پاکستان کا قیام اللہ کی مشیت کا ثمرہ اور برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی قائداعظم کی قیادت میں مخلصانہ جدوجہد اور فقید المثال قربانیوں کا عطیہ ہے۔ یہ ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی تمام سازشوں، کاوشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود ان شاء للہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم و دائم رہے گا، لیکن اس امانت کی حفاظت ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے۔ آج ملک کو جو خطرات درپیش ہیں ان کی زد براہ راست اس کے وجود پر ہے جس کی طرف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب نے، کراچی کے حالات پر کراچی میں ہی منعقدہ از خود نوٹس (Suo Motu) سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے، ان درد بھرے الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’آپ کس چیز کی حفاظت کر رہے ہیں___ حکومت یا ریاست؟‘‘
یہ سوال آج پوری پاکستانی قوم کے لیے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے عملی جواب کے لیے ان کو دعوت عمل دے رہا ہے۔ عدالت کے فیصلے کا سب کو انتظار ہے۔ ہمیں امید ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ وہ حکومت سے تحریری ضمانتوں کے سراب کے تعاقب سے اپنے کو بچا کر حکومت اور اس سے بڑھ کر قوم کے لیے اس راہ عمل کی واضح نشان دہی کر سکے جو ہمیں اس دلدل سے نکال سکے۔ نہ صرف یہ کہ راستے کی نشان دہی کرے بلکہ اس پر عمل کو دستور کے تحت لازمی ذمہ داری (imperative)بھی قرار دے، فیصلے پر عمل سے اجتناب یا انحراف پر قانون کی گرفت کو مستحکم کرے، تمام دستوری اداروں کو پابند کرے کہ وہ قومی تاریخ کے اس نازک مرحلے میں ملک کی آزادی اور حکمرانی (governance) دونوں کو تار تار کرنے والی حکومت سے نجات، ریاست کے تحفظ اور اس کے تمام اداروں کو دستور کے نقشے کے مطابق بروے کار لانے کی خدمت انجام دے، تاکہ دستور کے تحفظ کی جو ذمہ داری فرد، دستور اور قوم نے عدلیہ کے سپرد کی ہے اسے پورا کیا جا سکے۔
آج عدالت عظمیٰ کے سامنے فیصلہ کسی حکومت کو بچانے کا نہیں بلکہ ریاست کو بچانے کا ہے۔ دستور کے تحت حکومت کا کام دستور کی روشنی میں اچھی حکمرانی ہے جس کا پیمانہ ملک کی آزادی، سلامتی، خود مختاری، عزت و شناخت کا تحفظ اور ملک کے عوام کو امن و امان، انصاف اور عزت کی زندگی کی فراہمی ہے___ لیکن موجودہ وفاقی حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں اچھی حکمرانی اور صلاحیت کار کے فقدان، بدعنوانی کے طوفان، دستور اور قانون کے احترام اور عوام کے مسائل و مشکلات کے باب میں بے حسی کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے، اس کی روشنی میں اسے مزید مہلت دینا ریاست کی بنیادوں کو پامال کرنے اور ملک کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس حکومت کی کارکردگی پہلے دن ہی سے مخدوش اور ناقابل اطمینان تھی لیکن سال رواں میں خصوصاً گذشتہ دو مہینوں میں اس کی جو کچھ کارکردگی قوم کے سامنے آئی ہے، اس کے بعد تو اس کے سوا کچھ کہنا مشکل ہے کہ اب یہ حکومت پاکستان کی ریاست کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ ان حالات میں ایسی حکومت سے نجات اور دستور کے تحت تبدیلی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ عدالت، پارلیمنٹ اور قوم سب کے سامنے اس وقت اصل سوال یہی ہے کہ ایک ایسی حکومت سے کیسے نجات حاصل کی جائے جو قانونی جواز مکمل طور پر کھو چکی ہے اور جس کے تسلسل سے ملک کی آزادی، سلامتی، عزت، معیشت اور امن وامان، غرض ہر چیز معرض خطر میں ہے۔
ہم یہ الفاظ بڑے گہرے غور، غیر جذباتی فکر، اور بے حد دکھ کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر رقم کر رہے ہیں، اور اس احساس کے ساتھ کر رہے ہیں کہ یہ صرف ہمارے جذبات اور احساسات نہیں بلکہ پاکستان کے ہر با شعور شہری کے دل کی آواز ہیں۔ روز کے اخبارات اور میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں اور تبصرے ایک آئینہ ہیں، جس میں حالات کی صحیح تصویر ہر شخص دیکھ رہا ہے اور خون کے آنسو رو رہا ہے۔ صرف اتمام حجت کے لیے ہم یہاں ان چند حقائق کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں جو ان دنوںبہت ہی کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور جن کے ادراک سے دل و دماغ تہ و بالا ہیں۔
پہلی بات انسانی جان کی ارزانی اور خون ناحق کی فراوانی ہے، جس نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میںلے لیا ہے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ جن کی ذمہ داری جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کا قیام تھا، وہ خود ان کی پامالی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں تشدد کا رجحان روزافزوں ہے، جرائم بڑھ رہے ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، ظلم اور زیادتی کا طوفان امنڈ رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غافل، خاموش اور بے بس ہیں بلکہ ان میں سے کچھ اس ظلم میں شریک اور ساجھی ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے قتل کے کل ۱۸۹ واقعات ہوئے تھے، جن میں سے ۱۶۰ عام شہری تھے، لیکن ۲۰۰۹ء میں ہلاکتوں کی تعداد ااہزار ۷ سو۴ ہوئی، اور ۲۰۱۱ء کے صرف ابتدائی چھے ماہ میں ۴ہزار ۸۲۔ ان ۱۰ سالوںمیں ۳۶ ہزار ۷ سو ۵ افراد اس اجتماعی تشدد کا نشانہ بن گئے۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جو دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔ جنوبی ایشیا کے ایک جائزے کے مطابق پورے جنوب ایشیا میں ۲۰۰۵ء میں اس نوعیت کے قتل کے واقعات میں پاکستان کا حصہ ۱۰ فی صد تھا، جو۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷۹ فی صد ہوگیا ہے۔(ڈان، ۲۶ اگست۲۰۱۱ء)
ایک دوسرے جائزے کی روشنی میں صرف گذشہ تین سال کے دہشت گردی کے واقعات کو لیا جائے تو سر فہرست بلوچستان آتا ہے، جہاں ۱۰۲۴ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ پھر صوبہ خیبر پختون خوا کا نمبر آتا ہے، جہاں یہ تعداد ۱۰۱۸ تھی۔ البتہ اگر تمام جرائم کا جائزہ لیا جائے جن میں عام قتل، اغوا براے تاوان اور (Imported Explosive Device) IED شامل ہیں، تو پنجاب ۱۵ہزار واقعات کے ساتھ سب سے آگے ہے، جب کہ سندھ میں ۹ ہزار ۲۰، خیبر پختون خوا میں ۶ ہزار ۷۶ اور بلوچستان میں ۱۳۵۵ واقعات رونما ہوئے۔ (دی نیشن، ۲۲؍اگست۲۰۱۱ء)۔ ستم یہ ہے کہ تشدد کا رجحان روزمرہ زندگی میںبڑھ رہا ہے۔ خاندان، سکول، کالج، محلہ، دیہات، شہر، غرض ہر جگہ یہ روز افزوں ہے، جو واضح طور پر اخلاقی زوال اور قانون کی حکمرانی کے فقدان کی علامت ہے۔
اس پس منظر میں کراچی کے حالات اور لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو از خود عدالتی کار روائیاں کی ہیں اور اس سلسلے میں جو حالات سامنے آئے ہیں، وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ کراچی میں صرف اس سال میں۱۳۱۰ افراد ہدفی قتل (ٹارگٹ کلنگ) کا نشانہ بنے ہیں۔ کراچی میں: ۱۲؍ربیع الاول، ۱۲ ؍مئی ۲۰۰۷، ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۷، ۷ اپریل ۲۰۰۸، سانحہ عاشورہ و چہلم، سانحہ بولٹن مارکیٹ کے خونیں واقعات ہماری تاریخ کے روح فرسا نشان بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں اور جو عدالت کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں ۲۰۰۱ء میں ٹارگٹ کلنگ کے ۲۷۳ خونیں واقعات ہوئے، جو ۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۷۷۸ ہو گئے، اور ۲۰۱۱ء کے صرف پہلے آٹھ مہینوں میں یہ تعداد ۱۴۰۰ ہو گئی ہے۔ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کہنے پر مجبور ہوئے کہ میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیوں کہ پولیس میں ۳۰سے ۴۰ فی صد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں اور میں پولیس افسران (ڈی آئی جی اور دیگر ) کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کر سکتا۔
آئی جی نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ کراچی جو ملک کا اہم شہر ہے اس کے حالات وزیرستان سے بھی خراب ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب بار بار پوچھتے رہے کہ مجرموں کے خلاف کار روائی کیوں نہیں ہوتی؟ انھیں چارج شیٹ تک نہیں کیا جاتا اور گرفتار کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر شہادتیں ہی مفقود ہوتی ہیں۔ وزیر داخلہ اعلان کرتے ہیں کہ مجرموں کی فہرستیں ان کے پاس ہیں لیکن کسی کے خلاف اقدام نہیں کیا جاتا۔ جواب میں اٹارنی جنرل انوارالحق صاحب عدالت کے سامنے یہ کہنے پر مجبور ہیں:
Police has not taken action against terrorists
پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
۱۹ وکیل قتل کر دیے جاتے ہیں، پولیس اور فوج کے ۹۲ افسروں کو (جنھوں نے ماضی میں قاتلوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا) بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے مگرکوئی گرفت نہیں ہوتی۔ ٹارگٹ کلرز کے اقبالی بیان ریکارڈ پر ہیں۔ انوسٹی گیشن رپورٹیں جن کی تیاری میں پاکستان کی تمام قومی خفیہ ایجنسیوں نے شرکت کی ہے، ناموں کے تعین کے ساتھ مجرموں کی نشان دہی کرتی ہیں مگر مجرمین پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔
عدالت کے سامنے کئی اقبالی بیان لائے گئے ہیں، جن میں سے ایک اجمل پہاڑی کا ہے اور جس نے ۱۱۰ سے زیادہ قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ نام لے کر ایسی ایسی تفصیلات بھی بیان کی ہیں جن میں کراچی کی غالب لسانی پارٹی کی مرکزی قیادت کا واضح کردار موجود ہے۔ بھارتی حکومت اور ایجنسیوں کی معاونت کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔ بیرونی ممالک اور ٹھکانوں کی نشان دہی ہے لیکن حکومتِ وقت، جنرل پرویزمشرف کے دور میں اور اس کے بعد زرداری، گیلانی اور رحمن ملک کے دور میں بھی ان کے خلاف نہ صرف کوئی کار روائی نہیںکرتی، بلکہ ان عناصرکی پشت پناہی کرتی اور انھیں شریک اقتدار کرتی اور ’مفاہمت‘ کے نام پر ان کے جرائم کی (بشمول بھتاخوری، قتل و غارت گری، زمینوں پر قبضے، اذیت خانوں کے قیام اور جیلوں میں مجرموں کی سرپرستی) کی پردہ پوشی کرتی ہے۔
کراچی ہی نہیںپورے ملک میں غیر قانونی اسلحے کی بھر مار کی بات کی جاتی ہے لیکن شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کی کسی باضابطہ و موثر مہم کا کہیں دور دور تک پتا نہیں۔ پھر ناجائز اسلحہ تو ہے ہی ناجائر، خوں ریزی اور دہشت گردی میں لائسنس یافتہ اسلحے کا کردار بھی کم نہیں۔ لائسنس یافتہ اسلحے کو بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ پرویز مشرف اور زرداری حکومتوں کے زمانے میں چند خاص سیاسی جماعتوں اور مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے اسلحہ لائسنسوںکا ایسا پھیلائو ہوا ہے جس کا پہلے کوئی تصور نہیں تھا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزانے اپنے تین سالہ دور میں ۳ لاکھ اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کو خود تسلیم کیا ہے اور پولیس میں ۱۰ ہزار کی بھرتی کی بات کی ہے۔ سندھ کے آئی جی نے عدالت کے سامنے کہا کہ قیام پاکستان سے ۲۰۰۱ء تک کے ۵۳ سالوں میںپورے سندھ میں صرف ۵۰ ہزار لائسنس جاری کیے گئے، جب کہ گذشتہ ۱۰ سال میں، یعنی مشرف ، مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم (۲۰۰۲ء- ۲۰۰۸ء) کے دور میں اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی (۲۰۰۸ء -۲۰۱۱ء) کے دور میں ساڑھے پانچ لاکھ لائسنس جاری کیے گئے (ان میں ممنوعہ بور کا اسلحہ بھی شامل ہے)۔ پیپلز پارٹی نے ’جیالا‘ کلچر روشناس کروایا ، الذوالفقار نامی تنظیم نے دہشت گردی کا بازار گرم کیا۔ لیاری کی نام نہاد امن کمیٹی پی پی پی ہی کی بازوے شمشیر زن تھی اور یہ اس کی واحد شمشیر نہ تھی۔ رہی ایم کیو ایم، تو اس نے تو اپنی پوری سیاست کی بنیاد ہی بھتا خوری، دہشت گردی اور تشدد پر رکھی۔ ۱۹۸۹ء ہی میں جناب الطاف حسین نے برملا اعلان کیا کہ ٹیلی ویژن بیچ کر اسلحہ خرید لو۔ ان کی سیاست کا محور اور قوت کا راز ہی جدید ترین اسلحے سے مسلح ان کا عسکری ونگ رہا ہے اور ان کا ماٹو (’’قائد کا جو غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے‘‘ )ان کے سیاسی کلچر کا ترجمان ہے۔کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں کے لوگ اس کا تجربہ رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر بھی اس کا پورا ادراک پایا جاتا ہے۔ گو، اپنے اپنے سیاسی مصالح یا کمزوریوں کی وجہ سے ہر کسی نے یا اس سے اغماض برتا ہے یا ان کو شریک کار بنا لیا ہے۔ کینیڈا کی ریاست کیوبک میں ایم کیو ایم کو پاکستان میں اس کے دہشت گردی کے کردار کی بنیاد پر’ایک دہشت گردی تنظیم‘ قرار دیا گیا ہے۔ صوبے اور ملک کی ہائی کورٹ دونوں ہی نے یہ فیصلہ کرکے ان کے افراد کو امیگریشن کے قوانین کے تحت ملک بدر کیا ہے۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیانات، خواہ آدھا سچ ہی پیش کرتے ہوں، ایسے تکلیف دہ، ہولناک اور شرمناک جرائم کی متعین انداز میں نشان دہی کرتے ہیں، جن پر بر وقت گرفت نہ کرنے کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ قانون اور شرافت کی دھجیاں بکھیرنے والے یہ تمام عناصر جو سیاست میں بھی بڑے معتبر رہے ہیں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں ان کا چہرہ صاف نظر آ رہا ہے۔ پھران کی پشت پناہی کرنے والوں، ان کو شریک اقتدار کرنے والوں، اور ان جرائم کا علم اور پورا ریکارڈ اپنے پاس رکھنے کے باوجود اور اقتدار کی قوت حاصل ہونے کے علیٰ الرغم ان پر کار روائی نہ کرنے والوں کا چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اوراس تصویر کی مدد سے ان تمام اسباب اور عوامل کا ادراک بھی ہو جاتا ہے جو ان حالات کا باعث ہوئے۔ آج بڑے بڑے سیاسی کھلاڑی ایک دوسرے کے چہروں پر خون کے دھبوں کی نشان دہی کررہے ہیں، لیکن اپنی معاونت اور ذمہ داری کے باب میں خاموش ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسرعنایت علی خاں کا شعر اس صورت حال پر کتنا صادق آتا ہے کہ ؎
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مجرم اور مجرم کو پناہ دینے والے دونوں برابر کے مجرم اور ان حالات کے ذمہ دار ہیں اور اگر ان تمام حقائق کے سامنے آنے کے بعد بھی مفاہمت اور منافقت کا کاروبار گرم رہتا ہے، عدالت بھی انصاف اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجاے وعظ اور تحریری ضمانتوں کا خود کش راستہ اختیار کرتی ہے، تو پھر ہمیں ڈر ہے کہ انقلاب کے نام پر انتشاراور انتقام کو روکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کا سامان ہو سکتا ہے جس سے ہم اللہ ہی کی پناہ مانگتے ہیں۔
عدالت عالیہ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں، اور عدالت کے باہر ڈاکٹر ذولفقار مرزا اور دوسرے افراد نے پورے تعین کے ساتھ اور افراد کی نشان دہی کرتے ہوئے جو حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں، وہ ایک آئینہ ہیں جن میں ملک کے حالات اور خصوصیت سے ارباب اختیار کے کردار، سیاسی جماعتوں کے رول اور حکومت، پولیس، رینجر اور اپنے اپنے زمانے کی فوجی قیادت کے کردار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اب یہ لاوا پھٹ رہا ہے اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتی،اگر حکومت دستور، قانون، اخلاق اور شرافت کی اقدار کو اسی بے دردی کے ساتھ پامال کرتی ہے،مجرموں کی نہ صرف پشت پناہی کی جا تی ہے، بلکہ انھیں سرکاری عہدوں پر بحال رکھ کر کھل کھیلنے کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے،تو پھر یا عوامی انقلاب کے ذریعے حالات بدلیں گے، یا پھر پورا معاشرہ اللہ کی گرفت میں آئے گا بشمول ان کے۔ ایسی صورت حال میں وہ لوگ جو خواہ ان جرائم میں شریک نہ ہوں اور عدل و انصاف کے نظام کے قیام کی جدوجہد ہی کرتے ہوں،مگر حقِ نصیحت ادا کرنے میں کوتاہی کے سبب وہ بھی اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم سب اصلاح احوال کا راستہ اختیار کریں اور تباہی سے بچنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔
جس طرح ایک آئینے میں ہم ملک میں بدامنی، دہشت گردی اور ظلم و زیادتی کے حالات اور خصوصیت سے سپریم کورٹ کی از خود سماعت (سوموٹو) کار روائیوں میں سامنے آنے والے واقعات دیکھ رہے ہیں، اسی طرح دوسرے آئینے میں وہ انکشافات ہیں جو وکی لیکس کے ذریعے پاکستان کی قیادت، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں، فوجی ذمہ داروں اور خود میڈیا کے افراد کی امریکی سفارت کاروں سے بات چیت، عرض داشتوں، خوشامدوں اور سفارشات اور معاملہ بندی کا مرقع ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام دستاویزات کا معروضی انداز میں مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے۔ تلخ حقائق کے اس دروبست کو سمجھا جائے جو سفارت کاری کے نام پر ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ہم پر مسلط ہے۔ اخبارات میں جو حصے شائع ہوئے ہیں ان سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ بڑی مکروہ ہے۔ ایک طرف استعمار کی وہ نئی شکل امریکا کی سلطنت (hubris)کی صورت میں سامنے آئی ہے جو ہم پر اور باقی مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک پر تھوپی گئی ہے اور جسے بڑی خوش اسلوبی سے جمہوریت، لبرلزم، موڈرنزم، دوستی اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر شپ کا لبادہ اڑھا یا گیا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو ہمارے اپنے حکمرانوں اور ارباب اختیار کی وہ سوچ، ان کے اصل عزائم اور ان کا وہ کردار ہے جو بظاہر نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی تمام ہی سیاسی اور کچھ مذہبی جماعتوں کی جو تصویران مراسلات میں ابھرتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ الفاظ، انداز تکلم اور التفات کی شکلوں میں اختلاف ہے لیکن مدعا سب کا ایک ہی نظر آتا ہے___ امریکا ہی ان سب کا اصل مولا اور کرتا دھرتا ہے۔اسی کی نظر التفات ہر ایک کو مطلوب ہے۔ اسی کے ایجنڈے کو ہر ایک آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ اسی کی مدد سے اقتدار میں آنے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کا ہر کوئی متمنی ہے۔ جناب عنایت علی خاں نے ان حضرات کی اسی کیفیت کو اپنی ’گلوبل حمد‘ ،’یا حافظ امریکا، یا ناصر امریکا‘میں بیان کیا ہے، چند اشعار ملاحظہ کریں:
جو تیری طلب ہو گی ہم اس سے سوا دیں گے
اک تیرے اشارے پر ہم جان لڑا دیں گے
پیاروں کو کٹا دیں گے، خوابوں کو سلا دیں گے
خود اپنے نشیمن کو ہم آگ لگا دیں گے
پھر آگ کے شعلوں کو ڈالر کی ہوا دیں گے
مقتل میں تہہ خنجر جینے کی دعا دیں
یوں شانِ وفاداری دنیا کو دکھا دیں گے
ہمارے اپنے ملک کی آزادی اور قوم کا وقار اور عزت، ہمارے اپنے ملّی اور ملکی مفادات اور ترجیحات اور ہمارے ایمانی تقاضے، تہذیبی اور تمدنی روایات اور عوامی امنگیں اور ضروریات یہ سب کچھ ان کے لیے یا غیر متعلق ہے یا صرف جزوی طور پر قابل لحاظ___ اصل فیصلہ کن بات وہ ہے جو امریکا چاہتا ہے اور جس کی خاطر ہم اپنے تمام معاملات کو چلانے اور طے کرنے میں عافیت دیکھتے ہیں۔ بات سخت ہے لیکن اگر الفاظ کو، یعنی معنی کواصل اہمیت دی جائے تو ان مراسلوں سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری مقتدر قیادتوں کی بدعملی اور قومی مفادات سے بے وفائی کے سبب ہماری آزادی ایک سراب بن کر رہ گئی ہے۔ان حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر ہماری ہر چیز کا سودا کر لیا ہے یا کرنے کو تیار ہیں، اور اس سے بھی یہ کوئی سبق سیکھنے سے عاری ہیں کہ عالمی طاقتیں اپنی مطلب براری کے لیے دوسروں کو کس طرح استعمال کرتی ہیں اور اپنا مطلب نکال کر کس طرح دودھ میں سے بال کی طرح نکال پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کو خوش کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو دھوکا دینا ان حکمرانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل اور روزمرہ کا مشغلہ ہے، اور ان کی ساری کاوش امریکا کی نظرِ کرم کو حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہے___الا ماشاء اللہ! بحیثیت مجموعی ان حکمرانوں کے لیے اصل چیز ان کا اپنا مفاد، ان کا اقتدار، اس چند سال کی زندگی کے لیے سہولتوں کا حصول اور پھر اپنے خاندان اور اپنی آل اولاد کے لیے ان کا تسلسل ہے۔
وکی لیکس عالم سیاست میں ہوش ربا داستانوں کی ایک الف لیلیٰ ہے۔ پاکستان اور مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ارباب بست و کشاد کی جو تصویر وکی لیکس کے ذریعے ہمارے سامنے آتی ہے ہم قارئین کی توجہ اس کی طرف مبذول کرانا اور بتانا چاہتے ہیں کہ اس کا کیا تعلق ہمارے حالات سے ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ حالات میں جو بگاڑ ہر قدم پر نظر آ رہا ہے اس کا سبب ہمارے اپنے ارباب اختیار کے عزائم، کردار اور ترجیحات ہیں۔ بیرونی قوتوں کا عمل دخل ہمارے معاملات میں ہرہر سطح تک اور ہر ہر انداز میں پہنچ گیا ہے، اور کوئی شعبہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔ بیرونی قوتیں تو وہی کردار ادا کر رہی ہیں جو ان کے مفاد میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کیا کردار کر رہے ہیں؟ اور ہم نے ان کو یہ سب کچھ کرنے کا موقع کیوں دے رکھا ہے؟ بظاہر دستور بھی ہے اور دستوری ادارے بھی، میڈیا بھی آزاد ہے اور اس کا کردار بھی بڑھ رہا ہے، لیکن ان تمام ذرائع کو دوسرے کس طرح استعمال کر رہے ہیں اور ہم کس طرح استعمال ہو رہے ہیں؟ بیرونی سازشوں کا نوحہ بہت ہوچکا، اب جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تباہی اور بربادی کی اس افتاد میں ہمارا اپنا کردار بھی ہے___ اور جب تک ہم اپنے گھر کو درست کرنے اور زمام کار ان ہاتھوں سے چھین لینے کی فکر نہیںکرتے جو ہمارے اور ہمارے دین و ملت کے حقیقی وفادار نہیں، اس وقت تک ہم نہ اپنے گھر کو درست کر سکیں گے، نہ اپنے وسائل کو اپنے لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ کر سکیں گے۔ اورنہ دنیا میں اپنا اصل مقام ہی حاصل کر سکیں گے۔
آئینے میں جو تصویر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے جانے والے حقائق سے ابھرتی ہے، ایک دوسرے انداز میں وہی تصویر وکی لیکس کے آئینے میں بھی نظر آتی ہے___اور اس کا تقاضا بھی وہی ہے، جو پہلی تصویر سے سامنے آ رہا ہے۔
ایک اور آئینہ وہ ہے جو بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاری اور بحیثیت مجموعی معیشت کی زبوں حالی کا عکاس ہے۔ ایک طرف دولت کی ریل پیل ہے اور دوسری طرف غربت اور فقر و فاقہ اپنی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ آبادی کا پانچواں حصہ سارے وسائل پر قابض ہے اور ۸۰ فی صد آبادی محرومیوں کا شکا رہے۔ اگر بین الاقوامی اشاریے کی روشنی میں دو ڈالر یومیہ آمدنی (۱۷۰ روپے) کو کم سے کم ضرورت سمجھا جائے تو ۷۵ فی صدی آبادی اس خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اگر یہ افراد کسی طرح جسم اور روح کے رشتے کو باقی رکھ بھی لیتے ہیں تو بھی یہ تعلیم، صحت اور ترقی کے مواقع سے محروم رہتے ہیں۔ پھر ملک کا معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر ہے، جو بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کو بچانے اور مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تمام ہی ادارے بحران کا شکار اور قرضوں کے گرداب میں گرفتار ہیں۔ صرف ان کو زندہ رکھنے کے لیے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر۴ سو ارب روپے سالانہ ان کو دیے جا رہے ہیں اور خسارہ ہے کہ ہر سال بڑھ رہا ہے اور بڑے بڑے ادارے دم توڑتے اور سہولتیں ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ سڑکیں اور پل برے حال میں ہیں، بجلی، گیس او رپانی کی فراہمی روبہ زوال ہے، پی آئی اے ، اسٹیل مل اور ریلوے جان بلب ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے، ہسپتال اور دوسرے طبی سہولتوں کے مراکز زبوں حالی کا شکار ہیں۔ روزگار کے مواقع مفقود ہیں۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ ملک پر قرضوں کا جتنا بوجھ ملک کے قیام سے ۲۰۰۷ء تک کے ۶۰ سالوں میں تھا، بعدکے صرف چار سالوں میں اس سے کچھ زیادہ ہم پر لاد دیا گیا ہے۔
اس پر مستزاد اشیاے ضرورت کی قلت، ان کی ناقص کوالٹی اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ ان چار سالوں میں افراط زر (مہنگائی) ۱۲ اور ۱۴ فی صد رہی ہے۔ اور اشیاے خوردو نوش میں مہنگائی کی شرح عام اشاریے سے زیادہ رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے اشیاے خوردو نوش میں ان چار سالوں میں ۸۰ سے ۱۰۰ فی صد اضافہ ہو گیا۔ مزید برآں آفات سماوی ہیں جن کا تازیانہ برابر پڑ رہا ہے اور ہماری آنکھیں ہیں کہ کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ ۲۰۰۵ء کا زلزلہ، ۲۰۱۰ء کا سیلاب اور اب ۲۰۱۱ء کی بارشیں اور سیلاب___لاکھوں انسان گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں، کھڑی فصلیں بہ گئی ہیں، مکانات منہدم ہو گئے ہیں، مال مویشی لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ اور تمام تنبیہات کے باوجود نہ خطرات کے مقابلے کے لیے مناسب پیش بندی کی گئی اور نہ افتاد زدہ علاقوں اور افراد کی مدد اور اعانت کے لیے معقول انتظام کیا گیا۔ غضب ہے کہ گذشتہ سال کے سیلاب کے موقعے پر جو رقم ملک اور ملک کے باہر سے امداد کی مد میں آئی تھی، اسے بھی مستحقین پر خرچ نہیں کیا گیا ہے۔ غفلت اور بد عنوانی دونوں نے تباہی کو اور بھی سوا کر دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی بے لگام ہے اور سیاسی قیادت بے حس ہے۔
سیلاب زدگان کی مدد کے سلسلے میں پبلک اور دینی اور نجی دائرے کے خدمت خلق کے اداروں کی طرف سے متاثرین کی مدد کے لیے بڑا قابل تحسین کام ہوا ہے۔ یہ جہاں خیر کی علامت ہے، وہیں حکومتی اداروں کی غفلت اور بدعنوانی پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔ صدر مملکت فوٹو سیشن کے لیے تو خاصے چاق و چوبند تھے لیکن اس کے فوراً بعدپھر اسی طرح بیرونی دوروں پر روانہ ہوئے جیسے ۲۰۱۰ء کے سیلاب کے موقع پر ہوئے تھے___ان کی ترجیحات میں عوام کے مسائل اور مصائب کا مقام دور دور نظر نہیں آتا۔
جس کام کو قومی ترجیحات میں اولین مقام حاصل ہونا چاہیے، اس کے بارے میں اتنی غفلت اوربے توجہی ایک بنیادی مرض کی علامت ہے۔ اس کا علاج بھی وہی فکر و نظر کی تبدیلی اور انقلابِ قیادت ہے۔
ان تمام حالات کا تقاضا تھا کہ سب سے پہلے اللہ سے رشتے کو مضبوط کرنے اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی منزل کے تعین اور ترجیحات کی ترتیب نو کی فکر کی جاتی۔ اللہ سے عہد کی تجدید ہوتی اور قوم کے وسائل کو امانت اور حکمت کے ساتھ قوم کے مستحقین کی ضرورتوں کو پورا کرنے، امن و امان کے قیام اور انصاف کے ساتھ سب کے حقوق کی ادایگی کے لیے استعمال کیا جاتا۔ پاکستان وسائل کے باب میں غریب اور محروم ملک نہیں۔ اصل چیلنج وسائل کی ترقی اور صحیح استعمال کا ہے اور یہیں ہم بار بار ٹھوکریںکھا رہے ہیں۔ اصل وجہ اخلاص کی کمی، منزل کا عدم شعور، رب کی بندگی، اور محنت، تعاون، خدمت اور مشارکت کے اسلامی اصولوں کی عدم پاسداری ہے۔
بات اب صرف اس نصب العین، ہدف اور حکمت عملی سے گریز ہی تک محدود نہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے منتخب کیا ہے اور جسے اصولی اور اجمالی طور پر دستور پاکستان میں رقم کر دیا گیا ہے۔ نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کھلے بندوں اس مقصد اور منزل ہی سے دستبرداری کے دعوے اور انحراف کی راہوں کی استواری کا سامان کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی اسلامی بنیاد کو مسمار کرنے کے لیے بیرونی دشمن تو پہلے دن ہی سے مصروف تھے، لیکن اب ایک منظم سازش کے ذریعے اس تصور ہی پر تیشہ چلایا جا رہا ہے جو اقبال اور قائداعظم نے دیا تھا اورجس کی بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں نے آزادی کی جدوجہد میں جان و مال کی بازی لگائی تھی۔
