مضامین کی فہرست


۲۰۱۰ فروری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

افغانستان بلاشبہہ آج دنیا کے پس ماندہ اور غریب ترین ممالک کی فہرست میں بھی   پست ترین مقام پر آتا ہے، اور کم از کم ۳۰ سال سے جنگ اور خانہ جنگی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ حکمرانی کے آداب کی زبوں حالی، کرپشن اور بدعنوانی کی فراوانی میں بھی سرفہرست ہے۔ برطانوی استعمار کی ۱۰۰سالہ خون آشام عسکری جولانیاں اور دخل اندازیاں، روس کا ۱۰سالہ قبضہ اور پسپائی، اور امریکا اور ناٹو اقوام کی نوسالہ بے نتیجہ فوج کشی اور بالآخر افغان دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے کی سعی و جہد تاریخ کے اس ناقابلِ انکار سبق کی یاد تازہ کرتے ہیں کہ افغانستان کے غیور عوام کو ان کی تمام بے سروسامانی کے باوجود کوئی طاقت ور طالع آزما غلامی اور محکومی کے طوق نہیں پہنا سکا۔

یہ تاریخ کا ایک عجوبہ نہیں تو کیا ہے کہ یہ پس ماندہ ترین ملک گذشتہ صدی کی دو عالمی طاقتوں کے ناپاک عزائم کا قبرستان بنا، اور آج تیسری اور بظاہر دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا کی بالادستی کا ۵۰۰ سالہ دور اپنے انجام کی طرف جا رہا ہے اور افغانستان جیسے ایشیا کے کمزور، چین جیسے طاقت ور ملک ایک بار پھر اپنے اپنے انداز میں تاریخ کے نئے باب کے آغاز کے لیے ورق گردانی کر رہے ہیں۔ تقریباً ۸۰سال پہلے    اقبال نے اپنی خداداد بصیرت کی بناپر جاویدنامہ میں افغانستان کے ماضی اور حال کی جھلک دکھائی تھی:

آسیا یک پیکرِ آب و گل است

ملّتِ افغاں درآں پیکر دل است

از فسادِ او فسادِ آسیا

در کشادِ او کشادِ آسیا

اقبال کے یہ اشعار، افغانستان کی موجودہ صورت حال کی روشنی میں اس کے مستقبل کے امکانات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے ’دہشت گردی‘ کے واقعات کو امریکا کی قیادت نے اپنے عالمی عزائم کے حصول کے لیے کامل عیاری کے ساتھ استعمال کیا۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن ایک گھنائونی استعماری جنگ کا عنوان بن گئے۔ جس فوجداری جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں افغانستان سے کوئی ایک فرد بھی شریک نہ تھا اور جس کی منصوبہ بندی جرمنی کے شہر ہیمبرگ اور خود امریکا میں ہوئی، اس کو بہانہ بناکر افغانستان پر حملہ کیا گیا، پاکستان کو دھمکیاں دے کر اپنا آلۂ کار بنایا گیا، اور پھر عراق پر فوج کشی کی گئی اور پوری دنیا کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک عالمی ہیجان اور لاقانونیت میں مبتلا کر کے عملاً میدانِ جنگ بنادیا گیا۔

صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں عراق کی جنگ کو نشانہ بنایا لیکن افغان جنگ کو  ’ضرورت کی جنگ‘ قرار دیتے ہوئے جاری رکھنے کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا پیغام بھی دیا، لیکن مسندِ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد ان کی پالیسیاں تضادات کا شکار اور اپنے کیے ہوئے عہدوپیمان سے روگردانی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ حلف برداری کے فوراً بعد انھوں نے افغانستان میں ۱۷ہزار تازہ دم فوجی بھجوائے اور اب افغان پالیسی پر سال بھر کے نظرثانی کے عمل کے بعد مزید ۳۰ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ ۱۸ مہینے کے بعد فوجوں کی واپسی کا آغاز کردیا جائے گا۔ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کو ایک سال میں بند کرنے کا اعلان حلف برداری کے بعد ہی کیا تھا، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ قیدی عدل و انصاف سے بدستور اسی طرح محروم ہیں جس طرح بش کے دور میں محروم تھے۔ تفتیش کے دوران معلومات حاصل کرنے کے لیے اذیت اور تشدد کے حربوں کو استعمال کرنے کا کاروبار یکسر ختم کرنے کے دعوے کیے گئے تھے مگر وہ بھی اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کی جو اُمید امریکا کے ووٹروں اور دنیا کے عوام کو تھی وہ دم توڑتی نظرآرہی ہے اور صدر اوباما کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرنا شروع ہوگیا ہے۔

ان حالات میں یکم دسمبر ۲۰۰۹ء کو مہینوں کی مشاورت اور بحث و مذاکرے کے بعد افغانستان کے بارے میں جس ’نئی پالیسی‘ کا اعلان کیا گیا ہے وہ نئی اور توقعات سے کہیں کم اور بش کی پالیسی کا تسلسل کہیں زیادہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف لابیوں کو مطمئن کرنے کے لیے  نئی پالیسی کے نام پر ایک ایسا ملغوبہ تیار کیا گیا ہے جو تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اصول، قانون، انصاف اور حقیقی امن کے قیام کے امکانات ایک بار پھر دم توڑ گئے ہیں۔ زمینی حقائق سے صرفِ نظر کیا گیا ہے اور حق اور عدل کے تقاضوں کا خون کرتے ہوئے صرف مفادات کے کھیل کو آگے بڑھانے کی ایک اور کوشش کی گئی ہے۔ پالیسی کے مرکزی اجزا میں کسی تبدیلی کے بغیر جو بھی     ملمع سازی اور لفظی ہیرپھیر کیا گیا ہے، اس سے حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو اوباما کی تازہ افغان پالیسی نئی خرابیوں اور مشکلات کو جنم دے گی اور حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث ہوگی، اس لیے ضروری ہے کہ اس پالیسی پر نقدواحتساب سے پہلے امریکا کی افغان جنگ کی اصل حقیقت، اس جنگ میں پاکستان کے کردار، اور افغانستان کے  اس وقت کے حالات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے تاکہ اس دلدل سے نکلنے اور حقیقی راہِ نجات کے خدوخال کو سمجھنے اور ان پر عمل کے لیے نقشۂ کار تیار کرنے کا کام انجام دیا جاسکے۔

افغان جنگ کے حقائق

پہلی بات جسے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ امریکا جو بھی دعوے کرے اور مغربی مفادات کا محافظ میڈیا جو بھی گل افشانیاں کرے، یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ افغانستان پر امریکا کی فوج کشی بین الاقوامی قانون، اصولِ سیاست اور اخلاقی اقدار و ضوابط ہر ایک کے اعتبار سے ایک استعماری اور جارحانہ اقدام تھا، ایک ایسا بین الاقوامی جرم جو بہراعتبار ناقابلِ قبول تھا اور رہے گا۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے اور ایشوز کو الجھانے کی منظم کوششوں کے باوجود، اب اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں (بشمول امریکا) جنگ کے خلاف اہلِ علم ہی نہیں، سول سوسائٹی کے اہم عناصر کی طرف سے بھی آواز بلند ہو رہی ہے اور جنگ مخالف (anti war) تحریک  تقویت پکڑ رہی ہے۔ اوباما کے یکم دسمبر کے پالیسی خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی دانش ور سائمن جنکنز نے لندن کے روزنامے گارڈین میں اپنے مضمون میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ: ’’افغانستان پر حملہ سزا دینے کے لیے تھا لیکن یہ ایک قبضے میں بدل گیا۔ یہ کام نہ صرف بری طرح انجام دیا گیا بلکہ ابتدا ہی بغیر سوچے سمجھے کی گئی تھی‘‘۔ (۲ دسمبر ۲۰۰۹ء)

امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ماتھیو ہوہ نے(جو سابق میرین بھی ہے)   افغان پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے اکتوبر ۲۰۰۹ء میں استعفا دے کر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ اس استعفے کو رکوانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر ناکام رہی۔ اسے چھپوانے سے روکنے کی سعی بھی لاحاصل ثابت ہوئی۔ اب اس بات کا بھی اعتراف کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں امریکی سفیر کارل ایکنبری اور خود امریکی نائب صدر جوبیڈن اس استعفے پر فکرمند ہیں۔ (ملاحظہ ہو، گیلیز ڈورون سو کا مضمون دی گارڈین لندن میں، ۲۸؍ اکتوبر۲۰۰۹ء)

ماتھیو ہوہ کے استعفے کے یہ حصے بڑے قابلِ غور ہیں:

میرا افغانستان میں امریکا کی موجودگی کے مقاصد کے بارے میں اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ مجھے موجودہ حکمت عملی اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں شکوک وتحفظات ہیں لیکن میرا استعفا اس پر نہیں ہے کہ ہم کس طرح لڑ رہے ہیں بلکہ اس پر ہے کہ ہم کیوں اور کس لیے لڑ رہے ہیں؟

اس نے اپنے استعفے میں صاف الفاظ میں وہ بات بھی کہی ہے جسے کہنا اور سمجھنا تو چاہیے تھا پاکستان کی قیادت کو، جو امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’افغانستان میں ہماری موجودگی نے پاکستان میں عدم استحکام اور بغاوت میں اضافہ ہی کیا ہے‘‘۔

اس نے اس استعفے میں امریکا کی افغان پالیسی کے تباہ کن منطقی تقاضوں کو بیان کرنے کے بعد یہاں تک کہہ دیا ہے:

دیانت دارانہ طور پر اگر ہم القاعدہ کی بحالی یا تنظیمِ نو کو روکنا، اور افغانستان کو القاعدہ سے محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہماری حکمت عملی کا تقاضا یہ ہوگا کہ ہم اس کے بعد پاکستان، صومالیہ، سوڈان اور یمن وغیرہ پر بھی حملہ کریں اور قبضہ کرلیں۔ خطرہ جغرافیائی یا سیاسی سرحدوں کے اندر محدود نہیں ہے۔

ماتھیو ہوہ نے یہ بھی صاف لکھا ہے کہ اگر ہم نے اس جنگ کے بارے میں بنیادی سوچ نہ بدلی تو پھر یہ جنگ لامتناہی ہوسکتی ہے اور عشروں اور نسلوں تک جاری رہ سکتی ہے۔

دی گارڈین کے مضمون نگار گیلیز ڈورن سو، نے اس استعفے پر ایک جملے میں یوں تبصرہ کیا ہے: ’’افغانستان میں امریکی افسر کی حیثیت سے میتھیو ہوہ کا استعفا جنگ پر ایک واضح درست اور سخت تنقید ہے‘‘۔ وہ مزید کہتا ہے: ’’ہوہ کی بات درست ہے کہ ۱۱ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی زیادہ تر جرمنی میں کی گئی تھی اور افغانستان میں جنگ امریکا کو زیادہ محفوظ نہیں بناتی‘‘۔ (دی گارڈین، ۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

افغانستان پر امریکی فوج کشی اور قبضے کے غیرقانونی اور ناجائز ہونے کا کھلاکھلا اعتراف خود امریکا کے اعلیٰ قانونی حلقوں میں کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب    Rules of Disengagement ہے جو تھامس جیفرسن اسکول آف لا کی پروفیسر اور امریکا کی نیشنل لایرز گلڈ کی صدر پروفیسر مارجوری کوہن نے لکھی ہے اور ۲۰۰۹ء کے اواخر میں شائع ہوئی ہے۔ اپنی اس کتاب کے نتائج کو پروفیسر مارجوری کوہن نے اپنے ایک مضمون (Counter Punch ، ۲۱ دسمبر ۲۰۰۹ء)میں بیان کیا ہے اور پاکستان کے لیے اس میں ایک پیغام ہے کہ موصوفہ نے مضمون کا عنوان: Why Af/Pak war is illegal[افغان پاکستان جنگ کیوں غیرقانونی ہے؟]    رکھا ہے۔ ہم اس مضمون کے چند اقتباس پیش کرتے ہیں:

  • افغانستان پر امریکا کا حملہ عراق پر حملے کی طرح غیرقانونی تھا لیکن پھر بھی بہت سے امریکی اسے ۱۱ستمبر کے حملوں کا درست ردعمل سمجھتے تھے۔ ٹائم کے سرورق پر اس کو درست جنگ قرار دیا گیا۔ اوباما کی مہم یہ تھی کہ عراق میں جنگ ختم کریں گے لیکن افغانستان میں بڑھائیں گے، مگر اب امریکیوں کی اکثریت اس کی بھی مخالف ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہے کہ ریاستیں اپنے بین الاقوامی تنازعات پُرامن طریقے سے طے کریں گی اور کوئی قوم اپنے دفاع کے علاوہ فوجی قوت استعمال نہیں کرسکتی،     یا جب تک کہ سلامتی کونسل اس کی اجازت نہ دے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد سلامتی کونسل نے دوقراردادیں منظور کیں مگر ان میں سے کسی ایک میں بھی افغانستان میں فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حملے کے ثبوت نہیں ملے، لہٰذا طالبان نے بن لادن کو حوالے نہیں کیا لیکن   بش نے افغانستان پر بم باری شروع کر دی۔

  • افغانستان پر حملے کے لیے بش کا جواز بے بنیاد تھا۔ اسی بنیاد پر ایرانی امریکا پر حملہ کرسکتے تھے جب انھوں نے ۱۹۷۹ء میں رضاشاہ پہلوی کا تختہ اُلٹا اور امریکا نے اسے پناہ دی۔ اگر حکومتِ ایران نے مطالبہ کیا ہوتا کہ ہم شاہ کو اس کے حوالے کریں اور ہم نے انکار کیا ہوتا تو کیا ایران کے لیے قانونی طور پر جائز ہوتا کہ امریکا پر حملہ کر دیتا؟ یقینا نہیں۔
  • افغانستان میں اپنی افواج میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے اوباما نے نائن الیون کے حملوں کا ذکر کیا۔ افغانستان میں بش کی جنگ جاری رکھنے اور اسے بڑھاتے ہوئے اوباما بھی یو این چارٹر کی خلاف وزی کر رہا ہے۔ نوبل امن انعام وصول کرتے ہوئے اوباما نے اعلان کیا کہ اسے یک طرفہ طور پر جنگ کرنے کا حق حاصل ہے۔ [حالانکہ] یک طرفہ طور پر فوجی طاقت کا استعمال اپنے دفاع میں نہ ہو تو غیرقانونی ہے۔
  • جن لوگوں نے ۹ستمبر کو ہوائی جہاز اغوا کرنے اور ہزاروں آدمیوں کو مارنے کی سازش کی، انھوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کی شناخت ہونی چاہیے اور قانون کے مطابق انصاف ہونا چاہیے۔
  • لیکن افغانستان پر حملے کا جواز نہ تھا۔ اس سے امریکیوں اور افغانیوں کی ہلاکت میں اضافہ ہوا ہے،اور امریکا کے خلاف نفرت بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
  • قومی مباحثے میں یہ سیاسی تجزیہ غائب ہے کہ نائن الیون کا المیہ کیوں رونما ہوا؟ ہماری ضرورت ہے کہ یہ بحث ہو اور امریکی خارجہ پالیسی کو ازسرِنو تشکیل دینے کے لیے جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ ہم امریکی استعمار سے نفرت کرنے والوں کے     غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ اس ملک میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو بغیر تنقید کے بیش تر لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ دہشت گردی دشمن نہیں، ایک تدبیر ہے۔ تدبیر کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی بنیادی وجوہات (بشمول غربت، تعلیم کی کمی اور بیرونی قبضہ) کو جانا جائے اور ان وجوہ کو دُور کرنے کو ہدف بنایا جائے۔
  • اوباما نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وہ افغانستان میں ۳۰ہزار مزید امریکی فوج بھیجے گا، پاکستان کا براے نام تذکرہ کیا لیکن اس کی سی آئی اے نے پاکستان کے خلاف بش سے زیادہ ڈرون حملے کیے۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ ان حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر پاکستانی اس کے مخالف ہیں۔ گیلپ کے گذشتہ جائزے میں ۶۷ فی صد مخالف تھے اور صرف ۹ فی صد حامی تھے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے طالبان یا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے زیادہ امریکا کو پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیا۔
  • پاکستان میں ڈرون کا استعمال یو این چارٹر اور جنیوا کنونشن دونوں کی خلاف ورزی ہے جن میں ارادے سے قتل کی ممانعت ہے۔ اس طرح کے ماوراے عدالت قتل کسی حکومت کے حکم پر یا اس کی مرضی سے کیے جاتے ہیں مگر ان کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا، حتیٰ کہ حالتِ جنگ میں بھی نہیں۔ یہ جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔

امریکی جارحیت اور عالمی ردعمل

اس جنگ کے نتیجے میں اگر ایک طرف بین الاقوامی اصولِ عدل وا نصاف،جنیوا کنونشن اور اخلاقی اقدار و ضوابط کا خون ہوا ہے، تو دوسری طرف ۳ہزار انسانوں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان میں دسیوں ہزار اور عراق میں ۱۰ لاکھ افراد کو بے رحمی کے ساتھ ہلاک کیا جاچکاہے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں اور کم از کم دو ملک بالکل تباہ ہوگئے ہیں، جب کہ پوری دنیا میں   دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور جو مصیبت ایک محدود علاقے میں محصور تھی، اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ صرف دہشت گردی نہیں بلکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، وہ خود اصل مسئلہ ہے۔

امریکا کی اوہایو یونی ورسٹی کے علمِ سیاسیات کے پروفیسر جان موئیلر نے اپنی کتاب Overblown میں بڑے واضح الفاظ میں حکمت عملی کے اس تباہ کن رُخ کی نشان دہی کی ہے:

دہشت گردی یا اس کے خلاف ہمارا ردعمل___ زیادہ بڑا خطرہ کس میں ہے؟ ایک خطرہ جو حقیقی ہے لیکن اس کا دائرہ محدود ہے، اسے بڑے پیمانے پر بڑھاچڑھا کر پیش کر کے، بلاجواز پریشانی پیدا کردی گئی ہے۔ اس عمل سے غیرضروری اخراجات اور پالیسی میں ضرورت سے زیادہ ایسے ردعمل ہوئے ہیں جنھوں نے عام طور پر اس سے زیادہ نقصان اور اخراجات کروائے ہیں جو دہشت گرد پہنچا سکتے تھے۔

ایک دوسرے امریکی پروفیسر رابرٹ پاپ نے جو شکاگو یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور معروف کتاب Dying to Winکے مصنف ہیں، نیویارک ٹائمز (۱۵؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) میں اپنے مضمون میں امریکا کی افغان پالیسی کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ چند پہلو قابلِ غور ہیں:

  • جنرل میک کرسٹل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی اور ناٹو کی فوجیں بذاتِ خود حالات کے بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہیں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ مغربی افواج کو   بیرونی قابض افواج سمجھا جاتا ہے۔ جنگی طاقت پر بہت زیادہ انحصار کی وجہ سے افغان عوام کی نظروں میں بین الاقوامی سلامتی کی فوج کے جواز کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ امریکا کے پسندیدہ حامد کرزئی کی قیادت میں کام کرنے والی مرکزی حکومت بہت زیادہ بدعنوان ہے اور اسے ناجائز سمجھا جاتا ہے۔
  • بدقسمتی سے یہ سیاسی حقائق گذشتہ برسوں کے میدانِ جنگ کے حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں اپنی چند سو افواج کے ساتھ امریکا نے طالبان کا تختہ اُلٹا اور القاعدہ کو افغانستان سے نکال باہر کیا۔ یہ امریکا کی فضائی طاقت اور شمالی اتحاد کی زمینی فوجوں کے اشتراک سے ہوا۔ پھر آیندہ برسوں میں امریکا اور ناٹو نے اپنی فوج کی تعداد ۲۰ہزار تک پہنچا دی، جب کہ ان کا اصل مشن صرف کابل کی حفاظت تھا۔ ۲۰۰۴ء تک افغانستان میں بہت کم دہشت گردی تھی اوربہت کم احساس تھا کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔

l ۲۰۰۵ء میں پورے افغانستان میں امریکا اور ناٹو نے اپنی افواج کو باقاعدہ بڑھایا۔ اس کے مقاصد اس وقت موجود معمولی سی بغاوت کو کچلنا، پوست کی فصلوں کو تباہ کرنا  اور مرکزی حکومت کے لیے مقامی حمایت بڑھانا تھا۔ یہ افواج جنوب اور مشرق کے پشتون علاقوں تک لگائی گئیں اور آج وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہیں۔

  • مغربی قبضے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دونوں شکلوں، خودکش حملے اور بم دھماکوں میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۱ء سے پہلے افغانستان میں خودکش حملے ریکارڈ پر نہیں ہیں۔ امریکا کی فتح کے فوراً بعد بہت کم ہوئے، ۲۰۰۲ء میں ایک بھی نہیں، ۲۰۰۳ء میں دو، ۲۰۰۴ء میں پانچ اور ۲۰۰۵ء میں نو۔  لیکن ۲۰۰۶ء سے خودکش حملوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۶ء میں ۹۷، ۲۰۰۷ء میں ۱۴۲، ۲۰۰۸ء میں ۱۴۸، اور ۲۰۰۹ء کے پہلے نصف میں ۶۰۔ ۸۰ فی صد سے زیادہ حملے امریکا اور اس کی اتحادی افواج پر ہوئے نہ کہ افغان شہریوں کے خلاف، اور کرنے والے ۹۵ فی صد افغان تھے۔
  • دہشت گرد حملوں کا انداز بیش تر ایک ہی ہے۔ سب سے خطرناک سڑک کے کنارے لگے بم ہوتے ہیں جو ریموٹ کنٹرول سے یا چھونے سے پھٹ جاتے ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں صرف ۷۸۲ حملے ہوئے تھے لیکن اس کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں ۱۷۳۹، ۲۰۰۷ء میں ۲ہزار اور گذشتہ برس ۳ہزار ۲ سو۔ یہ حملے بھی زیادہ تر مغربی افواج کے خلاف ہوئے ہیں نہ کہ افغان اہداف پر۔
  • تصویر واضح ہے، افغانستان میں ہم نے جتنی زیادہ افواج بھیجی ہیں مقامی لوگوں نے اتنا ہی ملک کو بیرونی تسلط کے تحت تصور کیا ہے جس سے خودکش اوردوسرے دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کوئی بیرونی مسلح طاقت امن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے، ہم یہی صورت دیکھتے ہیں مغربی کنارے سے کشمیر اور سری لنکا تک۔
  • جنرل میک کرسٹل افغانستان میں طرزِ عمل بدلنے کی توقع کرتے ہیں۔ ترجیح مزید فوجی بھیجنے کی نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بیرونی قابض افواج ہونے کا تاثر ختم کرنے کی ہے۔ افغانستان میں ہمارا مقصد مستقبل میں نائن الیون جیسے حملوں کو روکنا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ امریکا دشمن دہشت گردوں کی ایک نئی نسل کی پرورش کو روکا جائے۔ خاص طور پر خودکش دہشت گرد جو بڑی تعداد میں معصوم لوگوں کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ خودکش دہشت گرد کو جو چیز تحریک دیتی ہے، وہ ان کے علاقے میں غیرملکی فوجوں کا وجود ہے۔

پروفیسر رابرٹ پاپ کا یہ تجزیہ کہ اصل مسئلہ غیرملکی افواج کی موجودگی اور قبضہ ہے جو دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں، پالیسی سازوں کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اس کی تجویز کردہ حکمت عملی سے اتفاق نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان ہو یا عراق، فلسطین ہو یا کشمیر، جب تک بیرونی قوتیں ان ممالک پر قابض ہیں، مزاحمت اور ردعمل رونما ہوگا اور وہ خونی اور تباہ کن بھی ہوسکتا ہے، بلکہ ہوتا جا رہا ہے۔ مسئلے کا حل فوج کشی اور قوت کا بے محابا استعمال یا خانہ جنگی کو ہوا دینا نہیں۔ اگر افواج میں اضافہ ہوگا تو یہ چیز بذاتِ خود تصادم، خون خرابے اور ہلاکتوں میں اضافے کا باعث ہوگی، اصلاحِ احوال کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔

امریکا کی ناکام حکمت عملی

افغانستان کے زمینی حقائق کے معروضی مطالعے سے جو حقیقت سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا اور ناٹو کی فوجی حکمت عملی یکسر ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے کہ افغانستان کی ۳۴ ولایات میں سے ۳۳ پر طالبان کا عملاً قبضہ ہے اور ان میں ان کے متبادل گورنر (shadow governor) تک موجود ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں امریکی، ناٹو اور خود افغان فوج کا وجود ہے مگر باقی تمام مضافات پر طالبان کی حکمرانی ہے اور شہروں میں بھی رات کو انھی کا حکم چلتا ہے۔ ناٹو کے کمانڈر، برطانیہ کے فوجی تجزیہ نگار، حتیٰ کہ خود امریکی فوجی قیادت اب کھل کر اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے    بی بی سی سے اپنے انٹرویو میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ یہ جنگ ہاری جاچکی ہے اور اخراج کی حکمت عملی ہی وقت کی ضرورت ہے۔ اب یہ بات امریکی کمانڈر اسٹنیلے میک کرسٹل بھی کہنے پر مجبور ہوا ہے اور ہالبروک، رابرٹ گیٹس اور ہیلری کلنٹن بھی اعتراف کر رہی ہیں کہ طالبان افغان حقیقت کا حصہ ہیں اور ان سے معاملہ کیے بغیر افغانستان سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے وہ شیطنت کا ایک دوسرا مظہر ہے، یعنی ایک طرف فوج اور قوت کے استعمال کو بڑھا دیا جائے اور دوسری طرف تحریکِ مزاحمت کو تقسیم کرنے، طالبان میں پھوٹ ڈلوانے اور رشوت اور روزگار کا لالچ دے کر طالبان کے تمام سپاہیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، اور افغان حکومت اور اس کا ساتھ دینے والوں کے ذریعے ملک کا نظم و نسق اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ حکمت عملی بدنیتی اور دھوکے پر مبنی ہے اور زمینی حقائق اور تاریخی تجربات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ حالات کو بگاڑنے کا نسخہ ہے، اصلاحِ احوال کی تدبیر نہیں۔

امریکا کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ حقائق کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں۔ اوباما کو اس طرح گھیر لیا گیا ہے کہ عملاً اس نے ’بش کی جنگ‘ کو اب ’اوباما کی جنگ‘ بنا لیا ہے۔ اوباما کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ اس نے حالات کا آزاد اور معروضی جائزہ نہیں لیا اور وہ بہت جلد امریکی نیوکونز اور بش انتظامیہ کے شاطر پالیسی سازوں کے نرغے میں آگیا ہے اور امریکا کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اس پر حاوی ہوگیا ہے۔ اس کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے بااثر عناصر اس کی پالیسیوں سے پریشان ہیں کہ  ری پبلی کنز اور بش کے حواری پالیسیوں کا رُخ متعین کر رہے ہیں۔ امریکی محقق پیٹربیکر کا مضمون نیویارک ٹائمز کے بلاگ (blog)  پر Obama's War Over Terrorکے عنوان سے ۱۷جنوری ۲۰۱۰ء کو شائع ہوا ہے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح پالیسی سازی پر بش کے دور کے لوگ چھا گئے ہیں۔ رابرٹ گیٹس جسے بش نے وزیردفاع بنایا تھا اور دو سال اس نے بش کی ٹیم میں کام کیا، اوباما کا وزیردفاع بھی وہی ہے۔ جان برینان جو بش کی ٹیم کا ایک اہم ستون تھا، اس کے بارے میں پیٹر بیکر کا یہ تبصرہ قابلِ غور ہے کہ صدر کے لیے اس کی راے اہم ترین ہوگئی ہے۔

چیف آف اسٹاف رہن ایمونیل صہیونی لابی کا ایک فرد ہے جو اسرائیل میں جنگی خدمات تک ادا کرچکا ہے۔ فوجی قیادت وہی ہے جو بش کے زمانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی تھیں، یعنی ایڈمرل مولن، جنرل اسٹینلے میک کرسٹل۔ بیکر نے تقریباً ایک درجن سول، خفیہ سروس اور فوج کے شعبوں کے متعلق کلیدی شخصیات کی نشان دہی کی ہے جو اوباما کی ٹیم کا حصہ اور پالیسی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ بش کے دور کے سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیل ہائیڈن کے الفاظ میں:

یہ بش انتظامیہ کا تسلسل ہے۔ میرے خیال میں اسے ’بش کی طرح‘ کہنا بھی درست نہیں، یہ بش ہی ہے۔ دونوں میں کوئی بامعنی فرق نظر نہیں آتا۔کافی محنت نظر آتی ہے کہ معاملات کو نئی طرح پیش کیا جائے مگر اس سے خاص فرق نہیں پڑتا۔

یہی وجہ ہے کہ اوباما کی صدارت سے پالیسی کی تبدیلی کے باب میں جو توقعات مختلف حلقوں نے وابستہ کر لی تھیں وہ بُری طرح مجروح ہوئی ہیں، اور امریکا اسی طرح دہشت گردی کی دلدل میں مزید پھنستا چلا جا رہا ہے جس طرح بش کے دور میں یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔

امریکی اور یورپی تجزیہ نگار تو یہ بات کہہ ہی رہے ہیں مگر خود افغانستان سے وہ خاتون  رکن پارلیمنٹ جسے ہیرو بناکر پیش کیا گیا تھا، یعنی مالائی جویا، اوباما کی یکم دسمبر کی تقریر سے صرف ایک دن پہلے اپنے ۳۰نومبر ۲۰۰۹ء کے ایک مضمون میں جو گارڈین لندن میں شائع ہوا ہے، کہتی ہیں:

کئی مہینوں کے انتظار کے بعد اوباما افغانستان کے لیے نئی حکمت عملی کا اعلان کرنے والے ہیں۔ تقریر کا طویل عرصے سے انتظار ہے لیکن کم ہی لوگوں کو کسی حیران کن بات کی توقع ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ وہ جنگ میں کسی بڑے اضافے کا اعلان کریں گے۔ یہ کرتے ہوئے وہ ’غلطی‘ سے بہت زیادہ کریں گے۔ یہ میرے ملک کے تکلیف اٹھانے والے عوام کے خلاف جنگ کے جرم کا تسلسل ہے۔ اس سال ہم نے افواج میں اضافے کا اثر دیکھا ہے، یعنی زیادہ تشدد اور زیادہ شہری ہلاکتیں۔ جنگ کے آٹھ سالوں کے بعد صورت حال عام افغانوں کے لیے خاص طور پر عورتوں کے لیے ہمیشہ کی طرح خراب ہے۔

محترمہ جویا امریکی عوام کے جذبات کے بارے میں یہ تک کہتی ہیں:

راے عامہ کے جائزے تصدیق کرتے ہیں کہ امریکی عوام جنگ میں اضافہ نہیں، امن چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اوباما سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ بش اور اس کی انتظامیہ کو جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھیرائیں۔ خارجہ پالیسی کے دائرے میں امید اور تبدیلی کے بجاے اوباما پہلی پالیسی پر پہلے سے سے زیادہ عمل پیرا ہیں۔ (دی گارڈین، ۳۰ نومبر ۲۰۰۹ء)

ورلڈ سوشلسٹ موومنٹ (International Committee of the Fourth International) نے اپنی ویب پر ۴ جنوری ۲۰۱۰ء کو امریکا کی افغان جنگ کے خلاف ایک تفصیلی چارج شیٹ شائع کی ہے جس میں ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں اس جنگ کے نتیجے میں افغانستان اور خود پاکستان میں جو تباہ کاریاں اور ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں ان کو اعداد وشمار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،  اور یہ اعدادو شمار اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ فوجی کارروائیوں کے اضافے سے تشدد اور   دہشت گردی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، بلکہ اس میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۰۹ء افغانستان کی تازہ تاریخ کا سب سے خونیں اور بدترین سال رہا ہے۔ بالعموم ۲۰۰۹ء میں ۲۰۰۸ء کے مقابلے میں اس جنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں اور دوسری تباہ کاریوں میں ۵۰ سے ۸۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ہم اس رپورٹ سے کچھ اقتباس دیتے ہیں:

  • اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ سال کے پہلے ۱۰ مہینوں میں ۲۰۳۸ شہری ہلاک ہوئے جس میں صوبہ فرح میں مئی میں امریکی حملے میں ۱۵۰، اور ستمبر میں صوبہ کندز میں جرمن افواج کے کروائے ہوئے حملے میں ۱۴۲ افراد شامل ہیں۔ بعد کے دو مہینے میں بھی سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جس میں صوبہ کندز کے دُوردراز علاقوں میں ناٹو افواج نے ۱۰ افراد قتل کیے، ان میں آٹھ اسکول کے طالب علم تھے۔
  • اوباما کے دور میں امریکی فوج نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کے مشتبہ قائدین کو مارنے کے لیے غیرقانونی قتل و غارت کی مہم میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔ اس عمل میں متعدد مرد و خواتین، بچے، راہ گزر ہلاک ہوتے ہیں جنھیں ایک معمول کے ضمنی نقصان کے طور پر بیان کر دیا جاتا ہے۔
  •  پاکستانی حکومت پر شمال مغربی علاقے میں فوجی آپریشن تیز کرنے کا امریکی دبائو ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ اسلامی دہشت گرد حملوں اور ردعمل کی دوسری کارروائیوں میں ۵۰۰ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں۔ پاکستان میں امریکی پالیسی کی مخالفت بہت عام اور بہت زیادہ ہے۔ واشنگٹن سے طویل مدت سے تعلقات کے باوجود پاکستانی فوج کے بعض عناصر میں سخت ناراضی اور مخالفت کے  آثار پائے جاتے ہیں۔
  •  یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے اور نہ پاکستان یا افغانستان کو مدد دینے کے لیے ہے بلکہ یہ آس پاس کے توانائی سے بھرپور علاقوں پر امریکی بالادستی قائم کرنے کی کوشش ہے۔ امریکا کے حکمران طبقے کی طرف سے اوباما افغانستان کو ایک نوآبادیاتی امریکی علاقہ اور وسطی اور جنوبی ایشیا اور شرق اوسط میں مزید سازشوں کے لیے ایک مرکز بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہزاروں جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔

مذاکرات یا نیا جال

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکا کی افغان پالیسی ہر اعتبار سے ناکام رہی ہے اور افغانستان اور پاکستان خصوصیت سے اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جس طرح اوباما بش کی پالیسیوں پر کارفرما ہے، اسی طرح پاکستان کی موجودہ قیادت (زرداری گیلانی حکومت) جنرل مشرف کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور ملک کو ہر روز نئی مصیبتوں اور ہلاکتوں میں جھونک رہی ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس (اکتوبر ۲۰۰۸ء) میں ایک متفقہ قرارداد کے بعد خارجہ پالیسی کو آزاد بنیادوں پر ازسرِنو مرتب کرنے اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کی پالیسی کو تبدیل کرنے کی سفارش کی تھی۔ ڈرون حملوں کی مذمت ہی نہیں مزاحمت کا مطالبہ کیا تھا  اور فوجی حل کی جگہ سیاسی حل اور مذاکرات پر مبنی پالیسی کو ملک کے لیے تجویز کیا تھا، مگر حکومت نے ۱۵مہینے ضائع کردیے اور پالیسی اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور ملک تباہی کی دلدل میں مزید دھنستا چلا جارہا ہے۔

لندن کانفرنس میں جو حکمت عملی تجویز کی گئی ہے بظاہر اس میں طالبان سے مذاکرات کو اس کا مرکزی پیغام قرار دیا جا رہا ہے مگر یہ ایک دھوکا ہے۔ اس لیے کہ اس حکمت عملی کا اصل مقصد مذاکرات اور مفاہمت نہیں بلکہ طالبان میں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو (divide and rule)کی سامراجی پالیسی پر عمل ہے۔ ایک طرف فوج کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے اور دوسری طرف ۵۰۰ ملین ڈالر سے لے کر ڈیڑھ ارب ڈالر تک کے فنڈ کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں، اور توقع کی جارہی ہے کہ ڈالروں کے ذریعے طالبان کے ایک بڑے حصے کی وفاداریاں خریدی جاسکیں گی۔ طالبان کی قیادت نے اس کا صاف الفاظ میں جواب دے دیا ہے کہ ہمارا ایمان اور ہماری وفاداریاں کوئی قابلِ خریدوفروخت شے نہیں۔ اگر ڈالر اور اقتدار ہماری منزل ہوتی تو بہت پہلے یہ کچھ حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اصل ایشو امریکا اور ناٹو افوج کا قبضہ ہے اور جب تک افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا نہیں ہوتا اور اس کا واضح ٹائم ٹیبل طے نہیں ہوتا، کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ طالبان نے دوبڑے اہم بیانات دیے ہیں، ایک نومبر ۲۰۰۹ء میں عیدالاضحی کے موقع پر اور دوسرا لندن کانفرنس کے جواب میں۔ ان کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں کھلے الفاظ میں اور بین السطور طالبان کی تازہ سوچ کو اور آیندہ ان کی حکمت عملی کے رُخ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تعجب ہے کہ طالبان کے ان بیانات کا پاکستان اور عالمی میڈیا نے قرار واقعی نوٹس  نہیں لیا اور ان میں نئی سوچ کے جوروشن اشارے ہیں ان سے صرفِ نظر کرلیاگیا ہے۔ صرف نیویارک ریویو آف بکس کے تازہ شمارے میں مُلا عبدالسلام ضعیف کی خودنوشت پر،جس کا ترجمہ حال ہی میں امریکا سے My Life with the Talibanکے نام سے شائع ہوا ہے، احمدرشید کے تبصرے میں نومبر۲۰۰۹ء والے بیان کا ذکر اس اعتراف کے ساتھ ہے کہ افغان طالبان اب ایک ایسی تحریک ہیں جس کا اثر ملک کے تمام علاقوں میں ہے اور صرف جنوبی افغانستان تک محدود نہیں۔

طالبان کے تصورِ حکمرانی کے بارے میں مضمون نگار کا یہ تبصرہ غوروفکر کا متقاضی ہے:

دریں اثنا طالبان نے لچک کا پہلا اشارہ دیا ہے جیساکہ نومبر ۲۰۰۹ء میں عید کے موقع پر ۱۰ صفحے کے بیان میں ظاہر ہوتا ہے۔ طالبان رہنما ملاعمر نے اپنے جنگجوئوں سے امریکا کے خلاف جہاد کی اپیل کے ساتھ یہ وعدہ کیا ہے کہ مستقبل کی طالبان حکومت امن قائم کرے گی، بیرونی افواج کی مداخلت ختم ہوگی اور پڑوسی ممالک کے لیے کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ اس میں یہ مضمر ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ القاعدہ واپس نہیں آئے گی۔ ملاعمر نے انتہاپسند سے زیادہ ایک مدبر کے طور پر کہا ہے کہ اسلامی امارت افغانستان تمام ملکوں کے ساتھ مل کر باہمی تعاون اور معاشی ترقی اور باہمی احترام کی بنیاد پر   اچھے مستقبل کے لیے تعمیری اقدام کرے گی۔

ایک ہفتے بعد اوباما کی تقریر کے ردعمل میں ایک بدلے ہوئے رویے کا اشارہ ملتا ہے۔ جہاد یا اسلامی قانون نافذ کرنے کا ذکر ہی نہ تھا۔ اس کے بجاے طالبان نے افغانستان کی آزادی کے لیے حب وطن اور قومیت کی بنیاد پر جدوجہد کی بات کی اور کہا کہ       اگر بیرونی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں تو وہ قانونی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں۔ نئے سال کے پیغام میں طالبان نے امریکی فوج کے اضافے کی مذمت کی لیکن اوباما کے ساتھ یہ کہہ کر ہمدردی بھی کی کہ امریکی صدر کو اپنے ملک میں بہت سارے مسائل اور مخالفت کا سامنا ہے۔ (نیویارک ریویو آف بکس، جلد۵۷، نمبر۳، ۲۵، جنوری ۲۰۱۰ء)

سوچ کا یہی رُخ طالبان قیادت کے ۲۸ جنوری ۲۰۱۰ء کے بیان میں بھی واضح ہے جو لندن کانفرنس کے اعلامیے پر ان کا بروقت ردعمل ہے:

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امیرالمومنین ملاعمر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی قانون چاہتے ہیں۔ ہم پڑوسی ممالک اور دنیا کے ممالک کا نقصان نہیں چاہتے اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائیں۔ ہم اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اسلامی امارت باہمی احترام کے ماحول میں پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے مثبت تعلقات چاہتی ہے، اور دو طرفہ تعاون، معاشی ترقی اور خوش حال مستقبل کے لیے دیرپا اقدامات کرنا چاہتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ارادوں کے جواب میں ایسے ہی ارادے رکھیں۔ مزیدبرآں اسلامی امارت اسلامی بنیادوں اور عصرحاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے عوام کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کی پابند ہے۔ اسلامی امارت افغانستان کسی لسانی یا نسلی تعصب سے پاک خوش گوار ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے، تاکہ لوگ   اتحاد اور قوت کے جذبے سے مل کر کام کرسکیں۔ اس طرح وہ اسلامی حکومت کی حمایت کریں گے جو ہمارے شہدا کی تمنائوں کی عملی شکل ہوگی اور جان و مال، عزت و حیثیت اور قومی اور تاریخی اقدار کی محافظ ہوگی۔

یہ امر افسوس ناک ہے کہ امریکا کی قیادت میں حملہ آور مسئلے کے فوجی حل پر مصر ہیں۔ ہم وضاحت سے کہنا چاہتے ہیں کہ حملہ آور اپنے آپ کو مزید مالی اور جانی نقصان سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے عوام کو پُرفریب منصوبوں اور حکمت عملی سے دھوکا نہیں دینا چاہیے، ان پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے، اور ہمارے عوام کے لیے زیادہ تکلیف اور پریشانیوں کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ انھیں اسلامی امارت کا پیش کردہ حل قبول کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک سے حملہ آور فوجیں مکمل طور پر چلی جائیں۔ اس میں حملہ آوروں کے لیے نجات اور تحفظ ہے۔ اگر وہ واقعی مسئلے کے حل کے لیے اقدام کرنا چاہتے ہیں تو انھیں افغانستان، پاکستان، گوانتانامو اور دوسری جیلوں میں موجود لوگوں کو رہا کردینا چاہیے۔ تمام عالمی اصولوں کے خلاف انھیں اتنے برس جیل میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ انھیں اپنی بلیک لسٹ مکمل ختم کر دینا چاہیے تھی اور مزید فوج نہیں بھیجنا چاہیے تھی۔ جو وہ کہتے ہیں وہ کرنا چاہیے تھا۔

آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ حملہ آوروں کی غارت گری اور سفاکیت کے خلاف ہمارے مسلمان اور غیور عوام کی مزاحمت اور جہاد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ دشمن مختلف ہتھکنڈوں سے ان کی قوت کو نہ کمزور کرسکا ہے اور نہ ختم کرسکا ہے۔ انھوں نے ماضی میں بھی کوشش کی ہے اور اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے بہادر مسلمان عوام اور ان کی قیادت اسلامی امارت کو الجھائیں۔ کبھی وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ جو مجاہدین جہاد کا راستہ ترک کرنے کے لیے تیار ہوں، وہ انھیں مال و دولت، روزگار اور ملک سے باہر ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریںگے۔و ہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین نے رقم حاصل کرنے کے لیے، یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے ہتھیار اٹھائے ہیں یا انھیں مجبور کیا گیا ہے کہ ہتھیار اٹھائیں۔ یہ بے بنیاد اور مہمل بات ہے۔ اگر اسلامی امارت کے مجاہدین کا مقصد مادی مقاصد حاصل کرنا ہوتا تو وہ پہلے ہی حملہ آوروں کے غلبے کو تسلیم کرلیتے اور ان کی حمایت کرتے۔ ہر چیز ان کی پہنچ میں تھی، آرام دہ زندگی، مال و دولت اور اقتدار۔ لیکن اسلامی امارت، عقیدے، ضمیر اور اپنی سرزمین کا مادی مفادات کے لیے سودا نہیں کرے گی اور نہ ذاتی مراعات اور دھمکیوں کی بنیاد پر ان کو دبایا جاسکے گا۔ افغانستان کے غیور عوام کی تاریخ میں اس طرح کا گھنائونا کھیل کبھی کامیاب نہیں ہوا۔

مجوزہ افغان پالیسی: بنیادی خطوط

طالبان قیادت کے یہ بیانات غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں اور بحران سے نکلنے کے لیے ابتدائی خطوطِ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکا اور پاکستان دونوں کے لیے صحیح افغان پالیسی وہی ہوسکتی ہے جس میں مندرجہ ذیل امور کو مرکزی حیثیت حاصل ہو:

                ۱-            فوری جنگ بندی اور افغانستان سے تمام غیرملکی فوجیوں کا ایک طے شدہ نظامِ کار کے مطابق مکمل انخلا۔

                ۲-            افغانستان میں قومی مفاہمت کا آغاز جس میں ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی مذاکرات میں شرکت اور قومی جرگے کے ذریعے نئے نقشۂ کار پر اتفاق کا حصول۔

                ۳-            بیرونی افواج کے ساتھ دوسری بیرونی قوتوں کے بارے میں واضح پالیسی اور افہام و تفہیم کے ذریعے اور مہمان داری کی اسلامی اور افغان روایات کے مطابق، اور ان مقاصد اور حدود کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے جو حالات کا تقاضا ہے، مناسب کارروائی۔

                ۴-            افغانستان کے معاملات میں بھارت کے کردار پر نظرثانی اور امریکا اور بھارت کی ملی بھگت سے جو کھیل وہاں تعمیروترقی اور تربیت کے نام پر کھیلا جارہا ہے، اس کا مکمل سدّباب۔

                ۵-            قومی مفاہمت اور علاقائی امن کے حصول کے عمل میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا مشورہ اور شراکت، اور ایک دوسرے کے معاملات میں مکمل عدم مداخلت اور شفاف تعلقات کے نظامِ کار پر اتفاق، نیز باہم رضامندی سے تاریخی تعلقات اور روایات کی روشنی میں تعاون اور امداد باہمی کے نظام کا قیام۔

                ۶-            افغانستان کی معاشی، تعلیمی اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے فوری اور لمبے عرصے کی  منصوبہ بندی، وسائل کی فراہمی اور عملی نقشۂ کار اور تقسیمِ کار کا اہتمام۔

                ۷-            عالمی سامراجی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور عالمی سطح پر حقیقی دوستی اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور نقشۂ کار۔

                ۸-            افغانستان نے گذشتہ ۳۰ سال میں اور خصوصیت سے گذشتہ ۱۰ سال میں جو نقصانات اُٹھائے ہیں ان کا سائنسی بنیادوں پر تخمینہ اور تعین اور ان کی تلافی اور آیندہ کی ترقی    کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے اُمت مسلمہ اور عالمی سطح پر قابلِ عمل منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے نظام کا قیام۔

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادے کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اِس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اِسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہو سکے تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔ دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی میں حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتا دی تھی:

فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور وہ جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمّہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔

بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت و فرماںبرداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیع فرمان پیدا کردیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیع فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔ اس طریقے کو چھوڑ کر جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے۔ اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کر دے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اور باطل کے درمیان کش مکش برپا ہے۔ اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار، اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں) سب امتحان گاہ میں اپنااپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کر دے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاں تک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے    منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے    پِٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام رہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ    اپنے دین کی مغلوبیت کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے    اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پا رہے، اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ    خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو   اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔

یہ خیال کرنا صحیح نہیںہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّا ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی الجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق، عاصی اور مطیع، سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہتے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں  فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہر قوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل، حصہ پنجم، ص ۳۲۷- ۳۳۱)

امام حسن البناؒ کو’ قرآنی شخصیت ‘کے لقب سے نوازا گیا ہے۔انھوں نے نہ صرف اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے مثالی مردانِ کار تیار کیے بلکہ تفسیر ،حدیث ،فقہ ، سیرت اور بہت سے دیگر موضوعات پر قلم اٹھایا اور ایک قابلِ قدر علمی ذخیرہ چھوڑا۔

امام حسن البنا شہید ؒاگرچہ پورے قرآن مجید کی تفسیر تو نہ لکھ پائے ، لیکن تقریباً ۱۵برس تک مختلف جرائد میں قرآنی آیات کی تفسیر و توضیح کرتے رہے۔ یہ تفسیری لوازمہ تین ضخیم کتابوں     کی صورت میں مرتب ہو کر شائع ہوچکا ہے۔ ان میں سے ۴۶۶ صفحات پر مشتمل ایک مجموعہ   مقاصد القرآن الکریم ان کے بیٹے احمد سیف الاسلام البنا کا مرتب کردہ ہے، جب کہ باقی   دو مجموعے التفسیر اور خواطر من وحی القرآن استاذ جمعہ امین نے مرتب کیے ہیں۔

اس امر کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ امام حسن البناؒکی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے تحریکی ساتھیوں کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ کے عمومی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن مجید کی ایک عام فہم تفسیر لکھیں۔

اخوانی مجلہ الشھاب کے پہلے شمارے میں انھوں نے اپنی تفسیری کاوشوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا: ’’قرآن مجید اسلام کا اولین اور اہم ترین ماخذہے۔ اس ناتے سے اس مجلے کے صفحات کا تفسیر قرآن اور علوم قرآن سے آراستہ ہونا ایک لازمی امر ہے۔ میں ایک طویل عرصے تک سوچتا رہا کہ تفسیر قرآن کے وسیع میدان میں کس دروازے سے داخل ہوا جائے؟ آخر کار    یہ طے کیاکہ سید رشید رضامرحوم کی تفسیرالمنار کی تکمیل کی جائے۔ چنانچہ ۱۸مئی ۱۹۳۹ء سے، جب علامہ رشید رضا کا مجلہ المنار اخوان کے سپرد کیاگیا ،میں نے سورۂ رعد کی تفسیر لکھنے سے    اس سمت قلم اٹھایا۔ لیکن اخوان کے زیر انتظام اس وقیع علمی و دینی مجلے کے صرف چھے شمارے شائع ہوپائے تھے کہ حکومت نے اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ یوں تفسیر کا یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اس موقع پر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ تفسیر المنار کی تکمیل بہت وقت چاہتی ہے، اس لیے اس کی تکمیل ان علماے کرام پر چھوڑ دینی چاہیے‘ جن کے پاس نسبتاً زیادہ وقت ہے اور جو اس کام  کی تکمیل کے لیے مناسب قدرت و اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ اب میں نے اپنے ذاتی اسلوب میں قرآنی آیات کی تشریح وتوضیح کاآغاز کیا ہے۔ میرا عزم ہے کہ سورئہ فاتحہ سے شروع کرکے     اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ فہم کے مطابق ، درجہ بدرجہ آخر تک مکمل قرآن مجید کی تفسیر لکھوں۔ ارادہ ہے اس تفسیر میں قرآن کے عمومی مقاصد کو مسلسل پیش نظر رکھا جائے۔ ترتیب آیات کی حکمت ، موضوع کی وحدت اور عمومی فوائد ساتھ ساتھ واضح کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال رہی تو اس تفسیری مجموعے کا عنوان مقاصد القرآن الکریم ہوگا‘‘۔

 ہفت روزہ الاخوان المسلمین کے پہلے شمارے، ۱۵جون ۱۹۳۳ء سے انھوں نے  اس تفسیر کے لکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا اور یہ بابرکت سلسلہ ۱۲مارچ ۱۹۴۸ء تک برابر جاری رہا۔   مجلہ الاخوان المسلمین کے علاوہ دیگر مجلات النضال، النذیر اور الشھاب میں بھی یہ تفسیری دروس شائع ہوتے رہے۔

احوالِ تفسیر

مفسرین قرآن کے ہاں ہمیں مختلف مکاتب فکرملتے ہیں۔ بعض مفسرین نے صرف  احکام القرآن کو بنیاد بنایا ہے۔ بعض نے لغوی ، صرفی اور نحوی مباحث کو ترجیح دی ہے۔ بعض تفاسیر کلامی انداز کی ہیں اور بعض متصوفانہ رنگ میں لکھی گئی ہیں۔ بعض تفاسیر قرآن کے علمی اعجاز کو واضح کرتی ہیں اور بعض قرآن کی ادبی شان کو اُجاگر کرتی ہیں۔ ہر مفسر کا اپنا رنگ ہے اور ہر تفسیر کا اپنا دائرہ۔ ان سب کے پہلو بہ پہلو ایسے مفسرین بھی نظر آتے ہیں ، جنھوں نے قرآن مجید کو ایک زندہ، تحریکی اور انقلابی کتاب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ قرآن کو رہنماے زندگی کے طور پر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس کی تعلیمات ایک جیتے جاگتے معاشرے کی عملی تصویر پیش کر دیتی ہیں۔ امام حسن البناؒ بھی انھی مفسرین کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ خود ان کے اپنے الفاظ میں: میری نظر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تفسیر کا مقصد یہ ہے کہ آیات قرآنی کے مطالب کو اس انداز سے واضح کیا جائے کہ قاری کو آیت کا درست مفہوم اور صحیح مراد سمجھ میںآجائے ،اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کا درست طور پر ایسا اثر قبول کرے کہ جس کے نتیجے میں اس کی زندگی بدل جائے۔ مزید یہ کہ اس آیت میں جو احکام بیان ہوئے ہیں، یا اس میں جو عبرت اور نصیحت کے پہلو ہیں ، ان سے خوب واقف ہوجائے۔ (ہفت روزہ الاخوان المسلمین‘۱۵جون ۱۹۳۳ئ)

الاخوان المسلمین کے پہلے شمارے میں انھوں نے درج ذیل ۱۰ بنیادی اصولوں کا ذکر کیا جو ان کے مطابق تفسیر کرتے ہوئے ان کے پیش نظر رہیں گے۔ ان کے نزدیک ان اصولوں پر عمل،مختصر وقت اورکم محنت سے تفسیرقرآن کے حقیقی مقصد کے حصول میں معاون ہوگا:

۱- مفردات قرآنی ( الفاظ و کلمات ) کی مختصر لغوی توضیح اور تراکیب (نحوی )کا اجمالی بیان۔

۲- مطالب کی وضاحت کے لیے آسان اور سلیس زبان کا استعمال، اور معانی و مطالب کے بیان میں توازن و اعتدال۔

۳- (قرآن مجید میں مذکور ) واقعات اور قصص سے متعلقہ لوازمے کی مناسب چھان بین، یعنی صرف انھی تفصیلات کا ذکر جن کا آیاتِ قرآنی سے کوئی نہ کوئی تعلق ہو اور جس کی تائید میں دلیل اور ثبوت موجود ہو۔

۴- قرآن مجید کے معانی کو انسان کی روز مرہ زندگی کے مختلف علمی، اجتماعی اور اخلاقی پہلوئوں سے جوڑنا۔

۵- اسباب نزول کا ذکر اور آیات کے ساتھ ان کا ربط واضح کرنا۔

۶- زیر تفسیر آیت سے متعلقہ احادیث کا ذکر جن سے ان کی صحیح مراد اور مفہوم واضح    ہوتا ہو۔

۷- زیر تفسیرآیت قرآنی سے عبرت اور نصیحت کے پہلو اور فقہی احکام کا استنباط۔

۸- اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا ، تاویلات، بے جا بحث اور کٹ حجتی سے مکمل احتراز کرنا اور مختلف آرا میں سے کسی ایک راے کے حق میں بے جا تعصب کا مظاہرہ نہ کرنا۔

۹-تفسیر کے اختتام پر بعض لغوی اور اصولی مباحث کا اضافہ کرنا ، تاکہ اس میں مزید بحث کے متمنی افراد کو تحقیقی موادمل سکے۔

۱۰- بعض مفسرین جن مغالطوں کا شکار ہوئے ہیں، ان سے خبر دار کرنا اور مختلف شبہات کا ازالہ کرنا تاکہ مخصوص اغراض رکھنے والے انھیں کسی آیت قرآنی پر اعتراض کا ذریعہ نہ بنالیں۔

امام حسن البناؒ ایک بلند پایہ عارف ربانی اورصاحب ِنظر محقق تھے۔ آپ قرآن کو سمجھنے کے طریقے کی نشان دہی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ایک دفعہ مجھ سے میرے ایک ساتھی نے دریافت کیا کہ قرآن کریم کی سب سے اچھی اور بہترین تفسیر کون سی ہے،اور قرآن فہمی کا آسان ترین طریقہ کیا ہے ؟ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس سوال کا جواب ایک لفظ میں سمجھا دیا اور میںنے کہا:   قلبک، یعنی قرآن پاک کی بہترین تفسیر اور قرآن کریم سمجھنے کا بہترین طریقہ ’آپ کا دل‘ ہے۔

بلاشبہہ مومن کا دل ہی اللہ تعالیٰ کی کتاب کی عمدہ ترین تفسیر اور اس کو سمجھنے کا کامیاب ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ جب ایک بندہ مومن تدبر و انہماک اور نہایت عاجزی اور خشوع کے ساتھ اپنے دل کی پراگندگی کو دور کرتے ہوئے انتہائی یکسوئی کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے رشد و ہدایت کی درخواست کرتے ہوئے دست بہ دُعا ہوتا ہے، اورساتھ ہی ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کو پیش نظر رکھتے ہوئے شانِ نزول کو اس کے ساتھ جوڑ دیتا ہے تو لامحالہ اس وقت وہ قرآن کریم کے حقیقی فہم کو پالیتا ہے۔ اس کے بعد اگروہ تفسیر کی کسی خاص کتاب کا مطالعہ کرتا بھی ہے تو وہ صرف اور صرف اس لیے ہوتا ہے کہ کسی مشکل لفظ کے معنی یا کسی مبہم ترکیب کو سمجھے یا پھر قرآن کے فہم اور اس کے معانی کے ادراک کے لیے اپنی علمی صلاحیت وثقاہت کو بڑھائے۔ گویا کہ قرآن فہمی کے مذکورہ طریقے کو اختیار کرنے کے بعد کتب ِتفسیر کا مطالعہ فہم قرآن میں ممدو معاون کے طور پر ہوتا ہے۔ ایسی قرآن فہمی پھر اس شخص کے لیے اس نور کی مانند بن جاتی ہے جو کہ ہمیشہ اس کے دل کی دنیا کو منور کیے رکھتا ہے، اور اس کی کرنوں کی بدولت اس کو دنیا اور آخرت دونوں میں روشنی نصیب ہوجاتی ہے۔

حسن البناؒ اکثر محمد عبدہٗ کی اس وصیت کا حوالہ دیا کرتے تھے جس میں انھوں نے کہا تھا: ’’قرآن پاک کی تلاوت مسلسل اور مداومت کے ساتھ کیا کرو۔ اس کے اوامر اور نواہی کو اسی طرح سمجھنے کی کوشش کرو، اوراس مبارک کتاب سے نصائح اوردروس اسی طریق پر تلاش کرو جس طرح کہ نزول وحی کے ایام میں صحابہ کرامؓ سمجھا کرتے تھے۔ کسی مشکل لفظ کو سمجھنے یا کسی مبہم ترکیب کے   حل کے علاوہ تفسیر کی متعدد وجوہ کے پیچھے نہ پڑو، بلکہ اس کے بنیادی و حقیقی معنی اور مراد کو     خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلو، جس کی طرف قرآن تمھیں دعوت دیتا ہے اور اُسی راے کی اتباع کرو جس کا تم سے قرآن مجید مطالبہ کرتا ہے‘‘۔

امام البنا ؒنے اپنے اس طرز تفسیر او راسلوب قرآن فہمی میں دسیوں بار علماے کرام اور مفسرین عظام کی عظمت اور ان کی علمی کاوشوں کا اعتراف کیا ہے۔ ان کے اس اسلوب تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان تب ہی قرآن میں سے قیمتی جواہرات کو حاصل کرسکے گا جب وہ مختلف تفسیری بحثوں میں الجھنے کے بجاے، ان قیل و قال کو چھوڑ کر آزاد اور صاف ستھرے ذہن کے ساتھ قرآنی علوم و معارف کے بحر زخار میں غوطہ زن ہوجائے۔ اگر ہم اس اسلوب تفسیر اور قرآن فہمی کے وہ ۱۰اصول مدنظر رکھیںجنھیں امام حسن البناؒ نے پیش کیا ہے اور پھران کے تفسیری دروس کا مطالعہ کریں تو ان کی تفسیری کاوشوں کو ان کا عملی نمونہ پائیں گے۔

آسان اور سلیس عبارت کا استعمال ، واقعات اور قصص کے حوالے سے تحقیقی انداز بیان، مفردات قرآن کی لغوی تحقیق ، عملی زندگی سے معانی قرآن کا ربط و تعلق،آیات کے متعلق  احادیث نبویؐکا بیان ، آیات کریمہ سے دروس و نصیحت کا استنباط، فقہی اور فروعی مسائل میں متوازن اور معتدل منہج، اغلاط اور شبہات پر تنبیہ اور ان کا مدلل جواب، اور تحریر میں وہ ساحرانہ اثر اور مٹھاس جوکہ عقل ،جسم اور روح کو بیک وقت اپیل کرتی ہے اور جس کا پایا جانا ایک ولی اللہ اور ایک بلندوبالا      روحانی مقام پر فائز شخصیت ہی کی تحریروں میں ممکن ہے___ امام حسن البناؒ کا اسلوبِ تفسیر ان تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے۔

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی امت کے ان لوگوں کو جانتا ہوں کہ جن کی نیکیاں قیامت کے دن کوہِ تہامہ جتنی بلند ہوں گی اور خوب چمک رہی ہوں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو راکھ کے ڈھیر کی طرح اڑا دے گا۔ میں نے عرض کی یارسولؐ اللہ ! ذرا ان لوگوں کی صفات بیان فرمادیں، ہمیں ان لوگوں کے بارے میں واضح طور پر بتادیں، کہیں یہ نہ ہو کہ ہم بھی لاعلمی میں انھی لوگوں میں شمار ہوجائیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ لوگ تمھارے ہی بھائی ہیں، تم ہی میں سے ہیں، تمھاری ہی طرح قیام اللیل کرتے ہیں، لیکن جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو انھیں اللہ کی حدود پھلانگنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ (ابن ماجہ ، حدیث ۴۲۴۵)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی صفات کی روشنی میں دیکھیں تو بظاہر نیک بندے کی     تصویر ذہن میں آتی ہے۔ مسلمانوں ہی میں سے، انھی ہی کی طرح عبادات کا خوگر، فرائض سے بڑھ کر نوافل و تہجد تک کا اہتمام کرنے والا، روشن و چمک دار نیکیوں کے بلند پہاڑ اپنے ساتھ لے کر جانے والا، لیکن ایسا بدنصیب کہ بالآخر ساری محنت پر پانی پھیردینے والا۔

اس بُرے انجام کا سبب؟۔ لوگوں کے سامنے تو برائی اور گناہوں سے اجتناب، لیکن تنہائی میں اللہ کے حرام کردہ اُمور کا ارتکاب۔ پارسائی کا دعویٰ اور غلط فہمی، لیکن اس دعوے کی اصل جانچ میں ناکامی۔ آج شیطانی دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار فحاشی و عریانی اور مالی و اخلاقی کرپشن ہے، فرمان نبویؐ میں اس ابلیسی وار سے بچنے کے لیے اصل ڈھال فراہم کردی گئی ہے: کھلے اور چھپے ہرحال میں اللہ کا خوف، ہر دم اللہ کی یاد۔ صحابہ کرامؓ کی حرص آخرت بھی دیکھیے کہ فوراً دھڑکا لگ گیا، یہ نہ ہو کہ پتا ہی نہ چلے اور ہم بھی انھی میں شمار ہوجائیں۔

o

حضرت معاویہ بن حَیدَہؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے لوگ ہیں جن کی آنکھیں (جہنم کی) آگ نہیں دیکھیں گی۔ ایک وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کی راہ میں پہرہ دیتی رہی، دوسرے وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کے خوف سے رو دی، اور تیسرے وہ کہ جس نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے نگاہوں کو بچالیا (بروایت طبرانی جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا)

اسلامی ریاست اور اہل اسلام کی حفاظت، رضاے ربانی کا ذریعہ بنتی ہے، بشرطیکہ یہ کام صرف اللہ کی رضا کی خاطر کیا جائے۔ ترقی و کمال بھی اس اخلاص و محنت کا ایک طبعی نتیجہ ہے، لیکن اصل قوت محرکہ نہیں۔ یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر صرف جاگنے کا اجر یہ ہے، تو مسلمانوں کے خلاف جنگ کا حصہ بننا، جابجا دھماکے، فائرنگ اور آتش زنی سے تباہی پھیلانا،  لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کو برباد کرنا، رب کی کتنی ناراضی اور مجرموں کے لیے کتنے عذاب کا سبب بنے گا۔

اللہ کے خوف سے آنکھیں نم ہوجانا، سوزِ دل اور اللہ سے تعلق کا سب سے اہم مظہر ہے۔ وہ نارِجہنم کہ جس سے دنیا کی شدید سے شدید آگ بھی پناہ مانگتی ہے، بندے کی چشم نم سے بجھائی جاسکتی ہے۔ پھر وہ آنکھ جس نے اللہ کی محرمات سے آنکھیں پھیر لیں، جہنم سے چھٹکارا پاگئی___ آج جب قدم قدم پر فحاشی، اخلاقی غلاظت اور شیطانی ثقافت کا بازار گرم کیا جارہا ہے، اس حدیث کو یاد رکھنے کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔

آئیے ذرا خوب دھیان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دوبارہ سنتے ہیں: یہ تینوں ’’آنکھیں جہنم کی آگ نہیں دیکھیں گی‘‘۔ سبحان اللہ! یہ نہیں فرمایا کہ جہنم میں نہیں جائیں گی، بلکہ فرمایا جہنم کی جھلک تک نہیں دیکھیں گی۔ اَللّٰھُمْ أجِرنَا مِنَ النَّارِ، پروردگار ہمیں جہنم کی آگ سے بچا۔ آمین!

o

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو یا خاتون کو نہیں مارا تھا، بلکہ آپؐ نے میدان جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔ اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑا ہو اور آپؐ نے دونوں میں سے آسان تر کو پسند نہ کیا ہو،الا یہ کہ اس میں اللہ کی ناراضی کا کوئی پہلو ہو۔ اگر کسی کام میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا، تو آپؐ اس کام سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ آپؐ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہاں، اگر اللہ کی حدیں پامال ہورہی ہوتیں، تو پھر آپؐ اللہ کی خاطر انتقام لیتے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، حدیث ۱۹۸۴)

ربیع الاول میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت و عقیدت نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔  عشق و احترامِ نبیؐ کے روشن تر ان لمحات میں، سیرت اطہر کا مطالعہ ایمان میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اُم المومنین رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تین اہم صفات و عادات ہر اُمتی کو دعوتِ فکر دے رہی ہیں۔

پہلی یہ کہ آپؐ نے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائی، میدان جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہ مارا۔ ہتھیار تو دور کی بات ہے کہ اس سے کسی کی طرف مزاحاً اشارہ کرنا بھی جہنم میں جگہ بنانا ہے، ہاتھ سے بھی کسی کو نہ مارا، کسی کمزور سے کمزور کو بھی نہیں۔ انسانی خون کی ہولی کھیلنے والے اگر مسلمان ہیں تو کس منہ سے   عشق و محبت کا دعویٰ کرسکیں گے۔

دوسری یہ کہ اگر گناہ کے زمرے میں نہ آتی ہو تو ہمیشہ آسانی کو پسند کیا۔ دوسروں کو بھی یہی تعلیم دی کہ ’’یَسِّرُوا ، آسانیاں پیدا کرو‘‘۔ اس سنہری اور جامع اصول کا اطلاق بھی، زندگی کے ہر گوشے پر ہوتا ہے، دین و مذہب سے لے کر حکومت و اقتدار تک۔ تحریک و جماعت سے لے کر ملازمت و بیوپار تک۔ خود پر وہ بوجھ مت ڈالو جو خالق نے نہیں ڈالا، اور اگر کسی معاملے میں دو راستے میسر ہیں اور کسی میں بھی اللہ کی نافرمانی نہیں، تو آسان کو مشکل پر ترجیح دو۔

تیسری یہ کہ اپنی ذات کے لیے انتقام، نبیؐ کا شیوہ نہیں۔ ہاں، اگر کوئی خالق ہی کو ناراض کرنے پر تل جائے، تو آیندہ اسے اور دوسروں کو اس کارِ بد سے باز رکھنے کے لیے سزا بھی ناگزیر ہوجاتی ہے۔

o

حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور ابو طلحہ بن سہل انصاریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہورہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے جب و ہ خود اللہ کی نصرت کا محتاج ہوتا ہے۔ اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو ایسے وقت میں اپنے بھائی کی نصرت کرے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہورہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی نصرت ایسے وقت میں نہ کرے کہ جب وہ اللہ کی نصرت کا محتاج و طالب ہوتا ہے۔ (ابوداؤد، حدیث ۴۸۸۴)

بندہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کر رہا ہے حالانکہ درحقیقت وہ اپنی ہی مد د کررہا ہوتا ہے۔ بندہ اپنے بھائی کے کام آتا ہے تو رب کائنات خود اس بندے کا نگہبان بن جاتا ہے۔ مسلم کی طویل حدیث کے مطابق ’’اللہ تب تک خود بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے‘‘۔

رب کا انصاف ہر شے سے بالاتر ہے، جس نوع کی نیکی، اسی طرح کا اس کا اجر، اور جس طرح کا جرم، اسی نوع کی سزا و عذاب۔ افراد ہی نہیں اقوام و ممالک بھی اس حدیث کی روشنی میں اپنے حال و مستقبل کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات سے لے کر بین الاقوامی مسائل تک، اللہ نے یہ فیصلہ بندے پر چھوڑ دیا کہ وہ رب کی نصرت چاہتا ہے یا اس کی سزا و عذاب!

