رمضان المبارک کی آمد سے ہر صاحب ایمان کے دل کی کلی کھِل اٹھی ہے۔ہر چہار طرف رمضان کی آمد اور اس کے استقبال کے لیے طبیعتوں کو آمادہ کرنے کے سامان فراہم کیے جارہے ہیں۔ ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو جانتا پہچانتا ہے اور اپنے زندگی کے شب وروز اور معمولات سے واقف ہے، لازم ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک کا بڑی بے چینی سے انتظار کرے، اس کے استقبال کی تیاری کرے، اور بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کی جو شکلیں رمضان المبارک میںنظر آتی اور دکھائی دیتی ہیں،ان کا نہ صرف پہلے سے احاطہ کرے، بلکہ ان تمام حوالوں سے اپنی زندگی کو اس ماہِ مبارک میں مکمل طور پر تبدیل کرنے اوریکسوئی اور طمانیت کے ساتھ اپنے رب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھاکہ جب آپ رجب کا چاند دیکھتے تھے تو یہ دعا فرماتے تھے: اَللّٰھُمَّ بَارِکَ لَنَا فِی رَجَبْ وَ شَعْبَانْ وَبَلَغْنَا رَمَضَان، (اے اللہ! ہمیں رجب اور شعبان کی برکتیں عطا فرمائیے،اور رمضان المبارک تک پہنچا دیجیے)۔ ماہِ رمضان کی آمد سے دو مہینے پہلے ہی آپؐ کی طبیعت کا یہ اشتیاق چھلکا پڑتا تھا۔ رمضان المبارک کا استقبال کرنے کے لیے طبیعتوں کو جس طرح آمادہ ہونا چاہیے، اس دعا میں اس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو رمضان المبارک سے بھرپور استفادہ کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ اس کی برکتوں کو سمیٹا جا سکے،اس کی رحمتوں کا سزاوار ہوا جاسکے، اس سے مغفرت کے پروانے حاصل کیے جاسکیں، دوزخ سے آزادی حاصل کی جائے اور نجات کی جانب چلا اور بڑھا جاسکے۔
اس حدیث کوبالعموم ایسے بیان کیا جاتا ہے جیسے جبرئیل ؑامین نے کوئی بد دعا کی ہواور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرما ئی ہو۔حالانکہ بات اس سے مختلف ہے۔جب چاروں طرف بہار کا موسم ہو،پورا معاشرہ لہلہا رہا ہو، دُور تک پھیلا ہوا منظر گل وگلزار بناہوا ہو اور ہرگرا پڑا بیج برگ و بار لا رہا ہو، چٹانیں بھی سبزہ اگل رہی ہوں اور پتھروں سے بھی سبزے کی نمو نظر آتی ہو، ان حالات کے اندربھی اگر کوئی بیج واقعی گرا پڑا رہ جائے، برگ و بار نہ لاسکے، اور اپنی نمو اور افزایش کا سلسلہ شروع نہ کرسکے، تواس کے لیے بد دعا کی نہیں بلکہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ واقعی وہ اس قابل تھا کہ ہلاک ہو جائے۔بالفاظ دیگر اس حدیث کے اندر ترغیب و تشویق اورتحریص کی ایک پوری دنیا آباد ہے کہ رمضان المبارک کو سمجھو، اس کے شب و روز کی برکات کو جانواور پہچانو، اس میں جو کچھ حسنات پنہاں ہیں، ان کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دامن کو پھیلائو۔ اپنے رب سے رجوع کرنے کے جو عنوانات ہو سکتے ہیں، ان کو سجائو۔ جنت کے سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ شیاطین قید کردیے گئے ہیں، نیکی کرنا آسان ہوگیا ہے۔ برائی اور گناہ کے لیے حالات کے اندر ایک ناسازگاری، اور طبیعتوں کے اوپر ایک گرانی جو پہلے نہ بھی پائی جاتی ہو، موجود ہے۔ ہرشخص یہ مصمم ارادہ کرلے، یہ نیت دل کی گہرائی کے اندرسمو لے کہ بہت سے رمضان المبارک یوں ہی گزر گئے ہیں لیکن اس رمضان کو یوں ہی نہیں گزرنے دینا ہے، بلکہ اس کے اندر جو کچھ برکات موجود ہیں،ان سے استفادہ کرنا ہے۔ دل و دماغ کی دنیا میں جو کانٹے بچھے ہوئے ہیں، منکرات کے جوجھاڑ جھنکار نظر آتے ہیں، معصیت کے جو طوفان اٹھے ہوئے ہیں، گناہ کے لیے لذت اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف بڑھنے میں کوئی قدغن نظر نہیں آتی ہے، ان تمام چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ جو شخص اس ماہِ مبارک میںروزے دار کا روزہ افطار کرائے تو اس روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کیے بغیربارگاہ رب العزت سے اس افطار کرانے والے کو بھی اس روزے دار جتنا اجر اور ثواب مل جاتا ہے۔صحابہ کرام ؓ میں نیکی کے معاملے میں سبقت لے جانے، خیر کا کوئی عنوان ترک نہ کرنے اور اس تک پہنچنے کی کوئی سبیل تلاش کرنے کی آرزو، خواہش اور تڑپ بدرجۂ اتم موجود تھی۔ حضرت سلمان فارسیؓ جو اس خطبے کے راوی ہیں،انتہائی ناداری اور کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے اور اکثر صحابہ کرام ؓ کی یہی کیفیت تھی، یہ بات سن کر بے قرار ہوگئے اور عالم بے تابی میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور ہم جیسے لوگ جنھیں اپنی افطاری کا سامان بھی میسر نہیں ہے،وہ بھلا دوسروں کو کیا افطار کرائیں گے۔تو کیا ہم اس عظیم اجر، ثواب اور صلے سے، اور خیر کے اس کام سے محروم رہیں گے؟ نیکی کی طرف جانے کی ایک تڑپ اورنیکیوں کا انبار لگانے اور اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی کسک ہے کہ یہ بات سنتے ہی بول پڑے ہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اگر تم لسی یا پانی کے ایک گھونٹ سے بھی کسی کو افطار کرائو گے تو اجر اور صلے سے محروم نہ رہو گے۔ہاں، اگر کسی کے اندر یہ استطاعت ہے کہ وہ روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے، تو روز محشر وہ حوض کوثر پر جام کوثر سے فیض یاب ہوگااور اپنے جاے مقام تک پہنچنے میں اسے پیاس تک محسوس نہ ہوگی۔
الحمد للہ ہمارے معاشرے میں افطار پارٹی اور افطار ڈنر کا ایک کلچر موجود ہے۔ اس کو جاری رہنا چاہیے،اس کے اپنے فوائد ہیں لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ میں جب افطار پارٹی کرتا ہوں تو اپنے جیسے لوگوں کو بلاتا ہوںاور چاہتا ہوں کہ اگر مجھ سے بھی بڑے رتبے اور شان و شوکت اور سٹیٹس کے لوگ آ جائیں تو افطار پارٹی کو چار چاند لگ جائیں گے۔افطار پارٹی فائیو سٹار بن جائے گی۔ اس خواہش کی وجہ سے ہمدردی وغم خواری کے مستحق لوگ محروم اور سوالیہ نشان بنے رہتے ہیں۔ اسی طرح گاہے ہم سوچتے ہیںکہ یہ جو سڑک پر پتھر کوٹتے رہتے ہیں، روڑے ڈھوتے اور مشقت اٹھاتے رہتے ہیں، ان کا کیا روزہ ہوتا ہوگا؟ حالانکہ یہ بڑا نازک معاملہ ہے ۔ روزے دارکی ہر نیکی جس پس منظر اورجس نیت سے کی گئی ہو،جس مشقت کو اٹھا کر اور جس قربانی کا پیکر بن کر کی گئی ہو، اس حساب سے اللہ تعالیٰ ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک اس کا اجر پھیلاتے اور بڑھاتے ہیںلیکن حدیث قدسی کے مطابق روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ میری خاطرشب و روز کی مشقتیں اٹھاتاہے، بھوک اور پیاس برداشت کرتا ہے ۔ قوی مضمحل ہوں، اعصاب جواب دے رہے ہوں،اور دل و دماغ کی دنیااڑی اڑی اور ویران سی ہو، اس کے باوجود بھی وہ میری رضا کے لیے روزے کی طرف آتا ہے تو یہ معاملہ کسی عددی ہندسے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کا اجر میں ہی دوں گا۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ میں ہی اس کا اجر ہوں، یعنی بندے نے روزہ رکھا اور اسے اس کا رب مل گیا۔جب رب مل جائے تو پھر کسی اور چیز کی طلب باقی نہیں رہتی ہے۔ساری نعمتیں قدموں میں ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ ساری رحمتیں اور مغفرتیں وسعت دامن کے ساتھ ساتھ چلنے والی ہو جاتی ہیں۔
روزے کی فرضیت کے بارے میں قرآن پاک کی آیات اپنے اندر جو شیرینی،مٹھاس، ٹھنڈک اور طراوٹ لیے ہوئے ہیں اور جس طرح ہر پیرایہ، عنوان میں بندہ اور رب کے درمیان حجابات کو اٹھانے، واشگاف اندازمیں تعلق باللہ کی استواری اور آبیاری کرتی ہیں،وہ ایک عجیب اور انوکھا منظر پیش کرتی ہیں ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات تم انھیں سنادو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔
اس انداز میں کس قدر اپنائیت،طمانیت اور چاہت ہے، بندوں کی نسبت اپنی طرف فرمائی،میرے بندے کہا !! اور یہ سب روزے کا صلہ ہے ۔ بندگیِ رب کی مسافتیں طے ہو رہی ہیں، قربتیں پیدا ہو رہی ہیں،فاصلے سمٹ رہے اور دوریاں ختم ہو رہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ نفس پر شاق ہونے کے اعتبار سے تمام عبادات میں نمایاں ہے ۔جس قدر انسانی مرغوبات ہیں، پسند اور چاہت کے عنوانات ہیں، سب پر کچھ نہ کچھ پابندیاں، قواعد و ضوابط کے بندھن،اور پہرے بٹھادیے جاتے ہیں۔ حلال و طیب، جائز اعمال سال کے گیارہ مہینے جن پر کوئی قدغن نہیں، اس ماہِ مبارک میں ان کو از سر نو ترتیب دیا جاتاہے۔ بندۂ مومن اپنے رب کی رضا، اس کی ہدایت کی پابندی اور اس کی بارگاہ میں سرخرو ہونے کے لیے بخوشی ان پابندیوں کو قبول کرتاہے۔ ایمان کی لذت سے آشنا ہوتاہے۔ تعلق باللہ کا کیف و سرور، کچھ مشقت اٹھا کر،پابندیاں سہ کر دوچند ہوجاتاہے۔روزہ سخت کوشی کی تربیت دیتاہے۔ ایک طرف کھانا پینا، سونا اور آرام کرنا کم، جب کہ دوسری طرف غیبت، جھوٹ، لڑنا جھگڑنا، فضول اور نکمی و بے مقصد گفتگو بھی روزے کے اعلیٰ مقاصد کی نفی قرار پاتے ہیں۔ بلاشبہہ روزہ کھانے پینے کے شوق کو اُکسا دیتاہے، اس اکساہٹ کو دبانا، نہ کہ پرورش دینا، اس سے نجات پانا نہ کہ ناز نخرے اٹھانا مطلوب ہے اور تزکیہ نفس کے جلی عنوات سے عبارت ہے۔ جن حضرات کو تسلسل سے روزہ رکھتے ہوئے ۶۰،۷۰ سال ہوگئے ہوں، انھوںنے گرمی کے روزے، سردی کے روزے، جوانی کے روزے، بڑھاپے کے روزے، صحت کے روزے، عدم صحت کے روزے،غربت اور ناداری کے روزے،سہولتوں اور آسایشوں کے روزے رکھے ہوں گے۔ خوش حالی اور خستہ حالی،سفر و حضر، دھوپ چھائو ں، تنگی ترشی سے گزرے ہوںگے۔ وہ سراپا اس کی گواہی دیں گے کہ یہ عبادت ہر طرح کے حالات میں بندگی کی تربیت دیتی ہے۔ برسہا برس اس فرض کی پکار پر لبیک کہتے کہتے، اس عبادت سے استغنا اور بے نیازی نہیں پیدا ہوتی،بلکہ طلب،آرزو اور کیف و سرور کی لذت و آشنائی، بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
رمضان المبارک صیام اور قیام سے عبارت ہے، یعنی دن کو روزے اور رات کو قرآنِ پاک کے ساتھ شغف اور تعلق کی آبیاری !دن بھر نفس کو بھوکا پیاسا رکھ کر اس قابل بنایا جاتاہے کہ قرآن سن سکے اور جذب وانجذاب کے مراحل سے گزر سکے ۔ یوں نفس کی کثافتیں دور کی جاتی ہیں تاکہ قرآن پاک سے حقیقی مناسبت پیدا ہوسکے ۔ دن بھر نفس کو قابو کیا جاتاہے۔ منہ زور گھوڑے کو لگام دی جاتی ہے۔ پھر منزل (قرآن پاک )کی طرف اسے روانہ کر دیا جاتاہے۔ صیام اور قیام، دونوں سے مل کر ہی وہ انسان تشکیل پاتاہے جو اسلام کا انسانِ مطلوب ہے۔
یہ بات ذہن و دل کے دوردرازگوشے میں بھی مستحضر رہنی چاہیے کہ ’عبادات ‘ ازخود مطلوب ہیں۔ ان میں پنہاں حکمتیں، مادی اور دینوی فوائد اپنی جگہ لیکن ان کا اللہ کی ہدایت وحکم ہونا اس امر کے لیے کافی ہے کہ انھیں دائماً ظاہری آداب اور باطنی محاسن سے آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور ان کے لیے سنتِ ثابتہ سے رہنمائی لی جائے۔ آخرت کی جواب دہی کے تصو رکو زندہ و تابندہ کیا جائے اور بجا طور پر دنیا میں خلافت اور نیابت کے جس منصب پر ہمیں فائز کیا گیا ہے، عبادات سے اس کردار کو ادا کرنے میں مدد لی جائے۔
روزے کی نفسیات اور جزئیات پر جس قدر غور کیا جائے،حقیقت یہ ہے کہ بندگی رب کا سفر طے کرنے، معراج ِانسانیت کو پہنچنے، نیز انسانی معاشروں کو قیادت و سیادت فراہم کرنے، معروف کی چمن بند ی اور منکر کے جھاڑ جھنکار سے نجات دلانے کے لیے ’روزہ ‘ فیصلہ کن عمل انگیز (catalyst) کا کردار ادا کرتاہے ۔ مستحکم قوتِ ارادی،عزمِ صمیم، کرنے اور کر گزرنے کا داعیہ، تعلق باللہ کی استواری، اپنے رب سے ایک اٹوٹ اور جیتے جاگتے تعلق کی آبیاری،اس کی رضا جوئی کی بڑھتی ہوئی طلب، یہ وہ صفات ہیں جو روزے سے پیدا ہوتی ہیں۔
اس بار رمضان المبارک اس حال میں طلوع ہو رہاہے کہ پوری اُمت میں بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔ ہزار ہا ہزار فرزندانِ توحید اور شمعِ رسالت ؐ کے پروانے اپنے رب کی طرف دیوانہ وار بڑھ رہے ہیںاور طاغوت کی فرماں روائی کو چیلنج کررہے ہیں۔ قرآن وسنت کی بالادستی کے لیے اور اسلام کو ایک نظامِ حیات کے طور نافذ کرانے کے لیے شب و روز کی کوششوں اور مشقتوں میں اپنے پیروں کو غبار آلود کررہے ہیں۔
رجب سنہ ۲ ہجری میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ گویا پچھلی اُمت منصب قیادت و رہنمائی سے ہٹادی گئی اور اُمت مسلمہ کو اس ذمہ داری پر فائز کردیاگیا۔ سن ۲ہجری کے اگلے مہینے، شعبان المعظم میں رمضان کے روزے فرض کردیے گئے ۔ گویا قیادت و سیادت کی تربیت اور تزکیے کا اہتمام اور رہنمائی کے منصب کے لیے صلاحیت و استعداد کو پرورش دینے کا عمل رمضان المبارک سے جوڑ دیا گیا۔ سنہ ۲ہجری کے اگلے مہینے، رمضان المبارک میں،جہاد وقتال کا حکم نازل ہوا۔ ہمارے حالات آج بھی سنہ ۲ہجری کے تین ماہ میں ربانی فیصلوں اور ان کی ترتیب میں اُمت کے لیے کچھ کرنے اور کر گزرنے،بے خطر آتش نمرود میں کودپڑنے اور اُمت کی بگڑی بنانے کی طرف بلا رہے ہیں۔ نہتے اور بے سروسامان غازیوں، مجاہدوں اور صف شکنوں کے قافلے رواں دواں ہیں، پیروں کو غبار آلو د کرتے ہوئے، سرسے کفن باندھ کر جان ہتھیلی پر لیے بآواز بلند پکارتے ہوئے کہ ع یہ بندہ دو عالم سے خفا تیرے لیے ہے، منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نشانات منزل عبور کررہے ہیں۔ رمضان المبارک ان جذبوں کو مہمیز دینے کے لیے طلوع ہو رہا ہے، بھولا ہوا سبق یاد دلانے اور تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر، ماضی سے اپنے رشتے استوار کرنے کے لیے رب کی رضا اور اس کی جنتوں کے حصول کے لیے میری نماز،میری قربانی، جینا اور مرنا رب العالمین کے لیے ہے، اس کا ورد کرتے ہوئے پوری اُمت میں ایک طرف جہاد کا کلچر فروغ پارہاہے اور اس کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کی تحریک زور پکڑ رہی ہے ۔ بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف لے جانے کی تدبیر روبۂ عمل آرہی ہے۔
لوگ اس شعور سے مزین اور آشنا ہوتے جارہے ہیں کہ اُمت کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، ۵۷ حکومتیں ہیں،اتنی ہی فوجیں ہیں، ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بھی ہے، مادی وسائل، جغرافیائی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے خطے،اُمت کے ہم رکاب ہیں___ لیکن اے بسا آرزو، یہ سارے وسائل دشمن کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، اسے لا جسٹک سپورٹ فراہم کی جارہی ہے۔اللہ اور اس کے رسولؐ کے باغیوں کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں،انھیں کھل کھیلنے کا موقع جابجا دیا جارہاہے۔سارے مسلم حکمران، الاماشاء اللہ،امریکا اور مغرب کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، غیروں کی دی گئی ہر ڈکٹیشن انھیں قبول ہے، طاغوت کی ہر پالیسی پر آمنا وصدقنا اور بلاچوں وچراسرتسلیم خم کردینا ہمارے حکمرانوں کا شیوہ ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں نوجوان غول درغول ردعمل کا شکار ہورہے ہیں، اشتعال کے حوالے ہورہے ہیں، ’جہاد ‘ کی نئی نئی تعبیریں بھی سامنے آ رہی ہیں ۔ لیکن جدوجہد کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہواہے___ قال اللّٰہ وقال الرسول کی پکارجا بجاسنی جارہی ہے، منبر و محراب سے وابستگی میں اضافہ روز کا تجربہ ہے، ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں نثار کرنے والے، ڈنکے کی چوٹ پر شمع رسالت کے پروانے بنے ہوئے ہیں،ختم نبوت کے عقیدے سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کے لیے استدلال کی قوت اور قوت کے اظہار کے لیے سرگرداں ہیں ۔ ایسے میں رمضان المبارک کی ساعتیں بآواز بلند بھی اور بانداز خفی بھی ع فضائے بدر پیدا کر نے ......کی سرگوشیاں کررہی ہیں!
قرآن پاک کی رہنمائی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا، شب قدر کی فیصلہ کن اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے جڑی ہوئی یقین سے سرشار، انشراح صدر کی دولت، حالتِ روزہ کی پاکیزہ گھڑیاں اُمت کے ایجنڈے پر غور وفکر کے لیے صرف ہونی چاہییں ۔ اُمت کی زبوں حالی کہ ع ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات، اور اس کے متوازی، بیداری اور رجوع الی اللہ کی لہر کی قدر افزائی اور حوصلہ افزائی کی اجتماعی طور پر ضرورت ہے۔
رمضان المبارک کی رہنمائی ہمہ جہت ہے، ہمہ وقت ہے، ہر لمحے اور تاقیامت ہے۔ غزوۂ بدربھی اگر محض ایک واقعہ ہوتاتو تاریخ کا حصہ بن چکاہوتا، ماضی کے جھروکوں میں گم ہوگیا ہوتا، لیکن یہ رہنمائی ہے ۔ ایک ابدی پیغام ہے اور قیامت تک کے لیے دیوارپر لکھی تحریر ہے ع بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ! اس کے پیغام میں تازگی و نمو ہے، سیرابی اور شادابی ہے کہ جب عقیدوں کی جنگ ہو، تہذیبوں کا معرکہ ہو یا اصولوںکی آویزش___اس میں عددی قوت،اسلحہ اور ساز وسامان، آلات ِ حرب و ضرب ثانوی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں، فیصلہ کن حیثیت اور اقدام کی صلاحیت عقیدہ و اصول کی ہوجاتی ہے۔ قیامت تک یہی کلیہ کارفرمارہے گا ۔ رسیوں اور لاٹھیوں کو سانپ سمجھ کر ان سے خوف زدہ ہونے والے ایک تاریخ رقم کریں گے اور اژدھوں اور سانپوں کو بے معنی اور پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دینے والے بھی ۔ تن و توش کروفر اور سائنس وٹکنالوجی کی ایجادات پر غرہ کرنے والے اور ناخدائوں کو خدا بنانے والے بھی موجود رہیں گے اور کئی کئی وقت کے فاقوں سے پیٹ پر پتھر باندھنے والے اور جنت کی خوشبو اور اس کی لپٹوں سے سرشار ہونے والے بھی حق و باطل کے اس معرکے میں اپنی گردنوں پر سرسجائے، گردنیں کٹوانے کے لیے تیار نظر آئیں گے!
