مضامین کی فہرست


نومبر ۲۰۱۱

انسانیت پر اسلام کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ وہ مایوس، افسردہ،  دل برداشتہ اور نااُمید انسان کے دل میں جو اپنی غلطیوں، سیاہ کاریوں اور گمراہیوں کے سبب ہمت ہار بیٹھا ہو اور مایوسی کے عالم میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کو ختم کرنے میں نجات سمجھنے لگا ہو، اُمید اور عفو و مغفرت کی شمع روشن کرتا ہے۔ یوں اس کا اعتماد بحال کرکے اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت کے ذریعے کامیابی کی شاہراہ پر لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ تباہی کے گڑھے تک پہنچی ہوئی انسانیت کو ترکِ دنیا، نفس کشی اور عزلت کی جگہ بلندی، کامیابی اور کارزارِ حیات میں اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی تعلیم و ہدایت دیتا ہے۔ یہ ہدایت نظری نہیں بلکہ عملی طور پر اسے نااُمیدی کے اندھیروں سے نکال کر مستقبل کی تعمیر میں سرگرم کردیتی ہے۔ اسلام نام ہے: سلامتی کا، فلاح و سعادت کا، اور دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کا۔

اس کے علی الرغم انسان اپنی محدود نظر، متعین فکر اور محدود تجربے کی بنا پر پیش آنے والی مشکلات، مصائب اور وقتی آزمایشوں سے پریشان ہوکر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ جن مصائب کا شکار ہے، ان سے کوئی نجات نہیں ہوسکتی۔ خصوصاً جب کسی قوم یا ملک کو اس کے قیام ہی سے ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو جن میں صالح، پُراعتماد اور باصلاحیت قیادت کا فقدان ہو، اور سیاست کار ہوں یا دیگر کارندے، وہ مستقلاً ملک و قوم کے اثاثوں کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے وسائل کا ناجائز استعمال کرتے رہے ہوں، تو قوم کا سیاست دانوں اور حکمرانوں سے مایوس ہونا ایک قابلِ فہم عمل ہے۔ اگر غیر جانب دار طور پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد سے ایسے حالات سے گزرا ہے جس میں ہرمشکل کے موقع پر بعض حضرات نے یہ محسوس کیا کہ اس سے بڑی آزمایش اور کیا ہوگی؟ چنانچہ ۱۹۴۸ء میں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا اپنے خواب کو ناتمام چھوڑ کر رخصت ہو جانا اور ان کے جانشینوں کا جماعتی سیاست اور جوڑتوڑ میں اُلجھ جانا خود ایک ایسا سانحہ تھا جسے فالِ بد  سمجھا گیا۔ بعد میں پیش آنے والی ہر آزمایش کے موقع پر بعض افراد یہی کہتے رہے کہ اب ملک کا سنبھلنا اور اصلاح کا ہونا بہت مشکل ہے۔ لیکن اگر تاریخ کے دوسرے رُخ کو دیکھا جائے تو پاکستانی اُمت مسلمہ نے ہر آزمایش اور امتحان کا مقابلہ عزم، ہمت اور جواں مردی سے کیا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ ہو یا کشمیر پر بھارت کا قبضہ اور بیرونی ممالک کا دبائو ہو، یا اندرونِ ملک پیدا ہونے والے خلفشار، پاکستانی قوم نے اپنے مالی وسائل کی کمی اور افرادی قوت کے محدود ہونے کے باوجود سیاسی اور معاشی دونوں میدانوں میں مشکلات کا سرتوڑ مقابلہ کیا۔ اس عرب دنیا کے مقابلے میں جس میں جو آمر مسلط ہوا وہ ۴۰، ۵۰ برس تک اقتدار پر قابض رہا، پاکستان میں کوئی آمر ۱۰برس سے زیادہ اپنے اقتدار کو باقی نہ رکھ سکا۔ مکمل معاشی بے سروسامانی میں اپنے سفر کا آغاز کرنے والی پاکستانی قوم نے اپنی آزادی کے ۱۰سال کے اندر معاشی ترقی کا ریکارڈ قائم کیا، اور جب بھارت کی معیشت سنبھلنے کی ہرکوشش کے باوجود مسلسل بحران کا شکار تھی اور اس کی عدم ترقی کے ریکارڈ کو  ’ہندو ریٹ آف گروتھ‘ کا نام دیا جا رہا تھا، پاکستان کی معیشت سے اوسطاً ۵ سے ۶ فی صد سالانہ کا ریکارڈ قائم کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری دنیا کی مخالفت اور معاشی اور سیاسی پابندیوں کے گرداب میں گرفتار ہونے کے بعد اپنی ایٹمی صلاحیت کو اس انداز میں ترقی دی کہ دنیا ششدر رہ گئی، اور یورینیم کی افزودگی کا وہ عمل جس کے لیے امریکا نے ۱۰سال کا عرصہ لیا تھا اسے سات، آٹھ سال میں حاصل کرکے دنیا میں اپنے آپ کو ایٹمی طاقت کے طور پر منوا لیا۔

اگر صرف اس پہلو پر غور کیا جائے کہ یہ قوم اپنے سائنس دانوں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کے سبب عوام کی غربت اور تعلیم کی کمی کے باوجود ایک ایٹمی طاقت بن سکتی ہے، تو یہ اس کے باصلاحیت اور پُرعزم ہونے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

پھر ایسا کیوں ہوتا ہے، کیا وجہ ہے کہ آج ملکی صحافت ہو یا برقی میڈیا پر تجزیہ کار اور میزبان سب کی تان جس بات پر آکر ٹوٹتی ہے اس کا نام مایوسی، نااُمیدی اور کسی حل کا نظر نہ آنا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جو مایوسی اور نااُمیدی گذشتہ ۲۳برس سے مغربی میڈیا پاکستان کے بارے میں پھیلاتا رہا ہے کہ خاکم بدہن یہ ایک ناکام ریاست ہے اور اس کے خیالی نقشے بھی شائع کیے گئے۔ اس بیرونی فکر نے کس طرح خود ہمارے ملک کے صحافیوں اور برقی ذرائع ابلاغ کے ذہنوں کو اپنا ہم آہنگ بنالیا۔

بظاہر یہ معلوم ہوتاہے عالم گیریت کے زیرعنوان ابلاغِ عامہ کے ذریعے جس فکر کو مغربی حکمت ساز فروغ دینا چاہتے ہیں، وہ اس کے لیے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے خود ملک کے باشندوں کے اذہان کو متاثر کرتے ہیں، اور پھر ان کے ذریعے جس ملک میں انھیں عدم توازن پیدا کرنا ہو، مایوس کن اطلاعات اور تجزیوں کے ذریعے عوام الناس کو بھی اس نااُمیدی میں مبتلا کردیتے ہیں۔

قرآن کریم کا مطالعہ اس حوالے سے کیا جائے تو اقوامِ سابقہ میں بھی اس مرض کے سرایت کرجانے کے شواہد ملتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی ملتی ہے کہ اس مرض کا علاج کس طرح کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سچے انبیاے کرام علیہم السلام کو ہرمرحلے میں شدید آزمایش و ابتلا کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پیروکار عموماً یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ، اللہ کی مدد کب آئے گی۔ ان دو قرآنی الفاظ کی تفصیل تلاش کی جائے تو یہ ایسے مواقع پر استعمال ہوئے جب دین حق پر عمل کرنے والوں کو طاغوت، کفر اور ظلم و استحصال کے نمایندوں نے قوت کے نشے میں کبھی زندہ دفن کیا، کبھی گڑھوں میں ڈال کر آگ میں جلا دیا اور کبھی ان کے جسموں کو آروں سے چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

ان انفرادی اور اجتماعی آفات و آزمایشوں سے گزرتے ہوئے اہلِ ایمان یہ سوال کرتے ہیں کہ کب تک ظلم کو برداشت کیا جائے گا؟ کب تک اہلِ ایمان کا خون بہے گا؟ آخر وہ صبح کب طلوع ہوگی جو عدل وانصاف اور حق کے غلبے کا پیش خیمہ ہو؟ سورۂ بقرہ میں اس حوالے سے ہمارے لیے غوروفکر کے لیے ایک سرمایہ فراہم کردیا گیا ہے۔ فرمایا گیا:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انھیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘، اُنھیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوںگی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۵۳-۱۵۷)

بات کا آغاز اس ہدایت سے کیا گیاکہ اہلِ ایمان کے صرف دو سہارے ہیں: یعنی صبر اور نماز۔ صبر نہ تو لاچاری کا نام ہے، نہ مایوسی کا، نہ غم و اندوہ سے نڈھال ہونے کا، نہ اُمید کا دامن چھوڑ دینے کا، بلکہ استقامت، پامردی، اُمید، اعتماد و ایمان کے ساتھ رب کریم کی ہدایت پر جم جانے اور ایمان کی بقا کے لیے ہرشے کو بازی پر لگادینے کا نام ہے۔ صابرون اور مجاہدون کا استعمال قرآن کریم نے بطور مترادف کے کیا ہے، یعنی وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد جادۂ حق پر جم جائیں، استقامت اختیار کرلیں۔

اس استقامت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کفر، ظلم اور طاغوت اہلِ ایمان کو کمزور کرنے کے لیے اپنے تمام حربے استعمال کرے گا اور ابلیس، جو انسان کا ازلی دشمن ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی آزمایشوں کے صرف تاریک پہلو کو انھیں دکھانا چاہے گا اور اہلِ ایمان کو یہ سوچنے پر اُبھارے گا کہ آخر ہم مسلمان ہیں تو پھر خوف، خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں میں گھاٹے میں کیوں مبتلا کیا جا رہا ہے؟

ان آیات پر غور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کے حالات کے پیش نظر اس وقت نازل ہورہی ہیں جب پاکستانی اُمت مسلمہ روزانہ یہ دیکھتی ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے پُرامن اور نہتے اہلِ پاکستان کے ان کے گھروں، ان کی جانوں، ان کے مالوں اور ان کی ہر چیز کو تباہ    کیا جارہا ہے۔وہ روز یہ دیکھتی ہے کہ وہ روپیا جو کل تک قوی تھا اپنی قوت کھوچکا ہے اور آمدنیوں میں شدید کمی واقع ہوگئی ہے۔ وہ یہ دیکھتی ہے کہ ملک کے اندر جانوں کا تحفظ اور ملک سے باہر پاکستانیوں کی عزت و احترام، ہرہرمعاملے میں اس کی آزمایش ہورہی ہے۔

اس فکر کا جواب ہدایت ِ ربانی میں دے دیا گیا کہ وہ اہلِ ایمان جو صبر کرنے والے ہیں وہ مصیبت پڑنے پر اپنے آپ کو اپنے رب سے جوڑتے ہیں، اس کی طرف لپکتے ہیں، اس کا دامن تھامتے ہیں، اُس سے مدد طلب کرتے ہیں، اس کے سامنے سربسجود ہوکر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور آیندہ ان کا اعادہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ اس کی رحمت طلب کرتے ہیں۔

اہلِ ایمان کے اس مبنی بر صبر رویے کا انجام بھی اللہ کی کتاب میں واضح کر دیا گیا:’’انھیں خوش خبری دے دو، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہوگی۔ اُس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے لوگ ہی راست رَو ہیں‘‘۔

آج پاکستان جس پُرآزمایش دور سے گزررہا ہے اس میں بار بار یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ قوم اپنے سیاسی رہنمائوں پر اعتماد نہیں کرتی۔ فوج جو ماضی میں ایک ممکنہ لیکن وقتی حل سمجھی جاتی تھی، وہ بھی فوجی حکمرانوں ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف کے اَدوار کے پیش نظر اپنا وقار کھو چکی ہے۔  دو نام نہاد ’بڑی پارٹیوں‘ کا معاملہ بھی قوم کی نگاہ میں بدتر اور کم بدتر برائی کا ہے۔ پھر اُمید کی کرن کہاں سے روشن ہوگی؟ یہ عجب انسانی نفسیات ہے کہ جب اسے کوئی صدمہ پیش آتا ہے، غم کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اس سے وقتی طور پر مغلوب ہوکر سمجھتا ہے کہ بس دنیا کا خاتمہ ہونے والا ہے اور ہر بات اپنی حد کو پہنچ چکی ہے۔ اب کوئی اصلاح نہیں ہوسکے گی!

وہ اپنے سامنے کے حقائق کو بھول جاتا ہے یا ابلیس اسے ان کی طرف سے غافل کردیتا ہے اور ان میں مایوسی کی فضا پیدا کردیتا ہے۔ لغوی طور پر ابلیس بروزن  افعیل اِبلاسٌ سے مشتق ہے جس کے معنی سخت نااُمیدی کے باعث غمگین ہوکر ششدر و متحیر ہوجانے کے ہیں، جب کہ قرآن کریم انسان کو ہدایت کرتا ہے۔

(اے نبیؐ) کہہ دو، اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے ، وہ تو غفور و رحیم ہے۔ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جائو اُس کے قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمھیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کرلو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی۔ قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ (الزمر ۳۹: ۵۳-۵۵)

ابلیس کا بہترین، اسمِ بامسمّٰی حربہ اہلِ ایمان کو مایوس کرنا ہے اور مایوسی کامیابی، فتح و کامرانی اور حصولِ مقصد کی دشمن ہے۔ قومیں جنگ اسلحے کی کمی یا زیادتی کی بنا پر نہ ہارتی ہیں نہ جیتتی ہیں بلکہ صرف اور صرف اُمید، اعتماد اور اللہ کی مدد پر یقین کے سہارے فتح مند ہوتی ہیں۔ قرآن اہلِ ایمان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف قدم بڑھائیں، اسی کی امداد اور سہارا انسان کو کامیابی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔

اسلام جس اُمید اور اعتماد کی تعلیم دیتا ہے اس کی عملی مثال اسوئہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتی ہے۔ جس وقت مکہ مکرمہ میں آپؐ اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور ہر جانب سے مخالفت، مزاحمت اور مصائب کا سامنا ہوتا ہے، حتیٰ کہ آپؐ کے عزیز چچا محبت بھرے انداز سے آپؐ کو سمجھانا چاہتے ہیں تو ایسے معاندانہ ماحول میں جب کہیں سے روشنی نظر نہ آرہی تھی، آپؐ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر  چاند لاکر رکھ دیں، تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آئوں گا۔ اللہ اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود ہی اس پر نثار ہوجائوں گا‘‘ (سیرت النبیؐ، شبلی نعمانی، ص ۲۲۱)۔ اللہ پر اعتماد، مایوسی کو قریب نہ آنے دینا، اللہ سے کامیابی کی مسلسل مدد طلب کرنا ہی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار ہے۔

اسوئہ حسنہ پر غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ مشکل ترین مصائب و خطرات کا سامنا کرتے وقت جو کلمات دہن مبارکؐ سے نکلتے ہیں، وہ اُمت کے لیے قیامت تک مشعلِ راہ کا کام دیتے رہیں گے۔ آپؐ ہجرت فرماتے ہیں، راستے میں غار میں آپؐ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ موجود ہیں۔ دشمن آپؐ  کو تلاش کرتا ہوا عین غارکے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ ایسے موقعے پر اُمید، نصرتِ الٰہی اور ایمان کا اظہار جن الفاظ سے ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کا کسی بھی مصیبت سے سامنا ہو، اسے کسی قیمت پر بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے: تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں (حضور نبی کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ) غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ ۹:۴۰)’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے۔

پاکستان کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بجلی کے مصنوعی بحران کے باوجود، اس ملک کے پاس ۲۰۰ سال کے لیے توانائی کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ ملک دنیا کا دودھ برآمد کرنے والا پانچواں اور پھل برآمد کرنے والا چوتھا ملک ہے۔ اس کی آبادی میں ۶۰ فی صد سے زیادہ ۳۰سال کی عمرکے نوجوان ہیں۔ اس ملک کے پاس ایٹمی قوت ہے۔ یہ سال کے چار موسموں والا ملک ہے۔ بے شک یہاں کے حکمران نااہل خائن اور بدعنوان ہیں اور حالات ایسے تھے کہ تبدیلی کا امکان نظر نہ آتا تھا، اور عام تاثر یہ تھا کہ فوج کی پشت پناہی رکھنے والے آمر (مشرف) کو کوئی نہیں ہلاسکتا، مگر ہم نے دیکھا کہ ۲۰۰۷ء میں وکلا کی عوامی تحریک کے ذریعے وہ حالات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں اعلیٰ عدالت تو بحال ہوئی مگر مغرور آمر کو ملک سے رخصت ہونا پڑا۔

اس قوم کے نوجوانوں میں اسلام سے جو محبت اور تعلق پایا جاتا ہے اس کا ایک اظہار ۱۵۔۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو لاہور کی جامعہ پنجاب میں منعقد ہونے والا اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا سالانہ اجتماع ہے جس میں ۵۰ہزار نوجوانوں نے پورے ملک سے ایسے حالات میں شرکت کی، جب لوگ لاہور سے دُور رہنے میں اپنی سلامتی سمجھتے تھے۔ یہ نوجوان اُس لاہور میں جمع ہوئے جہاں ہر فرد ڈینگی بخار کے خوف میں مبتلا تھا اور جہاں کسی لمحے بھی تخریبی کارروائی کا امکان ہوسکتا تھا لیکن ان تمام خدشات کے باوجود یہ صالح نوجوان جس عزم اور جس نعرے کے ساتھ جمع ہوئے وہ پوری قوم کے لیے پیغامِ اُمید ہے، یعنی ’’امید بنو، تعمیر کرو سب مل کر پاکستان کی‘‘۔

مشرق وسطیٰ میں واقع ہونے والی عرب بہار (Arab Spring) کی طرح یہ پاکستانی نوجوانوں کی بہار ایسے وقت آئی ہے جب ملک کا ہر باشندہ اشیاے فروخت کی مہنگائی، بجلی و توانائی اور گیس کی نایابی، ڈرون حملوں اور امریکا کی دھمکیوں کی بنا پر خود کو غیرمحفوظ تصور کرتا ہے۔ اس  اجتماع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ابھی اس قوم کا لہوگرم ہے، اس میں زندگی اور توانائی ہے، اسے اپنے مقصدِ وجود سے آگاہی ہے اور اس پر فخر کے ساتھ آگے بڑھنے، تعمیر وطن کرنے اور پاکستانی موسمِ بہار کی نوید بننے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اجتماع کے بعد ایک لاکھ نوجوانوں کا لاہور میں پُرامن مارچ قوم کے اعتماد کی بحالی اور خود طاری کردہ مایوسی سے نکالنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔

۲۰۱۰ء میں مسلم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو مختلف ممالک میں بڑی مضبوط آمریتیں قائم نظر آتی ہیں۔ تیونس ہو یا مصر، یمن ہو یا شام اور لیبیا، ملک میں کوئی فوجی آمر یا بادشاہ ۳۰،۴۰سال سے حقوقِ انسانی کی پامالی اور ظلم و استحصال اور جبرواستبداد کے بل بوتے پر قابض   چلا آرہا تھا۔ ان کے عوام مہنگائی، عدم تحفظ کا شکار اور معاشرتی عدل سے محروم تھے۔ ان کا ایک بڑا طبقہ دو وقت کی روٹی اور روزمرہ ضروریات بھی بمشکل حاصل کرپا رہا تھا۔ ستم بالاے ستم کہ مصر جو قدرتی وسائل سے مالا مال تھا، اور اربوں ڈالر کی غیرملکی امداد وصول کررہا تھا، اس کے عوام ۴۰فی صد غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، جب کہ حسنی مبارک کے ذاتی حساب میں ۴۰؍ارب ڈالر موجود تھے۔ ۸لاکھ کی آبادی والے ملک لیبیا کا فوجی آمر قذافی مغربی ممالک میں ۲۰۰؍ارب ڈالر اپنے اور  اپنے خاندان کے حسابات میں رکھے ہوئے تھا جس پر اب مغربی اقوام کا قبضہ ہے، لیکن ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی غربت میں مبتلا تھا۔ یہ حکمران اس زعم میں مبتلا تھے کہ ان کے لیے کوئی     یومِ حساب نہیں لیکن اللہ کا قانون کچھ اور ہی ہے۔ آج تاریخ ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔     ان حالات میں، جب کہ پولیس، فوج، خفیہ ادارے، ہر شعبہ ان جابروں کا حامی تھا ان ممالک کے عوام نے اللہ کی مدد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کے لیے اُٹھ کر ان ظالم فرماں روائوں کو ان کے انجام تک پہنچانا شروع کر دیا ہے۔

پاکستان تاریخ کے جس مقام پر کھڑا ہے، اس میں بھی الحمدللہ ایسی ہی بہار کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس ملک کے نوجوان اور عوام اب مزید ناانصافیوں اور بدعنوانیوں کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اب اس دستور کو بدلنا ہے۔ ایک نئی صبح طلوع ہونی ہے۔ ظلم کی بساط کو لپیٹنا ہے اور عدلِ اجتماعی کے اسلامی اصولوں پر مبنی نظام کو برپا ہونا ہے      ؎

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

تاریخِ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ کل تک جن نظاموں کو بڑا مستحکم کہا جاتا تھا، آج لوگ ان پر فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں۔ اشتراکیت کو جس طرح اپنی سب سے بڑی تجربہ گاہ میں شکست ہوئی اور سابقہ سوویت یونین شکست و ریخت کا نشانہ بنا، بالکل اسی طرح آج دنیا کے ۸۰ممالک کے ۹۷۰ شہروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوام الناس یک جہتی کے مظاہرے کررہے ہیں جن میں دانش ور اور نوجوان پیش پیش ہیں۔ سودی کاروبار اور سرمایہ دارانہ نظام کی اس ناکامی کا بنیادی سبب وہاں کے بنکار اور سیاست کاروں کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ امریکا اور یورپ کی حکومتیں قرضوں پر چلنے والی معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوامی بنکوں سے لی ہوئی رقوم کو ڈوبتی معیشت کو وقتی طور پر بچانے کے لیے جو کچھ کررہے ہیں، وہاں کے عوام اس سے آگاہ ہیں اور اس استحصالی نظام کو مزید ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

عظیم اسلامی مفکر سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ۷۰سال قبل جو پیش گوئی کی تھی کہ: ’’ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا‘‘ (شہادت حق)___ آج وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔کل تک جو سرمایہ دارانہ نظام سوویت یونین کے انتشار کے بعد یہ کہہ رہا تھا کہ تاریخ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور اب سرمایہ دارانہ نظام اور سیکولر جمہوریت فتح مندی کے ساتھ دنیا کا واحد نظام ہیں، وہی دانش ور آج امریکا اور یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کی تدفین کے منتظر ہیں۔

ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ یہ ایک اہم اور فطری سوال ہے۔ ہم اس حوالے سے صرف چند نکات پر اکتفا کریں گے:

پہلی بات جو شرطِ ایمان ہے یہ کہ پاکستان کی اُمت مسلمہ اپنے رب سے اپنا رشتہ تازہ اور مستحکم کرے۔ یہی وہ رشتہ ہے جو شاہراہ ترقی کی طرف لے جاتا ہے اور اس میں کمی لازمی طور پر عدم استحکام اور انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔

دوسرا اہم پہلو اپنے آپ کو مایوسی سے نکالنا ہے۔ مایوسی اسلام کی نگاہ میں کفر ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں کو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھنے اور مدد طلب کرنے کا حکم دیتا ہے۔

تیسری چیز معاشرے کے صالح عناصر کو یک جا کرنا، انھیں منظم کرنا اور عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے ساتھ عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ اب مزید انتظار کا وقت نہیں۔ اب انھیں نکلنا ہوگا اور جس طرح وکلا کی پُرامن تحریک نے ایک فوجی آمر سے نجات دلائی، ایسے میں عوام کی پُرامن تحریک امریکا نواز فرماں روائوں سے نجات دلا کر صالح قیادت کو اُوپر لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

چوتھی قابلِ توجہ چیز ملک کی معاشی، معاشرتی، سیاسی ترقی کے لیے غوروفکر کے بعد ایک  قلیل المیعاد اور ایک طویل المیعاد منصوبے کی تیاری ہے۔ اس کام میں عوام، دانش ور، طلبہ، وکلا، غرض ہر شعبے کے افراد کو اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کو اپنا رب ماننے کے بعد اس پر استقامت اختیار کرلیتے ہیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ غیبی قوتوں کے ذریعے ان کی امداد فرماتے ہیں۔ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں اس میں توبۃً نصوحاً کے ساتھ اس عزمِ نو کی ضرورت ہے کہ قوم اس ملک میں صحت مند تبدیلی لانے کے لیے ایسے افراد کو اپنا نمایندہ بنائے جو دین کی عظمت، ملکی مفاد اور ملک کے تحفظ کو بنیادی اہمیت دیتے ہوں۔ ایسے افراد کی کمی نہیں ہے لیکن انھیں اب نکلنا ہوگا اور قائداعظمؒ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہوگا کہ یہاں اسلام کے معاشرتی اور معاشی عدل کی بنیاد پر وہ جمہوری نظام قائم ہو جس میں قرآن و سنت کو فیصلہ کن مقام حاصل ہو۔


گذشتہ تین مہینوں (اگست، ستمبر، اکتوبر) میں ہمارے رفقا نے پورے ملک میں عالمی ترجمان القرآن بہت سے نئے ہاتھوں میں پہنچایا ہے۔ اس مہم میں جس نے جو کام کیا، اس کے لیے دوڑدھوپ کی، کچھ پیسے خرچ کیے، کسی سے بات کی، کسی کے لیے دعا کی، ہر کام کراماً کاتبین نے لکھا ہے اور یقینا اس کا اجر ملے گا۔ لیکن اس اجر کو بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ جن کو نمونہ پہنچایا گیا ان سے رابطہ کر کے باقاعدہ مطالعے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ جس گھر میں یہ رسالہ جائے گا اور چھوٹے بڑے اسے پڑھیں گے اوراس کی وجہ سے کوئی نیک کام کریں گے یا زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی تو صدقہ جاریہ کے طور پر اس کا اجر اس کام کو کرنے والوں کو ملتا رہے گا۔ اس لیے نمونہ پہنچادینے ہی کو مکمل کام نہ سمجھیے اور فقط اسی پر اکتفا نہ کیجیے۔

سہ ماہی مہم تو آپ کو متحرک کرنے کا اور اس طرف توجہ دلانے کا ایک بہانہ تھی۔ یہ رسالہ ایک پیغام کاعلَم بردار ہے۔ اس کا ایک مشن ہے، اس کا تاریخی کردار ہے جو یہ آج بھی ادا کررہاہے۔ جب بھی آپ اس رسالے کو پڑھیں، ضرور یہ سوچیں کہ جو اس سے محروم ہیں ان تک کس طرح پہنچائیں۔ رشتہ داروں میں، دوست احباب میں، طالب علموں میں، دفتر اور کاروبار کے ساتھیوں میں___ یہ سب آپ کے اس مشن کا ہدف ہونا چاہییں۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سرگرم ہونے کا، اور بہت زیادہ اجر سمیٹنے کا جذبہ دے اور آسانیاں فراہم کرے، آمین۔             پروفیسر خورشیداحمد

 

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی جانب سے عالم انسانیت پربے شمار احسانات میں سے نہ صرف ایک عظیم احسان ہے بلکہ امت مسلمہ کے لیے بالخصوص اور دیگر اقوام عالم کے لیے اپنی بے پایاں محبت و رحمت کا اظہار بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ اس سے مکمل رہنمائی حاصل کریں، اپنے مقصد وجود کو پہچانیں اور اپنی منزل کا تعین کریں اور اس کے حصول کے لیے وہ طریقۂ کار اختیار کریں جس سے اس کا حصول یقینی ہو۔ جس کے نتیجے میں ہمارا رب ہم سے راضی ہو اور ہم اس کی ابدی اور دائمی جنت کے مستحق ٹھیریں جس کا اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے   انسان نے بحیثیت مجموعی جو رویہ اور طرز عمل اختیار کیا اور کر رہے ہیںوہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ قہر و غضب اور ذلت و رسوائی کا شکار ہے اور دیگر اقوامِ عالم    وحشت و سفاکیت اور دہشت و درندگی کا نمونہ پیش کر رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے سخت روـیے اور برے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے دلو ں پر مہر لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے کہ ایسے لوگ خود ہی اپنے لیے ہدایت کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سا رویہ اور طرزِعمل ہے اور وہ کون لوگ ہیںکہ جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ ٹھپہ لگا دیتے اور جس کے بعد ان سے بہت ہی کم خیر کی توقع اور ہدایت کی اُمید کی جاسکتی ہے۔

  •  ھٹ دہرم اور ضدی: وہ لوگ جو ہٹ دھرم،جاہل اور ضدی ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کی بات غور سے سننا اور تسلیم کرنا گوارا نہیں کرتے، چاہے بات مبنی برحقیقت ہو۔ اگر کوئی واضح نشانی بھی موجود ہو تو ایسا انتہا پسندانہ اور فاسقانہ رویہ اختیار کرنے والوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر ثبت کر دیتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ط وَ لَئِنْ جِئْتَھُمْ بِاٰیَۃٍ لَّیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُبْطِلُوْنَ o کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ o (الروم ۳۰:۵۸-۵۹)، اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا ہے تم خواہ ان کے پاس کوئی نشانی لے کر آئو جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے (یعنی ہٹ دھرمی اور ضد پر اتر آئے ہیں)وہ یہی کہیں گے کہ تم ہی باطل پر ہو۔ اس طرح اللہ ٹھپہ لگا دیتا ہے ان لوگوں کے دلوں پر جو بے علم ہیں۔

آیات قرآنی کو جھٹلانے اور حد سے گزر جانے والوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

تِلْکَ الْقُرٰی نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآئِھَا وَ لَقَدْ جَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِ الْکٰفِرِیْنَ o وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِھِمْ مِّنْ عَھْدٍ وَ اِنْ وَّجَدْنَـآ اَکْثَرَھُمْ لَفٰسِقِیْنَo (الاعراف ۷: ۱۰۱-۱۰۲)، یہ قومیں جن کے قصے ہم تمھیں سنا رہے ہیں (تمھارے سامنے مثال میں موجود ہیں) ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اسے وہ ماننے والے نہ تھے۔دیکھو اس طرح ہم منکرین حق کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہدنہ پایابلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْم بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَآئُ وْھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ ط کَذٰلِکَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ o (یونس ۱۰:۷۴)، پھر(نوحؐ) کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو اـن کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر جس چیز کو انھوں نے پہلے  جھٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اسی طرح ہم حدسے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔

  •  حد سے تجاوز کرنے والا، جہگڑالو اور متکبر: وہ لوگ جو مسرف، مرتاب، مجادل، متکبّر اور جباّر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں جیسا روّیہ اور طرز عمل اختیار کرنے والوں کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتے ہیں۔ارشاد خدا وندی ہے:

کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ نِ o الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰھُمْ ط کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ o (المؤمن۴۰:۳۴-۳۵)، اسی طرح اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور    شکّی ہوتے ہیںاور اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیںبغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل  آئی ہو ۔یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے۔  اسی طرح اللہ ہرمتکبر و جبّار کے دل پر مہر (ٹھپّہ) لگا دیتا ہے۔

واضح رہے کہ

  • مسرف: حد سے تجاوز کرنے والے کو کہتے ہیں،یعنی مسرف وہ شخص ہوتا ہے جو شریعت کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے۔
  • مرتاب: شک کرنے والے اور شک میں ڈالنے والے کو کہتے ہیں۔مرتاب وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ کی آیات اور احکام کے سلسلے میںخود شکّی ہوتا ہے اور دوسرں کو بھی شک میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
  • مجادل:جھگڑالو،کج بحثی کرنے والے اورمیں نہ مانوں کا رویہ اختیار کرنے والے کو کہتے ہیں۔
  • متکبر: وہ شخص ہوتا ہے جوخود کو بڑا جانتا اور دوسروں سے بڑا منوانے کی کوشش کرتا ہے،یعنی خود کو بڑا جان کر اللہ کی آیات کا انکار کر دیتا ہے۔
  • جبّار: اپنی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر دوسروں کو زیر کرنے کی کوشش کرنے والا، یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کی مرضی کے مقابلے میںاپنی مرضی دوسروں پر مسلّط کرنے والے کو کہتے ہیں۔
  •  عھد فراموش اور قتلِ ناحق کا مرتکب: نقضِ میثاق،تکفیرِ آیات،قتلِ ناحق اور بہتان لگانے والوں کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ ٹھپّہ لگا دیتے ہیں۔ ارشاد ربّانی ہے:

فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ وَکُفْرِھِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتْلِھِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِھِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْھَا بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا o وَّ بِکُفْرِھِمْ وَ قَوْلِھِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُھْتَانًا عَظِیْمًاo (النساء۴:۱۵۵ تا۱۵۶)، آخر کار ان کی عہد شکنی کی وجہ سے۔اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایااور متعدد پیغمبروں کو نا حق قتل کیااور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں۔ اور پھر اپنے کفر میں یہ اتنے بڑھے کہ مریم ؑپرسخت بہتان لگا دیا حالانکہ درحقیقت اِن کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں۔

ایسے ہی منکرینِ حق کے سلسلے میںاللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ o خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَ عَلٰی سَمْعِھِمْ وَ عَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (البقرہ ۲:۶-۷)، بے شک جن لوگوں نے انکار کیا (ان باتوں کو تسلیم کرنے سے ) ان کے لیے یکساں ہے خواہ تم انھیں خبردار کرو یا نہ کرو۔ بہر حال وہ ماننے ولے نہیں ہیں۔اللہ نے ان کے دلوں اوران کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔

  •  جھاد سے رُوگردانی: وہ لوگ جو جہاد سے رُوگردانی کرنے والے ہوں، جو شریک ہونے کی قدرت کے باوجود شرکت پر آمادہ نہ ہوں، ایسے لوگوں کے دلوں پر بھی اللہ تعالیٰ مہر ثبت کردیتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ جَاھِدُوْا مَعَ رَسُوْلِہِ اسْتَاْذَنَکَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْھُمْ وَ قَالُوْا ذَرْنَا نَکُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَo رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طُبِـــعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَفْقَھُوْنَ o (التوبہ ۹: ۸۶-۸۷)، جب کبھی کوئی سورۃ اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسولؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو آپؐ نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انھوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑدیجیے ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ ہیں۔ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا۔ اور ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا گیا،اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَکَ وَ ھُمْ اَغْنِیَآئُ رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَo (التوبہ۹:۹۳)،   البتہ اعتراض تو ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہیںاور پھر بھی آپؐ سے درخواست کررہے ہیں کہ انھیں شرکت جہاد سے معاف رکھا جائے۔ انھوں نے گھر بیٹھنے والیوں میںشامل ہونا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیااس لیے اب یہ کچھ نہیں جانتے (کہ اللہ کے ہاں ان کی اس روش کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے)

  •  مرتد اور دنیا پرست: مرتد اور دنیا پرست لوگوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر ثبت کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ o اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَ سَمْعِھِمْ وَ اَبْصَارِھِمْ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ o (النحل۱۶:۱۰۶ تا ۱۰۸)، جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر ہے)۔ مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کرلیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے آخرت کے مقابلے میںدنیا کی زندگی کو پسند کر لیا اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا جو اس کی نعمت کا کفران کریں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں، کانوں اورآنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔اور یہ غفلت میں ڈوب چکے ہیں۔

اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَھُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اِنَّھُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لاَ یَفْقَہُوْنَ o (المنافقون۶۳:۲-۳)، انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح یہ لوگ اللہ کے راستے سے خود رُکتے اور دوسرں کو روکتے ہیںکیسی بری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ اب یہ کچھ نہیں سمجھتے۔

  •  نفس پرست : وہ لوگ جو اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بناتے ہیں اور انھی کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی دل پر مہر کے سزاوار ٹھیرتے ہیں۔چنانچہ ارشادِپاک ہے:

اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ط فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْم بَعْدِ اللّٰہِ ط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۲۳)، پھر کیا آپؐ نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیاجس نے اپنی خواہش نفس کو اپنامعبود بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیااور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اوراس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟

وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ حَتّٰی۔ٓ  اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَاتَّبَعُوٓااَہْوَآئَ ھُمْ o (محمدؐ ۴۷:۱۶)،ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیںجو کان لگاکر آپؐ کی بات سنتے ہیں اور پھر جب آپؐ  کے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جنھیں علم کی نعمت بخشی گئی ہے پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انھوں نے کیا کہا تھا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپّہ لگا دیا اور یہ اپنی خواہشات کے پیروبنے ہوئے ہیں۔

یہ ہے دراصل ان لوگوں کی سوچ وفکر،روّیہ اورطرزِ عمل جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ دلوں پر مہر ثبت کر دیتے ہیں۔اورپھر انسان کے لیے ہدایت و ضلالت،خیروشر اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں پاکیزہ سوچ و فکر،صحیح رویہ اپنانے اور درست طرزِعمل اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں اس سے بھی محفوظ رکھے کہ ہم کوئی ایسا رویہ اختیار کریں، یا ہمارے اندر کوئی ایسی صفت پیدا ہوجائے کہ خدانخواستہ اُن لوگوں کے مشابہ ہوجائیں  جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگائی ہے۔ اللہ ہمیں اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین!