ایک صاحب لندن میں بیٹھ کر اور ملکۂ برطانیہ سے وفاداری کا عہد لے کر قوم کو بتا رہے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الا اللہ محض ایک واہمہ اور بعد کی اختراع ہے۔ اور یہ وہ صاحب ہیں جنھوں نے بھارت کی سرزمین پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا قیام ہی ایک غلطی تھی اور اگر وہ اس وقت ہوتے تو پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے۔ایک اور بزرگ پاکستان بھارت دوستی کے راگ کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ انھیںپاکستان اور بھارت اور مسلمان اور ہندو کلچر میںکوئی فرق ہی نظر نہیں آتا، اور وہ اس قوم کے ساتھ آلو گوشت کھانے کی بات کرتے ہیں جو گوشت کو ہاتھ لگانے سے نجس ہونے کا عقیدہ رکھتی ہے اور جس نے اپنے سماج کی بنیاد ہی ’ہندو پانی‘ ’مسلمان پانی‘ کے دو جداگانہ دھاروں پر رکھی ہے۔ اس وقت پاکستان کو اس کی نظریاتی شناخت سے محروم کرنے اور اسے ایک بے لنگر کے جہاز میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔ خاص طور پر انگریزی پریس میں تو پاکستان کے تصور کے خلاف صلیبی جنگ کی سی فضا پائی جاتی ہے، اوراب اردو پریس میں بھی اس کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی قوم اور اس کی نئی نسل کو اس کی تاریخ سے کاٹنے اور بے بہرہ رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے، اور استعماری اہداف کو پورا کرنے کے لیے ایک نئی تاریخ وضع کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ قائداعظم نے جس بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں کو ایک آزادمسلم ریاست کے قیام کے لیے بیدار اور متحرک کیا تھا وہ اسلام کے سوا کچھ نہ تھی۔ قائداعظم نے ۱۹۴۴ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے ___نہ وطن ہے او رنہ نسل۔‘‘ان کا ارشاد تھا کہ:
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیںکیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
قائد اعظم نے پنجاب مسلم فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے مارچ ۱۹۴۵ء میں فرمایا تھا کہ ’’اسلام ہمارا رہنما اور ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔‘‘قیام پاکستان کے بعد ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اسی شہر لاہور (پنجاب یونی ورسٹی گرائونڈ) میں یہ ایمان افروز اعلان فرمایا تھا:
ہر شخص کو میرا پیغام پہنچا دیجیے کہ وہ عہد کرے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہے۔
یہ ہے پاکستان کی اصل تقدیر___اور یہی وہ تقدیر ہے جو قوم میں یکسوئی اور یک رنگی پیدا کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں انصاف اور خوش حالی پر مبنی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے اور دنیا اور آخرت میں مسلمان کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔
جس انقلاب کی پاکستان کو ضرورت ہے، وہ یہ ہے___ اور جس قیادت نے اس وقت پاکستان پر قبضہ کر رکھا ہے وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ وسلم کی وفادار ہے اور نہ اقبال اور قائداعظم کے تصور پاکستان سے اسے کوئی نسبت ہے (اگر وہ نبی کریمؐ سے وفاداری کا دعویٰ کرے بھی تو اس کا عمل اس دعوے کی نفی کر رہا ہے)۔ اس کا اصل چہرہ وہ ہے جو اوپر کے آئینوں میں نظر آ رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان چہروں کو بدل دیا جائے جو پاکستان کو اس کی اسلامی منزل سے کاٹ کر استعماری قوتوں کی چاکری کے لیے، اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو اس گروہ کے چنگل سے نکالنے اور اسے اُمت کے اصل مقصد او رمنزل کے لیے وقف کرنے کی جدوجہد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اس وجہ سے اور بھی بڑھ گئی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو غیروں کی نگاہ میں معتبر بنانے اور ان کے سہارے اپنی قوم پر اپنے تسلط کو باقی رکھنے کے لیے پاکستان کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آگ میں دھکیل دیا تھا جس کی تباہ کن قیمت ہم اب تک ادا کر رہے ہیں۔ اب اس صورت حال سے جلد از جلد نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ایک عظیم جھوٹ پر مبنی تھی اور اس کے نتیجے میں دنیا ظلم اور طغیان سے بھر گئی ہے، دہشت گردی میں چند دو چند اضافہ ہو گیا ہے، لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں، اور امریکا سمیت دنیا کی معیشت کو کھربوں ڈالر کے نقصانات اٹھا چکی ہے مگر افسوس کہ اس تباہی کے رکنے کا کوئی سامان نظر نہیں آ رہا ہے۔
امریکا یہ جنگ افغانستان میں ہار چکا ہے اور کابل میں خود اپنے اور ناٹو کے مراکز کی حفاظت کے لیے جو حصار اندر حصار اس نے تعمیر کیے تھے وہ درہم برہم ہو چکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے اس کے لیے اس جنگ کو جاری رکھنا مشکل تر ہو رہا ہے اور اس سال راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں امریکی عوام کی اکثریت نے پہلی بار اسے ایک ناکام جنگ قرار دیا ہے اور اس سے نکلنے کا مطالبہ اب تیزی سے اکثریت کا مطالبہ بنتا جا رہا ہے۔
امریکا اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ سیاسی اور معاشی دبائو کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اورپاکستان کو اپنے بچے کچھے دوستوں سے بھی محروم کر رہاہے۔ اس کی کوشش ہے کہ شمالی وزیرستان میں جنگ کی آگ بھڑکا کر ہمیں اس میں جھونک دے۔ اس کے لیے امریکا نے اپنی 3-B مہم (Bully Bribe & Blackmail)یعنی دھونس ، رشوت اور ناجائز دبائو تیزتر کر دی ہے۔ امریکا کی قومی اور سیاسی قیادت نے پاکستان پر دبائو میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔اس امریکی دبائو سے ہماری سیاسی قیادت کے بازو ڈگمگانے لگے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتے میں جس طرح امریکی وزیر دفاع، وزیر خارجہ، چیف آف اسٹاف اور امریکی صدر نے پاکستان کا گھیرائو کیا ہے، وہ امریکا کے جارحانہ عزائم کو واشگاف کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ دبائو ابھی اور بڑھے گا اور بھارت بھی اس میں اپنا کردار بڑھائے گا۔ یہ وقت امریکا کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا وقت ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قوم موجودہ امریکا نواز اور امریکیوں کی اسیر قیادت سے نجات پائے اور عوامی قوت سے ایک ایسی قیادت بروے کار لائے جو قیام و حصول پاکستان کے اصل مقاصد کی علم بردار ہو، جو دیانت اور اہلیت کے جوہر سے مالا مال ہو، جس کے دامن پر کرپشن اور امریکا پرستی کا داغ نہ ہو، جو بھارت سے برابری کی بنیاد پر دوستی اور باعزت تعلقات کی تو خواہاں ہو لیکن بھارت کے اس کھیل کا حصہ نہ بنے،جو وہ علاقے میں کھیل رہا ہے اور چین کے خلاف حصار بنانے میں مصروف ہے، کشمیر پرغاصبانہ قبضہ جاری رکھنے پر مصر ہے اور پاکستان کو پانی سے محروم کرکے ایک بنجر اور بھارت پر انحصار کرنے والا ملک بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
امریکا کا دوغلا پن تو اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ وہ خود تو طالبان سے مذکرات کرنے میں مشغول ہے اور کابل حکومت سے ان کے اشتراک اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہے، اور ہمیں ان سے لڑانے پر مصر ہے۔ ہم پر الزام ہے کہ حقانی نیٹ ورک شمالی وزیرستان سے کارروائیاں کر رہا ہے، جب کہ حقانی نیٹ ورک کے قائد کا دعویٰ ہے کہ ہم افغانستان میں ہیں اور وہیں سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شکایت ہے کہ شمالی وزیرستان سے افغانستان میں لوگ کیوں داخل ہوتے ہیں لیکن اس سوال کا کوئی جواب امریکا کے پاس نہیں کہ امریکا اور ناٹو کے ڈیڑھ لاکھ فوجی اورافغانستان کی نیشنل آرمی کے ۲ لاکھ جوان ان چند مجاہدین کا راستہ روکنے میں کیوں ناکام ہیں؟ وہ افغان سرحد سے کئی سو کلومیٹر دور کابل کے قلب میں ان مقامات پر کار روائیاں کر رہے ہیں جن کے گرد تین تین آہنی سکیورٹی حصار قائم کرنے کے دعوے کئی ماہ سے کیے جا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ صرف اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرانے اور پاکستان کی قیادت اور فوج کو بلیک میل کرنے کے لیے یہ دبائو ڈالا جا رہا ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اب اس جنگ سے نکلنے کا اعلان کرکے اپنے دفاع کی مناسب اور موثر حکمت عملی بنائی جائے۔ پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس حکمت عملی کی پشت پر ہو۔ امریکا سے you do more کہنا بے معنی ہے۔ ۱؎ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا کو بتا دیا جائے کہ پاکستان نے جو کچھ کیا اور امریکا نے اس کا جو بدلہ دیا ہے اس کے بعد ہمارا صرف ایک ہدف ہے اور وہ یہ کہ امریکا کی مسلط کردہ پالیسی سے خلاصی اور چھٹکارا۔ do more کا صحیح جواب no more ہے اور اس کے لیے پوری قوم کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اس پالیسی کے اختیار کرتے ہی حالات بدلنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان کو دہشت گردی کی جس آگ میں جھونک دیا گیا ہے وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑ جائے گی۔
جو جنگ ہم نے خود امریکا کے دبائو میں اپنے اوپر مسلط کر لی ہے، اس سے جلد نجات مل جائے گی۔ پارلیمنٹ نے ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی اپنی قرار داد میں واضح کیا تھا کہ مسئلہ سیاسی ہے اوراس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے، فوجی حل ممکن نہیں۔ اس لیے 3-D ) Dialogue, (Development, Deterrance یعنی مکالمہ، ترقی اور سدجارحیت ہی کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے۔ ہمیںپارلیمنٹ کی اسی قرار داد کے مطابق ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ صرف اسی طرح، یعنی بات چیت اور مذاکرات ہی سے، جن کو ہم نے امریکا کی خاطر دشمن بنا لیا تھا توقع ہے کہ وہ بھی اپنا رویہ بدلیں گے اور نئی فضا قائم ہوگی، پاکستان میں امن بحال ہوگا اور پاکستان اور افغانستان میں بھی تعاون اور دوستی کا نیا دور شروع ہوگا۔
سپریم کورٹ میں اور وکی لیکس کے آئینے میں نظر آنے والی تصویریں ہوں یا نظریہ پاکستان کی میزان، اور امریکا پاکستان تعلقات کے باہمی تعلقات، یا موجودہ مرحلہ، سب کا تقاضا ایک ہی ہے___ موجودہ حکمرانوں سے نجات، اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کی تعمیر اور ایک دیانت دار، باصلاحیت، خدا ترس اور خادمِ خلق قیادت کو منصب اختیار کی تفویض۔ اگر ہم اس راہ پر عزم صمیم کے ساتھ گامزن ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ راستے کی تمام مشکلات کو آسان کر دیتا ہے اور ضعف طاقت میں، نا اُمیدی اُمید میں، اور ہزیمت کامیابی میں بدل جاتی ہے۔
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّہُمْ سُبُلَنَاط(العنکنوت ۲۹:۶۹)
جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔
ان دنوں ہماری حکومت سبھی دائروں میں، لیکن خاص طور پر تعلیم کے دائرے میں جو فیصلے کر رہی ہے، ان میں سے بعض بطورِ خاص مضحکہ خیز ہیں سندھ میں تعلیمی کمیٹی نے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ ۲۰۱۳ء سے سندھ کے تمام اسکولوں میں چینی زبان بطور لازمی مضمون پڑھائی جائے۔ غالباً وزیر اعلیٰ نے اس عظیم تاریخی فیصلے کا کریڈٹ وزیر تعلیم کو نہ دینے کی غرض سے اپنی صدارت میں یہ فیصلہ فرمایا۔ اب یہ مسائل کہ ایک ڈیڑھ سال میں اتنی بڑی تعداد میں چینی زبان کے اساتذہ کس طرح تیار ہوں گے، کیا یہ چین سے درآمد کیے جائیں گے اور حکومت چین پاکستان سے اپنی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی کی خاطر ان اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرے گی، اور پاکستان کے لاکھوں نوجوان چینی زبان جیسی کچھ پڑھائی جائے گی پڑھ کر، کیا تیر ماریں گے، ہم جیسے فکر مندوں کا درد سر ہوں تو ہوں، فیصلہ کرنے والے اس سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں زبان کے مسئلے کا جو حشر کیا گیا ہے وہ بھی خوب ہے۔ ایک مسئلہ ذریعۂ تعلیم کا ہے۔ ۱۹۷۳ میں دستور میں یہ طے کیا گیا کہ ۱۵ برس میں اردو بطور سرکاری زبان نافذ کر دی جائے گی، لیکن قومی تقاضوں کے مطابق اور پاکستان کی ترقی کے لیے لازمی ہوتے ہوئے بھی آج ۳۸ سال ہو گئے (۷۳ء سے پہلے کے ۲۶ شمار نہ کیے جائیں تو)لیکن اردو کے نام پر کچھ اداروں میں کچھ افراد کی پرورش کے علاوہ، انگریزی کے بجاے اردو کو دفتروں میں نافذ کرنے، عدالتوں کی زبان بنانے اور کاروبار مملکت اردو میںچلانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ہمارے حکمران طبقوں کے مرعوب اور غلام ذہن انگریزی کے حوالے سے صحیح فیصلہ کرنے سے معذور ہیں۔ کتنا ہی بتایا جائے کہ چین، جاپان، جرمنی، ایران، عرب ممالک اور دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک اپنی اپنی زبانوں میں ملک کا سارا نظام چلاتے ہیں، ذریعہ تعلیم بھی یہی زبان ہوتی ہے، ذریعہ روزگار بھی یہی ہوتی ہے___ چین کی ترقی تو آنکھیں کھولنے والی ہے___ لیکن ہمارے ہاں انگریزی اور ترقی کو لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا ہے۔ بجاے اس کے کہ انگریزی کو وہ مقام دیا جائے جو اس کا جائز حق ہے، اور اردو کو واقعتا قومی زبان کے طور پر اختیار واستعمال کیا جائے، حال یہ ہے کہ جسے انگریزی نہ آتی ہو، کتنا ہی عالم فاضل ہو، اسے ہم غیر تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ کسی انٹرویو میں کوئی انگریزی میں گٹ پٹ کر جائے، تو اصل مضمون کا علم نہ رکھنے کے باوجود وہی منتخب ہو جاتاہے۔ کمزور انگریزی اور ناقص تدریس کا یہ بقراطی حل نکالا گیا کہ پہلی جماعت سے انگریزی لازمی کر دی گئی ہے۔ اس پر کیسا اور کتنا عمل ہو رہا ہے، اس سے ملّی اور قومی مقاصد کو کیا نقصانات ہورہے ہیں، ہر ہوش مند انسان دیکھ سکتا ہے۔
ایک مسئلہ مادری زبان کا بھی ہے۔ سندھ میں بطور مادری زبان بشمول کراچی لازمی سندھی نافذ کر دی گئی۔ ۱۹۷۲ء میں اس پر لسانی فسادات کی آگ بھڑکی۔ یقینا کراچی والوں کو بھی زور زبردستی کے بغیر اپنے بھائیوں کی سندھی زبان آتی ہو تو کوئی ہرج نہیں۔اسکولوں میں سندھی زبان کی تعلیم خوش اسلوبی سے اس لیے نافذ ہو گئی کہ سندھی کے اساتذہ نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے کراچی میں طالب علموں کو دل کھول کر نمبر دیے اور اس سے طلبہ کوبہتر گریڈ ملے۔ سندھی آئے نہ آئے، نمبرخوب آ گئے۔ اب جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ اسکولوں میں چوتھی کلاس سے سندھی لازمی ہے۔ چھٹی سے بھی ہو سکتی تھی تاکہ سرکار پر صرف ثانوی اسکولوں کے اساتذہ کا بوجھ رہے لیکن چوتھی کلاس سے کرکے ہر پرائمری اسکول میں ایک سندھی ٹیچر کی جگہ بن گئی۔ شاید یہی مطلوب تھا، سندھی زبان کی ترویج ضمنی بات تھی۔ کراچی میں عموماً پرائمری تعلیم خواتین نے سنبھالی ہوئی ہے۔ اس میں ایک سندھی مرد استاد کے آنے سے، جب کہ اس کے لیے کام کا بوجھ بھی صرف دو کلاسوں کا ہو، جو مسائل پیدا ہو رہے ہوں گے ان کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب پالیسی اس بنیاد پر بنے کہ ایک ہی فیصلے سے کئی ہزار لوگوں کے لیے ملازمت مہیا ہوجائے، خزانے پر غیر ضروری بار کا احساس نہ ہو تو کیا کہا جائے!
زبان ہی کی بات ہو رہی ہے تو انھی دنوں میں جب سندھ سے چینی زبان کا فیصلہ آیا تو پنجاب سے چھٹی کلاس سے عربی لازمی کے سلسلے میں وضاحت کی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں دینی اور قومی نقطۂ نظر سے بہت سے اچھے فیصلے کیے گئے جنھیں شمار کیا جائے تو ۱۰۰ سے زائد ہوتے ہیں۔ ان میں ایک یہ تھا کہ چھٹی ، ساتویں، آٹھویں میںعربی لازمی کر دی گئی۔ اس کی لازمی درسی کتاب بھی ایک ایسے امریکی نو مسلم یوسف طلال نے مرتب کی، جو بنوری ٹائون کے مدرسے سے فارغ التحصیل تھے۔ اس کا اصل فائدہ یہ ہوا کہ ہمارا جو بچہ مڈل پاس کرتا ہے اسے عربی سے شدبد ہو جاتی ہے۔ بنیادی قرآنی عربی سے شناسا ہو جاتا ہے۔ اب وہ جو نمازوں میں تلاوت ہو اس کا مطلب سمجھتا ہے۔ اسے عالم فاضل بنانا مقصد نہ تھا، اتنی بنیاد اسے دین اور قرآن سے تعلق اور ایمان کو تازہ رکھنے کے لیے بہت مفید ہے۔ اس شناسائی سے کسی کو خلیج یا سعودی عرب میں ملازمت میں سہولت ملی، تویہ اس کا مزید فائدہ ہے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہے۔ حال ہی میں انھی تین کلاسوں میں کمپیوٹر کی تعلیم لازمی کی گئی تو یہ غلط فہمی پھیل گئی کہ یہ لازمی عربی کی بجاے رائج کی جا رہی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے حکومت پنجاب نے مراسلہSO (SE-IV) 2-34/2008 مورخہ ۲۳؍اگست ۲۰۱۱ء جاری کیا کہ عربی حسب سابق لازمی رائج رہے گی، کمپیوٹر تعلیم اضافی لازمی مضمون ہے۔ عربی کی یہ تعلیم نئی نسل کے ایمان اور دین سے تعلق اور اپنے مستقبل کی بہتر تعمیر میں مثبت کردار ادا کرتی رہے گی۔
جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا تب اس وقت بھی زبان کا مسئلہ اٹھا تھا بلکہ جبھی سے اس مسئلے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ بھی اسی سے جوڑا جاتا ہے۔ پاکستان میں صوبائیت کے فتنے کے پیش نظر اس وقت ایک راے یہ تھی کہ عربی کو پاکستان کی سرکاری اور قومی زبان بنایا جائے اور یہ تجویز آغا خان چہارم نے پیش کی تھی۔ اسٹیٹ بنک کے پہلے گورنر اور پلاننگ کمیشن کے پہلے چیئرمین جناب زاہد حسین بھی یہی راے رکھتے تھے۔ اس فیصلے کو سب مسلمان دل و جان سے قبول کرتے تو ۱۵، ۲۰ سال میں یہ تبدیلی آجاتی۔ غیر ملکی زبان جب ظالم فاتح کی زبان ہو اور اس کے خلاف مزاحمت ہو تب بھی وہ رائج ہو جاتی ہے۔ ہندستان میں انگریزی اور فرانس اور سپین کے مقبوضات میں فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں کی ترویج اس کی مثال ہیں۔ لیکن عربی کی مزاحمت نہ ہوتی بلکہ سر آنکھوں پر لیا جاتا۔ قیام پاکستان کے بعد اولین دور میں مسلمانوں کی اسلام کے لیے جو گرم جوشی اور جذبات تھے ان کے پیش نظر یہ فیصلہ آسانی سے نافذہوتا اور ہمارے بہت سارے مسائل حل کرتا۔ ہم خلیجی ممالک اور عرب دنیا سے قریب ہو کر مسلم اُمت کا مضبوط حصہ بنتے تو بہت زیادہ فوائد حاصل کر لیتے۔
چین سے ہمارے رابطے بڑھ رہے ہیں۔ چین ہمارے پڑوس سے دنیا کی ایک عظیم سوپرپاور کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ اکیسویں صدی کو چین کی صدی بھی کہا جانے لگا ہے خواہ امریکا کتنا ہی اس صدی پر دعویٰ کرے۔ امریکا کا تو اب چل چلائو ہے۔ زوال نوشتہ دیوارہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انگریزی سے فارغ ہوں اور چینی کو اوڑھ لیں۔ مسئلے کا صاف اور سیدھا حل یہ ہے کہ حکومت کوئی ایسا ادارہ بنائے جو ملک کے ۲۰، ۲۵ شہروں میں، خصوصاً چار پانچ بڑے شہروں میں چینی زبان میں مہارت کے لیے مختلف کورس کرائے۔ اورچین سے تجارتی و ثقافتی تعلقات بڑھانے کے لیے جو مہارت اور جتنے افراد درکار ہیں ان کی تربیت کا مناسب انتظام کرے۔ انگریزی کے مسئلے کا بھی یہی حل ہے۔ یہ پہلی جماعت سے ہرگزلازمی نہ کی جائے۔ صورت حال یہ ہے کہ انگریزی کو ملک میں عملی زندگی میں ایک ایسا مقام حاصل ہے کہ جسے آگے بڑھنا ہے اس کے لیے انگریزی کی مہارت لازمی ہے۔ اگر ہم انگریزی کو صرف تحقیق کی اور بین الاقوامی رابطے کی زبان تک محدود رکھیں تو اس ضرورت کو بھی اسی طرح پورا کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے بہت میٹرک کے بعد لازمی کی جائے۔ جنھیں انگریزی نہیں آتی، وہ اب بھی بھوکے نہیں مرتے لیکن انگریزی کی مصنوعی اہمیت ختم ہو جائے تو حقیقی قابل اور عالم لوگ ہر شعبے میں قیادت کے لیے آگے آئیں گے۔ ابھی تو انگریزی کی وجہ سے امتحانات میں کامیابی کا اوسط خوامخواہ کم ہو جاتا ہے۔ دوسری زبان میں سمجھنے کا ذہنوں پر بوجھ نہیں ہوگا اور چینیوں یا جاپانیوں اور جرمنوں کی طرح ہم بھی اپنی زبان، یعنی اردو میں مست رہیں گے تو زیادہ فطری اور بہتر انداز سے ترقی کریں گے اور مادری زبان اور اردو زبان کے ساتھ انگریزی کے ناروا بوجھ سے آزاد ہوں گے۔
بات چینی زبان کی تعلیم لازمی کرنے سے شروع ہوئی تھی، بعد میں اعلان آیا کہ لازمی نہیں اختیاری ہوگی۔ جب اختیار ہو اور کوئی اختیار نہ کرے اور خوامخواہ کوئی کیوں اختیار کرے، تو یہ عملاً نفی کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ چینی زبان لازمی کرنے کا یہ فیصلہ ہمارے تعلیمی بزر جمہروں کو کس نے سجھایا۔ایسے مضحکہ خیز فیصلے کرکے اپنے کو نشانۂ تضحیک کیوں بنایا جارہا ہے!
عربوں میں گابھن اونٹنی بڑی دولت شمار ہوتی تھی، جس گھر میں یہ اونٹنی ہو اسے زیادہ مال دارسمجھا جاتا تھا، اگرچہ اونٹ بھی بڑی دولت تھی لیکن اونٹنی کے مقابلے میں وہ کم قیمت ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک اور اس کے سیکھنے کی اہمیت کو ایسی مثال سے واضح فرمایا کہ ذہن میں راسخ ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس چیز کو تم بڑی دولت سمجھتے ہو، قرآن پاک کی چند آیات اس سے زیادہ بڑی دولت ہیں۔ ہم روزانہ پانچ اوقات کی نماز میں سورۂ فاتحہ ہر رکعت میں بار بار پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ہم روزانہ کتنی بڑی کمائی کرتے ہیں۔ اتنی بڑی کمائی کسی بازار میں نہیں، بلکہ مسجد میں نماز پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر کاروبار میں سستی نہیں تو نماز میں سستی کیوں کی جائے؟قرآن پاک کی آیات ایمان کی تجدید کرتی ہیں، عمل صالح پر آمادہ کرتی ہیں، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارتی ہیں اور اطمینان قلب کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔(الرعد۱۴:۲۸) ’’سنو! اللہ کے ذکر سے دلوں میں اطمینان پیدا ہوتا ہے۔‘‘ قرآن پاک سب سے اونچے درجے کا ذکر ہے۔ اسے سمجھ کر پڑھا جائے تو نورٌ علیٰ نورہے۔ آج کے زمانے میں تو قرآن پاک کا سمجھنا بھی آسان ہو گیا ہے۔ تفسیر تفہیم القرآن کو پڑھ کر یا سن کر ہر خاص و عام سمجھ سکتا ہے۔ نیزاونٹ یا اونٹنیاں اور دنیا کی دولت تو فانی ہے لیکن قرآن پاک کی دولت باقی ہے۔ یہ قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا، راستے کو روشن کرے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں جوپریشانیاں ہیں ان کا ازالہ قرآن پاک کی طرف رجوع میں ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر قرآن پاک سے وابستہ ہو جائیںتو وہ تمام مصائب، ظلم و زیادتیاں جن سے ہم دو چار ہیں ختم ہو جائیں۔
بات کو قرآن تک کیوں محدود کیا جائے۔ اللہ کے رسول نے دنیا اور آخرت کے لیے دو ایسی علامتیں بیان کیں کہ ہمارے سامنے جیسے دونوں متشکل ہو کر آ گئیں۔ آپ اونٹنی کے بجاے نئے ماڈل کی گاڑیاں سمجھ لیں، اور آیت کے بجاے اخروی نفع کے لیے کیا جانے والا کوئی کام۔ دنیا اور آخرت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ دنیا کو ترجیح دینا مولانا مودودی کے الفاظ میں ’’عظیم الشان حماقت‘‘ ہے مگر انسان کو، ہم کو کیا ہو گیا ہے کہ ہماری ساری بھاگ دوڑ اور ریجھنا دنیا کے لیے ہے اور آخرت کے لیے سارے عذر اور معذرتیں اور بے نیازی! اللہ ہم پر رحم کرے۔
خواتین کو تحصیل علم کا کتنا شوق تھا اس کا انداز اس حدیث سے ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی تعلیم کا بھی اہتمام فرمایا۔ انھیں علیحدہ وقت بھی دیا، اورازواج مطہرات کے ذریعے ان کی تعلیم کا انتظام فرمایا۔ خواتین الگ سے بھی آپؐ سے سوال کے لیے حاضر ہوتیں اور کبھی اجتماعی شکل میں آجاتیں۔ اس طرح صحابہ کرامؓ کی طرح صحابیاتؓ نے بھی علمی میدان میں بڑا مقام پیدا کیا۔ خواتین نے قرآن پاک بھی حفظ کیا اور احادیث نبویہ بھی یاد کیں اور علمی میدان میں اس قدر آگے بڑھیں کہ ان سے خواتین کی طرح بعض اوقات مرد بھی علمی فیض حاصل کرتے اور ان کے فتاویٰ پر عمل کرتے۔
مومن کی یہ عجیب شان ہے کہ اس دنیا میں اسے جو تکلیف بھی پہنچے، اگر وہ اسے من جانب اللہ سمجھے اور صبر سے کام لے تو وہ اس کی آخرت کے لیے سرمایہ بن جاتی ہے۔ اولاد کا رخصت ہوجانا کتنا بڑا صدمہ ہے، اور کسی ماں کے لیے اپنے بچے سے جدائی! صدمے کا کوئی اندازہ کیا جا سکتا ہے!! ایک نہیں، دو، دو نہیں، تین بچّے۔ آپ اندازہ تو کریں اس ماں کی رنج و غم کی کیفیت کا۔ مگر وہ صبر کرے، جزع و فزع نہ کرے، اللہ کی مرضی پر راضی رہے۔ کتنا بڑا مقام ہے! بندی کی یہی بندگی دوزخ سے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پھر دیکھیے، شاید کسی نے دو بچے بھیجے تھے، وہ اپنے لیے بھی خوش خبری چاہتی ہے۔ آپؐ توقف کرتے ہیں، دوبارہ پوچھتی ہے۔پھر آپ اسے بھی آگ سے رکاوٹ کی خوش خبری دیتے ہیں۔ یقینا کوئی ایک کے لیے بھی پوچھتا تو محروم نہ رکھا جاتا۔
یہ تین چیزیں جنت میں داخلے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ تکبر تو اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی میں شریک ہونے کی صفت ہے، اور خیانت پوری ملت کے مال کا بوجھ اپنے اوپر اٹھانا ہے، اور دَیْن (اور قرض) کسی خاص شخص کے مال کو تلف کرنا ہے۔ آخرت میں ملت اور کوئی فرد اپنا حق چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ اس لیے اولاً: خیانت سے اجتناب کرے اور اگر مرتکب ہو جائے تو بیت المال میں اسے واپس لوٹا دے۔ اسی طرح دَین (اور قرض) کے بوجھ سے بھی بچنے کی کوشش کرے اور یہ بوجھ لینا پڑ جائے تو اس سے جلد از جلد جان چھڑانے کی تدبیر کرے۔
جو چیز بار بار فی سبیل اللہ شہید ہونے کے باوجود ادایگی کے بغیر معاف نہ ہو،شہادت بھی اس کا کفارہ نہ بن سکے، اس سے زیادہ سخت و عید دوسری کون سی ہو سکتی ہے! دَین کا کفارہ دَین کی ادایگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آج کل قرضوں اور دیون کی ادایگی کے سلسلے میں بہت زیادہ تساہل سے کام لیا جاتا ہے۔ جو انتہائی خطر ناک رویہ ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو اس برائی سے پاک و صاف کرنے کی طرف توجہ کریں اور اسے معمولی جرم سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔
جب آپ اپنا قرض ادا کریں، تو اچھی طرح سے کریں، اس میںشامل ہے کہ قرض خواہ کا شکریہ اداکریں۔ اور ہم مسلمان محض شکر یہ ادا نہیں کرتے، شکریے کے آداب میں دعا دینا شامل ہے۔ رسول اللہ نے عبداللہ بن ابی ربیعہ کے ۴۰ہزار ادا کیے تو اہل وعیال اور مال میں برکت کی دعا دی۔ اس کا ایک ضمنی پہلو یہ ہے کہ اولاد ہو اور اس کی تعلیم و تربیت کے لیے رقم بھی ہو۔
حج زیارت کر دن خانہ بود
حج رب البیت مردانہ بود
(رومیؔ)
(خانہ کعبہ کی زیارت ہی حج ہے اور رب کعبہ کا مردانہ وار طواف ہی حج ہے۔)
صوفیاے کرام نے ہمیشہ مذہب کے ظاہری رسوم سے زیادہ زور اس کی باطنی روح پر دیا ہے۔ دین محمدیؐ کی یہی دو حیثیتیں ہیں: ظاہریؔ و باطنیؔ!۔ بقول شاہ ولی اللہ ؒ:
نیکی و طاعت کے ظاہری افعال سے قلب پر جو اچھے اثرات مترتب ہوتے ہیں، ان کے احوال و کوائف کی تحصیل دین کی باطنی حیثیت یا تصوف کا مقصود اور نصب العین ہے۔ (ہمعات)
قرآنی تعلیمات سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اصل چیز ظاہری رسوم نہیں بلکہ باطنی روح ہے۔ دیکھو قربانی کے سلسلے میں حق تعالیٰ نے وضاحت فرما دی ہے، کہ:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط (الحج ۲۲:۳۷)نہ قربانی کا گوشت حق تعالیٰ کے پاس پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ تقویٰ یا پارسائی۔
یعنی حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی محض قربانی کر دینے یا خون بہا دینے سے نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ اس قربانی کا مدار حق تعالیٰ کی محبت، اُن کی رضا جوئی اور اُن کی قرب طلبی نہ ہو۔ اسی طرح دوسری جگہ واضح طور پرفرمایا گیا ہے، کہ:
لَیْسَ الْبِرَّاَنْ تُوَلُّوْاوُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ (البقرۃ ۲:۱۷۷)نیکی اس کا نام نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو، بلکہ نیکی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان و یقین سے حاصل ہوتی ہے۔
یعنی محض کسی سمت کو قبلہ بنا کر اس کی طرف منہ پھیر لینے سے انسان کے اندر نیکی نہیں پیدا ہوسکتی جب تک کہ اس کی بنیاد اللہ اور آخرت کے یقین و ایمان پر نہ ہو!
اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھول نہ جانا چاہیے کہ قرآنی تعلیمات اور اسلامی تصوف کی رو سے دنیا میں جس طرح انسانی روح بغیر انسانی جسم کے نہیں پائی جاتی اور اس کے روحانی افعال کا اعتبار بغیر جسمانی افعال کے نہیں ہوتا، اسی طرح دنیا میں خاص خاص افعال یا جسمانی حرکات اور احوال کے بغیر روح کا ارتقا اور اس کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے صوفیاے کرام نے باطن کے ساتھ ظاہر کی حفاظت پر پورا زور دیا ہے اور متقدمین صوفیا نے تصوف کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ ع
وہ نام ہے تعمیر ظاہر و باطن کا
بالفاظ دیگر دونوں کی اصلاح و درستی ضروری ہے، نہ ظاہر بغیر باطن کے اور نہ باطن بغیر ظاہر کے درست ہوسکتا ہے۔ ظاہر عنوان ہے باطن کا۔ جب کسی کے ظاہری افعال شرع محمدیؐ کے خلاف ہوں تو اس کو کوئی تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس کا باطن موافق و مطیع ہوگا۔ ظاہر تو تابع ہوتا ہے باطن کا۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ باطن درست ہو اور اس کا اثر ظاہر پر نہ پڑے، یہ ناممکن ہے۔ اسی طرح ظاہری افعال کا اثر باطن پر پڑتا ہے بلکہ ہر ظاہری عمل باطن کو متاثر کرتا ہے۔ ولیم جیمس جیسے ماہرِ نفسیات نے تو اس حد تک زور دیا ہے کہ: ’’اگر تم باطن میں کوئی کیفیت یا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کی ظاہری صورت پیدا کرلو، تمھارا باطن متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔‘‘
حج کے تمام اعمال پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومن جس کا طرۂ امتیاز حق تعالیٰ کی شدید محبت ہے (الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِط۔البقرۃ۲:۱۶۵)، اپنے عشق و محبت کے جذبے کو جو اس کے قلب کی گہرائیوں میں نہاں ہے، ظاہری اعمال و اشکال میں ہویدا کرتا ہے تاکہ: ’’اس کے اس حال کا چرچا دنیا میں پھیلے، وہ بلند آواز سے لبیک کہتے ہوئے نعرے لگاتا ہے اور ان نعروں سے محبت کی چھپی دبی آگ کو بھڑکاتا ہے!۔‘‘ چنانچہ شاہ عبدالعزیزؒ اپنی تفسیر میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ:
حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک دفعہ اپنے کو سرگشتہ و شیدا بنا کر دیوانوں کی طرح اور عشق بازوں کا وتیرا اختیار کرکے محبوب کے گھر کے گردننگے سر ننگے پائوں، الجھے ہوئے بال، پریشان حالی کے ساتھ گرد میں اَٹے ہوئے سرزمین حجاز میں پہنچیں، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر، کبھی زمین پر محبوب کے اسی گھر کی طرف رُخ کرکے کھڑے ہوں…… اسی تجلی خانے کے ارد گرد گھومیں اور اس کے گوشوں کو چومیں چاٹیں۔
حج کے مناسک سے عشق و محبت کا یہی جذبہ ظاہر ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر طواف کعبہ، صفا و مروہ کے درمیان سعی، مزدلفہ کی آمد و رفت، عرفات میں قیام، منیٰ میں ذبح و قربانی، وتلبیہ و احرام وغیرہ کا حکم دیا گیا ہے۔
اعمال حج کے انھی باطنی اسرار کو ہم یہاں امام الصوفیہ حجۃ الاسلام حضرت غزالیؒ کے اشارات کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں:
زیں شہدیک انگشت رسانم بلبت
از لذت اگر محو نگردی تف کن!
(آپ کے ہونٹوں سے اس شہد کی ایک انگلی لگا دی ہے، اگر تو اس سے لذت اندوز نہیں ہوتا تو افسوس ہے۔)
حق تعالیٰ کے گھر کی زیارت کا شوق عاشق کے قلب میں بھڑک اُٹھتا ہے! جس قلب میں اس ’شاہ خوباں‘ کا عشق نہیں وہ مردہ ہے، یا یوں کہئے:
دل کہ فارغ شدز عشق آں نگار
سنگ استنجائے شیطانش شمار!
(اس محبوب کی محبت سے دل فارغ ہو جائے تو ایسا دل شیطان کے استنجے کا ڈھیلا ہے۔)
عاشق کی نگاہ میں اب دنیا کی ساری لذتیں ہیچ نظر آنے لگتی ہیں۔ مال و دولت، جاہ و عزت، دوست و احباب اپنی دل فریبیاں کھو دیتے ہیں! ’زندے‘ کا عشق اس کو مُردوں کی محبت سے بیزار کردیتا ہے اور وہ چیخ اُٹھتا ہے:
عشق بامردہ نبا شد پایدار
عشق رابا حئی جاں افزائے دار!
عشق زندہ در روان و دربصر
ہر دمے باشدز غنچہ تازہ تر!
عشق آں زندہ گزیں کو باقیست
وز شرابِ جاں فزایت ساقیست
عشق آں بگزیں کہ جملہ انبیا
یا فتند از عشق او کار و کیا!
غرق عشق شوکہ غرق است اندریں
عشقہائے اولین و آخریں!
(رومیؔ)
(مُردوں سے عشق پایدار نہیں ہوتا، زندوں سے لگائو ہی روح پرور ہوتا ہے۔زندہ عشق روح میں اور آنکھوں میں رہتا ہے اور ہر لمحے ترو تازہ غنچے سے بھی زیادہ تازگی رکھتا ہے۔ایسے زندہ سے عشق ہونا چاہیے جو باقی رہنے والا ہے، وہ جان فزا شراب کا ساقی ہوتا ہے۔عشق ایسی ہستی سے ہونا چاہیے کہ انبیا نے بھی اس کے تعلق سے بالیدگی حاصل کی ہو۔عشق میں غرق ہو جا اور یہی اولین و آخری عشق ہو۔)
اہل و عیال، دوست و احباب سے رخصت ہوکر جب وہ سوار ہوتا ہے تو اس کی نظر میں دارِآخرت کی سواری آ جاتی ہے، وہ اپنے جنازے کو آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے جس پر سوار ہوکر اس کو ایک روز آخرت کی طرف کوچ کرنا ہوگا، اور وہ جانتا ہے کہ یہ دن کچھ زیادہ دور تو نہیں ہوسکتا۔ع
کیں عمر بیک چشم زدن نقش برآب است!
(یہ عمر پانی پر کسی نقش کی مانند آنکھ جھپکنے میں ختم ہوجاتی ہے۔)
جب احرام کے لیے چادر خریدتا ہے تو اس کو وہ دن یاد آتا ہے جب اس کا تن بے جاں کفن میں لپیٹا جائے گا اور وہ بے حس و حرکت پڑا ہوگا! اب اس کا ساتھ دینے والے نہ دوست و احباب ہوں گے اور نہ اہل و عیال، صرف ایمان و عمل صالح ہی اس کے ساتھ جائیں گے! وہ اپنے نفس سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: ؎
یا من بدنیاہ اشتغل
قد غرک طول الامل
الموت یاتی بغتۃ
والقبر صندوق العمل
(حضرت علیؓ)
(اے وہ جو اپنی دنیا میں مشغول ہوگیا، تجھے طویل تمنائوں نے دھوکے میں ڈال دیا۔ موت تو اچانک آئے گی اور قبر تمھارے عمل کا صندوق ہوگا)
سوچتا ہے کہ احرام کی چادر تو خانۂ کعبہ کے قریب پہنچ کر باندھنی پڑے گی، ممکن ہے کہ یہ سفر پورا نہ ہوسکے اور راہ ہی میں موت آ جائے لیکن حق تعالیٰ سے ملاقات تو کفن میں لپٹے ہوئے ہی ہوگی! کفن کی اس چادر پر نظر کرکے شکستہ دلی کے ساتھ حق تعالیٰ سے عرض کرتا ہے:
’’اَللّٰھُمِّ اَغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَآء الثَّلِجْ وَالْبَرْدِوَنَقِّ قَلْبِیْ مِنَ الْخَطَا یَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْب الْاَ بْیَض مِنَ الدَّنسِ وَبَاعِدْبَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَاَے کَمَا بَاعَدتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ۔‘‘ (عن عائشہ ؓ، بخاری)
اے اللہ میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے، اور میرے دل کو گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے، اور مجھ میں اور میرے گناہوں کے درمیان ایسا فاصلہ کر دے جیسا کہ مشرق و مغرب میں تو نے فاصلہ رکھا ہے۔
جب اپنے شہر سے باہر نکل آتا ہے تو سوچتا ہے کہ اُس نے اپنے اہل و عیال اور وطن سے جدا ہوکر ایسا سفر اختیار کیا ہے جو کسی طرح دنیا کے اور سفروں کے بالکل مشابہ نہیں! اس سفر سے اس کا مقصود حق تعالیٰ ہیں، ان کے گھر کی زیارت ہے، ان کی رضا و خوشنودی ہے۔ حق تعالیٰ ہی کی پکار پر، انھی کی توفیق سے، انھی کے شوق دلانے سے، انھی کے حکم پر وہ قطعِ علائق و ترکِ خلائق کرکے ان کے دربار کی طرف دیوانہ وار چل پڑا ہے، اس کی زبان پر ہے:
بِسْمِ اللّٰہِ، مَاشَاء اللّٰہ، حَسْبِی اللّٰہُ، لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
اللھم الیک خرجت وَانت اخرجتنی!
(اے اللہ، میں تیری طرف ہی نکلا ہوں اور تو نے ہی مجھے نکالا ہے)
من کہ باشم کہ براں خاطر عاطر گذرم
لطفہامی کنی اے خاک درت تاج سرم
(حافظ شیرازیؒ)
(میں کون ہوتا ہوںکہ اس کے خاطر عاطر میں میرا گزر ہو، تیرا لطف و کرم ہو توتیرے در کی خاک ہی میرے سر کا تاج ہے۔)
اس کو حق تعالیٰ سے پوری اُمید ہوتی ہے کہ وہ اس سفر شوق میں اس کے ساتھ ہوں گے، اس کے نگہبان اور مددگار ہوں گے۔ وہ حق تعالیٰ ہی کی دستگیری و رہبری سے اپنی منتہاے آرزو کو پائے گا، اپنے مولیٰ کے دیدار سے اپنی مراد کو پائے گا! ؎
من ایں دستے کہ افشاندم زکونین
بد امانِ تمنائے تو باشد!
(حزیںؔ)
(جی کو میں نے کونین سے الگ کر لیا ہے، تیری تمنا کے دامن میں آجائے۔)
سوچتا ہے کہ اگر وہ منزل مقصود کو پہنچنے بھی نہ پایا اور راستے ہی میں طعمۂ اجل مسمٰی ہوگیا، پھر بھی وہ’نثارِ رہ یار‘ ہوگا! کیا حق تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے:
’’وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔‘‘ (النسآء ۴:۱۰۰)جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کروں گا، پھر اس کو موت آ پکڑے، تب بھی اس کا ثواب ثابت ہوگیا، اللہ تعالیٰ کے ذمے!
ہاں، اس راہ میں موت بھی اچھی! کہہ سکے گا! ؎
حاصل عمر نثار رہ یارے کردم!
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
(اپنی عمر کا حاصل اپنے دوست کی راہ میں نثار کر دیا ہے۔ میں اپنی زندگی سے خوش ہوں کہ میں نے کوئی کام تو کیا ہے۔)
اسی فکر و ذکر، اسی ولولہ و جنون میں وہ میقات پر پہنچ جاتا ہے، کپڑے اُتارتا ہے اور احرام کی چادریں باندھتا اور اوڑھتا ہے، ماسوا سے آزاد ہوکر چیخ اٹھتا ہے:
لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ
آنکھوں سے اس کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، دل سے سرد آہیں نکلتی ہیں اور زبان سے یہ چیخ:
ما را ز خاک کویت پیراہن است برتن!
آنہم زآب دیدہ صد چاک تابدامن
(جمالیؔ)
(تیرے کوچے کی خاک ہمارے جسم کا لباس ہے، اور اس لباس کو بھی ہمارے آنسوئوں نے دامن تک چاک کررکھا ہے۔)
جانتا ہے کہ لبیک کی یہ پکار حق تعالیٰ کی اس پکار کے جواب میں ہے، کہ: وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ (الحج ۲۲:۲۷)’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔‘‘اور اس کا خیال عرصۂ قیامت کی تصویر آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا اور لوگ اسی طرح پکارے جائیں گے اور وہ اپنی قبروں سے نکل کر میدانِ قیامت میں جمع ہوں گے اور حق تعالیٰ کی پکار کا جواب دیں گے۔ پھر ان میں سے بعض مقبول ہوں گے اور بعض مردود! ابتدا میں تردد ہر ایک کو ہوگا، خوف و رجا ہر ایک کے سینے میں ہوگی! دل ہی دل میں حق تعالیٰ سے کہتا ہے، کہ
کارے بجز گناہ نداریم یا حفیظ
عذرے بغیر آہ نداریم یاحفیظ!
ہر چند رو سیاہ و گنہ گار و مجرمیم
جز رحمتت پناہ نداریم یاحفیظ!
(مجذوبؔ)
اے حفیظ! سواے گناہ کے اور کچھ کام ہم سے نہ ہو سکا۔ ہمارے پاس سواے آہوں کے کوئی عذر نہیں۔ ہر چند کہ ہم گنہگار اور روسیاہ اور مجرم ہیں، سواے تیری رحمت کے پناہ میں آنے کے اور کچھ نہیں رکھتے۔)
توبہ و استغفار، تسبیح و تہلیل، ندامت و شوق، رجا و خوف میں اس کی ہر ساعت بسر ہوتی ہے، دل میں حسرتوں کا ہجوم ہوتا ہے، اور وہ راہ کی صعوبتیں برداشت کیے بڑھتا جاتا ہے! کبھی کہتا ہے:
اللہ! کس قدر رہِ مقصود دور ہے
پیک خیال راہ میں تھک تھک کے رہ گیا
جدہ کا قیام، ساتھیوں کی پریشانی اس کو متاثر نہیں کرتی، وہ تو ’محو خیالِ یار‘ ہے:
وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحد سے مردے نکل پڑے
یہ مری جبینِ نیاز تھی کہ جہاں دھری تھی دھری رہی
انتظار کی ساعتیں گزرتی جاتی ہیں اور وہ بے تابی میں گنگناتا جاتا ہے:
نظر ہے وقفِ غمِ انتظار کیا کہنا
کھنچی ہے سامنے تصویرِ یار کیا کہنا
(جگر مراد آبادی)
اب قافلہ مکہ معظمہ میں داخل ہو رہا ہے! ’حرم مامون‘ میں پہنچ رہا ہے! مَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمنا، کی نوید اس کے کانوں میں گونجتی ہے۔ ’بلد امین‘ میں داخل ہوکر وہ چیخ اُٹھتا ہے:
ذرئہ خاکم و درکوئے توام وقت خوش است
ترسم اے دوست کہ بادے نہ بردناگاہم!
(حافظؔ)
(میںذرہ خاک ہوں اور خوش ہوں کہ تیرے کوچے میں پڑا ہوا ہوں، اور اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں ہوا کا جھونکا مجھے اڑا کے یہاں سے کہیں دور نہ لے جائے۔)
آگے بڑھ کر جب اس کی نظر بیت اللہ پر پڑتی ہے تو رب البیت کی تجلی سے اس کے ہوش و حواس گم ہو جاتے ہیں:
آمد خبرے زآمد او
من بعد خبر نماند مارا!
(اس کی آمد سے ہی کچھ خبر معلوم ہوتی ہے، اس کے آنے کے بعد تو ہم خود ہی اپنے آپ میں نہیں رہتے۔)
وہ ’بیت‘ کو نہیں، گویا ’رب البیت‘ کو دیکھ رہا ہے!
آنکھوں میں روے یار ہے، آنکھیں ہیں روے یار پر
ذرہ ہے آفتاب میں، ذرے میں آفتاب ہے
اسی ذوق و شوق کو لیے ہوئے وہ طواف کے لیے بڑھتا ہے، اس کے قلب میں تعظیم، خوف ورجا، عشق و محبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اس کا جسم خانہ کعبہ کے طواف میں مصروف ہوتا ہے لیکن اس کی روح رب البیت کے گرد گھومتی ہے، اس کا دل حضرت ربوبیت کا طواف کرتا ہے، ان پر فدا ہوتا ہے، نثار ہوتا ہے، چیختا ہے ؎
یک جاں چہ متاعیست کہ سازیم فدایت
اماچہ تواں کرد کہ موجود ہمین است!
(فقط ایک جان ہی تو ہے اسے آپ پر فدا کریں، تو (کیا کمال ہو)، مگر افسوس کہ اس جان کے سوا تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ یہی جان ہی تو ہے۔)
جب حجر اسود کو بوسہ دیتا ہے تو جانتا ہے کہ وہ حق تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر رہا ہے، اطاعت و فرماںبرداری، عبدیت و عبودیت کا اقرار کر رہا ہے، حجر اسود ’’یَمِیْنَ اللّٰہُ عَزَّوَجَل فِی الْاَرْضِ‘‘ ہے، حق تعالیٰ کا داہنا ہاتھ ہے زمیں پر، ’’یُصَافِحُ بِھَا خَلْقَہٗ کَمَا یُصَافِحْ الرَّجُلُ اَخَاہُ‘‘ جس سے وہ اپنے بندوں کے ساتھ اس طرح مصافحہ کرتے ہیں جیسے انسان اپنے بھائی سے، ( عن عبداللہ بن عمرؓ، مسلم)۔ وہ حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عرض کرتا ہے:
یا رب منم و دست تہی چشم برآب
جاں دادہ و دل سوختہ و سینہ کباب
نامہ سیہ، و عمر تبہ، کار خراب
از روئے کرم بفضل خوشیم دریاب
(اے اللہ میں ہوں اور تہی دست ہوں اور آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔ میں سوختہ دل ہوں اور محبت سے سینہ جلا ہوا ہے میرا نامہ اعمال سیاہ ہے۔ عمر برباد ہو گئی اور ہر کام خراب ہوا، اب رب کریم اپنے لطف و کرم سے نوازیں تو خوشی مل سکتی ہے۔)
پھر کعبۃ اللہ کے پردے کو پکڑتا ہے، یہ سمجھ کر کہ حق تعالیٰ کے دامن کو پکڑ رہا ہے، اور ملتزم سے چمٹتا ہے، یہ سمجھ کر کہ حق تعالیٰ سے قریب ہو رہا ہے، رو رو کر عرض کرتا ہے:
تو کریم مطلق و من گداچہ کنی جزاینکہ نخوانیم
در دیگرے بنما کہ من بہ کجا روم چو برانیم
ہمہ عمر ہر زہ دویدہ ام خجلم کنوں کہ خمیدہ ام
من اگر بحلقہ تنیدہ ام تو برون درمنشانیم
(بیدلؔ)
(تو کریم ہے اور میں فقیر، کیا کیا جا سکتا ہے کہ تجھے نہ پکاریں۔ کوئی دوسرا دروازہ نہ کھلا، کہ میں کہاں جائوں اگر یہاں سے زندہ جائوں۔ ساری عمر اب خجل خوار ہو کر تیری طرف جھک آیا ہوں۔ اب اس حلقے پر آیا ہوں تو باہر نہ پھینکا جائوں۔)
گویا پکار اٹھتا ہے کہ آپ کا دامن چھوڑ کر کہاں جائوں، کس کے آگے ہاتھ پھیلائوں، کس کے قدم پکڑلوں؟ میری پناہ گاہ آپ ہیں، میرا ملجا و ماویٰ آپ کے سوا کون ہے؟ آپ کے کرم و عفو کے سوا میرا ٹھکانہ نہیں! آپ کا دامن نہ چھوڑوں گا جب تک کہ آپ اپنی رحمت سے میری سیہ کاریوں کو معاف نہ فرمائیں، اور آیندہ دامن امن میں پرورش نہ فرمائیں! حق تعالیٰ آپ کریم ہیں، در کریم پر عجز و نیاز کے ساتھ آیا ہوں، دیدئہ اشک بار کے ساتھ آیا ہوں، دردِ دل، نالۂ جاں آزار کے ساتھ آیا ہوں، اگر آپ دامنِ عفو میں پناہ نہ دیں تو کہاں جائوں، کیا کروں! ؎
یا رب دلم از بار گنہ محزون است
جاں زارو دل افگار و جگر پر خون است
ہر چند گناہ من زحد بیرون است
عفوت زگناہِ من بے افزون است
(دردؔ)
(اے اللہ میرا دل گناہ کے بوجھ سے حزن و ملال میں مبتلا ہے، میری روح زارو نزار ہے اور دل زخمی ہے اور جگر چھلنی ہے ہر چند کہ میرے گناہ حد سے زیادہ ہیں لیکن تیرا عفوو درگزر کرنے کا شیوہ اس سے بہت زیادہ ہے۔)
صفا و مروہ کے درمیان جب وہ سعی کرتا ہے تو یہ احساس قلب میں لیے ہوئے کہ ایک فقیر، مسکین، حقیر و ذلیل غلام اپنے آقا، مالک، بادشاہ کے محل کے صحن میں بار بار چکر لگا رہا ہے، نظر کرم کا ملتجی ہے، زباں پر سوال ہے کہ:
’’رَبِّ اغْفِرْوَ ارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ اَنَّکَ اَنْتَ الْاَ عَزَّالْاَکْرَمُ‘‘
بار بار گھومتا ہے اور آواز لگاتا ہے، کہ:
اِلٰہِیْ عَبْدُکَ بِبَابِکَ فقیرُکَ بِبَابِکَ مِسْکِیْنُکَ بِبَابِکَ سَائِلُکَ بِبَابِکَ ذَلِیْلُکَ بِبَابِکَ ضَعِیْفُکَ بِبَابِکَ ضَیْفُکَ بِبَابِکَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
میرے معبود تیرا بندہ تیرے درپر ہے،تیرا فقیر تیرے در پر ہے،تیرا مسکین تیرے در پر ہے، تیراسائل تیرے در پر ہے،تیرا ذلیل بندہ تیرے در پر ہے،تیرا کمزور و ناتواں بندہ تیرے در پر ہے،تیرا مہمان تیرے در پر ہے،اے رب العالمین!
جانتا ہے کہ کوئی سائل اس در سے محروم نہیں جاتا، یہ کریم کا دروازہ ہے، اس کو جو کھٹکھٹاتا ہے وہ اپنی مراد کو پاتا ہے:
گفت پیغمبر کہ چوں کو بی درے
عاقبت زاں در بروں آید سرے
سایۂ حق برسر بندہ بود
عاقبت جویندہ یا بندہ بود
چوں نشینی بر سر کوئے کسے
عاقبت بینی تو ہم روئے کسے
چوں زچا ہے میکنی ہر روز خاک
عاقبت اندر رسی در آب پاک
(پیغمبر نے فرمایا کہ دروازے کو کھٹکھٹاتے رہیے آخر کار اس دروازے سے کوئی باہر آہی جائے گا۔ حق کا سایہ اپنے بندے کے سر پر رہتا ہے، آخر کار تلاش کرنے والا کچھ نہ کچھ پاہی لیتا ہے۔ جب تو کسی دروازے پر پڑا رہے گا تو آخر کسی نہ کسی کا دیدار کر ہی لے گا۔ جب کوئی کسی کنویں کی مٹی نکالتا رہے گا تو آخر کسی روز اس کی تہہ سے پانی حاصل کر ہی لے گا۔)
عرفات کے میدان میں جب وہ قدم رکھتا ہے اور لوگوں کا اژدحام اور آوازوں کا بلند ہونا اور زبانوں کا اختلاف جب اس کو نظر آتا ہے، تو اس کو میدانِ قیامت کا منظر یاد آتا ہے کہ اس روز بھی ہر امت اپنے نبی کے ساتھ اسی طرح جمع ہوگی اور اس کی پیروی کرے گی اور اس کی شفاعت کی اُمید کرے گی! اب وہ اضطرار کے ساتھ حق تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتا ہے اور چیختا ہے:
’’یَامَنْ لَّا یَشْغَلُہُ شَأْنٌ عَنْ شَأْنٍ وَلَا سَمْعٌ عَنْ سَمْعٍ وَلَا تَشْتَبِہُ عَلَیْہِ الْاَصْوَاتُ، یَا مَنْ لَّا تَغْلطُہَ الْمَسَائِلَ وَ لَا تَخْتَلِفُ عَلَیْہِ اللّٰغَاتُ! یَا مَنْ لَّا یَبْرِمَہٗ اِلْحَاحُ الْمُلْحِیْن وَلَا تَضْجُرُہُ مَسْئَلَۃُ السَّائِلِیْنَ! اَذَقْنَا بَرْدِ عَفُوِکَ وَ حِلَاوَۃَ رَحْمَتِکَ!!‘‘
اے وہ ذاتِ مطلق کہ جس کو ایک حال دوسرے حال سے نہیں روکتا اور نہ ایک عرض کا سننا دوسرے عرض کے سننے سے باز رکھتا ہے، اور نہ مشتبہ ہوتی ہیں اس پر آوازیں! اے وہ ذاتِ مطلق کہ جس کو بہت سے سوال مغالطے میں نہیں ڈال سکتے اور نہ مختلف ہیں، اس کے نزدیک بہت سی زبانیں! اے وہ ذات پاک جس کو ہٹ کرنے والوں کا اصرار تھکا نہیں دیتا اور مانگنے والوں کا سوال تنگ نہیں کرتا، ہم کو اپنے عفو کی ٹھنک اور رحمت کی حلاوت سے آشنا کر!۔ (دعاے خضر علیہ السلام)
پھر رو رو کر کہتا ہے:
’’اَلٰھِیْ! اَنْتَ اَنْتَ وَ اَنَا اَنَا، اَنَا الْعَوَّادُ اِلَی الذَّنُوْبِ وَاَنْتَ اِلَی الْمَغْفِرَۃِ! اِلٰھِیْ اِنْ کُنْتَ لاَ تَرْحَمُ اِلَّا اَھْلَ طَاعَتِکَ فَالِیَ مَنْ یَّفْزَعُ الْمُذْنِبُوْنَ!‘‘
حق تعالیٰ آپ آپ ہیں اور میں میں ہوں! میں گناہوں کی طرف بار بار پلٹتا ہوں اور آپ مغفرت کی طرف بار بار رجوع کرتے ہیں! حق تعالیٰ اگر آپ اپنے طاعت والوں ہی پر رحم کریں، تو گنہ گار کس طرف ملتجی ہوں؟
حق تعالیٰ میں آپ کی اطاعت سے قصداً علیحدہ رہا اور آپ کی نافرمانی پر دانستہ متوجہ ہوا، آپ پاک ہیں! آپ کی حجت مجھ پر کتنی بڑی ہے اور آپ کا مجھے معاف کرنا کتنا بڑاکرم ہے۔ پس جس صورت میں کہ آپ کی حجت مجھ پر ضروری ہوئی، میری حجت آپ کے ہاں جاتی رہی، میں آپ کا محتاج ہوں اور آپ مجھ سے بے پروا و بے نیاز، آپ مجھے معاف ہی فرما دیجیے! اے اُن سے بہتر ذات جن کو کوئی دعا مانگنے والا پکارے، اورافضل ان سے جن سے کوئی توقع رکھنے والا توقع رکھے! اسلام کی حرمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کا وسیلہ تیرے سامنے پیش کرتا ہوں، میرے سارے گناہ بخش دیجیے اور مجھے اس موقف سے حاجتیں پوری کرکے لوٹایئے اور جو کچھ میں نے مانگا مجھے دلا دیجیے اور جس چیز کی میں نے تمنا کی اس میں میری توقع پوری کیجیے!