اہل علم ہی یہ کام کرسکتے ہیں کہ اُمت کو باور کرائیں کہ ہمارا اصل ہتھیار،ایٹم بم نہیں ہے، گو ہمیں اس کا بھی حکم دیا گیاہے کہ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ (اور تم لوگ جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو۔ انفال ۸:۶۰)___ مگر ہمارا اصل ہتھیار اپنے رب پر جیتا جاگتا ایمان، قرآن پاک کی رہنمائی اور ہدایت کو سینے سے لگانا اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تک جانے کے تمام راستے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو کر گزرتے ہیں، آپؐ کی سنتوں کو اپنانا، آپؐ کی شریعت کے نفاذ کے لیے اٹھنا، اور آپؐ جو جدوجہد اور کش مکش ہمارے درمیان چھوڑ گئے ہیں اس کا خوگر بننا، کامیابی کی نوید ہے۔
رمضان المبارک، تذکیر کاعنوان ہے: ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘‘ کا امید افزا پیغام ہے۔ ہمیں اس پیغام کو نہ صرف رمضان میں بلکہ باقی گیارہ مہینوں میں بھی تازہ رکھنے اور مقدور بھر اُمت کے ایک ایک فرد تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی ہونے کے سبب یہ فضائل عطا فرمائے ہیں۔ ہمیں ان فضائل کے حصول کے لیے خوب کوشش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی اُمتی ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ رمضان کی ان برکتوں سے اپنے آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہیے۔
ہر بھلائی صدقہ ہے، یعنی صدقہ کے لیے مال دینا شرط نہیں ہے۔ مال کے علاوہ بھی صدقہ ہوتا ہے جو بھلائی بھی کسی کے ساتھ کی جائے وہ ثواب کے اعتبار سے صدقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آدمی کے اندر ۳۶۰ جوڑ ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہرجوڑ کی طرف سے روزانہ ایک صدقہ کرے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس کی طاقت کس کو ہے کہ ۳۶۰ صدقہ روزانہ کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں تھوک پڑا ہوا ہو، اس کو ہٹا دو، یہ بھی صدقہ ہے۔ راستے میں کوئی تکلیف دینے والی چیز پڑی ہو، اس کو ہٹا دو، یہ بھی صدقہ ہے، اور کچھ نہ ہوسکے تو چاشت کی دورکعت اس کے قائم مقائم ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ نماز میں ہرجوڑ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں حرکت کرنا پڑتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ روزانہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو آدمی کے ہرہرجوڑ کے بدلے میں ایک صدقہ ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان انصاف کردو، یہ بھی صدقہ ہے۔ کسی شخص کی سواری پر سوار ہونے میں مدددینا بھی صدقہ ہے، اور اس کا سامان اُٹھا کر دینا بھی صدقہ ہے۔ کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ پڑھنا بھی صدقہ ہے۔ ہر وہ قدم جو نماز کے لیے چلے وہ بھی صدقہ ہے۔ ہرنماز صدقہ ہے، روزہ صدقہ ہے، حج صدقہ ہے۔ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے،الحمدللہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے جو کوئی راستے میں مل جائے اس کو سلام کرنا بھی صدقہ ہے، نیکی کاحکم کرنا صدقہ ہے۔ برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔
دوسری چیز جو اس حدیث میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی کارخیر پر کسی کو ترغیب دے گا، اس کو بھی ایسا ہی ثواب ہے جیسے کہ کرنے والے کو۔ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ترغیب دینے والے کو بھی وہی ثواب ملتا ہے جو کرنے والے کو۔ اس طرح زیادہ ثواب حاصل کرنے کے امکانات کا وسیع میدان سامنے ہے۔ آپ کے کسی عمل سے، آپ کا نمونہ اور مثال دیکھ کر، آپ کے کہنے سے، آپ کی تقریر یا گفتگو سن کر، یا آپ کا مضمون پڑھ کر جو شخص دنیا میں جہاں کہیں بھی نیک عمل کرے گا اُس کا اجر اللہ تعالیٰ آپ کو دے گا۔ اسی طرح مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی طرف خاص طور پر ترغیب دی گئی ہے۔یہ ہے اللہ تعالیٰ کے دینے کا بے حساب نظام، کاش! ہم لینے والے بن جائیں۔ رمضان میں خصوصی اہتمام کریں، خصوصی اجر کی خاطر۔
جب آدمی نادار ہو اور حاجت مند ہو اور اس کے اہل و عیال بھی حاجت مند ہوں تو ایسی صورت میں محنت و مشقت اور مزدوری کے ذریعے کمائی کر کے صدقہ کرنا تمام صدقوں سے اس لیے افضل ہے کہ اس میں مال دار آدمی کے مقابلے میں زیادہ مشقت اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ صحابہ کرامؓ جو نادار ہوتے تھے وہ مزدوری کر کے اور بوجھ اُٹھا کر کمائی کرتے اور فی سبیل اللہ صدقہ کر کے اپنی آخرت سنوارتے، دنیا میں اپنے کھانے کو مؤخر کردیتے اور آخرت کے کھانے کی فکر کرتے تھے۔ آج بھی صحابہ کرامؓ کی یاد تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس جذبے اور شوق میں اپنے اہل و عیال کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ان کی ضروریات پورا کرنا کنبے کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو کسی بھی صورت میں نظرانداز کرنا صحیح نہیں ہے۔
کوئی شخص مومن ہو اور بخیل اور بداخلاق بھی ہو، یہ مومن کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ایسے شخص کو اپنے ایمان کی فکر کرنا چاہیے۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔ جیسے ہرخوبی دوسری خوبی کو کھینچتی ہے، ایسے ہی ہرعیب دوسرے عیب کو کھینچتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شح،بخل ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا، جیسے آگ اور پانی جمع نہیں ہوسکتے اسی طرح بخل اور ایمان بھی جمع نہیں ہوسکتے۔ کنزالعمال میں ایک روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہرولی میں دو خصلتیں جمع ہوتی ہیں: ایک سخاوت اور دوسری خوش خلقی۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہو تو اس کی مخلوق پر خرچ کرنے کو بے اختیار دل چاہے گا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں نہ تو چال باز، دھوکے باز داخل ہوگا اور نہ بخیل، نہ صدقہ کر کے احسان جتانے والا۔(ترمذی، مشکوٰۃ)
ایک اور حدیث میں ہے، حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں: یمن رخصت ہوتے وقت میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری سوال یہ کیا کہ سب اعمال میں محبوب ترین عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس حال میں تیری موت آئے کہ اللہ کے ذکر میں تیری زبان تر ہو۔ (ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان)
حضرت عبداللہ بن بسرؓکی روایت میں سائل کا مقصد اہم ترین چیز کو معلوم کرنا ہے تاکہ اسے اپنا معمول بنا لے۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبلؓ نے بھی اہم ترین عمل معلوم کرنا چاہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے جواب میں ذکراللہ کی تلقین کی۔ ذکراللہ ایسی چیز ہے جو تمام عقائد و احکام کی اساس ہے۔ یہ اساس جب آدمی کا معمول بن جائے تو ہرحکم آسان ہوجاتا ہے اور اس پر عمل شروع ہوجاتا ہے اور آدمی قربِ الٰہی کی منازل طے کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی یاد نصیب فرمائے، آمین!
عملِ صالح کی توفیق زندگی کے کسی مرحلے پر بھی مل سکتی ہے، موت سے پہلے بھی۔ دعوت کا کام کرتے ہوئے کسی سے بھی، کبھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔ ہدایت کا دروازہ موت سے پہلے کسی بھی وقت کھل سکتا ہے۔ توفیق الٰہی کے لیے دعا بھی کرنا چاہیے، اپنے لیے بھی۔
اگست کا مہینہ، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کے اس تاریخی دن کی یاد دلاتا ہے جب اس برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے ایک تاریخ ساز جدوجہد کے بعد مملکتِ خداداد پاکستان حاصل کی۔ اس کے لیے لازوال قربانیاں دیں، انگریز اور ہندو کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا۔ نصب العین کے لیے یکسو ہوکر ملک کے ہرحصے کے مسلمان خواہ وہ پنجابی تھے یا بنگالی، سندھی تھے یا بلوچی یا پٹھان، ہرتعصب سے بالا ہوکر میدانِ عمل میں کود پڑے۔ ہمارے قائدین نے بار بار واضح کیا کہ یہ علیحدہ خطۂ ارض ہم اس لیے حاصل کررہے ہیں کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے مطابق معاشرہ تعمیر کریں گے جو گم کردہ راہِ انسانیت کے لیے مینارئہ نور ہوگا۔
ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں، لیکن ۶۴سال بعد آج ہم جائزہ لیں تو بحیثیت مجموعی تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی دائرہ ایسا نہیں کہ ہم اطمینان کا اظہار کرسکیں۔ اسلا می معاشرہ تو بہت دُور کی بات ہے، ایک عام انسانی معاشرے کی حیثیت سے بھی ہم بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ اخلاق، سیاست، معیشت، عدلیہ، امن و امان کی صورت حال، ہرجگہ ایک بحران کی کیفیت ہے۔ یقینا ہم نے ایٹم بم بنایا ہے، بہت سے دائروں میں ترقی بھی کی ہے لیکن ان امور سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے آج صرف یہ جائزہ لیں گے کہ امریکا سے تعلقات کے حوالے سے ہماری آزادی وخودمختاری کی کیا کیفیت ہے۔
نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
ان کا ایسا ہی ایک ارشاد ہے کہ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ امریکا کی دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ اس کی دوستی بھی کچھ کم مہنگی نہیں! پاکستان نے اس کا بار بار تجربہ کیا ہے لیکن اس کی عاقبت نااندیش قیادتوں نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ خود اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کبھی کوئی سبق نہیں لیں گے۔
تازہ ترین صورت حال ریمنڈ ڈیوس کے بھرے چوک میں دو نوجوانوں کے قتل سے شروع ہوکر، اس کے فرار اور پھر ۲مئی کے ایبٹ آباد پر حملے اور ڈرون حملوں کو روکنے سے انکار بلکہ ان میں مسلسل اور معتدبہ اضافے، فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان بازی (war of words)، سیاسی قیادت کی طرف سے شمسی ایئربیس کے بارے میں ٹکا سا جواب، امریکی فوجیوں کی واپسی اور ویزے کے بارے میں معمولی سی چھان بین پر برہمی، امریکا کے تنخواہ دار مخبروں، خصوصیت سے اسامہ بن لادن کی تلاش کے سلسلے میں جعلی ویکسین کا ڈراما رچانے والے ڈاکٹر کی گرفتاری اور پھر سالانہ فوجی امداد کے ایک تہائی، یعنی ۸۰۰ملین ڈالر کی بندش___ وہ واقعات ہیں جو ایک فیصلے کی گھڑی (moment of truth) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ فیصلہ کن لمحہ ہے جس پر پاکستان کی آزادی اور اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس فیصلے کو اس قیادت پر نہیں چھوڑا جاسکتا جس کا اصل چہرہ وکی لیکس کے آئینے میں سب نے دیکھ لیا ہے اور جو اپنے اقتدار میں آنے اور کرسی بچانے کے لیے امریکا کے مرہونِ منت ہیں۔ فوجی قیادت کا کردار بھی کچھ بہت قابلِ فخر نہیں اور شاید اب ایک آخری موقع ہے کہ وہ اس اعتماد کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جس کی خاطر قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی تقویت کا سامان کیا ہے۔
امریکا سے اسٹرے ٹیجک دوستی پر ہمیں تو کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یقین کیا گمان بھی نہ تھا لیکن وہ جو یہ راگ الاپ رہے تھے، اب خود ان کے چہرے پر بار بار طمانچے پڑنے کے بعد یہ تحریر پڑھی جاسکتی ہے کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
اب وقت آگیا ہے کہ عوام کی آواز کو سنا جائے، بلکہ خود پارلیمنٹ نے جو واضح راہِ عمل اپنی دوقراردادوں (۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء اور ۱۴ مئی ۲۰۱۱ء) کی شکل میں دی ہے اس پر لفظ اور معنٰی ہردواعتبار سے عمل کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے زمینی حقائق کا صحیح صحیح ادراک ہو اور پھر ان کی روشنی میں اور اپنے قومی مفادات اور عوام کے جذبات اور عزائم کی روشنی میں تعلقات کی واضح انداز میں تشکیلِ نو ہو۔
دوسری بنیادی بات یہ سامنے رکھنے کی ہے کہ امریکا سے ہمارے تعلقات میں پچھلے ۶۴برسوں میں نشیب و فراز تو بہت آئے ہیں اور ان میں بھی نشیب زیادہ اور فراز کم، لیکن جو صورت حال نائن الیون کے بعد رونما ہوئی ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اور اس سے بھی بڑھ کر زرداری گیلانی اقتدار کے دور میں امریکا نے اپنی گرفت ہم پر مضبوط کی ہے، ہمیں اپنی محتاجی کے جال میں پھنسایا ہے، ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور عمومی پالیسی ہی نہیں، معمولی معمولی امور تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ امریکی سفیر داخلی امور پر ہدایات دے رہے ہیں۔ امریکی فوجیوں، سیکورٹی معاونین، مخبروں اور کاسہ لیسوں کا جال ملک کے طول و عرض میں بچھا دیا گیا ہے اور اگر پاکستان اپنے قومی مفاد میں کوئی معمولی سے معمولی اقدام کرتا ہے، جیسے فوجیوں کی واپسی، سفارت کاروں سے ان کے شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ، ویزوں کے بارے میں ضروری تحقیق و تفتیش کی جسارت، تو نہ صرف فوجی اور سول امداد کی گاجروں کو ہاتھ سے چھین لیا جاتا ہے بلکہ ڈنڈوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور عالم یہ ہے کہ ع
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا
ڈرون حملوں کو جاری رکھنے، اپنے مخبروں کورہا کرانے، شمسی ایئربیس کو خالی کرنے کے مطالبے کا ٹکا سا انکاری جواب دینے اورفوجی امداد روکنے کے اقدام کے بعد، اب پاکستان کے سامنے صرف ایک راستہ ہے___ امریکا کے تعلقات کے موجودہ دروبست کو یکسر تبدیل کرنے اور بالکل نئی شرائط اور نئے نکات پر تعلقات کی ازسرنو تشکیل کا راستہ۔
آگے بڑھنے سے پہلے تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
۱- بلاشبہہ ہم نے امریکا پر اپنی محتاجی (dependence) کو خطرناک حد تک بڑھا لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کوئی ناکام یا بے سہارا ملک ہے۔ ہمارے وسائل ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں اور قوم میں وہ ہمت اور صلاحیت ہے کہ اگر قیادت صحیح رویہ اختیار کرے تو یہ ملک اپنے مفادات کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے باربار اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جن حالات میں ہم نے اپنی آزادی کا سفر شروع کیا تھا، دنیا کو یقین تھا کہ ہم چند مہینوں میں بھارت کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے اور دوبارہ اس کے زیرِعاطفت آجائیں گے لیکن اس غیور قوم نے اپنے معاملات کو سنبھالا، کشمیر کے محاذ پر پنجہ آزمائی میں بھی پیچھے نہیں رہی اور ۱۹۴۹ء جب تخفیفِ زر کا طوفان آیا تو روپے کی قدر نہ گرا کر بھارت، برطانیہ اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بے سروسامانی سے آغاز کر کے جس طرح ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء میں اپنے حالات کو سنبھالا، وہ بہت سی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود ایک بڑا کارنامہ تھا۔ پھر امریکا سے دوستی اور اس کے مطالبات کے باوجود چین کوتسلیم کرنا اور اس سے اسٹرے ٹیجک شراکت کی راہ ہموار کرنا ایک اہم کارنامہ تھا۔ ۱۹۹۸ء میں ایٹمی تجربہ بھی اسی نوعیت کی کامیابی ہے۔ اگر قیادت صحیح فیصلہ کرے اور قوم کو اپنے ساتھ لے کر چلے تو آج ہم امریکا کے چنگل سے نکلنے کے لیے ماضی کے ان تمام ادوار کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت اور وسائل رکھتے ہیں۔
۲- دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ آج ہم ہی امریکا کے محتاج نہیں، خود امریکا بھی چند نہایت اہم امور کے سلسلے میں ہماری مدد اور تعاون کا محتاج ہے، بشرطیکہ ہم اپنے پتّے صحیح صحیح کھیلیں اور اپنے قومی مفاد، آزادی اور عزت کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ مسئلہ غیروں کی کارروائیوں سے زیادہ اپنی کمزوریوں کا ہے۔
۳- تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے اور اپنے طویل المیعاد مفادات کے تحفظ کے کسی انتظام کے ساتھ وہاں سے باعزت انداز میں واپسی چاہتا ہے اور اس کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ امریکا افغانستان اور پاکستان سے ۱۱ہزار کلومیٹر دُور ہے لیکن ہماری اور افغانستان کی مشترک سرحدات ۱۵۰۰ کلومیٹر سے زیادہ ہیں اور ہمارے تاریخی، تہذیبی، دینی، معاشی اور سیاسی رشتے بالکل دوسری نوعیت کے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی حماقتوں سے ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنا لیا، اور جو دشمن تھے ان کی دشمنی میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ امریکا کی سرزمین تو شاید کسی حد تک دہشت گردی سے محفوظ ہوگی___ گو دہشت گردی کے خوف کی فضا نے اس کو بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور نہ معلوم کب تک اسے اس عذاب میں مبتلا رہنا پڑے گا___ لیکن ہماری سرزمین جو اس نوعیت کی دہشت گردی سے بالکل پاک تھی، اب اس کی گرفت میں ہے، اور دہشت گردی کی کمر توڑنے کے باربار کے دعووں کے باوجود اس میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ یہ کمی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے سلامتی کی صورت حال کا اپنے نقطۂ نظر سے جائزہ لیں، اسے ازسرنو مرتب کریں اور سیاسی مسائل کے لیے سیاسی حل پر عمل کرنے کاراستہ اختیار کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے اور امریکا کے راستے اور مفادات مختلف ہیں۔ اس حقیقت کے ادراک کے بغیر اصلاح کی کوئی صورت نہیں۔ پارلیمنٹ نے یہی راستہ دکھایا ہے لیکن سیاسی اور فوجی قیادت اپنے اپنے زعم اور اپنے اپنے مفادات کے چکر میں اس راستے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کر رہی، اور امریکا سے بار بار ڈنڈے کھانے کے باوجود بھی آزادی، خودانحصاری اور عزت کا راستہ اختیار کرنے سے پس و پیش کر رہی ہے۔
یہ سب درست، لیکن اصل مسئلہ محض معاشی نہیں۔ امریکا نے خاص طور پر گذشتہ ۱۰،۱۱برسوں میں پاکستان کو عملاً اپنی ایک طفیلی ریاست بنا لیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پارہ پارہ ہیں۔ شروع میں امریکا نے اس پالیسی کو carrot and stick، یعنی ترغیب اور ترہیب، گاجراور ڈنڈے کی پالیسی کہا مگر اب گاجر کا حصہ معدوم ہوتا جا رہا ہے اور صرف ڈنڈے کی حکمرانی ہے۔ رواں سال میں ریمنڈ ڈیوس کے واقعے سے لے کر جولائی ۲۰۱۱ء میں امریکا کی فوجی امداد میں ۸۰۰ ملین ڈالر کی کمی اس کے مختلف مظاہر ہیں۔ ڈرون حملوں کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا اور ان سات برسوں میں ۲۶۰ حملے ہوچکے ہیں اور ان میں ہلاک ہونے والے نام نہاد مطلوبہ دہشت گردوں کی تعداد ۵۰ اور ۶۰ کے درمیان ہے، جب کہ ان حملوں میں لقمۂ اجل بننے والے عام بے گناہ پاکستانیوں کی تعداد ۲۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ امریکا پوری رعونت کے ساتھ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ہماری حاکمیت کو پامال کر رہا ہے اور ہمارے شہریوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار رہا ہے۔ ان دستاویزات کی روشنی میں جو وکی لیکس کی بناپر طشت ازبام ہوچکی ہیں، ان میں سے بیش تر حملے ماضی میں خود ہماری سرزمین سے امریکی اڈوں سے ہوتے رہے ہیں اور یہ اڈے وہ ہیں جن کی حفاظت ہماری اپنی افواج اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کرتی رہی ہیں، اور جنرل پرویز مشرف سے لے کر زرداری گیلانی تک سب کی طے شدہ منظوری سے ہماری سرزمین پر ہماری آبادیوں کو موت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں کہ امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فوج کشی کے ۱۰ برسوں میں جتنا جانی نقصان اُٹھایا ہے، پاکستان کی افواج اور شہریوں نے اس سے کہیں زیادہ نقصان برداشت کیا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور عالمی میڈیا پاکستان کو دوغلی پالیسی، دھوکا دہی، بدعنوانی اور بدعہدی کا مجرم قرار دے رہا ہے۔ اسے دنیابھر میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے رہا ہے اور افغانستان میں اپنی پالیسی کی ناکامی کا ملبہ بھی پاکستان پر گرانے کی مذموم کوششیں کر رہا ہے۔ ۲مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت کے ڈرامے کی بنیاد پر پاکستان، اس کی افواج، خفیہ ایجنسیوں اور خود حکومت کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور فوجی، سیاسی اور معاشی دبائو کے ساتھ اس کے خلاف اپنی لفظوں کی جنگ (war of words) کو بھی ایک نئی انتہا تک لے جایا گیا ہے۔ امریکی حکومت اور اس کے ترجمان، کانگریس کی کمیٹیاں اور ان کے ترجمان، تھنک ٹینکس اور میڈیا، سب نے اپنی توپوں کے تمام دہانے پاکستان پر یلغار کے لیے کھول دیے ہیں۔ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کا ارشاد ہے کہ ’’پاکستان پر یہ سارا دبائو جاری رہے گا تاآنکہ وہ امریکا کی شرائط کو منظور کرے اور اس کے مطالبات کو پورا کرے‘‘۔ امریکی چیف آف اسٹاف مائیکل مولن نے ایک صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی بلاواسطہ ذمہ داری پاکستان کی حکومت پر ڈالی ہے اور اس کے ساتھ فوجی امداد میں کٹوتی کا اعلان بھی کردیا ہے۔
امریکا بلاشبہہ ایک عالمی طاقت ہے۔ اس سے تعلقات پر نظرثانی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قوم امریکا سے تصادم کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن تصادم اور دشمنی، یا غلامی اور محکومی ہی دو آپشن نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کے احترام کی بنیاد پر ایک باعزت پالیسی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے جو قوت اور وسائل کے اختلاف کے باوجود دونوں کی آزادی، خودمختاری، مشترک مقاصد اور مفادات کے سلسلے میں تعاون پر مبنی ہو، اور ان تمام امور کے باب میں جہاں مفادات میں اشتراک موجود نہیں، اپنے اپنے مقاصد، مفادات اور اہداف کے لیے آزادانہ کردار کا اہتمام کیا جائے۔ بین الاقوامی قانون اور عالمی نظام دونوں کا یہی تقاضا ہے۔ قوی اور ضعیف، بڑا اور چھوٹا، سب عملی میدان میں برابری (functional equality)کی بنیاد پر ایک دوسرے سے معاملہ کریں۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات یک طرفہ اور ایک فریق کی بالادستی اور دوسرے کی عملاً محکومی کا رنگ اختیار کرچکے ہیں اور ان کا اسی طرح جاری رہنا نہ قوم کے لیے قابلِ قبول ہے اور نہ ملک اور علاقے کے مفاد میں ہے۔ اس لیے نئی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر پوری یکسوئی کے ساتھ عمل کا پروگرام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ہم امریکا سے معاشی، تجارتی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی وجہ سے جو حاکم اور محکوم اور آقا اور ماتحت کا تعلق بن گیا ہے، اسے ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنا پڑے قوم کو یک جان ہوکر اس کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ ایک مخصوص لابی اس سلسلے میں جن خطرات کا ہوّا کھڑا کرکے ہمیں ڈرا رہی ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں۔ گذشتہ ۶۴برسوں میں امریکا نے چھے بار پاکستان سے تعلقات کو پست ترین سطح تک دھکیلا ہے اور ہم پر طرح طرح کی پابندیاں تک لگائی ہیں لیکن پاکستان کی معیشت ان سب نشیب و فراز سے بخوبی عہدہ برآ ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ۸۰۰ملین ڈالر کی فوجی امداد امریکا نے روکی ہے۔ یہ کسی شمار قطار میں نہیں، البتہ ۱۰برس میں امریکا نے جوفوجی اور معاشی امداد دی ہے اگر اس سب کو بھی لیا جائے تو اس کا حقیقی اثر ہماری معیشت پر براے نام رہا ہے، جب کہ اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے جو نقصان ہم کو ہوا ہے، وہ اعدادوشمار کی زبان میں بھی اس کے کم از کم ۵گنا زیادہ ہوا ہے۔ آخری تجزیے اور حساب میں اس جنگ سے نکلنے اور امریکی امداد سے نجات پانے سے ہماری معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے اور ملک خودانحصاری کی طرف تیزی سے آگے بڑھ سکے گا بشرطیکہ حکومت صحیح سیاسی اور معاشی پالیسیاں تشکیل دے، اور قوم پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی آزادی، خودمختاری اور عوام کی خوش حالی کے لیے وسائل کے صحیح استعمال کا راستہ اختیار کرے۔
۱- پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ہماری غربت اور معاشی پس ماندگی کی وجہ وسائل کی قلت نہیں، صحیح قیادت کا فقدان اور صحیح پالیسیوں سے محرومی ہے۔ قومی مقاصد، مفادات اور اہداف کا صحیح صحیح تعین اور ایک ایسی حکومت کی تشکیل اولین اہمیت رکھتی ہے جو عوام میں سے ہو، عوام کے سامنے جواب دہ ہو، اور پاکستانی قوم کے مفاد کی علَم بردار ہو۔ وژن اور اہداف کی درستی اور دیانت داری اور باصلاحیت قیادت کو بروے کار لانا اصلاحِ احوال کے لیے ناگزیر ہے۔
۲- پالیسی سازی میں پارلیمنٹ کا کردار مرکزی ہونا چاہیے اور عوام کو اعتماد میں لے کر ان کے جذبات اور ترجیحات کی روشنی میں یہ کام انجام پانا چاہیے۔
۳- امریکا سے تعلقات خودمختارانہ مساوات (equality sovereign) کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔معاشی امداد کو مرکزی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ خرابی کی جڑ ہے۔ تعلقات کے محور کو بدلنے اور تجارت اور دوطرفہ معاشی تعاون کو مرکزی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔
۴- اس وقت جو مراعات امریکا کو حاصل ہیں ان پر فوری طور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ چند اہم پہلو یہ ہیں:
امریکا سے تعلقات اور افغانستان مسئلے کا حل اس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرکے معاملات کو سلجھایا جانا مشکل ہے۔ جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جس مفاہمتی عمل کا آغاز ہواہے، وہ ایک مفید اور ضروری اقدام ہے اور افغان مسئلے کا حل افغانستان ہی کی تمام قوتوں کو مل جل کر کرنا ہے، وہیں پاکستان، ایران، وسط ایشیا کی ملحقہ ریاستوں اور خود چین کو بھی اس عمل میں ایک کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ کردار ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کی شکل میں نہیں، بلکہ افہام و تفہیم کے ذریعے سب کے مشترک مفاد کی بنیاد پر ہو تو امن، سلامتی اور ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہی تاریخ کا سبق ہے جس کا جتنا احترام ہوسکے اتنی ہی ہماری کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گی۔
