسی طرز عمل کا ایک عکس تھا جسے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوئوں نے جین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں سے روا رکھا تھا۔

یہ تھا منظر نامہ تیسری صورت کے حوالے سے جسے مسلمانوں نے دوسری صورت میں ڈھالتے ہوئے آگے بڑھنے اور پھر نمبر ایک میں تبدیل کرنے کی منزل کا انتخاب کیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد لاہور (جسے ہندوئوں نے قرارداد پاکستان کا نام دیا) دراصل اُس راستے کا   سنگ میل ہے، جس راستے کی طرف کانگریس کی تنگ نظری نے مسلمانوں کو دھکیلنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس چیزنے تہذیبی شناخت کے لیے دو قومی نظریے کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اتارا اور دلوں کی دھڑکن بنادیا۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ علامہ محمد اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد (۲۹دسمبر۱۹۳۰ء) کو غور سے دیکھا جائے۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے زمانے میں مسلمان مفکرین، سیاست دان،  علماے کرام اور دانش ور ایک گہرے اضطراب کا شکار تھے، پھر حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ   لے کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا ہدف محض برطانوی سامراج سے آزادیِ محض کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ آزادی وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی    یہ آزادی دوسرے عقائد رکھنے والوں کے لیے بھی امن و آشتی کی نوید ثابت ہوگی۔

آزادی کے اس تصور کو ایک طاقت ور جذبے کی شکل ۱۹۰۶ء سے ۱۹۳۸ء کے درمیانی عرصے کے معروضی حالات نے دی۔ یہ بات طے ہوگئی کہ ایک تنگ نظر اکثریت سے آزادی حاصل کرکے مسلم ریاست کا قیام لازم ہے۔ علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم کے مابین جو خط کتابت ہوئی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے درمیان آل انڈیا مسلم لیگ نے جو قرار دادیں منظور کیں، اور ان میں جو مسائل نمایاں کیے گئے، اگر دیانت داری سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو صرف ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اپنے دینی، نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی تشخص اور مستقبل کو محفوظ کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے مسلمانوں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔یوں احساس اور سوچ جب عمل میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۸ء تک اپنے ۱۰۰ سے زیادہ بیانات میں: اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب، اسلامی قومیت، اسلامی تشخص، اسلامی قانون، اسلامی کلچر، اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرت کا ذکر کیا ہے۔

قائداعظم نے ہندو قوم پرست لیڈر گاندھی جی (م: ۱۹۴۸ء) کے نام اپنے ۱۰ستمبر ۱۹۴۴ء کے خط میں لکھا تھا:

قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی، فوج داری، عسکری، تعزیری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی غرض یہ کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا اور سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا تک___ یہ قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے۔

اس پس منظر میں ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا اور اس کی بنیاد پر یک سر مختلف استدلال گھڑنا، قائداعظم کے ساتھ سخت ناانصافی اور علمی اعتبار سے سراسر بددیانتی ہے۔ خود قائد اعظم نے باانداز دگر اس تقریر کی تین مرتبہ وضاحت کی۔ ہم یہاں قائداعظم کا ایک بیان اور تین تقاریر پیش کر رہے ہیں۔بیان ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء سے ڈیڑھ ماہ قبل کا ہے اورتقریریں ۱۱؍اگست کے بعد کی ہیں۔

تحریک پاکستان کے زمانے میں کانگریس کے حامی، قیام پاکستان کے مخالف، متحدہ قومیت کے طرف دار اور روشن خیال، مسلمان رہنمائوں میں ایک نمایاں نام خان عبدالغفار خاں [م:۱۹۸۸ء] کا تھا۔ انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے اعلان تقسیم کے بعد اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے، ۲۳ جون کو کہا: ’’جملہ پٹھانوں کے لیے ایک آزاد پٹھان ریاست قائم کی جائے۔ اس ریاست کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف کے مطابق وضع کیا جائے۔ جملہ پٹھانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس محبوب منزل کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور کسی غیر پختون غلبے کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں‘‘۔ اس کے جواب میں ۲۸ جون ۱۹۴۷ء کو نئی دہلی سے قائداعظم نے ایک طویل بیان جاری کیا:

اس سے قبل اس نوع کا پرفریب اور عیارانہ مطالبہ خان برادران یا کسی اور کی جانب سے پیش نہیں کیا گیا کہ سارے پختونوں کے لیے آزاد پٹھان ریاست قائم کی جائے۔ ۔۔ ان کا دوسرا نعرہ دو رنگا ہے، اور اس کا مقصد بھی پٹھانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مجوزہ پٹھانستان کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہوگا، تو ان کا مطلب، مجلس دستور ساز پاکستان، جومسلمانوں کی عظیم اکثریت پر مشتمل ہوگی، پریہ بہتان طرازی کرنا ہے کہ وہ جمہوریت کے اسلامی تصوراتِ مساوات ومعاشرتی انصاف کو نظر انداز کر دے گی… یہ محض ایک عیارانہ حربہ ہے جس کا مقصد شمال مغربی سرحد کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے… خان عبدالغفار خاں جو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان کو اسلامی تصوراتِ مساوات و معاشرتی انصاف پر اجارہ داری حاصل نہیں ہے… یہ اچانک اور نئی قلابازی خالصتاً سیاسی عیاری اور ایک حربہ ہے … خاں برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظر انداز کر دے گی۔ یہ بھی بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں، اچھے اور برے موسموں کا سامنا کرنے کے باوصف، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو حرز جان بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہندومجلس دستور ساز پر اعتبار ہے جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان‘‘۔ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷]

اس بیان میں قائداعظم نے خصوصاً دو چیزوں کو وضاحت سے نمایاں کیا ہے۔ ایک یہ کہ سیکولر، روشن خیال اور اکھنڈ بھارت کے طرف دار پرلے درجے کے موقع پرست ہیں، اور دوسرا یہ کہ اسلام،نسلی اور علاقائی تفریق سے بالاتر ہے۔ اسی لیے انھوں نے کہا کہ آپ پہلے مسلمان اور پھر پٹھان ہیں۔ یہی چیز دو قومی نظریے کی جان ہے۔

۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام میلاد النبیؐ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، قائداعظم نے فرمایا:

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے،  یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی، حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا… اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم راہبرتھے، آپؐ ایک عظیم قانون عطاکرنے والے تھے،آپؐ ایک عظیم مدبر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے، جنھوں نے حکمرانی بھی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سراہتے… اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے، جو اس کی زندگی اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست اور اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ [ایضاً، ص ۴۰۲-۴۰۳]

اس خطاب میں قائداعظم نے برملا اعلان کیا ہے کہ جو لوگ، اسلامی نظریہ حیات کے حوالے سے پاکستانی مسلمانوں کی یکسوئی کو ابہام و انتشار کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ شر انگیز عناصر ہیں۔ وہ تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی اسی طرح اسلام کے قانون شریعت کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے اس پر زور دے رہے ہیں___فروری۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیو نشری پیغام میں قائداعظم نے فرمایا:

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا عملی زندگی پر اطلاق ویسے ہی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ۱۳ سو برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں، اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ [ایضاً، ص۴۲۱، ۴۲۲]

امریکی عوام کے نام اس نشریے میں وہ صاف لفظوں میں بتاتے ہیں کہ ۱۳سو برس قبل جس طرح اسلام کے اصولوں کا اطلاق ہوا تھا، ویسا ہی آج بھی ہو سکتا ہے، اور ریاستِ پاکستان کے دستور میں انھی اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا___یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا:

مغربی اقدار، نظریے اور طریقے___ ایک خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کر سکیں گے، اور بنی نوع انسان تک امن کا پیغام پہنچا سکیں گے۔[ایضاً،ص۵۰۱]

اس بیان میں انھوں نے مستحکم لہجے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مغربی دانش ہمارے مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہمیں اپنا معاشی نظام بھی پیش کرنا ہوگا۔

آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ۱۱؍اگست کی تقریرمیں قائداعظم غیر مسلموں کے شہری حقوق کی بات کررہے تھے، نہ کہ تحریک پاکستان کے بنیادی استدلال اور موقف کی نفی کر رہے تھے۔ البتہ پاکستان کے سیکولر دانش وروں اور بھارت کے مصنفین نے قائداعظم کے تمام خطبات کو نظر انداز کرکے فقط اس ایک تقریر کو بنیاد بناکر اس سے بالکل ہی دوسرامفہوم اخذ کرلیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ’روشن خیال‘ دانش وروں کو دیانت کا دامن تھامنا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا چاہیے۔

قیامِ پاکستان کے بعد کو ابتدائی برسوں میں ہمیں ایک نظریاتی چیلنج درپیش تھا، آج پھر اس مسئلے کو زیادہ شدت کے ساتھ ابہام کا شکار کیا جا رہا ہے۔ کل اس کے علم بردار، خود پاکستان میں چند سیکولر اور اباحیت پسند لوگ تھے، اور آج بھارت سے لے کر امریکا تک اس منفی پروپیگنڈے کے     پشتی بان حضرات کی ایک فوج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے نشانِ منزل پر نظریں جما کر اس منزل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

کہا جاتا ہے کہ اس نظریاتی بحث میں پڑنے سے بھلا کون سا مسئلہ حل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرلابی نے اسی دینی اور نظریاتی رشتے کو کمزور بنانے کے لیے وہ سارا جال بُنا جس کے نتیجے میں، پاکستان کی نظریاتی اساس سے ہاتھ دھونا کوئی بڑا خسارہ نہیں سمجھا جارہا۔ حالانکہ سیانا دشمن اسی جڑ پر تیشہ چلا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پاکستان کے دینی اور آئینی رشتے کو نشانہ بناکر توڑ پھوڑ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک، اس مملکت ِ خدادا د کی تخریب ممکن نہیں ہوگی۔ اندریں حالات تمام اہلِ وطن کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس پہچان اور رشتے کو سمجھیں، اس کی حفاظت کریں اور اس کی بنیادوں پر اپنے سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی مستقبل کی تعمیر کریں۔

یاد رہے کہ آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دو قومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے۔ امریکا کی یلغار ،داخلی انتشار بلوچستان کا قضیہ، مہنگائی کا عفریت اور سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران، ان سب کا علاج اسی سے ممکن ہے۔ نیت ٹھیک نہ ہو تو اسے محض ایک نظری بات کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے لیکن اگر نیت درست ہو تو اسلام کی یہ رہنمائی اور بانیانِ پاکستان علامہ اقبال و قائداعظم کی یہ پکار الجھی راہوں کو صراط مستقیم بنا دے گی۔

 

عدلیہ اور اس کی آزادی پر جنرل پرویز مشرف نے ایک کاری ضرب ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو لگائی تھی جس کا مقصد اپنے آمرانہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے عدلیہ کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے آنا تھا۔ یہی چال فوجی آمر کے اقتدار کے زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔

ماضی میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے کچھ اقدامات پر ذہنی تحفظات کے باوجود، ۹مارچ کو جس جرأت، استقامت اور حکمت سے انھوں نے آمروقت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور سارے دبائو کے باوجود اپنی، اعلیٰ عدالت کی عزت اور دستور کے احترام کے تحفظ کی جدوجہد کا آغاز کیا، اس نے انھیں قوم کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔ وکلا برادری نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، سول سوسائٹی اور سیاسی و دینی جماعتوں نے اس تحریک کی بھرپور معاونت کی اور چار مہینے کی جدوجہد کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس افتخار چودھری اپنے دستوری منصب پر بحال ہوگئے۔ لیکن ہٹ دھرم آمروقت کی آنکھوں میں یہ بحالی کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ عدالتِ عظمیٰ اس کے وردی میں نئے صدارتی انتخاب اور بدنامِ زمانہ مفاہمتی آرڈی ننس (NRO) کے بارے میں دستور کے مطابق اقدام کرنے کا عندیہ رکھتی ہے تو اس پر جنون کی کیفیت طاری ہوگئی۔ تب اس نے دوسرا اور نہایت مجرمانہ وار ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو ایمرجنسی پلس (emergency plus) کے نام پر کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے دستورِ پاکستان کو دوسری بار معطل کرکے  ایک نئے پی سی او (PCO) کا نفاذ کیا۔ اطاعت اور تابع داری کے لیے عدلیہ کے لیے نیا حلف اٹھانا لازم کیا۔ جس کے نتیجے کے طور پر نہ صرف چیف جسٹس افتخار چودھری کو فارغ کر دیا گیا بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ۶۵ ججوں کو نیا حلف نہ لینے کی پاداش میں برطرف کر دیا گیا۔ ان کو اور ان کے  اہلِ خانہ کو گھروں میں نظربند کر کے ایک تابع مہمل شخص عبدالحمید ڈوگر کو عدالت کا سربراہ مقرر کیا۔

۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے ۱۵ دسمبر ۲۰۰۷ء تک یہ نئی طرز کا مارشل لا نافذ رہا، جسے ڈوگر عدالت نے سندجواز عطاکر دی۔ اس وقت کی کرم خوردہ پارلیمنٹ نے جو اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ایما پر ۳ نومبر کی ایمرجنسی کو قرارداد کے ذریعے سندجواز دینے کی بے ڈھنگی (outlandish) حرکت بھی کرڈالی جو اس پارلیمنٹ کی طرف سے قوم     کے لیے الوداعی ٹھوکر تھی۔ باضمیر ججوں، پوری وکلا برادری، تمام اہم سیاسی اور دینی جماعتوں نے دستور کو پارہ پارہ کرنے کی اس مذموم کوشش کی بھرپور مذمت کی۔ انھوں نے جنرل مشرف سے نجات اور عدلیہ کی آزادی اور اپنی اصل شکل میں بحالی کی ملک گیر مہم چلائی، جس کے ثمرات ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج کی شکل میں رونما ہوئے۔ قوم نے جنرل مشرف اور اس کے حواریوں کورد کر دیا اور چیف جسٹس افتخار چودھری اور دستور اور عدلیہ کی بحالی کا وعدہ کرنے والوں کو تبدیلی کا اختیار عطا کیا۔

یہ ایک دل خراش حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں چند ملکی قوتیں اور بیرونی طاقتیں عوام کے مینڈیٹ کو ناکام کرنے میں مصروف رہیں اور اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کی قیادت اور خصوصیت سے اس کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کا رویہ بہت ہی مشکوک رہا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے انتخاب کے موقع پر ہی ججوں کی رہائی کا اعلان کیا، جس سے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ البتہ ججوں کی بحالی ، مشرف کے محاسبے اور دستور کو اس کی ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء سے پہلے کی اصل شکل میں بحال کرنے کے دعووں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انھیں محض سیاسی تسلی کے لیے کیے گئے وعدے قرار دے کر فرار کا راستہ اختیار کیا۔ زرداری اور گیلانی کی حکومت نے نہ صرف یہ کہ ڈوگر عدالت کو سینے سے لگایا بلکہ بہت بڑی تعداد میں نئے ججوں کا تقرر کردیا۔ یوں عدلیہ کی آزادی اور بحالی کا خواب چکنا چور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان حالات میں وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے، خصوصیت سے جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بالآخر ۱۶مارچ ۲۰۰۹ء کے فیصلہ کن معرکے میں ججوں، وکلا برادری اور عوام کی تحریک کامیاب رہی اور حکومت کو عدلیہ کی بحالی کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔

۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کو عدالتِ عظمیٰ کے ۱۴ رکنی بنچ کا جو اہم فیصلہ آیا ہے، وہ اس مہم کا ثمرہ اور عدلیہ کی آزادی کو دستوری، قانونی اور سیاسی تحفظ فراہم کرنے کا قانونی چارٹر ہے۔ تفصیلی فیصلہ ابھی آنے والا ہے، لیکن مختصر فیصلہ بھی ایک تاریخی دستاویز ہے، جس نے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کیے جانے والے ایمرجنسی کے نام پر نافذکردہ مارشل لا اور اس کے تحت کیے جانے والے دستوری، قانونی اور انتظامی فیصلوں اور اقدامات کو غیردستوری، غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا ہے۔ اس طرح اس فیصلے نے دستور سے بغاوت اور انحراف کے ایک تاریک باب کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔

یہ فیصلہ ہماری دستوری، قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے ہراعتبار سے تاریخی، انقلابی اور معیاری کہنے کے بارے میں تو دو آرا ہوسکتی ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی حد تک، اس فیصلے نے ماضی کے کچھ عدالتی فیصلوں اور غلط روایات کو دوٹوک انداز میں رد کر دیا ہے۔ اس بات تک کو خاطر میں نہیں لایا گیا کہ اس سے خود اعلیٰ عدلیہ کے ۱۰۶ جج متاثر ہوں گے، اور جن میں ایک محترم جج وہ بھی ہیں، جو خود اس ۱۴ رکنی بنچ کے ممبر ہیں۔ لیکن اصول کی بالادستی اور دستور کے الفاظ اور حقیقی مفہوم کے تحفظ اور تعبیر کی صحت  کے لیے اس بنچ نے متفقہ طور پر دستور کی صحیح تشریح کردی ہے۔ اس طرح ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے ماوراے آئینِ اقدام اور اس کے تحت قائم ہونے والے عدالتی انتظام بشمول اس وقت کے چیف جسٹس کے تقرر کو خلافِ دستور و قانون کالعدم (null and void) قرار دیا ہے۔

فیصلے کے اھم نکات

چیف جسٹس حمود الرحمن کے ۱۹۷۳ء کے عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب کے فیصلے کے بعد، یہ پہلا فیصلہ ہے جس نے دستور اور عدلیہ پر فوجی قیادت کے شب خون مارنے کے اقدام کو   غلط قرار دیا ہے، اور ’نظریۂ ضرورت‘ کو کم از کم جزوی حد تک رد کر دیا ہے۔ اس فیصلے میں جو اہم اصول طے کردیے گئے ہیں، وہ بہت اہم اور دُور رس اثرات کے حامل ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان اصولوں کو صاف لفظوں میں بیان کر دیں:

۱-  دستورِ پاکستان، مملکت کی بنیاد اور تمام اداروں اور کارفرما قوتوں کے لیے ضابطۂ کار متعین کرتا ہے، جسے کسی صورت میں بھی توڑنے، معطل کرنے اور غیرمؤثر بنانے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ حکومتِ وقت کی کارکردگی کو بہانہ بناکر کسی کو دستور سے انحراف یا اس کے اِبطال کا حق نہیں اور جو ایسا کرے، اس کی حیثیت دستور کے باغی کی ہے۔

۲-  ماضی میں دستور کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ عدالتیں اور پارلیمنٹ دستور پر کیے جانے والے ان قاتلانہ حملوں کو جواز دینے کی مذموم حرکت کرتے رہے ہیں۔ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو بھی ایک غیردستوری عدالت نے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنے    اولیں لمحے (ab initio) ہی سے غلط اور غیرقانونی تھی اور عدالت عالیہ کے ۱۴ رکنی بنچ نے اسے اس کی مکمل شکل میں باطل (void) قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دستور میں ترمیم کا حق کسی چیف آف آرمی اسٹاف کو نہیں اور جو کچھ ۳نومبر کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف نے کیا، وہ غلط اور قانون کی سند سے عاری تھا۔

۳-  ۳نومبر کے اقدام کے غیرقانونی ہونے کا یہ فطری اور لازمی تقاضا ہے کہ جن ججوں کو اس کے تحت فارغ کیا گیا، وہ غلط تھا اور وہ اس جبری معزولی کے تمام زمانے میں دستور اور قانون کے مطابق جج تھے۔ اسی طرح چیف جسٹس کا عہدہ کبھی خالی نہیں ہوا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت چیف جسٹس تقرر غیرقانونی تھا۔ اس لیے ان کے مشورے سے اعلیٰ عدلیہ کے جتنے جج صدر نے مقرر کیے، خواہ وہ مشرف کے دور میں ہوں یا صدر زرداری کے زمانے میں، وہ تمام تقرر غلط اور غیرقانونی تھے اور اس فیصلے کی رُو سے وہ سب جج فارغ ہوگئے یا اپنی اس پوزیشن پر لوٹ گئے جس پر وہ موجودہ تقرر سے پہلے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ جو ۳نومبر کے اختیارات کے تحت آرڈی ننس کے ذریعے قائم کی گئی تھی، وہ بھی غیرقانونی تھی اور اسے فی الفور ختم کر دیا گیا ہے۔

۴-  اسی طرح اس فیصلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ زرداری گیلانی حکومت نے ۲۰۰۸ء کے فنانس بل کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں جو اضافہ کیا، وہ بھی غلط تھا۔ فنانس بل کے ذریعے تنخواہوں کے لیے مالی سہولت تو بہم پہنچائی جاسکتی ہے، مگر ججوں کی تعداد کے قانون میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اس فیصلے کے بڑے اہم اور دُور رس اثرات ہوں گے، اس لیے کہ گذشتہ ۱۰،۱۵سال سے حکومتِ وقت فنانس بل کے ذریعے درجنوں قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرتی رہی ہے، جس پر سینیٹ میں بار بار اعتراض بھی اٹھایا جاتا رہا ہے اور سیاسی تجزیہ نگار بھی اس پر تنقید کرتے رہے ہیں، مگر ہر حکومت نے اس روش کو جاری رکھا ہے۔ اب اس فیصلے کی رُو سے اس دروازے کو بند کردیا گیا ہے۔

