پروفیسر خورشید احمد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جمہوریت اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود دور حاضر کے دوسرے سب سیاسی نظاموں کے مقابلے میں ایک فوقیت رکھتی ہے۔ اس میں دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام کی مرضی سے حکومتوں کی تشکیل اور تبدیلی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ انسانی حقوق کی ضمانت‘ عدلیہ کی آزادی اور معاشرے میں آزادانہ بحث و احتساب بشمول پریس اور میڈیا کی آزادی کو سیاسی نظام کا بنیادی ڈھانچا تصورکیا جاتا ہے اور کسی نہ کسی حد تک اس کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔ اگر کہیں اس سے انحراف ہوتا ہے تو بالآخر وہ طشت ازبام ہوکر رہتا ہے اور اجتماعی محاسبے کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے نام نہاد جمہوری قیادتوں کا پول بالآخر کھلتا ہے۔

امریکا کومغربی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے اور صدربش نے دوسری بار صدارت کا انتخاب جیتنے کے بعد تو پوری دنیا میں ’جمہوریت‘ اور آزادی کے فروغ کے لیے ’کروسیڈ‘ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دیا ہے اور خود عراق کے خلاف فوج کشی اور وہاں برپا ہونے والے قتل و غارت گری کے لیے اب اسی دعوے کو بطور ’جواز‘ پیش کر رہے ہیں۔ اب  لے دے کے اُن کے اور اُن کے ہم نوا حکمرانوں کے‘ بالخصوص برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیر کے پاس کہنے کے لیے بس یہی کچھ رہ گیا ہے کہ ہم نے عراق کو صدام کی آمریت سے نجات دلائی ہے اور ’جمہوری نظام‘ کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔

امریکا کے موجو دہ حکمرانوں کی پوری سفارتی اور پروپیگنڈا مہم کے باوجود‘ امریکی سفارت کاری کا یہ سال ان کی تاریخ کا ناکام ترین سال رہا ہے اور ’پبلک ڈپلومیسی‘ جس پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ دنیا صدر بش اور امریکی قیادت کے بلندبانگ دعووں کو کوئی وقعت نہیں دے رہی بلکہ وہ ان کی پالیسیوں اور عملی اقدامات کو دیکھ رہی ہے۔ دعوے اور حقیقت میں جو تضاد اور بُعدالمشرقین پایا جاتا ہے‘ اس نے امریکا کی ساکھ کوایسا سخت نقصان پہنچایا ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں___ افسوس تو امریکا کے ان حواریوں پرہے جو مسلم دنیا میں اب بھی امریکا کی کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہیں۔ امریکا کی پالیسی کی ناکامی کا تازہ ترین اعتراف خود بش صاحب کا وہ ارشاد ہے جو ۶جنوری ۲۰۰۶ء کو واشنگٹن میںقومی زبانوں کے تحفظ کے ادارے کا افتتاح کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا ہے کہ امریکا کے امیج کو جس چیز نے بگاڑا ہے‘ وہ وہ پروپیگنڈا ہے جو دوسرے ممالک کا میڈیا کر رہا ہے۔ خصوصیت سے عرب ممالک کے ریڈیو اور ٹی وی کو نشانہ بناتے ہوئے فرماتے ہیں:

جب آپ ان میں سے کچھ ٹی وی اسٹیشن دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے سامنے امریکا نہیں آتا۔ عرب ٹی وی ہمارے ملک کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ بعض اوقات وہ ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیں ہوتا۔ یہ انصاف کی بات نہیں ہے اور یہ لوگوں کو‘ ہم جو کچھ ہیں‘اس کا صحیح تاثر نہیں دیتا۔

اس خطاب میں انگریزی کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانوں ‘ خصوصیت سے مسلم ممالک کی زبانوں (عربی‘ فارسی اور اردو) میں بھی امریکی پروپیگنڈے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور ان کروڑوں ڈالر پر مستزاد جو اس وقت ’پبلک ڈپلومیسی‘ کے نام پر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ مزید ۱۴ ملین ڈالر کا ایک نیا منصوبہ بروے کار لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

امریکا کو حق ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈے پر جتنی رقم جب اور جس طرح چاہے خرچ کرے لیکن ایک بنیادی حقیقت نہ صرف امریکا بلکہ سب کے سامنے رہنی چاہیے کہ حقائق پر پروپیگنڈے کے ذریعے لمبے عرصے تک پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب دنیا کے ایک ’گلوبل ویلج‘ بن جانے کا    کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ بہت کم وقت میں ایک مقام کی خبریں دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ جاتی ہیں اور اس طرح محض حقائق کو چھپانے یا پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اپنے موقف کو پیش (project)کرنے کی گنجایش بہت کم رہ گئی ہے۔ امریکا کی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہٹلر کے وزیر ابلاغیات جوزف گوئبلز کی وہ پالیسی نہیں چل سکتی جس میں جھوٹ کو اتنی بار نشرکیا جاتا تھا کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے تھے۔ اب سچ بہت جلد ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ اب اصل مسئلہ پروپیگنڈے اور ابلاغ کا نہیں‘ امریکا کی حکومت‘ اس کی پالیسیوں‘ افواج اور ذمہ دار حکام کے کارناموں کا ہے۔ جب تک پالیسی اور اس کے اہداف‘ مقاصد اور اسلوب نہیں بدلتے اور وہ تضادات جو دعوے اور عمل میں موجود ہیں‘ ان کی اصلاح نہیں ہوتی‘ محض چرب زبانی‘ جدید ترین ابلاغی وسائل اور سیاسی ملمع سازی سے استعماری پالیسیوں اور دوسروں کو غلام اور محکوم بنانے والے اقدامات پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ایک امریکی کالم نگار ولیم فشر (William Fisher)نے اس دوعملی اور تضاد کو بڑے نرم اور ہمدردانہ انداز میں لیکن برملا طور پر یوں ادا کردیا ہے :

عراق اورشرق اوسط میں راے عامہ کے مختلف جائزوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ امریکی محرکات اور حکمت عملی کے بارے میں شک و شبہے میں مبتلا ہیں کیونکہ امریکا جو کچھ کہتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس میں تضادات پاتے ہیں۔ ( `US State Department's Mixed Messages'، دی نیوز‘ ۸جنوری ۲۰۰۶ئ‘ بحوالہ دی عرب نیوز)

امریکا جس طرح اپنا ایک خاص امیج بنانے کے لیے پانی کی طرح ڈالر بہا رہا ہے‘ صحافیوں کو خرید رہا ہے‘ تعلقات عامہ کی فرموں کو استعمال کر رہا ہے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس کا پردہ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ چیکو (University of California et Chico) کے پروفیسر بِین گروس کپ (Bean Grosscup) نے اس طرح چاک کیا ہے:

وہی لوگ جو آزادیِ صحافت کو فروغ دینے کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں‘ وہی تعلقات عامہ کی فرموں‘ شور مچانے والے لوگوں اور خریدے ہوئے صحافیوں سے وابستہ تھنک ٹینکوں کو ’آزاد میڈیا‘ کے طور پر رقوم فراہم کرنے کا دفاع کرتے ہیں۔ ساری بات تعلقات عامہ اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ہے۔ اس پر جوزف گوئبلز بھی فخر کرے گا۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۶ئ)

امریکا کے موجودہ حکمران‘ خصوصیت سے صدر جارج بش‘ نائب صدر ڈک چینی‘ وزیردفاع رمزفیلڈ اور ان کے تمام خفیہ اداروں کے کارپرداز جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ امریکی دستور‘ قانون‘ کانگریس کے طے شدہ ضابطوں اور بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں‘ اس نے مشرق سے مغرب تک ہر طرف ایک تہلکہ سا مچا دیا ہے۔ مسلم ممالک کے عوام تو ایک مدت سے چیخ ہی رہے تھے‘ اب یورپی اقوام بھی پکار اُٹھی ہیں اور خود امریکا میں بھی صدربش اور ان کی پالیسیوں سے عمومی بے زاری کے اظہار کے لیے بغاوت کی ایک لہر اُٹھ رہی ہے جس کا سب سے نمایاں مظہر امریکی کانگریس کا یہ اہم اقدام ہے کہ حب الوطنی کے قانون (Patriot Act)کی غیرمعینہ عرصے کے لیے صدر بش کی درخواست رد کرتے ہوئے صرف پانچ ہفتوں کے لیے اس کی منظوری دی ہے۔

یاد رہے کہ متذکرہ قانون کو صدر بش نے نائن الیون کے بعد کانگریس سے منظور کرایا تھا اور جسے پہلے سال مکمل اتفاق راے سے منظور کیا گیا تھا۔ اس کے تحت صدر کو اور نیشنل سیکورٹی اتھارٹی کو ایسے غیرمعمولی اختیارات دے دیے گئے تھے جن کو استعمال کر کے وہ دہشت گردی کے شبہے پر لوگوں کو گرفتار کرسکتے ہیں‘ لمبی مدت تک مقدمہ چلائے بغیر زیرحراست رکھ سکتے ہیں‘ اور اگر مقدمہ چلانے کی نوبت آئے تو ناگزیر قانونی تقاضے (due process of law) کے بہت سے معروف ضابطوں کو نظرانداز بلکہ پامال بھی کرسکتے ہیں۔ مشہور امریکی رسالےNation کے مضمون نگار جوناتھن شیل (Jonathan Schell) کے بقول اس قانون نے امریکی صدر کو آج کا ایسا ایڈمنسٹریٹر بنادیا ہے کہ اگر وہ آمریت کی مکمل تصویر نہ بھی ہو تو بھی اس میں وہ ساری خصوصیات پیدا ہوگئی ہیں جن سے آمریت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ حکومت بظاہر آمریت نہیں ہے مگر اس میں آمریت کی سب ابتدائی خصوصیات صاف نظر آتی ہیں۔

اور یہی وجہ ہے کہ جوناتھن شیل یہ کہنے پر مجبور ہے کہ:

امریکی تاریخ میں صدارتی اختیارات کو سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر غلط استعمال کرنے والاشخص صدر بش ہے۔ (دی اکانومسٹ‘ لندن‘ ۷ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۴۰)

امریکی جریدے ٹائم (۹ جنوری ۲۰۰۶ئ)میں کیرن ٹوملٹی (Karen Tumulty)  اور  مائیک ایلیو (Mike Allew) اپنے مضمون میں سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے رکن سینیٹر پیٹرک لی ہی (Patrick Leahy)کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ:

صدر نکسن کے بعد جس حکومت نے عدالتوں اورقانونی ضابطوں کو نظرانداز کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے‘ وہ یہی حکومت ہے۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں صدر بش کے لیے کانگریس کی اس سرزنش (rebuke) کی اہمیت  کو سمجھا جاسکتا ہے کہ حب الوطنی کے جس قانون کی سال بہ سال تجدید (renewal) سے بچنے کے لیے صدربش نے کانگریس سے اس کی غیرمعین مدت کے لیے تجدید کی قانونی تجویز پیش کی تھی بلکہ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ we cannot afford to be without this law for a single moment(ہم اس قانون کے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چل سکتے)‘ اسے عظیم اکثریت نے رد کر دیا اور صرف ۵ ہفتے کے لیے اس کی تجدید کی___ یعنی ۵فروری ۲۰۰۶ء تک۔ ساتھ ہی تفتیش کے دوران تعذیب‘ یعنی ٹارچر (torture) کا دروازہ بند کرنے کے لیے جو ترمیم سینیٹر میک کین (Mc Cain) نے پیش کی تھی اور جسے بش نے ویٹو کرنے کی دھمکی دی تھی‘ اسے بھی سینیٹ نے ۹ کے مقابلے میں ۹۰ ووٹ سے منظور کرکے یہ پابندی لگا دی کہ تمام امریکی ایجنسیوں کے لیے نہ صرف امریکا کی سرزمین پر‘ بلکہ دنیا میں کہیں بھی زیرحراست دشمنوں کو ایسے تمام ہتھکنڈوں کا نشانہ بنانا خلافِ قانون ہوگا جو ظالمانہ‘ غیرانسانی اور ذلت آمیزہوں۔ واضح رہے کہ آخری وقت میں ڈک چینی نے پوری کوشش کی کہ کم از کم سی آئی اے کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے مگر سینیٹ نے یہ ماننے سے انکار کردیا اور امریکا کی موجودہ حکمران ٹیم جو کھیل کم از کم چار سال سے کھیل رہی ہے‘ عالمی احتجاج کے تحت اسے اس سے روکنے کا عندیہ دیا۔ آیندہ امریکی انتظامیہ اس کا کتنا احترام کرتی ہے یہ تو مستقبل ہی بتائے گا لیکن کانگریس کے یہ دونوں اقدام بش انتظامیہ پر اس چارج شیٹ کی تصدیق کرتے ہیں جو حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اور عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے دانش ور لگا رہے تھے۔


اس سلسلے میں ہم صرف چند اہم اور نمایاں حقائق ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ صدربش کے تحت امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ سب کے سامنے آجائے اور اس آئینے میں خود ان مسلمان ممالک کی قیادتوں کی شکل بھی دیکھی جا سکے جو صرف امریکا کی خوش نودی کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کے نام پر انسانی حقوق اور آزادیوں کا خون کررہے ہیں۔

جمہوریت کا ایک بنیادی اصول دستور اور قانون کی پاسداری ہے۔ مطلق العنان بادشاہت اور آمریت میں حکمران دستور اور قانون سے بالا رہتے ہیں اور اپنی من مانی کرتے ہیں‘ جب کہ جمہوریت میں ہر صاحبِ اقتدار اپنے لیے جواز حکمرانی دستور اور قانون سے پاتاہے اور اس کا پابند ہوتا ہے۔ صدربش اور ان کی انتظامیہ نے خود کو دستور سے بالاتر کرلیا ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دستور کی ان تمام ضمانتوں کو پامال کر رہے ہیں جو قانون کی حکمرانی‘    نجی زندگی (privacy) کی حفاظت‘ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی شہری کی ڈاک‘ ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ وغیرہ کی جاسوسی کی مکمل ممانعت کے بارے میں تھیں۔

یہ انتظامیہ اس سلسلے میں ایک عظیم جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس نے ہزاروں انسانوں کی نجی زندگی کو پوری بے دردی سے مجروح کیا ہے اور چار سال سے کروڑوں کی تعداد میں ان کے پیغامات کو درمیان میں روکا (intercept کیا)ہے۔ اور اس سلسلے میں غیرمعمولی حالات کے لیے جو گنجایش پیدا کی گئی تھی کہ ایسے معاملات میں خود نیشنل سیکورٹی اتھارٹی اپنی ۱۲رکنی سرکاری جوڈیشل کمیٹی سے رجوع کرے‘ اس کی پابندی نہیں کی گئی‘ محض القاعدہ کی بو سونگھنے کے لیے بے دریغ لاکھوں ٹیلی فون کالوں اور ای میل کو سی آئی اے اور دوسری ایجنسیاں درمیان میں روکتی رہیں۔ یہ اقدام دستور‘ قانون‘ بنیادی حقوق اور شایستگی ہر چیز کی کھلی خلاف ورزی تھی جس کا پوری بے باکی سے ارتکاب کیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب اس کی سن گن لوگوں کو ملنا شروع ہوئی اور کچھ اخبارات نے اس راز کو فاش کرنے کی کوشش کی تو ان کو روکا گیاحتیٰ کہ نیویارک ٹائمز کو خود صدر بش نے ذاتی طور پر اس رپورٹ کے انکشاف سے روکا اور اس سرکاری مداخلت کے نتیجے میں جمہوری امریکا کے جمہوری پریس نے اس خبر کو ایک سال تک دبائے رکھا مگر بالآخر دسمبر۲۰۰۵ء کے وسط میں یہ خبر اخبارات میں شائع ہوگئی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی ۱۵دسمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں جیمز رائزر (James Riser) اور لچ بلان (Lichtblan) کی تہلکہ مچا دینے والی رپورٹ شائع کی۔ جیمزرائزر کی کتاب State of War: The Secret History of the CIA and Bush Administration کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد اب یہ تفتیش ہورہی ہے کہ یہ راز فاش کیسے ہوگیا؟ حالانکہ بش انتظامیہ کا یہ جرم تو ایسی سنگین نوعیت کا ہے کہ وہ امریکی صدر کو مواخذے (impeachment) کا سزاوار بناتاہے۔ اب دبے الفاظ میں یہ بات کہی جانے لگی ہے اور یہ امریکی جمہوریت کا امتحان ہے کہ کیا بش یہ سب کچھ کرنے کے بعد بچ نکلتا ہے یا کیفرکردار کو پہنچتا ہے؟ سینیٹر رابرٹ بائرڈ (Robert Byrd)کہتے ہیں کہ بش نے وہ لامحدود اختیارات ہتھیالیے ہیں جو بادشاہوں اور مہاراجوں کے لیے مخصوص ہوا کرتے تھے۔ اور امریکی کانگریس کے دو ارکان جان لیوس (John Lewis) اور جان ڈین (John Deen) نے کہا ہے کہ بش نے جس طرح دستور‘ قانون‘ عدالتی نظام کو پامال کیا ہے‘ اس کی پاداش میں اس کا مواخذہ ہونا چاہیے۔

بات صرف امریکی شہریوں کی آزادیوں کی پامالی کی نہیں‘ دسمبرہی کے مہینے میں ایک دوسرا بڑا اسیکنڈل وہ اطلاعات ہیں جن کا ماخذ ایک اطالوی دستاویزی فلم ہے جس سے یہ ہوش ربا انکشاف ہوا کہ امریکا دہشت گردی کے شبہے میں پکڑے جانے والے قیدیوں کوتعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے‘ یورپ میں کم از کم آٹھ خفیہ تعذیب خانے چلا رہا ہے۔ علاوہ ازیں یورپ کے دسیوں ممالک کے ہوائی اڈوں اور فضائی حدود کو ان قیدیوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور گذشتہ دوسال میں ایک ایک ملک میں ایسی دو دو سو پروازیں کی گئی ہیں۔ جرمنی‘ آئرلینڈ‘ پولینڈ‘ رومانیا‘ اسپین وغیرہ اس راز کے فاش ہونے پر سخت آتش زیرپا ہوئے اور امریکا کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر ان کی فضائی حدود اور ہوائی اڈوں کے استعمال اور تعذیب کے لیے قیدیوں کی کھلی منتقلی پر سخت احتجاج ہوا۔ برطانیہ میں بھی ایسی ۲۰۰ پروازوں کا ریکارڈ گارڈین اخبارنے فاش کیا لیکن حکومت نہ تصدیق کرتی ہے اور نہ تردید۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے عرب اور مسلمان ممالک کو اس تعذیب کے لیے استعمال کیا گیا اور خصوصیت سے مصر‘ افغانستان‘ الجزائر اور مراکش کا کردار بڑا گھنائونا اور شرمناک ہے۔ اس اسیکنڈل کے اثرات امریکا اور یورپ کے تعلقات پر بھی بڑے دُور رس ہوسکتے ہیں۔ انھیں  ٹھنڈا کرنے کے لیے امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے فوری طور پر یورپی ممالک کا دورہ کیا مگر آگ بظاہر سرد ہوتی نظر نہیں آتی۔

امریکا جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بردار بنتا ہے مگر اس کا جو کردار سامنے آیا‘ وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی‘ اپنی عدالتوں سے رجوع کرنے سے گریز کیا‘ اپنے زیرانتظام دنیا کے مختلف ممالک میں قیدخانے اور عقوبت خانے قائم کیے اور خود اپنے دوست ممالک کے قانون اور حاکمیت (sovereignty)کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔ نیز ٹارچر سے احتراز کے اپنے تمام دعووں کے باوجود‘ بلاواسطہ اور بالواسطہ معصوم انسانوں کو‘ جو سب ہی مسلمان تھے‘ مسلسل چار سال تک غیرقانونی اور غیرانسانی تعذیب (torture) کا نشانہ بنایا۔ اس کی کہیں کوئی دادرسی نہ ہوئی بلکہ کچھ مسلمان حکمران ظلم کے اس کھیل میں امریکا کے آلہ کار بنے اور ابھی تک وہ ہر احتساب سے بالاتر ہیں۔

ابوغریب کی جیلوں میں جو کچھ امریکا نے کیا تھا اور جس کے ۶۰۰ واقعات اتنے ہولناک تھے کہ عالمی دبائو میں امریکا کو بظاہر ان کا نوٹس لینا پڑا‘ جب کہ ہزاروں واقعات پر پردہ پڑا رہا۔ اس نے ساری دنیا میں امریکا کے دہرے معیار کا بھانڈا پھوڑ دیا اور وہ استبدادی ہتھکنڈے سب کے سامنے آگئے جو جمہوریت کے یہ علم بردار بے دریغ استعمال کر رہے تھے اور دنیا کو تہذیب کا درس دے رہے تھے‘ بلکہ کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی اس لیے فروغ پارہی ہے کہ ان لوگوں کو ہماری آزادی اور جمہوریت بری لگتی ہے۔

پھر اسی زمانے میں اس خبر نے امریکا کے امیج کو بُری طرح مجروح کیا کہ امریکی افواج نے فلوجہ کے محاذ پر ۲۰۰۴ء میں سفید فاسفورس کا بے دریغ استعمال کیا ہے جو ایک کیمیائی ہتھیار ہے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کا استعمال انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔

لاس اینجلس ٹائمز کا مضمون نگار جوناتھن بی ٹکر (Jonathan B. Tucker) کیمیاوی ہتھیاروں پر سند کا درجہ رکھتا ہے‘ اور کئی کتب کا مصنف اور Monterary Institute's Center for Non-Proliferationکا سینیرفیلو ہے۔ وہ ان نام ور اہلِ قلم میں سے ہے جو اس کا کھلا اعتراف کر رہے ہیں کہ عراق میں امریکا نے کیمیاوی بم استعمال کرکے اپنا منہ کالا کیا ہے اور اس پر جو عالمی ردعمل رونما ہوا ہے وہ بالکل جائز اور امریکا کے لیے باعثِ شرم ہے:

ویت نام کی جنگ کا ایک اَن مٹ نقش بری طرح جلی ہوئی اس بے لباس ویت نامی لڑکی کِم فِک کا تھا جو سڑک پر دوڑتی ہوئی درد اور وحشت سے چیخ رہی تھی۔ یہ ۱۹۷۲ء کا واقعہ ہے۔ کِم فِک کے گھر پر ویت نام کے ہوائی جہاز نے غلطی سے نیپام بم گرا دیا تھا۔ وہ اور تو کچھ نہ کرسکی‘اس نے بے بسی کے عالم میں اپنے کپڑے پھاڑ لیے۔ معصوم شہریوں کے خلاف اس ہولناک ہتھیار کے حادثاتی استعمال نے‘ جسے اس تصویر نے لافانی بنا دیا تھا‘ عالمی راے عامہ کو جنگ کے خلاف منظم کرنے میں مدد دی۔

اب تین عشروں کے بعد نومبر ۲۰۰۴ء میں عراقی مزاحمت کاروں کے خلاف فلوجہ کی جنگ میں امریکا نے ایک دوسرا آتشیں ہتھیار‘ سفید فاسفورس استعمال کیا ہے۔ اس پر امریکا کو خصوصاً باہر کی دنیا میں تنقید کے طوفان کا سامنا ہے۔ سفیدفاسفورس جسے عرف عام میں ڈبلیوپی (wp)کہا جاتا ہے‘ ہوا میں تحلیل ہونے پر اپنے آپ بھڑک اُٹھتا ہے اور اس وقت تک خوفناک طریقے سے جلتا رہتا ہے جب تک کہ آکسیجن ختم نہ ہوجائے۔ اس کے آتشیں ذرات بیرونی کھال پر جم جاتے ہیں‘ گوشت کو ہڈیوں تک گلا دیتے ہیں اور انتہائی گہرے کیمیائی زخم پیدا کرتے ہیں جو ہلاکت خیز نہ بھی ہوں مگر شدید تکلیف دہ ہوتے ہیں اور مندمل ہونے میں بڑا وقت لیتے ہیں۔

فلوجہ میں جہاں صرف جنگجو ہی نہیں تھے‘ عام شہری بھی موجود تھے‘ آتشیں اسلحے کا استعمال تین وجوہات سے شدید غلطی تھا۔ اوّل‘یہ اخلاقی طور پر غلط تھا‘ دوسرے یہ عراق میں امریکی پالیسی کے مقاصد کے خلاف تھا‘ اور تیسرے یہ ایک منافقانہ طرزعمل تھا جو امریکا کے خلاف عالمی غم وغصے کوایندھن فراہم کرتا تھا جس سے جہادی دہشت گردوں کی بھرتی کے لیے واضح جواز فراہم ہوتا تھا۔

جوناتھن ٹکر جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ پوری دنیا کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے امریکا کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کی آگ کو بھڑکایا ہے:

ابوغریب میں قیدیوں سے شرمناک سلوک‘ سمندرپار ممالک میں سی آئی اے کے قیدخانوں کا اسکینڈل اور فلوجہ میں سفید فاسفورس کا استعمال درحقیقت ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں۔ یہ اس حکومت کی اخلاقی حِس کے فقدان کی عکاسی کرتے ہیں جس نے امریکا کو دنیا کی نظروں میں ایک بدمعاش ریاست بنا دیا ہے۔

اسی بات کو نوم چومسکی نے نیوزویک کے مائیکل ہیسٹنگ (Michael Hasting)کو دیے گئے انٹرویو میں اس طرح بیان کیا ہے:

بش انتظامیہ امریکا کودنیا میں سب سے زیادہ خوفناک اور قابلِ نفرت ملک بنانے   میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس باب میں ان لوگوں کی صلاحیت ناقابلِ یقین ہے۔ (نیوزویک‘ ۹ جنوری ۲۰۰۶ئ‘ ص ۵۲)

ہم یہاں اتنا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ٹارچر کے استعمال کے علاوہ ظالم اور مطلق العنان حکمرانوں اور خصوصیت سے فوجی آمروں کی پشت پناہی کے سلسلے میں امریکا کی پالیسی نئی نہیں ہے۔ بلاشبہہ بش انتظامیہ نے اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ امریکا کی تاریخی پالیسی کا شرمناک حصہ رہی ہے اور اندرونِ ملک جمہوریت اور آزادی کا اگر کچھ نہ کچھ پاس کیا گیا ہے‘ تب بھی اس سے انکار مشکل ہے کہ بین الاقوامی سطح پر جنوبی امریکا سے لے کر ایشیا اور افریقہ کے تمام ہی علاقوں تک ٹارچر اور آمریت دونوں کے فروغ میں امریکا کا   بڑا اہم کردار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۸۴ء تک پانامہ اور بعد میں Fort Benning, Georgiaکے مقام پر امریکی فوج کے زیراہتمام School of the Americas کے نام سے ایک ادارہ قائم تھا جس میں امریکا اور دوسرے ممالک کے فوجیوں اور ایجنسیوں کے لوگوں کو ٹارچر اور ظالمانہ تفتیش کے طور طریقوں اور اس سلسلے میں جدید ترین   آلاتِ تعذیب کے استعمال کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ اسی اسکول کے تربیت یافتہ عملے نے جنوبی امریکا اور دنیا کے دوسرے ممالک بشمول عرب ممالک میں ٹارچر کے ایک سیاسی آلے کے طورپر استعمال کو رواج دیا۔ اس سلسلے کے سارے حقائق‘ اخبارات اور رسائل میں تو آتے رہے لیکن پورے دستاویزی ثبوت کے ساتھ یہ ایک تازہ ترین کتاب کی شکل میں بھی شائع ہوگئے ہیں جسے الفرڈ میکائے (Alfred McCoy) نے مرتب کیا ہے اور جو A Question of Torture کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ گارڈین‘ لندن میں نوم کلین (Noam Klein) کا مقالہ ’US has been using Torture for Decades‘ ڈان/گارڈین سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ)

آج گوانتاناموبے کے سیکڑوں قیدیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا جا رہا ہے‘ اور اب تک یورپ اور عرب ممالک کے تعذیب خانوں میں امریکا کے ایما پر جو کچھ کیا جاتا رہا‘ جس طرح قیدیوں کو ملک ملک بھیج کر ٹارچر کا نشانہ بنوایا گیا اور ابوغریب عراق کے دیگر قیدخانوں اور افغانستان کے متعدد قیدخانوں میں جو کچھ کیا جاتا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں۔ امریکی وزیردفاع رمزفیلڈ نے تو صاف کہا ہے کہ تفتیش کے لیے غیرمعمولی ذرائع کا استعمال ضروری ہے۔ بات صرف رمزفیلڈ کی نہیں‘ سارے قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ ٹارچر کی نہ صرف اجازت بلکہ اس کے کھلے استعمال کی ہدایت یا حکم کا رشتہ صدربش تک پہنچتا ہے۔ نوم کلین لکھتا ہے:

ہمیں اس بارے میں واضح ہونا چاہیے کہ کیا چیز ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی: ٹارچر نہیں‘ بلکہ اس کا کھلا کھلا ذکر۔ ماضی کی حکومتیں اپنے ان سیاہ کرتوتوں کو خفیہ رکھتی تھیں‘ جرائم کی اجازت ہوتی تھی لیکن ان کا ارتکاب چھپ چھپا کر کیا جاتا تھا‘ سرکاری سطح پر اس کی تردید اور مذمت ہی کی جاتی تھی۔ بش انتظامیہ نے یہ تکلف ختم کر دیا ہے۔   نائن الیون کے بعد اس نے بلاکسی جھجک اور شرم و حجاب کے ٹارچر کرنے کے حق کا مطالبہ کیا‘ جس کو نئی تعریفوں اور نئے قوانین سے جواز فراہم کیا۔

ٹارچر‘ امریکا اگر اپنے ملک کی حدود سے باہر کر رہا ہے‘ تب بھی اس کا جواز کسی صورت فراہم نہیں ہوتا لیکن اصل اعتراض تو ٹارچر کے ارتکاب پر ہے‘ خواہ کہیں ہو۔ امریکی انتظام میں چلنے والے قیدخانوں میں‘ امریکی شہری قیدیوں کو ٹارچر کرتے ہیں اور انھیں امریکی جہازوں میں ہی دوسرے ممالک میں منتقل کیا جاتاہے۔ خفیہ کاموں کے لیے ضروری طور طریقوں کوبالاے طاق رکھنے کے عمل نے فوجی اور خفیہ سروس کی برادری کو مخالفت میں کھڑا کردیا ہے۔ بش نے یہ صورت پیدا کر دی ہے کہ کوئی بھی ایسی تردید نہیں کرسکتا جس پر یقین کیا جاسکے۔ یہ تبدیلی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ جب ٹارچر خفیہ طور پر کیا جائے لیکن سرکاری اور قانونی طور پر انکار کیا جائے تو امید ہوتی ہے کہ جب ظلم بے نقاب ہوگا تو انصاف میسر آئے گا۔ لیکن جب یہ قانون کے پردے میں ہو اور جو ذمہ دار ہوں وہ انکار کریں کہ یہ ٹارچر ہے تو انسان کے اندر وہ مر جاتا ہے جسے  ہنّا آرنڈٹ (Hannah Arendt) نے انسان کے اندر کا منصف قرار دیا ہے۔ جلد ہی متاثرہ لوگ انصاف کے حصول سے مایوس ہوکر اور اس کی کوشش میں خطرات کا یقین ہونے کی بنا پر اس کی کوشش ہی ترک کردیتے ہیں۔ یہ بڑے پیمانے پر وہی کچھ ہے جو کسی عقوبت خانے میں ہوتا ہے جہاں قیدیوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ جتنا چاہیں چیخ لیں‘ کوئی ان کے چیخنے چلّانے کو نہیں سن سکتا اور نہ کوئی انھیں بچانے کے لیے آئے گا۔ (ڈان بحوالہ دی گارڈین نیوز سروس‘ ۱۱دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص۱۲)

الفریڈ میک کوائے نے ٹارچر کے سلسلے میں امریکا کے تاریخی جرائم کے دستاویزی ریکارڈ کو پیش کرکے دنیا کے اور خود امریکا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے: بات اِکا دکا واقعات یا چند قانونی ترامیم کی نہیں‘ اگر حالات کو بدلنا ہے تو ظلم کے اس پورے نظام کو بدلنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اداروں اور حکومت کی شرکت کی تاریخ اور گہرائی کو نہیں سمجھیں گے تو آپ بامعنی اصلاحات کا آغاز نہیں کرسکتے۔ (ایضاً)


ان سنگین الزامات کے ساتھ امریکی جمہوریت پر ایک اور بدنما داغ بلکہ اس کے ایک مہلک ناسور کے بارے میں بھی انکشاف ہوا ہے جس کا تعلق صحافت کی آزادی سے ہے۔ بلاشبہہ امریکا میں صحافت اور میڈیا کو بڑی آزادی میسر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا کے میڈیا پر چند گروہوں کا قبضہ ہے جو اسے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سرفہرست صہیونی لابی ہے جس کے اثرات پر ایک نہیں دسیوں کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ایڈورڈسعید اور نوم چومسکی نے اس موضوع پر خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ دوسری بڑی لابی اب    نیوکونز (Neo-Cons) کی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ چشم کشا انکشافات وہ ہیں جو خود امریکی حکومت کے کردار کے بارے میں سامنے آرہے ہیں۔

صدربش‘ ڈک چینی اور حکومت کے اہم کارپرداز بلاواسطہ پریس کو ’مشورے‘ (advice)  دیتے رہے ہیں۔ اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ صحافت اور میڈیا میں سرکاری ایجنسیوں کے تنخواہ دار بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں۔ حکومت کی ہدایات پر بڑے بڑے اخبارات نے نہایت اہم خبریں دبا (kill کر)دی ہیں یا ان کی اشاعت کو مہینوں موخرکیا‘ اور پھر اسی وقت شائع کیا جب ان کے کسی نہ کسی صورت باہر آنے کا امکان صاف نظر آنے لگا۔ یہ بھی اب دستاویزی شہادتوں کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی فوج کے ساتھ جو صحافی ہوتے ہیں اور جن کو embedded journalists کہا جاتا ہے‘ وہ اپنے چشم دید حقائق کو بیان نہیں کرتے بلکہ دراصل فوج کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس طرح صحافت کو بھی فوج کی مہم کا ایک حصہ بنادیا گیا ہے۔ پھر اس کی شہادتیں بھی سامنے آگئی ہیں کہ فوج نے خطیر رقم دے کر عراق ہی میں نہیں‘ہر جگہ اپنے مفیدمطلب مضامین لکھوائے ہیں اور خبروں کو خاص رنگ دلوایا ہے۔ امریکا اور برطانیہ دونوں جگہ صحافیوں کو ایک خاص انداز میں واقعات کے بیان پر آمادہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رابرٹ فسک (Robert Fisk)نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ میں بڑا تفصیلی اور حقائق سے بھرپور مواد شائع کیا ہے۔ اب تو یہ واقعہ بھی طشت ازبام ہوچکا ہے کہ خود بش نے الجزیرہ ٹی وی پر بم باری کرنے کی بات کی تھی مگر ٹونی بلیر نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ جب یہ خبرشائع ہوگئی تو ٹونی بلیر اور برطانیہ اور امریکا کی ایجنسیوں کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ بات باہر کیسے نکل گئی۔ آزادیِ صحافت کے دعوے داروں کے ان کرتوتوں نے دنیا کی نگاہوں میں ان کی ہی نہیں‘    بڑے بڑے اخبارات کی ساکھ (credibility) کو بھی مجروح کیا ہے۔

امریکا کا یہی وہ دوغلا رویہ ہے جس نے دنیا کے عوام کو مایوس کیا ہے اور جمہوریت‘ آزادی اور حقوق انسانی کے امریکی دعووں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی ہے۔ امریکا کے مجرم ضمیر کی بہترین ترجمانی خود اس کے سابق صدر جمی کارٹر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کی ہے جس کا حسبِ ذیل اقتباس سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے اور خود امریکا کی موجودہ قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے:

حالیہ برسوں میں میری اس تشویش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کہ حکومت کی انتہاپسندانہ پالیسیوں نے ہمارے ان بنیادی اصولوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے جن کا ماضی کی ساری ڈیموکریٹ اور ری پبلکن حکومتوں نے سختی سے تحفظ کیا تھا۔ ان میں امن‘   معاشی و سماجی انصاف‘ شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق جیسے اصول شامل ہیں۔ موجودہ حکومتی طرزعمل نے شہریوں کو مبنی برصداقت اطلاعات فراہم کرنے‘ اختلافی آوازوں اور دوسروں کے نظریات کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے جیسے پختہ امریکی تصورات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی قیادت‘ یہ اندازہ کیے بغیر ساری دنیا پر سامراجی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ ہمیں اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہے یا آیندہ ادا کرنی ہوگی۔ دہشت گردی کے خطرے سمیت ‘ باہمی مفادات کے مختلف امور پر دوسرے ممالک سے خوش دلانہ اتفاق رائے اور اتحاد قائم کرنے کے بجاے ہم نے اس شاہی فرمان کا سہارا لیا کہ ’’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف؟‘‘ انسانی حقوق کے عظیم چیمپین کے طور پر اپنے تصورات کی سربلندی کے لیے کوشش کرنے کے بجاے ہم شخصی اور شہری آزادیوں کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ صدر اور نائب صدر اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ سی آئی اے کو زیرحراست افراد سے ظالمانہ‘ غیرانسانی اور توہین آمیز برتائو کی اجازت ہونی چاہیے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور کی حیثیت سے امریکا کو امن‘ آزادی اور انسانی حقوق کا پرعزم چیمپین اور انسانی ہمدردی کے کاموں کا ہراول دستہ ہونا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی تقسیم سے قطع نظر‘ سارے امریکی اپنے اس مشترکہ عہد کو تازہ کریں کہ ہم پھر سے ان سیاسی واخلاقی اقدار کا احیا کریں گے جنھیں ہم نے ۲۳۰ سالوں سے سینے سے لگا رکھا تھا۔ (نوائے وقت‘ ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ئ)

آخیر میں ہم ہرالڈ پنٹر (Harold Pinter) کی اس ویڈیو تقریر کے چند اقتباس دینا چاہتے ہیں جو اس نے اس سال کا نوبل پرائز وصول کرتے وقت کی اور اس نے امریکا کے حقیقی کردار کو اس عالمی فورم پر بڑے دو ٹوک انداز میں پیش کرکے پوری دنیا کے انسانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس نے کہا:

کسی خودمختار ریاست پر براہ راست حملہ کبھی بھی امریکا کا پسندیدہ طریقہ نہیں رہا۔ اس نے ہمیشہ عام طور پر اس طریقے کو ترجیح دی ہے جسے کم شدت کا (low intensity) تصادم کہا جاتاہے۔ اس میں اگرچہ ہزاروں معصوم اور بے گناہ آدمی مرتے ہیں لیکن ان پر ایک ہی دفعہ بم برسا کر انھیں موت کے گھاٹ اُتارنے کے مقابلے میں‘ اس طرح اموات سُست رفتاری سے ہوتی ہیں۔ اس صورت میں آپ اس ملک کے قلب کو مبتلاے مرض (infect)کرتے ہیں‘ آپ ایک سرطانی پھوڑا پیدا کرتے ہیں اور گینگرین کوبڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب آبادی شکست خوردہ ہوجائے___ یا مار دی جائے ایک ہی بات ہے___  اور آپ کے اپنے دوست‘ فوج اور بڑی کارپوریشنیں‘ آرام سے اقتدار پر بیٹھ جائیں تو آپ کیمرے کے سامنے جاکر کہتے ہیں کہ ’’جمہوریت قائم ہوگئی ہے‘‘۔ یہ امریکی خارجہ پالیسی میں ان برسوں میں عام بات تھی جن کا میں ذکر کر رہا ہوں…دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا نے دنیا میں دائیں بازو کی ہر فوجی آمریت کی حمایت کی اور اکثر صورتوں میں اسے قائم کیا۔ میرا مطلب انڈونیشیا‘ یونان‘ یوراگوئے‘ برازیل‘ پیراگوئے ‘ ہیٹی‘ ترکی‘ فلپائن‘ گواٹے مالا‘ سلواڈوار اور یقینا چلّی سے ہے۔ ۱۹۷۳ء میں امریکا نے صرف چلّی میں جو خوفناک زخم لگائے ان کا ازالہ ممکن نہیں اور اسے ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام ممالک میں لاکھوں آدمی مارے گئے۔ کیا ان سب اموات کو امریکی خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ جواب ہے: ہاں۔ ان سب اموات کا سبب امریکی خارجہ پالیسی ہی تھی…

امریکا کے جرائم منظم‘ فاسقانہ‘ بے رحمانہ اور کسی قسم کی پشیمانی کے بغیر عمل میں آتے رہے ہیں مگر بہت کم لوگوں نے ان کے بارے میں کھل کر بات کی ہے۔ اس نے ’نیکی کے لیے ایک طاقت‘ کا بہروپ بھرکر، اسے نہایت کمالِ فن سے پوری دنیا میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ آپ کو امریکا کو داد دینی پڑتی ہے۔ یہ ہپناٹزم کا ایک شان دار‘ ذہانت سے بھرپور اور غیرمعمولی کھیل ہے۔

میں آپ سے کہتا ہوں کہ امریکا سب کی آنکھوں کے سامنے یہ کھیل کھیل رہا ہے۔ امریکا کا یہ ڈراما بے حد ظالمانہ‘ وحشیانہ اور نفرت انگیزہے۔ اس سے امریکا کی مکاری بھی ظاہر ہوتی ہے…

ہماری اخلاقی حِس کو کیا ہوگیا ہے۔ کیا کبھی ہماری یہ حِس تھی بھی؟ کیا ان الفاظ کے کوئی معنی ہیں؟ کیا یہ ایک ایسے لفظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آج کل بہت کم استعمال کیا جاتا ہے‘ یعنی ضمیر؟ صرف ہمارے اپنے افعال کے ساتھ نہیں‘بلکہ دوسرے کے افعال میں جو ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے اس میں بھی۔ کیاہماراضمیر مُردہ ہو چکا ہے؟

گوانتاناموبے کو دیکھیے‘ سیکڑوں افراد کسی الزام کے بغیر تین سال سے زائدعرصے سے قید ہیں۔ انھیں قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق نہیں۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا رہا۔ عملی طور پر وہ عمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جنیوا کنونشن کے علی الرغم کلی طور پر ناجائز یہ کارروائی جاری ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ جسے ہم ’عالمی برادری‘ کہتے ہیں، اسے بھی اس کی کوئی فکر نہیں۔ یہ مجرمانہ کارروائی ایک ایسا ملک کررہا ہے جو اپنے آپ کو آزاد دنیا کا قائد قرار دیتا ہے…

عراق پر حملہ ایک قزاقانہ اقدام تھا۔ یہ بین الاقوامی قانون کی حددرجے کی توہین تھی اور کھلی کھلی ریاستی دہشت گردی۔ یہ حملہ ایک فوجی حملہ تھا‘ اس کے لیے جھوٹ پر جھوٹ گھڑا گیا۔ اس حملے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امریکا کے فوجی اور معاشی کنٹرول کو مستحکم کرنا تھا۔ ہر طرح کی وجوہ ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد آخری چارئہ کار کے طور پر آزادی دلانے کا بہانہ بنایا گیا۔ فوجی طاقت کے اس مظاہرے سے ہزاروں لاکھوں معصوم لوگوں کی موت اورتباہی واقع ہوئی ہے۔

ہم نے عراقی عوام کو کیا دیا ہے؟ ٹارچر‘ کلسٹربم‘ ڈپلیٹڈ یورینیم‘ بلالحاظ قتل و غارت کے لاتعداد واقعات‘ اور ان کی توہین اور تذلیل‘ مگر اس کے باوجود کہتے ہیں کہ ہم مشرق وسطیٰ کے لیے آزادی اور جمہوریت لائے ہیں۔

ایک شخص کو جنگی مجرم اور قتلِ عام کا مرتکب قرار دینے کے لیے آخر آپ کو کتنے آدمی مارنا ہوتے ہیں۔ ایک لاکھ؟ میرے خیال میں یہ کافی ہیں۔ اس لیے یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ بش اور بلیر کو عالمی عدالت کے سامنے لایا جائے۔ لیکن بش چالاک ہے۔اس نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ آف جسٹس کی توثیق نہیں کی ہے۔ اب اگر کوئی امریکی فوجی یا سیاست دان ہی سہی‘ کٹہرے میں لایا جائے گا تو بش نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی فوجیں بھیج دے گا۔ لیکن ٹونی بلیر نے اس عالمی عدالت کی توثیق کی ہے‘ اس لیے بلیر پر تو مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ اگر عدالت کو دل چسپی ہے تو ہم اس کا پتا بتائے دیتے ہیں: مسمّی ٹونی بلیر‘ ساکن ۱۰-ڈاؤننگ اسٹریٹ‘ لندن۔

عراق میں مزاحمت کے شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی بموں اور میزائلوں سے   کم سے کم ایک لاکھ عراقی ہلاک ہوچکے تھے۔ کیا ان لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں؟ ان کی اموات کوئی معنی نہیں رکھتیں؟ ان اموات کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں‘ اور ضرورت بھی    کیا ہے۔ اس لیے امریکی جنرل ٹونی فرانکس نے کہا ہے کہ ہم لاشیں نہیں گنتے۔   (دی گارڈین‘ ۸ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۰-۱۲)

ہرالڈ پنٹر نے بسترعلالت سے مظلوم انسانیت اور امریکا کے ہاتھوں زخم خوردہ اور ستم زدہ افراد و اقوام کی طرف سے کلمۂ حق کہہ کر فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ یہ انسانیت کے ضمیر کی آواز ہے جسے کوئی آج سنے یا نہ سنے ‘کل ان شاء اللہ اسی آواز سے پوری دنیا کے دروبام گونجیں گے۔


امریکا کے جمہوری نظام کے لیے آج صدر بش‘ ان کی انتظامیہ اور نیوکون کا پورا طائفہ ایک خطرہ بن گئے ہیں۔ صدربش نے دستور کے الفاظ اور روح دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی راج ہٹ پر قائم ہیں۔ انھوں نے تقرریوں کے نام پر دستور کے متعین طریقے کو ترک کر کے اعلیٰ مناصب پر چور دروازوں سے اپنے پسندیدہ افراد کو مسلط کیا ہے اور اس ضمن میں کانگریس اور سینیٹ کو بھی نظرانداز کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کیا۔ عام شہریوں کی جاسوسی اور ان کی      نجی زندگی کی تقدیس کو پامال کیا اور اس پر عوامی احتساب کو حقارت کے ساتھ نظرانداز کردیا ہے۔ فوج اور سی آئی اے کے ذریعے انسانیت سوز مظالم کو روا رکھا ہے بلکہ عملاً اسے سندجواز فراہم کی ہے اور اب جب دفاعی بل میں سینیٹر میک کین کی ترمیم کے ذریعے ٹارچر پر کھلی پابندی لگائی گئی ہے‘تب بھی نئے قانون پر دستخط کرنے کے بعد ایک سرکاری اعلامیے میں صدر کے امتیازی اور صوابدیدی اختیار کا اعادہ کیا گیا ہے‘ جب کہ سینیٹ نے نائب صدر ڈک چینی کی ساری کوشش کے باوجود ‘صدر کو استثنا کرنے کا اختیار دینے سے انکار کردیا تھا جس سے قانون سازوں کی نیت کسی ابہام کے بغیر واضح ہوگئی تھی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس وقت امریکا کے ’جمہوری ڈھانچے‘ پر جو گروہ مسلط ہے وہ شہنشاہی (imperial) فکر کا حامل ہے۔ نیوزویک بالعموم صدر بش کی حمایت کی روایت پر قائم ہے‘ لیکن اس کا مدیر بھی اس ذہنیت پر گرفت کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ امریکا کی قیادت جمہوریت کے پہلے اصول‘ یعنی قانون کی پاسداری کی خلاف ورزی تو کرہی رہی ہے لیکن جمہوریت کی روح‘ یعنی دوسرے کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ فرید زکریا An Imperial Presidencyکے عنوان سے نیوزویک کے ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں لکھتا ہے کہ صدربش کے دور میں:

امریکا نے جمہوریت کا ایک شہنشاہی انداز اختیار کیا ہے۔ بیرونی ممالک کے لیڈروں سے کافی ربط و ضبط ہے مگر یک طرفہ ہے۔ جن بیرونی لیڈروں سے مشورہ کیا جاتا ہے‘ دراصل انھیں امریکی پالیسی کی فقط اطلاع دی جاتی ہے۔ ’’جب ہم امریکی افسروں سے ملتے ہیں‘ وہ بولتے ہیں‘ہم سنتے ہیں۔ ہم شاذ ہی اختلاف کرتے ہیں یا کھل کر بولتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔ یہ بات ایک سینیرافسرخارجہ نے اپنے مقابل امریکی افسروں کو ناراض کرنے کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی۔ شہنشاہی انداز جو ناراضی پیدا کرتا ہے‘ اس سے قطع نظر بے نیازانہ رویے کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی افسران غیرملکیوں کے تجربے اور مہارت سے مستفید نہیں ہوپاتے… غیرملکیوں کو امریکی افسر اُس دنیا کے بارے میں جو وہ چلا رہے ہیں بڑی حد تک بے خبر نظر آتے ہیں… شہنشاہی انداز کی اپنی خوبیاں بھی ہیں۔ یہ   خوف زدہ کرتا ہے‘ فیصلہ کن اقدام کے لیے جواز فراہم کرتا ہے اور دوسرے ممالک کو اپنے پیچھے آنے پر مجبور کرتا ہے لیکن یہ قیمتوں کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے  جس دنیا میں ہم داخل ہورہے ہیں‘اس کے لیے تو خاص طور پر نامناسب ہے۔ (نیوز ویک‘ ۱۹دسمبر ۲۰۰۵ئ)

اور یہی وہ انداز ’جمہوریت‘ ہے جو بش کی قیادت میں امریکا نے رائج کیا ہے لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ خود امریکا میں آج جمہوریت کو اصل خطرہ ان نام نہاد دہشت گردوں سے نہیں جن کے سایوں (shadows) کا تعاقب کیا جارہا ہے بلکہ ان جلادوں سے ہے جو جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے ہر اصول‘ روایت اور قدر کا خون کر رہے ہیں۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ امریکی دستور میں بڑی اچھی باتیں لکھی گئی ہیں۔ ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ امریکی نظامِ حکومت میں بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں اور عام امریکیوں میں بہت سی وہ انسانی خوبیاں موجود ہیں جو شرفِ انسانیت کا حصہ ہیں۔ امریکا میں آج بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو موجودہ امریکی قیادت کی پالیسیوں اور اقدامات پر ناخوش ہیں یا ماضی کی اُن پالیسیوں پر جو امریکا کی مختلف قیادتیں اپنے اپنے دورِاقتدار میں کرتی رہی ہیں۔ ان مثبت پہلوئوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ امریکی حکمران خصوصیت سے   نائن الیون کے بعد جس راستے پر چل پڑے ہیں‘ وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے یہ راستہ بڑا خطرناک ہے۔ امریکا کی ان پالیسیوں نے دہشت گردی میں اضافہ کیا ہے اور دنیا کی مختلف اقوام ‘ خصوصیت سے مسلمان اقوام کے چین اور سکون و اطمینان کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور امریکا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف عملاً صف آرا کردیا ہے‘ نیز دنیا کی تمام کمزور قوموں اور ان کے عوام کو ظلم اور محرومی کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ طاقت کی عدم مساوات نے عالمی سطح پر ایک ایسے نئے قسم کے عدمِ تحفظ کو جنم دیا ہے جو کمزور انسانوں کو ایسا راستہ اختیار کرنے کی طرف دھکیل رہا ہے جس سے دنیا میں تشدد‘ خون ریزی اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔

یہ حالات سب کے لیے بڑے خطرناک ہیں اور امریکا کو اس زعم میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ محض قوت اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اقوامِ عالم پر قبضہ کرسکتا ہے اور ان کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ ہوش مندی کا راستہ یہ ہے کہ امریکا سے    بے زاری اور نفرت کے اسباب کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور وہ اسباب جو دُوری اور نفرت پیدا کررہے ہیں‘ ان کو دُور کیا جائے۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور بقاے باہمی کے اصول پر انصاف اور ایک دوسرے کی آزادی‘ حقوق اور تہذیب و روایات کے احترام کی بنیاد پر عالمی امن کے حصول کی کوشش کی جائے۔ اس کے سوا جو بھی راستہ ہے‘ وہ تباہی کا راستہ ہے اور یہ تباہی وہ ہے جس کی آگ صرف کمزوروں کو اپنی گرفت میں نہیں لیتی بلکہ طاقت ور بھی اسی طرح اس کا نشانہ بنتے ہیں جس طرح کمزور۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طاقت کی بنیاد پر انسانی مسائل و معاملات کو حل کرنے کی حماقت نہ کی جائے بلکہ عقل و انصاف اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جس میں سب کی فتح ہے اور شکست کسی کی بھی نہیں۔

جنرل پرویز مشرف تضادبیانی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ان کا ہر انٹرویو اپنے جلو میں نئی گل افشانیاں لے کر آتا ہے اور انھیں شوق ہے کہ دنیا کے ہر مسئلے پر گوہرافشانی ضرور فرمائیں حالانکہ صاحبانِ عقل نے کم گوئی اور سوچ سمجھ کر حسب ِضرورت بات کرنے ہی کو اچھی اور مدبرانہ قیادت کا خاصّہ قراردیا ہے۔ اس مہینے جمہوریت کے تصور کے بارے میںپے در پے ان کے دو انٹرویو آئے ہیں جن کا نوٹس نہ لینا قومی جرم سے کم نہ ہوگا۔

پہلا انٹرویو ایک ترک خاتون صحافی کو دیا گیا ہے جو جیو پرائیویٹ ٹی وی چینل کے تعاون سے حاصل کیا گیا ہے اور دوسرا وہ خطاب ہے جو انھوںنے امریکا کے اسٹینفورڈ یونی ورسٹی گریجویٹ اسکول آف بزنس کے ۳۰ طلبا کے سامنے گورنر ہائوس کراچی میںفرمایا۔ ان دونوں مواقع پر جنرل صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جمہوریت میں صدرمملکت کی وردی کی کوئی گنجایش نہیں اس لیے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن اسی سانس میں انھوں نے یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ پاکستان کے قومی مفاد میں ان کا وردی میں رہنا ضروری ہے‘ اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہاں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے گی۔ اپنے اس متضاد دعوے کے حق میں انھوں نے دو دلائل بھی دینے کی جسارت کی۔

اوّلاً ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں قیادت کی وحدت (Unity of Command) ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب وہ خود صدرمملکت کے ساتھ فوج کے سربراہ بھی رہیں۔ اس سے ان کے زعم میں فوج‘ سیاست اور بیورو کریسی میں یگانگت اور وحدت پیدا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر انتظامیہ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرسکتی ہے۔ بلکہ انھوں نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ میرے صدر اور چیف آف اسٹاف ہونے ہی کا کرشمہ تھا کہ ایک اشارے پر فوج زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے فی الفور سرگرم ہوگئی۔

دوسرا ارشاد عالی مقام یہ ہے کہ پاکستان کے دستور کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دوتہائی اکثریت نے انھیں خصوصی اختیار دیا ہے کہ وہ یہ دونوںعہدے اپنے پاس رکھیں اور اسے انھوں نے ایک بہت ہی اچھا فیصلہ قراردیا (I think the decision is very good)۔

جنرل صاحب کے یہ دونوں بے بنیاد دعوے کسی بھی ذی ہوش اور محب وطن پاکستانی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتے‘ نہ خاموشی سے انھیں یوں ہی جانے دیا جاسکتا ہے۔ نہ ان پر خاموش رہنا ممکن ہے۔پہلا دعویٰ اصولی طور پر قابلِ گرفت ہے تو دوسرا واقعاتی طور پر۔ پہلے‘ دوسرے دعوے کو لیجیے جو صریح جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔ جنرل صاحب نہایت دیدہ دلیری سے غلط بیانی کررہے ہیں۔ ۱۷ویں دستوری ترمیم میں جسے پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا‘واضح طور پر طے کردیا گیا تھا کہ ایک دستوری انحراف (deviation)کے طور پر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک انھیں  چیف آف اسٹاف کا عہدہ رکھنے کا موقع دیا گیا ہے جس کے بعد اس کا چھوڑنا لازمی ہوگا۔ خود جنرل صاحب نے ٹی وی پر آکر قوم سے عہد کیا تھا کہ گو مجھے قومی مفاد اور حالات کی ضرورت کی بنیاد پر دوعہدے رکھنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا لیکن میں نے طے کرلیا ہے کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء سے پہلے فوج کی سربراہی سے فارغ ہوجائوں گا۔ انھوں نے دستور کے الفاظ اور سیاسی معاہدے کے علی الرغم‘    محض عام اکثریت (simple majority) سے ایک خصوصی قانون منظور کرا کر قوم اور پارلیمنٹ سے وعدہ خلافی کی اور اس طرح دستور کو مسخ کیا اور اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے ان کو اس کی اجازت دی۔ یہ سراسر خلافِ واقعہ ہے۔

رہا مسئلہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر چلانے کے لیے جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف فوج کی سربراہی پر براجمان رہنا‘ تو اس مضحکہ خیز دلیل کو کون بقائمی ہوش و حواس تسلیم کرسکتا ہے۔ یونٹی آف کمانڈ کی بات بھی ایک انتہائی خطرناک سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل لغو بات ہے کہ اگر میں صدر ہونے کے ساتھ چیف آف اسٹاف نہ ہوتا تو فوج سکھر بیراج کی تعمیر بروقت نہیں کرسکتی تھی اور نہ زلزلہ زدگان کی بروقت مدد ہوسکتی تھی۔ اگر ہم دلیل کی خاطر یہ نظرانداز بھی کردیں کہ عام شہری‘اسلامی تحریکات کے کارکن اور مجاہد تنظیموں کے سرفروش زلزلوں کے چند گھنٹے کے اندر ملبے میں دبے ہوئے اپنے بھائی بہنوں بلکہ مظفرآباد میں فوجی جوانوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے پہنچ گئے تھے‘ جب کہ یونٹی آف کمانڈ کا طرہ زیب تن کیے ہوئے جرنیل صاحب کو خود اپنے بقول زلزلے کی تباہ کاریوں کا اندازہ زلزلے کے پورے سات گھنٹے کے بعد ہوا اور فوج متاثرہ مقامات میں دوسرے‘ تیسرے‘ حتیٰ کہ ساتویں دن پہنچی۔ اس کارکردگی پر پریس اور پارلیمنٹ میں سخت تنقید بھی ہوئی ہے۔

اگر اس پہلو کو نظرانداز کر دیا جائے تب بھی سب سے بنیادی اور اصولی بات یہ ہے کہ دستور کے تحت اور پوری جمہوری دنیا کی مسلّمہ روایت کے مطابق فوج سول حکومت کے تابع ہوتی ہے اور یہی اصول پاکستان کے دستور کی دفعہ ۱۴۵ میں واضح الفاظ میں موجود ہے۔ اسی کا برملا اعلان قائداعظم نے کوئٹہ میں فوج کے جوانوں کو خطاب کرتے ہوئے ۱۹۴۸ء کے اوائل میں کیا تھا۔ دنیابھر میں غیرمعمولی حادثات کے موقع پر خواہ ان کا تعلق سیلاب اورآسمانی آفات سے ہو یا سول نظام کے درہم برہم ہونے سے‘ سول حکومت کے ایک اشارے پر فوج حکم کی تعمیل میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر کمربستہ ہوجاتی ہے۔ سونامی کے موقع پر تمام متاثرہ ممالک میں اس کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں بھی سیلاب کے موقع پر ہر دور میں فوج نے خدمات انجام دی ہیں۔ امریکا میں کترینا کے طوفان میں تباہ ہونے والوں کی مدد کے لیے فوج حرکت میں آگئی۔ کیا یہ سب یونٹی آف کمانڈ کا کرشمہ تھا یا دستوری اور قانونی نظام کے موجود ہونے اور فوج کے سول حکومت کے تابع ہونے کا۔ برطانیہ میں تو فوج کسی معمولی سی معمولی کارروائی کے لیے بھی وزیراعظم کی ہدایت کے بغیر حرکت نہیں کرسکتی۔

پھر جنرل صاحب کو اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فوج کے اندر کے نظام میں یونٹی آف کمانڈ ضروری ہے‘ لیکن سول حکومت اور فوج کے درمیان رشتہ‘ کمانڈ کی وحدت کا نہیں‘ فوج کا سول کمانڈ کے تحت ہونے کا ہے۔ غیرسیاسی نظام اپنا مخصوص مزاج رکھتا ہے اور یہاں یونٹی آف کمانڈ نہیں بلکہ اختیارات میں تفریق (separation of power) اور اختیارات کی تقسیم (distribution of power) کی بنیاد پر سارا نظام چلتا ہے۔ اصل حکمران قوت ملک کا دستور ہوتا ہے جو پورے نظامِ قیادت (command structure) کو دوٹوک الفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ اور انتظامیہ‘ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان بھی اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے۔ مقننہ قانون سازی کرتی ہے‘ انتظامیہ ان قوانین اور فیصلوں کو نافذ کرتی اور عوام کی منتخب اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے اور عدلیہ قانون کی تعبیر کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اس تقسیم اختیارات سے نظام میں توازن آتا ہے اور صحت مند کارکردگی ممکن ہوتی ہے۔ ارتکاز اختیارات مطلق العنانی اور کرپشن کا ذریعہ بنتا ہے جسے لارڈ ایکٹن (Acton) نے ایک جملے میں اس طرح ادا کیا تھا Power corrupts and absolute power corrupts absolutely (اقتدار بدعنوان بناتا ہے اور اقتدارِ مطلق مکمل پر بدعنوان بناتا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ خود پاکستان کے دستور میں صدرمملکت‘ بجز ان اختیارات کے جہاں اسے صواب دیدی اختیار حاصل ہے‘ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے۔

اسٹینفورڈ کے طلبہ کے سامنے جو وعظ جنرل صاحب نے فرمایا ہے وہ اس سے محظوظ نہیں ہوسکتے بلکہ سرپیٹ رہے ہوں گے کہ یہ کون سا سیاسی فلسفہ ہے جو جمہوریت کے سر تھوپا جا رہا ہے۔ شاید وہ دل ہی دل میں مشہور امریکی مصنف لیوس منفورڈ (Lewis Munford) کے بیان کردہ تاریخ اور علم سیاست کے اس اصول کو تازہ کر رہے ہوں گے جو اس نے اپنی کتاب The Condition of Man میں اس طرح بیان کیا ہے اور جس سے ہر فوجی آمر سبق سیکھ سکتا ہے:

ایک سیاسی معاشرہ موٹے رسّے کی مانند ہے جس میں کئی رسیاں گندھی ہوئی ہیں۔ ان رسّیوں کے باہم ملاپ سے محض اس کی مضبوطی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی لچک بھی بڑھ جاتی ہے۔ رسّا اپنی نوعیت میں پیچیدہ ہے۔ سیاسی گرہیں اس کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں‘ لیکن سیاسی زندگی میں ہمارا مقام ہمیشہ برقرار رہنا چاہیے۔ گرہ کھولنے کے بجاے ننگی تلوار سے رسّی کاٹنے کا سکندراعظم کا طریقہ اختیار نہیںکرنا چاہیے۔ سیاسی عمل کے مسائل کو کوئی بھی احمق مارشل لا سے حل کرسکتا ہے مگر کوئی احمق ہی اس کو حکومت کے مصداق سمجھ سکتا ہے۔ (دی کنڈنشن آف مین‘ ص ۱۷۵)

ہماری ساری سیاسی مشکلات کی جڑ یہی غلط ذہنیت ہے کہ فردِ واحد تمام سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے طے کرسکتا ہے۔ آج جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے‘ وزیرستان میں ہو رہا ہے‘ باجوڑ میں ہورہا ہے‘ اس پر عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم بنانے کے یک طرفہ اور من مانے اعلانات کے خلاف پورا ملک جس طرح احتجاج کر رہا ہے ‘ پارلیمنٹ مفلوج ہوگئی ہے‘ عدلیہ      بے دست و پا ہے‘ حتیٰ کہ بیوروکریسی جس طرح غیرموثر بنا دی گئی ہے اور نظام اور قانون کے تحت کام کرنے کے بجاے اُوپر والوں کی مرضی کو قانون کا درجہ دے دیاگیا ہے___ یہ ہے جمہوریت کا زوال اور ہماری قومی زندگی کا المیہ۔ ہم اس دلدل سے اس وقت تک نکل نہیں سکتے جب تک دستور اور قانون کی بالادستی قائم نہ ہو۔ اداروں کے استحکام کے ذریعے قومی استحکام حاصل کیا جائے‘ مرکز اور صوبوں کے درمیان اعتماد‘ تعاون اور اشتراکِ اختیارات کا نظام بحال کیا جائے ‘ فوج کو دفاع کی ذمہ داری کے لیے مخصوص کیا جائے اور سول نظام منتخب اداروں اور سول حکومت کے ذریعے چلایا جائے اورفوج بھی اس نظام کے تابع اور اس کے سامنے جواب دہ ہو۔

’باوردی جمہوریت‘ ایک متضاد اصطلاح ہے اور اس کا جاری رہنا ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک عظیم خطرہ اور قوم کے لیے ایک لعنت کی حیثیت رکھتا ہے اور خود فوج کی دفاعی صلاحیت کو تباہ کرنے اور اسے قوم کی نگاہوں میںمتنازع بنانے کا ذریعہ ہے۔ ملک کی فوج ملک کے دفاع کے لیے ہے‘ نظامِ حکومت کو چلانے یا آبی بند بنانے کے منصوبے طے کرنے کے لیے نہیں۔ فوج بھی کسی شخص کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ دستور کے تحت ایک اہم اور محترم قومی ادارہ ہے۔ جو ذہن ’باوردی جمہوریت‘ کی بات کرتا ہے‘ وہ فوج کو بھی ایک دستوری ادارے کے بجاے سرداری نظام کی طرح ذاتی وفاداری کے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جس کا بڑا ہی تکلیف دہ اظہار اس انٹرویو میں ہوا ہے جو بھارتی ٹی وی چینل CNN-ABN کو دیا گیا اور جس میں یہاں تک کہہ دیا گیا ہے:

یہ ایسی ویسی فوج نہیں ہے‘ یہ مکمل طور پر میری وفادار اور تابع ہے۔

جب سوال کیا گیا کہ آپ کشمیر کے جومختلف حل پیش کررہے ہیں‘ کیا فوج اس میں آپ کے ساتھ ہے‘ تو فرمایا:

۲۰۰ فی صد بلکہ ۱۰۰۰ فی صد۔ اگر ان خیالات کے برعکس کوئی رجحان یا اختلاف راے رکھتا ہوگا تو ان کو چشم زدن میںفوج سے نکال دیا جائے گا۔ اگر وہ ہوں تو اگلے ہی دن فوج سے باہر ہوں گے۔

سوال: آپ کا مطلب ہے کہ آپ انھیں نکال باہر پھینکیں گے؟

جواب: بالکل‘ آپ سمجھیں کہ (اگر میں یہ نہ کروں تو) میں فوج کا بے حیثیت سربراہ ہوں گا۔ یہ ایسی ویسی فوج نہیں ہے۔ میں یہاں ذمہ دار ہوں۔ جنرل اور کور کمانڈر ہیں جو کور کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی سوال ہی نہیں کہ یہاں کوئی ایسی حرکتیں کر رہا ہو۔ اگر وہ کریں گے تو اگلے ہی روز نکال باہر کیے جائیں گے۔

بلاشبہہ آرمی میں ڈسپلن ہونا چاہیے لیکن سیاسی معاملات اور طریقوں کے بارے میں اختلاف راے اور چیز ہے اور آرمی ڈسپلن دوسری شے۔ لیکن جب دفاع میں ’یونٹی آف کمانڈ‘ کے نام پر شخصی آمریت کا بھوت سوارہو تو پھر نہ سیاست کے آداب اور اسلوب کا احترام باقی رہتا ہے اور نہ خود فوج میں اختلاف راے اور اطاعتِ احکام کی حدود کی نزاکتیں___

ہماری جدوجہد کا اصل ہدف یہی ہے کہ تقسیمِ اختیارات اور تقسیمِ کار کا جو نظام دستور میں طے کیا گیا ہے‘ سارا نظام اس کے مطابق چلے اور جس طرح اس انتظام کو درہم برہم کردیا گیا ہے اوراس میں فوج کی قیادت کے علاوہ دوسرے عناصر نے بھی بڑا مذموم کردار ادا کیا ہے بشمول عالمی طاقتیں‘ ایک بار یکسو ہوکر اس انتشار کو ختم کردیا جائے‘ اور ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے ہوجائے کہ فوج کا دائرہ کار صرف اور صرف دفاع ہے اور وہ سول نظام کے تابع ہے‘ اس پر حکمران نہیں۔ جب تک یہ واضح ہدف حاصل نہیں ہوتا پاکستان اس دلدل سے نہیں نکل سکے گا جس میں پچھلے ۵۰ سال سے دھنسا ہوا ہے۔

۸ اکتوبر کے زلزلے نے کشمیر اور پاکستان کے شمالی اضلاع کو جس تباہی اور بربادی کا  نشانہ بنایا‘ اس کی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ   اس آزمایش اور ابتلا کا مقابلہ ملت اسلامیہ کشمیر و پاکستان نے جس ہمت اور حوصلے سے کیا‘ اس نے غم و اندوہ کی تاریک رات میں ایمان‘ عزم اور اُمید کے ایسے چراغ جلا دیے جن سے تاریکیاں چھٹنے لگیں اور نئی زندگی کے چشمے اُبھرتے نظر آنے لگے۔ اس تباہی میں بھی ہمارے لیے بڑا سبق ہے اور تعمیرنو کی اس جدوجہد میں بھی بڑا حیات آفریں پیغام ہے۔ زندہ قوموں کا یہی شیوہ ہے کہ    ؎

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

طبعی زلزلوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والی قوم کو اب ایک دوسری نوعیت کے زلزلوں سے سابقہ درپیش ہے۔ طبعی زلزلہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر‘ اچانک ہی زمین اور اس کے باسیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے لیکن جو خوفناک سیاسی زلزلے اب پر تول رہے ہیں‘ ان کو آنے سے پہلے دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے اور ان کو روکنے کا وقت بھی ان زلزلوں کی گرفت سے پہلے پہلے ہے۔  طبعی زلزلوں کے نقصانات کی تلافی واقعے کے بعد ہوسکتی ہے مگر سیاسی زلزلوں کے جلو میں آنے  والی تباہی سے بچنے کا واحد راستہ ان زلزلوں سے پہلے پیش بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کچھ عاقبت نااندیش مصیبت (calamity)کو امکانِ نو (opportunity) کا نام دینے کی کوشش کررہے ہیں‘ یہ دراصل عظیم تر مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ طبعی زلزلوں کی لائی ہوئی تباہی کا مداوا ریلیف‘ بحالی اور تعمیرنو سے ممکن ہے مگر جو سیاسی زلزلے آج کشمیر پر منڈلا رہے ہیں‘ ان سے بچنے کا راستہ مصیبت کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیاری میں مضمر ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سیاسی کھیل کواچھی طرح سمجھا جائے جو اس وقت اسلام آباد‘ دہلی اور واشنگٹن میں کھیلا جارہا ہے اور آنے والی تباہی سے ملک و ملّت کو بچانے کا بروقت اہتمام کیا جائے ورنہ خدانخواستہ گھر کی تباہی کے بعد واویلا کسی کام کا نہ ہوگا۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد تباہی کے جو طوفان اٹھے ہیں اور اُمت مسلمہ کو ایک کے بعد ایک چرکا لگا ہے‘ صرف افغانستان اور عراق ہی نہیں بلکہ فلسطین‘ کشمیر اور شیشان اور ان کے ساتھ اسلامی احیا کی تمام تحریکات اور خود اسلام کے بنیادی تصورات تک اسی طوفان کی زد میں ہیں۔ لیکن اس یلغار کا سب سے الم ناک پہلو یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی موجودہ قیادت تو اس صلیبی جنگ کی اصل سرخیل ہے ہی‘ لیکن خود مسلمان ممالک کے کچھ حکمران بھی اس کے دست و بازو بن گئے ہیں۔    یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اس مسلم کُش جنگ میں جارج بش کا دست راست بن چکے ہیں اور جس طرح افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے بے وفائی کر کے انھوں نے افغانستان ہی نہیں عراق کو بھی امریکا کی محکومی کا شکار ہونے میں مدد دی‘ اسی طرح اب امریکا کے نقشۂ کار پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے دوستی اور کشمیر کے مسئلے سے گلوخلاصی کی تباہ کن پالیسی پر گامزن ہوگئے ہیں۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ کشمیر کی  تحریکِ مزاحمت کے سینے میں خنجر گھونپنے اور بھارت کی بالادستی کو مستقل حیثیت دینے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا (demilitarization)‘ خودانتظامی (self governance)‘ اور ریاست ہاے متحدہ کشمیر (United States of Kashmir) کا سہ نکاتی فارمولا سامنے لایا گیا ہے جسے مسئلے کے مستقل حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی چیز نہ نئی ہے اور نہ مسئلے کے حقیقی حل کی طرف کسی پیش رفت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

کشمیر پر پسپائی: چہے مھلک غلطیاں

مسئلہ کشمیر پر جنرل مشرف کی پسپائی کا آغاز ۲۰۰۲ء میں ہوگیا تھا۔ جیسے ہی وہ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی گرفت میں آئے اور ’مجبوری کے اتحاد‘ (coalition of the coerced) کا حصہ بنے کشمیر پر پسپائی کا آغاز ہوگیا۔ پہلے دہشت گردی اور جنگِ آزادی میں فرق کیا جاتا تھا‘ اب وہ فرق پادر ہوا ہوگیا اور جنرل صاحب بھی ’سرحد پار دراندازی‘ کی بھارتی قیادت کی زبان استعمال کرنے لگے جسے بالآخر ۶جنوری ۲۰۰۴ء کے بھارت پاکستان اعلامیہ کے  دہشت گردی پروٹوکول کی شکل میں ایک مستقل زنجیر کی حیثیت دے دی گئی۔ اسی دوران بڑی چابک دستی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات شروع ہوگئی اور متبادل تجاویز کے غبارے چھوڑے جانے لگے۔ یہ سب کچھ ایک فردِواحد کے فیصلے اور اشارے پر کیا گیا اور۵۸سالہ قومی اتفاق راے‘ دستورپاکستان کے واضح لوازم اور ایک بار نہیں بار بار پارلیمنٹ میں کیے گئے اعلانات اور قراردادوں کو بالاے طاق رکھ کر کسی قومی مشاورت کے بغیر  چھے ایسے اقدام کیے گئے جن کے نتیجے میں پاکستان کی کشمیر پالیسی تار تار ہوگئی اور بھارت اور امریکا کے گٹھ جوڑ نے علاقے کے بارے میں جو نقشہ بنایا ہوا تھا اس کے لیے زمین ہموار کی جانے لگی۔

۱- خارجہ پالیسی میں کشمیر کی مرکزیت اور خصوصیت سے بھارت سے معاملات کو طے کرنے میں اس مسئلے کی اولیت کے اصول کو یک طرفہ ترک کر دیا گیا۔ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگی گئی اور کشمیر کے مرکزی ایشو (core issue)  ہونے کو عملاً ترک کردیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کا یہ ہدف کہ اصل مسئلہ کشمیر نہیں‘ پاکستان سے تجارت‘ ثقافت اور دوسرے میدانوں میں تعاون اور تعلقات کو معمول پر لانا ہے‘ اسے خود پاکستان کی موجودہ قیادت نے قبول کرلیا اور اعتمادسازی کے اقدامات (CBM's) کے نام پر اس راستے پر بگ ٹٹ سرگرم ہوگئی۔

۲- اقوام متحدہ کی قرارداد کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے جو دراصل کشمیر سے دست کش ہوجانے کی طرف پہلا قدم تھا۔ مسئلہ کشمیر کی اصل بنیاد ___ قانونی‘سیاسی‘ اخلاقی‘اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں اور اس سلسلے میں سب سے اہم قرارداد …۱۹۴۸ء کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی وہ قرارداد ہے جس میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے:

مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ریاست کو غیر فوجی علاقہ قرار دے دیا جائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب راے منعقد کیا جائے۔

حق خود ارادیت ایک بنیادی حق ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹر میں تسلیم کیاگیا ہے اور وقت کے گزرنے سے اس حق پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں ویانا میں منعقد ہونے     والی انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس سے لے کر ۱۹۹۴ء میں کوپن ہیگن میں Social Summit‘ پھر ۲۰۰۰ء میں منعقد ہونے والی Millenium Summit اور خود ۲۰۰۵ء میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی سربراہ کانفرنس نے اس حق کے ناقابل سمجھوتہ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ایک مبصر کے الفاظ میں:

سب نے غیر ملکی قبضے اور بیرونی تسلط کی مذمت میں تمام انسانوں کے حق خودارادیت کی تصدیق کی۔

جموں و کشمیر کے عوام کے اس حق خود ارادیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اس کے واضح اقرار سے دست کش ہونے کا اختیار کسی شخص کو نہیں تھا اور نہ ہے___ لیکن جنرل صاحب نے اہلِ کشمیر ہی نہیں‘ پوری مظلوم انسانیت کے اس حق پر ہاتھ صاف کرڈالا‘ جب کہ ان کے اس اعلان کی خبر وزیرخارجہ‘ وزارتِ خارجہ اور پارلیمنٹ کو رائٹر کی خبر سے ملی اور کسی سے مشورہ کرنے کی زحمت کرنا انھوں نے گوارا نہ کی۔ ان کے اس اعلان کی کوئی قانونی‘ سیاسی یا اخلاقی حیثیت نہیں اور پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے عوام نے اسے رد کردیاہے لیکن جنرل صاحب نے پاکستان کی پوزیشن کو بری طرح مجروح کیا اور تحریکِ مزاحمت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

۳- بیرونی اقتدار کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور حقیقی دہشت گردی کے درمیان فرق کو نظرانداز کر کے اور امریکا‘ بھارت اور اسرائیل کی دی ہوئی لائن پر صاد کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور غیروابستہ تحریک کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے اور خود عالمِ اسلام کے اہلِ علم و دانش کے اس اعلامیے کی ضد ہے جو ۱۱ستمبر کی نام نہاد امریکی جنگ کے بعد مکہ مکرمہ میں چھے روزہ اجتماع کے بعد جاری کیا گیا تھا جس میں صاف الفاظ میں اعلان کیا گیا تھا کہ دہشت گردی عام انسانوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنانے سے عبارت ہے جس کا کوئی جواز نہ ہو اور جس کا ارتکاب خواہ کوئی فرد کرے‘ یا گروہ یا ریاست۔ البتہ بیرونی قبضے اور تسلط کے خلاف مزاحمت کی ہر وہ کوشش جو افراد یا گروہ اپنی آزادی اور مسلط قوت یا سامراجی قبضہ کاروں (colonial settlers) سے اپنی اور اپنے وطن کی گلوخلاصی کے لیے کر رہے ہوں‘ اس سے مستثنیٰ ہے۔

۴- یک طرفہ جنگ بندی کر کے یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ حالانکہ یہ سوال ہی مہمل ہے کہ جنگ حل ہے یا نہیں۔ جنگ تو نام ہی سیاسی حل کی ناکامی کا ہے اور اس صورت میں بین الاقوامی قانون اور تعلقات کے تمام ہی مستند اہلِ علم جنگ کو خارجہ پالیسی کا ایک ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ جس طرح ملک کے اندر امن و امان‘ جان و مال کا تحفظ اور قانون‘ حقوق اور معاہدوں کے احترام کے لیے فوجداری قانون‘ پولیس اور نظامِ احتساب ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح عالمی امن اور ملکی سلامتی اور دفاع کے لیے فوج کا وجود اور جنگ کا کردار ہے۔ اگر جنگ کا کوئی کردار نہیں تو پھر فوج کا کیا جواز ہے۔ سفارت کاری‘ سیاسی معاملہ بندی اور جنگ کا سدِّجارحیت (deterrent) کردار‘ سب کا عالمی سیاست میں اپنا اپنا حصہ ہے۔ بھارت کی جنگی تیاریوں اور فوجی عزائم کی موجودگی میں پاکستانی قیادت کی طرف سے اس نوعیت کے اعلانات   ذہنی شکست کی علامت ہیں اور دشمن کو شہ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب کی خاکساری کی تمام باتوں اور صلح اور دوستی کے لیے منتوں کے باوجود بھارتی قیادت کا رویہ تکبر‘ غرور اور مبارزت کا ہے۔ ۱۸نومبر ۲۰۰۵ء کو بھارتی ایئرچیف مارشل ایس پی تیاگی نے پونا یونی ورسٹی میں جو ہرزہ سرائی کی ہے وہ ہماری قیادت کے منہ پر طمانچے کی حیثیت رکھتی ہے:

پاکستان اور بھارت کے مابین اعتماد کے نئے رشتے کے باوجود پاکستان بھارت کا دشمن اوّل رہے گا اور ہماری سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ رہے گا۔ ہم پاکستان کو دشمن اوّل سمجھتے ہیں لہٰذا ہم بھارتی فضائیہ کی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔

پھر موصوف نے وہ تفصیلات بیان کیں جو بھارتی فضائیہ کو ناقابلِ تسخیر ہی نہیں‘ علاقے کے لیے  سب سے بڑی جارح قوت بنانے کے لیے کی جا رہی ہیںجس میں ملک میں جنگی طیاروں کی  تیاری‘ ایف-۱۶ طیاروں کی خریداری اور ٹکنالوجی کا حصول‘ جدید ہیلی کاپٹروں کی خرید‘ ایئرڈیفنس میزائل کی ترقی‘ مگ ۲۱ اور ۲۷ اور جیگوار طیاروں کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنا شامل ہے۔

۵-  پانچویں بڑی غلطی سفارت کاری کا وہ نادر طریقہ ہے جو جنرل صاحب نے شروع کر رکھا ہے‘ یعنی اپنی طرف سے نت نئی تجاویز (options) کی بارش اور پھر اپنی ہی تجویز سے ایک نئی پسپائی‘ جب کہ بھارت کی طرف سے بڑھ بڑھ کر یہ اعلان کہ زمین کے معاملے میں کوئی بات نہیں ہوسکتی‘ بھارتی دستور اور وہاں کی پارلیمنٹ کی قرارداد سے ہٹ کر کوئی اور متبادل تجویز زیرغور نہیں لائی جاسکتی‘ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی بات چیت ہوگی تو وہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے بارے میں ہوگی‘ اور خرابی کی ساری جڑ دہشت گردی اور سرحد پار دراندازی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کوئی بات چیت ممکن نہیں وغیرہ۔ بھارت کی سیاسی قیادت ہی نہیں‘ ہر سطح کی قیادت کی یکسوئی‘ ہم آہنگی اور اپنے موقف پر استقامت کے مقابلے میں ہماری سفارت کاری پسپائی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔

۶-  اس سلسلے کی چھٹی اور بڑی ہی مہلک غلطی جو جموں و کشمیر کی تحریکِ مزاحمت کے لیے ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے‘ وہ آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کی تقسیم ہے۔ کشمیری عوام کی اس معتمد علیہ قیادت سے جو ایک طرف تصور پاکستان کی امین ہے تو دوسری طرف جس کی قربانیاں بے مثال اور جس کا عزم و ہمت لازوال ہے‘ بے وفائی اور اپنی پسند کے چُھٹ بھیّوں کو پروپیگنڈے کی بیساکھیوں کے ذریعے لیڈری کی خلعت سے نوازنا بے حد شرمناک ہے۔ حکومت پاکستان کی ان قلابازیوں سے کشمیری مزاحمت کی اصل قیادت پر کوئی اثر نہیں پڑا جو سید علی شاہ گیلانی‘ حزب المجاہدین اور دوسری حقیقی سیاسی اور جہادی قوتوں سے عبارت ہے۔ وہ اسی طرح اپنے اہداف کے حصول کے لیے سرگرم ہیں جس طرح پہلے تھیں لیکن حکومت پاکستان کی ساکھ اور کشمیر کے کاز سے اس کی وفاداری پر ایسے چرکے لگے ہیں کہ دوبارہ اعتماد کو بحال کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی حقیقی قیادت میں بڑا بُعدواقع ہوگیا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ یہ بُعد پاکستان کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔

ان غلطیوں کا فطری نتیجہ اب یہ سامنے آیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔  جنرل صاحب اور ان کے حواریوں کے لیے اب اصل ایشو جموں و کشمیر کے عوام کا حق خود ارادیت نہیں بلکہ صرف خود انتظامیت (self governance) ہے۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ کشمیر کو پانچ یا سات علاقوں میں تقسیم کرکے‘ بھارت اور پاکستان کے تحت کچھ اختیارات دینے کی بات کی جانے لگی ہے۔ اس میں چار چاند لگانے کے لیے اس امریکی اسکیم کو جسے ۲۰۰۰ء میں امریکا کے ایک کروڑپتی بھارتی کشمیری نے چند امریکی سیاست دانوں اور دانش وروں کے ساتھ مل کر پیش کیا تھا اور سب کشمیری گروپوں اور پاکستان کے اہلِ دانش نے اسے رد کر دیا تھا‘ دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔ اسے ’یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر‘ کے نام سے چند کشمیری رہنما اس طرح پیش کر رہے ہیں جس طرح کشمیر کی ’خودمختاری‘ (autonomy) کے خیالی نقشے خود شیخ عبداللہ نے ۱۹۵۳ء میں پیش کیے تھے اور ان کی پاداش میں وہ بیک بینی و دوگوش مسند وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کرکے زنداں کی تاریکیوں کے حوالے کردیے گئے تھے جہاں سے ان کو ’راے شماری‘ کی روشنی دوبارہ نظر آنے لگی تھی۔

کشمیر سے دست برداری

صاف نظر آرہا ہے کہ جنرل صاحب اور ان کے حواری ذہنی طور پر شکست کھاچکے ہیں اور اب کشمیر کے مسئلے سے دست کش ہونے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ امریکا کے روڈمیپ پر عمل کر رہے ہیں اور فضا سازگار کر رہے ہیں کہ کشمیر کی تقسیم مستقل شکل اختیار کرلے‘ وہ لائن آف کنٹرول کو    بین الاقوامی سرحد چاہے نہ بھی کہیں لیکن عملاً اسے مستقل سرحد ماننے پر تلے ہوئے ہیں اور نرم سرحدوں اور سرحدوں کو غیرمتعلق (irrelevant) کرنے کی طفل تسلیوں سے قوم کا دل خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کی مستقل بالادستی اور دوسرے پر پاکستان کی‘ اس نقشے کا اصل حصہ ہیں جو اہل کشمیر کی پوری جدوجہد پر پانی پھیرنے اور ان کی قربانیوں کو خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔ جنرل صاحب کے وزیراعظم اپنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ اب کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کی صورت بس فوجوں کی واپسی اور خودانتظامی میں مضمرہے:

منگل کو وزیراعظم شوکت عزیز نے کہا کہ پاکستان بھارت سے اپنے دیرینہ طویل مدت سے برقرار تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کشمیر سے فوجی انخلا اور خودانتظامی کی تائید کرتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۵ئ)

دیکھیے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ اس قیادت کی نگاہ میں اس دیرینہ مشکل مسئلے کا خاتمہ فوجوں کی واپسی اور خود انتظامی میں ہے۔ یہ کشمیر کے کاز کے ساتھ کھلی غداری اور جموں و کشمیر کے عوام کی قربانیوں کا سودا کرنے کے مترادف ہے جسے کشمیر کے عوام اور پاکستانی قوم کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ جو بات جنرل مشرف‘ شوکت عزیزاور میرواعظ عمرفاروق فرما رہے ہیں‘ وہ صاف طور پر  حق خود ارادیت سے دست برداری اور بھارت اور پاکستان کے زیرتسلط منقسم کشمیر میں کسی قسم کی  خود انتظامی کے بھارتی اور امریکی منصوبے کے آگے سپرڈال دینے سے عبارت ہے۔ اس کا یہی وہ مفہوم ہے جو امریکا اور بھارت کے دانش ور اور پالیسی ساز سمجھ رہے ہیں‘ البتہ اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے بھارت ذرا تغافل‘ تجاہل اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ ورنہ تقسیمِ کشمیر اور نام نہاد خود انتظامی اس کا اصل مقصود ہے‘ اور پاکستانی قیادت کی زیادہ سے زیادہ پسپائی کے بعد وہ اس فارمولے کو تسلیم کرے گا۔ وہ ساری مزاحمت پاکستانیوں کے لیے اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے نمایشی طور پر کر رہا ہے۔

بھارتی روزنامہ سٹارنیوز کا سفارتی امور کا مدیر جیوتی ملہوترا ’سیلف گورننس‘کی اس پاکستانی تجویز پر اپنی خوشی کو چھپا نہیں پا رہا کہ دیکھو پاکستان کس طرح کشمیر کی آزادی کے اس ہدف سے دست بردار ہوگیا ہے جو چند سال پہلے پورا ہوتا نظر آرہا تھا:

یہ ’آزادی‘ سے کتنا بعید تصور ہے! ایک عشرے پہلے کا حقیقی پریشانی اور تراشیدہ سیاسی مکر کا مرکب‘ جب کہ بہت سے لوگ سوچنے لگے تھے کہ بھارتی قبضے کا اختتام قریب ہے۔

وہ کہتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی نرم سرحدوں کی بات اور جنرل پرویز مشرف کے خود انتظامی اور فوجوں کی واپسی کی تجویز ان خطوط کار کی نشان دہی کررہے ہیں جن کے مطابق معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ اس کی نگاہ میں میرواعظ عمر فاروق کی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی تجویز سونے پر سہاگہ ہے۔ وہ بڑے معنی خیز انداز میں سوال کرتا ہے کہ:

سوال یہ ہے کہ آیا نرم سرحدیں اور خود انتظامی ایک ہی چیز ہیں؟

اور اپنا مضمون اس دل چسپ جملے پر ختم کرتا ہے کہ:

بالآخر آزادی کو تاریخ کے سپرد کر دینے کے بعد سیکڑوں نئے تصورات اُبھرے۔ اس بحث کا سب سے ہیجان انگیز (exciting) پہلو یہ ہے کہ بحث کا آغاز ہوگیا۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ ۱۵ دسمبر ۲۰۰۵ئ)

امریکا کا مشہور کالم نگار جوناتھن پاور جس کا کالم ۵۰ اخبارات میں شائع ہوتا ہے‘ پاکستان کی طرف سے دی گئی رعایتوں کی طویل فہرست بیان کرکے کہتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس لیے کہ:

یہ وقت ہے کہ آگے بڑھا جائے‘ جب کہ عسکری مردِ آہن مشرف پاکستان کو کچھ دے سکتا ہے۔ ایک سال کے بعد ہونے والے مجوزہ انتخابات اس کا بھرم کھول سکتے ہیں۔

وہ اعتراف کرتا ہے کہ:

یہ پاکستان ہے جس نے حساس رعایات دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ جیساکہ اس پر تیار ہونا کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے وعدے کہ مسئلے کو استصواب رائے کے ذریعے حل ہونا چاہیے‘ کو ایک طرف ڈالنا اور یہ قبول کرنا کہ کشمیر کا بیشتر حصہ براہِ راست بھارتی حاکمیت کے ماتحت رہے۔

مزید یہ کہ مشرف نے فوج اور جہادیوں کے درمیان نال (umbilical cord)کو بالآخر کاٹ دیا ہے۔ شاید بھارت اپنے کو بہت زیادہ مطمئن محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر وہ انتظار کرے تو پاکستان مزید رعایتیں دے سکتا ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۱۶دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۳)

پاکستانی قیادت اپنے کو‘ اپنے عوام کو خود فریبی میں مبتلا کرنے کے لیے کچھ بھی کہے‘    جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کشمیر سے دست برداری سے کم کوئی چیز نہیں ہے اور پاکستانی قوم کو اس کھیل کو سمجھ کر اپنا کردار بلاتاخیر اور مؤثر ترین انداز میں ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجانا چاہیے۔

خود انتظامی یا خود ارادیت

مسئلہ کشمیر کی اصل حقیقت کو پراگندا کرنے کی جو ناپاک کوشش ہو رہی ہے‘ اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی تقسیمِ ملک کے بعد شروع نہیں ہوئی‘ اس سے بہت پہلے شروع ہوگئی تھی۔ قرارداد پاکستان (۱۹۴۰ئ) سے بھی ۱۰ سال پہلے کشمیر میں عوامی تحریک اور قربانیوں کا لازوال سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اس پوری جدوجہد کا ایک ہی ہدف تھا___ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا ظالمانہ ڈوگرہ راج اور اس کے سرپرست برطانوی سامراج سے آزادی اور ریاست کے اسلامی تشخص کی روشنی میں اس کے مستقبل کی تعمیروتشکیل۔ قرارداد پاکستان کے اختیار کیے جانے اور تحریکِ پاکستان کے شروع ہوجانے کے بعد فطری طور پر تحریک آزادی کشمیر اس وسیع تر تحریک کا حصہ بن گئی۔ تقسیم ملک کے اعلان کے ساتھ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے تحریک الحاق پاکستان کا آغاز کر دیا۔ آزاد کشمیر کا جو علاقہ آزاد ہوا ہے وہ کسی کی عنایت سے نہیں بلکہ مجاہدین کی قربانیوں سے آزاد ہوا ہے۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات کے عوام کا اُٹھ کھڑا ہونا اور قربانیاں اس اسٹرے ٹیجک علاقے کی آزادی اور پاکستان سے رشتہ استوار کرنے کا ذریعہ بنی۔ اس حقیقت کو بھلایا جا رہا ہے کہ آزادی کی یہ تحریک ۱۹۳۰ء سے برسرِ جہاد ہے اور ۴۸-۱۹۴۷ء میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے ۴ لاکھ افراد کی قربانی پیش کرکے اس علاقے کو آزاد کرایا ہے جو آج آزاد جموںو کشمیر کے نام سے تحریک آزادیِ کشمیر کا بیس کیمپ بنا ہوا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں مقبوضہ کشمیر میں جو مزاحمت اور جہاد کی تحریک رونما ہوئی وہ اسی کا تسلسل اور سیاسی اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے تمام دروازے بندکرنے کا نتیجہ ہے۔

پھر یہ بات بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ جسے آج خود انتظامی (self governance) کہا جا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ۱۹۵۳ء تک شیخ عبداللہ کے دور میں جو نقشۂ کار بنایا گیا تھا اس میں کم از کم نظری طور پر خودانتظامی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے دستور میں ایک خاص دفعہ ۳۷۰ اس کے لیے رکھی گئی۔ گو بعد میں بھارت نے اس شق کی دھجیاں بکھیر دیں اور پورے کشمیر پر بدترین مرکزی آمریت مسلط کی لیکن ’خود انتظامی‘ کا دلاسہ بار بار دیا گیا۔ پھر نرسیمارائو کے زمانے میں زیادہ سے زیادہ (maximum) خودمختاری کی باتیں ہوئیں اور جموں و کشمیر کی اسمبلی نے جون ۲۰۰۲ء میں ایک قرارداد بھی منظور کی۔ شیخ عبداللہ  اور اندرا گاندھی کے معاہدے کا مرکزی تصور بھی خودانتظامی ہی تھا اور آج بھی بھارت کی قیادت  یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ کشمیر کو خود انتظامی دے چکی ہے اور اگر خود انتظامی کی کہیں کمی ہے تو وہ پاکستانی حصہ یعنی آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں ہے۔

روایت ہے کہ ڈھاکہ میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے پاکستانی ہم منصب  شوکت عزیز صاحب سے کہا تھا:

جموں و کشمیر پہلے ہی بھارتی دستور کے تحت خودمختاری سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ایک مقبول منتخب حکومت قائم تھی۔ انھوں نے جناب عزیز کو بتایاکہ: ’’پاکستان کے زیرنگرانی کشمیر میں خودمختاری کا واضح فقدان ہے اور گلگت بلتستان میں عوام کی خواہشات اور تمنائوں کا تعین کرنے کے لیے کسی بھی طرح کے عوامی انتخابات نہیں ہوئے ہیں‘‘۔ (دی ہندو‘ دی نیشن‘ ۱۰ دسمبر۲۰۰۵ئ)

پاکستان کی موجودہ قیادت نے خود انتظامی کی بات کر کے کشمیر کے بارے میں اپنے سارے کیس کو خود ہی تباہ کر ڈالا ہے۔ مسئلہ خود انتظامی کا نہیں‘ خود ارادیت کا ہے۔ اب ایشو ہی بدل گیا ہے اور ہم بھارت کے جال میں پھنس گئے ہیں اور جیساکہ جوناتھن پاور نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اس موقف کی وجہ سے کشمیر کے بڑے حصے پر بھارت کی مستقل حاکمیت کو تسلیم کرچکے ہیں اور نتیجتاً کشمیر کی تقسیم کو مستقل حیثیت دینے پر تیار ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور اس کے پوتے اور نیشنل کانفرنس کے موجودہ صدرعمر عبداللہ نے میرواعظ اور جنرل مشرف کی اس تجویز کو ’پرانی بوتل پر نیا لیبل‘ قرار دیا ہے اور میرواعظ پر طنزکرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر ان کو ہمارا ایجنڈا ہی چرانا تھا تو ہزاروں افراد کو مروانے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔

بھارت تو دراصل کسی حقیقی ’خودانتظامی ‘ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۳۷۰ میں بار بار ترمیم کی گئی ہے اور صدارتی حکم ناموں سے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ نیز مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی ۲۶ جون ۲۰۰۰ء کی قرارداد جس میں خوداختیاری (autonomy) کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ ۴ جولائی ۲۰۰۰ء ہی کو بھارتی کابینہ کے فیصلے کے ذریعے رد کر دیا گیا تھا اور تاریخ شاہد ہے کہ بھارت کسی شکل میں بھی حقیقی خوداختیاری دینے کے لیے نہ کبھی تیار ہوااور نہ ہوگا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ خود انتظامی ایشو ہے ہی نہیں۔ اصل ایشو ایک اور صرف ایک ہے اوروہ ہے جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کا۔ اس کے حصول کے لیے خواہ کتنی ہی مدت لگے‘ وہاں کے عوام اس سے کم پر کبھی تیار نہیں ہوسکتے۔ وہ ۴۸-۱۹۴۷ء میں ۴ لاکھ افراد کی قربانی دے چکے ہیں اور ۱۹۸۹ء سے اب تک ایک لاکھ افراد جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں اور ان کے جذبے اور جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ان کو اگر کوئی مایوسی ہے تو وہ پاکستان کی قیادت سے اور اس کی روز روز کی قلابازیوں اور بے وفائیوں سے ہے۔ ورنہ ان کا حال تو یہ ہے کہ    ؎

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پُر دَم ہے اگر ُتو‘ تو نہیں خطرہ افتاد

گذشتہ دو سال میں پاکستان نے جو پے بہ پے غلطیاں کی ہیں اور جنرل پرویز مشرف کی ساری پسپائیوں کے جواب میں بھارت نے جس ہٹ دھرمی‘ضد اور اپنے اٹوٹ انگ موقف پر ڈٹے رہنے کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس پر اب خود جنرل مشرف اور وزیرخارجہ خورشید قصوری بار بار کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے کوئی لچک نہیں دکھائی اور ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پانچ سال پہلے کھڑے تھے___ لیکن اس کے باوجود تاریخ سے نابلد اس قیادت کی آنکھیں نہیں کھلتی ہیں اور وہ امریکا کے بھروسے پر مزید پسپائیاں اختیار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

امریکی منصوبہ

اس زمانے میں جو بھی بھارت یا مقبوضہ کشمیر گیا ہے‘ وہ اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان کی اصولی اور متفق علیہ کشمیر پالیسی آج پارہ پارہ ہوچکی ہے اور پاکستان پر کشمیری عوام کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوچکا ہے‘ جب کہ بھارت کی کشمیر پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور وہ پاکستان سے مزید رعایات کا اسی طرح مطالبہ کر رہا ہے جس طرح اسرائیل مجبور فلسطینیوں سے شب و روز کررہا ہے۔ امریکا اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ ایک طرف پاکستان کو مزید پسپائی اختیار کرنے پر زور دے رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ نیز اس کا مفاد اس میں ہے کہ کشمیر منقسم رہے مگر کوئی ایسی صورت نکل آئے جس سے امریکا کو اس علاقے میں مزید قدم جمانے‘ اپنی فوجوں کے قیام کے لیے کچھ اور علاقہ حاصل کرنے‘ اور پورے علاقے کی نگرانی کے لیے یہاں اپنی موجودگی کے لیے مزید سہولتیں حاصل کرنے کا موقع مل جائے۔

یونائیٹڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی امریکی تجویز دراصل کشمیر فار یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا ایک جال ہے۔ امریکی دانش وروں کی کشمیر اسٹڈی کا ہدف اس کے سوا کچھ نہیں۔البتہ ایک مزید پہلو مطلوب ہے اور وہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو بگاڑنا اور وہاں ایک سیکولر نظام کا فروغ‘ نیز بالآخر خود پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا اور پاکستان اور بھارت کو لسانی‘ معاشی‘ تہذیبی وحدت کی طرف لے جانا جو بالآخر تقسیم ہند کے تاریخی عمل کو الٹی سمت میں موڑ سکے اور پھر اکھنڈ بھارت کی کوئی شکل وجود میں آسکے۔ اس ذہن کو سمجھنے کے لیے صرف دو حوالے پیش کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔

امریکی اسٹڈی گروپ کا ٹیپ کا بند یہ ہے:

نئے وجود کا اپنا سیکولر جمہوری دستور ہوگا‘ اپنی شہریت‘ جھنڈا اور مقننہ ہوگی جو دفاع اور خارجہ امور کے علاوہ تمام معاملات پر قانون سازی کرے گی۔ بھارت اور پاکستان کشمیر کے وجود کے دفاع کے ذمہ دار ہوںگے۔ امید کی جائے گی کہ بھارت اور پاکستان کشمیر کے لیے مالی انتظامات کریں گے۔

کلدیپ نائر بھارت کے مشہور صحافی ہی نہیں سابق ہائی کمشنر بھی ہیں اور Track II میں ان کا بڑا کردار ہے۔ ان کے ارشادات بھی بہت ہی واضح ہیں:

بھارت کی مرکزی حکومت دفاع‘ خارجہ امور اور مواصلات کے شعبے رکھ سکتی ہے اور دوسرے تمام معاملات پر کشمیریوں کو خود اپنے اُوپر حکومت کی اجازت دی جائے گی۔  بے شک پاکستان کو بھی لائن آف کنٹرول کی اپنی طرف اسی طرح کی اجازت دینا ہوگی۔ (سیفما لیکچر‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۵ئ)

دی نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کلدیپ نائر کے دل کی بات زبان پر آگئی:

