پاکستان اور اس کے اسٹرے ٹیجک اثاثوں پر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں روشن خیالی‘ لبرلزم‘ لچک‘ ضرورت حتیٰ کہ ’جرأت‘ کے نام پر بجلیاں گر رہی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا قیمتی اثاثہ‘ مفاد اور اصول اس فائرنگ کی زد (’in the line of fire‘) میں آکر مجروح ہو رہا ہے یا جان ہی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔ لیکن اب جیسے جیسے ۲۰۰۷ء کا انتخابی معرکہ قریب آرہا ہے اور ملک ایک فیصلہ کن لمحے کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جنرل صاحب کی جراحت کاریاں بھی تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں میں تین اہم ترین محاذوں پر انھوں نے جو حملے کیے ہیں‘ ان سے سیاسی نقشۂ جنگ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب قوم اس تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی وجود کے تحفظ اور اصل منزل کی طرف پیش رفت یا خدانخواستہ تحریکِ پاکستان اور اس کے ذریعے حاصل کردہ سرمایۂ حیات سے محرومی اور محکومی کے نئے دور کے آغاز میں سے ایک ہمارا مقدر ہوگا:
۱- نظریاتی اعتبار سے دو قومی نظریہ‘ پاکستان کی اسلامی شناخت‘ شریعت کی بالادستی اور حدود اللہ کی پاس داری‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت و فروغ اور تعلیم میں اسلامی اقدار اور اہداف کا واضح کردار سب سے اہم اور مرکزی ایشو بن گیا ہے۔ ان پر روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر کھل کر حملہ کیا جا رہا ہے۔
۲- اب جملہ داخلی و خارجی امور کا فیصلہ دستورکے تحت ادارے اور عوام کے منتخب نمایندے نہیں کر رہے‘ بلکہ یونٹی آف کمانڈ کے نام پر ایک فردِواحد تمام اصولی‘ تاریخی اور قومی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اورجواب دہی سے بالا ہوکر اپنے ذوق‘ خواہشات اور مخصوص مفادات کی روشنی میں کر رہا ہے اور کرنے کے استحقاق کا دعویٰ بھی کر رہا ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور ملت اسلامیہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف اور قوم کی آزادی اور عزت دونوں پر شدید ترین حملہ ہے۔
۳- نظریاتی اور سیاسی انقلابِ معکوس (counter-revolution) کے ساتھ تیسرا خطرہ اب پاکستان کے جغرافیائی وجود کو لاحق ہے۔ اس کے بڑے بڑے مظاہر یہ ہیں: (۱)مرکز اور صوبوں میں بُعد‘ جو اب تصادم کی حدوں کو چھو رہا ہے (۲) بلوچستان میں فوج کشی (۳)سندھ میں ایک لسانی مافیا کی سرپرستی (اسے کھلی چھوٹ جو لاقانونیت اور بھتہ خوری سے بڑھ کر اب پھر مہاجر‘ پختون‘ پنجابی ٹکرائو اور خون خرابے کی طرف بڑھ رہا ہے) (۴) شمالی اور جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں قوت کا بے محابا استعمال (۵) ایجنسیوں کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی‘ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کا فروغ اور اسے تصادم اور خون ریزی تک لے جانے کی مساعی‘ اور اب (۶) ریاست جموں و کشمیر کے سلسلے میں جنرل صاحب‘ ان کے وزیرخارجہ اور وزارتِ خارجہ کی سرکاری ترجمانی کے ذریعے دست برداری کے اعلان کی شکل میں وہ ضرب کاری جس کے نتیجے میں خدانخواستہ برعظیم کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔
بھارتی ٹی وی نیٹ ورک کو جنرل صاحب کا ۵ دسمبر۲۰۰۶ء کا انٹرویو دراصل اس پورے عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر قوم اب بھی اس خطرناک اور تباہ کن کھیل کا راستہ نہیں روکتی تو ہمیں خطرہ ہے کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔
اس انٹرویو میں بہت کچھ کہا گیا ہے مگر دو چیزیں زیادہ اہم ہیں:
اوّل: جنرل صاحب کے سارے کھیل کا انحصار ’یونٹی آف کمانڈ‘ پر ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر وہ فوج کی سربراہی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے صاف کہا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کے لیے تین قوتوں کی تائید حاصل ہے اور اس لیے حاصل ہے کہ وہ خود ان کی سربراہی کررہے ہیں‘ یعنی فوج‘ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی۔
بات بہت صاف ہے۔ عوام‘ عوامی نمایندوں اور منتخب اداروں‘ پارلیمنٹ حتیٰ کہ کابینہ تک کا اس میں کوئی ذکر نہیں اور ذکر کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ کسی شمار قطار میں نہیں۔ یہ سیدھے سیدھے قوت کا کھیل ہے اور اس طرح ایک نوعیت کا نوآبادیاتی (colonial) نظام ہے اور اس کی بقا اور استحکام جنرل صاحب کا مقصد اور ہدف ہے۔
دوم: کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے اصولی‘ تاریخی اور خود پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے ناگزیر موقف سے مکمل طور پر انحراف‘ جسے یو ٹرن اور سمت کی تبدیلی (paradigm shift) کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ یہ بھارت کے موقف کو کھل کر قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اب صاف لفظوں میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ بھارت سے کشمیر کی آزادی ہمارا مقصد نہیں۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اصل ایشو نہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کشمیریوں کا نعرہ تھا‘ پاکستان کا ہدف نہیں۔ جموں وکشمیر پر پاکستان کا کوئی حق نہیں۔ گویا ۵۹سال تک جو کچھ پاکستان کرتا رہا وہ جھک مارنے سے زیادہ نہیں تھا۔ جو قربانیاں جموں و کشمیر اورپاکستان کے مسلمانوں نے آج تک دیں اور جن میں ۶لاکھ افراد کی شہادت‘ ہزاروں خواتین کی عصمت دری‘ اربوں کی املاک کا اتلاف‘ ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاریاں‘ تعذیب اور مستقل معذوری‘ اور بھارت سے پاکستان کی چار جنگیں اور اس پس منظر میں فوج پر کھربوں روپے کا صرف___ سب ایک ڈھونگ‘ ایک سیاسی کھیل‘ ایک خسارے کا سودا تھا۔
اب فردِواحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو سندِجواز عطا کردے‘ استصوابِ راے اور حقِخود ارادیت سے دست بردار ہوجائے‘اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دفن کردے اور وہاں سے مسئلے کو واپس لینے تک کا اعلان کردے‘ آزادی اور تحریکِ آزادی سے برأت کا اظہار کر دے اور جو نظام جواہرلعل نہرو نے ۱۹۵۱ء میں دے کر ۱۹۵۳ء میں درہم برہم کردیا تھا اور جس خودمختاری کی خیرات دینے کا اعلان نرسمہارائو نے ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء میں بار بار کیا تھا‘ اس سے بھی کم پر کشمیریوں کا سودا کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا جائے۔ اس سے بھی بڑھ کر خود آزاد کشمیر پر بھی مشترک کنٹرول (joint control )اور مشترک انتظام (joint management) کی باتیں کی جائیں۔ سید علی شاہ گیلانی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے تمام ہی مخلص اور بھارت شناس قائدین نے اسے تحریک پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مسلمانوں اور پاکستانی قوم سے غداری قرار دیا ہے‘ اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کی قیادت اور جنرل پرویز مشرف کے اس کھیل کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
بات بہت صاف ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاست کی قسمت کا فیصلہ وہاں کے عوام کو تقسیم ہند کی اسکیم کے ایک عمل کے طور پر کرنا ہے۔ کشمیر کا قضیہ (dispute) زمین کی تقسیم یا سرحدات کی حدود میں تبدیلی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے جس پر ماہ و سال کے گزرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ آزادی اور حقوق کی جنگ امروز و فردا کی حدود کی پابند نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے عوام دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ برطانیہ‘ سکھ‘ ڈوگرہ‘ بھارتی حکمران‘ ان سب کے خلاف یہ جنگ لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں ان کے حلیف اور شریک ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینی‘ تہذیبی‘ معاشی‘ سیاسی‘ جغرافیائی ہر اعتبار سے ہمارا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جدوجہد میں جموں و کشمیر کے مسلمان برابر کے شریک تھے اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے اجتماع میں انھوں نے قائم ہونے والے پاکستان کے حصے کے طور پر شرکت کی تھی‘ اور ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام سے قبل انھوں نے اور ان کے منتخب نمایندوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا‘ اور اس اعلان کے تحت انھوں نے لڑکر جموں و کشمیر کا ایک حصہ عملاً آزاد کروایا جو آج آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کی شکل میں پاکستان سے متعلق ہے جسے ہم آزاد کشمیر کی حکومت کہتے ہیں۔ یہ محض ان علاقوں کی حکومت نہیں جو بھارت کے چنگل سے ۴۹-۱۹۴۷ء میں آزاد کرا لیے گئے تھے‘ بلکہ دراصل پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے جس کے تصور سے اب جنرل صاحب اور ان کے حواری توبہ کر رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کبھی نہیں کہا۔ یہ کہ اٹوٹ انگ ایک بھارتی واہمہ ہے اور ہم نے بھارت کے قبضے کو ہرسطح پر چیلنج کیا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر؟ کیا یہ بنیاد اس کے سوا کوئی اور تھی کہ ہندستان کی تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی بنا پر جموں و کشمیر پاکستان کا حق ہے۔ پاکستان کے الفاظ تک میں ’ک‘ کا تعلق کشمیر سے ہے‘ قرارداد پاکستان میں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ الحاق پاکستان کی قرارداد سے پاکستان اور کشمیر ایک جسم بن چکے ہیںاور قائداعظمؒ نے اسی بنیاد پر اسے پاکستان کی شہ رگ کہا۔ اسی بنیاد پر جہادِ آزادی کا آغاز ڈوگرہ راج کے خلاف ہوا جو آج تک جاری ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے کبھی اپنے کو پاکستان سے جدا تصور نہیں کیا۔
ان کی گھڑیاں پاکستان کی گھڑیوں کے مطابق وقت بتاتی ہیں‘ پاکستان کی ہرخوشی پر وہ خوش‘ ہر کامیابی پر وہ نازاں اور ہرمشکل پر وہ دل گرفتہ ہیں۔ انھوں نے بھارت کے تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا اور بڑی سے بڑی قربانی دے کر اس کے استبداد کا مقابلہ کیا۔ ۱۴ اگست کو وہ یومِ آزادی مناتے ہیں اور ۱۵ اگست کو یومِ سیاہ۔ بلاشبہہ تکمیل پاکستان کی اس جدوجہد کے لیے ہم نے بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرتے ہوئے استصواب راے کے قانونی عمل کی بات کی‘ اور جو بھی حق پسند ہوگا وہ اس کا اعتراف کرے گا جیساکہ امریکا کی قیادت کی وقتی مفادات پر مبنی قلابازیوں کے باوجود امریکا کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین آل برائٹ نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ء کو خود دہلی کی سرزمین پر برملا کہا تھا کہ: ’’کشمیری عوام کی خواہشات معلوم کرنے کا واحد راستہ استصواب راے عامہ ہے‘‘۔
ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کے لیے جان دے دیں‘ جموں و کشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں‘ ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی غاصب قیادت کو پیش کرنے اور اُمت مسلمہ کے ایک حصے کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کیوں نہ خوش ہو۔ سابق وزیراعظم گجرال کس مسرت سے کشمیر پر جنرل صاحب اور وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے بیان کو سنگِ میل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’کشمیر پر پاکستان کا دعویٰ ختم ہونے کے بعد مسئلے کا حل جلد نکل آئے گا‘‘۔
یہ مسئلے کا حل نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کو ہمیشہ کے لیے دشمنوں کے پنجے میں دینے اور ایک کروڑ انسانوں کو غلامی کی جہنم میں دھکیل دینے کی جسارت ہے۔ یہ آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کو بھارت کی افواج اور سیاسی دراندازیوں کے لیے کھولنے کی غداری ہے۔ یہ پاکستان کے تصور‘ اور قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے نقشۂ پاکستان کو درہم برہم کرنے کی سازش ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا نظریاتی ہی نہیں‘ جغرافیائی وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
یہ خطرات اب صرف نظری امکان کی حد سے بڑھ کر حقیقی تبدیلی کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں اور جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں وقت کے حقیقی خطرات کا صحیح ادراک کرکے ۱۹۴۰ء میں برطانیہ اور کانگرس کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا اسی طرح آج امریکا اور بھارت کے عزائم اور ان کا آلہ کار بننے والے طبقات اور قیادتوں کے مقابلے کا عزم اور پروگرام وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
آج ملت پاکستان کی جدوجہد کا ہدف تحفظِ پاکستان اور تحفظِ کشمیر ہے۔ کشمیر اور پاکستان کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جن کی نظر تاریخ کے حقائق پر ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر سے پسپائی دراصل پاکستان کے انتشار اور بربادی کا راستہ اور برعظیم کے نقشے کوایک بار پھر تبدیل کرنے اور اکھنڈ بھارت کے خواب میں رنگ بھرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ملتِ اسلامیۂ پاکستان نے پہلے بھی اپنے نظریاتی‘ تہذیبی اور جغرافیائی تحفظ کی جنگ ساری بے سروسامانی کے باوجود لڑی ہے اور ان شاء اللہ اب بھی لڑے گی۔ وسائل کے اعتبار سے آج ہم ۱۹۴۰ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ضرورت بیرونی سہاروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اللہ کے بھروسے پر حق و انصاف کے موقف پر ڈٹ جانے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ ہونے کی ہے۔
وہ قیادت جو قومی مقاصد کو ترک کرچکی ہے‘ اب قوم پر ایک بوجھ (liability) ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ (security risk)۔ ایسی قیادت سے نجات اور ایک ایسی متبادل قیادت کو زمامِ کار سونپنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ذاتی‘ گروہی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی اسیر نہ ہو‘ بلکہ ان پر ضرب لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو‘ جس سے دین اور قوم کے مفاد پر کسی سمجھوتے اور پسپائی کا خطرہ نہ ہو‘ جو خدا کی رضا اور ملتِ اسلامیۂ پاکستان کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتی ہو‘ جو اپنی تاریخ اور دنیا کی سامراجی قوتوں‘ خصوصیت سے امریکا٭ اور بھارت کے عزائم کاشعور رکھتی ہو اور جو قوم کو قربانیوں اور جدوجہد کے راستے پر متحرک کرنے اور اس راہ میں اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ کر ان کی قیادت کرنے کی مثال قائم کرسکتی ہو۔
آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال صرف ایک ہے___ کیا اب یہ قوم بیرونی ایجنڈے اور مفاد کی خاطر اصولوں کی قربانی دینے والی قیادت سے نجات کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمیں اپنا دین‘ اپنی آزادی‘ ملتِ اسلامیۂ پاکستان کی قربانیاں‘ اور پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ عزیز ہے تو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی سازش کا بھرپور مقابلہ کریں۔ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی جنگ آج کشمیر کے محاذ پر لڑی جارہی ہے اور وہاں پسپائی کے معنی دراصل مظفرآباد‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کو نشانے پر (’in the line of fire‘) لانے کے سواکچھ نہیں ع
تیرے نشتر کی زد شریانِ قیسِ ناتواں تک ہے
[قرآن مجید نے ان موانع رکاوٹوں کا تذکرہ کیا ہے جن کی وجہ سے لوگ ایمان قبول نہیں کرتے‘ یا اگر مسلمان ہوں تو پوری طرح ایمان کی راہ پر چل نہیں پاتے۔ ان کا مطالعہ کئی حوالوں سے مفید ہے۔]
وَمِنْھُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ لاَّ یُؤْمِنُ بِہٖ ط وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَo (یونس ۱۰:۴۰) ان میں سے کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے اور تیرا رب اُن مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔
ایمان نہ لانے والوں کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ ’’خدا ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے‘‘، یعنی وہ دُنیا کا منہ تو یہ باتیں بنا کر بند کر سکتے ہیں کہ صاحب ہماری سمجھ میں بات نہیں آتی اس لیے نیک نیتی کے ساتھ ہم اسے نہیں مانتے‘ لیکن خدا جو قلب و ضمیر کے چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہے وہ ان میں سے ایک ایک شخض کے متعلق جانتا ہے کہ کس کس طرح اس نے اپنے دل و دماغ پر قفل چڑھائے‘ اپنے آپ کو غفلتوں میں گم کیا‘ اپنے ضمیر کی آواز کو دبایا‘ اپنے قلب میں حق کی شہادت کو اُبھرنے سے روکا‘ اپنے ذہن سے قبولِ حق کی صلاحیت کو مٹایا‘ سن کر نہ سنا‘ سمجھتے ہوئے نہ سمجھنے کی کوشش کی اور حق کے مقابلے میں اپنے تعصّبات کو ‘ اپنے دنیوی مقاصد کو‘ اپنی باطل سے اُلجھی ہوئی اغراض کو اور اپنے نفس کی خواہشوں اور رغبتوں کو ترجیح دی۔ اسی بنا پر وہ ’معصوم گمراہ‘ نہیں ہیں بلکہ درحقیقت مفسد ہیں۔(تفھیم القرآن‘ ج ۲‘ سورئہ یونس‘ ص ۲۸۷)
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ ط اَفَانْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ کَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَo وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْکَط اَفَانْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْ کَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ o (یونس ۱۰:۴۲-۴۳) ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں‘ مگر کیا تو بہروں کو سنائے گا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟ اِن میں بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں‘ مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انھیں کچھ نہ سوجھتا ہو؟
ایک سننا تو اس طرح کا ہوتا ہے جیسے جانور بھی آواز سن لیتے ہیں۔ دوسرا سننا وہ ہوتا ہے جس میںمعنی کی طرف توجہ ہواو ر یہ آمادگی پائی جاتی ہو کہ بات اگر معقول ہو گی تو اسے مان لیا جائے گا۔ جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں اور جنھوں نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس کی رغبتوں اور دل چسپیوں کے خلاف کوئی بات‘ خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو‘ مان کر نہ دیں گے‘ وہ سب کچھ سن کر بھی کچھ نہیں سنتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سن کر نہیں دیتے جو دُنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور چرنے چگنے کے سوا کسی چیز سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے‘ یا نفس کی لذتوں اور خواہشوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انھیں اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایسے سب لوگ کانوں کے تو بہرے نہیں ہوتے مگر دل کے بہرے ہوتے ہیں۔
یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے جو اُوپر کے فقرے میں ہے۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں‘ ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے۔ اصل چیزوں کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہو تو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا۔
ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جارہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے۔ او ر اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا نہیں ہے بلکہ طنز کا تیرونشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے ‘ تاکہ معقول بات اور دردمندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ اُن کو اُس گری ہوئی حالت کا احساس دلا رہا ہو جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریق زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریق زندگی کیا ہے۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی اِن خیرخواہا نہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو۔ اس حالت میں عین اُس وقت جب کہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سنی اَن سنی کیے جا رہے ہوں‘ اس کا کوئی دوست آکر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو‘ ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ہِیّے [دل] کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔ یہ بات کہنے سے اُس دوست کا منشا یہ نہیں ہوگا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آجائے۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہوگی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آجائے۔(ایضاًص ۲۸۷-۲۸۸)
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَآئُ وْھُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُوْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ ط کَذٰلِکَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ o (یونس ۱۰:۷۴) پھر نوحؑ کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو اُن کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے‘ مگر جس چیز کو انھوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیتے ہیں۔
حد سے گزر جانے والے لوگ وہ ہیں جو ایک مرتبہ غلطی کر جانے کے بعد پھراپنی بات کی پچ اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اُسی غلطی پر اڑے رہتے ہیں۔ اور جس بات کو ماننے سے ایک دفعہ انکار کر چکے ہیںاسے پھر کسی فہمایش‘ کسی تلقین اور کسی معقول سے معقول دلیل سے بھی مان کر نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں پر آخرکار خدا کی ایسی پھٹکار پڑتی ہے کہ انھیں پھر کبھی راہِ راست پر آنے کی توفیق نہیں ملتی۔ (ایضاً‘ ص ۳۰۱)
فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّـآ اَنْزَلْنَــآ اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ ج لَقَدْ جَآئَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ o وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَتَکُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (یونس ۱۰:۹۴-۹۵) اب اگر تجھے اُس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے رب کی طرف سے‘ لہٰذا توشک کرنے والوں میں سے نہ ہو اور ان لوگوں میں نہ شامل ہو جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے‘ ورنہ تو نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہے مگر دراصل بات اُن لوگوں کو سنانی مقصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے۔ اور اہل کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے‘ ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی‘ مگر اہلِ کتاب کے علما میں سے جو لوگ متدین اور منصف مزاج تھے وہ اس امر کی تصدیق کر سکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیا دیتے رہے ہیں۔ (ایضاً‘ ص۳۱۱)
اَنْ تُؤْمِنَ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَo (یونس ۱۰:۱۰۰) اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا‘ اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔
یعنی جس طرح تمام نعمتیں اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے‘ اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحبِ ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پر منحصر ہے۔ کوئی شخص یہ اس نعمت کو اذن الٰہی کے بغیر خود پا سکتا ہے ‘ اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہے کہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کر دے۔ پس نبی اگر سچّے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بناسکتا۔ اس کے لیے اللہ کا اذن اور اس کی توفیق درکار ہے۔
یہاں صاف بتا دیا گیا کہ اللہ کا اذن اور اس کی توفیق کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیرکسی معقول ضابطے کے یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دیا اور جسے چاہا اس موقع سے محروم کر دیا۔ بلکہ اس کا ایک نہایت حکیمانہ ضابطہ ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بے لاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے حقیقت رسی کے اسباب و ذرائع اس کی سعی و طلب کے تناسب سے مہیا کر دیے جاتے ہیں‘ اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی توفیق بخشی جاتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں‘ یا سرے سے تلاش حقیقت میں اُسے استعمال ہی نہیں کرتے‘ تواُن کے لیے اللہ کے خزانۂ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی و غلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو انھی نجاستوں کا اہل بناتے ہیںاور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں۔ (ایضاً‘ ص ۳۱۴-۳۱۵)
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ o اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلاَّ النَّارُ ز وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (ھود۱۱:۱۵-۱۶) جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہوجائے گا کہ) جو کچھ انھوں نے دُنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
اس سلسلۂ کلام میں یہ بات اس مناسبت سے فرمائی گئی ہے کہ قرآن کی دعوت کو جس قسم کے لوگ اُس زمانے میں ردکر رہے تھے اور آج بھی رد کر رہے ہیں وہ زیادہ تر وہی تھے اور ہیں جن کے دل و دماغ پر دُنیا پرستی چھائی ہوئی ہے۔ خدا کے پیغام کو رد کرنے کے لیے جو دلیل بازیاں وہ کرتے ہیں وہ سب تو بعد کی چیزیں ہیں۔ پہلی چیز جو اس افکار کا اصل سبب ہے وہ ان کے نفس کا یہ فیصلہ ہے کہ دُنیا اور اس کے مادّی فائدوں سے بالاترکوئی شے قابل قدر نہیں ہے‘ اور یہ کہ ان فائدوں سے متمع ہونے کے لیے ان کو پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے۔