مقالہ نگار ریڈ فاؤنڈیشن، باغ، آزاد کشمیر کے شعبہ فہم دین سے بطور مربی وابستہ ہیں

قربانی، اس لفظ کے کیا معنی ہیں؟

وسیع تر مفہوم میں ’قربانی‘ کا مطلب ہے اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں سے دست بردار ہوجانا۔ یہ چیزیں وقت، دولت اور زندگی جیسی چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جنھیں محسوس کیا جاسکتا ہے، جنھیں شمارکیا جاسکتاہے۔یااحساسات، رویّے،مسلک ومؤقف اور تمناؤں، جیسی اشیابھی ہو سکتی ہیں کہ جن کو محسوس کیا جاسکتا ہے نہ ناپا تولاجاسکتاہے۔ان چیزوں کی قربانی کسی ایسی چیز کے حصول کی خاطر دی جاتی ہے جو ان سے زیادہ قیمتی، زیادہ اہم یا زیادہ ضروری ہو۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بنیادی طورپر قربانی کا مطلب ہے خدا کے حضور کسی جانور یا انسان کاذبیحہ بطورِ نذر پیش کرنا ،اوریوںاپنی ملکیت میں سے کوئی چیز خدا کی نذرکرنا۔

لغتِ قرآنی میںبالکل ٹھیک ٹھیک ’قربانی‘ کا ہم معنی لفظ تلاش کرنا دُشوار ہے، جس کا ایسا ہی وسیع ادبی استعمال بھی ہو۔ معنی کے لحاظ سے قریب ترین لفظ غالباً نُسُک ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲) کہو،میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا ، سب کچھ اﷲ ربُّ العالمین کے لیے ہے۔

بہرکیف ’انفاق‘ بنیادی اہمیت کاحامل ایک ایسا داعیہ ہے جس پر قرآن میں باربار زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کہا گیا ہے کہ : ’جورزق ہم نے اُن کو دیاہے‘ اُس میں سے خرچ کرناایمان کالازمی تقاضا ہے۔صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ ’انفاق‘کو ایمان کی بنیاد پر بسر کی جانے والی زندگی کی صورت گری کرنے ، اس کی محافظت کرنے اور اس کو سہارا فراہم کرنے کے لیے کافی قراردیا گیا ہے۔اﷲ کے دیے ہوئے مال واسباب میں، جوانسان کو خرچ کرناہے،ہروہ چیز شامل ہے جو اُس کی ملکیت میں ہے، خواہ وہ مادّی شے ہو یا غیرمادّی۔ قرآن میں ایک مقام پرتقویٰ (بُرے کاموں سے پرہیز ) اورتصدیق (قبولیتِ حق) کے ساتھ ’انفاق‘کو وہ سب کچھ قراردیا ہے جو اچھی‘ نیک زندگی کی تشکیلی صفات کے لیے درکار ہے:

اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی o فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی o وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰیo (اللیل ۹۲ : ۴تا ۱۰) درحقیقت تُم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔تو جس نے (راہِ خدامیں) مال دیا اور تقویٰ اختیار کیا، اورحق کی تصدیق کی، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اورجس نے بخل کیا اور اپنے آپ کو مستغنی (خودکفیل) سمجھااورحق کا انکار کیااُس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔

قربانی ایسا جوہر ہے جس سے عام انسانی زندگیاںبھی عمدہ اور کامیاب بن جاتی ہیں۔اس کے بغیر زندگی امن، ہم آہنگی اور امدادِ باہمی سے محروم رہے گی، تنازعات اور اختلافات سے پُر ہوگی، نفسانی خواہشات کی فی الفور تسکین، خودغرضی اورحرص وطمع کا شکار ہوگی۔ علاوہ ازیں کوئی خاندان یا برادری بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے نہ اُس میں یک جہتی اور استحکام پیدا ہوسکتا ہے جب تک اُس کے ارکان اپنی طرف سے کچھ قربانی نہ دیں۔ کوئی انسانی جدوجہد اپنا ہدف حاصل کرنے میں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی قیمتی اور محبوب چیزوں کی قربانی نہ دے۔

جو کلیہ عام انسانی زندگی اورعام انسانی جدوجہد پر صادق آتا ہے، خواہ اُس جدوجہد کی اہمیت اور نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو،یقینا وہ کلیہ اسلامی زندگی پر زیادہ صادق آئے گا،کیوں کہ اسلام کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ محض تھوڑا سا مال ومتاع نہیں، بلکہ اپنی پوری زندگی اﷲ کے سپرد کردی جائے۔ہم اپنے موجودہ زمانے کی زبان میں بات کریں تو اسلامی زندگی اعلیٰ ترین قربانی کی زندگی ہے۔اسلامی زندگی ایسی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے جسے مسلسل اور متواتر جاری رہنا چاہیے تاکہ اسلام ظاہر وباطن میں حقیقتاً رچ بس جائے اور ایک زندہ حقیقت بن جائے۔

قربانی سے ایمان کی نشوونما ہے،اس کے بغیر ایمان کے ننھے منے بیج سے ایسے تناور اور سرسبز وشاداب درخت پروان نہیں چڑھیں گے جوبے شمار انسانی کاروانوںکو چھاؤں اور پھل فراہم کریں (ابراھیم ۱۴ : ۲۴-۲۵)۔ اِسے ایساباوفاہمدم و رفیق بن جانا چاہیے جس کے بغیر راہِ جہاد طے نہ کی جاسکے، کیوں کہ اس راستے میں صحراے ناپیدا کنار بھی پھیلے ہوئے ہیں اورمنزل تک پہنچنے کی راہ میں بلند و بالا پہاڑ بھی حائل ہیں (التوبہ ۹: ۲۴)۔قربانی اُن کنجیوں میں سے ایک کُنجی ہے جس کے بغیر بند دروازے کھل نہیں سکتے۔ (البقرہ ۲ : ۲۱۴)

خواہ روحانی و اخلاقی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے کیا جانے والا سفر ذاتی ہو یا زندگی اور معاشرے کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے (ایک خدا کے آگے سرتسلیم خم کردینے) کے لیے کیا جانے والا سماجی سفر، یہ کلیہ دونوں پر صادق آتا ہے۔ اوریہی کلیہ اُس صورت میں بھی صادق آتا ہے جب یہ دونوں راہیں انتہائی چاہت کے ساتھ ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔ منزل جتنی عظیم اور بلند ہوگی، راستہ اُتنا ہی کٹھن اور دشوار ہوگا۔

اب تک آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ قربانی کا موضوع کتنا وسیع ہے۔اسی موضوع سے مضبوطی کے ساتھ گُندھا ہوا اتنا ہی وسیع اور اتنا ہی اہم موضوع ’ابتلا وآزمایش ‘کا اور ’صبر‘ کا ہے۔ اس موضوع کو لامتناہی طورپر پھیلایا جاسکتاہے مگر میرامقصد اس کا مکمل احاطہ کرنانہیں ہے۔اس معروف موضوع کے بہت سے پہلوئوںسے آپ خوب اچھی طرح واقف ہیں۔چنانچہ میں اِس موضوع کے صرف ایسے پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا جومیری نظرمیں زیادہ توجہ کے مستحق ہیں یا ہمارے موجودہ حالات سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔

اسلام: جدوجھد کا راستہ

سب سے پہلے ہمیں مختصراً ایک اہم سوال پر نظر ڈالنی چاہیے۔آخر اسلام کا نظریۂ جدوجہد سے اِس قدر گہرا تعلق کیوں ہے؟دونوں میں کیا ربط ہے؟ کیا کوئی شخص اپنے آپ کوکسی ایسی جدوجہد میںمشغول کیے بغیر اچھا مسلمان نہیں بن سکتا جس کا لازمی تقاضا قربانی ہے؟ جواب ہے: ’’نہیں!‘‘ اوراس کے بین دلائل ہیں۔

اسلام پوری زندگی میں محض ایک بار کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں ہے۔ کلمہ طیبہ کائناتی وسعتیں رکھتاہے۔ پوری زندگی اور تمام دُنیا کو جڑ بنیاد سے از سرنو منظم کرنے کاتقاضا کرتاہے۔یہ کلمہ محض اپنے عقیدے کا زبانی اعلان نہیں ہے۔ ایسی شہادت دینے کا عمل ہے جو پوری زندگی کو عقیدے کی جیتی جاگتی اور مسلسل گواہی میںبدل کر رکھ دے۔آپ کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل تو ہوجاتے ہیں۔ مگر مسلمان بن کرجینے کے لیے آپ کو مستقلاً گواہی دیتے رہنا پڑے گا(البقرہ ۲ : ۱۴۳،  الحج ۲۲ : ۲۸) ۔مسلسل گواہی دیتے رہنے سے اپنی ذات کے اندر اور اپنی ذات سے باہر کے جھوٹے خداؤں سے آپ کی کبھی نہ ختم ہونے والی محاذآرائی شروع ہوجائے گی۔ اپنی گواہی کی توثیق و تصدیق کرنے کے لیے آپ کو اپنے آپ اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے جہدِمسلسل بھی کرتے رہنا ہوگا۔

لہٰذا مسلمان رہنے کے لیے مسلمان بننا ضروری ہے۔ایمان کا بیج دل میں بوئے جانے کے بعد، مسلمان بننا ایک دوہرا عمل ہے۔ ایک طرف اپنے آپ کواور دوسری طرف تمام انسانیت کو اﷲ وحدہٗ لاشریک کی بندگی اختیار کرنے کی دعوت دینا___ یہ دونوںکام باہم گتھے ہوئے ہیں اور دونوں کام بہ یک وقت کرنے ہیں۔

تمام انسانوں کو دعوت دینا کوئی ٹھنڈاٹھار زبانی بلاوا نہیں۔یہ ایک فعال اور متحرک سرگرمی ہے، ایک تحریک ہے جو تقاضاکرتی ہے کہ تمام میسر وسائل کی مدد سے ایک ایسے جہاد کا آغاز کیا جائے جومطلق العنانیت کے جھوٹے دعوے داروں کو تخت سے اُتار پھینکے، جابروں‘ ستم گروں اور بدعنوانوں سے اُن کی طاقت سلب کرلے اور انسانوں کے درمیان عدل قائم کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی مکی زندگی کی ابتداہی میں اعلان فرما دیا تھا کہ: تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیںکہ ایک شخص کو پکڑ کر لایاجاتا،اورایک گڑھا کھودکراُسے گڑھے میں ڈال دیاجاتا،پھر ایک آری لاکر اُس کے سرپر رکھی جاتی اور اُس کو چیر کر دوٹکڑے کردیاجاتا، لوہے کی کنگھیوں سے اُس کا گوشت ہڈیوں سے جدا کردیا جاتا، اس کے باوجود کوئی چیز اُسے اُس کے دین سے پھیر نہیں سکتی تھی۔خداکی قسم! میں اپنا مشن پورا کرکے چھوڑوں گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفرکرے گا اور اُسے خداکے سواکسی کا خوف نہیں ہوگا، اورکوئی اندیشہ اُس کے دل میں نہیں آئے گا سواے اِس کے کہ کہیں کوئی بھیڑیا اُس کے مویشیوں کو نقصان پہنچادے۔ (بخاری)

پس اسلام کاراستہ جدوجہد کے راستے کے سوا کوئی اورراستہ نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ قربانی کی راہ ہے۔کوئی کہہ سکتاہے کہ کیا اسلام عطیۂ الٰہی نہیں ہے؟ یقینا ہے۔ اﷲ کی مدد اور اُس کی دست گیری کے بغیر ہم صراطِ مستقیم کی طرف، جو اسلام کا راستہ ہے، ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ اس کے باوجود ہم صرف اپنے اخلاصِ نیت اور اپنی مخلصانہ جدوجہد ہی کے ذریعے سے اس انتہائی قیمتی عطیے کو حاصل کرنے، اسے قائم و دائم رکھنے، اس کے زیرسایہ نشوونما پانے اوراس سے ملنے والے تمام فوائد سمیٹنے کے حق دار بن سکتے ہیں۔اﷲ کا یہ انعام، کوئی شک نہیں کہ، اُس کی بے پایاں رحمتوں اور اُس کے کرم ہی سے ملتاہے، مگر غیر مشروط نہیں ، کہ کوئی مانگے یا نہ مانگے، کوشش کرے یا نہ کرے اُسے   مل جائے۔ اس طرح تو یہ ایک سستی سی بے قیمت چیز بن جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں   اﷲ تعالیٰ کا ارشادہے:

اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ (الشورٰی ۴۲ : ۱۳)    وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتاہے جواُس کی طرف رجوع کرے۔

رجوع الی اﷲ کے لیے نیت اور کوشش دونوںلازم ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خدا کے سوا تمام جھوٹے خداؤں سے مُنھ موڑ لیا جائے۔یہ عمل مکمل طورپراپنا رُخ پھیر لینے کا عمل ہے، اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔اِس راہ پرمزید پیش قدمی کا انحصار جدوجہد پر ہے:

وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۲۹ : ۶۸) جولوگ ہماری خاطر سخت جدوجہد کریں گے اُنھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

جدوجھد:ایک ناگزیر کلید

تو یہ ہے اﷲ کی سنت۔ صرف اسلام ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ ہماری زندگی کی اُن تمام انمول نعمتوں کے معاملے میں بھی، جن سے ہمیں نوازا گیا ہے۔ذرا ان میں سے چند پر نظر ڈالیے: یہ آنکھیں جن سے ہم دیکھتے ہیں، یہ کان جن سے ہم سنتے ہیں، یہ ہاتھ پاؤں جن کی مدد سے    ہم اپنے کام کاج کرتے ہیں، یہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں، یہ پانی جس سے ہم اپنی پیاس بجھاتے ہیں، جس کے بغیر زندگی اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکتی___ ان تمام چیزوں کو ہم نے نہیں  پیدا کیا، نہ ہم چاہیں توپیدا کرسکتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ہمیں بے مانگے مل جاتی ہیں،ہمارا ان پر  کوئی موروثی دعویٰ نہیں،نہ یہ ہماری ناقابلِ انتقال ملکیت میں ہیں۔ یہ سب کی سب نعمتیں ہمیں اﷲ کے فضل وکرم سے نصیب ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود انھیں اپنے استعمال میں رکھنے اور ان سے ملنے والے تمام فوائد حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی بہترین کوششیں بروے کار لانی پڑتی ہیں۔

زندگی کی بہت سی چیزیںہمیںکوشش اور جدوجہد کے بغیر نہیں مل پاتیں۔ہمیں صرف وہی نصیب ہوتا ہے جس کے لیے ہم جد وجہد اور کوشش کریں:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ o (البلد ۹۰ : ۴) ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیاہے۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o (النجم ۵۳ : ۳۹) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی۔

زمین موجودہے، پانی فراہم ہے، بیج میسر ہے، مگر مٹی بیج کو اناج میں اُس وقت تک تبدیل نہیں کرے گی جب تک ہم اس کی کھدائی نہ کریں، ہل نہ چلائیں،بیج نہ بوئیں، پودوںپر آب پاشی نہ کریں، اُن کی حفاظت نہ کریں اور فصل کاشت نہ کریں۔اﷲ کی بے شمار نعمتیں، جن کی ہمارے گرداگرد ریل پیل ہے، اپنے خزانوں کے منہ ہم پر اُس وقت تک نہیں کھولیں گی جب تک ہم محنت نہ کریں اور اپنا پسینہ نہ بہائیں۔حقیقت یہ ہے کہ جس قدر قیمتی خزانے کے حصول کی خواہش ہو  اُسی قدر زیادہ محنت اورکوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسلام اور قربانی

ایسا نہیں ہے کہ اسلام اﷲ کی بہت سی نعمتوں میں سے محض ایک نعمت ہو۔یہ اﷲ کی منتخب ترین نعمت ہے (المائدہ ۵ : ۳)۔ اس دُنیا میں اپنی زندگی گزارنے کے لیے اﷲ نے ہمیں جن    بے شمارانعامات و اکرامات سے نوازاہے، ان میں سے عظیم ترین اور اہم ترین انعام یہ ہے کہ   اُس نے ہمیں زندگی کے حقیقی معنی و مقصدسے آگاہ کردیا ہے۔ یہ معنی اور مقصد یہ ہے کہ ہم اُسی کی خاطر جیئں، اُسی کی رضا کے حصول کی کوشش کریں، یہاں تک کہ اُسی کی راہ میں موت آجائے۔ جانوروں کی سی زندگی گزارنے کے بجاے کہ پیداہوں، کھائیں پیٔیں، تولید و تناسُل کریں اور مرجائیں، ہم کو بامقصد زندگی گزارنی ہے۔یوں زندگی ایک عارضی اور ناپایدار چیزاور موت کے ساتھ ہی ختم ہو جانے والے تاریخ کے ایک تیز قدم لمحے کی حیثیت سے بلند ہوکرایک ابدی شے  بن جاتی ہے۔ہمارا مقصدِ وجود یہ نہیں ہے کہ جو نعمتیں اور جو عہدے اور مراتب اس دُنیا میںبکھرے ہوئے ہیں، ہم محض اُنھی کوسمیٹنے کی تمنا اور اُنھی کے حصول میںجتے رہیں۔اس کے بجاے ہمارے سامنے یہ رستہ کھلا ہوا ہے کہ ہم اس دُنیا کے مال ومتاع کو اگلی دُنیا کے کبھی نہ ختم ہونے والے فوائد میں بدل لیں، کبھی یہ مال ومتاع حاصل کرکے اور شکرگزاری کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوکر اور کبھی اس مال ومتاع سے دست بردار ہوکر۔

اگر اس دُنیا کی عام اشیا بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوسکتیں تو زندگی میں مقصدیت اور معنویت پیدا کرنے کے لیے، جو اسلام ہے، یقینا انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔اس جدوجہد اور قربانی کی نوعیت اوردرجہ لازماً اُس نصب العین کی قدروقیمت اورمعیار کے مساوی ہونا چاہیے، جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اور کون سا نصب العین ہماری زندگی میں زیادہ قابلِ قدر، زیادہ ناگزیر، زیادہ اہم اور زیادہ ضروری ہوسکتا ہے، بجز اس کے کہ پورے انسان کو، اُس کی اندرونی شخصیت کو، اُس کے ماحول کو، اُس کے معاشرے کو ، غرض پوری دُنیا کو اﷲ کی طرف بلایا جائے۔ سخت محنت کے بغیر،محض تمنا، آرزو، تقریر، دعووں اور بیانات سے ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم اُس منزل پر جاپہنچیں گے جو ہم نے اپنے لیے متعین کی ہے۔اگرکوئی شخص اپنی روزکی روٹی محنت کیے بغیر نہیں کماسکتا تو کیا  اﷲ اپنی عظیم ترین نعمت، اِس دُنیا کی کامیابی اور اُس دُنیا کی کامیابی ہمیں یوں ہی عطافرمادے گا؟ جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ ہم جس عقیدے کا اعلان کرتے ہیں اُس کی جڑیں ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں پیوست ہیں، ہم اپنے دعویٔ وفا میں سچے ہیں اور ہم سے جوقربانی طلب کی جائے گی ہم پیش کردیں گے۔

قرآن کافرمان ہے:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳ : ۱۴۲)کیا تُم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں چلے جاؤ گے حالاں کہ ابھی اﷲ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تُم میں کون وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اُس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَ الضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ o (البقرہ ۲: ۲۱۴) پھر کیا تُم لوگوںنے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالاں کہ ابھی تُم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تُم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکاہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ  وقت کا رسول اور اُس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت اُنھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اﷲ کی مدد قریب ہے۔

وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹ : ۳-۴) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اوراُن کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کر چکے ہیںجو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اﷲ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری کوششیں اور ہماری قربانیاں کسی بھی لحاظ سے اﷲ کی اُن نعمتوں کے ہم پلہ ہیں جو اﷲ نے ہمیں دی ہیں۔ ہرچند کہ ہم اپنی ذاتی محنت سے زمین سے غذا حاصل کرتے ہیں،پھر بھی یہ نعمت اس قدر انمول ہے کہ کسان جو محنت کرتا ہے وہ اُن لامحدود فوائدکے مساوی نہیں قراردی جا سکتی جو ہمیں حاصل ہوتے ہیں۔اسی طرح اﷲ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہوئے ہم سے جو قربانیاں طلب کی جاتی ہیں وہ اُن فوائد کی ہم وزن نہیں ہوسکتیںجو ہم ذاتی طورپر حاصل کرتے ہیںیا جو اُمتِ مسلمہ اجتماعی طورپر حاصل کرتی ہے اورجو   بنی نوعِ انسان کو مجموعی طورپر ملتے ہیں۔اس کے باوجود ہمیں اپنی انسانی بساط کے مطابق یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے نصب العین پر پختہ ایمان رکھتے ہیں بلکہ جس چیز کوہم اپنی محبوب ترین شے قراردینے کے دعوے دار ہیں اُس کے لیے جدوجہد کرنے اور اپنی پسندیدہ چیزوں کی قربانیاں دینے کو بھی تیارہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تقریباً تواتر کے ساتھ ایمان کاذکر عملِ صالح، ہجرت اور جہاد کے ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات ۴۹ : ۱۵) حقیقت میںتو مومن وہ ہیں جو اﷲ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر اُنھوں نے کوئی شک نہ کیا اوراپنی جانوں اور مالوں سے اﷲ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی لوگ سچے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بھی مختصراً ذکر کیا جاچکا ہے کہ جدوجہد دوسطحوں پر ہوتی ہے۔ذاتی سطح پر ایمان کا تقاضایہ ہے کہ فرداپنے آپ کو اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بنالے اور اس طرح دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ اﷲ کو محبوب رکھے:’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۶۵)۔ بہ الفاظ دیگر ایمان یہ کہتاہے کہ دُنیا کی کوئی چیز اتنی قیمتی اور اتنی قابلِ قدر نہیں کہ اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے قربان نہ کی جاسکے۔

اجتماعی سطح پر کی جانے والی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں دی جانے والی قربانیاں پوری دُنیا کوایک اﷲ کا مطیع وفرماں بردار بننے کی دعوت دینے کے لیے ہوتی ہیں۔قرآن اکثر اس جدوجہد کو جہاد سے تعبیرکرتاہے۔ایمان کا تقاضاہے کہ تمام جھوٹے خداؤںکو معزول کردیا جائے اورظلم وجبر، بگاڑ اوربدی کی تمام طاقتوں کے سامنے ڈٹ جایا جائے۔جہاد، اﷲ سے بغاوت کرنے والی تمام طاقتوںپر غلبہ پانے کے لیے کیا جاتاہے۔اس کے لیے اپنے نفس پر غلبہ پانے سے بہت مختلف نوعیت اورمختلف درجے کی قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔ (جاری)

 

تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم دین کا یہ کام دنیاوی کامیابی کی شرط کے ساتھ نہیں کررہے ہیں۔ ۱۹۴۱ء میں جن لوگوں نے اس کام کا آغاز کیا تھا، پورے غیرمنقسم برعظیم پاک و ہند میں ان کی کُل تعداد ۷۵ تھی۔ ان ۷۵ انسانوں نے اس شعور کے ساتھ اور اس بات کو پوری طرح سمجھ کر یہ کام شروع کیا تھا کہ چاہے ہماری تعداد ۷۵ سے بڑھ کر ۷۶ بھی نہیں ہوتی تو نہ ہو، یہی نہیں بلکہ ان میں سے بھی اگر کچھ آدمی ہمیں چھوڑ جاتے ہیں تو چھوڑ جائیں، بہرحال ہمیں ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ فریضہ ہرقیمت پر انجام دینا ہے۔

پھر دیکھیے کہ اگست ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد ہماری تنظیمی حالت اور عددی قوت کیا تھی؟ لیکن یہ حالت بھی ہمارے کام کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی اور ہم نے اسے اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے پاکستان میں اسلامی دستور کا مطالبہ سامنے رکھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہم ہتھکڑیوں، زنجیروں، جیل کی سلاخوں، پھانسی کے پھندوں اور کتنے ہی مرحلوں سے گزرے ہیں، لیکن ہرمرحلے پر اللہ تعالیٰ نے اس دعوت کے مخالفوں کو رُسوا کیا، ہمارے قدم آگے بڑھے اور باری تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں دین کے فروغ کا ایک ذریعہ بننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس لیے پہلی مشکلات اور آزمایشوں کے مقابلے میں موجودہ مراحل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اس چیز کو ایک اٹل اور فطری قاعدۂ کلیہ کی حیثیت سے ذہن نشین کرلیجیے کہ جب تک باربار آزمایشوں بلکہ شکستوں تک سے دوچار نہ کیا جائے، وہ قابلیت اور صلاحیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اقامت دین کے کام کے لیے مطلوب ہے۔ مصائب سے گزرے بغیر ہم ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ آزمایشوں کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ ہم پر کسی بھاری ذمہ داری کا بوجھ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ بار بار ہمیں ابتلا و آزمایش اور مصائب میں ڈال رہا ہے۔

۱۹۶۴ء میں جماعت پر پابندی پر جو ردعمل سامنے آیا، سیاسی جماعتوں، وکلا کی تنظیموں اور سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں نے جس طرح اس اقدام کے خلاف زبردست احتجاج کیا، غیرممالک کے اہم ترین اخبارات نے جس طرح اس کے خلاف لکھا اور اندرون ممالک احتجاج کے علاوہ بیرون ملک سے جس طرح محضرنامے بھجوائے گئے، اس سے بجاطور پر جماعت کے وقار اور اس کے ٹھوس مقام کا پتا چلتا ہے۔ پھر جماعت کے خلاف کشمیر کے ’فتویٰ‘ سے لے کر صدرایوب خاں صاحب کے ایک وزیرداخلہ تک کے اعتراضات و الزامات کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح عدالت میں لانے کا بندوبست کیا اور اس سے سارے ملک پر یہ بات، ملک کی سب سے بڑی عدالت کی سند کے ساتھ واضح ہوگئی کہ قانون توڑنے والی جماعت نہیں ہے، خود حکمران ہیں۔ پھر قومی آفات کے موقعوں پر عوام نے جماعت اسلامی پر جس طرح اعتماد کا اظہار کیا ہے، اس سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ عوام کی نظر میں مخالفین کی طرف سے جماعت پر لگائے گئے الزامات کی کیا حیثیت ہے۔ اسی طرح تبلیغی وفود نے عوام سے جو ملاقاتیں کی ہیں، ان سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کے رجحانات کیا ہیں۔ انھی وجوہ کی بنا پر حکمران اور مخالفین نے بوکھلاکر صرف ۱۹۶۴ء میں جماعت کے خلاف ۷۳کتابیں شائع کیں مگر وہ پرکاہ جیسا وزن نہ پاسکیں۔

ہم یہ کام اس لیے نہیں کر رہے ہیں کہ اگر کامیابی ہوئی تو کام کرتے رہیں گے، ورنہ ہمت ہار کر کام کو چھوڑ دیں گے۔ دراصل ہم اپنی پوری نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کی نجات کا انحصار ہی اس پر ہے کہ ہم کسی نقصان کی پروا کیے بغیر، اپنے جسم و جان اور مال و دولت کو اس فرض کی ادایگی اور اس جدوجہد میں لگادیں، کھپا دیں۔

دوسری طرف بتدریج میدان ہموار ہو رہا ہے۔ ہماری جدوجہد کی مثال سڑک کوٹنے والے اس انجن کی سی ہے، جو روڑوں کو ہموار کرتا ہوا دبدبے کے ساتھ مسلسل آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت کا قانون یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے کھوٹے اور کھرے کو الگ الگ کردیتا ہے، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون مخلص ہے اور کون محض دنیاوی مفادات کی خاطر منافقت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ قرآن حکیم بتاتا ہے کہ اللہ کی نصرت اس وقت آتی ہے جب تمام دنیاوی سہارے مٹ جائیں اور بظاہر کوئی تدبیر کام کرتی نظر نہ آئے۔ تعاقب میں فرعون ہو اور سامنے دریا ہو، تب رحمت خداوندی جوش میں آجاتی ہے! مگر اس کے لیے شرط ہے: ایمان، اخلاص، تسلسل، تنظیم اور تربیت۔

دوسری طرف آپ دیکھیں کہ بہت سے مواقع پر جب ہمیں میدان سے ہٹا دیا گیا تھا  اللہ تعالیٰ نے غیب سے ہماری مدد فرمائی۔ قرارداد مقاصد پاس ہوئی تو اس وقت جماعت کی مرکزی قیادت جیلوں میں قید تھی۔ ۱۹۶۴ء میں جب جماعت پر پابندی عائد کی گئی تو ملک کے تمام اہم قانون دان جماعت کے دفاع کے لیے متحد ہوگئے اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ نے جماعت کی براء.ت کا فیصلہ بھی ایسے عالم میں دیا کہ تمام رہنما آہنی سلاخوں کے اس پار کھڑے تھے۔ پس اللہ کی نصرت آتی رہی ہے اور آیندہ بھی آئے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے قدم نہ ڈگمگائیں اور ہمارے دلوں میں کوئی کھوٹ نہ ہو، اور ہم مایوسی و بے حسی کو ختم کرتے ہوئے اپنی پوری طاقتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ یہ عظیم جدوجہد جاری رکھیں، اور اگر ناکامی ہوئی تو اس کا سبب   بے حسی اور بے عملی ہوگی۔

جماعت اسلامی کا مقصد پوری زندگی کے نظام کو توحید پر قائم کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی اللہ کی بندگی کے گرد گھومے اور ہرشعبے میں، ہرمعاملے میں، ہر وقت اور ہرجگہ اسی کی اطاعت کی جائے اور ہرفرد خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا، بیوی ہو یا شوہر، بوڑھا ہو یا نوجوان، ہرحیثیت سے اسلام پر پوری طرح عمل پیرا ہو اور اسلامی زندگی کا مکمل نمونہ بن جائے___ اس چیز کو آپ پیشِ نظر رکھیں تو پھر آپ کو کبھی یہ پوچھنے کی ہرگز ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ: ’’ہم کیا کریں؟‘‘ آپ جہاں ہیں اور جس حیثیت میں ہیں، یہ دیکھیں کہ بحیثیت مسلم میرا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ آپ کا کردار ایسا ہونا چاہیے کہ آپ کو اپنے متعلق بتانے یا زبان کھولنے کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ آپ کا کردار ہی آپ کی نمایندگی کرے۔ سیکڑوں صوفیہ سلطانوں اور بادشاہوں کے دور میں ہندستان آئے تو ان کے پاس نہ خزانے تھے نہ جاگیریں اور نہ دیگر وسائل تھے، مگر ان کے پاس کردار کی دولت تھی جس کے بل بوتے پر انھوں نے ایمان کی شمعیں اور ہدایت کے چراغ روشن کیے۔ یہی معاملہ افریقہ، وسطی ایشیا، ایران اور انڈونیشیا کے ہزاروں جزیروں تک دکھائی دیتا ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ تحریک اسلامی کے کارکن بھی اپنی بستیوں میں اسلام کے ایسے ہی چراغ ثابت ہوں۔ اب تک اس تحریک کے جو اثرات پھیلے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ جماعت نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ اس کے کارکنوں کی زندگیاں اسلام، ایمان اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہوں، ان کے خلاف نہ ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور نشرواشاعت کام تو سیکڑوں اور ہزاروں بلکہ لاکھوں حضرات درس و تدریس اور تقریروں کے ذریعے مسلسل کر رہے ہیں، لیکن اسلام کا اثر بڑھنے کے بجاے گھٹتا ہی چلا آیا ہے۔ اس کی حقیقی وجہ یہی ہے کہ ان لوگوں نے تقویٰ کو اپنی ذات تک محدود رکھا اور اپنے مریدوں اور پیروکاروں کے اخلاق و کردار کی طرف بنیادی توجہ کبھی نہیں دی۔ پس قول و فعل کی ہم آہنگی کا اہتمام ہی وہ چیز ہے جس کے سبب جماعت کے اثرات پھیلے ہیں۔ اس کا اہتمام جس قدر زیادہ کیا جائے گا اسی قدر جماعت کی دعوت پھیلے گی، ان شاء اللہ!