مشہور بھارتی صحافی اور کالم نگار کلدیپ نائر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کا عمل پورے جنوبی ایشیا پر پھیل سکتا ہے اور ایک واحد ریاست وجود میں آسکتی ہے جس کی نرم سرحدیںاور معاشی خوش حالی ہو۔ (دی نیوز‘ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۱۸)

کلدیپ نائر نے ایک بار پھر بڑے شدومد سے یہ بات کہی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر مسئلے کا کوئی حل قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ ان کی تقریر کا سارا زور اس پر تھا کہ قائداعظم نے پاکستان بناکر غلطی کی اور مولانا ابوالکلام آزاد کا تصور درست تھا‘ بلکہ اپنے انٹرویو میں تو قائداعظم سے یہاں تک منسوب کرگئے کہ تقسیم کے بعد وہ اس شک میں مبتلا تھے کہ تقسیم صحیح ہوئی یا غلط۔ افسوس اس انٹرویو کے وقت کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس صریح دریدہ دہنی پر اس کی گرفت کرتا:

کراچی میں بحریہ کے ایک نوجوان افسرنے مسٹر جناح سے پوچھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا حصول صحیح قدم تھا یا نہیں؟ نائر کے مطابق‘ قائداعظم کا جواب تھا: میں نہیں جانتا۔

قائداعظم پر اس سے بڑا الزام ممکن نہیں۔ تقسیم کے بعد ایک نہیں ان کی درجنوں تقاریر گواہ ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے قیام کو اللہ کا کتنا بڑا انعام اور مسلمانوں کی کتنی عظیم کامیابی قرار دیا۔ لیکن بھارت اور اس کی قیادت کا جو ذہن تقسیم سے پہلے تھا‘ آج بھی وہی ہے اور اصل ہدف تقسیم کی نفی اور مذہب کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی صورت گری کے مقابلے میں سیکولرازم کو مسلط کرنے کا نصب العین ہے۔ سارا کھیل اسی کے لیے ہے۔ پنجاب میں لسانی وحدت اور تجارت اور تہذیب و ثقافت دونوں ہتھیاروں کا بے محابا استعمال قائداعظم اور ملت اسلامیہ پاکستان کی جدوجہد سے حاصل شدہ اس آزاد اسلامی ملک کو ایک بار پھر کسی نہ کسی شکل میں بھارت کے ساتھ نتھی کرنے کے لیے ہے۔ستم ہے کہ کچھ جواں سال دانش ور یہ مشورے دے رہے ہیں کہ تاریخ کو بھول جائو اور نئے بام و در تلاش کرو حالانکہ تاریخ کو نظرانداز کرنا ایسی سنگین غلطی ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہیں۔ تاریخ بڑی ظالم نقاد ہے۔ یاد رکھیے‘ جو تاریخ سے خود سبق نہیں سیکھتے‘ تاریخ انھیں اپنے انداز میں بڑا سخت سبق سکھاتی ہے۔ بھارت اور امریکا کا نقشۂ کار بالکل واضح ہے۔ اس سے وہی آنکھیں بند کرسکتا ہے جو آنکھوں دیکھتے کنویں میں چھلانگ لگانے پر تلا ہوا ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ ملت اسلامیہ پاکستان خودکشی کی اس راہ پر قوم و ملک کو دھکیلنے کی کسی کوشش کو گوارا نہیں کرسکتی۔

اصل سبب ، اصل حل

سوال یہ ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کی اس زبوں حالی کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کی اصل وجہ فردِ واحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بے بسی اور قومی احتساب کی کمی بلکہ فقدان ہے۔ ہمارا اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ قومی امور پر فیصلے کرنے کے لیے مؤثر اداراتی نظام (institutional set-up) یا موجود نہیں یا اسے غیرمؤثر کر دیا گیا ہے۔ غلام محمد کے دَور سے لے کر جب وہ گورنرجنرل تھے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے تک‘ کسی نہ کسی شکل میں اداروں کے انہدام کا عمل جاری رہا ہے جو جنرل مشرف کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ معاملہ کشمیر کا ہو یا فوج کے سیاست میں کردار کا‘ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مسئلہ ہو یا قومی مالیاتی ایوارڈ کا‘ بھارت سے دوستی کا مسئلہ ہو یا اسرائیل سے سلسلہ جنبانی کا‘ زلزلے کے متاثرین کے لیے ریلیف اور بحالی کی بات ہو یا صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں اور ترجیحات کا معاملہ‘ ایک فردِواحد ہے جو محض اپنی ذاتی پسند و ناپسند (sweet will)‘ ترجیحات اور تعصبات کی روشنی میں معاملات طے کر رہا ہے۔ باقی سب کا حال یہ ہے کہ ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم! سینیٹ‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سب غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ ہم بربناے علم یہ بھی ریکارڈ پر لے آنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے نہ صرف یہ کہ بیش تر سابق سفارت کار اور خارجہ پالیسی پر گہری نگاہ والے دانش ور غیرمطمئن ہیں بلکہ خود دفترخارجہ ایک مخمصے کا شکار ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے موجودہ پالیسی کے بنانے میں خود دفترخارجہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اداروں کے تباہ کیے جانے کا اس سے اندوہناک منظر کیا ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ جب تک اداروں کو بااختیار اورمستحکم کرنے کا اہتمام نہیں ہوگا اور عوام اور سیاسی اور دینی قوتیں اپنے اختیارات کو غاصبوں سے چھین کر دوبارہ اپنے ہاتھ میں نہیں لے آتے‘ ہماری آزادی‘ سالمیت‘ نظریاتی تشخص‘ معاشی صلاحیت ہر چیز دائو پر لگی رہے گی۔ اس لیے خرابی کی اصلاح کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر موجودہ قیادت کو قومی خودکشی کے راستے سے روکا جائے‘ وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مسائل کے مستقل حل کے لیے فردِواحد کی حکمرانی کے نظام کو لگام دی جائے اور دستور اور قانون کی بالادستی‘ پارلیمنٹ کی حکمرانی اور عوام کے حقیقی اختیارات کے لیے جدوجہد کی جائے تاکہ خرابی کی جڑ کو دُور کیا جاسکے۔

مستقبل کے لیے حکمت عملی

کشمیر کے مسئلے پر جو بات سب سے زیادہ ضروری ہے‘ وہ اصولی موقف پر استقامت اور دنیا کے حالات کو دیکھ کر ایسی حکمت عملی کی تشکیل ہے جو ہمارے اصولی اور تاریخی اہداف کے حصول کاذریعہ بن سکے۔منزل تک پہنچنے کے لیے نئے راستے اختیار کرنا تو مطلوب ہے لیکن بظاہر راستہ  نظر نہ آنے پر منزل ہی ترک کر دینا حماقت ہی نہیں قومی خودکشی بھی ہے۔

پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں قومی پالیسی کو نہایت نپے تلے الفاظ میں درج کردیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ریاست ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اس کا وہی فیصلہ قبول کیا جائے گا جو وہاں کے عوام استصواب رائے کے ذریعے کریں گے۔ بعد میں پاکستان سے اس ریاست کے تعلقات وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ یہی وہ پالیسی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مطابقت رکھتی ہے اور یہی اصول انصاف اور جمہوریت کا تقاضا ہے۔

اس بنیادی پالیسی فریم ورک کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت جلدبازی سے کوئی  اُلٹا سیدھا ’حل‘ تلاش کرنا ایک عاجلانہ اقدام ہوگا جو پاکستان اور کشمیری عوام دونوں کے مفاد کے منافی ہے۔ اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ وہ صبروہمت اور حکمت کے ساتھ اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا ہے۔ عالمی حالات میں تیزی سے تغیر آرہا ہے۔ امریکا کی     خون آشام پالیسیاں دم توڑ رہی ہیں۔ پوری دنیا کے عوام تو امریکی پالیسیوں کے مخالف تھے ہی‘ اب خود امریکا میں بھی ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور عراق میں امریکا کی شکست نوشتۂ دیوار بن گئی ہے۔ دنیا کے دانش ور چِلّا رہے ہیں کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں دنیا میں  دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے اور سب کا امن و سکون تہ وبالا ہوچکا ہے۔ اب یہ جنگ اور اس کے جلو میں بنائی جانے والی پالیسیاں انسانی آزادی اور جمہوری اقدار کے لیے خطرہ بنتی چلی جارہی ہیں۔ ان حالات میں سارا انحصار امریکا پر کرنا بہت بڑی حماقت ہے۔

اس وقت مسئلے کو زندہ رکھنا وقت کی اصل ضرورت ہے اور اس کے لیے تحریک مزاحمت کے ساتھ ایسی یک جہتی کا اظہار ہونا چاہیے جو پاکستان پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے اعتماد کو مزید پروان چڑھائے اور کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو ان کے اعتماد کو مجروح کرنے والی ہو۔ اس سے مکمل احتراز کیا جائے۔ بھارت پر نپے تلے دبائو کو بڑھانا اور وہاں انسانی حقوق کی جس بے دردی سے پامالی کی جارہی ہے اس کو عالمی سطح پر اٹھانا ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی تحریکِ مزاحمت کی ہرممکن اخلاقی‘ مادی اور سفارتی تائید کی جائے۔

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ کسی قیمت پر اور کسی شکل میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس عزم و ہمت کا    شب و روز مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اسے نظرانداز کرکے محض چند مفاد پرست عناصر کے بل بوتے پر بھارتی تسلط کو کسی بھی شکل میں دوام دینے کی کسی بھی کوشش کی کسی نوعیت کی بھی تائید کشمیری عوام سے غداری اور خدا کے غضب کو دعوت دینے والی چیز ہوگی۔

آج یہ بات بھی الم نشرح ہوچکی ہے کہ کشمیر کی اصل قیادت وہ ہے جو بھارت کے تمام مظالم اور پاکستان کی تمام پسپائیوں کے باوجود بھارت کے تسلط کے خلاف صف آرا ہے اور استصواب رائے کے بنیادی اصول سے ہٹ کر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ سید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں کل جماعتی حریت کانفرنس اور تحریکِ حریت جموں و کشمیر ہی کشمیری عوام کی اصل امنگوں کی ترجمان ہے اور تمام مجاہد قوتوں کا اعتماد بھی اسی انقلابی قیادت کو حاصل ہے۔ حزب المجاہدین تحریکِ مزاحمت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے نظرانداز کرکے کشمیر کے مستقبل کا کوئی حل ممکن نہیں۔

زمینی حقائق پر جن کی نظر ہے‘ وہ واقف ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سرکاری میڈیا جن شخصیات اور گروہوں کو اُبھارنے کی کوشش کر رہا ہے‘ وہ حقیقی عوامی تائید سے محروم ہیں اور تمام مؤثر سیاسی اور جہادی قوتیں انھیں شبہے کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ استعماری تسلط کے خلاف تحریکوں کا مطالعہ اس امر کو بالکل واضح کردیتا ہے کہ فیصلہ کن قوتیں وہی ہوتی ہیں جو استعماری نظام کے خلاف مزاحمت کی جدوجہد کرتی ہیں۔ کشمیر میں بھی فیصلہ کن قوت موروثی گدی نشینوں کی نہیں‘ مجاہدین اور ان سیاسی قائدین کی ہے جو بے خوف و خطر بھارتی سامراج سے ٹکر لے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی جن لوگوں پر بھروسا کرتے ہیں وہ یہی مزاحمت کی قوتیں ہیں‘ بھارتی قیادت سے پینگیں بڑھانے والے نہیں۔

اس پس منظر میں پاکستان کے عوام اور یہاں کی مؤثر سیاسی اور دینی قوتوں کا فرض ہے کہ حالات کی نزاکت کو محسوس کریں اور راے عامہ کو متحرک و منظم کرکے موجودہ عاقبت نااندیش قیادت کو تباہی کے راستے سے روکنے اور بالآخر اسے اقتدار و اختیار سے ہٹاکر ایک ایسی سمجھ دار‘ معاملہ فہم اور صاحبِ بصیرت قیادت کو اختیارات کا امین بنانے کی جدوجہد کریں جو ملک و قوم کو اس کے اصل نصب العین اور اہداف کے حصول کے لیے سرگرم کرسکے‘ جو خود بھی ان مقاصد کی وفادار ہو اور قوم اور اس کے تمام وسائل کو بھی ان مقاصد کے حصول کے لیے وقف کردے۔

کشمیر اور پاکستان دو الگ الگ وجود (entities)نہیں ہیں‘ ایک دوسرے کا حصہ اور تکملہ ہیں۔ ہمارے لیے کشمیر کا مسئلہ سب سے پہلے ایک اصولی مسئلہ ہے کہ اس سے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کو بے سہارا چھوڑ کر ان کے قاتلوں سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ پھر کشمیر اور پاکستان کا جغرافیائی‘ سیاسی‘ معاشی‘ مواصلاتی‘ تہذیبی اور دینی تعلق کچھ ایسا ہے کہ ان کے درمیان یہ یا وہ کا معاملہ نہیں بلکہ دونوں کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ جو پاکستان یا کشمیر کی بات کرتے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں اور پاکستانی قوم کو بھی‘ اس لیے کہ کشمیر پر دوسروں کا غاصبانہ تسلط پاکستان پر تسلط کے ہم معنی ہے اور بالآخر اس کی کمزوری پر منتج ہوگا۔ اسی لیے قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اگر ہماری شہ رگ دوسروں کے قبضے میں ہے تو کیا ہم محفوظ رہ سکتے ہیں؟

یہی وجہ ہے کہ آج کشمیر پالیسی اور کشمیر کے مستقبل کے بارے میں جو بات سید علی شاہ گیلانی کہہ رہے ہیں وہی قاضی حسین احمد اور آغا شاہی اور سردار آصف احمد علی کہہ رہے ہیں۔ ہمارے لیے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جانے کے سوا کوئی متبادل راستہ نہیں۔

کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے اور پاکستانی قوم اور قیادت کا فرض ہے کہ ان کے اس حق کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دے اور اس باب میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ گذشتہ چار پانچ سال میں جس کمزوری‘ بے اعتدالی اور پسپائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ اس سے فوری طور پر رجوع کیا جائے اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف پر سختی سے قائم رہنے اور قوم کو اس کے لیے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر پوری تیاری کے ساتھ ایک بھرپور مہم شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عالمی ضمیر کو بیدار کیا جاسکے۔ تاریخ میں آج تک کسی قوم کو محض جبر اور قوت کے ذریعے محکوم نہیں رکھا جا سکا۔ جو قوم اپنی آزادی کے لیے جان کی قربانی دینے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی ہو ‘ پھر اسے کوئی غلام نہیں رکھ سکتا۔ کشمیری عوام نے زندگی اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے اسی راستے کو اختیار کرلیاہے۔

اب پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم جدوجہد کی تقویت کا باعث بنے اور اس سلسلے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ اب امتحان ان کا ہے جنھیں جرأت اور حوصلہ مندی کا دعویٰ ہے۔ جرأت نام ہے اپنے نصب العین اور مقاصد کے بارے میں استقامت اور جدوجہد کا۔ جو حق کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت انھی کو حاصل ہوتی ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔


گذشتہ شمارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء کی سہ ماہی میں رسالے کی توسیعِ اشاعت کے لیے غیرمعمولی کوششیں کی جائیں گی۔ ترجمان القرآن ایک پیغام کا علم بردار ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس کو پڑھنے والے اس پیغام کو عام کرنے اور دوسروں تک پہنچانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ آج اس کی جو غیرمعمولی اشاعت ہے اس کی وجہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعد ہمارے رفقا کی کوششیں ہی ہیں۔

اس سہ ماہی مہم میں ہمارا بنیادی ہدف یہ ہے کہ معاشرے کے پڑھے لکھے ہر باشعور شہری تک ایک دفعہ نمونے کا پرچہ پہنچا دیا جائے۔ اس حوالے سے اپیل کی گئی ہے اور مختلف سطح کے نظم اس میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ جنوری کے لیے ہمیںکافی بڑی تعداد میں آرڈر موصول ہوچکے ہیں۔ فروری اور مارچ میں یقینا اضافہ ہوگا۔

مختلف پیشوں سے وابستہ ہمارے رفقا کی خصوصی کوشش ہونا چاہیے کہ یہ رسالہ ملک کے ہراستاد‘ صحافی‘ ڈاکٹر‘انجینیر‘ وکیل‘ اکائونٹنٹ‘ کمپیوٹر اور آئی ٹی کے ماہر‘ سول اور فوجی افسر‘ تاجر‘  دکان دار‘ صنعت کار‘ کارپوریشنوں کے افسر اور عام پڑھے لکھے فرد تک پہنچے۔ نہ صرف مردوں تک بلکہ ان پیشوں سے وابستہ اور گھریلو امور میں مصروف تعلیم یافتہ خواتین کے ہاتھوں میںبھی ضرور جائے۔

دوسری طرف ہماری کوشش ہے کہ رسالے کا معیار بہتر سے بہتر ہو اور یہ پڑھنے والوں کے لیے ایک مکمل راہنما رسالہ ثابت ہو اور ہر ماہ انھیں فکری غذا ہی نہیں ‘بلکہ ایمان اور عملِ صالح کے لیے جذبہ اور توانائی بھی دے تاکہ آخری فیصلے کے وقت وہ فوزِ عظیم سے ہمکنار ہوں۔

_____________(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)

دسمبر ۲۰۰۵ء میں مکہ مکرمہ میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC) کی سربراہی کانفرنس غیرمعمولی اہمیت کی حامل تھی۔ یہ اجلاس تنظیم کے قیام کے ۳۶ سال بعد اور نائن الیون کے بعد رونما ہونے والی صورت حال کے چار سال بعد منعقد ہو رہا تھا۔ اس کے سامنے بڑا بنیادی مسئلہ یہ تھاکہ آج کے حالات میں اُمت مسلمہ کے اصل مسائل اور چیلنجوں کی روشنی میں اُمت کی یہ مرکزی سیاسی تنظیم کہاں تک وقت کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے اور اس کے اہداف‘ مستقبل کے وژن اور خود تنظیم کے چارٹر‘ تنظیمی ڈھانچے اور طریق کار میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

اس اجلاس سے پہلے ۲۰۰۳ء میں ملایشیا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں نئے نقشۂ کار کی تیاری کے لیے اہم شخصیات کا ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کے دو اجلاس ملایشیا اور پاکستان میں منعقد ہوئے اور پھر خود مکہ مکرمہ میں ستمبر ۲۰۰۵ء میں عالمِ اسلام کے اہم مفکرین اور علما کا ایک اجتماع منعقد ہوا تاکہ اس سربراہی اجلاس میں ضروری تیاری (home work) کے بعد کوئی واضح نقشۂ عمل سامنے آسکے۔

اس سربراہی کانفرنس میں ترکی کے طیب اردگان‘ شام کے بشار الاسد‘ مصر کے حسنی مبارک اور لیبیا کے معمرالقذافی نے شرکت نہیں کی۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور ایران کے احمدی نژاد کی تقاریر بحیثیت مجموعی اچھی تھیں۔ سیکرٹری جنرل اکمل الدین اوغلو کی تقریر بھی اس لحاظ سے قابلِ ذکر تھی کہ اس میں ایک طرف وقت کی ضرورت کا ادراک تھا اور دوسری طرف خود احتسابی کی دعوت تھی۔ کانفرنس نے بہت دبے ہوئے فدویانہ لہجے میں یہ کہا کہ کسی رکن ملک پر حملے کو قبول نہیں کیا جائے گا‘ جب کہ یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ سمجھا جائے گا اور متحدہوکر مقابلہ کیا جائے گا۔

اس پس منظر میں اجلاس کی تین اہم دستاویزات‘ یعنی اعلانِ مکہ‘ کانفرنس کا اعلامیہ اور ۱۰سالہ منصوبۂ کار سامنے آئے ہیں۔ حسب معمول اجلاس میں سربراہوں کی دھواں دھار تقاریر بھی ہوئی ہیں لیکن ان تمام تقاریر اور تینوں دستاویزات کا تجزیہ کیا جائے تو سخت مایوسی ہوتی ہے اور  الحقُّ مُرٌّ(سچائی کڑوی ہوتی ہے) کے اصول کا احترام کرتے ہوئے ہم یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ اس سربراہی کانفرنس کا اعلامیہ ’اعلانِ مکہ‘ تھا یا ’اعلانِ واشنگٹن‘ کی ہی ایک شبیہہ!

کانفرنس کی ساری کارروائی اور اعلانات کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام کا اصل مسئلہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ ہے اور اندرونی طور پر اصل مسئلہ    ’انتہا پسندی‘ ہے جس کا ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کے ذریعے توڑ کے لیے حکمران ایک عالم گیر ’کروسیڈ‘ میں مشغول ہیں‘ اور اس کے لیے مسجد و منبر اور مدرسہ اور میڈیا سب کو وقف ہونا چاہیے۔ اس سربراہی کانفرنس نے بش اور کونڈو لیزا رائس کے ہم زبان ہوتے ہوئے مسلمان ممالک میں اس مقصد کے لیے نصابِ تعلیم کی تبدیلی کا حکم بھی صادر فرما دیا ہے۔ یہ اعلامیہ جہاں قیادت کے     ذہنی افلاس اور فکری غلامی کا غماز ہے‘ وہیں سیاسی بصیرت اور ایمانی جرأت کی کمی بھی اس کی سطرسطر سے ہویدا ہے___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

ہم چند کلیدی مسائل کے حوالے سے اس اعلامیے کے مایوس کن پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

پہلا مسئلہ دہشت گردی کا ہے جسے موجودہ امریکی قیادت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور کر رہی ہے اور مسلمان ممالک کے سربراہ اپنے اپنے مفاد میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کوئی صاحبِ ایمان اور بالغ نظر دانش ور اور سیاسی کارکن حقیقی دہشت گردی کا جواز پیش نہیں کرسکتا‘ لیکن آج اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں‘ وہ حالات ہیں جودہشت گردی کو جنم دے رہے ہیں۔ جب تک ان کے بارے میں صحیح رویہ اختیار نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی اور عدمِ تحفظ میں اضافہ ہی ہوگا ‘کمی نہیں۔ جب تک قبضے اور ریاستی دہشت گردی کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی کے مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ ستمبر۲۰۰۵ء میں مکہ میں علما اور دانش وروں کا جو اجتماع ہوا تھا اس نے سرکاری نمایندوں کی ناراضی کے باوجود کھل کر یہی بات کہی تھی‘ مگر سربراہوں کے اعلامیے میں اس حقیقت پسندانہ تجزیے کا کوئی پرتو نظرنہیں آتا۔ اُس دستاویز میں اہلِ علم نے صاف کہا تھا کہ:

۱- مسلم دنیا کے لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا اور اس کی بنیادی وجوہات کو دُور کرنا لازمی ہے۔

۲- اپنے دفاع کے بنیادی حق‘ نیزغیرملکی تسلط کے خلاف تحریکِ آزادی اور دہشت گردی میں امتیاز ہونا چاہیے۔

۳- دہشت گردی کے بنیادی اسباب کا سامنا کرنا چاہیے اور ان کے خلاف لڑنا چاہیے۔

۴- او آئی سی کو دہشت گردی کی تعریف کرنے اور جارحیت اور غیرملکی تسلط کی مزاحمت کرنے میں‘ جس کی ضمانت بین الاقوامی معاہدوں اور اداروں نے دی ہے‘ زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے ۲۰۰۲ء میں مکہ میں علما نے چھے دن دہشت گردی کے مسئلے پر غور کر کے جو مؤقف بیان کیا تھا‘ اس میں بھی جہاں حقیقی دہشت گردی کی موثر مذمت تھی‘ وہیں دفاع اور آزادی کی تحریکاتِ مزاحمت کو اس زمرے سے خارج کرنے کا واضح اعلان تھا۔ اسی طرح مصر (شرم الشیخ ) میں اگست ۲۰۰۵ء میں البرکۃ گروپ کے زیراہتمام علما اور فقہا کا جو اجتماع ہوا اس کی متفقہ قرارداد میں یہ موجود ہے کہ:

کسی بھی طرح اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح میں اپنے دفاع‘ جارحیت کے خلاف اپنے تحفظ اور تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے کو شامل کرلیا جائے۔

زمین پر قبضہ کرنے والوں اور حقوق غصب کرنے والوں کے خلاف مزاحمت ایک قانونی فریضہ ہے۔ اس صورت میں قتل ہونے کے لیے سامنے آنے کو خودکشی نہیں کہا جاسکتا خواہ کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے۔ دہشت گردی اور لوگوں کے اپنے دفاع‘ خودارادیت اور قابضین کے خلاف مزاحمت کے حق میں فرق ہونا چاہیے۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کی عالمی تنظیموں کے جاری کردہ معاہدے ضمانت دیتے ہیں۔

ہمیں افسوس ہے کہ اس کانفرنس کے اعلامیے اور سربراہان کی تقاریر میںاس ریاستی تشدد اور ظلم کا کوئی ذکر نہیں جو امریکا‘ اسرائیل‘ روس اور بھارت اپنے اپنے علاقوں میں مسلمانوں پر توڑ رہے ہیں اور نہ ان جارحانہ پالیسیوں پر کوئی گرفت ہے جن کے نتیجے میں عالمِ اسلام ہی نہیں‘ ساری دنیا کے عوام ان سامراجی قوتوں کے خلاف چِلّا رہے ہیں۔ ستم ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے سلسلے میں   حق خودارادیت کی بات تو کی گئی ہے لیکن اسرائیل اور بھارت کے مظالم کے خلاف کوئی لفظ ان اعلانات میں موجود نہیں۔ عراق اور افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں اور شہری آبادی پر جو وحشیانہ مظالم ہوتے رہے ہیں‘ ان کے لیے مذمت کا ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے۔ مسلمان عوام اور حکمرانوں کے درمیان جو بُعد___ بلکہ بُعدالمشرقین ہے اس کی اس سے زیادہ اندوہناک مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟

دوسرا بنیادی مسئلہ اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور تعلیمات بشمول جہاد کے سلسلے میں مغربی یلغار کا ہے۔ اس سلسلے میں سخت معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے جیسے کمزوری مسلمانوں ہی کے مؤقف میں ہے اور وہ انتہاپسندی اور تنگ نظری میں مبتلا ہیں۔ مغرب کا ہدف نہ انتہاپسندی ہے اور نہ تنگ نظری___ اس کا اصل ہدف خود اسلام اور اسلام کے تحت رونما ہونے والا وہ ذہن ہے جو دوسروں کی غلامی اور محکومی کا باغی ہو اور اپنے ایمان‘ اقدار‘ اصول اور حقیقی مفادات کے مطابق خودانحصاری کی بنیاد پر دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مغرب کے مطالبے پر اور بش کے تراشیدہ تصورات کو اگر مسلم ممالک کے سربراہ بھی پیش کریں گے تو اسے مسلمان اُمت کا ضمیر کبھی قبول نہیں کرسکتا۔

ہماری اصل ضرورت حالات کی صحیح تشخیص اور پھر دیانت داری سے اصلاحِ احوال کے  نقشۂ کار کی ترتیب کی ہے۔ یہ ان تینوں دستاویزات میں ڈھونڈے سے نہیں ملتا حالانکہ ستمبر ۲۰۰۵ء کے مکہ کے اجتماع نے اس سلسلے میں بڑے کھلے انداز میں بات کہہ دی تھی۔ راقم الحروف نے خود اس اجتماع میں شرکت کی تھی۔ درج ذیل نکات شرکا کے متفقہ جذبات کی عکاسی کرتے ہیں:

۱- پہلی ضرورت صحیح وژن کی ہے اور وہ وژن اسلام اور مسلم تاریخ اور روایات پر مبنی ہونا چاہیے‘ مغرب کے مطالبات اور ترغیبات پر نہیں۔

۲- اصل چیز اُمت مسلمہ کا دینی‘ اخلاقی‘ تہذیبی تشخص (identity) ہے۔ جب تک اس تشخص کو تجدید اور ترقی کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا‘کامیابی ممکن نہیں۔ اس اجتماع میں تو یہ بات تک کہی گئی تھی کہ جب تک اس اُمت کو ہم اپنے فکروعمل کا ماخذ نہیں بناتے جو حرمِ کعبہ میںطواف و سعی میں مشغول ہے‘ محض سلطانی ضیافت کے دیوان میں بیٹھے ہوئے لوگ اُمت کے مسائل کے حل کی راہ ہموار نہیں کرسکتے۔

۳- تیسری بنیادی بات یہ کہی گئی تھی کہ اصل کمی مشوروں اور منصوبوں کی نہیں‘ عزم و ارادے (political will)کی ہے۔ جب تک یہ نہ ہو سب کارروائی کاغذی رہے گی۔

۴-  اس اجتماع میں کھل کر بتایا گیا تھا کہ اصل مسئلہ حکمرانوں اور عوام میں بُعد اور خود  مسلم دنیا کے نظامِ حکومت میں اسلام کی کارفرمائی اور عوام کی شرکت اور مؤثر اختیار کی کمی ہے۔ اس رپورٹ کا سب سے پہلا نکتہ ہی یہ تھا کہ:

  • عوام اور حاکموں کی تمنائوں کے درمیان بُعد
  • مسلم دنیا میں خودانحصاری کا فقدان
  • شہری آزادیوں کا فقدان
  • فیصلوں اور ان کے نفاذ کے درمیان  دُوری کا خاتمہ کیا جانا چاہیے‘ نیز
  • اچھی حکمرانی کی بنیاد جمہوریت‘ قانون کی حکمرانی‘ حقوق انسانی‘ حقوقِ نسواں‘ سماجی انصاف‘ شفافیت‘ جواب دہی‘ انٹی کرپشن اور سول سوسائٹی کے اداروں کی تعمیر پر ہونا چاہیے۔
  • مسلم دنیا میں سیاسی شراکت کو بڑھانے کے لیے عوام اور قیادت کے درمیان پُل تعمیر کرکے خلا کو پُر کرنا چاہیے
  • عوام کو بااختیار بنانا لازمی اقدام ہے جو اٹھایا جانا چاہیے۔

ان تجاویز اور سفارشات کا کوئی پرتو سربراہی کانفرنس کے اعلانات میں نظر نہیں آتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ کانفرنس اس تبدیلی کے آغاز کے بارے میں کوئی خدمت انجام نہ دے سکی جو وقت کی ضرورت اور اس تنظیم کے تن مُردہ میں جان ڈالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

آخر میں ہم یہ وضاحت بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تنظیم کی کمزوری اور سربراہوں کی ناکامی اُمت مسلمہ کی ناکامی نہیں‘ بلکہ یہ اُمت اور اس کے حکمرانوں کے درمیان بُعد کا آئینہ ہے اور یہ اُمت اسی وقت اپنا حقیقی کردار ادا کرسکے گی جب اس کی قیادت اُمت کے عزائم کی آئینہ دار ہو اور عوام اور حکمران یک زبان ہوکر  وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا کی زندہ مثال بن جائیں۔

پاکستان کے بارے میں بھارت کی سیاست کو اگر ایک پرانی کہاوت کی شکل میں بیان کیا جائے تو اس میں ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ ہندو ذہنیت کے بارے میں برعظیم کا ہر خاص و عام جانتا ہے کہ’بغل میں چھری، منہ میں رام رام‘ یہی حال آج بھی ہے۔ ایک طرف کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو چند مقامات پر کھولنے اور اس سے بھی بڑھ کر اسے غیرمتعلق (irrelevant) بنانے کی باتیں ہورہی ہیں‘ اور دوسری طرف مشرق اور شمال‘ ہر سمت میںخون آشام جنگی مشقوں کا اہتمام کیا جارہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب جنوبی ایشیا زلزلوں اور آسمانی تباہی کی ہولناک گرفت میں ہے۔

ابھی مغربی بنگال میں بھارت کی تاریخ کی سب سے اہم جنگی مشقیں بھارت اور امریکا کی مشترک مشق کی حیثیت سے ختم نہیں ہوئی تھیں کہ پاکستان کی سرحد کے قریب راجستھان میں ۱۹۸۷ء کے Operation Brass Tracks کے بعد اسی نوعیت کی ۱۴ روزہ مشقوں کا آغاز ۱۸نومبر ۲۰۰۵ء سے ہوگیا ہے جسے Operation Desert Strike  کا نام دیا گیا ہے‘ اور اس میں ۲۰ہزار فوجی شرکت کریں گے اور بھارت کی ایرفورس فرانسیسی ساخت کے میراج۲۰۰۰‘ روسی ساخت کے ایم جی-۲۷ اور برطانوی ساخت کے Jaguar لڑاکا طیاروں سے اس شان سے شرکت کرے گی کہ مشقوں کا ۴۰ فی صد ہوائی فوج اور باقی بری فوج کی کارروائیوں کے لیے مختص ہوگا۔ بری فوج اس موقع پر روسی ساخت کے این ٹی-۹۰ ٹینکوں کو زیرمشق لارہی ہے جو ۳۱۰ کی تعداد میں بھارت نے روس سے اس طرح حاصل کیے ہیں: ۱۲۴ بنے بنائے روس نے فراہم کیے ہیں‘ جب کہ ۱۸۶ روس سے حاصل شدہ خام مال اور ٹکنالوجی کی مدد سے بھارت نے خود آخری شکل میں تیار کیے ہیں۔ یہ وہ ٹینک ہیں جنھیں اس وقت کا بہترین ٹینک سمجھا جارہا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی قیمت ۱۰ کروڑ ۵۰لاکھ روپے ہے۔

مغربی بنگال کی بھارت امریکا مشترک مشقوں کے آخری دن دہلی میں امریکا کے ناظم الامور رابرٹ اوبلیک نے ایک چونکا دینے والا بیان دیا ہے کہ اگرچہ مشقیں تجرباتی ہیں لیکن اب بھارت اور امریکا کی دوستی اس مقام پر ہے کہ ایسی مشقیں مستقبل میں کسی تیسرے ملک میں فوجی آپریشن کی طرف بھی جا سکتی ہیں۔ البتہ ایسا مشترک فوجی آپریشن ایک قومی فیصلہ ہوگا جو بھارت کی حکومت کو کرنا ہوگا۔ یہ مشترک مشقیں اور اس سے بڑھ کر ان کے اختتام پر یہ بیان اس علاقے کے بارے میں بھارت اور امریکا کے مستقبل کے عزائم کا آئینہ دار اور علاقے کے دوسرے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتا ہے۔

امریکا نے مشرق وسطیٰ‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے جو نقشہ بنایا تھا اس میں شاہ ایران اور اسرائیل دو بنیادی کردار تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اس نظام کا ایک ستون منہدم کر دیا۔ امریکا کا سارا انحصار اسرائیل پر رہ گیا جو غیرحقیقت پسندانہ تھا۔ اسی لیے اسرائیل اور بھارت کی دوستی کا آغاز ہوا تاکہ بھارت کو اس نظام میں بالآخر شامل کرلیا جائے۔ پہلے دور میں ۱۰‘۱۵ سال میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو مستحکم کیا گیا جس نے کلنٹن کے دور میں بھارت کو اس نظام کا حصہ بناکر ایک تثلیث بنانے کے عمل کا آغاز کردیا مگر ۱۹۹۸ء کے بھارت کے ایٹمی تجربات نے سطح کے اوپر نظر بہ ظاہر اس عمل کو سست کردیا۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ اور وسط ایشیا میں تاجکستان‘ ازبکستان اور قازقستان میں فوجی اڈوں کا قیام اس حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن اصل ہدف بھارت کو اس نظام کا حصہ بنانا تھا جو بش انتظامیہ نے پچھلے دوسال میں مستحکم کرلیا ہے‘ اور اکتوبر کی مغربی بنگال مشقیں‘ بھارت اور امریکا کا ۱۰سالہ دفاعی تعاون کا معاہدہ اور سب سے بڑھ کر جولائی ۲۰۰۵ء میں کیا جانے والا ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کا معاہدہ جس نے عملاً بھارت کو ایک نیوکلیر پاور تسلیم کرلیا ہے اور ہائی ٹیک تعاون کا دروازہ کھول کر پورے علاقے کے دفاعی توازن کو درہم برہم کردیا ہے۔ اس پورے عمل کا اصل ہدف چین‘ ایران‘ پاکستان اور عرب ممالک ہیں۔ حالیہ مشقوں کو اسی پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔

مغربی بنگال کی مشترک مشقوں کے فوراً بعد راجستھان کی جنگی مشقیں پاکستان اور ایران کے لیے خصوصی پیغام رکھتی ہیں۔ مشقوں کے آغاز ہی پر بھارت کے ہوائی فوج کے سربراہ ایرچیف مارشل ایس پی تیاگی کا بیان جو انھوں نے پونا یونی ورسٹی میں دیا ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ارشاد ہے:

گو کہ گذشتہ تین سال میں ان دونوں قوموں کے درمیان حالات بہت کچھ تبدیل ہوگئے ہیں‘ مگر سلامتی کی صورت حال اسی طرح ہے۔ دہشت گردی کا انفراسٹرکچر پاکستان میں ابھی تک موجود ہے اور سرحد پار دہشت گردی میں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔

ہماری سلامتی کی منصوبہ بندی میں چین جو کچھ کر سکتا ہے اس کو مقام ملنا چاہیے کیونکہ مجھے اپنے پڑوس میں چینی اسلحہ نظرآرہا ہے۔ چین کی جانب سے ہمارے ملک کا اسٹرے ٹیجک گھیرائو کافی آگے بڑھ چکا ہے اور اس سے مستقبل میں ہمارے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے---

پاکستان اور چین کو بھارت کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا:اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ان دو پڑوسی ممالک کے ساتھ جنگ کے لیے بے تاب ہیں… (ٹائمز آف انڈیا‘ ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ئ)

لیکن جو کچھ بھارت کی مشقیں ظاہر کرتی ہیں اس کے بارے میں یہی کہاجا سکتا ہے کہ   ؎

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر

لہو پکارے گا آستیں کا

بھارت کی ان تیاریوں‘ عزائم اور strategic calculations کا صحیح ادراک ضروری ہے‘ اور دوستی کا جو خمار پاکستان کی قیادت پر طاری ہے اسے حقیقت پسندی کے غسل کی فوری ضرورت ہے۔ ایران اور چین کو بھی ان تیاریوں کا بروقت نوٹس لینا چاہیے‘ نیز امریکا کے ساتھ اندھی دوستی اور امریکا کی خاطر جو اندرون ملک اور بیرونی خطرات ہم نے مول لیے ہیں ان کے ادراک کی    شدید ضرورت ہے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ان حالات میں ناٹو کے ایک ہزار فوجیوں کا امدادی کاموں کے نام پر پاکستان میں آنا‘ اس پورے آپریشن کا امریکا کی فوجی کمانڈ میں برسرکار ہونا‘اور اس ایک ہزار کی نفری میں صرف ۱۶۸ انجینیر یا ڈاکٹر ہونا اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ حکومت کی خوش فہمیاں جو بھی ہوں‘ پاکستانی عوام اور سیاسی قوتیں اس صورت حال پر سخت متفکر ہیں اور بجاطور پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ عوامی خدشات کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ناٹو کے فوجیوں اور ان کے قائم کردہ کیمپوں اور ہسپتالوں کی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج اور رینجرز کی ایک بڑی تعداد لگانا پڑی ہے‘ اور عام آدمی ناٹو کے ہسپتالوں کے مقابلے میں پاکستان اور دوسری سول این جی اوز کے ہسپتالوں میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی خوش فہمیوں کے سراب سے نکلے اور اپنی      خارجہ پالیسی کا جائزہ لے کر اسے زمینی حقائق اور پاکستانی عوام اور اُمت مسلمہ کی امنگوں سے    ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرے اور پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لے۔ ہماری اصل طاقت اللہ کی مدد کے بعد ملک کے عوام اور اُمت مسلمہ سے یک جہتی اور اتحاد میں ہے‘ اور امریکا پر بھروسا کرنے کے بجاے خودا نحصاری (self-reliance) کا راستہ ہی قومی سلامتی کا راستہ ہے۔

آزادی صحافت کے دعوے اور حقیقت

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہر حکومت نے اپنے اپنے دور میں کسی نہ کسی شکل میں صحافت کو زنجیریں پہنانے اور اپنے مفید مطلب مؤقف اختیار کرنے کی مذموم کوششیں کی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ صحافت کو مکمل آزادی دیں گے اور دستور اور قانون کے دائرے میں اظہاررائے اور تنقید کے حق کے استعمال کا ہر موقع دیں گے۔ کچھ پہلوئوں سے شاید گذشتہ      چھے سالوں میں بظاہر صحافت کو نسبتاً آزادی میسر بھی آئی ہے لیکن آہستہ آہستہ حکومت کی گرفت اور سرکاری وسائل کا صحافت کو زیردام رکھنے کے لیے استعمال بڑھ رہا ہے۔ پریس ایڈوائس کا سلسلہ جاری ہے۔ صحافیوں کو ہم نوا بنانے کے لیے ترغیب اور ترہیب کے ہتھکنڈے بے دریغ استعمال کیے جارہے ہیں۔ لفافہ کلچر بھی اپنا کام کر رہا ہے اور ’الطاف و اکرام‘ کے دوسرے ذرائع بھی اپنا کام دکھارہے ہیں۔ سرکاری اشتہارات کو سرکاری نقطۂ نظر کو فروغ دینے اور اختلافی رائے رکھنے والے اخبارات کو    سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک لسانی تنظیم دہشت گردی کے وہی حربے پھر استعمال کررہی ہے جو ۱۹۹۰ئ/۱۹۸۰ء میں اس کا شعار تھے۔ فریڈم آف انفارمیشن کا قانون نہایت عام اور نقائص سے پُر ہے‘ نیز صحافت اور الیکٹرانک میڈیا میں سرکاری اثراندازی اور اجارہ داری کی صورت دونوں اپنا اپنا ہاتھ دکھا رہے ہیں۔

پارلیمنٹ میں بار بار یہ مسائل اٹھائے گئے ہیں مگر حکومت کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور وزیراطلاعات سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک یہی رٹ لگائے جارہے ہیں کہ صحافت آزاد ہے اور جمہوریت کا کارواں رواں دواں ہے۔ ویج ایوارڈ کا مسئلہ برسوں سے معلق ہے۔ وزیراعظم نے ایک کل جماعتی کمیٹی بنائی تھی جس میں راقم کو بھی رکھا گیا تھا مگر جس کام کو دوماہ میں کرنا تھا وہ پانچ ماہ میں شروع بھی نہ کرسکے اور میں نے احتجاجاً کمیٹی سے استعفا دے دیا۔

یہ ہے صحافت کے بارے میں ہمارا رویہ!

اس کا نوٹس اب عالمی سطح پر بھی لیا جا رہا ہے اور اس شذرے کا باعث وہ تازہ سروے ہے جو فرانس کی ایک مشہور تنظیم RSF (Reports Sans Frontiers) نے اسی مہینے شائع کیا ہے اور جس میں ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان حالات کا موازنہ کرکے دکھایا گیا ہے کہ دنیا کے ۱۶۶ممالک جن کا سروے کیا گیا ہے ان میں پاکستان کا نمبر ۲۰۰۲ء میں ۱۱۹ تھا‘ یعنی سب سے نیچے کے ۴۰ ملکوں میں ہم ‘ مگر اب ’ترقی‘ کر کے ۲۰۰۵ء میں یہ شمار ۱۵۰ پر آگیا ہے۔ گویا سب سے بدتر ۲۰ملکوں میں ہم ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ افغانستان کا شمار ہم سے اوپر ہے‘ یعنی ۱۲۵ ویں پوزیشن‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۱۰۹ ہے۔

جمہوریت کے فروغ کے لیے آزادی صحافت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حکومت کے دور میں جس طرح پارلیمنٹ مفلوج ہے اور سول نظام پر فوج کی گرفت بڑھ رہی ہے‘ اسی طرح صحافت پر بھی کنٹرول‘ مداخلت‘ اور ’چمک‘ کے سائے مسلط ہیں اور دعووں اور حقیقت میں خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے جو ہر اعتبار سے خطرناک ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کی صبح آٹھ بج کر باون منٹ پر پاکستان اور کشمیر کے طول و عرض میں اور خصوصیت سے صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں ایک ایسا تباہ کن بھونچال آیا جس نے ہزاروں جیتے جاگتے‘ ہنستے کھیلتے انسانوں کو چشم زدن میں موت کی نیند سلا دیا۔ ایک لاکھ کے قریب جوان‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورتیں اور بچے زخموں سے چور ہوگئے‘ ۵۰ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے اور دسیوں شہر اور سیکڑوں دیہات دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے۔ اس ہمہ گیر تباہی کے احساس سے پاکستان اور اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل کم از کم وقتی طور پر دہل گئے اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں___ لیکن کیا جاگتوں کو موت کی آغوش میں سلانے والا یہ قیامت خیز زلزلہ‘ پاکستان کے ۱۵ کروڑ نیند کے متوالوں اور ان کی غافل اور حق فراموش قیادت کی آنکھیں کھولنے اور ان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا کارنامہ بھی انجام دے سکتا ہے؟

ساری تباہی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے اور فوری امداد کی ہر کوشش وقت کا تقاضا اور انسانی اور قومی ضرورت ہے۔ جانیں بچانے‘ یعنی ریسکیو (rescue)‘ مدد پہنچانے یعنی ریلیف (relief) اور بحالی (rehabilitation) کی تمام مساعی ضروری اور فوری توجہ کی مستحق ہیں اور ان کے باب میں کوئی کوتاہی‘ اخلاقی اور اجتماعی ظلم کی بدترین مثال ہوگی لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مستقبل کی تاریکی یا تابناکی کا اصل انحصار اس امر پر ہوگا کہ کیا ہم اس چشم کشا انتباہ پر واقعی آنکھیں کھولتے ہیں؟ اور پھر یہ کہ اس گمبھیر آزمایش میں‘ بحیثیت قوم ہمارے رویوں اور ردعمل میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟

خود احتسابی‘ انفرادی اور اجتماعی رویوں کا جائزہ‘ قومی اور سرکاری پالیسیوں پر نظرثانی‘ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال و احوال کا ادراک‘ اپنے رب سے توبہ و استغفار اور حقیقی خدمت‘ بھائی چارے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ٹھیک ٹھیک ادایگی کی فکر ہی ہمیں زندگی کے      مصائب و آلام سے حقیقی نجات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اسلامی اور غیراسلامی رویے میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ غیراسلامی رویے کا سارا دروبست صرف طبعی اور وقتی امورسے عبارت ہوتا ہے یعنی ریسکیو‘ ریلیف اور بحالی ___  اور اسلامی رویہ ان کے ساتھ ساتھ ان سرگرمیوں کی اصل روح‘ جذبہ اور حقیقی ہدف اللہ کی رضا کا حصول‘ اس سے تعلق اور استعانت کی طلب اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حق و انصاف کے قیام کے لیے اصلاحِ احوال سے عبارت ہوتا ہے تاکہ معاشرہ  خیر اور فلاح کا گہوارہ بن سکے اور زمین و آسمان سے اللہ کی برکتیں میسر آسکیں۔

قرآن و حدیث کا نقطہ نظر

قرآن نے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور غوروتدبر کرنے کا جو آہنگ دیا ہے‘ اس کا سب سے امتیازی پہلو ہی یہ ہے کہ وہ جہاں زندگی کے طبعی پہلو اور حوادثِ زمانہ کے مادی احوال و ظروف کا ادراک کرتا ہے اور انھیں نمایاں حیثیت دیتا ہے‘ وہیں ان کے پیچھے کارفرما اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی اسباب و عوامل کو بھی بھرپورانداز میں نمایاں کرتا ہے۔ بلکہ صحیح تر الفاظ میں ان طبعی حقائق کو زندگی کے حقیقی اور اخلاقی اسباب و اسباق کی تفہیم کا ذریعہ بناتا ہے اور اس طرح سوچ کے ان دو بنیادی زاویوں کو ایک دوسرے سے نمایاں کردیتا ہے جو اسلام اور غیراسلام کا خاصہ ہیں اور زندگی کے دو تصورات (paradigms) کے مظہر ہیں۔ زندگی کا ایک وہ رویہ ہے جو صرف طبعی پہلو پر اکتفا کرلیتا ہے اور دوسرا طبعی پہلو کے ساتھ اس کے اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی پہلو کو بھی اپنی گرفت میں لے آتا ہے اور اس طرح چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ہر واقعے کو زندگی کے بنیادی تصورات‘ اقدار اور مقاصد اور کامیابی اور ناکامی کے اخلاقی اور ابدی معیار سے وابستہ کردیتا ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ز وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْـرُ نِ o   الَّذیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ o (الملک ۶۷:۱-۲)

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی اور درگزر فرمانے والا بھی۔

موت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور شب و روز ہم سب ہی اس کا نظارہ کرتے رہتے ہیں‘ کبھی اپنے اعزہ اور اقارب کی جدائی کی شکل میں اور کبھی بڑے بڑے اجتماعی حادثات کی صورت میں جو اپنے اور غیر سب کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں گزری ہوئی قوموں کی تباہی کے جو رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں‘ وہ صرف ان قوموں کے غضب ناک انجام ہی کا تذکرہ نہیں بلکہ قیامت تک سب انسانوں کے لیے اور خصوصیت سے اہلِ ایمان کے لیے انتباہ کا سامان بھی لیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیان کی اصل حکمت بھی یہی ہے کہ انسانوں کو غفلت سے بیدار کریں تاکہ وہ زندگی اور موت کے ان تمام مناظر سے عبرت لے سکیں جو خواہ ماضی میں واقع ہوئے ہوں یا ان کی جھلک خود ان کے اپنے گردوپیش میں دیکھی جا سکتی ہو‘ یا جس کا تجربہ وہ اور ان کے جیسے دوسرے انسان اور اقوام وقتاً فوقتاً کرتے ہیں۔

اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ ھُمْ نَآئِمُوْنَo اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَo اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَo اَوَلَمْ یَھْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ اَھْلِھَآ اَنْ لَّوْ نَشَآئُ اَصَبْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ (اعراف ۷:۹۷-۱۰۰)

پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا؟ جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ کیا ان لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں‘ اس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟

قرآن اقوامِ سابقہ کے حق سے انحراف اور ظلم و جور میں حد سے گزر جانے کے واقعات کا تذکرہ کر کے اور ان کے عبرت ناک انجام کا بار بار ذکر کر کے ہمیں سوچ کے اس انداز کی تعلیم دے رہا ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل کو باہم دگر مربوط دیکھنے کی روش اختیار کریں اور ماضی سے روشنی حاصل کرتے ہوئے حال کی اصلاح کی فکر کریں۔ اللہ کی اس گرفت کی حیثیت کب عذاب کی ہے اور کب انتباہ کی‘ نیز عذاب کی بھی مختلف حیثیتیں ہیں اور ہر عذاب ایک ہی نوعیت کا نہیں‘ لیکن یہ سب علمی بحثیں ہیں جن کا یہ محل نہیں ___ جو بات ناقابلِ انکار ہے‘ وہ یہ ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اورزلزلے‘ طوفان‘ سیلاب‘ تباہی پھیلانے والے جھکڑ جہاں اپنے طبعی اسباب و احوال رکھتے ہیں‘ وہیں ان کے پیچھے مضبوط اور چشم کشا اخلاقی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔  کوتاہ بیں اپنی نظر کو صرف طبعی احوال تک محدود رکھتے ہیں لیکن مومن صادق ان کے اخلاقی‘ روحانی‘ مابعد الطبیعیاتی اور تہذیبی اسباب و عواقب پر بھی اپنی نگاہ کو مرکوز کرتا ہے اور اُن سے اصلاح احوال کے لیے عبرت کا درس لیتا ہے۔