یعنی جس کے پیش نظر محض دُنیا اور اس کا فائدہ ہو‘ وہ اپنی دُنیا بنانے کی جیسی کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائے گا۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیش نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دُنیا طلب مساعی کی بارآوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دُنیا میں آدمی کی سعی اُن کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں بھی نافع ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شان دار مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے اُن تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بناکرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے اِنکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سروسامان موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی اِس دُنیا میں چھوڑدینا پڑے گا۔ (ایضاً‘ ص ۳۲۹)
وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُھُمْ ئَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ئَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ ج وَ اُولٰٓئِکَ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ ج وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (الرعد۱۳:۵) اب اگر تمھیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ ’’جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے توکیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیںگے۔
یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیرممکن ہے‘ بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذ اللہ وہ خدا عاجز درماندہ اور نادان و بے خرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔
گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت کے‘ اپنی ہٹ دھرمی کے‘ اپنی خواہشاتِ نفس کے‘ اور اپنے آباواجداد کی اندھی تقلید کے اسیربنے ہوئے ہیں۔ یہ آزادانہ غوروفکر نہیں کرسکتے۔ اِنھیں اِن کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے‘ اور انکارِ آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نامعقول ہے۔(ایضاً‘ ص ۴۴۶)
(انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)
امکانات سے بھری اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ انسانوں میں کوئی انسان ایسا ہو جس کے اندر کوئی عیب اور نقص نہ ہو‘ وہ کبھی غلطی اور خطا کا ارتکاب نہ کرتا ہو‘ اس سے کبھی گناہ نہ ہوتا ہو۔ خامیوں کوتاہیوں‘ غلطیوں اور خطائوں کے وقوع کو روک دینا انسان کے بس میں نہیں البتہ ان کے وقوع کے امکانات کو کم سے کم کرنا ممکن ہے۔ خطائوں اور برائیوں کے سلسلے کی تاریخ جس قدر مختصر ہوتی ہے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے اور یہ تاریخ جس قدر طویل ہو چھٹکارا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔
خطائوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلی چیز انسان کا احساس ہے۔ پھر اس کا ارادہ و عزم اور جوش و جذبہ اس احساس کو عملی قالب میں ڈھالتے ہیں تو انسان کی زندگی گناہوں سے دور اور نیکیوں سے قریب تر ہوتی جاتی ہے۔
احساس سے مراد انفرادی احساس ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے آپ کو پڑھنے کی کوشش کرے‘ اپنے نفس کی خرابیوں کو پہچانے اور ان کو دور کرنے کا محکم ارادہ کرے۔ تحریک اسلامی کے ایک کارکن کے لیے اس عمل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وہ جب داعی الی اللہ کی حیثیت سے اصلاحِ عوام کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اپنا دامن ان گناہوں سے پاک ہونا چاہیے جن گناہوں کی آلودگی سے وہ لوگوں کا تزکیہ کرنے کے لیے اٹھا ہے۔ اسے مضبوط عزم اور ٹھوس کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ اسے اپنے ایمان‘ علم‘ اخلاق اور کردار کے لحاظ سے ممتاز اور منفرد ہونا چاہیے۔
اس وقت حالات کی دگرگونی کا عالم یہ ہے کہ ہر سمجھ دار اور حسّاس فرد امت اسلامیہ کی دینی و اقتصادی اور سیاسی و اجتماعی زندگی کی بدحالی کا ذکر افسوسناک انداز میں کرتا ہے۔ یقینا یہ احساس ایک اچھے مستقبل کی تمہید ہے۔ حالات کی بہتری کے لیے اسی طرح کا احساس درکار ہوتا ہے‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ بہتری کا یہ عمل کیسے ممکن ہو۔ کوئی پر امن راستہ کون سا ہے جس پر چل کر اصلاحِ امت کی اس منزل تک پہنچا جا سکے؟ اگر صرف ایک جملے میں اس کا جواب دیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’فرد اپنی اصلاح کر لے تو امت کی بگڑی سنور سکتی ہے‘‘۔ مگر یہ کس طرح ہو؟
اصلاحِ نفس کے انداز و طریقے اور اسباب و ذرائع بے شمار ہیں۔ ہم صرف اس ایک ذریعے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس کو اختیار کر لیا جائے تو انسان تزکیہ و تربیت کے دیگر بہت سے ذرائع کی کمی کو از خود پورا کر سکتا ہے۔ یہ ذریعہ’محاسبۂ نفس‘ کا عمل ہے۔
اسلام کا پورا نظام دراصل فرد کی اصلاح کا ضابطہ پیش کرتا ہے۔ شریعت کے احکام کے علاوہ عقل و دانش کا تقاضا بھی ہے کہ مسلمان اپنی تربیتِ نفس کی طرف خصوصی توجہ دے۔ لہٰذا فرد کو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس نے کیا بھلائی کی اور کون سی برائی کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی فرائض کہاں تک ادا کر رہا ہے۔ اس جائزے کا مقصد اپنی آیندہ زندگی کو نکھارنے اور سنوارنے کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے محاسبۂ نفس کا تصور یوں دیا ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر ۵۹:۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو‘ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔
امام ابن کثیر کہتے ہیں: ’’اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے پہلے خود ہی اپنا محاسبہ کر لو اور دیکھو کہ تم نے قیامت کے روز اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کے لیے کیا اعمالِ صالحہ جمع کیے ہیں‘ اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تمھارے تمام احوال و اعمال کو خوب جانتا ہے۔ اس سے تمھاری کوئی شے مخفی نہیں‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر‘ج۴‘ص ۳۶۵)
حدیث رسولؐ سے بھی اس ضمن میں رہنمائی ملتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْقَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ المَوْتِ‘ وَالعَاجِزُ مَنْ أَتْبَع نَفْسَہُ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ الأَمَانِیَّ (ترمذی:۶۴۵۹) سمجھ دار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو مطیع کر لیا اور بعد الموت کے لیے عمل کیا۔ اور بے بس وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگا دیا اور اللہ سے آرزوئیں کرتا رہا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامشہور قول ہے:’’اپنا محاسبہ کیے جانے سے پہلے خود اپنا محاسبہ کر لو‘ اور اپنا وزن کیے جانے سے قبل خود اپنا وزن کر لو۔ یہ تمھارے لیے آسان ہے کہ کل کے حساب سے پہلے آج اپنا محاسبہ کر لو۔ اور بہت بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جائو‘ جس روز تم کو پیش کیا جائے گا تو تمھاری کوئی چیز مخفی نہیں ہو گی‘‘۔ (امام احمد‘ کتاب الزھد‘ ص ۱۷۷)
حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں:’’آدمی اس وقت تک بھلائی پر رہتا ہے جب تک اس کو وعظ و نصیحت کرنے والا اس کا اپنا نفس ہوتا ہے اور محاسبۂ نفس اس کی ترجیحات میں شمار ہوتا ہو‘‘۔
امام ابن قیم لکھتے ہیں: ’’غفلت‘ محاسبہ نہ کرنا‘ اصلاح کے کام کو مؤخر کرتے رہنا‘ اور معاملات کو معمولی خیال کرنا‘ یہ سب رویے تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور یہ دھوکے میں مبتلا لوگوں کی حالت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ نتائج و عواقب سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور پیش نظر صورت حال ہی کو دیکھتے اور معافی کے تصور پر انحصار کیے رہتے ہیں۔ وہ محاسبۂ نفس اور انجام پر نظر رکھنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ جب انسان ایسی روش اختیار کرنے لگے تو اس کے لیے ارتکابِ گناہ کے مواقع آسان ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ گناہوں سے اس کو پیار ہونے لگتا ہے اور ان سے کنارہ کش ہونا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے‘‘۔ (اغاثۃ اللھفان‘ ج ۱‘ ص ۷۷‘۱۳۲)
ابن قیمؒ محاسبۂ نفس کے طریقوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مفید طریقہ یہ ہے کہ آدمی سونے سے پہلے کچھ دیر کے لیے بیٹھ جائے اور اپنا محاسبہ کرے کہ آج اس کو کیا خسارہ ہوا اور کیا منافع؟ پھر از سر نو اللہ کے سامنے خالص توبہ کرے اور اس عزم کے ساتھ سوجائے کہ اب وہ بیدار ہو کر گناہ نہیں کرے گا۔ یہ عمل وہ روزانہ رات کو سوتے وقت انجام دے۔ اگر وہ ایسے عمل پر کسی روز فوت ہو گیا تو وہ توبہ پر فوت ہو گا‘ اور اگر بیدار ہو گا تو عملِ صالح کی طرف متوجہ ہوتا ہوا بیدار ہو گا۔(کتاب الروح‘ ص ۷۹)
انسان کو اپنے جن اعمال و افکار کا جائزہ لینا چاہیے اور محاسبہ کرنا چاہیے ان میں سرفہرست عقیدہ ہے۔ عقیدے کی درستی‘ توحید اور شرک خفی و شرکِ اصغر سے دُوری… عموماً ایسا مسئلہ ہے جس کی جانب لوگ توجہ نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ہی دیگر ایسے اعتقادات اور اعمال بھی ہیں جو توحید کے منافی ہوتے ہیں یا عقیدۂ توحید کو کمزور کرتے ہیں۔ دراصل توحید کا عقیدہ و تصور ہی انسان کو فرائض کی ادایگی پر آمادہ کرتا ہے‘ مثلاً پانچ وقت کی نماز با جماعت کا اہتمام‘ والدین کے ساتھ اچھا برتائو‘ رشتہ داری کو قائم رکھنا‘ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادایگی‘ پھر تمام چھوٹے بڑے محرمات و منکرات سے دور رہنا اور سنت و نفل اعمال و افعال کو انجام دینا۔ ان تمام صالح امور کی انجام دہی اور ممنوع امور سے اجتناب کے اہتمام پر یقینا انسان کے عقیدے کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ عقیدہ جس قدر قوی و مستحکم ہو گا اعمال کی ادایگی اسی قدر اہتمام سے ہو گی اور عقیدے میں کمزوری ہو گی تو اعمال کی ترتیب‘ ترجیح اور اہمیت بھی متاثر ہو گی۔
دوسری اہم چیز جس پر ایک فرد کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ’وقت‘ ہے۔ فرد کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ’وقت‘ سے کیسے اور کس قدر استفادہ کر رہا ہے۔ دراصل وقت ہی اس کی عمر اور اصل مال ہے اور یہ ضائع ہو گیا تو انسان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس اصل سرمایے کو خیر کے کاموں میں صرف کیا ہے یا برائی کے کاموں میں برباد کیا ہے۔ وقت کا استعمال برائی اور بھلائی کے علاوہ بھی ہوتا ہے اور وہ وقت کو بے مقصد اور فضول کاموں میں ضائع کرنا ہے۔ وقت کو اگر برے کام میں ضائع نہیں کیا اور اچھے کام میں بھی استعمال نہیں کیا گیا تو یہ بھی وقت کا ضیاع ہی ہے۔ وقت‘ یعنی انسان کی عمر سے متعلق رسول اکرمؐ نے فرمایا:’’قیامت کے روز جب تک چارچیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا انسان اپنے قدم ہلا نہیں سکے گا۔ ان چار چیزوں میں سے ایک چیز ’وقت‘ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں ختم کیا اور جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کن کاموں میں کھپایا‘‘۔
محاسبۂ نفس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان تمام رویوں‘ روشوں‘ اعمال و افعال اور افکار و خیالات سے دامن کش ہو جائے‘ جن کا خلافِ شریعت اور منافی ِاخلاق ہونا ثابت ہو۔ کوتاہی اور گناہ کے چھوٹے ہونے کو معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے غلطی اور گناہ سمجھتے ہوئے اس کو اپنے عمل کے دائرے سے خارج کر ڈالنے کے لیے کمر ہمت باندھنی چاہیے۔ یہ کام توبہ سے ہوتا ہے۔ غلط اعمال و افکار کا تعلق اگر براہِ راست شریعت سے ہو تو بھی توبہ ہی ان کی تطہیر کرتی ہے اور اگر انسانی رویوں سے ہو تب بھی توبہ ہی ان سے خلاصی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: ’’گناہوں سے توبہ فوراً ضروری ہے۔ اس کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔ اگر گناہ گار عملِ توبہ کو مؤخر کرے گا تو اپنی اس تاخیر میں اللہ کی نافرمانی کرے گا۔ اگر وہ توبہ تاخیر سے کرے گا تو گناہ سے اس کی توبہ کا فرض تو پورا ہو جائے گا مگر تاخیر کی غلطی کی توبہ اس کے ذمے باقی رہے گی۔ چونکہ یہ کوتاہی گناہگاروں کی عمومی روش ہوتی ہے‘ اس لیے اس سے نجات کا طریقہ یہ ہے کہ معلوم اور نامعلوم تمام گناہوں سے توبہ کی جائے‘‘۔ (مدارج السالکین ج۱‘ص ۲۷۲-۲۷۳)
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح گناہگاروں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور گناہوں سے تائب ہونے کی ضرورت ہے‘ اس طرح مطیع اور فرماںبردار لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا جس پر توبہ کرنا فرض ہے یا وہ یہ سمجھے کہ اسے توبہ کی ضرورت نہیں‘ وہ شخص دراصل غلط فہمی کا شکار ہے۔ وہ اپنے نفس کے دھوکے میں آجاتا ہے۔ وہ اپنے ذاتی کمال کے بھرے میں آ کر اپنے آپ کو بے گناہ سمجھ لیتا ہے۔ ایسا خیال جب تک انسان کے دماغ میں رہے‘ اس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شیطان نے اس کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اسی بنا پر بعض انسان اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور گناہوں پر اصرار کرتے ہیں۔
امام ابن تیمیہؒ اس سلسلے میں کہتے ہیں:’’انسان ہمیشہ اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمت پر اس کا شکر کرنے اور گناہ پر معافی مانگنے کی دو حالتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ دونوں امور ہمیشہ انسان کے ساتھ لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اللہ کی نعمتوں میں زندہ رہتا ہے اور ہمیشہ اسے توبہ و استغفار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم کے سردار اور متقیوں کے امام جناب محمد رسولؐ اللہ ہر حالت میں اللہ سے استغفار کرتے رہتے تھے‘‘۔(فتاویٰ ابن تیمیہ‘ ج ۱۰‘ ص ۸۸)
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو عمومی انداز میں مخاطب کرتے ہوئے انھیں خالص توبہ کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التحریم ۶۶:۸)’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے توبہ کرو‘ خالص توبہ‘‘۔ دوسری جگہ فرمایا: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹:۵۳) ’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو‘ جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘ وہ تو غفور رحیم ہے‘‘۔
گناہ کے بعد توبہ مومن کی صفت خاص ہے‘ اس کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اپنے بندوں کی قابل تعریف صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْص وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ص وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۵) (ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں) اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سر زد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اُوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً ً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے‘ اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو۔ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔
انسان سے غلطی اور خطا کا صدور ہر وقت ممکن ہوتا ہے اس سے کوئی انسان مبرا نہیں‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا: کُلُّکُمْ خَطَّائٌ وَ خَیْرُ الخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُون ’’تم میں سے ہر کوئی خطا کرسکتا ہے اور اپنی خطائوں پر توبہ کر لینے والے بہترین خطا کار ہیں‘‘۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا‘ حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرِ‘ یَقُولُ: مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبُ لَہُ‘ مَنْ یَسْأُلُنِی فَأُعْطِیْہِ‘ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرُ لَہُ (صحیح بخاری) ’’جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرما ہوتا ہے اور اعلان کرتا ہے: کوئی ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار کا جواب دوں‘ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کو عطا کروں‘ کوئی ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے میں اس کو معاف کر دوں‘‘۔
ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ تَعالٰی یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّھَارِ لِیَتُوبَ مُسِیئُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا (بخاری) ’’اللہ تعالیٰ رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے۔ اور دن کوہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ را ت کو گناہ کرنے والے پر مہربانی فرمائے یہاں تک کہ سورج اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع ہونا شروع ہو جائے‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے درِ توبہ قربِ قیامت تک کھلا ہے‘ جو بھی اس کی طرف بڑھے‘ لپکے یا دوڑے اس کو یہ دروازہ بند نہیں ملے گا۔ وہ رات کو جائے یا دن کی روشنی میں اسے ہر وقت اللہ تعالیٰ اپنے دامنِ عفو میں چھپالینے کے لیے تیار ہے۔
گناہ کے عام مفہوم کے متعلق یہ غلط فہمی دور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ گناہ صرف چوری‘ زنا اور غیبت جیسے برے کام ہی نہیں ہوتے بلکہ شریعت کے فرائض کو ادا نہ کرنا‘ یا ان کی ادایگی میں کمی یا کوتاہی کرنا بھی گناہ ہے‘ مثلاً نماز ادا نہ کرنا‘ یا مکمل طور پر ادا نہ کرنا‘ اس کے اوقات میں ادا کرنے سے سستی کرنا‘ جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنا‘ خشوع و خضوع سے ادا نہ کرنا۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا نہ کرنا‘ یا اللہ کی طرف دعوت دینے میں غفلت کرنا‘ یا مسلمانوں کے مسائل و معاملات سے سروکار نہ رکھنا‘ یا ایسے دیگر فرائض جن کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
گہرا ایمان اور اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ خوف رکھنے والے مسلمان کے نزدیک گناہ چھوٹے بڑے نہیں ہوتے۔ اس کے نزدیک تو تمام گناہوں پر توبہ فرض ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک تمام خطائیں اللہ کے حق میں گناہ ہوتی ہیں۔ کسی بزرگ نے کہا ہے: گناہ کے چھوٹا ہونے کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ گناہ کر کے نافرمانی کس کی کر رہے ہو۔
حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اِیَّاکُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ، فَاِنَّمَا مَثَلُ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ کَمَثَلِ قَومٍ نَزَلُوا بَطْنَ وَادٍ‘ فَجَائَ ذَابِعُودٍ‘ وَجَائَ ذَابِعُودٍ، حَتّٰی حَمِلُوا مَا أَنْضَجُوا بِہٖ خُبْزَھُمْ ، وَاِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتٰی یُؤْخَذُ بِھَا صَاحِبُھَا تَھْلْکُہُ (روایت‘ امام احمد بن حنبل ۵/۳۳۱) ’’گناہوں کو معمولی نہ سمجھو‘ گناہوں کو معمولی سمجھنا ایسا ہے جیسے کوئی قوم کسی جگہ پر (دوران سفر) ٹھہری اور کوئی اِدھر سے ایک لکڑی اٹھا لایا اور کوئی اُدھرسے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اس قدر لکڑیاں اکٹھی کر لیں جس سے ان کی روٹیاں پک سکیں۔ اور گناہوں کو معمولی سمجھنے کی بنا پر جب کسی انسان کو پکڑا جائے گا تو یہ روش اس کو ہلاک کر ڈالے گی‘‘۔
جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتا ہے اور آیندہ کے لیے اپنی دامن بچانے کا عہد کرتا ہے تو اس کے ذمے ایک فرض عائد ہو جاتا ہے۔ انسان جس قدر کوشش کرتا ہے اس کو اسی قدر اس کا صلہ ملتا ہے۔ لیکن ایک مؤمن کا معاملہ محض کوشش ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ وہ اس کوشش کو اللہ کی توفیق سے وابستہ کرتا ہے۔ وہ نیکی کرتا ہے تو اللہ کی حمد بیان کرتا ہے کہ اس نے اسے نیکی کرنے کی توفیق بخشی‘ گناہ سے بچتا ہے تو بھی اللہ کا شکر کرتا ہے کہ اللہ نے اسے گناہ سے بچا لیا۔
اس تناظر میں دیکھیں تو نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کے لیے توفیق ایزدی کا ہونا ہمارے ایمان کا جزو قرار پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس توفیق ایزدی کے حصول کے لیے مومن کو دعا کا طریقہ بتایا گیا ہے۔
مسلمان معاشروں کے انفرادی و اجتماعی تمام دائروں میں دعا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ فرد کی ذاتی اصلاح اور محاسبۂ نفس میں اس کی ضرورت و اہمیت سے وہی شخص حقیقتاً آگاہ ہو سکتا ہے جو اس تجربے سے گزرا ہو۔ دعا دراصل انسان کا اللہ کے سامنے بے بسی‘ عاجزی اور فقیری کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت اور سطوت و جبروت کا اعتراف ہوتا ہے۔ دعا کی ترغیب خود اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی ہے:
وقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْ ط (المومن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔
دوسری جگہ فرمایا:
اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ ۲:۱۸۶) پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے‘ میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا: مَا عَلَی الأَرْضِ مُسْلِمٌ یَدْعُو اللّٰہَ بِدَعْوَۃٍ اِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ اِیَّاھَا‘ أَوْصَرَفَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَھَا‘ مَا لَمْ یَدَعْ بِـاِثْمٍ أَوْقَطِیْعَۃِ رَحِمٍ(ترمذی) ’’روے زمین پر جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا پوری کر دیتا ہے‘ یا مطلوبہ چیز کے مثل کوئی شر دفع کر دیتا ہے۔ (قبولیت کا یہ حق اسے اس وقت تک حاصل رہتا ہے) جب تک وہ کسی گناہ کے لیے یا رشتے داری توڑنے کے لیے دعا نہ کرے‘‘۔
یہ بات سن کر ایک شخص بولا تب تو ہم بہت زیادہ دعا کیا کریں گے۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ اس سے بھی بہت زیادہ دے سکتا ہے۔
ایک حدیث میں اس شخص کو بے بس کہا گیا ہے جو دعا کرنے سے عاجز ہو۔ فرمایا: أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعَائِ (جامع ترمذی) ’’لوگوں میں سب سے زیادہ بے بس وہ شخص ہے جو دعا نہ کر سکتا ہو‘‘۔
رسول اکرمؐ نے تزکیہ نفس اور دعا کے باہمی تعلق کو صراحت سے بیان فرمایا ہے کہ یہ تزکیہ کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے فرمایا: اِنَّ الاِیْمَانَ لَیَخْلُقُ فِیْ جَوْفِ أَحَدِکُمْ کَمَا یَخْلُقُ الثَّوْبُ‘ فَسَلُوا اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یُجَدِّدَ الاِیْمَانَ فِی قُلُوبِکُمْ(طبرانی‘ حدیث حسن) ’’جس طرح کپڑا پرانا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم میں سے کسی کے پیٹ (مراد دل) میں موجود ایمان بھی پرانا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعا کرتے رہو کہ وہ تمھارے دلوں میں موجود ایمان کی تجدید کرتا رہے‘‘۔
جو شخص دعا کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے‘ گویا اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اسے خیر کی توفیق اور راہ راست کی طرف ہدایت کے لیے اللہ کی نصرت کی خصوصی ضرورت ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ توفیقِ الٰہی مجھے میسر نہ رہی تو میں دنیا و آخرت میں سراسر خسارے میں رہوں گا۔ اس احساس کو جس قدر مضبوط کیا جائے اس کے فوائد اسی قدر بڑھتے جائیں گے۔ مسلمان کی زندگی میں اسے عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحے بڑھتے رہنا ضروری ہے۔ جب اسے احساس کی یہ توفیق میسر ہو گی تو وہ ہر لمحے اپنی دعا کی قبولیت کے لیے اللہ سے پُرامید رہے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ الحاح اور آہ و زاری کے ساتھ اللہ سے اپنی حاجت طلب کرے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کی صلاح و سلامتی کے لیے دعا گو رہے گا۔ ہمیشہ اللہ کی عبادت اور ذکر و شکر کی توفیق مانگتا رہے گا۔
یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ رات کی آخری تہائی‘ اذان اور اقامت کا درمیانی وقت اور حالت سجدہ قبولیت ِدعا کے بہترین اوقات ہیں۔
محاسبۂ نفس کے یہ تمام ذرائع دراصل انسان کی تربیتِ نفس کے ذرائع ہیں‘ اور شریعت کا مقصود نفس کی تربیت ہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو الٰہ بنا کر زندگی بھر ان کی پیروی نہ کرے بلکہ نفس کو ایک ضابطے اور قاعدے کا پابند بنا کر محفوظ اور پُرامن راستے پر چلائے‘ جو اس کو کامیابی و کامرانی کی منزل پر پہنچا دے۔ قرآن مجید نے اس تزکیے کو کامیابی کا ذریعہ بتایا ہے‘ فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o (الاعلٰی ۸۷:۱۴-۱۵) فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمّس ۹۱:۹‘۱۰) یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔
اس سفر تربیت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے: محاسبہ نفس‘ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے اور تزکیہ نفس کامرانیِ نفس کا باعث ہے۔ اس کامیابی کا دوسرا نام خوشنودیِ رب ہے جسے حاصل کرنا مومن کی زندگی کا مقصود و مطلوب ہے۔
انتہا پسندی‘ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی اصطلاحات اتنی کثرت کے ساتھ مسلمانوں اور اسلام کے حوالے سے استعمال ہوتی رہی ہیں کہ آج مغرب ہو یا مشرق‘ ان اصطلاحات کو سننے والے کے تصور میں جو خاکہ اُبھرتا ہے وہ یا تو کسی فلسطینی جاں نثار سے ملتا ہوا ہوتا ہے یا کسی افغان مجاہد کی شکل جیسا۔ ان خاکوں میں خدوخال کے لحاظ سے بڑی مماثلت نظر آتی ہے۔ لباس‘ چہرہ‘ داڑھی‘ سر پر رومال‘ کلاشنکوف خود بخود اس خاکے کے ہمراہ چلے آتے ہیں اور سننے والے کے ذہن میں نہ کبھی آئرش ری پبلک میں ہونے والے ۳۰ سالہ مذہبی جنونی دور کی یاد آتی ہے نہ اسپین‘ نکاراگوا‘ سری لنکا وغیرہ کے فدائیان اور خودکش حملہ آوروں کا خیال آتا ہے بلکہ صرف اور صرف جو تصویر ذہن میںاُبھرتی ہے وہ کشمیر یا فلسطین یا عراق و افغانستان کے حریت پسند افراد کی ہوتی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو اس مقام تک آنے میں‘ ہمارے ذہنی سفرکو تقریباً دو صدیاں لگی ہیں۔ اس بظاہرطویل عرصے میں اسلام اور مسلمانوں کی ثقافت و دین کو ایک جارحانہ‘ غیرامن پسند‘ non-pacifist‘ خون آشام اور شدت پسند دین کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور مسلم دانش وروں کے ایک گروہ نے بالعموم اپنا دفاع کرتے ہوئے معذرت پسندانہ رویے کے ساتھ یہ بات باور کرانا چاہی کہ اسلام جیسا کہ اس اصطلاح کے مادے سے ظاہر ہوتا ہے‘ امن اور سلامتی کا علم بردار ’مذہب‘ ہے جو صرف اور صرف دفاعی مقاصد کے لیے ’جہاد‘ کو جائز قرار دیتا ہے۔ معذرت پسندانہ مکتب ِفکر نے مدافعانہ جہاد کو عموم کی شکل دے کر ردعمل کے طور پر جہاد کرنے کو اصل رُوحِ اسلام قرار دیا اور یہ اصرار کیا کہ اسلام جارحیت اور جہاد میں پہل کرنے کا قائل نہیں ہے۔ ان حضرات کی نگاہ میں یہ مدافعانہ جہاد بھی ماضی میں ایک خاص دور تک کے لیے ممکن تھا۔ آج کے پُرامن اور ترقی پسند دور میں جہاد کا اطلاق صرف قلب کی صفائی اور تزکیۂ نفس کے دائرے ہی میں ہوسکتا ہے وغیرہ۔
دوسری جانب ایک طرزِفکر یہ اُبھرا کہ اسلام اور غیراسلام کا مقابلہ اگر ہوسکتا ہے تو صرف قوت و تلوار کی زبان کے ساتھ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جارحانہ طرزِعمل کا مقابلہ اور رد‘ قوت کے استعمال سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ قوت کا استعمال وقت کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہرحد کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ صرف محارب ہی نہیں‘ مخالف کیمپ کے ہر مشرک اور کافر کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور دلیل بھی کچھ اس طرح وضع کی گئی کہ اگر جاپانی خودکش حملہ آوروں نے دور جدید میں جنگ عظیم کے دوران جس طرح اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے وطن کی عزت میں اضافہ کیا تھا تو آج اسلام کے دشمن پر ضرب لگانے کے لیے خودکش حملہ آوری کا راستہ اختیار کرنے میں کوئی تردد کیوں ہو؟
ان دونوں نقطہ ہاے نظر سے ہٹ کر ایک تیسری فکر بھی میدان میں اُبھری جس نے قرآن و سنت سے رشتہ جوڑتے ہوئے‘ بغیر کسی معذرت یا جارحیت کے یہ چاہا کہ براہِ راست اسلامی مصادر کی روشنی میں دین کے خدوخال کو واضح کیا جائے اور خصوصاً اسلام کے اصلاحی کردار اور اس کی جامعیت اور جدیدیت کو قرآن وسنت کے تناظر میں پیش کیا جائے۔ یہ تیسرا نقطۂ نظر ان تحریکاتِ اصلاح کا ہے جو دور جدید میں اسلام کے معاشی‘سیاسی‘ معاشرتی اور ثقافتی کردار کو اُجاگر کرتے ہوئے تبدیلیِ نظام اور قیامِ عدل کے لیے اسلامی اصولوں پر مبنی ریاست اور معاشرے کی تعمیر کی علم بردار ہیں۔
مغرب نے پہلے نقطۂ نظر کو moderateیا متوازن قرار دیا لیکن بقیہ دونوں طرزِعمل اس کی تنقید کا ہدف بنے۔ اصلاحی تحریکات کو ان کی نمایاں دستوری اور پُرامن تحریک ہونے کے باوجود اکثر بنیاد پرست (fundamentalist) تحریکات قرار دے دیا گیا۔ اگر معروضی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اصلاحی تحریکات اپنے مقاصد‘ طریق کار اور تصور انقلاب کے لحاظ سے نہ قدامت پرست کہی جاسکتی ہیں اور نہ بنیاد پرست۔پھر مغرب نے ایسا کیوں کیا اور آج دنیا کے کسی بھی گوشے میں اگر اسلامی معیشت‘ اسلامی ثقافت‘ اسلامی ریاست‘ اسلامی ابلاغ عامہ‘ اسلامی معاشرت اور اسلامی قانون کی بات کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مغربی دانش ور‘ صحافی اور کہربائی ابلاغ عامہ کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور بلا کسی تردد کے ایسی تمام تحریکات اور ان کے قائدین کو بنیادپرست قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان تحریکات کو انتہاپسند بلکہ شدت پسند کہنے میں بھی تکلف نہیں کیا جاتا۔ اس اہم اور بنیادی سوال پر غور کرنے سے پہلے ہمیں اِس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ جس طرح مغرب نے گذشتہ ڈھائی سو سال میں استشراق (Orientalism) کے زیرعنوان مشرق اور بالخصوص مسلم معاشروں اور مسلمانوں کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ان کی تاریخ‘ ثقافت‘ زبانوں‘ ادب اور فنون کا مطالعہ کیا ہے۔ ہم نے اتنی ہی سنجیدگی‘ لگن اور تحقیق کے ساتھ مغرب کے ذہن کو سمجھنے کی کوشش ابھی تک نہیں کی۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے کہ تحریکاتِ اصلاح کو بنیاد پرست اور انتہاپسند کیوں کہا جاتا ہے‘ پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ خود مغرب کے ذہن میں ان اصطلاحات کا مفہوم و پس منظر کیا ہے۔
بنیاد پرستی یا اساسیت کی اصطلاحات تاریخی اور فکری طور پر عیسائی فرقوں میں پائے جانے والے عقائد و رجحانات کے حوالے سے وجود میں آئیں۔ چنانچہ برطانیہ میں ۱۸۲۸ء میں ہزاروی Millenariam تحریک چرچ آف انگلینڈ میں پھیلی اور بعض فرقوں( Evangelicals اور Catholic Brethren) میں اس کا نفوذ و فروغ ہوا۔ ۱۸۷۰ء میں اس کے اثرات امریکا میں ظاہر ہوئے اور Pentacostalist ‘Presbyterian اور Baptistچرچ کے پیروکار معقول تعداد میں اس تحریک میں شامل ہونے شروع ہوئے۱؎ اور جلد ایسے ادارے وجود میں آئے جن کا مقصد Millenariamکے عقائد کا فروغ تھا۔ یہ حضرت عیسٰی ؑکے دوبارہ ظہورکے منتظر تھے۔ ان کا خیال تھا کہ Church age کاآغاز ہوچکا ہے جس میں حضرت عیسٰی ؑکو دوبارہ دنیا میں آنا ہے۔ بعض بنیادپرستوں نے ان کی آمد کی تاریخ بھی اندازاً مشہور کردی لیکن ان کی آمد سے قبل حضرت سلیمان ؑ کے ہیکل کو دوبارہ تعمیرکرنا ہوگا جس کے لیے اسرائیل کی ریاست کا وجود میں آنا ضروری ہے گویا یہ بنیاد پرست عیسائی فرقے اسرائیلی ریاست کے قیام کے حامی اور علم بردار بن گئے۔ اس کا ایک اور بنیادی عقیدہ جس کی بناپر یہ بنیادپرست کہلائے‘ یہ تھا کہ ’’حق بجاے خود الفاظ میں محفوظ ہوتا ہے۔ چنانچہ الفاظ کے معنی کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے اور الفاظ زندگی میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں‘‘۔۲؎ اس تصور کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ بائبل کو لفظاً لفظاً (literally) اللہ کا کلام مان کر ان حضرات نے یہ راے قائم کرلی کہ بائبل کے الفاظ کی کوئی عقلی تعبیر و توضیح نہیں کی جاسکتی بلکہ الفاظ کو جیسے کہ وہ ہیں‘ ویسا ہی مانا اور پڑھا جائے۔۳؎
اس تحریک کا تیسرا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ ہر جدید چیز مردود ہے اور عیسائی عقیدے کے منافی ہے۔ چنانچہ جدید سائنسی نظریات بالخصوص نظریۂ ارتقا کی مخالفت اس تحریک کی پہچان بن گئی۔ عیسائیت میں اس طرزفکر کے حوالے سے لائنل کیپلان ( Lionel Caplan) کا کہناہے کہ عیسائی بنیاد پرستی پروٹسٹنٹ فرقوں اور خصوصاً کرشماتی (Charismatic)عقیدہ رکھنے والوں میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔۴؎
اسلام کے حوالے سے ۱۹۵۷ء میں پہلی مرتبہ امریکی مجلے مڈل ایسٹ جرنل نے یہ اصطلاح استعمال کی اور پھر آہستہ آہستہ ہر اُس گروہ کے لیے جو مروجہ نظام کی جگہ قرآن کی بنیاد پر معاشرتی اور سیاسی تبدیلی چاہتا ہو‘ اس اصطلاح کو استعمال کیا جانے لگا۔ چنانچہ معروف برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ نے اسی عنوان کے تحت اپنی کتاب میں یہ بات کہی۔ وہ روایت پرستی جو ماضی کے تصورات میں کسی تبدیلی کے بغیر اور آج کے دور کے ترقی کے تصورات کو نظرانداز کرتے ہوئے جدیدیت اور تغیر کی جگہ روایت پر عمل کرنا چاہتی ہو تو اسے مسلم بنیاد پرستی کہا جائے گا۔۵؎ بعض سادہ لوح مسلمان مفکرین اس اصطلاح کے فنی معنی تک پہنچے بغیر محض لغت میں اس کا مفہوم دیکھ کر جوش و جذبے کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ اسلام میں بعض تعلیمات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جنھیں بنیادی عقائد کہا جاتا ہے‘ اس لیے جو بھی ان بنیادوں کو مانتا ہے‘ اسے ببانگ دہل اپنے آپ کو بنیاد پرست کہنا چاہیے۔ عیسائی بنیاد پرستی کے حوالے سے جو کچھ اُوپر درج کیا گیا ہے اس کی بنا پر عیسائی بنیاد پرستی کی اصطلاح تو ان فرقوں پر چسپاں ہوتی ہے لیکن اسلام تو اندھے عقیدے کی جگہ شعوری اور عقلی طور پر حقائق کو جانچ پرکھ کر خالق کائنات اور اس کی بھیجی ہوئی ہدایت اور انبیا و رسل کو ماننے کی دعوت دیتا ہے اور کلامِ عزیز کے ہرہر صفحے پر تعقل‘ تدبر‘ تفکر‘ تفہیم‘ تذکرہ‘ تعلیم‘ تفقہ‘ تحلیل و تجزیہ کرنے‘ عقل کا استعمال کرنے اور سوچ سمجھ کر اللہ کی بندگی اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے تو اسلامی عقاید کو کس بنیاد پر اندھا عقیدہ اور عقل دشمن کہا جاسکتا ہے‘ جب کہ بنیاد پرستی کا مطلب ہی یہ ہے کہ عقلیت کو رد کر کے محض اندھی تقلید اختیار کرلی جائے۔
عیسائی بنیاد پرستی کا دعویٰ ہے کہ بائبل کے الفاظ٭ جیسے ہیں انھیں ویسا ہی مانا جائے گا‘ ان کی کوئی تعبیر نہیں کی جائے گی۔ مسلم مفسرین نے قرآن کریم کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے مختلف زاویوں سے قرآن کریم کی آیات پر تفکر اور تدبر کے نتیجے میں اپنی تعبیر اور تاویل کو تفاسیر کی شکل میں قلم بند کیا۔ کسی نے ادبی پہلو کو‘ کسی نے بلاغت وفصاحت کو‘ کسی نے فقہی اور قانونی زاویے کو‘ کسی نے عقیدے اور کلام کے نقطۂ نظر سے اور کسی نے دعوت وہدایت کے نقطۂ نظر سے قرآن کریم کی تفسیر لکھی۔ ابن کثیر‘ طبری‘ بیضاوی‘ قرطبی‘ زمخشری‘ رازی‘ طنطاوی‘ طباطبائی‘ مودودی‘ قطب کے نام سے تفسیر کا ہرطالب علم اسی لیے آگاہ ہے کہ ہرایک کا زاویہ دوسرے سے مختلف ہے۔ اگرچہ ہر مفسر کا نقطۂ آغاز مختلف تھا لیکن ان سب تفاسیر میں عقلی تفہیم‘ توجیہہ اور تشریح قدرمشترک نظر آتی ہے۔ سیکڑوں تفاسیر کا ۱۵ سو سال میںوجود میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کے الفاظ کی تفہیم‘ تعبیر‘ تجزیہ اور تحلیل کرنے والے اس معنی میں بنیاد پرست نہیں ہوسکتے‘ جو یورپ کے محققین نے وضع کیا ہے اسی طرح روایت اور جدیدیت میں تضاد اور تناقص ہماری تاریخ کا خاصہ ہے جس کے بغیر یورپ کی تاریخ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
پھر مسلمانوں کو بنیاد پرست قراردینے کا مطلب کیا ہے؟ دراصل مغربی مفکرین اور ان کے زیرسایہ تربیت پانے والے مسلم دانش وروں نے جن مفروضوں پر یہ راے قائم کی‘ وہ بنیادی طور پر چار ہیں: پہلا مفروضہ یہ ہے کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح عبادات‘ رسومات اور تہواروں کا ایک مذہب ہے۔ مادہ پرست تہذیب میں وہ تمام شعبے جو کبھی مذہب سے وابستہ تھے‘ آج نام نہاد سول سوسائٹی ان تمام کاموں کو انجام دے رہی ہے اِس بنا پر مادہ پرست تہذیب میں مذہب کا وجود بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی روحانیت زدہ شخص مذہب کی ضرورت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ ذاتی حیثیت میں جو چاہے کرے لیکن اسے مذہب کو معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ قانونی اور ثقافتی معاملات میں داخل کرنے کا کوئی حق نہیں۔
دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ قرآن کریم بھی بائبل کی طرح ایک ’مذہبی کتاب‘ ہے اور جس طرح بنیاد پرست عیسائیت میں بائبل کی طرف رجوع کرنے کا مطلب اس کی لفظی پیروی لیا جاتا ہے اسی طرح جو تحریکات قرآن کی طرف آنے کی دعوت دیتی ہیں‘ ان کو بھی قیاساً بنیاد پرست تحریکات سمجھ لیاگیا۔ اس مفروضے کے حوالے سے نہ صرف غیرمسلم مستشرق ایک بڑے مغالطے کا شکار ہیں بلکہ جدیدیت زدہ مسلمان بھی اُس غلط فہمی کو پھیلانے میں ان کے شریک ہیں۔ حقیقت ِواقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور بائبل کا مقابلہ اور موازنہ کسی پہلو سے بھی درست نہیں‘ اس لیے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ جب کہ عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسٰی ؑبذاتِ خود اللہ کا کلام اور پرتو ہیں۔ قرآن کریم کا مصنف اللہ تعالیٰ خود ہے جب کہ بائبل کو مختلف ادوار کے انسانی مصنفین نے تحریر کیا ہے۔ چنانچہ اس کی ۲۷کتب مختلف محرروں کے ناموں سے منسوب ہیں‘ جب کہ قرآن اوّل تا آخر کلامِ الٰہی ہے اور اس میں نہ ایک حرف کا اضافہ ہوا ہے اور نہ کمی۔ یہ براہِ راست اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کلام ہے جسے حفظ اور تحریر کی شکل میں محفوظ کرلیا گیا۔ ثانیاً قرآن کی طرف آنے کی دعوت ایک دعوتِ فکر‘ دعوتِ تجزیہ اور دعوتِ تعقل ہے اوریہ قرآن کی لفظی پیروی کی جگہ قرآن کریم کے احکامات و اصول کو سمجھنے اور ہردور میں ان کی تطبیق کے راستے نکالنے کی دعوت ہے۔
تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات کی نظامِ اسلامی کے قیام کی دعوت یا اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ دراصل تھیاکریسی کے قیام کا مطالبہ ہے جس نے یورپ کو ایک عرصے تک دہشت زدہ رکھا۔ چنانچہ دورِ جدید میں ایسی تھیاکریسی کے قیام سے امنِ عالم کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے وہ تمام تحریکات جو اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہیں‘ ان کے نقطۂ نظر سے بنیادپرستی اور انتہا پسندی کی تحریکات ہیں۔
چوتھا مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات روایت پرستی کی علم بردار اور جدیدیت کی دشمن ہیں اس کے برخلاف مغرب کے مفکرین جدیدیت (modernism) سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مابعد الجدیدیت (post - modernism)کی بات کرتے رہے ہیں ‘ جب کہ مسلم نشاتِ ثانیہ کے علم بردار ہمیشہ خلافتِ راشدہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بات کرتے ہیں جو مغرب کی نگاہ میں قدامت پرستی ہے۔ لیکن ایک مشترکہ عقیدے کی حیثیت سے یورپی فکر اپنے معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور ثقافتی نظام ہی کو جدیدیت کا حقیقی مظہر سمجھتی ہے اور اس بنا پر جب تک دیگر اقوام جدیدیت یا مغربیت کو اختیار نہ کرلیں انھیں اجنبی (allien) اور تہذیبی لحاظ سے اپنے سے کم تر سمجھتی ہیں اس بات کو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر ہن ٹنگٹن نے یوں بیان کیا ہے:
Only when Muslims explicitly accept the western model will they be in a position to technicalize and then to develop. ۶؎
گویا جب تک مغربی تہذیب کی بنیادوں کو اختیار نہیں کیا جائے گا‘ اس وقت تک مسلم دنیا میں سائنسی اور معاشی ترقی کا کوئی امکان نہیں ہوسکتا‘ اور وہ ترقی کی دوڑ میں مغرب سے پیچھے رہے گی۔
معاشی استدلال ہی کو آگے بڑھاتے ہوئے مغربی مفکرین یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ معاشی زبوں حالی اور مذہبی جنونیت کا قریبی تعلق ہے اور مسلمانوں کا معاشی احساس محرومی ہی انھیں مذہبی شدت پسندی کے ذریعے مغرب کے خلاف اپنے غصے کو نکالنے پر اُبھارتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے علم برداروں کے یہ تصورات کارل مارکس کے نظریہ ٹکرائو کا پرتو معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اس کی فکر کی اساس بھی اس تصور پر تھی کہ مزدور کا یہی احساس محرومی اور مذہب کا بطور ایک حربے کے مزدور کے خلاف استعمال کیا جانا معاشرتی تنائو اور ٹکراؤ کو پیدا کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو کچھ اور آگے بڑھاتے ہوئے ہن ٹنگٹن نے نہ صرف اس احساسِ محرومی کے نتیجے میں پیداہونے والی شدت اور بنیاد پرستی کو بلکہ خود دین اسلام کی تعلیمات کو اس اختلاف‘ ٹکرائو اور نفرت کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے:
The underlying problem for the west is not islamic fundamentalism. It is Islam, a different civilization whose people are convinced of the superiority of their culture and obsessed with the inferiority of their power. ۷؎
مسلم دنیا ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی انتہاپسند یا شدت پسند تحریک ردعمل کے طور پر اُبھری ہے‘ اس کے پیچھے بڑے واضح‘ تاریخی اسباب نظر آتے ہیں۔ ان میں درج ذیل سات اسباب زیادہ اہم کہے جاسکتے ہیں:
۱- سیاسی غلبہ و استبداد اور آزادی کے حق کی پامالی: مغربی لادینی سامراجی نظام ہو یا مسلم ملوکیت اور آمریت‘ جب بھی انسان کے بنیادی حقوق: جان‘ عقل‘ دین‘ نسل اورمال کو نشانہ بنایا جائے گا اور افراد کو ان حقوق سے محروم کیا جائے گا‘ فطری طور پر شدت پسندی ردعمل کی شکل میں اُبھرے گی۔ فلسطین میں امریکا اور برطانیہ کی پشت پناہی میں اسرائیل جارحیت و بربریت ہو یا کشمیر میں ہندستانی سیکورٹی فورس کی درندگی‘ جب بھی اور جہاں بھی انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے گا ان کی جان‘ گھربار‘ عزیز واقربا‘ معیشت و معاشرت اور ثقافت کو تباہ و برباد کیا جائے گا‘ انتہاپسندی اور شدت پسندی کا ظہور ہوگا۔ ظلم کے ردعمل میں ظاہر ہونے والی شدت پسندی کا توڑ قوت کے اندھے استعمال سے نہ تاریخ انسانی میں ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ یہ تو ممکن ہے کہ وقتی طور پر مظلوم انسانوں کو مستضعفین فی الارض بنا دیا جائے لیکن دہشت گردی کے ذریعے انھیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی صرف دہشت گردی ہی کو جنم دے سکتی ہے‘ امن و سکون کو پیدا نہیں کرسکتی۔
۲- غربت و افلاس اور عدل سے محرومی: انسانی تاریخ میں ایسے معاشرے تو مل جاتے ہیں جہاں فاقہ کشی ہو‘ غربت ہو لیکن معاشرے میں عدل ہو۔ ایسے معاشرے نہیں مل سکے جہاں عدل نہ ہو اور اس کے باوجود امن‘ سکون‘ برکت اور تحفظ پایا جائے۔ جب بھی کسی قوم کو عدل سے محروم کیا جائے گا اس میں شدت پسندی‘ انتہا پسندی فطری عمل کے طور پر پیدا ہوگی۔
۳- سیاسی استحصال: انتہا پسندی کے پیدا ہونے کا ایک بڑاسبب صحت مند سیاسی ماحول اور فضا کا موجود نہ ہونا ہے۔ سیاسی آزادیوں کا پامال کیا جانا‘ متاثرہ افراد کو غیرسیاسی‘ عسکری شدت پسند ذرائع کے استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ جابرانہ سیاسی تسلط کو ختم کرنے کے لیے انتہاپسند ذرائع کا استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اکثر فوجی انقلاب اور عوامی انقلاب سیاسی استحصال کے جواب ہی میں وجود میں آتے ہیں۔
۴- معاشرتی اور معاشی غلامی: معاشرتی اور معاشی غلامی اور ناانصافی متاثرہ افراد کو قوت کے ذریعے اپنے حقوق کے حصول پر اُبھارتی ہے اور معاشرے کے مختلف طبقات میں انتہاپسند ذرائع کا استعمال عام ہوجاتا ہے۔ اس کا حل قوت کے ذریعے ان تحریکات کو روکنے سے نہیں ہوسکتا۔ جب تک ان اسباب کو دُور نہ کیا جائے۔ اندھی قوت ان مسائل کا حل نہیں کرسکتی۔
۵- ثقافتی یلغار و تھذیبی محکومیت: ہر قوم کی ایک ثقافت و تہذیب ہوتی ہے جو اس کی اقدار حیات کی امین ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کو اس کی ثقافت و تہذیب اور اخلاقی اقدار سے محروم کرنے کے لیے اس پر بیرونی استعماری تہذیب و ثقافت مسلط کی جاتی ہے تو ردعمل کے طور پر انتہاپسندی کا ظہور ہوتا ہے۔ الجزائر میں فرانسیسی سامراجیت نے ڈیڑھ سو سال تک مقامی تہذیب و ثقافت کی جگہ اپنی اقدارِ حیات کو ان پر مسلط کیا۔ آخرکار الجزائر کی تحریک حریت نے قوت کے استعمال کے ذریعے غلامی کے قلاوے کو گردن سے اُتار پھینکا اور فرانسیسی قوت کا استعمال اس عمل کو نہ روک سکا۔ گویا ثقافتی یلغار جب بھی اور جہاں بھی ہوگی اس کا ردعمل ظاہر ہونا بالکل فطری ہے۔
۶- حریت پسند مزاحمتی تحریکات: انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی طویل عرصہ تک حریت پسند مزاحمتی تحریکات کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے‘ مزاحمت کے طول پکڑنے کے ساتھ ہی شدت پسندی اور انتہاپسندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ طویل عرصے کی جدوجہد کے باوجود جب مطلوبہ نتائج سامنے نہ آرہے ہوں تو تحریکاتِ آزادی‘ شدت پسندی کے استعمال کی طرف راغب ہوجاتی ہیں۔
۷- کچھ نہ کہونے کا احساس: بیرونی سامراجی مداخلت اور بعض اوقات خود کسی ملک میں برسرِاقتدار ٹولہ جب ظلم و بربریت کی حدیں پھلانگ جاتا ہے اور ایک خاندان کا چشم و چراغ یہ دیکھتا ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین کو بھائیوں اور بہنوں کو شہید کردیا گیا ہے‘ اس کا مکان نذرِ آتش کردیا گیا ہے‘ اس کے کھیت ویران کردیے گئے ہیں حتیٰ کہ اس کے مویشی بھی ہلاک کردیے گئے ہیں تو پھر اسے مزید کچھ نہ کھونے کا احساس اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے ظالم اور سفاک ٹولے کو‘ اس کی فوج کو‘ اس کے اداروں کو تباہ کرکے اپنے سینے میں سلگتی ہوئی آگ کی تپش میں کچھ کمی کرلے۔ یہ واقعہ الجزائر میں ہو‘ عراق میں ہو‘ فلسطین میں ہو‘ سری لنکا میں ہو‘ کشمیر میں ہو یا باجوڑ میں‘ اس کی اصل ذمہ داری اُس ظلم اور سفاکی پر عائد ہوتی ہے جس نے ایک فرد کو گویا دیوار سے لگا کر کھڑا کردیا اور اس کے پاس اس آخری حربے کے سوا کوئی اور ذریعہ ٔ انتقام باقی نہ رہا۔
یہاں یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ وہ شدت پسندی جو محض توڑ پھوڑ اور لاقانونیت کے لیے ہو اور وہ قوت کا استعمال جو حقوق انسانی کے تحفظ اور اعلیٰ جمہوری اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے کیا جائے‘ دو مختلف النوع چیزیں ہیں۔ اس کا اعتراف اقوام متحدہ تک نے کیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۸۷ء میں اس کی مقرر کردہ ایک کمیٹی نے اپنی سفارشات میں یہ بات درج کی کہ دہشت گردی اور حقِخود ارادیت کے لیے جدوجہد جو عموماً بیرونی سامراج یا نسل پرست حکومتوں کے خلاف کی جاتی ہے‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور انھیں خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔ (یو این رپورٹ‘ اے/۴۲/ ۸۳۲‘ اے/۹۰۲۸/۱۹۷۳)
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ ظلم‘ حقوق کی پامالی‘ استحصال‘ جبروبربریت کا علاج اُس سے زیادہ قوت والی بربریت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ صدام حسین نے امریکا کے تعاون سے کُردوں کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا اور امریکی امداد و تعاون سے اپنے ملک کے عوام پر ظلم کا بازار گرم کیا۔ کیا اس جبر کو دُور کرنے کے لیے اس سے سو گنا زیادہ بربریت اوردہشت گردی کرنا جس کا ارتکاب جارج ڈبلیو بش نے عراق کے نہتے عوام پر جارحانہ حملے اور ناجائز قبضے کی شکل میں کیا اور جس میں ۶ لاکھ سے زیادہ نہتے عوام بچے بوڑھے اور خواتین حتیٰ کہ ہسپتالوں میں پڑے ہوئے مریض‘ یتیم خانوں میں مقیم یتیم بچے اور تعلیم گاہوں میں زیرتعلیم طلبہ کا سفاکانہ خون عراق میں امن‘ عدمِ تشدد اور رواداری پیدا کرسکتا ہے؟ تشدد اور انتہاپسندی کا علاج اندھی قوت سے نہیں‘ مسائل و معاملات کے حل‘ حقوق کی بحالی اور ناجائز قبضے کے خاتمے کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔
حقوق کی پامالی بیرونی قوت کرے یا اپنے ہی ملک کی فوج اور زرخرید سیاست ‘ جب تک عوام کو ظلم سے نجات نہیں ملے گی‘ اُن کے حقوق بحال نہیں ہوسکتے اور جب تک حقوق بحال نہ ہوں گے انتہاپسندی اور شدت پسندی میں کمی نہیں آسکتی۔ دنیا میں ایسے بے عقل لوگ کہیں نہیں پائے جاتے کہ ان کو تمام انسانی سہولیات حاصل ہوں‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی حقوق پر کوئی قدغن نہ ہو‘ ان کے کھیت ہرے بھرے ہوں‘ ان کے گھروں میں تعلیم کی روشنی ہو اور پھر بھی وہ سینے پر بم باندھ کر کسی بازار میں جاکر یا کسی فوجی تربیت گاہ میں گھس کر اپنے آپ کو ہلاک کرڈالیں۔
ان حالات میں تحریکات اسلامی کا کردار غیرمعمولی اہمیت اختیار کرجاتا ہے اور ملک و ملّت میں اتحاد‘ حقوق کی بحالی‘ سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ اور ملت کے وسیع تر مفاد کے لیے عوامی شعور کی بیداری‘ مسلسل تعلیمی و تربیتی نظام کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری جو نفس کی غلامی سے نکل کر اپنے مفادات کو صرف اور صرف اللہ کی رضا سے وابستہ کردیں جو نتائج سے بے پروا ہوکر اصولی موقف اور عظیم تر اُخروی فلاح کے لیے فوری مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک منظم اور بامقصد جدوجہد کا حصہ بن جائیں جن کی فکروعمل میں کوئی تضاد نہ ہو‘ جن کی سیرت و کردار شفاف اور اللہ کی بندگی کا مظہر ہو۔ یہ مثبت تعمیری اور اصلاحی عمل صبر‘ حکمت‘ اعتماد اور منزل کے واضح نشان کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔
یہ جہادِ مسلسل قرآن و اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرسایہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس سفر میں درپیش ہر رکاوٹ اور راہ کا ہر کانٹا مسافرانِ حق کے شوقِ آبلہ پائی میں اضافے ہی کا باعث بنتا ہے اور ظلم و جبر کی تاریک گھٹائیں کسی لمحے اس قافلے کی بصیرت و بصارت اور قلب و نگاہ کے نور کو مدھم نہیں کرتیں بلکہ تاریکی میں اضافہ اس شعلۂ اندرون کی لو میں کبھی ۱۰ گنا اور کبھی ۱۰۰ گنا اضافہ کردیتا ہے۔ قرآن نے سچ ہی تو کہا تھا کہ اگر وہ ۲۰ صابرون ہوں تو ۲۰۰ پر غالب آئیں گے۔ یہ جہاد زندگی کے ہر شعبے میں طاغوت کو للکارنے اور اچھائی کے ذریعے برائی کے خاتمے ہی سے ہوسکتا ہے۔ ہدایت بھیجنے والے کا وعدہ اور سنت ہے کہ حسنات ہی سیئات کو دُور کرتی ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کا ہدف کسی فوری کامیابی تک محدود نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تحریکات حیاتِ انسانی میں دیرپا اور مکمل تبدیلی کے لیے برپا ہوتی ہیں۔ یہ توازن و اعتدال کے ساتھ دین کے معاملے میں نہ مداہنت سے کام لیتی ہیں اور نہ قریب المیعاد نتائج کے لیے وسیع تر مقصد کو قربان کرتی ہیں۔ مسئلہ تشدد کا ہو یا بنیاد پرستی کا‘ ان کا موقف روایت پرستی کی جگہ قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ کرتے ہوئے اس کے اصولوں کی روشنی میں ایک اجتہادی راستہ اختیار کرنے ہی کا ہوتا ہے۔ جو تحریکات اس اجتہادی عمل کو جاری رکھتی ہیں‘ ان کے لیے صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر ان کا اجتہاد آخرکار درست ہو تو دو اجر اور اگر کسی انسانی خامی کی بنا پر اس میں کوئی غلطی ہوگئی ہو‘ جب بھی ایک اجر ہاتھ سے نہیں جاسکتا۔
حواشی
1. Ernest R. Sandeen, Fundamentalist Evangelical Churches, in Encyclopedia Britannica, Chicago, Chicago University Press, 1974, Macropaedia, Vol 7, p 777.
2. Martin E. Martz & R. Scott Applelag, Fundamentalism Observed, Chicago, Chicago University Press, 1991, p 15.
3. ibid, p 18.
4. Lionil Caplan, Studies in Religious Fundamentalism, London, The Macmillan Press, 1987, p 1.
5. Montgomery Watt, Islamic Fundamentalism & Modernity, London, Routledge, 1988, p 2-3.
6. Samuel P. Huntington, The Clash of Civilizations, Penguin Books, 1997, p 74.
7. Ibid, p 217.
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر دنیا میں گذشتہ چند برسوں سے جو کچھ ہو رہا ہے‘ سب نے دیکھ لیا ہے کہ جس ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی جارہی ہے‘ اس کو اسی جنگ سے فروغ مل رہا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ کے حقیقی مقاصد کیا ہیں؟ اس جنگ کو برپا کرنے والے‘ اس جنگ کا شکار ہونے والوں سے بہتر جانتے ہیں کہ اس کے اصل مقاصد دراصل کچھ اور ہیں۔ انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں ناکام بنانے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کی جاسکے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے دنیا کی سربراہی سنبھالی۔ امریکا سرمایہ داری نظام پر مشتمل ممالک کا قائد ہے۔ چنانچہ اس کی حکمت عملی اور تدابیر سب اس نکتے کے گرد گھومتی ہیں کہ دنیا کو سرمایہ داری نظام کی گرفت میں جکڑ لیا جائے اور اس طرح ۲۱ویں صدی کو اپنی سیادت و برتری کی صدی بنا دیا جائے‘ اور جس سے بھی اس راستے میں رکاوٹ بننے کا اندیشہ ہو‘ اسے کچل دیا جائے۔
اس وقت دنیا میں امیر و غریب کی تفریق کے لحاظ سے‘ جو سرمایہ دارانہ نظام کی اصل بنیاد ہے‘ جو منظرنامہ ہے‘ اس کا اندازہ میرل لنچ (Merill Lynch) اور کیپ جمنی (Capgemini) کی جون ۲۰۰۶ء کی ایک سروے رپورٹ سے ہوتا ہے جس کے مطابق دنیا میں ۸۷لاکھ افراد ایسے ہیں‘ جن کی دولت امریکی ڈالر میں کروڑوں بنتی ہے۔ گذشتہ سال ان دولت مندوں کے کلب میں تقریباً ۵لاکھ افراد کا مزید اضافہ ہوا ہے۔ ان ۸۷ لاکھ افراد میں سے ۲۶ لاکھ ۷۰ ہزار کا تعلق امریکا سے ہے‘ ۷لاکھ ۶۷ ہزار کا جرمنی سے‘ ۴ لاکھ ۴۸ہزار کا برطانیہ سے‘ ۳ لاکھ ۲۰ ہزار کا چین سے‘ ایک لاکھ ۹ہزار کا برازیل سے‘ ایک لاکھ۳ ہزار کا روس سے‘ ایک لاکھ ۴۶ ہزار کا آسٹریلیا سے ‘ ۲ لاکھ ۳۲ ہزار کا کینیڈا سے اور ۸۳ ہزار کا بھارت سے ہے۔
فاربس میگزین کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۵ء میں دنیا میں ارب پتی افراد کی فہرست میں ۱۰۴ نئے ناموں کا اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ تعداد ۶۹۱ ہوگئی ہے۔دنیا کے ۱۰ امیرترین افراد میں بل گیٹس پہلے نمبر پر‘ وارن بفے دوسرے نمبر پر‘ بھارت کے لکشمی میتل تیسرے نمبر پر اور سعودی عرب کے الولید طلال السعود پانچویں نمبر پر آئے ہیں۔
مذکورہ بالا پہلی رپورٹ کے مطابق امیرلوگوں کی تعداد میں اضافے کی رفتار گذشتہ سال کے مقابلے میں جنوبی کوریا میں ۲۳ فی صد‘ بھارت میں ۳ء۱۹ فی صد‘ روس میں ۴ء۱۷ فی صد سے بڑھ رہی ہے۔ جنوبی افریقہ‘ انڈونیشیا‘ ہانگ کانگ‘ سعودی عرب‘ سنگاپور‘ متحدہ عرب امارات اور برازیل میں یہ تعداد دوگنی ہورہی ہے‘ جب کہ چین میں اس کی رفتار ۸ء۶ فی صد ہے۔
ان رپورٹوں کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں جہاں جہاں کمیونزم اپنی پوری شان و شوکت سے قائم تھا‘ اب وہاں کے عوام بھی حصولِ دولت کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ چین کی پارلیمان نے ۱۹۴۹ء کے انقلاب کے بعد اب مارچ ۲۰۰۴ء میں اپنے آئین میں انتہائی اہم ترمیم کے ذریعے ملک میں پہلی بار نجی ملکیت کے تحفظ سے متعلق ایک قانون کی منظوری دی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے چین نے کمیونزم کی اس بنیادی شق کو ترک کر دیا ہے کہ پیداوار کے ذرائع عوام کی ملکیت ہوں گے۔ اس اجلاس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کرپشن‘ چین کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسی طرح ۲۷ جون ۲۰۰۶ء کو واشنگٹن پوسٹ کے شمارے میں سٹیون مفسن کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کے مطابق روس نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی تیل و گیس کی سب سے بڑی کمپنی Oao Rosneft (جس کی مالیت ۶۰ بلین ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے ) اپنے حصص لندن اسٹاک ایکسچینج میں فروخت کرے گی۔ ان کی مالیت تقریباً ۶ء۱۱ بلین ڈالر ہوگی۔ لہٰذا امریکی اور یورپی بڑے بڑے بنک اِن کی خرید کے سلسلے میں مالی انتظامات کر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اپنے پورے عروج پر نظر آرہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یہ نظام انتہائی تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ امریکا میں فنانس کی ماہر انتونیا جوباز کی نئی کتاب دی بش ایجنڈا کے مطابق پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل اور سخت گرفت ہی امریکا کے بہترین مفاد میں ہے۔ انتونیا جوباز اس عمل کو کارپوریٹ عالم گیریت یا گلوبلائزیشن کا نام دیتی ہیں۔ ان کے مطابق امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ درحقیقت کارپوریٹ عالم گیریت کو ترقی دینے کے لیے ہے اور آزادانہ تجارت اس جنگ ہی کا ایک ہتھیار ہے۔ یہ لکھتی ہیں کہ صدر بش اور ڈک چینی کی پہلی انتخابی مہم کے دوران‘ یعنی ۲۰۰۰ء کے امریکی انتخابات میں اِن کو اپنے مدمقابل امیدوار سے ۱۳ گنا زیادہ سرمایہ تیل و گیس کی کثیرقومی کمپنیوں نے فراہم کیا تھا‘ جب کہ ۲۰۰۴ء کے صدارتی الیکشن میں ان کو مدمقابل سے دگنے سے زیادہ فنڈ ملے۔ صدربش کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کی ۲۹بڑی تیل کمپنیوں نے ۲۰۰۳ء میں ۴۳ ارب ڈالر‘ جب کہ ۲۰۰۴ء میں ۶۸ ارب ڈالر کا منافع کمایا ہے۔مصنفہ کا کہنا ہے کہ امریکا اپنے اس سرمایہ دارانہ نظام کو بڑھانے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے تیل و گیس پر اپنی کمپنیوں کے ذریعے کنٹرول کرکے وہاں کی مارکیٹوں میں امریکی مصنوعات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا میفٹا (مڈل ایسٹ فری ٹریڈ ایریا) کے نام سے ایک آزادانہ تجارت کا زون قائم کررہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ ایران کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تاکہ وہاں کے وسائل تک بھی اس کی دوبارہ رسائی ممکن ہوسکے۔ یہ اسے پاکس امریکانہ (Pax Americana) کی حکمت عملی کہتی ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکا عسکری اور معاشی غلبہ حاصل کرے جس سے دنیا میں امن قائم رکھا جاسکے۔
اس کتاب کے مطابق دوحہ مذاکرات سے پہلے پاکستان عالمی تجارتی تنظیم (WTO) مذاکرات میں ترقی پذیر ملکوں کے مفادات کا بڑا علم بردار تھا لیکن امریکا نے دوحہ مذاکرات سے پہلے ہی اسے بڑی مقدار میں قرضے اور امداد دی جس کے بعد پاکستان نے اس سلسلے میں خاموشی اختیارکرلی۔ اس طرح نائیجیریا نے بھی اپنا موقف تبدیل کرلیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ایجنڈے پر پاکستان میں بھی کام ہو رہا ہے۔ ورنہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کوئی ملک اپنا اور اپنے عوام کے سرمایے سے بناہوا ایسا ادارہ اُونے پونے فروخت کردے جو اسے ہر سال اربوں روپے کا منافع کما کر دے رہا ہو اور اس کا کام ملکی سالمیت کے سلسلے میں حساس ہو‘ میری مراد پی ٹی سی ایل سے ہے۔ یہ ایک ایسی مرغی تھی جو حکومت پاکستان کو ہر سال سونے کا انڈا دیتی تھی لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کرنے کے لیے بڑی بے دردی سے اسے قتل کردیا گیا۔ اسی طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ کون کون سے نفع بخش ادارے مقتولین کی فہرست میں نظر آتے ہیں۔
برطانیہ کے عظیم دانش ور ہیرلڈ پنٹر نے‘ جن کو گذشتہ سال ۲۰۰۵ء کا ادب کا نوبل انعام ملا‘ ۷دسمبر ۲۰۰۵ء کو انعام حاصل کرنے والی تقریب کی اپنی تقریر میں کہا کہ ’’بش اور بلیئر وہ لوگ ہیں جو صرف اور صرف دنیا کے وسائل پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ ان کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ اس راہ میں کتنے معصوم لوگ مارے جاتے ہیں‘‘۔ اس تقریر کے دوران پنٹر نے مطالبہ کیا تھا کہ بش اور بلیئر پر جنگ میں جھوٹ کا پلندا پھیلانے کے جرم میں عالمی جرائم کی عدالت میں مقدمہ چلانا چاہیے۔ اسی طرح ایک ’چاریس سولیوان‘ نامی امریکی صحافی نے لکھا ہے کہ ’’جب بش یا کوئی سرمایہ دار یہ کہتا ہے کہ دنیا میں آزادی ہونی چاہیے‘‘ تواس کا مطلب و معنی وہ نہیں ہوتے جو ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں‘ بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ تجارت‘ مارکیٹ اور اس طرح کی پیداوار کے تمام وسائل کی خریدوفروخت پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے تاکہ یہ تمام وسائل وہ اس کی قیمت لگاکر اپنے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں اور ان کی گرفت میں لے آئیں‘‘۔
آج کے دور میں تیل کا دوسرا نام دولت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں تیل کے ذخائر ہیں وہاں امریکی افواج بھی موجود ہیں۔ آپ نائیجیریا ہی کی مثال لے لیں۔ وہاں توکوئی القاعدہ یا اسلامی تنظیم نہیں جس سے امریکا کو بزعم خود اپنی سالمیت کا خطرہ لاحق ہو لیکن وہاں بھی امریکی افواج موجود ہیں۔ یکم جون ۲۰۰۶ء کو امریکی بحریہ کے ایک اہم عہدے دار ایڈم ہیری نے گارڈین اخبار کے نمایندے کو بتایا کہ ان کی خلیج گنی میں موجودگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں کے تیل کے ذخائر کو یہاں کی غریب انتہاپسند آبادی سے بچایا جائے۔ یہ خبر یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل نے بھی شائع کی۔
سونیاشاہ جوکہ ایک امریکی مصنفہ ہیں‘ ان کی حال ہی میں ایک کتاب Crude : The Story of Oil’تیل کی کہانی‘ شائع ہوئی ہے۔ وہ اس کے باب ۷ میں تحریر کرتی ہیں کہ نائیجیریا سے نکالے گئے تیل کے ۴۰ فی صد ٹینکر سیدھے امریکا کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے مطابق ۱۹۹۰ء میں امریکا اپنی روزانہ تیل کی ۵ فی صد ضرورت اسی تیل سے پوری کرتا رہا ہے۔ نائیجیریا ہرسال تقریباً ۳۰ بلین ڈالر کا تیل فروخت کرتا ہے۔ اس میں سے ۱۰ بلین ڈالر سیدھے وہاں کے فوجی جنرل کے اس کھاتے میں چلے جاتے ہیں جو مغربی ممالک کے بنکوں میں ہے۔ اور یہ بنک اس سرمایے سے‘ جو چوری اور کرپشن کا ہے‘ نہ جانے کتنا منافع کماتے ہیں۔ نائیجیریا کے حکومتی اہل کار وہاں مغربی و امریکی تیل کمپنیوں سے براہ راست رابطہ رکھتے ہیں اور جہاں بھی وہاں کی مقامی آبادی اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی ہے اُسے سختی کے ساتھ کچل دیا جاتا ہے۔ مثلاً جولائی ۱۹۹۳ء میں تیل کے علاقے میں ۱۳۲ نہتے بچوں‘ عورتوں اور مردوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا کیوںکہ وہ اپنی سرزمین سے پیدا ہونے والے تیل کی قیمت سے دو وقت کی روٹی کا مطالبہ کررہے تھے۔ اسی طرح اگست میں ۲۴۷ معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ستمبر میں ہزاروں انسانوں کا قتل کیا گیا۔ وہاں موجود امریکی اور مغربی تیل کمپنیاں وہاں کی حکومت کو عوامی جدوجہد کچلنے کے لیے ہر بیرل پر ایک ڈالر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ وہاں کے ایک بڑے عوامی لیڈر کین سارووائیوا کو صرف اس لیے پھانسی دے دی گئی کہ وہ چاہتا تھا کہ تیل کے علاقے میں رہایش پذیر عوام کو ان کا کچھ حصہ دیا جائے تاکہ وہ اپنی غربت کی زندگی میں کچھ آسانی پیدا کرسکیں۔ اس لیڈر کی سزا پر نیلسن منڈیلا نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ نائیجیریا پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں۔ لیکن امریکا نے صرف ایک بیان جاری کیا کہ وہ اس کی سخت مذمت کرتا ہے۔
نادین گورڈینر (Nadine Gordiner) نے‘ جو کہ ادب میں نوبل انعام یافتہ ہیں‘ ۱۹۹۷ء میں کہا تھا کہ امریکا تیل کی خرید کے بدلے انسانوں کا خون خرید رہا ہے۔ اس پورے باب میں تیل کے حصول کے سلسلے میں جو انسانوں پر ظلم ہورہا ہے اس کی داستان پڑھ کر انسان چیخ اُٹھتا ہے‘ لیکن یہ سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی نکتہ ہے کہ پیداوار کے وسائل کو حاصل کرو‘ چاہے اس کی راہ میں کتنے ہی لوگ کیوں نہ مارے جائیں۔ اسی باب کے آخر میں سونیاشاہ لکھتی ہیں کہ ۲۰۰۳ء میں گِنی (Guinea) کے صدر نے واشنگٹن ڈی سی کے ایک نجی بنک میں ۳۰۰ ملین ڈالر اپنے کھاتے میں جمع کروائے تھے۔
یہ تو تصویر کا ایک رُخ ہے۔ اب ذرا تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اور فوڈایڈ کی رپورٹوں کے مطابق ۱۹۶۰ء کے عشرے سے لے کر اب تک دنیا میں اتنی خوراک پیدا ہورہی ہے کہ یہ اس کرئہ ارض کے تمام انسانوں کے لیے وافر ہے‘ لیکن اس کی غلط تقسیم اور وقت پر ضرورت مندوں کو اس کی رسائی جیسے مسائل کی وجہ سے اس دنیا میں ۸کروڑ ۵۰ لاکھ انسان فاقے کا شکار ہیں۔ ان میں سے ۳ کروڑ تعداد بچوں کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس زمین پرہر ساتواں انسان بھوکا رہتا ہے۔ بھوکے بچوں کی آبادی دنیا میں امریکا کی پوری آبادی سے زیادہ ہے۔ اس خوب صورت دنیا میں ہر چار سیکنڈ کے بعد ایک انسان بھوک کی وجہ سے مر رہا ہے۔ روزانہ ۲۵ ہزار انسان بھوک سے مرجاتے ہیں۔ ان میں ۱۸ ہزار معصوم بچے ہوتے ہیں۔ ہر سال ۹۰ لاکھ انسان خوراک کی قلت کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ۱۰ مرنے والوں میں ۹ مرنے والوں کی خبر کسی کو نہیںہوتی۔ اس وقت بھوک دنیا کی سب سے بڑی بیماری ہے جس سے مرنے والوں کی تعداد ایڈز‘ ملیریا یا کینسر کی بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
دنیا کے ۵۴ ممالک ایسے ہیں جو اپنی آبادی کو پوری خوراک مہیا کرنے سے قاصر ہیں‘ اس لیے کہ وہاں پر خوراک پیدا نہیں کی جاسکتی کہ وہاں پانی کے وسائل میں کمی ہے‘ یا وہاں غریب عوام کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ بیج خرید سکیں‘ یا وہاں امن و امان کی صورت حال خطرناک ہے‘ یا وہاں خشک سالی کا مسئلہ ہے‘ یا ان ممالک کے آمر حکمرانوں کی حکمت عملی غلط ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان تمام ممالک کے پاس اپنی ضرورت کی خوراک پیدا کرنے کے تمام وسائل موجود ہیں۔ آب پاشی کے نظام سے حاصل ہونے والی خوراک دنیا کی ۴۰ فی صد ہے‘ جب کہ اس کا رقبہ صرف ۱۷ فی صد ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر یہ ممالک اپنے مسائل کو حل کرلیں تو دنیا میں غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ دنیا کے غریب اور بھوکے عوام اپنی آمدنی کا ۷۰ فی صد صرف غذائی اجناس خریدنے میں صرف کرتے ہیں‘ جب کہ امریکا میں ہر سال ۳۳ بلین ڈالر صرف خوراک اور وزن کم کرنے والی ادویات پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۵ء تک بھوک و افلاس کو آدھا کرنے کے لیے صرف ۱۲۰بلین ڈالر کی ضرورت ہے‘ جب کہ ترقی یافتہ ممالک ہر سال ۳۰۰ بلین ڈالر اپنے کسانوں کو زرتلافی کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ اگر اس رقم کا ایک ہفتے کا خرچ فوڈ پروگرام کو دے دیا جائے تو ایک سال کے لیے دنیا کے بھوکے انسانوں کو کھانے کے لیے غذا مہیا کی جاسکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ۹۰لاکھ انسانوں کو ایک سال کی زندگی دی جاسکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے عوام اوسطاً ہر روز اپنی غذا پر ۱۰ ڈالر خرچ کرتے ہیں‘ جب کہ دنیا میں بھوکے انسانوں کو اپنی روٹی کے لیے صرف ۳۰ سینٹ چاہییں۔
ماضی قریب میں سرمایہ دارانہ نظام کو کمیونزم اور سوشلزم سے خطرہ تھا‘ لہٰذااُس وقت تک سرمایہ دار کچھ نہ کچھ غریب عوام کا خیال کرتے تھے تاکہ ان کے اپنے ممالک میں کمیونزم اور سوشلزم نہ آجائے۔ اب‘ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کی ہے‘ اُس وقت سے خوراک کے عالمی پروگرام کی امداد میں بھی کمی ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق اس ادارے کو ۱۹۹۹ء میں ۱۵ ملین ٹن خوراک مدد میں ملی تھی جوکہ ۲۰۰۴ء میں صرف ۵ء۷ ملین رہ گئی ہے‘ یعنی اس میں نصف کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ۱۹۹۱ء میں اسے ایک بلین ڈالر کی امداد ملی تھی جوکہ ۲۰۰۳ء میں صرف ۲۴۴ ملین ڈالر رہ گئی ہے۔ ۲۰۰۴ء میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے دوتہائی خوراک ترقی یافتہ ممالک سے خریدی تھی۔
فوربس بزنس میگزین کی رپورٹ کے مطابق ہمسایہ ملک بھارت میں سرمایہ دار لکشمی میتل نے گذشتہ ۱۲ ماہ میں اپنی دولت میں ۸ء۱۸ بلین ڈالر کا اضافہ کیا ہے جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس بھارت میں شمالی علاقوں سے لے کر بحیرۂ عرب تک ماؤباغیوں کی جنگ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ یہ باغی صرف اور صرف غربت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے مائونواز باغیوں کی جانب سے بغاوت کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا اندرونی خطرہ قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں بی بی سی کی ویب سائٹ پر اس کے نمایندے جل مک گیورنگ کی ایک رپورٹ ۲۲جون کو دی گئی ہے جو وہاں کے حالات و واقعات کو حقیقی نظر سے دیکھ کر مرتب کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس غربت کی وجہ سے بھارت میں کتنی انسانی جانیں ہر سال ضائع ہورہی ہیں اور ان میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
بھارتی میگزین فـرنٹ لائن کے مطابق بھارت کے دارالحکومت دہلی میں کم از کم ایک لاکھ ۴۰ہزار بچے‘ عورتیں اور مردسڑکوں پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے متعدد رات کو سردی کی وجہ سے دم توڑ جاتے ہیں۔ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق پورے بھارت میں ۷ کروڑ ۸۰ لاکھ انسان سڑکوں پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی آبادی بارے ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ۸۱ فی صد لوگ ۲ ڈالر سے بھی کم آمدنی پر روزانہ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ جب کہ بھارت میں آپ کو اربوں روپوں سے بنے گھر بھی نظر آئیں گے(شمارہ ۲۲‘ یکم جنوری ۲۰۰۵ء‘ مضمون عینی زیدی)۔ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے شہر ممبئی میں ۱۳۰۰ افراد کے لیے صرف ایک بس ہے۔ ایک ہزار کاروں کے لیے پارکنگ کی صرف دو جگہیں ہیں۔ ۷۲ لاکھ انسانوں کے لیے صرف ایک رفاہی ہسپتال ہے۔ اس شہر میں ۱۷۵۰ افراد کی گنجایش والی ریل گاڑی میں تقریباً ۴۵۰۰ افراد سفر کرتے ہیں۔ ہر سال ۳۵۰۰ افراد اس سفرکے دوران کسی نہ کسی حادثے کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایک تہائی آبادی کے پاس پینے کے لیے صاف پانی موجود نہیں‘ جب کہ ۲۰ لاکھ سے زیادہ انسانوں کو بیت الخلا کی سہولت نہیں۔
اس طرح اب آپ امریکا کی مثال لے لیں۔ Wikipedia Free Encyclopedia کے ایک سروے کے مطابق امریکا کے ایک شہر لاس اینجلس میں ہررات ۹۱ ہزار غریب لوگ اس شہر کی سڑکوں پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں عورتیں اوربچے بھی شامل ہیں۔ ان رپورٹوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ دنیا میں امیرو غریب کے درمیان فرق بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں امیروں کی تعداد میں سیکڑوں کے حساب سے‘ جب کہ غریبوں کی تعداد میں لاکھوں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر اپنی نئی کتاب: Our Endangered Values (امریکا کا اخلاقی بحران) کے باب ۱۶ میں لکھتے ہیں: گذشتہ صدی کے آغاز پر دنیا کے امیر ترین ۱۰ ممالک دنیا کے غریب ترین ۱۰ ممالک سے صرف ۳۰ گنا زیادہ امیر تھے‘ جب کہ ۱۹۶۰ء میں امیرترین ممالک اپنے مدمقابل غریب ترین ممالک سے ۱۳۱ گنا زیادہ امیر ہیں۔ اس کے خیال کے مطابق نئی ہزاریے (میلینیم) میںکرئہ ارض کو سب سے بڑا چیلنج امیر اور غریب عوام میں بڑھتا ہوا فرق ہے۔ ان دونوں کے درمیان بے پناہ عدم مساوات ہے‘ جب کہ ان کا درمیانی فاصلہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ امریکا میں اوسط خاندانی سالانہ آمدنی ۵۵ ہزار ڈالر ہے‘ جب کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو روزانہ ۲ ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ گویا دنیا کے ایک ارب ۲۰ کروڑ انسان صرف ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں‘ یعنی صرف ایک ڈالر کھانے‘ رہایش اور لباس کے لیے۔ حفظانِ صحت اور تعلیم کے لیے کیا باقی رہ جاتا ہے۔ ان حالات میں انسان کی عزتِ نفس یا روشن مستقبل کی اُمید کا باقی رہنا تو مشکل ہوگا۔ ان کے مطابق امریکا کا پورا معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا جا رہا ہے اور یہ تقسیم کالے‘ گورے یا ہسپانوی کے درمیان نہیں‘ بلکہ یہ تقسیم امیر اور غریب کے درمیان ہے۔
آج دنیا کے کسی بھی ملک کو دیکھ لیں کہ امیر اور غریب میں فرق ہر جگہ بڑھ رہا ہے۔ اس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دوسری طرف امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی جنگ میں مصروف ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ واقعی یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے یااس کے پس منظر میں سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت کو مضبوط کرنا ہے۔ ہرانسان اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ انصاف ہی واحد سلامتی کا راستہ ہے۔ کوئی جابر زور آور اپنی طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں امن قائم نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ آپ تمام دنیا کے انسانوںکو اُس طرح زندہ رہنے کا حق نہ دیں جس طرح آپ خود اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ قابض آپ کے گھر پر اپنی قوت یا سازش کے تحت قبضہ کرلے اور بعد میں آپ کو اسی طاقت سے مجبور کرے کہ آپ اُس کے غیرقانونی اور غیراخلاقی قبضے کو حق تسلیم کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے حق کے لیے کھڑے نہ ہوں۔ اگر آپ اپنے حق کے لیے بات کریں تو وہ اسے دہشت گردی کا نام دیں۔ ظالم اسے جو بھی نام دے‘ آپ اپنی جدوجہد کو ختم نہیں کریں گے۔
اسی طرح کبھی جمہوریت کی بات کی جاتی ہے۔ یقینا جمہوریت ایک اچھا نظامِ حکومت ہے‘ لیکن اگر یہ واقعی اس کے بنیادی اصولوں پر استوار ہو۔ یہ نہیں کہ حماس جیت جائے تو آپ ان اصولوں سے منحرف ہوجائیں اور اگر آپ کے ایجنٹ جیت جائیں تو سب ٹھیک ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے علم برداروں نے اس جمہوریت کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا ہے۔ جہاں چاہا اس ہتھیار کا استعمال کرلیا اور جہاں چاہا خاموشی اختیار کرلی۔
اب پوری دنیا پر یہ حقیقت عیاں ہوگئی ہے کہ بش اینڈ کمپنی کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک ٹوپی ڈراما ہے۔ اس کی آڑ میں یہ دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے جا رہے ہیں تاکہ دنیا کے تمام پیداواری وسائل کو اپنے چند من پسند سرمایہ داروں کی گرفت میں دے کر کرئہ ارض کے انسانوں کی تقدیر سے کھیل سکیں۔ اس جنگ میں کتنے بے گناہ انسان مارے جاتے ہیں‘ ان کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ یہ بے رحم انسان دہشت گردی کا نام نہاد خوف پیدا کرکے اپنے ہی نوجوانوں کو جنگ میں مروا رہے ہیں۔ دہشت گردی کا صرف ایک ہی حل ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں کو ان کا جائز حق ِزندگی دیا جائے نہ کہ طاقت سے ان کو کچل دیا جائے۔
اسلام کے خلاف ان کی جنگ بھی اسی ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ ہے۔ عام فہم بات ہے کہ کمیونزم اور سوشلزم کے دم توڑنے کے بعد اگر سرمایہ دارانہ نظام کو خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف اسلامی معاشی نظام سے ہے۔ لہٰذا بش اینڈ کمپنی کے تمام تھنک ٹینک‘ اسی کوشش میں مشغول ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے اسلام کے بارے میں غلط قسم کا تاثر نہ صرف غیرمسلم ممالک بلکہ مسلم ممالک میں بھی پیدا کیا جائے تاکہ بنی نوع انسان اس کے ثمرات سے محروم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے عظیم نام کے ساتھ غلط قسم کے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے‘ مثلاً سوشل اسلام‘ سیاسی اسلام‘ جدید اسلام‘ اسلامی دہشت گردی‘ اسلامی بنیاد پرستی‘ اسلامی بم وغیرہ۔
ہر نظام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے بھی اپنے تقاضے ہیں۔ اس نظام کا بنیادی محور سود ہے‘ جب کہ اسلامی نظام میں سود حرام کی آخری حد کو چھوتا ہے۔ اسلامی نظامِ معیشت کے اصول سرمایہ دارانہ نظام سے بالکل مختلف ہیں۔ یقینا سرمایہ دارانہ نظام میں مذہب کو اپنا ذاتی فعل تصور کیا جاتا ہے اور یہ بظاہر کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علما اور دانش ور اُس کے خلاف اس شدت کے ساتھ آواز بلند نہیں کر رہے ہیں جس شدت کے ساتھ اُنھوں نے کمیونزم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی ہمارے اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ اقتصادی اور رُوحانی نظامِ زندگی کو نہایت بے دردی کے ساتھ تباہ و برباد کرتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اب ہماری ذہنی کیفیت یہ ہوچکی ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس کے اثرات قبول کرتے ہوئے یہ یقین کرنے لگا ہے کہ شاید صرف اسی نظامِ زندگی میں ترقی کے مواقع موجود ہیں‘اور ترقی کا دوسرا نام یہ ہے کہ اس کے رنگ میں رنگ جائو۔ کیونکہ اس کی مزاحمت ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سود کے بغیر دنیا میں کوئی کاروبار کیا جاسکتا ہو۔ دوسرے الفاظ میں اس گروہ کے ذہن ماؤف ہوگئے ہیں‘ لہٰذا وہ اس نظام کے مقابلے میں کسی دوسرے نظام کے بارے میں سوچ ہی نہیں پا رہا۔ یہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے اتنے مرعوب ہوتے جاتے ہیں کہ وہاں سے جو کچھ آتا ہے اسے کچھ سوچے سمجھے بغیرقبول کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہ ذہنی طور پر اتنے شکست خوردہ ہوچکے ہیں کہ اگر ان کو کچھ سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ اُسے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔
یہ وہ حالات ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم دینی اور دنیاوی دونوں حیثیتوں سے تباہ ہو رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کسی ملک میں اسلامی نظام معیشت رائج ہوتا اور دنیا اس کے خوش گوار نتائج دیکھ کر اس کی کامیابی سے متاثر ہوتی لیکن ایسا سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں نے ہونے نہیں دیا۔ جہاں جہاں بھی اور جس کسی ملک میں یہ تجربہ کرنے کی کوشش کی گئی‘ کبھی انسانی حقوق کے نام پر‘ کبھی جمہوریت کے نام پر‘ کبھی آمریت کے نام پر‘ کبھی دہشت گردی کے نام پر حکومتوں کو گرا دیا گیا۔ یہ تو وہ کارنامے ہیں جو اسلام دشمن نظاموں کے علم برداروں نے کیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں ہم جو اسلام کے علم بردار ہیں کیا کر رہے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔
ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بہت طویل اور پریشان کر دینے والا ہے۔ دانش ور ٹی وی پر آکر اُن بحثوں میں مشغول ہیں جن کا دُور دُور تک ہمارے مسائل سے واسطہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کے بارے میں ابہام پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
آیئے ذرا غور کریں کہ ان حالات میں‘ جب کہ ہمارے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں شروع ہوچکا ہے‘ ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں یا ہمارے کرنے کے کیا کام ہیں اور ہم اس دنیا میں نئے آنے والے عذاب کو کیسے روک سکتے ہیں۔
ہمارا ا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی اور روز مرہ کی ایسی باتوں سے نہایت جذباتی ہوجاتے ہیں جو وقتی نوعیت کی ہوتی ہیں‘ جب کہ بڑے بڑے اور اصل مسائل کی پروا ہی نہیں کرتے۔ جذباتی ہونے کے بعد ہم اپنی تمام صلاحیتیں اور قوتیں ان معاملات میں جھونک دیتے ہیں جس سے ہمارے دشمن کو ہماری قوت اور صلاحیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ وقتی معاملات پر فتح حاصل کرلی جائے‘ جب کہ وہ معاملات جو ہماری مکمل اور دیرپا صلاحیتوں اور قوتوں کے حامل ہونے چاہییں اُن پر ہم غیرشعوری طور پر خاموش ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہ معاملات ہم سے مستقل وقت اور مستقل مزاجی اور جدوجہد طلب کرتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے ہمیں اپنی سوچ میں سنجیدگی لانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہمیں ملکی سطح پر ایک بڑے مکالمے کی ضرورت ہے جس میں ملک کے تمام دانش ور شریک ہوں۔ اس مکالمے میں ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا چیلنج کیا ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنے درپیش چیلنجوں کی ترجیحی فہرست تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے مخالف کے پاس کیا کیا صلاحیت اور قوت موجود ہے اور اس کی کون کون سی کمزوری ایسی ہے جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پھر ہمیں اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کا صحیح صحیح اندازہ ہونا چاہیے اور ان کو کب اور کس کس جگہ استعمال میں لانا ہے‘ اس کی مکمل حکمت عملی ہمارے پاس موجود ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں بڑا واضح اور عام فہم قلیل مدتی اور طویل مدتی پروگرام بغیر کسی گروہی اختلاف کے بنانا چاہیے۔ مایوسی ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ پروگرام سامنے آتے ہی مایوسی کے بادل کس طرح چھٹ جاتے ہیں اور یہ تاثر کیسے ختم ہوجاتا ہے کہ ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ کمیونزم کے خلاف ہم نے کیسے جنگ لڑی تھی؟ اس جنگ میں ہم اکیلے نہیں تھے بلکہ دنیا میں جہاں جہاں کوئی انسان اس نظام کے خلاف تھا اُس نے ہمارا ساتھ دیا تھا۔ اسی طرح اب بھی ہمیں چاہیے کہ کسی ایک فرد یا کسی ایک ملک کو ہدف نہ بنائیں۔ ہمارا ہدف سرمایہ دارانہ نظام ہونا چاہیے تاکہ دنیا کے ہر حصے سے اس کے خلاف غریب عوام ہمارے دست و بازو بن جائیں۔ اس سلسلے میں ہمیں صرف اسلامی ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا کے اُن تمام ممالک سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے جو ماضی قریب میں سرمایہ دارانہ نظام کے مخالف رہے ہیں۔
ترجمہ: نوراسلم خان
طالبان کی قید میں رہنے والی اور بعد میں اسلام قبول کرنے والی وُون رِڈلے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ نومسلم صحافی خاتون مختلف مسائل پر ایک جذبۂ ایمانی سے مسلسل لکھ رہی ہیں۔ قاہرہ میں ورلڈاسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)کے اجلاس میں ۲۱نومبر ۲۰۰۶ء کو انھوں نے جو تقریر کی‘ قارئین کی خدمت میں اس کا ترجمہ پیش ہے۔ (ادارہ)
میں نے ۲۰۰۳ء میں اسلام قبول کیا ہے‘ اس لیے میں اسلام کے حوالے سے کوئی زیادہ مستند علم نہیں رکھتی‘ تاہم میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ آج کے مضطرب نوجوانوں کے ساتھ باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے وہ سب کچھ جانا جا سکے جو وہ اسلام کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں ۔
نائن الیون کی وجہ سے دنیا پر بہت گہرے اور وسیع اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کسی نئے دور کا آغاز نہیں ہوا ہے‘ بلکہ یہ امریکی استعمار کی عرصے سے جاری ریشہ دوانیوں اور اسلام سے اس کے مسلسل خوف کا اظہار ہے۔ آج سے ۱۰ سال پہلے سربوں کے ہاتھوں بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری تھی اور پوری دنیا تماشا دیکھ رہی تھی ۔اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوںکی مدد کے لیے مسلمان نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد دنیا کے کونے کونے سے امڈ آئی۔اس جہاد کی برکت سے دنیا بھر کے مسلمانوں کونسل‘قوم اور ثقافت کی تمیز سے بالاتر ہوکر ایک مقام پر اکٹھا ہو نے اور متحد ہو نے کا موقع مل گیا ۔وہ لوگ جو بوسنیا میں آکر براہِ راست جہاد میں حصہ لینے سے قا صر تھے‘ انھوں نے مالی امداد کے ساتھ ساتھ عوام کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے ریلیاں اور جلوس نکالے تاکہ اس نسل کشی کو روکا جاسکے ۔مغرب نے صرف اس وقت مداخلت کی جب ان کو یقین ہو گیا کہ سربوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا پلہ بھاری ہے اور وہ ایک یقینی فتح سے ہم کنار ہونے والے ہیں ۔مغرب کے لیے اپنے قلب میں ایک اسلامی ریاست کا قیام بالکل ناقابلِ برداشت تھا۔ اس لیے ان کو بالا ٓخر مداخلت کرنی پڑی۔ یہ میں نہیں کہہ رہی ‘ بلکہ اس کا اعتراف خود سابق امریکی صدر بل کلنٹن اپنی خود نوشت میں کرچکے ہیں (امریکی صدر کی خودنوشت My Life (میری زندگی) کے نام سے شائع ہوئی ہے)۔
پچھلے ۱۰ سال کے عرصے میں اسلام کے غلبے کا یہ خوف اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آج چیچنیا‘کشمیر ‘ فلسطین‘ افغانستان اور عراق میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے خون کا دریا بہہ رہا ہے۔ لبنان میں جو کچھ ہوا ہے یہ اس کی تازہ مثال ہے ۔ مجھے ان قتل گاہوں میں کئی دفعہ جانے کا موقع ملا ہے۔میںنے دیکھا کہ ہماری بہنوں ‘ بیٹیوں ‘ بچوں اور نوجوانوں کی لاشوںکے لوتھڑے بھی بالکل ان لاشوں کی طرح نظر آرہے تھے جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے سے نکالے گئے تھے۔ تاہم آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ مسلمان کے خون کی کوئی قیمت اور وقعت نہیں ہے۔ بدنام زمانہ گوانتا ناموبے‘ باگرام‘ ابو غریب اور ڈیگو گارشیا سمیت دنیا بھر کے دُوردراز مقامات پر واقع خفیہ قید خانوں میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو نہ ختم ہونے والی بدترین تعذیب سے گزارا جا ر ہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شام ‘ اُردن ‘ مراکش ‘ تیونس‘ ا لجزائر اور خود یہاں آپ کے ملک مصر کے اندر امریکا کے اشارے پر بہت سارے بے گناہ مسلمانوں کو بدترین اذیتیں دی جارہی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس میں ہمارے نوجوانوں کے لیے کیا پیغام پوشیدہ ہے ؟
یہ نوجوان سلطان صلاح الدین ایوبی ‘ خالد بن ولید ‘ طارق بن زیاد کی شجاعت اور بہادری کے واقعات پڑھنے کے ساتھ ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری ‘ شجاعت اور حوصلہ مندی کے بارے میں بھی سنتے رہتے ہیں ۔ آج سے پانچ سال پہلے تک میں نے نبی کریمؐ کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا لیکن آج میں آپؐ کے اسم گرامی‘ آپؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ اور سنت کی پیروی کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کو تیار ہوں۔ اگرچہ حضوؐر ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر اُمت کے اتحاد اور رد عمل نے یہ ثا بت کردیا کہ آپؐ کتنی قوت کے مالک ہیں۔
۶۰ کے عشرے میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے وہ دو عظیم انسان ‘ میلکم ایکس (۱۹ مئی ۱۹۲۵ء- ۲۱ فروری ۱۹۶۵ء) (نبراسکا‘امریکا‘ میں ایک عیسائی مذہبی رہنما کے گھر پیدا ہوئے۔ جوانی میں اسلام قبول کیا اور الحاج ملک الشہباز کے نام سے شہرت پائی ۔ امریکا میں افریقی مسلمانوں کی مشہور تنظیم نیشن آف اسلام کے عظیم رہنما ئوں میں آپ کا شمار ہو تا تھا ۔ ایک سازش کے ذریعے ان کو شہید کیا گیا )‘ اور سید قطب شہیدؒ اس دورِ جدید کے ہیرو ہیں۔ ان کی تحریروں نے مجھے مسلمان ہونے کا مطلب بتا یا ۔ ایسے حالات میں‘ جب کہ نوجوانوں کو ایک واضح پیغام اور درست سمت کے تعین میں مشکل پیش آرہی ہے‘ دونوں کی زندگی ان کے لیے ایک نمونہ ہے۔
آج اگر نوجوانوں کو ایک طرف یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں تو دوسر ی طرف ان کو یہ درس دیا جاتا ہے کہ اسلام کو پشت پر اور سر کو نیچے رکھو ۔ نائن الیون کے بعد تو اسلام کو ایک ایسے ڈھانچے میں ڈھالنے کی بہت کوشش ہورہی ہے جو مغربی معاشرے کے تقاضوں پر پورا اترسکے ۔ اس کے پیچھے بنیادی طور پر یہ سوچ کار فر ما ہے کہ اسلام کو ایک ایسے لادین معاشرتی نظام کے طور پر متعارف کروایا جائے جو اللہ کے بجاے اپنے مقابلے میں صف آرا قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں فخر محسوس کرے‘ اور دنیا کے نظام کو خطرے میں ڈالے بغیر امن اور شانتی کے ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی سعی کرتا رہے: ایک ایسا اسلام جس کا جہاد ‘شریعت اور خلافت سے‘جس کو اللہ تعالیٰ نے روے زمین پر قائم کرنے کا حکم دیا ہے‘ کوئی واسطہ نہ ہو ۔آج اس سوچ اور فکر کے کرشمے جگہ جگہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آج اگر ایک طرف ترکی ‘ فرانس اور الجزائر میں میری بہنوں کے سروں سے حجاب کو نوچا جارہا ہے تو ہالینڈ اور جرمنی میں اس کی ابتدا ہونے والی ہے ۔ آج برطانیہ میں سابق سیکرٹری خارجہ جیک سٹرا پردے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ( ایک عورت ہونے کے ناطے)کسی گورے اور ادھیڑ عمر کے مرد(جیک سٹرا ) کو یہ اختیار نہیں دے سکتی کہ وہ مجھے بتا تا پھرے کہ میں کیا پہنوں اور کیا نہ پہنوں۔ میں انھیں بتا نا چاہتی ہو ں کہ وہ میرے کپڑوں کی الماری سے تو کیا ‘ روے زمین پر بسنے والی ہر بیٹی کے کپڑوں کی الماری سے دُور رہیں ۔
آج میں نے صبح قاہرہ کے ایک اخبار میں پڑھا کہ وزیر ثقافت فاروق حسنی نے نقاب کو پس ماندگی قرار دیا ہے۔ اس کو یہ کہنے کی جسارت کیسے ہوئی؟ مصر کے نوجوان تماشا دیکھنے کے بجاے اس کی زبان کو لگام کیوں نہیں دیتے۔ یہ تو ہر اس عورت کی جس نے اپنے جسم کو ڈھانک کر رکھنے کو پسند کیا ہے‘ توہین اور عزت نفس کو مجروح کر نے والی بات ہے ۔ فاروق حسنی اسلام کے لیے باعث ندامت ہے ۔ وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو اپنے دوغلے پن سے کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔نقاب ‘ برقع ‘ اور حجاب تو وہ علامات ہیں جو آج نشے ‘ بھنگ ‘ اور کھلی جنس پرستی جیسی منفی اقدار پر مبنی مغربی طرز زندگی کو مسترد کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس میں مغرب کے لیے یہ پیغام ہے کہ ہمیں آپ کی طرح زندگی گزارنے کا کوئی شوق نہیں ۔
مجھے ان عرب نوجوانوں پر ہنسی آتی ہے جو مغرب سے بھی زیادہ مغرب زدہ بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیا انھیں معلوم ہے کہ ان حرکتوں سے وہ دنیا کی نظروں سے کس قدر گر رہے ہیں ۔ ایسے وزیر کو فوراً معزول کیا جائے جس نے ہر اس بہن کی توہین کی ہے جواپنے جسم کو ڈھانکنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ وہ اعتدال پسند ی جیسی بے معنی باتوں کی آڑ میں اپنا چہرہ چھپانا چاہتا ہے ۔ لیکن میں یہ سمجھنے سے قا صر ہوں کہ وہ اس طرح دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔ہم ان نوجوانوں کو اعتدال پسند بننے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیا اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اسلام میں کوئی خرابی ہے جس کو چھپانے یا حل کرنے کی ضرورت ہے ؟
میں پچھلی دفعہ قاہرہ آئی تو مجھے جامعہ ازہر کے شیخ طنطاوی نے صرف اس لیے انتہا پسند کہا کہ میں نے ان سے مصا فحہ نہیں کیا ۔ انتہا پسند اور اعتدال پسند کون ہیں؟ مجھے اس کے بارے میں زیا دہ معلومات نہیں ۔میں تو بس ایک سیدھی سادی مسلمان ہوں۔ میں کسی فقیہ یا کسی فرقے کے بجاے اپنے نبیؐ اور آپؐ کی سنت کی پیروی کرتی ہوں۔ کیا ایساکرکے میں انتہا پسند بن گئی ہوں۔ میں کبھی کہتی ہوں کہ مسلمان ہونے کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی خاتون کو حمل ہوجائے۔ اب اگر کسی کو حمل ہے‘ تو وہ ہے اور اگر نہیں ہے تو بالکل بھی نہیں ۔ کیا کسی نے آج تک یہ بھی سنا کہ کسی کو اعتدال پسنداور کسی کو شدت پسند حمل ہے؟
اسلام پچھلے ۱۴۰۰ سال سے حملوں کی زد میں ہے‘ اور اب ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ کے سوا کسی اور سے امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہییں ۔ لیکن اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو جس ہاتھ سے منہ پر تھپڑ کھاتے ہیں اسی کو چومتے بھی ہیں ۔ اب وہ زمانہ گزر گیا جب محض کسی کی لمبی داڑھی اوراسلامی طرز لباس کو دیکھ کر لوگ ان سے توقعات وابستہ کریں ۔ ایسے مسلمان رہنما بھی ہیں جو مسلمانوں کی رہنمائی کرنے اور ان کے مفادات کے تحفظ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے دل اس فکر سے خالی ہوتے ہیں ۔
نائن الیون ‘ بالی ‘ میڈرڈ اور لندن میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد ہمارے نوجوان صورتحال کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ ایسے افراد بھی ہیں جنھوں نے سالہا سال تک لوگوں کو انصاف کے لیے اٹھ کھڑا ہو نے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مجاہدین کے مختلف گروہوں کی مدد کر نے کی ترغیب دی۔ اب ان میں سے کچھ تو اس حد تک خاموشی اختیار کرچکے ہیں جو ہر لحاظ سے شرم ناک ہے‘ اور کچھ ببانگ دہل مسلح جہاد کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرارد یتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کے غلط رخ پر عمل پیرا ہیں۔
ہم سب پر کسی نہ کسی حد تک یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آج شاید ضمیر کی ملامت کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہماری زبانیں بھی گنگ ہوگئی ہیں۔ اب فلسطین اور مسلمانوں کے دیگر مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے استشہادی حملوں کی بھی یوں مذمت ہورہی ہے جیسے نائن الیون ‘ بالی اور لندن میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی گئی تھی۔ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ بتا نا چاہیے کہ فلسطین ‘ کشمیر ‘ چیچنیا ‘ عراق اور افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو ظلم پر مبنی بیرونی فوجی قبضے کے خلاف ایک جائز مزاحمت ہے‘ جب کہ نائن الیون اور لندن میں ہونے والے واقعات صریح دہشت گردی پر مبنی ہیں۔ ان دونوں کو ایک نظر سے دیکھنے کی یہ سوچ اصل میں ان بہنوں اور بھائیوں سے غداری کے مترادف ہے جن کے پاس لڑ کر مزاحمت کر نے یا روے زمین سے ہمیشہ کے لیے مٹ جانے کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔
آج مغرب کے یہ زرخرید غلام اسلامی جماعتوں اور حکومتوں کو شریعت کے حوالے سے تنقید کا نشا نہ بنا تے ہیں ۔ خود نوجوانوں اور طلبہ پر مشتمل وہ تنظیمیں جنھوں نے مسلسل عراق اور فلسطین کے لیے مہم چلائی ‘ ان کی زبانیں محض اس لیے خاموش ہیں کہ وہ ’اعتدال پسند‘ کہلائے جائیں۔ برطانیہ میں تو آج کل ان لوگوں کی بھر مار ہے جن کو میں ’تالی بجانے والے‘ کہتی ہوں ۔ برطانیہ کی حکومت ان لوگوں کو ’ من پسند اسلام ‘ کی تبلیغ کے لیے کینیڈا ‘ امریکا ‘ یمن اور موریطانیہ سے درآمدکرتی ہے ۔ یہ لوگ ہمارے نوجوانوں کے ذہن کو آلودہ کر رہے ہیں اور اس سے پہلے کہ یہ ساری دنیا میں پھیل جائیں ہمیں ان کا سد باب کر نا چاہیے۔
ان لوگوں کو وہابی مکتبہ فکر سے زیادہ چڑ ہے اور بہت بدنیتی سے ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض تو حمد و نعت کا بھی غلط استعمال کرتے ہیں اور جس طرح سے یہ لوگ حمد و نعت کے ساتھ مغربی موسیقی کی لے ملا رہے ہیں ‘ میرے لیے یہ کافی پریشانی کا باعث ہے۔
ان ساری کو ششوں کا مطمح نظر یہ ہے کہ اللہ کے خالص دین‘ اسلام میں ملاوٹ کرکے ایک ایسا دین سامنے لایا جائے جو بنیادی طور پر کمزور ہو اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی پر سمجھوتہ کرنے والا ہو۔ ایک ایسا اسلام جس کے ماننے والے رات بھر مغربی موسیقی کے لَے میں گائے جانی والی نعتوں پر جھومتے رہیں ۔ خود مغرب میں ر ہ کر تمام تر توجہ نجی زندگی کی ترقی پر مرکوز رہے اور ظلم و جبر کے مقابلے میں ہر طرح سے مزاحمت کرنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی کوششوں پر تنقید کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے ۔ اب تو ان کے لیے دعا کر نا بھی ایک جرم بن چکا ہے ۔ ہمیں کچھ عرصے سے یہ بھی بتا یا جا رہا ہے کہ مجاہدین کے لیے دعا بھی نہ کی جائے۔
دنیا کے ایک بہت بڑے فوجی جرنیل ‘ سلطان صلاح الدین ایوبی سے ‘ جس کو دنیا فاتح القدس کے نام سے جانتی ہے ‘ کسی نے ایک دن پوچھا کہ آپ مسکراتے کیوں نہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں کیسے مسکرا سکتا ہوں‘ جب کہ بیت المقدس صلیبیوں کے قبضے میں ہے ۔ میں سوچتی ہو ں کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ہمیں دیکھ کر کیا کہتے؟ وہ ہمارے نوجوانوں کو کیا مشورہ دیتے؟ آج عرب حکمرانوں کی بے شرمی کی تویہ حالت ہے کہ وہ امریکا کے سامنے ’ بیلے ڈانس‘ ناچ رہے ہیں اور عراق کو ایک تر نوالے کی طرح پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ایک عرصے سے فلسطین کی عزت لوٹی جارہی ہے اور عرب حکمران نظریں چرا رہے ہیں‘ اور اب تو عالم عرب کی ایک اور بیٹی لبنان ___ یہ عرب حکمران کہاں تھے جب اس کی عزت تارتار کی جارہی تھی؟ساری دنیا تو کیا ‘ خود ہمارے بچے اور ہمارے نوجوان‘ جن سے ہم سب کا مستقبل وابستہ ہے‘ یہ دیکھ رہے ہیںکہ اب دوبارہ جنگ کے نقارے بجائے جارہے ہیں ۔
ہمیں نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت مبارکہ کی روشنی میں اپنے بچوں کی ایسی تعلیم و تربیت کرنی چاہیے کہ وہ ان کے نمونے پر چلیں اور ان سے سبق لے سکیں ۔ جب تک اس اُمت میں خالدبن ولید ‘ سلطان صلاح الدین ایوبی ‘ سید قطب اور میلکم ایکس جیسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے ‘ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھو ٹے گا۔ یہ اسلام کی فطرت ہے کہ جابر جس قد زیادہ جبر ڈھائیں گے ‘ بیداری کی لہر اس قدر شدید سے شدید تر ہوتی چلی جائے گی ۔ ہمارے نوجوانوں کوچاہیے کہ اسی اسلام (ظلم اور جبر کے مقابلے میں مزاحمت کا شعار ) کومشعل راہ بنا کر اس کی پیروی کریں ۔
فاروق حسنی اور اسی قبیل کے لوگ تودر اصل نا مرد ہیں ۔ انھوں نے محض مغرب کے رہنے والوں سے زیادہ مغربیت دکھانے کے لیے بڑے بے ڈھنگے انداز سے بزدلی اور نامردی کی بات ہے۔ فاروق حسنی جیسے لوگوں کو تاریخ کی کتابوںمیں ایک جملے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی‘ مگر ہماری بہنوں اور بھائیوں کی مزاحمت‘ استقامت اور تاریخی بہادری پر کئی ابواب رقم کیے جائیں گے۔
آج ان مسلمان نوجوانوں کی تعداد میںبہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جن کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ چاہے وہ اپنے آپ کو مغربی معاشرے میں ضم کروانے کے لیے اپنے دین پر کتنا ہی سمجھوتاکیوں نہ کرلیں‘ جب بھی حالات بگڑ یں گے تو سب سے پہلے شک کی نگاہ ان پر پڑے گی ۔ یہ لوگ ہم مسلمانوں کو شریعت ‘ خلافت اور جہاد کو بھو ل جانے کی جس قدر زیادہ تلقین کریں گے‘ ان اقدار کو بچانے کے لیے مسلمانوں میںخون دینے کا جذبہ بھی اسی قدر زیادہ پروان چڑھے گا ۔
آج فلسطین ‘ عراق ‘ افغانستان‘ کشمیر اور چیچنیا میں جو جہاد ہم دیکھ رہے ہیں ‘یہ بے انصافی اور جبر کے خلاف بالکل ایک جائز جنگ ہے ۔
یادرکھیے ! جہادیوں کے طرز عمل سے مغرب یا مغرب کی طرز زندگی کو کوئی خطرہ نہیں۔ ان کی مزاحمت جائز اور بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے ۔ آج ہمارے نوجوانوں کو اگر مذہبی انتہا پسندوں سے کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ اصل میںوائٹ ہاوس اور ڈاوننگ اسٹریٹ کے وہ مذہبی عیسائی بنیادپرست ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف لے جانے کا باعث بن رہے ہیں‘کیونکہ بش اور بلیر دونوں ہی القاعدہ جیسی تحریکوں کے لیے بھرتی کا فریضہ بہت اچھے طریقے سے انجام دے رہے ہیں ۔ آج بہت سارے نوجوان صرف اس حقیقت کو پانے کی وجہ سے بیدار ہورہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں اصل ہدف دہشت گردی نہیں‘ اسلام ہے ۔آج یہ امت کا اولین فریضہ ہے کہ اپنے نوجوانوں کی بیداری اور نشان منزل دکھانے کے لیے اس جذبے اور اخلاص سے کام کرے جس طرح حضوؐر نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا اور ان کو راستہ دکھایا۔ آج بھی آپؐ کی ذات اقدس کی پاکیزہ تعلیمات سے سے بہت سارے لوگ نشان منزل کو پارہے ہیں ۔ آج کے نوجوانوں کو سب سے اہم بات یہ سمجھانی چاہیے کہ اللہ کے علاوہ کسی سے بھی خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ڈونلڈ رمز فیلڈ نے امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے مستعفی ہونے سے ایک ماہ پہلے یہ اعتراف کیا تھا کہ افغانستان کا تعارف مجھے بڑی قوتوں کے قبرستان کے طور پر کرایا گیا تھا۔ اس کے باوجود امریکی حکومت نے اس قبرستان میں امریکا کے لیے جگہ مختص کرانے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان کے منظرنامے میں آج سب سے اہم تصویر طالبان کے ظہورثانی کی ہے۔ برنیٹ آر روبن‘ جو اقوام متحدہ کے نمایندے کے طور پر بون کانفرنس میں شریک تھے‘ نے افغانستان میں ناکامی کے تجزیے میں لکھا ہے کہ طالبان کے دوبارہ عروج کی ایک وجہ نا اہل اور کرپٹ افغان حکومت بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں… ’’جب تک افغانستان کی متزلزل حکومت کو وسائل اور قیادت نہیں ملتی تاکہ وہ ان علاقوں میں عمومی خوش حالی کے نتائج سامنے لا سکے‘ جہاں یہ مزاحمت کار موجود نہیں‘ اس وقت تک افغانستان میں بین الاقوامی موجودگی بالکل ایک غیر ملکی قبضے کی شکل میں سامنے آتی رہے گی… ایک ایسا قبضہ جسے آخر کار افغان مسترد کر دیں گے‘‘۔ (فارن افیئرز‘ جنوری‘ فروری ۲۰۰۷)
یہ اعتراف تو ہر جگہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کی حکومت مسلسل زلزلے کی زد میں ہے۔ طالبان نہ بھی ہوں تو شمالی اتحاد کے متحارب دھڑے ہی اس کے مسلسل حالت نزع میں رہنے کے لیے کافی ہیں۔ دوسرا اعتراف یہ کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی موجودگی دراصل غیر ملکی قبضہ ہے۔ تیسرا اعتراف یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ افغان قوم غیر ملکی قبضے کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ وہ اسے مسترد کرتی ہے۔ امریکا حقائق سے آگاہ ہے۔ وہ اس کے باوجود یہ تسلیم نہیں کر رہا کہ اس کا مشن ناکام ہو چکا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ مختصراً اس ناکامی کا حال بیان کر سکیں۔
امریکا کے ان چار معلوم مقاصد کے علاوہ وسط ایشیا میں توانائی کے ذخائر تک رسائی‘ امریکا‘ بھارت اور افغانستان اسٹرے ٹیجک کولیشن کا قیام، چین کے خلاف اقدامات کے لیے درکار حالات کی تیاری اور پاکستان کو افغان مسئلے سے الگ تھلگ کرنا بھی اس کی حکمت عملی کا حصہ تھے۔ ایران کے ساتھ مستقبل میں کیا کرنا ہے، پاکستان کے ایٹمی توانائی کے وسائل کے لیے محفوظ راستہ کہاں سے کدھر ہو سکتا ہے، نیز جنرل پرویز مشرف کے بعد کے حالات کی ممکنہ منصوبہ بندی کس طرح سے کی جاسکتی ہے، یہ بھی اس کے وسیع تر ایجنڈے کا حصہ تھے۔ ان مقاصد میں افغانستان میں ایک مرکزی حکومت قائم کرنا ضرور شامل تھا۔ سیاسی استحکام اس ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں تھا۔
امریکا اپنے بیان کردہ مقاصد میں کس قدر کامیاب رہا؟ امریکا نے سرکاری طور پر تسلیم کیا ہے کہ وہ افغانستان میں القاعدہ نیٹ ورک کے صرف ۲۵ فی صد کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ طالبان کی تباہی کا تناسب ۳۰فی صد رہا۔ گویا اس کے اپنے اندازوں کے مطابق القاعدہ نے اپنا ۷۵فی صد نیٹ ورک اور افرادی قوت بچالی۔ طالبان اپنے دفاع میں ۷۰ فی صد کامیاب رہے۔ امریکا کے اعداد وشمار کے اداروں اور پنٹاگان کے مطابق تقریباً ۸۰۰ افغان اور عرب مارے گئے۔ ۵۰۰ افغان اور عرب مجاہدوں کو پکڑ کر گوانتا ناموبے بھیج دیا گیا۔ شمالی اتحاد کے ہاتھوں بہت بڑی تعداد میں وہ پاکستانی مارے گئے جو شریعت محمدی تحریک کے کہنے پرافغانستان گئے تھے۔ شمالی اتحاد کے ہاتھوں مارے جانے والوں میں دوسری بڑی تعداد ازبک باشندوں کی تھی۔ طالبان کا قتل عام شمالی اتحاد بھی نہ کر سکا۔ اس کی بڑی وجہ قبائل کے معاملات اور مستقبل میں نئی دشمنیوں سے گریز کے محرکات تھے۔
اس کامیابی یا ناکامی کا دوسرا رخ یہ تھا کہ ملا محمد عمر گرفتار نہ ہو سکے۔ اسامہ بن لادن کے بارے میںعلم نہ ہو سکا۔ طالبان کی بڑی تعداد پشتون آبادی میں غائب ہو گئی۔ خود افغان حکومت‘ اور شمالی اتحاد کے وارلارڈز نے مقامی قبائلی اور سیاسی مصالح کے تحت یہ راستہ کھولا تھا کہ طالبان کمانڈر حکومت کے ساتھ مل جائیں، ہتھیار پھینک کر عام حیثیت اختیار کر لیں یا خاموشی ہی اختیار کرلیں۔ طالبان نے ان تینوں سہولتوں سے فائدہ اٹھایا اور پشتون آبادی میں ضم ہو گئے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ اس معرکے میں جو دو ماہ جاری رہا، طالبان اور القاعدہ کے مارے جانے والے بڑے لیڈروں کی کل تعداد ۱۲ تھی۔ اس کی واحد کامیابی طالبان حکومت کا خاتمہ تھا۔ طالبان کا خاتمہ ایک الگ معرکہ تھا جو کامیاب نہ ہو سکا۔ فوجی ماہرین نے طالبان کے بارے میں اپنے تجزیوں میں ان اسباب کو بیان کیا جو ان کے بچ نکلنے کا باعث ہوئے۔ ان میں نمایاں یہ تھے:
۱- امریکا صف اول کی قیادت پر حملہ کر رہا تھا۔ دوسرے درجے کی قیادت روپوش ہوگئی۔
۲- امریکا نے طالبان کی صف میں سے حامی تلاش کرنے پر وقت ضائع کیا۔ حامی نہ مل سکے لیکن حالات کی نزاکت سے فائدہ اٹھا کر تحلیل ہونے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔
۳- طالبان مخالف گروہوں کو پشتونوں کی مخالفت سے بچنے کی بھی ضرورت تھی۔ انھوں نے طالبان کو راستہ دیا۔ نسلی اور قبائلی وابستگیوں نے جو کام کیا، امریکا اس کا اندازہ نہ کرسکا۔
۴- پہلے دو ماہ کے جنگی معرکے کے بعد امریکا نے تعمیرنو سے انکار کر دیا۔ امریکی حکام نے اعلان کردیا کہ اب دنیا تعمیر نو کرے۔ اتنی جلدی امریکا کی بے وفائی نے عام افغان کو یہ پیغام دیا کہ طالبان سے دشمنی درست نہیں۔
۵- ایف بی آئی اور سی آئی اے نے طالبان اور القاعدہ کے ۶۰ راہنمائوں کی فہرست تیار کی۔ ان میں سے صرف ۱۲ گرفتار ہو سکے۔ یہ گرفتاریاں پاکستان کے تعاون سے ممکن ہوسکیں۔
۶- طالبان حکومت کے بعد بھی بم باری شہری ہلاکتوں کا سبب بنتی رہی۔
امریکی آپریشن کی حکمت عملی پر ایک ریسرچ پراجیکٹ کے تحت ایک تجزیہ تیار کیا گیا۔ اس میں کے جی کے ہیرنگ نے لکھا کہ آپریشن پایدار آزادی کامیاب نہ ہو سکا۔ افغانوں کے دل و دماغ فتح نہ کیے جا سکے۔ امریکا بارودی سرنگیں بھی صاف نہ کر سکا۔ طالبان ختم نہ کیے جاسکے۔ عالمی حمایت میں کمی آتی گئی‘جب کہ امریکا نے تمام تر فوجی و سفارتی وسائل استعمال کیے۔ اس تجزیے میں یہ کہا گیا کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو فوجی ذرائع سے توڑا نہیں جاسکتا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا نے پانچ برسوں میں اس بم باری کو مسلسل جاری رکھا۔ ایک شادی کی تقریب پر بم باری کا بھی بہت چرچا ہوا۔ اس بم باری میں طالبان کی ہلاکتیں بہت کم رہیں۔ نیوز ویک نے اکتوبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میں غزنی کے علاقے میں بم باری پر ایک رپورٹ شائع کی۔ اس کے مطابق امریکا نے دعویٰ کیا کہ ۳۸ طالبان مارے گئے‘ جب کہ صرف چارطالبان مار گئے تھے۔ شہری ہلاکتوں نے افغان ردعمل کو مزید مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور تباہی کے دہانے پر بیٹھے افغانوں کو قبروں میں منتقل کرنے کی حکمت عملی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔
طالبان کے ظہور ثانی کی ایک وجہ تباہ حالی سے نجات کا نہ ملنا بھی ہے۔ امریکا کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پالیسی پلاننگ کے انچارج رچرڈ ہیس‘ نے ۲۰۰۲ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ امریکا اب افغانستان میں تعمیر نو کا کام نہایت ہی محدود پیمانے پر کرے گا اور اس پر سختی سے عمل کرے گا۔ تعمیرنو کا عالم یہ ہے کہ افغانستان سے کیے جانے والے غیر ملکی امداد کے وعدوں میں سے نصف بھی پورے نہیں ہو سکے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے اعدادوشمار کے مطابق فی افغان ۶۷ ڈالر فی سال امداد دی گئی‘ جب کہ بوسنیا میں یہ رقم ۲۴۹ ڈالر اور مشرقی تیمور میں ۲۵۶ ڈالر تھی۔ افغان حکومت ۲۷ ارب ڈالر طلب کررہی ہے‘ جب کہ اسے بون کانفرنس کے وعدے کے مطابق ۱۵ ارب ڈالر بھی نہیں مل سکے۔
یونوکال (Unocal) کی طالبان سے کش مکش نے بھی یہی پیغام دیا کہ افغان عوام کے لیے امریکی منصوبوں میں مفاد کا پلڑا امریکا کے حق میں ہی رہے گا۔ طالبان کے دور میں امریکی تاجروں اور صنعت کاروں نے اپنے دورے کے اختتام پر یہ رپورٹ دی تھی کہ یہاں سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا ہی مشورہ سوویت یونین کے آنے سے قبل بھی دیا گیا تھا۔ اس پر امریکا نے افغانستان کو اپنے ایجنڈے سے خارج کر دیا تھا۔ جب امریکا کو سوویت یونین کو افغانستان میں لانے میں کامیابی ملی تو وہاں ’سرمایہ کاری‘ کا فیصلہ کیا گیا۔
گلبدین حکمت یار کو ایران میں پناہ ملنا اور کمانڈر اسماعیل کے ان سے پرانے گہرے تعلقات افغانستان میں ایک بظاہر نئے اور درحقیقت بہت پرانے عامل (factor) کی نشان دہی کرتے تھے۔ کمانڈر اسماعیل خان طالبان کا سب سے کٹر دشمن تھا۔ امریکا بھی طالبان کا دشمن تھا اور ایران بھی۔ گویا طالبان‘ دشمن کے دشمن تھے۔ طالبان کو دشمن کے خلاف استعمال کرنے کا گُر ایرانیوں کو خوب آتا تھا اور انھوں نے اس کا استعمال بھی کیا۔ یہ بات خالی از دل چسپی نہیں ہو گی کہ جب افغانستان پر حملے کا آغاز ہوا تو وائٹ ہائوس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ طالبان اور القاعدہ کے وہاں سے فرار ہونے کے بڑے راستے ایران اور پاکستان ہوں گے۔ اس لیے پاکستان کو ساتھ ملایا گیا۔ امریکا کے کہنے پر ایران نے اپنی ۷۰ہزار افواج افغان سرحد پر لگا دیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان رابطے خفیہ طور پر موجود رہے اور طالبان ان کا مشترکہ ہدف رہے۔ جنیوا‘ نیویارک اور لندن میں ایسے اجلاس ہوئے جن میں ایران، امریکا، برطانیہ اور اقوامِ متحدہ کے حکام شرکت کرتے رہے۔ دشمن کے دشمن سے بھی دشمنی کو پس منظر میں رکھ کر بہت سے کام کیے گئے۔ سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا نے ایران کا ان دنوں دورہ کیا اور امریکی مطالبات پیش کیے۔
امریکا نے کبھی کھل کر ایران پر طالبان کی حمایت کا الزام نہیں لگایا۔ اس کی وجہ درپردہ رابطے بھی تھے اور یہ حقیقت بھی کہ ایران بھی طالبان کا مخالف ہے۔ لیکن ایران امریکی حملے کے دنوں میں طالبان حکومت کو تیل دیتا رہا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس کی خبریں شائع کیں۔ امریکی کمانڈوز تیل کے قافلوں کو تباہ کرتے رہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رابطے بعد میں بھی رہے۔
اس وقت بھی طالبان افغانستان کے مختلف علاقوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ ان میں وہ اثرات بھی موجود ہیں جن کی جانب ہلمند، زابل، قندھار کے حکام اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایران کی انٹیلی جنس کے حکام اور ایرانی فوج کے جرنیل ان علاقوں میں کئی بار دیکھے گئے ہیں۔ وہ مبینہ طور پر طالبان کمانڈروں کو اسلحہ اور رقم دے کر جاتے ہیں۔ ایران نے ان دعوئوں کی کبھی تردید کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ہے۔
ملا محمد عمر نے اس مزاحمت کو منظم کرنے کے لیے ۱۰ رکنی رہبر کونسل بنائی۔ طالبان کے پانچ آپریشنل زونز بنائے گئے۔ ہر زون کا ایک کمانڈر مقرر کیا گیا۔ اس سال‘ یعنی ۲۰۰۶ء میں ان گروہوں نے افغانستان کے جنوب اور مشرق میں، بالخصوص ہلمند، قندھار، زابل، غزنی، پکتیکا‘ پکتیا‘ خوست، کنڑ، لوگر اور نورستان میں کارروائیاں ہی نہیں کیں بلکہ وہ ان علاقوں میں عملی طور پر موجود رہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں امریکی اور ناٹو افواج موجود ہیں۔ اتحادی کمان اب ناٹو کے پاس ہے۔ چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میں طالبان کی حکومت قائم ہے۔ آپریشن میڈوسا، آپریشن مائوئنٹین فیوری اور ایسے ہی کئی آپریشن ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکامی سے دو چار ہے۔ جب تک افغانستان کو انسانوں کی سر زمین تسلیم نہیں کیا جاتا، وہاں کے بسنے والے غیر ملکی قبضے کے خلاف ایسی ہی جدوجہد کرتے رہیں گے۔ برطانیہ وہاں سے ناکام ہو کر نکلا تھا‘ اب ناٹو کا حصہ بن کے گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ سیاسی حل کے سوا دوسرا راستہ نہیں ہے۔ سوویت یونین بکھر گیا اور آج روس کنارے بیٹھا وہی تماشا دیکھ رہا ہے جو اس کی مداخلت کے ایام میں امریکا دیکھ رہا تھا۔ برزنسکی کے الفاظ میں پکنک منائی جارہی تھی۔ طالبان کے دوبارہ ظہور نے مقامی حالات سے قوت پائی ہے اور پکنک پر آنے والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ جانے کا راستہ کھلا ہے‘ ورنہ نتائج اس سے بھی بھیانک ہوں گے۔
پروفیسر خورشیداحمد کے شذرے ’اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر نظریاتی بیداری‘ (نومبر۲۰۰۶ء) پر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ یہ اور مدیر ترجمان کا استدراک دونوں ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ (ادارہ)
محترم پروفیسر خورشیداحمد صاحب کا ایک شذرہ ’اسلامی نظریاتی کونسل کی غیر نظریاتی بیداری‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن اور بعض اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیاہے کہ ’’اس دستوری ادارے کو شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار اپنے مقام و کردار اور استحقاق کا احساس ہوا‘‘۔ پروفیسر صاحب نے ادارے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ہم خود اسلامی نظریاتی کونسل کو بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے حق میں ہیں‘‘۔ محترم پروفیسر صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے پرانے کرم فرما اور بہی خواہ ہیں۔ ان کے ارشادات کی ہم بے حد قدر کرتے ہیں‘ تاہم اس شذرے میں چند حقائق بیان کرنے میں پروفیسر صاحب سے کسی قدر فروگزاشت ہوئی ہے۔ اس لیے ہم بصدادب چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں:
۱- پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ کونسل نے قوانین پر نظرثانی کے لیے ایک جامع رپورٹ مرتب کرنا تھی جو آج تک مرتب نہیں ہوئی اور یوں کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی‘ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کونسل نے یہ آئینی ذمہ داری مکمل کرتے ہوئے جامع رپورٹ مرتب کرکے دسمبر ۱۹۹۶ء میں شائع کردی تھی۔ پروفیسر صاحب کی خواہش ہو تو وہ کونسل کے دفتر سے طلب کرسکتے ہیں۔ ماضی میں کونسل کی رپورٹیں صیغۂ راز میں رکھی جاتی تھیں۔ موجودہ کونسل کے فیصلے کے تحت اب یہ پبلک کے لیے دستیاب ہیں۔
یہ فائنل رپورٹ ۵۲۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ میں ۱۸۳۶ء سے ۱۸۸۱ء تک کے تمام قوانین کا جائزہ پیش کردیا گیا ہے۔ اس فائنل اور جامع رپورٹ کے علاوہ کونسل سالانہ اور خصوصی رپورٹیں بھی شائع کرتی رہی ہے جو کونسل کی لائبریری میں موجود ہیں۔
۲- کونسل اس بات پر مسرت و اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ موجودہ حکومت نے مختلف قوانین پر ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹ میں بحث کا آغاز کیا ہے۔ اب تک پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ عام طور پر آرڈی ننسوں کے ذریعے ہوتا رہا ہے اور اس مرتبہ ان قوانین پر ذرائع ابلاغ پر بے لاگ گفتگو ہورہی ہے اور اُمید ہے کہ اسمبلی میں بھی اس پر سنجیدہ بحث ہوگی۔ اس سلسلے میں جو اندیشے‘ تحفظات اور جھنجھلاہٹیں سامنے آرہی ہیں وہ فطری امر ہے‘ لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ قانون سازی عوام کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں ہورہی ہے۔
۳- پروفیسر صاحب کو شکایت ہے کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک دستوری ادارہ ہوتے ہوئے بھی عملاً ایک عضو معطل ہی کا مقام دے دیا گیا‘‘ اور یہ کہ ’’کونسل ۵۰ سے زیادہ رپورٹیں تیار کرچکی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی‘‘۔ بقول ان کے ’’حیرت کا مقام ہے کہ کونسل یا اس کے ارکان کو اس بے توقیری پر کبھی احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی‘‘۔ ان رپورٹوں پر بحث پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی دستوری ذمہ داری ہے تاہم انھوں نے کونسل کو مطعون کیا ہے کہ ’’ہمیں علم نہیں کہ اس سلسلے میں کونسل نے کبھی حکومت کو اپنی دستوری ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کرنے کی زحمت فرمائی ہو‘‘۔ پروفیسر صاحب سینیٹ کے اہم رکن ہیں‘ وہ بہتر جانتے ہیں کہ ان رپورٹوں پر کیوں بحث نہیں ہوئی۔ وہ اپنی کوتاہی کے لیے کونسل کو ذمہ دار کیوں ٹھیراتے ہیں۔ کونسل کے نزدیک رپورٹ پیش کرنے پر کونسل کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے۔ کونسل کو ’ولایتِ فقیہ‘ کا اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی وہ کسی ایسے اختیار کی قائل ہے کیونکہ اس سے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔
۴- پروفیسر صاحب نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ حسبہ بل اور حدود آرڈی ننس کے اصل مسودات اسلامی نظریاتی کونسل ہی نے تیار کیے تھے‘ انھیں غالباً اس بات پر اعتراض ہے کہ کونسل اپنے ہی تیار کردہ مسودات کی تائید کیوں نہیں کر رہی یا ان پر نظرثانی کی بات کیوں کرتی ہے۔ میں پروفیسر صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ کونسل‘ زیرغور ہرمسئلے پر کونسل کے ماضی کے فیصلوں اور سفارشات کو مدنظر رکھتی ہے بلکہ موجودہ کونسل نے یہ طریقۂ کار طے کیا ہے کہ کونسل کے ماضی کے فیصلوں کو بھی موجودہ کونسل کی توثیق کے بعد ہی نقل‘ شائع یا جاری کیا جائے گا۔
۵- پروفیسر صاحب کو حسبہ بل کے بارے میں کونسل کی راے پر بھی اعتراض ہے۔ کونسل کی راے کے جس حصے کو انھوں نے ’دستوری بقراطیت‘ کا نام دیا ہے اس کی آئینی حیثیت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے‘ اس لیے مجھے اس پر مزید [کچھ] کہنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ کونسل نے جن شرعی تحفظات کا اظہار کیا تھا وہ پروفیسر صاحب کی توجہ کے لائق ہیں اور یہ تحفظات اس ماحول کو پیش نظر رکھ کر کیے گئے تھے جس میں پاکستان میں اقامت دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر بھردی گئی ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ حسبہ کا سیاسی استعمال شریعت اور دین کومتنازع بنادے گا۔ فرقہ واریت اور مذہبی جماعتوں کے حالیہ باہمی اختلافات سے اس اندیشے کو مزید تقویت ملی ہے۔
۶- ’تحفظ حقوقِ نسواں‘کے بل پر پارلیمنٹ میں بحث کے آغاز سے پہلے ہی بعض حلقوں کی طرف سے حدود آرڈی ننس کی مکمل تنسیخ یا اس کو بعینہٖ باقی رکھنے پر جس طرح اصرار کیا جا رہا ہے اور اس پر پارلیمنٹ میں غوروخوض اور ترمیم کا راستہ روکنے کے لیے جس طرح زور ڈالا جا رہا ہے اس پر افسوس ہوتا ہے کہ بعض لوگ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بات تو کرتے ہیں لیکن قانون سازی کے لیے غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی طرزِعمل پر مصر ہیں۔ پروفیسرصاحب سے درخواست ہے کہ اس غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی طرزِفکر کی حوصلہ شکنی کی طرف بھی توجہ فرمائیں۔
ترجمان القرآن (نومبر۲۰۰۶ء) میں شائع شدہ شذرے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے فاضل اور محترم صدر ڈاکٹر محمد خالد مسعود کا ایک طویل مراسلہ موصول ہوا ہے جسے شائع کیا جا رہا ہے۔ شذرے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کیا کسی مسئلے پر پارلیمنٹ یا پارلیمانی پارٹیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ایک دینی مسئلے پر کونسل کے علاوہ دوسرے علماے کرام‘ یا کسی مجلس یا ادارے سے قانون سازی کے دوران راے لیں اور اگر پارلیمنٹ کی پارٹیاں ایسا کرتی ہیں تو کیا اس سے اسلامی نظریاتی کونسل جیسے دستوری لیکن سفارشی ادارے کا استحقاق مجروح ہوتا ہے؟ سوال کونسل کے ایک یا ایک سے زیادہ ارکان کے اس موقف پر پیدا ہوا تھا جنھوں نے اس عمل پر برافروختہ ہوکر استعفا پیش کیا جو اخبارات میں شائع ہوا اور اب بھی کونسل کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے:
… نے ۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ء کو اسلامی نظریاتی کونسل سے استعفا یہ کہتے ہوئے دے دیا کہ حکومت نے تحفظ نسواں بل میں دستوری ادارے کو نظرانداز کیا ہے۔ اس لیے کہ حکومتی جماعت کے لیڈر چودھری شجاعت حسین نے بل کا جائزہ لینے کے لیے علما کی الگ کمیٹی تشکیل دی جس کا بیان کردہ مقصد یہ تھا کہ یہ یقینی بنائے کہ یہ بل اسلامی احکامات کے مطابق ہے۔ … نے کہا کہ یہ نظریاتی کونسل کے دائرۂ کار کی خلاف ورزی ہے… نے بہرحال جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ممبران کونسل کی ۳۰نومبر کی ملاقات میں شرکت کی۔
اصل مقصد اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ کیا فی الحقیقت دستور کے تحت کونسل کو یہ حیثیت حاصل ہے کہ اس کے علاوہ کسی سے مشورہ کرنا اس کے استحقاق کو مجروح کرتا ہے اور کرنے والے کونسل کے دائرۂ اختیار کی خلاف وزی (breach of jurisdiction) کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کونسل کے محترم صدر نے ’ولایت فقیہ‘ سے برأت کا اظہار کیا ہے اور درست کیا ہے لیکن دائرۂ اختیار کی خلاف ورزی کے تصور کے ڈانڈے کہیں ایسے ہی کسی تصور سے تو نہیں مل جاتے؟
ہماری دوسری تمام معروضات ضمنی تھیں اور مقصود کونسل پر تنقید سے کہیں زیادہ اس نظام کے احتساب کے لیے تھیں جو کونسل جیسے وقیع ادارے کے قیمتی کام کا استخفاف کر رہا ہے۔ اشارتاً اس طرف بھی متوجہ کیا گیا تھا کہ اگر احتجاج کی ضرورت تھی تو کونسل کے کام سے اس بے توجہی بلکہ بے توقیری پر تھی‘ کونسل کے باہر کے اصحابِ علم سے مشورہ کرلینے پر نہیں۔ اس پس منظر میں یہ کہنے کی جرأت تو نہیں کرسکتا کہ ع
شعر مرا بہ مدرسہ کہ برد
البتہ اپنے عجز بیان کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے یہ دعا ضرور کروں گا کہ ع
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور
میں فاضل چیئرمین کونسل کا ممنون ہوں کہ دسمبر ۱۹۹۶ء میں شائع کی جانے والی جامع رپورٹ کے بارے میں انھوں نے مطلع کیا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ رپورٹ میرے علم میں نہیں تھی‘ ان شاء اللہ میں اسے حاصل کر کے اس سے استفادہ کروں گا۔ میرے سامنے مئی ۱۹۸۴ء میں شائع کی جانے والی ’احکام اسلام‘ نامی رپورٹ تھی جسے دستور پاکستان کے آرٹیکل ۲۳۰ (۱) (د) کے تحت پیش کیا گیا تھا اور جس سے میری تشفی نہیں ہو سکی۔ اس طرح کے مجموعے تو پہلے سے موجود تھے‘ ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآن و سنت کے جن احکام کو قانونی شکل دینا ضروری ہے ان کو اس انداز میں پیش کیا جائے جس سے نئی قانون سازی ہوسکے۔ آیات و احادیث کو جمع کر دینا بھی ایک خدمت ضرور ہے مگر اس سے دفعہ ۲۳۰ (۱) (د) کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ غالباً ۱۹۹۶ء کی رپورٹ دفعہ ۲۳۰ (۱) (ج) کے تحت ہے اور اس میں متعلقہ قوانین کو اسلام کے احکام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متعین تبدیلیوں کی نشان دہی کی گئی ہوگی جس سے میں ضرور استفادہ کروں گا۔ اس معلومات کے لیے میں ڈاکٹر صاحب کا ممنون ہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے درست لکھا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ میں اور قومی سطح پر بحث و گفتگو کے ذریعے ہونی چاہیے اور آرڈی ننسوں کے ذریعے قانون سازی دستور اور جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ ہم دن رات اسی کا رونا رو رہے ہیں۔ جب پارلیمنٹ کا وجود نہ ہو‘ اس وقت تو کوئی مجبوری ہوسکتی ہے جیسی کہ ۱۹۷۹ء میں تھی‘ جب حدود آرڈی ننس نافذ ہوئے۔ لیکن اس وقت بھی اگر ڈاکٹر صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں پر نظر ڈالیں اور اس زمانے کے اخبارات کا مطالعہ فرمائیں تو صاف نظر آئے گا کہ حدود قوانین پر کھل کر بحث ہوئی ہے۔ علما اور مفکرین کے کنونشن ہوئے ہیں اور اس وقت کی کابینہ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز پر ان قوانین کی منظوری دی تھی۔ کلہیا میں گڑ نہیں پھوڑا گیا تھا‘ البتہ یہ شرف موجودہ حکمرانوں کو حاصل ہے کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں گذشتہ چارسال میں اگر کوئی ۲۰قوانین پارلیمنٹ میں نہایت رواروی میں اور بالعموم مفصل بحث کے بغیر بنائے گئے ہیں تو اس کے پانچ گنا زیادہ‘ یعنی تقریباً ۹۵ آرڈی ننسوں کے ذریعے نافذ کیے جن میں سے ایک چوتھائی ایسے ہیں جو پارلیمنٹ کے اجلاس سے ایک دو دن قبل یا ایک دو دن بعد قوم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ نیز دو درجن کے قریب آرڈی ننس وہ ہیں جو سپریم کورٹ کے واضح انتباہ (strictures) کے باوجودتین تین اور چار چار بار بطور آرڈی ننس ہی نافذ ہوئے ہیں۔ یہ سارے قوانین اب تک صرف صدارتی فرمان کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان پر کبھی بحث نہیں ہوئی ہے اور غضب یہ ہے کہ ان کو آج تک باقاعدہ منظور نہیں کرایا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ اب تک پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ عام طور پر آرڈی ننسوں کے ذریعے ہوتا رہا ہے‘ لیکن یہ بات اسلامی قانون سازی سے مخصوص نہیں تمام ہی قوانین کے بارے میں ہے۔ اسلامی قوانین تو آئے ہی کتنے ہیں؟ ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ سینیٹ میں جو شریعت بل ۱۹۸۶ء میں متعارف کیا گیا تھا اس پر پورے دوسال بحث ہوئی‘ اسے پبلک کی راے کے لیے بھی مشتہر کیا گیا اور سینیٹ کی باقاعدہ قرارداد کے ذریعے یہ کام کیا گیا۔ غالباً ۱۹۸۵ء سے آج تک یہ واحد قانون ہے جس میں سینیٹ میں ہفتوں بحث ہوئی اور تین ماہ اسے پبلک میں مشتہرکیا گیا جس کے نتیجے میں سینیٹ کو ۱۴ ہزار سے زیادہ آرا موصول ہوئیں اور ۹۹ فی صد اس کے حق میں تھیں۔ تحفظ نسواں کے نام نہاد قانون پر پارلیمنٹ میں اور قومی سطح پر بحث کا جو credit موجودہ حکومت کو دیا جا رہا ہے اس پر ان کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے۔ البتہ یہ نہ بھولیں کہ ارکان اسمبلی و سینیٹ سے جس دبائو کے تحت بازو مروڑ کر (arm twisting) یہ بل منظور کرایا گیا اور جس طرح خود سرکاری پارٹی کے ۴۶ ارکان نے اسمبلی میں راے شماری میں شرکت نہ کرکے اپنی مجبوری کا اظہار کیا وہ بھی اسی حکومت کا طرۂ امتیاز ہے!
ڈاکٹر صاحب کی یہ شکایت بے محل ہے کہ پارلیمنٹ کے بحث نہ کرنے کا الزام کونسل کو دیا جارہا ہے۔ کم از کم میری تحریر میں اس طرف کوئی اشارہ بھی نہیں۔ کونسل نے بلاشبہہ اپنا فرض‘ رپورٹ پیش کر کے ادا کردیا اور میری تنقید کا ہدف پارلیمنٹ اور وہ تمام حکومتیں ہیں جنھوں نے اپنے فرض کی انجام دہی سے کوتاہی کی ہے۔ یہ سوال خود میں نے سینیٹ میں ایک درجن سے زیادہ مواقع پر اٹھایا ہے۔ ایک بار اس پر تحریکِ استحقاق تک پیش کی ہے اور میری تحریک پر سینیٹ میں کونسل کی کم از کم‘ دو رپورٹوں (معیشت اور تعلیم) پر قائمہ کمیٹی نے سینیٹر محمد علی خاں ہوتی کی صدارت میں غور کیا اور اپنی مطبوعہ رپورٹ سرکاری طور پر سینیٹ میں پیش کی لیکن یہ اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ تمام حکومتیں اس کوتاہی کی ذمہ دار ہیں بشمول موجودہ حکومت‘ البتہ میرا اشارہ اس طرف تھا کہ اگرکونسل کے ارکان کو کسی معاملے پر اپنے اضطراب کااظہارکرنا چاہیے تھا وہ ان کے کام کے دستوری تقاضوں کو پورا نہ کرنا ہے‘ نہ کہ ایک ایسے معاملے پر خفگی کا اظہار جو پارلیمانی مشاورت کے آداب کے مطابق ہے اور اس سے کونسل کا کوئی استحقاق مجروح نہیںہوتا۔ جہاں تک میرے رویے کا تعلق ہے تو موجودہ کونسل کی تشکیل کے بارے میں متعدد پارلیمانی پارٹیوں کے تحفظات کے باوجود‘ میں نے اور میرے ساتھیوں نے سینیٹ میں تحفظ نسواں بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تجویز دی تھی جسے حکومتی پارٹی نے رد کردیا۔ اسے کونسل کے فاضل ارکان ان پر حکومت کے اعتماد کا اظہار سمجھتے ہیں یا بے اعتمادی کا‘ یہ صرف ان کا استحقاق ہے!
یہاں اگر یہ بات بھی ریکارڈ پر لے آئی جائے تو بے محل نہیں ہوگا کہ یہ بل جس کے بارے میں ملک کے علماے کرام کی عظیم اکثریت اور اہم قومی جماعتیں اس کی متعدد شقوں کے خلافِ اسلام ہونے پر یقین رکھتی ہیں‘ ہمارے علم کی حد تک آج تک باقاعدہ کونسل کو نہ غور کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور نہ کونسل نے اس پر باقاعدہ بحث کے بعد کوئی راے دی ہے۔ اس کی تصدیق صدر کونسل کے اس اخباری بیان سے بھی ہوتی ہے جو بل کے منظور ہونے کے بعد انھوں نے دیا تھا اور اس استعفا سے بھی جو ایک فاضل رکن نے دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے بار بار اعلان کیا ہے کہ کونسل نے اس کو اسلام کے مطابق قرار دیا ہے اور ۲۰ رکنی کونسل جس میں اس وقت استعفا دینے والے ارکان سمیت صرف ۱۲ رکن ہیں‘ کے غالباً چھے سات ارکان بشمول ایک استعفا دینے والے رکن نے صدر سے مل کر اس تاثر کو کچھ وزن دینے کی خدمت بھی انجام دی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ اب تک باقاعدہ کونسل نے اس کے بارے میں کوئی راے نہیں دی بلکہ کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق دو ارکان نے ۲۲ نومبر ۲۰۰۶ء کو کونسل کی رکنیت سے استعفا دے دیا ہے اوراس کی وجہ ویب پر یہ درج ہے:
ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کو بطور احتجاج چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ وزیراعظم شوکت عزیز اور مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ہے اور تحفظ نسواں بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجے بغیر منظور کرلیا ہے۔
کیا کونسل کے چند ارکان نے جنرل صاحب کو کمک پہنچا کر اور کونسل کے اجلاس میں کسی فیصلے کے بغیر محض ذاتی آرا کی شکل میں کونسل کی راے کا تاثردے کر کونسل کی عزت میں اضافہ کیا ہے یا شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ بھی اسی سیاست میں شریک ہوگئے ہیں جس کا حسبہ بل کے بارے میں وہ اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں اور اس طرح خود کونسل کے ان ارکان نے جو صدارتی دربار میں حاضری کے اعزاز سے نوازے گئے ’’دین کے نام پر دین میں سیاست کوٹ کوٹ کر‘‘ بھرے جانے کا ایک حقیقی نمونہ تو کہیں پیش نہیں کردیا؟
حسبہ بل کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے‘ اس کا انھیں حق ہے لیکن میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ جس ’ماڈل بل‘ کی بنیاد پر سرحد کی اسمبلی نے اپنا بل بنایا تھا وہ اسلامی نظریاتی کونسل ہی کا تیار کردہ تھا۔ بعد کی کونسل اس پر نظرثانی کرسکتی ہے مگر دلیل کے ساتھ کہ پہلے جو مسودہ تجویز کیا گیا تھا وہ کیوں درست نہیں تھا اور اس کے لیے شرعی دلائل کیا ہیں؟ دستوری اعتراضات اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں اور سپریم کورٹ نے جو راے دی تھی اسے بھی عدالت کا فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس پر دستوری ماہرین کلام کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
دستور کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ دستور کے تحت ہر ادارے (مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ) کا دائرۂ کار مقرر ہے اور ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ اپنے متعین دائرہ اختیار کی حدود میں کام کرے۔ قانون سازی مقننہ کا کام ہے اور عدلیہ کا کام قانون بننے کے بعد شروع ہوتا ہے اور وہ اس کے نفاذ اور دستور سے اس کی ہم آہنگی یا تصادم کے بارے میں حتمی راے دے سکتی ہے۔ لیکن قانون سازی کے عمل میں عدلیہ کا کوئی کردار نہیں۔ اگر دستور کی دفعہ ۱۸۶ کے تحت صدر اس سے کوئی راے لے تو وہ مشاورتی عمل ہوگا۔ عدلیہ کوئی قانونی حکم جاری نہیں کرسکتی۔ نیز عدالتی اور دستوری روایات اس کی گواہ ہیں کہ عدالت قانون سازی کے عمل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت سے اجتناب کرتی ہے۔ سابق چیف جسٹس اجمل میاں نے اپنی خودنوشت میں نوازشریف صاحب کے دور کے ایک واقعے کے پس منظر میں اس اصول کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے جو ہمارے علم کی حد تک ساری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے:
ہمارا دستور‘ مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کے سہ گونہ اختیارات پر مبنی ہے۔ یہ ہر ایک کی حدود واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ عدلیہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مقننہ اور انتظامیہ کے افعال کا فیصلہ دے کہ یہ اسلامی دستور کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اگر مقننہ کوئی ایسا قانون منظور کرتی ہے‘ یا صدر کوئی ایسا آرڈی ننس جاری کرتا ہے‘ جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہو تو عدلیہ اس کو دستور کے خلاف قراردے کر ختم کرسکتی ہے… عدلیہ کو یہ اختیار اور یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ چیف جسٹس کمیٹی کے ذریعے کسی مجوزہ قانون کی مخالفت میں کسی احتجاج کا آغاز کرے‘ یا کوئی اخباری بیان جاری کرے‘ یا کوئی قرارداد منظور کرے‘ اور اس طرح عوامی محاذآرائی پیدا کرے۔ عدلیہ سے توقع نہیں کی جاتی کہ وہ کسی ایسے تنازعے میں اُلجھے جو اس کے سامنے فیصلے کے لیے لایا گیاہو۔ (A Judge Speaks Out‘ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس‘ ۲۰۰۴ء‘ ص ۲۱۶-۲۱۷)
رہا قوانین کے اور خود دینی احکام کے غلط استعمال کا مسئلہ‘ تو بہرصورت حق حق ہی رہے گا اور حکم اپنی جگہ قائم رہے گا محض غلط استعمال کی وجہ سے حق اور قانون تبدیل نہیں ہوتے۔ غلط استعمال کو روکا جانا چاہیے۔ ورنہ کوئی اصول باقی رہے گا‘ نہ قانون اور ضابطہ۔
ہمیں یہ تو جان کر خوشی ہوئی کہ کونسل کی سابقہ رپورٹیں اب افادہ عام کے لیے شائع اور فراہم کی جارہی ہیں البتہ یہ بات بڑی نادر اور عجوبہ روزگار نوعیت کی ہے کہ ’’موجودہ کونسل نے یہ طریقہ کار طے کیا ہے کہ کونسل کے ماضی کے فیصلوں کو بھی موجودہ کونسل کی توثیق کے بعد ہی نقل‘ شائع یا جاری کیا جائے گا‘‘۔ کیا اب کونسل نے فی الحقیقت اپنے لیے ایک نوعیت کی ’ولایت فقیہ‘ کا کردار اختیار کرلیا ہے۔ سوال پیداہوتا ہے کہ موجودہ کونسل ماضی کی تمام کونسلوں پر حَکم بن کر ان کے فیصلوں اور تجاویز کی توثیق کی ذمہ داری کس دستوری یا شرعی استحقاق کی بنا پر اپنے لیے طے کر رہی ہے۔ ایک دور کے اہلِ علم کی آرا سے دوسرے دور کے علما اختلاف کرسکتے ہیں۔ عدالتوں میں فیصلوں میں اختلاف ہوتا ہے اور اعلیٰ عدالتیں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو تبدیل بھی کرتی ہیں حتیٰ کہ اپنے فیصلوں پر بھی نظرثانی کرسکتی ہیں لیکن یہ حق موجودہ کونسل کس بنیاد پر اپنے لیے حاصل کر رہی ہے کہ اس کی توثیق کے بغیر ماضی کی کونسلوں کے فیصلے نہ نقل کیے جاسکتے ہیں اور نہ شائع اور جاری کیے جاسکتے ہیں۔
آپ کو حق ہے کہ دوسروں پر ’دین کے نام پر سیاست‘ کی چوٹ جس فیاضی سے چاہیں کریں لیکن اپنی پیش رو کونسلوں کے فیصلوں اور سفارشات کی عصمت کو تو محفوظ رہنے دیں۔ ان کے فیصلوں اور سفارشات پر نظرثانی کا حق آپ کو کس نے دیا ہے۔ ان سے اختلاف آپ ضرور کریں لیکن ان کے فیصلے اور سفارشات قومی امانت اور دستوری سرمایہ ہیں۔ ان کو جیسی کہ وہ ہیں شائع ہونے دیں‘ پھر شوق سے جس پر چاہیں تنقید کریں اور جس پر چاہیں خط تنسیخ پھیر دیں لیکن نظرثانی کے بعد شائع کر کے جس سنسرشپ کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ وہ کلیسا کی روایات کا حصہ تو ہوسکتا ہے اسلام کی روایت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ نیز آپ آزادی‘ جمہوریت اور ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹ میں بحث کے قدردانوں کے لیے جس طرح راے کے آزادانہ اظہار کے حق کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں دوسروں کی آرا کو ’نظرثانی‘ کے بغیر ’نقل‘ شائع اور ’جاری‘ کیے جانے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر دور کی کونسلوں کو اہلِ علم اور عوام کی نگاہ میں قدر و منزلت کے اعتبار سے ایک ہی مقام حاصل نہیں رہا۔ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں کونسل کی آرا کو معروضی حقائق اور اُمت کے علمی سرمایے کی روشنی ہی میں پرکھا اور جانچا جائے گا اور اس سلسلے میں توقع ہے کہ خود کونسل اپنے دستوری مقام اور علمی دیانت کی امین اور محافظ ہوگی اور حکمرانوں کے اشارۂ چشم و ابرو کے مقابلے میں قرآن وسنت سے وفاداری کا تاریخی کردار ادا کرے گی۔ یہی ہماری دعا اور توقع ہے۔
دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب بھارتی فوج کی مدد سے بنگلہ دیش کی صورت میں مشرقی پاکستان الگ ہوا توعوامی لیگ کی حکومت نے بھارتی احسان مندی کے طور پر ریاست و سیاست اور معیشت و معاشرت کو بھارت کے ہاتھ گروی رکھنے کے راستے کا انتخاب کیا۔ یہ اگست ۱۹۷۵ء کی بات ہے جب شیخ مجیب الرحمن بھارت سے اس معاہدے پر دستخط کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ بنگلہ دیش کی تجارت بھارت کے ذریعے ہو‘ بنگلہ دیش کی فوج عملاً ایک پولیس فورس ہو جو محض اپنے عوام پر کنٹرول کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹائے‘ جب کہ دفاع کی ذمہ داری بھارتی فوج کے پاس ہو۔ ان نکات پر مبنی معاہدے کی دستاویز پر دستخط کے لیے ۱۴ اگست کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں اسٹیج سجایا گیا تھا۔ عوامی لیگ کی تمام لیڈرشپ کو اکٹھا کیا گیا تاکہ تقریب میں شرکت کرے لیکن محب ِ وطن فوج اور عوام کو یہ منظور نہ تھا اوروہ اس غلامی کے لیے تیار نہ تھے۔ ۱۵ اگست ۱۹۷۵ء کو یہ تقریب منعقد ہونا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۵ اگست کو سحری کے وقت شیخ مجیب الرحمن‘ ان کے اہلِ خانہ اور عوامی لیگ کی دیگر قیادت کو فوج نے عوامی تائید و حمایت سے ختم کردیا۔حسینہ واجد اس وقت ملک سے باہر تھیں‘ اس لیے وہ بچ گئیں اور خوندکر مشتاق کی سربراہی میں حکومت نے بنگلہ دیش کی عنانِ حکومت سنبھال لی۔ درحقیقت یہی دو رویے بنگلہ دیش کی پوری سیاست پر حاوی ہیں۔
۲۰ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مخلوط حکومت نے اپنی مدت پوری کرنے کے بعد صدر کو استعفا پیش کیا۔ جوں ہی دستوری تقاضے کے مطابق نگراں حکومت کی تشکیل کا مرحلہ پیش آیا تو انھی شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد (عوامی لیگ) نے اپنے سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق ہنگامہ آرائی کا خونیں ڈراما رچانا شروع کردیا۔
وزیراعظم خالدہ ضیا نے ان تمام ہنگاموں کے باوجود آئینی مدت ختم ہوتے ہی تمام اختیارات صدر ایاز الدین کو سونپ دیے۔ دستور کے مطابق نگران حکومت کا سربراہ ریٹائرڈ جسٹس کے ایم حسن کو بننا تھا‘ مگر عوامی لیگ نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ ان کو سربراہ نہ بنایا جائے۔ عوامی لیگ نے اس مطالبے کو منوانے کے لیے سارے ملک میں مظاہرے کروائے۔ مختلف شہروں کا محاصرہ کیا‘ ڈھاکہ کو گھیرے میں لے لیا‘ ۳۶‘ ۳۶ گھنٹے پہیہ جام ہڑتال کی‘ گھیرائو اور جلائو کی سیاست کی۔ عوامی لیگ کی اس جارحیت کے نتیجے میں ۲۴ افراد مارے گئے (جن میں ۱۳افراد کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور باقی کا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے ہے) اور ایک ہزار زخمی ہوئے۔ بنگلہ دیش اس پورے عرصے میں سیاسی غیریقینی کی صورتِ حال سے دوچار رہا۔
چار بڑی پارٹیز الائنس کی سربراہ خالدہ ضیا نے صدر سے درخواست کی کہ اس سیاسی تعطل کو ختم کر کے انتخابی عمل جلد شروع کیا جائے۔ بالآخر کے ایم حسن نے خود ہی نگران حکومت کی سربراہی سے معذرت کرلی اور صدرایازالدین نے نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر خود حلف اٹھایا۔
عوامی لیگ نے صدر کی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کیا لیکن اس تقریب میں باقی تمام پارٹیاں اور فوج کے سربراہان شامل ہوئے۔ اس بائیکاٹ کے ساتھ ہی عوامی لیگ نے ۱۱نکاتی چارٹر حکومت کو پیش کردیا جس میں سرفہرست چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا مطالبہ تھا۔ آج کل انھی ۱۱نکات کی بنیاد پر بنگلہ دیش میں عوامی لیگ نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ سیاسی مخالفین کو مارا جارہا ہے۔ انتظامی مشینری اس ٹکرائو کے نتیجے میں معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ صدرایازالدین نے جو نگران حکومت کے سربراہ بھی ہیں‘ صورتِ حال کی بہتری کے لیے عوامی لیگ کے کئی مطالبات تسلیم کرلیے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو ہٹادیا گیا ہے‘ تمام کنٹریکٹ ملازمین کو ملازمت سے برخاست کردیا گیا ہے اور اہم عہدوں پر فائز بہت سے افسروں کو اوایس ڈی بنادیا گیا ہے۔ الیکشن کے شیڈول میں تبدیلی کردی گئی ہے۔ منتخب حلقوں کی انتخابی فہرست کی ازسرنو چیکنگ کی ہدایت کی گئی ہے لیکن عوامی لیگ ان تمام تر اقدامات کے باوجود الیکشن پر آمادہ نہیں۔ کبھی وہ صدر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے‘ کبھی الیکشن کمیشن کے ازسرنو تعین کا مطالبہ کر رہی ہے‘ اور کبھی تمام انتخابی عملے کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
محب وطن عوام‘ انتظامی مشینری اور فوج پر یہ عیاں ہوتا جا رہا ہے کہ عوامی لیگ الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ شیخ مجیب کے قتل کا بدلہ لینا چاہتی ہے اور بھارت کی سرپرستی میں بنگلہ دیش کی فوج اور عوام کا ٹکرائو چاہتی ہے۔
صدر ایاز الدین نے فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کرلیا ہے۔ سڑکوں پر فوج کا گشت ہے۔ بنگلہ دیش کے تمام شہر امن و امان کے پیش نظر فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ اگرچہ فوج نے ابھی تک کوئی سرگرمی نہیں دکھائی‘ لیکن فوج کے ماضی کے کردار کی وجہ سے عوامی لیگ اور اس کے تمام اتحادی پریشان ہیں۔ انتخابی مہم ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے البتہ امن و امان کی صورتِ حال اب بہتر ہے۔ اسلام دشمن‘ بھارت اور یہود نواز لابی کے زیراثر میڈیا نے عوامی لیگ کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا ہے۔ لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ عوامی لیگ اور اس کے اتحادی الیکشن سے فرار کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ ۱۸ دسمبر کے جلسے میں جو پلٹن میدان میں ہوا‘ عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد نے بائیکاٹ کا نعرہ لگایا ہے۔
عوام اس صورتِ حال سے پریشان ہیں۔ بھارت اور عوامی لیگ گٹھ جوڑ نے ہمیشہ محب وطن لوگوں کو اضطراب میں مبتلا کیا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں وہاں امریکی سفیرکافی سرگرم نظر آئے۔ امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر انھی دنوں بنگلہ دیش کا دورہ کرچکے ہیں۔اس صورتِ حال میں مغرب کی پروردہ این جی اوز عوامی لیگ کے حق میں پروپیگنڈے کے لیے مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک دم ایسا لاوا کیوں بہہ نکلا؟ اس کا سادا سا جواب یہ ہے کہ اس فضا کو بنانے کے لیے گذشتہ ڈیڑھ برس سے دینی طبقے کے خلاف لوگوں کو اُبھارنے کے لیے بیرونی ایجنسیوں نے دھماکوں کا افسانہ تراشا اور پھر اسلام کے خلاف مہم کو ایک رخ دیا۔ جماعت اسلامی اور خالدہ ضیا کی مخلوط حکومت کی کارکردگی کا اعتراف عوامی سطح پر پایا جاتا ہے‘ جس میں انھوں نے معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے زبردست اقدامات کیے۔ بنگلہ دیش کے امیرجماعت مطیع الرحمن نظامی نے بلدیات اور دیہی ترقی کے وزیر‘ اور جنرل سیکرٹری علی احسن مجاہد نے سوشل ویلفیئر کے وزیر کی حیثیت سے جو نیک نامی کمائی‘ اس نے بھارت اور مغرب کے زیراثر قوتوں کو پریشان کردیا کہ اس طرح یہ لوگ فی الواقع ایک آزاد بنگلہ دیش کے استحکام کی جانب بڑھیں گے۔ اس چیز کو روکنے کے لیے انھوں نے اپنے آلۂ کار حلیفوں کو ایک بالکل بے معنی ایشو پر لڑنے اور مرنے کے لیے اُبھارا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت خالدہ ضیا کی مخلوط حکومت اقتدار میں نہیں ہے‘ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوامی لیگ کو اپوزیشن کن معنوں میں کہا جا رہا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عوامی لیگ کیوں جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP‘ خالدہ ضیا) کے کارکنوں کو قتل کرنے اور ان کی املاک کو لوٹنے اور جلانے کے درپے ہے؟
اگر پورے منظرنامے کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کو دو واضح قوتوں میں تقسیم کرکے خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے کی جانب قدم بڑھایا جا رہا ہے‘ جس طرح بیروت‘ افغانستان یا عراق! کیوںکہ یہی وہ منظر ہے جس میں مسلمانوں کو بدنام کر کے‘ ان کے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے شیطانی منصوبے پر عمل ہوسکتا ہے۔
کیا آیندہ انتخابات میں عوامی لیگ جیتے گی؟عوامی لیگ کا بلاشبہہ بنیادی مقصد انتخابات جیتنا ہی ہے لیکن اس پر یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ وہ پُرامن ماحول میں یقینا یہ الیکشن ہارے گی۔ اسی پیش بندی کے لیے وہ دہشت کی ایک ایسی فضا قائم کرنے کی جانب گام زن ہے کہ اسلام اور بنگلہ دیش کی آزادی کو برقرار رکھنے کی حامی قوتیں اور ووٹر خوف زدہ ہوکر نہ تو الیکشن مہم میں پوری طرح اُتر سکیں اور نہ پولنگ کے روز ووٹ دینے کے لیے باہر نکل سکیں۔ اس کے بالمقابل وہ ہندو اقلیت کے مجتمع ووٹروں اور اپنے حامیوں کوایک جارحانہ فضامیں پولنگ اسٹیشن پر لاکر الیکشن جیت جائیں۔
عوامی لیگ جانتی ہے کہ بی این پی اور اسلامی قوتوں کا اتحاد عوامی تائید سے ان کے ہرحربے کو ناکام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے‘ اور انتخاب ہونے کی صورت میں اس کا پورا امکان ہے کہ اسلامی قوتیں پوری قوت سے باہر آکر انتخاب کے روز عوامی لیگ کی گولی کا جواب ووٹ کے ذریعے دیں۔
عراق میں امریکی ہزیمت پر مرثیہ خوانی کرتے ہوئے‘ بیکر ہملٹن رپورٹ میں کئی عملی تجاویز دی گئی ہیں۔ ۶ دسمبر ۲۰۰۶ء کو جاری ہونے والی اس رپورٹ پر امریکی قوم ہی کی نہیں‘ پوری دنیا کی نظریں لگی تھیں۔ معروف سابق وزیرخارجہ جیمز بیکر اور اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے لی ہملٹن کی سربراہی میں دونوں پارٹیوں کے پانچ پانچ افراد کی پیش کردہ رپورٹ پر گویا پوری امریکی قوم کا اجماع ہے۔ عراق کے حوالے سے اس میں انتہائی اہم امور کا اعتراف اور نشان دہی کی گئی ہے۔ اس رپورٹ پر جو لے دے اسرائیل میں ہورہی ہے وہ آج کی فلسطینی صورتِ حال پر روشنی ڈالتی ہے۔ بیکر ہملٹن نے لکھا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کو درپیش بحران کا حقیقی حل عرب اسرائیل تنازعہ ختم کروانے میں مضمر ہے۔ یہ تجویز دراصل ایک اعترافِ حقیقت ہے اور اس کا سبب امریکا کی ہمہ گیر اسرائیل نوازی کی وجہ سے پورے عالمِ اسلام میں امریکا سے بڑھتی ہوئی نفرت و عداوت ہے۔
اس امریکی اعترافِ حقیقت پر تنقید کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ تسیبی لفنی اور دیگر افراد نے جیمز بیکر کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ’’اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ اب وہ نہیں رہا جو اس بڈھے وزیرخارجہ کے دور میں ہوا کرتا تھا‘‘۔ لیکن اس تنقید پر خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں نے بھی کارپردازان حکومت کا مذاق اڑایا ہے۔ بڑے صہیونی روزنامے ہآرٹز کا معروف تجزیہ نگار شلوموبن عامی لکھتا ہے: ’’یہ لوگ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اب واقعی وہ نہیں رہا۔ اب یہاں روز بروز توانا ہوتی ہوئی ریڈیکل اسلامی لہر ہے۔ اب یہاں شیعہ امپائر ایٹمی اسلحے کے حصول کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ممکن ہے کہ مصر اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی اسی راہ پر جانکلیں۔ اب شام کھلم کھلا دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اسلامی تشدد پسند اپوزیشن اب فلسطینی اتھارٹی میں شامل ہے۔ لبنان میں بھی ان اسلامیان کی حیثیت سب کو معلوم ہے۔ علاقے میں امریکی تسلط کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی حلیف حکمرانوں کا اقتدار خطرے میں ہے۔ ان تمام امور نے مشرق وسطیٰ کو بیکر کے زمانے سے بھی کہیں زیادہ پُرخطر بنا دیا ہے۔ اب اسرائیل کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم کرنا پہلے سے کئی گنا زیادہ ضروری ہوگیا ہے… اب اسرائیل کا اپنے پڑوسی ملکوں سے تنازعہ صرف قومی تنازعہ نہیں رہا بلکہ اب اس تنازعے پر دینی اور ثقافتی رنگ غالب ہے جس سے یہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور سنگین ہوگیا ہے‘‘۔ (ہآرٹز‘ ۱۸ دسمبر)
۱۶ دسمبر کو فلسطینی صدر محمود عباس (ابومازن) کی طرف سے تقریباً ۹ ماہ قبل تشکیل پانے والی فلسطینی حکومت اور پارلیمنٹ ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان اسی صہیونی خوف کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ یا تو حماس حکومت کو آغاز ہی میں مفلوج کرتے ہوئے نئے انتخابات کروا دینا چاہییں تھے یا پھر نتائج تسلیم کرتے ہوئے اس سے نباہ کرنا چاہیے تھا اور ایک نئے فلسطینی شریک کی حیثیت سے معاملات طے کرنا چاہییں تھے۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے دونوں میں سے کوئی بھی پالیسی واضح طور پر نہیں اپنائی۔ اب بالآخر محمود عباس کے ذریعے پہلی تجویز پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ نئے انتخابات کے اعلان سے پہلے ہر طرف یہی تاثر تھا کہ الفتح اور حماس کے مابین قومی حکومت کی تشکیل پر اتفاق راے طے پا گیا ہے۔ الفتح نے اسماعیل ھنیّہ کے بجاے حماس ہی سے نئے وزیراعظم کا نام پیش کیا جسے حماس نے قبول کرلیا۔ لیکن فلسطینی وزیرخارجہ محمود الزھار کے بقول: محمودعباس نے بندکمرے میں امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا سے ملاقات کی اور باہر نکل کر اعلان کردیا کہ قومی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں جاری مذاکرات بندگلی میں پہنچ کر دم توڑ گئے ہیں‘‘۔
اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں ابومازن نے حماس حکومت کے خلاف جو چارج شیٹ لگائی اس میں اقتصادی حصار کے باعث معاشی مشکلات کے علاوہ کرپشن کا بھی ذکر تھا۔ اس الزام پر حماس نے نہیں عام افراد نے حیرت کا اظہار کیا کہ حماس حکومت کا طرئہ امتیاز ہی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ کرنا اور سابق حکمرانوں کے خوف ناک مالی اسیکنڈل بے نقاب کرنا ہے۔ وزیرمنصوبہ بندی کے بقول حماس کی دیانت اور کفایت کے باعث حکومت کے انتظامی امور پر اُٹھنے والے اخراجات ۲۱ کروڑ سے کم ہوکر صرف ۶ کروڑ ۶۰لاکھ ڈالر رہ گئے ہیں۔
حماس نے اس چارج شیٹ کے جواب میں کہا کہ ہماری حکومت پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا الزام لگانے سے فلسطینی عوام کی نظروں میں فلسطینی صدر کی پوری تقریر بے معنی ہوکر رہ گئی۔ رہے نئے انتخابات‘ تو ابھی ایک سال سے کم عرصے قبل انتخابات میں فلسطینی عوام نے اپنی بھرپور رائے کا اظہار کیا ہے۔ اگر دوبارہ انتخابات کروائے گئے توہمیں یقین ہے کہ حماس کو پہلے سے زیادہ بھرپور عوامی تائید حاصل ہوگی۔ کیا ایسی صورت میں تیسری دفعہ انتخاب کی بات کی جائے گی۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیّہ‘ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور حماس کے ذمہ داران ہی نے نہیں‘ سات جہادی تنظیموں نے مشترکہ طور پر نئے انتخابات کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی صورت اس غیرآئینی اور غیراخلاقی اعلان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔ گذشتہ پارلیمنٹ تو ۱۰سال تک چلائی گئی اور اب بھاری عوامی تائید سے منتخب ایوان چند ماہ سے زیادہ برداشت نہیں کیا جا رہا ہے۔
اس اعلان کا اصل خمیازہ فلسطینی قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ صدارتی مسلح فورسز سڑکوں پر آنے سے وزارتِ داخلہ نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش کی اور غزہ کی سڑکوں پر فلسطینی تاریخ کے بدترین سیاہ صفحات رقم کیے گئے۔ مسلح فلسطینی نوجوان ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے‘ دسیوں افراد زخمی ہوگئے۔ اب تک تین شہید ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ صہیونی افواج کے ہاتھوں بھی قتل عام جاری رہا لیکن اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کا غم کہیں بڑھ کر ہے۔ اس صورتِ حال کا مستقبل کیا ہوگا؟ صہیونی تجزیہ نگار خود کیا کہتے ہیں؟ معروف دانش ور ڈینی روبنسٹائن ہآرٹز میں لکھتا ہے: ’’حماس اور الفتح کے درمیان خانہ جنگی اب ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ ۱۹۸۲ء اور ۱۹۸۳ء کی لبنان میں فلسطینی جھڑپوں کے بعد سے لے کر اب تک یہ صورت دوبارہ پیدا نہیں ہوسکی تھی۔ اب یہ تنازعہ صرف مسلح جھڑپوں ہی سے نہیں دونوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور سخت رویے سے بھی واضح ہے‘‘۔ روبنسٹائن اعتراف کرتا ہے کہ اس تنازعے میں الفتح کی حیثیت بے حدکمزور ہے۔ ایک تو اندرونی خلفشار اور مالی بدعنوانیوں کے طومار اور دوسری طرف فلسطینی عوام کی تائید سے محرومی‘ آپ غزہ کی سڑکوں پر جاکر پوچھیںآپ کو بڑی تعداد میں ایسے لوگ ملیں گے جو اعتراف کرتے ہیں کہ وہ الفتح سے پیسے لیتے ہیں لیکن ’’ہم ووٹ حماس کو دیں گے‘‘۔ وہ اپنے تجزیے کا اختتام اپنے اس جملے پر کرتا ہے کہ ’’اگر اسرائیلی حکومت میں سیاسی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی نہ لائی تو الفتح اور ابومازن کے لیے کامیابی کا ادنیٰ امکان نہیں‘‘۔