توجہ طلب امور: اپنے قول و فعل میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے آپ کو بعض امور کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے:

  •  ان میں پہلی چیز علم دین ہے، یعنی ہرشخص خواہ وہ اَن پڑھ ہی کیوں نہ ہو، اسے دین کا اتنا علم ضرور ہونا چاہیے کہ وہ فرائض سے واقف ہو اور حرام و حلال کی تمیز کے بارے میں اسے پورا علم ہو۔ پھر اسی چیز کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے علم و حکمت پر مکمل یقین اور بھروسا ہونا چاہیے۔ اگر فی الواقع انسان کو اللہ پر پورا اعتماد ہو تو پھر کیسی ہی مصیبت آئے یا کتنا بڑا نقصان ہو، اسے کوئی تردّد نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ پر ایسا بھروسا انسان کو اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو بھی شکست دینے کے قابل بنا سکتا ہے۔ وہ جس حالت میں بھی ہو راضی بہ رضاے الٰہی ہوتا ہے۔
  •  اخلاق کے لیے کوئی ایسا نسخہ نہیں جسے استعمال کرنے سے انسانی سیرت و کردار یکایک بلند ہوجائے، بلکہ جس طرح ایک مریض مرض سے اُٹھنے کے بعد جسمانی طاقت کی بحالی کے لیے   دو دو قدم چلتا ہے اور حصولِ صحت کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح انسان کو اخلاق و کردار کی بلندی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر نمازوں کی ادایگی میں سُستی یا کاہلی پائی جاتی ہو تو طبیعت کو نماز پڑھنے پر مجبور کریں تاکہ وہ نیکی کی عادی ہوجائے۔ آپ ایسا کرتے رہیں گے تو کچھ عرصے بعد نماز آپ کی عادتِ ثانیہ بن جائے گی اور پھر اگر آپ نماز نہ پڑھیں گے تو طبیعت بے چین ہوجائے گی۔ یہ چیزیں آپ کو اپنے اندر پوری طرح راسخ (cultivate) کرنی پڑیں گی۔ اگر آپ اپنے نفس سے لڑ کر اُس پر قابو پائیں گے تو اللہ بھی آپ کی مدد کرے گا۔ اس سلسلے میں نماز اور دوسرے فرائض کی پابندی کے علاوہ اطاعت ِامر اور خود اپنا کڑا محاسبہ کرتے رہنے کی ضرورت بھی ہے۔
  •  جماعت کے ہفتہ وار اجتماعات میں شریک ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جماعت کو درشنی پہلوانوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ لوگ مطلوب ہیں جو عملی طور پر بھی کسی صورت جماعت کا ساتھ دے سکیں، اور ہفتہ وار اجتماعات میں شرکت اس کی ابتدائی صورت ہے۔ جماعت میں اہلِ علم حضرات ہیں۔ انھیں جماعت کے منصوبے کو سامنے رکھ کر اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں جماعت کی کیا خدمت کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر کارکن کو رات کو سونے سے پہلے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ دن میں مجھ پر جو ذمہ داری ڈالی گئی تھی، کہیں میں نے ادایگی میں کوتاہی تو نہیں کی؟ امراے اضلاع اور مقام کو اپنے کارکنوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر وہ اپنے فرائض میں سُستی یا کوتاہی کریں تو انھیں اس طرح تنبیہ کریں جیسے ایک باپ بیٹے کو یا بھتیجے اور بھانجے کو کرتا ہے، اور کارکنوں کا بھی فرض ہے کہ اگر وہ اللہ کی رضا کے لیے آگے بڑھے ہیں تو بُرا مانے بغیر اپنی ان کمزوریوں کا ازالہ کریں۔
  •  آخری بات جو بڑی اہم اور آپ کی خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی ذات کے علاوہ اپنے اہلِ خانہ کو بھی اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کریں، اور اس کام کو کیے بغیر آپ اللہ کے عتاب سے نہیں بچ سکتے۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی بیوی بچے اور وہ عزیز ہستیاں جن کے لیے آپ اکثر اوقات اُس کام کو بھی پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، جسے آپ نے اپنا مقصد زندگی قرار دے رکھا ہے، عذابِ الٰہی سے بچ جائیں۔ یہ یقینا عقل و شعور کا کوئی اچھا مظاہرہ نہ ہوگا کہ ہم لوگوں کو تو راہِ راست کی طرف بلانے کے لیے مارے مارے پھرتے رہیں، مگر اپنے گھر کی کوئی فکر نہ کریں۔ آپ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ آپ کے متعلقین میں کوئی شخص ایسا نہ رہ جائے جو یہ نہ سمجھ لے کہ یہ کام کیا ہے ،چاہے وہ آپ کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، مگر آپ کی طرف سے  ایک بار اس پر یہ نصب العین واضح کرنا بہرحال ضروری ہے۔ البتہ جن سے آپ پوری طرح مایوس ہوجائیں اُنھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خدمت کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے، آمین! (آئین، تربیت نمبر، ۱۷؍اگست ۱۹۶۵ء)

بنیادی حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے، اب آیئے دیکھیں کہ اسلام کس طرح مرد اور عورت کے درمیان مساوات قائم کرتا ہے۔ معاشرے میں عورت و مرد کی مساوات کا اعلان قرآن مجید ان واضح الفاظ میں پیش کرتا ہے:

خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا (النسآء ۴:۱) اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا۔

اس آیت نے عورت کی کم تری اور حقارت سے متعلق ان تمام تصورات کا خاتمہ کر دیا جو قدیم مذاہب اور تہذیبوں میں پائے جاتے تھے۔ اسلام کا اعلان ہے کہ عورت کوئی حقیر و بے کس وجود نہیں ہے۔ وہ کوئی بے مقصد ہستی نہیں ہے بلکہ جس نفسِ واحدہ سے مرد وجود میں آیا ہے اسی سے عورت بھی وجود میں آئی ہے، اور جس طرح انسانی معاشرے کا ایک اہم رکن مرد ہے اسی طرح معاشرے کی دوسری اہم رکن عورت ہے۔ اس معاشرے کا وجود، اس کی بقا اور اس کا تسلسل     ان دونوں میں سے کسی ایک پر منحصر نہیں اور نہ یہ کہ ایک پر زیادہ اور دوسرے پر کم منحصر ہے بلکہ اس پہلو سے دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔

اللہ کے ہاں فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے، مرد یا عورت ہونا نہیں:

یاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو! ہم نے   تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

آخرت میں درجات کی بلندی اور فلاح و کامیابی کا تعلق کسی جنس سے خاص نہیں ہے بلکہ مکمل مساوات کے اصول کے مطابق مرد اور عورت دونوں اعمال میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بجالاکر ایک دوسرے سے بڑھ کر خدا کی قربت حاصل کرسکتے ہیں:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِن  فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ط وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔

اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۵) میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔

یعنی نوعِ انسانی کے دونوں اصناف میں سے جو صنف بھی اپنے نامۂ اعمال کو پاکیزگیِ کردار سے مزین کرلے سرخروئی اور کامیابی اس کے لیے مقدر ہوچکی ہے۔

اسلام میں عورت و مرد دونوں کو مساوی حیثیت دے کر بعض آیات میں دونوں کو انسان کی حیثیت سے خطاب کیا گیا ہے اور بعض آیات میں اصناف کے نام لے کر۔ یایُّھَا النَّاسُ اور یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہہ کر قرآن میں اَن گنت مقامات پر دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ جس طرح مردوں پر احکام نازل کیے گئے ہیں، اسی طرح عورتوں پر بھی احکام نازل ہوئے ہیں۔ عورت کو محض عورت ہونے کی بنا پر مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ ذمہ داری اور جواب دہی میں عورت کو مرد کا ضمیمہ نہیں بنایا گیا بلکہ اسے امتیازی حیثیت دی گئی ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ (النسآء ۴:۳۲) جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ۔

منفی تقسیم اور مساوات

الگ الگ دائرۂ کار کے باوجود مرد کو خصوصیات کے لحاظ سے عورت پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح فرمایا گیا ہے:

وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا o (النسآء ۴:۳۲) اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے، اس کی تمنا نہ کرو، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق اُن کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے، اس کے مطابق اُن کا حصہ۔ ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔

اس آیت سے ایک طرف تو یہ بات واضح ہوگئی کہ قدرت کی طرف سے جو خصوصیات  مرد و عورت کو عطا ہوئی ہیں، ان میں فضیلت کا پہلو کسی ایک ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس فضیلت میں دونوں برابر کے حصہ دار ہیں۔ دوسری طرف یہ بات واضح ہوگئی کہ عورت اور مرد دونوں کی کامیابی اور سعادت اس بات میں ہے کہ ایک دوسرے کی خصوصیات پر رشک کرنے اور ان کی نقل کرنے کے بجاے ہر ایک اپنے اپنے حصے کی نعمتوں کے لیے شکرگزار رہے اور ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔

قدرت نے اپنے اپنے دائرۂ کار کے لحاظ سے اپنی عطائوں میں مرد یا عورت کسی کے ساتھ بھی بخل نہیں کیا ہے۔ مرد کے اندر اگر تخلیق و ایجاد کا جوہر عطا کیا ہے تو عورت کو اس تخلیق و ایجاد کے ثمرات و نتائج سنبھالنے کا سلیقہ و ہنر عطا فرمایا ہے۔ مرد کو اگر حکمرانی و جہاں بانی کا حوصلہ عنایت کیا ہے تو عورت کو گھر بنانے اور بسانے کی قابلیت بخشی ہے۔ مرد کو اگر خاص علوم و فنون سے طبعی لگائو ہے تو عورت کے لیے بھی کچھ خاص علوم و فنون ہیں، جن سے اس کو فطری مناسبت ہے۔ مرد اگر اپنے اندر سختی، قوت اور عزیمت کے اوصاف رکھتا ہے تو عورت بھی اپنے اندر دل کشی، شیرینی اور  دل ربائی کا جمال رکھتی ہے۔ قدرت کے اس نگارخانے کی زیب و زینت ان میں کسی ایک ہی صنف کے اوصاف سے نہیں ہے بلکہ مرد، عورت دونوں کے اوصاف سے ہے۔

معاشرتی مساوات

اسلام نے معاشرے میں عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے نہ صرف مساوی بلکہ تقدس و مرتبے میں مرد سے بہت بڑھ کر حقوق دیے ہیں:

ماں کی حیثیت سے: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے (چوتھی مرتبہ) عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا: تیرا باپ۔ غور فرمایئے کہ ماں، یعنی عورت کا رُتبہ باپ، یعنی مرد سے کس قدر بالاتر ہے۔

بیٹی کی حیثیت سے: ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاںتک کہ وہ بلوغت کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز مَیں اور وہ اس طرح آئیں گے جیسے میرے ہاتھ کی انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں‘‘۔ (مسلم)

بہن کی حیثیت سے: اسی طرح تحفظ و تقدس کے لحاظ سے بہن کو بھی مساوی سے  بڑھ کر درجہ دیاگیا ہے۔

بیوی کی حیثیت سے: بیوی کی حیثیت بہت زیادہ ہے۔ بیوی کے بارے میں شوہر کو یہاں تک کہہ دیا گیا: ’’دنیا کی نعمتوں میں بہترین نعمت نیک بیوی ہے‘‘۔

ملاحظہ کیجیے کہ عورت کو ہر حیثیت میں معاشرے میں کس قدر عزت و احترام کے قابل ٹھیرایا گیا ہے۔

تمدنی مساوات

تمدنی لحاظ سے اسلام نے عورت کو مرد سے بڑھ کر حقوق عطا کیے ہیں:

انتخابِ زوج کا حق: اگر مرد کو بیوی کے انتخاب کا حق حاصل ہے تو عورت کو بھی شوہر کے انتخاب کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضامندی کے بغیر کوئی شخص اس کا نکاح نہیں کرسکتا۔ اگر وہ خود اپنی مرضی سے کسی مسلم کے ساتھ نکاح کرلے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا، البتہ تحفظِ عزت کی خاطر یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ لڑکیاں اپنا نکاح خود نہ کرتی پھریں، کیوں کہ   ان کے لیے ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اچھی طرح مرداور اس کے لواحقین کو پرکھ یا دیکھ سکیں۔ اس میں باپ اور خاندان کے معاشرتی مقام اور تعلقات کا خیال رکھنا بہتر ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے شرعی  طور پر ولی اور لڑکی دونوں کی رضامندی ضروری قرار دی گئی۔ البتہ اگر اس کی نظرِ انتخاب کسی ایسے شخص پر پڑے جو اس کے خاندان کے مرتبے سے گرا ہوا ہو تو صرف اس صورت میں اس کے اولیا کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔

کمسنی کے نکاح میں اختیار: خیار بلوغ، یعنیاگر کسی لڑکی کا نکاح کمسنی میں کردیاگیا ہو تو وہ شعور کو پہنچ کر اسے برقرار رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار رکھتی ہے۔

خلع کا حق: عورت کو طلاق دینے کا اختیار مرد کو حاصل ہے،تاہم اس کے ساتھ ساتھ ناپسندیدہ اور ناکارہ یا ظالم شوہر سے علیحدگی کے لیے عورت کو خلع اور تنسیخ و تفریق کے وسیع حقوق دیے گئے ہیں۔

نکاح ثانی کا حق: بیوی اور مطلقہ عورتوں اور ایسی عام عورتوں کو جن کے نکاح ازروے قانون فسخ کیے گئے ہوں یا جن کو حکم تفریق کے ذریعے سے شوہر سے جدا کر دیا گیا ہو، نکاح ثانی کا غیرمشروط حق دیا گیا ہے۔ اس امر کی تصریح بھی کر دی گئی ہے کہ ان پر سابق شوہر یا اس کے کسی رشتہ دار کا کوئی حق باقی نہیں۔ یہ وہ حق ہے جو آج یورپ و امریکا کے بیش تر ممالک میں بھی عورت کو نہیں ملا ہے۔

دیوانی اور فوج داری قوانین میں: دیوانی اور فوج داری کے قوانین میں عورت اور مرد کے درمیان کامل مساوات قائم کی گئی ہے۔ جان و مال اور عزت کے تحفظ میں اسلامی قانون عورت اور مرد کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں رکھتا۔

معاشی مساوات

سب سے اہم اور ضروری چیز جس کی بدولت تمدن میں انسان کی منزلت قائم ہوتی ہے اور جو آج مساوات مردو زن کے نعرے کا سب سے بڑا اور اہم پہلو ہے۔ وہ معاشی حیثیت کی مضبوطی ہے۔ ذرا غور فرمایئے کہ اسلام نے عورت کو کمانے کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے بھی معاشی لحاظ سے اسے نہ صرف مرد کے مساوی بلکہ زیادہ بہتر مقام عطا کیا ہے۔

حقِ ملکیت: عورت کی ملکیت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ عورت اپنے مال کی خود مالک و مختار ہے۔ اس کے باپ، اس کے شوہر اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کو اس میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ اس ضمن میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اپنے شوہر کے مال پر تصرف کا حق تو اسے دیا گیا لیکن اس کے ذاتی مال پر اس کی اجازت و مرضی اور خوشی کے بغیر کسی کو تصرف کا حق حاصل نہیں۔      وہ تجارت کرسکتی ہے یا کوئی منافع بخش کام۔ اس کے اپنے تصرف میں کوئی دخیل نہیں ہوسکتا۔

نفقہ کی ذمہ داری: عورت بحیثیت بیوی خواہ کتنی ہی مال دار ہو، اُس کا نفقہ بہرحال اس کے شوہر کے ذمے ہے، جو اس کے شوہر کی مالی حیثیت کے اعتبار سے، یعنی بقدر استطاعت طے کیا جائے گا۔ اس بارے میں مرد کی کوتاہی کی صورت میں شرعی عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس کا شوہر نادار اور تنگ دست ہے اور اس کی معاونت کے طور پر وہ اپنا مال اس کے حوالے کرتی ہے تو یہ بہترین صدقہ بن جائے گا۔ اس پر اسے عنداللہ ثواب ملے گا۔ شوہر نہ ہونے کی صورت میں بھی قریب ترین مرد، باپ، بھائی وغیرہ کفالت کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔ اس کو خود اپنے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

حق مہر: بیوی حقِ زوجیت کے طور پر مہر کی مستحق ہے اور مہر کا ادا کرنا فرض ہے۔

وراثت کا حق: اپنے باپ، شوہر، اولاد اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے اسے وراثت ملتی ہے۔ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف اس لیے رکھا گیا ہے کہ عورت کو نفقہ اور مہر کے حقوق حاصل ہیں جن سے مرد محروم ہے اور مرد پر ہر حالت میں اس کی کفالت واجب ہے۔ جب عورت پر وہ ذمہ داریاں نہیں جو مرد پر ہیں تو وراثت میں بھی اس کا وہ حصہ نہ ہونا چاہیے جو مرد کا ہے۔ بیوی خواہ کتنی ہی مال دار ہو، اس کا شوہر نہ تو اس کے مال پر تصرف کا حق رکھتا ہے، نہ اس کے نفقہ سے بری الذمہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح اسلام میں عورت کی معاشی حیثیت اتنی مستحکم ہوگئی ہے کہ بسااوقات وہ مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔ گویا اس میدان  میں بھی عورت مرد سے مساوی سے بھی بہتر درجہ رکھتی ہے۔

اب ذرا مقابلہ کیجیے کہ یورپ عورت کو کمانے والا فرد بنا کر بھی اس کو وہ معاشی برابری اور استحکام عطا نہ کرسکا جو اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنا کر معاشی مسئلے سے بے فکر رکھ کے کردیا ہے۔

حصولِ علم اور تعلیم و تربیت

عورتوں کو نہ صرف دینی اور دنیوی تعلیم سیکھنے کی اجازت دی گئی بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اس قدر ضروری قرار دیا گیا ہے جس قدر مرد کے لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین و اخلاق کی تعلیم جس طرح مرد حاصل کرتے تھے اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں۔ اشراف تو درکنار نبیؐ نے لونڈیوں تک کو علم و ادب سکھانے کا حکم دیا تھا۔ آپؐ کی ازواجِ مطہراتؓ اور خصوصاً حضرت عائشہؓ نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کی بھی معلّمہ تھیں اور بڑے بڑے صحابہ و تابعین ان سے حدیث و تفسیر اورفقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ پس جہاں تک نفس تعلیم و تربیت کا تعلق ہے، اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان کوئی امتیاز نہیں رکھا ہے، البتہ نوعیت میں فرق ضروری ہے کیوں کہ دائرۂ عمل الگ الگ ہیں۔

اسلامی نقطۂ نظر سے عورت کے لیے صحیح تعلیم وتربیت وہ ہے جو اس کو بہترین بیوی اور بہترین ماں بنائے اور اس کا دائرۂ عمل گھر ہے۔ اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس کو ان علوم کی تعلیم دی جانی چاہیے جو اس دائرے میں اسے زیادہ مفید بنا سکتے ہیں۔ مزیدبرآں وہ علوم بھی اس کے لیے ضروری ہیں جو انسان کو انسان بنانے والے اوراس کے اخلاق کو سنوارنے والے اور اس کی  نظر کو وسیع کرنے والے ہیں۔ ایسے علوم اور ایسی تربیت سے آراستہ ہونے کا حق اسلام نے ہرمسلمان عورت کو دیا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی عورت غیرمعمولی عقلی و ذہنی استعداد رکھتی ہو اور ان علوم کے علاوہ دیگر علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنی چاہے، تو اسلام اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہے بشرطیکہ وہ ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت نے عورتوں کے لیے مقرر کی ہیں۔

دینی خدمت اور تنظیم و اجتماع

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جس طرح مردوں پر عائد کیا گیا ہے، اسی طرح اسلام نے عورتوں پر بھی شہادتِ حق کی عظیم ذمہ داری ڈالی ہے اور ان کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا، البتہ عورت کے مخصوص دائرۂ عمل کو اس میدان میں بھی ملحوظ رکھا ہے۔ اس کے اُوپر بھی مرد کی طرح اپنوںاور گھروالوں کو حق پر ثابت قدم رکھنے کے ساتھ دیگر افرادِ معاشرہ خصوصاً خواتین کی خیرو صلاح کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اسلامی نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد میں وہ اپنے بھائیوں، باپوں، شوہروں اور بیٹوں کو اس ذمہ داری کے لیے آمادہ کریں، اور اس کے بعد معاشرے میں اقامتِ دین کا فریضہ انجام دیں۔ ثمرہ بنت نہیک کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بازاروں میں گھوم پھر کر بھلائی کا حکم دیتیں اور برائی سے روکتی تھیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں کوڑا ہوتا تھا جس سے وہ لوگوں کو منکر کے ارتکاب پر مارتی تھیں۔ اس معاملے میں خواتین اُمت نے نہ تو رعایا کی پروا کی اور نہ فرماں روائوں اور حاکموں کی۔ ان کے ایمانی جذبات نے جس طرح دین کے کھلے دشمنوں کا مقابلہ کیا، اسی طرح دین کے نام لیوائوں کے تضادِ فکروعمل کو بھی برداشت کرنے سے انکار کر دیا۔ کلمۂ حق کے اظہار میں نہ تو باطل کی بڑی سے بڑی قوت ان کے لیے مانع نہیں اور نہ جابر وسخت گیر حکام کی زیادتی و سختی۔ یہ حق عورت کو اسلام نے ہی دیا ہے۔ گویا شریعت کی بتائی ہوئی اخلاقی حدود کے اندر رہ کر جس طرح مرد تنظیم و احتجاج کی آزادی کا حق رکھتا ہے، اسی طرح عورت بھی برابر یہ حق رکھتی ہے، بشرطیکہ تنظیم سازی اور اجتماع بھلائی کے فروغ اور برائی کے انسداد کے لیے ہو۔

سیاسی زندگی میں شرکت

اسلام نے عورت کو خانگی زندگی سے متعلق ضرور کیا ہے مگر اس کی فکروعمل کی دنیا کو محدود نہیں کیا۔ دائرۂ عمل کی تقسیم کے اعتبار سے سیاست، ملکی انتظام، فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے دفاعی، معاشرتی، معاشی اور صنعتی امور مردوں کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں اور اسلام عورت کو معاشرت و تمدن کی دوسری اہم اور ضروری خدمات کے لیے ان جھمیلوں سے الگ رکھنا چاہتا ہے، لیکن اس کے باوجود عورت اگر خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد اپنے حالات، ذوق اور رجحان کے لحاظ سے زندگی کے ُمختلف میدانوں میں حصہ لینا چاہے تو اسلام اسے نہیں روکتا۔ تاہم، اس کے لیے کچھ اخلاقی حدود قائم کرتا ہے جو عین فطرت کے مطابق اور مقصود انسانیت تک پہنچنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ ایک یہ کہ عورت ہر حال میں اپنی حقیقی پوزیشن پر نظر رکھے۔ باہر کی ذمہ داریاں اتنی نہ بڑھائے کہ اس کے اصل خانگی فرائض ادھورے رہ جائیں۔ دوسرے یہ کہ    وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔ تیسرے یہ کہ اگر مسلمان عورت اپنے شوہر کی اجازت و رضامندی کے ساتھ گھر سے باہر مختلف تعلیمی و دینی اور سماجی خدمات انجام دے تو یہ حقیقت نظرانداز نہ کرے کہ شریعت نے، اس کے اور اجنبی مردوں کے درمیان اخلاق و قانون کی ایک دیوار کھڑی کر دی ہے۔ چنانچہ وہ باہر نکلے تو مکمل اسلامی قدروں اور پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر۔ اس طرح ایک باصلاحیت خاتون ایک طرف وہ سارے کام کرسکتی ہے جو خاص طور پر عورتوں کے کرنے کے ہیں، اور دوسری طرف وہ پردے میں رہتے ہوئے مختلف سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے۔ یہ دائرے چونکہ عورت کے لیے کلیتاً ممنوع نہیں ہیں اور خود اسلامی ریاست کو بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عورتوں کے مسائل، ضروریات اور تعلیم و ترقی کے بارے میں مناسب اقدامات کرے، اس لیے شرعی حدود کا احترام کرتے ہوئے اگر خواتین کے ادارے ہرسطح اور ہر پہلو سے جداگانہ ہوں، مثلاً ان کی اپنی تعلیم گاہیں، ہسپتال، یونی ورسٹیاں اور کونسلیں قائم ہوں تو وہ وہاں بھی مرد کے شانہ بشانہ قومی ترقی میں اپنا حصہ مؤثر طریقے سے ادا کرسکتی ہے۔

حصولِ انصاف میں مساوات

اسلام نے نہ صرف بنیادی حقوق میں عورت کو فضیلت و برتری عطا کی بلکہ ان حقوق کے غصب ہوجانے کی صورت میں اسے عدل حاصل کرنے کا مکمل حق عطا فرمایا۔ ان حقوق کی حفاظت کے مواقع عطا کرتے ہوئے اسے قانونی چارہ جوئی کا حق مردوں کے برابر عطا کیا کیونکہ اسلامی معاشرہ عورت پر ظلم و زیادتی کو بہرے کانوں سے نہیں سنتا، اور اندھی آنکھوں سے نہیں دیکھتا، بلکہ  وہ اس کے حقوق کا پاسبان و محافظ ہوتا ہے اور عدل و انصاف کے لیے اس کی ہر فریاد کا جواب دینا  اپنا فرض سمجھتا ہے۔

ایک صحابیؓ نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مال دار شخص سے کر دیا۔ لیکن لڑکی اس شخص کو پسند نہیں کرر ہی تھی۔ اس نے حضوؐر سے عرض کی: میرے والد نے میری شادی اپنے ایک دولت مند بھتیجے سے کر دی ہے تاکہ اپنی کشایش کا سامان کرے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تجھ کو یہ عقد پسند نہیں ہے تو تو آزاد ہے۔ اس نے کہا : میرے والد نے جو اقدام کیا ہے میں اس کو بحال کرتی ہوں، بلکہ میں چاہتی ہوں کہ عورتوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کی مرضی کے خلاف باپوں کو ان کے نکاح کا حق نہیں ہے۔

مساوات سے بڑہـ کر حُسنِ سلوک

اسلام نے مردوں کو عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک اور فیاضانہ برتائو کی خصوصی ہدایت کی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النسآء۴:۱۹) ’’عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتائو کرو‘‘۔ پھر فرمایا: ’’آپس کے تعلقات میں فیاضی کو نہ بھول جائو‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ لطف و مہربانی کا سلوک کرنے والے ہیں‘‘۔ گویا مرد کے کردار کو جانچنے کے لیے معیار بھی عورت کو بنایا گیا۔

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ جو حقوق ہر انسان کا بنیادی حق ہیں، ان میں اسلام عورت کو نہ صرف مرد کے مساوی قرار دیتا ہے، بلکہ وہ صرف نسل انسانی کی امین و پرورش کنندہ بن کر مرد سے زیادہ محترم، اس سے تین گنا زائد خدمت کی مستحق، اور اپنے پائوں تلے جنت رکھنے والی ہستی بن جاتی ہے۔

مساوات مرد و زن اور معاشرتی تقسیم

جیساکہ واضح ہوچکا ہے کہ اسلام ایک طرف معاشرتی و اجتماعی دائرے کے اندر مرد و زن کی کامل مساوات کا مدعی ہے، اور کسی پہلو سے بھی مرد کے لیے کسی قسم کی ترجیح تسلیم کرنے کا روادار نہیں ہے، کیونکہ فطرت نہ تو کسی کو زیادہ چاہتی ہے اور نہ کسی سے دشمنی رکھتی ہے۔ لہٰذا اس نے عورت کو عورت کی جگہ رکھ کر اور مرد کو مرد کے مقام پر مساوی درجہ دیا ہے لیکن دوسری طرف معاشرتی نظام میں وہ مرد کو عورت پر ایک درجہ ترجیح دیتا ہے اور اس ترجیح کو نظامِ معاشرت میں توازن قائم رکھنے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ (النسآء ۴:۳۴) مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس کی بنا پر کہ   اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

قوام کا مفھوم و اھمیت

ترجیح کے اس مسئلے کو سمجھنے سے پہلے آیئے دیکھیں کہ قوام کس کو کہتے ہیں؟

قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا اجتماعی نظام کے معاملات کو چلانے، اس کی حفاظت و نگرانی کرنے اور اس کے لیے مطلوبہ ضروریات فراہم کرنے کا ذمہ دار ہو۔ مرد اِن تینوں معنوں میں قوام یا قیم ہے۔

ایک خاندان سے لے کر ریاست تک پھیلے ہوئے سیکڑوں اداروں میں سے کسی ایک کی نشان دہی کردیجیے جہاں سربراہ اور منتظم اعلیٰ نہ ہو یا ایک سے زائد ہوں اور وہ بالکل یکساں اور مساوی اختیارات رکھنے والے ہوں۔’وحدت‘ اس کائنات ہی کے نظم و انصرام تک محدود نہیں۔ یہ ہرچھوٹے سے چھوٹے انتظامی یونٹ کے لیے بھی ضروری ہے جہاں مساوی اختیارات اور حیثیت کی ثنویت ہوگی وہاں سرے سے کوئی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ ہسپتال، کالج، کارخانے سے لے کر ملک و ریاست تک ہر اجتماعی ادارے میں سربراہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ دوسرے اداروں کی طرح خاندان اور گھر میں جو کہ اجتماعیت کا بنیادی یونٹ ہے، سربراہی کی ضرورت نہ ہو؟

خانگی زندگی کے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے بہرحال زوجین میں سے ایک کا قوام اور صاحب ِامر ہونا ضروری ہے۔ اگر دونوں بالکل مساوی درجے اور مساوی اختیارات رکھنے والے ہوں تو بدنظمی کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ جیساکہ فی الواقع ان قوموں میں رونما ہورہی ہے، جنھوں نے عملاً زوجین کے درمیان اس قسم کی مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

اسلام چونکہ ایک فطری دین ہے، اس لیے اس نے انسانی فطرت کا لحاظ کرکے زوجین میں سے ایک کو خاندان کا سربراہ اور سرپرست مقرر کیا ہے اور یہ حیثیت مرد کو دی ہے۔ مرد کے قوام اور ایک درجے اُوپر ہونے کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان کا منتظم اور کفیل ہے اور حضوؐر کی ایک حدیث کے مطابق اُس سے اس ذمہ داری کے سلسلے میں خدا کے ہاں بازپُرس ہوگی۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے مرد حاکم اور عورت محکوم بن گئی؟ کیا مرد آقا اور عورت لونڈی بن گئی اور اس کے عزت و احترام میں فرق آگیا؟

اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ کیا وہ اجتماعی ادارے جہاں مرد مردوں کے سربراہ اور قوام ہیں، کیا وہاں مرد مردوں کے غلام ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہ معاملہ صرف عورت ہی کے ساتھ کیوں اُلٹ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تک عزت و احترام کا تعلق ہے، اس کا ’مساواتِ فرائض‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ پرائمری سکول کا ایک مشفق اور ایمان دار استاد ڈپٹی کمشنر سے زیادہ لائق احترام ہے، حالانکہ وسائل، اختیارات اور عہدے کی شان و شوکت کے لحاظ سے ان دونوں کے درمیان کوئی مساوات نہیں۔ کسی کے زیرکفالت ہونا بھی کوئی تحقیر و تذلیل کی بات نہیں۔ اگر بچوں اور نوجوان اولاد کی عزتِ نفس یہ کہنے سے مجروح نہیں ہوتی کہ ان کا باپ ان کا کفیل ہے یا ضعیف والدین اپنے بچوں کے زیرکفالت آکر ذلیل و خوار نہیں ہوتے، تو عورت کے لیے محض یہ بات کہ مرد اس کا کفیل ہے کیونکر وجۂ ندامت و شرمندگی ہے۔ وہ کیوں اس فکر میں مبتلا ہوگئی ہے کہ شوہر کی طرح جب تک معاشی سرگرمیوں کا بار نہ اُٹھائے اسے مساوی حیثیت اور عزت حاصل نہیں ہوسکتی۔