پورا قرآن غوروفکر کے اس اسلوب کی تعلیم دیتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیارے اور بڑے مؤثرانداز میں اس ربط و تعلق پر انسانوں کی توجہ کو مرکوز فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپ کا ارشاد ہے:

ما من قوم یظھرُ فیھم الزنا الا اخذوا بالسنۃ وما من قوم یظھر فیھم  الرّشا الا اُخذ وبالرعب (رواۃ احمد‘ مشکٰوۃ‘ کتاب الحدود)

کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف و دہشت طاری ہوجاتی ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جس قوم میں خیانت کا بازار گرم ہوگا‘ اس قوم میں اللہ تعالیٰ دشمن کا خوف اور دہشت پھیلا دے گا‘ جس معاشرے میں زنا کی وبا عام ہوگی وہ فنا کے گھاٹ اتر کر رہے گا‘ جس معاشرے میں ناپ تول میں بددیانتی کا رواج عام ہوگا وہ رزق کی برکت سے محروم ہوجائے گی‘ جہاں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں خوں ریزی لازماً ہوکر رہے گی اور جس قوم نے بدعہدی کی‘ اس پر دشمن کا تسلط بہرحال ہوکر رہے گا۔ (رواہ مالک‘ مشکوٰۃ‘ باب تفسیرالناس)

اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ چشم کشا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے ترمذی میں اس طرح روایت ہوا ہے:

جب مال غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے‘اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے‘ زکوٰۃ ادا کرنا جرمانہ اور چٹی بن جائے‘ اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو (محض دنیا کمانا ہو) اور مرد اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہوئے بیوی کی بات ماننے لگے‘ اور باپ سے دُوری اختیار کرے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے۔ مسجدوں میں شور ہونے لگے (اور مسجد کے آداب کا لحاظ نہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں بات چیت اور بحث و تکرار شروع ہوجائے) قبیلے کا سردار فاسق (اللہ رسولؐ کا نافرمان) بن جائے اور قوم کا سربراہ گھٹیا انسان بن جائے‘ اور آدمی کی عزت اس کے شرسے محفوظ رہنے کے لیے کی جانے لگے‘ آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہوجائیں‘ شراب پی جانے لگے‘ اس اُمت کا آنے والا گروہ گزر جانے والے گروہ پر لعنت ملامت کرنے لگے (اگر ایسی صورت حال ہوجائے) تو تم انتظار کرو‘ سرخ آندھیوں کا___ زلزلوں کا___ زمین کے دھنس جانے کا___ صورتوں کے بگڑ جانے کا___ آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا‘اور یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے اس طرح ظاہر ہونے لگیں گی جیسے اگر پرانی تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو اس کے موتی مسلسل گرنے لگتے ہیں۔(ترمذی‘ حدیث ۲۱۳۶‘ کتاب الفتن)

قرآن پاک نے زمانے کے نشیب و فراز اور قوموں کے عروج و زوال کے ذکر سے جس تذکیر کا اہتمام کیا ہے‘ ارشادات نبویؐ میں انھی پہلوئوں کی طرف مستقبل کے واقعات اور حالات کی نشان دہی کرکے ہمیں انتباہ کیا گیا ہے تاکہ انسان بحیثیت مجموعی اور مسلمان بطور خاص زندگی اور موت‘ اور حوادثِ زمانہ اور طبعی احوال سے بس یونہی نہ گزر جائیں بلکہ ان میں جو اصل معنویت پوشیدہ ہے اس کو سمجھیں‘ فساد فی الارض پیدا کرنے والے اعمال سے اجتناب کریں‘ خیروصلاح پھیلانے والے اقدام کی فکر کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ کا قانون ہے کہ جب بھی اس کی گرفت واقع ہوتی ہے تو وہ خود انسانوں کے اپنے اعمال اور ظلم و طغیان کی وجہ سے ہوتی ہے اور پھر اس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ ایسے حالات میں معاشرے کی تباہی کی زد میں صرف ظالم اور بدکردار ہی نہیں آتے بلکہ وہ بھی آتے ہیں جو خواہ شریکِ جرم نہ ہوں لیکن ظالم اور باغی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔

وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَـآصَّۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۵)

اور بچو اس وقت سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ o (ھود ۱۱:۱۱۷)

اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہوں۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ o (یونس ۱۰:۴۴)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا‘ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔

انتباہ کے ساتھ آزمایش کا بھی ایک نظام ہے جس کا اصل مقصد تو اخلاقی اور روحانی تزکیہ اور تربیت ہے لیکن وہ بھی طبعی عمل کے ذریعے کارفرما ہوتی ہے اور کچھ کے لیے تنزل اور تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور کچھ کے لیے ترقی اور کامیابی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ بھی اللہ کا ایک اٹل قانون ہے اور جس طرح انتباہ‘ گرفت اور سزا اصلاح کے عمل کا ایک حصہ ہے‘ اسی طرح آزمایش اور جانچ پرکھ کا الٰہی نظام بھی اس وسیع تر عمل کا ایک لازمی پہلو ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۲-۳)

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمٰرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُوْلٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷)

اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے‘ اور کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے جو چیز بالکل صاف ہوکر ہمارے سامنے آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ جو مصیبت بھی انسانوں پر آتی ہے وہ بے سبب نہیں ہوتی اور اس کے پیچھے محض طبعی عوامل ہی نہیں‘ اخلاقی اور مابعدالطبیعیاتی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں اور ہر ایسا واقعہ جہاں دلوں کو افسردہ کرنے والا ہے‘ وہیں اسے دل کی آنکھوں کو کھولنے والا بھی بننا چاہیے تاکہ انسانی زندگی سے بگاڑ‘ ظلم اور طغیانی ختم ہو اور انسان اللہ کی رحمت اور برکتوں کے مستحق بن سکیں۔

جائزے اور احتساب کی ضرورت

آج پاکستانی قوم جس آزمایش میں مبتلا ہے‘ اس میں جہاں زلزلے کے متاثرین کی مدد‘  ان کے غم اور تکلیف میں شرکت‘ مریضوں کی تیمارداری اور علاج ‘ تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ آباد کرنے کی کوشش ہماری ذمہ داری ہے‘ وہیں اللہ تعالیٰ سے خلوصِ دل کے ساتھ استغفارو توبہ اور انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ اللہ کے غضب سے بچا جاسکے‘ اور اس کی مغفرت اور رحمت کو دعوت دی جا سکے___ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف پلٹ کر آنے والے ہر فرد اور ہر قوم کو معاف کرنے والا‘ گنہگاروں اور خطاکاروں کو اپنی مغفرت میں ڈھانپ کر اپنے الطاف و اکرام سے نوازنے والا ہے۔

فَمَنْ تَابَ مِنْ م بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳۹)

پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (التوبہ ۹:۱۰۴)

کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔

جن حالات سے آج ہماری قوم دوچار ہے ان میں صرف انفرادی توبہ و استغفار ہی نہیں بلکہ اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام بھی ضروری ہے۔

وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (النور ۲۴:۳۱)

اے مومنو‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔

اس وقت جب کہ پوری قوم ۸ اکتوبر کے قیامت خیز زلزلے کے زیراثر غم اور خوف کی لپیٹ میں ہے‘ امدادی کاموں کے ساتھ ساتھ جو چیز بے حد ضروری ہے وہ رجوع الی اللہ‘ انفرادی اور اجتماعی احتساب‘ اللہ کے حضور توبہ و استغفار اور اللہ سے وفاداری اور ان مقاصد کے لیے عزم نو کے اظہار کی ضرورت ہے جن کے حصول کے لیے یہ ملک قائم ہوا تھا اور جس کا عہد ہم نے بحیثیت قوم اپنے رب سے کیا تھا کہ ہم کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی سربلندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق چلنے کے لیے یہ آزاد ملک حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

کیا آج اس سوال پر غور کرنا وقت کی اہم ضرورت نہیں کہ ہم نے اللہ سے اپنے اس عہد کے ساتھ عملاً کیا معاملہ کیا ہے؟ اللہ نے ہمیں ایک آزاد ملک سے نوازا اور ہم نے عملاً غیراسلامی قوتوں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُمت مسلمہ کی نشات ثانیہ کا نقیب بنایا اور ہم نے ان قوتوں کا ساتھ دیا جنھوں نے مسلمان ممالک پر  فوج کُشی کی اور ہمارے ہی کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی۔ نتیجتاً مسلمان ممالک میں خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور امن و چین تباہ ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کو سود‘ سٹے‘ رشوت خوری‘ ناجائز منافع خوری‘ اور ظلم و استحصال کی آماج گاہ بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں آبادی کا ۴۰ فی صد غربت کی زندگی گزار رہا ہے اور صرف ایک دو فی صد عیش و عشرت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو فکری اور تہذیبی غلامی کا آلہ بنا دیا ہے اور نئی نسل کی اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے باب میں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ فواحش کا بازار گرم ہے اور زنا بالجبر کے واقعات روز افزوں ہیں۔ عام انسانوں کی جان‘ مال اور عزت محفوظ نہیں اور جن کا کام عام انسانوں کی جان اور مال کی حفاظت تھا‘ وہ خود جان اور مال کے لیے خطرہ بن گئے ہیں اور جن کے ذمے دفاع وطن کا مقدس فریضہ تھا‘ وہ چوکیدار کے بجاے حکمران بن بیٹھے ہیں۔ بنیادی قومی امور پر بے دردی سے یوٹرن لیے جا رہے ہیں اور حکمرانوں اور قوم میں اعتماد اور ہم آہنگی کا تعلق ختم ہوگیا ہے۔ پھر بات صرف حکمرانوں‘ اہلِ سیاست‘ اصحابِ ثروت اور بااثر طبقات ہی کی نہیں کہ وہ تو ہر حد کو پامال کر رہے ہیں‘ اب تو بات پوری قوم کی ہے الا ماشا اللہ___ جب عموم بلوہ کی کیفیت ہو تو پھر اللہ کی گرفت کا تازیانہ کیوں حرکت میں نہ آئے۔ تاریخ کا مطالعہ کرلیں‘ یہی سنت الٰہی ہے اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o

اس لیے ۸ اکتوبر کا پہلا اور سب سے اہم پیغام یہی ہے کہ متاثرہ افراد کی فوری مدد اور تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ بسانے کی مطلوب کوششوں کے ساتھ استغفار‘ انفرادی اور اجتماعی توبہ اور اس کے ساتھ اعمال اور پالیسیوں کے باب میں خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام کیا جائے۔ اس سے وہ بیداری اور روشنی رونما ہوگی جس میں غفلت‘ بے راہ روی‘ اللہ سے نافرمانی‘ اللہ کے بندوں کے حقوق سے روگردانی‘ ظلم و استحصال‘ اور غیروں کی مغلوبیت اور محکومی کی تاریکیوں سے یہ قوم نکل سکے گی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی‘ امن وامان‘ صلح و آشتی‘ عدل وا نصاف‘ خوداعتمادی‘ خودانحصاری اور خودمختاری‘ عزت و وقار اور انفرادی اور اجتماعی سربلندی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔

مثبت اور منفی پھلو

۸ اکتوبر کے قومی سانحے پر جو ردعمل ملک کے طول و عرض میں رونما ہوا ہے‘ وہ بھی اپنے اندر غوروفکر کے بڑے اہم پہلو رکھتا ہے۔ ایک طرف سہمی ہوئی قوم نے فوراً اپنے رب کو پکارا۔ ہم نے بچشم سر یہ منظر دیکھا کہ جس وقت زمین لرز رہی تھی اور فلک بوس عمارتیں کانپ رہی تھیں‘ خاص و عام سب قبلہ رو ہو کر اللہ کو پکار رہے تھے اور اس سے حفظ و امان کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر جیسے جیسے تباہی کے آثار نمایاں ہوئے‘ فی الفور عام انسان‘ خصوصیت سے نوجوان‘ یونی ورسٹیوں‘ کالجوں‘ اسکولوں اور دینی مدارس کے طلبہ جوق در جوق اپنے تباہ حال بھائیوں اور بہنوں کی مدد کو دوڑ پڑے۔ خیبر سے کراچی تک بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ عام و خاص ‘ امیر و غریب‘ جوان اور بوڑھے سب اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے بے چین ہوگئے۔ عطیات بارش کی طرح برسنے لگے‘ ننگے ہاتھوں لوگ ملبے کو صاف کرنے‘ ملبے تلے دبے انسانوں کی جان بچانے‘ زخمیوں کو خون دینے‘ اور مر جانے والوں کی میتوں کو دفن کرنے میں کسی تخصیص کے بغیر تن من دھن سے لگ گئے۔ قوم نے آزمایش کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے ایک نئے جذبے کا اظہار کیا___ یہ روشنی کی وہ کرن ہے جس نے اس تاریک رات کو صبح نو کا پیغام دیا۔

لیکن اس ایمان افروز ردعمل کے ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہے اور جن کو سب سے پہلے اس قومی تباہی کا ادراک کرنا چاہیے تھا اور تمام وسائل کو بلاتاخیر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جھونک دینا چاہیے تھا‘ وہ تین دن تک حیص بیص کا شکار رہے۔ وزیراطلاعات فرماتے ہیں کہ کاروبار چل رہا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ ایک کور کمانڈر کہتے ہیں کہ کیوں واویلا کرتے ہو‘ مرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ وزیراعظم بھی غصے میں کہہ ڈالتے ہیں کہ میڈیا منفی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسلام آباد جیسے مرکزی شہر میں پہلے دن مارگلہ ٹاور کا ملبہ اٹھانے کے لیے صرف ایک کرین میسرآسکی۔ برطانیہ اور جاپان سے تیزرفتار ایمرجنسی فورس ۲۴ گھنٹے میں پہنچ گئی مگر فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن اور کراچی سے مدد آنے میں تین دن لگ گئے۔ اسپین کی ریسکیو ٹیم ۲۴ گھنٹے میں آگئی مگر ایئرپورٹ پر ۴۸ گھنٹے انتظار کرتی رہی۔

بحران سے نمٹنے (Crisis Management) کے باب میں اپنے قومی افلاس اور  بے بسی کا منظر ہر دیکھنے والے کے لیے سوہانِ روح تھا۔ ہمارے پاس وہ آلات نہیں جن سے کنکریٹ کو چیرا جا سکے‘ زندوں کا پتا لگایا جا سکے‘ ملبے سے انسانوں کو نکالا جا سکے۔ پولیس اور فوج تک کو ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ فائربریگیڈ دنیا بھر میں ایسی ایمرجنسی کے لیے ہر قسم کے آلات اور تربیت یافتہ افراد سے آراستہ ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ ۱۹۵۲ء کا سول ڈیفنس ایکٹ موجود ہے‘ ۱۹۵۸ء کا مغربی پاکستان کا National Calamities (Prevention and Relief) Act کتابِ قانون کا حصہ ہے۔ ۲۰۰۰ء میں قومی بحرانوں سے نمٹنے کا ایک مرکز‘ مرکزی وزارت داخلہ میں قائم کیا گیا تھا جس کا ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر سربراہ بھی ہے۔ پانچ سال سے نیشنل ڈیفنس مینجمنٹ ایجنسی کا منصوبہ سرکاری فائلوں میں گردش کر رہا ہے جس کے لیے UNDP نے ۱۵ کروڑ ۵۰ لاکھ کا بجٹ (پانچ سال کی مدت کے لیے) طے بھی کیا ہوا ہے مگر یہ سب کاغذوں پر ہیں اور مصیبت اور آزمایش کے وقت بچائو کی معمولی کارروائی کے لیے بھی ننگے ہاتھوں پر انحصار کرنا پڑا یا بیرونی امداد پر!

یہ ہے قومی سطح پر ہماری تیاری کی کیفیت۔ اہم شاہ راہیں اگر بند ہوجاتی ہیں تو ہمیں ان کو کھولنے کے لیے ہفتوں اورمہینوں کی ضرورت ہے اور وہ انسان جو ان نامساعد حالات کی گرفت میں آجائیں ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب تک تریاق عراق سے آئے سانپ کا ڈسا اللہ کو پیارا ہوجائے!

قوم نے اربوں روپے‘ قرض کا بوجھ سر پر اٹھا کر‘ فوج پر خرچ کیے مگر اس کے پاس اتنے ہیلی کاپٹر بھی نہیں کہ کچھ علاقوں میں مؤثر امدادی کام انجام دے سکیں۔ وزیرستان میں آپریشن کے لیے تو ہیلی کاپٹروں کی کمی نہیں لیکن آزاد کشمیر اور سرحد کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کام کے لیے چندہیلی کاپٹر سے زیادہ ہم فراہم نہیں کرسکے۔ بلاشبہہ تباہی بہت عظیم اور غیر متوقع ہے مگر کسی درجے میں تو قوم اور اس کے کلیدی اداروں کو ایمرجنسی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس حادثۂ فاجعہ نے ہماری اس کمزوری کو بالکل طشت ازبام کر دیا اور سب کہنے پر مجبور ہوئے کہ Emperor has no clothes (بادشاہ سلامت بے لباس ہیں)۔

بات صرف نظام‘ اس کے اداروں‘ اور ذمہ داری پر فائز افراد کار ہی کی نہیں___ کرایوں میں اضافے‘ اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے‘ ملبے میں دبے ہوئے انسانوں کے بدن سے اور اجڑے ہوئے گھروں سے قیمتی سامان اور زیورات کی چوری‘ امدادی سامان کی لوٹ مار‘ حتیٰ کہ پولیس کے کارندوں کا ان قبیح کارروائیوں میں ملوث ہونا___ معاشرے کے وہ ناسور ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایک طرف خیر اور خدمت کا عوامی جذبہ‘ دوسری طرف ذمہ داروں کی غفلت اور معاشرے کے کچھ عناصر کا ان حالات میں بھی ایسے گھنائونے کردار کا مظاہرہ___  ہماری اجتماعی زندگی کے دو مختلف پہلوئوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ شر کی قوتوں کو قابو کرنے اور خیر کی قوتوں کو منظم کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے آج بھی حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ اپنوں ہی نے نہیں ‘غیروں نے بھی اس تضاد کو دیکھا اور عالمی صحافیوں نے اپنی رپورٹوں میں نمایاں کیا۔ تصویر  کے دونوں رخ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے منفی پہلو کو اس لیے بیان کیا کہ اس سے  صرفِ نظر ممکن نہیں لیکن ہم مثبت پہلو کو روشنی کی اصل کرن سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر قوم کے اس جذبے اور رویے کو صحیح طریقے پر منظم اور متحرک کیا جائے تو اس عظیم تباہی سے مستقبل کے لیے خیرکثیر کے سرچشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ ہم تحدیث نعمت کے طور پر عرض کریں گے کہ عوامی سطح پر جس طرح ملک کے ہر طبقے نے ایثار و قربانی اور جوش و جذبے کا اظہار کیا اور لوگوں نے انفرادی طور پر اور دینی‘ سماجی اور پروفیشنل تنظیموں نے اپنی بساط سے بھی بڑھ چڑھ کر خدمات انجام دیں وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ جماعت اسلامی اور مجاہد تنظیموں‘ خصوصیت سے حزب اسلامی اور جماعت الدعوۃ نے جس طرح اپنے دکھ کو بھول کر اپنے دکھی بھائیوںاور بہنوں کی خدمت کی‘ وہ روشنی کا مینار ہے۔

ابتدائی غفلت کے بعد سرکاری ادارے اور فوج بھی حرکت میں آگئی‘ گو اب تک ان کی کارکردگی توقعات سے بہت کم رہی ہے لیکن جتنا کام بھی وہ اب کر رہی ہیں‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے‘ لیکن ضرورت کا عشر عشیر بھی ابھی پورا نہیں ہو رہا۔ سب سے بڑھ کر مسئلہ جامع منصوبہ بندی کا فقدان‘ ضروری ٹکنالوجی اور صلاحیت کی کمی‘ اور فوج‘ سول حکومت‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں اور نجی خدمتی اداروں کے درمیان مؤثر رابطے کی کمی ہے جس کا جلد از جلد تدارک ہونا چاہیے۔

بے شمار افراد نے انفرادی طور پر اور دینی اور سماجی اداروں نے‘ خصوصیت سے ان اداروں کی جن کی اساس اسلامی بنیادوں پر ہے‘ بڑی جاں فشانی سے خدمت انجام دے کر ایک روشن مثال قائم کی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس قوم کو اٹھانے والی اصل قوت اسلام اور جذبہ خدمت ہے۔

مغربی تجزیہ نگاروں کی نظر میں

ہم نے جن دو پہلوئوں کی طرف متوجہ کیا ہے‘ ان کا مشاہدہ اور تجربہ ہزاروں انسانوں نے ان چند ایام میں کیا ہے اور ملکی اور غیرملکی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے بھی ان کو بیان کیا ہے۔ اس تضاد کے چند اہم پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہم ملکی اور غیرملکی مبصرین کی چند آرا کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔

اکانومسٹلکھتا ہے:

یہ ۱۱؍اکتوبر کے بعد ہوا کہ فوج نے قصبوں سے باہر پھیلنا شروع کیا… اس تباہی پر حکومت کے سست ردعمل پر ایک غصے کی کیفیت تھی۔ بالاکوٹ میں جہاں ۱۰ اکتوبر کو سڑکیں کھولی جاسکیں‘ لوگوں نے شکایت کی کہ فوج نے پہلا دن اپنے کیمپ قائم کرنے میں صرف کیا۔ مظفرآباد میں ایک چار منزلہ ہوٹل کے مالک نے‘ جو اب محض ایک کھنڈر تھا‘ بتایا کہ تین دن تک فوج کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اس تباہ شدہ ہوٹل میں اب ۵۰لاشیں دفن ہیں۔ لٹیروں نے ان کی جیبوں کو خالی کر دیا۔ صاف دکھ رہا ہے کہ فوج نے آغاز کرنے میں بہت سستی سے کام لیا۔ ۱۲ اکتوبر کو پنجاب سے تازہ دم جوانوں کی دو ڈویژن نے کشمیر اور سرحد میں آنا شروع کیا۔ بہت سے لوگوں نے فوجی اور سول اتھارٹیز کے درمیان خراب رابطے کی شکایت کی۔(۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۲۳)

نوائے وقت کا نمایندہ مظفرآباد کے حالات کا نقشہ یوں کھینچتا ہے:

مظفرآباد کا پورا علاقہ قبرستان بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت کی بے حسی‘ لاقانونیت اور ہرطرف افراتفری نے لوگوں کو عدمِ تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ بے گھر لوگ اپنے گھروں کے ملبے‘ سڑکوں‘چوراہوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں بغیر ٹینٹ کے چادروں میں گزارا کر رہے ہیں۔ ہر طرف مسلح نوجوانوں کی ٹولیاں پھرتی نظر آرہی ہیں۔ ان کے پاس کلاشنکوف‘ پستول‘ بندوقیں اور ڈنڈے ہیں۔مستحقین کا امدادی سامان جہاں نظر آتا ہے‘ لوٹ لیتے ہیں۔ مظفرآباد شہر میں ڈاکوئوں کے گروہ بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ گھروں سے قیمتی سامان لوٹ رہے ہیں۔ لوگوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں۔ شہر میں پولیس نام کی کوئی چیز نہیں‘ جب کہ فوج نے بھی ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے۔ (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

لندن کے دی ٹائمز نے اپنی ۱۵ اکتوبر کی اشاعت میں شائع ہونے والے اداریے میں مسائل کا یوں ذکر کیا ہے:

ٹیلی ویژن پر زلزلے کی خبر کے بعد باغ کے کسی آدمی نے حکومت کی طرف سے اگر کوئی امداد دیکھی ہے تو وہ تباہی کے تین دن بعد تھی۔ کسی وقت کے اس خوش حال چھوٹے سے قصبے کے لوگ آزاد کشمیر کی پہاڑیوں کے دامن میں تمام امیدیں کھو چکے تھے۔ باغ کے ایک دکان دار عبدالرزاق نے کہا: حکومت ٹیلی ویژن پر مدد دکھارہی ہے۔ ہم نے تو پانی کا ایک قطرہ‘ کوئی دوائی یا غلے کا ایک دانہ بھی اپنی طرف آتے نہیں دیکھا ہے۔ (روزنامہ ڈان‘ ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

جہاں یہ منفی پہلو ہیں جن کا مؤثر سدباب ہونا چاہیے‘ وہیں مثبت پہلو بھی ایسے ہیں جو امید کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔ بی بی سی اور دی نیوز کا نمایندہ اور مشہور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی سرحد کے حالات کا یوں نقشہ کھینچتا ہے:

صوبہ سرحداور آزاد کشمیر میں زلزلے کے متاثرین کو مدد پہنچانے کے لیے اسلامی اور دوسری غیر سرکاری تنظیمیں ایک شدید لیکن بیشتر صحت مند مقابلے میں مصروف ہیں۔ بالاکوٹ میں تقریباً ۲۰ تنظیموں کے کیمپوں کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا اور وہ نظر بھی آتے تھے جو زلزلہ زدگان کے لیے مختلف خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی اکثریت‘ یعنی ۱۲ اسلامی ہیں۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے بھی تباہ شدہ بالاکوٹ کے بازار میں ایک بینر لگایا تھا لیکن ان کے رضاکار کوئی کام کرتے نظر نہ آئے۔ بالاکوٹ میں جن اسلامی تنظیموںنے کیمپ لگائے‘ ان میں جماعت اسلامی کی الخدمت اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ‘ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) کا الرحمت ٹرسٹ‘ امہ ویلفیئر ٹرسٹ‘ جماعت الدعوۃ‘ جامعہ فریدیہ‘ لال مسجد اسلام آباد اور جہادی گروپ حزب المجاہدین اور جیش محمد شامل ہیں۔ بعض چھوٹی اسلامی تنظیموں نے بھی بینر لگائے تھے اور امدادی سامان سے بھرے ٹرکوں کے ساتھ پھر رہے تھے جو ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے بھیجے تھے۔

الرحمت ٹرسٹ کے منتظم نوید مسعود ہاشمی نے دی نیوز کو بتایا کہ حزب المجاہدین اور جیش محمد کے ارکان ۸ اکتوبر کی صبح زلزلے کے بعد نہ صرف بالاکوٹ بلکہ آزاد کشمیر کے دوسرے مقامات پر بھی ریسکیو آپریشن کا سب سے پہلے آغاز کرنے والوں میں سے تھے۔ ان گروپوںسے وابستہ مجاہدین علاقے میں موجود تھے اور اس لیے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں دوسروں سے پہلے پہنچ پائے۔ انھوں نے تباہ شدہ مکانات میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچاکر جانیں بچائیں۔ اس نے بتایا کہ بالاکوٹ ہو یا مظفرآباد یا باغ‘ ہر جگہ حالات مختلف تھے۔ لیکن کوئی غیرجانب دار نمایندہ دیکھ سکتا تھا کہ زلزلے کے متاثرین کو امداد پہنچانے میں کون سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ دیکھنے ہی سے یقین آتا ہے‘اور ہم رپورٹروں اور سیاست دانوں اور قانون دانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں اور جائزہ لیں کہ کون متاثرین کی خدمت کر رہا ہے اور کون صرف شور مچا رہا ہے۔ اسلامی تنظیموں کے ارکان بالاکوٹ سے آگے مختلف پہاڑوں کے درمیان منتشرآبادیوں میں ان کے گائوں میں پہنچ چکے ہیں تاکہ ان کو امداد پہنچائیں۔

عوام کے اس مثبت رویے کا اعتراف سیکولر طبقے کے سرخیل The Friday Times (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) نے بھی اپنے ادارتی کالم میں کیا ہے اور ایک برطانوی رپورٹر کی یہ رپورٹ نقل کی ہے جو ملاحظے کے لائق ہے:

کترینا کے بعد اور نیو آرلینز سے مقابلہ و موازنہ اس سے زیادہ واضح نہیں ہوسکتا۔ امریکا میں جب حکومت کی امداد نہیں پہنچی تو مسلح لوٹ مار کرنے والے سڑکوں پر آگئے اور بچنے والوںکو اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ دوسری طرف پاکستان میں پورے ملک سے لوگ مدد پہنچانے کے لیے آگئے۔ انھوں نے اپنے کام چھوڑ دیے‘ کچھ نے لفٹ لی اور ٹرکوں اور منی بسوں کے ساتھ خطرناک انداز سے لٹک کر انتہائی خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے‘ جب کہ نیچے وادی میں جھانکنے پر خوف آتا تھا‘ مدد کو پہنچ گئے۔ دوسرے پہاڑوں پر سورج کی تپش میں گھنٹوں پیدل چلے‘ جب کہ وہ مسلمانوں کے روزوں کے مہینے رمضان کی وجہ سے پانی بھی نہ پیتے تھے۔ پاکستان کے عظیم عوام کو اتنے شدید حالات میں اس بڑے پیمانے پر جذبۂ انسانیت کے مظاہرے سے زیادہ خراجِ تحسین نہیں پیش کیا جاسکتا۔

عالمی برادری کی مدد بھی ایک قابلِ قدر پہلو ہے اور اس میں مسلم ممالک اور مغربی اقوام دونوں نے حصہ لیا ہے۔ امریکا کی شرکت اس کے وسائل اور اس کے لیے پاکستان کی موجودہ حکومت کی خدمات کے پس منظر میں نہایت مایوس کن ہے۔ بھارت اور اسرائیل نے بھی حالات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

جن اقوام اور اداروں نے کھلے دل سے مدد کی ہے‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے اور قوم ان سب کی شکرگزار ہے لیکن یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی قوتوں کی عوامی خدمت‘ قربانی اور امتحان کی گھڑی میں تاریخی کردار کو مغربی میڈیا جس انداز میں پیش کر رہا ہے‘ وہ بڑا افسوس ناک ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۱۶ اکتوبر کی اشاعت میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ عنوان ہے: Extremists Fill Aid Chasm after Quake ۔ پورا مضمون زہرسے بھرا ہوا ہے‘ صرف چند اقتباسات دیے جا رہے ہیں جو قوم کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتے ہیں۔

مظفرآباد (پاکستان‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) فوج ردعمل دینے میں سست رہی اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیاں بعض حالات میں ابھی آغاز ہی کر رہی تھیں‘ لیکن یہاں پاکستان کے زلزلے کے علاقے کے قلب میں ملبے اور بارش کے اندر جماعت الدعوۃ جو ملک کی سب سے نمایاں انتہاپسند گروپ ہے‘ کے پرجوش مجاہد نظر آرہے تھے۔

دریاے نیلم کے قریب ایک ڈھلوان پر اس گروپ نے ایک بڑا فیلڈ ہسپتال قائم کیا ہے جس میں ایکسرے مشین‘ شعبہ دندان سازی‘ عارضی آپریشن تھیٹر‘ حتیٰ کہ آنے والے صحافیوں کے لیے ایک خیمہ بھی موجود ہے۔ ڈسپنسریوں میں عطیہ کیے ہوئے انٹی بائیوٹک‘ دافع درد ادویات اور دوسرے طبی سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے شہر مظفرآباد میں ہفتے کی صبح جو دوسرے گروپ موجود تھے‘ ان میں جماعت اسلامی کا خیراتی شعبہ ہے جو ایک اسلامی سیاسی پارٹی ہے جس کی فلسطین کے جنگجو گروپ حماس سے نظریاتی وابستگی ہے‘ اور الرشید ٹرسٹ‘ کراچی کا ایک خیراتی ادارہ ہے جس کے امریکی اثاثے بش انتظامیہ نے اس بنیاد پر ضبط کر لیے تھے کہ یہ القاعدہ کو فنڈ پہنچاتے ہیں۔ گروپ نے الزام کو مسترد کیا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ صرف سماجی بہبود تک ہی محدود ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے نمایندے John Lancestor کے خبثِ باطن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جماعت اسلامی کا ذکر حماس سے اس کے نظریاتی رشتے کے بغیر اس کے لیے ممکن نہ تھا حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ جماعت اسلامی کا اپنا طریق کار ہے اور وہ ۱۹۴۱ء سے برعظیم میں سرگرمِ عمل ہے۔

قوم کے بڑے حصے نے اور خصوصیت سے اسلامی تنظیموں اور اداروں نے جس طرح اس قومی آزمایش میں کردار ادا کیا ہے‘ وہ اچھے مستقبل کا پیش خیمہ ہے اور ضرورت ہے کہ تمام اسلامی اور اصلاحی قوتیں مل کر تعمیرنو کا کام اخلاقی جذبے اور نظریاتی تعلیم اور بیداری کے ساتھ انجام دیں۔

مستقبل کا نقشہ

آخر میں ہم مستقبل میں کرنے کے کاموں کے حوالے سے چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں۔

ملک کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کی غفلت‘ کوتاہیوں اور جانب داری کے باوجود جس قومی یک جہتی اور سیاست سے بالا ہو کر خدمت اور وسیع تر ملکی اور ملّی مفاد کی خاطر ایک مثبت قومی رویے کا اظہار کیا ہے ‘وہ بہت قابلِ قدر ہے اور اسے ہر قیمت پر باقی رہنا چاہیے۔ لیکن  اسے برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اپنا رویہ بدلیں۔ اس نازک وقت اور مصیبت کے اس لمحے میں بھی ان کی ساری مساعی اپنی ذات اور فوج کے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سول حکومت‘ کوئی دستوری ادارہ‘ کوئی پارلیمنٹ ملک میں موجود نہیں۔ بس جنرل صاحب اور فوج ہی ساری کرتا دھرتا ہے اور اب تو کھل کر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو اس بحران سے ملک کو نکال سکتا ہے جب کہ ہر اعتبار سے‘ فوج کی سیاست اور سول معاملات میں کارکردگی نہایت مایوس کن بلکہ تباہ کن رہی ہے۔ تعمیرنو کا کام فوج کا نہیں‘ سول دستوری نظام کا ہے۔ اس بارے میں قومی سیاسی جماعتوں کا نقطۂ نظر تو بالکل واضح اور  مبنی برحق ہے۔ لیکن جنرل صاحب کے امریکی سرپرست بھی اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں ایان بریمر (Ian Bremmer) کا تبصرہ جنرل صاحب کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ وہ لکھتا ہے:

یونان‘ ترکی اور انڈونیشیا میں ایک بڑی بنیادی بات مشترک ہے‘ یہ جمہوریتیں ہیں۔ ان کے رہنما عوام کی مرضی سے حکومت کرتے ہیں۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو ایسا کوئی عوامی جوازحاصل نہیں ہے۔ وہ ایک فوجی جنرل ہیں جنھیں فوج کے زیرحکمرانی ریاست میں بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیںجن کا مینڈیٹ پاکستانی عوام کے ساتھ ایک سمجھوتے پر منحصر ہے۔(۱۲ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

جنرل صاحب جتنی جلد ان حقیقی زمینی حقائق کا ادراک کرلیں‘ اتنا ہی ان کے لیے‘ بحیثیت ایک قومی ادارہ  فوج کے لیے اور سب سے بڑھ کر ملک اور اس کے دستوری نظام کے لیے بہتر ہے۔ اس لیے ہم تجویز کریں گے کہ فوری امداد کے کام میں فوج جو بھی مفید کردارادا کرے‘ لیکن مستقبل کے تعمیرنو کے پورے پروگرام کو پارلیمنٹ کے مشورے سے طے ہونا چاہیے۔ اسے سول نظام کے تحت انجام دیا جانا چاہیے اور سول نظام میں اس انفراسٹرکچر اور مردان کار کی تربیت (capacity building) کا پورا اہتمام ہونا چاہیے جو ایسے نظام کو مستقل بنیادوں پر چلانے کے لیے ضروری ہے۔ ہم یہ بھی تجویز کریں گے کہ مقامی اور علاقائی سیاست سے بالا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام میں مرکز اور صوبوں کے درمیان مناسب کوارڈی نیشن (باہمی موافقت اور تعاون) ہو اور صوبائی اسمبلی اور حکومت کے توسط سے ایک بااختیار ادارہ صوبہ سرحد کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر کے لیے قائم کیا جائے اور دوسرا آزاد کشمیر کے لیے ۔ مستقل بنیادوں پر مرکزی سطح پر ایک نظام تشکیل دیا جائے جس میں فیڈریشن اور تمام صوبوں کو مؤثر نمایندگی حاصل ہو‘ نیز کل جماعتی بنیادوں پر اس میں پارلیمنٹ کی نمایندگی ہو۔

چند قابل توجہ امور

دیگر قابلِ توجہ امور یہ ہیں:

۱-  جو بیرونی امداد وصول ہوئی ہے یا آیندہ ہوگی‘ اس کے استعمال پر مناسب پارلیمانی نگرانی ضروری ہے جس کے لیے سرکاری جماعت کے نمایندوں کے ساتھ تمام اہم اپوزیشن جماعتوں کی نگرانی و احتساب کا اہتمام ہونا چاہیے۔

۲- سول حکومت اور عوامی سماجی اداروں کے درمیان ربط اور کوارڈی نیشن کی شدید ضرورت ہے جسے شراکت باہمی کے کسی اصول پر منظم ہونا چاہیے۔ مسلسل عوامی شرکت اور اعتماد کے بغیر اس گمبھیر چیلنج کا مؤثر جواب مشکل ہے۔

۳-  درجہ وار منصوبہ بندی ضروری ہے جس کے تین مرحلے ہیں:

پہلا مرحلہ فوری مدد کا ہے جو کم از کم تین چار ماہ پر محیط ہوگا۔ اس میں راستوں کا کھولنا اور انھیں برقرار رکھنا نیز بجلی‘ پانی اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی‘ رہایش کا فوری انتظام اور ہر قسم کی مناسب سہولتوں کی فراہمی شامل ہے۔

دوسرا مرحلہ تعمیرنو کا ہے یعنی کئی شہروں کو آباد کرنا‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی‘ صحیح جگہ کا انتخاب‘ زلزلوں اور دوسرے خطرات کا اندازہ کرکے تعمیر کے لیے صحیح اصول و ضوابط کی تیاری اور ان کے نفاذ اور سختی سے جائزے کا انتظام۔ اس منصوبے میں رہایش‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ رسل و رسائل‘ پانی اور بجلی کی فراہمی کے لیے مربوط اسکیموں کی ضرورت ہوگی جنھیں اس طرح مرتب کیا جائے کہ ان علاقوں اور ان کے متاثر افراد کی مناسب وقت میں خود کفالت اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا بندوبست ہوسکے۔ نیز یہ سارا کام کم سے کم رقم میں کیا جائے۔

۴-  ایک بڑا مسئلہ زخمیوں اور خصوصیت سے ان ہزاروں افراد کا ہے جو اعضا سے محروم ہوکر مستقل معذوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کے لیے بالکل الگ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔

۵-  اسی طرح یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کا مسئلہ ہے۔ بچوں کا مسئلہ اور بھی گمبھیر ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد ۵۰‘ ۶۰ ہزار تک ہوسکتی ہے۔ اس سے قومی ایمرجنسی کی سطح پر ہی نبٹا جا سکتا ہے۔

۶-  تعمیرات کا کم تر معیار ایک بڑے مسئلے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ سڑکوں کا رونا تو مدت سے رویا جا رہا تھا۔ اب سرکاری عمارتوں (اسکول‘ ہسپتال) کی کمزوری کھل کر سامنے آگئی ہے۔ صرف صوبہ سرحد میں ۸ ہائی اسکول اور ایک ہزار ہسپتال زمین بوس ہوگئے۔ اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کا معاملہ بھی ایک اسکینڈل بن چکا ہے۔ اس پورے مسئلے کو بہت سائنسی انداز میں لینا ہوگا اور تعمیرات کے قواعد و ضوابط کے پورے معاملے کا ازسرنو جائزہ لینے اور قواعد و ضوابط کے مطابق تعمیرات کو یقینی بنانا بہت بڑا چیلنج ہے۔

۷-  قومی سطح پر تباہی کو روکنے اور بحرانوں سے نمٹنے کا مؤثر پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ فائر بریگیڈ‘ اسکائوٹس‘ این سی سی‘ سول ڈیفنس اور خصوصی دستوں  کی ٹریننگ اور ان کے لیے ضروری آلات و اوزار اور جدید ترین تکنیکی سہولتیں ضروری ہیں۔

۸-  ایسے حادثات کے بعد وبائوں کا پھوٹ پڑنا بھی ایک بڑا خطرہ ہے اور اس کی     پیش بندی نیز علاج کی سہولتوں کی فراہمی کو بھی اس منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔

۹- ہمہ پہلو بدعنوانی اور کرپشن ایک قومی ناسور ہے۔ حکومت اور اس کے اداروں پر لوگوں کا اعتماد باقی نہیں رہا ہے۔ لوکل گورنمنٹ میں ۷۰ فی صد اور سول حکومتوں میں ۵۰ فی صد بدعنوانی کی بات عام ہے۔ فوج بھی اب اس بیماری سے محفوظ نہیں رہی ہے۔ تعمیرنو کے کام میں بڑا خطرہ ہے کہ کرپشن کی وجہ سے سارا منصوبہ خاک میں مل جائے۔ اس لیے اس مسئلے کا کھل کر سامنے کرنے اور مناسب نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

آخر میں ہم ایک بار پھر اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں ہر کام میں اور ہر مرحلے پر اخلاقی تربیت‘ دیانت داری کے اہتمام‘ احتساب اور نگرانی کے مؤثر نظام اور حقیقی  شفافیت کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مادی وسائل کا استعمال اخلاقی ضابطوں کی حدود میں ہو اور دیانت داری کو صلاحیت اور قابلیت کے ساتھ ضروری صفت قرار دیا جائے۔ نیز حکومت‘ سول سوسائٹی اور عوام سب اخلاقی اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری اور سب سے بڑھ کر آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ کام انجام دیں۔

یہ اسی وقت ممکن ہے جب قیادت کے پیمانوں کو تبدیل کیا جائے‘ قانون اور ضابطے کی حکمرانی کو حقیقت بنایا جائے‘ کھلی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا جائے‘ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے کا   ذمہ دار ہو اور کسی ایک ادارے کو سب پر مسلط کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قانونی احتساب کے ساتھ عوامی احتساب کا ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کوئی جواب دہی سے بالا نہ ہو اور کسی غلط کار کے بچ نکلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

اگر ۸ اکتوبر کا زلزلہ ہمارے لیے ماضی کی ڈگر کو بدلنے اور مستقبل کے لیے صحیح راستے پر اختیار کرنے کی راہ پر ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے تو پھر اس شر سے خیر کے چشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔  صرف یہی وہ تبدیلی ہے جو ہماری دنیا کو سنوار سکتی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی کا امکان روشن ہوسکتا ہے۔

جمہوریت نے تو عوام کی پسند اور ناپسند کو معیاری حیثیت دینے کا کارنامہ دور جدید میں انجام دیا ہے اور اب راے عامہ کے عالمی جائزے اس کا ایک اہم پیمانہ بن گئے ہیں‘ لیکن انسانی ضمیر نے ہمیشہ عوام کے جذبات و احساسات کو ہوا کا رخ جاننے اور بھلے اور برے میں تمیز کرنے کا ذریعہ سمجھا ہے۔ پرانی کہاوت ہے     ؎

زبان خلق کو نقارئہ خدا سمجھو

برا کہے جسے دنیا اسے برا سمجھو

پچھلے دو ماہ میں ایسے کئی اہم جائزے سامنے آئے ہیں جن کے آئینے میں امریکا کی موجودہ قیادت‘ خصوصیت سے صدربش اور ان کی نیو کون (Neo-Con) ٹیم کے بارے میں اور اس سے بھی زیادہ امریکا کی جاری پالیسیوں کے بارے عالمی راے عامہ اور دنیا کے چوٹی کے تھنک ٹینکس کی حالیہ سوچ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ آج صدر بش دنیا کی واحد سوپر پاور کے کرتا دھرتا ہیں۔ وہ اور ان کے انتہاپسند حواری دنیا پر بزعم خود جمہوریت مسلط کرنے کے داعی ہیں بلکہ اس کے لیے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ لیکن جمہوریت کے یہ علم بردار ایک لمحہ توقف کرکے اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ جن پر وہ ’’جمہوریت‘‘ نازل کرنا چاہ رہے ہیں‘ وہ خود بش صاحب اور امریکا کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔

امریکا کے صدارتی انتخابات کے بعد سے امریکا میں راے عامہ کے تمام جائزے یہ بتارہے ہیں کہ صدر بش کی مقبولیت کا گراف خود امریکا میں مسلسل نیچے جارہا ہے اور تازہ جائزوں کے مطابق ۶۱ فی صد آبادی اب ان سے‘ ان کی کارکردگی سے اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے مایوس ہے۔

اس سے زیادہ دل چسپ اور چشم کشا نتائج اس سروے کے ہیں جس میں دنیا بھر سے ۱۵ہزار افراد نے شرکت کی اور جس کا اہتمام بی بی سی نے کیا تھا اور جسے power play game(اقتدار کا کھیل) کا نام دیا گیا تھا۔ ان ۱۵ ہزار افراد نے ایک باہمی عمل کے ذریعے عالمی راے کی روشنی میں ۱۱ افراد کی ایک ٹیم کا انتخاب کیا جو دنیا کی صحیح رخ پر قیادت کرے اور انسانی مسائل کو حل کرسکے۔ اس جائزے کے نتیجے میں جن ۱۱افراد کا انتخاب ہوا ان میں سرفہرست جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ بل کلنٹن نمبر۲ پر ہیں اور کوفی عنان گیارھویں ہیں۔ دل چسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس ٹیم میں کسی اور سیاست دان کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس جن افراد کو مذہبی قیادت فراہم کرنے کی نسبت حاصل ہے ان میں سے دو اس میں آسکے ہیں‘ یعنی دلائے لاما اور آرچ بشپ ڈیسمونڈ ٹوٹو۔ مؤخرالذکر کا تعلق بھی جنوبی افریقہ سے ہے اور وہاں کے Truth Commissionکے سربراہ تھے۔ امریکی پالیسیوں کے ناقد نوم چومسکی کو اس ٹیم میں نمبر۴ پر شریک کیا گیا ہے۔ باقی پانچ افراد کا تعلق IT اور عالمی مالیات سے ہے۔ جارج بش کا نمبر ۴۳ ہے‘ جب کہ ان کے دو بڑے ناقد ہیوگوشاواز اور فیڈل کاسترو نے ۳۳ ویں اور ۳۶ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس جائزے میں ۱۰۰ میں صرف ایک مسلمان کا نام آتا ہے اور وہ ہے اسامہ بن لادن جس کا نمبر ۷۰ واں ہے۔ بش کے ناقدین میں امریکا کا مشہور صحافی اور مصنف مائیکل مور بھی ہے جس کا نمبر ۱۵ ہے‘ یعنی بش سے ۲۸ منزلیں اوپر ہے۔

راے عامہ اور تحقیق کے امریکی ادارے Pew اور گیلپ کے تمام جائزے بھی ایسی ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں امریکا کی قیادت اور پالیسیوں سے بے اطمینانی کا اظہار ۶۰ سے ۷۰ فی صد آبادی کر رہی ہے اور عالمِ اسلام میں یہ بے زاری اور نفرت ۷۰ سے ۹۲ فی صد تک ہے۔

راے عامہ کے تمام جائزے تسلسل کے ساتھ عالمی ضمیر کا جو فتویٰ پیش کر رہے ہیں‘ اس کی توثیق ایک ایسے ادارے کی طرف سے بھی ہوئی ہے جس کے بارے میں کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کے اعلانات سے بھی ہوا کا یہی رخ سامنے آئے گا۔ ہماری مراد ہے سویڈن کے نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی عالمی کمیٹی۔ گذشتہ دو ہفتوں میں دو اہم ایوارڈ جن شخصیات کو دیے گئے ہیں‘ وہ بھی اسی رخ کی تائید کرتے ہیں۔ پہلا امن کا نوبل انعام ہے جو ویانا کی عالمی ایٹمی توانائی کی اتھارٹی اور اس کے سربراہ ڈاکٹر البرادی کو ملا ہے جس سے بش اور امریکا اتنے خفا تھے کہ اس کی مدت میں توسیع کی سرتوڑ مخالفت کر رہے تھے اور اس میں ناکام رہے۔ البرادی نے عراق میں تباہ کن ہتھیاروں (WMD's) کے امریکی ڈھونگ میں ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا اور  اتھارٹی کے انسپکٹر برٹس (Brits) نے امریکا کو انسپکشن ٹیم کے سارے کام کو سبوتاژ کرنے کا مجرم قرار دیا تھا۔ البرادی کو امن کا انعام ملنا صدر بش اور امریکا کی موجودہ قیادت کے منہ پر ایک طمانچا تھا اور امریکی قیادت اس پر اتنی جزبز ہوئی کہ کمیٹی کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ ہمارا فیصلہ معروضی حقائق پر مبنی تھا اور اسے کسی کے خلاف سمجھنا صحیح نہیں۔

ابھی امریکا کی قیادت اس زخم کو چاٹ رہی تھی کہ نوبل کمیٹی نے ایک اور بم گرا دیا۔ اس سال ادب کا نوبل انعام برطانیہ کے ادیب اور ڈراما نویس ہیرلڈ پنٹر (Harold Panter) کو دیا گیا ہے۔ ہیرلڈ پنٹر ویسے تو مشہور ادیب ہے اور ۱۹۶۰ء کی دہائی سے اسے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں خاص مقبولیت حاصل ہے۔ اس کا پہلا ڈراما The Birthday Party ۱۹۵۸ء میں شائع ہوا تھا اور اسٹیج بھی ہوا لیکن گذشتہ ۱۰ برس سے اس کی شہرت ڈراموں سے بھی زیادہ اس کے سیاسی بیانات اور سرگرمیوں کی بنا پر ہے۔ بلاشبہہ اس کے ڈراموں میں بھی سیاسی رنگ موجود ہے۔ دنیا کے بے سہارا اور مجبور انسانوں کے غم کو اس نے ادب کی زبان میں بیان کیا ہے بلکہ اندازِ بیان بھی منفرد ہے کہ وہ روانی اور لسانی چاشنی کے مقابلے میں بے ترتیبی اور ابہام کو ذریعہ بناتا ہے جو اس کی نگاہ میں اس دور کے کرب و اضطراب کا مظہر ہے۔ آج اس کی دھوم امریکا کی تشدد کے خلاف نام نہاد جنگ کی بھرپور سرگرم مخالفت اور بش اور بلیر پر جان دار تنقید کی وجہ سے ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ سے باہر ایک مظاہرے کے موقع پر ۲۰۰۲ء میں اس نے کہا تھا:

بش نے کہا ہے ’’ہم دنیا کے بدترین ہتھیاروں کو دنیا کے بدترین رہنمائوں کے ہاتھوں میں جانے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ بہت خوب! سامنے آئینہ دیکھو‘ یہ تم ہو!

ستمبر ۲۰۰۴ء میں امپیریل وار میوزیم کی تقریب میں اس نے کہا:

آزادی اور جمہوریت ___ بش اور بلیر کے نزدیک ان الفاظ کا مطلب موت‘ تباہی اور انتشار ہے۔

پنٹر نے ۲۰۰۳ء کے اپنے ایک مضمون میں بش کی انتظامیہ کو ہٹلر کے نازی جرمنی سے تشبیہ دی تھی۔ گوانتاناموبے کے قیدخانے کو جرمنی کے اجتماعی تعذیب گھروں کا تازہ نمونہ قرار دیا تھا‘ اور صدر بش کو خون کا پیاسا عالمی درندہ اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کو فریب زدہ احمق اور قتل عام کرنے والے کے لقب سے نوازا تھا۔ اس نے امریکی میڈیا پر بھی سخت تنقید کی تھی اور اسے بش کے جرائم میں شریک قرار دیا تھا۔ اس نے اپنی ایک نظم The Bombs میں آج کی سیاسی صورت حال کا نقشہ یوں کھینچا ہے:

بم چل رہے ہیں

The bombs go off

ٹانگیں دھڑ سے الگ ہو رہی ہیں

The legs go off

سر کٹ کر گر رہے ہیں

The heads go off

بیان کے لیے الفاظ نہیں مل رہے

There ar no more words to be said

ہمارے پاس اب بموں کے علاوہ کچھ نہیں

All we have left are the bombs,

بم ہمارے سر پھاڑ کر باہر آرہے ہیں

Which burst out of our head.