رمضان کریم ایک ایسا مبارک اور رحمتوں والا مہینہ ہے جس کا انتظار اور استقبال ایک عام مسلمان ہی نہیں، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم جن پر ہمارے والدین قربان ہوں، خصوصی عبادات کے ذریعے فرمایا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ شعبان ہی سے اس ماہ کے لیے کمرکس لیا کرتے تھے لیکن رحمت للعالمینؐکا اپنی اُمت کی آسانی کے لیے یہ خصوصی اظہارِمحبت تھا کہ، گو خود تمام شعبان روزہ رکھتے لیکن اُمت کو آخری دو ہفتوں کی رخصت دے کر صرف شعبان کے اوّلین حصے میں روزہ رکھنے کی تلقین فرماتے۔ اسی بنا پر نصف شعبان کا روزہ افضل ہے اور اوّلین دوہفتوں میں روزے رکھنا سنت کی پیروی ہے۔
اس مہینے کی اہمیت اور اس کے انقلابی اثرات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ ایک بڑی عظمت والا بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس میں روزہ رکھنا فرض کردیا گیا ہے اور راتوں میں تراویح پڑھنا نفل (یعنی سنت) ہے۔ اس ماہ میں ایک فرض کا ادا کرنا دوسرے کسی مہینے کے ۷۰فرض ادا کرنے کے برابر ہے۔ یہ مہینہ مواساۃ ،یعنی ہمدردی کرنے والا مہینہ ہے۔
جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ اس ماہ میں روزہ رکھا تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرما دے گا۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت کا دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرباشعور مسلمان مرد، عورت اور بچہ اس ماہ میں خصوصی اہتمام کے ساتھ تلاوتِ قرآن، وقت پر نمازوں کا اہتمام، صدقات و خیرات اور غربا و مساکین کی امداد کرنے میں مسابقت کرتا ہے۔ اس کی برکتیں اَن گنت، اس کے انعامات غیرمحدود اور اس کی لذت اپنی مثال آپ ہے۔
اس سال رمضان ایسے حالات میں آرہا ہے کہ اُمت مسلمہ کا ہرفرد مسلم دنیا کے حکمرانوں اور مروجہ استحصالی نظام کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہاہے اور ایسے بہت سے حکمران جنھیں اپنی کرسی کے مضبوط ہونے کا یقین تھا، پڑوسی ممالک میں اپنی جان بچانے کے لیے پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس صورت حال میں یہ مہینہ جو مواساۃ کا، رحمت کا، مغفرت کا، عفو و درگزر کا، صبرواستقامت کا مہینہ ہے، جس کا مقصد رحمت کی فضا پیدا کر کے پوری اُمت مسلمہ کو دنیا کی تمام غلامیوں سے نکال کر صرف اور صرف اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی طرف بلانا ہے، ایک عام مسلمان سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ کیاصرف عبادات کا خلوصِ نیت کے ساتھ کرلینا اور نوافل کا اہتمام کرلینا اُمت مسلمہ کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کافی ہوگا؟ یا ہمیں غوروفکر کے ساتھ اپنے حالات کا جائزہ اور احتساب کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ اس ماہ میں ہماری ترجیحات کیا ہوں؟
تقریباً ۱۵۰۰ سال قبل جب پہلی مرتبہ رمضان کا مہینہ اپنی رحمتوں کے ساتھ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب پر سایہ فگن ہوا تو ابھی ۱۷دن بھی نہ گزرے تھے کہ اُمت مسلمہ کو ایک ایسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جو اس کے وجود کو ختم کرنے کی خاطر نظامِ کفرواستحصال کی طرف سے اس پر مسلط کی گئی تھی۔ آج جدید جاہلیت پر مبنی تہذیب اور اس کے سرمایہ دار قائد اُمت مسلمہ کے خلاف اپنی جدید ترین ٹکنالوجی کے ساتھ نبردآزما ہیں۔ جس طرح اس وقت اصحابِ رسولؐ میں سے کسی کے پاس نیزہ تھا تو تلوار نہ تھی، تلوار تھی تو ڈھال نہ تھی، خَود تھا تو زرہ نہ تھی، اسی طرح آج بھی اُمت مسلمہ جنگی آلات کے لحاظ سے کم تر مقام رکھتی ہے۔ لیکن جس چیز نے قرن اوّل میں اُمت مسلمہ کو فتح مند کیا تھا، وہ اس کی اسلحہ میں برتری نہ تھی، بلکہ اس کا وہ کردار و تقویٰ تھا جس کی تیاری میں اسے ۱۳سال آزمایشوں کی دہکتی بھٹیوں سے گزرنا پڑا تھا۔ اللہ کے یہ چند بندے اپنے کُند بھالوں کے باوجود ایمان کی غیرمحدود قوت، کردار کی عظمت، خلوص کی کثرت اور رب کریم سے اپنے تعلق کی فراوانی کی بنا پر اپنے سے تین گنا زیادہ تعداد اور ۱۰ گنا زیادہ مسلح قوت سے نہ صرف ٹکرلینے بلکہ آخرکار اس قوت کو توڑنے اور شکست دینے کی نیت سے نکلے تھے۔ ان کے رب نے ان کو وہ عزم دیا تھاجو غیرمتزلزل ہو اور ایسی استقامت دی تھی جو فتح و کامرانی کا پیش خیمہ ہو۔
آج اس پُرآشوب دور میں اس برکتوں والے مہینے کے ذریعے ہمیں اولاً اپنے آپ کو باطل کی تمام محکومیوں سے نکال کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں دینا ہوگا۔ یہ بندگی کامیابی کے لیے شرطِ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنا رہنما بنانا ہوگا کہ بہترین اسوہ اور بہترین قابلِ عمل نمونہ اگر کوئی ہے تووہ صرف آپؐ کی حیاتِ مبارکہ ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں دشمن کی حکمت عملی اور منصوبوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ کس کس راستے سے وہ ہم پر حملہ آور ہورہا ہے۔ دشمن کی جنگی حکمت عملی کا اوّلین نکتہ اُمت مسلمہ کو ثقافتی، ابلاغی اور برقی اتصالات (ذرائع ابلاغ) کے ذریعے مغلوب کرنا ہے۔
مغرب کی ثقافتی یلغار کا ایک بڑا ذریعہ جدید اتصالات ہیں، چنانچہ فیس بک (facebook) اور یوٹیوب (youtube) کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کو دین سے دُور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں قرآن کریم کی دعوت کے ذریعے نوجوانوں میں دینی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا سیکھیں، لہوولعب میں ضائع نہ کریں۔ اسلامی معلومات کو برقی میڈیا سے دل نشیں انداز سے پیش کیا جائے۔ یہ مہینہ جو قرآن کا مہینہ ہے اس میں قرآن کریم کے بہت سے پہلو جدید ٹکنالوجی کے ذریعے عام کیے جاسکتے ہیں، مثلاً سابقہ اقوام کے قصے اور کائنات کے حوالے سے قرآن کریم کے دلائل۔
اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل میں سے ایک بنیادی مسئلہ فرقہ بندی نیز علاقائی اور قومی عصبیتوں کا اُبھارا جانا ہے تاکہ اُمت مسلمہ اتحاد سے محروم رہے۔ قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کو ایک بنیان مرصوص سے تعبیر کیا تھا، جب کہ مغرب کی لادینی فکری یلغار اسے الگ الگ قومیتوں میں تقسیم دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ مہینہ اتفاق واتحاد کا مہینہ ہے۔ اس میں دلوں کے اتحاد کی بنیاد قرآن کریم ہے۔ اس ماہ میں ہرہرمحلے میں حلقہ ہاے مطالعہ قرآن کا قائم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عصبیت لسانی ہو یا نسلی، ان سب کا علاج صرف اس کلامِ عزیز پر جمع ہوجانا ہے۔
یہ مہینہ زندگی میں اعتدال اور توازن پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ حکم ہے کہ بغیر سحری روزہ نہ رکھا جائے اور نہ سحری اتنی زیادہ ہو کہ دن میں ایک روزہ دار پریشان رہے۔ ایسے ہی افطار میں توازن ہو اور بجاے اپنے اُوپر اسراف کرنے کے اہلِ محلہ، غریبوں، مسکینوں، قرض داروں، غرض ان تمام افراد پر خرچ کیا جائے جو مسائل کا شکار ہوں۔ لیکن اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو یا کسی کی مشکل کا دُور کرنا، ہرمعاملے میں متوازن رویہ اختیار کرنا ہی رمضان کا پیغام ہے۔
معاشرے سے معاشی ظلم و استحصال اور عدم توازن کو دُور کرنا اور تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے مناسب اقدامات کرنا، ایک اسلامی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں اس جانب عدم توجہ پائی جاتی ہے۔ اس مبارک مہینے میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ مالی استحصالی نظام سے نجات اور اسلامی معیشت کے عادلانہ نظام کے لیے زمین ہموار کرنے کی کوشش کی جائے۔ یونی ورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کو ان موضوعات پر اظہارِ خیال کی دعوت دی جائے اور جہاں کہیں بھی ابلاغ عامہ تک رسائی ہو، اسلامی نظامِ معیشت، اسلامی بنکاری اور تکافل کے حوالے سے عوام کو فکری رہنمائی فراہم کی جائے اور اسلامی بنکاری کے حالیہ تجربات کو تعاون و اشتراک سے دوسروں تک پہنچایا جائے تاکہ سودی کاروبار سے بتدریج نجات ملے۔
اس مبارک مہینے کا ایک مقصد تزکیۂ نفس ہے کہ انسان اپنے نفس کو قابو میںرکھنا سیکھے اور اپنی خواہشات کو اللہ کی بندگی کا تابع بنا دے۔ یہ ان تمام ترغیبات کے خلاف ایک مسلسل جہاد ہے جو انسان کو غیرمحسوس طور پر برائی کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ یہ مہینہ ہمیں سادگی اور کفایت شعاری کی تعلیم دیتا ہے اور چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا، جن کا شمار کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں، شکر ادا کرنے کے لیے اللہ کی دی ہوئی دولت، وقت اور صلاحیت کو اُس کے دین کے غلبے کے لیے استعمال کیا جائے اور ان تحریکوں کا ساتھ دیا جائے جو دنیا سے طاغوتی نظام کو مٹانے اور اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے کوشاںہیں۔ اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب انسانوں میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے ذریعے ایک فکری انقلاب لایا جائے اور اس فکری انقلاب کے دائرہ کار کو خاندان، معاشرے اور معیشت وتعلیم کے شعبوں تک وسعت دے دی جائے۔ اس مہینے میں اللہ کے بندوں کے دلوں کی دنیا میں انقلاب لایا جائے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت اختیار کی جائے۔ قرآن کریم ہدایت کرتا ہے کہ اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوئوں پر لیٹے، ہر حال میں اللہ کے ذکر کو اختیار کرتے ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں مسنون دعائوں کے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔
رمضان کریم کی برکات میں سے ایک بڑی برکت اس کا آخری عشرہ ہے۔ اس میں وہ قوت والی طاق رات ہے جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا۔ اس کلام کی عظمت و شوکت اس بات کی متقاضی تھی کہ اسے ایک قوت والی رات ہی میں نازل کیا جائے۔ آج قرآن کریم کی یہ قوت ہی وہ محرک ہے جس نے عالمِ اسلام کے نوجوانوں میں رجوع الی القرآن اور رجوع الی اللہ کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس عظیم رات میں جو انقلاب تاریخ عالم میں برپا ہوا، اس کے اثرات زندگی کے ہرشعبے میں نمایاں ہوئے۔ اس رات کے بعد، انسانوں کا تصورِ کائنات، تصورِ انسان، تصورِ الٰہ اور مقصدحیات کا تصور، غرض ہرہرشعبے میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ کل تک جو انسان سیاروں، ستاروں اورچاند سورج کی پرستش کرتا تھا، اب ان سب کے خالق رب العالمین کا بندہ بن گیا۔ کل تک جو انسان جانوروں اور بتوں کے سامنے جھکتا تھا، ان سے ڈرتا تھا، ان سے اپنی مرادیں مانگتا تھا اور بعض اوقات خود کو ربِ اعلیٰ سمجھ بیٹھتا تھا، اب اُس انسان نے اپنی اصل عظمت کو پہچانا اور عبدیت کو انسان کی معراج سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو تمام غلامیوں سے نکال کر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت کے آگے سرتسلیم خم کر دیا۔ کل تک اگر زندگی کا مقصد لذت، مال و دولت کی کثرت اور اقتدار کی ہوس تھا، تو اب زندگی کا مقصد صرف حاکمِ حقیقی کی رضاکا حصول اور اس رضا کے حصول کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اہتمام قرار پایا۔ اس ایک رات نے زمین و آسمان کا نقشہ بدل دیا اور ایک ایسی اُمت کے وجود کی بنیاد رکھی جسے رب کریم نے انسانوں کی قیادت و امامت کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے، زمین سے ظلم کو مٹانے اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے ایک مقصد اور مشن کے ساتھ تمام انسانوں پر جواب دہ بنا دیا۔
آج اُمت مسلمہ اگر اپنی اصل قوت کا صحیح شعور و آگہی رکھتی تو اس کا سر کسی عالمی قوت کے سامنے نہ جھکتا۔ وہ اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کو اپنے عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرتی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نظامِ حیات کو اللہ کی زمین پر نافذ کرکے زمین و آسمان سے برسنے والے فضل و رحمت کی مستحق بن جاتی۔
آج سب سے زیادہ ضرورت اسی شعور و آگہی کی ہے۔ اگر اُمت مسلمہ اپنی اصل سے آگاہ ہوجائے تو کوئی قوت اسے زیر نہیں کرسکتی۔ یہ اصل اس کی قوتِ ایمانی ہے، یہ اصل اس کا اعتصام باللہ ہے، یہ اصل اس کی قرآن کریم سے رغبت اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی اور پیروی ہے۔ آج اُمت مسلمہ پر باطل قوتوں کی جانب سے یلغار کا سبب یہی ہے کہ اسے اس کی اصل قوت کا خطرہ ہے۔ اس مہینے میں شب و روز اس تعلق کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہرمسلمان ایک چلتا پھرتا قرآن اور ایک بہترین داعی بن کر معاشرے کی فلاح وبہبود کے کاموں میں دوسروں سے آگے نکل سکے۔ یہ مہینہ ان تمام بھلائیوں اور نیکیوں میں مسابقت کا مہینہ ہے جو رب کریم کو پسند ہیں اور اسے خوش کرنے والی ہیں۔
یہ مہینہ ظلم و استحصال کے خلاف منظم جہاد کا مہینہ ہے کہ کفر کی ہرہرچال کو سمجھ کر دین کی فراست اور حکمت کے ساتھ اس چال کوتوڑا اور معروف کے قیام کے لیے مثبت اقدامات کو اختیار کیا جائے۔ یہ ماہ مثبت فکر، مثبت عمل اور مثبت کوشش کا مہینہ ہے۔ اس میں بھلائی کے لیے نکلنے والوں کی نصرت اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے کرتے ہیں۔ اس ماہ میں کی گئی منظم جدوجہد اہلِ ایمان کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل کردیتی ہے اور بعض اوقات اپنی قلت تعداد کے باوجود وہ اپنے سے ۱۰ گنا زیادہ نفری پر غالب آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ کی برکات سے استفادے کی توفیق دے، ہرعمل خیر میں برکت دے، اور ہر کوشش کو خصوصی نصرت سے نوازے، آمین!
اسلام دین فطرت ہے اور ہرشعبۂ زیست میں راہِ اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ آج مغرب میں بھی خوردونوش میں زیادتی کوناپسند کیا جاتا ہے اور اسے صحتِ انسانی کے لیے مضر گردانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے محبوب مکرم نبی معظم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی نازل فرمائی:
وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ o (اعراف ۷:۳۱) اور کھائو اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: کھائو، پیو اور پہنو اور خیرات کرو بغیر فضول خرچی اور تکبر کے۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب ۴۵۴۰، پہلی حدیث)
ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی لکھتے ہیں کہ کھانے میں اسراف صحت کے لیے مضر ہے اور بسیار خوری کی وجہ سے جسم موٹا ہوجاتا ہے جس سے بہت سے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو کھانے کی صرف تھوڑی مقدار کی ضرورت ہے، جو انسانی جسم میں اتنی توانائی پیدا کرسکے جتنی توانائی انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جس سے اس کی صحت اچھی رہ سکے اور وہ اپنی روز مرہ کی ذمہ داریاں پوری کرسکے۔ انسانی جسم کو جتنے کھانے کی ضرورت ہے، اس سے زائد جسم میں داخل ہونے والا کھانا چربی بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کا وزن بڑھ جاتاہے، اس کی رفتار سُست ہوجاتی ہے اور انسان بہت جلد درماندگی اور تکان کا احساس کرنے لگتا ہے، نیز انسانی جسم بہت سے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کھانے میں اسراف سے قرآن و سنت نے جو ممانعت کی ہے، اس کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمانی نجاتی، ص ۵۱)
بسیارخوری سے انسان کو لاحق ہونے والی مضرت تمام طریقہ ہاے علاج میں مسلّم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں تاکہ گیارہ ماہ کے دوران خوردونوش کی بے احتیاطی کے مضر اثرات کا ازالہ ہوسکے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے روزے رکھنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔
قرآن کریم نے بیمار اور مسافر کے لیے روزے مؤخر کرنے اور جو روزے نہ رکھ سکیں، ان کے لیے فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد روزے کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۴) اور تمھارے لیے روزہ رکھنا ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
دراصل یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حیاتیاتی علم کو سمجھو تو تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔ کیونکہ روزہ اپنے اندر بے شمار روحانی، نفسیاتی اور طبی فوائد رکھتاہے۔ روزے کی طبی افادیت کی طرف نہایت مختصر مگر بلیغ اشارہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا: صوموا تصحوا (مجمع الزوائد، ج ۵، ص ۳۴۴، کنزالعمال، رقم الحدیث ۲۳۶۰۵) ’’روزے رکھو، تندرست ہوجائو گے‘‘۔
حکیم محمد سعید شہیدؒ لکھتے ہیں: ’’روزہ جسم میں پہلے سے موجود امراض و آلام کا علاج بھی ہے اور حفظ ماتقدم کی ایک تدبیر بھی۔ روزہ رکھنے والا صرف بیماریوں سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ ان کے لاحق ہونے کے ممکنہ خطرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کا طبی سبب یہ ہے کہ روزے سے قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے‘‘۔(حکیم محمد سعید، عرفانستان، کراچی ہمدرد فائونڈیشن پریس، ص۱۷۵)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: لکل شئی زکوٰۃ وزکاۃ الجسد الصوم (المعجم الکبیر، ۶/۲۳۸) ’’ہرشے کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے‘‘۔ اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح زکوٰۃ مال کو پاک کردیتی ہے، اسی طرح روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے اور اس کے ادا کرنے سے جسم تمام بیماریوں سے پاک ہوجاتا ہے، بلکہ کذب، غیبت، حسد اور بُغض جیسی باطنی بیماریوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔
حافظ ابن قیم کے مطابق روزے کا شمار روحانی اور طبعی دوائوں میں کیا جاتا ہے۔ اگر روزہ دار ان چیزوں کو ملحوظ رکھے جن کا طبعی اور شرعی طور پر رکھنا ضروری ہے تو اس سے دل اور بدن کو بے حد نفع پہنچے گا۔(محمد کمال الدین حسین ہمدانی، ڈاکٹر حکیم سید، اسلامی اصولِ صحت، علی گڑھ: حی علی الفلاح سوسائٹی، اشاعت اول ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ء، ص ۴۲)
ڈاکٹر محمد عالم گیر خان سابق پروفیسر آف میڈیسن، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور بھی روزے کو اَن گنت طبی فوائد کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ (محمد عالم گیرخان، ڈاکٹر، اسلام اور طب جدید، ص ۱۲)۔ تُرک اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی، اس حقیقت کا بہ تدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔ (بلوک نور باقی، ڈاکٹر، قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، مترجم:سیدمحمد فیروز شاہ، ص ۱۰۳)
گویا روزہ ہمیں صحت مند رکھنے، ہمارے امراض کو دفع کرنے اور مختلف بیماریوں کے خلاف ہماری قوتِ مدافعت بڑھانے میں انتہائی ممدومعاون ہے۔ آیندہ سطور میں روزے کی طبی افادیت کا تفصیلاً جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
نظامِ انہضام (digestive system)مختلف اعضا پر مشتمل ہے جن میں ایلیمنٹری کینال (alimentary canal)اور ہاضمے کے غدود (digestive glands) شامل ہیں۔ ایلیمنٹری کینال منہ سے شروع ہوکر مقعد پر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ اس میں جوف دہن، ایسوفیگس، معدہ اور آنتیں شامل ہیں۔ جگر اور لبلبہ ہاضمے کے غدود ہیں جن کی رطوبتیں خوراک میں شامل ہوکر اس کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو پورا نظامِ انہضام اس کو ہضم کرنے میں لگ جاتا ہے۔
انسان کو آرام کی بہت ضرورت ہے اور نیند اس کا بڑا ذریعہ ہے لیکن سونے کی حالت میں بھی بہت سے جسمانی افعال رواں دواں رہتے ہیں، مثلاً دل، پھیپھڑے، نظامِ ہضم میں معدہ، آنتیں، جگر، بہت سے ہارمون اور رطوبت، گردہ وغیرہ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب نظام ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور خوراک ان کی محرک ہے۔ اگر ہم اپنے روزمرہ معمولات کا بغور مطالعہ کریں تو ظاہر ہوگا کہ جسم کے ان شعبوں کو بہت کم آرام ملتا ہے۔ رات کے کھانے کو ہضم کرتے کرتے صبح کے ناشتے کا وقت ہوجاتا ہے اور جو لوگ دیر سے سوتے ہیں وہ رات کے کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں(محمد عالم گیر خان، ڈاکٹر، اسلام اور طبِ جدید، ص۱۳)۔ روزے سے معدہ، آنتوں، جگر اور گردوں کو آرام کا موقع ملتا ہے اور سال کے دوران ایک ماہ کا آرام ان کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری کا موجب بنتا ہے۔ (محمد فاروق کمال، سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰)
ڈاکٹر ہلوک نور باقی نے نظامِ انہضام پر روزے کے اثرات کا تفصیل سے مطالعہ کیا ہے، جس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:روزے کا حیران کن اثر خاص طور پر جگر (liver) پر ہوتا ہے، کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ ۱۵ مزید افعال بھی ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تکان کا شکار ہوجاتا ہے، جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کے لیے پہرے پر کھڑا ہو۔ روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھے گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے۔ جگر پر روزے کی برکات کا مفید اثر پڑتا ہے، جیسے جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا ہے جو غیرہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے مابین ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہرلقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کو ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے اور اپنی توانائی (globulins) پیدا کرنے پر صَرف کرتا ہے، جو جسم کے مدافعاتی نظام (immune system) کی تقویت کا باعث ہے۔
انسان معدے پر روزے کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزے سے معدے سے خارج ہونے والے (gastric juice) کی پیداوار اور اخراج میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔ روزے کے دوران تیزابیت نہیں ہوتی کیونکہ گیسٹرک جوس خارج نہیں ہوتا جس میں موجود ہائیڈرو کلورک ایسڈ تیزابیت کا باعث بنتا ہے۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام فراہم کرتا ہے۔
حکیم ہمدانی اشتہا پر روزے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’دن بھر کھاتے پیتے رہنے کی صورت میں اشتہاے صادق شاذونادر محسوس ہوتی ہے اور بغیر اشتہاے صادق محسوس ہوئے وقتِ مقررہ پر غذا استعمال کرلی جاتی ہے، جس سے سوء ہضم، نفخ، ڈکار، قبض، اسہال، قے وغیرہ جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن بحالت روزہ دن بھر کی بھوک و پیاس کے بعد اشتہاے صادق بلکہ اشتہاے شدید محسوس ہوتی ہے، اور جب وقت افطار غذا استعمال کی جاتی ہے تو اس کا انہضام و انجذاب جسم میں تیزی سے ہوتا ہے اور ہضم بھی قوی ہوجاتا ہے‘‘۔ (اسلامی اصولِ صحت، ص ۴۳-۴۴)
ایلن کاٹ (Allan Cott) نے ۱۹۷۵ء میں اپنی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا: روزے سے نظامِ ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کردیتا ہے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر،ص ۱۴۸)
روزے سے نظامِ دورانِ خون (circulatory system) پر مرتب ہونے والے فائدہ مند اثرات کے بارے میں ترکی کے معروف اسکالر ڈاکٹر ہلوک نور باقی رقم طراز ہیں: ’’دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ خلیات کے درمیان (intercellular) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشوز، یعنی پٹھوں پر دبائو کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دبائو یا ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے، یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزیدبرآں دل آج کل ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تنائو یا hypertension کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دورانِ خون پر اس پہلو سے ہے کہ اس سے خون کی شریانوں پر اس کے اثر کا جائزہ لیا جائے۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجہوں میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (remanants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے، جب کہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرّے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے۔ اور شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جن میں شریانوں کی دیواروں کی سختی (arteriosclerosis) نمایاں ترین ہے، سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے‘‘۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۱۰۵-۱۰۶)
حکیم محمد سعید شہیدؒ نے روزے کی افادیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’آج جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ روزہ کولیسٹرول کو ضائع کرتا ہے۔ یہ وہی خون کا کولیسٹرول ہے جو دل کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج کی دنیا میں اس سائنسی انکشاف کے لحاظ سے روزہ ایک برکت ہے۔ جو بات آج سائنس دانوں کو معلوم ہوئی ہے ، اس کا ادراک ذات ختم الرسل ؐ کو تھا اور ضرور تھا۔ اسی لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو جسم و روح کے لیے باعثِ خیروبرکت قرار دیا۔(عرفانستان، ص ۱۶۹-۱۷۰)
محمد فاروق کمال ایم فارمیسی (لندن یونی ورسٹی) کے مطابق جسم میں وقتی طور پر پانی کی کمی بلڈپریشر کو کم کر کے دل کو آرام کا موقع دیتی ہے اور اس کی طاقت بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ بھوک سے جسم میں چربی کم ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خون میں اور نالیوں میں بھی چربی کی مقدار کم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ (سیرت محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۰-۵۸۱)