مرد ھی قوام کیوں ؟

مرد کو قوام بنانے کی وجوہات خود شریعت ہی واضح کرتی ہے، جو یہ ہیں:

  •  فطری دائرہ عمل: تمدن کی جو اعلیٰ خدمات عورت سے لینا مطلوب ہیں اور جس مقصد کے لیے تخلیق کا بار اس پر ڈالا گیا، ان تمام مقاصد کے لیے ضروری تھا کہ اس کو معاشرے میں تحفظ و تکریم نصیب ہو۔ اس لیے بیرونی ماحول اور اس کی کثافتوں سے محفوظ کرنے کا انتظام کیا گیا۔ معاشرت، خاندانی زندگی، پردے اور غضِ بصر کے احکامات اس کو یہ تحفظ، تکریم اور وقار بخشتے ہیں۔ عورت کی نسائیت اور فطرت کو برقرار رکھنے کے لیے مرد کو ہی قوام بنانا ناگزیر تھا۔ عورت کے   دائرۂ عمل کو واضح کرتے ہوئے آنحضورؐ نے فرمایا: اَلْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِھَا وَھُوَ مَسْئُوْلہ (بخاری)، یعنی عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرے میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔

یہ دائرۂ عمل عین اس کی فطرت کے مطابق ہے۔ چنانچہ خدا نے مرد کو قوام بناکر عورت کا معاشی کفیل بنا دیا اور اس کی عزت و ناموس کے تحفظ اور جملہ ضروریات کی فراہمی کا ذمہ دار بناکر عورت کو خود دوسرے عظیم تر مقصد کی تکمیل کے لیے فارغ کر دیا۔ اس کا اصل کام نسلِ انسانی کی امانت کو سنبھالنا، خونِ جگر سے اسے پروان چڑھانا، تعلیم و تربیت دینا اور یوں انسانی معاشرے کو اس کا سب سے قیمتی سرمایہ مہیا کرنا ہے۔ اسی خدمت نے اسے عظمت کے اس مقام پر پہنچایا کہ جنت اس کے قدموں تلے اور باپ کے مقابلے میں تین گنا زائد خدمت کا حق دار ٹھیرایا۔ یہ مقام اس ’مساوات‘ سے بہت بلندوبالا ہے، جس کے لیے آج اس عظیم ہستی کو دوڑایا جا رہا ہے۔

  •   مالی کفالت: مرد کو قوام بنانے کی دوسری بڑی وجہ اُسی آیت میں انھی الفاظ سے متصل ہمیں مل جاتی ہے جس میں مرد کو قوام بنانے کا حکم دیا گیا:

وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ (النسآء ۴:۳۴) اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

یعنی مرد پر خاندان کے لیے روزی کمانے اور ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے اور سواے کسی استثنائی صورت کے خاندان کی کفالت کا بوجھ مرد اُٹھاتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہی اس بوجھ کے اُٹھانے کے لائق ہے۔ بیوی بچوں کے نفقے کا قانونی ذمہ دار مرد ہی ہے، عورت نہیں۔ اس لیے مرد ہی اس بات کا سزاوار ہے کہ اس ذمہ داری کی نسبت اس کو سربراہ یا قوام کا حق بھی دیا جائے۔

  •  فطری و جسمانی ساخت: یہ ایک حقیقت ہے کہ ہرشخص میں ہرقسم کے کام کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ کوئی کسی کام کے لیے موزوں ہے تو کوئی کسی دوسرے کام کے لیے ناموزوں ہوگا۔ کسی کی جسمانی ساخت محنت اور مشقت برداشت کرے گی تو کوئی بالکل اس کے قابل نہ ہوگا۔ کوئی سائنسی تحقیقات کا اہل ہے تو کوئی آرٹسٹ بننے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ صلاحیتوں کا یہ اختلاف یوں تو ہر دو افراد کے درمیان پایا جاتا ہے لیکن جہاں انسانوں کی ایک صنف کا دوسری صنف سے مقابلہ کیا جائے تو یہ اختلاف بہت ہی واضح اور نمایاں نظر آنے لگتا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان یہ اختلاف شریعت کی نگاہ میں فکری و عملی دونوں پہلوئوں سے ہے۔ چنانچہ عورتوں کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: نَاقِصَاتُ عَقْلٍ وَّ دِیْنٍ (بخاری) یہاں عقل سے اس کے قواے ذہنی کی طرف اشارہ ہے اور دین سے اس کی جسمانی طاقتیں مراد ہیں، یعنی ان دونوں پہلوئوں سے وہ مرد سے کمزور اور ناقص واقع ہوئی ہے۔ (سید جلال الدین انصرعمری، عورت اسلامی معاشرہ میں، ص ۲۰۰)

جدید تحقیقات نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ عورت کا دماغ مرد کے دماغ سے چھوٹا ہے (مولانا محمد ظفیرالدین، اسلام کا نظامِ عفت و عظمت، ص ۲۴۷)۔ پھر عورت ہر حال میں یکساں توانا اور تندرست نہیں رہتی۔ اس پر زندگی میں کچھ زمانہ ایسا گزرتا ہے جس میں وہ بڑی حد تک بیکار ہوجاتی ہے اور دوسرے کی امداد و اعانت کی محتاج رہتی ہے۔ میری مراد حمل، رضاعت، بچوں کی تربیت اور حیض و نفاس کے زمانے سے ہے۔ جذبات کی فراوانی، حیا و حیات کی نزاکت، انتہاپسندی کی جانب میل اور التفات عورت کی فطرت ہے اور یہ نسائیت کے لیے عیب نہیں، اس کا حُسن ہے۔ اس سے جو کچھ بھی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے، فطرت پر قائم رکھ کر ہی اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اس کو مردوں کی طرح سیدھا اور سخت بنانا اس کو توڑنے کے مترادف ہے۔

چنانچہ شریعت اسلامی نے اس کی ان کمزوریوں کو صرف تسلیم ہی نہیں کیا ہے بلکہ زندگی کے ہرپہلو میں ان کی رعایت کی ہے۔ چونکہ دنیا میں کام ایک طرح کے نہیں ہوتے۔ چھوٹے بڑے، اہم اور غیراہم ہرطرح کے ہوتے ہیں۔ ان کے انجام دینے کے لیے اسی نوعیت کی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں اور مرد ذہنی و جسمانی توانائیوں میں عورت سے مضبوط ہوتا ہے۔ وہ زیادہ قوی و توانا ہوتا ہے۔ غیرجذباتی اور مستقل مزاج ہوتا ہے، اور عورت کے برعکس عام طور پر یکساں ایک جیسی حالت میں رہتا ہے۔ اس لیے اس کو قوام بنا کر اس کو وہی کام دے دیے جو اس کی فطرت اور صلاحیتوں کے مطابق تھے، مثلاً بیرونی ذمہ داریاں، معاشی بوجھ، دفاع اور حکومت کے فرائض وغیرہ۔

غور کیجیے یہ تمام وجوہات عین فطرت کے مطابق ہیں، عورت کی بھی اور مرد کی بھی۔ یہ فطرت خالق کی عطاکردہ ہے۔ کسی صنف نے خود اسے حاصل نہیں کیا۔ اسی طرح فضیلت کے حصول میں مرد کی اپنی کسی کوشش یا خواہش کا کوئی دخل نہیں۔ یہ خالق کائنات کی اپنی اسکیم ہے، جس کے تحت اس نے مرد اور عورت کے درمیان یہ درجہ بندی کی ہے۔ اس پر اعتراض کرنے اور اس کے خلاف چیخنے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم قدرت کی اس تقسیم سے راضی نہیں ہیں۔    لہٰذا اب اگر کسی ناقص العقل کو اس ترجیح اور تقسیم پر اعتراض ہو تو اسے کم عقلی ہی کہا جاسکتا ہے۔

فطری معاشرتی تقسیم کو نہ ماننے کے نتائج

یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ قدرت کی اس تقسیم کے خلاف جب بھی انسان نے کوئی کام کیا وہ تباہ و برباد ہی ہوا۔ عورت نے خالق کی تقسیم کے مطابق ایک مرد کی خدمت کو محکومی سمجھا تو وہ ایئرہوسٹس، ٹیلی فون آپریٹر، پرائیویٹ سیکرٹری، اور مزدور کی حیثیت سے ہر جگہ سیکڑوں مردوں کی محکوم بن گئی۔ پارلیمنٹ ہو یا بنک، سیاسی جماعتیں ہوں یا ٹریڈ یونینیں، تنظیمیں، دفاتر ہوں یا کارخانے، وزارتِ دفاع ہو یا وزارتِ داخلہ، عام کاروباری ادارے ہوں یا ڈیپارٹمنٹل سٹور جیسی وسیع دکانیں، ہے کوئی ایسی جگہ جہاں عورت کی بالادستی توکجا، اس کی مساوی حیثیت بھی تسلیم کی گئی ہو؟ جو عورت صرف اپنے شوہر کا بستر بچھایا کرتی تھی وہ اب بڑے بڑے ہوٹلوں، کلبوں اور تفریحی مقامات پر سیکڑوں اجنبی مردوں کے بستر آراستہ کرتی ہے۔ جو اپنے ایک شوہر اور بچوں کو انس و محبت کی فضا میں کھانا کھلاتی تھی وہ اب ہوٹلوں اور کلبوں کی میزوں پر ہزاروں مردوں کو کھانا کھلاتی، شراب پلاتی اور ان کی جھڑکیاں سنتی ہے۔ ان کے فحش بے ہودہ کلمات کا نشانہ بنتی ہے۔ ان کے ہاتھوں اپنی آبرو لٹاتی ہے اور عزت و احترام کے بجاے ذلت و خواری اس کا مقدر بنتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے اور اس کی اندھی تقلید کرنے والوں نے عورت کو دیا تو کچھ نہیں، البتہ اس سے سب کچھ چھین لیا۔ اس کا گھر، اس کا سکون، اس کی عزت و آبرو، اس کا حُسن، اس کا جسم اور اس کی توانائیاں___ اس کا زبردست استحصال کیا اور اسے ظلم کی چکی میں پیس ڈالا۔ اسے ’حقوق‘ کے نام پر بیوقوف بنایا گیا۔ وہ فریب خوردگی کا شکار بن کر اپنی آبرومندانہ زندگی اور مقدس و محترم حیثیت کھو بیٹھی ہے۔ عورت کو ذلت و پستی میںدھکیلنے اور کفالت کے تمام سہاروں سے محروم کر کے اپنی روزی آپ کمانے کی مصیبت میں مبتلا کرنے کی ابلیسی تدابیر نے جس پُرفریب نعرے کے جلو میں اسے آگے بڑھایا ہے وہ ’مساوات مردو زن‘ ہی کا نعرہ ہے۔

عورت کے لیے حقیقی مساوات

بلاشبہہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جو آج سے چودہ سو سال قبل خالق کائنات نے محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک مساواتِ مرد وزن کا قاعدے اور کلیے کی طرح اٹل قانون پہنچادیا کہ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ، ’’جس طرح کے حقوق مردوں کے عورتوں پر ہیں، اس کے مثل خود عورتوں کے مرد پر ہیں‘‘، وہی قانون درحقیقت مساوات کی بنیاد اور اعلان ہے۔ اب   بھی اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہو کہ مرد کی قوامیت سے عورت کے حقوق غصب ہوگئے ہیں تو مندرجہ بالا بنیادی حقوق میں سے ہر ایک کو باری باری لے لیجیے، اور اُوپر کے مباحث کی روشنی میں مردوں کے ساتھ تقابل کرلیجیے۔ اگر آپ تعصب اور خود فریبی میں مبتلا نہیں ہیں تو آپ لازماً پکار اُٹھیں گے کہ بلاشبہہ صرف اسلام ہی ایسا دین اور ضابطہ ہے جس نے عورتوں کو مردوں سے کہیں زیادہ حقوق عطاکیے ہیں۔ ہاں، مرد قوام ہونے کی حیثیت سے بلاشبہہ عورت سے بلند تر ہے لیکن فرائض کے معاملے میں۔

عورت مظلوم کیوں؟

حقوق مرد و زن کے بارے میں اپنے دین سے جامع اور مکمل قانون پالینے کے بعد اور حقوق مرد وزن میں ایسی متوازن مساوات جان لینے کے بعد بھی ایک سوال چبھن کی طرح ذہن کی وادی میں کھٹکتا رہتا ہے کہ قرون اولیٰ کی چند صدیوں کے علاوہ عورت مظلوم کیوں رہی؟ دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہندستان میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں عورت کو کون سا ’عالی مرتبہ‘ بخشا گیا، اور آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورت کو کون سے مساوی حقوق دیے جارہے ہیں۔

اس سوال کا جواب بے حد آسان ہے۔ اگر چشم بینا استعمال کی جائے سب سے اہم اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور اسلامی حکومت بدقسمتی سے یہ دو الگ الگ اصطلاحات ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ جو مسلمانوں کی حکومت ہو، وہ عین اسلامی بھی ہو۔ مسلمانوں کے عہدِحکومت میں کہیں مغربیت غالب رہی اور کہیں مشرقیت۔ اور ایسی رسوم ورواج معاشرے میں پروان چڑھیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ عورتوں کے حقوق کا مسئلہ بھی شومئی قسمت سے اسی سلوک سے دوچار ہوا اور اس بُری طرح مسخ ہوا کہ اس میں اور اصل اسلامی قانونِ ازدواج میں ایک بہت ہی دُور کی مشابہت باقی رہ گئی۔ اب شرعِ اسلامی کے نام سے مسلمانوں کے ازدواجی معاملات میں جو قانون نافذ ہے وہ نہ صالح ہے نہ جامع اور نہ مکمل۔ اس کے نقائض نے مسلمانوں کی تمدنی زندگی پر اتنا بُرا اثر ڈالا ہے کہ شاید کسی دوسرے قانون نے نہیں ڈالا۔

اگر ایک اسلامی حکومت بھی یوتھ فیسٹیول اور کھیلوں کی نمایش اور ڈراموں اور رقص و سُرود اور مقابلۂ حسن میں مسلمان عورتوں کو لائے، یا ایئرہوسٹس بناکر مسلمانوں کے دل موہنے کی’ خدمت‘ دیتی ہے، توہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کہاں کی اسلامی حکومت ہے، اور پھر کفر اور کفار کی حکومت اور اسلامی حکومت میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ لہٰذا عورت اگر مظلوم رہی ہے یا ہے تو اس کی قطعی اور واحد وجہ یہ ہے کہ اس ٹوٹی پھوٹی اور خستہ حالت میں بھی اسلام جہاں اور جب بھی رہا ہے وہاں کی عورت کی حالت غیرمسلم معاشرے کی عورت سے بدرجہا بہتر رہی ہے۔ آج پاکستان میں عورت کی کتنی ہی گئی گزری حالت سہی، لیکن وہ یورپی عورت سے کئی درجے بہتر مقام پر ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سمجھ لیجیے کہ جہاں اسلام نافذ نہیں ہے، اسلامی نظام و قانون رائج نہیں ہے وہاں صرف عورت ہی نہیں مرد بھی مظلوم ہے۔ آپ جہاں کہیں بھی رہتے ہوں اردگرد کے گھرانوں پر نظر ڈال کر دیکھیے کہ مظلوم عورتوں اور مظلوم مردوں کی تعداد کا تناسب کیا ہے، اور کولہو کے بیل پر خود اپنے گھر میں کیا بیت رہی ہے؟

بازیابیِ حقوق کی مثبت جدوجھد

عورت کی مظلومیت کا اصل دائرہ وہ ہے جہاں اسے اسلام کے عطا کردہ حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور جہاں مرد خدا اوررسولؐ کے مقرر کردہ حقوق ادا نہیں کرتے۔ معاشی کفالت، مہر، نفقہ اور وراثت جیسے حقوق ادا نہیں کرتے۔ انھیں تعلیم و تربیت کے ایسے مواقع اور ایسے جداگانہ ادارے فراہم نہیں کرتے جہاں وہ اپنی فطرت، صلاحیت اور دائرہ عمل کے مطابق آزادی سے   علم حاصل کرسکیں، ان پر تشدد کرتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر تین طلاقیں دے مارتے ہیں۔ علیحدگی کی صورت میں ان کا مال غصب کرلیتے ہیں اور اس حق تلفی پر اسے انصاف بھی نہیں دیتے۔

یہ ساری صورتیں ظلم کی ہیں اور جو عورت یا مرد اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں، تحریک چلاتے ہیں، تنظیم قائم کرتے ہیں، وہ سب کارِثواب انجام دیتے ہیں۔ ہر صاحب ِ ایمان کے لیے ان سے تعاون کرنا واجب ہے۔ اسلام کے عطا کردہ ’حقوق‘ کی بازیابی کے لیے ایسی ہر تنظیم کی جدوجہد میں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن حقوق کے نام پر ایک ’عیار گروہ‘ اگر عورت کی مظلومیت کے پردے میں ہماری خواتین کو مغرب کی عطاکردہ ’آزادی‘ کے رنگ میں رنگنا اور خاندان کی وحدت کو توڑ کر، تمدن کو برباد کر کے اس کو اپنی مخلوط محفلوں کی رونق بنانا چاہتاہے___ اس سے ہماری کھلی لڑائی ہے۔ اس لیے کہ اگر کوئی شخص یا گروہِ قرآنی ضابطے کے خلاف قدم اُٹھاتا ہے تو وہ خدا کی عطاکردہ عزت و احترام کو چیلنج کرتا ہے، اور ایک ایسے قانون پر حرف گیری کا مرتکب ہوتا ہے جس کا ایک ایک شوشہ تنقید سے بالاتر ہے اور جس کے ہر ہر حرف پر حق و صداقت کی مہر ثبت ہوچکی ہے۔

آیئے قرآن پر فیصلہ کرلیں!

مندرجہ بالا عقلی دلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا کہ اسلام کے عطا کردہ حقوق مرد وزن کے مابین عین عدل و مساوات پر مبنی ہیں اور تجربے سے بھی یہ نتائج ظاہر ہوچکے ہیں کہ جب اور جہاںان اصول و قوانین سے رُوگردانی کی گئی، قوم کے اخلاق و تمدن پر روح فرسا اثرات مرتب ہوئے اور قوم تباہی کے گڑھے میں جاگری۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی قوانین علم، عقل، تجربے، مشاہدے، غرض ہرمعیار پر عین پورے اُترتے ہیں۔

اے اسلام کی دعوے دار میری بہنو! کیا آپ تجربے کی بنیاد پر اسلام کی حقانیت کو مانتی ہیں؟ کیا آپ کی نظر میں تجربات و مشاہدات اور دلائل کا وزن خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مقابلے میں زیادہ ہے؟ اگر آپ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان کے دعوے میں سچی ہیں تو پھر آیئے ___ قرآن پر فیصلہ کرلیں، اور آج یہ اعلان کردیں کہ ہمیں شریعت کا ہر حکم قبول ہے!


مقالہ نگار تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں اور نائب ناظمہ حلقہ خواتین پنجاب ہیں

بیسویں صدی میں جن شخصیات نے اسلامی فکرو تہذیب پر ٹھوس علمی لٹریچر پیش کیا،  جنھوں نے فکرِاسلامی کی تشکیلِ نو کے احساس اور جذباتی رجحان کو تبدیل کرنے میں اہم کردار اداکیا، ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) کی ہے۔ اس بنا پر ہم ان کو دورِ جدید میں تجدیدِ فکر اسلامی کی روایت کا بانی اور بیسویں صدی میں ملّت اسلامیہ پاک و ہند کے ذہن کا اوّلین معمار قرار دیتے ہیں۔

علامہ محمد اقبال کی علمی اور ادبی زندگی کا آغاز انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوگیا تھا،  فروری ۱۹۰۰ء سے وہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسوں میں شریک ہونے لگے تھے۔ لیکن  قومی زندگی پر ان کے اثرات یورپ سے واپسی (۱۹۰۸ء) کے بعد مرتب ہونا شروع ہوئے۔ ۱۹۱۵ء میں انھوں نے اسرارِخودی شائع کی، جس نے مسلم تصوف سے منسوب جامد سوچ میں ایک تحرک پیدا کیا، اور افرادِ اُمت کو ’اپنی دنیا آپ پیدا کر…‘‘ کا زریں نکتہ سمجھایا۔ اس سے ہماری ملّی زندگی کے نئے باب کا افتتاح ہوا۔ پھر انھوں نے ۲۰جولائی ۱۹۲۶ء کو مجلس قانون ساز پنجاب کے انتخاب میں حصہ لے کر اور اس طرح عملی سیاست میں شریک ہوکر تغیر اور تعمیر کے عمل میں   مؤثر کردار ادا کیا۔ ان کی مساعی کا ثمرہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو، ملّت کی مزاجی کیفیت کی نئی تعمیر،  ایک آزاد قوم کے احیا اور ایک عظیم مسلم مملکت کے قیام کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔۱؎

ساتویں صدی ہجری (تیرہویں صدی عیسوی) میں جو کام مولانا جلال الدین رومیؒ (۱۲۰۷ء-۱۲۷۳ء) نے مثنوی کے ذریعے انجام دیا تھا، اسے بیسویں صدی عیسوی میں علامہ محمد اقبالؒ نے اوّلاً اسرارِخودی (۱۹۱۵ء) اور رموزِ بے خودی (۱۹۱۸ء) اور پھر جاویدنامہ (۱۹۳۲ء) اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق (۱۹۳۶ء) کے ذریعے انجام دیا۔ اسرارِخودی میں جمود اور انحطاط کے اصل اسباب کی نشان دہی کی گئی، تصوف پر یونانی اور عجمی اثرات کی وجہ سے جو حیات کُش تصور مسلمانوں پر مسلط ہوگیا تھا، اس کی تباہ کاریوں کو واضح کیا۔ اسرارِ خودی کا مرکزی تصور: ایمان کی یافت اور اس کی قوت سے ایک نئے انسان (مرد مومن) کی تشکیل ہے۔ رموز بے خودی میں اس اجتماعی، اداراتی اور تاریخی تناظر کو بیان کیا گیا ہے، جس میں یہ انسان اپنا تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ فرد اور ملّت کا تعلق، اجتماعی نصب العین، خلافتِ الٰہی کی تشریح و توضیح، اجتماعی نظم اور ادارات (خاندان، قانون، شریعت وغیرہ) کی نوعیت اور خودی کی پرورش اور ملّی شخصیت کے نمو میں تاریخ کے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

جاوید نامہ علامہ محمد اقبال کے روحانی سفر کی داستان ہے، جس میں وہ عالمِ افلاک کی سیر کرتے ہیں، دنیا اور اس کے ماورا پر بصیرت کی نظر ڈالتے ہیں اور مشرق و مغرب کی نمایندہ شخصیات کی زبان سے آج کی دنیا کے حالات، مسائل و افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش کو نمایاں کرتے ہیں۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں مغربی تہذیب کے چیلنج کا مطالعہ کرکے بتایا گیا ہے کہ یورپ کی ترقی کا اصل سبب کیا ہے اور مغربی تہذیب کے روشن اور تاریک پہلو کیا ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید سے قوم کو متنبہ کیا گیا ہے، اور ترقی کے راستے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پیامِ مشرق اور ارمغانِ حجاز میں یہی پیغام دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے، اور اس کا اظہار اُردو کلام میں بھی ہوا ہے۔ خصوصیت سے بانگِ درا کی قومی نظموں میں اور بال جبریل کی ولولہ انگیز غزلوں میں۔ ضربِ کلیم کے بے باک رجز کو خود اقبال نے: ’دورِحاضر کے خلاف اعلانِ جنگ ‘ قرار دیا ہے۔

علامہ محمد اقبال کی نثر کا بہترین حصہ انگریزی میں ہے۔ ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ انھوں نے  The Development of  Metaphysics in Persiaکے نام سے پیش کیا ہے۔    یہ محض ایک فکری تاریخ نہیں ہے، بلکہ اس کے آئینے میں اسلام پر عجمی اثرات کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اقبال نے تصوف کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، وہ اصل مآخذ کے وسیع مطالعے پر مبنی ہے۔

علامہ محمد اقبال نے اسلام کے تصورِ مذہب کی علمی اور فلسفیانہ تعبیر اپنے معروف انگریزی خطبات  The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam(تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ) میں پیش کی ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر مغرب کے فکری رجحانات کو سامنے رکھ کر انسان، کائنات اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں اسلامی تصور کی وضاحت کی گئی ہے، مذہب اور سائنس کے تعلق سے بحث کی گئی ہے اور ذرائع علم کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ عصرِحاضر کے یک رُخے پن کے مقابلے میں اسلام کس طرح عقل، تجربے اور وجدان کی ہم آہنگی قائم کرتا ہے۔ اس بنیادی فکر کی روشنی میں آزادی اور عبادت کے تصور کو واضح کیا گیا ہے، اور ان تصورات کی بنیاد پر قائم ہونے والے تمدن کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز اسلامی قانون کی مثال دے کر یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلامی تمدن میں ثبات اور تغیر کا حسین امتزاج کس طرح قائم ہوتا ہے اور اس کے اندر ہی سے زندگی اور حرکت کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہیں۔

مذکورہ بالا انگریزی کتابوں کے علاوہ، وقت کے علمی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کے بارے میں محمد اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار متعدد مضامین، تقاریر، بیانات اور خطوط کے ذریعے بھی کیا ہے۔ یہ سارا نثری ذخیرہ اُردو اور انگریزی مجموعوں کی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔۲؎

اگرچہ محمد اقبال کی مخاطب پوری ملت اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت ہے، لیکن انھوں نے خصوصیت سے مسلم قوم کے ذہین اور بااثر تعلیم یافتہ طبقے کو خطاب کیا۔ یہ مؤثر اور کارفرما طبقہ، ذہنی اور لسانی روایات سے وابستہ تھا۔ محمد اقبال نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے بنیادی طور پر شعر کا پیرایہ اختیار کیا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک شکست خوردہ قوم کو حرکت اور جدوجہد پر اُبھارنے کے لیے عقلی اپیل کے ساتھ ساتھ جذباتی اپیل کی ضرورت تھی۔ وقت کے چیلنج کا تقاضا محض عقل کو مطمئن کرنا نہیں تھا، بلکہ اہمیت اس امر کو بھی حاصل تھی کہ جذبات میں تموج برپا کرکے اس جمود کو توڑا جائے، جس میں یہ ملّت گرفتار تھی۔ نیز ایک مدت سے برعظیم پاک و ہند کی ملّت اسلامیہ دولخت شخصیت (split personality) کے مرض میں مبتلا تھی، یعنی اس کے عقیدے اور عقل میں یکسانی اور مطابقت باقی نہ رہی تھی۔۳؎

دوسرے لفظوں میں عقیدہ تو موجود تھا، مگر اس میں وہ حرارت نہ تھی جو جذبے کی خنکی یا سردمہری کو دُور کرسکے اور بے عملی اور مایوسی کی برف کو پگھلا دے۔ عقیدے کا چراغ اگر ٹمٹما رہا تھا تو عشق کی روشنی بھی باقی نہ رہی تھی۔ اس کیفیت نے ’روحانی فالج‘ کی صورت اختیار کرلی تھی، جس سے دین داری کی حِس مجروح ہورہی تھی    ؎

بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے

اس کیفیت میں دیرپا تبدیلی اور دُور رس انقلاب کے لیے صرف عقل کی روشنی کافی نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے جذبے کی تپش بھی درکار تھی (یہی، اقبال کے پیش کردہ تصورِ عشق کا پس منظر ہے)۔ علامہ محمداقبال نے جذبے کو مہمیز لگا کر انقلاب پیدا کرنے کے لیے شعر کا جادو جگایا (دوسری جانب اسی زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کام کو انجام دینے کے لیے خطابت کا طوفانی راستہ اختیار کیا تھا)۔

مسلم فکر کے زندہ موضوعات، لوازمے اور مباحث میں اقبال کا جو منفرد حصہ ہے، ذیل میں اس کے چند اہم پہلوئوں کی طرف مختصراً اشارہ کیا جاتا ہے:

  •  تقلید نھیں ، تخلیقی اجتھاد: قدیم و جدید کے درمیان کش مکش کو علامہ محمداقبال نے ’دلیل کم نظری‘ قرار دیا ہے۔ اگرچہ انھوں نے خود ان دونوں مآخذ سے پورا پورا استفادہ کیا،  مگر کسی ایک کے سامنے آنکھیں بند کرکے سپر نہیں ڈالی۔ علامہ محمد اقبال کی نگاہ میں زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے جس میں ثبات اور تغیر دونوں کا اپنا اپنا فطری مقام ہے۔ اسلام کا اصل کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس نے فطرت کے اس اصول کو تسلیم کرتے ہوئے اعتدال کے راستے کو نمایاں کیا۔ علامہ اقبال نے بتایا کہ صحت مند ارتقا اسی وقت ممکن ہے، جب تمدن کی جڑیں ایک جانب ماضی کی روایت میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہوں، اور دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حال کے مسائل اور مستقبل کے رجحانات سے پوری طرح مربوط ہوں۔ اقبال کی نگاہ میں فدویانہ تقلید، خواہ وہ ماضی کی ہو یا اپنے ہی زمانے کے چلتے ہوئے نظاموں کی، فرد اور قوم دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ صرف تعمیری اور تخلیقی اجتہاد ہی کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے، جو علامہ محمد اقبال نے اختیار کیا۔۴؎
  •  تصوف نھیں، حرکت و عمل: علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کے ماضی اور حال دونوں پر تنقیدی نگاہ ڈالی۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ انھوں نے غیر اسلامی اثرات کے تحت ایک ایسے تصورِ حیات کو شعوری طور پر اختیار کرلیا جو اسلام کی کھلم کھلا ضدپر مبنی تھا۔ اس سے ان کی صلاحیتیں زنگ آلودہ ہوگئیں، اس طرح وہ تاریخ اور زمانے کی اہم ترین قوت ہوتے ہوئے بھی تمدنی زوال، سیاسی غلامی اور فکری انتشار کا شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں یونانی اور عجمی مآخذ سے حاصل کیا ہوا تصوف اور اشراق، حددرجہ مہلک اور حیات کُش ثابت ہوا، جس نے مسلمانوں میں زندگی کا غیرحرکی اور جمود زدہ تصور رائج کر دیا۔۵؎ نفی ذات کے فلسفے نے یہاں بھی گھر کرلیا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ترکِ دنیا، ترکِ آرزو اور ترکِ عمل کی بنیاد پر جمود اور انحطاط کے مہیب سایے مسلط ہوگئے۔
  •  مرد مومن کے لیے لائحہ عمل: بگاڑ کے اسباب کی تشخیص کے بعد، علامہ محمد اقبال نے اسلام کے تصورِ حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا۔ اسلام کی جو تشریح و توضیح اقبال نے کی ہے، اس کی امتیازی خصوصیت اس کا حرکی (dynamic) اور انقلابی (revolutionary) پہلو ہے۔ کائنات کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تخلیقی عمل اور ارتقا جاری ہے۔ کائنات کسی تخلیقی حادثے کا مظہر نہیں ہے، بلکہ اس میں خالق کائنات کی جانب سے کن اور فیکون کا سلسلہ جاری و ساری ہے، گویا جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘۔ پھر کائنات کی حقیقت کو ’خلق‘ اور ’امر‘ کی نوعیت پر غور کرکے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔۶؎ اگر ’خلق‘ میں پیدایش اور وجود کی طرف اشارہ ہے تو ’امر‘ میں سمت اور منزل کی طرف رہنمائی ہے۔

ہر چیز ایک مقصد کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ وجود کا اساسی پہلو بھی احساسِ سمت، مقصدیت، حرکت اور مطلوب کی طرف سعیِمراجعت ہے۔ کائنات، انسان اور تاریخ، ہر ایک میں یہی حرکی اصول کارفرما ہے۔ جسم اگر خلقت کا مظہر ہے، تو روح امن کی آئینہ دار ہے۔ خودی اور اس کی تعمیر اس حرکی اصول کا لازمی تقاضا ہے۔ ترقی اور بلندی کی راہ نفیِ ذات نہیں، اثباتِ خودی ہے، جو خود ایک ارتقائی (evolutionary) اور حرکی عمل ہے۔ روح کی معراج، ذاتِ باری تعالیٰ میں فنا ہوجانا نہیں، بلکہ خالقِ حقیقی سے صحیح تعلق استوار کرنا ہے۔ ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے، عمل اس کا میدانِ کار ہے، اور عشق اس کی ترقی کا راستہ۔

یہی اصولِ حرکت تاریخ میں بھی کارفرما ہے۔ تاریخی اِحیا محض ماضی کے صحت مند رجحانات کے بقا و استحکام کا نام نہیں ہے، بلکہ ابدی اقدار اور تمدّنی نصب العین کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے میدانوں میں تخلیقی اظہار اور تعمیر اور تشکیلِ نو سے عبارت ہے۔ انسان ہی اس ارتقائی عمل کا اصل کارندہ ہے۔ اگرچہ کائنات کی ہر شے اس کی مدد کے لیے فراہم کی گئی ہے، لیکن انسانی زندگی کے کچھ اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے لیے ہے، اور یہ مقصد ہے منصبِ نیابتِ الٰہی۔۷؎

اسلام وہ طریق زندگی ہے، جو انسان کو اس کام کے لائق بناتا ہے اور تاریخ میں اس حرکت کو صحیح سمت دیتا ہے۔ مردِ مومن اور ملتِ اسلامیہ، کائنات کی اصلی معمار قوتیں ہیں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری صحیح طور پر انجام نہ دیں تو بگاڑ رونما ہوگا، خود ان کے درمیان بھی اور کائنات میں بھی۔