۵-  اس فیصلے کے ذریعے بڑے واضح انداز میں یہ اصول بھی طے کر دیا گیا ہے کہ جج بھی اسی طرح دستور اور قانون کے پابند ہیں جس طرح باقی تمام ادارے اور افراد۔ بلاشبہہ قانون کی تعبیر کے باب میں ان کی بات حرفِ آخر ہے، لیکن ان کا تقرر، طریق ترقی و تنزل، دستور اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کو بھی اسی طرح قانون کی گرفت میں آنا چاہیے، جس طرح باقی تمام شہری آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اعلیٰ عدلیہ کے ۱۰۶ ججوں پر اس فیصلے کی ضرب پڑی ہے اور یہ ایک اچھی مثال ہے۔

۶-  گو عدالت کو دستور میں ترمیم کا اختیار نہیں لیکن عدالت دستور میں ترمیم کی ضرورت کی نشان دہی کرسکتی ہے اور ماضی میں بھی کرتی رہی ہے۔ اس فیصلے میں دستور توڑنے والوں کے نظام کے تحت ججوں کے نئے حلف لینے کی روایت پر گرفت کی گئی ہے اور یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ اگر کوئی جج دستور کے شیڈول میں دیے ہوئے حلف سے ہٹ کر کوئی حلف کسی پی سی او کے تحت لیتا ہے تو یہ ایک عدالتی بداخلاقی (judicial misconduct) ہوگی اور ایسے جج کو عدلیہ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے دستور کی دفعہ ۲۰۹ میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔

۷-  سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے دستور میں ان ترامیم کو بھی رد کر دیا ہے جو جنرل پرویز مشرف نے ۳نومبر کے اقدام کے تحت کی تھیں۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام اقدام اور آرڈی ننس جنھیں دستور کے آرٹیکل AAA-۲۲۷ کی شکل میں تحفظ دیا گیا تھا، وہ سب غیرمؤثر ہوگئے ہیں۔ البتہ عدالت نے ان کو فوراً کالعدم قرار دینے کے بجاے دستور میں مرکزی اور صوبائی آرڈی ننس کے لیے جو مدت مقرر کی ہے (یعنی مرکزی آرڈی ننس کے لیے ۴ مہینے اور صوبائی کے لیے ۳مہینے)، وہ عدالت کے فیصلے کی تاریخ سے دے دی ہے تاکہ مقننہ اس عرصے میں ردوقبول کے عمل کے ذریعے ان کی قسمت کا فیصلہ کرسکے۔ اس کے لیے عدالت نے جس اصول کا سہارا لیا ہے، وہ دستور میں طے کردہ تقسیمِ اختیارات کا نظام ہے۔ اس طرح بظاہر عدالت نے یہ ذمہ داری اپنے اُوپر سے منتقل کرکے پارلیمنٹ کے کندھوں پر ڈال دی ہے، حالانکہ ۳نومبر کے اقدام کو اس کی زندگی    کے اولیں لمحے سے کالعدم اور غیرقانونی قرار دینے کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ ان آرڈی ننسوں کو  جن پر تین،چار مہینے نہیں، ۱۸ مہینے گزر چکے ہیں، کالعدم قرار دیا جاتا۔ لیکن یہاں عدالت نے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لیا ہے اور نظام کو بچانے کی خواہش کی بنیاد پر انھیں اور ایسے بہت سے انتظامی اقدامات کو جن میں صدرزرداری کا حلف بھی شامل ہے سندِجواز دے دی ہے جس پر کچھ حلقوں نے بجاطور پر تنقید کی ہے۔

ہماری نگاہ میں اس فیصلے کے قانونی مضمرات بے حد اہم ہیں اور ملک کو دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف لاتے ہیں۔ اس کا کردار بہت مثبت ہوسکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اس فیصلے کے چند اقتباسات یہاں دے دیں، تاکہ عدالت کی سوچ اسی کے الفاظ میں سب کے سامنے آسکے۔ عدالت کی یہ تصریحات (observations) ہراعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ ہم آگے جو تجزیہ پیش کرنا چاہتے ہیں، اس کی ضرورت اور اہمیت کو بھی ان کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔

۸-  فیصلے کے پیراگراف ۹ اور ۱۰ میں دستور پر فوج کی قیادت کی دست درازیوں کا جس انداز میں ذکر کیا گیا ہے، وہ اس لیے اہم ہے کہ ان تبدیلیوں کو اپنے اپنے دور میں عدالتوں نے جواز (validation ) دیا ہے۔ لیکن جو زبان ان حصوں میں استعمال کی گئی ہے، وہ ماضی سے بہت مختلف ہے۔ البتہ جیساکہ ہم بعد میں عرض کریں گے، عدالت نے اس تجزیے کے قانونی تقاضے اپنے فیصلے میں پورے نہیں کیے، جس کی تشنگی ہرصاحبِ نظر محسوس کرے گا:

۹- تقسیم کے بعد آزادی کے ۶۰ برسوں میں عوام کی بدقسمتی سے مقننہ کے بنائے ہوئے دساتیر کو کئی بار منسوخ کیا گیا اور عوام کی حکمرانی کو نشوونما پانے اور ملک کی سیاست میں گہری جڑیں پکڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے قبل متعدد بار دستور منسوخ کیا گیا یا معطل کیا گیا اور حکمرانی کے جمہوری نظام کو ختم کر دیا گیا۔ پہلی دفعہ ۱۹۵۶ء کا دستور ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو منسوخ کیا گیا اور اس وقت کے صدر سکندر مرزا  نے مارشل لا نافذ کیا، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو برخواست کردیا، مرکزی اور  صوبائی حکومتوں کی تحلیل کر دی، تمام سیاسی پارٹیوں کو ختم کر دیا اور اس وقت کے  کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ چند ہی دن بعد سکندر مرزا کی جگہ موخرالذکر نے لے لی۔ ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو پھر اس وقت کے    آرمی کے سربراہ جنرل آغا محمد یحییٰ خاں نے ۱۹۶۲ء کا دستور منسوخ کر دیا اور اپنے اعلان (پی ایل ڈی ۱۹۶۹ء مرکزی قوانین ۴۲) کے ذریعے مارشل لا لگا دیا جس کے بعد عارضی دستوری حکم نامہ (پی سی او) نافذ کیا گیا (گزٹ آف پاکستان غیرمعمولی، ۴؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔ ۵جولائی ۱۹۷۷ء کو ایک دفعہ پھر اس وقت کے آرمی کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ انھوں نے مارشل لا حکم نامہ (پی ایل ڈی ۱۹۶۹ء، مرکزی قوانین ۳۲۶) کے ذریعے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کر دی اور ۱۹۷۳ء کے دستور کو معطل کردیا۔ جس کے بعد لاز آرڈر ۱۹۷۷ء نافذ  کیا گیا۔ جب یہ دستور بحال ہوا تو بدنامِ زمانہ ۸ویں ترمیم کے ذریعے مسخ شدہ حالت میں بحال ہوا۔

۱۰- بعد میں، جاری جمہوری نظام پر ایک اور حملہ کیا گیا۔ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے، جو اب ریٹائرڈ ہیں، ایک دفعہ پھر دستور کو معطل کردیا اور پورا ملک مسلح افواج کے کنٹرول میں لے آیا گیا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، اور صوبائی اسمبلیاں معطل کر دی گئیں۔ ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بھی معطل کردیے گئے اور یہ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم، وفاقی وزرا، پارلیمانی سیکرٹری، صوبائی گورنر، صوبائی وزراے اعلیٰ اور ان کے مشیر اپنے منصب پر برقرار نہیں رہے۔ اس کے بعد پی سی او اور ججوں کا حلف نامہ ۲۰۰۰ جاری کیا گیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے آپ کو چیف ایگزیکٹو قرار دے دیا اور نئے نظام کے تحت ملک پر حکومت کرنا شروع کر دی۔ بعد میں انھوں نے صدر کے منصب پر بھی قبضہ کرلیا اور آنے والے برسوں میں دستور کو ۱۷ویں ترمیم کے ساتھ بحال کیا۔

۸ (vii ) حیرت ہے کہ ماضی میں اس وقت کی عدالتوں نے مہم جوؤں کو نوازنے کے لیے انھیں دستور میں ترمیم کا اختیار دیا جو دراصل ان کے کھلے اور چھپے ایجنڈے کو    پورا کرنے کے لیے تھا، لیکن اس دفعہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے پی سی او کے ذریعے  یہ اختیارات خود سنبھال لیے اور اپنے مفاد میں متعدد غیردستوری ترامیم کیں۔

اس کے بعد عدالت نے ۳نومبر کے اقدام کی تفصیلات بیان کی ہیں اور اپنے فیصلے کے اطلاقی پہلوئوں میں توجہ کو صرف ۳نومبر کی ایمرجنسی تک محدود کرلیا ہے۔ حالانکہ اس بات کی ضرورت تھی کہ عدالت اپنے نظرثانی (review) کے اختیارات کا بجا طور پر استعمال کرتے ہوئے ماضی میں عدالتوں کے فراہم کردہ جواز اور آمروں کے دستور میں ترمیم کے حق پر واضح فیصلہ دیتی، تاکہ کم از کم دستور اور اس کی تعبیر کے باب میں دستور پر فوجی قیادتوں کی دست درازیوں کا دروازہ حتمی طور پر بند کیا جاتا۔نہ معلوم کس مصلحت کی بنا پر عدالت نے اپنی باقی توجہ صرف ۳نومبر پر مرکوز رکھی اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کے اقدام اور آٹھویں اور سترھویں ترمیم کو قابلِ مذمت (obnoxious) قرار دینے کے باوجود ’نظریۂ ضرورت‘ کے اس قاتلانہ کردار کو ہمیشہ کے لیے دفن نہیں کیا۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ عدالت صاف الفاظ میں یہ وضاحت کرتی کہ:

ا- دستور کو معطل کرنے، منسوخ کرنے یا غیرمؤثر کرنے کی ہر کوشش بغاوت ہے اور دستور کی دفعہ ۶ کے تحت آتی ہے۔ ایسا کرنے والے اور ایسا کرنے والے کی معاونت کرنے والے تمام افراد ایک سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔

ب- اگرچہ یہ بات تو فیصلے میں آگئی ہے کہ کسی جج کو پی سی او کے تحت حلف نہیں لینا چاہیے، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کسی عدالت کو پی سی او کو سندِجواز دینے کا اختیار نہیں۔ اور جو ایسا کرے گا، وہ بھی دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔

ج- تیسری بات جسے دو ٹوک انداز میں عدالت کے فیصلے میں آنا چاہیے تھا، وہ یہ ہے کہ دستور میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے جو صرف دستور میں دیے ہوئے طریقے کے مطابق کوئی ترمیم کرسکتی ہے۔ کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ خود دستور میں ترمیم کرے یا کسی کو ترمیم کرنے کا اختیار دے یا کسی غاصب کی طے کردہ ترمیم کو دستور کا حصہ تصور کرے۔

یہ تین بنیادی اصول اس فیصلے میں آنا چاہییں تھے، لیکن نگاہیں ان کو تلاش کرتی ہیں، ناکام ہوکر لوٹ آتی ہیں۔

۸- عدالت نے بجاطور پر یہ فیصلہ دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا اقدام قطعاً غیرقانونی تھا، ملاحظہ ہو پیراگراف ۱۳ (۱):

(i) ۱۳- جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایمرجنسی پلس اور پی سی او کے پردے میں خود حاصل کردہ اختیارات کے تحت دستور میں ترامیم کیں جو سب غیردستوری ہیں، بغیر اختیار کے ہیں، بغیر کسی قانونی بنیاد کے ہیں اور اس لیے کسی قانونی نتائج کے بغیر ہیں۔

لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نتیجے کے باوجود اور اس اقدام کے تحت عدالتوں کے نظام میں تقرریوں اور ترقیوں کے اقدام کو کالعدم کرنے کے باوجود، غیردستوری عدالتوں کے بہت سے اقدامات پر اور غیردستوری عدالتوں کے ہاتھوں حلف لینے والی سیاسی تقرریوں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی، حالانکہ عدالت کے لیے یہ موقع تھا کہ ایسے بیش تر اقدام کو ’نظرثانی‘ (review ) اور ’تجدید‘ (renewal) سے مشروط قرار دیتی، تاکہ ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کیا جاسکتا۔ ایسے معاملات میں عدالت نے بدنامِ زمانہ ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لیا ہے، حالانکہ سیاسی نظام کو تہ و بالا کیے بغیر، ایک متعین مدت کے اندر ایسے تمام قوانین، ترجیحات، احکامات کا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے اور تمام تقرریوں کا نیا حلف ہوسکتا ہے، جو دستور کے مطابق ہو۔ اس سے نظام کے پٹڑی سے اُترنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس طرح ایک غیرقانونی عمل کو ’قانونی‘ بنانے کی روایت ختم کی جاسکتی تھی۔ لیکن عدالت نے اسی نظریۂ ضرورت کا سہارا لیا ہے، خواہ جزوی طور پر ہی سہی:

۲۲ (ii) یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو ہرگز خالی نہیں ہوا اور اس کے نتیجے میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت چیف جسٹس آف پاکستان تقرر غیردستوری تھا، ابتدا ہی سے بے بنیاد تھا اور کسی قانونی اثر کے بغیر تھا۔

آگے جو کچھ کہا جائے اس کے باوجود جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت جسٹس آف پاکستان مذکورہ غیردستوری تقرر ان کے کسی انتظامی یا مالی اقدامات کے جواز کو متاثر نہیں کرے گا۔ اور نہ کسی حلف کو جو اس منصب کے معمول کی کارروائی کے دوران ان کے سامنے لیا گیا ہو۔

۲۲ (v) سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بنچ نے فیصلے کیے ہوں، حکم نامے جاری کیے ہوں یا decrees منظر کیے ہوں، جو مذکورہ ججوں پر مشتمل ہوں یا وہ ان میں شامل ہوں، ان کو ملک اسد علی کیس پی ایل ڈی ۱۹۹۸، ایس سی ۱۶۱ میں طے شدہ دستور کے مطابق تحفظ دیا جا رہا ہے۔

اس اہم فیصلے کے یہ تضادات نگاہوں کو بہت کھٹکتے ہیں۔ اگر ۱۰۶ ججوں کو فارغ کرنے سے پاکستان میں عدل کا نظام تہ و بالا نہیں ہوا تو چند سیاسی تبدیلیوں، عہدوں کے نئے حلف اور قوانین یا اقدامات کو ایک متعین مدت کے اندر اندر دوبارہ روبہ عمل لانے اور تصحیح (rectify) کرنے سے کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا۔ اگر صوبہ بلوچستان کی عدالت کے سارے جج اس فیصلے سے متاثر ہوئے تو کیا غضب ہوگیا۔ ۴۸گھنٹے میں نئی تقرریاں ہوگئیں اور عدالتی عمل کی گاڑی چلنے لگی۔   جب تک اس باب میں سمجھوتے کی روش کو ترک نہیں کیا جائے گا، صحیح مثال قائم نہیں ہوسکے گی۔  اس فیصلے کی نظریاتی اور قانونی بنیادوں اور فیصلے کی زبان اور تجزیے اور تحلیل کے باوجود اسی پرانے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لینا، یقینا اضطراب کا باعث ہے۔ بہت سے اقدامات کا ذکر کر کے جو ۳نومبر والے اختیارات کے تحت ہوئے ہیں، سیاسی نظام کے تحفظ کے نام پر ضرورت کے تحت انھیں جواز دینا تشویش ناک ہے:

(vi) ان اقدامات کو زمانۂ قدیم کے اصول Salius Populi Est Surmalex (جس کا اظہار پی ایل ڈی ۱۹۷۲ء ایس سی ۱۳۹ میں کیا گیا ہے) کے مطابق مکمل تحفظ حاصل ہے۔

کرنے کے کام

عدالتی فیصلے کے ان مثبت اور قابلِ غور پہلوئوں کی نشان دہی کے بعد اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس اہم فیصلے کے بعد کرنے کے بڑے بڑے کام کیا ہیں:

۱- عدالت کا تفصیلی فیصلہ ابھی آنا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس میں جس حد تک بھی ممکن ہو، جن تضادات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یا جن پہلوئوں کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے، ان کا اس میں احاطہ کرلیا جائے۔ اس طرح یہ فیصلہ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنے گا اور آیندہ کے لیے طالع آزمائوں اور ان کے اعوان و انصار کا راستہ روکنے کا کردار بھی ادا کرسکے گا۔

۲- عدلیہ میں نئی تقرریوں کو خالص اہلیت کی بنیادوں پر کرنے اور حکومتِ وقت کی  سیاسی دراندازیوں کا دروازہ بند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں عدلیہ اور انتظامیہ میں ’اختیارات کی مکمل علیحدگی‘ کے اصول اور ضابطوں کی پابندی کی جائے، وہیں ذاتی پسند و ناپسند کا دروازہ بھی بند کردیا جائے۔ اس لیے پارلیمنٹ کو ججوں کی تقرری کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر طے کرنا چاہیے اور اس میں حکومت اور حزبِ اختلا ف کو مل کر ایک متفقہ معروضی اور شفاف طریق کار طے کر دینا چاہیے۔ یہ کام فوری توجہ کا متقاضی ہے۔

۳-  وہ تمام قوانین اور آرڈی ننس جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے پورے دورِ حکومت میں نافذ ہوئے ہیں، ان کا فوری طور پر جائزہ لیا جائے۔ جن کو ختم کرنا ضروری ہو، (جیسے شیڈول ۶ کے تحت تحفظ یافتہ قوانین یا این آر او وغیرہ) ان کو فی الفور ختم کیا جائے۔ جن کو ترمیم کے ذریعے دستور اور جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہو، ان کے بارے میں فوری نئی قانون سازی کی جائے۔ اصل مشکل یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے ۱۸ مہینے گزر جانے کے باوجود دستور کے بگاڑ کی اصلاح اور ضروری قانون سازی کے باب میں مجرمانہ غفلت برتی ہے، اور اس کی اولین ذمہ داری پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں پر آتی ہے۔ اگرچہ سترھویں ترمیم کو ختم کرنے کا غلغلہ ہے، مگر ۱۸مہینے میں اس منزل کی جانب ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا، حالانکہ یہ ’میثاق جمہوریت‘ (COD) اور ۷جولائی ۲۰۰۷ء میں لندن کے مشترکہ اعلامیے کا حصہ ہے۔ تمام بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں اس کا وعدہ بھی کیا ہے اور صدرزرداری، پارلیمنٹ سے اپنے دونوں خطابات میں یہ تحفہ دینے کا اعلان بھی کرچکے ہیں مگر ان کے بارے میں تو یہ کہاجاسکتا ہے ’’وہ وعدہ ہی کیا جسے وہ وفا کردیں!‘‘

۴-  میڈیا اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اگر حکومت ان بنیادی کاموں کے سلسلے میں غفلت بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے، تو وہ ان امور کو اپنی توجہ کا محور بنائیں اور راے عامہ کو ہموار بلکہ بیدار کریں۔ پارلیمنٹ میں پرائیویٹ ممبربل کی شکل میں اہم ایشو پر متبادل قوانین کو پیش کریں۔ ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ دستور، آزادی اور حقوق کا تحفظ، جدوجہد اور قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ۰۹-۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے آئینے میں سیاسی جدوجہد کی اہمیت کا نقشہ دیکھا جاسکتا ہے۔ آیندہ کے لیے دستور اور جمہوری نظام کو فوجی یا دوسرے طالع آزمائوں کی یورش سے بچانا اسی وقت ممکن ہے، جب پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرے اور غاصبوں کے مقابلے کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ جن حالات سے آج پاکستان دوچار ہے، ان کا تقاضا ہے کہ جس طرح عوام نے   قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد کی اسی طرح پاکستان کی آزادی، خودمختاری، اسلامی شناخت اور انصاف پر مبنی فلاحی اور جمہوری نظام کے قیام، دستور کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کے قیام اور آزاد عدلیہ کی حفاظت کے لیے بھرپور جدوجہد کریں۔

جہدِ پیہم اور مسلسل قربانیوں کے بغیر علامہ اقبال اور قائداعظم کے تصور اور وژن کے مطابق معاشرے اور ریاست کی تعمیر ناممکن ہے۔ اقبال نے یہی پیغام ہمیں دیا ہے کہ    ؎

یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

۵- ان تمام دستوری، پارلیمانی، عدالتی اور عوامی کاموں کے ساتھ ساتھ جو سب سے اہم اقدام ضروری ہے، وہ احتساب ہے۔ عوام اور عدلیہ دونوں نے دوٹوک انداز میں یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا اقتدار غاصبانہ اور ناجائزتھا۔ جنرل موصوف نے دستور کو توڑ کر دفعہ۶ کے تحت بغاوت (treason) کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے دورِاقتدار میں پاکستان کی آزادی، نظریاتی تشخص، جمہوری عمل، عوام کے حقوق، صوبوں کے مفادات پامال ہوئے ہیں۔ پھر فوج اور عوام میں دُوری ہی نہیں تصادم کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے۔ ملک کو عملاً امریکا کی ایک کالونی بنادیا گیا ہے۔ اس افسوس ناک منظرنامے کا تقاضا ہے کہ دستور اور قانون کے تحت جنرل مشرف کا بھرپور محاسبہ ہو، اسے صفائی کا پورا موقع دیا جائے۔ جن جرائم کا اس نے ارتکاب کیا ہے، اس کے بعد محض این آر او یا مغربی اقوام کے دبائو میں اسے قانون کی گرفت سے باہر رکھنا اس قوم پر ظلم اور مستقبل کے طالع آزمائوں کے لیے غلط پیغام ہوگا۔ ہم انتقام کو گناہ سمجھتے ہیں، لیکن انصاف کا قیام دین اور دنیا دونوں کا تقاضا ہے۔ صدر زرداری صاحب توجنرل پرویز مشرف کو تحفظ دے ہی رہے تھے، لیکن اب وزیراعظم گیلانی نے بھی عدالت کے فیصلے پر اولیں ردعمل میں اُلٹی زقند لگائی ہے۔ اس بات کا اعتراف کرنے کے بعد کہ ’’عدالت نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، اب دستور کے مطابق پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہے‘‘، اب ایک طرف تو فرما رہے ہیں کہ ’’میں نے معاف کیا‘‘ (جیسے مشرف کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی رنجش تھی جسے سبک سر بن کر وہ معاف کر رہے ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ مشرف آپ کا ذاتی نہیں، قومی مجرم اور غدار ہے۔ اس نے حدوداللہ تو پامال کیے ہی، بندوں کی حق تلفیاں بھی کیں۔ آپ حقوق العباد کے ضمن میں کیسے معافی دے سکتے ہیں)، اور دوسری طرف ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا راگ الاپا جا رہا ہے جو سیاسی شاعری ہے اور محض ایک فریب کاری اور مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

ایک اور کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے، جس میں یہ نیا فلسفہ گھڑ کے بیان کیا جا رہا ہے کہ: ’’پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد ہی کے ذریعے مشرف کا محاسبہ ہوسکتا ہے‘‘۔ یہ بھی ایک فریب کاری ہے۔ ۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۴ء کے بغاوت ایکٹ کی رُو سے دفعہ ۶ کے تحت مقدمہ چلانے کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر ہے، اور صرف اس کے ایما پر اس دفعہ کے تحت مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے۔ یہ قانون اپنی جگہ اس اعتبار سے بہت ناقص ہے۔ غداری اور بغاوت پوری قوم کے خلاف جرم ہے، اور ہر فرد اس کی زد میں آتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بار بار یہ آواز اٹھائی گئی ہے کہ کسی بھی شہری کو اس قانون کے تحت مقدمہ دائر کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے، لیکن موجودہ قانونی پوزیشن یہی ہے کہ صرف مرکزی حکومت کی مقرر کردہ اہل اتھارٹی ہی اس جرم کے مرتکب فرد کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔ اس میں پارلیمنٹ یا کسی اور کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے پوری قوم کو یک زبان ہوکر مشرف پر دفعہ ۶ کے تحت مقدمے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ قوم کو اس غاصب کے مقابلے میں انصاف دلائے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت عوامی دبائو کے بغیر یہ اقدام نہیں اٹھائے گی۔ اگر آیندہ طالع آزماؤں کا دروازہ بند کرنا ہے تو اس مجرم کو جسے مغربی اقوام پناہ دے رہی ہیں، کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے اور یہ آیندہ کے لیے ملک اور دستور کی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔

۶-  ویسے تو جتنے قوانین اور آرڈی ننس مشرف دور میں آئے ہیں، ان سب کے جائزے کی ضرورت ہے لیکن سب سے اہم آرڈی ننس جسے منسوخ کرنا فوری ضرورت ہے، وہ این آراو ہے۔ یہ قانون شرم ناک تو ہے ہی، لیکن اس کے سایے تلے مجرموں اور قوم کی دولت لوٹنے اور معصوم انسانوں کو قتل کرنے اور غائب کرنے کے مرتکب افراد نے قانون کی گرفت سے خلاصی حاصل کر لی ہے اور لوٹ مار کے نئے کاروبار کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ ایک قومی جرم ہے۔ احتساب کے بغیر کوئی نظام ٹھیک ٹھیک نہیں چل سکتا۔

بدعنوانی پورے ملک کو گھن کی طرح کھائے جارہی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ۲۰۰۹ء کے جائزے کے مطابق پاکستان کی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ۱۵ فی صد کرپشن کی وجہ سے چند لٹیروں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے اور مشرف کے دورِحکومت میں ملک میں کرپشن میں ۴۰۰فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ این آر او بدعنوانی کو تحفظ دینے کا کالا قانون ہے۔ امریکا، برطانیہ، مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت سب اس کالے قانون کی تشکیل اور تحفظ کے جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ زرداری صاحب، جنرل مشرف کو تحفظ بھی اسی کالے قانون کی وجہ سے دے رہے ہیں۔ ہماری نگاہ میں محاسبے کا قانون اچھی حکمرانی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ بلاشبہہ اسے اعلیٰ جوڈیشل ادارے کے ذریعے انجام دیا جانا چاہیے۔ سارا عمل شفاف ہونا چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جانا چاہیے۔ یہ انتظام سب کے لیے ہونا چاہیے۔ جس میں سیاست دان، سرکاری عہدے دار، جرنیل، جج اور تاجر سب کا احتساب ہو۔ عدالتی عمل کے ذریعے جس کا جرم ثابت ہو، اسے قرارواقعی سزا ملنی چاہیے اور لوٹی ہوئی دولت وطنِ عزیز میں واپس آنی چاہیے۔ اگر سیاسی انتقام کے لیے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے تو وہ غلط ہے اور ایسا کرنے والوں کو سزا ملنا چاہیے، لیکن اگر فی الحقیقت کچھ لوگوں نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی ہے اور قومی خزانے کو لوٹا ہے تو ان کو معاف کردینا ناقابلِ معافی جرم ہے۔

جن لوگوں پر دسیوں افراد کے قتل کے مقدمے تھے، اس قانون کے تحت انھیں کھلی چھوٹ (carte blanche) مل گئی ہے۔ جن کے اربوں ڈالر بیرونِ ملک میں موجود ہیں اور ان میں سے کچھ کی تفصیل انٹرنیٹ پر موجود ہے (مثلاً ویکی پیڈیا کی ویب سائٹ پر بنکوں کے ناموں کے تعین کے ساتھ معلومات موجود ہیں) تو آخر کس دلیل پر ان کو کھلی چھٹی دی جارہی ہے؟ جو شخص بھی پبلک لائف میں ہے، اس کا فرض ہے کہ اپنی دولت کے ذرائع کا اعلان کرے اور ثابت کرے کہ اس نے اسے جائز ذرائع سے کمایا ہے۔ اگروہ یہ نہیں کرسکتا تو اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ محض یہ بات کہ ماضی میں مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوا، کوئی دلیل نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کس طرح مقدمات میں پیشیاں لے لے کر فیصلے کو تعویق میں ڈالا گیا ہے۔ حتیٰ کہ جھوٹے حلف نامے اور بیماریوں کے سرٹیفکیٹ دیے گئے ہیں۔ ان سب حیلوں بہانوں کے ساتھ پاک دامنی کا دعویٰ چہ معنی دارد۔

احتساب سب کا ہونا چاہیے، کسی کو بھی اس سے استثنا نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے این آر او کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے اور جو افراد اس کالے قانون کی وجہ سے فیض یاب ہوئے ہیں، ان کو اپنی پاک دامنی عدالتی عمل کے ذریعے ثابت کرنا ہوگی۔ اگر مشرف کا محاسبہ اور این آر او میں پناہ لینے والے پردہ نشینوں کا کھلا اور شفاف احتساب نہیں ہوتا، تو نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور نہ ملک کو کرپشن سے پاک کیا جاسکے گا۔ ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے کا یہ بھی اتنا ہی اہم تقاضا ہے جتنے دوسرے دستوری اور قانونی اقدامات___ اس لیے جنرل (ر) پرویز مشرف پر دفعہ ۶ کے تحت مقدمہ اور این آر او کو ختم کرکے اس کے تحت رخصت لینے والے تمام افراد کا اعلیٰ عدالتی ٹریبونل کے سامنے احتساب اور متعین وقت میں ان کا فیصلہ ملک کو جمہوریت اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے  ع

گر یہ نہیں تو بابا، پھر سب کہانیاں ہیں!

 

پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے تقریباً ہر میدان میں پاکستانی عوام کو بُری طرح مایوس کیا ہے۔ عوام نے ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو بنیادی تبدیلی کا جو مینڈیٹ سیاسی جماعتوں کو دیا تھا اور مشرف کی داخلی و خارجہ پالیسیوں سے نجات کی جو امید پیدا ہوئی تھی، وہ دم توڑ رہی ہے۔

۲۲ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو اپنی متفقہ قرارداد کی شکل میں پارلیمنٹ نے خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کی حکمت عملی اور امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے بارے جن بنیادی تبدیلیوں کی ہدایت دی تھی، ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اس کے برعکس امریکا کے اشاروں پر جنرل پرویزمشرف سے بھی زیادہ تابع داری کے ساتھ بگ ٹٹ عمل ہو رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں سوات، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ پورا ملک لاقانونیت، مہنگائی اور اشیاے ضرورت کی عدم فراہمی سے دوچار اور زندگی کے ہر شعبے میں بدعنوانی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔

حکومت کی داخلی پالیسیاں بگاڑ کو بڑھانے کا سبب ہیں لیکن بِس کی اصل گانٹھ امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور اس کے نتیجے میں ملک کے خارجی اور داخلی تمام ہی امور پر امریکا کی عمل داری (writ ) ہے، جس کی گرفت اب تعلیم، ثقافت، معیشت اور توانائی ہر دائرے میں بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاست کی جزئیات تک کا اہتمام (مائیکرو مینجمنٹ)، واشنگٹن کے نمایندوں اور امریکی سفارت کاروں کا رہینِ منت ہے۔ بظاہر یہ سب افغانستان کی وجہ سے ہو رہا ہے، لیکن فی الحقیقت نظر یہ آ رہا ہے کہ امریکا کی توجہ کا مرکز اب افغانستان سے بھی   کچھ زیادہ پاکستان ہے۔ جس کے بڑے دُوررس اور تباہ کن اثرات ہماری آزادی، نظریاتی شناخت، تہذیب و تمدن اور سیاسی اور معاشی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں اوران کے مزید بڑھنے کے خطرات اُفق پر منڈلا رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم، اس کی سیاسی اور دینی قیادت، امریکا کی افغان پالیسی کا گہری نظر سے جائزہ لے اور پاکستان کو ان کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لیے فی الفور اقدام کرے۔

صدر اوباما نے عراق سے امریکی افواج کی مرحلہ وار اور تدریجی انخلا کی پالیسی کا اعلان کیا ہے، مگر افغانستان میں فوجوں کو بڑھانے اور نائن الیون کے ملزموں کو پکڑنے، امریکی سلامتی کو   ان سے بچانے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا عندیہ دیا ہے، اور ساتھ ہی ۱۷ ہزار مزید فوجی بھیجنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ بظاہر یہ سب کام ہو رہے ہیں لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ افغانستان میں بھی امریکی پالیسیاں اسی طرح ناکام رہی ہیں، جس طرح عراق میں رہیں۔ اب خود امریکی دانش ور اور عوام آہستہ آہستہ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ عراق کی طرح افغانستان میں بھی یہ جنگ ناقابلِ فتح ہے۔

سیاسی اعتبار سے تو یہ جنگ ناکام ہوچکی ہے۔ معاشی اعتبار سے اس کا بوجھ اب امریکی معیشت اور عالمی کساد بازاری کے پس منظر میں ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی اور ناٹو کی اتحادی افواج کوبھی جان و مال دونوں کے اتلاف کی صورت میں اس کی جو قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے، امریکی عوام کو اس کے جواز پر قائل کرنا روز بروز مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

اکتوبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر فوج کشی کر کے صدر بش نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ اب رفتہ رفتہ امریکی عوام کی تائید سے محروم ہوتی جا رہی ہے، جس کا تازہ ترین اظہار اس سروے کے نتائج سے ہوتا ہے جو امریکا میں واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے ایما پر منعقد کیا گیا ہے، اور جس کا اعلان ۲۲؍ اگست ۲۰۰۹ء کو نیشنل پبلک ریڈیو اور دوسرے نشری اداروں نے کیا ہے۔ اس سروے کی رُو سے پہلی بار امریکی عوام کے ۵۱ فی صد نے یہ کہا ہے: War in Afghanistan is not worth fighting (افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے لائق نہیں)۔

ان میں ۵۲ سے ۴۱ فی صد نے افغانستان کی جنگ میں امریکا کے حصہ لینے کی سختی سے مذمت کی ہے اور نیشنل پبلک ریڈیو نے خود اپنا یہ نتیجۂ فکر پیش کیا ہے:

امریکی عوام کو کوئی ایسی شہادت نظر نہیں آ رہی ہے کہ امریکی قبضے نے افغانستان کو زیادہ مستحکم، محفوظ، آزاد یا پُرامن بنا دیا ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکا کے نیشنل پبلک ریڈیو نے افغانستان میں امریکی کردار کو ’قبضے‘ (occupation) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ احساس اب امریکا کی کانگریس کے ارکان میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ میساچیوسٹس سے کانگریس کے رکن جم میک گورن نے کانگریس میں ایک بل پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جو افغانستان سے انخلا کی حکمت عملی کے مطالبے پر مشتمل ہوگا۔ اس مجوزہ مسودۂ قانون پر اب تک ۹۵ ارکانِ کانگریس نے دستخط کر دیے ہیںاور ان میں خود     ری پبلکن پارٹی کے وہ ارکان بھی شامل ہیں جنھوں نے افغانستان پر فوج کشی کے لیے صدربش کی پُرزور حمایت کی تھی۔ میک گورن نے جو قانون کانگریس کے ایوانِ نمایندگان میں پیش کیا ہے اس میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے: ’’امریکا کو طویل تر قبضہ رکھنے کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہونا ہے اور اسے انخلا کی حکمت عملی پر ابھی غور کرنا چاہیے‘‘۔

کانگریس سے باہر بھی ایسے گروپ وجود میں آرہے ہیں، جو ویت نام میں امریکی جنگ کے زمانے میں متحرک تھے۔ ایسا ہی ایک مؤثر گروپ ’پروگریسو ڈیمو کریٹس آف امریکا‘ (PDA) کے نام سے متحرک ہوا ہے جس کا پیغام یہ ہے: ’’قبضوں کی جنگ ختم کرو اور وسائل قوم پر خرچ کرو‘‘۔

میک گورن بل اور ’پروگریسوڈیموکریٹس آف امریکا‘ دونوں کا مطالبہ ہے کہ ملک کے وسائل کو امریکا کے عوام کی بہبود کے لیے استعمال کیا جائے جو صحت کے میدان میں خصوصیت سے سخت مشکلات سے دوچار ہیں اور عالمی کساد بازاری اور بے روزگاری کی وجہ سے آبادی کے نچلے طبقے سخت تنگی سے دوچار ہیں، یہی بات ایک امریکی دانش ور ڈاکٹر اناطول لیون نے پورے زور و شور سے خود اپنے پاکستان اور افغانستان کے دورے کے موقع پر کہی ہے کہ امریکا کے لیے افغانستان کو دیر تک فوجی قبضے میں رکھنا ممکن نہیں اور وقت آگیا ہے کہ انخلا کی حکمت عملی پر کام کیا جائے۔

۲۴؍اگست کو امریکی کمانڈر ایڈمرل مولن نے جو بیان دیا ہے، وہ ہوا کے رُخ کو سمجھنے کے لیے بے حد مددگار ہے۔ مولن کا کہنا ہے کہ میں دو سال سے چیخ رہا ہوں کہ افغانستان میں جنگ ناکام ہو رہی ہے اور طالبان مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں امریکا کے انخلا کی حکمت عملی پر غور کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ اسی طرح لندن کے موقر رسالے دی اکانومسٹ، ۲۲اگست ۲۰۰۹ء میں افغانستان کو امریکا کا مرکزی ایشو بتاتے ہوئے اعتراف کیا گیا ہے کہ  امریکا کی حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ تمام افغان عناصر سے بات چیت کا آغاز اور امریکی و ناٹو افواج کی واپسی کا راستہ تلاش کیا جائے۔

یہ سب ہوا کے رُخ کا پتا دیتے ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہماری موجودہ قومی قیادت کو اس کا کوئی احساس اور شعور نہیں ہے، اور وہ ہر آن امریکا کی اس جنگ کی دلدل میں مزید دھنستی چلی جارہی ہے۔ اس وقت افغان دانش ور بھی اس منظرنامے کی باتیں کر رہے ہیں، جو امریکی قبضہ ختم ہونے کے بعد کے افغانستان پر مشتمل ہوگا، مگر یہاں پر زرداری ، گیلانی حکومت امریکا سے بھی زیادہ امریکا کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی ہولناک غلطی کر رہی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ملک کی سیاسی اور دینی قوتیں حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ اس ہاری ہوئی امریکی جنگ سے جلد گلوخلاصی اختیار کرے اور افغان عوام سے یک جہتی کی پالیسی اختیار کرے تاکہ یہ دونوں برادر ملک ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں اور علاقائی استحکام حاصل ہوسکے۔ اس کے لیے افغانستان سے امریکی فوجوں کی ایک متعین پروگرام کے تحت واپسی، افغانستان کے تمام سیاسی اور دینی عناصر کا باہم افہام و تفہیم سے اپنے ملک کے معاملات کو سنبھالنا، نیز افغانستان میں بھارت اور اسرائیل کے گماشتوں کی سرگرمیوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ پاکستان، ایران اور وسط ایشیا کے ہمسایہ ممالک کو اعتماد میں لے کر افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کی حفاظت کرتے ہوئے تعمیرنو میں تعاون کا اہتمام حددرجہ ضروری ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اور وہاں کے نظام کے دروبست کا تعین افغانستان کے لوگ اپنی آزاد مرضی سے کریں اور اس میں کوئی بھی اور کسی نوعیت کی بھی بیرونی مداخلت نہ ہو۔ البتہ مشترک مفادات کے تحفظ کے لیے پوری شفافیت کے ساتھ تعاونِ باہمی کی راہ اختیار کی جائے، تاکہ علاقے میں حقیقی امن رونما ہو، جو سب کی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے۔

امریکا اور یورپ کی اقوام تو افغانستان سے انخلا کی حکمت عملی کی طرف بڑھ رہی ہیں، مگر دوسری طرف پاکستان کی حکومت اس دلدل میں مزید پھنستی چلی جارہی ہے۔ ہم کیا اس سے بھی گئے گزرے ہیں جس کا ذکر شاعر نے ان الفاظ میں کیا ہے  ع

ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

 

۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک تاریخی لمحے کی حیثیت رکھتا ہے۔ برعظیم پر ہزار سال حکومت کرنے کے بعد برطانیہ کی ۲۰۰ غلامی کے طوق سے نجات کی جدوجہد نے، ۲۰ویں صدی کے دوسرے ربعے میں ایک غیرمعمولی صورت اختیار کر لی تھی۔ آزادی کی تحریک، جس کی قیادت تحریکِ خلافت کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی، سقوطِ خلافت کے بعد ایک نئی دلدل میں پھنستی نظر آرہی تھی۔ برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگریس دونوں نے متحدہ قومیت کا جال کچھ اس طرح بُنا تھا کہ دام ہم رنگِ زمین، کچھ اس طرح بچھایا تھا کہ اگر مسلمان اس جال میں پھنس جاتے تو مسلمان، برعظیم کی آبادی کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود آزادی سے محروم ہی رہتے اور خطرہ تھا کہ انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو کی غلامی میں چلے جاتے۔ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت نے اپنے دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی خاطر تقسیم ملک کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر قائداعظم کی قیادت میں ایک تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء اور اپریل ۱۹۴۶ء کے مسلم لیگ کنونشن کی قراردادوں کی روشنی میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو جو ۲۷ رمضان المبارک کا مبارک دن بھی تھا، ایک آزاد اسلامی ملک کے قیام کی شکل میں صبحِ نو کا دیدار کیا۔