عبداللہ اے ، العثمان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’’رمضان کے روزے کولیسٹرول کی سطح میں واضح کمی کا باعث ہیں‘‘(جنرل آف اسلامک سائنس، جلد۲۸، عدد ۱، ص۵)۔اس محقق نے جو معلومات جمع کی ہیں، ان سے روزے کے دوران جسم کے وزن، پلازما کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ کے کنٹرول کرنے کی نشان دہی ہوتی ہے۔ حکیم کمال الدین ہمدانی بھی روزے کو بلڈپریشر کے لیے مفید قرار دیتے ہیں(اسلامی اصولِ صحت، ص ۴۴)۔ ڈاکٹر شاہد اطہر ایم ڈی ایسوسی ایٹ پروفیسر انڈیانا یونی ورسٹی اسکول آف میڈیسن لکھتے ہیں کہ وہ رمضان کے آغاز اور اختتام پر اپنا بلڈگلوکوز، کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈ خود چیک کرتے ہیں تاکہ وہ روزے رکھنے کے بعد فرق معلوم کرسکیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ رمضان کے آخر میں واضح بہتری سامنے آتی ہے۔(Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۵۰)
ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کا سب سے اہم اثر خلیوںاور ان کے اندرونی مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہوجاتے ہیں، اس لیے خلیوںکے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتاہے۔ اس طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح پر متعلق خلیے جنھیں ایپی تھیلیل (epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام و سکون ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ علمِ خلیاتیات کے نقطۂ نظر سے یہ کہا جاتا ہے کہ لعاب بنانے والے (pitutary) غدود، گردن کے غدود تیموسیہ (thyriod) اور لبلبہ (pancreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہِ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔(قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص۱۰۶)
خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے۔جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خودکار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (stimulate) کردیتا ہے۔ کمزور اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں، ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر خون پیدا کرسکتے ہیں۔ چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے، یہ ہڈی کے گودے کے لیے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کردیتا ہے جس سے بآسانی اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہوسکے۔(ایضاً، ص ۱۰۷-۱۰۸)
فارماسسٹ محمد فاروق کمال نے لکھا ہے: ’’سائنسی تحقیق کے مطابق روزے کے دوران بھوک کی وجہ سے اور خون میں غذائیت کی کمی کے باعث ہڈیوں کے گودے خون بنانے کا عمل تیز کردیتے ہیں۔ یوں خون بنانے کے سسٹم کی اوور ہالنگ ہوجاتی ہے‘‘۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، ص ۵۸۱)
ڈاکٹر محمد عالم گیر خان لکھتے ہیں: سحری و افطار کے وقت پانی عام مقدار سے زیادہ پیا جاتا ہے، جس سے صبح و شام گردوں کی دھلائی ہوتی رہتی ہے۔ اگر ریت کے ذرات گردوں میں اکٹھے ہوجائیں تو وہ بھی پیشاب کی زیادتی کی وجہ سے نکل جاتے ہیں۔(اسلام اور طب جدید، ص ۱۳)
ہمدرد فائونڈیشن کے مؤسس حکیم محمد سعید کے یہ الفاظ بھی لائقِ مطالعہ ہیں:طبی نقطۂ نظر سے روزہ اس لیے ضروری ہے کہ ترکِ غذا سے انسان کے جسم میں جمع شدہ اجزاے زائد اور مواد غیرضروری خارج ہوجاتے ہیں اور خون اور اعضاے جسم کی ایسی صفائی ہوجاتی ہے کہ وہ نئی توانائیوں کے ساتھ قبولِ غذا اور افعالِ معمولہ کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ روزے سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اعضاے رئیسہ، یعنی دل و دماغ اور جگر کو آرام مل جاتا ہے اور اس آرام سے ان کی کارکردگی میں بہتری اور اضافہ ہوجاتاہے۔(عرفانستان، ص ۱۷۲)
نظامِ تولید (reproductive system)نسلِ انسانی کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخالف جنس میں کشش پیدا کر کے اس کو فطرت سے ہم آہنگ کردیا ہے لیکن مرد اور عورت کی باہمی کشش کو نکاح کے ضابطے سے مشروط کر دیا۔ جنسی محرک ان فطری محرکات میں سے ہے جو اپنی تکمیل کے لیے انسان پر بہت زیادہ دبائو ڈالتے ہیں۔ روزہ جنسی محرک کے دبائواور اس سے پیدا ہونے والی نفسیاتی کش مکش کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روزے کی وجہ سے جنسی محرک کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایک طرف توغذا کی قلت کی وجہ سے اور دوسری طرف روزے کے دوران اللہ کی عبادت، ذکر وتسبیح میں مشغول ہونے کی وجہ سے، اس کا ذہن جنسی موضوع پر غوروفکر سے ہٹ جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دی ہے اور جن نوجوانوں میں شادی کی استطاعت نہ ہو، انھیں روزے کی ترغیب دی ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی،ص ۵۳)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو لوگ اخراجاتِ نکاح کی طاقت رکھتے ہوں، وہ نکاح کرلیں، کیونکہ نکاح سے نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت ہوتی ہے، اور جن میں اخراجاتِ نکاح کا تحمل نہ ہو وہ روزہ رکھیں، کیونکہ روزہ ان کی شہوت پر کنٹرول کرے گا‘‘۔(بخاری، حدیث ۵۰۶۵، ابوداؤد، حدیث ۲۰۴۶، مسنداحمد، حدیث ۱:۴۴۷)
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کے جنسی نظام پر کسی قسم کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اس سے جنسی محرک کو کنٹرول کرنے میں مدد ضرور ملتی ہے لیکن نظامِ تولید میں کسی قسم کا نقص پیدا نہیں ہوتا۔ یونی ورسٹی آف میڈیکل سائنسز تہران میں ڈاکٹر ایف عزیزی اور ان کے رفقا نے روزے کے اثرات کے سائنسی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس سے تولیدی ہارمون پر کسی قسم کے منفی اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۸-۱۴۹)
جسمِ انسانی ایک نہایت پیچیدہ اور متحرک دنیا ہے جس میں کروڑوں ذی حس خلیات اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ ہزاروں کمپیوٹر مستعدی سے برسرِکار ہیں، بہت سی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ لاتعداد اجزاے خوراک، رطوبتیں، لعاب اور ہارمون، جسمانی صحت کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ قسم قسم کی شریانیں نہروں کی طرح رواں دواں ہیں۔ حواسِ خمسہ کے لیے برقی تار جسم کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ درحقیقت انسانی جسم خداوند تعالیٰ کا ایک بڑا کرشمہ ہے اور اس کی ذات اور صفتِ خلاقیت کا بیّن اور لاریب ثبوت ہے۔ ان سب پیچیدہ کارگزاریوں کا کنٹرول ہمارے دماغ کے خلیات میں ہے جن کااپنا ضبط و نسق ذہنِ انسانی کی ذمہ داری ہے۔ ثابت ہوا کہ ذہن انسانی ہی اصل کلیدِ صحت ہے۔ ذہن بہت سے جذبات سے متاثر ہوتا ہے، مثلاً خوشی، غم، غصہ، نفرت، بے چینی، سکون، مایوسی اور فکر وغیرہ۔ جن لوگوں کی قوتِ ارادی مضبوط ہوتی ہے اور ان کو صبر کی عادت ہوتی ہے، وہ ان جذبات کا اثر بہت حد تک ذہن تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ جسم کے خلیات پر ان جذبات کو اثرانداز نہیں ہونے دیتے۔ متلون مزاج اور حد سے زیادہ حساس افراد میں ان جذبات کا اثر بہت سے خلیات کے افعال پر منتقل ہوتا رہتا ہے اور پھربیش تر امراض کا موجب بن جاتا ہے، مثلاً معدے، چھوٹی و بڑی آنت کے زخم، دمہ، جوڑوں کی سوزش، فالج و دل کے دورے وغیرہ۔ روزبروز اس فہرست میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہربیماری میں ذہنی اثرات مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتے ہیں۔ قوتِ ارادی و صبر ان بیماریوں کے بچائو میں اور ہربیماری کے علاج میں جسمانی قوت مدافعت کو استوار کرتے ہیں۔ روزہ ان دونوں خوبیوں کو انسان میں پیدا کرتا ہے اور سال بہ سال ان کی افزایش کرتا ہے۔(اسلام اور طب جدید، ڈاکٹر محمد عالم گیرخان،ص ۱۲-۱۳)
ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علاحدہ ہوجاتی ہیں، اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ روزے سے دماغ میں دورانِ خون کابے مثل توازن قائم ہوجاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اندرونی غدود کو جو آرام اور سکون ملتا ہے، وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثرانداز ہوتاہے۔ انسانی تحت الشعور جورمضان کے دوران عبادت کی بدولت صاف، شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہرقسم کے تنائو اور اُلجھن کو دُور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، ص ۱۰۷)
نفسیاتی طور پر انسان پر روزے کا بہت ہی اچھا اثر پڑتا ہے۔ روزہ اللہ تعالیٰ سے مستقل و مسلسل لگائو کا ذریعہ ہے۔ سارا وقت اللہ کا تصور انسان کے ذہن میں رہتا ہے جو اسے تنہائی میں بھی کھانے پینے اور برائی سے مانع ہوتا ہے۔ یہ ہمہ وقت تصورِ الٰہی انسان میں اعتماد اور اُمید پیداکرتا ہے اور انسان خود کو اکیلا نہیں بلکہ ہمیشہ اللہ رحیم و رحمن کی معیت میں محسوس کرتا ہے اور اپنی مشکلات کے لیے پریشان نہیں رہتا بلکہ اللہ پر بھروسا اسے ذہنی سکون مہیاکرتا ہے۔(سیرتِ محمدؐ رسول اللّٰہ، محمد فاروق کمال، ص ۵۸۱)
ایک حدیث مبارکہ میں روزے کو ڈھال قراردیا گیا ہے: الصوم جنۃ (مسلم مع نووی، ج۲، حدیث ۱؍۱۲۱۶)۔ ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی کے مطابق ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ خواہشاتِ نفس سے بچاتا ہے۔روزے دار اپنی خواہشات پر کنٹرول کرتا ہے، نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ جماع کرتا ہے اور اپنے طرزِ زندگی پر بھی کنٹرول کرتا ہے۔ وہ نہ فحش گوئی کرتا ہے، نہ شوروغل مچاتا ہے اور نہ سب و شتم ہی کرتا ہے، نہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کو غضب ناک کرے۔ روزوں میں خواہشات اور تاثرات پر قابو پانے کی مشق ہوجاتی ہے اور نفس کے فاسد میلانات اور خواہشات پر غلبہ پانے کے سلسلے میں عزم و ارادے کو قوت پہنچتی ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ص ۳۴۹)
معروف مصری اسکالر محمد قطب روزے کو شعوری انضباط کی بہترین مثال قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ عملِ انضباط ایک نفسیاتی ورزش ہے جو متعدد پہلوئوں میں جسمانی ورزش سے مشابہت رکھتی ہے۔ دونوں ہی قسم کی ورزشیں ابتداً دشوار محسوس ہوتی ہیں مگر عادت ہوجانے پر ان کی مشقت کم ہوتی چلی جاتی ہے، اور اگر شروع سے عادت ڈال لی جائے تو نہ صرف یہ کہ سہل ہوجاتی ہے بلکہ اس سے پوری پوری قدرت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اسلام چاہتا ہے کہ بچے کو ابتدائی سالوں ہی سے تربیت دی جائے اور اسے خواہشوں کے ضبط کرنے کی عادت ڈالی جائے۔(اسلام اور جدید مادی افکار، ص ۱۷۵-۱۷۶)
بعض لوگ انتہائی آرام طلب ہوتے ہیں۔ وہ جسم کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتے اور بھوک، پیاس اور جنسی خواہشات کی تکمیل لازم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انضباط سے جو تکلیف پہہنچتی ہے، انسانی طاقت سے ہرگز ماورا نہیں ہوتی بلکہ انسان اس کو پسند نہیں کرتا۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی نفس میں الم و مصیبت برداشت کرنے بلکہ اس سے لطف اندوز ہونے کا مادہ ہے۔ اس لیے انسان روزے کے دوران بھوک، پیاس، یا ضعف بدن سے ایک خاص لذت محسوس کرتا ہے۔ روزہ احساسِ گناہ (guilt complex) اور اس سے پیدا ہونے والے قلق و اضطراب کا بھی مفید علاج ہے۔چوں کہ قرآن پاک میں روزے کا بنیادی مقصد ہی تقویٰ بتایا گیا ہے، اس لیے یہ انسان کو خوف اور حزن سے پیدا ہونے والے نفسیاتی عوارض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ روزے رکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور آخرت کی زندگی کے بارے میں خوف کے بجاے اُمید پیدا ہوجاتی ہے، جس سے ایک مسلمان کو قلبی سکون کی دولت میسر آتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق روزہ گناہوں سے مغفرت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان کے روزے حالتِ ایمان میں خالص اللہ کی رضاجوئی کے لیے رکھے، اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘۔(بخاری، کتاب الصوم، باب من صام رمضان ایمانا واحتسابا ونیۃ، حدیث ۱۹۰۱)
عصرِحاضر میں کچھ لوگ بالکل تندرست ہونے کے باوجود روزے نہیں رکھتے، حالانکہ تندرست افراد کی جسمانی کارگزاری پر روزے کے کسی قسم کے منفی اثرات کسی طبی مطالعے میں سامنے نہیں آئے، البتہ مثبت اثرات کاپتا چلا ہے۔ ڈاکٹر سیدمحمداسلم لکھتے ہیں کہ تندرست افراد میں روزے کے دوران جسم کی اندرونی توازن رکھنے والی کارگزاری پر کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں پڑتا اور پیشاب کے نمکیات، تیزاب اور القلی کا میزان اور نائٹروجن کا اخراج معمول کی حدود میں رہتا ہے۔ روزے کے دوران ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے خون میں یوریا اور یورک تیزاب کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں گوشت خوروں میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اگررمضان المبارک میں افطار کے وقت زیادہ شکر، روٹیاں، چاول وغیرہ کھایا جائے تو اس کا اثر مختلف ہوگا، یعنی خون میں شکر کم ہوسکتی ہے، لیکن اگرغذا معمول کے مطابق رکھی جائے اور سحری اچھی طرح کی جائے تو خون میں تفریطِ شکر کا کوئی امکان نہیں۔(صحت سب کے لیـے، ڈاکٹر سیداسلم، ص ۴۲۵-۴۲۶)
گذشتہ زمانے میں لوگ بہت زیادہ جسمانی مشقت کرتے تھے لیکن موجودہ دور کے انسان میں اس صفت میں کمی آگئی ہے، جس کے باعث موٹاپے نے متمول افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چکنائی اور نشاستہ دار غذائوں کا بے ہنگم استعمال عام ہوگیا ہے جو بغیر جسمانی مشقت کے غیراستعمال شدہ حالت میں جسم میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور وزن بڑھتا چلاجاتا ہے۔ جو افراد مختلف جدید طریقوں سے وزن کم بھی کرلیتے ہیں، وہ جب نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں تو وزن پھر بڑھ جاتاہے۔ دراصل انسانی دماغ کے ہائیپوتھیلمس (hypothalamas) میں ایک سنٹر ہوتا ہے جسے لپوسٹیٹ (lipostat) کہتے ہیں۔ یہ انسان کی جسامت کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب بھی خوراک کی انتہائی کمی سے وزن تیزی سے کم کیا جاتا ہے تو یہ سنٹر اس تبدیلی کو قبول نہیں کرتا اور جسم کے وزن کو دوبارہ معمول کی خوراک لینے سے پہلے والی سطح پر واپس لے آتاہے (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۹)۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ موٹاپا دُور کرنے کے لیے وزن آہستہ آہستہ کم کیا جائے تاکہ لپوسٹیٹ اسے قبول کرلے اور ایسا ماہِ رمضان کے دوران ایک ماہ کے روزے رکھنے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
۱۹۹۴ء میں Health and Ramadan کے عنوان سے پہلی انٹرنیشنل کانگریس کیسابلانکا میں منعقد ہوئی جس میں اس موضوع پر ۵۰تحقیقی مقالات پیش کیے گئے۔ (ملاحظہ کیجیے: www.islam.usa.com)
قرآن پاک میں بیمار اور مسافر کو روزہ قضا کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور جو روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہ رکھتا ہو، خواہ بڑھاپے کے باعث یا مستقل بیماری کی وجہ سے، اسے فدیہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍط (البقرہ ۲:۱۸۴) پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھ لے اور جو لوگ اسے بہت مشکل سے ادا کرسکیں، وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ دیں۔
قرآن مجید نے قیامت تک آنے والے مسائل کا حل پیش کیا ہے یا پھر ایسے راہنما اصول وضع کردیے ہیں جن کے ذریعے تمام اَدوار کے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ روزے سے متعلق بھی احکامِ خداوندی میں بتایا گیا کہ روزہ رکھو، یہ تمھاری بہت سی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج ہے یا ان امراض کے خلاف جسمانی قوت ِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ پھر یہ حکم دیا کہ جنھیں عارضی مسئلہ درپیش ہے، جیسے اگر سفر پر جانا ہے یا پھر کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہے تو اس عارضی رکاوٹ کے ختم ہونے کے بعد روزے پورے کرلو۔ یہی حکم خواتین کے مخصوص ایام کے متعلق بھی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص انتہائی بڑھاپے اور کمزوری کے باعث یا پھر کسی ایسی بیماری کے باعث جو بخار وغیرہ کی طرح وقتی نہیں ہے بلکہ مستقلاً انسان کو لگ گئی ہے اور روزہ رکھنے سے اس میں شدت کا اندیشہ ہے تو ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دینا ہوگا۔
موجودہ دور میں سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ طبی تحقیقات کے باعث ہرقسم کی بیماری کو کم یا زیادہ کرنے والے عوامل سامنے آچکے ہیں۔ اس لیے مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو ماہرین طب کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر سیداسلم اور ڈاکٹر شاہد اطہر نے مختلف بیماریوں کے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں تفصیلاً بتایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
۱- ذیابیطس کے مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں، انھیں روزے نہیں رکھنے چاہییں کیونکہ ان کی ذیابیطس کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریضوں کو ان مشکلات کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایسے مریض جو صرف خوراک سے ذیابیطس کو کنٹرول کر رہے ہیں، وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ان کے مرض پر روزہ اچھے اثرات مرتب کرتا ہے۔
۲- دمے کے مریض جن کا مرض معمولی ہے، وہ تکلیف کی صورت میں بغیر روزہ توڑے سانس کے ساتھ والی ادویہ (inhaler) استعمال کرسکتے ہیں یا دیرپا اثر والی دوائیں افطار کے بعد اور سحری سے قبل لے سکتے ہیں۔
۳- بلند فشار خون (high blood pressure) اور دل کے ایسے مریض، جو خون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے طویل الاثر دوا کفایت کرسکتی ہے اور وہ روزہ رکھ سکتے ہیں، کیونکہ روزے سے وزن میں کمی واقع ہوگی اور بلڈپریشر بھی کم رہے گا۔ تاہم ان مریضوں کو ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھنا چاہیے۔ لیکن شدید ہائیپر ٹینشن اور امراضِ قلب میں مبتلا مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔
۴- جن لوگوں کے گردوں کے فعل میں کمی آگئی ہے ، ان میں روزہ رکھنے سے پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ جن مریضوں کے گردے خراب ہوچکے ہیں اور ان کے خون کی ڈیالیسس (dialysis) ہوتی رہتی ہے، ان میں دو ڈایالیسس کے درمیانی وقفہ میں پوٹاشیم میں اضافہ اور وزن میں زیادتی ہوسکتی ہے، جسم کے تیزاب میں بھی اضافے کا امکان ہے۔ اگر یہ لوگ رات کو زیادہ کھالیں گے تو وزن بڑھ کر نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ان افراد کو روزے نہیں رکھنے چاہیں۔ جن کا گردہ تبدیل ہوچکا ہے اور اس کا فعل درست ہے، ان کو روزے سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا لیکن انھیں اپنے معالج سے مشورہ کرلینا چاہیے۔
۵- مرگی کے مریضوں کو روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
۶- درد گردہ اور معدے کے السر میں مبتلا افراد کے لیے روزے رکھنا مناسب نہیں، کیونکہ پانی کی کمی کے باعث گردے میں درد ہونے کا احتمال ہے۔ اسی طرح السر کے مریض بھی خالی معدے کی حالت میں زیادہ تکلیف سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
۷- بوڑھے افراد جو دماغ کی رگوں کے مرض میں مبتلا ہیں، ان میں روزے سے اشیا کو شناخت کرنے کی صلاحیت گھٹ سکتی ہے۔
۸- حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزے نہ رکھیں کیونکہ حاملہ خواتین میں خون کی گلوکوز اور انسولین میں کمی ہوجاتی ہے۔ دودھ پلانے والی خواتین کے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔ نمک اور یورک ایسڈ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ماں کے دودھ کی لیکٹوز (شکر)، سوڈیم اور پوٹاشیم میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اس لیے بچے کی صحت قائم رکھنے کے لیے روزہ نہ رکھا جائے۔ (بہ شکریہ معارف، اعظم گڑھ، بھارت، اگست ۲۰۱۰ء)
مضمون نگار جامعہ ہمدرد (ہمدرد یونی ورسٹی) نیو دہلی سے وابستہ ہیں-
ترجمہ: محمد سفیرالاسلام
اس ماہِ مبارک کی آمد کا احساس کتنا خوب صورت ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ماہ کا آغاز ملّت اسلامیہ کے لیے نیکی اور خیروبرکت کا آغاز ہے۔ سلف صالحین اس مہینے کے آنے پر خوشیاں مناتے تھے، وہ خود کو اس کے استقبال اور اس کی برکات سے بھرپور انداز میں استفادے کے لیے تیار کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: ہم ماہ (رمضان) کو جو تمام خیر کا منبع ہے، خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس کے دن میں روزہ رکھتے ہیں اور اس کی رات کو قیام کرتے ہیں۔ اس مہینے میں رات دن اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں۔ معلّٰی بن فضل سلف صالحین کے حوالے سے رمضان کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ سلف چھے مہینے تک اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ وہ رمضان کا مہینہ پالیں، اور اگلے چھے ماہ وہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے۔ ذرا سوچیے وہ کیا لوگ تھے جو اس ماہِ مبارک کو پانے اور اس کی قبولیت کے لیے چھے چھے ماہ تک اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس سے اندازہ لگایئے یہ ماہ کتنی بڑی غنیمت ہے۔
سلف صالحین کی روش تو یہ تھی، جب کہ ہمارے زمانے میں لوگ رمضان کے قیمتی لمحات کو لغویات کی نذر کر دیتے ہیں۔ بعض کھانے پینے میں، بعض نیند اور سونے میں اور بعض ٹیلی ویژن پر مختلف پروگراموں سے دل بہلا کر اس ماہ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ درحقیقت جو لوگ اس ماہ کے فضائل کی حقیقت سے آگاہ نہیں وہ ان دنوں کے فوائد اور راتوں کے منافع کو نہیں جانتے۔ دوسری طرف ایک وہ بندۂ مومن ہے جو عملِ صالح کے لیے جدوجہد کرتا ہے، آگے بڑھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ وہ رمضان کا استقبال بھی اسی طرح نیکیوں میں آگے بڑھنے اور منکرات سے بچنے سے کرتا ہے۔ وہ غنیمت کے ان لمحات کو خیروبھلائی سمیٹنے اور رب العالمین کا قرب حاصل کرنے کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دردناک عذاب سے بھی خوف زدہ ہوتا ہے۔ جو نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والا ہے، وہ یہ بات یقینی طور پر جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود نیکی کی راہ میں سبقت پر اُبھارا ہے۔ گویا وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے نیکی اور بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوششیں کریں۔ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ(البقرہ ۲:۱۴۸) ’’پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو‘‘۔
ہم رمضان المبارک کے ان بابرکت لمحات میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادایگی کس طرح کرسکتے ہیں، اس کی عطا کردہ نعمتوں کو کس طرح سمیٹ سکتے ہیں، اس ضمن میں چند عملی پہلو درج ذیل ہیں:
حضرت احنف بن قیسؓ سے جب کہا گیا: آپ بزرگ آدمی ہیں اور روزے آپ کو کمزور کردیں گے توانھوں نے جواب دیا: ’’میں نے زندگی کا طویل سفر طے کرلیا ہے، اللہ کی اطاعت پر صبر کرنا بہتر ہے نہ کہ اس کے عذاب پر۔ (سیراعلام النبلاء)
حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں: جب تم روزہ رکھو تو چاہیے کہ تمھاری سماعت کا بھی روزہ ہو، تمھاری آنکھوں کا بھی روزہ ہو، تمھاری زبان جھوٹ سے بچے، پڑوسی کو اذیت نہ دو۔ روزے کے دن تم پر وقار اور سکینت طاری ہونا چاہیے۔ تمھارا روزہ اور بے روزہ کا دن ایک جیسا نہیں ہونا چاہیے۔
اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اس سے مراد لَیْلَۃُ الْقَدْر ہے، یعنی وہ رات جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ جیساکہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہواہے:
اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ o لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ o (القدر ۹۷:۱-۳) ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید کا نزول انسانیت کے لیے عظیم الشان خیر کی حیثیت رکھتا ہے اور انسان کے لیے اس سے بڑی کوئی خیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ وہ رات جس میں یہ قرآن مجید نازل ہوا ہے ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ دوسرے لفظوں میں پوری انسانی تاریخ میں کبھی ہزار مہینوں میں بھی انسانیت کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا ہے، جو اس ایک رات میں ہوا ہے۔ ہزار مہینوں کے لفظ کو گنے ہوئے ہزار نہ سمجھنا چاہیے بلکہ اس سے بہت بڑی کثرت مراد ہے۔ چنانچہ اس رات میں، جو اپنی بھلائی کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے، جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس سے لو لگائی، اس نے بہت بڑی بھلائی حاصل کرلی۔ کیونکہ اس رات میں بندے کا اللہ کی طرف رجوع کرنا یہی معنی تو رکھتا ہے کہ اسے اس رات کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہے، اور وہ یہ جانتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر یہ کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اپنا کلام نازل فرمایا۔ اس لیے جس آدمی نے اس رات میں عبادت کا اہتمام کیا، گویا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس کے دل میں قرآن مجید کی صحیح قدروقیمت کا احساس موجود ہے۔ (کتاب الصوم، ص ۴۳-۴۴)
لیلۃ القدر کا قطعی طور پر تعین نہ کرنے میں یہ حکمت کارفرما نظر آتی ہے کہ آدمی ہرطاق رات میں اس اُمید پر اللہ کے حضور کھڑا ہوکر عبادت کرے کہ شاید یہی لیلۃ القدر ہو۔ لیلۃ القدر اگر اس نے پالی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ جس چیز کا طالب تھاوہ اسے مل گئی۔ اس کے بعد اس نے جو چند مزید راتیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاریں تو وہ اس کی نیکی میں مزید اضافے کی موجب بنیں گی....