  •  عقل اور وجدان کا تعلّق: علامہ محمد اقبال نے مذہب کی بنیاد عقل یا سائنس پر نہیں رکھی، بلکہ انھوں نے عقل، تجربے، سائنس اور وجدان، ہر ایک کی اصل حقیقت کو واضح کیا، اور ان کی مجبوریوں اور دقتوں پر روشنی ڈالی۔ اقبال نے بتایا کہ جبلت، عقل اور وجدان کے نقائص کو وحی کی روشنی اور تربیت کے ذریعے ہی دُور کیا جاسکتا ہے۔ ان تینوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کر کے انسان کی خدمت اور رہنمائی کے صحیح مقام پر فائز کیا جاسکتا ہے۔۸؎  نومعتزلائی عقلیت اور مغرب کی بے جان سائنس کے مقابلے میں یہ عقلِ سلیم کی فتح تھی۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تجربہ اور مشاہدہ مذہبی فکر میں ایک اساسی حیثیت قرار پایا۔ روحانی اور مادی تقسیم کا باطل نظریہ ترک ہوا، اور دونوں کے امتزاج (synthesis) سے متوازن اسلامی زندگی کی تعمیر کی راہ روشن ہوئی۔
  •  حرکی تصور میں خودی کا مقام:ایمان اور عمل کا باہمی تعلق واضح کرنے کے لیے علامہ محمداقبال نے غیرمعمولی ندرت (innovation) کا ثبوت دیا۔ اقبال کے نظامِ فکر کے مطابق زندگی کا حرکی تصور آپ سے آپ عمل کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ پھر مذہبی تجربے کی اساسی اہمیت بھی اس سمت میں اشارہ کرتی ہے۔ اثباتِ خودی اور تعمیر شخصیت ایک مسلسل عمل ہے، جس کے بغیر انسان مقامِ انسانیت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ نیابتِ الٰہی کے تقاضے صرف تسخیرکائنات اور اصلاحِ تمدّن ہی کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔ ’خودی‘ ایک بے لگام قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خداپرستی اور اخلاقی تربیت سے ترقی پاتی ہے۔ عشق اس کی قوتِ محرکہ ہے، جب کہ مادی قوت کو دین کی حفاظت اور پوری دنیا میں نظامِ حق کے قیام کے لیے استعمال کرنا اس کی اصل منزل ہے۔ یہی خلافتِ الٰہی ہے، اور یہی انسان کا مشن ہے۔۹؎ اقبال نے مذہب کا یہ انقلابی تصور دیا، جس نے ملّتِ اسلامیہ میں حرکت اور ہلچل پیداکر دی۔
  •  اسلامی ریاست، بنیادی تقاضا: اس تصورِ حیات اور اس مشن کا لازمی تقاضا ہے کہ خود سیاسی اقتدار اسلام کے تابع ہو۔ نہ صرف یہ کہ اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تقسیم نہیں ہے، بلکہ مذہب اور ریاست ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ اگر دین اور سیاست جدا ہوجائیں تو دین صرف رہبانیت بن جاتا ہے اور سیاست چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی ذہنیت ان کے دین اور دین سے ذہنی وابستگی ہی سے تشکیل پاتی ہے۔ ان کی ریاست، معاشرت اور معیشت، دین کے مقاصد ہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام اپنے اظہار کے لیے ریاست اور تمدن کے روپ میں ظاہر ہو۔ مسلمانوں کو ایسے خطۂ زمین کی ضرورت ہے، جہاں وہ اغیار کے اثرات سے آزاد ہوکر اپنے تمدنی وجود کا مکمل اظہار کرسکیں، اور پھر اس روشنی کو باقی دنیا میں پھیلا سکیں۔ اسی عمل کو اقبال نے اسلام کی مرکزیت کہا ہے، اور اسی کے لیے انھوں نے ایک آزاد خطۂ زمین کا مطالبہ کیا۔ آزاد اسلامی ریاست صرف مسلمانوں کی سیاسی ضرورت ہی نہیں بلکہ خود اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔۱۰؎
  •  تھذیبی غلامی، ایک زھر قاتل: علامہ اقبال نے مغربیت اور اس کے بطن سے رونما ہونے والی مختلف تحریکوں، خصوصیت سے لادینیت، مادّیت پسندی، قومیت پرستی، سرمایہ داری، اشتراکیت اور اباحیّت پسندی پر کڑی تنقید کی۔ انھوں نے بتایا کہ ان باطل افکار و نظریات کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے، نیز یہ کہ فی الحقیقت یہی تحریکیں انسان کے دکھوں اور پریشانیوں کا سبب ہیں۔۱۱؎ مسلمانوں کی نجات ان کی پیروی میں نہیں، بلکہ اپنی خودی کی یافت اور دین اسلام کے احیا میں ہے۔ اقبال نے بار بار خبردار کیا کہ اگر انھوں نے مغرب کی تقلید کی روش کو اختیار کیا، تو یہ راستہ ان کی خودی کے لیے زہرقاتل ہوگا۔ زندگی اور ترقی کا راستہ نہ تو ماضی کی اندھی تقلید میں ہے اور نہ وقت کے نظاموں کی فدویانہ پیروی اور جاہلانہ غلامی میں--- یہ راستہ اسلامی تعمیرنو کا راستہ ہے، جو اثباتِ خودی، احیاے ایمان، تعمیراخلاق، اجتماعی اصلاح اور سیاسی انقلاب کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف سیاسی غلامی سے بھی نجات حاصل ہوسکے گی، بلکہ اس سے زیادہ خطرناک ذہنی، تمدنی اور تہذیبی غلامی سے بھی رہائی مل جائے گی۔ پھر وہ جو ’زمانے کے غلام‘ بننے پر قناعت کر رہے ہیں وہ آگے بڑھ کر ’زمانے کی امامت‘ کا فریضہ انجام دے سکیںگے، اور یہی ملت اسلامیہ کے کرنے کا اصل کام ہے۔

علامہ محمد اقبال نے ایک طرف دینی فکر کی تشکیلِ نو کی اور اسلامی قومیت کے تصور کو نکھارا، دوسری طرف ملّی غیرت اور جذبۂ عمل کو بیدار کیا۔ مغربی افکار کے طلسم کو توڑا اور قوم کو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اسلام کی راہ پر گامزن کرنے میں رہنمائی دی۔ یہی اقبال کا اصل کارنامہ ہے اور اسی بنا پر وہ بیسویں صدی کی اسلامی فکر کے امام اور اس میں تجدید کی روایت کے بانی اور رہبر ہیں۔


حواشی

۱-  یہاں علامہ اقبال کی فکربلند کا تجزیہ پیش نظر نہیں۔ تاہم اختصار کے ساتھ اس امر کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ فکرِاقبال نے ادبی اور فکری روایت پر کس کس پہلو سے اثر ڈالا۔(دیکھیے: جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال: زندہ رود۔ سید علی گیلانی: اقبال، روح دین کا شناسا۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی:عروجِ اقبال، پروفیسر محمد منور: میزانِ اقبال، ایقانِ اقبال۔پروفیسر رفیع الدین ہاشمی: علامہ اقبال، شخصیت، فکراور فن۔ ڈاکٹر خالد علوی: اقبال اور احیاے دین۔ حیران خٹک: اقبال اور دعوتِ دین)

۲-  تفصیل کے لیے دیکھیے: رفیع الدین ہاشمی: تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ۔

  • ۳-  ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی: برعظیم پاک و ہند کی ملّت اسلامیہ، ص ۴۳
  • ڈاکٹر سید عبداللہ: میرامن سے عبدالحق، ص ۲۳۷-۲۴۶۔

۴-  The Reconstruction، باب ششم

  • سید ابوالحسن علی ندوی: نقوشِ اقبال۔
  • پروفیسر خورشیداحمد، اقبال اور اسلامی قانون کی تشکیلِ جدید، مشمولہ چراغ راہ، اسلامی قانون نمبر، ج۲، ۱۹۵۸ء۔

۵- علامہ اقبال مکتوب بنام محمد اسلم جیراج پوری (۱۷؍مئی ۱۹۱۹ء) میں لکھتے ہیں: ’’تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرونِ اولیٰ میں اس سے لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ہاں، جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظامِ عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کرکے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے، تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے‘‘۔ (اقبال نامہ [یک جا] مرتبہ: شیخ عطا محمد، اقبال اکادمی پاکستان، طبع نو و تصحیح شدہ،ص ۱۰۰)۔     سید سلیمان ندوی کے نام (۱۹۱۷ء) لکھتے ہیں: ’’تصوف کا وجود ہی سرزمینِ اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے، جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے‘‘ (ایضاً)۔ بنام اکبر الٰہ آبادی: (۲۵؍اکتوبر ۱۹۱۵ء): ’’صوفیا کی دکانیں ہیں ، مگر وہاں سیرتِ اسلام کی متاع نہیں بکتی‘‘۔ (اقبال نامہ[یک جا]، ص۳۸۱-۳۸۲) بنام اکبرالٰہ آبادی (۱۱؍جون ۱۹۱۸ء): ’’عجمی تصوف سے لٹریچر میں دل فریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتا ہے۔ مگر ایسا کہ طبائع کو پست کرنے والا ہے‘‘ (ایضاً، ص ۳۸۷)۔ lپروفیسر حمیداحمد خاں: اقبال کی شخصیت اور شاعری

  • ڈاکٹر صابر کلوروی: تاریخ تصوف۔

۶- اشارہ ہے قرآنی آیت اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ (اعراف۷:۵۴) کی طرف۔

۷- ڈاکٹر محمد اقبال : The Reconstruction، باب اوّل، دوم، سوم۔

  • اسرارِ خودی
  • رموزبے خودی lخضرراہ، در بانگِ درا
  • ساقی نامہ اور زمانہ، دربال جبریل، نوائے وقت، درپیامِ مشرق۔

۸-  The Reconstruction، باب دوم و ہفتم۔

۹-  اسرارِ خودی اور رموز بے خودی۔

۱۰-  ڈاکٹر محمداقبال: خطبۂ صدارت ۱۹۳۰ء۔ 

  • نیز ملاحظہ ہو: The Reconstruction، باب ششم و ہفتم
  • رموز بے خودی۔
  • پروفیسر محمدسلیم: علامہ اقبال کی سیاسی زندگیl محمد احمد خاں:  اقبال کا سیاسی کارنامہ
  • محمد حمزہ فاروقی: اقبال کا سیاسی سفر۔

۱۱-  پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق

  • ضربِ کلیم
  • جاوید نامہ
  • پیامِ مشرق۔ اس سلسلے میں دیکھیے: جنوری ۱۹۳۸ء کا سالِ نو کا پیغام، جو اقبال کی آخری تحریروں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

 

محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت مغربی یورپ میں مسلمانوں کی آبادی ۲۰ ملین (دو کروڑ) ہے۔ اس وقت یورپ میں عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد یورپ کے مذہبی، سماجی اور سیاسی منظر کا ایک حصہ ہے لیکن بیش تر مغربی ممالک میں ان کی بڑی تعداد کی حیثیت گذشتہ ۶۰سال میں آنے والے تارکینِ وطن کی ہے، اس لیے انھیں زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں اسلام کے بارے میں بڑی حد تک لاعلمی پائی جاتی ہے۔ یورپ کے اکثر باشندوں کو دیگر مذاہب کے بارے میں سرسری علم ہے لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف اسلام کے بارے میں اپنی راے دینے سے احتراز نہیں کرتے بلکہ پوری تحدی سے منفی، حتیٰ کہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ میڈیا نے اسلام کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور اس منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر وہ اسلام کو ’بنیاد پرستی‘، ’انتہا پسندی‘ یا اب ’دہشت گردی‘ کے   ہم معنیٰ سمجھنے لگے ہیں۔ ان میں چند ہی افراد نے اسلام کا معروضی یا بھر پور مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مآخذ معتبر نہیں ہیں۔ اکثریت کا اسلام کے بارے میں راے کا دار و مدار متعصب مبلغوں، سیاست دانوں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پروگراموں پر ہے یا پھر ان کی راے متعصب، تنگ نظر مطبوعات سے متاثر ہوتی ہے۔ اسلام کے بارے میں کچھ مآخذ یقینا قابل اعتبار ہیں لیکن ان کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ مستند معلومات فراہم کی جائیں اور اس پر گفت و شنید ہو۔ قابل اعتماد معلومات کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔

مغرب میں مقیم مسلمانوں کے مسائل

یورپ میں مسلمانوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے اور ان کے حل کے لیے منظم کوششوں اور واضح لائحۂ عمل کی ضرورت ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنے ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔

  •  ہمیں اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ امریکا میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک واقعے کے بعد دہشت گردی کے جو دیگر واقعات ۷جولائی۲۰۰۵ء کو لندن میں اور پھر میڈرڈ، اسپین اور دیگر مقامات پر رونما ہوئے، ان کے باعث یورپ میں مقیم مسلمانوں کے تحفظ اور مسلمانوں کے متعلق خدشات اور مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے غیر مسلم پڑوسیوں کے دل و دماغ میں بے اعتمادی اور مخالفت پیدا کرنے والے متعدد دیگر واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ اس کا ثبوت You Gov جائزے کے یہ اعداد و شمار ہیں جو انگلستان میں راے عامہ کے آئینہ دار ہیں:
  • ۵۸ فی صد افراد کے مطابق اسلام کا تعلق انتہا پسندی سے ہے
  • ۵۰ فی صد افراد کے مطابق اسلام کا تعلق   دہشت گردی سے ہے
  • صرف ۱۳ فی صد افراد کی راے میں اسلام کا تعلق امن سے ہے
  • صرف ۶ فی صد افراد کی راے میں اسلام کا تعلق انصاف سے ہے
  • ۶۹ فی صد افراد کی راے میں اسلام عورتوں پر ظلم کرنے کی ہمت افزائی کرتا ہے۔

انگلستان کی مذکورہ بالا صورت حال کم و بیش دیگر یورپی ممالک کی بھی عکاس ہے۔ اس کے پیش نظر ہمیں اسلاموفوبیا  (اسلام کے خلاف نفرت)، میڈیا میں اسلام کے منفی تصور اور اسلام کو انتہاپسندی اور عورتوں پر ظلم سے غلط طور پر منسلک کرنے جیسے مسائل پر توجہ کرنا چاہیے۔

  •  پورے یورپ میں دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں کا آج کل عروج ہے۔ اسلام کے خلاف ان کی دشمنی کوئی راز نہیں۔ اس کا اظہار ڈنمارک میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت، ہالینڈ میں قرآن مجید کے خلاف فلم کی تیاری اور انگلستان کے متعدد شہروں میں انگلش ڈیفنس لیگ کے جلوسوں سے ہوتا ہے۔ غرضیکہ یورپ کے مسلمان نسل پرستی، تعصب اور زندگی کے تمام شعبوں میں ناانصافی کا شکار ہیں۔ یہ مسائل تعلیمی اداروں، ملازمتوں، محلوں اور بستیوں، غرض ہرجگہ موجود ہیں۔
  •  دیگر تارکینِ وطن کی مانند مسلمان بھی مختلف ممالک سے یورپ آئے اور ان کا مقصد ملازمت یا تعلیمی لیاقت حاصل کرنا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ میں افرادی قوت کی شدید کمی تھی۔ لہٰذا ان یورپی ممالک نے کم تنخواہ پر مزدوروں کی آمد کا خیر مقدم کیا۔ آج چونکہ عالمی پیمانے پر کساد بازاری ہے، ملازمت سے کارکنوں کو برطرف کیا جارہا ہے اور بے روزگاری سنگین سطح پر   پہنچ چکی ہے، اس لیے ملازمت کا حصول اور مشکل ہوگیا ہے۔ مقامی آبادی میں یہ تاثر عام ہے کہ تارکینِ وطن (جن میں مسلمان شامل ہیں) نے ان کی ملازمتوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ آج متعدد یورپی ممالک میں غیر ملکیوں کے خلاف نفرت عام ہے۔
  •  ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں جب مسلمان مرد یورپ آئے تو ان کا خیال تھا کہ وہ مختصر قیام کے بعد وطن واپس چلے جائیں گے اور اس قیام کے دوران میں وہ معقول رقم پس انداز کرلیں گے تاکہ اپنے اہل خانہ کی کفالت کرسکیں۔ ان کا منصوبہ تھا کہ وہ اپنے وطن پھر جابسیں گے، لیکن وطن واپسی کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔ صرف چند افراد واپس گئے اور وہ بھی وہاں دوبارہ نہ بس سکے بلکہ واپس آگئے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے ان تارکینِ وطن کے بیوی بچوں نے یورپ کا رخ کیا۔ اس کے نتیجے میں دینی تعلیم، اسلام کی ثقافتی اقدار کی منتقلی اور ترویج اور اسلامی تشخص کو محفوظ رکھنے سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلامی عائلی قوانین، عائلی نظام، اسلامی اسکولوں اور مدارس میں مسلم بچوں کی تعلیم، اسکولوں، ہسپتالوں اور جیلوں میں حلال کھانے کا انتظام اور مسلمانوں کی تدفین کے انتظام سے متعلق سماجی معاملات اور مسائل بھی پیدا ہوئے۔ دیگر مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑا، مثلاً مسلم خواتین کا حجاب اور نقاب کا استعمال۔ اس سے بڑا تنازع کھڑا ہوا اور اس کے نتیجے میں فرانس میں حجاب پر پابندی لگی۔ سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے مسجد کے لیے میناروں والی عمارت کو ممنوع قرار دیا۔ اب فرانس کی حکومت سڑکوں پر نماز کی ادایگی کے خلاف قدم اٹھانے والی ہے، جب کہ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مسجد کے اندر اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ تمام نمازی اس کی عمارت کے اندر نماز ادا کرسکیں۔
  •  اسلام کے بارے میں لاعلمی کے نتیجے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جس کے باعث اسلام کا حقیقی پیغام اور اس کی اقدار یورپ کے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہیں۔ اس کا ثبوت You Gov جائزے کے یہ اعداد شمار ہیں:
  • ۶۰ فی صد افراد نے کہا کہ وہ اسلام کے بارے  میں زیادہ نہیں جانتے
  • ۱۷ فی صد افراد نے کہا کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب پیدا کرنے میں بڑا ہاتھ اسلام مخالف میڈیا اور اس کی متعصبانہ رپورٹوں کا ہے۔ مذکورہ بالا جائزے سے یہ حقائق سامنے آئے:
  • ۵۷ فی صد افراد کا اسلام سے متعلق معلومات کا ذریعہ ٹی وی ہے
  • ۴۱ فی صد افراد کا اسلام سے متعلق معلومات کا ذریعہ اخبارات ہیں۔شریعت، جہاد، حجاب اور دیگر اسلامی اصطلاحات اس حد تک بدنام ہوچکی ہیں کہ ان کے استعمال سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ اسلام کی تصویر سفاکیت اور وحشیانہ پن سے عبارت ہے۔ اس شدید غلط فہمی کا سد باب کرنا اور حقیقی، مستند اسلامی تعلیمات سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو روشناس کرانا ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
  •  مسلم معاشرہ لسانی، قومی اور فرقہ وارانہ یا مسلکی بنیادوں پر منتشر، منقسم اور ایک دوسرے سے دُور ہے۔ مسلمانوں کے اپنے ممالک میں جو مسلکی اور نظریاتی اختلافات تھے، وہی اختلافات یورپ میں مقیم مسلمانوں میں بھی در آئے ہیں۔ اسلام دشمن قوتیں یہ تحقیق نہیں کرتیں کہ ہمارا تعلق اسلام کی کس شاخ یا فرقے سے ہے۔ ان کی مخالفت اسلام سے ہے۔ افسوس کہ ہم باہمی اختلافات میں برسر پیکار ہیں    ؎

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

مزید برآں، مسلم اُمت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب سے نمٹنے کے لیے عقلی اور ذہنی صلاحیتوں سے مالامال ہو۔ اس کے لیے ہمیں غیرمعمولی صبر، حکمت اور    دُوراندیشی کی ضرورت ہے۔ مغرب میں اسلام کے خلاف تمام منفی تصورات کی بیخ کنی کے لیے ہمیں سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہم جس معاشرے میں مقیم ہیں اس میں ہم اپنا ایسا مقام بنائیں جس کی مدد سے ہم اپنے خلاف غلط فہمیوں، تعصبات اور شکوک کو دور کریں۔ مغربی معاشرہ جن مسائل سے دوچار ہے، ان کے حل کے لیے بھی ہمیں کوشاں رہنا چاہیے کیونکہ اب ہم بھی اسی معاشرے کا جزو ہیں۔

مستقبل کا لائحہ عمل

ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ہم بلاشبہہ فی الوقت متعدد مسائل سے دوچار ہیں، البتہ ہمارے لیے متعدد امکانات اور مواقع بھی ہیں۔ مسائل سے گھبرانے یا ہمت ہارنے کے بجاے ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ سورۂ انشراح میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے:

فَانَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o (انشراح ۹۴ : ۵-۶) پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔

اس آیت کریمہ کی تکرار ہمیں یہ اطمینان دلاتی ہے کہ مسائل اور مصائب وقتی ہیں اور بہتر مستقبل ہمارا منتظر ہے۔ بعض مفسرین نے اس نکتے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ دونوں آیات میں تنگی کے لیے قرآنی لفظ عسر میں تخصیص کے لیے ال کا استعمال ہوا ہے، فراخی کے لیے قرآنی لفظ یسر میں ایسی کوئی تخصیص نہیں۔ بالفاظِ دگر اﷲ تعالیٰ نے ایک پریشانی کے لیے دگنی زیادہ فراخی کا وعدہ فرمایا ہے۔

اللّٰہ کی کارفرما حکمت

اس امر پر ہم غور کریں کہ اللہ حکیم ہے اور اس کائنات میں رونما ہونے والے تمام واقعات اس کی حکمت پر مبنی ہیں۔ لہٰذا یہ سوال قدرتی ہے کہ حکمت الٰہی نے تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں مختلف ممالک سے جمع کرکے یورپ میں کیوں مجتمع کیا؟ اس نکتے کا اعادہ بر محل ہے کہ ہم اس سے قبل بھی یورپ میں مقیم رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ۷۰۰ برس تک (۷۱۱ء سے ۱۴۹۲ء تک) اسپین پر حکومت کی۔ اس کے بعد ان کو شکست اور در بدری کا سامنا کرنا پڑا۔ سسلی پر مسلمانوں نے ۲۶۰برس تک (۸۳۱ء سے ۱۰۹۱ء تک) حکومت کی، یہاں بھی انھیں اسپین جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمانی ترک مشرقی یورپ کے حاکم رہے۔ وہ دریاے ڈینوب تک حکمراں تھے اور آسٹریا کے دارالسلطنت ویانا تک پہنچ گئے تھے لیکن پھر انھوں نے پسپائی اختیار کی۔ اب اس صدی میں لاکھوں مسلمانوں نے یورپ کو بطور اپنے وطن اختیار کیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس دور میں ان کی حیثیت فاتح کی نہیں بلکہ تارکینِ وطن کی ہے۔

اس موقع پر ممتاز اسلامی مفکر نجم الدین اربکان (۱۹۲۶ء -۲۰۱۱ء) کی ایک تقریر کا حوالہ مناسب رہے گا۔ کئی سال قبل مانچسٹر، برطانیہ میں ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے  یہ اہم نکتہ پیش کیا کہ یورپ میں مسلمانوں کی صورت حال فرعون کے محل میں حضرت موسٰی ؑ کے داخلے سے مشابہ ہے۔ وہ اس وقت ایک ناتواں، بے بس بچے تھے۔ فرعون ہی کے محل میں ان کی پرورش اور تربیت ہوئی۔ انھوں نے حکمراں طبقے کے طور طریقے وہاں سیکھے تاکہ وہ آیندہ قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں۔ فی الحال یورپ میں مسلمان بھی کمزور اور پسماندہ ہیں۔ ہمیں یہاں اس لیے لایا گیا ہے تاکہ ہم مغرب کی سائنس اور ٹکنالوجی پر حاوی ہوں اور اسی کے ساتھ ساتھ اسلام کے پیغام کی بھی اشاعت کریں تاکہ اسلام کے معاندین کے دل و دماغ کو مسخر کریں۔ اس نکتے کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ یورپ میں مسلم نوجوانوں کی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، ان کو زندگی میں کامیابی کے بہتر مواقع حاصل ہیں، ان کو مسلم ممالک کی بہ نسبت یہاں اظہار خیال اور آزادیِ راے زیادہ میسر ہے۔ ان کے ذہن مسلم ممالک کی بدعنوانیوں سے مسموم نہیں ہیں۔ ان  تمام اُمور کے پیش نظر اس کی زیادہ توقع ہے کہ وہ اپنا اسلامی تشخص اور اسلامی کردار قائم رکھیں گے جس سے دنیا کے دیگر ممالک میں غیر مسلموں میں اسلام کی جانب رغبت اور کشش پیدا ہوگی۔

اسوۂ رسولؐ سے رھنمائی

ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کے معنیٰ اور پیغام پر غورو فکر کریں اور یہ ہدایت حاصل کریں کہ غیر مسلم معاشرے میں ہم اپنی زندگی کیسے بسر کریں۔ انبیاے کرام ؑبالعموم غیرمسلم معاشرے میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ قرآن مجید سے یہ واضح ہے کہ بیش تر انبیا نے دعوت کا آغاز غیرمسلم معاشرے سے کیا۔ بسا اوقات ان کی آواز تنہا تھی۔ ان کے پیغام کا لب لباب تھا: میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں، لہٰذا تم اﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو (الشعراء ۲۶: ۱۰۷-۱۰۸)۔   یہ کہ میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمھارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ کے رسول بنی نوع انسانی کے لیے ہدایتِ الٰہی لاتے رہے ہیں۔ یہ  ان کا فرض تھا کہ وہ پیغام الٰہی کی ترسیل بنی نوع انسانی تک کریں، یہی فریضہ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا۔ حضور اکرمؐ نے اپنا فریضہ کما حقہٗ انجام دیا، اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اسوۂ مبارک پر عمل پیرا ہوں اور ان کے پیغام کو اپنے اہل خانہ، احباب، پڑوسیوں اور عام لوگوں تک پہنچائیں۔

لوگوں سے باہمی معاملات اور کسی کے ذمے سپرد کسی فریضے کی ادایگی کی ضمن میں امانت کی بہت اہمیت ہے۔ اس سے مراد روز مرہ کی زندگی میں دیانت داری اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی بھی ہے۔ قرآن کی یہ ہدایت سورئہ بقرہ آیت ۲۸۳ اور سورئہ انفال آیت ۲۷ میں واضح طور پر ملتی ہے۔ امانت سچے اہل ایمان کی امتیازی خصوصیت ہے (المومنون ۲۳: ۸ ، المعارج ۷۰:۳۲)۔     یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد اور سب کے ساتھ اعتماد کا ماحول پیدا کریں۔ لوگوں کو ہماری دیانت داری اور اخلاص پر بھروسا ہونا چاہیے۔ نبوت کے عطیۂ الٰہی سے قبل بھی حضور اکرمؐ کا لقب امین تھا اور یہ ان کی دیانت داری کے اعتراف کے طور پر تھا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ مکہ کے کافروں نے آپؐ کے پیغام کو مسترد کردیا لیکن وہ اپنی امانتیں آپؐ ہی کی تحویل میں دیتے تھے۔

انبیاے کرام ؑکا اپنی امتوں سے تعلق سر تا سر اخلاص پر مبنی تھا۔ یہ ان کی دلی خواہش تھی کہ لوگوں کی اصلاح ہو اور پوری اُمت کی فلاح و بہبود ہو۔ غرضیکہ نصیحت ایک فعال بامقصد فعل ہے۔ ایک معروف حدیث کے مطابق دین نصیحت ہے (مسلم) ۔ بالفاظ دیگر معاشرے سے ہمارا تعلق اخلاص پر مبنی ہوتا ہے اور ہم ایک دوسرے اور پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ تصور کیا جاتا ہے۔ میزبان آبادی کی راے میں ہم ان کی اقدار اور تہذیب کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ہمارے بعض نادان دوستوں کا یہ خیال سرتاسر بے وقوفی ہے کہ یورپ میں ہمارے قیام کا مقصد خلافت قائم کرنا اور شریعت نافذ کرنا ہے۔ ہمیں لوگوں کے دل و دماغ مسخر کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں انھیں یہ یقین دلانا چاہیے کہ ہم قابل اعتبار ہیں اور یہ کہ ہم ان کی فلاح و بہبود کے لیے مخلص ہیں۔

اشتعال سے اجتناب

انبیاے کرام ؑکی ایک امتیازی صفت صبر ہے۔ قرآن مجید میں ان کو صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ صبر سے مراد برداشت، ہمت اور مشکلات سے نبرد آزما ہونا ہے۔ اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ انسان پریشانی،  ناامیدی اور یاس پر قابو پائے اور اپنے نقطۂ نظر پر مضبوطی سے قائم رہے۔ بالعموم لوگ صبر کو کمزوری اور مجبوری کے مترادف سمجھتے ہیں۔ بے بسی میں انسان بلا شبہہ ان کیفیات سے دوچار ہوتا ہے، البتہ صبر کے حقیقی معنیٰ مسائل پر ہمت اور عزم کے ساتھ قابو پانا ہے۔

قرآن کریم میں جابجا حضوؐر اکرم کو صبر پر کاربند رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بالخصوص اپنے مخالفین کے جواب میں اور کافروں کے انکارِ حق کے جواب میں صبر کرنے اور نماز کا مشورہ دیا گیا ہے (البقرہ ۲:۱۵۳)۔ مکی دور میں انھیں ۱۸ مرتبہ صبر کی نصیحت کی گئی ہے۔ ہمیں بھی اشتعال اور مخالفت کا سامنا صبر سے کرنا چاہیے۔ بحیثیت قوم ہمارا ردّعمل بالعموم جذباتی ہوتا ہے۔ ہمیں مدلل اور منظم انداز میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی مشق کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے مخالفین کے مقابلے میں اس صفت میں ان سے ممتاز ہونا چاہیے۔ قرآن کا مطالبہ ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران ۳ : ۲۰۰)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو۔ باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ۔ حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔

اگر ہمیں یہ پختہ یقین ہو کہ ہمارا نقطۂ نظر معاشرے کی فلاح کے لیے ہے تو ہم مخالفت کے باوجود بھی صبر کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھیں گے۔

اولین ترجیح: دعوت

ہدایت قرآنی اور انبیاے کرام ؑکی روشن مثالوں کے پیش نظر بالخصوص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری اولین ترجیح اخلاص کے ساتھ اسلام کی ترویج اور تبلیغ ہونا چاہیے۔ اسی کی مدد سے ہم مغرب میں لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ صبر اور برداشت کامیابی کی کنجیاں ہیں۔ ہمیں عام آدمی کے ذہن میں اسلام کا تصور بدلنا چاہیے۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں کو بھی اس کا قائل کرنا چاہیے۔ دشمنی پھیلانے کے بجاے ہمیں انھیں اسلام سے قریب لانا چاہیے۔ ہمیں اس کا احساس ہونا چاہییے کہ معاشرے میں صاف اور صحیح ذہن کے لوگ ہیں اور ہرشخص اسلام یا اس کی تعلیمات کا مخالف نہیں ہے۔ انھیں بھی ہماری طرح انصاف، امن اور مساوات کی اقدار عزیز ہیں۔ اگر ہم انھیں اسلام قبول کرنے کے لیے قائل نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم انھیں اس حد تک اپنا ہم نوا بنائیں کہ وہ نفرت اور مخالفت کے ماحول میں حضرت ابوطالب کی مانند ہماری مدد کریں۔ اس کے لیے ہمیں بین المذہبی مکالمے میں حصہ لینا چاہیے اور افہام اور تفہیم کو فروغ دینا چاہیے۔ اگر ہم اپنی مہم کا آغاز اس طور پر کریں گے تو ہمیں یقینا نصرت الٰہی ملے گی اور اس سے اسلام کے خلاف نفرت اور تعصب کم ہوگا۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات لوگوں تک پہنچیں گی تو ان کے دل متاثر ہوں گے۔ اس میں کامیابی کے لیے سورۂ نحل کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق ہمیں دعوت کا کام کرنا ہوگا:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶: ۱۲۵)، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔

مثبت ھم آھنگی

ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب مسلمان بڑی تعداد میں مغرب میں وارد ہوئے تو ابتدا میں انھیں یہاں مقیم ہونے اور بسنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یورپ کا ماحول ان کے لیے نیا اور اجنبی تھا۔ اسی طرح ابتدا میں جب مسلمانوں کا سابقہ بالکل مختلف سماجی اقدار اور تہذیب سے پڑا تو انھیں اپنی اقدار اور تہذیب کے تحفظ کی فکر ہوئی۔ اس ابتدائی رد عمل کے باعث انھیں علیحدہ رہنے، وسیع تر معاشرے سے الگ تھلگ رہنے کی عادت پڑی تاکہ وہ اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔یہ رویہ آج بھی موجود ہے۔ اس طرز فکر کے غیر سود مند ہونے کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ بقیہ دنیا سے کنارہ کش ہوکر تشخص قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ مسلمانوں میں ایک گروہ اس فکر کا علم بردار رہا کہ مغربی اقدار اور ثقافت سے مکمل ہم آہنگی اختیار کی جائے اور اسلامی تعلیمات کو اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے خیر باد کہا جائے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔بقول اقبال :

حدیث ِبے خبراں ہے ، تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد ، تو بازمانہ ستیز

گویا اقبال کے نزدیک انسان میں موجودہ اور باطل طریقۂ حیات کو تبدیل کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔

مسلم ممالک میں آج بھی ایسے افراد ہیں جو مغرب کی مادی ترقی اور خوشحالی سے حد درجہ مرعوب ہیں۔ ان کی راے میں مغربی طور طریقے اختیار کرکے ہم بھی خوشحالی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اندھی نقالی اور ذہنی غلامی سے ان مسلم ممالک کی تقدیر یا حالت نہیں بدل سکتی۔