اس جدوجہد میں مسلمانوں نے کتنی بڑی قربانیاں پیش کیں؟ ان کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر اپنے لیے ہندوئوں کی عددی بالادستی میں نیم آزادی کی زندگی گزارنے پر بہ رضا و رغبت آمادگی کا اظہار کیا، اور برعظیم کے مسلمانوں نے مسلم کش فسادات میں لاکھوں انسانوں کی جانوں اور ہزاروں عصمت مآب خواتین کی عزتوں کی قربانی پیش کی۔ ایک کروڑ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور نہایت بے سروسامانی کے حالات میں اس اطمینان کے ساتھ پاکستان نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا کہ یہ سب قربانی ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے دی گئی ہے، یعنی آزادی اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ایک مبنی برحق و انصاف اجتماعی نظام کا قیام۔ جن آنکھوں نے خون میں لت پت اور لٹے پٹے قافلوں کو پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتے ہی سجدہ ریز ہوتے دیکھا ہے، وہ ان ساری ہی مصیبتوں اور صعوبتوں کی آغوش میں حاصل ہونے والی اس عظیم کامیابی اور الٰہی انعام کے لذت آشنا ہیں۔

آزادی کے بعد

۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء ایک دور کے اختتام اور ایک نئے دور کے آغاز کا تاریخی لمحہ ہے۔ آج ۶۲ سال گزرنے کے بعد بھی اس لمحے کی یاد ہوا کے ایک معطر جھونکے کی مانند ہے۔ اللہ کے اس انعام اور برعظیم کے مسلمانوں کی اس کامیاب جدوجہد پر جتنا بھی رب غفور و رحیم کا شکر ادا کیا جائے، کم ہے___ لیکن تشکر کے یہ جذبات اپنی آغوش میں ایک بڑی دکھ بھری داستان لیے ہوئے ہیں اور یہ داستان ملک کی مختلف قیادتوں کی بے وفائی، نااہلی اور خودسری کے ان احوال سے عبارت ہے، جن کے نتیجے میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو قائم ہونے والا پاکستان آج تک ان مقاصد کا گہوارا اور ان تمنائوں اور عزائم کی زندہ مثال نہ بن سکا، جن کی خاطر یہ ملک قائم ہوا تھا اور     ملت اسلامیہ پاک و ہند نے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔

۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو ’قرارداد مقاصد‘ کی شکل میں اپنی قومی منزل کا تعین اور اعلان کرنے کے باوجود، ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے بجاے مفادات کی سیاست اور ذاتی اور گروہی اہداف کے حصول کی جنگ میں ملک و قوم کو جھونک دیا۔ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مختصر مدت کے لیے نافذ کردہ مارشل لا کے تجربے کے بعد، فوجی قیادت نے ۱۹۵۸ء میں پورے پاکستان پر مارشل لا کی شکل میں شب خون مارا ۔ گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی، وہ دن اور آج کا دن کہ قوم کی یہ گاڑی پٹڑی پر رواں دواں نہ ہوسکی۔

۱۹۷۱ء کا سانحہ رونما ہوا، جس نے ملک کو دولخت کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کے متفق علیہ دستور کی شکل میں امید کی نئی کرن رونما ہوئی لیکن اس وقت کی سیاسی قیادت نے اس دستور کے مطابق نظامِ زندگی کو چلانے کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے پہلے ہی دن سے اس سے انحراف کی راہ اختیار کی۔ جس دن دستور نافذ ہوا، اسی دن بنیادی حقوق کو معطل کرکے ملک کو ایمرجنسی کی گرفت میں دے دیا گیا۔ پھر ۱۹۷۷ء میں ایک بڑی عوامی تحریک ’پاکستان قومی اتحاد‘ کی شکل میں اُبھری مگر وہ بھی کامیابی کے دہانے تک پہنچنے کے بعد غیرمؤثر ہوگئی کہ اس تحریک کی منزل کو مارشل لا نے کھوٹا کردیا۔ گویا کہ متفقہ دستور، سیاست دانوں اور ججوں کی خواہشوں اور فیصلوں کا تختۂ مشق بن گیا۔ بالآخر ایک اور طالع آزما نے ۱۲ نومبر ۱۹۹۹ء کو دستور کو معطل کر کے ملک و قوم پر نہ صرف شخصی آمریت کی طویل رات مسلط کر دی، بلکہ نائن الیون کے بعد ملک کی آزادی اور حاکمیت تک کو دائو پر لگا دیا جس کے نتیجے میں قومی زندگی میں امریکی عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ اب پاکستان ایک امریکی کالونی کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس امریکی ایجنڈے کے مطابق حکمران سارے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں مرتکز کررہے ہیں اور قیادت کی تبدیلیاں بھی باہر والوں کے  اشارۂ ابرو پر ہو رہی ہیں، لیکن اللہ کا قانون اور مشیت اپنی جگہ ہے، جس کا ایک نظارہ ہم نے ۲۰۰۷ء میں دیکھا۔

۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو مطلق العنان فوجی آمر نے عدالت عظمیٰ کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے ایک بھرپور وار کیا، مگر یہی وار حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن گیا۔ وکلا کی قیادت میں قوم نے آمریت کے خلاف ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا انعقاد ہوا اور ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدلیہ کی بحالی کا ایک مرحلہ مکمل ہوا۔

۱۴؍اگست ۲۰۰۹ء ایسے حالات میں آرہا ہے جب ایک طرف امریکا وطن عزیز اور اس پورے علاقے کے لیے نئے جال بُن رہا ہے اور ملک کی موجودہ قیادت خصوصیت سے صدر آصف علی زرداری عملاً اس کے آلۂ کار بن کر اپنی ہی قوم، اس کے عزائم اور احساسات کے خلاف برسرِجنگ ہیں۔ مزید یہ کہ وہ فوج اور قوم کو لڑانے کے سامراجی کھیل میں شریک ہیں۔ دوسری طرف قوم کا حسّاس طبقہ امریکی غلامی کی اس بلا کا مقابلہ کرنے کے لیے بیدار ہورہا ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کا آغاز ہوچکا ہے۔’گو امریکا گو‘ اور ’امریکی غلامی نامنظور‘ کے نعروں سے ملک کے دروبام گونجنے لگے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ دستور کی بالادستی کے قیام کے لیے ایک روشن کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پس منظر میں ۱۴؍اگست جہاں ایک یومِ تشکر ہے، وہیں ایک یومِ احتساب بھی ہے، تاکہ پوری دیانت اور حقیقت پسندی کے ساتھ یہ متعین کیا جاسکے کہ خرابی کی اصل وجوہ کیا ہیں، اور اصلاح کی جدوجہد کا حقیقی ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔ ہم اس موقع پر قوم اور اس کی سیاسی، دینی اور عسکری قیادت کو انھی امور پر غوروفکر کی دعوت دے رہے ہیں۔

پاکستان کے وجود کے لیے خطرات

ملک و قوم کو درپیش اصل مسائل اور چیلنجوں پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان تین اہم اور خطرناک مغالطوں کا پردہ چاک کریں جو دراصل اہم نظریاتی، سیاسی اور نفسیاتی حملے ہیں، اور جن کا تانا بانا بڑی عیاری اور چابک دستی سے عالمی سطح پر پاکستان دشمن قوتوں اور بدقسمتی سے خود ملک میں کارفرما کچھ عناصر کی ملی بھگت سے بُنا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلق پاکستان کی شناخت اور اس کے مستقبل سے بڑا گہرا ہے۔ پاکستان کے وجود کے لیے اصل خطرہ  اگر کوئی ہے تووہ ان ہی سوچے سمجھے مغالطوں سے ہے۔

ہم آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان حقیقی خطرات کو جو افراد محض  ’سازشی نظریہ‘ کہہ کر نظرانداز کرنا چاہتے ہیں، وہ عالمی سیاست کے زمینی حقائق سے صرفِ نظر کررہے ہیں۔ وہ اس سنجیدہ مسئلے کو محض ایک ’ذہنی خوف‘ کہہ کر تاریخ کی کھلی کھلی تنبیہات سے آنکھیں بند کر رہے ہیں اور قوم کو دھوکا دینے کی مذموم کوششوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خطرات کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا جائے۔

  • نظریا.تی اساس پر حملہ: پہلا حملہ پاکستان کے ’مقصدِوجود‘ اور اس کے وجود پر  کیا جا رہا ہے کہ: ’’اس کا قیام ایک تاریخی غلطی تھی اور اس کے نتیجے میں برعظیم کے مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔ یہ بھارت کے متعصب ہندو دانش وروں اور سیاست دانوں کا وہی موقف ہے جو وہ تحریکِ پاکستان کے خلاف استعمال کرتے تھے، اور پھر قیامِ پاکستان کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہے اور پاکستان کی نظریاتی، سیاسی اور تاریخی بنیادوں کو مسمار کرنے میں برابر مشغول رہے۔ ہندو کانگریس کی قیادت نے پاکستان کے قیام کو ایک ’وقتی مجبوری‘ قرار دے کر تسلیم کیا تھا، اور پہلے دن سے اسے غیرمستحکم کرنے اور اس کے وجود کو تہہ و بالا کرنے میں مشغول رہے ہیں، اور یہ عمل اب تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں ایک طرف بھارت کے دانش ور برابر اس   مذموم مہم کو تیزتر کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ایم کیو ایم کے لیڈر بھارت کی سرزمین پر  یہ شرمناک اعلان کرچکے ہیں کہ: ’’پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا‘‘ اور گذشتہ ماہ ایک بار پھر لندن سے اپنے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں اس ہرزہ سرائی کا اعادہ کرتے نظرآرہے ہیں کہ: ’’پاکستان کا قیام غلط تھا اور برعظیم کے مسلمانوں کو اس سے نقصان پہنچا ہے‘‘۔ یوں ایک بار پھر بھارت اور پاکستان کی سیکولر اور بائیں بازو کے دانش ور، قلم کار اور اربابِ سیاست دو قومی نظریے کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو مسمار کرکے برعظیم کے سیاسی، نظریاتی اور جغرافیائی نقشے کو تبدیل کرنا ہے۔

پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب تقسیم سے قبل کے ان حالات پر نگاہ ڈالی جائے جن سے مسلمان اس وقت دوچار تھے، جو برطانوی استعمار اور ہندو اکثریت کے گٹھ جوڑ کے پیدا کردہ تھے۔ اقتدار سے محرومی کے ۲۰۰ برسوں میں مسلمان ہر اعتبار سے پس ماندگی کا شکار تھے اور زندگی کے ہر میدان میں ان کے لیے معاشی ترقی اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت اور فروغ کو ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ پاکستان کی مختلف قیادتوں کی تمام کوتاہیوں اور ناکامیوں کے باوجود زندگی کے ہرشعبے میں جو مواقع اس آزاد مملکت میں مسلمانوں کو آج حاصل ہیں، ان کا مقابلہ بھارت کے ۱۵ سے ۲۰کروڑ مسلمانوں کی زبوں حالی سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کا قیام کتنا بڑا انعام ہے، جس کی قدر اس قوم کا ایک حصہ نہیں کر رہا۔ حال ہی میں بھارت میں سچر کمیشن کی جو رپورٹ آئی ہے اس میں سرکاری طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ آبادی میں مسلمانوں کا حصہ ساڑھے بارہ سے ۲۵ فی صد ہے لیکن زندگی کے ہرشعبے میں ان کی نمایندگی مشکل سے دو اڑھائی فی صد ہے۔

بلاشبہہ ہماری قیادت کی روح فرسا غلطیوں اور بھارت کی جارحانہ سیاسی مداخلت اور  فوج کشی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان، پاکستان سے جدا ہوگیا، لیکن بھارت کی تمام تر کوششوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود، بنگلہ دیش نے اپنا آزاد اور مسلمان تشخص باقی رکھا ہے۔ بھارت اور بنگلہ قوم پرستوں کی خواہش کے باوجود مشرقی اور مغربی بنگال ایک نہ ہوسکے۔ بنگلہ دیش برعظیم میں ایک دوسری مسلم مملکت کی حیثیت سے قائم ہے اور ترقی کر رہا ہے۔ اس طرح برعظیم میں یہ دو آزاد مسلمان مملکتیں ہیں، جو بھارت کی متعصب ہندو قیادت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں اور مختلف انداز میں بھارت کی سیاسی اور معاشی اور سفارتی سازشوں کا ہدف بنی ہوئی ہیں۔ بھارت کے دانش وروں اور نام نہاد پالیسی سازوں کی آواز میں آواز ملانے میں، آج امریکا اور برطانیہ کے کئی تھنک ٹینک ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں اور سب کے ہاں ٹیپ کا بند ایک ہی ہے: پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا اور پاکستان، ان کے خیال میں چند برسوں اور کچھ کی نگاہ میں تو چند مہینوں اور ہفتوں کا مہمان ہے۔

اس سلسلے میں ایک بھارتی دانش ور کپیل کومیرڈ کا ایک زہریلا اور شرانگیز مضمون لندن کے اخبار گارڈین میں ۱۴ جون ۲۰۰۹ء کو شائع ہوا ہے:’’پاکستان کا ٹوٹنا اَٹل ہے اور ۲۰سال کے اندر پاکستان ختم ہوجائے گا‘‘۔ موصوف نے صدر زرداری کے اس ارشاد کو بھی اپنی تائید میں پیش کیا ہے کہ: ’’اگر اس ملک میں جمہوریت ناکام ہوتی ہے، اگر دنیا جمہوریت کی مدد نہیں کرتی، پھر کچھ بھی ممکن ہے‘‘۔

  •  ناکام ریاست؟: پاکستان کے نظریاتی، سیاسی اور جغرافیائی وجود پر حملے ہی کا ایک پہلو وہ مہم ہے، جو امریکا اور برطانیہ کا میڈیا اور کچھ سیاسی شخصیات چلا رہی ہیں، اور ان کا مقصد پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دینا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کوشش مشہور امریکی رسالے فارن پالیسی کا وہ سروے ہے، جو وہ پانچ سال سے کر رہا ہے اور جس کی رُو سے دنیا کی ۱۷۷ ’ناکام ریاستوں کی فہرست‘ میں پاکستان ۱۰ ناکام ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔ یہ بھی ایک دل چسپ بات ہے کہ ان ریاستوں میں کہ جن میں پاکستان کے علاوہ صومالیہ، افغانستان، عراق سرفہرست ہیں،     یہ سب وہی ریاستیں ہیں کہ جن پر امریکا کی ’خصوصی عنایات‘ رہی ہیں اور جن میں ’قومی تعمیر‘ کا گراں قدر فریضہ امریکا بہادر برسوں سے انجام دے رہا ہے۔ گویا  ع

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

  •  طالبانائزیشن کا ھـوّا: اس سلسلے کا تیسرا مغالطہ وہ ہے، جسے پاکستان میں طالبانیت (طالبانائزیشن) کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ طالبان کا سیاسی وجود کن قوتوں کا رہینِ منت ہے اور آج افغانستان میں طالبان کی حیاتِ نو کس کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم طالبان کے دورِاقتدار کے حسن و قبح پر بھی یہاں کوئی کلام نہیں کرنا چاہتے، کہ اس سلسلے میں ہم اپنی معروضات بارہا ان صفحات پر پیش کرچکے ہیں۔ اس وقت ہم صرف اس پہلو پر توجہ مرکوز کرانا چاہتے ہیں کہ امریکا، بھارت، ایم کیو ایم اور پالیسی سازی اور ابلاغی دنیا کے چند سیکولر عناصر وہ اہم کردار ہیں جو اس وقت پورے پاکستان پر طالبان کے قبضے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ وہ زمینی حقائق کو یکسر نظرانداز کرکے مذہبی انتہاپسندی کا ہوّا دکھا کر فوج اور ان علاقوں کی عام آبادیوں کو باہم لڑانے میں مصروف ہیں۔ وہ آبادیاں جو پاکستان اور پورے علاقے بشمول افغانستان میں امریکی مداخلت اور فوج کشی کی مخالف ہیں۔ طالبان کے نام پر جو جو عناصر اس وقت مختلف علاقوں میں روبہ حرکت ہیں، وہ امریکا کی مداخلت اور پاکستان کی فوج کے استعمال کے لیے وجۂ جواز بنے ہوئے ہیں۔ ان میں کون محض اشتعال دلانے کے لیے آلۂ کار ہے اور کون حقیقی مزاحمت کار ہے، اس کا تعین آسان نہیں رہا۔ لیکن یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ طالبان ایک خاص سیاسی اور قبائلی پس منظر کی پیداوار ہیں۔ پاکستان اور خصوصیت سے اس کے ایٹمی اثاثہ جات پر ان کی طرف سے قبضہ کرنے کا خوف محض ایک واہمہ ہے جسے امریکا ایک سیاسی ضرورت کے تحت پروپیگنڈے کے طور پر اُچھال رہا ہے۔

ہم صاف لفظوں میں اس امر کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ پاکستان کا قیام کسی درجے میں بھی کوئی غلطی تھا، نہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، اور نہ پاکستان کسی طالبانیت کے  خطرے کی زد میں ہے۔ یہ تینوں مغالطے امریکا کی عالمی سیاست کو آگے بڑھاوا دینے کے لیے بڑی چابک دستی سے استعمال کیے جا رہے ہیں اور ان مغالطوں کے زیراثر جو پالیسی بھی بنے گی، وہ نہ حقیقت پر مبنی ہوگی اورنہ پاکستان کے حقیقی مفادات سے اس کا کوئی تعلق ہوسکتا ہے، بلکہ وہ پاکستان کے مقصدِ وجود، قوم کی حقیقی اُمنگوں، اس کے اقتدار اعلیٰ اور مفادات کے منافی ہوگی۔

اسی طرح یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادتوں نے قوم کو بُری طرح مایوس کیا ہے، اور وہ پاکستان کے ملّی جوہر کو حقیقت کا رنگ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ لیکن مغرب کی آشیرباد رکھنے والی ان مقتدر اور سیکولر قیادتوں کی اس ناکامی کو پاکستان کی ناکامی اور ریاست کی ناکامی کا نام دینا اور پاکستان کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی بجانا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہے۔

قومی کامیابیاں

پاکستان اللہ کے فضل سے قائم ہوا ہے اور اس کے قیام کے لیے ملتِ اسلامیہ ہند نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ مشکلات اپنی جگہ، لیکن پاکستانی قوم نے ہر مشکل کا مقابلہ اللہ پر بھروسے اور جواں مردی سے کیا ہے۔ ان شاء اللہ آج بھی قوم اسی جذبے سے موجودہ خطرات کا مقابلہ کرے گی۔ ہم صرف تحدیثِ نعمت کے طور پر چند بنیادی حقائق کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، تاکہ قوم ایک عزمِ نو کے ساتھ آج کے درپیش خطرات کا مقابلہ کرسکے۔

قیامِ پاکستان کے وقت بھارت اور برطانیہ دونوں کا اندازہ یہی تھا کہ یہ ملک چند برسوں کا مہمان ہے، اور یہ بہت جلد بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ الحمدللہ تمام تر بے سروسامانی، مسلم کش فسادات اور بھارت کے معاشی، سیاسی اور عسکری دبائو کے باوجود پاکستان قائم رہا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملایا گیا اور زندگی کے مختلف میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئیں۔

قیامِ پاکستان کے وقت درپیش معاشی اور سیاسی دبائو اور چیلنجوں کے ساتھ نظریاتی چیلنج بھی رونما ہوئے۔ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی سازشیں شروع ہوگئیں، لیکن پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اسلامی نظام کے لیے ایک ملک گیر تحریک کے جلو میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے ریاست کا مقصد اور منزل واضح الفاظ میں متعین کردیے۔ پھر تمام مکاتبِ فکر کے علما     نے اسلامی ریاست کے ۲۲ اصول متفقہ طور پر مرتب کر کے اس نظریاتی شاہراہ کو اور بھی روشن کر دیا۔ سیکولر اور بھارتی لابیاں اپنا کام برابر کرتی رہیں، لیکن دشمن کے ہر وار کا مقابلہ قوم نے پوری مستعدی سے کیا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور پاکستان میں ملک کے اسلامی تشخص کو واضح کیا گیا۔

جنرل ایوب خان نے ۱۹۶۲ء میں اپنے دیے ہوئے دستور سے ’قرارداد مقاصد‘ حذف کردی اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جگہ جمہوریہ پاکستان رکھا، مگر دو ہی سال کے اندر انھیں ۱۹۶۴ء میں ترمیم کے ذریعے قرارداد مقاصد کو بھی دستور کا دیباچہ بنانا پڑا، اور ملک کا نام بھی دوبارہ اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنا پڑا۔ حالانکہ یہ ایسی اسمبلی تھی جو براہِ راست بالغ حق راے دہی کے ذریعے وجود میں نہیں آئی تھی، بلکہ یہ اسمبلی ایوب صاحب کی بنیادی جمہوریتوں کا عطیہ تھی جس میں ارکان اسمبلی کو منتخب کرنے والوں کی تعداد ۸۰ ہزار تھی۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ۱۹۷۲ء کے عبوری دستور اور نئے مسودہ دستور میں پاکستان کے نظریاتی تشخص پر ایک بار پھر حملہ ہوا، اور اس مرتبہ پاکستان کو ایک سوشلسٹ اسٹیٹ قرار دینے کی کوشش ہوئی۔ لیکن ۱۹۷۳ء کے دستور میں ایک بار پھر قوم نے اپنی اصل شناخت اور اس ملک کے مقصدِ وجود کا صاف الفاظ میں اظہار کیا۔ جس مسودے پر قومی اتفاقِ راے (national consensus) ہوا، اس کے عناصرِ اربعہ: اسلامی شناخت، پارلیمانی جمہوریت، فلاحی معاشرہ، وفاقی کردار متعین ہوئے۔ پھر ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اس اسمبلی نے مکمل اتفاقِ راے سے مسلمان کی تعریف بھی دستور میں شامل کی اور اس طرح ملک کے نظریاتی تشخص کو ہرشبہے سے پاک کرکے واضح اور مستحکم کر دیا۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اس قوم کے ’نظریاتی عہد‘ کا مظہر ہے۔