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پر دوست بننے والے دو افراد میں اگر کبھی کوئی اختلاف و رنجش پیدا ہوجاتی ہے، تو اس کی اصل وجہ، دونوں میں سے کسی ایک سے گناہ کا سرزد ہوجانا ہے۔ (بخاری)

نیک و پُرخلوص دوست اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اور اگر دوستی اللہ کی خاطر ہو تو دوجہاں میں اللہ کی محبت عطا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام کی خاطر دوست دو افراد کو، خالقِ کائنات  اس روز اپنے عرش کے سایے تلے جگہ دے گا جب کوئی اور سایہ میسر نہ ہوگا۔

دیگر نعمتوں کی طرح اس نعمت کے زوال کا اصل سبب بھی اللہ کی نافرمانی ہے۔ اگر اتنی عظیم نعمت کے چھن جانے کا سانحہ روپذیر ہوجائے، تو جائزہ لیں کہ کیا گناہ سرزد ہوا ہے۔ یہ کافی نہیں کہ جب کوئی غلطی اور گناہ تلاش کریں تو وہ بھی صرف دوسروں میں۔ اگر ہر بندہ دیکھے کہ مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا  تو پھر اس کا مداوا و استغفار ان شاء اللہ نعمت کی بحالی و دوام کا سبب بنے گی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ  غلطی و گناہ اس فرد سے درپیش معاملات ہی میں تلاش کیا جائے۔ کوئی بھی گناہ، زوالِ نعمت کا سبب بن سکتا ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل دُعا میں اللہ تعالیٰ سے یہ بھی درخواست ہوئی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ، پروردگار میں تیری نعمتوں کے زوال سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

حضور نبی پاک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کوئی قصہ کہانی نہیں ہے،وہ محض ایک فرد کی داستان بھی نہیں ہے، بلکہ وہ فی الحقیقت ایک ایسے عظیم اور پاکیزہ انقلاب کی کہانی ہے جس کی کوئی مثال تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ اس انقلاب کی روداد کا مرکزی کردار نبی اکرمؐ کی شخصیت ہے۔ باقی تمام کردار، خواہ وہ ابوبکرؓ و عمرؓ ہوں یا عثمانؓ و علیؓ، جعفرؓ طیار ہوں یا سیدالشہدا جنابِ حمزہؓ،   وہ حضرت بلالؓ ہوں یا یاسرؓو عمارؓ، اور اسی طرح دوسرے محاذ پر ابوجہل ہو یا ابولہب، عبداللہ بن اُبی ہو یا کعب بن اشرف، خواتین میں سے حضرت خدیجہؓ ہوں یا جنابِ فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ ہوں یا جنابِ اُم المساکین اور ان کے مقابل میں زوجۂ ابولہب ہو یا ہندہ جگرخوار___ یہ سب کے سب مرکزی کردار کے یا تو معاون کردار ہیں، یا مخالف۔ ان مختلف کرداروں کے تعاون اور کش مکش کے نتیجے میں تاریخ کا وہ سنہری باب لکھا گیا جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آنحضوؐر کی سیرتِ پاک رچی بسی ہوئی ہے اور مہاجرین و انصار میں اسی کا انعکاس دکھائی دیتا ہے۔ حضوؐر کی سیرت کو اس  کش مکش سے الگ کر کے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔

نعوذ باللہ حضوؐر نہ تو تارک الدنیا راہب تھے اور نہ ایک محدود اور بے ضرر سا دھرم یا مَت سکھانے آئے تھے۔ آپؐ کے ذمّے محض پوجا پاٹ کے طریقے بتانے اور چند اخلاقی نصیحتیں اور سفارشیں کرنے کا کام نہ تھا، بلکہ قرآن کی توضیحات کے مطابق آپ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ خداپرستانہ حکمت اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کرکے آپؐ ایک ایسی جماعت کھڑی کریں جو آپ ؐ کی قیادت میں بھرپور جدوجہد کر کے دینِ برحق کو ہر دوسرے نظریے اور فلسفے اور مذہب کے مقابلے میں پوری انسانی زندگی پر غالب کردے: ویکون الدّین کلہٗ للّٰہِ!

بات کو سمجھنے کے لیے دو تین مواقع پر رسولِؐ برحق کے فرمائے ہوئے کلمات پر ہم نگاہ ڈالتے ہیں۔ ان کلمات کی شہادت یہ ہے کہ حضوؐر کو اپنے کام کے حوصلہ شکن ابتدائی دور میں پورا شعور تھا کہ کیا کرنے چلے ہیں۔ دعوت کا کام شروع کرنے کے جلد ہی بعد خاندانِ بنوہاشم کو کھانے پر جمع کیا اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: جو پیغام میں تم تک لایا ہوں اسے اگر تم قبول کرلو تو اس میں تمھاری دنیا کی بہتری بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی‘‘۔ پھر ابتدائی دورِ کش مکش میں مخالفین سے آپؐ نے فرمایا کہ ’’بس یہ ایک کلمہ ہے‘‘، اسے اگر مجھ سے قبول کرلو تو اس کے ذریعے تم سارے عرب کو زیرنگین کرلو گے اور سارے عجم تمھارے پیچھے چلے گا‘‘۔ پھر ایک موقع پر رسولِ بشیرونذیر کعبے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، خباب ابن الارتؓ نے جو قریش کے تشدد کا نشانہ بن رہے تھے، عرض کیا: حضوؐر، ہمارے لیے خدا کی مدد کی دعا نہیں فرمائیں گے؟ حضوؐر نے جواب دیا کہ تم سے پہلے ایسے لوگ ہو گزرے ہیں کہ گڑھے کھود کر ان کے دھڑ مٹی میں داب دیے جاتے اور پھر ان کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دوٹکڑے کر دیا جاتا۔ تیز لوہے کی بڑی بڑی کنگھیوں سے بحالت ِ زندگی ان کے گوشت اور کھالوں کی کترنیں ہڈیوں سے نوچ لی جاتیں لیکن یہ چیزیں ان کو دین و ایمان سے نہ پھیر سکیں۔ پھر فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! اس کام کو اللہ تعالیٰ ایسی تکمیلِ منزل تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا، اور اسے سواے خدا کے کسی کا خوف لاحق نہیں ہوگا‘‘۔ مدنی دور میں عدی بن حاتم سے فرمایا کہ ’’بخدا وہ وقت قریب آرہا ہے جب تو سن لے گا کہ اکیلی عورت قادسیہ سے چلے گی اور مکہ کا حج کرے گی اور اسے کسی کا خوف ڈر نہ ہوگا‘‘۔ ان کلمات سے صاف ظاہر ہے کہ آپؐ کے سامنے اخوت و مساوات، عدل و انصاف اور امن وسلامتی کے ایک ایسے نظام کا نقشہ تھا جس میں کمزور اور تنہا فرد بھی ہر ضرر اور ظلم سے محفوظ ہوگا۔

یہ تھی منزل جہاں تک پوری انسانیت کے قائد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے اس معاشرے کو پہنچانے کے لیے عمربھر جان ماری کی جو جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، نظم سے محروم تھا، جرائم کی جولاں گاہ تھا، اور جس کے اُجڈ اور اکھڑ لوگ آپس میں لڑبھڑ کر قوتیں برباد کررہے تھے۔

محمدیؐ انقلاب کی اساس کلمہ طیبہ پر تھی، یعنی اس کائنات کا اور تمام نوعِ انسانی کا ایک ہی الٰہ ہے(البقرہ ۲:۱۶۳) اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ پوجا صرف اُس کی ہوگی، حکم اور قانون صرف اس کا چلے گا (البقرہ ۲:۱۲۹)۔ حاجات اس سے مانگی جائیں گی، دعائیں اس سے کی جائیں گی، نذریں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی، اعمال کا حساب کتاب لینے والا اور جزا سزا دینے والا وہ ہے۔ زندگی، موت اور صحت اور رزق اور امن اور عزت، سب کچھ اس کی طرف سے ہے۔ زندگی میں اور کوئی اِلٰہ نہیں ہوگا، کسی بادشاہ کی، کسی حکمران کی، کسی خاندان کی، کسی دولت مند کی، کسی پروہت اور پادری کی، کسی نمبردار اور چودھری کی اور خود کسی شخص کے اپنے نفس کی خدائی بھی نہ چلے گی۔ اللہ کے سوا دوسرا جو کوئی بھی خدا بنتا ہے یا اپنی مرضی ٹھونستا اور اپنا قانون چلاتا ہے، یا دوسروں کے سر اپنے سامنے یا کسی اور کے سامنے جھکواتا ہے، یا جو لوگوں کی حاجات پوری کرنے کا مدعی بنتا ہے، وہ طاغوت کا پارٹ ادا کرتا ہے۔

اس انقلابی کلمے کا دوسرا جز یہ بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے اپنا رسول مقرر کیا ہے۔ ان کو وحی کے ذریعے ہدایت اور ضلالت، نیکی اور بدی، حلال اور حرام کا علم عطا کیا ہے۔ آپؐ خدا کی طرف سے قیامت تک تمام مسلمانوں کے پیشوا اور قائد، معلم اور مزکّی اور اسوہ اور نمونہ قرار دیے گئے ہیں۔

اس انقلابی کلمے کے بیج سے نظامِ عدل و رحمت کا وہ شجرۂ طیبہ ظہور میں آیا جس کی شاخیں فضائوں میں پھیل گئیں اور جڑیں زمین میں اُتر گئیں۔ جس کی چھائوں دُور دُور تک پھیل گئی اور جس کے فکری، تہذیبی اور اخلاقی برگ و بار کا کچھ حصہ ہرقوم اور معاشرے تک پہنچا۔

محمدی انقلاب کے حیرت انگیز پہلوئوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس نے آپؐ کے پیغام کو قبول کیا اس کی ساری ہستی بدل گئی۔ اس کے ذہن کی ساخت، اس کے افکاروجذبات، اس کے ذوق اور دل چسپیاں، اس کی دوستیاں اور دُشمنیاں، اس کے اخلاقی معیارات سب کے سب بدل گئے۔ چور اور ڈاکو آئے اور دوسرے لوگوں کے اموال کے نگہبان بن گئے۔ زانی آئے اور دوسروں کی عصمتوں کے رکھوالے بن گئے۔ سود کھانے والے آئے اور وہ اپنی کمائیاں خدا کے دین اور بندوں کی خدمت کے لیے لٹانے لگ گئے۔ کبِر کے مجسمّے آئے اور عاجزی کا نمونہ بن گئے۔ خواہشوں کے غلام آئے اور پَل بھر میں دنیا نے دیکھا کہ وہ اپنی خواہشوں کو روندتے ہوئے ایک اعلیٰ نصب العین کی طرف لپکے جا رہے ہیں۔ جاہل آئے اور آسمانِ علم پر اُنھوں نے اس طرح کمندیں ڈالیں کہ دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ اُونٹوں کے چرواہے انسانوں کے شفیق گلّہ بان بن گئے۔ لونڈیوں، غلاموں کے پسے ہوئے طبقے سے وہ شجاع اور غیور ہستیاں نمودار ہوئیں جن پر دشمنوں نے ظلم و ستم کے سارے حربے آزما ڈالے، مگر ان کے ضمیروں کو بدلنے اور ان کے ایمان کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوئے۔

محمدیؐ انقلاب کے ان رضاکار سپاہیوں میں ڈسپلن اور ضبط و نظم ایسا بے مثال تھا کہ  حالتِ نماز میں اُن کو تحویلِ قبلہ کا حکم ملا تو اُنھوں نے فوراً اپنے رُخ بیت المقدس سے کعبے کی طرف پھیر لیے، اُن کے لیے شراب حرام کی گئی تواُنھوں نے منہ کے ساتھ لگے ہوئے پیالے تک الگ کرکے پھینک دیے، ان کی خواتین نے جب رسولِ پاکؐ کی زبان سے حکمِ حجاب سنا تو اس میں مین میخ نکالنے کے بجاے فوراً اپنے سروں اور سینوں اور زینتوں کو ڈھانپ لیا۔ ان میں سے اگرکسی مرد یا عورت سے خدا ورسولؐ کے احکام کے خلاف کوئی جرم سرزد ہوگیا تو اپنے جرم کے اقراری بن کر خود پیش ہوئے اور اصرار کیا کہ ان پر سزا نافذ کر کے انھیں حضوؐر پاک کر دیں۔ اُن سے چندہ طلب کیا گیا تو کسی نے گھر کا سارا سامان لا کے مسجد میں ڈھیر کر دیا، کسی نے سامان سے لدے ہوئے اُونٹوں کی قطاریں کھڑی کر دیں، اور کسی مزدور نے دن بھر کی محنت کی کمائی ہوئی چند کھجوریں پیش کردیں۔

پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا احسان تہذیب ِ انسانی پر یہ ہے کہ آپؐ نے انسانوں کے تمام رشتوں اور رابطوں کو محکم بنیادوں پر استوار کیا، ایک دوسرے کی باہمی ذمہ داریاں واضح کیں، سب کے حقوق و فرائض متعین کیے، اور اپنے نمونے کے معاشرے میں والدین اور اولاد، بھائی بہنوں، میاں بیوی، استاد اور شاگرد، امیر اور غریب، پڑوسی اور ہم سفر، حاکم اور رعیت کے ربط و تعلق کو احسن شکل دی۔

افراد کے اندر واقع ہونے والے اس انقلاب کے نتیجے میں عرب کے معاشرے میں جو انقلاب واقع ہوا، وہ حیرت انگیز ہے۔ حضوؐر نے اسلامی ریاست کی بنیاد جب مدینہ میں رکھی تو زیادہ سے زیادہ وہ علاقہ ۱۰۰ مربع میل ہوگا۔ آٹھ نو سال کے قلیل عرصے میں یہ ریاست پھیل کر ۱۰،۱۲ لاکھ مربع میل تک وسیع ہوگئی جس میں کوئی طبقاتی کش مکش نہ تھی، جس میں نسب کے فخر اور نسل کی عصبیت کا خاتمہ ہوگیا، جس میں امیروغریب اور عالم اور اَن پڑھ بھائی بھائی بن گئے، جس میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے، جس میں لوگ ایک دوسرے پر ظلم کرنے والے، سرکاری مال اور فرائض میں خیانت کرنے والے اور رشوتیں سمیٹنے والے نہ تھے، جس میں ہر کوئی دوسرے کے کام آتا تھا اور اپنے بھائی کو سہارا دیتا تھا۔ یہ بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر کی مہم تھی۔

یہ پاک اور پیارا محمدیؐ انقلاب اس طرح نہیں آیا کہ لوگوں پر جبروتشدد کیا جا رہا ہو۔   اس انقلاب کا پیغام قبول کرانے کے لیے کسی کوقتل نہیں کیا گیا۔ کسی کو جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ کسی کی  پیٹھ پر تازیانے نہیں برسائے گئے۔ اس کے لیے دہشت نہیں پھیلائی گئی بلکہ اس انقلاب کی روح محبت ِ انسانیت تھی اور حضوؐر نے بڑی شفقت سے معلّمانہ انداز پر پہلے مکہ میں ۱۳ سال تک اور پھر مدینہ میں ۱۰ برس تک کام کیا۔

مکہ کے دور میں آپؐ نے گالیاں سن کر، طعن و طنز کا ہدف بن کر، مارکھا کر اور تین سال تک شعب ِابی طالب میں خاندان سمیت نظربند رہنے کے باوجود نرمی اور پیار سے دعوت دی۔ آپؐ کے رفیق تپتی ریت پر لٹائے گئے، ان کے سینوں پر پتھر رکھے گئے، ان کی پیٹھوں کے نیچے دہکتے انگارے ٹھنڈے ہوگئے، کسی کے گلے میں رسّی ڈال کر گلیوں میں گھسیٹا گیا، کسی کو تازیانے مارمار کر ادھ موا کر دیا گیا اور کسی کو عذاب دے دے کر جان ہی لے لی گئی۔

پھر مدینہ میں آکر یہودیوں کی شرارتوں اور منافقین کی غداریوں کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ بار بار آپؐ کے قتل کی سازشیں کی گئیں جن سے حضوؐر بال بال بچ نکلے، مگر یہودیوں اور منافقوں کی ایک بڑی تعداد پوری آزادی کے ساتھ موجود رہی اور شرانگیزی کرتی رہی۔

میدانِ جنگ میں حضوؐر اگر مسلم قوت کو اُتارنے پر مجبور ہوئے تو اس وجہ سے کہ مخالف جاہلی قوت کے علَم بردار خود بار بار چڑھ کر آئے۔ بدر اور احزاب کی تین بڑی بڑی جنگیں مدینے کے دروازے پر لڑی گئیں۔ صرف ایک آخری جنگ جس کے پہلے مرحلے پر مکہ اور دوسرے میں حنین و طائف مفتوح ہوئے، اس وجہ سے ناگزیر تھی کہ دشمن کی جنگی قوت اور کارروائیوں کے یہ مراکز تھے۔ اگر انھیں قائم رہنے دیا جاتا، تو جنگوں کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک چلتا۔ اسی طرح غزوئہ بنومصطلق اور غزوئہ خیبر کا مقصد خوفناک قسم کی غدارانہ اور سازشی کارروائیوں کا سدِّباب کرنا تھا۔ باقی چھوٹے موٹے معرکے یا تو ڈاکوئوں کی سرکوبی کے لیے تھے یا سرحدی جھڑپوں کی نوعیت رکھتے تھے۔ کمال یہ ہے کہ جنگوں میں نبی ِؐ امن و رحمت نے ایک طرف ایسی تدبیریں اختیار کیں کہ دشمنوں کے کم سے کم افراد کو ہلاک کرنا پڑے، دوسرے عرصۂ پیکار کے لیے بھی اعلیٰ درجے کے ضابطے نافذ کرکے دکھایا کہ خدا پرستوں کے انداز کیا ہوتے ہیں۔ نو سال کی تمام جنگی کارروائیوں میں دشمن کے ۷۵۹افراد ہلاک ہوئے یعنی ۸۴ افراد فی سال،اور جنگوں میں مسلمانوں کا کل جانی نقصان ۲۵۹ ہے۔ ۸، ۹ سال کی مدت میں دو طرفہ جنگی اموات کی میزان ۱۰۱۸ ہے۔

کیا دنیا کا، اور خصوصاً آج کی مہذب دنیا کا کوئی انقلاب اتنے کم جانی نقصان کے ساتھ اتنے بڑے تغیر کی مثال پیش کرسکتا ہے؟ اس نام نہاد مہذب دنیا میں تو انقلاب ایک عفریت کی طرح آتا ہے اور ہزارہا انسانوں کو لقمہ بناتا ہے۔ پھر انقلابی حکومتیں جبریت کے تخت پر بیٹھ کر لوگوں کو مسلسل قتل کرتی رہتی ہیں، جیلوں میں ڈالتی ہیں، ان کو عذاب دیتی ہیں اور برسوں خوف اور دہشت کی فضا طاری رہتی ہے۔ ان جبری اور خون ریز انقلابوں نے تو انسان کی فطرت کو بالکل مسخ کردیا ہے۔

محمدیؐ انقلاب کی رحمت و برکت کو سامنے رکھ کر جب ہم دوسرے انقلابی نظریوں اور فلسفوں کو دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ باطل کے مختلف روپ ہیں۔

پس مطالعۂ سیرتِ نبویؐ سے ہمارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ ہم حضوؐر کے پیغام، حضوؐر کے ذکروعبادت، حضوؐر کے اخلاق، حضوؐر کی تنظیم، حضوؐر کے کارنامے، حضوؐر کے طریق کار اور حضوؐر کی حکمت عملی کو سمجھ کر اپنے آپ کو اس امر کے لیے تیار کریں کہ پہلے ہمارے اپنے اندر محمدیؐ انقلاب کا آغاز ہو اور پھر ہم نہ صرف اپنے ملک اور معاشرے کو، بلکہ پوری نوعِ انسانی کو محمدیؐ انقلاب کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ مند کریں۔ ہمارے لیے حق کی راہ صرف یہ ہے کہ حضوؐر کو اپنی   ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے پیشوا، قائد اور اسوہ اور نمونہ تسلیم کریں اور کسی دوسرے فلسفی یا انقلابی یا مصلح یا سیاست کار یا قانون ساز کو اپنا مستقل رہنما بناکر اس کی پیروی نہ کرنے لگیں،  ورنہ تمام زندگی خدا کے ہاں رائیگاں شمار ہوگی۔(سید ِ انسانیتؐ، ص ۷-۱۳)

ترجیحاتِ دین کا سوال بہت اہم ہے۔ دین کی بعض اساسات ہیں اور بعض کی حیثیت فروع کی ہے۔ جو اہمیت اصول کی ہے وہ فروع کی نہیں ہے، اس لیے کہ فروع اصول کی تابع ہیں اور ان ہی سے نکلتی ہیں۔ ان اساسات ہی کے ذریعے دین کی ترجیحات متعین ہوتی ہیں۔        یہ ترجیحات بدل جائیں تو اس کا امکان ہے کہ اصولِ دین کی طرف تو توجہ کم ہو یا بالکل نہ ہو اور فروعِ دین کی جو حیثیت ہے، اس سے زیادہ ان کو اہمیت دی جانے لگے۔ اس سے دین کا پورا نظام اور اس کا مزاج لازماً متاثر ہو کر رہے گا۔

دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کے سلسلے میں بھی اصول وفروع کی رعایت نہایت ضروری ہے۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ جو قدم پہلے اٹھنا چاہیے، وہ بعد میں اُٹھے اور جو قدم بعد میں اٹھنا چاہیے،  وہ پہلا قدم ہوجائے۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ ہماری ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ دین میں جس بات کو اصل اور اساس کی حیثیت حاصل ہے اس کو مضبوط کرنے سے پہلے فروعِ دین پر سارا زورصرف ہونے لگتا ہے اور ساری بحثیں ان ہی کے گرد گردش کرنے لگتی ہیں۔ یہ ایک غیرفطری طریقہ ہے۔ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔

یہاں قرآنِ مجید کی روشنی میں ترجیحاتِ دین کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی:

  •  عقائدِ اسلام: مکہ میں قرآن مجید کا تقریباً دو تہائی حصہ نازل ہوا۔ اس میں اصل زور اسلام کے عقائد پر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، رسالت اور اس کی ضرورت، آخرت اور اس کی تفصیلات زیربحث آئی ہیں۔ ان کے حق میں دلائل دیے گئے ہیں، ان پر جو اعتراضات ہورہے تھے، ان کی تردید کی گئی ہے، اور جو شکوک و شبہات پھیلائے جارہے تھے انھیں رفع کیا گیا ہے۔ یہی عقائد اسلام کی اساس ہیں۔ جب یہ مستحکم ہوگئی تو شریعت کی تفصیلات فراہم کی گئیں جو دراصل ان ہی عقائد کے لازمی تقاضوں کے طور پر سامنے آرہی تھیں۔
  • بندگیِ رب: قرآن مجید نے بتایا کہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے۔ اس پر اسی کا حکم چل رہا ہے۔ وہ ہر آن اس کی تسبیح و تحمید میں لگی ہوئی ہے اور اس کے احکام بجالارہی ہے۔ اس کے اقتدار میں کسی دوسرے کاکوئی دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا خالق و مالک ہے۔ وہ اس کا بندہ اور مخلوق ہے۔ اس کے لیے زندگی کا صحیح ترین راستہ یہ ہے کہ وہ خداے واحد کی عبادت اختیار کرے اور اس کے احکام بجا لائے۔ وہ اگر اس سے انکار کرتا ہے یاعبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو انتہائی غلط راہ پر چلتا ہے اور تباہی کو دعوت دیتا ہے۔ اس سے وہ بچ  نہیں سکتا۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں:

یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍo (اعراف ۷:۵۹) اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے علاوہ تمھارا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ (اس سے انحراف کے نتیجے میں) کہیں تم بڑے دن کے عذاب میں نہ پکڑے جائو۔

یہی ہر پیغمبر کی تعلیم کا بنیادی نکتہ رہا ہے۔ (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، الاعراف ۷:۶۵، ۷۴، ۸۵)

عبادت دراصل اس بات کا اظہار و اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان اپنا معبود برحق تسلیم کرتا ہے اور اس کے سامنے پوری طرح سر نگوں ہو رہا ہے۔ اس کے ہر حکم کو تسلیم کرنا اور اس کی نافرمانی کو اپنے لیے جائز نہیں تصور کرتا ہے۔ یہ اللہ کے نازل کردہ پورے نظامِ شریعت کو قبول کرنے کا اعلان ہے۔ اگر صحیح معنی میں جذبۂ عبادت پیدا ہوجائے تو احکامِ شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ اسلام نے دورِ اوّل میں جذبۂ عبادت کو اس قدر اُبھارا اور مضبوط کیا کہ نظامِ شریعت پر عمل مشکل نہیں رہا۔ دل و جان سے اس کی پابندی ہوتی رہی۔

  • اصلاحِ معاشرہ: قرآن مجید میں اللہ کے رسولوں کا اور ان کی دینی جدوجہد کا ذکر کہیں اختصار سے اور کہیں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس سے وضاحت کے ساتھ یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے زمانے میں ان ہی اساسات پر اصلاً زور دیا اوران ہی کی روشنی میں فکری و عملی اصلاح کی کوشش کی۔ اللہ کے پیغمبر جن قوموں میں آئے ان میں بہت سی سماجی اور اخلاقی خرابیاں موجود تھیں۔ ظلم اور ناانصافی تھی، جان و مال محفوظ نہ تھے اور حقوق پامال ہو رہے تھے۔ اللہ کے پیغمبروں نے بتایا کہ یہ ساری خرابیاں اس لیے ہیں کہ ان فکری اساسات کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے جنھیں وہ پیش کر رہے ہیں۔ اگر فرد اور معاشرہ خدا کو اس طرح مانے جس طرح ماننا چاہیے، اس کی ہدایت کو قبول کرے اور آخرت کی بازپُرس کا یقین اُبھر آئے تو پوری زندگی کا رُخ صحیح ہوسکتا ہے اور انسان پر دنیا اور آخرت کی کامیابی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے کسی بھی فساد زدہ معاشرے کی اصلاح کا امکان ہے۔ جب تک اسلام کی اساسات پر ایمان نہ ہو اور وہ دل و دماغ میں پیوست نہ ہوجائیں، سماج میں کسی صالح انقلاب کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
  • حقوق العباد کی اھمیت: قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے ساتھ انسانوں کے حقوق کو خاص اہمیت دی ہے۔ ان میں سے بعض حقوق کو قانونی درجہ حاصل ہے۔ یہ حقوق اگر ادا نہ ہوں تو انسان کی گرفت ہوگی۔ لیکن بعض حقوق کی حیثیت اخلاقی ہے۔   ان سے ہمدردی اور محبت کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور تعلقات خوش گوار ہوتے ہیں۔ اس سے قطع نظر قرآن کے نزدیک، خدا، رسولؐ اور آخرت پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان دُور و نزدیک کے حق داروں کے حقوق ادا کرے اور اس کے اندر نوعِ انسانی کی خدمت کا جذبہ پایا جائے۔    وہ غریبوں اور محتاجوں کے کام آئے اور ان کی ہر ممکن مدد کرے۔ یہ بات ایمان کے منافی ہے کہ ایک شخص کو تمام حقوق حاصل ہوں، وہ عیش کی زندگی گزارے اور اس کے آس پاس کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات تک پوری نہ کرپا رہے ہوں۔ وہ مدد کے محتاج ہوں اور ان کی مدد نہ کی جائے۔ جس انسان کے اندر ہمدردی و غم خواری کے جذبات نہ ہوں اور جو ناداروں اور محتاجوں کے کام    نہ آئے اور ان کے حقوق نہ پہچانے اسے خدا پرست مشکل ہی سے کہا جاسکتا ہے۔

قرآن مجید کی مکی سورتوں میں ایک مختصر سورت ’البلد‘ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتوں کا ذکر ہے کہ اس نے اسے آنکھیں عطا کیں، زبان دی، ہونٹ دیے، بھلائی اور برائی کے راستے بتا دیے۔ اس کے بعد ارشاد ہے:

فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا ھُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ oعَلَیْھِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ o (البلد ۹۰: ۱۱- ۲۰) پس وہ گھاٹی میں داخل نہیں ہوا۔ تمھیں کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ وہ ہے گردن کو چھڑانا (غلام کو آزاد کرنا) یا بھوک کے دنوں میں کھانا کھلانا قرابت دار یتیم کو یا مسکین کو جو (فاقے کی وجہ سے) خاکِ زمین پر پڑا ہوا ہے۔ پھر ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے صبر اور رحم کی ایک دوسرے کوتاکید کی۔ یہی لوگ دائیں جانب والے ہیں (جن کے دائیں ہاتھ میں ان کا نامۂ اعمال ہوگا) اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ بائیں جانب والے ہیں (جن کا نامۂ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں ہوگا)۔ ان پر آگ ہر طرف سے ہوگی۔

اس مضمون کی آیات قرآنِ مجید میں بہ کثرت موجود ہیں جن سے انسانی حقوق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے حقوق العباد کو جو مقام دیا ہے، ہماری ترجیحات میں اسے وہ مقام حاصل ہونا چاہیے ورنہ دین کا ناقص تصور اُبھرے گا اور سماج کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت واضح نہ ہوسکے گی۔

  • اعلٰی اخلاق کی ترغیب: قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات میں اخلاق کی تعلیم بہت نمایاں ہے۔ اس نے آغاز ہی سے اعلیٰ اخلاق کی ترغیب دی۔ رذیل اخلاقیات کی شدید مذمت کی اور ان سے اجتناب کی تاکید کی ہے۔ اخلاق کا جذبہ اور پاکیزہ اخلاق کا رجحان انسان کی    فطرت میں ہے، لیکن اس پر بعض اوقات پردے پڑ جاتے ہیں۔ جب تک یہ پردے نہ ہٹائے جائیں بے غرض اخلاق کا ظہور نہیں ہوتا۔ قرآن کے نزدیک خدا اور آخرت پر یقین ہی سے صداقت و راست بازی، دیانت و امانت، احترامِ آدمیت، عفت و عصمت، محبت و رافت، تواضع اور خاکساری اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اخلاقیات اُبھرتی ہیں۔ اگر آدمی کو خداکی ذات پر یقین نہ ہو، اس کی ہدایت سے وہ محروم ہو، اور آخرت کی بازپرس کا اسے اندیشہ نہ ہو تو کسی نہ کسی رُخ سے اور کسی نہ کسی عنوان سے وہ اخلاقی پستی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اگر اس کے اندر کچھ اخلاقی خوبیاں پائی بھی جائیں تو ان سے زیادہ اخلاقی خرابیاں اسے دامن گیر رہتی ہیں، جن سے وہ محفوظ نہیں رہتا۔ افسوس کہ اخلاق کی عظمت اور اہمیت اُمت کی نگاہوں سے اوجھل ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کا کوئی اخلاقی امتیاز نہیں رہ گیا ہے، بلکہ دوسری قومیں اپنے اخلاق و کردار میں بعض پہلوئوں سے ممتاز ہیں۔ اُمت کو اخلاقی لحاظ سے اُوپر اٹھانے کی سنجیدہ کوشش بھی نہیں ہو رہی ہے۔ اسلام فرد کی جس طرح تربیت کرتا اور جو پاکیزہ معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس کی اساس میں اخلاق شامل ہے۔ اس کے بغیر اسلامی سیرت اور اسلامی معاشرے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اخلاق کو اسی حیثیت سے اختیار کرنے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
  • دعوت الی اللّٰہ کا فریضہ: اللہ کے رسولوں کی اوّلین ذمہ داری دعوت و تبلیغ اور اہلِ ایمان کی اصلاح و تربیت رہی ہے۔ دعوت کے ذریعے وہ دین کا ہمہ گیر اور انقلابی تصورِ حیات پیش کرتے ہیں اور جو لوگ اسے قبول کرتے ہیں، ان کے فکروعمل کی اس تصورِ حیات کے تحت تربیت کرتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کو بھی یہ دونوں ہی کام انجام دینے ہیں۔ جہاں تک اہلِ ایمان یا اُمت ِمسلمہ کی اصلاح کا تعلق ہے، اس کی طرف علما، صلحا اور مصلحینِ اُمت کی توجہ رہی ہے۔ انھوں نے  تذکیر و تفہیم، وعظ و نصیحت اور تصنیف و تالیف کے ذریعے اسے بگاڑ سے بچانے اور راہِ راست پر قائم رکھنے کی قابلِ قدر کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں۔ مدارس و مکاتب اور جامعات کے قیام کے ذریعے بھی یہ مقصد حاصل ہوتا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ اُمت کی علمی، معاشی اور سیاسی فلاح کے لیے بھی مسلسل کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اس سلسلے کے بعض اقدامات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کوششیں بہرحال اُمت کی مادی اور دنیوی ترقی ہی کے لیے رہی ہیں۔

دعوت و تبلیغ کا میدان بھی بالکل خالی نہیں رہا۔ اس میں کوششیں ہوتی رہی ہیں اور بعض بہت قابلِ قدر بھی ہیں ، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کارِ دعوت ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہاہے۔ اس کے بعض پہلوئوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس سے اس کی اہمیت اور نزاکت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید نے اُمت کے مقصدِ وجود کو ایک جگہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) تم خیرِ اُمت ہو جسے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

آیت میں اُخْرِجَتْ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ اَلنَّاسِ کے اندر ہر دور اور ہر خطۂ ارض کے تمام انسان آتے ہیں۔ اس پر ’ل‘ حرفِ جار آیا ہے۔ اس میں جیساکہ اہلِ علم نے بیان کیا ہے، نفع پہنچانے کا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اُمت کا وجود اس لیے ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو اس سے فائدہ پہنچے۔ اس فائدے کی شکل بھی آیت میں بتا دی گئی ہے کہ وہ تمام عالم میں ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کا فرض انجام دے۔ معروف و منکر کے الفاظ وسیع معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ علما نے لکھا ہے کہ سب سے بڑا منکر شرک ہے۔ اسلام نے جن نیکیوں کی تعلیم دی ہے، وہ سب معروفات ہیں اور جن برائیوں سے منع کیا ہے، وہ سب منکرات میں آتے ہیں۔ اس طرح دین کے پورے نظام فکروعمل کی دعوت دینا امربالمعروف ہے، اور مخالف دین افکار و نظریات    اور ان پر مبنی طرز ہاے حیات کی کمزوریاں اور خامیاں واضح کرنا اور ان سے بچانے کی کوشش کرنا نہی عن المنکر ہے۔

قرآن مجید میں اُمت کو ’اُمتِ وسط‘ بھی کہا گیا ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲:۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم کو ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔

’اُمتِ وسط‘ کے معنی ہیں اعلیٰ و ارفع اُمت یا وہ اُمت جو راہِ اعتدال پر قائم ہے۔ اس کی ذمہ داری یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ’شہادت علی الناس‘ کا فرض انجام دے، یعنی انسانوں کے سامنے اسلام کے دینِ حق ہونے کی شہادت دے اور دلائل سے ثابت کرے کہ دنیا و آخرت میں    نجات و فلاح کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ فرض اللہ کے پیغمبر ہر دور میں کماحقہٗ ادا کرتے رہے ہیں۔ آخری رسول حضرت محمدؐ نے بھی اس فرض کو بدرجۂ کمال ادا فرمایا، جس کے نتیجے میں یہ  اُمتِ وسط وجود میں آئی۔ اب یہی فرض اس اُمتِ وسط کو تاقیامت انجام دیتے رہنا ہے۔

قرآن مجید کا حکم ہے کہ جو لوگ اللہ سے اور اس کے دین سے غافل ہیں، انھیں جگایا جائے اور ان تک اللہ کا دین پہنچایا جائے۔ اسی لیے اس کا نزول ہوا ہے:

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّـآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ فَھُمْ غٰفِلُوْنo (یٰسٓ ۳۶:۶) تاکہ تم اس قوم کو (انجامِ بد) سے ڈرائو جس کے باپ دادا کو ڈرایا نہیں گیا۔ اس لیے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

اس آیت میں خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور اہلِ عرب کے درمیان ’انذار‘ کا حکم ہے، جو زندگی کی غلط راہ پر دوڑے چلے جا رہے تھے اور جس کے بھیانک نتائج سے باخبر کرنے کے لیے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ یہ صورتِ حال آج بہت سی قوموں کی ہے، جن کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ صدیوں سے ان تک اللہ کا دین نہیں پہنچا ہے اور ان کے درمیان  انذار کا فرض نہیں انجام پایا ہے۔ اب، جب کہ سلسلۂ رسالتؐ منقطع ہوچکا ہے اس اُمت ہی کی   یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو اس کی غلط روی کے انجام سے آگاہ کرے اور بتائے کہ اللہ کی کتاب اسی مقصد کے لیے نازل ہوئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرمایا:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَـآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (السبا ۳۴:۲۸) ہم نے تو آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر اس معنی میں ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ دین کو قبول کرنے پر آپ نے دنیا میں بہتر زندگی اور آخرت میں فلاح و کامرانی کی خوش خبری دی۔ آپ کو نذیر اس پہلو سے کہا گیا ہے کہ غلط فکروعمل اختیار کرنے اور اللہ کے دین کو رد کرنے پر دونوں جہاں کے خسارے سے آپ نے آگاہ کیا اور اس کے بھیانک انجام سے ڈرایا۔

اسی طرح آپؐ کو ساری دنیا کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ o (انبیاء ۲۱:۱۰۷) ہم نے تو آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ  کا وجود، آپؐ  کی رسالت، آپؐ  کا تصورِ حیات، آپؐ  کا نظامِ فکروعمل اور آپؐ  کی سعی و جہد دنیا کے لیے سراسر رحمت ہے۔ اسے رد کرنا اللہ کی رحمت سے خود کو محروم کرنا ہے۔ آج دنیا اس سے ناواقف ہے کہ آپؐ  ساری دنیا کے لیے بشیرونذیر اور رحمۃ للعالمینؐ ہیں۔ اسے دلائل سے ثابت کرنا، اُمت کے فرائض میں سے ہے۔ اس فرض سے غفلت پر اس سے بازپرس ہوگی۔

  • جدید دور کے تقاضے: موجودہ دور میں تبلیغ دین کا فرض مطلوبہ معیار سے انجام دینے کے لیے اس کے ذہنی و فکری رجحان کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس وقت پوری دنیا پر ایک طویل عرصے سے الحاد اور دہریت کی حکومت ہے۔ مغربی قوموں نے، جن کے ہاتھوں میں دنیا کی قیادت ہے، الحاد اور دہریت کو ایک فلسفۂ حیات کے طور پر اس طرح پیش کیا ہے کہ دین اور اس کی اساسی تعلیمات بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں۔ انسان کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں، کسی بھی میدان میں اور کسی بھی قدم پر ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ نرسری میں جو بچہ داخلہ لیتا ہے، وہ بڑا ہوکر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن تک تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اس سے آگے ریسرچ اور تحقیق کے مرحلے میں بھی پہنچ جاتا ہے، لیکن اس کے سامنے کبھی وحی و رسالت یا آسمانی ہدایت کا سوال نہیں اُبھرتا۔ آج تعلیم، تہذیب، تمدن، معیشت، قانون اور سیاست ہر شعبۂ حیات کا رُخ الحاد نے متعین کیا ہے، جس میں خدا، وحی و رسالت اور آخرت جیسے مابعد الطبیعیاتی نظریات کہیں زیربحث نہیں آتے اور کسی مسئلے کے حل کے لیے ان کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ جب تک اس کی ضرورت ثابت نہ کی جائے، موجودہ دور کا رُخ نہیں بدل سکتا۔
  • مکمل نظامِ حیات: دورِ جدید میں مذہب ایک انفرادی معاملہ ہوکر رہ گیاہے۔ اجتماعی امور و معاملات سے اسے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اسلام کو اگر کوئی شخص اپنے عقیدے کے طور پر اختیار کرے اور اپنی نجی زندگی میں اس پر عمل کرے تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہو۔ لیکن یہ اجازت کسی کو نہیں ہے کہ اجتماعی امور میں اسلام کی تعلیمات کو اپنائے اور ان کے مطابق اپنے معاملات طے کرے۔ اب یہ ثابت کرنا اُمت کی ذمہ داری ہے کہ اسلام صحیح عقیدہ ہی فراہم نہیں کرتا، بلکہ اس کی بنیاد پرہر شعبۂ حیات کے لیے نہایت فطری اور معقول ہدایات بھی پیش کرتا ہے۔ اس سے زندگی اس بے راہ روی اور بے اعتدالی سے محفوظ رہ سکتی ہے جس میں وہ آج گرفتار ہے اور جس سے نکلنے کی کوئی سبیل اسے نہیں نظرآرہی ہے۔ یہ ایک طویل اور ہمہ جہت عمل ہے۔ اسلام کی سربلندی کے لیے بہرحال اسے انجام دینا ہوگا۔
  • اسلام پر اعتراضات اور اُن کی حقیقت: اسلام پر اعتراضات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آج تک بعض قدیم اعتراضات دہرائے جاتے ہیں۔ ان میں نئے اعتراضات کا اضافہ بھی ہوتا رہتاہے۔ ان میں بالعموم جارحیت اور اسلام دشمنی صاف نمایاں ہوتی ہے۔ کبھی غیر جانب داری کے انداز میں کہا جاتا ہے کہ اسلام نے اپنے وقت میں مفید خدمات ضرور انجام دی ہیں، لیکن اس کی بہت سی باتیں اصلاح طلب ہیں، وہ آج قابلِ قبول نہیں ہیں۔ اس نے مساوات کی بات تو کی ہے لیکن بعض انسانوں کو جو حقوق دیے ہیں، ان سے بعض دوسرے انسانوں کو محروم رکھا ہے۔ کسی وقت کہا جاتا تھا کہ اسلام اپنی فطری خوبیوں کی وجہ سے نہیں پھیلا، بلکہ تلوار کے زور سے اس کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔ اب اسلام کے ساتھ تشدد اور تخریب کو بھی جوڑ دیا گیا ہے کہ اسلام غارت گر امن و امان ہے۔ وہ اپنی صداقت دلائل سے نہیں ثابت کرتا بلکہ طاقت کے ذریعے اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔

اس طرح کے اور بھی اعتراضات ہیں، جن کے ذریعے اسلام کی تصویر مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس طرف دنیا کی توجہ ہی نہ ہو، لیکن اس میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ جو اعتراضات کیے جارہے ہیں، ان کا جواب دیا جائے اور جن پہلوئوں سے اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ،ان پہلوئوں سے مطمئن کیا جائے اور اسلام کی حقانیت ثابت کی جائے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اہلِ علم اس طرف متوجہ ہیں اور مفید خدمت انجام دے رہے ہیں، لیکن کام اتنا بڑا ہے کہ اس کا حق صحیح معنی میں اسی وقت ادا ہوسکتا ہے، جب کہ اس کے لیے پوری ایک جماعت کھڑی ہو، جس میں مختلف صلاحیت کے افراد ہوں، جو منصوبہ بند اور منظم طریقے سے اسلام کا دفاع ہی نہ کرے بلکہ دنیا کے تمام نظریات کے مقابلے میں اس کی برتری ثابت کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ترجیحاتِ دین کو سمجھنے اور اس کے مطابق راہِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (مصنف کی نئی کتاب: دعوت و تربیت، اسلامی نقطۂ نظر سے ایک باب)

انسان کے لیے دنیا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت بچے ہیں۔ وہ انسان    خوش قسمت اور سعادت مند ہے جو اولاد کی نعمت سے بہرہ ور ہے۔ یہ وہ شگفتہ پھول ہیں جو گلشنِ حیات میں ہمارے لیے مستقبل کی روشن اُمید ہیں۔ یہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک، گھر کی رونق اور مستقبل کے معمار ہیں۔

ہر انسان میں طویل عرصے تک جینے، اس کا نام باقی رہنے اور اس کی کمائی ہوئی جایداد  خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس کا وارث ہونے اور سنبھال کر رکھنے کی فطری خواہش ہوتی ہے۔      اس خواہش کی تکمیل، اس کی نیک اولاد کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ نیک بچے ہمارے وارث، قوم و ملک کے مستقبل کے سنبھالنے والے اور ملت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن و حدیث میں بچوںکی تعلیم و تربیت، اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے کے لیے رہنمائی کی گئی ہے۔ نیک، پرہیزگار اور اطاعت گزار اولاد کے لیے دعا مانگنا مومنین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے:

وَالَّـذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّـنَا ھَـبْ لَـنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَا قُـرَّۃَ اَعْیُنٍ        وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴) اور جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ     ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنادے۔

اسی نوع کی دوسری دعائیں ہیں جنھیں بندہ خود مانگتا ہے اور دوسروں سے بھی درخواست کرتا ہے۔

ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ایک کورے کاغذ کی طرح پاک و صاف اور تحت الشعور میں اپنے خالق کی خالقیت، توحید اور فطرتِ سلیمہ لیے ہوئے ہوتا ہے۔       ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور قائم ہوجائو اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی‘‘ (الروم ۳۰:۳۰)۔ اس حقیقت کو سرور دوجہاں رحمۃ للعالمینؐ نے اس طرح بیان فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں‘‘۔ (بخاری، مسلم)

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سب سے مشکل کام بچے کی تربیت و تعلیم ہے۔ یہ کام کسی مختصر مدت کا کام نہیں، بلکہ برسہا برس کی محنت، کاوش اور جدوجہد پر محیط ہے۔ جس طرح برسوں کی مدت سے ایک موتی سیپ میں بنتا ہے، اسی طرح برسوں کی مسلسل کاوش سے ایک کامل انسان بنتا ہے۔

ایک بچہ اسکول سے واپس آنے کے بعد دن رات کا تقریباً تین چوتھائی کا حصہ گھر میں گزارتا ہے۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب کے درمیان رہتا ہے، اور ایک حصہ  گھر سے باہر اپنے ہم جولیوں کے ساتھ بھی گزارتا ہے۔ اس لیے تربیت کی بڑی ذمہ داری بچے کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ذمے ہے، البتہ ایک حصہ (اوقات اسکول) تعلیمی ادارے اور اساتذہ کے ذمے ہے۔ بچہ اپنے ماحول سے بہت اثر لیتا ہے بلکہ اسے اپنے ذہن میں بٹھا لیتا ہے۔ اس لیے بچے کو اچھا ماحول دینا اور خراب ماحول سے بچانا ضروری ہے۔ لیکن یہ کام جتنا ضروری ہے اتنا مشکل بھی، اور ایک طویل عرصے تک جاری رہنے والا عمل ہے۔ یہاں بچے کی تربیت کے حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:

  •  پھلا مدرسہ: بچے کا سب سے پہلا مدرسہ اس کا گھر اور گھر میں خاص طور پر اس کی ماں ہے۔ جس طرح اپنی ماں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے ویسے ہی کرتا ہے۔ جس طرح وہ بولتی ہے ویسے ہی وہ بولتا ہے۔ غرض کہ جو کام وہ کرتی ہے بچہ بھی اس کی طرح کرتا ہے۔ گھر کے بعد دوسرا تربیتی مرکز اس کا مدرسہ اور اسکول ہوتا ہے اور ان میں استاد اس کا ماڈل ہوتا ہے۔ بعض اوقات اسے اپنے استاد کی بات پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کی بات کسی صورت میں قبول نہیں کرتا، اور کہتا ہے کہ میرے استاد نے مجھے ایسے ہی بتایا ہے۔ اس لیے اساتذہ کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے۔

بچہ چونکہ بیش تر وقت گھر میں گزارتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی تربیت کی ذمہ داری بنیادی طور پر والدین پر رکھی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ واضح ہیں کہ ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ اس حدیث کی گہرائی میں جائیں تو ماں باپ پر تربیت کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے سے وہ دنیا اور آخرت کی خوشی، راحت و شادمانی اور مسرت کے مستحق بنتے ہیں۔

بچے کی تربیت عام طور پر تین ذریعوں سے ہوتی ہے۔ ان میں سے دو کے ذمہ دار خاص طور پر ماں باپ ہوتے ہیں: (۱) تقلید (۲) رہنمائی (۳) تجربہ۔ ماں باپ کے ہرعمل کا مشاہدہ بچے کے ذہن پر نقش ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی کی وہ پیروی کرتا ہے اور اسی سے رہنمائی لیتا ہے، اور بتدریج تجرباتِ زندگی سے سیکھتا چلا جاتا ہے۔

بچوں کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ وہ ناسمجھ اور نادان ہوتے ہیں اور سمجھتے نہیں، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام ضروری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ بنیادی طور پر یہ صلاحیتیں آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، اور بچہ جو بھی دیکھتا ہے اسے کسی قدر اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتا ہے۔ تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثرانداز دو ہی افراد ہوتے ہیں، یعنی ماں باپ۔ والدین کی فطری توجہ اور شفقت اسے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے سبب وہ ان کی شخصیت کے ہر پہلو کو قابلِ تقلید خیال کرتا ہے۔

اس معصومانہ عمر اور ذہن میں جب وہ غلط اور صحیح کا علم نہیں رکھتا اور ابھی اس کی قوتِ فیصلہ نہیں بن پاتی، اس کے نزدیک ہر وہ بات جسے اس کے والدین نے صحیح بتایا ہو، صحیح اور جسے وہ    غلط کہیں، غلط ہوتی ہے۔ جو کام والدین کریں گے بچہ بھی وہی کرے گا۔ والدین اشارے کریںگے تو وہ بھی کرے گا، جیسے وہ بیٹھیں گے، ویسے ہی وہ بھی بیٹھے گا۔ لہٰذا والدین، بڑے بھائی، بہنیں اور گھر کے دیگر افراد بچے کے لیے پہلا ماڈل ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ماں باپ پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور اس ذمہ داری سے عہدبرآ ہونا کتنا کٹھن کام ہے۔

lگفتگو کا سلیقہ: بچے سے گفتگو کرتے ہوئے ان تمام باتوں کو لحاظ رکھیں، جنھیں بڑوں سے گفتگو کرنے میں ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان سے تو تڑاک اور گھٹیا لفظوں سے گریز کریں ورنہ وہ بھی ایسے ہی الفاظ بولیں گے۔ ہم ان سے تعظیم کے کلمات سے بات کریں گے تو وہ بھی ایسے ہی کلمات سیکھیں گے اور گفتگو کریں گے۔ لہٰذا بچے سے گفتگو کے دوران محتاط رویہ اپنایئے۔ ان کے سامنے بیہودہ، مذاق، گالی گلوچ، تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ ہرگز نہ بولے جائیں۔ ان سے گفتگو نرمی سے کریں، اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ بھی مناسب نہیں۔ اس سے بچے کے دل سے رعب جاتا رہتا ہے اور اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ گھر کے مدرس و معلم ہیں، کوئی تھانیدار اور صوبیدار نہیں۔ مناسب رویہ یہی ہے کہ بچے کو حکمت سے صحیح اور غلط کی تمیز سکھائی جائے۔ جہاں ضرورت ہو سرزنش بھی کریں اور بچے کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ میری کیا کوتاہی تھی جس کی بناپر سرزنش کی گئی۔ اس سے بچے کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہوگا اور اس میں احساسِ ذمہ داری بھی بیدار ہوگا۔

  •  بچوں کی گفتگو پر نظر: بچے کی گفتگو پاکیزہ، مہذب اور عمدہ اخلاق پر مبنی ہونی چاہیے۔ اس کام میں اس کی رہنمائی کرتے رہنا چاہیے، تاکہ آج کا بچہ کل بڑا ہوکر عمدہ گفتگو کرنے پر قادر ہوسکے اور اپنی عمدہ گفتگو سے دوسروں کو متاثر کرسکے۔ ہمارے معاشرے میںگالیوں اور بُری زبان بولنے اور گھٹیا الفاظ استعمال کرنے کارواج ہے۔ انسان کی تعلیم و تربیت میں زبان کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس لیے بچے کی گفتگو کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور کوئی گالی زبان پر چڑھ گئی ہو تو اسے بھی چھڑوانا چاہیے۔ بعض گالیاں، کفریہ کلمے، گناہ ہوتے ہیں، جیسے کسی پر لعنت کرنا، جھوٹی قسم کھانا۔ ان گناہوں سے بچانا چاہیے۔ بچے کے سامنے اچھا نمونہ اور معیار رکھنا ضروری ہے۔ بچے کو افراد اور اشخاص کی مثال دی جائے تو دینی، اخلاقی، سماجی، معاشرتی اور علمی لحاظ سے اُونچے اور بڑے لوگوں کی مثالیں دینا چاہیے۔ یہ سنت ِ نبویؐ ہے۔
  • جہوٹ سے اجتناب : بچے کے سامنے دھوکا، ٹھگی اور بے ایمانی کی بات نہیں کرنا چاہیے اور نہ بچے سے کہیں کہ دروازے پر جاکر پوچھنے والوں سے کہہ دو کہ ابا گھر پر نہیں ہیں۔     یہ جھوٹ اور بُری تعلیم ہے۔ بچے کی شخصیت کی اُٹھان سچ پر ہونی چاہیے۔ اسلام میں جھوٹ کی  کس شدت سے مذمت کی گئی ہے کہ اس کا اندازہ رسول اکرمؐ کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ مومن جھوٹا اور خائن نہیں ہوسکتا۔
  •  تھذیب و اخلاق:کوشش کریں کہ ایک کھانا تمام گھر کے افراد ضرور مل کر کھائیں۔    اس سے محبت بڑھتی ہے، بے تکلفی پیدا ہوتی ہے اور کھانے کا سلیقہ آتا ہے۔ کھانے میں برکت بھی ہوتی ہے۔ چھوٹوں، بڑوں کی تربیت ہوتی ہے، اور کمتری و برتری کا احساس ختم ہوتا ہے۔ باہمی محبت پرورش پاتی ہے، اور ہلکی پھلکی دین و دنیا کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ آج کل جنریشن گیپ اور باہمی دُوری کی ایک وجہ یہ ہے کہ چھوٹے، بڑے مل کر نہیں بیٹھتے، بلکہ ایک دوسرے سے دُور دُور اور  کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ اجتماعی کھانے کے اور بہت سے فائدے اور مصلحتیں بھی ہیں۔ باہم مل جل کر بیٹھنے سے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ بچے بڑوں کا ادب کرنا اور سلیقے سے گفتگو کرنا سیکھتے ہیں۔ اسلامی تہذیب اور آداب سیکھتے ہیں۔
  •  صفائی و طھارت کی تربیت: ماں باپ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اپنی اولاد کو صفائی اور طہارت کی تعلیم و تربیت دینا ہے۔ ان میں حرام و حلال، پاک و پلید، جائز و ناجائز، صفائی و گندگی کی تمیز پیدا کرنا ہے۔ ان کو شعور دینا چاہیے کہ پیشاب یا گندگی سے ہاتھ آلودہ ہوجائے تو اسے صاف کرنا اور ہاتھ صابن سے دھونا اور تولیہ استعمال کرنا چاہیے۔ ہرشخص کا علیحدہ تولیہ ہونا اور بچے کو بھی اپنا تولیہ دینا چاہیے۔ اس سے اس میں اپنی چیز ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کی تعلیم دینا اور اس کی حکمت اُجاگر کرنی چاہیے۔
  • ماحول کے بگاڑ سے محفوظ رکہنا: گھروں سے باہر کے ماحول کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو اور بچے کو اس سے بچانے کے لیے اسے گھر میں رکھیں لیکن صرف گھر میں بٹھادینا اور کوئی مصروفیت و مشغولیت نہ دینا ان کے ساتھ زیادتی اور غیرفطری کام ہے۔ اس لیے اس کی مصروفیت کی ایک لمبی فہرست سامنے ہونی چاہیے، جیسے کلاس کا ہوم ورک، چھوٹے بچوں کے لیے کھلونے، اِن ڈور کھیل، ڈرائنگ اور رنگ بھرنا، اخلاقی اور معلوماتی کہانیاں پڑھنا، لڑکوں کو والد یا بڑے بھائی کے ساتھ مسجد لے جانا اور نماز پڑھانا، تفریحی پارک میں لے جانا، ٹی وی کے معلوماتی و تفریحی پروگرام (جیسے کارٹون دکھانا) وغیرہ۔ بچے کو بااخلاق اور اچھے پڑوسی کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی محدود اجازت دینا بھی چاہیے۔ رات کو بلکہ سورج غروب ہونے کے بعد بچے کو گھر سے نکلنے نہ دیں۔ حدیث شریف میں اس کی ممانعت بھی ہے۔ بچے کو جیب خرچ کم دینا چاہیے اور اگر زیادہ دیا جائے تو اسے کسی طریقے سے جمع کرنے کی عادت ڈالنا چاہیے۔ اس سے بچے کو ذمہ داری کے ساتھ پیسے کو خرچ کرنے اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے بچت کی تربیت ہوتی ہے۔
  •  روز مرہ دعائیں سکہانا: بچوں کو روز مرہ کی دعائیں صحیح تلفظ سے یاد کرائیں، ان کی معنی بھی بتائیں اور موقع پر پڑھنے کی عادت ڈالیں، جیسے صبح اُٹھنے کی دعا، سلام کرنا، بیت الخلا میں جانے اور واپس آنے کی دعا، وضو کے بعد کی دعا، بسم اللہ صحیح پڑھنا، کھانا ختم کرنے کے بعد کی دعا، سبق پڑھنے اور علم میں اضافے کی دعا، الحمدللہ کہنا، شکرادا کرنے کی دعا اور سونے وغیرہ کی دعا۔
  •  برابری کا برتاؤ: بچے چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان سے برابر کا سلوک اور ایک سا برتائو کرنا چاہیے۔ یہ برتائو کھانے پینے، لباس، بول چال اور لین دین میں کرنا اسلام کی تعلیم و تہذیب اور روح ہے۔ بیٹیوں اور بیٹوں میں برابری کا سلوک نہ کرنا جاگیردارانہ اور جاہلانہ طریقہ ہے، اور دورِ جاہلیت کی نشانی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح ہدایات دی ہیں۔
  • بچوں کی حفاظت: بچوں کی صحت کے تحفظ کی ذمہ داری والدین پر ہے۔ اس لیے بیماری کے وقت خود ہی علاج نہ کرنا چاہیے، خواہ مخواہ بیماری کو بڑھانا نہیں چاہیے، بلکہ کسی لائق ڈاکٹر یا حکیم کو دکھانا چاہیے۔ کھانے پینے کی اشیا میں ان کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مضرصحت غذا ہرگز نہ دینا چاہیے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کو پیش نظر رکھیے اور بچوں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔
  • کتاب دوستی اور تعمیری سرگرمیاں: بچے کی تربیت کے حوالے سے ایک اہم پہلو ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانا ہے۔ گھر چونکہ ابتدائی مدرسہ ہے، لہٰذا کتاب دوستی کی بنیاد گھر سے پڑنی چاہیے۔ آغاز میں ماں یا والد بچوں کو سوتے وقت قصے کہانیاں، انبیا کے قصص، حکایات اور دلچسپ کہانیاں سنا کر اس رجحان کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بچوں کے ذوق اور سمجھ کے مطابق کتب سے کہانیاں پڑھ کر بھی سنائی جاسکتی ہیں۔ گھر میں بچوں کے رسائل بھی اس ذوق کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ کبھی کبھی بچوں کو کسی کتاب کی دکان پر لے جاکر کتب بھی خرید کر دیں۔ امتحانات یا کسی کامیابی کے موقع پر کتاب بطور انعام دیں۔ بچے کا لائبریری سے تعلق پیدا کریں۔ کسی قریبی لائبریری میں بچوں کو ساتھ لے کر جائیں۔ اسی طرح اسکول لائبریری سے تعلق پیدا کریں، اور اساتذہ بھی اس کا اہتمام کریں۔ اس سے بچے کی کتاب دوستی بتدریج مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔

کتب بینی اور رسائل کا مطالعہ بچوں کی ضرورت بنا دیں۔ وہ اس طرح کہ بچوں کو ’بزمِ ادب‘ کی طرز پر پروگرام میں شریک کروائیں۔ بچہ اپنی صلاحیت اور رجحان کے مطابق قصہ کہانی،   تقریر، قرآن و حدیث سے انتخاب،اقوالِ زریں، پہیلیاں اور کوئز مقابلے کے لیے سوالات کی تیاری     کے لیے کتب کی طرف رجوع کرے گا۔ اس سے کتب بینی کا شوق بھی بڑھے گا اور تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بچے کی شخصیت کے پوشیدہ جوہر بھی کھلیں گے۔ اگر خود کتاب دوستی کا مظاہرہ کریں، کتب خریدیں، لٹریچر پڑھیں اور دوسروں کو پڑھنے کو دیں، خدمتِ خلق کا کام کریں تو فطری انداز میں بچہ ان کاموں سے وابستہ ہوجائے گا۔ تحریکی نظم سے وابستہ ہونے سے یہ کام ایک تسلسل سے  ہوسکتے ہیں۔

  • تعلیمی ادارے سے ربط رکہنا: جہاں آپ کا بچہ پڑھ رہا ہے، کوئی ہنر سیکھ رہا ہے،وہاں کے پرنسپل اور ذمہ دار یا استاد سے کبھی کبھار مل لیا کریں، حال احوال لے لیا کریں۔  کبھی فون کریں، کبھی خود چلے جائیں، کبھی گھروالوں میں سے کسی کو بھیج دیں اور رابطے میں رہیں۔ بچے کو باقاعدہ اسکول بھیجیں اور چھٹی کی صورت میں ادارے کی انتظامیہ کو اطلاع دیں۔

بچے کی تعلیمی، دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت کریں، اس کا دین و ایمان پختہ کریں تو وہ آپ کے لیے دنیا اور آخرت کی راحت کا سبب بنے گا۔ اس کی نیکیوں سے ایک حصہ آپ کو قبر کے اندھیرے اور تنہائی میں پہنچے گا، اور حساب کے دن اس کی شفاعت نصیب ہوگی۔ بچے کو درس گاہ  اس طرح بھیجیں کہ وہ تعلیم کے وقت پر ادارے میں موجود ہو۔ بچہ مکمل تیاری کے ساتھ مقررہ لباس (یونیفارم) میں ملبوس ہو اور صفائی ستھرائی کا انتظام کر کے آئے۔

یہ چند باتیں، اسکول،مدرسہ اور کسی ادارے میں جانے والے بچے کے بارے میں عرض کی گئی ہیں۔ ان میں اولاد کے تمام حقوق بیان نہیں کیے گئے۔ ایک گزارش یہ ہے کہ بچوں کے والدین نفسیات کی دو تین کتابیں خاص طور پر بچوں کی نفسیات، تعلیمی نفسیات، عمومی نفسیات ضرور ملاحظہ کریں اور انھیں عمل میں لانے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے بچوں کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور اچھے وارث بنائے، نیک صالح کرے اور دینی و دنیوی ترقی سے نوازے اور پاکستان کے اچھے شہری بنائے، آمین!

بلاسود بنکاری کا رجحان اب اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ غیرمسلم ممالک میں بھی    بڑھ رہا ہے۔ اس کا ایک سبب اسلامی بنکاری کا حقیقی سرمایہ کاری پر مبنی محفوظ سرمایہ کاری ہونا ہے،   جب کہ دوسرا سبب عالمی معاشی بحران کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی کے پیش نظر مسلمانوں کے سرمایے کو بھی استعمال میں لانا اور بحران کی شدت میں کمی کرنا ہے۔ مسلمان چونکہ سود کی حُرمت کی بناپر سودی بنکاری سے اجتناب کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے لیے سودی بنکوں میں بھی سود سے پاک بنکاری کے لیے کھڑکیاں یا کائونٹر کھولے جارہے ہیں۔ ایسی ہی کوششیں بھارت میں بھی کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں ریزرو بنک آف انڈیا کو حکومت کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ  وہ اس ضمن میں اقدامات اٹھائے۔ ایچ عبدالرقیب جنرل سیکرٹری انڈین سنٹر فار اسلامک فنانس (آئی سی آئی ایف) اور کنوینر نیشنل کمیٹی اسلامک بنکنگ نے حکومت کے اس اقدام کو خوش آیند قرار دیا ہے۔ (ٹیلی گراف، ۶دسمبر ۲۰۰۹ء، بحوالہ: icif.trust@gmail.com)

بھارت اگرچہ جمہوریت کا دعوے دار اور ایک سیکولر ملک ہونے کے ناتے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا علَم بردار ہے مگر عملاً ہندو انتہا پسندی کے ہاتھوں جس طرح غیرہندو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر مظالم توڑے جاتے ہیں، ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جاتا ہے، احمدآباد اور گجرات کے مسلم کُش فسادات اس کا کھلا ثبوت اور بھارت کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے مترادف ہیں۔ اس فضا میں بظاہر ’بلاسود بنکاری‘ کے لیے اقدام کرنا درحقیقت عالمی معاشی بحران کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی سے بچنے اور مسلمانوں کے سرمایے کو استعمال میں لانے کی کوشش ہے۔

بھارت میں بلاسود بنکاری کے آغاز کا مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے اور اس میں مسلم دانش وروں، اراکینِ پارلیمان اور بینکرز کا فورم انڈین سنٹر فار اسلامک فنانس (آئی سی آئی ایف) پیش پیش رہا ہے۔ اب یہ مطالبہ باقاعدہ عوامی تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

سچرکمیٹی رپورٹ میں جس میں مسلمانوں کے معاشرتی و اقتصادی احوال کا جائزہ لیا گیا ہے، اس پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بھارت میں مسلمان کُل آبادی کا ۱۵ فی صد ہیں لیکن ملک کے ۲۷ فی صد پبلک سیکٹر کے موجودہ بنکوں میں ان کے کھاتوںیا اکائونٹس کی تعداد صرف ۱۲ فی صد ہے، جب کہ دیگر اقلیتیں جن کی آبادی فقط ۶ فی صد ہے، کا تناسب ۸ فی صد ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے بنکوں میں بھی مسلمانوں کے صرف ۲۰ فی صد کھاتے ہیں، جب کہ دیگر اقلیتوں کے ۵۱ فی صد کھاتے ہیں۔ اسی طرح رگھورام راجن کمیٹی رپورٹ میں اس بات کوتسلیم کیا گیا کہ کچھ مذاہب اور عقائد ایسے فنانشل اداروں کو ناجائزقرار دیتے ہیں جو سود کا کاروبار کرتے ہیں۔ چنانچہ بلاسود بنکاری کی غیرموجودگی میں کچھ ہندستانیوں کو جو اقتصادی طور پر پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایسے بنکوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتا ہے جسے وہ عقیدے کی بنا پر ناجائز سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس رپورٹ میں بھی بلاسود بنکاری کی سفارش کی گئی ہے۔

اسلامی بنکاری کے بلاسود ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے دروازے غیرمسلموں کے لیے بھی بلااستثنا کھلے ہوئے ہیں۔ اس کو اپنانے کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر پس ماندہ طبقہ اس سے مستفید ہوگا بلکہ سود کے بوجھ سے بھی لوگ چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ اس نظام کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے ریزرو بنک آف انڈیا نے اپنی ایک رپورٹ لیگل نیوز اینڈ ویوز (۲۰۰۵ء) میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بلاسود بنکاری ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ اس لیے وقت آگیاہے کہ اسے بھارت میں بھی اختیار کیا جائے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ سودی نظام کے مخالفین کی بڑی رقم ہندستان میں بے مصرف اور منجمد پڑی ہوئی ہے۔ اگر اسے معقول طریقے سے کاروبار میں لگایا جائے تو یہ ہندستان کی اقتصادی ترقی میں معاون ہوسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کے اثاثے ۱۵ کھرب کے قریب ہیں جو ۱۵ فی صد کی مقدار سے ہرسال بڑھ رہے ہیں۔ بلاسودبنکاری نظام ہندستانی بنکوں میں صرف ایک  ونڈو کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے۔ (’’بلاسود بنکاری کا روشن مستقبل‘‘، پورینما ایس ترپاٹھی، ماہنامہ ملّی اتحاد، دہلی، دسمبر ۲۰۰۹ء)

وزیراعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر ڈپٹی چیئرمین راجیہ سبھا کے رحمن خان نے ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک گروپ تشکیل دیا ہے جس نے یہ راے دی ہے کہ بلاسود بنکاری کو ہندستان میں کسی دستوری ترمیم کے بغیر روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔ اس گروپ نے وزیراعظم کے سامنے ایک متبادل ماڈل بھی تجویز کیاہے جو ملایشیا کے تابنگ حاجی (Tabung Haji) کے طرز پر چلایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہوگا جہاں مسلمان اپنی بچت جمع کرا سکیں گے اور یہ مسلمانوں کو ادایگیِ حج میں سہولت مہیا کرے گا، اور ان کی بچت کی رقوم کو ایسے منصوبے میں لگائے گا جو شریعت کے ضوابط کے مطابق ہوں۔ اگر یہ ادارہ مسلم آبادی کے صرف ۱۵ فی صد کو بھی متوجہ کرسکے تو ۳ ہزار کروڑ روپے  کی رقم تین سے پانچ سال کے اندر جمع ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک گروپ اسدالدین اویسی کی سربراہی میں بلاسود بنکاری کے لیے ایک بل بھی پیش کرچکا ہے۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں کمیونسٹ پارٹی، مارکسٹ سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتادل، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور ڈی ایم کے بھی بلاسود بنکاری کی حمایت کرچکی ہیں۔ نائن الیون کے بعد خلیجی ممالک سرمایہ کاری کے لیے چین اور بھارت میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ خود بھارت کو اپنی ملکی ضروریات کے لیے  اگلے پانچ سال کے لیے ۵۰۰ بلین ڈالر کی ضرورت ہوگی جس کا اظہار من موہن سنگھ قطر میں    اپنے دورے کے موقع پر کرچکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۴۰ کھرب کی رقوم خلیجی ممالک میں اس انتظار میں پڑی ہیں کہ ہندستان میں بلاسود بنکاری کا آغاز ہو۔

بھارت میں بلاسود بنکاری کا مستقبل روشن ہے، تاہم کچھ عملی دشواریاں ہیں۔ بھارت میں تمام بنک ۱۹۴۹ء کے ایکٹ کے تحت چلائے جا رہے ہیں جس میں بلاسود بنکاری کے آغاز کے لیے کم از کم چھے جگہ ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہ ترمیم صرف پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔ جب تک پارلیمنٹ اس کے حق میں فیصلہ نہیں کرتی، بھارت میں بلاسود بنکاری شروع نہیں ہوسکتی۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور دوسرے بہت سے حلقے اس کی افادیت کو سمجھتے ہیں لیکن ہندوئوں کی ناراضی کا خطرہ مول لینے کے لیے کوئی تیار نہیں اور کوئی بھی اسلام پرست یا مسلم نواز ہونے کا الزام اپنے سر لینے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک پارلیمنٹ میں اس پر بحث نہیں ہوسکی۔ تاہم، اس مسئلے کا ایک درمیانی حل ملک میں موجود بنکوں میں بلاسود بنکاری کی ونڈو یا کائونٹر کھول کر نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ سے ایکٹ میں ترمیم یا قانونی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

ملک کے موجودہ بنکنگ ایکٹ میں بنک کو کسی کمپنی کے لیے بطور ٹرسٹی کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس اجازت کی وجہ سے بنک کمپنیوں کے لیے غیرسودی سرمایہ کاری بھی کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو ادارے نیم بنکاری (پیرا بنکنگ) کا کام کرتے ہیں اور بلاسود بنکاری زیادہ تر نیم بنکاری کا کام کرتی ہے، سودی بنک بلاسود بنکاری ونڈو کے ذریعے ان کے ساتھ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ خیال رہے گذشتہ برس بھارت میں اُونچی شرح سود کی وجہ سے سودی بنکوں کی آمدنی میں اضافے کی شرح ۲۵ فی صد سے کم تھی، جب کہ غیرسودی آمدنی میں اضافے کی شرح ۴۰ فی صد سے زیادہ تھی۔ اس لیے بھی سودی بنک بلاسود بنکاری کرنا چاہتے ہیں۔ (’’ہندستان میں اسلامک بنکنگ: مسائل اور امکانات‘‘، سید زاہد احمد علیگ، سہ روزہ دعوت، دہلی، ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)

حال ہی میں بھارتی حکومت نے بنک قوانین میں تبدیلی کر کے ریزرو بنک آف انڈیا کو جو ہدایت کی ہے کہ وہ بلاسود بنکاری کو ممکن بنائے، بالآخر اس سے وہ راہ کھل گئی ہے جس سے بھارت میں بلاسود بنکاری کا خواب ایک حقیقت بنتا نظرآرہا ہے۔ یوں یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی جا رہی ہے کہ انسانیت کو اپنے مسائل کے حل کے لیے بالآخر اسلام کی راہِ نجات ہی کو اپنانا ہوگا۔

یہاں ایک بات کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ اسلامی بنکاری وہ ہے جو شریعت کے تمام مطالبات اور تقاضوں کو پورا کرے اور مقاصد ِ شریعت کے تابع ہو۔ جو تجربہ بھارت یا چند اور ممالک میں کیا جارہا ہے وہ بلاسود بنکاری تو ہوسکتا ہے اسلامی بنکاری نہیں۔ اسلامی بنکاری کے لیے ضروری ہے کہ بنک کے تمام معاملات اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں، اور بنک کے نظامِ کار یا فنڈ میں سود یا دوسرے حرام ذرائع سے آنے والی آمدنی گڈمڈ نہ ہو۔ بلاسود کائونٹر میں اس کا خدشہ ہوتا ہے جس کا سدباب ضروری ہے۔ اس بنا پر بھارت میں بنکاری کو بلاسود بنکاری قرار دیا جائے گا نہ کہ اسلامی بنکاری۔

ترجمہ: محمدظہیرالدین بھٹی

شمال مغربی افریقہ میں واقع عرب ممالک تیونس، الجزائر، مراکش، موریتانیا، لیبیا کو ایک ہی معاشرتی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ اِن ممالک کی سرحدیں ان کا استحصال کرنے والی بڑی مغربی اقوام سے گھری ہوئی ہیں۔ یہ استعماری طاقتیں ماضی میں ایک سے زیادہ بار انھیں ہڑپ کرکے اپنے اپنے ملک میں شامل کرنے کی مذموم کوششیں کرچکی ہیں۔

اس خطے میں اسلامی تحریک گذشتہ صدی کی ۷۰ کی دہائی میں اس وقت برپا ہوئی جب اسے ’سیکولر‘ یا ’مغربی بنانے‘ ، اس کی تہذیب کو کھوکھلا کرنے اور اسے دنیاے قدیم میں محصور کر دینے کی کوششیں کافی حد تک کامیاب ہوچکی تھیں۔ ان ممالک کے مسلم معاشرے، بالخصوص اسکولوں،   یونی ورسٹیوں، کلبوں، انتظامی اور مالی امور کے شعبوں پر فرانسیسی چھاپ واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مراکش اور تیونس دونوں ایک مدت سے فرانسیسی زبان اپنائے ہوئے ہیں۔ گذشتہ صدی کے ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں یونی ورسٹیوں میں تدریس کی زبان فرانسیسی تھی۔ تاہم، طاقت ور اسلامی رجحان کی بدولت ۷۰ کے عشرے کے اختتام میں عربی کو تدریسی زبان بنوانے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ تحریکِ اسلامی اللہ کے فضل و کرم سے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں اسلام کو نوجوان نسل کے قلب و دماغ میں ازسرِنو راسخ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ نتیجتاً نوجوان نسل انتہائی تیزی اور قوت کے ساتھ سیاسی، سماجی اور ثقافتی میدانوں میں اسلام کی سربلندی کے لیے کوشاں ہوگئی۔

اسلامی تحریک کو مختلف سطحوں پر مسلسل ایسی سازشوں کا ہدف بنایا گیا جو اسے مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کافی تھیں لیکن اس کے باوجود ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں نے ان ممالک کے اسلامی تشخص کا معرکہ جیت لیا، حتیٰ کہ تیونس پر مسلط سنگ دل و بدمزاج سیکولر نظام___ جو دینی شعائر اور اسلامی تعلیمات کا سخت مخالف تھا___ بھی اس بات پر مجبور ہوچکا ہے کہ وہ مسلمانوں میں اسلامی شناخت رکھنے والے اطلاعاتی و نشریاتی چینلوں کو کھولنے کی اجازت دے، اور سیاسی اسلام کے حقیقی نمایندوں، مثلاً شیخ القرضاوی اور الشیخ سلمان العودۃ کو تیونس کے تبلیغی ودعوتی دورے کرنے میں مزاحم نہ ہو۔

لیبیا کے ماسوا عالمِ عرب کے اس پورے مغربی خطے کے ممالک میں عربیت اور فرانسیسیت کے حامیوں کے مابین ثقافتی معرکہ آرائی اب تک جاری ہے۔ کسی فریق کو اگر ایک قدم کامیابی نصیب ہوتی ہے تو دوسرے قدم پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آزادی کی نصف صدی کے بعد بھی فرانسیسی زبان انتظامیہ، مالی امور، یونی ورسٹی کی تعلیم، میٹرک کی سطح کی تعلیم، بلکہ پرائمری تعلیم تک چھائی ہوئی ہے۔ الجزائر میں تعریب (Arabization) کا جو پروگرام شروع ہوا تھا، ۱۹۹۲ء میں اسلامی محاذ (الجبھۃ الاسلامیۃ) کو کچلنے کے بعد اسے مکمل طور پر ترک کر دیا گیا ہے۔

آیئے ان ممالک کی موجودہ صورت حال کا مختصر جائزہ لیں:

  • تیونس: تیونس میں اسلامی بیداری کی لہر کو مسلسل بیخ کنی کی پالیسی کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ گذشتہ اور موجودہ دورِ حکومت میں وہاں پر اسلام کے سرچشمے خشک کرنے کی پالیسی پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اسلام سے متعلق ہر چیز کو ہدف بنایا گیا، حتیٰ کہ ایک لمبے عرصے تک نماز کی ادایگی کو بھی سیاسی صف آرائی کی علامت قرار دیا جاتا رہا۔ حجاب ممنوع تھا اور اب تک ممنوع ہے۔ اسلام سے متعلق لٹریچر___ حتیٰ کہ قدیم اسلامی کتب کی اشاعت اور تہذیب و تالیف پر پابندی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے سیاسی امور سے متعلق شعبے کے کمیونسٹ افسروں کی اجازت کے بغیر پورے ملک میں کوئی کتاب قابلِ مطالعہ نہیں ہوتی۔ یہ اقدامات ۱۹۸۹ء کے ان انتخابات کے بعد شدید تر ہوگئے جس میں حرکۃ النہضۃ الاسلامیۃ (اسلامی تحریک نہضت)نے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی۔ جمہوریت کے دعوے دار مغربی ممالک کی آشیرباد سے انتخابی نتائج مسخ کر دیے گئے اور کامیاب امیدواروں کو گرفتار کرلیا گیا۔

تیونس اب تک یہ انتخابی نتائج تبدیل کر دینے اورعوام کی راے سلب کرلینے کے بداثرات سے چھٹکارا نہیںپا سکا۔ برسرِاقتدار ٹولہ ملک پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے ہر جتن کررہا ہے۔ وہ اب تک اسلامی تحریک کی اس پیش رفت کو ہضم نہیں کرپایا۔ اس کی ہرممکن کوشش ہے کہ قوم کے دل و دماغ سے تحریکِ نہضت کی قربانیوں اور انتخابی کامیابی کو نام نہاد ترقی کے نعروں کے ذریعے  محو کردے۔ حکمرانوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کریں گے۔ حکمران ٹولے کی تمام پالیسیوں میں یہی سوچ اور یہی خوف غالب ہے۔ اس پالیسی کو اپنانے اور جاری رکھنے میں حکمران ٹولے کو بیرونی سانحات و واقعات سے بھی خوب تقویت ملی ہے۔چنانچہ الجزائر کے اسلامی محاذ کے خلاف حکومتِ الجزائر کے اقدام سے شہ پاکر تیونسی حکومت نے بھی اسلامی تحریک کو مزید کچلنا شروع کر دیا اور ۱۱ستمبر کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر شروع ہونے والی عالمی امریکی یلغار کو بھی اپنے انھی مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کیا۔

  • الجزائر: اب تک ۱۹۹۲ء کے ان انتخابات کے نتائج کے خوف میں مبتلا ہے جنھیں مسترد کرکے فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ تحریکِ اسلامی کو کچلنے کے لیے فوج کی برپا کردہ شورش کو ۱۵ برس سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ اس دوران میں الجزائر کو ’اسلامی خطرات‘ سے ’محفوظ‘ کرنے کے کئی اقدامات کیے جاچکے ہیں، مگر ابھی تک الجبھہ الاسلامیۃ للانقاذ (اسلامک سالویشن فرنٹ) کا ہوّا اور خوف، فوج کے ذہن و قلب پر چھایا ہوا ہے۔ فوج نے قوم کے حق راے دہی اور اس کے شہری اداروں کی خودمختاری کو سلب کررکھا ہے۔ فوج کو ہر وقت یہی اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں اُسے پھر اسلامک فرنٹ جیسی کسی قوت کی کامیابی کا صدمہ برداشت نہ کرنا پڑ جائے۔

اس ہدف کے حصول کے لیے حکمران ٹولہ ہر حربہ آزما چکا ہے، کئی صدر تبدیل کیے جاچکے ہیں، کئی بار انتخابات کا ڈھونگ بھی رچایا گیا ہے۔ انھوں نے تمام سیاسی حتیٰ کہ مسلح گروہوں سے بھی مصالحت کے متعدد دَور کیے ہیں، لیکن وہ کسی بھی صورت میں اسلامی محاذ اور اس کی اہم شخصیات کو میدانِ سیاست میں واپسی کا راستہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس صورت حال کو اسلامی فرنٹ کی قیادت کو ہمیشہ کے لیے سیاست بدر کرنا قرار دیا جاسکتا ہے، نیز اس سے ملک پر مسلط ایجنسیوں کی طاقت کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے، جو عوام کے حقیقی عوامی نمایندوں کو ہر حالت میں اقتدار سے دُور رکھنے پر مُصر ہیں۔

۹۰ کے عشرے سے لے کر اب تک الجزائر میں پانچ صدر برسرِاقتدار آچکے ہیں، بیسیوں وزرا آئے اور چلے گئے مگر ایک شخصیت ایسی ہے جو اب تک اپنے منصب پر قائم ہے اور وہ ہے عسکری انٹیلی جنس کے محکمے کا سربراہ۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ اقتدار کے سرچشمے کا اصل مالک کون ہے؟

سیاسی ڈرامے میں شریک سبھی لوگوں نے اسلامی فرنٹ سے عوام کی وابستگی کھرچنے کے لیے باہم تعاون کیا ہے، مگر اس سال کے آغاز میں فلسطین میں غزہ کے واقعات نے گھڑی کی سوئیوں کو واپس ۷۰ کی دہائی میں پہنچا دیا ہے۔ اسرائیلی مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے اسلامی فرنٹ کے   اہم رہنما علی بلحاج اور ان کے ساتھیوں نے ۱۰ لاکھ افراد پر مشتمل جلوس کی قیادت کی، جس میں ۷۰کی دہائی میں لگنے والے نعرے پھر دہرائے گئے۔ قومیں زود فراموش نہیں ہوا کرتیں بالخصوص الجزائری قوم جیسی مضبوط اعصاب کی مالک قوم کا حافظہ کمزور نہیں ہوا کرتا۔ لیکن اس قوم کو سیاسی اور سماجی بحرانوں کا سامنا ہے۔ الجزائر کے موجودہ سیاسی نظام کا ڈھانچا اور مزاج بالکل اپنے برادر ملک تیونس جیسا ہے۔

  • موریتانیا: تیونس اور الجزائر میں اسلام پسندوں کو کچلنے کے اقدامات نے موریتانیا کی سیاسی صورت حال پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں، جہاں اسلامی تحریک کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں موریتانیا کے حکمران ولدالطائع کی حکومت جاتی رہی۔ اس سے قبل اسلامی تحریک کوتسلیم کرلیا گیا تھا، اسے پارلیمنٹ میں جانے کا موقع بھی ملا اور ملک کی انتظامیہ میں بھی۔ یہ اس وقت ہوا جب ابھی فوج نے قومی حق خود ارادیت پر ایک بار پھر شب خون نہیں مارا تھا۔ فوج کے اس اقدام نے وقتی طور پر اسلامی تحریک کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ تحریکِ اسلامی، موریتانیا میں جمہوریت کی جانب واپسی کا نعرہ بلند کرنے والوں میں سرفہرست تھی۔ فوجی ٹولے نے اصولی موقف اور ترقی پذیر سوچ کے حامل افراد کو مسترد کر کے، فرینڈلی حزبِ اختلاف کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔ اگرچہ موریتانیا کے کچھ بالائی طبقے فرانسیسی زبان و تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، تاہم مجموعی طور پر موریتانیا اب بھی شرعی علوم اور عربی علوم و آداب کا مضبوط قلعہ ہے۔ تحریک اسلامی کے دینی تعلیمی ادارے اور تحریکی علماے کرام معاشرے میں انتہائی عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
  • مراکش: مقامِ شکر ہے کہ تیونس اور الجزائر میں اسلام پسندوں اور جمہوریت کے خلاف کیے گئے اقدامات نے مراکش پر زیادہ منفی اثرات نہیں ڈالے۔ وہ اب تک اپنی مستحکم تاریخی و دینی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ وہاں پر بادشاہ اور عوام کے مابین تعلق، بڑی حد تک باہمی احترام اور خیرسگالی پر مبنی ہے اور ایک ایسا سیاسی نظام قائم ہے جس میں کسی قدر جمہوریت سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ مختلف سیاسی رجحانات رکھنے والے گروہوں ___ جن میں اسلام پسند طبقے بھی شامل ہیں___ کے مابین ایک طرح کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان میں بائیں بازو کے کچھ ریڈیکل گروپ ہیں اور کچھ سلفی جہادی گروپ، تاہم ان میں جماعۃ العدل والاحسان شامل نہیں ہے۔ ان اسلامی گروپوں میں سے جو غیرتشدد پسند ہیںجیسے جماعۃ العدل والاحسان ___ ان کے ساتھ سرکار کے تعلقات قدرے کشیدہ اور محتاط نوعیت کے ہیں اور ان تعلقات کی وہی نوعیت ہے جو مصر میں اربابِ اقتدار کی اخوان سے ہے۔ البتہ مراکش میں تشدد پسند مسلح جماعتوں کے خلاف مملکت کی تلوار ہر وقت بے نیام رہتی ہے۔

مراکش میں اسلامی تحریک کی سیاسی جماعت العدالۃ والتنمیۃ (انصاف و ترقی پارٹی) کو ایک ایسی پوزیشن حاصل ہے جس نے اُسے حکومت مخالف پارٹیوں کی صف اوّل میں شامل کر دیا ہے۔ اس پارٹی نے یہ مقام ریڈیکل سے اعتدال پسند ہونے کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد حاصل کیا ہے۔

مراکش میں بھی سماجی اور معاشی مسائل دیگر مسلمان ممالک کی طرح سنگین ہیں۔ اقتدار اور سرمایے سے وابستہ حکمران طبقے اور عوام الناس کے مابین بہت زیادہ فرق ہے۔ا س وجہ سے فساد، غربت، بے روزگاری اور قومی غیظ و غضب میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مراکش کے حکمرانوں اور سیاسی عمل میں شریک پارٹیوں کے لیے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔یہی چیلنج ___ لیبیا کے استثنا کے ساتھ___ خطے کے باقی ممالک کے حکمرانوں کو بھی درپیش ہے۔ تغیر اور تبدیلی کی تحریکوں کے لیے یہی چیلنج ایندھن کا کام دیا کرتا ہے۔

تعلیمی و ثقافتی منظر پر سیکولر طاقتوں اور اسلام چاہنے والوں، فرانسیسی بولنے والے اور عربی بولنے والوں کے مابین ایک تصادم اور کش مکش برپا ہے، جس میں اسلام اور عربیت کا پلّہ بھاری ہے۔

  • لیبیا: لیبیا کی صورت حال کے مطالعے سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مغربی ثقافتی یلغار نسبتاً کمزور ہے، عربی اسلامی ثقافت کو برتری حاصل ہے، اور عربی زبان کو کسی لسانی مخالفت کا سامنا نہیں ہے، البتہ یونی ورسٹیوں کے کچھ شعبوں میں انگریزی ذریعۂ تعلیم ہے۔ دوسری یہ کہ اسلام پسند گروہوں کے ساتھ حکومت کے تعلقات نسبتاً بہتر ہیں، جن میں سے کچھ اخوان ہیں اور کچھ جہادی تنظیموں سے متعلق لوگ ہیں۔ القذافی فائونڈیشن نے اسلام پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ اس کی ابتدا، جیل میں قید اور جیل سے باہر اخوانیوں سے ہوئی۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں انھیں رہا کرکے ملازمتوں پر بحال کر دیا گیا اور مدتِ اسیری کی تنخواہیں بھی ادا کر دی گئیں۔ ان کی سرگرمیوں کے لیے مناسب دائروں کے تعین کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ مذاکرات کا دائرہ اب ’مسلح اسلامی جماعت کے قیدیوں‘ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اب مذاکرات اس نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں کہ یہ لوگ تشدد کی کارروائیاں بند کردیں گے اور حکومت باقی ماندہ قیدیوں کو رہا کر دے گی تاکہ یہ بھی ملک کے باقی شہریوں کی مانند اس اصلاحی منصوبے میں شرکت کے اہل ہوسکیں جس کی قیادت القذافی فائونڈیشن کر رہی ہے اور جس کا مقصد دستور کی بالادستی بحال کرنا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں دستوری پوزیشن کی بحالی کے لیے قومی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔ ان کانفرنسوں کے شرکا کا ایک گروپ لیبیا کے لیے ایک نئی دستوری دستاویز تیار کرے گا۔ تحریکِ اسلامی کے کچھ افراد جیسے الشیخ علی الصلابی بھی ان ماہرین کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔یہ منصوبہ ابھی حکام اور اپوزیشن کے مابین زیربحث ہے۔

تحریک اسلامی کا مستقبل

ان ممالک میں تحریک اسلامی کا مستقبل کیا ہے؟ اس حوالے سے یہ نکات قابلِ غور ہیں:

  • جبر کے باوجود بیداری کی لھر: ثقافتی و تعلیمی لحاظ سے اس خطے کے ممالک میں دو طرح کے حالات پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ ممالک ہیں جن میں اسلام اور عربی زبان و ثقافت کے بارے میں اعتدال کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، اگرچہ وہاں کاحکمران طبقہ اس اعتدال کا پابند نظر نہیں آتا،بالخصوص الجزائر اور مراکش میں، جہاں فرانسیسی زبان بولنے والوں کا طبقہ تعلیم و تدریس، ذرائع ابلاغ اور سیاست کے میدانوں میں گہرے اثرورسوخ کا مالک ہے، لیکن یہ لوگ راے عامہ کے نمایندے نہیں، اس لیے تحریکِ اسلامی کے ساتھ ان کا ٹکرائو رہتاہے۔ یہاں اسلام اور سیکولرازم کے مابین تصادم بھی جاری ہے۔ اس تصادم کا اصل اور نمایاں سبب تو سیاسی کش مکش ہے، تاہم تعلیمی و ثقافتی وجہ بھی موجود ہے۔ یہ صورتِ حال موریتانیا سے لیبیا تک کے اکثر ممالک میں پائی جاتی ہے۔

دوسری صورتِ حال کا نمونہ تیونس ہے۔ تیونس پر اپنے بانی صدر بورقیبہ کی گہری چھاپ ہے۔ جس نے کچھ اپنی کوشش اور کچھ بیرونی استعماری طاقتوں کی مدد سے ’قومی تحریک‘ کی قیادت پر قبضہ کر لیا۔ صدر بورقیبہ کچھ زیادہ ہی مغرب زدہ تھے۔ اتاترک اس کی پسندیدہ شخصیت تھی۔ ان دونوں باتوں نے اس کی شخصیت و ذہنیت کو ایک خاص نہج پر ڈھال دیا۔

الجزائر، مراکش اور موریتانیا میں بھی کم و بیش تیونس جیسے گروہ کو اقتدار سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملا ہے، مگر یہ لوگ اقتدار کی بنا پر وہ کچھ نہیں کرسکے جو تیونس میں ہوا۔ ان تینوں ممالک میں حکمران ٹولے کو تیونس کی طرح کا مغرب زدہ معاشرہ ورثے میں نہیں ملا۔ تیونس میں حبیب بورقیبہ نے ملک کا سربراہ مقرر ہوتے ہی اسلام کے عقائد، شریعت اور شعائر پر حملوں کا آغاز کر دیا، جس کے نتیجے میں ملک میں ایک انتہاپسند سیکولر اور مخالفِ اسلام ٹولہ وجود میںآگیا۔ اس گروہ نے اسلام کو ختم کر دینے یا پھر اسے مغربی نمونے کے مطابق ڈھالنے کا مشن سنبھال لیا۔ اس طرح تیونس میں عوام الناس سے الگ اتھلگ ایک اعلیٰ طبقہ قائم ہوگیا جو عوام کو حقیروکمتر سمجھتا تھا۔ رنگ و نسل پر مبنی ایک سخت متعصبانہ نظام میں جو تعلق گوروں کا سیاہ فاموں سے ہوتا ہے وہی اس طبقے کا عوام سے تھا۔ عصرِحاضر کے مشہور مؤرخ پروفیسر محمدالطالبی نے اپنی کتاب الانسلاخیّوں میں اس طبقے کے حالات کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے لیے اس قسم کے طبقۂ اشرافیہ کے ساتھ معاملہ کرنا بہت مشکل تھا۔

تیونس کے موجودہ صدر زین العابدین بن علی کے دورِ حکومت میں اس سیکولر انتہاپسندی میں کسی قدر کمی ہوئی ہے، کیونکہ عوام نے اس انتہاپسندی کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔   بن علی کا تعلق بھی اِس مخصوص سیکولرلابی سے تھا، اقتدار پر ذاتی تسلط رکھنے کی اس کی حرص، نیز سیکورٹی کے بارے میں اس کے مخصوص مزاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اقتدار پر اپنے شخصی تسلّط کے لیے تحریکِ اسلامی کو سب سے بڑا خطرہ سمجھا اور اسے کچلنے کا تہیہ کرلیا۔ ۱۹۸۹ء کے انتخابات میں تحریکِ نہضت کی کامیابی نے اس کے ارادوں کو مزید پختہ کیا۔ یہ نتائج خود تحریک کے لیے بھی حیران کن تھے، چنانچہ صدر بن علی نے نہضت کو مکمل طور پر میدان سے باہر دھکیلنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے تمام سیاسی اور نظریاتی مخالفین سے بھی مدد لی۔ ان سب لوگوں نے اسلام عربیت اور اسلامی ثقافت پر یلغار کی خاطر صدر بن علی کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ تاہم ، گذشتہ برسوں میں سیکولر اتحاد میںقدرے کمی آئی ہے، اسلامی تحریک کو کچلنے کے جامع سیاسی منصوبے پر اب بھی اسی طرح عمل کیا جا رہا ہے۔ جیلوں سے نہضت کے تقریباً ۳۰ ہزار قیدی رہا ہوچکے ہیں۔ اب صرف اسلامی تحریک کے سابق سربراہ ڈاکٹر صادق شورو اور ان کا بھائی جیل میں رہ گئے ہیں۔ جیلوں سے رہا ہونے والے یہ ہزاروں شیدائیانِ اسلام اپنے دین پر استقامت سے قائم رہے ہیں۔ انھوں نے اذیت رسانی کا ہر مرحلہ بڑی پامردی سے طے کیا ہے۔ ان میں سے کئی ایک نے شہادت کے منصب پر فائز ہوکر یا بتدریج موت کے منہ میں جاکر اپنے پیچھے عظیم یادیں چھوڑی ہیں۔ ہزاروں نوجوان تنگ و تاریک جیلوں سے باہر آکر اب ملک کی کھلی اور متحرک جیل میں آچکے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں ہیں، ملک سے باہر جاسکتے ہیں، نہ ملک کے اندر سفروحرکت میں آزاد ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند ہیں۔ علاج معالجے کے حق سے بھی محروم ہیں۔ سیاسی اور سماجی تنہائی کا شکار ہیں۔ گویا وہ غزہ میں محصور ہیں۔ ان کی اس حالت کو بجا طور پر قسط وار موت کہا جاسکتا ہے۔

یہ نہ سمجھا جائے کہ ملک کی جیلیں اب خالی پڑی ہیں۔ بدقسمتی سے ان جیلوں کو ملک کی آزادی کے بعد کبھی ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہیں رکھا گیا۔ ایک گروپ رہا ہوتا ہے تو دوسرا   اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ پہلے بائیں بازو والوں کی جگہ اسلام پسند بند رہے۔ آج کل نہضت کے کارکنوں کی جگہ الصحوۃ ’بیداری‘ کے نوجوانوں کا اسلامی گروپ بند ہے۔

تیونس کے ماضی قریب کے حالات کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسلام کے سرچشموں کو خشک کرنے کا سرکاری منصوبہ بیداری کی نئی لہر کے سامنے بالکل ناکام ہوگیا ہے، اسی طرح برسرِاقتدار طبقے کا تحریکِ نہضت کو کچلنے اوراسے الگ تھلگ کرنے کے منصوبے کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ چنانچہ نہضت حزبِ مخالف کی مختلف الجہات جمہوری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے دوبارہ میدانِ سیاست میں آچکی ہے۔ نہضت نے اپنی کارکردگی پر نظرثانی کی ہے اور حالات و مواقع کا اندازہ لگانے میں اس سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں ان کا برملا اعتراف کیا ہے۔

بیداری کی اس تازہ لہر کی وجہ سے حکومت نے بھی، اسلام کے سرچشموں کو خشک کرنے کے اپنے منصوبے سے پسپائی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ چنانچہ حکومت نے ریڈیو الزیتونۃ کو  قرآن کریم کی تلاوت و تشریح اور دینی مواعظ کی اجازت دے دی ہے۔ اس ریڈیو اسٹیشن نے بہت تھوڑی مدت میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ مخالفوں کو کچلنے کی سیاست سے یہ تدریجی پسپائی کمیونسٹوں اور بورقیبوںکے لیے باعثِ تشویش ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور آمریت کے سہارے پھر سے تحریک نہضت کو اپنا سیاسی ہدف بنائیں۔

فی الوقت کوئی ایسی علامات سامنے نہیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہو کہ برسرِاقتدار طبقہ تحریکِ نہضت ___ یا کسی بھی سخت جان حزبِ مخالف کو مٹانے کے اپنے پروگرام سے دست بردار ہوجائے گا۔ تیونس کے ماضی کے ورثے میں استبداد اور شخصی حکمرانی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔    یہ خیال کہ تیونسی حکمران اپنی روش بدل لیں گے محض ایک دل فریب آرزو ہے، تاہم پیش رفت  ضرور ہے جو خوش آیند بات ہے۔

  • سیاسی تشخص: ان ممالک میں تحریکِ اسلامی نے مختلف سطحوں پر جس طرح اپنے تشخص کا معرکہ جیت لیا ہے، اسی طرح اُس نے کبھی حکومت میں شریک ہوکر اور کبھی حزبِ اختلاف کی صورت میں اپنا سیاسی وجود بھی منوا لیا ہے۔ اس نے نوجوان نسل کے دلوں تک رسائی حاصل کرلی ہے اور یوں مراجعت الی الاسلام (اسلام کی طرف واپسی) کی منزل قریب آگئی ہے۔ اگر کوئی محقق اس بات کا تدریجی جائزہ لے کہ تیونس میں حقوقِ انسانی کے مسئلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے تو وہ یقینا اس نتیجے تک پہنچے گا کہ تحفظ حقوقِ انسانی کی جدوجہد میں تحریکِ اسلامی کا کردار فیصلہ کن رہا ہے۔

جب حقوقِ انسانی کے تحفظ کی خاطر تیونسین لیگ کے نام سے ایک اتحاد وجود میں آیا تو مارکسی طاقتوں نے اس تنظیم سے حامیانِ اسلام کو دُور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، مگر اب  حقوقِ انسانی کی ان تنظیموں کی کامیابی سب کو دکھائی دے رہی ہے جو اسلام پسندوں کے قریب تر ہیں۔ پہلے یہ تنظیمیں بائیں بازو کے کسی شخص کا پاسپورٹ ضبط کروانے کی تو مذمت کرتی تھیں مگر اسے ان ہزاروں سیاسی قیدیوں کے بارے میں لب کشائی کی جرأت نہیں ہوتی تھی جن کی کھالیںادھیڑی جارہی تھیں۔ وہ ان مظلوموں کے بارے میں چپ سادھے رکھتی تھیں، جو صرف حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کے باعث جیلوں میں ٹھونس دیے گئے تھے۔ یہ تنظیمیں حقوقِ انسانی کے یورپی اداروں کے توسط سے تیونس کے حکمرانوں کے لیے حسنِ کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں لگی رہتی تھیں۔ آج حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی اکثریت اسلام پسندوں کے قریب ہے۔

غرضیکہ تحریکِ اسلامی نے اسلام کی طرف سفر کا ایک مرحلہ بحسن و خوبی طے کر لیا ہے۔ مسلمان معاشرے تمام تر سختیوں، رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود اسلام ہی سے اظہار محبت کرتے ہیں۔ اپنے درخشندہ مستقبل کے لیے ان کی واحد اُمید اسلام ہی ہے۔

  • ھمہ جھت جدوجھد: آج تحریکِ اسلامی کی جدوجہد محض ملکی تشخص کے دفاع تک محدود نہیں بلکہ اسے ایک عظیم تر مہم درپیش ہے۔ آج بھی توسیع پسندانہ عزائم کی حامل بڑی قوتوں کی طرف سے ان ممالک کو نشانہ بناکر ہرطرح کے حملے کیے جارہے ہیں۔ تحریکِ اسلامی  وسیع تر اصلاح کی علَم بردار سماجی تحریک ہے۔ سیاست تواس کا صرف ایک پہلو ہے۔ اگر مملکتیں استبداد پر مبنی نہ ہوتیں اور ان میں حد سے بڑھی ہوئی مرکزیت نہ ہوتی تو تحریکِ اسلامی اُن سے ہرگز متصادم نہ ہوتی اور اس کی سب سے بڑی سرگرمی دعوت دین کے ساتھ ساتھ عوام کی صحت، تعلیم اور ترقی میں ان کی خدمت ہوتی۔

تحریک اسلامی کا ایک اور شان دار کارنامہ نوجوان نسل کو منشیات، جرائم اور بے کاری کے مشاغل سے بچانا ہے۔ وہ احیاے اسلام کی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہے، نیز اپنے اپنے ملکوں کی خودمختاری، تحفظ اور استحکام کے لیے بھی کوشاں ہے۔ اُسے عالمِ اسلام کے مسائل، جیسے فلسطین، عراق اور افغانستان سے بھی گہری دل چسپی ہے۔

تحریکِ اسلامی کو جب بھی آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ غریبوں، یتیموں،بے سہارا افراد کی نگہداشت اور مستحق جوڑوں کی شادی کرانے جیسے سماجی کاموں میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ تحریکِ اسلامی بالعموم حزبِ اختلاف میں رہی ہے___ خواہ اسے حزبِ مخالف تسلیم کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ اس کے ساتھ ان کی حکومتوں کا رویہ یا تو احتیاط کا ہے، یا پھر سرکاری مشینری کھلم کھلا اس کے خلاف کام کر رہی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے خطے میں طاقت ور ترین حزبِ اختلاف تحریکِ اسلامی ہی ہے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان ممالک میں تحریکِ اسلامی نے راے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا معرکہ سر کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر غیرجانب دارانہ شفاف انتخابات میں اس کا  پلڑا بھاری رہتا ہے، خواہ یہ ملک کے عام سیاسی انتخابات ہوں یا طلبہ یا کسی مزدور یونین وغیرہ کے۔ لہٰذا اب ان تحریکوں کا حکومت کے ایوانوں تک پہنچنا محض وقت کا مسئلہ رہ گیا ہے۔

تفصیلی تجزیے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ موجودہ حالات میں کسی بھی ملک میں تحریکِ اسلامی کا تنہا اقتدار سنبھالنا نہ صرف اس کے لیے، بلکہ متعلقہ ملک کے مفاد میں بھی نہیں، خواہ ووٹوں کی اکثریت کی بنا پر تنہا حکومت کرنا اس کا حق ہی کیوں نہ ہو۔ تحریکِ اسلامی کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ مختلف معاہدوں کے ذریعے اقتدار میں شریک ہوکر معاشرے میں بنیادی تبدیلی لائے اور دیگر حکومتی امور سرانجام دے۔ بتدریج تبدیلی ہی زیادہ مؤثر اور دیرپا انقلاب کا باعث ہوتی ہے۔ بتدریج عمل کائناتی اور عمرانی حقیقت ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:

مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا o وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا o (نوح ۷۱:۱۳-۱۴) تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے، حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمھیں بنایا ہے۔

(یعنی وہ تمھیں تخلیق کے مختلف مدارج اور اطوار سے گزارتا ہوا موجودہ حالت پر لایا ہے۔)

(بہ شکریہ الجزیرہ نیٹ، ۷؍اپریل ۲۰۰۹ئ)

(راشد الغنوشی تحریک نہضت اسلامی تیونس کے سربراہ اور معروف دانش ور ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں ملک بدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔)

غزہ کو چاروں طرف سے سیل بند اور مقفل کردیا گیا ہے۔ ۴۰کلومیٹر طویل اور ۱۰کلومیٹر عریض اس پٹی میں اپنی نوع کے عجیب انسان بستے ہیں۔ ۱۵ لاکھ کی آبادی ہے، جینے کا ہر سامان  ان پر حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ ۲۷دسمبر ۲۰۰۸ء کو ان پر ۲۴ روزہ مہیب جنگ مسلط کی گئی۔ سفید فاسفورس سمیت، جلاکر بھسم کردینے والا ہر نوع کا بارود ان پر برسایا گیا، لیکن انھیں ان کے موقف سے دست بردار نہیں کیا جاسکا۔ اہلِ غزہ نے امریکا و یورپ کی مکمل سرپرستی، اور اکثر پڑوسی عرب ملکوں کی خیانت و معاونت سے حملہ آور ہونے والے صہیونی دشمن کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔

غزہ کا حصار اور ناکہ بندی، جنگ سے پہلے بھی جاری تھی۔ ۲۴ روزہ تباہ کن جنگ کے بعد محاصرہ شدید تر کردیا گیا۔ جنگ کے خاتمے پر کئی ممالک کی جانب سے اربوں ڈالر کی امداد دینے اور غزہ کی تعمیرنو کے اعلان اور وعدے کیے گئے۔ صدافسوس کہ تمام تر وعدے ذرائع ابلاغ کی    شہ سرخیوں اور صداے بازگشت کے ہوائی گنبد میں تحلیل ہوکر رہ گئے۔ غزہ کے بند دروازوں پر جس چیز کو سب سے زیادہ چیک اور ضبط کیا جاتا ہے، وہ تعمیراتی سامان ہی ہے۔ چند کلو سیمنٹ، کیل یا سریا لے کر جانا، اسلحے یا منشیات سے زیادہ خطرناک ہے۔ ایسے میں اہلِ غزہ کے سامنے زیرزمین راستوں کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ تین اطراف میں تو ’اہلِ ایمان کے بدترین دشمن‘ یہودیوں کا گھیرا ہے، چوتھی جانب مصر کی وادیِ سینا ہے۔ غزہ اور مصر کے درمیان ۱۰کلومیٹر کی سرحد، اُونچی اُونچی باڑیں لگاکر بند کر دی گئی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نبیؐ کے پیروکار اور ایک ہی زبان بولنے والے بستے ہیں۔ اتفاق سے دونوں طرف کی بستیوں کا نام بھی رفح ہے، لیکن درمیان میں فصیلیں، سنگینیں اور خائن حکمران حائل ہیں۔ فلسطینی اور مصری رفح کے شہریوں نے لمبی لمبی سرنگیں کھود کر ۱۵لاکھ انسانوں کے جسم و جان کا رشتہ بحال رکھنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اگرچہ زیرزمین راستوں سے لائی جانے والی اشیا کئی گنا زیادہ مہنگی ملتیں، لیکن کسی نہ کسی طرح مل جاتیں۔ عالمی طاغوت اور اس کے پالتو حکمرانوں کو یہی بات سب سے زیادہ دکھ دینے لگی۔ امریکی صدر بش نے جاتے جاتے اسرائیلی اور مصری حکمرانوں کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ منظور کیا۔ دنیا کو اس منصوبے کی اطلاع سب سے پہلے ایک اسرائیلی اخبار ہآرٹس کے ذریعے ملی۔ مصری حکومت نے پہلے تو اس اطلاع کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا لیکن اب اس منصوبے پر ۶۰ فی صد کام مکمل ہوچکا ہے۔

منصوبہ کیا ھے؟

فصیل، دیوار، باڑ، آہنی چادر یا خاردار تاروں کا نام لیتے ہی زمین کے اُوپر تعمیر یا کھڑی کی جانے والی مختلف رکاوٹوں کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ لیکن یہ شاید  انسانی تاریخ کا انوکھا تعمیراتی منصوبہ ہو کہ اس میں ۱۰کلومیٹر لمبی اور ۲۰ سے ۳۰میٹر (فٹ نہیں میٹر) گہری ایک فولادی دیوار زمین کے اندر تعمیر کی جارہی ہے۔ یعنی تقریباً ۵ یا ۶منزلہ عمارت کی بلندی جتنی گہری دیوار۔ بحالیِ مہاجرین کے لیے قائم کردہ اقوامِ متحدہ کے ادارے انروا (UNRWA) کی مصر میں نمایندہ، کیرین ابوزید نے اپنی مدت ملازمت کے اختتام سے چند روز پیش تر، قاہرہ کی امریکی یونی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے اس خصوصی فولاد کا ذکر ان الفاظ میں کیا: ’’یہ انتہائی مضبوط فولاد اسی غرض کے لیے خصوصی طور پر امریکا میں تیار کیا گیا ہے، اس پر مختلف دھماکا خیز مواد چلا کر اس کی مضبوطی کا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے‘‘۔ یعنی اس میں نقب لگانا یا بم دھماکے سے اس میں سوراخ کرنا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ پھر مزید حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے اس زیرزمین پوری آہنی فصیل کو برقی رَو سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی مزید ایسے آلات لگا دیے گئے ہیں کہ کہیں سے اس میں شگاف ڈالا جائے توفوراً اس کا سراغ لگایا جاسکے۔

اس فولادی دیوار کے علاوہ فلسطینی علاقے کی جانب ایک خطرناک آبی دیوار قائم کی جارہی ہے۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک ناقابلِ یقین اور ہلاکت خیز منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے مطابق بحر متوسط سے ایک زمین دوز موٹا پائپ فولادی دیوار کے ساتھ ساتھ بچھایا جا رہا ہے۔ اس پائپ سے ہر ۳۰ سے ۴۰ میٹر کے فاصلے پر تقریباً ۵۳میٹر گہرا، چھے انچ موٹا پائپ زمین میں اُتارا جارہاہے۔ ان عمودی پائپوں میں لاتعداد سوراخ کیے گئے ہیں، طاقت ور پمپس کے ذریعے جب سمندر سے بڑے اُفقی پائپ اور وہاں سے گہرے عمودی پائپوں میں پانی چھوڑا جائے گا، تو پورا علاقہ دلدل کی صورت اختیار کرجائے گا اور وہاں کسی کے لیے سرنگیں کھودنا ممکن نہ رہے گا۔

عالمی اقتصادی بحران اور دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کا رونارونے والوں کے پاس، مفلوک الحال، بھوکے اور محصور فلسطینیوں کو سرنگیں کھودنے سے روکنے کے لیے شیطانی ذہنیت ہی نہیں اربوں ڈالر کا وافر خزانہ بھی ہے۔ لیکن کسی ظالم دشمن یا بے ضمیر و نام نہاد دوست نے یہ نہ سوچا، کہ اس آہنی اور آبی دیوار کے دُور رس مضر اثرات، بھوک کا شکار فلسطینیوں ہی کو نہیں پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ سمندر کا نمکین پانی پائپوں اور مشینوں کے ذریعے زمین کے پیٹ میں اُتار دینے سے، علاقے میں موجود تھوڑا بہت پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں رہے گا۔ ۳۰ سے ۵۳ میٹر گہری آبی دیوار بنا دینے سے یہی نہیں کہ علاقے میں سرنگیں نہیں کھودی جاسکیں گی، بلکہ بالآخر پورے علاقے میں زمین کی اندرونی تہوں میں تبدیلی واقع ہوگی۔ زمین کے دھنس جانے اور کاشت کے قابل نہ رہنے کے سانحے روپذیر ہوں گے۔ ۳۰میٹر یعنی ۹۰فٹ گہری فولادی دیوار کھڑی کردینے سے زیرزمین پانی کا سفر رُک جائے گا، جس سے فلسطینی علاقے میں خشکی اور قحط، جب کہ مصری علاقے میں پانی کی سطح بلند ہوجانے اور علاقے کے سیم زدہ ہوجانے کے خدشات میں اضافہ ہوجائے گا۔ یقینا متعلقہ ماہرین نے اس بارے میں اپنی راے دی ہو گی، لیکن فیصلہ چونکہ امریکا میں اور اسرائیلی دبائو پر ہوا ہے، اس لیے ’قومی مصلحت‘ قرار دیتے ہوئے تیزی سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں سب سے زیادہ تکلیف دہ موقف مصر کی جامعہ ازہر کا ہے جس کے درباری مفتیوں نے فولادی اور آبی دیوار کو ’جائز‘ قرار دے دیا ہے کہ یہی ’آقا‘ کا حکم ہے۔

ایک عرب شاعر نے ایسے ہی موقع پر کہا تھا   ؎

جَزَی اللّٰہُ الشَّدَائِدَ کُلَّ خَیْرٍ

عَرَفْتُ بِھَا عَدُوِّی مِنْ صَدِیْقِی

(اللہ مصیبتوں کو جزاے خیر دے کہ میں نے ان کے ذریعے دوست دشمن میں تمیز کرلی۔)

غزہ میں زندگی کی آخری رمق بچانے کی خاطر کھودی گئی سرنگیں بند ہو رہی ہیں اور اہلِ غزہ کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ کھول دے گا۔ لیکن گذشتہ تقریباً چار سال سے محصور غزہ کو، دنیا بھر میں انسانیت دوست چہروں کی پہچان ہوگئی ہے۔ ۲۷دسمبر کو غزہ پر جارحیت کی پہلی برسی کے موقع پر یورپ سے اڑھائی سوگاڑیوں کے ایک قافلے نے امدادی سامان لے کر غزہ جانا چاہا۔ قافلے میں مسلمان اور غیر مسلم ارکانِ پارلیمنٹ، علماے کرام، سیاسی کارکنان اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں کے ذمہ داران سمیت تقریباً ۵۰۰ افراد شریک تھے۔

معروف برطانوی سیاسی رہنما اور رکن پارلیمنٹ، اپنی سیاسی پارٹی Respect (احترام)  کے سربراہ جارج گیلوے اس قافلے کے سربراہ تھے۔ قافلے کو ’شہ رگِ حیات ۳‘ کا نام دیا گیا۔ دوامدادی قافلے اس سے قبل آچکے تھے۔ مختلف یورپی ممالک، ترکی، شام اور اُردن میں قافلے کا شان دار عوامی استقبال کیا گیا۔یہ کارواں جب بحیرۂ احمر پر واقع اُردن کی بندرگاہ عقبہ پہنچا تو وہاں سے صرف تین گھنٹے کے بحری سفر کے بعد، مصری سرزمین اور پھر رفح گیٹ وے پہنچ سکتا تھا۔ مصری انتظامیہ نے قافلے کو آنے سے روک دیا اور کہا کہ پہلے تو زمینی راستے سے واپس شام جائو اور پھر وہاں سے بحرمتوسط کے راستے نہرسویز عبور کرتے ہوئے دوبارہ بحیرۂ احمر میں آئو۔ مصری بندرگاہ نویبع کے بجاے مصر ہی کی ایک اور بندرگاہ عریش پہنچو تو وہاں سے غزہ جانے کی اجازت دیں گے۔ لیکن جب امدادی سامان سمیت اڑھائی سو گاڑیوں کو بحری جہازوں اور کشتیوں میں لاد کر تین گھنٹے کے بجاے مزید پانچ دن، اور ۷۰کلومیٹر کے بجاے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد، قافلہ غزہ کے دروازے پر پہنچا تو پھر روک دیا گیا۔ قافلے کے یورپی ارکان نے قاہرہ میں واقع فرانسیسی اور دیگر یورپی سفارت خانوں کے باہر احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ عام طور پر یہ مظاہرے رات ۱۰ بجے شروع ہوکر، صبح 3 بجے تک جاری رہتے۔ آخری روز تو مصری پولیس سے باقاعدہ جھڑپ ہوگئی۔ اس موقع پر ترک حکومت نے خصوصی طور پر اور مؤثر مداخلت کی۔ ان کے ارکان اسمبلی اور حکمران پارٹی کے علاوہ اربکان صاحب کی سعادت پارٹی کے ذمہ داران بھی قافلے میں شریک تھے۔ جارج گیلوے کے مضبوط موقف، قافلے کی اکثریت یورپی شہریوں پر مشتمل ہونے اور ترکی کی شب و روز رابطوں کے نتیجے میں، بالآخر قافلے کو غزہ جانے کی اجازت دے دی گئی۔

۱۲ اور ۱۳ جنوری کو لبنان کے دار الحکومت بیروت میں ساتویں سالانہ القدس کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے تقریباً ۲۰۰ افراد شریک ہوئے۔ شرکا میں نمایاں ترین اور سب کی توجہ کا مرکز افراد وہی تھے جو ’شہ رگِ حیات ۳‘ میں شامل تھے۔ قافلے کے مرکزی منتظم محمد صوالحہ ابو عبادہ کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں اور کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے والے جارج گیلوے کو پوری امت کی طرف سے خصوصی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ بعد میں ابو عبادہ سے کھانے کی میز پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا، تو بتارہے تھے کہ مصری انتظامیہ نے اجازت بھی دی تو یہ امر یقینی بناتے ہوئے کہ قافلہ صرف ایک روز کے بعد واپس آجائے گا، اور یہ بھی کہ ہم دن کے کسی پہر میں غزہ نہ پہنچ سکیں۔ ہم غزہ داخل ہوئے تو رات کا ایک بج رہا تھا۔ اہل غزہ کئی دن سے روزانہ ہمارا انتظار کررہے تھے،    رات کے آخری پہر میں بھی بڑی تعداد میں جمع تھے لیکن اگر قافلہ دن کی روشنی میں وہاں پہنچتا، تو شاید دنیا کے سامنے ایک اور ہی منظر ہوتا۔ ابو عبادہ بتارہے تھے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود غزہ ابھی تک جنگ کے تباہ کن اثرات سے نہیں نکل سکا۔ تباہ شدہ عمارتیں اب بھی ملبے کا ڈھیرہیں۔ ضروریات زندگی کی ہر چیز ناپید ہے۔ کانفرنس میں غزہ سے آئے ہوئے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر مروان ابو راس سے خصوصی نشست ہوئی۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبد الرشید ترابی، خالد محمود خان اور کراچی سے مظفر ہاشمی شریک تھے۔ ڈاکٹر مروان بتارہے تھے کہ محاصرے کے باعث ادنیٰ سے ادنیٰ ضروریات زندگی بھی نہیں ملتیں، کسی کے پاس آٹا ہے تو پکانے کوایندھن نہیں۔ کئی لوگ گھروں سے پھٹے پرانے کپڑے، کاغذ اور گھاس پھونس جلا کر کھانا تیار کرتے ہیں۔ کسی کے پاس پیسے ہیں اور وہ دوا یا روٹی لینے کے لیے فجر کے وقت نکلتا ہے تو بعض اوقات شام تک واپس لوٹ پاتا ہے۔

پھر جنگ کے جو نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں، انسان ہونے کے ناتے ان سے مکمل چھٹکارا بھی آسان نہیں ہے۔ بچے، بوڑھے، مرد و خواتین اپنے تباہ شدہ گھروں کو دیکھتے ہیں تو تمام خون آشام مناظر تازہ ہوجاتے ہیں۔ سمیرہ بعلوشہ کی عمر تقریباً تیس سال ہے، گھر کے کھنڈر دیکھتے ہی وہاں شہید ہونے والی اپنی پانچ بچیوں کے نام لے لے کر انھیں یاد کرنا شروع کردیتی ہیں۔ ڈاکٹر عونی الجرو ۱۹۹۷ء میں یوکرین سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ اب وہ غزہ کے الشفاء ہسپتال میں باطنی امراض کے معالج ہیں، اپنی آنکھوں کے سامنے اہلیہ، شیرخوار بیٹے یوسف اور ۱۲ سالہ یاسمین کے پرخچے اڑ جانے کا حال سنانا شروع کرتے ہیں۔ تو الفاظ سے زیادہ آنسوئوں کی زبان سے بات کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ جنگ میں ایک ہزار چار سو افراد شہید ہوئے تھے اور ۵ہزار گھر ڈھادیے گئے تھے۔ ہر شہید کے وارث اور ملبے کے ہر ڈھیر سے صہیونی درندگی کی نئی سے نئی داستان سننے کو ملتی ہے۔

ڈاکٹر مروان بتارہے تھے کہ دیگر بہت سے اُمور کے علاوہ ایک قرآنی معجزہ یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ حماس کے حفظ قرآن کیمپوں میں لوگ ۶۰ روز کے اندر مکمل قرآن کریم حفظ کر رہے ہیں۔ بچے ہی نہیں بڑے بھی، مرد ہی نہیں خواتین بھی، جب ایک بار ارادہ اور آغاز کرلیتے ہیں تو بظاہر مشکل، بلکہ ناممکن نظر آنے والا ہدف بآسانی حاصل ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر مروان کے بقول اب تک غزہ میں ۱۵ ہزار سے زائد افراد مختصر مدت میں مکمل قرآن حفظ کرچکے ہیں۔ کہنے لگے میرا اپنا بیٹا پہلے کہتا تھا: ’’بابا ایک دن میں دس صفحات یعنی آدھا پارہ حفظ نہیں کرسکتا‘‘ پھر جب اللہ کا نام لے کر کیمپ میں شریک ہوگیا تو الحمد للہ دو ماہ میں مکمل قرآن حفظ کرلیا۔ یہ الٰہی اور قرآنی معجزہ ہم اہلِ غزہ  کے لیے، اللہ کی طرف سے اعلان ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے۔

القدس کانفرنس سے متصل ۱۴ اور ۱۵ جنوری کو ’مزاحمت کے ساتھ‘ کے عنوان سے ایک اور کانفرنس کا آغاز ہوگیا۔ سالانہ القدس کانفرنس کا اہتمام القدس فاؤنڈیشن کرتی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی کی زیر صدارت یہ تنظیم خصوصی طور پر اہل بیت المقدس اور مسجد اقصی کی نصرت کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس کے بہت سارے تعلیمی، تعمیراتی اور صحت کے منصوبے گذشتہ سات برس میں پایہء تکمیل تک پہنچ چکے ہیں اور مزید پر کام جاری ہے۔ مزاحمت کے ساتھ مَعَ المُقَاوَمَۃ کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس ’بین الاقوامی عرب فورم براے نصرت مزاحمت‘ کے زیر اہتمام ہوئی تھی۔ دونوں کانفرنسوں کے بہت سے شرکا مشترک بھی تھے اور کئی الگ الگ بھی۔ دوسری کانفرنس میں عرب قومیت کی سرخیل شخصیات بھی پیش پیش تھیں۔ افتتاحی سیشن سے سب سے پہلے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے خطاب کیا۔ ان کا خطاب سیٹلائٹ کے ذریعے براہِ راست دکھایا گیا۔ مفصل خطاب کے آخر میں انھوں نے ایک جملہ یہ بھی کہا کہ ’’اسرائیل دوبارہ جارحیت کی تیاریاں تو کررہا ہے لیکن اسے جان لینا چاہیے کہ آیندہ کسی بھی جنگ میں ہم ان شاء اللہ خطے کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے‘‘۔ ان کے بعد حماس کے سربراہ خالد المشعل کا خطاب تھا پھر عراقی تحریک مزاحمت کی طرف حارث الضاری پھر علامہ یوسف القرضاوی اور شام و لبنان کی حکومتوں کے پیغامات تھے۔

کانفرنس میں مغربی ممالک سے بھی بڑی تعداد میں اسکالر، ارکان پارلیمنٹ، اور اہم شخصیات موجود تھیں۔ معروف امریکی مصنف رمزے کلارک کا خطاب بھی اگرچہ مختصر تھا لیکن امریکی دوغلے پن اور اسرائیلی شیطنت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کررہا تھا۔ اگلے روز محترم عبد الرشید ترابی اور راقم نے تحریک مزاحمت کشمیر اور افغانستان و پاکستان کی صورت حال پر گفتگو کی۔ کانفرنس کے اکثر شرکا فلسطین، عراق اور افغانستان ہی کی طرح پاکستان کے بارے میں بھی گہری تشویش کا اظہار کررہے تھے۔ یہ بدقسمتی کی بات تھی کہ پاکستان اور پاکستانی عوام سے اظہار محبت کے باوجود کوئی ایک فرد ایسا نہیں تھا کہ جو پاکستانی حکومت کے بارے میں کلمۂ خیر کہہ رہا ہو۔ حالانکہ کانفرنس میں ۵۰ فی صد سے زائد لوگ اسلام سے کوئی خاص ذہنی وابستگی نہیں رکھتے تھے۔ پرویز مشرف نے بھی مسلم دنیا کی بڑی نفرتیںسمیٹی ہیں، لیکن اب زرداری صاحب ان سے بھی کئی ہاتھ آگے بڑھ چکے ہیں۔

دوسری طرف عین کانفرنس کے دنوں میں ترکی کا ایک اور شان دار موقف سب کو سربلند کرگیا۔ ترک ٹی وی پر ان دنوںایک ڈراما سیریز چل رہی ہے: ’بھیڑیوںکی وادی‘۔ اس سیریز میں اسرائیلی مظالم کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اس پر احتجاج کرنے کے لیے تل ابیب میں ترک سفیر کو وزارت خارجہ بلایا گیا۔ پہلے تو سفیر صاحب کو نائب وزیر خارجہ دانی ایالون کے دفتر کے دروازے پر منتظر کھڑا رکھا گیا۔ کئی منٹ کے انتظار کے بعد دروازہ کھلا تو دانی ایالون اور اس کے ساتھیوں نے سفیر صاحب کا استقبال کرتے ہوئے انھیں ایک نسبتاً نچلے صوفے پر بٹھایا اور خود ان کے سامنے اونچی کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ درمیانی میز پر بھی سفارتی آداب کے مطابق دونوں ملکوں کے بجاے، صرف اسرائیل کا پرچم پڑا تھا۔ خیر ملاقات ختم ہوئی اور وزارت خارجہ کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو خصوصی ہدایات کے ساتھ ان تینوں پہلوؤں کو نمایاں کروادیا گیا (انتظار - زیریں نشست - اکلوتا پرچم)

اس پر ترک صدر عبد اللہ گل اور وزیر اعظم رجب طیب اردوگان کی طرف سے سخت احتجاج کیا گیا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس پر بذریعہ فون ترکی سے رسمی معذرت کرلی۔ لیکن صدر گل کی طرف سے کہا گیا کہ نہیں اگر آج شام سے پہلے پہلے، اسرائیل پوری ترک قوم سے باقاعدہ اور تحریری معذرت نہیں کرتا، تو ہم پہلے قدم کے طور پر اولین پرواز سے اپنا سفیر واپس بلالیں گے۔     یہ سن کر اسرائیل میں کھلبلی مچ گئی۔ فوراً کئی ارکان اسمبلی اور ماہرین خارجہ اُمور نے مل کر ایک معذرت نامہ ڈرافٹ کیا اور جاری کرنے سے پہلے ترک صدر کو بھجوایا کہ ڈرافٹ خود ملاحظہ کرلیں، اگر مزید کچھ لکھنا ہے تو وہ لکھ کر بھی معذرت کو تیار ہیں۔

اپنے علاوہ کسی کو انسان نہ سمجھنے والے اسرائیل کا یوں گھٹنے ٹیک دینا، دنیا کے لیے بہت سے پیغام رکھتا تھا جس کا اظہار اہل فلسطین نے خصوصی طور پر کیا۔ ’شہ رگِ حیات ۳‘ کے غزہ جانے کے بعد یہ دوسرا ترک موقف تھا، جس نے ترک حکومت کا مقام و مرتبہ بلند کیا۔ یقینا اس سے پہلے ڈیووس کانفرنس سے طیب اردوگان کا احتجاجی بائیکاٹ اور جنگ غزہ کے دوران فلسطینیوں کے زخم پر پھاہا رکھنے کی کوششیں بھی سب کو یاد ہیں۔ ترکی کے اس نمایاں کردار کے باعث اب عرب دنیا  ’دور عثمانی کی واپسی‘ جیسے عنوانات سے بے شمار تجزیے لکھ اور دیکھ رہی ہے۔ اسی ترک کردار کے باعث حال ہی میں سعودی عرب نے رجب طیب اردوگان کو خدمتِ اسلام کا شاہ فیصل عالمی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے کا پہلا ایوارڈ مولانا مودودیؒ کو دیا گیا تھا۔ ترکی کے اس روشن موقف کے تناظر میں، پڑوسی اور عرب برادر ملک مصر کاغزہ کے گرد دیوار موت تعمیر کرنا سب کو کَھل رہا تھا۔ تقریباً سب شرکا نے اس پر بات بھی کی۔ اس موقع پر اخوان المسلمون کے ایک رکن نے کھڑے ہوکر مصری حکومت کے ان اقدامات سے براء۱ت کا اظہار کرتے ہوئے مصری عوام کی ترجمانی کی۔ انھوں نے بتایا کہ اس کانفرنس میں قاہرہ سے اخوان المسلمون کے ۲۴ ارکان پارلیمنٹ اپنا یہی قومی موقف واضح کرنے آئے ہیں۔

گذشتہ ۳۰ سال سے مصری عوام پر مسلط صدر حسنی مبارک، غزہ سے آنے والی چیخوں اور اپنے عوام کے دل کی بات نہیں سن رہے تو کم از کم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک ہی دل کے کانوں سے سن لیں: ’’بنی اسرائیل کی ایک خاتون کو صرف اس لیے جہنم میں پھینک دیا گیا کہ اس نے اپنی بلی کو قید کر رکھا تھا۔ نہ تو اسے کچھ کھانے کو دیا اور نہ ہی اسے آزاد کیا کہ وہ خود کچھ کھالے‘‘۔ جناب حسنی مبارک! اے عرب حکمرانو! دنیا بھر کے غیور لوگو! غزہ میں انسانوں کو قید کرنے کی سزا کیا ہوگی؟ اور وہ بھی ایک دو نہیں، ۱۵ لاکھ انسانوں کو!

امریکا اور مغرب یا ان کے چہیتے حکمرانوں کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کتنی حقیقی ہے اور کتنی خودساختہ، ان مفروضوں پر بحث سے قطع نظر ایک اور سخت اذیت ناک چیلنج درپیش ہے۔ اس چیلنج کو ’مغرب کی عریاں دہشت گردی‘ کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے!

ایک زمانہ تھا کہ مسلم خواتین مکمل حجاب کااہتمام کرتیں، اور اس مقصد کے لیے برقعہ پہنتیں۔ مگر آج کا ’مہذب مغرب‘ ان باحیا و پاک باز خواتین سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ برقعہ اتاریں، حجاب کو نوچ کر پرے پھینکیں، بلکہ ’دہشت گردی‘ کی نام نہاد جنگ میں مغرب کا خوف دُور کرنے کے لیے خود کو بے لباس کرکے تصویریں بنوائیں۔ جدید تعلیم اور ابلاغی یلغار کے زیراثر برقعہ و حجاب پر نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے وہ بڑی حد تک تیار دکھائی دیتی ہیں، لیکن اس تیسرے حملے کو برداشت کرنے کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں ہوسکتیں، بلکہ اس کاتصور کرکے زندہ رہنے سے زیادہ وہ موت کے انتخاب کوترجیح دینے سے بھی گریز نہ کریں گی۔ یہ فیصلہ تو مسلم خواتین کا ہے___ مگر امریکا یہ کہتا ہے: ’’تم اپنی جگہ غیرت کو محفوظ رکھو، مگر ہم مشینوں کے ذریعے تمھیں بے لباس کرکے تصویریں بنائیں گے‘‘۔ صاحبو، آج امریکی فضائی اڈوں پر ایسی مشینوں (naked body scanners)کی تنصیب کر دی گئی ہے (اور تیزی سے اس تنصیباتی عمل کو وسعت دی جارہی ہے) تاکہ خوف زدہ مغربیوں کے ہاتھوں حیا کا پردہ تار تار ہوتا رہے، اور پھر دنیا کے مظلوم اور مسلم اُمہ کے مجبور عوام اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کرلیں۔

اپنی سرزمین پر یہ بیہودہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ خودمسلم ممالک سے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں سے امریکا جانے والے مسافروں کو ’مکمل جسمانی سکین‘ کر کے طیاروں میں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ آخرکار منصوبہ یہ ہے کہ تمام ہوائی اڈوں پر فضائی مسافروں کی عریاں اسکیننگ کی مشینیں لگا دی جائیں۔ لوگ حیران و پریشان ہیں کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟

جواب میں امریکی حکام کہتے ہیں کہ: دسمبر ۲۰۰۹ء کے کرسمس کے موقع پر نائیجیریا کے ۲۳سالہ افریقی مسلمان عمرفاروق عبدالمطلب کو مبینہ طور پر آتش گیر پائوڈر کمر سے باندھے ہوئے ڈیٹرایٹ (مشی گن) کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرنے کا واقعہ ہی اس جبر کا باعث بنا ہے۔ (یاد رہے یہ مسافر ایمسٹرڈم کے ہوائی اڈے سے طیارے (فلائٹ ۲۵۳) پر سوار ہوا تھا، اور سیکورٹی کی ذمہ داری اسی ہوائی اڈے کے حکام پر تھی)۔ جواب میں مسلم رہنما کہتے ہیں کہ یہ واقعہ محض ایک ڈراما تھا، جسے اسٹیج کر کے ایک بہانہ تراشا گیا تاکہ مذکورہ پروگرام کے نفاذ کا جواز پیدا کیاجاسکے اور اس شک کی بنیاد بڑی مضبوط ہے۔

مبینہ طور پر یہ واقعہ تو دسمبر ۲۰۰۹ء میں ہوتا ہے، مگر سی این این نے اب سے سات ماہ   پیش تر ہی یہ خبر دے دی تھی کہ: ’’مسافروں کی عریاں تصویرکشی (naked pictures) کی جاری ہے‘‘ (۱۸ مئی ۲۰۰۹ء، cnn.com)۔ اسٹاف رپورٹر جرمی حسو نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا: ’’جسم کی مکمل تصویرکشی کی مشینوں سے، فرد کے کپڑوں کے نیچے سے ہر دھاتی اور غیردھاتی چیز دیکھی جاسکتی ہے بلکہ زیرجامہ نقوش تک نظر کے سامنے آجاتے ہیں اور یہ ۳ ڈی عکس بندی چند سیکنڈ میں کرلی جاتی ہے‘‘ (یکم اپریل ۲۰۰۹ء، livescience.com)۔ آگے چلیے، معروف صحافی جیفری لایب نے تو اس سے بھی ایک سال پہلے دی ڈینورپوسٹ میں بتایا تھا: ’’ڈینور بین الاقوامی ہوائی اڈے کے علاوہ امریکا کے دیگر پانچ ہوائی اڈوں پر مکمل جسمانی عریاں تصویر سازی کی مشینیں لگادی گئی ہیں‘‘۔(۲۹ مئی ۲۰۰۹ء، denverpost.com)

اسی طرح تھامس فرینک نے اب سے ڈیڑھ سال قبل ۶جون ۲۰۰۸ء کو امریکا کے مشہور جریدے یو ایس ٹوڈے میں رپورٹ دی تھی کہ: ’’انسانی بدن کو اسکین کرنے والی وہ مشینیں، جو لوگوں کے کپڑوں سے بھی نیچے کی تصویریں بنا سکتی ہیں، معروف ترین ہوائی اڈوں پر نصب کر دی گئی ہیں‘‘ (۶ جون ۲۰۰۸ء- USA Today)۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مغربی اور امریکی حکمرانوں کی بدنیتی اور قانون شکنی تو کب سے اپنا رنگ دکھا رہی تھی، مگر اس شیطانی سلسلے کو    بڑے پیمانے پر روبہ عمل لانے کے لیے ’کرسمس ڈراما ۲۰۰۹ء‘ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے یہاں پر مسلم دنیا سے نہیں بلکہ خود امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ ہی سے چند تجزیاتی رپورٹوں کے اقتباسات اور بیانات پیش کیے جاتے ہیں:

  • پال ایڈورڈ پاکر کے مطابق: ’’یہ اسکینر مشینیں، کپڑے پہننے کے باوجود، مسافروں کی کپڑوں سے بے نیاز تصویر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘‘(۳۱دسمبر ۲۰۰۹ء، progo.com)۔ اس ضمن میں ٹیلی ویژن ایسی رپورٹیں پیش کر کے، کہ جن میں اسکینر سے گزرنے والے لوگوں کے چہروں اور تناسلی اعضا (genitals) کو دھندلا کردکھایا جا رہا ہے، عام ناظرین کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ پیچھے کمرے میں بیٹھ کر دیکھنے والے عملے کے لوگ، اس عکس کو ایک معمولی سے اُلٹ پلٹ (inversion) کے عمل سے بالکل اس طرح دیکھ سکتے ہیں، جیسے وہ بالکل عریاں کیفیت میں، اپنے حقیقی خدوخال اور رنگ و حالت میں ان کے سامنے ہوں۔ اور ان کی یہ تصویریں، اسی حالت میں ہوبہو ریکارڈ کا مستقل حصہ بھی بن جاتی ہیں‘‘۔ (۸ جنوری ۲۰۱۰ء، پال جوزف واٹسن، prisionplanet.com)
  • ’’مکمل انسانی جسم کی اس خفیہ تصویرکشی کا ایک خوفناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہوائی اڈے سے سفر شروع کرنے یا سفر مکمل کر کے باہر نکلنے والا مسافر خطرناک ریڈیائی لہروں میں غسل کرکے نکلتا ہے۔ افسوس کہ اس انتہائی نقصان دہ عمل کے باوجود امریکی انتہاپسند (نیوکونز) اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ ایسی مشینیں بڑے پیمانے پر نصب کی جائیں‘‘۔ (۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء، infowars.com)
  • خود امریکا میں ’ٹکنالوجی اور آزادی‘کے عنوان سے شائع شدہ ایک فکرانگیز مضمون بتاتا ہے کہ:’’یہ ٹکنالوجی، انسان کی آزادی، خلوت اور پوشیدہ وجود پر براہِ راست حملہ ہے۔ جس کے ذریعے خواتین و حضرات کو ان کی مرضی کے بغیر اور ان کی سفری مجبوریوں سے ناجائز طور پر    فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کی شرم گاہوں تک کی تصویرکشی کی جاتی ہے۔ عملی شکل یہ ہے کہ سفر کے   دوران میں ایئرپورٹ کی چیک پوسٹ سے گزرتی سواری کو یہ مشینیں عریاں حالت میں چلتا دکھاتی ہیں۔ یہ انسانوں کی نجی زندگی اور وقار پر ایک بدترین جارحیت ہے۔ مانا کہ کچھ افراد دوسروں کے سامنے عریاں ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے، مگر انسانوں کی عظیم ترین اکثریت، اس بے حیائی کو   نفرت سے دیکھتی ہے۔ اس طرح یہ سارا قصہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ایسے  توہین آمیز عمل کو کوئی بھی مہذب انسان برداشت نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ سفری حفاظت کے ادارے میں ۴۳ہزار افسران اور لاتعداد خفیہ ایجنٹ، صرف امریکا کے ۴۵۰ ہوائی اڈوں پر روزانہ ڈیوٹی دیتے ہیں، جب کہ امریکا ہوائی اڈوں پر روزانہ ۲۰ لاکھ مسافر، سفر کی غرض سے آتے ہیں‘‘۔ (۸جنوری ۲۰۱۰ء، aclu.org)
  • ’’مانچسٹر ایئرپورٹ (برطانیہ) پر ایک سال سے تجرباتی طور پر عریاں تصویرکشی کرنے والی ان مشینوں پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ بچوں کی ایسی تصویریں نہ بنائیں، کیونکہ اس طرح ’بچوں کی عریاں کشی کے قانون‘ کی خلاف ورزی ہوتی ہے‘‘ (mailonsunday.co.uk)۔ اسی خبر کو اخبار دی گارڈین، لندن (۴ جنوری ۲۰۱۰ء) نے زیادہ تفصیل سے پیش کیا۔
  • ’’سفری حفاظت کی انتظامیہ (TSA) یہ بھی کہتی ہے کہ اس تصویری مواد میں دیگر جسمانی تفصیلات پر زور نہیں دیا جاتا، بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں کسی فرد نے جسم کے ساتھ اسلحہ تو نہیں باندھ رکھا، حالانکہ یہ بہانہ گمراہ کن ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ وہ یہ تصویریں سامنے سے اور عقب سے بناتے ہیں اور ان تصویروں کو جتنا چاہیں بڑا کر کے دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ (۸؍اپریل ۲۰۰۹ء، ولیم سیلٹن، slate.com)
  • جینی میسریو اور مائیک اہلرز کی رپورٹ کے مطابق: ’’سفری حفاظتی انتظامیہ (TSA) لوگوں کو جتنا چاہے دھوکا دے لے، لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ انسانی شرف اور احترام کی تذلیل کا یہ پورا بندوبست ہے۔ خود ٹی ایس اے کی دستاویزات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان اسکینر مشینوں میں یہ بھرپور صلاحیت ہے کہ وہ مسافروں کی [عریاں] تصویریں بناکر محفوظ رکھیں اور دوسری جگہ منتقل کریں۔ ایسی تصویریں جو زیب تن کپڑوں کے نیچے کی عکس بندی کرلیتی ہیں۔ کمپیوٹر ہیکروں یا دوسرے کارکنوں کے ہاتھوں ان تصویروں کے غلط طور پر استعمال ہونے کا ہرآن خدشہ موجود رہے گا‘‘۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)
  • یہ امرواقعہ ہے کہ انتظامیہ اپنے شہریوں کے ساتھ دھوکا دہی کا ثبوت دیتے ہوئے دوسری بات کہہ رہی ہے، حالانکہ یہ بات ایک معلوم حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ ’جسمانی جائزے‘ کے ان اسکینروں سے بنے ہوئے عکس آپ کی عریاں حالت میں تصویر بناکر، آپ کے تناسلی اعضا تک کی باریک سے باریک تفصیل کو ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ (godlikeproductions.com)
  • ’’ایسے بہت سے منصوبوں کے طرف دار یہودی تک اس صورتِ واقعہ پر تڑپ   اُٹھے ہیں۔ مثلاً صہیونی اخبار دی یروشلم پوسٹ کے نمایندہ میتھیو ویگز نے رپورٹ کیا: ’’یہودی مذہبی رہنمائوں کے مطابق مکمل جسمانی اسکیننگ سے عورتوں کی حیا اور احترام پر بہت منفی اثر پڑے گا‘‘ (۷جنوری ۲۰۱۰ء، jpost.com)۔ اسی طرح جرمنی کی ’پائی ریٹ پارٹی‘ نے بھی عریاں اسکینروں کے خلاف مظاہرہ کیا‘‘۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، thelocal.de)
  • ’’ہالینڈ میں سلامتی کے مشیر نے حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ جلد از جلد فنڈز جاری کرے تاکہ ’عریاں جسمانی‘ تصویرکشی کے ایسے سفری (موبائل) اسکینرز استعمال میں لائے جائیں کہ جن کے ذریعے بازاروں میں چلنے، فٹ بال کھیلنے اور اسٹیڈیم وغیرہ میں کھیلوں سے لطف اندوز ہونے والے تماشائیوں وغیرہ تک کو عریاں حالت میں دیکھا، پرکھا اور ریکارڈ کیا جاسکے۔ (۲۰جنوری ۲۰۱۰ء، dutchnews.nl)
  • ایک اسکینر جو ایک لاکھ ۳۰ ہزار ڈالر سے ایک لاکھ ۷۰ ہزار ڈالر کی قیمت رکھتا ہے، امریکا کے ۱۹ ہوائی اڈوں پر ۴۰ کی تعداد میں نصب اور زیراستعمال ہیں۔ ۱۵۰ مزید نصب کیے جارہے ہیں، جب کہ امریکا کے ۴۵۰ ہوائی اڈے ہیں (۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء، progo.com)۔ اسی طرح سی این این نے ان تفصیلات کی تائید کرنے کے ساتھ یہ خبر دی ہے: ’’۲۰۱۱ء تک پورے امریکا میں یہ مشین لگا دی جائیں گی۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)
  • ایک جانب ’سفری حفاظت کی انتظامیہ‘ کے ترجمان کرسٹن لی نے یہ کہا ہے: ’’ہم یہ اقدامات سلامتی کی غرض سے کر رہے ہیں، ہمیں کسی مذہب یا قومیت سے کچھ نہیں لینا دینا‘‘ (۴جنوری ۲۰۱۰ء،cnn.com)۔ دوسری طرف دنیا کی معروف اخباری ایجنسی اے ایف پی  کے مطابق: ’’جن ممالک کے باشندوں کو خاص طور پر ان مشینوں کے ذریعے دیکھا، پرکھا اور ریکارڈ کیا جارہا ہے، ان میں شامل ہیں: سعودی عرب، پاکستان، ایران، سوڈان، شام، افغانستان، الجزائر، عراق، لبنان، لیبیا، صومالیہ، یمن، نائیجیریا اور کیوبا‘‘ (france24.com)۔ امریکی ٹیلی ویژن سی این این نے ۴ جنوری ۲۰۱۰ء کو انھی ممالک کے نام ایک اعلیٰ امریکی افسر کے حوالے سے دہراے ہیں۔ [یاد رہے کہ ان میں۱۳ مسلم ممالک کی کل آبادی ۷۰ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے]
  • امریکی مسلمانوں کی تنظیم ’کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز‘ (CAIR) کے نیشنل ایگزیکٹو نہاد عواد (Nihad Awad) نے اس صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سی این این کو بتایا: ’’ان اسکینروں کی تنصیب کے تحت مسلم اکثریتی آبادی رکھنے والے ۱۳ممالک کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان میں سے بھی خصوصی ہدف وہ لوگ ہیں، جو اَب امریکی قومیت اختیار کرچکے ہیں، مگر ان کی پیدایشی اور نسلی شناخت ان ۱۳ ملکوں سے منسوب ہے۔ یوں نسلی اور اعتقادی سطح پر وہ بجاطور پر مسلم دنیا سے فطری اور روحانی وابستگی رکھتے ہیں۔ اس بندوبست کے بعد یہ امریکی مسلمان جب کبھی کبھار اپنے پیدایشی ملک میں عزیزوں سے ملنے جائیں گے تو ایسی تضحیک کا ہدف بنیں گے، اور وہ بھی خودبخود مذکورہ تذلیل کا نشانہ بنیں گے جو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب کا سفر کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچیں گے‘‘ (۴جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)

مغرب کے خوف زدہ حکمرانوں نے دنیا بھر میں ایک ہسٹیریائی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اسی کیفیت میں وہ اپنے مذموم سیاسی و معاشی مفادات کا تحفظ کرتے اور اعلیٰ انسانی اور تہذیبی اقدار کو کچلے جارہے ہیں۔ اُوپر مذکورہ اسکیننگ مشینوں کے اس استعمال کا مطلب یہ ہے کہ:

                ۱-            اہلِ مغرب کے خیال میں حیا اور انسانی حق خلوت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

                ۲-            خاص علاقے اور نشان زدہ مذہب کے لوگ اہلِ مغرب کی نظر میں ملزم کا درجہ رکھتے ہیں۔

                ۳-            مغربی حکمرانوں کو بلاروک ٹوک یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقتدار اور قوت پر قابض ہونے کی بنیاد پر، جب، جس طرح اور جس پیمانے پر چاہیں___ انسانی جان، مال اور آبرو پر حملہ کرسکتے ہیں۔

                ۴-            اپنے اقتدار کی بھیک مانگنے والے مسلم حکمران، مغرب کی ظالم حکومتوں کے اندھے، بہرے اور وحشی قوانین کے نفاذ ہی کو ’روشن خیالی‘ تصور کرتے ہیں۔

کیاانسانی تاریخ نے کبھی پہلے بھی یہ منظر دیکھا تھا؟ کیا جنگل میں درندوں نے بھی کبھی ایسے ظالمانہ اختیار کو استعمال کیا تھا؟ کیا اکیسویں صدی کا انسان اتنا بے بس، مجبور اور مقہور ہے کہ چند انسان، چند ادارے اور چند مشینیں انھیں مَسل کر رکھ دیں۔ اور اگروہ اُف بھی کریں تو انھیں وحشی، غیرمہذب، تہذیب دشمن، تنگ نظر اور دہشت گرد کہہ کر، ان کا منہ بند کردیں؟ کیا ایسے  توہین آمیز اقدامات کے نتیجے میں دنیا کو امن کی فضا مل جائے گی؟ معمولی سی بھی عقل رکھنے والے انسان کا جواب ہوگا: ’نہیں‘___ یہ انسانی تاریخ کا سبق ہے کہ ذلت، جبر اور ظلم کرنے والے    اگر ایک دروازہ بند کرتے ہیں توردعمل کے لیے مظلوم دس مزید دروازے کھول لیتے ہیں۔ اس لیے اگراصلاح اور انسانیت کی فلاح مطلوب ہے تو پھر قوموں کے حق حکمرانی کا احترام کیا جائے، ان پر جارحیت و استعماریت ختم کی جائے تو خود بخود ’خوف‘ کے یہ بادل چھٹ جائیں گے۔

اندریں حالات بے حیائی، تذلیل اور ظلم کے اس بندوبست کو مسلم دنیا کا شدید ترین احتجاج ہی روک سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ مسلم دنیا میں اس حوالے سے لاتعلقی،بے بسی، یا چشم پوشی کا رویہ ایک عذاب کی صورت مسلط ہے۔ ہاں، البتہ امریکا کے بالکل قریب ایک چھوٹے سے کمیونسٹ ملک کیوبا نے ۶جنوری ۲۰۱۰ء کو ضرور امریکا سے احتجاج کیا ہے، یا پھر ایک بے بس عراقی مسلمان خاتون نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اس تقابلی صورت حال کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا میں مذکورہ مسئلے پر باخبر کرنے کی مہم چلائی جائے۔ احتجاج منظم کیا جائے اور علمی وفکری سطح پر شرفِ انسانیت کے بھولے سبق کو یاد دلایا جائے، کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، جانور نہیں!

یمن اور سعودی عرب کے درمیان سرحدی جھڑپ سے آغاز ہونے والی لڑائی اب جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ عراق اور افغانستان میں جاری امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اگلا ہدف یمن ہوگا۔ مسئلے میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب نائیجیریا کے ایک مسلمان نوجوان نے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم سے امریکا جاتے ہوئے ایک جہاز کو فضا میں تباہ کرنے کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نوجوان کا تعلق القاعدہ سے ہے اور اس نے یمن میں تربیت حاصل کی تھی۔ امریکا نے یمن پر یہ الزام بھی لگایا کہ القاعدہ افغانستان سے پسپائی اختیار کرکے یمن کو اپنا مرکز بنارہی ہے اور یمن القاعدہ کی محفوظ جنت ہے۔ اس واقعے کے فوری ردعمل کے طور پر امریکا نے جہاں سکیورٹی اقدامات میں اضافے کے نام پر یمن، پاکستان، سعودی عرب اور ایران سمیت ۱۴ ممالک کے مسافروں کی اسکیننگ  کا اعلان کیا، جو بے لباس کرنے اور انتہائی تذلیل کے مترادف ہے، وہاں یمن میں القاعدہ کے خاتمے کے لیے اپنی افواج بھیجنے کا اعلان بھی کیا۔ بعدازاں عوامی ردعمل اور دبائو کی بناپر اس موقف میں تبدیلی کے بعد فوج بھیجنے کے بجاے ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا۔
یمن دنیا کے قدیم ترین تہذیبی مراکز میں سے ایک ہے اور اس خطے کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ محلِ وقوع کے اعتبار سے یمن مشرق وسطیٰ میں جزیرہ نماے عرب کے جنوب مغربی کونے میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں بحیرۂ عرب، شمال مشرق میں سلطنت عمان، شمال میں سعودی عرب، مغرب میں بحیرۂ احمر اور جنوب مغرب میں خلیج عدن واقع ہے۔ ملک کا سرکاری نام جمہوریہ یمن ہے اور کُل رقبہ ۵ لاکھ ۲۷ ہزار ۹ سو ۷۰ مربع کلومیٹر ہے، جب کہ دارالحکومت صنعا ہے۔ ملک میں معدنیات، گیس اور تیل کے وافر ذخائر پائے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرح یمن کے حکمران صدر علی عبداللہ صالح کی آمرانہ حکومت کو امریکا کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔ علی عبداللہ صالح پچھلے ۳۱سال سے یمن پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ۱۹۷۸ء سے ۱۹۹۰ء تک شمالی یمن کے سربراہ رہے اور ۱۹۹۰ء میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد سے وہ یمن کے صدر ہیں۔ یہی وہ پہلے مسلمان سربراہ ہیں جنھوں نے نائن الیون کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
عملاً صورت حال یہ ہے کہ یمن اسامہ بن لادن کا مسکن رہا ہے اور آج بھی یمن کے غریب اور بے روزگار نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اسامہ بن لادن کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ موجودہ صدر اور حکومت کی کرپشن اور امریکا کی بے جا حمایت کی بناپر عوام میں نفرت کی لہر پائی جاتی ہے۔ ماضی میں امریکی سفارت خانے پر حملہ بھی ہوچکا ہے، جب کہ بدنامِ زمانہ جیل گوانتانامو میں ۹۰ سے زائد قیدیوں کا تعلق یمن سے ہے۔ جنوبی یمن میں سوشلسٹ عناصر کے اثرات گہرے ہیں اور شمالی یمن کے مقابلے میں احساسِ محرومی بھی پایا جاتا ہے۔ شمال میں زیدی شیعہ سعودی عرب کی سرحد کے قریب رہتے ہیں جہاں ایران کے اثرات زیادہ ہیں اور اسی علاقے میں سرحدی جھڑپیں بھی جاری ہیں۔ صدرصالح اگرچہ امریکا کی حمایت پر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم ملک کی اندرونی صورت حال کی بنا پر ان کے لیے امریکا کی حمایت میں  کوئی بڑا قدم اٹھانا آسان نہیں۔ امریکا کو خود بھی بہت سے خدشات لاحق ہیں۔ خدشہ ہے کہ   اس کے کسی بڑے اقدام کے نتیجے میں القاعدہ کے اثرات یمن سے افریقہ تک نہ پھیل جائیں۔ صومالیہ کے بارے میں امریکا کو تشویش ہے اور ۱۹۹۳ء میں جس ذلت کے ساتھ اس کو یہاں سے نکلنا پڑا تھا اس کا بھی اسے تلخ تجربہ ہے۔ امریکا کے خلاف ردعمل کے نتیجے میں یمن میں خانہ جنگی کا بھی خدشہ ہے جو صدرصالح کی حکومت کے لیے بھی خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
دوسری طرف یمن جہاں علما کا اثرورسوخ ہے، ان کی طرف سے بھی بھرپور ردعمل سامنے آیا ہے۔ یمن کے دارالحکومت صنعاء میں یمن کی علما کونسل کا ایک اجلاس ہوا جس میں ۱۵۰علما نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد علما کونسل نے اعلان کیاہے کہ ملک میں القاعدہ کے خلاف آپریشن میں کسی غیرملکی فوج کے داخل ہونے کی صورت میں جہاد کریں گے۔ اسلامی احکامات کے مطابق کسی غیرملکی فوج کے ملک میں داخل ہونے کی صورت میں جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی غیرملکی حملے کی صورت میں جہاد کا اعلان کیا جائے گا۔
ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے بھی امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا خطے میں اجارہ داری چاہتا ہے اور یمن کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کررہا ہے۔ وہ اپنے اسلحے کے زور پر اس خطے میں مسلمانوں کی خون ریزی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران سمیت خطے کے تمام ممالک امریکی عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔ صدر احمدی نژاد نے سعودی عرب پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وہ خطے میں امریکی اجارہ داری کے خلاف اپنا کردار ادا کرے۔
یمن میں عوامی ردعمل کے پیش نظر یمنی وزیرخارجہ نے بی بی سی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں اس بات کی وضاحت کی کہ یمن القاعدہ کی محفوظ جنت نہیں ہے اور یہاں امریکیوں کی آمد مسئلے کے حل کے بجاے نئے مسائل پیدا کرے گی۔ امریکا یمن کو ’دہشت گردی‘ سے نمٹنے کے لیے صرف امداد فراہم کرے۔ امریکا کے لیے بھی عراق اور افغانستان کی جنگوں میں ۳ئ۱ ٹرلین ڈالر کے اخراجات اُٹھانے اور بڑی تعداد میں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد، جب کہ اس کی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہے، یمن میں فوج بھیج کر ایک نیا محاذ کھولنا بظاہر آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے یمن میں فوج بھیجنے کے موقف پر نظرثانی کرتے ہوئے مسلم عسکریت پسندوں کے خلاف یمن کو دفاعی امداد دینے کا اعلان کیا ہے جس میں ماہرین کا تعاون، اسلحے اور دیگر جنگی سازوسامان کی فراہمی شامل ہے۔ اس ضمن میں امریکا کے چیف آف سنٹرل کمانڈ ملٹری فورسز جنرل ڈیوڈ پیٹرس نے صدر صالح سے ملاقات کے بعد امریکی امداد کو فوری طور پر دگنا، یعنی ۶۷ملین ڈالر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ غالباً امریکا کے پیش نظر سردست براہِ راست فوجی مداخلت کرنے کے بجاے امریکی امداد اور ڈرون حملوں کے ذریعے ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کی حکمت عملی ہے۔
امریکا اور برطانیہ یمن میں فوجی کارروائی کو فی الحال مسترد کررہے ہیں لیکن مستقبل میں ان سے کسی مہم جوئی کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی سطح پر استعماری طاقتوں کی کوشش ہے کہ عالمِ اسلام میں فساد پھیلاکر اسلامی ممالک میں برسرِاقتدار طبقے کو ان اسلام پسند قوتوں سے ٹکرا دیں جو ان کے مذموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اُمت مسلمہ کے لیے بھی چیلنج ہے کہ وہ باہمی اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سامراجی عزائم کو ناکام بنا دے۔ خاص طور پر یمن کی  اسلام پسند قوتوں کو ان حالات میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عالمِ عرب میں سعودی عرب کو نمایاں مقام حاصل ہے، لہٰذا اسے بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر امریکا یمن میں نیا محاذ کھولتا ہے اور افغانستان میں جس طرح اسے پسپائی کا سامنا ہے، ’دہشت گردی‘ کے خلاف جاری اس نام نہاد جنگ کی دلدل میں وہ مزید دھنستا چلا جائے گا۔
بنگلہ دیش: اسلامی پارٹیوں کے نام پر پابندی؟
سلیم منصور خالد
مسلم دنیا کی سیکولر قوتوں کا عجب معاملہ ہے۔ دنیا بھر کے وسائل، بڑی طاقتوں کی سرپرستی اور ذرائع ابلاغ کی معاونت کے باوجود، میدان میں کھلے اور پُرامن مقابلے سے جی چرانا ان قوتوں کا کلچر ہے۔ ریاستی مشینری پر قبضہ جماکر مدمقابل قوتوں کو باندھ کر اُکھاڑے میں اُترنا،ان سورمائوں کا طرزِ حکمرانی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کا ہے۔
وہ عوامی لیگ جو پاکستان توڑنے کے لیے بھارت کی فوجی امداد کے ساتھ میدان میں اُتری، اب اسی عوامی لیگ نے مقامی ہندو آبادی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک اور   اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایک جانب مغربی ملک سویزرلینڈ میں اینٹوں سے بنے چند فٹ بلند میناروں سے یورپی سیکولرزم لرزہ براندام ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیش جیسے مشرقی اور مسلم اکثریتی ملک میں لفظ اسلام کی پہچان سے کام کرنے والی سیاسی یا دینی پارٹیوں کا وجود ناقابلِ قبول ہے۔ کیا یہ اتفاقِ زمانہ ہے یا شرارِ بولہبی کی نفرت بھری آگ؟
عوامی لیگ نے اگرچہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے ہندوئوں، کمیونسٹوں اور بھارت کی مدد لی تھی، مگر اس پارٹی کے دل میں یہ خوف گہری جڑیں پیوست کرچکا ہے کہ اس نے اسلامیانِ بنگال سے بے وفائی کرکے اسے بھارت کا طفیلی ملک بنایا ہے، سو اس کے خلاف ردعمل بہرحال اسلامی قوتوں ہی کی جانب سے اُٹھے گا۔ اس لیے ان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کرنے کے بعد اگست ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کی منظم ترین اسلامی پارٹی: جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ۳۷ سال پہلے سقوطِ مشرقی پاکستان کے دنوں میں پاکستان کا ساتھ دینے کے اقدام کے خلاف مقدمے چلائے گی۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد بدترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والی عوامی لیگ سے کچھ اور بن نہ پایا تو اس نے اعلان کر دیا: بنگلہ دیش میں کوئی پارٹی، مذہبی پہچان کا نام نہیں    رکھ سکے گی۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو عوامی لیگ حکومت کے وزیرقانون شفیق احمد نے کہا: ’’سپریم کورٹ نے ۵ویں ترمیم کو غیر قانونی قرار دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو قانون سے ماورا قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں جو پارٹی بھی مذہبی پہچان کا نام رکھے گی، اس پر پابندی عائد کردی جائے گی‘‘۔ اس اعلان پر بنگلہ دیش کے عام شہری ششدر رہ گئے۔
وہ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی بنیاد دوقومی نظریے پر وجود پانے والی تقسیم بنگال کے فیصلے پر رکھی گئی ہے۔ دو قومی نظریے کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ مسلم اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے ۱۹۰۶ء میں خود ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ گویا کہ اس آزادی کو وجود بخشنے والی پارٹی کا نام ہی مذہبی پہچان، یعنی ’مسلم‘ کے لفظ سے موسوم ہے۔ پہلے پہل، یعنی قیامِ پاکستان کے بعد انھی بنگالی قوم پرستوں کا ایک دھڑا جب مسلم لیگ سے الگ ہوا تو اس نے اپنا نام ’عوامی مسلم لیگ‘ رکھا اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندوئوں کے زیراثر لفظ ’مسلم‘ کو اُڑا کر اسے عوامی لیگ بنا دیا۔
خود عوامی لیگ بھی یہ جانتی ہے کہ ۹۱ فی صد مسلم آبادی کے اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے کسی مذہب کے حوالے سے کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے، اور بجاطور پر مسلمان وطن عزیز کی بنیاد اور پہچان کی مناسبت سے اپنی پارٹیوں کے ناموں میں ’اسلام‘، ’مسلم‘، ’اسلامی‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو ان کا آئینی اور دنیابھر میں مانا ہوا مسلّمہ حق ہے۔ اس خانہ زاد فیصلے کی روشنی میں، جو بہرحال سیاسی دبائو میں کیا گیا ہے، عوامی لیگ چاہتی ہے کہ دنیا میں آبادی کے   لحاظ سے تیسرے سب سے بڑے مسلم ملک میں مذکورہ پارٹیوں پر پابندی عائد کرے۔
’اسلام‘ نہ عوامی لیگ کا وضع کردہ ہے اور نہ لفظ ’مسلمان‘عوامی لیگ کی ٹکسال میں گھڑا گیا ہے۔ یہ لفظ اللہ، اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم نے عطا کیا ہے اور انھی   کے احکام کی اِتباع میں دنیا کے گوشے گوشے میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اسلام اپنا ایک مکمل نظامِ عبادات، بھرپور نظامِ فکر، قابلِ عمل نظام زندگی رکھتا ہے۔ جس کے نفاذ کی کوشش کرنے اور  ان کی تنظیم و رہنمائی کے لیے اجتماعی کوششوں کی پہچان بہرحال اسلام،اسلامی اور مسلم وغیرہ الفاظ ہی سے متعین ہوگی۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ چند سیاسی طالع آزما اپنے دل کے چور کی تسکین کے لیے اسلامیانِ عالم اور اسلامیانِ بنگلہ دیش اپنے حقِ شناخت سے دست بردار ہوجائیں؟
دوسری جانب بنگلہ دیشی وزیرقانون کے اسی بیان میں یہ حصہ متضاد حوالہ رکھتا ہے کہ: ’’دستور کے آغاز میں ’بسم اللہ‘ اور ریاست کے مذہب کا ’اسلام‘ ہونا برقرار رکھا جائے گا‘‘۔ ایک جانب اسلامی پہچان کے ناموں سے پارٹیوں پر پابندی اور دوسری جانب ان دو چیزوں کو برقرار رکھنے کی بات، اسلامیانِ بنگلہ دیش کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دراصل وزیرموصوف کے  اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی لیگ، اسلامی افکار و اقدار کی علَم بردار جماعتوں کو قومی زندگی اور سیاست سے باہر نکال دینے کے شیطانی منصوبے پر عمل کرنا چاہتی ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اس اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اگر بہت سے نظریات پر مشتمل سیاسی پارٹیاں کام کرسکتی ہیں تو صرف اسلام کے مقاصد حیات اور طرزِ زندگی کو پیش کرنے والی پارٹیوں پر کیوں پابندی لگائی جائے گی؟ خود بنگلہ دیش کے ہمسایے میں بھارت اور یورپ کے کتنے ممالک میں، برطانیہ و جرمنی میں مذہب کی شناخت سے پارٹیاں برسرِکار ہیں۔ اس لیے ایسی کوئی بھی حکومت، جو جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہو، بنگلہ دیش میں اسلامی پارٹیوں پر پابندی عائد نہیں کرسکتی، جہاں متعدد پارٹیاں سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ یہ ایسا ملک ہے جس کے شہریوں نے جمہوریت کے پودے کو سینچنے اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس لیے یہاں کے شہری ایسے کسی غیرجمہوری فیصلے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے‘‘۔
_______________

مسلم دنیا کی سیکولر قوتوں کا عجب معاملہ ہے۔ دنیا بھر کے وسائل، بڑی طاقتوں کی سرپرستی اور ذرائع ابلاغ کی معاونت کے باوجود، میدان میں کھلے اور پُرامن مقابلے سے جی چرانا ان قوتوں کا کلچر ہے۔ ریاستی مشینری پر قبضہ جماکر مدمقابل قوتوں کو باندھ کر اُکھاڑے میں اُترنا،ان سورمائوں کا طرزِ حکمرانی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کا ہے۔

وہ عوامی لیگ جو پاکستان توڑنے کے لیے بھارت کی فوجی امداد کے ساتھ میدان میں اُتری، اب اسی عوامی لیگ نے مقامی ہندو آبادی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک اور   اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایک جانب مغربی ملک سویزرلینڈ میں اینٹوں سے بنے چند فٹ بلند میناروں سے یورپی سیکولرزم لرزہ براندام ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیش جیسے مشرقی اور مسلم اکثریتی ملک میں لفظ اسلام کی پہچان سے کام کرنے والی سیاسی یا دینی پارٹیوں کا وجود ناقابلِ قبول ہے۔ کیا یہ اتفاقِ زمانہ ہے یا شرارِ بولہبی کی نفرت بھری آگ؟

عوامی لیگ نے اگرچہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے ہندوئوں، کمیونسٹوں اور بھارت کی مدد لی تھی، مگر اس پارٹی کے دل میں یہ خوف گہری جڑیں پیوست کرچکا ہے کہ اس نے اسلامیانِ بنگال سے بے وفائی کرکے اسے بھارت کا طفیلی ملک بنایا ہے، سو اس کے خلاف ردعمل بہرحال اسلامی قوتوں ہی کی جانب سے اُٹھے گا۔ اس لیے ان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کرنے کے بعد اگست ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کی منظم ترین اسلامی پارٹی: جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ۳۷ سال پہلے سقوطِ مشرقی پاکستان کے دنوں میں پاکستان کا ساتھ دینے کے اقدام کے خلاف مقدمے چلائے گی۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد بدترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والی عوامی لیگ سے کچھ اور بن نہ پایا تو اس نے اعلان کر دیا: بنگلہ دیش میں کوئی پارٹی، مذہبی پہچان کا نام نہیں    رکھ سکے گی۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو عوامی لیگ حکومت کے وزیرقانون شفیق احمد نے کہا: ’’سپریم کورٹ نے ۵ویں ترمیم کو غیر قانونی قرار دینے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو قانون سے ماورا قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں جو پارٹی بھی مذہبی پہچان کا نام رکھے گی، اس پر پابندی عائد کردی جائے گی‘‘۔ اس اعلان پر بنگلہ دیش کے عام شہری ششدر رہ گئے۔

وہ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی بنیاد دوقومی نظریے پر وجود پانے والی تقسیم بنگال کے فیصلے پر رکھی گئی ہے۔ دو قومی نظریے کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ مسلم اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے ۱۹۰۶ء میں خود ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ گویا کہ اس آزادی کو وجود بخشنے والی پارٹی کا نام ہی مذہبی پہچان، یعنی ’مسلم‘ کے لفظ سے موسوم ہے۔ پہلے پہل، یعنی قیامِ پاکستان کے بعد انھی بنگالی قوم پرستوں کا ایک دھڑا جب مسلم لیگ سے الگ ہوا تو اس نے اپنا نام ’عوامی مسلم لیگ‘ رکھا اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندوئوں کے زیراثر لفظ ’مسلم‘ کو اُڑا کر اسے عوامی لیگ بنا دیا۔

خود عوامی لیگ بھی یہ جانتی ہے کہ ۹۱ فی صد مسلم آبادی کے اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے کسی مذہب کے حوالے سے کوئی سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے، اور بجاطور پر مسلمان وطن عزیز کی بنیاد اور پہچان کی مناسبت سے اپنی پارٹیوں کے ناموں میں ’اسلام‘، ’مسلم‘، ’اسلامی‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو ان کا آئینی اور دنیابھر میں مانا ہوا مسلّمہ حق ہے۔ اس خانہ زاد فیصلے کی روشنی میں، جو بہرحال سیاسی دبائو میں کیا گیا ہے، عوامی لیگ چاہتی ہے کہ دنیا میں آبادی کے   لحاظ سے تیسرے سب سے بڑے مسلم ملک میں مذکورہ پارٹیوں پر پابندی عائد کرے۔

’اسلام‘ نہ عوامی لیگ کا وضع کردہ ہے اور نہ لفظ ’مسلمان‘عوامی لیگ کی ٹکسال میں گھڑا گیا ہے۔ یہ لفظ اللہ، اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم نے عطا کیا ہے اور انھی   کے احکام کی اِتباع میں دنیا کے گوشے گوشے میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اسلام اپنا ایک مکمل نظامِ عبادات، بھرپور نظامِ فکر، قابلِ عمل نظام زندگی رکھتا ہے۔ جس کے نفاذ کی کوشش کرنے اور  ان کی تنظیم و رہنمائی کے لیے اجتماعی کوششوں کی پہچان بہرحال اسلام،اسلامی اور مسلم وغیرہ الفاظ ہی سے متعین ہوگی۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ چند سیاسی طالع آزما اپنے دل کے چور کی تسکین کے لیے اسلامیانِ عالم اور اسلامیانِ بنگلہ دیش اپنے حقِ شناخت سے دست بردار ہوجائیں؟

دوسری جانب بنگلہ دیشی وزیرقانون کے اسی بیان میں یہ حصہ متضاد حوالہ رکھتا ہے کہ: ’’دستور کے آغاز میں ’بسم اللہ‘ اور ریاست کے مذہب کا ’اسلام‘ ہونا برقرار رکھا جائے گا‘‘۔ ایک جانب اسلامی پہچان کے ناموں سے پارٹیوں پر پابندی اور دوسری جانب ان دو چیزوں کو برقرار رکھنے کی بات، اسلامیانِ بنگلہ دیش کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دراصل وزیرموصوف کے  اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی لیگ، اسلامی افکار و اقدار کی علَم بردار جماعتوں کو قومی زندگی اور سیاست سے باہر نکال دینے کے شیطانی منصوبے پر عمل کرنا چاہتی ہے۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اس اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اگر بہت سے نظریات پر مشتمل سیاسی پارٹیاں کام کرسکتی ہیں تو صرف اسلام کے مقاصد حیات اور طرزِ زندگی کو پیش کرنے والی پارٹیوں پر کیوں پابندی لگائی جائے گی؟ خود بنگلہ دیش کے ہمسایے میں بھارت اور یورپ کے کتنے ممالک میں، برطانیہ و جرمنی میں مذہب کی شناخت سے پارٹیاں برسرِکار ہیں۔ اس لیے ایسی کوئی بھی حکومت، جو جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہو، بنگلہ دیش میں اسلامی پارٹیوں پر پابندی عائد نہیں کرسکتی، جہاں متعدد پارٹیاں سیاسی میدان میں موجود ہیں۔ یہ ایسا ملک ہے جس کے شہریوں نے جمہوریت کے پودے کو سینچنے اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس لیے یہاں کے شہری ایسے کسی غیرجمہوری فیصلے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے‘‘۔

تفسیر مطالب الفرقان کا علمی و تحقیقی جائزہ، ڈاکٹر محمد دین قاسمی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات (جلداوّل): ۶۳۲، جلد دوم ۷۴۴۔ قیمت (علی الترتیب): ۶۰۰+۷۰۰= ۱۳۰۰ روپے

مطالب الفرقان جناب غلام احمد پرویز کی تالیف ہے، جنھوںنے فتنۂ انکارِ حدیث کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اور قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے صاحب ِ قرآن کی قولی وعملی تفسیر سے آنکھیں بند کرلیں۔ زیرتبصرہ کتاب اسی فکر کے محاکمے پر مشتمل ہے۔

قاسمی صاحب نے پرویز صاحب کے اس قول کو پیش نظر رکھ کر ان کی فکر کا جائزہ لیا ہے کہ ’’جو کچھ میں نے لکھا ہے اس پر آپ قرآن کی روشنی میں غور کریں اور آپ کو جہاں سقم نظر آئے، اسے مجھ پر ہی قرآن ہی کی تائید سے واضح کریں‘‘ (نظامِ ربوبیت، ص ۲۳)۔ چنانچہ مؤلف لکھتے ہیں: ’’اس مقالے میں ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ پرویز صاحب کے جملہ افکار و نظریات کا جائزہ صرف اور صرف قرآن ہی کی بنیاد پر لیا جائے۔ لیکن چونکہ قرآن عربی زبان میں ہے اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ کتب لغات سے بھی صرفِ نظر نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی پرویز صاحب کی جملہ کتب سے استفادے کو بھی اس جائزے میں شامل رکھا جائے‘‘۔ (ج ۱، ص ۲۶)

پرویز صاحب اپنے ناقدین کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی طرف سے ایک غلط بات وضع کرکے ہمیں گالیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح پرویز صاحب کو یہ بھی شکایت ہے کہ لوگ اس بات کی تحقیق نہیں کرتے کہ جو کچھ ہماری طرف منسوب کیا جاتا ہے، وہ ہم نے کہا بھی ہے یا نہیں۔ مؤلف پرویز صاحب کی ان شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ہم نے امکان بھر اس امر کی کوشش کی ہے کہ طلوعِ اسلام یا جناب پرویز کے موقف کو خود انھی کے الفاظ میں پیش کرکے اس کا جائزہ لیا جائے‘‘۔ (ج۱، ص ۲۷)

فکرِ پرویز پر مؤلف گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے ابتدا سے لے کر پرویز صاحب کی وفات تک طلوعِ اسلام کے تمام شمارے اور ان کی تمام کتب لفظ بہ لفظ پڑھی ہیں اور ان کا ایک تفصیلی اشاریہ بھی ترتیب دیا ہے۔ تفسیرمطالب الفرقان کا زیرنظر تحقیقی جائزہ دوجلدوں میں ۱۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ مضامین کے عنوانات سے کتاب کے پھیلائو کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پہلی جلد میں مذکورہ تفسیر کے علمی محاکمے کے ساتھ ساتھ اصولی مباحث زیربحث آئے ہیں، جب کہ دوسری جلد میں قصص الانبیا، معجزات انبیا، معاشی نظریات اور عائلی قوانین وغیرہ کا جائزہ لیاگیا ہے۔ آخر میں مقالہ کے ماحصل کے علاوہ ’علما کے ہاں پرویز کی قدروقیمت‘، ’علماے عرب کی طرف سے فتاویٰ‘ اور ’مغربی اسکالروں کی تحسینِ پرویز‘ کے عنوانات سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس تحریک کی اصل بنیاد کیا ہے اور یہ کس کے فائدے یا کس کے نقصان کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ کتاب فکرِ پرویز کی تردید وابطال پر ایک تحقیقی و تجزیاتی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ (گل زادہ شیرپاؤ)


سیرتؐ سیدالمرسلین، ڈاکٹر محمد الطیب النجار، ترجمہ: رخسانہ جبیں۔ ناشر: مکتبہ تعمیرانسانیت، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۷۵۰۰-۰۴۲۔ صفحات: ۴۱۳۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

سیرتؐ سیدالمرسلین عظیم مفکر و ادیب جامعۃ الازہر کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد الطیب النجار کی معرکہ آرا تصنیف القول المبین فی سیرت سیدالمرسلین کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب کی بنیاد اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا قول: کَانَ خُلُقْہٗ الْقُراٰن ہے، یعنی  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآنِ مجید ہے۔ اس لیے کتاب میں قرآنِ مجید کی آیات کے ساتھ سیرت سیدالمرسلینؐ کو بیان کر کے قاری میں فہم قرآن کا ذوق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  ڈاکٹر محمد الطیب دورِحاضر کے چیلنجوں سے بخوبی واقف ہیں اور مغربی مستشرقین کی جانب سے ذاتِ مصطفیؐ پر اٹھائے جانے والے اعتراضات سے بھی مکمل آگہی رکھتے ہیں، اس لیے سیرت کا   یہ بیان کتاب کو سیرت کی قدیم کتب سے ممتاز کرتا ہے۔

تاریخِ سیرت کے علمی موضوعات پر مصنف نے استدلال و حوالہ جات کے ذریعے روشنی ڈالی ہے۔ خانۂ کعبہ کی تعمیر، اصحابِ فیل پر پتھر برسنا، حجراسود کی تاریخ، واقعۂ معراج، واقعۂ شق قمر، جہاد کے اغراض و مقاصد، بنی اسرائیل کی بدعہدیاں، تعددِ ازواج کی حکمت سمیت غزوات پر گراں قدر تفصیلات بھی کتاب میں موجود ہیں۔ آج نہ صرف اُمت مسلمہ یہودی سازش کی لپیٹ میں ہے بلکہ پوری دنیا ان کے چنگل میں پھنسی نظرآتی ہے۔ ایک باب میں یہودیوں کے اس کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہودیوں نے توریت کی ربانی ہدایات سے منہ موڑ کر تلمود وضع کی اور اس کو اللہ کے احکامات پر ترجیح دی۔ تلمود کی تعلیمات کا تفصیلی تذکرہ کرنے کے بعد بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہودیوں نے کس طرح مکر، سازش اور دشمنی کا نشانہ بنایا، پھر اللہ کے رسولؐ نے بالآخر مدینہ منورہ کو یہودیوں سے پاک کیا۔

بقول ڈاکٹر خالد علوی: ’’یہ سہل، شُستہ اور آسان ترجمہ ہے بلکہ ترجمہ نگار نے نصوص کی تخریج بھی کی ہے اور جملہ معلومات اصل مصادر سے اخذ کی ہیں۔ حدیث، سیرت اور تاریخ کے بنیادی مصادر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ادبِ سیرت میں یہ کتاب شان دار اضافہ ہے‘‘۔

کتاب کا حرف حرف محبت کی مٹھاس سے لبریز ہے اور تحریر میں وارفتگی و سپردگی کی وہ چاشنی ہے جو پڑھنے والے کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری سکھاتی ہے اور چراغِ مصطفویؐ کا پروانہ بننے پر تیار کرتی ہے۔ پاکستان نیشنل سیرت کانفرنس میں کتاب کو خصوصی انعام کا حق دار ٹھیرایا گیا ہے۔ (معراج الھدیٰ صدیقی)


راہِ عمل ، مولانا خالدسیف اللہ رحمانی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، نزد مقدس مسجد، اُردوبازار، کراچی۔ صفحات جلداوّل: ۳۶۶+۲۱۲+۲۷۰۔ جلد دوم: ۲۲۴+۲۵۰۔ قیمت (مکمل سیٹ): ۶۰۰ روپے

زیرنظر کتاب مختلف اور متنوع مسائل و موضوعات پر فاضل مؤلف کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ موصوف علومِ اسلامیہ میں مہارت، جدید علوم سے واقفیت اور دورِ جدید کی سیاسی و تہذیبی کشاکش کا اِدراک رکھتے ہیں۔ بظاہر ان شذرات یا مختصر مضامین میں وقتی مسائل سے بحث کی گئی ہے لیکن بیش تر تحریروں کی مستقل قدروقیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

جلداول تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے ’نقوشِ موعظت‘ کے موضوعات دینی اور اسلامی ہیں۔ اسلامی تہوار، شب قدر، انٹرنیٹ کے ذریعے تحریفِ قرآن کی سازش، ہجری کیلنڈر، خشک سالی، نسل پرستی، تہذیبی ارتداد وغیرہ کے حوالے سے افرادِ اُمت کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے حصے بہ عنوان: ’حقائق اور غلط فہمیاں‘ میں اسلام اور شریعت ِ اسلام سے متعلق     غلط فہمیوںاور پروپیگنڈوں (مسلم پرسنل لا، یونیفارم سول کوڈ، عورت اور اسلام، مجسمے کا انہدام،   کم عمری کی شادی، طلاق، پردہ، زنا کی سزا، تعدد ازواج وغیرہ) کا سنجیدہ جائزہ لیتے ہوئے عقل و فطرت اور حکمت و مصلحت سے اسلام کی ہم آہنگی کو واضح کیا گیا ہے۔ تیسرے حصے میں نئے مسائل (نیوکلیر اسلحہ، ماحولیاتی آلودگی، ہڑتال، ایڈز، ووٹ، کلوننگ، تمباکونوشی، سرمایہ کاری، میچ فکسنگ وغیرہ) پر اسلامی نقطۂ نظر سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔

چوتھے حصے میں مغربی ثقافت کے غلبے سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل (اہانتِ رسولؐ، وندے ماترم، جرائم، گداگری، رشوت، منشیات، خودکشی، سِتی، جہیز وغیرہ) پر تبصرہ کرتے ہوئے مناسب رہنمائی دی گئی ہے۔ پانچویں حصے کا موضوع دینی تعلیم اور درس گاہیں ہے۔ یہ مباحث  دینی مدارس کی ضرورت و اہمیت، ان کے نصابِ تعلیم، اسلام کی حفاظت و اشاعت اور ملک و قوم کی تعمیر میں ان کا حصہ، تعلیم نسواں، مخلوط تعلیم، مادری زبان میں تعلیم، اساتذہ کے مقام اور ان کی    ذمہ داریوں سے متعلق ہیں۔

مجموعی حیثیت سے اس ضخیم مجموعۂ مضامین کی افادیت میں کلام نہیں۔ مصنف کا نقطۂ نظر مثبت، تعمیری اور اسلامی ہے۔ سوچ کی سمت بھی صحیح ہے۔ مولانا رحمانی کو اپنی بات مؤثر اسلوب میں پیش کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ زیادہ تر مضامین بھارتی معاشرے کے پس منظر میں  لکھے گئے ہیں، اس لیے مثالیں بھی اسی معاشرے اور نظمِ حکومت سے دی گئی ہیں لیکن بیش تر صورتوں میں پاکستان اور بھارت کی صورت حال یکساں ہے، اس لیے پاکستانی قارئین بھی ان مضامین کو دل چسپ پائیں گے۔ امید ہے بقول مصنف: ’’یہ کم سواد تحریریں [بلاشبہہ] سوئے ہوئے دلوں کو جگانے اور غافل اذہان میں فکر کی چنگاری سلگانے میں کچھ کامیابی حاصل کرسکیں گی‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی)


ابلاغِ حق (الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں عرب و عجم کے جید علما کے فتاویٰ اورآرا)،    مؤلف: مولانا عبدالرشید انصاری۔ ناشر: نور علیٰ نور اکیڈمی، فیصل آباد۔فون: ۲۱۶۲۸۸۳-۰۳۰۶۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

عصرِجدید میں نئی نئی ایجادات اور جدید مسائل کی بنا پر دین کے احکامات جاننے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ ایسے میں علما کے بعض حلقوں کی طرف سے انتہاپسندانہ رویہ بھی سامنے آتاہے۔ اس کی ایک مثال ٹیلی وژن سیٹ کو توڑ دینا بھی ہے۔ زیرنظر کتاب میں ٹیلی وژن پر آنے والی تصویر، وڈیو، ڈیجیٹل تصویر، ٹی وی چینلوں کے قیام کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک نقطۂ نظر تو یہ ہے کہ ٹی وی کی تصویر بھی تصویر کی طرح ہے، لہٰذا حرام ہے۔ ٹیلی ویژن چینل چونکہ گمراہی اور خرافات پھیلانے کا ذریعہ ہیں، لہٰذا ان سے بھی اجتناب کیا جائے۔ مؤلف کتاب نے علماے دیوبند، عرب ممالک کے علما اور پاکستان کے مختلف مکاتب ِ فکر سے تعلق رکھنے والے علما کی آرا اور فتاویٰ کو جمع کر کے اس نقطۂ نظر کو بہ استدلال ثابت کیا ہے کہ ٹیلی ویژن کی تصویر چونکہ عکس ہے، لہٰذا جائز ہے۔ اسی طرح وِڈیو اور ڈیجیٹل تصویر کا معاملہ بھی ہے۔ یہ عکس ہے جو شعاعوں اور لہروں کے ذریعے جدید تکنیک سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ اشباہ بالعکس ہیں (یعنی ان مناظر کی شباہت عکس سے زیادہ ہے)۔ (ص ۱۹۲)

مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی اور دیگر مفتیانِ کرام کے تفصیلی فتاویٰ میں جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں جس طرح سے موضوع پر بحث کی گئی ہے وہ بذاتِ خود بہت جامع اور قیمتی بحث ہے، نیز علما کے بارے میں اس تاثر کی بھی نفی کرتی ہے کہ جدید علوم پر ان کی نگاہ نہیں ہوتی۔ آخر میں مختلف شبہات کا تذکرہ اور ان کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے عصری مسائل پر شرعی استدلال اور علمی بحث کا عمدہ اسلوب بھی سامنے آتا ہے۔ یقینا اپنے موضوع پر یہ ایک جامع کتاب ہے۔ (امجد عباسی)


شام کی صبح، لبنان کی شام (سفرنامہ)، ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔ ناشر: تناظر مطبوعات، ۵۹-نیلم بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا تعلق پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے شعبۂ اُردو سے ہے۔ اِن دنوں جامعہ الازہر قاہرہ کے شعبۂ اُردو میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میٹرک کے زمانے میں مولانا ظفر علی خاں پر تالیفی کام کا آغاز کیا اور آج متعدد کتابیں اور سیکڑوں مقالات  ضبطِ تحریر میں لاچکے ہیں۔ مصر جانے کا فائدہ یہ ہواکہ انھیں شام و لبنان کا سفر کرنے کا اتفاق ہوا جس کے نتیجے میں زیرنظر سفرنامہ وجود میں آیا۔

آج کل سفرنامے بہ کثرت لکھے جا رہے ہیں اور سب ایک جیسے نظر آتے ہیں مگر زیرنظر سفرنامے کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔ دمشق اور بیروت کے اسفار کی یہ روداد آٹھ خطوط پر مشتمل ہے جن میں ’برقی لاسلکی تکلم‘ کے ذریعے مصنف کا رابطہ ڈاکٹر معین نظامی سے قائم ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ سفر اگرچہ ایک علمی کانفرنس کے سلسلے میں تھا لیکن انھوں نے دمشق میں اپنی مصروفیات اور سرگرمیوں کو محض کانفرنس تک محدود نہیں رکھا بلکہ قدیم دمشق کے آثار و مقابر وغیرہ کی زیارت کی اور اپنے مشاہدات قلم بند کرکے قارئین تک پہنچائے ہیں۔ امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر جیسے عظیم مفسر اسی شہر میں آسودۂ خاک ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کے مزارات پر حاضری دی اور ان کے علمی کارناموں سے بھی اجمالاً تعارف کرایا ہے۔ دمشق کانفرنس میں انھوں نے Religious Tolerance and Muhammad Iqbal's Philosophyکے عنوان سے جو انگریزی مقالہ پڑھا، اس کا متن بھی سفرنامے میں شامل ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ شام و لبنان کی سرزمین پر انبیا و صلحا کے بے شمار آثار موجود ہیں لیکن ان پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ جدید زندگی اور اس کے مظاہر جگہ جگہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ میکڈونلڈ وغیرہ ان ممالک میں بھی افراط سے موجود ہیں اور ان میں حرام و حلال کی تمیز نہیں ہے۔

علامہ اقبال ۱۹۳۲ء میں یورپ سے واپسی پر مولانا غلام رسول مہر کے ہمراہ اسکندریہ پہنچے تو غلط فہمی کی بنا پر بعض اخبارات مولانا مہر کی تصویر کو اقبال کے نام کے ساتھ شائع کرتے رہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ لبنان سے شائع شدہ ایک کتاب علامہ اقبال کے بارے میں ہے مگر اس پر تصویر قائداعظم کی بنی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیرونِ ملک ہمارے سفیر ملک کی نمایندگی کا فرض احسن طریقے سے پورا نہیں کرتے۔ طباعت و اشاعت عمدہ، سرورق جاذبِ نظر ہے۔ کتاب بہت سی تصاویر سے مزین ہے۔ (محمدایوب لِلّٰہ)


Afghans in Pakistan[افغان پاکستان میں]، مرتبین: خالد رحمن، عرفان شہزاد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسڈیز، مرکز ایف سیون، اسلام آباد۔ فون: ۲۶۵۰۹۷۱-۵۱۔ صفحات:۹۲۔ قیمت: درج نہیں۔

پاکستان میں مسئلۂ افغان مہاجرین کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کتاب میں اِس امر کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔سابق سفیر پاکستان رستم شاہ مُہمند کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں امریکا اور ناٹو کی افواج کے قبضے کے باوجود افغانستان میں قیامِ امن کا خواب   شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی عدم دستیاب ہیں۔

اعظم شاہ سواتی نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ امریکی انتظامیہ افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کی تیاری کرر ہی ہے (۳۰ ہزار نئے فوجیوں کا باقاعدہ اعلان ہوچکا ہے)۔ پیپلزپارٹی کے راہنما رضا ربانی کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین، ضیاء الحق کی افغانستان میں مداخلت پالیسی کا  تسلسل ہے۔ سابق سیکرٹری خارجہ محمد اکرم ذکی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اُس وقت ختم ہوگی جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے والے ممالک عقل کے ناخن لیں گے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے مطابق پاکستان کی سلامتی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اِس وقت جو افغان مہاجرین ہیں، ان کی نصف تعداد پاکستان ہی میں پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ تمام کے تمام مہاجرین واپس چلے جائیںگے۔ خصوصاً ایسی صورت حال میں کہ جب جارج بش سینیر و جونیئر کے بعد اب اوباما افغانستان میں مزید فوج کشی کی تیاری کرر ہے ہیں، جو حقیقتاً تباہی و بربادی کے نئے دور کا آغاز ہے۔ (محمد ایوب منیر)


تعارف کتب

  • اب کس کا انتظار ہے؟ (علاماتِ قیامت قرآن و حدیث کی روشنی میں)، مولانا محمد ابراہیم حنیف۔ ناشر: نیو امیج پبلی کیشنز، ملنے کا پتا: ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [قیامت کے قریب پیش آنے والے فتنوں کا تذکرہ، اُمت مسلمہ کی حالت زار کا جائزہ اور دورِ فتن میں نجات اور سلامتی کی راہ کی طرف رہنمائی۔ توجہ دلائی گئی ہے کہ نبی کریمؐ کے ارشادات کے مطابق بہت سے فتنوں کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن خدا کی بندگی، آخرت کی فکر اور اپنی حالت کو بدلنے کی ہمیں فکر نہیں۔کتاب کا عنوان بھی یہی ہے کہ قیامت سے پہلے، اب کس کا انتظار ہے!]
  • فطرتِ انسانی اور دعوت و تربیت ، ڈاکٹر اختر حسین عزمی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔  صفحات: ۸۴۔ قیمت: ۵۰ روپے۔ [مؤثر دعوت کے لیے انسانی نفسیات کا جاننا ضروری ہے۔ انسانی فطرت، مزاجِ انسانی کی ترکیب، انسان کی فطری کمزوریاں، دعوتی جدوجہد میں مایوسی کا عنصر، عملی جدوجہد سے کنارہ کش افراد کے مسائل، مایوس کن حالات میں اسوئہ رسولؐ، تعلیم و تربیت کا قرآنی اسلوب جیسے موضوعات پر مفید تحریریں___ انسانی نفسیات کی روشنی میںحکمت ِ دعوت کے ایک منفرد پہلو کا مطالعہ۔]
  • حج کا عالم گیر پیغام ، ڈاکٹر رخسانہ جبیں۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۴۵ روپے۔ [سفرِ حج کی ایمان پرور اور تزکیہ و تربیت کا زادِ راہ لیے منفرد انداز کی رودادِ سفر۔ اس شعور کو اُجاگر کرنے کی خاص طور پر کوشش کی گئی ہے کہ حج سے وہ تربیت کیسے ملے کہ حقیقی ایمان بیدار اور اُمت کے لیے  عالم گیر پیغام عام ہو، نیز ِحج کے نتیجے میں اُمت کی سربلندی کی وہ تحریک جاری ہوجائے جو حج کا اصل مقصود ہے۔]

ڈاکٹر توقیر احمد بٹ ، ملتان

’سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) کے ذریعے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی ملی بھگت کو    بے نقاب کیا گیا۔ رشوت و بدعنوانی پر قائداعظم کے فرمان برمحل تھے، مگر قوم سمجھے بھی۔ ’فہم قرآن‘ میں     مولانا مودودی کے مزید دروس کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ ایک مفید سلسلہ ہے۔ قرآن فہمی کے ساتھ ساتھ   درسِ قرآن دینے والوں کی عمدہ رہنمائی بھی ہے۔ ’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ میں موجودہ حکمران طبقے کے لیے سبق ہے کہ جنگ اپنی زمین پر گھسیٹ لانا غلط ہے اور کارکنان تحریک کے لیے تزکیہ و تربیت کا بہت سا سامان بھی۔


حافظ محمد حسین ،تونسہ شریف

سید مودودیؒ کی حکمت سے بھرپور تحریر ’نفاق سے پاک اور غیرمشتبہ اخلاص‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) پڑھ کر دلی سکون نصیب ہوتا ہے۔ انھوں نے جس طرح بنی اسرائیل کی منافقتوں کا پردہ چاک کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اخلاص کو پیش کیا، یہ بار بار پڑھنے کی چیز ہے۔ داعی الی اللہ کے مقابلے میں کھڑے ہونے والوں نے ہمیشہ جھوٹ اور منافقت کا سہارا لیا مگر جھوٹ کے مقابلے میں ابدی فتح ہمیشہ اخلاص کو حاصل ہوتی ہے۔ داعی کا کام بھی یہی ہے کہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ دعوتِ دین کے کام کو جاری رکھے۔ ’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) تحریکی کارکنوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔


غلام احمد قادر ، مظفرگڑھ

مولانا مودودیؒ کا سورئہ صف کا درس (جنوری ۲۰۱۰ء) شائع کر کے بہت ہی اچھا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اسے جاری رہنا چاہیے۔ ’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ میں جو نکات بیان کیے گئے ہیں وہ ہم سب، یعنی ایک ادنیٰ کارکن سے لے کر امیرجماعت تک کے لیے بہت ہی معنی خیز ہیں۔


ڈاکٹر طاہر احمد چودھری ، لودھراں

’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) بھی معرکے کا مضمون ہے جس کے مطالعے سے بہت سی معلومات اور پہلو سامنے آئے۔ فقہی مسائل اور ان کے متعلق صحابہ کا طرزِعمل معلوم ہوا۔ آنحضوؐر کا       طریق تربیت، مختلف حالات میں فیصلوں کی منطقی بنیادیں، اور صحابہ کرامؓ کے جذبۂ سمع و طاعت سے آگاہی ہوئی، نیز ذمہ داریوں اور مناصب کی تقسیم کا معیار سامنے آیا۔


حامد محمود ، منچن آباد، بہاول نگر

خوب صورت اور دیدہ زیب نیا سرورق دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ’رسائل و مسائل‘ میں ’انقلابی تبدیلی     کے لیے فرد کا کردار‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) میں ڈاکٹر انیس احمد نے تبدیلی کے لیے جس انداز میں فرد اور تحریک کے مطلوبہ کردار پر روشنی ڈالی ہے، اگر صرف تحریک سے وابستہ افراد ہی اس پر پوری طرح عمل پیرا ہوجائیں تو تبدیلی زیادہ دُور نہیں دکھائی دیتی۔ سری لنکا کے مسلمانوں کے حالات پڑھ کر تشویش ہوئی۔


احمد علی محمودی ، حاصل پور

امام حسن البنا کی تحریر ’نیا سال: ماضی کا جائزہ، مستقبل پر نظر‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) تذکیر اور دعوت کا  حسین اسلوب ہے۔اس مختصر مگر جامع تحریر سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ داعیِ انقلاب کی نظر ہمیشہ اپنی دعوت پر مرتکز رہتی ہے اور وہ اپنی دعوت اور فکر کو پیش کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔


نسیم احمد ، اسلام آباد

’سیکولرزم، لبرلزم اور اسلام‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) وقت کی ایک بڑی ضروت کو پورا کرتا ہے۔ پاکستان میں سیکولرزم کا داعی ایک حلقہ موجود ہے جو اس کا مقدمہ پیش کرتا رہتا ہے۔ اس مضمون کو ان تک پہنچنا چاہیے۔


پروفیسر نذیراحمد بھٹی ، بہاولپور

’۶۰ سال پہلے‘ کے تحت نعیم صدیقی صاحب نے ’راہِ حق کی آزمایشیں‘ کے حوالے سے جنوری ۱۹۵۰ء میں جو تحریر فرمایا بالکل آج بھی وہی صورت حال ہے۔ ’رسائل و مسائل‘ میں فرد کے کردار کے حوالے سے ڈاکٹرانیس احمد صاحب نے بجا توجہ دلائی کہ عام شہری تبدیلیِ اقتدار میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔


حافظ مجتبٰی ، جدہ

حافظ محمد ادریس صاحب کا مضمون ’اخوان المسلمون اور شام‘ (دسمبر ۲۰۰۹ء) مفید تحریر تھی۔ اگر   اُمت مسلمہ کے اہم ممالک کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے تومفید سلسلہ ہوگا، مثلاً عالمی معاشی بحران کے    عرب امارات پر اثرات، عراق کی موجودہ صورتِ حال، صومالیہ کا مستقبل وغیرہ۔


دانش یار ، لاہور

’ذاتُ السلاسل‘ کا معرکہ‘ تاریخ کا یہ مطالعہ فکری و ذہنی تربیت کا ہمہ جہت رُخ واضح کرتا ہے۔


حامد علی فاروق ، لاہور

’ذاتُ السلاسل کا معرکہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) مضمون میں ص ۴۹ پر غزوئہ موتہ کے حوالے سے تین  جلیل القدر صحابہ کی فہرست میں پہلا نام حضرت زید بن ثابتؓ لکھا ہوا ہے جو دراصل حضرت زید بن حارثہؓ ہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ کی تاریخ وفات ۴۵ ہجری ہے۔

٭ حضرت زید بن حارثہؓ کا نام سہواً غلط لکھا گیا۔ قارئین تصحیح فرما لیں۔

اصل مختارِ کار

انسانی تاریخ کے سارے انقلابات کی باگ ڈور خود اللہ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے قوانین کے مطابق اِدھر سے سلطنت چھینتا ہے، اُدھر سونپتا ہے، ایک طرف عزت و غلبہ عطا کر رہا ہوتا ہے، دوسری طرف سے عزت و غلبہ کے عطیے واپس لے رہا ہوتا ہے، ابھی رات میں سے دن کو نکال دِکھاتا ہے، ابھی دن میں سے رات کو برآمد کر لیتا ہے، وہ اپنی حکمت کے تحت زندہ طاقتوں کو موت بھی دیتا ہے اور مُردہ قوتوں کا احیا بھی کرتا ہے___ وہ اپنے خزائنِ رزق میں سے فرد یا گروہ پر بے حساب بارانِ رحمت کرتاہے اور جس کا حصہ چاہتا ہے سکیڑ دیتا ہے۔

یہ آیت [قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ… اٰل عمرٰن ۳:۲۶]نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقا کو مشکل ترین مراحل میں سے گزرتے ہوئے بشارت دینے آئی تھی اور اِس میں درحقیقت آنے والے انقلاب کی صبح کے ظہور کا مژدہ پنہاں تھا۔ اس نے اہلِ ایمان کو یہ اشارہ دیا کہ اللہ تعالیٰ مقررہ وقت کے آتے ہی جب سلطنت کی باگ ڈور نااہلوں سے چھین کر تم کو دینے پر آئے گا تو ان لوگوں کی طاقتیں اس کے فیصلے میں حائل نہ ہوسکیں گی، وہ جب تمھارے غلبے کے لیے اور تمھارے مخالفین کی ذلت کے لیے حکم صادر کرے گا تو اس حکم کو تلواروں اور نیزوں کی کثرت نہ ٹال سکے گی، اور جب زندہ اقتداروں کے لیے موت کا پیغام دے گا اور تم کو نئی زندگی کا سربراہ کار بنانے کا آخری فرمان نافذ کر دے گا تو کسی کی دولت و امارت اس کے آڑے نہ آسکے گی، وہ جب تمھارے حصے میں کامرانی کی صبح مقدر کر دے گا اور تمھاری مزاحمت کرنے والوں کی جھولی میں نومیدی کی رات ڈال دے گا تو اس انقلاب احوال کو ٹالنا کسی کے بس میں نہ ہوگا___ یہ سارے اختیارات خود اللہ ہی کے قبضے میں ہیں!..... پس بندوں کے عارضی اقتدار کے ٹھاٹھ بھاٹھ سے مرعوب ہونے والوں کو اپنی توجہ اس اصل مختارِکار کی طرف منعطف کرنی چاہیے جس نے تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ کا دعویٰ کیا ہے، اس سے معاملہ درست کرنا چاہیے اور اس کے قوانین کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے، پھر بندوں کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو دین حق کی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے تمھارے آڑے آسکے.....

پس لوگوں کو چاہیے کہ وہ اگر واقعی اسلام کے نظام کو قائم کرنے کے حق میں ہیں تو تُھڑدلے پن کو ختم کر دیں اور جھوٹے اقتداروں کی مرعوبیت سے باہر نکلیں اور مایوس ہوکر بیٹھنے کے بجاے اللہ کے ان کم سے کم مطالبات کو پورا کریں جو ایک انقلابِ حق کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں!(’ہمارا معاشرہ‘ ، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۳، عدد ۱-۳، محرم، صفر، ربیع الاول ۱۳۶۹ھ، دسمبر ۱۹۴۹ء- جنوری ۱۹۵۰ء، ص ۸۲-۸۵)