بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کو آج سب سے بڑا خطرہ اس ’اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ‘ سے ہے جو گذشتہ ۱۰ برسوں میں امریکا اور بھارت کے درمیان پروان چڑھی ہے اور جسے مستحکم کرنے میں افغانستان میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے خونیں اور انسانیت کش واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے لیکن جس طرح اُس وقت کی امریکی قیادت نے اسے اپنے استعماری مقاصد کے لیے استعمال کیا اور جس طرح آج کی امریکی قیادت اسے استعمال کر رہی ہے، وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک باب ہے۔ جن ۱۹ افراد پر اس جرم کے ارتکاب کا الزام ہے، ان میں سے کسی ایک کا بھی تعلق نہ افغانستان سے تھا، نہ عراق سے اور نہ پاکستان سے___ لیکن اس واقعے کے نام پر جس طرح افغانستان اور عراق پر فوج کشی کی گئی اور اس پورے علاقے میں دورِحاضر کی سب سے طویل اور خون آشام جنگ برپا کر دی گئی، اور جس طرح پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلا گیا اور اب نت نئے انداز میں اسے نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ایک گھنائونا استعماری کھیل ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔
افسوس ہے کہ پاکستان کی مفاد پرست اور عاقبت نااندیش قیادت بار بار چوٹیں کھاکر بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی، دوست اور دشمن میں تمیز سے محروم ہے اور دوسروں کی جنگ کو اپنے گھر میں لاکر اپنے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ بلاشبہہ ملک میں اندرونی مسائل کا بھی ایک انبار ہے لیکن جس چیز نے ملک کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے، وہ امریکا کی آہنی گرفت ہے جس کے نتیجے میں ان ۱۰ برسوں میں عملاً ملک امریکا کی غلامی اور محکومی میں آگیا ہے، اور آج زندگی کے ہرشعبے اور میدان میں اس کا حکم چل رہا ہے اور وہ حکمرانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح اپنے مفاد کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ’دوستی‘ اور ’شراکت‘ ایسے الفاظ ہیں جو اپنے معنی کھوچکے ہیں اور مفادات کا کھیل ہے جس نے ہر میدان میں تباہی مچا دی ہے۔
America has no friends or enemies, only interests.
یعنی امریکا کا نہ کوئی دوست ہے اور نہ دشمن___ سارا معاملہ صرف اور صرف مفادات کا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ گذشتہ ۶۳ برسوں میں سارے نشیب و فراز، دوستی اور دشمنی، امداد اور پابندیاں صرف امریکی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ نام کچھ بھی دے لیں، اصل حقیقت یہی ہے کہ ہمیشہ ہمارے تعلقات صرف وقتی اور عارضی رہے ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ ’دوستی‘ کے عنوان سے امریکا کی محکومی کی ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔
ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ امریکا سے دشمنی یا تصادم نہ ہمارے مفاد میں ہے اور نہ ہم اس کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں، البتہ ہمیں پوری دقّتِ نظر سے یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکا کے مفادات کیا ہیں اورہمارے مفادات کیا ہیں۔ جہاں ان میں مطابقت ہو، وہاں تعاون ہوسکتا ہے اور جہاں ان میں عدم مطابقت ہو، وہاں ہمیں اپنے مفادات کا ہرقیمت پر تحفظ کرنا چاہیے اور امریکا کو وہ حیثیت ہرگز نہیں دینی چاہیے جس سے وہ ہم پر اپنے مفادات کو مسلط کرسکے اور ہمیں محض اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرے۔
ماضی میں بھی ہمارا ریکارڈ کچھ بہتر نہیںرہا۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے بدقسمتی سے جو کچھ ہورہا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم امریکی مفادات کے تابع مہمل بن کر رہ گئے ہیں اور ملک اپنی آزادی اور خودمختاری تک سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ قومی غیرت و حمیت کا کوئی پاس باقی نہیں رہا ہے اور حالت یہ ہے کہ اب ملک کی سلامتی بھی دائو پر لگ گئی ہے، نیز بش کے بقول اس ’کروسیڈ‘ (صلیبی جنگ) میں امریکا تنہا نہیں بلکہ بھارت بھی پوری چابک دستی سے اس میں شریک ہوگیا ہے اور امریکا اور بھارت اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے بڑی ہم آہنگی کے ساتھ پاکستان کے گرد دائرہ تنگ کر رہے ہیں۔ اگر پاکستانی قوم یک آواز ہوکر امریکا اور بھارت کے اس خطرناک کھیل کا بروقت مقابلہ نہیں کرتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ ہم خدانخواستہ اپنی آزادی ہی نہیں اپنے وجود سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ امریکا کی دوغلی پالیسی کے تمام خدوخال کو اچھی طرح سمجھا جائے، نیز اس کھیل میں بھارت کے کردار کا بھی پورا ادراک کیا جائے، اور پھر مقابلے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی بنائی جائے جس پر قومی اتفاق راے پیدا کر کے بھرپور انداز میں عمل کیا جائے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ تاریخِ انسانی کی روشنی میں اور خصوصیت سے ۲۰ویں صدی کے دوران بین الاقوامی تعلقات کے باب میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، ان کا ادراک کرتے ہوئے چند حقائق پر نگاہ ڈالی جائے تاکہ آیندہ کی حکمت عملی زیادہ حقیقت پسندی کے ساتھ مرتب کی جاسکے۔
پوری تاریخِ انسانی میں جنگ خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ رہی ہے اور بالعموم طاقت ور اقوام نے اپنے سے کمزور اقوام کو جارحیت کا نشانہ بناکر اپنے دروبست کا حصہ بنایا ہے یا کم از کم اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح کمزور ممالک نے اپنے تحفظ کے لیے طرح طرح کے راستے اختیار کیے ہیں جن میں اپنے دفاع کے لیے طاقت کے حصول کے ساتھ دوسرے ممالک سے امداد باہمی کے معاہدے اور سیاسی الحاق اور اشتراک قابلِ ذکر ہیں۔ امن کے قیام کے لیے قوت اور مقابلے کی قوت کی موجودگی ہی اصل ضمانت رہے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں اور خصوصیت سے عالمی سیاست میں خلافت اسلامی کے زیراثر بین الاقوامی قانون کی ترقی وجود میں آئی جس کے تحت طاقت کے استعمال سے ہٹ کر سفارت کاری اور معاہدات اور روایات (conventions) کے ذریعے عالمی سیاسی تعلقات کو مرتب اور منظم کرنے کا دروازہ کھلا جسے یورپ کی تاریخ میں ۱۷ویں صدی میں وسٹفائل کے معاہدے (Treaty of Westfile)کی شکل میں اور پھر ۱۹ویں اور ۲۰ویں صدی میں جنیوا کنونشنز اور لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کے اداروں کی شکل میں ایک عالمی نظام براے قیامِ امن کی صورت دی گئی۔
اقوام متحدہ کا چارٹر اور حقوقِ انسانی کا عالمی اعلان اندھی طاقت کے مقابلے میں قانون، اصولِ انصاف اور اشتراکِ باہمی کی بنیاد پر اختلافی امور کو طے کرنے اور مفادات کے درمیان توازن اور توافق کے حصول کا نظام قائم کرنے کی ایک کوشش ہے جس کے نتیجے میں اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اور طاقت ور اقوام کو ایک گونہ بالادستی دیے جانے کے علی الرغم، عالمی امن اور تنازعات کے حل کا ایک نظام وجود میں آیا ہے۔ اسی زمانے میں جنگ کی ٹکنالوجی اور ایٹمی سدّجارحیت کی وجہ سے جنگ اور خصوصیت سے عالمی جنگ سے انسانیت کو بچانے کا ایک راستہ رونما ہوا، البتہ اقوام متحدہ کا نظام ہو یا ایٹمی عدم پھیلائو کا انتظام، سب ہی میں پانچ بڑے ممالک کو ہمیشہ بالادستی حاصل رہی اور اس بالادستی کو ان طاقت ور ممالک نے اپنے اپنے مفاد میں استعمال بھی کیا۔ تاہم عسکری، سیاسی اور معاشی قوت میں عدم توازن کے باوصف اقوام کی قانونی اور اخلاقی برابری کے اصول کو کم از کم نظری طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ جنگ کو سیاسی اختلافات کے حل یا مفادات کے حصول کا ذریعہ تسلیم کرنے کی نفی کی گئی اورسب کو ایک عالمی قانون کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان مثبت پہلوئوں کا حاصل یہ ہوا کہ امیر اور غریب، طاقت ور اور کمزور سب کو اپنی اپنی حدود میں رہنے اور جینے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ نیز عالمی اداروں کو اس سلسلے میں ایک واضح کردار ادا کرنے کا اختیار دیا گیا۔ عالمی راے عامہ بھی ایک قوت کی حیثیت سے اُبھری اور اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اور طاقت ور اقوام کے اپنے مفاد میں قانون، اصول اور روایات کو نظرانداز کرنے کے علی الرغم ایک ایسی صورت پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں طاقت ور اقوام کے لامتناہی حقِ غلبہ پر ضرب پڑی اور طاقت ور کی طاقت کی حدود (limits of power of the powerful) کی حقیقت واشگاف ہوئی۔ روس کو اس کا تلخ تجربہ افغانستان میں ہوا اور امریکا نے ویت نام میں اس کا مزہ چکھا اور اب عراق اور افغانستان میں ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔
افغانستان میں راے عامہ کے جو سروے امریکا اور ناٹو کے زیرنگرانی ہوئے ہیں، ان کی رُو سے آبادی کے ۸۰ فی صد نے امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی اور جنگ بندکرنے اور صلح اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان میں ایک نہیں گیلپ کے تین جائزوں کی رُو سے ۹۰ فی صد امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مخالف ہیں۔ برطانیہ کی آبادی کا ۷۲ فی صد برطانوی افواج کے افغانستان سے ایک سال کے اندر اندر انخلا کا مطالبہ کر رہا ہے اور خود امریکا میں صدر اوباما کی افغان پالیسی کے خلاف راے دینے والوں کی تعداد اب ۵۰ فی صدسے بڑھ گئی ہے۔ لندن کے اخبار گارڈین کی ۲۱جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں اس کے مضمون نگار سیوماس مائلن (Seumas Milne) نے لکھا ہے:
افغانستان میں کوئی فریق بھی دوسرے کو پچھاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، البتہ اس سال طالبان کے حملے پچھلے سال کے مقابلے میں ۵۰ فی صد زیادہ ہوگئے اور شہری اموات ۲۳ فی صد بڑھ چکی ہیں۔ یہ جنگ اپنے بدلتے ہوئے مقاصد میں سے ہر ایک میں ناکام ہوچکی ہے___ دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنے، افیون کی پیداوار ختم کرنے، جمہوریت کی ترویج اور خواتین کی حیثیت بہتر بنانے کے لیے صورتِ حال حقیقت میں مزید خراب ہوگئی ہے، بلکہ اب تو امریکا اور ناٹو کی ساکھ تک دائو پر لگی ہوئی ہے۔ عرصے سے افغانستان کی پیچیدہ صورت حال سے نکلنے کا ایک واضح راستہ تھا، یعنی تمام نمایاں افغان طاقتوں بشمول طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے غیرملکی افواج کی واپسی جس کی ضمانت خطے کی دیگر طاقتوں نے دی ہو۔ مسئلے کا یہ حل عرصے سے جنگ کے مخالفین پیش کر رہے ہیں، اب جنگ کے حامی بھی اس کے قائل ہو رہے ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ برسرِزمین حالات کتنے خراب ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ عراق میں جو کچھ ہوچکا ہے اس کو تقویت دینے کا باعث ہے، یعنی امریکا کی اپنی مرضی بذریعہ طاقت نافذ کرنے کی حدود۔ اگر امریکی فوج کو جس کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں، ایک خستہ حال فوج دنیا کے ایک غریب ترین ملک میں شکست سے دوچار کرسکتی ہے تو یقینا اس کے مضمرات ایک نئے عالمی نظام کے لیے سنگین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے قریب ترین حلیف شکست کے اظہار سے بچنے کے لیے ہرممکن حربہ آزمائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ کئی ہزار مزید افغان اور ناٹو افواج ایک ایسی جنگ کی قیمت چکائیں گے جس کے لیڈر یہ جانتے ہیں کہ وہ اس جنگ کو جیت نہیں سکتے۔
تاریخ کے ان تجربات کی روشنی میں جہاں یہ بات صحیح ہے کہ عسکری، سیاسی اور معاشی قوت کا تفاوت ایک حقیقت ہے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں جب سب حدود کو پامال کردیتے ہیں تو قدرت کا یہ قانون ہے کہ طاقت کا ایک نیا توازن رونما ہوتا ہے جس کے نتیجے میں جو کمزور ہیں وہ بالآخر غالب ہوتے ہیں اور جو طاقت ور ہیں وہ بے بس ہوجاتے ہیں۔ امریکا آج دنیا کی طاقت ور ترین مملکت ضرور ہے لیکن اس کا اقتدار اب زوال پذیر ہے۔ اس کی معیشت قرضوں تلے دبی ہوئی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کی عسکری جولانیوں کے سبب دنیا کے عوام کی عظیم اکثریت اس کو عالمی امن اور اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ اس کی ٹکنالوجی دہشت گردوں سے کہیں زیادہ عام انسانوں کے قتلِ عام کا آلہ بن گئی ہے۔ ایک امریکی تحقیقی ادارے کے مطابق امریکی افواج کے حملوں اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں صرف ۳ فی صد دہشت گرد نشانہ بنے ہیں، جب کہ ۹۷ فی صد سویلین شہری ہیں جن میں بوڑھے، عورتیں اور بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں اور عوام میں امریکا کے خلاف نفرت کے سونامی کو جنم دے رہے ہیں۔ امریکا کے ایک اور تھنک ٹینک Natonal Bureau of Economic Research، (واقع کیمبرج، مساچوٹس) نے اسی ماہ اپنی ۷۰صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں افغانستان میں صرف ۱۵ مہینے میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں مرنے والے ۴ہزار سویلین اموات کا ریکارڈ پیش کیا گیا ہے اور یہ مبنی برحقیقت تنبیہہ بھی کی گئی ہے کہ افغانستان میں انتقامی کارروائیاں کرنے والوں اور خودکش بم باروں کی اکثریت ان کی ہے جو امریکی اور ناٹو افواج کی کارروائیوں میں شہید ہونے والے عام افراد کا انتقام لینا چاہتے ہیں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ئ)
یہی صورتِ حال پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کی تباہ کاری کے نتیجے میں رونما ہورہی ہے۔ برطانیہ کی ایک چوٹی کی Communication Agency (GCHQ) نے اپنی جولائی ۲۰۱۰ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ کی قیادت تو منتشر ہوئی ہے لیکن سیکڑوں شہری بھی ہلاک ہوگئے اور انسانی حقوق کے ایک نمایاں وکیل پروفیسر فلپ آرسٹان نے (جو اقوام متحدہ کی طرف سے ان حملوں کی تحقیقات کر رہے تھے) ڈرون حملوں کے قانونی جواز کو چیلنج کیا ہے۔ (دی نیشن، ۲۵ جولائی ۲۰۱۰ئ)
افغانستان میں عوامی تحریکِ مزاحمت کی حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اس تحریک کو ’دہشت گردی‘ کہنا اور پھر اس عنوان سے پورے ملک کو تخت و تاراج کرنا ایک سامراجی جارحیت ہے۔ اس تحریک کا اصل ہدف بیرونی قبضے سے نجات ہے۔ ایک مغربی صحافی Jere Van Dyler نے، جو افغانستان اور اس علاقے کے بارے میں ۱۹۷۰ء سے لکھ رہا ہے جس کو طالبان نے ۴۵ دن (۲۰۰۸ئ) اپنی تحویل میں رکھا، اپنے ایامِ اسیری کی داستان My Time as a Prisoner of the Taliban نامی کتاب میں بیان کی ہے۔ اس نے نیویارک میں اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی ہے جو افغانستان اور خود پاکستان کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے صحیح حکمت عملی کی تشکیل میں مددگار ہوسکتی ہے۔ اس نے کہا کہ: ’’القاعدہ کے برعکس، طالبان امریکا کے خلاف اپنی مرضی سے برسرِجنگ نہیں ہیں۔ وہ امریکی سرزمین پر ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ وہ ہمارے اس لیے دشمن ہیں کیونکہ ہم وہاں ہیں‘‘۔ (دی نیشن، ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ئ)
۱- طاقت کا عدم توازن اپنی جگہ، لیکن ضروری نہیں طاقت ور ہی ہمیشہ غالب رہیں۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ بالآخر مظلوم ظلم کا جوا اُتار پھینکنے میں کامیاب ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ حق پر ہوں اور اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہدکریں۔
۲- امریکا اپنی طاقت کے زعم میں اور اپنے سامراجی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوا لیکن وہ ایک دلدل میں پھنس گیا ہے اور افغانستان پر قبضہ ختم کرنے کے سوا اس کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کے لیے جنگ کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے نجات کا راستہ انخلا کی حکمت عملی ہے اور اس کے لیے جتنی جلد منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا اہتمام کیا جائے اتنا بہتر ہے۔
شروع میں امریکا کے جو بھی مقاصد اور اہداف ہوں اور نظریاتی طور پر امریکا کے نوقدامت پسندوں اور بش انتظامیہ کی جو بھی سوچ ہو، نوسال کے تجربات کے بعد امریکی قیادت بھی اپنے بنیادی مقاصد اور حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ اس میں افغانستان کے زمینی حقائق کے ساتھ امریکا کی معاشی اور مالی حالت، داخلی مسائل اور ضروریات، عالمی اور ملکی راے عامہ اور افغانستان سے آنے والے فوجیوں کے تابوت، سب ہی پالیسی کی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ امریکا کا ایک نام وَر دانش ور اور سابق صدارتی مشیر رچرڈ این ہاس (Richard N. Haass) اس وقت Council of Foreign Relations کا سربراہ ہے، اس کا ایک اہم مضمون نیوزویک کی ایک حالیہ اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ امریکا کے پالیسی ساز حلقوں میں اسے بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ اس کے چند نکات کو سامنے رکھنا امریکی قیادت کے ذہن کو سمجھنے میں مددگار ہوگا۔ اس کا کہنا ہے: افغانستان میں امریکا آج جو جنگ لڑ رہا ہے وہ بش انتظامیہ کی پالیسی سے مختلف اور بارک اوباما کی اپنی پسند کی جنگ بن چکی ہے اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا انتخاب اس کی واضح علامت ہے۔ رچڑد ہاس کی سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ: ’’افغانستان میں امریکی خون اور خزانے سے کی گئی سرمایہ کاری لاحاصل ہے، اور اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے وہاں کے منصوبوں کو کم کریں اور ان کی سمت بھی بدلیں‘‘۔
رچرڈ ہاس یہ تجزیہ کرتا ہے کہ جنگ کے اوّلیں مقاصد میں افغانستان اور عراق ہی نہیں پورے شرق اوسط میں ایسی حکومتوں کا قیام تھا جو امریکا کے زیراثر اور دنیا کے ان علاقوں میں اس کے ایجنڈے کے مطابق کام کرسکیں اور اس طرح مقامی حکومتوں کے ذریعے امریکا کے مقاصد حاصل ہوسکیں۔ یہ ماڈل وجود میں نہیں آسکا اور نہ اس کی کامیابی کا کوئی امکان ہے۔ اس لیے اب ہدف یہ ہونا چاہیے کہ افغانستان میں کمزور لیکن ضروری فرائض انجام دینے والی حکومت وجود میں آجائے جسے کوئی امریکا کے مفادات کے خلاف استعمال نہ کرسکے۔ پھر اس نے افغانستان کی تقسیم، یعنی مقامی قیادتوں کو اُبھارنا، اور علاقائی لشکروں کی تشکیل اور طالبان کے بارے میں زیادہ لچک دار رویے کی حمایت کی ہے جس پر ڈیوڈ پیٹریاس نے عمل شروع کر دیا ہے اور جسے اب صدر کرزئی نے بھی عملاً قبول کرلیا ہے۔ اس نئی حکمت عملی کے کیا نتائج نکلتے ہیں، یہ تو مستقبل ہی بتائے گا مگر امریکا کی افغان پالیسی کیا ہونے جارہی ہے اور اس کے پس منظر میں پاکستان کے کردار اور خود پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مستقبل کے خدوخال پر ازسرِنو غور کی ضرورت ہے۔
امریکا اس وقت افغانستان میں جو جنگ لڑ رہا ہے اس کے اس طرح لڑے جانے کی نہ کوئی قدروقیمت ہے اور نہ وہ کامیابی سے ہم کنار ہورہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکی مقاصد کا دوبارہ تعین کیا جائے اور برسرِزمین مداخلت کو بھی واضح طور پر کم کیا جائے۔ افغانستان بہت زیادہ امریکی جانیں لے رہا ہے، بہت زیادہ توجہ لے رہا ہے اور بہت زیادہ وسائل جذب کر رہا ہے۔ جتنی جلد ہم یہ تسلیم کرلیں کہ افغانستان کوئی ایسا مسئلہ نہیں جسے حل کیا جانا ہے بلکہ ایسی صورتِ حال ہے جس کو ٹھیک کرنا ہے، اتنا ہی بہتر ہے۔
پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت اور پالیسی ساز اداروں کے لیے اس آخری جملے، یعنی less a problem to the fixed, than a situation to be managed (ایک مسئلہ نہیں جسے حل کرنا ہے بلکہ صورت حال ہے جسے ٹھیک کرنا ہے) میں غوروفکر کا ایک خزانہ پوشیدہ ہے۔ پوری بحث کا خلاصہ مسئلے کے فوجی حل کے مقابلے میں سیاسی حل کی طرف مراجعت ہے۔
حالات کے اس جائزے کی روشنی میں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا افغانستان میں خود کس طرف جارہا ہے اور پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو کس طرف دھکیل رہا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کے مقاصد، اہداف اور مفادات اور پاکستان کے مقاصد، اہداف اور مفادات میں کتنا جوہری فرق ہے، اور امریکا کی اپنی افغان پالیسی اور جو پالیسی وہ پاکستان پر مسلط کر رہا ہے اس میں کتنے بنیادی تضادات ہیں، اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ پاکستان اپنے اہداف کا اور اپنی حکمت عملی کا تعین اپنے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں کرے اور امریکا اور اس کی مسلط کردہ پالیسیوں سے دامن چھڑا کر خود اپنی وضع کردہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کی شرکت نہ پسند کی جنگ تھی اور نہ ہمارے مفادات کی روشنی میں ضروری جنگ۔ اس جنگ کا تعلق ہماری اپنی کسی ضرورت سے نہ تھا بلکہ یہ ہم پر جبر کے ہتھیاروں سے مسلط کی گئی، اور مشرف حکومت نے محض خوف اور ذاتی مفادات خصوصاً اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ملک کو اس آگ میں جھونکا۔ اگر ان نوبرسوں کا ایک میزانیہ پوری دیانت داری اور معروضی انداز میں مرتب کیا جائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا نتیجہ ممکن ہی نہیں کہ یہ ہراعتبار سے خسارے کا سودا تھا۔ موجودہ حکومت نے آزاد خارجہ پالیسی اور امریکا کی گرفت سے نکلنے کے قومی مطالبے کو یکسر نظرانداز کرکے پرویز مشرف کی پالیسی کو اور بھی قبیح انداز میں آگے بڑھایا اور نقصانات کو دوچند کر دیا۔ امریکا اور برطانیہ نے این آر او کی بیساکھیوں کے سہارے جس سیاسی قیادت کو ملک کی باگ ڈور سونپی اور جس طرح خود فوج کی قیادت کو اس انتظام کا حصہ بنایا، وہ بڑی دل خراش داستان ہے لیکن اب وہ کوئی راز نہیں۔ ملک کی معیشت کو جس طرح بیرونی امداد کا اسیر بنایا گیا وہ بھی ایک کھلی کتاب ہے اور اس وقت جو صورتِ حال ہے، وہ یہ ہے کہ امریکی قیادت لالچ اور خوف جس میں لالچ کا کردار کم اور خوف کا زیادہ ہے، کے ذریعے ہماری قیادت کی نکیل پکڑ کر اسے اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہے اور اس خطرناک کھیل میں بھارت کا کردار روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے سامنے اصل حقائق کو بے کم و کاست پیش کیا جائے اور پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے۔
ہالبروک صاحب جو افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے سفیر مقرر کیے گئے ہیں، دوسال میں ۱۴ بار پاکستان تشریف لائے ہیں اور ہربار پاکستان آنے سے پہلے یا اس کے فوراً بعد بھارت بھی تشریف لے گئے ہیں جہاں سے اہم پالیسی اعلانات بھی کرتے رہے ہیں۔ ایڈمرل مولن کی الطاف و عنایات اس سے بھی زیادہ ہیں۔ وہ ماشاء اللہ ۱۹ بار تشریف لائے ہیں اور سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں سے اعلیٰ ترین سطح پر شیروشکر ہوئے ہیں۔ ڈیوڈ پیٹریاس اور دوسرے فوجی اور سیاسی کرم فرمائوں کے ٹڈی دل اس پر مستزاد ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر خود محترمہ ہیلری کلنٹن صاحبہ کی ایک سال میں دو بار آمد اور صدراوباما کے دربار میں ہمارے حکمرانوں کی پیشیاں اور ان کے فرامین کی بارش___ اس آئینے میں پاکستان کی بے چارگی کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ اصل آقائوں کے چند ارشادات بھی سامنے رکھنا ریکارڈ کی درستی کے لیے مفید ہوگا:
محترمہ ہیلری کلنٹن صاحبہ فرماتی ہیں اور بار بار اس کی تکرار کر رہی ہیں کہ: l مجھے یقین ہے کہ بن لادن یہاں پاکستان میں ہے l اسامہ کہاں ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی انتظامیہ کے بعض عناصر کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے؟ l ابھی کچھ ایسے اضافی اقدامات ہیں جن کے لیے ہم پاکستان سے کہہ رہے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ یہ اقدامات اُٹھائے گا lکسی کے ذہن میں یہ شبہہ نہیں رہنا چاہیے کہ اگر امریکا کے خلاف کسی حملے کا سرا پاکستان تک پہنچا تو اس کا ہمارے تعلقات پر بہت تباہ کن اثر ہوگا۔
ہیلری کلنٹن اور ناٹو کے سیکرٹری جنرل دونوں نے پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ بڑے جارحانہ انداز میں کیا ہے اور ان کی تشریف آوری کے بعد ایڈمرل مولن نے صاف الفاظ میں نہ صرف یہ کہا ہے کہ اسامہ اور القاعدہ کی قیادت پاکستان میں ہے بلکہ پاکستانی اخبار دی نیشن، بھارتی اخبار دی ہندو اور برطانوی اخبار گارڈین کے الفاظ میں: ’’اپنی قیادت کو کھلے الفاظ میں بتا دیں کہ امریکا پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے توقع کرتا ہے کہ وہ امریکا کے سلامتی کے مفادات کا لحاظ رکھے‘‘۔
ہالبروک صاحب نے پاکستان، بھارت اور افغانستان سے واپسی پر لندن میں فرمایا ہے کہ: ’’برطانیہ اور امریکا کے لیے یہ ناگزیر ہے اور ان کے ایجنڈے میں یہ بات سرفہرست ہے کہ مل کر پاکستان کے ساتھ اس طرح کام کیا جائے کہ پاکستان خطے کے مسائل کے حل کا حصہ ہو‘‘ (دہلی ٹائمز، ۲۶ جولائی ۲۰۱۰ئ)۔ اس سے قبل رچرڈ ہالبروک صاحب نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’واشنگٹن سمجھتا ہے کہ اس کوشش میں اسلام آباد کا کردار مبہم ہے اور نظر نہیں آتا‘‘۔ (ڈان، ۱۶جولائی ۲۰۱۰ئ)
امریکا کے سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستان کی قیادت کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ انھیں ان تمام عناصر کے خلاف جنگ کرنا ہوگی جو افغانستان میں امریکیوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ نیویارک ٹائمز اپنے ۲۳ جنوری ۲۰۱۰ء کے اداریے میں پاکستان کو تحکمانہ شان سے متنبہ کرتا ہے:
پاکستان افغان طالبان کو آگے بڑھنے کا موقع دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اور واشنگٹن کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسلام آباد اس حقیقت کا سامنا کرے۔ مسٹر گیٹس نے جب کھلے عام یہ کہا کہ: ’’اسلام آباد اس سرطان کے ایک حصے کو نظرانداز کرے اور یہ ظاہر کرے کہ اس کا کوئی اثر اس کے ملک کے قریب نہیں ہوگا‘‘ تو دراصل انھوں نے پاکستان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’ہمیں امید ہے کہ وہ نجی ملاقات کے دوران زیادہ سخت رہے ہوں گے‘‘۔
امریکا کے نیشنل سیکورٹی کے ایڈوائزر جنرل جیمز جونز کے احکامات بھی سامنے رہیں تو تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’پاکستان کو اپنے ملک میں موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف کسی امتیاز کے بغیر سخت کارروائی کرنا ہوگی۔ ہمیں پاکستان کی حدود کے اندر ایسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر شدید تشویش ہے جن کا مقصد ہمارے طرزِ زندگی اور آپ کے طرزِزندگی پر حملہ کرنے اور غیرمستحکم کرنے اور افغانستان میں ہمارے اسٹرے ٹیجک مقاصد کے حصول میں کامیابی کو روکنا ہے‘‘۔
اور خود صدر اوباما نے اپنی دسمبر ۲۰۰۹ء کی تقریر میں پاکستان کو صاف لفظوں میں متنبہ کردیا کہ ’’ہم دہشت گردوں کے لیے ایسی محفوظ جنت برداشت نہیں کرسکتے جس کا مقام معلوم ہے اور جن کے ارادے واضح ہیں‘‘۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق: ’’نجی طور پر سرکاری حکام نے پاکستان کے قائدین کو تنبیہہ کی ہے کہ اگر وہ اقدام نہیں کرتے تو امریکا کرے گا‘‘۔ (اداریہ، ۸جولائی ۲۰۱۰ئ)
ان تمام احکامات، دھمکیوں اور ڈرون حملوں کی روشنی میں پاکستان کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے ہیڈکوارٹر کا یہ اعلان سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے:’’پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کا امریکا کے ساتھ باہمی تعلقات کے فریم ورک میں تحفظ کیا جائے گا‘‘۔ (بحوالہ دی نیشن، ۲۴ جولائی ۲۰۱۰ئ)
کیا اس پر سر پیٹ لینے اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کے علاوہ کسی ردعمل اور اقدام کی ضرورت نہیں؟
؎ جس کشتی کی پتواروں کو، خود ملاحوں نے توڑا ہو
اس کشتی کے غم خواروں کو، پھر شکوۂ طوفاں کیا ہوگا
امریکا کے اس خطرناک کھیل میں بھارت ہرسطح پر شریک ہے۔ صدر بش کی حکومت نے جس وقت جنرل پرویز مشرف سے کہا تھا: ’تم یا ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے‘‘ اور پاکستان کو پتھر کے زمانے کی طرف لوٹا دینے کی دھمکی دی تھی، اس وقت بھی بھارت امریکا کے دوش بدوش کھڑا تھا اور افغانستان پر امریکی حملے کے لیے اپنا کندھا دینے کی بات نہیں کر رہا تھا بلکہ پاکستان پر بھی حملے کے اشارے دے رہا تھا۔ پھر افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران بھارت شریک رہا ہے اور افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے ساتھ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں مصروف ہے۔
لندن کی جنوری ۲۰۱۰ء کی کانفرنس میں بھارت کے کردار کو کم کرنے کی پاکستان کی کوشش کے جواب میں جولائی ۲۰۱۰ء میں کابل میں جو کانفرنس ہوئی ہے اس میں بھارت کے کردار کو بحال کیا گیا ہے۔ ہیلری کلنٹن اور ہالبروک نے بھارت کے کردار کو ایک حقیقت کے طورپر پیش کیا ہے اور کھل کر یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت کے کردار کا حدود اربعہ متعین نہیں کرسکتا۔ہالبروک نے دہلی میں کہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کا ایک ’اہم کردار‘ ہے اور واشنگٹن پہنچ کر پاکستان کے منہ پر یہ کہہ کر ایک طمانچہ رسید کیا کہ: ’’لیکن اس وقت کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان کو یہ طے کرنے کا اختیار ہے کہ پڑوسی ملک میں کیا ہو‘‘۔(دی نیشن، ۱۶ جولائی ۲۰۱۰ئ)
دی ہندو کی ۲۳ جولائی ۲۰۱۰ء کی اشاعت کے مطابق رچرڈ ہالبروک نے بھارت کو یقین دلایا ہے کہ ’’اسے ایک انتشار کے شکار ملک افغانستان کے حل میں بڑا کردار ادا کرنا ہے‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’پاکستان افغانستان پر قبضہ کرنے والا نہیں ہے اور نہ طالبان ہی، بلکہ خطے کے ہرملک کو اس کا حصہ ہونا ہے۔ یہ بھارت کو طے کرنا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا کیا کردار چاہتا ہے۔ بھارت کے لیے ہماری حمایت کم ہونے والی نہیں ہے۔ ہم سب سمجھتے ہیں کہ خطے میں اس کا مرکزی کردار ہے‘‘۔
یہ امر بہت اہم ہے کہ لندن کانفرنس میں افغانستان کے مسائل کے حل میں پڑوسی ممالک کا ذکر تھا لیکن کابل کانفرنس میں اعلان کیا گیا ہے کہ: ’’افغانستان کے پڑوسی اور قریبی پڑوسیوں کو سلامتی کے حوالے سے شدید تشویش ہے اور یقینا اس میں بھارت بھی شامل ہے‘‘۔
علاقے کی مستقبل کی سیاست میں امریکا اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے بارے میں اب کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں۔ امریکا اس علاقے میں بھارت کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے، اس کی معیشت اور فوجی قوت دونوں کو تقویت دینے میں سرگرم ہے اور اسے چین، جو پاکستان کا سب سے قابلِ اعتماد دوست ہے، کے مقابلے کے لیے تیار کررہا ہے۔ امریکا اور بھارت کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ صرف چین ہی کے لیے خطرہ نہیں، پاکستان بھی اس کی زد میں ہے۔
مشترک اقدار
پاکستان کا قیام ایک نظریے کی بنیاد پر ہوا ہے جس کا واضح الفاظ میں اعلان قرارداد مقاصد اور پاکستان کے دستور میں کردیا گیا ہے۔ بلاشبہہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں، وہ بحیثیت مجموعی اسلامی اصولوں اور اقدار سے ہم آہنگ ہیں اور ان کی بنیاد پر دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکا سے ہمارے تعلقات استوار ہونے چاہییں لیکن یہاں بھی یہ مشکل آڑے آتی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہمیشہ امریکا ہی نے کی ہیں اور آج بھی خود امریکا ہی کررہا ہے اور امریکا کی پشت پناہی میں اسرائیل اس سے بھی چار قدم آگے ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر تمام اقوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن امریکا زبانی جمع خرچ کے علی الرغم فلسطین، کشمیر اور دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی حمایت سے گریز کررہا ہے یا عملاً حق خودارادیت کی مخالفت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر آزاد ممالک میں باہر سے قیادت کی تبدیلی کی کوششوں کا مخالف ہے اور امریکا اکھاڑپچھاڑ کے اس کھیل میں پوری طرح ملوث ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر دوسرے ممالک پر فوج کشی کو ناجائز قرار دیتا ہے، مدافعت کے سوا جنگ کا دروازہ بند کرتا ہے لیکن امریکا دنیا کے ۴۰ سے زیادہ ممالک میں ۸۶۵ فوجی اڈے رکھتا ہے جن میں ہمیشہ اس کے لاکھوں فوجی موجود رہتے ہیں (ان کی تفصیل امریکا کے مشہور Cats Institute کے فیلو ڈوگ بانڈو (Doug Bandow) نے اپنی کتاب Foreign Follies: America's New Global Empireمیں دی ہے)۔
امریکا کی، اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزیوں کی داستان بڑی طویل ہے لیکن پاکستان کے ساتھ مشترک اقدار کا معاملہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی شناخت اسلام ہے اور امریکا کے بااثر عناصر، مغرب کی دوسری اقوام کی طرح، جس طرح اسلام اور مسلمانوں پر فکری اور تہذیبی یلغار کیے ہوئے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو دہشت پسندی اور وحشت اور درندگی کی علامت بناکر پیش کر رہے ہیں، قرآن اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک اور تذلیل میں مصروف ہیں اور مسجد کے مینار اور مسلمان خاتون کے حجاب تک کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، اس پس منظر میں ’مشترک اقدار‘ کی بات کرنا حقائق سے صرفِ نظر کرلینے کے مترادف ہے۔ اسی طرح جمہوریت کو ایک قدرِ مشترک کہا جاتا ہے لیکن امریکا نے دنیا بھر میں جمہوریت کے قتل اور سول اور فوجی آمروں کی پشت پناہی کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے، وہ الم ناک ہی نہیں ہوش ربا بھی ہے۔
ہم دل و جان سے چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک میں ہرشخص اور ہر قوم کے عقیدے، دین اور تہذیب و تمدن کا احترام ہو اور اختلاف کو حدود میں رکھ کر مشترکات میں تعاون اور اختلافی امور و معاملات میں رواداری کا طریقہ اختیار کیا جائے لیکن مغربی اقوام نے جو جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برپا کی ہوئی ہے، اس کی موجودگی میں ’مشترک اقدار‘ کی بنیاد متزلزل ہوچکی ہے۔
رہامعاملہ اعتمادِ باہمی کا، تو اس کا جو حشر امریکا نے کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ صدر اوباما اور ہیلری کلنٹن سے لے کر مغربی میڈیا تک سب پاکستان سے اعتماد کی کمی (trust deficit) کا رونا رو رہے ہیں۔ کوئی بیان ایسا نہیں ہے جس میں پاکستان، اس کی سیاسی اور عسکری قیادت، اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف زہرافشانی نہ کی جارہی ہے۔ ’ڈو مور‘ کا جو راگ صبح وشام الاپا جارہا ہے وہ ’اعتمادِ باہمی‘ کی مثال ہے یا بے اعتمادی کا ثبوت!