پھر چلاتا ہے درد بھرے دل سے:
الٰہی! جو تیرے سامنے اپنی تعریف کیا کرے، میں تو اپنے نفس کو ملامت کرتا ہوں! الٰہی گناہوں نے میری زبان گونگی کر دی، پس مجھ کو اپنے عمل کا وسیلہ نہ رہا اور نہ سوا اُمید کے اور کوئی سفارش کرنے والا! الٰہی مجھے معلوم ہے کہ میرے گناہوں نے تیرے نزدیک میری قدر کچھ باقی نہ رکھی اور نہ عذر کرنے کی کوئی صورت چھوڑی لیکن تو تمام کریموں سے زیادہ کریم ہے! الٰہی اگر میں اس قابل نہیں کہ تیری رحمت تک پہنچوں توتیری رحمت تو شایاں ہے کہ مجھ تک پہنچے! الٰہی تیری رحمت ہر چیز کو شامل ہے اور میں بھی ایک چیز ہوں! الٰہی اگرچہ میرے گناہ بڑے ہیں لیکن ترے عفو کے مقابلے میں چھوٹے ہیں! میرے گناہوں سے درگزر کر اے کریم!!۔
جانتا ہے کہ یہ وہ مبارک مقام ہے جہاں حق تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور ان رحمتوں کو وہ قلوب جذب کرتے ہیں جو اس میدان میں موجود ہوتے ہیں، یہ ابدال و اوتاد کے قلوب ہیں، ان صالحین کے قلوب ہیں جو حق تعالیٰ کے آگے سربسجود ہیں، ان کے حضور میں دست بستہ ذلت و مسکنت کے ساتھ گڑگڑا رہے ہیں! رحمت الٰہی کے جذب کا اس سے زیادہ قوی و موثر کوئی طریقہ نہیں کہ:’’ان ابرار کی ہمتیں اکٹھی ہوں اور ایک وقت میں ایک زمین پر قلوب ایک دوسرے کی مدد کریں!‘‘اس ادراک کے ساتھ ہی اس کی زبان سے یہ چیخ نکلتی ہے:
غم ناکم وازدر تو باغم نروم
جز شاد و اُمید و اروخرم نروم
از درگہ ہمچو تو کریمے ہرگز
نومید کے نرفت ومن ہم نروم
(ابو سعید)
(میں غم زدہ ہوں، تاہم تیرے در سے غم ہی میں نہ جائوں گا۔ تیرے در سے سواے خوشی اور اُمید کے کوئی اور چیز لے کر نہیں جائوں گا۔ تیرے جیسے کریم کی درگاہ سے کوئی نا اُمید نہیں گیا، میں کیوں نااُمید جائوں۔)
اسی لیے کہا گیا ہے، کہ:’’عرفات کے شریف میدان میں آکر یہ سمجھنا کہ حق تعالیٰ نے میری مغفرت نہیں کی، سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘ ؎
رحمت اینجا کہ کند وسعتِ خودرا ظاہر
ہر کہ تقصیر نہ کرداست گنہ گار ترست!
(اس جگہ تیری رحمت اپنی پوری وسعت کے ساتھ جلوہ گر ہے، جو کوئی تقصیر نہ کرے وہ زیادہ گنہ گار ہے۔)
رمی جمار کے موقع پر احرام باندھتے وقت اپنے اس قول کو یاد کرتا ہے کہ:
’’لَبَّیْکَ لِحَجَّۃٍ حَقًّا تَعَبُّدً اوَّرِقًّا‘‘ (عن انسؓ، دارقطنی)میں حاضر ہوں حج کے واسطے حقیقت میں بندگی اور غلامی کی راہ سے۔
اور محض اپنی غلامی و بندگی کے اظہار کے لیے امر کی اطاعت کا قصد کرتا ہے اور محض تعمیل ارشاد و امتثال امر الٰہی کے لیے رمی کرتا ہے، جانتا ہے کہ اس فعل میں نہ تو نفس کو کوئی حظ ہے اور نہ عقل کو! اپنی عقل اور نفس کو حق تعالیٰ کے حکم پر قربان کرتا ہے، اور دیوانہ وار ’اقامت ذکر اللہ‘ کے لیے شیطان پر کنکر مارتا ہے اور زبان سے کہتا جاتا ہے:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ عَلٰی طَاعَۃِ الرَّحْمٰنِ وَ رغم الشَّیْطَانِ تَصْدِیْقاً بِکِتَابِکَ وَ اِتّبَاعًا لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ
جب قربانی کرتا ہے تو جانتا ہے کہ حق تعالیٰ کے حکم پر وہ اپنی جان بھی، قربانی کے جانور کی طرح فدا کرنے کو تیار ہوگا بلکہ عاشق کی زندگی تو ہر’زماں مردنی‘ ہے، وہ اپنی جان کو ہر دم فدا کر ہی رہا ہے:
اے حیاتِ عاشقاں در مردگی
دل نیابی جز کہ در دل بردگی
مابہا و خوں بہارا یا فتیم
جانب جاں باختن بشتافتیم
(تیری محبت میں فنا ہونے والوں کو بھی زندگی ملتی ہے، دل دے دینے ہی میں حاصل ہو جاتا ہے محبت ہوتی ہے۔ ہم نے قیمت اور خون بہا حاصل کر لیا، ہم جان کی بازی لگا گئے اورچلے گئے)
عاشقاں راہر زمانے مرد نیست
مرونِ عشاق خودیک نوع نیست
اود و صد جاں دار داز نورِ ہدیٰ
واں دو صدرامی کند ہر دم فدا
ہر یکے جاں راستانددہ بہا
از بنی خواں عشرۃ امثالہا
(رومیؔ)
(عاشقوں کے لیے موت نہیں، عاشقوں کی موت کوئی ایک ہی نوع پر مشتمل نہیں ہوتی۔ وہ دو سو جانیں رکھتا ہے اور ہدایت کی روشنی بھی، وہ یہ دو سو جانیں بھی قربان کر دیتا ہے۔وہ ہر جان پر قیمت حاصل کرتا ہے جیسے کہ نبی نے فرمایا کہ مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا ط ( الانعام ۶:۱۶۰) ’’اور جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس لیے دس گنا اجر ہے۔‘‘)
غرض حج کے اعمال میں دل کا وظیفہ یہ ہے جس کا اجمالاً اوپر ذکر ہوا۔ قلب کی یاد کے ساتھ حج کے اعمال وہی ادا کرتا ہے جس کے دل پر حق تعالیٰ کی محبت و غلامی کا داغ ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس غلام کو خود بادشاہ خریدتا ہے اس کا مرتبہ سوا ہوتا ہے ؎
داغِ غلامیت کرد پایۂ خسرو بلند
صدر ولایت شود بندہ کہ سلطاں خرید
(خسرو کا مرتبہ تیری غلامی کے باعث بڑھ گیا ہے ،جسے سلطان خریدے وہ مملکت کا صدر نشین ہوجاتا ہے۔) (الفرقان، لکھنو، حج نمبر، شوال ۱۳۷۰ھ)
کتابچہ دستیاب ہے،منشورات، منصورہ لاہور۔ قیمت:۷ روپے، سیکڑہ پر خصوصی رعایت
ہمارے معاشرے میں ناخواندگی کے بادل چھٹتے جارہے ہیں، علم کا نور بہ تدریج پھیل رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ چھوٹی عمر سے بچوں کا تعلیمی ادارے سے تعلق ہے۔ اب تین سال کے بچے کو نرسری اور کے جی کی راہ دکھائی جانے لگی ہے۔ اس کے برعکس مساجد میں چھوٹے بچوں کے ساتھ رویّہ عام مسلمان اور علما سب کے لیے قابلِ غور ہے۔
رسول کریمؐ کی ہدایت کے تحت تلقین کی جاتی ہے کہ ’’سات سال کے بچے کو مسجد میں نماز کے لیے لائو‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۱ سال کے بچے کو مسجد میں ضرور لایا جائے۔ اگر بچہ آنے میں پس و پیش کرے تو اس پر سختی کی جائے، اس میں مارپیٹ کی اجازت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو انگلی پکڑے مساجد کی طرف لے جایا کرتے تھے۔ یہ رواج نمازِ جمعہ اور عیدین میں خصوصیت کے ساتھ دیکھنے میں آتا رہا۔ عام نمازوں میں والدین بچوں کو لانے سے ہچکچاتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ نمازی بچوں کو مسجد میں لے آئیں تو انھیں بعض اوقات شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے۔ فرض نماز کی ادایگی کے فوری بعد ان بچوں کی سرزنش اور پھر بچوں کے والدین کی شناخت کے بعد ان کو بھی ایسی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو کیوں لائے؟
بچوں کو مسجد میں لانے اور ان کی شرارت کی بنا پر جس شرمندگی کا احساس والدین یا دیگر بزرگوں کو ہوتا ہے اس کی وجہ ہمیشہ خود بچے نہیں ہوتے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ بچے تو بڑے اہتمام کے ساتھ صف بناتے اور نماز کی ادایگی میں مصروف ہوتے ہیں مگر چند بچے اس موقع پر شرارت پر اُتر آتے ہیں۔ یوں دھکا دینے، کچھ پوچھنے یا مختلف اشارے کرنے کی بنا پر بچے ہنسنے یا دیگر مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے صف بنائے بڑی تنظیم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کوئی بڑا آیا اور اس نے بچوں کو سب سے پیچھے کی طرف دھکیل کر خود اس کی جگہ سنبھال لی۔ اس وجہ سے بھی وہ تمام اخلاقی تلقین اور تربیت کو فراموش کرکے شرارت پر اُتر آتے ہیں۔
مفتی عبدالرئوف سکھروی لکھتے ہیں:’’ بچوں کی صف کا مردوں کی صف کے پیچھے ہونا سنت ہے۔ لہٰذا جب جماعت کا وقت ہو اور بچے حاضر ہوں تو پہلے مرد اپنی صفیں بنائیں پھر ان کے بعد بچے اپنی صفیں بنائیں۔ پھر اس ترتیب سے جماعت قائم ہوجانے کے بعد اگر بعد میں کچھ مرد حاضر ہوں تو اوّل وہ مردوں کی صفوں کو مکمل کریں، اگر وہ پوری ہوچکی ہوں تو پھر بچوں کی صف ہی میں دائیں بائیں شامل ہوجائیں، بچوں کو پیچھے نہ ہٹائیں، کیونکہ بچے اپنے صحیح مقام پر کھڑے ہیں۔ مردوں اور بچوں کی مذکورہ ترتیب جماعت کے شروع میں ہے۔ نماز شروع ہوجانے کے بعد نہیں۔‘‘ (صف بندی کے آداب، مکتبہ الاسلام، کراچی، ص۳۱)۔مفتی عبدالرؤف بچوں کو مردوں کی صفوں کے درمیان شامل کرنے کی گنجایش بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’ اگر بچے تربیت یافتہ نہ ہوں اور دورانِ نماز شرارتیں کریں جس سے اپنی نماز کو باطل کرنے یا ان کے کسی طرزِعمل اور شرارت سے مردوں کی نماز باطل ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر ان کی علیحدہ صف نہ بنائی جائے، بلکہ ان کو منتشر اور متفرق طور پر مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ ان بچوں کو صف میں انتہائی بائیں جانب یا داہنی جانب متفرق طور پر کھڑا کیا جائے تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کرکے اپنی یا دوسروں کی نماز برباد کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔ ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہت نہ آئے گی۔‘‘(ایضاً، ص۳۲)
ہمارے معاشرے میں یہ رویہ فروغ پا رہا ہے کہ اکثر بڑے اپنے بچوں کو مسجد میں لانے سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کی شرارت کی وجہ سے خجالت اور شرمندگی کا سامنا نہ ہو۔ اس طرح بچوں کی تربیت نہیں ہوپارہی۔ ساتھ ہی مسجد میں بچوں کی عدم موجودگی بھی خصوصیت سے محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی کام کی عادت بچپن ہی سے پڑا کرتی ہے۔ اگر بچپن ہی سے بچوں کو مسجد میں لایا جائے گا تو بتدریج وہ نماز کی ادایگی سیکھ جائیںگے۔ گھر میں رہ کر ان کی تربیت ایک حد تک تو ہوسکتی ہے مگر آدابِ نماز مسجد آکر سیکھے جاسکیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے بچے یا چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لائیں اور ابتدائی طور پر اپنے برابر میں کھڑا کریں۔ ساتھ ہی اسے یہ احساس بھی دلائیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، یہاں شرارت کرنا بے ادبی اور گناہ ہے۔ اس طرح اُمید ہے کہ بچہ آپ کی قربت کے پیش نظر بھی خیال رکھے گا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور وہ شرارت سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ پھر بھی اس سے اگر کوئی لغزش ہوجائے تو اُسے سب کے سامنے ڈانٹنے اور بے عزت کرنے کے بجاے بڑے آرام اور تحمل سے سمجھائیں۔ اس طرح اس کی اصلاح بھی ہوگی اور اُسے حوصلہ بھی ملے گا، یوں وہ کامل مسلمان بن جائے گا۔
مسجد اور بچوں کا تعلق ہمیشہ سے ہے۔ خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں حضرت امام حسنؓ و حسینؓ کو مسجد میں لاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ دیکھیے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے۔ اسی اثنا میں حسنؓ اور حسینؓ آئے، انھوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھیں اور وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے تو رسولؐ اللہ فرطِ محبت سے منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان دونوں کو اُٹھا لیا اور اپنے سامنے بٹھا دیا۔ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: تمھارے لیے مال اور اولاد فتنہ (آزمایش) ہیں۔ جب میں نے ان دونوں بچوں کوچلتے اور لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ مجھے اپنی بات ختم کرنا پڑی اور ان دونوں کو اُٹھا لیا۔(رحمت ہی رحمت، تالیف: شیخ عطاء اللہ بن عبدالغفار، ترجمہ: مولانا امیر الدین مہر، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی، ص۵۵)
دورانِ نماز بچوں کی موجودگی کے حوالے سے یہ روایت خصوصی اہمیت کی حامل ہے ۔ حضرت عبداللہ بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ظہر یا عصر میں سے کسی نماز کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپؐ حسنؓ یا حسینؓ کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ نے اس کو آگے کر کے بٹھا دیا اور نماز کے لیے تکبیر کہہ کر نماز شروع کی۔ پھر جب سجدہ کیا تو آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدے کو طویل کیا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر اُٹھاکر دیکھا تو رسولؐ اللہ سجدے کی حالت میں ہیں اور بچہ آپؐ کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر میں واپس سجدے میں چلا گیا۔ پھر جب رسولؐ اللہ نے نماز پوری کی تو لوگوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدہ اتنا طویل کیا ، یہاں تک کہ ہمیںگمان ہوا کہ کوئی معاملہ درپیش ہے یا پھر آپؐ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ان میں سے کوئی بات نہ تھی لیکن میرا بیٹا میرے اُوپر سوار تھا اور مجھے یہ بات ناپسند لگی کہ میں اس کے لیے عجلت کروں یہاں تک کہ وہ اپنی (کھیلنے کی) ضرورت پوری کرلے۔(ایضاً، ص ۵۸)
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ میں نے حسن بن علیؓ کو دیکھا کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے، جب کہ آپؐ سجدے میں ہوتے تو آپؐ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے۔ آپؐ انھیں اُتارتے نہیں تھے، جب تک وہ خود نہیں اُتر جاتے، اور وہ آتے اور آپؐ رکوع کررہے ہوتے تو اپنے دونوںپیروں کو پھیلا دیتے اور وہ دوسری طرف نکل جاتے۔(ایضاً، ص ۵۹)
کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جس کے ذریعے یہ ثابت ہوکہ نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسنؓ و حسینؓ کے اوقاتِ نماز میں مسجد آنے پر ناراض ہوئے ہوں اور اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ زہراؓ سے کبھی یہ کہا ہو کہ بچے مسجد میں نماز کے دوران کیوں جاتے ہیں یا روکنے کی ہدایت کی ہو۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا جو زمانہ پایا، اس میں ان کی عمریں محض چند سال تھیں۔
بچوں کے حوالے سے مختصر نماز پڑھنے کا بھی حکم ہے تاکہ بچوں کے رونے سے ان کی ماں یا دیگر نمازیوں کا دھیان بٹنے کا امکان کم رہے۔ حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز طویل کروں۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز اس ڈر سے مختصر کرتا ہوں کہ اس کی ماں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بن جائے۔
خانۂ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں بچوں کو ساتھ لانے کا عام رواج ہے۔ تقریباً تمام ہی نمازوں میں ناسمجھ اور سمجھ دار ہردو قسم کے بچے ہوتے ہیں اور ان مقاماتِ مقدسہ پر کثیرتعداد کے پیش نظر یہ اہتمام بھی نہیں ہوپاتا کہ مردوں کی صفوں کے بعد بچوں کی صف بنائی جائے، بلکہ بچوں کو اپنے ساتھ کھڑا رکھنے کا رواج ہے۔ خود میں نے دیکھا کہ مغرب کی نماز کے دوران بیت اللہ اور پہلی صف کے درمیان بچے بھاگتے دوڑتے رہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ نماز کے بعد ان بچوں کو بُری طرح ڈانٹا یا پیٹا جائے گا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نماز کے بعد بچوں کو ان کے والدین نے بڑے پیار سے چوما اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اسی طرح مسجد نبویؐ میں بھی ہوا اور جب میرے خدشے کے پیشِ نظر بچوں کی سرزنش نہ ہوئی تو میں نے مدینہ میں مقیم اپنے ایک عزیز سے استفسار کیا کہ ہمارے یہاں تو والدین خود اور دیگر نمازی بچوں پر برس پڑتے ہیں۔ مگر یہاں بچوں کو ڈانٹنا تو کجا، انھیں پیار کرنے اور چومنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ بولے: اچھا ہوا تم نے اس پورے معاملے کو خاموشی سے دیکھا۔ اگر کہیں غلطی سے بچوں کو ڈانٹ دیتے یا ان کے والدین سے شکایت کرتے تو لوگ تم پر برس پڑتے۔ کیونکہ یہ عام خیال ہے کہ مسجد نبویؐ پر بچوں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ اگر وہ نادانی میں بھاگیں دوڑیں، شرارت کریں یا نمازیوں کی پیٹھ پر چڑھ جائیں تو کوئی حرج اور کراہیت کی بات نہیں۔ کیونکہ حضرت امام حسنؓ و حسینؓ بھی مسجد میں بھاگتے دوڑتے آتے اور منبر تک چلے جاتے تھے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں اور مسجد کے تعلق کے درمیان ایک خلیج حائل کردی گئی ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کو ساتھ لے آئے اور برابر میں کھڑا کرے تو دوسرے اعتراض کرتے ہیں۔ اگر بچے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تو دورانِ نماز چند بچوں کی شرارت پر سب بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کی حمایت کرے تو اُسے بھی آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بچے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں۔ یوں مساجد بچوں سے غیرآباد ہوتی جارہی ہیں۔
اب ذرا اپنے گردوپیش پر نظر کیجیے۔ ہماری اکثر مساجد کے گرد دکانیں ہوتی ہیں۔ ایک اسلامی معاشرہ ہونے کے باوجود دکان دار اور قریبی مکین مسجد کے تقدس سے ناآشنا ہیں۔ موسیقی، گانے اور اشیاے ضروریہ بیچنے والوں کی صدائیں، ان سب سے بڑھ کر قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کا شور اور بلاوجہ ہارن کا استعمال___ ان مواقع پر مسجد میں موجود نمازی کیا کرتے ہیں؟ محض ان اُمور کو نظرانداز کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ دکان دار یا صاحب ِ مکاں کو کچھ کہہ سکے۔ ہاں، اگر غصہ آتا ہے تو ان معصوم بچوں پر جو اپنے والدین کے ہمراہ خوشی خوشی مسجد میں آتے ہیں اور ابھی آدابِ نماز اور احترامِ مسجد سے واقف نہیں۔ اس لیے دورانِ نماز بچے گلیوں میں کھیلنے یا گھروں میں ٹی وی دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ عمل اسلامی معاشرے کی تیاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ آیئے! غور کریں ہم کس طرح بچوں کو مسجد میں لاکر ان کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔
مرزا محمد الیاس نے ارقم آفاق پرنٹر، بلال گنج سے چھپوا کر اچھرہ، لاہور سے شائع کیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات [سورئہ اعراف، آیات ۱۹۹-۲۰۲ میں] بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضورؐ ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضوؐر کے ذریعے سے اُن سب لوگوں کو یہی حکمت سکھانا ہے جو حضوؐر کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے:
داعیِ حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو‘ متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق‘ عامۃ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے‘ نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے‘مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی‘ بہتان تراشی‘ ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو‘ اُس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری‘ درشت خوئی‘ تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعالِ طبع اِس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے یوں بیان فرمایاہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’غضب اور رضا‘ دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں‘ جو مجھ سے کٹے‘ میں اس سے جڑوں‘ جو مجھے میرے حق سے محروم کرے‘ میں اسے اس کا حق دوں‘ جو میرے ساتھ ظلم کرے میںاس کو معاف کردوں‘‘۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپؐ ان لوگوں کو کرتے تھے جنھیں آپؐ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفروا ویسروا ولا تعسروا، یعنی جہاں تم جائو وہاں تمھاری آمد لوگوں کے لیے مژدۂ جانفزا ہو نہ کہ باعث ِ نفرت‘ اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے۔اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹)یعنی ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔
دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنھیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (common sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعیِ حق کا اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتاہے اور ہرسامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ نکال لیتا ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ عام انسان ‘ خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں‘ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلنداخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں‘ تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعیِ حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ آخرکار میدانِ مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہیں‘ یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپؐ کے بعد تھوڑی ہی مدّت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سو فی صدی اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہوگئے۔
اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملے میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت ِ دعوت اور اصلاحِ نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہو جاتی ہے۔
[گذشتہ] ہدایت… کے سلسلے میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعیِ حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزعِ شیطانی (یعنی شیطان کی اُکساہٹ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے اور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اُس سے دعوتِ حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے۔ دعوتِ حق کا کام بہرحال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اُٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر‘ خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے۔ لیکن شیطان‘ جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا‘ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعیِ حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعیِ حق کو اُکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے۔ یہ اپیل جو شیطان داعی کے نفس سے کرتا ہے‘ اکثر بڑی بڑی پُرفریب تاویلوں اور مذہبی اصطلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی تہہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی (یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہش مند) ہیں تو وہ اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی بُرے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوتِ حق کا مفاد کس طرزِعمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے ‘ تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلے میں نہیں ٹھیرسکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انھیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم نہیں رُکتے۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔
اس ارشاد کا ایک عمومی محل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہلِ تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیرمتقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ بُرائی سے بچیں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بُرے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دل کو چھو جاتا ہے تو انھیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ وہ بُرے خیالات‘ بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اُسی طرح خلافِ مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انھیں محسوس ہو جاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبارِشر کو اپنے اُوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں‘ نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں‘ اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے‘ ان کے نفس میں بُرے خیالات‘ بُرے ارادے‘ بُرے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے‘ بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اوروہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے‘ یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۱۱۱-۱۱۳)
دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہییں: ایک حکمت، دوسرے عمدہ نصیحت۔
حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔
عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں:
ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت سے ہی ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں اُن کے لیے جو پیدایشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی اُبھارا جائے اور ان کے بُرے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عملِ صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیرخواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے، بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔
[دعوت میں اگر مباحثے کی نوبت آجائے تو] اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کُشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریفِ مقابل کو چپ کرا دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو، اعلیٰ درجے کا شریفانہ اخلاق ہو، معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ.َ [ضد] اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دُور نہ نکل جائے۔ (ایضاً، ص ۵۸۱-۵۸۲)
مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ‘ مہذب و شایستہ زباں میں‘ اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص سے بحث کی جا رہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہو سکے۔ مبلّغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اُتار دے اور اسے راہِ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مدمقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتاہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے‘ اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفایاب ہو جائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملے میں دی گئی ہے‘ مگریہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جوقرآن میں جگہ جگہ دی گئی ہے ۔مثلاً:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل ۱۶:۱۲۵) دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو نصیحت کے ساتھ۔ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴) بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں(مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو‘ تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے گرم جوش دوست ہے۔
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o (المومنون ۲۳:۹۶) تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو، ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمھارے خلاف ) بناتے ہیں۔
خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ o وَاِمَّا یَنْزَ غَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ (الاعراف۷:۱۹۹-۲۰۰) درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے) شیطان تمھیں اُکسائے تواللہ کی پناہ مانگو۔
یعنی جو لوگ ظلم کا رویّہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویّہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت، ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلے میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعیِ حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے۔ اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی ‘ شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن ج۳:۷۰۸-۷۰۹)۔ (انتخاب و ترتیب: ڈاکٹر خالد محمود ترمذی)
حقوق مرد و زن کا مسئلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس قدر اہم ہے کہ اس کو تمام معاشرتی مسائل کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے۔ خانگی زندگی کی ساری مسرتیں اور خوشیاں اس پر مبنی قرار دی جاسکتی ہیں۔ صرف افراد کا بننا اور بگڑنا ہی نہیں، بلکہ حکومتوں کے ضعف و استحکام کا بھی انحصار اسی پر ہے۔ اجتماعی زندگی میں مرد اور عورت کا تعلق دراصل تمدن کا سنگِ بنیاد ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ اگر اس میں ذرا سی بھی کجی آجائے تو ع
تا ثریّا می زود دیوار کج
ایک طرف اس مسئلے کی یہ اہمیت ہے اور دوسری طرف اس کی پیچیدگی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ جب تک فطرت کے تمام حقائق پر کسی کی نظر پوری طرح حاوی نہ ہو۔ وہ اس کو حل نہیں کرسکتا۔ سچ کہا تھا جس نے کہا تھا کہ انسان عالمِ اصغر ہے۔ اس کے جسم کی ساخت، اس کے نفس کی ترکیب، اس کی قوتیں اور قابلیتیں، اس کی خواہشات، ضروریات اور جذبات و احساسات اور اپنے وجود سے باہر کی بے شمار اشیا کے ساتھ اس کے فعلی و انفعالی تعلقات، یہ سب چیزیں ایک دنیا کی دنیا اپنے اندر رکھتی ہیں۔ انسان کو پوری طرح نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ اس دنیا کا ایک ایک گوشہ نگاہ کے سامنے روشن نہ ہوجائے، اور انسانی زندگی کا یہ بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ خود انسان کو پوری طرح نہ سمجھ لیا جائے۔
انسانی علوم میں سے کوئی علم بھی ایسا نہیں ہے جو کمال کے آخری مرتبہ پر پہنچ چکا ہو، یعنی جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہو کہ جتنی حقیقتیں اس شعبۂ علم سے تعلق رکھتی ہوں ان سب کا اس نے احاطہ کرلیا ہے۔ اب تک جو حقائق سامنے آچکے ہیں ان کی وسعتوں اور باریکیوں کا بھی یہ عالم ہے کہ انسان کی نظر ان سب پر بیک وقت حاوی نہیں ہوسکتی۔ ایک پہلو سامنے آتا ہے تو دوسرا پہلو نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ کہیں نظر کوتاہی کرتی ہے اور کہیں شخصی رجحانات نظر میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اس دوہری کمزوری کی وجہ سے انسان خود اپنی زندگی کے ان مسائل کو حل کرنے کی جتنی بھی تدبیریں کرتا ہے وہ ناکام ہوتی ہیں اور تجربہ آخرکار ان کے نقص کو نمایاں کردیتا ہے۔ صحیح حل صرف اسی وقت ممکن ہے، جب کہ نقطۂ عدل کو پا لیا جائے ،اور نقطۂ عدل پایا نہیںجاسکتا جب تک کہ تمام حقائق اور اس کے تمام پہلوئوں پر یکساں نظر ہو اور یہ نظر کسی انسان کی نہیں بلکہ خالقِ انسان کی ہوسکتی ہے، جس نے واقعی مرد و زن کے حقوق میں کمال درجہ توازن اور نہایت عادلانہ نظام قائم کرکے انسان کو دیا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو حقوقِ انسانی کا علَم بردار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو افراط وتفریط سے بچاتے ہوئے نقطۂ عدل کا راستہ دکھاتا ہے۔
کسی نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے مختلف پُرزوں کو صحیح جگہ پر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام چلانے کے لیے خود اس کے لیے یہاں کے کارپردازوں کا مقام متعین کردیا ہے تاکہ اس میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ نظامِ کائنات کو خالقِ کائنات نے بنایا ہی اس اصول پرہے کہ اس کے تمام افراد و عناصر اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کے لیے مجبور ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کسی پہلو سے ناقص اور کسی پہلو سے مستغنٰی ہے۔ ہر ایک کسی پہلو سے مطلوب اور کسی اعتبار سے طالب بھی ہے، اور باہمی تعاون سے یہ اپنے اپنے خلا کو بھرتے ہوئے مقصودِ حیات کو پانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ زمین و آسمان، شب و روز، گرمی و سردی، بحروبّر، ان سب میں اسی نوعیت کا رابطہ ہے۔ ان میں سے بجاے خود نہ کوئی دوسرے سے مستغنٰی ہے اور نہ ان میں سے کسی کو یہ دعویٰ کرنے کا حق ہے کہ اس نظامِ کائنات میں جو مقام اس کا ہے کسی دوسرے کا نہیں، یا جو مقصد اس کے ذریعے سے پورا ہو رہا ہے وہ کسی درجے میںاور کسی نوعیت سے اُس مقصد سے ارفع ہے جو دوسرے کے ذریعے سے پورا ہو رہا ہے۔
غور کیجیے کہ اس اعتبار سے ان تمام اجزاے مختلفہ میں جو حیرت انگیز مساوات ہے کیا کوئی شخص اس مساوات کا انکار کرنے کی جرأت کرسکتا ہے؟ لیکن اس مساوات کے باوجود کبھی آپ نے دیکھا کہ محض اس زعم کی بنا پر کہ ہم آپس میں بالکل مساوی ہیں زمین آسمان سے جاٹکرائی ہو، چاند نے سورج کے مدار میں گردش شروع کر دی ہو، رات نے دن کی حدود میں مداخلت کر دی ہو، سردی نے گرمی کا روپ دھار لیا ہو، اور سمندر نے خشکی پر یلغار کردی ہو۔ اگر خدانخواستہ یہ ہوجائے اور دن دو دن کے لیے نہیں صرف چند لمحوں کے لیے ہی ہوجائے تو یہ سارا نظامِ کائنات درہم برہم ہوکے رہ جائے۔ ٹھیک اسی اصول پر عورت اور مرد دونوں مساوی ہیں۔ زندگی کی گہما گہمی اور نشیب و فراز میں ہمیشہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے مددگار اور معاون رہے ہیں۔ زندگی کے بارِگراں کو دونوں نے سنبھالا ہے۔ تمدن کا ارتقا دونوں کے اتحاد سے عمل میں آیا ہے۔ دونوںتہذیب کے معمار ہیں۔ انسانی مقصودِ حیات کی ذمہ داری دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے۔ زندگی مرد اور عورت دونوں ہی کی محتاج ہے۔ جس طرح مرد اپنا مقصدِ وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غایت ہے اور قدرت ان دونوں اصناف کے ذریعے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کر رہی ہے۔
مرد اور عورت گو، زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں لیکن دونوں کا دائرۂ عمل الگ الگ ہے۔ اس فرق کا اظہار دونوں کو ایک ہی نوع کے دو افراد بنانے کے باوجود مختلف انداز کا وجود عطا کرنے میں پوشیدہ ہے۔ ایک کے وجود کو نوعِ انسانی کی پیدایش میں اضافہ کرنے کے لیے خصوصی تربیت دی گئی ہے، اور دوسرے کے وجود کو جسمانی محنت و مشقت اور بیرونی معاشرتی تگ و دو کے لیے خصوصی بناوٹ دی گئی ہے۔ قدرت کے اس خصوصی انداز کو نہ ہم نظرانداز کرسکتے ہیں، نہ ہم بدل سکتے ہیں اور نہ عبث قرار دے کر کارخانۂ حیات میں تقسیمِ کار کے اصول کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ مرد و عورت کے لیے الگ نوعیت کے جسم کی بناوٹ اور ان کی فطرت میں الگ نوعیت کے رجحانات قدرت کی تخلیق کے مقصد کو بیان کرنے کے لیے بہت کافی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قدرت نے دونوں کے لیے الگ دائرۂ کار تجویز کیا ہے۔ اس جداگانہ دائرۂ کار کی تقسیم کو نظرانداز کر کے ہم قدرت کے انتظام کے خلاف دوسرے راستے اختیار کریں گے تو لازماً کسی پر کام کا بوجھ بڑھ جائے گااورکسی پر کم ہوجائے گا۔ لہٰذا نوعِ انسانی کی سلامتی اور بقا کا انحصار اس میں پوشیدہ ہے کہ دونوں بغیر کسی منازعت و منافست[تکرار اور مسابقت]کے اپنی اپنی قابلیت پر قانع رہیں اور جو کرسکتے ہیں اس کو چھوڑ کر نہیں کرسکتے، اس کے خبط میں مبتلا نہ ہوں ورنہ یہ منازعت [تکرار] دنیا کو تباہ کرکے رکھ دے گی اور اس غیرفطری تقسیمِ کار سے بہت سی تمدنی اور معاشرتی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔
اسلام عورت اور مرد کو مساوی قرار دینے کے باوجود ان کی حقیقی اور فطری صلاحیتوں کے لحاظ سے نظامِ اجتماعی میں ان کو الگ الگ مقام دیتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو اس مقام پر رکھتا ہے جس مقام پر وہ بہتر طریق پر معاشرے کو اپنی قابلیتوں سے فائدہ پہنچا سکیں۔ عورت و مرد کی تخلیق کے ساتھ قدرت نے جو فرائض وابستہ کیے ہیں ان میں سے ہر فرض بجاے خود اتنا ہی اہم اور اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دوسرا فرض۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھر کا کام سنبھالنا کم اہم ہے اور دفتر کا اہم ہے، یا بچوں کی پرورش کرنا ایک حقیر کام ہے اور سپہ گری یا تجارت ایک معزز کام ہے۔ نظامِ معاشرت و اجتماع کے حفظ و بقا کے جتنے بھی کام ہیں سب یکساں اور ضروری ہیں۔ معاشرے کا جو پُرزہ ان کاموں میں سے جس کام کی انجام دہی کے لیے بھی بنا ہے، اگر وہ ٹھیک ٹھیک اسے انجام دے رہا ہے تو مجموعی مشین کے اندر اس کی قدروقیمت کسی بڑے سے بڑے پُرزے کے برابر ہے اور اس کو حقیر سمجھنے اور نظرانداز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
آیئے دیکھیں کہ حق کسے کہتے ہیں؟ اور حقوق میں برابری کا مفہوم کیا ہے؟ ایک مغربی مفکر گالسس ایزیجیو فاز، حق کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے: ’’انسانی یا بنیادی حقوق جدید نام ہے ان حقوق کا جنھیں روایتی طور پر فطری حقوق کہا جاتا ہے۔ ان کی تعریف یوں ہوسکتی ہے کہ وہ اخلاقی حقوق جو ہر انسان کو ہر جگہ اور ہمہ وقت اس بنیاد پر حاصل رہتے ہیں کہ وہ دوسری تمام مخلوقات کے مقابلے میں اس اعتبار سے ممتاز ہے کہ وہ ذی شعور اور ذی اخلاق ہے۔ انصاف کو بُری طرح پامال کیے بغیر کوئی شخص ان حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
گویا حق وہ چیز ہے جسے کوئی دعوے دار وصول کرنے کا قانونی استحقاق رکھتا ہو، یعنی جو کچھ وصول ہو وہ حق ہے، اور جو کچھ اداکرنا پڑے وہ فرض ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی مرد ہے یا عورت، ہر انسان کو تحفظِ جان، تحفظِ ملکیت، تحفظِ آبرو، نجی زندگی کا تحفظ، شخصی آزادی کا تحفظ، آزادیِ اظہار راے، ظلم کے خلاف احتجاج کا حق، حصولِ انصاف کاحق، معاشی تحفظ کا حق، معصیت سے اجتناب کا حق، آزادیِ تنظیم و اجتماع اور سیاسی زندگی میں شرکت کا حق جیسے بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ حقوق میںبرابری یہ ہے کہ یہ سارے حقوق مرداور عورت کو ملتے رہیں۔ ان کے غصب ہونے کی صورت میں آواز بلند کی جاسکے اور اسے عدل کے ساتھ سنا جائے۔
حقوق مرد و زن میں اسلام کی عطاکردہ مساوات کو دیکھنے سے پہلے اس بنیادی سوال پر غور کیجیے کہ مندرجہ بالا حقوق کس کے مقرر کردہ ہیں؟ ان کی قانونی و اخلاقی حیثیت اور ان کا جواز کیا ہے؟ کیا انسان اپنے کسی ذاتی استحقاق کی بناپر ان حقوق کا مستحق بنا ہے یا اپنے کسی دعوے، کسی جدوجہد، یا اپنے منظور شدہ مطالبات کی وجہ سے اسے یہ استحقاق حاصل ہوا ہے؟ انسانی حقوق کسی معاہدۂ عمرانی سے، حکومت اور عوام کے درمیان بالاتفاق ہونے والے کسی معاہدے سے، انسان کے وضع کردہ کسی دستور سے یا انسان اور انسان کے درمیان ہونے والے کسی سمجھوتے (agreement) سے متعین ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بنیاد صرف مقتدرِاعلیٰ کا حکم ہے۔ اس نے ہر انسان کے حقوق کا تعین کیا ہے اور ان کے درمیان ترجیحات طے کی ہیں۔ قرآنی احکام اور حجۃ الوداع کے موقع پر انسانی حقوق کا منشور ہادیِ برحق کا وہ یادگار خطبہ اپنے ذہن میں مستحضر کیجیے تو آپ اس نتیجے پر لازماً پہنچیں گے کہ یہ صرف اسلام ہی ہے جو حقوقِ انسانی کا علَم بردار ہے۔ فی الحقیقت عورت کی عزت اور اس کے حق کا تخیل ہی انسان کے دماغ میں اسلام کا پیدا کردہ ہے۔ آج حقوقِ نسواں اور مساوات کے جو نعرے آپ سن رہے ہیں یہ سب اسی انقلاب انگیز صدا کی بازگشت ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بلند ہوئی تھی اور جس نے افکارِ انسانی کا رُخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
یوں یہ بات واضح ہوگئی کہ جس نے حق کا تخیل دیا اُسی نے سب سے بڑھ کر اور بہترین حقوق بھی دیے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حقوق عطا ہی اسی نے کیے۔
مساوات کا ایک مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں مساوی پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے انتظامِ ملک میں دونوں کو مساوی حصہ ملنا چاہیے، یا یہ کہ قدرت نے جن قوتوں اور قابلیتوں سے مرد کو مسلح کیا ہے اور مردجو کچھ کرسکتا ہے عورت بھی وہ سب کچھ کرسکتی ہے، لہٰذا مرد اور عورت کا دائرۂ عمل ایک ہونا چاہیے۔ آج آزادیِ نسواں اور مساواتِ مرد و زن کے نعرے اسی مفہوم کے ساتھ لگائے جارہے ہیں کہ جب تک عورت ٹینک، توپ، ریلوے کا انجن، بحری جہاز، طیارہ، سڑک کوٹنے کا انجن اور سامان سے لدا ہوا ٹرک نہیں چلائے گی، ویلڈنگ سیٹ ہاتھ میں نہیں لے گی، پُل، بند اور بلندعمارتیں تعمیر نہیں کرے گی اسے مرد کے مساوی ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوگا۔ گویا جب تک عورت وہی کارنامہ انجام نہ دے جو مرد انجام دے رہا ہے، اس وقت تک مساوات کی شرط پوری نہیں ہوتی، حالانکہ یہ مساوات درحقیقت حقوق میں نہیں بلکہ فرائض میں مساوات ہے اور مساوات کا یہ ایسا تصور ہے جو خود مردوں میں بھی موجود نہیں۔ ذمہ داریوں اور فرائض میں اضافے پر اصرار کرنے والی خواتین اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنا حق طلب کر رہی ہیں۔
اس مفہوم نے عورت سے اس کی نسوانیت چھن لی اور اس پر مرد بن جانے کا جنون طاری کر دیا۔ یہ جنون اس کے بالوں کی وضع قطع، اس کے لباس، اس کی چال ڈھال، اس کے کھیل کود اور جملہ سرگرمیوں میں ہرجگہ اُبھر آیا ہے۔ عورت مرد کے پیچھے دوڑتے دوڑتے خود مرد کا روپ دھار بیٹھی ہے۔ اگر عورت کو اس کا صحیح مقام نہ دیا جائے تو اس کے نتیجے میں اس کے مضر اثرات خود اس پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر معاشرہ بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر مرد کو اس کے صحیح محل کے سوا جہاں کے لیے اس کی قابلیتیں تقاضا کر رہی ہوتی ہیں، کسی دوسرے محل میں استعمال کیا جائے تو لازماً اس کااثر بھی یہی ہوتا ہے۔ ایک طرف مرد کی صلاحیتیں اس سے نقصان اُٹھاتی ہیں اور دوسری طرف معاشرہ اس کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے فوائد کے ایک بڑے حصے سے محروم ہوجاتا ہے۔
یہ نظریۂ مساوات اپنی سادہ اور ابتدائی حالت میں بہت معصوم نظر آتا ہے اور جذبات کی رَو میں بہنے والے مردوں اور عورتوں کو اپیل بھی کرتا ہے۔ لیکن جب اس کو بنیاد بناکر اس پر حیاتِ اجتماعی کی تعمیر شروع کی جاتی ہے تب اس کے عیوب کھلنا شروع ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اجتماعیات میں ایک معمولی ادراک رکھنے والا شخص بھی یہ محسوس کرلیتا ہے کہ جس نظامِ اجتماعی کی بنیاد اس نظریے پر ہے اس کی بنیاد درحقیقت ریت پر ہے، جس کا گر جانا ہروقت متوقع ہے۔ اس کے بُرے اثرات جو معاشرے اور حیاتِ اجتماعی پر مرتب ہوئے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ مساوات مرد و زن کا پُرفریب نعرہ دے کر ایک طرف عورت کے سر پر اضافی ذمہ داریوں اور فرائض کا بوجھ لاد دیا گیا اور دوسری طرف چالاک مرد نے اسے ہر جگہ دل بہلانے کا کھلونا بناڈالا۔ گھر سے لے کر دفتر، کارخانہ اور ہر شعبۂ زندگی میں ایک یا ایک سے زائد عورتوں کو ساتھ لگائے رکھنے کے شوقین مردوں نے اس کے قرب اور خدمت سے خود بھی فائدہ اُٹھایا اور اسے ماڈل گرل اور سیلزگرل وغیرہ کا روپ دے کر اپنے کاروبار کو بھی چمکایا۔
آج کیفیت یہ ہے کہ سگریٹ، بلیڈ، شراب، ٹوتھ پیسٹ، صابن اور دنیا کی ہر شے کی فروخت کے لیے عورت کے حسن اور اس کی ایک ایک اَدا کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ عورت تشہیر وترغیب کا سب سے بڑا ذریعہ اور مرد تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے نئے نئے گاہک پھانسنے کا آلۂ کار بن گئی ہے۔ یورپ کی پوری تجارت جنس زدگی کے مرض میں مبتلا ہے۔ اب عورتیں وہاں دھکے کھاتی پھرتی ہیں، اور کوئی ان کو پوچھتا تک نہیں۔ اِلا یہ کہ پوچھنے کی کوئی خاص وجہ ہو۔ اس وقت تک بھی مغربی ممالک میں مرد اور عورت ایک ہی قسم کے جو کام کرتے ہیں اس کا معاوضہ دونوں کو برابر نہیں دیا جا رہا ہے اور اس پر عورتیں شور مچا رہی ہیں۔ پھر جن میدانوں میں عورتوں اور مردوں کو برابر لاکھڑا کر دیا گیا ہے ان میں، چونکہ اللہ تعالیٰ نے فطرتاً عورتوں کو مردوں کے برابر نہیں کیا ہے، اس وجہ سے عورت کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ مرد کی برابری نہیں کرسکی ہے۔ اس وقت بھی آپ دیکھیے مغربی ممالک ہوں یا اشتراکی ممالک، کہیں بھی ذمہ داری کے اُونچے مناصب عورتوں کو نہیں دیے جا رہے ہیں، بلکہ وہ مردوں کو ہی دیے جاتے ہیں۔ اس پُرفریب جال کے اثرات ہمارے ہاں بھی در آئے ہیں، اور کبھی حقوقِ نسواں کے نام پر اور کبھی قصاص و دیت کے مسئلے کی آڑ لے کر ایک گروہ ایسا اُٹھا ہے جس نے دلیل و بینہ کی راہ چھوڑکر مظاہرے کرنے اور جلوس نکالنے کی راہ اپنائی ہے۔ یہ گروہ جس کو قرآن میں حکمِ ستروحجاب نہ ملا اور حدیث میں اخفاے زینت کی تاکید نہ ملی، جس نے آج تک کبھی کوئی کارنامہ اسلام کے حق میں اور مغربیت کے خلاف انجام نہ دیا، جس نے رقص و سُرود کی مخلوط محفلوں کو زینت بخشی، جس نے قطاروں میں کھڑے ہوکر باہر سے آنے والے اغیار کا پوری نمایش حُسن کے ساتھ استقبال کیا، جس کے لیے سر پر دوپٹہ ٹکانا مشکل ہورہا ہے، جن کے گھروں میں موجودہ دور کی ساری فضولیات کا دور دورہ ہے، جن میں سے بعض کو نماز کی توفیق نہ ہوئی ہوگی___ انھیں اسلام کے قانون دیت و قصاص کی تصحیح کے لیے سخت بے تابی لاحق ہوگئی ہے۔ جیسے اسلام میں یہی ایک حکم نازل ہوا تھا اور یہ درست ہوجائے تو پھر ٹھیک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تصور کے ساتھ مساوات نہ کبھی قائم ہوئی ہے، نہ ہوسکتی ہے، بلکہ عورت ان پُرفریب اصطلاحوں کے جال میں پھنس کر اس دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے۔
مساوات کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ عورت اور مرد انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں۔ جس طرح مرد قدر و احترام کا مستحق ہے، اسی طرح عورت بھی قدرواحترام کی حق دار ہے۔ جس طرح مرد کچھ خاص قابلیتیں اور قوتیں لے کر آیا ہے، اسی طرح عورت بھی کچھ مخصوص قوتیں اور قابلیتیں لے کر پیدا ہوئی ہے۔ جس طرح مرد اپنے کچھ خاص جذبات و عواطف اور کچھ فطری مقتضیات و مطالبات رکھتا ہے، اسی طرح عورت بھی اپنے کچھ خاص رجحانات و میلانات اور کچھ فطری مطالبات و مقتضیات رکھتی ہے۔ اس لیے عورت اور مرد دونوں کو اپنے اپنے فطری رجحانات و میلانات کے مطابق سورج اور چاند کی طرح اپنے اپنے دائروں میں قدرت کی منشا کی تکمیل میں سرگرم رہنا چاہیے۔ معاشرتی امور میں دونوں پر ان کے فطری صلاحیتوں کے لحاظ سے ذمہ داریاں ہونی چاہییں اور ان کی ذمہ داریوں کے اعتبار سے ان کو حقوق ملنے چاہییں۔ ہر ایک کی تخلیق سے فطرت کا جو منشا ہ اس کو وہ فطرت کے ضابطوں کے تحت اپنے اپنے دائرے کے اندر یکساں آزاد اور یکساں پابند رہ کر پورا کرے۔
اسلامی تصور میں تین باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے:
ایک یہ کہ عورت پر مرد اپنے حقوق سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر ظلم نہ کرسکے، اور ایسا نہ ہو کہ مرد اور عورت کا تعلق آقا و لونڈی کا تعلق بن جائے۔
دوسرے یہ کہ عورت کو ایسے تمام مواقع بہم پہنچائے جائیں جن سے فائدہ اُٹھا کر وہ نظامِ معاشرت کے حدود میں اپنی فطری صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکے اور تعمیرتمدن میں اپنا کردر بہتر سے بہتر انداز میں انجام دے سکے۔
تیسرے یہ کہ عورت کے لیے ترقی اور کامیابی کے بلند سے بلند درجوں تک پہنچنا ممکن ہو، مگر اس کی ترقی اور کامیابی جو کچھ بھی ہو، عورت ہونے کی حیثیت سے ہو۔ مرد بننا نہ تو اس کا حق ہے اور نہ مردانہ زندگی کے لیے اس کو تیار کرنا تہذیب و تمدن کے لیے مفید ہے۔
اس تصور کے نتیجے میں قرونِ اولیٰ میں عورت نے جو مقام و مرتبہ حاصل کیا اور تہذیب و تمدن کی جو ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں وہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم سب اپنے شان دار ماضی سے بخوبی واقف ہیں۔
آپ نے غور کیا کہ مساوات کے یہ دونوں نظریے اپنی اساس و بنیاد اور اپنے نتائج و اثرات میں اتنے مختلف ہیں کہ جس طرح مشرق و مغرب کو یک جا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح دونوں نظریات کو جمع کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان دونوں نظریات کی اساس پر حیاتِ اجتماعی کی جو عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں، وہ اپنی بنیاد، اپنے ڈھانچے، اپنے طرزِ تعمیر، اپنی ہیئت مجموعی اور اپنے معاشرتی فوائد و مقاصد کے لحاظ سے اس درجہ مختلف النوع ہوتی ہیں کہ ممکن نہیں ہے کہ ایک کا پیوند دوسرے کے ساتھ لگایا جاسکے۔ اگر اس قسم کی کوئی کوشش کی گئی تو اس سے ہماری حیاتِ اجتماعی کے کسی ایک گوشے میں خرابی پیدا نہ ہوگی بلکہ یہ ایک غلطی ہمارے پورے نظامِ اجتماعی کو بے ہنگم بناکر رکھ دے گی۔
اس لیے اگر آپ مغربی نظریۂ مساوات کے معتقد ہیں اور اسی نظریے کو رہنما مان کر چلیں گے تو ہرقدم پر اسلام سے آپ کی لڑائی ہوگی، اور یہ لڑائی صرف اس اسلام سے نہیں ہوگی جسے آپ فقہا اور ملّائوں کا اسلام کہتے ہیں بلکہ براہِ راست اللہ کی کتاب اور رسولؐ کے احکام سے لڑائی ہوگی۔ اس لیے آپ کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ یا تو آپ اس غلط نظریے کو ترک کرکے سیدھے سیدھے اسلام قبول کرلیجیے، یا اسلام کا نام لینا چھوڑ دیجیے۔ صاف صاف اپنے ارتداد کا اعلان کر دیجیے اور قرآن و رسولؐ کی اطاعت سے الگ ہوکر جس وادی میں آپ کا جی چاہے بھٹکتے پھرئیے۔(جاری)
مقالہ نگار تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں اور نائب ناظمہ حلقہ خواتین پنجاب ہیں-
دسمبر کی سرد رات ہے، چاروں طرف گھپ اندھیرا ہے، خاموشی کا راج ہے۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے۔ اس سناٹے میں ہلکی بارش کی آواز مسلسل ایک تواتر سے آرہی ہے جو آج صبح سے شروع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سردی بہت بڑھ گئی ہے اور وقت سے پہلے اندھیرا چھا گیا ہے۔ میری بیوی بچے سرِشام کھانے کے بعد لحاف میں دبک گئے ہیں۔ میں اپنے اسٹڈی روم میں ایک کرسی پر سوچوں میں گم بیٹھا ہوں۔ گیس کا ہیٹر اگرچہ کافی تیز ہے لیکن پھر بھی میں نے اپنے پیروں اور ٹانگوں پر کمبل ڈال رکھا ہے۔ لیٹنے سے قبل میری بیوی نے گرم چائے کا کپ لاکر میری میز پر رکھا تھا جو اب خالی ہے۔ دراصل میں ایک ذہنی خلجان میں مبتلا ہوں۔ ایک الجھی ہوئی ڈور سلجھانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن اس کا سرا ہاتھ نہیں آرہا ہے۔ اس الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے میں اب مَیں خود بری طرح اُلجھ چکا ہوں۔ میرا ذہن مائوف ہورہا ہے اور میری عقل ساتھ دینے سے عاجز ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے۔
میرے چاروں طرف سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ میں گذشتہ کئی مہینوں سے سیرت النبیؐ کا تحقیقی مطالعہ کر رہا ہوں۔ سامنے میز پر سیرۃ النبیؐ ابن ہشام کی دوموٹی جلدیں پڑی ہیں جن کا مولانا غلام رسول مہر اور پروفیسر عبدالجلیل صدیقی نے خاصی محنت سے اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس کے پہلو میں امام ابن حزم ظاہری کی جوامع السیرۃ پڑی ہے جو مختصر ہونے کے باوجود انتہائی جامع سیرت ہے۔ اس کے اُوپر تاریخ ابن خلدون کی پہلی جلد رکھی ہے جو سیرت النبیؐ پر مبنی ہے۔ طبقات ابن سعد کی پہلی دو جلدیں ہیں۔ اس کے دائیں طرف شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ اور مولانا مودودی کی سیرت سرورِعالمؐ ہے۔ اس کے ساتھ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری کی رحمۃ للعالمینؐ کی تینوں جلدیں ہیں۔ بائیں طرف نعیم صدیقی کی محسنِ انسانیتؐ چند کتب کے اُوپر رکھی ہے۔ ریک میں نقوش کے رسول نمبر کی جلدیں قطار میں رکھی ہیں۔یہ صرف وہ چند کتابیں ہیں جو اس وقت مجھے نظر آرہی ہیں، قریبی الماریوں میں سیرت النبیؐ پر انتہائی نادر اور نایاب ذخیرہ کتب مقفل ہے، جب کہ کتب حدیث اس کے علاوہ ہیں۔
سیرت النبیؐ کے جملہ پہلوئوں کا احاطہ کرنے والے سیرت نگاروں کی ایک روشن کہکشاں ہے جو لامتناہی ہے لیکن اس روشن کہکشاں میں شامل ناموں پر مجھے کوئی حیرت نہیں، کوئی اچنبھا نہیں، اس لیے کہ یہ سب اہلِ قلم مسلمان تھے۔ ان کا ایک دینی جذبہ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت تھی،ان کی والہانہ عقیدت کا اظہار تھا جو انھوں نے آپؐ سے کیا۔ کیونکہ آپؐ انسانِ کامل تھے۔ تمام جہانوں کے لیے رُشد و ہدایت کا منبع تھے، آپؐ کی تعلیمات نے زندگی کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا، اس لیے سیرت النبیؐ کے اتنے پہلوئوں پر اتنی کتابیں لکھی گئیں کہ شاید ہی سیرتِ رسولؐ کا کوئی پہلو تشنہ رہ گیا ہو۔ مسلمان ہونے کے ناتے آپؐ سے محبت و عقیدت ہر ایک کا جزوِ ایمان ہے، مگر مجھے ان لوگوں پر حیرت ہورہی ہے جو مسلمان نہیں لیکن آپؐ کی عظمت کے قائل ہیں۔ آپؐ کو نبیِ برحق تسلیم کرتے ہیں، آپؐ کی تعلیمات کو دنیا و آخرت دونوں کے لیے فلاح کا سبب سمجھتے ہیں۔ انھوں نے بغیر کسی تعصب کے آپؐ کی سیرت کا مطالعہ کیا اور اس کے بعد بے ساختہ آپؐ کی نبوت کی تصدیق کی۔ حیرت ہے کہ باوجود اس اعتراف کے وہ پھر بھی دولتِ ایمان سے محروم رہیں۔ جن غیرمسلم سیرت نگاروں نے سیرت لکھتے ہوئے جھوٹ، تعصب، اتہام اور دشنام سے کام لیا اور جو بے سروپا اور بے پَرکی اُڑانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، میں ان لوگوں کی بات نہیں کرتا۔
آپؐ کی عظمت کا اعتراف کرنے والوں میں بڑے بڑے اہلِ قلم کے نام نظر آتے ہیں۔ بڑے نامی گرامی راہب ہیں، سیاست دان ہیں، پنڈت ہیں، فلاسفر ہیں، شاعر اور ادیب ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی عقل کی، جن کے فہم اور اہلیت و قابلیت کی ایک دنیا معترف ہے، جن کی حقیقت شناسی اور بے تعصبی سب پر عیاں ہے، مگر جب بات ایمان کی آتی ہے تو ان کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ چشمۂ حقیقت تک پہنچنے کے باوجود وہ تشنۂ لب رہ جاتے ہیں جس پر مجھے حیرت کے ساتھ تعجب بھی ہورہا ہے اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ میں گذشتہ کئی دنوں سے اسی گتھی کو سلجھانے میں سرگرداں ہوں۔