یہ بات درست ہے کہ اس دستور کو توڑنے اور مسخ کرنے کی باربار کوششیں ہوئیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آمریت خواہ وہ فوجی ہو یا سول عناصر کی مسلط کردہ، تادیر قائم نہیں رہ سکی اور ہر آمریت کا خاتمہ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں بالضرور ہوا۔ معاملہ مصر، لیبیا اور شام کا ہو یا افریقہ اور جنوبی امریکا کے ممالک کا___ ان سب کے مقابلے میں پاکستانی قوم نے لمبے عرصے کے لیے فوجی حکومت اور آمرانہ نظام کو برداشت نہیں کیا۔ پاکستان تحریکِ جمہوریت (PDM) ہو یا متحدہ جمہوری محاذ (UDF)، پاکستان قومی اتحاد (PNA) ہو یا اسلامی جمہوری اتحاد ( IJI)___ عوام نے اپنی منظم جدوجہد کے ذریعے آمرانہ قوتوں کا مقابلہ کیا اور جمہوریت کی شمع کو گل نہیں ہونے دیا۔ آخر میں اہم تحریک ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک تھی جس نے جنرل مشرف کے دورِاقتدار کی چولیں ہلا دیں اور  پھر موصوف کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔ عوام کی احیاے جمہوریت کی تحریک سیاسی اُفق پر روشنی کی ایک کرن ہے اور ہر آمر کے لیے ایک تازیانہ۔

جس ملک میں ایسی اہم تحریکیں اُٹھی ہوں اور آمریت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا گیا ہو، اسے ناکام ریاست کسی پہلو سے بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نشیب ضرور آئے ہیں لیکن ہر نشیب کے بعد فراز بھی ایک حقیقت ہے، اور یہی وہ پہلو ہے جسے آج پھر قوم کو سامنے رکھ کر اپنے وطن      کی اصلاح اور اپنی آزادی کی بازیافت کی جدوجہد کرنے کے لیے میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔

گویا کہ جب بھی اس قوم کو صحیح قیادت میسر آئی ہے اور اسے وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم و متحرک کیا گیا ہے، اس نے غیرمعمولی استعداد کا مظاہرہ کیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت پورے ملک میں صرف دو کپڑے کے کارخانے تھے اور دنیا میں پٹ سَن کی پیدوار کا سب سے بڑا گہوارہ ہونے کے باوجود پٹ سَن کی ایک بھی مِل موجود نہ تھی، مگر دیکھتے ہی دیکھتے ۱۰ سال میں ملک نے صنعت و حرفت کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔اسی طرح کھیل کے میدان میں بھی پاکستان سربلند اور کامیاب رہا۔ بھارت کے ایٹمی تجربے کے بعد سائنس کے میدان میں قوم کواپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج سے سابقہ پڑا اور الحمدللہ ساری دنیا کی مخالفت اور ٹکنالوجی کے حصول کے ہر دروازے کو بند کردینے کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیرخاں اور دیگر متعدد محب وطن سائنس دانوں اور انجینیروں کی پوری ایک ٹیم نے اللہ کے فضل سے اور اپنی مخلصانہ اور اَن تھک کوششوں کے ذریعے سے صرف سات سال میں وہ کام کر دکھایا، جو امریکا اور دوسری مغربی اقوام نے اس سے دگنے وقت میں انجام دیا تھا اور ساری ایٹمی صلاحیت کے حصول پر جو مالی صرفہ آیا وہ ایف-۱۶ کے ایک اسکواڈرن کی قیمت سے زیادہ نہ تھا۔

بلاشبہہ پاکستانی قیادت کی ناکامیوں کی داستان ہی بڑی طویل اور دل خراش ہے، لیکن اگر صحیح وژن ہو، قوم اور قیادت میں ہم آہنگی ہو، صحیح قیادت میسر آجائے تو اس قوم نے کم وسائل اور تمام تر مشکلات کے باوجود وہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں جن پر سب کو فخر ہے۔ قومی تاریخ کے  ان مثبت پہلوئوں اور روشن کارناموں کی موجودگی میں یہ احساس اور بھی قوی ہوجاتا ہے کہ  ع

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

قومی تحریک کی ضرورت

دشمنوں کے مذموم ایجنڈے اور قوم کی تاریخ کے تابناک پہلوئوں کے پس منظر میں ہم آج کے یومِ آزادی کے موقع پر جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس طوفان میں ملک عزیز کو قائم و دائم رکھا ہے، وہیں یہ بات بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک و قوم بڑے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ ان خطرات کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانے اور اس کے حصول کے لیے قوم کو متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

آج ملک کو درپیش سب سے اہم خطرہ اس کی اس آزادی کو درپیش ہے، جو بڑی بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔اس آزادی کی مکمل بازیابی کے بغیر یہ قوم اپنے اصل مقاصد اور اہداف کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتی۔

سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے جو ظلم اس ملک اور قوم پر کیے ہیں، ان میں سب سے بڑا ظلم جو ایک ناقابلِ معافی جرم بھی ہے، وہ قوم کی آزادی کو امریکی بالادستی کی بھینٹ چڑھانا ہے۔ امریکا میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو جو افسوس ناک حادثہ ہوا، اس کے سارے حقائق ایک نہ ایک دن دنیا کے سامنے آکر رہیں گے، اور امریکا نے ان پر جو پردے ڈال رکھے ہیں، وہ ایک دن ضرور تار تار ہوں گے لیکن جو چیز ناقابلِ تردید ہے، وہ یہ ہے کہ اس مذموم واقعے کی آڑ میں امریکا نے پوری دنیا کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا ہے، افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی ہے، اور اسلام اور پوری مسلم دنیا کو اس انداز سے نشانہ بنایا ہے کہ اس نے اس علاقے ہی کی نہیں پوری دنیا کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

عراق پر حملے (۲۰۰۳ء) کو تو اب سب ہی ایک غلطی کہنے لگے ہیں اور خود امریکا نے بھی اپنے انخلا کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کی فوج کشی کو ابھی تک اگر مگر کی بھول بھلیوں میں گم کیا ہوا ہے۔ حالانکہ آٹھ سال کی اس بے نتیجہ جنگ میں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور کھربوں ڈالر کو آگ میں جھونکنے کے باوجود صاف نظر آرہا ہے کہ جس طرح افغانستان ماضی کی بڑی طاقتوں کا قبرستان بنا ہے، اسی طرح امریکا کے لیے بھی یہ دوسرا ویت نام بننے کے قریب ہے۔ افغانستان میں جو تباہی واقع ہوئی ہے وہ دردناک ہے، لیکن افغانستان پر امریکی قبضے نے جو صورت حال پاکستان کی بنا دی ہے اور جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی دھمکی کے تحت جس طرح اس کے سامنے سپر ڈال کر پاکستان اور اس کی افواج کو جس آزمایش میں مبتلا کیا ہے، اس کے ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بعد پاکستانی قوم کو امریکا کی اس جنگ کے چنگل سے نکلنے کی جو توقع تھی، وہ زرداری،گیلانی حکومت کے ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت میں مٹی میں ملتی نظرآرہی ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی اور چارۂ کار باقی نہیں رہا ہے کہ عوامی تحریک کے ذریعے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالنے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ جماعت اسلامی کی ’گو امریکا گو‘ تحریک اس سمت میں ایک بروقت اقدام ہے۔

امریکی مداخلت

پاکستان اور امریکا میں دوستی اور تعاون ایک فطری امر اور پاکستان اور امریکا دونوں کی ضرورت رہا ہے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے دوستی کے تعلقات چاہتے ہیں اور ان کو فروغ دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت کرنا صحیح نہیں سمجھتے۔ لیکن یہ تعلقات معاشی، سیاسی اور عسکری قوت کے فرق کے باوجود دو آزاد اور خودمختار ملکوں میں باہمی مفاد اور بھائی چارے کی بنیاد پر استوار ہونے چاہییں۔ یہ کسی ایک کی بالادستی اور دوسرے کی مجبوری اور محکومی کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہییں۔

اس وقت پاکستانی قوم جس چیز پر مضطرب اور نکتہ چین ہے وہ پاکستان کے معاملات میں ایسی امریکی مداخلت ہے، جس کے نتیجے میں ہم اپنی آزادی اور خودمختاری سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ صرف ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی بلکہ تعلیمی اور معاشی پالیسیاں بھی امریکا کے اشارے پر اور اس کے مفاد میں مرتب کی جارہی ہے۔ یہ کم و بیش وہی کیفیت ہے جو سامراجی نظام کا خاصّہ ہے اور جس کا تجربہ برطانوی اقتدار کے ۲۰۰ سالہ دور میں برعظیم کے عوام کرچکے ہیں۔

’گو امریکا گو‘ کے معنی امریکا کی سامراجی بالادستی کو ختم کر کے پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور اس کے اپنے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت ہے۔ اس کا ہدف امریکا کی ریاست یا امریکی عوام نہیں، بلکہ امریکا کی پالیسیاں اور خصوصیت سے پاکستان کے بارے میں اس کی امتیازی پالیسیاں اور پاکستان کے معاملات میں اس کی اندھا دھند مداخلت اور وہ طریق واردات ہے کہ جس کا تلخ تجربہ پاکستانی قوم خاص طور پر نائن الیون کے بعد سے کررہی ہے۔ یہ پالیسی صدرزرداری کے دورِ اقتدار میں اپنی تمام حدیں عبور کر کے آزادی اور خودمختاری کے ساتھ قوم کی عزت اور وقار کے بھی منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح تحریکِ پاکستان کے دو متعین ہدف تھے یعنی برطانوی سامراج سے نجات اور اپنے نظریات،عزائم اور مفادات کے مطابق اپنی سرزمین پر مکمل اختیارات کا حصول، اسی طرح آج پھر یہ قوم امریکا کے سامراجی کردار کے خلاف صف آرا ہورہی ہے۔ آزادی کے حصول کے بعد برطانیہ سے ہمارے تعلقات دوستانہ رہے اور اس برطانیہ مخالف تحریک کا کوئی سایہ ان تعلقات پر نہیں پڑا۔ بالکل اسی طرح ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ    ’گو امریکا گو‘ کا ہدف پاکستان کے بارے میں امریکا کی پالیسی اور ہمارے معاملات میں اس کا عمل دخل ہے۔ یہی چیز امریکا سے نفرت کا سبب ہے۔ ہماری کوئی لڑائی امریکی عوام سے نہیں اور نہ امریکی دستور سے ہے۔ امریکی تہذیب اور طرزِ حیات پر اگر امریکی عوام خوش اور مطمئن ہیں تو ہمیں اس سے کیا پرخاش؟ ہاں، ہم ان کے سامنے دلیل کے ساتھ اور منطقی انداز میں واضح کرتے رہیں گے کہ حق اور باطل کیا ہے؟ ہمارے اختلاف کا آغاز اس مقام پر ہوتا ہے جہاں امریکا یا کوئی اور ملک اور قوم اپنے نظریات، اپنی اقدار اوراپنے مفادات کو ہم پر جبر کے بل بوتے پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا معاملہ فکری اور نظریاتی مکالمے اور سیاسی اور معاشی تعلقات کا، تو وہ دنیا کی تمام ہی اقوام کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ان دونوں معاملات کو گڈمڈ کرنے سے بڑی قباحتیں اور تصادم کی شکلیں رونما ہوتی ہیں۔

آج پاکستانی قوم ہی نہیں، دنیا کی بیش تر اقوام امریکا کی جو مخالفت کر رہی ہیں، وہ اس کی پالیسیوں اور عالمی سامراجی مہم جوئیوں کی وجہ سے ہے۔ ۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اخبارات میں امریکا  کے ادارے ’ورلڈ پبلک اوپینین‘ کا جو سروے پاکستان کے بارے میں شائع ہوا ہے، اس میں پاکستانی عوام نے ایک طرف طالبان کی ان حرکتوں پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے جو ان کے نام پر سوات میں کی گئی ہیں، دوسری طرف آبادی کی دو تہائی اکثریت نے پاکستان کے معاملات میں امریکا کی مخالفت اس طرح کی ہے، جس طرح بش کے دور میں کر رہی تھی، اور ۶۲ فی صد پاکستانیوں کی نگاہ میں اوباما کی صدارت سے اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ امریکا کے ڈرون حملوں کی ۸۲ فی صد نے مخالفت کی ہے۔ امریکا کی افغانستان میں موجودگی اور اس کے جنگی اقدامات کی ۷۲فی صد نے مخالفت کی اور آبادی کے ۷۹ فی صد نے اس جنگ کو فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ۸۶ فی صد نے صدر اوباما کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں میں اضافہ نہ کیا جائے گا۔ ان کی نگاہ میں اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اسی طرح اس سروے کی رو سے آبادی کے ۹۳ فی صد افراد کا خیال ہے کہ امریکا مسلم دنیا پر اپنا کلچر مسلط کرنا چاہتا ہے اور ۹۰ فی صد نے اس خدشے کی تائید کی کہ امریکا مسلم دنیا کو کمزور کرنے اور تقسیم در تقسیم پر تلا ہوا ہے۔ (دی نیوزانٹرنیشنل، ۲جولائی ۲۰۰۹ء)

امریکا کے بارے میں یہ جذبات پاکستان یا صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں ہیں۔ صدر اوباما کے روس کے دورے سے چند دن قبل جو سروے روسی راے عامہ کے بارے میں ہوا ہے، اس سے بھی یہی تصویر اُبھرتی ہے کہ روس کی آبادی کے ۷۵ فی صد کی نگاہ میں امریکا اپنی قوت کا غلط استعمال کر رہا ہے اور وہ روس پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۷جولائی ۲۰۰۹ء)

اس اصولی وضاحت کے بعد اب ہم متعین طور پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امریکا کی مداخلت اور ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر اس کی گرفت کیا شکل اختیار کرگئی ہے؟ جس   نئی غلامی کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ہوا تھا، وہ صدر زرداری کے دور میں اس سے بدرجہا زیادہ قبیح اور خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے اور یہ پالیسی ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچارہی ہے۔ امریکا کے اثرورسوخ اور دراندازیوں میں اضافہ نائن الیون کے بعد مشرف کی اختیار کردہ پالیسیوں کا ثمرہ ہے اور خسارے کے اس سودے کی جہاں اولیں ذمہ داری جنرل پرویز مشرف کی ہے، وہیں اس ذمہ داری میں موصوف کی پوری ٹیم شریک ہے، خواہ اس کا تعلق ملک کی فوجی قیادت سے ہو یا مشرف دور کے وہ مددگار جن میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم سب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وعدہ معاف گواہ آج جو بھی کہیں، کم از کم ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۷ء تک جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ داری میں یہ سب برابر کے شریک ہیں اور انھیں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی۔

قوم نے فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں مشرف کی پالیسیوں کو یک سر مسترد کر دیا، لیکن یہ ایک تاریخی سانحہ ہے کہ پی پی پی کی حکومت نے زرداری صاحب کی قیادت میں نہ صرف مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا، بلکہ اپنے تمام ہی اساسی معاملات کو امریکا کے تابع کردینے میں یہ پرویز مشرف سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ زرداری صاحب سے ان کے حالیہ دورئہ امریکا میں اوباما، ہیلری کلنٹن اور دوسرے امریکی حکام نے جس سردمہری اور بے نیازی سے معاملہ کیا، اس نے پاکستان کی عزت و وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔ امریکا، زرداری کے ساتھ بحیثیت فرد جو بھی معاملہ کرے یہ اس کا اختیار ہے، لیکن پاکستان کے صدر زرداری کے ساتھ جو کچھ اس نے کیا، اس کا پاکستانی قوم کو دکھ ہے اور وہ نہ امریکا کو اس بے عزتی پر معاف کرے گی اور نہ زرداری صاحب کو، جن کا حال یہ ہے کہ اس تحقیر و توہین آمیز رویے کے باوجود کاسۂ گدائی لیے پھرتے رہے اور ۴جولائی کو امریکی یومِ آزادی کے موقع پر نہ صرف امریکی سفارت خانے جاکر تقریب میں شرکت فرمائی بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق اس موقع پر یہ شرم ناک الفاظ بھی ادا کیے:

میں اس موقع پر پاکستان میں امریکی سرزمین سے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فخر  محسوس کر رہا ہوں۔ (جنگ، ۱۳ جولائی۲۰۰۹ء، انصار عباسی کا کالم ’خطرے کی گھنٹی اور بے حس قیادت‘)

پاکستان کی زمین کا چپہ چپہ پاکستان کا حصہ ہے۔ زرداری صاحب کو ایسے اعلان کرنے ہیں تو شوق سے نیویارک کے اپنے فلیٹ سے نشر کریں، مگر خدارا پاکستان کی سرزمین کو ایسے پوچ خیالات کے اظہار کے لیے استعمال نہ کریں۔

امریکا نے محض قوت اور دھونس کے ذریعے پاکستان کو اپنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک کیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس جنگ میں شرکت کے سبب اب تک جو نقصان اٹھا چکا ہے وہ ۳۵ ارب ڈالر یعنی ۲۸ کھرب روپے سے متجاوز ہے۔ اس پر مستزاد ہزاروں قیمتی جانوں کا اتلاف ہے، خواہ ان کا تعلق فوج سے ہو یا عوام سے۔ ڈرون حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں اور امریکا پوری رعونت سے ہماری سرحدوں کی بے دریغ خلاف ورزیاں    کر رہا ہے۔ پاکستانیوں کو حشرات الارض کی طرح مار رہا ہے۔ خود امریکی ترجمان کے مطابق ان ڈرون حملوں میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ۱۷۰ افراد مارے گئے ہیں ، مگر عام پاکستانی جو اس جارحیت کاشکار ہوئے ہیں ان کی تعداد ۸۰۰ سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت ان حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اور پارلیمنٹ کے متفقہ مطالبے کے علی الرغم ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی ہوئی ہے، اور یہ قیادت جس فدویانہ ادب سے روایتی احتجاج کر رہی ہے، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا کو درپردہ اس کی شہ حاصل ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اس قیادت پر سے قوم کے اعتماد کو پارہ پارہ کر دیا ہے، اور قوم اسے شریکِ جرم سمجھتی ہے۔

پاکستانی قوم یہ جانتی ہے اور اس کا برملا اظہار کر رہی ہے کہ اس علاقے کے حالات کو بگاڑنے کا اصل سبب افغانستان پر امریکی فوج کشی ہے۔ خود افغان قوم، امریکی اور ناٹو افواج کے اس جارحانہ قبضے کی اس انداز سے مزاحمت کر رہی ہے، جس طرح اشتراکی روس کی فوجوں کی مزاحمت کر رہی تھی۔ امریکا اور یورپی اقوام جان گئی ہیں کہ افغانستان میں وہ جنگ نہیں جیت سکتے اور انھیں وہاں سے لازماً نکلنا ہی پڑے گا، مگر پاکستان کی قیادت کے فکری افلاس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وہ امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ امریکا کے اس دوغلے پن سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں کہ وہ ایک طرف افغانستان میں فوجوں کی تعداد کو بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف اچھے اور بُرے طالبان کا افسانہ تراش کر مذاکرات اور انخلا کی حکمت عملی کی طرف بھی بڑھ رہا ہے۔ امریکا، پاکستان پر مزید دبائو بڑھا رہا ہے کہ اس جنگ میں اپنی فوج کو جھونکے رکھے اور نئے نئے محاذ کھولے اور پاکستان کی موجودہ قیادت ہر حکم پر ’حاضر جناب‘کہہ کر عمل پیرا ہو رہی ہے۔ اس قیادت نے ملک کے حساس علاقوں کو جنگ کی آگ میں جھونک کر ۳۸ لاکھ افراد کو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر دیا ہے جس کا مالی نقصان بھی اب کھربوں روپے کی خبر دے رہا ہے۔۱؎

عالمی ردعمل

امریکا اور یورپ کے تجزیہ نگار اب کھل کر یہ بات لکھ رہے ہیں کہ امریکا کے لیے افغانستان کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ناممکن ہے، اس لیے جتنی جلد ممکن ہو، وہاں سے نکلنے کا راستہ اختیار کیا جائے، لیکن یہ پاکستان کی قیادت ہے کہ وہ اس دلدل میں اور بھی دھنستی چلی جارہی ہے۔ سوات اور بونیر کے بعد دیر، مالاکنڈ اور اب وزیرستان اور ناٹو کے حکم کے مطابق جلد ہی بلوچستان میں بھی فوج کشی کا سامان کیا جا رہا ہے۔۱؎ ناٹو کے کمانڈر صاحب پاکستان کو یہ حکم دے رہے ہیں اور خود افغانستان کے بارے میں جو مسئلے کی جڑ ہے، ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس کے ساتھ ہی انھوں نے اختلافات طے کرنے کے لیے کسی فوجی آپشن کے بجاے سیاسی مکالمے کی زیادہ ضرورت پر زور دیا‘‘۔