اس مقام پر ایک اور بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ چونکہ ساری دنیا میں رمضان کی تاریخیں ایک نہیں ہوتیں اور ان میں رد وبدل ہوتا رہتا ہے، اس لیے یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ کس آدمی کو واقعی وہ اصل رات میسر آگئی ہے۔ اس کے لیے ایک طالبِ صادق کو ہر رمضان میں اسے تلاش کرنا چاہیے۔
رمضان کا جو آخری عشرہ اعتکاف کے لیے مقرر کیا گیا ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اعتکاف کا ثواب آدمی کو الگ ملے، اور چونکہ اعتکاف کی حالت میں اس کی تمام طاق راتیں عبادت میں گزریں گی، اس لیے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ اسے ان میں کبھی نہ کبھی وہ رات بھی لازماً مل جائے گی۔
بعض لوگ اپنی جگہ لیلۃ القدر کی تلاش کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ رات کو باہر نکل کر یہ دیکھا جائے کہ فضا میں کوئی ایسی علامت پائی جاتی ہے جس سے یہ ظاہر ہوکہ یہ قدر کی رات ہے۔ فضا میں کوئی ایسا نور برس رہا ہے جس سے اس کا لیلۃ القدر ہونا ثابت ہوجائے۔ لیکن دراصل یہ طرزِ فکر مطابق حقیقت نہیں ہے۔ بے شک یہ نور برستا ہے، لیکن یہ نور تو پورے رمضان میں اور رمضان کی ہر رات میں برستا ہے، البتہ اس کے لیے وہ آنکھیں چاہییں جو اس کو دیکھ سکیں۔ یہ نور درحقیقت آپ کی عبادت کے اندر برستا ہے۔ یہ نور خدا کی رضاطلبی کے اندر آپ کے انہماک میں، بھلائیوں کے لیے آپ کے ذوق و شوق میں، اور عبادات کے لیے آپ کے خلوص و اہتمام میں اور فی الجملہ آپ کے ایک ایک فعل میں برستا ہے۔ (ایضاً، ص ۴۷-۴۹)
اُس روز ۷۵ افراد یک جا ہوئے۔
وہ برصغیر کی مختلف بستیوں، قصبوں اور شہروں سے آئے تھے۔ ان میں سے اکثر ایک دوسرے سے نہ آگاہ تھے نہ متعارف۔ چند استثنائی صورتوں کے سوا انھوں نے ایک دوسرے کو اس سے پہلے دیکھا بھی نہ تھا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود، ایک بات سب جانتے تھے___ کہ وہ کیوں یک جا ہوئے ہیں۔ وہ بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ان کا کرب ان پر روشن تھا۔ آنکھیں بند بھی کرلیتے، تو انجان کیسے بن جاتے۔ایسے میں انھوں نے ایک پکار سنی۔ ایک دعوت نے انھیں یک جا کر دیا۔ دعوت مل بیٹھنے کی نہیں تھی، دعوت مل کر چلنے کی تھی۔ بکھرے بکھرے انسان تھے اور ایک قافلے میں ڈھل جانے کے لیے آئے تھے___ اور پھر وہ ایک قافلے میں ڈھلے۔
ان کا سفر مختصر نہ تھا۔ یہ اب زندگی بھر کا سفر تھا اور آسمان کی آنکھ کو اس دن کے بعد جو کچھ دیکھنا اور پرکھنا تھا، وہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کون احساس کا کتنا سرمایہ رکھتا ہے، کس کے پاس درد کی کتنی پونجی ہے، کسے چند قدم چل کر بچھڑ جانا ہے اور کسے آخری سانس کی گواہی کے ساتھ پہنچنا ہے، کہاں جذبہ وقتی ہے اور کہاں فیصلہ آخری ہے___ سفر تو شروع ہوچکا، لیکن اب اس بات کو بھی تو ان کے صحیفۂ حیات میں درج ہونا تھا کہ کون چلا تو مڑمڑ کر دیکھتا رہا اور کون نکلا تو یہ شعور ہرگام ساتھ تھا کہ وہ کس کی راہ میں نکلا ہے___ یہ اسی سفر کی تاریخ ہے۔
دن ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کا تھا۔ ۲شعبان ۱۳۶۰ھ، شہر لاہور تھا اور مقام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کا رہایشی مکان (متصل مبارک مسجد، شبلی سٹریٹ، اسلامیہ پارک، پونچھ روڈ)۔ یہیں ترجمان القرآن کا دفتر بھی تھا اور یہیں سب لوگ یک جا ہوئے تھے۔
بنیادی کام ایک عرصے سے ہو رہا تھا۔ وہ حالات جن سے عالمِ انسانی، عالمِ اسلام اور خود برصغیر ہند کے رہنے والے گزر رہے تھے، ترجمان القرآن کی مسلسل تحریروں کا موضوع تھے۔ برسوں پر مشتمل ایک مربوط، مؤثر، مدلّل اور مکمل تجزیے نے اسلامی انقلاب کے لیے ایک اسلامی تحریک کی ضرورت واضح کر دی تھی۔ برصغیر کے مسلمان ایک طویل عرصے سے، جس صورتِ حال میں مبتلا تھے، اس کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک اسلامی تحریک کی ضرورت اس طرح واضح کی گئی: lایک یہ کہ اسلام کا مقصد زندگی کے فاسد نظام کو بالکل بنیادی طور پر بدل دینا ہے۔
صفر ۱۳۶۰ھ (اپریل ۱۹۴۱ء) کے شمارے میں، اس تجزیے کی بنیاد پر ایک تحریک کی ضرورت محسوس کرنے والوں کو دفتر ترجمان سے رابطہ قائم کرنے کے لیے کہا گیا۔ ’’اب وقت آگیا ہے کہ جہاں جہاں اس فکر کے لوگ موجود ہیں ان کے درمیان رابطہ پیدا کیا جائے اور ان کے اجتماع کی کوئی صورت نکالی جائے‘‘(ص ۱۰۱)___ اور یہ ترجمان کی ماہِ صفر ۱۳۶۰ھ کی اشاعت تھی جس کے ذریعے حقائق کا شعور رکھنے والوں کو آخرکار دنیاے عمل میں آنے کی دعوت دے دی گئی۔
ردعمل مثبت تھا۔ یہ بات سامنے آنے میں دیر نہ لگی کہ کروڑوں کی آبادی میں کچھ لوگ سوچ بھی رہے تھے___ سوئی ہوئی بستیوں میں کچھ انسان جاگ بھی رہے تھے۔ہرگھاٹ کی طرف لپکنے والوں کے درمیان کچھ وجود پیاسے بھی پائے گئے۔ انھیں یکم شعبان ۱۳۶۰ھ، ۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء کو یک جا ہونا تھا۔ لیکن دُور دراز سے آنے والے احتیاطاً پہلے ہی چل پڑے تھے اور یوں لوگ ۲۸؍رجب سے ہی آنے شروع ہوگئے۔ یکم شعبان تک تعداد ۶۰ہوچکی تھی۔ کچھ لوگ بعد میں آئے، اور جب انھوں نے ایک تحریک کا آغاز کیا تو وہ۷۵ تھے۔
یکم شعبان کا دن ایک دوسرے سے متعارف ہونے، ملنے ملانے، معلومات حاصل کرنے اور تبادلۂ خیالات میں گزرا۔ شام کو وہ دیر تک دفتر ترجمان القرآن کے صحن میں بیٹھے رہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ان کے درمیان موجود تھے اور ان کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ مسائل پیش ہوتے رہے، اور حل سامنے آتا رہا___ یک جا ہونے والے یکسو ہورہے تھے۔
اور پھر ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ کی صبح طلوع ہوئی___ ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء
دفتر ترجمان القرآن میں وقت کی اسلامی تحریک کے تاسیسی اجتماع کا آغاز ہوا۔ مولانا مودودی تمہیدی خطاب کے لیے اُٹھے تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔
انھوں نے زندگی اور مقصدِ زندگی کا تعلق بیان کیا___ زندگی بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے اگر ہم جان لیں کہ ہمارا دین ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اس صورت میں زندگی محض وقت گزارنے کی چیز نہیں رہتی، اور دین صرف ایک عقیدہ ہی نہیں رہتا بلکہ زندگی ایک مسلسل عمل اور دین ایک تحریک بن جاتا ہے___ فرمایا: ’’دین کو تحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامد و ساکن ہوکر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دین کو عملاً نافذ و قائم کرنے، اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں‘‘۔
اپنے اس خطاب میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے دو زبردست اندرونی خطرات سے بھی آگاہ کیا جو ایسی تحریکوں کو پیش آتے رہے ہیں۔ ان کی نگاہ میں یہ وہ غلطیاں تھیں جن سے اس تحریک کے کارکنوں کو لازماً بچنا چاہیے.... انھوں نے پہلے قدم پر ہی، ایک اسلامی تحریک کے دائرہ عمل سے بھی آگاہ کردیا: ’’یہ بات ہر اس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیشِ نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت،معاشرت، ہر چیزکو بدل ڈالنا ہے، دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے، اور اس کام میں تمام شیطانی طاقتوں سے اس کی جنگ ہے۔ اس کو اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے ہرشخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں… لہٰذا قدم اُٹھانے سے پہلے خوب سوچ لو۔ جو قدم بھی بڑھائو،اس عزم کے ساتھ بڑھائو کہ یہ قدم اب پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رُک جائے‘‘ ___یہ جماعت اسلامی کی تشکیل سے چند گھنٹے پہلے کا خطاب ہے۔
۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کے دن کا بڑا حصہ اس دستور پر غور کرنے میں گزرا جس کے مطابق اس قافلے کو چلنا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے اس دستور کا مسودہ پڑھنا شروع کیا۔ جس کی کاپیاں چھپوا کر ایک دوروز پہلے ہی تمام آنے والوں کو دے دی گئی تھیں۔ اب ایک ایک لفظ پڑھا گیا۔ ایک ایک نکتے پر تبادلۂ خیال ہوا۔ سب نے اس میں حصہ لیا۔ یہ مسلسل نشست صرف دوپہر کے کھانے اور ظہروعصر کی نمازوں کے لیے ملتوی ہوئی۔ باقی سارا وقت دستورِ جماعت ترتیب دینے میں صرف ہوا۔ برصغیر کی دورِغلامی کے اس دن کا سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی جب یہ کام مکمل ہوگیا۔
اب سب سے پہلے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی اُٹھے۔ کلمہ شہادت اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہ کا اعادہ کیا اور کہا: ’’لوگو! گواہ رہو کہ میں آج ازسرِنو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں‘‘۔ ایک ایک کر کے دوسرے افراد اُٹھے ، اور اسی طرح تجدید ایمان کے ساتھ جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ عجب سماں تھا۔ چہرے آنسوئوں میں نہا گئے۔ آوازیںگلوگیر ہوگئیں۔ شہادت کا یہ کلمہ کب نہیں پڑھا تھا، لیکن آج جب سوچ سمجھ کر زندگیوں کو اس کے لیے وقف کرکے اور اس کی تمام ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ پڑھا تو کانپ کانپ اُٹھے۔ جس دین کے لیے مخلص تھے، اس دین کے لیے متحرک ہونے کا عہد کر رہے تھے اور جانتے تھے کہ یہ عہد کس سے کررہے ہیں۔
جب سب، خدا سے اپنے عہد پر دوسروں کو گواہ بنا چکے، تو وہ تعداد میں ۷۵ تھے___ اور یہی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء، ۲ شعبان ۱۳۶۰ھ کا وہ لمحہ تھا جب مولانا مودودیؒ نے اعلان کیا: ’’آج جماعت اسلامی کی تشکیل ہوگئی‘‘۔ (آئین، اشاعتِ خاص، جماعت اسلامی کے ۵۰سال، ص ۲۲-۲۵)
مسلم دنیا گذشتہ دو صدیوں میں عظیم سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی انقلابوں کا اور بیرونی طاقتوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اُمت کے اندرونی خلفشار، انتشارِ فکری، معاشی اضمحلال اور عسکری پس ماندگی نے اسے بیرونی طاقتوں کے لیے ایک تر نوالہ بنا دیا۔ چنانچہ انیسویں صدی میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ جو کل تک مسلمانوں کی عالمی طاقت کا مظہر تھے، دیکھتے ہی دیکھتے یورپی سامراجی طاقتوں کے زیراثر آگئے۔ برطانیہ نے ۱۸۸۲ء میں مصر کو زیرنگیں کیا اور اس دوران فرانس نے الجزائر، تیونس، مراکش اور شام پر تسلط قائم کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے نتیجے میں اطالویوں نے لیبیا کو اپنے دائرۂ اثر میں شامل کرلیا۔
ایک جانب مغربی سامراج اپنے توسیعی عزائم کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنے قدم جما رہا تھااور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے قانون کی پیروی کرتے ہوئے اُمت مسلمہ میں بیداری کی تحریک اس کی بے سروسامانی کے باوجود اُبھر رہی تھی۔ چنانچہ شیخ عبدالکریم الریفی نے ۱۹۲۰ء میں ریف میں اسپین کی افواج کو شکست دے کر ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی لیکن جلد مراکش پر قابض فرانسیسی سامراج سے ٹکر ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ ادھر سوڈان میں محمداحمدالمہدی کی قیادت میں برطانیہ کے خلاف تحریکِ آزادی برپا ہوئی، اور اسی عرصے میں لیبیا میں افسانوی کردار کے حامل مجاہد عمرمختار نے اطالوی سامراج کا ۲۰سال تک پامردی سے مقابلہ کیا۔ یہ تحریکات اور ان کے بانی، گو مکمل طور پر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن انھوں نے بیرونی سامراج کے خلاف جس جدوجہد کو اپنے خون سے سینچا وہ بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔
مسلم دنیا سے مغربی سامراج کے پسپا ہونے کے بعد حالات ایک نیا رُخ اختیار کرگئے۔ اب مغربی سامراج کی جگہ اس کے تربیت یافتہ فوجی سربراہ، سلاطین اور آمروں کا دور شروع ہوا۔ چنانچہ مصر میں جمال عبدالناصر کے بعد حسنی مبارک، لیبیا میں معمرقذافی، یمن میں علی عبداللہ صالح، یا بحرین میں خلیفہ خاندان کی حکومت کو براہِ راست امریکی اور یورپی اقوام کی حمایت اور امداد حاصل رہی۔ ان آمروں اور بادشاہوں نے اپنے عوام کو اپنی ناجائز دولت اور ظلم و جور کے ذریعے خاموش رکھنے اور اپنے ذاتی اقتدار کو قائم رکھنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔
آج مسلم دنیا میں جو انقلابی لہر نظر آرہی ہے وہ اسی آمریت اور ملوکیت و سلطانی کے خلاف عوام الناس کے اتحاد کی مظہر ہے۔ لیکن بات اتنی آسان بھی نہیں ہے۔گو، بنیادی طور پر ہرانقلابی تحریک کا آغاز اندر سے ہوتا ہے اور جب تک اندرونی عناصر اس میں شامل نہ ہوں کوئی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی، لیکن حالیہ تحریکات میں بیرونی ہاتھ، وسائل اور دولت کا استعمال جس آزادی سے کیا جا رہا ہے وہ مغربی لادینی جمہوریت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور مسلم دنیا کو کسی نہ کسی طرح اپنی گرفت میں رکھنے اور اس کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کے ایجنڈے کا ایک اہم پہلو ہے۔
لیبیا پر ناٹو کے ذریعے امریکی حملہ جس عنوان سے بھی کیا جا رہا ہو، اسے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور ننگی جارحیت کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۵۰ء تک محدود اندازوں کے مطابق توانائی کے جس بحران کی پیشن گوئی کی جارہی ہے، نہ صرف ناٹو کے ذریعے امریکی جارحیت بلکہ دیگر مسلم ممالک میں امریکی مداخلت کا اس کے ساتھ انتہائی منطقی تعلق ہے۔ لیبیا اور یمن میں خلافِ قانون کارروائی (dirty work) کے لیے امریکا اپنی فوج کی جگہ ان ممالک کو استعمال کر رہا ہے جو وہاں کے جغرافیائی، فضائی اور انسانی مسائل کے حوالے سے بطور سابقہ سامراجی حکمران ذاتی تجربہ رکھتے ہیں اور جو وہاں کی گلیوں اور شہروں سے مانوس ہیں۔ دوسری جانب قذافی اور یمن کے صدر کے خاندان کے افراد اپنی ناجائز جمع کردہ دولت اور تعلقات و وسائل کا پوری قوت سے استعمال کر رہے ہیں تاکہ انقلاب کی بڑھتی ہوئی لہروں کی شدت کو کم کیا جاسکے۔
موجودہ صورت حال میں یمن پر ۳۳سال سے اور لیبیا پر چار عشروں سے حکومت کرنے والے آمروں کی حکمت عملی تقریباً وہی ہے جو حسنی مبارک نے ۳۰سال اختیار کیے رکھی، یعنی اگر ہمیں حکومت سے ہٹایا گیا تو ’اسلامیان‘ جنھیں مختلف عنوانات سے یاد کیا جاتا ہے، ملک پر قابض ہوجائیں گے۔ اسلامی شدت پسندی، بنیاد پرستی،اسلامی جہاد اور اس سے ملتے ہوئے دیگر الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے یورپ اور امریکا کو اسلامی ریاست کے خطرات دکھا کر اپنے اقتدار کو مزید طول دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کا ’خطرہ‘ نہ صرف مشرق وسطیٰ اور افریقہ بلکہ خود پاکستان کے حوالے سے بھی ایک سیاسی حقیقت ہے، اور اس خطرے کی گھنٹی کے بجنے میں گذشتہ عشرے میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
اس تناظر میں مسلم قیادت کے لیے چند امور خاص طور پر قابلِ غور ہیں:
مسلم قیادت کے لیے قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ کیا وہ اس منفی اور تخریبی اندازِفکر کی جگہ ملک کے روشن مستقبل، یک جہتی اور محفوظ ہونے کے مثبت تصورات کو عوام تک پہنچارہی ہے، یا وہ بھی بیرونی قوتوں کی اس ابلاغی سازش سے جسے ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کیا جا رہا ہے غیرشعوری طور پر متاثر ہوجاتی ہے۔ اسلام اُمید، اللہ تعالیٰ سے بہترین توقع اورزندگی کے روشن پہلوئوں پر مبنی مستقبل کی تعمیر کی دعوت دیتا ہے۔ مایوسی اور نااُمیدی کورد کرتا ہے اور اسے ایمان کے منافی قرار دیتا ہے۔ مسلم قیادت کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس کے طرزِعمل سے مایوسی کا اظہار نہ ہو بلکہ وہ اُمت مسلمہ میں اُمید، اعتماد اور منزل کا یقین پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
جغرافیائی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے مسلم دنیا کو ایک سبزپٹی کی شکل دے رکھی ہے کہ تجارتی قافلوں اور ریل، شاہراہوں اور سمندری راستوں پر ہرطریقے سے اشیاے تجارت کے نقل و حمل میں کوئی دقت پیدا نہیں ہوسکتی۔ صرف مسلم قیادت کو اس طرف یکسوئی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ مخفی سرمایہ نہ صرف مسلم دنیا کو معاشی خودانحصاری فراہم کرسکتا ہے بلکہ تھوڑے عرصے میں مسلم دنیا کو ایک متحدہ بلاک کی طرف لے جاسکتا ہے۔
یاد رہے معاشی تعلقات کی بنیاد محض معاشی مفاد کبھی نہیں ہونی چاہیے بلکہ حلال اور مباح تجارت و معیشت کی ترقی اور حرام سرمایہ دارانہ استحصالی معیشت سے نجات کی بنیاد پر مسلم دنیا کا اتحاد یورپی معاشی اتحاد سے زیادہ حقیقی، پایدار اور باہمی منفعت کا حامل ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد اخوت، خوفِ خدا اور بھلائی میں تعاون اور برائی کے خلاف اتحاد پر ہوگی۔ آج جب امریکا کے معاشی، سیاسی اور اخلاقی زوال کی پیشن گوئی خود امریکی ماہرین علومِ عمرانیات و معاشیات کر رہے ہیں، مسلم قیادت کے لیے معاشی خودانحصاری کا حصول ایک اہم ضرورت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس ضمن میں عملی اقدامات میںتاخیر مزید مسائل و مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
مسلم قیادت ہی وہ واحد عنصر ہے جو پاکستان میں بڑھتی ہوئی عصبیت اور لسانی منافرت کے مظاہر کے خاتمے اور مختلف المسالک و مذاہب گروہوں کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرتوں کو دُور کرنے میں اپنا مثبت کردارادا کرسکتی ہے۔ کیا ایک دن میں ۸۰؍افراد کا ظالمانہ قتل تحریکی فکر سے وابستہ افراد کو اُس مثبت کردار کی دعوت نہیں دیتا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورئہ حجرات (۴۹:۹-۱۰) میں فرمایا گیا ہے کہ اگر دو مسلم گروہوں میں جھگڑا ہوجائے تو اپنے بھائیوں میں صلح کرائو، اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوں تو تحقیق کرنے کے بعد دونوں میں سے جو ظالم ہو اس کے خلاف مظلوم کا ساتھ دو، اور جب وہ ظلم سے باز آجائیں تو اپنا ہاتھ روک کردلوں کو جوڑتے ہوئے اخوت پیدا کرنے اور عدل کے رویے پر عامل ہونے کی کوشش کرو۔