مشہور مقولہ ہے: ’’اعتماد سے اعتماد پیدا ہوتا ہے‘‘۔ اس کے برعکس یہاں امریکا نے ’’بے اعتمادی سے بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے‘‘ کی فضا پیدا کر دی۔ امریکا کی قیادت کو اپنا دوغلاپن نظر نہیں آتا اور پاکستان سے شکوہ و شکایت بلکہ اس پر بے جا الزامات کا ہرلمحے چرچا کر رہا ہے۔ ابھی وکی لیکس (wikileaks) نے جو ساڑھے نو ہزار سرکاری دستاویزات شائع کی ہیں، وہ پاکستان پر الزام تراشیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ کیا اس اعتماد کی کمی کی موجودگی میں ’اعتمادِ باہمی‘ کی بات ممکن ہے؟
اسی طرح اگر اشتراکِ مفادات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک محدود دائرے کو چھوڑ کر، پاکستان اور امریکا کے مفادات میں کوئی مطابقت نہیں۔ امریکا کا اصل ہدف پوری دنیا میں اپنی بالادستی کو قائم کرنا اور قائم رکھنا ہے اور اس کے چوٹی کے دانش وَر اور حکمت عملی کے ماہر صاف کہہ رہے ہیں کہ کم از کم اگلے ۵۰سال میں کوئی طاقت ایسی اُبھرنے نہیں دینی چاہیے جو امریکا کی بالادستی کو چیلنج کرسکے۔ اسی وجہ سے چین اور عالمِ اسلام کا اُبھرتا ہوا اتحاد امریکا کا ایک بڑا ہدف ہیں۔ اسرائیل کے ذریعے شرقِ اوسط کا امن تباہ کیا گیا ہے اور اسے ایک ایٹمی طاقت بنایا گیا ہے لیکن پاکستان کی ایٹمی صلاحیت امریکا کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے اور اس سے پاکستان کو محروم کرنا بھی امریکا کے لیے ایک ’اسٹرے ٹیجک‘ ہدف کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایٹمی پھیلائو کا سارا شور اسی و جہ سے ہے اور ایٹمی اثاثوں تک دہشت گردوں کی رسائی کا واویلا اسی سلسلے میں کسی جارحانہ اقدام کے لیے زمین ہموار کرنے کے لیے ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ ایران کو بھی نشانہ بنانے کے امریکی عزائم ۲۷جولائی ۲۰۱۰ء کی ایک خبر سے واضح ہوتے ہیں:
امریکا کے اندازے کے مطابق خلیج فارس، افغانستان، پاکستان اور آبناے کوریا دنیا کے خطرناک ترین علاقے ہیں اور اس نے ان علاقوں میں جاسوسی کے لیے ایک نیا خلائی سیارہ OTV خلا میں چھوڑا ہے، اس کا اصل نام X37B ہے۔ یہ لیزر ہتھیاروں سے مسلح ہے۔ امریکی اسے جارحانہ ہتھیار قرار نہیں دیتے مگر امریکی مینوٹار IV میزائل سے مل کر یہ ایک ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس میزائل کی رفتار ۵ہزار ۷سو ۹۲کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اس لیے دشمن کو دفاع کا موقع نہیں دیتا۔ یہ اتنا طاقت ور ہے کہ اپنے ہدف کو خواہ اسے کتنا ہی محفوظ بنایا گیا ہو، زد پر لے سکتا ہے۔ اس میزائل کو مستقبل کا ہتھیار کہا جا رہا ہے۔ یہ جوہری ہتھیاروں سے مسلح نہیں ہے لیکن اس کے لیزر ہتھیار ٹام ہاک میزائل سے سات گنا زیادہ تیزرفتار ہیں۔ مینوٹارIV میزائل کو سمندر، زمین یا فضا سے چلایا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور ایران کو بھی یہ سوچنا ہے کہ امریکا اس ہتھیار کو ان کی جاسوسی کے لیے استعمال کرے گا اور بہت محفوظ مقامات پر رکھے گئے اسلحے کو بھی نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے لیے بہت خطرناک ہے اور اسی طرح ایران کے جوہری پروگرام کے لیے بھی۔ امریکی کسی تکلف کے بغیر ایران پر حملے کی بات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی کھلی دھمکی دی ہے کہ اگر ٹائم اسکوائر جیسا واقعہ دوبارہ ہوا تو اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ (دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۷ جولائی ۲۰۱۰ئ)
پاکستان کے مفاد کا تقاضا چین سے دوستی اور تعاون میں ہے اور چین امریکا کا اوّلین ہدف ہے اور بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے وہ امریکا کا حلیف اور معاون کار ___ ہمارے اور امریکا کے مفادات میں کہاں ’اشتراک‘ ہے؟
پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہے اور امریکا پاکستان کے ایران سے گیس اور بجلی کے تعاون اور چین سے انرجی کی افزایش کے لیے چشمہ کنال بیراج کے تسلسل میں دو نئے ری ایکٹر حاصل کرنے کا مخالف ہے۔ ہیلری کلنٹن نے اپنے حالیہ دورے کے موقع پر دونوں کا راستہ روکنے کی بات کی ہے۔ یہ مفادات کے ’اشتراک‘ کی مثال ہے یا ان کے تصادم اور تضاد کی!
پاکستان کی اوّلیں ضرورت ملک میں امن و امان کا قیام اور عوام کے جان، مال اور آبرو کی حفاظت ہے لیکن ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ اور اس میں پاکستان کی شرکت نے ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا ہے اور امن و امان کے قیام کا کوئی امکان اس وقت تک نظر نہیں آتا جب تک پاکستان اس جنگ سے دست کش نہ ہو اور مسائل کا سیاسی حل نہ نکالے۔ امریکا افغانستان میں تو سیاسی حل کی بات کر رہا ہے مگر پاکستان پر اس کا سارا دبائو اس سمت میں ہے کہ قوت کا استعمال تیز تر کرو، نئے محاذ فی الفور کھولو اور اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کرو۔
پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات کا فیصلہ خود کرے اور اس کی سرزمین کو دوسرے اپنے مفاد کے حصول کے لیے استعمال نہ کریں لیکن امریکا نے پاکستان کو اس طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے کہ عسکری پالیسی ہو یا معاشی پالیسی، تعلیم ہو یا صحت کی منصوبہ بندی، فوج اسکائوٹس حتیٰ کہ پولیس تک کی تربیت، سب کچھ امریکا کی خواہش کے مطابق، بلکہ سب پالیسیاں اس کے احکامات کی روشنی میں ترتیب دی جارہی ہیں۔ کیری لوگر بل کے تحت امریکی امداد کی تقسیم اور نگرانی اب بلاواسطہ امریکا اور اس کی طے کردہ ایجنسیاں اور این جی اوز کریں گی۔ اس کے لیے انتظامی اور مالیاتی کنٹرول کا نیا نظام وضع کیا گیا ہے اور امریکی عملہ ہرشعبے کی نگرانی کے لیے ملک میں آئے گا اور اس کے لیے اس نے بڑی تعداد میں ملٹی انٹری ویزا تک پر اختیار حاصل کرلیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں نصاب، اساتذہ اور طلبہ کی تربیت بھی امریکی نگرانی میں ہوگی۔ خیالات پر اپنا اجارہ قائم کرنے کے لیے امریکی امداد کے اس پیکج میں ۵۰ ملین ڈالر میڈیا کی تربیت اور ترقی یا بالفاظ صحیح تر فکروخیال پر قبضے (thought control) کے لیے رکھے گئے ہیں۔
امریکی ڈرون حملوں میں اوباما کے صدر بننے کے بعد تین گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے ذریعے صبح و شام ہماری حاکمیت کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں اور اس خونی کھیل میں پاکستان کی حکومت عملاً شریک ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے باوجود زرداری گیلانی حکومت نے ان کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ وزیردفاع احمدمختار نے اس کی ’افادیت‘ کا اعتراف کیا ہے اور امریکا میں پاکستانی سفیر نے ۲جولائی ۲۰۱۰ء کو اپنے ایک بیان میں یہ تک ارشاد فرما دیا ہے کہ ’’پاکستان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں چاہتے‘‘۔ (Pakistan's Drone Dilemma، طیب صدیقی، ڈان، ۱۸ جولائی ۲۰۱۰ئ)
واضح رہے کہ جولائی ۲۰۱۰ء تک ۱۴۴ ڈرون حملوں میں امریکا نے پاکستان کے ۱۳۶۶ عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے (ملاحظہ ہو: رپورٹ US National Counter Terrorism Centre ڈان، ۱۸جولائی ۲۰۱۰ئ)، جب کہ القاعدہ کے کتنے لوگ ان میں نشانہ بنے ہیں، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ مئی ۲۰۰۹ء میں امریکی حکومت کے مشیر جنرل ڈیوڈ کلیمولین نے امریکی کانگریس کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ:’’۲۰۰۶ء کے بعد سے ہم القاعدہ کے ۱۴ سینیررہنمائوں کو قتل کرسکے ہیں اور اسی دوران ہم نے ۷۰۰ سے زیادہ پاکستانی شہریوں کو قتل کیا ہے‘‘۔ (ڈان، ۱۸جولائی ۲۰۱۰ئ)
اُوپر وکی لیکس دستاویزات کا ذکر آیا تھا، ان میں بھی بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کی شہادت موجود ہے جن کا اعتراف نہیں کیا گیا بلکہ جن کو سرکاری طور پر دبا دیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ ہوش ربا حقائق اس بل میں سامنے آئے ہیں جو امریکا کے دو ارکان کانگریس نے ایوان میں اسی مہینے پیش کیا ہے اور جس میں پاکستان کی سرزمین پر ایسے امریکی فوجی کارندوں کا اعتراف کیا گیا ہے جن کے لیے امریکی قانون کے مطابق کانگریس سے اجازت نہیں لی گئی ہے اور پاکستانی اخبارات اور سیاسی کارکنوں کے واویلا کے باوجود پاکستان کی سرزمین پر ان کے موجود ہونے کا انکار کیا جاتا رہا ہے۔
ایک ڈیموکریٹ اور ایک ری پبلکن، دو امریکی سینیٹروں نے اس ہفتے ایک بل پیش کیا ہے، جس میں افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے جو وہاں جنگجوئوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں کر رہی ہیں: ’’ہمیں معلوم ہے کہ امریکی افواج کانگرس کی اجازت کے بغیر پاکستانی حدود کے اندر خفیہ کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں‘‘۔ سینیٹر کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں اس قرارداد کی خلاف ورزی ہیں جو ویت نام جنگ کے بعد منظور ہوئی جس کے مطابق امریکی صدر کو صرف اس صورت میں فوج باہر بھیجنے کی اجازت ہے جب کانگریس نے فیصلے کی تائید کی ہو یا امریکا کو کوئی سنگین خطرہ درپیش ہو۔
دوسرے سینیٹر ران پال نے کہا کہ امریکی فوج نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں نمایاں طور پر بڑھا دی ہیں اور کوئی اعداد وشمار نہیں دیے جاتے۔ ڈیڑھ سال قبل اوباما کے صدر بننے کے بعد پاکستان میں بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں پر بھی انھوں نے توجہ دلائی۔ پاکستان میں امریکی فوج کی بڑھتی ہوئی سرگرمی کا امریکا کی حفاظت سے بہت کم تعلق ہے۔ درحقیقت یہ جتنے دشمنوں کو شکست دے رہی ہے، اس سے زیادہ دشمن پیدا کررہی ہے۔ انتظامیہ اپنے پیش رو کی طرح نائن الیون کے بعد کی اصل قرارداد کے الفاظ کو غلط استعمال کر رہی ہے تاکہ وسیع تر علاقائی جنگ جاری رہ سکے اور کانگرس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
زمین پر امریکی افواج کی موجودگی بجاطور پر زیادہ متنازع ہے لیکن امریکی افواج اور برطانوی ایس اے ایس افواج برسوں سے پاکستان میں مختلف مقامات پر کام کر رہی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ حکومت ِ پاکستان کی اجازت کے بغیر ہوا، اور اکثر امریکی اور پاکستانی افواج کے درمیان بداعتمادی کی وجہ سے، مگر حالیہ حملے کے بعد واشنگٹن اور اسلام آباد کو چاروناچار ماننا پڑا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کو یہ تسلیم کرنے میں تامّل رہا کہ امریکی افواج بغاوت کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستانی فوج کو تربیت دے رہی ہیں، اس بات کو جانے دیں کہ بعض اوقات امریکی افواج پاکستان کی حدود کے اندر بھی کارروائیاں کرتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ۸۰ فی صد پاکستانی، طالبان سے لڑنے میں امریکی امداد کو مسترد کرتے ہیں، خاموشی زیادہ دانش مندانہ تھی۔ مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ یہ خفیہ جنگ جوامریکا اسلام آباد کی منظوری سے لڑ رہا ہے بہت سوں کو قبول نہیں ہوگی۔ بہرحال امریکی صدر کو اس لیے منتخب کیا جاتا ہے کہ وہ امریکی عوام کا تحفظ کرے اور یہ توقع کرنا کہ کوئی انتظامیہ اس لیے اقدام نہ کرے کہ حالات خود ٹھیک ہوجائیں گے، ایک خام خیالی ہے۔
معیشت کے میدان میں پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ معاشی ترقی تیزرفتاری سے ہو اور ملک سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو، ملکی وسائل ملک کی معیشت کی ترقی اور عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے استعمال ہوں۔ قرضوں کا بار کم ہو اور ملک میں ظاہری شان و شوکت پر فضول خرچی کے بجاے بچت کو بڑھانے اور سرمایہ کاری کی طرف اسے استعمال کرنے کا اہتمام ہو۔ لیکن عملاً یہ ہو رہا ہے امریکا کی اس تباہ کن جنگ کی اصل قیمت پاکستان کے غریب عوام ادا کررہے ہیں۔ جنگ کے ان نو برسوں میں جو نقصان پاکستان کی معیشت کو پہنچا ہے اس کو سائنسی انداز میں آج تک متعین نہیں کیا گیا۔ سب سے پہلے ۲۰۰۴ء میں امریکا کی مرکزی کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ آیا کہ پاکستان کو ۱۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ جب سینیٹ میں یہ مسئلہ راقم اور اسحاق ڈار صاحب نے اٹھایا تو ویب سے یہ اعداد و شمار ہٹا دیے گئے۔ پھر وزارتِ خزانہ نے ۲۰۰۹ء میں ۳۵ ارب ڈالر کے نقصان کا ذکر کیا اور ۲۰۰۹ئ-۲۰۱۰ء کے سالانہ معاشی جائزے میں یہ رقم ۴۳ارب ڈالر لکھی گئی۔ حال ہی میں (۱۱ جون ۲۰۱۰ئ) آئی ایم ایف نے اپنا Poverty Reduction Strategic Paper (PRSP-II) شائع کیا ہے جسے حکومت ِ پاکستان کی وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے مطابق: ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کے باعث پاکستان کو جو نقصان ہوا ہے، اس کی تفصیل اس طرح ہے:
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی قیمت جو پاکستان نے ادا کی: (ارب روپوں میں)
۰۵-۲۰۰۴ء
۰۶-۲۰۰۵ء
۰۷-۲۰۰۶ء
۰۸-۲۰۰۷ء
۰۹-۲۰۰۸ء
براہِ راست
۱۰۳.۶۷
۰۶۰.۷۸
۴۹۹.۸۲
۵۲۷.۱۰۸
۰۳۳.۱۱۴
بالواسطہ
۰۰۰.۱۹۲
۷۲۰.۲۲۲
۴۰۰.۲۷۸
۸۴۰.۳۷۵
۷۶۰.۵۶۳
کُل قیمت
۱۰۳.۲۵۹
۷۸۰.۳۰۰
۸۹۹.۳۶۰
۳۶۷.۴۸۴
۷۹۳.۶۷۷
اس تخمینے کی رُو سے پاکستان نے اوسطاً سالانہ ۴۰۱ ارب روپے کا نقصان اٹھایا ہے، جب کہ اس پورے عرصے میں امریکا نے صرف ایک ارب ڈالر کے قرضے معاف کیے ہیں اور کُل ۱۵ ارب ڈالر دیے ہیں جن میں سے ۹ ارب ڈالر ان سالانہ اخراجات کی ادایگی تھی جو فوج نے ادا کردیے تھے، کوئی مدد نہیں تھی۔نام نہاد مدد صرف ۶ ارب ڈالر تھی اور آیندہ کے لیے ۵ئ۱ ارب ڈالر سالانہ کے حساب سے کیری لوگر بل کے ذریعے پانچ سال میں ۵ئ۷ ارب ڈالر دینے کا وعدہ ہے جسے امریکا خود اپنے طے کردہ پروگرام پر اپنے معتمدعلیہ اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کی بات کررہا ہے۔ غضب ہے کہ راہ داری کی جو سہولت پاکستان نے امریکا اور ناٹو اقوام کو دی ہے اور جس کے تحت ایک اندازے کے مطابق ۴ہزار ٹرک ماہانہ افغانستان جارہے ہیں، ان کی راہ داری کے مصارف پورے طور پر وصول نہیں کیے جارہے اور جو نقصان سڑکوں کو اس سے ہو رہا ہے اس کی تلافی کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ مشرف اور موجودہ حکمرانوں نے کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ صرف اس سے کیا جاسکتا ہے امریکا کی جنگ کا پیٹ بھرنے کے لیے ہزاروں شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکت اور معذوری پر مستزاد اوسطاً ۴۰۰ ارب روپے سالانہ پاکستان کے غریب عوام نے دیے ہیں، جب کہ اس زمانے میں کُل سالانہ ترقیاتی بجٹ دو ڈھائی سو ارب سے بھی کم رہا ہے۔ غربت میں اضافہ ہوا ہے، فاقہ کشی سے اموات بشمول خودکشیاں بڑھی ہیں، بے روزگاری اور مہنگائی بڑھی ہے اور عام انسانوں کے لیے جان و مال کا عدم تحفظ اتنا بڑھ گیا ہے کہ گیلپ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق آبادی کا ۹۰ فی صد عدم تحفظ کا شکار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر ہم امریکا سے مدد نہ لیں تو معیشت کابھٹہ بیٹھ جائے گا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کا بھٹہ اس جنگ نے بٹھایا ہے اور اگر صرف وہ وسائل جو اس جنگ کی آگ میں ہم نے جھونکے ہیں صرف وہ ملک کی معاشی ترقی پر صرف ہوئے ہوتے تو ترقی کی رفتار دگنی ہوسکتی تھی۔
پاکستان کے سیاسی اور معاشی مفادات پر تو کاری ضرب لگی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ بھارت سے جو خطرہ پاکستان کو ہے اور جو مسائل ہمارے درمیان نزاع کا باعث ہیں وہ اور بھی اُلجھ گئے ہیں۔ شمال مغربی محاذ پر فوجوں کے منتقل ہونے سے ہمارا جنوبی محاذ کمزور ہوا ہے اور بھارت نے پاکستان پر ’اچانک حملے‘ کا ایک نیا جارحانہ منصوبہ تیار کرلیا جس کی امریکا نے جھوٹے منہ بھی مذمت نہیں کی۔ ممبئی کے واقعے کے سلسلے میں بھارت کے ساتھ امریکا بھی پاکستان کو بلیک میل کرنے میں شریک ہوگیا۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے اصولی موقف کی تائید تو کجا، امریکا نے اپنے اوّلیں موقف کو ترک کر کے اسے صرف بھارت اور پاکستان کا دوطرفہ مسئلہ قرار دے دیا۔ پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے میں بھی امریکا نے کوئی مؤثر اقدام کرنے سے گریز کیا اور سب سے بڑھ کر پاکستان پر دبائو ڈال کر افغانستان اور بھارت کے درمیان واہگہ کے راستے راہداری معاہدہ کے لیے پیش خیمہ کے طور پر ایک MOU پر دستخط کرائے جس کی ہیلری کلنٹن صاحبہ نے بنفس نفیس شہادت دی۔ یہ معاہدہ پاکستان کی ۴۶سالہ پالیسی کے خلاف ہے اور اس پر تجارتی اور ٹرانسپورٹ برادری سخت نکتہ چین ہے۔
امریکا نے ایک طرف بھارت سے نیوکلیر ٹکنالوجی اور نیوکلیر ایندھن کی فراہمی کا معاہدہ کیا اور نیوکلیر سپلائی گروپ کو بھی اپنے اثرورسوخ کے ذریعے بھارت سے تعاون پر آمادہ کیا اور دوسری طرف نہ صرف یہ کہ پاکستان کو وہی سہولت فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے بلکہ پاک چین معاہدے کی بھی مخالفت کر رہا ہے اور نیوکلیر سپلائی گروپ میں چین کا راستہ روکنے کا عندیہ دیا ہے۔
یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ بار بار کے مطالبات کے باوجود نہ امریکا اور یورپ نے پاکستان کی مصنوعات کو اپنی منڈیوں میں داخلے کی وہ سہولتیں دی ہیں جو علاقے کے دوسرے ممالک کو حاصل ہیں اور نہ فاٹا میں برآمدی زون کے سلسلے میں ہی کوئی پیش رفت کی ہے جس کا وعدہ پانچ سال قبل کیا گیا تھا۔
صاف ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر میدان میں پاکستان اور امریکا کے مفادات میں اشتراک نہیں اور پاکستان سے امریکا کے تعلقات میں کوئی جوہری فرق واقع نہیں ہوا بلکہ جس طرح ماضی میں امریکی مفاد کی حد تک وقتی اور عارضی تعلقات تھے، اسی طرح آج بھی ہیں اور ہرلمحہ امریکی قیادت آنکھیں دکھانے اور ہاتھ مروڑنے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں امریکا سے تعلقات اور خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔
امریکا سے تعلقات پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر استوار ہونے چاہییں نہ کہ امریکا کے مفادات کے تابع۔ ہمارے لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کی بازیافت اور ملکی سلامتی اور معیشت کے استحکام کے لیے اوّلیں ضرورت امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے اپنے کو علیحدہ کرنا ہے۔ اس کے لیے خارجہ پالیسی اور علاقائی حکمت عملی دونوں کو ازسرنو مرتب کرنا ضروری ہے۔ امریکا سے باہمی بنیادوں پر معاملہ ضرور کیا جائے لیکن فوری طور پر اس جنگ سے نکلنے کی طرف اقدام ضروری ہے۔ نیز ڈرون حملوں کے بارے میں دوٹوک وارننگ کہ اب انھیں ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا اور ایئرچیف کے اس اعلان کی روشنی میں کہ سیاسی قیادت اگر فیصلہ کرے ہماری ایئرفورس ان ڈرون حملوں کو ناکام بناسکتی ہے، پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ امریکا اور ناٹو کو سپلائی ڈرون حملوں کے خاتمے اور راہداری کے معقول معاوضے کے ساتھ مشروط کیا جائے۔ ملک دہشت گردی کی جس لہر کی لپیٹ میں آگیا ہے خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کی جنگ سے لاتعلقی کا اس پر گہرا اثر پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ مذاکرات اور مسئلے کے سیاسی حل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ قوم کی دینی اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے اور سب کے تعاون سے ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ امریکا کی معاشی مدد اور آئی ایم ایف کی زنجیروں سے نجات حاصل کی جائے اور اپنے ملکی وسائل، بیرون ملک پاکستانیوں کے تعاون اور دوست ممالک خصوصیت سے چین اور مسلم ممالک کے مشوروں سے معاشی ترقی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے مناسب حکمت عملی وضع کی جائے۔
اس سلسلے میں ہم اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس میں ۲۲؍اکتوبر کو جو متفقہ قرارداد منظور کی ہے اور جس کی روشنی میں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اپریل ۲۰۰۹ء کو جو تفصیلی سفارشات ایک واضح نقشۂ کار کی شکل میں دی ہیں، ان میں نئی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کے لیے مؤثر حکمت عملی کے واضح خدوخال موجود ہیں۔ ان کی بنیاد پر قومی اتفاق راے کی قوت سے آزاد خارجہ پالیسی اور خودانحصاری پر مبنی معاشی ترقی اور اجتماعی خوش حالی کا منصوبہ بناکر اس پر جنگی بنیادوں پر عمل ہی میں ہماری نجات ہے۔ اس طرح ہم فوج اور قوم دونوں کو اس آزمایش سے نکال سکیں گے جس میں امریکا کے مفادات کی خدمت میں پرویز مشرف کے دور میں ملک کو جھونک دیا گیا اور زرداری گیلانی دور میں پارلیمنٹ کی قرارداد کے برعکس حالات کو اور بھی دگرگوں کر دیا گیا۔ اس دلدل سے نکلنے کا راستہ آج بھی واضح ہے لیکن اس کے لیے مفادات کی قربانی، اللہ پر بھروسا اورقوم کو ساتھ لے کر اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