یہ ہے یورپی افواج کے کمانڈر کا دوغلا پن۔ لیکن ہمیں افسوس تو اس پاکستانی قیادت پر ہے، جو اس کھیل کے مہروں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور اطاعت شعاری اور ڈالروں کے عوض اپنے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونکنے اور جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

برطانیہ اور امریکا کے اہم اخبارات اور تجزیہ کاروں کے خیالات کا جائزہ لینے سے جو نتیجہ کھل کر سامنے آرہا ہے، وہ افغانستان کی جنگ کی ناکامی کا احساس، امریکی اور یورپی افواج کی ہلاکت (جو پاکستانی افواج اور سول افراد سے ۱۰ گنا کم ہے) پر اضطراب اور بے چینی، مصالحت اور فوجوں کے انخلا پر مبنی نئی حکمت عملی کی تلاش ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین (۹جولائی ۲۰۰۹ء) میں ایک ہفتے میں ساتویں برطانوی فوجی کی موت کی خبر شائع ہونے کے بعد ایک عوامی سروے میں آبادی کے ۷۱ فی صد نے کہا ہے کہ:’’افغانستان میں فوجی کارروائی سود مند ثابت نہیں ہو رہی اور حکومت کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے‘‘۔

برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط اقدام تھا اور ہمیں انتہا پسندی روکنے کے لیے اپنی کوششوں اور اس کے نتیجے میں ہولناک تشدد کے ایک بنیادی جائزے کی ضرورت ہے۔

ملی بینڈ کی نگاہ میں یہ جنگ صحیح نتائج سامنے نہیں لا سکتی اور جس نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے وہ سیاسی ہے:

دہشت گرد گروپوں کی بنیادوں سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلحے اوررقم کی فراہمی کے راستوں کو روک کر، ان کے دعووں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر کے، ان کے پیرووں کو جمہوری سیاست میں لاکر… (دی گارڈین، ۱۵جنوری ۲۰۰۹ء)

امریکا کی سابق وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’امریکی خارجہ پالیسی میں گہرا خلا‘ قرار دیا ہے۔ گارڈین کے مضمون نگار جیمز ڈینسلو نے ۷جولائی ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنے مضمون: ’تاریخ نے ابھی فیصلہ نہیں دیا‘ میں کہا ہے کہ عراق پر امریکا کی فوج کشی ایک تاریخی تباہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک قوم تباہ ہوگئی اور اسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ امریکا کے سابق صدارتی امیدوار سینیٹر جان کیری اور کانگریس کے رکن گیری ایکرمین بار بار اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں فوجی حل پر مبنی حکمت عملی کام نہیں کر رہی اور اس پر ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔ گراہم فولر امریکا کے تھنک ٹینک، رینڈ کارپوریشن کا سابق سربراہ ہے، جو ایک زمانے میں افغانستان میں سی آئی اے کا ذمہ دار بھی رہا ہے اپنے ایک حالیہ مضمون میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں لکھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔لندن گارڈین کا ایک اور مضمون نگار پیٹر پرنسٹن (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اپنے مضمون: ’’بہت ہوچکا! افغانستان میں بے مقصد اور احمقانہ جنگ کو فوراً بند ہونا چاہیے‘‘ میں لکھتا ہے کہ افغانستان میں ناٹو افواج کی کامیابی کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ’’تم جو کچھ کر رہے ہو، اگر وہ بالکل غلط ہو رہا ہو تو ہمیشہ ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اسے روک دو‘‘۔

وہ اپنی اور ناٹو اور امریکا کی قیادتوں کو متنبہ کرتا ہے کہ:’’سب سے زیادہ خونیں فریب   یہ ہوسکتا ہے کہ ہلمند میں بڑھی ہوئی کارروائیوں کا حاصل مزید خون خرابے کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے‘‘۔

پیڈی ایشڈرون برطانیہ کے چوٹی کے سیاست دانوں میں شمارہوتا ہے اور وہ یورپی یونین میں مختلف سیاسی ذمہ داریوں پر فائز رہا ہے، اس کا بیان یکم جولائی ۲۰۰۹ء کے برطانوی اخبارات میں شائع ہوا ہے، جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا اور ناٹو سمیت تمام غیرملکی فوجیں افغانستان میں شکست سے دوچار ہیں اور اس نے حکمت عملی کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ’’اس  حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے افغانستان میں ہم جنگ ہار رہے ہیں اور فوجی قتل ہورہے ہیں‘‘۔

چین کے ایک بڑے انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ اوباما بھی افغانستان میں جنگوں میں شکست کا سبب بننے والی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ اب تک اس جنگ میں ۷۰۸ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور ۳۰۶۳ زخمی ہوچکے ہیں۔ ۲۰۰۲ء سے لے کر اب تک ۴۴۰ ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ تازہ راے عامہ کے سروے کے مطابق امریکا کے ۴۸ فی صد افراد اس جنگ کے خلاف ہیں، جب کہ اس کی تائید کرنے والے صرف ۲ فی صد زیادہ ہیں یعنی ۵۰ فی صد۔ اب تک کے تمام جائزوں سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ صدر اوباما، امریکی عوام کے جذبات کو افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے لیے ہموار نہیں کرسکے۔ ایک تازہ سروے میں امریکی آبادی کے ۶۶ فی صد نے کہا ہے کہ اوباما کی اصل ترجیح معیشت، روزگار اور حکومت کی بہتری ہونی چاہیے، صرف ۹ فی صد نے عراق اور افغانستان کی جنگ کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔ (جنگ، لندن، یکم جولائی ۲۰۰۹ء)

نیویارک ٹائمز نے (۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء) اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ برطانوی   راے عامہ میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور اسے افغانستان میں جنگ کی ناکامی کا یقین ہوتا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں: ’’جنگ میں برطانیہ کی شرکت ملک میں اتنی شدید تنقید کی زد میں آئی ہے جیسی اس سے پہلے نہ آئی تھی‘‘۔

اور برطانیہ کے مشہور دانش ور اور سیاسی تجزیہ نگار سائمن جین کنز نے گارڈین (۲۵جولائی ۲۰۰۹ء) میں امریکا کو مشورہ دیا ہے: ’’اوباما کو اس حماقت کو ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ افغانستان اس کا ویت نام بن جائے‘‘۔ اس نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے: ’’نہ پینٹاگان اور نہ برطانیہ کی وزارتِ دفاع محض اسلحے کے زور پر افغانستان کی جنگ جیت سکتی ہے‘‘۔

اس نے دعویٰ کیا ہے کہ خود امریکی فوجی کمانڈر کے ایک کلیدی مشیر نے بھی اس جنگ کے تباہ کن اثرات سے امریکی صدر کو متنبہ کیا ہے: ’’جنگ کے مقاصد کی واضح ناکامی کا کھلا کھلا تجزیہ اوباما کے کلیدی جنرل ڈیوڈ پیٹرس کے مشیر ڈینیل کلکولر نے کردیاہے‘‘۔

سائمن جین کنز نے واضح طور پر لکھ دیا ہے:

۲۰۰۱ء کا حملہ کرنے، اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور علاقے کو دہشت گردی سے صاف کرنے کی پالیسی آزمائی جاچکی ہے اور ناکام ہوچکی ہے۔ حکمت عملی نوجوان مغربی سپاہیوں اور ہزاروں افغانوں کے بے معنی قتل تک محدود ہوگئی ہے۔ افواج صرف اس لیے بھیجی جارہی ہیں کہ لیبر منسٹر میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ یہ تسلیم کرسکیں کہ بلیئر کا اسلامی خطرے کو ختم کرنے کی کوشش محض اس کا پاگل پن تھا۔ بلیئر کہتے تھے کہ لندن کی شاہراہوں کو محفوظ بنا رہے ہیں لیکن عملاً وہ ان شاہراہوں کو اور زیادہ پُرخطر بنا رہے ہیں۔ ویت نام نے دو صدور جانسن اور نکسن کو ختم کیا اور نوجوان امریکیوں کی ایک نسل کا عالمی اعتماد بھی ختم کیا۔ افغانستان بظاہر ’اچھی جنگ‘ ہے مگر اس کے نتائج بھی ویت نام جیسے ہوسکتے ہیں۔ (گارڈین، لندن، ۲۵ جون ۲۰۰۹ء)

مقالہ نگار نے جو کچھ امریکا اور برطانیہ کے بارے میں لکھا ہے، وہ پاکستان اور اس کی موجودہ قیادت کے بارے میں ۱۰ گنا زیادہ درست ہے۔ ہم اپنے وسائل اور اپنی قوتیں ایک ہاری ہوئی جنگ میں جھونک رہے ہیں، جب کہ ہمیں اس جنگ سے قطع تعلق کرنے اور افغانستان کے امریکا اور ناٹو کی فوجوں کے واپسی کے منظرنامے میں اپنے، افغانستان اور پورے علاقے کے حالات اور تعلقات پر اپنی توجہ دینی چاہیے۔ ہم اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں، مگر امریکا کے سوچنے سمجھنے والے افراد امریکا کی افغان پالیسی کی ناکامی کو نوشتۂ دیوار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امریکی کانگریس کی سب کمیٹی براے شرقِ اوسط اور جنوب ایشیا کے چیئرمین گریگ ایکرمین نے اعتراف کیا ہے کہ: ’فاٹا میں امریکی حکمت عملی کارگر نہیں ہے‘ (ملاحظہ ہو، انور اقبال کی رپورٹ، روزنامہ ڈان، ۲۷ جون ۲۰۰۹ء)۔

امریکا کے ایک سابق سفیر چارلس ڈبلیو فری مین کی واشنگٹن میں کی جانے والی تقریر کی روداد ہر اعتبار سے چشم کشا ہے۔ اس نے امریکا کی جاری پالیسی کی ناکامی کا کھل کر اعتراف کیا ہے، اور اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ نہ صرف امریکا نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ امریکا کے دبائو میں خود پاکستان نے ایک پُرامن علاقے کو شورش اور جنگ و جدل کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔

سفیر فری مین نے امریکی پالیسی کو حالات کے ناقص ادراک کا نتیجہ قرار دیا ہے، اور علاقے کی تاریخ، روایات اور زمینی حقائق سے ناواقفیت کی پیداوار قرار دیا ہے۔ اس کی نگاہ میں ایک بنیادی مغالطہ جاسوسی کے ذریعے حاصل کردہ معلومات اور حقائق کو گڈمڈ کر دینا ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کو ایک سمجھ لیا گیا ہے اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ اس کی نگاہ میں یہ تباہ کن غلطی ہے… جو حالات کے معروضی جائزے کے مقابلے میں اخبارات کی احمقانہ سرخیوں کی پیداوار ہے اور امریکا کے خلاف عوامل ردعمل امریکا کی انھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

امریکی پالیسی کے اثرات کے تحت امریکا مخالف دہشت گردی مزید پھیل رہی ہے، خاص طور پر پاکستان میں۔ (دیکھیے: Refusing to Learn ، دی ٹائمز، ۹جولائی ۲۰۰۹ء)

لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ نے ۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے اداریے میں افغانستان سے برطانیہ کی افواج کی واپسی کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے: ’’افغانستان میں ہمارا مشن سخت خطرے میں ہے‘‘۔ اس اداریے میں انڈی پنڈنٹ نے افغانستان کے ایک عوامی سروے کا حوالہ بھی دیا ہے جس کی رُو سے افغانستان کی آبادی کے ۶۸ فی صد کی خواہش ہے کہ: ’’ان کی حکومت گفت و شنید کرے اور طالبان سے مصالحت کرے‘‘۔

انڈی پنڈنٹ نے آخر میں برطانوی وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا ہے: ’’اگر وہ طالبان سے باوقار مذاکرات نہیں کرسکتے، تو انھیں اپنی فوجیں واپس بلا لینی چاہییں‘‘۔

قومی تقاضا: گو امریکا گو تحریک

یہ ہے اس وقت کی عالمی فضا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس تبدیلی کا کوئی شعور نہیں اور لگتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے، عین مین انھی راہوں پر سفر کر رہی ہیں، جن پر چلنے کی انھیں امریکی آقائوں نے ہدایت کی ہے۔ اس وقت امریکا کا اصل کھیل یہ ہے کہ:

افغانستان میں جاری جنگ کا رُخ پاکستان کی طرف پھیر دیں۔ اسرائیل ایران پر حملے کے لیے پَر تول رہا ہے اور پاکستان اور شرقِ اوسط کے ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا درپردہ شریکِ کار ہیں۔ افغانستان کے صوبے ہلمند میں جو آپریشن اس وقت جاری ہے، وہ پاکستان پر دبائو کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔بھارت افغانستان میں ایک خاص کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان سے پاکستان میں بھی دراندازیاں کر رہا ہے۔ امریکا خود افغانستان سے نکلنے کی تدبیریں کر رہا ہے، جب کہ پاکستان کو اس آگ میں جھونک دینے میں مصروف ہے۔

امریکا نے پاکستان کی معاشی ناکہ بندی بھی کرڈالی ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے ذریعے اپنے شکنجے مزید کس رہا ہے۔ ۵ء۱ بلین ڈالر کی جس امداد کا بڑا شور ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف اس کے ذریعے سے پاکستان کی معیشت ہی نہیں، تعلیم، انتظامیہ، فوج اور سیاسی اور خارجہ پالیسیوں تک کو اپنا پابند کیا جا رہا ہے، دوسری طرف جسے امداد کہا جا رہا ہے، اس کا بڑا حصہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ ۲۵ ایکڑ مزید اراضی پر، جو حکومتِ پاکستان سے کوڑیوں کے مول حاصل کرلی گئی ہے، ایک بڑا تعمیراتی کمپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ کمپلیکس جو جاسوسی اور فوجی کارروائیوں کے لیے امریکا کے اڈے کی حیثیت رکھے گا اور اس پر ۳۰۰ افسران کے رہنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ اڈا بغداد کے بعد دنیا میں سب سے بڑا امریکی اڈا ہوگا۔ نیویارک ٹائمز (۱۴جولائی ۲۰۰۹ء) میں چالمس جانسن کا چشم کشا مضمون Empire of Bases (اڈوں کی سلطنت) شائع ہوا ہے، جس میں دنیا میں امریکا کے ۸۰۰ اڈوں کا تذکرہ ہے اور اس میں سرفہرست پاکستان کے نئے اڈے کا ذکر خیر ہے، ملاحظہ ہو:

آغاز میں ۲۷ مئی کو ہمیں معلوم ہوا کہ محکمہ خارجہ ۷۳۶ ملین ڈالر کے خرچ سے اسلام آباد میں ایک نیا سفارت خانہ تعمیر کرے گا۔ یہ عمارت ویٹی کن شہر کے برابر ہوگی۔ بش انتظامیہ نے بغداد میں جو عمارت تعمیر کرائی، اس کے بعد یہ دوسری بڑی قیمتی عمارت ہوگی۔

واضح رہے کہ یہ ۷۳۶ ملین ڈالر اس ۵ء۱ بلین ڈالر امداد کا حصہ ہے، جو لوگر بل کے زیرسایہ پاکستان کو دینے کا اعلان ہوا ہے۔ یہ نئی تعمیر ان اڈوں کے علاوہ ہے جو امریکا ۲۰۰۱ء کے بعد قائم کرچکا ہے اور جن کے بارے میں امریکا نواز ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کی ۱۹ تا ۲۵جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ایک مضمون نگار نے شاہد جاوید برکی کے حوالے سے لکھا ہے: ’’کھاریاں چھائونی دراصل امریکی افواج کے لیے تعمیر کی گئی تھی‘‘۔

تربیلا اور بلوچستان کے بارے میں ڈاکٹر شیریں مزاری کے ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء کے مضمون میں یہ حوالہ قابلِ غور ہے:

امریکیوں کے متفرق گروپ مقامی لوگوں کے بھیس میں (مشابہ لباس اور ڈاڑھیوں کے ساتھ) تربیلا کے آس پاس اور بلوچستان میں گھومتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا بہت احتیاط سے جائزہ لیں۔ (دی نیوز، ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء)

امریکا جس طرح ہمارے خارجی اور داخلی معاملات میں دخیل ہوگیا ہے، وہ پاکستان کی آزادی، سالمیت، خودمختاری اور نظریاتی تشخص کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ امریکا ہی اب ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ بھارت سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اور امریکی دہشت گردی کے نتیجے میں رونما ہونے والے اندرونی دہشت گردی کے واقعات کو ’اصل خطرہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان کا وجود امریکا کے افغانستان پر فوجی قبضے اور پاکستان میں اس کی دراندازیوں کا رہینِ منت ہے۔ امریکی صدر، ہیلری کلنٹن، ہالبروک اور میڈیا کی طرف سے بہ تکرار ایک ہی آواز آرہی ہے کہ پاکستان کے لیے اصل خطرہ بھارت نہیں، طالبان ہیں اور صدرزرداری اس کی صداے بازگشت بن گئے ہیں، جب کہ وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ  یہ زرداری صاحب کی ذاتی راے ہے ،صدر پاکستان کا فرمان نہیں۔

یہ ہیں وہ حالات جن میں پاکستان کی آزادی کی بازیابی کی جدوجہد ناگزیر ہوگئی ہے اور اس کے لیے قومی مفاد اور قومی مقاصد کے مطابق امریکا سے پاکستان کے تعلقات کی ازسرِنو تشکیل اولیں اہمیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لاتعلقی اور ملک کے لیے آزاد خارجہ پالیسی کو مرتب کرنا اور اس پر عمل، اولیں اہمیت کے حامل چیلنج ہیں۔ ہمیں اپنی سلامتی کے میزانیے کو خود مرتب کرنا ہے۔ اس کی روشنی میں امریکا، بھارت، افغانستان اور دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرنے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے معاملات پر امریکا کا غلبہ اور بالادستی ختم ہو۔ ’گو امریکا گو‘ کی تحریک کا اصل مقصد خارجہ پالیسی اور داخلہ سیاست کو امریکا کی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے پاکستانی قوم کے عزائم، مفادات اور خواہشات کے مطابق ازسرِنو مرتب و منظم کرنا ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم قدم ملک کی پارلیمنٹ نے ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفقہ قرارداد کی شکل میں اختیار کیا تھا، لیکن زرداری حکومت نے اپنی پالیسیوں اور مسلسل اقدامات کے ذریعے سے  اسے غیرمؤثر بنا دیا ہے۔ افسوس کہ پارلیمنٹ اس خلاف ورزی پر گرفت کرنے کے بجاے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں کہ قوم خود اپنی آزادی اور اپنے تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو، اور ایک عوامی تحریک کے ذریعے سے جمہوری قوت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے اپنے ملک کو امریکا کی گرفت سے نکالے اور اپنے مستقبل کا سفر اپنے مقاصد اور اپنی ترجیحات کی روشنی میں مرتب کرے۔


(۱۴؍اگست : یومِ تشکر، یومِ احتساب بھی، کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت:۱۰ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، منصورہ، لاہور- فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹، فیکس: ۳۵۴۳۴۹۰۷)

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں، اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں، امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جذبات کا ایک طوفان برپا ہے۔ امریکا سے بے زاری   کے یہ جذبات و احساسات ویسے تو دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے برابر بڑھ رہے ہیں، لیکن  ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابلِ مذمت واقعات کے بعد امریکی صدر جارج بش کی قیادت میں امریکا کے خونیں ردعمل کو، جسے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کا نام دیا گیا ہے، امریکا مخالف جذبات میں تلخی اور شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