اس وقت بارش کی آواز کچھ تیز ہوگئی تو مجھے یوں ہی ایک کپکپی آگئی، حالانکہ کمرہ خوب گرم ہے، گیس ہیٹر لگا ہوا ہے، کمبل میرے پیروں پر پڑا ہے۔ سامنے دیوار پر لگے کلاک پر نظر پڑی تو نوبجنے کو تھے۔ آج کھانے کے بعد میں نے عشاء کی نماز گھر پر ہی پڑھ لی تھی کیونکہ محلے کی مسجد تک جانا میرے لیے دشوار تھا، بارش بھی ہو رہی تھی اور سردی بھی خاصی زیادہ تھی۔ مسجد فاصلے پر ہے اورراستے میں کیچڑ ہوتا ہے لیکن شاید میں صحیح نہیں کہہ رہا ہوں۔ یہ ایک طرح کا بہانا ہے کیونکہ اس سے بھی خراب موسم میں محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے عموماً جاتا رہا ہوں۔ دراصل جس چیز نے مجھے مسجد جانے سے روکا تھا وہ کونسٹن ورژیل کی سیرت النبیؐ پر لکھی ہوئی کتاب کے آخری صفحات تھے جو مجھے پڑھنے تھے۔ یہ کتاب عکسِ سیرت کے نام سے سیارہ ڈائجسٹ نے خصوصی نمبر کے طور پر شائع کی تھی جس کا رواں اور خوب صورت ترجمہ خلیل احمد نے کیا ہے۔
کونسٹن ورژیل جورجیو جن کا تعلق رومانیہ سے ہے، اپنے ملک کے وزیرخارجہ بھی رہے___ یہ ان کی بہت مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب انھوں نے خاصی تحقیق کے بعد ہمدردانہ بلکہ عقیدت مندانہ انداز میں لکھی ہے۔ اس کتاب میں وہ اہلِ مغرب سے مخاطب ہیں کہ محمدؐ کو تعصب، بے جا تنقید، نکتہ چینی و عیب جوئی کے بجاے ازسرِنو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ ان کا محققانہ انداز، وسیع مطالعہ سیرت اور طرزِ تحریر اور عقیدت و احترام کو دیکھ کر مجھے حیرت ہورہی ہے۔ میں گذشتہ دوتین دنوں سے اس کتاب میں اس قدر محو ہوں کہ کسی اور طرف بہت مشکل سے متوجہ ہوپاتا ہوں۔ کتاب میں حد سے زیادہ دل چسپی ہی نے شاید مجھے مسجد جانے سے روکا، بارش بہانا بنی اور گھر میں نمازِ عشاء ادا کرنے کے بعد میں پھر سے بیٹھ گیا اور کتاب ختم کرکے ہی دم لیا۔ مگر کتاب ختم کرنے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں اس کشتی کی طرح تھپیڑے کھانے لگا جس کو چاروں طرف سے طوفان نے گھیر لیا ہو۔ مجھے کتاب سے زیادہ کونسٹن ورژیل پر حیرت ہورہی تھی کہ باوجود اس قدر تحقیق، عقیدت اور احترام کے کلمہ طیبہ ان کی زبان پر نہ آسکا۔ میں دیر تک اس کتاب کو تکتا رہا اور پھر اُٹھا کر الماری میں رکھ دی۔
اچانک میری نظر مشہور روسی ناول نگار ٹالسٹائی کے شہرئہ آفاق ناول جنگ اور امن پر پڑی جس کا اُردو ترجمہ شاہد حمیدنے کیا ہے۔ اس ناول کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا بہترین ناول ہے۔ اگرچہ یہ اچھا خاصا ضخیم ناول ہے اور ہرکسی کے پڑھنے کے بس کا نہیں۔ جنگ اور امن کے علاوہ ان کا دوسرا ناول آنا کارنینا بھی ایک لاجواب شاہکار ہے۔ جنگ آزادی چیچنیا کے پس منظر میں ان کا آخری مختصر ناول حاجی مراد بھی ایک بے مثال ناول ہے جس میں اُنھوں نے امام شامل اور چیچن مجاہدین کی تحریکِ آزادی کی ایک جھلک دکھائی ہے۔
ٹالسٹائی انسانی محبت اور عدم تشدد کا علَم بردار تھا۔ اس نے ایک جاگیردار ہونے کے باوجود اپنی ساری جایداد اور دولت اپنے خاندان اور غریب غربا میں تقسیم کر دی، اور زارشاہی کے استبداد کے سامنے جمہوریت، مساوات اور اخوت کی بات کی۔ زارشاہی کو ناپسند ہونے کے باوجود وہ اس کے خلاف کوئی اقدام نہ اُٹھا سکے، اور روسی کلیسا نے بھی اسے ملحد قرار دیا تھا۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا طرزِعمل اخلاق کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ ہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تبلیغ و ہدایت خالص سچائی پر مبنی تھی۔ آپؐ نے دنیا میں حقیقی ترقی اور تمدن کی راہیں کھول دیں۔ یہ اتنا عظیم الشان کارنامہ ہے جو اس شخص کے سوا کوئی نہیں کرسکتا جسے خاص قوت دی گئی ہو‘‘۔ اکثر ادبی حلقوں میں ان کو نوبل انعام نہ ملنے پر تعجب کا اظہار ہوتا ہے لیکن میں ان کے کلمہ نہ پڑھنے پر متعجب ہورہا ہوں۔
آنا کارنینا سے نظریں ہٹاکر جب میں الماری بند کرنے لگا تو اچانک میری نظر ٹائن بی کی مشہور تصنیف A Study of History کی ایک جِلد پر پڑی۔ ۱۲ جلدوں پر مشتمل یہ کتاب جس کی مجھے بڑی جستجو ہے، اس کی یہ ایک جلد پرسوں میں نے اتوار بازار میں ایک فٹ پاتھیئے سے خریدی جو پرانی کتابیں بیچ رہا تھا۔ ضروری مرمت کروانے کے بعد میں نے یہ کتاب یہاں رکھی ہے کہ کسی وقت آرام سے بیٹھ کر اس کا مطالعہ کروں گا۔ ٹائن بی دنیاے تاریخ کا ایک انتہائی معتبر نام ہے۔ ہمارے ایک پروفیسر صاحب بڑے فخر سے ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ’’ٹائن بی ۱۹۵۷ء اور ۱۹۶۰ء میں دو مرتبہ پاکستان آئے تھے اور دونوں مرتبہ میں ان سے ملا تھا‘‘۔ وہ ان کی مؤرخانہ علمی دیانت کے بڑے معترف تھے اور واقعی ان کی علمی اور ادبی حیثیت میں کسی شک کی گنجایش بھی نہیں۔ انھوںنے موجودہ طبقاتی، نسلی امتیاز اور عالمی سطح پر ناانصافی کے خاتمے کے لیے اسوئہ حسنہ کو مشعلِ راہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسلام کے ذریعے انسانوں میں رنگ و نسل اور طبقاتی امتیاز کا یکسر خاتمہ کر دیا۔ کسی مذہب نے اس سے بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کو نصیب ہوئی۔ آج کی دنیا جس ضرورت کے لیے رو رہی ہے اسے صرف اور صرف مساواتِ محمدیؐ کے نظریے کے ذریعے ہی پورا کیا جاسکتا ہے‘‘۔
ٹائن بی کے ساتھ مجھے ایک اور بڑے مؤرخ ایڈورڈ گبن کا خیال آیا جو سقوطِ سلطنت روما کے مصنف ہیں۔ یہ کتاب ان کے ۲۰سال کی متواتر شب و روز کی مشقت کا ثمر ہے۔ یہ کتاب ۱۷۷۶-۱۷۸۸ء کے دوران چھے جلدوں میں شائع ہوئی اور ابھی تک تاریخ اور ادب دونوں میدانوں میں بلندپایہ تصنیف جانی جاتی ہے۔ اس مشہور تصنیف میں آپ رقم طراز ہیں: ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذہب شک و ابہام سے بالکل مبرا ہے۔ قرآن خدا کی درخشندہ شہادت ہے… قرآن کی نسبت بحراوقیانوس سے لے کر دریاے گنگا تک سب نے تسلیم کرلیا ہے کہ وہ واضح راستہ ہے، اور ایسے دانش مندانہ اصول اور عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب شدہ ہے کہ اس کی نظیر پوری کائنات میں کہیں نہیں مل سکتی۔ قرآن وحدانیت کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ ایک توحید پرست فلسفی اگر کوئی مذہب قبول کرسکتا ہے تو وہ مذہب اسلام ہی ہے‘‘۔
فلسفے سے میرا دھیان مشہور فلسفی، ریاضی دان اور انشا پرداز برٹرنڈرسل کی طرف چلا گیا جو جارحیت اور خاص کر جنوب مشرقی ایشیا میں امریکی جارحیت کے خلاف مرتے دم تک نبردآزما رہا، جو مذہب، سرمایہ داری اور کمیونزم تینوں کا مخالف تھا لیکن مذاہب عالم کے مخالف ہونے کے باوجود وہ اعتراف کرتا ہے کہ ’’حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین توازن پر کھڑا ہے۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ایک عظیم الشان اور فقیدالمثال مذہبی رہنما تھے۔ وہ ایک ایسے دین کے بانی تھے جو بُردباری، مساوات اور انصاف کی بنیادوں پر کھڑا ہے‘‘۔
میں رسل کے الفاظ پر غور کر رہا تھا کہ اچانک میری بیگم نے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا، ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا اندر کو لپکا جس نے کمرے کی حدت کو یکدم کافی کم کر دیا۔ اس نے اگرچہ جلدی سے دروازہ بند کر دیا مگر پھر بھی کمرے میں ٹھنڈک کی ایک لہر گردش کرتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں آج کا اخبار اور ایک کتاب تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا:آپ کا کمرہ تو اچھا خاصا گرم ہے، اسی لیے آپ یہاں دبکے بیٹھے ہیں۔ میں لیٹی ہی تھی کہ اچانک خیال آیا کہ آج کا اخبار تو آپ نے دیکھا ہی نہیں، یہ لیں آج کا اخبار اور یہ کتاب سو بڑے لوگ بھی سنبھال لیں۔بڑے لڑکے کے سرہانے گذشتہ دو تین روز سے پڑی تھی کہیں اِدھر اُدھر نہ ہوجائے۔
میں مائیکل ہارٹ کی کتاب اپنی جگہ پر رکھنے لگا۔ پتا نہیں اس کتاب میں کیاہے کہ لوگ آج کل اسے دھڑادھڑ خرید رہے ہیں۔ سو بڑے لوگ میں اول نمبر پر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی۔ آپؐ کو سو بڑے آدمیوں میں سب سے پہلے نمبر پر رکھنا اس کی مجبوری تھی کیونکہ انسانی تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت صرف آپؐ ہی تھے اور یہی اس کی وجۂ جواز ہے۔
کتاب رکھ کر میں واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور ایک مرتبہ پھر اپنی سوچوں میں کھو گیا اور جان ڈیون پورٹ کے یہ الفاظ گویا میرے دل کی ترجمانی کر رہے تھے جو انھوں نے اپنی کتاب قرآن اور محمدؐ سے معذرت کے ساتھ میں لکھے ہیں کہ محمدؐ رسول اللہ میں سواے سچائی اور حقانیت کی تعلیم کے جذبہ و جوش کے اور کچھ نہ تھا۔ پھر آخر لوگوں کو یہ یقین کیوں نہیں آتا کہ وہ سچائی اور حقانیت کی تعلیم کے لیے ہی دنیا میں آئے تھے‘‘۔
جان ڈیون پورٹ جس نے مغرب کے متعصب دانش وروں اور پادریوں کی جھوٹی تہمتوں اور ناروا الزامات سے آپؐ کو مبرا قرار دینے کے لیے یہ کتاب لکھی مگر اس کا قلب کیوں اس حقیقت اسلام کو تسلیم نہیں کرسکا؟ اس کا دل اس نورِ ایمان سے کیوں منور نہ ہوسکا؟___ یہ وہ سوالات ہیں جنھوں نے مجھے بے چین کیا ہے۔
میرے ذہن میں مشہور انگریز ادیب اور ڈراما نگار برنارڈشا کے الفاظ گونجنے لگے: ’’آج انسان جس طرح فطرت سے دُور ہورہا ہے وہ ضرور قانونِ فطرت کی طرف رجوع کرے گا، اور اس وقت اس کے لیے پھر کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ اسلام سے رجوع کرے مگر وہ موجودہ زمانے کا اسلام نہ ہوگا، بلکہ وہ اسلام ہوگا جو محمدؐ رسول اللہ کے زمانے میں دلوں، دماغوں اور روحوں میں جاگزیں تھا‘‘۔
میں اپنی سوچوں میں غلطاں تھا کہ میرے تخیل میں گاندھی جی کی تصویر اُبھری۔ نحیف و نزار جسم، ایک لنگوٹی باندھے، عدم تشدد کا پیامبر، برعظیم پاک و ہند کی آزادی کا ناقابلِ فراموش کردار، ناتواں جسم لیکن آہنی حوصلے کا مالک جو کسی سے مرعوب نہیں ہوا، مگر آپؐ کے حضور وہ بھی سر جھکائے پر نام کرتے کھڑے ہوئے کہہ رہے ہیں: ’’بلاشبہہ آپؐ ساری دنیا کے روحانی پیشوا تھے۔ آپؐ ہی کی تعلیمات کو میں سب سے بہتر سمجھتا ہوں۔ کسی روحانی پیشوا نے خدا کی بادشاہت کا ایسا جامع اورمانع پیغام اس کے بندوں تک نہیں پہنچایا جو آپؐ نے آکر پہنچایا ہے‘‘۔
گاندھی جی کے بعد مجھے بدھ دھرم کے پیشواے اعظم مانگ تونگ زرد لباس پہنے کھڑے نظر آئے جو کہہ رہے تھے: ’’حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا ظہور بنی نوع انسان پر خدا کی ایک رحمت تھی۔ لوگ کتنا ہی انکار کریں مگر آپؐ کی اصلاحات عظیمہ سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ ہم بدھ دھرم کے ماننے والے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔ آپؐ کا انتہائی احترام کرتے ہیں‘‘۔
ایک بار پھر اپنے خیالات سے پیچھا چھڑانے کے لیے میں نے اپنا سر جھٹک دیا اور اُٹھ کر ادبی اور تنقیدی کتابوں کو اُلٹنے پلٹنے لگا کہ شاید کوئی ناول، کوئی افسانوی یا شعری مجموعہ میری توجہ اپنی طرف مبذول کرلے اور ان خیالات سے میرا پیچھے چھوٹ جائے جو بادل کی طرح میرے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں اورجنھوں نے مجھے جکڑ رکھا ہے۔ میں ادبی اور تنقیدی کتابوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ میری نظریں تلوک چند اور ان کے فرزند جگن ناتھ آزاد کی کتابوں پر رُک گئی۔ یہ دونوں اُردو ادب کے بہت بڑے نام ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں باپ بیٹے نے نعتیں کہی اور لکھی ہیں۔ میرے لبوں پر بے اختیار جگن ناتھ آزاد کا ایک نعتیہ شعر آگیا ؎
مبارک ہو زمانے کو کہ ختم المرسلینؐ آئے
سحاب رحم بن کر رحمت للعالمینؐ آئے
بہت سی کتابوں کے باوجود میرا ہاتھ کسی کتاب کی طرف نہ بڑھ سکا۔ میں واپس آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور بے دلی سے اخبار کی سرخیاں ایک بار پھر دیکھنے لگا تو میری نظریں ایک سرخی پر جم کر رہ گئیں۔ یہ ایک امریکی پادری اور چند متعصب صحافیوں کے متعلق خبر تھی جس میں آپؐ اور قرآن کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے گئے تھے۔ مجھے اس پادری اور ان صحافیوں کی ذہنی حالت پر افسوس ہونے لگا جو معلومات عامہ کے بیش بہا خزانے آسانی سے دستیاب ہونے کے باوجود اپنی جہالت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ شاید جرمن فلاسفر جان جاک ولیک نے انھی لوگوں کے لیے کہا تھا کہ: ’’یہ تھوڑی عربی جاننے والے قرآن پاک کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ اگر وہ لوگ خوش نصیبی سے کبھی آنحضرتؐ کی معجز نما قوتِ بیان سے قرآن کریم کی تشریح سنتے تو یقینا یہ لوگ بے ساختہ سجدے میں گر پڑتے اور سب سے پہلی آواز ان کے منہ سے یہ نکلتی کہ ’’پیارے نبیؐ! پیارے رسولؐ! ہمارا ہاتھ پکڑ لیجیے، ہمیں اپنے پیروکاروں میں شامل کر کے عزت اور شرف عطا فرمانے میں دریغ نہ فرمایئے‘‘۔ مگر میرے ذہن میں پھر وہی سوال لوٹ کر آیا کہ اس اعتراف کے باوجود جان ولیک کیوں اللہ تعالیٰ کے حضور میںسربسجود نہ ہوسکا؟
میں نہ جانے اور کتنی دیر تک ان خیالوں میں گم رہتا اگر میری بیوی چائے بناکر نہ لاتی، اس کی آمد سے میری محویت ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی ٹانگوں پر کمبل اچھی طرح پھر سے ٹھیک کیا اور گرم گرم چائے کی چسکیاں لینے لگا جس سے میرے تنے ہوئے اعصاب ذرا سکون محسوس کرنے لگے۔ چائے ختم کرنے کے بعد میرے ہاتھ خود بخود قرآن مجید کی طرف بڑھے جو میری کرسی کے پیچھے انگیٹھی کے کارنس پر رکھا تھا۔ میں ہرصبح نماز کے بعد باقاعدگی سے اس کی تلاوت کرتا ہوں۔ میں اپنے سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے قرآن پاک کی ورق گردانی کرنے لگا۔ اچانک در معنی کھل گیا، میں جس گتھی کے سلجھانے میں سرگرداں تھاس کا سرا ہاتھ آگیا:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس ۱۰:۵۷)
اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔
میرے بے قرار دل کو قرار آیا۔ تنائو کی ساری کیفیت ختم ہوگئی۔ میری ساری کلفت دُور ہوگئی۔ ذہن پر چھائی ہوئی دھند چھٹ گئی ۔ میں نے بار بار اس آیت شریفہ کو پڑھا۔
یہ بڑے بڑے عظیم فلاسفر، شاعر، ادیب، مفکر، سائنس دان اگرچہ انتہائی ذہین اور اختراعی ذہن رکھتے تھے مگر ان کے دلوں کو شفا نہ مل سکی، کیونکہ عظمتِ رسولؐ کے اعتراف کے باوجود وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ نہ پڑھ سکے۔ اس لیے کہ انھوں نے رسول اکرمؐ کوقرآن کے بغیر سمجھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے رسول اکرمؐ کو دیکھا تو صرف ایک انسان کی حیثیت سے دیکھا۔ انھوں نے آپؐ کے کردار کو جانچا اور پرکھا۔ ابولہب اور ابوجہل سے زیادہ رسولؐ کے کردار سے کون واقف تھا۔ اس نظر سے تو سارے کفارِ مکہ نے آپؐ کو دیکھا، جانچا اور پرکھا تھا۔ اس کے باوجود کہ وہ آپؐ کو صادق پکارتے، الامین کہتے، اپنی امانتیں آپؐ کے سپرد کرتے، آپؐ سے اپنے فیصلے کرواتے تھے۔ آپؐ کے کردار میں ان کو کوئی کلام نہ تھا۔ وہ جس سے گریزاں تھے وہ قرآن تھا، جو شمع نبوت کا نور تھا، جو ایسا مصحف ربانی تھا، جو دلوں کو شفا دینے والا تھا، جو رحمت اور بھلائی کی طرف لانے والا تھا۔ فکر و نظر کی یہی خامی تھی جس کے سبب وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اعتراف کے باوجود محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ نہ پڑھ سکے۔
میں نے قرآن پاک کو چوما اور آنکھوں سے لگایا۔ میرے سوال کا جواب مجھے مل چکا تھا۔ میں سوچ کی دلدل سے نکل آیا، دل طمانیت سے بھر گیا۔ میں نے جاے نماز بچھائی اور شکرانے کے نوافل ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوگیا!
مضمون نگار، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول، غازی کوٹ ضلع بونیر کے پرنسپل ہیں۔
مشرق و مغرب میں علومِ عمران کی بنیاد جن تصورات پر ہے، ان میں سے ایک کا تعلق اقلیت اور اکثریت کے باہمی تعلق، نفسیات، معاشی مضمرات اور سیاسی اور ثقافتی حکمت عملی سے ہے۔ ایسے خطوں میں جہاں مسلمان ایک بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ملک کی مجموعی آبادی میں کم تر تناسب رکھتے ہوں، عموماً غیر محسوس طور پر ایک اقلیتی نفسیات وجود میں آجاتی ہے، جس میں مدافعانہ اور معذرت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اکثریت سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اقلیت کے انسانی حقوق کے حصول کے لیے مدد و تعاون کریں۔ بعض اوقات اکثریت کے ساتھ سیاسی یا معاشی الحاق کر کے اپنے حقوق کے حصول کے لیے بھی جدوجہد کی جاتی ہے، چنانچہ ثقافتی تشخص ہو یا معاشی خودانحصاری یا معاشرتی تحفظات (مثلاً پرسنل لا وغیرہ)، ان سب کے حوالے سے اقلیت بمقابلہ اکثریت کا ماڈل انسانوں کے زاویۂ نگاہ اور تصورِ مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی برعظیم پاک و ہند کے علمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے ایک بلندپایہ استاد کا مقام رکھتے ہیں۔ دینی و تاریخی موضوعات پرآپ کی اعلیٰ تحقیقی تصانیف علمی حلقوں میں آپ کا سکّہ منوا چکی ہیں۔ زیرنظر کتاب: مکّی اسوہ نبویa، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، آپ کے آٹھ خطبات پر مشتمل ہے جن کے عنوانات یہ ہیں:
حرفِ آغاز میں مصنف نے ہم عصر اور دیگر علما و مؤرخین کے کام پر ایک مجموعی تبصرہ یہ کیا ہے: ’’ہمارے علما نے اسلام کو گذشتہ صدیوں میں ایک حاکم مذہب بنا کر پیش کیا۔ اس کی فقہ اسلام کے صرف نظامِ حاکمیت کو اُجاگر کرتی ہے۔ اس کی عام دینی تعلیمات کے بارے میں یہ تصور و عمل بنا کہ وہ حکمرانی کی فضا میں بارآور ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ریاست کا قیام اور اقتدار کا حصول ایک بنیادی عنصر بن گیا۔ اس حد تک تو بات ٹھیک تھی کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو غالبیت حاصل کرنے پر اُبھارتا ہے اور مغلوبیت و محکومیت کو مجبوری میں برداشت کرتا ہے، لیکن اسلام کی ہر آن و ہر حال میں غالبیت و حکمرانی کے تصور نے بڑی خرابی برپا کی۔ علما و فقہا اور اہلِ راے کے علاوہ یہ فکروتصور عوام الناس کے دلوں اور دماغوں میں اس طرح راسخ ہوگیا کہ حکمرانی مسلمانوں کی سائیکی بن کر رہ گئی۔ اتفاق سے تاریخی ارتقاء ات اور انقلابات نے بھی اسلام کو ایک حکمراں مذہب اور غالب نظامِ حیات بنا کر پیش کیا‘‘۔ (ص vii،viii)
مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: ’’تاہم اس دورِ ابتلا و آزمایش اور زمانۂ مغلوبیت و محکومیت میں علما و عوام دونوں کے ذہن سے حکمرانی کی خوبو نہیں گئی۔ علما، صاحبانِ فکرودانش اور اہلِ بینش و قلم ہونے کے باوجود اسلامی نظام کی حکمرانی کی تاریخ لکھتے رہے اور عوام، ان کے ایجاد کردہ نشے میں سرمستِ خوے سلطانی رہے۔ ان کی فکروعمل میں اسلام اور اسلامی ریاست کے شان دار ماضی کی حکمرانی کے کارنامے جلوہ آرائی کرتے رہے اور وہ اپنی تحریروں سے حکمرانی و سلطانی کے نغمے بکھیرتے رہے جن سے عوام الناس بھی حظ و نشاط حاصل کرتے اور حکمرانی کے جلوے دیکھتے رہے۔ دونوں میں سے کسی کو حقیقتِ حال کو سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
’’اس دورِ مغلوبیت میں اسلامی علوم و فنون کے ذخیرے میں برابر اضافے ہوتے رہے اور ان میں سے بہت سے عظیم الشان و بے مثال بھی ہیں۔ تفسیر و حدیث ہو یا فقہ و تفقہ، تاریخ و سیرت ہو یا کلام و فلسفہ یا دوسرے سماجی اور سائنسی علوم و فنون، سب مالا مال ہوئے لیکن ان سب کی بنیاد قدیم علوم و فنون کے اساطین پر استوار تھی۔ قرونِ حاکمیت میں جو نہج، بنیاد، طریقہ اور فکری و تحریری انداز استوار ہوگیا تھا، اسی پر بعد کی تمام کتابیں لکھی جاتی رہیں، حتیٰ کہ فقہ اور تاریخ میں بھی اسلامی ریاست کے اندازِ حکمرانی کی حاکمیت قائم رہی اور کسی کو بھی فقہِ اقلیت مرتب کرنے کی توفیق ہوئی اور نہ تاریخِ مغلوبیت رقم کرنے کی ہمت پڑی‘‘۔ (ص viii - ix)
اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: ’’یوں تو پوری سیرتِ طیبہ کا اصل تجزیہ و تحلیل باقی ہے اورمدتوں باقی رہے گا مگر مکّی دور کا تجزیہ تو انتہائی ناقص ہے۔ ہمارے بزرگ اہلِ قلم میں سے کسی نے یہ نہیں سوچاکہ اسلامی تاریخ اور نبوی سیرت کا ارتقا خالص دورِ محکومی میں ہوا تھا‘‘۔ (ص x)
مصنف کا یہ خیال ہے کہ: ’’اس حقیقت کا ادراک بھی ذرا کم کم ہے کہ مکّی دور اسلام کا دورِمغلوبیت تھا اور مسلمانوں کا زمانہ اقلیت۔ ان ابتدائی ۱۳ برسوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو احکام مکّی سورتوں میں دیے گئے، ان کا تجزیہ تو بالکل ہی نہیں کیا گیا اور جو کیا گیا وہ تجزیہ ہی نہیں۔ واقعاتِ تاریخ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کیسے مرتب کی؟ اس کا پتا بھی نہیں چلتا اور ان کے تجزیے کی روشنی میں اقلیت کی تاریخ، فلسفۂ تاریخ، طریقِ زندگی، منہجِ عمل اور اندازِ فکر مرتب کرنے کا ہوش بھی نہیں آیا۔ حالانکہ اس مکّی دورِ اقلیت میں اسلام کے ایک خاص انداز اور مسلمانِ عالم کی ایک حیثیت کے لیے کامل دستور موجود ہے‘‘۔ (ص x)
اس ضمن میں ہماری پہلی گزارش یہ ہے کہ مکّی دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کا ایک زاویہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کو ایک ’اقلیت‘ اور مشرکینِ مکّہ کو ایک اکثریت مان لیا جائے لیکن اس میں جو امر مانع نظر آتا ہے، وہ اسلام کا بنیادی مزاج ہے۔ کلمۃ اللہ کی پہچان اس کا عُلیہ، بلند اور بلند ترین ہونا ہے، اور تعداد میں کم ہونے کو ’محکومیت‘ قرار دینا مکّہ کی دعوتی تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کہا جاسکتا۔ اسلام یا اسلامی جماعت محکوم تو جب ہوتی جب مکّہ میں کوئی سیاسی، معاشرتی اور معاشی اقتدار ہوتا جس میں اقلیت کی تعداد کے تناسب سے کوئی نمایندگی کی جگہ ہوتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اقلیتی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہے ہوتے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ حق کے پیروکار چاہے ۱۰۰ سے کم ہوں، ان سے ہزارہا افراد خائف و لرزاں ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس حوالے سے جو اصول سورئہ انفال میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ۲۰ صابرین ہوں تو ۲۰۰ مشرکین پر غالب آئیں گے۔ اس تناظر میں مکّہ میں مسلمان ’محکوم‘ کس زاویے سے بن سکتے ہیں۔ وہ تو قلتِ تعداد کے باوجود اہلِ مکّہ کے لیے ایک عظیم خطرہ تھے۔
دوسری گزارش یہ کہ مکّی دور کو محکومیت کی طرح ’مغلوبیت‘ کہنا بھی محلِ نظر ہے۔ ’مغلوبیت‘ اس ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں بعض صلاحیتوں کے باوجود کوئی فرد یا قوم دوسری قوم، تہذیب یا ثقافت سے مرعوب ہوکر اس کے اطوار، طرزِفکر یا انداز کو اپنا لے اور اس کا اپنا تشخص دب جائے، جب کہ مکّی دور میں لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اظہار جمعیت ِ صحابہؓ کی ہر ہر ادا سے ہوتا ہے۔ توحید کا مطلب ہی یہ تھا کہ لا غالب الا ھوتو وہ ’مغلوب‘ کیسے ہوتے؟
’حرفِ آغاز‘ کے بعد آنے والے سات ابواب محترم پروفیسر صاحب کے تاریخی واقعات کو تحقیقی انداز میں پیش کرنے کی دلیل ہیں۔ مراجع و مصادر بھی اسی بات کی شہادت دیتے ہیں لیکن ان سات ابواب میں گو، انتہائی قیمتی مواد ہے لیکن مسلم اقلیتوں کے مسائل سے بجاے خود گہرا تعلق نظر نہیں آتا۔ اگرچہ جابجا اقلیت کی اصطلاح کا استعمال ہوا ہے، البتہ آخری باب پوری کتاب کا حامل کہا جاسکتا ہے۔ اس باب میں مسلم اقلیتوں کے حقیقی مسائل کے حوالے سے داعیانہ حکمت عملی کی روشنی میں جو تجاویز دی گئی ہیں، وہ قابلِ تعریف ہیں، تاہم بعض مفروضات سے شدید اختلاف کیا جاسکتا ہے، مثلاً: ’’سیرتِ نبویؐ میں مسلم اقلیتوں کے لیے اسوئہ نبوی موجود ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی تعلیمات و الٰہی ارشادات کے پس منظر میں ۱۳ برسوں تک مکّی مسلم اقلیت کی تعمیروارتقا کا ایک نقشہ تیار کیا۔ قریشِ مکّہ اور اکابر شہرِ الٰہی کی اشرافیہ کی روایاتِ حکمرانی اس مسلم اقلیت کا پیش منظر تھیں‘‘۔ (ص ۲۷۹)
آٹھویں باب کے افتتاحی مجلے کا بقیہ نصف میری ناقص راے میں نہ تاریخی طور پر اور نہ فکری طور پر ہی قابلِ قبول ہے۔ گویا کہا یہ جا رہا ہے کہ مکّی دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کے پس منظر میں جو منہج دعوت اختیار فرمایا، وہ مسلمانوں کو اقلیت مانتے ہوئے بنایا گیا اور مدینہ سے بالکل مختلف حکمت عملی اس غرض سے بنائی کہ اسلام جہاں کہیں بھی ایسی صورت حال میں ہو کہ غیرمسلموں کی اکثریت ہو تو مکّی دور کی ہرسنت کو مدنی دور کی ہر سنت پر فوقیت دی جائے۔ مزید یہ کہ کیا واقعی مکّی اسوہ کسی ’اقلیت زدہ مغلوب‘ ذہنیت کا پتا دیتا ہے؟ کیا مکّی دور سے ’تبرج جاہلیہ‘ کے ساتھ کوئی مفاہمت اختیار کی گئی یا اس کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا؟
ایسے ہی یہ کہنا کہ: ’’اسی نظامِ قدرت اور قانونِ فطرت کے مطابق یہ اصول و عمل طے پاگیا کہ مسلم اقوام ہمیشہ اقلیت سے آغاز کریں گی، قوانینِ الٰہی اور ارشاداتِ نبویؐ کے مطابق عمل کریں گی، تو رفتہ رفتہ اقلیت کے عنصری نشوونما کا قانون جاری ہوگا اور وہ ان کو مختلف مراحل ارتقا اور درجاتِ ترقی سے گزار کر اکثریت کی طرف لے جائے گا‘‘۔ (ص ۲۸۱) یہ ایک مفروضہ ہے جس کی کوئی دلیل اورثبوت فراہم نہیں کیاگیا۔
بہ ایں ہمہ یہ باب ہر داعی کے لیے غور کا مواد فراہم کرتاہے۔ گو ایک اقلیتی زاویے سے بات کی گئی ہے لیکن اکثر نکات میں عصرحاضر کے اقلیتی مسائل سے گہری واقفیت کا عکس پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اقلیتوں کے تعلیمی، ثقافتی، معاشی، ابلاغی مسائل پر پھر ہجرت کے حوالے سے مختلف احکامات وغیرہ سے4 عمدہ بحث ہے۔
اگر مصنف محترم اقلیت و اکثریت کی جگہ فرد اور جماعت اور مکّے میں مسلم اقلیت کی جگہ حزب اللہ اور اس کی مخالف کفر، طاغوت، مشرک اور ضلالت کی جماعت کے تناظر میں ان عملی مسائل کا جائزہ لیتے تو شاید مکّی دور کے ماڈل کی بہتر تشریح ہوسکتی تھی۔
اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے کتاب کی طباعت کا بہت اچھا اہتمام کیا ہے۔ یہ کتاب علمی کتب خانوں میں ایک قیمتی اضافہ ہوگی۔
(مکّی اسوہ نبویa، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی۔ ناشر:اسلامک ریسرچ اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات: ۳۲۵۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔)
تیونس سے شروع ہونے والے سفر آزادی کو انقلابات کی بہار کہا جاتا ہے۔ تیونس اور مصر میں جلاد صفت حکمرانوں کا شکنجہ بہت مضبوط اور ہولناک تھا لیکن اچانک رونما ہونے والی عوامی تحریکیں دو سے اڑھائی ہفتوں میں فرعون حکمرانوں سے نجات پانے میں کامیاب ہوگئیں۔