ہیرلڈ پنٹر کو ادب کا نوبل انعام اور ڈاکٹر البرادی کو امن کا نوبل انعام ان دونوں کے لیے تو اعزاز ہے‘ لیکن یہ امریکا‘ جارج بش اور ٹونی بلیر کی قیادت پر عالمی ضمیر کے عدمِ اعتماد (vote of no-confidence) کا بھی برملا اعلان ہے۔ سچ ہے‘ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کی ۵۷ سالہ تاریخ کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ یہاں ہر سربراہ ریاست یا رئیس مملکت کا ہر بیرونی دورہ ہمیشہ ’کامیاب‘ یا پھر ’بہت کامیاب‘ ہی رہا ہے اور اس کے نتائج اور ثمرات خواہ کچھ بھی ہوں‘ نہ اس کی کامیابی پر کبھی کوئی حرف آیا اور نہ تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے والوں میں کوئی کمی ہوئی۔ اس تاریخی پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا ان کے چھے سالہ دوراقتدار کا نواں دورہ ‘جو ۱۳ سے ۱۸ ستمبر ۲۰۰۵ء تک رہا‘ اپنی ساری تندوتیز جولانیوں‘ صحافتی مقابلوں اور کہہ مکرنیوں‘ سیاسی رہنمائوں سے مذاکرات اور ’عدو‘ سے اتفاقی ملاقات‘ روشن خیال خواتین اور   دل پسند این جی اوز کے نمایندوں سے لفظی مچیٹوں اور پاکستانی خواتین کی مظلومیت اور ’کاروباریت‘ کو طشت ازبام کرنے کی خدمات اور دوسری بے شمار جرأت مندانہ پسپائیوں کے باوجود نہ صرف ’کامیاب‘ بلکہ ’بہت ہی کامیاب‘ ہی قرار دیا جائے گا۔ سرکاری میڈیا اور لبرل دانش ور اور قلم کار    جو بھی کہیں اور لکھیں‘ آج کی دنیا میں حقیقت کو پردوں میں چھپانا ممکن نہیں رہا۔ امریکا کی     قیادت سے ان کی دوستی اور اشتراکِ مفاد اور یہودی لابی سے نیا نیا عشق اپنی جگہ‘ لیکن جمہوری معاشرے اور آزادیِ صحافت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ حقائق سامنے آکر رہتے ہیں اور معاملہ خواہ نکسن کے واٹرگیٹ کا ہو یا کلنٹن کے مونیکا سے معاشقے کا___ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوکر رہتا ہے۔

دورے کے اھداف

جنرل پرویز مشرف کے دورے کی تمام تقاریر‘ بیانات اور ملاقاتوں کا جائزہ لیا جائے تو کلیدی موضوع پانچ ہی نکلتے ہیں:

۱-            دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کا کردار بحیثیت حلیف اور  تابع مہمل۔ ہر تقریر اور ہر ملاقات میں یہ موضوع سرفہرست رہا حالانکہ یہ نہ ہمارا مسئلہ ہے اور نہ ہمیں اب اس سے کوئی فائدہ ہو رہا ہے‘ بلکہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

۲-            پاکستان اور امریکا کے تعلقات۔ خصوصیت سے بھارت سے امریکا کے بڑھتے ہوئے اسٹرے ٹیجک شراکت (partnership) کے پس منظر میں یہ تعلق پاکستان کے لیے اب ایک فیصلہ کن مرحلے (moment of truth) میں داخل ہوگیا ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ اب صاف معلوم ہوجانا چاہیے کہ پاکستان سے امریکا کے تعلقات کا موجودہ مرحلہ حقیقی دوستی اور رفاقت کا ہے یا محض وقتی ضرورت کی آشنائی کا۔ جنرل مشرف کا ٹائم میگزین کو حالیہ انٹرویو (نوائے وقت/ ڈان‘ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۵ئ) بھی امریکا کی سردمہری کا اعتراف ہے۔

۳-            کشمیرکے سلسلے میں کسی حقیقی پیش رفت کی کوشش۔ صدر بش کی مداخلت اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے نیویارک کی ملاقات اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔

۴-            پاکستان کے اسرائیل سے روابط استوار کرنے کے سلسلے کو آگے بڑھانا۔ اس میں اسرائیلی وزیراعظم شارون سے طے شدہ پروگرام کے تحت ’اتفاقی ملاقات‘، ’ورلڈ جیوش کانگرس‘ سے خطاب اور امریکا کی یہودی لابیز سے راہ و رسم پیدا کرنا اور اس سلسلے میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں پاکستان کے اصولی اور تاریخی مؤقف سے انحراف اور کسی طرح اس کا جواز پیش کرنا شامل ہے۔

۵-            پاکستان کے امیج کو درست کرنے کی کوشش اور اس سلسلے میں خصوصیت سے پاکستان میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے باب میں جو پروپیگنڈا ہو رہا ہے‘ اس کا توڑ کرنا۔

یہ تھے پانچ اہداف۔ ان میں سے کسی ایک کے سلسلے میں کوئی حقیقی تو کیا‘ رسمی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔ بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ ساڑھے چار گھنٹے کی ملاقات میں بھی بھارت اپنی پوزیشن سے ٹس سے مس نہیں ہوا اور صدر بش نے ہر معاملے میں سرخ جھنڈی دکھا دی۔ اسرائیلی کی یہودی لابی نے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور مکھن لگانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ لیکن عالمِ عرب اور   عالمِ اسلام میں رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا‘ البتہ اس دورے کا نقصانِ عظیم وہ ہے جو پاکستان کے امیج کوپہنچا ہے اور اس کے ساتھ نائن الیون کی پسپائی کے بعد پہلی بار پاکستان کے ساتھ خود جنرل پرویز مشرف کے امیج پر وہ چوٹیں لگی ہیں کہ  ع

پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!

اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو‘ اس کی زبان اور گندے الزامات‘ پھر اس بیان کا انکار‘ پھر اخبار کی طرف سے اصل بیان کی اشاعت اور جنرل صاحب کی آواز میں ۹ منٹ کے اس حصے کو انٹرنیٹ پر ڈال دینا‘ جس میں وہ ساری باتیں موجود ہیں جن کا وہ انکار کر رہے تھے اور یہاںتک کہہ رہے تھے کہ:

’’مجھے پورے خلوص کے ساتھ یہ کہنے دیجیے کہ میں نے ایسا کبھی نہیں کہا‘ اور یہ غلط منسوب کیا گیا ہے۔ مشرف نے خواتین کے گروپ سے کہا ’’یہ میرے الفاظ نہیں ہیںاور میں یہ بھی کہوں گا کہ میں اس قدر احمق اور بیوقوف نہیں ہوں کہ اس قسم کا تبصرہ کروں‘‘۔

جنرل صاحب کے امیج پر یہ چاند ماری جاری تھی کہ روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کے اجتماع میں ان کی برہمی اور خواتین کو دعوت مبارزت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بس چند جھلکیاں:

بی بی سی اُردو سروس اپنی ۱۸ ستمبر کی رپورٹ میں یوں تفصیل بیان کرتی ہے:

انھوں نے کچھ غیرسرکاری تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو خواتین کے مسائل ملک سے باہر اٹھاتے ہیں‘ ان کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں اور وہ ایسے لوگوں کو دیکھ لیں گے۔ انھوں نے غیر سرکاری تنظیموں کو تنبیہہ کی کہ ’میں ایک سپاہی ہوں اور مجھے لڑنا آتا ہے۔ میں آپ سے لڑوں گا اور اگر آپ چیخیں گی تو میں آپ سے زیادہ چیخ سکتا ہوں‘۔

صدر مشرف کے خطاب کے بعد سوال جواب کے دوران جب ایک خاتون نے کہا کہ وہ خواتین جو امریکا میں پاکستانی خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں‘ بے حد مخلص ہیں اور پاکستانی صدر کو ایسی بات نہیں کہنی چاہیے‘ تو اس بات پر جنرل مشرف برہم ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ ’آپ جیسے لوگ قومی مفاد کے خلاف ہیں‘ [انگریزی پریس نے جو الفاظ دیے ہیں‘ وہ یہ ہیں: you are against me and against Pakistan]۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے لوگوں کے اپنے معاشی یا سیاسی مفاد ہوتے ہیں جس کی خاطر وہ ان واقعات پر خاص روشنی ڈالنا چاہتے ہیں جس سے پاکستان کے وقار کو ٹھیس پہنچے۔ اس موقع پر امریکا میں پاکستان کے سفیر جہانگیر کرامت نے اٹھ کر صدر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مائیک خود سنبھال لیا۔

اس تقریب میں شریک ڈاکٹر اسماء چودھری نے صدر کے خطاب پر کہا کہ ’میں شدید غصے میںہوں‘ صدر صاحب غنڈوں کی طرح باتیں کر رہے ہیں‘۔

ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ان دونوں واقعات (واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو اور روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کی کانفرنس) کے ردعمل میں عالمی میڈیا میں جو رسوائی پاکستان کی ہوئی‘ اس کا احاطہ کرسکیں۔ اس ہفتے میں جو نقصان پاکستان کو پہنچا اور جس طرح اس کا امیج مجروح ہوا وہ ہماری تاریخ کا سانحہ اور قدرت کی طرف سے جنرل صاحب کے کیے دھرے کا جواب ہے‘ جو انھی کے ہاتھوں انھیں ملا جن کی خاطر وہ پاکستان‘ اسلام‘ فلسطین‘ کشمیر ہر ایشو پر مغرب کی استعماری قوتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

اس ردعمل کا ایک نمونہ ہم پیش کرتے ہیں جو ان کے ایک بڑے مداح اور روشن خیال اعتدال پسندی کے عاشق ولیم می لام (Wiliam Milam)کا ہے جو پاکستان میں امریکا کے سفیر رہے ہیں اور آج کل ووڈرو ولسن سینٹر کے فیلو ہیں۔ اپنے تبصرے کا آغاز اس طرح کرتے ہیں کہ آج کل پاکستان امریکا میں اپنے امیج کو درست کرنے کے لیے مناسب مشیر (consultant) کی تلاش میں ہے جس کا اشتہار بھی دیا جا رہا ہے لیکن ضرورت پاکستان کے امیج سے کہیں زیادہ خود صدرصاحب کو صحیح مشورہ دینے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ صدر مشرف نے اپنے کارناموں پر جن کو   وہ پہلے بھی بیان کرتے رہے ہیں‘ اپنے آپ کو خوب شاباش دی۔ لیکن مشیر کی اصل ضرورت تو مختاراں مائی جیسے مسئلے پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ان تنظیموں کے ہاتھ آگیا جو پاکستان کا امیج تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ امریکا میں مشرف کی اوّلین ترجیح خواتین کے مسائل تھی‘ لیکن انھوں  نے جو کچھ کہا اس نے معاملات کو مزید خراب کر دیا۔ سب‘ صرف خواتین ہی نہیں‘ پاکستان کے اندر اور باہر ناراض ہوئے۔

سابق امریکی سفیر پاکستانی اخبار ڈیلی ٹائمز سے پاکستان میںصرف ایک دن میں ہونے والے واقعات اور بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے (subversion) کے شواہد کا حوالہ دینے کے بعد لکھتا ہے:

روشن خیال اعتدال پسندی یا بیرونی دنیا میں ایک بہتر امیج محض لفاظی سے اور وہ بھی   بے نقط لفاظی سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے حکومت کو زمینی حقائق کو درست کرنا چاہیے‘ انسانی حقوق کا بہتر تحفظ ہونا چاہیے‘ ایک مختلف نصاب کے تحت بہتر تعلیم ہونی چاہیے‘ دہشت گردی اور عورتوں اور بچوں کے خلاف مظالم کے لیے بہتر نفاذ قانون ہونا چاہیے۔

یہ ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں پاکستان اور جنرل صاحب کے امیج کے کچھ نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔ جنرل صاحب گئے تو تھے پاکستان کا وقار بڑھانے اور بلند کرنے(image building) کے لیے اور اقوام متحدہ میں اس تاریخی موقع پر پاکستان اور اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے کے دعوے کے ساتھ‘ مگر حاصل کیا ہوا؟

ع   بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رسوائی کی

پاکستان اپنے اہداف میں سے کسی ایک کی طرف بھی ایک انچ پیش رفت نہیں کرسکا۔ اُمت مسلمہ کے تصورات اہم ترین مسائل ناگفتنی ہی رہے اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ‘ یعنی   مسئلہ فلسطین مزید کنفیوژن‘ انتشار اور بے وقعتی کا شکارہوگیا۔ اقوام متحدہ کی تشکیل نو اور اس میں ملت اسلامیہ کے کردار کا خواب‘ خواب گراں ہی رہا اور ان سب پر مستزاد پاکستانی عورت کی جس طرح سربراہِ مملکت کے ہاتھوں برسرِعام تذلیل ہوئی‘ اس کی مثال تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ کونڈولیزارائس جنرل صاحب کو جتنابھی ’غیرمعمولی انسان‘ (extraordinary person) قرار دیتی رہیں اور یہودی لابی انھیں ’ناگزیر انسان‘(indispensible) کہہ کر کتنا ہی مکھن لگائے‘ حقائق کی زبان پکار پکار کرکہتی ہے کہ معاملہ چاہے وردی کا ہو یا سچائی کا‘ سیاسی تدبر کا ہو یا تحمل اور بردباری کا‘ جوش کا ہو یا ہوش کا‘ پاکستان کا امیج تو اس دورے میں بری طرح مجروح ہوا ہی ہے لیکن خود جنرل صاحب کی شخصیت‘ جس کو اب تک پاکستان سے الگ کر کے تعریف و توصیف کا سزاوار سمجھا جاتا تھا‘وہ بھی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے اور بقول میردرد     ؎

تہمتیں چند اپنے ذمے لے چلے

جس لیے آئے تھے سو ہم کرچلے

ہم نے تاریخ اور عمرانی علوم کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے‘ اس کی روشنی میں یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ جنرل صاحب امریکا گئے تو اس توقع پر کہ ۲۰۰۷ء کے بعد بھی اپنے دو’تاجوں‘ کو مزید مہلت دلوالیں گے مگر ان سات دنوں میں جو کچھ خود انھوں نے اپنے ساتھ کیا‘ اس سے جس عمل کا آغاز ہوگیا ہے اسے چرچل کے الفاظ میں: ’اختتام کا آغاز‘ (beginning of the end) ہی کہا جا سکتا ہے۔ کسی فرد اور ملک کے قابلِ اعتماد ہونے اور اس کی ساکھ قائم ہونے کا انحصار اس کی بات کے سچ ہونے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اس معاشرے میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور جسے مہذب معاشرہ شمار کیا جاتا ہے قیادت کی طرف سے جھوٹ اور غلط بیانی ناقابلِ معافی جرم ہے۔ بڑی سے بڑی غلطی سے درگزر ممکن ہے مگر دروغ حلفی (perjury) ناقابلِ معافی ہے۔ امریکا میں تو اس جرم پر صدرمملکت کا مواخذہ (impeachment) کیا جاسکتا ہے اور ہوا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے جنرل صاحب کے ۱۳ ستمبر والے انٹرویو کو ان کی اپنی آواز میں انٹرنیٹ پر ڈال کر ہماری رسوائی کا جو سامان کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری جنرل صاحب اور ان کی جرأت کے سوا کسی پر نہیں۔ ان کے  سیاسی ترجمان (spin-doctors) جو کچھ بھی کہیں‘ پاکستان کے حقیقی بہی خواہ اس صورت حال پر جتنا بھی افسوس کریں کم ہے۔

اُمت کی نمایندگی

مسلمان ملکوں کی قیادت سے یہ توقع تھی کہ اقوام متحدہ کے اس ۶۰سالہ سربراہی اجلاس کے موقع پر اُمت کے تصورات‘ عزائم اور مسائل کی مؤثر اور مدلل نمایندگی کریں گے۔ لیکن افسوس ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد کے سوا کسی ایک نے بھی ایمان اور جرأت کے ساتھ ان مسائل اور امور کا کوئی ذکر نہیں کیا جو اُمت کی اصل ترجیح ہیں۔ بش سے لے کر مشرف تک کی تقاریر کو کھنگال ڈالیے‘ معلوم ہوتا ہے کہ ’دہشت گردی‘ ہی آج کی دنیا کا اصل مسئلہ ہے حالانکہ یہ امریکا کا ایجنڈا ہے۔  عالمِ اسلام یا انسانیت کا مسئلہ نہیں۔ اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقاریر اور اس کی آخری قرارداد میں ’دہشت گردی‘ اور اس پر اُکسانے (incitment)کو وقت کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ دنیا دیکھ رہی ہے اور اہلِ نظر اس کا اب کھل کر اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکا نے   دہشت گردی کو دنیا پر اپنی بالادستی (hegemony) اور تحکم قائم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کو بہانہ بناکر افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا ہے اور وہاں کے وسائل کو اپنے تصرف میں لا رہا ہے‘ نیز پوری دنیا کو زیادہ غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔۱؎

آج تک کسی نے دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں کی۔ اس موقع پر بھی اقوام متحدہ سابقہ ۵۰ سالوں کی طرح کوئی تعریف کرنے سے قاصر رہی ہے اور اگلے سال اس کے لیے کانفرنس کا اعلان کیا ہے مگر اس بے نام (nameless) غیرمرئی (faceless) اور ناقابلِ گرفت (elusive) دشمن کے خلاف جنگ کو ہر مسئلے پر فوقیت دی ہے اور جو ممالک عملاً دنیا میں سب سے زیادہ ظلم اور دہشت گردی پھیلا رہے ہیں‘ یعنی امریکا‘ اسرائیل‘ بھارت اور روس وہ ہرمواخذے سے بالا ہیں۔ ہمارے جرنیل صاحب نے بھی دہشت گردی کے اسباب کے بارے میں تو بڑے ادب کے ساتھ چند جملے کہے ہیں لیکن سارا زور دہشت گردی اور انتہاپسندی کو قوت سے ختم کرنے پر ہے حالانکہ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ دنیا بھر کے عوام اس کے خلاف صداے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ اس ہفتے انگلستان میں لاکھوں افراد نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت میں فقید المثال مظاہرے کیے ہیں۔ عالمی راے عامہ کے سارے جائزے ہواکا یہ رخ بتا رہے ہیں دنیا کے عوام کی ۷۰ سے ۹۰ فی صد آبادی اس کے خلاف ہے۔ خود امریکا میں اب ۶۱ فی صد افراد اس جنگ کو لاحاصل قرار دے رہے ہیں اور اس جنگ کے خلاف احتجاجی تحریک روز بروز مؤثر ہو رہی ہے۔

صدربش کے حامی مشہور کالم نگار تھامس فریڈمین (Thomes Freedman) نے نیویارک ٹائمزمیں ستمبر کے پہلے ہفتے میں اپنے کالم میں لکھا ہے:

موقع ایک ہی دفعہ ملتا ہے۔ اگر جناب بش کترینا سے سبق سیکھنا چاہیں تو ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے نائن الیون کے مینڈیٹ کو کسی نئے اور بامعنی مینڈیٹ سے بدل لیں۔ اگر یہ ہوجائے تو کہا جا سکے گا کہ کترینا نے نیو آرلینز تباہ کردیا لیکن امریکا کو بحال کرنے میں مدد دی۔ اگر جناب بش اپنی سیاست حسبِ معمول جاری رکھیں تو ہر موڑ پر انھیں مخالفت کا سامنا ہوگا۔ گویا کہ کترینا نے ایک شہر اور ایک صدر کو تباہ کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ بش اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ دم توڑ رہی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف اسی جرأت کے ساتھ بش کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جس جرأت سے ۱۳ستمبر ۲۰۰۱ء کو سجدہ ریز ہوئے تھے۔

دنیا کی اب سوچ کیا ہے؟ اس کا اندازہ انگلستان کے اخبار دی گارڈین کے اس اداریے سے کیا جاسکتا ہے جو ۱۱ستمبر کی مناسبت سے چار سال کا جائزہ لیتے ہوئے جنگوں کے نتائج (Consequences of Wars ) کے عنوان سے لکھا گیا ہے:

نائن الیون کے چار سال بعد امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف کیا کسی حقیقی کامیابی کا ایمان داری سے دعویٰ کر سکتے ہیں؟ جواب ہے: کوئی خاص نہیں۔     نہ صرف یہ کہ دہشت گردی موجود ہے بلکہ یہ بڑھ رہی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال دنیا بھر میں دہشت گردی کے ۶۵۱ نمایاں حملے ہوئے جو ۲۰۰۳ء کی تعداد کا تین گنا ہیں۔ یہ تعداد ان دو عشروں میں سب سے زیادہ ہے جب سے واشنگٹن نے یہ اعداد و شمار جمع کرنے شروع کیے ہیں۔

اس کا نتیجہ ہے کہ:

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا انحصار اس بات پر تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جمہوری انقلاب کا نسخہ بروے کار آئے۔ اصل تعجب کی بات امریکی عسکری طاقت کی ناکامی ہے۔ اس نے قبضہ تو کیا ہے لیکن تعمیرنو کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔ سخت مزاحمت کی بناپر زمینی حقائق اور مطلوبہ اہداف کی وسیع خلیج نے امریکی راے عامہ کو متزلزل کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اصل الزام یہ ہے کہ یہ جن قوتوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے‘ انھی کے لیے بھرتی کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ (خلاصہ)

گارڈین کا اداریہ بھی نیویارک ٹائمز کے مقالہ نگار مارک ڈینر (Mark Danner)کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں "Al-Qaidaism" کا عنصر رونما ہوگیا ہے اور اس کے آسانی سے ختم ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ اداریے کا خاتمہ اس انتباہ پر ہے کہ:

اگر موجودہ نسل امریکی طاقت کے مقابلے میں نائن الیون واقع کر سکتی ہے تو عراق سے واپسی سے ظاہر ہونے والی امریکی کمزوری کے مقابلے پر اگلی نسل کیا کچھ کرے گی۔ ۲۰۰۱ء کے بعد بن لادن کی تنظیم کو نقصان پہنچا ہے‘ وہ منتشر ہوا ہے اور بہت سی جگہ اس کا کام غیر پیشہ ور نوآموزوں کے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ جڑواں ٹاوروں پر حملے کے چار سال بعد دنیا اس کے مقاصد کے لیے اتنی سازگار نظر آئے گی۔

گارڈین کا یہ تجزیہ منفرد نہیں۔ دنیا بھر کے اہل فکرودانش اپنے اپنے انداز میں یہی بات کہہ رہے ہیں لیکن اگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی تو وہ صدر بش‘ ٹونی بلیر اور خود ہمارے جنرل پرویز مشرف ہیں جو ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ سب ایک ہاری ہوئی جنگ میں اپنے اپنے ملکوں کو جھونکے ہوئے ہیں۔ جرنیل صاحب نے اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے عوام کو چھوڑ کر جنگ کی آگ بھڑکانے والے بش اور بلیر کا ساتھ اختیار کیا ہے اور پاکستان اور اس کی افواج کو بھی اس جنگ میں زخم خوردہ کر رہے ہیں۔ امریکا سے ہم کو نہ کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم اس جنگ کی آگ میں آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

افغانستان جس سے ہمارے بہترین تعلقات تھے‘ آج اس میں ہمارے خلاف ہر سطح پر لاوا پک رہا ہے۔ ہماری سرحدیں غیرمحفوظ ہوگئی ہیں اور ہم جھنجھلا کر باڑ لگانے کی باتیں کر رہے ہیں___ وہ راستہ جو اسرائیل نے فلسطین میں اور بھارت نے کشمیر میں اختیار کیا ہے اور ناکام ہیں۔ ہماری فوجیں وزیرستان میں اپنے ہی بھائیوں سے لڑ رہی ہیں اور گذشتہ سال کے آپریشن میں ۲۸۰ سے زیادہ ہمارے فوجی جان دے چکے ہیں اور ۶۰۰ زخمی ہیں‘ جب کہ مقابلہ کرنے والوں میں سے بھی ۴۰۰ کے قریب ہلاک ہوئے ہیں اور امن اب بھی عنقا ہے بلکہ کور کمانڈر اور گورنر بھانت بھانت کی بولی بول رہے ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ نام نہاد جنگ ایک مبنی برظلم کارروائی ہے‘ یہ صرف امریکی استعمار کا کھیل ہے جس میں ہم اپنے‘ اُمت مسلمہ کے اور پوری دنیا کے عوام سے کٹ کر صرف امریکی نیوکون (new-con)‘ وہاں کے صہیونیوں اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے والی موجودہ امریکی قیادت کا دم چھلّا بن گئے ہیں۔ افسوس ہم کو خود امریکی عوام کے جذبات اور احساسات کا بھی ادراک نہیں جو بش کی اس جنگ گردی کے خلاف نوحہ کناں ہیں۔ امریکی عوام کے جذبات کا اندازہ کرنے کے لیے امریکا کی نامور شاعرہ شارون اولڈز (Sharon Olds) کا وہ خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو اس نے واشنگٹن کے مشہور زمانہ National Book Festival میں‘ جو ۲۴ ستمبر ۲۰۰۵ء کو واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا‘ شرکت نہ کرنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے لیڈی لارابش اور صدر بش کو لکھا ہے اور جس کا متن امریکی جریدہ The Nationنے شائع کیا ہے۔

شارون اولڈز کو اس اہم تقریب میں خطاب کرنا تھا اور فرسٹ لیڈی کی دعوت پر عشائیے میں شرکت کرنی تھی لیکن اس نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ اسے ان ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ہوگا جو عراق کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے معصوم انسانوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ وہی ہاتھ جنھیں چومنے کے لیے ہمارے حکمران بے چین ہیں۔

امریکا کی ایک معزز شاعرہ اور ادیبہ وہ بات کہہ رہی ہے جو مسلمان حکمرانوں اور دانش وروں کو کہنی چاہیے تھی اور اقوام متحدہ کے ایوانوں کو اس کی گونج سے بھر جانا چاہیے تھا۔ لیکن مسلم ممالک پر قابض حکمران صدر بش سے مصافحہ کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں اور خود اپنے لوگوں کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں ان کے سپاہی بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں جنرل پرویز مشرف کے دورۂ امریکا کا سب سے افسوس ناک پہلو اس نام نہاد دہشت کی جنگ کے دلدل میں پاکستان کو پھنسانا اور مزید پھنسانے کے لیے آمادگی کا اظہار ہے۔ حالانکہ یہ موقع اس جنگ کا پردہ چاک کرنے اور اس کے خلاف عالمی راے عامہ اور مسلم ممالک اور آزادی پسند اقوام کی قیادتوں کو گومنظم اور متحرک کرنا تھا۔ اگر ہم نے یہ کردار ادا کیا ہوتا تو اقوام متحدہ کا نقشہ بدلنے لگتا اور عالمی حالات کسی دوسرے ہی رخ پر مڑنے لگتے لیکن ہم تو دوسروں کے بنائے ہوئے جال میں اس بری طرح پھنس گئے ہیں کہ   ع

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

اس وقت دنیا میں ایک خاص منصوبے کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو‘ اور ان کے بنیادی عقائد کو بالعموم اور جہاد‘ اسلامی ریاست اور اصول حکمرانی کو خصوصیت سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیز اسلامی تعلیم اور مسلمانوں کا تاریخی اور روایتی تعلیمی نظام خصوصی ہدف ہیں۔ ضرورت تھی کہ اس اسلام فوبیا کا بھرپور رد کیا جاتا اور اس کے خلاف مؤثر اور منظم آواز اٹھائی جاتی لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر خود اسلام کی تراش خراش اور ایک معذرت خواہانہ اندازِ گفتگو اختیار کیا گیا اور ایک تاریخی موقع کو ضائع کر دیا گیا۔

امریکی استعمار کی نئی رو

عالمِ انسانی کے لیے اس وقت دو مسئلے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک امریکی استعمار کی نئی رو جو سیاسی‘ عسکری‘ معاشی‘ تہذیبی اور نظریاتی طور پر دنیا پر امریکی اور مغربی نظریات‘ تصورات اور سیاسی اور عسکری بالادستی مسلط کرنے سے عبارت ہے اور جس کے بارے میں کوئی پردہ بھی نہیں رکھا جا رہا۔ امریکی صدر نے صاف کہا ہے کہ ان کی لڑائی اپنی اقدار اور مغربی جمہوریت اور سرمایہ داری کو دنیا میں پھیلانے کے لیے ہے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ایک جملے میں پوری بات یوں   ادا کی ہے جسے سائمن جنکس (Simon Jenkus)نے دی گارڈین میں (بحوالہ دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۵ئ) میں نقل کیا ہے:

لیکن ٹونی بلیر ہمیں بتاتا ہے کہ بندوق کی نالی کے ذریعے پیش کی گئی مغربی اقدار ہی  بے چارے مسلمان کو اس کے اپنے بدترین دشمن‘ یعنی خود اپنے آپ سے بچا سکتی ہیں۔

ٹونی بلیر کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

fighting not for territory but for values

اور ہنری کسنجر نے صاف لفظوں میں صدربش کو مشورہ دیا ہے کہ نائن الیون ایک تاریخی موقع ہے جس کے تحت امریکا کو دنیا پر اپنا اقتدار اس طرح مستحکم کرلینا چاہیے کہ اسے مستقبل قریب میں کوئی خطرہ نہ رہے۔ یہی وہ ہدف ہے جس کے حصول کے لیے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ پیشگی حملے‘ حکومتوں کی تبدیلی کے نظریے پیش کیے گئے اور اب تازہ ترین نئے نیوکلیر ڈاکٹرائن ہے جس کے مطابق ہر اس ملک کے نیوکلیر اثاثہ جات تباہ کیے جاسکتے ہیں جن کے بارے میں امریکا کو یہ واہمہ ہے کہ وہ اس کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں یا وہ اس کے زعم میں کسی دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں میں آسکتے ہیں۔

اس وقت امریکا کا یہ سامراجی ایجنڈا دنیا کے امن اور تمام اقوام کی آزادی اور حاکمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ان حالات میں اُمت مسلمہ کی قیادت کا فرض تھا کہ اس خطرے کو مؤثر انداز میں‘ دلیل کی قوت کے ساتھ بے نقاب کرے‘ اس کے خلاف اقوام عالم کو منظم کرے اور  حکومتی اور عوامی محاذ پر وہ حالات پیدا کرے کہ اس نئے سامراج کامقابلہ کیا جا سکے اور اس کے مقابلے میں عالمی امن کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کو مضبوط کرے‘ اس پر پانچ ملکوں کی اجارہ داری کا خاتمہ کرانے کی تحریک کو تقویت بخشے‘ بین الاقوامی قانون کی بالادستی کے لیے تحریک چلانے اور دنیا میں ایک حقیقی تکثیری نظام (pluralistic order) کے قیام کی سعی کرے جس میں تمام ممالک‘ تمام تہذیبیں‘ تمام مذاہب‘ اور تمام اقوام عزت اور آزادی کے ساتھ باہمی تعاون اور اشتراک سے زندگی گزار سکیں۔ ایران کے صدر نے اس طرف ہلکا سا اشارہ کیا لیکن جنرل پرویز مشرف اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کو ادنیٰ سی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اس بنیادی عالمی مسئلے کی طرف اقوام عالم کی توجہ دلانے اور عالمی راے عامہ کو مسخر کرنے کی کوشش کریں۔

انصاف کا فقدان

عالم انسانیت کا دوسرا بڑا مسئلہ عالمی سطح پر انصاف کا فقدان اور دولت اور اقتدار کی ایسی ناہمواریاں ہیں جن کے نتیجے میں دنیا کی آبادی کا تین چوتھائی عزت کی زندگی سے محروم ہے۔ امریکا کی آبادی دنیا کی آبادی کے ۶ فی صد سے بھی کم ہے مگر دولت کا ۲۵ فی صد اور توانائی کا ۳۰ فی صد اس کے قبضے میں ہے۔ امیرملکوں میں قائم ۵۰۰ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں‘ دنیا کی تجارت کے ۷۰ فی صد پر قابض ہیں اور ان میں ایسی کمپنیاں بھی ہیں جن میں سے ایک ایک کی دولت دنیا کے ۴۰/۵۰ ملکوں کی دولت سے زیادہ ہے۔ افریقہ کے ممالک کا حال یہ ہے کہ آج ان کی فی کس آمدنی اس سے بھی کم ہے جو ۱۹۷۰ء میں تھی‘ جب نئے معاشی عالمی نظام کی آواز بلند ہوئی۔ ان ۴۰ برسوں میں وہ ۱۹۷۰ء سے بھی خراب حالات میں ہیں۔ دنیا کے امیر ملکوں نے بین الاقوامی تجارت پر ایسے بند باندھ رکھے ہیں کہ امریکا اور یورپ کی منڈیوں تک غریب ممالک کی برآمدات کی رسائی ممکن نہیں‘ جب کہ ان کی اپنی منڈیاں ان ممالک کی چراگاہ بنی ہوئی ہیں۔

ستم ہے کہ آج دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ اسی غربت کا شکار ہے کہ اس کے رہنے والوں کو ایک ڈالر یومیہ بھی میسر نہیں ‘ جب کہ یورپ میں ہر گائے کے لیے سرکاری خزانہ سے دو ڈالر یومیہ کی سبسڈی دی جاتی ہے اور اس لیے دی جاتی ہے کہ دوسرے ممالک سے سستا دودھ‘ مکھن‘ گھی نہ منگوانا پڑے۔ امیر ممالک بیرونی امداد کے نام پر سالانہ ۵۰ ارب ڈالر دیتے ہیں‘ جب کہ اپنے ملکوں کی زراعت کو ترقی پذیر ملکوں کی زرعی مصنوعات سے بچانے کے لیے ۳۶۰ ارب ڈالر سالانہ سبسڈی دیتے ہیں اور غریب ملکوں سے آنے والی زرعی مصنوعات کا راستہ روکتے ہیں۔ دنیا میں جنگ کے کاروبار کو گرم رکھنے کے لیے سالانہ خرچ اب ایک ہزار ارب ڈالر کو چھو رہا ہے اور اس میں سے امریکا کا حصہ ۴۰فی صد سے زیادہ ہے لیکن غربت کو ختم کرنے‘ روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے وسائل فراہم کرنے کی کوئی فکر نہیں۔ جس نام نہاد دوسرے ہزاریے (millenium) کے ترقیاتی پروگرام کا آغاز پانچ سال پہلے ہوا تھا اس کا حشر یہ ہے کہ اس کے اہداف کا ایک چوتھائی بھی پورا نہیں ہوسکا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر خود امریکا نے آج تک لفظی حد تک بھی اپنی اس ذمہ داری کو قبول نہیں کیا ہے کہ اپنی قومی دولت کا ۷ئ۰ فی صد ہر سال ترقی پذیر ملکوں کی معاشی ترقی کے لیے فراہم کرے گا۔

یہ ہیں وہ بنیادی مسائل جن کی طرف اقوام متحدہ کے اس ۶۱ویں اجلاس میں غور ہونا تھا مگر اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ان کے ساتھ مسلم دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل میں فلسطینیوں کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی گئی بلکہ اُلٹا اسرائیل اور شارون کو غزہ کی پٹی سے انخلا کے ڈرامے کی بنیاد پر شاباش دی جارہی ہے۔ ہم اس سے تعلقات بحال کرنے کے لیے بے چین ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہودی لابی کے قدموں میں گرنے سے ہمیں کوئی مراعات حاصل ہوجائیں گی۔

کشمیر کا مسئلہ اُمت مسلمہ کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس کو بھی جس کمزور انداز میں اٹھایا گیا اور جہاد آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کی بھارتی کوشش کا کوئی مؤثر جواب تک نہیں دیا گیا بلکہ ہر طرح کی دہشت گردی ختم کرنے کا وعدہ کر ڈالا گیا جو تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑنے کے مترادف ہے۔ بھارت کے وزیراعظم سے ملاقات کی بڑی دھوم تھی مگر چار گھنٹے کی ملاقات میں کیا حاصل ہو۱___  وہی ڈھاک کے تین پات! وہی سرحدوں میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان! وہی سرحدپار دہشت گردی کی رٹ! وہی مزید مذاکرات کی نوید!

شیشان کا مسئلہ بھی کسی طرح کم اہم نہیں۔ اسی طرح فلپائن اور تھائی لینڈ کے مسلمانوں کے مسائل ہیں‘ لیکن کسی مسلمان حکمران کو ان مسائل کو اٹھانے اور ان علاقوں پر بیرونی قبضے‘ حکومتی ظلم و تشدد‘ حق خود ارادیت کی تحریکات کو کچلنے اور انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کرنے کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔

صدر بش سے تین توقعات

جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ تو کیا تھا مسلمان اُمت کے مقدمہ کو پیش کرنے کا لیکن وہ صرف صدر بش کے ایجنڈے پر عمل کرتے رہے اور ان کی ساری توقعات صدر بش کے ذریعے  کچھ حاصل کرنے کی تھیں مگر عملاً صدربش نے سفید جھنڈی دکھا دی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔ جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے صدربش سے تین توقعات کا اظہار کیا تھا‘ یعنی:

۱-            بھارت کو جو اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور خصوصیت سے ایٹمی ٹکنالوجی کے میدان میں جو معاہدہ کیا گیا ہے اور جو تازہ ترین ٹکنالوجی نئے معاہدے کے تحت دی جارہی ہے‘ پاکستان کو بھی   کم ازکم وہی سہولت دی جائے اور مساوی معاملہ کیا جائے۔ امریکا نے صاف انکار کردیا ہے کہ بھارت کا معاملہ خاص ہے‘ پاکستان کو اشک شوئی کے لیے کچھ پرانا اسلحہ دیا جاسکتا ہے مگر جو تعاون نیوکلیئر ٹکنالوجی کے سلسلے میں کیا جا تا رہا ہے اس کو پاکستان کو دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

۲-            دوسری درخواست صدر بش سے یہ کی گئی تھی کہ کشمیر کے معاملے میں کچھ پیش رفت کرانے میں مدد دیں اور خاص طور پر بھارتی فوج میں کچھ کمی اور کم از کم دو چھوٹے سے علاقوں سے فوج کی واپسی کے لیے کچھ دبائو بھارت پر ڈالا جائے۔ لیکن بھارت نے صاف انکار کر دیا اور اس کے برعکس من موہن سنگھ نے صدر بش سے کہا کہ پاکستان سے اب بھی سرحدی دراندازیاں ہو رہی ہیں اور ان کو رکوایا جائے اور ہمارے جرنیل صاحب بغلیں بجاتے رہ گئے۔

۳-            تیسری درخواست فلسطین کے پیش پا افتادہ روڈمیپ کی بحالی کے بارے میں تھی۔ لیکن یہاں بھی صدربش نے کوئی گھاس نہ ڈالی بلکہ محض غزہ کی پٹی سے فوجوں کی جزوی اور نام نہاد واپسی ہی کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیا اور سارا زور غزہ اور غرب اُردن کے علاقے میں حماس کا زور توڑنے کے مطالبات پر صرف کر ڈالا۔

یہ ہیں ہماری خارجہ پالیسی کی فتوحات! سب سے بڑھ کر ذلت اور فوجی غیرت کے منافی جنرل صاحب کا آخری دورہ تھا جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سربراہ مملکت فلوریڈا میں امریکی فوج کے ایک علاقائی نظام سنٹرل کمانڈ (Centcom ) کے دفتر میں بہ نفس نفیس اس کے کمانڈر ابوزید کے دربار میں حاضری دینے کے لیے گیا۔ جنرل پرویز مشرف چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے بھی سنٹرل کمانڈر کے کمانڈر سے اونچا درجہ رکھتے ہیں چہ جائیکہ صدرمملکت کی حیثیت سے لیکن قومی وقار اور ہر protocol کے تمام آداب کو بالاے طاق رکھ کر جرنیل صاحب سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر سے ملنے نیویارک سے فلوریڈا گئے اور دربار میں حاضری دینے کو اپنے لیے وجہِ عزت و افتخار قرار دیا۔ اس سے زیادہ قومی عزت کی پامالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا یہ دورہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ خدا کرے کہ یہ اس سلسلے کا آخری باب ہو۔

قومی احتساب کی ضرورت

بات ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس امر کی نشان دہی بھی کر دی جائے کہ یہ ساری ناکامیاں‘ رسوائیاں اور ہزیمتیں اس لیے ہمارا مقدر ہوگئی ہیں کہ ہمارے ملک میں فیصلہ کرنے کا سارا اختیار فردِ واحد کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ سارے ادارے عملاً معطل ہیں اور مشاورت اور اجتماعی فیصلہ سازی کا کوئی نظام موجود نہیں اور ایک شخص قرونِ وسطیٰ کے بادشاہوں کی طرح I am the state کے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔ کابینہ‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عوام سب غیرمتعلق ہوگئے ہیں۔ قومی احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتے جب تک اس بنیادی مسئلے کا فوری اور مؤثر حل نہیں کیا جاتا۔ یہ وقت کی اوّلین ضرورت ہے اور اصلاح احوال کے لیے پہلی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ہر دوسرے معاملے (consideration) سے بلند ہوکر اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ افراد جو آج حکومتی پارٹی سے منسلک ہیں‘ ان کو بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ ملک کو کس سمت میں دھکیل رہے ہیں اور خود اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو کس عذاب میں مبتلا کرنے میں شریک ہیں۔ ہم سب کو ایک دن اللہ کو جواب دینا ہے کہ اس نے جو امانت پاکستان کی شکل میں ہمارے سپرد کی تھی ‘ہم نے اس سے کیا معاملہ کیا۔ تاریخ تو اپنا فیصلہ دے گی ہی‘ مگر ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آخرت کے نقطۂ نظر سے بھی اپنا احتساب کرنا چاہیے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ برحق پر سنجیدگی سے عمل کرنا چاہیے کہ حاسبوا قبل ان تحاسبوا ، ’’خود اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔

صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے ڈھائی سال کے صبرآزما مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے اسلامی اصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے کی مساعی کے باب میں مرکزی حکومت کے معاندانہ رویے اور اپوزیشن جماعتوں کے عدمِ تعاون سے تنگ آکر ۱۱جولائی ۲۰۰۵ء کو اسمبلی میں جیسے ہی حِسبہ بل پیش کیا‘ یوں محسوس ہوا  جیسے پورے ملک میں ایک بھونچال سا آگیا اور ایسا معلوم ہوا کہ بھڑوں کے چھتے سے سارے سورما نکل کر بیک وقت حملہ آور ہوگئے ہیں۔

مرکزی حکومت کے کارپردازوں سے لے کر صوبے کے گورنر تک‘ جن کا عہدہ ان کو پارٹی وفاداری سے بلند ہوکر صرف دستوری گورنر کا کردار ادا کرنے کا پابند کرتا ہے‘ حِسبہ بل کی مذمت میں یک زبان و یک جان ہوگئے ہیں۔ سرکاری اہل کار اور لبرل سیکولر نظام کے علم بردار سب بڑی دیدہ دلیری سے اسے دستور کے خلاف‘ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات سے متصادم‘ حقوقِ انسانی پر ضرب کاری‘ متوازی نظام کے قیام کا ذریعہ اور فسطائیت اور طالبانائیزیشن کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے سرکاری میڈیا سے لے کر تمام نام نہاد لبرل اور سیکولر قوتیں بشمول انسانی حقوق کے دفاع کی دعوے دار این جی اوز‘ اس کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں اور عالمی میڈیا بھی انھی کی لَے میں لَے ملا رہا ہے۔

الحمدللہ صوبہ سرحد کے عوام اور ان کی منتخب مجلس عمل کی حکومت نے اس ہمہ جہتی مخالفانہ یلغار کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور اپنے دستوری حق اور دینی ذمہ داری کو جرأت اور حکمت کے ساتھ ادا کیا۔ اسمبلی نے چار دن کی طویل بحث کے بعد ۱۴ جولائی کو ۳۴ کے مقابلے میں ۶۸ووٹوں کی دوتہائی اکثریت سے حِسبہ بل کو منظورکرلیا ہے اور دستور کے مطابق گورنر کو توثیق کے لیے بھیج دیا ہے جو پابند ہیں کہ ۳۰دن کے اندر اندر اس کی توثیق کر دیں یا اپنے اعتراضات کے ساتھ اسمبلی کو واپس کر دیں۔ اسمبلی مجاز ہے کہ بل پر دوبارہ غور کرنے کے بعد جس شکل میں چاہے اسے منظور کرکے دوبارہ گورنر کو بھجوا دے اور اس صورت میں گورنر کو بل پر اپنے دستخط ثبت کرنا ہوں گے۔

مرکزی حکومت کے نمایندوں نے اسمبلی کو تحلیل کرنے اور صوبے کی حکومت کو برطرف کرنے کی دھمکیاں دے کر سمجھا تھا کہ مجلس عمل کی حکومت خوفزدہ ہوجائے گی لیکن مجلس عمل نے بجاطور پر مرکزی وزرا اور گورنر کی گیدڑ بھبھکیوں کو کوئی وقعت نہ دی اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے نقطۂ نظر کے بیان کا پورا موقع دے کر بل کو خالص جمہوری انداز میں منظور کیا‘ جو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کے سرکاری بلوں کو بل ڈوز کرنے کی روش سے بڑی مختلف مثال تھی۔ صوبائی حکومت نے بل کو دستور کے مطابق منظور کر کے بال کو مرکزی حکومت اور اس کے نمایندہ گورنر کی کورٹ میں پھینک دیا۔ اب مرکزی حکومت نے نہایت عجلت کے ساتھ ۲۴ گھنٹے کے غوروفکر کی زحمت بھی گوارا کیے بغیر دستور کی دفعہ ۱۸۶ کے تحت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ اس ’’قانونی مسئلہ‘‘ پر اپنی رائے دے۔ اس بارے میں اس نے آٹھ سوال اٹھائے ہیں۔ دستور کے تحت صدر کا یہ حق ہے کہ کسی بھی قانونی سوال کو عدالت عالیہ کے مشورے کے لیے بھیج دے لیکن اس کی حیثیت مجوزہ قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کے مترادف نہیں اس لیے کہ ابھی یہ بل اسمبلی نے صرف منظور کیا ہے اور اسے قانون کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔

حِسبہ بل پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کے مضمرات بڑے سنگین ہیں۔ ان میں سے کچھ کی طرف ہم اس مضمون میں اشارہ کریں گے۔

اس وقت مرکزی حکومت اور کچھ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل پر جس طرح حملہ کیا ہے اور جن بحثوں کو وہ آگے بڑھا رہے ہیں‘ ان سے جو مرکزی نقطۂ نظر سامنے آتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اصل ہدف حِسبہ بل نہیں‘ اسلام اور شریعت اسلامی کا نفاذ ہے۔ اسلامی نظام کے قیام کے خالی خولی اعلانات تو بار بار ہوئے ہیں لیکن حِسبہ بل ایک ایسے حقیقی تنفیذی ادارے کے قیام کی کوشش ہے جس کے ذریعے کم از کم ایک صوبے میں نفاذ شریعت کے عمل کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ہماری نگاہ میں تو یہ بل اسی منزل کی طرف ایک ابتدائی لیکن عملی اہمیت کا حامل اقدام ہے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کی    نگاہ میں یہ بڑی خطرناک پہلکاری (initiative) ہے کیوں کہ اگر مجلس عمل کی حکومت نفاذ شریعت کی طرف مؤثر انداز میں عملی پیش قدمی شروع کردیتی ہے تو ان کی ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ کا سارا قلعہ دھڑام سے زمین پر آگرے گا۔ اب تو یہ بات مغربی پریس نے برملا کہہ دی ہے کہ enlightened moderation (روشن خیال اعتدال پسندی) کی اصطلاح امریکا کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جنرل پرویز مشرف کے کان میں پھونکی تھی اور مقصد مسلمانوں کو اعتدال پسند اور انتہا پسند اور لبرل اور بنیاد پرست گروہوں میں بانٹنا تھا۔ اسلام اور سیکولرزم کے درمیان جنگ اب کھل کر سامنے آگئی ہے اور ساری سیکولر قوتیں یک جان و یک زبان ہوگئی ہیں۔ اب ہرجماعت اور ہرفرد اپنے اصل رنگ میں قوم کے سامنے آگیا ہے۔

حِسبہ بل کی حقیقت اور اس پر اعتراضات کی قدروقیمت پر کسی گفتگو سے قبل چند حقائق کا مختصر اعادہ ضروری ہے۔

مرکزی حکومت کا غیر جمھوری رویہ

سب سے پہلی قابلِ توجہ بات مرکزی حکومت کا صوبہ سرحد کی حکومت اور صوبے کے اصلاحی پروگراموں کے بارے میں معاندانہ رویہ ہے جو روز بروز مزید نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ صوبے کے معاملات میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے اور مرکز اور صوبے کے درمیان خوش گوار تعلقات اور ہم آہنگی پر بھی ضرب کاری کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرکز‘ صوبے کے گورنر کے ادارے کو صوبے کی حکومت کو ہراساں کرنے کے لیے بڑی عاقبت نااندیشی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے۔ مرکزی حکومت حساس قبائلی علاقوں میں امریکا کی خوش نودی اور حکم برآوری کے لیے فوج کشی میں مصروف ہے جس میں علاقے کے کورکمانڈر کے اعتراف کے مطابق ۲۵۱ فوجی کام آچکے ہیں اور ۵۵۰ زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے کی انتظامی مشینری پر مرکز اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہے اور اس کا ثبوت صوبائی چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کا صوبے کی حکومت کے مشورے کے بغیر تبادلہ اور نئی ٹیم کا تقرر ہے۔ این ایف سی ایوارڈ نہ دے کر‘ صوبے کی مالیاتی ناکہ بندی بھی کی ہوئی ہے۔ بجلی کی رائلٹی سے لے کر طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں تک کے موقع پر صوبے کو امدادی کارروائیوں کے لیے اس کے مبنی برحق وسائل سے محروم رکھنا بھی اس میں شامل ہے۔

مرکز کا یہ معاندانہ رویہ دستور کی کھلی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے فضا کو مکدر کرنے کا ذریعہ ہے اور صوبے کی حکومت اپنے محدود وسائل اور دستوری‘ قانونی اور انتظامی تحدیدات کے باوجود اپنے نظریاتی‘ معاشی‘ اخلاقی اور اصلاحی پروگرام پر جو عمل کرنا چاہتی ہے‘ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کش مکش حِسبہ بل کے سلسلے میں اس مقام پرآگئی ہے جس کے بڑے دُوررس نتائج ہوسکتے ہیں۔ صوبے کی جو اپوزیشن جماعتیں اپنے مخصوص سیاسی یا جذباتی تعصبات کی وجہ سے مرکز میں برسرِاقتدار عناصر کے اس کھیل کو نہیں سمجھ رہی ہیں اور ان کے جال میں پھنس گئی ہیں‘وہ بڑی بھیانک غلطی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔

صوبائی حکومت کا معقول رویہ

دوسری طرف صوبے کی حکومت پورے معاملے کو بہت صبروتحمل اور بردباری کے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ صوبے کی شریعت کونسل نے جس میں تمام مکاتب فکر (بشمول اہل تشیع) کے علما اوردانش ور شریک تھے‘ نفاذ شریعت کے لیے جو نقشۂ راہ مرتب کیا تھا‘ اس میں شریعت بل‘ حِسبہ بل‘ تعلیمی اصلاحات‘ معاشی اصلاحات اور سماجی اور معاشرتی اصلاحات کا ایک جامع پروگرام تھا۔ یہ کام صوبے کی شریعت کونسل نے حکومت کے قیام کے پہلے سال کے اندر اندر کرلیا تھا۔ شریعت بل اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا تھا اور بجٹ سازی‘ تعلیمی پالیسی‘ بنک کاری کے نظام کی تبدیلی اور چند دوسرے دائروں میں ضروری اصلاحات کے ساتھ حِسبہ بل جو دراصل عام آدمی کے لیے انصاف کے حصول اور سیاسی‘ معاشی‘ انتظامی اور دوسرے میدانوں میں رائج ظلم و استحصال کے تدارک کی ایک جامع کوشش ہے‘ متحدہ مجلس عمل کے پروگرام کا اہم حصہ تھا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ اس پر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے پیدا کیا جائے اور اس وجہ سے اس پر ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے متفق علیہ راہ نکالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن جب یہ واضح ہوگیا کہ دوسری طرف سے تعاون کی راہوں کو مسدود کر دیا گیا ہے تو پھر اس نے سارے خطرات اور مشکلات کو جانتے بوجھتے ہوئے‘ محض اللہ اور عوام سے اپنے عہد کو ایفا کرنے کے لیے اسمبلی کے ذریعے اس قانون کو بنانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا تہیہ کرلیا۔

حِسبہ بل کا مسودہ ابتدا ہی میں گورنر کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ اس پر افہام و تفہیم کا عمل شروع ہو۔ گورنر نے بات چیت کرنے کے بجاے اسے نو تشکیل شدہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا جسے خاص سیاسی مقاصدکے لیے تشکیل دیا گیا تھا اور جس پر اس کے قیام کے وقت ہی تمام اہم دینی عناصر نے شدید عدم اطمینان کا اظہار کر دیا تھا۔ کونسل دستور کی دفعہ (۲) ۲۳۰ کے تحت پابند ہے کہ اگر صدر‘ گورنر‘ مرکزی یا صوبائی اسمبلی اسے کوئی مسئلہ اظہار راے کے لیے بھیجتی ہے تو وہ ۱۵ دن کے اندر اندر اس پر اپنی رائے دے۔ گورنر سرحد نے کونسل کو حِسبہ بل ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو بھیجا ہے اور کونسل نے ۱۱ مہینے کے بعد ۴ستمبر ۲۰۰۴ء کو گورنر سرحد اور وزیراعلیٰ سرحد کو اپنی رائے بھیجی‘ اور جیساکہ ہم ثابت کریں گے کہ اس میں ایک نکتہ بھی ان terms of reference کے مطابق نہیں تھا جو دستور کے تحت اس کونسل کے لیے مقرر کیا گیا ہے بلکہ ایک سابق جج صاحب نے اپنی ساری قانونی مہارت کے ذریعے اِدھر اُدھر کی باتوں کو نمبروار داخل دفترکرنے کا کارنامہ سرانجام دیا اور کونسل نے اسے کسی تبدیلی کے بغیر آگے بڑھا دیا۔

صوبہ سرحد کی حکومت نے مرکز میں برسرِاقتدار جماعت کے ذمہ داروں سے بات چیت کی اور ۵جولائی کی نشست میں اس کی تین اہم ترین شخصیات تک نے جن میں حکمران پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین شامل تھے‘ اپنے اس استعجاب کا اظہار کیا کہ اس مجوزہ بل کی اتنی مخالفت کیوں ہو رہی ہے حالانکہ اس میں دو چار چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ کوئی بات قابلِ گرفت نظر نہیں آتی۔ بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ خرابی آپ کے بل میں نہیں‘ آپ کے انداز اظہار (failure to communicate) میں ہے۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیا اور کہا کہ اگر کوئی معقول تجویز ہے تو آیئے‘ اس پر بیٹھ کر بات کرلیں لیکن دونوں محاذوں پر بالآخر مایوسی ہوئی اور غالباً اس کی وجہ دلیل کی بنیاد پر اختلاف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جو امریکا اور مغربی اقوام کے اسلام کو ہوّا اور اصل خطرہ بناکر پیش کرنے کی مہم کا اثر ہے اور جس کا مظہر یہ مضحکہ خیز واویلا ہے کہ صوبہ سرحد ’’طالبانائیزیشن‘‘ کی زد میں ہے۔ حالانکہ جیساکہ ہم ثابت کریں گے اس بل کا کوئی تعلق افغانستان کے تجربات سے نہیں بلکہ اس کا حرف حرف دستور کے مطابق اور مسلمانوں کی ۱۴۰۰ سالہ تاریخ سے ہم آہنگ ہے اور پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کمیٹی کی سفارشات‘ دستور ۱۹۷۳ء کے ریاست کے لیے رہنما اصول اور خود اسلامی نظریاتی کونسل کی اس مکمل رپورٹ کی سفارشات کے مطابق ہے جو ۱۹۹۶ء میں اس نے پیش کی تھی۔ آج جن باتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان میں سے ہر ایک ملک کے قانونی نظام کا حصہ ہے اور ایک نہیں دسیوں قوانین میں وہی تمام دفعات من و عن موجود ہیں‘ مگر بھلا ہو تعصب کا کہ    ؎

تمھاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی

وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی

حِسبہ کی فکری اھمیت اور تاریخی روایت

آیئے سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ حِسبہ کا یہ ادارہ ہے کیا؟

ہر قوم کے لیے زندگی کا اجتماعی نظام کسی نہ کسی اصول اور نظریے پر مبنی ہوتا ہے۔ ایک تصور یہ ہے کہ مذہب ایک افیون ہے اور انسان کی زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی اخلاقی ضابطے‘ کسی الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کے کسی نظام کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کچھ لوگ بضد ہیں کہ مذہب سے رشتہ باقی رہنا چاہیے تو پھر مذہب کا دائرہ صرف فرد کی ذاتی اور نجی زندگی اور زیادہ سے زیادہ مسجد اور گھر تک محدود ہونا چاہیے۔ اجتماعی زندگی کا نظام و نقشہ دنیوی علوم اور تجربات‘ ذاتی خواہشات اور مفادات اور قومی روایات اور تصورات کے مطابق بننا چاہیے۔ اگر ہمارا نظریۂ حیات یہی ہے تو پھر اس میں حِسبہ کے اس تصور کی کوئی گنجایش نہیں جو اسلام نے پیش کیا ہے اور جو مسلمانوں کی تاریخ کا تابندہ ادارہ اور روایت رہا ہے۔ لیکن اگر ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ فرد اور جماعت‘ ہر کوئی ذاتی اور اجتماعی‘ ہر اعتبار سے اللہ کی بندگی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کی پیروی میں اپنی دنیوی اور اُخروی نجات دیکھتا ہے تو پھر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان حدود کا پابند اور ان اقدار کا حامل ہونا چاہیے جو اسلامی زندگی کا طرۂ امتیاز ہیں۔ پھر انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اس فکر میں گزرتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت اور حقوق العباد ادا کرنے کی راہ میں گامزن ہے یا ان سے غفلت برت کر اطاعت الٰہی سے انحراف اور بغاوت کا مرتکب ہورہا ہے۔ پھر ہرلمحہ وہ اپنا احتساب کرتا ہے اور ہر قدم شعور اور منزلِ مطلوب کی طرف پیش قدمی کے جذبے سے اٹھاتا ہے۔ پھر وہ خود بھی نیکیوں کے حصول اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے گردونواح میں بھی معروف کے فروغ اور منکرسے نجات کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ حِسبہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسی احساس کو مرتب اور منظم کرکے اداراتی حیثیت دینے کا نام ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور روزے کو بھی احتساب کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کی ہے اور پوری زندگی کھلی آنکھوں اور جائزہ نفس کے ساتھ گزارنے کا حکم دیا ہے (حاسبوا قبل ان تحاسبوا) ۔ گویااپنا جائزہ خود لے لو‘ اپنا حساب کتاب خود ہرلمحہ کرتے رہو قبل اس کے کہ تمھارا حساب لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان مرد اور عورت اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام___ اُمت بحیثیت مجموعی اور اسلامی ریاست جو مسلمانوں کی اجتماعی قوت اور امامت کی مظہر ہے‘ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں۔ اہلِ ایمان اور کفار‘ منافقین اور فساق میں فرق ہی معروف اور منکر کے بارے میں ان کے رویے کا ہے۔ قرآن دونوں راستوں کو بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیتا ہے:

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍم یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْط نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبۃ ۹:۶۷)

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انھیں بھلا دیا۔ یقینا یہ منافق ہی فاسق ہیں۔

اور اہلِ ایمان کا حال یہ ہے کہ:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍم  یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ

اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o  (التوبۃ ۹:۷۱)

مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔

اور یہ ذمہ داری جس طرح ہر فرد___ مسلمان مرد اور عورت کی ہے اسی طرح یہ ذمہ داری پوری اُمت اور جب اہلِ ایمان کو زمین پر اقتدار حاصل ہو تو حکومت اور اس کی اجتماعی قوت کی ہے۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اسی سرگرمی‘ کش مکش اور جدوجہد کی طرف ہمیں پکارا گیا ہے:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌیَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)

تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں‘ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔

اور جب انھیں اقتدار اور قوت میسر آتی ہے تو پھر وہ منظم اور ریاستی آہنگ کے ساتھ یہی خدمت انجام دیتے ہیں:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo (حج ۲۲:۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میںاقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

نظام حِسبہ اسی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کی ایک منظم کوشش کا نام ہے۔ یہ انتظام دور رسالت مآبؐ سے شروع ہو کر اسلامی تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس فرض کو انجام دیا اور اُمت کو مختلف انداز میں اور اپنے نمایندوں کو مختلف میدانوں میں اسی کام کو انجام دینے کے لیے مامور فرمایا۔ دور خلافت راشدہ میں ہرخلیفہ نے اسے انجام دیا‘ ہر ولایت کا گورنر اس پر مامور تھا اور پھر جیسے جیسے زندگی کے کاروبار نے وسعت اور تنوع اختیار کیا تو مختلف دائرہ کار کے افراد اور اداروں کا قیام عمل میں آیا۔

پہلی ہی صدی میں بازاروں میںنگراں (عمال السوق) مقرر ہوئے۔ قاضی اور کوتوال (شرطیٰ) کے ادارے وجود میں آئے اور پھر باقاعدہ حِسبہ کا نظام قائم ہوا جو ۱۳۰۰سال تک پوری اسلامی قلمرو میں مختلف شکلوں میں اور مختلف ناموں سے کارفرما رہا۔ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں اس کے اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی ہر پہلو پر کلام کیا ہے۔ الماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں ایک پورا باب اس نظام پر قائم کیا ہے اور سیاسی‘ معاشی اور انتظامی پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔  ابن خلدون نے مقدمے میں اسے ایک بنیادی اجتماعی ادارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ابن تیمیہ  نے الرسالہ فی الحسبۃ مرتب کیا جس میں اس کا تصوراتی ہیولہ (conceptual framework) مرتب کیا ہے۔ ابن حزم نے الفصل فی الملل میں اس پر مبسوط بحث کی ہے۔ غرض ہر دور میں اور ہر علاقے میں عملاً اس ادارے کی کارفرمائی دیکھی جاسکتی ہے اور اہلِ علم نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس پر بحثیں کی ہیں۔ بنواُمیہ‘ بنوعباس‘ دولت عثمانیہ‘ صفوی دور‘ تغلق سلطنت اور خصوصیت سے مغلیہ دور میں اورنگ زیب عالم گیر کی حکومت میں‘ حِسبہ کا ادارہ موجود رہا ہے۔ مصر‘ شام‘ ایران‘ بلادِ غرب‘ ماوراء النہر کے علاقے‘ ہر جگہ یہ ادارہ کسی نہ کسی شکل میں اور ناموں کی کچھ تبدیلی کے ساتھ تھا___ آج یہ متحدہ مجلس عمل کی اختراع نہیں۔ یہ ہمارے فکری نظام اور ہماری تاریخی روایت کا حصہ ہے اور اپنے حالات کے مطابق ہم اس نظام اور ادارے کے احیا کی ایک حقیر کوشش کر رہے ہیں۔

اعتراضات کا جائزہ

آیئے اب ان اعتراضات کا جائزہ لیں جو اس توقع اور یقین کے ساتھ شب و روز دھواں دھار انداز میں پیش کیے جا رہے ہیں کہ غلط سے غلط بات اگر بار بار کہی جائے تو لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ ہٹلر کے وزیر گوئبلز کی حکمت عملی ہے جس پر حِسبہ بل کے معترضین عمل پیرا ہیں۔

  • دستور کی خلاف ورزی:پہلی بات یہ کہی جارہی ہے کہ یہ دستور کے خلاف ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ شاید کوئی اور نہ ہوسکے۔ دستور کا دیباچہ جو قرارداد مقاصد پر مشتمل ہے اور جو اب دستور کی دفعہ ۲(الف) کا درجہ بھی رکھتا ہے‘ صاف لفظوں میں ریاست کی یہ ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ:

جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہاے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق‘جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘ ترتیب دے سکیں۔

اسی بات کا اعادہ مزید وضاحت کے ساتھ دستور کی دفعہ ۳۱ میں کیا گیا ہے۔ دفعہ ۳۷ (جی) میں اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کے سدباب کا ہدف دیا گیا ہے اور دفعہ ۳۸ (ایف) میں ربا کے جتنی جلد ممکن ہو مکمل خاتمے (elimination) کو پالیسی کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔

دفعہ ۲۲۷ سے ۲۳۰ تک (اسلامی دفعات )بھی اجتماعی زندگی کو مکمل طور پر قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ حِسبہ بل دستور کے انھی اہداف کو حاصل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔

کہا گیا ہے کہ یہ بنیادی حقوق سے متصادم ہے اور دستور کی دفعہ ۱۹ اور ۲۰ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر ان دونوں دفعات میں جہاں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی وہیں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ:

اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت‘ سلامتی یا دفاع‘ غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات‘ امن عامہ‘ تہذیب یا اخلاق کے مفاد سے مشروط ہے۔

حِسبہ بل میں انھی اقدار کا تحفظ کیا گیا ہے جن کا ذکر دستور کی اس دفعہ میں ہے۔ اسی طرح دفعہ ۲۰ میںبھی: قانون‘ امن عامہ اور اخلاقیات سے مشروط ہونے کی وضاحت موجود ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے جواب (ستمبر۲۰۰۴ء )میں ایک دور کی کوڑی یہ بھی لائی گئی ہے کہ یہ دستور کی دفعہ ۱۷۵ (سی)سے متصادم ہے حالانکہ اس دفعہ میں عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کی بات کی گئی ہے (جس پر آج تک عمل نہیں ہوا)۔ حِسبہ کا نظام بنیادی طور پر ایک انتظامی ادارہ ہے‘ جو پوری انتظامی مشینری بشمول عدلیہ کے تعاون سے کام کرے گا اور عدلیہ کا پورا نظام اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگا دفعہ ۲ (۳)۔

  • طریق کار پر اعتراضات: حِسبہ کے ادارے کے طریق کار کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔ حِسبہ بل کے تحت یہ ادارہ چار طریقوں سے کام کرے گا:

۱- تعلیم و تلقین

۲- انتظامی اعتبار سے نگرانی اور حکومت کی مشینری کے ذریعے بشمول پولیس اور انتظامی محکمے متعلقہ قوانین کے تحت اور متعلقہ اداروں کے ذریعے اقدام کرنا۔

۳- لوگوں کی شکایت پر یا ازخود تفتیش اور اس کے نتیجے میں خرابی کے تعین اور اس کی اصلاح کی کوشش ___ بذریعہ قانون۔

۴- عدلیہ اور صوبائی اسمبلی کے سوا حکومتی مشینری پر نگاہ‘ اور اختیارات کے غلط استعمال یا حق دار کو حق نہ ملنے کی صورت میں حق دار کی داد رسی ___ جس کا طریقہ متعلقہ مجاز ادارے کو اس کی غلطی پر متنبہ کرنا ہے۔ یہ خود نافذ نہیں کرسکتا بلکہ قوم کے اجتماعی ضمیر کی حیثیت سے خرابیوں پر گرفت اور اصلاح کا کام ملکی قوانین کے مطابق انجام دے گا یا انجام دیے جانے کی ہدایات جاری کرے گا‘ جو دنیا بھر میں محتسب یا انتظامی ٹریبونلوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ صوبائی حِسبہ کا نظام دستور کے تحت خصوصی طور پر صرف (exclusively) صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔ دستور کی فیڈرل لسٹ میں صرف  وفاقی محتسب کا ذکر ہے۔ مشترک لسٹ (concurrent list)میں محتسب کے ادارے کا ذکر موجود نہیں۔ اس لیے یہ صوبے کا خصوصی دائرہ اختیار (exclusive jurisdiction) ہے اور اس میں مرکز کی مداخلت صوبائی خودمختاری پر ایک ضرب کاری ہے جس کے بڑے دُوررس اثرات ہوسکتے ہیں۔

  • نجی زندگی میں مداخلت: یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ افراد کی نجی زندگی (privacy ) میں مداخلت ہوگی۔ لیکن حِسبہ بل کا مطالعہ کرلیجیے تمام امور کا تعلق اجتماعی زندگی اور حقوق الناس سے ہے۔ اسلام نے افراد کی نجی زندگی اور خاندان اور گھر کے تقدس کا حکم دیا ہے اور یہ بنیادی اسلامی اقدار میں سے ہے۔ حِسبہ کا نظام اس نجی زندگی اور تقدس کا محافظ ہوگا‘ اسے مجروح کرنے والا نہیں۔ بلاشبہہ اجتماعی برائیوں کی اصلاح اور اچھی اخلاقی اقدار کی ترویج اس کی ذمہ داری ہوگی لیکن اس بل کا اصل پیغام یہ ہے کہ بنیادی حقوق کی حفاظت ہو‘ مظلوموں کو ان کا حق مل سکے‘ عورتوں اور بچوں پر زیادتی نہ ہو اور سب سے بڑھ کر ہر انسان کو جہاں وہ ہے‘ وہیں بہ سہولت اور جلد انصاف مل سکے۔ اسی لیے ضلع اور تحصیل کی سطح پر خرابیوں کے ازالے کا انتظام کیا جا رہا ہے اور مقدمہ بازی کی جگہ مصالحت اور جرگے کے طریقے کو فوقیت دی جارہی ہے۔ محتسب کی خصوصی ذمہ داریوں میں یہ امور شامل ہیں:

                ۱-            پبلک مقامات پر اسلام کی اخلاقی اقدار کی پابندی کروانا۔

                ۲-            تبذیر یا اسراف کی حوصلہ شکنی‘ خصوصاً شادیوں اور اس طرح کی دیگر خاندانی تقریبات کے موقع پر۔

                ۳-            جہیز دینے میں اسلامی حدود کی پابندی کروانا۔

                ۴-            گداگری کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۵-            افطار اور تراویح کے وقت اسلامی شعائر کے احترام اور ادب وآداب کی پابندی کروانا۔

                ۶-            عیدین کی نمازوں کے وقت عیدگاہوں یا ایسی مساجد کے آس پاس جہاں عیدین اور جمعہ کی نماز ہو رہی ہو‘ کھیل تماشے اور تجارتی لین دین کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۷-            جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی ادایگی اور انتظام میں غفلت کا سدباب کروانا۔

                ۸-            کم عمر بچوں کو ملازم رکھنے کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۹-            غیرمتنازعہ حقوق کی ادایگی میں تاخیر کو روکنا اور مناسب داد رسی کرنا۔

                ۱۰-         جانوروں پر ظلم روکنا۔

                ۱۱-         مساجد کی دیکھ بھال میں غفلت کا سدباب کروانا۔

                ۱۲-         اذان‘ فرض نمازوں کے اوقات اور اسلامی شعائر کے احترام و آداب کی پابندی کروانا۔

                ۱۳-         لائوڈ اسپیکر کے غلط استعمال اور مساجد میں فرقہ ورانہ تقاریر سے روکنا۔

                ۱۴-         غیر اسلامی معاشرتی رسم و رواج کی حوصلہ شکنی کرنا۔

                ۱۵-         غیرشرعی تعویذ نویسی‘ گنڈے‘ دست شناسی اور جادوگری کا سدباب کرنا۔

                ۱۶-         اقلیتی حقوق کا تحفظ خصوصاً ان کے مذہبی مقامات کا اور ان مقامات کا جہاں مذہبی رسومات ادا کی جا رہی ہوں‘ تقدس ملحوظ رکھنا۔

                ۱۷-         غیر اسلامی رسومات جن سے خواتین کے حقوق متاثر ہوں خصوصاً غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اقدام اٹھانا‘ میراث میں خواتین کو محروم رکھنے کا سدباب‘ رسم سورہ کا تدارک کرنا اور خواتین کے شرعی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا۔

                ۱۸-         ناپ تول کی نگرانی اور ملاوٹ کا تدارک کرنا۔

                ۱۹-         مصنوعی گرانی کا سدباب کرنا۔

                ۲۰-         سرکاری محکمہ جات میں رشوت ستانی کا تدارک کرنا۔

اگر ان اصلاحات پر قومی سطح پر عمل شروع ہو جائے تو اس سے انسانی حقوق کی حفاظت ہوگی یا ان کی پامالی___ اور معاشرے میں ظلم اور فساد میں کمی ہوگی یا اضافہ؟

  • طالبانائزیشن کا خدشہ: ایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ کوئی طالبانائزیشن نوعیت کی چیز ہے۔ یہاں طالبان کے دور کے حسن و قبح پر بحث مقصود نہیں۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ طالبان کے دور سے بہت پہلے کی تجاویز ہیں۔ ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد کا ہم نے ذکر کیا۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں پیش کردہ ناظم الدین کمیٹی کی رپورٹ کا مطالعہ کیجیے۔ وہ ۱۹۵۳ء میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادارے کے قیام کی سفارش کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں   باب دوم ریاست کے رہنما اصولوں کے بارے میں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:

۲- ریاستی پالیسی کے راہنما اصول درج ذیل ہوں گے:

(۱) ریاست اپنی سرگرمیوں اور پالیسیوں میں قرارداد مقاصد میں بیان کردہ اصولوں سے رہنمائی لے گی۔

(۲) حکومتی سرگرمیوں کے مختلف دائروں میں اقدامات خصوصاً وہ جو ذیل میں درج کیے  گئے ہیں‘ کیے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر قرآن پاک اور سنت کے مطابق مرتب کرسکیں۔

(ا) ان کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ سمجھیں کہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا کیا مطلب ہے‘ اور مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کی تدریس کو لازمی کیا جائے گا۔

(ب) شراب نوشی‘ جوے اور قحبہ گری کی ان کی تمام مختلف شکلوں میں ممانعت کی جائے گی۔

(ج) ربا کا خاتمہ ‘ جتنی جلدی اس کا کیا جانا ممکن ہو۔

(د)  اسلام کے اخلاقی معیارات کو فروغ دینا اور برقرار رکھنا۔

(ح) زکوٰۃ ‘ اوقاف اور مساجد کا مناسب نظم۔

(۳) عوام کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ایک تنظیم قائم کی جائے گی۔

(ماخذ: Constitutional Foundations of Pakistan ‘ڈاکٹر صفدر محمود‘ ص ۲۴)

اسلامی نظریاتی کونسل کے ۲۰۰۴ء کے تبصرے کا بار بار ذکر ہے۔ ہم اس پر گفتگو ذرا بعد میں کریں گے‘ پہلے یہ دیکھ لیجیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے دسمبر ۱۹۹۶ء میں اپنی مکمل سفارشات جو پارلیمنٹ کو دی تھیں ان میں حِسبہ کے قانون اور ادارے کی سفارش ہے اور مرکز ہی نہیں‘ صوبے کی سطح کے لیے ہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ہے جس کے بارے میں اب وہ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ معروف اور منکر کی وضاحت نہیں ہے اور اس سے قرآن و سنت کی تشریح مزید خلفشار کا باعث ہوگی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے:

ادارہ حِسبہ کے فرائض

اس حقیقت کے پیش نظر کہ ادارہ حِسبہ کا بنیادی مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق اُمت‘ نیز ریاست کی اجتماعی اور مشترکہ ذمہ داری پوری کرنا ہے اور اس کردار کو سامنے رکھتے ہوئے جو حِسبہ کے ادارے نے اسلامی ادوار میں ادا کیا ہے‘ ضروری ہوگا کہ پاکستان میں اگر موجودہ دور میں یہ ادارہ قائم کیا جائے تو اس کے مندرجہ ذیل فرائض متعین کیے جائیں:

                ۱-            ایسی برائیوں اور بدکاریوں کی روک تھام جو عام تعزیری قانون اور فوجداری ضابطے کے تحت قابلِ دست اندازی نہ ہوں۔

                ۲-            تاجروں اور بازاروں‘ مارکیٹوں میں تجارتی سرگرمیوں میں مشغول افراد سے اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندی کروانا۔

                ۳-            ایسی عبادتوں کی ادایگی کی نگرانی جو اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں‘ جیسے عید اور جمعہ کی نمازیں۔

                ۴-            ایسے اعمال و اقدامات کی روک تھام جو ایسی بدکاریوں اور برائیوں کی نشوونما کا سبب بنیں جن کی شریعت نے حوصلہ شکنی کی ہے۔

                ۵-            کاروباری معاملات میں روزانہ وقو ع پذیر ہونے والے افعال بد مثلاً ملاوٹ‘ دھوکادہی اور فریب کاری کے واقعات کی روک تھام۔

                ۶-            لوگوں کو اس امر سے روکنا کہ وہ اپنے زیرولایت افراد‘ ملازموں‘ جانوروں اور دیگر کمزوروں کے ساتھ ظالمانہ برتائو کریں۔

پاکستان میں حِسبہ کا ادارہ

کام میں پیچیدگی اور بے فائدہ تکرار سے بچنے کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ محتسب (ombudsman) اور ان کے سیکرٹریٹ کا موجودہ اُردو نام فی الوقت برقرار رکھا جائے اور حِسبہ کا ایک خودمختار اور الگ ادارہ قائم کیا جائے تاکہ وہ ایسے امور یا معمولی جرائم کی نگرانی کرسکے جن کی طرف اب تک کوئی توجہ نہیں کی گئی۔

قومی سطح پر جناب صدرمملکت کی جانب سے ایک وفاقی حِسبہ اتھارٹی قائم کی جانی چاہیے تاکہ وہ پاکستان میں حِسبہ کے کام کی نگرانی اور اس میں مطابقت و ہم آہنگی پیدا کرنے کے عمل کی  ذمہ داری پوری کر سکے۔ اس اتھارٹی کی سربراہی کسی ایسے ممتاز اور مستند عالم دین کو جو سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ کا رکن بننے کی اہلیت کا حامل ہو یا کسی سینیرجج کے سپرد کی جانی چاہیے اور اس میں ممتاز علما نیز وفاقی حکومت کے سینیرافسران شامل ہونے چاہییں۔

صوبائی حِسبہ بورڈ

صوبائی سطح پر گورنر ہر صوبے میں وفاقی حِسبہ اتھارٹی کے مشورے سے ایک ’’حِسبہ بورڈ‘‘ قائم کرے گا تاکہ صوبے میں حِسبہ کے فرائض کی نگرانی اور ان میں تطبیق و ہم آہنگی کا عمل بروے کار لایا جاسکے‘ نیز صوبائی حکومت اور اس کی مختلف ایجنسیوں سے رابطہ استوار رکھا جاسکے۔

صوبائی بورڈ کی سربراہی کسی ایسے مستند عالم دین کے سپرد کی جائے جو وفاقی شرعی عدالت کا جج بننے کا اہل ہو اور اس میں سینیرعلما شامل کیے جائیں۔ اس طرح ہر ضلع میں ایک حِسبہ کونسل قائم کی جائے جس کے سربراہ ایک ممتاز شہری ہوں۔ انھیں ’’مہتمم حِسبہ‘‘ کہاجائے گا۔ حِسبہ کونسل ضلعی سطح پر اسلام کے معاشرتی اور اخلاقی ضابطے کے پیروکاروں کے اعمال کی نگرانی کرے گی اور گاہ بگاہ ’’معروف‘‘ کی اطاعت اور ’’منکر‘‘ کی روک تھام سے متعلق صورت حال کا جائزہ لیتی رہے گی۔ اسی طرح یہ ’’تحصیل حِسبہ کمیٹی‘‘ قائم کرسکے گی۔ صوبائی حکومت ضلعی حِسبہ کونسل کے مشورے سے ایک علاقے یا آبادی میں مناسب تعداد میں ’’ناظر حِسبہ‘‘ مقرر کرے گی۔ ناظرحِسبہ کی مدد کے لیے ضروری عملہ مقرر کیا جائے گا جس میں کچھ مسلح افراد بھی شامل ہوں گے جنھیں ’’حِسبہ فورس‘‘ کہاجائے گا۔ ناظر حِسبہ اور اس کے عملے کو ’’پبلک آفیسرز‘‘ تصور کیا جائے گا۔ ناظرحِسبہ مجسٹریٹ درجہ سوم کے اختیارات استعمال کرے گا۔ ناظرحِسبہ پاکستان کے کسی شہری کی شکایت پر کسی پبلک عہدہ دار کی اطلاع یا اپنے علم کی بنا پر دیگر چیزوں کے علاوہ مندرجہ ذیل معاملات کی نسبت اپنے قانونی اختیارات استعمال کرسکے گا۔

نظریاتی کونسل ۲۰۰۵ء کے اعتراضات

اسلامی نظریاتی کونسل کے اس ماڈل کا موازنہ حِسبہ بل سے کرلیجیے۔ جن باتوں پر آج وہ اعتراض کر رہے ہیں‘ کل انھی کا وہ حکم دے رہے تھے۔ اب آیئے ان کے تازہ اعتراضات کا جائزہ لیں:

پہلا اعتراض یہ ہے کہ مجوزہ صورت میں ادارہ حِسبہ کا قیام مقاصد شریعت کی تکمیل کے بجاے امربالمعروف ونہی عن المنکر کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام کو متنازعہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے اور مسائل کو حل کرنے کے بجاے مفاسد کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی شرعی یا عقلی دلیل نہیں دی گئی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ (۱) کی تشریح میں واضح کر دیا گیا ہے کہ ہر مکتب فکر کے لیے قرآن و سنت کے بارے میں وہی تعبیر معتبر ہوگی جو اس کی نگاہ میں معتبر ہے۔ اس کے بعد معروف اور منکر کے متنازعہ بن جانے کاکیا خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ حِسبہ بل میں خصوصیت سے ’’غیرمتنازعہ حقوق‘‘ کی تنفیذ کی بات کی گئی ہے۔ رہا مسئلہ سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کا‘ تو اس کی واضح ترین مثال اسلامی نظریاتی کونسل کا حِسبہ بل پر موجودہ تبصرہ ہے جس میں وہ کسی دلیل کے بغیرکونسل کے ۱۹۹۶ء کے مؤقف کی تردید کررہے ہیں ___ اور اس طرح اگر موجودہ حکومت کی آواز سے ان کی آواز مل جاتی ہے تو اسے ’’توارد‘‘ ہی سمجھا جانا چاہیے جس پر سیاست کا کوئی سایہ نہیں پڑا۔

دوسرا اعتراض کونسل کے خیال میں امورحِسبہ میں ایسے امور کا اضافہ ہے جو معروف نہیں ہیں۔ لیکن کوئی نشان دہی نہیں کی گئی کہ وہ کون سی چیزیں ہیں اور کس شرعی دلیل کی بناپر وہ اس دائرے سے باہر رہنی چاہییں۔

ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ دوسرے قوانین موجود ہیں‘ ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیا ادارہ نہ قائم کیا جائے۔ یہ محض ایک انتظامی مشورہ ہے جس کا شریعت سے ہم آہنگی اور تصادم سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ان اداراتی یا انتظامی امور پر راے زنی نہیں‘ اس کا کام صرف یہ ہے کہ کسی قانون یا تجویز کے بارے میں یہ بتائے کہ آیا وہ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ ان کے تمام اعتراضات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس میں شریعت کے کس حکم یا نص کی ادنیٰ سی خلاف ورزی کی بھی نشان دہی کی گئی ہو۔ جج صاحب نے اپنے زعم میں تمام امور پر عالمانہ رائے دی تھی لیکن اگر کوئی بات اس تبصرے میں نہیں ہے تو وہ شریعت سے مطابقت یا  عدمِ مطابقت کے بارے میں کوئی مبنی بر دلیل بات ہے۔ یہاں ہم یہ بھی وضاحت کردیں کہ ۱۹۹۶ء کی تجاویز میں اسلامی نظریاتی کونسل نے مرکز اور صوبوں دونوں مقام پر موجود محتسب کے ادارے کے ساتھ حِسبہ کے ادارے کا مشورہ دیا تھا۔ جہاں تک صوبہ سرحد کا تعلق ہے وہاں پہلے سے محتسب بھی موجود نہیں اور وہ حِسبہ کی شکل میں ایک جامع ادارہ قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ کونسل اور اس کی سفارشات مرتب کرنے والے جج صاحب کے مبلغ علم کی کیا داددیں جب وہ فرماتے ہیں کہ فقہ جعفریہ میں حِسبہ کے احکام موجود نہیں ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ۱۹۹۶ء کی سفارشات سنّی اور شیعہ علما نے مرتب کی تھیں۔ صفوی اور اسماعیلی دور میں حِسبہ کا ادارہ اُسی طرح قائم تھا جس طرح دولت عثمانیہ اور تغلق بادشاہوں کے دور میں تھا۔ ایران اور یمن میں بھی یہ اسی طرح موجود تھا جس طرح شام‘ عراق‘ ترکیہ اور ماوراء النہر میں۔ بلادمغرب اور مصر کے ہر دور میں موجود تھا۔ جس طرح امام غزالی اور امام ابن تیمیہ نے حِسبہ کا دفاع کیا ہے اسی طرح نظام الملک طوسی نے سیاست نامہ میں کیا ہے۔ نظریاتی کونسل اس دعوے کے لیے کیا دلیل اور تاریخی شواہد اپنے پاس رکھتی ہے؟صوبہ سرحد کی شریعت کونسل میں سنی علما کے ساتھ اہلِ تشیع کے نمایندے بھی شریک تھے جنھوں نے حِسبہ بل کا مسودہ مرتب کیا ہے۔ فاعتبروا یااُولی الابصار۔

کونسل کا ایک اور اعتراض محتسب کے تقرر کے لیے گورنر کو وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند بنانے پر ہے جسے قرارداد مقاصد اور دستور کی دفعہ ۱۷۵ (۳)سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز اعتراض کا اور وہ بھی ایک جج کی طرف سے جسے نظریاتی کونسل کی تائید حاصل ہے‘ تصور کرنا محال ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر اپنے صواب دیدی معاملات کو چھوڑ کر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے جو پارلیمانی نظام کا بنیادی اصول ہے۔ اگر حِسبہ بل میں یہ لکھا ہوا نہ ہو تب بھی تودفعہ ۱۰۵ کے تحت گورنر وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان تینوں صوبوں میں جہاں محتسب کا قانون موجود ہے‘ گورنر تقرر کرتا ہے مگر دفعہ ۱۰۵ کے تحت وزیراعلیٰ کے مشورے کا پابند ہے۔ اگر وہ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کو متاثر نہیں کرتا تو یہاں کیسے کرے گا؟ پھر جج صاحب بھول جاتے ہیں کہ عدلیہ کے تمام ججوں کا تقرر کسی آزاد عدالتی طریقے سے نہیں ہوتا بلکہ دستور کے تحت صدر‘ وزیراعظم کے مشورے سے کرتا ہے۔ چیف جسٹس کا تقرر صدر کرتا ہے اور اس تقرری میں وہ سینیارٹی کا پابند نہیں۔ دوسرے ججوں کے تقرر میںچیف جسٹس کا مشورہ ضرور شامل ہے مگر سب کو علم ہے کہ ججوں کا تقرر کس طرح ہوا ہے۔ امریکا میں ججوں کا تقرر صدر کی تجویز پر ہوتا ہے اور سینیٹ جو خود ایک سیاسی ادارہ ہے اس کی توثیق کرتا ہے۔ اگر یہ سب عدلیہ کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے تو پھر حِسبہ بل میں وزیراعلیٰ کا مشورہ ہی کیوں سیاسی دراندازی قرار پاتا ہے___؟

کونسل کے بیشتر اعتراضات انتظامی نوعیت کے ہیں۔ ان میں سے چند سے حِسبہ بل پر نظرثانی کے موقع پر فائدہ اٹھایا بھی گیا ہے اور مزید استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ محتسب کی برطرفی اور میعاد ملازمت میں توسیع کے بارے میں کونسل کے مشوروں پر غور ہونا چاہیے لیکن ہم پورے ادب سے عرض کریں گے کہ یہ سب سفارشات انتظامی نوعیت کی ہیں‘ جب کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام دستور کی دفعہ ۲۲۹ (بی) اور ۲۳۰ کے تحت صرف اتنا ہے کہ یہ مشورہ دے کہ:

ایک مجوزہ قانون اسلامی احکامات کے خلاف ہے یا نہیں؟

اور یہ رائے بھی محض کسی ضمنی تبصرے (obitor dicta) کے انداز میں نہیں دی جاسکتی۔ ہر دعوے یا اعتراض کے حق میں قرآن وسنت سے دلائل و شواہد لانا ہوں گے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ۱۱نکات پر مشتمل اس رائے میں قرآن و سنت سے ایک بھی دلیل نہیں دی گئی ہے‘ نہ صراحتاً اور نہ اشارتاً۔ کونسل کے اس رویے کو علمی کہا جائے‘ شرعی کہا جائے یا سیاسی؟ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔

اخلاقی اقدار اور احتساب

حقوق انسانی کے نام نہاد علم بردار بھی اس جنگ میں بڑے طمطراق سے کود گئے ہیں اور چلّا چلّا کر کہہ رہے ہیں کہ فرد کی آزادی خطرے میں ہے اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کے نام پر لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ ہم اس سے پہلے دستور کی دفعات کے حوالے سے بتاچکے ہیں کہ بنیادی حقوق کے تمام امور اخلاق‘ شائستگی اور ملک کی سلامتی سے مشروط ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حقوقِ انسانی کی ساری دُہائی ظالموں اور مجرموں کے حقوق ہی کے لیے کیوں دی جاتی ہے۔ کیا اس مظلوم انسان کے کچھ حقوق نہیں جو چوروں‘ ڈاکوئوں اور زانیوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ حِسبہ بل کمزوروں کو طاقت وروں کی گرفت سے نکالنے کے لیے ہے اور اُن تک انصاف پہنچانے کے لیے ہے جو نہ انصاف کو خرید سکتے ہیں اور نہ ان کی رسائی اُونچے ایوانوں تک ہے۔ آج بعداز خرابیِ بسیار اخلاقی‘ سماجی اور معاشرتی امور کو قانون کی دسترس میں لانے کی کوشش ساری دنیا میں کی جا رہی ہے۔ امریکا کی کانگریس میں جہاں اور بہت سی کمیٹیاں ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں احتساب کا کام انجام دیتی ہیں‘ وہیں ایک اخلاقیات کمیٹی (Ethics Committee) بھی ہے جو ممبران کے اخلاقی رویے پر نگاہ رکھتی ہے۔ آج کرپشن ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں اخلاقی امور کو احتساب کے باب میں مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں جس طرح بدعنوانی کا مظاہرہ کررہی ہیں‘ اس کے نتیجے میں تجارتی اخلاقیات (business ethics) اب تعلیم اور قانون دونوں کے سلسلے میں ایک متعلقہ موضوع بن گئی ہے۔ اور اب تو اکائونٹنٹس اور آڈیٹرز کے لیے بھی نئے اخلاقی ضابطوں اور قوانین کی باتیں ہورہی ہیں۔

آج دنیا کے ۱۲۰ ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں محتسب (Ombudsman) کا ادارہ کام کر رہا ہے۔ یہ صرف انتظامی زیادتیوں کے تدارک ہی کے لیے مصروف عمل نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی امور بھی اس کے دائرے میں آرہے ہیں مثلاً کینیڈا میں Federal Correctional Investigator کا قیام بحیثیت محتسب ہوا ہے جس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں Federal Students Aid Ombudsman قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیم‘ صحت‘ بچوں کے تحفظ‘ کمیونٹی کے مسائل اور فیملی کے معاملات تک کے بارے میں محتسب کے مخصوص ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ اجتماعی خرابیوں کے تدارک کے لیے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے جو فرد کی آزادی‘ عزتِ نفس‘ چادر اور چاردیواری کی حرمت کو پامال کرنے والا ہو۔ بے جا تجسس اور عیب جوئی (witch-hunting ) ایک دوسری برائی اور انتہا ہوگی۔ توازن کا راستہ ہی معقولیت کا راستہ ہے لیکن محض یہ بات کہ اسلامی اخلاقی اقدار کا تحفظ بھی محتسب کے دائرے میں آتا ہے‘ فرد کی آزادی کے لیے خطرہ سمجھ لینا صحیح نہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں۔ نہ ایک انتہا درست ہے اور نہ دوسری۔ محتسب کا نظام بھی اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ ان تمام نزاکتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھے‘ اور کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی اقدار کی حفاظت اور ترویج کے لیے جو نظام قائم کیا جائے‘ وہ ان حدود کا خیال نہ رکھے۔

محتسب کے اختیارات

ایک حلقے کی طرف سے حِسبہ بل کی ان دفعات کو نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے جن میں محتسب کو   توہینِ عدالت (contempt of court) کے سلسلے میں وہی اختیارات دیے گئے ہیں جو عدالتوں کو حاصل ہیں۔ خود اپنے لیے قواعد و ضوابط بنانے پر بھی تیوریوں پر بل پڑ رہے ہیں۔ تضادات دُور کرنے کے حق پر بھی انگشت نمائی ہے۔ محتسب کے احتساب سے بالا ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے۔ راقم خود توہینِ عدالت کے پورے تصور کے سلسلے میں متفکر رہا ہے لیکن جو بات مضحکہ خیز ہے‘ وہ یہ ہے کہ جس نظام قانون کے تحت ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ تمام چیزیں اس کا جانا بوجھا حصہ ہیں۔ اگر تمام مقامات پر نظرثانی کی جائے تو ایک قابلِ فہم بات ہے لیکن ایک حق ایک جگہ آپ دے رہے ہیں اور اس سے فسطائیت رونما نہیں ہوتی اور استبداد کا کوئی خدشہ وہاں نظر نہیں آتا لیکن اگر اسی نوعیت کا کوئی انتظام حِسبہ بل میں موجود ہے تو اس میں سارے کیڑے نکالے جا رہے ہیں‘ مثلاً وفاقی محتسب کے قانون مجریہ ۱۹۸۳ء کو لے لیجیے۔ اس میں دفعہ ۱۴ میں وہ تمام اختیارات ہیں جن کا تعلق معلومات حاصل کرنے اور گواہوں کی طلب اور جرح کے بارے میں ہے۔ دفعہ ۱۵  مکان کی تلاش (search of premises) کے بارے میں اور دفعہ ۱۶ توہین پر سزا کا اختیار (power to punish for contempt) سے متعلق ہے۔ دفعہ ۲۹ میں دائرہ اختیار پر پابندی (Bar of Jurisdiction) ہے جس کی رو سے کسی عدالت یا مجاز ادارے کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ حکم نامہ کے تحت محتسب کے کیے گئے کسی اقدام کے خلاف حکم امتناعی (stay order) جاری کرے یا کوئی اقدام کرے۔

دفعہ ۳۷ میں order to override other laws کی شق موجود ہے۔ The Punjab Office Ombudsman ۱۹۹۷ء میں بھی یہی ساری  شقیں (۱۵‘ ۱۶‘ ۱۷‘ ۱۸‘ ۲۹‘ ۳۷‘ ۳۸) موجود ہیں۔

بلوچستان اور سندھ کے قوانین بھی اس سے مختلف نہیں۔ یہ تو محتسب کا معاملہ ہے۔ ملکی قوانین میں تو بنک کاری ٹریبونل اور لیبر ٹریبونل تک میں یہ ساری دفعات کم و بیش انھی الفاظ میں موجود ہیں۔ پارلیمنٹ ہی کو نہیں اس کی کمیٹیوں کو بھی توہین پر سزا کے اختیارات حاصل ہیں۔ دسیوں قوانین ہر سال منظور کیے جارہے ہیں جن میں عدالتوں کے دائرہ اختیار سے استثنا (Exclusion of Jurisdiction of Courts) یا دائرہ اختیار کو نظرانداز کرنے (Overriding Jurisdiction) کی دفعات موجود ہیں حتیٰ کہ صدر کے لیے دو عہدوں کا جو غیرقانونی بل منظور کیا گیا ہے‘ اس تک میں موجود ہے کہ وہ دو عہدے رکھ سکتے ہیں اور دستور‘ قانون اور عدالت کے کسی فیصلے کا اس پر اطلاق نہیں ہوگا (Act No. VII of 2004)۔ دستور کی دفعہ ۲۷۰ اے اے میں صدر اپنے تمام احکامات کو اس طرح عدالتوں سے محفوظ کرتے ہیں کہ اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان درجنوں نہیں سیکڑوں قوانین سے فسطائیت نہیں آتی اور استبداد کے دروازے نہیں کھلتے تو ایک حِسبہ بل ہی کے ذریعے یہ قیامت کیسے ٹوٹ پڑے گی؟

ہم نے حِسبہ بل پر کیے جانے والے اعتراضات کا جو جائزہ لیا ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مخالفت دلائل کی قوت سے محروم ہے‘ نیز ملک کے دستور‘ قانونی نظام اور دوسرے متعلقہ اداروں کے بارے میں پائے والے قوانین اور ضابطوں میں اور اس قانون میں کوئی تناقض نہیں۔ بلاشبہہ اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ صوبہ سرحد کی حکومت اور اسمبلی اس سے غافل نہیں ہوگی لیکن یک طرفہ طور پر اور سارے حقائق اور شواہد کو نظرانداز کر کے صرف اس بل کو نشانۂ تنقید بنانا حق و انصاف کے منافی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ سیکولر لابی اور مرکزی حکومت حِسبہ بل کے نام پر اسلامی اصلاحی پروگرام کی طرف پیش رفت کو روکنا چاہتے ہیں۔ نیز مرکزی حکومت صوبہ سرحد میں اپنے چہیتے افراد اور جماعتوں کی شکست کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ ہم صاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ دستور اور قانون سے یہ کھیل کھیلنا ان حضرات کو ان شاء اللہ بہت مہنگا پڑے گا اور متحدہ مجلس عمل اپنے اصولوں پر ہرگز سمجھوتا نہیں کرے گی اور اس قانونی جنگ اور سیاسی یلغار کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ اسے کامیابی ہوگی اس لیے کہ حق اس کے ساتھ ہے ۔

چیلنج اور اس کے تقاضے

ہم اس موقع پر خود متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور کارکنوں سے بھی یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ حِسبہ بل پر بحث کے باعث ایک بنیادی سیاسی کش مکش صوبہ سرحد ہی نہیں‘ پورے ملک میں مرکزی اہمیت اختیار کرچکی ہے جو پاکستان کی شناخت‘ اس کے حقیقی نظریاتی وجود اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور اسلام کی اقدار اور نظامِ حیات کو قائم کرنے میں ریاست کے کردار سے متعلق ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے مؤقف کو دلیل کی قوت سے ثابت کریں اور جو افراد کنفیوژن کا شکار ہورہے ہیں‘ ان کو اپنے مؤقف کی صداقت کا قائل کریں۔ یہ دعوتی چیلنج ہمارے اور اس ملک کے مستقبل کے لیے بڑا فیصلہ کن ہے۔

ابھی حِسبہ بل کو نہ معلوم کتنے مرحلوں سے گزرنا ہوگا اور یہ جنگ نہ معلوم کیا کیا رخ اختیار کرتی ہے‘ ہمیں اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ یہ جنگ علمی اور فکری جنگ بھی ہے‘ اور عملی اور سیاسی بھی___ اور صاف نظر آرہا ہے کہ دستوری اور قانونی بھی۔ ہر میدان میں اور ہر محاذ پر ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

دوسری بات جو ہماری نگاہ میں پہلی سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مدد اور عوام کی تائید سے ہم حِسبہ بل کو کتابِ قانون کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ اور ان شاء اللہ ہم ضرور ہوں گے ‘تو پھر ہماری اصل آزمایش کا دور شروع ہوگا۔ اس بل کے قانون بن جانے کے بعد اس ادارے کاصحیح خطوط پر وجود میں آنا اور اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد کے عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا نظر آنا بے حد ضروری ہے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم مندرجہ ذیل اہداف کے حصول کے لیے پوری دیانت سے کام کریں۔

۱-  اس کام کے لیے صوبائی‘ ضلعی اور تحصیل کی سطح پرعلمی‘ اخلاقی اور عوامی شہرت کے اعتبار سے بہترین افراد کا انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو‘ جو ایمان‘ علم ‘تقویٰ اور خدمتِ خلق کے جذبے سے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ صحیح افراد کا انتخاب ہمارا پہلا بڑا چیلنج ہوگا اور دراصل ہمارا امتحان بھی۔

۲-  پوری محنت کے ساتھ صوبائی‘ ضلعی اور بالآخرتحصیل کی سطح تک کام کرنے کے لیے مفصل قواعد و ضوابط (Rules of Business)کی تیاری۔ یہ اس ادارے کے صحیح خطوط پر وجود میں لانے اور عوام کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لائق بنانے کے لیے ضروری ہے۔

۳-  ایک  چیز جس کا تجربہ حالیہ بحث کے دوران بھی ہوا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے کام میں پیشہ ور انداز کے اضافے کی ضرورت ہے۔ خلوص اولین ضرورت ہے لیکن خلوص کے ساتھ زمینی حقائق اور حالات کا ادراک اور انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے تجربات کی روشنی میں قابلِ عمل حل تلاش کرنے ہی سے حالات بدل سکتے ہیں۔ اس کام میں اعتماد کے ساتھ مشورہ اور جماعتی سوچ سے بالا ہوکر اور پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبے کے ساتھ ہی کام صحیح معنی میں ثمرآور ہوسکتا ہے۔ یہ سارا کام دیانت اور للہیت کے ساتھ قاعدے اور قانون کے مطابق اور بہترین معیار کی مہارت کے ساتھ انجام دینا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔

۴-  حِسبہ کے اصل اسلامی تصور کو اس کی تفصیلات کے ساتھ اور اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنا اور اس سے بھی بڑھ کر دوسروں کو سمجھانا نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اچھے اچھے منصوبوں کو بھی مناسب انداز میں اور بروقت ٹھیک طور پر نمایاں نہیں کرپائے۔ اگر تجارت کی زبان استعمال کی جائے تو مارکیٹ میں کامیابی کے لیے مال کا اچھا ہونا ہی کافی نہیں‘ برانڈ‘ پیکنگ‘ مارکیٹنگ اور تشہیر و ابلاغ سب اہم ہیں اور کسی ایک کا غیرمعیاری ہونا یا اس میں کوئی کسر رہ جانا‘ باقی سب کو متاثر کرتا ہے۔

ضروری ہے کہ ہمارے کارکن اور قائدین‘ سب ان تمام امور کا خیال رکھیں۔ اسلام نے جو تعلیم ہمیں دی ہے‘ اس میں اللہ سے وفاداری کے ساتھ انسانوں کے ساتھ انصاف اور مجبوروں اور کمزوروں کا ہم دم اور ہم ساز بننا مطلوب ہے۔ ایک مسلمان کی بنیادی حیثیت اللہ کے خلیفہ اور اسلام کے داعی کی ہے۔ اور داعی ایک ڈاکٹر کے مانند ہوتا ہے جس کی ساری لڑائی مرض سے    ہوتی ہے تاکہ مریض کو بچاسکے۔ ہمارا رویہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی داعیانہ ہونا چاہیے اور ان کو بھی  جیتنا ہمارا اصل ہدف ہے۔ اس لیے ہمیں انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور جس کا جو حق ہے‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ اور جماعت سے ہو‘ اسے اس تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ حِسبہ کی ذمہ داری خود احتسابی اور اجتماعی احتساب دونوں کے بغیر ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہوسکتی۔ ہم نے اس میدان میں قدم رکھ کر بہت بڑی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اب ہم سب کا امتحان ہے۔

آیئے‘ اللہ پر بھروسا کرکے‘ خلوص‘ محنت اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اس امتحان میں کامیابی کے لیے جدوجہد کریں کہ ہماری اصل منزل تو عوام کی خدمت اور انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام کے ذریعے اپنے رب کی رضا کا حصول اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر ہماری نگاہ اپنی اصل منزل پر ٹھیک ٹھیک جمی رہے تو ان شاء اللہ اس امتحان میں بھی ہم کامیاب ہوں گے۔وماتوفیقی الا باللّٰہ۔


نوٹ:  حِسبہ کے نظری‘ عملی‘ تاریخی اور انتظامی پہلوئوں پر درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ لیڈن‘ ہالینڈ سے شائع ہونے والی مستشرقین کی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ‘ پنجاب یونی ورسٹی سے شائع ہونے والی اُردو دائرہ معارف اسلامیہاور ترکی سے شائع ہونے والی تازہ ترین انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں اس موضوع پر مبسوط مقالے دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس ادارے کی تاریخ اور تصور کی وسعت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔

۱- احیاء العلوم ، غزالی‘ جلد دوم

۲- الفصل فی الملل، ابن حزم‘ جلدچہارم

۳- الرسالہ فی الحسبہ‘ ابن تیمیہ

۴- الحسبۃ والمحتسب فی الاسلام از زیادۃ‘ مطبوعہ مصر‘ ۱۹۶۳ء

۵- اسلامی ریاست میں محتسب کا کردار از ڈاکٹر ایم ایس ناز‘ ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۹ء

6. The Financial and Administration Organization and Development in Othman Egypt, 1517-1798 by Stanford J. Shaw, 1962.

7. The Social Structure of Islam by R. Levy, Cambridge, 1957.

8. The Administration of Justice in Medieval India by M.B. Ahmad, 1941.

9. Administration of Justice in Delhi Sultanate  by M.B. Hew.

(کتابچہ دستیاب ہے‘ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ قیمت: ۶ روپے)

بھارت اور امریکا کی عالمی اور علاقائی سطح پر اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کو مستحکم کرنے کے لیے گذشتہ دس سال سے جاری تجارتی تعاون کے بعد انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں بڑے پیمانے پر بھارت امریکا تعاون‘ اور پھر امریکا میں بھارت کی ہم نوا سیاسی لابی کا شب وروز کام بالآخر اس پر منتج ہوا کہ اکیسویں صدی میں امریکا کے عالمی قیادت کے قیام اور استحکام کے لیے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل‘ اور ایشیا میں بھارت کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گی۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے اس کے قیام ہی سے امریکا نہ صرف اسے باقی رکھنے اور مضبوط ترکرنے کے لیے اپنی ساری مالی‘ فوجی اور سیاسی قوت استعمال کر رہا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کو مستقلاً اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے اسرائیل کو اہم ترین آلۂ کار بنایا ہے۔ اسی پس منظر میں اسرائیل کو نیوکلیئر پاور بنایا گیا اور علاقے میں کسی دوسرے ملک کو اس کا توڑ کرنے کے لائق نہ بننے دیا گیا۔ عراق کے نیوکلیئر پروگرام پر اسرائیلی حملہ اور بالآخر عراق کو ایک فوجی قوت کی حیثیت سے ختم کر دینا اسی پالیسی کا حصہ تھا۔ ایران پر موجودہ دبائو بھی اس کا حصہ ہے اور پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کو درپیش خطرات بھی اسی پس منظر میں سمجھے جا سکتے ہیں۔

یہ کھلا کھلا تضاد ہے کہ ۱۹۷۴ء میں بھارت کے پہلے ایٹمی تجربے اور پھر ۱۹۹۸ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے امریکا اور مغربی اقوام کے لیے کوئی خطرہ نہ سمجھے گئے اور بڑا ہی نرم ردعمل سامنے آیا لیکن جیسے ہی پاکستان نے اپنے دفاع کو مستحکم کرنے کے لیے جوابی دھماکے کیے تو امریکا اور ساری مغربی دنیا اس کے خلاف صف آرا ہوگئی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں بھارت امریکا گٹھ جوڑ نے گذشتہ تین سالوں میں جو شکل اختیار کی ہے اس کا سمجھنا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا تعلق پاکستان کے دفاع، سلامتی اور علاقائی کردار سے ہے۔ نیز اس کا بڑا گہرا تعلق ایشیا اور عالمی افق پر چین کے کردار سے ہے ۔یہ مسئلہ صرف پاکستان اور چین کا ہی نہیں بلکہ پورے شرق اوسط اور مسلم امہ کے مستقبل سے متعلق ہے۔ اس لیے اس کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

اس نئی صف بندی اور گٹھ جوڑ کے نقش و نگار کو جن عناصر نے موجودہ شکل دی ہے ان میں بھارت میں امریکا کے سابق سفیر (جو اس وقت نیشنل سیکورٹی کونسل میں اہم ذمہ داری ادا کر رہے ہیں) اسرائیل کی حکومت ‘ امریکا میں اسرائیلی لابی، امریکا میں پائے جانے والے مرکزی اہمیت کے تھنک ٹینکس اور امریکا میں بھارت کے دانشوروں اور تارکین وطن کی وہ تنظیمیں ہیں جو پالیسی سازی کو متاثر کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان‘ مسلم ممالک کی حکومتیں اور وہ پاکستانی اور مسلمان جو امریکا میں ہیں وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرسکے۔

گذشتہ تین سالوں میں‘ خصوصیت سے ۱۱/۹ کے بعد‘ بھارت اور اسرائیل‘ اور بھارت اور امریکا کا تعاون معاشی میدان سے بڑھ کر فوجی اور آئندہ کے لیے دفاعی اہمیت رکھنے والے سازوسامان کی مشترک پیداوار سے متعلق ہوگیا ہے۔ نیز اس میں سب سے زیادہ اہم چیز ہائی ٹیک (Hi-tech) میدان میں ٹکنالوجی کی منتقلی اور مشترک پیداوار کے منصوبے ہیں جن کا کوئی وجود  پچھلے پچاس سال میں نہیں تھا۔ اس میدان میں نہایت ہی حساس چیزوں کے بارے میں بھی تعاون شروع ہو گیا ہے جن کا تعلق ہائی ٹیک کمپیوٹر‘ نیوکلیئر ٹکنالوجی اور میزائیل ٹکنالوجی سے ہے جن میں PAC-II اور PAC-III سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اس عمل کا ایک متعین شکل میں آغاز بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہوگیا تھا لیکن سب سے زیادہ ٹھوس اور دُوررس پیش رفت گذشتہ ایک سال میں ہوئی ہے۔ امریکا اور بھارت کے اس نئے گٹھ جوڑ کے نمایاں پہلو یہ ہیں:

۱- بھارت کو امریکا ایک علاقائی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اسے اس کردار کو ادا کرنے کے لائق بنانے میں اس کا مضبوط ترین ممد اور معاون ہو گا۔ اس میں خاص طور پر یہ پہلو سامنے رہے کہ امریکا یہ چاہتا ہے کہ چین کے عالمی کردار کو  محدود (contain) کرنے کے لیے اس علاقے میں بھارت کلیدی کردار ادا کرے۔اس کے لیے امریکا اس کی پشتی بانی کرے اور اسے اس لائق بنائے کہ وہ چین کاراستہ روک سکے۔

۲۔ اس مقصد کے لیے جو معاہدہ بھارت کے وزیر دفاع اور امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری کے درمیان ۲۸ جون ۲۰۰۵ء کو ہوا ہے جسے ۱۰ سال کا دفاعی معاہدہ قرار دیا گیا ہے وہ بڑا اہم ہے۔ اس میں تین امور میں زیادہ توجہ کے لائق ہیں۔

۱- امریکا کی طرف سے بھارت کو فوجی سازوسامان کی فراہمی جس میں امریکا کا جدید اسلحہ اور سازوسامان بھی شامل ہے۔ پاکستان کو تو اب متروک  ایف-۱۶ دینے کی بات ہو رہی ہے لیکن بھارت کو ایف-۱۶ ہی نہیں بلکہ  ایف-۱۸  اور پٹریاٹ میزائل کی بھی اعلیٰ ترین شکل دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی نیوکلیئر سدجارحیت غیر مؤثر کی جا سکتی ہے۔

۲- دوسرا پہلو یہ ہے کہ صرف اعلیٰ ترین اور تباہ کن ترین فوجی سازوسامان ہی بھارت کو نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ بھارت کے ساتھ اس کی مشترک پیداوار کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس کے معنیٰ یہ ہوں گے ٹکنالوجی عملاً منتقل ہوگی اور بھارت اس پوزیشن میں آجائے گا کہ آیندہ یہ اور اس نوعیت کا اسلحہ اور فوجی سازوسامان خود تیار کر سکے اور اس طرح اس کا امریکا پر انحصار باقی نہ رہے۔ یہ سبق بھارت نے پاکستان کے اس تلخ تجربے سے سیکھا ہے جو ایف-۱۶ لینے کے بعد امریکا کی پابندیاں لگنے کے نتیجے میں پاکستان کو بھگتنا پڑیں اور آج پاکستان وہی غلطی کرنے پر تلا ہوا ہے۔

۳- تیسرا اور نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس معاہدے کے ذریعے یہ تسلیم کیا ہے کہ بھارتی فوجیں امریکی کمانڈ میں دنیا کے کسی بھی حصے میں ’’مشترک مفاد‘‘ کے لیے کام کرنے کو تیار ہوں گی۔ یہ ایک طرف اقوام متحدہ کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے کہ ایک خودمختار ملک کے لیے جائز صورت یہی تصور کی جاتی ہے کہ وہ ایسی بین الاقوامی فوجی مہم جوئی میں شرکت کرے جو اقوام متحدہ کی کمانڈ میں ہوں۔

۴- نیوکلیئر میدان میںبھارت اور امریکا کے کھلے کھلے تعاون کو ۱۰ سالہ معاہدے میں ایک شق کے طور پر درج کیا گیا ہے اور اب بش من موہن ملاقات کے اعلامیے میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے صاف معنی ہیں کہ امریکا نے بھارت کو این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر ہی نیوکلیئر طاقت تسلیم کرلیا ہے اور اس سلسلے میں ہر طرح سے بھارت سے تعاون کر رہا ہے‘ جب کہ پاکستان کو نان ناٹو حلیف قرار دیا گیا ہے اور اپناگندا کام (dirty work) پاکستان سے کروایا جا رہا ہے اور اس کے باوجود اسے نیوکلیئر بلیک میل کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت اس واضح اور بیّن فرق کو سمجھنے اور اس پر مؤثر ردعمل اختیار کرنے سے اجتناب کرتی ہے تو پاکستان کی سلامتی کے لیے اس سے بڑا خطرہ اور کوئی نہیں۔

امریکا اس اصول سے مسلسل انحراف کر رہا ہے اور عراق پر حالیہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا اقوام متحدہ اور عالمی قانون کو نظرانداز کرکے پہلکاری کرتے ہوئے خود فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ بھارت اور امریکا کے اس معاہدے کی رو سے اقوام متحدہ کی قیادت اور اجازت کے بغیر بھارت اور امریکا جس چیز کو اپنا مشترک مفاد سمجھیں اس کے لیے امریکی کمانڈ میں بھارتی فوجیں سرگرم عمل ہو سکتی ہیں۔ یہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں بڑی جوہری تبدیلی ہے۔

اس معاہدے اور اس کے مضمرات پر پاکستان ہی نہیں، چین اور تمام اسلامی ممالک میں بالخصوص اور دنیا کے ان تمام ممالک میں بالعموم جو دنیا کو امریکا کی بالادستی سے محفو ظ رکھنا چاہتے ہیں اور جن کا مقصد یہ ہے کہ عالمی امن ایک عالمی منصفانہ نظام کے تحت قائم ہو، گہرا غور وفکر ہونا چاہیے اور خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے باب میں ضروری مشورے ہونے چاہییں۔ ان تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں اور ایسے متبادل انتظامات کی فکر کریں جن سے وہ اپنی آزادی، سلامتی اور حاکمیت کا مؤثر دفاع کر سکیں اور امریکا، بھارت اور اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ سے جو خطرہ دنیا کی اقوام کو لاحق ہے اس کا مقابلہ کر سکیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ تاریخ سے سبق کم ہی لیا جاتا ہے اور ہر دور میں مغرور اور خودسر حکمران وہی غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں‘ جن کے سبب ان کے پیش رو عبرت کا نشان بنے تھے۔ یہ مقولہ کہ ’’جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجانے میں مشغول تھا‘‘ضرور ضرب المثل بن گیا چنانچہ ہر دور کے نیرو اپنی اپنی دل چسپی کے شغل میں منہمک نظر آتے ہیں اور جلتے در و دیوار انھیں اپنے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہماری اپنی خودپسند قیادت کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔

مشرقی پاکستان میں جب آئینی اداروں کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کے نتیجے میں محرومی اور بے چینی کا لاوا پک رہا تھا‘ تو اس وقت کا فوجی حکمران اسے ’’چند شرپسندوں کی بغاوت‘‘ قرار دے کر اعلان کر رہا تھا کہ ’’میں ہتھیاروں کی زبان استعمال کرکے سب کو سرنگوں کر لوں گا‘‘۔ جن اہلِ دانش نے اس کو مشورہ دیا کہ ہتھیاروں کی زبان نہیں‘ دلیل کا ہتھیار استعمال کرو تو اس نے اسے کمزوری اور بزدلی قرار دے کر رد کر دیا اور پھر اسی سال ۱۶ دسمبر کو قائداعظم کے پاکستان کے دوٹکڑے ہوگئے۔ آج ایک دوسرا فوجی حکمران پھر طاقت کی زبان استعمال کرنے کی باتیں کر رہا ہے اور ’’شرپسندوں کو سخت کارروائی کا انتباہ‘‘ دے رہا ہے‘ اور جو سیاسی قیادت جو حالات کی نزاکت کو محسوس کرتی ہے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہتی ہے افسوس ہے کہ وہ کمزوری‘ غفلت اور وقت گزاری کی مرتکب ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے مگر اسے اس مسئلے پر بحث کرنے اور اس کا   حل نکالنے کی اجازت نہیں۔ ایک پارلیمانی کمیٹی نے تین چار مہینے کی تگ و دو اور تمام متعلقہ عناصر سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی کچھ واضح راہیں تلاش کیں‘ مگر اس کا کام بھی معرضِ خطر میں ہے___ آخر اس دلدل سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟مستقبل پر بات کرنے سے پہلے صحیح صورت حال‘ اصل مسائل اور ان کے حل کے نقشۂ راہ پر مختصر گفتگو ہوجائے تو پھر شاید سنگ ہاے راہ سے نجات کا راستہ بھی نکالا جا سکے۔

بلوچستان پاکستان کے رقبے کا ۴۵ فی صد اور آبادی کے تقریباً ۶ فی صد پر مشتمل ہے۔ تقریباً ۹۰۰ کلومیٹر کا ساحلی علاقہ اور ایران اور افغانستان سے سیکڑوں کلومیٹر کی مشترک سرحد ہے۔ تیل‘ گیس‘ کوئلے اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے۔ بلوچ اور پشتون‘ آبادی کا تقریباً ۸۸ فی صد ہیں اور آپس میں برابر برابر ہیں‘ جب کہ باقی ۱۲ فی صد وہ آبادکار (settlers) ہیں جو آہستہ آہستہ اس سرزمین کا حصہ بن چکے ہیں۔ قبائلی نظام اب بھی مضبوط ہے اور اس کی روایات معاشرے کی شناخت ہیں۔ معاشی ڈھانچا  نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کے دُور دراز علاقوں تک پھیلے ہونے کی وجہ سے مواصلات اور سہولتوں کی فراہمی کا کام مشکل اور نسبتاً مہنگا ہے۔ جو سہولت دوسرے صوبوں میں مثال کے طور پر ایک کروڑ روپے کے خرچ سے میسر آسکتی ہے صوبہ بلوچستان میں تین سے چار گنا زیادہ اخراجات درکار ہیں۔ اس بنیادی حقیقت کو کسی حکومت نے محسوس نہیں کیا۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کا کام کبھی بھی اس صوبے کے لیے انصاف اور ضروریات کی بنیاد پر نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں‘ دیہی علاقے میں غربت پاکستان کی اوسط غربت سے تقریباً دگنی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ گیس جو سوئی سے نکل کر کراچی سے پشاور تک روشنی اور حرارت فراہم کر رہی ہے خود سوئی کی ۹۹ فی صد آبادی اور بلوچستان کی ۹۵ فی صد آبادی اس کی روشنی اور تمازت سے محروم ہے۔

موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس صوبے کے لیے کئی بڑے منصوبے (mega projects) اور ڈھائی ہزار کے قریب دوسرے ترقیاتی منصوبے زیرتکمیل ہیں اور چھے سال میں ۱۲۰ارب روپے اس کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ میرانی ڈیم‘ گوادر پورٹ اور مکران ہائی وے پر کام اس کا کارنامہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بلوچستان میں نفرت اور بے چینی کی لہریں کیوں اٹھ رہی ہیں؟ عالم یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء کے دو سال میں ۱۵۲۹ راکٹ فائر کیے گئے ہیں‘ ۱۱۳ بم دھماکے ہوئے ہیں‘ تین چینی انجینیرہلاک ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ ۱۰۰ سے زیادہ افراد اب تک جاں بحق ہوچکے ہیں اور کئی سو زخمی۔بگتی علاقے کا محاصرہ ہے‘ ڈاکٹر شازیہ کا المناک واقعہ رونما ہوا ہے اور جب سوئی گیس کی رسد متاثر ہوتی ہے‘ اور یہ بار بارہوئی ہے تو ملک کو روزانہ نقصان ۱۵ سے ۲۰ کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع سب سے بڑا المیہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ محض چند سرداروں کی سرکشی شرارت ہے جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر صوبے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں؟ کیا اس میں بیرونی ہاتھ ہے کہ بھارت کے اپنے عزائم ہیں اور وہ گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ امریکا کی اپنی سوچ ہے اور بلوچستان میں چین کے عمل دخل پر وہ مضطرب ہے۔ گوادر ہو یا سینڈک‘ ہر جگہ اسے چینیوں کا کردار نظرآتا ہے۔ ایران کے حوالے سے امریکا کے خفیہ اداروں کا کردار اور بلوچستان کی سرزمین سے خلق کے مجاہدین کے احیا کے اشارے مل رہے ہیں جن کو قوم پرست کہا جاتا ہے‘ ان کے اپنے اہداف ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ ان سب نظریات اور تصورات میں کچھ نہ کچھ صداقت بھی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مخالف قوتیں حالات کو اسی وقت استعمال کر سکتی ہیں جب ان کے لیے حالات سازگار ہوں اور بگاڑ موجود ہو اور مسائل کو بروقت اور صحیح طریقے پر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بس قوت کے ذریعے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

مجھے پچھلے سال بلوچستان کے حالات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کرنے اور صوبے کے چند اہم مقامات کا تفصیلی دورہ کرنے‘ بچشم سر حالات کا مشاہدہ کرنے اور درجنوں ذمہ دار افراد سے حقائق کو جاننے اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ جہاں مجھے یقین ہے کہ آج بھی تمام معاملات سیاسی عمل اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں‘ وہیں میرا یہ احساس اور بھی قوی ہوگیا ہے کہ    کچھ برسرِاقتدار قوتیں مسائل کو حل کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتیں بلکہ انھیں مزید الجھانے  اور بگاڑنے کے درپے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جس کا اعلان   چودھری شجاعت حسین نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے مختصر دور میں کیا تھا اور جو اس حیثیت سے ایک منفرد کمیٹی تھی کہ اس میں پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں بشمول قوم پرست جماعتیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس میں برسرِاقتدار جماعتیں اور اس کے حلیفوں کے نمایندوں کی تعداد ۱۶ تھی‘ جب کہ حزب اختلاف سے متعلق نمایندوں کی تعداد ۲۲ تھی۔ یہ کمیٹی ۷ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو قائم ہوئی اور اسے ۹۰ دن میں اپنا کام مکمل کرلینا تھا۔

اِس پارلیمانی کمیٹی نے مزید دو کمیٹیاں قائم کیں: ایک سینیٹر وسیم سجاد کی سربراہی میں جس کا کام دستوری معاملات پر سفارشیں پیش کرنا تھا اور دوسری سینیٹر مشاہد حسین سید کی سربراہی میں جسے سیاسی اور معاشی معاملات پر سفارشات مرتب کرنا تھا۔ مجھے دوسری کمیٹی میں کام کرنے کا موقع ملا اور مجھے خوشی ہے کہ اس کمیٹی نے کھلے دل سے اور صرف ملک کے مفاد میں اپنی پوری کارروائی کی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر‘ ملک کے مفاد اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی متفقہ سفارشات مرتب کیں جن کو ۵ جنوری ۲۰۰۵ء کو آخری شکل دے دی گئی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سفارشات آج تک پارلیمنٹ کے سامنے باضابطہ طور پر نہیں آسکی ہیں‘ ان پر عمل درآمد کی بات تو دُور کی چیز ہے۔ اس عرصے میں (مارچ ۲۰۰۵ئ) کے سنگین واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجے میں حالات مزید بگڑ گئے اور اس وقت طوفان کچھ تھما ہوا ہے مگر لاوہ پک رہا ہے اور حکمران اپنی ’’راج ہٹ‘‘ پر نازاں اور کمیٹی کا ارکان اس تغافل پر نالاں ہیں۔

یہ کہنا محال ہے کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کب اور کس طرح پیش کرپاتی ہے لیکن ہماری نگاہ میں وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری پر اس نقطۂ نظر اور ان سفارشات کے جوہر کو بیان کر دیں جو کمیٹی کی اکثریت کی سوچ کی نمایندگی کرتی ہیں اور جس کو ایک متعین شکل دینے میں دوسرے ارکان کے ساتھ راقم نے بھی ایک واضح کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانے میں کوئی تردد نہیں کہ سینیٹر مشاہد حسین سید اور خود چودھری شجاعت حسین کا رویہ مثبت رہا‘ البتہ ہمارے بار بار کے اصرار کے باوجود‘ وہ معاملات کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں‘ معلوم نہیں کیوں؟

ہماری نگاہ میں مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے چند بنیادوں کا تعین اور چند حقائق کا ادراک ضروری ہے اور ہم نے یہی چیز کمیٹی سے تسلیم کروانے کی کوشش کی:

۱-            مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوسکتا ہے۔

۲-            مسئلے کے حل کے لیے تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور کوشش کرنا ہوگی کہ مکمل اتفاق راے اور بصورت دیگر اکثریت کے مشورے سے معاملات کو طے کیا جائے۔

۳- یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ محض ’’مضبوط مرکز‘‘ کا فلسفہ غلط اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ’’مضبوط مرکز‘‘ اسی وقت ممکن ہے جب صوبے مضبوط ہوں اور کامل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ اب توجہ کے اصل محور کو مرکز سے صوبوں کی مضبوطی سے اس انداز سے منتقل ہونا چاہیے کہ مضبوط صوبے مضبوط مرکز کی راہ ہموار کریں۔ مرکز اور صوبوں میں dichotomy کی جگہ مفاہمت‘ ہم آہنگی اور mutuality کا رشتہ ہونا چاہیے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کا بھی یہی تقاضا تھا جسے پورا نہیں کیا گیا۔

۴-            چوتھا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس طرح زنجیر کی مضبوطی کا انحصار اس کی کمزور ترین کڑی پر ہوتا ہے‘ اسی طرح ملک کی مضبوطی کے لیے بھی ضروری ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو اتنا مضبوط کیا جائے اور اس سطح پر لایا جائے کہ سب برابر کی مضبوطی اور خوش حالی کے مقام پرآجائیں۔ دوسرے الفاظ میں سب انصاف کے حصول کمزور کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل آرا ہوں۔ انصاف نام ہی توازن اور برابری کا ہے اور یہی چیز آج تک ہماری معاشی منصوبہ بندی اور سیاسی پالیسی میں مفقود رہی ہے۔

۵-            اس پورے عمل میں اصل اہمیت افراد‘ علاقے‘ صوبے اور پوری قوم کے حقوق کا تحفظ اور سیاسی اور معاشی عمل میں تمام عاملین کی بھرپور شرکت اور کارفرمائی کو حاصل ہے۔ فردِواحد کی حکومت یا محض ایک خاص گروہ اور مقتدر گروہ کے ہاتھوں میں قوت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا ارتکاز خرابی کی جڑ ہے۔ مسئلہ معاشی ہے مگر اس سے بھی زیادہ صوبوں کے اپنے وسائل پر اختیار اور سیاسی اور معاشی فیصلوں میں شرکت اور ترجیحات کے تعین کی قدرت کا ہے۔ منہ بند کرنے کے لیے کچھ گرانٹس یا مراعات کے دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ملکیت‘ اختیار اور اقتدار اور فیصلوں میں شرکت کے انتظام کو ازسرِنو مرتب کرنا اصل ضرورت ہے۔

۶-            اس سلسلے میں فوج کا کردار بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف دفاع وطن کی ذمہ داری سول حکمرانی کے تحت انجام دے۔ ساری خرابیوں کی جڑ سیاسی اور اجتماعی معاملات فوج کی مداخلت اور ایک مقتدر سیاسی قوت بن جانا ہے۔ چھائونیوں کی ضرورت اگر ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہے تو وہ مسئلہ میرٹ پر طے ہونا چاہیے لیکن اگر لوگوں کو یہ خطرہ ہو کہ یہ چھائونیاں سول نظام کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ہیں تو پھر اس کے نتیجے میں سول عناصر اور فوجی قوت کے درمیان کش مکش ناگزیر ہوجاتی ہے۔ فوج کے سوچنے کا انداز (mind-set) سول نظام سے بہت مختلف ہے اور دونوں کا اپنے اپنے حدود میں رہ کر تعاون ہی ملک کے نظام کی صحت کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ تحکمانہ انداز بگاڑ پیدا کرتا ہے‘ اس سے خیر رونما نہیں ہوسکتا‘ اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ کمیٹی فوجی چھائونیوں کے قیام کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دے رہی ہے مگر فوج کے ترجمان کیا زبان استعمال کر رہے ہیں‘ جب کہ ۲۷ جنوری ۲۰۰۵ء کے  ڈان میں فوج کے ایک کرنل صاحب کا سوئی میں فوجی چھائونی کے بارے میں اس طرح کا اعلان اصلاح احوال کا ذریعہ کیسے  بن سکتا ہے؟

ہم یہاں آئے ہیں اور ہم نے پاکستان آرمی کو الاٹ شدہ ۴۰۰ ایکڑ زمین پر قبضہ حاصل (WE HAVE TAKEN OVER) کر لیا ہے۔ ہم یہاں جلد ہی ایک چھائونی تعمیر کریں گے جو اس علاقے کی ضرورت ہے۔ آج آپ کو یہاں صرف ریت کے ٹیلے نظر آئیں گے لیکن ایک بہت ہی مختصر مدت میں چھائونی کی تعمیر کی جائے گی اور ریت کے تودے سرسبز زمین میں تبدیل ہوجائیں گے۔

یہ وہی منطق ہے جس کا اظہار برطانوی سامراج کی افواج اور حکمران کیا کرتے تھے کہ ہم نے مقبوضہ علاقوں کو ترقی سے ہمکنار کر دیا ہے۔ ترقی بلاشبہہ مطلوب ہے مگر اس انداز میںکہ رشتہ ْحاکم اور محکوم کا نہ ہو بلکہ سب کے فیصلے سے اور سب کی شراکت سے معاملات طے ہوں۔ وسائل پر اختیار بھی آزادی کا لازمی حصہ ہے۔ محض سبزہ اُگانا اور روٹی دینا ترقی کا معیار نہیں۔

ان اصولوں کی روشنی میں کمیٹی کے ارکان کی اکثریت نے جو تجاویز دی ہیں‘ ان میں چند اہم یہ ہیں۔ اوّل: حقیقی صوبائی خودمختاری کے تقاضے پورا کرتے ہوئے دستور میں مرقوم مشترک فہرست (concurrent  list) کے ۴۶موضوعات میں سے ۲۹ کو فی الفور صوبوں کے سپرد کردیا جائے‘ باقی ۱۷ اگلے پانچ سال کے اندر اندر منتقل کر دیے جائیں۔ دستور کی مرکزی فہرست کے دوسرے حصے میں جو موضوعات ہیں وہ آیندہ کے لیے مشترک فہرست میں شامل کر دیے جائیں۔ نیز مشترک معاملات کی کونسل (Council of Common Interest) کو ایک مؤثر ادارہ بنایا جائے اور اس کی شش ماہی نشستوں کو دستوری طور پر لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اپنا سیکرٹیریٹ ہو تاکہ یہ دوسروں کی مہربانی پر زندہ نہ رہے۔

دوم: سیاسی فضا کو خوش گوار بنانے کے لیے ہر طرح کے عسکری تشدد کا راستہ بند کیا جائے‘ مذاکرات سے معاملات طے کیے جائیں‘ اور جو سیاسی کارکن گرفتار ہیں‘ ریاستی اور سیاسی ان کی رہائی کا اہتمام کیا جائے۔

سوم: صوبے کو اپنے وسائل پر اختیار دیا جائے اور مرکز سے جو وسائل منتقل ہوتے ہیں‘ ان میں انصاف اور ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں گیس اور معدنیات کی رائلٹی کو نئے فارمولے کی روشنی میں انصاف کے مطابق مقرر کیا جائے۔

چہارم: معاشی ترقی کے ثمرات کو علاقے کے عوام تک پہنچانے کا بندوبست ہو۔ اس کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ معدنی وسائل کو دریافت کرنے اور ترقی دینے والی کمپنیوں کے لیے لازم کیا جائے کہ وہ اپنی کل سرمایہ کاری (investment) کا کم ازکم پانچ فی صد علاقے کے لوگوں کی تعلیم‘ صحت اور دوسری سہولتوں کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جائے‘ نیز معدنیات کی ترقی کے بعد ان کمپنیاں کے نفع کا ۱۵ فی صد اس علاقے کی ترقی کے لیے صرف کیا جائے۔

پنجم: نیز صوبے میں تعلیم‘ صحت‘ پانی کی فراہمی‘ بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ملازمتوں پر مقامی آبادی اور صوبے کے لوگوں کو ترجیح دی جائے‘ اور یہ سب کام میرٹ کی بنیاد پر انجام دینے کے لیے مقامی آبادی کی تعلیم‘ پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھانے کا انتظام  کیا جائے۔

ششم: فرنیٹر کور اور کوسٹل گارڈ کو صرف ساحلی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جائے اور ان کا سول کردار ختم کیا جائے۔ نیز اسمگلنگ روکنے کے نام پر جو ۵۰۰سے زیادہ چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں‘ ان کو ختم کیا جائے۔ اسمگلنگ روکنے کا کام فرنٹیرکانسٹیبلری اور کوسٹل گارڈ سے نہ لیا جائے بلکہ یہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو۔ اسی طرح فوجی چھائونیوں کا معاملہ  سیاسی بحث و مناقشے کا حصہ نہ ہو اور صرف دفاعی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔  فی الحال ان کے قیام کو ملتوی کر دیا جائے تاکہ بہتر فضا میں صحیح فیصلے ہوسکیں۔

ہفتم: گوادر پورٹ کی اتھارٹی کو فوری طور پر کراچی سے گوادر میں منتقل کیا جائے۔ اس میںصوبے کو مناسب نمایندگی دی جائے‘ اس کی ترقی کے پورے پروگرام میں صوبے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ علاقے کے لوگوں کو ان کا حق ملے‘ زمینوں پر باہر والے قبضہ کر کے علاقے کی شناخت کو تبدیل نہ کر دیں اور جو متاثرین ہیں ان کو قریب ترین علاقے میںآباد کیا جائے۔ نیز اراضی کے بڑے بڑے قطعے جس طرح فوج‘ نیوی اور دوسرے بااثر افراد اور اداروں نے ہتھیا لیے ہیں ان کو سختی سے روکا جائے اور انصاف پر مبنی شفاف انداز میں پورے علاقے کا ماسٹر پلان ازسرِنو تیار کیا جائے۔

ہشتم: بلوچستان میں بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے تمام علاقوں اور باسیوں کی منصفانہ اور متوازن ترقی کے تقاضے بہرصورت پورے ہونے چاہییں۔ خصوصیت سے خشک سالی کی بنا پر جو علاقے گذشتہ آٹھ برس سے متاثر ہیں ان کی ترقی اور تلافی کا اہتمام کیا جائے۔

نہم: بلوچستان میں نظم و نسق کے روایتی انتظام کو جس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت مقامی لیوی کو حاصل ہے‘ برقرار رکھا جائے اور اس کی ترقی کا اہتمام کیا جائے نہ کہ اس کو ختم کرکے پولیس کے نظام کو ان پر مسلط کیا جائے جو اس علاقے میں بھی ناکام ہے جہاں اس وقت اسے قدرت حاصل ہے۔

ہمارا مقصد کمیٹی کی مکمل سوچ کا احاطہ اور اس کی تمام سفارشات کا بیان نہیں۔ ہم سوچ کے اس رخ کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو پارلیمنٹ کی اس کمیٹی نے پیش کیا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچستان ہی نہیں‘ تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں‘ عوام کے مشورے سے ہوں۔ مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے۔ مخصوص مفادات اور فوجی اور سول مقتدرہ (military - civil establishment) کی گرفت کو ختم کیا جائے‘ اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔

صوبائی قیادت کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی صوبائی قیادتیں بھی حالات کے بگاڑ کے سلسلے میں ایک حد تک ذمہ دار رہی ہیں لیکن زیادہ ذمہ داری مرکزی قیادت اور خصوصیت سے حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید یہی وہ طبقہ ہے جو پارلیمانی کمیٹی کے کام کے آگے بڑھنے کی راہ میں حائل ہے۔ مسئلے کا حل پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتوں اور عوام کے اپنے کردار کو مؤثر بنانے میں ہے‘ بقول اقبال    ؎

ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ

ُتو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

 

برطانیہ کے ہفت روزہ اکانومسٹ نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھاکہ پاکستان ایک ایسا غریب ملک ہے جس میں امیروں کی ریل پیل ہے۔ فوجی حکومت کے چھے سالہ دورحکومت میں‘ اور خصوصیت سے گذشتہ دو سالوں میں‘ جہاں ملک میں غربت‘ بے روزگاری‘ افراط زر‘ بجٹ کے خسارے اور ملک کے تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا ہے‘ وہیں امیروں کی تعداد میں بھی معتدبہ اضافہ واقع ہوا ہے۔ زمین کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے‘ اسٹاک ایکسچینج کے غبارے میں سٹہ کاری کے ذریعے ہوا بھرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن اور بدعنوانی کے فروغ کے نتیجے میں ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر ہو رہا ہے اور عام آدمی غریب سے غریب تر۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں دراصل گلوبلائزیشن اور عالمی مالیاتی اداروں کے زیراثر آزاد تجارت‘ نج کاری‘ سرمایہ پرستی‘ ڈی ریگولیشن اور کارپوریٹ کلچر کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملک کی معیشت پر بے روک ٹوک چھا جانے کا موقع دینے سے عبارت ہیں۔

اس صورت حال کے نتیجے میں دولت کا ارتکاز خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ملک میں ایک ایسی اشرافی معیشت (elitist economy) پروان چڑھ رہی ہے کہ بیرونی اور ملکی سرمایہ دار معیشت کے پورے دروبست پر قابض ہوتے جائیں اور عام انسان ایک نئی معاشی غلامی کے شکنجے میں کستے چلے جائیں۔ تازہ بجٹ (۲۰۰۶ئ-۲۰۰۵ئ) معیشت کے اس رخ کا پوری طرح عکاس ہے اور اگر اسے اسلام آباد کے ایئرکنڈیشنڈ ایوانوں میںتیار کردہ امیروں کا ایک ایسا بجٹ کہا جائے جو امیروں کو امیر تر بنانے کے لیے ہے تو بے جا نہ ہوگا یعنی:

a budget of the rich, by the rich and  for the rich.

امیروں کے لیے‘ امیروں کا بنایا ہوا امیروں کا بجٹ۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کے عوام‘ پارلیمنٹ اور معیشت کے تمام کارفرما عناصر  (stake holders) کا اس کے بنانے میں کوئی دخل نہیں۔ اقتدار پر بیورو کریسی‘ فوجی قیادت اور مفاد پرست عناصر کا قبضہ ہے اور پالیسی سازی پر ان کی گرفت مکمل ہے۔ عوامی واویلا ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اہلِ علم غیرمتعلق ہیں اورخود پارلیمنٹ میں اٹھنے والی آوازیں خواہ ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا سرکاری حلقوں سے‘ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ___یہ بڑی دردناک صورت حال ہے اور اگر اس کی اصلاح کی فوری کوشش نہیں کی گئی تو ایک طرف معیشت تباہی کی طرف بڑھے گی تو دوسری طرف ملک کے عوام اور ان کے نمایندوں کا احساسِ بے بسی قوم کو تصادم اور انقلاب کی راہ پر ڈال سکتا ہے جس کے نتائج ضروری نہیں کہ خیر کی طرف ہوں۔

پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ پالیسی سازی پر عوام اور ان کے نمایندوں کی گرفت نہیں۔ ایک بااثر ٹولہ ہے جو ملک کو جدھر چاہتا ہے لیے جا رہا ہے۔ ۵۸ سال کے اس عرصے میں بیوروکریسی نے ۳۲ بجٹ بنائے اور فوجی قیادت کے بلاواسطہ انتظام و انصرام میں ۲۶ بجٹ بنائے گئے۔ ان میں سے کچھ کا تو صرف ریڈیوا ور ٹی وی پر اعلان ہوا اور جو کسی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے تو صرف انگوٹھا لگوانے کے لیے۔ اس ۵۸ سالہ تاریخ میں صرف ایک بجٹ ایسا تھا جسے پارلیمنٹ نے پیش کیے جانے کے بعد رد کر دیا اور اسے دوبارہ مرتب کر کے اسمبلی میں پیش کیا گیا (یعنی جونیجو دور میں یٰسین وٹو کا بجٹ)۔ لیکن اس بجٹ کے پیش کیے جانے کے بعد مقتدر اور بااثر حلقے متحرک ہوگئے اور سال کے ختم ہونے سے پہلے اس حکومت ہی کا نہیں‘ اس اسمبلی کا بھی بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔

ہم بجٹ پر گفتگو کرنے سے پہلے تین بہت بنیادی امور کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جن کا  تعلق ان اداراتی اصلاحات سے ہے جن کے بغیر ہماری نگاہ میں بجٹ سازی اور پالیسی سازی  اس یرغمالی نظام (hostage keeping) سے نکل نہیں سکتی جس کی گرفت میں وہ نصف صدی سے ہے۔

پارلیمنٹ کا اختیار؟

ہمارے ملک میں بجٹ سازی آج بھی انھی خطوط اور تحدیدات (limitations) کے شکنجے میں ہوتی ہے جو برطانوی سامراجی دور کا طرہ امتیاز تھا اور جسے ۱۹۳۵ء کے قانون کی شکل میں ملک پر مسلط کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے دستور بنانے والوں نے اس شکنجے کو توڑنے اور مالیاتی امور میں پارلیمنٹ اور عوام کی حاکمیت کو دستور میں منوانے کی کوئی کوشش نہیں کی حالانکہ آزادی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تقاضا تھا کہ ٹیکس لگانے اور تمام مصارف کی اجازت اور نگرانی کا مکمل اختیار پارلیمنٹ کو ہو۔ برطانوی استعمار کی روایت کو باقی رکھتے ہوئے اخراجات کا ایک حصہ جسے charged  اخراجات کہا جاتا ہے وہ انتظامیہ کا طے کردہ ہوتا ہے جسے پارلیمنٹ میں پیش تو کیا جاتا ہے مگر اسے اس میں نہ صرف یہ کہ کمی و بیشی کا اختیار نہیں وہ اس پر ووٹ دینے کی بھی مجاز نہیں۔ اسے من و عن قبول کرنا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ موجودہ بجٹ کے جاری اخراجات (Revenue Expenditure) کے تقریباً ایک تہائی‘ یعنی ۰۹۵.۹۶۱ بلین کے اخراجات میں سے ۸۴۵.۳۱۳ بلین روپے charged  ہیں اور ترقیاتی اخراجات (Capital Expenditure) کا تقریباً ۹۶ فی صد‘ یعنی ۳۱۷.۲۲۷۱بلین میں سے ۲۱۲.۲۱۸۷ بلین charged ہے اور اس طرح Federal Consolidated Fund سے کل خرچ (authorized disbursement)‘ یعنی ۴۱۲.۳۲۳۲ بلین کا ۷۸ فی صد‘ یعنی ۰۵۷.۲۵۰۱ بلین روپے charged ہیں اور صرف ۳۵۵.۷۳۱ بلین روپے other than chargedہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ Annual Budget Statement 2005-2006‘ ص ۱۹۰)

سرکاری خزانے کے مصارف کی اتنی بڑی رقم کے لیے پارلیمنٹ کے ووٹ کی بھی ضرورت نہیں    ؎

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

جو چاہے سو آپ کرے ہے‘ ہم کو عبث بدنام کیا

فوج کا بجٹ

دوسرا مسئلہ فوج کے بجٹ کا ہے۔ خواہ معاملہ جاری مصارف کا ہو یا ترقیاتی مصارف کا‘ بجٹ میں صرف ایک جملے میں مطالبہ زر آتا ہے اور پارلیمنٹ کو نہ اس کی تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ان مصارف پر پارلیمنٹ کوئی احتساب کر سکتی ہے۔ یہ بھی اطلاع نہیں دی جاتی کہ اس میں سے کتنی رقم فوج کی تین بڑی مدات بری‘ فضائی اور بحری فوج پر خرچ کی جارہی ہے اور دفاع کی عمومی حکمت عملی اور فوجی اخراجات میں کیا مناسبت ہے۔

فوج کا بجٹ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی دسترس سے بھی باہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوج کا اپنا نظامِ احتساب ہے لیکن یہ سب پارلیمنٹ کی دسترس سے باہر ہے حالانکہ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں فوج کا مکمل بجٹ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کے سامنے آتا ہے اور چند حساس دائروں کو چھوڑ کر ہر خرچ پارلیمنٹ کی منظوری سے انجام پاتا ہے۔

ہمارے فوجی بجٹ کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ڈیفنس سروس کے عنوان سے ایک بڑی رقم لی جاتی ہے جو آیندہ سال کے لیے ۵۰۱.۲۲۳ بلین روپے ہے۔ یہ رقم ۲۰۰۱ئ-۲۰۰۰ء کے بجٹ میں ۳۰۱.۱۳۳ بلین روپے تھی اور ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں اسے بڑھا کر ۹۲۶.۱۹۳ بلین کیا گیا تھا اور اضافے کی بڑی وجہ بھارت سے ایک سال کے فوجی تصادم کی وجہ سے فوجی نقل و حرکت کو قرار دیا تھا۔ مگر فوجوں کی محاذ سے واپسی کے باوجود عملاً فوج کا خرچ مزید بڑھ گیا ہے۔ نظرثانی شدہ تخمینے میں اسے بڑھا کر ۲۵۸.۲۱۶ بلین کر دیا گیا ہے جو اب مزید بڑھا کر ۵۰۱.۲۲۳ بلین تجویز کیا گیا ہے۔ نیز فوجی عملے کو دی جانے والی پنشن جو تین سال پہلے تک فوجی بجٹ کا حصہ ہوتی تھی اسے سویلین بجٹ کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور یہ رقم سال آیندہ کے لیے ۹۴۶.۳۶ بلین روپے ہے۔ اس کے علاوہ سول آرمڈ فورسز ہیں‘ جو عملاً فوج کے تحت ہیںلیکن ان کا خرچ سول بجٹ سے لیا جاتا ہے‘ یعنی فرنٹیر کانسٹیبلری (۵۳۱.۱ بلین روپے)‘ پاکستان رینجرز (۷۸۹.۳ بلین روپے) اور پاکستان کوسٹل گارڈ (۱۶۲.۳۵۹ ملین روپے)۔ کیڈٹ کالجوں پر خرچ اس کے سوا ہے جو خود ایک ارب روپے سے متجاوز ہے۔ اس میں اگر ان بیرونی قرضوں کی واپسی مع سود کی مد میں جو فوجی مقاصد کے لیے ‘ لیے گئے قرضے ہیں ان کو شامل کر لیا جائے تو بجٹ پر اس کا بوجھ تقریباً ۳۳۷.۱۶ بلین روپے کا ہے۔ اس میں اٹامک انرجی کمیشن کے اخراجات شامل نہیں ہیں جس کا ایک حصہ فوجی مقاصد کے لیے ہے اور ایک توانائی اور دوسرے پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اگر فوج کے پورے سالانہ بجٹ کا احاطہ کیا جائے تو یہ ۲۸۰ اور ۳۰۰ بلین روپے پر محیط ہے۔

بلاشبہہ فوج کی ہر حقیقی ضرورت کو پورا کرنا ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے ضروری ہے اور ہر قوم اپنے دفاع کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہے اور کرنا چاہیے۔ لیکن قوم اور اس کی پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ دوسرے مصارف کی طرح ضروری احتیاط کے ساتھ ان اخراجات پر بھی نگاہ رکھے اور قومی حکمت عملی سے اسے ہم آہنگ ہی نہ کرے بلکہ وسائل کے  بہترین استعمال کو بھی یقینی بنائے۔

بجٹ سازی کا طریق کار

تیسرا مسئلہ بجٹ سازی کے طریق کار اور اس عمل میں صرف ہونے والے وقت اور قومی اداروں کی بجٹ سازی میں شرکت کا ہے۔ انٹرنیشنل پارلیمانی یونین نے دنیا کی ۸۰ جمہوری پارلیمنٹوں کا جو جائزہ شائع کیا ہے اس کے مطابق ان تمام ممالک میں بجٹ سازی کے لیے دو سے چھے ماہ کا وقت لیا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ عمل ۷۵ دن میں پورا ہوتا ہے‘ جب کہ برطانیہ‘ کینیڈا‘ سویڈن‘ نیوزی لینڈ‘ برازیل‘ الجزائر‘ ارجنٹنا‘ ڈنمارک‘ بلجیم‘ فرانس‘ جرمنی‘ انڈونیشیا‘ اٹلی‘ جاپان‘ غرض بیشتر ممالک میں تین سے چار مہینے اس کے لیے وقف کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں یہ عمل پورے سال جاری رہتا ہے۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے ساتھ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں بحث ہوتی ہے اور یہ کمیٹیاں عوامی نمایندوں اور معیشت کے مختلف کارپردازوں کو اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ انتظامیہ کے نمایندے پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کے نمایندوں اور دوسرے عوامی اور تجارتی و صنعتی نمایندوں سے بحث و گفتگو اور کچھ لینے اور کچھ دینے کے ذریعے بجٹ کو آخری شکل دیتے ہیں۔ Ways and Means Committee ‘ تخمینہ کمیٹی یا فنانس کمیٹی پورے عمل میں شریک ہوتی ہے اور انتظامیہ کی طرف سے اخراجات کے تخمینوں اور آمدنی کے ذرائع پر کھل کر بحث کی جاتی ہے اور پھر بجٹ کو آخری شکل دی جاتی ہے۔ یہی جمہوریت کی روح ہے۔

اس کے مقابلے میں پاکستان میں بجٹ بنانے میں پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کا عملاً کوئی حصہ نہیں۔ قومی اسمبلی میں بجٹ ایک طے شدہ شکل میں پیش کر دیا جاتا ہے اور بمشکل دو ڈھائی ہفتوں میں (۱۴ سے ۲۰ دن) اسے زبردستی منظور کرا دیا جاتا ہے۔ سینیٹ کا پہلے تو کوئی عمل دخل تھا ہی نہیں حالانکہ ہر وفاقی نظام میں ایوان بالا کا بجٹ سازی میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے اور ۱۹۸۷ء سے پاکستان میں سینیٹ اپنا یہ حق تسلیم کرانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔ سترھویں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کو تھوڑا سا رول میسرآیا ہے لیکن بس اتنا کہ سات دن کے اندر اپنی سفارشات قومی اسمبلی کو بھیج دے جسے رد و قبول کا مکمل اختیار قومی اسمبلی کو ہے اور قومی اسمبلی کا عملی رویہ یہ ہے کہ گذشتہ تین سال سے سینیٹ نے بڑی محنت سے جو سفارشات پیش کی ہیں نہ ان پر کھل کر بحث کی ہے اور نہ ان کی اہم سفارشات کو بجٹ کا حصہ بنایا ہے۔

اس سال سینیٹ نے ۲۴۶ تجاویز پر غور کر کے ان میں سے ۵۸ کو متفقہ طور پر منظور کر کے قومی اسمبلی کو بھیجا۔ ان میں سے ۱۸ کا تعلق مالیاتی بل کی قانونی اور فنی خامیوں کی اصلاح سے تھا‘ تین کا تعلق قانون کو عدل وا نصاف کے مسلمہ اصولوں کے مطابق لانے کے لیے اساسی تجاویز سے تھا۔ ۱۷ تجاویز معاشی اور مالیاتی اعتبار سے بڑی بنیادی نوعیت کی تھیں جن کے بجٹ پر بڑے دُور رس اثرات مرتب ہونے تھے‘ یعنی روزگار کی فراہمی‘ غربت میں کمی‘ امیروں پر نئے ٹیکس‘ خصوصیت سے اسٹاک ایکسچینج اور زمینوں اور مکانوں کی فروخت پر cvt ‘بچتوں کی ترغیب کے لیے ٹیکس اصلاحات‘ بنکوں پر ٹیکس کی شرح میں کمی کی مخالفت‘ زرعی inputs پر درآمدی اور سیلز ٹیکس میں چھوٹ وغیرہ۔ نیز ۱۲ تجاویز معاشی پالیسی میں تبدیلی اور چھے کا تعلق مالیاتی اداروں‘ سرکاری انتظامی نظام اور دستور اور قانون میں ایسی تبدیلیوں سے تھا جو بجٹ سازی کو زیادہ نمایندہ بنا سکے اور     اعداد و شمار کے نظام کو بہتر اور قابلِ اعتماد بنا سکے۔ لیکن ان میں سے چند ضمنی اور صرف ٹیکنیکل سفارشات کو تو اس لیے لے لیا گیا کہ وہ فنانس بل کے بڑے موٹے موٹے سقم (loop holes) دُور کر رہی تھیں اور وزارت خزانہ اور وزارت قانون کی سنگین غلطیوں کا مداوا کر رہی تھیں۔ لیکن  نظام کی اصلاح اور بجٹ کو قومی ترجیحات سے ہم آہنگ کرنے والی تمام تجاویز کو بحث کے بغیر ہی  رد کردیا گیا جس نے سینیٹ کی تمام کوشش کو ایک خواہ مخواہ کی مشق بنا کر رکھ دیا۔

ان حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دستور اور پارلیمنٹ کے ضوابط کار میں   درج ذیل بنیادی تبدیلیاں کی جائیں:

۱-            chargedاور other than charged کی تقسیم کو ختم کیا جائے اور تمام اخراجات اور تمام ٹیکس کے اقدامات بشمول ایس آر اوز جو عملاً ٹیکس لگانے کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں پارلیمنٹ اور صرف پارلیمنٹ کے اختیار میں ہوں۔

۲-            سینیٹ کو بجٹ سازی میں مؤثر کردار دیا جائے اور جہاں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اختلاف ہو وہاں ان اختلافات کو مصالحتی کمیٹیوں کے ذریعے حل کیا جائے۔

۳-            بجٹ سازی کا عمل سال کے ختم ہونے سے چار مہینے پہلے شروع ہو اور اس کی ترتیب یہ ہونی چاہیے:

ا- جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں وزیرخزانہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پچھلے سال کا معاشی جائزہ‘ معیشت اور مالیاتی اہداف اور ان کے حصول کا پروگرام پیش کریں اور آیندہ کے لیے اپنے اہداف‘ ترجیحات اور لائحہ عمل کے خدوخال رکھیں۔

ب- اس کے فوراً بعد دونوں ایوانوں میں بجٹ کے ان اہداف اور ملک کی ضروریات پر ایک ہفتہ عمومی بحث ہو۔

ج- اس بحث کی روشنی میں دونوں ایوانوں کی مالیاتی کمیٹیاں بجٹ کی تفصیلات پر غور کریں اور پارلیمنٹ کی مختلف وزارتوں سے متعلقہ کمیٹیوں کو موقع دیا جائے کہ دو سے تین ہفتوں میں اپنی سفارشات متعلقہ مالیاتی کمیٹیوں کو بھیج دیں۔

د- دونوں ایوانوں میں مالیاتی کمیٹیاں عوام کو اپنی سفارشات پیش کرنے کی دعوت دیں اور معیشت سے متعلق تمام کارفرما اداروں کو موقع دیا جائے کہ ان کمیٹیوں کے سامنے اپنے مسائل‘ ضروریات اورمشورے رکھیں۔

ھ- یہ کمیٹیاں وزارت خزانہ کے ساتھ الگ الگ یا مشترک اجلاس میں عوام کے مطالبات‘ ضروریات اور عوامی نمایندوں کی تجاویز اور مشوروں پر تبادلہ خیال کر کے اپنی تجاویز مرتب کریں۔

و- ان تجاویز کو حکومت کو مارچ کے آخیر یا اپریل کے شروع تک بھیج دیا جائے تاکہ ان کی روشنی میں وزارت خزانہ بجٹ کو آخری شکل دے‘ جو مئی کے وسط میں بجٹ کو آخری شکل میں دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کر دے۔

ز- سینیٹ دو ہفتے (کام کرنے کے ۱۴ دن) میں اپنی آخری سفارشات اسمبلی کو بھیج دے اور اسمبلی ان پر باقاعدہ بحث کر کے دلائل کے ساتھ قبول یا رد کرنے کا کام انجام دے۔

ک- اسمبلی میں مکمل بحث کے بعد جون کے تیسرے یا چوتھے ہفتے میں بجٹ منظور کیا جائے۔

۴-            پبلک اکائونٹس کمیٹی کو وسعت دی جائے ‘ اسے پارلیمنٹ کی مشترک کمیٹی بنایا جائے جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کو برابر کی نمایندگی دی جائے۔

۵-            پبلک اکائونٹس کمیٹی سال بھر کام کرے۔ آڈیٹر جنرل کی ذمہ داری ہو کہ ہر تین مہینے بعد اپنی رپورٹ اس کمیٹی کو پیش کرے اور یہ کمیٹی کی ذمہ داری ہو کہ رپورٹ آنے کے تین مہینے کے اندر اندر اس پر غور کر کے اپنی رپورٹ دے دے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ سال کے ختم ہونے کے ایک سال کے اندر پارلیمنٹ کے سامنے آجائے۔ تین تین اور چار چار سال کے بعد رپورٹ کا آنا اسے بالکل بے معنی بنا دیتا ہے۔

نیشنل فنانس کمیشن کا ایوارڈ

دوسرا بنیادی مسئلہ نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ کا ہے جس کے بغیر بجٹ سازی کا پورا عمل غیر دستوری ہی نہیں ہوجاتا‘ عملی اعتبار سے مرکز اور صوبے دونوں کے لیے بجٹ سازی ایک مشکل بلکہ لاحاصل عمل بن جاتی ہے۔ دستور کی دفعہ ۱۶۰ کے تحت ہر پانچ سال بعد ایوارڈ کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کے بغیر مرکز اور صوبوں کو اپنے پورے مالی وسائل کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا جس کی عدم موجودگی میں وہ محض مفروضوں پر بجٹ بناتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان صوبوں کو ہوتا ہے جو بالکل اندھیرے میںبجٹ سازی کرنے پر مجبور ہیں۔

موجودہ حکومت جس ایوارڈ کی بنیاد پر مالی وسائل کی تقسیم کر رہی ہے‘ وہ ۲۰۰۲ء میں ختم ہوچکا ہے اور اس طرح اب یہ تیسرا سال ہے کہ صوبے اپنے حق سے محروم ہیں۔ واضح رہے کہ ۱۹۹۱ء سے پہلے صوبے اپنے بجٹ آزادی سے بناتے تھے اور بجٹ میں خسارے کا بھی ان کو اختیار تھا جسے مرکزی حکومت پورا کرتی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں خسارے کے تصور کو ختم کیا گیا البتہ ترقیاتی منصوبے کی مالی ضرورتیں پوری کرنا مرکز کی ذمہ داری رہی۔ ۱۹۹۷ء کے ایوارڈ کی رو سے صوبوں کے لیے پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام (PSDP) کی مرکزی ذمہ داری کو ختم کر دیا گیا اور صوبوں کو اس کے لیے خود ذمہ دار کیا گیا کہ اپنے وسائل سے یا قرض لے کر اسے پورا کریں۔ پہلے قابل تقسیم فنڈ میں کسٹم ڈیوٹی شامل نہیں تھی اور انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ہی قابلِ تقسیم اجزا تھے جن میں مرکز ۲۰ فی صد رکھ کر ۸۰ فی صد صوبوں کو دے دیتا تھا۔ ۱۹۹۷ء میں کسٹم ڈیوٹی اس میں شامل کر لی گئی اور فنڈ میں تمام ٹیکس شامل ہوگئے‘ البتہ صوبوں کا حصہ کم کر دیا گیا۔ مرکز ۵.۶۲ فی صد اور صوبے ۵.۳۷ فی صد کے حق دار ٹھیرے۔ اس طرح عملاً مرکز نے صوبوں کے حصے کو محدود اور مقید کر دیا اور وسائل کا توازن مرکز کے حق میں اور صوبوں کے خلاف ہوگیا۔

سیلز ٹیکس آزادی کے وقت ایک صوبائی ٹیکس تھا اور دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں فیڈرل نظام ہے یہ ٹیکس صوبائی ہی ہوتا ہے مگر ۱۹۵۴ء میں مرکز نے عارضی طور پر صوبوں سے یہ ٹیکس لے لیا اور آج تک اسے مرکزی ٹیکس ہی بنائے ہوئے ہے جس کا نتیجہ ہے کہ صوبے مالیاتی اعتبار سے مرکز کے محتاج ہوگئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے سلسلے میں ایک نئی اور مستقل افہام و تفہیم ہوجائے اور دستور میں ضروری ترمیم کے ذریعے اس مسئلے کا مستقل حل نکال لیا جائے‘ نیز مالیاتی ایوارڈ کے معاملے کو فوری طور پر طے کیا جائے۔ صرف ایک صوبے کے ایک خاص گروہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورا ملک نقصان اٹھا رہا ہے۔ سینیٹ نے بھی اپنی ۵۸سفارشات میں اس امر کو شامل کیا تھا کہ قومی مالیاتی ایوارڈ کا اعلان بجٹ کی منظوری سے پہلے کیا جائے لیکن بجٹ اسمبلی نے منظور کرلیا اور مالیاتی ایوارڈ کو ایک بار پھر تعویق میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو صوبوں میں بے چینی اور اضطراب کو بڑھا رہا ہے اور مرکز اور صوبوں میں     ہم آہنگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصول طے ہوجانا چاہیے کہ مرکز میں صرف وہ وزارتیں ہوں گی جو مرکزی نوعیت کی ہیں اور دستور کے مطابق تمام صوبائی امور مکمل طور پر صوبوں کے پاس ہوں۔ نیز مالی وسائل کے اعتبار سے صوبے اپنے قدرتی وسائل کے مالک ہوں اور صوبے اور ملک دونوں کے حقوق کے درمیان ایک توازن سے معاملات طے کیے جائیں۔ انصاف اور حقوق کی ادایگی ہی کے ذریعے ملکی سلامتی اور استحکام ممکن ہے اور مالی وسائل کی منتقلی کے بغیر اختیارات کی منتقلی ایک لایعنی عمل ہے۔ اس مسئلے کا فوری حل ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔

اعداد و شمار کی صحت

تیسرا بنیادی مسئلہ معاشی حالات اور کوائف کی صحت اور اعداد و شمار کے قابلِ اعتبار ہونے کا ہے۔ ملک کے سالانہ معاشی جائزے کا کام وزارتِ خزانہ کے بجاے ایک آزاد ادارے کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ نیز شماریات کی وزارت کا خودمختار ہونا ضروری ہے جو دستور یا کم از کم ملکی قانون کے تحت اپنا کام انجام دے۔ سی بی آر‘ وزارتِ تجارت‘ وزارتِ زراعت‘ اسٹیٹ بنک‘ غرض ہر ادارے کی ذمہ داری ہو کہ صحیح صحیح اعداد و شمار‘ مرکزی شماریاتی ادارے کو فراہم کرے اور یہ ادارہ خود اعداد و شمار کی صحت کے تعین اور ان کے حاصل کرنے اور ان کو مرتب کرنے کا کام انجام دے۔ اعداد و شمار اگر قابلِ اعتبار نہ ہوں تو یہ ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے اس لیے کہ صحیح منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا انحصار صحیح اعداد و شمار پر ہی ہوتا ہے۔ اور اگر اعداد و شمار کو سیاسی مصالح اور ضرورتوں کے مطابق بددیانتی سے تبدیل کیا جائے تو یہ ایک ظلم عظیم سے کم نہیں۔

اس سلسلے میں موجودہ حکومت کا ریکارڈ کوئی زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ بجٹ کی جو دستاویزات دی گئی ہیں ان میں بڑے بڑے سقم ہیں۔ بجٹ کی تقریر‘ بجٹ کا اختصار اور تفصیلی دستاویزات میں نمایاں فرق ہیں جن کی وجہ سے بجٹ کے خسارے کی کل رقم مشتبہ ہوجاتی ہے اور جن مالیاتی ماہرین نے ان دستاویزات کا مقابلہ اور موازنہ کیا ہے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ مالیاتی خسارہ قومی پیداوار کے ۸.۳ فی صد سے کہیں زیادہ ہے۔

اگر مزید غوروخوض سے بجٹ کی دستاویزات کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی اپنی کارکردگی دکھانے اور صرف روشن پہلو پیش کرنے کی خاطر اعداد و شمار کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ چند مثالیں بات کو سمجھنے میں مددگار ہوں گی۔

دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ہر پانچ یا سات سال کے بعد معیشت میں تبدیل ہونے والی سرگرمیوں کا احاطہ کرنے کے لیے قومی آمدنی کی بنیادی معلومات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ قومی آمدنی کی پیمایش (National Income Accounting) کا ایک خاص اصول ہے اور اس کے لیے بنیادی سال (base year )کو up gradeکیا جاتا ہے۔ مگر اس طرح کہ ماضی‘ حال اور مستقبل میں موازنہ متاثر نہ ہو۔ پاکستان میں ۸۱-۱۹۸۰ء کے بنیادی سال پر قومی پیداوار GDP کا حساب (calculation) ہورہا تھا‘ اب ۲۰ سال کے بعد ۲۰۰۰ئ-۱۹۹۹ء کو نیا بنیادی سال بنایا گیا۔اس تبدیلی کی وجہ سے کل قومی پیداوار تقریباً ۵.۱۹ فی صد زیادہ ہوجاتی ہے۔ قومی دولت میں تقریباً ۲۰ فی صد کا یہ اضافہ نظام کی تبدیلی کا مرہونِ منت ہے۔ اسے نئی پیداوار نہیں کہا جاسکتا بلکہ جو پیداوار موجود تھی اور حساب کا حصہ نہیں بن رہی تھی اسے صرف حساب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ نئی پیداوار نہیں ہے۔ اگر اس ایک بنیادی حقیقت کو نمایاں نہ کیا جائے تو حکومت کی کارکردگی اور معیشت کی تبدیلیوں کی اصل حقیقت کو سمجھنا ممکن نہیں ہوگا۔

یہ تو فنی مسئلہ ہے۔ دوسری مثال غربت کی لیجیے۔ ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ کے موقع پر ایک مختصر سروے کی بنیاد پر حکومت نے دعویٰ کیا کہ غربت میں ۴ فی صد کمی ہوئی ہے حالانکہ اس مختصر جائزے اور نارمل ہائوس ہولڈ سروے کے نتائج کا موازانہ فنی اعتبار سے صحیح نہیں تھا لیکن حکومت نے غربت کی کمی کے دعوے شروع کر دیے۔ حالانکہ حقیقی پیداوار‘ روزگار‘ افراط زر‘ قومی بچت‘     سرمایہ کاری اور حقیقی اُجرت کے تمام اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو غربت کے کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس میں اضافے کا امکان زیادہ ہے۔ لیکن سچ کہا کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ اس سال کا معاشی سروے مطالعہ فرما لیجیے۔ اس میں غربت اور تقسیمِ دولت کا باب تو   حسبِ سابق قائم کیا گیا ہے لیکن غربت کے بارے میں اعداد و شمار غائب ہیں۔ تقسیمِ دولت کا تو پورا باب ہی غائب ہے۔ جو وعدہ سال گذشتہ کے بجٹ میں کیا گیا تھا اور جن اعداد و شمار کا سہارا لیا گیا اب ان کا ذکر نہیں بلکہ مبہم سے انداز میں بالواسطہ اشاریوں کی روشنی میں نیا دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک اور سروے کی روشنی میں ایک کمرے‘ دو کمرے‘ تین کمرے اور چار کمرے کے مکان میں رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے جس سے غربت کی کمی کا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ حالانکہ مئی ۲۰۰۵ء میں پلاننگ کمیشن نے جو پانچ سالہ وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک (Medium Term Development Framework) شائع کیا ہے اس میں صاف اعتراف ہے کہ:

اس وقت ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی سطح سے نیچے رہ رہی ہے۔ غربت کم کرنے کا MTDF ہدف ۲۰۱۰ء تک ۲۱ فی صد اور ۲۰۱۵ء تک ۱۳ فی صد ہے۔

واضح رہے کہ دو سال قبل جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ۲۰۰۶ء تک غربت کی سطح کو  ۲۰ فی صد پر لے آئیں گے۔ یہ سب اعداد و شمار کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔

اسی طرح بے روزگاری کے مسئلے پر بھی حکومت کے ذمہ دار حضرات بشمول وزیراعظم صاحب نے قوم کو صحیح حقائق سے آگاہ نہیں کیا۔ جب پرویز مشرف صاحب برسرِاقتدار آئے اور جناب شوکت عزیز نے وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری سنبھالی تو ملک میں بے روزگاری کی شرح     ۵فی صد سے کم تھی۔ ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۰ء کے درمیان اوسط بے روزگاری ۸ فی صد رہی۔ ۲۰۰۴ء میں ۵.۸فی صد تک پہنچ گئی۔ اس سال کے لیے دعویٰ کیا گیا ہے کہ بے روزگاری کم ہو کر ۸.۷ فی صد پر آگئی ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ دو سال میں ۸.۲ ملین افراد کو روزگار ملا ہے۔ لیکن اگر آپ اس لیبرسروے کا مطالعہ کریں جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے تو معلوم ہوگا کہ ان ۲۸لاکھ روزگار پانے والے خوش نصیبوں میں سے ۱۱ لاکھ افراد وہ ہیں جن کو unpaid family helpers (بلامعاوضہ گھریلو معاون)قراردیا گیا ہے۔ روزگار فراہم کیے جانے والوں کی تعداد میں ان کی شمولیت پر خود اسٹیٹ بنک نے اپنی حالیہ سہ ماہی رپورٹ میں جو مئی میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہے‘ دبے لفظوں میں تعجب کا اظہار کیا ہے۔ یہ کیسا روزگار ہے جس میں روزگار پانے والے  بلامعاوضہ معاون ہیں۔ اگر اس تعداد کو کم کر دیں تو دو سال میں ۱۷ لاکھ افراد کو روزگار ملا ہے‘ جب کہ اس عرصے میں بے روزگاروں کی تعداد میں مزید ۲۰ لاکھ افراد کا اضافہ ہوگیا ہے اور قومی اسمبلی میں فراہم کردہ تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں ان میں ۳ لاکھ سے زیادہ بی اے‘ ایم اے اور ایم بی اے ہیں۔

پھر اس پورے عرصے میں حقیقی اُجرت میں برابر کمی ہو رہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جو برسرِکار ہیں ان کی بھی قوتِ خرید برابر کم سے کم تر ہو رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بے روزگاری کے طوفان اور اُجرتوں میں حقیقی کمی کا نتیجہ غربت میں اضافے کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر(Social Policy and Development Centre) کے ایک تازہ تحقیقی جائزے کے مطابق ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۰ء کے چارسالوں میں حقیقی اُجرت میں ۱.۳ فی صد کمی واقع ہوئی ہے اور وسیع تر تناظر میں مزدوروں کے تلخ حالات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۹۸۱ء کے مقابلے میں ۲۰۰۳ء میں ایک عام محنت کش کی قوتِ خرید میں ۲۰ فی صد کی کمی ہوگئی ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ متعلقہ رپورٹ‘ ص ۲۱-۲۳)

یہی معاملہ کشکول توڑنے‘ آئی ایم ایف سے نجات پانے اور قرضوں کے بوجھ میں کمی کے دعووں کا ہے۔ حقائق ان میں سے ہر دعوے کی تردید کر رہے ہیں۔ جولائی ۱۹۹۹ء سے دسمبر ۲۰۰۴ء تک بیرونی قرضوں میں ۵.۳ بلین ڈالر کا اور ملکی قرضوں میں ۶۴۱ بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اکانومک سروے کے مطابق ۲۰۰۴ء میں کل بین الاقوامی بوجھ (liability) ۲۶.۳۵بلین ڈالر تھا جو ۲۰۰۵ء میں بڑھ کر ۶۲۵.۳۶ ملین ڈالر ہوگیا ہے‘ یعنی ۳۶.۱بلین ڈالر کا حقیقی اضافہ۔آئی ایم ایف کا بھی بڑا ذکر ہے۔ اسی سروے سے میں ۱۳۲ پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۴ء میں آئی ایم ایف کا قرض ۷۶۲.۱ بلین ڈالر تھا اور ۲۰۰۵ء میں یہ ۷۵۷.۱ بلین ڈالر ہے۔ گذشتہ چھے سال میں ۱۴ بلین ڈالر کی پاکستانیوں کی ترسیلات اور ۲بلین کے قرضوں کی معافی کے باوجود ۱۴ سے ۱۵ بلین ڈالر کے درمیان نئے قرضے لیے گئے ہیں۔ قرضوں اور سود کی ادایگی کے بوجھ میں کمی کی وجہ تقریباً ۱۵بلین ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ ہے جو نائن الیون میں امریکا کی چاکری کے عوض حاصل ہوئی ہے۔ اس کا کوئی تعلق کشکول توڑنے سے نہیں۔

وزیراعظم صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کے پانچ تیز رفتار ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے اور ان کے حاشیہ نشین یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ چین کے بعد پاکستان سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک ہے۔ لیکن حقائق کچھ دوسری ہی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ابھی مئی ۲۰۰۵ء میں پاکستان ڈویلپمنٹ فورم کی کانفرنس ہوئی ہے جس میں یورپی کمیشن کے سفیر نے اور ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے نمایندوں نے صاف کہا ہے کہ غربت میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافے کا امکان زیادہ ہے اور منہ پھاڑ کر انھوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ بات پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ غربت‘ بے روزگاری وغیرہ کے موضوعات پر بین الاقوامی معیاروں کے مطابق قابلِ اعتماد اعداد و شمار فراہم کرے۔

عالمی ادارے پاکستان کی معاشی زبوں حالی کا جو نقشہ پیش کر رہے ہیں‘ وہ اس تجربے سے صد فی صد مطابقت رکھتا ہے جو ہر شہری اور خصوصیت سے عام صارف صبح و شام محسوس کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ۲۰۰۴ء کی سالانہ رپورٹ میں دنیا کے ۱۷۷ ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۴۲ ہے‘ یعنی ہمارا شمار دنیا کے غریب ترین ۴۰ ممالک میں ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہمارا نمبر سب سے نیچے ہے‘ یعنی بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ اور نیپال سب ہم سے اوپر ہیں۔    فی کس آمدنی کے اشاریے میں ہمارا مقام ۱۷۷ میں ۱۳۴ واں ہے۔ غربت کے اشاریے میں جو صرف ۹۵ترقی پذیر ممالک پر مشتمل ہے ہمارا نمبر ۷۱ ہے۔

اسی طرح ورلڈ ڈویلپمنٹ فورم (جس کا مرکز Davos سوئٹزرلینڈ میں ہے) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق دنیا کے ۱۰۴ ممالک کے معاشی ترقی میں مقابلے کے اشاریے (Growth Competetion Index) میں ہمارا نمبر ۹۱‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۵۵ اور سری لنکا کا ۷۳ ہے۔ اور بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء میں ہماری پوزیشن ۷۳ ویں تھی جو ۲۰۰۴ء میں گر کر ۹۱ویں ہوگئی ہے۔

ملک کے دستوری اور قانونی اداروں کا حال سب سے خراب ہے۔ سرکاری اداروں کے اشاریے (Public Institutions Index) کے مطابق ۱۰۴ ممالک میں ہمارا نمبر ۱۰۲ ہے‘یعنی دنیا کے سب سے بدحال ترین ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی تجارتی ادارے (UNCTAD) نے جو دنیا کے ممالک کی درجہ بدرجہ فہرست تیار کی ہے اس میں کارکردگی کے اشاریے میں پاکستان کا نمبر ۱۴۰ ممالک میں ۱۱۶ واں ہے اور مستقبل کے امکانات کے اشاریے میں ہم اور بھی نیچے آئے ہیں‘ یعنی ۱۴۰ میں ہمارا نمبر ۱۲۹ ہے۔

ماحولیات اور صحت کے قومی فورم (National Forum for Environment and Health )کا جائزہ ابھی جون ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے آلودہ ترین ۱۵ ممالک میں ہے۔ کراچی کے بارے میں یہ رپورٹ اس ہولناک صورت حال کی تصویرکشی کرتی ہے کہ: کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ۱۶ لاکھ گاڑیوں میں سے ۳۰ فی صد (۴لاکھ ۸ ہزار) فٹنس کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔

اسی طرح آبی تحقیقات کی پاکستان کونسل (Pakistan Council of Water Research ) کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جائزے کے مطابق پاکستان کے ۱۷بڑے بڑے شہروں میں عام شہری ایسا آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو پینے کے لائق نہیں ہے۔ دیہات کی تو بات ہی کیا جہاں صاف پانی کی فراہمی کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔

ان حالات کی موجودگی اور عالمی اداروں کے بے لاگ جائزوں کی اس فراوانی میں نوجوان وزیر مملکت براے خزانہ کا اپنی بجٹ تقریرمیں یہ دعویٰ کرنا کہ:

اللہ کے فضل و کرم سے بین الاقوامی برادری اور عالمی مالیاتی ادارے ہماری اقتصادی ترقی کے قائل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ [پاکستان کے] اندر بعض دوستوں کو یہ خبر نہیں پہنچی۔ یا یہ کہ انھیں اپنی قوم کی صلاحیتوں پر یقین نہیں۔

جس ’’جراء ت‘‘ اور ’’دریدہ دہنی‘‘ کا مرہونِ منت ہے وہ جنرل مشرف کی ٹیم کے کسی فرد کو ہی نصیب ہو سکتی ہے۔

نئی معاشی حکمت عملی کی ضرورت

ملکی معیشت کی تعمیر نو خوش فہمیوں اور شماریاتی مغالطوں سے نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے حقائق کا سامنا کرنا ہوگا اور ایک بالکل نئی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ حکومت کو اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کی اصل کامیابی محض ایک سال میں ۴.۸ فی صد کی شرح نمو ہے جس کی وجہ ۵.۷ فی صد زراعت کی ترقی ہے جس کی وجہ حکومت کی پالیسی نہیں‘ بروقت بارش کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا۔ معیشت کے جن چند دائروں میں نسبتاً صورت حال بہتر رہی ہے اس کا انکار ناانصافی ہوگی۔ نیز چار سال تک macro stabilizationکا اسیر رہنے کے بعد معاشی ترقی (growth) کی طرف توجہ بھی ایک مثبت اقدام ہے۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چھے سال تک مکمل اختیارات رکھنے اور نائن الیون کے بعد غیرمعمولی بیرونی اسباب کی وجہ سے وسائل اور امکانات کے رونما ہوجانے کے باوجود حکومت کوئی مربوط اور حقیقت پسندانہ معاشی حکمت عملی اور پروگرام بنانے میں قطعاً ناکام رہی ہے۔ افراط زر کا عفریت آگ اُگل رہا ہے۔ توازن تجارت ایک بار پھر خطرناک حد تک ہمارے خلاف ہوگیا ہے اور ۲۰۰۵-۲۰۰۴ء میں بین الاقوامی تجارت کا خسارہ ۶ بلین ڈالر کی حد کو چھو رہا ہے۔ بجٹ کا خسارہ پھر ڈھائی سو اور تین سو بلین روپے کی حد میں آرہا ہے۔ انتظامی اخراجات پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان میں بجٹ میں فراہم کردہ رقم سے تقریباً ۲۰ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ ترقیاتی اخراجات میں پہلے نو ماہ میں فراہم کردہ رقم کا صرف ۴۹ فی صد خرچ ہوا ہے اور وہ بھی صرف زری (monetary) حد تک۔ اصل برسرِزمین حقیقی کارکردگی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ دفاعی اخراجات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور اس پر نگرانی کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔ ملک میں مالیاتی (fiscal) پالیسی اور زری (monetary) پالیسی میں بروقت رابطے کی کمی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر کو بروقت روکنے کا اہتمام نہیں کیا جا سکا اور اب تاخیر سے زری پالیسی کو متحرک کیا گیا ہے کہ اس کے اثرات سرمایہ کاری پر ہوں گے۔ ٹیکس اور قومی آمدنی کے تناسب میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جو قومی آمدنی کے ۹ اور ۱۰ فی صد پر رکا ہوا ہے اور دنیا میں کم ترین شرح پر ہے‘ جب کہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح ۱۵ سے ۲۰ فی صد تک ہے۔ اسی طرح ملک میں بچت کی شرح ترقی پذیر ممالک کی اوسط شرح سے بہت کم ہے اور یہی صورت سرمایہ کاری کی سطح کی ہے جو عملاً ۱۶فی صد سے   کم ہوکر ۱۵ فی صد پر آگئی ہے۔

غیرملکی پاکستانیوں کی ترسیلات ایک ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر ۴ارب ڈالر ہوگئی ہیں اور گذشتہ چار سال میں ۱۴ ارب ڈالر سے زیادہ وصولی ہوئی ہے‘ ان کو پیداآوری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے کوئی پالیسی اور اداراتی انتظام نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ یہ ترسیلات ملک میں افراطِ زر‘ تعیشات‘ بہت زیادہ صرف کے فروغ اور اسٹاک مارکیٹ اور زمین کی قیمتوں میں  ہوش ربا اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ معاشی ماہرین پکار رہے ہیں اور خود سینیٹ کی متفقہ سفارش بھی تھی کہ اسٹاک ایکسچینج پر جو ۰۱.۰فی صد ٹیکس لگایا گیا تھا اسے کم از کم ۰۵.۰ کیا جائے جس سے ۱۵سے ۲۰ ارب سالانہ آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں جو نفع خوری سٹّے کی بنیاد پر ہو رہی ہے اسے بھی لگام دی جا سکتی ہے‘ نیز زمین اور مکان کی فروخت پر cvt کم از کم ۰۵.۰ لگایا جائے تاکہ ان نودولتیوں کی دولت سے قوم کے غربا کا حق وصول کیا جاسکے۔ لیکن حکومت نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی بلکہ بنکوں کے نفع پر بین الاقوامی دبائو کے تحت انکم ٹیکس کی شرح پر ۳ فی صد کی کمی کر دی اور ۱۸۰۰ سی سی اور اس سے زیادہ کی کاروں کی درآمد پر بھی ڈیوٹی میں ۲۵ فی صد کمی کر دی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس بجٹ کو کار دوست (car-friendly)اور فوج دوست (fauj- friendly) قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت کی شاہ خرچیوں کا اندازہ کرنے کے لیے مشتے نمونہ از خروارے چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

ایوان صدر سے بات شروع کریں۔ ۲۰۰۰ئ-۱۹۹۹ء میں ایوان صدارت کا خرچہ ۹ کروڑ سالانہ تھا جو بڑھ کر ۰۵-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں ۲.۲۱کروڑ ہوگیا‘ اب اسے مزید بڑھا کر اب ۱۶.۲۶کروڑ کر دیا گیا ہے۔ صدر کے بیرونی دوروں کے ۵.۳۰ کروڑ روپے اس کے علاوہ ہیں۔

وزیراعظم کے دفتر اور گھر کے اخراجات بھی چشم کشا ہیں۔ ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے بجٹ میں یہ رقم ۶۵.۲۲ کروڑ رکھی گئی تھی جو عملاً بڑھ کر ۶۱.۲۶ کروڑ ہوگئی اور اب اگلے سال کے لیے ۴۰.۲۳کروڑ رکھی گئی ہے۔ اس ۴ کروڑ کے اضافے کا کچھ پتا ضمنی گرانٹس کے مطالعہ سے چلتا ہے جہاں اس غریب ملک کے وزیراعظم کے لیے جو سہولتیں فراہم کی گئی ہیں ان کا ذکر اس طرح ہے:

ای سی جی مشین اور ایک کارڈیک ٹریڈ مل مشین (۲۷ لاکھ)‘ مرسڈیز کار کے فریٹ اخراجات (۹۵ لاکھ ۴ ہزار)‘ چارجز ۳ کروڑ ۳۲ لاکھ ۱۴ ہزار‘ رہایش ۱۸ لاکھ۔ سیکرٹریٹ کے لیے گاڑیوں کی خرید ۱۴ لاکھ ۵۰ ہزار)

(کیا یہ مشین ہمارے اچھے بھلے خوش حال وزیراعظم ذاتی جیب سے نہیں لے سکتے تھے؟ یقینا اگلے وزیراعظم کو اس کی ضرورت نہ ہوگی)

وزیراعظم صاحب کے غیرملکی دوروں کے لیے ۱۵ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ (مطالبہ زر ۵۵)

اب ذرا صرف ضمنی مطالبات زر کے دوسرے صفحات پر سرسری نظر ڈال لیجیے کہ قومی خزانے کا بے دردانہ اسراف کس طرح ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ عام بجٹ میں تمام پہلے سے   طے شدہ اخراجات موجود تھے اور جو ہزاروں کاریں وزراے کرام اور سرکاری افسران کے استعمال میں ہیں وہ سب اس میں موجود نہیں۔ صرف ۲۰۰۵ئ-۲۰۰۴ء کے سال میں اضافی خریداری کے لیے خزانے پر کیا کیا بوجھ ڈالا گیا ہے اس کی ایک جھلک دیکھیے:

کیبنٹ ڈویژن کے پاس کاروں کا سب سے بڑا بیڑا ہے۔ اس کے لیے اضافی مطالبہ زر نمبر۲ کے ذریعے صرف ٹرانسپورٹ کی مد میں ایک ارب ۱۲ کروڑ اور ۴۷ لاکھ کی رقم لی گئی ہے۔ مزید گھر کرائے پر لینے کے لیے ۲۱لاکھ کی رقم اس پر مستزاد ہے۔

وزارتِ مواصلات کے وزیرمملکت کے لیے دفتر کے لیے ۷ لاکھ روپے‘ گھر کے لیے‘ ایک کروڑ ایک لاکھ روپے‘ گاڑی کے لیے ۱۳ لاکھ روپے اور صواب دیدی اخراجات کے لیے ۴ لاکھ روپے (مطالبہ زر ۱۷‘ ص ۲۰)۔ وزارتِ کلچر اور یوتھ کے لیے تین کاروں کی خرید پر ۳۳ لاکھ ۶۰ ہزار (مطالبہ زر ۲۰‘ ص ۲۲)۔ وزارتِ ایکونومک افیرز کے وزیرمملکت کے لیے کار کی خرید ۱۰ لاکھ ۵۰ہزار روپے‘ صوابدید اخراجات ۴ لاکھ روپے (مطالبہ زر ۲۸‘ ص ۳۳)۔ وزارتِ خزانہ کے لیے کرائے کی مد میں ۷۸ لاکھ ۳۷ ہزار روپے‘ وزیر مملکت کے لیے کار کی فراہمی کے لیے ۲۳ لاکھ ۷۸ ہزار روپے‘ کار کی دیکھ بھال کے لیے ایک لاکھ ر۳۵ ہزار روپے‘ صواب دیدی اخراجات کے لیے ۴لاکھ روپے اور خاطر مدارات اور تحائف کے لیے ۲۰لاکھ روپے مزید رکھے گئے (مطالبہ زر۳۷‘ ص ۴۱)۔ وزارتِ ہائوسنگ اور ورکس کے بھی مزید مطالبہ زر میں وزیرمملکت کے گھر کے لیے ۲۳ لاکھ ۸۶ ہزار‘ نئی کار کے لیے ۱۴ لاکھ روپے اور صواب دید اخراجات کے لیے ۳ لاکھ حاصل کیے گئے ہیں۔ (مطالبہ زر ۵۹‘ ص ۶۱)

یہ صرف چند وزارتوں کے اعداد و شمار ہم نے پیش کیے ہیں ورنہ بجٹ کی دستاویزات ان شاہ خرچیوں کے ذکر سے بھری پڑی ہیں اور کوئی نہیں جو اس غریب ملک کے امیر حکمرانوں کی ان مسرفانہ سرگرمیوں پر گرفت کرسکے۔ صدر‘ وزیراعظم‘ وزراے کرام‘ سینیٹ اور اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں گذشتہ تین سال میں ۱۰۰ فی صد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے‘ جب کہ     عام شہری کی حقیقی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوئی ہے اور آج عالم یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک میں   ۳۰۰ سے زیادہ افراد ہر سال بھوک اور افلاس سے تنگ آکر ہر ماہ حرام موت تک مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون

اھم معاشی مسائل اور بجٹ

اب ہم مختصراً یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کے سامنے معیشت کے میدان میں سب سے اہم مسائل کیا ہیں اور حکومت کی پالیسیوں اور بجٹ اور ترقیاتی پروگرام میں ان کا کہاں تک ادراک اور علاج موجود ہے۔

۱-            اضافے کی رفتار برقرار رکہنا:سب سے پہلا مسئلہ ملکی پیداوار میں اضافے کی رفتار کو برقرار رکھنے کا ہے۔۸فی صد سالانہ کی رفتار سے اضافہ ماضی میں بھی کم از کم چار بار ہوچکا ہے‘ لیکن کیا اسے برقرار رکھا جاسکا؟ یہی اصل مسئلہ ہے۔ بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ ۴.۸ فی صد اضافے میں خاصا دخل خارجی عوامل کا تھا۔ ملک میں سرمایہ کاری اور بچت دونوں کی رفتار     غیرتسلی بخش ہے اور اس کو بڑھائے بغیر قومی پیداوار میں اضافے کی رفتار کو باقی نہیں رکھا جا سکتا۔ الا یہ کہ بڑھتی ہوئی سرمایہ جاتی پیداوار کے تناسب (incremental capital output ratio) میں تبدیلی ہو جس کے لیے کوئی آثار نہیں۔ ماضی میں اضافے میں غیراستعمال شدہ گنجایش (unutilized capacity) کو استعمال کرنے کا بھی دخل ہے۔ اب مزید گنجایش بڑھائے اور پیداواریت میں اضافے کے بغیر ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔ بجٹ میں ان امور کا ادراک نہ ہونے کے برابر ہے۔

۲-            عوامی مصائب: اصل مسئلہ معاشی ترقی کی رفتار اور پیداوار میں اضافے کے نتیجے میں عوام کے مصائب میں کمی‘ قوت خرید میں اضافہ‘ زندگی کی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ مغرب کے دانش وروں کے جس آپ سے آپ نیچے آنے (trickle down effect) کے فلسفے پر ہمارے ہاں معاشی منصوبہ بندی ہو رہی ہے وہ دنیا میں ہرجگہ بشمول ہمارے اپنے ملک میں ناکام رہا ہے۔ لیکن ہم مکھی پر مکھی مارنے میں مصروف ہیں۔ جب تک روزگار کی فراہمی‘ صحیح نوعیت کی تعلیم اور ہنرمندیوں کو فروغ دینے کا مؤثر انتظام‘ صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانا اور سب سے بڑھ کر دولت کی ناہمواریوں اور علاقائی عدمِ مساوات کو سختی سے کم کرنے کو معاشی پالیسی کے واضح اور قابلِ پیمایش (measurable) اہداف نہیں بنایا جاتا عوام معاشی ترقی کے ثمرات سے محروم رہیں گے۔    اس وقت عالم یہ ہے کہ قومی دولت میں ہر ایک روپے کا اضافہ ملک کے امیر ۲۰ فی صد کی آمدنی  میں ۴۸ پیسے کے اضافے کا ذریعہ بنتا ہے‘ جب کہ نچلی آمدنی والے ۲۰ فی صد کے حصہ میں صرف سات پیسے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۰فی صد آبادی کا حصہ ملک کے کل صرفے (consumption) میں تین فی صد سے بھی کم ہے اور اس پورے عمل سے دولت میں جتنا اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی معاشرے میں تقسیمِ دولت مزید غیرمنصفانہ ہوجاتی ہے۔ گذشتہ ۲۵سال میں Gini coefficientامیروں کے حق میں اور غریبوں کے خلاف سمت میں حالات کی تبدیلی کی خبر دے رہا ہے۔ Social Develpement in Pakistan کی رو سے ۱۹۸۸ء میں آبادی کے ۲۰ فی صد امیر ترین افراد کا دولت میں حصہ ۴۳ فی صد تھا جو ۲۰۰۲ء میں بڑھ کر ۶.۴۷ ہوگیا‘  جب کہ غریب ۲۰فی صد کا حصہ ۸.۸ فیصد سے کم ہو کر۷ فی صد اور غریب ترین ۱۰ فی صد کا  ۵۸.۳ فی صد سے کم ہوکر ۷.۲ فی صد رہ گیا۔

ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب غربت کم کرنے‘ روزگار میں تیزرفتار اضافہ‘ تقسیم دولت کی اصلاح اور افراطِ زر کو لگام دینے کو پالیسی کے اہداف بنایا جائے اور محض قومی پیداوار میں اضافے کو ترقی کی علامت نہ سمجھ لیا جائے۔ اس کے لیے زراعت اور چھوٹی صنعت اور کاروبار کو اولین اہمیت دینا ہوگی اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کی سستی فراہمی‘ تعلیم اور صحت کے لیے وسائل کے استعمال اور پیداواری لاگت کو کم کرنے کی پالیسی اختیار کی جانا چاہیے۔ یہ کام معیشت کو محض مارکیٹ اکانومی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے سے انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ریاست معیشت میں ایک مثبت کردار ادا کرے اور انصاف کے حصول اور عوام کی خوش حالی کو معاشی پالیسی کا اصل ہدف بنائے۔ اس کے کوئی آثار اس بجٹ میں نظر نہیں آتے۔

۳-            افراطِ زر : اس وقت افراطِ زر جو اب ۱۱ فی صد سے زیادہ ہے‘ بے روزگاری جو ۱۰فی صد کی حد چھو رہی ہے اور تجارتی خسارہ جو ۶ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے سب سے اہم چیلنج ہیں۔ بجٹ کے موجودہ فریم ورک میں ان گھمبیرمسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ یہ پالیسی میں انقلابی تبدیلیوں اور معاشی ترقی کے مثالی نمونے (paradigm )کی مکمل تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے جس کا کوئی نام و نشان موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں نظر نہیں آتا بلکہ اس تبدیلی کے صحیح ادراک اور اسے بروے کار لانے کی صلاحیت کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی نگاہ میں ہر مسئلے کا حل ڈی ریگولیشن اور نج کاری ہے۔ نیز ملک کی منڈیوں کو بیرونی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کھول دینا ہے جو ہماری نگاہ میں حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے‘ اصلاح کا موجب نہیں۔

۴-            نج کاری:جس طرح نج کاری کی جا رہی ہے‘ وہ تشویش ناک ہے۔ ملک میں اب تک ۱۰۰ کے قریب صنعتوں کی نج کاری ہوچکی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ایک جائزے کے مطابق ان میں سے صرف ۲۲ ٹھیک کام کر رہی ہیں‘ ۳۰ سے زیادہ بند ہوچکی ہیں جو زمین بیچ کر اپنا کام کر گئیں اور باقی ۴۰‘ ۴۵ کی کارکردگی نج کاری کے دور ماقبل سے بدتر ہے۔ ضرورت ہے کہ   نج کاری کے پورے عمل کا آزادانہ جائزہ لیا جائے اور نجی شعبے کے ساتھ پبلک سیکٹر کو بھی باقی رکھا جائے‘ البتہ اسے سیاسی مداخلت اور محض بیوروکریسی کی گرفت سے بچایا جائے اور کارپوریٹ کلچر اور پیشہ ورانہ تقاضوں کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں پیشہ ور انتظامیہ کے ساتھ انجام دیا جائے اور ایک طرف ضروری ترغیبات فراہم ہوں تو دوسری طرف عوامی جواب دہی کے ایک مؤثر اور متحرک نظام کو قائم کیا جائے اور اس طرح ایک ساتھ نیا انتظام و انصرام مرتب کیا جائے۔ دنیا میں اس      کے کامیاب تجربات موجود ہیں۔ آخر ہم سرمایہ داری اور استعماری قوتوں کے بتائے ہوئے      عالم گیریت اور نج کاری کے نسخے پر آنکھیں بند کرکے کیوں عمل کیے جا رہے ہیں۔

۵-            وسائل کی تقسیم: مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی صحیح تقسیم اور ملک میں علاقائی ناہمواریوں کی خطرناک صورت حال بھی بنیادی معاشی مسئلے کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔ اب بات صرف قومی مالیاتی ایوارڈ کی نہیں‘ بلکہ صوبوں کے اپنے وسائل پر حق ملکیت اور اپنے لیے ترقیاتی منصوبوں کو خود بنانے اور اپنے وسائل کو اپنے علاقے کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کے مواقع کی فراہمی کا ہے۔ مالی اور اقتصادی اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

کیا یہ ظلم نہیں کہ سوئی کی گیس سے پورا ملک فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن سوئی اور بلوچستان کی آبادی کا بڑا حصہ اس سے محروم ہے۔ سرحد میں گرگری کے مقام پر جو گیس نکلی ہے‘ وہ پورے   صوبہ سرحد کی ضرورت پوری کر سکتی ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے دوسرے حصوں کو بھی یہ گیس فراہم کی جاسکتی ہے لیکن صوبے کے جنوبی علاقے جن کا پہلا حق ہے وہ محروم ہیں اور گیس نیشنل گرٹ میں ڈالی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اصول طے کرنا ہوگا اور یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ معدنی وسائل پر علاقے کے لوگوں کا پہلا حق ہے۔ ضروری ہے کہ کم از کم ۱۵ فی صد گیس اسی ڈسٹرکٹ کو فراہم کی جائے۔ مزید ۱۵ سے ۲۵ فی صد اسی صوبے کو دی جائے اور باقی ملک کے دوسرے حصوں کو فراہم کی جائے۔ اس وقت بلوچستان اور سرحد بحیثیت مجموعی اور سندھ اور پنجاب کے دیہات اور چند علاقے شدید غربت اور وسائل سے محرومی کا شکار ہیں۔ علاقائی عدل و مساوات بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی انسانوں کے درمیان باہمی عدل و مساوات۔

بجٹ اور حکومت کی معاشی پالیسیوں میں اس مسئلے کا بھی کوئی ادراک موجود نہیں۔

۶- کرپشن:ملک میں کرپشن اور وسائل کو ضائع کرنا مجرمانہ حدود تک پہنچ چکا ہے۔ تمام ملکی اور بین الاقوامی جائزے اس امر پر شاہد ہیں کہ کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے یہی بتا رہے ہیں کہ ہر سطح پر کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور قومی صرفے کا‘ خصوصیت سے ترقیاتی اخراجات کا ۲۵ سے ۴۰ فی صد کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ خود پلاننگ کمیشن کے ایم ٹی ڈی ایف میں جو مئی ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ہے اعتراف ہے کہ ہر سال قومی دولت کا ۶۵۰ بلین روپیہ ضائع ہو رہا ہے۔اس کے الفاظ میں:

پاکستان زراعت‘ صنعت‘ آبی وسائل‘ تعلیم اور صحت سمیت معیشت کے تقریباً تمام دائروں میں کم سے کم ۶۵۰ ارب روپے سالانہ کا نقصان وسائل کے ضیاع کے باعث اٹھا رہا ہے۔ (ایم ٹی ڈی ایف ۲۰۰۵ئ‘ ۲۰۱۰ء پلاننگ کمیشن‘ ص xviii)

اس میں اگر حکومت کے اخراجات میں کرپشن‘ ضیاع اور اسراف کو شامل کرلیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ رقم ۸۰۰ بلین پر نہ پہنچ جائے جو اس سال کے بجٹ کے ۸۰ فی صد کے برابر ہے۔ جس قوم کے اتنے وسائل ضائع ہو رہے ہوں‘ وہ پس ماندہ نہ ہو تو کیا ہو‘ اور اس میں عام آدمی کی غربت کے ساتھ امیروں کی ریل پیل نہ ہو تو کیا ہو؟

۷-            خودانحصاری: ایک اور بنیادی معاشی مسئلہ ملک کی خودانحصاری کا ہے۔ یہ ہمارے نظریۂ حیات‘ ہماری سیاسی آزادی‘ ہماری ثقافتی شناخت اور معاشی معاملات میں ہماری اپنی ترجیحات کے مطابق معیشت کی تعمیروتشکیل اور بجٹ سازی کے لیے ضروری ہے۔ اُمت مسلمہ کو شہداء علی الناس کا منصب دیا گیا ہے اور یہ غیرمسلم دنیا پر انحصار اور محتاجی کے ساتھ ممکن نہیں۔ اس لیے معاشی ترقی اور اقتصادی نظام کی تشکیل کا ایک اساسی مقصد خودانحصاری کا حصول ہے اور بدقسمتی سے گلوبلائزیشن اور آزاد روی (liberalisation) کے شوق میں ہم اپنی آزادی اور قومی شناخت ہی کو دائو پر لگائے جارہے ہیں۔ نئی معاشی پالیسی میں خودانحصاری کو بھی ایک مرکزی ہدف ہونا چاہیے اور اس کے لیے سودی معیشت سے نجات ضروری ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت سے نکلنا ہمارے قومی اہداف میں ہونا چاہیے۔ ہم عالمی تجارت اور انسانیت کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن یہ سب اپنے قومی مقاصد اور ترجیحات کے فریم ورک میں ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے معاملات پر قوت و اختیار رکھتے ہوں اور بیرونی قوتوں کے غلط مطالبات پر ’نہیں‘ کہنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ جس طرح ہماری معیشت کو عالمی طاقتوں کے ہاتھوں گروی رکھا جارہا ہے‘ وہ ہماری آزادی اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور قوم کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔

اس پہلو سے بھی موجودہ بجٹ مایوس کن ہے اور جس طرح دوسروں پر انحصار بڑھ رہا ہے بلکہ خود اپنی معیشت میں ان کے عمل دخل کو بڑھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے‘ وہ بہت تشویش ناک ہے۔


ہم اس جائزے کو ختم کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مقاصد اور اہداف وہ ہیں جو اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے تحریکِ پاکستان کے دوران بیان کیے تھے اور جو آج قرارداد مقاصد اور دستور میں ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے نام سے بیان کیے گئے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کا پہلا اور اولین ہدف اسلامی تشخص کی حفاظت اور ترقی اور ہدایت پر عمل پیرا ہونا اور دنیا کے سامنے اس کا گواہ بننا ہے جو قرآن و سنت کی شکل میں  اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔

دوسری بنیادی چیز اس ملک میں امن اور قانون کی حکمرانی‘ انصاف کی فراہمی‘ اور تمام انسانوں کو آزادی اور جدوجہد کے مواقع کی برابری کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تاکہ انسان زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کر سکے۔ اس کے لیے مکہ ہمارا ماڈل ہے جس کی قرآن نے یہ کیفیت بیان کی ہے کہ: اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِن خَوْفٍ،بھوک اور خوف‘ جب تک معاشرہ  ان دونوں لعنتوں سے پاک نہیں ہوتا‘ نہ معاشی ترقی ہوسکتی ہے اور نہ مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ اسلام نے عدل وا نصاف کو انسانی معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیا ہے اور انبیاے کرام کی بعثت کا مقصد جہاں اللہ کی ہدایت کو انسانوں تک پہنچانا (تعلیم کتاب و حکمت) اور ان کا تزکیہ کرنا ہے‘ وہیں انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام (لِیَقُومَ النَّاسَ بِالْقِسْطِ) ان کی اولین ذمہ داری ہے۔

اس لیے ہماری معاشی پالیسی کے مقاصد بھی ہدایت‘ کفالت‘ حفاظت‘ عدالت‘ خدمت‘ وحدت اور خودانحصاری کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے۔ اور جب تک معاشی اور ریاستی پالیسی اس نئے محور پر نہیں آتی‘ ظلم‘ غربت‘ ناانصافی اور بے چینی ہمارا مقدر رہے گی۔ وقت کی اصل ضرورت منزل کا صحیح تعین اور اس کی طرف پیش رفت کے لیے قابلِ عمل نقشہ راہ کی تیاری اور سب سے بڑھ کر اس سمت میں سفر اور تمام وسائل کا ایمان دارانہ استعمال ہے تاکہ اس ملک کا ہر شہری عزت کی زندگی گزار سکے‘ کسی کا محتاج نہ ہو‘ انسان انسان کے حقوق پبھی ادا کرے اور اللہ کے بھی کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں   ؎

کس نہ گردد در جہاں محتاجِ کس

نکتۂ شرع مبیں ایں است و بس


(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۵ روپے ، سیکڑے پر رعایت، منشورات‘ منصورہ‘ لاہور-۵۴۷۹۰)