ہمارے درمیان گذشتہ چند سالوں میں انتہا پسندی کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ ایک مختصر گروہ بآواز بلند مغرب سے ٹکراؤ اور آویزش کا حامی ہے۔ یہ مغربی اقدار کو تباہ کرنے کے  درپے ہے اور ان کی جگہ اسلامی اقدار قائم کرنے پر مصر ہے۔ یہ گروہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ مغربی اقدار بھی یہودیت اور عیسائیت سے ماخوذ ہیں۔ اس نکتے کی جانب حال میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے اشارہ بھی کیا ہے۔ مختصراً تینوں مذاہب کی اقدار بنیادی طور پر دینِ ابراہیم ؑسے مستعار ہیں اور بعض اقدار ان تینوں مذاہب میں مشترک ہیں۔ اسلامی شریعت میں انتہا پسندی کی مطلق کوئی گنجایش نہیں۔ تمام انبیاے کرامؑ نے امن اور یگانگت کی تعلیم دی ہے۔ انھوں نے معاشرے کی اصلاح اندرونی طور پر کی۔ انھوں نے اپنے نظریات نافذ کرنے کے لیے کبھی تشدد کا سہارا نہیں لیا، بلکہ اس کے برخلاف انھوں نے تشدد کو برداشت کیا اور کبھی انتقام نہیں لیا۔ لہذا انتہا پسندی کا رویہ اختیار کرنا خطرناک بھی ہے اور برعکس نتائج کا حامل بھی۔

اس انتہا پسندی کا جواب کیا ہو؟ اسلام یقینا اجتماعی معاملات میں لوگوں کی شرکت کا    علَم بردار ہے۔ ہمیں اس اسلامی حکم پر کاربند ہونے کا حکم ہے کہ بھلائی کو فروغ دیں اور برائی کو روکیں۔ مغربی تہذیب کا نقد و جائزہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سے مراد اس کو یکسر مسترد کردینا یا اس میں بالکل ضم ہوجانا نہیں ہے۔ ہمیں مغربی تہذیب کے تمام پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے، تاکہ ہماری تہذیب سے اس کے مماثل اور مختلف پہلو نکھر کر سامنے آئیں۔ اس کی روشنی میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ مغربی تہذیب کے کون سے پہلو پسندیدہ ہیں اور کون سے ناپسندیدہ۔ غرضیکہ ہمیں آزادانہ تنقید کا رویہ اپنانا چاہیے۔ ہمارا ایک مخصوص نظریاتی اور ثقافتی تشخص ہے جس کا مآخذ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات ہیں۔ اسی ہدایت الٰہی کی بدولت ہم ہمہ وقت اپنے ایمان کو تازہ اور مضبوط رکھتے ہیں۔

تعلقات عامہ

ان مغربی ممالک میں جہاں جمہوریت رائج ہے اقتدار صرف مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں مرکوز نہیں ہوتا۔ یورپین یونین کے قیام کے بعد قانون سازی اصلاً یورپی پارلیمنٹ میں انجام پاتی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کے پس پشت اصل قوت عوام کے منتخب یورپین پارلیمنٹ کے ممبر، متعلقہ ممالک کے ممبر پارلیمنٹ، لوکل کونسلر، میڈیا کے نمایندے، راے عامہ پر اثر انداز ہونے والے گروہ، مرکزی اور مقامی حکومت کے ذمہ داران وغیرہ ہوتے ہیں۔ اقتدار کے مراکز تک اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے ہمیں ان گروہوں کو قائل اور متاثر کرنا ہوگا۔ یہ ایک طویل المدتی حکمت عملی ہے، البتہ اس کے خوش گوار نتائج مستقبل میں رونما ہوں گے۔

نئی قیادت کی ضرورت

یورپ میں نئی مسلم قیادت کی ضرورت ہے جو یورپ میں مقیم مسلمانوں کے مسائل سے بخوبی واقف ہو۔ یہ قیادت مذہبی، مسلکی اور فقہی اختلاف سے بالاتر ہو۔ یہ قیادت نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ یورپی معاشرے کے مسائل کے حل پر قادر ہو۔ ہمیں توقع ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ عزم اور حکمت کے ساتھ اس نازک اور مشکل ذمہ داری سے عہدہ برا ہوا جاسکتا ہے۔ اس میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کا جذبہ اور خواہش ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ لوگوں کے دل و دماغ میں ایسے جذبات بیدار کرے جس سے وہ اسلام کے پیغام کے لیے اَن تھک کام کریں۔ ان کا مقصد احسان کے درجے پر فائز ہونا ہو، نہ کہ ضابطے کی خانہ پُری۔

مغرب میں مسلمانوں کو درپیش مسائل سے واقفیت کے باعث ہماری یہ کاوش ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ متحد ہو۔ فی الحال یہ مسلکی، گروہی، فقہی اختلافات کے باعث منتشر ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اس معاملے پر غور کرنا چاہیے۔ یہ ایک مشکل اور طویل المدتی کام ہے لیکن صبر اور استقلال کے ساتھ اس کا حصول ممکن ہے۔ اگر ہم میں تقویٰ اور اخلاص ہے اور ہمارا مقصد رضاے الٰہی کا حصول اور اُخروی نجات ہے تو یقینا اپنے وعدے کے مطابق اﷲ تعالیٰ ہمیں نصرت الٰہی سے سرفراز کرے گا:

وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o (العنکبوت ۲۹: ۶۹)،جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اﷲ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔

(یہ اس کلیدی خطاب کا نظرثانی اور اضافہ شدہ متن ہے جو ۲۶-۲۸ نومبر ۲۰۱۰ء کو یورپین مسلم کونسل کی افتتاحی کانفرنس بمقام بریسیا، اٹلی میں پیش کیا گیا)۔


مقالہ نگار اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر، برطانیہ میں محقق ہیں

اھم گزارش: اس رسالے میں اشتہار دینے والے اداروں یا افراد سے معاملات کی کوئی ذمہ داری ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کی انتظامیہ کی نہیں ہے۔ قارئین اپنی ذمہ داری پر معاملات کریں۔ (ادارہ)

ترجمہ و تلخیص: اطہر وقار عظیم

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار بھارت کو، روز افزوں معاشی ترقی کے باوجود وسیع علاقوں میں پھیلی ہوئی علیحدگی پسند تحریکوں اور بغاوتوں کا سامنا ہے۔ چنانچہ اگر ایک طرف آزادیِ کشمیر کی توانا تحریک ہے تو دوسری طرف مائونواز باغی (مائوسٹ) اپنے غصب شدہ حقوق کی بحالی کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اسے اب سرکاری میڈیا نے خطرناک علاقہ (Red Corridor) قرار دے دیا ہے۔ دراصل یہ مزاحمتیں اور یہ تحریکیں، بھارت میں بڑھتے ہوئے معاشرتی اور معاشی استحصال کا قدرتی و فطری ردعمل ہیں۔ یہ استحصال مختلف معدنی اور آبی کارپوریشنوں کی طرف سے بھارت کے غریب ترین لوگوں کا کیا جا رہا ہے۔ امریکا، بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کے تناظر میں، خود بھارت کے اندر موجود ان حقائق کوہمیشہ نظرانداز کرتا رہا ہے اور اس کے برعکس وہ بھارت کو سرمایہ کاری کے لیے منڈی اور اسلحے کے خریدار ملک کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ یہاں انھی بدصورت مگر سچ پر مبنی حقائق کو، معروف مصنفہ ارون دتی راے سے امریکی صحافی ڈیوڈ بریسمین (David Barsman) کے ایک انٹرویو کے ذریعے بے نقاب کیا جا رہا ہے۔

  •  ڈیوڈ بریسمین: ۲۰۱۰ء کا موسم گرما مقبوضہ کشمیر کے لیے خونی موسم گرما تھا۔ یہ پتھر اور پتھر پھینکنے  والوں کا موسم تھا۔ آپ اکثر کشمیر  جاکر ، جدوجہد آزادیِ کشمیر کے بارے میں لکھتی رہی ہیں۔ یہ پتھر آخر کیا کہانی سنا رہے ہیں اور یہ پتھر مارنے والے کون ہیں؟
  •  ارون دتی راے: ’خونی‘ موسم گرما … آپ نے بالکل درست بیان کیا ہے کیونکہ کشمیریوں کے لیے یہ ۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک کے خونیں ترین موسم گرما میں سے ایک تھا۔ اگرچہ اب تک تقریباً ۷۰ہزار سے زائد کشمیریوں کا قتلِ عام ہوچکا ہے لیکن یہ موسمِ گرما مختلف نوعیت کا تھا۔ کیونکہ بھارتی افواج کی طرف سے مسلسل دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ اُنھوں نے اُن عسکریت پسند جنگجوئوں کا خاتمہ کردیا ہے، جو ۱۹۹۰ء کے عشرے میں ’اچانک‘ سامنے آئے تھے۔ بھارتی عوام کو تقریباً قائل کر لیا گیا تھا کہ بھارتی افواج نے بندوق کی نوک پر ’امن‘ قائم کروا لیا ہے اور کشمیر میں معمول کی زندگی واپس لے آئے ہیں۔ اب کشمیری نوجوان کافی شاپس، ریڈیو اسٹیشن اور ٹی وی شوز کے ذریعے ’قومی ترقی‘ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ یک طرفہ پروپیگنڈا اتنا مؤثر تھا کہ غیر جانب دار حلقے بھی یقین کر چلے تھے کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔

اچانک ہم سب نے دیکھا کہ پچھلے مسلسل تین برسوں کے موسمِ گرما سے کشمیر کی گلی محلوں کی سطح پر ایک تحریک اُبھرتی ہے۔ اور پھر جو مناظر ہم کشمیر کے بازاروں کے چوراہوں میںدیکھتے ہیں، وہ مصر میں التحریر چوک کے مناظر سے بے حد مشابہ ہیں اور یہ مناظر اب بھی بار بار دہرائے جارہے ہیں۔ لیکن ایک فرق ضرور ہے کہ مصر میں فوج نے حتی الامکان عام لوگوں پر فائرنگ کرنے سے اجتناب کیا تھا، لیکن یہاں امن و سلامتی نافذ کرنے والے اداروں کے سورما نوجوانوں پر گولیاں برسا رہے ہیں اور پھر بھی آزادی کے جذبات تھمنے میں نہیں آرہے۔ سچ تو یہ ہے جدوجہدِ آزادی کشمیر سے وابستہ یہ تمام نوجوانوں کے گروہ اپنے اظہار کی شکل بدل بدل کر ہمارے سامنے اپنا مدعا بیان کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں یہ کافی مشکل راستہ ہے جو نوجوان کشمیری نسل نے اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط نوکرشاہی کے تمام پُرتشدد حربوں کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ یہ اُن کا عزم، استقلال اور صبر ہی ہے جس کی وجہ سے تمام تر جدیدترین اسرائیلی اور بھارتی اسلحہ رکھنے کے باوجود بھارتی افواج نہیں جانتیں کہ ان پتھر مارنے والوں سے کیسے نبٹا جائے، اور اس پُرامن مزاحمت کو کس طرح سرد کیا جائے؟

اس عظیم بے بسی کے بعد، بھارتی قبضے کو اخلاقی جواز صرف بھارت نواز متعصب پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ یک طرفہ پروپیگنڈے پر مبنی شوروغل، ایک بڑے ڈیم (تالاب) کی طرح ہے لیکن اس اجارہ داری کو انٹرنیٹ (فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب) نے کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے ہر روز نئی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔

  •  مقبوضہ کشمیر، فوجی کیمپوں، تفتیشی مراکز، جیلوں، مورچوں اور بنکرز سے اَٹا پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے، پوری دنیا میں سب سے زیادہ فوج رکھنے والا علاقہ بن گیا ہے۔ اس تناظر میں، مقامی کشمیری کس طرح زندگی گزار رہے ہیں؟
  •  دیکھیے، میرا خیال ہے کہ جدوجہد آزادیِ کشمیر کو اب کوئی نہیں ختم کرسکتا، کیونکہ کشمیریوں نے اپنے بارے میں خود لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے اب ہمیں کشمیریوں کی کہانیاں سنانے کی ضرورت نہیں رہی، اور ویسے بھی ہم اُن کی اذیت ناک کہانیوں کو اپنے ذاتی تجربات کی حیثیت سے بیان نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ہمیں کبھی، اُن کی طرح شناخت پریڈ میں بے عزت نہیں کیا گیا۔ ہمیں حقیقت جاننے کے لیے انسانی حقوق کی رپورٹس، اخبارات میں بیان کردہ ٹارچر سیلوں (عقوبت خانوں) کے احوال، جھوٹے مقدمات کی بنیاد پر گرفتاریوں کی تفصیلات کے مطالعے سے صورت حال سے آگاہی حاصل کرنا پڑتی ہے لیکن ہم اُن جیسا محسوس تو نہیں کرسکتے۔ میں ابھی تک اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں کہ آپ کس طرح محسوس کریں گے اگر کسی چیک پوسٹ پر آپ کو روکا جائے اور آپ کے سامنے آپ کے بوڑھے ماں باپ کو تھپڑ رسید کیے جائیں یا پھر آپ کے شوہرکو بے عزت کیا جائے۔ اس طرح کے واقعات تو قید میں ہوتے ہیں۔ مجھے تو کشمیر بھی دنیاکا سب سے بڑا جیل خانہ ہی لگتا ہے۔ کشمیری اگر اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات کی یادداشتیں لکھیں تو پھر یہ ایک قیدی کی یادداشتیں جیسی ہوں گی۔ بھارتی فوج صرف زبانی بے عزتی پر اکتفا ہی نہیں کرتی۔ میں نے اکثر اس طرح کے الفاظ اُن کے منہ سے سنے ہیں: یہ لڑکا اس لیے مارا گیا کیونکہ ہم نے اسے رُکنے کے لیے کہا لیکن وہ نہیں رُکا‘‘۔ ہرقسم کے تاثر اور ہمدردی سے خالی الفاظ… بس یہی اُس ۱۵ یا ۱۶سال کے کشمیری نوجوان کی زندگی کی قیمت ہے!

حقیقت یہ ہے کہ جب سے بھارت نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی ہے، تب سے بھارت کے کونے کونے میں جنگیں چھیڑ دی گئی ہیں اور یہ جنگیں، کشمیر کے ساتھ ساتھ منی پور، ناگالینڈ، میزورام، اور آسام میں جاری ہیں۔ کشمیر اب واحد جگہ نہیں رہا جہاں شناخت پریڈ، مورچہ بندی، دوران تشدد قتل و غارت اور انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہو۔ یہ جنگ اب بھارت کے مرکز تک پہنچ چکی ہے لیکن بھارتی ریاست ان آوازوں پر کان نہیںدھرنا چاہتی جو کشمیر کی گلی محلوں سے آرہی ہیں اور نہ اُن اسباق ہی کو پڑھنا چاہتی ہے جو کہ پتھروں پر لکھے ہوئے آرہے ہیں۔ چنانچہ اب باقی تمام تر بھارت کئی لحاظ سے کشمیر بنتا جا رہا ہے۔ عسکریت پسندی، دھونس اور تشدد پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے۔

  •  پھر مسئلۂ کشمیر عالمی توجہ حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہا؟
  •   اچھا سوال ہے۔ جب مصر میں احتجاج کی لہر اُٹھی اور عوام التحریر چوک میں اکٹھے ہوئے تو میں نے دیکھا کہ بین الاقوامی مغربی میڈیا نے اس سارے واقعے کو بہت زیادہ کوریج دی۔ لیکن ۲۰۰۸ء سے اب تک کشمیر میں ہر موسمِ گرما میں التحریر چوک جیسے کئی مناظر وقوع پذیر ہوچکے ہیں لیکن ہمیں اس کی معمولی سی کوریج بھی بین الاقوامی میڈیا پر نظر نہیں آسکی۔ آخر کچھ مزاحمتی تحریکوں کو زیادہ کیوں دکھایا جاتا ہے اور باقیوں کو کیوں نظرانداز کر دیا جاتا ہے؟ حالانکہ اگر مزاحمت کرنے والوں کے حوصلے، پامردی اور جرأت کی بات ہے تو پھر مصر ہو یا کشمیر، حتیٰ کہ کانگو بھی___ سب برابر ہیں، لیکن بین الاقوامی میڈیا بالخصوص مغربی میڈیا کا ایک پر توجہ مرکوز کیے رکھنا اور دوسرے کو یکسر نظرانداز کر دینا، یہ بہت اہم سوال ہے۔

مصر میں ہم نے دیکھا کہ لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ ’جمہوریت کی طرف بڑھتے ہوئے اقدام‘ کی حیثیت سے دکھائی گئی۔ شہ سرخیاں جمائی گئیں: ’’مصر اب آزاد ہے‘‘… ’’مصرفوجی تسلط سے آزاد ہوگیا ہے‘‘، لیکن کشمیر کے بارے میں اُن کے پاس کہنے کو الفاظ نہیں ہیں۔ کیا یہ محض مفاداتی سیاست نہیں ہے کہ مصر، امریکا اور مغربی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اہم ملک ہے، کیونکہ مصر کو کنٹرول میں لائے بغیر غزہ کے محاصرے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور حسنی مبارک بھی، اپنے اقتدار سے علیحدہ ہونے سے پہلے اخبارات کے مطابق، لمحہ بہ لمحہ گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے موت کے قریب جا رہاتھا۔ دوسری طرف کشمیر کو کوریج نہیں دی جاسکتی کیونکہ اگر کشمیر ہاتھ سے جاتا ہے تو پھر افغانستان اور بھارت میں بہت کچھ چلا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیریوں کی درد بھری آہیں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے دنیا کے ممالک ایک ارب سے زائد آبادی کے حامل ملک بھارت کی پُرکشش منڈی کو   کھودیں اور اپنے سب سے بڑے گاہک کو ناراض یا غضب ناک کر دیں۔ اس لیے کوئی بھی موجودہ استحصال پر مبنی صورت حال اور منظرنامے کو تبدیل نہیں کرنا چاہتاہے۔ لہٰذا مغرب کو بھارت کی دووجوہات سے ضرورت رہے گی۔ ایک تو جیساکہ میں نے بیان کیا کہ بھارت ایک انتہائی وسیع اور بڑی منڈی ہے۔ دوسرا بھارت کو عالمی طور پر اُبھرتی ہوئی طاقت چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی مغربی خواہش ہے۔ ان عوامل کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق انسانی حقوق کی پامالی کی تمام تر تفصیلات ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت مغرب کا مستقل نوعیت کا اتحادی رہے گا، اور مسئلۂ کشمیر کے لیے بھارت کو ناراض کرنا کبھی مغربی طاقتوں کی حکمت عملی نہیں بن سکتی۔

  •  ۲۰۰۸ء میں صدر اوباما نے اپنے انتخاب کے لیے، کشمیر کو انتہائی ’اہم مسئلہ‘ قرار دیا تھا جس کو حل کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا تھا؟ دہلی میں اس تبصرے کو کس طرح دیکھا اورسمجھا گیا اور اوباما نے اپنی بات کو پورا کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ خاص طور پر جب اُس نے بھارت کا نومبر ۲۰۱۰ء میں دورہ کیا تھا؟
  •   صد اوباما کا کشمیر کے حوالے سے عزم بھارتی سرکار کے لیے انتہائی پریشان کا باعث بنا تھا۔ اس کے ردعمل میں بھارت نے امریکا کو فوراً جتادیا تھا کہ اگر مسئلۂ کشمیر کو عالمی طور پر زندہ کرنے کی کوشش کی گئی، تو بھارت اس صورت حال سے بچنے اور اس آواز کو دبانے کی ہرممکن کوشش کرے گا اور بھارت نواز لابی نے باہر بیٹھ کر یہی کچھ کیا۔ چنانچہ اوباما جب بھارت کے طویل دورے پر نومبر میں آئے تو اُس وقت کشمیر کی گلیاں آزادی کے نعرے لگانے والے نوجوانوں سے بھری پڑی تھیں۔ کئی معصوم نوجوانوں کا خون بھی بہایا گیا لیکن صدر اوباما نے کشمیر کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
  •  مطلق العنان ظالم ریاستوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کو انسانی حقوق سے محروم کردیتی ہیں، یا پھر ان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر کے ان کے اثرات کو زائل یا کم کرنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ کیا بھارت بھی یہی کچھ کر رہا ہے؟
  •   یہ واضح تھا اور واضح تر ہے کہ بھارت نوآبادیاتی استعماری ریاست کی طرح کام کر رہا ہے۔ آزادی سے قبل بھارتی شہریوں کو عراق اور دیگر دنیا کے حصوں میں تاج برطانیہ کے جھنڈے کے ’تحفظ‘ کی خاطر بھیجا جاتا تھا۔ اس لیے گمنام بھارتیوں کی قبریں پوری دنیامیں پھیلی ہوئی ہیں جو کہ استعمار کی خاطر جیتے اور مرتے تھے۔ خود ۱۸۵۷ء میں بھارت میں جنگ ِ آزادی کو بعض لوگ بغاوت کہتے ہیں اور بعض آزادی کی جدوجہد کہتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بعینہٖ یہی کچھ یہاںہوا ہے۔ برطانیہ کے برعظیم پاک و ہند میں فوجی بہت زیادہ نہیںتھے لیکن ۱۸۵۷ء میں سکھوں نے برطانیہ کی طرف سے دہلی کے قریب لڑائی لڑی تھی۔ یہی کچھ بھارت اب خود کر رہا ہے۔ اُس نے ناگالینڈ کے غریب عیسائیوں کو چھتیس گڑھ لڑنے کے لیے بھیجا اور چھتیس گڑھ والوں کو کشمیر بھیجا اور کشمیریوں کو اڑیسہ تعینات کیا گیا۔

اس کے علاوہ آج کل اخبارات، اور ٹی وی پر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ کشمیریوں کو فوج اور پولیس میں بھرتی کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک طرح سے بے عزتی ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کشمیریوں نے خاموشی سے compensation (زرتلافی) قبول کرلیاہے۔ گویا پہلے فوج کشمیریوں کا قتلِ عام کرے، اور پھر جرمانے کے طور پر اُن کے قریبی رشتہ داروں کو معمولی معاوضوں پر شورش زدہ علاقوں میں بھیج کر اپنے ’قومی مفادات‘ پورے کرے۔ یہ دوہرا ظلم ہے۔ یوں لگتا ہے سرکاری منصوبے کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہرسطح اور ہرقیمت پر زیادہ سے زیادہ کشمیریوں کو بے عزت کیا جائے، یعنی محض جسمانی تشدد اور قتل و غارت گری کے ذریعے ہی نہیں، بلکہ نفسیاتی طور پر اذیت پہنچا کر بھی۔

  •  بھارت کا مسلسل اصرار ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نے جو ۱۹۹۰ء کے عشرے میں وزیر مالیات تھے، جب بھارت میں لبرل اصلاحات کا نفاذ کیا تو تسلیم کیا تھا کہ کشمیر میں گڑبڑ ہے۔ پھر بتایا گیا کہ معاملات اب قابو میں ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بھارت اور کشمیر کے معاملے کا موازنہ فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے سے نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ بھارت میں ایک ’متحرک‘ جمہوریت کام کر رہی ہے۔ سیاست دان بھی جب بات کرتے ہیں تو بغیر سچائی کو جانے اور صورت حال کو سمجھے بغیر عزمِ مصمم کا اعادہ کرتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا حصہ رہے گا۔
  •   یہ کہنا کہ بھارت ایک متحرک جمہوریت ہے یا پھر مشرق وسطیٰ میں فلسطین اسرائیل، تنازعے کا موازنہ کشمیر سے نہیں کیا جانا چاہیے، دونوں ہی غلط دعوے ہیں، جو کہ غلط معلومات،  گمراہ کن اور دل پسند مفروضوں پر مبنی ہیں۔ تاریخ سے ہم بخوبی جان سکتے ہیں (اگر ہم متعصب نہ ہوں) کہ بھارت کا کشمیر سے سیاسی اور جغرافیائی رشتہ ماضی قریب میں کیا رہا ہے اور یہ کہنا کہ کشمیر کا فلسطین اسرائیل تنازعے سے موازنہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں (کشمیر میں) زیادہ بڑے پیمانے پر پکڑدھکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکڑوں نوجوانوں کو پکڑا اور بغیر ٹھوس ثبوت کے جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ فیس بک کو بند کر دیا گیا ہے۔ پولیس موجود ہے جو لوگوں کو خوف زدہ کررہی ہے، املاک کو جلا رہی ہے۔ کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر گھروں میں داخل ہوجاتی ہے۔ ایسی جگہیں جہاں درجۂ حرارت ۳۰ سینٹی گریڈ سے کم ہوتا ہے وہاں آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اس لیے واقعی موازنہ بنتا نہیں ہے۔ کشمیری زیادہ بدتر صورت حال کو بھگت رہے ہیں۔ جب متحرک جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو کشمیر میں متحرک فوجی قبضہ ضرور نظر آتا ہے۔ بھارت میں متحرک جمہوریت ہمیں دہلی، کیلاش یا گرین پارک میں تو نظر آتی ہے لیکن ڈانڈئی والا، منی پور، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، چھتیس گڑھ اور کشمیر میں ہرگز موجود نہیں ہے۔

متحرک جمہوریت کے دعوے کے جواب میں، مَیں بھارتی وزیراعظم سے ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں۔ اگر چھتیس گڑھ کے دیہاتی، یا عام کشمیری کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور یہاں ناانصافی سے مراد یہ ہے کہ اُس کے خاندان کے چند افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے، یا جان و مال کی سلامتی کا تحفظ کرنے والے ادارے اُس کی بیٹی یا بہن یا بہو کے ساتھ زنا بالجبر کرتے ہیں، تو آخر اس متحرک جمہوریت میں ایساکون سا غیر جانب دار ادارہ ہے جہاں وہ جاکر حصولِ انصاف کے لیے درخواست دائر کرسکے اور انصاف حاصل کرسکے؟ ہے کوئی؟ یقینا کوئی نہیں، چنانچہ بات یہاں ختم ہوجاتی ہے۔

  •  کشمیر میں اتنی مزاحمت کے باوجود بھارت وہاں کیوں ڈٹا ہوا ہے؟
  •   بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی بات جو سمجھنے کی ہے اور بھارت اور کسی حد تک پاکستان کا بھی مفاد کشمیر کے مسئلے کو زندہ رکھنے سے وابستہ ہے۔ ایسا مفاد جو سیاسی بھی ہے اور مادی بھی۔ بھارت کو وہاں ۷ لاکھ فوجیوں کی نگہداشت کرنے کے لیے کتنی بڑی رقم کی ضرورت ہوگی جو قبضہ برقرار رکھنے کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکے؟ کیا اس کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے؟ پھر اس رقم کے علاوہ وہ رقم جو زمین، خاردار تاروں، بکتربند گاڑیوں، پٹرول اور اُس جبر کو برقرار رکھنے کے لیے چاہیے۔ کشمیریوں کو دھونس، رشوتوں اور دیگر مدوں میں دی جانے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔ یہ عسکری کاروبار مؤثر انداز سے مقامی غیرمسلم اشرافیہ اور کاروباری کمپنیوں کے مابین چل رہا ہے۔ سب کا حصہ ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا ملک چلانے جیسا ہے۔ پھر آخر کیوں کوئی اسے چھوڑنا چاہے گا؟

دوسری وجہ یہ ہے کہ کشمیر کا تنازع بھارت کی قومی اَنا کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ اب بھارت اتنا دُور نکل آیا ہے کہ اُس کو اپنی طے کردہ فکر پر دوبارہ سوچنے کے لیے گہری بصیرت کی ضرورت ہوگی۔ لیکن ایسی صورت حال میں جہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے رہی ہوں، مثلاً برسرِاقتدار کانگریس اگر کوئی جرأت مند اقدام اُٹھانا چاہے تو بی جے پی اس معاملے پر سیاست چمکانا شروع کر دے گی اور جمہوریت نواز حقیقت پسندانہ فیصلے کے لیے کوئی موقع نہیں چھوڑے گی۔ اس طرح یہ منحوس چکر چلتا رہتا ہے۔

لیکن ایسی بات بھی نہیں کہ بھارتیوں کے کشمیری موقف میں دراڑیں نہ پڑی ہوں اور یہ دراڑیں کشمیریوں کی پُرامن، بغیر اسلحے کے سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اور زیادہ گہری اور وسیع ہوتی جائیں گی۔ عام پڑھے لکھے بھارتی اب کشمیریوں کی آواز سننے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ اب وہ عوام کو یہ کہہ کر بہلا نہیں سکتے کہ یہ جنگجو ہیں، دیکھو یہ اسلامسٹ ہیں اور یہ طالبان ہیں؟ بھارت میں اٹوٹ انگ والا طے شدہ موقف دم توڑ رہا ہے۔ اس لیے چھتیس گڑھ، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، کشمیر اور کسی حد تک منی پور میں بھارت نواز سرکاری حکومت اس امر سے باخبر ہے کہ بھارتی عوام کے کشمیر کے بارے میں قومی اتفاق راے کو ٹھیس پہنچی ہے اور اس میں گہری دراڑ پڑچکی ہے۔

  •  کشمیر میں ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ پچھلے کئی برسوں سے اعلیٰ سطح کے اسرائیلی فوجی (بشمول اسرائیلی خفیہ اداروں کے سربراہان) کشمیر کا دورہ کرتے آرہے ہیں۔ وہ وہاں کیا کر رہے ہیں؟
  •   امریکا اس حقیقت سے باخبر ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات متزلزل نوعیت کے رہیں گے۔ پاکستان ایٹمی طاقت بھی ہے۔ افغانستان کی ساری مہم جوئی پاکستان کے تعاون سے جاری  ہے کیونکہ امریکی نہیں جانتے اب وہاںکیا کرنا ہے۔ امریکی تو یہ بھی نہیں جانتے کہ افغانستان سے باہر کیسے نکلنا ہے؟ پھر چین کے عروج کا مسئلہ بھی ہے۔ وسطی ایشیا میں وسیع پیمانے پر قدرتی گیس کے ذخائر بھی مسئلہ ہیں۔ پاکستان بھی مسئلہ ہے کیونکہ امریکا وہاں کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت کرتا ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اُس کو حقِ حکمرانی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں جمہوری فکر اور اداروں کو کبھی پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا۔ کم از کم بھارت کو یہ آزادی میسر آسکی ہے لیکن یہی آزادی اب خود بھارت کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ امریکا پیچھے ہٹ کر نئے اتحادی کی تلاش میں ہے کیونکہ پاکستان کو وہ نچوڑ چکا ہے اور پاکستان ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ میں یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ اس لیے وہ کشمیر و لداخ سے پسپائی کا تصور نہیں کرسکتے۔ اسرائیلیوں کا عمل دخل بھی امریکی مداخلت کی طرح ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
  •  امریکا نے کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ مشقیں بھارت کے ساتھ مل کر کی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق جب اوباما نے نومبر ۲۰۱۰ء میں بھارت کا دورہ کیا تو اعلان کیا: ’’بھارت بڑی تیزی سے اسلحہ خریدنے والے قابلِ اعتماد خریدار میں تبدیل ہورہا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے جب اوباما چوٹی کے ۲۰۰ تجارتی سربراہوں کے ساتھ بھارت آئے تھے تو  ۵؍ ارب ڈالر کی مالیت سے زیادہ کے ۱۷-سی بوئنگ جنگی طیاروں کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے اسے بھارت کی ’جدید ترین اسلحے کی بھوک‘ قرار دیا تھا؟
  •   یہ سچ ہے کہ بھارت کی یہ بھوک بڑھ چکی ہے۔ زیادہ تر یہ اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لیے ہے ،حالانکہ یہ بے چارے نہیں جانتے کہ آخری بار یہ جدید ترین حساس اسلحہ اُنھوں نے کب استعمال کیا تھا؟ آخر اب کس کے خلاف استعمال کریں گے؟ کیا یہ اسلحہ چین کے خلاف جنگ میں استعمال ہوگا یا پھر پاکستان کے خلاف استعمال ہوگا؟ وہ ایسانہیں کرسکتے کیونکہ دونوں ممالک جوہری طاقتیں ۴ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑے بڑے کارپوریٹ ادارے جتنے زیادہ جدید ترین اسلحہ بناتے جائیں گے اُتنا زیادہ روایتی جنگ کا خدشہ کم ہوتا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو خطرات دہشت گردوں کی طرف سے آرہے ہیں اُنھیں جدید ترین ترین ٹینکوں، جنگی طیاروں یا تارپیڈو کے وار سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

یقینا تمام ممالک اس روش پر چل رہے ہیں لیکن بھارت سب سے بڑھ کر چل رہا ہے۔ جاسوسی کے آلات اور نگرانی کے آلات کا طوفان اُمڈ پڑا ہے، حالانکہ روایتی اسلحے کا زیادہ تر استعمال نیو دہلی میں راج پتھر کی روایتی پریڈ کے دوران ہوتا ہے، اور محض دکھاوے پر مبنی ڈرامے کے لیے سرمایہ کاری کی طرح بن جاتا ہے۔ اس ملک میں جہاں اربوں، کھربوں روپے، خوف پر مبنی   خارجہ پالیسی کے تحت اسلحے کی خریداری میں جھونک دیے جاتے ہیں عام آدمی ۲۰روپے روزانہ سے بھی کم پر گزارا کررہا ہوتا ہے۔