(اس تحریر کا کتابچہ منشورات، منصورہ، لاہور سے دستیاب ہے۔ قیمت: ۱۱ روپے)
ظلم اور جھوٹ کو راستہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ظلم اور جھوٹ کے لیے کوئی حد اور کوئی اخلاقی قدر رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتی۔ تہذیب، اخلاق، قانون اور ضابطے کو ماننے والے ہی حدود کی پاس داری اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ کل کے پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں جس بے دردی سے سچ اور عدل کا خون کیا جا رہا ہے وہ دنیا بھر کے باشعور لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
عوامی لیگ جس نے پاکستان توڑنے اور بھارتی حکومت اور فوج کی پشت پناہی سے لاکھوں ہم وطنوں کو قتل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا، جنوری ۲۰۰۹ء سے پھر برسرِاقتدار ہے۔ اس کا یہ اقتدار امریکا اور بھارت تزویراتی سرپرستی کا مظہر ہے۔ بنگلہ دیش کے کروڑوں عوام جنھیں عوامی لیگ نے سنہرے مستقبل کا خواب دکھلا کر پاکستان سے توڑا تھا، وہ انھیں خوش حالی تو نہ دے سکی، لیکن وہ مسائل جو آج کے بنگلہ دیش کے مسائل نہیں انھیں مسائل بناکر، ایک جوا کھیلنے کے لیے میدان میں اُتر آئی ہے۔
گذشتہ تین برس سے الفاظ: ’’پاکستان، اسلام اور مسلم‘‘، اس کی اندھی اور بے رحم طاقت کا نشانہ ہیں۔ اس مناسبت سے عوامی لیگ حکومت نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کو اپنا اوّلین ہدف بنا رکھا ہے۔ جنوری ۲۰۱۰ء سے داروگیر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، جس میں اخلاق، قانون اور ضابطے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئی ہیں۔
آخرکار ایک جھوٹے اور خانہ ساز مقدمے میں ۲۹جون کو بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ۷۰سالہ امیر مطیع الرحمن نظامی، ۶۵سالہ سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد اور۶۸سالہ ہر دل عزیز مفسرِقرآن مولانا دلاور حسین سعیدی کو گرفتار کرلیا۔ اگلے روز عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کیا تو فوراً کچھ نئے بے سروپا مقدموں میں گرفتار کر کے ۱۶دن کے ریمانڈ پر پولیس کے سپرد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش سے جماعت اسلامی، بی این پی اور اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کی پکڑدھکڑ شروع کردی۔ اس حوالے سے قیدی رہنمائوں اور کارکنوں کو اپنے وکیلوں تک رسائی کو ناممکن بنادیا گیا۔ ملک کے ممتاز قانون دان بیرسٹر عبدالرزاق کے دفتر پر دھاوا بول دیا، تاکہ وہ قانونی معاونت سے باز رہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی کارکنوں نے پُرامن احتجاج کرنا چاہا تو انھیں عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے سخت بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا، مگر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ بعدازاں زخمی احتجاجی کارکنوں کو پولیس نے ٹرکوں میں پھینک کر پولیس اسٹیشنوں میں بند کر دیا۔ اس سے قبل ۲۷جون کو بی این پی کے سابق وزیرمملکت مرزا عباس کو ان کے اہلِ خانہ اور خواتین سمیت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
روزنامہ آماد دیش کے مدیر محمودالرحمن کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا کہ انھوں نے حزبِ اختلاف کی خبریں کیوں شائع کیں۔ پھر ٹیلی ویژن چینل ’چینل نمبر۱‘ کو بند کر دیا۔ ٹیلی ویژن ’بنگلہ وژن‘ پر پابندی عائد کی کہ وہ بحث و نظر کے پروگرام نشر نہیں کرسکتا۔ ’دیگنتا ٹیلی ویژن‘ کو ایسی دہشت کا ہدف بنایا کہ اس کے لیے صحافتی سرگرمیوں کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔ بنگلہ دیش آبزور، ڈھاکہ سے نکلنے والا انگریزی کا ایک قدیمی اخبار ہے، جسے زبردستی بند کر دیا گیا ہے۔ بانی جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام کتابوں کو مدرسوں اور مساجد کی ۲۴ہزار لائبریریوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔یہ وہ اوچھے ہتھکنڈے ہیں، جنھیں حسینہ کے والد مجیب الرحمن نے اختیار کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں ایک پارٹی کی آمریت اور پابند میڈیا کو رواج دینے کی کوشش کی، مگر انجامِ کار جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
یاد رہے کہ اس وقت حسینہ واجد کی حکومت اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کی اُس احمقانہ سیاسی حکمت عملی کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جس میں آمرانہ کے قانون کا نفاذ، آزادانہ اظہار راے پر پابندی اور اسلامی پارٹیوں کے وجود کا مکمل خاتمہ تھا۔ پھر اس حکومت نے بہ عجلت تمام ’مسٹر قدرتِ خدا تعلیمی کمیشن‘ کے نام سے پیش کردہ سفارشات کا سہارا لے کر اسلامی مدرسے اور اسلامیات کی تعلیم کو بنگلہ دیش سے ختم کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔
پاکستان کے عوام اور مقتدر طبقوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اس بھارت نواز حکومت نے نہایت قلیل مدت میں بھارت سے دُوررس اثرات کے حامل ایسے معاہدے کیے ہیں، جنھوں نے بنگلہ دیش کی رہی سہی آزادی کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر چٹاگانگ کی بندرگاہ تک براہِ راست رسائی، مونگلا اور آشور گنج دریائی بندرگاہوں کو بھارتی دسترس میں دیناوہ اقدام ہیں، جن کے تزویراتی اثرات کا مداوا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ مزیدبرآں فرخاڈیم کی طرح بھارت کو دریاے بارک پر ٹیپائی مُکھ ڈیم تعمیر میں مدددینا بھی اسلامیانِ بنگلہ دیش کے سینے میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ ان مختلف معاہدوں پر حسینہ واجد نے دہلی کے دورے میں دستخط کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عوام میں اس پر شدید غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے، جسے جماعت اسلامی اور بی این پی نے درست سمت عطا کرکے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی۔ مگر بھارت اور امریکا کی گماشتہ حکومت تمام جمہوری اور اخلاقی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے، ان سیاسی پارٹیوں کو نیست و نابود کرنے کے راستے پر چل نکلی ہے۔
اب مطیع الرحمن نظامی، علی احسن مجاہد اور اسسٹنٹ سکریٹری جنرل محمد قمرالزماں اور عبدالقادر کو ’۱۹۷۱ء کے جرائم‘ کے نام پر ایک خصوصی ٹریبونل میں پیش کر کے، ان کے لیے پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ تین ماہ قبل، حسینہ کی حکومت نے مجیب الرحمن کے قتل کے نام پر ۳۵سال بعد چھے سابق فوجی افسروں کو پھانسی دے دی تھی، اور اب یہی کھیل جناب نظامی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور اس مقصد کے لیے ۲؍اگست سے ایک نام نہاد ٹریبونل کارروائی کرنے جارہا ہے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں اور انصاف پسند انسانوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ فسطائیت اور بیرونی مداخلت کی اس گھنائونی کارروائی کو کس طرح روکتے ہیں۔ خاص طور پر اہلِ پاکستان کو جاننا چاہیے کہ اگر یہ ماڈل، بنگلہ دیش میں تھوڑی سی بھی کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو آنے والے کل میں اس کا اگلا شکار سری لنکا کے مسلمان، بھارت کے مسلمان اور پھر خود پاکستان کی دینی قوتیں ہوں گی۔ اسی طرح یہ بھی جاننا چاہیے کہ بھارت کی یہ پیش رفت چند افراد کا لہو پینے تک محدود نہ ہوگی، بلکہ خود سارک ممالک میں بھارتی بالادستی قائم کرنے کے قوم پرستانہ بھارتی ایجنڈے کا فیصلہ کن وار ثابت ہوگی۔ کیا پاکستانی عوام، دانش ور اور مقتدر طبقے اس صورت حال سے لاتعلق رہیں گے؟
آزادی کا لفظ جب ہماری زبان پر آتا ہے تو ہمارا ذہن فوراً سیاسی اِستقلال اور اجنبی تسلُّط سے آزادی کی جانب منتقل ہوجاتا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی آزادی بھی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نعمت ہے جس کی اسلام کی نگاہ میں بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ اسلام جس نظریۂ حیات اور جس نظامِ زندگی کو دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے، اس کے قیام و استحکام کے لیے مسلم معاشرے کا بااختیار اور بیرونی اثرونفوذ سے آزاد ہونا بالکل ناگزیر ہے۔ لیکن یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے ذہن و فکر کا دوسروں کی غلامی سے آزاد ہونا اوّلین مقصدی اہمیت رکھتا ہے اور سیاسی آزادی کی جتنی بھی اہمیت ہے اسی وجہ سے ہے کہ وہ فکروعمل کے استقلال کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔
[۶۳] سال قبل ہم پاکستان کے مسلمان دُہری غلامی میں مبتلا تھے۔ ہم سیاسی حیثیت سے بھی غیروں کے محکوم تھے اور ذہنی حیثیت سے بھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اغیار کی سیاسی محکومی سے تو آزاد کر دیا لیکن ان کی ذہنی غلامی اور ان کی غیراسلامی اَقدار کے تسلُّط اور ان کی فکری محکومی میں جس طرح پہلے ہم مبتلا تھے، افسوس ہے کہ ابھی تک ہمیں اس سے رُستگاری نصیب نہ ہوسکی۔ ہماری درس گاہیں، ہمارے دفاتر، ہمارے بازار، ہماری سوسائٹی، ہمارے گھر، حتیٰ کہ ہمارے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب، مغرب کے افکار، مغرب کی اقدار اور مغرب کے اخلاقی تصورات اور علمی نظریات حکمران ہیں۔ ہم مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں، مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، مغرب ہی کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں، خواہ اس کا شعور ہمیں ہو یا نہ ہو۔ یہ مفروضہ ہمارے دماغوں پر مسلّط ہے کہ صحیح وہ ہے جسے مغرب نے صحیح سمجھا ہے اور غلط وہ ہے جسے مغرب نے غلط قرار دیا ہے۔ حق، صداقت، تہذیب، اخلاق، شائستگی، ہرشے کا معیار ہمارے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔
سیاسی آزادی کے باوجود آخر اس ذہنی غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ذہنی آزادی اور غلبہ و تفوق کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے،وہی دُنیا کی رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھاجاتے ہیں۔ اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقلّد اور متّبع ہی بننا پڑتا ہے۔ اس کے افکار اور معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلُّط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد اور محقق قوم کے طاقت ور افکار و معتقدات کا سیلاب انھیں بہا لے جاتا ہے اور ان میں اتنا بل بُوتا نہیں رہتا کہ وہ اپنی جگہ پر ٹھیرے رہ جائیں۔
مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے، تمام دنیا کی قومیں ان کی پیرو اور مقلّد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حُسن اور قُبح، نیکی اور بدی، غلط اور صحیح، شائستہ اور غیرشائستہ کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصداً یا اِضطراراً دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی۔ مگر جب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہوگئے، جب انھوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا، جب وہ اِکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انھوں نے خود دنیا کی رہنمائی سے اِستعفا دے دیا۔ دوسری طرف مغربی قومیں اس راہ میں آگے بڑھیں۔ انھوں نے غوروفکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا، کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے۔ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ مغربی قومیں دنیا کی راہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔
اب اسے بدقسمتی کے سِوا اور کیا کہیے کہ مغربی تہذیب نے جس فلسفے اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی وہ پانچ چھے سو سال سے دہریت، الحاد، لامذہبی اور مادّہ پرستی کی طرف جا رہا ہے اور جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی دہریت اور مادّہ پرستی کی انتہا کو پہنچی، ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرقِ بعید تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور فکری غلبے سے بیک وقت مفتُوح اور مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبہ سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوچکے تھے ان کے لیے یہ مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفہ و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رُعب داب سے محفوظ رہتے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِاعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب اور اس کی رُوح اور اس کے اُصولوں سے متاثر ہوکر اسلام سے منحرف ہورہے ہیں۔ ملکی آزادی اور سیاسی اِستقلال کے باوجود مغرب کا ذہنی اور تہذیبی تسلُّط ہمارے ذہنوں کی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمانوں کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پر سوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ حالت اس وقت تک دُور نہ ہوگی جب تک مسلمانوں میں آزاد اہلِ فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اب ایک اسلامی نشاتِ ثانیہ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دوبارہ دنیا کے رہنما بننا چاہتے ہیں تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکّر اور محقِّق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اِکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی نظریاتی عمارت قائم ہوئی ہے۔ اسلام کے بنائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جُستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں، ایک نئی حکمت ِ طبیعی (Natural Science) کی عمارت اُٹھائیں جو کتاب و سنت کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اُٹھے۔ مُلحدانہ نظریے کو توڑ کر خدا پرستانہ نظریے پر فکروتحقیق کی اَساس قائم کریں اور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اُٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دُنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقّانی تہذیب جلوہ گر ہو۔(مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی، جلد اوّل، مرتبہ: عاصم نعمانی، ص ۲۴۲-۲۴۶)
پاکستان ایک نظریے کے تحت معرض وجود میں آیا۔ دو قومی نظریہ، یعنی اسلامی نظریۂ حیات اس کی بنیاد بنا۔ پاکستان اس دن سے برعظیم پاک و ہند کی سرزمین پر نقش ہو گیا تھا، جب یہاں محمدبن قاسم نے قدم رکھا تھا۔ برعظیم میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی تاریخ میں دور تک پھیلی ہوئی مملکت خدادادکی جڑوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ پھر انگریزوں کی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت اور ہندو مسلم کش مکش اس کی بنیادوں میں موجود ہے۔ تاریخ کے اوراق میں پھیلے ہوئے علما، مبلغین، مجاہدین، صوفیاے کرام اور تاجروں کے کردار کے درخشاں پہلو پاکستان کے پیامبر بنے تھے۔ یہ برعظیم کے کروڑوں مسلمانوںکی جدوجہد کا ثمر اور ان کی تمناؤں اور آرزؤوں کا محور ہے۔
یوں تو ۲۰ویں صدی جدوجہد اور کش مکش کی صدی ہے ۔ اس میں روس اور چین کے اندر انقلابات رونما ہوئے اور درجنوں غلام قوموں نے استعماری استبدادسے نجات حاصل کی ۔لیکن یہ انقلابات اپنے اپنے جغرافیے کی حدود کے اندر برپا ہوئے اور آزادی نسل، علاقے اور زبان کی بنیاد پر حاصل کی گئی یا طبقاتی کش مکش کا شاخسانہ ٹھیری، جب کہ قیام پاکستان کی جدوجہد اس لحاظ سے منفرد حیثیت کی حامل ہے کہ یہ جغرافیے اور زبان، نسل اورعلاقے کی ان حد بندیوں سے ماورا و بالا ہے۔ پاکستان کے وجود اوراس کے قیام کی صورت میں جو انقلاب رونما ہوا،مذہبی، نظریاتی، تہذیبی اور سیاسی حوالوں سے اس جیسے انقلاب کی نظیر تاریخ میں ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتی ہے۔بلاشبہہ پاکستان آج ایک جغرافیے کا نام ہے لیکن یہ ایک نظریے کا مرہون منت ہے، علامہ اقبال اور قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر ہے اور برعظیم پاک و ہند کے کروڑوں مسلمانوں کی بے مثال جدوجہد کا ثمر ہے۔ جتنے بڑے پیمانے پر تحریک پاکستان چلی اور جتنے انسانوں کو اس نے متاثر کیا، تہذیب کے دائرے میں بھی، معاشرت اور تمدن کے میدان میں بھی اور معاشی و سیاسی پیرایے میں بھی، اس پر بلاشبہہ کئی کتابیں لکھی گئی ہیںاور مزید کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
ُٓپاکستان کا عظیم الشان تحفہ ہمیں رمضان المبارک اور اس کی ستائیسویں شب میں عطا کیا گیاتھا۔ گویااللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت بے پایاں جوش میں تھی اور ہماری ٹوٹی پھوٹی جدوجہد کی مقبولیت کا اعلان ہو رہاتھا۔فضائوں میں، ہواؤں میں، آسمانوں اور زمین میں ’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘کے نعرے بلند ہورہے تھے، اور اس عالم میں لکھوکھا انسان آگ اور خون کے دریا سے گزر کر بلند کررہے تھے۔لٹے پٹے قافلوں، اجڑے ہوئے گھروں اور بہنوں بیٹیوں کے دامنِ عصمت تار تار ہونے کے باوجود غازیوں، مجاہدوں، صف شکنوں اور شہیدوں کے قافلے اپنے خوابوں کی سرزمین کی جانب مسلسل رواں دواں تھے۔
تحریکِ پاکستان میں ان لوگوں کانمایاں کردار ہے جن کے علاقوں کوکبھی بھی اس کا حصہ نہیں بننا تھا اور جنھیں پاکستان کے شجر سایہ دار سے محروم ہی رہنا تھا۔یہ ایثار اور قربانی اورجدوجہدکسی مادی مفاد کے لیے نہ تھی بلکہ اس اسلامی نظریے کے لیے تھی جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہونے جارہا تھا۔ مادی اور دنیوی فائدوں سے یہ بے نیازی اس بات کا ثبوت ہے کہ دینی و مذہبی احساس، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب اور اس کی خاطر ہر قربانی کو انگیز کرنے کا جذبہ، یہ وہ عناصر ترکیبی ہیں جو قیامِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد ہیں۔
جب پاکستان زبان ، نسل اور علاقے کے بجاے اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد پر قائم ہوا تو ہندوبنیے نے اس کے خلاف سازشوں کے جال بننے شروع کردیے۔ قیام پاکستان کے بعدسے لے کرآج تک یہ عمل جاری ہے۔ پاکستانی قوم کو قیام پاکستان کی جدوجہد کے فوراً بعد سے تحفظ پاکستان کی جدوجہد کا مرحلہ درپیش رہاہے ،اور اس نے پوری ہمت اور حوصلہ مندی سے ان سازشوں کا مقابلہ کیاہے،اور ۶۳سال سے مسلسل میدان عمل میں برسر پیکار ہے۔ دوسری طرف اس نے پاکستان کو اس کے بنیادی مقاصد سے ہٹا کر سیکولر اور لادینیت کی طرف لے جانے کی خواہش رکھنے والے سازشی عناصر کا بھی مقابلہ کیاہے۔ یہ جدوجہد پاکستان کے مقاصد کے حصول کے لیے دی گئی قربانیوں اورمملکت خداداد کے بنیادی نظریے کے تحفظ سے عبارت ہے۔
مسلمانوں کے معاشرے میں جدوجہد آزادی کا مطلب ہی یہ ہے کہ نفاذ شریعت کا راستہ ہموار ہو، معاشرے، ریاست اور حکومت کا قبلہ درست ہو، انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام کی تعلیمات پر عمل درآمد کی راہ استوار کی جائے اوراس میں حائل رکاوٹوں کو دور کیاجائے۔نیکی کو فروغ ملے اور برائی کا استیصال ہو۔ حلال کمانے کو آسان اور حرام کمانے کو ناممکن بنادیا جائے۔ اس کا مقصد اپنے رب کی غلامی اور رسول اکرمؐ کی اتباع ہوتا ہے۔ آج بھی یہی جدوجہد جاری ہے ۔ یہ ملت اسلامیہ پاکستان کی پیشانیوں پر لکھی تحریر اور ان کی آنکھوں کی چمک اور اعتماد سے عبارت ہے۔
قیامِ پاکستان کو ۶۳ سال گزرنے کے بعدبھی یہ سوالیہ نشان ہمارے سامنے موجود ہے کہ ہم کتنے آزاد اور کس درجہ خود مختار؟ اور کن حوالوں سے اپنے آپ کو جمہوری اور عوامی کہنے کے لائق ہیں؟ آج کا پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کے پاکستان کے مقابلے میں ایک ٹھٹھری، سہمی اور خوف زدہ سی تصویر نظر آتاہے۔اس عرصے میں یہ ملک دولخت ہوا، بعض خودغرض فوجی جرنیلوں نے ادارے تباہ کیے اور جمہوری نظمِ حکومت کو مضحکہ خیز بنایا۔ آج بھی ہم اپنے لوگوں کے خلاف پراکسی وار لڑرہے ہیں،اور ایٹمی پاکستان کو امریکا کا کاسہ لیس اور خوشامدی بنادیا گیاہے۔ آج ہم جن اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں، وہ ساری اصطلاحیں آزادی کا پول کھول دیتی اور حقیقت کو بے نقاب کردیتی ہیں، مثلاً ضمیروں کی خرید و فروخت، ہارس ٹریڈنگ، وفاداری تبدیل کرنا، جعلی ڈگریاں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک، کرپشن میں آگے بنیادی حقوق میں پیچھے، ایک فون کال پر ڈھیر ہونا، ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کردینا، لاجسٹک سپورٹ اور جاسوسی تعاون فراہم کرنا، فرنٹ لائن سٹیٹ بننا، ڈرون حملے۔ ان اصطلاحات کے ہوتے ہوئے کیا کسی آزادی کا تصور کیا جاسکتاہے!