ادھر لیبیا کے عوام بھی قذافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور کامیابیاں حاصل کیں۔ ۱۸رمضان المبارک کو لیبیا کے عوامی لشکر نے اچانک اعلان کیا کہ ہم فتح مکہ کے تاریخی اور بابرکت دن دنیا کو قذافی سے نجات کی خوش خبری سنائیں گے۔ ایک طرف یہ عوامی افواج دارالحکومت طرابلس میں داخل ہورہی تھیں اور دوسری طرف سرکاری ٹی وی پسرِ قذافی کی ایک روز پرانی طویل تقریر سنا رہا تھا۔ سٹیج پر ایک بڑا بینر لگا تھا ’’اللہ - معمر - لیبیا و بس‘‘ یہ بینر۴۲ سالہ اقتدار مطلق کا خلاصہ ہے لیکن آج لیبیا کا چپہ چپہ اعلان کررہا ہے کہ:وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ (الرحمن۵۵:۲۷)’’اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔‘‘
جن پانچ عرب ممالک میں عوامی انقلاب کی لہر عروج پر ہے ان میں سے لیبیا ہی سب سے زیادہ مالی وسائل رکھتا ہے۔ اعلی ترین معیار کا پٹرول وافر ہے۔ ۴۲ سال میں قذافی چاہتا تو ملک کا ذرہ ذرہ چمک اٹھتا، لیکن سارا عرصہ مختلف لا یعنی مہم جوئیوں میں گزرگیا۔ اس وقت دولت کے انبار تقریباً ہراہم مغربی ملک کے بنکوں میں منجمد پڑے ہیں۔۳۰ ارب ڈالر تو صرف امریکی بنکوں میں ہیں۔ قذافی کا آخری اور سنگین ترین جرم یہ ہے کہ جب عوام نے مزید غلامی برداشت کرنے سے انکار کردیا تو اس نے ان پر چہار جانب سے موت مسلط کردی اور یوں بیرونی طاقتوں کو لیبیا میں در آنے کا بہانہ فراہم کردیا۔ عبوری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ قذافی نے اقتدار بچانے کی جنگ میں ۵۰ ہزار سے زائد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ سرت اور بنی ولید میں جاری جھڑپوں سے یہ تعداد یقینا مزید بڑھ جائے گی۔جب ایک کے بعد دوسرے شہر میں موت کا بازار گرم کرتے ہوئے، قذافی نے لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی کا بھی محاصرہ کرلیا اور دھمکیاں دینے لگا کہ میرا اقتدار نہ مانا تو پورے شہر کو بھسم کردوں۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب ہر طرف سے عوام چلا اٹھے کہ دنیا مدد کو پہنچے، ہم اس جنونی قاتل کا مزید سامنا نہیں کرسکتے۔ مغرب کو بھی اسی لمحے کا انتظار تھا، اقوام متحدہ سے قرارداد جاری ہوگئی اور ناٹو افواج لیبیا کی فضاؤں اور پانیوں پر قابض ہوگئیں۔ یہ عوامی تحریک اور پھر خوں ریز لڑائی ۱۷ فروری سے جاری ہے۔ ناٹو نے اس عرصے میں نہ صرف اپنی عسکری گرفت مضبوط کی ہے بلکہ اس نے عبوری مجلس میں بھی اثر و نفوذ حاصل کرلیا ہے۔ یقینا اس بیرونی قبضے کے لیے قذافی نے اسباب فراہم کیے، اگرچہ ۴۴ ارب بیرل پیٹرول کے زیرزمین ذخیروں پر تسلط کا مغربی خواب بھی اس کے لیے قوت متحرکہ ہے۔
اس وقت اُمید کی سب سے بڑی بنیاد تو یقینا رب ذوالجلال کی رحمت پر ایمان ہی ہے۔ جس ذات نے بے نوا عوام کو ظالم حکمرانوں سے نجات دی ہے وہ آیندہ بھی اپنی رحمت شامل حال رکھے گا۔ خود عوام بھی اپنی تمام قربانیوں اور جدوجہد آزادی کے ثمرات سے محرومی کے لیے کسی طور آمادہ نہیں ہیں۔ یہ عوام کی بیداری، جذبۂ آزادی اور مسلسل قربانیاں ہی ہیں، کہ سنہری موقع ملنے کے باوجود لیبیا پر فوج کشی کے لیے امریکا خود کھل کر سامنے نہیں آیا۔ عراق اور افغانستان کی دلدل جس طرح اسے مسلسل نگل رہی ہے، وہ خود اس کے لیے ہی نہیں، ناٹو بالخصوص فرانس برطانیہ اور اٹلی کے لیے بھی باعث عبرت ہے۔ وہ کوشش تو ضرور کریں گے کہ آیندہ حکومت میں ان کا نفوذ زیادہ سے زیادہ ہو، لیکن زمینی حقائق سے بھی آنکھیں بند نہ کرسکیں گے۔
عبوری مجلس کے سربراہ مصطفی عبد الجلیل کا یہ بیان اس تناظر میں بہت اہم ہے کہ: ’’ہم بہرصورت دین اسلام کی مبنی بر اعتدال تعلیمات پر چلیں گے‘‘۔ قذافی کی جیلوں میں طویل عرصے تک قید رہنے والے ڈاکٹر علی محمد الصلابی اور ان کے ساتھی بھی میدان میں ہیں اور اخوان کے ذمہ داران بھی مکمل طور پر شریک عمل ہیں۔ ڈاکٹر علی صلابی تقریباً گزشتہ تین سال کے عرصے میں اس وقت اچانک سامنے آئے، جب سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ کے علاوہ کئی موضوعات پر ان کی درجنوں بے مثال کتب، تازہ ہوا کے ایک خوش گوار جھونکے کی طرح عرب قارئین کو نصیب ہوئیں۔ میں نے ایک ملاقات میں ان سے پوچھا کہ جناب یہ پورا چمنستان اچانک کیسے ترتیب پا گیا؟ کہنے لگے: جیل میں ان ساری کتب کی تیاری ہوگئی تھیں۔ مسوّدہ جات تیار تھے، اب انھیں ایک بار دیکھ کر شائع کروارہا ہوں۔ ڈاکٹر صلابی نے بھی اپنے حالیہ بیان میں قذافی کے سابق وزرا اور مغرب سے لائے گئے کئی چہروں کے بارے میں واضح بیان دیا ہے کہ انھیں مستقبل کے انتظام میں قبول نہیں کیا جاسکتا الا یہ کہ عوام انھیں منتخب کرلیں۔ اب عبوری دستور کے مطابق آٹھ ماہ کے اندر اندر دستوری مجلس کے انتخابات ہونا ہیں۔ یہ مجلس ایک عبوری حکومت اورعبوری صدر بھی منتخب کرے گی اور پھر ۲۰ ماہ کے اندر اندر پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کروائے جائیں گے کہ جن کے بعد لیبیا کو کسی ایک شخص یا خاندان کی ملکیت ہونے کے بجاے شورائیت و جمہوریت پر مبنی ایک نئی آزاد ریاست کے روپ میں سامنے آنا ہے۔ ان شاء اللہ
تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کی طرح شام میں بھی کئی عشروں سے مسلط جابر آمریت کو مسترد کرنے کے لیے ۱۵ مارچ سے عوامی مظاہرے شروع ہوئے تو بشار انتظامیہ نے خوںریزی کی نئی تاریخ رقم کرنا شروع کردی۔ بدقسمتی سے کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب شام سے مظلوم عوام کی شہادتوں اور ان پر ہونے والے مجرمانہ تشدد کی خبریں نہ ملتی ہوں۔ حقوق انسان کے ایک ادارے (شہداء سوریا) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۵ مارچ سے ۹ ستمبر تک ۳ہزار سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں، جن میں ۱۹۸ بچے اور ۱۴۳ خواتین بھی شامل ہیں۔ تقریباً ۱۰ہزار افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ جان بچاکر ترکی اور لبنان ہجرت کرجانے والوں کی تعداد بھی ۱۵ہزار سے متجاوز ہے، جو کبھی اپنے اپنے گھروں میں معزز و مکرم تھے اب مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
قذافی کے بعد سب سے زیادہ خوں ریز مظالم شام کی بشار حکومت ڈھا رہی ہے۔ ۱۵مارچ کے بعد سے کوئی ایسا دن طلوع نہیں ہوا اور کوئی سورج ایسا غروب نہیں ہوا کہ جو معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلتے شامی فوجیوں کی سفاکی کا گواہ نہ بنا ہو۔ ہر لمحے ظلم کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔ انسانوں کو قتل کرنا تو کوئی کارنامہ ہی نہیں سمجھا جاتا، اصل بہادری یہ ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ اذیت کیسے دی جائے۔ بچوں اور خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خوف و ہراس پیدا ہو۔ کسانوں کی فصلیں تک جلائی جارہی ہیں، مال مویشی کو ہلاک کیا جارہا ہے۔
مظالم کی تفصیل اپنی جگہ اہم ہے، لیکن اصل قابل ذکر بلکہ قابل فخر بات یہ ہے کہ ان تمام مظالم نے شامی عوام کے حوصلوں کو پست کرنے کے بجاے مزید توانا کیا ہے۔ درعا نامی ایک سرحدی قصبے سے شروع ہونے والے مظاہرے دارالحکومت دمشق کے قلب تک پہنچ چکے ہیں۔ مظاہرے صرف دن کے اوقات ہی میں نہیں، رات کو بھی ہوتے ہیں۔ روزانہ ہونے والے مظاہرے ہر جمعے کے روز اپنے عروج کو پہنچ جاتے ہیں۔ معلوم ہونے کے باوجود کہ مظاہرے کے لیے نکلنا شہادت کے سفر پر نکلنا ہے، عوام بڑی تعداد میں نکلتے، شہید ہوتے اور جابر اقتدار سے آزادی کا کارواں آگے بڑھاتے ہیں۔ ہر جمعے کو ایک نیا عنوان دیا جاتا ہے اور پھر پورے ملک میں یہی عنوان چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بعض عنوان ملاحظہ کیجیے:اللہ معنا (اللہ ہمارے ساتھ ہے)، التحدی (چیلنج)، الحرائر (آزاد و باعزت خواتین کا جمعہ)،الصمود حتی اسقاط النظام (حکومت کے خاتمے تک ڈٹے رہنا)، ایک خطرناک عنوان یہ بھی تھا: الحمایۃ الدولیۃ (عالمی حفاظت)۔ بالکل وہی بن غازی کے محاصرے والی صورت۔ مظالم کے سامنے بے بس عوام چلا اٹھے کہ عالمی برادری کہاں ہے۔۔؟ بیرونی طاقتوں کے لیے مداخلت کا یہ ایک سنہری موقع ہوسکتا ہے۔
مظالم کا شکار عوام اس مطالبے کی سنگینی کے باوجود اپنی مجبوریاں رکھتے ہیں لیکن شام کا محل وقوع بھی بہت نازک حیثیت رکھتا ہے۔ شام میں آنے والی تبدیلی یقینا تمام پڑوسی ممالک پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ معروف امریکی رسالے فارن پالیسی سمیت کئی رسائل و اخبارات اہم عالمی اور علاقائی تجزیہ نگار تو یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کے لیے بشار الاسد سے زیادہ مفید اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ کئی عشروں سے گولان کا پورا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے لیکن اسد حکومت نے اس کی خاطر ایک بھی گولی نہیں چلائی۔ لبنانی، اردنی اور مصری سرحدوں سے تو صہیونی ریاست کو کچھ نہ کچھ پریشانی لاحق رہی ہے لیکن شامی حکومت نے اسرائیل کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا۔ اس سب کچھ کے باوجود بھی شام کو اگر کوئی کریڈٹ جاتا ہے تو صرف یہ کہ اس نے صہیونی ریاست کے مقابلے کے لیے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کا کارڈ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ حماس اور الجہاد الاسلامی سمیت کئی فلسطینی تحریکوں کی قیادت شام ہی میں قیام پذیر ہے، اگرچہ انھیں وہاں سے مقبوضہ فلسطین کی آزادی کے لیے کسی عسکری تیاری یا کارروائی کی اجازت نہیں ہے۔ انھیں پناہ دینا بہرحال ایک کارنامہ ہے۔
لیبیا کی طرح شام میں بھی یہی نعرہ عقیدہ بنادیا گیا ہے اللہ- الاسد- الوطنہر طرف یہی لکھا ملے گا الاسد الی الأبد( ہمیشہ کے لیے اسد)۔ شامی دستور کی آٹھویں شق میں حکمران بعث پارٹی کو شام کا ابدی حکمران قرار دیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں یا اپوزیشن کوئی وجود نہیں رکھتی۔ شامی قانون کی شق ۴۹ کے مطابق الاخوان المسلمون سے تعلق کی سزا پھانسی ہے۔ جب بھی کسی نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی اسے تہ خاک کردیا گیا۔ ۱۹۸۲ء میں شام کے دو تاریخی شہروں ’حماۃ‘ اور’حلب‘ میں جب اخوان کی قوت یکجا اور برسر زمین دکھائی دی تو سابق صدر حافظ الاسد نے دونوں شہروں کو ٹینکوں، توپوں اور جہازوں سے بم باری کرکے ملیا میٹ کردیا۔ لیکن کیا ۳۰سال پہلے کام دینے والا فارمولاآج بھی کام دے گا؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔
اس حقیقت کو خود بشار اور اس کے حواری بھی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ایک طرف تو مظاہرین کو وحشیانہ تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی اور دوسری طرف اصلاحات کے نام پر بعض لالچ بھی دیے۔ ۱۹۸۲ء سے لے کر اب تک ہزاروں کی تعداد میں خاندان ملک بدری کی زندگی پر مجبور تھے۔ ان کی نسلوں کی نسلیں گزر گئیں لیکن گھر واپسی کی اجازت نہ ملی۔ حالیہ تحریک شروع ہوئی تو بشار نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے تمام شامی شہریوں کو واپسی کی اجازت دے دی، لیکن اب اس اعلان پر بھروسا کون کرتا۔ تحریک ختم کرنے کے لیے سیاسی اور صحافتی آزادیوں کا اعلان کردیا گیا، تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کردیا گیا لیکن ’روم کے جلنے کے بعد‘ اب کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہورہی۔
شام اب دنیا میں تنہائی کا شکار ہے۔ترک وزیر اعظم چند سال سے شام کے ساتھ مضبوط تر تعلقات کی خصوصی کاوشیں کر رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور عسکری تعاون میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا۔ دونوں ملکوں کے مابین ویزے کی پابندی ختم کردی گئی تھی۔ لیکن ہزاروں افراد کے قتل اور روز مرہ تعذیب و تشدد کے بعد یہ تعلقات بھی تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ اردوگان نے بشار کو بے تکلفی سے مشورہ دیا کہ عوام کو ساتھ نہ لیا تو کوئی تدبیر بھی کام نہ آئے گی لیکن بشار حکومت ناراض ہوگئی۔ اب مسلمان ملکوں میں سے صرف ایران بشار کا کھلم کھلا ساتھ دے رہا ہے لیکن اس کا بھی فائدے کے بجاے نقصان ہورہا ہے۔ عرب بالخصوص خلیجی ممالک میں اس وقت شیعہ سنی اختلافات کی جنگ سنگین حدوں کو چھورہی ہے، ایران کا شام سے تعلق شام پر شیعہ کنٹرول کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے۔ جو ممالک اور افراد ایران کے بارے میں مذہبی حساسیت نہیں رکھتے وہ بعث پارٹی اور اس کے مظالم کے شانہ بشانہ کھڑا دیکھ کر ایران سے ناراض ہورہے ہیں۔ البتہ عالمی برادری میں روس اور چین شام کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے مزید پابندیوں کی بوجوہ مخالفت کررہے ہیں۔
صورتحال کو سمجھنے کے لیے شام میں آبادی کا تناسب دیکھیں تو یہ ایک واضح سنی اکثریت کا ملک ہے۔ ۷۰ فی صد سے زائد آبادی سنی العقیدہ ہے۔ ۱۰ سے ۱۲ فی صد علوی ہیں، حکمران پارٹی کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔ اگرچہ کئی نمایاں علوی رہنما بھی اس تحریک میں بشار حکومت کے بجاے عوام کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ۲ فی صد اسماعیلی اور ۳ فی صد دروزی ہیں، شیعہ آبادی ۵.۰ فی صد ہے، جب کہ معمولی تعداد میں مسیحی، ارمنی اور مجوسی بھی ہیں۔ نسلی اعتبار سے دیکھیں تو ۹۰ فی صد عرب اور ۱۰ فی صد کرد ہیں۔ اس کثیر المذہبی ملک میں نظریاتی لحاظ سے بعثی اور مذہبی لحاظ سے علوی شناخت رکھنے والا اسد خاندان ۱۹۶۳ء سے اقتدار میں ہے۔ انقلابات کی لہر اعلان کر رہی ہے کہ ڈکٹیٹر شپ کا دور ختم ہوگیا۔
شام میں تحریک کا آغاز ہوا تو عوام کا نعرہ تھا: الشعب یرید اصلاح النظام (عوام نظام کی اصلاح چاہتے ہیں)۔ حکومت نے اس نعرے کا جواب خوں ریزی اور قتل عام سے دیا۔ اب عوام بیک زبان ایک ہی مطالبے پر مصر ہیں الشعب یرید اسقاط النظام: (عوام حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں)۔ گذشتہ دنوں ایک شامی رکن پارلیمنٹ سے تفصیلی گفتگو رہی۔ حکومت کی وکالت کرتے ہوئے بار بار کہہ رہا تھا کہ حکومت خود بھی اصلاحات چاہتی ہے، پورے نظام میں تبدیلیاں لے آئے گی لیکن یہ لوگ بیرونی ایجنٹ ہیں، مذاکرات پر ہی آمادہ نہیں۔ عرض کی جب موقع تھا حکومت سنتی نہ تھی۔ اب قذافی جیسا سفاک بھی ۵۰ ہزار مزید جانوں کا بوجھ اٹھا کر ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا ہے اور بشار حکومت بھی خوں ریزی کی انتہا کرچکی ہے۔ تو اس وقت کون بات کرے اور کیوں کرے ۔ اب تو پورا نقشہ تبدیل ہوکر رہنا ہے۔ بے گناہ معصوم عوام کا خون بڑے سے بڑے تاجداروں کو بھی اوندھے منہ گرا دیتا ہے۔ یہ تاجدار کوئی فرد ہو، تنظیم ہو، ریاست ہو یا بزعم خود کوئی سپر پاور۔ اس وقت تو اصل سوال ان ظالم حکمرانوں کا ساتھ دینے والے آپ جیسے اصحاب جبہ و دستار کا ہے کہ دنیا و آخرت میں ان کا انجام کا کیا ہوگا___ یہی سوال اہل پاکستان سمیت ان تمام لوگوں سے بھی ہے جو ان مظالم پر خاموش اور لا تعلق بیٹھے ہیں!
اہم گزارش: اس رسالے میں اشتہار دینے والے اداروں یا افراد سے معاملات کی کوئی ذمہ داری ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کی انتظامیہ کی نہیں ہے۔ قارئین اپنی ذمہ داری پر معاملات کریں۔ (ادارہ)
اخذو ترجمہ: امجد عباسی
امریکا میں اسلامی فکر کے احیا، اخلاقی اقدار کے فروغ، سماجی و فلاحی سرگرمیوں اور مسلمانوں کو منظم کرنے کے لیے مسلمانوں کی دو بڑی نمایندہ تنظیمیں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (ICNA) اور اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA) ہیں۔ ICNA بیش تر پاکستانی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جب کہ ISNA عرب مسلمانوں پر۔ دونوں تنظیمیں گذشتہ ۴۰ برس سے مصروف عمل ہیں۔ ان تنظیموں کی نمایاں سرگرمیوں میں سے ایک سالانہ کنونشن کا انعقاد ہے جس میں ہزاروںکی تعداد میں مسلمان امریکا بھر سے شریک ہوتے ہیں۔
گذشتہ دنوںاسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کا ۴۸ ویں سالانہ کنونشن شکاگو میں یکم تا چار جولائی ۲۰۱۱ء منعقد ہوا۔ کنونشن کا موضوع ’کثیرجہتی یا تکثیری معاشرے کا چیلنج‘ تھا۔ رو سمنٹ کنونشن سنٹر میں اس کنونشن کا آغاز امام محمد مجید، صدر اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کی اس دعوت سے ہوا کہ امریکی مسلمانوں کو امن کا سفیر ہونا چاہیے۔ ۱۰ ہزار سے زائد مردوں اور خواتین کو خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے انھوں نے نصیحت کی کہ انھیں اسلام کا مجسم نمونہ بننا چاہیے جو اچھے اخلاق، مضبوط خاندانی روابط اور معاشرے کے دوسرے افراد سے محبت، ہمدردی اور باہمی تعاون پر مبنی برادرانہ تعلقات کی دعوت دیتا ہے۔ وہ مذہب جو مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ان کے ہمسایے بھوکے سوئیں، اس کا تشدد اور نفرت سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔
کنونشن کے مرکزی خیال کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر سید ایم سعید، سابق سیکرٹری جنرل ’اسنا‘ نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کا خاندان ہمارے لیے ہمدردی، اخوت و محبت اورایک دوسرے کے لیے احترام کے حوالے سے خاندانی روابط کی تعمیر کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ انھوں نے کہاکہ جب رسول ؐ اللہ نے فرمایا کہ عورت کو اونٹ چلانے کی تربیت دی جا سکتی ہے، تو پھر اس پر گاڑی چلانے کی پابندی بھی نہیں لگائی جا سکتی۔انھوں نے کہا کہ امریکی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوم کی تعمیر کے عمل کے دوران بہت زیادہ تشدد اور خوں ریزی دیکھنے میں آئی اور خانہ جنگی کے دوران ۶لاکھ امریکی مارے گئے۔
پروفیسر امینا جندالی نے اس حدیث کا تذکرہ کیا کہ ایک مسلمان عورت جہنم میں اس لیے ڈال دی گئی کہ وہ اسلامی عبادات کی تو پابند تھی لیکن اس کے اخلاق اور رویے سے اس کے ہمسایے ناخوش تھے۔ ہمیں کثیرجہتی معاشروں میں’غیر مسلم‘ کی اصطلاح کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، اس لیے کہ یہ منفی تاثر دیتی ہے۔ اس کے بجاے ہمیں ’’دوسرے مذاہب کے بہن بھائی‘‘ متبادل کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر جان ایسپوزیٹو نے بحث کا رخ اس سوال سے متعین کیا کہ مسلمانوں کو نہ صرف امریکی معاشرے میں تکثریت کا سامنا ہے، بلکہ خود مسلم معاشروں میں بھی اس مسئلے کومحسوس کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اسلام فوبیا (اسلام کو ہوّا بنا کر پیش کرنے کا کلچر) مغرب کو اپنی گرفت میں لیتا جا رہا ہے۔ اس عمل کے اثرات کو صرف اسی صورت میںمثبت رخ دیا جا سکتا ہے کہ کثیر جہتی معاشرے کو قبول کیا جائے۔ مسلم معاشرے میں شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی شافعی کی تقسیم سے بالاتر ہو کر مسلمان ایک دوسرے کو قبول کریں۔اسلامی معاشرے میں ذمیوں کا تصور بھی ایک حقیقت ہے۔ کثیر جہتی معاشرے کی پرکھ کے لیے تمام مذاہب کو دوسرے مذاہب کا حق تسلیم کرنا ہوگا اور اس بات پر بھی لازماً یقین رکھنا ہوگا کہ مسئلے کا حل صرف اس بات میں نہیں ہے کہ ہم ایک مخصوص عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں، بلکہ اس بات میں ہے کہ صحیح رویہ کیاہے۔ آج حقائق پیچیدہ شکل اختیار کرچکے ہیں، جب کہ ہم کثیر جہتی معاشروں میں رہتے ہیں۔ ہمیں روایات کا آج کے تناظر میں ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔
ڈاکٹر مہر ہاتھوٹ نے کہا کہ تکثیریت کا تقاضا ہے کہ ہم دوسروں کے مذہب کے احترام میں کسی کمی کے بغیراپنے مذہب پر ایمان رکھیں۔ سورۂ مائدہ کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس وقت جنگ کریں جب انھیں ان کی سرزمین سے بے دخل کیا جائے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اگران کو بے دخل نہ کیا جائے تو انھیں امن کے ساتھ رہنا چاہیے اور دوسروں کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ قرآن مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ نیکی کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کوا س وژن کو بڑھانا ہوگا، قیادت کو پروان چڑھانا ہوگا، ایک حکمت عملی وضع کرنا ہوگی اوراپنے آپ کو ان رہنما خطوط کی بنیاد پر منظم کرنا ہوگا۔
پروفیسر ان گرڈ میٹسون، ’اسنا‘ کی پہلی نومسلم خاتون سربراہ نے کہا کہ مذہبی تنوع اللہ کوپسند ہے اور قومیں دنیا میں نیکی میں مسابقت سے عروج پاتی ہیں۔ مسلمانوں کو ان خصوصیات کو اپنے ذہنوں میں نقش کرنے کے لیے دوسروں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔ اگر کسی قومیت کے تشخص کی بنیاد اس مفروضے پر رکھ لی جائے کہ ’’ہم دوسروں سے برتر ہیں‘‘ تو یہ سوچ مسائل کا باعث ہوگی۔ لبنان میں عرب تشخص کے باوجود عیسائیت کا غلبہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام مذاہب میں تنوع کو برداشت کرتا ہے۔ عراق اسلام میں تکثیریت کی مثال ہے، اس لیے کہ ملک میں ہمیشہ شیعہ سنی کی واضح تقسیم رہی ہے۔ انھوں نے اس تاثر کو دور کیا کہ اسلام میں مرتد کی سزاموت ہے۔ غداری اور کسی دوسرے مذہب کے قبول کرنے میں امتیاز برتا جانا چاہیے۔
کانگریس کے رکن کیتھ الیوژن نے کہا کہ مسلمان امریکا میں مساجد پر تو بڑی سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن انھیں اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ وہ نوجوانوں کی عملی و اخلاقی تربیت کریں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشیں تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ بات کر سکیں۔ رسول پاکؐ نے جن افراد کو تیار کیا اور تربیت دی وہ باکردار اور باصلاحیت انسان تھے۔
روز منٹ کنونش سنٹر کے نزدیک ہوٹل ہیسٹی میںایک دوسرے اجلاس سے معروف مسلمان اسکالر طارق رمضان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یورپ میں اسلام فوبیا کو منظم انداز میں پروان چڑھایا گیا ہے۔ ’عرب انقلاب‘ میں مغربی میڈیا آمریت اور مسلمان انتہا پسندوں کے درمیان منظرکشی اپنی خواہشات کے مطابق کر رہا تھا، جب کہ عربوں نے خود مسلمان انتہا پسندوں کے ساتھ کسی وابستگی کا اظہار نہیںکیا تھا۔ تاہم، مسلمان نوجوان خبردار رہیں اور اپنے اندر منفی ذہنیت کو پنپنے نہ دیں۔ وہ معاشی مقام و مرتبے کے لیے صلاحیتوں کو جھونک دینے، تن آسانی اور سٹیٹس کی دوڑ کو ترک کریں۔ اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟ اس کام کا نقطۂ آغاز اللہ سے پیار اور لوگوں سے پیار سے ہو سکتا ہے۔ نبی کریمؐ جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو ان کی پہلی ہدایت یہی تھی کہ ایک دوسرے سے محبت کو فروغ دو۔
’اسنا‘ کا سالانہ کنونشن ہمیشہ ہی سے امریکا میں گہری دل چسپی کا باعث رہا ہے۔ اس میں مختلف تنظیموں کو تبادلۂ خیال کرنے اور باہمی تجربات سے استفادے کا موقع ملتا ہے۔ کاروباری حضرات کاروباری مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مختلف کمپنیاں اور انشورنس کمپنیاں سرمایہ کاروں اور گاہکوں کی تلاش میں ہوتی ہیں، والدین اپنے بچوں اور بچیوں کے مناسب رشتوں کی تلاش میں مختلف خاندانوں سے رابطے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں، کتب فروش اور اسلامی موضوعات پر فلم ساز اور علاقائی ملبوسات کی شائق خواتین بڑی تعداد میں ’اسنا‘ کے ممبران کے ساتھ شرکت کرکے ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔۲۰۰ دکانوں پر مشتمل اسلامی بازار وسیع کنونشن سنٹر میں پروگرام کے مختلف وقفوں کے دوران اپنے عروج پر ہوتا ہے۔
یہ اجتماع مختلف رنگ و نسل کے ___گورے، بھورے، سیاہ اور زرد ___انسانوں کا ایک ایسا نظارہ پیش کرتا ہے جو چٹ پٹے کھانے، پیزا، برگر، بریانی، سموسے اور شوارما ڈائننگ ہال میں کھاتے پیتے نظر آتے ہیں۔ بڑی تعداد میں جین پہنے بچیاں، اسکارف اوڑھے ہوئے نوجوان لڑکیاں، جب کہ برقعہ اور چادر میں ملبوس خواتین فخر کے ساتھ بازاروں میں، اخوت و محبت کا مظاہرہ کرتی چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔’اسنا‘ کا اقامتی کلچر ان سب کو یکجا کر دیتا ہے تاکہ وہ اسلام کے آفاقی تصور سے آشنا ہو سکیں۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ سالانہ کنونشن میں شرکت کرتے ہیں تاکہ انھیں اسلام کے وسیع سماجی تصور سے روشناس کروا سکیں۔( ریڈینس ویوز ویکلی، دہلی، ۱۷۔ ۲۳ جولائی ۲۰۱۱ء)
سوال: ہم آسٹریلیا میں پاکستانی مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ہمارے چاروں طرف گورے آسٹریلین یا یورپین رہتے ہیں۔ یہاں ہر سال کرسمس اور نیا سال بڑی دھوم سے منایا جاتا ہے۔ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ آیا کرسمس یا ایسٹر یا نئے سال کے موقعے پر ہم مسلمان اپنے ہمسایوں (جن میں عیسائی، یہودی اور لادین وغیرہ قسم کے سب لوگ شامل ہیں) کو کرسمس مبارک یا نیاسال مبارک کہہ سکتے ہیں؟ کیا اُن کی خوشی کے موقعے پر ہم اُن کے گھرجا سکتے ہیں اور مبارک باد دے سکتے ہیں اور حلال اور حرام کا لحاظ رکھتے ہوئے اُن کو تحفہ تحائف دے سکتے ہیں؟یاد رہے کہ آسٹریلین گورے (صرف نام کے عیسائی ) ہمارے ساتھ تو بہت اچھی طرح پیش آتے ہیں اور اچھے دوست ثابت ہوتے ہیں۔ ہر شہر میں ہماری مساجد موجود ہیں اور اسلام پر عمل کرنے ، اسے پھیلانے اور تبلیغ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہماری تبلیغی کاوش کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
حضور اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کا غیر مسلموں کے ہاں آنا جانا اور حلال و حرام کا لحاظ رکھتے ہوئے اُن کے ہاں کھانا کھانا ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں کچھ مسلم علما نے غیر مسلم کو سلام کرنے، عیدمبارک کہنے یا اُن کے ہاں آنے جانے کے معاملے میں سخت رویہ اختیار کیا ہے، اور سلام کرنے، عید مبارک یا تحفہ تحائف کے لین دین کو ناجائز ٹھیرایا ہے۔آپ بتائیے کہ ہم لوگ اسلام کو ایک بین الاقوامی مذہب کے طور پر اور ایک روا دار آئیڈیالوجی کے طور پر کیسے پھیلا سکتے ہیں، جب کہ ہم اُن کی خوشی کے موقعے پر تنگ دلی کا مظاہرہ کریں اور اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھے رہیں؟اگر ہم اسلامی حدود میں رہتے ہوئے اُن کو مبارک باد کہہ دیں، گھروں میں جائیں اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرلیں تو اس سے اسلام کے مقصد کو کون سا صدمہ پہنچے گا؟
جواب: آسٹریلیا اور دیگر ممالک جہاںمسلمان تعلیم یا ملازمت کی غرض سے مقیم ہوں، اسلام کی دعوت کے لیے وسیع میدان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور باشعور اہل ایمان جنھیں قرآن کریم شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (الحج۲۲:۷۸) سے تعبیر کرتا ہے جہاں کہیں بھی ہوں ان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ حالات کی مناسبت سے دعوت کی توسیع کے لیے کوشاں ہوں۔