  •  اس گفتگو سے واضح ہوا ہے کہ بھارت میں رہتے ہوئے سرکاری موقف سے مختلف نقطۂ نظر پیش کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے لیکن آپ نے یہ بھی لکھا ہے: ’’اس قدر تشدد اور لالچ کے درمیان ابھی بھی کافی اُمید باقی ہے‘‘ یہ اُمید آپ کیسے دیکھتی ہیں؟
  •   اُمید مجھے صرف عام لوگوں کی آنکھوں میں نظر آتی ہے۔ اب ۲۰۱۱ء ہے، احتجاج بڑھ چکا ہے۔ ریاست کا ظلم ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ ہزاروں مزاحمت کار جیلوں میں ہیں لیکن اُن کے جذبے اور تحریک کو دبایا نہیں جاسکا۔ آخر دنیا میں کسی اور جگہ یہ کب ہوا ہے کہ دنیا کے امیر ترین کارپوریٹ اداروں نے ریاست کے ساتھ مل کر عوام کو دبانے کی کوشش کی ہو لیکن وہ اس مقصد میں ناکام رہے ہوں اور تمام تر مزاحمتی گروہ آپس کے اختلافات اور اختلاف راے کے باوجود، ان طاقت وروں کو روکنے میں کامیاب رہے ہوں۔ یقینا یہ اُن کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس لیے ہمیں مزاحمت کاروں کو سلام پیش کرنا چاہیے۔
  •  ابھی حال ہی میں آپ کے گھر پر حملہ کیا گیا ہے؟
  •   وہ جب قانونی کارروائی نہیں کرسکتے تو پھر گھر پر حملہ کروا دیا جاتا ہے۔ اس کا مسلسل خطرہ بھی موجود رہتا ہے۔ اس سال کے آغاز میں آزادیِ کشمیر کے حق میں تقریر کرنے کی پاداش میں مجھ پر غداری کا مقدمہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن پولیس کارروائی کرنے سے گھبرا رہی ہے کیونکہ اس طرح مسئلۂ کشمیر بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کرلے گا۔ اس لیے کہ مجھ سے بہت کچھ جڑا ہوا ہے۔ بہرحال یہ خطرہ تو موجود رہے گا لیکن دوسری طرف جب میں معصوم، بے گناہ لوگوں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے دیکھتی ہوں، نوجوانوںکو بدترین عقوبت خانوں میں موت کی سی اذیت برداشت کرتے ہوئے دیکھتی ہوں، یا پھر بھارت کے غریب ترین افراد کا معاشی استحصال ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں، ایسے غریب لوگ جو اپنی گزربسر بھی انتہائی مشکل سے کرتے ہیں۔ اُن کو جیل میں ڈال دیا جاتاہے۔ وہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ خود کو ناکردہ جرائم سے چھڑانے کے لیے وکیل کا انتظام بھی نہیں کرسکتے۔ ان کی غیرموجودگی میں اُن کا خاندان معاشی طور پر تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لیے اردگرد کے ماحول پر ایک سرسری نگاہ مجھے ان مظلوم لوگوں اور اہلِ کشمیر کے لیے آواز بلند کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مجھے اپنے غم انتہائی کم اور چھوٹے لگنے لگتے ہیں اور میرا حوصلہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے ان حالات کے تناظر میں مجھ پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ارون دتی راے معروف ناول نگار اور تجزیہ نگار ہیں اور مین بوکر پرائز (۱۹۹۷ء) اور سڈنی امن پرائز (۲۰۰۴ء) حاصل کرچکی ہیں

توجہ: ’حقوقِ نسواں ایکٹ کے خلاف عدالتی فیصلہ‘ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (جولائی ۲۰۱۱ء) میں مضمون کی تیاری میں ’ویمن کمیشن جماعت اسلامی‘ کی سفارشات کا حوالہ دیا گیا تھا جو صحیح نہیں۔ درست حوالہ ’ویمن اسلامک لائرز فورم‘ (WIL Forum) ہے۔ (ادارہ)

تیونس کے انتخابات کے نتائج

گندھے ہوئے سفید بالوں والے ایک ۷۰سالہ تونسی باباجی مظاہروں کے لیے سڑکوں پر کھڑے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے: ’’نوجوانو!  تیونس کو آج تم نے بچانا اور کامیاب بنانا ہے‘‘۔ پھر اپنے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے:’’ہم تو اسی تاریخی لمحے کی خاطر بڑھاپے کی نذر ہوچکے ہیں‘‘۔ نوجوانوں نے اپنی تقریباً تین ہفتے کی تحریک اور سیکڑوں جانوں کی قربانیاں دے کرتیونسی ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ تقریباً ۱۰ماہ کے بعد تیونس کی تاریخ میں پہلی بار آزادانہ انتخابات منعقد ہوئے۔ ذرائع ابلاغ نے آج پھر اسی تیونسی باباجی کو تلاش کرڈالا۔ معلوم ہوا کہ بن علی کے مظالم سے تنگ آکر وہ سعودیہ چلے گئے تھے۔ محنت مزدوری کرتے رہے، پھر زیادہ مشقت کے قابل نہ رہے تو تیونس واپس آکر آج کل ایک کیفے ٹیریا چلارہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے انھیں ان کا وہ جملہ یاد دلایا جسے ذرائع ابلاغ نے تیونسی تحریک کا عنوان بنادیا تھا۔ باباجی بے اختیار کہنے لگے: ’’وہ لمحہ واقعی تاریخی لمحہ تھا۔ تیونس اب اپنی تاریخ کا بالکل نیا باب رقم کررہا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے گندھے ہوئے بالوں والا بابا زار و قطار رونے لگا۔ لیکن آج اس کے یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ آج وہ اپنے ملک میں آزاد تھا اور ہزاروں شہریوں کو جیل میں ڈالنے والا اور لاکھوں شہریوں کو ملک بدر کرنے والا بن علی خود سعودی عرب میں پناہ لیے ہوئے تھا۔

آج باباجی ہی نہیں تیونس کا ایک ایک نوجوان آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے ،دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے ووٹ ڈال رہا تھا۔ الیکشن کا ڈھونگ تو بن علی بھی ہر چار پانچ سال بعد رچاتا تھا، لیکن اس کے نتائج پہلے سے طے اور معلوم ہوتے تھے۔ ۲۳؍اکتوبر۲۰۱۱ء کے انتخابات کو    عوام نے ’عید الانتخابات‘ (انتخابی عید) قرار دیا۔ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ  شام سات بجے پولنگ کا وقت ختم ہوجانے کے بعد جو ووٹر انتخابی سٹیشن کے احاطوں میں آگئے تھے وہ رات ۱۲ بجے تک ووٹ ڈالتے رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ووٹنگ کا تناسب ۸۰ فی صد اور   کئی علاقوں میں ۹۰ فی صدسے بھی زیادہ ہے۔ پورا انتخابی عمل پُرامن رہا۔ لوگ دن بھر طویل قطاروں میں لگے رہے لیکن کہیں کوئی تشدد آمیز واقعہ پیش نہیں آیا۔

۲۰ مارچ ۱۹۵۰ء کو فرانس سے آزادی حاصل ہونے کے بعد صرف بن علی اور اس کے  پیش رو حبیب بورقیبہ ہی تیونس کے حکمران رہے۔ دونوں کا سب سے بڑا ہدف بھی اسلام اور  اسلام پسند افراد ہی رہے۔ بورقیبہ نے ۱۹۸۱ء میں صدارتی فرمان نمبر ۱۰۸ جاری کرتے ہوئے  ’فرقہ وارانہ لباس‘ پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس قانون سے اصل مراد خواتین کے حجاب پر پابندی تھی۔ فرقہ واریت کا نام دیتے ہوئے حجاب کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ ۱۹۸۷ء میں جب بن علی نے اپنے گرو کا تختہ اُلٹا تو سب سے زیادہ سختی اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے برتی گئی۔ کسی بھی سرکاری دفتر، تعلیمی ادارے یا ہسپتال میں سر پر اسکارف لینے والی خواتین کا داخلہ سختی سے بند کردیا گیا۔ سیکڑوں طالبات صرف اسکارف کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہنے پر مجبور ہوگئیں۔ کئی خواتین ہسپتالوں کے دروازوں پر دم توڑ گئیں کہ وہ سکارف اتارنے پر تیار نہ تھیں۔ نمازوں کے لیے مسجد جانے والے نوجوانوں کو چن چن کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ تیونس کی اسلامی تحریک کو کالعدم   قرار دے دیا گیا۔ اس کے ۳۰ہزار کارکنان گرفتار کرلیے گئے۔ سرکاری ذرائع ابلاغ اسے عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے رہے۔ بن علی کے جانے کے بعد آج پہلے انتخابات ہوئے تو عوام نے اسی اسلامی تحریک کو سب سے زیادہ ووٹ ڈالے۔

تیونس کی آبادی ایک کروڑ ۷ لاکھ کے قریب ہے۔ ووٹروں کی تعداد ۴۱ لاکھ ہے۔    حالیہ انتخابات میں ۲۱۷ نشستوں پر چناؤ ہوا، جن کے لیے ۱۲ ہزار اُمیدوار میدان میں تھے لیکن انتخابات متناسب نمایندگی کی بنیاد پر ہوئے۔ بن علی کے دور میں صرف حکمران پارٹی کا تسلط تھا۔ باقی یا تو براے نام تھیں یا کالعدم قرار دے دی گئی تھیں۔ اب آزادی ملی تو ۱۵۰ سے زائد پارٹیاں وجود میں آگئیں۔ انتخابات سے پہلے ہی سب کہہ رہے تھے کہ اسلامی تحریک نہضت پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ ۹؍اکتوبر کو نہضت پارٹی کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو وہ بھی بتارہے تھے کہ اگرچہ ہم گذشتہ ۲۰ برس سے ملک بدری اور کالعدم قرار دیے جانے کی قیمت چکا رہے تھے، ہماری مصروفیات بھی عملاً صرف یہ رہ گئی تھیں کہ اپنے گرفتار کارکنان کے   اہل خانہ کی کچھ نہ کچھ امداد کرتے رہیں، لیکن اب بحال ہوئے ہیں تو چند ماہ میں ہمارے تقریباً ۲۰ہزار ارکانِ جماعت نے پورے ملک میں وسیع پیمانے پر عوامی تائید حاصل کرلی ہے۔ تحریک نہضت کے مقابل کوئی قابل ذکر پارٹی نہیںرہی۔ اگر ہم سے ہماری کامیابی زبردستی نہ چھین لی گئی تو ہم سب سے بڑی پارٹی بنیں گے۔ ہم نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی پارٹی کے دروازے پوری قوم کے لیے کھولتے ہوئے اور دیگر پارٹیوں کو بھی ساتھ ملاتے ہوئے آیندہ نظام حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کریں۔ ۲۴؍اکتوبر کو شیخ راشد غنوشی کے دفتر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق تحریک نہضت کو ۵۲فی صد ووٹ اور ۲۱۷ میں سے ۱۱۵نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ سادہ اکثریت تو الحمد للہ مل گئی،  لیکن اب آیندہ مراحل مشکل تر ہیں۔

اب دستور ساز اسمبلی کو عبوری حکومت تشکیل کرنا اور ملک کو ایک نیا دستور دینا ہے۔ ایک سال کے بعد دستور پر ریفرنڈم اور پھر پارلیمانی و صدارتی انتخابات منعقد ہونا ہیں۔ یہ تمام مراحل مشکل تر ہیں۔ یورپ بالخصوص فرانس تیونس کے رگ و پے میں پنجے گاڑے ہوئے ہے۔  شیخ راشد غنوشی اور ان کے ساتھی بھی اللہ پر راسخ ایمان اور نظریات سے مکمل وابستگی کے ساتھ ساتھ حکمت اور وسعت قلبی سے پوری قوم کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ حالیہ نتائج نے قوم کو مزید یکسو کیا ہے۔ عام شہری بھی کہہ رہے ہیں: ’’آج کا انتخاب اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے‘‘۔ فرمان خداوندی کی حقانیت دنیا دیکھ اور تسلیم کررہی ہے: وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o (القصص۲۸:۵)، ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں‘‘۔

۲۰۱۱ء کے آغاز میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عالم عرب میں جبر واستبداد کے نظام سے نجات مل سکتی ہے۔ تیونس کے اسلام دشمن حکمران سے نجات ابرِ رحمت کاپہلا قطرہ تھا۔ آج وہاں کے انتخابی نتائج نے تبدیلی کے ایک اور سفر کا آغازکردیا ہے ۔ ان شاء اللہ انتخابی کامیابیوں کا یہ قافلہ اگلے ماہ مصر پہنچے گااور اس کے چھے ماہ بعد لیبیا میں چار عشروںکے بعد، پہلے حقیقی انتخابات ہونا ہیں۔ آج وہاں بھی خوشی کے آنسو رواں ہیں۔

لیبیا میں قذافی کا زوال

لیبیا کے دوسرے بڑے شہربن غازی کے بڑے میدان میں لاکھوں لوگ جمع تھے ۔ عبوری کونسل کے سربراہ مصطفی عبدالجلیل خطبہ حجۃ الوداع کا اقتباس پیش کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’اے اہل لیبیا ! ہمارے خون، ہمارے مال اور ہماری عزتیں ہم پر حرام کردی گئیں ہیں۔ ہمیں سب کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا ہے۔ ‘‘انھوں نے گرفتاری کے بعد معمر القذافی اور اس کے بیٹے کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہم قذافی پر مقدمہ چلاکر ظلم کا حساب لینا چاہتے تھے، انھیں قتل کرنے میں ہمارا کوئی مفاد نہیں تھا، ہم تحقیقات کریں گے کہ انھیں کس نے اور کیوں قتل کیا۔ پھر جب انھوں نے اعلان کیا کہ اب ہم آزاد ہیں اور ہمیں ایک آزاد مسلمان شہری کی حیثیت سے فیصلے کرنا ہیں۔ گذشتہ حکومت نے ہم پر ظلم ڈھائے ہیں لیکن خبردار رہو کہ ہمیں کسی سے انتقام نہیں لینا، تو مجمع میں اکثر خواتین نے پہلے تو ہونٹوں پر ہاتھ کی کپی بناتے ہوئے عرب خواتین کا معروف اظہار مسرت بلند کیا اور ساتھ ہی پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ جبر کا نظام لد گیالیکن خوشی کے آنسو ڈکٹیٹر سے نجات کا اعلان کررہے تھے۔

۴۲ سال تک بلا شرکت غیرے سیاہ وسفید کا مالک بنے رہنے والا معمر القذافی عجیب شخص تھا۔ وہ ایک طرف تو مغرب اور اس کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتا تھا ۔پوری دنیا میں انقلابی قوتوں کی حمایت کا اعلان کرتا ۔ لیکن اپنے ملک میں لوگوں کی تمام تر آزادیاں سلب کیے ہوئے تھا۔ اگر اس کے ۴۲ سال اقتدار اور اس کے پورے نظام پر کوئی بات بھی نہ کریں، تب بھی گذشتہ فروری میں اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کے حوالے سے اس کی پالیسی ہی اس کا سب سے ناقابلِ معافی جرم قرار پاتا ہے۔ تحریک شروع ہوئی تو اسے القاعدہ اور دہشت گردوں کی تحریک قرار دیتے ہوئے سختی سے نمٹنے کا اعلان کردیا۔ مظاہرے پھر بھی نہ رُکے تو عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے انھیں فرمایا: ’’تم ہوتے کون ہو مجھ سے استعفا طلب کرنے والے___ میں اگر صرف تمھارے ملک کا سربراہ ہوتاتو استعفا تمھارے منہ پر دے مارتا___ میں شہنشاۂ افریقا ہوں اور دنیا کے کروڑوں عوام میرے ساتھ ہیں‘‘۔ پھر فوجوں کو حکم دیتے ہوئے کہا: ’’یہ کاکروچ ہیں___ چوہے ہیں___ انھیں پٹرول چھڑک کر بھسم کردو‘‘۔ رمضان المبارک کے آخر میں جب طرابلس پر بھی عوا م کا قبضہ ہوگیا تب بھی قذافی نے آڈیو کیسٹ کے ذریعے تقاریر جاری رکھیںاور ہر بار لیبیا کے عوام کوــ’ جرذان‘ (چوہے) قرار دیتے ہوئے انھیں مارڈالنے کا حکم ہی سناتے رہے ___ آخر کار جب پکڑے گئے تو ہاتھ میں سونے کا پستول تھا لیکن نالے کے ایک پائپ میں چھپے ہوئے تھے___ گرفتار کرنے والے کئی جذباتی نوجوان چیخ کر کہہ رہے تھے: یاجرذ ___یا جرذ، سبحان اللہ! زندہ گرفتار کرنے کے بعد تشددکرنا اور قتل کردینا اسلام کی جنگی تعلیمات کے یقینا منافی ہے لیکن اُولی الابصار کے لیے اس میں بھی بڑی عبرت ہے۔

ناٹو افواج کی بھرپور اور ہمہ جہت موجودگی بھی ایک بڑا سوالیہ نشان اور سنگین چیلنج ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر قذافی اتنا ظلم نہ ڈھاتا ، اپنے ہی ملک پر فوج کشی کرتے ہوئے ہزاروں افراد کا قتل شروع نہ کردیتا تو کسی ناٹو کو مداخلت کا بہانہ نہ ملتا۔ آخر تیونس اورمصر میں بھی تو عوامی تحریک ہی کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہے اور کوئی بیرونی فوج براہِ راست وہاں نہیں آسکی، حالانکہ اسرائیل کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے مصر کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔

حماس اور اسرائیل میں قیدیوں کا تبادلہ

عالمِ عرب کے انقلابات میں امریکا اور یورپ کے لیے سب سے اہم سوال اسرائیل کا دفاع اور اس کا مستقبل ہی ہے ۔ اسرائیل کے حوالے سے اس ماہ اہم ترین پیش رفت حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔ پانچ برس پہلے اغوا ہونے والے اسرائیلی فوجی گلعاد شالیت کی رہائی کے مقابل حماس نے ۱۰۲۷ قیدی رہا کروانے کا معاہدہ کیاہے۔ ان میں سے ۴۷۷ قیدی رہا ہوچکے ہیں اور ۵۵۰ آیندہ ماہ رہا ہوں گے۔ دنیا کے تمام تجزیہ نگار اسے حماس کی عسکری، سیاسی اور اخلاقی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔پانچ سال تک غزہ ہی میں رکھے جانے کے باوجود اسرائیل اپنے تمام تر جاسوسی اور عسکری جبروت کے باوجود اپنے فوجی کا سراغ نہیں لگا سکا۔ جنگ سمیت مختلف مراحل سے گزرنے کے باوجود حماس نے بے صبری نہیں دکھائی اور بالآخر زیادہ سے زیادہ تعداد میں قیدی رہا کروالیے۔ اخلاقی بلندی اتنی کہ حماس نے اپنے کارکنان سے زیادہ دوسری تنظیموں کے قیدی رہا کروائے۔ اس معاہدے میں مصر کا کردار بھی مثبت رہا ہے ۔ پہلے بھی کئی بار مذاکرات ہوئے لیکن ہر بار حسنی مبارک انتظامیہ نے صرف اس وجہ سے کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردی کہ قیدیوں کی رہائی کا تمام تر سہرا حماس کے سر بندھے گا۔

اہلِ فلسطین اس معاہدے کو عرب انقلاب کے اہم ثمر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ رہائی پانے والوں میں ایسے ایسے قیدی ہیں کہ جنھوں نے آزادی کا سوچنا تک چھوڑ دیا تھا۔ سب سے پرانے فلسطینی قیدی نائل البرغوثی ۳۳برس قید کے بعد باہر آئے ہیںتو پوری تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کا شیر خوار بیٹا اب خود بچوں کا باپ بن چکا ہے۔ ۳۱سالہ خاتون قیدی احلام التمیمی ۱۰سال سے قید تھی اور اسے ۱۶ بار عمر قید، یعنی تقریباً ۲۰۰سال قید کی سزا سنائی جا چکی تھی۔ اسرائیل کی تاریخ میں اتنی لمبی سزا کسی کو نہیں سنائی گئی۔ وہ بھی رہا ہوکر اہل خانہ میں آچکی ہیں۔ احلام سمیت تمام قیدیوں نے ایک ہی بات کہی کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ حماس کے شکرگزار ہیں کہ وہ دشمن سے اس کی زبان میں بات کر رہی ہے۔ صحافی نے احلام سے پوچھا: ’’خود آپ نے یہ ساری مدت کیسے گزاری؟‘‘ فوراً کہنے لگی:’’ اپنے اللہ کے ساتھ رہ کر___ اگر ایمان کی دولت نہ ہوتی تو آج میں تمھارے سامنے نہ ہوتی‘‘ ۔ ایک اور قیدی حسن سلامہ کا استقبال کرنے کے لیے، اس کی بوڑھی والدہ خود سرحد پر آئی ہوئی تھی۔ ان سے پوچھا گیا:’’ اماں جی! کیا آپ کو امید تھی کہ بیٹا رہا ہوجائے گا؟ کہنے لگیں: ’’جب سے بیٹا جیل میں گیا تھا، ایک دن کے لیے بھی دل کی یہ امید نہیں ٹوٹی کہ بیٹا ضرور رہا ہوگا‘‘۔ واضح رہے کہ حسن ۳۰ سال بعد رہا ہوا تھا، گذشتہ پانچ سال تو مکمل قید تنہائی میں گزارے۔ اہل خانہ تو کجا جیل میں موجود قیدی بھی ملاقات نہ کرسکتے تھے۔ آج جب ماں کہہ رہی تھی ۳۰سال میں ایک دن بھی امید کی لڑی نہیں ٹوٹی تو ساتھ ہی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہوگئی___ خوشی کے آنسوؤں کی!

 

نیکی کی راہ میں مشکلات کیوں؟

سوال:  آج سے ایک سال قبل دنیا کے جملہ افعالِ بد سے دوچار تھا، لیکن دنیا کی بہت سی آسانیاں مجھے حاصل تھیں۔ میں نہ کسی کا مقروض تھا اور نہ منت کش۔ اور اب، جب کہ میں ان تمام افعالِ بد سے تائب ہوکر بھلائی کی طرف رجوع کرچکا ہوں، دیکھتا ہوں کہ ساری فارغ البالی ختم ہوچکی ہے اور روٹی تک سے محروم ہوں۔ سوال یہ ہے کہ  اچھے اور نیک کام کرنے والوں کے لیے دنیا تنگ کیوں ہوجاتی ہے، اور اگر ایسا ہے تو لوگ آخر بھلائی کی طرف کا ہے کو آئیں گے؟ یہ حالت اگر میرے لیے آزمایش ہے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے، تو یہ منزل میں کس طرح پوری کروں گا؟

جواب:  آپ جس صورت حال سے دوچار ہیں اس میں میری دلی ہمدردی آپ کے ساتھ ہے، اور میں آپ کا دل دکھانا نہیں چاہتا، لیکن آپ کی بات کا صحیح جواب یہی ہے کہ آپ فی الواقع آزمایش ہی میں مبتلا ہیں، اور اس منزل سے بخیریت گزرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ آپ    خدا و آخرت کے متعلق اپنے ایمان کو مضبوط کرکے صبر کے ساتھ نیکی کے راستے پر چلیں۔

آپ کو اس سلسلے میں جو اُلجھنیں پیش آرہی ہیں ان کو رفع کرنے کے لیے میں صرف چند اشارات کرنے پر اکتفا کروںگا۔

بدی کی راہ آسان اور نیکی کی راہ مشکل ہونے کی جو کیفیت آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا موجودہ اخلاقی، تمدنی، معاشی اورسیاسی ماحول بگڑا ہوا ہے۔   اس ماحول نے بہ کثرت ایسے اسباب پیدا کر رکھے ہیں جو بُرے راستوں پر چلنے میں انسان کی   مدد کرتے ہیں اور بھلائی کی راہ اختیار کرنے والوں کی قدم قدم پر مزاحمت کرتے ہیں۔ اگر خدا کے صالح بندے مل کر اس کیفیت کو بدل دیں اور ایک صحیح نظامِ زندگی ان کی کوششوں سے قائم ہوجائے توان شاء اللہ نیکی کی راہ بہت کچھ آسان اور بدی کی راہ بڑی حد تک مشکل ہوجائے گی۔ ایسا وقت آنے تک لامحالہ ان سب لوگوں کو تکالیف و مصائب سے دوچار ہونا ہی پڑے گا جو اس بُرے ماحول میں راہِ راست کو اپنے لیے منتخب کریں۔

تاہم، یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ نیکی بجاے خود اپنے اندر دشواری کا ایک پہلو رکھتی ہے، اور اس کے برعکس بدی کی فطرت میں ایک پہلو آسانی کا مضمر ہے۔ آپ بلندی پر چڑھنا چاہیں تو بہرحال اس کے لیے کسی نہ کسی حد تک محنت کرنی ہی پڑے گی، چاہے ماحول کتنا ہی سازگار بنا دیا جائے۔ لیکن پستی کی طرف گرنے کے لیے کسی کوشش اور محنت کی ضرورت نہیں۔ ذرا اعصاب کی بندش ڈھیلی کرکے لڑھک جایئے، پھر تحت الثریٰ تک سارا راستہ بغیر کسی سعی و محنت کے خود طے ہوجائے گا۔

آپ پوچھتے ہیں کہ اگر اچھے کام کرنے والوں کی زندگی تنگ ہوجاتی ہے تو دنیا اس طرف رُخ ہی کیوں کرے گی؟ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اگر اچھے کام کرنے والوں کو دنیا کی تمام سہولتیں اور آسایشیں بہم پہنچنے لگتیں، اور بُرے کام کرنے والوں پر آفتیں ٹوٹ جایا کرتیں تو پھر کون ایسا احمق تھا کہ برائی اختیار کرتا اور بھلائی سے منہ موڑتا۔ پھر تو کامیابی آسان اور ناکامی دشوار ہوتی،  جزا سستی اور سزا مہنگی ہوجاتی، انعام مفت ملتا اور عذاب پانے کے لیے محنت کرنا پڑتی۔

کیا اس کے بعد دنیا کی اس امتحان گاہ میں انسان کو بھیجنے کا کوئی فائدہ تھا؟ اور کیا اس کے بعد نیک انسانوں کی نیکی کسی قدروقیمت کی مستحق قرار پاسکتی تھی، جب کہ ان کو نیکی کے راستے طے کرنے کے لیے قالین بچھا کے دیے گئے ہوں؟ درحقیقت اگر ایسا ہوتا تو جنت کے بجاے جہنم کی طرف جانے والے زیادہ قابلِ قدر ہوتے!

آپ کا یہ سوال ایک اور لحاظ سے بھی عجیب ہے۔ آپ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ لوگوں کے راہِ راست پر آنے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی اپنی غرض اٹکی ہوئی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر آپ پوچھتے ہیں کہ اگر راہِ راست مشقتوں اور آزمایشوں سے بھری ہوئی ہے تو دنیا اس راہ پر آئے گی ہی کیوں؟ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ راہِ راست اختیار کرنے میں لوگوں کا اپنا فائدہ ہے نہ کہ خدا کا، اور اس کے خلاف چلنے میں لوگوں کا اپنا نقصان ہے نہ کہ خدا کا۔ خدا نے انسان کے سامنے دو صورتیں رکھ دی ہیں اور اسے اختیار دے دیا ہے کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے۔ ایک یہ کہ وہ اس زندگی کے چند روزہ مزوں کو ترجیح دے کر آخرت کا ابدی عذاب قبول کرلے۔ دوسری یہ کہ وہ آخرت کی بے پایاں راحت و مسرت کی خاطر ان تکلیفوں کو گوارا کرے جو دین و اخلاق کے ضابطوں کی پابندی کرنے میں لامحالہ پیش آتی ہیں۔ لوگوں کا جی چاہے تو وہ پہلی صورت کو پسند کریں۔ اگر ساری دنیا مل کر بھی اپنے انتخاب میں یہ غلطی کرگزرے تو خدا کا کچھ نہ بگاڑے گی۔ خدا اس سے بے نیاز ہے کہ لوگوں کے صحیح انتخابِ راہ سے اس کا کوئی مفاد وابستہ ہو۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، رسائل و مسائل، دوم، ص۲۸۶-۲۸۸)

سحر کی حقیقت اور معوذتین کی شانِ نزول

س: معوذتین کی شانِ نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضور علیہ السلام پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے پڑھنے سے اس کا زائل ہوجانا بحوالہ احادیث تحریر فرمایا ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ نیز جادو کی حقیقت کیا ہے؟ بعض اشخاص حضورعلیہ السلام پر جادو کے اثر کو منصب ِ نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں؟

ج:  شانِ نزول کے بارے میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینے کی ہے کہ مفسرین جب کسی واقعے کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جب واقعہ پیش آیا اسی وقت وہ آیت نازل ہوئی تھی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس واقعے سے اس آیت کا تعلق ہے۔

مُعَوِّذَتَیْن کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ وہ مکے میں نازل ہوئی ہیں اور احادیث میں جادو کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بداہتاً غلط ہے کہ جب جادو کا وہ واقعہ پیش آیا اس وقت یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضوؐر کو ان سورتوں کے پڑھنے کی ہدایت فرمائی گئی۔

جادو کی حقیقت اگر آپ سمجھنا چاہیں تو قرآنِ مجید میں حضرت موسٰی ؑکا قصہ پڑھیں۔ جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کے جو سانپ بنائے تھے وہ حقیقت میں سانپ نہیں بن گئے تھے، مگر اس مجمع نے جو وہاں موجود تھا یہی محسوس کیا کہ یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، حتیٰ کہ خود حضرت موسٰی ؑکی آنکھیں بھی پیغمبر ہونے کے باوجود اس قدر مسحور ہوگئیں کہ انھوں نے بھی انھیں سانپ ہی دیکھا۔ قرآنِ مجید کا بیان ہے: فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ (الاعراف ۷:۱۱۶) ’’جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کر دیا اور انھیں مرعوب کر دیا‘‘۔ فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَ عِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی o فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۶۶-۶۷) ’’پس یکایک  ان کے جادو کی وجہ سے ان کی لاٹھیاں اور رسیاں موسٰی ؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں اور موسٰی ؑاپنے دل میں ڈر گیا‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ جادو قلب ماہیت نہیں کرتا بلکہ ایک خاص قسم کا نفسیاتی اثر ڈال کر آدمی کے حواس کو متاثر کردیتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جادو کی یہ تاثیر عام انسانوں پر ہی نہیں، انبیا ؑپر بھی ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اس ذریعے سے کوئی جادوگر کسی نبی کو شکست نہیں دے سکتا،  نہ اس کے مشن کو فیل کرسکتا ہے، نہ اسے اس حد تک متاثر کرسکتا ہے کہ وہ جادو کے زیراثر آکر منصب نبوت کے خلاف کوئی کام کرجائے، لیکن بجاے خود یہ بات کہ ایک نبی پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے، خود قرآن سے ثابت ہے۔

احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہونے کی جو روایات آئی ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی عقل، تجربے اور مشاہدے کے خلاف نہیں ہے، اور نہ قرآن کی بتائی ہوئی اس حقیقت کے خلاف ہے جس کی میں نے اُوپر تشریح کی ہے۔ نبی اگر زخمی یا شہید ہوسکتا ہے تو اس کا جادو سے متاثر ہو جانا کون سی تعجب کی بات ہے؟ روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ چند روز تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نسیان سا لاحق ہوگیا تھا اور وہ بھی تمام معاملات میں نہیں بلکہ بعض معاملات میں جزوی طور پر۔ (ا-م، ایضاً، ص ۵۳-۵۴)

اسلام بلاجماعت

س:  جو شخص آپ کی جماعت کے اصولوں کے مطابق اپنی جگہ حتی المقدور صحیح اسلامی زندگی بسر کر رہا ہو وہ اگر بعض اسباب کے ماتحت باقاعدہ جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

ج:  اس کے متعلق میرا وہی خیال ہے جو احادیث سے ثابت ہے کہ صحیح اسلامی زندگی جماعت کے بغیر نہیں ہوتی۔ زندگی کے صحیح اسلامی زندگی ہونے کے لیے سب سے مقدم چیز اسلام کے نصب العین (اقامت ِدینِ حق) سے وابستگی ہے۔ اس وابستگی کا تقاضا ہے کہ آدمی نصب العین کے لیے جدوجہد کرے، اور جدوجہد اجتماعی طاقت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا جماعت کے بغیر کسی زندگی کو صحیح اسلامی زندگی سمجھنا بالکل غلط ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص ہماری اس جماعت میں شامل نہ ہو اور کسی اور ایسی جماعت سے اس کا تعلق ہو جو یہی نصب العین رکھتی ہو اور جس کا نظامِ جماعت اور طریق جدوجہد بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اس صورت میں ہم اس کو برسرِہدایت ماننے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے کہ آدمی صرف ان طریقوں کی پابندی پر اکتفا کرتا رہے جو شخصی کردار کے لیے شریعت میں بتائے گئے ہیں اور اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔ ہم ایسی زندگی کو کم از کم      نیم جاہلیت کی زندگی سمجھتے ہیں۔ ہمارے علم میں اسلامیت کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اگر آدمی کو اپنے گردوپیش ایسی کوئی جماعت نظر نہ آتی ہو جو اسلام کے اجتماعی نصب العین کے لیے اسلامی طریقے پر سعی کرنے والی ہو، تو اسے سچے دل سے ایسی ایک جماعت کے وجود میں لانے کی سعی کرنی چاہیے، اور اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جب کبھی ایسی جماعت پائی جائے وہ اپنی انانیت چھوڑ کر ٹھیک ٹھیک جماعتی ذہنیت کے ساتھ اس میں شامل ہوجائے۔ (ا-م، رسائل و مسائل، اوّل، ص ۳۱۸-۳۱۹)

 

نعیم صدیقی، علمی و ادبی خدمات، ڈاکٹر عبداللہ شاہ ہاشمی۔ ناشر: ادبیات، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۶۱۴۰۸-۰۴۲۔ صفحات: ۴۹۶۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

بیسویں صدی میں مسلم نشاتِ ثانیہ میں علامہ اقبال نے اہم کردار اداکیا۔ ان کے بعد دوسرا بڑا نام مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا ہے جنھوں نے مسلم اُمّہ کے درد کو اپنے دل میں محسوس کیا اور ہمہ وقت اس کی چارہ گری اور مسیحائی میں مصروف رہے۔

