آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ سوات میں امن اور نظامِ عدل کے قیام کی کوشش کا گلا، امریکا اور اس کے پاکستانی گماشتوں نے پیدایش سے پہلے ہی گھونٹ دیا۔ اس طرح سوات، اس کے گردونواح کے تمام علاقوں بشمول بونیر اور دیر وغیرہ کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ انجامِ کار پاکستانی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کی خاطر ۲۵، ۳۰ لاکھ انسانوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھر اور بے سروسامان کر دیا۔
اس خطرناک اور خونیں اقدام سے امریکا اور اس کے اسٹرے ٹیجک اتحادیوں نے ایک طرف اس تاریخی عمل کو پٹڑی سے اُتار دیا، جو ۲۲اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی شکل میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی گرفت سے پاکستان کو نکالنے اور اس کی سالمیت کے دفاع کو درپیش خطرات سے نجات دلانے کے لیے شروع ہوا تھا۔ امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کی اسی نام نہاد جنگ نے ملک کو سیاسی، معاشی، عسکری ہراعتبار سے کمزور اور مجروح کر دیا ہے۔ اس قرارداد میں سیاسی مسائل کے فوجی حل کو ترک کر کے سیاسی حل تلاش کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ جس کی روشنی میں پہلا اہم اقدام فروری ۲۰۰۹ء کا سوات امن معاہدہ اور شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے نفاذ کی کوشش تھی۔
افسوس کہ اس نئی حکمت عملی کو قبول کرنے میں، وفاقی حکومت اور خاص طور پر صدرزرداری صاحب نے جس تردّد اور پُراسرار رویے اور عمل کا اظہار کیا، اسی نے اندیشہ ہاے دُوردراز پیدا کردیے تھے۔ بعدازاں کھلے کھلے امریکی دبائو کے تحت صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور فوج نے اس معاہدے کو قصۂ پارینہ قرار دے کر جس عجلت سے فوج کشی شروع کی اور سوات اور اہلِ سوات کی بربادی کے تباہ کن راستے پر بگ ٹٹ گامزن ہوگئے، وہ پاکستان کی تاریخ کا سنگین ترین المیہ ہے۔ اس اقدام نے ملک کے نقشے تک کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس خونیں ڈرامے کے اہم کردار ہیں: مفاد پرست اربابِ اقتدار، پاکستان کے ہوشیار دشمن، اور نادان دوست! ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا منفی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کو امریکی جنگ کی دلدل سے نکالنے کا جو عمل شروع ہوا تھا، اس عمل سے اسے پارہ پارہ کرکے وہ حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ جن کو اگر بروقت روکا نہ گیا تو خدانخواستہ پاکستان کا وجود، اس کی آزادی، سلامتی اور نظریاتی شناخت معرضِ خطر میں پڑ جائے گی۔
حالات کا صحیح تجزیہ، اصلاحِ احوال کی حکمت عملی کا تعین اور اس کے لیے ملک کے ۱۷کروڑ عوام کو پاکستان کے تحفظ اور بقا کی جدوجہد کے لیے بیدار اور متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جن حالات کو ہمارے دشمن پاکستان کے ’وجود کو درپیش بحران‘ کہہ رہے ہیں، اسے قومی یک جہتی، قومی ترقی، قومی بقا اور بلندپایہ تہذیبی تشخص میں تبدیل کردینا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ہم اس چیلنج کے مختلف پہلوئوں پر اپنی معروضات پیش کررہے ہیں۔
سب سے پہلے مسئلے کی نوعیت کو علمی دیانت اور دقتِ نظر سے سمجھنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے واقعات دنیا بھر میں اور تاریخ کے ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، اور ان کا مقابلہ ملک کے نظامِ قانون، ریاستی اداروں اور دستوری ضوابط و اختیارات کے فریم ورک میں کیا جاتا رہا ہے۔ دنیابھر اور خود پاکستان میں ایسے واقعات کو ملک کے قانونِ فوجداری کے تحت گرفت میں لایا گیا ہے۔ عصرِحاضر کے ممالک اور اقوام نے جہاں دہشت گردی پر قرارواقعی گرفت کی ہے، وہیں یہ کوشش بھی کی ہے کہ قانون اور انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بھی خوارج اور باطنی فرقے کے assassins کے فتنے رونما ہوئے، مگر ان کا مقابلہ اصولِ انصاف اور ضابطۂ قانون کے تحت کیا گیا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ امریکا نے اس روایت سے یکسر انحراف کرتے ہوئے، نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے افسوس ناک واقعے کو بنیاد بناکر پوری دنیا میں ایک عالم گیر جنگ (Global war on terror) کا طبل بجادیا، جس کا نشانہ عملاً افغانستان، عراق اور پاکستان کو بنایا، جب کہ عام مسلمانوں کو بھی اس کی لپیٹ میں لے لیا۔ یوں ۸سال سے دنیا ایک مجہول، ناقابلِ شناخت اور غیرمحدود جنگ کی آگ میں جھونک دی گئی ہے۔ یہ ایسی افسوس ناک جنگ بلکہ دہشت گردی ہے جس کے نتیجے میں خود دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے: گروہی اور ریاستی دہشت گردی، اداراتی اور نسلی دہشت گردی۔
بین الاقوامی قانون، ملکی حدود میں قانون کی حکمرانی اور حقوقِ انسانی کا تحفظ بُری طرح پامال ہوئے ہیں۔ لاکھوں انسان جان کی بازی ہار گئے ہیں اور دنیا کا امن و چین تہ و بالا ہوا ہے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق صرف امریکا کو ۳ کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ گویا عالمی مالیاتی اور معاشی بحران پیدا کرنے اور دنیا میں غربت و افلاس کو بڑھانے میں اس نام نہاد جنگ کا بھی ایک کردار ہے۔ خود پاکستان کا حال یہ ہے کہ جو علاقے ۱۹۴۷ء سے پُرامن تھے وہ اب آتش فشاں بن گئے ہیں۔ ملک کی معیشت کو ڈھائی کھرب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہر سال ۵ سے ۶ ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اور اس سے بڑھ کر ملک کی آبادی کا سُکھ چین رخصت ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ ملک کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت خطرے میں ہے۔
بلاشبہہ ماضی میں سیاسی، لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی کے اِکا دکا واقعات ہوتے رہے ہیں، لیکن امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں سابق آمرمطلق جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور پاکستان کی سرزمین کو برادر ملک افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے کندھا پیش کرنے سے دہشت گردی کی جو لہر رونما ہوئی ہے، اور پھر ۲۰۰۴ء میں خود پاکستان کی فوج کو جس طرح اس جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں تباہ کن صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔
جوہری اعتبار سے یہ صورت حال ایسی ہے کہ اسے معروف سیاسی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال کا روایتی انداز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ یہ اس نوعیت کی بغاوت (insurgency) نہیں ہے جو سیاسی یا علیحدگی پسندی کی تحریکات کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ مزاحمتی تحریک کا ایک حصہ ہے، جو افغانستان پر امریکا اور ناٹو افواج کے قبضے کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، جس کا اصل میدان جنگ تو افغانستان کو بنایا گیا تھا اور امریکی عزائم کے مطابق وہ اب تک میدانِ جنگ ہی ہے، البتہ جنرل پرویزمشرف کی امریکی جنگ میں شرکت،اور اپنی فوجوں کو ۲۰۰۴ء سے اس علاقے میں استعمال کے نتیجے میں یہ آگ خود ہمارے وطن میں آن پہنچی ہے، اور روز افزوں ہے۔ امریکا نے ہمیں اس جنگ میں فریق بنانے اور اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے ہمارے سرحدی اور قبائلی علاقوں کوخوفناک خطے قرار دینے کا پروپیگنڈا شروع کیا، اور ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا واویلا کیا۔ جنرل مشرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں جو مزاحمت افغانستان میں ہو رہی تھی اور جسے امریکا قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا تھا اور ہے، اس جنگ کو خود پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دھکیل دیا گیا، تاکہ پاکستان کے وجود کو خطرناک ثابت کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔
اس پس منظر میں یہ بات سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کے سرحدی اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اصلاً کسی داخلی سبب کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ یہ افغانستان پر امریکی سامراجی قبضے کا نتیجہ ہے اور مشرف اور زرداری حکومتوں کی پالیسیوں سے اس جنگ کو ہماری سرزمین میں دَرآنے کا موقع ملا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے جو فوجی ایکشن اس علاقے میں پاکستان اور خود امریکا کررہے تھے، اس نے یہ ساری آگ بھڑکائی ہے، اور جب ایسی آگ کے الائو بلند ہوتے ہیں تو پھر اس میں بہت سے داخلی عوامل بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ دشمن قوتیں بھی حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے اپنا اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل نے ان حالات سے پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ امریکا اور افغانستان کے وہ عناصر جو پاکستان سے دشمنی رکھتے ہیں، وہ بھی حالات کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ اس خرابی کا اصل سرچشمہ افغانستان پر امریکا کا قبضہ، وہاں امریکی اور ناٹو افواج کی موجودگی اور ان کی خون آشامی ہے۔ امریکی ڈرون حملے، تربیت کے نام پر امریکی فوجوں کی پاکستان میں موجودگی اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارگزاریاں، اس آگ پر تیل چھڑکنے اور اسے ملک کے طول و عرض تک پھیل جانے کا سامان کر رہے ہیں۔
اس صورتِ حال میں سوات کے مسئلے کو مرکزیت حاصل ہے۔ اسی طرح دیر اور بونیر کے حالات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ تاہم مسئلے کی اصل جڑ افغانستان پر امریکی تسلط ہی ہے۔ جب تک پاکستان کی حکومت قوم کے جذبات کا احترام اور پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے واضح پیغام کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کو حقیقی معنوں میں آزاد خارجہ پالیسی بنانے اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کے مسئلے کو امریکا کی نظر سے نہیں، بلکہ پاکستان کے حالات، مفاد اور تاریخی خطرات کی روشنی میں دیکھنے، سمجھنے اور پالیسی تشکیل دینے کی کوشش نہیں کرتی ہے، مسائل نہ صرف جوں کے توں رہیں گے، بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی کے عمل کو فی الفور شروع کردے۔ دنیا میں، خصوصیت سے افغانستان اور عراق میں امریکی جنگی حکمت عملی جس بری طرح ناکام ہورہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ اب مزید اس تباہ کن کھیل کا حصہ نہ رہا جائے۔ جب تک ہماری حکومت ایسا نہیں کرتی، حالات میں بنیادی تبدیلی اور امن اور چین کی طرف حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔
دوسری بنیادی بات جسے قلب و نظر کے پورے اطمینان کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ سیاسی مسائل خواہ کتنے ہی پیچیدہ اور کثیرجہت کیوں نہ ہوں، ان کا محض کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ بلاشبہہ کچھ حالات میں ریاستی قوت کا استعمال ضروری ہوتا ہے لیکن ہر وہ علاقہ جو سرزمینِ وطن کا حصہ ہے، وہاں پر سیاسی عمل، قانون کی حکمرانی، عوام کی مرضی اور انصاف کے قواعد و ضوابط کی پاسداری کے ذریعے ہی ریاستی عمل داری، اداروں کی بالادستی اور شہری زندگی کی بحالی ممکن ہے۔ کھلے کھلے بیرونی دبائو یا اندرونی اُلجھنوں اور مشکلات سے گھبرا کر قوت کا استعمال اور وہ بھی بے محابا عسکری قوت کا استعمال حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے، حالات کی اصلاح کا نہیں۔ تاریخ کا یہ بہت واضح سبق ہے، مگر اقتدار کے نشے میں مست قیادتیں اور بیرونی دبائو کے اسیر حکمران وہی غلطیاں کرتے چلے جاتے ہیں، جو ماضی میں اقوام کی تباہی اور انسانیت کی بربادی کا سبب بنی ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت اور سرحد کی صوبائی حکومت دونوں نے سوات کے معاملے میں تاریخی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے، اور سیکڑوں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت اور ۳۰لاکھ سے زیادہ افراد کی خانہ بربادی کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔
ہم اس بات کو بڑے واشگاف انداز میں کہنا چاہتے ہیں کہ سوات اور بونیر میں طالبان یا طالبان کے نام سے مختلف افراد اور گروہوں نے جو بھی غلطیاں کی ہوں، ان پر گرفت ضروری ہے۔ مگر ان کو وجہِ جواز بناکر امن کے پورے عمل کو برباد کرکے رکھ دینے، اور امریکی خواہشات کی تسکین کے لیے اپنی فوج کو، اپنی ہی قوم کے خلاف جنگ میں جھونک دینے کا کوئی جواز نہیں۔ مذاکرات، افہام و تفہیم، جرگہ اور مفاہمت کے سوا حالات کی اصلاح کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ قوت کا استعمال دراصل سیاسی قیادت اور اس کی حکمت عملیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور ۳۰ لاکھ افراد کی خانہ بربادی اس پالیسی کے ناکام ہونے کا کھلا اظہار ہے۔
ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ حکمران، لبرل سیکولر دانش ور اور کالم نگار بار بار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: ’’مذاکرات کس سے کیے جائیں‘‘؟ پارلیمنٹ کی قرارداد نے اس کا واضح جواب دے دیا ہے کہ تمام متعلقہ عناصر سے بات چیت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے بلاشبہہ جنگ بندی ضروری ہے مگر ’پہلے ہتھیار پھینکو پھر بات کریں گے‘ کا مطالبہ سیاسی اورعسکری تاریخ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ جن کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، انھی سے بات چیت کرنا ہوتی ہے اور پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ کیا جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا سے، جسے مغربی اقوام نے دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا، مذاکرات نہیں کیے گئے؟ کیا آئرلینڈ میں آئرش جنگ جوؤں سے مذاکرات نہیں ہوئے اور معاہدات طے نہیں ہوئے؟ ۱۸سال کی اس دہشت گردی اور جنگ و جدل کے ذمہ داران جن کا برطانوی ریڈیو یا ٹی وی پر نام نہیں لیا جاسکتا تھا، وہی مذاکرات اور معاہدات کے شریک نہیں بنے، اور طرفہ تماشا یہ کہ معاہدے کے ۱۵سال گزرنے کے بعد آج تک ہتھیاروں کی واپسی کا عمل مکمل طور پر پورا نہیں ہوا۔ کیا عراق میں مسلح جماعتوں کی قیادتوں سے امریکا اور عراق کی امریکا کی پروردہ قیادت نے بات چیت نہیں کی؟ کیا افغانستان میں ہلمند کے صوبے میں برطانوی فوج نے وہاں کے طالبان سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے راستے اختیار نہیں کیے؟ کیا اس وقت امریکا میں ’اچھے طالبان‘ اور ’بُرے طالبان‘ کا فرق پیدا کرکے مذاکرات کی راہیں ہموار نہیں کی جارہیں؟ کیا ہالبروک نے گلبدین حکمت یار کو ’عالمی دہشت گرد‘ کا خطاب نہیں دیا تھا؟ اور اب انھی سے سلسلہ جنبانی شروع کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی؟
اگر پوری تاریخ مذاکرات، افہام و تفہیم اور سیاسی عمل کے ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے تو پاکستان میں جن کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، ان سے بات چیت کیوں نہیں ہوسکتی اور صرف ایک بار نہیں، بار بار کیوں نہیں ہوسکتی؟ مشکل حالات سے نکلنے کے لیے ایک نہیں سو بار بھی بات چیت کی جائے تو مضائقہ نہیں۔
اس باب میں امریکا کی پالیسی نہ صرف دوغلی ہے، بلکہ حقائق پر بھی مبنی نہیں ہے۔ اس نے نہ ویت نام سے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ لاطینی امریکا میں اپنے جارحانہ تجربات کی تلخ تاریخ سے۔ ایک طرف عراق سے افواج نکالنے کی بات کر رہا ہے، تو دوسری طرف افغانستان میں فوج بڑھانے کا عندیہ دے رہا ہے۔ سری لنکا میں سرکاری فوج کی تامل ٹائیگرز پر فوج کشی کی امریکا، برطانیہ، یورپی اقوام، حقوق انسانی کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مذمت کی، مگر دوسری طرف پاکستان میں سوات پر فوج کشی پر تعریفوں کے ڈونگرے برسائے اور ڈالروں کی بارش کرنے کی طفل تسلیاں دیں۔ طالبان کی کارروائیوں کو حکومت کی رِٹ اور ملک کی حاکمیت پر ضرب قرار دیا اور اپنے ڈرون حملوں کو ’اپنے حق دفاع‘ کا نام دیا۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ امریکی سرکاری ترجمان کے مطابق پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ کے صرف ۱۴ افراد مارے گئے، جب کہ عام معصوم شہریوں کی ہلاکت ۷۰۰ سے زیادہ ہے، یعنی ۲ فی صد کی خاطر ۹۸ فی صد معصوم انسانوں کو قتل کیا گیا اور پاکستان کی آزادی اور عزت کا کھلا مذاق اڑایا گیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو بڑے بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے۔ ملک میں امن و امان کا قیام حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اس سلسلے میں ہرجگہ ناکام رہی ہے۔ قتل و غارت ، دہشت گردی، اغوا براے تاوان، ڈاکے اور خوں ریز تصادم صرف قبائلی علاقہ جات، سوات اور مالاکنڈ ہی میں نہیں ہو رہے، پورے ملک میں ہورہے ہیں۔ کیا کراچی میں ۱۲مئی ۲۰۰۷ء اور پھر ۱۹ اپریل اور پھر طالبانائزیشن کا ہوا کھڑا کر کے ایک ہی دن میں ۴۰ افراد کو لقمۂ اجل نہیں بنایا گیا۔ مئی ۲۰۰۹ء میں قومی اسمبلی میں جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں، ان کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں جنوری ۲۰۰۸ء سے مارچ ۲۰۰۹ء تک ملک بھر میں دہشت گردی کے ۱۸۴۲ واقعات ہوئے، جن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۳۹۵ ہے۔
سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوئے ہیں، جہاں ۱۱۲۲ واقعات میں ۴۳۶ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کیا حکومت کی رِٹ کا تعلق صرف سوات اور مالاکنڈ سے ہے، اور یہ جو تازہ ترین اطلاعات امریکا سے آرہی ہیں، کہ اس کی فوجیں افغانستان کے ساتھ ساتھ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی آپریشن کے لیے داخل ہورہی ہیں اور نیوکلیر اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کے لیے پرتول رہی ہیں یا موقعے کا انتظار کر رہی ہیں۔ کیا ان سب مداخلتوں کا کوئی تعلق حکومت کی رِٹ سے نہیں ہے ؟
ہم اصولی طور پر سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کو صحیح حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ قوت کا کامیاب ترین استعمال بطور دبائو (deterrence) تو روا رکھا جاسکتا ہے مگر بطور فوج کشی نہیں۔ قانون نافذ کرنے کا کام سول اداروں کو کرنا چاہیے۔ پولیس، اسکائوٹس، لیوی اور فرنیٹرکور کا یہ منصبی کردار ہے۔ نیز سول انتظامیہ اور روایتی جرگہ اس علاقے کا ایک بہت مؤثر اور تاریخی طور پر بڑا کارگر ادارہ ہے۔ مذاکرات اور افہام و تفہیم کا عمل ان کے ذریعے آگے بڑھنا چاہیے اور کوشش ہونی چاہیے کہ تمام متعلقین کو اس میں شریک کیا جائے ،اور معاملات کو مل جل کر مشاورت کے ذریعے طے کیا جائے، جس میں اعتمادسازی کے اقدامات سے لے کر اساسی نوعیت کے ایشوز پر اتفاق راے اور فیصلوں کے نفاذ کا طریقہ اور آداب طے کیے جائیں۔
فوج کا اولیں اور اصل کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے، اپنی قوم پر گولیاں برسانا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سول معاملات میں فوج کے استعمال کے جتنے تجربات ہوئے ہیں وہ سب ناکام رہے ہیں، خواہ ان کا تعلق بلوچستان سے ہو، یا مشرقی پاکستان سے، یا قبائلی علاقہ جات سے۔ خود سوات میں یہ تیسرا فوجی آپریشن ہے جو اپنی تباہ کاری میں اپنے پیش روؤں سے بازی لے گیا ہے اور اس کے ختم ہونے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ دعویٰ کہ: ہم دہشت گردوں کو تباہ کردیں گے ایک بے سروپا دعویٰ ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش ضرور ہونی چاہیے لیکن بش اور اوباما سے لے کر مشرف اور زرداری تک جو یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ ان تمام لوگوں کو جنھیں وہ دہشت گرد قرار دیتے ہیں تباہ و برباد کر دیں گے، یہ طاقت کے ذریعے ایک ناقابلِ حصول ہدف ہے جس میں ہٹلر کے دعوؤں کی بازگشت سنی جاسکتی ہے۔ اس لب و لہجے میں نہ ہٹلر کامیاب ہوا اور نہ آج کے مزعومہ ہٹلر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فوجی حکومت ہو یا جمہوری سب کے رنگ ڈھنگ ایک ہی جیسے ہیں: دھونس، دھمکی، گولی اور تباہی۔ افسوس کہ مکالمہ، حکمت اور دل جیتنے کے راستے پر قدم بڑھانے سے یہ گھبراتے ہیں ؎
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
ہم یہ بات بھی بہت صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ سوات کے معاہدے میں بہت سے سقم تھے، مگر ان سب کے باوجود وہ صحیح سمت میں ایک درست قدم تھا اور اس پر عمل ہونا چاہیے تھا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں سرحد کی صوبائی حکومت سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ان سب کے باوجود معاہدے میں یہ صلاحیت تھی کہ سوات اور مالاکنڈ امن کی طرف پیش قدمی کرسکتے تھے۔ وفاقی حکومت اور امریکی قیادت نے، صوبائی حکومت کو اس معاہدے پر عمل کا موقع ہی نہیں دیا۔ جناب صوفی محمدصاحب کی خوش گفتاریاں اپنی جگہ اور طالبان کے کچھ عناصر کی ریشہ دوانیاں بھی امرِواقعہ ہیں، لیکن اصل ناکامی زرداری صاحب کی حکومت اور صوبائی حکومت کی ہے۔ پھر پاکستانی فوج کی قیادت نے بھی بہت جلدبازی کا مظاہرہ کیا اور گمان غالب ہے کہ یہ سب کچھ امریکا کے شدید دبائو، سیاسی بلیک میل اور معاشی رشوت کا کیا دھرا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہماری قیادت میں یہ دم خم اور یہ صلاحیت کیوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد اور اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے مطابق فیصلے کرے اور امریکا کی تابع مہمل نہ ہوجائے۔ امریکا کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے اور اس کے عالمی عزائم ایک کھلی کتاب کے مانند ہیں۔ امریکا کے اس کردار کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن اس باب میں بنیادی مجرم ہماری اپنی قیادت ہے، جو امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور اپنی قوم اور اپنے ملک کے مفادات کا خون کر رہی ہے۔ اقبال نے بجاطور پر کہا تھا ؎
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا ُتو
مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے
حالات کو خراب کرنے میں حکمرانوں کی کمزوری، بے حکمتی اور مفاد پرستی کے ساتھ امریکا کا دبائو اور ہمارے ملکی معاملات میں اس کا اس قدر دخل کہ عمومی پالیسی سازی (macro- management) سے لے کر اب تو انتظامی معاملات اور اہم مقامات پر افراد کی تعیناتی یا منتقلی تک میں جسے micro-management کہا جاتا ہے، اس کا عمل دخل ہے۔ سیاسی قیادت، فوجی ذمہ داران، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ، اہم اپوزیشن جماعتوں کے کرتا دھرتا سب تک ان کی رسائی ہے۔ ترغیب و ترہیب (carrot and stick) کا ہرحربہ وہ بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے اور سوات کے امن معاہدے، پھر سوات، دیر، بونیر، مالاکنڈ اور فاٹا میں عملاً فوج کشی میں ان کا کردار ہرحد کو پامال اور ملک کی آزادی اور سالمیت کو مخدوش کر رہا ہے۔ امریکا کی کھلی مداخلت کے ساتھ امریکا، بھارت اور اسرائیل کی خفیہ کارروائیاں اور تخریبی عناصر کے ذریعے ہماری سیاسی زندگی میں ان کی دراندازیاں ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اگر قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اب بھی نہیں اٹھتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ پھر اٹھنے اور آزادی کو بازیافت کرنے کے مواقع سے بھی محرومی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جہاں مذاکرات، افہام و تفہیم اور مسائل کے سیاسی حل کو ہم اصلاحِ احوال کا واحد مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی عمل، سفارت کاری اور معاہدہ بندی کے جو معروف اصول اور طریقے ہیں، ان کا اہتمام بھی کیا جائے۔ ورنہ تدبیر کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے سیاسی عمل مجروح اور ناکام ہوسکتا ہے۔ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا وبال سیاسی عمل پر نہیں ڈالا جاسکتا، سوال تو اس عمل کو بروے کار لانے کا ہے۔ افسوس کہ بے تدبیری، عجلت پسندی، اور دُوراندیشی سے عاری رویوں کا تمام تر ملبہ محض مذاکرات کی افادیت پر ڈال دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں اگر سوات معاہدے کے طریق کار اور متعلقین کے کردار کا جائزہ لیا جائے، تو اس کی ناکامی کے اسباب کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ پہلی چیز طالبان اور امریکا دونوں کی طرف سے دبائو اور صوبائی حکومت کی کمزور پوزیشن ہے، جسے ہر مرحلے پر دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کا ایک فکری سطح پر باہم تعاون کے لیے آمادۂ کار نہ ہونا ہے۔ صدر زرداری اس معاہدے کے پہلے دن سے مخالف تھے اور اس کے بارے میں منفی تاثر دینے میں لگے ہوئے تھے۔ بے اعتمادی اور صوبائی حکومت کے بے اثر ہونے کا تاثر بھی ان کے رویے ہی سے پیدا ہوا۔ اس پورے زمانے میں صدر کچھ کہہ رہے تھے، ان کے وزیرداخلہ کچھ اور فرما رہے تھے۔ فوجی ترجمانوں کی زبان کچھ اور صوبائی حکومت کچھ اور ہی راگ الاپ رہی تھی، بلکہ صوبائی حکومت نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے علیحدگی کی دھمکی پر معاہدے کی راہ ہموار کی۔ معاہدہ ہونے کے بعد صدرمملکت نے ۸ ہفتے تک معاہدے پر دستخط نہیں کیے، کہ جس کے بغیر وہ نہ قانونی دستاویز کا مقام حاصل کرسکتا تھا اور نہ اس کے نفاذ کو حقیقی قرار دیا جاسکتا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے معاہدے کے نفاذ کا اعلان ۱۶ فروری کو کردیا، جب کہ اس پر دستخط اپریل کے وسط میں قومی اسمبلی کے ڈرامے کے بعد کیے گئے، اور اس طرح کیے گئے کہ امریکا میں وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن سے لے کر تمام سرکاری اور فوجی ترجمانوں اور پورے میڈیا نے اس عمل پر پاکستانی حکومت کو ہتھیار ڈالنے کا طعنہ دیا۔ پھر کہا کہ اب طالبان اسلام آباد اور نیوکلیر اثاثوں پر قبضہ کرلیں گے بلکہ ہیلری کلنٹن نے تو پاکستان کے عوام تک سے اپیل کی کہ اس کے خلاف اعلانِ بغاوت کریں اور مزاحمت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔
معاہدے پر عمل درآمد کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے سبوتاژ کرنے کا منظم کام شروع ہوگیا۔ فوج کی نقل و حرکت بھی شروع ہوگئی۔ معاہدے کے چند دن کے بعد فوج کے ایک قافلے کو طالبان کی مزاحمت کی وجہ سے واپس آنا پڑا اور اس فوجی حرکت نے بے اعتمادی کی فضا کو بڑھا دیا۔ طالبان کی طرف سے بھی پے درپے ناقابلِ فہم غلطیاں اور حماقتیں ہوئیں، جن میں جناب صوفی محمد کے بیانات اور بونیر کی طرف طالبان کی نقل و حرکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ امریکا نے اپنے ترپ کے پتے بڑی ہوشیاری سے استعمال کیے۔ صدر زرداری اور افغان صدر کرزئی کو بلیک میل کی عالم گیر فضا میں واشنگٹن بلایا اور امریکا کی فوجی قیادت نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پر طرح طرح سے ’کمانڈو ایکشن‘ کیا اور بالآخر یہ معاہدہ زمین پر چکناچور ہوگیا۔
امن کی جو ننھی سی کرن روشن ہوئی تھی، وہ دم توڑ گئی۔ آسمانوں سے گولے برسنے لگے اور سوات کے بے بس شہری دربدر ہونے پر مجبور ہوگئے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے اور جو گھروں سے نہ نکل سکے ان کے گھر ہی قیدخانے اور عقوبت خانے بن گئے اور وہ بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔
سرحد حکومت کی دو اور غلطیاں بھی ہیں جن کی نشان دہی ضروری ہے۔ مرکز کا عدم تعاون بلکہ اس عمل کو درہم برہم کرنے کی کوششیں اپنی جگہ، اور امریکا کا دبائو اور ریشہ دوانیاں بھی مسلّم، مگر صوبائی حکومت نے صرف ایک شخص جناب صوفی محمد پر غیرضروری اور غیرمعمولی اعتماد کیا اور مذاکرات کے عمل میں علاقے کے تمام متعلقہ طبقوں بشمول طالبان کے نمایندوں کو شامل نہیں کیا۔ محترم صوفی محمدصاحب اس علاقے کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ ان کا علمی مقام خواہ کچھ ہو، مگر ان کا خلوص اور سادگی اور علاقے میں ان کی پذیرائی ایک جانی بوجھی حقیقت ہے۔ لیکن اس امر سے بھی سبھی واقف ہیں کہ جمہوریت وغیرہ کے بارے میں ان کے کچھ مخصوص خیالات ہیں جن کا وہ گذشتہ ۲۰سال سے اظہار کرتے رہے ہیں، یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ لیکن ان کو اشتعال دلاکر یا ایک منصوبے کے تحت ان سے کچھ باتیں اگلوائی گئیں اور پھر ان کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے انھیں معاہدے کو پرزے پرزے کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل صاف دیکھا جاسکتا ہے اور بدقسمتی سے صوبائی حکومت بھی اس کا شکار ہوگئی۔ اگر صوبائی حکومت نے تمام عناصر کو شریکِ معاہدہ کیا ہوتا تو ایک فرد کی کسی راے سے وہ فساد نہ اٹھایا جاسکتا۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف ایک تنظیم کو کالعدم کہا جا رہا ہے، دوسری طرف اس کے سربراہ سے سربراہ کی حیثیت سے معاہدہ کیا جاتا ہے۔
دوسری بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ماضی کے معاہدات اور ان کی ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ ہرمعاہدے کو امریکا نے سبوتاژ کیا، اس لیے پیش بندی کی ضرورت تھی۔ اس سے بھی زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ معاہدے میں ایک داخلی خودکار انتظام اس امر کا ہونا چاہیے تھا کہ خلاف ورزی کی صورت میں اختلافات کو رفع کرنے کا طریق کار کیا ہوگا؟ پشتون علاقے کی جرگے کی روایات کا یہ ایک حصہ ہے کہ خلاف ورزی کے تعین کا طریقہ، ثالثی اور خلاف ورزی کی سزا معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ جدید اصولِ قانون (Jurisprudence) میں جسےalternate Justice (قیامِ انصاف کا متبادل نظام )کہا جاتا ہے، اس کا ایک معروف اصول یہ ہے کہ ثالثی اور خلاف ورزیوں پر قابو پانے کا انتظام معاہدے کا حصہ ہوتا ہے۔ اس علاقے میں پچھلے ۲سال میں ۶ معاہدوں کی ناکامی کے پس منظر میں صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ معاہدے میں خلاف ورزی اور اس سے نمٹنے کے طریقے اور نظامِ کار کا اہتمام کرتی۔ لیکن جلدبازی میں یا دبائو کے تحت ان بنیادی امور کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، جس کی بڑی بھاری قیمت یہ علاقہ اور پوری قوم ادا کر رہی ہے۔
اس دلدل میں جس طرح فوج دھنستی چلی جارہی ہے، وہ قومی سلامتی اور فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور یک رنگی کے رشتے کو بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت بڑے شفاف انداز میں اور دستور کی اسکیم، جمہوری اور اسلامی آدابِ حکمرانی کے مسلّمہ اصولوں اور ضابطوں کی روشنی میں اس پورے معاملے پر غور کرے۔ جلد از جلد فوج کو سیاسی کردار اور داخلی آپریشن کی دلدل سے نکالنے کا کام انجام دیا جائے۔ طالبان سے فوج اور اس کی ایجنسیوں کے تعلق، اور خصوصیت سے گذشتہ ۶ سال کے مختلف فوجی آپریشنوں اور ان آپریشنوں کے وقت، دورانیے اور تفویض کردہ اہداف کی روشنی میں بڑے پریشان کن سوالات سامنے آرہے ہیں، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
مثال کے طور پر بار بار یہ بات کہی جاتی ہے کہ: ’’فوج کی تربیت روایتی جنگ کے لیے ہوئی ہے اور اندرونی انتشار کے مقابلے کی نہ اس کو تربیت دی گئی ہے، اور نہ اس کے پاس اس کام کے لیے مطلوبہ سازوسامان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج ان علاقوں میں فضائی قوت اور بھاری توپ خانہ استعمال کر رہی ہے‘‘۔ بظاہر ان باتوں میں وزن بھی نظر آتا ہے لیکن گہرائی میں جاکر حالات کا جائزہ لیا جائے تو تصویر کے بہت سے دوسرے رُخ بھی سامنے آتے ہیں۔ پیادہ فوج (انفنٹری) اور کمانڈو یونٹوں کی تربیت اور ان کے میدان کار کو پیش نظر رکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زمینی میدانِ جنگ کے حالات سے نمٹنا ان کا حصہ ہے۔ فضائی قوت اور بھاری توپ خانے کا استعمال جنگی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے، مجبوری نہیں۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جسے امریکا نے استعمال کیا ہے، تاکہ فوج، انسانی ٹکرائو اور مقابلے کے جواب میں تکنیکی جنگ کے ذریعے مدمقابل کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکے اور اپنے جانی نقصان کو کم سے کم رکھ سکے۔ لیکن انسانی نقطۂ نظر سے یہ بڑی ظالمانہ اور سفاکانہ حکمت عملی ہے جس کے نتیجے میں مجرموں کے مقابلے میں عام انسانی جانیں بڑے پیمانے پر ضائع ہوتی ہیں، اور بڑی بڑی آبادیاں برباد کر دی جاتی ہیں۔
فوج نے جو حکمت عملی اس علاقے میں اختیار کی ہے، اس کا منطقی تقاضا بڑے پیمانے پر جانوں کا اتلاف اور علاقوں کی بربادی ہے۔ اعتراض ملٹری آپریشن پر بھی ہے اور اس طریق کار اور حکمت عملی پر بھی، جو اختیار کی گئی ہے جس کے نتیجے میں عوام کا نقصان بڑے پیمانے پر واقع ہو رہا ہے۔ جن کو اصل نشانہ قرار دے کر آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے، وہ خود فوجی ترجمان کے بقول بچ نکلتے ہیں۔ اعتراض اس پر بھی ہے کہ یہ پورا عمل کسی قومی مشاورت اور کسی اتفاق راے کے بغیر انجام دیا جا رہا ہے۔ اگر اس کے طریق واردات کا جائزہ لیا جائے تو امریکی مطالبات سے ان کا رشتہ بہت صاف نظر آتا ہے۔ اسی طرح امریکی قیادت سے پاکستان میں یا امریکا میں ملاقاتوں کے ساتھ بھی ان کا بڑا واضح تعلق سامنے آتا ہے۔ یہ تمام چیزیں پورے عمل کو بڑا مخدوش بنا دیتی ہیں۔ طالبان اور دہشت پسندوں کے مارے جانے کے جو دعوے کیے جاتے ہیں، ان کی بھی آزاد ذرائع سے توثیق یا تردید کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔ سرکاری دعووں میں عام شہریوں اور معصوم خواتین و حضرات اور بچوں کی ہلاکت کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا، جب کہ عوامی سطح پر جو حقائق سامنے آتے ہیں، ان میں بڑا نقصان عام انسانوں ہی کا بتایا جاتا ہے، اور جو افراد ان علاقوں سے نقل مکانی کرکے آئے ہیں ان کی داستانیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اپنی ہی فوج کے ہاتھوں، اپنے بھائی، بہنوں اور بچوں کی ہلاکت اور تباہی کے احوال دیکھ اور سن کر انسان کلیجہ تھام کر رہ جاتا ہے۔
پھر اگر ان ستم زدہ انسانوں کی داستانوں کا تجزیہ کیا جائے تو بڑے پریشان کن سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور آپریشن کا ہدف بننے والے علاقے میں فوج کی چوکیاں اور مبینہ طالبان کی چوکیاں اپنے اپنے مقامات پر موجود رہتی ہیں۔ فضائی بم باری اور توپ خانے کی بم باری سے ان پر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح دہشت پسندوں کے بہت سے ٹھکانے صرف اس وقت تباہ ہوتے ہیں، جب وہ ان کو خالی کر کے دوسرے مقامات پر منتقل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہزاروں افراد کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، مگر بڑے بڑے مطلوبہ دہشت گرد ہرگرفت سے آزاد رہتے ہیں۔ وہ ایف ایم ریڈیو کہ جنھیں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ کہتے ہیں کہ ہم غیرمؤثر اور جام کرسکتے ہیں،وہ برابر آتش افشانی کرتے رہتے ہیں اور سول و فوجی قیادت اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے پاس ڈالروں کی فراوانی اور تازہ ترین اسلحے کا واویلا کیا جاتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان کی سپلائی کے راستوں کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟ اس کا عوام یا عوامی نمایندوں کو کچھ پتا نہیں ہے۔ کیا وجہ تھی کہ مقامی پولیس نے فتنے کے ابتدائی ادوار ہی میں اسے قابو کرنے کی کوشش نہیں کی؟
روزنامہ ایکسپریس ، اسلام آباد کے ایک کالم نگار فضل ربی راہی نے اپنے مضمون: ’اپنا اثاثہ کون ضائع کرتا ہے‘ کے تحت ایسے ہی واقعات کے انبار میں سے چند نکات کو سوالیہ نشان کے ساتھ پیش کیا ہے، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا:
۱- جب مولانا فضل اللہ کو اسلحہ بارود فراہم کیا جارہا تھا اور ان کے ساتھیوں کو ’ضروری ٹریننگ‘ دی جا رہی تھی تو اس وقت حساس اداروں نے کیوں اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں؟
۲- جب مولانا فضل اللہ کی سرگرمیاں روکنے میں مقامی پولیس بھی کامیاب ہوسکتی تھی تو اس وقت جوابی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ایک مقامی ایس ایچ او کے مطابق: ’’اگر اس وقت مجھے فری ہینڈ دے دیا جاتا تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وہ اپنے تمام ساتھیوں سمیت حوالات میں بند ہوتے‘‘۔ لیکن بقول ان کے انھیں سختی سے ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اس معاملے میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
۳- جب مشرف دور میں سوات کے راستے لنڈا کی چیک پوسٹ پر مبینہ طور پر اسلحے سے بھرا ہوا ایک ٹرک پکڑ لیا گیا تھا، تو کسی نے اُوپر سے احکامات جاری کردیے تھے کہ اسے بحفاظت امام ڈھیری تک پہنچنے دیا جائے۔
۴- سوات میں اس سے قبل بھی ۳ بار فوجی آپریشن چلتے رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق اپرسوات اور تحصیل خوازہ خیلہ کی بعض چیک پوسٹوں پر ’طالبان‘ کو باقاعدہ آمدورفت کی اجازت تھی، جب کہ ان ہی آرمی چیک پوسٹوں پر عام شہریوں کو خوب تنگ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ چیک پوسٹ کے قریب طالبان نے متعدد دفعہ لوگوں کو ’شرعی سزائیں‘ دیں، لیکن چیک پوسٹ پر تعینات سیکورٹی فورسز تماشا دیکھتیں اور ’کاروبارِ طالبان‘ میں کوئی مداخلت کی جرأت نہ کرتیں۔ حالانکہ اس وقت فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹر بھی محوِپرواز ہوتے، لیکن ان کی فائرنگ کا نشانہ پہاڑ ہوتے۔
۵- سابقہ آپریشنز جو قریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہے، ان میں شہری آبادی کا غیرمعمولی جانی و مالی نقصان ہوتا رہا۔ قریباً ۲ ہزار عام شہری، مارٹر گولوں اور سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ہزاروں گھر اور دکانیں تباہ ہوئیں، لاکھوں لوگوں نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کی۔ ایک سال تک سوات بھر میں کرفیو نافذ رہا، لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ سوات کے ۲۰۰ اسکولوں کو تباہ ہونے سے نہیں بچایا جاسکا۔
۶- سابق آپریشنوں میں ۵۰ طالبان بھی نہیں مارے گئے ہیں اور اس کی تصدیق نہ صرف غیرجانب دار میڈیا کرے گا، بلکہ سوات میں رہنے والے کسی بھی فرد سے پوچھا جاسکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں کتنے طالبان کی نمازِ جنازہ پڑھائی گئی ہیں؟
کالم نگار نے ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ: درج بالا حقائق کی روشنی میں سوات کے لوگ اب بھی موجودہ آپریشن کو ’ڈراما‘ سمجھتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ جس فوجی کارروائی کے لیے ۱۵ لاکھ سے زائد لوگوں کو اپنے ہی ملک میں بے گھر کرکے دربدر کیا گیا، یہ کارروائی کمانڈو ایکشن کے ذریعے چند دنوں میں بہ آسانی مکمل کی جاسکتی تھی۔ ایک حاضرسروس میجر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پاک فوج کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو محض ۶ گھنٹوں میں پورے سوات کو عسکریت پسندوں سے خالی کرسکتی ہے۔
پاک فوج کی صلاحیت کے بارے میں سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے، اور امریکا بھی اس کا سہارا لے کر پاک فوج میں ’تربیت فراہم کرنے‘ کے نام پر، اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم حال ہی میں سری لنکا کی فوج کی کارروائیوں کے بارے میں جو جائزے آئے ہیں، ان میں یہ دل چسپ اور چشم کشا بات سامنے آئی ہے کہ سری لنکا کی فوج کو داخلی بغاوت کا مقابلہ کرنے کی تربیت جن ممالک نے دی تھی، ان میں پاکستانی فوج بھی شامل ہے۔ ملاحظہ ہو، دی نیوز کی رپورٹ Pakistan's Role in Death of LITTE (۲۰ مئی ۲۰۰۹ء)۔ صرف ایک اقتباس:
سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو کچلنے میں سری لنکا کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعاون نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ تعاون ہائی ٹیک فوجی سامان کی فراہمی کی شکل میں تھا۔ یہ بات کہ سری لنکا اور پاکستان کی افواج میں تامل ٹائیگرز بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون تھا، اس کی تصدیق سری لنکا کی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر اودیا ناناکارا نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۶ء کو کی تھی کہ پاکستان اور بھارت دونوں سری لنکا کی افواج کو تامل ٹائیگرز کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے تربیت دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سری لنکا کی فوج نے دونوں ممالک سے جدید ترین ٹکنالوجی حاصل کی۔
اگر سری لنکا کی فوج کو پاکستانی فوج یہ یہ کچھ صلاحیت دے سکتی ہے تو پھر تہی دامن ہونے کا گلہ___ چہ معنی دارد؟ خود سوات کے لوگوں کا اس بارے میں کیا احساس ہے؟ اسے سوات ہی کے ایک روزنامہ آزادی (۲۲ مئی ۲۰۰۹ء) میں بی بی سی کے نمایندے کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ سوات میں فوجی کارروائی میں طالبان کی شکست، مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور کامیاب نتائج برآمد ہونے کا دعویٰ سراسر غلط ہے۔ سوات میں فوج کی کارروائی میں طالبان نہیں، بلکہ عام شہری نشانہ بن رہے ہیں۔ سوات کے ایک رہایشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سوات کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا: میں سوات میں رہتا ہوں، سوات میں طالبان ابھی تک موجود ہیں۔ حکومت میڈیا کو اجازت کیوں نہیں دیتی کہ وہ یہاں کی صورت حال سامنے لائے؟ انھوں نے کہا: حکومت کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ فوج نے کچھ علاقوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور آپریشن میں کامیابی ہورہی ہے اور دورانِ آپریشن کئی عسکریت پسند بھی ہلاک کردیے ہیں۔ یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں پر نہ تو کوئی فوج ہے اور نہ سرکاری اہل کار نظر آرہے ہیں۔ اگر کارروائی ہو بھی رہی ہے تو وہ معصوم لوگوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ اس کارروائی میں طالبان کے بجاے عام شہریوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ طالبان کے علاقے پر کنٹرول کے حوالے سے اس شخص کا کہنا تھا کہ ۱۰۰ فی صد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ میں اس بات کا یہاں پر کئی دنوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں۔ فوج کی شیلنگ [گولہ باری] کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فوج رات کے وقت آکر بم باری کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ٹیلی فون کے تاروں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ پانی۔
یہ صورت حال ۲۰، ۲۲ مئی کی ہے۔ بعد میں حالات جو بھی ہوں، ان تمام سوالات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، کہ جو خصوصیت سے گذشتہ ۵،۶ سال پر پھیلے ہوئے فوجی آپریشنوں کے تسلسل میں سامنے آئے ہیں اور جن کی مطابقت آج کی کارروائیوں سے گہری ہے۔ ہم ان تمام شبہات اور سوالیہ نشانات کی نہ توثیق کرسکتے ہیں اور نہ تردید۔ لیکن ان کا شفاف انداز میں سامنا کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں!
امریکی قیادت جن میں پہلے صدر بش اور اب صدر اوباما سب سے نمایاں ہیں۔ یہاں پاکستانی حکمران جن میں جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سب سے پیش پیش ہیں۔ اب ان آوازوں میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور مسلم لیگ ن کے قائد جناب میاں محمد نواز شریف بھی اپنی آواز ملا رہے ہیں، پورے دعوے کے ساتھ دو باتیںکہہ رہے ہیں: ایک یہ کہ پاکستان، امریکا بلکہ پوری دنیا کو اصل خطرہ انتہاپرستی اور ’دہشت گردی‘ سے ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کو پوری قوت، خصوصیت سے فوجی قوت سے ختم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ اس سلسلے میں القاعدہ اور طالبان کو خصوصی ہدف قرار دیا جا رہا ہے۔
ہم سب سے پہلے تحریکِ اسلامی کے اس اصولی اور تاریخی موقف کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں، کہ جہاں اسلام وہ دین ہے جو انسانیت کے لیے اللہ کی آخری ہدایت، اور جو زندگی کے ہرشعبے کے لیے واضح احکام اور رہنمائی فراہم کرتا ہے، وہیں تحریکِ اسلامی پہلے دن سے اس بنیادی حکمت عملی کی داعی ہے کہ زندگی کے پورے نظام میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی قوت اور جبر سے نہیں لائی جاسکتی۔ اس کے لیے قلب ونظر اور اخلاق و کردار کی تبدیلی سب سے بنیادی چیز ہے۔ اجتماعی زندگی میں قانون کا بھی ایک مقام ہے اور اس کے نفاذ کے لیے، ریاست کی قوت ناگزیر ہے۔ لیکن یہ سارا عمل الہامی ہدایت اور قانون کے فریم ورک میں انجام دیا جانا دین کا تقاضا ہے۔ پاکستان اور پوری دنیا میں اسلامی انقلاب دعوت و تبلیغ اور جمہوری، آئینی اور اخلاقی ذرائع ہی سے برپا کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی تحریک اسی جدوجہد میں مصروف ہے جسے وہ اصول اور عملی حکمت عملی دونوں اعتبار سے ضروری سمجھتی ہے۔ جہاد، اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جس پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔ البتہ جہاد کا مقصد، طریق کار اور آداب، خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کردیے ہیں، جن کا مکمل احترام ہرحال میں اور ہردور میں ضروری ہے۔
اس اصولی وضاحت کے ساتھ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کو ایک ہی حقیقت کے دو روپ قرار دینا اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ایک اسٹرے ٹیجک فاش غلطی ہے، جو حالات کو بگاڑنے کا بڑا سبب رہی ہے۔ انتہاپسندی ایک فکری عمل ہے، جس کا مقابلہ ڈنڈے اور گولی سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس چیلنج کا مقابلہ دلیل، تعلیم، مذاکرے اور مجادلے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ ایک تاریخی عمل ہے، جو ہر دور میں اور ہرتہذیب و تمدن کے درمیان رونما ہوتا رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ دو انتہائوں کے درمیان کش مکش، مبادلہ اور رد و قبول کے عمل سے عبارت ہے اور درمیان کا راستہ بھی اسی فکری اور تمدنی لین دین، سمجھوتے اور مفاہمت سے روپذیر ہوتا ہے۔
انتہاپسندی مختلف شکلوں میں آج بھی دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہے۔ کیا امریکا میں نیوکونز اور فنڈامنٹلسٹ ایک جیتی جاگتی حقیقت نہیں؟ کیا برطانیہ اور یورپ میں انتہاپسندی کی تحریکیں موجود نہیں ہیں؟ بلکہ تیزی سے غالب نظریے کو چیلنج کر رہی ہیں۔ یورپ کے کتنے ممالک ہیں جن میں انتہاپسند جماعتیں، سیاست میں کردار ادا کر رہی ہیں اور شریکِ اقتدار بھی ہیں یا شریکِ اقتدار رہی ہیں۔ کیا نازی اور فسطائی جماعتیں آج امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یونان میں موجود نہیں ہیں اور کیا خود اسرائیل میں جسے جمہوری ملک کہتے ہوئے یورپ اور امریکا کے دانش وروں اور سیاست کاروں کی زبان نہیں تھکتی، ایک نہیں، نصف درجن ایک سے ایک انتہاپسند اور متعصب جماعت موجود نہیں ہے؟ اور اس وقت بھی وہاں کی حکومت میں شریک نہیں؟ کیا دنیا میں انتہاپسندی کو کبھی قوت سے ختم کیا جاسکا ہے؟ انتہاپسندی اور دہشت گردی اگر ایک دوسرے کو متاثر کر بھی رہی ہوں، تب بھی ان کا مقابلہ، صرف ایک حکمت عملی سے نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ ڈنڈے اور گولی سے اس کا قلع قمع کرنے کو واحد طریقہ سمجھ لیا جائے۔ یہ دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ الگ حکمت عملیوں کی تشکیل اور ان پر عمل ضروری ہے۔
رہا معاملہ دہشت گردی کا تو اس سلسلے میں بھی ہم دو باتوں کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں: ایک یہ کہ حقیقی دہشت گردی کا توڑ اسی وقت ممکن ہے، جب اس کے اسباب کا صحیح صحیح تعین کرلیا جائے، اور ان اسباب کو دُور کیے بغیر دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ دہشت گردی پر گرفت دستور اور قانون کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ جنگ کے نام پر دستور، قانون، اخلاق اور مہذب معاشرے کی تمام اقدار کو پامال کرتے ہوئے، محض قوت کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کا نسخہ ہے، اسے ختم کرنے کا نہیں۔ ان حربوں کے نتیجے میں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ایک دہشت گرد مارا جاتا ہے تو ۱۰ نئے دہشت گرد پیدا کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کے بغیر کسی بھی معاشرے میں اور خاص طور پر پاکستان میں موجود دہشت گردی سے نجات ناممکن ہے۔
جہاں تک القاعدہ اور طالبان کا تعلق ہے، ان کے بارے میں بھی جذبات اور مفادات سے بالا ہوکر تمام امور کے معروضی مطالعے کی ضرورت ہے۔ القاعدہ اور طالبان دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، اور ان کو گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر افغانستان کے طالبان اور شے ہیں اور گذشتہ چند سال میں پاکستان میں طالبان کے نام پر جو تحریک وجود میں آئی ہے، وہ ایک دوسری حقیقت ہے۔ طالبان کی حقیقت سے انکار ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔ البتہ اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں طالبان ایک خاص تاریخی پس منظر میں اور حالات کی ایک خاص صورت اختیار کرلینے کی وجہ سے رونما ہوئے۔ پھر ان کا ایک کردار ہے جو اَب ۲ عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کا ایک دور وہ تھا، جب وہ افغانستان میں مجاہدین کی جماعتوں کی باہم آویزش، خانہ جنگی اور لاقانونیت کے تناظر میں وجود میں آئے، اور کچھ ممالک اور قوتوں نے اس میں ایک خاص کردار اداکیا۔ پھر ان کا ۷،۸ سال کا وہ دورِ اقتدار ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ طالبان نے افغانستان کے ۹۰ فی صد علاقے پر طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا۔ ان کے دور میں امن و امان قائم ہوا اور لوگوں کو انصاف، حتیٰ کہ کچھ طالبان کی غلطیوں یا زیادتیوں کے خلاف بھی انصاف میسر آیا۔ علاقائی سطح پر جنگ جُو لیڈروں کی تباہ کاریوں سے عوام کو نجات ملی اور افغانستان کی تاریخ میں ایک مدت کے بعد ان عناصر کو اسلحے سے پاک (de-weaponize) کیا گیا۔ جرائم میں بے پناہ کمی واقع ہوئی اور خصوصیت سے پوست کی کاشت جسے کوئی قابو نہیں کرسکا تھا، اس کا کسی تشدد کے بغیر قلع قمع کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کے منشیات کے خاتمے سے متعلق محکمے کو اعتراف کرنا پڑا کہ افغانستان کی تاریخ میں سن ۲۰۰۰-۲۰۰۱ء وہ سال ہے، جس میں پوست کی کاشت تقریباً ختم ہوئی اور ’منشیات کی تجارت‘ نے دم توڑ دیا۔
ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ طالبان کے دور کے منفی پہلو بھی ہیں، جن میں ان کے تصورِ اسلام کی تنگی اور اسلام اور پختون قبائلی روایات کا آپس میں گڈمڈ ہو جانا نمایاں ہیں۔ تعلیم اور خصوصیت سے لڑکیوں کی تعلیم اور مسلم معاشرے میں عورت کے کردار کے بارے میں ان کے خیالات اُمت مسلمہ کے معروف مسلک سے ہٹ کر تھے۔ اسی طرح عصرِحاضر کے تقاضوں اور ان کی روشنی میں ملک کی تعلیم،صحت، معیشت و صنعت، انتظامی و سیاسی ڈھانچے کی ترقی کے باب میں ان کے تصورات، اپنے حالات سے مخصوص تھے۔ دنیا کی اسلامی تحریکات کے خیالات سے ہم آہنگ نہ تھے۔ ان کے دورِ حکومت کا ایک اور پریشان کن پہلو افغانستان کی دوسری قومیتوں کے بارے میں ان کا رویہ بھی تھا، جس کی وجہ سے افغانستان کے تمام علاقوں اور جملہ قومیتوں میں ہم آہنگی اور اتفاق و اتحاد رونما نہ ہوسکا۔
ان تمام پہلوئوں کے علی الرغم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان، افغانستان کی ایک اہم قوت تھے اور ہیں۔ ان کو نظرانداز کر کے یا ان کو تباہ کرکے اور مٹادینے کے منصوبوں کے ساتھ افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ صرف افغانستان ہی میں نہیں، بلکہ اس پورے خطے میں امن کا قیام ان سے معاملہ کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس وقت افغانستان کا اصل مسئلہ ملک پر امریکی اور ناٹو افواج کا قبضہ ہے، اور افغانستان میں طالبان اس بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی تحریک کی علامت ہیں۔ یہ ایک قومی مزاحمت ہے، جس میں طالبان کے نام اور جھنڈے تلے تمام مزاحمتی قوتیں جمع ہوگئی ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک معاملات کے سیاسی حل کے لیے ضروری ہے۔
جہاں تک پاکستان کے پشتون علاقوں میں طالبان کے مختلف گروہوں کا تعلق ہے یہ ایک نیا حوالہ ہے، اور اس کو وجود میں لانے کا اصل سبب جنرل مشرف کی وہ ظالمانہ پالیسیاں ہیں، جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی فوجوں کا حلیف بننا، پاکستان کی سرزمین کو افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے استعمال کرنا اور پھر خود فاٹا، مالاکنڈ، سوات اور دیر میں پہلے امریکا کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے القاعدہ اور اس کے معاونین کے خلاف فوج کشی۔ آخرکار القاعدہ تو محض عنوان بن کر رہ گئی ہے، لیکن اب یہ جنگ پاکستانی فوج اور پاکستانیوں اور خصوصیت سے دینی قوتوں کے خلاف جنگ بن گئی ہے، جس آگ میں اس وقت ہم سب جھلس رہے ہیں۔
ان حالات سے فائدہ اُٹھاکر متعدد قوتوں نے اس جنگ میں اپنا اپنا کردار تلاش کرلیا۔ عنوان تو طالبان کا ہے، لیکن اس میں حقیقی طالبان کے علاوہ مختلف مقامی اور بیرونی گروہ شریک ہوگئے ہیں، جن میں مختلف ممالک اور قوتیں اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ معاشرے کے وہ مجرم عناصر جو اس علاقے کو اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے ایک مدت سے استعمال کر رہے تھے، وہ بھی اسی چھتری تلے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان دشمن قوتیں، خصوصیت سے بھارت، اسرائیل اور افغانستان کے وہ عناصر جو اپنی پاکستان دشمنی کے لیے جانے پہچانے جاتے ہیں، سب اس خونیں کھیل میں شریک ہیں۔ جب تک ان میں سے ہرعنصر کا الگ الگ تعین، اس کے مقاصد و اہداف، طریق کار اور کارگزاریوں کا ادراک نہ ہو، کوئی جامع حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکتی۔
دو امور نے اس پیچیدہ صورت حال کو اور بھی پیچیدہ اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ ایک وہ قوتیں اور عناصر جو ایک مدت سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہے ہیں۔ انھوں نے بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا، اور کرم ایجنسی میں خاص طور پر اور پورے علاقے بلکہ پورے ملک میں اس فتنے کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسرا پہلو زیادہ گہرا اور زیادہ اہم ہے۔ وہ یہ کہ طالبان کے طریق کار میں جو بھی غلطیاں اور سقم ہوں، اس علاقے میں جو سیاسی اور انتظامی خلا مختلف حکومتوں کی غلطیوں اور غفلتوں کی وجہ سے رونما ہوا تھا اس کی وجہ سے جو روایتی نظام وہاں قائم تھا، یعنی پولیٹیکل ایجنٹ، ملک اور جرگہ سسٹم وغیرہ وہ درہم برہم ہوگیا ہے۔ سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے کا روایتی نظام جو پولیس، اسکائوٹ اور فرنٹیر کانسٹیبلری سے عبارت تھا، غیرمؤثر ہوگیا ہے۔
جنرل مشرف کے دور میں یہ خلا اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اسے دستور اور علاقے کی ضرورت کی روشنی میں پُر کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ مذکورہ طالبان نے نہ صرف اس صورت حال کو ہوا دی، بلکہ مقامی قوانین اور بااثر طبقات کی جو گرفت تھی اور عوام کا جو استحصال وہ کر رہے تھے، اسے اپنے تصورات کے مطابق طبقاتی ہم آہنگی، مظلوم کی دادرسی، اجتماعی انصاف کی فراہمی کے ایک متبادل نظام کے تحت دُور کر کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ بلاشبہہ اس میں انھوں نے قوت کا استعمال بھی کیا، اور اپنی دانست میں جن روایات کو صحیح سمجھتے تھے ان کو اختیار کرنے کے لیے لوگوں کو مجبور بھی کیا۔ لیکن اس پورے عمل کے جلو میں جو سماجی تبدیلی، مظلوم طبقات کی بحالی اور اجتماعی عدل کی پیاس رونما ہوئی اس کے سماجی اور سیاسی مضمرات نے ہر اعتبار سے اس علاقے کے پورے تناظر کو متاثر کیا ہے۔ اندریں حالات پہلے والی جوں کی توں کیفیت (status quo) کی بحالی ناممکن ہوگئی ہے۔
آج جب طالبان کا لفظ حکومت، میڈیا اور امریکا کی عنایت سے ایک گالی بنادیا گیا ہے، اور ان کے لیے کلمۂ خیر کہنے والے کو نکّو بنایا جا رہا ہے، اس اعتراف کی ضرورت ہے کہ طالبان کی اس علاقے میں مداخلت سے جہاں قوت کے بے جا استعمال کی ایک غلط روایت قائم ہوئی ہے، کہ جس کی اصلاح کی ضرورت ہے، وہیں سماجی، اخلاقی اور معاشی اعتبار سے جو نیا ایجنڈا لوگوں کے سامنے آیا ہے، اس کا ادراک کیے بغیر حالات کی اصلاح اور امن و استحکام کا حصول ناممکن ہے___ ہم چاہتے ہیں کہ اس نکتے کی وضاحت کے لیے طالبان کے مخالفین کی تحریروں سے کچھ حقائق پیش کریں، تاکہ مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں سمجھا جاسکے۔ طالبان کو گردن زدنی قرار دینے کی جو مہم واشنگٹن سے کراچی اور اسلام آباد سے لندن تک چلائی جارہی ہے، اس کے تباہ کن ہونے اور پورے مسئلے کو قطعی طور پر ایک غیرحقیقی انداز میں پیش کرنے کی بھیانک غلطی کی اصلاح ہوسکے۔
مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو صاحبہ پر تو طالبان پسندی کا شبہہ بھی نہیں کیا جاسکتا، وہ تو لبرلزم اور جدیدیت کی علَم بردار ہیں۔ دیکھیے وہ مسئلے کے اس پہلو کے بارے میں کیا کہتی ہیں:
مسئلے کا حل زیادہ رقوم فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تسلیم کرنے میں ہے کہ طالبان سوات کے رہنے والوں کا انتخاب نہیں ہیں۔ طالبان وہاں اس لیے ہیں کہ انھوں نے وہ سڑکیں بنائیں جو کئی عشروں سے نہیں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے کم سے کم لڑکوں کے لیے تعلیم فراہم کی، جب کہ سرکاری اسکولوں میں لاکھوں مقامی طلبہ ناکام ہوئے۔ انھوں نے میڈیکل سنٹر کھولے، جب کہ سرکاری ہسپتال وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بند تھے۔ انھوں نے انصاف فراہم کیا، جب کہ عدالتوں نے بجاے عوام کے حکومت کا تحفظ کرنا شروع کر دیا۔ (Obama is Part of the Problem، نیو سٹیٹس مین، لندن، ۱۴ مئی ۲۰۰۹ء)
شیریں رحمن، پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیراطلاعات ہیں۔ ان پر بھی طالبان نوازی کا ’الزام‘ نہیں لگ سکتا۔ لیکن دیکھیے وہ بھی کیا کہہ رہی ہیں۔ دی نیوز (۲۱ مئی ۲۰۰۹ء) میں اپنے مضمون Why the IDPS Matter میں کہتی ہیں:
کسی کو یہ امید نہیں کرنا چاہیے کہ جو خاندان پاپیادہ یا کرایے کی ٹرانسپورٹ میں بونیر، سوات اور دیر سے صدمے کی کیفیت میں آرہے ہیں وہ طالبان کی، جنھوں نے ان کو قید میں رکھا، کھل کر مذمت کریں گے۔ بہت سے نجی طور پر اس خوف کی کیفیت کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ رہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت سے طالبان کے ماتحت سماجی انصاف کے امکان کی بات بھی کرتے ہیں۔
دی نیوز ہی کی ایک اور لبرل مضمون نگار کاملہ حیات اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:
ملکی سلامتی کی صورت حال نے عسکریت اور جہادی گروپوں اور سرکاری طاقتوں کے روابط میں اضافہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ریاست کے لیے کچھ مخصوص ترجیحات کا تعین بھی تھا۔ عوام کو ضروری سہولتیں فراہم نہ کرنے میں ناکامی طالبان کے بڑھنے کا کلیدی سبب ہے۔ مہاجر کیمپوں میں جو اسکول قائم کیے گئے ہیں ان میں ۴۰ سے ۵۰ فی صد بچوں نے کہا ہے کہ ان کے خاندان طالبان کے حامی ہیں خاص طور پر اس وجہ سے کہ انھوں نے انفراسٹرکچر اور سہولتوں کو بہتر بنایا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ محرومیاں اور مایوسیاں دوسری جگہوں پر بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر ہمیں اپنی بقا مطلوب ہے تو ان احساسات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت ہے کہ ریاست نئے کردار میں سامنے آئے اور عوام کی ضروریات کو اوّلیت دے۔ (The Whole Picture، کاملہ حیات، دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)
پاکستان کے سابق سفیر آصف ایزدی اپنے مضمون Drawing the Right Lesson from Swat میں مسئلے کے ان پہلوئوں پر بڑی جرأت سے اظہارِ خیال کرتے ہیں، جن پر مفادپرست اور تعصب کے پجاری پردہ ڈالتے ہیں اور سارے معاملے کو صرف ’انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں:
زرداری حکومت کے زیادہ تر فیصلوں کی طرح سوات میں فوجی آپریشن کا فیصلہ بھی دبائو کے تحت کیا گیا۔ خارجی دبائو اوباما انتظامیہ کی طرف سے آیا جسے پریشانی تھی کہ سوات دوسرے قبائلی علاقوں کی طرح القاعدہ کے لیے محفوظ جنت نہ بن جائے۔ لیکن داخلی دبائو بھی تھا۔ یہ دبائو روشن خیال اعتدال پسندوں کا اتنا نہیں تھا جو ایک لڑکی کے کوڑے لگانے پر نالاں تھے، اور نہ ان کا تھا جو فوری اور کڑے انصاف کے نظام کو من مانا سمجھتے تھے۔ فوجی ایکشن کے لیے حقیقی دبائو دراصل ان زمین داروں اور ان لوگوں کی طرف سے آیا جن کو خطرہ ہوا کہ ان کی جایدادیں طالبان کے ہاتھوں محفوظ نہ رہیں گی۔
ان کی نگاہ میں جنگ جوؤں کا اصل جرم یہ نہیں تھا کہ وہ شریعت کی تبلیغ کر رہے تھے بلکہ اسلامی مساوات کی بات بھی کر رہے تھے جو کچھ لوگوں کو طبقاتی جنگ سے مختلف نہیں لگ رہا تھا۔ طالبان نے اپنے نئے نظام کا پیشگی اندازہ اس وقت کروایا جب انھوں نے چند بڑے زمین داروں کو سوات چھوڑنے اور اپنی زمین بے زمین لوگوں کو دینے پر مجبور کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ زمرد کی کانوں پر قبضہ کیا گیا اور آمدنی کا بڑا حصہ مزدوروں کو دیا گیا۔ جنگلات کا منافع جو اس سے پہلے لکڑی مافیا اپنی جیبوں میں بھرتے تھے تقسیم کیا گیا۔ پولیس اور حکومت کے وہ اہل کار جو جاگیرداری نظام کا سہارا تھے ان کو نشانہ بنایا گیا۔ ان اقدامات سے خطرے کی گھنٹیاں نہ صرف صوبہ سرحد بلکہ پورے پاکستان میں بجنے لگیں۔ چند صاحب ِدولت کی زمینوں کی ملکیت پر حملہ کر کے جو ہمارے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا کلیدی پتھر ہے، خطرے کی سرخ لکیر عبور کرلی گئی۔ پورے نظام کو خطرے میں ڈالے بغیر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس لیے تعجب کی بات نہیں کہ ریاست نے پلٹ کر اس طرح حملہ کیا جس طرح اس نے کیا ہے۔
فوجی اقدام ان خرابیوں کا جن کی جڑیں سماجی معاشی ناانصافی میں ہیں، کوئی حل فراہم نہیں کرتا۔ موجودہ بے چینی و اضطراب کی بنیادی وجہ وہ جاگیرداری نظام ہے جو عام آدمی کو اس کی حالت ِ زار سے نجات کی کوئی اُمید نہیں دلاتا، جب کہ چند مراعات یافتہ لوگ ہی ساری دولت سمیٹ لیتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ وقت بدل چکا ہے، چاہے انھیں معلوم نہ ہو۔
اگر فوجی آپریشن طالبان کو ختم کرنے کا اپنا مقصد حاصل بھی کرلے تب بھی یہ بے چینی اور اضطراب ختم نہیں ہوگا۔ جب تک ریاست سنجیدگی سے سماجی انصاف کے مسائل کو حل نہیں کرتی، سیاسی استحکام حاصل نہیں ہوگا۔ (دی نیوز، ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)
ان حقائق کا کوئی ذکر امریکا اور پاکستان کی سیاسی و فوجی مقتدرہ قوتوں اور ان کے ہم نوا میڈیا کے واویلا میں نہیں ملے گا۔ وہاں تو صرف دہشت گردوں کو مارنے اور ان کو تباہ و برباد کرنے کی گھن گرج کی تکرار ہوتی ہے۔ لیکن اب چند مغربی صحافی بھی، ان حقائق کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہیں___ واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار پامیلا کانسٹیبل ۱۰ مئی ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں لکھتی ہے:
سوات میں شرعی عدالتوں کا مطالبہ طالبان کا فسانہ نہیں تھا بلکہ یہ سیکولر ریاست کے عدالتی نظام سے عوام کی شدید بے اطمینانی کا نتیجہ تھا۔ پورے ملک میں اس پر سست رو اور بدعنوان ہونے کی بنیاد پر تنقید کی جاتی ہے۔ جہاں مقدمے کئی عشروں تک چلتے ہیں اور بااثر لوگ اکثر پولیس کو خرید لیتے ہیں اور اپنے غریب فریقوں کے مقابلے میں مقدمات جیت لیتے ہیں۔ اسلامی عدالتیں عمومی طور پر چھوٹی، تیزرفتار اور کم خرچ ہیں۔
جگہ کی قلت کے باوجود ہم نے ان افراد کی زبان میں حقائق کے اس پہلو پر توجہ مرکوز کی ہے، جو حقیقی ہیں لیکن طالبان دشمنی اور اسلام بے زاری کے جذبات سے مغلوب ہوکر، ہمارا لبرل اور روشن خیال طبقہ اور امریکی و یورپی دانش ور اور سیاسی رہنما تو ذکر نہیں کرتے یا پھر اظہارِ حق کو اپنے مفاد سے متصادم پاتے ہیں۔ لیکن کم از کم پاکستانی قوم اور اس کی پارلیمنٹ کو تو تعصبات سے بالاہوکر تمام عوامل کا گہری نظر سے مطالعہ کرکے ایسی حکمتِ عملی بنانی چاہیے، جو پاکستان اور اس کے اپنے عوام کے مفاد میں ہو۔
پس چہ باید کرد
ہم نے جو معروضات ان صفحات میں پیش کی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ:
۱- پاکستان کی اولین ترجیح دنیا پر اور خود اپنے علاقے اور ملک پر مسلط کردہ امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ سے کنارہ کشی اور ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل و تنفیذ ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
۲- سوات، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن جلد از جلد بند ہونا چاہیے، اور ہردو علاقوں کے مسائل کا حقیقی سیاسی حل مذاکرات، افہام و تفہیم اور باہمی مشاورت سے نکالنے پر ساری توجہ، صلاحیت اور قوت کا استعمال ہونا چاہیے۔ اس میں نہ وقت کی کوئی قید ہے اور نہ مذاکرات کے بننے اور بگڑنے کی تعداد کی۔ مسئلہ سیاسی اور انسانی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے۔
۳- جہاں تک نفاذِ عدل ریگولیشن کا تعلق ہے، وہ اس پوری صورت حال کا حصہ نہیں۔ اس کا اپنا ایک مستقل وجود اور دائمی ضرورت بھی ہے۔ ان قواعد کو اپنے الفاظ اور روح کے ساتھ پورے علاقے میں نافذ ہونا چاہیے۔ جو تلخی یا تصادم پیدا ہوا ہے، اس کا اس عمل پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔
۴- اس سیاسی عمل میں ان علاقوں کے تمام عناصر کی شرکت ضروری ہے، اور بیرونی مداخلت کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔
۵- امریکا سے برابری کی بنیاد پر اپنی آزادی، نظریاتی شناخت اور قومی اور ملّی مفادات کے فریم ورک میں دوستانہ تعلقات ضرور استوار کیے جائیں، مگر افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی سے مکمل برأت کا اعلان ہو، ڈرون حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے۔ جو مراعات اور سہولتیں امریکا اور ناٹو افواج کو پاکستان کی سرزمین پر حاصل ہیں، انھیں ایک واضح طریق کار اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ختم کیا جائے۔
۶- پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد اور اس کی روشنی میں پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی کی سفارشات کی بنیاد پر ایک جامع اور مربوط حکمت عملی بنائی جائے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ۵۸ (۲-بی) اور دوسری متعلقہ دستوری ترمیمات کرکے دستور اور پارلیمنٹ کو اس حیثیت میں بحال کیا جائے جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل تھی۔
۷- نقل مکانی کرکے مہاجرت اور بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے والے اہلِ وطن کے لیے جنگی بنیادوں پر، شفاف انداز میں زندگی کی تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں، اور جلداز جلد گھروں کو واپسی کا انتظام کیا جائے، نیز ان کے نقصانات کی مکمل تلافی کی جائے۔
۸- ملک میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور عدل کی فراہمی کا جلد از جلد اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں لاپتا افراد کی فوری بازیابی اور رہائی کو اوّلیت دی جائے۔ جو ادارے اور افراد اس لاقانونیت اور ظلم کے ذمہ دار ہیں، ان پر قانون کے مطابق گرفت کی جائے تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوسکے۔
۹- قوم بجلی، پانی اور گیس کی عدم فراہمی، بے روزگاری اور غربت و ناداری اور اشیاے صرف کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے سخت تنگ ہے۔ فوری طور پر معاشی حکمت عملی کو تبدیل کیا جائے، عوام کے لیے نت نئی مشکلات پیدا کرنے کے بجاے انھیں حقیقی سہولت اور فوری سہولت دینے کا اہتمام کیا جائے۔ مفاد پرست طبقات بشمول سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کے طرزِ زندگی کو ان حدود کا پابند کیا جائے، جو اجتماعی انصاف کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔
۱۰- عوام کو تعلیم، صحت اور رہایش کی سہولتیں فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے، اور قومی پالیسی کے ہرپہلو کو اسلام اور مسلم تمدن کی روایات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے عوامی بیداری اور مؤثر سیاسی جدوجہد وقت کی اولیں ضرورت ہے۔
۱۱- سوات، دیر، بونیر اور فاٹا کے حالات میں گھرے ہونے کے باوجود بلوچستان کے مسئلے کو قرارواقعی اہمیت دی جائے اور حالات کی نزاکت کے بھرپور احساس کے ساتھ وہاں کے تمام عناصر کو مذاکرات میں شریک کر کے متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ بلوچستان کے اصل مسئلے کی تشخیص کوئی مشکل بات نہیں۔ اس پر خود پارلیمنٹ کی کمیٹی تفصیل سے غورکرچکی اور سفارشات دے چکی ہے۔ اصل مسئلہ مفاد پرست عناصر کا کردار، حکومت کی بے عملی اور بیرونی قوتوں کے تاخیری حربے اورسازشیں ہیں۔ کُل جماعتی کانفرنسیں مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا حل علاقے کے لوگوں کے ساتھ انصاف، فوجی ایکشن اور قوت کے استعمال کی حکمت عملی کو یکسر ختم کرنا اور سیاسی حل کی تلاش اور اس سے بھی زیادہ اس کے لیے فوری عملی اقدام ہے۔ دستوری ترامیم بھی اس پیکج کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں تاخیر تباہ کن ہوسکتی ہے۔ لہٰذا دونوں میدانوں، یعنی صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے اور بلوچستان میں فوری سیاسی حل اور نئے بندوبست کے اہتمام کو اولیت دینا ضروری ہے۔
چشم فلک نے یہ منظر بار بار دیکھا ہے کہ اسلام دشمن قوتیں بڑی چابک دستی سے اہلِ ایمان کے خلاف ایک چال چلتی ہیں اور مطمئن ہوتی ہیں کہ اپنے اہداف حاصل کرنے والی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایک دوسری ہی تدبیر کا اہتمام فرماتا ہے اور باطل قوتوں کے سارے اندازے اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ان کے شر کے بطن سے خیر کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور جو چیز کسی کے خواب و خیال میں نہ تھی، وہ اہلِ حق کے لیے رونما ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں تاریخ کے اس معجزاتی عمل کا بار بار ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ ہر دور میں اہلِ ایمان کی ہمتوں کو مضبوط اور تاریکی سے روشنی کے نمودار ہو جانے کی امیدوں کے چراغ روشن کیے جاسکیں۔ بنی اسرائیل کی چال بازیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے :
وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o(اٰل عمرٰن ۳:۵۴) پھر بنی اسرائیل (مسیحؑ کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے۔ جواب میں اللہ نے اپنی تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔
سورئہ انفال میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے:
وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo (الانفال ۸:۳۰) وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ جب منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ذرا ان حالات پر غور کیجیے جو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خونی یلغار سے دنیا بھر میں اور خصوصیت سے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس جنگ میں جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور خود پاکستان کی فوج کو پاکستان کے عوام کے خلاف صف آرا کر دینے سے رونما ہوئے۔ ۴ سال کی مسلسل فوج کشی اور امریکا کے ۱۰۰ سے زائدڈرون حملوں کے باوجود کسی ایک علاقے میں بھی فوجی ایکشن کامیاب نہ ہوسکا اور بالآخر مذاکرات اور سیاسی حل کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ سوات کا علاقہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں میں میدانِ کارزار بنا رہا۔ سیکڑوں افراد شہید ہوئے، ہزاروں زخمی ہوئے اور لاکھوں دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
کسے خیال تھا کہ اس علاقے میں امن کی تلاش میں بالآخر شریعت کے نفاذ کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور بش اور مشرف کی برپا کردہ جنگ کا اختتام اور آیندہ کا دروبست ایک ایسی جماعت کے توسط سے ہوگا جو سیکولرزم کی دعوے دار ہے اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں جس کی کامیابی کو ملک ہی کے نہیں دنیا بھر کے آزاد خیال اور سیکولرزم کے حامی عناصر نے دینی قوتوں کی پسپائی اور سیکولرزم اور آزاد خیالی کی فتح قرار دیا تھا۔ جس قانونی تبدیلی کا مطالبہ علاقے کے عوام ۱۹۶۹ء سے کر رہے تھے اورجس کے لیے کم از کم دو بار قانون سازی آخری مراحل تک پہنچ گئی تھی، اس کی تکمیل اور تنفیذ پیپلزپارٹی اے این پی کی صوبائی حکومت اور تحریک نفاذِ شریعت محمدی کی قیادت کی مشترک مساعی سے اور زرداری صاحب کی ۲ ماہ تک ٹال مٹول کے بعد، قومی اسمبلی کی متفقہ سفارش سے ہونا تھی۔ سارا سیکولر طبقہ آتش زیرپا ہے اور امریکا اور مغربی ممالک واویلا کر رہے ہیں لیکن جو قانون سیدھے سیدھے عوامی مطالبے اور لوگوں کی خواہش کے نتیجے میں نافذ نہ ہوسکا تھا وہ اس معجزاتی انداز میں اسمبلی کی تائید سے نافذ ہو رہا ہے ۔
سوات کی ریاست برطانوی دور میں پہلی جنگ ِ عظیم کے فوراً بعد معرضِ وجود میں آئی اور وہاں کا قانون بڑی حد تک شریعت پر مبنی تھا اور اسلامی اصولوں کے مطابق نظامِ قضا کے ذریعے نافذ تھا۔ یہ سلسلہ ۱۹۶۹ء تک چلتا رہا جب ریاست کو پاکستان میں مدغم کیا گیا اور عوام سے وعدہ کیا گیا کہ شرعی قانون کو جاری رکھا جائے گا مگر ملک کی سیکولر قیادت نے اس وعدے کے ایفا کے لیے کوئی قابلِ ذکر کوشش نہ کی جس کے نتیجے میں شریعت محمدیؐ کے قیام کا مطالبہ در و دیوار سے برابر کیا جاتا رہا اور بالآخر وہ حالات پیدا ہوئے جن میں ۱۹۹۴ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں (جب سیکولرزم کے علَم بردار وکیل جناب اقبال حیدر وزیر قانون تھے اور آفتاب احمد شیرپائو سرحد کے وزیراعلیٰ تھے) ایک مسودہ شرعی نظامِ عدل کے نفاذ کے لیے تیار کیا گیا مگر اس کے نفاذ کی نوبت نہ آئی۔ مطالبہ برابر جاری رہا اور پھر ۹۹-۱۹۹۸ء میں جناب نواز شریف کے دورِاقتدار میں سرحد کے وزیراعلیٰ جناب سردار مہتاب عباسی کی ذاتی دل چسپی سے اس مسودے پر نظرثانی کی گئی اور دینی قوتوں کی مشاورت سے قانون کو ایک واضح شکل دی گئی مگر مشرف صاحب کے انقلاب نے اس سلسلے کو درہم برہم کر دیا۔
یہ صرف قدرت کا کرشمہ ہے کہ ۲۰۰۹ء میں زرداری گیلانی حکومت کے دور میں سرحد کی اے این پی کی حکومت کی مسلسل کوشش اور اس کی اپنی ذمہ داری پر ایک معاہدۂ امن ہوا جس کا مرکزی نکتہ سوات اور مالاکنڈ کے تقریباً تمام علاقوں میں شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے قیام کا قانون حکومت اور علاقے کی دینی قوتوں کے اتفاق راے سے تیار ہوا اور زرداری صاحب کے سارے تحفظات اور امریکا کی ساری ریشہ دوانیوں کے باوجود بالآخر ۱۳ اپریل ۲۰۰۹ء کو قومی اسمبلی کی تائید سے اس کا نفاذ عمل میں آیا___ یہ تو ابھی دیکھنا ہے کہ فی الحقیقت اس پر کتنی دیانت اور اخلاصِ نیت سے عمل ہوتا ہے لیکن اس قانون پر اتفاق راے کا رونما ہونا اور پھر دستوری عمل کے مطابق اس کا منظور اور نافذ ہوجانا ایک بہت مبارک اور تاریخی اقدام ہے۔ ہم اس پر ان تمام حضرات کو کھلے دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں جن کا اس سلسلے میں کوئی بھی کردار رہا ہے اور اس توقع کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر اس پر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ پوری طرح عمل ہوتا ہے تو یہ نہ صرف اس علاقے کی قسمت کو بدلنے اور امن و انصاف کے قیام کا ذریعہ ہوگا بلکہ پورے ملک کے لیے ایک روشن مثال بھی بن سکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس قانون کے ذریعے کیا تبدیلی تجویز کی جارہی ہے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں اس میں کون سی نئی راہ اختیار کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ان خطرات کا ادراک بھی ضروری ہے جو اس تجربے کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہوسکتے ہیں، نیز اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس تجربے کو کامیاب کرنے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم انھی پہلوؤں کی طرف ضروری اشارات کرنے کی کوشش کریں گے۔
سیکولر لابی جو بھی گل افشانی کرے ، یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد صرف ایک آزاد ملک کا حصول نہیں تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ وہ آزاد ملک اسلام کی تجربہ گاہ بنے اور اس کے پورے نظامِ زندگی کو قرآن و سنت کی رہنمائی کے مطابق مرتب و منظم کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے برعظیم کے مسلمانوں کو نجات کی جس راہ کی طرف دعوت دی تھی، اس کا مرکزی نکتہ یہی نظریہ تھا اور ہندستان کے ان مسلمانوں نے جن کا تعلق مسلم اقلیتی صوبوں سے تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے، صرف اپنے ایمان اور دین کے تقاضوں کے تحت اس تحریک کی دل و جان سے تائید کی تھی اور اس کی کامیابی کے لیے عظیم قربانیاں پیش کی تھیں۔ پاکستان اور اسلام توام ہیں جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ نفاذِ شریعت کا مطالبہ آج نہیں کیا جارہا۔ یہ تحریک پاکستان کی روح تھا اور آج بھی یہی چیز پاکستان کی بقا اور ترقی کی ضامن ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اقبال، قائداعظم اور قائد کے دستِ راست لیاقت علی خاں کے ان اعترافات اور وعدوں کو ذہن میں تازہ کرلیں جو پاکستان کے مقصد اور اس کی اصل حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبۂ صدارت میں اپنے پورے تجزیے کی بنیاد ہی اس اصول پر رکھی تھی کہ: ’’اسلام کے پیش نظر ایک ایسا عالم گیر نظامِ سیاست ہے جس کی اساس وحی اور تنزیل پر ہے‘‘۔
اس خطبے میں اقبال نے صاف الفاظ میں کہا تھا:
اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، چرچ اور ریاست ایک دوسرے کی فطری تکمیل کرتے ہیں۔
ان کا ارشاد تھا:
اسلام کا مذہبی نصب العین اُس اجتماعی نظام سے نامیاتی تعلق رکھتا ہے جو وہ قائم کرتا ہے۔ ایک کے مسترد کرنے سے لامحالہ دوسرا بھی مسترد ہوجائے گا۔ اس لیے کسی پالیسی کی قومی سطح پر اس طرح تشکیل کہ اس سے اسلام کے یک جہتی کے اصول اپنی جگہ نہ رہیں، کسی مسلمان کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برعظیم میں اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے ان کی نگاہ میں ایک آزاد مسلم مملکت کا قیام ناگزیر تھا۔
ملک میں ایک تہذیبی طاقت کی حیثیت سے اسلام کی زندگی بڑی حد تک ایک مخصوص علاقے میں اس کی مرکزیت پر منحصر ہے۔
چنانچہ ان کا مطالبہ تھا:
اس لیے میں ہندستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں۔
اصل مسئلہ ہی اسلام کا تحفظ اور فروغ تھا۔ اسی لیے علامہ اقبال نے سید غلام بھیک نیرنگ کے نام اپنے ایک خط میں آزادی کے مقصد کو ان الفاظ میں واضح فرمایا:
اگر ہندستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظت ِ اسلام اس کا عنصر نہیں تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
قائداعظم نے مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا دعویٰ اسی بنیاد پر کیا:
ہم ایک علیحدہ قوم ہیں، جس کے پاس اپنا خاص تمدن و تہذیب، زبان اور ادب، فنونِ لطیفہ اور فنِ تعمیر، نام اور اصطلاحات ، اقدار کا تخیل اور تناسب کا تصور، عدالتی قانون اور اخلاق کا ضابطہ، رواج اور سنہ تاریخ اور روایات، رجحانات اور تمنائیں موجود ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کے متعلق ہم ایک خاص تصور رکھتے ہیں اور بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ہم ایک علیحدہ قوم ہیں۔ (گاندھی جناح مراسلت)
اگست ۱۹۴۱ء میں قائداعظم نے حیدرآباد دکن میں نوجوان طلبہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسلامی ریاست کو سیکولر ریاست سے ان الفاظ میں ممتاز و ممیز قرار دیا:
اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کے لیے بہرحال آپ کو علاقے اور سلطنت کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کی تنظیم، اس کی جدوجہد، اس کا رُخ اور اس کی راہ___ سب اس کے جواب ہیں۔
۲۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو صوبہ سرحد میں منعقدہ مسلم لیگ کانفرنس میں آپ نے واضح الفاظ میں فرمایا:
مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں۔
اور اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
لیگ ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کی علَم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ مسلمان وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کر سکیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سرحد اور قلات دونوں جگہ قائداعظم نے واضح الفاظ میں ان لوگوں کے الزامات کی تردید کی جو کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں قانون سازی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی احکام کے مطابق نہیں ہو گی۔ ان کا ارشاد تھا کہ ’’یہ بات قطعی طور پر غلط ہے‘‘۔
لیاقت علی خاں نے قرارداد مقاصد کی شکل میں پاکستان کے قیام کے اصل مقاصد کو مرتب اور محفوظ کردیا۔ ۵ اپریل ۱۹۴۸ء کو انھوں نے راولپنڈی میں اعلان کیا تھا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشووا رتقا ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے۔ پھر دسمبر ۱۹۴۹ء میں کوہاٹ میں مسلم لیگ کے زیراہتمام ایک جلسۂ عام میں لیاقت علی خاں نے کہا:
جہاں تک لوگوں کی اس اُمنگ کا تعلق ہے کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت ہونی چاہیے، دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد مقاصد ان کی کافی ضمانت ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم نے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم نہ کی تو پاکستان زندہ نہیں رہ سکے گا۔
عوام کی اس خواہش کا مظہر پاکستان کا دستور ہے جس میں قرارداد مقاصد نہ صرف اس کا دیباچہ ہے بلکہ دفعہ ۲ الف کی شکل میں اس کا ایک قابلِ تنفیذ حصہ ہے۔ دستور میں مرقوم ریاست کی حکمرانی کے بنیادی اصول زندگی کے ہرشعبے میں اسلام کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور دستور کی دفعات ۲۰۳ اور ۲۲۷ پورے قانونی نظام کو شریعت کے تابع اور اس سے ہم آہنگ کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔
سوات اور مالاکنڈ کے عوام قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے انھی تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جس کی طرف ایک مؤثر قدم ’’عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنے کا ریگولیشن‘‘ ہے۔ یہ ریگولیشن ایک مثبت اقدام ہے اور اس کے اہم نکات کو سمجھنا اس کی اہمیت کے ادراک کے لیے ضروری ہے۔
اس قانون کی غرض و غایت ہی یہ بتائی گئی ہے کہ ’’قبائلی علاقوں اور سابق ریاست امب کے سوا شمال مغربی سرحدی صوبہ کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عنوان ’’شریعۃ نظام عدل ریگولیشن ۲۰۰۹ء‘‘ ہے۔
اس قانون کی اصل اہمیت اور منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس طریقے کے علاوہ جو اَب تک پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے اختیار کیا گیا ہے یعنی ’نفاذ اسلام بذریعہ قانون سازی‘ اب اس کے ساتھ ساتھ ’نفاذِ اسلام بذریعہ نظامِ قضا‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت پانچ سطحوں پر مشتمل جس نظامِ قضا کو قائم کیا جا رہا ہے وہ ملکی قانون کے طور پر نفاذ کے ساتھ ان تمام امور پر بھی حاوی ہے جو شریعت کے دائرے میں آتے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی متعین قانون موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں فقہ کی تدوین کے علی الرغم نفاذِ اسلام کا ایک اہم ترین ذریعہ نظامِ قضا ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایت کا اہم سرمایہ ججوں کے بنائے ہوئے قوانین پر مشتمل ہے۔ ریاستی قانون سازی کے ذریعے نفاذِ اسلام کا تجربہ ایک نیا تجربہ تھا اور کم از کم پاکستان کی حد تک اس کے اثرات اور نتائج بہت زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ اس پس منظر میں سوات اور مالاکنڈ کے لیے بنایا جانے والا حالیہ قانون ایک اہم تجربے کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ زرداری صاحب اور خود اے این پی کی قیادت نفاذِ شریعت کے پہلوئوں پر پردہ ڈالنے اور نظامِ عدل اور قیامِ امن کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو یا ان کی کم علمی کا مظہر ہے یا اس سے بھی زیادہ سنجیدہ اور تباہ کن چیز،یعنی علمی بددیانتی کا۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کے چند اہم پہلوئوں کو قوم کے سامنے بلاکم و کاست لایا جائے:
۱- نفاذِ شریعت اور قیامِ امن کے لیے ایک مربوط اور خود مکتفی نظام وضع کیا گیا ہے جس کی پانچ سطحیں ہیں اور اپیل کے لیے دو ادارے بنائے گئے ہیں:
۲- شریعت کی تعریف ماقبل کی تمام مساعی کے مقابلے میں زیادہ متعین طور پر کی گئی ہے، یعنی شریعت سے اسلام کے احکام مراد ہیں جیساکہ قرآن اور سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس میں بیان کی گئے ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک اجماع اور قیاس کا واضح اضافہ پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔ دستور میں صرف قرآن و سنت کا ذکر ہے اور یہی صورت ۱۹۹۱ء کے نفاذِ شریعہ ایکٹ میں ہے۔ نیز ہماری نگاہ سے اس علاقے کے بارے میں جو مسوداتِ قانون گزرے ہیں یعنی ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۹ء کے مسودے، ان میں اجماع اور قیاس کا ذکر نہیں تھا۔ علماے کرام دلائلِ شریعہ سے استنباط احکام کی وضاحت کی ضرورت کو بیان کرتے رہے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اجماع اور قیاس کو بھی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔
۳- اس قانون میں خلافِ قرآن و سنت قوانین کی خود بخود منسوخی کے بارے میں ایک بہت واضح اعلان ہے جو بہت اہم اقدام ہے۔ اس کی دفعہ چار میں وضاحت موجود ہے کہ اس ریگولیشن کے نفاذ سے پہلے اس مذکورہ علاقے میں قرآن مجید اور سنت ِ رسولؐ سے متصادم کوئی بھی نافذالعمل قانون، دستاویز، رواج یا دستور یا کوئی بھی ایسی صورت، اس ریگولیشن کے آغازِ نفاذ سے کالعدم متصور ہوگی۔
۴- شریعت کو بالاتر قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ عدالتوں کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ فیصلے صرف شریعت کے مطابق کیے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو، دفعہ ۹ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ:
قاضی یا انتظامی مجسٹریٹ مقدمات چلانے اور ان کے تصفیے کے لیے طریق کار اور کارروائی کی غرض سے قرآن مجید، سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس سے رہنمائی حاصل کرے گا اور ان کا فیصلہ شریعت کے مطابق کرے گا۔ قاضی اور انتظامی مجسٹریٹ قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے بیان اور تشریح کے مسلّمہ اصولوں کی پیروی کرے گا اور اس مقصد کے لیے اسلام کے مستند فقہا کے بیانات اور آرا کو بھی مدنظر رکھے گا۔
انتظامی مجسٹریٹ بھی دفعہ ۷ کے تحت ’اپنے فرائض اور ذمہ داریاں‘ شریعت کے مسلّمہ اصولوں اور مذکورہ علاقے میں فی الوقت نافذالعمل دیگر قوانین کے مطابق انجام دیں گے۔
۵- مصالحت کا ایک نظام تجویز کیا گیا ہے جو بڑا مفید اضافہ ہے اور مقدمات اور تنازعات کو جلد نمٹانے کے لیے ایک کارگر نسخہ ہے جسے آج مغربی دنیا میں بھی’متبادل انصاف‘ کے عنوان سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس میدان میں بھی شریعت سے مطابقت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نیز اعلیٰ عدالت کو شریعت سے عدمِ مطابقت کی صورت میں مصلح یا مصلحین کے تصفیے پر نظرثانی یا تنسیخ کا اختیار دیا گیا ہے۔
۶- اس قانون میں دستور کی دفعہ ۲۲۷ کی طرح شخصی معاملات کے سلسلے میں ہر مکتب فکر کے پیروکاروں کے لیے ان کے اپنے مسلک کے مطابق معاملات کے طے کیے جانے کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس طرح جو تنوع مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
۷- غیرمسلموں کو ان کے شخصی قانون کے سلسلے میں یہ حق دیا گیا ہے کہ ان کے مقدمات ان کے اپنے متعلقہ پرسنل لا کے مطابق چلائے جائیں گے اور ان کا فیصلہ اس کے مطابق کیا جائے گا۔ شریعت نے جو آزادی غیرمسلموں کو دی ہے، اس کا اس قانون میں پورا اہتمام کیا گیا ہے۔
۸- وکلا اور معاونین عدالت کے سلسلے میں واضح بیان اس قانون میں نہیں لیکن اس کے خلاف بھی کوئی بندش موجود نہیں۔ بلکہ دفعہ ۱۵ میں عدالتوں کی امداد و تعاون کا جس طرح ذکر کیا گیا ہے اس میں مقدمات میں وکلا یا دوسرے معاونین کی خدمات کے لیے گنجایش موجود ہے۔
۹- عدالت کی زبان کے باب میں بھی پہلی مرتبہ اُردو اور انگریزی کے ساتھ پشتو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی ۱۹۹۹ء کے مسودے پر ایک اضافہ ہے۔
۱۰- مقدمات کے جلدی فیصلے کے لیے متعدد دفعات میں ضروری قواعد و ضوابط اور ہدایات موجود ہیں اور تاخیری حربے استعمال کرنے پر تعزیرات بھی لاگو کی گئی ہیں۔ نیز دیوانی مقدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ ۶ ماہ اور فوجداری کے لیے ۴ ماہ کی مدت متعین کی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو جلد انصاف میسر آسکے گا۔
۱۱- اس قانون کا ایک اور بڑا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان کے ۹۴ قوانین کا اطلاق اس علاقے پر کیا گیا ہے اور اس طرح جہاں اس علاقے میں شریعت کے نفاذ کا اہتمام کیا گیا ہے وہیں ان قوانین کی توسیع کے ذریعے اس علاقے کے قانون اور معاملات کو پاکستان کے باقی نظام سے ایک حد تک ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان قوانین میں بہت سے وہ قوانین بھی شامل ہیں جن کے ذریعے اس علاقے میں باقاعدہ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوسکیں گی اور سیاسی پارٹیوں کا ایکٹ نافذ العمل ہوجائے گا۔
یہ متذکرہ بالا گیارہ پہلو ایسے ہیں جو اس قانون کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتے ہیں۔
اس قانون پر جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں ان کے تین پہلو ہیں:
اعتراضات کی ایک قسم وہ ہے جو ان حضرات، اداروں اور حکومتوں کی طرف سے آرہے ہیں جو شریعت ہی کے خلاف ہیں اور شریعت کے نفاذ کو اپنے زعم میں حقوقِ انسانی کے خلاف اور جنس کی بنیاد پر امتیاز (gender discrimination) کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی مخالفت اس قانون سے نہیں، خود شریعت سے ہے۔ ان کو ہمارا جواب یہ ہے شریعت مسلمانوں کے لیے کوئی بیرونی شے یا باہر سے، یا جبر سے مسلط کی جانے والی چیز نہیں ہے بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضا اور ہماری آرزوئوں اور اُمنگوں کی تکمیل ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں کیے گئے راے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ساری خرابیوں کے باوجود ۹۰ فی صد سے زیادہ مسلمان اسلام ہی کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیں اور مسلمان مرد اور خواتین، بوڑھے اور جوان بلاتفریق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں اور احکام کے مطابق چاہتے ہیں۔ پاکستان کے اور مسلم دنیا کے ۷۲ ممالک کے مسلمانوں کی اکثریت شریعت کو قانون کا واحد سرچشمہ (only source of law) قرار دیتی ہے۔ اگر اس میں ان افراد کو شامل کرلیا جائے جو شریعت کو ’ایک سرچشمۂ قانون‘ (one source of law) کہتے ہیں تو یہ تعداد ۸۰ سے ۹۰فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔۱؎ جوحضرات اپنے کو آزادی کا پرستار اور جمہوریت پسند کہتے ہیں ان کو اتنا تو تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنی آزاد مرضی اور قلبی اطمینان کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق دیکھنا چاہتی ہے تو اس ۱۰ فی صد لبرل اقلیت کو کیا حق ہے کہ ان پر اپنی راے مسلط کرے اور مغرب کی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی حکومتوں کو کیا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی خواہشات اور عزائم کو یک طرفہ طور پر رد (ویٹو) کریں۔ یہ فسطائی ذہنیت ہے، اس کا جمہوریت سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔
بلاشبہہ جمہور مسلمین کے دل کی آواز شریعت کا نفاذ ہے۔ جو جمہوریت کے دعوے دار ہیں انھیں صرف جمہور کی خواہش اور ارادے کا احترام کرنا چاہیے لیکن جہاں تک معاملہ مسلمانوں کا ہے، تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ مسلمان نام ہی اس مرد یا عورت کا ہے جو اپنی مرضی اور ارادے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے تابع کرتا ہے اور اپنی زندگی کو اس قانون کے مطابق ڈھالتا ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ قرآن کا فیصلہ بہت صاف اور واضح ہے:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ… بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ… فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (المائدہ ۵:۴۴-۴۵ و ۴۷) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں… وہی فاسق ہیں۔
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی ہدایت ہے جو پوری اُمت کے لیے سنت ِ رسولؐ ہے کہ وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ (المائدہ ۵:۴۹) پس اے نبیؐ، تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
اور یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رہنی چاہیے کہ شریعت اور انصاف ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ شریعت کے بغیر انصاف ممکن نہیں اور انصاف کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب شریعت حَکم ہو۔ شریعت اور انصاف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ ط اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوںاور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔
نبی پاکؐ کو مخاطب کرتے ہوئے (اُن کی وساطت سے) اللہ تعالیٰ نے پوری اُمت کے سامنے اپنے قانون اور عدل کے رشتے کو اس طرح واضح فرمایا:
فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمُ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۵) اس لیے اے محمدؐ! اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو اور ان سے کہہ دو کہ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔
قرآن اس مضمون سے بھرا پڑا ہے اور اس سلسلے میں کسی مسلمان کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ اشتباہ نہیں ہوسکتا کہ حقیقی اسلامی زندگی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار شریعت کے مطابق اور شریعت کے ذریعے انصاف کے قیام پر ہے۔ اس سلسلے میں چھوٹا ہو یا بڑا، جو اقدام بھی کیا جائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کو پورا کرنے اور دینِ حق کے تقاضوں کو پورا کرنے کا ذریعہ ہو۔
اعتراضات کی دوسری کھیپ کا تعلق اس مفروضے سے ہے کہ ایک ملک میں ایک سے زیادہ قانونی نظام نہیں چل سکتے۔ یہ قانون ایک متوازی نظام قانون مسلط کرنے کی کوشش ہے جو قابلِ قبول نہیں۔
ہم اس اعتراض کو اس لیے قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ جس مفروضے پر اس کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں۔ پاکستان میں ایک دستور ہے جو پورے ملک پر حاوی ہے۔ اس دستور میں اس علاقے کے لیے قانون اور قانون سازی کا ایک مختلف طریقہ موجود ہے۔ انگریز کے زمانے میں یہاں کا قانون، باقی ملک سے مختلف تھا اور اس پر کسی کو تناقض اور دو نظاموں کے ٹکرائو کا خیال نہیں آیا۔ شریعت پر مبنی نظامِ قضا خواہ جزوی شکل ہی میں تھا مگر برطانوی دور میں ایک نہیں متعدد ریاستوں اور علاقوں میں موجود تھا اور اسے معتبر تصور کیا گیا۔ خود پاکستان بننے کے بعد سوات اور قلات میں ایک عرصے تک قضا کا نظام شرعی بنیادوں پر کام کرتا رہا اور کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا بلکہ لوگ خوش اور مطمئن تھے۔ آج بھی آزاد کشمیر میں قاضیوں کا نظام موجود ہے اور وہ عدالتی نظام کے حصے کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ آج تک قبائلی علاقے میں FCR جیسا جنگل کا قانون موجود رہا اور دُہرے نظامِ عدل کا واویلا نہیں کیا گیا۔ پھر اب یہ آہ و بکا کیوں ہے؟ کیا صرف شریعت کی وجہ سے یہ آوازیں اٹھائی جارہی ہیں؟
برطانیہ کے عدالتی نظام کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہاں کئی سو سال تک common law courts اور equity courts شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں۔ امریکا ایک فیڈریشن ہے اور اس کی مختلف ریاستوں میں آج بھی دیوانی اور فوج داری دونوں دائروں میں مختلف قوانین کی عمل داری ہے اور علاقائی حالات، رسم و رواج اور تہذیبی اور ثقافتی فرق کی بنیاد پر قوانین میں فرق بلکہ تضاد تک ہے، حتیٰ کہ امریکا کی نصف ریاستوں میں سزاے موت رائج ہے، جب کہ بقیہ نصف میں اسے ختم کردیا گیاہے۔
یہ تو صرف قانون میں تنوع کا مسئلہ ہے۔ چین نے تو ایک ملک اور دو نظاموں کی کامیاب مثال قائم کی ہے اور چین اور ہانگ کانگ میں دو طرح کے نظام اور دو قسم کے قوانین لاگو ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان اعتراضات کی وجہ قانون میں تنوع نہیں، شریعت سے مخاصمت ہے۔ اگر ان حضرات کو ایک نظامِ قانون کی اتنی ہی فکر ہے تو اس پر غور کیوں نہ کیا جائے کہ پورے ملک میں شریعت کے قانون کو یکساں طور پر نافذ کیا جائے۔ آخر دستور تو پاکستان کو اسلامی ری پبلک قرار دیتا ہے، اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیتا ہے اور دفعہ ۲۲۷ کے تحت پورے قانونی نظام کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کا تصور دیتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کے ۴ ہزار سے زیادہ قوانین کا جائزہ لے کر ان کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کی سفارشات مرتب کر لی ہیں۔ پھر انتظار کس بات کا ہے؟ ہم بجاطور پر توقع رکھتے ہیں کہ عوام کے جذبات اور مطالبات کا احترام کرتے ہوئے پورے ملک میں شریعت کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ سوات میں اس نظام کی کامیابی سے پورے ملک کو اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کا موقع اور تحریک ملے گی۔
تحفظات کا تیسرا حصہ ان امور سے متعلق ہے جو اس قانون کے کامیابی سے نافذ ہونے کی راہ کی مشکلات کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں:
پہلی چیز کا تعلق نیت اور ارادے سے ہے، بلاشبہہ ان علاقوں کے عوام دل کی گہرائیوں سے اس نظام کو چاہتے ہیں اور اس سے بڑی توقعات رکھتے ہیں لیکن ہمیں بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذمہ دار ترین افراد نہ صرف بددلی کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ بددیانتی کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ شریعت کے پہلو کو یا تو دبایا جاتا ہے یا اسے کم کر کے بتایا جا رہا ہے، جب کہ وہاں کے عوام کی نگاہ میں اگر کسی چیز میں کشش ہے تو وہ شریعت میں ہے۔ جناب زرداری صاحب اور جناب اسفندیارولی علی الاعلان بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہ نظام عدل سے متعلق ہے حالانکہ اس قانون کی امتیازی حیثیت ہی یہ ہے کہ یہ شریعت پر مبنی نظامِ عدل کا قیام چاہتا ہے، محض عدل کا نہیں۔ پھر امن کے قیام کے پہلو کو شرط بتایا جا رہا ہے، جب کہ اس قانون کی روح کے مطابق اس کے نفاذ کا فطری نتیجہ ’امن‘ ہوگا۔ اس لیے یہ مشروط نہیں ہے۔
دوسری چیز بیرونی دبائو اور سازشیں ہیں جو پورے زور و شور سے کارفرما ہیں۔ یہ ہمارے معاملات میں مداخلت ہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ جس طرح ہماری حکومتیں سیاسی اور معاشی معاملات میں بیرونی دبائو کا شکار ہوکر بڑی طاقتوں کی بلیک میلنگ کے آگے سپر ڈال رہی ہیں، اسی طرح شریعت کے معاملے میں بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ہمیں خطرہ ہے کہ اگر یہ ریشہ دوانیاں راہ پاتی ہیں تو اس قانون پر عمل درآمد متاثر ہوگا جس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی دبائو میں نہ آئے اور اس قانون اور اس کے پیچھے کیے جانے والے معاہدے پر دیانت اور خلوص سے عمل کرے۔
اگر قومی اسمبلی نے اس قانون کی متفقہ طور پر سفارش کی ہے تو حکومت کو پارلیمنٹ کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں جو ڈراما رچایا ہے وہ ناقابلِ فہم ہے۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی نے بھی اس مسئلے پر اپنی متفقہ راے دی ہے اور ایم کیو ایم کے نمایندے نے ان متفقہ سفارشات کی تائید کی ہے۔ ہم اس سلسلے میں کمیٹی کی سفارشات کو پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام ان لوگوں کی سیاسی بازی گری کو بے حجاب دیکھ سکیں۔ کمیٹی نے پارلیمنٹ کی قرارداد کے نکتہ نمبر ۱۱ پر اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا ہے:
حکومت کو سوات میں امن حاصل کرنے کے لیے این ڈبلیو ایف پی (پختون خواہ) کی صوبائی حکومت کے ذریعے درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
ا- فوج کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے تبدیل کردیا جائے اور جدید ترین رسل و رسائل اور دیگر آلات کی ضروریات پوری کر کے ان کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔
ج- حالیہ امن معاہدے کے مطابق وفاقی حکومت/ صدر، دونوں کو مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ عدل ضوابط کو اپنے مفہوم اور روح کے مطابق فی الفور منظوری دینا اور نافذ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد حکومت کو سوات میں دیرپا امن حاصل کرنے کے لیے پیش قدمی کرتے ہوئے ایک مکالمے پر عمل شروع کرنا چاہیے۔
سیاسی قیادت کے صحیح رویے اور مخلصانہ تعاون اور بیرونی دبائو اور مخصوص مفادات کے لیے کام کرنے والے عناصر کی کارگزاریوں کے مقابلے کے ساتھ جو کام حکومت اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو کرنا چاہیے وہ ایسے قاضی حضرات کا تقرر ہے جو علم و تقویٰ کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں اور ہرقسم کے دبائو کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس قانون کی کامیابی کا انحصار اس قانون پر عمل کرنے اور کرانے والے افراد کے خلوص، دیانت اور صلاحیت پر ہوگا اور یہ بڑا کٹھن اور فیصلہ کن امر ہے۔ اس لیے جزوی اور غیرمتعلقہ بحثوں اور کارروائیوں سے بچتے ہوئے اس نظام کی صحیح بنیادوں پر تشکیل اور اس کی تقویت کو اولین اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری نگاہ میں ایک مبہم امر اس نظام کی اپیل کی اعلیٰ عدالتیں ہیں۔ جس شکل میں دارالقضا اور دارالدار القضا کو اس قانون میں رکھا گیا ہے وہ نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے لیکن اس کے لیے دستور کے تقاضوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ ۱۹۹۹ء کے قانون میں وفاقی شرعی عدالت کو اپیل سننے کا اختیار دینے کی تجویز تھی جسے اب تبدیل کردیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اختیارات ان نئی عدالتوں کو دینے کے لیے کیا اس قانون سے زیادہ کسی مزید دفعہ کی ضرورت ہے۔ کیا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے قوانین میں اس کے لیے ترامیم کرنا ہوں گی یا اس کے لیے دستوری ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
اس پہلو پر ہمدردانہ غور کرنے اور راہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ پھر ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ شریعت کے نفاذ کا عمل صرف قضا کے ذریعے مکمل نہیں ہوسکتا۔ قضا کا حصہ بڑا اہم ہے لیکن وہ ایک حصہ ہے، پورا عمل نہیں۔اس کے لیے تعلیم، ذرائع ابلاغ، حکومت، انتظامیہ، سیاسی جماعتوں اور دینی قوتوں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور سب مل کر ہی شریعت کے قیام کی راہ استوار کرسکتے ہیں۔ شریعت کا تعلق نظامِ عقائد و عبادات سے ہی نہیں، زندگی کے ہر شعبے سے ہے۔
شریعت کا ایک بڑا حصہ خود عمل کرنے کے لیے ہے۔دوسرے حصے کے نفاذ کا انحصار خاندان، تعلیم اور معاشرے پر ہے۔ ایک تیسرے حصے کا تعلق حکومت کی پالیسیوں سے ہے، اور پھر ایک اہم حصے کا تعلق قانون اور نظامِ قضا سے ہے۔ شریعت کا نفاذ ان سب پہلوؤں پر بہ یک وقت کام اور ان کے درمیان ربط اور ہم آہنگی سے ممکن ہے۔ ان میں سے کوئی بھی تنہا مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا۔ اس کے لیے کلّی اور ضمنیات پر مبنی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ہماری خواہش اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی دعا ہے کہ حکومت، عوام، انتظامیہ اور سیاسی اور دینی قوتیں سب شریعت کے نفاذ کی کوشش میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور اس تجربے کی کامیابی کے لیے دل و جان سے مصروف ہوجائیں۔ پھر اللہ کی تائید بھی حاصل ہوگی اور تمام مساعی میں برکت کی کیفیت بھی رونما ہوگی۔
ذاتی اور گروہی مفادات اور سیاسی اور جماعتی مصالح سے بالا ہوکر اس قانون اور اس پروگرام کو کامیاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوام کی شرکت اورتعاون بھی ازبس ضروری ہے۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد ہم سب ایک بہت بڑے امتحان میں داخل ہوگئے ہیں اور اگر ہم اِس امتحان میں پورے اُترتے ہیں تو دنیا میں بھی اس کے دُور رس اثرات ہوں گے اور آخرت میں بھی نجات ہمارا مقدر بنے گی۔ کامیابی کے حصول کے سوا ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں۔ اس لیے ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے پر الزامات کی لعنت سے نجات پاکر پُرخلوص جدوجہد اور افہام و تفہیم کے ذریعے شریعت کے سایے میں حقیقی عدل و انصاف کے قیام کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
مارچ کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء وہ تاریخی دن ہے جب برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے قرارداد پاکستان کی شکل میں اپنی سیاسی منزل کا تعین کیا اور قائداعظمؒ کی قیادت میں ۷سالہ جدوجہد کے نتیجے میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی آزاد ریاست وجود میں آئی۔ دستور ساز اسمبلی نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد کی شکل میں اس ریاست کا نظریاتی اور سیاسی کردارطے کردیا جو اَب پاکستان کے دستور کا صرف دیباچہ ہی نہیں بلکہ اس کی ایک قابلِ عمل (operational ) شق (دفعہ ۲-الف) کی حیثیت رکھتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوراً ہی بعد مفاد پرست طبقات نے وطنِ عزیز کو ایک ایسی جاں گسل کش مکش میں مبتلا کردیا جس کے نتیجے میں پہلے دستور کے بننے میں ۹ سال لگ گئے۔ پھر دستوروں کے بننے اور بگڑنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس کی گرفت سے ملک آج تک نہیں نکل سکا۔ ۱۹۵۴ء میں ایک سول سرونٹ غلام محمد نے فوج کے سربراہ کی مدد سے ملک کی جمہوری بساط کو لپیٹ دیا اور اس وقت کی عدالتِ عظمیٰ کے ذریعے، جس کے سربراہ جسٹس محمدمنیر تھے، جمہوری عمل کو درہم برہم کر کے اسے حکمرانوں کے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا راستہ کھول دیا اور ملک کو قانون کی حکمرانی سے محروم کردیا۔
۱۹۵۳ء میں منتخب وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو معزول کیا گیا، ۱۹۵۴ء میں دستور ساز اسمبلی ہی کو ختم کردیا گیا، پھر ۱۹۵۶ء کے دستور کو اکتوبر ۱۹۵۸ء میں پارہ پارہ کردیا گیا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ۱۹۵۴ء سے لے کر نومبر ۲۰۰۷ء تک جاری رہا۔ سیاسی شاطر، فوجی طالع آزما اور نظریۂ ضرورت کے علَم بردار ججوں کے ایک ٹولے کی ملی بھگت سے بار بار دستوری نظام کی بساط کو لپیٹنے اور اداروں کی تباہی کا خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ۱۹۶۹ء-۱۹۶۸ء اور ۱۹۷۷ء میں آمرانہ نظام کے خلاف عوامی تحریکات چلیں لیکن وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکیں اور جرنیلوں اور ججوں کے گٹھ جوڑ سے ہربار جمہوری عمل کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ اگر کچھ ججوں نے جرنیلوں کے نافذ کردہ پی سی او (Provisional Constitution Order) سے اختلاف کیا تو انھیں زبردستی عدالتوں سے فارغ کردیا گیا اور کچھ دوسرے ججوں نے فوجی آمروں کے اقدام کو نہ صرف سندِجواز عطا کی بلکہ ان کو دستور میں من مانی ترامیم کرنے کے حق تک سے سرفراز فرما دیا۔
۶۰ سال پر پھیلا ہوا یہ خطرناک کھیل ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو ایک نئے دور میں داخل ہوا جب اس وقت کے چیف جسٹس نے فوجی حکمران کے عدلیہ پر شب خون مارنے کے اقدام کو چیلنج کیا اور وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کی معتدبہ تعداد نے ان کا ساتھ دیا اور ایک ایسی اصولی عوامی جمہوری تحریک وجود میں آئی جس نے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور دستور کی بالادستی کو اپنا ہدف بنایا۔ ۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہونے والی یہ تحریک دو سال کی جاں گسل کش مکش کے بعد ۱۶مارچ ۲۰۰۹ء کو کامیابی کی پہلی منزل سے ہم کنار ہوئی اور اس اعتبار سے مارچ کی ۱۶تاریخ، ملک کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تحریک اور اس کی اولیں کامیابی کی اصل حقیقت اور اہمیت کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کے فروغ اور پاکستان کے حقیقی تصور کے حصول کا انحصار، اس تحریک کے اگلے مراحل کی کامیابی پر ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ نظام کے خلاف عوامی جذبات کا لاوا تو اُسی وقت سے پک رہا تھا جب اس نے قوم سے وعدے کے باوجود، صریح وعدہ شکنی کرتے ہوئے یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو فوجی عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا اور جو جمہوری عمل ۲۰۰۲ء کے انتخابات سے شروع ہوا تھا، وہ یک دم پٹڑی سے اُتر گیا۔ چونکہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو عوام کے جذبات و احساسات کے خلاف نائن الیون کے بعد امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیا تھا اسی لیے اسے امریکا اور مغربی اقوام کی مکمل تائید حاصل رہی اور امریکا، فوجی حکمران اور اس کے ساتھیوں کی ملی بھگت سے ملک میں جمہوری عمل کو ناکام کردیا گیا۔ اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ کو موم کی ناک بنا دیا تھا اور اپنے حسبِ منشا جدھر چاہتا تھا، اسے موڑ دیتا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے سپریم کورٹ اور اس وقت کے چیف جسٹس کو، جو ماضی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دے سکے تھے، یہ توفیق بخشی کہ انھوں نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے آمرِوقت کے اقدامات پر گرفت شروع کی۔ اسٹیل مِل کی نج کاری اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عدالت کی کوششوں نے فوجی آمر کو زچ کر دیا اور اس نے ۹ مارچ کو چیف جسٹس کی معزولی کی شکل میں نظامِ عدل پر ایک کاری ضرب لگائی۔ اسے یقین تھا کہ اس کے اِس اقدام سے سرتابی کی جرأت کوئی بھی نہیں کرسکے گا لیکن چیف جسٹس نے طاقت کے نشے میں دھت جرنیل کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور پوری وکلا برادری اور عوامی قوتوں نے اس کا ساتھ دیا۔ وکلا کی تحریک نے جلد ایک حقیقی اور ملک گیر عوامی تحریک کی شکل اختیار کر کے حکمرانوں کے استبدادی ہتھکنڈوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔
جماعت اسلامی نے ۱۲ مارچ ۲۰۰۷ء کو اسلام آباد میں کُل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا اور جنرل پرویز مشرف کی مٹھی میں بند پارٹیوں کو چھوڑ کر سب سیاسی اور دینی قوتوں کو جمع کرکے انھیں وکلا کی تحریک میں شرکت کی دعوت دی۔ معاشرے کی ان تین قوتوں___ وکلا برادری ، سول سوسائٹی اور سیاسی و دینی جماعتوں کے اشتراک سے، وکلا کی قیادت میں برپا ہونے والی اس تحریک کے نتیجے میں ۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کو عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے ذریعے چیف جسٹس بحال ہوئے مگر ان کی بحالی حکمرانوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگی۔ پرویز مشرف نے جب یہ محسوس کرلیا کہ عدالت اس کے فوجی وردی میں دوبارہ صدارتی انتخاب کا ڈھونگ رچانے کی راہ میں حائل ہوگی تو اس نے ایک آخری وار ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو کیا اور ایمرجنسی کے نام پر ایک نیا مارشل لا مسلط کردیا۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعلیٰ عدالتوں کے ۶۰ ججوں نے اس اقدام کو جائز تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کے ۱۸ میں سے ۱۳ ججوں نے حلف لینے سے انکار کردیا اور ۷ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے ۳ نومبر کے اقدام کو خلافِ دستور قرار دے کر اس کو قانونی جواز سے محروم کر دیا۔ نیز عدلیہ کے تمام ججوں کو ہدایت کی کہ اس غیرقانونی اقدام کو تسلیم نہ کریں۔ اس فیصلے پر دستور کی دفعہ ۱۹۰ کے تحت تمام سرکاری اداروں اور عمال کو بھی یہ ہدایت دی گئی کہ وہ اس پر عمل درآمد نہ کریں اور سپریم کورٹ کے حکم کی اطاعت کریں۔
یہ ایک ایسا تاریخی فیصلہ تھا جس کی کوئی نظیر اس سے پہلے موجود نہ تھی۔ جرنیلی صدر نے طیش میں آکر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ۶۰ ججوں کو معزول کر دیا اور اپنی پسند کے نئے ججوں کا تقرر کر کے ان سے اپنے غیرقانونی اقدام کے لیے جواز حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا جسے قوم نے ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ اس طرح اصولی، نظریاتی اور اخلاقی بنیادوں پر استوار ایک عوامی تحریک نے جنم لیا۔ جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس اصولی موقف کی بنیاد پر فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جب کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے بھی جس مسئلے کو انتخابات کے لیے مرکزی سیاسی مسئلہ بنایا وہ عدلیہ اور دستور کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی تھا۔
عوام نے ۱۸ فروری کے انتخابات میں ان جماعتوں کو رد کر دیا جو پرویز مشرف کی ہم نوا تھیں اور اسے وردی سمیت ایک بار نہیں دس بار تک منتخب کرنے کے لیے میدان میں اُتری تھیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بڑی پارٹیوں کی حیثیت سے کامیاب ہوئیں اور دونوں نے مل کر اس مشترک ایجنڈے پر عمل کرنے کا عہد کیا جسے عوام نے منظور کیا تھا۔ مگر جلد ہی پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس عہدوپیمان سے انحراف شروع کر دیا اور بالآخر بے وفائی کی راہ اختیار کرلی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے تقریباً ہر میدان میں عملاً جنرل مشرف ہی کی پالیسیوں کو جاری رکھا بلکہ زرداری صاحب نے تو کھل کر عدلیہ کی بحالی کے وعدے سے انحراف کیا اور وکیلوں کی تحریک کو سبوتاژ کرنے، ججوں کو تقسیم کرنے اور جن کو توڑنے میں کامیاب ہوئے ان کو نئی تقرری (re-instate) کے نام پر پی سی او عدلیہ کا حصہ بنانے کا وطیرہ اپنا لیا۔ ۶۰ میں سے ۴۵ ججوں کو نئی تقرری کے ذریعے رام کرلیا گیا۔ معزول ججوں میں سے ۴ ریٹائر ہوگئے۔ تاہم ۱۱ ججوں نے بشمول چیف جسٹس قابلِ تحسین استقامت سے کام لیا اور آخری وقت تک اپنے اصولی اور اخلاقی موقف پر ڈٹے رہے جن کی پشت پر (پیپلزپارٹی کے ہم نوا وکیلوں کی ایک تعداد کے سوا) وکلا برادری کی اکثریت، سول سوسائٹی کے تمام عناصر اور حزبِ اختلاف کی تمام ہی جماعتیں خصوصیت سے جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) اور اے پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں سرگرم رہیں۔ بالآخر یہ جدوجہد ۱۲ مارچ ۲۰۰۹ء سے لانگ مارچ اور ۱۶مارچ کے دھرنے کے لیے ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی۔
۱۶ مارچ کی صبح اس طرح طلوع ہوئی کہ وزیراعظم کو ججوںکی بحالی کا اعلان کرنا پڑا، دفعہ ۱۴۴ واپس لی گئی، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے احکام جاری کیے گئے اور شریف برادران کی نااہلی کے عدالتی فیصلے پر حکومت کی طرف سے نظرثانی کی درخواست کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح عدلیہ کی بحالی کی تاریخی جدوجہد اپنی پہلی کامیابی سے ہم کنار ہوئی، الحمدللّٰہ علٰی ذٰلِکَ۔
اب اس امر کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کی نوعیت، اس کے حقیقی اہداف اور اس کی قوت کے اصل عوامل کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے اور جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کے پورے اعتراف کے ساتھ ان تقاضوں پر توجہ مرکوز کرائی جائے جن کے حصول کی جدوجہد جاری رہنا چاہیے۔ جس انقلابی منزل کی طرف یہ پہلا قیمتی قدم بڑھایا گیا ہے، اس سمت میں اس قوم کا سفر جاری رہے تاکہ یہ جدوجہد اپنے تمام اہداف کو حاصل کرسکے اور مطلوبہ نتائج رونما ہوں۔
سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تحریک کسی فرد کی بحالی، کچھ لوگوں کی ملازمت کو پکا کرنے، یا کچھ وقتی مفادات کے حصول کی جدوجہد نہیں تھی بلکہ یہ ایک اصولی تحریک تھی جو واضح اخلاقی اہداف کے حصول کے لیے برپاکی گئی تھی۔ یہ جدوجہد ایک اصولی جدوجہد تھی اور اس کی طاقت کا راز اس کے نظریاتی اور اخلاقی مقاصد میں مضمر ہے۔ اس تحریک میں ملک کے ہر طبقے اور ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی اوریہ پوری قوم کو متحرک کرنے، ایک اصول کی خاطر منظم کرنے اور مشترک اہداف کے لیے اجتماعی جدوجہد میں مربوط کرنے کا ذریعہ بنی۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ ظلم کے آگے سپر ڈالنا، جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے اور ظلم اور استبداد کی مزاحمت ایک اخلاقی قدر ہی نہیں، اجتماعی زندگی کو ظلم اور ناانصافی سے پاک کرنے کا واحد راستہ ہے۔ بلاشبہہ چیف جسٹس افتخار چودھری اور عدلیہ کی بحالی اس تحریک کا عنوان تھے لیکن اس کی حقیقت اور اس کی قوت اس کا اصولی موقف تھا جس نے قوم کو متحد اور متحرک کیا۔ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اسی اصولی موقف کی بنا پر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس منزل کی طرف صرف پہلے قدم کی ہے۔ ہماری جدوجہد ختم نہیں ہوئی، ایک دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود چیف جسٹس کے الفاظ میں اس مقصد اور منزل کا اظہار اور تجدید کی جائے۔ موصوف نے ۳۰ جنوری ۲۰۰۸ء کو دنیا کے اہم قائدین سے خطاب کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں اس جدوجہد کے مرکزی نکتے اور اصل ہدف کو اس طرح پیش کیا ہے:
میں پاکستان کا دستوری چیف جسٹس ہوں اور فیصلہ دے چکا ہوں کہ مشرف کے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدامات غیردستوری تھے۔
اور پھر اصل ہدف کو صاف الفاظ میں اس طرح بیان کیا:
آزاد عدلیہ کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں ہوسکتی، اور جب تک ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو کالعدم نہ کیا جائے، پاکستان میں کوئی آزاد جج نہیں ہوسکتا۔ کچھ شکست خوردہ لوگوں کی مرضی کچھ بھی ہو، بہادر وکلا اور پاکستان کی سول سوسائٹی کی جدوجہد نتیجہ خیز ہوگی، وہ جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔
اس خط کے ۷ مہینے کے بعد ۳ نومبر ۲۰۰۸ء کو راولپنڈی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اعادہ کیا کہ:
سپریم کورٹ کے ۷ رکنی بنچ کا ۳ نومبر کا یہ فیصلہ کہ جنرل مشرف کے ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدامات غیردستوری اور غیرقانونی ہیں، اب بھی قائم ہے۔
اس خطاب میں چیف جسٹس نے کھل کر کہا کہ اس وقت عدالت عالیہ پر قابض ’چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر‘ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ:
ایک خودساختہ فیصلہ کرنے والا شخص ہے جس نے مشرف کے ۳ نومبر کے ہنگامی حالت کے اعلان اور عارضی دستوری بل (پی سی او) کو جائز قرار دیا۔
واضح رہے کہ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو سپریم کورٹ کے ۷ رکنی بنچ نے ۳ نومبر کے اس اقدام کو خلافِ آئین قرار دیا تھا اور عدالت نے آرمی چیف ’کورکمانڈر‘ تمام فوجی اور سول افسران کو ہدایت دی تھی کہ ۳نومبر کے خلاف آئین احکام کی پابندی نہ کریں، اصل دستور پر عمل کریںاور پروویژنل دستور کی پروا نہ کریں نیز کوئی جج اس ناجائز فرمان کے تحت حلف نہ لے۔
عدالت عالیہ کے ججوں کی بحالی کا مسئلہ عدالت کی آزادی ، دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام کی تنسیخ اور اس کو مسلط کرنے والوں پر گرفت اور دستور اور قانون کے مطابق ان کے اس جرم کی قرارواقعی سزا پر محیط ہے۔
عدلیہ کی آزادی اور بحالی کی تحریک اپنی اس اصولی اور اخلاقی نوعیت کے ساتھ ساتھ کئی اور پہلوئوں سے بھی اہم ہے۔ ہم ان میں سے چند پہلوئوں کی طرف صرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱- یہ صحیح معنی میں ایک عوامی تحریک تھی۔ اس کی قیادت وکلا برادری کر رہی تھی۔ اس کی تائید سول سوسائٹی کے تمام ہی اداروں نے کی۔ اس کی تقویت کا باعث سیاسی کارکنان اور ان کی قیادت کی شرکت تھی، لیکن اس کا سب سے نمایاں پہلو عوام کی بیداری اور علاقے، زبان اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر عوام کے سب ہی طبقات کی والہانہ شرکت ہے۔ اس تحریک نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی کہ محض مفادات کے حصول کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک اصولی اور اخلاقی مقصد کے حصول کے لیے بھی عوامی تحریک برپا کی جاسکتی ہے اور وہ عوام کی قوت سے اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے۔
۲- دوسری خصوصیت اس تحریک کا تسلسل اور اس میں غیرمعمولی جان اور توانائی ہونے کی ہے۔ سیاسی تحریکیں چشم زدن میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرلیتیں بلکہ اس کے لیے صبر اور استقامت سے جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ دبائو کا مقابلہ کیا جاتا ہے، اور ہمت نہیں ہاری جاتی۔ اس تحریک میں وکلابرادری، تاجروں، طالب علموں، سیاسی کارکنوں کا کردار قابلِ تعریف ہے۔ دو سال تک تحریک کو جاری و ساری رکھنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ حقوق کی جدوجہد اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب نظریاتی شعور کے ساتھ اَن تھک محنت اور استقامت سے جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔
۳- اس تحریک کا تیسرا پہلو اس کا ہر دور اور ہر حال میں، حتیٰ کہ ریاستی تشدد کے علی الرغم پُرامن رہنا ہے۔ جوش کے ساتھ ہوش بھی ضروری ہے اور ذرا سی غلطی پوری تحریک کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے۔
۴- تحریک میں نوجوانوں کی شرکت، نوجوان وکلا کی قربانیاں، اور اس کے ساتھ میڈیا کا بے مثال تعاون بھی اس کی کامیابی کا ایک اہم سبب ہے۔ سیاسی جماعتوں اور حکومت دونوں کو عوام اور میڈیا کی قوت کے صحیح ادراک کی ضرورت ہے۔
۵- اس تحریک کا ایک اور پہلو بڑا اہم ہے اور وہ یہ کہ آمریت کے جبر کے نظام میں جو خاموشی ہوتی ہے اور عوام میں جو بددلی اور مایوسی گھر کر لیتی ہے وہ عارضی اور پُرفریب ہوتی ہے۔ ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے پہلے کسے توقع تھی کہ مزاحمت کی ایک چنگاری سے آمریت کے استبدادی نظام کو خاکستر بنانے والی تحریک جنم لے سکتی ہے۔ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دینے والے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ایک اصول کی خاطر عوام اس طرح بیدار اور متحرک ہوجائیں گے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اسی مایوس قوم کے بطن سے ایک ملک گیر تحریک جنم لیتی ہے اور آمریت کی چولیں ہلادیتی ہے۔ مشرف کا سورج غروب ہوجاتا ہے اور زرداری بھی اپنے سارے کرّوفر اور حیلوں اور سازشوں کے باوجود گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آمریت اور مایوسیوں کی تاریکیوں میں ایسی تحریک کا رونما ہونا اور کامیاب ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ ع
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو!
اس تحریک کو ناکام کرنے اور اس کو کچل دینے کے لیے جو ہتھکنڈے پرویز مشرف کے آمرانہ نظام اور زرداری صاحب کے جمہوری تماشے نے کیے ان کا ذکر اور بالآخر ان کی ناکامی اور بے مایگی کا اظہارو اعتراف بھی ضروری ہے۔ مشرف کے اقتدار کا زوال ۹ مارچ ۲۰۰۷ء سے شروع ہوگیا اور ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی کی خونیں ہولی اور وکلا، عوام، سیاسی کارکنوں اور خود میڈیا کو جبرواستبداد کے ہتھکنڈوں سے زیر کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود ۱۸ فروری کو عوام نے پوری قوت سے آمرانہ نظام کو رد کردیا اور زرداری صاحب کی ساری وعدہ خلافیوں اور کہہ مکرنیوں، پنجاب کی عوامی مینڈیٹ کے بل پر وجود میں آنے والی حکومت کی معطلی، گورنرراج، قیدوبند، تشدد اور جبر، راستوں کی بندش اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانون کی حکمرانی کی تحریک چلانے والوں پر لاٹھی چارج اور گیس کے شیلوں کی بارش کے لیے استعمال کرنے کے علی الرغم اور ۱۵ مارچ کی دوپہر تک مطالبات تسلیم کرنے سے انکار اور قوت اور جبر سے تحریک کو ختم کردینے کے دعووں کے باوجود تحریک کے مرکزی مطالبے کو تسلیم کرلینا، جہاں عوامی تحریک کی قوت کا ثبوت ہے،وہیں جمہوریت کے دعوے داروںکے اصل چہرے سے نقاب اُٹھانے کا بھی ذریعہ ہے۔
جو زبان زرداری صاحب نے استعمال کی، ان کی وزارتِ داخلہ کے مشیر نے جس طرح بغاوت کا ڈھول پیٹا اور جس طرح حاکمانہ قوت سے تحریک کو دبانے کے لیے مذموم ہتھکنڈوں کا استعمال کیا، اس نے پیپلزپارٹی کے جمہوری دعوئوں کی قلعی کھول دی۔ بلاشبہہ پیپلزپارٹی میں ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے اس پالیسی کو ناپسند کیا، کچھ نے استعفے تک دیے اور بہت سوں نے عوامی تحریک کا ساتھ دیا لیکن ایک بڑی تعداد نے زرداری صاحب کے مقاصد کی خدمت کر کے اپنا اصل چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کردیا اور اس کی قیمت انھیں آیندہ ادا کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نے آخری وقت میں حالات کو سنبھالنے اور زرداری صاحب سے کچھ فاصلہ اختیار کرنے کا رویہ اختیار کیا اور مسئلے کا کچھ حل نکالنے کی کوشش کی، تاہم بحیثیت مجموعی پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت نے قوم کو بری طرح مایوس کیا اور اس تحریک کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ع
لیکن اتنا تو ہوا، کچھ لوگ پہچانے گئے
اس سلسلے میں پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ ایم کیو ایم اور خود اے این پی اور جے یو آئی کی بھی جو تصویر قوم کے سامنے آئی ہے وہ کسی حیثیت سے بھی قابلِ رشک نہیں۔ رہے مشرف اور زرداری صاحب تو ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ؎
خودی کا نشہ چڑھا ، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ ، مگر بنا نہ گیا
تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس سمیت ۱۱ ججوں کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میں بحالی ایک اہم کامیابی ہے اور اسے صحیح سمت میں ایک مناسب اور خوش آیند قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ بلاشبہہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ایک بہت بڑی آزمایش ہے کہ عوام نے جن مقاصد کے لیے تحریک چلائی، قربانیاں دیں اور نتیجتاً اُن کی جو توقعات عدلیہ سے وابستہ ہیں، وہ کہاں تک پوری ہوتی ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے جو انتظامی حکم نامہ جاری کیا ہے وہ کئی لحاظ سے بڑا اہم ہے، جب کہ کچھ دیگر حیثیتوں سے مبہم اور غیرتسلی بخش بھی ہے۔ جس عجلت میں وکلا کی قیادت اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے مارچ اور دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اعلان کا یہ حصہ اہم ہے:
جیساکہ وزیراعظم پاکستان نے ۱۶ مارچ ۲۰۰۹ء کو اعلان کیا کہ عدالتِ عظمیٰ اور مختلف عدالت ہاے عدلیہ کے معزول شدہ جج صاحبان بشمول مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری، معزول چیف جسٹس آف پاکستان کو اسی پوزیشن پر بحال کیا جائے گا جو کہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے پہلے انھیں حاصل تھی۔
لہٰذا صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جسٹس افتخارمحمد چودھری، معزول چیف جسٹس آف پاکستان کو ان کو اسی پوزیشن پر بحال کردیا ہے جس پر وہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے پہلے تھے۔ مسٹر جسٹس افتخارمحمد چودھری، مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس آف پاکستان کی ۲۱ مارچ ۲۰۰۹ء کو ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۲ مارچ ۲۰۰۹ء سے چیف جسٹس آف پاکستان کا اختیار سنبھال لیں گے۔
ججوں کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن پر بحالی کے معنی یہ ہیں کہ ان کی ۳ نومبر کی معطلی ایک غلط اقدام تھا لیکن ۳ نومبر کے پرویز مشرف کے اعلان کی تنسیخ کا کوئی ذکر اس اعلامیے میں نہیں ہے۔ نیز دوسرے تمام ججوں کو فوری طور پر بحال کردیا گیا ہے لیکن چیف جسٹس افتخار چودھری کو جسٹس ڈوگر کی میعادِ ملازمت کے ختم ہونے کے بعد بحال کیا جا رہا ہے جس سے بجاطور پر یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈوگرصاحب کے چیف جسٹس ہونے کو جواز دیا جا رہا ہے حالانکہ ان کے چیف جسٹس ہونے کا پورا دور قانون کی نگاہ میں جائز نہیں۔ وہ بالفعل (de facto) تو چیف جسٹس تھے لیکن ان کے دور کو de jure یعنی قانون کے تحت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وہ ابہام ہے جس کا دُور کیا جانا ضروری تھا اور ہے۔ اب اس کے دو راستے ہیں اور ان دونوں پر فی الفور عمل ہونا چاہیے۔ وکلا برادری اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ کمر کھول کر آرام کا تصور بھی نہ کریں بلکہ تحریک کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچانے کے لیے نئے عزم سے سرگرم ہوجائیں۔
ایک کام اب پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے کہ وہ ۳ نومبر کے اقدام کے بارے میں کھل کر یہ اعلان کرے کہ وہ اقدام خلافِ آئین تھا جسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر نظریۂ ضرورت کی عفریت سے نجات ناممکن ہے۔ جس طرح پرویز مشرف نے دستور کی پابندی کا حلف لینے کے باوجود، چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے پی سی او نافذ کیا، اگر اس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند نہیں کیا جاتا تو خدانخواستہ کل کوئی دوسرا طالع آزما بھی یہ کھیل کھیل سکتا ہے اور اسے بھی تحفظ کی توقع ہوسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک ۳نومبر کے اقدام کو جائز (validate) قرار نہیں دیا اور AAA۲۷۰ کا دستور میں اندراج غیرقانونی ہے لیکن چونکہ ڈوگر عدالت نے اسے تحفظ دینے کی جسارت کی ہے اس لیے اس دروازے کو بند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ:
۱- ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو صاف لفظوں میں خلافِ آئین اقدام قرار دے کر منسوخ کیا جائے۔
۲- اس اقدام کا ارتکاب کرنے والے شخص پر قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور اسے دستور کی دفعہ ۶ کے تحت سزا دی جائے۔
۳- اس کے ساتھ تعاون کرنے والے چیدہ چیدہ افراد کو ان کے جرم کی مناسبت سے سزا دی جائے یا مذمت کی جائے۔
۴- جسٹس حمود الرحمن کے جنرل یحییٰ کے خلاف تاریخی فیصلے کی روشنی میں جن اقدامات کو past and closed transaction(قصۂ ماضی)قرار دینا ضروری ہے، ان کو قبول کرلیا جائے اور جن کی تنسیخ ضروری ہے ان کو منسوخ کیا جائے۔ اس طرح ان تمام دستوری ترامیم پر نظرثانی کر لی جائے جو ایک آمر نے دستور اور ملک پر مسلط کی تھیں۔ مشرف نے بی بی سی کو ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے احکامات کو ماوراے آئین (beyond constitution) تسلیم کر کے ان کے غیرقانونی ہونے کا اعتراف بھی کرلیا تھا۔
نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیے بغیر اس ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ کی قانون کے سامنے جواب دہی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
دوسرا کام خود چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کے کرنے کا ہے۔ ۳نومبر کے اقدام کے نتیجے میں اعلیٰ عدالتوں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے اور ان میں پی سی او ججوں اور پھر زرداری صاحب کے جیالوں کی غیرقانونی تقرری ہوئی ہے، اولین موقع پر ان سب کا ، ۱۹۹۶ء کے الجہاد ٹرسٹ کے کیس میں سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کی روشنی میں جسے Judges Case کہا جاتا ہے، ازسرِنو بے لاگ جائزہ لیا جائے۔ جو حضرات اہلیت، دیانت اور حسنِ کردار کے معیار پر پورے اُترتے ہوں ان کا ضابطے کے مطابق تقرر کیا جائے اور باقی سب کو فارغ کردیا جائے۔ آیندہ دستور اور ججز کیس میں طے شدہ ضابطے کے تحت ججوں کا تقرر کیا جائے۔ نیز میثاقِ جمہوریت میں جو نیا طریقہ تجویز کیا گیا ہے، اسے سنجیدہ مشورے کے بعد دستوری ترمیم کے ذریعے مزید بہتر بناکر اختیار کیا جائے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے اور عدلیہ میں دراندازی کا دروازہ بند ہوجائے۔
یہ دونوں اصلاحات عدلیہ کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میں بحالی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہیں اور ان پر فوری عمل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مؤثر عوامی اور پارلیمانی دبائو کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہم تین امور کی طرف مزید توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ پہلے کا تعلق تحریک کے ذمہ داروں سے ہے کہ جہاں عوام نے اس تحریک میں اپنا حق ادا کر دیا وہاں تحریک کے ذمہ داروں نے اپنے فرض کی ادایگی میں بڑی کوتاہیاں کی ہیں اور ان کا احتساب اور آیندہ کے لیے اصلاح ضروری ہے۔
پہلی چیز تحریک کے اہداف کے واضح تعین اور تمام اہداف کے حصول کو مساوی اہمیت دینے کے بارے میں ہے۔ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی بحالی مترادف نہیں۔ عدلیہ کی آزادی اس سے بھی وسیع تصور ہے۔ ججوں کی ناجائز برطرفی کا عمل خود اپنی جگہ ایک ایسا مذموم کام ہے جس پر مؤثر گرفت کیے بغیر عدلیہ کی آزادی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ قیادت نے صرف ایک مطالبے کے جزوی حصول کے اعلان پر پوری تحریک کو ختم کردیا جسے دانش مندی نہیں کہا جاسکتا۔ تحریک ایک فیصلہ کن مرحلے میں تھی اور جس طرح چند ماہ قبل ریلی کے بعد دھرنے کی کال واپس لے لی گئی، اس طرح اس بار بھی پورے اہداف حاصل کیے بغیر عجلت میں تحریک کو ختم کردیا گیا جس میں بڑے خطرات مضمر ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں اور عوام نے قیادت کے فیصلے کو تسلیم کرلیا، جب کہ قیادت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکی اور اس کی ایک اہم وجہ تمام شرکا کی معتبر قیادتوں کا آپس میں مشورے کے ذریعے فیصلہ کرنے کے نظام کا نہ ہونا ہے۔ جتنی عظیم یہ تحریک تھی، قیادت نے اس کے مطابق فیصلہ کرنے اور مشاورت کے نظام کو مؤثر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے موجودہ مرحلے میں یہ صرف وکیلوں کی یا کسی ایک جماعت کی تحریک نہیں تھی۔ سب کا اپنا اپنا کردار تھا اور سب کی مشاورت ہی سے معاملات کو طے کیا جانا چاہیے تھا۔
دوسری بات سیاسی تحریک میں فوجی قیادت کے کردار سے متعلق ہے۔ زرداری صاحب نے فوج کو استعمال کرنے کے راستے (option) کو ٹٹولا اور شکر ہے کہ انھیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ لیکن آخری ایام میں چیف آف اسٹاف کی جو سرگرمیاں رہیں، ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ شکر ہے کہ انھوں نے نہ خود کسی سیاسی کردار کا راستہ اختیار کیا اور نہ کسی دوسرے کو اسے سیاسی طور پر استعمال کرنے کا موقع دیا لیکن ہمارا مطمحِ نظر یہ ہونا چاہیے کہ فوج اپنے کو صرف دفاعی ذمہ داریوں تک محدود رکھے۔ نہ تو سیاسی قیادت اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے اورنہ فوج خود ہی کسی سیاسی کردار میں ملوث ہو۔ امریکی جوائنٹ چیف ایڈمرل مولن نے ہمارے چیف آف اسٹاف سے جن دس ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے اور بین السطور جن راستوں (options) کی بات کی ہے وہ اصولی طور پر قابلِ قبول نہیں ہیں۔ سیاسی مسائل کا حل بھی سیاسی ہی ہونا چاہیے اور اس میں فیصلے کا مرکز و محور پارلیمنٹ اور سیاسی قوتوں کو ہونا چاہیے۔ کسی فریق کی طرف سے بھی فوج کو ملوث کرنا، دستور، قانون، سیاسی آداب اور اجتماعی اخلاقیات کے منافی ہے۔
تیسرا مسئلہ اس پورے معاملے میں بیرونی حکومتوں کے کردار سے متعلق ہے۔ ہماری سیاسی زندگی میں امریکی مداخلت کی تاریخ خاصی پرانی اور بڑی تشویش ناک ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اس میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ سے مصالحت کے سلسلے میں پرویز مشرف نے برطانیہ اور امریکا کو بلاواسطہ شریک کیا اور خود این آر او، اس بین الاقوامی کھیل کا ثمرہ ہے۔
زرداری صاحب نے اس کھیل کو اور آگے بڑھا دیا ہے اور حالیہ تحریک کے دوران جس طرح برطانوی وزیرخارجہ، امریکا کی سیکرٹری آف اسٹیٹ اور صدر کے نمایندے ہال بروک، ملک میں برطانوی، امریکی، سعودی اور امارات کے سفیروں کی بھاگ دوڑ دیکھنے میں آتی رہی وہ نہایت افسوس ناک ہے، بلکہ دی وال اسٹریٹ جنرل نے تو صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ:
غضب ناک احتجاج کرنے والوں کے مقابلے میں پولیس کی پسپائی اور امریکا کے دبائو کے بعد مسٹر زرداری نے تسلیم کیا۔ (۱۷ مارچ ۲۰۰۹ء)
یہ سب عوامل ہمارے داخلی معاملات میں بیرونی حکومتوں کے ملوث ہونے کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں وہ بڑی تشویش ناک ہے اور ہماری آزادی اور حاکمیت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ایک طرف امریکا قوم کے احتجاج کے باوجود پوری بے باکی سے ڈرون حملوں میں مصروف ہے اور دوسری طرف مصالحت کے نام پر سیاسی اور سفارتی ڈرون بھی داغے جارہے ہیں۔ قوم اس صورت حال میں دل گرفتہ اور اپنی آزادی اور حاکمیت کی بردگی (erosion) پر سخت تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ پہلے بیرونی اثرات بڑے معاملات تک محدود تھے مگر اب یہ معمولی امور میں بھی مداخلت کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور جس نئی غلامی کی طرف قوم کو دھکیلا جا رہا ہے، وہ ناقابلِ برداشت ہے۔
ہم مجبور ہیں کہ قوم کے اس اضطراب اور تشویش کا بھی اظہار کریں کہ کیا بات صرف ان اعلانات تک محدود ہے جو وزیراعظم نے کیے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی اور ڈیل بھی چھپی ہوئی ہے جو تحریک کے کچھ عناصر، حکومت اور بیرونی کھلاڑیوں کے درمیان ہوئی ہے اور ابھی تک پردہ خِفا میں ہے۔ اس تشویش کا اظہار مختلف حلقوں سے ہو رہا ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دی نیوز اخبار اپنے ادارتی کالموں میں اس خدشے کا اظہار یوں کرتا ہے:
ہمیں نہیں معلوم کہ بند دروازوں کے پیچھے اس پر کوئی ڈیل ہوئی ہے یا نہیں۔ ججوں کو بحال کرنے کے ڈرامائی اعلان کے پس منظر میں کسی راضی نامے کی تفصیلات ابھی تک معلوم نہیں ۔ (اداریہ، دی نیوز، ۱۷ مارچ ۲۰۰۷ء)
بلاشبہہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک اپنے مرکزی ہدف کی حد تک کامیاب رہی لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا: عدلیہ، پارلیمنٹ اور تحریک کے شرکا سب کا امتحان اب شروع ہوا ہے۔ سیاسی ہدف کے حصول کے لیے عوامی تحریک چلانا ضروری نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاسی اہداف معروف سیاسی عمل کے ذریعے حاصل نہیں ہوتے تو عوام کو مزاحمت اور عوامی دبائو کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ، پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حکومت، حزبِ اختلاف اور میڈیا کو اس طرف متوجہ کریں کہ جس تبدیلی کا آغاز ۱۶ مارچ کو حکومت کی طرف سے عوامی مطالبات کے احترام کے عندیے کے اظہار سے ہوا ہے، اسے اس کے فطری انجام تک پہنچانے کی جدوجہد کریں۔ اس وقت جو بڑے بڑے چیلنج قوم کے سامنے ہیں وہ سب مثبت ردعمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم چند نکات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں:
۱- ججوں کی بحالی ہو گئی لیکن ابھی عدلیہ کی ۲ نومبر ۲۰۰۷ء والی صورت میں مکمل بحالی اور ۳نومبر کے تباہ کن اقدام کی تنسیخ اور اس کے تحت رونما ہونے والے بگاڑ کی اصلاح ہونا باقی ہے۔ یہ کام، جیساکہ ہم نے اُوپر عرض کیا ہے، بلاتاخیر ہونا چاہیے لیکن عدلیہ اور وکلا کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عوام عدل کے قیام اور قانون کی بالادستی اور قانون کی نگاہ میں سب کی برابری کے نظام کے متمنی ہیں۔ اس ہدف کے حصول کے بغیر وہ اپنی تحریک کو کامیاب نہیں سمجھیں گے۔ اس کے لیے عدلیہ کی تنظیم نو کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ عدلیہ عدالتی فعالیت (judicial activism) اور عدالتی ضبط (judicial restraint) کی بحثوں میں پڑے بغیر کم از کم مندرجہ ذیل امور کا اہتمام کرے:
ا- عدلیہ سے بدعنوانی کا خاتمہ، خصوصیت سے نیچے کی سطح پر جہاں عوام کو نظامِ عدل کے کارپردازوں سے روزمرہ سابقہ پیش آتا ہے اور وہ بے انصافی، بدعنوانی، تاخیر اور تعویق کے چکروں سے بے زار ہیں۔ عوام کو انصاف چاہیے، انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے،انصاف تاخیر کے بغیر حاصل ہو اور عوام کی دہلیز پر آسکے۔ اس کے لیے اعلیٰ عدالتوں کو بڑا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
ب- عدالتیں دستور اور قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور سیاسی اور دوسرے اثرورسوخ کے سایے سے بھی اپنے کو محفوظ رکھیں۔ اس سلسلے میں جو بُری روایات گذشتہ ادوار میں راہ پا گئی ہیں ان کو شعوری جدوجہد کے ذریعے ختم کرنا اور انصاف فراہم کرنے والے افراد اور اداروں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔
ج- عدالت عالیہ کے ازخود (suo moto) اختیارات پر قینچی چلانے کی ہرکوشش کو سختی سے ناکام بنانا ہم سب کا فرض ہے لیکن عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دستور کی حفاظت اور عوام کے حقوق کی پاسداری کے لیے تو سرگرم ہو مگر دستور میں جو تقسیمِ اختیارات اور توازن (check & balance) کا نظام ہے اس کا احترام کرے۔
د- چند بنیادی ایشو ایسے ہیں جن کا اعلیٰ عدالتوں کو جرأت اور دیانت کے ساتھ سامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں پی سی او کا مسئلہ، این آر او کا جواز (legitimacy) اور اس کی معقولیت (propriety) اِسی طرح ہزاروں لاپتا افراد کی بازیافت کے مسائل کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور عدالت کی آزادی کا امتحان بھی ان امور پر اس کے کردار سے ہو گا۔
ھ- وکلا کی تحریک نے وکیلوں پر عوام کے اعتماد کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ لیکن اس کا تقاضا ہے کہ وکلا بھی محض پیسہ کمانے اور اپنے موکلوں کے استحصال کا راستہ اختیار نہ کریں بلکہ خدمت اور مظلوم کی مدد اور انصاف کے حصول میں ان کی معاونت کو اپنا شعار بنائیں اور جو کاروباری رنگ اس معزز پیشے نے اختیار کرلیا ہے، اس سے نجات کی فکر کریں۔ کسب حلال آپ کا حق ہے لیکن یہ بھی آپ کا فرض ہے کہ محنت اور دیانت سے اپنے موکل کی خدمت کریں اور اس کا حق ادا کریں۔ انصاف سے محرومی آج ایک عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور تھانے کچہری کے کلچر نے اس کی زندگی کو عذاب بنا دیا ہے۔ عدلیہ سے متعلق تمام افراد کا خواہ ان کا تعلق بار سے ہو یا بنچ سے، ایک ہی ہدف ہونا چاہیے اور وہ عوام کو پورا پورا انصاف فراہم کرانا ہے جو دیانت، حق و صداقت اور عام آدمی کی دسترس کے اندر حاصل ہوسکے۔ اس لیے انصاف، جلد انصاف اور سستا انصاف ہمارا شعار (موٹو) ہونا چاہیے۔
۲- دوسرا مسئلہ دستور کی بحالی کا ہے۔ اس سلسلے میں بھی سارے دعوئوں کے باوجود برسرِاقتدار جماعتوں نے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے۔ دستور کو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی حالت میں بحال کرنے کا ہر ایک نے وعدہ کیا ہے۔ میثاق جمہوریت (۲۰۰۶ء) کا یہ مرکزی نکتہ ہے اور جولائی ۲۰۰۷ء میں لندن میں منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس نے اس کا عہد کیا تھا لیکن اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ زرداری صاحب نے صدارت سنبھالنے کے بعد اختیارات پارلیمنٹ کو تحفہ میں دینے کا عہد کیا تھا مگر اپنے دوسرے تمام عہدوپیمان کی طرح اسے بھی وہ بھول گئے ہیں۔ دستور کی اصل شکل میں بحالی کے بغیر، نہ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے اور نہ جمہوریت اور ملک کے تمام ادارے تقویت حاصل کرسکتے ہیں، اس لیے تمام جماعتوں کو اس کی طرف بلاتاخیر متوجہ ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کا اجلاس خواہ اسے کتنے ہی دن چلانا پڑے بلایا جائے اور جلد از جلد دستور کو، جس پر ضربیں لگا کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے، بگاڑ اور خرابیوں سے پاک کیا جائے تاکہ آمریت کے دور میں اس کے جسم پر لگے زخم مندمل ہوسکیں۔
۳- تیسرا بنیادی مسئلہ ملک میں امن و امان کے قیام کا ہے جس کا گہرا تعلق ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت اور اس کے نتیجے میں صرف فاٹا اور قبائلی علاقوں ہی میں نہیں، پورے ملک میں حکومت، فوج اور عوام کے درمیان شدید کش مکش اور پیکار کی کیفیت ہے۔ ہزاروں افراد اس آگ میں لقمۂ اجل بن گئے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں، دہشت گردی، اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے، معیشت پر اس کے اثرات تباہ کن ہوئے ہیں اور محتاط اندازوں کے مطابق گذشتہ ۸ سال میں معیشت ۳ کھرب روپے (۳۵ بلین ڈالر) سے زیادہ کا خسارہ برداشت کرچکی ہے۔ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ سب سے بڑھ کریہ کہ ملک کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے، اور حاکمیت مجروح ہوئی ہے اور قومی عزت و وقار خاک میں مل گیا ہے۔
۴- چوتھے مسئلے کا تعلق مرکز اور صوبوں کے تعلقات کو انصاف اور وفاق کے مسلّمہ اصولوں کی بنیاد پر استوار کرنے اور صوبوں کو ان کے سیاسی اور معاشی حقوق پورے کے پورے ادا کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں دستور میں بھی ضروری ترامیم کی ضرورت ہے اور اس سے زیادہ عملی طور پر صوبوں کے معاملات میں مرکز کی مداخلت اور صوبوں کے وسائل پر مرکز کی گرفت دونوں کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے حالات خصوصی توجہ کے مستحق ہیں لیکن بات صرف بلوچستان کی نہیں بلکہ تمام صوبوں کی ہے۔ ستم ہے زرداری صاحب نے پنجاب تک کو اپنے معاملات خود نمٹانے کے حق سے محروم کر دیا ہے اور گورنر راج کی لعنت اس پر مسلط کردی ہے۔ صوبائی خودمختاری اور صوبے کے اپنے وسائل پر تصرف کے اختیارات کا احترام وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
۵- پانچواں مسئلہ ملک کی بگڑی ہوئی معیشت اور خصوصیت سے پیداواری نظام کا جھول، بے روزگاری میںاضافہ، غربت اور افلاس میں اضافہ، قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت اور تعلیم اور علاج کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ قوم، اشرافیہ اور مفلوک الحال طبقوں میں بٹ گئی ہے اور عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت ایک سال میں بھی کوئی مربوط اور حقیقت پسندانہ معاشی پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے اور ملک ایک فلاحی اور خوش حال معاشرے کی جگہ ایک استحصالی نظام کی گرفت میں آگیا ہے جس کے نتیجے میں معاشی بگاڑ کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی خلفشار بھی بڑھ رہا ہے۔ معاشی مسائل روز بروز بگڑ رہے ہیں اور اربابِ اقتدار کا حال یہ ہے کہ انھیں اپنی عیش پرستیوں کے سوا کسی بات میں دل چسپی نہیں۔ یہ حالات انقلاب کی طرف لے جانے والے ہیں اور فوری توجہ کا تقاضا کر رہے ہیں۔
۶- چھٹی اور آخری چیز قوم میں مقصدیت کا فقدان اور قومی مقاصد کے باب میں ذہنی انتشار اور خلفشار کو ہوا دینے کی تباہ کن پالیسی ہے جس پر حکام اور بااثر طبقات کاربند ہیں۔ وہی قومیںترقی کرتی ہیں جن کے سامنے کوئی مقصد ہو، جو اپنی شناخت کی حفاظت کر سکیں، جن کا تعلیمی نظام فکری اور نظریاتی یکسوئی کے ساتھ اعلیٰ صلاحیتوں سے نئی نسلوں کو آراستہ کرے، جن کے سامنے اعلیٰ مقاصد کا حصول اور صرف ذات کی پوجا کے مقابلے میں قومی زندگی کے استحکام و ترقی اور انسانیت کے لیے کسی اعلیٰ آدرش کے حصول کا جذبہ اور صلاحیت ہو۔ اسلام نے ہمیں زندگی کا اعلیٰ ترین تصور دیا ہے جو ہمارے لیے ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے رحمت اور نعمت ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد حیات اور تہذیبی اہداف کو بھولے ہوئے ہیں اور جاہلانہ عصبیتوں کا شکار ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ؎
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
حالانکہ زندگی نام ہے تخلیق کے مقاصد کے حصول کی جدوجہد کا اور آرزو کو زندہ و بیدار رکھنے کا۔ بقول اقبال ؎
ما ز تخلیقِ مقاصد زندہ ایم
از شعاع آرزو تابندہ ایم
(حالات کیسے ہی دگرگوں ہوں، اگر دلوں میں حصولِ منزل کی آرزو ہے اور ہم تخلیقِ مقاصد سے دست کش نہیں ہوئے تو ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ سرنگ کے اُس پار نظر آنے والی روشنی، ہمارا استقبال کرنے کے لیے بے تاب ہے۔)
بقول عرفی ؎
کسیکہ محرم بادِ صباست ، مے داند
کہ باوجودِ خزاں، بوئے یاسمن باقیست
(جو شخص بھی بادِ صبا کے لطف و خوش بو سے واقف ہے، خوب جانتا ہے، کہ موسمِ خزاں کے باوجود، یاسمین کی خوش بو اور مہک (کہیں نہ کہیں) موجود ہے۔)
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات، اپنی تمام کمزوریوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود قوم کے اس عزمِ صمیم کے مظہر تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا ۸ سالہ دورِ اقتدار پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین باب تھا اور عوام جنرل مشرف کے ساتھ اس کی ان پالیسیوں سے بھی مکمل نجات چاہتے ہیں جن کے نتیجے میں ملک کی آزادی اور حاکمیت پر ضربِ کاری لگی ہے۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ملک امن و امان اور عدل و انصاف سے یکسر محروم ہوگیا ہے۔ عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے ادارے غیرمؤثر اور آمریت کے آلۂ کار بن گئے ہیں جس کے نتیجے میں دستور عملاً معطل ہوگیا ہے اور عوام اپنے حقوق سے یکسر محروم ہوگئے ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں آلۂ کار بننے سے ملک کی فوج اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہوگئی ہے اور فوج اور قوم کے درمیان جو اعتماد اور ہم آہنگی کا رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔ فوج عوام کی بے زاری، بے اعتمادی اور نفرت کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ فاٹا، شمالی علاقہ جات اور بلوچستان ہی نہیں، پورا ملک امن و امان سے محروم ہوگیا ہے اوردہشت پسندی، لاقانونیت اور راے عامہ کے ذریعے تبدیلی پر عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی قیادت کا آلۂ کار بن گیا ہے اور عدالت کو انتظامیہ نے اپنا تابع مہمل بنالیا ہے۔ معاشی حالات، خوش کن وعدوں کے باوجود روز بروز خراب ہورہے ہیں۔ غربت بڑھ رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیداوار میں جمود ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، قرضے بڑھ رہے ہیں، اِسی طرح بجٹ، تجارت اور بین الاقوامی ادایگیاں پاکستان کی تاریخ کے بدترین خسارے کی مظہر ہیں۔
ان حالات میں عوام نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک جماعت کو نہیں بلکہ دونوں بڑی جماعتوں، یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ملک کو اس دلدل سے نکالیں اور دستور، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی، امن و امان کے قیام اور معاشی عدل اور استحکام کی طرف پیش قدمی کریں۔ نئے سفر کا آغاز پی پی پی اور نواز لیگ کے اشتراک سے ہوا اور امید بندھی کہ شاید قومی مفاہمت کے ذریعے ملک حقیقی جمہوریت کی طرف رواں دواں ہوسکے گا۔ مگر افسوس کہ سیاسی قیادت نے قوم کو بری طرح مایوس کیا اور ذاتی مفاد، جماعتی عصبیت، مفاد پرست طبقات سے گٹھ جوڑ اور امریکا کی کاسہ لیسی کی پرانی ڈگر کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں کچھ اور بھی اضافہ کردیا۔ عدلیہ کی بحالی اور آزادی پر ایک اور بھرپور ضرب لگائی۔ دستور کے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحالی کے وعدے کو پامال کیا اور ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے صریح غداری (high treason) کے اقدام کو سینے سے لگاکر مشرف کے چھوڑے ہوئے جمہوریت کُش نقشے میں مزید رنگ بھرنے کا کام اپنے سر لے لیا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے راستے الگ ہوگئے مگر درپردہ معاملہ بندی کا سلسلہ جاری رہا جس سے نہ حکومت کی اصلاح ہوسکی اور نہ حزبِ اختلاف اپنا حقیقی کردار ادا کرسکی۔ حکومت پر عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا اور آج حکومت کے بارے میں عوام کی بے زاری کا گراف اس سے بھی کچھ اُوپر جاچکا ہے جو الیکشن کے وقت مشرف حکومت کے بارے میں تھا۔ اس ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو بڑی تکلیف دہ اور تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔
امریکا ’اور مارو اور مارو‘ (do more) کے مطالبات کر رہا ہے۔ امریکی نمایندے ہالبروک نے نہ صرف امریکی دبائو کو بڑھایا ہے بلکہ اس کی موجودگی میں دو مرتبہ ڈرون حملے ہوئے۔ ممبئی کے واقعے کے بارے میں بھی زرداری کے دست ِ راست مشیر داخلہ نے پریس کانفرنس کرکے جس جوش و خروش سے بھارت کے الزامات کو اپنے سر لیا ہے، اس نے امریکا اور بھارت کے اس خطرناک کھیل کو اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ آج پاکستان اس قیادت سے محروم ہے جو پاکستان کے مفاد کے لیے سر اُٹھاکر اور خم ٹھونک کر کھڑی ہوسکے اور امریکا کے ایجنڈے سے براء.ت کا اعلان کرسکے۔ امریکی تحقیقی ادارے اعتراف کر رہے ہیں کہ افغانستان میں ۷۲ فی صد علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے اور ۲۰۰۸ء کا سال افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے لیے اور خود وہاں کے عوام کے لیے سخت ترین رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نمایندے نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں غیرحربی (non-combatant) سویلین شہریوں کی ہلاکت میں ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ۲۰۰۸ء میں ۲۱۱۸ معصوم شہری لقمۂ اجل بنے ہیں اور ان میں سے ۵۵۲ افراد ہوائی حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے شہریوں کی تحفظ کی سالانہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ: ’’امریکا، ناٹو اور افغان افواج نے اقوام متحدہ کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ان فورسز نے ۶۲۹ سویلین ہلاک کیے۔ ۲۰۰۸ء میں پچھلے برس کے مقابلے میں ۳۱ فی صد زیادہ سویلین ہلاک کیے‘‘۔
یہی صورت حال فاٹا اور سوات کی ہے جہاں پاکستانی افواج کے اقدام کے نتیجے میں صرف گذشتہ ۱۷ ماہ میں ۵ ہزار معصوم انسان شہید ہوچکے ہیں اور باجوڑ سے ۴ لاکھ اور سوات سے ۶لاکھ لوگ بے گھر ہوکر اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے لیے ۲۰۰۸ء کا سال دہشت گردی کے حوالے سے بدترین سال رہا ہے۔ پاک ادارہ براے مطالعات امن (Pak Institute for Peace Studies) کی تازہ رپورٹ (بی بی سی، ۱۹ جنوری ۲۰۰۹ء) کی رُو سے ایک سال میں جس میں اقتدار پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں بشمول اے این پی، ایم کیو ایم اور جمعیت علماے اسلام (ف) کے پاس تھا، ملک میں دہشت گردی (بشمول حکومتی دہشت گردی) کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۸ہزار تک پہنچ گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد ۹۵۰۰ سے زائد ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ۷۰۰ فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ صوبہ سرحد میں ہوئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بلوچستان کا نمبر ہے جہاں گذشتہ سال ۶۴۲، قبائلی علاقے میں ۳۸۵، پنجاب میں ۳۵، سند ھ میں ۲۵، اسلام آباد میں ۷، آزاد کشمیر میں ۴ اور شمالی علاقہ جات میں ایک واقعہ ہوا ہے۔
یہ خونچکاں داستان صرف اس دہشت گردی کی ہے، جسے قوت کے ذریعے ختم کرنے کے دعوے سے کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ قتل، چوری، ڈاکے، عصمت دری، خودکشی اور دوسرے جرائم اس کے سوا ہیں۔ انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو اوسطاً ہر ماہ ایک سو سے متجاوز ہیں۔
یہ ہے ملک میں امن و امان کی اصل صورت حال اور زرداری گیلانی حکومت اس ناکام پالیسی پر اور بھی مستعدی کے ساتھ کاربند ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۳ء سے (جب حکومت نے اس پالیسی کا آغاز کیا۔) ۲۰۰۸ء تک مجموعی طور پر ۱۳ ہزار افراد جانیں کھوچکے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ دل خراش دعویٰ بھی کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان عراق اور افغانستان میں دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں دونوں سے آگے ہے‘‘___ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔
عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ صرف سوات میں ۱۲۰۰ افراد ہلاک اور ۵ لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔ اس رپورٹ کے یہ الفاظ کس قدر شرم ناک ہیں:
طالبان نے لوگوں کی جان اور حقوق کی توہین کی ہے، جب کہ دوسری طرف پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ان بنیادی حقوق کو پامال کیا ہے جن کی وہ بظاہر حفاظت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ (بی بی سی، ۱۳ فروری ۲۰۰۹ء)
ان حالات میں جب بھی حکومت نے اپنے عوام سے مذاکرات کرنے اور امن بحال کرنے کے لیے کسی معاہدے کی کوشش کی ہے تو اس پر امریکا برافروختہ ہوا ہے اور اس نے براہِ راست ڈرون حملوں میں اضافہ کر کے ان معاہدات کو سبوتاژ کرنے کی ’خدمت‘ انجام دی ہے۔ یہ ہے دہشت گردی کے خلاف اس کے ’تعاون‘ کی ایک شکل___
اس وقت بھی (وسط ِ فروری میں) جو معاہدہ سوات میں شرعی قوانین کے نفاذ اور امن کی بحالی کے لیے ہوا ہے اس پر امریکا، ناٹو، بھارت تینوں نے مخالف ردعمل کا اظہار کیا ہے اور زرداری صاحب دستخط کرنے میں لیت و لعل کر رہے ہیں۔ نیز ان کے ترجمان مسئلے کو اُلجھانے میں لگے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ خود اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی تک بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ شریعت کے نفاذ کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ تو صرف ۱۹۹۹ء کے ایک قانون میں کچھ ترمیم کی گئی ہے۔ حالانکہ اے این پی کی باقی قیادت خصوصیت سے اس کے سیکرٹری جنرل زاہد خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے شریعت کے نفاذ کا معاہدہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے اور وعدوں اور معاہدات کی تقدیس باقی نہیں رہی ہے۔ اس کی بدترین مثال عدلیہ بشمول چیف جسٹس کی بحالی کے سلسلے میں ایک نہیں، دو دو معاہدوں کا زرداری صاحب کا توڑنا ہے۔ اس کے بعد حکومت کے کسی قول و قرار کا اعتبار باقی نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے شریعت کے نفاذ کے اصولی مسئلے کی بھرپور تائید کے باوجود، اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے جو ایک ناقابلِ اعتبار حکومت سرحد میں کھیل کر رہی ہے۔ دراصل یہ کھیل پرویز مشرف کے سابقہ دور سے زرداری گیلانی دور تک اُسی یکساں انداز میں کھیلا جارہا ہے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ حالات کے صحیح ادراک کا فقدان اور کسی ہمہ جہت اور مربوط معاشی پالیسی کا عدم وجود ہے۔ نج کاری، بدعنوانی اور قومی اثاثہ جات کو کوڑیوں کے مول غیرملکیوں کی طرف منتقل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے مگر اس پر دوبارہ عمل شروع ہوگیا ہے جس کے معیشت پر دُوررس منفی اثرات پڑیں گے۔ اس عرصے میں روپے کی بین الاقوامی قیمت میں ۲۵ فی صد کمی واقع ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں بیرونی قرضوں کا بار ۷۰۰ ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ درآمدات مہنگی ہوگئی ہیں اور برآمدات میں طلب پوری کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی گرفت معیشت پر موجود ہی نہیں ہے۔ خارجہ سیاست ہو یا داخلی معاملات ہوں، کیفیت یہ ہے کہ ع
تن ہمہ داغ داغ شد ، پنبہ کجا کجا نہم
(سارا بدن زخموں سے داغ داغ ہوگیا ، پھایا کہاں کہاں رکھوں؟)
ممبئی کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور پاکستان پر امریکا کے مسلسل حملے حالات کو ایک ایسے رُخ پر لے جانے کے لیے ہیں کہ ایک طرف اقوامِ عالم خاکم بدہن پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دے کر یو این کے کسی پروانے کے سہارے ہمارے ایٹمی اثاثہ جات پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ دوسری طرف پاکستان کے تصور (image) کو میڈیا کے ذریعے اتنا خراب کردیا جائے کہ ملک تنہا ہوکر رہ جائے۔ کسی مذموم بین الاقوامی کارروائی کے لیے فضا سازگار ہوجائے۔ فوج کو ملک کے دفاع کی جگہ مغربی سرحدات پر ایک نہ جیتنے والی جنگ میں جھونک دیاگیا ہے اور اس دلدل سے فوج کے نکلنے کی ہرکوشش کو ناکام بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔ قوم اور فوج کے درمیان اعتماد اور تعاون کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب اگر اسے دوبارہ بحال کرنے میں کوئی کوتاہی کی جاتی ہے تو یہ خودکشی سے کم نہیں ہوگا۔ فوج کی قیادت کو بھی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ ایک طرف فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف ایک گندے کھیل میں جھونک دیا گیا ہے تو دوسری طرف فوج اور آئی ایس آئی کو بڑے منظم طریقے سے ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں تازہ ترین کوشش وہ اہم کتاب ہے جو امریکا کے سی آئی اے کے سابق کارندوں کی روایات پر نیویارک ٹائمز کے ایک صحافی ڈیوڈ ای سنگر (David E. Sanger) نے The Inheritance: The World Obama Confronts کے نام سے شائع کی ہے۔ اس کا اصل ہدف پاکستانی فوج اور خصوصیت سے آئی ایس آئی ہے۔ دوسری طرف بھارت کی قیادت بھی ممبئی کے واقعے کے سلسلے میں کھل کر آئی ایس آئی کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔
ان حالات میں پاکستانی عوام، سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کو بڑی دانش مندی اور سمجھ داری سے معاملات کو طے کرنا ہوگا۔ اس کے بنیادی دائرے تین ہونے چاہییں:
۱- پاکستانی فوج کو دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت سے نکالنا اور اسے ان اصل اور حقیقی خطرات کے مقابلے کے لیے تیار اور مستعد رکھنا جو ملک کو درپیش ہیں۔
۲- بنگلہ دیش کے ماڈل پر فوج کے کسی ایسے کردار کے خلاف پیش بندی جس میں سیاسی حالات کے بگاڑ کا سہارا لے کر اسے دوبارہ سیاست میں ڈالنے کا کھیل کھیلا جائے۔ فوج کے سیاسی کردار نے فوج کے مزاج، تصور (image) اور کردار سب کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ یہ ملک اور فوج دونوں کے لیے تباہی کا راستہ ہے، اس لیے یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔
۳- ملک کے سلامتی کے لیے مثالی نمونے (paradigm) کی ازسرنو تشکیل کی جائے جس میں فوج کو حقیقی خطرات کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لائق بنایا جائے اور اس کی تربیت اور پوری پلاننگ صرف اور صرف دفاعی ضرورتوں کے تحت ہو۔ فوج کو امریکا کی دخل اندازیوں سے بھی محفوظ کیا جائے۔ٹریننگ کے نام پر امریکا نے فوج میں اپنی لابی اور شراکت داری کا جو منصوبہ بنایا ہے، اسے بروقت روکا جائے۔
ا- ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کے مجرمانہ اقدام کو فی الفور کالعدم قرار دیا جائے اور عدلیہ کو اس کی ۳نومبروالی شکل میں اور اصل عدلیہ کے ۳ نومبر والے ۷ ججوں کے متفقہ فیصلے کی روشنی میں بحال کیا جائے۔
ب- جنرل پرویز مشرف کا احتساب ہو اور اسے دفاع کا پورا موقع دے کر دستور کی خلاف ورزیوں اور سیاسی جرائم کی قرار واقعی سزا دی جائے۔
ج- کُل جماعتی مشاورت کے ذریعے ایک حقیقی قومی مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے اور تمام قومی عناصر کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی بنیاد پر ایک نئے قومی عمرانی معاہدے پر متفق کیا جائے جس میں دستور کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر اتفاق راے پیدا کیا جائے۔
د- امریکا کی ’دہشت گردی کی جنگ‘ سے اپنے کو الگ کیا جائے اور ملک کے لیے صحیح خطوط پر سلامتی کے مثالی نمونے کی تشکیل نو ہو۔
ر- ایک متعین مدت کے لیے قومی سطح پر عبوری انتظام ہو تاکہ اصل دستور اور اس قومی میثاق کی روشنی میں نئے انتخاب کے ذریعے عوام کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔
ھ- ملک کی معیشت کو خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ہمہ جہت، حقیقت پسند اور مربوط معاشی پالیسی کے ذریعے مرتب اور منظم کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ ملک کے اہل ترین ماہرینِ معاشیات کے مشوروں سے ایک ایسا معاشی پروگرام بنایا جائے جو قومی وسائل کو قومی مقاصد اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بروے کار لاسکے۔
و- تمام سیاسی مسائل کو افہام و تفہیم، مذاکرات اور سیاسی طریق کار کے اصول کے مطابق سلجھانے کی کوشش کی جائے۔
ز- میڈیا کی آزادی کے ساتھ عوام کے حقوق کی پاس داری کو ریاستی پالیسی کا مرکزو محور بنایا جائے۔ عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور مکمل شفافیت کے ساتھ ان کو پاکستان کے دفاع، تحفظ اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لیے منظم کیا جائے۔
ک- ۱۲ اور ۱۶ مارچ کے پروگرام کو پُرامن جمہوری انقلاب کا نقطۂ آغاز بنایا جائے تاکہ پاکستان کی سیاست کو صحیح رُخ پر ڈالا جاسکے اور ملک و قوم اس وقت جس بحران میں مبتلا ہیں، اس سے نجات حاصل کی جاسکے۔
یہ وقت قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے امتحان کا وقت ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بحیثیت قوم اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔
دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں نے اسے ہمیشہ ہی ایک جرم تصور کیا ہے۔ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے اس کا جواز ظلم اور ریاستی قوت کے مجرمانہ استعمال کے مقابلے میں مزاحمت کے نام پر کرتے رہے ہیں، نیز اسے قوت کے عدم توازن کا توڑ کرنے والوں کے خلاف بجاطور پر ایک ہتھیار ایک حد تک تصور کیا جاتا رہا ہے اور بین الاقوامی قانون اور روایات میں اس کے گنجایش بھی نکالی جاتی رہی ہے، جب کہ حکومت کے اربابِ کار اسے جرم قرار دے کر اس کے مرتکبین کو قانون کے تحت سزا دینے کا راستہ اختیار کرتے رہے ہیں۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے نیویارک اور واشنگٹن کے واقعات کے بعد امریکا نے دہشت گردی کو ایک جرم کے بجاے جنگ کا نام دیا اور اس کے خلاف دنیا بھر میں طبلِ جنگ بجانے کے ساتھ ملکی قانون اور بین الاقوامی قانون دونوں کو یکسر نظرانداز کرکے عملاًافغانستان اور عراق پر فوج کشی کردی۔ دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کا ایک سلسلہ تمام ہی مغربی ممالک میں بے دردی سے شروع ہوگیا اور محض شبہے کی بنیاد پر گرفتاریاں، ملک بدری، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں لوگوں کا بے دریغ اغوا، تفتیش میں تعذیب، قانونی دفاع کے حق سے محرومی اور بین الاقوامی قانون کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے دوسرے ممالک کی حاکمیت اور آزادی کی پامالی، ’قومی مفادات کے تحفظ‘ کے نام پر فوج کشی، بم باری اور سرحدات کی بے دریغ خلاف ورزی کا راستہ اختیار کیا گیا۔
ہم نے اس ریاستی دہشت گردی پر پہلے دن ہی سے گرفت کی اور اس کے جواز میں دیے جانے والے دلائل کا توڑ کیا۔ مسلم ممالک کے اہلِ علم کی ایک نمایاں تعداد نے اس ریاستی دہشت گردی پر مضبوط دلائل کی بنیاد پر تنقید کی، لیکن امریکا اور یورپ کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی بڑی تعداد نے اس ظلم اور زیادتی پر خاموشی اختیار کی۔ البتہ امریکا کی نام نہاد جنگ جیسے جیسے طویل ہوئی، اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اور اسی ہفتے جنیوا میں’قانون دانوں کے عالمی کمیشن‘ کے آٹھ رکنی پینل نے ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ Assessing Damage Urging Action شائع کر دی ہے۔ اس پینل کی سربراہی آئرلینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر میری رابن سن (Marry Robinson) تھیں اور اس کے دوسرے شرکا میں دنیا کے کئی ماہرینِقانون اور سابق جج تھے۔ اس رپورٹ میں ان قوانین پر بھرپور گرفت کی گئی ہے جو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور جن کی زد قانون اور بین الاقوامی قانون کے مسلّمہ اصولوں پر پڑ رہی ہے۔ رپورٹ میں دہشت گردی کو جنگ نہیں ایک جرم اور انسانیت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ دہشت گردی پر گرفت کے نام پر قانون اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے مسلّمہ اصولوں سے انحراف کا کوئی جواز نہیں۔ اس سلسلے میں جوقانون سازی اور عملی اقدامات امریکا اور دوسرے ممالک نے کیے ہیں وہ قانون کے مسلّمہ اصولوں سے متصادم ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ اس رپورٹ کے چند اہم اقتباسات اس لائق ہیں کہ ان کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے اور دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر قانون اور انصاف کے پورے نظام کو جس طرح تہہ و بالا کیا گیا ہے اس کی اصلاح کی جائے ورنہ انسانیت کے لیے یہ سودا بہت خسارے کا سودا ہوگا:
’دہشت گردی‘ ایک حقیقت ہے اور اس سے جو خطرات درپیش ہیں، ان کو خفیف سمجھنا ایک غلطی ہوگا۔ ان خطرات کا مقابلہ ریاستوں کا فرض ہے مگر دہشت گردی کی مخالفت کے نام پر کیے جانے والے موجودہ متعدد اقدامات نہ صرف غیرقانونی ہیں بلکہ ان کے منفی نتائج رونما ہو رہے ہیں۔ پینل اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ ان کے نتیجے میں انسانی حقوق کے قوانین کی بنیادوں کو جو نقصان پہنچا ہے وہ اندازے سے بہت زیادہ ہے۔
دہشت گردی مخالف قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کا جائزہ لینے کی، اور جو نقصان ہوا اس کاتدارک کرنے کے لیے عالمی، علاقائی اور قومی سطحوں پر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔
پینل نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ:
نائن الیون سے پہلے جو قانونی فریم ورک موجود تھا وہ انتہائی مضبوط اور مؤثر ہے اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر اعتبار سے کافی ہے۔
پینل نے دوٹوک انداز میں امریکا اور دوسرے جمہوری ممالک پر سخت گرفت کی ہے کہ وہ قانون کے بنیادی اصولوں کو پامال کر کے ایک سنگین انسانی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں:
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ:
رپورٹ کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں امریکا پر بھرپور گرفت کی گئی ہے اور دہشت گردی کے لیے جنگ (war) کے مثالیے کے استعمال کو مؤثر الفاظ میں رد کیا گیا ہے۔
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس رپورٹ میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پول پوری طرح کھول دیا گیا ہے اور دنیا کی تمام جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والی حکومتوں اور افراد کے لیے اس کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کو ریاستی دہشت گردی کی اس جنگ سے نجات دلانے کے لیے مؤثر جدوجہد کریں اور ان انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، تاکہ انسانیت نے جو کچھ صدیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا ہے وہ امریکا کی اس سامراجی جنگ کے نتیجے میں پامال نہ ہو جائے۔
اس رپورٹ کی روشنی میں پاکستان کو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بارے میں اپنی پالیسی پر فوری طور پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی جو آمریت کے دور میں راہِ اعتدال اور حق و انصاف کے اصولوں سے دُور ہٹ گئی تھی، اس کی تبدیلی وقت کی اولین ضرورت ہے۔
اس رپورٹ سے پارلیمنٹ کے اس موقف کو مزید تقویت ملی ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ خارجہ پالیسی کو امریکا کی غلامی سے آزاد کیا جائے اور پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں حق و انصاف پر مبنی ہوں اور ان کا ہدف پاکستان کے مفاد کا تحفظ ہو، امریکا کی کاسہ لیسی نہیں۔
۲۱ویں صدی کا آغاز ایک بہت بڑے المیے سے ہوا___ یعنی ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں دہشت گردی کے واقعات جن کے نتیجے میں دنیا ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی، تہذیبی اور معاشی بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ بلاشبہہ دہشت گردی کا یہ واقعہ ہراعتبار سے قابلِ مذمت اور انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے لیکن اس واقعے سے بھی زیادہ تباہ کن اقدام اس واقعے کی آڑ میں دنیا کو دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی جنگ میں جھونک دینا ہے۔ اب انسانیت دو عظیم مسائل بلکہ خطرات سے دوچار تھی:
اس ضمن میں کم از کم پانچ بھیانک غلطیوں (blunders) کا ارتکاب کیا گیا جن کی سزا پوری انسانیت اور خود امریکا، اس کے عوام، سیاسی نظام اور معیشت بھگت رہے ہیں۔ یہ ہمالیہ سے بھی بڑی غلطیاں یہ تھیں:
۱- دہشت گردی جو سیاسی مقاصد کے لیے احتجاج اور تبدیلی کے لیے ایک ذریعے (tactic) کی حیثیت رکھتی ہے، وہ خواہ کتنی ہی قبیح اور قابلِ مذمت کیوں نہ ہو، اسے محض ایک طریقے اور ایک ہتھیار سے بڑھا کر ایک نظریے، ایک فلسفے اور ایک تحریک کی شکل دے دی گئی اور ایک ’خیال‘ (abstract phenomenon) کو دشمن قرار دے کر جنگ کا ہدف بنا دیا گیا۔
۲- دہشت گردی اور قوت کے استعمال کی بے شمار شکلیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی کچھ خصوصیات، ذرائع، اسباب اور اہداف ہیں۔ لیکن اس جنگ کے جنون میں ان سب مختلف النوع قسم کے تشدد کے استعمالات کو ایک شے تصور کرلیا گیا اور اس غلط طور پر جمع کرنے (flawed aggregation) کی وجہ سے پورا معاملہ اتنا اُلجھ گیا کہ ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی___ کی سی صورت حال پیدا ہوتی گئی اور اب ڈور کے سلجھنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا۔
۳- دہشت گردی کو جنگ قرار دے کر اس کے خلاف جنگ کے اعلان سے ملکی سلامتی کے تصورات، جنگ و صلح کے عالمی قوانین، ملک میں دستوری اور قانونی نظام، جرم و سزا کے معروف اصول و قواعد، آزادی، بنیادی حقوق، تفتیش کے معروف ضوابط، حتیٰ کہ نجی زندگی (privacy) کی حفاظت تک کے بارے میں سارے اصول اور آداب غیرمتعلق ہوگئے اور دنیا کو ایک نئی بربریت کی طرف دھکیل دیا گیا اور عملاً امریکا اور پھر اس کے اتحادیوں نے جن میں یورپ کی ناٹو اقوام کے علاوہ خود مسلمان ملکوں کے متعدد حکمران شریک ہیں، گذشتہ ۸ سال میں صرف عراق، افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں ہی میں تباہی نہیں مچائی بلکہ پوری دنیا کو نہایت غیرمحفوظ بنا دیا۔ ہر قانون اور ہر ضابطہ اس جنگ کے نام پر پامال کیا گیا اورکیا جا رہا ہے۔
۴- جنگ کے اس نئے تصور اور حالات کی اس تعبیر کا ایک تباہ کن نتیجہ یہ رونما ہوا کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ایک ہی ہتھیار مؤثر قرار دیا گیا اور وہ تھا فوجی قوت کا بے محابا استعمال۔ اس کا نتیجہ تھا کہ اس سلسلے کے سب سے اہم پہلو___ یعنی دہشت گردی کے اسباب کو بالکل غیرمتعلق قرار دے دیا گیا اور سارا ہدف نام نہاد دہشت گردوں کی تلاش، ان کے معاونین اور مالی سرپرستوں کی سرکوبی، ان ممالک میں فوج کشی جن پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام تھا___ ان سب کو تہِ تیغ کرنا اور قوت سے ختم (exterminate) کرنا ، مقابلے کی صحیح حکمت عملی قرار پائے اور اس پر امریکی صدر بش نے دنیا پر ایک عالمی جنگ مسلط کردی۔ اسباب سے توجہ کا ہٹنا اور ایک نامعلوم گروہ کا قوت سے خاتمہ اس ردعمل کا سب سے تباہ کن پہلو بن گیا۔
۵- پانچویں اور آخری لیکن انسانی اور تہذیبی اعتبار سے نہایت تباہ کن غلطی یہ واقع ہوئی کہ صدر بش نے اپنے صہیونی اور نو قدامت پسند (neo-cons) مشیروں اور پالیسی سازوں کے زیراثر القاعدہ کے نام پر جنگ کا رُخ مسلمانوں، عربوں اور خود اسلام کی طرف پھیر دیا اور اس طرح یہ صلیبی جنگ کا روپ دھار گئی۔ جہاد اور جہادی کلچر کو اصل ہدف بنایا گیا، ان تحریکات کو لپیٹنے کی کوشش کی جو اسلام کے نظامِ حیات کو قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں اور خود اسلام کو نت نئے ناموں سے مطعون کیا جانے لگا۔ جسے پہلے صرف بنیاد پرست (fundamentalist) کہا جاتا تھا وہ انقلابی اسلام (radical Islam) بنا، پھر اسے اسلامی فسطائیت (Islamic fascism) کا نام دیا گیا اور بالآخر اسلامی دہشت گردی قرار دیا۔ اسلام کی ’اصلاح‘ (reformation) کے نام پر یہ جنگ اسلام کے اصول و اہداف کی ایسی تراش خراش سے عبارت ہے جو اسے مغربی اقوام کے لیے قابلِ قبول بلکہ تر نوالہ بنا دے۔
اس پورے منظرنامے کے بنانے میں مرکزی کردار امریکی صدر جارج بش اور ان کے ساتھیوں کا تھا۔ لیکن یہ پوری جنگ اور اس کے پیچھے کام کرنے والی فکر اور حکمت عملی ان ۸ برسوں میں جس بُری طرح ناکام ہوئی ہے اس کا مظہر وہ نفرت ہے جو پوری دنیا میں بشمول امریکا بش کے حصے میں آئی ہے۔ صدر اوباما کی کامیابی اور اس کے مرکزی تصور یعنی تبدیلی کا تعلق محض ایک فرد کی تبدیلی سے نہ تھا بلکہ ایک پوری فکر، حکمت عملی اور پالیسیوں کے مجموعے سے تھا۔ امریکا میں بش کی مقبولیت ۸۰ فی صد سے کم ہوکر ۱۸ فی صد پر آگئی اور بھارت، اسرائیل اور ایک دو افریقی ممالک کو چھوڑ کر تمام دنیا میں اور خصوصیت سے مسلم دنیا کے ۸۰ سے ۹۰ فی صد افراد نے اس سے نفرت اور بے زاری کا اظہار کیا ہے۱؎ اور جس ذلت کے ساتھ بش کی صدارت کا خاتمہ ہوا ہے وہ دکھی انسانیت کی بددعائوں کا مظہر اور بش کی حکمت عملی کی ناکامیوں کا آئینہ (index) ہے۔
اس سلسلے میں چند چیزیں قابلِ ذکر ہیں جو تاریخ کا حصہ اور خودپسند اور غلط کار حکمرانوں کے لیے عبرت کا سامان ہیں:
۱؎ ملاحظہ ہو، The Pew Global Attitude Project کا ۱۸ دسمبر ۲۰۰۸ء کا سروے "Global Public Opinion in Bush Years (2001-2008)
۱- فکری اعتبار سے دنیا کے دانش ور اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے اربابِ قلم تو
دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اور اسے ایک باطل تصور اور شیطانی حربہ قرار دے رہے تھے، لیکن بش کے صدارت سے فارغ ہونے سے ۵ دن قبل برطانیہ، جو اس جنگ میں بش کا سب سے بڑا شریک اور معاون تھا، کے وزیرخارجہ جناب ڈیوڈ ملی بینڈ کا مضمون لندن کے اخبار دی گارڈین میں شائع ہوا اور اسی دن ممبئی میں موصوف نے انھی خیالات کا اظہار ایک تقریر میں کیا جو دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کی حکمت عملی کی ناکامی کا بھرپور اعتراف اور بش کے پورے دورِ حکومت اور اس کی پالیسیوں کے لیے ایک عبرت ناک لوحِ قبر کا درجہ رکھتا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس مضمون کی تاریخ اشاعت اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ مضمون کا عنوان ہے: War on Terror Was Wrong
اس مضمون کے چند اقتباسات خصوصی غوروفکر کا تقاضا کرتے ہیں:
نائن الیون کے ۷سال بعد اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ ہمیں انتہاپسندی اور اس کے خوف ناک پھل (offspring) دہشت گرد تشدد کو روکنے کی اپنی کوششوں کا ایک بنیادی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نائن الیون کے بعد سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے تصور نے ہی پورے نقشے کو مرتب کیا ہے۔ الفاظ کے اس مجموعے میں کچھ وزن ہے اور اس نے خطرات کی سنگینی، اتحاد کی ضرورت اور جہاں ضروری ہو طاقت کے ساتھ جواب دینے کی فوری ضرورت کا احاطہ کرلیا ہے۔ مگر آخری تجزیے یہ تصور گمراہ کن اور غلط ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کیا ہمیں دہشت گردی کی جڑوں پر اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ ہمیں ضرور کرنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہو؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ نے قومی حدود سے ماورا ایک واحد دشمن کا تصور دیا جو اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی شکل میں موجود تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد گروپوں کے محرکات اور شناختیں مختلف ہیں۔ لشکرِطیبہ کی جڑیں پاکستان میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد (cause) کشمیر ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف مزاحمت کی علَم بردار ہے۔ عراق کے شیعہ اور سنی باغی گروپوں کے مختلف اور کثیرجہتی مطالبات ہیں۔ یہ اتنے مختلف ہیں جیسے ۷۰ کے عشرے کی IRA ، Bader-Meinhof اور Eta کی یورپی دہشت گرد تحریکوں کے تھے۔ سب نے دہشت گردی کو استعمال کیا اور بسااوقات ایک دوسرے کی مدد پہنچائی۔ ان کے مقاصد ایک نہیں تھے لیکن ان کا تعاون موقع دیکھ کر تھا۔ یہی صورت آج بھی ہے۔
جتنا زیادہ ہم دہشت گرد گروپوں کو اکٹھا کردیں اور اعتدال پسندوں اور انتہاپسندوں، یا خیراور شر، کے درمیان آمنے سامنے لڑائی کی لکیر کھینچ دیں اتنا ہی زیادہ ہم ان لوگوں کے ہاتھ میں کھیلتے ہیں جو ان گروہوں کو متحدکرنا چاہتے ہیں جن میں بہت کم چیزیں مشترک ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کو اسلحے یا مالیات کی فراہمی روک کر، ان کے دعووں کے کھوکھلے پن کو دکھا کر اور ان کے پیروکاروں کو جمہوری سیاست میں لاکر ان سے ان کی جڑوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں یہ بھی مضمر تھا کہ صحیح ردعمل اولیں طور پر فوجی ہے۔ لیکن جیساکہ جنرل پیٹریاس نے مجھ سے اور دوسروںسے عراق میں کہا کہ اتحاد، بغاوت اور خانہ جنگی کے مسائل درمیان اپنا راستہ قتل کرکے نہیں نکال سکتا۔
ہمیں دہشت گردی کا مقابلہ قانون کی حکمرانی کا علَم بردار ہوکر کرنا چاہیے نہ کہ اس کی اہمیت ختم کرکے اس لیے کہ یہ جمہوری معاشرے کا بنیادی پتھر(corner stone) ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں اور بیرونی ممالک میں حقوقِ انسانی اور شہری آزادیوں کے اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے۔ یقینا یہ گوانتانامو کا سبق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے منتخب صدر اوباما کے اسے بند کرنے کے وعدے کو خوش آمدید کہا ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا بلاوا جنگ کے لیے تھا۔ یہ ایک کوشش تھی کہ سب کے مشترک واحد دشمن کے خلاف اتحاد قائم کیا جائے۔ لیکن عوام اور قوموں کے درمیان اتحاد کی بنیاد اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کس کے مخالف ہیں بلکہ اس نظریے پر ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور ہماری مشترک اقدار کیا ہیں۔ دہشت گردوں کی یہ کامیابی ہے کہ وہ ملکوں کو خوف زدہ اور انتقام پر آمادہ کردیں۔ جب وہ افتراق اور دشمنی کے بیج بو دیتے ہیں، جب وہ ملکوں کو تشدد اور جبر سے جواب دینے پر مجبور کردیتے ہیں، تب وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ بہترین ردعمل یہ ہے کہ دبائو میں آنے سے انکار کر دیا جائے۔
اس بنیادی مقدمے (thesis) کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ ممبئی کے واقعات کی روشنی میں اصل مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔ پاکستان کی قیادت نے اپنی نادانی، ذہنی ژولیدگی یا بزدلی کی وجہ سے اس سلگتے ہوئے مسئلے کو اٹھانے سے احتراز کیا لیکن ملی بینڈ نے لندن اور ممبئی دونوں مقامات پر اس ’اَن کہی‘ کا صاف اظہار کر ہی دیا، جس سے بھارت کی قیادت آتش زیرپا ہے۔۱؎ اس نے کہا:
یہ وہ چیز ہے جو غزہ میں فوجی اقدام کے حامیوں اور مخالفین کو جدا کرتی ہے۔ ممبئی حملوں کے ردعمل پر بحث سے بھی اسی طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ جو ذمہ دار تھے انھیں انصاف کے کٹہرے میں آنا چاہیے اور حکومتِ پاکستان کو اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے پورے نظام کو توڑنے کے لیے مؤثر اور فوری اقدام کرنے چاہییں۔ لیکن گذشتہ ہفتے جنوبی ایشیا میں اپنے دورے کے دوران میں اس بات کے حق میں دلائل دیتا رہا کہ دہشت گرد حملوں کا بہترین تریاق طویل المیعاد تعاون باہمی ہے۔ میں موجودہ مشکلات کو سمجھتا ہوں لیکن کشمیر کے تنازعے کا حل علاقے کے انتہاپسندوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے سب سے بڑے سبب سے محروم کردے گا، اور پاکستانی حکمران اپنی مغربی سرحدوں پر خطرات کا اچھی طرح مقابلہ کرسکیں گے۔ (دی گارڈین، لندن، ۱۵ جنوری ۲۰۰۹ء)
برطانیہ کے وزیرخارجہ ٹونی بلیر کی حکومت میں بھی وزیر تھے، ان سے یہ کہنے کو تو ضرور دل چاہتا ہے کہ ع
ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
۱؎ بھارتی وزیراعظم نے اظہار ناراضی کے لیے اپنے برطانوی ہم منصب کو خط لکھا اور دہلی آئے ہوئے برطانوی وزیردفاع سے ملاقات نہ کی لیکن برطانیہ کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بیان دیا کہ وزیر خارجہ کابیان برطانیہ کی حکومتی پالیسی کے مطابق تھا۔
مگر حقیقت ہے کہ بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا اس سے زیادہ صاف الفاظ میں اعتراف مشکل ہے۔ یورپ کے ممالک کے کئی حکمران بھی اب یہ بات کہہ رہے ہیں اور افغانستان میں ناٹو کے سیکرٹری جنرل ہوپ شیفر نے واشنگٹن پوسٹ (۱۷ جنوری ۲۰۰۹ء) کی اشاعت میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ:
ہم جامع طرزِعمل کی صرف زبانی تعریف (lip service) پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ صرف طاقت سے افغانستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہم ناکافی وسائل اور عوام کی طرف سے ربط کی کمی کی وجہ سے فوجی آپریشن کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت ہے کہ زیادہ کوشش کی جائے: پولیس کو تقویت دینے کے لیے، ترقیاتی امداد کو باہم مربوط کرنے کے لیے، اور افغانستان میں امریکی مشن کی تعداد کو بڑھانے (beef up) کے لیے۔ بے حد اہم ہے کہ افغان حکمران ایک مستعد اور کرپشن سے پاک حکومت قائم کرنے کا مشکل فیصلہ کریں، جس پر عوام کو اعتماد ہو۔ ان دائروں میں ترقی میں جتنی دیر ہوگی فوجی آپریشن کی بھی اتنی دیر ضرورت رہے گی اور اس کی قیمت انسانی جانوں کی صورت میں ادا کرنا ہوگی۔
موصوف کی نگاہ میں افغانستان میں طالبان اصل مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ کرزئی حکومت اور امریکا کی سرپرستی ہے:
لیکن افغانستان کا دیانت دارانہ جائزہ اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ ہم وہاں نہیں پہنچے ہیں جہاں اب تک پہنچنے کی ہمیں اُمید تھی۔ ملک کے شمال اور مغرب میں تو بڑی حد تک امن ہے اور حالات بہتر ہورہے ہیں لیکن مغرب اور مشرق میں، بغاوت، منشیات اور غیرمؤثر حکومت کی کارفرمائی ہے۔ اپنے ملک کی تعمیرو ترقی میں کمی کی وجہ سے ان کی مایوسی بڑھتی جارہی ہے اور جن ملکوں نے ناٹو کی سربراہی میں کام کرنے والے مشن کے تحت اپنی فوجیں بھیجی ہیں ان کے عوام بھی پریشان ہیں کہ یہ آپریشن کتنی دیر تک چلے گا اور کتنے نوجوان مرد اور عورتیں مزید اس میں اپنی جانیں کھو بیٹھیں گے۔ افغانستان کا بنیادی مسئلہ طالبان کا زیادہ ہونا نہیں، بلکہ اچھی حکمرانی کا بہت کم ہونا ہے۔ افغانوں کو ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو ان کی وفاداری اور اعتماد کی مستحق ہو۔ جب ایسا ہوگا تو بغاوت خود ہی آکسیجن سے محروم ہوجائے گی۔
اور تو اور اب خود کرزئی صاحب بھی گویا ہوئے ہیں۔ کرزئی صاحب اور صبغت اللہ مجددی نے یہ بیانات دیے ہیں (ڈیلی ٹائمز، ۲۱ جنوری ۲۰۰۹ء) کہ مغرب کو دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہیے۔ بیانات کا عنوان ہے:
کرزئی کا مغرب سے جنگ کی حکمت عملی پر نظرثانی کا مطالبہ۔ افغان سینیٹ کے اسپیکر نے کہا کہ اگر مغرب نے احتیاط نہ برتی تو قوم اُٹھ کھڑی ہوگی۔
افغان صدر حامد کرزئی نے منگل کو مغرب سے طالبان سے لڑنے کی اور امداد فراہم کرنے کی حکمت عملی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیرونی افواج کا شہری آبادی کو قتل کرنا افغانستان میں عدمِ استحکام کی بڑی وجہ ہے۔
سیکورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے نتیجے میں گذشتہ برس ۲ہزار شہری مارے گئے۔ مجموعی طور پر ۲۰۰۸ء میں کُل ۵ ہزار افراد قتل کیے گئے۔ سینیٹ کے اسپیکر صبغت اللہ مجددی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر شہری ہلاکتوں کو نہ روکا گیا تو مزید بے چینی پیدا ہوگی۔ ہم بھر پائے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اللہ نہ کرے کہ افغان قوم کھڑی ہوجائے۔ میں نے اپنے امریکی بھائیوں اور دوستوں سے کہا ہے کہ وہ احتیاط برتیں۔ اگر قوم کھڑی ہوگئی تو حالات عراق سے بدتر ہوں گے۔
کرزئی صاحب اور صبغت اللہ مجددی صاحب کی تقاریر افغانستان کی پارلیمنٹ میں کی گئی ہیں۔ فوجی قوت کے استعمال کی حکمت عملی ہر جگہ ناکام رہی ہے (یہی وجہ ہے کہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک ناکامی کا سودا ہے جس سے جتنی جلد نجات پائی جائے بہتر ہے)۔ یہ بش کی ناکامی کا فکری، تجزیاتی اور سیاسی قیادت کی سطح پر اعتراف ہے۔ اس پالیسی کو اس کے ساتھ ہی رخصت ہو جانا چاہیے۔
۲- دوسرا واقعہ جس کے حسن و قبح میں جائے بغیر اس کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اب ایک تاریخی علامت (symbol) کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ وہ واقعہ دسمبر میں بغداد کی پریس کانفرنس میں صحافی زید المنتظری کی جانب سے صدربش کا دو جوتوں سے استقبال ہے جو امریکا کے خلاف نفرت اور اس کی پالیسیوں کی عالم گیر ناکامی کا مظہر ہے۔ نیز ’جوتا پاشی‘ کے موقع پر جو جملے اس نے کہے وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں عام انسانوں خصوصیت سے عرب اور دنیاے اسلام کے عوام کے جذبات کے آئینہ دار ہیں جن میں عراق پر تسلط اور معصوموں کے خون بہانے پر چارج شیٹ کیا گیا۔ پھر جوتے کے ذریعے بش کی رخصتی کی اس ریت کی عالمی طور پر جو پذیرائی ہوئی ہے وہ عوامی ردعمل کا بھرپور اظہار ہے۔ خود امریکا میں ہزاروں احتجاج کرنے والوں نے بش کے فوٹو اور وائٹ ہائوس پر جوتوں کی بارش کر کے بغداد کے پیغام کو امریکا میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیا۔ جوتوں کی اس عالم گیر بارش نے وہ کام کردکھایا جو توپ و تفنگ اور سیمی نار اور تقاریر نہ کرسکیں۔
۳- تیسرا پہلو وہ معاشی اور مالیاتی بحران ہے جس نے امریکا ہی نہیں، پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور جو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خرابیوں، مارکیٹ کی حاکمیت کی تباہ کاریوں اور سرمایہ پرستی کے جنون میں دولت مندوں کی سیاہ کاریوں کے ساتھ بش کی معاشی پالیسیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اقتصادی قیمت (economic cost) کا پیداکردہ ہے۔ عسکری ناکامی، سیاسی ناکامی اور پھر معاشی ناکامی___ یہ تینوں بش اور اس کی پالیسیوں کا مقدر بن گئے ہیں۔
چوتھا پہلو وہ بے عزتی ہے جو بش کو اسرائیل کے ہاتھوں اٹھانی پڑی ہے۔ اس کی جو تفصیلات اب امریکی میڈیا کے ذریعے سامنے آرہی ہیں وہ امریکا کے صدر پر اسرائیلی وزیراعظم کی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ جس ملک کو دنیا کا سب سے امیر اور طاقت ور ملک ہونے کا ادّعا ہے اور جس کے صدر کو دنیا کا طاقت ور ترین شخص کہا جاتا ہے، اسرائیل کے ہاتھوں اس کی کیا درگت بنی ہے، یہ داستان بھی سننے کے اور اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ پر سر دھننے کے لائق ہے کہ جسے چاہے وہ عزت بخشے اور جسے چاہے ذلت کا نمونہ بنا دے۔ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَـآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَـآء (اٰل عمران۳:۲۶)۔ اس واقعہ میں عبرت کے بڑے پہلو ہیں۔
۸جنوری کو اقوام متحدہ میں اسرائیل کی غزہ میں ننگی جارحیت اور حماس کو سبق سکھانے کے نام پر معصوم شہریوں کے کشت وخون، بچوں اور عورتوں کے قتلِ عام، گھروں، دفتروں، مدرسوں اور مسجدوں کو بے دریغ مسمار کرنے کے خلاف عالمی ردعمل کے زیراثر ایک قرارداد کا معاملہ درپیش تھا۔ بڑے ردوکد کے بعد خود کونڈولیزا رائس نے ایک قرارداد پر اتفاق راے کا اظہار کیا اور جیسے ہی اسرائیل کے وزیراعظم کو یہ اطلاع ملی کہ امریکا قرارداد لانے پر تیار ہوگیا ہے، وہ سیخ پا ہوگیا۔ اسرائیل امریکی صدر سے کس طرح ربط قائم کرتا ہے اور کس طرح اس قرارداد پر قرارداد کے محرک کونڈولیزا رائس کو ووٹ دینے سے رکوا لیتا ہے، اس کی روداد پڑھنے کے لائق ہے۔ زیدالمنتظری کا جوتا تو بش کے نہ لگ سکا لیکن اولمرٹ کا جوتا ٹھیک نشانے پر لگا۔ کاش عالمی میڈیا نے بغداد کے جوتے کی طرح امریکا کے اس جوتے کی منظرکشی بھی ساری دنیا کے سامنے کی ہوتی۔
گائن ڈائر (Gwynne Dyer) اپنے مضمون میں حالات کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
اولمرٹ نے ۱۳ جنوری کی جنوبی اسرائیل کے شہر اچکلان کی تقریر میں اس واقعہ کو سرعام یوں بیان کیا گیا ہے: ’’میں نے کہا: میری صدربش سے فون پر بات کرایئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ فلاڈلفیا میں تقریر کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: مجھے اس سے کیا۔ مجھے ان سے ابھی بات کرنا ہے۔ انھوں نے ان کی تقریر رکوائی اور ایک دوسرے کمرے میں انھیں لے کر آئے جہاں میں نے ان سے بات کی۔ میں نے ان سے کہا: آپ اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ انھوں نے کہا: سنو! مجھے اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ میں نے اسے نہیں دیکھا، میں اس کے الفاظ سے واقف نہیں، تو وزیراعظم اولمرٹ نے صدر بش سے کہا: میں اس سے واقف ہوں۔ آپ اس کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ بش نے وہی کیا جو اس سے کہا گیا۔ بش نے سیکرٹری آف اسٹیٹس رائس کو آرڈر بھیجا اور اس نے قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا حالانکہ یہ وہ قرارداد تھی جسے اس نے خود پورا تیار کیا، الفاظ میں ڈھالا، اس کو مربوط کیا اور اس کے لیے حمایت جمع کی۔ وہ خاصی شرمندہ ہوئی اور بالآخر اس نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دیا جسے اس نے خود مرتب کیا تھا۔ سلامتی کونسل نے ۱۴ووٹ سے اس قرارداد کو منظور کیا لیکن امریکا جو اس کا مصنف تھا، اس نے اس پر کوئی راے نہ دی۔
صدر بش سے اسرائیل کے وزیراعظم نے اپنی جارحیت کو جاری رکھنے کے لیے جو کچھ کہا اور کروا لیا وہ کوئی غیر بیان نہیں کر رہاہے۔ یہ اولمرٹ کے اپنے الفاظ میں اور سیکڑوں افراد کی موجودگی میں اپنے کارنامے کا برملا اظہار ہے۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا یہ واقعہ ہے کہ اولمرٹ کے اس بیان کے آنے کے بعد صدربش کے دفتر اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کھلبلی مچ گئی اور بڑی چال بازی سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان سین میک کارم نے کہا کہ یہ بیان ۱۰۰فی صد درست نہیں ہے اور وہائٹ ہائوس کے ترجمان نے کہا کہ اس میں کچھ باتیں نادرست (inaccuracies) ہیں لیکن دیدہ دلیری ملاحظہ ہو:
امریکا کی اس ملمع سازی کا پردہ چاک کرتے ہوئے بڑی رعونت کے ساتھ اولمرٹ کے دفتر سے روکھا جواب دیا گیا کہ پیر کو جو کچھ ہوا، وزیراعظم نے اس کو بالکل صحیح بیان کیا تھا۔ (امریکا کے ان بیانوں کی) اسے کوئی پروا نہیں۔
ڈائر اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے:
اولمرٹ کی کہانی پر شبہہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ بہت زیادہ چیں بجیں ہوسکتا ہے مگر وہ یہ کہانی کیوں بنائے گا۔ بہرحال اس نے جو چاہا، وہ حاصل کیا، جب کہ بش انتظامیہ کی تردیدوں پر شبہہ کرنے کی ہر وجہ موجود ہے۔ کہانی سے نہ صرف بش کی ذاتی طور پر توہین ہوتی ہے بلکہ یہ ان شبہات کو تقویت دیتی ہے جو پہلے ہی امریکا میں پھیلے ہوئے ہیں کہ بش کے تحت امریکی کتے کو اسرائیلی دُم مسلسل جھاڑتی رہتی ہے۔ (ڈان، ۲۰جنوری ۲۰۰۹ء)
۵- اس سلسلے کا ایک اور سبق آموز پہلو ۲۰ جنوری ۲۰۰۹ء کی تقریب حلف برداری اور اس موقع پر صدر اوباما کی تقریر ہے جسے سننے کا شرف بش صاحب کو اپنی صدارت کے خاتمے کے بعد پہلے اعزاز کے طور پر حاصل ہوا اور جس میں ان کی کیفیت ’سنتا جا شرماتا جا‘ والی تھی جس کے خاص خاص پہلوؤں پر انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے مضمون نگار ڈیوڈ سینگر نے Obama Speech Sharply Rebukes Bush Policiesکے عنوان سے اپنے مضمون میں نمایاں کیا ہے۔ اس مضمون سے بھی دو اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں:
بارک اوباما کے افتتاحی خطاب میں جارج ڈبلیو بش کے ۸سالہ دور اور اس کے نظریاتی حوالوں کو یہ عہد کر کے کہ امریکا اپنی سابقہ اقدار کی بازیافت کر کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا، کھلم کھلا مسترد کیا گیا تھا۔
بش اور ڈک چینی اوباما سے چند قدم دُور بیٹھے ہوں تو ایک نازک کام تھا۔
مضمون نگار بش کی کس مپرسی کا نقشہ یوں پیش کرتا ہے:
پھر بھی اس نے جو کچھ کہا، بش کو اس سے ضرور صدمہ ہوا ہوگا۔ تنقید اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں، لیکن گذشتہ ۸ برسوں میں اس نے شاید ہی کبھی اس طرح مجبوری کے عالم میں خاموشی سے بیٹھ کر سنا ہوگا کہ کس طرح امریکا اس کی نگرانی میں پٹڑی سے اُترگیا۔
صدر بش کا دور ختم ہوگیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دور کی حماقتوں، زیادتیوں اور تباہ کاریوں سے دنیا کس طرح اور کتنے وقت میں نجات پاتی ہے۔ اصل امتحان دیگر امور کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو سامراجی کھیل بش انتظامیہ نے کھیلا اور پوری دنیا کو تباہی سے دوچار کردیا اس سے نجات کا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ قیادت بش اور مشرف کی پالیسیوں ہی کو آنکھیں بند کرکے آگے بڑھا رہی ہے اور ملک کے حالات کو مزید خرابی کی طرف لیے جارہی ہے۔ پارلیمنٹ نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں جو قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی اور جس میں خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پوری حکمت کو تبدیل کرنے کی ہدایت کی تھی اور فوجی قوت کی جگہ مذاکرات کے راستے کو اختیار کرنے اور تمام فریقوں (stake holders) کو افہام و تفہیم اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل میں شریک کر کے ملک کی آزادی اور وقار کی بحالی اور اسے موجودہ دلدل سے نکالنے کے لیے واضح راہِ عمل کی نشان دہی کی تھی۔ اس پر عمل کے باب میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ دنیا بش کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے اور بش کے اپنے ساتھی اس پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے نئی حکمت عملی کی ضرورت اور سیاسی عمل کو متحرک کرنے کی بات کر رہے ہیں اور زرداری حکومت اس تباہ کن پالیسی پر کاربند ہے۔ حالانکہ سنا یہی ہے کہ ع
ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ!
اسلام کا بنیادی اور آفاقی اصول ہے کہ ایک انسان کا قتلِ ناحق ساری انسانیت کا خون بہانے اور ایک معصوم انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے، اور یہ بھی اسلام کے پوری انسانیت کے لیے رحمت ہونے کی دلیل ہے کہ اس سلسلے میں انسانوں کے درمیان مذہب، رنگ، نسل، جنس کی کوئی تفریق روا نہیں رکھی گئی ہے۔ مسلمان اورغیرمسلم دونوں کی زندگی محترم ہے اور قانون اور انصاف سے ہٹ کر کسی طرح بھی ایک انسان کو اس کی زندگی کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اس اصول کی روشنی میں ممبئی ہو یا راولپنڈی، کابل ہو یا سوات، نیویارک ہو یا بغداد، قتلِ ناحق ایک جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں پر قانون کے مطابق گرفت اور عدل کے تقاضوں کی روشنی میں سزا کا مؤثر اہتمام انسانی معاشرے کو مہذب اور پُرامن رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
ممبئی میں ۲۶ اور ۲۹نومبر ۲۰۰۸ء کے درمیان جو خونیں ہنگامہ برپا ہوا اور ۱۷۳ اِنسانوں کو جس بے دردی سے ہلاک کیا گیا اور سیکڑوں کو زخمی، وہ ایک المیہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور پوری دنیا کے دردمند انسانوں نے اس کی مذمت کی اور اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا۔ لیکن بھارت کی قیادت اور خصوصیت سے وہاں کے میڈیا اور ہندو انتہا پسندی کی تنظیموں نے جس طرح آنکھیں بند کر کے پاکستان اور نام نہاد ’اسلامی بنیاد پسندوں‘ کو نشانہ بنایا اور امریکا، مغربی اقوام اور خود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے انصاف کے تمام مسلّمہ اصولوں کو یکسر نظرانداز کر کے پاکستان کی ایک دینی اور فلاحی تنظیم کو کسی ثبوت اور صفائی کا موقع دیے بغیر موردالزام ٹھیرایا اور پھر پاکستان پر سیاسی، معاشی اور عسکری دبائو کا نہ َختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، اس نے ایک انسانی المیے کو ایک سیاسی کھیل میں تبدیل کردیا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ حکومت نے اس معاملے میں پہلے لمحے ہی سے جس بے بصیرتی اور کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے پاکستان کی مشکلات میںاضافہ اور اس پر منڈلانے والے خطرات کو دوچند کردیا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت اس واقعے کو پاکستان کو دبانے اور علاقے میں اپنے اور امریکی مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ وہ ایک طرف خود اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے اور اپنے فتنہ جُو عناصر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے، ملک میں اپنے ہم نوا عناصر اور آلۂ کار قوتوں کو تقویت دینے اور امریکا اور یورپی اقوام کے تعاون سے پاکستان کو اپنی ایک باج گزار ریاست بنانے اور اس کے سیاسی نقشے میں اپنے مفید مطلب تبدیلیاں لانے کے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بڑی ہوشیاری سے چالیں چل رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے جس طرح اپنے منشور اور سیاسی دعوؤں کی خلاف ورزیاں کی ہیں، ملک کی آزادی، حاکمیت اور سالمیت کو دائو پر لگا دیا ہے، مشرف دور کی پالیسیوں پر جس بھونڈے انداز سے عمل کیا جا رہا ہے، معاشی حالات جس طرح اس کی گرفت سے نکل رہے ہیں، امن و امان کی جو زبوں حالی ہے، اور جس طرح شخصی اقتدار اور مفادات کی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے، اس نے توقعات کے ان آبگینوں کو چکنا چور کردیا ہے جو جمہوریت کے احیا کے بارے میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم کیے گئے تھے۔ ایک امریکی ادارے کے تازہ ترین سروے کے نتائج میں عوام کے ان احساسات کی مکمل عکاسی ہوتی ہے جس کی رو سے ۸۵ فی صد عوام حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور ۱۰ ہی مہینوں میں حکومت سے ان کی مایوسی کی وہی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو مشرف کے دور کے آخری ایام میں تھی۔ بھارت اور امریکا حکومت کی اس کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور علاقے کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے، پاکستان کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار کرنے اور ایسے حالات پیدا کرنے میں مصروف ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی دفاعی صلاحیت بری طرح مجروح ہوجائے اور بالآخر اس کے نیوکلیر اثاثہ جات پر کسی بین الاقوامی ڈھونگ کے سہارے امریکا قبضہ کرسکے۔ یہ دور ازکار خدشات نہیں بلکہ امریکااور مغربی اقوام کے پالیسی ساز اداروں کے بنائے ہوئے سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے بھارت اور امریکا کے اسٹرے ٹیجک تعاون کے اہداف معلوم ہوتے ہیں۔
ممبئی میں جو کچھ ہوا اور اسے جس طرح پاکستان کا گھیرائو کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس کا بے لاگ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت اور مغربی میڈیا میں اس سلسلے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اور بھارت کے ساتھ خصوصیت سے امریکا اور برطانیہ کی قیادت اور میڈیا جو نظریات فروغ دے رہے ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے تو ان میں تین چیزوں کو بڑے سوچے سمجھے انداز میں نمایاں کیا جا رہا ہے۔
۱- یہ سارا خون خرابا پاکستان کی ایک جہادی تنظیم لشکرِطیبہ کا کیا دھرا ہے جو جہادِ افغانستان کے اولیں دور (۱۹۸۰ء) میں وجود میں آئی تھی۔ پھر افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد کشمیر میں جہاد میں مصروف رہی اور اب کشمیر اور افغانستان ددنوں میں سرگرم ہے۔ پاکستان کی حکومت اتنی کمزور ہے کہ اس کی کوئی گرفت ان جہادی تنظیموں پر نہیں اور چونکہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور خود امریکا اور یورپ بوجوہ بھارت اور پاکستان میں دوستانہ روابط کو فروغ دینا چاہتے ہیں تاکہ امریکا کی ’عالمی دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان اہم کردار ادا کرتا رہے اور پاکستانی فوج امریکا کے دیے ہوئے اہداف، یعنی القاعدہ اور طالبان کی سرکوبی میں مصروف رہے۔ البتہ جہادی تنظیمیں اس دوستی کے محل کو درہم برہم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے ممبئی میں یہ خون خرابا کیا گیا ہے تاکہ صلح اور دوستی کا یہ عمل رک جائے۔
یہی وجہ ہے کہ شروع میں بھارت اور امریکا کا پورا زوراس پر تھا کہ یہ کام غیرریاستی عناصر نے کیا ہے اور پاکستان کی حکومت آنکھیں بند کر کے اپنی ساری قوت سے ان غیرریاستی عناصر کی سرکوبی کرے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی سات سال پرانی ایک درخواست کو چشم زدن میں زندہ کر دیا ہے اور لشکرِطیبہ کے ساتھ جماعت الدعوۃ پر پابندی، اس کے تعلیمی اور خدمتی اداروں کی بندش اور اس کی قیادت کی گرفتاری کا اشارہ کردیا۔
بھارتی قیادت بار بار کہہ رہی ہے کہ ممبئی کے مسئلے کا کشمیر کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ خالص بھارت دشمنی پر مبنی عمل ہے۔
۲- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ بظاہر تو یہ کام لشکرطیبہ نے کیا ہے مگر دراصل اس کے پیچھے القاعدہ ہے جس نے نائن الیون کی طرز پر بھارت میں ایک بڑا آپریشن کیا ہے اور اس میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے زعم میں ممبئی کے واقعے کو کشمیر یا پاک بھارت معاملات سے ہٹ کر عالمی دہشت گردی کی جنگ کے ایک حصے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نیویارک، واشنگٹن، میڈرڈ، لندن اور بالی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، اور چونکہ القاعدہ کا ان کی نگاہ میں مرکز اب افغانستان نہیں، پاکستان ہے، اس لیے سارادبائو پاکستان پر ہونا چاہیے کہ کھل کر اور پوری یکسوئی کے ساتھ القاعدہ اور طالبان کا قلع قمع کرنے میں لگ جائے اور اگر حکومت ِ پاکستان نہیں کرتی ہے تو پھر پاکستان پر جنگ مسلط کر کے یہ کام کیا جائے۔ بھارت کے لیے فوج کشی کا جواز تسلیم کیا جائے اور عالمی برادری اس کا ساتھ دے۔
۳- ایک تیسرا نظریہ یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ یا تو پاکستانی حکومت درپردہ اس پورے معاملے میں لشکرطیبہ اور دوسری جہادی تنظیموں کے ساتھ ہے یا سول حکومت کی گرفت فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں پر اتنی کمزور ہے کہ یہ ادارے اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کی کمزور حکومت پر مزید دبائو ڈالا جائے اور اسے مجبورکیا جائے کہ وہ ان تمام قوتوں کو ختم کرے جو بھارت اور امریکہ کی نگاہ میں خطرہ ہیں یا ہوسکتی ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو مجبور کیا جائے کہ جو جو مطالبہ بھارت کرے اس پر عمل کیا جائے اور اگر حکومت اندرونی دبائو یا کسی اور وجہ سے ایسا نہ کرے تو پھر بھارت کو شہ دی جائے اور وہ فوجی کارروائی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرے۔ امریکا اور آئی ایم ایف اپنے اپنے انداز میں یہ دبائو ڈال رہے ہیں۔ امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت ٹڈی دل کی صورت میں پاکستان پر نازل ہورہی ہے اور مزید کارروائیاں کرو (do more)اور خطرے کو سنجیدگی سے لو (take the threat seriously) کے مطالبات کر رہی ہے، حتیٰ کہ امریکی کانگریس نے بھارت کی پارلیمنٹ سے بھی بڑھ کر ایک قرارداد منظور کرلی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔
یہ تین نظریات ہیں جن کے گرد بیش تر تجزیے گردش کر رہے ہیں۔ اس بات کو کہ بھارت اور امریکا دراصل علاقے کے سیاسی نقشے کو بدلنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں محض سازشی نظریہ (conspiracy theory) کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ ان تینوں منظرناموں میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے کہ سب کا ہدف بالآخر پاکستان کو قابو میں کرنا ہے۔ اور جس بات کو کھلے انداز میں نہیں کہا جا رہا حالانکہ وہی اصل ہدف ہے، یعنی پاکستان کو کسی نہ کسی طرح بھارت کی چھتری تلے لے آیا جائے اور اس کے لیے اگر اس کے خدانخواستہ حصے بخرے کرنے پڑیں تو یہ بھی کرڈالا جائے۔ پاکستان کا اسلامی تشخص، قوم کا جذبۂ جہاد اور ملک کی ایٹمی اور دفاعی صلاحیت اصل ہدف ہیں۔ اس سلسلے میں جہادی قوتیں اور آئی ایس آئی کا خصوصی ذکر آتا ہے۔ ماضی میں فوج اور آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں ہمیں بھی شدید ترین تحفظات رہے ہیں اور ملکی سیاست میں ان کی بے جا مداخلت کی وجہ سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی رہی ہیں لیکن ملک کے دفاع اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے کے لیے خفیہ اداروں کا کردار ہر ملک کی ضرورت ہے اور دفاع وطن کے لیے فوج اور ان اداروں کا مضبوط اور مقابلے کی قوت اور صلاحیت سے آراستہ ہونا ازبس ضروری ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ دستور اور ملک کی سیاسی قیادت کے تابع رہیں اور ان پر حاوی نہ ہوجائیں۔ بھارت اور امریکا کا ہدف ان اداروں کو کمزور کرنا ہے، انھیں دستور اور جمہوری نظامِ عمل کا حصہ بنانا نہیں ہے۔ وہ فوجی آمریت جو امریکا نواز ہو اور وہ خفیہ ادارے اور ایجنسیاں جو امریکا کے مقاصد میں ممدومعاون ہوں، ان کا اس کے ’جمہوری ایجنڈے‘ سے کوئی ٹکرائو نہیں ہوتا۔
اس پس منظر میں اگر آپ ممبئی کے خونیں سانحے پر نگاہ ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کسی حقیقی جہادی تنظیم کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور نہ پاکستان کی حکومت ہی کو اس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی فائدہ ہوسکتا ہے۔ جہادی تنظیموں کا اصل میدان اس وقت افغانستان ہے اور ان کا ہدف یہ ہے کہ افغانستان کو امریکا اور ناٹو کی فوجوں کے قبضے سے نجات دلائی جائے۔ ممبئی میں جو کچھ ہوا اس سے انھیں کیا فائدہ؟ اس کا تو اُلٹا نقصان ہے اور کوئی سمجھ دار قیادت جان بوجھ کر خود اپنے پائوں پر کلھاڑی مارنے کی حماقت کیوں کرے گی؟
پاکستان کی موجودہ حکومت جب سے اقتدارمیں آئی ہے، بھارت کے سامنے ریشہ خطمی بنی ہوئی ہے اور زرداری صاحب تو اپنی زندگی کا مشن ہی یہ بتا رہے ہیں کہ وہ بھارت سے دوستی اور معاشی اور ثقافتی اعتبار سے دونوں کو شیروشکر کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک چلے گئے ہیں کہ ان کو ہرپاکستانی میں تھوڑا بہت ہندستانی نظر آتا ہے۔ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر ملک تقسیم ہوا تھا ان کا اس سے وفاداری کا کوئی تعلق اور رشتہ تک نہیں ہے۔ایسے حالات میں حکومت کے کسی کردار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
رہا معاملہ القاعدہ کا، تو خود امریکی اداروں اور قیادت کے ارشادات کی روشنی میں اس کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اپنے بقا کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پھر اس کا اصل ہدف اس وقت امریکا ہے بھارت نہیں۔ فوج اور سامان کی نقل و حرکت اور ضروریات کی فراہمی کے اعتبار سے کوئی آپریشن کرنے کے لیے، اس کے لیے ممبئی سے زیادہ غیرموزوں کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ پھر اسے کیا پڑی (logistics) ہے کہ وہ ممبئی میں جاکر اس نوعیت کا خونیں کھیل کھیلے۔
بھارت کی اب تک کی اعلان شدہ معلومات کی روشنی میں ممبئی کا جو واقعہ سامنے آتا ہے، ذرا دیکھیے کہ اس سے کیا نقشہ بنتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ۲۳نومبر کو یہ ۱۰افراد پاکستانی بحری جہاز کے ذریعے ممبئی کے قریب پہنچ کر کشتیوں کے ذریعے شہر پہنچے۔ سب سے پہلے ریلوے اسٹیشن پر غالباً تین افراد نے خون خرابا کیا اور جب ایک دہشت گرد (جسے اجمل عامرقصاب کہا جا رہا ہے اور اسے زندہ پکڑنے کی بات کی جارہی ہے وہ یہیں) بھارت کی پولیس کے ہاتھ آیا۔ باقی ۷ افراد نے تاج ہوٹل، اوبرائے ہوٹل اور یہودی مرکز پر قبضہ کیا۔ اس حساب سے ہوٹل میں ۴، دوسرے میں ۳ اور یہودی مرکز میں ۲ دہشت گردوں نے کارروائی کی اور ۶۰ گھنٹے تک ممبئی کی پولیس، کمانڈوز اور فوج کو تگنی کا ناچ نچاتے رہے۔ نہ معلوم یہ کون سی ماورائی مخلوق تھی کہ چند مہینوں کی تربیت سے ان میں وہ صلاحیتیں پیدا ہوگئیں اور تاج جیسے عظیم ہوٹل میں جس میں غالباً ۶۰۰ سے زیادہ کمرے ہیں، چار افراد نے سیکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا اور بھارتی کمانڈوز کی پوری فوج ظفرموج کو غیرمؤثر بنائے رکھا۔ یہ کیسے نابغۂ روزگار نوجوان تھے، جو ۳ دن میں ممبئی کی گلی گلی سے واقف ہوگئے اور تاج ہوٹل جیسے عظیم الشان ہوٹل کے چپے چپے پر انھیں قدرت حاصل ہوگئی۔ ہوٹل کی سیکورٹی کے نظام کو انھوں نے غیرمؤثر کردیا۔ پولیس کے اعلیٰ عملے خصوصیت سے انسدادِ دہشت گردی دستوں (ATS) کے تین چوٹی کے افسروں بشمول کرکرے کو، جنھوں نے ہندو دہشت گردوں اور ان کے فوج کے حاضر سروس معاونین کا پردہ چاک کیا تھا، اصل معرکے کی جگہ پر نہیں، ایک ہسپتال کی طرف بلاکر ہلاک کردیا۔
دہشت گردی کے ماہرین کی راے ہے کہ ممبئی جیسا آپریشن مقامی لوگوں کی بھرپور معاونت کے بغیر ممکن نہیں، اور ایسا آپریشن ۱۰ نہیں کم از کم ۵۰ سے ۶۰ افراد کی شرکت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ لندن کے اخبار دی ٹیلی گراف نے اپنی ۱۶ دسمبر ۲۰۰۸ء میں اپنے ممبئی کے نمایندے ڈیمین ایم راے (Damien Mcel Roy) کے توسط سے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ عسکریت پسندوں کو بھارتی عناصر کی معاونت حاصل تھی۔ یہ بھی ایک معما ہے کہ فروری ۲۰۰۸ء سے ممبئی میں کسی بڑے آپریشن کے بارے میں انٹیلی جنس کی مختلف رپورٹیں سامنے آرہی تھیں۔ ستمبر میں پانی کے راستے سے حملے کی رپورٹ بھی آئی۔ امریکی انٹیلی جنس نے بھی کم از کم دو بار رپورٹ دی۔ یہ ساری اطلاعات پولیس کو، حتیٰ کہ بحریہ کو بھی حاصل تھیں مگر ان سب کے باوجود کسی کو ان ۱۰ سرپھرے نوجوانوں کی آمد اور شہر کے پانچ حصوںپر قبضے کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ بھارتی اخبارات نے یہ معلومات بھی دی ہیں کہ تاج ہوٹل کے پاس بحری محافظوں کا ادارہ واقع ہے جس کی اپنی سیکورٹی فورس ہے جو ۱۰ منٹ میں جاے حادثہ پر پہنچ سکتی تھی مگر اسے زحمت نہیں دی گئی اور کمانڈوز کے آنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ ممبئی پولیس کے انسدادِ دہشت گردی دستوں (ATS) کے سربراہ ہیمانت کرکرے اور اس کے دو ساتھیوں کے پُراسرار قتل کے بارے میں بھارت کے وزیرمملکت براے اقلیتی امور عبدالرحمن انتولے (A.R. Antulay) کا بیان بھارتی پارلیمنٹ ہی نہیں پوری سیاسی دنیا میں ہلچل کا باعث ہواہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان پولیس افسروں کی ہلاکت ایک معما ہے جس کی آزادِ تحقیق ہونی چاہیے۔ ان کو کس نے پیغام دے کر ہسپتال کے محاذ پر بلایا اور پھر ہلاک کردیا؟ اس کے لیے انھوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
a victim of terrorism plus something
ان کی موت کا فائدہ بی جے پی اور ہندو دہشت گردوں کے گروہوں کو ہوا ہے، کسی مسلمان گروہ کو نہیں۔ موصوف کے اس بیان پر ہندو انتہاپسند آتش سیخ پا ہیں اور ان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن انتولے صاحب اپنی بات پر قائم ہیں اور ان کے اس موقف نے ممبئی کے پورے ہنگامے کی نوعیت ہی کو بدل کر رکھ دیاہے۔
اب کھلے الفاظ میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ممبئی کے واقعات کا فائدہ کس کو ہوا ہے اور کیا وہی ہاتھ اس کے پیچھے نہیں جو فائدہ اٹھانے والے ہیں؟ برین کلولی (Brian Cloughley) جس کے اہم مضامین یورپ اور ایشیا میں شائع ہوتے ہیں اور جو افواجِ پاکستان پر ایک کتاب کا مصنف ہے، وہ اپنے ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء کے مضمون ممبئی کے واقعات سے فائدہ کس کا؟(Who Benefits from the Mumbai? ) میں لکھتا ہے:
ممبئی کے قتل و غارت سے نہ بھارت کی کانگریس کی اتحادی حکومت کو کوئی فائدہ ہوا ہے، نہ حملہ آوروں کو (سواے ایک کے سب مرچکے ہیں)، اور یقینا پاکستان کو بھی نہیں (جہاں اقوام متحدہ کے مطابق اس سال کے پہلے ۸ مہینوں میں ۱۴۴۵ شہری ہلاک ہوچکے ہیں)۔
پھر فائدہ کسے ہے؟ ایک جواب، بدقسمتی سے یہ ہے کہ بی جے پی، اور آر ایس ایس، وی ایچ پی اور شیوسینا میں اس کے حامیوں کو۔(ڈیلی ٹائمز، ۱۷ دسمبر ۲۰۰۸ء)
لندن کے روزنامہ دی گارڈین میں۱۸ دسمبر۲۰۰۸ء کی اشاعت میں سہیل حلیم کا مضمون India's Problems Lie Within شائع ہوا ہے جس میں مضمون نگار ہندستانی مسلمانوں اور ہندو دہشت گردوں کا خصوصیت سے ذکر کرتا ہے۔ مضمون کے یہ حصے خصوصیت سے مطالعے کے لائق ہیں:
جب بھارت اور پاکستان میں کشیدگی ختم ہوجائے اور ممبئی کے حملوں کی گرد بیٹھ جائے تو بھارت کی سیاسی قیادت کو اپنا جائزہ آپ لینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے گروپ اس حملے میں ملوث ہوں، یا پاکستان کی بدنام آئی ایس آئی نے ان کو تربیت دی ہو، یا امداد فراہم کی ہو، لیکن بھارت کے اندر جو گڑبڑ ہے، اس کا الزام پاکستان پر دھرنا سیاسی حکمت کے خلاف ہے۔ دراصل بھارت خود اپنے آپ سے جنگ کی حالت میں ہے۔ ۲۰ برس سے کشمیر کا مسئلہ اپنی انتہا پر ہے اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کا اس سے بھی زیادہ مدت سے۔ مگر بھارت کا خطرناک ترین مسئلہ اقلیتوں سے اس کا سلوک ہے۔ مسلمانوں کے حالات کے بارے میں سچرکمیٹی کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ سماجی، تعلیمی اور معاشی ہر حوالے سے وہ ہندو اکثریت سے بہت پیچھے ہیں۔ سول، فوج اور پولیس ملازمتوں میں ان کی نمایندگی ۴ فی صد سے زیادہ نہیں۔ تعلیمی سہولیات بھی بہت کم ہیں۔ اگر کچھ لوگ آگے نکلتے بھی ہیں تو وہ ہرقدم پر رکاوٹیں پاتے ہیں۔ ہندو قوم پرستوں کے رویے کے ساتھ مل کر یہ ناانصافی کے احساس کو بڑھاتا ہے۔ ۱۶ برس ہوئے بابری مسجد ہندو انتہاپسندوں نے زمین بوس کر دی تھی۔ اس کے بعد کے فسادات میں ایک ہزار مسلمان ہلاک ہوئے۔ تین ماہ بعد ممبئی میں بم دھماکوں میں ۲۵۰ ہندو مارے گئے۔ ہر دو طرف ان واقعات کے ذمہ داروں کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا وہ تقابلی مطالعے کے لیے ایک عمدہ موضوع ہے۔ دھماکوں کے ملزموں نے ۱۵ برس جیل میں گزارے اور اب ان کو سخت سزائیں دی گئی ہیں، جب کہ پہلے والوں کے مقدمے عدالتوں تک بھی نہیں پہنچے۔
۲۰۰۰ء میںگجرات کے فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے، جب کہ زیادہ تر بیانات کے مطابق پولیس تماشا دیکھتی رہی اور مجرموں کو شہہ دی۔
گذشتہ چند برسوں میں بھارت میں جگہ جگہ دہشت گرد حملے ہوئے ہیں: دہلی، جے پور، حیدرآباد، احمد آباد، ورناسی، اجمیر، بنگلور۔ ان سب میں مختلف مسلم تنظیموں کو، مثلاً اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI ) اور انڈین مجاہدین (جس کا نام حال ہی میں سنا گیا) ملوث کیا گیا۔ مسجد اور درگاہیں ان کا نشانہ تھیں۔
وہ لوگ جنھیں قانون نافذ کرنے اور تفتیش کرنے والے اداروں پر پہلے ہی اعتماد نہیں ہے وہ ان واقعات کو اس بات کا ثبوت سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو غیرمنصفانہ طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ان کا سادہ سوال یہ ہے: اسلامی دہشت گرد آخر اپنی عبادت گاہوںکو کیوں نشانہ بنائیں گے؟
اس صورت حال نے ایک اچھا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اگر شفاف تحقیقات ہوں تو انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا آغاز ہوجائے گا۔ مگر گجرات اور بابری مسجد فسادات بھلائے نہیں جاسکتے۔ معاشی اور سماجی فرق دُور کرنے پر زور دینا بڑی اچھی بات ہے مگر ابھی ایسے خاندان، بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں موجود ہیں جو اپنے پیاروں کا افسوس کر رہی ہیں اور انصاف کی منتظر ہیں۔
ایک اورنہایت اہم مضمون بھارت کی مشہور دانش ور اور عالمی شہرت کی ناول نگار ارون دھتی راے (Arundhati Roy) کا ہے جو لندن کے اخبار دی گارڈین میں ۱۳ دسمبر ۲۰۰۸ء کو شائع ہوا ہے۔ یہ پورا مضمون پڑھنے کے لائق ہے۔ آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ:
ہم اپنے المیوں کے باعث اپنے حقوق سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ممبئی المیہ کئی روز تک جاری رہا، اس دوران ہمارے میڈیا چینل ہمیں ۲۴گھنٹے مطلع کرتے رہے کہ ہم ’بھارت کے نائن الیون‘ کا نظارہ کر رہے ہیں۔ جوں جوں برعظیم میں اضافہ ہوا، امریکی سینیٹ کے رکن جان مکین نے پاکستان کو وارننگ دی کہ اگر اس نے ’بدمعاشوں‘ کو گرفتار کرنے میں سُرعت سے کام نہ لیا تو مکین کی ذاتی اطلاع کے مطابق بھارت پاکستان میں ’دہشت گردی کے اڈوں‘ پر فضائی حملے کردے گا اور امریکا بھی کچھ نہ کرسکے گا کہ یہ ’بھارت کا نائن الیون‘ ہے۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ نومبر ۲۰۰۸ء کے آخری ہفتے میں (مقبوضہ) کشمیر کے ہزاروں افراد جن کی نگرانی بھارت کے کئی ہزار فوجی کر رہے تھے، ووٹ ڈالنے کے لیے انتخابی مراکز پر لائنیں لگائے ہوئے تھے لیکن ادھر بھارت کے امیرترین شہر کا امیر ترین حصہ جنگ سے بُری طرح متاثر کپواڑہ کا منظر پیش کر رہا تھا جو مقبوضہ کشمیر کا سب سے زیادہ متاثر ضلع ہے۔
مسز راے مسلمانوں کی زبوں حالی، عیسائیوں پر مظالم، اور ہندو انتہا پسندوں کی ذہنیت اور کھلے کھلے انسانیت کش اقدامات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتی ہیں:
ممبئی کے واقعات ۲۴ گھنٹے تک بھارت کے ۶۷ ٹی وی چینلوں سے نشر ہوتے رہے اور ان پر تبصرے بھی کیے گئے۔ تین دن اور تین راتیں نوجوانوں کا ایک مختصر گروپ (کُل تعداد ۱۰ بتائی جاتی رہی ہے) بھارت میں امن وامان قائم کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تگنی کا ناچ نچاتا رہا۔ بالآخر ان میں سے ۹ کو ہلاک کردیا گیا۔ بھارتی ٹی وی چینل نے حملہ آوروں میں سے ایک کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت بھی نشر کی۔ اس نے اپنا نام بابر بتایا۔ اس نے بابری مسجد کو گرانے، گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور کشمیر میں مظالم کا ذکر کیا۔ جب ٹی وی کے نمایندوں نے کہا کہ وہ تو گھیرے میں آچکے ہیں، ہتھیار کیوں نہیں ڈال دیتے؟ تو اس نے کہا کہ ’’شیر کی طرح ایک دن زندہ رہنا اور پھر جان دے دینا بہتر ہے‘‘۔
بھارت میں دہشت گردی کے مختلف واقعات اور اس سے عیاں ہونے والے طریقِ واردات (pattern) کا قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد محترمہ راے مالے گائوں والے واقعے کا ذکر کرتی ہیں جس کی اولیں ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی تھی اور آئی ایس آئی کو بھی اس میں ملوث کیا گیا تھا۔ مگر حقیقت کیا نکلی اور اس کے بعد اس حقیقت کو دریافت کرنے والے کا کیا حشر ہوا؟ ملاحظہ ہو:
مہاراشٹر کے انسدادِ دہشت گردی دستے (ATS) نے جو مالے گائوں کے ستمبر ۲۰۰۸ء کے دھماکوں کی تحقیقات کر رہا تھا، ایک ہندو مذہبی مبلغ سادھوی پراگیا، ایک نام نہاد خدا پرست سوامی دیانند پانڈے اور بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پروہنت کو گرفتار کیا… شیوسینا، بی جے پی اور آر ایس ایس نے مہاراشٹر کے اے ٹی ایس کی مذمت کی، اس کے سربراہ ہیمانت کرکرے کو برا بھلا کہا، اور دعویٰ کیا کہ وہ ایک سیاسی سازش کا کردار ہے اور اعلان کیا کہ ’’ہندو دہشت گرد نہیں ہوسکتے‘‘۔
ایل کے ایڈوانی نے بڑے بڑے اجتماعات میں ولولہ انگیزتقاریر کیں اور انسدادِ دہشت گردی دستوں کی مذمت کی کہ اس نے مقدس مرد و خواتین پر شبہہ کرنے کی جسارت کی۔
۲۵ نومبر کو اخبارات نے خبر دی کہ اے ٹی ایس مالے گائوں دھماکوں کے حوالے سے وی ایچ پی کے سربراہ پراون ٹوگاڈیا کے بارے میں تحقیقات کررہا ہے۔ اگلے ہی دن قسمت کا کھیل سمجھیے کہ کرکرے ممبئی کے حملوں میں ہلاک ہوگیا۔ اب امکانات ہیں کہ جو بھی نیا سربراہ ہوگا اس پر مالے گائوں دھماکوں کی تفتیش کے حوالے سے سیاسی دبائو ڈالا جائے گا جس کا وہ مشکل سے مقابلہ کرسکے گا۔
Times Now ٹیلی ویژن کے اینکرپرسن ارناب گوسوامی نے اپنی لَے بڑھا دی ہے، اور وہ ان لوگوں کو نام لے کر کھلم کھلا برا بھلا کہہ رہاہے جنھوں نے پولیس اور فوج کے کردار پر سوال اٹھانے کی جرأت کی ہے۔
بھارت میں دہشت گردی کے واقعات کو نائن الیون کے عالمی پس منظر میں رکھ کر امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردوں کی امریکا کے خلاف جدوجہد کا خلاصہ محترمہ راے یوں بیان کرتی ہیں:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکی حکمت عملی اس حد تک تو کامیاب ہے کہ نائن الیون جیسا حملہ اس کے بعد پھر نہیں ہوا ہے لیکن کچھ دوسرے لوگ کہیں گے کہ اب امریکا جن مشکلات سے گزر رہا ہے وہ ان سے بدتر ہیں۔ اگر نائن الیون دہشت گرد حملوں کا مقصد یہ تھا کہ امریکا اپنے اصل رنگ میں سامنے آجائے تو دہشت گردوں کو اس سے زیادہ کامیابی اور کیا مل سکتی تھی؟ امریکی فوج دو ناقابلِ فتح جنگوں میں پھنسی ہوئی ہے جس نے امریکا کو دنیا کا سب سے زیادہ قابلِ نفرت ملک بنا دیا ہے۔ ان دوجنگوں نے امریکی معیشت کو بڑی حد تک ادھیڑ دیا ہے، اور کیا خبر کہ بالآخر امریکی سلطنت کا بھی یہی حشر ہو۔ (کیا یہ ہوسکتا ہے کہ وہی مصیبت زدہ اور بم باری سے تباہ حال افغانستان جو سوویت یونین کا قبرستان بنا ، امریکا کا بھی بن جائے؟)کئی لاکھ افراد بشمول کئی ہزار امریکی فوجی عراق اور افغانستان میں اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔ امریکا کے حلیفوں اور ایجنٹوں بشمول بھارت اور باقی دنیا میں امریکی مفادات پر نائن الیون کے بعد دہشت گرد حملوں کی کثرت میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔ جارج بش جس نے نائن الیون پر امریکی ردعمل کی قیادت کی، ایک قابلِ نفرت شخصیت بن گیا ہے، نہ صرف بین الاقوامی طور پر بلکہ اپنے لوگوں کی نظروں میں بھی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے؟
محترمہ راے کہتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف قوانین اور ہوم لینڈ سیکورٹی سے سیکورٹی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ صرف مخالفین کی زبان بندی کے حربے ہیں۔ امریکا تک میں سزایابی کی شرح (conviction rate) صرف دو فی صد ہے۔ جسے ہم دہشت گردی کہتے ہیں، اس کا راستہ اس طرح نہیں روکا جاسکتا۔ یہ ہمارے ہی اپنے کیے کا بدلہ ہے:
اس وقت ہم (بھارت) دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف کا راستہ انصاف کی طرف جاتا ہے اور دوسرا خانہ جنگی کی طرف۔ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ ہم پیچھے بھی نہیں جاسکتے۔ راستے کا چنائو بھارتی حکومت کو کرنا ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جی بالاکشنان (K.G Balakishnan) نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۸ء کو دہلی میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی موجودگی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اپنے خطاب میں بڑے لطیف انداز میں دہشت گردی اور دہشت گردی کے نام پر دہشت گردی کے موضوع پر بڑا اہم خطاب کیا ہے جسے بھارت کے میڈیا نے تقریباً نظرانداز کیا ہے۔ صرف دی ہندو نے اس کا متن شائع کیا ہے ورنہ سارا آزاد پریس اسے بلاتکلف ہضم کرگیا ہے۔ پورا خطاب پڑھنے کے لائق ہے۔ صرف چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔
جسٹس بالاکشنان بین الاقوامی قانون اور ملکی قانون کے دائرہ ہاے کار کا ذکر کرنے کے بعد ایک بڑے بنیادی مسئلے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں امن کو شدید خطرہ ہے:
مسلّمہ اصول اور ضابطے سرحدپار دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے بین الاقوامی تعاون میں رکاوٹ ہیں۔ مجرموں کو حوالے کرنے یا تفتیش میں تعاون کے لیے دوطرفہ معاہدات نہ ہوں تو دہشت گرد حملوں کی تفتیش کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے قوموں میں باہمی تعاون کے واضح اور مرتب ضوابط نہیں ہیں، اس لیے امریکا جیسے ملکوں نے اپنے اصول خود وضع کیے، مثلاً پیشگی حملے کا اصول تاکہ بیرونی ملکوں میں دہشت گردی کے خلاف کارراوئی کے لیے جواز حاصل ہوسکے۔ لیکن صرف دہشت گردوں کا پیچھا لینا کسی قوم کی خودمختاری کے خلاف من مانی کارروائی کے لیے جواز نہیں ہوسکتا۔
افراد کے اقدام پر حکومتوں کو موردِ الزام ٹھیرائے جانے کے بارے میں بھارت کے چیف جسٹس کہتے ہیں:
ایک دوسرا مسئلہ جو ممبئی کے واقعات سے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کو غیر ریاستی عناصرکے اعمال کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومتوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے جنگجو گروپوں کی سرگرمیوں پر قابو پائیں اور روکیں لیکن یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے دہشت گرد گروپ مغربی ملکوں سے جہاں کی پولیس اور جرائم کی روک تھام کے نظام برعظیم سے زیادہ بہتر اور سخت ہیں، اسلحہ اور مالی وسائل حاصل کرلیتے ہیں۔
بغیر مقدمہ چلائے آزادی سے محروم کردینے کے بارے میں چیف جسٹس فرماتے ہیں:
حالیہ برسوں میں فرد کے حقوق محدود کرنے کے تباہ کن راستے کی سب سے نمایاں مثال گوانتانامو کے اسیروں کے ساتھ سلوک ہے۔یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ہزاروں اسیروں کو طویل عرصے تک بغیر الزام لگائے قید رکھا یا آزادانہ قانونی چارہ جوئی کے مواقع بھی فراہم نہ کیے۔
امریکی انتظامیہ نے ان طریقوں کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ گوانتانامو کے اسیروں کو فوجی کمیشن، ریویو بورڈ اور ریویو ٹریبونلوں کے سامنے اپیل کا حق حاصل ہے۔ ۲۰۰۶ء کے ایک مقدمے میں یہ فیصلہ دیا گیا کہ دہشت گردی کے شبہہ میں گرفتار لوگوں کے ہیبیس کارپس (habeas corpus) کے حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور انھیں سول عدالتوں تک جانے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کا جواز یہ تھا کہ فوجی ٹریبونلوں کو یہ آزادی حاصل نہ تھی کہ وہ ان اسیروں پر مقدمہ چلائیں جنھیں فوجیوں ہی نے گرفتار کیا تھا۔
امریکا، برطانیہ اور بھارت کے دساتیر اور قانونی فیصلوں کی بنیاد پر تفتیش میں استعمال کیے جانے والے تشدد کے حربوں کے بارے میں چیف جسٹس نے فرمایا:
ہمیں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے تعذیب (torture) اور دوسرے جبریہ تفتیشی طریقوں سے محتاط رہنا چاہیے۔ ان تفتیشی طریقوں کی مدد سے عموماً جھوٹے اعترافات کروائے جاتے ہیں۔ یہ دہشت گرد حملے روکنے میں کوئی مدد نہیں دیتے۔ ہمیں تمام افراد کے لیے، خواہ ان کے جرائم کتنے ہی گھنائونے کیوں نہ ہوں منصفانہ مقدمے کے حق کا علَم بردار ہونا چاہیے۔ اگر ہم اس حق میں کمزوری کا مظاہرہ کریں گے یہ تو ان لوگوں کے خلاف جو تشدد اور نفرت کا پرچار کرتے ہیں، اخلاقی کمزوری کا ثبوت ہوگا۔ ہمیں ایک بالغ نظر جمہوری معاشرے اور چند لوگوں کے اقدامات کے درمیان تمیز کرنا چاہیے۔
جسٹس بالا کرشن نے ممبئی اور دہلی کے واقعات کی روشنی میں جس واضح انداز میں قانون کی پوزیشن واضح کی ہے، وہ بھارت کی حکومت ہی نہیں ہماری اپنی حکومت اور امریکا اور یورپ کے بہت سے جمہوری ممالک کی حکومتوں کے لیے ایک تنبیہہ اور واضح رہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کی جان اور اس کی آزادی اور عزت کو جو خطرات نائن الیون کے بعد دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، ان کا مقابلہ انسانی تہذیب کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔مستقبل کا انحصار قانون کی حکمرانی اور سب کے لیے انصاف کے قیام میں ہے۔ انصاف ہی وہ ضمانت ہے جو دہشت گردی سے بھی انسانیت کو نجات دلا سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس سے بھی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماعات کا اپنا ایک مزاج اور کردار ہے۔ جماعت کا ہراجتماع ابتدا ہی سے ملک و ملّت دونوں کے لیے ایک مخصوص پیغام دینے اور ہدایاتِ کار فراہم کرنے کی روشن روایت رکھتا ہے لیکن ۲۴ تا ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو مینارِ پاکستان کے زیرسایہ اقبال پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اجتماع کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان اور ملّتِ اسلامیہ کی تاریخ کے بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر اس اجتماع نے پاکستان اور عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے مستقبل کی جس روشن راہ کی نشان دہی کی ہے وہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے گوشے گوشے سے جمع ہونے والے لاکھوں تحریکی کارکنوں، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی قیادت، کینیڈا اور امریکا سے لے کر جاپان اور ملایشیا تک سے شریک ہونے والے مندوبین نے کامل یکسوئی کے ساتھ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و حالات کا جس دقتِ نظر سے تجزیہ کیا اور عمومی مایوسی کے ماحول میں اعتماد اور فراست کے ساتھ مستقبل کے لیے جس طرح ایک روشن شاہ راہ کی نشان دہی کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ خوف، بدامنی اور عدم تحفظ کی ملک گیر فضا میں لاکھوں افراد کے اس شہر میں تین روز تک علمی اور دعوتی اجتماع کی شکل میں جس سکون، اطمینان اور عزم و استقلال کا نمونہ پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
افغانستان میں یہ جنگ ہزاروں افراد کی جانیں لے چکی ہے، لاکھوں زخمی اور بے گھر ہیں اور جنگ کی آگ اب پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بڑھ کر آباد علاقوں (settled areas) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ۱۵ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں اور بے گھر افراد کی تعداد ۸لاکھ سے متجاوز ہے۔۱؎ عراق میں تباہی سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر ہے۔ وہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط اندازوں کے مطابق ۶ لاکھ سے متجاوز ہے اور ملک کا چپہ چپہ معصوموں کے خون سے رنگین ہے اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ساری دنیا بے چینی اور عدم تحفظ کی گرفت میں ہے اور اسرائیل اور بھارت کو چھوڑ کر دنیا کے ہر ملک میں امریکا سے بے زاری اور نفرت کی لہریں اُٹھ رہی ہیں اور آبادی کی عظیم اکثریت (۶۰ سے ۹۰ فی صد تک) امریکی پالیسیوں سے اپنے اختلاف کا برملا اظہار کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت، میڈیا اور اہلِ قلم کی ایک بڑی تعداد اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی خاص عنایت اسلامی تحریکات پر ہے جن کا اصل ’جرم‘ یہ ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھتی ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کی اسلام کی تعلیمات اور قوانین کی روشنی میں تشکیلِ نو کرنا چاہتی ہیں۔ اسے پہلے Radical Islam (انقلابی اسلام) اور Fundamentalism (بنیاد پرستی) کا نام دیا گیا اور اب اسے Islamic Terrorism (اسلامی دہشت گردی) اور Islamo-fascism (اسلامی فاشزم) کا منبع قرار دیا جارہا ہے۔
اس پس منظر میں ۴۰ مسلم ممالک کے اسلامی قائدین کی جماعت کے اجتماع میں شرکت اور اسلام کے عالمی پیغام اور اُمت کی وحدت کی ضرورت پر مکمل یک جہتی کا اظہار روشنی کے سفر کی ایک تابناک علامت ہے۔
سیاسی تبدیلی کا یہ عمل ایک عظیم تحریکِ مزاحمت سے شروع ہوا تھا جس کی قیادت ملک کی وکلا برادری کر رہی تھی اور جس کی علامت چیف جسٹس افتخار چودھری تھے۔ اس تحریک میں پوری سول سوسائٹی اور اہم سیاسی کارکن اور جماعتیں شریک ہوئیں اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں عوام نے مشرف اور اس کی پالیسیوں کے خلاف اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ دے کر یہ پیغام بھی صاف لفظوں میں دے دیا کہ سب سیاسی قوتوں کو، خصوصیت سے پی پی پی اور نواز مسلم لیگ کو مل کر، قومی مفاہمت کے ذریعے پرویزی دور کی زیادتیوں اور انحرافات (deviations ) کی اصلاح کر کے دستور کی اس شکل میں جو ۱۹۹۹ء میں تھی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی اور غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی باعزت بحالی، نیز قومی آزادی، خودمختاری اور عزت کی قیمت پر امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کی پالیسی کی تبدیلی اور خارجہ پالیسی کی اس قلبِ ماہیت کی تصحیح کا مینڈیٹ دیا جو امریکا، بھارت اور اسرائیل کے دیے ہوئے ایجنڈے کے تحت پرویز مشرف نے آمرانہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کی تھی۔ معاشی پالیسی کے دروبست کی تبدیلی بھی عوام کے مینڈیٹ کا حصہ تھی کہ پرویزی دور کی پالیسیوں کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے تھے اور ملک کو نمایشی ترقی کے سراب کے نشے سے مسحور کیا جا رہا تھا، جب کہ فی الحقیقت زرعی اور صنعتی شعبوں میں حقیقی پیداواری ترقی مفقود تھی اور ملک بجٹ، تجارت اور توازن ادایگی کے خساروں سے دوچار، اور ملکی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔
قوم کو نئی مخلوط حکومت سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ زرداری صاحب نے ایک طرف ساری توجہ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے پر دی تو دوسری طرف ایک ایک کر کے ان تمام وعدوں کی خلاف ورزی کی راہ اختیار کی جو میثاقِ جمہوریت، جولائی ۲۰۰۷ء کے اعلانِ لندن، اور فروری مارچ ۲۰۰۸ء کے اعلانِ بھوربن اور اعلانِ دوبئی میں کیے گئے تھے۔ اس کا پہلا نتیجہ مسلم لیگ نواز کی حکومت سے علیحدگی اور اس کے بعد زندگی کے ہر شعبے میں عملاً پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل اور بالآخر معیشت کے میدان میں آئی ایم ایف کے جال میں دوبارہ گرفتاری، بھارت کے مقابلے میں مسلسل پسپائی، کشمیر کے مسئلے پر پریشان کن ژولیدہ بیانی، اور امریکا کے پنجے میں اس حد تک گرفتاری کہ ۳ستمبر کو امریکی افواج نے پاکستان کی سرزمین پر زمینی حملہ بھی کردیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے ۴۰ سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین پر ہوچکے ہیں جن میں ۴۰۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
اس سب کچھ پر مستزاد امریکا اور یورپ کی مجالس دانش (think tanks)کی وہ فکری اور نفسیاتی جنگ ہے جو روز افزوں ہے۔ ان تمام جائزوں اور رپورٹوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ناکام ہوتی ہوئی (failing ) ریاست ہے، ’دہشت گردی‘ کا اصل مرکز پاکستان کے علاقوں میں ہے، پاکستان کے لیے اپنے جغرافیائی وجود کو باقی رکھنا ممکن نہیں رہا ہے اور پاکستان خدانخواستہ اگلے ۱۰،۱۵ سال میں صفحۂ ہستی سے معدوم ہوجائے گا یا اس کے ایسے حصے بخرے ہوجائیں گے کہ وہ سیاسی بساط پر ایک اہم کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہے گا۔ یوں نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استعماری شکنجوں میں کسا جا رہا ہے بلکہ ملک کے مستقبل ہی کو مخدوش اور مشکوک بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
موجودہ حکومت کے ۹ مہینوں پر پھیلے ہوئے دورِ اقتدار میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے اور امن و امان کی زبوں حالی کے ساتھ معاشی افراتفری، معاشرتی اضمحلال، سیاسی انتشار اور داخلی عدم استحکام میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ نظریاتی خلفشار اور ثقافتی اور تہذیبی بگاڑ بھی بلوہ عموم کی سی کیفیت اختیار کر رہے ہیں۔ فکری اور اخلاقی ہردو اعتبار سے حالات مخدوش تر ہوتے جا رہے ہیں اور نوجوانوں میں بے راہ روی اور قوم میں ہرسطح پر ڈسپلن کی کمی ایک وبا کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔
ان حالات میں قوم کو جھنجھوڑنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بیدار، متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی نے مینارِ پاکستان پر یہ ولولہ انگیز اعلان کے ساتھ کیا ؎
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
اور : ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع کے کامیاب انعقاد کے اس پہلو کو سب نے محسوس کیا اور سراہا کہ مایوسی کی فضا میں جماعت کا لاکھوں افراد پر مشتمل یہ اجتماع روشنی کی ایک تازہ کرن ہے۔ اس طرح اس پہلو پر بھی ہرحلقے نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ملک پر خوف اور عدمِ تحفظ کے جو بادل چھائے ہوئے تھے اور جن کی وجہ سے سرکاری حکام ہی نہیں بہت سے دانش ور بھی احتیاط کا مشورہ دے رہے تھے اور لاہور کے قلب میں اتنے بڑے اجتماع کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے، الحمدللہ وہ سب پادَرِ ہوا ثابت ہوئے اور جماعت کے شان دار روایتی نظم و نسق کے ساتھ یہ سہ روزہ اجتماع بڑی خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوا اور قوم میں اُمید اور اعتماد کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔
یہ دونوں پہلو اپنی جگہ اہم ہیں اور ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ہماری نگاہ میں اس اجتماع کی اصل اہمیت ان سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا تعلق اس پیغام سے ہے جو اس اجتماع نے پوری قوم کو دیا ہے اور مستقبل کے لیے ملک اور عالمی سطح پر نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی جدوجہد کے جو خدوخال اس میں پیش کیے گئے ہیں، وہ وقت کی ضرورت اور مستقبل کی تعمیر کے لیے راہِ عمل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان پہلوئوں پر سب کو غوروفکر کی دعوت دیں۔
جماعت اسلامی کے اس اجتماع کا اولین مقصد تذکیر تھا تاکہ جماعت کے کارکنوں اور معاونین کے سامنے خاص طور پر، اور پوری قوم اور اُمت مسلمہ کے سامنے بالعموم، ایک بار پھر وہ مقصد آسکے جس کے لیے تحریکِ اسلامی پاکستان میں، اور دیگر اسلامی تحریکیں دنیا کے گوشے گوشے میں اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنے انداز میں جدوجہد کر رہی ہیں۔
تحریکِ اسلامی کی نگاہ میں زندگی کے تمام مسائل کا حل اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل وفاداری کے ساتھ اطاعت، اور آخرت کی زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیے دنیا میں قرآن وسنت کے مطابق عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے میں ہے۔ سارے مسائل کے حل کی کلید اخلاق کی اصلاح اور پوری زندگی کو خیروشر اور حلال اور حرام کے اس ضابطے کے مطابق گزارنے میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری انسانیت کو دیا ہے اور اُمت ِمسلمہ جس کی امین ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ عرب کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ایک کلمہ لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کو اختیار کرلو تو عرب و عجم پر تمھارا جھنڈا لہرائے گا۔ یہی وہ پیغام ہے جسے اقبال نے اپنی اس خوب صورت غزل میں پیش کیا ہے جو ۲۰۰۸ء کے اجتماع کی علامت تھی :
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
جماعت اسلامی پاکستان کابنیادی عقیدہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہوگا،یعنی یہ کہ صرف اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ (دفعہ ۳)
اس عقیدے کو دل کی گہرائیوں اور عقل کی سپردگیوں کے ساتھ قبول کرنے کے معنی یہ ہیں:
اس کلمے کے ماننے والے ایک امت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو استخلاف کی جو ذمہ داری اور سعادت سونپی ہے وہ اس کے امین ہیں۔ استخلاف کا تقاضا زمین پر اپنے مالک کی مرضی کو پورا کرنا اور زندگی کے پورے نظام کو رب السَّمٰوٰت والارض کی ہدایت کے مطابق مرتب و منظم کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تحریکِ اسلامی اپنا نصب العین قرار دیتی ہے، جو دراصل اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کا حقیقی نصب العین ہے یعنی اقامت ِ دین۔
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصد عملاً اقامتِ دین (حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول ہوگا۔ (دفعہ ۴)
جو چیز جماعت اسلامی کی منفرد حیثیت کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کا یہی نظریاتی ، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی کردار ہے۔ یہ جماعت کسی وقتی ضرورت اور محدود سیاسی ہدف کے حصول کے لیے قائم نہیں ہوئی بلکہ انسان کی پوری زندگی کو اسلام کے انقلابی پیغامِ ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی شریعت کی روشنی میں مرتب و منظم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے۔
اقامت دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کوقائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت ِ دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔ (ص ۱۴-۱۵)
جماعت اسلامی سیاسی نظام کی اصلاح اور اسلامی بنیادوں پر انقلابِ قیادت کی داعی ہے اور اس پہلو سے وہ ایک سیاسی جماعت ہے جو زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں سونپنا چاہتی ہے جو اللہ کے وفادار اور شریعت ِ اسلامی کے نفاذ کے داعی ہوں اور جن کا اپنا کردار سیاسی تبدیلی کے اس پروگرام سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس معنی میں وہ ایک سیاسی جماعت ہے لیکن جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظریاتی تحریک بھی ہے جو سیاست سمیت زندگی کے تمام نظام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق منظم اور مرتب کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پروگرام کے چار عناصر ِترکیبی ہیں جو مساوی طور پر اہم ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط اور ناقابلِ تقسیم ہیں۔
۱- وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسولؐ کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اُس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہوگی۔
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت ِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو اُن تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
جماعت اسلامی کی انفرادیت اس کے مندرجہ بالا نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی خصوصیات کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس کی تنظیمی سرگرمیوں کا محور پاکستان ہے لیکن اس کی نظریاتی دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے اور وہ ان عالمی اصلاحی تحریکوں کا حصہ ہے جو اپنے اپنے دستور، اپنی اپنی تنظیم اور اپنی اپنی قیادت کے تحت چل رہی ہیں اور عالمی سطح پر ایک نظریاتی اور تہذیبی رَو کا حصہ اور رنگ رنگ کے پھولوں کا ایک حسین گلدستہ ہیں۔
اکتوبر ۲۰۰۸ء کا اجتماع جماعت کے کارکنوں کی تذکیر ہی کا نہیں بلکہ پوری قوم اور عالمی برادری کے سامنے اپنے اس ہمہ گیر اور منفرد کردار کو اُجاگر کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔
اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان میں جماعت اسلامی ایک اہم نظریاتی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی قوت ہے۔ اجتماع اکتوبر میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت جماعت کے تقریباً ۲۳ہزار ارکان اور رکنیت کے ۱۷ ہزار امیدوار ہیں (خواتین ارکان کی تعداد ۲۳۹۹ اور رکنیت کی امیدوار خواتین ۱۴۳۷ ہیں)۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ اور اس کے عام ممبروں کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تنظیمی اعتبار سے مرکز، صوبوں اور اضلاع کی سطح پر جماعت کی کارروائیاں جاری و ساری ہیں اور ۴ہزار سے زائد یونین کونسلوں میں تنظیم قائم ہے۔ ملک میں درسِ قرآن کے ۸ہزار حلقے اور تعلیم القرآن کے ۳۳۱۷ مراکز کام کر رہے ہیں۔ فہم دین کے پروگرام کے تحت تقریباً ۹۰۰ پروگرام ایک سال میں منعقد ہو رہے ہیں جو دس روزہ اور سہ روزہ قرآن فہمی کے اجتماعات سے عبارت ہیں اور ایک ایک پروگرام میں کئی کئی ہزار افراد باقاعدگی سے شرکت کر کے قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ خواتین کے حلقے میں فہم قرآن کے ۱۳۶ ادارے قائم ہیںاور درسِ قرآن کا سلسلہ ۴۲۱۱ حلقوں میں انجام دیا جا رہا ہے۔ دعوتی کیمپ سالِ گذشتہ میں ۲۸۳۰ لگائے گئے اور کُل دعوتی وفود کی تعداد ۶۰ ہزار کے قریب رہی۔ جماعت کے نظم کے تحت اس وقت ملک میں چھوٹی بڑی ۷۵۵۸ لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔
جماعت کی برادر تنظیموں کا کام اس کے علاوہ ہے جو زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے اپنے دائرۂ کار میں سرگرمِ عمل ہیں اور الحمدللہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں جماعت اور اس کے کارکن متحرک نہ ہوں۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔
ہم نے یہ مختصر جائزہ تحدیث ِ نعمت کے احساسات کے ساتھ پیش کیا ہے اور مقصد اس امر کا اظہار بھی ہے کہ دعوت، تربیت، اصلاحِ معاشرہ، خدمتِ عوام، تعلیم اور سیاسی تبدیلی کا وہ پروگرام جس پر جماعت اسلامی کام کر رہی ہے ایک ہمہ جہتی پروگرام ہے۔ اس کے کام کا تعلق محض سیاسی موسم سے نہیں، یہ جماعت ایک تحریک کا مرکز و محور ہے اور اس کی دعوتی اور اصلاحی سرگرمیاں سال کے بارہ مہینے اور ہرمہینے کے تیس دن جاری ہیں ع
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
درپیش چیلنج اور تحریک اسلامی
اجتماع کا ایک اور مقصد جماعت کے پیغام کو جماعت کے اپنے کارکنوں کے سامنے، ان میں مکمل یکسوئی پیدا کرنے کے لیے، پوری قوم کے سامنے، ملک کو درپیش ایشوز پر اپنے موقف کو بیان کرنے کے لیے، اور پوری دنیا خصوصیت سے عالمی قوتوں کے سامنے، انھیں یہ موقع فراہم کرنے کے لیے تھا کہ وہ تحریکِ اسلامی کو اس کے اپنے الفاظ اور بیان کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں اور اُسے ویسے تعصب اور عناد کی عینک سے نہ دیکھیں، جس طرح میڈیا کے بعض عناصر حقیقت کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر اس اجتماع کے ذریعے جماعت اسلامی نے امریکا اور مغربی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ان خانوں میں رکھ کر نہ دیکھیں جو ان کے تنگ نظر سیاسی اور فکری قائدین نے وضع کیے ہیں۔ اسلام ایک عالم گیر پیغام کا علَم بردار ہے لیکن یہ پیغام کوئی نیا پیغام نہیں بلکہ وہی پیغام ہے جو خالقِ کائنات نے اپنے تمام انبیا کے ذریعے انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا اور جس کی آخری اور مکمل شکل وہ ہے جو نبی آخرالزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی شکل میں نازل ہوئی اور جس کی عملی تعبیرو تشکیل پیغمبرؐاسلام کی سنت اور زندہ روایت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ پیغام اللہ کی بندگی کا، اللہ کے تمام بندوں کی اخلاقی ترقی اور تزکیے کا، تمام انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام اور حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے ہرسطح پر انسانی زندگی کو امن اور عدل اور بھائی چارے کا گہوارہ بنانے کا ہے۔ یہ جنگ، خون ریزی اور دہشت گردی کا پیغام نہیں۔ بلکہ یہ تو انسان کی پوری زندگی کو اخلاقی اصولوں اور اقدار کی روشنی سے منور کرنا چاہتا ہے اور زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ یہ پیغام ابدی ہے مگر اس میں بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کا لحاظ رکھنے کی پوری پوری گنجایش موجود ہے۔ اس پیغام کو اس کی اصل شکل میں پرکھنے کا سب کو پورا پورا حق ہے لیکن یہ رویہ مبنی برحق و انصاف نہیں کہ اس دین کی تعلیمات کو مسخ کیا جائے اور سیاق و سباق سے علیحدہ (out of content ) چیزوںکو لے کر اسلام کو تنقید وتنقیص کا ہدف بنایا جائے یا کچھ خاص افراد کے سیاسی اقدامات کو ان کے سیاسی پس منظر سے کاٹ کر اسلام کے سر تھوپ دیا جائے اور دنیا کو ایک نظریاتی تصادم اور جنگ و جدال میں جھونک دیا جائے۔ اُمت مسلمہ امن و انصاف کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی عزت اور انصاف سے معاملہ کرنے کی خواہش مند ہے لیکن اگر اس پر محض قوت کے بل پر کچھ نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی اور محض طاقت کے ذریعے اُمت کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اس کی ریاستوں کو اپنا تابع مہمل بنانے کی سعی کی جائے گی تو یہ تصادم کا راستہ ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
آج اُمت مسلمہ امریکی، صہیونی، یورپی اور بھارتی استعمار کا نشانہ ہے۔ اگر ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف اُمت کے کچھ حصے یا عناصر صف آرا ہیں تو ان مسائل کا بے لاگ انصاف کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مسائل کا حل قوت کے استعمال سے نہیں بلکہ حق و انصاف کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ اختیار کیا جائے تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ خرابی کی جڑ استعماری ذہنیت اور قوت کے ذریعے مبنی برحق تحریکوں اور مزاحمتوں کو ختم کرنے کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں۔ نیز طاقت ور ممالک کا یہ ادّعا ہے کہ ان کو دوسروں کے وسائل پر قبضے کا حق ہے اور محض اپنی خواہشات بلکہ ہوس (greed) کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے منہ سے ان کا نوالہ چھین لینا بھی ان کا حق ہے۔ اگر طاقت ور اپنے مفاد کی خاطر دوسروں پر ایسی دست درازیاں کریں گے تو دوسرے بھی کمزور ہونے کے باوجود مزاحمت اور اپنے مفادات کے تحفظ کا راستہ نکالنے پر مجبور ہوں گے۔
’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی برپا کردہ یہ جنگ ہر میدان میں ناکام رہی ہے۔ عراق ہو یا افغانستان، پاکستان ہو یا کوئی اور علاقہ___ نہ صرف یہ کہ یہ جنگ ناکام رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت کے جذبات کا طوفان اُمنڈ آیا ہے اور آج امریکا دنیا میں جتنا بدنام ہے اور اسے جتنی بڑی تعداد میں راے عامہ کی ہرسطح کے لوگ امن وانصاف کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں، تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔
اس اجتماع میں عالم اسلام پر امریکا کی دست درازیوں کی مذمت کے ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ امریکا محض قوت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوسروں کے وسائل پر قبضہ کر رہا ہے، ان کے استحصال (exploitation) کا مرتکب ہو رہا ہے اور مسلم ممالک میں جبروقوت کے ذریعے قابض اپنے مفید مطلب حکمرانوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور اب اس سے بڑھ کر مسلم دنیا میں انتہاپسندی اور میانہ روی کے نام پر اپنے ایجنٹوں کو آگے بڑھا کر ان کے ذریعے اپنے مطلب کے ’اسلام‘ کو فروغ دینے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔ یہ راستہ تصادم اور بگاڑ کا راستہ ہے___ مسلم دنیا امریکا اور مغربی ممالک سے اور مغربی تہذیب کے علَم برداروں سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے لیے ہرلمحہ تیار ہے لیکن مسلمان اپنے دین میں مداخلت، اپنی تہذیب کی پامالی، اپنی معیشت و سیاست پر غیروں کے تسلط اور اپنے درمیان دوسروں کے ایجنٹوں کے اقتدار کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم حقیقی کثیریت (pluralism) کے قائل ہیں لیکن کسی ایک ملک کا غلبہ اور بالادستی ہرگزقبول نہیں کی جاسکتی۔
اجتماع میں برطانوی صحافی خاتون اے وان رڈلی کی تقریر مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ اس میں مغرب کے لیے بھی پیغام ہے اور مسلمانوں کے لیے بھی۔ نوحہ صرف ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نہیں ___ تمام مظلوم انسانوں کا اور ظلم کے نظام کے خلاف نفرت اور بغاوت کا ہے۔
اجتماع کے مقررین اور خصوصیت سے بین الاقوامی اجلاس نے یہ پیغام بڑے بھرپور مگر باوقار انداز میں دیا ہے اور اسی جذبے سے دیا ہے کہ ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع میں پاکستان نے موجودہ حالات کا بھی دقتِ نظر سے تجزیہ کیا گیا اور جماعت اسلامی کے موقف کو مسکت دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا۔
ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم
پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس میں جنگ اور فوجی کارروائی کے راستے کو رد کیا گیا ہے اور مذاکرات، جنگ بندی، فوجوں کی واپسی اور پوری سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر پارلیمنٹ کی قرارداد نوحہ کناں ہے اور حکومت اور امریکا دونوں اپنی من مانی کررہے ہیں اور بات ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت و وقار کی پامالی تک پہنچ چکی ہے۔ صدر، وزیراعظم اور وزیردفاع ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ملک وقوم کے لیے شرمناک ہیں لیکن حکمران اتحاد کے بڑے بڑے سورما ہیں کہ پھر بھی لیلاے اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ جس کے شرکا اپنی ہی حکومت کی پالیسی کی مذمت بھی کرتے ہیں اور کرسی چھوڑنے کا باعزت راستہ بھی اختیار نہیں کرتے۔
پچھلے ایک سال میں بنکوں کے نظام میں قرض کے نادہندوں (Non Performing Loans) کی مالیت ستمبر ۲۰۰۸ء کے آخیر میں ۳۷ئ۲۸۸ ارب روپے تھی، جب کہ ستمبر ۲۰۰۷ء میں یہ رقم ۱۱ئ۲۵۱ بلین تھی۔ گویا اس ایک سال میں ۳۷ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
جماعت اسلامی کی نگاہ میں مسئلے کی اصل جڑ اخلاقی فساد اور اجتماعی اور اداراتی بگاڑ ہے۔ قیادت کی ناکامی اور جمہوری عمل کو دستور یا قانون اور ضابطے کے مطابق چلانے سے مکمل بے اعتنائی ہے۔ اور یہ بگاڑ اس وقت تک دُور نہیں ہوسکتا جب تک ایسی قیادت برسرِکار نہ آئے جو اخلاقی اعتبار سے اعلیٰ کردار کی حامل ہو، جو نظریاتی اعتبار سے پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی وفادار ہو، جو قوم ہی سے ہو اور قوم کے سامنے جواب دہ ہو، جو امریکا اور بیرونی طاقتوں کے زیربار نہ ہو اور ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوداری سے معاملہ کرسکے، جو ملک کی آزادی اور عزت کا سودا کرنے والی نہ ہو اور قومی خودمختاری اور وقار کی خاطر جان کی بازی لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔
جماعت اسلامی کا اجتماع انقلابِ قیادت کے اس آہنگ کا برملا اظہار ہے۔
اجتماع میں جماعت کی قیادت نے آیندہ کے لیے جو پروگرام جماعت کے کارکنوں اور پوری قوم کو دیا ہے وہ تجدید عہد، وقت کی قربانی اور مسلسل جدوجہد کا پیغام ہے۔ اس میں پہلی اور سب سے اہم چیز رجوع الی اللہ ہے کہ ہماری ساری دعوت اور پروگرام کی بنیاد اللہ سے تعلق، اللہ سے مدد اور استعانت کی طلب، اللہ کے دین کی سربلندی کا جذبہ اور کوشش، اور اللہ کی خوش نودی کا حصول ہے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے اجتماع کا دوسرا پیغام جماعتی استحکام ہے۔ اپنی صفوں کو مضبوط کرنا، اپنے تربیتی نظام کو مؤثر بنانا، اپنی تنظیم کو زیادہ مستحکم کرنا، جہاں تنظیم نہیںہے یا کمزور ہے اس کی تقویت کی فکر کرنا، جماعت میں ڈسپلن، وقت کی پابندی، ذمہ داریوںکی صحیح ادایگی، ایک دوسرے کی معاونت اور تقویت کا باعث ہونا___ ان سب پہلوئوں سے جماعت کو مضبوط کرنا تاکہ آگے کے مراحل میں چیلنجوں کا مؤثر مقابلہ کیا جاسکے۔
تیسرا پیغام دعوت کا ہے۔ جماعت کی نگاہ میں ہمارا سب سے اہم کام عوام تک پہنچنا اور ہرممکن طریقے سے ان تک اسلام کی دعوت اور جماعت کے پروگرام کو پہنچانا ہے۔ ہمارا اصل ہدف انسان سازی ہے___ ووٹ اس کا نتیجہ ہے، اولین ہدف نہیں۔ جتنا ہم اپنا پیغام لوگوں تک پہنچائیں گے، ان کے سوالات کا تشفی بخش جواب دیں گے، اپنے سیرت و کردار اور اپنی خدمت سے ان کے دلوں کو اسلام اور جماعت کے لیے جیتیں گے اتنا ہی ہمارا وزن بڑھے گا اور بالآخر انتخابات میں بھی اس کے ثمرات سے جماعت اور ملک فیض یاب ہوسکیں گے۔ ۲۰۰۸ء بھی دعوت کا سال تھا اور ۲۰۰۹ء بھی دعوت کا سال ہے تاکہ ساری سرگرمیوں میں اولیت دعوتی کاموں کو دی جائے۔ امیرجماعت نے کارکنوں سے متعین طور پر وقت دینے کی خصوصی اپیل کی ہے اور ہرسطح پر تمام جماعتیں اب اس کا اہتمام کریں گی کہ ایک متعین پروگرام کے تحت ہرکارکن سے وقت کا مطالبہ کریں اور جو جتنا وقت دینے کا وعدہ کرے اسے مناسب ترجیح کے ساتھ دعوتی سرگرمیوں میں شامل اور متحرک کیا جائے۔
دعوت کے ساتھ ساتھ تمام اچھے لوگوں کو جماعت میں سمونے اور شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت میں وسعت پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایک طرف اپنے اخلاقی اور نظریاتی معیار کی حفاظت کیجیے تو دوسری طرف فراخ قلبی اور کھلے بازوئوں کے ساتھ تمام اچھے انسانوں کو جماعت میں لانے کی کوشش کیجیے اور انھیں ان کے مقام کے مطابق جگہ دیجیے تاکہ وہ جماعت کا حصہ بن جائیں اور اس دعوت کی تقویت کا باعث ہوں۔ یہ کام اس انداز میں کیا جائے کہ ہرعلاقے کے بااثر افراد تک دعوت پہنچائی جائے اور انھیں جماعت کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ کا فضل ہے کہ جماعت اسلامی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانی مساوات اور اہلیت کی بنیاد پر قیادت کے اصول پر قائم ہے۔ جماعت میں پہلے دن سے قانون اور ضابطے کی پابندی کی روایت ہے۔ قیادت نہ موروثی ہے، نہ خاندانی اور نہ وصیت کے ذریعے قیادت کی ٹوپی سر کی زینت بنائی جاتی ہے۔ دستور کے مطابق متعین وقت پر انتخابات ہوتے ہیں اور ہرسطح پر ہوتے ہیں۔ ہرشخص کے لیے ذمہ داری کے مقامات تک رسائی ممکن ہے بشرطیکہ اس میں وہ صلاحیت اور اہلیت موجود ہو جو دستور نے مقرر کی ہے۔ نہ کوئی سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آتا ہے اور نہ کسی کے لیے دروازہ بند ہے۔ پھر جماعت کے اندر مشورے کا نظام رائج ہے، بلاشبہہ اطاعت امیر ہماری قوت کا ذریعہ ہے لیکن امیر کی طاقت کا انحصارمشاورت کے اس نظام پر ہے جو ہرسطح پر قائم کیا گیا ہے۔ جماعت میں نئے خون کی آمد کا سلسلہ الحمدللہ پہلے دن سے جاری ہے اور آج مرکزی شوریٰ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت طلبہ عربیہ اور دوسری برادر تنظیموں میں سرگرم تھے۔ زندہ اور ترقی کرنے والی تحریکوں کا یہ خاصا ہے۔ ان میں بزرگوں کا احترام اور ان سے استفادے کے ساتھ نئے باصلاحیت افراد کی قدر اور ان کو ذمہ داریاں سونپنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ البتہ خدا کا خوف، دین کا فہم، اعلیٰ کردار اور حسنِ کارکردگی وہ صفات ہیں جو ترقی کازینہ اور کامیابی کی ضمانت ہیں۔
جماعت کے اس اجتماع میں حسنِ انتظام کے ساتھ بڑی اہم چیز اجتماع کے پورے پروگرام کو انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچانے کی بڑی کامیاب کوشش تھی۔ جدید ٹکنالوجی کا استعمال ہمارے پیغام کے ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ اس اجتماع میں اس کا بڑا کامیاب استعمال ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اب ہر میدان میں نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مناسب کام پر لگایا جائے اور جدید ٹکنالوجی کا استعمال صرف انٹرنیٹ پر اجتماع کے پروگرام تک محدود نہ ہو بلکہ جہاں بھی انتظامی، تربیتی، دعوتی کاموں کو خوب تر بنانے کے لیے جدید اسلوب اورجدید سہولتوں کا استعمال ممکن ہو، اس کا اہتمام کیا جائے۔ ملک کی آبادی کا نصف اب نوجوانوں پر مشتمل ہے جو تعلیم اور مہارت کے جدید تجربات سے روشناس ہیں۔ دعوت کی وسعت اور تنظیم کے استحکام دونوں کے لیے ان مردانِ کار اور جدید فنی اختراعات کا بھرپور استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ وسعت اور صف بندی دونوں کے لیے ان شاء اللہ یہ مفید ہوں گے۔
اجتماع کے پیغام کا ایک اورپہلو، اور شاید سب سے اہم پہلو، نئی اُمید، نیا عزم اور حالات کو صحیح سمت میں تبدیل کرنے کا عزم اور داعیہ ہے۔ ہرفرد اس اجتماع سے ایک نیاجذبہ لے کر رخصت ہوا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد اس وسیع پیمانے پر اُمید اور روشنی کے احساسات اور جذبات کا ہم سب نے تجربہ کیا ہے۔ یہ امر، تحریک اور ملک کے لیے بڑا نیک شگون ہے۔ جس ملک میں ہرطرف مایوسی اور اضطراب کی لہریں اُبھر رہی ہوں وہاں ایک ایسے اجتماع کا انعقاد جہاں لاکھوں افراد نے اجتماع کے ہرلمحے کا لطف لیا ہو اور اجتماع سے ایک نیا جذبہ اور ولولہ لے کر اپنے اپنے دائرہ کار میں شریکِ جدوجہد ہورہے ہیں، ایک بڑا ہی مبارک واقعہ ہے۔ اقبال کی روح جس ابراہیم کی تلاش میں بے چین اور بے قرار تھی آج تحریکِ اسلامی براہمیت کے اس جوہر کی امین ہے۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک عظیم فکری سفر کے بعد اپنے رب تک پہنچے، اسی طرح باطل افکار کے ایک جنگل سے گزر کر تحریک کے کارکن اسلام کی شاہ راہ تک پہنچے ہیں۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جاہلیت کے ہر صنم پر ضرب لگائی، اسی طرح تحریکِ اسلامی اپنے دور کے ہرصنم سے نبردآزما ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وقت کے طاغوت کو چیلنج کیا اور طاقت کے مرکز کو نشانہ بنایا اسی طرح تحریکِ اسلامی آج ملک اور عالمی سطح پر طاغوت کے تمام مظاہر سے برسرِکش مکش ہے۔
یہ سب صحیح لیکن چیلنجوں کی اس مماثلت اور ردعمل کی مشابہت کے باوجود سنت ابراہیمی سے مطابقت کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ شوق، جدوجہد، خلوص اور استعانت باللہ ہرمرحلے کو آسان بنا سکتے ہیں۔ شرط ایمان، توفیق اور کوشش ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رحمت اور نصرت اور اپنے رب سے بہتری کی اُمید ؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
۲۰۰۸ء کے امریکی صدارتی انتخاب کے دو پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک غیرسفید فام شخص صدارت کا امیدوار بنا اور صدر منتخب بھی ہوگیا۔ واضح رہے کہ بارک حسین اوباما مکمل سیاہ فام نہیں، اس کا باپ کینیا کا ایک مسلمان سیاہ فام تھا مگر اس کی ماں ایک سفیدفام امریکی خاتون تھی۔ یہی وجہ ہے کہ رنگ دار (coloured) نسل سے ہونے کے باوجود اسے سیاہ فام (black) نہیں کہا جاسکتا۔
۲۰۰۸ء کے انتخابات کا دوسرا غیرمعمولی پہلو اس انتخاب میں غیرملکی دنیا کی انتہائی دل چسپی ہے جس کی وجہ صرف اوباما کا رنگ اور نسلی اور سیاسی پس منظر یا اس کی ۴۷ سالہ جواں عمری (youthful looks) ہی نہیں، بلکہ امریکا کی وہ تصویر (image ) تھی جو صدربش کے آٹھ سالہ تاریک دور میں دنیا بھر میں قائم ہوئی اور جس نے امریکا کو تقریباً پوری دنیا میں (اسرائیل اور بھارت کے سوا) ناپسندیدہ اور لائقِ نفرت بنا دیا تھا۔ امریکا سے یہ بے زاری اور امریکا میں تبدیلی کا امکان وہ چیز تھی جس نے اوباما کے انتخاب کو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا اور معلوم ہو رہا تھا کہ ۴نومبر کو انتخاب امریکا کے نہیں، بلکہ پوری دنیا کے ہورہے ہیں۔ دنیا کی اس غیرمعمولی دل چسپی نے اوباما کی آزمایش میں اضافہ ہی کیا ہے۔ دیکھیے وہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے۔
بلاشبہہ اوباما کا صدر منتخب ہونا اور ۷۰ لاکھ ووٹوں کی برتری سے منتخب ہونا ایک اہم تاریخی واقعہ ہے۔ ان انتخابی نتائج اور پورے انتخابی عمل کی کامیابی پر امریکی جمہوریت اور امریکی عوام کے سیاسی کردار اور بیداری کو داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ امریکا کی حکومتوں سے ہمیں جو بھی شکایات ہوں اور جارج بش کے دور میں جو زخم بھی پاکستان اور اُمت مسلمہ کے سیاسی جسد پر لگے ہیں، وہ اپنی جگہ، لیکن اوباما کا انتخاب تاریک اُفق پر روشنی کی ایک کرن ہے اور ہمیں اس کے اعتراف میں کوئی باک نہیں۔
۲۰۰۸ء کے امریکی انتخابات امریکا کی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات بھی تھے۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق اس انتخاب پر ۵ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوئے ہیں۔ البتہ دل چسپ بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح ری پبلکن مالی وسائل کی فراہمی میں اس دفعہ آگے نہیں تھے۔ اوباما نے اس میدان میں بھی انھیں پیچھے چھوڑ دیا حالانکہ امریکا کے دولت مند طبقے کی میکین کو مکمل حمایت حاصل تھی اور یہی روایت رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور خوش آیند پہلو یہ ہے کہ امریکا کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کم رقم کے عطیات دینے والوں نے اپنے صدارتی امیدوار کے فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور ۱۰۰ ڈالر اور ۱۰۰۰ ڈالر والے عطیا ت کی اوباما کی مہم میں بھرمار رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی عوام کو متحرک اور مجتمع کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عام ووٹروں سے بھی بڑے وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
بلاشبہہ جارج بش کی آٹھ سالہ ناکامیاں اوباما کے لیے مثبت پہلو رکھتی تھیں اور میکین کے لیے اصل بوجھ (liability) تھیں۔لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ اوباما کی کامیابی دراصل بش کے لیے منفی ووٹ کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس منفی ووٹ کا اوباما کو فائدہ ہوا لیکن اوباما کی کرشماتی شخصیت (personal charisma)، اس کی خطابت اور حاضرجوابی، اس کی جواں سالی، ان سب کا حصہ اس فتح میں شامل ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں سب سے اہم چیز اوباما کی انتخابی حکمت عملی ہے جس میں اس نے تبدیلی اور اُمید (change and hope) کو مرکزی اہمیت دی۔ امریکا بش کے آٹھ سالہ اقتدار کے بعد تبدیلی کا خواہش مند تھا جیساکہ پاکستان میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں پاکستانی ووٹر کی خواہش تھی۔ اوباما نے تبدیلی کی اس خواہش کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی موضوع بنایا اور عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہا کہ وہ امریکا کی داخلی اور خارجی سیاست، دونوں کا رُخ بدلنا چاہتا ہے اور اس کے پاس اس تبدیلی کو لانے کی صلاحیت موجود ہے۔
دوسری بنیادی چیز اوباما کا امریکا کے نوجوانوں اور محروم طبقوں کو اپیل کرنا تھا۔ روزگار، چھوٹا کاروبار اور خصوصیت سے ایک عام امریکی کے لیے صحت کی انشورنس اور علاج کی سہولتوں کی فراہمی کے پروگرام میں بڑی کشش تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ساڑھے پانچ فی صد آبادی والے ملک امریکا کے پاس دنیا کی دولت کا ۲۵ فی صد ہے مگر اس کے باوجود امریکا میں آبادی کا ۱۴ فی صد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
تیسری چیز عراق کی جنگ کے سلسلے میں انخلا کی حکمت عملی (exit strategy) کا وعدہ ہے۔ نیز انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں بش کے دور میں ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے دوران ہوئی ہیں ان سے اوباما نے فاصلہ پیدا کیا اور ان میں سے کئی کے بارے میں تبدیلی کا وعدہ کیا۔ گوانتانامو کو بند کرنے، تعذیب (torture) کو معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے سے پرہیز اور قید کے دوران شخصیت کی توڑ پھوڑ کے عمل (rendition ) سے اجتناب کا کھل کر ذکر کیا گیا۔
صدارتی انتخاب کے دوران پولنگ اسٹیشن سے باہر آنے والوں کے سروے (Exit Poll) کے تجزیے سے بڑے دل چسپ اور چشم کشا نکات سامنے آئے ہیں۔ ووٹروں کے ۶۲ فی صد کی نگاہ میں انتخاب میں اہم ترین مسئلہ معاشی حالات تھے۔ ۶۲ فی صد کے نزدیک اوباما کے پاس بہتر معاشی حکمت عملی تھی، جب کہ بش کو معاشی بحران کا ذمہ دار سمجھا گیا اور میکین نے اس کی قیمت ادا کی۔ عراق اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میڈیا میں سب سے نمایاں موضوع رہے، صرف انتخاب کے دوران ہی نہیں بلکہ پورے سال۔ لیکن ووٹروں میں سے صرف ۱۰ فی صد کے نزدیک عراق اور صرف ۹ فی صد کے خیال میں دہشت گردی کا مسئلہ ان کی راے کا رُخ طے کرنے پر اثرانداز ہوا ہے۔ صحت کی سہولت کے مسئلے کو بھی ۹ فی صد نے اہم قرار دیا۔ گویا ’دہشت گردی‘ کا مسئلہ (جس پر امریکا نے ۷۰۰ ارب ڈالر خرچ کیے ہیں اور معیشت کو ۳ کھرب ڈالر کے بوجھ سے گراں بار کیا ہے) اور صحت کی سہولت کی ضرورت کو مساوی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حالانکہ امریکا میں علاج معالجے کا پورا نظام نجی سیکٹر میں ہے اور جن افراد کے پاس صحت کی انشورنس نہیں وہ بڑی مشکل میں مبتلا ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے اوباما نے انتخاب جیتنے پر جو تقریر شکاگو میں کی اور جو اس کی بہترین تقاریر میں سے ایک ہے، اس میں ایک بار بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ یا عراق، افغانستان اور اسامہ بن لادن کا ذکرنہیں کیا۔ یہ تقریر بُردباری، تحمل اور مصالحت کا شاہکار ہے۔
انتخاب کا مرحلہ تو پورا ہوا لیکن امریکا اور پوری دنیا میں اوباما کی فتح سے جو توقعات وابستہ کی گئی ہیں ان میں اب اوباما اور امریکا کا اصل امتحان ہے۔ اوباما نے اپنے تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل کیا تو اس خدشے کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس کا انجام سابق ڈیموکریٹک صدر کینیڈی جیسا ہوجائے۔
l پاکستان کے بارے میں پالیسی: اوباما کی انتخاب کے بعد کی تقاریر میں بہت احتیاط اور ٹھیرائو کی کیفیت ہے جو خوش آیند ہے، البتہ انتخابی مہم کے دوران جو باتیں اس نے افغانستان، پاکستان، القاعدہ، طالبان، اسرائیل اور بھارت کے بارے میں کہی ہیں ان میں تشویش کا بڑا سامان ہے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کی قیادت کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ پوری گہرائی کے ساتھ مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔
پاکستان کے بارے میں اوباما کے متعدد بیان ہیں مگر دو بیان خصوصیت سے توجہ طلب ہیں۔ پاکستان کے شمالی اور قبائلی علاقوںکے بارے میں اوباما صاف الفاظ میں کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ القاعدہ کی قیادت ان علاقوں میں پناہ گزیں ہوسکتی ہے اور وہ ان کے خلاف پاکستان کی حدود میں کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ اگر پاکستان خود کارروائی نہ کرے، یا نہ کرسکے تو ہم اسامہ بن لادن جیسے اعلیٰ سطح کے ہدف کو خود نشانہ بنائیں گے، اگر وہ ہماری نظر میں آجائے۔
پاکستان اور بھارت میں بہتر تفہیم کا راستہ ہموار کرنے اور کشمیر کے بحران کو حل کرنے کی کوشش تاکہ ان کی توجہ کا مرکز بھارت نہ رہے، جنگجوؤں کی طرف مبذول ہوجائے۔
یہ دونوں بیان زیادہ بالغ نظری سے تجزیے کے محتاج ہیں۔ ان کی بنیاد پر امریکا کی پالیسی میں کسی بنیادی تبدیلی کی توقع رکھنا خطرات سے خالی نہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے بارے میں اوباما سے کسی بنیادی تبدیلی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ عراق سے فوجیں ہٹا کر وہ انھیں افغانستان لانا چاہتا ہے۔ عراق میں امریکا کی ناکامی اس نے بظاہر تسلیم کرلی ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں اس کا تجزیہ مختلف ہے اور اس پہلو سے پاکستان کو بڑی تیاری کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح امریکا کو وہاں کی زمینی حقائق کو سمجھنے میں مدد دے، اور افغانستان سے بھی انخلا کی حکمت عملی کا راستہ ہموار کرے ورنہ پاکستان خود اپنے لیے یہ حکمت عملی وضع کرے۔ کشمیر کے بارے میں بھی ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے اور اگر کوئی دروازہ نہ سہی کھڑکی بھی کھلتی ہے تو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے مگرہمارے پائوں زمین پر رہیں اور اس نوعیت کی خوش فہمیوں کا شکار نہ ہوں کہ بس اب امریکا کشمیر کا مسئلہ حل کرا دے گا یا اوباما کے آنے کے بعد پاکستان کی سرحدی خلاف ورزیاںختم ہوجائیں گی، جیساکہ جنابِ وزیراعظم سے ایک بیان منسوب ہے۔
اسرائیل کے بارے میں اس کے بیانات اور فلسطین کے مسئلے کے اصل حقائق کے اعتراف سے شعوری اغماض بلکہ مسئلہ فلسطین کو نظرانداز کرنے کی کوشش کوئی اچھا شگون نہیں۔ پھر اوباما انتقالِ اقتدار کے لیے جو ٹیم بنا رہا ہے اس میں یہودی لابی اور بھارتی لابی کی بھرمار ہے۔ اس کی طرف سے جس شخصیت کی پہلی اہم تقرری عمل میں آئی ہے وہ الی نوائی ریاست کا ممبر کانگریس راحم ایمانیول ہے جو صرف یہودی ہی نہیں بلکہ معروف صہیونی اور اسرائیلی لابی کے سرکردہ ارکان میں سے ہے اور جس کی تقرری پر اسرائیل میں گھی کے چراغ جلائے گئے اور وہاں کے اخبارات نے برملا لکھا کہ: Our man in the White House(وہائٹ ہائوس میں ہمارا آدمی)۔
راحم ایمانیول کا باپ اسرائیل کا شہری اور ارگن جیسی دہشت پرست صہیونی تنظیم کا رکن تھا جس نے ۱۹۴۰ء میں فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے اور اسرائیلی ریاست کے قیام میں خون ریزی میں شرکت کی اور جو امریکا منتقل ہوجانے کے باوجود ۱۹۷۳ء کی جنگ میں اسرائیل کی فوج میں شرکت کے لیے گیا۔
اسی طرح اب تک کی اطلاعات میں نئی ٹیم میں بھارت سے امریکا منتقل ہونے والے چار افراد شریک کیے جاچکے ہیں جن میں سونل شاہ سب سے خطرناک ہے جس کا تعلق بی جے پی اور امریکا میں ہندوانتہا پسند تنظیموں سے رہا ہے۔ نیز ایک بھارتی ماہر انتظامیات کو عبوری ٹیم میں شامل کیا گیا ہے جس کا نام انجن مکرجی ہے۔ یہ دونوں اس ۱۵رکنی ٹیم کا حصہ ہیں جو انتقال اقتدار کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ امریکا کی پاکستان کمیونٹی کا کوئی رول دُور دُور نظر نہیں آ رہا۔ انتخابی مہم کے دوران مسلمان ووٹروں میں سے ۹۳ فی صد نے اوباما کو ووٹ دیا مگر اوباما نے مسلمانوں سے فاصلہ رکھا حتیٰ کہ ایک موقع پر اسٹیج سے دو مسلمان خواتین کو اس لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ اسکارف میں تھیں اور ان کے اسٹیج پر موجود ہونے کو کچھ حلقوں نے ناپسند کیا۔
ان سب امور کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اوباما کے صدر منتخب ہونے سے امریکا اور اس کی پالیسیوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور رونما ہوں گی۔ پاکستان اور مسلم ممالک کو سرجوڑ کر حالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینا چاہیے اور پاکستان اور مسلم دنیا کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مربوط حکمت عملی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ جس حد تک بھی راستے ملیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور جن نقصان دہ پہلوئوں کے سلسلے میں پیش بندی ممکن ہو اس کی سعی کرنی چاہیے۔ خوش فہمی خطرناک حد تک نقصان دہ ہوسکتی ہے لیکن مایوسی اور عدم تحرک بھی دانش مندی کا راستہ نہیں۔ اوباما کے لیے معاشی اور مالیاتی بحران بھی بہت بڑا چیلنج ہے اور سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اور مسلم ممالک کے لیے یہ موقع ہے کہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے جو نقصانات عالمِ اسلام اور خود امریکا کو ہورہے ہیں اور جن کا احساس امریکی عوام کو ہو رہا ہے، اس کی بنیاد پر مناسب حکمت عملی بنائیں اور فضا کو سازگار بنانے کے مؤثر انتظام (lobbying ) کا اہتمام کریں۔ اس طرح ہمارا اور امریکا کا مفاد ایک نکتے پر جمع ہوسکتا ہے اور ہمیں اس جنگ سے نجات مل سکتی ہے جس کا فائدہ اسرائیل اور بھارت کو ہو رہا ہے اور جس نے آزادی کی تحریکات کے پورے محاورے (idiom) کو متاثر کردیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امریکا کی بش انتظامیہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے ایک قابلِ مذمت واقعے کو جس طرح ایک نئی عالمی جنگ (Global War) کی شکل دی اور نظامِ انصاف و قانون کے تحت واقعے کے اصل مجرموں کے تعین اور سزا کو پسِ پشت ڈال کر افغانستان اور عراق پر فوج کشی کرکے قبضہ کیا اور پھر ساری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک خونی یلغار کا راستہ اختیار کیا، اس نے پوری دنیا خصوصیت سے مسلم دنیا کو، ایک نہایت تباہ کن صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
پاکستان کے اُس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے قوم کی سوچ اور احساسات و عزائم کے برعکس، بلکہ خود اپنی فوج کی قیادت کے ایک معتدبہ حصے کے مشورے کے خلاف جس طرح واشنگٹن کے ایک ٹیلی فون پر گھٹنے ٹیک دیے اور تمام سیاسی اصولوں اور سفارتی آداب کو بالاے طاق رکھ کر افغانستان کی دوست حکومت کے خلاف امریکا کی فوج کشی کے لیے اپنا کندھا پیش کردیا، اس نے پاکستان اور افغانستان دونوں کو جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں دے دیا۔ اس سات سالہ جنگ میں اس کا اعلان شدہ کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا میں فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، افغانستان اور عراق جیسے دو عظیم ملک بالکل تباہ ہوگئے، ساری دنیا میں عدمِ تحفظ میں اضافہ ہوا، آزادیوں پر نت نئی پابندیاں عاید کی گئیں، بین الاقوامی قانون اور معروف اصولِ انصاف پامال ہوئے، لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ مالی اعتبار سے آج کی دنیا میں غربت، افلاس، بے روزگاری، بھوک اور بیماری کا دور دورہ ہے اور ۷۰ فی صد انسانیت ۲ڈالر یومیہ سے کم پر گزر بسر کر رہی ہے۔نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پروفیسر جوزف اسٹگ لِٹز (Joseph Stiglitz) کے مطابق اس عالمی جنگ کے نتیجے میں ۲۰۰۶ء تک آج کی دنیا ۳کھرب ڈالر کا خسارہ برداشت کرچکی ہے،(۱) جب کہ اس رقم کا دسواں حصہ بھی دنیا سے غربت کو دُور کرنے کے لیے استعمال ہوتا تو۲ ارب انسان غربت و افلاس کے پنجے سے آزاد ہوسکتے تھے۔
دنیا کے دانش وروں کی ایک بڑی تعداد ان سات برسوں میں جاری رہنے والی اس امریکی پالیسی کا جائزہ لے کر کھلے لفظوں میں کہہ رہی ہے کہ یہ پالیسی ناکام رہی ہے اور خسارے اور بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ امریکا کے مشہور مجلہ فارن اَفیرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر،اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں امریکا کے چار چوٹی کے مفکرین بیک زبان کہتے ہیں (اور ان میں اقوامِ متحدہ میں امریکا کا سفیر ہال بروک بھی شامل ہے) کہ امریکا کی جنگی حکمت عملی دونوں ممالک میں، یعنی عراق اور افغانستان میں ناکام رہی ہے اور ہمیں اپنی پالیسیوں پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تقریباً یہی نتیجہ اس سروے سے بھی حاصل ہوتا ہے جو امریکا کے ایک اور بڑے اور موقر جریدے فارن پالیسی کے تازہ شمارے (ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں شائع ہوا ہے یعنی Terrorism Index۔
اس سروے کی رُو سے امریکا کے اُمور خارجہ کے اولین صف کے ۱۰۰ مفکرین اور تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکا کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا ۷۰ فی صد زیادہ خطرناک جگہ بن گئی ہے۔ ۹۰ فی صد کی راے یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار رہا ہے۔
ان حالات میں اب امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ناٹو کے فوجی کمانڈر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی قوت کا استعمال مسائل کا حل نہیں بلکہ سیاسی حل کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں افغانستان میں خود طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں اس ماہ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترک اجلاس اس امر پر غور کرنے کے لیے ہوا ہے کہ ملک کی سیکورٹی پالیسی کہاں تک درست ہے اور کیا اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟ سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کی وہ شریکِ اقتدار سیاسی جماعتیں جو سابق صدر مشرف کے دور میں ان کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی پر تنقید کرتی تھیں، مارچ ۲۰۰۸ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اس پالیسی پر نہ صرف گامزن ہیں بلکہ زیادہ سختی اور کشت و خون میں ہوش ربا اضافے کے ساتھ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ زرداری صاحب تو شب وروز یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ میری جنگ ہے، پاکستان کی جنگ ہے، اور وہ آخری دم تک اس میں مصروف رہیں گے۔(۱)
اس موقعے پر ہم چاہتے ہیں کہ نام نہاد دہشت گردی کے سلسلے میں پرویز مشرف اور صدر زرداری کی امریکی پالیسی کو پاکستان کی پالیسی بنا لینے کے طرزِعمل کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیں اور قوم اور پارلیمنٹ کو اس طرف متوجہ کریں کہ وقت کی اصل ضرورت اس ناکام پالیسی کو کسی دوسرے عنوان سے جاری رکھنا نہیں بلکہ اسے یکسر تبدیل کرنا ہے۔ اس جائزے میں ہمارا اصل موضوع امریکا کی پالیسی سے زیادہ پاکستان کی پالیسی ہوگا اور اسے نظرانداز کرتے ہوئے کہ آیندہ نومبر کے صدارتی انتخابات کے بعد امریکا کیا پالیسی اختیار کرتا ہے، ہم یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کو اپنے ملکی مفاد اور قومی مقاصد اور اُمنگوں کی روشنی میں اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ ہم جس طرح امریکا کی پالیسی کے خادم اور آلۂ کار بن گئے ہیں، وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ اس لیے اس پالیسی کو جتنی جلدی تبدیل کرلیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
جنرل مشرف نے جن حالات میں اور جن وجوہ سے ستمبر ۲۰۰۱ء میں پالیسی کا یوٹرن لیا اس پر ان صفحات میں ہم کئی بار گفتگو کرچکے ہیں اور اس کے اعادے کی ضرورت نہیں، البتہ جو بات سامنے رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ پاکستان پر جو پالیسی مسلط کی گئی وہ کسی قومی مشاورت کے نتیجے میں نہیں بنائی گئی تھی اور نہ اس کا انحصار کسی اداراتی فیصلے پر تھا۔
Pew Global Attitude Project کی رپورٹ What the World Thinks in 2002 کی رُو سے ۲۰۰۲ء میں پاکستان کی آبادی کے ۴۵ فی صد نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت کی، جب کہ ۲۰ فی صد نے (جو ۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۱۶ فی صد رہ گئی تھی) اس کی تائید کی۔ بحیثیت مجموعی امریکا کا مقام و مرتبہ (US image) جو پاکستان میں ۲۰۰۰/۱۹۹۹ء میں ۲۳ فی صد کی نگاہ میں مثبت تھا، وہ نائن الیون اور اس کے ردعمل کی روشنی میں تبدیل ہوا اور ۲۰۰۲ء کے سروے کے مطابق صرف ۱۰ فی صد کے ذہن میں امریکا کا مثبت تصور تھا۔
ایک دوسرے عالمی سروے World Public Opinion Org کے مطابق اس سوال کے جواب میں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کا فائدہ کس کو پہنچا؟ ۵۶ فی صد نے کہا کہ امریکا کو۔ صرف ۶ فی صد کی راے تھی کہ پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے، جب کہ ۲۹ فی صد کی راے یہ تھی کہ پاکستان کو اس کا نقصان ہوا ہے۔ ستمبر۲۰۰۷ء میں منعقد کیے جانے والے اس سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کے ۷۲ فی صد کی نگاہ میں ایشیا میں امریکی فوجیوں کی موجودگی پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہے، جب کہ مزید ۱۲ فی صد کی نگاہ میں خطرہ تو ہے اور اہم ہے مگر اس کی سنگینی اتنی اہم نہیں۔ صرف ۶ فی صد کی نگاہ میں امریکا کوئی خطرہ نہیں۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں منعقد کیے جانے والے ایک سروے کی روشنی میں پاکستان کی آبادی کے ۶۴ فی صد کی نگاہ میں دہشت گردی کے خلاف فوج کی جنگ غلط ہے اور ۸۹ فی صد نے کہا کہ پاکستان کو امریکا کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اسی طرح ۸۳ فی صد کی نگاہ میں افغانستان میں امریکا کی فوج کشی پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔ راے عامہ کے ایک اور جائزے کی رُو سے، جو امریکی ادارے New America Foundation نے مئی جون ۲۰۰۸ء میں منعقد کیا اور جو Terror Free Tomorrow کے عنوان سے شائع کیا ہے، آج بھی ۷۴ فی صد پاکستانی القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ کو برحق نہیں سمجھتے۔ نیز آبادی کے ۵۷ فی صد کی راے میں پاکستان کو امریکا کے مقابلے میں اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے، جب کہ ۵۲فی صد امریکا کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
مشرف اور زرداری صاحب کی پالیسیوں کو عوامی تائید حاصل نہیں۔ دیکھتے ہیں منتخب پارلیمنٹ کہاں تک عوام کے جذبات و توقعات کی ترجمانی کرتی ہے۔
اول توقوت کا ہر استعمال دہشت گردی نہیں۔ دہشت گردی کا اطلاق صرف قوت اور تشدد کے ہتھکنڈوں کے اس استعمال پر ہوتا ہے جس میں کچھ خاص، بالعموم سیاسی اہداف کے حصول کے لیے اور اپنے مقاصد کی طرف توجہ مرکوز کرانے کے لیے دوسروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں مخالف قوت کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے اور بالعموم فوری ہدف (victim) اور اصل مقصد (target) الگ الگ ہوتے ہیں۔
اس تعریف کی روشنی میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات جرم ہوتے ہوئے بھی دہشت گردی قرار نہیں دیے جائیں گے، مثلاً تاوان کے لیے اغوا، محض دماغی انتشار اورفتور کی وجہ سے لوگوں کی جانوں کے اتلاف کے واقعات یا دوسرے مافیا اور مجرم عناصر کی سرگرمیاں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی جو اہم شکلیں پاکستان میں پائی جاتی ہیں ان میں فرقہ وارانہ تشدد، لسانی بنیادوں پر دہشت گردی اور علاقائی تحریکوں یا نیم قومی بغاوتیں (sub-national insurgencies) نمایاں ہیں۔ لیکن سب سے اہم شکل وہ دہشت گردی ہے جو خالص سیاسی بنیادوں پر، امریکا کی پالیسیوں اور خونی کارگزاریوں کے ردعمل میں رونما ہوئی ہے اور جس کی لپیٹ میں آج تمام ہی قبائلی ایجنسیاں آچکی ہیں اور آباد علاقوں میں سے سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان، پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد بھی اس کی زد میں ہیں۔ اس کی اصل بنیاد اور محرک افغانستان پر امریکا کی فوج کشی اور دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسلمان ایشوز کے سلسلے میں امریکا کی پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان علاقے غیروں کے قبضے میں ہیں اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ نیز اُن کو ریاست کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد اس نوعیت کی دہشت گردی میں کمیت اور کیفیت ہردو اعتبار سے بے محابا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت دہشت گردی کی یہی وہ شکل ہے جس سے فاٹا، باجوڑ اور سوات وغیرہ میں فوج کو سابقہ درپیش ہے۔ بلاشبہہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں، خصوصیت سے کرم ایجنسی میں۔ بلوچستان میں بالخصوص علاقائی اور نیم قومی بنیادوں پر تصادم نے دہشت گردی کی شکل اختیار کرلی ہے، جہاں حکومت نے فوج کشی کر کے شہری آبادیوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور محبِ وطن عناصر کو تشدد اور علیحدگی پسندی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔
ہم اس بحث سے جو نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں وہ حکمت عملی کا یہ سقم ہے کہ ہرہرنوعیت کی دہشت گردی کا صحیح صحیح تعین کر کے ہر ایک کے لیے اس کے مزاج، نوعیت، مسائل اور اصلاحِ احوال کے حوالے سے واضح حکمت عملی تیار نہیں کی گئی بلکہ سب کو ایک عمومی عنوان کے تحت گڈمڈ کردیا گیا ہے۔ اس کا علاج فوج کشی اور حکومت کی نام نہاد عمل داری (writ) کے قیام کے لیے قوت کے بے محابا استعمال کو قرار دے دیا گیا ہے جس کے تباہ کن نتائج رونما ہو رہے ہیں۔
اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ نہ مرض کی صحیح تشخیص کی گئی، نہ مختلف امراض کا الگ الگ تعین ہوا، نہ مریض کے مزاج اور کیفیت کا مطالعہ کیا گیا۔ بس امریکا کے ایک حکم پر اس علاقے کے امن کو تباہ کیا گیا، اسامہ بن لادن اور مُلا عمر تو صرف عنوان تھے، اصل مقصد افغانستان اور عراق پر قبضہ اور اس پورے علاقے کے سیاسی نقشے کی تشکیلِ نو تھی اور جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسی جنگ میں اپنے ملک کو جھونک دیا جس کا ہم سے کوئی تعلق نہ تھا حتیٰ کہ نائن الیون کے کرداروں میں کسی سے دُور و نزدیک کسی پاکستانی کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ مگر اس پرائی جنگ کو پہلے ہم نے اپنی جنگ بنایا اور پھر ملک کی فوجوں کو اپنی ہی قوم کے خلاف صف آرا کردیا۔ ۲۰۰۴ء سے پہلے کوئی ایک حملہ پاکستانی فوج یا کسی پاکستانی قومی اثاثے پر نہیں ہوا مگر جب ہماری فوجوں نے اپنے ہی شہریوں پر بم باری اور معصوم جانوں کے اتلاف، علاقوں کی مسماری، سیکڑوں افراد کے جبری اغوا اور ہزاروں کی گرفتاری کا راستہ اختیار کیا تو دوسری طرف سے بھی دہشت گردی کا طوفان اُٹھا اور دونوں کے ٹکرائو کے نتیجے میں جان و مال کا مزید نقصان ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اور عجیب و غریب عنصر طالبانائزیشن کے نام سے شامل کرلیا گیا اور اس کا حل بھی طالبان کا مکمل خاتمہ سمجھ لیا گیا۔ طالبان کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہوسکتا ہے اور ہم نے بار بار کہا ہے، اس کے طریق کار یعنی جبر اور قوت کے ذریعے سے خیالات کو مسلط کرنا بھی اسلام اور حکمت عملی دونوں اعتبار سے غلط اور نقصان دہ ہے مگر طالبان کی پوری تحریک کو دہشت گرد قرار دے کر صفحۂ ہستی سے مٹانے اور بلاامتیاز ہر اس شخص اور گروہ کو ختم کرنے کی کوشش جس پر طالبان کا شبہہ ہو، صریح ظلم ہے اور دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ لیکن بش اور مشرف دونوں کی پالیسیاں اسی مفروضے پر مبنی تھیں کہ طالبان، اور ان کی پیداکردہ دہشت گردی کو نیست و نابود کرنا ان کی پالیسی کا اصل ہدف ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ فطری طور پر یہ نکلا کہ طالبان کی تحریکِ مزاحمت (جس کا اصل مقصد بیرونی تسلط سے نجات تھا) اور بھی قوی ہوئی۔ ۲۰۰۳ء میں بش نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں مکمل امن قائم کردیا ہے اور طالبان مفقود ہوگئے ہیں (have been eliminated)۔ اس ’کامیابی‘ کے بعد بش صاحب نے عراق پر یلغار کی مگر حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۰۴ء کے بعد طالبان کی قوت میں مسلسل اضافہ ہوا اور آج برطانیہ، ناٹو بلکہ خود امریکا ان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہو رہا ہے مگر پاکستان پر یہی دبائو ہے کہ کسی نام نہاد دہشت پسند گروہ سے بات چیت نہ کرو اور مذاکرات کی جب کوشش کی گئی اسے امریکا نے سیاسی یا عسکری مداخلت کر کے سبوتاژ کردیا۔ اب امریکی نائب وزیرخارجہ بائوچر صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر اسلام آباد آکر یہی فرمان جاری کرگئے ہیں کہ مذاکرات کی گنجایش نہیں۔
پھر اس سلسلے میں ایک اسٹرے ٹیجک حماقت یہ کی گئی ہے کہ القاعدہ، افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو ایک وحدت سمجھ کر تینوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے فلسفے کے تحت دشمن خیال کر کے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بش صاحب کے ساتھ زرداری صاحب اور رحمن ملک یہی فتویٰ دے رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تینوں الگ ہیں اور ان کے مقاصد، طریق کار، اہداف، زیرمعاملہ مسائل (bargaining issues) مختلف ہیں۔ اول تو یہ ایک نہیں، اور اگر ایک ہوتے ہیں جب بھی حکمت عملی کا تقاضا یہی تھا کہ ان میں فاصلہ رکھا جاتا، پیدا کیا جاتا، اور الگ الگ معاملہ کرنے کی کوشش ہوتی مگر ایسی سفارت کاری اور سیاسی حکمت عملی کی توقع نہ بش سے تھی اور نہ مشرف نے اس کا کوئی عندیہ دیا اور نہ زرداری اور رحمن ملک اس کا کوئی اشارہ دے رہے ہیں۔
اس پوری پالیسی کا ایک بڑا ہی سنگین پہلو یہ ہے کہ اس میں اصل مسئلہ، یعنی امریکا کی اس علاقے میں فوج کشی اور ایک خیالی دشمن کے خلاف جنگ کو نظرانداز کرکے طرح طرح کے ’قربانی کے بکرے‘ (scape goats) تراشے گئے ہیں۔ کبھی دینی مدارس کا ہوّا دکھایا جاتا ہے، کبھی جہاد کو خطرہ بناکر پیش کیا جاتا ہے، کبھی ’انقلابی اسلام‘، کبھی ’سیاسی اسلام‘ اور کبھی ’اسلامی فاشزم‘ کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی غربت، افلاس، بے روزگاری اور جہالت کو ساری دہشت پسندی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن اصل سبب، یعنی امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیاں، دوسروں کے حقوق اور وسائل پر غاصبانہ قبضے اور اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے عسکری، سیاسی اور معاشی قوت کے بے دریغ استعمال پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ حالانکہ اب تو ان تمام مغالطوں کا پردہ خود مغربی محققین اور تجزیہ نگار کھلے بندوںچاک کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم صرف ایک مشہور امریکی ماہر اقتصادیات پروفیسر کرَگر (Kruggar) کی تازہ ترین کتاب سے اس کی کئی برسوں پر پھیلی ہوئی اعدادوشمار پر مبنی تحقیق کے نتائج پیش کرتے ہیں اور جو صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ جب تک امریکا اور مغربی اقوام کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی نہیں آتی، ظلم کے اس نظام کی مزاحمت کی تحریکوں سے نجات ممکن نہیں، یہ قوت سے نہیں دبائی جاسکتیں۔ مسئلے کا حل سیاسی اور معاشی ہے اور عدل وا نصاف کی روش کو اختیار کیے بغیر ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت ختم نہیں ہوسکتی:
دہشت گردی کے اقدامات کا الزام معاشی حالات یا تعلیم کی کمی پر ڈالنے میں ایک مخصوص سطحی اپیل ہونے کے باوجود اس امر کے لیے متفقہ شہادت موجود ہے کہ مادی آسایشوں سے محرومی یا ناکافی تعلیم کو دہشت گردی کی حمایت یا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شرکت کی ایک اہم وجہ کی حیثیت سے مسترد کردیا جائے۔ دہشت گردی کے مقبول عام اسباب ___ غربت، تعلیم کی کمی، یا یہ نعرہ کہ ’’وہ ہمارے طرزِحیات یا آزادی سے نفرت کرتے ہیں‘‘___ کی سرے سے کوئی باقاعدہ، عملی یا تجرباتی (empirical) بنیاد نہیں ہے۔ (ص ۲)
متعدد اداراتی اور سرکاری مطالعوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد غریبوں کی صفوں میں سے آنے کے بجاے اعلیٰ تعلیم یافتہ، متوسط طبقے، یا زیادہ آمدنی والے طبقے سے آرہے ہیں۔ جن لوگوں نے مشاہداتی اور تجرباتی بنیادوں پر سنجیدگی سے اس مسئلے کا مطالعہ کیا ہے، ان کے درمیان اس پر کوئی بحث نہیں ہے کہ غربت کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے۔ (ص ۳)
زیادہ تر دہشت گردوں کے لیے ذاتی مادی مفاد محرک نہیں ہوتا۔ اگر ایسی صورت ہو تو آپ خودکش مشنوں کے لیے رضاکاروں کی کثرت کا کیا سبب بیان کریں گے؟ اس کے بجاے، دہشت گردوں کا اصل محرک وہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں جن کے بارے میں انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی کارروائیوں سے ان مقاصد کو تقویت ملتی ہے۔ (ص ۴)
دہشت گرد اس لیے نہیں بڑھ بڑھ کر وار کر رہے ہیں کہ وہ بے حد غریب ہیں۔ وہ تو علاقے کے سیاسی(geopolitical) مسائل پر اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے محرکات کا غلط تصور ہمیں مسئلے کے حقیقی اسباب سے نمٹنے سے روک سکتا ہے۔ (ص۴)
میں یقین رکھتا ہوں کہ مغرب کے لیے یہ اندازہ نہ کرنا کہ ہماری پالیسیاں منفی یا پُرتشدد نتائج تک لے جاسکتی ہیں غلط ہوگا۔(ص ۵)
(What Makes a Terrorist: Economics and The Roots of Terrorism, by Alan B. Kruggar, (Professor of Economics and Public Policy, Princeton University), Princeton University Press, 2007, pp 2)
ان حالات میں صدر زرداری نے جس طرح بش اور مشرف کی پالیسیوں کو بدستور جاری رکھا ہے وہ پاکستان کی سلامتی، اس کے استحکام بلکہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جب امریکا اور یورپ کے دانش ور اور تجزیہ نگار پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ افغانستان، عراق اور ساری دنیا میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ناکام ہوچکی ہے اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے، تصادم میں مصروف تمام قوتوں سے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، بش اور زرداری صاحب وہی پرانی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج روزانہ معصوم انسانوں کا خون بہا رہی ہے اور امریکی اور ناٹو افواج افغانستان تک ہی نہیں خود پاکستان کی سرزمین میں آگ اور خون کی بارش برسا رہی ہیں اور حکومت کا یہ حال ہے کہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم!
اس سات سالہ جنگ کا اگر جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ پوری دنیا میں تشدد، دہشت گردی اور عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے اور مہذب دنیا نے اجتماعی زندگی کے لیے جو اصول صدیوں کی محنت اور قربانی سے وضع کیے تھے، وہ پامال ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں شرکت سے جو نقصانات اٹھائے ہیں ان کا مختصراً ذکر کردیں:
۱- ملک بھر میں امن و امان اور جان و مال کے تحفظ کی پامالی اور ہر طرف عدمِ تحفظ کا سماں ہے۔ جو شخص بھی صبح گھر سے نکلتا ہے اس کے صحیح سلامت شام کو گھر واپس آنے کا اطمینان باقی نہیں رہا ہے۔ جو شمالی علاقہ جات کبھی امن کا گہوارا تھے، وہ جنگ و جدال اور بدامنی اور عدمِ تحفظ کی بدترین تصویر پیش کر رہے ہیں۔ جہاں کبھی پاکستان کی افواج کا عزت و احترام سے استقبال کیا جاتا تھا، وہاں ان کے بالمقابل صف آرا افواج اور قبائلی سلسلے ایک دوسرے کو نشانہ بنارہے ہیں اور تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق صرف ان علاقوں میں ۱۴۰۰ سے زیادہ فوجی جوان اور افسر جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور ۳۵۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، جب کہ قبائل کے بارے میں اندازہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۲ہزار سے زیادہ ہے اور زخمیوں کی تعداد بھی ۲ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح مختلف اندازوں کے مطابق ۵ سے ۱۰ہزار عام شہری زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب تک اس علاقے کے ۴لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ وہ سب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ نہ ان کے رہنے کا انتظام ہے نہ خوراک کا بندوبست ہے اور نہ دوا دارو کی سہولت ہی میسر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جو حقیقی معاشی نقصان ملک کی آبادی کو ہوا ہے جس میں جنگ کے اخراجات کے علاوہ مادی نقصانات اور معیشت پر بلاواسطہ اور بالواسطہ اثرات شامل ہیں۔ نقصان کی یہ رقم سرکاری اندازوں کے مطابق ۱ئ۲ کھرب روپے ہے جو تقریباً دو سال کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کے برعکس امریکا نے جو نام نہاد مدد دی ہے وہ ۱۱ بلین ڈالر ہے۔ اور اس کا ایک حصہ خود اس کے اپنے افراد اور اداروں پر خرچ ہوا ہے۔ گویا اس سے تین گنا زیادہ نقصان ملک کی معیشت کو ہوچکا ہے___ رہا انسانی جانوں کا نقصان تو اس کی قیمت تو لگائی ہی نہیں جاسکتی۔
۲- اس جسمانی، مادی اور معاشی نقصان کے ساتھ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملک کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری دائو پر لگ گئی ہے۔ ملک کی قیادت کو خود اپنی پالیسیوں پر کوئی اختیار نہیں۔ امریکا ہماری سیاست اور معیشت کی اس طرح صورت گری کر رہا ہے جس طرح برطانوی دور میں برطانیہ کا وائسرائے کیا کرتا تھا۔ امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت نچلی سطح تک حکمرانی اور مداخلت کا ارتکاب کر رہی ہے، حتیٰ کہ سیاسی قیادت کا انتخاب بھی واشنگٹن میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہماری سرحدات غیرمحفوظ ہیں۔ امریکی اور ناٹو افواج روزو شب ہماری ہوائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور ان کا ہاتھ روکنے اور جوابی کارروائی کرنے کی کسی میں ہمت نہیں۔
گذشتہ تین سال میں ۶۷ بار امریکی ناٹو افواج نے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرکے سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔ ان ۶۷ میں سے ۳۶ واقعات مشرف کے دور میں ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۸ء تک ہوئے، جب کہ موجودہ حکومت کے دور میں مارچ ۲۰۰۸ء سے اکتوبر۲۰۰۸ء تک ۳۱ واقعات ہوچکے ہیں اور ہماری آنکھیں اب بھی نہیں کھل رہیں۔
۳- ۲۰۰۱ء سے پہلے افغانستان میں ایک ایسی حکومت تھی جو پاکستان کی بہترین دوست تھی۔ کوئی شکایت پاکستان کو ان سے اور ان کو پاکستان سے نہیں تھی بلکہ گذشتہ ۶۱سال میں افغانستان کی مختلف حکومتوں کا رویّہ پاکستان سے دوستانہ نہیں رہا۔ صرف ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک ایسے تعلقات تھے کہ کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس جب امریکا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں فوج کشی کی ہے اور مشرف صاحب نے علانیہ طور پر کہا تھا کہ ہمیں ضمانت دی گئی ہے کہ یہ فوجی ایکشن بہت کم وقت کے لیے ہوگا اور ہدف بھی بہت متعین ہوگا (short and targeted)۔ نیز یہ ضمانت بھی دی گئی ہے کہ شمالی افغانستان کے پاکستان مخالف عناصر کو کوئی کردار نہیں دیا جائے گا___ مگر ہوا کیا؟ شمالی افغانستان کے عناصر کی طرف سے جتنی پاکستان مخالفت اس دور میں ہوئی ہے اور پاکستان کے خلاف جو شعلہ بیانی اور عملی اقدامات اس دور میں کیے جارہے ہیں اور پھر اسی زمانے میں بھارت کو افغانستان میں جو پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور جس طرح وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، اس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی___ یہ ہے مشرف کی افغان پالیسی کا ماحصل!
۴- کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ رہیں گے اور انھیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کی نہ صرف حفاظت ہوگی بلکہ اس مسئلے کا نہ صرف حل بہت جلد سامنے آجائے گا بلکہ امریکا اس میں اہم کردار ادا کرے گا۔ لیکن ہوا کیا؟ اس زمانے میں نہ صرف ایٹمی اثاثوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہوئے ہیں اور ہیں اور پاکستان کو ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے بلیک میل کرنے کی جو عالمی مہم چلی، اس نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ نیز کشمیر پر صاف لال جھنڈی دکھا دی گئی اور مشرف اور زرداری دونوں اس سطح تک گر گئے کہ کشمیریوں کے جہاد کو بھی ’دہشت گردی‘ قرار دینے لگے اور جو عظیم تحریکِ مزاحمت اور آزادی وہاں برپا ہے، اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام اس قیادت نے انجام دے کر وہاں کے عوام کو پاکستان کی طرف سے مایوسی کی دلدل میں دھکیل کر پاکستان کے اہم ترین اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضربِ کاری لگائی___ یہ ہیں اس پالیسی کے چند منفی اور تباہ کن اثرات۔
بات بہت واضح ہے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ساری جنگ ایک گھنائونا سامراجی کھیل ہے اور جب تک ہم اس جنگ کے دست کش ہوکر اپنا راستہ الگ نہیں نکالتے، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ اس کے لیے آزاد خارجہ پالیسی اور سلامتی کے ایک مختلف مثالیے کی ضرورت ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس ادراک کے ساتھ کہ ہماری منزل، ہمارے مقاصد اور اہداف کیا ہیں اور کس طرح وہ امریکا اور سامراجی طاقتوں کے مقاصد اور اہداف سے مختلف ہیں۔ رخ کی تبدیلی پہلی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، سلامتی، عزت و وقار اور مفادات کا تحفظ اصل مقصود ہے۔ امریکا کی جنگ سے قطعی علیحدگی (de-linkage) اس کا فوری تقاضا ہے۔ ہم اپنے اندرونی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں لیکن جب تک افغانستان پر امریکی قبضہ رہے گا، پورے علاقے میں شورش اور عدم استحکام باقی رہے گا۔ اس جنگ کا حصہ بن کر ہم کبھی بھی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے، اس لیے پہلی ضرورت قطعی علیحدگی، خود اپنی سلامتی کی حکمت عملی کا ادراک اور آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ہے۔
دوسری ضرورت قوم کو اعتماد میں لینے کی ہے۔ تمام حقائق قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے آنے چاہییں۔ جو معاہدات امریکا سے ہوئے ہیں وہ سامنے آنے چاہییں اور ان پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ہم امریکا کی گرفت سے نکل کر خودانحصاری کی بنیاد پر اپنی پالیسی بناسکیں اور ملک کو قوم کی تمنائوں اور آرزوئوں کے مطابق ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ دھوکے اور کہہ مکرنیوں سے کچھ حاصل نہیں۔ سچ اور حقائق کی بنیاد پر پالیسی سازی میں ہی قوم کی نجات ہے۔
تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو بھی اندرونی مسائل ہیں، خصوصیت سے دہشت گردی اور تصادم کی وہ کیفیت جو اس وقت شمالی علاقہ جات میں پائی جاتی ہے اور سارے ملک کو متاثر کر رہی ہے، اس کا حل محض طاقت کا استعمال نہیں۔ فوجی حل ایک خام خیالی اور تباہی کا راستہ ہے۔ برطانیہ، روس، امریکا کوئی بھی اس علاقے میں فوجی قوت سے مسائل کو حل نہیں کرسکا۔ اس کا واحد راستہ سیاسی گفت و شنید، مفاہمت کے روایتی طریقوں کا استعمال اور مذاکرات کے ذریعے انصاف اور دستور و قانون کی بالادستی کے حصول کے لیے سیاسی حل ہے۔ اس کے لیے معاملے کے سب فریقوں کو شریک کرنا اور افہام و تفہیم کے ذریعے اعتدال کی راہ کا حصول اور سیاسی معاہدہ اور انتظامی دروبست ضروری ہے۔ اس کے سوا کوئی راستہ امن و آشتی، صلح و صفائی اور اچھی حکمرانی اور خوش حالی کا راستہ نہیں۔
یہ وہ تین بنیادیں ہیں جن سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومت کو مجبور کرے کہ اس فریم ورک میں مسائل کا حل تلاش کرے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ۸ اکتوبر کو شروع ہوا اور ۲۲ کو ختم ہوا۔ ایک ۱۶ رکنی کمیٹی نے ۹گھنٹے کے بحث و مباحثے کے بعد ایک متفقہ قرارداد منظور کی جو ایک تاریخی اقدام ہے۔ پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں قادیانی مسئلے پر ایک تاریخی فیصلہ کیا تھا اور اب ۲۰۰۸ء میں قومی سلامتی کے مسئلے پر ایک مثبت اقدام کیا ہے۔ یہ صرف ایک آغاز ہے لیکن اس میں یہ امکانات مضمر ہیں کہ سلامتی اور خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل ہوجائے___اور امریکا اور مشرف کی پالیسیوں کے چنگل سے ملک و قوم نکل سکیں۔ اس قرارداد کی قوت یہ ہے کہ یہ متفق علیہ ہے اور اس کا رخ درست ہے، لیکن اس کی کمزوری یہ ہے کہ بڑے اہم معاملات اشاروں میں بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ کے انتخاب میں بھی بہت سی نزاکتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
اس کے درج ذیل پہلو اہم ہیں اور تبدیلی کے رخ کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن اس قرارداد، اس میں طے کردہ اصول اور بیان کردہ نقشۂ راہ کا اصل امتحان اس پر عمل درآمد ہے۔ اگر حکومت دیانت داری سے اس پر عمل کرتی ہے تو ایک روشن مستقبل کے امکانات موجود ہیں۔
۱- اس اعلامیے میں یہ پیغام واضح طور پر موجود ہے کہ پارلیمنٹ اور قوم مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس پالیسی کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے اور یہ حکومت اور پارلیمنٹ کا امتحان ہے کہ وہ متفقہ قرارداد میں دیے گئے اصولوں اور لائحہ عمل کے مطابق بنیادی تبدیلی لانے کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے۔
۲- پارلیمنٹ نے ایک آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش ظاہر کی ہے اور ملکی سلامتی سے متعلق حکمت عملی پر فوری نظرثانی اور دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کو نئے تناظر میں دیکھنے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ درحقیقت پارلیمنٹ نے مستقبل کی پالیسی کی سمت متعین کردی ہے۔ اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ عوامی نمایندوں کی تجاویز کو عملی جامہ پہنائے اور ملک کو اس تباہ کن صورت حال سے نکالے جن کا سبب پرویز مشرف کی اختیار کردہ پالیسیاں اور ان کا تسلسل ہے۔
۳- پارلیمنٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ طاقت کا استعمال اور مذاکرات بیک وقت نہیں ہوسکتے۔ قرارداد میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ اس وقت مذاکرات ہی مسائل کے حل کی اصل راہ ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ دیرپا امن، افہام و تفہیم اور مذاکرات سے ہی حاصل کیاجاسکتا ہے۔ فوجی کارروائی، مذاکرات اور ترقی کی تین نکاتی حکمت عملی کو پارلیمان نے دو نکات یعنی ترقی اور مذاکرات تک محدود کردیا ہے۔ فوجی کارروائی کو چودہ نکاتی لائحہ عمل سے یکسر خارج کردیا گیا ہے، تاہم قانون کی بالادستی، دستور اور انصاف کے اصولوں کے احترام کو یقینی بناکر حکومتی عمل داری ضرور قائم کی جانی چاہیے۔
۴- قرارداد میں نہایت واضح انداز میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلح افواج کو متاثرہ علاقوں سے واپس بلا لیا جائے اور جس قدر جلد ممکن ہو جرگے اور ایف سی کے ذریعے امن کی بحالی کا روایتی طریقہ اپنایا جائے۔
۵- پارلیمنٹ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ دہشت گردی کو اس کی وجوہات ختم کیے بغیر کم نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقوں کو امن کے عمل میں شامل کر کے دہشت گردی کی اصل وجوہات کو ختم کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔
۶- متفقہ قرارداد میں صرف تجاویز پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اعلامیے میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے متفقہ قرارداد میں بیان کردہ اصولوں اور پالیسی کے رہنما خطوط کے مطابق عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔
اس قرارداد میں امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے کہ پاکستانی قوم اپنے ملک اور خطے میں امن و آشتی کی خواہاں ہے، تاہم غیرملکی فوجوں کی طرف سے ملکی سرحدات کی پامالی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی اور نہ قوم سابقہ حکومت کی شروع کردہ پسپائی اور بزدلی پر مبنی پالیسی کو جاری رکھنے پر تیار ہے۔ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ بلاشبہہ ہمیں جنگ جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور قوم اس صورت حال کو اپنی تیار کردہ حکمت عملی کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے نہ کہ دبائو، جبر اور معاشی بلیک میلنگ کے ذریعے مسلط کردہ بیرونی پالیسی کے ذریعے۔
متفقہ قرارداد یہ بھی واضح کرتی ہے کہ فاٹا، باجوڑ اور سوات میں پیدا ہونے والی صورت حال افغانستان پر امریکی قبضے کا شاخسانہ ہے، تاہم فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصب کی بنا پر جاری دہشت گردی کو ان کی نوعیت کے مطابق حل کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھا کر جرائم میں ملوث عناصر سے بھی سختی سے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق نبٹا جائے اور پھر سیاسی مسائل کو سیاسی عمل کے ذریعے حل کیا جائے اور عوام کے اصل مسائل کو انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے دُور کیا جائے۔
اس قرارداد میں جناب آصف علی زرداری کے لیے بھی ایک کھلا پیغام ہے۔ اب پارلیمنٹ نے پالیسی کا رخ متعین کردیا ہے اور وہ بھی اس کے پابند ہیں۔ وہ جو گل افشانیاں فرماتے رہے ہیں، اب ان کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ نے قوم کی آواز کو پالیسی کے خطوطِ کار اور ایک نقشۂ کار کی شکل میں متفقہ طور پر طے کردیا ہے۔ صدر اور فوج اس پالیسی کے تابع ہیں اور کسی کو بھی خواہ وہ ایوانِ صدر میں مقیم ہو یا سرحدپار سے مداخلت کی صلاحیت رکھتا ہو، اسے سبوتاژ کرنے کا اختیار نہیں۔ لفظی و معنوی دونوں اعتبار سے اس پالیسی کے نفاذ کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہماری نظر میں جناب آصف علی زرداری پاکستان کی صدارت کے لیے بوجوہ مناسب امیدوار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے جناب سعیدالزماں صدیقی صاحب کو اپنے ووٹوں کا حق دار سمجھا۔ لیکن جب انتخابی ادارے کی اکثریت نے زرداری صاحب کو صدر منتخب کرلیا تو ہم نے کھلے دل سے اس نتیجے کو قبول کیا اور ان کو کامیابی پر روایتی مبارک باد دی۔ ہم نے کہا کہ اگر وہ دستور اور قانون کے مطابق اور ان معاہدوں اور وعدوں کے مطابق کام کرتے ہیں جو انھوں نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم کے ساتھ کیے ہیں، خاص طور پر ناجائز طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی اور دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ کتوبر۱۹۹۹ء کو تھی اور جس کا عہدوپیمان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت (مئی ۲۰۰۶ئ) میں کیا ہے، توہم ان کی غیرمشروط معاونت کریں گے اور ہمارے خیرخواہانہ جذبات ان کے لیے ہوں گے۔
جنرل مشرف کے استعفے اور زرداری صاحب کے حلفِ صدارت کے بعد پارلیمنٹ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے مطابق مکمل ہوگئی اور ملک نے آمریت سے جمہوریت اور شخصی اقتدار سے دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف اپنے سفر کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ اب نئی حکومت خاص طور پر پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت، اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا امتحان ہے کہ وہ ۹سالہ آمرانہ دور کے طورطریقوں، روایات اور طریق حکمرانی سے کتنی جلد قوم کو نجات دلاتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق ایک حقیقی اسلامی، پارلیمانی، وفاقی اور فلاحی جمہوریت کے قیام کی طرف کس تیزی سے پیش رفت کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اسی میں ان کا اصل امتحان ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر ملک کو درپیش چیلنجوں کو دو اور دو چار کی طرح پیش کردیں دوٹوک انداز میں پیپلزپارٹی کی قیادت کے سامنے بھی رکھ دیں کہ قوم کو ان سے کیا توقعات ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل ذمہ داری اور امتحان پیپلزپارٹی کا ہے جسے مرکز اور تین صوبوں میں مکمل اقتدار حاصل ہے، جس نے اپنے اصرار پر صدر، وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، صوبوں کے گورنر اور دو صوبوں میں اپنی مرضی کے وزراے اعلیٰ منتخب کرائے ہیں اور اپنی پارلیمانی حیثیت سے بڑھ کر ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ مخلوط حکومت صرف ایک عنوان ہے، اصل اختیار اور اصل امتحان پیپلزپارٹی کا ہے اور شریکِ اقتدار جماعتوں نے بھی پیپلزپارٹی ہی کو فیصلہ کن کردار سونپا ہے۔
۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتائج کا اگر تجزیہ کیا جائے تو تین باتیں سامنے آتی ہیں جن کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
اوّل: عوام نے پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیفوں کو یکسر مسترد کیا جس کا منطقی تقاضا تھا کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے فی الفور فارغ کیا جائے اور اس پوری قیادت اور ٹیم سے نجات حاصل کی جائے جو ان کے دور میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھی۔ ان انتخابات میں عوام نے مستقبل میں فوج کے سیاسی کردار کو بھی دوٹوک انداز میں طے کردیا اور بظاہر فوج کی نئی قیادت نے بھی عوام کے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے سول نظام کے تحت کام کرنے اور سیاسی عزائم کا راستہ ترک کرنے کا اعلان کر کے عوام کے اس مینڈیٹ کو قبول کرلیا۔
دوم: عوام نے صرف پرویز مشرف ہی کو مسترد نہیں کیا بلکہ ان کی پالیسیوں کو بھی رد کیا اور اس انتخاب میں دیے گئے عوامی مینڈیٹ کا، جس کی تائید اس دور کے راے عامہ کے تمام سروے بھی کرتے ہیں، واضح تقاضا یہ ہے کہ قوم آمریت کی جگہ جمہوریت، شخصی اقتدار کی جگہ دستور اور قانون کی حکمرانی، خارجہ پالیسی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باب میں امریکا کی کاسہ لیسی ترک کر کے آزاد اور پاکستانی مفادات پر مبنی پالیسی اختیار کرے۔ اسی طرح کشمیر کے سلسلے میں، ملک کی نظریاتی شناخت اور کردار کے باب میں، اور معاشی اور مالیاتی میدانوں میں مشرف کی پالیسیوں کی جگہ ہم نئی پالیسیوں کے خواہش مند ہیں جو عوام کی خواہشات اور حقیقی ضروریات کے مطابق اور ملک و قوم کے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنیں۔ انتخاب کا پیغام پالیسیوں میں تسلسل نہیں، تبدیلی اور بنیادی تبدیلی کا تھا اور ہے۔
سوم: ان انتخابی نتائج کا یہ پہلو بہت واضح ہے کہ عوام نے کسی ایک پارٹی کو حکمرانی کا مکمل اختیار نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ضرور سامنے آئی مگر اسے ۳۰فی صد ووٹ اور اسمبلی میں ۳۳ فی صد نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے بجاے حقیقی شرکتِ اقتدار کا راستہ اختیار کرے اور اولین توجہ ان مشترک مقاصد اور اہداف کو دے جو تمام جماعتوں اور خصوصیت سے دو بڑی جماعتوں کے منشور اور عوامی وعدوں میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
۱- دستور کی اس شکل میں بحالی جو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھی، جس کا مرکزی نکتہ پارلیمانی نظام کی اپنی اصل شکل میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور وزیراعظم اور کابینہ کو ان اختیارات کی منتقلی ہے جو آمرانہ دور میں صدر نے حاصل کرلیے تھے بشمول ۵۸ (۲) بی کی تنسیخ اور سربراہانِ فوج اور گورنروں کے تقرر کے اختیارات۔
۲- عدلیہ کی مکمل آزادی اور ججوں کی تقرری اور معزولی کا ایسا نظام جو شفاف ہو۔
۳- دستور کے فریم ورک میں ایک دوسرے کے لیے ’جیو اور جینے دو‘ کے اصول پر حکمرانی کے اصول و آداب کا احترم اور کسی فوجی آمر کا ساتھ نہ دینے کا عہد۔
۴- انتقام کی سیاست کا خاتمہ اور احتساب کے ایک ایسے نظام کا قیام جو بے لاگ ہو، قابلِ اعتماد ہو اور شفاف ہو۔
۵- آزاد الیکشن کمیشن کا قیام۔
۶- وزیراعظم اور وزراے اعلیٰ پر دو مدت کی تحدید کا خاتمہ۔
۷- کارگل کے سانحے کی آزاد کمیشن سے تحقیق۔
۸- قومی سلامتی کونسل کا خاتمہ اور کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا احیا۔
۱- ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیردستوری اور ہراعتبار سے ناجائز اقدام کی مذمت اور اس کے تحت نئے ہونے والے اقدامات کی تنسیخ___ خصوصیت سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے معزول ججوں کی ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی پوزیشن میںبحالی۔
۲- ملک کو جس معاشی اور توانائی کے بحران میں مبتلاکردیا گیا ہے اس سے نجات کی مؤثر کوشش اور عوام کو ریلیف دینے کا اہتمام۔
۳- ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ اور پرویز مشرف کے کردار نے جو تباہ کن صورت حال پیدا کردی ہے، اس سے نجات کی منصوبہ بندی اور پاکستان کے مفادات کی روشنی میں قوت کے استعمال کی جگہ افہام و تفہیم سے سیاسی حل کی کوشش۔
۴- بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں آپریشن جاری ہیں۔ ان کا حاصل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کو فی الفور بند کر کے سیاسی مسائل کا سیاسی حل اور صوبوں کی محرومیوں کے ازالے کی قرارواقعی کوشش اور اس کے لیے متفقہ لائحۂ عمل کی تشکیل اور اس پر عمل کا نظامِ کار۔
۵- کشمیر کے مسئلے پر پرویز مشرف نے جو قلابازیاں کھائی ہیں اور پاکستان کے متفقہ قومی موقف کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تحریکِ مزاحمت سے یک جہتی۔
یہ وہ ۵ ایشوز ہیں جن کے حل کی طرف پیش رفت کی کسوٹی پر زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو جانچا اور پرکھا جائے گا۔ یہی اصل چیلنج کے مختلف پہلو ہیں اور قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ زبانی جمع خرچ، پروپیگنڈے اور نعرہ بازی کا راستہ ترک کر کے قومی اتفاق راے پیدا کیا جائے گا اور ان تمام امور کی طرف حقیقی پیش رفت پر ساری توجہ مرکوز کی جائے گی۔
۱- جن بنیادوں پر مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی ان کے بارے میں قول اور عمل کا تضاد اتنا واضح اور نمایاں تھا کہ مخلوط حکومت کا چلنا پہلے دن سے مشتبہ تھا اور بالآخر یہی ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کو ججوں کی بحالی کے مسئلے پر حکومت سے الگ ہونا پڑا۔
۲- وعدوں اور سیاسی عہدوپیمان کے بارے میں زرداری کا سہل انگاری کا رویہ اور یہ دعویٰ کہ سیاست میں کیے گئے معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور جب چاہیں ان سے نکلا جاسکتا ہے، ایک اخلاقی جرم ہے۔ اس نے پوری سیاست ہی کو غیرمعتبر بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں تمام تعلقات بے اعتبار ہو جاتے ہیں۔
۳- ان ۶ مہینوں میں حکومت اور خاص طور سے زرداری صاحب کی سوچ ’تبدیلی‘ سے زیادہ ’تسلسل‘ کی روش کا پتا دیتی ہے۔ یہ ۱۸ فروری کے مینڈیٹ سے بے وفائی کا راستہ ہے۔ ججوں کے معاملے کو جس طرح اس حکومت نے الجھایا ہے اس نے عدالت کو نظروں میں بے وقار کردیا ہے۔ مشرف نے عدلیہ کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ اس سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ اس نے باہر سے حملہ کرکے عدلیہ کے ادارے کو تباہ کیا اور زرداری صاحب کے نمایندۂ خاص وزیرقانون نے اندر سے سرنگ لگاکر رہی سہی کسر پوری کردی۔
۴- معاشی صورت حال بلاشبہہ ورثے میں ملی تھی اور توانائی کا بحران بھی۔ لیکن ان ۶ ماہ میں حکومت کسی مؤثر اور بنیادی پالیسی کو لانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ پالیسی پر اس کی گرفت نہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اسی ’تسلسل‘ کا نتیجہ ہے کہ عوام کی مشکلات اور خصوصیت سے زراعت اور صنعت، دونوں اہم شعبوں میں مسائل کا اضافہ ہوا ہے۔
۵- ان ۶ ماہ میں بلوچستان، وزیرستان، باجوڑ اور سوات میں فوجی آپریشن جاری ہیں بلکہ ان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مسائل کا سیاسی حل نکالنے کے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں پر آگ اور خون کی بارش کر رہی ہے اور دوسری طرف امریکا اور بھی بے باک ہوکر ہماری سرحدوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور شرپسندوں کے نام پر عام شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کر رہا ہے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک مشرف کے دور میں امریکا نے ۳۴ بار ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کی تو ان ۶ مہینوں میں ۲۳ بار امریکا نے حملے کیے اور ۳ستمبر ۲۰۰۸ء کا حملہ تو برملا اعلان جنگ کے مترادف تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی سرحد پر اپنی فوجیں اتاریں اور عورتوں اور بچوں سمیت وہ درجنوں معصوم انسانوں کو شہید کرکے پورے طمطراق سے واپس چلے گئے ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ سب صدربش کے واضح احکامات اور direct action in Pakistan territory(پاکستانی علاقے میں راست اقدام) کی پالیسی کے مطابق ہوا۔ ستم یہ ہے کہ جس دن ایڈمرل مولن اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ یقین دہانی کرا رہے تھے کہ پاکستانی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا، اسی وقت احترام کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ ہیلی کاپٹروں اور بغیرپائلٹ کے جہاز، ڈرون (drone) سے حملہ تھاجس میں ایک ہی ہلے میں ۷معصوم انسان شہید ہوگئے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں زرداری صاحب نے صدارت کی ذمہ داری سنبھالی ہے اور وزیراعظم صاحب اور خود زرداری صاحب کے چند دن پہلے کے اس اعلان کے بعد سنبھالی ہے کہ آیندہ صدر غیر جانب دار فرد ہوگا جو وفاق کی علامت ہوگا۔
بہرحال اب ہم ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ فی الحقیقت اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اسے اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران سے نکالنے میں مخلص ہیں تو درج ذیل اقدام اور اعلانات کا اہتمام کریں تاکہ اُمید کے لیے بنیاد فراہم ہو۔
۱- سب سے پہلے اس امر کا اعلان کریں کہ زندگی کے ہر معاملے میں اور خصوصیت سے سیاست اور ریاست کے تمام امور میں عہدوپیمان کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ زندگی کا کاروبار اس اعتماد ہی پر چل سکتا ہے کہ قول و قرار کا پاس کیا جائے اور ہرعہد کو پورا کیا جائے۔
۲- زرداری صاحب مفاہمت کی سیاست کی باتیں تو بہت کرتے رہے ہیں لیکن ان کے اولین کارناموں میں اتحادی حکومت کے ایک بڑے فریق سے بدعہدی اور نتیجتاً اس کی حکومت سے علیحدگی ہے۔ اب پنجاب میں متعین جیالے گورنر کی قیادت میں جو سیاسی دنگل مرتب کیا جا رہا ہے وہ ’جیو اور جینے دو‘ والی سیاست کودفن کر دے گا۔ اس سے یقینا تصادم کی سیاست پروان چڑھے گی جو ملک کے لیے اور خود حکمرانوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اس سے احتراز کیا جائے اور دستور اور قانون کے دائرے میں خود بھی رہا جائے اور دوسروں کو بھی ان کا حق دیا جائے۔
۳- زرداری صاحب کو پیپلزپارٹی کے تمام سیاسی اور انتظامی امور سے لاتعلق ہوکر صدارت کے عہدے کو پارٹی سیاست میں ملوث ہونے سے بچانا چاہیے۔ اس کے لیے شریک چیئرپرسن کے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونا ضروری ہے۔
۴- زرداری صاحب نے جو ذمہ داری سنبھالی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ اپنی ذات سے متعلق دو امور کے بارے میں وہ تمام حقائق قوم کے سامنے رکھیں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔ ہم ذاتی امور کے احترام اور نجی اور شخصی معاملات کے حق کے قائل ہیں لیکن جب کوئی شخص پبلک ذمہ داری قبول کرتا ہے تو پھر ذاتی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی حساب داری بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ اپنی بے گناہی کے ثبوت کے لیے کسی بدنامِ زمانہ این آر او کا سہارا نہ لیں بلکہ کھل کر شفاف انداز میں قوم کو اعتماد میں لیں اور میثاقِ جمہوریت میں طے کردہ اصولوں پر مبنی کوئی نظام قائم کر کے ان شکوک و شبہات کو دُور کریں جو ملک اور ملک کے باہر موجود ہیں۔
پہلی بات کا تعلق ان میڈیکل رپورٹوں سے ہے جو بار بار وہ عدالت میں حاضر نہ ہونے کے سبب کے طور پر اپنی ذمہ داری پر اپنے وکیلوں کے ذریعے بھجواتے رہے ہیں اور جو اَب انگلستان کے اخبار Financial Times میں شائع ہونے کے بعد پبلک پراپرٹی بن چکی ہیں۔ دو ہی امکانات ہیں۔اگر یہ رپورٹیں صحیح ہیں تو دستور کی واضح دفعات کی روشنی میں قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اب وہ ان عوارض سے نجات پاچکے ہیں جو ان رپورٹوں کی ترسیل کے زمانے میں ان کو لاحق تھے اور جو ایک شخص کو کسی بھی کلیدی مقام کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں۔ اور اگر یہ رپورٹیں درست نہیں تھیں اور محض عدالت میں حاضری سے بچنے کے لیے دی گئیں تو یہ عدالت کے سامنے غلط بیانی اور دروغ حلفی کے زمرے میں آتی ہیں۔ جو سیاست اور قانون دونوں کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے۔ امریکا کے دستور کے تحت تو صدرمملکت کی معزولی صرف دروغ حلفی کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ محض ایک صحافتی افشاے راز کا نہیں، اس کے بڑے اہم دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی مضمرات ہیں اور زرداری صاحب کو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرا مسئلہ ان پر مالی کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات کے غلط استعمال کا ہے۔ بلاشبہہ کسی عدالت میں الزامات ثابت نہیں ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الزامات بظاہر بالکل بے بنیاد نہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے پرازی کیوشن جج نے خود کہا ہے کہ الزامات میں بہت کچھ موجود ہے اور کیس کے واپس لیے جانے سے اسے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ پر جو تفصیلات موجود ہیں، ان کے عام ہوجانے کے بعد ضروری ہے کہ متعلقہ افراد اپنی پاک دامنی ثابت کریں۔ اس لیے بھی کہ مسل پر یہ تمام معلومات موجود ہیں کہ کتنی بار التوا کی درخواستیں زرداری صاحب اور ان کے وکلا کی طرف سے آئی ہیں اور عدالتی عمل کو مدعی اور مدعاعلیہ دونوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔
دو چیزیں ایسی ہیں جن کا جواب ضروری ہے___ سویزبنک میں ۶۰ ملین ڈالر کی رقم جس کو اب پاکستانی حکومت نے واگزار کرا دیا ہے اور جس کے فائدہ اٹھانے والے (beneficiary) زرداری صاحب ہیں، وہ کہاں سے آئی۔ یہ رقم تو ایک حقیقت ہے۔ زرداری صاحب نے اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر بنتے وقت اپنے جن اثاثوں کا اعلان کیا تھا ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ انھیں قوم کو بتانا چاہیے کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور کس طرح اس پر ان کا حق ثابت ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ انگلستان کے سرے محل کا ہے۔ اس کے بارے میں زرداری صاحب نے پبلک اعلان کیا تھا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ محترمہ بے نظیرصاحبہ نے اسمبلی کے اندر اس سے اپنی اور اپنے خاندان کی برأت کا اعلان کیا تھا۔ اب زرداری صاحب اسی سرے محل کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اگر ان کا اب کا دعویٰ صحیح ہے تو جو اعلان انھوں نے اور محترمہ بے نظیر صاحبہ نے اسمبلی اور سینیٹ میں کھلم کھلا کیا تھا اس کی حقیقت کیا ہے؟
لیکن معاملہ ماضی سے زیادہ مستقبل کا ہے۔ صدارت کا عہدہ ایک نازک عہدہ ہے۔ امریکا کے صدر کو بھی ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنی تمام دولت کا اعلان کرنا ہوتا ہے اور صدارت کے دوران وہ اپنے کسی کاروباری اور آمدنی والے کام کو ہاتھ نہیں لگا سکتا بلکہ اس کی ساری دولت ولایت (wardship) کے تحت ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کے لیے بھی باعزت طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی دولت کا اعلان کریں، جو رقوم پہلے اعلان نہیں کی گئیں، ان کے بارے میں ذریعۂ آمدنی بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کس پر کتنا ٹیکس دیا گیا ہے۔ اور پھر اپنے دورِ صدارت کے لیے کاروباری معاملات سے قطع تعلق کریں۔ جب تک سیاست میں یہ روایت قائم نہیں ہوتی، ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔
زرداری صاحب کو ان حالات کا جرأت سے سامنا کرنا چاہیے۔ ملک کے اندر بڑے پیمانے پر لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں بھی ملک کی اور خودان کی عزت کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صد نے ان امور کا ذکر کیا ہے اور انھیں محض یہ کہہ کر ختم نہیں کیا جاسکتا کہ این آر او کے گنگاجل سے اشنان کے بعد سب پاک ہوگیا ہے۔ صرف دو اقتباس ٹائم میگزین اور اکانومسٹ سے ہم اس بات کی تائید میں پیش کر رہے ہیں کہ یہ اب مُردہ اور ختم شدہ مسئلہ (dead and closed issue)نہیں جیساکہ فاروق نائیک صاحب فرماتے ہیں بلکہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر ایک تروتازہ اور زیرِبحث (live and under discussion) مسئلہ ہے۔ اس لیے اس کا سامنا کیجیے۔ ذاتی عزت اور قومی مفاد دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ ٹائم لکھتا ہے:
پاکستان کی صدارت تک زرداری کے عروج کی کہانی سنڈریلا کی روایتی کہانی کی طرح معلوم ہوتی ہے جس میں مافیا کی سنسنی کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔ زرداری کی ہمیشہ ایک چکرباز ہونے کی شہرت رہی ہے۔ بے نظیر کے دوسرے دور میں جب وہ وزیر سرمایہ کاری تھے کمیشنوں میں سے خفیہ وصولی کے اسیکنڈلوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے نے ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب عطا کردیا تھا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات برطانیہ، اسپین اور سوئٹزرلینڈ میں چلائے۔ گذشتہ برس پرویز مشرف کی ایک متنازع ایمنسٹی ڈیل کے بعد یہ تمام الزامات ختم کردیے گئے۔ زرداری کا موقف ہے کہ تمام الزامات کی بنیاد سیاسی تھی، تاہم ان کی ساکھ کے بارے میں شبہہ باقی ہے۔ زرداری کو اپنے ماضی کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات پر قابو پانا ہوگا۔
۹ستمبر کو جب زرداری صدر پاکستان کی حیثیت سے اپنا حلف اٹھا رہے تھے تو ان کے سر پر تین سایے منڈلا رہے تھے: ایک، معیشت ایک بحرانی کیفیت میں ہے، دوسرے مقامی طالبان کے خلاف جنگ کی صورت حال خراب ہے، اور تیسرے زرداری خود کو اپنی اس شہرت سے جدا نہیں کرسکے جو انھیں اپنی مرحومہ بیوی بے نظیر بھٹو کے دور میں مسٹر ٹین پرسنٹ کی ملی تھی: ایک ایسا آدمی جو ملک دانش مندی سے چلانے میں کم دل چسپی رکھتا ہے، بہ نسبت اس کو لالچ کے ساتھ لوٹنے میں۔ (اکانومسٹ، ۱۳ستمبر ۲۰۰۵ئ)
ہم یہ سب باتیں بادل ناخواستہ ضبط تحریر میں لارہے ہیں لیکن اب جس ذمہ داری کے مقام پر زرداری صاحب فائز ہیں، اس کا تقاضا ہے ان تمام امور کو صاف کیا جائے۔ ہم سیاسی انتقام کو ایک سنگین جرم سمجھتے ہیں اور الزام ثابت ہونے سے پہلے کسی بھی شخص کومجرم قرار دینے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اگر الزامات ہرکہ و مہ کی زبان پر ہوں اور اتنے تسلسل کے ساتھ ہوں، اور کسی کھلے عدالتی عمل کے ذریعے بے گناہی ثابت کیے بغیر محض سیاسی مفاہمتوں کی بنیاد پر اسے داخل دفتر کر دیا جائے، تو یہ بھی انصاف کے خلاف شہرت کی بحالی ہے۔ اس کے نتیجے میں اچھی شہرت بحال نہیں ہوسکتی۔ انتقام غلط ہے مگر پبلک شخصیات کا احتساب اور انصاف ایک ضروری عمل ہے اور اس سے فرار عزت میں اضافے کا سبب نہیں بن سکتا۔
مسلمان تو یہ احتیاط بھی کرتا ہے کہ ایسا موقع نہ دے کہ اس پر کوئی الزام لگ سکے۔ ہم اسی جذبے سے اس توقع کا اظہار کر تے ہیں کہ سیاسی معاملات، پالیسی کے امور، اداروں کی بحالی اور تقویت اور خارجہ اور داخلہ مسائل کے بارے میں صحیح اقدامات کی فکر کے ساتھ، ذاتی معاملات کے بارے میں ہرشک و شبہے کو دُور کرنا اب زرداری صاحب کی ذمہ داری ہے۔ جو پبلک لائف کا راستہ اختیار کرتا ہے اسے ذاتی وفاداری اور پاک دامنی کے چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔
Sir Roy Jenkins نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Cabinet Governmentمیں لکھا ہے کہ ایک وزیر کے لیے ہر فن مولا ہونا ضروری نہیں لیکن سب سے ضروری وصف character and integrity (کردار اور دیانت) ہے۔ یہ موجود ہو تو پھر قوم اس قیادت پر پورا اعتماد کرسکتی ہے اور علم و تجربے کی کمی مشاورت اور معاونت سے پوری کی جاسکتی ہے۔لیکن اگر کردار خام ہو اور دیانت مفقود یا مشتبہ ہو تو پھر نظامِ حکومت چلانا محال ہے۔
کیا ہم توقع کریں کہ صدارت کا حلف لینے کے بعد قوم کو ایک ایسے آصف علی زرداری سے معاملہ کرنا ہوگا جو ماضی کے تصور سے مختلف ہوگا، جو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ ایک اچھی شہرت والے انسان کے طور پر کرے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ملک و قوم کو ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف سے نجات ملے اور جو مثال باباے قوم قائداعظم محمدعلی جناح نے قائم کی، اس کا احیا ہو۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۸ روپے۔ سیکڑے پر رعایت، منشورات، لاہور)
مختلف ذرائع سے یہ بات اب مصدقہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر اور امریکی صدر جارج بش کے درمیان ایک خفیہ ملاقات میں بش نے بلیر سے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف افغانستان اور عراق ہی نہیں بلکہ بالآخر ایران، سعودی عرب اور پاکستان بھی ہیں۔ بش اور بلیر اس بات پر متفق تھے۔ صدربش کے وہ مشیر جن کا تعلق اسرائیلی لابی یا نیوکونز (Neo-Cons) سے ہے، وہ تو پہلے دن سے یہ بات کہہ رہے ہیں بلکہ کئی تھنک ٹینک اپنے اپنے انداز میں ۱۹۹۹ء سے اب تک یہ بات کہتے رہے ہیں کہ شرق اوسط کے پورے سیاسی نقشے کوتبدیل کرنا اور خاص طور سے پاکستان کو اس نقشے سے مٹا دینا امریکا کا ہدف ہونا چاہیے۔ ہنری کسنجر نے بھی بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ:
war on terror is a misnomer because terror is a method, not a political movement
(دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلط عنوان ہے اس لیے کہ دہشت گردی سیاسی تحریک نہیں، ایک طریق کار ہے)
جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر امریکا جس جنگ میں مصروف ہے، اس کا ہدف کیا ہے؟ تو ان کا جواب تھا: Radical Islam۔ مزید سوال ہوا کہ ’ریڈیکل اسلام‘ کیا ہے؟ توارشاد ہوا: that which is not secular (وہ جو سیکولر نہیں ہے)۔ (ڈان، ۱۸ستمبر ۲۰۰۸ئ)
ویسے تو یہ بلی کبھی بھی تھیلے میں بند نہ تھی اور باہر اُچھلتی کودتی پھر رہی تھی لیکن گذشتہ دومہینوں میں جس طرح امریکی افواج نے پاکستان کی سرحدات کی خلاف ورزی کی ہے، بغیر پائلٹ کے جہازوں (ڈرون)، ہیلی کاپٹرگن شپس، اے-۱۳۰ اور بالآخر ایف-۱۶ سے بم باری کی ہے اور سب سے بڑھ کر ۳ستمبر کو امریکی فوجیوں نے انگوراڈا کے مقام پر زمینی کارروائی کی ہے، اس نے ان تمام پردوں کو چاک کردیا ہے جو امریکا کی اس جارحیت کے درمیان حائل تھے۔ نیویارک ٹائمز نے واضح الفاظ میں رپورٹ کیا ہے کہ جولائی ۲۰۰۸ء میں صدربش نے واضح احکام جاری کیے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر بلاواسطہ اور بلااطلاع کارروائی کی جائے اور اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت پاکستان کے کمزور اور بزدلانہ احتجاج کے بعد امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل مولن جس وقت اسلام آباد میں وزیراعظم کو پاکستان کی حاکمیت کے احترام کا بھاشن دے رہے تھے تو عین اسی وقت امریکی ڈرون پاکستانی حدود کوپامال اور پاکستان کے شہریوں کو شہید کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان کی فوج کو پاکستانی عوام کے خلاف صف آرا کرکے فوج کو محافظ کے بجاے دشمن کے مقام پر لانے، پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت پر دست درازی کرنے، اور پاکستان کی آئی ایس آئی میں تبدیلیوں کے دھمکی آمیز مطالبات سب ایک ہی پلاٹ کے حصے اور ایک ہی منصوبے کی کڑیاں ہیں۔ جو دیکھنا نہ چاہیں ان کا تو کوئی علاج نہیں، لیکن اب تو صرف دل کی آنکھ نہیں، سر کی آنکھ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ امریکا کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں۔
۱- امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد ’القاعدہ‘ یا ’طالبان‘نہیں، مسلم دنیا کے نقشے کی تبدیلی ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ امریکا اپنی اس جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ عراق میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اب افغانستان میں بھی ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں زمین اس کے پائوں تلے نکل رہی ہے۔ افغانستان پر جو گروہ قابض ہے وہ عوام میں غیرمقبول ہے، وارلارڈز کی حکمرانی ہے اور وہ بھی اپنے اپنے محدود علاقوں میں۔ ہیروئن کا کاروبار عروج پر ہے اور دنیا کی ۹۰ فی صد رسد افغانستان سے کی جارہی ہے۔ طالبان اب ایک دینی گروہ کا نام نہیں، ایک قومی مزاحمت کا عنوان ہے۔ امریکی دانش ور، سابق فوجی کمانڈر اور سفارت کار اعتراف کر رہے ہیں کہ عراق کی طرح افغانستان میں امریکا جنگ ہار چکا ہے۔ امریکی مجلہ فارن افیرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر-اکتوبر ۲۰۰۸ئ) میں ایک نہیں دو مضمون اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور امریکی قیادت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت، فوجی قیادت اور پالیسی سازوں کو بھی اس بات کو سمجھ لینا چاہیے اور امریکا کی خاطر اپنی ہی قوم سے اس جنگ کو فی الفور ختم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے بتدریج لاتعلقی ضروری ہے۔
۲- سیاسی مسائل کا فوجی حل نہ کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اسے ناک کا مسئلہ بنانے کے بجاے مذاکرات، افہام و تفہیم اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات کو سدھارنے کی کوشش کی جائے اور امریکا کے دبائو کو ماننے سے صاف انکار کیا جائے۔ ان کے do more (مزید کرو) کے جواب میں صاف طور پر no more (مزید نہیں) کہہ دیا جائے اور اس پر پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم کردیا جائے۔ یہ قوم کے دل کی آوازہے۔ امریکی اداروں کے تحت کیے جانے والے سروے میں بھی ۷۳ سے ۹۰ فی صد آبادی نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ سے لاتعلق ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
۳- پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر متفقہ قومی موقف کا اعلان کیا جائے اور حکومت، فوج اور قوم سب اس پر مضبوطی سے کاربند ہوجائیں۔
۴- امریکا کو وارننگ دے کر اس جنگ سے لاتعلق ہونے کا ٹائم فریم دے دیا جائے۔
۵- ناٹو ممالک نے تو یہ اعلان کردیا ہے کہ ہمارا مینڈیٹ صرف افغانستان کی حد تک ہے اس لیے ہم پاکستان کی سرزمین پر کارروائی کے مجاز نہیں لیکن امریکا اب بھی اپنے موقف پر عیاری کے ساتھ قائم ہے۔ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ ہے ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ سے پاکستان کی لاتعلقی۔ اگر امریکا اس کے باوجود دبائو ڈالتا ہے اور سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو افغانستان میں موجود تمام فوجوں کے لیے رسد کی فراہمی پر پابندی اور ہرکارروائی کا منہ توڑ جواب۔ امریکا سے جنگ کرنے کی بات کوئی نہیں کر رہا، لیکن امریکا کے حملوںکا جواب ہمارا حق اور فرض ہے۔ قوم نے اس فوج کی ہر ضرورت کو اپنا پیٹ کاٹ کر اس لیے پورا کیا ہے کہ یہ ملک کی سرحدوں کے دفاع کا کام انجام دے، وہ اس کی اہلیت رکھتی ہے، پوری قوم اس کا ساتھ دے گی۔ کیا پاکستان وینزویلا، کیوبا، شمالی کوریا اور لبنان سے بھی زیادہ کمزور ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کے دفاع اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے دنیا کی چھٹی یا ساتویں بڑی فوج ہونے اور ایٹمی صلاحیت کی موجودگی کے باوجود اپنا دفاع نہیں کرسکتے۔ یہ جنگ بازی اور جارحیت نہیں،عزت اور آزادی کے دفاع کا مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں جو بھی کوئی کمزوری دکھائے گا، قوم اسے برداشت نہیں کرے گی۔
ہم تمام مسائل کے سفارتی اور سیاسی حل ہی کو اولیت دیتے ہیں لیکن اگر کوئی اپنی طاقت کے زعم میں ہماری حاکمیت اور آزادی پر دست درازی کرے گا تو اس کو منہ توڑ جواب دینا ہمارا فرض اور مسلم اُمت کی روایت ہے۔ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے اور امریکا کی موجودہ قیادت نے ہرحد کو پامال کردیا ہے۔ پاکستانی قوم اور قیادت کے پاس اس کے سوا کوئی باعزت راستہ نہیں کہ امریکا کی اس جنگ کو خیرباد کہے اور اپنے گھر کی حفاظت اور تعمیر پر ساری توجہ دے۔ اسپین اور اٹلی نے اپنے اپنے قومی مصالح اور مفادات کے تحفظ کے لیے یہی راستہ اختیار کیا ہے اور ناٹو کا ممبر ہوتے ہوئے کیا ہے___آخر ہمارے لیے عزت اور آزادی کے تحفظ کے لیے اس تباہ کن جنگ سے دست کش ہوجانے کے سوا اور کیا راستہ ہے۔
میں ایک خوش گوار پہلو پر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا۔ عراق سے اسپینی افواج کے انخلا سے امیدپیدا ہوئی ہے۔ بش کی جنگ کا شاید یہ مقصد تھا اور ایسا ہو بھی سکتا تھا کہ ایک مسلسل اور وسیع ہوتے ہوئے تشدد کا منحوس چکر آگے بڑھتا رہے۔ ہسپانویوں، اطالویوں، جاپانیوں، انگریزوں اور دیگر پر ایک دفعہ حملہ ہوجائے تو ان کی آبادیاں غیرمعینہ مدت کی جنگ کے آگے سرنگوں ہوجائیںگی۔ جب دہشت گردوں نے ۱۱مارچ ۲۰۰۴ء کو میڈرڈ میں حملہ کیا تو کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اسپینی عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔ اسپینی اس عظیم جھوٹ کو قبول کرسکتے تھے کہ عراق پر حملے کا مقصد دہشت گردی کی جنگ کو کم کرنا ہے۔ دہشت گردی کا اسپینی ردعمل نسلی منافرت کا اُبھار اور امریکا سے زیادہ قربت بھی ہوسکتا تھا۔ جنگ کی ابتدائی وجوہات (اس خاص صورت میں غیروجوہات/ non-reasons) کو نظرانداز کردینا اور قدیم زمانے کی طرح لڑائی کے منحوس دائرے کی گرفت میں آجانا آسان ہے۔ شاید پہلی جنگ عظیم اس کی ایک مکمل مثال ہے۔ یہ قومی مفادات کے حصول کے لیے شروع ہوئی اور جلد ہی ایک بے معنی خونی غسل میں تبدیل ہوگئی۔ یورپ کی قومیں سب کچھ کھونے کے بعد بھی برسوں لڑتی رہیں۔
اسپین میں اس کے برخلاف ردعمل رونما ہوا۔ اسپینی ووٹروں نے (سابق وزیراعظم) ازنار سے نجات حاصل کرلی، (نئے منتخب وزیراعظم) زپاٹیرو نے عراق سے اسپینی افواج واپس بلوا لیں، اورشاید یہی بات بڑھتے ہوئے تشدد کے اس چکر کو توڑنے کے لیے کافی ہو جس کی بہت سے توقع کر رہے تھے اور کچھ اس کی امید کرنے والے بھی تھے۔ شاید ہم اسپینی عوام کے اس سے زیادہ احسان مند ہیں جتنا ہم جانتے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بش کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو ان کا ووٹ، ان کا فیصلہ درحقیقت شر پر خیر کی فتح تھی۔