ایک وقت تھا کہ مسلم دنیا، یورپ کے سامراجی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد میں امریکا کو ایک حد تک اپنا دوست اور ہم نوا سمجھتی تھی اور امریکی صدر ووڈرو ولسن کے آزادی، حقوقِ انسانی   اور مظلوم اقوام کے حق خود ارادیت کے اعلانات پر یقین کرنے لگی تھی۔۱؎ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی عالمی جنگ کے بعد بلادِ شام اور فلسطین کی تولیت (trusteeship) کا سوال اُٹھا، تو ان ممالک کے نمایندوں نے فرانس اور برطانیہ کے مقابلے میں امریکا کو حکمرانی کا اختیار (مینڈیٹ ) دینے کا مطالبہ کیا، جسے یورپ کی بعض دیگر قوتوں نے منظور نہ کیا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ (۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء) کے بعد فضا بدلنی شروع ہوئی۔ امریکا نے عالمی بالادستی کے عزائم ظاہر کیے تو اس پر اعتماد متزلزل ہونے لگا۔ پھر اسرائیل کے قیام میں امریکا کے سخت منفی کردار نے اس اعتماد کو بالکل ہی چکنا چور کردیا۔ وہ وقت اور آج___یہ بے اعتمادی بڑھتے بڑھتے بے زاری اور نفرت کا روپ دھارنے لگی۔ سرد جنگ (۱۹۴۶ء-۱۹۹۱ء) میں امریکا کے کردار اور سامراج دشمنی کی عالمی تحریکوں نے بھی اس نفرت کو پروان چڑھانے میں ایک کردار ادا کیا۔ تاہم، جو چیزیں اس کی اصل وجہ بنیں، وہ امریکا کے عالمی عزائم اور مسلم دنیا میں ایک ناجائز ریاست قائم کرنے کے لیے اسرائیل کی پشت پناہی، قوم پرستی کی تحریکوں کی سرپرستی، عالمِ اسلام کے معاشی، خصوصیت سے تیل اور انرجی کے وسائل پر قبضہ اور ان کا امریکا اور مغربی اقوام کے مفاد میں استعمال تھا۔ پھر اس عمل کے لیے ہرملک میں اپنے پٹھو تیار کرنا اور آمروں کے ذریعے مسلمانوں کو قابو میں رکھنا ہے۔ جو بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے  وہ یہ ہے کہ اس مخالفت اور بے زاری کا سبب امریکا کا نظامِ حکومت اور جمہوریت کی وہ اقدار ہرگز نہ تھیں، جن کا نام لے کر امریکی قیادت اور خصوصیت سے صدربش نے دنیا پر یلغار کی تھی،بلکہ  اصل وجہ امریکا کی پالیسیاں اور اس کا سامراجی اور ظالمانہ رویہ تھا، اور جب تک ہرسطح پر اس حقیقت کا صحیح ادراک نہیں ہوجاتا اور پالیسیوں اور رویوں کی تبدیلی کا اہتمام نہیں ہوتا، تعلقات میں  بنیادی تبدیلی ناممکن ہے۔

ان حالات کا معروضی تجزیہ یونی ورسٹی آف پنسلوانیا میں علمِ سیاست کے دو پروفیسروں۲؎ نے پیش کیا ہے، ہر دو حضرات نے نائن الیون سے ۱۶سال پہلے ۱۹۸۵ء میں امریکا مخالفت کے اس آتش فشاں کی نشان دہی کی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ تیسری دنیا کے بیش تر ممالک میں جو   لاوا پک رہا ہے وہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ ان کی نگاہ میں بجاطور پر امریکا کی مخالفت کے رجحان کی اصل وجہ امریکا کی وہ پالیسیاں اور عملی سرگرمیاں تھیں جن کے نتیجے میں امریکا سے دنیا کی اچھی توقعات خاک میں مل گئیں، امید کی شمع گل ہوگئی اور مایوسی اور بے زاری نے بغاوت اور تصادم کی راہ ہموار کی۔ ۱۹۸۸ء ہی میں امریکا کے ایک سابق سفیر رچرڈ بی پارکر نے کہا تھا:

امریکیوں اور امریکی علامات کے خلاف تشدد علاقے میں امریکی پالیسی کے خلاف ردعمل تھا، اس لیے کہ یہ پالیسی حکمت عملی کا لحاظ رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ داخلی مفادات اور امریکا کے اندر توازنِ اقتدار اور فوجی صنعتی کمپلیکس کے دبائو کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔۳؎

ان تمام محققین کی نگاہ میں: ’’امریکا کے خلاف ردعمل ان ملکوں کا امریکی پالیسی اور معاشی سرگرمیوں سے مایوسی کا نتیجہ تھا‘‘۔

امریکا سے یہ مایوسی اور بے زاری تو نائن الیون سے بہت پہلے موجود تھی، البتہ نائن الیون کے بعد اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۰۳ء سے لے کر آج تک کے تمام راے عامہ کے سروے، مسلم عوام کے ان جذبات کے عکاس ہیں۔ امریکی ادارے The Pew Global Attitude Project کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتی ہے:

۲۰۰۰ء کے بعد سے امریکا کے لیے پسندیدگی کی شرح ان ۲۷ ممالک میں سے ۱۹ میں گرگئی ہے جہاں رجحانات معلوم کیے جاسکے ہیں… امریکا کے بارے میں راے عامہ شرق اوسط میں بڑے پیمانے پر منفی ہے۔ اُن ممالک میں بھی جہاں حکومت کے امریکا سے قریبی تعلقات قائم ہیں، یعنی اُردن، ترکی، پاکستان، وہاں بھی قابلِ لحاظ اکثریت امریکا کے خلاف راے رکھتی ہے۔

دی پیو (Pew)، گیلپ انٹرنیشنل، زوگبی (Zogby) تینوں کے سروے مسلسل یہ نتائج سامنے لارہے ہیں کہ تمام ہی مسلم دنیا میں، بیش تر ترقی پذیر ممالک میں اور کچھ یورپی ممالک خصوصیت سے فرانس اور اسپین میں، امریکی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کے خلاف بے زاری کی   لہر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ خود مصر میں جہاں امریکی صدر اوباما نے ۴ جون ۲۰۰۹ء کو خطاب کیا ہے، آبادی کے ۶۷ فی صد کی نگاہ میں پوری دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا میں امریکا کا کردار منفی ہے۔ ۷۶فی صد کی نگاہ میں امریکی حکمران مسلم دنیا کو بانٹنے اور کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔

لندن کے جریدے New Statesmen کی ۴ جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں عالمِ اسلام کی اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا:

افغانستان اور عراق پر تباہ کن حملوں اور قبضے کے آٹھ سال، ایران اور شام کے خلاف تندوتیز لفظی حملے، لبنان اور غزہ پر اسرائیلی بم باری کی امریکی حمایت نے دنیا کے  ۳ء۱ ارب مسلمانوں میں امریکا کے خلاف نفرت پیدا کر دی ہے۔ بش کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے پہلے دن سے پوری دنیا میں مسلمانوں کو امریکا کے خلاف کر دیا اور امریکا دشمن احساسات کی سطح کو بہت بڑھا دیا۔ مثال کے طور پر زوگبی پول کے مطابق ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیان امریکا کے خلاف منفی رویہ رکھنے والوں کا تناسب ۷۶ سے ۹۸ فی صد ہوگیا، یعنی تقریباً پورا ملک۔

نومبر ۲۰۰۷ء کی امریکی حکومت کی ایک رپورٹ (جسے امریکی فوج کے اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کے ایک ماہر اینڈریو لارنس نے تیار کیا ہے) تلخ مگر حقیقت پر مبنی نتیجہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا کے خلاف دہشت گردی کے واقعات سے مسلم دنیا میں یہ احساس فروغ پارہا ہے، کہ انھیں   وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے، اور اس روز افزوں احساس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مایوسی اور   بے زاری و بے اطمینانی میں اضافہ ہوا ہے:

امریکا کی پالیسی اور حکمت عملی نے مسلم دنیا میں قول و فعل کے درمیان اعتماد کا خلا پیدا کردیا ہے۔ (The Global War on Terrorism، نومبر ۲۰۰۷ء)

اس رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ: حالیہ قومی پالیسیاں اور اقدامات درحقیقت کم نہیں بلکہ زیادہ انتہاپسند پیدا کر رہی ہیں۔

ہم نے صدر اوباما کی تقریر پر گفتگو کرنے سے پہلے، اس پس منظر کے اہم خدوخال پر توجہ مرکوز کرانا اس لیے ضروری سمجھا ہے کہ اس کے ادراک کے بغیر نہ وقت کے چیلنج کو صحیح طرح سمجھا جاسکتا ہے، اور نہ مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل حقیقت پسندی کے ساتھ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ امریکی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسلم دنیا کے حکمران جو بھی کہیں، یا ان کے زیراثر جو کچھ بھی کریں، اصل معاملہ مسلم عوام ہی نے طے کرنا ہے۔ ان کے احساسات، خدشات اور توقعات کو سمجھے بغیر اور ان کے صحیح فہم و ادراک کے بغیر یک طرفہ طور پر نہیں بلکہ مشترک مقاصد اور مفادات اور حقیقی مشاورت پر مبنی اتفاق باہمی پر مبنی حکمت عملی بنانے کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تو خوش کن الفاظ اور ڈرامائی حرکات سے حالات کا سدھار ممکن نہیں۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا، خصوصاً مسلم دنیا میں امریکا کو جو اعتماد اور تائید ایک وقت حاصل تھی، اب اس کا عشر عشیر بھی باقی نہیں رہا ہے اور جب تک اعتماد کی نئی فضا نہ پیدا کی جائے، ایک ایسی فضا جو خواہشات اور ظاہری تکلفات کے مقابلے میں حقیقی مسائل کے ادراک اور برابری کی بنیاد پر مبنی ہو اور جب تک ایک دوسرے کے مقاصد اور مفادات کو دیانت داری کے ساتھ اور حقیقی تناظر میں نہ سمجھا جائے اور کسی بھی قسم کے دبائو کے بغیر تعاون کے نقشۂ کار کو سامنے نہ لایا جائے، اس وقت تک تقریریں اور وعظ لاحاصل رہیں گے۔

اوباما کے انتخابی وعدے

صدر بارک حسین اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں حسب ذیل وعدے کیے تھے، جن کی یاد دہانی ضروری ہے:

ا-  بش کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں اور وقت آگیا ہے کہ ان میں تسلسل کے بجاے تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔

ب- دہشت گردی کا مقابلہ محض قوت کے استعمال سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے ان اسباب کو دُور کرنا ضروری ہے، جن کے نتیجے میں دنیا دہشت گردی کی آماج گاہ بن گئی ہے، نیز یہ کہ دل و دماغ کی تسخیر اور خیالات اور افکار کی ہم آہنگی کے بغیر اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔

ج- عالمی امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب دنیا میں قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اور ان اصولوں کی طرف مراجعت ہو، جو انسانیت کی مشترک میراث اور [اس کے خیال میں] امریکی دستور کی اساس ہیں۔ قانون اور انصاف کے اصولوں سے انحراف کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، اس کی تبدیلی کے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔اس کے لیے گوانتانامو جیسے تعذیب خانوں کو بند کرنا ہوگا اور تشدد اور تعذیب کے تمام حربوں سے اجتناب ضروری ہے۔

د- امریکا کو مسلمانوں کے دل جیتنے کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی اور ماضی میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں، ان کی تلافی ضروری ہے [اس سلسلے میں اوباما نے فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کا خاص طور پر ذکر کیا اور ایران، لبنان اور شام وغیرہ کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ دیا]۔

ھ- قوموں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حاکمیت کا احترام کیا جائے۔ بش دور کی یک رُخی مہم جوئی سے اجتناب کا پیغام بھی دنیا کی اقوام کو دیا گیا۔

انتخابی مہم کے دوران میں اوباما کے ان اعلانات سے امریکا اور پوری دنیا میں، خاص طور پر مسلم دنیا میں جو پچھلے ۶۰، ۷۰ سال کے بالعموم اور بش کے آٹھ سالہ دورِ اقتدار میں خاص طور پر امریکا کی جنگ جو مہم کاریوں کا نشانہ بنی ہوئی تھی ، اُمید کی ایک مدھم سی کرن روشن ہوئی تھی۔

صدر اوباما نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اپنے اقتدار کے پہلے ۱۰۰ دنوں ہی میں وہ مسلم دنیا سے تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کریں گے۔ حلفِ صدارت کے فوراً بعد انھوں نے العریبیہ ٹیلی وژن کے نمایندے کو انٹرویو دیا۔ ۱۰۰ دن کے دوران ہی میں مئی ۲۰۰۹ء میں ترکی کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ: ’’امریکا، اسلام سے برسرِ جنگ نہیں‘‘۔ ۴ جون ۲۰۰۹ء کو جامعہ قاہرہ اور جامعہ الازہر کے پلیٹ فارم سے اُمت مسلمہ سے خطاب کیا اور اسے: ’’اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کے نئے آغاز کا نام دیا‘‘۔ اس تقریر پر اس کی اہمیت کے اعتبار سے مسلم دنیا ہی میں نہیں دنیا کے ہر گوشے میں بحث و گفتگو ہورہی ہے۔ ہم بھی اسے ایک اہم پیش رفت سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا بے لاگ اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ اگر خلوص اور دیانت سے اُمت مسلمہ سے دوستی اور تعاون کے لیے کہیں سے بھی کوئی ہاتھ بڑھایا جاتا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ یہی ہماری روایت اور تاریخ ہے، لیکن یہ سارا کام آنکھیں کھول کر اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت کے ادراک اور اظہار کے ساتھ کرنا چاہیے کہ اصل چیز قول نہیں، عمل ہے، اور مسلمانوں کو تو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔

صدر اوباما کے خطاب میں دوسرے امریکی صدور اور خصوصیت سے ان کے پیش رو  جارج بش کے اندازِ گفتگو کے برعکس مفاہمت کی زبان استعمال کی گئی، اور تعلقات میں باہمی مفادات اور ایک دوسرے کے احترام کی بات بار بار کی گئی ہے۔ اگر یہ محض رسمی وعظ نہیں ہے تو قابلِ قدر ہے۔ لیکن ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اس تقریر کو ’’ایک نئے آغاز کا پیش خیمہ‘‘ قرار دینا مشکل ہے۔ اس لیے جہاں ہم محتاط انداز میں نئے دور کی تلاش کے اعلانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، وہیں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ صرف خوش نما الفاظ سے اس خلیج کو پاٹنا ممکن نہیں ہے، جو پوری ایک صدی کے تلخ تجربات کی پیداوار ہے۔ دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا، صدر اوباما کے ارشادات کو پالیسی کی تبدیلیوں اور عمل کی میزان پر دیکھے، پرکھے اور جانچے گی۔

ہمارا پہلا تاثر یہ ہے کہ اس تقریر میں خوش نما الفاظ اور جوشِ خطابت کا پلڑا بھاری ہے اور بنیادی امور اور مسائل کے بارے میں واضح پالیسی کے خطوط کار اور متعین تبدیلیوں کا سراغ دُور دُور نظر نہیں آتا۔ امریکا کی قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیا وہ دنیا کے دوسرے ممالک اور اقوام، اور خصوصیت سے مسلم دنیا سے اصول، حق و انصاف اور معتبر مفادات اور آزادی اور عزت کے احترام کے ساتھ معاملہ کرنا چاہتی ہے، یا اصل ہدف اور مقصد تو فقط امریکی مفادات کا حصول ہے، اور اس کے لیے ایک نئے انداز اور اسلوب سے معاملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو ان کی تقریر تضادات کا مجموعہ ہے۔ کبھی تبدیلی کا اشارہ دیا جاتا ہے اور پھر جلد ہی پرانی شراب، نئی بوتلوں میں پیش کردی جاتی ہے۔ بیش تر اساسی امور پر پالیسی کی تبدیلی کی طرف کوئی واضح اقدام تو کیا غیرمبہم اشارہ بھی نہیں دیا جاتا اور ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔ محض اسٹائل اور اندازِ گفتگو کی تبدیلی سے مطلوبہ تبدیلی کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن نہیں۔ محض ذاتی جذبات و احساسات پر مبنی خیالات پہ قوموں اور تہذیبوں کے مسائل کو نہ ماضی میں حل کیا گیا ہے اور نہ آج ممکن ہے۔

خطاب کے مثبت پھلو

صدر اوباما کے اس خطاب میں جو مثبت چیزیں ہمیں نظر آئیں پہلے ان کا ذکر مناسب ہوگا:

پہلی بات یہ ہے کہ صدر اوباما، مسلمانوں سے ربط اور تعلق کو بہتر بنانے اور صدربش کی ناکامی، نفرت اور تصادم پیدا کرنے والی پالیسیوں سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ وہ ان پالیسیوں کی ناکامی کا کھل کر اعتراف نہیں کرتے، لیکن ان کے تسلسل کے نتیجے میں خطرات اور قباحتوں سے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ ایک جانب وہ ان سے نکلنے کے اشارے بھی دے رہے ہیں، مگر امریکی مفادات اور امریکی مقتدرہ اور ہیئت حاکمہ کی سوچ کے حلقۂ زنجیر سے نکلنے کا کوئی واضح عندیہ ابھی تک نہیں دے سکے ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ میڈلین آل برائٹ نے اپنے ایک مضمون (نیویارک ٹائمز ،۳ جون ۲۰۰۹ء) میں ان کی تقریر سے ایک دن پہلے   ان کے اس مخمصے کا دل چسپ بیان کیا ہے، جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ضروری ہے:

اوباما کا مخمصہ یہ ہے کہ کوئی تقریر خواہ کتنی عمدہ کیوں نہ ہو، عراق، افغانستان، پاکستان، ایران اور شرق اوسط کے حالیہ واقعات کے زیرِاثر امریکا مسلم تعلقات کی صورت حال سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی۔ اس کا امکان کم ہے کہ صدر پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اعلان کرسکیں، اس لیے کہ ان کو مسلمانوں کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ حالیہ جاری پالیسی کو نئی روشنی میں دیکھیں۔

میڈلین آل برائٹ نے ایک جملے میں اصل مسئلے کو پیش کر دیا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ موجودہ پالیسیاں ہی جاری رہیں، مگر انھیں ’نئے جامے‘ میں پیش کیا جائے، جب کہ اصل مسئلہ پالیسیوں کی تبدیلی کا ہے۔ انھیں نئی تزئین و آرایش سے پیش کرکے قابلِ قبول بنانا ممکن نہیں۔

اس بنیادی وضاحت کے بعد ہم جن چیزوں کا خیرمقدم کرتے ہیں وہ یہ ہیں:

۱- مسلمانوں سے بحیثیت مسلمان بات کا آغاز کرنے کی کوشش اور کم از کم اس امر کا اظہار کہ امریکا، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نہیں اور تہذیبوں کے تصادم کے فریم ورک میں جو پالیسیاں اور اقدامات کیے جارہے ہیں، ان پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسلام کی جو مرکزی اہمیت ہے، اس کا کچھ نہ کچھ احساس صدر اوباما کو ہے اور وہ امریکا کی پالیسیوں پر نیا چہرہ سجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر اوباما کی اس تقریر میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بش کی محبوب و مرغوب اصطلاحات کا کوئی ذکر نہیں۔

وہ پُرتشدد انتہا پسندی (violent extremism) کا بار بار ذکر کرتے ہیں مگر دہشت گردی کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کرتے۔ اگر یہ صرف اظہارِ بیان کی تبدیلی ہے، جس کا خطرہ اور امکان غالب ہے، تو اس لیپاپوتی اور ظاہری ٹپ ٹاپ سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر    یہ پورے مسئلے پر ازسرِنو غور کرنے کی طرف پہلا قدم ہے تو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

۲- اس تقریر میں کم از کم اس بات کا اعتراف ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے مسلم ممالک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، اور اس سیاسی کھیل میں مسلمانوں کے اپنے عزائم اور خواہشات و مفادات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی اصلاح کے لیے اب مشترک مفادات اور باہمی احترام کے رویے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایک جنگی حربے کی تبدیلی پر مبنی عمل جیسی چال ہے تو اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوگا، لیکن اگر یہ حکمت عملی کی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے تو اس سے کچھ خیر رونما ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔ ہم اسے بہ یک جنبش رد نہیں کرسکتے۔ احتیاط سے اس احساس کو تبدیلی کی طرف لے جانے والے عمل کا حصہ بنانے کے امکانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

۳- صدر اوباما کی طرف سے سچ بولنے کی کوشش اور دل کی بات کو زبان پر لانے کی دعوت بھی اپنے اندر مثبت پیغام رکھتی ہے۔ البتہ اس کا اطلاق محض کسی ایک فریق پر نہیں، تمام متعلقہ فریقوں پر ہونا چاہیے اور مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی اس میں غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔

۴- صدر اوباما کی اس تقریر کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کے حکمرانوں کے مقابلے میں مسلم دنیا کے عوام کو اپنا مخاطب بنایا ہے، اور اسلام کو مسئلے کا ایک حصہ نہیں بلکہ مسائل کے حل اور امن و سلامتی کے حصول کی جدوجہد میں ایک مثبت عامل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ بھی اگر زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے، تو اس ہلکے سے اشارے کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مسلمان اُمت کی اصل حیثیت ایک داعی اور صاحب ِ دعوت اُمت کی ہے اور تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ (آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ اٰل عمرٰن ۳:۶۴) کے اصول پر ہمیں ہررونما ہونے والے موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

۵- صدر اوباما نے بار بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ اسلام، امریکا کے لیے غیر نہیں اس کا حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قاہرہ کے خطاب میں انھوں نے امریکا میں مقیم ۷۰ لاکھ مسلمانوں کا ذکر کیا ہے اور اس کے چند دن بعد ہی ڈان کے نمایندے کو دیے جانے والے انٹرویو میں ۵۰لاکھ کی بات کی ہے، جو ناقابلِ فہم ہے۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کو امریکی معاشرے کا حصہ تسلیم کرنا اور مساوی بنیادوں پر ان کے کردار کا لفظی اظہار بھی نائن الیون کی مسموم فضا میں وہاں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ بات صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رہے گی اور مسلمانوں کے لیے امریکا میں جو بے اعتمادی، شک اور تعصب اور امتیازی رویے (discrimination) کی فضا بنا دی گئی ہے، وہ ختم کردی جائے گی۔ انھیں آزادی اور اپنے تشخص کی حفاظت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع حاصل ہوگا۔