یمن میں خواتین نے جمعہ کے اجتماع میں سڑکوں پر مساجد کے باہر نماز قائم کرکے، اپنے غم و غصے اور احتجاج کا اظہار کیا۔ یہ ایک پُرامن طریقہ ہے جو عوام کو متحرک کرنے اور انھیں مسائل کے حل کے لیے متحد کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم لگے بندھے انداز سے ہٹ کر سوچنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم اس دائرے کوتوڑنے کی شعوری کوشش کرسکتے ہیں جس میں مفاد پرست سیاست دان عصبیتوں کو ہوا دے کر، بعض اوقات امن عامہ کو خراب کرکے، اور بعض اوقات محلاتی سازشوں کے ذریعے فوج یا سیاسی جماعتوں میں وقتی اتحاد پیدا کرکے اپنا مطلب پورا کرتے رہے ہیں۔ یہ عمل ایک تسلسل سے ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ مسلم دنیا کے انقلابات خصوصی طور پر پیغام رسانی کے ذریعے انقلاب کے طریقے کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے ایک صحت مند، اسلامی تبدیلی کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
مسلم قیادت کو لیبیا، یمن، اور بحرین کے واقعات دعوت دیتے ہیں کہ وہ لگے بندھے انداز سے ہٹ کر غور کرے اور عوامی مسائل و مشکلات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کے لحاظ سے ایسی حکمت عملی وضع کرے جو اُمت کو مکڑی کے جالے سے آزاد ہونے، اپنے پائوں پر کھڑے ہونے، اور تحریکاتِ اسلامی کے نصب العین، یعنی رضاے الٰہی کے حصول میں کامیابی سے ہم کنار کرسکے۔
مغربی ابلاغ میں ’عرب بہار‘ (Arab Spring) کا ذکر ۲۰۱۱ء کے آغاز سے اُبھرنے والی انقلابی تحریک کے حوالے سے مسلسل کیا جا رہا ہے۔ تیونس کے چنبلی یا سفید انقلاب اور اس کے متوازی مصری انقلاب نے اردگرد کے مسلم ممالک میں ایک نئی فضا پیدا کردی جس میں یمن، بحرین، لیبیا اور شام دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ شام کی صورت حال دیگر ممالک کے تناظر میں خاصی پیچیدہ ہے۔ اختصار کے پیش نظر ہم صرف پانچ نکات پر بات کریں گے۔
کسی بھی ملک میں انقلابی صورت حال اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے اپنے شہری صورت حال کے پیش نظر پیش قدمی کریں لیکن مسلم دنیا میں خصوصاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیل اور دیگر ذخائر کا پایا جانا مغربی سامراجیوں کی توجہ اور دل چسپی کا مستقبل سبب رہا ہے، چنانچہ شام کے حوالے سے امریکی کردار بہت پرانا ہے۔ ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان امریکی حکومت نے حسبِ عادت عوام کو ’جمہوریت‘ کا تحفہ دینے کے بہانے دخل اندازی کا آغاز کیا۔ چنانچہ برطانوی اور امریکی خفیہ اداروں نے مشترکہ طور پر بادشاہت کا تختہ اُلٹنے کی سازش میں شرکت کی اور حالات کو بد سے بد تر کی طرف لے جانے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی دوران ۱۹۵۳ء میں دونوں اداروں نے وزیراعظم مصدق کے خلاف ایران میں کھل کر مالی اور افرادی قوت کا استعمال کیا۔
ـموجودہ صورت حال میں امریکا دمشق کے انسانی حقوق کے مرکز صَبا، جس کا براہِ راست تعلق (U.S. National Endowment for Democracy) سے ہے، اور دیگر اداروں، مثلاً ڈیموکریسی کونسل اور انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے کھلے عام مالی امداد دی جارہی ہے اور سیاسی کارکنوں اور عسکری گروہوں کی تربیت کا کام کیا جا رہا ہے۔ امریکا کی یہ دوعملی کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ جہاں یہ آمروں، فوجی ڈکٹیٹروں کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہے وہیں ’جمہوریت‘ کے نام پر سیاسی خلفشار پیدا کر کے اور ملک میں خانہ جنگی پیدا کرکے براہِ راست اقوام متحدہ یا اپنی فوجی مداخلت کے لیے فضا تیار کرنا اس کی حکمت عملی کا ایک ستون ہے۔ یہ شکل مکمل طور پر شام میں پائی جارہی ہے۔
دوسرا اہم پہلو شام میں شیعہ اور سُنّی اختلافات کے ذریعے صورت حال کو نازک بنانا ہے۔ اس میں نہ صرف امریکا اور اسرائیل بلکہ ایران اور عراق کی پالیسیوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ چنانچہ شام نے عراق میں شیعوں کی حمایت کے ذریعے مالکی کی حکومت کی حمایت اور فوجی امداد کے ذریعے عراق میں شیعہ اقتدار کے قیام میں سرگرمی سے حصہ لیا جس کے نتیجے میں نہ صرف شام کی سُنّی آبادی بلکہ اردگرد کے ممالک خصوصاً سعودی عرب اور خلیج کے امرا نے ردعمل کے طور پر سنیوں کی حمایت میں اپنی بھلائی محسوس کی۔ اس سلسلے میں الجزیرہ کا کردار غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔ خلیجی ممالک نے شام کو ۲۰ ملین ڈالر کی امداد کی پیش کش اسی غرض سے کی ہے۔
تیسری جانب ابوموسیٰ الزرقاوی کی فکر رکھنے والے گروہوں نے جن کی تعداد اچھی خاصی ہے اور جو عراق کی جنگ میں حصہ لے چکے تھے، شام کی سُنّی آبادی کے تحفظ کے لیے ملک گیر مہم شروع کی جس میں بیرونِ ملک کے سُنّی عناصر نے جنھیں مغربی ابلاغ عامہ ’سلفی‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے، حصہ لیا اور اس وقت ان کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ اصلاً بلدالشام جو جغرافیائی طور پر لبنان، شام، فلسطین پر مبنی تھا، اس کی آزادی ہونی چاہیے کیونکہ اس خطے پر اب شیعہ بلکہ علوی اقتدار ہے، جو خود معروف شیعہ مذہب سے کٹا ہوا ایک فرقہ ہے۔ اسد اور اس کے حامی جن کا تعلق علوی فرقے سے تمام کلیدی مناصب پر قابض ہیں۔
چوتھی جانب یورپی ممالک خصوصاً فرانس یہ چاہتا ہے کہ ملک میں انتشار میںاضافہ ہو اور اس طرح اسرائیل کو جو خطرہ شام یا ایران سے ہوسکتا ہے اس میں کمی واقع ہو اور اسرائیل کی دفاعی قوت میں اضافے کا باعث ہو۔
پانچواں پہلو تحریکِ اسلامی کے حوالے سے خصوصی طور پر قابلِ غور ہے۔ شیخ یوسف قرضاوی جو نہ صرف ایک اعلیٰ درجے کے عالم اور فقیہ ہیں، ان کا اخوان المسلمون سے تعلق ان کی ہربات کو براہِ راست یا بالواسطہ مشرق وسطیٰ کی تحریک اسلامی سے منسلک کردیتا ہے۔ انھوں نے اپنے بعض بیانات میں شدت سے بشارالاسد کی حکومت کی مخالفت کا اظہار کیا ہے، جب کہ شام کے بعض دینی عناصر بشارالاسد کے واضح شیعہ طرزِعمل اور سُنّیوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کے باوجود یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اسد کے جانے کے بعد اس کے جانشین اس سے بہتر نہیں ہوں گے۔
ان حالات میں مسلم قیادت کے لیے غور کرنے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سیاسی انتشار و انقلاب کی اس فضا میں کیا وہ اپنا وزن کسی ایک فریق کی طرف ڈال کر کوئی فوری ہدف حاصل کریں یا اس دورِ فتنہ میں اپنا الگ تشخص برقرار رکھتے ہوئے قیادت اور معاشرے کی اصلاح کے طویل المیعاد ہدف کے لیے کام کریں۔ یہ سوال غالباً صرف شام کے لیے نہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی دینی قیادت کے لیے ایک کلیدی سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدید ہے۔
جمعہ ۲۴ جون ہمارے دورۂ مصر کا آخری روز تھا۔ ہم نے قاہرہ کے تاریخی میدان التحریر، یعنی میدان آزادی کے ایک گوشے میں واقع جامع مسجد عمر مَکرَم میں نماز جمعہ ادا کی۔
خطیب صاحب نے حسنی مبارک دور پر کھل کر تنقید کی۔ حسنی مبارک ۳۰ سال تک مصر کے سیاہ و سفید کا مالک رہا، اس سے پہلے انورسادات اور جمال عبد الناصر بھی شخصی اقتدار کی بدترین مثالیں تھیں۔ تینوں نے اپنے ۶۱سالہ اقتدار میں لوٹ مار ہی نہیں، ظلم و جبر کی بھی انتہا کردی۔ خطبۂ جمعہ کے بعد بھی لوگ کہہ رہے تھے کہ سابقہ دور میں کوئی شخص منبر پر کجا ،نجی محفل میں بھی یہ باتیں کہنے کا تصور تک نہیں کرسکتا تھا۔ آج ہر شخص گویا ایک نئی دنیا میں سانس لے رہا ہے۔ پہلے ہر دوسرا شخص کسی دشمن جاسوسی ادارے کا نمایندہ لگتا تھا، اب وردی پوش بھی اپنے بھائی دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ملک میں عملاً فوج کی عمل داری ہے۔ ہر اہم فیصلہ فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین طنطاوی مسلح افواج کی سپریم کونسل کے ذریعے کرتے ہیں۔ اگرچہ بظاہر ایک غیر فوجی شخصیت ڈاکٹر عصام شرف وزیراعظم ہیں اور ان کی ایک کابینہ بھی ہے لیکن ان کی حیثیت جمالی یا جونیجو حکومت سے بھی کمزور ہے۔ اگرچہ پوری قوم نے ڈکٹیٹر سے نجات حاصل کرنے پر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا ہے لیکن اب بھی ہر شہری حقیقی تبدیلی کا منتظر ہے۔ لوگوں کو پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے مظالم سے رہائی مل گئی، آزادی اظہار و اجتماع بھی حاصل ہوگئی لیکن ملک میں ایک عادلانہ حقیقی جمہوری نظام کا خواب تاحال تعبیر کا منتظر ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے عوام میں اضطراب و تشویش میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کئی بار تو احساس ہونے لگتا ہے کہ شاید کوئی مخفی طاقت اس عوامی مایوسی میں اضافہ چاہتی ہے۔ ظالم حکومت سے نجات پر شکر کے احساسات قدم قدم پر سننے کو ملتے ہیں لیکن بعض اوقات اظہار مایوسی بھی ہونے لگتا ہے۔
ہماری خواہش تھی کہ اخوان کے کسی اشاعتی ادارے کو دیکھنے کا موقع بھی مل جائے تاکہ تحریکی بالخصوص اخوان کا لٹریچر خریدا جاسکے۔ ایک روز اس کا موقع مل گیا۔ اخوان کے مرکز میں ذمہ داران سے تفصیلی ملاقاتوں کے بعد محترم امیر جماعت اور محترم قیم جماعت کو کمرے میں پہنچا کر اخوان کے ایک ساتھی کے ہمراہ، اخوان کے اشاعتی ادارے دار النشر و التوزیع جانے کا پروگرام بن گیا۔ اخوانی ساتھی کا نام بدر تھا جو خود بھی ایک کامیاب تجارتی ادارہ چلا رہا ہے۔ اس نے مشورہ دیا کہ وہ بہت مصروف علاقہ ہے، رش سے بچنے کے لیے ٹیکسی پر چلا جائے تو مناسب ہوگا اور آتے جاتے ٹیکسی کی سواری میں بھی ملک میں آنے والی بڑی تبدیلی، لیکن روز بروز بڑھتی عوامی پریشانی کا عملی مشاہدہ ہوا۔ جاتے ہوئے ٹیکسی میں سوار ہوئے تو ڈرائیور نے دونوں اگلی سیٹوں کی پشت پر دو جاذب نظر پردے لٹکائے ہوئے تھے، جن پر چار بڑے سائز کی جیبیں بنی ہوئی تھیں اور ان چاروں میں ایک اشاعتی ادارے کی طرف سے مختلف کتابیں رکھی تھیں۔ ہر کتاب میں ایک کارڈ رکھا تھا۔ جس پر ایک سروے کے مختصر سوالات تھے کہ آپ کو دوران سفر کتنے وقت کے لیے یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا؟ کتاب کیسی لگی؟ وغیرہ۔ ہم نے ڈرائیور اور اس اشاعتی ادارے کی تحسین کی اور کہا:کوشش کریں کہ اچھی اور معیاری کتابیں رکھیں۔ ڈرائیور نظامِ جبر سے نجات ملنے پر اظہارِ خوشی کرتے ہوئے کہنے لگا جس نے بھی یہ کتب اور یہ اسلوب دیکھا ہے اس نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ہم نے مکتبے میں تقریباً چار گھنٹے گزارے۔ درجنوں نئی کتب مل گئیں۔
ساتھ ہی ایک اور حیرت انگیز منظر بھی ملاحظہ کرتے جائیے۔ اخوان کے مکتبے کے بارے میں بدر نے بتایا تھا کہ حسنی مبارک انتظامیہ نے گزشتہ کئی سال سے اخوان کی کتب اور اس کے اشاعتی ادارے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ چند روز قبل ہی اس سے پابندی ختم ہوئی ہے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو تین کمروں میں فرش سے چھت تک لگی الماریوں میں لاتعداد کتب سجی تھیں۔ کچھ بالکل نئی تھیں اور اکثر قدرے پرانی لگ رہی تھیں۔ کتابیں دیکھتے اور گوہرِ مقصود تلاش کرتے کرتے نماز کا وقت ہوگیا۔ مکتبے کے ساتھی نے ایک گوشے میں واقع چھوٹے سے کچن ہی سے وضو تازہ کرنے کا کہا۔ وہاں پانی فرش پر بہہ رہا تھا۔ اخوانی ساتھی بدر نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ کم از کم پانی کی نکاسی کا انتظام تو درست ہونا چاہیے۔ مکتبے کا ذمہ دار معذرت کرتے ہوئے کہنے لگا: حکومت نے ہم پر پابندی لگاتے ہوئے یہ مکتبہ اپنی تمام کتب سمیت گذشتہ کئی سال سے سیل بند کردیا تھا۔ اس دوران چوہے اس باورچی خانے کے پائپ تک کتر گئے۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ اللہ کا یہ فضل و کرم دیکھیے کہ سالہا سال بند پڑے رہنے کے دوران چوہے کئی چیزیں کتر گئے لیکن ہماری ہزاروں کتابوں میں سے کسی ایک بھی کتاب کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، دیمک تک نے بھی کچھ نہیں چاٹا۔ سبحان اللہ اور الحمد للہ کہتے ہوئے وہاں موجود سب افراد نے یہ سن کر اللہ پر ایمان بڑھتا ہوا محسوس کیا۔
اخوان کے نائب مرشدین عام نے اخوان کے نظامِ دعوت و تربیت کے بارے میں تفاصیل بتائیں تو امام حسن البنا کے صدقہ جاریہ اور اخوان کے کام کی وسعت کا اندازہ ہوا۔ اخوان کے سب سے بزرگ نائب مرشدعام جمعہ امین خواتین کے کام کی تفصیل بتا رہے تھے کہ الحمدللہ ہماری بہنیں الاخوات المسلمات مردوں سے بھی زیادہ فعالیت سے کام کرتی ہیں۔ ان کی الگ سے کوئی تنظیم نہیں ہے۔ مرد حضرات پورے کام کی نگرانی کرتے ہیں، لیکن اپنی تمام تر سرگرمیاں وہ خود کرتی ہیں۔ جناب جمعہ امین کہہ رہے تھے کہ حسنی مبارک کے جابرانہ نظام میں اخوان سے وابستگی کی کم از کم سزا کئی سال کی قید ہوتی تھی، لیکن ہم نے تہیہ کیے رکھا کہ اپنی کسی بہن کو گرفتار نہیں ہونے دینا ہے اور الحمدللہ ہم مجموعی طور پر اس میں کامیاب رہے۔
دوسرے نائب مرشدعام محمود عزت نے بتایا کہ بچوں، بچیوں، نوجوانون، خواتین اور مردوں کے لیے ایک مربوط تحریکی نصاب طے ہے۔ بعدازاں اخوان کے مکتبے سے جو بہت سی قیمتی کتابیں دستیاب ہوئیں ان میں اہم ترین کتب ان کے نصاب سے متعلق تھیں۔ علما و محققین کی مختلف ٹیموں نے یہ نصاب بہت محنت سے تیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر فی نورالاسلام کتاب ملاحظہ کیجیے۔ چار جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ان کے کارکنان کے لیے اولیں مرحلہ ہے۔ ہر جِلد کا پہلا نصف قرآن کریم اور دوسرا احادیث نبویؐ پر مشتمل ہے۔ اس کا اسلوب خالصتاً تدریسی و تربیتی ہے۔ آیات کی مختصر تشریح کے علاوہ ہر آیت سے حاصل ہونے والے اسباق اور اس کی روشنی میں عمل کی راہیں واضح کی گئی ہیں۔ کتاب تیار کرنے والوں نے استاد و مربی اور طالب علم یا زیرتربیت افراد کے لیے بھی الگ ہدایات دی ہیں کہ وہ کیسے ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکتے ہیں۔ فی ریاض الجنۃ کے عنوان سے آٹھ جِلدوں اور مسلم خاتون کی ایمانی و دعوتی تربیت کے نام سے دو جِلدوں پر مشتمل لٹریچر خصوصی طور پر خواتین کے لیے تیار کیاگیا ہے۔ اپنی اصلاح، بچوں کی تربیت اور اہلِ خانہ کے حقوق و فرائض سمیت ہر گوشۂ حیات میں رہنمائی کرتا ہے۔ الرشاد کے نام سے گیارہ اجزا پر مشتمل نصاب بچوں کے لیے ہے۔ رنگوں، تصاویر اور اہم واقعات کی مدد سے تیار کتابچے بچوں کو بھی آغازِ حیات ہی سے اپنے رب کی پہچان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، جنت کے شوق اور قرآن کریم کی تعلیمات سے روشناس کر دیتے ہیں۔
صرف مطالعہ لٹریچر ہی نہیں، ہرمرحلے پر عملی تربیت اخوان سے وابستہ ہرشخص کو کندن بنانے میں مدد دیتی ہے۔ اخوان کے ذمہ داران نے بتایا کہ ہمارے تربیتی نظام میں اسرہ جات کو جو اہمیت حاصل ہے اس کے پیش نظر ہر کارکن خواہ وہ کسی بھی ذمہ داری پر پہنچ جائے، ہمیشہ ایک اسرے کا رکن رہتا ہے۔ ایک اسرے کے تمام افراد باہم محبت اور تعلق میں ماں جاے افراد خانہ سے بھی زیادہ آگے بڑھے ہوتے ہیں۔ ان اسرہ جات میں بھی تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ان کے نقیب (ذمہ دار) میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کے مابین یگانگت پیدا ہوسکے۔
اخوان کے تیسرے نائب مرشدعام انجینیر خیرت الشاطر جماعت کی اقتصادی سرگرمیوں کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی اپنی ذات میں ایک منفرد انسان ہیں۔ تجارت اور اقتصادیات کے بڑے ماہر، انتہائی منکسر المزاج ارب پتی ہستی۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں پورے مشرق وسطی میں سلسبیل کے نام سے پہلی کمپیوٹر کمپنی قائم کی۔ ۱۹۹۵ء میںان کی سات کمپنیاں تشکیل پاچکی تھیں اور یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ سلسبیل عالمی سطح کی کمپنی بن جائے گی۔ ۱۹۹۵ء میں انھیں گرفتار کرلیا گیا اور ان کی ساتوں کمپنیاں ضبط کرلی گئیں۔ ارب پتی شخصیت مکمل طور پر قلاش ہوگئی۔ الزام صرف یہ تھا کہ یہ اخوان کو مالی امداد دیتا ہے۔ پانچ سال جیل میں رہے، رہائی ملی تو دوبارہ کاروبار شروع کردیا۔ ۲۰۰۲ء میں پھر گرفتار کرلیا گیا۔ ۲۰۰۳ء میں رہائی ملی، کاروبار دوبارہ شروع کیا۔ ۲۰۰۵ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا، ساری جایداد ضبط کرلی گئی اور پھر حسنی مبارک کے بعد ہی رہائی نصیب ہوئی۔ خیرت الشاطر کی سات بیٹیاں ہیں، سب کی شادی ہوگئی، لیکن کسی بیٹی کو بھی رخصتی کے وقت باپ کے سینے سے لگنا نصیب نہ ہوا۔ جیل ہی سے دُعاؤں کے پھول نچھاور کرتے ہوئے بیٹیوں کو رخصت کیا۔ آپ انجینیر خیرت سے ملیں، تو آپ کو بڑھاپے کی سرحدوں کو چھوتے، لمبے تڑنگے، سابق ارب پتی سے زیادہ مطمئن اور شاداں شخص شاید کوئی نہ ملے۔