بالخصوص پچھلے ایک عشرے سے پسپائی کا عمل شروع ہواہے اور سمتِ معکوس میں پوری قوم کو دھکیلا جا رہاہے۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ’سب سے پہلے پاکستان‘کا نعرہ لگایا لیکن ان کے پورے دورِ اقتدار میں پاکستان اور اس کے مفادات کے خلاف کام ہوتا رہا، اور موجودہ حکومت بھی ان کی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ سر کی آنکھوں سے نظر آرہاہے کہ پاکستان کو تحلیل کرنے، فنا کے گھاٹ اتارنے اور آزادی و خودمختاری سے محروم کرنے کی کوششوں کے ساتھ یہ کہا جاتاہے کہ یہ سب پاکستان کے مفاد میں کیا جارہاہے۔ قومی سطح پر کمزوری، خودسپردگی اور ہتھیار ڈال دینا اصلاً مقاصد اور قومی مفاد کی موت کے مترادف ہے۔یہ سب گھاٹے کا سودا ہے۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگانے والے اقبالؒ کے پاکستان کو غیروں کے ہاتھوں گروی رکھنا چاہتے ہیں، قائد اعظم کے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے غائب کر دینا چاہتے ہیں،اور پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے نعرے کو ذہنوں سے محو کرکے اسے پرویز مشرف اور ان کے آئیڈیل اتاترک کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ آج تک قوم کو یہ نہیں بتا سکے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ ایک دوست ملک افغانستان کو بھارت کی جھولی میں ڈال کر اپنی مغربی سرحدیں غیر محفوظ کرکے پاکستان کی خدمت کی جارہی ہے یا پاکستان کے دشمنوں کی؟امریکی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر پورے ملک کو آگ اور خون کے حوالے کردیا گیاہے تو یہ پاکستان کے مفاد میں ہے یا امریکا کے؟
مملکت ِخداداد پاکستان جو دنیا کی واحدمسلم ایٹمی قوت ہے اور پوری دنیا کے مسلمان امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہیں، لیکن ہمارے حکمران رفتہ رفتہ اسے امریکی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔خارجہ و داخلہ اور معاشی و دفاعی پالیسیوں میں امریکا پوری طرح دخیل ہے اورایوان اقتدار میں بیٹھے لوگ اس کے احکامات پر مکمل طور پر عمل کررہے ہیں۔ ایک طرف ڈرون حملے جاری ہیں، دوسری طرف فوجی آپریشن کے ذریعے فوج اور عوام کو آپس میں دست و گریباں کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے ملک شدید قسم کی بدامنی کا شکار ہے اور حالات انتشار اور تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ یہ بالکل امریکی منصوبے کے عین مطابق ہے کہ خراب حالات کا بہانہ بنا کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو عالمی تحویل میں لینے کے نام پر امریکا اپنے قبضے میں لے لے۔ امریکی اخبارات نے پنٹاگون کے ریکارڈ کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے’غیر محفوظ‘ ہاتھوں میں جانے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کیا جارہا ہے اوروہاں ایک ہزار سے زائد جنگجو میرین تعینات کیے جارہے ہیں۔ ایسی ہی فوجی چھاؤنیاں صوبائی دارالحکومتوں میں تعمیر کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔اسلام آباد اور پشاور میں سیکڑوں مکانات کرایے پر لے کر انھیںمیرین ہاؤس کے طور پر اور بلیک واٹر کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہاہے اور وہاں بھاری اسلحہ اور مشینری لا کر رکھی جارہی ہے۔ اسلام آباد میں۲۰۰سے زائد بکتربندگاڑیاں لائی گئی ہیں۔بلیک واٹر کے اہلکار چارٹر طیاروں کے ذریعے اور بغیر ویزے کے آتے جاتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ملک بھر میں بالخصوص وفاقی دارالحکومت میں امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد دینے کے لیے میرجعفر اور میر صادق تلاش کیے جارہے ہیں، اورپورے ملک سے ریٹائرڈ فوجی اور پولیس اہلکاروں کے بھرتی کرنے کا عمل جاری ہے۔
پاکستان کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرانے اور امریکی مداخلت سے نجات دلانے کے لیے جماعت اسلامی گوامریکا گو تحریک چلا رہی ہے۔ رواں مہینے میں جب ہم ۶۴واں یومِ آزادی منارہے ہیں تو ’امریکی غلامی نامنظور‘ کا نعرہ اور بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ نعرہ اپنے اسلامی تشخص کو بچانے،اپنی آزادی کو برقرار رکھنے، ایٹمی پروگرام کی حفاظت اور امریکی و بھارتی ریشہ دوانیوں سے نجات حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ۲۰۱۰ء کا ۱۴؍اگست، ۱۹۴۷ء کے ۱۴؍اگست سے بڑی جدوجہد کا پیغام لایا ہے تاکہ امریکا کو وطنِ عزیز نکالا سے دیا جاسکے اور اس کی بے جا مداخلت سے نجات حاصل کرکے اپنی آزادی کا تحفظ کیا جاسکے۔ لہٰذا اس یوم آزادی کے موقع پرضروری ہے کہ ہم یک آواز ہو کر مطالبہ کریں کہ امریکی اتحاد کو خیرباد کہاجائے ،پاکستان میں امریکی میرینزکی تعیناتی کو روکا جائے، اسلام آباد میں سفارت خانے کے نام پر فوجی چھاؤنی کی تعمیراور بلیک واٹر کی سرگرمیوں پر فوری طور پر پابندی لگائی جائے۔ امریکا اور ناٹو کو فراہم کردہ مراعات واپس لی جائیں، لاجسٹک سپورٹ کے نام پر دیے گئے فوجی اڈے واپس ہوں اور ناٹو کے لیے سامان کی ترسیل کا سلسلہ ختم کیا جائے۔غیر ملکی فوجوں کی خطے سے واپسی اور پاکستانی فوج اور عوام کے باہمی تصادم کے خاتمے کے لیے حکمت عملی وضع کی جائے۔
۱۴؍ اگست کی پکاریہ ہے کہ غیر ملکی استعمار سے آزادی حاصل کی جائے، اس کی استحصالی پالیسیوں سے انکار اور اس سے قدم سے قدم ملا کر خود اپنے ہی پاؤںپر کلھاڑی مارنے سے گریز کیا جائے۔ قوم اپنے پیروں پر خود کھڑی ہو،اپنے معاملات خود چلانے میں خودمختار ہو، اور ہم امریکا کی فرنٹ لائن سٹیٹ کے بجاے اُمت کے پشتیبان بنیں۔ اُمت کے دکھوں کا مداوا، زخموں کے لیے پھاہااور اُمت کے دھڑکتے دلوں کے ساتھ ہم رکاب ہونا ہمارا کلچر قرار پائے۔
اس پس منظر میں تمام محب وطن عناصر اور جماعتوں کے لیے دیوار پر لکھی تحریر یہ ہے کہ مل کر جدوجہد کریں اور امریکی غلامی سے نجات پانے کی کوشش کریں۔
سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَھُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ ط لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (۶) اے نبیؐ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہرگز انھیں معاف نہ کرے گا، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا۔
یہ بات سورئہ توبہ میں بھی ارشاد ہوئی ہے اور یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر تم ان کے لیے ۷۰مرتبہ بھی مغفرت کی دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ یہاں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی کہ تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی درخواست کرو یا نہ کرو، اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیوں؟___ اس وجہ سے کہ اللہ کو ایمان کے دعوے کے ساتھ مکّاری کسی طرح پسند نہیں۔
ایک آدمی مشرک، کافر، بدعتی، جو بھی ہے، اللہ سے معافی مانگے تو اس کی معافی ہوجائے گی۔ اس کے اندر کم از کم یہ شرافت تو موجود ہے کہ جس چیز کو مانتا ہے اس کو سیدھی طرح سے مانتا ہے۔ لیکن جو آدمی اپنے خدا سے بھی مکّاری کرے، جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی مکّاری کرے، وفاداری کا دم بھی بھرے اور وفادار نہ بھی ہو، اپنے آپ کو مخلص مومن کی حیثیت سے پیش کرے لیکن حقیقت میں اس کے اندر کوئی اخلاص نہ ہو، بظاہر مطیع فرمان بنا پھرتا ہو لیکن درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر تلا ہوا ہو___ ایسے آدمی کے لیے کوئی معافی نہیں۔یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر رسولؐ اللہ بھی اس کے حق میں مغفرت کی دعا مانگیں تو ان کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی ہرشخص کے لیے نافع نہیں اور کسی کے لیے دعاے مغفرت کرنا بھی شفاعت ہے___ ظاہر بات ہے کہ شفاعت زندگی میں بھی ہوسکتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کی شفاعت کے معاملے میں کیفیت یہ ہے کہ حضوؐر کی شفاعت اللہ کو مجبور کرنے والی نہیں۔ اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا پورا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ حضوؐر اللہ کے بندے ہیں، خدائی میں شریک نہیں ہیں۔ آپؐ کا کام گزارش کرنا ہے،دعا کرنا ہے، قبول کرنا نہ کرنا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ کسی شخص کا یہ خیال کرنا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے حق میں دعاے مغفرت فرما دیں تو وہ یقینا بخشا جائے گا، درست نہیں___ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات فرمائی ہے کہ یہ بات یکساں ہے کہ چاہے تم ان کی مغفرت کی دعا کرو یانہ کرو، اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو نہیں بخشے گا۔
اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶) اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اطاعت کے دائرے سے جان بوجھ کر نکل جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی ہدایت نہیں ہے۔ فِسق کے معنی ہیں اطاعت سے جان بوجھ کر نکل جانا۔ ایک وہ آدمی ہے جو بھولے سے اطاعت کے دائرے سے نکل گیا، لغزش کھا گیا، ٹھوکر کھا گیا۔ اس کے برعکس ایک آدمی وہ ہے جو جان بوجھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت نہیں کرنی ہے، وہ فاسق ہوتا ہے۔ ہر گناہ گار کافر نہیں۔ فرق یہ ہے کہ جس شخص سے غفلت کی بنا پر کوئی قصور ہوگیا، وہ فاسق نہیں گناہ گار ہے۔ لیکن جس آدمی نے جان بوجھ کر فیصلہ کیا ہو کہ مجھے اطاعت قبول نہیں کرنی ہے بلکہ نافرمانی کی راہ پر چلنا ہے، وہ فسق کا ارتکاب کرتا ہے، اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ظاہر بات ہے کہ مغفرت اُسی شخص کی ہوسکتی ہے جو راہِ راست اختیار کرے، ہدایت قبول کرے لیکن جو شخص ہدایت اختیار نہیں کرتا اس کی مغفرت کیسے ہوسکتی ہے۔ جو آدمی پہلے گمراہ تھا لیکن سیدھے راستے پر آگیا اس کی معافی قبول ہونے کا امکان ہے، کیونکہ اس نے نافرمانی اور گمراہی کو چھوڑ کر اطاعت اور ہدایت کی راہ اختیار کرلی۔
اس کے برعکس جس نے جان بوجھ کر ٹھنڈے دل سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا فیصلہ کیا ہو تو اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ اس کو ہدایت دے۔ اللہ آقا ہے اور بندہ، بندہ اور غلام ہے۔ اگر بندہ اپنے آقا کے مقابلے میں جان بوجھ کر بغاوت کا رویہ اختیار کرے اور اکڑ کر چلاجائے کہ مجھے اس کی اطاعت نہیں کرنی ہے، تو کیا آقا کا یہ کام ہے کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو میری طرف چلا آ۔ آقا کا تو یہ کام ہے کہ اس سے کہے کہ تو جا اور اپنا انجام دیکھ۔ یہ مفہوم ہے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ کا۔ اللہ کا کام یہ نہیں ہے کہ جو آدمی اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا، اللہ اس کے پیچھے پیچھے پھرے کہ تو ہدایت قبول کرلے۔ جو ہدایت نہیں چاہتا، اس کے لیے ہدایت نہیں ہے، اور جب اس کے لیے ہدایت نہیں تو اس کے لیے مغفرت بھی نہیں ہے ۔
ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّواط وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَفْقَھُوْنَ o (۷) یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں۔ حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کامالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق نہیں سمجھتے ہیں۔
یہ بات بھی رئیس.ُ المنافقین عبداللہ بن اُبی نے کہی تھی۔ جب غزوئہ بنی المصطلق کے موقع پر ایک انصاری اور ایک مہاجر کے درمیان جھگڑا ہوا تو اس نے انصار کو خوب بھڑکایا، انھیں مہاجرین کے خلاف خوب اُکسایا اور کہا کہ یہ لوگ تو فاقے کرتے ہوئے آئے تھے۔ تمھی نے ان کو اپنی جایدادوں میں شریک کیا، ان کو اپنے گھر تک رہنے کے لیے دیے، ان پر اپنے مال خرچ کیے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ تمھارے منہ آرہے ہیں۔ اب مدینہ واپس جاکر ان پر اپنا مال خرچ کرنا بند کرو، جو گھر ان کو دیے تھے ان سے ان کو نکالو اور جن جایدادوں میں ان کو حصہ دار بنایا تھا وہ ان سے واپس لو، جو قرض ان کو دیے تھے وہ قرض وصول کرو، اور آیندہ ان کی مدد کرنا بند کرو۔ دیکھنا چند روز میں یہ تمھیں چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔
اس منافق کے اس قول پر یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے اُوپر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ وہ چھٹ کر الگ ہوجائیں، یہاں سے چلے جائیں، حالانکہ ان منافقین کو معلوم نہیں ہے کہ زمین و آسمان کے خزانے اللہ کے پاس ہیں۔ یہ لوگ محض جہالت اور نادانی کی باتیں ہیں کہ اگر یہ لوگ مہاجرین کی مدد نہ کرتے تو انھیں کوئی ٹھکانہ میسر نہ آتا، حالانکہ وہ ان کے رازق نہیں، بلکہ وہ خود بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ وہ اپنے رزّاق خود نہیں ہیں۔ ان کے پاس جو کچھ ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اگر تم نے یہ سلوک مہاجرین کے ساتھ اپنے ایمان اور اخلاص کی بنا پر کیا تھا تو پھر احسان کیسا!۔ اگر تم یہ سب کچھ نہ بھی کرتے تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کی ہر ضرورت کا سامان مہیا کرتا۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک ہے۔ اس کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟
یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ ط وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (۸) یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔
جیساکہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ عبداللہ بن اُبی نے یہ دریدہ دہنی بھی کی تھی اور اس کا مطلب ذلت والے سے مراد نعوذباللہ نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس تھی۔ اس کے قول کا مطلب یہ تھا کہ ہم جو عزت والے ہیں مدینہ پہنچ کر نعوذباللہ رسولؐ اللہ کو مدینہ سے نکال دیں گے۔ یہ بات رسولؐ اللہ تک بھی پہنچی اور صحابہ کرامؓ نے بھی سنی۔ رسولؐ اللہ چونکہ نہایت درجے کے غیرمعمولی متحمل مزاج تھے اس لیے آپ نے اس کی یہ بات سنی اور سن کر ٹال دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ عبداللہ بن اُبی نے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کی ہے تو انھوں نے آکر حضوؐر سے عرض کیا کہ حضوؐر، اگر اجازت ہو تو میں جاکر اس منافق کا سر قلم کر دوں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دراصل ارتداد کا فعل تھا کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد پھر اللہ کے رسولؐ کو نعوذباللہ ذلیل کہتا ہے___ اس سے زیادہ ارتداد کا فعل اور کیا ہوسکتا ہے۔
ظاہر بات ہے کہ اگر ایک شخص قرآن کی توہین کرے، اللہ کو یا اس کے رسولؐ کو گالی دے تو وہ تو نہ صرف یہ کہ مرتد ہے بلکہ نہایت ذلیل قسم کا مرتد ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ میں جاکر اس مرتد کا سر قلم کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ عرب کے لوگ یہ کہیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہا ہے۔ کیونکہ باہر کے لوگوں کو تو معلوم نہیں کہ عبداللہ بن اُبی ایک منافق ہے، باہر کے لوگوں کو تو یہ معلوم ہے کہ عبداللہ بن اُبی مسلمانوں کا ایک سردار ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے منافق تھے ان کے بارے میں بھی باہر کے لوگ یہی جانتے تھے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر عبداللہ بن اُبی کو قتل کر دیا جاتا تو باہر کے لوگ یہ کہتے کہ دیکھیے ان کے درمیان کیسی پھوٹ پڑی ہے کہ اب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرا رہے ہیں۔ یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی اور اس سے اسلام کی شہرت کو نقصان پہنچتا۔ اس لیے حضوؐر نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو یہ کام نہیں کرنا ہے۔
عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا نہایت مخلص مسلمان تھا۔ اس تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی۔ اس نے آکر عرض کیا کہ حضوؐر اگر آپ کو میرے باپ کا سر چاہیے تو کسی اور کو حکم دینے کے بجاے مجھے حکم دیجیے، میں جاکر اس کا کام تمام کرتا ہوں۔ لیکن حضوؐر نے اس کو منع کر دیا۔ یہ بات پہلے بیان کی جاچکی ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المصطلق سے واپسی کے راستے میں مدینہ پہنچنے سے پہلے پیش آیا تھا۔ جب حضوؐر مدینہ پہنچے تو عبداللہ بن اُبی کا اپنا بیٹا مدینہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے باپ سے کہا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اس وقت تک آپ مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اور فرمایا کہ عزت والے تو وہ ہیں، آپ نہیں۔ وہ اجازت دیں گے تو آپ مدینہ میں آسکیںگے ورنہ نہیں۔ آپ نے تو کہا تھا کہ عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ اب آپ فیصلہ کرلیجیے کہ عزت والا کون ہے اور ذلیل کون ہے؟ بیٹا باپ کے سامنے روک بن کر کھڑا تھا۔ یہ تھا اس کا اخلاصِ ایمانی!
ایمان دراصل اس چیز کا نام ہے کہ اللہ اور رسولؐ کو مان لینے کے بعد کسی اور رشتے داری کا پاس نہ ہو۔ اہلِ کفر سے تمام رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ نہ باپ باپ ہے، نہ بیٹا بیٹا، اور نہ بھائی بھائی ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں آکر دشمن کی حیثیت سے کھڑا ہوجائے تو باپ اپنے بیٹے کو قتل کرے گا، اور بیٹا اپنے باپ کو قتل کرے گا اور یہ مظاہرہ جنگ ِ بدر میں ہوچکا تھا۔ اللہ اور رسولؐ کو ماننے کا اخلاص یہی ہے۔ جس جگہ معاملہ دینی حمیت اور غیرت کا ہو، اس جگہ آکر وہ اپنے جذبات پر چھری پھیر دے گا۔ کوئی پروا نہ کرے اس بات کی کہ اگر میں نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا، یا بیٹے نے باپ کو قتل کردیا تو دل پر کیا گزرے گی۔ جو گزرتی ہے گزر جائے لیکن اللہ کی راہ میں اخلاص کا تقاضا یہی ہے کہ ہر رشتے، ہر جذبے اور ہر شے پر اللہ اور اس کے رسولؐ کو مقدم رکھا جائے۔ اللہ اور رسولؐ کے مقابلے میں ہرچیز کو قربان کر دیا جائے۔
یہی بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک احمق یہ کہتا ہے کہ عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عزت اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔ کوئی عزت والا ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کی کوئی عزت نہیں۔ عزت صرف اللہ، اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے۔
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
یہ سورئہ منافقون کا دوسرا اور آخری رکوع ہے۔ اس سے پہلے یہ بتایا گیا کہ مدینہ کے منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہ روش اختیار کیے ہوئے تھے کہ آپ کی رسالت کا اقرار کرتے تھے اور قسمیں کھاکا کر یہ یقین دلاتے تھے کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں لیکن اس کے بعد حضوؐر کے خلاف، دعوتِ دین کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی چال بازیاں اور مکّاریاں کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ فرمانا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کو تمھارے مال اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے، اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ خسارے میں پڑنے والا ہے، تو یہ بات ارشاد فرمانے سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ منافقین کو جس چیز نے منافقانہ روش پر آمادہ کیا تھا وہ مال اور اولاد کا مفاد تھا۔ جب تک ایک آدمی کی اپنے مال اور اولاد کی محبت، خدا اور اس کے دین سے اور حق سے منحرف کردینے کی حد تک نہ پہنچ جائے، اس وقت تک آدمی منافقانہ روش اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے فرمایا کہ تمھارا مال اور تمھاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔
اصل میں لفظ لاَ تُلْھِکُمْ استعمال کیا گیا ہے۔ لَھْو اس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی کو دل چسپی اور مشغولیت اتنی بڑھ جائے کہ دوسری چیزوں سے اس کو غفلت لاحق ہوجائے۔ اسی بنا پر گانے بجانے اور کھیل کود کو لَھْو کہتے ہیں کیونکہ آدمی ان کے اندر اتنا مشغول اور منہمک ہوجاتا ہے کہ اس کو کسی اور چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ یہی لفظ یہاں استعمال کیا گیا کہ مال اور اولاد کا مفاد تم کو ایسا غافل نہ کردے، اپنے ساتھ اتنا مشغول نہ کرلے کہ تم اللہ کی یاد سے غافل ہوجائو۔
ایک منافق درحقیقت اس وجہ سے منافق ہوتا ہے کہ اس کو خدائی ہدایت کے مقابلے میں اپنا دنیوی مفاد عزیز ہوجاتا ہے۔ وہ اس کو اپنی طرف اتنا متوجہ کرلیتا ہے کہ وہ خدا کو بھول جاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی اپنی تجارت کو بڑھانے اور اسے ترقی دینے اور ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو نشوونما دینے کی اتنی فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اس کو اس بات کی بھی پروا نہیں رہتی کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ وہ ہرممکن طریقے سے اپنی دولت کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں حق کی حمایت کروں تو میری جایداد کو نقصان پہنچے گا، میری تجارت بیٹھ جائے گی، میرے دوسرے مالی مفادات پر ضرب آئے گی، اس لیے میں ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرتا ہوں کہ حق اور باطل کے جھگڑے میں نہ پڑوں، حق کے لیے مرنے، کٹنے والے نعوذباللہ بہت سے بے وقوف موجود ہیں، مجھے تو اپنے مفاد کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایک آدمی اپنی اولاد اور بیوی کے عیش و آرام کی خاطر حرام کماتا ہے، رشوتیں کھاتا ہے، غبن اور خیانتیں کرتا ہے۔ ہر طرح کی بے ایمانیاں کرکے کوشش کرتا ہے کہ اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ عیش کرائے، اور اپنے نزدیک اپنی اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے سروسامان مہیا کرے۔ لیکن یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو اس کے خدا، اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے معاملے میں منافقانہ روش پر اُبھارتی ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو آدمی منافقت اختیار نہیںکرتا۔
کسی کو اللہ کے ذکر سے غافل کر دیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اللہ اللہ کرنے سے رُک جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کو بھول جائے۔ یہ خیال اس کے دل سے نکل جائے کہ اُوپر کوئی خدا بھی ہے جس کے سامنے جاکر اسے کبھی اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ یہ خیال اگر کسی آدمی کے دل میں رہے تو وہ کبھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی اولاد کے مفاد کے لیے، اپنی بیوی کو عیش کرانے کے لیے اور اپنی دولت بڑھانے کے لیے کوئی ایساکام کرے جس کا انجام ہمیشہ کے لیے جہنم میں لے جانے کا سبب ہو۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ مال اور اولاد آخرت میں تمھارے کام آنے والی چیز نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس جن لوگوں کے عیش اور آرام کے لیے تم یہاں بے ایمانیاں کرتے ہو، قیامت کے روز وہی اُٹھ کر تمھارے خلاف گواہ بنیںگے۔ بجاے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ ہمارے باپ نے ہمارے لیے بڑی تکلیفیں اُٹھا کر اور ایمان کو بیچ کر حرام دولت کمائی تھی، اس لیے اب اس کی جگہ ہمیں جہنم میں بھیج دیا جائے۔ کوئی اولاد اس کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ کوئی باپ اپنے بیٹے کے لیے جہنم میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ بھائی بھائی کے لیے تیار نہیںہوگا بلکہ اس کے برعکس اس غفلت پیشہ اور غلط کار انسان کے خلاف جو مقدمہ قائم ہوگا، یہی لوگ آکر اس کے خلاف گواہی دیں گے کہ اس طرح اس نے رشوتیں کھا کر، بے ایمانیاں کر کے یہ دولت کمائی تھی۔ ہمیں بھی حرام سے پالا اور خود بھی حرام کھایا۔ یہ بات قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ یہی تمھاری بیویاں، اولاد کل تمھارے خلاف گواہ بننے والی ہے، اگر ان کی خاطر آج تم نے بے ایمانیاں کیں۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور اس کی ہدایت سے غافل نہ ہو۔ اس بات کو بھول مت جائو کہ تمھیں کبھی خدا کے ہاں جاکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ مزید فرمایا:
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (۹) جو لوگ یہ روش اختیار کریں گے یہی آخرکار خسارے میں جانے والے ہیں۔
خسارہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ آدمی جس کاروبار میں اپنا سرمایہ لگائے، اس میں اپنی محنتیں اور وقت صرف کرے اور اس کے بعد وہ سب کچھ لگا لگایا ڈوب جائے۔ اسی طرح اگر ایک آدمی اپنی تمام محنتیں، قوتیں اور تمام ذرائع و وسائل ایک ایسے کام میں لگا رہا ہے جو اس کو لے جاکر آخرکار جہنم میں جھونکنے والا ہے، تو ظاہر ہے کہ اس سے بڑا کوئی خسارہ نہیں ہوسکتا۔
وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلآَ اَخَّرْتَنِیْٓ اِِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ لا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ o وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا ط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (۱۰-۱۱) جو رزق ہم نے تمھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ ’’اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا‘‘ حالانکہ جب کسی کی مہلت ِعمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔
ایک آدمی کا اس سے زیادہ احمقانہ فعل کوئی نہیں ہے کہ آج اس کو جو زندگی اور مہلت عمل ملی ہوئی ہے اس میں وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جائے۔ اس سے منہ موڑ کر اپنے دنیوی مفاد کی پرستش میں لگارہے، اور مرتے وقت اس کو یہ احساس ہو کہ میں نے کیا کیا، کس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دیا۔ جب وہ دیکھ رہا ہو کہ اب میں تباہی کی طرف جا رہا ہوں، اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ مجھے تھوڑا سا وقت اور دے دے تاکہ میں اپنے مال کو آپ کی راہ میں خرچ کروں، تو اس کو یہ مہلت نہیں دی جائے گی۔ فرمایا گیا: وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِِذَا جَآئَ اَجَلُھَا طا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ’’اللہ کسی متنفس کو مہلت دینے والا نہیں ہے، جب کہ اس کی اجل آجائے، اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘۔
اَجل کہتے ہیں مدت مقررہ کو جو پہلے سے طے کر دی گئی ہو کہ فلاں شخص کو اتنا وقت دیا جائے گا۔ مثلاً امتحان کے کمرے میں آپ بیٹھتے ہیں تو یہ طے ہوتا ہے کہ مثلاً تین ساڑھے تین گھنٹے کا وقت آپ کو پرچہ حل کرنے کے لیے دیا جائے گا۔ اس تین ساڑھے تین گھنٹے کی جو مہلت ہے اس کا نام اَجل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردیا گیا ہے کہ اس آدمی کو دنیا میں کام کرنے کے لیے اتنا وقت دیا جائے گا اور ایسی ہی مہلت قوموں کو بھی دی جاتی ہے۔ قرآنِ مجید میں قوموں کی زندگی اور مہلتِ عمل کے لیے بھی اَجل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ جب کسی قوم کی اَجل آن پوری ہوتی ہے تو پھر چند لمحوں کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے اس کی مہلت ختم ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد ہی اس کو مزید وقت دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کے لیے جو اَجل مقرر کر دی گئی ہے، اور اس کے لیے جو مدت طے کر دی گئی ہے،اس کے بعد کسی شخص کو کوئی مہلت نہیں دی جاتی۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کے کہنے پر اس کو مزید کچھ وقت دے دیا جائے۔ لہٰذا جس آدمی کو اپنی عاقبت کے لیے جو بھی عمل کرنا ہے، وہ اس وقت کے اندر اس کو کرلینا چاہیے، جب کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ میں تندرست ہوں، زندہ ہوں، اور بظاہر موت کا وقت بھی قریب نہیں ہے۔ لیکن جس وقت آدمی دیکھے کہ آخری وقت آگیا ہے، یا کوئی ایسی بیماری آگئی ہے کہ جس کی وجہ سے اس کو معلوم ہوگیا ہے کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے، اس وقت آدمی کا یہ چاہنا کہ مجھے مزید وقت ملے تاکہ میں اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے کوئی نیک عمل کرلوں تو یہ محض اس کی حماقت ہے۔ آج تک دنیا میں یہ نہیں ہوا ہے کہ جس شخص کی موت کا جو وقت مقرر ہے، وہ چند لمحوں کے لیے بھی ٹل جائے۔ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ’’اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔
وہ بے خبر نہیں ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ ایک ایک آدمی کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو کتنی کچھ نصیحت کی گئی۔ فقط ایک کتاب ہی پر موقوف نہیں، بے شمار طریقوں سے آدمی کی نصیحت کا سامان کیا جاتا ہے۔ ایک آدمی کو جو طرح طرح کے حادثات پیش آتے ہیں یا اس کی آنکھوں کے سامنے اس طرح کے واقعات گزرتے ہیں، ان سب میں ایک طرح کی تنبیہہ اور عبرت کا سامان ہوتا ہے، تاکہ آدمی اس سے سبق حاصل کرے۔
پھر اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم ہے کہ کتنے کتنے مواقع پر تمھارے لیے نصیحت اور یاد دہانی کا انتظام کیا گیا کہ تم ہوش میں آئو اور سمجھو کہ ہماری اس دنیا پر تمھاری کیا پوزیشن ہے۔ کون سی چیزیں عاقبت درست کرنے والی ہیں، اور کون سی چیزیں ایسی ہیں جو آدمی کی عاقبت تباہ کرنے والی ہیں۔ کوئی آدمی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو اس چیز کو نہ سمجھتا ہو۔ اس کے بعد اگر ایک آدمی آخرت سے غافل ہوتا ہے اور اپنا سارا وقت اور محنتیں صرف اس دنیا کو بنانے کے لیے صرف کردیتا پھر وہ عین مہلت ختم ہونے کے وقت مزید ملت مانگے، تو اللہ تعالیٰ کو کوئی غرض نہیں پڑی ہے کہ ایسے آدمی کو مزید مہلت دے۔ وہ لوگوں کی خواہشوں کے مطابق اپنے قوانین تبدیل نہیں کیا کرتا۔ (جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں بھی شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپؐ تقریباً پورا شعبان ہی روزے رکھتے۔ (بخاری حدیث ۱۸۶۹، مسلم حدیث ۱۱۵۶)
آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے کئی ماہ پہلے رمضان کی برکات پانے کی خصوصی دعائیں شروع کردیتے، گویا مہمان مکرم کے انتظارمیں ہیں۔ جیسے جیسے رمضان قریب آتا، ذوق و شوق میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ ہم بھی ذرا اپنا اپنا جائزہ لیں، دل میں انتظارِ رمضان کی کیا کیفیت ہے؟ پھر یہ بھی کہ کیا ہم بھی حبیبؐ رب العالمین کی طرح رمضان کی تیاری نوافل و روزوں کی کثرت سے کررہے ہیں یا صرف نئے سے نئے پکوانوں کے اہتمام سے۔
o
حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ کو ایک بار احباب نے مزید کھانا کھانے پر اصرار کیا۔آپ نے فرمایا: بس مجھے اتنا کافی ہے۔ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ’’دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والے کو، آخرت میں سب سے زیادہ بھوکا رہنا پڑے گا‘‘۔ (ابن ماجہ ،حدیث ۳۳۵۱)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمان مبارک کے مطابق: ’’انسان اپنے پیٹ سے بدتر کوئی اور برتن نہیں بھرتا۔ ابن آدم کے لیے وہ چند لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پشت سیدھی رہے‘‘۔ طبی تحقیقات بھی تقریباً ہر دور میں ثابت کرتی رہی ہیں کہ فاقہ کشی کے مقابلے میں پیٹ بھرا رہنے سے زیادہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ رسولِؐ رحمت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ، جب تک بھوک خوب نہ چمک اٹھے کھایا نہ جائے اور جب کھائیں تو پیٹ نہ بھریں۔
یہ امر بھی رب ذو الجلال کی رحمتوں ہی کا حصہ ہے کہ رمضان المبارک کی روحانی و اخروی برکات کے ساتھ ہی ساتھ، دنیوی اور جسمانی برکات کا بھی اہتمام فرمادیا۔ کارخانۂ قدرت میں اس رحمت کا پرتو اکثر مخلوقات میں ملتا ہے۔ تقریباً تمام نباتات و حیوانات بھی گاہے بگاہے فاقوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ کھانے پینے سے یہی پرہیز ان کے لیے تجدید نشاط کا ذریعہ بنتا ہے۔ فصلوں کا پکنا اور پھلوں کا مٹھاس سے بھرنا تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک مزید پانی روک نہ لیا جائے۔
حدیث میں مذکور رحمت نبویؐ جسمانی عافیت کو اصل فکر مندی سے وابستہ کردیتی ہے کہ دنیا میں پیٹ بھرنے کی دوڑ، آخرت کی بھوک سے دوچار نہ کردے۔ آخرت میں بھوک کے عذاب کا کوئی توڑ نہیں۔
o
حضرت عمر بن الخطابؓ فرماتے کہ غزوۂ بدر کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی جانب دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپؐ کے ساتھی ۳۱۹ تھے (کئی روایات میں ۳۱۳ ہے)۔ آپؐ قبلہ رو ہو کر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوگئے اور اپنے رب سے سرگوشیاں کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے مجھے (جو کامرانی) عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ہلاک کردیا، تو پھر روے زمین پر تیری عبادت نہ ہوگی۔ (مسلم ۴۵۸۸)
خاتم النبیینؐ اپنی تمام جمع پونجی میدان بدر میں لے آئے۔ انسانی بس میں جو بھی تدابیر ہوسکتی تھیں کر ڈالیں، اور پھر رب علیم و قدیر کے آگے ہاتھ پھیلادیے۔ یہ یقین تھا کہ اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا، لیکن احساس ذمہ داری، قافلہء حق اور دعوت دین کے مستقبل کے بارے میں فکرمندی تھی کہ بے کل کیے دے رہی تھی۔ امت کو یہ تعلیم دینا بھی مقصود تھا کہ کامیابی کے دونوں ستون یکساں اہم ہیں: ہرممکن انسانی کوشش اور اللہ پر مکمل اعتماد و بھروسا کرتے ہوئے دعا۔
اہل ایمان اس جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن مشیت الٰہی نے تمام تر انتظامات اس طرح کردیے کہ عین نصف رمضان (۱۷ رمضان ۲ ہجری) میں فیصلہ کن غزوہ بدر رونما ہوجائے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں ’’تاکہ اللہ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردکھائے‘‘۔
فتح مکہ کی عظیم الشان کامیابی بھی رمضان المبارک میں عطا ہوئی (۲۰ رمضان ۸ ہجری)۔ دل دہلا دینے والا غزوۂ خندق شوال ۵ ہجری میں وقوع پذیر ہوا، لیکن اس کے لیے تیاری کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پورا مہینہ طویل و عریض خندق کھودنے میں لگے رہے۔
دیگر کئی عظیم معرکے اور فتوحات بھی ماہِ رمضان میں ہوئے۔ مثلا رمضان ۹۱ ہجری میں فتح اندلس۔ رمضان ۲۲۳ ہجری میں خلیفہ معتصم باللہ کی قیادت میں فتح عموریہ۔ ۲۵ رمضان ۶۵۸ ہجری میں سیف الدین قطز کی قیادت میں تاتاریوں کو شکست۔ کتنے ہی معرکے ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ بتا رہا ہے کہ رمضان المبارک سستی و کسل مندی اور بے جان پڑے رہنے کا نہیں، ماہِ فتوحات و جہاد ہے۔
o
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ آپؐ سب سے زیادہ سخاوت رمضان میں کرتے، جب جبریل ؑامین آپؐ سے ملاقات کے لیے تشرف لایا کرتے تھے۔ حضرت جبریل ؑرمضان کی ہر رات آپؐ کے ساتھ مل کر دورۂ قرآن کیا کرتے۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش گوار بادِ نسیم سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے۔ (بخاری، حدیث ۶، مسلم، حدیث ۲۳۰۸)
قرآن اور رمضان لازم و ملزوم ہیں۔ رمضان میں قرآن لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اور یہ رات لیلۃ القدر کہلائی، ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر۔ رمضان میں قرآن قلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی صورت نازل ہونا شروع ہوا۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ جبریل امین ؑ کو خصوصی طور پر آپؐ کے پاس تلاوت قرآن کے لیے بھیجتے۔ نبیوں کا سردار اور فرشتوں کا سردار مل کر پورا مہینہ تلاوت قرآن کرتے۔ جس سال آپؐ کا وصال ہونا تھا، اس سال ماہ رمضان میں دوبار قرآن مکمل کیا۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ترغیب و تحریص ہوگی کہ ہم سب بھی رمضان المبارک کو اس طرح ماہ قرآن بنالیں کہ روز قیامت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا کی پیروی کرنے والے کہلا سکیں۔
انفاق فی سبیل اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔ آپؐ کے جاں نثار چچازاد اور عظیم مفسرقرآن گواہی دے رہے ہیں کہ جس طرح خوش گوار تیز ہوائیں بلا تفریق سب کو نفع پہنچاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر و برکت بھی بلا تقسیم و تفریق سب کو عطا ہوتی۔
o
حضرت عبادہ بن الصامتؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ القدر کے بارے بتانے کے لیے باہر نکلے۔ اس وقت مسلمانوں میں سے دو افراد آپس میں ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو اس لیے آیا تھا کہ آپ لوگوں کو بتاؤں کہ لیلۃ القدر کب ہوتی ہے، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے اس لیے مجھ سے اس کا علم واپس لے لیا گیا۔ شاید یہ تمھارے حق میں بہتر ہی ثابت ہو، اب تم اسے پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری، حدیث ۴۹)
رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق عبادت اور محنت وسعی اپنی معراج پر جا پہنچتے۔ آپؐ اعتکاف کا اہتمام فرماتے۔ خود بھی راتوں کو جاگ کر عبادت کرتے۔، اہل خانہ کو بھی جگاتے۔ ہر دنیاوی آرام و مصروفیتق تج دیتے۔ نیکیوں کی بہار عروج پر ہوتی۔
آج بدقسمتی سے انھی مبارک ترین راتوں کو خصوصی طور پر بازاروں اور خریداریوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ وقت سے پہلے عید کی تیاری ، ان اہم ترین لمحات کو آگ سے نجات کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔
لیلۃ القدر کی تلاش یقینا بندوں کے لیے بلندی درجات ہی کا سبب بنے گی۔ لیکن ذرا سوچیے اگر امت کو واضح طور پر لیلۃ القدر کا علم دے دیا جاتا تو یقینا ہزار سال کی عباد ت سے بہتر رات پالینا آسان تر ہوجاتا۔ دو ساتھیوں کا باہم الجھ جانا اس خیر کثیر سے محرومی کا سبب بنا۔ اُمت مسلمہ کا باہم خوں ریزی اور قتل و غارت کا شکار ہونا، تعصبات و تفرقوں میں بٹا رہنا، کس کس خیر سے محرومی کا سبب بن رہا ہوگا۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑا، اللہ کو اس شخص کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری، حدیث ۱۸۵۳)
آں حضوؐرنے قول الزُّور کا لفظ استعمال کیا ہے اور الزُور کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں جھوٹ کے علاوہ ہر غلط و ناجائز بات شامل ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی سکہ، ڈگری یا دستاویز جعلی ہو تو اس کے لیے مُزَوَّر کا لفظ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح الزُّور میں ہر جھوٹ، دھوکا دہی، فحش و بے حیائی، گالم گلوچ، جھگڑا ور غیبت سب شامل ہیں۔ روزے میں انسان کھانے پینے جیسے حلال و طیب کاموں سے تو رُک جائے لیکن اصلاً حرام باتوں اور کاموں کا ارتکاب کرتا رہے، تو آخر کیسا روزہ اور کیسی نیکی؟
قرآن روزے ہی کا نہیں نماز، حج اور زکوٰۃ سمیت ہر عبادت کا مقصد بندے کے دل میں خوفِ خدا پیدا کرنا ہی بتاتا ہے۔ آپؐ نے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے۔ یہ اس کے لیے ڈھال ثابت ہوں گے‘‘۔ ایک اور ارشاد مبارک میں آپؐ نے روزے کو عموماًڈھال سے تشبیہ دی کہ جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے بچاتی ہے، روزہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
انسان میں فطری طور پر تین قسم کی خواہشات پائی جاتی ہیں: ۱- کھانے پینے کی خواہش ۲-جنسی تعلق سے رغبت ۳- راحت و آرام کی طلب۔ اب اگر ان تینوں خواہشات کو بے قید آزادی دے دی جائے تو عیش پرستانہ زندگی میں انسان کا مبتلا ہو جانا یقینی ہے۔ اور اگر ان کو دبانے یا کچلنے کی کوشش کی جائے تو انسانیت کی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں مفلوج ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اسلام نے افراط و تفریط کی ان دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال کی راہ پیش کی ہے۔ یہ اعتدال پیدا کرنا رمضان المبارک کا اوّلین مقصد ہے۔ اسی بات کو قرآن حکیم نے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو) سے واضح کیا ہے۔
روزے کی حالت میں دن بھر ایک مسلمان بھوک کی شدت، پیاس کی تیزی اور جنسی خواہش کے ہیجان کو قابو میں رکھتے ہوئے خواہش نمبر۱ اور نمبر۲ کو اعتدال پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔ افطار کے بعد تھکا ماندہ جسم آرام کاطالب ہوتا ہے، لیکن مؤذن کے بلاوے پر نہ صرف یہ کہ فرض و سنت ادا کرتا ہے بلکہ نمازِ تراویح بھی ادا کرتا ہے۔اس طویل عبادت کے بعد انسان آرام کے لیے لیٹتا ہے اور صبح تک راحت و سکون کی طلب اس میں پائی جاتی ہے لیکن ان ۲۹ یا ۳۰ دنوں میں خلافِ معمول پھر اسے رات کے آخری حصے میں سحری کے لیے اُٹھنا ہوتا ہے۔ اس طرح انسان کا جسم عیش و عشرت اور سکون، راحت کا دلدادہ ہونے کے بجاے مشقت اور جفاکشی کا عادی ہوجاتاہے اور اس کی تیسری خواہش بھی بے قید آزادی کا شکار ہونے سے بچ جاتی ہے۔
روزے سے جس توازن اور عدل کی شاہراہ پر انسان کا قدم اُٹھتا ہے،و ہی اسے تقویٰ کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ اِعْدِلُوْا ط ھُوَ اَقْرَبُ لِلْتَّقْویٰ (المائدہ ۵:۸)’’عدل کی راہ اختیار کرو وہ تقویٰ سے قریب تر ہے‘‘۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اعتدال و میانہ روی کی یہ کیفیت وہ ہے جس کی بنا پر انسان تقویٰ کی دولت سے مالا مال ہوکر اپنے رب کا قرب اور اس کی بے پایاں رحمت کا مستحق ہوسکتا ہے۔ بس یہی رمضان المبارک کا اصل مقصد ہے۔
رمضان کا مبارک اور مقدس مہینہ جن خصوصیات اور محاسن کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، یہاں ان میں سے صرف چند اہم اور نمایاں خصوصیات اور تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے ہوئے ان کے نتائج و ثمرات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
۱- باطنی، یعنی قلبی کیفیات اور اندرونی حالات میں انقلاب و تبدیلی پیدا کی جائے۔
۲- ظاہری، یعنی بیرونی دبائو اور تحریری قوانین کے ذریعے برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو نشوونما دینے کی کوشش کی جائے۔
اسلام نے یہ دونوں طریقے اختیار کیے ہیں جیساکہ حدیث میں ہے: سنو! جسم میں ایک گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگروہ درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارے جسم میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ فرمایا: یہ لوتھڑا دل ہے‘‘ (مشکوٰۃ، ج ۱،ص ۲۴۱)۔ قلبی کیفیات کو بدلنے اور پاکیزہ میلانات پیدا کرنے کے لیے نماز کے بعد اگرکسی عبادت کا مقام ہوسکتا ہے تو وہ روزہ ہے۔
ظاہر ہے کہ جب مقامِ محبت حاصل ہوجائے تو پھر عبادت و اطاعت کی مٹھاس بھی دوچند ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ قرآن میں ارشاد ہے: وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ ۲:۱۸۵)، یعنی اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت کی نعمت تمھیں بخشی ہے اس پر تم اس کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم (احسانات کا) شکر ادا کرو۔ اسی جذبۂ شکر کو اُبھارنے کے لیے ایک حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے ان لوگوں کو دیکھو جو تم سے کمتر ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم ان نعمتوں کو حقیر نہ سمجھو گے جواللہ تعالیٰ نے تمھیں عطا فرمائی ہیں۔ (بخاری، مسلم، مشکٰوۃ)
اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ، ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی (ابوداؤد، مشکوٰۃ، ج۱،ص ۷۵) اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا، اورتیرے دیے ہوئے رزق پر میں نے افطار کیا، پیاس بجھ گئیں، رگیں تر ہوگئیں، اور خدا کے ہاں اجر ثابت ہوگیا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دعا میں بھی اعترافِ نعمت اور جذبۂ شکر اُبھارنے کی نمایاں طور پر تربیت دی گئی ہے۔
قیام اللیل سے نفس کی تربیت جس طرح ہوتی ہے، اس کی وضاحت اس انداز سے کی گئی ہے: اِِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا (المزمل ۷۳:۶) ’’بلاشبہہ رات کا اُٹھنا نفس کو کچلنے اور بات کے درست ہونے کے لیے زیادہ سازگار ہے‘‘۔ رات کے آخری حصہ میں نرم گرم بستر چھوڑ کر اللہ کی یاد کے لیے اُٹھنا نفس پر انتہائی شاق گزرتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ رات کے آخری حصے کی اس پُرسکون فضا میں اپنے رب سے مناجات اور سرگوشی کرنے میں جو لطف حاصل ہوسکتا ہے، اس کا دسواں حصہ بھی دن کے ہنگامہ پرور اوقات میں میسر نہیں آسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو دوسرے مہینے کی نسبت رمضان میں شب بیداری کا خصوصی طور پر اہتمام فرمایا کرتے تھے لیکن آخری عشرے میں آپ کی جدوجہد اور بھی زیادہ تیز ہوجاتی تھی جیساکہ حدیث میں ہے: ’’جب (آخری) عشرہ شروع ہوتا تو اپنی کمر کس لیتے، رات کو جاگ کر گزارتے اور گھر والوں کو بھی بیدار کرتے‘‘۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ)
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد یہ نہیں ہے کہ قرآن کو پوری تیزی کے ساتھ بے سمجھے بوجھے تراویح میں پڑھ لیا جائے۔ قرآنِ مجید کا حق صحیح معنی میں اس وقت ادا ہوسکتا ہے جب اس کے نزول کے مقاصد پیشِ نظر رکھے جائیں:
۱- لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۶) ہم نے قرآن کو اُتارا ہے تاکہ اُسے آپ ٹھیر ٹھیر کر اطمینان سے پڑھیں۔
۲- کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا (صٓ ۳۸:۲۹) ہم نے برکت والی کتاب نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں اور تدبر سے کام لیں۔
۳- اِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ (النساء ۴:۱۰۵) ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب اُتاری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو راہ آپ کو دکھائی ہے، اس کے مطابق آپ فیصلہ کریں۔
گویا انسان اپنے نفس پر، اپنے گھر پر، ماحول پر، پورے ملک پر بلکہ پوری دنیا پر اللہ تعالیٰ کی کتاب کے غلبے اور حکمرانی کو قائم کرنے کی جدوجہد میں لگ جائے۔ زندگی کا کوئی شعبہ اور معاشرے کا کوئی حصہ بھی اس کی رہنمائی سے خالی نہ رہے۔
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ (البقرہ ۲:۱۸۶) جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں (تو ان سے کہہ دو کہ) میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی پکار کو میں سنتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔
قرآنِ مجید کا یہ اندازِ بیان ظاہر کر رہا ہے کہ رمضان اور دعا میں انتہائی گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ دعا کی مقبولیت کے پیش تر اوقات اسی ماہ میں رکھے گئے ہیں۔ رمضان، عبادت کا مقدس پاکیزہ اور پُربہار موسم ہے اور دعا کے بارے میں ارشاد نبویؐ ہے: اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (ترمذی، مشکوٰۃ، ص ۱۹۴، کتاب الدعوات)، یعنی دعا عبادت کا مغز اور گودا ہے۔ اسی بنا پر روزے دار کی دعا خصوصاً افطار کے وقت اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے احسانات خصوصاً نعمت ِ قرآن کا شُکر، اسی طرح ادا ہوسکتا ہے کہ اس ماہ میں کثرت سے غربا و مساکین کی مدد کی جائے اور نیک کاموں میں آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے۔ اس طرح روزے دار اس ماہ میں اپنے دل سے بُخل کے میل کچیل کو دُور کرسکتا ہے اور اسے سخاوت و فیاضی کا خوگر بنا سکتا ہے۔ رمضان المبارک کی ان تمام خصوصیات پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ رمضان کے ذریعے عبادتِ خالق اور خدمتِ خلق، دونوں کی تربیت دی گئی ہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفُوَ فَاعْفُ عَنِّیْ(ترمذی، مشکوٰۃ، ج…، ص ۱۸۲) اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، تو میری خطائیں معاف فرما۔
عام طور پر ستائیس ویں شب کو ہی شب ِ قدر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات شب ِ قدر ہوتی ہے۔ اس لیے ان پانچ راتوں کو خاص طور پر عبادت و تلاوت اور ذکرِ الٰہی میں گزارنا چاہیے۔
ان خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوئے رمضان المبارک کے ثمرات و نتائج کا بھی اندازہ ہوسکتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس مقدس مہینے کے تقاضوں کو کامل خلوص اور غیرفانی لگن کے ساتھ پورا کرتے ہوئے دنیا و آخرت کی سعادتوں اور شادمانیوں سے سرفراز ہوتے ہیں۔
دین میں دعا کی بڑی اہمیت ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے اعراض اللہ رب العالمین کو سخت ناپسند ہے۔ قرآن و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عبادت شرائط و آداب سے خالی نہیں ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم عبادات کے نتائج و ثمرات تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے شرائط و آداب کی تکمیل کی طرف دھیان نہیں دیتے۔
قرآن و احادیث میں دعا کے جو شرائط و آداب مذکور ہیں وہ تین قسموں میں بانٹے جاسکتے ہیں۔ کچھ شرائط و آداب دعا سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیں، اور کچھ اس کے بعد ہیں۔ اگر ہم مثال کے طور پر نماز کو اپنے سامنے رکھ لیں تو ان شرائط و آداب کو سمجھنا آسان ہوجائے گا کیونکہ نماز کے لیے بھی کچھ شرائط و آداب اس سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیںاور کچھ اس کے بعد ہیں۔ دعا سے پہلے کی دو شرطیں بڑی اہم ہیں:
یہ ایک ایسی شرط ہے جو اللہ رب العزت کی تمام عبادتوں میں لگی ہوئی ہے۔ کوئی عبادت اس شرط کو پورا کیے بغیر قبول نہیں ہوتی۔ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی کو شریک نہ کیا جائے۔ پرستش صرف اسی کی اور پیروی و اطاعت صرف اسی کے احکام و اوامر کی کی جائے۔ اس کے حکم کے علی الرغم کسی کی اطاعت نہ کی جائے اور جو کچھ کیا جائے صرف اسی کی رضا حاصل کرنے اور اسی کے حکم کی تعمیل کی نیت سے کیا جائے۔ کوئی عمل محض دکھاوے کے لیے نہ کیا جائے۔ ہر عبادت اور ہر اطاعت شرک اور ریا کی آمیزش سے پاک ہو۔ قرآن میں متعدد مقامات پر صراحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کی جائے اور اس سے دعا مانگی جائے۔ اگر کوئی شخص اس شرط کی خلاف ورزی کرکے یہ توقع کرے کہ اس کی عبادت اور اس کی دعا بارگاہ الٰہی میں قبول کی جائے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ عبادت کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
اِِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ o اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط (الزمر ۳۹: ۲-۳) (اے محمدؐ!) یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔
قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَہٗ دِیْنِیْ o فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖط (الزمر ۳۹: ۱۴-۱۵) کہہ دو کہ میں اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی کی بندگی کروں گا تم اس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو۔
یہ ایک سخت تنبیہی انداز ہے جو غیراللہ کی بندگی کرنے پر مشرکین کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح کی آیتیں قرآن میں اور بھی ہیں۔ مخصوص طور پر دعا کے لیے قرآن میں کہا گیا ہے: وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ(الاعراف ۷:۲۹) ’’اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہوکر‘‘۔ سورئہ مومن میں ہے: فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo (المومن ۴۰:۱۴) ’’پس اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے خواہ تمھارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندگی و طاعت کو اللہ کے لیے خالص کر کے صرف اسی کو پکارنا، اس کی دہائی دینا اور اس سے دعا کرنا کافروں کو سخت ناگوار ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکارنا اور ان کی دہائی دینا پسند کرتے ہیں۔ سورئہ مومن ہی میں دوسری جگہ ہے:
فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (المومن ۴۰:۶۵) وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، ساری تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
آج بہت سے مسلمانوں کا بھی حال یہ ہے کہ ان کی بندگی و اطاعت اللہ کے لیے خالص رہی ہے اور نہ ان کی دعا۔ وہ اوامر الٰہی کے علم الرغم دوسروں کی اطاعت بھی کر رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کی دہائی بھی دے رہے ہیں۔ کاش! وہ من گھڑت تاویلات کو ترک کرکے ان آیات پر غور کرتے۔
قبولیت ِ دعا کے لیے دوسری اہم شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا رزق حلال ہو اور اس کی کمائی یا ذریعۂ معاش بھی حلال ہو، حرام خوری کے ساتھ دعا قبول نہیں ہوتی۔ یہ شرط صراحت کے ساتھ صحیح حدیث میں مذکور ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی دو آیتوں سے استشہاد فرمایا ہے۔ اس لیے کہنا چاہیے کہ اکل حلال و کسب حلال کی شرط اشارتاً خود قرآن میں مذکور ہے۔
امام مسلم نے کتاب الزکوٰۃ میں اور امام ترمذی نے سورئہ بقرہ کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت کی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بلاشبہہ اللہ تمام نقائص و عیوب سے پاک ہے اور صرف حلال اور پاک چیزوں ہی کو قبول فرماتا ہے اور اس کے متعلق اس نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسولوں سے فرمایا ہے: ’’اے میرے پیغمبرو! تم پاک اور حلال غذا کھائو اور صالح عمل کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو میں پوری طرح اس سے باخبر ہوں‘‘۔ اور اپنے مومن بندوں سے اس نے کہا ہے: ’’اے ایمان لانے والو، تم میری دی ہوئی روزی میں سے حلال اور پاک چیزیں کھائو۔ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو (کسی مقدس مقام میں) لمبا سفر طے کر کے آتا ہے، پریشان مو اور غبارآلود مگر حال یہ ہوتا ہے کہ اس کاکھانا حرام، لباس حرام اور اس کا جسم حرام غذا سے پلا ہوا۔ پس اس شخص کی دعا کس طرح قبول ہو۔حضوؐر نے اپنے ارشاد میں جن دو آیتوں کا حوالہ دیا ہے ان میں سے پہلی سورۃ المومنون کی آیت۵۱ ہے اور دوسری سورئہ بقرہ کی آیت ۱۷۲ ہے۔ قبولیت ِ دعا کی اس شرط سے بھی مسلمان جو غفلت برت رہے ہیں اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۱- حضور قلب کا مطلب یہ ہے کہ دعا کے وقت داعی کا دل اللہ کی طرف متوجہ اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو دعا کے الفاظ نکل رہے ہوں اوردل کہیں اور کی ہوا کھا رہا ہو۔ دعا کے وقت اگر دل غافل ہو تو وہ قبول نہیں ہوتی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اور جان لو کہ اللہ دعا قبول نہیں کرتا کسی غافل دل کی۔ (کنزالعمال، ج ۲)
اسی معنی کی حدیث طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ اگر دل ہی حاضر نہ ہو تو پھر تضرع اور خوف و رجا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جب آدمی دعا کر رہا ہو تو اسے شعور ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔
۲- تضرع کی شرط صراحتاً قرآن میں مذکور ہے۔ سورئہ اعراف کی آیت ۵۵-۵۶ کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آیت ۵۵ کا پہلا ٹکڑا یہ ہے: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا (اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے)۔ یہاں تضرع کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ کے سامنے اپنی ذلت، عاجزی، پستی اور ضعف کے زندہ شعور اور تازہ احساس کے ساتھ دعا کرے۔ اس کا مطلب زور زور سے چیخ چیخ کر دعا کرنا نہیں ہے کیونکہ اس کی صراحتاً ممانعت آئی ہے اور یہ آدابِ دعا کے خلاف ہے۔ مفسرین نے اس لفظ کی تفسیر تذلل تخثع اور استکانت کے الفاظ سے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے سامنے اپنے بندے کی عاجزی کو بے حد پسند فرماتا ہے۔ وہ جب اپنے آقا و مولیٰ کے سامنے گڑگڑا کر دست سوال دراز کرتا ہے تو اس کے مالک کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ قرآن میں کفار و مشرکین کی جن کیفیات و حالات کی مذمت کی گئی ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے خدا کے سامنے عاجزی کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس کے سامنے گڑگڑائے۔
وَلَقَدْ اَخَذْنٰھُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَo (المومنون ۲۳:۷۶) اور ہم نے ان کو آفت میں پکڑا پھر نہ انھوں نے اپنے رب کے سامنے عاجزی کی اور نہ گڑگڑائے۔
قرآن ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اخلاص وہ چیز ہے جو دنیا میں کفار و مشرکین کو بھی بعض مصیبتوں سے بچا لیتی ہے۔ مشرکین پر ان کے شرک کی حماقت واضح کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے:
اے محمدؐ! ان سے پوچھو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمھیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکرگزار ہوں گے۔ کہو، اللہ تمھیں اس سے اور ہرتکلیف سے نجات دیتا ہے۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتے ہو۔ (الانعام ۶:۶۳، ۶۴)
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔ (آیت۱۶)
ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اضطرار و بے قراری کی کیفیت اسے بارگاہِ الٰہی میں قابلِ قبول بنادیتی ہے۔ دعا اور ذکر دونوں ہی میں تضرع اور خوف و رجا کا مقام وہی ہے جو نماز میں خشوع اور خضوع کا ہے۔ ذکرِ الٰہی کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً (الاعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ! اپنے رب کو یاد کیا کرو دل ہی دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور خوفِ خدا کے ساتھ۔
۳- خوف اور اُمید کے ساتھ دعا کرنے کی تعلیم بھی الاعراف، آیت ۵۶ میں صراحتاً موجود ہے۔ وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاط (اور اس کو پکارو خوف کے ساتھ اور اُمید کے ساتھ)۔ اللہ کے عذاب کا خوف اور اس کے ثواب کی اُمید وہ چیز ہے جو مومن کو راہِ اعتدال پر قائم رکھتی ہے۔ وہ نہ اسے بے پروا اور نڈر ہونے دیتی ہے اور نہ اسے مایوس اور دل شکستہ بناتی ہے۔ خاص دعا کے لحاظ سے اس بات کا اندیشہ کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے دعا رد نہ کردی جائے۔ اسے دعا کے شرائط و آداب کی طرف متوجہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بیکراں کا خیال اسے قبولیت ِ دعا کا اُمیدوار بناتا ہے۔ قرآن میں انبیاے کرام علیہم السلام اور صالح بندوں کی دعا و عبادت کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس میں خوف و رجاء کا خاص طور پر ذکر ہے۔ ایک مقام پر انبیاؑ کے مختلف حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبًَا ط وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo(الانبیاء ۲۱:۹۰) یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑدھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔
ایک جگہ صالحین کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o (السجدہ ۳۲: ۱۶) ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
ہمیں اپنی عبادتوں اور دعائوں کو ان آیات کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہیے اور انھیں کھرا بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔ یہی حقیقی تدبیر ہے ان کے نتائج و ثمرات حاصل کرنے کی۔
دعا میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کی شرط لگانا صحیح نہیں ہے، بلکہ جو کچھ مانگنا ہو پوری قطعیت اور عزم کے ساتھ مانگنا چاہیے۔ بخاری میں ہے: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یوں نہ کہے کہ اے اللہ! مجھے بخش دے اگر تو چاہے، اے اللہ مجھ پر رحم کر! اگر تو چاہے بلکہ بغیر شرطِ قطعیت کے ساتھ دعا کرے۔ اس لیے کہ اللہ پر جبر کرنے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اگر اللہ نہ چاہے تو زبردستی اس سے کوئی چیز حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے اس کے چاہنے کی شرط لگانا بے کار ہے اور ادب دعا کے خلاف بھی ہے۔
دعا میں تصنع اور تکلف کر کے مسجّع و مقفّٰی الفاظ استعمال کرنا غلط ہے کیونکہ اس طرح دعا کی روح اس سے غائب ہوجاتی ہے۔ نہ حضور قلب باقی رہتا ہے اورنہ تضرع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے بلکہ ذہن قافیے اور سجّع کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ایک بار اپنے شاگرد حضرت عکرمہ کو چند ہدایتیں دیں، ان میں سے ایک یہ تھی: ’’دعا میں سجع سے اجتناب کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو ایسا کرتے نہیں پایا‘‘ (بخاری)۔ البتہ اگر بلاتکلف مسجّع و مرصّع الفاظ زبان سے نکلیں تو دعا ایک پارۂ ادب بھی بن جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر دعائیہ کلمات، بہترین پارہ ہاے ادب بھی ہیں۔
دعا میں اعتدائ، یعنی حد سے تجاوز کرنا بھی ایک غلط کام ہے۔ سورئہ اعراف کی آیت ۵۵ میں فرمایا گیا ہے: ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی متعدد صورتیں ہوتی ہیں:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً (الاعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ! اپنے رب کو یاد کیا کرو دل ہی دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور خوفِ خدا کے ساتھ۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی مدح کرتے ہوئے ان کی ایک خاص دعا کا بیان قرآن میں اس طرح ہے: اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّا o(مریم ۱۹:۳) ’’جب کہ انھوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا‘‘۔ امام رازی نے لکھا ہے کہ اس آیت سے بھی یہی مستنبط ہوتا ہے کہ آہستگی کے ساتھ دعا کرنا مستحب ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ایک سفر جہاد میں صحابہ کرام بآواز بلند تکبیر کہنے لگا تو حضوؐر نے انھیں اس سے روکا اور فرمایا کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ ایک ایسی ذات کو پکار رہے ہو جو سمیع و قریب ہے اور وہ تمھارے ساتھ ساتھ ہے۔
امام رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: حضرت حسن بصریؒ کہتے تھے کہ کوئی شخص پورا قرآن حفظ کرلیتا تھا لیکن اس کے پڑوسی کو اس کی خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ اسی طرح کوئی شخص تہجد کی طویل نمازیں پڑھتا تھا اور اس کے پاس لیٹے ہوئے شخص کو اس کا شعور بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو اعمالِ خیر کے اخفاء میں مبالغہ کرتے تھے۔ ہم نے ان مسلمانوں کو دیکھا ہے جو دعا میں پوری محنت صرف کرتے تھے لیکن ان کی آواز بلند نہیں ہوتی تھی، اس لیے کہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’اپنے رب کو یاد کرو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے‘‘۔
اس کے علاوہ انسان کا نفس دکھاوے اور شہرت طلبی کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اس لیے بآواز بلند دعا کرنے میں اندیشہ ہے کہ اس میں ریا کی آمیزش ہوجائے۔ اس سے بچنے کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ چیخ چیخ کر دعا نہ کی جائے۔ آج کل جلسوں میں اور مسجدوں میں زور زور سے دعا مانگنے کا جو رواج ہوگیا ہے، وہ دعا کے اس ادب سے لاعلمی کی دلیل ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو سنن و نوافل سے فارغ ہوکر بآواز بلند دعا مانگنے لگتے ہیں۔ انھیں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ دوسرے لوگوں کو جو ابھی نماز میں مشغول ہیں پریشانی ہوگی۔ البتہ اگر کوئی ضرورت داعی ہو تو درمیانی آواز کے ساتھ دعا مانگی جاسکتی ہے۔
’جامع دعا‘ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آپؐ دنیا اور آخرت دونوں ہی کی بھلائیاں طلب فرماتے تھے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ کی دعائوں کے الفاظ کم لیکن معانی بہت ہوتے تھے، یعنی آپ اپنی دعائوں کو غیرضروری الفاظ بڑھا کر طویل نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے دعا کے اس ادب کو اچھی طرح ذہن نشین کیا تھا اور وہ غیرضروری الفاظ کے اضافے کو دعا میں اعتداء قرار دیتے ہیں۔ ابوداؤد میں ہے کہ حضرت سعد بن وقاصؓ نے اپنے ایک بیٹے کو دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور اس کی نعمتیں، اور اس کا ریشم اور یہ، اور یہ، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دوزخ سے اور اس کی زنجیروں سے اور اس کے طوق سے‘‘۔
جب وہ دعا ختم کرچکے تو حضرت سعدؓ نے ان سے کہا: تم نے خیرکثیر کی دعا کی اور بہت سے شر سے پناہ مانگی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو دعا میں حد سے تجاوز کریںگے اور بعض حدیثوں میں ہے کہ لوگ وضو میں اور دعا میں حد سے تجاوز کریںگے۔ جنت کی طلب میں اس کی تمام نعمتوں اور آسایشوں کی طلب خودبخود داخل ہے۔ اسی طرح دوزخ سے استعاذہ میں اس کی تمام سزائوں اور زحمتوں سے استعاذہ خود بخود داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سعد نے جنت کی دعا کے ساتھ اس کی نعمتوں کی تفصیل اور جہنم سے استعاذے کے ساتھ اس کی سزائوں کے ذکر کو ناپسند کیا اور ان غیرضروری الفاظ کے اضافے کو ادبِ دعا کے خلاف قرار دیا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل نے اپنے بیٹے کو کہتے ہوئے سنا: ’’اے اللہ! میں تجھ سے قصر ابیض (سفیدمحل) مانگتا ہوں جنت کے داہنے جانب‘‘۔ یہ سن کر انھوں نے کہا: جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب اس اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو وضو اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے۔ اس دعا میں انھوں نے غیرضروری قید اور شرط کو ادب دعا کے خلاف قرار دیا۔ وضو میں حد سے تجاوز کی ایک صورت یہ ہے کہ بلاضرورت ہرعضو کو تین بار سے زیادہ دھویا جائے۔ اگر کسی شخص کو اپنی کوئی خاص اور وقتی حاجت و ضرورت کی دعا مانگنی نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ دعاے ماثورہ، یعنی قرآن اور احادیث میں مذکور دعائیں مانگے۔ ان میں خاص برکت بھی ہے اور وہ ان تمام بے اعتدالیوں سے محفوظ بھی ہیں جو دعا میں انسان سے ہوسکتی یا ہوجایا کرتی ہیں۔
دعا کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینے تک اُٹھا کر دعا مانگے اور دعا ختم کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرلے۔ اگر دعا کرنے والا باوضو اور قبلہ رو ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ فرض نمازوں کے بعد یا سنن و نوافل کے بعد جو دعائیں مانگی جاتی ہیں ان میں ان آداب پر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے اور مسلمان ایسا کرتے بھی ہیں۔ دعا سے پہلے اللہ کی حمدوثنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اور دعا کے بعد آمین کہنا بھی آدابِ دعا میں داخل ہے۔ دعا کے یہ آداب، احادیث ِ رسولؐ سے ثابت ہیں۔ میں طوالت کے خوف سے وہ حدیثیں یہاں نقل نہیں کر رہا ہوں۔
دعائوں کے لیے شریعت نے پنج وقتہ نمازوں کی طرح کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا ہے۔ دعا ہروقت کی جاسکتی ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعائوں کے لیے بہتر اوقات و حالات کا انتخاب کرنے سے ان کی مقبولیت کی زیادہ توقع پیدا ہوجاتی ہے۔ امام غزالی اور دوسرے علما و صوفیا نے ان اوقات و حالات کو یک جا کرکے بیان کیا ہے۔
ایک وقت تو پورے سال میں ایک بار آتا ہے جیسے یومِ عرفہ، اور سال کے ۱۲ مہینوں میں ایک مہینہ رمضان المبارک اور بالخصوص شب ِقدر۔ بعض اوقات ہر ہفتہ آتے ہیں جیسے جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن۔ بالخصوص نمازِ جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان اور سورج ڈوبنے سے تھوڑی دیر پہلے۔ بعض اوقات روزانہ آتے ہیں جیسے آخر شب میں سحر کا وقت، فرض نمازوں کے بعد، اذان و اقامت کے وقت اور اذان و اقامت کے درمیان بارش کے وقت۔ سجدے کی حالت میں تکثیر دعا کی ترغیب دی گئی ہے۔ روزہ دار کے لیے افطار کا وقت، مسافر کے لیے ابتداے سفر کا وقت اور حالت سفر میں، حالت اضطرار میں۔ اس حالت میں جب اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قیامت کی ہولناکی کے تصور سے جسم پر لرزہ طاری ہو۔ دعائوں کے لیے ان اوقات و احوال کے بہتر ہونے کے ثبوت میں قرآن کی آیات اور صحیح احادیث موجود ہیں۔
دعا کے بعد اس کی مقبولیت کی ایک اور شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اس کے لیے جلدی نہ مچائے۔ امام بخاری و مسلم دونوں ہی نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص بھی دعا کرے اس کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلدبازی کرکے یہ نہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی لیکن وہ قبول نہیں کی گئی‘‘۔
امام مسلم کی روایت میں یہ ہے: ’’بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ مچائے۔ پوچھا گیا کہ استعجال (جلدبازی) کا مطلب کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعاگو کہنے کے لیے میں دعا کی پھر دعا کی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ قبول ہوگی اور پھر وہ دعا کرنا ترک کر دے‘‘۔
مقبولیت ِ دعا میں جلدبازی چند نادانیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک نادانی یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کی حقیقت ہی سے ناواقف ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ غلام، تسلیم و رضا کا پیکر بنا ہوا اپنے مہربان آقا کے دامن سے چمٹا رہے اور اس کے سامنے احتیاج کا ہاتھ پھیلائے رہے۔ دعا عبادت بلکہ مغز عبادت ہے اور عبادت کے اجر کا محل اصلاً یہ دنیا نہیں ہے بلکہ آخرت ہے۔ جلدباز دعاگو کی دوسری نادانی یہ ہے کہ وہ اپنی دعا کو ہرطرح قابلِ قبول سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ مقبولیت ِ دعا کی جو شرطیں ہیں وہ پوری نہ ہوئی ہوں۔ وہ جانتا ہے کہ آقا اس کا بخیل نہیں ہے اور نہ اس کے خزانے میں کوئی کمی ہے۔ وہ رحمن و رحیم بھی ہے، عادل بھی، حکیم بھی ہے اور جواد و فیاض بھی۔ اب اگر اس کی مانگی ہوئی چیز نہیں مل رہی ہے تو اس کی کوئی خاص وجہ ہوگی۔
تیسری نادانی یہ ہے کہ وہ مقبولیت ِ دعا کا صحیح مطلب نہیں جانتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بندہ جو کچھ مانگے وہ ہر حال میں اسے دے ہی دیا جائے خواہ اس کی مصلحت کے مطابق ہو یا نہ ہو، بلکہ دعا کی مقبولیت اللہ کی حکمت اور بندے کی مصلحت کے ساتھ مربوط ہے۔
انسان کی فطرت میں چونکہ جلدبازی داخل ہے اس لیے اس کے بُرے اثرات سے بچانے اور مطمئن کرنے کے لیے دعا کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتا دیا ہے کہ مومن کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی بلکہ ہمیشہ قبول کی جاتی ہے۔ البتہ قبول کرنے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہہ تمھارا رب صفت حیا سے متصف اور کریم ہے۔ جب اس کا بندہ اس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ ان ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘(ترمذی، ابوداؤد، بیہقی)۔ اس سے معلوم ہوا کہ بندۂ مومن کے دعا میں اُٹھے ہوئے ہاتھ کبھی محروم اور خالی واپس نہیں آتے بلکہ اپنے مولاے کریم سے کچھ نہ کچھ لے کر لوٹتے ہیں، لیکن یہ بات ذہن میں اوجھل نہ ہونے دینا چاہیے کہ قبولیت ِ دعا کے آداب و شرائط کا لحاظ ضروری ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: جب کوئی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا رشتے کو کاٹنے والی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز عطا فرماتا ہے: ۱-جو کچھ اس نے مانگا ہے دنیا ہی میں اسے دے دے ۲- اس کا اجر آخرت کے لیے ذخیرہ کردے ۳-جو خیر اس نے مانگی تھی اسی کے مثل کوئی شر اس سے دُور کردے۔ صحابہؓ نے کہا: تب تو ہم بہ کثرت دعائیں مانگیں گے۔ حضوؐر نے فرمایا: اللہ کا خزانہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ مسنداحمد ، بزار و ابویعلٰی)
اسی مضمون کی حدیثیں حضرت عبادہ بن الصامتؓ، حضرت ابوہریرہؓ، اور حضرت جابرؓ سے بھی مروی ہیں۔ ان حدیثوں میں بھی قبولیت دعا کی ایک شرط مذکور ہے، یعنی یہ کہ اس کی دعا میں کسی گناہ کی طلب یا قطع رحمی کی کوئی بات نہ ہو۔ دعا میں قطع رحمی کی ایک صورت یہ ہے کہ رشتہ داروں کے حق میں دعاے خیر کے بجاے بددعا کی گئی ہو۔
یہ حدیثیں مجھ جیسے عجلت پسند انسان کو اطمینان دلاتی ہیں کہ شرائط و آداب کے ساتھ کوئی بھی مخلصانہ دعا رد نہیں کی جاتی۔ ہم دنیا میں کوئی بھلائی مانگتے ہیں اور وہ نہیں ملتی یا کسی مصیبت اور تکلیف کو دُور کرنے کی دعا کرتے ہیں اور وہ دُور نہیں ہوتی توہم دل شکستہ اور مایوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ حدیثیں اس دل شکستگی اور مایوسی کو ختم کردیتی ہیں اور ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ مانگنے کے باوجود دنیا میں ہمیں جو کچھ نہیں ملا اس کا بدلہ آخرت میں ضرور ملے گا اور وہاں جو کچھ ملے گا وہ بہتر بھی ہوگا اور پایندہ تر بھی۔
فلسفۂ یونان کے اثر سے جب اسلامی عقائد اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں بحثیں شروع ہوئیں تو اسلامی لٹریچر میں ایک نئے علم، علمِ کلام کا اضافہ ہوا، اور تصوف بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ فلسفہ اور علمِ کلام نے جو سب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی نگاہ سے قرآن اور احادیث کے دلائل اوجھل ہوگئے اور انھوں نے بھی فلسفیوں کی طرح عقلی و دماغی تیر تکّے چلانے شروع کر دیے۔ کتاب و سنت کے معقول دلائل انسان کے دل میں اطمینان اور یقین کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف فلسفے کے عقلی دلائل قلب کو شک اور تردد میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بہرحال فلسفیانہ بحث و مباحثے کی زد ’دعا‘ پر بھی پڑی اور اس کے بارے میں بھی لوگوں نے عقلی تیر تکے چلانے شروع کر دیے۔ تصوف میں بھی اس مسئلے میں متعدد اقوال پیدا ہوگئے۔
رسالہ قشیریہ میں جو تصوف کی قدیم اور مستند کتاب ہے، وہ اقوال نقل کیے گئے ہیں: ۱-دعا کرنا افضل ہے ۲- خاموش اور راضی برضاے الٰہی رہنا افضل ہے ۳- بہتر یہ ہے کہ بندے کی زبان دعاگو رہے اور قلب راضی برضا رہے ۴-مختلف اوقات و حالات کا حکم مختلف ہے۔ بعض حالات میں دعا کرنا خاموش رہنے سے افضل ہے اور اس وقت کا یہی ادب ہے اور بعض حالات میں خاموش رہنا دعا کرنے سے افضل ہے اور اس وقت کا یہی ادب ہے۔ اس کا معیار یہ ہے کہ اپنے قلب کو دیکھے اگر وہ دعا کا اشارہ کرے تو دعا افضل ہوگی اور اگر سکوت کا اشارہ کرے تو سکوت افضل ہوگا ۵- اپنے حال کا لحاظ کرے۔ اگر دعا کے وقت کیفیت بسط میں زیادتی محسوس کرے تو دعا افضل ہوگی اور اگر اس وقت کسی قسم کی اُکتاہٹ اور ’قبض‘ کی کیفیت محسوس ہو تو سکوت افضل ہوگا اور اگر نہ ’بسط‘ میں زیادتی ہو اور نہ ’قبض‘ میں تو دعا اور ترکِ دعا کا معاملہ برابر رہے گا۔ ۶- اگر ارادۂ دعا کے وقت ’علم‘ غالب ہو تو دعا افضل ہے، اس لیے کہ وہ عبادت ہے اور اگر اس وقت ’معرفت‘ ، ’حال‘ اور ’سکوت‘ غالب ہو تو خاموش رہنا افضل ہوگا ۷-جس دعا میں مسلمانوں کا حصہ ہو یا حق تعالیٰ کا اس میں حق ہو تو دعا بہتر ہے اور اگر اس میں خود تمھارے اپنے لیے حظ و نصیب ہو تو سکوت اولیٰ ہے۔
ان اقوال میں فلسفیانہ تصوف کی چند اصطلاحیں بھی استعمال ہوئی ہیں۔ وقت، حال، اشارہ، بسط، قبض، علم، معرفت، سکوت___ دعا کے بارے میں قرآن و حدیث کی جو تصریحات اُوپر گزریں انھیں پڑھیے اور پھر رسالہ قشیریہ میں منقول ان اقوال پر نظر ڈالیے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام اقوال تصوف میں فلسفے کو داخل کر دینے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم نہ فلسفۂ یونان کی افادیت کے قائل ہیں اور نہ ہمیں اجنبی عناصر سے مخلوط تصوف سے دل چسپی ہے، اس لیے ان اقوال و اصطلاحات کی توضیح بے کار ہے۔ البتہ ایک غلطی کا ازالہ ضروری ہے جس کا تعلق حدیث نبویؐ سے ہے۔ دعا کے سلسلے میں دوسرا قول یہ نقل کیا گیا ہے کہ خاموش اور راضی بقضا یا راضی برضاے الٰہی رہنا افضل ہے۔ اس قول کی دلیل کے طور پر رسالہ قشیریہ میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس شخص کو میرے ذکر نے مشغول کر دیا مجھ سے سوال کرنے سے، میں اس کو دوں گا، اس سے بہتر جو سوال کرنے والوں کو دیتا ہوں‘‘۔
راقم الحروف نے مشکوٰۃ، جمع الفوائد، ترغیب و ترہیب اور کنزالعمال میں یہ حدیث تلاش کی لیکن ناکام رہا، البتہ قرآن کریم کی فضیلت کے بیان میں امام ترمذی اور دارمی نے یہ حدیث روایت کی ہے: ’’ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: جس کو قرآن نے مشغول کر دیا میرے ذکر اور دعا سے میں اس کو عطا کروں گا اس سے بہتر جو سوال کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں، پس دوسرے کلاموں پر کلام اللہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر‘‘۔ (ترمذی)
امام دارمی نے یہ حدیث باب فضل کلام اللہ علیٰ سائر کلام اللہ میں روایت ہے: ’’جس کو قرآن کی تلاوت نے مشغول کر دیا مجھ سے سوال کرنے اور میرا ذکر سے میںاس کو دوں گا سوال کرنے والوں سے بہتر اجر اور اللہ کے کلام کی فضیلت بقیہ دوسرے کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر‘‘۔ (دارمی)
یہ ایک ضعیف حدیث ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے کلام قرآنِ مجید کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اگر قرآن کی تلاوت میں اس درجہ مشغولیت رہی کہ قاریِ قرآن، اللہ کا کوئی اور ذکر اور اس سے دعا نہ کرسکا تو وہ اسے مانگنے والوں کے مقابلے میں افضل اور بہتر چیز عطا کرے گا اور اس کی یہ وجہ بھی اس میں بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کا کلام چونکہ دوسرے تمام کلاموں سے افضل ہے۔ اس لیے اس کا اجر اور اس کی برکت بھی سب سے زیادہ ہوگی۔ اس ضعیف حدیث میں شاغل (مشغول کرنے والا) قرآن ہے اور مشغول عنہ (مشغولیت کی وجہ سے جس کی طرف توجہ نہیں کی جاسکی) ذکر بھی ہے اور دعا بھی۔ اسی حدیث میں کسی نے تحریف کر کے ان صوفیوں کو سنا دی جو ترکِ دعا کو افضل قرار دیتے تھے اور انھوں نے بلاتحقیق اسے قبول کرلیا اور پھر صاحب ِ رسالہ قشیریہ نے بھی اسے اپنی کتاب میں نقل کر دیا۔ تحریف کرنے والے نے تلاوتِ قرآن کو حذف کر کے ذکر کو شاغل اور دعا کو مشغول عنہ بنادیا حالانکہ اس حدیث میں ذکر اور دعا دونوں ہی مشغول عنہ اور قرآن شاغل تھا۔
اصل میں رضا بقضا، یعنی اللہ کے فیصلے اور اس کی مرضی پر راضی رہنے کا مطلب ان لوگوں نے صحیح نہیں سمجھا جو ترکِ دعا کو افضل کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اللہ سے اپنے لیے کچھ مانگنا مقامِ تسلیم و رضا کے خلاف ہے حالانکہ یہ خیال قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف اور بالکل غلط ہے۔ حد ہوگئی کہ ابوسلیمان دارانی نے جو اپنے وقت کے ایک بڑے صوفی تھے، ’رضا‘ کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیا: ’’ابوسلیمان نے کہا کہ ’رضا‘ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے نہ جنت کی دعا کرو اور نہ دوزخ سے پناہ مانگو‘‘ (الرسالۃ القشیریہ)۔ یہ قول جس کا بھی ہو، اللہ و رسولؐ کے اقوال کی عین ضد ہے اور صوفیاے کرام ہی کی تصریحات کے مطابق اسے قبول نہیں کرنا چاہیے۔
سٹیج سیکرٹری نے جب ترک رفاہی تنظیم IHH کے صدر بلند یلدرم کو خطاب کی دعوت دی تو ہال میں موجود سیکڑوں افراد پُرجوش استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے اور دیر تک انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے رہے۔ یہ عالمی اتحاد العلما کی مجلس عمومی کی دوسری کانفرنس کا افتتاحی سیشن تھا۔ اتحادِ اُمت انتہائی خوب صورت لفظ اور کروڑوں مسلمانوں کا خواب ہے۔ لیکن آرزو اور دعوے کے باوجود اس جانب عملی اقدام بہت کم اُٹھائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اتحادِ اُمت کے نام پر بھی افتراق اُمت ہی کے کارنامے انجام دیے جاتے ہیں۔
عیسائی پیشوا، پوپ کو اب عربی زبان میں ’بابا‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح والد کو بھی ’بابا‘ کہا جاتا ہے، جب کہ ماں کو ’ماما‘ علامہ یوسف قرضاوی صاحب اکثر اپنی تقاریر اور گفتگوؤں میں ازراہ تفنن فرمایا کرتے ہیں کہ عیسائی تو پھر کسی ایک شخص کو ’بابا‘ کہتے اور مانتے ہیں، لیکن مسلمانوں کا نہ ’بابا‘ ہے نہ ’ماما‘۔ قرضاوی صاحب ہمیشہ اس کی تگ و دو کرتے رہے کہ فرقہ بندیوں سے بالاتر ہوکر تمام مسلمانوں کو کسی ایک چھتری تلے متحد کیا جائے۔ بالآخر ۱۹۹۸ء میں بہت کوششوں کے بعد اس جانب ایک مضبوط قدم اٹھایا گیا۔ علامہ یوسف القرضاوی نے تمام مسلمانوں کو ایک کانفرنس میں مدعو کیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بھی مسلمان ملک اس طرح کی کانفرنس کی میزبانی پر آمادہ نہ تھا۔ بالآخر برطانوی دار الحکومت لندن میں کانفرنس کا پروگرام بنا۔ وہاں بھی صہیونی لابی نے بڑی مخالفت کی، لیکن اس وقت لندن کے ایک انصاف پسند میئر کین لیونگسٹن کے مضبوط موقف کے باعث یہ کانفرنس منعقد ہوگئی، اور ’’الاتحاد العالمی لعلما المسلمین‘‘ (مسلمان علما کا عالمی اتحاد) کی بنیاد رکھ دی گئی پاکستان سے اس کانفرنس میں محترم قاضی حسین احمد، پروفیسر خورشید احمد، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، مولانا عبد المالک، ڈاکٹر محمود احمد غازی اور راقم شریک تھے۔ جماعت اسلامی لبنان کے سربراہ شیخ فیصل المولوی، تحریک نہضت تیونس کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی اور عالم اسلام کے تقریباً ۳۰۰ قائدین، علماے کرام اور اسکالرز پر مشتمل تأسیسی اجلاس سے اس کار جلیل کا آغاز کیا گیا۔ علامہ قرضاوی کو اس اتحاد کا صدر اور مصر کے ایک معروف اسکالر اور اعلیٰ پاے کے وکیل ڈاکٹر محمد سلیم العوّاء کو اس کا سیکریٹری جنرل چنا گیا۔ اتحاد کا ایک مظہر یہ بھی سامنے آیا کہ صدر اتحاد کے ساتھ درج ذیل اصحاب نائب صدر کے طور پر چنے گئے۔ سعودی عرب میں مقیم معروف اور نمایاں سلفی عالم دین شیخ عبد اللہ بن بَیّہ (اصلا موریتانی ہیں) سلطنت آف عمان کے مفتی اعظم شیخ احمد خلیلی اور معروف ایرانی عالم دین آیت اللہ علی تسخیری۔
۲۰۰۶ء میں استنبول ترکی میں اتحاد کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا۔ عملاً اتحاد کی فعالیت اور تنظیم سازی کا آغاز اسی اجلاس سے ہوسکا۔ ایک منتخب مجلس اُمَنَا Board of Trustees یا مجلس شوریٰ وجود میں آئی، ہر چھے ماہ بعد اس کا اجلاس طے ہوا۔ مختلف کمیٹیاں تشکیل پائیں اور اس عالمی اتحاد نے امت کے مختلف مسائل میں رہنمائی کا فریضہ انجام دینا شروع کردیا۔
اس عالمی اتحاد نے تقریباً ہر اہم موقعے پر اپنے ایک واضح موقف کا اعلان کیا۔ پاکستان میں امریکی جارحیت اور خوں ریزی کی لہر کے خلاف بھی اتحاد نے متعدد بار اپنے واضح موقف کا اعلان کیا۔ افغانستان و عراق اور خطے پر امریکی قبضے کے خلاف بھی اتحاد نے بلا کسی رو رعایت مضبوط موقف کا اعادہ کیا۔ لیکن اس کا سب سے مضبوط، دوٹوک اور واضح موقف فلسطین کے بارے میں سامنے آیا۔ دسمبر ۲۰۰۷ء میں غزہ پر جنگ مسلط کی گئی تو اتحاد کے اعلیٰ سطحی وفد نے سعودی عرب، ترکی، اُردن اور ایران سمیت علاقائی ممالک کے سربراہوں سے جاکر ملاقاتیں کیں اور انھیں صہیونی جارحیت کے خلاف کردار ادا کرنے پر ابھارا۔ اس وفد میں پاکستان سے محترم قاضی حسین احمد کو بھی شریک ہونا تھا لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر نہ جاسکے۔
۲۹ جون سے یکم جولائی ۲۰۱۰ء کو استنبول ہی میں عالمی اتحاد العلما کی جنرل کونسل کا دوسرا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس دستور کے مطابق ہر چار سال بعد ہونا طے پایا ہے۔ پاکستان سے مفتی رفیع عثمانی صاحب اور مفتی منیب الرحمن سمیت دس افراد کو مدعو کیا گیا تھا لیکن مولانا عبد المالک، ڈاکٹر انیس احمد اور راقم کے علاوہ کوئی شریک نہ ہوسکا۔
کانفرنس میں دنیا بھر سے ۴۰۰ کے لگ بھگ علماے کرام اور اسکالرز شریک تھے۔ کانفرنس کے عمومی اور اختتامی سیشن میں قرضاوی صاحب اور متعدد ترک ذمہ داران کی تقاریر کے علاوہ تین مرکزی سرگرمیاں تھیں۔ دستوری ترامیم کا ایک پیکج منظور کرنا، جس میں زیادہ ترامیم اتحاد کے انتخابات اور انتظامی ذمہ داران کے اختیارات کے متعلق تھیں۔ دوسری اتحاد کے مزید مؤثر و فعال بنانے کے لیے منصوبہء عمل پر گفتگو اور تیسری اتحاد کے بورڈ آف ٹرسٹیز (مجلس امنائ) کا انتخاب۔ سب سے زیادہ وقت اور بحث و تمحیص، اسی آخری سرگرمی کے دوران دکھائی دی۔
افتتاحی سیشن میں پہلے وزیر اعظم طیب اردوگان کا مختصر پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ پھر تقریباً تمام تقاریر کا مرکز و محور، اتحاد امت اور غزہ کی صورتحال رہا۔ علامہ یوسف قرضاوی نے اعلان کیا کہ عالمی اتحاد العلما ستمبر میں جانے والے نئے قافلے میں اپنے ایک سفینے کے ساتھ شریک ہوگا۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک سفینے کی تصویر بھی دکھائی گئی اور بتایا گیا کہ یہ جہاز چھے لاکھ یورو مالیت کا خرید لیا گیا ہے اور یہ بھی مسلسل غزہ جایا کرے گا۔ اسی طرح ایک بری قافلہ لے جانے کا اعلان بھی کیا گیا کہ یہ براستہ مصر جائے گا۔
افتتاح کے بعد پہلے باقاعدہ سیشن میں راقم کو بھی گفتگو کا موقع دیا گیا، جس میں افغانستان پر علانیہ استعماری قبضے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر غیر علانیہ لیکن عملاً امریکی قبضے، بلیک واٹرز کی کاروائیوں، مختلف تعصبات کو ہوادیے جانے کے چیلنجوں پر مختصر روشنی ڈالنے کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ غزہ اور مسجد اقصی کے لیے جدوجہد ہمارا جزو ایمان ہے، لیکن کشمیر کو بھی غزہ بنادیا گیا ہے۔ اس سنگین مسئلے، وہاں جاری مظالم اور کشمیر سے پاکستان آنے والے دریاؤں پر بنائے جانے والے بھارتی ڈیموں سے صرف نظر نہ کریں۔ آپ میں سے کسی کو ہمارے موقف سے اختلاف ہے تو وہ جو چاہے اپنا موقف رکھ سکتا ہے، لیکن ایک اہم مسئلے کی حیثیت سے اسے مسلم امت کے ایجنڈے سے حذف نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت سے اس کانفرنس میں پانچ افراد شریک تھے۔ تین رکنی وفد جماعت کا تھا جس میں نائب امیر جماعت صدیق حسن صاحب (ملیالم) گوہر اقبال اور عبدالسلام صاحب شامل تھے۔ ایک نمایاں سلفی عالم دین شریک تھے اور وحید الدین خان صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب بھی۔ سیشن کے بعد ڈاکٹر ظفر الاسلام نے میری کشمیر کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کو غزہ کیوں کہا؟ چلو میں تمھیں وہاں لے جاتا ہوں۔ میں نے بنیادی گزارشات کے بعد، بحث سے اجتناب کرتے ہوئے کہا کہ خصوصاً آپ جو چاہیں موقف رکھ سکتے ہیں، لیکن کشمیر کے مسئلے کو امت کے اہم مسائل کی فہرست سے حذف نہیں کرسکتے۔
بعد ازاں ۱۱ نکات پر مشتمل ایک منصوبۂ عمل پیش کرتے ہوئے شرکا کو تین گروپوں میں تقسیم کردیا گیا تاکہ اس پر مزید گفت و شنید کرسکیں، افسوس کہ مجموعی طور پر زیادہ افراد نے اس میں زیادہ دل چسپی نہ لی۔ جو لوگ شریک ہوئے وہ ڈیڑھ گھنٹے کی نشست میں زیادہ تر لفظی و اصطلاحی تبدیلیوں پر زور دیتے رہے۔ مولانا عبد المالک صاحب، اسلامک کلچرل سنٹر ناروے کے خطیب مولانا محبوب الرحمن صاحب اور راقم نے ایک گروپ میں شرکت کی، ڈاکٹر انیس احمد صاحب دوسرے میں شریک ہوئے۔ مولانا عبد المالک صاحب نے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے زور دیا کہ عالمی اتحاد العلما کے پیش نظر سب سے بنیادی ہدف تو اپنے اپنے ممالک میں اقامت دین کا رہنا چاہیے۔
کانفرنس کا تیسرا روز انتخابات کے لیے وقف تھا۔ دستور کے مطابق مجلس امناء کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۵۰ ہوسکتی ہے۔ جنرل کونسل اس میں سے ۳۰ افراد کا انتخاب خفیہ راے دہی سے کرتی ہے، باقی ۲۰ ارکان کا تعین صدر اتحاد، مجلس کی منظوری سے کرسکتا ہے۔اس انتخاب میں اُمیدوار ہونے کے لیے دو طریق کار تھے۔ یا تو امیدوار خود اپنا نام پیش کرتا اور اتحاد کے ۱۰ ارکان اس کے فارم پر دستخط کرکے اس کی توثیق کرتے (اب ترمیم کرکے اس تعداد کو پانچ کردیا گیا ہے) یا پھر صدر اتحاد کسی کا نام اُمیدوار کے طور پر پیش کرتا۔ امیدوار بننے کے لیے پہلے ہی ایک تاریخ متعین کردی گئی تھی۔ ہم نے اپنا نام پیش نہیں کیا تھا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ قرضاوی صاحب نے راقم کا نام شامل کیا ہوا ہے۔ تعارفی سیشن میں مختصر تعارف کرواتے ہوئے دس دس کے گروپ کو سٹیج پر بلاکر، امیدواروں کی ’رونمائی ‘ کروائی گئی۔
بعد مغرب شرکا کی تقاریر کا سلسلہ چلتا رہا۔ رات ۱۱ بجے نتائج کا اعلان ہوا۔ ۳۵۲افراد نے ووٹ ڈالے تھے۔ سب سے زیادہ (۲۵۲ ووٹ) قطر میں مقیم عراقی الاصل عالم دین ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی صاحب نے حاصل کیے۔ قرہ داغی صاحب جماعت اسلامی کے اضاخیل اجتماع عام میں شریک ہوچکے ہیں۔ اور اجتماع کے ایک روز نماز مغرب کی امامت بھی انھوں نے کروائی تھی۔ ۳۰ منتخب ارکان میں راقم کا نمبر چھٹا تھا ۲۴۰ ووٹ ملے۔ راشد غنوشی صاحب بھی رکن منتخب ہوئے اور کینیڈا کے ڈاکٹر جمال بدوی بھی۔
بعد ازاں (رات ایک بجے) نو منتخب مجلس کا پہلا تعارفی اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں نئے سیکریٹری جنرل کا تعین ہوگیا اور کافی رد و کد کے بعد ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی صاحب کو سیکریٹری جنرل چنا گیا۔ ڈاکٹر علی قرہ داغی صاحب اب علامہ قرضاوی صاحب کے نائب کی حیثیت سے متعارف ہورہے ہیں۔ قطر یونی ورسٹی میں فقہ کے استاد ہیں۔ اسلامی بنکاری بنیادی مضمون ہے، لیکن ان دنوں زیادہ توجہ اتحاد العلما پر ہی دے رہے ہیں۔
اس عالمی اتحاد اور عالمی کانفرنس کی سب سے بڑی خوبی اور حاصل ہی یہ ہے کہ اس میں پوری اُمت کی نمایندگی ہے۔ سُنّی، شیعہ، حنفی، حنبلی، شافعی، مالکی تمام آئمہ کے پیروکار اور ہرعقیدے اور مدرسے کی شناخت سے بالاتر ہوکر اُمت کے نمایاں افراد اس میں شریک ہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی عالم سے مراد بھی صرف عالمِ دین نہیں لیتے بلکہ کسی بھی میدان کا علم رکھنے والے نمایاں افراد اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے اس کا انگریزی ترجمہ International Union of Muslim Scholarsکیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف علماے دین اور مفتیانِ عظام ہی نہیں عالمِ اسلام کے نمایاں صحافی، دانش ور اور کئی طبیب بھی اس میں شامل ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے ایک نمایاں کنسلٹنٹ بھی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
پوری اُمت اس اتحاد سے مستفید ہوسکتی ہے۔ اُمت کے اہم مسائل میں مشترکہ موقف تک پہنچ سکتی ہے۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں اتحاد و وحدت کے علاوہ بڑی تفصیل سے تمام مسائل کے بارے میں واضح موقف کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے اور کھلی امریکی جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے پوری پاکستانی قوم سے اتحاد کی اپیل کی گئی۔ بھارتی ڈیموں کی تعمیر کی مذمت کرتے ہوئے مسئلۂ کشمیر کے مبنی برحق حل کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عالمی پلیٹ فارم سے کماحقہٗ استفادہ کیا جائے۔
’’میں اور یوسف قرضاوی صاحب جامعہ ازہر کے ایک ہی اسکول کی جماعت نہم میں پڑھتے تھے۔ ایک روز ہم چھٹی کے وقت اسکول کے بڑے دروازے سے باہر نکلے تو سامنے ’اخوان اسکائوٹس‘ کے نوجوان نعرے لگا رہے تھے: ’’اللہ ہمارا مقصود ہے، رسول ہمارے رہبر و رہنما ہیں، قرآن ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں موت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے۔ پاس ہی ایک گاڑی سے اعلان کیا جا رہا تھا کہ آج رات مرشدعام حسن البنا خطاب فرمائیں گے، شرکت کی اپیل کی جاتی ہے۔ ہم دونوں تیزتیز قدموں سے گاڑی کے پیچھے ہی چلنا شروع ہوگئے۔ گاڑی اخوان المسلمون کے دفتر کے سامنے جاکر رُک گئی۔ ہم نے پروگرام کی تفصیل دریافت کی تو معلوم ہوا کہ امام البنا بھی اسی دفتر میں موجود ہیں۔ وہ اسی وقت پہنچے تھے۔ ہم دونوں نے سلام عرض کیا، انھوں نے نہ صرف شفقت کا اظہار کیا بلکہ تھوڑی دیر کے بعد کھانے میں بھی شریک ہونے کے لیے کہا۔ یہ امام البنا سے ہماری پہلی ملاقات اور الاخوان المسلمون سے ہمارا پہلا تعارف تھا!‘‘
بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے سابق سربراہ اور مصر کے اعلیٰ پائے کے عالم و مربی ڈاکٹر احمد العسَّال راقم کو اپنی زمانۂ طالب علمی اور اخوان سے وابستگی کی یادیں سنا رہے تھے۔ آج ہمارے یہ انتہائی محترم و محسن مربی ۸۲ سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے تو ان سے وابستہ ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ ڈاکٹر احمد العسَّال مرحوم سے راقم کا پہلا تعارف دورانِ تعلیم ہوا تھا۔ قطر کے معہد دینی میں تفسیر و حدیث کی اکثر نصابی کتابوں پر مؤلف کا نام احمدالعسَّال لکھا ہوا تھا۔ تب ان کے بارے میں صرف یہی معلوم تھا کہ جامعۃ ازہر کے بڑے عالم دین ہیں، جو دین کا واضح اور جامع تصور رکھتے اور بہت مؤثر و آسان انداز سے طلبہ کو سمجھانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آیا تو کچھ عرصے کے بعد، اسلام آباد میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے ہاں ڈاکٹرصاحب سے پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پھر ملاقاتوں کا ایک تسلسل رہا اور ان سے کسب ِ فیض کا سلسلہ بھی۔ ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل علامہ یوسف القرضاوی کی زیرسرپرستی قائم ہونے والے عالمی اتحاد العلما کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ہوئی۔ اخوان اور امام البنا سے اپنی یادوں کا تذکرہ مرحوم نے اسی آخری ملاقات میں کیا تھا۔
احمد العسَّال (مرحوم) ۱۶ مئی ۱۹۲۸ء کو مصر کے ضلع غربی بسیون کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ تقریباً ۱۰ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا جس پر انھیں شاہ فاروق میڈل ملا جو ۱۲سال سے کم عمر میں قرآن حفظ کرنے والوں کو دیا جاتا تھا۔ حفظ قرآن کے دوران ہی میں پرائمری کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ مختلف تعلیمی مراحل سے گزرتے ہوئے وہ جب جامعہ ازہر کی زیرنگرانی چلنے والے معہد دینی میں پہنچے تو وہاں (علامہ) یوسف القرضاوی ان کے ہم جماعت تھے۔
ڈاکٹر احمد العسَّال فرما رہے تھے: ’’معہد میں اخوان کے مکتب ارشاد (مجلسِ عاملہ) کے ایک رکن جناب بہی الخولی بھی پڑھاتے تھے۔ انھوں نے ہم دونوں (عسال،قرضاوی) سے ہرہفتے اتوار اور منگل کو ملاقات کا وقت طے کر دیا۔ پھر ہم گویا ان کی زیرتربیت اور ان کا ربط تھے۔ میں ۲۰سال کا تھا کہ ۱۹۴۸ء میں اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ ہم طلبہ نے اس پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا تو شیخ یوسف القرضاوی اور مجھ سمیت کئی ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ہماری پہلی گرفتاری تھی۔ جیل پہنچے تو اخوان کے کئی قائدین گرفتار تھے۔ شیخ محمد الغزالی اور امام البنا کے دست راست شیخ عبدالمعز عبدالستار بھی گرفتار شدگان میں شامل تھے۔ ہمیں ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل کیا جاتا رہا، تقریباً نو ماہ کے بعد رہا کیا گیا تو ہمارے سالانہ امتحانات گزر چکے تھے۔ ڈاکٹر طٰہٰ حسین اس وقت وزیرتعلیم تھے۔ مختلف کوششوں کے بعد گرفتار شدہ طلبہ کے لیے الگ سے امتحان کا انتظام کردیا گیا اور اس طرح الحمدللہ ہمارا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ گیا۔
جامعہ ازہر کی کلیہ شرعیہ میں داخل ہوئے، لیکن ۱۹۵۳ء میں دوبارہ گرفتار کرلیے گئے۔ ہمیں جنگی جیل میں رکھا گیا۔ ۱۹۵۶ء میں رہائی ہوئی اور اس کے بعد اپنی تعلیم مکمل کی۔ ڈاکٹر احمد العسَّال نے تو دورانِ گرفتاری تعذیب و تشدد کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس ضمن میں ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر جاسر العودہ کی ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔ اخوان المسلمون کے ایک انتہائی جلیل القدر رہنما عبدالقادر عودہ شہید کے بھتیجے ڈاکٹر جاسرعودہ لکھتے ہیں:’’تقریباً دو سال پہلے میرے محسن، میرے مربی اور میرے استاد، مرحوم احمد العسَّال نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ میں پہنچا تو انھوں نے خلافِ معمول بہت پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صرف میں اکیلا ہی کھانے پر مدعو تھا اور اتنا ڈھیر سارا انتظام کیا گیا تھا۔ پوچھا تو کہنے لگے: میں نے تمھارے لیے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے کیونکہ میں تمھارے چچا عبدالقادر عودہ شہید کے حسن سلوک کا جواب انھیں تو نہیں دے سکا، کم از کم تمھیں ہی دے دوں۔ ہم جنگی جیل میں گرفتار تھے، مجھ پر بے تحاشا تشدد کیا جارہا تھا۔ اسی دوران میں جیلر، عبدالقادر عودہ کو لے کر سامنے سے گزرے۔ انھوں نے مجھے دیکھا تو وہیں رُک گئے اور اپنے ساتھ جانے والے پولیس افسروں کو زوردار آواز میں ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’بے گناہ اور نیک سیرت نوجوان کو مار ہی دینا چاہتے ہو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ میری طرف بڑھے۔ میرے گال سے ایک لوتھڑا کٹ کر لٹک رہا تھا اور قریب تھا کہ وہ گال کٹ کر گرجاتا۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے لوتھڑے کو دوبارہ اپنی جگہ چپکایا اور کچھ دیر وہاں سے اُٹھنے سے انکار کر دیا۔ عبدالقادر عودہ شہید نے میرے ساتھ یہ احسان اس وقت کیا، جب خود انھیں کچھ روز بعد پھانسی پر لٹکاتے ہوئے شہید کیا جانا طے تھا۔ اسی طرح ان کا مجھ پر یہ بھی احسان ہے کہ ایک بار میں نے مقاصد ِ شریعت پر چھوٹی سی تحریر لکھی۔ انھوں نے اس کی بہت تعریف کرتے ہوئے میری حوصلہ افزائی کی۔ میں شہید کے احسانات کا بدلہ انھیں تو نہیں لوٹا سکا، البتہ انھیں یاد کرتے ہوئے آج تمھیں بلا لیا‘‘۔
ڈاکٹر عسَّال مرحوم نے کبھی اس تشدد کا ذکر نہ کیا تھا۔ جیل کے زمانے کا ذکر آ بھی جاتا تو بتاتے کہ ہم پر بہت سختی کی گئی۔ ہمیں ہر چیز سے محروم کر دیا گیا، حتیٰ کہ قرآن کریم اور دینی کتب سے بھی۔ گویا قرآن سے چند روز کی فرقت ہی سب سے بڑی سزا تھی جو انھیں ہمیشہ یاد رہتی، حالانکہ قرآن تو اکثر اسیروں کے سینوں میں محفوظ تھا اور ہمیشہ ورد زبان رہتا تھا۔
جیل سے رہائی اور تعلیم مکمل کرلینے کے بعد بھی احمد العسَّال کی آزمایشیں ختم نہیں ہوئیں۔ حکومت نے ان پر پابندی لگا دی کہ کہیں ملازمت نہیں مل سکتی۔ کچھ عرصہ پرائیویٹ اسکولوں میں عربی زبان اور دینی علوم کی تعلیم دیتے رہے، پھر انھیں اور شیخ یوسف القرضاوی کو جامعہ ازہر کے سربراہ شیخ شلتوت کے ایما پر ریاست قطر میں ملازمت مل گئی۔ اس دور کے بارے میں عسّال مرحوم فرماتے تھے: ’’ہم جب قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے تو وہاں بھی عرب قومیت کی تحریک جڑ پکڑ چکی تھی، بالخصوص طلبہ کے ذہن میں یہ خناس بھرا جا رہا تھا کہ عہدِاسلام لد چکا، اب عرب ازم کا زمانہ ہے۔ ہم نے آواز اٹھائی کہ نہیں، اسلام کسی صورت ختم نہیں ہوسکتا اور عرب قومیت اسلام کے بغیر نری جاہلیت ہے۔ اسلام، قرآن ہے، اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ہم نے پورا تعلیمی سال اسی موضوع پر تقاریر، کانفرنسوں اور مشاورتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہم نے عرب بعث ازم کا مطالعہ کر کے ان کی ایک ایک بات کا رد کیا‘‘۔ وہ کہتے تھے: ہم عربی زبان اور عرب تاریخ کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔ ہم کہتے: قرآن کریم کے بغیر عربی زبان زندہ ہی نہیں رہ سکتی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کی تاریخ کے بغیر کوئی تاریخ، تاریخ ہی نہیں کہلا سکتی۔
تعلیمی سال کے اختتام پر چھٹیاں ہوئیں۔ ہم مصر چھٹیاں گزارنے گئے تو وہاں بھی ہماری شکایات پہنچ چکی تھیں۔ مجھے اور شیخ یوسف قرضاوی صاحب کو پھر گرفتار کرکے تحقیقاتی ایجنسیوں کے سپرد کر دیا گیا۔ کسی کو ہمارے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ ہم سے پوچھ گچھ شروع ہوئی، ہم نے جواب دیا: ہم دونوں جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل ہیں، دین کی دعوت ہمارا فریضہ ہے، یہ بھی نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ خیر ہماری رہائی ہوئی لیکن جب چھٹیوں کے بعد واپس دوحہ قطر پہنچے تو ہمارے پاسپورٹ کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا گیا اور واپس مصر جانے کا کہا گیا، تاکہ دوبارہ گرفتار ہوجائیں۔ اس موقع پر میں نے مصر جانے کے بجاے برطانیہ جانے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا پروگرام بنا لیا، جب کہ قرضاوی صاحب قطر ہی میں رہے۔
۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۰ء تک میں برطانیہ رہا۔ اس دوران میں کیمبرج یونی ورسٹی سے اصولِ فقہ میں پی ایچ ڈی کی اور برطانیہ میں دعوتِ اسلامی کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا موقع ملا۔ پھر مجھے لیبیا جاکر دعوت و تربیت کی سرگرمیاں منظم کرنے کے لیے کہا گیا۔ وہاں پہنچا تو کچھ عرصے کے بعد کرنل قذافی کا انقلاب آگیا۔ وہاں سے سوڈان چلے جانے کو کہا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہاں جنرل جعفر نمیری کا انقلاب آگیا۔ بعدازاں میں ریاض یونی ورسٹی کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگیا۔ اس دوران میں مرشدعام عمر تلمسانی مرحوم نے مصر واپسی کا کہا۔ میں ملازمت چھوڑ کر مصر واپس چلا گیا۔ وہاں پھر گرفتاریوں کے لیے چھاپے پڑنا شروع ہوگئے اور مجھے دوبارہ ریاض یونی ورسٹی آنا پڑا۔ اسلام آباد میں اسلامی یونی ورسٹی کی بنیاد رکھی گئی تو مجھے بھی وہاں طلب کرلیا گیا، جہاں کچھ عرصے کے لیے یونی ورسٹی کا سربراہ رہنے کے علاوہ مختلف اوقات میں مختلف ذمہ داریاں ادا کیں اور ۲۰۰۳ء میں مصر واپس آگیا۔ اسلام آباد قیام کے دوران میں افغان مسئلے نے بھی بہت وقت لیا اور آخرکار اللہ تعالیٰ نے افغانستان کو روسی پنجے سے نجات عطا کی۔
طویل سفر کے بعد عالم ربانی، علم، حلم، شائستگی اور محبت کا پیکر، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو اور ہردم اصلاح و فلاح اُمت کے لیے فکرمند، فیصل مسجداسلام آباد کے خطیب اور پاکستان سے والہانہ محبت رکھنے والے ڈاکٹر احمد العسَّال ۱۰جولائی ۲۰۱۰ء کو قاہرہ میں ابدی راحت پاگئے۔ بچپن کے ہم جولی، سفروسلاسل کے ساتھی اور کئی دعوتی کتابوں کی تیاری میں شریک مؤلف علامہ یوسف القرضاوی اتفاق سے اس وقت مصر ہی میں تھے۔ انھوں نے جگری دوست کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اخوان کی پوری قیادت نمازِ جنازہ میں شریک تھی۔ رہے دعا کرنے والے اور ان کے جنتی ہونے پر یقین رکھنے والے، تو وہ لاکھوں کی تعداد میں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر احمد العسَّال سے آخری ملاقات چند ماہ قبل ترکی کے شہر استنبول میں ہوئی تھی۔ وہاں علامہ یوسف القرضاوی صاحب کے قائم کردہ عالمی اتحاد العلما کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس تھا۔ دنیابھر سے آئے ۴۵ منتخب ارکان کی مجلس میں، حُسنِ اتفاق سے میری نشست ڈاکٹر احمد العسَّال کے پہلو میں تھی۔ دورانِ اجلاس جب بھی موقع ملتا یا کوئی وقفہ ہوتا، عسال مرحوم پاکستان کے بارے میں کوئی نہ کوئی استفسار کرتے۔ ایک ایک ساتھی،ایک ایک سیاسی جماعت، دینی ادارے اور افراد و شخصیات کے بارے میں پوچھتے اور پاکستان کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ اجلاس کے اختتام پر پھر الگ سے ایک تفصیلی نشست کی اور اخوان، جماعت کے علاوہ پاکستان، افغانستان اور کشمیر کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ بار بار یہ بھی کہا: پاکستان میں گزرنے والا عرصہ میری زندگی کا بہترین عرصہ ہے۔ پاکستان عالمِ اسلام کا اثاثہ ہے، اس اثاثے کی حفاظت ہم سب کی مشترک ذمہ داری ہے___!
سوال: رمضان میں جب حرم شریف سے نماز تراویح ٹی وی پر دکھائی جاتی ہے تو اس ایمان افروز منظر کو دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ میں کمرہ بند کرکے قبلہ رو ہوکر اُس امام کے پیچھے نفل نماز کی نیت باندھ لوں۔ اگر میرایہ فعل مجھ تک ہی محدود رہے تو کیا اس چیز کی کوئی گنجایش نکل سکتی ہے؟
جواب: اس صدی کو بجا طور پر ابلاغ اور برقی ترسیلی سہولیات کا دور کہا جاتا ہے کیونکہ پیغام رسانی ہو یا سفر، یا معاشی معاملات میں کاروباری معاہدات، ہر اہم سرگرمی برقی آلات کی مدد سے کم سے کم وقت میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں ممکن ہے۔
عموماً رمضان کریم میں یا پھر نمازوں کے اوقات میں بعض ٹی وی چینل حرمِ مکہ مکرمہ یا حرمِ مدینہ منورہ سے براہِ راست نشریات دکھاتے ہیں، اور اس روح پرور منظر کو دیکھتے وقت انسان سوچتا ہے کہ جو لوگ حرم میں عبادت میں مصروف ہیں اور ہر عبادت کا ۷۰ گنا یا زیادہ ثواب کما رہے ہیں، گو میں دُور بیٹھا ہوں کیوں نہ ٹی وی کی امامت میں ان کے ساتھ شامل ہوکر اجر کا طلب گار بنوں! اس لیے آپ نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے، وہ سمجھ میں آتی ہے۔ تاہم اس سوال کے کئی غورطلب پہلو ہیں۔
پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ اگر رمضان کریم میں آپ کے قریب کی مسجد میں یا کچھ فاصلے پر ایک عظیم مسجد الجامع میں ایک اچھے قاری صاحب تراویح پڑھا رہے ہوں تو کیا ایسی صورت حال میں اُس مسجد میں جاکر بنفسِ نفیس شرکت اور بدنی عبادت کے اجر کے حصول کی کوشش افضل ہوگی یا ٹی وی کے سامنے کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا؟ ایک زندہ، موجود اور معقول امام کی موجودگی میں دیگر افراد کے ساتھ جماعت میں شریک ہوکر نماز کی ادایگی، اور ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہونے والی نماز کی شبیہہ کے پیچھے نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہوگا یا عملاً ایک مسجد میں دیگر افراد کے ساتھ شاملِ عبادت ہونا؟ گویا اگر دونوں شکلیں جائز ہوں، تب بھی ٹی وی کے پیچھے نماز اور بذاتِ خود مسجد میں نماز باجماعت میں کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور عقلاً بذاتِ خود مسجد میں نماز ادا کرنا ہرلحاظ سے افضل ہوگا۔
اب سوال کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ کیا ٹی وی پر بننے والی شبیہہ کی حیثیت ایک حقیقی اور موجود امام کی ہوگی؟ اگر ایسا ہے تو کیا صرف حرم شریف میں امامت کرنے والے امام صاحب کی امامت میں نماز پڑھی جائے گی، جب کہ ایسی ہی شکل ایک ملک یا شہر میں بھی ہوسکتی ہے کہ پورے شہر یا پورے ملک کے نمازی ایک مرکزی امام صاحب کی امامت میں جن کی قرأت مثالی ہو، اپنے اپنے گھروں میں، یا مساجد میں محراب میں ٹی وی لگا کر اپنی اپنی نمازیں ادا کرلیں؟ اس میں مسجد کی شرط بھی نہیں ہوگی اور نہ گھر سے باہر کہیں جانا ہوگا ،بلکہ نہ صرف ایک شخص خود بلکہ تمام اہلِ خانہ بھی ٹی وی کی امامت میں گھر بیٹھے نماز ادا کرلیں گے۔
ممکن ہے میری بات میں آپ کو کافی مبالغہ نظر آئے لیکن اگر حرم شریف سے تلاوت کرنے والے یا امامت کرنے والے کی امامت میں نماز درست ہوسکتی ہے تو پھر جیسے اُوپر عرض کیا گیا ایسا کیوں نہ کیا جائے۔ گویا ایسا ممکن نہیں، اس لیے کہ ابلاغی آلات کی سہولت ایک مسلمان کو عبادات کے بدنی پہلو سے، اور نماز کے حوالے سے استقبالِ قبلہ، مسجد میں اجتماعیت اور شرکت کے احساس کا بدل نہیں ہوسکتی۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر کوئی صاحب کھینچ تان کر کوئی گنجایش نکال بھی دیں تو جن امام صاحب کی اقتدا میں ایک شخص نماز پڑھ رہا ہوگا جب ٹی وی پر امام صاحب اس کے مخالف نظر آئیں گے تو کیا مقتدی اپنا رُخ پھیر کر ٹی وی کی پشت پر چلا جائے گا اور پھر دوبارہ ٹی وی کے سامنے آجائے گا تاکہ وہ امام کی پیروی کر رہا ہو؟
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ تراویح میں جماعت کے ساتھ شرکت کرنا بدنی عبادت کے ساتھ ساتھ سمعی عبادت بھی ہے۔ لیکن اگر کسی بنا پر ایک شخص تھک گیا ہو تو وہ مسجد میں بیٹھ کر امام کی تلاوت کو بغور سن سکتا ہے اور اس کا اجر بھی نماز میں شرکت سے کم نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر آپ کو کسی خاص قاری کی تلاوت پسند ہے تو آپ بغیر نماز کی نیت کیے جب تک چاہیں بیٹھ کر تلاوتِ کلام عزیز سن سکتے ہیں اور مطالب پر غور کرسکتے ہیں لیکن ٹی وی کی امامت میں نماز کی گنجایش نظر نہیں آتی۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: ہمارے ہاں کی فجر کی اذان مقررہ وقت (جو دائمی کیلنڈر میں دیا گیا ہے) سے شروع ہوکر تقریباً آدھ گھنٹہ تک جاری رہتی ہے۔ بعض مساجد میں تو مستقلاً یہ وقت مقررہ سے آدھ گھنٹہ بعد ہی ہوتی ہے۔ اس سے ذہن میں اُلجھن پیدا ہوتی ہے:
۱- کیا فجر کے اوقات میں واقعی اتنی گنجایش ہے؟ اگر یہ گنجایش درست ہے تو پھر رمضان میں اذانیں ایک ہی وقت پر کیوں ہوتی ہیں؟
۲- کیا پہلی اذان کے بعد فجر کی نماز پڑھ لینا درست ہے یا کچھ تاخیر سے پڑھنی چاہیے؟
۳- خیط الابیض اور خیط الاسود سے کیا یہ مراد ہے کہ ہم دو دھاگے لے کر صحن میں نکلیں، اور اس سے ختم سحری کا تعین خود کریں یا اس سے کچھ اور مراد ہے؟
۴- کیادرج بالا رویہ (اوقات میں تغیر) دین میں آسانی (یسر) کے مترادف ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یسر سے کیا مراد ہے؟
ج: صبح کی نماز طلوعِ فجر سے لے کر طلوعِ شمس سے پہلے تک ادا کی جاسکتی ہے۔ اذان کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ عین طلوعِ فجر کے متصل بعد دی جائے لیکن یہاں اس کی پابندی نہیں کی جاتی۔ اس لیے روزہ کے لیے اذان کو بنیاد بنانا صحیح نہیں ہے۔ جس نے روزہ رکھنا ہو وہ طلوعِ فجر اور غروبِ شمس کا کیلنڈر اپنے پاس رکھے اور اس کی بنیاد پر روزہ رکھنے اور افطار کرنے کو معمول بنائے۔ عام طور پر نمازوں کے اوقات کا دائمی کیلنڈر بھی شائع ہوتا ہے اور مساجد میں اسے آویزاں کیا جاتا ہے۔ ایسا کیلنڈر گھروں میں بھی منگوایا جاسکتا ہے۔ آپ کے پاس جو کیلنڈر ہے اس میں صبح کے طلوع اور سورج کے غروب کے اوقات مقررہ کا اندراج ہے تو آپ اس کیلنڈر کے مطابق روزہ رکھیں اور اس کے مطابق افطار کریں۔
صبح کی اذان میں ۳۰،۳۵ منٹ تاخیر کرنا خلافِ اولیٰ ہے۔ اولیٰ یہ ہے کہ صبح صادق کے متصل بعد مقررہ وقت پر اذان دی جائے۔ یسر کے پہلو کے تحت اذان میں پانچ دس منٹ تک تاخیر ہوسکتی ہے۔ خیط الابیض اور خیط الاسود سے سفید اور سیاہ دھاگے مراد نہیں بلکہ مشرقی اُفق پر سفید اور سیاہ دھاریاں مراد ہیں۔ سفید دھاری صبح کی اور سیاہ دھاری رات کی علامت ہے۔ (مولانا عبدالمالک)
س: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰۃ التسبیح کی فضیلت بیان فرمائی ہے لیکن یہ نماز باجماعت ادا نہیں کی۔ آج کل صلوٰۃ التسبیح باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ خاص کر رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہرجمعہ کچھ خواتین باجماعت صلوٰۃ التسبیح ادا کرتی ہیں۔ ایک خاتون پہلی صف کے شروع میں کھڑی ہوجاتی ہے اور پوری نماز باآواز بلند پڑھتی ہے۔ آیا اِس طرح صلوٰۃ التسبیح پڑھنا جائز ہے؟
ج: صلوٰۃ التسبیح اور کسی بھی نفل نماز کی جماعت باقاعدہ پروگرام کے تحت مکروہ ہے۔ نوافل میں سے صلوٰۃ الکسوف، صلوٰۃ الاستسقائ، صلوٰۃ الخسوف جائز اور مسنون ہیں۔ تہجد کی جماعت اتفاقاً بغیر کسی پروگرام کے پڑھی جائے تو وہ بھی بلاکراہت جائز ہے۔ خواتین کی جماعت بذات خود خلاف اولیٰ ہے، لہٰذا صلوٰۃ التسبیح کی باجماعت نماز بدرجہ اولیٰ مکروہ ہوگی۔ تعلیم مقصود ہو تو پھر خواتین کو ایک خاتون معلمہ بغیر جماعت کے جہراً نماز پڑھ کر تعلیم دے سکتی ہے۔ نماز کے بغیر بھی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ خواتین اپنے گھروں میں صلوٰۃ التسبیح بغیر جماعت کے پڑھیں۔ شریعت میں یہی مطلوب ہے۔(ع - م)
س: آج کل مساجدمیں اجتماعی اعتکاف کیا جاتا ہے۔ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد کے ایک طرف علیحدگی میں عبادت کرنے کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد علیحدگی میں رب سے رازونیاز اور اُس کی عبادت کرنا لی جاتی ہے۔ اجتماعی اعتکاف میں درس و تدریس کا کام زیادہ ہوتا ہے جو کہ کسی دوسرے موقع پر بھی ہوسکتا ہے۔ کیا اِس طرح معتکف ہونا جائز ہے؟ نیز خواتین کا اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے یا گھر میں؟
ج: اجتماعی اعتکاف کے معنی یہ ہیں کہ ایک دو نہیں بلکہ زیادہ لوگ بھی اعتکاف میں بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ اعتکاف انفرادی ہی ہوتا ہے اگرچہ ایک مسجد میں ۵۰، ۷۰ لوگ بیٹھے ہوں۔ رہی یہ بات کہ اس میں درس و تدریس اور وعظ و تربیت اور مطالعہ کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو یہ اعتکاف کے خلاف نہیں بلکہ یہ اعتکاف کا مقصود ہے۔ اعتکاف کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ایک آدمی اعتکاف میں ’’مراقبہ‘‘ میں مشغول ہو۔ رات کو کسی وقت مراقبہ بھی کیا جاسکتا ہے اور نماز میں مطلوب بھی یہ ہے کہ نماز اس طرح پڑھی جائے کہ گویا نمازی اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اگر دیکھ نہیں رہا تویہ تصور تو حقیقت ہے کہ اللہ نمازی کو دیکھ رہا ہے بلکہ ہر ایک کو ہرحال میں وہ دیکھ رہا ہے۔ خواتین کا اعتکاف گھر کی مسجد میں ہے۔گھر میں وہ جگہ جو خاتون نے نماز کے لیے مقرر کر رکھی ہو یا مقرر کرلے تو وہ اس کی مسجد ہے اور وہ وہاں معتکف ہوتی ہے۔ وہاں سے بغیر ضروری حاجات کے باہر نہ نکلے جس طرح مسجد میں معتکف مرد بغیر ضروری حاجت کے مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا۔(ع-م)
س: پیس ٹی وی کے ایک پروگرام میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے کہا تھا کہ اسلام میں صرف نماز باوضو ہوکر پڑھنا ضروری ہے۔ اگر انسان کا جسم اور کپڑے پاک ہوں تو ہاتھ صاف کرکے قرآن مجید کی تلاوت کرسکتا ہے۔ کیا قرآن مجید بغیر وضو کے ہاتھ صاف کرکے پڑھا جاسکتا ہے؟
ج: ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک بے وضو آدمی قرآن پاک کو کسی رومال وغیرہ واسطے کے بغیر نہیں پکڑ سکتا۔ اس کے لیے دلیل کیا ہے؟ بعض فقہا نے اس کے لیے قرآن پاک کی ایک آیت لا یمسہ الا المطھرون(الواقعہ:۲۹) کو دلیل بنایا ہے۔ آیت کا معنٰی یہ ہے کہ ’’قرآن کو مَس نہیں کرتے مگر پاک کیے ہوئے لوگ‘‘۔
اور بعض نے کہا ہے کہ اس آیت کا تعلق فرشتوں سے ہے کہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں جو قرآن پاک کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہیں۔ آیت مذکورہ سے اس مسئلے کے استنباط میں تو اختلاف ہے لیکن اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قرآن پاک کو بے وضو آدمی مرد یا عورت مَس نہیں کرسکتے۔ یہ مسئلہ احادیث سے بھی ثابت ہے۔
امام مالک نے موطا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مکتوب گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے عمر ابن حزم کو لکھا تھا، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے: لا یمس القراٰن الا طاھر، ’’قرآن پاک کو وہ شخص نہ چھوئے جو پاک نہ ہو‘‘۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یمس القراٰن الا طاھر، ’’قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک آدمی‘‘۔ مفتی محمد شفیع صاحب اپنی تفسیر معارف القرآن میں سورئہ واقعہ آیت ۷۹ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’روایات مذکورہ کی بنا پر جمہور اُمت اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کے لیے طہارت شرط ہے۔ اس کے خلاف گناہ ، ظاہر نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا، باوضو ہونا، حالتِ جنابت میں نہ ہونا سب اس میں داخل ہے۔ (معارف القرآن، ج۸، ص ۲۸۶-۲۸۷)۔ ذاکر نائیک صاحب نے جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ دائود ظاہری اور ابن حزم کا مسلک ہے۔(ع-م)
س: میں تنگ دستی کا شکار ہوں۔ خاوند بھی ضروریات اور اخراجات پورا نہیں کرتے اور اگر مطالبہ کیا جائے تو ناراض ہوتے ہیں۔ بڑی مشکل سے گزربسر ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیا میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں؟ میرے پاس آٹھ تولے سونا بھی ہے لیکن میں اسے بیچ نہیں سکتی کہ کل نہ جانے حالات کیسے ہوں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
ج: آپ کے شوہر آپ کے ساتھ نامناسب رویہ رکھتے ہیں اور اس وجہ سے آپ تکلیف میں ہیں۔ نان و نفقہ تو شوہر کی ذمہ داری ہے اس میں کوتاہی کرنا خلافِ شرع ہے۔ آپ کے شوہر کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ دوست احباب اور اہلِ خاندان کو بھی انھیں توجہ دلانا چاہیے کہ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔
جہاں تک زکوٰۃ کا تعلق ہے تو جس مرد یا عورت کے پاس بنیادی ضروریات سے زائد آٹھ تولے سونا ہو یا اس مالیت کا زیور ہو تو وہ مستحق زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ اس پر زکوٰۃ دینا واجب ہوجاتا ہے، یعنی فرض ہوجاتا ہے۔ آپ کے پاس اگر ساڑھے سات تولے سے کم کا زیور ہو، تو پھر آپ پر زکوٰۃ واجب (فرض) نہیں ہے اور آپ اپنی ضروریات کے لیے کسی سے زکوٰۃ لے سکتی ہیں۔ واللہ اعلم! (ع-م)
حافظ ابن القیم آٹھویں صدی ہجری کے ممتاز عالم دین اور علومِ عربیہ کے ماہر تھے۔ حافظ ابن رجب کی راے میں یوں تو اُنھیں جملہ علومِ اسلامیہ میں دخل تھا لیکن تفسیر میں اُن کی نظیر نہیں ملتی۔ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ اور علم الکلام میں بھی اُنھیں کمال حاصل تھا۔ وہ ابن تیمیہؒ کے صحیح اور وفادار جانشین تھے۔
ابن القیم نے کوئی جامع تفسیر قرآن نہیں لکھی مگر متعدد سورتوں اور آیات کی تشریح و تفسیر پر مبنی چند فاضلانہ تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ مولانا عبدالغفار حسن (م: ۲۲ مارچ ۲۰۰۷ئ) نے ابن القیم کے تفسیری جواہر پاروں کو اُن کی مختلف تالیفات سے جمع کر کے اُن کا ترجمہ اور ترجمانی زیرنظر کتاب کی صورت میں پیش کر دی ہے۔ یہ کام اُنھوں نے اوائلِ عمر ہی سے اس وقت شروع کیا تھا، جب وہ مالیر کوٹلہ کے مدرسہ کوثرالعلوم میں مدرس تھے۔ اُس وقت تک امام ابن القیم کی التفسیر القیم بھی شائع نہیں ہوئی تھی۔ مولانا عبدالغفار حسن لکھتے ہیں: ’’ان تفسیری افادات کے مطالعے سے اچھا خاصا تفسیری ذوق پیدا ہوسکتا ہے اور سلف صالحین کے طریقۂ کار کے دائرے میں رہتے ہوئے فہمِ قرآن کا ذوق حاصل ہوسکتا ہے‘‘۔ (ص ۲۱)
حافظ ابن القیم کے اسلوبِ شرح نویسی کا اندازہ حسب ذیل مثال سے ہوگا: ’’اِِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo (التکویر ۸۱:۱۹)، بے شک وہ بزرگ رسول کا قول ہے۔ یہاں رسول سے یقینی طور پر جبرئیل ؑہی مراد ہیں۔ بعد والی صفات اسی مراد کو معین کرتی ہیں۔ ہاں سورئہ الحاقہ میں رسولِ کریمؐ سے محمد رسولؐ اللہ مراد ہیں کیونکہ وہاں اس کے بعد دشمنوں کے اس قول کی تردید ہے کہ یہ قرآن شاعر یا کاہن کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نسبت کبھی تو رسول مَلَکی (جبرئیل ؑ) اور کبھی رسولِ بشری (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف فرمائی ہے۔ لیکن اس نسبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان دونوں نے ازخود یہ قرآن بنا لیا ورنہ پھر تو آیات میں تناقض اور ٹکرائو نظر آئے گا بلکہ یہاں نسبت بلحاظ تبلیغ ہے۔ خود لفظ رسول اس معنی کی تائید کر رہا ہے۔ رسول وہی ہوتا ہے جو مرسل (بھیجنے والے) کے کلام کو پہنچائے، نہ کہ اپنے کلام کو۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ یہ کلام اُس ذات کا ہے جس نے محمدؐ اور جبرئیل ؑکو منصب ِ رسالت پر فائز فرمایا۔ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے قطعاً گنجایش نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے متکلم بالقرآن ہونے کے منکر ہیں، بلکہ یہ آیت تو اس کے برعکس مضمون پر روشنی ڈالتی ہے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے اور ان رسولوں نے صرف تبلیغ کا فرض انجام دیا ہے‘‘۔ (ص ۳۳۱- ۳۳۲)
ناشر نے کتابت و طباعت میں بڑا اہتمام کیا ہے۔ بعض الفاظ کا املا درست نہیں (گذشتہ صحیح ہے نہ کہ گزشتہ۔ پرواہ غلط ہے ، صحیح: پروا وغیرہ)۔ فہرست ڈھنگ سے نہیں بنائی گئی۔ ہر جگہ قمری سنین لکھے گئے ہیں۔ سہیل حسن صاحب نے اپنے ’پیش لفظ‘ میں قمری تاریخ کے ساتھ شمسی تاریخ بھی لکھ دی مگر حافظ ابن القیمؒ کی شمسی تاریخِ ولادت و وفات ندارد۔ جب ایک علمی کتاب موجودہ زمانے کے قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے تو موجودہ زمانے میں مروّج شمسی سنہ دینے سے اِحتراز کیوں؟ (رفیع الدین ہاشمی)
سیرتِؐ پاک لکھنا سعادت ہے، اعلیٰ ترین نیکی ہے، لیکن وہ جو اس کارِخیر کی انجام دہی کے لیے ایک ایک لفظ کی صحت پر دھیان دیں، ہرچیز کو پوری ذمہ داری سے پیش کریں، یقین کامل ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے گا۔ زیرنظر کتاب، اخلاقِ حسنہ اور اسوئہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلکیوں پر مشتمل ایسی دستاویز ہے کہ ورق، ورق پر قاری اپنے آپ کو عہدِ سعادت سے جڑا محسوس کرتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ ان تجلیوں سے اپنے قلب و نظر کو منور کرتا چلا جائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق العباد کی نزاکت کو واضح کرنے کے لیے اپنے قول اور عملِ مبارک سے ہزاروں نمونے پیش فرمائے۔ ان نمونوں کے مخاطب اور ان کے ثمرات سے فیض پانے والوں میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ غیرمسلم و مشرک بھی شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ دین اسلام کوئی نسلی دین نہیں بلکہ دعوتی دین ہے۔ اس لیے کردار کی ان روشن قندیلوں نے کتنے ہی مُردہ دلوں کو اسلام کی روشنی سے منور کیا۔ یہ کتاب ان کرنوں کا ایک ہالہ پیش کرتی ہے۔
فاضل مؤلف نے ہرچیز کو اس کے مکمل حوالے اور صحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا ایک عکس پانے کے لیے یہ کتاب مددگار ہوسکتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)
زیرنظر کتاب حج اور عمرے کے زائرین کے لیے ایک نہایت عمدہ راہ نما کتاب ہے۔ مصنف انگریزی زبان و ادب کے ایک ’وظیفہ یاب‘ (ریٹائرڈ کا اُردو مترادف ہے، جو یوپی اور دکن میں استعمال ہوتا ہے) استاد ہیں۔ انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں سفرِحرمین کی عملی مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی تراکیب بتائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: حج نہایت مشکل اور جان جوکھوں کا کام ہے، اس لیے کسی مرحلے پر گھبرانا نہیں چاہیے۔ جدہ ہوائی اڈے پر اہل کاروں کے درشت اور بے لچک رویے کو محسوس نہ کریں کیوں کہ یہ تکلیف بھی عبادت ہے۔ زیادہ سامان ساتھ لے جانا پریشانی اور تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ جدہ سے مکہ جانے کے لیے بس پر سوار ہوں تو پانی کم از کم پئیں اورجن لوگوں کو پیشاب کی تکلیف ہو وہ ایک بوتل ساتھ رکھیں کیونکہ مکّہ پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں اور راستے میں بس سے اُترنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
پھر یہ کہ کمزور اور بیمار لوگ ویل چیئر پر طواف اور سعی کریں۔ پیسہ بچانے کے لیے پیدل مت چلیں کیونکہ آپ کا اصل مقصد حج کرنا ہے اور ایک تھکا ہُوا اور مضمحل آدمی دل جمعی کے ساتھ مناسکِ حج ادا نہیں کرسکتا۔ کھانے پینے میں بھی احتیاط ضروری ہے۔ مصنف کی ہدایت ہے کہ ترجیحاً سبزیاں اور دالیں استعمال کریں۔ دوپہر کو کھانا مت کھائیں، اس کے بجاے پھل استعمال کریں۔ مصنف نے نہایت تفصیل سے اور بہت جزئیات میں جاکر ہدایات دی ہیں جن کی بنیاد اُن کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی شامل ہے۔
گمان ہے اگر کوئی زائر حج و عمرہ اس کتاب کو پڑھ کر مصنف کی ہدایات کو پلّے باندھ لے تو سفر کی بیش تر مشکلات سے محفوظ رہے گا اور یقینی طور پر مصنف کے حق میں دعاگو بھی ہوگا۔ (ر-ہ)
نیشنل اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ کراچی کے زیراہتمام تالیف و شائع کردہ یہ ایک مختصر مگر جامع اور اپنے موضوع پر عمدہ کتاب ہے۔ مصنف نے خبروں، تجزیوں اور تبصروں کی مدد سے امریکا کی زوال پذیری کے اسباب (اخلاقی گمراہ روی، خاندانی نظام کی تباہی، شرح پیدایش میں خطرناک کمی، یہودی سازشیں، معیشت کا زوال وغیرہ) پر اعداد وشمار اور حقائق کی مدد سے بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: امریکا کے معاملے میں سارے اسباب زوال جمع ہوکر اجتماعی طور پر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اس لیے اب ’’امریکا کا جانا ٹھیر گیا ہے ، صبح گیا یا شام گیا‘‘۔
اپنے موقف کی تائید میں مشرق و مغرب کے تجزیہ کاروں اور دانش وروں کی آرا بھی پیش کی ہیں۔ ضمیمے (مغرب میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی) میں گذشتہ ۴،۵ برسوں کی اہم خبریں اور اعداد و شمار درج کرنے کے بعد مصنف یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’مسلم آبادی میں اضافے کی وجہ سے مغرب میں عملی، دعوتی اور اسلام پسند نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے اثرات وسیع ہوں گے‘‘ (ص ۷۱)۔مصنف کا اسلوب تحقیقی ہے۔ آخر میں اُردو انگریزی کتابیات بھی شامل ہے۔ (ر-ہ)
یونی ورسٹیاں اپنی عمارتوں کے شکوہ اور فن تعمیر کی انفرادیت کے بل پر نہیں، بلکہ اپنے علمی کارناموں اور تحقیقی منصوبوں کی بنیاد پر پہچانی جاتی ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے سب سے کم عمر شعبے نے جب معیار کے نام سے علمی و تحقیقی مجلے کا اجراکیا تو اس کا پہلا شمارہ ہی اپنے نادر اور معیاری لوازمے اور پیش کش کی ندرت کے سبب اہلِ علم کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اندیشہ تھا کہ مجلے کے لیے اپنا معیار قائم رکھنا مشکل ہوگا، مگر مجلسِ ادارت کی پختہ فکری، علمی اُپج اور مسلسل محنت نے، ایک سے بڑھ کر ایک شمارہ پیش کیا۔ (اوّلیں شمارے پر تبصرہ دیکھیے: ترجمان، نومبر ۲۰۰۹ئ)۔ ہمارے ہاں رسائل پر کم ہی تبصرے شائع ہوتے ہیں، لیکن اس مجلے کا دامن علمی اتنا مالا مال ہے کہ تازہ شمارے کا تعارف ضروری محسوس ہوتا ہے۔
زیرنظر شمارہ متعدد حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ ممتاز محقق عارف نوشاہی کے ’مطالعاتِ تخصیص‘ (ص ۱۱-۲۵۴) ان کی تحقیق و جستجو کی عمدہ مثال ہیں، خصوصاً ’مجالس جہانگیری‘ (ص۴۳-۸۶) تو خاصّے کی چیز ہے۔ جناب اکرام چغتائی (ص ۲۷۳) اور حکیم محمود احمد برکاتی (ص ۲۵۵) کے مضامین بھی معلومات افزا ہیں۔ ’دریافت و انکشاف‘ (ص ۲۸۹-۳۳۱) کا گوشہ شاید پاکستانی کلچر کی بحث کو تیسری مرتبہ برپا کرنے کا ذریعہ بن جائے، جس میں کلچر پر جناب فیض احمد فیض کے ایک خصوصی لیکچر اور سوال و جواب کی نشست کو پہلی مرتبہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ لیکچر ۱۹۷۴ء میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ جناب فیض کا لیکچر اپنے موضوع کے اعتبار سے خاصا سرسری ہے، تاہم ایک بڑے ادیب کی گفتگو کے حوالے سے غورطلب ہے۔ اس سے اگلے مضمون میں محمد حمزہ فاروقی نے فیض کے ترجمہ اقبال (پیامِ مشرق) کا غیر جذباتی، مگر لسانی، لغوی اور سخن ورانہ اُپج سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’فیض کی فکر، تصورات اقبال سے متناقض تھی، چناں چہ انھوں نے ترجمے میں جابجا ٹھوکر کھائی اور اصل مفہوم کو اُردو میں منتقل نہ کرسکے… اقبال نے اگر چھوٹی بحروں میں دریا سے معانی کو غزل یا رباعی کے کوزے میں بند کیا تھا تو فیض صاحب نے طویل بحروں میں الفاظ کا گورکھ دھندا پیش کر کے مفہوم مسخ کیا‘‘ (ص ۳۰۹)۔ اس کے بعد حمزہ فاروقی نے کلامِ اقبال، ترجمہ فیض اور شائع شدہ ترجمہ فیض کا چارٹ پیش کر کے تقابلی مطالعے کی سہولت فراہم کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اکثر مقامات پر نئی ترامیم پائی جاتی ہیں، جو شاید صوفی تبسم کی تراوش فکر کا نتیجہ تھیں‘‘۔ (ص ۳۰۹)
بصیرہ عنبرین نے اُردو تضمین نگاری کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ نجیبہ عارف نے ’ادب کا نومزاحمتی رجحان‘ میں ’نائن الیون‘ کے حوالے سے مسلم دنیا کے آشوب پر لکھی گئی افسانوی تحریروں کا جامع تجزیہ پیش کیا ہے۔ یہ مقالہ ملّی درد اور تنقیدی شعور کا عمدہ نمونہ ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک نے جسونت سنگھ کی متنازع کتاب جناح: اتحاد سے تقسیم تک کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں تاریخ اور اصل حقائق کو مسخ کر کے برہمنی سوچ کو جس ’مہارت‘ سے پیش کیا گیا ہے، مبصر نے بڑی عمدگی سے اس پر گرفت کی ہے۔ اس طرح قائداعظم کے لیے تحسینی کلمات کی مٹھاس میں لپٹی کڑواہٹ کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ تبصرے کی حسب ِذیل آخری سطور مقالے کے موڈ اور زیرتبصرہ کتاب کی روح کو بڑی خوبی سے پیش کرتی ہیں: ’’درج بالا سطور (زیرتبصرہ کتاب کے ص ۴۹۸) میں ڈنکے کی چوٹ اعلان کیا گیا ہے کہ پنڈت نہرو کی سیکولر ملائیت اور جسونت سنگھ کی ہندو احیائیت، ہردو اُس وقت طبلِ جنگ پر چوٹ لگاتی رہیں گی، جس وقت تک پاکستان جداگانہ مسلم تقویت کی نظریاتی اساس پر قائم ہے۔ بھارت سے دوستی کی فقط ایک ہی شرط ہے کہ پاکستان اپنی نظریاتی بنیاد منہدم کردے۔ پاکستان کی محکوم اشرافیہ تو شاید اس شرط کو قبول کرلینے پر آمادہ ہو، مگر آزادپاکستان کے غیور عوام کے نزدیک: ’ایں خیال است و محال است و جنوں‘ (ص ۴۲۶)‘‘۔ (س- م- خ )
۱۹۶۲ء میں جاری ہونے والے ماہ نامہ سیارہ کا ۵۷واں خاص شمارہ شائع ہوا ہے۔ حمد، نعت، داناے راز،(اقبالیات)، مقالات، منظومات، بازیافت، مراسلت، غزلیات، یادِرفتگاں، افسانے، مطالعہ خصوصی (کتب کا مطالعہ) اور تبصرۂ کتب اس پرچے کے مستقل سلسلے ہیں۔ زیرنظر شمارے کے ’گوشۂ جلیل عالی‘ میں دورِحاضر کے ایک نام وَر اُردو شاعر کے فکروفن پر ۱۳مضامین اور ان کا مکمل کوائف نامہ بھی شامل ہیں۔ داناے راز میں دو مضامین ’علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کا خواب‘ از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ’اسلامی ادب کی ترویج میں اقبال کا کردار‘ از ڈاکٹر تحسین فراقی نہایت اہم ہیں۔ ڈاکٹر مقبول الٰہی کے مضمون ’مصورانہ خطاطی اور تحریفِ قرآن‘ میں مصورانہ خطاطی کے اس رجحان پر اچھا محاکمہ کیا گیا ہے جس میں قرآنی آیات کے الفاظ کی صورت بگڑ جاتی ہے۔ ’یادِ رفتگاں‘ کے تحت ڈاکٹر وحید عشرت، ڈاکٹر آفتاب نقوی شہید، جعفربلوچ، پروفیسر نذیراشک اور عبدالعزیز خالد کی وفات پر تعزیتی مضامین و منظومات ہیں۔ سیارہ کی مجلسِ ادارت خصوصاً حفیظ الرحمن احسن کی محنت و کاوش قابلِ داد ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ شمارہ ایک معتبر ادبی دستاویز اور ادبِ اسلامی کی ترجمانی کا عمدہ نمونہ ہے۔ (قاسم محمود احمد)
سیدنا محمد رسول اللّٰہa (جلد اوّل و دوم، کُل ضخامت: ۱۳۵۰ صفحات) دیدہ زیب طباعت کے ساتھ شائع ہوگئی ہے۔ ان خواتین و حضرات کی خدمت میں تحفتاً پیش کی جارہی ہے، جو شب و روز دعوت اور خدمت ِدین میں مصروف ہیں۔ اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں سے متعلق افراد متعلقہ ادارے کے سربراہ کا تصدیقی خط ، جب کہ تحریک سے وابستہ حضرات امیرضلع کا تصدیق نامہ لاکر کتاب دستی وصول کریں۔ آنے سے قبل ٹیلی فون پر رابطہ کریں۔
شیخ عمر فاروق: جامعہ تدبر القرآن، 15-B ، وحدت کالونی، لاہور- فون: 37585960
’سفینہ حریت اور اسرائیل کا مستقبل‘ (جولائی ۲۰۱۰ئ) حوصلہ افزا تحریر ہے۔ نفرت کی علامت، اسرائیلی ریاست ظلم کی انتہائی بلند چوٹیوں کو چھو رہی ہے۔ خود مغربی مفکرین کی راے میں ۲۰۲۰ء کے بعد دنیا میں اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہ رہے گی۔ عالمِ عرب کے مشہور مفکر، ڈاکٹر سفر بن عبدالرحمن الحوالی کا کہنا ہے کہ ’’نفرت کی ریاست کا اختتام یا اختتام کے آغاز کا زمانہ ۲۰۱۲ء کے آس پاس بنتا ہے‘‘۔تاہم، پیش آمدہ حالات کے تناظر میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ارضِ فلسطین کی آزادی اور صہیونی ریاست کی بربادی اب بہت قریب اور یقینی ہے۔
’تعلیمی شعبہ منفی تجربات‘ (جولائی ۲۰۱۰ئ) میں حکومت ِ پنجاب کی تعلیم دشمن پالیسی کو جس طرح بے نقاب کیا گیا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ِ پنجاب عالمی طاقتوں کے ایجنٹ کاکردار ادا کرکے ہمارے شہروں اور دیہی علاقوں میں رہنے والے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے نوجوانوں کو دانستہ زیورِتعلیم سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت کی عکاس یہ تعلیمی پالیسی پاکستان کے مستقبل کے لیے تباہ کن ہے۔ وطن کے ہمدرد افراد کو حکومت کے اس ظالمانہ قدم کے سامنے بند باندھنا چاہیے۔
’علوم کو اسلامیانے کے نام پر‘ (جون ۲۰۱۰ئ) میں محمد رضی الاسلام نے بجا گرفت کی ہے۔ ڈاکٹر سید وقاراحمد حسینی جس فکر کو فروغ دے رہے ہیں وہ اسلام کی خدمت نہیں ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے، اور متعلقہ یونی ورسٹی کو بھی اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اس تحریر میں دیگر اہلِ علم کے لیے بھی توجہ ہے کہ وہ اسلام کے نام پر کی جانے والی ایسی کوششوں سے اجتناب کریں۔
تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ مع بنیادی عقائد و دیگر معلومات اور قرآنی و مسنون دعائیں مع آسان ترجمہ دستیاب ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات کم از کم 15 روپے کے ڈاک ٹکٹ بنام ڈاکٹر ممتاز عمر، 473-T، کورنگی نمبر2، کراچی- 74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے بلامعاوضہ حاصل کرسکتے ہیں۔
’ہم نے کشمیر کیسے کھویا!‘ (جولائی ۲۰۱۰ئ) ایک چشم کشا تحریر ہے۔ علامہ محمداسد کی تحریر سے انکشاف ہوا کہ برطانیہ کے دبائو پر قادیانی وزیرخارجہ کی یقین دہانی اور نہرو کے استصواب راے کے وعدے پر بھروسا کرکے کس طرح جیتی بازی ہار دی گئی: پاکستانی فوج کے حملے کا خطرہ ٹلتے ہی بھارتی وزیراعظم نہرو فوری استصواب راے کے وعدے سے منحرف ہوگیا اور یہ مسئلہ کشمیر غیرمعینہ عرصے کے لیے معرضِ التوا میں ڈال دیا گیا (ص ۸۵)۔ آج بھی امریکی دبائو پر بے مقصد مذاکرات میں وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ مسئلۂ کشمیر کا واحد حل استصواب راے یا پھر ہندو جارحیت کے خلاف جہاد ہے۔
حافظ محمد ایوب ، اسلام آباد
مولانا معین الدین خٹک سے ایک بار پوچھا کہ تحریک کے ابتدائی کارکنان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ کچھ سوچ کر بولے۔ ۱۹۵۲ء کراچی میں جماعت ِ اسلامی کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ رفقا کے قافلے بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے جوق در جوق کراچی کی طرف چل پڑے۔ موضع شیخ سلطان ٹانک (سرحد) کے تین ساتھیوں نے جو بے انتہا غریب تھے، اجتماع میں شرکت کا ارادہ کرلیا۔ کسی دوسرے ساتھی سے نہ مالی تعاون لیا اور نہ جماعت کے بیت المال ہی پر بوجھ بنے۔ یہ مذکورہ تینوں ساتھی کراچی کی جانب پیدل چل پڑے۔ ایک آنہ کی دو روٹیاں اور جی ٹی روڈ پر ایسے ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے جہاں آنہ روٹی دال مفت بھی مل جایا کرتی تھی۔ دن بھر سفر کرتے، رات کسی مسجد میں نمازِ عشاء کے بعد آرام کرتے اور نماز فجر پڑھ کر سفر جاری رکھتے۔ استقبالیہ کیمپ سہراب گوٹھ لبِ سڑک تھا۔ ناظم استقبالیہ نے آمدہ قافلہ سے دریافت کیا کہ جناب آپ کہاں سے اور کیسے پہنچے؟ جواب سن کر کیمپ میں موجود کارکنان حیران رہ گئے۔ اجتماع گاہ میں قائد تحریک سیدمودودیؒ کو اطلاع دی گئی۔ مولانا استقبالیہ میں تشریف لائے اور اس قافلے کا خود استقبال کیا۔ اِس قافلے کو قافلۂ سخت جان کا نام سیدصاحب نے دیا۔ ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ گئے۔ سب کی آنکھوں سے موتی چھلک پڑے: ’’یااللہ! یہ تیرے بندے صرف تیری رضا اور تیرے دین کی بقا کے لیے جوتکالیف اُٹھا رہے ہیں ان کی قربانیوں کو قبول فرما، آمین!
_______________
ایک گرتی ہوئی قوم کو بہترین حالات فراہم کر کے ایک زریں موقع بہم پہنچایا جاتا ہے۔ اگر وہ فی الواقع سنبھلنا چاہتی ہے تو سنبھل لے۔ دوسرے لفظوں میں اس کے پاس راہِ حق پر مستقیم نہ ہوسکنے کے جتنے عذرات ہوتے ہیں ان کو ختم کردیا جاتا ہے کہ لو اب تم اپنی نیتوں اور عزائم کا پورا پورا مظاہرہ کرلو۔ اس طرح کی آزمایشِ نعمت میں گھرنے والی قوم اگر خوش نصیب ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے موقع سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتی ہے اور نہ صرف خود پستی سے اُبھر آتی ہے بلکہ وہ دوسری اقوام کو بھی سہارا فراہم کرتی ہے۔ لیکن اگر اس کے اعمال کی نحوست اس پر بالکل مسلط ہی ہوگئی ہو اور وہ خداداد موقع کو ضائع کر دے اور یہ ثابت کر دے کہ اس کی ساری عذر تراشیاں جھوٹی تھیں، کوئی ارادۂ اصلاح ان کے پیچھے موجود ہی نہیں تھا، تو پھر جتنی بڑی نعمت دی گئی ہوتی ہے اتنا ہی بڑا عذاب اس کی اُوٹ میں سے برآمد ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ انگریز کی غلامی اتباعِ اسلام میں حائل ہے اور ہمیں ایک الگ خطہ ٔ ارضی اگر مہیا ہوجائے تو ہم خدا کی کتاب کے ایک ایک شوشے کو زمین پر قائم کرکے دکھا دیں گے۔ ہمیں آزادی ملے تو سہی پھر ہم ہوں گے اور اسلام ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان دعاوی اور اعلانات کو کسوٹی پر رکھنے کے لیے مطلوبہ خطۂ ارضی بھی فراہم کر دیا ہے اور انگریزی اقتدار کی سِل کو بھی ہمارے سینوں سے ہٹا لیا ہے۔ اب یہ ہمارے ذمے ہے کہ ہم اپنے آپ کو سچا ثابت کریں یا جھوٹا؟ اور ہماری کوششیں اسی کو پیدا کرنے کے لیے وقف ہیں، تو نہ صرف ملّتِ پاکستان خود سنبھل جائے گی اور اللہ کی مزید نعمتوں کی مستحق ہوگی بلکہ دوسری مسلم اور غیرمسلم اقوام کے لیے اُبھرنے کا سہارا بنے گی۔ اور اگر بدقسمتی سے تذکیر کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں اور اللہ کی نعمت سے اجتماعی طور پر مذاق کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر کون کہہ سکتا ہے کہ کیا کچھ نہ ہوگا۔
جس صورتِ حالات میں ہم گھرے ہوئے ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک تقاضا یہ ہے کہ دل و دماغ کی ایک ایک رمق، دوڑ دھوپ کا ایک ایک لمحہ اور جیب کی ایک ایک کوڑی اصلاح کی منظم جدوجہد میں جھونک دی جائے ورنہ بڑے بڑے متقی کا حشر فاسقین کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ (’رسائل و مسائل‘، ادارہ، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد۳، رمضان ۱۳۶۹ھ، اگست ۱۹۵۰ئ، ص ۱۹۲-۱۹۳)