جناب فضل الرحمن، نعیم صدیقی (۱۹۱۶ء-۲۰۰۲ء) مولانا مودودی کے دیرینہ اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ ایک پختہ گو شاعر، ادیب، مفکر اور صحافی تھے۔ ان کی قلمی کاوشیں زیادہ تر جماعت اسلامی کی فکر سے وابستہ رسائل و جرائد (ایشیا، چراغ راہ، تسنیم، کوثر اور ترجمان القرآن وغیرہ) میں شائع ہوتی رہیں۔ خود انھوں نے سیارہ کے نام سے ایک وقیع علمی و ادبی جریدہ جاری کیا جو آج بھی حفیظ الرحمن احسن کی زیر ادارت شائع ہو رہا ہے۔ زیرنظر کتاب جناب نعیم صدیقی کی علمی و ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کا ایک تحقیقی مقالہ ہے۔

مصنف نے نعیم صدیقی کے سوانح اور خاندانی پس منظر کی تلاش و تحقیق میں خاصی عرق ریزی سے کام لیاہے۔ نعیم صاحب ہمہ جہت ادیب تھے۔ وہ بہ یک وقت شاعر، افسانہ نویس، مؤرخ، سیرت و سوانح نگار اور طنزنگار تھے۔ مصنف نے ان سب حوالوں سے الگ الگ باب یا ان کی فصول قائم کی ہیں۔ بحث و تمحیص، حوالوں اور معاصرین کے ساتھ موازنے و مقابلے کے بعد نتیجہ اخذ   کیا ہے کہ وہ دورِ جدید کے نہایت اہم شاعر، نثرنگار اور سوانح نگار تھے۔ ان کے ہاں شعرونثر محض لفاظی اور ’ادب براے ادب‘ نہیں بلکہ ان کے خیال میں اصلاحِ معاشرہ اور فلاحِ انسانیت زیادہ اہم چیزیں ہیں۔ ان کا شعری و نثری سرمایہ ایک خاص مقصدِحیات اور ایک متعین نصب العین کا عکاس ہے۔ انھوں نے ادب کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ ایک باب بطور دینی اسکالر بھی قائم کیا گیاہے جس میں قرآن و حدیث اور فقہ پر ان کی مہارت کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ دانی، تعلیمی نظریات اور معاشرتی افکار کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ مقالے کے آخر میں مصنف نے نعیم صدیقی صاحب کی علمی و ادبی اور تحریکی و صحافتی سرگرمیوں کا مجموعی جائزہ پیش کیا ہے۔ ضمیمہ جات کے تحت ان کے مضامین و مقالات کی فہرست، عکسِ تحریر اور شجرۂ نسب (حضرت ابوبکر صدیقؓ ) تک دیا گیا ہے۔ کتاب اپنی پیش کش، زبان و بیان کی سلاست، تحقیق و جستجو اور تنقید و تبصرے کے حوالے سے مصنف کی محنت، لگن اور شوق کی غماز ہے۔

اس سے پہلے نسبتاً ایک مختصر کتاب نعیم صدیقی: حیات و خدمات ادارہ معارف اسلامی لاہور سے ۲۰۰۹ء میںشائع ہوئی تھی جو زیادہ تر تاثراتی مضامین پر مشتمل ہے۔ کتاب ہذا نعیم صدیقی کی حیات اور ان کے افکار کا مربوط، مرتب اور تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے، اس طرح       یہ ان پر اوّلین مستند اور باحوالہ کتاب ہے۔ (قاسم محمود احمد)


ہم نے جماعت اسلامی کو کیسا پایا؟ تالیف: پروفیسر نورور جان۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

جماعتِ اسلامی نے اپنے قیام (۱۹۴۱ء) ہی سے اُمت مسلمہ کو درپیش فکری چیلنج کا بھرپور جواب دیتے ہوئے مغربی تہذیب کے غلبے کے سحر کوتوڑا۔ مزیدبرآں اپنے افکار، لٹریچر، تنظیم اور کردار سے ہرطبقے کے لوگوں کو متاثر کیا اور بہت سوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ زیرتبصرہ کتاب ایسے ہی ۵۹ نفوسِ قدسیہ کے دل چسپ اور ایمان افروز احساسات و جذبات کا گراں قدر مجموعہ ہے۔  قوتِ عمل کو مہمیز دینے والے یہ تاثراتی مضامین اور مکالمات (انٹرویو) کی صورت میں ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو سیّد مودودی کی شخصیت، کردار، ایثاروقربانی، طرزِ استدلال، انداز افہام و تفہیم   اور دل سوزی سے متاثر ہوئے، اور وہ بھی ہیں جو جماعت کی تنظیم، طریق کار سے متاثر ہوئے اور اس قافلۂ عزیمت کے ہمرکاب ہوئے، اور وفاداری بشرط استواری اصل ایمان کا مصداق بن گئے۔

مولانا گوہر رحمان جماعت اسلامی میں آنے کے بعد اپنے اندر آنے والی تبدیلیوں اور کیفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جماعت نے دین کا جامع تصور دیا، علمی غرور سے نجات ملی، عام کارکن کی حیثیت سے کام کرنے اور دین کی تبلیغ کا جذبہ ملا۔ الجہاد فی الاسلام کے مطالعے سے یہ تاثر ملا کہ مولانا مودودی بڑے عالم دین ہیں (ص ۱۷)۔ معروف ادیب    مائل خیرآبادی کو مولانا کی کتاب پردہ کے اسلوب اور زبان کی چاشنی نے اپنا اسیر بنالیا(ص ۵۲)۔ مولانا عروج قادری کو جماعت اسلامی کے کُل ہند اجتماع الٰہ آباد (اپریل ۱۹۴۶ء) کے انتظامات،  نظم وضبط، کارکنوں کی سرگرمی، خلوص، شرکا کی باہمی محبت، مواخات، نصب العین کا شعور، ذمہ داری کا احساس، مقصد زندگی کی تڑپ اور لگن اور پنج وقتہ نمازوں کے اہتمام نے متاثر کیا۔ (ص ۵۴)

متاثر ہونے والوں میں زیادہ تر وہ ہیں جو مولانا مودودی (اور ان کی تحریروں) سے متاثر ہوئے۔ اس لیے کتاب کا نام ’’ہم سید مودودی سے کیسے متاثر ہوئے؟‘‘ زیادہ مناسب تھا۔  تحریکِ اسلامی کے افکار، تاریخی پس منظر، روایات و اقدار، نظامِ تربیت، فکرانگیز لٹریچر اور   تابناک ماضی کو جاننے اور حال اور مستقبل کے لیے عملی رہنمائی کے لیے مفید اور قیمتی لوازمہ ہے۔ تاثرات لکھنے یا بیان کرنے والوں میں اکثریت غیرمعروف لوگوں کی ہے، ان کا مختصر تعارف بھی دینا چاہیے تھا۔ سرورق پر جماعت اسلامی کا مخصوص ’لوگو‘ دیا گیا ہے، جو روایت اور مصلحت کے منافی ہے۔(عمران ظہور غازی)


تذکار بُگوِیَہْ، ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بُگوی۔ ناشر: مرکزیہ مجلس حزب الانصار پاکستان، جامع مسجد بُگویہ، بھیرہ، ضلع سرگودھا۔ ملنے کا پتا: مکتبہ نبویہ، حزب الاحناف مارکیٹ، گنج بخش روڈ، لاہور۔ صفحات:جلد اول: ۹۱۰، جلد دوم:۹۲۱۔ قیمت (علی الترتیب): ۴۵۰ روپے اور ۸۰۰ روپے۔

زیرنظر تفصیلی تذکرہ دو ضخیم جِلدوں پر مشتمل ہے، جس میں خانوادئہ بُگوِیَہْ کے علما و مشائخ کے حالات اور ان کی دینی، علمی اور تبلیغی خدمات کے ساتھ بعض معاصر شخصیات اور تحریکوں کا ذکر بھی آگیا ہے۔ بُگوِیَہْ خاندان میں ایسے متعدد عالم، محدّث، فقیہ اور صاحب ِقلم بزرگ گزرے ہیں جن کی سرگرمیوں کا محور و مرکز حفاظتِ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت تھا۔ جیساکہ مصنف نے بتایا ہے یہ حضرات ہمیشہ سرکار دربار سے گریزاں اور صاحبانِ اقتدار سے فاصلے پر رہے۔ مناصب، عہدوں اور ملازمتوں کو قبول نہیں کیا۔ توحیدِ خالص اور تصوف براے تزکیۂ نفس کے قائل تھے۔ انھوں نے تحریکِ خلافت، تحریکِ پاکستان اور تحریکِ مدحِ صحابہؓ کی تائید میں، اور قادیانیت، شیعیت اور خاکسارانِ علامہ مشرقی کی تردید میں عملاً حصہ لیا یا ان سب کی مخالفت میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا۔

ان کی قائم کردہ مجلس حزب الانصار کے تحت بھیرہ میں دارالعلوم عزیزیہ، کتب خانہ عزیزیہ اور ماہنامہ شمس الاسلام نے بھی اپنے اپنے دائرے میں مفید خدمات انجام دیں۔ رسالے کے اداریوں کی فہرست (از جولائی ۱۹۴۸ء تادسمبر ۱۹۷۵ء برصفحہ ص ۳۲۰ تا ۳۲۶، جلد دوم) کتاب میں شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمس الاسلام میں مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مفتی سیاح الدین کاکاخیل اور مولانا علی میاں وغیرہ کی تحریریں بھی شائع ہوتی تھیں۔

مجلس کے سالانہ جلسوں اور تبلیغی کانفرنسوں میں ہندستان کے مختلف علاقوں اور مختلف مکاتب ِ فکر کے علما شامل ہوتے تھے۔ غیراسلامی فتنوں کے استیصال کے لیے مجلس کی عسکری تنظیم ’محمدی فوج‘ بھی سرگرمِ کار رہی۔ بُگوِیَہْ علما بریلوی اور دیوبندی تقسیم کے برعکس راہِ اعتدال و اتحاد پر گامزن رہے، چنانچہ مولانا ظہور احمد بُگوِی کی وفات (۱۹۴۵ء) پر تعزیت کرنے والوں میں بہت سے سجادہ نشینوں کے ساتھ نام وَر علماے دیوبند (مثلاًقاری محمد طیب اور مفتی کفایت اللہ وغیرہ) بھی شامل تھے۔

مصنف میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ دائرہ معارف نوعیت کا یہ علمی و تحقیقی کارنامہ انھوں نے فقط اپنے ذوق و شوق اور اجداد کے کارناموں کو محفوظ کرنے کے خیال سے انجام دیا ہے۔ یہ ان کی ۱۰،۱۲ برس کی محنت کا حاصل ہے۔ استناد کے لیے مطبوعہ مآخذ کے علاوہ غیرمطبوعہ اُردو اور انگریزی مصادر (مثلاً دستاویزات، بیاضوں، رقعات وغیرہ) سے بھی مدد لی گئی ہے۔ کتاب تصاویر سے مزین ہے۔ تقطیع بڑی اور قیمت مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


مجلہ جہات الاسلام، مدیراعلیٰ: حافظ محموداختر، مدیر: محمد عبداللہ۔ ناشر: کلیہ علوم الاسلامی، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور۔ صفحات: ۲۷۱۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

کچھ عرصہ قبل اس مجلے کے دو شمارے (بہ ادارت: ڈاکٹر محمد ارشد) شائع ہوئے تھے (تبصرہ: ترجمان ، فروری ۲۰۰۹ء)۔ اب تیسرا شمارہ نئی ادارت کے تحت سامنے آیا ہے۔

محنت سے گریز اور سہولت پسندی کے اس دور میں، علمی و تحقیقی اعتبار سے معیاری مقالات کا حصول آسان نہیں۔ زیرنظر مجلے کے ۵، اُردو ۳، انگریزی اور ۲ عربی مقالات مجموعی اعتبار سے اطمینان بخش حد تک معیاری ہیں، جس پر جہات الاسلام کے مدیر، تحسین کے مستحق ہیں۔ موضوعاتِ تحقیق سب بہت مناسب اور اچھے ہیں، مثلاً: ’وحی اور اس کی کیفیت ِنزول‘ (بعض اعتراضات کا جائزہ)، یا ’صحابہ کرامؓ کے اسالیبِ اجتہاد‘یا، ’نبوتِ محمدیؐ کی آفاقیت‘، اسی طرح ’غیرمسلم معاشرے میں مسلمانوںکے مسائل اور اُن کا حل‘ وغیرہ۔ البتہ مؤخر الذکر مضمون علمی اور تحقیقی نہیں ہے، دل چسپ اور معلومات افزا ضرور ہے۔ ایک طرح کی معلوماتی رپورٹ ہے۔

مضامین کی زبان و بیان کو قدرے آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ ’صحابہ کرامؓ کے اسالیب اجتہاد‘ میں مقالہ نگار کا خطاب اس عام مسلمان سے ہے جس سے اُن کا مطالبہ ہے کہ وہ  اپنی زندگی میں انفرادی طور پر بھی اجتہاد کرے لیکن اس مضمون میں عام قاری کے لیے زبان و بیان بہت اَدق ہے۔ مثلاً چند عنوانات ہی دیکھیے: ’روح تشریع کے ادراک سے غیرمنصوص حکم کی تلاش‘ (ص ۷۳)، ’متحمل الوجوہ نص کی کسی ایک وجوہ کا تعین‘، یا ’نص کی عدم موجودگی میں عمومات و کلیات سے استدلال‘ (ص ۷۷)، ’عام مسلمان‘ (ص ۶۴) کے لیے اس طرح کی گاڑھی زبان سمجھنا اور استفادہ کرنا بہت مشکل ہے۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ چند مضامین میں آیاتِ قرآنی پر اِعراب کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن بعض مضامین میں آیات قرآنی بلااعراب چھوڑ دی گئی ہیں۔ ہمارے خیال میں ایک تحقیقی مجلے میں نہ صرف قرآنی بلکہ حدیث نبویؐ اور جملہ نوعیت کی عربی ، عبارات و اشعار وغیرہ پر اِعراب کا اہتمام ضروری ہے۔ یہ شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۸ء کا ہے، ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ پرچہ بروقت شائع کرنے کے لیے مجلس خصوصی توجہ، بلکہ جدوجہد سے دریغ نہیں کرے گی۔ (ر- ہ)


100-Minutes with The Quran، [قرآن کے ساتھ ۱۰۰ منٹ]، عبدالرشید صدیقی۔ ناشر: ہنڈرڈ منٹس پریس، کینٹربری، برطانیہ۔ صفحات:۱۱۰۔ قیمت:۵ برطانوی پونڈ۔

بائبل، بدھا اور تورات کے ساتھ ۱۰۰، ۱۰۰ منٹ کے بعد، اب اسی ناشر نے ’قرآن کے ساتھ ۱۰۰منٹ‘ شائع کی ہے۔ یہ قرآن سے مختلف آیات کا انتخاب ہے۔ اُردو میں اس طرح کے کئی انتخاب دستیاب ہیں۔ فاضل مرتب کے پیش نظر مغرب کے افراد ہیں تاکہ وہ قرآن کی حتمی تعلیمات سے براہِ راست واقف ہوں اور یہ جانیں کہ بائبل، تورات اور قرآن ایک ہی خالق کی بھیجی ہوئی کتب ِ ہدایت ہیں۔ اس کتاب کو تخلیقِ آدم سے شروع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد قصص الانبیاء ہیں۔ پھر اچھے اور بُرے لوگوں کے جو نمونے قرآن نے بتائے ہیں، وہ پیش کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد بنیادی حقوق وفرائض، عائلی زندگی کے متعلق قوانین، تجارت، سیاست، تعزیر وجرم اور جنگ اور امن کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح قرآنی تعلیمات کا ایک خلاصہ سامنے آگیا ہے۔ اکثر جگہ مرتب نے مختصر تشریح بھی کی ہے جو اپنی جگہ قیمتی ہے اور اہم امور کی وضاحت کرتی ہے۔

قرآن کے علاوہ بھی اسلامی تصورات ہیں۔ ان کو زیربحث نہیں لایا گیا۔ مثلاً فتویٰ کا ادارہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کتاب میں اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ اسے قرآنی آیات کا ایک جامع اور اچھا انتخاب سمجھتے ہوئے اُردو میں شائع کیا جاسکتا ہے۔ اس میں مختصر تشریح اسے ایک منفرد چیز بنا دے گی۔ (مسلم سجاد)


حجاز کے موتی، مؤلف: طارق حجازی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۳۱۸ روپے۔

نیکی اور بدی انسانی فطرت میں گندھی ہوئی ہیں۔ یہ والدین اور اساتذہ کی تربیت، حالات اور ماحول کے عناصر ہیں جو اس کی فطرت کے کچھ عناصر کو نمایاں کردیتے ہیں اور کچھ دیگر عناصر دب جاتے ہیں۔ ایک اصلاح کار، مبلغ اور معاشرے کی حقیقی فلاح چاہنے والا ہمیشہ انسانی فطرت کے مثبت پہلوئوں کو اس طرح اُجاگر کرتاہے کہ وہ منفی رجحانات کا قلع قمع کردیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں مؤلف نے نہایت دل چسپ اور دل نشین انداز میں ایسے واقعات اور ایسی حکایات تحریر کی ہیں جن میں تحیّر بھی ہے اور افسانے کی چاشنی بھی۔ قاری ان ۱۰۰ سے زائد واقعات کو پڑھ کر ان وجوہات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے جو معاشرے کے اضطراب کا باعث ہیں۔ کتاب کے آخر میں چند ادبی موضوعات بھی شامل ہیں جو درست ہونے کے باوجود موضوع سے لگّا نہیں کھاتے۔ مجموعی طور پر کتاب دل چسپ ہے اور سوچ کو مثبت سمت عطا کرتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)

تعارف کتب

  •  حج و عمرہ (فضائل و آداب)، مولانا محمد عابد ندوی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، نزد مقدس مسجد، اُردوبازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۲۹۰۸۹-۰۲۱۔ صفحات: ۳۱۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [حج و عمرہ کی اہمیت، اور افعال کے تذکرے کے ساتھ ساتھ حجراسود، مقامِ ابراہیم، زم زم اور مقاماتِ حج کے فضائل کا تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان۔ ان اعمالِ صالحہ اور نیکیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن کا اجر حج و عمرہ کے برابر ہے۔ نیز جدید دور کے سوالات کے جواب بھی دیے گئے ہیں، مثلاً نفل حج کیا جائے یا صدقہ خیرات؟]
  •  عیدالاضحی، شگفتہ عمر۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۸۰ روپے۔ [مسلمانوں کے مذہبی و ملّی تہواروں کے تناظر میں عیدالاضحی اور عشرہ ذی الحجہ کی اہمیت و روح کو واضح کرنے کے ساتھ قربانی اور نمازِ عید کے مسائل کا بیان، سنت ِنبویؐ کے مطابق عیدالاضحی منانے کا طریقہ، خواتین اور قربانی اورروحِ قربانی جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔]
  •  ذکرِ شہِ والاa، سید ریاض حسین زیدی۔ ملنے کا پتا: ادب سراے، ۷۵۴-ایل، فریدٹائون، ساہیوال۔ فون: ۶۹۳۳۰۷۳-۰۳۳۳۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[نعت کہنا جہاں سعادت ہے وہاں مشکل بھی ہے۔ اعترافِ عظمت کے ساتھ ساتھ اسلامی ادبی رویوں کو بھی ملحوظ رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ زیرنظر  مجموعۂ نعت محبت و عقیدت کے اظہار اور نعتیہ شاعری کے تنوع کے ساتھ ساتھ قرینۂ ادب کا بھرپور اظہار ہے۔]
  •  معرکۂ نور و ظلمت ، یعقوب سروش۔ ناشر: مکتبہ بساط ذکروفکر۔ ملنے کا پتا: مکتبہ اسلامی پبلشرز، جامعہ نگر، نئی دہلی، بھارت۔ صفحات: ۱۱۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [حضرت موسٰی ؑ اور فرعون کے درمیان برپا معرکے کا دل کش انداز میں تذکرہ۔ بقول مصنف: یہ قصہ ہزاروں برس پیش تر فرعون و موسٰی ؑکے درمیان رونما ہونے والے زبردست معرکے کی تصویر ہی نہیں بلکہ حق و باطل کی آویزش کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں تاریخ کے ہرعہد کے فرعونی اقتدار کی رعونت سے بھرپور مکروہ چہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔]
  •  صراطِ مستقیم اور اس کے تقاضے ،(احادیث نبویؐ کی روشنی میں) ، اختر نذیر ہاشمی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۱۲۵۲۳۰-۰۳۰۰۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [اسلام کی بنیادی تعلیمات، اسلامی معاشرت، مکارمِ اخلاق اور روزمرہ مسائل پر احادیث کا مطالعہ و انتخاب۔ مرتب نے احادیث کا حالاتِ حاضرہ پر انطباق کرتے ہوئے عملی راہنمائی بھی دی ہے۔ وجۂ تالیف: روزِقیامت جناب رسالت مآبؐ جب پوچھیں کہ تو نے میری اُمت کے اصلاحِ احوال کے لیے کوشش کیوں نہ کی؟ تو کم از کم یہ عذر پیش کرسکوں کہ سرکار میرے بس میں یہی تھا، سو کر گزرا۔]
  •  اسلامی تہذیب کیا ہے؟ مرتبہ: پروفیسر غلام دستگیر رشید۔ ناشر: اسلامک ہیرٹیج فائونڈیشن، حیدرآباد دکن-۵۰۰۰۲۸، بھارت۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۷۰ بھارتی روپے۔[پروفیسر غلام دستگیر رشید معروف اسکالر اور محقق تھے۔ ان کے علمی کارنامے اسلامیات، تصوف، اقبالیات اور فارسی و اُردو ادبیات پر محیط ہیں۔ زیرنظر کتاب اسلامی تہذیب کے موضوع پر معروف علما اور مسلم اور غیرمسلم اسکالرز، مثلاً مولاناعبدالماجد دریابادی، مولانا مودودی، ڈاکٹر تاراچند، پروفیسر ڈیوڈ شانتی لان وغیرہ کے بلندپایہ اور فکرانگیز مقالات پر مشتمل ہے۔   نیز اسلامی تہذیب کے ہندستان پر اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔]
  •  رموزِ تربیت ، خلیل انجم۔ ملنے کا پتا: آئیڈیل سیکنڈری سکول، کنڈل شاہی، ضلع نیلم، آزاد کشمیر۔ فون:۴۵۵۳۱۴-۰۵۸۲۱۔ صفحات: ۲۸۔ قیمت: ۴۰ روپے۔ [بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تعلیمی نفسیات اور جدید علوم کی روشنی میں رہنما خطوط۔ والدین کے لیے متفرق رموزِ تربیت اور بعض منفی رویوں کا تذکرہ اور ان کا تدارک، کامیاب طلبہ کے بنیادی محرکات اور اساتذہ کی ذمہ داریاں جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔]
  •  تذکرۂ محمدین، مولانا برکت اللہ بھٹو۔ ناشر: مکتبہ المصباح، ۱-اے، ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور۔ فون:۳۷۵۸۶۸۴۵۔ صفحات: ۲۳۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [تاریخِ اسلام کی ان نام وَر شخصیات کا تذکرہ    جن کے نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے موسوم ہیں۔ ان میں فاتح قسطنطنیہ محمد الثانی الفاتح، محمد بن اسماعیل بخاری (امام بخاری)، محمد بن محمد الغزالی (امام غزالی)، محمد بن محمد بن حسین بلخی (مولانا روم)، محمد بن احمد بن رُشد (ابن رشد)، محمد بن احمد البدانی (خواجہ نظام الدین اولیا)، محمد بن ابی بکر (حافظ ابن قیم) اور محمد بن قاسم    جیسی معروف شخصیات شامل ہیں۔ تاریخِ اسلام اور مشاہیر اسلام کا ایک منفرد انداز میں مطالعہ۔]
  •  عالمی یومِ حجاب، مرتبہ: سمیحہ راحیل قاضی۔ ناشر: ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی پاکستان، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۷۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [مغرب کے سیکولرزم، رواداری، برداشت اور باہمی مکالمے کے تمام تر دعوئوں کے علی الرغم اسلام کے خلاف تعصب، تنگ نظری اور انتہاپسندی کے رویے میں بتدریج شدت آتی جارہی ہے اور اس کا ایک کھلا ثبوت حجاب کے خلاف پابندی کے لیے اقدامات ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلمان اس درپیش چیلنج کا کس حکمت عملی سے مقابلہ کر رہے ہیں، زیرتبصرہ کتابچے میں مختلف مضامین کو یک جا کرکے اس کا جائزہ پیش کیا گیاہے۔ علامہ یوسف قرضاوی کی ہدایت پر ۴ستمبر کو عالمی یومِ حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے۔]
  •  سہ ماہی مجلہ تعلیم وتحقیق، تحفظ ناموس رسالت نمبر، مدیر: حافظ حبیب الرحمن۔ ناشر: مرکز تعلیم و تحقیق،   F-1، فرسٹ فلور، گیلانی پلازا، موٹروے چوک، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۷۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔ [اسلام آباد میں قائم ہونے والے ایک نئے ’مرکزتعلیم و تحقیق‘ کے سہ ماہی رسالے مجلہ تعلیم و تحقیق کی پہلی اشاعت پیشِ نظر ہے۔ یہ اشاعتِ خاص تحفظ ناموسِ رسالتؐ نمبر پر مشتمل ہے اور اس میں موضوع سے متعلق ۱۲؍ اہم تحریریں جمع کردی گئی ہیں۔ سبھی اہم پہلو زیربحث آگئے ہیں۔ لکھنے والوں میں خرم مراد، حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر انیس احمد، مولانا محمد اسماعیل، ڈاکٹر محمد شاہد رفیع، سید عارف شیرازی اور دوسرے شامل ہیں۔]

 

عبداللّٰہ، پتوکی

’حکومت‘ ریاست کے لیے خطرہ…‘ (اکتوبر ۲۰۱۱ء) میں ٹھوس حقائق اور شواہد کی روشنی میں بجاطور پر توجہ دلائی گئی ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہے۔ موجودہ حکمرانوں سے نجات اور بااصول، باصلاحیت، محب ِ وطن اور دیانت دار قیادت ہی ملک کو مسائل کے بھنور میں سے نکال سکتی ہے۔ سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ آگے بڑھ کر کس طرح سے اس چیلنج کا سامنا کرتی ہے اور ملک و قوم کی توقعات پر پورا اُترتی ہے۔ ’مساوات مرد و زن‘ مغربی فکر پر مبنی نظریے کے معاشرتی اثرات کا اچھا تقابلی جائزہ ہے، تاہم فارسی مصرع ’تا ثریا می رُود دیوار کج‘ درست ہے۔ ’اعترافِ عظمتؐ لیکن…‘ میں جہاں مغربی مفکرین کے قبولِ اسلام میں رکاوٹ کا اندازہ ہوا، وہاں نبی کریمؐ کی عظمت کے اعتراف پر مبنی کتب سے بھی آگہی ہوئی۔

عابد صدیقی ، نیویارک

’نظام عدل کا قیام اور حکمت عملی‘ (ستمبر۲۰۱۱ء) کے تحت ڈاکٹر انیس احمد نے ’اسلامی عدل اجتماعی‘   کی بنیاد توحید پر رکھی ہے۔توحید کے ماننے والے سارے اسلامی ممالک (افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ) عدلِ اجتماعی کی لذت سے بے بہرہ ہیں۔ خود پاکستان میں اسلامی عدلِ اجتماعی کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔

اب ان کا حال سنیے جو کلمۂ توحید کے ماننے والے نہیں ہیں۔ کسی بڑے سے بڑے سینیٹر کا لڑکا اگر نشے کے الزام میں پکڑا جاتا ہے تو اس کو سزا ہوجاتی ہے۔ چوری، ڈکیتی، عصمت دری کی رپورٹ کی جاتی ہے اور پولیس اس رپورٹ کی بنا پر ملزم کو تلاش کر نکالتی ہے اور اس کو سزا دی جاتی ہے۔ خود سینیٹر اور کانگریس کے اراکین اپنی کسی چوری کی بنا پر پکڑ لیے جاتے ہیں تو جیل بھیج دیے جاتے ہیں۔ ایک معمولی جھاڑو دینے والے کے ساتھ بے عزتی کا سلوک نہ کیا جاتا ہے نہ محنت کر کے روزی کمانے والے کو بے عزت سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک سے لوگ یہاں کی شہریت کے لیے آتے ہیں اور ان کی درخواستوں کو بلاتعصب دفتری عمل سے گزارا جاتا ہے۔ ہائی اسکول تک تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ ایمرجنسی روم بکثرت موجود ہیں اور ہر بیمار کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ ہزاروں خرابیوں کے باوجود عدل اجتماعی کی جھلک یہاں زیادہ نظر آتی ہے، بہ نسبت کسی اسلامی ملک کے۔  اسلامی ممالک کے حالات دیکھ کر قرآن کا وہ بیان یاد آجاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا پایا اور جو جی چاہا کیا‘‘۔ توحید کے ماننے والے کب تک بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں گے؟

ابوبکر کریم چودھری ،لاہور

’جب جماعت اسلامی قائم ہوئی!‘ (اگست ۲۰۱۱ء) کے مطالعے سے جہاں جماعت اسلامی کے قیام کے تاریخ ساز لمحات کی یاد تازہ ہوئی وہیں اکابر جماعت کی سیرت و کردار کی جھلک بھی سامنے آئی۔ خیال آیا کہ اگر جماعت اسلامی کے ۷۵ اساسی ارکان کا مختصر تذکرہ بھی شائع کیا جائے تو بہت مفید ہوگا۔

عبدالرشید صدیقی ، برطانیہ

مظفر بیگ مرحوم کے مضمون: ’جب جماعت اسلامی قائم ہوئی!‘ (اگست ۲۰۱۱ء) میں جماعت کے تاسیسی اجتماع کا بہت معلومات افزا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک کمی محسوس ہوئی کہ ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کون سا دن تھا اس کا تعین نہیں کیا گیا۔ میں نے کیلنڈر کی مدد سے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو منگل کا دن تھا۔ یہ چیز بھی ریکارڈ میں آجائے تو اچھا ہے۔

 

ایک موڑ آتا ہے جہاں آدمی کے دل میں بار بار یہ خیال چٹکیاں لیتا ہے کہ اس کام کے لیے بہرحال تزکیۂ نفس ضروری ہے، اور تزکیۂ نفس کے وہ طریقے جو مکے اور مدینے میں اختیار کیے گئے تھے کچھ واضح اور منضبط نہیں ہیں، اور بعد کے اَدوار میں جن بزرگوں نے اِن طریقوں کو منضبط کیا وہ صوفیاے کرام ہیں، اور ظاہر ہے کہ وہ سب بزرگانِ دین ہی ہیں، لہٰذا اس کام کے لیے جو تزکیہ مطلوب ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے تصوف کے معروف طریقوں میں سے کسی کو اختیار کرنا ناگزیر ہے.....

پھر قطع نظر اس سے کہ صدر اوّل کا طریقۂ تزکیۂ نفس منضبط ہے یا نہیں، ہمیں قرآن اور سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں اُس کے جو اُصول اور عملی جزئیات ملتے ہیں ان کا مقابلہ بعد کے صوفیا کے طریقوں سے کرکے آپ خوددیکھیں۔ کیا ان دونوں میں نمایاں فرق نہیں پایا جاتا؟ اس بحث میں نہ پڑیے کہ صوفیانہ طریقوں میں جو مختلف چیزیں پائی جاتی ہیں وہ مباحات کے قبیل سے ہیں یا محظورات [مروجہ طریقے] کے قبیل سے۔ بحث صرف یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اخلاقی و روحانی علاج کے لیے جو نسخہ تجویز کیا گیاتھا، آیا صوفیہ نے اُسی نسخے کو جوں کا توں استعمال کیا، یا اس نسخے کے بعض اجزا کو کم، بعض اجزا کو زیادہ، اور بعض نئے اجزا کا اس میں اضافہ کردیا؟ پہلی صورت کا تو شاید آج تصوف کا کوئی بڑے سے بڑا وکیل بھی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ لامحالہ دوسری صورت ہی ماننا پڑے گی اور وہی واقعتا موجود بھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اجزا کی مقداروں میں کمی بیشی اور نئے اجزا کے اضافہ سے نسخے کا مزاج بدلا ہے یا نہیں؟ اگر بدل گیا ہے تو یہ اُسی مقصد کے لیے کیسے مفید ہوسکتا ہے جس کے لیے حکیم ِ مطلق اور اس کے بلاواسطہ شاگرد نے اپنا نسخہ مرتب کیا تھا؟ اور اگر کوئی کہتا ہے کہ ان مختلف ترمیمات اور اضافوں کے باوجود نسخے کا مزاج نہیں بدلا ہے تو میں عرض کروں گا کہ تاریخِ حکمت میں یہ بالکل ہی ایک نرالا واقعہ ہے (بلکہ شاید خرقِ عادت ہے) کہ اجزاے نسخہ میں مقادیر [مقدار]کی کمی و بیشی اور مختلف نئے اضافوں کے باوجود نسخے کا مزاج جوں کا توں رہ گیا۔

میں توقع رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص تحقیق میں بے جا عقیدتوں اور موروثی تعصبات کو دخل نہ دے گا اور ٹھنڈے دل سے بے لاگ تحقیق کرے گا تو اسے اس معاملے میں پورا اطمینان ہوجائے گا کہ  اقامت ِ دین کے لیے ہمیں اُسی طریق تزکیہ پر اعتماد کرنا ہوگا جو قرآن اور سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتاہے۔ وہ اگر منضبط نہیں ہے تو اب اسے منضبط کرنا چاہیے۔(’اشارات‘ ، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۳۷، عدد ۲، صفر ۱۳۷۱ھ، نومبر ۱۹۵۱ء،ص ۶-۷)