اسلامی تحریکوں کو اللہ تعالیٰ نے دین کے جس وسیع تر تصور سے روشناس کیا ہے اخوان کی سرگرمیاں اس کا بھرپور پرتو ہیں۔ مصری سیاست کے میدان میں وہ اس وقت سب سے بڑی قوت ہیں۔ ان کی قوت ہی سے خوف زدہ ہوکر کچھ طاقتیں انتخابات ملتوی کرنا چاہتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ شب وروز ان کی طاقت کو اپنوں اور غیروں کے سامنے ایک ہوّا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ قاہرہ پہنچنے کے اگلے روز اخبارات خریدے تو ایک اخبار کی جلی سرخی تھی: ’’انتخاب اخوان کی جیب میں‘‘۔ ساتھ مرشدعام کی تصویر لگی تھی۔ دیکھنے والا پہلی نظر میں سمجھتا ہے کہ یہ شاید مرشدعام کا بیان ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے ہر پڑھنے والے کے ذہن میں اخوان اور مرشدعام کے بارے میں منفی تاثر اُبھرتا ہے، لیکن درحقیقت یہ اخبار کا اپنا تبصرہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کو اخوان سے خوف زدہ کرنا مطلوب ہے۔ حسنی مبارک کے خلاف اخوان کے ۵۵؍ارکان نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان میں سے ہرکارکن کا واقعۂ شہادت ایک مکمل داستان ہے۔ اخوان کے ایک ذمہ دار بتا رہے تھے کہ حسنی مبارک کے پورے دور میں ہم جب بھی کسی مظاہرے یا جلسے جلوس کے لیے گھر سے نکلتے تو دل میں یہ احساس لے کر نکلتے تھے کہ شاید آج آخری بار گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھ رہے ہیں۔ نکلنے سے پہلے اپنی آخری وصیت لکھ کر گھر میں چھوڑ کر آتے تھے۔ اس پورے عمل کا نمایاں ترین اثر ہر کارکن کی زندگی پر یہ ہوتا کہ وہ ہمیشہ اپنی آخرت پر نگاہ رکھتا۔
صرف دعوت وتربیت اورسیاست ہی نہیں، اصلاح و خدمت کا کوئی بھی پہلو اخوان کے دائرہ عمل سے خارج نہیں ہے۔ آیئے اخوان کی ویب سائٹ پر آج کی تاریخ میں نشر ہونے والی سرگرمیوں کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ استقبال رمضان کے متعدد پروگرام، مختلف علاقوں میں فری میڈیکل کیمپ، ’آزادی کی راہ‘ کے شعار کے تحت شجرکاری کی مہم، پرانے کپڑوں اور رمضان کی ضروریات فروخت کرنے کے لیے اخوان کے زیراہتمام سستا بازار۔ طویل عرصے سے خراب پڑی علاقے کی سٹریٹ لائٹوں کی مرمت وغیرہ۔ ایک انتہائی منفرد سرگرمی یہ ملاحظہ کیجیے کہ اخوان نے معاشرے میں صلح کروانے اور اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ملک بھر میں مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے ارکان جنھیں آپ غیرسرکاری جج کہہ سکتے ہیں، متعین کرنے سے پہلے انھیں باقاعدہ دوسالہ کورس کروایا جاتا ہے۔ ’مدارس الصلح‘کے نام سے ان اسکولوں میں وراثت، شادی بیاہ کے مسائل، نکاح و طلاق کے احکام اور تعزیرات و قوانین جیسے ۱۶موضوعات باقاعدہ پڑھائے جاتے ہیں۔ ۳جولائی کو اخوان کے مرکز میں مدارس الصلح کا پانچواں جلسہ تقسیم اسناد تھا، جس میں۱۲۵؍افراد فارغ التحصیل ہوئے۔ اخوان کے ذمہ داران کااس بارے میں کہنا ہے کہ ملک میں ۸۰لاکھ مقدمات ایسے ہیں کہ ان کا فیصلہ ہوچکا ہے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ۲کروڑ مقدمات تو ابھی تک سنے ہی نہیں جاسکے۔ ایسے میں یہ ایک اہم خدمت ہے کہ لوگوں کے اختلافات کو باہمی رضامندی سے عدالت سے باہر ہی مصالحت کے ذریعے طے ہوجائیں اور یہ مصالحتی نظام معاشرے کا حصہ بن جائے۔
اسی طرح کی ایک اور خدمت سے ہمیں اس وقت آگاہی ہوئی جب ہمارے میزبان ہمیں دریاے نیل میں کھڑے ایک بڑے سمندری جہاز میں قائم ریستوران میں کھانا کھلانے لے گئے۔ آرڈر دیتے ہوئے ہمارے میزبان نے بیرے سے پوچھا کیا آپ کا ریسٹورنٹ ’غذائی بنک‘ کا رکن ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا تو میزبان نے بتایا کہ اگر خدانخواستہ کھانا بچ بھی گیا تو فکر نہ کریں۔ یہ اسے الگ الگ محفوظ کرلیں گے، بعد میں غذائی بنک والے ان سے لے کر، مختلف علاقوں میں مستحق ومحتاج افراد میں تقسیم کردیںگے۔
مصری معاشرے کی لاتعداد خوبیوں کے ساتھ ساتھ کئی پہلو تکلیف دہ بھی تھے۔ معاشرتی تفاوت تمام مسلم ملکوں کی طرح مصر میں بھی انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ مصر کی آبادی ۸کروڑ ہے جس کی ایک چوتھائی صرف قاہرہ ہی میں رہتی ہے۔ ہمارا ڈرائیور بعض اوقات رش سے بچنے کے لیے قاہرہ کی تنگ گلیوں اور اندرونی علاقوں میں لے جاتا تو وہاں لوگوں کی غربت کے آثار بھی عروج پر دکھائی دیتے لیکن دوسری طرف قاہرہ کے مضافات ہی میں ایسی ایسی رہایشی اسکیمیں ہیں کہ وہ قاہرہ کے بجاے کسی یورپی ملک کا حصہ دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں داخلے کے لیے شناختی کارڈ کا اندراج کروانا پڑتا ہے۔
مصر میں قبطی مسیحیوں کا تناسب چھے سے آٹھ فی صد ہے۔ ۲۵، ۳۰ لاکھ ووٹوں کی طاقت رکھنے کے باوجود منتشر ہیں۔ اخوان کے ذمہ داران بتا رہے تھے کہ ہماری کوشش ہے کہ پارلیمنٹ میں مسیحیوں کی بھی مناسب نمایندگی ہوجائے تاکہ ملک میں مسلم مسیحی فسادات کا دروازہ بند کیا جاسکے۔ حسنی مبارک کے بعد لوگوں کے سامنے یہ حقائق بھی آچکے ہیں کہ حسنی مبارک کا وزیرداخلہ ایک چرچ کے باہردھماکے میںملوث تھا۔ اس وقت اسے خودکش حملہ اور القاعدہ کی کارروائی قرار دے کرمسیحی مسلم فسادات بھی شروع کراو دیے گئے تھے لیکن اب بلّی تھیلے سے باہر آچکی ہے، وزیرداخلہ ’اندر‘ جاچکا ہے۔ ایک مقدمے میں سزا بھی ہوچکی ہے، لیکن میدان التحریر میں قتلِ عام سمیت بہت سارے مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا ایک سبب حسنی مبارک اور اس کے بیٹوں سمیت سابق وزرا اور سرکاری گماشتوں سمیت مجرموں کو سزا نہ ملنا بھی ہے۔
بہت سے لوگ اس بنیاد پر دوبارہ میدان التحریر میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اسی طرح کے ایک مظاہرے کے دوران بعض فتنہ پرور عناصر کے ذریعے ہنگامہ آرائی اور کشت و خون بھی کروایا گیا ہے۔ اخوان اور ان کی سیاسی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی ان پورے مظاہروں میں شریک نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج دوٹوک اور نقشۂ کار واضح ہے۔ ہم حکومت کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ پوری یکسوئی سے انتخاب کروائے۔ اس لیے ہم فی الحال کسی احتجاجی تحریک میں شریک نہیں ہوںگے۔ البتہ اگر حکومت نے اس پورے نقشۂ کار میں کوئی تبدیلی کرنے کی کوشش کی تو ہم پھرپوری قوت سے میدان التحریر میں اُتریں گے۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل نے حال ہی میں ایک بیان جاری کیا ہے کہ انتخابات ملتوی ہونے کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہم جمعہ ۲۹جولائی کو پھر میدان التحریر میں ملین مارچ کی اپیل کرسکتے ہیں۔ اخوان کا تازہ بیان اور میدان التحریر کی فقید المثال تاریخ اس بات کا اعلان ہے کہ عوام نے اپنی بیش بہا قربانیوں سے جو آزادی حاصل کی ہے وہ اب کسی قیمت پر اس سے محرومی گوارا نہیں کریں گے۔
سوال: نماز پڑھنے کے دوران کئی قسم کے خیالات دل میں آجاتے ہیں اور بعض اوقات نماز میں بھول بھی ہوجاتی ہے۔ براہِ مہربانی اس کا علاج تجویز فرمایئے۔
جواب: خیالات اور وساوس کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں ہے کہ آپ کی توجہ اللہ کی طرف بڑھتی چلی جائے۔ اللہ کی طرف توجہ بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی توجہ اور تفقہ سے قرآن پڑھے، صحبت صالح اختیار کرے اور دین کے کاموں میں اپنا دل لگائے۔
یہ وہ ذرائع ہیں جن سے اللہ کی طرف توجہ بڑھتی ہے۔ نتیجتاً اس کا اثر نماز میں بھی محسوس ہوتا ہے اور وساوس کا ہجوم رفتہ رفتہ کم ہونے لگتا ہے۔ یاد رکھیے نماز انسان کی وہ حالت ہے جو شیطان کو سب سے زیادہ ناگوار ہے۔ یہی سبب ہے کہ آدمی کی اس حالت میں اس کاحملہ سب سے زیادہ زوردار ہوتا ہے۔ وہ آدمی کی توجہ ہٹانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اب آدمی کا فرض ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرے اور توجہ کو اللہ کی طرف قائم رکھنے کی پوری کوشش کرے، اور یہ کوشش نیم دلانہ یا وقتی نہیں ہونی چاہیے بلکہ جہدِمسلسل ہونی چاہیے۔ آدمی کے لیے دنیا میں ہر وقت جدوجہد ہے اور نماز اس سے مستثنیٰ نہیں۔ یہاں بھی ویسی ہی کوشش کی ضرورت ہے جیسی کہ زندگی کے دیگر میدانوں میں ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اگر کچھ خیال بے ارادہ آجاتے ہیں تو وہ معاف ہیں۔ لیکن انھیں قصداً نہیں لانا چاہیے، اور نہ ان سے کھیلنے لگ جانا چاہیے۔ آپ کی تمام تر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اگر وہ آئیں تو ان کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ وساوس سے توجہ ہٹانے کی ایک اور کامیاب صورت یہ ہے کہ آپ معانیِ نماز پر توجہ مبذول رکھیں۔ یہ کہ میں زبان سے کیا کہہ رہا ہوں اور کیا پڑھ رہا ہوں۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، استفسارات، جلد اوّل، ص ۲۰۲-۲۰۳)
س: آپ نے ترتیل کا مفہوم بیان فرماتے ہوئے بتایا ہے کہ قرآن کو ٹھیرٹھیر کر اور سوچ سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ ہم لوگ جو خلافِ ترتیل پڑھنے کے عادی ہوگئے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے، اس کا کچھ گناہ تو نہیں ہے؟
ج: میرا خیال یہ ہے کہ خلافِ ترتیل پڑھنے کی وجہ بے سمجھے قرآن پڑھنا ہے۔ اگر آدمی قرآن سمجھ کر پڑھے تو مارا مار پڑھ ہی نہیں سکتا۔ جب وہ بے سمجھے پڑھتا ہے تو پھر رواں دواں پڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی توجہ اس طرف ہوتی ہی نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اس طرح کے پڑھنے والے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً قرآن مجید میں کسی جگہ جملہ استفہامیہ آیا ہے اور وہ اسے اس طرح سے پڑھ رہا ہے کہ گویا اس میں کوئی استفہام نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کے ذہن میں یہ بات ہی نہیں آئی ہے کہ وہ کیا چیز پڑھ رہا ہے۔ حالانکہ اگر وہ عبارت کو سمجھ کر پڑھ رہا ہوتا تواستفہامیہ جملے کو استفہام کے انداز میں پڑھتا۔ اس طرح سے بعض مواقع پر آپ دیکھیں گے کہ ذکر عذاب کا ہوتا ہے اور وہ اسے اس طرح سے پڑھ رہا ہوتا ہے کہ گویا بشارتیں ہورہی ہیں۔ اس پر کوئی رعب اور خوف طاری نہیں ہوتا تو دراصل یہ سب کچھ بے سمجھے پڑھنے کے نتیجے ہیں۔ ورنہ ایک آدمی بہت تیز اور رواں دواں نہیں پڑھ سکتا اور نہ کبھی اس طرح سے پڑھ سکتا ہے کہ جیسے اس کا دل اس کلام سے سرے سے متاثر ہی نہیں رہا۔
پھر ایک چیز مصنوعی ترتیل بھی ہے کہ آدمی پڑھ تو رہا ہے بے سمجھے لیکن اسے گاگا کر پڑھتا ہے۔ ایک فقرہ کہتا ہے اور پھر منٹوں سانس لیتا رہتاہے۔ اس چیز کا نام بھی ترتیل نہیں ہے۔ ترتیل اس چیز کا نام ہے کہ ایک ایک لفظ کو ٹھیک ٹھیک ادا کرتے ہوئے پڑھا جائے نہ یہ کہ آدمی ایک جملہ پڑھ کر کئی کئی منٹ تک سانس لیتا رہے۔ اس سے غنا کا لطف تو باقی رہ جاتا ہے لیکن کلام کی تاثیر ختم ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک آیت میں ایک بڑا اہم مضمون بیان ہو رہا ہے۔ لیکن طویل وقفے کی وجہ سے آگے کا مضمون آنہیں رہا۔ اب آگے کے مضمون سے جب تک اس کاتعلق جڑے گا نہیں، اس وقت تک اس کی معنویت اور تاثیر اُجاگر نہیں ہوتی۔ یہ چیز بھی ترتیل کے آداب کے خلاف ہے۔ (ا-م، ایضاً، ص ۱۱۲-۱۱۳)
س: ایک حدیث میں قرآن پڑھ کر بھول جانے پر یہ وعید آئی ہے کہ ایسا شخص قیامت کے روز کٹے ہوئے ہاتھ کے ساتھ اُٹھے گا۔ کیا اس وعید کا اطلاق چند آیتوں یا ایک سورت بھول جانے پر بھی ہوتا ہے؟
ج: جس حدیث میں یہ بات آئی ہے وہاں اس سے وہ بھولنا مراد نہیں ہے جو نسیان کی وجہ سے ہو، بلکہ اس سے وہ بھولنا مراد ہے جو غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے ہو۔ مثلاً ایک شخص کوقرآنِ مجید کی کچھ سورتیں اور نماز یاد کرائی گئی۔ بعد میں اس نے نماز بھی چھوڑ دی اور قرآن بھی چھوڑ دیا۔ پھر اُسے کبھی اس بات کا خیال تک نہ آیا کہ قرآن پڑھے۔ رفتہ رفتہ سب کچھ بھول گیا۔ یہاں تک کہ قُلْ ھُوَ اللّٰہ بھی یاد نہ رہا۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ کو متعدد ایسے لوگ ملیں گے کہ اگر انھیں فی الواقع نماز پڑھنے کے لیے کھڑا کر دیا جائے تو بچارے گرفتارِ بلا ہوجاتے ہیں۔ نہ تو انھیں سورئہ فاتحہ یاد ہوتی ہے اور نہ سورئہ اخلاص۔ یہاں تک کہ انھیں یہ بھی یاد نہیں ہوتا کہ نماز کی ترتیب کیا ہوتی ہے اور اس میں کیا کچھ پڑھا جاتا ہے۔ دراصل یہ وہ بھولنا ہے جس پر مذکورہ حدیث میں وعید بیان ہوئی ہے۔(ا-م،ایضاً، ص۹۹)
س: یک سوئی کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟ میں نماز پڑھتا ہوں یا مطالعہ کرتا ہوں تو ذہن کو یکسوئی سے محروم پاتا ہوں۔ یہ مقصد کس طرح حاصل کروں؟
ج: اس مقصد کے لیے اپنی قوتِ ارادی سے کام لیجیے۔ بار بار شکست ہو تو بار بار کوشش کیجیے لیکن ہمت نہ ہاریئے اور نہ جدوجہد کو ترک کیجیے۔ نماز پڑھیں تو یہ سمجھ کر پڑھیں کہ آپ محض چند رَٹے ہوئے الفاظ نہیں دُہرا رہے ہیں بلکہ اپنے خالق کے حضور کھڑے ہیں اور اس سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح آپ مطالعہ کریں تو وہ متفرق موضوعات کا اور متفرق قسم کا مطالعہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ systematic مطالعہ کریں اور اپنے مقصدحیات کو متعین کر کے مطالعہ کریں۔ ان شاء اللہ آپ یکسوئی کی نعمت حاصل کرلیں گے۔ (ا-م،ایضاً، ص۱۶۰)
اسلامی نظامِ تعلیم میں قرآن مجید کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قرآنِ مجید کو ہرسطح پر لازمی نصاب کے طور پر پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ و طالبات جب تعلیمی مراحل سے فارغ ہوں تو انھیں قرآن کا فہم و شعور اور اس کی بنیادی تعلیمات سے مناسب آگاہی حاصل ہوچکی ہو۔ اسی ضرورت کے تحت زیرنظر کتاب مرتب کی گئی ہے۔
شیخ عرض محمد بنیادی طور پر انجینیر ہیں لیکن دل دردمند رکھتے ہیں۔ انھوں نے قرآن مجید کی تعلیمات پر مبنی اس درسی کتاب کی تیاری کے لیے کم و بیش ۱۸ سال تحقیق کی۔ ڈاکٹر زبیری نے اسے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کی تدریس کا طریق کار بھی سہل اور عام فہم ہے۔ ہررکوع کی تلاوت اور ترجمے کے بعد صرف دو سوالوں کے ذریعے طلبہ و طالبات کو قرآنی تعلیمات کا فہم دیا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے قرآن پاک کے نصاب کی آؤٹ لائن ہے۔ اس میں گریڈ I سے گریڈ III تک کے طلبہ کے لیے اساتذہ اور والدین کو کچھ ہدایات دی گئی ہیں، جب کہ دیگر جماعتوں اور سائنس گریجویٹس کے لیے قرآن پاک کی سورتوں کو نظام الاوقات دے کر تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر رکوع کے آخر میں جائزے اور فیڈبیک کے لیے دو سوالات دیے گئے ہیں۔ مرتب کے خیال میں قرآن فہمی کے لیے طلبہ کو مادری زبان ہی میں تعلیم دینی چاہیے اور بہتر ہے کہ تلاوتِ قرآن کے لیے کیسٹ یا سی ڈی استعمال کی جائے۔ اگر گھروں میں اس کتاب کا ایک تسلسل سے اجتماعی مطالعہ کیا جائے تو قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کا شعور ایک بڑے دائرے میں بآسانی عام کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت ترجیح کے تعین اور سنجیدگی سے اس کے لیے کوشش کرنے کی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
معروف شاعر، ادیب، محقق اور صحیفہ نگار ابوالامتیاز عبدالستار مسلم صاحب کی متعدد تصنیفاتِ منظوم و منثور پر ان صفحات میں تبصرہ کیا جاچکا ہے۔ دو جِلدوں پر مشتمل ان کی زیرنظر نئی تالیف ان کے زرخیز ذہن، غیرمعمولی شعری صلاحیتوں اور ان کے ذخیرۂ شعرونعت کے حیرت انگیز تنوع پر مہرتصدیق ثبت کرتی ہے۔ مسلم صاحب کے چار نعتیہ مجموعوں (زبور نعت، زمزمۂ سلام، زمزمۂ درود، کاروانِ حرم) میں جتنے کچھ شعر موجود ہیں، ان سب کو یا بیش تر کو اسماء النبیؐ کے حوالے سے الف بائی ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔ اسماء النبیؐ میں فقط آں حضوؐر کے معروف ۹۹ ذاتی یا صفاتی نام ہی نہیں بلکہ آپؐ کے لیے مستعمل گوناگوں تراکیب بھی شعروں میں استعمال کی گئی ہیں، جیسے: آرامِ جاں، آسرا ہمارا، پیشواے دوجہاں، صیقلِ فکروشعور، متاعِ دین و ایماں، نورِ بصر وغیرہ۔
پہلی جِلد میں مذکورہ بالا چار مجموعوں سے ۴۵۶۵ شعر منتخب کیے گئے جن میں اسماء النبیؐ کی تعداد ساڑھے تین تا چار ہزار ہے۔ اسماء اور صفات کے علاوہ ’اشعار کی ایک بہت بڑی تعداد میں آپؐ کا ذکر یا آپؐ سے استغاثہ اسماے ضمائر (مثلاً: اس، ان، انھیں، وہ، وہی، تو، تم، تیرا، تمھیں) جیسے الفاظ میں ہوا ہے (جلد اوّل، ص ۱۷)۔ ان کے حوالے سے دوسری جِلد صدفِ ضمائر میں کے عنوان سے مرتب کی گئی ہے۔ قدیم و جدید شاعری میں اور خاص طور پر نعتیہ شاعری میں اسم ضمیر کے استعمال کی بہت عمدہ اور بامعنی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ اس جِلد میں بقول ریاض مجید: ’’مسلم صاحب نے اپنی نعتیہ کتابوں میں سے ان ضمیروں کے محلِ استعمال کے نمونوں کی جمع آوری کی ہے جو مطالعاتِ نعت میں ایک منفرد اور معتبر کام ہے‘‘ (ص ۲۹، جلددوم)۔ اس جِلد میں ۳۷۰۵، اشعار یک جا کیے گئے ہیں۔ ضمائر کی تعداد ۴۵ ہے۔
دونوں جِلدوں پر مصنف کے علاوہ پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم، پروفیسر ریاض مجید، بشیرحسین ناظم اور ڈاکٹر عاصی کرنالی کے دیباچے اور تقاریظ شامل ہیں۔ یہ تحریریں موضوع کی وضاحت بڑی عمدگی سے کرتی ہیں اور ان سب نے ابوالامتیاز صاحب کو ان کی فن کارانہ اور فن شعر میں ان کی استادانہ مہارت پر خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔
مصنف کی سابقہ کتابوں کی طرح یہ دونوں جِلدیں بھی کتابت، طباعت اور ترتیب وتدوین کے لحاظ سے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں، البتہ قیمتیں زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
بڑے، بچوں کے لیے چیزیں تلاش کرتے ہیں اور جب کوئی بہت اچھی چیز مل جاتی ہے تو بچوں کی طرح خوش ہوجاتے ہیں۔ یہی کیفیت تبصرہ نگار کی ہے۔
جھل مل، جگمگ اور رم جھم کچھ ایسی ہی چیزیں ہیں (ایک نہیں، تین تین، یعنی خوشی دوبالا نہیں بلکہ سہ بالا) جن کے لیے خوب صورت کا رسمی لفظ کفایت نہیں کرتا، حسین! نہیں، چندے آفتاب، چندے ماہتاب۔ ہر صفحہ ایک سینری ہے، کیا خوب ہے کہ بس، نظر بددور! دبیز آرٹ پیپر پر خوش نما رنگین طباعت۔ طباعت کی باریکی ملاحظہ کریں کہ پیلا، لال، ہرا، سفید، کاسنی، نارنجی، سرمئی، الفاظ اسی رنگ میں لکھے گئے ہیں، یعنی پیلا پیلے رنگ میں… (ص ۷۸، جھلمل)۔ اسی طرح دھنک لفظ کئی رنگوں میں (ص ۷۶، جھلمل)۔ یہ تو ہوا ظاہر، باطن کی طرف آئیں تو ناعمہ صہیب نے کیا خوب کام کیا ہے کہ بس واہ واہ، اللہ ان کے لیے جنت میں اپنے قریب محل بنائے! اور ڈیزائنر فرحان حنیف، مہ جبیں قرشی اور صبا نقوی کی کتنی تحسین کی جائے کہ انھوں نے ہرصفحے پر زندگی بکھیر دی ہے۔