صدر اوباما نے اس تقریر اور تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی دعوت کے لیے مصر کا انتخاب کیوں کیا، جب کہ مصر میں ۳۰سال سے ایک ایسی امریکا کی تابع مہمل حکومت قائم ہے جو آمریت کی بدترین مثال ہے اور اپنی ہی قوم کو جبر و استبداد کی تاریکی میں لپیٹے ہوئے ہے۔ مصر ہی کے ایک معروف دانش ور سعد الدین ابراہیم نے مصر کو منتخب کرنے پر اس بنیاد پہ اعتراض کیا کہ: ’’وہاں جمہوریت کا قتلِ عام ہو رہا ہے، تو مصری حکومت نے ان کی آواز کو دبانے کے لیے قوت کا استعمال کیا اور انھیں جیل میں دھکیل دیا۔ صدر اوباما کی جانب سے اس شہر کے انتخاب پر ایک مدت تک اضطراب کا اظہار کیا جاتا رہے گا۔

حقائق سے پھلوتھی

صدر اوباما نے حالات کا جو تجزیہ کیا ہے، وہ بھی کئی پہلوئوں سے محلِ نظر اور حقائق کے صحیح ادراک سے عاری نظر آتا ہے، مثلاً ان کا یہ دعویٰ کہ جدیدیت اور عالم گیریت کی لائی ہوئی    بڑے پیمانے پر تبدیلی کے نتیجے میں بہت سے مسلمانوں نے مغرب کو اسلام کی روایات کے دشمن کے طور پر دیکھا___ ایک باطل مفروضہ اور ساری بحث کو خلط مبحث کی نذر کرنے کی بدترین مثال ہے۔ جدیدیت اور عالم گیریت کے اپنے مسائل ہیں، اور دنیا کی تمام ہی اقوام ان کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے نبردآزما ہیں، مگر ان کو مغرب کے خلاف بغاوت کی وجہ قرار دینا فکری و ذہنی فساد کے سوا کچھ نہیں۔ اصل ایشو امریکا اور مغربی اقوام کی سامراجی پالیسیاں اور مسلم ممالک کے وسائل کا استحصال ہے، نیز اسلامی احیا کی تحریکوں کو کچلنے اور مسلم ممالک پر اپنے من پسند حکمرانوں کو مسلط کرنے اور ان حربوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کو ایک نئی غلامی کے جال میں گرفتار کرنے کی قابلِ مذمت پالیسی ہے۔ آج بھی دنیا کے ۴۰ سے زائد ممالک میں امریکا کی کئی لاکھ افواج موجود ہیں۔ سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلامی اور محکومی وہ اصل سبب ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ظلم کا دور دورہ ہے اور مسلم ممالک امریکا کے براہِ راست قبضے یا کہیں بالواسطہ قبضے کا شکار ہیں۔

اسی طرح دہشت گردی کے نام پر، اور اب نام بدل کر انتہا پسندی اور پُرتشدد انتہا پسندی کے عنوان سے جو جنگیں امریکا نے مسلم دنیا پر مسلط کی ہوئی ہیں، اور جن کے نتیجے میں مختلف نوعیتوں کی قتل و غارت گری برپا ہے اور جس درجہ مسلم ممالک کو تباہی کا نشانہ بنایا ہوا ہے، ان سب زیادتیوں کا مداوا محض دوستی اور احترام کے خوش نما الفاظ سے ممکن نہیں۔

صدر اوباما نے سچ بولنے کی تلقین کی ہے اور اس سلسلے میں قرآن کی ہدایت کا بھی تذکرہ  کیا ہے، مگر ہر اہم موضوع پر جس کا انھوں نے ذکر کیا ہے، وہ خود سچ اور پورے سچ کی راہ صواب سے بہت دُور رہے ہیں۔ حماس کے کمزور اور ناپختہ میزائلوں پر ان کی تقریر دل پذیر اور اسرائیل  کے حملوں، غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں پر امریکا کے فراہم کردہ ایف ۱۶ سے حملے،   میزائلوں کی بارش، بھاری توپ خانے سے بم باری، اور غزہ کی پوری آبادی کی ایسی ناکہ بندی کہ اشیاے ضرورت اور خوردونوش کے سامان سے بھی محرومی مقدر بنا دی گئی___ یہ سب ظالمانہ اور چنگیزی کارروائیاں نہ صدر اوباما کو نظر آئیں اور نہ ان کی تقریر میں کوئی جگہ پاسکیں۔ حماس کو انھوں نے لیکچر پلایا کہ تشدد کا راستہ ترک کردیں، لیکن اسرائیل کے ریاستی تشدد اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قابضین (settlers) کے تشدد کا کوئی خیال تک ان کو نہیں آیا۔ ایران کی ایٹمی صلاحیت ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے اور اس وجہ سے انھیں اس علاقے میں ایٹمی دوڑ کا خدشہ نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کے ۲۰۰ سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ان کی پیشانی پر شکن پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے ہیں۔ کیا دنیا یہ بھول گئی ہے کہ لبنان میں ۱۹۸۲ء کے دوران اسرائیل کے حملے میں ۱۷ہزار ۵سو عام شہری جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد تھی، شہید کیے گئے؟ کیا صبرااور شاتیلا کے ان ۱۷۰۰ معصوم انسانوں کے بے دردانہ قتلِ عام کو دنیا بھول گئی ہے؟ کیا ۱۹۹۶ء میں ۱۰۶ لبنانی عام شہریوں کے، جن میں نصف بچے تھے، قتل کا خون اسرائیل کے ہاتھوں پر نہیں؟ کیا ۲۰۰۶ء میں فلسطینیوں کے مہاجرین کیمپ سے اسرائیلی حکم پر سیکڑوں افراد کا انخلا، اور پھر اسرائیلی ہیلی کاپٹروں سے ان کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا واقعہ قابلِ ذکر نہیں؟ اور کیا ۲۰۰۶ء میں لبنان میں ایک ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اُتارنا اور ۲۰۰۸ء میں غزہ میں ۱۳۰۰ کی شہادت کسی شمارقطار میں نہیں؟ اگر صدراوباما کو یہ سب نظر نہیں آتا تو پھر ان کی طرف سے انصاف کی دہائی اور صدق بیانی کی تلقین پر کون یقین کرے گا؟

صدر اوباما افغانستان میں جنگ کو ’مجبوری کی جنگ‘ (war of necessity) قرار دیتے ہیں اور عراق میں فوج کشی کو ’مرضی کی جنگ‘ (war of choice)کہتے ہیں۔ لیکن جس جھوٹ پر اور جن واہموں پر ان تمام جنگی کارروائیوں کا انحصار ہے، ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ عراق میں مستقل قیام چاہتے ہیں اور نہ افغانستان میں، لیکن عملاً دونوں ممالک کو اپنی گرفت میں رکھنے اور پاکستان کو بھی اپنی فوجی جاگیر میں شامل کرنے کے تمام اقدامات کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں، اور ان ممالک پر اپنے احسانات کا بوجھ ڈالنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ عراق سے واپسی کی باتیں ۲۰۱۲ء کی خبر لارہی ہیں اور افغانستان میں دسیوں سال قیام کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ان عملی کارروائیوں کے ساتھ انخلا کی حکمت عملی کی بات بھلا کیا مناسبت رکھتی ہے۔

تین ماہ پہلے پاکستان کو چند مہینوں اور چند ہفتوں کا مہمان کہا جا رہا تھا، اور اب پاکستانی حکومت اور فوج نے ان کے احکام کی تعمیل میں اپنی قوم کو جس جنگ میں جھونک دیا ہے اس سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچ رہی ہے اور اب پاکستان ان کو مستحکم ہاتھوں میں نظر آرہا ہے۔ صدراوباما کو سمجھنا چاہیے کہ یہ مسئلہ خوش کلامی کا نہیں، امریکا کی پالیسیوں اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہ کاریوں کا ہے اور جب تک امریکا اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرکے جنگی جنون سے باز نہیں آتا، عالمِ اسلام سے تعلقات کی درستی کا خواب ’اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے‘ سے زیادہ نہیں۔ عالمِ اسلام کے زخم حسین الفاظ اور خاندانی رشتوں کے تذکرے سے مندمل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے پالیسیوں کی تبدیلی اور عملی اقدام کی ضرورت ہے۔

اسرائیل جو مظالم بھی ڈھا رہا ہے وہ امریکا کی اشیرباد اور سیاسی اور مالی مدد کی وجہ سے ہے۔ اوباما صاحب نے نئے یہودیوں کی نئی آبادکاری کے خلاف بات کی ہے، لیکن اصل مسئلہ تو اسرائیل یا فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے اور اپنی سرحدوں کو محض طاقت کے بل بوتے پر بڑھانا اور فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنا ہے۔ امریکی صدر کو اسرائیل کے وجود اور سلامتی کی تو فکر ہے اور ان کے ’اساطیری حقِ واپسی‘ (mythical right of return) پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی اور اپنے گھروں میں واپسی کا حق موصوف کو دُور دُور نظر نہیں آتا، جب کہ اسرائیل کو اس کھیل کے جاری رکھنے کے لیے امریکا نہ صرف ہرسال اربوں ڈالر دے رہا ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۴۰ سے زیادہ بار ویٹو کا حق بھی استعمال کرچکا ہے۔ اس کے باوجود فلسطینیوں سے گلہ ہے کہ وہ ظالم کے خلاف کیوں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما نے کشمیر کا ذکر کیا تھا اور خصوصی نمایندہ مقرر کرنے کی بات بھی کی تھی، مگر اب وہ سب بھول گئے ہیںاور بھارت کو علاقے کا لیڈر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان پر سارا دبائو ہے اور ’ایفپاک‘ (Af-Pak) کے شرمناک تصور کے تحت پاکستان اور افغانستان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں اور سبق پڑھا رہے ہیں سچ اور انصاف کا___ اس پس منظر میں محض الفاظ پر بھلا کون یقین کرے گا؟

امریکا کی ٹفٹ یونی ورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر گیری لیوپ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بش کی پالیسیوں کو پاکستان کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ قرار دیا ہے، جن پر امریکا کی موجودہ قیادت کامل یکسوئی کے ساتھ عمل کر رہی ہے اور زرداری حکومت ان کی پوری گرفت میں ہے۔  صدر اوباما کے سینے میں اگر سچ سننے کا دل دھڑک رہا ہے، تو پروفیسر گیری لیوپ کے ان الفاظ پر غور کریں۔ وہ کب تک اصل اسباب پر پردہ ڈالتے رہیں گے:

بش کی انتظامیہ نے مشرف پر دبائو ڈالا کہ سرحدی صوبوں میں پاکستانی فوج کو تعینات کرے جہاں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں لگائی گئی تھی، جہاں اس کی محض موجودگی ہی اشتعال انگیز سمجھی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ۲۰۰۵ء کا امن معاہدہ ہوا جس میں حکومت نے سرحد کے ساتھ فوجی چوکیاں ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اس کے بدلے میں قبائلی لیڈروں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ شدت پسندی کی حمایت ختم کردیں گے اور افغانستان کی سرحد سے آمدورفت کو روکیں گے۔ یہ حکومت کے لیے ایک طرح سے  باعزت شکست تھی جس پر امریکا نے تنقید کی۔ بعد میں جنگجوئوں سے کیے جانے والے سارے معاہدے ٹوٹ گئے، جیساکہ فروری میں سوات کا معاہدہ۔

بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان پر ایسی دہشت گردی مسلط کر دی ہے جس کا انجام نظر نہیں آتا۔ اوباما کی افغانستان پاکستان (Af-Pak) جنگ میں زیادہ فوجیں، زیادہ ڈرون حملے اور ’تقسیم کرو حکومت کرو‘ جیسی تدابیر سے بھی کامیابی کی کم اُمید ہے۔ امریکی افسران یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے وہ واقعی حیران ہیں کہ پاکستانی زیادہ نہیں کر رہے۔ پاکستانی حیران ہیں کہ وہ کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ ملک کا وجود خطرے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باہر رہ کر اندر دیکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ امریکی استعمار کے مفادات مذہبی، قومی اور نسلی احساسات کو ختم نہیں کردیتے۔ مقامی لیڈروں کے لیے چاہے وہ استعمار کے تنخواہ یافتہ ہوں ممکن نہیں ہے کہ مقامی مزاحمت کو ختم کریں اور امن پیدا کریں۔ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، امریکی استعمار اور جس طرح یہ   کیا گیا، اس نے پاکستانی آبادی کے بڑے حصے کو ناراض کر دیا ہے۔ یہ واشنگٹن کا اسلام آباد کے لیے غیر مطلوب تحفہ ہے جس کے لیے اسلام آباد کو برابر ادایگی کی جارہی ہے اور وہ اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔

الحق مرٌّ (سچ کڑوا ہوتا ہے) لیکن سچائی کو جانے بغیر اصلاح کا کوئی امکان نہیں اور جو پالیسی حقائق کو نظرانداز کرکے بنے گی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

صدر اوباما نے گوانتانامو کے تعذیب خانے کو بند کرنے کا اعلان بڑے طمطراق سے کیا تھا، مگر امریکی کانگریس میں اسے بند کرنے کے لیے جو بل پیش کیا گیا، اسے بھاری اکثریت سے جن میں ان کے اپنے ڈیموکریٹ ووٹ بھی شامل تھے، رد کر دیا گیا ہے۔

تحقیقات میں تعذیب (torture) کے استعمال کی صدر اوباما نے سختی سے نفی کی ہے، مگر انھی کی ٹیم کے افسران وہی بش والے دلائل دے رہے ہیں۴؎  اور ’معلومات کے حصول کے قانون کے تحت بش دور کی تعذیب پر مبنی جو تصاویر حاصل کی گئی تھیں‘ خود ان کی حکومت نے ان کی اشاعت کو روک دیا ہے۔ ان حکام کا کوئی احتساب ایجنڈے پر نہیں، جو گذشتہ آٹھ سالوں میں ان تعذیبی ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں۔ قول اور عمل میں اگر مطابقت نہ ہو تو پھر اخلاقی وعظ اور نیک تمنائوں کی دل پذیر تقاریر کو کون سنے گا اور ان پر کون اعتماد کرے گا؟

صدر اوباما کی تقریر پر لندن کے اخبار دی گارڈین کے ادارتی تبصرے کا ایک جملہ دسیوں صفحات پر پھیلے ہوئے تبصروں پر بھاری ہے:

یہ ایک ایسے شخص کی جو بلاشبہہ اپنے مقاصد کے لیے مخلص ہے، دبنگ تقریر تھی۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوتی ہے یا نہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ خیالات کو ٹھوس اقدامات میں تبدیل کرسکتا ہے یا نہیں۔ (اداریہ، دی گارڈین، ۵ جون ۲۰۰۹ء)

ایک اور عرب دانش ور رامی خوری (Rami Khouri) جو لبنان کے The Star کا مدیر اور امریکن یونی ورسٹی آف بیروت کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کا ڈائرکٹر ہے، عرب اور مسلم عوام کے دل کی آواز کا یوں اظہار کرتا ہے:

بُری خبر یہ ہے کہ اس میں سے کوئی بات بھی نئی نہیں ہے۔ انھوں نے کوئی ایسا ٹھوس اشارہ نہیں دیا کہ امریکی پالیسی کے اصولوں کا یہ اعلان پالیسی میں عملاً تبدیلی پر منتج ہوگا۔ عرب اسلامی دنیا کے لیے امریکی پالیسیوں میں جو بنیادی تضادات اور بے حسی ہے، وہ اسی کا اظہار کرتے رہے، اور اس پر قائم تھے کہ واشنگٹن کا ایجنڈا اسامہ بن لادن طے کرے۔ اس ایجنڈے میں معقول پالیسیاں اختیار کرنے کے بجاے اکثر اسلام کا خبط فیصلہ کن ہوتا ہے۔

امرِواقعہ یہ ہے کہ قاہرہ میں اوباما کی تقریر میں بیان کردہ ہراچھے اصول کی تردید پورے علاقے میں امریکی پالیسی سے ہوتی ہے لیکن اس سے دورے کی اہمیت یا تقریر میں اس کے خیالات کی امکانی قوت کم نہیں ہوتی۔

ہم دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہ امریکا حقائق کو ان کے اصل رنگ میں دیکھے اور مفاد، دھونس اور سامراج کی عینک اُتار دے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے پاکستان اور مسلم دنیا کی دوستی چاہتے ہیں، مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب مفاد پرستی کی راہ کو ترک کرکے حق و انصاف کی بنیاد پر معاملات طے کرنے کی مخلصانہ کوششیں ہوں، اور عملاً ان پالیسیوں اور منصوبوں کو ترک کیا جائے جو حالات کو بگاڑنے کا سبب بنے ہیں۔ جب تک یہ تبدیلی واقع نہیں ہوتی، دل پذیر تقریروں سے مصائب کو ٹالا نہیں جاسکتا، اور جنگ کی آگ کو خوب صورت الفاظ سے بجھانا ممکن نہیں۔ مرزاغالب نے ایسے ہی قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر کہا تھا    ؎

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا


میاں طفیل محمد رحمۃ اللہ علیہ

___جنھوں نے اللہ سے اپنا عہد سچا کر دکھایا!

موت برحق اور ہر انسان کا مقدر ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ رب العالمین کی ہے___ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں دل یہی چاہتا ہے کہ وہ ہم سے کبھی رخصت نہ ہوں۔ تاہم، انسانی خواہشات اپنی جگہ اور اللہ کا قانون اپنی جگہ۔ بلاشبہہ ہر ذی نفس کے لیے موت کا ایک وقت مقرر ہے، البتہ کامیاب وہ ہے جس نے زندگی اس طرح گزاری ہو کہ کبھی کسی کو تکلیف نہ دی ہو، جس کی محبت اور مخالفت کا معیار اللہ کی رضا، اس کے دین سے وفاداری، اور نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی سربلندی ہو، اور جس کی موت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عہدوفا پر واقع ہوئی ہو، اور جس کی نیکیاں اس کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی   صدقۂ جاریہ کی شکل میں جاری و ساری رہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اپنے محترم قائد، محسن اور رہنما میاں طفیل محمد صاحب کو جن کی سرپرستی میں زندگی کے ۶۰ سال گزارنے کی سعادت مجھے حاصل رہی، میں نے اللہ کا ایک مخلص بندہ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق اور ان کی رضا اور خوش نودی کو زندگی کی ہردوسری مصلحت پر مقدم رکھنے والا، اُمت کا خیرخواہ، جماعت اسلامی کا وفادار اور خادم، مولانا مودودیؒ کا مخلص ترین ساتھی اور محبت و شفقت کا پیکر پایا۔ وہ صبرواستقامت کے کوہِ گراں اور اخلاص و خیرخواہی میں سب سے آگے تھے۔ دورِحاضر میں ان کی زندگی اسلاف کا ایک نمونہ تھی۔

جوانی میں مولانا مودودیؒ کی دعوت پر لبیک کہہ کر پوری زندگی اس عہدِوفا کو پورا کیا جو اگست ۱۹۴۱ء میں ایک سوٹڈ بوٹڈ وکیل نے اللہ اور اللہ کی طرف بلانے والوں کے ایک مختصر گروہ سے کیا تھا۔ بلاشبہہ انھوں نے اپنے عہد کو سچا کردکھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے اور جنت کے اعلیٰ ترین مقامات سے ان کو سرفراز فرمائے۔ ان پر قرآن کی یہ شہادت صادق آتی ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے عہد کو سچا کردکھایا۔

میاں طفیل محمد مرحوم مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کے سب سے اہم رہنما تھے اور بلاشبہہ مولانا مرحوم کے وژن کو نظامِ جماعت کی شکل میں ڈھالنے، مردانِ کار تیار کرنے اور اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے میں اپنی نظیر آپ تھے۔ ان کی سادگی، ان کا خلوص، ان کی شفقت، ان کی بے لوثی، ان کی استقامت، ان کی للہیت، ان کا پیار___ انسان کس کس بات کا ذکر اور اعتراف کرے۔ ان کی زندگی میں ہم جیسے کمزور اور گنہگار انسانوں نے اسلام کی انسان سازی کی معجزانہ قوت کا بچشم سر نظارہ کیا، اور ایک بار پھر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسلام ہر دور میں اپنے مطلوبہ انسان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

میاں صاحب کو میں نے مشکل سے مشکل حالات میں صبر اور استقامت کا پیکر پایا۔   ان کی زبان سے کبھی کسی ذاتی معاملے میں حرفِ شکایت نہیں سنا۔ امارت سے قبل، امارت کے دوران، اور امارت کے بعد ان کی زندگی کے جس دور پر نگاہ ڈالتا ہوں انھیں ایک عظیم انسان، ایک زیرک قائد، ایک روشن ضمیر مرشد، ایک اعلیٰ منتظم اور ایک شفیق باپ پاتا ہوں۔ ان کی زندگی بھی روشنی کا مینار تھی اور موت (۲۵ جون ۲۰۰۹ء) کے بعد بھی ان کی مثال ایک نمونہ اور چراغِ راہ کی رہے گی  ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے