پروفیسر خورشید احمد


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، الحمد للّٰہ رب العالمین۔ والصلوۃ والسلام علٰی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔

جناب چیئرمین! میرے لیے آج کا دن غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس معزز ایوان میں ۱۲ مارچ ۱۹۸۵ء کو میں نے قدم رکھا اور چیئرمین صاحب کے انتخاب کے بعد پہلی تقریر میں نے کی اور آج میں الوداعی خطاب کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، جماعت اسلامی کی تائید اور آپ حضرات کے تعاون سے میں نے اس ایوان میں ۲۱ سال گزارے ۔ یہ دور ایسا ہے کہ جس پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں پاتا کیونکہ یہ میری زندگی کے بڑے فیصلہ کن سال رہے ہیں۔ وسیم سجاد صاحب کے ساتھ مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ ہم اس ایوان کے سب سے زیادہ لمبی مدت تک خدمت انجام دینے والے رکن ہیں۔ اس کی یادیں ہمیشہ رہیں گی اور میں ہمیشہ اس ایوان کے مضبوط تر، مؤثر ہونے اور پاکستان کی تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے دعا گو رہوں گا۔

جنا ب والا! میں اپنے فرض میں کوتاہی کروں گا اگر سب سے پہلے آپ کا شکریہ ادا نہ کروں ۔ ہر چیئر مین نے اپنے اپنے اندازمیں اس ایوان کو چلانے کی کوشش کی ہے لیکن میری نگاہ میں آپ کا ایک قابل قدر کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف آپ نے لیاقت کے ساتھ دستور، قانون اور ضوابط کی پابندی کا اہتمام کیاہے، تو دوسری طرف (جو سب سے مشکل کام تھا) ایک سیاسی پارٹی سے وابستگی کے باوجود آپ نے اس منصب کے تقدس کا پاس کیا اور اس کے کام کو چلانے میں آپ نے توازن، اعتدال ، افہام وتفہیم اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا مظاہرہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے یہ اچھی مثال قائم کی ہے۔ میں آنے والے چیئرمین صاحب سے بھی بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ وہ اس روایت کو قائم رکھیں۔ یہ جمہوریت کی جان ہے اور اس ایوان کی عزت، تقدس اور حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ میں کھلے دل سے آپ کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور آپ کے لیے اپنی نیک دعائیں پیش کرتا ہوں۔ اس موقعے پر ڈپٹی چیئرمین جناب جان جمالی صاحب کی خدمات کا اعتراف بھی ضروری ہے۔ انھوں نے آپ کی عدم موجودگی میں ایوان کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اور شگفتہ اندا ز میں چلایا اور تمام معاملات کو انجام دینے میں مثبت کردار ادا کیا۔

سینیٹ کا عملہ بھی ہمارے شکریے اور مبارک باد کا مستحق ہے، خصوصیت سے راجا محمدامین صاحب اور ہمارے سیکرٹری افتخار اللہ بابر صاحب، ان کے معاونین محبوب صاحب، انور صاحب اور وہ دوسرے تمام افراد جو اس ایوان کو چلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر میں ان افراد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو سٹیج پر تو نہیں بیٹھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی خدمات بڑی گراں قدرہیں، حالانکہ وہ خود گمنامی میں ہیں مگر ان کی وجہ سے ہم سب اپنا اپنا کام مؤ ثر اندا ز میں  ادا کرسکے ہیں۔ اس سلسلے میں خصوصیت سے اخباری رپورٹرز حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے ہماری تقاریر کو محفوظ کیا ہے۔ انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے گو، ابھی مزید بہتری کی گنجایش اور ضرورت ہے لیکن بہر حال میں ان کی حسن کارکردگی کا اعتراف کرتا ہوں۔  اسی طرح میں سینیٹ کے تمام نائب قاصدوں اور محافظ حضرات کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔  نیز پریس، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے متعلق تمام افراد کو  ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں جنھوں نے ہماری بات کو قوم تک پہنچانے میں نمایاں کردار اد اکیا۔

  • استحکامِ سینیٹ کے  لیے اقدامات: جناب والا! مجھے اجازت دیں کہ میں سب سے پہلے خاص طور پر ان چیزوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائوں جنھیں ان دودہائیوں میں  اس سینیٹ کا اہم کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔

 ___ اس سلسلے کی اہم ترین چیز سینیٹ قواعد کی از سر نو تدوین اور ترتیب ہے۔ یہ کام  ملک کی آزادی کے فوراً بعدہونا چاہیے تھا مگر کسی نے اس کی فکر نہ کی۔ یہ سینیٹ تھا جس نے میری تحریک پر اس کام کا آغاز کیا اور ۱۹۸۸ء میں ایسے قواعد و ضوابط مرتب اور نافذ کیے جو اس ایوان کی کارکردگی کو دستور کے تقاضوں کے مطابق مؤثر انداز میں انجام دینے میں ممدو معاون ہوں۔

 ___  دوسرا بڑا اہم کام ملک کی تاریخ میں پہلی بارپارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں شعبۂ تحقیق (Research Departmnet)قائم کرنے سے متعلق ہے۔ الحمدللہ اس شعبے کے قیام کی تجویز بھی میں نے دی تھی اور اس کے قیام کے بعد، اس کی نگرانی میں بھی چیئرمین سینیٹ اور دوسرے رفقاے کار کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی تقریباً اسی انداز میں یہ دونوں کام کیے، یعنی قواعدِکار کی تشکیلِ نو اور تحقیقی شعبے کا قیام۔ گو،سینیٹ میں ابھی ارکان کے لیے تحقیق اور معاونت کی وہ سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہیںجو ان کا حق ہے لیکن اس سمت میں آغاز کار ہوگیا ہے۔مجھے خوشی ہے سینیٹ میں قومی اسمبلی کے مقابلے میں ارکان کی تعدادایک تہائی سے بھی  کم ہے لیکن سینیٹ کے شعبۂ تحقیق میں اس وقت ۱۱؍افراد کام کر رہے ہیں، جب کہ قومی اسمبلی میں یہ تعداد صرف نو ہے۔

 ___  اسی طرح میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سینیٹ نے اپنے گریڈ ایک سے ۱۶ تک کے ملازمین کی ضرورت کے وقت مدد کے لیے اسٹاف ویلفیئر فنڈ قائم کیا جو ایک نیا تصور ہے۔میں   اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کے آغاز کی تجویز و تحریک کی سعادت بھی مجھے حاصل ہوئی۔  اس کے نتیجے کے طور پر گریڈ ایک سے ۱۶ تک کے ملازمین میں سے ایک بڑی تعداد کو ہر سال ۳۰،۴۰ لاکھ روپے کی مدد مل رہی ہے۔ میں اس وقت خاص طور پر سینیٹ کے آنے والے اراکین سے درخواست کروں گا کہ اس ادارے کو مضبوط اورمزید مستحکم کریں اور اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں۔ یہ بڑی روشن روایت ہے جو ہم نے قائم کی ہے۔ اس کو جاری رکھنا ضروری ہے۔

 ___  اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ ہمیں یہ بات بھی اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ سینیٹ نے ان ۲۰ سالوں میں خود اس ادارے کے وقار اور کارکردگی کو بڑھانے میں مفید خدمات انجام دی ہیں۔ بلاشبہہ یہ کام خواہ سُست رفتاری ہی سے ہواہو، لیکن اس سلسلے میں ہمارے قدم آگے ہی بڑھے ہیں۔ جب ۱۹۷۳ء میں سینیٹ قائم ہوا تو اس کے ارکان کی تعداد صرف ۶۳تھی۔ اس کے بعد اس میں ٹیکنو کریٹس کا اضافہ ہوا، خواتین کا اضافہ ہوا، غیر مسلموں کا اضافہ ہوا جس سے یہ تعداد بڑھی اور آج ہماری تعداد ۱۰۴ ہے۔ بات صرف تعداد کی نہیں، اس سے بھی اہم چیز      اس ادارے کو فیڈریشن کے ایوان بالا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات حاصل ہونے چاہییں، ان کے حصول کے لیے بھی ہم نے برابر کوشش کی اور آج سینیٹ کئی اعتبار سے زیادہ بااختیار اور زیادہ متحرک ادارہ ہے۔

مثال کے طور پراگر آپ اختیارات کو دیکھیں تو جس وقت یہ قائم ہوا، اس وقت بالکل لولا لنگڑا سینیٹ تھا اور اس کے اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن آٹھویں ترمیم اور، اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے سے ہم نے بڑی منظم کوشش کی ہے کہ سینیٹ کے کردار کو زیادہ مؤثر بنایا جاسکے اور آہستہ آہستہ اس کے قدم آگے بڑھے ہیں، لیکن ابھی بہت سے مراحل طے کرنا باقی ہیں۔ اس لیے میں آج یہ بات کہنا چاہتا ہوں اور خاص طور پر جو ارکان اب اس ایوان میں شامل ہورہے ہیں، میں ان سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی سینیٹ کو وہ مقام نہیں ملا ہے جو ایک فیڈریشن کے پورے نظام کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لیے ضروری ہے۔

 ___ اس سلسلے میں دو تین چیزیں بڑی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ سینیٹ کو وہی پوزیشن حاصل ہونی چاہیے جو قومی اسمبلی کی ہے، اور یہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک سینیٹ کے ممبران کاانتخاب بالغ راے وہی کی بنیاد پر عوام کے بلاواسطہ ووٹوں سے نہ ہو ۔ میں نے جتنا بھی غور کیا، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلاواسطہ انتخاب کے بغیر سینیٹ فیڈریشن کی حفاظت کا وہ کردار ادا نہیں کرسکتا جس کے بغیر فیڈریشن مکمل نہیں ہوتی۔ البتہ میں اس راے کا سختی سے قائل ہوں کہ یہ انتخاب متناسب نمایندگی کی بنیادوں پر ہونا چاہیے تاکہ تمام سیاسی قوتوں کواس ایوان میں  ان کی عوامی تائید کے تناسب سے نمایندگی مل سکے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جہاں ہم سینیٹ کے بلاواسطہ انتخاب کو ضروری سمجھتے ہیں، وہیں طریقہ انتخاب کے لیے بھی متناسب نمایندگی کے اصول پر اصرار کرتے ہیں تاکہ اس میں تمام نقطہ ہاے نظر اپنا اپنا مقام حاصل کر سکیں۔ یہ ایک نہایت اہم ضرورت ہے۔ اس کا پورا ہونا بہت ضروری ہے۔

اس موقعے پر میں یہ اعتراف بھی کرناچاہتا ہوں کہ موجودہ طریقۂ انتخاب میں روپے پیسے کا چلنا ، سیاسی جوڑ توڑ اور مقتدر اداروں اور افراد کے کردار سے جو تصویر سامنے آرہی ہے وہ اس ادارے کے دامن پر ایک بڑا ہی بدنما دھبا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں بھاری اکثریت کا دامن پاک ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں کچھ مقامات پر یہ گندپھیلایا گیا ہے جس کی وجہ سے اس مقتدر ادارے پر لوگوں کے اعتماد کو بڑی ٹھیس لگی ہے۔ وجہ واضح ہے کہ اگر دیگ کے چند چاول بھی زہر آلودہوں تو اس سے سارا پکوان متاثرہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمارا دستوری کردار مؤثر ہونا چاہیے اور ہماری اخلاقی پوزیشن بھی مستحکم اور بے داغ ہونی چاہیے۔مستقبل میں دونوں پہلو ئوں سے اصلاح فیڈریشن کو اور اس ملک کو مضبوط کرنے اور جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے معاون ہوں گی۔

  • قانون سازی کے لیے اقدامات: اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ گو، قانون سازی اس ایوان کی ایک اہم ذمہ داری ہے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو قانون سازی کے سلسلے میں ایک بڑا کلیدی کردار ادا کرناہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ تین مزید وظائف (functions)ہیں جن کا ذکر ضروری ہے اور یہ سب بھی قانون سازی سے کچھ کم اہم نہیں ہیں۔ ہم نے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ خدمات انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ہمیں ان تمام امور کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور سینیٹ کی کارکردگی کا جب بھی آپ جائزہ لیں اس میں تمام وظائف کار کو سامنے رکھ کر ہی انصاف کیا جاسکتا ہے ۔

 ___ سینیٹ اور قومی اسمبلی عوام کے جذبات و احساسات کے اظہار کاایک ادارہ ہے۔  یہ قوم کی زبان ہے، اس لیے قرادادوں ، توجہ دلائو نوٹس اور وقت کے مسائل پر آواز اٹھانا ایک کار منصبی ہے۔ اس کے لیے ہم نے ضوابط کار میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں کی ہیں اور اب قراردادوں کے علاوہ صفر گھنٹہ (Zero Hour) کااضافہ کیا ہے جو ایک مفیدتبدیلی ہے۔ اس طرح ارکان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ ہر روز issues of the day(آج کے مسائل)کو اٹھا سکیں۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے اور عوام کے جذبات کے اظہار کے لیے بہت ضروری ہے۔، ساتھ ہی آپ کو معلوم ہے کہ تحریکِ التوا وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام کی مشکلات ، ان کے مسائل کو  ایوان میں لایا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلوسے سینیٹ نے بڑی اہم خدمات انجام    دی ہیں۔ اگر آپ تحریکِ التوا کی تعداد لے لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس اعتبار سے ہم نے کیا کردار ادا کیاہے۔اوسطاً ۱۸۰۰ سے ۲۰۰۰ تک التوا کی تحریکیں ہر سال آتی رہی ہیں اور مجھے اور    جماعت اسلامی کے دوسرے ارکان کو بھی سعادت حاصل رہی کہ ان میں تقریباً ۲۰فی صد، یعنی ۱۰۰سے زیادہ تحریکیں ہم نے پیش کی ہیں۔

___تیسری چیز پالیسی سازی میں کردار ہے۔ بلاشبہہ پالیسی بنانااور اس کی تنفیذ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن صحیح پالیسی کی نشان دہی میں سینیٹ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں بھی پارلیمنٹ کے سامنے بنیادی پالیسیوں کو پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ نے اپنا کردارقرارِ واقعی ادا نہیں کیا ۔ یہ بات ریکارڈ پر لاتے ہوئے ہمیں دکھ ہوتا ہے کہ ریاستی پالیسی کے رہنما اصول کے بارے میںدستور جولازم کرتا ہے کہ ہر سال اس کی رپورٹ آئے، پہلے قومی اسمبلی اور اب دونوں ایوانوں میں ، لیکن یہ خانہ برسوںسے خالی رہا ہے اور کسی نے بھی اس کی فکر نہیں کی۔ سینیٹ نے اس مسئلے کو اُٹھایا ہے اور اس سال پہلی بار حکومت نے مجبور ہو کر نئے سال کی رپورٹ اس ایوان میں پیش کی ہے۔ پہلے یہ نہیں آیا کرتی تھی۔    جناب چیئرمین! اس سلسلے میں آپ کا بھی کردار ہے کہ ہمارے مسئلہ اٹھانے پر آپ نے اصرار کیا اور اب  وہ رپورٹیں آرہی ہیں۔ اس طرح سینیٹ پالیسی سازی میں بھی بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔

___ پارلیمنٹ کا چوتھا کردار میری نگاہ میں بہت ہی اہم ہے اور وہ انتظامیہ (executive) پر نگرانی (oversight)اور ان کی جواب دہی (accountability) ہے۔ یہ عمل ماضی میں بہت کمزور اور غیر مؤ ثر تھا۔ لیکن اس سینیٹ نے کمیٹی سسٹم کو مؤثر بنا کر انتظامیہ کے محاسبے کومضبوط کیاہے۔ جناب والا! کمیٹی سسٹم کے بارے میں آپ کو یاددلائوں گا کہ ہم نے سینیٹ کی کمیٹیوں کو اپنے صدر کو منتخب کرنے کا اختیار دیا، جب کہ ماضی میں متعلقہ وزیر صدر ہوتا تھا اور اس طرح احتساب ناممکن ہوگیا تھا۔ پھر کمیٹیوں کو از خود مسائل پر کارروائی کرنے کا اختیار دیا اور انھیں معلومات حاصل کرنے کے لیے با اختیار بنایا گیا ۔ یہ ایک تاریخی تبدیلی اور اضافہ (historic innovation) ہے، یعنی مجالسِ قائمہ سے آگے بڑھ کر Functional Committees (مجالسِ عمل درآمد)کا تصور بھی متعارف کیا۔ فنکشنل کمیٹی کا تصور یہ ہے کہ وہ مسائل کی بنیاد پر  قائم کی گئی ہیں، اور ان میںجن معاملات کے لیے کمیٹیاں قائم کیںان میں بنیادی حقوق کا مسئلہ  ،کم ترقی یافتہ علاقوں کے مسائل اور حکومت کے اعلانات اور وعدوں کے فالواَپ کے کاموں کو اہمیت دی۔ اس طرح انسانی حقوق، کم ترقی یافتہ علاقوں اور انتظامیہ کے احتساب اور عوامی مسائل پر توجہ کو مرکوز کرنے اور ضروری سفاشات مرتب کرنے کا کام شروع کیا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان چاروں وظائف کو سامنے رکھ کر ہمیں سینیٹ کی کارکردگی اور اس کے کردار کے ارتقا کو دیکھنا چاہیے۔ میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جہاں اس پہلو سے سینیٹ نے میری نگاہ میں بڑا مثبت کردار ادا کیا ہے، وہیں چند مسائل ایسے ہیں جو میں اپنے اس الوداعی خطاب میں چاہتا ہوں کہ ریکارڈ پر بھی آجائیں اور آنے والے سینیٹ کے ارکان بھی اس کی فکر کر سکیں ۔

  • سینیٹ کے ایامِ کار میں اضافے کی ضرورت: پہلی چیز یہ ہے کہ جتنا وقت سینیٹ نے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں دیا ہے، میری نگاہ میں وہ بہت ناکافی ہے۔ بلاشبہہ دستور کے مطابق ۹۰ ایامِ کارکوبڑھا کر۱۱۰دن کیاگیا ہے لیکن ان ایام میں جو کام کیا جا رہا ہے، وہ ناکافی ہے۔ ایک ادارے پلڈاٹ (PILDAT) (Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency)  نے اس معاملے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اجلاس ہمیشہ آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک تاخیر سے شروع ہوئے ہیں۔ ہم نے جو اصل وقت صرف کیا ہے، وہ اوسطاً تین گھنٹے یومیہ ہے، جب کہ بھارت کی راجیہ سبھامیں اوسطاً کارکردگی کا وقت چار گھنٹے سے زیادہ رہا ہے اور برطانیہ میں اس سے بھی زیادہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایوان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ہم یومیہ زیادہ وقت صرف کریں، حاضری بہتر ہو اور اجلاس بھی وقت پر شروع کیے جائیں۔

جناب والا! دوسری بات جس کا آپ نے بھی نوٹس لیا اور ہمیں بھی اس کو بار باراٹھانا پڑا  وہ وزرا حضرات کی عدم دل چسپی ہے۔ دستوری اعتبار سے پوری کابینہ بشمول وزیر اعظم سینیٹ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس باب میں لا پروائی اور سہل انگاری کارویہ کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ ہم نے آیندہ کے لیے اپنے قواعد میں یہ بھی ایک بہت اہم نیا اضافہ کیا ہے کہ وزیراعظم سینیٹ میں آئیں اور وقت دیں۔ PILDAT کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء میں وزیراعظم صاحب پورے سال میں صرف ۲۵منٹ کے لیے اس ایوانِ بالا میںتشریف لائے۔ ۲۰۱۰ئ-۲۰۱۱ء میں یہ ۲۵منٹ بھی کم ہو کر ۱۵منٹ رہ گئے ہیں۔ یہ شرمناک بات ہے۔میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کو اُٹھائیں کیونکہ ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ قانون سازی کے باب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تین سال میں سینیٹ میں کل آٹھ قوانین پیش ہوئے ہیں اور کل ۴۹ قوانین ایسے ہیں جو یہاں سے منظور ہوئے ہیں۔جب میں اس کا بھارت کی راجیہ سبھا سے موازنہ کرتا ہوں تو راجیہ سبھا میں ان تین برسوں کے اندر ۱۳۲قوانین منظور کیے گئے ہیں۔ امریکا میں قانون سازی کی سالانہ اوسط ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ہمار ے ہاں قانون سازی اب بھی بہت پیچھے ہے اور آرڈی ننس اب بھی جاری ہو رہے ہیں۔ گو، اس پر دستورکی۱۸ویں ترمیم کے ذریعے پابندیاں لگادی گئیں ہیں لیکن آیندہ سینیٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میدان میں زیادہ فعال کردار ادا کرے۔

  • حکومتی کارکردگی اور احتساب: سوالات حکومت کی کارکردگی پر احتساب کا ایک مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ اس کے بارے میں پوزیشن یہ ہے کہ ہر سال اوسطاً تقریباً ۱۸۰۰سے ۲۰۰۰ سوالات ارکان کی طرف سے حکومت کو بھیجے گئے ہیں لیکن عملاً جو جوابات آئے وہ صرف ۳۵فی صد سوالوں کے ہیں،یعنی ۶۵فی صد سوال جواب سے محروم رہے۔ یہ ایوان کے استحقاق کی نفی ہے۔واضح رہے کہ جو سوالات سینیٹ نے وصول کیے ہیں ان میں سے تقریباً ۲۰ فی صد سینیٹ کی انتظامیہ نے قبول نہیں کیے اور ۸۰ فی صد قبول ہوئے، لیکن ان قبول شدہ سوالات میں سے بھی صرف ۳۵ فی صد کے جواب حکومت کی طرف سے آئے۔ یہ بہت ہی سنگین کوتاہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں سینیٹ کو اپنے اختیارات کو مؤثر انداز میں استعمال کرنا چاہیے اور حکومت کو بھی آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ بروقت جواب دے۔ نئے قواعد میں ہم نے اس سلسلے میں کچھ نئے اقدام اور ضوابط تجویز کیے ہیں لیکن اصل چیز حکومت کا تعاون اور ذمہ داری سے تمام سوالات کے جواب فراہم کرنے کا اہتمام ہے۔

اس کے بعد تحاریک استحقاق کا مسئلہ ہے۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ زمرہ ہے جس میں برابر اضافہ ہواہے، یعنی۲۰۰۸ئ-۲۰۰۹ء میں استحقاق کی تحریکوں کی تعداد ۲۵تھی۔ ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء میں یہ تعداد ۳۱ ہوگئی اور ۲۰۱۰ئ-۲۰۱۱ء تو معلوم ہوتا ہے کہ استحقاق کی تحریکوں کے لیے فصل بہار کا   درجہ رکھتا ہے۔ اس سال ۶۱تحریکات ایوان میں پیش ہوئیں لیکن ان میں سے بیش تر کا تعلق  چھوٹے چھوٹے ذاتی مسائل سے تھا۔ قومی اور اصولی معاملات پر بمشکل چار یا پانچ قراردادیں تھیں۔ اس معاملے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریکِ التوا اور توجہ دلائو نوٹس کے بارے میںایک خاص پہلو کی طرف مَیں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء میں ۹۳توجہ دلائو نوٹس سینیٹ نے وصول کیے لیکن ۹۳میں سے صرف آٹھ پر ایوان میں گفتگو ہوسکی۔۲۰۱۰ئ- ۲۰۱۱ء میں ۱۰۲توجہ دلائو نوٹس آئے لیکن صرف تین پر بحث ہوسکی۔ ایوان میں زیر بحث آنے والی تحاریک کے بارے میں ہماری یہ کارکردگی کوئی اچھی مثال پیش نہیں کررہی۔

تحریکات التوا کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء میں ۱۸۲ایسی تحریکیں ارکان کی طرف سے داخل ہوئیں لیکن ان میں سے صرف ۱۱؍ایوان میں بحث کے لیے منظور ہوسکیں اور ان ۱۱ میں سے بھی صرف تین پر بحث کی گئی ۔ یہی کیفیت تقریباً ہر سال رہی ہے جو نہایت تشویش ناک صورت حال کی غمازی کرتی ہے ۔

اس موقعے پر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت بھی جو ہمارا نامکمل ایجنڈا ہے اس میںصرف تحاریکِ التوا کے سلسلے کی ۱۷تحریکیںبحث کے لیے ایجنڈے میں ہونے کے باوجود ایوان میں بحث سے محروم ہیں۔ان پر آج تک کوئی بحث نہیں ہوئی۔ ان میں سے چھے ایسی ہیں  جن میں ، میں خود اور جماعت اسلامی کے میرے دوسرے ساتھی تجویز کنندہ ہیں۔ قواعد کے مطابق اب وہ ختم ہوجائیں گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس موقعے پر آپ لوگوں کو یہ یاد دلائوں کہ یہ کام کرنے کے ہیں۔ سینیٹ فقط مجلسِ مباحثہ (debating society)نہیں ہے۔ ہمیں ان چاروں ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے جو دستور اور جمہوری روایات کی روشنی میں ہمارے سپرد ہیں۔اس لیے زیرالتوا کام پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ملک کو درپیش چیلنج

اس کے بعد میں نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ صرف مختصر نکات کی شکل میں ان امور کی نشان دہی کروں گا جو میری نگاہ میں اس وقت سینیٹ، پارلیمنٹ ، حکومت اورقوم کے سامنے سب سے اہم مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی بات اسی پر ختم کروں کہ ان مسائل کی طرف توجہ دینا اصل چیلنج ہے اور اس میں اگر ہم نے کوتاہی برتی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

  • ملکی سالمیت و خودمختاری: سب سے پہلا مسئلہ میری نگاہ میں ملک کی آزادی ، اس کی حاکمیت، اس کی خودمختاری اور اس کی عزت اور وقار کا تحفظ ہے۔ اس پر پچھلے ۱۲برسوں میں جو چرکے لگے ہیں، جو ہز یمتیں ہمیں اٹھانی پڑی ہیں، جس طرح ہماری آبادیوں پر ڈرون حملے ہوئے ہیںاور جس طرح ہمیں دنیا بھر میں بلیک میل کیا گیا ہے، دبائو ڈالا گیا ہے،   حتیٰ کہ ریمنڈڈیوس جیسا واقعہ بھی یہاں رُونما ہوا ہے، ۲مئی کا واقعہ بھی یہاں رونما ہوا ہے، ۲۶نومبر کا واقعہ بھی رونما ہوا ہے، ان حالات میں ہماری آزادی خطرے میں ہے۔ جو قوم اپنی آزادی کھودے وہ پھر زندہ رہنے کے لائق نہیں رہتی۔ اس لیے ہمارا سب سے پہلا مسئلہ آزادی کا تحفظ ہے۔ اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنی پڑے وہ کم ہے۔ قومیں اگر اپنی آزادی کے لیے قیمت ادا نہ کریں تو وہ پھر محکوم اور غلام بن کر رہتی ہیں۔
  • نظریاتی تشخص کا تحفظ: دوسرا مسئلہ میری نگاہ میں ملک کی نظریاتی شناخت کی حفاظت اور پرورش کا ہے۔ ہمارا ملک ایک نظریاتی ملک ہے۔ ہم نے اس ملک کو قائم کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے اور بڑی قربانیاں دی ہیں۔ مسلمانانِ ہندو پاک نے لاکھوں کی تعداد میں جانیں دی ہیں اور ایک ڈیڑھ کروڑ افراد نے ہجرت کی ہے، اور یہ سب اس لیے تھا کہ ہم اپنے دین، اپنے عقیدے اور اپنی تاریخ کی روشنی میں اپنی زندگی کو ترتیب دے سکیں۔ قائداعظمؒ نے ۱۰۰سے زیادہ مواقع پر ۱۹۳۹ء سے لے کر ۱۹۴۸ء تک اس کا نظریاتی اور دینی پہلو اُجاگر کیا ہے  جس کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔ یہ نظریاتی پہلو قوم سے عہدو پیمان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس موضوع کے بارے میں انھوں نے کبھی نہ کوئی سمجھوتا کیا اور نہ معذرت خواہا نہ رویہ اختیار کیا ۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کو اسی حیثیت سے ہمیں آگے بڑھانا ہے لیکن آج ہمارا نظریاتی تشخص مجروح ہو رہا ہے۔ معذرت خواہانہ روش اختیار کی جارہی ہے۔ ایسی باتیں کہی جار ہی ہیں جن کو  دیکھ کر ، پڑھ کر انسان سرپیٹ لیتا ہے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھوں نے تحریک پاکستان میں الحمدللہ حصہ لیا ہے اور ایک طالب علم کی حیثیت سے اس جدوجہد میں، مَیں نے اور میرے  اہلِ خاندان نے قربانیاں دی ہیں۔ آج جب میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس لیے میں آج کے اس خطاب میں پاکستان کی نظریاتی شناخت اور اس کے اصل مقصد کو جو ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کا قیام ہے پوری شدت اور قوت سے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ آزادی کا تحفظ اور نظریاتی شناخت کی حفاظت اور ترویج ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
  • ھمہ گیر اخلاقی انحطاط: تیسری چیز جو میں کہنا چاہتا ہوں اور جس کا میں   بڑے دُکھ سے اظہار کر رہا ہوں اور جسے دوسرے سیاسی اور معاشی مسائل سے بھی پہلے اٹھا رہا ہوں وہ ملک و قوم کا ہمہ گیر اخلاقی انحطاط ہے۔ اخبار اٹھا کر دیکھیے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں، بچیوں، عورتوں اور مجبور انسانوں کے ساتھ کس طرح ظلم کیا جا رہا ہے۔ وڈیروں، زمین داروں اور بااثر افراد کے پرائیویٹ جیل خانے موجود ہیں۔ سوسائٹی کو کس طرح تقسیم کردیا گیا ہے۔ معزز شہریوں کو لاپتا کیا جارہا ہے اور قانون اور معاشرے کا اجتماعی ضمیر بے حس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس ملک میں قوم کی اخلاقی حس مُردہ ہوجائے پھر وہ قوم اور اس کے افراد انسان کہے جانے کے لائق نہیں رہتے۔ اس لیے ہمیں اس اخلاقی مسئلے کو بڑی اہمیت دینا چاہیے۔ اس میں حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، لیکن یہ محض حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے اور ہر فرد کی    ذمہ داری ہے۔ قرآن صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ آخرت میں ہر فرد سے بحیثیت فرد احتساب اور جواب د ہی ہوگی۔ پھر اس میں میڈیا، تعلیمی نظام، والدین اور خاندان، معاشرے کے بزرگ ،مسجد اور منبر، ان سب کی ذمہ داری ہے۔

آزادی اور نظریاتی شناخت کے بعد ملک کی اخلاقی قوت کی حفاظت اور ترقی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اخلاقی حالت کو بہتر کرنا اور یہ دیکھنا کہ ہم کہاں تک خیر اور شر کے درمیان فرق کر رہے ہیں، یہ ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ مسلمان اور غیر مسلم میں یہ فرق نہیں ہے کہ ان کی شکل ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ وہی دو آنکھیں ، وہی دوکان ، وہی ایک ناک، وہی ایک زبان اور وہی دودو ہاتھ پائوں___ پھر فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ مسلمان ایک اخلاقی معیار کو شعوری طور پر قبول کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے آخری سانس تک ان اخلاقی اقدار کی پاس داری کروں گا۔ اگر ہم ان اقدار کی پاس داری نہیں کر رہے ہیں تو ہم دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی۔ جناب والا! یہی وجہ ہے کہ دوسرے مسائل کی طرف آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو جس طرف متوجہ کروں گا، وہ ملک کی اخلاقی اصلاح اور تعمیر ہے۔

  • بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ: اس کے ساتھ چوتھی بات جو بہت ضروری ہے وہ بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے۔ بنیادی حقوق جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں ذکر فرمایا ہے، ہمارے لیے سب سے اہم چیز ہے۔ بحیثیت مجموعی ہماری تاریخ میں خامیاں رہی ہیں، کوتاہیاں رہی ہیں لیکن مسلمان ہو یا غیر مسلم ، طاقت ور ہو یا کمزور، حقوق کی پاس داری ہماری امتیازی شان رہی ہے۔ آج جو صورت حال ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ ہر طرف لاقانونیت کا بازار گرم ہے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ ہے۔ ہماری بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کس طرح دوسروں کے قبضے میں ہے اور ہم اسے وطن واپس نہیں لاسکتے۔ خود یہاں مسخ شدہ لاشیں آرہی ہیں۔ ہر روز یہ واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں کہ کسی کا بیٹا یا کسی کا بھائی اٹھالیا گیا ہے اور پھر عورتوں کو بھی اس ناپاک کھیل میں بخشا نہیں جا رہا ہے۔ جناب والا! انسانی حقوق کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے، اس لیے میں اس مسئلے کو بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
  • معیشت کی زبوں حالی: چوتھا نکتہ یہ ہے کہ معیشت کی جو صورت حال اس وقت ہے، یہ اتنی خراب کبھی نہیں ہوئی تھی۔ غربت بڑھی ہے، بے روزگاری بڑھی ہے اور چار سال کے اندرملک کے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں ۱۰۰ فی صد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں اگر کُل قرض ۴ ہزار ۸سو ارب روپے تھا تو وہ بڑھ کر اب ۲۰۱۲ء میں ۱۲ ہزار ارب کی حدوں کو      چھو رہاہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر فرد ہربوڑھا، جوان اور بچہ ۶۰ہزار روپے کا مقروض ہے۔Standard and Poor'sکی جو رپورٹ حال ہی میں آئی ہے اس کے مطابق پاکستان ایشیا کا سب سے مہنگا ملک ہے جس میں افراط زر اور مہنگائی اس پورے علاقے میں سب سے زیادہ ہے۔ آج بھی جو رپورٹ ایک بین الاقوامی ادارے کی آئی ہے، اس میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ہماری بین الاقوامی ساکھ ہر روز نیچے جا رہی ہے۔ جناب والا! اس کو سنجیدگی سے لیجیے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیجیے۔

اگلا مسئلہ کرپشن کا ہے جس کے بارے میں میرے دوسرے ساتھیوں نے بھی کہا ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جا رہا ہوں لیکن یہ ایک سرطان کی طرح قومی معیشت کو کھارہی ہے۔ صرف گذشتہ چار برسوں میں ۸ہزار۶سو ارب کا نقصان اس کی وجہ سے ہوا ہے ۔ یہ ایک بڑا ہی سنگین مسئلہ ہے۔ پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری بقا کے لیے دو چیزوں کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ غذا صاف اور خالص میسر آئے، اور دوسرے توانائی کی ضروریات پوری ہوں۔ یہ دونوں اس وقت مفقودہیں۔اس کے لیے فوری طور پرمنصوبہ بندی اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

  • بلوچستان کی سنگین صورت حال: ایک اور اہم ترین مسئلہ بلوچستان کا ہے۔ یہ صرف بلوچوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ میرا، آپ کا، پورے ملک کا اور ہر طبقے کا مسئلہ ہے۔ اس لیے خدا کے لیے اس کو اہمیت دیجیے ۔ فوری طور پر پرکوشش کیجیے کہ جو اصل مسائل ہیں ان کا سامنا کیا جائے۔ لوگوں کو گفتگو کی میز پر لایا جائے اور انھیں شراکت کا احساس دیا جائے، ملکیت (ownership) کا احساس دیا جائے اور میں آپ سے یقین سے کہتا ہوں کہ ابھی بھی کچھ نہیں گیا، یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے مگر اس کو حل کرنے کے لیے فوری ،بھر پور اور ہمہ جہتی کوشش بہت ضروری ہے۔
  • ’دھشت گردی‘ کی جنگ اور افغانستان کا حل: اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے نام پر امریکا کی تباہ کن جنگ سے نکلنا ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ یہ جنگ نہ کبھی ہماری جنگ تھی اور نہ آج ہماری جنگ ہے۔ ہم نے دوسروں کی جنگ میں ان کے دبائو میں آکر اپنے کو جھونک دیا ہے۔ ۴۰ہزار سے زیادہ پاکستانی اس جنگ میں جان دے چکے ہیں، اور اربوں اور کھربوں کا نقصان ملک کی معیشت برداشت کرچکی ہے۔ اس لیے ہماری اولیں ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم اس جنگ سے نکلیں۔ دوسرے یہ کہ امریکا افغانستان سے نکلے تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔ جب تک امریکا کی یہ جنگ ختم نہیں ہوتی علاقے میں امن ممکن نہیں۔ امریکا نے افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا ہے اور پاکستان بھی بالواسطہ اس کے قبضے میں ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہاہوں بلکہ شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر نے اپنی تازہ ترین کتابCutting the Fuseمیں کہی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ: Afghanistan is under US occupation and Pakistan is under the indirect occupation of United States of America (افغانستان پر امریکا کا قبضہ ہے، اور پاکستان پر امریکا کا بالواسطہ قبضہ ہے)۔ ’دہشت گردی‘ کی جنگ کو ختم کرنا، افغانستان کے ساتھ معاملات کو سلجھانا اور وہاں قومی مفاہمت کا حصول فوری ضرورت ہے۔ افغانستان میں ہر کسی کی دخل اندازی ختم ہو نا چاہیے ۔ مسئلے کا سیاسی حل وقت کا تقاضا اور اصل ضرورت ہے۔
  • مشرف دورِ حکومت کا احتساب: ایک آخری معاملہ جس کے بارے میں کہنا ضروری سمجھتا ہوں وہ ہے مشرف دور کا احتساب ۔ جو مظالم اس شخص نے کیے ہیں دستور کی    خلاف ورزی کے اعتبار سے، انسانی حقوق کی پامالی کے اعتبار سے، امریکا کی غلامی کے اعتبار سے، اور پاکستا ن کے مفادات کو نقصان پہنچوانے بلکہ اس کے وجود کی بازی لگا دینے کے حوالے سے، ان سب پر اس کا احتساب ضروری ہے۔ ملک میں جنگ کی کیفیت اور دہشت گردی کا سیلاب اس دور کی ناکام پالیسوں کا نتیجہ ہے ۔پھر اس شخص نے طاقت کے نشے میں اکبر بگٹی جیسے پاکستانی کو شہید کیا، لال مسجد میں جو کچھ کیا، عدلیہ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیااسے کیسے بھولا جا سکتا ہے۔     یہ سب اس تاریک دور کے سنگین جرائم ہیں اور اس کے لیے مشرف اور اس کے حواریوں کا  احتساب اور قرار واقعی سزا انصاف کا تقاضا ہے ۔اس کے ساتھ مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے جیساکہ جان جمالی صاحب نے کہاہے: سچائی اور مفاہمت (truth and reconciliation) کا راستہ اختیار کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے اور ایسا کرنا ازحد ضروری ہے۔

آخری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے گذشتہ تین سالوں میں کئی اہم قوانین اس ایوان میں پیش کیے ہیں جو ا بھی منظور نہیں ہوئے ہیں، ان میں لاپتا افراد کے بارے میں دستوری ترمیم، مہنگائی کے مسئلے پر قانون ، صحافیوںکے حقوق کا قانون، بے روزگار اور معذور افراد کی مدد کرنے کا قانون اور مہنگائی پر کنٹرول کا مسئلہ جیسے قانون زیادہ اہم ہیں۔     یہ پانچ چھے قوانین بل کی صورت میں اس وقت زیر غور ہیں۔ ان کو جماعت اسلامی کے ارکان سینیٹ نے پیش کیاہے۔ ان میں سے ایک جس کا تعلق صحافیوں سے ہے اس کومسلم لیگ کے ساتھیوں نے co-sponsorکیا ہے وہ جاری رہے گا۔ میرے علم کی حد تک پارلیمانی روایات یہ ہیں کہ ایک مرتبہ جو مسودۂ قانون ایوان میں زیر غور آجائے وہ ایوان کی ملکیت ہے۔ قانون تجویز کرنے والے ممبراگر ممبر نہ بھی رہیں تب بھی ایوان کا فرض ہے کہ وہ اس پر غور کرے، اسے قبول کرے یا رد کرے۔ لیکن میں چاہوں گا کہ اس ایوان کے دوسرے ارکان ان تمام قوانین کےco-sponsorبن جائیں تاکہ یہ قوانین معلق نہ رہیں اور جلد ازجلد کتابِ قانون کا حصہ   بن جائیں ۔

آخر میں، میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے جس احساس کا اظہار کرناچاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں تین دن کی اس پوری بحث کو سنتا رہا ہوں اور پارٹی کی وابستگی سے بالاتر ہوکر میرے معزز بھائیوں اور بہنوں نے جس طرح میرا ذکر کیا ہے، اس کے لیے جہاں مَیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہیں اس حقیقت کا بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی فراخ دلی اپنی جگہ لیکن میرا دیانت دارانہ احساس یہ ہے کہ میں حق ادا نہیں کرسکا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جو بھی کوتاہی اس پورے دور میں میری طرف سے رہی ہو ، یا میرے کسی بھی ساتھی کو خواہ اس کا تعلق انتظامیہ سے ہو یا اراکین سے، اگر میری کسی بات سے کبھی کوئی دکھ پہنچا ہو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ میری نیت کبھی نہیں تھی اور میں ان سے معذرت خواہ ہوں۔ اگر میری وجہ سے انھیں کوئی تکلیف پہنچی ہو تو یقین ہے کہ وہ مجھے معاف کردیں گے۔

آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان مشکلات اور خرابیوں کے باوجود الحمدللہ پاکستان جمہوریت کی طرف گامزن ہے اور میں پاکستان اور خود اس ایوان کے مستقبل کے بارے میں بہت پُراُمید ہوں۔ جہاں حالات کا حقیقت پسند انہ جائزہ ضروری ہے تاکہ ہم کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، وہیں دوسری طرف اُمید رکھنا بھی ایمان کا تقاضا ہے، اور تاریخ کا پیغام ہے کہ انسانوں کی کوششیں بالآخر ثمربار ہوتی ہیں۔ اس لیے اپنی تقریر کو اس احساس کے اظہار پر ختم کرنا چاہتا ہوں کہ:

یوں اہل توکل کی بسر ہوتی ہے

ہر لمحہ بلندی پہ نظر ہوتی ہے

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

شکریہ ،و آخردعوانا ان الحمدللّہ رب العالمین!

جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تین اراکینِ سینیٹ پروفیسر خورشیداحمد، پروفیسر محمد ابراہیم اور محترمہ عافیہ ضیا صاحبہ قومی ، بین الاقوامی، دینی اور عوامی ایشوز پر سینیٹ میں  اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرچکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر پروفیسر خورشیداحمد نے۱۱مارچ ۲۰۱۲ء کو پریس کانفرنس کے ذریعے جماعت اسلامی کے اراکین سینیٹ کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کیا۔

  •  سینیٹ میں کام کے لیے دائرۂ کار: جماعت اسلامی کے اراکینِ سینیٹ نے عوام کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیے سینیٹ آف پاکستان کے اندر سوالات، تحاریکِ التوا، قراردادوں، توجہ مبذول کرانے کے نوٹس، تحاریک زیرقاعدہ ۱۹۴، تحاریکِ استحقاق اور حکومتی بلوں اور نئے بلوں کو جمع کرا کر اپنا موقف پیش کیا۔ گذشتہ تین برسوں میں جمع کرائے گئے سوالات کی تعداد ۱۰۰۰ سے زائد، تحاریکِ التوا کی تعداد ۴۰۰ سے زائد، جب کہ قراردادزیر قاعدہ۱۹۴ کی تعداد ۲۴۶ اور توجہ دلائو نوٹس ۲۸۸، قراردادوں کی تعداد ۳۱۰، اور رولز کی خلاف ورزی پر تحاریکِ استحقاق کی تعداد چار ہے۔
  •  پٹرول کی قیمت میں اضافہ، مھنگائی و بے روزگاری:موجودہ حکومت کے دور میں سب سے زیادہ اضافہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیا گیا۔ جماعت اسلامی کی    طرف سے اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کے حوالے سے ایک بل   ’اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنے کا بل ۲۰۱۰ئ‘ کے عنوان سے سینیٹ میں جمع کرایا گیا۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے سینیٹ میں خودکشیوں کو روکنے سے متعلق ’آئینی ترمیمی بل ۲۰۱۰ئ‘     کے عنوان سے بل جمع کرایا گیا۔ قدرتی گیس کا بحران، پٹرولیم مصنوعات میں متعدد مرتبہ اضافہ،  سی این جی، لوڈشیڈنگ اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال، رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے خلاف تحریکِ التوا اور توجہ دلائو نوٹس جمع کرائے گئے۔
  • بزرگ شھریوں اور معذور افراد کی فلاح و بھبود:جماعت اسلامی نے معذور افراد کے مسائل کو نہ صرف توجہ مبذول کرانے کے نوٹسوں کے ذریعے ایوانِ بالا میں اُجاگر کیا بلکہ اس حوالے سے آٹھ صفحات پر مشتمل ’معذور افراد کی فلاح و بہبود کا بل ۲۰۱۰ئ‘ کے عنوان سے بل جمع کرایا گیا۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ معذور افراد کو ان کے گھر کی دہلیز پر قومی شناختی کارڈکی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ پی آئی اے، ریلوے، نجی اور سرکاری ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں معذور افراد کے لیے ۵۰ فی صد رعایت کو یقینی بنائے گی۔ حکومت گاڑیوں اور دیگر اشیا کی درآمد پر بھی معذور افراد کے لیے خصوصی رعایت فراہم کرے گی۔ معذور افراد کو مفت اور نجی ہسپتالوں میں صرف ۶۰ فی صد ادایگی کے ساتھ علاج معالجے کی سہولت فراہم کرے گی۔

وفاقی حکومت یوٹیلٹی سٹوروں میں مختلف اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں معذور افراد کے لیے ۳۰ فی صد کی خصوصی چھوٹ فراہم کر ے گی۔ حکومت ہوائی اڈوں، پارکوں، ریلوے اسٹیشنوں اور دیگر عوامی مقامات پر معذور افراد کے لیے وہیل چیئرز کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ حکومت پاکستان بیت المال اور زکوٰۃ اور عشر کے محکموں میں معذور اور محتاج افراد کو ماہانہ بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی بھی پابند ہوگی۔ اس کے علاوہ معذور افراد کے بچوں کی شادی پر انھیں مبلغ ایک لاکھ روپے کی رقم بطور خصوصی امداد فراہم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ معذور افراد کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے کے لیے مبلغ ۵۰ہزار روپے کے بلاسود قرضے کی فراہمی کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

اس بل میں ایسے سافٹ ویئر اور ہارڈویئر ٹکنالوجی کے ذریعے معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کی سفارش کی گئی ہے جو نابینا، بہرے اور جسمانی معذور افراد کے لیے ایک عام سہولت کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔ ٹیوب ویل آپریٹر، دفتر شکایات جیسے محکموں اور یوٹیلٹی بلوں: گیس، بجلی اور محکمہ پانی جیسے محکموں میں حکومت کو تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایسے تمام اداروں میں معذور افراد کے تقرر کو   ترجیح دی جائے۔ کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری یا نجی ادارے، کمپنی میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والے تمام معذور افراد کو اس بل کی منظوری کے چھے ماہ کے اندر اندر مستقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ۷۰سال سے زائد عمر کے سول و فوجی پنشنروں کی حالت ِ زار پر تحاریک جمع کرائی گئیں۔

  • صحافیوں کی فلاح و بھبود: صحافیوں کے اغوا، تشدد، زخمی، اور انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیوں کے خلاف بروقت زوردار آواز اُٹھائی گئی اور جماعت اسلامی نے صحافیوں اور میڈیا کارکنان کے تحفظ اور فلاح و بہبود کابل ۲۰۱۱ء بھی سینیٹ میں جمع کرایا جو کہ قائمہ کمیٹی براے اطلاعات و نشریات کے پاس زیرالتوا ہے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی بندش اور پیمرا کی طرف سے میڈیا پر پابندی کا معاملہ بھی اُٹھایا گیا۔
  • امن و امان: سانحۂ پشاور اور کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی شہادت، سیالکوٹ میں دو معصوم طالب علموں کی پولیس سرپرستی میں تشدد سے شہادت، عامرچیمہ کو شہید کرنے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹس کا مطالبہ کیا گیا۔ ملک میں سوات آپریشن اور اس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات اور بلوچستان کے مسائل پر مسلسل آواز اُٹھائی گئی۔ امریکی بلیک واٹر تنظیم کی ملک کے اندر سرگرمیاں بھی زیربحث لائی گئیں۔ پرویز مشرف کو کھلی چھٹی دینے اور اس کے خلاف مقدمات درج نہ کرنے کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ کراچی میں معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ، نیز کے ای ایس سی کے ملازمین کے لیے آواز بلند کی گئی۔
  • قانون سازی و قانونی اُمور: این آر او سمیت تمام متنازع آرڈی ننسوں پر نامنظوری کے نوٹس جمع کرائے گئے اور بار بار اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ قانون سازی کا یہ طریقہ معقول نہیں ہے، بلکہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی قانون سازی ہونی چاہیے۔ حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے اکثر قوانین میں جماعت اسلامی نے اپنی ترامیم جمع کرائیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق قانون سازی کرنے، اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کا مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا۔ الیکٹرانک کرائم آرڈی ننس زائد المیعاد ہونے کے باوجود سینیٹ میں پیش کیے جانے کے خلاف تحریکِ استحقاق ، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی آرڈی ننس ۲۰۰۹ء پر تحریکِ التوا اور نامنظوری نوٹس، پارلیمانی کمیٹی میں تمام ترامیم پر بھرپور کردار ادا کیا گیا۔ انیسویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنے ۱۸ماہ گزرنے کے باوجود حکومت کی سالانہ رپورٹ اور مشترکہ مفادات کونسل کی رپورٹ کا سینیٹ میں پیش نہ کیے جانے پر احتجاج اور بیسویں ترمیم میں ترامیم جمع کرائی گئیں۔
  • پیش کردہ بل:جماعت اسلامی کی طرف سے مندرجہ ذیل بل سینیٹ میں جمع کرائے گئے: صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کا بل ۲۰۱۱ئ، اشیاے صَرف کی قیمتوں اور مہنگائی پر کنٹرول کرنے کا بل ۲۰۱۰ئ، معذور افراد کی فلاح و بہبود کا بل ۲۰۱۱ئ، پانچ تا ۱۶ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کا بل ۲۰۱۱ئ، لاپتا افراد کی بازیابی کا بل ۲۰۰۹ئ، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۲ئ۔ قرآن مجید کو ناظرہ، حفظ اور تجوید کے ساتھ سیکھنے اور سکھانے کا بل ۲۰۱۲ئ، آئینی (ترمیمی) بل ۲۰۱۰ء (اس بل میں سوشل سیکورٹی کور کے ذریعے خودکشیوں کو روکنے کے لیے عملی حل تجویز کیا گیا ہے)، اُردو کو عملی طور پر دفتری زبان بنانے میں تاخیر اور آئین کی خلاف ورزی پر سینیٹ میں قرارداد کے ذریعے بحثوں میں بھرپور موقف اُجاگر کیا گیا۔
  • ترامیم: دی انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹکنالوجی ۲۰۱۰ء کی کلاز۴، پیراگراف XXV اور کلاز ۵ میں ترامیم۔ پبلک ڈی فینڈر اینڈ لیگل ایڈ آفس بل ۲۰۱۰ء کے پیراگراف (h)، (i)، ایرا (ERRA) بل ۲۰۱۰ء میں ترمیم، ’’دستور (بیسویں ترمیم) ایکٹ ۲۰۱۲ء کے آرٹیکل ۴۸، ۲۱۴، ۲۱۵، ۲۲۴ میں ترمیم کا بل۔ سروس ٹریبونل ایکٹ ۱۹۷۳ء میں ترامیم، پٹرولیم، ڈویلپمنٹ لیوی آرڈی ننس ۲۰۰۹ء کی عدم منظوری کا نوٹس، صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے بل ۲۰۱۱ء میں مزید ترمیم (میڈیا کارکنان کو بھی بل میں شامل کرنے کا مطالبہ)، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بنک آف پاکستان ایکٹ ۲۰۱۰ء سمیت دیگر ترامیم شامل ہیں۔
  • تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے لیے جدوجھد: تحفظ ناموسِ رسالتؐ ایکٹ کے خاتمے کی ناپاک کوششوں اور اس کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی ہرزہ سرائی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی گئی۔ پاکستان میں تحفظ ناموسِ رسالتؐ ایکٹ سے متعلق پوپ بینی ڈکٹ کے غیر ذمہ دارانہ اور مذہبی تعصب پر مبنی بیان کی سخت مذمت کی گئی۔
  • دینی اُمور: جماعت اسلامی نے اسلامی اقدار اور روایات کے حکومتی اقدامات کے خلاف سمیت تمام ایشوز پر بھرپور آواز اُٹھائی جن میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف بھرپور ردعمل، ملک میں اخلاقی بے راہ روی، انٹرنیٹ کیفے، فحش سی ڈیز، فلمیں، سنوکرکلب، شیشہ سنٹروں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ مساجد، امام بارگاہوں اور مذہبی شخصیات کے عدم تحفظ، داتا دربار، عبداللہ شاہ غازی اور پاک پتن مزارات سمیت پاکستان بھرمیں بم دھماکوں کے معاملات کو سینیٹ میں اُٹھایا گیا۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر گنیزوی میں ذلیل پادری کی قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے کی ناپاک جسارت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا۔ ملک میں فحاشی اور عریانی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے اقدامات نہ کرنے کے خلاف، پی ٹی وی اور زی ٹی وی کے باہمی اشتراک کے خلاف، پاسپورٹ بنانے میں تاخیر، حاجیوں کو رقم جمع کرانے کے باوجود حج کوٹہ میں شامل نہ کرنا، پارلیمنٹ لاجز میں نمازیوں کے لیے باقاعدہ مسجد کا نہ ہونے کی طرف توجہ مبذول کرانے کا نوٹس جمع کرایا گیا۔ امریکی سفارت خانے میں ہم جنس پرستوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے وزیراعظم اور وزیرمملکت براے امورخارجہ کو خطوط لکھے گئے۔
  • خواتین اور بچوں کی فلاح و بھبود: ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے، اور معصوم اور بے گناہ افراد اور خاندانوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے قتل کرنے کے خلاف مسلسل احتجاج کیا گیا۔ خواتین اور بچوں کے اغوا اور ظلم و زیادتی اور قتل کے واقعات کے سدباب کا مطالبہ کیا۔ ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مسائل کو اُجاگر کیا اور بہتری کے لیے ترامیم جمع کرائی گئیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے رہا نہ کرانے کے معاملے کو بار بار اُٹھایاگیا اور ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے کے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ نہتے اور بے گناہ چیچن مرد و خواتین کو شہید کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ لڑکیوں کے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تمام مردانہ سٹاف کو فی الفور تبدیل کرنے اور خواتین سٹاف کو تعینات کرانے کا مطالبہ ، اجوکا تھیٹر میں این جی او کے تعاون سے Burqavaganza کے نام سے غیراخلاقی، غیراسلامی ڈرامے کے خلاف تحاریکِ التوا، توجہ مبذول کرانے کے نوٹس اور قراردادیں جمع کرائی گئیں۔
  • خارجہ اُمور: پاکستان کے معاملات میں امریکی مداخلت، ناکام خارجہ پالیسی کے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی گئی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے بارے میں امریکی مداخلت کے خلاف، ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے کے خلاف ، دمشق (شام) میں پاکستانی انٹرنیشنل اسکول میں اساتذہ کے تقرر میں اقربا پروری کے خلاف، ایران کی طرف سے بجلی مہیا کرنے کے معاہدے کے باوجود حکومت کی طرف سے سردمہری کے رویے کے خلاف آواز اُٹھائی گئی۔ پاکستان میں امریکی سفیر کی رہایش گاہ پر Defence of Democracies نامی نیوکنزرویٹیو تھنک ٹینک کی طرف سے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے ڈنر پر احتجاج، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے خواتین، بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں پر مظالم، پاکستان کی فضائی اور زمینی راستوںکو ناٹو کو دینے کے خلاف مسلسل آواز بلند کی گئی۔ میمو ایشیو پر اعلیٰ سطح اور بااختیار جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ اور کراچی کی صورت حال پر امریکی سفیر کیمرون منٹر کے بیان پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
  • داخلہ اُمور: انسانی سمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات، ملک بھر کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی، غیراخلاقی رویوں اور غیرقانونی معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ شمالی وزیرستان میں امن جرگہ پر امریکی ڈرون حملہ، جس کے نتیجے میں ۸۴ معصوم پاکستانیوں کو شہید کرنے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اسلام آباد میں پولیس کی تنخواہ میں مناسب اضافہ نہ ہونا، سیلاب کے حوالے سے خبروں پر اقدامات کرنے کا مطالبہ، نیز ایرا بل میں ترامیم جمع کرائی گئیں۔ کراچی میں علما کو شہید کرنے کے معاملے پر تحاریکِ التوا جمع کرائی گئیں۔ راولپنڈی اور گردونواح میں عوام کے احتجاج پر گولیاں چلانے کے خلاف توجہ مبذول کرانے کا نوٹس، ملک بھر میں بچوں کے اغوا اور ڈکیتیوں کے خلاف احتجاج، عوام الناس کو پاسپورٹ کے حصول میں شدید مشکلات، کراچی میں مفت راشن کے حصول کے لیے آئے ہوئے لوگوں میں بھگدڑ کے باعث ۱۸خواتین کی ہلاکت، مناواں پولیس ٹریننگ سنٹرلاہور پر دہشت گردوں کا حملہ، قومی شناختی کارڈ پر درج تاریخ تنسیخ کے خاتمے، وزارتِ داخلہ کی طرف سے نادرا ڈیٹا کی امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کو فراہمی، پی ٹی سی ایل کی طرف سے صارفین کو پرنٹڈ بل میں ٹرنک اور موبائل کالز کی تفصیلات نہ دینا، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بااثر شخصیات کی سرپرستی میں مہنگی اور غیرمعیاری ادویات کی فروخت اور پاکستان میں ’بلیک واٹر‘ کی خفیہ سرگرمیاں جیسے اہم قومی مسائل کو بھی اُٹھایا گیا۔
  • دفاع:ناٹو سپلائی بند کیے جانے کے بعد بحالی کی خبروں پر مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ نے دبائو کے تحت کیے گئے اس یک طرفہ اشتراک کو یکسر مسترد کردیا ہے، لہٰذا اسے ختم کیا جائے۔ اس مسئلے کے حل کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ امریکی اور ناٹوفوجی کارروائیوں کے نتیجے میں پاکستان ناقابلِ برداشت معاشی، سیاسی اور انسانی نقصانات سے دوچار ہوا ہے۔ شمالی وزیرستان میں امن جرگہ پر امریکی ڈرون حملے کی سخت مذمت، نیوکلیئر اثاثہ جات کو خطرے کے حوالے سے حکومت کو وارننگ، تحفظ ملک کے لیے متحد ہونے کی اپیل، نیز پی این ایس مہران پر حملے کے خلاف حکمرانوں سے ملک کی عزت، آزادی، خودمختاری، شناخت، نظریاتی محاذوں کی حفاظت کا مطالبہ کیا گیا۔
  • اداروں کی کارکردگی کو زیربحث لانے کا مطالبہ اور دیگر اُمور: حکومت کی داخلہ و خارجہ پالیسی، وزارتِ ترقی نسواں، تعلیم، نج کاری کمیشن، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن، مواصلات، داخلہ، خارجہ، قانون، اطلاعات و نشریات سمیت تقریباً تمام وزارتوںکی کارکردگی کو زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا ۔ وزارتِ قانون انصاف اور پارلیمانی اُمور کی کارکردگی، گیس قلت کے باعث پیدا شدہ صورت حال، وزارتِ پانی و بجلی کی کارکردگی، مسئلۂ کشمیر پر حکومت کی پالیسی، ایف آئی اے کی کارکردگی، وزارتِ صنعت کی کارکردگی، اسٹیٹ لائف انشورنش کارپوریشن کی کارکردگی، پاکستان ریلوے کی کارکردگی، پی آئی اے کی کارکردگی، نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کی کارکردگی، وزارتِ تجارت کی کارکردگی، او جی ڈی سی ایل کی کارکردگی، وزارتِ سائنس و ٹکنالوجی کی کارکردگی، نیپرا (NEPRA) کی کارکردگی، نادرا کی مجموعی کارکردگی، وزارتِ اطلاعات و نشریات کی کارکردگی، حکومت ِ پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان معاہدات، حکومت کی تجارتی پالیسی، حکومت کا ڈیپ سی بڑے ٹرالرز کے کام کو ریگولیٹ نہ کرنا، ملک میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، انسانی سمگلنگ بالخصوص بچوں اور عورتوں کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات، زرعی پالیسی، تعلیمی پالیسی، صحت پالیسی، پاکستان بھر میں وفاق کے زیرانتظام چلنے والے ہسپتالوں کی کارکردگی، حکومت کی بھرتیوں کے حوالے سے پالیسی اور خارجہ پالیسی کو زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔

وزیراعظم کی طرف سے تیل کی قیمت میں اضافے کو عوامی دبائو کے تحت واپس لینے کے فیصلے پر امریکی اہل کاروں کی تنقید، پی آئی اے کی طرف سے ترکش ایئرلائن کے ساتھ کیا گیا معاہدہ، ریمنڈڈیوس کی رہائی کے خلاف، مستونگ میں ایران جانے والے زائرین کو بس سے اُتار کر قتل کیے جانے کے خلاف، کے ای ایس سی انتظامیہ کی طرف سے تقریباً ساڑھے چار ہزار ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کے خلاف، وزارت قانون و انصاف کی طرف سے جاپان حکومت کو قرض کے لیے معاہدات کی مطلوبہ قانونی ضرورت کی بروقت تیاری نہ کرنے کا معاملہ، صوبہ پنجاب میں گیس لوڈشیڈنگ کے باعث صوبے بھر میں صنعتی یونٹس کی بندش، ووٹرلسٹوں میں   ۴۵فی صد سے زائد بوگس ووٹ، اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر میں تاخیر، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے ۱۹۹۹ء سے لے کر ۲۰۱۰ء تک نکالے گئے ملازمین، تحصیل پھالیہ کے یونین کونسل چک جانوکلاں کے دیہات میں کسانوں کے رقبے پر سائنس ایویلوایشن ڈویژن نیوکلیئر پاور پراجیکٹ لگانے کے منصوبے پر مبنی مسائل اُٹھائے گئے۔ حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لانے کے لیے کیے گئے اقدامات، بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز اور ان کے ایجنڈے کو زیربحث لانے اور آئوٹ آف ٹرن مکانات کی الاٹمنٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ، آل پاکستان گورنمنٹ ایمپلائز کوارڈی نیشن کونسل کے مطالبات، نیب کے نئے چیئرمین فصیح بخاری کا تقرر، نئے پاور پراجیکٹس کے حوالے سے نیپرا کی کارکردگی کو زیربحث لانے، سندھ میں سیلاب کی وجہ سے متاثرین کی مشکلات اور حکومت کا رویہ، وفاقی محتسب کے عہدے کا طویل عرصہ تک خالی رہنا، نارنگ منڈی میں نادرا سوئفٹ سنٹر کا قیام، مختلف فوڈ آئٹمز میں سُور کی چربی کے اجزا کی آمیزش، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن شدید مالی مشکلات سے دوچار، آئیسکو کا غیرقانونی طور پر بجلی صارفین سے خفیہ چارجز کی مد میں اربوں روپے کی وصولی، پی آئی اے انتظامیہ کی طرف سے سپیئرپارٹس کی سپلائی کے لیے کنٹریکٹ میں پبلک پروکیورمنٹ رولز ۲۰۰۴ء کی خلاف ورزی و دیگر مسائل کو اُٹھایا گیا۔

  • بلوچستان: بلوچستان کی دگرگوں صورت حال اور بلوچستان کے مسائل پر گذشتہ تین سال مسلسل آواز بلند کی گئی۔ حبیب جالب کا قتل، سعید بلوچ کا اغوا، کوئٹہ اخروٹ آباد میں بے گناہ معصوم چیچن مرد و خواتین پر ظلم ڈھانے کے واقعے کی کوریج کرنے والے صحافی جمال ترکئی اور کراچی میں نوجوان پر سفاکیت کے واقعے کی کوریج کرنے والی آواز چینل کی ٹیم کے افراد اور دیگر صحافیوں کو مسلسل دھمکیوں سمیت دیگر ایشوز کو بروقت اُجاگر کیا گیا۔
  • مواصلات:قومی ٹرانسپورٹ پالیسی کو زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں گانے بجانا اور وڈیو فلمیں چلانے کے خلاف، راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان چلنے والی ویگنوں اور بسوں کے کرایوں میں ناروا اضافہ، لاہور-نارووال سیکشن پر نارنگ منڈی سے نارووال، سیالکوٹ اور لاہور کے لیے ہفتہ وار چھٹیوں میں متعدد ٹرینوں کی بندش، پی ٹی سی ایل ملازمین پر رمضان میں تشدد اور گرفتاریاں، غیرمعیاری سی این جی سلنڈرز کٹس پھٹنے کے باعث معصوم جانوں کا ضیاع، سی این جی اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال، لواری ٹنل پراجیکٹ پر اچانک ماہِ نومبر ۲۰۱۰ء کے دوران تعمیراتی کام بند کرنا، پاکستان پوسٹ کی نج کاری اور پاکستان پوسٹ کے تحت دی جانے والی سروسز کے حوالے سے وقتاً فوقتاً تحاریکِ التوا، توجہ دلائو نوٹسوں کے ذریعے آواز اُٹھائی گئی۔
  • تعلیم : پاکستان میں خواندگی کی شرح کا خطرناک حد تک کم ہونا، نوشہرہ کے نواحی دو دیہاتوں میں مڈل اور ہائی اسکولز کی سطح پر تعلیم کی عدم فراہمی، بنوں میڈیکل کالج کے طلبہ و طالبات کی طرف سے مذکورہ کالج کو صوبے کے تیسرے بڑے کالج کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی طرف سے تسلیم نہ کیے جانے کے خلاف توجہ دلائو نوٹس جمع کرایا گیا، نیز تعلیم کے دیگر مسائل کو بھی زیربحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ تقریباً دو سال سے زائد   کا عرصہ گزرنے کے باوجود اور گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول ریڑکا بالا منڈی بہائوالدین کی بطور    ہائی اسکول منظوری اور بلڈنگ تعمیرہونے کے باوجود کلاسز کا اجرا نہ ہونا، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کی طرف سے طلبہ سے لیٹ فیس کی مد میں ناجائز وصولیاں، اور طلبہ یونینز پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ۱۷ہزار اساتذہ اور ملازمین کے مطالبات کے حق میں آواز بلند کی گئی۔
  • سوات، قبائلی علاقہ جات: قبائلی علاقہ جات میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں  بے گناہ لوگوں کی شہادت پر وقتاً فوقتاً توجہ دلائو نوٹسوں، تحاریکِ التوا کے ذریعے معاملے کو پارلیمنٹ میں زیربحث لاکر فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ لوئردیر میں ’آپریشن فلش آئوٹ‘ کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
  • کرپشن: ای او بی آئی میں کرپشن، رینٹل پاور منصوبوں میں کرپشن، پاکستان اسٹیل،   پی آئی اے، ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان، نیشنل بنک اور پورٹ قاسم میں رولز سے ہٹ کر بھرتیاں، سی ڈی اے انتظامیہ کی طرف سے محکمے میں کروڑوں کی کرپشن، پنجاب واٹر پروجیکٹ میں   ۴۷ئ۴ ارب روپے کے گھپلے پر پلاننگ کمیشن سے وضاحت، پی ٹی سی ایل یونین ایکشن کمیٹی کا    پی ٹی سی ایل کی نج کاری کے دوران کروڑوں ڈالروں کے گھپلوں کی نشان دہی، پی پی پی کے مرکزی عہدے داران اور صدر آصف زرداری کے قریبی رفقا میں سول اوارڈز کی تقسیم، علامہ اقبال     اوپن یونی ورسٹی کی طرف سے ۵۲۹ طلبا کو ایم اے TOEFL کا امتحان پاس کرنے کے بعد فیل کرنا، پی ٹی سی ایل کی نج کاری میں مالی بے قاعدگیاں، پاکستان ریلوے کی بحرانی صورت حال پر مسلسل آواز اٹھائی گئی۔ ریلوے کرایوں میں ۳۰۳ فی صد اضافہ اور ملازمین کے مسائل کو بھی اُجاگر کیا گیا۔
  • لاپتا افراد کے لیے جدوجھد:لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے آئین کے آرٹیکل ۹ اور ۱۰ میں ترامیم دی گئی ہیں۔ اس بل کا مقصد بغیر عدالتی کارروائی کے حراست میں رکھنے پر مؤثر پابندی لگانا، اس کے مرتکب افراد کے لیے سزا وضع کرنا، کسی پاکستانی یا پاکستانی سرزمین سے گرفتار شدہ کسی فرد کو بغیر عدالتی کارروائی اور عدالت کی اجازت کے کسی غیرملک کے حوالے کرنے پر پابندی لگانا تھا۔ اسی حوالے سے سینیٹ میں جمع کرائی گئی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔
  • مزدوروں، کسانوں اور ملازمین کے مسائل: ۲۰۱۲ء میں مزدوروں کی بہتری کے لیے ترامیم دیں۔ کسانوں کے مسائل کو خصوصاً بجٹ کے موقع پر اُجاگر کیا گیا۔ اساتذہ، ڈاکٹر اور کلرکوں کی مشکلات، آل پاکستان ایمپلائز کوارڈی نیشن کونسل کا اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ، قائداعظم یونی ورسٹی کی طرف سے ڈاکٹروں کے امتحانی پیٹرن کی بغیر اطلاع تبدیلی، کے ای ایس سی کا اپنے ساڑھے چارہزار ملازمین کو فارغ کرنا جیسے مسائل کے حل کے لیے آواز اُٹھائی گئی۔

 

پلڈاٹ (PILDAT) (Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency) کے مطابق جماعت اسلامی کے سینیٹروں کی کارکردگی بے حد نمایاں رہی۔ ان تین برسوں میں کُل۳۷ تحاریکِ التوا پیش کی گئیں جن میں سے ۲۶ جماعت اسلامی کے سینیٹروں نے پیش کیں۔ کُل ۲۷نجی بل پیش کیے گئے جن میں سے ۸ جماعت اسلامی کے سینیٹرز نے پیش کیے۔ صرف ۲۰۰۸-۲۰۰۹ء میں ۱۰۶ توجہ دلائو نوٹسوں میں سے ۷۳ جماعت اسلامی کے سینیٹروں نے پیش کیے۔ (اسکورکارڈ، ۲۰۰۸-۲۰۱۱ئ، پلڈاٹ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تبدیلی قدرت کا قانون ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ترقی اور تشکیلِ نو کا عمل اُمید اور تبدیلی کی جدوجہد ہی سے عبارت ہے، لیکن تبدیلی براے تبدیلی سے زیادہ مہمل کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی خیر اور صلاح کا باعث صرف اس وقت ہوتی ہے جب اس کی سمت اور منزل کا  صحیح صحیح تعین کیا جائے اور بروقت ساری توجہ اصل مقصد کے حصول پر مرکوز کی جائے۔ اگر یہ نہ ہو تو صرف چہرے بدلنے سے حالات میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ تبدیلی کا عمل ترقی کے بجاے تنزل اور مزید بگاڑ پر منتج ہوتا ہے۔ اس کا تجربہ پچھلے چندبرسوں میں پاکستان اور امریکا دونوں میں ہوا ہے۔ قوم مشرف کے آمرانہ اور نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے تباہ کن دَور سے نجات چاہتی تھی، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں اس نے مشرف اور اس کے ساتھیوں کو اُٹھا پھینکا اور تبدیلی کی اُمید دلانے والوں کو منصب اقتدار اسے نوازا لیکن ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے پرویز مشرف ہی کی پالیسیوں کو مزید بگاڑ کے ساتھ جاری رکھا۔ امریکا کی غلامی کی زنجیروں کو اور بھی مضبوط کردیا۔ معیشت کی چولیں ہلا دیں اور اپنے چارسالہ دورِحکمرانی میں پاکستان کو بیک وقت تین تباہ کن بحرانوں کی دلدل میں دھکیل دیا: ۱-خراب حکمرانی ۲-نااہلیت ۳- بدعنوانی (کرپشن)۔

قوم آج پھر تبدیلی کی بات کر رہی ہے اور سیاسی فضا میں ہرسمت سے اس کا شور بلند ہورہا ہے لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں ٹھیر کر اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ تبدیلی، ایک اور دھوکا اور سراب نہ بن جائے، اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ٹھیک ٹھیک اس امر کا تعین کرلیا جائے کہ کون سی تبدیلی مطلوب ہے۔ اس کی سمت ،منزلِ مقصود اور نقشۂ کار طے کرنا اولین ضرورت ہے۔

دوسری تازہ مثال خود امریکا کی ہے۔ اوباما صاحب تبدیلی کے نعرے پر برسرِاقتدار آئے تھے اور امریکا کے تمام ہی راے عامہ کے جائزے یہ خبردے رہے تھے کہ امریکی عوام بش کے دور کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور سیاسی زندگی میں ایک نیا ورق پلٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن پہلے ہی سال میں ان کے سارے بلندبانگ دعووں کے باوجود، یہ بات واضح ہوگئی کہ اوباما صاحب بھی اسی طرح امریکی مقتدرہ (establishment) اور مقتدر اداروں اور مخصوص مقاصد پیش نظر رکھنے والے گروہوں کے اسیر ہیں جس طرح بش تھا۔ چنانچہ اس کے اقتدار کے تین سال، کسی تبدیلی کے نہیں بلکہ تسلسل اور بگاڑ میں اضافے اور ملکی اور بین الاقوامی دونوں محاذوں پر امریکا کی ناکامی کے سال ثابت ہوئے ہیں۔

ان دونوں مثالوں کی روشنی میں اس امر کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے کہ پاکستان کے عوام ۲۰۱۲ء میں اپنے مستقبل کے لیے جس تبدیلی کے لیے سرگرمِ عمل ہیں، اس کے خدوخال اس جدوجہد کے آغاز ہی میں بالکل واضح ہونے چاہییں، اور قوم سیاسی قیادت کو اس کسوٹی پر پرکھے جس سے معلوم ہوسکے کہ مطلوبہ تبدیلی کے لیے کس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور وہ کون سے کھوٹے سکّے ہیں جن سے نجات مطلوب و مقصود ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان نے اس سلسلے میں اپنا نہایت واضح اور مفصل منشور سال کے آغاز ہی میں قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے اور اس میں تبدیلی کے لیے جس نمونے کا تعین کیا ہے وہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست ہے جس کی صورت گری خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاے راشدین کے ہاتھوں ہوئی اور جس نے تاریخِ انسانی کے رُخ کو موڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہرزمانے کے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی دلی خواہش ہے کہ ان کا اجتماعی نظام خلافت ِ راشدہ کے نمونے پر قائم ہو۔ وہ خلفاے اربعہ کے دور کو تاریخِ انسانی کا مثالی دور سمجھتے ہیں اور ماضی میں بھی برابر اس بات کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس نمونے کو رنگ و بو کی دنیا میں دوبارہ زندہ و قائم کریں۔ اُمت مسلمہ کے قلب و نظر کو کبھی کسی ایسی تحریک نے اپیل نہیں کیا،   جو خلافت ِ راشدہ کے مقابلے میں کوئی دوسرا معیار اور نمونہ پیش کرے۔ دوست اور دشمن سب    اس بات کے معترف ہیں کہ اسلام کا وہ مثالی دور ہی ہمیشہ مسلمانوں کی توجہ کا مرکز اور ان کا حقیقی مطلوب و مقصود رہا ہے اور اس کے احیا کے لیے مسلمان ہرزمانے اور ہرملک میں جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ان کی پکار ہمیشہ یہی رہی ہے کہ  ع

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

یہ اعلان مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کا پیامبر ہے اور ان کے حقیقی جذبات و احساسات کا آئینہ دار ہے۔ مسلمان دل سے چاہتے ہیں کہ خلافت ِ راشدہ کے دور کا احیا ہو اور ان کی       یہ خواہش اس لیے ہے کہ وہ دور انسانی تاریخ کا بہترین دور تھا۔ نیز خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کو آنے والوں کے لیے معیاری دور قرار دیا ہے اور اس کے اتباع کی دعوت دی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’پس تمھارا فرض ہے کہ میری سنت کو اختیار کرو اور اس پر مضبوطی سے جمے رہو اور اس کو دانتوں سے پکڑ لو… خبردار! ان باتوں کے قریب نہ پھٹکنا جو میرے طریقے اور خلفاے راشدین کے طریقے سے ہٹ کر نئی ایجاد کرلی جائیں‘‘۔

حضوؐر کا یہی ارشاد ہے جس کی تعمیل میں مسلمان ہمیشہ احیاے خلافت راشدہ کی جدوجہد کرتے رہے ہیں اور آج بھی ملت ِ اسلامیہ کے سامنے یہی نصب العین ہے لیکن خلافت ِ راشدہ کے احیا کے معنی کسی خاص دورِ تاریخ کو، اپنے تمام جزوی مظاہر اور تکنیک کے ساتھ دوبارہ زندہ کرنا نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے جو اصول، اقدار اور ضابطے اس زمانے میں اختیار کیے گئے، انھی کو ازسرِنو قائم کیا جائے۔ اس لیے کہ وہ اصول ابدی صداقت رکھتے ہیں اور ہر دور اور ہر زمانے میں معاشرے کی قلب ماہیت اسی طریقے پر کرسکتے ہیں جس پر اس سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے اربعہ کے زمانے میں کرچکے ہیں۔ خلافت راشدہ کے قیام کے معنی انھی اصولوں کا قیام ہے۔

سوال یہ ہے کہ وہ اصول کون سے ہیں؟ خلافت ِ راشدہ کے قیام کی بنیادیں کیا ہیں؟ اور اس دورِ تاریخ کی خصوصیات کیا کیا ہیں؟ اس لیے کہ اگر ہم خلافت ِ راشدہ کا احیا چاہتے ہیں تو ہمیں انھی اصولوں، انھی بنیادوں اور انھی اجتماعی خصوصیات کا احیا کرنا ہوگا۔

دستوری حکومت

خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ اس کا نظامِ حکومت شخصی نہیں، دستوری تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا کے تمام معلوم سیاسی نظام بادشاہی کی بنیاد پر قائم تھے یا  شخصی آمریت کی۔ آپؐ نے جو نظامِ حکومت قائم کیا وہ شخصی بنیاد کے بجاے قانون کی بالادستی اور ایک معین دستور کی حکومت کی اساس پر تھا۔ اس میں نہ شہنشاہیت کی گنجایش تھی اور نہ آمریت کی، نہ خاندان پرستی تھی اور نہ شخصیت پرستی کی۔ حاکمیت کے اصل اختیارات اللہ تعالیٰ کو حاصل تھے اور  اس کا عطا کردہ، قانون مملکت کا قانون تھا۔ امیر اور غریب اور اپنے اور پرائے سب اس قانون کے تابع تھے اور کوئی اس سے سرمو انحراف نہ کرسکتا تھا۔ یہی چیز ہے جس کا اظہار حضرت ابوبکرؓ نے  اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا ہے:’’لوگو! میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں فلاح و بہبود کے کام کروں تو میری امداد کرنا ورنہ اصلاح کردینا۔ میں خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا لیکن خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے‘‘۔

پھر حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو روانہ کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا: ’’میرا مقام  صرف متبع کا ہے، میں بہرحال کو ئی نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔ پس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر استوار ہوں تو میری پیروی کرنا اور اگر اس راہ سے ہٹ جائوں تو مجھے راہِ راست پر لے آنا‘‘۔

یہاں دستوری حکومت کا نقشہ پیش کیا جا رہا ہے۔ امیر جو کچھ چاہے وہ کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے۔ وہ خود ایک قانون کا پابند ہے اور اس کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اس قانون کو نافذ کرے۔ یہی قانون خود اس کے اُوپر بھی قائم ہوتا ہے اور یہی تمام مسلمانوں پر بھی۔ وہ لوگوں پر اپنی مرضی تھوپنے کا حق دار نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس حقیقت کو اس طرح ادا کیا ہے:’’ایک حاکم کو سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ لوگوں کے اندر جو چیز دیکھنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو حقوق و فرائض ان پر عائد ہوتے ہیں ان کو وہ ادا کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہمارا فرض صرف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  ہم کو جس اطاعت کا حکم دیا ہے اس کا حکم دیں، اور جس نافرمانی سے روکا ہے اس سے روکیں‘‘۔

امیر اپنی ذات میں مطاع نہیں ہوتا۔ اس کی اطاعت صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ شریعت کو قائم کرنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست کا بنیادی اصول ہے کہ اطاعت صرف معروف میں ہے منکر میں نہیں، اور یہ اصول شخصی حکومت کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔

قرآن میں ارشاد ہوا ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۱)معاونت کرو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں اور تعاون نہ کرو گناہ اور برائی کے کاموں میں۔

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

اسلامی حکومت کے اصحاب امر کی اطاعت واجب ہے جب تک کہ وہ خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔ اور جب خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ ماننا ہے۔

پھر امیر اس قانون کو صرف اوروں ہی پر نافذ نہیں کرتا بلکہ خود اپنے اوپر بھی نافذ کرتا ہے اور خود بھی اس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جس طرح کہ دوسروں سے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’میں ایک عام مسلمان اور ایک کمزور بندہ ہوں۔ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد کا مجھے بھروسا ہے۔ میں جس منصب پر مقرر کیا گیا ہوں ان شاء اللہ  وہ میری طبیعت میں ذرّہ برابر بھی تغیر پیدا نہیں کرسکے گا۔ بزرگی اور بڑائی جتنی بھی ہے سب     اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ بندوں کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں۔ تم میں سے کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ عمرخلیفہ بن کر کچھ سے کچھ ہوگیا۔ میں اپنی ذات سے بھی حق وصول کرلوں گا اور جس معاملے میں ضرورت ہوگی خود بڑھ کر صفائی پیش کروں گا۔ میں تمھارے اندر کا ایک آدمی ہوں، تمھاری بہبود مجھے عزیز ہے، تمھاری خفگی مجھ پر گراں ہے اور جو امانت میرے سپرد کی گئی ہے مجھے اس کی جواب دہی کرنی ہے‘‘۔

خلافت ِ راشدہ کی یہی دستوری نوعیت ہے جس کی وجہ سے امیر کو بیت المال پر بے قید تصرف کا اختیار نہیں۔ وہ اس کو استعمال کرنے کا تو مجاز ہے مگر اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ شریعت کے احکام کے مطابق۔ خلافت ِ راشدہ میں نہ امیرخود اپنے اُوپر بیت المال کی رقم کو  بے محابا خرچ کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کے اُوپر۔ اس اصول کو حضرت عمرؓ نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’میں نے اپنے لیے اللہ کے اس مال کو یتیم کے مال کے درجے پر رکھا ہے۔ اگر میں اس سے مستغنی ہوں گا تو اس کے لینے سے احتراز کروں گا اور اگر حاجت مند ہوں گا تو دستور کے مطابق اس سے اپنی ضرورتیں پوری کروں گا‘‘۔

یہی حال حضرت علیؓ کا تھا جو بیت المال سے بے جا طور پر نہ خود ایک پیسہ لیتے تھے اور   نہ کسی دوست اور رشتہ دار کو دیتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے یہ گوارا کرلیا کہ بہت سے لوگ خواہ ان سے کٹ کر دمشق کے اصحابِ اقتدار سے جاملیں لیکن یہ گوارا نہ کیا کہ کسی کو ایک پائی بھی بغیر حق دے دیں۔

خلافت ِ راشدہ کے دور میں اگر کوئی شخص بیت المال کی کوئی رقم غلط خرچ کرتا تھا تو اس پر سخت کارروائی کی جاتی تھی اور حضرت عمرؓ نے تو حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے جرنیل تک کو ۱۰ہزار درہم غلط طور پر استعمال کرنے کے جرم میں معزول کردیا تھا۔

یہ ساری بحث ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ تھی کہ حکومت شخصی نہیں دستوری ہے، اور دستورعمل کی حیثیت خدا کی نازل کردہ شریعت کو حاصل ہے جس کی اطاعت امیرومامور سب کو کرنی ہے اور جس کی اطاعت سے انحراف کے بعد کوئی طاقت باقی نہیں رہتی ہے۔ اس اصول نے آمریت کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، اور قانون کی حکمرانی کے اس دور کا آغا ز کیا جس کا اصول یہ تھا کہ ’’خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدؐبھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ قلم کردیا جائے گا‘‘۔

شورائی اور جمھوری نظام

خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد یہ تھی کہ اس کا پورا نظام شورائی اور جمہوری تھا۔ اسلام میں شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نبی اکرمؐ سے فرماتا ہے:

وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (اٰل عمران ۳:۱۵۹) اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا کرو۔

اور ملّت کے نظامِ اجتماعی کے متعلق قرآن کی واضح ہدایت یہ ہے کہ: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ(الشورٰی ۴۲:۳۸) ان کے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں۔

خلافت ِ راشدہ کا نظام اسی نصِ قرآنی کی اساس پر قائم تھا اور حکومت کے ہرشعبے میں مشاورت کی اسپرٹ کارفرما تھی:

ا- خلیفہ کا انتخاب باہم مشورے سے ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کو ثقیفہ بنوساعدہ میں     باہم مشاورت کے بعد منتخب کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کی تجویز پر تمام مسلمانوں نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو  برضا و رغبت اپنا خلیفہ چُنا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عمرؓ کو نامزد کرنے سے پہلے حضرت ابوبکرؓ نے تمام صحابہ ؓ سے مشورہ کیا اور حضرت عمرؓ نے بیعت ِ عام کے بعد اپنے منصب کو سنبھالا۔ حضرت عثمانؓ کے انتخاب میں بھی مدینہ کے ایک ایک فرد سے مشورہ کیا گیا اور مسلمانوں کی راے سے آپ خلیفہ منتخب ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانے کی تجویز دی گئی تو حضرت علیؓ نے صاف کہا: میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوسکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہوسکتی ہے۔ آپؓ نے اسی موقع پر اسلام کے نظامِ انتخاب کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’تمھیں ایسا کرنے کا (یعنی کسی کو خلیفہ بنانے) کا اختیار نہیں ہے۔یہ تو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے جس کو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر خلیفہ بنانا چاہیں گے، وہی خلیفہ ہوگا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے‘‘۔

اس طرح خلافت ِ راشدہ کے دور کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خلافت ایک انتخابی منصب تھا اور مسلمان اپنی آزاد مرضی سے اپنے میں سے بہترین شخص کو اس کام کے لیے منتخب کرتے تھے۔ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہ تھا کہ وہ اُوپر سے اُمت پر مسلط ہوجائے۔ جب مسلمانوں میں قیصروکسریٰ کے اس مکروہ طریقے کا آغاز ہوگیا تو خلافت راشدہ ختم ہوگئی اور ملوکیت کا دور شروع ہوگیا!

ب- خلافت ِ راشدہ میں عمال اور گورنر بھی متعلقہ صوبوں کے لوگوں کے مشوروں سے مقرر کیے جاتے تھے اور اگر کسی مقام کے لوگ کسی شخص کو ناپسند کرتے تھے تو اسے تبدیل کردیا جاتا تھا۔

ج- حکومت کے سارے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے تھے۔ امیر تمام اہم معاملات میں پالیسی بنانے سے پہلے ارباب حل و عقد سے مشورہ کرتا تھا اور ان کے مشورے سے جو پالیسی طے ہوتی تھی اسے نافذ کرتا تھا۔ اس مقصد کے لیے دو ادارے تھے۔ ایک مجلس شوریٰ اور دوسرا مسلمانوں کا اجتماعِ عام۔ بالعموم معاملات مجلس شوریٰ ہی میں طے ہوتے تھے لیکن اگر کسی مسئلے پر بڑی مشاورت کی ضرورت محسوس ہوتی تو عام منادی کر دی جاتی اور مسجد میں جمع ہوکر بحث و تمحیص کے بعد اس مسئلے کو جمعیت مسلمین طے کرلیتی۔

یہ بحث و مشورہ پوری طرح آزادانہ فضا میں ہوتا اور ہرشخص اپنی حقیقی راے کا بے لاگ اظہار کرتا۔ ایک مجلس مشاورت کی افتتاحی تقریر میں حضرت عمرؓ نے صحیح اسلامی پالیسی کو اس طرح بیان فرمایا: ’’میں نے آپ لوگوں کو جس غرض کے لیے تکلیف دی ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مجھ پر آپ کے معاملات کی امانت کا جو بار ڈالا گیا ہے اسے اُٹھانے میں آپ میرے ساتھ شریک ہوں۔ میں آپ ہی کے افراد میں سے ایک فرد ہوں اور آج آپ لوگ وہ ہیںجو حق کا اقرار کرتے ہیں۔ آپ میں سے جس کا جی چاہے میرے ساتھ اتفاق کرے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں‘‘۔

مولانا شبلی نعمانی نے الفاروق میں اس نظامِ مشاورت کی پوری تفصیل دی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خلافت ِ راشدہ کا نظام، شوریٰ کی بنیاد پر قائم تھا۔

د- قانون سازی کا اختیار امیر کو حاصل نہیں تھا۔ اصل قانون قرآن اور سنت ہے لیکن جن چیزوں میں قرآن و سنت خاموش ہیں، امیر کا اجتہاد بھی ایک اجتہاد ہے۔ قانون کا درجہ اسے صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس پر اُمت کے ارباب حل و عقد کا اجماع ہوجائے۔ قانون ساز ادارے (Legislative Organ)کی حیثیت اجماع کو حاصل ہے، امیر کی راے کو نہیں۔  اپنے زمانے میں یہ ایک ایسا انقلابی اقدام تھا کہ ایک عرصے تک تاریخ اس کی اصل اہمیت کو محسوس بھی نہ کرسکی۔ آج جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل وظائف حکومت کی مختلف اداروں میں تقسیم تھی اور اس کے ذریعے نظامِ حکومت میں محاسبہ و توازن کا ایک نظام قائم کیا گیا تھا۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد شوریٰ تھی یہی اسلام کی اصل روح ہے۔ اگر یہ باقی نہ رہے تو پھر خلافت کا نظام بے معنی ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے خلفاے اربعہ کے زمانے میں مناسب ادارے بھی بنائے گئے تھے تاکہ شوریٰ کا اصول عملی طور پر بروے کار آسکے۔ جب خلافت آمریت اور ملوکیت میں بدل گئی تو شوریٰ کا یہ نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ اسلام کے اس شورائی نظام کو اسلامی جمہوریت کہا جاسکتا ہے جس میں جمہور کی راے اور کردار ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طے کردہ حدود کے اندر واقع ہوتا ہے اور ان حدود سے باہر جانے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں۔

ریاست کا فلاحی تصور

خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیاد ریاست کا فلاحی تصور تھا۔ ریاست محض ایک منفی ادارہ نہیں ہے جو محض اندرونی خلفشار اور بیرونی حملہ سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے وجود میں لایاگیاہو، بلکہ معاشری تنظیم کی وہ صورت ہے جس کے ذریعے مثبت طور پر ایک خاص طرزِ زندگی کو ترویج دینے کی منظم سعی و جہد کی جائے۔ اس ادارے کا اصل مقصد نیکی کا فروغ، بدی کا استیصال اور ایک فلاحی معاشرے کا قیام ہے جو انسانوں کی حقیقی ضرورتوں کا اہتمام کرے، اور ان کو مادی اور اخلاقی اعتبار سے اس لائق بنا دے کہ وہ زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار مؤثرانداز میں ادا کرسکیں۔

خلافت ِ راشدہ کا مقصد اجتماعی فلاح کا قیام تھا اور اس سلسلے میں خلافت ِ راشدہ نے تین بنیادی اقدامات کیے:

۱- پہلا اقدام کتاب و سنت کی تعلیم، اور ان کا فروغ اور قیام تھا۔ حضور اکرمؐ نے جب عمرو بن حزمؓ کو یمن کا گورنر بنایا تو ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ حق پر قائم رہیں، جیساکہ اللہ نے حکم دیا ہے، اور لوگوں کو بھلائی کی خوشخبری اور نیکی کا حکم دیں اور لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور ان میں اس کی سمجھ پیدا کریں اور لوگوں کی دل داری کریں یہاں تک کہ لوگ دین کا فہم پیدا کرنے کی طرف مائل ہوجائیں۔

اسی پالیسی پر خلافت ِ راشدہ کے پورے دور میں عمل کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! میں اپنے تمام علاقوں کے عہدے داروں پر تجھ کو گواہ ٹھیراتا ہوں کہ میں نے ان کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ وہ لوگوں کو اِن کے دین اور ان کے نبیؐ کی سنت کی تعلیم دیں‘‘۔

ایک دوسرے خطبے میں آپؓ نے فرمایا: ’’میں نے اِن کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ تم کو تمھارے پروردگار کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کی تعلیم دیں۔

خلفاے اربعہ قیامِ فلاح کے لیے سب سے ضروری اس امر کو سمجھتے تھے کہ لوگوں کو فلاح کا صحیح اور اس کا اصل راستہ بتا دیں اور یہ علم قرآن اور سنت نبویؐ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ان کا مقصد دنیاوی اور اُخروی فلاح تھا اور اس کے حصول کے لیے سب سے پہلی ضرورت قرآن اور سنت کی تعلیم اور تنفیذ تھی۔

۲- دوسری بنیادی چیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، یعنی ریاست تمام اچھی چیزوں کی ترویج کرے، نیکیوں کو پھیلائے، صدقات کو عام کرے اور خیر کی روایت قائم کرے، نیز ان تمام چیزوں کی حوصلہ افزائی کرے جو کسی طرح بھی حسنات کو فروغ دینے والی ہوں۔ اسی طرح ریاست ان تمام چیزوں کو ختم کرے جو بُرائی اور منکر کو پھیلانے والی ہوں اور معاشرے میں کسی قسم کی بھی گندگیوں کو نہ پنپنے دے تاکہ فرد اور ملت دونوں کو صحیح خطوط پر ترقی کرنے کا پورا پورا موقع ملے۔ حکومت کی اس پالیسی کی اساس قرآن کا یہ حکم ہے کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ(اٰل عمران ۳:۱۱۰) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جو انسانیت کی طرف بھیجے گئے ہو، پس نیکیوں کا حکم کرو، برائیوں کو روکو، اور تم مومن ہو‘‘۔

۳- اس سلسلے کی تیسری چیز یہ ہے کہ حکومت عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے، ان پر ظلم و جبر نہ کرے، ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالے جس کے وہ متحمل نہ ہوسکتے ہوں۔ نیز حسنات زندگی کو فروغ دے ، اور اس بات کی کوشش کرے کہ اس کے دائرۂ اثر میں کوئی متنفس بلالحاظ مذہب و ملّت ایسا نہ رہے جو اپنی بنیادی ضرورتیں پوری نہ کر رہا ہو۔

حضرت عمرؓ اس بات کا اہتمام کرتے تھے کہ مجاہدین زیادہ عرصے تک اپنے اہل و عیال سے جدا نہ رہیں، اور کہا کرتے تھے کہ ’’اور تمھارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمھیں تباہی میں نہ ڈالوں اور تم کو سرحدوں میں روکے نہ رکھوں‘‘۔

اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو ایک خط میں حضرت عمرؓ نے لکھا کہ ’’سب سے زیادہ خوش نصیب حاکم اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا خوش حال ہو، اور سب سے بدبخت حاکم وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا بدحال ہو۔ تم خود بھی اپنے آپ کو کج روی سے بچانا تاکہ تمھارے ماتحت کج روی اختیار نہ کریں‘‘۔

اس حقیقت کو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا تھا کہ: ’’ اے اللہ! جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا جائے اور وہ اِن کو مشقت میں ڈالے تو، تو بھی  اِس کو مشقت میں ڈال۔ اور جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا تو، تو بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر‘‘۔

خلافت ِ راشدہ کی تمام پالیسیوں میں لوگوں تک حسنات زندگی پہنچانے اور ضرورت مندوں کی کفالت کرنے کا جذبہ کارفرما تھا، بلکہ حضرت عمرؓ تو فرمایا کرتے تھے کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں  زندہ رہا تو صفاء کے پہاڑوں میں جو چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا ہوگا، اس کو بھی اس مال سے اس کا حصہ پہنچے گا اور اس کے لیے اس کو کوئی زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی‘‘۔ اور یہ کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں اہلِ عراق کی بیوائوں کی خدمت کے لیے زندہ رہ گیا تو ان کو اس حال میں چھوڑ جائوں گا کہ میرے بعد ان کو کسی اور امیر کی مدد کی احتیاج باقی نہ رہے گی‘‘۔

خلافت ِ راشدہ ایک صحیح اور معیاری خادم خلق ریاست تھی اور عوام کی حقیقی فلاح و بہبود اور ان کے لیے آسانیوں کی فراہمی اس کا اصل مقصد تھا اور حکومت کا یہی فلاحی تصور خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیادی خصوصیت تھا۔

حقوق اور آزادیوں کا تحفظ

خلافت ِ راشدہ کی چوتھی بنیاد تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی شخصی اور سیاسی آزادی کی ضمانت تھی۔ حضرت عمرؓ نے حقوق کی ضمانت ان الفاظ میں دی تھی کہ: ’’میں کسی شخص کو اس بات کا موقع نہیں دوں گا کہ وہ کسی کی حق تلفی یا کسی پر زیادتی کرسکے۔ جو شخص ایسا کرے گا میں اس کا ایک گال زمین پر رکھوں گا اور اس کے دوسرے گال پر اپنا پائوں رکھوں گا یہاں تک کہ وہ حق کے آگے جھک جائے‘‘۔

حضرت ابوبکرؓ نے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کا اعلان اس بلیغ انداز میں فرمایاتھا کہ: ’’تمھارے اندر جو بے اثر ہے، وہ میرے نزدیک بااثر ہے یہاں تک کہ میں اس سے چھینا ہوا حق اس کو واپس دلا دوں۔ اور تمھارے اندر جو بااثر ہے وہ میرے نزدیک بے اثر ہے یہاں تک کہ میں اس سے اس حق کو وصول کرلوں جو اس نے غصب کر رکھا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ خلفاے اربعہ نے یہ کام کرکے دکھا دیا۔ جب بھی کسی عامل نے کوئی زیادتی کی، انھوں نے فوراً اس پر مواخذہ کیا اور اس کا تدارک کیا۔

حضرت عمرؓ کا ارشاد تھا کہ: ’’میں اپنے عاملوں کو تمھارے پاس اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ تمھیں ماریں پیٹیں یا تمھارے مالوں کو ناجائز طریقے پر لیں، بلکہ اس لیے بھیجتا ہوں کہ تم کو تمھارا دین سکھائیں اور تمھارے نبی کا طریقہ سکھائیں۔ اگر کسی کے ساتھ اس قسم کی کوئی زیادتی کی گئی ہو تو وہ میرے علم میں لائے۔ اس ذات کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے، میں اس کو زیادتی کرنے والے سے اس کا قصاص ضرور دلائوں گا‘‘۔

اس نظام میں لوگوں کی آزادیوں کا جو لحاظ رکھا جاتا تھا وہ حضرت عمر ؓ کے ان تاریخی الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے جو آپ نے والیِ مصر حضرت عمرو بن عاصؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا، حالانکہ ان کی مائوں نے ان کو آزاد جنا تھا‘‘۔

آپ نے اس بات کی بھی ضمانت دی کہ کسی کو عدل اور قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا:

وَاللّٰہِ لاَ یُوْسَرُ رَجُلٌ فِی الْاِسْلَامِ بِغَیْرِ عَدْلٍ،خدا کی قسم! اسلام میں کوئی شخص بغیر عدل کے قید نہیں کیا جاسکتا۔

حد یہ ہے کہ اس نظام میں اس شخص تک کو آزادی حاصل ہوتی تھی اور اس پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی تھی جو خواہ نظری طور پر حکومت کا باغی ہی کیوں نہ ہو مگر عملاً بغاوت نہ کر رہا ہو۔  حضرت علیؓ نے خوارج کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ: ’’تم کو آزادی حاصل ہے کہ جہاں چاہو رہو، البتہ ہمارے اور تمھارے درمیان یہ قرار داد ہے کہ ناجائز طور پر کسی کا خون نہیں بہائو گے، بدامنی نہیں پھیلائو گے اور کسی پر ظلم نہیں ڈھائو گے۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی بات تم سے سرزد ہوئی تو پھر میں تمھارے خلاف جنگ کا حکم دے دوں گا‘‘۔

اس سے وسیع تر آزادی کا کون سا تصور ہے جو انسان کرسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کی بڑ ی اہم خصوصیت اس کا وہ نظام تھا جس میں آزادی اور حقوقِ انسانی کی کُلّی ضمانت تھی… اور یہ محض ضمانت نہ تھی بلکہ اس ضمانت کے ایک ایک حرف پر پوری راست بازی کے ساتھ عمل ہو رہا تھا۔

تنقید و محاسبہ

خلافت راشدہ کی پانچویں بنیاد اس کا نظامِ تنقید و محاسبہ تھا۔ دنیا کے دوسرے نظام ہاے سیاست میں تنقید کو ایک حق مانا گیا ہے اور سیاسیات کے طالب علم اس امر سے اس طرح واقف ہیں کہ کتنی جدوجہد، کتنی قربانیوں اور کتنی کش مکش کے بعد عوام کا یہ حق دنیاے تہذیب میں تسلیم کیا گیا ہے، لیکن خلافت ِ راشدہ کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں پہلے دن سے تنقید و محاسبے کی فضا قائم تھی۔ ہرشخص نظامِ حکومت پر نگاہ رکھتا تھا، اور جہاں کہیں بھی جو بُرائی دیکھتا تھا، اس کو دُرست کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتا تھا، بلکہ گہری نگاہ سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خلافت ِ راشدہ اور خود آج کے جمہوری نظام میں تنقید و محاسبے کے مقام کے سلسلے میں ایک بڑا باریک لیکن بڑا اہم فرق تھا۔ دوسرے نظاموں میں تنقید زیادہ سے زیادہ عوام کا ایک حق رہی ہے لیکن خلافت ِ راشدہ میں یہ صرف حق ہی نہیں بلکہ ایک فریضہ بھی تھی۔ یہ بات لوگوں کی مرضی پر چھوڑ نہیں دی گئی تھی کہ چاہے محاسبہ کریں اور چاہے نہ کریں، بلکہ ان کو یہ تربیت دی گئی تھی کہ دین کی خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہرمسلمان صحیح طریقے پر تنقید و محاسبہ کرتا رہے اور اگر کوئی شخص اپنے اس فریضے کو ادا نہیں کرتا تو وہ  اس کوتاہی پر اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔

تنقید و محاسبے کی بنیاد خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات میں ہے:

الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ،دین نام ہے خیرخواہی کا، خیرخواہی اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسولؐ کی، مسلمانوں کے قائدین کی اور سب مسلمانوں کی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمھیں لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو، اور بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے حق کی طرف موڑ دو‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ’’اگر برائی کو دیکھو تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دو، اگر اس کی استطاعت نہ رکھتے ہو تو زبان سے اس کے خلاف آواز بلند کرو، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو کم از کم دل میں اس کو بُرا جانو، اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘۔

آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ان میں یہ عیب نہ پیدا ہوجائے کہ اپنے سامنے بُرے اعمال ہوتے دیکھیں اور انھیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر اللہ عام اور خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘۔

خلافت ِ راشدہ کے نظام کی بنیاد زبانِ رسالت مآبؐ سے نکلی ہوئی انھی ہدایات پر تھی۔  اس نظام میں معاشرے کا ضمیر بیدار تھا اور فضا صحت مند تنقید اور مخلصانہ محاسبے سے معمور تھی اور    یہ مقدس ذمہ داری ایک طرف کسی مداہنت کے بغیر انجام دی جاتی تھی تو دوسری طرف اس کو ان حدود میں رکھا جاتا تھا جو بدنظمی، انتشار، افتراق اور انارکی کے فساد سے معاشرے اور ریاست کو محفوظ رکھیں۔

حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد جو تاریخی خطبہ دیا اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے: ’’اے لوگو! میں اس جگہ اس لیے مقرر نہیں کیا گیا ہوں کہ تم سے برتر بن کے رہوں۔ میری خواہش تو یہ تھی کہ کوئی اور اس جگہ کو سنبھالتا، میں تمھارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں۔ جب تم دیکھو کہ میں سیدھے راستے پر چل رہا ہوں تو میری پیروی کرو۔ اور اگر دیکھو کہ میں راستی سے ہٹ گیا ہوں تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔

حضرت عمرؓ نے خلافت کا بار اُٹھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’اے لوگو! تم نفس کے مقابلے میں میری مدد اس طرح کرسکتے ہو کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو۔ نیز خدا نے تمھاری جو   ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے اس کے بارے میں میری خیرخواہی اور مجھے نصیحت کرتے رہو‘‘۔

دورِ خلافت راشدہ میں امیرالمومنین ہر جمعہ کو پبلک سے خطاب کرتا تھا۔ جمعہ کے خطبے میں اپنی پالیسی بیان کرتا تھا ۔ اپنے کو خود پبلک کے سامنے پیش کرتا تھا اور پبلک کو پورا پورا موقع دیتا تھا کہ وہ اس پر تنقید کرے، اس سے اختلاف کرے، اس کے سامنے شکایت پیش کرے۔ مختصراً یہ کہ وہ اپنی پالیسی پر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت ِ راشدہ میں خطبۂ جمعہ دینی عبادت کے ساتھ ایک سیاسی ادارہ تھا اور اس کی حیثیت بحث و مباحثے اور افہام و تفہیم کے  ایک پلیٹ فارم کی بھی تھی۔

حضرت عمرؓ کے مزاج کی سختی کے متعلق تو ہرشخص بہت کچھ جانتا ہے لیکن دورِ خلافت راشدہ کے طالب علم کی نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں کہ سب کو آپ تنقید و محاسبے کی دعوت دیتے اور اسے صبروسکون سے برداشت کرتے بلکہ اس تنقید سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے میں بھی ان سے بڑھ کر کوئی نہ تھا۔ انھوں نے کبھی بھی لوگوں کو اس حق سے کسی درجے میں بھی محروم کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جو پوزیشن انھوں نے اختیار کی وہ ایک ایسی اعلیٰ مثال ہے جو انسانوں کے لیے ہمیشہ روشنی کا مینار رہے گی۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ مسجد سے نکلے، چند قدم چلے ہوں گے کہ ایک خاتون (خولہ بنت حکیم) دوسری طرف سے آئیں۔ آپ نے ان کو سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیا اور فوراً برس پڑیں: ’’عمر ؓ! تمھارے حال پر افسوس ہے، میں نے تمھارا وہ زمانہ دیکھا ہے کہ تم عمیرعمیر کہلاتے تھے اور لٹھیا لیے دن بھر عکاظ میں بکریاں چراتے تھے۔ اس کے بعد میں نے تمھارا وہ زمانہ بھی دیکھا جب تم عمر کہلانے لگے اور اب یہ زمانہ ہے کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ امیرالمومنین بنے پھررہے ہو۔ رعایا کے معاملے میں خدا سے ڈرو اور اس بات کو یاد رکھو کہ جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا وہ آخرت کے عالم کو بالکل اپنے آپ سے قریب پائے گا اور جس کو موت کا ڈر ہوگا وہ ہمیشہ  اس فکر میں رہے گا کہ خدا کی دی ہوئی فرصت رائیگاں نہ ہونے پائے‘‘۔حضرت عمرؓ نے ان کی تقریر کو بڑے غور سے سنا اور جن صحابہ نے ان کی سختی کی شکایت کی ، ان کو خاموش کردیا۔

اسی طرح ایک اور شخص نے حضرت عمرؓ کو سختی سے ٹوکا اور آپ سے کہا: ’’اے عمر! اللہ سے ڈر! اللہ سے ڈر! (اور اس جملہ کو تین بار کہا)، ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اب بس بھی کرو، بہت ہوچکا تو حضرت عمرؓنے یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے: ’’ان کو کہنے دو، اگر یہ ہم کو یہ باتیں نہ کہیں تو ان میں کوئی خوبی نہیں، اور اگر ہم ان کی ان نصیحتوں کو قبول نہ کریں تو ہم میں کوئی خوبی نہیں‘‘۔

خدا کی قسم! یہ الفاظ انسانی آزادی اور حق تنقید و محاسبے کا سب سے بڑا چارٹر ہیں، اور خلافت ِ راشدہ کا نظام اس تنقید و محاسبے کی بنیاد پر قائم تھا۔ اسی کی وجہ سے حکومت راہِ حق پر قائم رہتی تھی اور ہرکجی سے محفوظ رہتی تھی۔ استحکام اور ترقی کے لیے اس سے بڑی ضمانت اور کون سی ہوسکتی ہے؟

پارٹیاں اور پارٹی پرستی

خلافت ِ راشدہ کی ایک اور بنیادی خصوصیت پارٹی پرستی سے کامل احتراز تھا۔ سیاسیات کا یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ معاملات کی انجام دہی میں نمایندگی (representation) کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں بلاواسطہ رابطہ قائم کرنا ممکن نہ ہو۔ یونان کی شہری حکومت میں کسی نمایندہ اسمبلی کا وجود نہ تھا۔ اس لیے کہ وہاں پوری شہری آبادی ایک اسمبلی کی حیثیت رکھتی تھی اور جب بھی حکومت کو مشورے کی ضرورت پیش آتی تمام لوگوں کو جمع کیا جاتا اور اسی اجتماع میں فیصلہ کرلیا جاتا۔ جب ہیئت ِ اجتماعی وسیع ہوا تو بلاواسطہ جمہوریت کے مقابلے میں نمایندہ جمہوریت کا ظہور ہوا۔ اور اس نمایندگی کے نظام میں نمایندوں کو شہریوں کی راے اور ان کی مرضیات کا حقیقی نمایندہ بنانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کا نظام وضع کیا گیا۔ اس لیے کہ اگر عوام کے نمایندوں کو ان کے نظریات کا نمایندہ ہونا چاہیے تو ضروری ہے کہ پروگرام اور پارٹی کی ذمہ داری کا نظام موجود ہو۔

اس پارٹی کے نظام نے جہاں بہت سی حقیقی ضرورتوں کو پورا کیا، نیز جہاں وسیع و عریض ممالک اور لاکھوں اور کروڑوں کی آبادی میں اس کا قیام ناگزیر ہوگیا ،وہیں اس میں ایک بڑی خرابی بھی رونما ہوئی اور وہ پارٹی پرستی، یعنی پارٹی کو حق و باطل کا معیار جان لینا، اصول اور اقدار کی بالادستی سے صرفِ نظر اور اپنے ضمیر کی آواز کے مقابلے میں محض پارٹی کی موافقت کے جذبات سے کام کرنا۔

دورِ خلافت ِ راشدہ میں ہمیں یہ اہم چیز نظر آتی ہے کہ اس میں اپنے دور کے قبائل، برادریوں اور مشترک اجتماعی وجود رکھنے والے گروہوں کو ختم نہیں کیا گیا لیکن پارٹی بازی اور خاندانی، قبائلی یا گروہی مفادات کو حق و باطل کا معیار ماننے کا اصول بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکا گیا۔ گروہ اور احزاب اس لیے تھیں کہ لوگ ایک دوسرے کو جانیں، اجتماعی نظام زیادہ آسانی سے کام کرسکے۔ ہرشخص کی راے معلوم کرنے کے بجاے ایک گروہ اور پارٹی کے قائدین کی راے معلوم کرلی جائے اور اس طرح اس پورے گروہ کے نقطۂ نظر سے آگاہی حاصل کرلی جائے لیکن تربیت اور تعلیم کے ذریعے سے لوگوں میں پارٹی کی عصبیت کو، پارٹی بازی اور پارٹی پرستی کو ختم کیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ  خلافت ِ راشدہ نے کسی جبروتشدد کے بغیر، غلط احساسات کو زیادہ سے زیادہ دبا دیا، اور پارٹی پرستی کے فتنے کو اخلاقی سنوار کے ذریعے ختم کر دیا۔

دورِ خلافت راشدہ میں سب سے پہلے تو مہاجرین اور انصار کے دو گروہ تھے اور ان کے سربراہ اپنی پارٹی کے نمایندوں کی حیثیت سے امورِ سلطنت میں تعاون کرتے تھے۔ پھر خود انصار کے دو اہم قبیلے اوس اور خزرج کی شکل رکھتے تھے اور جس شخص نے بھی ثقیفہ بنوساعدہ کی بحثوں کا مطالعہ کیا ہے وہ ان کے سیاسی وجود اور اس کی اہمیت کو اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے۔ اسی طرح مہاجرین میں کم از کم تین نمایاں پارٹیاں نظر آتی ہیں۔ بنواُمیہ، بنوزہرہ اور بنوہاشم۔۱؎

حضرت ابوبکرؓ نے ثقیفہ بنوساعدہ میں اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ امیرمہاجرین میں سے ہوگا اور انصار ان کے وزیر ہوں گے۔ خلفاے اربعہ نے مناصب کی تقسیم کے سلسلے میں اس بات کا پورا لحاظ رکھا کہ مختلف گروہوں میں سے اہل لوگوں کو مناصب دیے جائیں اور اس طرح ہرپارٹی کو نمایندگی ملتی رہے اور شکررنجی نہ پیدا ہو۔

حضرت عمر ؓ نے پارٹیوں کو ختم نہیں کیا، صرف پارٹی پرستی سے لوگوں کو منع کیا۔ ان کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کی شریعت کو قائم نہیں کرسکتا وہ شخص جو حق کے معاملے میں اپنی پارٹی کی ناانصافیوں کو گوارا کرنے والا ہو۔ ولا یکظم فی الحق علٰی حِزْبِہٖ، یہاں ضرب حزب کے وجود پر نہیں پارٹی کی ایسی پرستش پر ہے کہ حق و ناحق کا اختیار ہی ختم ہوجائے۲؎، اور غالباً یہی خود قرآن پاک کے اس ارشاد کا بھی منشا ہے کہ

ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۳) ، لوگو! ہم نے   تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ

۱-            مولانا امین احسن اصلاحی اپنی کتاب اسلامی ریاست، شہریت کے حقوق و فرائض (۴) میں تحریر فرماتے ہیں: انصار اور مہاجرین کی ان دو پارٹیوں کے علاوہ خود مہاجرین کے اندر تین نمایاں پارٹیاں موجود تھیں۔ lبنواُمیہ کی پارٹی عثمان غنیؓ کی قیادت میں، lبنوزہرہ کی پارٹی سعد اور عبدالرحمن    بن عوفؓ کی سرکردگی میں، lبنوہاشم کی پارٹی حضرت علیؓ اور عباسؓ ابن عبدالمطلب کی رہنمائی میں۔ اور ان میں سے بعض کا اختلاف حکومت کے ساتھ کھلا ہوا تھا لیکن حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی حکومت نے انتہائی رواداری کے ساتھ اس اختلاف کو انگیز کیا۔ یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر کئی مہینے تک بیعت نہیں کی۔ (ص ۳۲)

۲-            خود خوارج کے سلسلے میں جو پالیسی حضرت علیؓ نے اختیار فرمائی وہ بھی اسی مسلک پر روشنی ڈالتی ہے۔ خوارج کی حیثیت ایک متشدد حزب اختلاف کی تھی مگر آپؓ نے ان کو تحریر فرمایا کہ جب تک تم بدامنی نہیں پھیلاتے اور کشت و خون نہیں کرتے ہم تم سے تعرض نہیں کریں گے اور تمھیں اجازت ہوگی کہ جہاں چاہے رہو۔

ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ نیکوکار اور پرہیزگار ہے۔

یہاں نہ صرف یہ کہ ’شعوب‘ اور ’قبائل‘کے وجود کو ختم کرنے کی طرف کوئی اشارہ نہیں بلکہ اس کی ایک اہم ضرورت اور افادیت بیان کی گئی ہے۔ یعنی لتعارفوا،تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، امتیازات کو محسوس کرسکو، لیکن ساتھ ہی قبائل پرستی، گروہ پرستی اور قوم پرستی کی جڑ یہ کہہ کر کاٹ ڈالی گئی ہے کہ لتعارفوا کی حد سے آگے نہ بڑھنا کیوں کہ اسلام کی نگاہ میں حق اور شرف کا معیار قوم، قبیلہ اور گروہ نہیں ہیں بلکہ تقویٰ ہے۔

یہی اصول پارٹیوں کے سلسلے میں خلافت ِ راشدہ نے اختیار کیا، یعنی پارٹیوں کے وجود کو ختم نہیں کیا گیا صرف پارٹی پرستی کو ختم کیاگیا ۔ حق کا معیار سب کے لیے قرآن اور سنت نبویؐ قرار پایا اور ہر ایک نے اسی سے استدلال کیا۔ باقی نقطۂ نظر اور دوسرے اختلافات کی پہچان کے لیے پارٹیاں موجود رہیں اور نظامِ خلافت کو صحت مند بنیادوں پر ترقی دینے میں ممدومعاون ثابت ہوتی رہیں۔

معیارِ قیادت

خلافت ِ راشدہ کی آخری خصوصیت امیر کا ایک خاص کردار ہے جسے اچھی طرح سمجھے بغیر اس دور کی تصویر مکمل نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کا امیر ان کا بہترین شخص ہوتا تھا۔ فہم و تدبیر ، اور تقویٰ اور صلاحیت کار میں سب پر فوقیت رکھتا تھا اور اس کے ہر کام کا محرک خدا کا خوف اور اُمت کی فلاح تھا۔

حضرت ابوبکرؓ کا کیا عالم تھا۔ اس کا ذکر حضرت علیؓ کی زبان سے سنیے: یہ تقریر حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے آپ کی وفات کے وقت کی تھی: اے ابوبکر! اللہ تم پر رحم کرے، واللہ! تم پہلے آدمی تھے جس نے رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا، ایمان و اخلاص میں تمھارا ہم پلّہ کوئی نہ تھا۔خلوص و محبت میں تم سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ اخلاق و قربانی، ایثار و بزرگی میں تمھارا کوئی ثانی نہ تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کی جو خدمت تم نے کی اور رسولؐ اللہ کی رفاقت میں جس طرح ثابت قدم رہے اس کا بدلہ اللہ ہی تمھیں دے…واللہ تم اسلام کے حصن حصین تھے۔ کافروں کے لیے تمھارا وجود انتہائی اذیت بخش تھا۔ تمھاری کوئی دلیل وزن سے خالی نہ ہوتی تھی اور تمھاری بصیرت فہم و کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ تمھاری سرشت میں کمزوری کا ذرا سا بھی دخل نہ تھا۔    تم ایک پہاڑ کی مانند تھے جسے تند و تیز آندھیاں بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتیں۔ اگرچہ تم جسمانی لحاظ سے کمزور تھے لیکن دینی لحاظ سے جو قوت تم کو حاصل تھی اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تم دنیا والوں کی نظر وں میں واقعی ایک جلیل القدر انسان تھے اور مومنوں کی نگاہوں میں انتہائی رفیع الشان شخصیت کے مالک، لالچ اور نفسانی خواہشات تمھارے پاس نہ پھٹکتی تھی۔ ہر کمزور انسان تمھارے نزدیک اس وقت تک قوی تھا اور ہر قوی انسان اس وقت تک کمزور تھا جب تک تم قوی سے کمزور کا حق لے کر نہ دلوا دیتے تھے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمھارے اجر سے محروم نہ رکھے اور ہمیں تمھارے بعد بے یارومددگار نہ چھوڑدے بلکہ ہمارے سہارے کے لیے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کردے‘‘۔

حضرت ابوبکرؓ میں ذمہ داری کا احساس اتنا تھا کہ گھنٹوں رویا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کاش! میں پتھر ہوتا مگر امارت کے اس بار سے آزاد ہوتا۔ شخصی سیرت کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی پر زیادتی نہ کی، کبھی کسی کو دُکھ نہ پہنچایا اور حق کی راہ میں کبھی کوئی کمزوری نہ دکھائی۔ خدمت خلق کا یہ عالم تھا کہ خلافت سے پہلے محلے کی جن بیوائوں کا سودا لا کر دیتے تھے اور جن کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے خلافت کے بعد بھی اس کام کو اسی طرح جاری رکھا۔ دن کو امورِ خلافت کی دیکھ بھال اور رات کو عبادت کا اہتمام ان کا روزمرہ کا شعار تھا۔ ہمہ وقتی خدمت کے باوجود کوئی معاوضہ لینے پر تیار نہ ہوتے تھے اور بہ مشکل تیار ہوئے تو بھی وفات کے وقت ساری رقم اپنا مکان بیچ کر ادا کردی۔

یہ تھی خلیفۂ اوّل کی سیرت! اسی لیے آپؓ کی وفات پر حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ:     ’’اے خلیفۂ رسولؐ اللہ! تمھاری وفات نے قوم کو سخت مصیبت اور مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے، ہم تو تمھاری گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے، تمھارے مرتبے کو کس طرح پاسکتے ہیں؟

حضرت عمرؓ جب خلیفہ ہوئے تو حضرت علیؓ نے ان کو یہ نصیحت کی تھی کہ ’’اگر آپ اپنے پیش رو کی جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو قمیص میں پیوند لگا لیجیے، تہمد اُونچی کیجیے، جوتے اپنے ہاتھ سے گانٹھ لیجیے، جرابوں میں پیوند لگا لیجیے، ارمان کم کیجیے اور بھوک سے کم کھایئے‘‘۔

حضرت عمرؓ اس معیار پر سختی سے قائم رہے کہ اس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ حضرت عمرؓ کسی کرّوفر کے قائل نہ تھے۔ زمین پر سوتے، پیدل پھرتے، اپنے اُونٹ کی نکیل تھام کر خود چلتے اور اپنے غلام کو آرام کرنے کے لیے اُونٹ پر بٹھا دیتے۔ اپنے کپڑے خود دھوتے اور کپڑے اتنے کم تھے کہ ایک مرتبہ مسجد وقت پر اس لیے نہیں آسکے کہ کوئی دوسرا جوڑا نہ تھا اور آپ اپنی قمیص دھو کر سُکھا رہے تھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ سفرشام کے دوران میں ایک جگہ راستے میں پانی عبور کرنا پڑا تو بے تکلف اُونٹ سے اُترے، چرمی موزے ہاتھ میں لیے اور اُونٹ کی نکیل تھام کر پانی میں گھس گئے۔ فوج کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہؓ ساتھ تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ آپ کی اس بات کو دیکھ کر بڑا تعجب کریں گے، تو آپؓ نے فرمایا: ا ے ابوعبیدہؓ! کاش یہ بات تمھارے سوا کوئی اور کہتا۔ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ہم سب سے زیادہ ذلیل تھے، ہم سب سے زیادہ حقیر تھے اور ہم سے زیادہ کم تعداد کوئی اور قوم دنیا میں نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام کے ذریعے عزت دی۔ یاد رکھو! اگر تم اسلام کی بخشی ہوئی عزت کے سوا کوئی اور صورت عزت کی حاصل کرنا چاہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ذلیل کردے گا‘‘۔

تقویٰ کا یہ حال تھا کہ دن بھر عوام کی خدمت میں اور اُمورِ سلطنت کی انجام دہی میں سرگرداں رہتے اور رات بھر عبادت کرتے اور کہتے کہ اگر میں دن کو غافل ہوجائوں تو اُمت تباہ ہوجائے اور اگر رات کو غافل ہوجائوں تو میں تباہ ہوجائوں۔ بیت المال سے بقدر کفالت لیتے اور اگر اپنے بچوں کے پاس بھی کوئی غیرمعمولی چیز دیکھ لیتے تو اس کو فوراً بیت المال میں داخل کرادیتے۔ قحط کے زمانے میں خود گوشت اور گیہوں کھانا ترک کردیا اور فرمایا کہ جب تک میں  خود وہی تکلیف نہ اُٹھائوں جو عوام اُٹھا رہے ہیں، مجھے اِن کی مصیبت کا صحیح اندازہ کیسے ہوسکتا ہے۔ بیت المال کی چیزوں کی ایسی نگرانی کرتے تھے کہ ایک ہبّہ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جاسکتا تھا۔ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوئی رعایت نہ کرتے تھے اور ایک مرتبہ جب ان کی بیٹی نے اہل و عیال کو آرام پہنچانے کے لیے کہا تو فرمایا کہ اے بیٹی! تو نے اپنی قوم کے ساتھ تو خیرخواہی کی لیکن اپنے باپ کے ساتھ بدخواہی کی ہے۔ میرے اہل و عیال کا حق میری جان اور میرے مال میں ہے لیکن میرے دین اور میری امانت کے اندر انھیں دخل انداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ایک مرتبہ بیت المال کا ایک اُونٹ کھو گیا تو آپ دھوپ میں مارے مارے پھرے تاکہ اس کو ڈھونڈھ لائیں۔ حضرت علیؓ نے یہ حال دیکھا تو بے ساختہ کہا: قَدْ أَتْعَبْتَ الْخُلَفَائَ بَعْدَکَ، ’’آپ نے اپنے بعد آنے والوں کو تھکا دیا‘‘۔

حضرت عمرؓ گلیوں میں پھرتے تھے کہ کوئی مستحق حکومت کی مدد سے محروم نہ رہ جائے اور اگر کسی کی مصیبت کا کوئی واقعہ سامنے آتا تو کانپ اُٹھتے۔ خود سامان اُٹھا کر لاتے، کھانا پکا کر کھلاتے اور کیا کیا کچھ نہ کرتے!

اور اس سب کے بعد بھی آخیر عمر میں کہا کرتے تھے کہ اگر برابر سرابر چھوٹ جائوں، نہ انعام ہی پائوں اور نہ ہی سزا کا مستحق ٹھیرایا جائوں تو بڑی بات ہے۔

حضرت عثمانؓ کا حال بھی یہ تھا کہ اپنا مال اور اپنی دولت دین اور اہلِ دین کی ضرورتوں کے لیے وقف کر رکھی تھی اور اُمت کی بہبود کی خاطر اپنا آرام تج دیا تھا، حتیٰ کہ قوم کو فتنے سے بچانے کے لیے اپنی جان تک قربان کردی۔

یہی عالم حضرت علیؓ کا تھا کہ ان کی زندگی میں کوئی کھوٹ نظر نہیں آتا اور وہ اپنی ہرصلاحیت اور اپنی طاقت کی ہر رمق اُمت کی بہبود کے لیے وقف کردیتے ہیں اور اپنی ذات کے لیے معمولی سے معمولی چیز بھی نہیں لیتے۔

خلفاے راشدینؓ نے اپنی ذاتی سیرت اور خدمت دین و مسلمین کے ذریعے اُمت کا اعتماد حاصل کیا اور اس دور کی جو بھی خوبیاں نظر آتی ہیں ان کے فروغ میں انسانیت کے انھی بہترین نمونوں کا بڑا دخل ہے۔ خلافت ِ راشدہ کا مزاج اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دین کے بے لوث خادم اس نظام کو چلائیں جبھی وہ کامیاب ہوسکتے ہیں، اور جب یہ نظام قائم ہوجاتاہے تو زمین اپنے خزانے اُگل دیتی ہے اور آسمان اپنی نعمتیں برسانے لگتا ہے ، اور دنیا خیروصلاح سے بھر جاتی ہے۔

اُمت مسلمہ نہ انگلستان کا نظام چاہتی ہے نہ روس کا، نہ امریکا کے طریقوں سے اسے   دل چسپی ہے نہ فرانس کے۔بلاشبہہ اپنے زمانے اور اپنی ضرورتوں کے مطابق ان کو اختیار ہے کہ سیاسی اور اداراتی دروبست کا اہتمام کریں، لیکن اصولِ اقدار اور معیار کے باب میں وہ تو خلافت راشدہ کے اصولوں کا احیا چاہتی ہے اور ہراس پیکر کو پسند کرے گی جو ان اصولوں کو ٹھیک ٹھیک قائم کرسکے    ؎

اقبال لکھنؤ سے نہ دلّی سے ہے غرض

ہم تو اسیر ہیں خم زلفِ کمال کے

تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال کی داستان کے ہر دور اور ہرپہلو کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے، اور اس مقولے میں بڑی صداقت ہے کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، تاریخ انھیں سبق سکھا کر رہتی ہے۔ سلطنت روما کے زوال کا نقشہ مشہور مؤرخ گبن نے ایک جملے میں اس طرح کھینچا ہے کہ: ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بنسری بجا رہا تھا‘‘۔ بڑے دُکھ اور افسوس کے ساتھ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ گذشتہ ۱۰،۱۲ سال سے بلوچستان بُری طرح جل رہا ہے اور اس زمانے کی دونوں برسرِاقتدار قوتیں، یعنی پرویز مشرف کی فوجی حکمرانی اور اس کے بعد زرداری گیلانی کی    نام نہاد جمہوری حکومت جلتی پر تیل ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں۔ آج نوبت یہاں تک آگئی ہے  کہ امریکی کانگریس کیSurveillance and Oversight Committee  نے ۸فروری ۲۰۱۲ء کو بلوچستان کے مسئلے پر باقاعدہ ایک نشست منعقد کی ہے، اور ۱۷فروری ۲۰۱۲ء کو اس کمیٹی کی سربراہ ڈینا روہربافر نے کانگریس میں باقاعدہ ایک مسودۂ قانون اپنے دو مزید ساتھیوں کے ساتھ جمع کرا دیا ہے جس میں بلوچستان کے پاکستان سے الگ ملک بنائے جانے اور بلوچوں کے لیے  حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کی تائید اور سرپرستی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

 واضح رہے کہ یہ شرانگیز اقدام امریکی سیاسی قوتوں کی طرف سے اس نوعیت کی پہلی کوشش نہیں ہے۔ امریکا ایک طرف تو کہتا ہے کہ اگرچہ پاکستان ناٹو میں شامل نہیں مگر ناٹو میں شامل دیگر ملکوں کی طرح ہمارا حلیف اور دوست ہے اور ہمارا اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہے، اور دوسری طرف پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پر بے دریغ حملے کرتا ہے۔ اس کی زمین اور فضائی حدود کو پامال کرتا ہے اور ملک میں تخریب کاری کی نہ صرف سرپرستی کرتا ہے، بلکہ سی آئی اے کے امریکی کارندوں اور پاکستانی بھاڑے کے ٹٹوؤں (mercenaries)کو بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ بھارت بہت پہلے سے اس قسم کی مذموم حرکتوں کی پشتی بانی کرتا رہا ہے اور اب امریکی بھارتی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کا یہ مشترک ہدف ہے۔

امریکا اس وقت پاکستان کے خلاف بی-۳، یعنی Bribe،  Blackmail اور Bully and Bullets(رشوت، بلیک میل اور گولی)کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اس کا یہ خطرناک اور خونیں کھیل ریمنڈ ڈیوس کے جنوری ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد اور کانگریس کی حالیہ کارروائیوں کی شکل میں زیادہ ہی گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت اب بھی امریکا کے اصل کھیل کو سمجھنے اور اس کے مقابلے کے لیے جان دار حکمت عملی بنانے سے قاصر ہے، اور اس کے کردار اور عوام کے جذبات و احساسات میں خلیج روزبروز بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی اور عزت اور آزادی کا راستہ باقی نہیں رہا ہے کہ اس قیادت سے جلدازجلد نجات پائے اور ایسی قیادت کو برسرِاقتدار لائے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت اور مفادات کی بھرپور انداز میں حفاظت کرسکے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔

بلوچستان کے مسئلے کے دو اہم پہلو ہیں اور دونوں ہی بے حد اہم اور فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ امریکا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ نیا نہیں۔ اس کا ہدف پاکستان کی آزادی، اس کا نظریاتی تشخص اور اس کی ایٹمی صلاحیت پر ضرب ہے اور اب ایک عرصے سے اس ہمہ گیر حکمت عملی کے ایک پہلو کی حیثیت سے بلوچستان کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔ ہنری کسنجر سے لے کر حالیہ قیادت تک سب کے سامنے ایک مرکزی ہدف اُمت مسلمہ کی تقسیم در تقسیم اور اس کے وسائل پر بلاواسطہ یا بالواسطہ (مقامی چہروں کے ذریعے) قبضہ ہے۔ اس پالیسی کا پہلا ہدف مقامی قومیتوں کے ہتھیار کے ذریعے دولت عثمانیہ کا شیرازہ منتشر کرنا تھا۔ پھر افریقہ کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بانٹ کر غیرمؤثر کردیا گیا۔ بالفور ڈیکلریشن کے سہارے عالمِ عرب کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپنا بھی کچھ دوسرے مقاصد کے ساتھ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔ پاکستان کو ۱۹۷۱ء میں دولخت کرنا، سوڈان اور انڈونیشیا کے اعضا کو کاٹ کر اپنی باج گزار ریاستیں وجود میں لانا، عراق اور افغانستان میں زبان، نسل اور مسلک کی بنیاد پر ان ممالک کی سرحدوں کو بدلنے کی کوشش، کرد قومیت کو ہوا دے کر عراق، ایران اور ترکی میں دہشت گردی اور خون خرابے کی آگ کو بھڑکانا، یہ سب اسی حکمت عملی کے مختلف پہلو ہیں۔

 پاکستان ایک بار پھر اس صلیبی جنگ کی زد میں ہے۔ ۲۰۰۶ء میں رالف پیٹرز  نے US  Armed Forces Journal میں Blood Borders (خونیں سرحدیں) کے عنوان سے ایک شرانگیزمضمون لکھا جس میں پاکستان کی تقسیم اور تبدیل کی جانے والی سرحدوں کا نقشہ پیش کیا گیا ۔ اس میں آزاد بلوچستان کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے دکھایا گیا تھا۔ بھارت اور امریکا دونوں اپنے اپنے انداز میں پاکستان میں تخریب کاری کے ساتھ علیحدگی کی تحریکوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ اس وقت جب عوامی دبائو کے تحت پاکستان امریکا سے تعلقات کی نوعیت پر نظرثانی کر رہا ہے اور پاکستان، ایران اور افغانستان علاقے کے امن اور سلامتی کے لیے علاقائی بندوبست کی تلاش میں ہیں، پاکستان کے اندرونی حالات کو خراب کرنے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ نیز امریکا اور بھارت دونوں کی نگاہ میں پاکستان اور چین کا قریبی تعلق اور خصوصیت سے بلوچستان میں چین کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کا راستہ روکنے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور بجلی کی فراہمی میں  تعاون کو مؤخر و ملتوی اور معاملے کو خراب کرنے کا کھیل کھیلاجارہا ہے۔

امریکا کے ان جارحانہ عزائم کو سمجھنا اور ان کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنا دفاعِ پاکستان کا اہم ترین پہلو ہے۔ اس کے لیے ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنا اور افغانستان سے امریکی اور ناٹو فوجوں کی مکمل اور جلد از جلد واپسی کے لیے علاقے کے ممالک کے تعاون سے فیصلہ کن جدوجہد کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے۔ اس کے لیے قوم کو بیدار اور متحرک کرنا ازبس ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی کانگریس میں جو کھچڑی پک رہی ہے، اس کا سختی سے نوٹس لینا اور قوم کو اپنی آزادی اور امریکا کی گرفت سے نکلنے کے لیے متحد اور منظم کرنا ضروری ہے۔ امریکا کی طرف سے گذشتہ ایک سال میں جو کچھ ہوا ہے، خواہ اس کا تعلق ریمنڈ ڈیوس کو قانون کی گرفت سے چھڑا لے جانے سے ہو، یا ہردم بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں سے، ۲مئی کا ایبٹ آباد کا حملہ ہویا ۲۶نومبر کا سلالہ چیک پوسٹ پر فوج کشی، یا فروری ۲۰۱۲ء کی کانگریس کی سفارتی لبادے میں  سیاسی جنگ___ یہ سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں، جو قوم کو بیدار کرنے کے لیے تازیانے کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن کا جواب موجودہ حکومت کے بس کا کام نہیں۔ اس چیلنج کا مقابلہ نئی باصلاحیت، دیانت دار اور قوم کی معتمدعلیہ قیادت ہی کرسکتی ہے۔

مسئلے کا دوسرا پہلو بلوچستان کے حالات اور ان کی اصلاح ہے۔ بیرونی ہاتھ اپنا کام کر رہا ہے مگر اسے یہ کھیل کھیلنے کا موقع ہماری اپنی سنگین غلطیاں اور حالات کو بروقت قابو میں نہ لانے بلکہ مزید بگاڑنے والی پالیسیاں ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایک جمہوری وزیراعظم نے ۱۹۷۳ء کے دستور کے نفاذکے چند ماہ ہی کے اندر، بلوچستان کی منتخب حکومت کو برطرف کر کے سیاسی مسائل کے لیے فوجی حل کے تباہ کن راستے کو اختیار کیا، اور  دستور کے مخلصانہ نفاذ سے جو برکتیں ملک و قوم کو حاصل ہوسکتی تھیں ان سے محروم کردیا۔ یہ ستم ظریفی سے کم نہیں کہ جو آگ پیپلزپارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں لگائی گئی تھی وہ اس کے بعد وجود میں آنے والی ایک فوجی حکومت کے دور میں سرد پڑی اور تصادم کی وہ شکل ختم ہوئی جو تباہی کی طرف لے جارہی تھی۔ مقامِ افسوس ہے کہ اس کے بعد آنے والے نئے جمہوری اَدوار میں بھی نہ مرکزی قیادت نے اور نہ صوبے کی قیادت نے بلوچستان کے مسئلے کا صحیح حل تلاش کرنے کی کوئی منظم اور مؤثر کوشش کی، اور زیرزمین آگ پھر سُلگنے لگی جو پرویز مشرف کے فوجی حکمرانی کے دور میں ایک بار پھر بھڑک پڑی، اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بلوچستان کے ایک بڑے علاقے میں پاکستان کا پرچم سرنگوں ہے اور پاکستان کا ترانہ خاموش ہوگیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والی قوتیں ہی لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور اپنے ہی شہریوں پر آگ اور خون کی بارش کر رہی ہیں۔ لاپتا افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور سیکڑوں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں بے گوروکفن تحفے کی صورت میں دی جارہی ہیں۔ نواب اکبر بگٹی جو بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے تھے، ان کو جس بے دردی اور رعونت کے ساتھ شہید کیا گیا ہے اور جس طرح انھیں سپردِخاک کیا گیا ہے، اس نے غم و غصے کا وہ سیلاب برپا کیا ہے جس نے صوبے ہی نہیں ملک کے دروبست کو ہلا دیا ہے۔

ہمیں بڑے دُکھ سے اس حقیقت کو بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ بلوچستان اپنی تمام اسٹرے ٹیجک اہمیت اور معدنی اور مادی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ملک کا پس ماندہ ترین صوبہ     ہے اور معاشی اور سیاسی اعتبار سے بنیادی ڈھانچے سے محروم ہے۔ ملک میں بنیادی ڈھانچے (socio- economic infrasturcture)سے محرومی کے سلسلے میں پنجاب کا محرومی کا انڈکس ۲۹ فی صد، سندھ کا ۵۰ فی صد، خیبرپختونخواہ کا ۵۱ فی صد اور بلوچستان کا ۸۸ فی صد ہے۔ غربت کی انتہائی سطح پر رہنے والی آبادی پنجاب میں ۲۶فی صد، سندھ میں ۳۸ فی صد، خیبرپختونخواہ میں    ۲۹ فی صد اور بلوچستان میں ۴۸ فی صد ہے۔ خواندگی کی شرح پاکستان میں ۵۰ فی صد ہے لیکن بلوچستان میں مردوں میں ۲۳ فی صد اور خواتین میں صرف ۷ فی صد ہے۔ بلوچستان جس کی گیس نے پورے پاکستان کو روشنی اور گرمایش دی ہے اور ۵۰برس سے دے رہا ہے، وہ صوبہ اس نعمت سے محروم رہا ہے۔ گیس کی دریافت کے ۳۲سال بعد ۱۹۸۶ء میں کوئٹہ میں گیس آئی ہے اور اب بھی بلوچستان کا ۷۸ فی صد حصہ گیس سے محروم ہے۔ گیس کی رائلٹی کے لیے بھی جو منبع پر مقررہ (well-head)  قیمت اسے دی گئی ہے وہ دوسرے صوبوں سے نکلنے والی گیس کا بمشکل ۲۵ فی صد ہے۔

ایک تازہ مطالعے کے مطابق: ’’بلوچستان کے ہر دو باشندوں میں سے ایک خط ِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ہردو میں سے ایک کی صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ ہر دو میں سے ایک بچہ پرائمری سکول کے سایے سے بھی محروم ہے۔ ہر تین میں سے صرف ایک بچے کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور دو اس بنیادی حفاظتی سہولت سے بھی محروم ہیں‘‘۔(دی نیوز، ۲۱فروری ۲۰۱۲ئ)

اسی طرح ملازمتوںمیں بلوچستان کے لوگوں کی محرومی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ جو کوٹہ  دیا گیا ہے وہ بھی کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے میں ان کو میسر نہیں اور کم از کم گذشتہ سات برسوں میں،( جب کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے بلوچستان (۲۰۰۵ئ) نے اس ناانصافی کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ کیا تھا) کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا ہے۔ ستمبر ۲۰۰۵ء میں پارلیمنٹ کی کمیٹی نے ۳۵ اہم سفارشات دی تھیں اور ان پر عمل اور نگرانی کے لیے ۹۰دن کے اندر اندر پارلیمانی کمیٹی کے تقرر کی سفارش کی تھی، مگر آج تک وہ کمیٹی بنی ہے اور نہ سفارشات میں سے بیش تر پر عمل ہوا ہے جس کی ذمہ داری مرکز اور صوبے دونوں کی قیادت پر آتی ہے۔ مجرمانہ غفلت کا حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بڑی لے دے کے بعد چھے ماہ پہلے وزیر مذہبی امور جناب سید خورشیدشاہ صاحب کی سربراہی میں مسئلہ بلوچستان کے سیاسی حل کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی مگر آج تک اس کا اجلاس کوئٹہ میں نہ ہوسکا۔ صوبے کی اسمبلی اور حکومت کا جو حال ہے، وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ۶۵؍ارکان کے اس ایوان میں ۵۸وزیر یا مشیر ہیں اور متعدد ایسے ہیں جنھیں چار برس میں بھی کوئی محکمہ نہیں ملا ہے، کوئی ذمہ داری نہیں ہے، مگر مراعات وہ پوری حاصل کر رہے ہیں۔ صوبے میں سب سے اہم کمیٹی پبلک اکائونٹس کمیٹی ہوتی ہے جو آج تک قائم نہیں ہوئی ہے اور متعدد قائمہ کمیٹیاں ہیں جن کے قیام کے لیے اتنی مدت گزر جانے کے باوجود کوئی زحمت آج تک نہیں کی گئی۔ وزیراعلیٰ مہینوں صوبے سے باہر (زیادہ تر اسلام آباد میں) رہتے ہیں لیکن صوبائی اسمبلی کے ہر ممبر کو ہرسال ۲۵کروڑ روپے ترقیاتی فنڈ کے نام پر دیے جاتے ہیں لیکن صوبے کے طول و عرض میں ترقیاتی عمل کا کہیں وجود نہیں۔ ۷۰ فی صد اسکول بند ہیں۔ پورے صوبے میں صرف ایک ہزار ۵ سو ۶۴ ڈاکٹر ہیںاور اس طرح ۴ہزار ایک سو ۹۸ افراد پر ایک ڈاکٹر بنتا ہے۔ لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے حالانکہ فرنٹیر کور کے افسروں اور جوانوں کی تعداد ۵۰ہزار سے زیادہ ہے۔ گویا ہر ۱۳۰؍ افراد پر ایف سی کا ایک فرد متعین ہے۔

نئے این ایف سی اوارڈ کے تحت بلوچستان کا جو حصہ ملک کے محصولات (ٹیکس ریونیو) میں بنتا تھا، پہلی مرتبہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا کوئی اثر عام آدمی کی زندگی پر یا صوبے کی معاشی حالت اور ترقیاتی کام پر نظر نہیں آتا۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ بارکوں میں چلی گئی ہے مگر عملاً ایف سی اور خفیہ ایجنسیاں من مانی کر رہی ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے لیکن صوبے کا وزیراعلیٰ برملا کہتا ہے کہ ایف سی میرے قابو میں نہیں۔عملاً فوجی آپریشن جاری ہے۔ صرف ۲۰۱۱ء کے بارے میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دہشت گردی کے ایک ہزار ۴سو۷۶  واقعات ہوئے ہیں جن میں ۳۶ بم حملے، ۶۸دھماکے اور ۱۳۴ گیس تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔  ان حملوں میں ۱۱۷ راکٹ فائر ہوئے اور ۲۱۵ بارودی سرنگوں کے دھماکے ہوئے۔ ۲۹۱؍افراد کو   اغوا کیا گیا۔ صرف ایک سال میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ گذشتہ  چند برسوں میں لاپتا افراد کی۲۷۰ مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ ایک طرف بلوچ نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، تو دوسری طرف پنجاب اور دوسرے صوبوں سے آکربسنے والے لوگوں کے ڈھائی سو سے زیادہ بے گناہ افراد، مردوں، عورتوں، بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ پھر اس میں مسلک کی بنیاد پر کشت و خون کا بھی ایک حصہ ہے اور تازہ ترین واقعات میں پشتون مزدوروں کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ اس کشت و خون کی ذمہ داری سب پر ہے۔ فوج، ایف سی، کوسٹل گارڈز، پولیس، لیوی اور علیحدگی پسند جماعتوں کے مسلح ونگ، سب کے ہاتھوں پر معصوم انسانوں کا خون ہے اور فوج، ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں کی فوج ظفر موج کے باوجود نہ اصل مجرم پکڑے جاتے ہیں اور نہ ان بیرونی ہاتھوں کی نشان دہی ہوپاتی ہے جن کا بڑے طمطراق سے باربار ذکر کیا جاتا ہے۔

مسئلے کا یہ پہلو بیرونی عناصر کی شرانگیزیوں سے بھی کچھ زیادہ ہی اہم ہے اور جب تک   یہ مسئلہ اپنے تمام سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوئوں کے ساتھ حل نہیں ہوتا، بیرونی قوتوں کے کردار پر بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اصل مسئلہ سیاسی، معاشی اور اخلاقی ہے۔ حقیقی شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ فوجی آپریشن کسی بھی نام یا عنوان سے ہو، وہ مسائل کا حل نہیں۔ حل کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ اس مسئلے سے متاثر تمام افراد ( اسٹیک ہولڈرز) کو افہام و تفہیم اور حق و انصاف کی بنیاد پر مل جل کر حالات کی اصلاح کے لیے مجتمع اور متحرک کرنا ہے۔ مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اعتماد کا فقدان بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے اعتماد کی بحالی ہی پہلا قدم ہوسکتی ہے جس کے لیے فوجی آپریشن کا خاتمہ، عام معافی، تمام گرفتار شدہ اور لاپتا افراد کی بازیابی، نواب اکبربگٹی کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کا آغاز اور بہتر فضا میں تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی شرکت سے نئے انتخابات اور ایک بہتر قیادت کا زمامِ کار سنبھالنا ناگزیر ہے۔ بیرونی قوتوں کے کھیل کو بھی اسی وقت ناکام بنایا جاسکتا ہے جب ہم اپنے گھر کی اصلاح کریں اور جو حقیقی شکایات اور محرومیاں ہیں ان کی تلافی کا سامان کریں۔ ۲۰۰۵ء کی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اور ۲۰۱۰ء کا بلوچستان کا پیکج سیاسی حل اور انتظامِ نو کے لیے اولین نقشۂ کار کی تیاری کے لیے بنیاد بن سکتے ہیں۔ اصل چیز اعتماد کی بحالی، سیاسی عمل کو شروع کرنا اور تمام قوتوں کو اس عمل کا حصہ بنانا ہے۔ عوام ہی کو حقیقی طور پر بااختیار بنانے سے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم ہی کو اسے بچانا اور تعمیرنو کی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ بلوچستان کا پاکستان سے باہر کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ پاکستان کا بلوچستان کے بغیر وجود ممکن ہے۔ سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کا امتحان ہے۔ اس لیے کہ    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان آج جس خوف ناک صورت حال سے گزر رہا ہے، اس کا تعلق سیاسی، معاشی، عسکری اور ہردائرے میں بحران سے ہے جو انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے۔ ملک کو بچانے، اس کی آزادی، عزت اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری پوری قوم پر عائد ہوتی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی قوتوں کا فرض ہے کہ ملک کی بقا ، استحکام اور نظریاتی بازیافت کے لیے عوامی جدوجہد کریں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے مسئلے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر اور حالات کا تجزیہ کرکے، اس دلدل سے نکلنے کی راہ ، ایک جامع قرار داد کی شکل میں پیش کی ہے جو اس کے    ۱۹ تا ۲۱جنوری ۲۰۱۲ء کو منعقدہ اجلاس میں منظور کی گئی۔ قوم کی رہنمائی اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو دعوت فکروعمل دینے کے لیے یہ قرارداد ہم بطور ’اشارات‘ پیش کررہے ہیں۔(مدیر)

مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کا یہ اجلاس پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مخلوط حکومت کے تحت مملکت خدادادپاکستان کی بدترین سیاسی صورت حال پر گہری تشویش کااظہار کرتاہے ۔ملکی زندگی زرداری ،گیلانی حکومت کی بدعنوانیوں،انتہائی ناقص کارکردگی، قومی مفادات سے مسلسل رُوگردانی،مشرف دور کی غلامانہ پالیسیوں کے تسلسل اور غربت ،مہنگائی، بے روزگاری اور توانائی کے بحرانوں سے بدحال تھی اور تبدیلی کے لیے عوامی دبائو روز افزوں تھا،کہ حکومت نے اداروں کے تصادم کا فتنہ ایک گمبھیر شکل میں ملک اور قوم پر مسلط کردینے کا ناپاک کھیل شروع کردیاہے۔

مہمند ایجنسی کی سلالہ چیک پوسٹ پر ناٹو حملے اور اس کے نتیجے میں پاک فوج کے افسروں سمیت ۲۴ جوانوں کی شہادت نے ثابت کردیا تھا کہ جماعت اسلامی پاکستان نے گذشتہ ۱۰برسوں سے اُمت مسلمہ کے خلاف امریکی دہشت گردی کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا تھا وہ بالکل درست تھا اور پرویز مشرف اور اس کے بعد زرداری اور گیلانی کی پالیسیاں بالکل غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ ہمارے لیے ہمارے فوجیوں کا خون بھی نہایت عزیز ہے۔ لیکن ڈرون حملوں میں قبائل کے جو ہزاروں افراد شہید ہوئے ہیںجن میں ہمارے معصوم بچے ،بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں، ان کا غم بھی ہم نہیں بھلا سکتے، اور امریکا کی خاطر ہماری فوج کا اپنی سرزمین پر آپریشن بھی قابل مذمت ہے۔گذشتہ ۱۰ برسوں سے شمسی ائیربیس کا امریکا کے حوالے کیا جانا ملک اور قوم سے غداری کے مترادف ہے۔ صرف اس کا خالی کرناکافی نہیں ۔ پسنی و دالبندین ،خالد بیس، شہبازائیربیس ،غازی کمپائونڈ سے بھی امریکا کو فی الفور بے دخل کیا جائے اور ناٹو سپلائی لائن کی مستقل طور پر بندش کے فیصلے پر استقامت کا مظاہرہ کیا جائے، اور امریکا کی اس جنگ سے نکل آنے اور باعزت اور قومی مفادات کے مطابق سفارتی اور تجارتی تعلقات کی تشکیلِ جدید کا اہتمام کیاجائے۔

جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مخلوط حکومت کی اب تک کی کارکردگی پر اپنی اور پاکستانی عوام کی شدید بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے، اور اس امر کا برملا اعلان کرتاہے کہ عوام نے ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے ذریعے جو موقع اس قیادت کو دیاتھا اس نے اسے بڑی بے دردی اور ناقابل فہم بے تدبیری سے ضائع کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک تیزی سے بگاڑ، حکمرانی کے مکمل فقدان ،سیاسی افراتفری، معاشی تباہی، اخلاقی اور تہذیبی انتشار،نظریاتی ژولیدہ فکری ،اداروں کے تصادم اور بیرونی قوتوں کی پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی بھیانک تصویر پیش کررہا ہے ۔ ملک و قوم کی آزادی ، خودمختاری اور عزت و غیرت معرض خطر میں ہیں اور عوام میں ہر سطح پر مایوسی اور بے چینی بڑھ رہی ہے جو خدانخواستہ کبھی بھی آتش فشاں کی طرح پھٹ کر پورے نظام کو تہہ و بالا کرسکتی ہے ۔ زرداری، گیلانی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا اگر معروضی جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتاہے کہ     یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے۔

مجلس شوریٰ کی نگاہ میں برسراقتدارحکومت کی فرد جرم میں مندرجہ ذیل امور اہم اور نمایاں ہیں:

آمرانہ دور کی پالیسیوں کا تسلسل

پاکستانی عوام نے مشرف کی آمریت اور ملک کے معاملات میں امریکی مداخلت سے نجات حاصل کرنے کے لیے انتخابات میں مشرف دور کی پوری قیادت کو رد کرکے متبادل سیاسی پارٹیوں کو یہ مینڈیٹ دیاتھاکہ مل جل کر آمرانہ دور کی داخلی، خارجہ اور معاشی پالیسیوں کو تبدیل کریں اورر ملک کو اس دلدل سے نکالیں جس میں اسے جھونک دیا گیا تھا۔ لیکن پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے تبدیلی کے بجاے انھی تباہ کن پالیسیوں کے تسلسل بلکہ ان میں مزید بگاڑ کا راستہ اختیار کیاہے جس کے نتیجے میں وہ ملک اور قوم کو تباہی اور خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل رہی ہے۔ اب اس میں بھی کوئی شک نہیں رہاکہ پیپلزپارٹی کی قیادت مشرف سے این آر او کا کالا قانون جاری کروا کر امریکا اور برطانیہ سے ضمانت حاصل کرکے برسراقتدار آئی تھی اوران کی اصل دل چسپی خود اپنے ماضی کے کرپشن کے جرائم پر گرفت سے بچنا اورامریکا کے دیے ہوئے ایجنڈے کو آگے بڑھاناہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا احتساب کرکے اسے سزا دلانے کے بجاے اسے سلامی دے کر ایوان صدر سے رخصت اور ملک سے فرار کا موقع دیا گیا، اور عوام کے مطالبے اور عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کے علی الرغم اسے مکمل تحفظ فراہم کیاگیاہے اوراس کی جاری کردہ داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

’دھشت گردی‘ کے خلاف جنگ جاری رکہنا

۲۰۰۸ء کے انتخابات کا دوسرا مرکزی موضوع امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور اس کے تباہ کن نتائج تھا ۔ عوام نے پہلے دن سے مشرف کی غلامانہ اور بزدلانہ پالیسی کو ردکردیاتھا اور ۱۰سال کے تجربے نے یہ ثابت کردیا کہ ہر اعتبار سے یہ پالیسی یکسر ناکام رہی ہے۔ ملک کا امن وامان تباہ ہوگیا ہے ، جو علاقے پُرامن تھے وہ دہشت گردی کی زد میں ہیں ، فوج اور عوام میں دُوری بڑھی ہے، اور دشمنوں کو دہشت گردی کی آڑ میں ملک میں تباہی مچانے کے مواقع ملے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے ملک امریکا کی کالونی بن گیاہے اور معاشی اعتبار سے اس غریب قوم کو محض امریکا اور عالمی ساہوکاری اداروں کی اس خوشنودی کے لیے، جو حاصل بھی نہیں ہوئی اور نہیں ہوسکتی ہے، کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑاہے۔ موجودہ حکومت امریکا کے ڈومور (Do More)کے مطالبات کی اس دلدل میں مزید دھنستی جا رہی ہے، اور جب امریکا اور ناٹو اقوام افغانستان سے نکلنے اورر طالبان سے مذاکرات اور شراکت اقتدار کے معاملات طے کرنے میں مصروف ہیں، حکومت ہمیں اس لڑائی اوراس کے نتیجے میںاندرون ملک رونما ہونے والی تباہی کے طوفان میں مزید جھونکنے کے راستے پر گامزن ہے ۔ہمارے لیے معقول راستہ اب ایک ہی ہے اور وہ امریکا کی اس جنگ سے نکلنا، اور ناٹو اور امریکی افواج کی راہداری کی سہولت کا مکمل اور مستقل خاتمہ ہے۔

عدلیہ کی تضحیک اور محاذ آرائی

انتخابات کے موقع پر تیسرا بڑا مسئلہ پرویزمشرف کی غیر آئینی طور پر معزول کی گئی عدلیہ کی بحالی اوراس کی مکمل آزادی تھا۔ لیکن حکومت نے اپنے سارے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورا ایک سال نہ صرف یہ کہ عدلیہ کی بحالی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ عدالت عظمیٰ کے اہم ترین فیصلوں اوراحکامات کی کھلی خلاف ورزی ، عدلیہ کی تحقیر و تضحیک اور عدالت اور انتظامیہ میں تصادم کا نقشۂ جنگ تیار کیا جا رہاہے۔ این آر او کے فیصلے پر کھلی حکم عدولی کے بعد اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں پیش ہو کر توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دینا پڑگیاہے۔فاضل عدالتوں نے انسانی حقوق کے تحفظ ، کرپشن کے خاتمے، قانون اور ضوابط کی خلاف ورزیوں پر گرفت ، میرٹ سے ہٹ کر تقرریوں اور تبادلوں کو لگام دینے کے لیے جو بھی اقدام کیے تھے، حکومت اور اس کے کارندوں اور خصوصیت سے ایوان صدر سے متعلق افراد نے اسے ناکام کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ جس قابل پولیس افسر کو عدالت نے تفتیش کے لیے مقرر کیا ، اسے اس کام کے لیے فراہم نہیں کیاگیا، اور جس نااہل افسر کو عدالت نے سزا دی   اس کو چشم زدن میں صدر صاحب نے معاف کردیا، اور ایک سے ایک بدنام شخص کواہم ترین مناصب پر فائز کرکے دستور اور عدلیہ کے احکام کی دھجیاں بکھیر دیں۔ حکومت کی طرف سے عدلیہ کے خلاف یہ یک طرفہ جنگ جاری ہے اور وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ اس محاذ آرائی میں پیش پیش ہیں۔ یہ سب انتہائی افسوس ناک ہے۔

بلوچستان کی تشویش ناک صورت حال

بلوچستان میں ہزاروں لاپتا افراد کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ۔ ٹارگٹ کلنگ کا بازار اب بھی گرم ہے، جب کہ ان بے گناہ مقتولین کے قاتل اب تک گرفتار نہیں کیے گئے۔ آغاز حقوق بلوچستان کے اعلان کوقریباً تین سال ہوگئے ہیں مگر اس کاآغاز ہی نہیں ہوسکا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں شکایات کا بازارگرم کیے ہوئے ہیں، جیسے ان کا تعلق حزب اقتدار سے نہیں حزب اختلاف سے ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے عام آدمی کے ورثاء کو ۳،۴ لاکھ اور سرکاری اہل کار کے ورثا کو ۲۰ لاکھ روپے معاوضہ دینے کی حکومتی پالیسی پر چیف جسٹس آف پاکستان کا تبصرہ معنی خیز ہے کہ ’کیا عام آدمی کا خون اہلکار کے خون سے سستاہے‘۔

امریکا کی بڑہتی ھوئی گرفت

امریکا کی پالیسیوں کی اطاعت نے جو محکومی کی شکل اختیار کرچکی تھی، اس کے نتیجے میں صاف نظر آ رہاہے کہ افغانستان میں امریکی جنگ کی معاونت ہو یاان کے مطالبے پر پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف فوج کشی ، ملک میں امریکا اور اس کی ایجنسیوں کی کارگزاریوں یا معاشی امور اور پالیسی پر اس کی گرفت اتنی بڑھ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں اس حکومت کی پالیسیوں اور امریکا کی فرماں برداریوں نے جو شکل اختیار کرلی ہے اس نے ملک کو ایک طفیلی ریاست بنادیا ہے اور امریکا کے مطالبات ہیں کہ کم ہونے کو نہیں آتے ۔ ڈرون حملوں میںگذشتہ تین برسوںمیں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے تھے۔ اس سلسلے میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی مجرمانہ غفلت نے ایسے حالات تک پیدا کردیے تھے کہ امریکی اور ناٹو کے فوجی بھی بار بار پاکستان کی سرزمین پر کھلے بندوں فوجی آپریشن کررہے ہیں اور پاکستان کی حاکمیت اور خود مختاری کو دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کررہے ہیں۔ نیز ٹریننگ کے نام پر امریکا کے اثرات فوج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بڑھتے جا رہے ہیں، اور اس سب کے باوجود امریکی تھنک ٹینکس ، میڈیا اور پارلیمانی کمیٹیوں کے ارکان کھل کر پاکستان کی حکومت ، فوج اور اس کے اداروں پر دوغلی پالیسی اور دھوکا دہی کے بہتان لگاتے رہے ہیں اور پاکستان کے امیج کو داغدار کرنے اور اپنی مزید تابع داری کے لیے بلیک میل کرتے رہے ہیں ۔ ڈرون حملے کچھ عرصہ بند رہنے کے بعد اب پھر شروع ہوگئے ہیں۔

 ملک و قوم کی آزادی اور عزت کی حفاظت میں حکومت کی اس ناکامی سے عوام میں بددلی ، غصہ اور امریکا اور حکومت دونوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔     اس صورت حال کامزید جاری رہنا ملک کے مستقبل کے لیے نہایت خطرناک ہے ۔

بہارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا

بھارت کے معاملے میں بھی حکومت کا رویہ قومی وقار اورملکی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ۔ تجارت کے لیے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا مسئلہ کشمیر سے عملاً انحراف ، مظلوم کشمیریوں کے لہو پر نمک پاشی اور جدوجہد آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ تجارت اور اعتمادسازی کے نام پر اصل اور بنیادی مسائل سے غفلت ایک مجرمانہ فعل ہے ۔ کشمیر اور پانی کا مسئلہ ہمارے کور ایشوز ہیں اور ان کے مستقل اور منصفانہ حل کے بغیر بھارت سے تعلقات درست   نہیںہوسکتے۔ حال ہی میں سیکرٹری خارجہ کی سطح کے مذاکرات ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ بھارتی وزیرخارجہ کا کشمیر کے بارے میں بیان روایتی ضد اور ہٹ دھرمی کا آئینہ دار ہے، نیز بلوچستان اورفاٹا میں بھارت کی کارروائیاں اور خود افغانستان میں اس کی خلافِ پاکستان سرگرمیاں ناقابل برداشت ہیں۔ لیکن حکومت نے ان تمام امور کے سلسلے میں جو بزدلانہ پالیسی اختیار کی ہے      وہ پاکستان کے تزویراتی (strategic) مفادات کے خلاف اور عوام کی امنگوں کے منافی ہے ۔

جمھوری روایات سے انحراف

دستور میں اٹھارھویں اور انیسویں ترامیم کے باوجود حالات میں کوئی قابل ذکر بہتری رونما نہیں ہو رہی ۔ زرداری صاحب عملاً اسی طرح حکومت کے چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتے رہے ہیں جس طرح پرویز مشرف کررہا تھا اور آج بھی ایوان صدر اقتدار کا سرچشمہ اور سازشوں کا گہوارہ بنا ہواہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی واضح اعلان کے باوجود فاٹا کے حقوق اور وہاں کے عوام کو فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے سامراجی قانون سے نجات ،اس علاقے میں دستور کے دیے ہوئے حقوق دینے اور نظامِ عدل کے اجرا کے بجاے حال ہی میں صدارتی ریگولیشن کے ذریعے مالاکنڈ ڈویژن میں ڈی سی او کو اور فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ کو پھانسی کی سزا دینے کے اختیارات تفویض کردیے گئے ہیں۔ یہ انصاف کے خون کے مترادف ہے۔

لاقانونیت اور امن و امان کی ابتر صورت حال

ملک میں لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔ کسی جگہ بھی عام شہریوں کو جان ، مال او رآبرو کی حفاظت حاصل نہیں۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں حکومت اور اس کی ایجنسیاں بالکل ناکام رہی ہیں۔ کراچی جیسے شہر میںگذشتہ ایک سال میں ۲ہزار سے زیادہ افرا د کو نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار ا گیاہے۔ بالخصوص گذشتہ سال ماہ جولائی ، اگست میں کراچی میں بے گناہ افراد کا بہیمانہ اور شرم ناک قتل عام ہوا ہے، مگر ایک بھی قاتل کو سزا نہیں ملی۔ کراچی میں ۱۲مئی ،۱۲ربیع الاول، ۹؍اپریل اور ۱۰محرم الحرام کے مجرموں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی، اور سندھ میں تقریباً چار سال تک برسراقتدار تینوں جماعتیں ایک دوسرے پر انگشت نمائی اور الزام تراشیاں کرتی رہی ہیں ۔

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ،ٹارچر سیلوں ،نوگو ایریاز اور بوری بندلاشوں کے معاملات پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد عوام کو توقع تھی کہ کراچی میں امن عامہ کے مسائل پر سپریم کورٹ کوئی واضح ، دوٹوک ،پایدار ،حقیقی اور مستقل حل پیش کرے گی ۔ لیکن بد قسمتی سے   سپریم کورٹ نے مسائل کی نشان دہی کرنے کے بعد حل کی ذمہ داری انھی حکمرانوں پر ڈال دی ہے کہ جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیںاور جن کو خود سپریم کورٹ نے ناکام قرار دیاہے۔  جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ سپریم کورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے کے مطابق براہِ راست نگرانی کو مزید فعال و با مقصد بنائے تاکہ کراچی میں وقتی نہیں بلکہ حقیقی امن قائم ہوسکے ۔

بے نظیر بہٹو کے قاتلوں کو تحفظ

 محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل مجرموں اور اس جرم کے معاونین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اس حکومت نے جو انھی کے خون کی بدولت اقتدار میں آئی، کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی ہے ۔ اس دعوے کے باوجود کہ اصل مجرموں کو صدر صاحب جانتے ہیں، ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا اور دو تین ہفتے میں اس رپورٹ پر کارروائی کے وعدوں کے باوجود کوئی قابل ذکراور نتیجہ خیز کارروائی نہیں ہوئی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ مجرموں کو تحفظ فراہم کیا جا رہاہے ۔نیز اس حادثے کے موقع پر پیپلز پارٹی کے اپنے سیکورٹی کے نظام کی ناکامی کے جولوگ ذمہ دار ہیں اور جن پر کمیشن کی رپورٹ میںبھی واضح اشارے کیے گئے ہیں، وہ بھی صدر صاحب کے سایے میں محفوظ ہیں ۔

ناکام معاشی پالیسی

معاشی اعتبار سے گذشتہ چار برسوں میں ملک میںجو بگاڑ رونما ہوا ہے اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔معاشی پالیسی سازی امریکا او رعالمی اداروں کی گرفت میں رہی ہے۔ یہ حکومت چار سال میں چار وزیرخزانہ ،چاروزارت خزانہ کے سیکرٹری اور اسٹیٹ بنک کے تین گورنرلگاچکی ہے لیکن آج تک کوئی مربوط معاشی پالیسی وجودمیں نہیں آسکی۔ قرضوں کا بار ناقابل برداشت ہوگیا ہے اور آج پاکستان میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم ۱۲۰کھرب روپے سے متجاوزہو گیاہے اور صرف سالانہ سود اور ادایگی قرض کے لیے ۹سو ارب روپے سے بھی زیادہ اداکرنے پڑ رہے ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آج غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر ساہو کاروں کو دیاجا رہاہے اور ان قرضوں کی ادایگی کے لیے نئے قرض لینے پڑ رہے ہیں جس کی بھاری قیمت موجودہ اور آیندہ نسلوں کوادا کرنا ہوگی ۔

مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ بے روزگاری بے تحاشا بڑ ھ رہی ہے ۔ غربت میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے اور بھوک اور افلاس کی وجہ سے اموات اورگھر کے کئی افرادکی خودکشی کی نوبت آگئی ہے جس کی ہماری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ۔ خود فیڈرل بور ڈ آف ریونیو (FBR) کے سربراہ نے کچھ عرصہ پہلے واضح اعتراف کیا تھا کہ ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور مطالبہ کیاگیا کہ حکومت کے قرض لینے پر فوری پابندی لاگو کی جائے۔سپریم کورٹ نے اربوں روپے کے قرضے مختلف بنکوں کی طرف سے معاف کرنے کے از خودنوٹس لینے کے مقدمے کی سماعت کے دوران میں سٹیٹ بنک کے وکیل نے بتایاتھا کہ ۱۹۷۱ء سے لے کر دسمبر۲۰۰۹ء تک ۵۰ہزار سے زائد افراد کے ۲۵۶؍ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے اور گذشتہ دو برسوں کے دوران ۵۰؍ارب روپے کے قرضے نجی بنکوں نے معاف کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ نجی بنک کیسے قرض معا ف کرسکتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ آیا من مانے طریقے سے تو قرضے معاف نہیں کیے گئے ہیں۔ فاضل عدالت نے غیر قانونی طور پر معاف کیے گئے قرضوں کی رقوم وصول کرنے کے عزم کا اظہاران الفاظ میں کیاہے کہ ’’قومی دولت کو واپس لانے کے لیے عدالت کسی حد تک بھی جاسکتی ہے‘‘۔ موجودہ عالمی دبائو کے تناظرمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ۱۹۷؍ارب ڈالر کی بیرون ملک جمع لوٹی ہوئی دولت اور سیاست دانوں کے سوئٹزرلینڈ، اسپین اور دوسرے بیرون ملک بنکوں میں جمع رقوم کوملک کے اندربلاتاخیر لانے کے لیے واضح قانون سازی اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

کرپشن کی انتھا اور اداروں کی تباھی

 حکومت کے ہر شعبے اور زندگی کے ہر میدان میں کرپشن اور بدعنوانی میںبے تحاشا اضافہ ہو رہاہے۔ ورلڈ بنک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کے مطابق کرپشن میں ان چاربرسوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ احتساب کا نظام ناپیداور احتساب کے قانون کا مسودہ چار سال سے   قومی اسمبلی میں پھنسا ہوا ہے اورصرف اس لیے کہ حکومت اسے کرپشن کے تحفظ کا قانون بنانے پر تلی ہوئی ہے، کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ۔سروسز میں تقرریوں ، تبادلوں اور ترقیوں میں میرٹ کا خون کیا جارہاہے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں اور تادیبی اقدام کی سفارش کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے ۔ ہر سطح پر سیاسی بنیادوں پر تقرریاں کی جارہی ہیں اور قومی ملکیت میں اہم ترین ادارے بشمول اسٹیل مل ،پی آئی اے ،واپڈا ، ریلوے ،نیشنل انشورنس کارپوریشن اور ٹریڈنگ کارپوریشن، خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں اور ۴۰۰؍ارب روپے عوام کے منہ سے چھین کر ان سفید ہاتھیوں کی نذر کیے گئے ہیں ۔ پبلک سیکٹر ارباب اقتدار کی سیاسی مداخلت ، اقربا پروری اور دل پسند نااہل افراد کی تقرریوں کی وجہ سے تباہ ہوچکاہے ۔

توانائی کا سنگین ترین بحران

ملک میں توانائی کابحران اپنی انتہا کو پہنچ گیاہے۔ عوام بجلی ، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہوگئے ہیں ۔اس کے باوجود یکم جنوری سے گیس کی قیمت میں ۱۴ فی صداضافہ اورتیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرلیاگیاہے۔ یہ ظالمانہ فیصلہ ہے۔ اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بدترین صورت اختیار کرچکی ہے ۔ ہزاروں صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور زراعت جس پر ۶۰،۷۰ فی صد آبادی کا انحصار ہے ایک بحران کے بعد دوسرے سنگین تر بحران کا شکار ہے۔ راولپنڈی ،اسلام آباد ، لاہور اور کئی دوسرے شہروں میں گھروں کے چولھے ٹھنڈے ہوجانے سے جو بدترین احتجاجی مظاہرے ہوئے وہ بھی حکومت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئے،بلکہ نام نہاد عوامی حکومت نے ملک بھر کے عوام کے مطالبے پر توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیںکیا ہے۔

موجودہ حکومت سے نجات کی ضرورت

جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ پوری دیانت سے محسوس کرتی ہے کہ موجودہ حکومت    بُری طرح ناکام ہوچکی ہے، اور اس کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام بے پناہ  مصائب و مشکلات کا شکار ہیں اور ملک شدید بحران میں مبتلا ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان حالات کی اصلاح، رابطہ عوام مہم کے ذریعے عوام کی بیداری اور امریکا کی غلامی سے نجات کے لیے سرگرم عمل ہے، اوررابطہ عوام مہم کے سلسلے میں راولپنڈی ،اسلام آباد،پشاور ، لاہوراور کراچی کے عوامی جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت اور پذیرائی سے ثابت ہواہے کہ عوام موجودہ حکومت سے بے زار ہیںاور ان کی نگاہ میں ایک صاف ستھری جرأت مند اور باصلاحیت اسلامی قیادت ہی مسائل کا حل ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کومخلصانہ دعوت دیتی ہے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت ،ملک میں حقیقی امن وامان کے قیام،معاشی حالات کی اصلاح اور عوام کو انصاف اور چین کی زندگی کے حصول کی جدوجہد کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہوجائیںتاکہ یہ قوم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی راہ پر آگے بڑھ سکے۔ وطن عزیز پاکستان ملت اسلامیہ پاک و ہند  نے بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور اس کے ۱۸ کرو ڑ انسان اپنی آزادی ، عزت اور حقوق کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ پاکستان جو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور ایک مقدس امانت ہے، اس کی حفاظت اور اسلامی اور جمہوری بنیادوں پر اس کی ترقی اور استحکام کے لیے میدان میں اُتریں اور مؤثر اور پرامن آئینی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا ،قومی مقاصد کے حصول اور ملک اور اس کے عوام کو موجودہ بحرانوں سے نجات دلانے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔

مرکزی مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران سانحۂ ایبٹ آباد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم سے میمو کے بارے میں پوچھنے والے بتائیں کہ چھے برسوں سے اُسامہ بن لادن کس کے ویزے پر یہاں تھا، اپنے ملک کے اداروں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش ہے۔ ان کا یہ بیان بحیثیت وزیراعظم کے اٹھائے گئے اپنے حلف کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ 

اجلاس محسوس کرتاہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی عدلیہ اور فوج سے مسلسل محاذ آرائی اور دھمکیاں اداروں میں ٹکرائوکا باعث بنیں گی۔ اس طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر سیاسی شہادت کی کوشش کررہی ہے۔

اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے جو کام چار برسوں میں نہ کرسکی اب مزیدچندمہینوں میں کیا کرے گی، اس لیے ایک غیر جانب دار عبوری انتظامیہ اور ایک بااختیار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی الیکشن کا اعلان کیا جائے تاکہ قوم اپنے مسائل کے حل کے لیے نئی قیادت کا انتخاب کرسکے۔

مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس یہ بھی واضح کرتاہے کہ حکومت کی ناکامی کا بہانہ بنا کر اگر کسی غیر جمہوری، غیرآئینی شب خون مارنے کی کوشش کی گئی تو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ مجلس شوریٰ کی نظر میں ایسا ہر اقدام ملک و قوم کے بے پناہ مصائب میں اضافے کا ذریعہ بنے گا۔ مرکزی مجلس شوریٰ ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور اور تمام قومی اداروں پر واضح کرتی ہے کہ ہرسیاسی بحران کا حل آئین پاکستان میں موجود ہے ۔ اس لیے صرف آئینی راستوں کو اختیار کیا جائے ۔ موجودہ حکومت کی کرپشن اور ہرلحاظ سے ناکامی کی بنا پر اس حکومت سے جلد ازجلد نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

۲۰۱۱ء اہل پاکستان کے لیے گوناگوں اور غیرمعمولی صدمات کا سال ہونے کی حیثیت سے تاریخِ پاکستان کے حوالے سے ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔

حادثات کا یہ سلسلہ جنوری میں ریمنڈ ڈیوس کے خونیں واقعے سے شروع ہوا۔ پھر    ۲مئی (ایبٹ آباد) کا واقعہ رونما ہوا، ۲۲مئی کو کراچی میں مہران نیول بیس پر حملہ ہوا، ۲۶نومبرکو  سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی افواج نے جارحانہ حملہ کیا اور گذشتہ تین ماہ سے ہم میمو سکینڈل میں  اُلجھے ہوئے ہیں۔ غرض حقائق پر پردہ ڈالنے اور قومی احتساب سے فرار کے لیے طرح طرح کی بھونڈی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ صاف نظرآرہا ہے کہ حکومت ِ وقت اس طرح ایک عیارانہ منصوبہ بندی کے تحت عدلیہ اور فوج کے درمیان تصادم اور تقسیم اختیارات کے دستوری فارمولے کو پارہ پارہ کرتے ہوئے حکومتی اداروں کے درمیان کش مکش اور ٹکرائو کا خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے پونے چار سال میں عوام کے اعتماد اور مینڈیٹ کو نہایت بری طرح پامال کیا ہے۔ اس وجہ سے موجودہ حکومت اخلاقی سطح پر اپنا حقِ حکمرانی کھوچکی ہے جو فروری ۲۰۰۸ء میں اسے حاصل ہوا تھا۔

یہ وہ پس منظر ہے جس میں اس وقت میمو سکینڈل نے غیر معمولی اہمیت حاصل کر لی ہے۔  پھر اقتدار میں آنے کے بعد زرداری گیلانی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کی وضع کردہ تمام پالیسیوں کو جاری رکھا، حالانکہ قوم پہلے ہی دن سے ان پر ناخوش اور معترض تھی۔

یہی وہ چیز تھی جس نے امریکا کو یہ حوصلہ اور موقع دیا کہ اس نے افغانستان میں اپنے  جنگی عزائم کو بروے کار لا کر سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کو ایک زینے کے طور پر استعمال کیا۔ یوں پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور حاکمیت کو پارہ پارہ کیا اور پاکستان کے سیاسی، معاشی اور تعلیمی شعبوں، حتیٰ کہ نظریاتی دائرے میں بھی اس کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا کہ  بڑے پیمانے پر تعاون کے حاصل کرنے کے بعد اسے نچلی سطح تک تعاون حاصل کرنے کی ہمت ہوئی اور ہزاروں کی تعداد میں امریکی اہل کار (operators)  پاکستان کی سرزمین پر سرگرم عمل ہوگئے۔ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ اس باب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار کر اور اس کے سرپرستوں نے ایک پاکستانی شہری کو کار کے ذریعے شہید کر دیا۔ پھر حکومتی رضامندی، اور اعانت سے امریکی پوری دیدہ دلیری سے قاتل کو چھڑا کر لے گئے۔ اس سانحے نے عوام اور تمام ہی سیاسی اور دینی قوتوں کو بیدار کر دیا۔ اس سلسلے میں حکومت اور اس کی ایجنسیوں نے جو گھنائونا کردار ادا کیا، اُس نے عوام کو زرداری گیلانی حکومت سے مکمل طور پر مایوس کر دیا اور امریکا کو یہ حوصلہ ہوا کہ وہ ۲مئی ۲۰۱۱ء کو ایبٹ آباد پر حملہ کرکے شیخ اسامہ بن لادن کے قتل کا ڈراما رچائے۔ تقریباً دو گھنٹے تک یہ عمل جاری رہا اور ایبٹ آباد کے تمام ہی باسی بچشم سر،   اس فوجی آپریشن کا نظارہ کرتے رہے، لیکن فضائیہ، زمینی افواج اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کا کہیں بھی وجود نہ تھا۔

ستم بالاے ستم یہ کہ اگلے ہی دن صدرزرداری کا مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا مگر اس میں ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے خلاف مذمت کا ایک لفظ بھی موجود نہ تھا، بلکہ اس آپریشن کو ایک مشترک کارنامہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ وزیر اعظم گیلانی نے پاکستانی سرزمین پر امریکی حملے اور پاکستانی زمین پر موجود افراد کو (جو کوئی بھی ہو) قتل کرنے کے اس جُرم کو ’ایک فتح‘ قرار دیا۔ وزارتِ خارجہ کا پہلا بیان نہایت بودا اور شرم ناک تھا اور پیپلز پارٹی کے دو بڑے وکیلوں (یعنی امریکا میں ان کے سفیر جناب حسین حقانی اور برطانیہ میں ان کے ہائی کمیشن واجدشمس الحسن صاحب) نے نہ صرف اس واقعے پر امریکا کو اشیرباد دی بلکہ اس میں پاکستان کے تعاون کا ذلت آمیز دعویٰ بھی کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی دستوری ذمہ داری کو ادا کرنے میں مکمل طور پر  ناکام رہی اور امریکا کے اس دھڑلے سے حملے پر تمام ایجنسیاں، ادارے اور ملک کی سرحدوں اور حاکمیت کا دفاع کرنے والی قوتیں محض تماشائی کا کردار ادا کرنے اور اپنے فرائض منصبی کی ادایگی سے یکسر قاصر رہیں۔ اس چیز نے بڑے بنیادی سوالات کو جنم دیا۔

امریکا کی دل چسپی شیخ اسامہ یا القاعدہ میں تھی لیکن اب تک یہ امر غیر ثابت شدہ ہے کہ اسامہ بن لادن واقعی ایبٹ آباد کے اس مکان میں موجود تھے جس پر امریکی فوجوں نے حملہ کیا،  اور چار افراد کو قتل کرکے ایک لاش اپنے ساتھ لے کر دندناتے ہوئے واپس چلے گئے۔ اس    واقعے میں پاکستان کے لیے اصل اہمیت جس سوال کی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا  نے کس طرح اس جرأت و بے باکی کے ساتھ ہماری حاکمیت اور سرحدوں کے تقدس کو پامال کیا، ہماری سرزمین پر چار افراد کو کسی قانونی استحقاق، اور قانون کے مسلّمہ ضابطے کو تارتار کرکے اور ہماری حاکمیت کو پامال کرتے ہوئے بڑی بے دردی سے قتل کیا۔ ہمارے نزدیک یہ کم از کم تین حیثیتوں سے ایک جرمِ عظیم ہے:

۱- پاکستان کی حاکمیت اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی۔

۲- اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی کھلی کھلی خلاف ورزی۔

۳- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جو بھی لولا لنگڑا اختیار امریکا اور ناٹو کو دیا تھا، یہ اس کی بھی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے کہ یہ اقدام افغانستان کے باہر فوجی آپریشن کے ذریعے کیا گیا ہے۔

ان تین قانونی اور سیاسی وجوہ کے علاوہ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ امریکا ہمیں اپنا نان ناٹو اتحادی قرار دیتا رہا ہے اور کم از کم پچھلے ۱۰ سال سے اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ لیکن ایک اتحادی، دوست اور رفیق کار کے خلاف اس قسم کی فوج کشی اور وہ بھی اس سینہ زوری کے ساتھ، اس نے امریکا سے ہمارے پورے تعلق کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستانی عوام ہی نہیں دنیا بھر کے انسانوں نے امریکا کو نہ صرف یہ کہ دوست ملک نہیں سمجھا ہے بلکہ خود امریکی اداروں کے تحت عوامی راے جاننے کے لیے جو سروے کرائے گئے ان کے مطابق تیسری دنیا کی اکثریت نے امریکا کو دوست نہیں قرار دیا۔ یہ ناراضی اور بے زاری امریکا کی سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں امریکا کی پالیسیوں اور اس کی کار روائیوں کی تائید کرنے والے صرف ۷ فی صد ہیں، جب کہ ۹۳ فی صد نے امریکا کی پالیسیوں اور اس کے کردار کی یا پُرزور مذمت کی ہے یا وہ امریکا سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستانی عوام کو کبھی بھی امریکا کی دوستی پر اعتماد نہیں تھا۔ یہ صرف حکمران تھے جنھوں نے عوام کے جذبات کے علی الرغم امریکا سے دوستی کا رشتہ استوار کیا اور اس کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کیا، لیکن اب وہ لمحہ آگیا جب خود ان کے لیے بھی یہ حملہ ایک شرم ناک تازیانے سے کم نہ تھا۔

۲ مئی کے واقعے پر ایک کمیشن قائم کر دیا گیا۔ یہ کمیشن چار ماہ سے اس مسئلے کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ کمیشن حقائق کی پردہ پوشی نہیں کرے گا۔  قوم اور پارلیمنٹ کو تمام حقائق سے آگاہ کرے گا اور دوٹوک انداز میں ان تینوں سوالوں کے جواب فراہم کرے گا کہ جو کچھ ہوا، وہ کیا تھا؟ بروقت اس پر ردّعمل نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا، اور یہ کہ کس طرح اس کا تعلق نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے شریک کار ہونے سے ہے؟اس لیے کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس شرکت کے نتیجے میں نہ صرف دوسروں کی جنگ ہم پر مسلط ہوئی بلکہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان وہ پاکستانی قوم برداشت کر رہی ہے جس کا نائن الیون کے مذموم واقعے سے دُور و نزدیک کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ سرکاری اعلانات اس امر پر شاہد ہیں کہ ۳۶ہزار عام پاکستانی شہری اور ۶ سے ۱۰ ہزار فوجی یا فرنٹیر کور اور پولیس کے افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کی آماج گاہ بن گئی ہے جس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں جان و مال کا تحفظ باقی نہیں رہا۔ وہ فوج جس سے عوام محبت کرتے تھے اور جسے اپنی آزادی اور عزت کا محافظ سمجھتے تھے، اس کے اور عوام کے درمیان دُوریاں بڑھ گئی ہیں۔شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپ (Robert Pape) نے اپنی تازہ ترین کتاب Cutting the Fuse میں جہاں افغانستان اور عراق کو امریکا کے مقبوضہ ممالک قرار دیا ہے، وہیں پاکستان پر ایک باب لکھا ہے۔ پاکستان کو بطور مثال امریکا کے بالواسطہ مقبوضہ (Indirect Occupied) ملک کے طور پر پیش کیا ہے جو نہ صرف باعث ِ شرم ہے بلکہ ہماری آزادی کو عملاً غلامی میں تبدیل کیے جانے کے مترادف ہے۔

اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں جو معاشی تباہی آئی ہے وہ ہر اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔ وزارتِ خزانہ، امریکا سے ملنے والی ۵؍ ارب ڈالر کی امداد کے مقابلے میں نقصان کو ۶۷؍ارب ڈالر قرار دیتی ہے لیکن اس میں انسانی جانوں کے اتلاف، زخمیوں کی دیکھ بھال کے معاشی مصارف اور پورے ملک میں انفراسٹرکچر میں جو سیکڑوں ارب روپے کا نقصان (wear & tear) ہوا اس کا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ اگر ان تمام چیزوںکو معاشی نقصان کی شکل میں شمار کیا جائے تو اس تباہی کی معاشی قیمت ۱۰۰ سے ۱۵۰ ارب ڈالر سے کم نہیں ہوسکتی جو ہماری پوری سالانہ    قومی پیداوار کے قریب قریب ہے۔ اس سب کے باوجود ۲مئی کو امریکا کی ہوائی افواج نے پاکستان کی مقدس سرزمین پر حملہ کیا، اور پھر ۲۶ نومبر کو ایک دوسرا بڑا حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں ہماری    دو فوجی چوکیاں تباہ کردی گئیں۔۲۴ جوانوں کو شہید کردیا گیا،۱۷ زخمی ہوئے اور پورے دو گھنٹے تک امریکی ہیلی کاپٹر میزائلوں کی بارش کرتے رہے اور ان ہیلی کاپٹروں کو تحفظ دینے کے لیے ایف-۱۶ طیارے فضا میں موجود رہے۔ امریکا کے اس اقدام کو بین الاقوامی قانون میں Act of War کے علاوہ کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ امریکی جارحیت اتنی گھنائونی اور خوف ناک تھی کہ فوج اور حکومت بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے پر مجبور ہوئی اور عوامی دبائو کے تحت حکومت کو تین اقدام کرنے پڑے، یعنی پاکستانی سرزمین پر ناٹو اور امریکیوں کے لیے سازوسامان اور اشیاے ضرورت کی سپلائی کے لیے راہ داری کے حقوق کو معطل کرنا، شمسی ایربیس کو خالی کرانا، اور بون کانفرنس میں عدم شرکت۔ بلاشبہہ یہ اقدام عوام کی خواہشات کے مطابق اور ان کے غم و غصے کو کسی حد تک     کم کرنے کا باعث ہوئے لیکن یہ وقتی اقدام ہیں، اہم ترین مسائل کچھ اور ہیں جن کا قوم، پارلیمنٹ اور سیاسی و عسکری قیادت کو دوٹوک انداز میں سامنا کرنا ہوگا، وہ مسائل یہ ہیں:

امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے پاکستان کو جلد از جلد نکالنا اور  اس سلسلے میں امریکا جو سامراجی اور خونیں کھیل اس علاقے میں کھیل رہا ہے اور اس میں پاکستان کو بطور ایک کارندے کے استعمال کر رہا ہے، اس سے مکمل طور پر اپنے کو علیحدہ (delink) کرنا ہے۔  دوسرے یہ کہ کھلے ذہن کے ساتھ اور آنکھیں بھی پوری طرح کھلی رکھ کر امریکا سے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے سفارتی و اقتصادی روابط اور تعلقات استوار کیے جائیں، البتہ اس کی بنیاد حقائق پر ہونی چاہیے۔ محض خوف، خواہشات اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر جو پالیسی بنتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ امریکا اور پاکستان میں جو طاقت کا عدم توازن ہے وہ ایک زمینی حقیقت ہے اور اسے کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ اس سے بھی بڑی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور الحمدللہ ایک نیوکلیر پاور بھی ہے۔ جہاں یہ ضروری ہے کہ دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کیا جائے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قیمت پر اور کسی بھی شکل میں خود اپنے حقوق اور مفادات کو پامال نہ ہونے دیا جائے اور ان کی مکمل حفاظت کی جائے۔

ان تمام نقصانات کے علاوہ جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے امریکا نے کم از کم تین حیثیتوں سے پاکستان کی آزادی، خودمختاری، حاکمیت اور سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے اور مستقبل میں تعلقات کی جو شکل بھی مرتب کی جائے، اس میں ان تینوں اُمور کے بارے میں دو اور دو چار کی طرح یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ان میں امریکا کی مداخلت کسی صورت اور کسی حیثیت میں قبول نہیں کی جاسکتی:

۱- پاکستان کی آزادی اور حاکمیت اور پالیسی سازی کا غیرمشروط اختیار۔ بلاشبہہ جن امور کے بارے میں ہمارے اور امریکا کے سیاسی اور معاشی مقاصد اور اسٹرے ٹیجک مفادات مشترک ہوں، وہاں باوقار تعاون کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے، اور جہاں اُن میں اختلاف ہے، وہاں ہماری اوّلین ترجیح اپنے مقاصد کا حصول اور اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی گنجایش نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے ان مقاصد اور مفادات پر امریکا یا کسی اور کی طرف سے کوئی آنچ بھی آسکے۔

۲- کسی بھی شکل میں پاکستان کی جغرافیائی ، زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی   ناقابلِ برداشت ہے۔ امریکی فوجیوں کو زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی (بشمول ڈرون حملوں) کی اجازت نہ ہوگی۔ اسی طرح پاکستان کی سرزمین پر امریکی جاسوسوں، فوجیوں یا دوسرے کارندوں کی موجودگی اور خفیہ آپریشن کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ویزے اور نگرانی کے نظام کو مؤثر بنایا جائے۔ پاکستان کی سرزمین پر جو محفوظ سازشی اڈے امریکیوں نے سفارت کاری کے نام پر یا کسی دوسری شکل میں قائم کیے ہوئے ہیں، ان کو بھی مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے، اور ان کے سفارت خانوں اور سفارت کاروں کو بھی صرف وہی سہولتیں حاصل ہوں جن کی گنجایش ویانا کنونشن میں دی گئی ہے۔

۳- اس وقت ملٹری اور سول امداد کے نام پر امریکا پر انحصار بلکہ اس کی محتاجی کی جو کیفیت ہے اس پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ’ایڈ‘ (aid)کی خطرناک خوراک کو بند کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی جو بھی دفاعی ضروریات ہیں وہ عالمی منڈی بشمول امریکا سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ جہاں تک امریکی معاشی امداد کا تعلق ہے اس سے مکمل طور پر معذرت کرلی جائے۔ جیساکہ ہیلری کلنٹن نے اپنی پاکستان یاترا کے دوران اشارہ دیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشی امداد سرتاسر ایک نقصان کا سودا ہے۔ نیویارک ریویو آف بکس (۲۹ستمبر ۲۰۱۱ئ) کے ایک مضمون میں امریکا ہی کے ایک آزاد ادارے سنٹرل گلوبل ڈویلپمنٹ (Central Global Development) کے ایک تجزیے کے مطابق گذشتہ نوبرس میں پاکستان میں جو معاشی امداد آئی ہے وہ صرف ۳ئ۴؍ارب ڈالر ہے، دوسرے لفظوں میں ۴۸۰ملین ڈالر سالانہ تھی۔ اسے پاکستان کی ۱۸کروڑ آبادی پر تقسیم کیا جائے تو سالانہ ۶۷ئ۲ ڈالر فی کس بنتی ہے۔ نیویارک ریویو آف بکس کا مقالہ نگار لکھتا ہے:

یہ لاہور میں چھے انچ کے پیزا کی قیمت ہے جس پر پیزاہٹ کی طرف سے کوئی اضافی topping بھی نہیں دی جاتی۔

یہ ہے اس معاشی امداد کی حقیقت جس کے نتیجے میں ہمارے ہاتھوں میں امریکا کی ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو راہ داری کی سہولتیں امریکا اور ناٹو کو گذشتہ ۱۰برسوں میں حاصل رہی ہیں اگر دنیا کے معروف قاعدے کے مطابق ان پر راہ داری ٹیکس لگایا جاتا اور انھیں ٹیکس اور کسٹم سے مکمل استثنیٰ نہ دیا گیا ہوتا، تو کم از کم ۴ سے ۵؍ارب ڈالر سالانہ صرف سروس چارجز کی شکل میں وصول کیے جاسکتے تھے۔ ترکی نے non-lethal سامان کی راہ داری کے لیے ۶؍ ارب ڈالر سالانہ اسی امریکا سے وصول کیے ہیں، جس کو ہم نے یہ ساری سہولتیں مفت دے رکھی ہیں۔ اس سے بڑی قومی مفاد سے غداری اور کیا ہوسکتی ہے۔ ایک طرف یہ ڈھائی ڈالر فی کس کی امداد ہے جس کے ساتھ سیکڑوں شرائط بھی لگائی گئی ہیں اور جسے بالعموم اپنی خودپسند این جی اوز کے ذریعے ملک میں اپنی لابی بنانے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم اس ۴۸۰ ملین ڈالر سالانہ کا مقابلہ پاکستانیوں کی ان ترسیلات سے کریں جو وہ اپنے ملک میں بھیج رہے ہیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اس وقت یہ ترسیلات ۱۱؍ارب ڈالر سالانہ ہیں لیکن افسوس کہ ان کو بھی صحیح انداز میں دیرپا معاشی ترقی کے حصول اور خوش حالی کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا۔ آیندہ امریکا سے دوطرفہ تعلقات میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ امریکا سے تمام معاملات تجارتی اور سفارتی بنیادوں پر دونوں ممالک کے مشترک مفادات کی روشنی میں استوار کیے جائیں گے، اور جو یک طرفہ کھیل امریکاکھیل رہا ہے اس کا باب اب بند ہونا چاہیے۔

امریکا اور ناٹو کو راہ داری کا جو حق دیا گیا ہے اس کو ہرگز اس وقت تک بحال نہ کیا جائے جب تک کہ امریکا سے تعلقات کا نیا فریم ورک طے نہ ہوجائے۔ نیزہرچیز ضبطِ تحریر میں لائی جائے اور قوم اور پارلیمنٹ کو مکمل اعتماد میں لیا جائے۔ اس کے بعد تجارت اور خود راہ داری کے معاملات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دنیا کے معروف قوانین اور ضوابط کے مطابق جو بھی سامان پاکستان کی سرزمین سے بھیجاجائے اس کی اسکریننگ ہو اور اس میں کوئی ایسی چیز نہ بھیجی جائے جو پاکستان کے قانون یا مفاد کے خلاف ہو، نیز پاکستانی سرزمین پر اس کا کنٹرول پاکستانی اداروں کے ہاتھ میں ہو تاکہ اسمگلنگ اور اسلحے کے ناجائز پھیلائو کو روکا جاسکے، اور راہ داری کی  اس سہولت پر دنیا کے معروف ضابطوں کی روشنی میں مکمل سروس چارجز اور ٹیکس وصول کیا جائے۔

 ۲مئی، ۲۲مئی اور ۲۶نومبر کے واقعات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ ہمارا انٹیلی جنس اور دفاع دونوں کا نظام نہایت خام اور نامکمل ہے۔ ہم کوئی راز فاش نہیں کر رہے ہیں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فضائیہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اور سول ایوی ایشن دونوں کا نظام ہرلمحے اتنا چوکس ہونا چاہیے کہ پاکستان کی فضائی حدود میں اگر کوئی بھی داخل ہو، خواہ دوست ہو یا دشمن (hostile) تو دو منٹ کے اندر انھیں معلوم ہوجائے کہ ہماری حدود میں کوئی داخل ہوا ہے اور پھر مناسب وارننگ کے بعد اگر یہ دشمنی پر مبنی دراندازی ہے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔

اس کے لیے تین قسم کے نظام  وضع کیے گئے تھے۔ ان میں ایک electro magnatic pulse تھا جس کے لیے پورے ملک کو مختلف سیکٹر میں بانٹ کر ریڈار کا نظام نصب کیا گیا تھا۔  دوسرا مینول مانٹیرنگ نظام تھا جس کے لیے ہر ساڑھے سات کلومیٹر پر ایک انسانی انتظام ایسی دُوربینوںکے ساتھ، جو تقریباً تین کلومیٹر تک دیکھ سکتی ہوں تاکہ پورے بارڈر کی نگرانی کی جاسکے۔ تیسرا نظام ریڈیو مانٹیرنگ کا تھا۔ اس امر کے بے لاگ جائزے کی ضرورت ہے کہ یہ تینوں نظام افغان سرحد پر کیوں غیر مؤثر رہے اور اس سلسلے میں جو بھی افراد فرض کی عدم ادایگی کے مرتکب ہوئے ہیں ان کا تعین اور ان کو قرارواقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ آیندہ کے لیے ایسی کوتاہی (lapse) نہ ہو۔ یہ بات بہت ہی حیران کن ہے کہ ۲مئی کی کوتاہی کے بعد ۲۶نومبر کو بھی اسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب کیا گیا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان چھے مہینوں میں دفاعی حوالے سے فضائی نگرانی کے نظام میں کوئی جوہری بہتری نہیں کی گئی۔ اس کی بھی جواب دہی ضروری ہے۔

 

ایک آخری بات جو ہم قوم اور قیادت دونوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، وہ ہے جس کا تعلق اُس بدنامِ زمانہ میمورنڈم سے ہے جو اس وقت پوری قوم، میڈیا، پارلیمانی کمیٹی براے    قومی سلامتی اور سپریم کورٹ، ہر جگہ زیربحث ہے۔ یہ میمو ۲مئی کے واقعے کے فوراً بعد تیار کیا گیا ہے اور بظاہر اس کا پس منظر یہ ہے کہ فوج، سول حکومت کا دائرہ تنگ کررہی ہے اور اسے قابو میں رکھنے کے لیے اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ امریکی قیادت پاکستان کی فوجی قیادت کو لگام دے اور اسے مجبور کرے کہ وہ سول قیادت کے حسب ِ منشا کام کرے۔

بظاہر اس میمو کی تیاری میں مرکزی کردار امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور منصوراعجاز نے اداکیا ہے، جو ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری ہے جس کے والد مذہباً قادیانی تھے اور پاکستان کے نیوکلیئر اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ تھے۔ منصور اعجاز نے گذشتہ ۱۵/۲۰ برس میں ایک طرف بزنس مین کی حیثیت سے کافی دولت کمائی اور دوسری طرف امریکا کی اہم شخصیات بشمول سی آئی اے اور امریکاکی فوجی اور سیاسی قیادت سے اس کے مراسم تھے اور بزعمِ خود بیک چینل ڈپلومیسی میں بھارت، پاکستان، سوڈان اور متعدد ممالک کے سلسلے میں خدمات انجام دی ہیں۔ منصور اعجاز کس کردار کا شخص ہے یہ ہمارے لیے اتنا اہم نہیں جتنا میمو اور اس کے مندرجات کا مسئلہ اہم ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ میمو ایک حقیقت ہے اور یہ بھی ناقابلِ تردید امر ہے کہ یہ میمو جنرل جونز کے ذریعے  اس وقت کے چیف آف اسٹاف ایڈمرل مولن کے ہاتھوں میں پہنچا۔ البتہ جو چیز تحقیق طلب ہے، وہ یہ ہے کہ اس میمورنڈم کے تصور کا آغاز کہاں سے ہوا اور فی الحقیقت کون سی شخصیت یا ادارہ ہے جو اس کے پیچھے ہے، اور دوسری طرف اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ تیسری بات یہ کہ اس وقت اس کی اشاعت کن مقاصد کے تحت ہوئی اور کون نشانہ ہے؟

یہ بات بھی ایک مسلّمہ امر ہے کہ میمو کا تعلق ۲مئی کے واقعے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات سے ہے۔ اسی طرح ۳مئی کا صدر زرداری کا واشنگٹن پوسٹ میں   شائع ہونے والا مضمون، اس کے بعد میمو کی اشاعت، آئی ایس آئی کے سربراہ کی منصور اعجاز سے ملاقات، چیف آف اسٹاف کی صدر اور وزیراعظم سے ملاقات اور اس پر اصرارکہ معاملے کی تحقیق کی جائے اور حسین حقانی کو بلایا جائے___ یہ سب بھی حقائق ہیں۔ ابتدا میں جنرل مولن نے میمو سے انکار کیا لیکن پھر منصور اعجاز کے ای میل اور ایس ایم ایس اور دوسرے شواہد کے اعلان کے بعد، میمو کے صحیح ہونے کا اعتراف کرلیا۔ جنرل جونز کے تین بیان قابلِ توجہ ہیں: پہلے بیان میں اعتراف کیا گیا کہ میمو ملا تھا اور ایڈمرل مولن کو بھیجاگیا تھا۔ امریکا کے ایک ٹی وی چینل پر اپنے دوسرے بیان میں انھوں نے تفصیلی اعتراف کیا۔ پھر سپریم کورٹ کے سامنے حسین حقانی کی صفائی کے لیے حلفیہ بیان داخل کر دیا جو اُن کا تیسرا بیان تھا۔ ان تینوں بیانات میں تضادات ہیں اور منصور اعجاز نے جونز سے اپنے تعلقات اور بات چیت کا جو ریکارڈ پیش کیا ہے اس سے خود جنرل جونز کا کردار خاصا مشکوک ہوگیا ہے، اور صاف نظر آرہا ہے کہ حسین حقانی کو بچانے کے لیے وہ سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خود میمو میں کیا کہا گیا ہے؟  اس میمو کا موقع محل اور پس منظر یہ ہے کہ یہ ۲مئی کے پس منظر میں لکھا گیا۔ اس سیناریو میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی فوج ایک طرف پریشانی اور ہزیمت کا شکار ہے تو دوسری طرف   وہ اپنے اثرورسوخ اور کردار کو بچانے کے لیے سول حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کرنے والی ہے۔ میمو کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی سول حکومت خصوصیت سے صدرزرداری جمہوریت کی بقا کے نام پر امریکی چیف آف سٹاف اور اعلیٰ امریکی قیادت کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ فوج کو قابو میں کیا جاسکے اور اس کے دانت اس حد تک توڑ دیے جائیں کہ وہ پورے طور پر بظاہر سیاسی قیادت کے تابع ہوجائے، لیکن فی الحقیقت اس کو ایک ایسے مقام پر لے آیا جائے جو علاقے میں امریکی مقاصد اور اہداف کے حصول میں معاون ہوسکے۔ دوسرے لفظوں میں سول حکومت اور امریکا کے درمیان ایک نئے گٹھ جوڑ کا اہتمام کیا جائے اور ماضی میں امریکا اور فوج کا بلاواسطہ جو تعلق رہا ہے اُسے اس طرح نئے سانچے میں ڈھالا جائے کہ امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت  مل کر فوج کو قابو میں کر سکے۔

امریکا کو ضمانت دی گئی کہ اگر وہ میمورنڈم میں بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو تو صدرمملکت اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ دفاع اور سیکورٹی کا پورا نظام امریکا کی منشا کے مطابق ازسرِنو مرتب کیا جائے گا اور واشنگٹن کی پسند کے افراد کو فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ امریکا کے خدشات کی روشنی میں پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کی نگرانی کا طریق کار بھی ازسرِنو طے کیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کے سلسلے میں فوج اور انٹیلی جنس کے بارے میں امریکی تحفظات کو دُور کیا جائے گا۔ بھارت سے معاملات کو امریکی حکمت عملی کے مطابق مرتب کیا جائے گا، اور آئی ایس آئی کو اس طرح قابو کیا جائے گا کہ اس کی وہ شاخیں جن کے بارے میں امریکا کو شبہہ ہے کہ وہ امریکی مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہیں، انھیں ختم کر دیا جائے گا۔ نیز اس کے اُس ونگ کو ختم کیا جائے گا جس کے بارے میں حکومت اور امریکا دونوں متفکر ہیں۔

اس میموکے تجزیے سے تین باتیں سامنے آتی ہیں:

۱- پاکستان کے سیکورٹی معاملات میں امریکا کو کھلی مداخلت کی دعوت۔

۲- سول قیادت کا امریکا کے ساتھ ایک نیا عہد و پیمان اور امریکی مفادات کے تحفظ کی ضمانت۔

۳- ملکی سلامتی، آزادی اور حاکمیت کے باب میں پاکستان کے آزادانہ سیاسی، عسکری کردار کا خاتمہ اور امریکی ایجنڈے کی تکمیل کی ضمانت۔

اس طرح یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ میمو محض کاغذ کا پُرزہ نہیں (جیساکہ گیلانی صاحب نے دعویٰ کیاہے) بلکہ یہ تو ایک ’میثاقِ غلامی‘ ہے، اور اس کا مضمون سوچنے، اُسے لکھنے اور اسے پہنچانے والوں نے وہی کردار ادا کیا ہے جو تاریخ میں میرجعفر اور میرصادق ادا کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اصل کرداروں کا تعین کیا جائے اور پھر انھیں اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے۔ اس کے بعد، اگر ان کا جرم ثابت ہو تو انھیں عبرت ناک سزا دی جائے۔ یہ کام پارلیمانی کمیٹی  نہیں کرسکتی صرف عدالت کرسکتی ہے۔ بلاشبہہ عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی فرنسک (forensic) تحقیق اور مناسب بحث و تفتیش کے بعد اور عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرے۔ یہ مسئلہ بہرحال ایسا نہیں کہ اس کو سیاسی مصلحتوں یا ’مُکمُکے‘ کی کسی شکل کا سہارا لے کر داخلِ دفتر کر دیا جائے۔

ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کون قابلِ اعتماد ہے اور کس کا ماضی میں کیا کردار رہا ہے؟ ہمیں اس بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں کہ منصور اعجاز پاکستان کا دوست ہے۔ بلاشبہہ اس کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ امریکا کا وفادار ہے اور جو کردار وہ ادا کر رہا ہے وہ امریکا کے مفاد میں ہے۔ اسے پاکستان سے کوئی دل چسپی نہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ منصور اعجاز ماضی میں پاکستان، پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بہت کچھ لکھتا رہا اور کہتا رہا ہے لیکن اس معاملے میں  حسین حقانی صاحب بھی اس سے پیچھے نہیں رہے۔ ان کی کتاب Pakistan between Mosque & Military ان کے اپنے خیالات کا آئینہ ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس باب میں ان کے اور منصور اعجاز کے خیالات میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں انگریزی محاورے میں ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں (on the same page)۔ بہرحال میمو کی تحقیق و تفتیش معروف ضابطوں کے مطابق پوری دیانت اور شفافیت کے ساتھ ہونی چاہیے تاکہ یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ کون سچ بول رہا ہے اور اس معاملے میں دونوں کا کیا کردار رہا ہے، نیز یہ بھی پتا چلے کہ اس معاملے میں اُن کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما تھیں۔ ہمارے نزدیک اس کے پانچ امکانات ہوسکتے ہیں:

اوّل: سارا کھیل صرف منصوراعجاز نے محض اپنے ذاتی مقاصد اور ذاتی شہرت اور کچھ سیاسی و مالی مفادات کی خاطر کھیلا ہے۔ بظاہر امکان نہیں ہے کہ وہ پاکستان سے کوئی فائدہ اُٹھا سکے۔ فائدہ اسے امریکا ہی سے ہوسکتا ہے جس سے وہ اپنی وفاداری اور تعلقات کا برملا اعلان کرتا ہے۔

دوم: دستاویزی اور تائیدی شہادتوں کی بنا پر قرینِ قیاس ہے کہ منصور اعجاز کو حسین حقانی نے (جس سے اس کے ۱۰ برسوں پر محیط تعلقات ہیں) اس کام کے لیے آمادہ کیا ہو۔ یوں پورے معاملے میں یہ دونوں شریک ہوں۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کیا حسین حقانی بظاہر محض  اپنے بل بوتے پر یہ کردار ادا کرسکتا ہے؟

سوم:  میمو کی داخلی شہادت، منصور اعجاز کی ایس ایم ایس اور ای میل کا ریکارڈ اشارہ کرتا ہے کہ اس معاملے میں اس پردئہ زنگاری کے پیچھے کوئی اور ہے اور اشارہ صدرِ پاکستان جناب زرداری اور غالباً ایوانِ صدر کے ایک اور اعلیٰ افسر کی طرف ہے۔ اسے ہم حسین حقانی پلس کہہ سکتے ہیں اور اگر یہ صحیح ہے تو تعین ہونا چاہیے کہ اس کے پیچھے فی الحقیقت کون تھا؟ دوسرے الفاظ میں پورے معاملے کا بینی فشری، یعنی اصل فائدہ اٹھانے والا کون ہے؟

چہارم: کسی ایجنسی نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے منصور اعجاز کو ذریعہ بنایا ہو۔  منصور اعجاز، جنرل جونز اور ایڈمرل مولن یہ تین تو کھلے کھلے کردار بالکل سامنے آگئے ہیں۔ ان میں سے ہرایک نے اپنے اپنے بیان کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، البتہ ان کے پیچھے کون ہے؟ کیا یہ کام سی آئی اے نے کرایا؟ یا اس میں موساد اور را کا بھی حصہ ہے؟ اصل مقصد پاکستانی     آئی ایس آئی اور فوج کی گوش مالی ہے جس کے خلاف امریکی میڈیا جارحانہ محاذ آرائی کرتا رہا ہے، اور یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ پاکستان اور اس کی فوج کو بلیک میل کیا جائے۔ کیا ان ایجنسیوں نے سارا کھیل کھیلا اور پاکستان کے سابق سفیر کو بھی اس میں استعمال کیا گیا___ ان کی مرضی سے یا ان کو بے وقوف بناکر؟

پنجم: بظاہر ایک غیراغلب امکان یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس پورے ڈرامے کے پیچھے پاکستانی انٹیلی جنس کا ہاتھ ہو، تاہم اس میں دو چیزیں اس مفروضے کو ناقابلِ التفات بتاتی ہیں۔  ایک یہ کہ منصوراعجاز اور آئی ایس آئی کا اس سازش میں شریک ہونا ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ فوج اور آئی ایس آئی نے جو اسٹینڈ لیا ہے، جس طرح وہ معاملے کی تحقیق اور مجرموں کے تعین کے لیے اصرار کررہی ہے، اس سے اس امکان کی تردید ہوتی ہے۔

ہمیں توقع ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی ان تمام پہلوئوں کا دیانت داری اور عرق ریزی کے ساتھ جائزہ لے گی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ اصل حقائق قوم کے سامنے آئیں اور جس کا جو کردار ہے، اس کے مطابق معاملہ کیا جائے۔

صدرزرداری اور وزیراعظم گیلانی کا کردار بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دینے والا ہے۔  منصوراعجاز کے مضمون کی اشاعت (۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ئ) کے بعد حکومت کی مستقل خاموشی نے معاملے کو اور بھی گمبھیر بنادیا۔ جب پانی سر سے اُونچا ہوگیا تو تردیدی بیانات جاری کیے گئے مگر    وہ نہایت مبہم تھے۔ بعدازاں حسین حقانی کو بلا کر ایک طرف تو ان سے استعفا لیا گیا اور دوسری طرف انھیں ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم میں پناہ دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ وزیراعظم گیلانی کا اچانک یہ اعلان کہ میمو میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ فقط کاغذ کا پُرزہ ہے۔ وفاقی حکومت نے یہی موقف سپریم کورٹ کے سامنے اختیار کیا۔ اس کے برعکس چیف آف اسٹاف اور آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل نے میمو کو ملک کی سلامتی کے خلاف ایک خطرناک سازش اور فوج کو بدنام کرنے اور اس کا مقام گرانے کی مذموم کوشش قرار دیا ہے۔

اگر میمو جھوٹ کا پلندا ہے تو پھر امریکا میں پاکستان کے سفیر سے استعفا کیوں لیا گیا؟ اگر تفتیش کے لیے ان سے استعفا لینا ضروری تھا تو صدرصاحب سے استعفا کیوں نہیں لیا گیا؟ اس معاملے میں ان کا نام بھی سرفہرست آتا ہے۔ بظاہر وہی اس پورے معاملے سے فائدہ اٹھانے والے نظر آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اور میڈیا کے بعض عناصر نے آئی ایس آئی کے چیف کے استعفے کی بات بھی کی ہے۔ یہ حقیقت نظرانداز کی جارہی ہے کہ میمو اگر صحیح ہے تو اس میں کلیدی کردار حسین حقانی اور صدرصاحب کا ہے۔ آئی ایس آئی کے چیف کے بارے میں جو بات ضمناً فون اور ای میل کے متن (transcript) میں کہی گئی ہے، وہ یہ ہے، منصور اعجاز کہتا ہے:

I was just informed by senior US intelligence that GD-SII Mr. P asked for, and received permission from senior Arab leaders a few days ago to sack Z. For what its worth.

امریکی خفیہ ایجنسی کے سینیر ذمہ دار نے ابھی مجھے بتایا کہ آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل، مسٹر پی کو ایک ذمہ داری سونپی گئی جس کے تحت انھوں نے سینیرعرب لیڈروں سے چند دن قبل یہ اجازت حاصل کی کہ مسٹر زیڈ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا یا  برطرف کردیا جائے۔ اب ان معلومات کی کیا قدروقیمت ہے وہ جو بھی ہو؟

اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ امریکی انٹیلی جنس کی بات ہے جو منصور اعجاز کو بتائی گئی اور وہ خود بھی اس بارے میں شبہے میں مبتلا ہے جو یہ کہہ رہا ہے: for what its worth ۔اس کے برعکس حسین حقانی اور ان کے باس صاحب کا کردار کلیدی ہے جس کا کسی سنی سنائی بات سے تعلق نہیں ہے۔ اس طرح دونوں کو مساوی ذمہ دار قرار دینا عقل کا تقاضا نہیں ہے۔ اسی متن میں ایک مقام پر یہ بھی آتا ہے کہ منصور اعجاز نے یہ بات بھی کہی:

it is interesting and heartening to see that many of the proposals made in the memo are being implemented in bi-lateral relationship. very good.

یہ بات بہت دل چسپ ہے اور باعث ِ مسرت بھی، کہ میمو کی بہت سی تجاویز پر دو طرفہ تعلقات کی روشنی میں عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ بہت خوب!

اس جملے کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت کہاں تک یکساں سوچ رکھتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ میمو کا جو بھی رِدّعمل ہوا ہو اور مولن نے میمو کی تاریخ کے ایک ہفتے کے اندر، امریکی انٹیلی جنس کے سامنے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان دیا، اگر اس کا رشتہ نہ بھی جوڑا جائے، تب بھی میمو کی اشاعت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی قیادت اور پاکستانی قیادت کے درمیان تعاون کا کوئی نہ کوئی سلسلہ کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ پارلیمانی کمیٹی اور سپریم کورٹ کو اس امر کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔

میمو میں ایک اور بڑی اہم بات ہے جسے تحقیق کا محور ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ ۲مئی کے واقعے کے سلسلے میں امریکا اور پاکستان کی قیادت کے درمیان کسی درپردہ تعاون اور سمجھوتے کا اشارہ ہے۔ حسب ذیل جملے کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ منصور اعجاز لکھتا یا کہتا ہے:

By the way, I know a lot more than you give me credit for about the circumstances that led to May 1 and your role in that. Just FY1.

ویسے تو آپ نے مجھے ان حالات کے بارے میں جن باتوں کا سزاوار قرار دیا ہے جو یکم مئی٭ کے واقعات کا سبب بنی ہیں، اس سے زیادہ جانتا ہوںاور یہ بھی کہ ان میں خود آپ کا کیا کردار رہا ہے۔ بس FY1

٭   امریکا میں اس روز یکم مئی ہی تھا، مگر پاکستان میں ۲ مئی شروع ہوچکا تھا۔         

جس پر حسین حقانی کا جواب یہ تھا:

Honorable ppl stick with one another. Take care.

عزت مآب براہِ کرم ڈٹے رہیے اور ایک دوسرے سے جڑے رہیے اور ذرا محتاط بھی رہیں۔

جب ہم اس جملے کو حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کے ٹی وی بیانات کے ساتھ دیکھتے ہیں   اور ساتھ ہی صدرصاحب کے ۳مئی کے مضمون (مطبوعہ:واشنگٹن پوسٹ) کو پڑھتے ہیں (جس میں حسین حقانی کے طرزِ تحریر کی صاف جھلک موجود ہے)، تو اس میں امریکا کی طرف سے پاکستان کی حاکمیت کی پامالی اور جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کے سلسلے میں مذمت کا ایک لفظ بھی     نظر نہیں آتا، بلکہ دبے لفظوں میں پاکستان اور امریکا کے تعاون کا اشارہ دیا گیا ہے۔ یہاں   زرداری صاحب کے دستِ راست جناب رحمن ملک کے ایک ٹی وی انٹرویو کا یہ تذکرہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ ہفت روزہ Pulse کا مضمون نگار لکھتا ہے:

عبدالرحمن ملک نے العریبیہ چینل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’آپریشن شروع ہوا تو ۱۵منٹ بعد مجھے اس سے آگاہ کر دیا گیا تھا‘‘ لیکن وزیرداخلہ امریکی افواج (SEALS) کے سامنے بے بس اور عاجز تھے۔ (ہفت روزہ Pulse، ۹-۱۵ دسمبر ۲۰۱۱ئ، ص ۱۴)

یاد رہے کہ یہ آپریشن ۴۰ منٹ جاری رہا۔ اس کے بعد ۴۰منٹ تک امریکی ہیلی کاپٹر پاکستانی حدود میں اُڑتے رہے۔اگر وزیرداخلہ آپریشن کے آغاز سے ۱۵منٹ کے بعد اس سے مطلع ہوچکے تھے تو پھر ایک گھنٹے تک وہ کیا کرتے رہے؟

ان سارے حقائق کی موجودگی میں پورے واقعے کو مذاق اور جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ملک سے اس بے وفائی اور غداری میں کس کا کتنا ہاتھ ہے؟ اس کا تعین ہونا چاہیے، مگر پارلیمانی کمیٹی کا یہ کام نہیں کرسکتی کیوں کہ اس میں اکثریت پیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی ہے۔ بلاشبہہ پارلیمانی کمیٹی کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے لیکن مسئلے کی صحیح اور غیرجانب دارانہ تحقیق اور ذمہ داری کا تعین صرف اعلیٰ ترین عدالت ہی کرسکتی ہے۔ پوری قوم اور تاریخ دونوں کی نگاہیں عدالت اور اس سے بے لاگ انصاف کی توقع پر لگی ہوئی ہیں۔

_______________

اقبال نے سچ کہا تھا کہ   ؎

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

غلامی صرف سیاسی ہی نہیں، ذہنی، فکری اور تہذیبی بھی ہوتی ہے، جو بسااوقات سیاسی غلامی سے بھی بدتر ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح مفادات کی اسیری بھی اسی طرح تباہ کن ہوتی ہے جس طرح سامراج کی سیاہ رات میں قومیں تباہی و بربادی سے دوچار ہوتی ہیں۔

بدقسمتی سے آج پاکستان پر ایک ایسی سیاسی قیادت مسلط ہے جو زندگی کے ہرمیدان میں ’ناخوب‘ کو ’خوب‘ بنانے کے کارِ مذموم میں سرگرم ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ۳نومبر ۲۰۱۱ء کو مرکزی کابینہ کے ایک ’اصولی فیصلے‘ کے نام پر کیا جانے والا وہ شرم ناک اعلان ہے جس کے ذریعے پاکستان کی حکومت بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ (Most Favoured Nation) قرار دے رہی ہے۔ یہ فیصلہ اتنی عجلت میں اور اس کا اعلان اتنے اچانک انداز میں کیا گیا ہے کہ پاکستانی تو پاکستانی، خود بھارت کی قیادت اور سفارت کار بھی ایک بار تو ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے اور پھر خوشی اور مسرت سے چلّا اُٹھے کہ انھیں کانوںپر اعتبار نہیں آرہا، بلکہ اسلام آباد میں بھارت کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ اعلان ایک خوش گوار دھماکے سے کم نہیں___ یہ اور بات ہے کہ بھارت کی قیادت کے لیے یہ تحفہ ایک ’نعمت ِغیر مترقبہ‘ تھا تو پاکستانی قوم کے لیے ایک دل خراش سانحہ! ان کے دل و دماغ پر یہ اعلان بجلی بن کر گرا اور پاکستان کی ۶۴سالہ قومی اتفاق پر مبنی پالیسی کو خاکستر کرگیا۔

حکومت کا یہ اعلان تحریکِ پاکستان کے مقاصد کی نفی، پاکستانی ریاست کے وجود کے لیے چیلنج، معیشت کے مستقبل کے لیے خطرہ اور قیامِ پاکستان کے لیے کی جانے والی برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی جدوجہد سے بے وفائی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام اہم پہلوئوں پر کھل کر اور دلیل سے بات کی جائے اور تمام محب وطن قوتوں کو منظم اور متحرک کیا جائے تاکہ عظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا جانے والا یہ ملک، جو امریکی غلامی کے جال میں تو پھنسا ہوا ہے ہی، اب کسی نئی غلامی کے جال میں نہ پھنس جائے۔

پاکستان کے قیام کا مقصد صرف برطانوی اقتدار سے آزادی ہی نہ تھا بلکہ ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسی خودمختار مملکت کی تعمیر تھا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے ساتھ عدل و انصاف کا نمونہ، اور اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی، ہر میدان میں خیر اور صلاح کی ضامن ہو۔ تقسیم ہند کا مقصد معیشت، سیاست اور تہذیب و تمدن کے دو مختلف بلکہ متضاد نمونوں (models) کو اپنے اپنے دائرے میں نئی دنیا کو تعمیر کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اکھنڈ بھارت کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانا تھا۔ آج کا بھارت ایک نئے روپ میں وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے جو کانگریس کی قیادت میں برطانیہ کے آخری دور میں گاندھی جی، جواہرلعل نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل نے ادا کیا تھا اور جسے قائداعظم کی قیادت میں برعظیم کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک نے ناکام بنا دیا تھا۔

علاقائی تعاون کے نام پر اصل ایجنڈاجنوبی ایشیا کے لیے ایک معاشی، تہذیبی اور بالآخر سیاسی اکھنڈ (Union) کا قیام ہے اور بھارت امریکا کی آشیرباد سے اس ایجنڈے پر عمل کے لیے سرگرم ہے۔ نیز کھلے اور درپردہ، اس منصوبے کو بروے کار لانے میں اسرائیل بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیں دکھ سے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ زرداری صاحب نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھارت سے راہ و رسم بڑھانے اور نئی equation استوار کرکے تقسیم کی لکیر کو غیرمؤثر بنانے کے اشارے دیے تھے اور ستم بالاے ستم کہ مسئلہ کشمیر جو پاکستان اور اہلِ جموں و کشمیر کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اس کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو نئی نسلوں کے لیے چھوڑنے کے خواہش مند ہیں اور یہی پیغام الطاف حسین صاحب کا بھی تھا۔ پاکستان کی معیشت کو بھارت کی مصنوعات، سرمایہ،تاجروں اور میڈیا کے لیے کھولنے کے اقدام اس منزل کی طرف مراجعت کے لیے زینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارتی دانش ور صحافی جناب کلدیپ نائر تجارت کے اس مجوزہ دروبست میں بھارت کے اس خواب کے نقش و نگار کی جھلک دکھاکر مستقبل کی تصویر کی یوں منظرکشی کرتے ہیں:

جنوبی ایشیا کے پورے علاقے میں آزادانہ تجارت میرا خواب ہے۔ ہم یورپ کی طرح ایک دن ایک معاشی یونین بنا لیں گے۔ یہ فی الوقت بہت دُوردراز نظرآتا ہے،تاہم اگر تقریباً ۱۶ برس کے بعد انتہائی پسندیدہ قرار دینا (ایم ایف این) ایک حقیقت بن چکا ہے تو معاشی یونین کیوں نہیں بن سکتی؟ (دی ایکسپریس ٹریبون، ۱۴نومبر ۲۰۱۱ء)

بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی کوششوں کو ان کے اصل تاریخی پس منظر اور علاقے کے لیے نئے بڑے کھیل (great game) کی روشنی میں دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔


بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور جغرافیائی اور سیاسی حقائق کو نظرانداز کرنا ایک حماقت ہے۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت، دونوں کو ایک دوسرے کے جداگانہ نظام ہاے زندگی کو تسلیم کر کے دوستی اور تعاون کی نئی راہیں اختیار کرنی چاہییں لیکن اگر ہماری خودمختاری اور تہذیبی شناخت کو مجروح کرنے اور پرانا کھیل جاری رکھنے کی کوشش کی گئی تو پاکستانی قوم اسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرے گی۔ بدقسمتی سے بھارت نے تقسیم ملک سے آج تک پاکستان کو آزاد، خودمختار اور برابری کی سطح پر معاملات کرنے والے ملک کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ کانگریس نے تقسیم ملک کے منصوبے کو جس قرارداد کے ذریعے منظور کیا تھا، اس میں دونوں ملکوں کے دوبارہ ایک ہوجانے کا شوشہ بھی چھوڑ دیا تھا۔ گویا ابتدا ہی میں بدنیتی ظاہر کر دی گئی۔ کانگریس کی قیادت کا خیال تھا کہ وہ ایسے حالات پیدا کردے گی کہ پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور دوبارہ اتحاد، الحاق، یا انضمام کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ فسادات اسی ’حکمت عملی‘ کا حصہ تھے۔ پاکستان کو تقسیم کے نتیجے میں ملنے والے تمام اثاثے آج تک ادا نہیں کیے گئے۔ ریڈکلف اوارڈ کے ذریعے مائونٹ بیٹن اور نہرو نے کشمیر پر قبضے کا راستہ تلاش کیا اور پاکستان کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کردیا۔ جوناگڑھ اور ماناودر پر قبضہ کیا اور ریاست حیدرآباد پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کیا۔ ۱۹۴۹ء میں جب پاکستان نے اپنی کرنسی کی قدر گھٹانے (devalue)  سے انکار کیا تو پہلی معاشی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس وقت پاکستان کی تجارت کا ۶۰ فی صد سے زیادہ بھارت کے ساتھ منسلک تھا، یعنی ہماری برآمدات کا ۶۵ فی صد بھارت کی منڈیوں میں جاتاتھا اور ہماری درآمدات کا ۳۵ فی صد بھارت سے آتا تھا، مگر بھارت نے تجارتی تعلقات کو فی الفور توڑ کر پاکستان کے لیے شدید بحرانی کیفیت پیدا کردی اور ہمیں احساس ہوا کہ بھارت پر انحصار کرنے کے نتائج کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں۔

الحمدللہ! پاکستان نے ان تمام کارروائیوں کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں کے باوجود ۱۹۹۰ء کے عشرے تک پاکستان کی معیشت بھارت کی معیشت کے مقابلے میں زیادہ جان دار ثابت ہوئی۔ بھارت کی ہرپابندی ہمارے لیے نئے امکانات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو بھار ت کے اضافے کی رفتار کے مقابلے میں مثالی قرار دیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ اس دور میں بھی معاشی پالیسیوں کی ان کامیابیوں کے علی الرغم معاشی انصاف اور متوازن معیشت کے اہداف حاصل نہ ہوسکے لیکن بحیثیت مجموعی بھارت کی نئی معاشی جنگ کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور اپنی آزادی اور تشخص کی حفاظت کی۔ ۱۹۹۰ء کے بعد حالات نے نئی کروٹ لی۔ بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہوتی گئی اورپاکستان اپنی ہی غلطیوں کے سبب ایک معاشی بحران کے بعد دوسرے بحران کاشکار ہوتا چلاگیا۔ آج عالم یہ ہے کہ معاشی ترقی کے ہر اشاریے (index) کی رُو سے ہماری حالت دگرگوں ہے اور اس کا فائدہ اُٹھاکر بھارت ایک نیا معاشی وار کرنے میں مصروف ہے اور امریکا اور مغربی ممالک اس کی بھرپور تائید کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ایک لابی خود ملک میں ’امن کی آشا‘ کے نام پر علاقے میں بھارت کی بالادستی کے قیام اور پاکستانی معیشت کو بھارت کے زیراثر لانے کی مذموم کوششوں میں مددگار ہے۔

عالمی سیاست کی جو بساط بچھائی جارہی ہے اس میں امریکا، بھارت اور اسرائیل ایشیا کے مستقبل کی صورت گری کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ بھارت کوعلاقے کا چودھری بنانا اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ پاکستان اور چین اس کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں اور پاکستان نشانے پر ہے۔ سیاسی، عسکری، معاشی، ہر میدان میں اس کے گرد گھیراتنگ کیا جارہا ہے۔ اندرونی عدم استحکام کے ساتھ پاکستان میں بھارت نواز قوتوں کو سہارا دینا، اور جنوب اور شمال ہردوطرف سے پاکستان پر دبائو ڈالنا اس بڑے کھیل (گریٹ گیم ) کا حصہ ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک (MFN) قرار دینے کے اعلان کی اصل اہمیت اس پس منظر میں سمجھی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے وزیرخارجہ ۲۴ نومبر ۲۰۱۱ء کو بھی یہی اعلان کر رہے ہیں کہ اصل مسئلہ پاکستان کے’مقبوضہ‘ کشمیر [یعنی آزاد کشمیر] کو واپس لینا ہے۔ افغانستان میں اور افغانستان سے پاکستان میں بھارت کی کارروائیاں سرکاری اعتراف کے باوجود بلاروک ٹوک جاری ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ ۶۰کے قریب ڈیم وہ بناچکا ہے اور ۱۵۵ منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ کشمیر میں مظالم روزافزوں ہیں اور گمنام قبروں کے بارے میں عالمی اداروں کے انکشافات کے باوجود اس پر کسی قسم کا دبائو نہیں، اور نہ پابندیاں ہی لگانے کی کوئی بات کرتا ہے۔ بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں بھارت کی دراندازیوں کے شواہد اور بھارت میں بے قصور پاکستانیوں کے جیلوں میں سڑنے اور بھارت کے عدم تعاون کے باوجود اس حکومت کی نگاہ میں اگر کوئی مسئلہ اہم ہے تو وہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قراردینے کا ہے۔ ان مسائل کوحل کرنا اور اس کے لیے مناسب علاقائی اور عالمی حکمت عملی بناکر پوری قوت سے سفارت کاری کا اہتمام کرنا اس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ حزبِ اختلاف اور حکومت کے اتحادیوں کا کردار بھی اس سلسلے میں مایوس کن ہے۔ صرف جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں نے اس خطرناک پسپائی کے خلاف اپنی آواز اٹھائی ہے اورقوم کو اصل خطرات سے متنبہ کیا ہے ورنہ مفادات کے کھیل میں مصروف سیاسی قیادت کی ترجیحات بہت مختلف ہیں۔

اصل موضوع کے جملہ پہلوئوں پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کا بھی کھل کر اظہار کردیا جائے کہ حکومت کا موجودہ فیصلہ نہایت عجلت میں کیا گیا ہے اور کُلہیا میں   گڑ پھوڑنے کے مترادف ہے۔ بھارت نے ۱۹۹۷ء میں پاکستان کو نام نہاد پسندیدہ ملک قرار دیا تھا مگر اس کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سیاسی تعلقات میں کشیدگی، ناکام مذاکرات کے ڈھونگ رچانے اور دوستی کی خواہش کے بلندبانگ دعووں کے علی الرغم کشمیر تو کیا، دوسرے ذیلی متنازع امور،    مثلاً سیاچین اور سرکریک کے بارے میں تمام امور طے کرنے اور صرف دستخطوں کی کسر باقی رہنے والی پیش رفت کے باوجود اُلٹی زقند لگائی اور عملاً کسی ایک مسئلے کو بھی حل نہیں کیا۔ گو اس زمانے میں  ۱۰۴بار مذاکرات کی میز سجائی گئی اور اس طرح ایک طرف سے بے مقصد اور بے نتیجہ ڈھونگ رچایا گیا تو دوسری طرف عالمی محاذ پر پاکستان کو بدنام کرنے اور اس کی پالیسیوں کی کاٹ کرکے انھیں غیرمؤثر بنانے کی جنگ ’’(crusade)‘‘ جاری رکھی۔ تجارت کے میدان میں ایم ایف این کا ڈھنڈورا ضرور پیٹا لیکن ۷۶۳ اشیا پر بھارت میں درآمد پر پابندی عائد کردی اور کم ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کے لیے جن چیزوں کو ممنوعہ فہرست (negative list) میں رکھا، ان میں وہ تمام اشیا موجود ہیں جن کو پاکستان سے بھارت کے لیے برآمد کیا جاسکتا تھا، یا جن میں پاکستان کو قیمتوں کے باب میں مقابلتاً فائدہ حاصل تھا۔ ان اشیا میں گوشت، مچھلی، شہد، آلو، ٹماٹر، لہسن، پیاز، گاجر، مختلف قسم کے پھل بشمول نارنگی، خربوزہ، ناشپاتی، سیب، آڑو، آلوچہ، دالیں، مختلف قسم کے تیل، تمباکو، مختلف نوع کی معدنیات، تعمیرات میں استعمال ہونے والی درجنوں اشیا، کپڑا اور مختلف نوعیت کی ٹیکسٹائل، دھاگا، فیبرک، سلک، بُنا ہوا کپڑا، پولسٹر، قالین، لکڑی اور زرعی آلات وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح تجارتی اشیا پر محصولات (tariff) کا ہتھیار بڑی ہوشیاری سے استعمال کیا گیا ہے اور زرعی پیداوار اور زراعت سے مختلف اشیا کی درآمد پر ۳۳ سے ۴۰ فی صد تک درآمدی ڈیوٹی ہے، اس کے علاوہ غیرمحصولاتی رکاوٹیں (non tariff barriers) ہیں جن کی تعداد ایک تحقیقی مطالعے کی رُو سے ۲۷ ہے جس نے پاکستان کی مصنوعات کے بھارت کی منڈیوں تک پہنچنے کے امکانات کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔

ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے سے واپس لینے کی چانکی اور مکیاولی کی تجویز کردہ حکمت عملی پر بھارت نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے بھرپور عمل کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو پسندیدہ ملک کی ٹوپی پہنانے کے باوجود جو بھی تجارت بھارت اور پاکستان کے درمیان گذشتہ ۲۰برسوں میں ہوئی ہے، اس میں پاکستان سے بھارت جانے والی برآمدات، بھارت سے آنے والی درآمدات کا پانچواں حصہ رہی ہیں۔ ان تمام تجربات کی روشنی میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے بھارت سے تجارت کو معمول پر لانے (normalization of trade) اور تجارت کو آزاد بنیادوں پر استوار کرنے (trade liberalization)کو دو اہم امور سے مشروط کیا تھا___ ایک سیاسی، یعنی کشمیر، پانی کا مسئلہ، سیاچین، سرکریک اور دوسرے متنازع امور کا بین الاقوامی قانون اور معاہدوں اور انصاف کے معروف اصولوں کے مطابق حل، اور دوسرا تجارت اور سرمایہ کاری کے باب میں حقیقی برابری کا حصول جس کے لیے ضروری ہے کہ محصول کے نظام میں بھی تبدیلیاں ہوں، غیرمحصول رکاوٹوں اور دوسری انتظامی رکاوٹوں (infra-structural obstacles) کو دُور کیا جائے تاکہ حقیقی معنی میں برابری کی بنیاد پر مقابلہ (level playing)ممکن ہوسکے۔

پاکستان کی قومی پالیسی کے یہ بڑے محکم اصول تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ستمبر۲۰۱۱ء سے نومبر ۲۰۱۱ء کسی نے کہیں سے ڈوری ہلائی ہے جس کے نتیجے میں کوئی ایسا خفیہ انقلاب آیا ہے کہ  ان دونوں اصولوں کو پامال کر کے ’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘ کی مثال قائم کرتے ہوئے، پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کو صریحاً نظرانداز کرتے ہوئے  بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ قرار دینے کا اقدام ملک اور قوم پر مسلط کیا جارہا ہے۔ یہ بنیادی تبدیلی (جیساکہ زرداری گیلانی ’جمہوری حکومت‘ کی روایت ہے)کسی حقیقی مشاورت، پارلیمان اور ملک کی سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی جارہی ہے۔

ستمبر میں وزیرتجارت نے بھارت کا دورہ کیا، پھر وزیرخارجہ نے بھارت یاترا کی۔ اس کے بعد کابینہ نے یہ اعلان کرڈالا جس پر امریکا اور بھارت نے تعریفوں کے ڈونگرے برسانا شروع کردیے۔ دوسری طرف خود ملک میں بھی ایک خصوصی لابی کی طرف سے تمام زمینی حقائق اور بھارت کے تاریخی کردار کو نظرانداز کرکے داد اور ستایش کا ایک طوفان برپا کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہم نے سب کو اعتماد میں لیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور اس کی متعلقہ کمیٹیوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی۔ زراعت اور صنعت سے متعلق بیش تر ادارے برملا  کہہ رہے ہیں کہ ہم سے کوئی مشورہ نہیں ہوا۔ ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، فارماسیوٹیکل صنعت اور چھوٹی اور درمیانی صنعت سے متعلق تمام ہی تنظیمیں اس اقدام کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔ دعویٰ کیا گیا کہ دفاعی اداروں (سیکورٹی اسٹیبلش منٹ) کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور صرف ہماری وزیرخارجہ ہی نہیں، بھارت کے وزیراعظم جناب من موہن سنگھ نے بھی مالدیپ میں اعلان کیا کہ اسے فوج کی تائید حاصل ہے، جب کہ اس دعوے کے چند ہی دن کے بعد یہ خبر بھی فوجی حلقوں کی طرف سے آگئی کہ اس فیصلے میں فوج کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ سب سے افسوس ناک اور تکلیف دہ صورت حال پارلیمنٹ کی کمیٹی براے تجارت کے اسی ہفتے منعقد ہونے والے اجلاس میں سامنے آئی کہ ٹیکسٹائل کی وزارت کے وزیر مخدوم شہاب الدین صاحب اور سیکرٹری ٹیکسٹائل نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کی وزارت سے مشورہ تک نہیں ہوا ہے اور وہ اس فیصلے کو پاکستان کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں اس جلدبازی کا سبب تلاش کرنا مشکل نہیں۔ جس طرح افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ اسلام آباد یا کابل میں نہیں ہوا، اس کی جاے ولادت واشنگٹن ہے اور  دائی کا کردار خود امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مادام ہیلری کلنٹن نے ادا کیا ہے، اسی طرح کابینہ کا یہ فیصلہ بھی امریکا کے حکم پر، بھارت کو راضی کرنے اور ایک مخصوص لابی کے مفادات کی ترویج کی خاطر نہایت رازداری کے ساتھ اور نہایت عجلت میں کیا گیا ہے۔ گویا    ؎

بے خودی بے سبب نہیں، غالبؔ
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے


اب ہم اس مسئلے کے سب سے اہم پہلو پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس کا سیاسی پہلو ہے۔ قوم کو یہ وعظ دیا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اور دوسرے تنازعات کو تجارت اور معاشی تعلقات سے الگ کرنا ضروری ہے۔ سیاست سیاست ہے اور معیشت معیشت۔ اب تک پاکستان کی تمام حکومتیں جھک مارتی رہیں کہ بزعم خویش کشمیر کی خاطر معیشت اور تجارت کو یرغمال بنا دیا گیا اور محض اس سیاسی تنازع کی وجہ سے وہ تجارت جو ۱۰بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، صرف ۲ بلین کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں یہ درس دے رہے ہیں کہ سیاست اور تجارت کو الگ الگ کرنا ہی اصل دانش مندی ہے اور اب تک پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کے منصفانہ حل کی جو شرط تجارت کو معمول پر لانے اور سرمایہ کاری کے میدان میں بھارت کے لیے دروازے کھولنے کے ساتھ لگا رکھی تھی، اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ معاشی ترقی اور تجارت میں غیرمعمولی متوقع اضافے کا جو سبزباغ دکھایا جارہا ہے اور خصوصیت سے انگریزی پریس اور میڈیا میں اس بات کو جس تکرار سے پیش کیا جا رہا ہے، وہ نہایت گمراہ کن ہے۔

ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے کہ سیاست اور تجارت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے بین الاقوامی تعلقات علم و عمل دونوں میں یہ بات ایک مسلّمہ اصول کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ trade is an extension of diplomacy (تجارت، سفارت کاری کی  توسیع ہے)۔ اگر تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک دوسرے کے ساتھ ایک طرح کے محصولات (reciprocal tariffs) کا تصور ہی سیاست اور معیشت کے ناقابلِ انقطاع رشتے کی پیداوار ہے۔ دورِخلافت ِ راشدہ میں حضرت عمرفاروقؓ نے عشور، یعنی import duty کے محصول کو دوسرے ممالک کی محصول کی پالیسی کے جواب میں اختیار کیا تھا۔ دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ ڈپلومیسی ہی نہیں جنگیں اور بین الاقوامی جنگیں تک تجارت کے اہداف کے حصول کے لیے واقع ہوئی ہیں۔  یورپی استعمار کا تو اہم ترین ہتھیار تجارت تھی۔ ہمیں خود بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی برعظیم میں آمد اور پھر تجارت کے ساتھ برطانوی افواج اور جھنڈے کی آمد کا تجربہ ہے۔ چین پر مشہورِ زمانہ افیم کی جنگیں تجارت ہی کے فروغ کے مقاصد کے لیے برپا کی گئی تھیں۔ امریکا اور کیوبا میں تجارتی تعلقات کا انقطاع کسی معاشی یا مالی وجہ سے نہیں، خالص سیاسی اسباب سے ہے۔ امریکا میں کیوبا کے تجارتی اموال کی درآمد کا تو سوال ہی نہیں ۔ آپ اپنی جیب میں ایک ہوانا سگار تک لے کر آزاد معیشت کے اس سرخیل ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔ دنیا بھر میں معاشی پابندیوں کا جو حربہ امریکا اور یورپی ممالک استعمال کر رہے ہیں، وہ سیاست اور تجارت کے ایک مسئلے کے دو رُخ ہونے کے سوا اور کیا ہے۔ خود پاکستان کو بار بار ان پابندیوں کا تجربہ ہوا ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک ایران اس کا برسوں سے شکار ہے۔ روس، چین اوردسیوں ممالک اس کا تجربہ کرتے رہے ہیں۔

آیئے، ذرا کیری لوگر بل کے قانون پر بھی نظر ڈالتے ہیں جس کے تحت ملنے والی یا نہ ملنے والی امداد کا شور ہے۔ اس قانون پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کا تین چوتھائی حصہ سیاسی شرطوں، مطالبات اور پابندیوں پر مشتمل ہے۔ امریکا اور تمام ہی یورپی ممالک ہمیں آزاد تجارت کا درس دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان کے اپنے محصولات اور سبسی ڈیز دونوں کے نظام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ معیشت اور تجارت سیاست کے ماتحت ہیں۔ ورلڈبنک، آئی ایم ایف اور مغربی معاشی پالیسی ساز ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زراعت یا قومی اہمیت کے دوسرے معاشی شعبوں کو حکومتی امداد (سبسڈی) سے پاک کریں اور باہم مقابلوں (competetion) کی نعمتوں سے مالا مال ہوں، مگر ان تمام ممالک میں زراعت اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے دوسرے معاشی دائرے   حکومتی امداد اور محصولات دونوں کے حصار میں ہیں۔ امریکا اور یورپ صرف حکومتی امداد کی مَد میں ۳۶۰؍ارب ڈالر سالانہ فراہم کرتے ہیں اور ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم زراعت میں یہ امداد    ختم کریں۔ یہ تضاد اور دوغلاپن عالمی سیاست کا حصہ ہے لیکن ہماری اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کی قیادتیں صرف بیرونی دبائو میں وہ پالیسیاں اختیار کرتی ہیں جو ان کے اپنے نہیں، دوسروں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے قواعد و ضوابط (protocols) دن رات یاد دلائے جاتے ہیں لیکن امریکا، یورپ اور خود بھارت میں جو محصولات، غیرمحصولاتی پابندیاں، اور حکومتی امداد پالیسی کا حصہ ہیں اور ان کی آنکھ کے شہتیر ہیں، وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔  عالمی تجارتی تنظیم ہی کے طے کردہ Doha Round کے معاہدے کو ۱۰ برس ہوگئے ہیں لیکن آج تک مغربی ممالک نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ آزاد تجارت کا سارا وعظ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ہی ہے۔

اس اصولی تاریخی بحث کے بعد ہم اس امر کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت اور سرمایہ کاری کو معمول پر لانے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے کشمیر اور پانی کے مسائل طے ہوں، اور پھر دوسرے متنازع امور کو طے کیا جائے اور جب تک یہ نہ ہو، تجارت اور خود سیاسی تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ بھارت اور امریکا کے آگے سپر ڈالنے اور ان کے ایجنڈے کے مطابق عمل کرنے سے معاشی فوائد تو حاصل ہونے کی کوئی توقع نہیں لیکن ان سے جو سیاسی نقصانات ہیں وہ ہمالہ سے بھی بڑے ہیں اور یہ قوم کسی قیمت پر ان کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دینی اور چند سیاسی جماعتوں نے مؤثرانداز میں اس پہلو کو اُٹھایا ہے، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت نے بھی اس سلسلے میں آواز بلند کی ہے اور سب سے مؤثر آواز علی گیلانی کی ہے۔ شروع میں آزادکشمیر کی حکومت خاموش تھی لیکن اب وہ بھی مجبور ہوئی ہے کہ کشمیر کی تمام سیاسی اور جہادی قوتوں کی آواز میں آواز ملائے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بڑا ہی نازک مرحلہ ہے۔ بھارت ۶۴برس تک فوجی قوت اور تمام آمرانہ اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی کو کچل نہیں سکا ہے اور اب خود بھارت ہی سے بڑی جان دار آوازیں اُٹھنے لگی ہیں کہ کشمیر پر قبضہ جاری رکھنا ممکن نہیں اور اس کی قیمت ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔ یورپین پارلیمنٹ اور برطانوی پارلیمنٹ میں اس سال بھی کھل کر کشمیر کے مسئلے پر بحث ہوئی ہے اور اس کے حل کی ضرورت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ بھارتی دانش ور ارون دتی راے نے تو بہت ہی واشگاف طریقے سے اعلان کیا ہے کہ کشمیر میں بھارت کی حیثیت قبضے (occupation)کی ہے اور قبضہ ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

ان حالات میں کشمیر اور پانی کے مسئلے کو نظرانداز کرکے یا  پسِ پشت ڈال کر تجارت اور معاشی تعلقات کی بحالی ایک سراسر خسارے کا سودا اور کشمیری عوام کی قربانیوں اور تاریخی جدوجہد سے غداری ہے۔ پاکستان کی حاکمیت اور آزادی اور کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد کی معاونت کو جس کا دل چاہے ’غیرت بریگیڈ‘ کے القابات سے نوازے لیکن پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت اور کشمیر کے بھائیوں کے ساتھ ان کی جدوجہد آزادی میں بھرپور معاونت کو اپنے دین و ایمان اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات میں مرکزی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ ہرسروے میں بھارت اور امریکا کو عوام نے دوست نہیں دشمن ملک قرار دیا ہے اور یہ اس لیے کہا ہے کہ ان کی پالیسیاں ہماری آزادی، سلامتی، عزت اور مفادات سے متصادم ہیں۔ اگر حکومت عوام کے دل کی اس آواز کو نظرانداز کرکے امریکی دبائو اور بھارتی قیادت کی عیارانہ سفارت کاری کے تحت کوئی پالیسی بناتی ہے تو وہ اسے کسی قیمت پر بھی قبول نہیں کریں گے اور    ان شاء اللہ اسے ناکام بناکر دم لیں گے۔


ہماری نگاہ میں مسئلے کا سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی پہلو سب سے اہم ہے لیکن خود معاشی اعتبار سے بھی یہ سودا سراسر خسارے کا سودا ہے اور زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے ایک نہایت تباہ کن پالیسی ملک پر مسلط کی جارہی ہے۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ درج ذیل ہیں:

معاشی تجزیے کے نقطۂ نظر سے تجارت کے فروغ کے لیے دو ملکوں کی معیشت کا ایک دوسرے سے تعلق باعث ِ افادیت (complimentary) ہونا چاہیے تاکہ ایک ملک دوسرے کو  وہ چیز فراہم کرسکے جس میں اسے مقابلتاً فائدہ حاصل ہے۔ اس کے برعکس جن ملکوں کی معیشت مسابقانہ (competetive) ہے ان میں تجارت ہمیشہ محدود رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی معیشت مسابقانہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کی مصنوعات ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور تجارت میں غیرمعمولی ترقی کے امکانات محدود ہیں۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ بھارت کی معیشت مضبوط ہے اور پاکستان کی اس وقت کمزور اور غیرمستحکم ہے، اور اس مقابلے میں بھارت کو بالادستی حاصل ہے۔ دونوں کے لیے مساوی مواقع موجود نہیں۔ چونکہ بھارت کی معیشت زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ متنوع ہے، اس لیے بھارت کی پاکستان کے لیے برآمدات، پاکستان کی بھارت کے لیے برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر گذشتہ ۲۵برس کے تجارتی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل ثابت ہوتی ہے۔ ہماری منڈیوں میں بھارتی مصنوعات کے در آنے کے مواقع ان مواقع سے چار اور پانچ گنا زیادہ ہیں جو پاکستانی مصنوعات کو بھارت کی منڈیوں میں رسائی کے لیے حاصل ہیں۔ یہ سال دو سال کا معاملہ نہیں، ۲۵برس کا رجحان یہی ہے۔ خود پاکستان اکانومک سروے میں اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے اور اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ صرف چند برسوں کے اعداد و شمار دیکھیے:

     سال     بھارت سے پاکستانی درآمدات                بھارت کو پاکستانی برآمدات

۹۵-۱۹۹۴ء            ۱۷۲,۳   ملین          ۳۷۹,۱   ملین

۹۷-۱۹۹۶ء            ۹۸۰,۷   "              ۴۱۲,۱    "

۲۰۰۱-۲۰۰۰ء       ۹۲۸,۱۳                 "              ۲۴۶,۳   "

۰۴-۲۰۰۳ء            ۰۰۴,۲۲ "              ۳۹۸,۵    "

۰۷-۲۰۰۶ء            ۹۳۸,۷۴ "              ۸۰۳,۲۰ "

۰۸-۲۰۰۷ء            ۸۷۲,۱۰۶               "              ۹۰۵,۱۹                 "

۰۹-۲۰۰۸ء            ۹۰۲,۹۲ "              ۴۶۳,۲۶ "

یہی رجحان ابھی تک جاری ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ یکم جولائی ۲۰۱۰ء سے ۲۰ جون ۲۰۱۱ء تک صرف واہگہ بارڈر کے راستے بھارت سے ۳۱ہزار ۸سو۹۷ ٹرک آئے جن میں ۲۰؍ارب ۹۹کروڑ ۴۵ لاکھ روپے کا سامان آیا، جب کہ پاکستان نے صرف ۴ہزار ۶سو۶۴ ٹرک بھیجے جن کے ذریعے برآمد ہونے والے مال کی قیمت ایک ارب ۳۳کروڑ ۶لاکھ روپے تھی (کہاں تقریباً سو ارب اور کہاں تقریباً ۲۱ ارب___ گویا تقریباً ایک اور بیس کی نسبت)۔ رواں سال (جولائی ۲۰۱۱ء تا اکتوبر ۲۰۱۱ء) کے چار مہینے میں بھارت سے واہگہ کے راستے ۵؍ارب ۲۷کروڑ ۳۱لاکھ کا سامان پاکستان میں آیا، جب کہ اس عرصے میں پاکستان سے بھارت کے لیے برآمدات صرف ۷۷کروڑ۳۵لاکھ روپے کی تھیں۔

ان حقائق کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ بھارت کی ایک ارب ۳۰کروڑ کی آبادی کی وسیع و عریض منڈی کے جو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں، ان کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری تجارت بھارت سے گذشتہ ۲۵برس میں، جن میں ۱۹۹۶ء کے پاکستان کو نام نہاد پسندیدہ ملک قرار دینے کے ۱۶سال بھی شامل ہیں، ہرسال پاکستان بھارت کی تجارت، پاکستان کے لیے خسارے میں ہی رہی ہے اور اوسطاً ہماری برآمدات کے مقابلے میں بھارت سے درآمدات ۴سے۵ گنا زیادہ رہی ہیں۔اور من جملہ دوسری وجوہ کے اس میں بھارت کی معاشی پالیسی، محصولات اور غیرمحصولاتی رکاوٹوں کا نظام ہے جسے بھارت ذرا بھی بدلنے کو تیار نہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے اور یہی صحیح موقف ہے کہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کا حل اور معاشی میدان میں بھارت کے محصول اور غیرمحصول رکاوٹوں کے نظام میں بنیادی تبدیلی کے بغیر دونوں ملکوں میں تجارت اور معاشی رابطے نارمل نہیں ہوسکتے___ تاکہ معاشی تعلقات اس نہج پر استوار ہوسکیں، جو محض ایک ملک کے فائدے میں نہ ہوں بلکہ دونوں جن سے برابر کا فائدہ اُٹھا سکیں۔ یہی مسئلے کی اصل حقیقت ہے جسے یکسرنظرانداز کرنے اور ان دونوں کے تعلق (linkage) کو توڑ کر موجودہ حکومت امریکا اور بھارت کے دبائو میں وہ پالیسی ملک پر مسلط کرنا چاہ رہی ہے جو پاکستان کے مفادات کی ضد ہے۔

ایک اور بے حد نازک پہلو بھی توجہ طلب ہے۔ بھارت کی دل چسپی محض تجارت تک ہی محدود نہیں، وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے ہماری صنعت پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا یہ مکالمہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بھارت نے پاکستانی اسٹیل مل خریدنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ بھارت ہماری معیشت کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے تجارت کے ساتھ سرمایہ کاری کے ذریعے صنعت اور اسٹرے ٹیجک اداروں پر بھی قبضہ چاہتا ہے، اور اس کے لیے بلاواسطہ سرمایہ کاری کے علاوہ بالواسطہ سرمایہ کاری کے ذرائع بھی استعمال کر رہا ہے جس کا راستہ روکا جانا ضروری ہے۔ حالیہ سارک کانفرنس (مالدیپ) میں بھی یہ مسئلہ آیا اور بھارت نے کھل کر یہ سوال اُٹھایا ہے کہ تجارت کی آزادی کے ساتھ سرمایے کی آزادکاری یا مشترک سرمایہ کاری کو بھی اس کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس سے بھارت کے اصل عزائم کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔

ہم ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتے ہیں اور اس کا تعلق ہماری معیشت کے بھارت پر انحصار (dependence) سے ہے۔ ہم دو بار تجربہ کرچکے ہیں کہ ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۵ء میں بھارت نے تجارتی تعلقات کو یک قلم منقطع کرکے پاکستان کو شدید معاشی بحران میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ ہم نے بڑی مشکل اور مسلسل محنت سے بھارت پر انحصار کو کم کیا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت یہ انحصار بڑھے گا اور اگر تجارت کے ساتھ سرمایہ کاری کے اثرات کو بھی شامل کرلیا جائے تو معاشی تعلقات کی یہ نوعیت ایک نئی سامراجی کیفیت کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت پر بھارت اور بھارتی سرمایہ کاروں اور تاجروں کی گرفت بڑھتی جائے گی۔ یہاں کی صنعت خصوصیت سے  درمیانی اور چھوٹی صنعت بُری طرح متاثر ہوگی، اور بے روزگاری بڑھے گی۔ بھارت کے لیے معاشی حربوں کے ذریعے صرف پاکستان کی معیشت ہی کو اپنی گرفت میں لانے کا موقع نہیں ملے گا بلکہ اس کی وجہ سے اندرونِ ملک اس کو ایسے فیصلہ ساز (leverage) کی حیثیت حاصل ہوتی چلی جائے گی جو ہماری خودمختاری، نظریاتی شناخت، سیاسی آزادی اور تہذیبی اور ثقافتی وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ان پہلوئوں کو نظرانداز کرنے کے بڑے خطرناک اثرات اور نتائج ہوسکتے ہیں جن کا اِدراک اِس وقت ضروری ہے۔ اچھے سیاسی اور معاشی روابط اور تعلقات کے ہم بھی قائل ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہیں کہ مسئلے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر اور سیاسی اور معاشی ہردوپہلوئوں کے ربط و تعلق کی روشنی میں حقیقت پسندانہ پالیسیاں تشکیل دی جائیں جو پاکستان کی آزادی، سلامتی، معاشی استحکام اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کی ضامن ہوں۔ اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا،  اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ  ع

ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسار۱

ہم پاکستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ قوموں کے فیصلے پورے سوچ بچار اور باہمی مشاورت کے ساتھ، عوام کے جذبات اور اُمنگوں کے مطابق اور ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہونے چاہییں۔ وقتی مفادات، ذاتی ترجیحات اور بیرونی دبائو کے تحت جو فیصلے اور اقدام بھی ہوں گے، وہ تباہی کا ذریعہ بنیں گے۔ ترقی، عزت اور خوش حالی ان کا حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہم موجودہ حالات میں بھارت کو ’پسندیدہ ترین ملک‘ قرار دینے کو پاکستان کے مفادات پر ایک کاری ضرب اور معاشی خودکشی کی طرف ایک قدم سمجھتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس پر فوری نظرثانی کرے اور ملک کو اس تباہی سے بچالے جو خدانخواستہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آئے گی۔    ہم پاکستان کی پارلیمنٹ، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام اور ملک کے نوجوان طبقے سے اپیل کرتے ہیں کہ اس اقدام کے خطرناک ہونے کا احساس کریں اور مؤثر احتجاج کے ذریعے، حکومت کو معاشی تباہی کے اس راستے پر ایک قدم بھی آگے بڑھانے سے روک دیں۔ وما علینا الا البلاغ۔

 

بیسویں صدی میں جن شخصیات نے اسلامی فکرو تہذیب پر ٹھوس علمی لٹریچر پیش کیا،  جنھوں نے فکرِاسلامی کی تشکیلِ نو کے احساس اور جذباتی رجحان کو تبدیل کرنے میں اہم کردار اداکیا، ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) کی ہے۔ اس بنا پر ہم ان کو دورِ جدید میں تجدیدِ فکر اسلامی کی روایت کا بانی اور بیسویں صدی میں ملّت اسلامیہ پاک و ہند کے ذہن کا اوّلین معمار قرار دیتے ہیں۔

علامہ محمد اقبال کی علمی اور ادبی زندگی کا آغاز انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوگیا تھا،  فروری ۱۹۰۰ء سے وہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں شریک ہونے لگے تھے۔ لیکن  قومی زندگی پر ان کے اثرات یورپ سے واپسی (۱۹۰۸ء) کے بعد مرتب ہونا شروع ہوئے۔ ۱۹۱۵ء میں انھوں نے اسرارِخودی شائع کی، جس نے مسلم تصوف سے منسوب جامد سوچ میں ایک تحرک پیدا کیا، اور افرادِ اُمت کو ’اپنی دنیا آپ پیدا کر…‘‘ کا زریں نکتہ سمجھایا۔ اس سے ہماری ملّی زندگی کے نئے باب کا افتتاح ہوا۔ پھر انھوں نے ۲۰جولائی ۱۹۲۶ء کو مجلس قانون ساز پنجاب کے انتخاب میں حصہ لے کر اور اس طرح عملی سیاست میں شریک ہوکر تغیر اور تعمیر کے عمل میں   مؤثر کردار ادا کیا۔ ان کی مساعی کا ثمرہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو، ملّت کی مزاجی کیفیت کی نئی تعمیر،  ایک آزاد قوم کے احیا اور ایک عظیم مسلم مملکت کے قیام کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔۱؎

ساتویں صدی ہجری (تیرہویں صدی عیسوی) میں جو کام مولانا جلال الدین رومیؒ (۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء) نے مثنوی کے ذریعے انجام دیا تھا، اسے بیسویں صدی عیسوی میں علامہ محمد اقبالؒ نے اوّلاً اسرارِخودی (۱۹۱۵ء) اور رموزِ بے خودی (۱۹۱۸ء) اور پھر جاویدنامہ (۱۹۳۲ء) اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق (۱۹۳۶ء) کے ذریعے انجام دیا۔ اسرارِخودی میں جمود اور انحطاط کے اصل اسباب کی نشان دہی کی گئی، تصوف پر یونانی اور عجمی اثرات کی وجہ سے جو حیات کُش تصور مسلمانوں پر مسلط ہوگیا تھا، اس کی تباہ کاریوں کو واضح کیا۔ اسرارِ خودی کا مرکزی تصور: ایمان کی یافت اور اس کی قوت سے ایک نئے انسان (مرد مومن) کی تشکیل ہے۔ رموز بے خودی میں اس اجتماعی، اداراتی اور تاریخی تناظر کو بیان کیا گیا ہے، جس میں یہ انسان اپنا تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ فرد اور ملّت کا تعلق، اجتماعی نصب العین، خلافتِ الٰہی کی تشریح و توضیح، اجتماعی نظم اور ادارات (خاندان، قانون، شریعت وغیرہ) کی نوعیت اور خودی کی پرورش اور ملّی شخصیت کے نمو میں تاریخ کے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

جاوید نامہ علامہ محمد اقبال کے روحانی سفر کی داستان ہے، جس میں وہ عالمِ افلاک کی سیر کرتے ہیں، دنیا اور اس کے ماورا پر بصیرت کی نظر ڈالتے ہیں اور مشرق و مغرب کی نمایندہ شخصیات کی زبان سے آج کی دنیا کے حالات، مسائل و افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش کو نمایاں کرتے ہیں۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں مغربی تہذیب کے چیلنج کا مطالعہ کرکے بتایا گیا ہے کہ یورپ کی ترقی کا اصل سبب کیا ہے اور مغربی تہذیب کے روشن اور تاریک پہلو کیا ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید سے قوم کو متنبہ کیا گیا ہے، اور ترقی کے راستے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پیامِ مشرق اور ارمغانِ حجاز میں یہی پیغام دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے، اور اس کا اظہار اُردو کلام میں بھی ہوا ہے۔ خصوصیت سے بانگِ درا کی قومی نظموں میں اور بال جبریل کی ولولہ انگیز غزلوں میں۔ ضربِ کلیم کے بے باک رجز کو خود اقبال نے: ’دورِحاضر کے خلاف اعلانِ جنگ ‘ قرار دیا ہے۔

علامہ محمد اقبال کی نثر کا بہترین حصہ انگریزی میں ہے۔ ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ انھوں نے  The Development of  Metaphysics in Persiaکے نام سے پیش کیا ہے۔    یہ محض ایک فکری تاریخ نہیں ہے، بلکہ اس کے آئینے میں اسلام پر عجمی اثرات کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اقبال نے تصوف کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، وہ اصل مآخذ کے وسیع مطالعے پر مبنی ہے۔

علامہ محمد اقبال نے اسلام کے تصورِ مذہب کی علمی اور فلسفیانہ تعبیر اپنے معروف انگریزی خطبات  The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam(تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ) میں پیش کی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر مغرب کے فکری رجحانات کو سامنے رکھ کر انسان، کائنات اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں اسلامی تصور کی وضاحت کی گئی ہے، مذہب اور سائنس کے تعلق سے بحث کی گئی ہے اور ذرائع علم کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ عصرِحاضر کے یک رُخے پن کے مقابلے میں اسلام کس طرح عقل، تجربے اور وجدان کی ہم آہنگی قائم کرتا ہے۔ اس بنیادی فکر کی روشنی میں آزادی اور عبادت کے تصور کو واضح کیا گیا ہے، اور ان تصورات کی بنیاد پر قائم ہونے والے تمدن کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز اسلامی قانون کی مثال دے کر یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلامی تمدن میں ثبات اور تغیر کا حسین امتزاج کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی سے زندگی اور حرکت کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہیں۔

مذکورہ بالا انگریزی کتابوں کے علاوہ، وقت کے علمی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کے بارے میں محمد اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار متعدد مضامین، تقاریر، بیانات اور خطوط کے ذریعے بھی کیا ہے۔ یہ سارا نثری ذخیرہ اُردو اور انگریزی مجموعوں کی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔۲؎

اگرچہ محمد اقبال کی مخاطب پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت ہے، لیکن انھوں نے خصوصیت سے مسلم قوم کے ذہین اور بااثر تعلیم یافتہ طبقے کو خطاب کیا۔ یہ مؤثر اور کارفرما طبقہ، ذہنی اور لسانی روایات سے وابستہ تھا۔ محمد اقبال نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے بنیادی طور پر شعر کا پیرایہ اختیار کیا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک شکست خوردہ قوم کو حرکت اور جدوجہد پر اُبھارنے کے لیے عقلی اپیل کے ساتھ ساتھ جذباتی اپیل کی ضرورت تھی۔ وقت کے چیلنج کا تقاضا محض عقل کو مطمئن کرنا نہیں تھا، بلکہ اہمیت اس امر کو بھی حاصل تھی کہ جذبات میں تموج برپا کرکے اس جمود کو توڑا جائے، جس میں یہ ملّت گرفتار تھی۔ نیز ایک مدت سے برعظیم پاک و ہند کی ملّت اسلامیہ دولخت شخصیت (split personality) کے مرض میں مبتلا تھی، یعنی اس کے عقیدے اور عقل میں یکسانی اور مطابقت باقی نہ رہی تھی۔۳؎

دوسرے لفظوں میں عقیدہ تو موجود تھا، مگر اس میں وہ حرارت نہ تھی جو جذبے کی خنکی یا سردمہری کو دُور کرسکے اور بے عملی اور مایوسی کی برف کو پگھلا دے۔ عقیدے کا چراغ اگر ٹمٹما رہا تھا تو عشق کی روشنی بھی باقی نہ رہی تھی۔ اس کیفیت نے ’روحانی فالج‘ کی صورت اختیار کرلی تھی، جس سے دین داری کی حِس مجروح ہورہی تھی    ؎

بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے

اس کیفیت میں دیرپا تبدیلی اور دُور رس انقلاب کے لیے صرف عقل کی روشنی کافی نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے جذبے کی تپش بھی درکار تھی (یہی، اقبال کے پیش کردہ تصورِ عشق کا پس منظر ہے)۔ علامہ محمداقبال نے جذبے کو مہمیز لگا کر انقلاب پیدا کرنے کے لیے شعر کا جادو جگایا (دوسری جانب اسی زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کام کو انجام دینے کے لیے خطابت کا طوفانی راستہ اختیار کیا تھا)۔

مسلم فکر کے زندہ موضوعات، لوازمے اور مباحث میں اقبال کا جو منفرد حصہ ہے، ذیل میں اس کے چند اہم پہلوئوں کی طرف مختصراً اشارہ کیا جاتا ہے:

  •  تقلید نھیں ، تخلیقی اجتھاد: قدیم و جدید کے درمیان کش مکش کو علامہ محمداقبال نے ’دلیل کم نظری‘ قرار دیا ہے۔ اگرچہ انھوں نے خود ان دونوں مآخذ سے پورا پورا استفادہ کیا،  مگر کسی ایک کے سامنے آنکھیں بند کرکے سپر نہیں ڈالی۔ علامہ محمد اقبال کی نگاہ میں زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے جس میں ثبات اور تغیر دونوں کا اپنا اپنا فطری مقام ہے۔ اسلام کا اصل کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس نے فطرت کے اس اصول کو تسلیم کرتے ہوئے اعتدال کے راستے کو نمایاں کیا۔ علامہ اقبال نے بتایا کہ صحت مند ارتقا اسی وقت ممکن ہے، جب تمدن کی جڑیں ایک جانب ماضی کی روایت میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہوں، اور دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حال کے مسائل اور مستقبل کے رجحانات سے پوری طرح مربوط ہوں۔ اقبال کی نگاہ میں فدویانہ تقلید، خواہ وہ ماضی کی ہو یا اپنے ہی زمانے کے چلتے ہوئے نظاموں کی، فرد اور قوم دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ صرف تعمیری اور تخلیقی اجتہاد ہی کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے، جو علامہ محمد اقبال نے اختیار کیا۔۴؎
  •  تصوف نھیں، حرکت و عمل: علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کے ماضی اور حال دونوں پر تنقیدی نگاہ ڈالی۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ انھوں نے غیر اسلامی اثرات کے تحت ایک ایسے تصورِ حیات کو شعوری طور پر اختیار کرلیا جو اسلام کی کھلم کھلا ضدپر مبنی تھا۔ اس سے ان کی صلاحیتیں زنگ آلودہ ہوگئیں، اس طرح وہ تاریخ اور زمانے کی اہم ترین قوت ہوتے ہوئے بھی تمدنی زوال، سیاسی غلامی اور فکری انتشار کا شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں یونانی اور عجمی مآخذ سے حاصل کیا ہوا تصوف اور اشراق، حددرجہ مہلک اور حیات کُش ثابت ہوا، جس نے مسلمانوں میں زندگی کا غیرحرکی اور جمود زدہ تصور رائج کر دیا۔۵؎ نفی ذات کے فلسفے نے یہاں بھی گھر کرلیا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ترکِ دنیا، ترکِ آرزو اور ترکِ عمل کی بنیاد پر جمود اور انحطاط کے مہیب سایے مسلط ہوگئے۔
  •  مرد مومن کے لیے لائحہ عمل: بگاڑ کے اسباب کی تشخیص کے بعد، علامہ محمد اقبال نے اسلام کے تصورِ حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا۔ اسلام کی جو تشریح و توضیح اقبال نے کی ہے، اس کی امتیازی خصوصیت اس کا حرکی (dynamic) اور انقلابی (revolutionary) پہلو ہے۔ کائنات کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تخلیقی عمل اور ارتقا جاری ہے۔ کائنات کسی تخلیقی حادثے کا مظہر نہیں ہے، بلکہ اس میں خالق کائنات کی جانب سے کن اور فیکون کا سلسلہ جاری و ساری ہے، گویا جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘۔ پھر کائنات کی حقیقت کو ’خلق‘ اور ’امر‘ کی نوعیت پر غور کرکے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔۶؎ اگر ’خلق‘ میں پیدایش اور وجود کی طرف اشارہ ہے تو ’امر‘ میں سمت اور منزل کی طرف رہنمائی ہے۔

ہر چیز ایک مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ وجود کا اساسی پہلو بھی احساسِ سمت، مقصدیت، حرکت اور مطلوب کی طرف سعیِمراجعت ہے۔ کائنات، انسان اور تاریخ، ہر ایک میں یہی حرکی اصول کارفرما ہے۔ جسم اگر خلقت کا مظہر ہے، تو روح امن کی آئینہ دار ہے۔ خودی اور اس کی تعمیر اس حرکی اصول کا لازمی تقاضا ہے۔ ترقی اور بلندی کی راہ نفیِ ذات نہیں، اثباتِ خودی ہے، جو خود ایک ارتقائی (evolutionary) اور حرکی عمل ہے۔ روح کی معراج، ذاتِ باری تعالیٰ میں فنا ہوجانا نہیں، بلکہ خالقِ حقیقی سے صحیح تعلق استوار کرنا ہے۔ ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے، عمل اس کا میدانِ کار ہے، اور عشق اس کی ترقی کا راستہ۔

یہی اصولِ حرکت تاریخ میں بھی کارفرما ہے۔ تاریخی اِحیا محض ماضی کے صحت مند رجحانات کے بقا و استحکام کا نام نہیں ہے، بلکہ ابدی اقدار اور تمدّنی نصب العین کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے میدانوں میں تخلیقی اظہار اور تعمیر اور تشکیلِ نو سے عبارت ہے۔ انسان ہی اس ارتقائی عمل کا اصل کارندہ ہے۔ اگرچہ کائنات کی ہر شے اس کی مدد کے لیے فراہم کی گئی ہے، لیکن انسانی زندگی کے کچھ اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے لیے ہے، اور یہ مقصد ہے منصبِ نیابتِ الٰہی۔۷؎

اسلام وہ طریق زندگی ہے، جو انسان کو اس کام کے لائق بناتا ہے اور تاریخ میں اس حرکت کو صحیح سمت دیتا ہے۔ مردِ مومن اور ملتِ اسلامیہ، کائنات کی اصلی معمار قوتیں ہیں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری صحیح طور پر انجام نہ دیں تو بگاڑ رونما ہوگا، خود ان کے درمیان بھی اور کائنات میں بھی۔

  •  عقل اور وجدان کا تعلّق: علامہ محمد اقبال نے مذہب کی بنیاد عقل یا سائنس پر نہیں رکھی، بلکہ انھوں نے عقل، تجربے، سائنس اور وجدان، ہر ایک کی اصل حقیقت کو واضح کیا، اور ان کی مجبوریوں اور دقتوں پر روشنی ڈالی۔ اقبال نے بتایا کہ جبلت، عقل اور وجدان کے نقائص کو وحی کی روشنی اور تربیت کے ذریعے ہی دُور کیا جاسکتا ہے۔ ان تینوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کر کے انسان کی خدمت اور رہنمائی کے صحیح مقام پر فائز کیا جاسکتا ہے۔۸؎  نومعتزلائی عقلیت اور مغرب کی بے جان سائنس کے مقابلے میں یہ عقلِ سلیم کی فتح تھی۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تجربہ اور مشاہدہ مذہبی فکر میں ایک اساسی حیثیت قرار پایا۔ روحانی اور مادی تقسیم کا باطل نظریہ ترک ہوا، اور دونوں کے امتزاج (synthesis) سے متوازن اسلامی زندگی کی تعمیر کی راہ روشن ہوئی۔
  •  حرکی تصور میں خودی کا مقام:ایمان اور عمل کا باہمی تعلق واضح کرنے کے لیے علامہ محمداقبال نے غیرمعمولی ندرت (innovation) کا ثبوت دیا۔ اقبال کے نظامِ فکر کے مطابق زندگی کا حرکی تصور آپ سے آپ عمل کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ پھر مذہبی تجربے کی اساسی اہمیت بھی اس سمت میں اشارہ کرتی ہے۔ اثباتِ خودی اور تعمیر شخصیت ایک مسلسل عمل ہے، جس کے بغیر انسان مقامِ انسانیت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ نیابتِ الٰہی کے تقاضے صرف تسخیرکائنات اور اصلاحِ تمدّن ہی کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ ’خودی‘ ایک بے لگام قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خداپرستی اور اخلاقی تربیت سے ترقی پاتی ہے۔ عشق اس کی قوتِ محرکہ ہے، جب کہ مادی قوت کو دین کی حفاظت اور پوری دنیا میں نظامِ حق کے قیام کے لیے استعمال کرنا اس کی اصل منزل ہے۔ یہی خلافتِ الٰہی ہے، اور یہی انسان کا مشن ہے۔۹؎ اقبال نے مذہب کا یہ انقلابی تصور دیا، جس نے ملّتِ اسلامیہ میں حرکت اور ہلچل پیداکر دی۔
  •  اسلامی ریاست، بنیادی تقاضا: اس تصورِ حیات اور اس مشن کا لازمی تقاضا ہے کہ خود سیاسی اقتدار اسلام کے تابع ہو۔ نہ صرف یہ کہ اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تقسیم نہیں ہے، بلکہ مذہب اور ریاست ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ اگر دین اور سیاست جدا ہوجائیں تو دین صرف رہبانیت بن جاتا ہے اور سیاست چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی ذہنیت ان کے دین اور دین سے ذہنی وابستگی ہی سے تشکیل پاتی ہے۔ ان کی ریاست، معاشرت اور معیشت، دین کے مقاصد ہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنے اظہار کے لیے ریاست اور تمدن کے روپ میں ظاہر ہو۔ مسلمانوں کو ایسے خطۂ زمین کی ضرورت ہے، جہاں وہ اغیار کے اثرات سے آزاد ہوکر اپنے تمدنی وجود کا مکمل اظہار کرسکیں، اور پھر اس روشنی کو باقی دنیا میں پھیلا سکیں۔ اسی عمل کو اقبال نے اسلام کی مرکزیت کہا ہے، اور اسی کے لیے انھوں نے ایک آزاد خطۂ زمین کا مطالبہ کیا۔ آزاد اسلامی ریاست صرف مسلمانوں کی سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ خود اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔۱۰؎
  •  تھذیبی غلامی، ایک زھر قاتل: علامہ اقبال نے مغربیت اور اس کے بطن سے رونما ہونے والی مختلف تحریکوں، خصوصیت سے لادینیت، مادّیت پسندی، قومیت پرستی، سرمایہ داری، اشتراکیت اور اباحیّت پسندی پر کڑی تنقید کی۔ انھوں نے بتایا کہ ان باطل افکار و نظریات کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے، نیز یہ کہ فی الحقیقت یہی تحریکیں انسان کے دکھوں اور پریشانیوں کا سبب ہیں۔۱۱؎ مسلمانوں کی نجات ان کی پیروی میں نہیں، بلکہ اپنی خودی کی یافت اور دین اسلام کے احیا میں ہے۔ اقبال نے بار بار خبردار کیا کہ اگر انھوں نے مغرب کی تقلید کی روش کو اختیار کیا، تو یہ راستہ ان کی خودی کے لیے زہرقاتل ہوگا۔ زندگی اور ترقی کا راستہ نہ تو ماضی کی اندھی تقلید میں ہے اور نہ وقت کے نظاموں کی فدویانہ پیروی اور جاہلانہ غلامی میں--- یہ راستہ اسلامی تعمیرنو کا راستہ ہے، جو اثباتِ خودی، احیاے ایمان، تعمیراخلاق، اجتماعی اصلاح اور سیاسی انقلاب کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف سیاسی غلامی سے بھی نجات حاصل ہوسکے گی، بلکہ اس سے زیادہ خطرناک ذہنی، تمدنی اور تہذیبی غلامی سے بھی رہائی مل جائے گی۔ پھر وہ جو ’زمانے کے غلام‘ بننے پر قناعت کر رہے ہیں وہ آگے بڑھ کر ’زمانے کی امامت‘ کا فریضہ انجام دے سکیںگے، اور یہی ملت اسلامیہ کے کرنے کا اصل کام ہے۔

علامہ محمد اقبال نے ایک طرف دینی فکر کی تشکیلِ نو کی اور اسلامی قومیت کے تصور کو نکھارا، دوسری طرف ملّی غیرت اور جذبۂ عمل کو بیدار کیا۔ مغربی افکار کے طلسم کو توڑا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی راہ پر گامزن کرنے میں رہنمائی دی۔ یہی اقبال کا اصل کارنامہ ہے اور اسی بنا پر وہ بیسویں صدی کی اسلامی فکر کے امام اور اس میں تجدید کی روایت کے بانی اور رہبر ہیں۔


حواشی

۱-  یہاں علامہ اقبال کی فکربلند کا تجزیہ پیش نظر نہیں۔ تاہم اختصار کے ساتھ اس امر کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ فکرِاقبال نے ادبی اور فکری روایت پر کس کس پہلو سے اثر ڈالا۔(دیکھیے: جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال: زندہ رود۔ سید علی گیلانی: اقبال، روح دین کا شناسا۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی:عروجِ اقبال، پروفیسر محمد منور: میزانِ اقبال، ایقانِ اقبال۔پروفیسر رفیع الدین ہاشمی: علامہ اقبال، شخصیت، فکراور فن۔ ڈاکٹر خالد علوی: اقبال اور احیاے دین۔ حیران خٹک: اقبال اور دعوتِ دین)

۲-  تفصیل کے لیے دیکھیے: رفیع الدین ہاشمی: تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ۔

  • ۳-  ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی: برعظیم پاک و ہند کی ملّت اسلامیہ، ص ۴۳
  • ڈاکٹر سید عبداللہ: میرامن سے عبدالحق، ص ۲۳۷-۲۴۶۔

۴-  The Reconstruction، باب ششم

  • سید ابوالحسن علی ندوی: نقوشِ اقبال۔
  • پروفیسر خورشیداحمد، اقبال اور اسلامی قانون کی تشکیلِ جدید، مشمولہ چراغ راہ، اسلامی قانون نمبر، ج۲، ۱۹۵۸ء۔

۵- علامہ اقبال مکتوب بنام محمد اسلم جیراج پوری (۱۷؍مئی ۱۹۱۹ء) میں لکھتے ہیں: ’’تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرونِ اولیٰ میں اس سے لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ہاں، جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظامِ عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کرکے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے، تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے‘‘۔ (اقبال نامہ [یک جا] مرتبہ: شیخ عطا محمد، اقبال اکادمی پاکستان، طبع نو و تصحیح شدہ،ص ۱۰۰)۔     سید سلیمان ندوی کے نام (۱۹۱۷ء) لکھتے ہیں: ’’تصوف کا وجود ہی سرزمینِ اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے، جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے‘‘ (ایضاً)۔ بنام اکبر الٰہ آبادی: (۲۵؍اکتوبر ۱۹۱۵ء): ’’صوفیا کی دکانیں ہیں ، مگر وہاں سیرتِ اسلام کی متاع نہیں بکتی‘‘۔ (اقبال نامہ[یک جا]، ص۳۸۱-۳۸۲) بنام اکبرالٰہ آبادی (۱۱؍جون ۱۹۱۸ء): ’’عجمی تصوف سے لٹریچر میں دل فریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتا ہے۔ مگر ایسا کہ طبائع کو پست کرنے والا ہے‘‘ (ایضاً، ص ۳۸۷)۔ lپروفیسر حمیداحمد خاں: اقبال کی شخصیت اور شاعری

  • ڈاکٹر صابر کلوروی: تاریخ تصوف۔

۶- اشارہ ہے قرآنی آیت اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ (اعراف۷:۵۴) کی طرف۔

۷- ڈاکٹر محمد اقبال : The Reconstruction، باب اوّل، دوم، سوم۔

  • اسرارِ خودی
  • رموزبے خودی lخضرراہ، در بانگِ درا
  • ساقی نامہ اور زمانہ، دربال جبریل، نوائے وقت، درپیامِ مشرق۔

۸-  The Reconstruction، باب دوم و ہفتم۔

۹-  اسرارِ خودی اور رموز بے خودی۔

۱۰-  ڈاکٹر محمداقبال: خطبۂ صدارت ۱۹۳۰ء۔ 

  • نیز ملاحظہ ہو: The Reconstruction، باب ششم و ہفتم
  • رموز بے خودی۔
  • پروفیسر محمدسلیم: علامہ اقبال کی سیاسی زندگیl محمد احمد خاں:  اقبال کا سیاسی کارنامہ
  • محمد حمزہ فاروقی: اقبال کا سیاسی سفر۔

۱۱-  پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق

  • ضربِ کلیم
  • جاوید نامہ
  • پیامِ مشرق۔ اس سلسلے میں دیکھیے: جنوری ۱۹۳۸ء کا سالِ نو کا پیغام، جو اقبال کی آخری تحریروں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

 

پاکستان کا قیام اللہ کی مشیت کا ثمرہ اور برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی قائداعظم کی قیادت میں مخلصانہ جدوجہد اور فقید المثال قربانیوں کا عطیہ ہے۔ یہ ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی تمام سازشوں، کاوشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود ان شاء للہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم و دائم رہے گا، لیکن اس امانت کی حفاظت ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے۔ آج ملک کو جو خطرات درپیش ہیں ان کی زد براہ راست اس کے وجود پر ہے جس کی طرف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب نے، کراچی کے حالات پر کراچی میں ہی منعقدہ از خود نوٹس (Suo Motu) سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے، ان درد بھرے الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’آپ کس چیز کی حفاظت کر رہے ہیں___ حکومت یا ریاست؟‘‘

یہ سوال آج پوری پاکستانی قوم کے لیے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے عملی جواب کے لیے ان کو دعوت عمل دے رہا ہے۔ عدالت کے فیصلے کا سب کو انتظار ہے۔ ہمیں امید ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ وہ حکومت سے تحریری ضمانتوں کے سراب کے تعاقب سے اپنے کو بچا کر حکومت اور اس سے بڑھ کر قوم کے لیے اس راہ عمل کی واضح نشان دہی کر سکے جو ہمیں اس دلدل سے نکال سکے۔ نہ صرف یہ کہ راستے کی نشان دہی کرے بلکہ اس پر عمل کو دستور کے تحت لازمی ذمہ داری (imperative)بھی قرار دے، فیصلے پر عمل سے اجتناب یا انحراف پر قانون کی گرفت کو مستحکم کرے، تمام دستوری اداروں کو پابند کرے کہ وہ قومی تاریخ کے اس نازک مرحلے میں ملک کی آزادی اور حکمرانی (governance) دونوں کو تار تار کرنے والی حکومت سے نجات، ریاست کے تحفظ اور اس کے تمام اداروں کو دستور کے نقشے کے مطابق بروے کار لانے کی خدمت انجام دے، تاکہ دستور کے تحفظ کی جو ذمہ داری فرد، دستور اور قوم نے عدلیہ کے سپرد کی ہے اسے پورا کیا جا سکے۔

آج عدالت عظمیٰ کے سامنے فیصلہ کسی حکومت کو بچانے کا نہیں بلکہ ریاست کو بچانے کا ہے۔ دستور کے تحت حکومت کا کام دستور کی روشنی میں اچھی حکمرانی ہے جس کا پیمانہ ملک کی آزادی، سلامتی، خود مختاری، عزت و شناخت کا تحفظ اور ملک کے عوام کو امن و امان، انصاف اور عزت کی زندگی کی فراہمی ہے___ لیکن موجودہ وفاقی حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں اچھی حکمرانی اور صلاحیت کار کے فقدان، بدعنوانی کے طوفان، دستور اور قانون کے احترام اور عوام کے مسائل و مشکلات کے باب میں بے حسی کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے، اس کی روشنی میں اسے مزید مہلت دینا ریاست کی بنیادوں کو پامال کرنے اور ملک کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس حکومت کی کارکردگی پہلے دن ہی سے مخدوش اور ناقابل اطمینان تھی لیکن سال رواں میں خصوصاً گذشتہ دو مہینوں میں اس کی جو کچھ کارکردگی قوم کے سامنے آئی ہے، اس کے بعد تو اس کے سوا کچھ کہنا مشکل ہے کہ اب یہ حکومت پاکستان کی ریاست کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ ان حالات میں ایسی حکومت سے نجات اور دستور کے تحت تبدیلی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ عدالت، پارلیمنٹ اور قوم سب کے سامنے اس وقت اصل سوال یہی ہے کہ ایک ایسی حکومت سے کیسے نجات حاصل کی جائے جو قانونی جواز مکمل طور پر کھو چکی ہے اور جس کے تسلسل سے ملک کی آزادی، سلامتی، عزت، معیشت اور امن وامان، غرض ہر چیز معرض خطر میں ہے۔

ہم یہ الفاظ بڑے گہرے غور، غیر جذباتی فکر، اور بے حد دکھ کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر رقم کر رہے ہیں، اور اس احساس کے ساتھ کر رہے ہیں کہ یہ صرف ہمارے جذبات اور احساسات نہیں بلکہ پاکستان کے ہر با شعور شہری کے دل کی آواز ہیں۔ روز کے اخبارات اور میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں اور تبصرے ایک آئینہ ہیں، جس میں حالات کی صحیح تصویر ہر شخص دیکھ رہا ہے اور خون کے آنسو رو رہا ہے۔ صرف اتمام حجت کے لیے ہم یہاں ان چند حقائق کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں جو ان دنوںبہت ہی کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور جن کے ادراک سے دل و دماغ تہ و بالا ہیں۔

خون ناحق کی فراوانی

پہلی بات انسانی جان کی ارزانی اور خون ناحق کی فراوانی ہے، جس نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میںلے لیا ہے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ جن کی ذمہ داری جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کا قیام تھا، وہ خود ان کی پامالی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں تشدد کا رجحان روزافزوں ہے، جرائم بڑھ رہے ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، ظلم اور زیادتی کا طوفان امنڈ رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غافل، خاموش اور بے بس ہیں بلکہ ان میں سے کچھ اس ظلم میں شریک اور ساجھی ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے قتل کے کل ۱۸۹ واقعات ہوئے تھے، جن میں سے ۱۶۰ عام شہری تھے، لیکن ۲۰۰۹ء میں ہلاکتوں کی تعداد ااہزار ۷ سو۴ ہوئی، اور ۲۰۱۱ء کے صرف ابتدائی چھے ماہ میں ۴ہزار ۸۲۔ ان ۱۰ سالوںمیں ۳۶ ہزار ۷ سو ۵ افراد اس اجتماعی تشدد کا نشانہ بن گئے۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جو دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔ جنوبی ایشیا کے ایک جائزے کے مطابق پورے جنوب ایشیا میں ۲۰۰۵ء میں اس نوعیت کے قتل کے واقعات میں پاکستان کا حصہ ۱۰ فی صد تھا، جو۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷۹ فی صد ہوگیا ہے۔(ڈان، ۲۶ اگست۲۰۱۱ء)

ایک دوسرے جائزے کی روشنی میں صرف گذشہ تین سال کے دہشت گردی کے واقعات کو لیا جائے تو سر فہرست بلوچستان آتا ہے، جہاں ۱۰۲۴ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ پھر صوبہ خیبر پختون خوا کا نمبر آتا ہے، جہاں یہ تعداد ۱۰۱۸ تھی۔ البتہ اگر تمام جرائم کا جائزہ لیا جائے جن میں عام قتل، اغوا براے تاوان اور (Imported Explosive Device) IED شامل ہیں، تو پنجاب ۱۵ہزار واقعات کے ساتھ سب سے آگے ہے، جب کہ سندھ میں ۹ ہزار ۲۰، خیبر پختون خوا میں ۶ ہزار ۷۶ اور بلوچستان میں ۱۳۵۵ واقعات رونما ہوئے۔ (دی نیشن، ۲۲؍اگست۲۰۱۱ء)۔ ستم یہ ہے کہ تشدد کا رجحان روزمرہ زندگی میںبڑھ رہا ہے۔ خاندان، سکول، کالج، محلہ، دیہات، شہر، غرض ہر جگہ یہ روز افزوں ہے، جو واضح طور پر اخلاقی زوال اور قانون کی حکمرانی کے فقدان کی علامت ہے۔

کراچی کے حالات

اس پس منظر میں کراچی کے حالات اور لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو از خود عدالتی کار روائیاں کی ہیں اور اس سلسلے میں جو حالات سامنے آئے ہیں، وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ کراچی میں صرف اس سال میں۱۳۱۰ افراد ہدفی قتل (ٹارگٹ کلنگ) کا نشانہ بنے ہیں۔ کراچی میں: ۱۲؍ربیع الاول، ۱۲ ؍مئی ۲۰۰۷، ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۷، ۷ اپریل ۲۰۰۸، سانحہ عاشورہ و چہلم، سانحہ بولٹن مارکیٹ کے خونیں واقعات ہماری تاریخ کے روح فرسا نشان بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں اور جو عدالت کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں ۲۰۰۱ء میں ٹارگٹ کلنگ کے ۲۷۳ خونیں واقعات ہوئے، جو ۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۷۷۸ ہو گئے، اور ۲۰۱۱ء کے صرف پہلے آٹھ مہینوں میں یہ تعداد ۱۴۰۰ ہو گئی ہے۔ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کہنے پر مجبور ہوئے کہ میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیوں کہ پولیس میں ۳۰سے ۴۰ فی صد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں اور میں پولیس افسران (ڈی آئی جی اور دیگر ) کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کر سکتا۔

آئی جی نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ کراچی جو ملک کا اہم شہر ہے اس کے حالات وزیرستان سے بھی خراب ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب بار بار پوچھتے رہے کہ مجرموں کے خلاف کار روائی کیوں نہیں ہوتی؟ انھیں چارج شیٹ تک نہیں کیا جاتا اور گرفتار کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر شہادتیں ہی مفقود ہوتی ہیں۔ وزیر داخلہ اعلان کرتے ہیں کہ مجرموں کی فہرستیں ان کے پاس ہیں لیکن کسی کے خلاف اقدام نہیں کیا جاتا۔ جواب میں اٹارنی جنرل انوارالحق صاحب عدالت کے سامنے یہ کہنے پر مجبور ہیں:

Police has not taken action against terrorists

پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔

۱۹ وکیل قتل کر دیے جاتے ہیں، پولیس اور فوج کے ۹۲ افسروں کو (جنھوں نے ماضی میں قاتلوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا) بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے مگرکوئی گرفت نہیں ہوتی۔ ٹارگٹ کلرز کے اقبالی بیان ریکارڈ پر ہیں۔ انوسٹی گیشن رپورٹیں جن کی تیاری میں پاکستان کی تمام قومی خفیہ ایجنسیوں نے شرکت کی ہے، ناموں کے تعین کے ساتھ مجرموں کی نشان دہی کرتی ہیں مگر مجرمین پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

عدالت کے سامنے کئی اقبالی بیان لائے گئے ہیں، جن میں سے ایک اجمل پہاڑی کا ہے  اور جس نے ۱۱۰ سے زیادہ قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ نام لے کر ایسی ایسی تفصیلات بھی بیان کی ہیں جن میں کراچی کی غالب لسانی پارٹی کی مرکزی قیادت کا واضح کردار موجود ہے۔ بھارتی حکومت اور ایجنسیوں کی معاونت کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔ بیرونی ممالک اور ٹھکانوں کی نشان دہی ہے    لیکن حکومتِ وقت، جنرل پرویزمشرف کے دور میں اور اس کے بعد زرداری، گیلانی اور رحمن ملک کے دور میں بھی ان کے خلاف نہ صرف کوئی کار روائی نہیںکرتی، بلکہ ان عناصرکی پشت پناہی کرتی اور انھیں شریک اقتدار کرتی اور ’مفاہمت‘ کے نام پر ان کے جرائم کی (بشمول بھتاخوری، قتل و غارت گری، زمینوں پر قبضے، اذیت خانوں کے قیام اور جیلوں میں مجرموں کی سرپرستی) کی پردہ پوشی کرتی ہے۔

مجرموں کی سرپرستی

کراچی ہی نہیںپورے ملک میں غیر قانونی اسلحے کی بھر مار کی بات کی جاتی ہے لیکن شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کی کسی باضابطہ و موثر مہم کا کہیں دور دور تک پتا نہیں۔ پھر ناجائز اسلحہ تو ہے ہی ناجائر، خوں ریزی اور دہشت گردی میں لائسنس یافتہ اسلحے کا کردار بھی کم نہیں۔ لائسنس یافتہ اسلحے کو بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ پرویز مشرف اور زرداری حکومتوں کے زمانے میں چند خاص سیاسی جماعتوں اور مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے اسلحہ لائسنسوںکا ایسا پھیلائو ہوا ہے جس کا پہلے کوئی تصور نہیں تھا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزانے اپنے تین سالہ دور میں ۳ لاکھ اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کو خود تسلیم کیا ہے اور پولیس میں ۱۰ ہزار کی بھرتی کی بات کی ہے۔ سندھ کے آئی جی نے عدالت کے سامنے کہا کہ قیام پاکستان سے ۲۰۰۱ء تک کے ۵۳ سالوں میںپورے سندھ میں صرف ۵۰ ہزار لائسنس جاری کیے گئے، جب کہ گذشتہ ۱۰ سال میں، یعنی مشرف ،    مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم (۲۰۰۲ء- ۲۰۰۸ء) کے دور میں اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی (۲۰۰۸ء -۲۰۱۱ء) کے دور میں ساڑھے پانچ لاکھ لائسنس جاری کیے گئے (ان میں ممنوعہ بور کا اسلحہ بھی شامل ہے)۔ پیپلز پارٹی نے ’جیالا‘ کلچر روشناس کروایا ، الذوالفقار نامی تنظیم نے دہشت گردی کا بازار گرم کیا۔ لیاری کی نام نہاد امن کمیٹی پی پی پی ہی کی بازوے شمشیر زن تھی اور یہ اس کی واحد شمشیر نہ تھی۔ رہی ایم کیو ایم، تو اس نے تو اپنی پوری سیاست کی بنیاد ہی بھتا خوری، دہشت گردی اور تشدد پر رکھی۔ ۱۹۸۹ء ہی میں جناب الطاف حسین نے برملا اعلان کیا کہ ٹیلی ویژن بیچ کر اسلحہ خرید لو۔ ان کی سیاست کا محور اور قوت کا راز ہی جدید ترین اسلحے سے مسلح ان کا عسکری ونگ رہا ہے اور ان کا ماٹو (’’قائد کا جو غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے‘‘ )ان کے سیاسی کلچر کا ترجمان ہے۔کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں کے لوگ اس کا تجربہ رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر بھی اس کا پورا ادراک پایا جاتا ہے۔ گو، اپنے اپنے سیاسی مصالح یا کمزوریوں کی وجہ سے ہر کسی نے یا اس سے اغماض برتا ہے یا ان کو شریک کار بنا لیا ہے۔ کینیڈا کی ریاست کیوبک میں ایم کیو ایم کو پاکستان میں اس کے دہشت گردی کے کردار کی بنیاد پر’ایک دہشت گردی تنظیم‘ قرار دیا گیا ہے۔ صوبے اور ملک کی ہائی کورٹ دونوں ہی نے یہ فیصلہ کرکے ان کے افراد کو امیگریشن کے قوانین کے تحت ملک بدر کیا ہے۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیانات، خواہ آدھا سچ ہی پیش کرتے ہوں، ایسے تکلیف دہ، ہولناک اور شرمناک جرائم کی متعین انداز میں نشان دہی کرتے ہیں، جن پر بر وقت گرفت نہ کرنے کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ قانون اور شرافت کی دھجیاں بکھیرنے والے یہ تمام عناصر جو سیاست میں بھی بڑے معتبر رہے ہیں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں ان کا چہرہ صاف نظر آ رہا ہے۔ پھران کی پشت پناہی کرنے والوں، ان کو شریک اقتدار کرنے والوں، اور ان جرائم کا علم اور پورا ریکارڈ اپنے پاس رکھنے کے باوجود اور اقتدار کی قوت حاصل ہونے کے علیٰ الرغم ان پر کار روائی نہ کرنے والوں کا چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اوراس تصویر کی مدد سے ان تمام اسباب اور عوامل کا ادراک بھی ہو جاتا ہے جو ان حالات کا باعث ہوئے۔ آج بڑے بڑے سیاسی کھلاڑی ایک دوسرے کے چہروں پر خون کے دھبوں کی نشان دہی کررہے ہیں، لیکن اپنی معاونت اور ذمہ داری کے باب میں خاموش ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسرعنایت علی خاں کا شعر اس صورت حال پر کتنا صادق آتا ہے کہ   ؎

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

مجرم اور مجرم کو پناہ دینے والے دونوں برابر کے مجرم اور ان حالات کے ذمہ دار ہیں اور اگر ان تمام حقائق کے سامنے آنے کے بعد بھی مفاہمت اور منافقت کا کاروبار گرم رہتا ہے، عدالت بھی انصاف اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجاے وعظ اور تحریری ضمانتوں کا خود کش راستہ اختیار کرتی ہے، تو پھر ہمیں ڈر ہے کہ انقلاب کے نام پر انتشاراور انتقام کو روکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کا سامان ہو سکتا ہے جس سے ہم اللہ ہی کی پناہ مانگتے ہیں۔

عدالت عالیہ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں، اور عدالت کے باہر ڈاکٹر ذولفقار مرزا اور دوسرے افراد نے پورے تعین کے ساتھ اور افراد کی نشان دہی کرتے ہوئے جو حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں، وہ ایک آئینہ ہیں جن میں ملک کے حالات اور خصوصیت سے ارباب اختیار کے کردار، سیاسی جماعتوں کے رول اور حکومت، پولیس، رینجر اور اپنے اپنے زمانے کی فوجی قیادت کے کردار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اب یہ لاوا پھٹ رہا ہے اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتی،اگر حکومت دستور، قانون، اخلاق اور شرافت کی اقدار کو اسی بے دردی کے ساتھ پامال کرتی ہے،مجرموں کی نہ صرف پشت پناہی کی جا تی ہے، بلکہ انھیں سرکاری عہدوں پر بحال رکھ کر کھل کھیلنے کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے،تو پھر یا عوامی انقلاب کے ذریعے حالات بدلیں گے، یا پھر پورا معاشرہ اللہ کی گرفت میں آئے گا بشمول ان کے۔ ایسی صورت حال میں وہ لوگ جو خواہ ان جرائم میں شریک نہ ہوں اور عدل و انصاف کے نظام کے قیام کی جدوجہد ہی کرتے ہوں،مگر حقِ نصیحت ادا کرنے میں کوتاہی کے سبب وہ بھی اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم سب اصلاح احوال کا راستہ اختیار کریں اور تباہی سے بچنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔

وکی لیکس کے آئینے میں

جس طرح ایک آئینے میں ہم ملک میں بدامنی، دہشت گردی اور ظلم و زیادتی کے حالات اور خصوصیت سے سپریم کورٹ کی از خود سماعت (سوموٹو) کار روائیوں میں سامنے آنے والے واقعات دیکھ رہے ہیں، اسی طرح دوسرے آئینے میں وہ انکشافات ہیں جو وکی لیکس کے ذریعے پاکستان کی قیادت، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں، فوجی ذمہ داروں اور خود میڈیا کے افراد کی امریکی سفارت کاروں سے بات چیت، عرض داشتوں، خوشامدوں اور سفارشات اور معاملہ بندی کا مرقع ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام دستاویزات کا معروضی انداز میں مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے۔ تلخ حقائق کے اس دروبست کو سمجھا جائے جو سفارت کاری کے نام پر ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ہم پر مسلط ہے۔ اخبارات میں جو حصے شائع ہوئے ہیں ان سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ بڑی مکروہ ہے۔ ایک طرف استعمار کی وہ نئی شکل امریکا کی سلطنت (hubris)کی صورت میں سامنے آئی ہے جو ہم پر اور باقی مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک پر تھوپی گئی ہے اور جسے بڑی خوش اسلوبی سے جمہوریت، لبرلزم، موڈرنزم، دوستی اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر شپ کا لبادہ اڑھا یا گیا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو ہمارے اپنے حکمرانوں اور ارباب اختیار کی وہ سوچ، ان کے اصل عزائم اور ان کا وہ کردار ہے جو بظاہر نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے علاوہ  ملک کی تمام ہی سیاسی اور کچھ مذہبی جماعتوں کی جو تصویران مراسلات میں ابھرتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ الفاظ، انداز تکلم اور التفات کی شکلوں میں اختلاف ہے لیکن مدعا سب کا ایک ہی نظر آتا ہے___ امریکا ہی ان سب کا اصل مولا اور کرتا دھرتا ہے۔اسی کی نظر التفات ہر ایک کو مطلوب ہے۔ اسی کے ایجنڈے کو ہر ایک آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ اسی کی مدد سے اقتدار میں آنے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کا ہر کوئی متمنی ہے۔ جناب عنایت علی خاں نے ان حضرات کی اسی کیفیت کو اپنی ’گلوبل حمد‘ ،’یا حافظ امریکا، یا ناصر امریکا‘میں بیان کیا ہے، چند اشعار ملاحظہ کریں:

جو تیری طلب ہو گی ہم اس سے سوا دیں گے
اک تیرے اشارے پر ہم جان لڑا دیں گے
پیاروں کو کٹا دیں گے، خوابوں کو سلا دیں گے
خود اپنے نشیمن کو ہم آگ لگا دیں گے
پھر آگ کے شعلوں کو ڈالر کی ہوا دیں گے
مقتل میں تہہ خنجر جینے کی دعا دیں
یوں شانِ وفاداری دنیا کو دکھا دیں گے

ہمارے اپنے ملک کی آزادی اور قوم کا وقار اور عزت، ہمارے اپنے ملّی اور ملکی مفادات اور ترجیحات اور ہمارے ایمانی تقاضے، تہذیبی اور تمدنی روایات اور عوامی امنگیں اور ضروریات یہ سب کچھ ان کے لیے یا غیر متعلق ہے یا صرف جزوی طور پر قابل لحاظ___ اصل فیصلہ کن بات وہ ہے جو امریکا چاہتا ہے اور جس کی خاطر ہم اپنے تمام معاملات کو چلانے اور طے کرنے میں عافیت دیکھتے ہیں۔ بات سخت ہے لیکن اگر الفاظ کو، یعنی معنی کواصل اہمیت دی جائے تو ان مراسلوں سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری مقتدر قیادتوں کی بدعملی اور قومی مفادات سے بے وفائی کے سبب ہماری آزادی ایک سراب بن کر رہ گئی ہے۔ان حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر ہماری ہر چیز کا سودا کر لیا ہے یا کرنے کو تیار ہیں، اور اس سے بھی یہ کوئی سبق سیکھنے سے عاری ہیں کہ عالمی طاقتیں اپنی مطلب براری کے لیے دوسروں کو کس طرح استعمال کرتی ہیں اور اپنا مطلب نکال کر کس طرح دودھ میں سے بال کی طرح نکال پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کو خوش کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو دھوکا دینا ان حکمرانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل اور روزمرہ کا مشغلہ ہے، اور ان کی ساری کاوش امریکا کی نظرِ کرم کو حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہے___الا ماشاء اللہ! بحیثیت مجموعی ان حکمرانوں کے لیے اصل چیز ان کا اپنا مفاد، ان کا اقتدار، اس چند سال کی زندگی کے لیے سہولتوں کا حصول اور پھر اپنے خاندان اور اپنی آل اولاد کے لیے ان کا تسلسل ہے۔

وکی لیکس عالم سیاست میں ہوش ربا داستانوں کی ایک الف لیلیٰ ہے۔ پاکستان اور مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ارباب بست و کشاد کی جو تصویر وکی لیکس کے ذریعے ہمارے سامنے آتی ہے ہم  قارئین کی توجہ اس کی طرف مبذول کرانا اور بتانا چاہتے ہیں کہ اس کا کیا تعلق ہمارے حالات سے ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ حالات میں جو بگاڑ ہر قدم پر نظر آ رہا ہے اس کا سبب ہمارے اپنے ارباب اختیار کے عزائم، کردار اور ترجیحات ہیں۔ بیرونی قوتوں کا عمل دخل ہمارے معاملات میں ہرہر سطح تک اور ہر ہر انداز میں پہنچ گیا ہے، اور کوئی شعبہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔ بیرونی قوتیں تو وہی کردار ادا کر رہی ہیں جو ان کے مفاد میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کیا کردار کر رہے ہیں؟ اور ہم نے ان کو یہ سب کچھ کرنے کا موقع کیوں دے رکھا ہے؟ بظاہر دستور بھی ہے اور دستوری ادارے بھی، میڈیا بھی آزاد ہے اور اس کا کردار بھی بڑھ رہا ہے، لیکن ان تمام ذرائع کو دوسرے کس طرح استعمال کر رہے ہیں اور ہم کس طرح استعمال ہو رہے ہیں؟ بیرونی سازشوں کا نوحہ بہت ہوچکا، اب جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تباہی اور بربادی کی اس افتاد  میں ہمارا اپنا کردار بھی ہے___ اور جب تک ہم اپنے گھر کو درست کرنے اور زمام کار ان ہاتھوں سے چھین لینے کی فکر نہیںکرتے جو ہمارے اور ہمارے دین و ملت کے حقیقی وفادار نہیں، اس وقت تک ہم نہ اپنے گھر کو درست کر سکیں گے، نہ اپنے وسائل کو اپنے لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ کر سکیں گے۔ اورنہ دنیا میں اپنا اصل مقام ہی حاصل کر سکیں گے۔

آئینے میں جو تصویر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے جانے والے حقائق سے ابھرتی ہے، ایک دوسرے انداز میں وہی تصویر وکی لیکس کے آئینے میں بھی نظر آتی ہے___اور اس کا تقاضا بھی وہی ہے، جو پہلی تصویر سے سامنے آ رہا ہے۔

معیشت کی زبوں حالی

ایک اور آئینہ وہ ہے جو بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاری اور بحیثیت مجموعی معیشت کی زبوں حالی کا عکاس ہے۔ ایک طرف دولت کی ریل پیل ہے اور دوسری طرف غربت اور فقر و فاقہ اپنی  انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ آبادی کا پانچواں حصہ سارے وسائل پر قابض ہے اور ۸۰ فی صد آبادی محرومیوں کا شکا رہے۔ اگر بین الاقوامی اشاریے کی روشنی میں دو ڈالر یومیہ آمدنی (۱۷۰ روپے) کو کم سے کم ضرورت سمجھا جائے تو ۷۵ فی صدی آبادی اس خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اگر یہ افراد کسی طرح جسم اور روح کے رشتے کو باقی رکھ بھی لیتے ہیں تو بھی یہ تعلیم، صحت اور ترقی کے مواقع سے محروم رہتے ہیں۔ پھر ملک کا معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر ہے، جو بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کو بچانے اور مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تمام ہی ادارے بحران کا شکار اور قرضوں کے گرداب میں گرفتار ہیں۔ صرف ان کو زندہ رکھنے کے لیے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر۴ سو ارب روپے سالانہ ان کو دیے جا رہے ہیں اور خسارہ ہے کہ ہر سال بڑھ رہا ہے اور بڑے بڑے ادارے دم توڑتے اور سہولتیں ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ سڑکیں اور پل برے حال میں ہیں، بجلی، گیس او رپانی کی فراہمی روبہ زوال ہے، پی آئی اے ، اسٹیل مل اور ریلوے جان بلب ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے، ہسپتال اور دوسرے طبی سہولتوں کے مراکز زبوں حالی کا شکار ہیں۔ روزگار کے مواقع مفقود ہیں۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ ملک پر قرضوں کا جتنا بوجھ ملک کے قیام سے ۲۰۰۷ء تک کے ۶۰ سالوں میں تھا، بعدکے صرف چار سالوں میں اس سے کچھ زیادہ ہم پر لاد دیا گیا ہے۔

اس پر مستزاد اشیاے ضرورت کی قلت، ان کی ناقص کوالٹی اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ ان چار سالوں میں افراط زر (مہنگائی) ۱۲ اور ۱۴ فی صد رہی ہے۔ اور اشیاے خوردو نوش میں مہنگائی کی شرح عام اشاریے سے زیادہ رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے اشیاے خوردو نوش میں ان چار سالوں میں ۸۰ سے ۱۰۰ فی صد اضافہ ہو گیا۔ مزید برآں آفات سماوی ہیں جن کا تازیانہ برابر پڑ رہا ہے اور ہماری آنکھیں ہیں کہ کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ ۲۰۰۵ء کا زلزلہ، ۲۰۱۰ء کا سیلاب اور اب ۲۰۱۱ء کی بارشیں اور سیلاب___لاکھوں انسان گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں، کھڑی فصلیں بہ گئی ہیں، مکانات منہدم ہو گئے ہیں، مال مویشی لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ اور تمام تنبیہات کے باوجود نہ خطرات کے مقابلے کے لیے مناسب پیش بندی کی گئی اور نہ افتاد زدہ علاقوں اور افراد کی مدد اور اعانت کے لیے معقول انتظام کیا گیا۔ غضب ہے کہ گذشتہ سال کے سیلاب کے موقعے پر جو رقم ملک اور ملک کے باہر سے امداد کی مد میں آئی تھی، اسے بھی مستحقین پر خرچ نہیں کیا گیا ہے۔ غفلت اور بد عنوانی دونوں نے تباہی کو اور بھی سوا کر دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی بے لگام ہے اور سیاسی قیادت بے حس ہے۔

سیلاب زدگان کی مدد کے سلسلے میں پبلک اور دینی اور نجی دائرے کے خدمت خلق کے اداروں کی طرف سے متاثرین کی مدد کے لیے بڑا قابل تحسین کام ہوا ہے۔ یہ جہاں خیر کی علامت ہے، وہیں حکومتی اداروں کی غفلت اور بدعنوانی پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔ صدر مملکت فوٹو سیشن کے لیے تو خاصے چاق و چوبند تھے لیکن اس کے فوراً بعدپھر اسی طرح بیرونی دوروں پر روانہ ہوئے جیسے ۲۰۱۰ء کے سیلاب کے موقع پر ہوئے تھے___ان کی ترجیحات میں عوام کے مسائل اور مصائب کا مقام دور دور نظر نہیں آتا۔

قیام پاکستان کا مقصد؟

جس کام کو قومی ترجیحات میں اولین مقام حاصل ہونا چاہیے، اس کے بارے میں اتنی غفلت اوربے توجہی ایک بنیادی مرض کی علامت ہے۔ اس کا علاج بھی وہی فکر و نظر کی تبدیلی اور  انقلابِ قیادت ہے۔

ان تمام حالات کا تقاضا تھا کہ سب سے پہلے اللہ سے رشتے کو مضبوط کرنے اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی منزل کے تعین اور ترجیحات کی ترتیب نو کی فکر کی جاتی۔ اللہ سے عہد کی تجدید ہوتی اور قوم کے وسائل کو امانت اور حکمت کے ساتھ قوم کے مستحقین کی ضرورتوں کو پورا کرنے، امن و امان کے قیام اور انصاف کے ساتھ سب کے حقوق کی ادایگی کے لیے استعمال کیا جاتا۔ پاکستان وسائل کے باب میں غریب اور محروم ملک نہیں۔ اصل چیلنج وسائل کی ترقی اور صحیح استعمال کا  ہے اور یہیں ہم بار بار ٹھوکریںکھا رہے ہیں۔ اصل وجہ اخلاص کی کمی، منزل کا عدم شعور، رب کی بندگی، اور محنت، تعاون، خدمت اور مشارکت کے اسلامی اصولوں کی عدم پاسداری ہے۔

بات اب صرف اس نصب العین، ہدف اور حکمت عملی سے گریز ہی تک محدود نہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے منتخب کیا ہے اور جسے اصولی اور اجمالی طور پر دستور پاکستان میں رقم کر دیا گیا ہے۔ نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کھلے بندوں اس مقصد اور منزل ہی سے دستبرداری کے دعوے اور انحراف کی راہوں کی استواری کا سامان کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی اسلامی بنیاد کو مسمار کرنے کے لیے بیرونی دشمن تو پہلے دن ہی سے مصروف تھے، لیکن اب ایک منظم سازش کے ذریعے اس تصور ہی پر تیشہ چلایا جا رہا ہے جو اقبال اور قائداعظم نے دیا تھا اورجس کی بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں نے آزادی کی جدوجہد میں جان و مال کی بازی لگائی تھی۔

ایک صاحب لندن میں بیٹھ کر اور ملکۂ برطانیہ سے وفاداری کا عہد لے کر قوم کو بتا رہے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الا اللہ محض ایک واہمہ اور بعد کی اختراع ہے۔ اور یہ وہ صاحب ہیں جنھوں نے بھارت کی سرزمین پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا قیام ہی ایک غلطی تھی اور اگر وہ اس وقت ہوتے تو پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے۔ایک اور بزرگ پاکستان بھارت دوستی کے راگ کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ انھیںپاکستان اور بھارت اور مسلمان اور ہندو کلچر میںکوئی فرق ہی نظر نہیں آتا، اور وہ اس قوم کے ساتھ آلو گوشت کھانے کی بات کرتے ہیں جو گوشت کو ہاتھ لگانے سے نجس ہونے کا عقیدہ رکھتی ہے اور جس نے اپنے سماج کی بنیاد ہی ’ہندو پانی‘ ’مسلمان پانی‘ کے دو جداگانہ دھاروں پر رکھی ہے۔ اس وقت پاکستان کو اس کی نظریاتی شناخت سے محروم کرنے اور اسے ایک بے لنگر کے جہاز میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔ خاص طور پر انگریزی پریس میں تو پاکستان کے تصور کے خلاف صلیبی جنگ کی سی فضا پائی جاتی ہے، اوراب اردو پریس میں بھی اس کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی قوم اور اس کی نئی نسل کو اس کی تاریخ سے کاٹنے اور بے بہرہ رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے، اور استعماری اہداف کو پورا کرنے کے لیے ایک نئی تاریخ وضع کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ قائداعظم نے جس بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں کو ایک آزادمسلم ریاست کے قیام کے لیے بیدار اور متحرک کیا تھا وہ اسلام کے سوا کچھ نہ تھی۔ قائداعظم نے ۱۹۴۴ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے ___نہ وطن ہے او رنہ نسل۔‘‘ان کا ارشاد تھا کہ:

ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیںکیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔

قائد اعظم نے پنجاب مسلم فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے مارچ ۱۹۴۵ء میں فرمایا تھا کہ ’’اسلام ہمارا رہنما اور ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔‘‘قیام پاکستان کے بعد ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اسی شہر لاہور (پنجاب یونی ورسٹی گرائونڈ) میں یہ ایمان افروز اعلان فرمایا تھا:

ہر شخص کو میرا پیغام پہنچا دیجیے کہ وہ عہد کرے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہے۔

یہ ہے پاکستان کی اصل تقدیر___اور یہی وہ تقدیر ہے جو قوم میں یکسوئی اور یک رنگی پیدا کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں انصاف اور خوش حالی پر مبنی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے اور دنیا اور آخرت میں مسلمان کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔

جدوجہد، وقت کی ضرورت

جس انقلاب کی پاکستان کو ضرورت ہے، وہ یہ ہے___ اور جس قیادت نے اس وقت پاکستان پر قبضہ کر رکھا ہے وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ وسلم کی وفادار ہے اور نہ اقبال اور قائداعظم کے تصور پاکستان سے اسے کوئی نسبت ہے (اگر وہ نبی کریمؐ سے وفاداری کا دعویٰ کرے بھی تو اس کا عمل اس دعوے کی نفی کر رہا ہے)۔ اس کا اصل چہرہ وہ ہے جو اوپر کے آئینوں میں نظر آ رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان چہروں کو بدل دیا جائے جو پاکستان کو اس کی اسلامی منزل سے کاٹ کر استعماری قوتوں کی چاکری کے لیے، اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

پاکستان کو اس گروہ کے چنگل سے نکالنے اور اسے اُمت کے اصل مقصد او رمنزل کے لیے وقف کرنے کی جدوجہد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اس وجہ سے اور بھی بڑھ گئی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو غیروں کی نگاہ میں معتبر بنانے اور ان کے سہارے اپنی قوم پر اپنے تسلط کو باقی رکھنے کے لیے پاکستان کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آگ میں دھکیل دیا تھا جس کی تباہ کن قیمت ہم اب تک ادا کر رہے ہیں۔ اب اس صورت حال سے جلد از جلد نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ایک عظیم جھوٹ پر مبنی تھی اور اس کے نتیجے میں دنیا ظلم اور طغیان سے بھر گئی ہے، دہشت گردی میں چند دو چند اضافہ ہو گیا ہے، لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں، اور امریکا سمیت دنیا کی معیشت کو کھربوں ڈالر کے نقصانات اٹھا چکی ہے مگر افسوس کہ اس تباہی کے رکنے کا کوئی سامان نظر نہیں آ رہا ہے۔

امریکا یہ جنگ افغانستان میں ہار چکا ہے اور کابل میں خود اپنے اور ناٹو کے مراکز کی حفاظت کے لیے جو حصار اندر حصار اس نے تعمیر کیے تھے وہ درہم برہم ہو چکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے اس کے لیے اس جنگ کو جاری رکھنا مشکل تر ہو رہا ہے اور اس سال راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں امریکی عوام کی اکثریت نے پہلی بار اسے ایک ناکام جنگ قرار دیا ہے اور اس سے نکلنے کا مطالبہ اب تیزی سے اکثریت کا مطالبہ بنتا جا رہا ہے۔

امریکا اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ سیاسی اور معاشی دبائو کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اورپاکستان کو اپنے بچے کچھے دوستوں سے بھی محروم کر رہاہے۔ اس کی کوشش ہے کہ شمالی وزیرستان میں جنگ کی آگ بھڑکا کر ہمیں اس میں جھونک دے۔ اس کے لیے امریکا نے اپنی 3-B مہم (Bully Bribe & Blackmail)یعنی دھونس ، رشوت اور ناجائز دبائو تیزتر کر دی ہے۔ امریکا کی قومی اور سیاسی قیادت نے پاکستان پر دبائو میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔اس امریکی دبائو سے ہماری سیاسی قیادت کے بازو ڈگمگانے لگے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتے میں جس طرح امریکی وزیر دفاع، وزیر خارجہ، چیف آف اسٹاف اور امریکی صدر نے پاکستان کا گھیرائو کیا ہے، وہ امریکا کے جارحانہ عزائم کو واشگاف کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ دبائو ابھی اور بڑھے گا اور بھارت بھی اس میں اپنا کردار بڑھائے گا۔ یہ وقت امریکا کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا وقت ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قوم موجودہ امریکا نواز اور امریکیوں کی اسیر قیادت سے نجات پائے اور عوامی قوت سے ایک ایسی قیادت بروے کار لائے جو قیام و حصول پاکستان کے اصل مقاصد کی علم بردار ہو، جو دیانت اور اہلیت کے جوہر سے مالا مال ہو، جس کے دامن پر کرپشن اور امریکا پرستی کا داغ نہ ہو، جو بھارت سے برابری کی بنیاد پر دوستی اور باعزت تعلقات کی تو خواہاں ہو لیکن بھارت کے اس کھیل کا حصہ نہ بنے،جو وہ علاقے میں کھیل رہا ہے اور چین کے خلاف حصار بنانے میں مصروف ہے، کشمیر پرغاصبانہ قبضہ جاری رکھنے پر مصر ہے اور پاکستان کو پانی سے محروم کرکے ایک بنجر اور بھارت پر انحصار کرنے والا ملک بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔

امریکا کا دوغلا پن تو اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ وہ خود تو طالبان سے مذکرات کرنے میں مشغول ہے اور کابل حکومت سے ان کے اشتراک اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہے، اور ہمیں ان سے لڑانے پر مصر ہے۔ ہم پر الزام ہے کہ حقانی نیٹ ورک شمالی وزیرستان سے کارروائیاں کر رہا ہے، جب کہ حقانی نیٹ ورک کے قائد کا دعویٰ ہے کہ ہم افغانستان میں ہیں اور وہیں سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شکایت ہے کہ شمالی وزیرستان سے افغانستان میں لوگ کیوں داخل ہوتے ہیں لیکن اس سوال کا کوئی جواب امریکا کے پاس نہیں کہ امریکا اور ناٹو کے ڈیڑھ لاکھ فوجی اورافغانستان کی نیشنل آرمی کے ۲ لاکھ جوان ان چند مجاہدین کا راستہ روکنے میں کیوں ناکام ہیں؟   وہ افغان سرحد سے کئی سو کلومیٹر دور کابل کے قلب میں ان مقامات پر کار روائیاں کر رہے ہیں جن کے گرد تین تین آہنی سکیورٹی حصار قائم کرنے کے دعوے کئی ماہ سے کیے جا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ صرف اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرانے اور پاکستان کی قیادت اور فوج کو بلیک میل کرنے کے لیے یہ دبائو ڈالا جا رہا ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اب اس جنگ سے نکلنے کا اعلان کرکے اپنے دفاع کی مناسب اور موثر حکمت عملی بنائی جائے۔ پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس حکمت عملی کی پشت پر ہو۔ امریکا سے you do more کہنا بے معنی ہے۔ ۱؎  ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا کو بتا دیا جائے کہ پاکستان نے جو کچھ کیا اور امریکا نے اس کا جو بدلہ دیا ہے اس کے بعد ہمارا صرف ایک ہدف ہے اور وہ یہ کہ امریکا کی مسلط کردہ پالیسی سے خلاصی اور چھٹکارا۔  do more کا صحیح جواب no more ہے اور اس کے لیے پوری قوم کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اس پالیسی کے اختیار کرتے ہی حالات بدلنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان کو دہشت گردی کی جس آگ میں جھونک دیا گیا ہے وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑ جائے گی۔

جو جنگ ہم نے خود امریکا کے دبائو میں اپنے اوپر مسلط کر لی ہے، اس سے جلد نجات مل جائے گی۔ پارلیمنٹ نے ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی اپنی قرار داد میں واضح کیا تھا کہ مسئلہ سیاسی ہے اوراس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے، فوجی حل ممکن نہیں۔ اس لیے 3-D ) Dialogue, (Development, Deterrance یعنی مکالمہ، ترقی اور سدجارحیت  ہی کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے۔ ہمیںپارلیمنٹ کی اسی قرار داد کے مطابق ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ صرف اسی طرح، یعنی بات چیت اور مذاکرات ہی سے، جن کو ہم نے امریکا کی خاطر دشمن بنا لیا تھا  توقع ہے کہ وہ بھی اپنا رویہ بدلیں گے اور نئی فضا قائم ہوگی، پاکستان میں امن بحال ہوگا اور پاکستان اور افغانستان میں بھی تعاون اور دوستی کا نیا دور شروع ہوگا۔

سپریم کورٹ میں اور وکی لیکس کے آئینے میں نظر آنے والی تصویریں ہوں یا نظریہ پاکستان کی میزان، اور امریکا پاکستان تعلقات کے باہمی تعلقات، یا موجودہ مرحلہ، سب کا تقاضا ایک ہی ہے___ موجودہ حکمرانوں سے نجات، اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کی تعمیر اور ایک دیانت دار، باصلاحیت، خدا ترس اور خادمِ خلق قیادت کو منصب اختیار کی تفویض۔ اگر ہم اس راہ پر عزم صمیم کے ساتھ گامزن ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ راستے کی تمام مشکلات کو آسان کر دیتا ہے اور ضعف طاقت میں، نا اُمیدی اُمید میں، اور ہزیمت کامیابی میں بدل جاتی ہے۔

وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّہُمْ سُبُلَنَاط(العنکنوت ۲۹:۶۹)

جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

 

۲۰۰۴ء سے شروع ہونے والے ڈرون حملے پاکستان کے خلاف ایک قسم کے اعلانِ جنگ کے مترادف تھے۔ راے عامہ کے ہر جائزے میں ۹۰ فی صد سے زیادہ پاکستانیوں نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے، انھیں اپنی حاکمیت پر حملہ اور ناقابلِ برداشت قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ نے اپنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء اور ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قراردادوں میں صاف الفاظ میں ان حملوں کی مذمّت کی ہے اور حکومت کو ان کو ناکام بنانے کی واضح ہدایت دی ہے لیکن حملوں کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے، بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور اب کھل کر امریکا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ حملے ہرصورت میں جاری رہیں گے۔

لندن میں قائم ایک تحقیقی ادارے Bureau of Investigation Journalism نے اپنی رپورٹ (اگست ۲۰۱۱ء) میں پوری تحقیق، دستاویزات اور عینی شہادتوں کی بنیاد پر دعویٰ  کیا ہے کہ ۲۰۰۴ء سے اب تک سی آئی اے نے ۲۹۱ ڈرون حملے کیے ہیں جن میں سے ۲۳۶ صدراوباما کے دورِ حکومت اور پاکستان میں زرداری گیلانی حکومت کے دور میں ہوئے ہیں،جب کہ بش اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں حملوں کی تعداد ۵۵ تھی۔ تاحال ان حملوں کے نتیجے میں ۲ہزار۸ سو ۶۳ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے اصل جنگ جوؤں (militant fighter ) کی تعداد ۱۶۴ تھی جن کے کوائف موجود ہیں۔ باقی سب یا عام شہری ہیں یا وہ افراد جنھیں low-ranking militant یا نیم فوجی دستے کہا گیا ہے، جب کہ متعین طور پر عینی شاہدوں اور متعلقہ افراد کے  بارے میں حاصل شدہ کوائف کی روشنی میں ۷۷۵ عام شہری تھے جن کا کوئی دُور کا بھی رشتہ  عسکریت پسندوں سے نہ تھا۔ ان میں واضح طور پر نابالغ بچوں کی تعداد ۱۶۸ تھی جن کے سارے کوائف اس ادارے کے پاس ہیں اور جن میں سے کچھ کی تصاویر لندن کے اخبار گارڈین نے شائع کی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: گارڈین، ۱۱؍اگست ۲۰۱۱ء)

یہ رپورٹ اس حیثیت سے بہت اہم ہے کہ اس نے امریکی حکومت کے چوٹی کے ترجمان جان برے من کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے کہ ڈرون حملوں سے کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہوا، صرف عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ خود امریکا کے ایک سابق فوجی ایڈمرل بلیر نے ڈرون حملوں کی افادیت کو چیلنج کیا ہے اور امریکا کو اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی بدلنے کا مشورہ دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، نیویارک ٹائمز، ۱۵؍اگست ۲۰۱۱ء)

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایک طرف امریکی ترجمان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ڈرون حملوں سے کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہو رہا لیکن جب امریکا کے قانون Freedom of Information Act کے تحت امریکی شہریوں اور اداروں نے اس سلسلے میں تمام معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تو ’قومی سلامتی کو خطرے‘ کا بہانہ بناکر معلومات دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس وقت خود امریکا میں ان حملوں کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور انھیں بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے خلاف ہی قرار نہیں دیا جا رہا بلکہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی حکمت عملی سے بھی متصادم اور دنیابھر میں امریکا کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مؤثر محاذ Compaign for Innocent Victims of Conflict (CIVIC، تنازعات کی شکار معصوم جانوں کے بچائو کی تحریک)کے نام سے کام کر رہا ہے اور راے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح انگلستان میں تفتیشی صحافت کا برطانوی بیورو بھی خدمت انجام دے رہا ہے اور وکلا کی ایک تنظیم نے سی آئی اے کے خلاف اس کی ان سرگرمیوں کی بنیاد پر عدالتی چارہ جوئی بھی شروع کر دی ہے۔ اس وقت سی آئی اے چھے مسلمان ممالک (افغانستان، عراق، پاکستان، صومالیہ، یمن اور لیبیا) میں ڈرون حملوں کی شکل میں جنگی اقدام کر رہی ہے، اور اس حوالے سے اب مغرب کے دانش وروں کا ایک طبقہ بھی یہ سوال اُٹھا رہا ہے اور پاکستان کے حوالے سے صاف پوچھ رہا ہے (اور اس کا جواب سی آئی اے کو دینا چاہیے )کہ آخر یہ کیا تماشا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کے خلاف ایک غیر علانیہ جنگ لڑ رہی ہے، جو نام کی حد تک امریکا کا حلیف ہے۔ (گارڈین، ۱۱؍اگست ۲۰۱۱ء، سی آئی اے کی ڈرون جنگ کے سویلین شکار، مضمون اسٹفورڈ سمتھ)

شرم کا مقام ہے کہ ایک طرف غیر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں مگر دوسری طرف پاکستانی عوام کے پُرزور مطالبے اور پارلیمنٹ کی واضح ہدایات کے باوجود پاکستانی حکومت اور اس کی فوجی قیادت، ڈرون حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی، اس سلسلے میں ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بے غیرتی کی انتہا ہے کہ کچھ سیاسی قائدین اور نام نہاد دانش ور ان کی افادیت کی بات کر رہے ہیں، اور ایک فوجی ترجمان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سارے ڈرون حملے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور عام شہریوں کی ہلاکتیں نہیں ہورہی ہیں___ یعنی سی آئی اے کے اس جھوٹے دعوے کی بازگشت فراہم کر رہے ہیںجس کے غلط ہونے کا اعتراف خود یورپی اور امریکی ذرائع کر رہے ہیں۔

ایک طرف امریکا کی یہ کھلی جارحیت ہے اور اس کے ساتھ پاکستانی فوجی امداد کی بندش اور نئی حقارت آمیز شرائط مسلط کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ’ڈو مور‘ کا منتر اپنی جگہ ہے اور شمالی وزیرستان میں فوج کشی اور دوسرے مطالبات کی بھرمار ہے، اور دوسری طرف حکومت کی بے حسی ملاحظہ ہو کہ وہ دوٹوک انداز میں امریکا سے تعلقات پر نظرثانی اور اس کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے ملک کو نکالنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدام کرنے سے پہلوتہی کر رہی ہے۔ ان حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تمام محب وطن سیاسی قوتیں عوامی تحریک کے ذریعے حکومت سے نجات یا خارجہ پالیسی خصوصیت سے امریکا کے بارے میں پالیسی میں بنیادی تبدیلی کے لیے جمہوری قوت کو متحرک اور مؤثر کریں۔

اس سلسلے میں ہر دن ہم پر امریکی غلامی کی گرفت مضبوط تر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس وقت کراچی میں جو خونیں ڈراما رچایا جا رہا ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں امریکا کی غلامی کے خلاف جدوجہد سے توجہ ہٹا کر ایک اندرونی مسئلے میں الجھا دیا جائے، حالانکہ کراچی میں بھی بیرونی ہاتھ اسی طرح اپنی کارفرمائیاں دکھا رہا ہے جس طرح فاٹا اور بلوچستان میں۔ ان حالات میں ہم قوم کو اپنی آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دینا اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتے ہیں   ؎

اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی قیادت کے ایک گلِ سرسبد اور عالمی اسلامی معاشی تحریک کے سرگرم رہنما برادر محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی طویل علالت کے بعد ۲۵ جولائی ۲۰۱۱ء کو علی گڑھ میں انتقال کر گئے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

ڈاکٹر فریدی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اسلام کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور پورے خلوص، دیانت اور مکمل سپردگی کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتیں اسی مشن کی تکمیل کے لیے وقف کر دیں   اور پھر آخری لمحے تک وفاداری کے اس رشتے کو نبھایا۔ اس میں ان کے پیشِ نظر صرف اپنے رب کی خوشنودی تھی۔ ان شاء اللہ ان کا شمار ان سعید روحوں میں ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے مالک نے فرمایا ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْـلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور انھیں جنت کے بہترین مقامات و انعامات سے نوازے___ انھوں نے ہم سب کے لیے ایک اچھی مثال چھوڑی ہے اور جو چراغ ان کے قلم اور تحریکی مساعی نے روشن کیے ہیں، وہ ان کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ضوفشاں رہیں گے___  ان شاء اللہ تعالیٰ!

برادرم فضل الرحمن فریدی ۴؍اپریل ۱۹۳۲ء کو مچھلی شہر جون پور، یوپی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جون پور میں اور اعلیٰ تعلیم الٰہ آباد یونی ورسٹی اور علی گڑھ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ لیکن ان کی علمی زندگی اور تحریکی جدوجہد کا رُخ متعین کرنے میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی ہند کے نظم سے وابستگی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ثانوی درس گاہ رام پور میں شرکت نے اس وابستگی کو اور پختہ کردیا۔ اس زمانے میں اصحابِ کہف کی طرح جن چند نوجوانوں نے باہر کی دنیا سے منہ موڑ کر ثانوی درس گاہ کو اپنی آماج گاہ بنایا، ان میں فضل الرحمن فریدی بھی شامل تھے۔ ان سب نے اپنے اپنے انداز میں اسلام اور تحریکِ اسلامی کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور ان کے اثرات صدقۂ جاریہ کی شکل میں تادیر جاری و ساری رہیں گے۔

فریدی صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۶ء میں دہلی میں ہوئی۔ میں خرم [خرم مراد] بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے بھوپال گیا تھا۔ وہاں ہم دونوں نے دہلی اور آگرے کا سفر کیا اور فریدی صاحب، برادرم نجات اللہ صدیقی اور برادرم عرفان احمد خاں دہلی تشریف لائے اور وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ان سے زندگی بھر کے لیے تعلقات استوار ہوگئے۔ فریدی صاحب اور نجات اللہ صاحب نے میری طرح معاشیات کے میدان کو اختیار کیا اور اس طرح ان دونوں بھائیوں کے ساتھ مجھے بھی گذشتہ نصف صدی میں علمی اور دعوتی میدانوں میں تھوڑی بہت خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ فریدی صاحب سے دوسری ملاقات ۱۹۷۶ء میں پہلی عالمی کانفرنس براے اسلامی معاشیات کے موقعے پر مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ بعدازاں اُن کے سعودی عرب کے قیام کے دوران میں، ان سے مسلسل ملنے اور گھنٹوں تحریکی امور اور اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں پر تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہا۔ آخری ملاقات بحرین میں اسلامی معاشیات پر منعقد ہونے والی پانچویں کانفرنس میں ہوئی۔ اس کے بعد فقط ٹیلی فون پر رابطہ رہا۔ ۲۰۰۵ء میں دہلی میں اسلامک فنانس پر ایک کانفرنس منعقد ہونے والی تھی۔ فریدی صاحب کا بے حد اصرار تھا کہ میں اس میں کلیدی خطاب کروں لیکن ویزا نہ ملنے کے باعث مَیں دہلی نہ جاسکا اور ملاقات سے محروم رہا۔ زندگیِ نو کے وہ مدیر تھے اور اس رشتے سے ترجمان القرآن اور زندگیِ نو میں بڑا قریبی علمی تعاون رہا اور ہم ایک دوسرے کے علمی کام سے برابر استفادہ کرتے رہے۔

برادرم فضل الرحمن فریدی اُردو اور انگریزی میں ۳۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے سارے کام کا محور دو ہی موضوعات رہے___ اوّل: اسلامی معاشیات، دوم: تحریکِ اسلامی کی دعوت کے فکری اور عملی پہلو۔ ان کی نگاہ قدیم اور جدید دونوں علوم پر تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تجزیے اور تعبیر کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ معاشی تجزیے اور خصوصیت سے زری معاشیات (fiscal economics) میں ان کی خدمات بڑی گراں قدر ہیں۔ وہ اسلامی معاشیات کے اصل تصور کو نکھارنے والے لوگوں میں سے ہیں۔

میری اور نجات اللہ صدیقی بھائی کی طرح وہ ہرلمحے اس پہلو سے متفکر رہتے تھے کہ اسلامی معاشیات اپنے اصل وِژن کے ساتھ، جو اقامت ِدین کا ایک حصہ ہے، ترقی اور تنفیذ کے مراحل سے گزرے اور محض روایتی معاشیات کا ایک حصہ بن کر نہ رہ جائے۔ اسی طرح تحریکِ اسلامی اور فکرِ اسلامی کی تعبیر کا ہر وہ پہلو ان کی دل چسپی کا موضوع رہا جس کا تعلق اُمت ِمسلمہ کے اس کردار سے ہے جو اسے خصوصیت سے مسلم اقلیت والے ممالک میں ادا کرنا ہے، اور اصل مقصد سے وفاداری کے ساتھ اپنے مخصوص حالات میں اسلام کے کردار کو واضح اور متعین کرنا ہے۔

ان کی زندگی بڑی سادہ اور صاف ستھری تھی۔ فکری اعتبار سے میں نے ان کو فہم دین اور عصری مسائل کی تعبیر کے سلسلے میں بڑا بالغ نظر اور محتاط پایا۔ وہ اپنے فکری تجزیوں میں، اصل مقاصدِ شریعت سے مکمل وفاداری کے ساتھ جدید علوم سے استفادہ کرتے تھے اور اس نازک ذمہ داری کو میرے علم کی حد تک انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا۔

اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور نئی نسل کے اہلِ علم و تحقیق کو    اس راستے پر چلنے کی توفیق دے جس کے نقوش علمی دنیا کے فضل الرحمن فریدی ایسے سچے خادموں نے روشن کیے ہیں، آمین ثم آمین!

 

اگست کا مہینہ، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کے اس تاریخی دن کی یاد دلاتا ہے جب اس برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے ایک تاریخ ساز جدوجہد کے بعد مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کی۔ اس کے لیے لازوال قربانیاں دیں، انگریز اور ہندو کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا۔ نصب العین کے لیے یکسو ہوکر ملک کے ہرحصے کے مسلمان خواہ وہ پنجابی تھے یا بنگالی، سندھی تھے یا بلوچی یا پٹھان، ہرتعصب سے بالا ہوکر میدانِ عمل میں کود پڑے۔ ہمارے قائدین نے بار بار واضح کیا کہ یہ علیحدہ خطۂ ارض ہم   اس لیے حاصل کررہے ہیں کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تعمیر کریں گے جو گم کردہ  راہِ انسانیت کے لیے مینارئہ نور ہوگا۔

ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں، لیکن ۶۴سال بعد  آج ہم جائزہ لیں تو بحیثیت مجموعی تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی دائرہ ایسا نہیں کہ ہم اطمینان کا اظہار کرسکیں۔ اسلا می معاشرہ تو بہت دُور کی بات ہے، ایک عام انسانی معاشرے کی حیثیت سے بھی ہم بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ اخلاق، سیاست، معیشت، عدلیہ، امن و امان کی صورت حال، ہرجگہ ایک بحران کی کیفیت ہے۔ یقینا ہم نے ایٹم بم بنایا ہے، بہت سے دائروں میں ترقی بھی کی ہے لیکن ان امور سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے آج صرف یہ جائزہ لیں گے کہ امریکا سے تعلقات کے حوالے سے ہماری آزادی وخودمختاری کی کیا کیفیت ہے۔

  •  امریکا کی دوستی اور دشمنی:ڈاکٹر ہنری کسنجر امریکا کی خارجہ پالیسی ہی نہیں عالمی سیاست کے باب میں بلاشبہہ ’مصلحت انگیز‘، ’فقیہ شہر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ان کا کمال ہے کہ کبھی کبھی وہ اُس ’رند بادہ خوار‘ کا کردار بھی ادا کر جاتے ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ  ع

نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں

ان کا ایسا ہی ایک ارشاد ہے کہ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ امریکا کی دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ اس کی دوستی بھی کچھ کم مہنگی نہیں! پاکستان نے اس کا بار بار تجربہ کیا ہے لیکن اس کی   عاقبت نااندیش قیادتوں نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ خود اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کبھی کوئی سبق نہیں لیں گے۔

تازہ ترین صورت حال ریمنڈ ڈیوس کے بھرے چوک میں دو نوجوانوں کے قتل سے شروع ہوکر، اس کے فرار اور پھر ۲مئی کے ایبٹ آباد پر حملے اور ڈرون حملوں کو روکنے سے انکار بلکہ ان میں مسلسل اور معتدبہ اضافے، فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان بازی (war of words)، سیاسی قیادت کی طرف سے شمسی ایئربیس کے بارے میں ٹکا سا جواب، امریکی فوجیوں کی واپسی اور ویزے کے بارے میں معمولی سی چھان بین پر برہمی، امریکا کے تنخواہ دار مخبروں، خصوصیت سے اسامہ بن لادن کی تلاش کے سلسلے میں جعلی ویکسین کا ڈراما رچانے والے ڈاکٹر کی گرفتاری اور پھر سالانہ فوجی امداد کے ایک تہائی، یعنی ۸۰۰ملین ڈالر کی بندش___ وہ واقعات ہیں جو ایک فیصلے کی گھڑی (moment of truth) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ فیصلہ کن لمحہ ہے جس پر پاکستان کی آزادی اور اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس فیصلے کو اس قیادت پر نہیں چھوڑا جاسکتا جس کا اصل چہرہ وکی لیکس کے آئینے میں سب نے دیکھ لیا ہے اور جو اپنے اقتدار میں آنے اور کرسی بچانے کے لیے امریکا کے مرہونِ منت ہیں۔ فوجی قیادت کا کردار بھی کچھ بہت قابلِ فخر نہیں اور شاید اب ایک آخری موقع ہے کہ وہ اس اعتماد کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جس کی خاطر قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی تقویت کا سامان کیا ہے۔

امریکا سے اسٹرے ٹیجک دوستی پر ہمیں تو کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یقین کیا گمان بھی نہ تھا لیکن وہ جو یہ راگ الاپ رہے تھے، اب خود ان کے چہرے پر بار بار طمانچے پڑنے کے بعد یہ تحریر پڑھی جاسکتی ہے کہ  ع

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

اب وقت آگیا ہے کہ عوام کی آواز کو سنا جائے، بلکہ خود پارلیمنٹ نے جو واضح راہِ عمل اپنی دوقراردادوں (۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء اور ۱۴ مئی ۲۰۱۱ء) کی شکل میں دی ہے اس پر لفظ اور معنٰی ہردواعتبار سے عمل کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے زمینی حقائق کا صحیح صحیح ادراک ہو اور پھر ان کی روشنی میں اور اپنے قومی مفادات اور عوام کے جذبات اور عزائم کی روشنی میں تعلقات کی واضح انداز میں تشکیلِ نو ہو۔

  •  زمینی حقائق:پہلی بات یہ واضح ہوجانی چاہیے کہ امریکا کے مقاصد، اہداف اور ترجیحات اور پاکستان کے مفادات، مقاصد اور ضرورتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ امریکا کا اصل مقصد اس یک قطبی عالمی نظام کا تحفظ ہے جس میں مرکزی حیثیت اسے حاصل ہے۔ وہ دنیا کے ۸۰ممالک میں اپنی فوجیں رکھ کر اور عالمی مالیاتی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کر کے دنیا کی  بیش تر اقوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس کی اسٹرے ٹیجک دوستی صرف اسرائیل اور برطانیہ سے ہے اور پھر دوسرے دائرے میں یورپی ممالک اور بھارت آتے ہیں۔ رہی اسلامی دنیا، پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک وہ اس کی نگاہ میں صرف آلۂ کار اور کارندوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستان کی قیادت کو   اس امر کا پورا ادراک ہو کہ ہماری حیثیت ان کی نگاہ میں کیا ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ سامنے رکھنے کی ہے کہ امریکا سے ہمارے تعلقات میں پچھلے ۶۴برسوں میں نشیب و فراز تو بہت آئے ہیں اور ان میں بھی نشیب زیادہ اور فراز کم، لیکن جو  صورت حال نائن الیون کے بعد رونما ہوئی ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اور اس سے بھی بڑھ کر زرداری گیلانی اقتدار کے دور میں امریکا نے اپنی گرفت ہم پر مضبوط کی ہے، ہمیں اپنی محتاجی کے جال میں پھنسایا ہے، ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور عمومی پالیسی ہی نہیں، معمولی معمولی امور تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ امریکی سفیر داخلی امور پر ہدایات دے رہے ہیں۔ امریکی فوجیوں، سیکورٹی معاونین، مخبروں اور کاسہ لیسوں کا جال ملک کے طول و عرض میں بچھا دیا گیا ہے اور اگر پاکستان اپنے قومی مفاد میں کوئی معمولی سے معمولی اقدام کرتا ہے، جیسے فوجیوں کی واپسی، سفارت کاروں سے ان کے شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ، ویزوں کے بارے میں ضروری تحقیق و تفتیش کی جسارت، تو نہ صرف فوجی اور سول امداد کی گاجروں کو ہاتھ سے چھین لیا جاتا ہے بلکہ ڈنڈوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور عالم یہ ہے کہ  ع

زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا

ڈرون حملوں کو جاری رکھنے، اپنے مخبروں کورہا کرانے، شمسی ایئربیس کو خالی کرنے کے مطالبے کا ٹکا سا انکاری جواب دینے اورفوجی امداد روکنے کے اقدام کے بعد، اب پاکستان کے سامنے صرف ایک راستہ ہے___ امریکا کے تعلقات کے موجودہ دروبست کو یکسر تبدیل کرنے اور بالکل نئی شرائط اور نئے نکات پر تعلقات کی ازسرنو تشکیل کا راستہ۔

آگے بڑھنے سے پہلے تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے:

۱-  بلاشبہہ ہم نے امریکا پر اپنی محتاجی (dependence) کو خطرناک حد تک بڑھا لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کوئی ناکام یا بے سہارا ملک ہے۔ ہمارے وسائل ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں اور قوم میں وہ ہمت اور صلاحیت ہے کہ اگر قیادت صحیح رویہ اختیار کرے تو یہ ملک اپنے مفادات کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے باربار  اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جن حالات میں ہم نے اپنی آزادی کا سفر شروع کیا تھا، دنیا کو یقین تھا کہ ہم چند مہینوں میں بھارت کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے اور دوبارہ اس کے زیرِعاطفت آجائیں گے لیکن اس غیور قوم نے اپنے معاملات کو سنبھالا، کشمیر کے محاذ پر پنجہ آزمائی میں بھی  پیچھے نہیں رہی اور ۱۹۴۹ء جب تخفیفِ زر کا طوفان آیا تو روپے کی قدر نہ گرا کر بھارت، برطانیہ اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بے سروسامانی سے آغاز کر کے جس طرح ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء میں اپنے حالات کو سنبھالا، وہ بہت سی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود ایک بڑا کارنامہ تھا۔ پھر امریکا سے دوستی اور اس کے مطالبات کے باوجود چین کوتسلیم کرنا اور اس سے اسٹرے ٹیجک شراکت کی  راہ ہموار کرنا ایک اہم کارنامہ تھا۔ ۱۹۹۸ء میں ایٹمی تجربہ بھی اسی نوعیت کی کامیابی ہے۔ اگر قیادت صحیح فیصلہ کرے اور قوم کو اپنے ساتھ لے کر چلے تو آج ہم امریکا کے چنگل سے نکلنے کے لیے ماضی کے ان تمام ادوار کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت اور وسائل رکھتے ہیں۔

۲-   دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ آج ہم ہی امریکا کے محتاج نہیں، خود امریکا بھی چند نہایت اہم امور کے سلسلے میں ہماری مدد اور تعاون کا محتاج ہے، بشرطیکہ ہم اپنے پتّے صحیح صحیح کھیلیں اور اپنے قومی مفاد، آزادی اور عزت کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ مسئلہ غیروں کی کارروائیوں سے زیادہ اپنی کمزوریوں کا ہے۔

۳-  تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے اور اپنے  طویل المیعاد مفادات کے تحفظ کے کسی انتظام کے ساتھ وہاں سے باعزت انداز میں واپسی چاہتا ہے اور اس کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ امریکا افغانستان اور پاکستان سے ۱۱ہزار کلومیٹر دُور ہے لیکن ہماری اور افغانستان کی مشترک سرحدات ۱۵۰۰ کلومیٹر سے زیادہ ہیں اور ہمارے تاریخی، تہذیبی، دینی، معاشی اور سیاسی رشتے بالکل دوسری نوعیت کے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی حماقتوں سے ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنا لیا، اور جو دشمن تھے ان کی دشمنی میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ امریکا کی سرزمین تو شاید کسی حد تک دہشت گردی سے محفوظ ہوگی___ گو دہشت گردی کے خوف کی فضا نے اس کو بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور نہ معلوم کب تک اسے اس عذاب میں مبتلا رہنا پڑے گا___ لیکن ہماری سرزمین جو اس نوعیت کی دہشت گردی سے بالکل پاک تھی، اب اس کی گرفت میں ہے، اور دہشت گردی کی کمر توڑنے کے باربار کے دعووں کے باوجود اس میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ یہ کمی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے سلامتی کی صورت حال کا اپنے نقطۂ نظر سے جائزہ لیں، اسے ازسرنو مرتب کریں اور سیاسی مسائل کے لیے سیاسی حل پر عمل کرنے کاراستہ اختیار کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے اور امریکا کے راستے اور مفادات مختلف ہیں۔ اس حقیقت کے ادراک کے بغیر اصلاح کی کوئی صورت نہیں۔ پارلیمنٹ نے یہی راستہ دکھایا ہے لیکن سیاسی اور فوجی قیادت اپنے اپنے زعم اور اپنے اپنے مفادات کے چکر میں اس راستے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کر رہی، اور امریکا سے بار بار ڈنڈے کھانے کے باوجود بھی آزادی، خودانحصاری اور عزت کا راستہ اختیار کرنے سے پس و پیش کر رہی ہے۔

  •  امریکا سے دوستی کی قیمت: پاکستان اور امریکا کے تعلقات اب اس مقام پر آگئے ہیں جہاں ایک بنیادی فیصلہ ناگزیر ہوگیا ہے۔ عوام نے کسی دور میں بھی امریکا کو قابلِ اعتماد دوست نہیں سمجھا۔ راے عامہ کے جتنے بھی جائزے گذشتہ برسوں میں ہوئے ہیں، خصوصیت سے وہ جو ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ملکی یا غیرملکی اداروں نے کیے ہیں، ان میں یہ حقیقت تسلسل کے ساتھ کھل کر سامنے آئی ہے کہ ۷۰ سے ۹۰ فی صد عوام اس پالیسی سے بے زار ہیں جس کا عنوان ’پاک امریکا دوستی‘ ہے۔ اس دوستی کا حاصل امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کی غیرمشروط شرکت ہے۔ اس نے ملک میں دہشت گردی میں غیرمعمولی اضافہ کردیاہے جس کے نتیجے میں علاقے کا امن تہ وبالا ہوگیا۔ ان ۱۰برسوں میں پاکستان میں ۳ہزار سے زیادہ فوجی اور ۳۵ہزار سے زیادہ عام شہری موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور خود اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوجانے والوں (IDP) کی تعداد ۴۰لاکھ سے متجاوز ہے۔ معاشی اعتبار سے اب اس میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں سب سے زیادہ دخل اس جنگ اور اس کے اثرات کا ہے۔ انسانی جان و مال کے نقصان کے علاوہ بحیثیت مجموعی معیشت کو جو نقصان اُٹھانا پڑا، اس کا محتاط ترین سرکاری تخمینہ ۶۹؍ارب ڈالر ہے جو پاکستانی روپے میں تقریباً ۶ہزار ارب روپے بن جاتا ہے___ یعنی پاکستان کے دو سال کے مکمل مرکزی بجٹ سے بھی زیادہ۔

یہ سب درست، لیکن اصل مسئلہ محض معاشی نہیں۔ امریکا نے خاص طور پر گذشتہ ۱۰،۱۱برسوں میں پاکستان کو عملاً اپنی ایک طفیلی ریاست بنا لیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پارہ پارہ ہیں۔ شروع میں امریکا نے اس پالیسی کو carrot and stick، یعنی ترغیب اور ترہیب، گاجراور ڈنڈے کی پالیسی کہا مگر اب گاجر کا حصہ معدوم ہوتا جا رہا ہے اور صرف ڈنڈے کی حکمرانی ہے۔ رواں سال میں ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے لے کر جولائی ۲۰۱۱ء میں امریکا کی فوجی امداد میں ۸۰۰ ملین ڈالر کی کمی اس کے مختلف مظاہر ہیں۔ ڈرون حملوں کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا اور ان سات برسوں میں ۲۶۰ حملے ہوچکے ہیں اور ان میں ہلاک ہونے والے نام نہاد مطلوبہ دہشت گردوں کی تعداد ۵۰ اور ۶۰ کے درمیان ہے، جب کہ ان حملوں میں لقمۂ اجل بننے والے عام بے گناہ پاکستانیوں کی تعداد ۲۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ امریکا پوری رعونت کے ساتھ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ہماری حاکمیت کو پامال کر رہا ہے اور ہمارے شہریوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار رہا ہے۔ ان دستاویزات کی روشنی میں جو وکی لیکس کی بناپر طشت ازبام ہوچکی ہیں، ان میں سے بیش تر حملے ماضی میں خود ہماری سرزمین سے امریکی اڈوں سے ہوتے رہے ہیں اور یہ اڈے وہ ہیں جن کی حفاظت ہماری اپنی افواج اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کرتی رہی ہیں، اور جنرل پرویز مشرف سے لے کر زرداری گیلانی تک سب کی طے شدہ منظوری سے ہماری سرزمین پر ہماری آبادیوں کو موت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں کہ امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فوج کشی کے ۱۰ برسوں میں جتنا جانی نقصان اُٹھایا ہے، پاکستان کی افواج اور شہریوں نے اس سے کہیں زیادہ نقصان برداشت کیا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور عالمی میڈیا پاکستان کو دوغلی پالیسی، دھوکا دہی، بدعنوانی اور بدعہدی کا مجرم قرار دے رہا ہے۔ اسے دنیابھر میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے رہا ہے اور افغانستان میں اپنی پالیسی کی ناکامی کا ملبہ بھی پاکستان پر گرانے کی مذموم کوششیں کر رہا ہے۔ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت کے ڈرامے کی بنیاد پر پاکستان، اس کی افواج، خفیہ ایجنسیوں اور خود حکومت کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور فوجی، سیاسی اور معاشی دبائو کے ساتھ اس کے خلاف اپنی لفظوں کی جنگ (war of words) کو بھی ایک نئی انتہا تک لے جایا گیا ہے۔ امریکی حکومت اور اس کے ترجمان، کانگریس کی کمیٹیاں اور ان کے ترجمان، تھنک ٹینکس اور میڈیا، سب نے اپنی توپوں کے تمام دہانے پاکستان پر یلغار کے لیے کھول دیے ہیں۔ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کا ارشاد ہے کہ ’’پاکستان پر یہ سارا دبائو جاری رہے گا تاآنکہ وہ امریکا کی شرائط کو منظور کرے اور اس کے مطالبات کو پورا کرے‘‘۔ امریکی چیف آف اسٹاف مائیکل مولن نے ایک صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی بلاواسطہ ذمہ داری پاکستان کی حکومت پر ڈالی ہے اور اس کے ساتھ فوجی امداد میں کٹوتی کا اعلان بھی کردیا ہے۔

  •  فیصلے کی گہڑی: یہ تمام حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ امریکا سے تعلقات کے ہرپہلو کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور جس دلدل میں ملک کو پھنسا دیا گیا ہے، اس سے نکلنے کے لیے ایک واضح نقشۂ کار بناکر اس پر قومی یک جہتی کے ساتھ فی الفور عمل کا آغاز کیا جائے۔ یہ عوام کی دلی آرزو تھی، اور پارلیمنٹ نے دو بار، یعنی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی متفق علیہ قرارداد اور پھر ۱۴مئی کی قرارداد کی شکل میں قوم کے دل کی آواز کو پارلیمنٹ کے حکم کا درجہ دے دیا تھا، مگر حکومت نے اس قرارداد کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور اس کے کسی ایک حصے پر بھی عمل نہیں کیا۔ لیکن اس سال امریکا نے پے در پے جو حملے کیے ہیں، جو چرکے لگائے ہیں اور جو بے عزتی کی ہے، اس نے حالات کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اب امریکا سے تعلقات کے پورے سلسلے کو ازسرِنو مرتب کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

امریکا بلاشبہہ ایک عالمی طاقت ہے۔ اس سے تعلقات پر نظرثانی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قوم امریکا سے تصادم کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن تصادم اور دشمنی، یا غلامی اور محکومی ہی دو آپشن نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کے احترام کی بنیاد پر ایک باعزت پالیسی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے جو قوت اور وسائل کے اختلاف کے باوجود دونوں کی آزادی، خودمختاری، مشترک مقاصد اور مفادات کے سلسلے میں تعاون پر مبنی ہو، اور ان تمام امور کے باب میں جہاں مفادات میں اشتراک موجود نہیں، اپنے اپنے مقاصد، مفادات اور اہداف کے لیے آزادانہ کردار کا اہتمام کیا جائے۔  بین الاقوامی قانون اور عالمی نظام دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ قوی اور ضعیف، بڑا اور چھوٹا، سب   عملی میدان میں برابری (functional equality)کی بنیاد پر ایک دوسرے سے معاملہ کریں۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات یک طرفہ اور ایک فریق کی بالادستی اور دوسرے کی عملاً محکومی کا رنگ اختیار کرچکے ہیں اور ان کا اسی طرح جاری رہنا نہ قوم کے لیے قابلِ قبول ہے اور نہ ملک اور علاقے کے مفاد میں ہے۔ اس لیے نئی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر پوری یکسوئی کے ساتھ عمل کا پروگرام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ہم امریکا سے معاشی، تجارتی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی وجہ سے جو حاکم اور محکوم اور آقا اور ماتحت کا تعلق بن گیا ہے، اسے ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنا پڑے قوم کو یک جان ہوکر اس کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ ایک مخصوص لابی اس سلسلے میں جن خطرات کا ہوّا کھڑا کرکے   ہمیں ڈرا رہی ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں۔ گذشتہ ۶۴برسوں میں امریکا نے چھے بار پاکستان سے تعلقات کو پست ترین سطح تک دھکیلا ہے اور ہم پر طرح طرح کی پابندیاں تک لگائی ہیں لیکن پاکستان کی معیشت ان سب نشیب و فراز سے بخوبی عہدہ برآ ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ۸۰۰ملین ڈالر کی فوجی امداد امریکا نے روکی ہے۔ یہ کسی شمار قطار میں نہیں، البتہ ۱۰برس میں امریکا نے جوفوجی اور معاشی امداد دی ہے اگر اس سب کو بھی لیا جائے تو اس کا حقیقی اثر ہماری معیشت پر براے نام رہا ہے، جب کہ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے جو نقصان ہم کو ہوا ہے، وہ اعدادوشمار کی زبان میں بھی اس کے کم از کم ۵گنا زیادہ ہوا ہے۔ آخری تجزیے اور حساب میں اس جنگ سے نکلنے اور امریکی امداد سے نجات پانے سے ہماری معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے اور ملک خودانحصاری کی طرف تیزی سے آگے بڑھ سکے گا بشرطیکہ حکومت صحیح سیاسی اور معاشی پالیسیاں تشکیل دے، اور قوم پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی آزادی، خودمختاری اور عوام کی خوش حالی کے لیے وسائل کے صحیح استعمال کا راستہ اختیار کرے۔

  •  پاک امریکا تعلقات کے خطوط: اس سلسلے میں چند بنیادی اصولوں کو سامنے رکھنا ضروری ہوگا:

۱-   پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ہماری غربت اور معاشی پس ماندگی کی وجہ وسائل کی قلت نہیں، صحیح قیادت کا فقدان اور صحیح پالیسیوں سے محرومی ہے۔ قومی مقاصد، مفادات اور اہداف کا صحیح صحیح تعین اور ایک ایسی حکومت کی تشکیل اولین اہمیت رکھتی ہے جو عوام میں سے ہو،  عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اور پاکستانی قوم کے مفاد کی علَم بردار ہو۔ وژن اور اہداف کی درستی اور دیانت داری اور باصلاحیت قیادت کو بروے کار لانا اصلاحِ احوال کے لیے ناگزیر ہے۔

۲-  پالیسی سازی میں پارلیمنٹ کا کردار مرکزی ہونا چاہیے اور عوام کو اعتماد میں لے کر ان کے جذبات اور ترجیحات کی روشنی میں یہ کام انجام پانا چاہیے۔

۳- امریکا سے تعلقات خودمختارانہ مساوات (equality  sovereign) کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔معاشی امداد کو مرکزی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ خرابی کی جڑ ہے۔ تعلقات کے  محور کو بدلنے اور تجارت اور دوطرفہ معاشی تعاون کو مرکزی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔

۴- اس وقت جو مراعات امریکا کو حاصل ہیں ان پر فوری طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ چند اہم پہلو یہ ہیں:

  • شمسی ایئربیس پر فوری طور پر پاکستان کا مکمل کنٹرول ہونا چاہیے۔ متحدہ عرب امارات سے جو بھی معاہدہ ہواتھا، اسے اب ختم کرنے اور اس اڈے کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لانا ضروری ہے۔ متحدہ عرب امارات اور دوسرے مسلمان ملکوں کے حکمرانوں سے بھی بات چیت اور انتظامات کو نئی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ جس طرح امریکا نے اس اڈے کو استعمال کیا ہے،   اس سے وہ تمام مقاصد پارہ پارہ ہوگئے ہیں جن کی خاطر ماضی میں انتظامی معاملات طے ہوئے تھے۔ اب بالکل نئی صورت حال ہے اور اس کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
  •  امریکا اور پاکستان کے درمیان ویزے کے نظام کی مکمل تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔   یہ کام وزارتِ خارجہ کے زیرانتظام ہونا چاہیے۔ وزارتِ داخلہ، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دوسری متعلقہ وزارتوں کا اپنے اپنے دائرۂ کار کے سلسلے میں کردار ہے، لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں نئے قواعد و ضوابط وضع کرنا ضروری ہے۔
  •  سفارتی عملے کی تعداد، ان کا عملی کردار، ان کے قواعدو ضوابط سفارت کاری کے معروف اصولوں اور روایات کے مطابق ہونا چاہییں۔ جو استثنائی کردار ماضی میں رہا ہے، اسے درست کرنے اور ضابطوں کی حدود میں لانے کی ضرورت ہے۔
  •  تمام معاہدات کا لازماً تحریری شکل میں ہونا اور ان کی پارلیمنٹ سے توثیق ضروری ہے۔ اس سے پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی قائم ہوگی اور یہ امر حقیقی جمہوریت کی طرف پیش قدمی ہوگا۔
  •  امریکی اور ناٹو افواج کو راہداری کی جو سہولت دی گئی ہے اس پر نظرثانی کی جائے۔ اس کی نگرانی ہو اور اس سے جو نقصانات سڑکوں، پُلوں اور انفراسٹرکچر کو ہورہے ہیں، ان کی تلافی کا مکمل انتظام ہونا چاہیے۔
  •  ڈرون حملوں کا معاملہ سب سے اہم ہے۔ ان کو فی الفور رُکنا چاہیے، ورنہ جیساکہ پارلیمنٹ نے کہا ہے راہداری کی سہولت کو پورے عزم کے ساتھ روک دینا چاہیے، تاآنکہ تمام معاملات باہمی رضامندی سے، نئے انتظامات کے ساتھ طے نہ ہوپائیں۔ واضح رہے کہ اگر امریکا اس معاملے میں خودسری کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ پوری قوم اس کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو اور افواجِ پاکستان اس سلسلے میں اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کردار ادا کریں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں روس کے سلسلے میں اسی طرح کی ایک صورت حال سرحدوں کی خلاف ورزی کی رونما ہوئی تھی اور وزیراعظم محمد خاں جونیجو کی حکومت نے ایک جرأت مندانہ فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں روسی طیاروں کو سبق سکھایا گیا اور ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کا دروازہ بند ہوگیا۔
  •  امریکا پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مسئلے کاحل صرف سیاسی ہے۔ اگر امریکا خود طالبان سے مذاکرات کا سہارا لے رہا ہے تو پاکستان کو کیوں مجبور کرتا ہے کہ وہ سیاسی حل کی جگہ فوجی قوت کا استعمال کرے اور حالات کو اپنے اور دوسروں کے لیے خراب اور خراب تر کرے۔
  •  افغانستان کا استحکام اور امن علاقے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے افغانستان کی تمام سیاسی قوتوں کا باہمی قومی اتفاق راے ضروری ہے۔ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کو افغانستان کی حاکمیت کے پورے احترام کے ساتھ علاقائی امن کی خاطر مفاہمت کی بنیاد پر آیندہ کے تعلقات کو استوار کرناہوگا۔ اس سلسلے میں جہاں ہمسایہ ممالک کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے مکمل گریز کرنا چاہیے، وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمسایہ ممالک کو جو  اسٹرے ٹیجک فکرمندیاں (concerns) ہیں، خصوصیت سے علاقے میںبھارت کے کردار کے بارے میں، ان کا معقول حل باہمی مشورے سے نکالا جائے۔

امریکا سے تعلقات اور افغانستان مسئلے کا حل اس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرکے معاملات کو سلجھایا جانا مشکل ہے۔ جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جس مفاہمتی عمل کا آغاز ہواہے، وہ ایک مفید اور ضروری اقدام ہے اور افغان مسئلے کا حل افغانستان ہی کی تمام قوتوں کو مل جل کر کرنا ہے، وہیں پاکستان، ایران، وسط ایشیا کی ملحقہ ریاستوں اور خود چین کو بھی اس عمل میں ایک کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ کردار ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کی شکل میں نہیں، بلکہ افہام و تفہیم کے ذریعے سب کے مشترک مفاد کی بنیاد پر ہو تو امن، سلامتی اور ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہی تاریخ کا سبق ہے جس کا جتنا احترام ہوسکے اتنی ہی ہماری کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گی۔