ان تینوں کتابوں کو محض کہانیوں کی کتابیں کہنا زیادتی ہوگا۔ سب سے اہم بات اور خوشی کا اصل سبب یہ ہے کہ یہ شعوری طور پر مرتب کی گئی تعلیم و تربیت کی کتابیں ہیں جن میں نہایت مہارت سے، دلنشین اسلوب میں، آسان زبان میں مخاطب کی عمر اور معیارِ فہم کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی عقائد، اقدار، اخلاق اور معاشرت کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ پہلی، چھے سے آٹھ سال، دوسری سات سے نوسال اور تیسری ۱۰ سے ۱۲سال تک کے بچے اور بچیوں کے لیے ہے۔
جھلمل میں ۱۱؍ ابواب میں ۳۱، جگمگ میں ۱۲؍ابواب میں ۲۸، اور رم جھم میں ۱۰؍ابواب میں ۲۸ کہانیاں یا سبق ہیں۔ اسماے حسنیٰ کے عنوان سے آٹھ مضامین ہیں لیکن اس طرح کہ’کوئی دیکھ رہا ہے‘ کے عنوان سے ’السمیع البصیر‘ کے تعارف کے لیے حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں دودھ میں پانی ملانے سے انکار کرنے والی بچی کا قصہ ہے جسے حضرت عمرؓ نے اپنی بہو بنایا، جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کی نانی بنیں۔ انبیا کے ۱۲ قصص میں دل چسپ انداز میں کشتی کا سفر، خطرناک آندھی، عجیب اُونٹنی اور بے ایمان تاجر کے عنوان سے حضرت نوحؑ، قومِ عاد،حضرت صالحؑ اور حضرت شعیب ؑ کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ سیرتِ پاکؐ کے واقعات ہر کتاب میں مختلف عنوانات سے آگئے ہیں۔ آخری نبیؐ (ص ۲۹-۴۳، رم جھم) میں زندگی بھر کے مختصر حالات ہیں۔
ان کتابوں میں نظمیں بھی ہیں، حمدو نعت بھی۔ ’یہ گھر وہ گھر‘ (ص۱۲۸-۱۳۳، جگمگ) میں زاہد کے گھر میں سخت بدانتظامی ہے، اور عمار کے گھر میں سلیقہ ہی سلیقہ۔’پھلوں کا مشاعرہ‘ صوفی غلام مصطفی کی پہیلی سے ماخوذ ہے (ص ۷۴-۷۵، جگمگ)۔ علامہ اقبال کی پرندے کی فریاد اور ہمدردی بھی شامل ہیں اور خواجہ عابد نظامی کی ’محنت میں برکت‘۔ (ص ۶۴،۱۰۴،۱۱۵، رم جھم)
آداب کے حوالے سے کھانے کے آداب، سونے کے آداب (جھلمل) نماز کے آداب (جگمگ)، گفتگو کے آداب (رم جھم) تو عنوان کے تحت بیان ہوئے ہیں لیکن آداب تو ہر سبق میں رچے بسے ہیں۔ استاد کے عالی مقام کی خاطر ایک علیحدہ ’استاد کا ادب‘ ہے۔
گھر میں مُنّا ہوا اور امی ہر وقت اس کے کام کرنے لگیں تو ’بڑے‘ بھائی کو امی سے ہمدردی ہوگئی۔ خالہ آئیں تو بتایا کہ امی نے اپنا کیا حال بنا لیا ہے۔ خالہ نے بتایا کہ جب تم تشریف لائے تھے تو تم نے بھی تین ماہ امی کو ایسے ہی تکلیفیں دی تھیں۔ اب انھیں اس طرح آرام پہنچائو اور دس طریقے گنا دیے مثلاً تولیہ پکڑا دو وغیرہ (ص ۱۲۸-۱۳۲، جھلمل)۔ ’عجیب سفر‘ کے عنوان سے اسکول کے گندے واش روم کا استاد اور طالب علموں کے مل جل کر دھونے کا بیان ہے۔ ساتھ ہی آداب کا بھی بیان ہوگیا (ص ۹۰-۹۴، جھلمل)۔ جانوروں کے چوپال (ص ۴۶-۶۱، جھلمل) میں کہانی کہانی میں علمِ حیوانیات کی بنیادی معلومات دے دی گئی ہیں۔ ’سوال ہی سوال‘ میں بنیادی سوال: ’ہماری دنیا کہاں سے آئی‘ کائنات، کہکشاں، نظامِ شمسی، ستارے، سورج، سیارے سب کا ذکر ہے اور مناسب انداز سے قرآنی آیات بھی دی ہیں(ص۳۶، جگمگ)۔ ’خطرہ‘ کے عنوان سے ایک سبق میں ایسی ۱۵ ہدایات دے دی گئی ہیں جو خطرے سے بچائیں مثلاً چھری سے نہ کھیلیں، گرم استری نہ چھوئیں وغیرہ۔ (ص ۱۰۳، جگمگ)
رم جھم دیکھیں تو ابواب کے عنوانات سے ایک اندازہ ہوجاتا ہے۔ ۱-اسماے حسنیٰ ۲-انبیاے کرام ۳- فرائض ۴- حقوق ۵- آداب ۶- اجتماعیت ۷-سائنس کی دنیا ۸- تہذیب و تمدن ۹-ماحولیات ۱۰- اخلاقیات۔ ’ہمیشہ دیر کردیتے ہو‘ (ص ۴۴-۴۷، رم جھم) میں جو بچہ امی کے کہنے کے باوجود بھی آخر وقت میں نماز پڑھتا ہے، خواب میں یوم الحساب میں پکڑے جانے کا پورا نقشہ اور کیفیات کا بیان ہوتا ہے اور بالکل آخری وقت میں بچا لیا جاتا ہے۔ ’شیطی کون تھا‘ میں شیطان کس طرح گمراہ کرتا ہے، اس سے مقابلے کا بیان ہے۔ (ص ۱۰-۱۴، جگمگ)
وطن کا قرض (ص ۵۸-۶۲، رم جھم) میں مشکور حسین یاد کی ’آزادی کے چراغ‘ سے ہمیں پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ عبدالغنی فاروق کی کتاب ہم کیوں مسلمان ہوئے؟ سے وہ واقعہ لیا گیا ہے جس میں ایک برطانوی فوجی افسر مسلمان سپاہی کے رمضان میں دوڑائے جانے کے باوجود پانی نہ پینے سے متاثر ہوکر بالآخر مسلمان ہوجاتا ہے۔ ’عظیم شہر باکمال لوگ‘ (ص ۷۲-۷۶، رم جھم) میں بغداد اور اندلس کے حوالے سے ہارون الرشید کے دارالحکمت اور الزہراوی کا ذکر ہے۔ ’کیسے کیسے لوگ‘ (ص ۷۷-۸۴، رم جھم) میں آئزک، نیوٹن، لوئی پاسچر، تھامس ایڈی سن کی خدمات کا تذکرہ ہے۔کائنات اور سائنس سے متعلق سبق ہارون یحییٰ کے حوالے سے لیے گئے ہیں، مثلاً ’اندھی مخلوق‘ (ص ۷۰، رم جھم) میں دیمک کی کہانی۔ مسعود احمد برکاتی کے سفرنامے ’دومسافر، دو ملک‘ سے بچے لندن اور پیرس کی سیر کر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی اتنا کچھ سیکھتے ہیں کہ بس! (ص ۸۵، رم جھم)
تبصرے میں تفصیل ہوتی جارہی ہے، دل چاہتا ہے کہ قارئین کو مکمل جھلک دکھادی جائے، لیکن شاید یہ ممکن نہیں۔
اگر تعلیم یافتہ والدین ان کتابوں کی ورک بک استعمال کروائیں تو یہ سارے سبق بچے کی شخصیت پر نقش ہوجائیں گے۔ جو اسکول اسے نصاب یا اضافی نصاب کے طور پر پڑھائیں اور ورک بک بھی استعمال کریں، یقینا ان طلبہ کے والدین بچوں کو اچھا شہری، اچھا پاکستانی، اچھا مسلمان بنانے پر، جس کی برکتیں بچے دنیا اور آخرت میں سمیٹیں گے، ان کے احسان مند ہوں گے۔
بڑے بھی طالب علم بن کر پڑھیں تو بہت کچھ سیکھیں گے، یہ ’کہانیاں‘ آپ کو عالم (جاننے والا) قابل اور بااخلاق اچھا مسلمان بناتی ہیں۔
جو بڑے بڑے اسکول یا دسیوں اسکولوں کے نیٹ ورک چلا رہے ہیں، ان کی ذمہ داری بلکہ فرض ہے کہ اپنے زیرتعلیم اس عمر کے بچوں کو ان کتابوں کے فیض سے محروم نہ رکھیں۔
یہ کتابیں نہایت سستی ہیں۔ مارکیٹ کے لحاظ سے ان کی قیمت ۷۰۰، ۷۰۰ روپے بھی ہوتی تو زیادہ نہ ہوتی۔ ۶۵۰ روپے میں بچوں کے لیے تین خوب صورت سواکلو وزنی کتابیں ہرلحاظ سے اچھا تحفہ ہے۔ تحفۂ رمضان بنا لیں یا تحفۂ عید۔ (مسلم سجاد)
علم و فضل اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے لیکن ان لوگوں پر تو یہ نعمت نور بن کر اُترتی ہے جو اس امانت کو رضاے الٰہی کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں، دین اسلام کے داعی بنتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ غلام بن کر زندگی کے لمحات صَرف کرتے ہیں۔ محبی و محترمی ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم (۱۹۵۰ء-۲۰۱۰ء) بھی ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، جنھوں نے سعادت کی راہوں میں عظمت و دانش کے پھول چُنے۔
محمود احمد غازی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر نصف صد مضامین، اور ان کے افادات کا یہ گلدستہ خوش رنگ بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔ دین و دانش اور تفقہ فی الدین کی اس قوسِ قزح میں، زیرنظر مجموعے کا قاری زیربحث قابلِ رشک زندگی سے والہانہ وابستگی محسوس کرتا ہے۔
ان تحریروں میں مرحوم کی حیرت انگیز علمی جاں فشانی، ہر دم جواں غیرتِ ایمانی، سراپا جرأت بیان اور بعض مقامات پر محکم اجتہادی سوچ کا پرتو نظر آتا ہے۔ یہ مختصر تعارفی تحریر نہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے خدوخال کا خاکہ پیش کرسکتی ہے اور نہ الشریعۃ کی اس اشاعتِ خاص کے دامن میں موجود نقوش کا احاطہ کرسکتی ہے۔ یہ مجموعہ تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ (۲۷۰ صفحات) تاثرات، مشاہدات اور شخصی تعلقات کی بنیاد پر معلومات سے آگاہ کرتا ہے۔ دوسرا حصہ ۱۸۰صفحات پر مشتمل ہے، جن میں ۱۰ مضامین کے ذریعے غازی صاحب کے علمی کارنامے کا تعارف پیش کیا گیا ہے، تاہم یہ فکری تعارف تشنگی کا احساس چھوڑتا ہے، جس کے لیے زیادہ محنت سے تحلیل و تجزیے کی ضرورت ہے، اور آخری حصے میں ان کے منتخب افادات شامل ہیں۔ ادارہ الشریعۃ نے صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں کمالِ محنت اور لگن سے یہ اشاعت پیش کرکے ایک قابلِ رشک مثال قائم کی ہے۔ جس پر پرچے کی مجلس ادارت تحسین کی مستحق ہے۔(سلیم منصور خالد)
ایمان و حکمت کے سدابہار پھول دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی مہکار بکھیر رہے ہیں۔ اگرچہ بعض بڑے شہروں کو تہذیب و دانش کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، تاہم مضافاتی قصبوں اور شہروں میں جب یہ پودے برگ و بار لاتے ہیں تو ان کی تاثیر اور تاثر دوچند ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ایسے صدقاتِ جاریہ میں ایک مرکز جھنگ میں خدمتِ قرآن کا کارِعظیم انجام دے رہا ہے، جہاں سے زیرمطالعہ ماہ نامہ شائع ہوتا ہے۔
آج، جب کہ پاکستان کی سرحدوں کو ہدف بنانے کے پہلو بہ پہلو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ کرنے کا مغربی حملہ زوروںپر ہے، تو یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوتا ہے کہ عموماً ہمارے اہلِ دانش اور مقتدر حلقے اس یلغار سے بے خبر یا لاتعلق ہیں۔اس بے حسی کی فضا میں حکمتِ بالغہ کی یہ اشاعت خاص ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔ چھے حصوں پر مشتمل اس اشاعت میں پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے کی تفہیم اور پس منظر کی بخوبی وضاحت کی گئی ہے۔ ازاں بعد دو قومی نظریے کے فروغ، تحریکِ پاکستان میں نظریۂ پاکستان کے خدوخال کی تشریح، پاکستان کی بطور اسلامی ریاست شناخت اور اس حوالے سے بے حس مقتدرہ کے ہاتھوں تعلیمی المیے کے ظہور اور بہتری کی راہوں کی نشان دہی کو موضوعِ بحث بنایاگیا ہے۔ بالفاظِ دیگر دو قومی نظریہ، نظریۂ پاکستان اور نظامِ تعلیم ایک ہی وجود کے تین پہلو ہیں۔ اگر ان تینوں میں سے کسی ایک پہلو کو نظرانداز کردیا جائے تو پاکستان کا مطلوبہ نظامِ تعلیم تشکیل نہیں پاسکتا۔ (س- م - خ)
کسی اسلامی تحقیقاتی ادارے سے مجلے کی اشاعت کا آغاز یقینا ایک اچھی خبر ہے۔ مجلہ ادارے کے مشن کا علَم بردار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ادارے کی اپنی تحقیقاتی کاوشیں اور دوسرے مقالے ششماہی رسالے میں شامل ہونے چاہییں۔ تفسیرالمنار: تحلیل و تجزیہ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا قیمتی ’مقالہ خصوصی‘ (۲۱ صفحات) ہے جس سے عالمِ عرب کی اس عصری تفسیر کا بخوبی تعارف ہوجاتا ہے۔ ہندستان میں عسکری انقلابی تحریک، انگریزوں کے خلاف جدوجہد کا ایک باب سامنے لاتاہے۔ حدیث استخارہ اور استنباط مسائل پر حافظ عنایت اللہ کا مقالہ استخارے کے تمام مباحث اور پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر مقالے بھی معیاری ہیں۔ تعارف و تبصرہ کے تحت چارکتابوں پر تبصرہ ہے۔ انگریزی حصے میں بھی چار مختصر مضمون ہیں جس میں سے ایک میں تشدد و دہشت گردی کے تریاق کے طور پر صوفی ازم پر گفتگو کی گئی ہے۔ امریکا بے ضرر غیرجہادی اسلام کو تصوف کے پردے میں صوفی ازم کے نام سے متعارف کروا رہا ہے۔دوسرے میں قرآن میں داعی کے ہم معنی الفاظ اور ان کے مختلف پہلو زیربحث آئے ہیں۔ اُمید ہے کہ علمی حلقوں میں اس کی پذیرائی کی جائے گی۔ (م- س)
الحافظات ٹرسٹ پاکستان کے زیراہتمام کراچی میں گذشتہ ۱۲ سال سے کام کرنے والے گوشہ عافیت کا یہ نیوزلیٹر اس کی سرگرمیوں کا ایک عکس ہے اور اس کے مقاصد بھی واضح کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین جن مسائل سے دوچار ہوتی ہیں اور پھر جس طرح بے بس و لاچار ہوجاتی ہیں (کہ رشتے دار بھی دشمن بن جاتے ہیں)، اس پس منظر میں اصحابِ خیر کے بنائے ہوئے گوشہ عافیت جیسے ادارے ایک نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ یہ باعزت پناہ گاہ ہزاروں خواتین کے لیے ایک سہارا ہے۔ یہاں نہ صرف ضروریاتِ زندگی فراہم کی جاتی ہیں بلکہ زندگی کا مقصد واضح کیا جاتا ہے اور ہنر سکھا کر خوداعتمادی دی جاتی ہے۔ اب تک ۱۹۰۰ خواتین یہاں آکر جاچکی ہیں۔ بہت سی ورثا کے سپرد ہوئیں، لاوارثوں کی شادیاں بھی کروائی گئیں۔ کئی خواتین کی آپ بیتیاں بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ انڈسٹریل ہوم بھی اس عمارت میں قائم ہے۔ یہ ٹرسٹ کی اپنی عمارت ہے۔
امیرجماعت اسلامی سیدمنور حسن کے مطابق: ’’گوشہ عافیت بے سہارا خواتین و بچوں کو تحفظ، ان کی کفالت اور ان کو فنی تعلیم میں برکت دے کر اپنے پائوں پر کھڑا کرکے معاشرے کا مفید شہری بنانے میں مصروف ہے‘‘۔ (م- س)
’مسلم دنیا میں انقلابی لہر: چند زاویے‘ (جولائی ۲۰۱۱ء) چشم کشا ہے۔ عہدحاضر کی تیزرفتار زندگی کے مسائل سے عہدہ برا ہونے کے لیے ایک متحرک سوچ کی ضرورت ہے اور اہمیت و افادیت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ تحریکِ اسلامی کو درپیش چیلنجوں سے نپٹنے کے لیے جواں سوچ رکھنے والے تھنک ٹینک کی ضرورت ہے جو بزرگوں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے ہر آن بدلتے ہوئے حالات میں نئی راہوں کی نشان دہی کرتا رہے۔
’اسلام اور جدید تجارت و معیشت‘ (جولائی ۲۰۱۱ء) ڈاکٹر محموداحمد غازی مرحوم کی ہمارے عہد کو درپیش علمی چیلنجوں کی نشان دہی پر مبنی فکرانگیز تحریر ہے۔ فی الواقع جدید دور کی زبان و محاورے اور اسلوب میں قرآن و حدیث پیش کرنا اہم چیلنج ہے۔ ایک تصحیح بھی کرلیجیے کہ جامعہ ملّیہ دہلی میں قائم کی گئی تھی نہ کہ علی گڑھ میں۔
’میں نے فطرت کو پالیا‘ (جون ۲۰۱۱ء)اسلام کے دین فطرت ہونے پر کھلی حقیقت ہے۔ نومسلموں کو کچھ ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نومسلموں کے قبولِ اسلام کے واقعات کے مطالعے سے ایمان کو مہمیز اور عمل کے لیے تحریک ملتی ہے، نیز نسلی مسلمانوں کو خود احتسابی کا موقع بھی ملتا ہے۔
’معاشی بحران‘ (جولائی ۲۰۱۱ء) کا ایک حل یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ٹیکس بڑھا دیں اور زیادہ لوگوں کو ٹیکس کے جال میں لائیں۔ لیکن کیا یہ پاکستانی قوم اس لیے ٹیکس دے کہ اس کا صدر نجی اور سرکاری دورے پر ۱۱روز کے لیے برطانیہ جائے تو ہفت ستارہ حیات ریجنسی کے رائل سیوٹ کا ایک دن کا کرایہ ۱۰لاکھ روپے سے زائد دے۔ اس کے ساتھیوں کے لیے ۳۰کمرے ۵۰ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے روز کے حساب سے لیے جائیں۔ درجنوں گاڑیوں کے ایک ایک روز کا کرایہ ۱۰ سے ۱۵ لاکھ روپے تک ادا کیا جائے۔ اپنی صاحب زادی کی گریجویشن تقریب کے لیے صدرصاحب ایڈنبرا گئے تو ہوائی جہاز کے چند گھنٹوں کے ۵۰ لاکھ روپے ادا کیے گئے۔ یہ معلومات پاکستان کے ہائی کمیشن کے ذریعے سے ملی ہیں (ایکسپریس، لاہور، ۲۰جولائی ۲۰۱۱ء)۔ وہ مسلمان حکمران کہاں ہیں جن کا ذکر ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں۔ کیا مملکت خدادادِ پاکستان ان جیسے صاحبانِ اقتدار کے لیے حاصل کی گئی تھی؟
ہم خوش قسمتی سے ایک ایسا نظامِ حیات رکھتے ہیں جو ہمیں اس [طبقاتی کش مکش]خطرے سے بچاسکتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر سے اُن لوگوں کو اُبھاریں جو اسلام کی روح کو پوری طرح سمجھتے ہوں اور طبقاتی تعصبات سے بالاتر ہوکر اسلام کے قوانین کی بے لاگ تعبیر کرسکتے ہوں۔ پھر یہ لوگ بالاتفاق، یا اکثریت کے ساتھ، جوتعبیر ہمارے سامنے پیش کریں اسے ہم سب مان لیں اور ہم میں سے کوئی طبقہ اپنے ہی مطلب کی تعبیر لینے پر اصرار نہ کرے۔ ایسے لوگوں کی پشت پناہی پوری قوم کو بحیثیت مجموعی کرنی چاہیے نہ کہ کسی ایک طبقے یا چند طبقوں کو۔ ہمیں اُن کے انتخاب میں صرف اس معیار کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ بھروسے کے قابل سیرت رکھتے ہوں، اور اسلام کی صحیح تعبیر کرنے کے اہل ہوں....
آپ اقلیت کو محض اس ریاکاری سے مطمئن نہیں کرسکتے کہ دیکھو ہم نے تمھاری خاطر اپنے مذہب تک کو چھوڑ دیا اور ایک غیرمذہبی ریاست بنا لی۔ اقلیت تو یہ دیکھے گی کہ آپ اس کے ساتھ انصاف کرتے ہیں یا نہیں؟ آپ کا برتائو تعصب اور تنگ دلی پر مبنی ہے یا رواداری اور فیاضی پر؟ یہی تجربہ دراصل فیصلہ کرے گا کہ اقلیت کو اِس ریاست میں وفادار بن کر رہنا ہے یا بیزار بن کر....
ایک ملک کا سیاسی نظام اُس کے باشندوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت کا پرتو ہواکرتا ہے۔ اب پاکستان کے باشندے اسلام کی طرف ایک پُرزور میلان رکھتے ہیں اور اُن کے اندر اسلام کے راستے پر آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے تو کیوں نہ اُن کی قومی ریاست اُن کے اِس میلان اور اِس خواہش کا پرتو ہو؟ آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے کہ اگر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے باشندوں میں اسلامی شعور، اسلامی ذہنیت اور اسلامی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھا کہ اس کوشش میں حصہ لینے سے آپ خود ریاست کو کیوں مستثنیٰ رکھنا چاہتے ہیں.... اس وقت چونکہ پاکستان کا آیندہ نظام زیرتشکیل ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہوگئی توریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کرکے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب برپا کرنا بہت زیادہ آسان ہوجائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارامعاشرہ بدلتا جائے گا اُسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔(’پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے‘، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ریڈیو انٹرویو: وجیہ الدین، ترجمان القرآن، جلد۳۶، عدد ۴، شوال ۱۳۷۰ھ، اگست ۱۹۵۱ء، ص۶۴-۷۰)