مغربی ممالک میں سفید فام حضرات کا گذشتہ دو تین صدیوں میں عیسائیت سے تعلق کم ہوا ہے اور لادینیت میںاضافہ ہوا ہے۔ گو، روایتی طور پر یورپ ، امریکا اور آسٹریلیا کی سفید فام نسل یا افریقی النسل آبادی میں ایسے بہت سے تہوار بڑے اہتمام سے منائے جاتے ہیں جن کی ماضی میں ان کے مذہب کے ساتھ نسبت رہی ہو۔ آج کرسمس ہو یا ایسٹر، ان کی حیثیت ایک دنیوی تہوار بلکہ ایک معاشی سرگرمی کی ہوگئی ہے۔ عموماً ان دونوں مواقع پر خاندان کے افراد کا دور دراز سے سفر کرکے یک جا ہونے اور ایک ساتھ کھانے میں شرکت کی روایت بن گئی ہے۔ گویا یہ معاشرتی اورسماجی تہوار بن گئے ہیں اور ان کی مذہبیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود کرسمس اور ایسٹر کے موقع پر کیتھولک فرقے کا سربراہ اپنے ماننے والوں کو روحانی پیغام دیتا ہے اور چرچوں میں خصوصی تقریبات اور دعائیں بھی کی جاتی ہیں۔
اہل ایمان کا کسی ایسی تقریب میں کہ جہاں اسلامی شعار کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، اہل اسلام کے خلاف منصوبہ بندی کی جا رہی ہو، یا مشرکانہ عبادات کی جارہی ہوں، ان میں شرکت کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ قرآن کریم نے ان سے اجتناب کرنے اور ایسے مواقع سے تیزی سے گزر جانے کی ہدایت کی ہے: ’’(اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغوچیز پر ان کا گزر ہو جائے توشریف انسانوں کی طرح گزر جاتے ہیں‘‘ (الفرقان۳۵:۷۲)۔ چنانچہ اگر یہ معلوم ہو کہ کسی دعوت میں شراب اور اس کے لوازمات کا اہتمام ہونا یقینی ہے تو اس میں شرکت سے لازمی طور پر اجتناب کرنا چاہیے، یا یہ معلوم ہو کہ کہیں محفل رقص منعقد کی جا رہی ہے اور کسی غیر مسلم پڑوسی نے دعوت دی ہے تو ہمسایگی کے حق کے باوجود اس میں شرکت سے معذرت کرنی ہوگی۔
کرسمس اور ایسٹر بظاہر معاشرتی اور سماجی نوعیت کے تہوار بن گئے ہیں، اور جو لوگ مسلم ممالک سے باہر مقیم ہیں، ان کے لیے ان تہواروں سے اپنے آپ کو بچانا ایک معاشرتی اور سماجی مشکل بن گیا ہے۔ اس حقیقت واقعہ کے پیش نظر، اگر خالصتاً دعوتی نقطۂ نظر سے کسی پڑوسی کو کرسمس یا ایسٹر کے موقعے پر کوئی تحفہ ، زبانی مبارک باد یا کارڈ بھیجا جائے اور اس طرح وہ اسلام کی دعوت سے قریب آ سکے تو اس حد تک ایسے کام کا کرنا حرام نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ حرام و حلال کو قرآن و سنت نے متعین کر دیا ہے اور مشتبہات سے احتیاط کا حکم دیا ہے۔
آپ کا خیال درست ہے کہ اہل کتاب خصوصاً یہود و نصاریٰ کے ساتھ معاشرتی اور معاشی تعلقات پر تو کوئی پابندی نہیں ہے لیکن انھیں راز دار بنا کر،نیز ان پر وہ اعتماد کرنا جس کا ایک صاحبِ ایمان مسحق ہے، قرآن و سنت کے منافی ہے۔ حضور نبی کریم ؐ نے ایک یہودی کے بھیجے ہوئے کھانے کو قبول فرمایا(یہ الگ بات ہے کہ آپؐ اور اسلام سے بغض کی بنا پر اس کھانے کو زہر آلود کر دیا گیا تھا)۔ ایسے ہی غیر مسلموں کی تیمارداری بھی سنت سے ثابت ہے۔ غیر مسلموں کی طرف سے اگرسلام میں پہل کی جائے تو جواب میں صرف ’وعلیکم ‘کہنا بھی اسلامی آداب میں شامل ہے۔ اصل مسئلہ فقہی باریکیوں کا نہیں ہے بلکہ فقہ الدعوۃ کا ہے، اور دعوت اسلام کو حکمت، موعظہ حسنہ اورعملِ صالح کے ساتھ دینے کا ہے۔ اس بنا پر غیر مسلموں کو شروع کے مطابق خوش آمدید کہنا، انھیں صبح بخیر یا شب بخیر کہنایا کرسمس یا ایسٹر پر مبارک باد دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی دفترمیں کام کرنے والے ایک عیسائی یا یہودی کی ترقی ہو اور آپ اسے ایک سماجی روایت کے طور پر مبارک باد دیں۔
اسلام ایک دعوتی دین ہے اور ہر مسلمان مرد اور عورت پر اجتماعی اور انفرادی حیثیت میں دین کی دعوت دینا فرض ہے۔ اس غرض کے لیے مخاطب کی زبان، ثقافت اور رہن سہن سے واقفیت حاصل کرنا دعوتی حکمت عملی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ مسلمان، جو مغربی دنیا میں مقیم ہیں، وہاں بسنے والے افراد کے ساتھ روابط قائم کریں، اور ایسے تمام کاموں سے مکمل طور پر بچتے ہوئے جن میں شرک اورممنوعات کا ارتکاب ہوتا ہو، حکمت کے ساتھ غیر مسلموں تک اپنی بات کو پہنچائیں۔
ایک ضمنی لیکن اہم پہلو یہ بھی سامنے رہے کہ غیر مسلموں کو دعوتی نقطۂ نظر سے اسلام سے قریب لانے کے لیے کرسمس یا ایسٹر پر مبارک باد دینے کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب میں مقیم مسلمان اپنے بچوں کی خوشی کے لیے اپنے گھر میں کرسمس کا درخت مع تزئینی روشنیوں کے لگائیں، اور اس عمل کے ذریعے وہ یہ سمجھیں کہ ’وسعت نظر‘ کا اظہار ہوگا۔ ایساکرنا دین کی واضح تعلیمات کے منافی ہے۔ اللہ کے رسولؐنے غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے کی مکمل ممانعت کی ہے۔ اس لیے ان کے تہواروں کا منانا اسلامی طور پر جائز نہیں ہو سکتا۔ نہ صرف یہ بلکہ جو لوگ باہر مقیم ہیں ان کا فرض ہے، اپنے بچوں کو ان تہواروں کے نہ منانے پر عقلی دلائل دے کر مطمئن کریں۔ اسلامی تہواروں ، دونوں عیدوں کے موقع پر گھر میں خصوصی اہتمام کریں اور بچوں کو تحائف، اچھے کھانے اور اچھے لباس کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر کھیلوں اور مقابلوں میں شرکت کروائیں تاکہ ایک صحت مند متبادل سرگرمی ان کے سامنے آئے۔
اسلام لازمی طور پر دیگر مذاہب کے متوازی وجود پر اعتراض نہیں کرتا، لیکن وہ ثقافتی اورمذہبی تکثیریت کو گوارا کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت اور دیگر مذاہب کی گمراہی کا اظہار کھل کر کرتا ہے۔برداشت اور رواداری کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مذہب کو سچا اور حق مان لیاجائے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ الہامی مذاہب اصلاً ایک ہی مأخذ سے نکلے ہیں،لیکن بعد میں ان میں وہ چیزیں شامل کر لی گئیں جن کا کوئی ثبوت اور دلیل الہامی ہدایت میں نہیں تھی، جب کہ اسلام قرآن وسنت کی بنا پر جیسا نازل ہوا، ویسا ہی اپنی اصل صورت اور غیر منحرف شکل میں محفوظ ہے۔ اور انسانیت کے تمام مسائل کا عقلی اور نقلی حل پیش کرتا ہے۔
مغرب میں دعوت دین دینے والے افراد کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ مقامی افراد کے مذہب، روایات تہواروں اور زبان سے پوری واقفیت حاصل کریں، تاکہ وہ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں سے حقائق پر مبنی باحکمت مکالمہ کر سکیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
ایک سو چالیس سال پہلے ۱۸۷۱ء میں لندن سے سفرِحج اور انگلستان کے احوال پر مشتمل انگریزی کتاب Pilgrimage to The CAABA and Charing Cross شائع ہوئی تھی۔ اس کا اُردو ترجمہ غلام مصطفی خان مارہروی نے ماہنامہ العلم ، کراچی میں قسط وار کیا تھا۔ عبدالسلام سلامی صاحب نے اسی ترجمے کو معروف ادیب اور نونہال کے ایڈیٹر جناب مسعود احمد برکاتی کے مختصر دیباچے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ۱۸۷۰ء میں ریاست ٹونک کے امیر نواب محمد علی خان حج کے ارادے سے چلے تو ان کے ایک وزیر حافظ احمد حسن بھی ان کے ہمراہیوں میں شامل تھے۔ حافظ صاحب نے رودادِ سفرِحج انگریزی میں قلم بند کی، اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے سفرِلندن کا احوال بھی کتاب میں شامل کر دیا۔
مسعود احمد برکاتی کے بقول: ’’یہ کتاب ہمیں ڈیڑھ صدی پہلے لے جاتی ہے اور مشرق و مغرب کی طرزِ زندگی، معاشرت اور تمدن سے روشناس کراتی ہے‘‘۔ حافظ احمد حسن نے رودادِ حج سے پہلے انگریزوں کے ہاتھوں نواب محمد خاں کی بلاجواز اور ظالمانہ برطرفی کا ذکر کیا ہے۔ نواب موصوف ایک صاحب ِ تدبیر اور بلند کردار حکمران تھے مگر ان کی ریاست ہندو راجائوں کے علاقے میں واقع تھی جنھوں نے باقاعدہ ایک سازش کر کے انگریزوں سے انھیں برطرف کرا دیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریز حکمرانوں، افسروں اور اہل کاروں میں بھی پرلے درجے کے متعصب، مسلم دشمن اور لارڈ کلائیو اور وارن ہیس ٹنگز جیسے بددیانت اور رشوت خور لوگ موجود تھے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ جدہ میں ایک تو چُنگی کے افسروں نے حجاج سے بُرا سلوک کیا، دوسرے وہاں کا پانی بھی کڑوا اور بدذائقہ تھا۔ جدہ سے مکہ تک کا مشقت بھرا سفر اُونٹوں پر کیا۔ پھرمکّے سے مدینے تک کا سفر تو اور بھی خطرناک اور تکلیف دہ تھا۔ نیم وحشی بدوئوں اور لٹیروں کے گروہوں سے بچنا مسافروں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ لوگ گروہ در گروہ، مسلح محافظوں کے جلو میں سفر کرتے تھے، ورنہ جو لوگ قافلے سے ذرا پیچھے رہ جاتے تھے، وہ اکثر اوقات جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
سفرنامہ پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے، آج کے زائرین ہزار درجہ زیادہ امن و سکون، راحت و آرام اور سہولتوں کے ساتھ عمرہ و حج ادا کرتے ہیں۔ آخری باب میں مؤلف نے جدہ سے انگلستان تک کے سفر کا حال قلم بند کیا ہے۔بہت خوب صورت مشینی کتابت، عمدہ، مضبوط مگر وزن میں ہلکا کاغذ، بے داغ طباعت اور نفیس جلدبندی، یہ سب کچھ، کتاب تیار اور پیش کرنے والے (سلامی صاحب) کے اعلیٰ ذوق اور سلیقے کی شاہد ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
حدیثِ رسولؐ وہ سرمایہ علم ہے جس کی بنیاد پر دین کی تفصیلات کو جاننا امت کے لیے ممکن ہوا۔ سنتِ رسولؐ مصدرِ شریعت ہے اور حدیثِ رسولؐ اس مصدر تک پہنچنے کا ذریعہ۔ خود حدیث بھی بہت سے امور میں مصدر اور ماخذِ دین بن جاتی ہے۔ فقہاے اُمت نے حدیث نبویؐ سے مسائل کا استنباط کیا، محدثین نے احادیث کو روایت بھی کیا اور ان سے مسائل بھی اخذ کیے۔ فقہا اور محدثین کی تعبیرات اور اخذِ مسائل میں اختلاف کیوں واقع ہوا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو دینی امور میں غور وفکر کرنے والے ہر فرد کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ عموماً اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کم ہی کی جاتی ہے۔ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کے ایک شاگرد محمد عوّامہ نے اس نکتے پر توجہ مرکوز کرکے اختلافِ ائمہ فقہا کے اسباب بیان کرنے کی ایک قیمتی سعی کی ہے۔ جنوبی افریقہ میں حدیث کے استاد علاء الدین جمال نے ان کی عربی تالیف اثر الحدیثِ الشریف فی اختلاف الائمۃ الفقہاءؒ کااردو ترجمہ پیش کیا ہے۔مصنف نے ان بہت سی وجوہ کو چار اسباب کے تحت بیان کیا ہے جوحدیثِ رسولؐ کے حوالے سے ائمۂ فقہا کی تعبیرات میں اختلاف کی بنیاد بنے ہیں۔
شیخ محمد عوّامہ نے حدیث و فقہ کے وسیع ذخیرے سے مختصراً چند اسباب کو ذکر کرکے حدیث و فقہ کے طلبہ واساتذہ کے لیے ایک معتدل راستے کی طرف نشان دہی کی ہے۔ ان کے زاویۂ نگاہ سے جزوی طور پر اختلاف کیا جا سکتا ہے، تاہم موضوع کی اہمیت اور ان کی مخلصانہ کوشش کی قدر وقیمت سے انکار نہیں۔ اگرچہ اس موضوع پر قدیم علما کی تحریریںبھی موجود ہیں، تاہم اسے مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اُن احادیثِ رسولؐ کو نشان زد کرکے بیان کرنے کی ضرورت ہے جن کی اساس پر فقہا کی آرا سامنے آئی ہیں۔ بالفاظِ دیگر جو احادیث فقہ کا ماخذ ہیں اُن کو یکجا کیا جائے۔ فقہا کی آرا، قرآن و سنت اور حدیث رسولؐ سے الگ ہو کر مصدر دین کی حیثیت نہیںرکھتیں۔ یہ آرا استنباط ہیں جن کی بنیادیں اور مآخذ تلاش کرکے متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً احادیث پر کام کی اشدضروت ہے۔ (ارشاد الرحمن)
ناموس رسالتؐ پر مغرب کے حملوں اور پھر اس پر امت کے رد عمل نے اسے ایک جیتا جاگتا مستقل زندہ مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے جن میں سے ۱۳ تحریریں اس مجموعے میں جمع کی گئی ہیں۔ لکھنے والوں میں خود مولّفہ کے علاوہ، خرم مرادؒ پروفیسر خورشید احمد، اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ، شاہ نواز فاروقی،پروفیسر ساجد میر، مظفر اعجاز، شوکت علی، حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر انیس احمد اورڈاکٹر عادل باناعمہ شامل ہیں۔ تحریروں میں اس مسئلے پر بحث کے ہر پہلو کو سمیٹ لیا گیا ہے۔ آخر میں اقبال کا فارسی زبان میں منظوم نذرانۂ عقیدت اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔ اس بے حدقیمتی لوازمے کو ایک مناسب مربع سائز کے آرٹ پیپر پر دل کش انداز میں اور خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ویمن اینڈ فیملی کمیشن کے ذمہ داروں نے ایک اہم مسئلے پر یہ کتاب بروقت شائع کی ہے۔ اس سے ناموس رسالتؐ کا مسئلہ نکھر کر واضح ہو گیا ہے۔ (مسلم سجاد)
بھارت میں قبولِ اسلام کے اکثر واقعات میں وہاں مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کا نام آتا ہے۔ اس کتاب میں ۱۸ نومسلم افراد کے بیش تر واقعات میں بھی وہی مرکزی شخصیت ہیں۔ ان میں ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی، مرد بھی اور عورتیں بھی۔ بھارت سے باہر کے بھی ہیں، مثلاً مائیکل جیکسن کے بھائی جرمن جیکسن۔ ہمارے کرکٹر محمد یوسف کی اور مشہور و معروف کملا ثریا کی داستان بھی شامل ہے۔ ہرکہانی پڑھنے کے لائق ہے۔ ہم پیدایشی مسلمانوں پر یہ عجب اثر کرتی ہیں، دل گداز ہوتا ہے اور آنسو قابو میں نہیں رہتے۔ یہ دین کی قدر کرنے والے ہیں اور ہم ناقدرے ہیں۔ پھلت مظفر نگر یوپی (بھارت) سے ایک رسالہ ارمغان نکلتا ہے جس میں یہ کہانیاں آتی ہیں۔ اس کتاب کی پہلی تین جلدیں نظر سے نہیں گزریں۔ اس کتاب کا ہر واقعہ اپنے اندر بڑے سبق لیے ہوئے ہے۔ ہدایت کے یہ سفر ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی کتابیں بہت عام ہوجائیں، ہر پڑھنے والا پڑھے تو اُمید ہے کہ پیدایشی/ خاندانی مسلمانوں کا ایمان بیدا رہوگا اور معاشرے پر خوش گوار اثرات پڑیں گے۔ (م- س)
دنیا میں ذہنی دبائو اور افسردگی (ڈیپریشن) کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق خدشہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں ہر پانچواں شخص اس مرض کا شکار ہو گا، مگر پاکستان میں ابھی سے ۴۴ فی صد لوگ اس مرض کی گرفت میں ہیں۔ یہ مرض آگے بڑھ کر جرم یا خودکشی پر منتج ہوتا ہے۔ زیرنظر کتاب میں ڈیپریشن کا اہم محرک مادہ پرستی، حسد اور دولت و شہرت کے حصول میں ناکامی کو قرار دیا گیا ہے۔ اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ڈیپریشن یا نفسیاتی امراض کا سبب صرف غربت نہیں ہے، اس لیے کہ مغربی ممالک میں خوش حالی کے باوجود ذہنی امراض اور خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ صرف امریکا میں ہرسال ۴۰ لاکھ افراد ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور امریکا میں دنیا میں سب سے زیادہ سکون آور ادویات تیار کی جاتی ہیں (ص ۳۲)۔ دراصل تمام تر ترقی کے باوجود انسان کا اضطراب اور بے چینی، زندگی کا مقصد واضح نہ ہونے اور خدا سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ مصنف،مغربی ماہرینِ نفسیات کی آرا اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ڈیپریشن کا علاج بتاتے اورعمل کی راہیں سجھاتے ہیں۔ قرآنی آیات اور احادیث کا برمحل استعمال کتاب کی خوبی ہے۔ اسلام کس طرح سے رہنمائی اور سکون کا باعث بنتا ہے، اس حوالے سے نومسلموں کے ایمان افروز واقعات بھی درج ہیں۔(امجد عباسی)
ماہر نفسیات ارشد جاوید کے بقول ان کی ’زندگی بدلنے والی‘ یہ دسویں کتاب (نویں: روزمرہ آداب) اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند وناپسند کی روشنی میں اچھے اور بُرے مسلمان کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ہر عنوان کے تحت پسندوناپسند کے حوالے سے آیات اور احادیث پیش کی گئی ہیں۔ پہلے دو ابواب جہنم اور جنت کے بعد ایمانیات، عبادات اور زندگی کے ہر دائرے سے متعلق متفرق موضوعات ہیں۔ اخلاقیات کے (نمبر۴۹) بعد ۲۲ذیلی عنوانات کے تحت جھوٹ، غیبت، فضول خرچی، قول و فعل میں تضاد وغیرہ بیان ہوئے ہیں۔ علم دینے کے لیے اچھی کتاب ہے، لیکن ہمارا مسئلہ نہ جاننے کا نہیں، نہ کرنے کا ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے (لیکن طبیعت اِدھر نہیں آتی) لیکن لوگ، یعنی مسلمان، بُرے مسلمان رہنے پر خوش اور مطمئن ہیں بلکہ اچھے مسلمانوں کو احمق سمجھتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل کیا کتابوں سے ہوجائے گا؟ عنوان بہت بُرا لگا، بھلا مسلمان بھی بُرا ہوتا ہے؟ (م - س)
یہ کتاب شیخ فتح اللہ گولن کی عربی تصنیف القدر فی ضوء الکتاب والسنۃ کا ترجمہ ہے۔ شیخ فتح اللہ نے عربی میں کئی کتب تصنیف کی ہیں جن میں سے اکثر کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں کیا جاچکا ہے۔ تقدیر کے مسئلے پر یہ کتاب مساجد میں دیے گئے مواعظ اور طلبہ اور مریدین کے لیے منعقد کی گئی خصوصی مجالس میں سوالات و جوابات کا مجموعہ ہے۔ تقدیر پر ایمان لانا ایمان کے چھے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ تقدیر کے مسئلے کا تعلق انسان کے جزئی ارادے سے ہے۔ اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی اور فطری تقاضوں کے حوالے سے عام فہم انداز میں بحث کی گئی ہے اور تقدیر سے متعلق سوالات اوران کے جوابات کی صورت میں بھی گفتگو ہے۔ تقدیر کے مسئلے کو سمجھنے میں یہ کتاب مفید ہوگی۔ مولانا مودودیؒ کی تصنیف مسئلہ جبروقدر کا مطالعہ مسئلے کے تمام پہلوئوں کوواضح کر دے گا، ان شاء اللہ! (شہزاد الحسن چشتی)
معاصر ایرانی فارسی ادب کے بارے میں یہ ایک نصابی فارسی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے۔ مصنف نے اسے مدرسوں اور یونی ورسٹیوں کے فارسی زبان و ادب کے طلبہ کی ضرورت کے تحت ایک ’معاون‘ (help book) کی صورت میںتیار کیا ہے۔ زیادہ تر حصہ قریبی زمانے کے فارسی ادبی جائزے پر مشتمل ہے، جس میں فارسی داستان نویسی، زمانہ انقلاب کی نثر، ڈراما نگاری، ادبیات اور نظری علوم میں تحقیق، فارسی میں صحافت کے ارتقا اور بچوں اور نوجوانوں کے ادب کا احاطہ کیا گیا ہے، لیکن مقدمے میں کلاسیکی ادوار کا تعارف بھی شامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مصنف نے تاریخ ادب فارسی کے دریا کو ساڑھے تین صفحات کے کوزے میں بند کر دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مصنف (پ: ۱۹۳۶ء) تہران کی بعض جامعات و کلیات میں مختلف تدریسی، تحقیقی اور انتظامی مناصب پر فائز رہے۔ آج کل مرکزِ مطالعاتِ اسلامی، مک گل یونی ورسٹی کینیڈا میں پروفیسر ہیں۔ اگرچہ زیرنظر پانچویں اڈیشن کے دیباچے میں خاصے کسر و انکسار کا اظہار کیا گیاہے مگر مترجم کے بقول یہ ان کی سب سے زیادہ مقبول، کثیرالاشاعت اور اپنے موضوع پر کلیدی اور معتبر کتابوں میں سے ہے جو مدرسوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کے ساتھ ساتھ فارسی ادب کے اساتذہ اور عام قارئین کے لیے بھی ایک معلومات افزا اور چشم کشا کتاب ہے۔ مترجم فارسی زبان وادب کے فاضل قادر الکلام شاعر اور معروف استاد ہیں۔ ان حوالوں سے ان کی دیگر خدماتِ علمی و ادبی کی طرح یہ خدمت بھی قابلِ تحسین ہے۔ (ر- ہ)
طبیعیات کی یہ نصابی کتب بی، ایس، سی(آنرز) اور ایم ایس سی نصاب کے مطابق اردو میں تحریر کی گئی ہیں۔ ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے اور یہ قابلِ قدر بات ہے کہ سائنسی علوم میں سے اکثر پر پہلے ہی قومی زبان اردومیں کتب شائع کی جا چکی ہیں۔ اب یہ تین کتب طبیعیات پر شائع کی گئی ہیں۔ اردو یونی ورسٹی اور ان کتب کے مؤلفین اساتذہ قابلِ مبارک باد ہیں۔ طبیعیات کی زیر تبصرہ کتب عمدہ اور سلیس اردو میں تحریر کی گئی ہیں اور دقیق عنوانات کی تشریح آسان اور قابل فہم انداز میں اس طرح کی گئی ہے کہ نہ صرف طلبہ کو سمجھنے میں آسانی ہو بلکہ جو لوگ بھی طبیعیات سے دل چسپی رکھتے ہیں وہ بھی بآسانی سمجھ سکیں۔ ان کتب میں مساوات اور ریاضی کی حسابی تفصیلات، جو اس طرح کی کتب کے لیے ضروری ہیں، واضح طور پر مناسب مقامات پر موضوع کے سمجھنے کے لیے دی گئی ہیں۔ انگریزی اصطلاحات کے اردو مترادفات جامعہ کراچی اور مقتدرہ قومی زبان کے وضع کردہ استعمال کیے گئے ہیں۔
ان سائنسی کتب میں اسلامی طرز فکر کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ الحادی تہذیب نے مقبول نقطۂ نظر یہ بنا دیا ہے کہ جیسے اس کائنات میں سب کچھ خدا جیسی کسی ہستی کے بغیر اپنے آپ ہورہاہے۔ مسلمان اہل علم اور سائنس دان بھی ذاتی عقیدہ درست رکھتے ہوں، صاحب ایمان ہوں، لیکن اس نوعیت کی سائنسی کتب لکھتے ہوئے مغربی، یعنی الحادی انداز ہی اختیار کرتے ہیں حالانکہ جو کچھ بیان کرتے ہیں دراصل اللہ تعالیٰ کے قوانین ہیں۔ سائنس تو ہے ہی آیاتِ الٰہی کا بیان۔ مسلمان اہل قلم کو ان کتب کی تصنیف اس طرح اور اس انداز سے کرنا چاہیے کہ طالب علم کائنات کی اصل حقیقت سے آشنا ہو، اور سائنس کا مطالعہ اس کا ایمان مضبوط کرے۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اس نوعیت کی ایک فزکس کی نمونے کی کتاب لکھی تو انھی قوانین کو God's Lawکہہ کر بیان کیا۔ اتنی سی بات سے پورا منظر نامہ بدل گیا۔سائنس الحاد کے بجاے ایمان کی پیغام بر بن گئی۔ مسلم اُمہ کو مستقبل میں جو چیلنج درپیش ہیںنئی نسل کو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی نقطۂ نظر سے لکھی گئی کتابوں کی ضرورت ہے ہمارے اساتذہ کو سائنسی و وفنی درسی اور غیر درسی کتب میں بلکہ درس و تدریس کے دوران میں بھی اسلامی نقطۂ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ (ش-ح- چ)
آپ کے تمام مضامین اعلیٰ پائے کے ہوتے ہیں، جو تعلیم و تربیت کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون ’نظامِ عدل کا قیام اور حکمت عملی‘(ستمبر۲۰۱۱ء) بلاشبہہ ایک شاہکار ہے۔ اگرتحریک سے وابستہ افراد اس پر عمل کریں اور اپنی شب و روز کی زندگی ان رہنما خطوط کے مطابق گزاریں تو تبدیلی کی اُمید کی جا سکتی ہے۔
’تربیت اولاد میں حیا کا عنصر‘ (ستمبر۲۰۱۱ء) میں بچوں کی تربیت کے لیے جدید تقاضوں کی روشنی میں اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ایک طرف حیا کے مختلف پہلو بیان کیے گئے ہیں تو دوسری طرف بے حیائی کے محرکات کی نشان دہی کے ساتھ ان کے تدارک کے لیے عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔
اس ماہ پروفیسر محمد اقبال خاں کی تحریر ’تاجکستان: پس منظر اور جدوجہد‘ (ستمبر۲۰۱۱ء) نے تو دل کو موہ لیا۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ روس کی گرفت سے آزاد ہونے والی ریاستوں سے متعلق معلومات خاصی بکھری اور نامکمل ہیں۔ تاجک باشندوں کا ذکر اکثر اخبارات میں نظر آیا، زیادہ تر بدترین حالات کا شکار اور کبھی مختلف نوعیت کے حملوں کا شکار۔ اس علاقے کے متعلق زیادہ معلومات کی خواہش تھی۔ یہ خواہش اس مضمون سے کافی حدتک پوری ہوئی۔ دکھی کر دینے والے حالات تو اس وقت پوری مسلم دنیا کا ہی المیہ ہیں لیکن تاجک عوام کا عزم یہ حوصلہ دے رہا ہے کہ ان شاء اللہ مستقبل اسلام کا ہی ہوگا، اور آزمایش کے یہ دن گزر جائیں گے!
’آج کی بدلتی دنیا اور درپیش چیلنج ‘(ستمبر۲۰۱۱ء) میںمصنف نے نہایت چابک دستی سے چند صفحات میں دنیا کے اتار چڑھائو، ان کے اسباب وعوامل اور مستقبل کے امکانات و خدشات، کیا نہیں، بیان کر دیا ہے، مگر ہم تو یہ بھی پڑھنا چاہتے ہیں کہ اس پریشان حال دنیا کے دکھوں کا مداوا وہ آب حیات ہے جو مسلمانوں کے پاس ہے۔
توجہ:’روزے کی جسمانی و نفسیاتی افادیت‘ (اگست۲۰۱۱ء) از ڈاکٹر محمد سلطان میں مضمون نگار کا تعلق ہمدرد یونی ورسٹی، دہلی سے بتایا گیا تھا جو درست نہیں۔ وہ جی سی یونی ورسٹی لاہور میں شعبہ عربی و علوم اسلامیہ کے صدرہیں۔
فاسد ماحول میں کسی مرد کی حیاداری اور کسی خاتون کی عصمت پسندی کو ساری عمر چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ بے حیائی ہرسمت سے نئے نئے اسلحے کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے اور بار بار حملہ آور ہوتی ہے۔ وہ بنائوسنگھار کرکے نکلتی ہے، وہ نمایش اور مظاہرے کی اسپرٹ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے،وہ شعر کا لباس پہنتی ہے، وہ افسانے کا بہروپ بھرتی ہے، وہ صحافت اور ادب کے ایوان میں مسند آرا ہوتی ہے، وہ اشتہاروں میں نمایاں ہوتی ہے، وہ تصویر کا کاغذی پیرہن زیبِ بدن کرتی ہے، وہ رقص گاہوں میں ناچتی ہے،وہ مینابازار لگاتی ہے،و ہ کیمروں کے سامنے پریڈیں کرتی ہے،وہ ضیافتوں اور دعوتوں اور تقریبوں میں پیش پیش رہتی ہے، وہ سینمائوں میں ہنگامے مچاتی ہے اور وہ ریڈیو سے طوفانِ صوت بن کر بہتی ہے۔
اس کے مقابلے میں آپ اپنی فطرت کی پاکیزگی کے زور پر ’غضِ بصر‘ کرتے ہیں لیکن بے حیائی خود آگے بڑھ کر آپ کی آنکھوں میں گھستی ہے۔ آپ اس کے لیے گوش برآواز نہیں ہوتے، لیکن وہ خود اپنا پیغام آپ کے کانوں میں ڈالتی ہے۔ آپ کو اس کی بو سے نفرت ہے لیکن وہ عطر کی لپٹوں میں تحلیل ہوکر آپ کے مشام پر حملہ کرتی ہے۔
یہ فاسد ماحول کا جادو ہے کہ حیاداروں اور عصمت پسندوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، ان کو کور ذوق شمار کیا جاتا ہے، لیکن بے حیائی اور بے عصمتی ترقی پسندی اور تہذب اور کلچر کی علامت قرار دی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ماحول عصمت و حیا کو پیچھے دھکیلتا ہے اور بے عصمتی و بے حیائی کو اگلی صفوں میں جگہ دیتاہے۔ ایسے حالات میں کون حساب لگا سکتا ہے کہ کتنی ہی سعید روحیں ہیں کہ جو بے حیائی کے اس طوفان کے ریلوں سے لڑتے لڑتے آخرکار دم توڑ دیتی ہیں۔ اور کون اس بات کا اندازہ کرسکتا ہے کہ کتنے افراد کی عصمت پسندی کے مظاہرے کے پس پردہ ان کے تحت ِ شعور میں ماحول کے فاسد اثرات گھس کر ڈیرے ڈال چکے ہیں اور وہ برابر ان کی سیرتوں کو دیمک بن کر چاٹ رہے ہیں…
ایسے فاسد ماحول میں گھرے ہوئے مومن سے اس کا ایمان دو مطالبے کرتا ہے:ایک یہ کہ وہ ماحول کے اثرات اور گندگیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اور اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پاکیزگیِ اخلاق اور طہارتِ نفس پیدا کرنے کے لیے عملاً جو کچھ کرسکتا ہے اس کو آخری حد تک کرے۔دوسرے یہ کہ فاسد ماحول کا تسلط ختم کرنے اور اس کی جگہ ایک صالح ماحول کو برپا کرنے کے لیے جدوجہد اور سرگرمی کا حق جتنا وہ ادا کرسکتا ہو اسے پوری عزیمت سے ادا کرے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ کسی فاسد ماحول میں ایمان، تقویٰ اور احسان کی راہ صرف یہی ہے۔(’اشارات ‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۷، عدد ۱، محرم ۱۳۷۱ھ، اکتوبر ۱۹۵۱ء، ص ۳-۴،۷-۸)