حماس کے ذمہ داران کی اصل پریشانی خانہ جنگی کے امکانات سے ہے۔ وزیراعظم ھنیّہ نے ۲۰ دسمبر کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے الفتح اور حماس کے نوجوانوں سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ اس سازش کا شکار نہ ہوں۔ انھوں نے کہا: ’’الفتح اور حماس کے میرے جوانو! ہمارا اصل محاذ جنگ یہ نہیں ہے‘ ہمارا مشترکہ دشمن ایک ہی ہے‘‘۔ اس اپیل کا اثر فلسطینی ہی نہیں ہرمسلم نوجوان قبول کرتا ہے۔ فلسطین کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ حماس حکومت کواصل سزا اس بات کی دی جارہی ہے کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ وہ جہاد ترک کرنے سے انکاری ہے۔ وہ فلسطین سے باہر موجود لاکھوں مہاجرین کے حق واپسی سے دست برداری خیانت گردانتی ہے۔ یہ تینوں مطالبات ہرفلسطینی شہری کے دل کی آواز ہیں۔اس لیے وزیرخارجہ محمودالزھار نے کہا ہے کہ ہم عوام کی راے سے منتخب ایوان کا خون نہیں ہونے دیں گے حالاں کہ ہمیں یقین ہے کہ انتخابات ہوئے تو حماس پہلے سے بڑھ کر کامیابی حاصل کرے گی کیوںکہ ہم عوام سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ روٹی چاہیے یا نہیں۔ ہمارا سوال پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہوگا کہ کیا ہم اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کرلیں؟ اور اس سوال کا واضح جواب خود محمود عباس کو بھی معلوم ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس فیصلہ کن سوال کا دوٹوک جواب جاننے کے باوجود محمودعباس انھی احکام پرعمل درآمد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو کونڈولیزا نے دہشت گردی کی عالمی تکون کی طرف سے انھیں پہنچائے۔ امریکا‘ برطانیہ اور اسرائیل نے محمودعباس کی تائید اور اپنی بھرپور مدد کا اعلان کیا ہے۔
سوال : اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں قیامِ صلوٰۃ اور صیامِ رمضان کا حکم تو یا ایھا الذین امنواکہہ کر دیا گیا ہے‘ جب کہ حج اور زکوٰۃ کی فرضیت کے موقع پر ایسا نہیں۔ بالخصوص حج کے بارے میں تو جہاں بھی تذکرہ ہے وہاں لوگوں (ناس) کے حوالے سے ہے‘ مثلاً:۱- وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ (البقرہ۲:۱۲۵) ۲- وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (الحج ۲۲:۲۷) ۳- اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا (اٰل عمرٰن۳:۹۶) ۴- وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ (اٰل عمرٰن۳:۹۷) ۵-یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ ط قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ط (البقرہ ۲:۱۸۹) ۶- وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا (البقرہ۲:۱۲۶)
بالفاظ دیگر مکہ میں رزق ایمان نہ لانے والوں کو بھی ملے گا جو مکہ میں موجود ہوں گے۔
۷- ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ (البقرہ ۲:۱۹۹)۸- جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ (المائدہ ۵:۹۷) ۹- وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ (التوبہ۹:۳)
ان تمام آیات سے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حج پر آنے سے کسی غیرمسلم بالخصوص حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو نبی ماننے والوں یا اہلِ کتاب کو منع نہیں کیا گیا ورنہ وہ کون لوگ ہیں جن کو دنیاوی رزق ملتا رہے گا اور آخرت میں کچھ نہ ملے گا یا جو صرف دنیا طلب کرتے ہیں اور آخرت میں خسارے میں ہوں گے۔
اہلِ کتاب سے تعلق رکھنے والیوں سے نکاح کی اجازت ہے تو کیا مکہ میں قیام پذیر مسلم اپنی بیوی کو ساتھ نہ رکھ سکے گا؟ جہاں تک غیرمسلموں کو حدودِ حرم میں آنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو وہ بھی سورۂ توبہ کی آیت ۲۸ میں صرف مشرکوں کے لیے ہے اور صرف مسجد حرام کے پاس آنے سے منع کیا گیا ہے نہ کہ پورے شہر مکہ یا مدینہ سے اور اہلِ کتاب کو تو منع ہی نہیں کیا گیا۔ کیا حج کی ادایگی یا حج کی ادایگی کے مناظر غیرمسلم کو مسلمان بننے پر راغب نہیں کریں گے؟
اسی طرح زکوٰۃ کا معاملہ ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت سورئہ توبہ کی آیت ۶۰ سے ثابت ہوتی ہے اور اس میں نہ زکوٰۃ دینے کے لیے مومنوں سے خطاب ہے اور نہ فقرا‘ مساکین‘ عاملین‘ تالیف قلب کے قابل لوگ‘ غلام‘ قرض دار اور مسافر کا مسلمان ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ سے اگر اسلامی ریاست کے تمام باشندے فائدہ حاصل کریں گے تو وصول بھی سب سے کی جاسکتی ہے۔ نیززکوٰۃ کو اسلامی نظامِ معیشت میں دولت کی تقسیم کا ایک اہم عامل قرار دیا جاتا ہے۔ کیا غیرمسلم کو اسلامی ریاست میں بے حساب اور بلاتحدید دولت جمع کرنے کی اجازت ہونی چاہیے؟
جواب: اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا حاکم ہے‘ تمام انسان چاہے مسلم ہوں یا کافر اسلامی احکام کے مخاطب ہیں۔ کفار حکومت الٰہیہ کے باغی ہیں۔ جہاں تمام انسانوں کو کسی عبادت کا حکم ہے مثلاً حج اور حجاج کرام سے متعلق آیات جن کا حوالہ آپ نے دیا ہے تو ان کے یہ معنی نہیں ہے کہ انھیں صرف حج کا حکم ہے‘ بلکہ انھیں پہلا حکم ایمان کا ہے اور دوسرا حکم حج کا ہے‘ یعنی حج کرواور اس کے لیے میرے پہلے حکم اٰمِنوا (ایمان لے آئو) پر بھی عمل کرو۔
حج پر آنے سے کفار و مشرکین کو سورۂ توبہ آیت ۲۸ میں منع کیا گیا ہے۔ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ … مسجد حرام سے مراد صرف مسجد حرام اور بیت اللہ شریف نہیں بلکہ پورا حرم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ ہجری میں جب ابوبکر صدیقؓ حجاج کے امیر تھے حضرت علیؓ کو اس اعلان کے ساتھ بھیجا تھا: لاَیَحُجَّنَّ بَعْد الْعَامِ مُشْرِکٌ ’’مشرک اس سال کے بعد حج نہیں کریں گے‘‘۔ اور اس کے علاوہ دیگر اصلاحات کا اعلان بھی کیا تھا۔
زکوٰۃ عبادت ہے۔ کفار سے اس کا خطاب ہے لیکن ایمان کے بغیر معتبر نہیں ہے اور ان سے زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ ان سے مختلف قسم کے منصفانہ ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں اور ان کے عوض ان کی جان و مال کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
مکہ میں کفار کی رہایش کا جواز جو آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے نکالا ہے‘ وہ ابراہیم علیہ السلام کے دور کی بات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور میں بھی یہ حکم باقی تھا‘ یہ حکم فتح مکہ کے بعد ۹ہجری میں ختم ہوگیا ہے۔ سورئہ بقرہ میں مسلمان حاجیوں کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ کافروں کے لیے تو کفر کے سبب آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ مسلمان حاجی اگر محض دنیاطلبی کے لیے حج کریں گے تو ان کو ان کے حج کا کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ قرآن پاک میں خطاب کا اختلاف دراصل مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ کسی جگہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اور دین تمام انسانوں کے لیے ہے۔ ان پر فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کو مانیں اور ان پر عمل کریں۔ تمام احکام کے دنیا اور آخرت میں معتبر ہونے کی شرط ایمان ہے۔ اس لیے خطاب کا اصل فائدہ اہلِ ایمان کو ہے۔ اس لیے اس پہلو کو مدنظر رکھنے کی خاطر اہلِ ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے۔
دنیا میں شریعت کے ایسے احکام جن پر عمل کرنے کا کفار کو فائدہ ہو اور وہ دنیا میں معتبر اور آخرت میں مؤثر ہوں‘ اسلام کا نظام معاملات اور عقوبات اور رفاہی کام ہیں۔ کفار کے معاملات اگر شریعت کے مطابق ہوں تو ان کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ شرعاً معتبر ہیں۔ آخرت میں انھیں ان پر ایمان کے بغیر عمل کرنے کی صورت میں نجات تو نہ ہوگی لیکن عذاب میں تخفیف ہوگی۔ ظالم کافر کو زیادہ عذاب ہوگا اور اعتدال پسند اور خوش اخلاق‘ مسلمانوں کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آنے والے‘ ان کی خدمت کرنے والے اور رفاہی کاموں میں حصہ لینے والوں کو تھوڑا عذاب ہوگا۔ لیکن ان کی عبادات‘ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج‘ نوافل‘ تلاوتِ قرآن پاک‘ ذکر و اذکار کا کوئی اعتبار نہیں اور ان کا انھیں ثواب بھی نہیں ملتا۔ اس لیے کہ عبادات کے لیے ایمان شرط ہے‘ اور عبادت کا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ(البقرہ۲:۲۱) اے انسانو! اپنے رب کی عبادت کرو۔ عبادت میں نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ ‘حج اور تمام احکام شامل ہیں۔ اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ ایمان لائو اور عبادت کرو۔ ایمان کے بغیر اللہ تعالیٰ کا کسی عبادت کا حکم دینا سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ باغیوں کو احکام نہیں دیے جاتے ہیں ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ بغاوت کو ترک کرو‘ مطیع بن جائو اور پھر تمام احکام بجا لائو۔
اسلام میں تعامل کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ سورئہ توبہ کے بعد سے اب تک کفار کا داخلہ حرم میں بند ہے۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اگر کسی شخص کو کتابیہ سے شادی کرنا ہے تو اسے اس کی شرائط کی پابندی کرنا ہوگی جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے حرم مکہ اور مدینہ میں نہیں رکھ سکتا۔ اسی لیے وہ دو کاموں میں سے ایک کرسکتا ہے: ۱-حرمین شریفین کی سکونت ترک کردے ۲-یا کتابیہ سے شادی نہ کرے بلکہ کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو تو جزیرۃ العرب کی شہریت نہیں مل سکتی‘ انھیں عارضی طور پر حرمین شریف کے مخصوص علاقے حرمِ مکہ و مدینہ کے علاوہ ضرورت اور حاجت کی صورت میں آنے کی اجازت تو ہے لیکن مستقل رہایش اور شہریت حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں ارشاد فرمایا: اَخْرِجُوْا الْمُشْرِکِیْنَ مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ ’’مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکالو‘‘ (بخاری‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب ھل یستشفع الٰی اھل الذمۃ‘ حدیث رقم ۳۰۵۳)۔ نیز یہ بھی فرمایا: لَاُخْرِجَنَّ الْیَھُودَ وَالنصارٰی مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ حَتّٰی لَا اَدَعُ اِلاَّ مُسْلِمًا ’’میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالوں گا یہاں تک کہ اس میں نہیں چھوڑوں گا مگر مسلمان کو‘‘۔ (مسلم‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب اخراج الیہودوالنصارٰی من جزیرۃ العرب‘ حدیث رقم ۱۷۶۷)
موجودہ دور میں سعودی عرب کے جلیل القدر اور عظیم المرتبت مفتیان کرام جناب شیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ عثیمین کے اس موضوع پر مفصل اور مدلل فتاویٰ جاری ہوچکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ فتاوٰی ارکان الاسلام‘ فتاوٰی العقیدہ‘ ص ۱۸۷‘ شیخ عثیمین‘ سوال نمبر ۹۸)۔ (مولانا عبدالمالک)
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، اسلامی تاریخ کی اُن چند نادر شخصیات میں سے ہیں‘ جنھوں نے نہایت نامساعد حالات میں احیاے اسلام اور مسلمانوں کی بیداری کے لیے نہ صرف ایک وسیع علمی اور فکری لٹریچر مہیا کیا‘ بلکہ عملاً ایک ایسی تحریک برپا کی‘ جس کے اثرات پاک و ہند سے آگے عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بقول مرتبین‘ مولانا نے ’’غلبۂ اسلام اور بیداری اُمت کی ایک ایسی شمع روشن کی ہے‘ جس کی روشنی میں قافلۂ اُمت ایک بھرپور ایمان وایقان‘ بلندنگہی‘ عزمِ راسخ اور پورے ثبات و استقامت کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہے‘‘۔ پروفیسر خورشیداحمد نے کتاب کے مقدمے میں بجاطور پر مولانا کی تین صلاحیتوں کی نشان دہی کی ہے: انھوں نے احیاے فکرِاسلامی میں عقل اور سائنس کی بالادستی کے بت کو محکم دلائل کے ساتھ توڑا اور الہامی ہدایت کی بالادستی کا اثبات کیا‘ دوسری طرف مغربی سامراج کی سیاسی بالادستی کو چیلنج کیا اور شکست خوردہ ملّت کو روشن مستقبل کی امید دلائی۔ تیسری طرف انھوں نے عملی طور پر ایک ایسی اسلامی تحریک برپا کی‘ جو ان کی فکر اور اُن کے نقشۂ کار کے مطابق کام کر رہی ہے۔
مقالات کا یہ مجموعہ دو حصوں پر مشتمل ہے: ’سید مودودی: مطالعہ اور تجزیہ‘ اور ’سید مودودی: نقوشِ حیات‘۔
پہلے حصے میں ۱۴ مقالہ نگاروں (ڈاکٹر انیس احمد‘ ڈاکٹر محمد یاسین مظہرصدیقی‘ ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری‘ ڈاکٹر عرفان احمد خاں‘ سیدحامد عبدالرحمن الکاف‘ ڈاکٹر چارلس جے ایڈمز‘ ڈاکٹر محمدعمر چھاپرا‘ ڈاکٹر محموداحمد غازی‘ ڈاکٹر زینت کوثر‘ پروفیسر غلام اعظم‘ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی‘ ڈاکٹرعمرخالدی‘ ڈاکٹر محمد کمال حسن‘ ڈاکٹر فتحی عثمان)‘ اور دوسرے حصے میں ڈاکٹر فضل الٰہی قریشی‘ آبادشاہ پوری‘ رفیع الدین ہاشمی اورسلیم منصور خالد کی تحریریں ہیں۔
ڈاکٹر انیس نے مولانا کے نزدیک ’شریعت کے حرکی تصور‘ پر گفتگو کی ہے۔ مولانا شریعت کو محض چند سزاؤں یا عبادات کی مخصوص صورتوں تک محدود نہیں رکھتے۔ اسلام کا ایک مجموعی مزاج ہے‘ جو تقسیم ہوکر قائم نہیں رہ سکتا۔ ’علمِ کلام میں مولانا مودودی کے افادات‘ کے عنوان سے ڈاکٹرمحمدعبدالحق انصاری بتاتے ہیں کہ روایتی دینی تعلیم کے بعد مولانا نے مغرب کے عمرانی علوم کی طرف توجہ کی لیکن ان کی فکر کا مرکزِ حوالہ ہمیشہ قرآن مجید ہی رہا: ’’میری اصل محسن بس یہی ایک کتاب ہے‘ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا… ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظرڈالتا ہوں‘ حقیقت اس طرح برملا مجھے دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے…‘‘۔(ص ۱۰۳-۱۰۴)
سید حامد عبدالرحمن الکاف نے تفہیم القرآن اور سیدقطب کی فی ظلال القرآن کا تفصیلی تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا نے مولانا کے ’اسلامی معاشیات‘ پر افکار پیش کیے ہیں۔ معاشرے میں ناہمواری دُور کرنے کے لیے ’’امیر… ابتدائی مسلم معاشرے کا طرزِ زندگی اختیار کریں‘ اور اپنی حقیقی ضروریات پوری کرکے باقی بچ جانے والی آمدنی (نہ کہ پوری دولت) غریبوں میں تقسیم کردیں‘‘۔(ص ۲۱۶-۲۱۷)
’خواتین کی خوداختیاریت اور سید مودودی‘ کے عنوان سے ڈاکٹر زینت کوثر نے سیدمودودی کے تصور خاندان‘ شادی اور خاوند بیوی کے تعلق پر روشنی ڈالی ہے‘ اگرچہ وہ ان کی فکر پر ’روایت پسندی کے اثرات کی نشان دہی بھی ضروری‘ سمجھتی ہیں۔ (ص ۲۸۳)
پروفیسر غلام اعظم‘ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی اور ڈاکٹر عمرخالدی نے سید مودودی کی سیاسی فکر کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ سید مودودی کی حیات و فکر اور عالمِ اسلام میں اس کے اثرات پر کئی وقیع مقالات ہیں۔ ’اسلام میں قانون سازی اور اجتہاد‘ کے عنوان سے سیدمودودی کا ایک اہم مقالہ اور اس سلسلے میں ڈاکٹر کینٹ ول اسمتھ کی مولانا سے خط و کتابت اس مجموعۂ مضامین کا ایک قیمتی حصہ ہے۔
مرتبین (رفیع الدین ہاشمی‘ سلیم منصور خالد) نے سید کی ’حیات و آثار‘ کے عنوان سے ان کی پیدایش (۱۹۰۳ء) سے آخری آرام گاہ کے سفر (۱۹۷۹ء) تک کے واقعات اختصار کے ساتھ جمع کردیے ہیں۔ ان کی دینی تعلیم کی اسناد اورپاکستان میں پہلی اسیری‘ نیو سینٹرل جیل ملتان سے ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو بیگم کے نام لکھے ہوئے خط کی عکسی نقول اور ان کے فکری اور قلمی آثار کو نہایت سلیقے سے مرتب کر کے شامل کیا ہے۔ یہ کاوش سید مودودیؒ کے طالب علم اور محقق کے لیے یقینا مفید ثابت ہوگی۔(پروفیسر عبدالقدیرسلیم)
جدید دور کے سائنسی انکشافات کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ اہلِ علم کے لیے دل چسپی کا موضوع ہے۔ قرآن نے آیاتِ الٰہی کے عنوان سے جو کچھ بیان کیا ہے‘ وہی دراصل سائنس کا میدان ہے۔ بہت سی ایسی باتیں بیان ہوئی ہیں جن کا ۱۴‘ ۱۵ سو سال پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا‘ لیکن اب جدید تحقیقات ان کو سامنے لائی ہیں۔ لیکن اس کو اس انداز سے لینا کہ اس تصدیق سے قرآن کی حقانیت ثابت ہوتی ہے‘ ایک غلط نقطۂ نظر ہے۔ ’سائنسی حقائق‘ تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اٹل اور تاابد درست ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلام آباد میں ایک بڑی عالمی کانفرنس ’قرآن اور سائنس‘ کے موضوع پر ہوئی۔ اس موقع پر ایک قیمتی ضخیم کتاب تقسیم کی گئی تھی جو بڑی محنت اور وسائل صرف کرکے یمن کے محترم عبدالمجید زندانی کے زیراہتمام‘ جو اب وہاں کی جامعہ ایمان کے رئیس ہیں‘ تیار کی گئی تھی۔ اس میں کینیڈا کے ایمبریالوجسٹ ڈاکٹر کیتھ مور اور ان کے رفقا نے رحم مادر میں انسانی جنین کی نمو کے بارے میں قرآن میںجو کچھ بیان ہوا ہے‘ ایمبریالوجی کی ایک درسی کتاب میں برموقع شامل کر کے پڑھنے والوں کو یہ بتایا ہے کہ جو سائنسی انکشافات اب ہوئے ہیں‘ ان کی بنیادیات اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بنا پر پہلے ہی بیان کردی ہیں۔ یہ امر بہت سے لوگوں کے لیے ہدایت اور ایمان کا باعث ہوتا ہے۔
تبصرے میں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ ڈاکٹر محمد آصف ماہر حیوانیات ہیں اور قرآن کے مطالعے سے شغف رکھتے ہیں‘ انھوں نے اس کتاب کی ایک تلخیص تیار کی ہے جس میںان آیات سے متعلقہ سائنسی معلومات کو وضاحت و تفصیل سے‘ اشکال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نطفہ‘ امشاج‘ مضغہ مخلقہ‘ غیرمخلقہ‘ عظٰماً ‘ پھرہڈیوں پر گوشت کا چڑھانا‘ تین پردوں میں نشوونما‘ پھر النشأۃ سب مراحل کا قرآن میں ذکر اور سائنسی تحقیقات کا اس سے تطابق حیران کردیتا ہے۔
ادارہ اسلامیات نے اسے معیاری انداز میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب سائنس خصوصاً میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک ضروری اور مفید کتاب ہے۔ اسے ہرمیڈیکل لائبریری میں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر محمد آصف صاحب اس غیرمعمولی کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (ڈاکٹر شگفتہ نقوی)
آج کی علم و سائنس کی دنیا میں مسلمان قائد نہیں‘ اس لیے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ سے شناسا کیا جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ کامیابی اور کامرانی دیانت‘ امانت اور سخت محنت کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔
ہم سب برسوں سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ سائنس اور طب کی دنیا کم و بیش آٹھ صدیوں تک مسلمانوں کے کارناموں ہی سے عبارت رہی۔ پانچ صدیوں تک تو صرف مسلمان ہی نمایاں رہے۔ پروفیسر حفیظ الرحمن نے اپنی کتاب میں اس بارے میں سب تفصیلات کو وضاحت سے یک جا کردیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ معلومات ہیں کہ جب پوری اسلامی دنیا سائنس اور طب کی ایجادات سے جگمگا رہی تھی تو وہ یورپ کا تو تاریک دور تھا ہی‘ دیگر بڑے بڑے ممالک جیسے چین‘ بھارت اور دیگر ممالک میں سائنس دانوں کی تعداد کیا تھی اور ان کے موضوعات کیا تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ فی الوقت مسلمانوں کا جو غیرمطبوعہ علمی سرمایہ ہے وہ لاکھوں مخطوطات کی شکل میں کہاں کہاں ہے۔ انھوںنے پاکستان میں بھی ۸۸ہزار مخطوطات کے موجود ہونے کی خبر دی ہے۔
پروفیسر صاحب نے اس کتاب کو چھے ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں مسلمان سائنس دانوں کی علمی کارگزاریوں کو‘ دوسرے باب میں سائنس اور طب میں مسلمان کی کامرانیوں کو‘ تیسرے باب میں سائنس دانوں اور اطبا کی طبع زاد خدمات کو‘ چوتھے باب میں طب اور اطباے اسلام کے امتیازات اور غیرمسلم اطبا کے ساتھ فراخ دلانہ برتائو کو بیان کیا گیا ہے۔ پانچویں باب میں سائنس اور طب میں دنیاے اسلام اور ہم عصر دنیا کا موازنہ کیا گیا ہے۔ چھٹے باب میں بیان کیا گیا ہے کہ یورپ میں سائنس کی شمع اسلامی دنیا کی شمع ہی سے روشن کی گئی ہے۔
ص ۲۴۰ تا ۲۶۴ ایک جدول دیا گیا ہے جس میں پانچ صدیوں کے نام ور سائنس دانوں کی فہرست حروف تہجی کے اعتبار سے دی گئی ہے۔ ان کے مضامین اور ان کے بارے میں کچھ اہم تفصیلات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس فہرست پر سرسری نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ کوئی اہم موضوع ایسا نہ تھا جس پر مسلمانوں نے بھرپور انداز میں کام نہ کیا ہو۔ دوسری جدول (ص ۳۰۴ تا ۳۱۲) میں مسلمان سائنس دانوں کی ان کتابوں کی فہرست دی گئی ہے جن کے تراجم یورپ کی تمام اہم زبانوں میں کیے گئے۔ یہ فہرست کمیاب ہے‘ اس سے کتاب کی افادیت میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔
یہ کتاب ہماری علمی تاریخ میں ایک بیش بہا اضافہ ہے اور مصنف یقینا قابلِ مبارک باد ہیں۔ (ڈاکٹر وقار احمد زبیری)
اسلام کے نظامِ رحمت نے اسلامی معاشرت کا بنیادی قلعہ خاندان کو قرار دیا ہے۔ قرآن‘ سنت اور اسلامی تاریخ کے اوراق اس امر پر متفق ہیں کہ خاندان کے نظام کو توازن‘ احترام اور مشاورت کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے معاشرے کے تمام اجتماعی اور انفرادی عناصر کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ خاندان کا زوال معاشرتی انتشار اور بالآخر قومی زوال پر منتج ہوتا ہے۔ مغرب کا منتشر خاندان اور انتشارِ معاشرہ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ مگر اس سے کوئی عبرت نہیں پکڑی جاتی۔
بدقسمتی سے مختلف معاصر محوری قوتوں نے اسلام کے خاندانی نظام ہی کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے جس نے بالخصوص جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقے کو بلاسبب یا بے خبری کے سبب اپنا مُقتدی بنا رکھا ہے۔ اس بڑے چیلنج کا جواب دینے اور اعتماد و استدلال کی دولت فراہم کرنے کے لیے مولانا محمدیوسف اصلاحی (مصنف: آدابِ زندگی)نے بڑی محنت کے ساتھ یہ جریدہ مرتب کیا ہے‘ جس میں: اسلام کا خاندانی نظام l عورت اور اسلام l نکاح اسلام میں کفو‘ برادری اور جہیز lتعددِ ازدواج l خاندانی منصوبہ بندی l طلاق‘ خلع اور عدت l نظامِ میراث l تعلیم و تربیت اور lآزادیِ نسواں کے ابواب میں ۲۶ حضرات کے ۲۹ مضامین پیش کیے گئے ہیں۔
اختصار‘ جامعیت اور مقصدیت کے اعتبار سے یہ ایک قابلِ قدر دستاویز ہے‘ اور بہت سے رسائل کے لیے مثال بھی‘ کہ مختلف چیلنجوں سے نبٹنے کے لیے کیا ادارتی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ زبان آسان اور استدلال مؤثر ہے۔ (سلیم منصور خالد)
بھارت کے معروف پرچے دعوت نے وقت کے اہم ترین موضوع پر نہایت محنت سے تیار کی گئی یہ اشاعتِ خاص کتابی سائز میں پیش کی ہے اور حق یہ ہے کہ حق ادا کردیا ہے۔ مغربی فکر‘ عقلیت پسندی‘ اسلام کے بارے میں عزائم‘ تصادم کے اسباب‘ مفاہمت کے امکانات‘ دہشت گردی‘ احیاے اسلام کی تحریکیں اور مغرب‘ حقوق نسواں‘ تہذیبی کش مکش اور دیگر اہم موضوعات پر ۲۱ پُرمغز مقالات میں اہل علم کے قلم سے سب پہلو زیربحث آگئے ہیں۔ خرم مراد (اُمت مسلمہ اور عصری چیلنج) اور پروفیسر خورشیداحمد (دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ) کے مقالات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ فی الواقع دعوت نے اس اہم موضوع اور اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج کا علمی و فکری انداز میں بھرپور جواب دے کر غوروفکر کا سامان فراہم کیا ہے۔ اپنے موضوع پر ایک مفید علمی اضافہ ۔ (مسلم سجاد)
مظفربیگ مرحوم کا یادگار رسالہ آئین مرزا محمد الیاس کی ادارت میں جاری ہے۔ طالبان کے ازسرنو عروج نے افغانستان کو سرفہرست کردیا ہے۔ زیرنظر شمارہ افغان مسئلے پر ایک خصوصی مطالعہ ہے جس میں سات غیرملکی مصنفین کے مقالات کے ترجمے دیے گئے ہیں۔ ایک مقالہ آپریشن پایدار آزادی (۲۷ صفحات) اور دوسرا خصوصی رپورٹ (۳۰ صفحات) مدیر کے اپنے قلم سے ہیں۔ اس افغان نامہ کا مطالعہ قاری کو افغانستان کے جدید ترین منظرنامے میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کے کردار سے بخوبی آگاہ کرتا ہے۔(م - س )
اس کتاب کے پہلے حصے میں ۱۸۵۷ء تا ۱۹۰۰ء‘ ۱۹۰۱ء تا ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء تا ۲۰۰۰‘ کے تین ادوار قائم کر کے دیوبند‘ ندوہ‘ علی گڑھ سے شروع کرکے اجمالی تاریخی جائزہ لیا گیا ہے اور تفسیر و سیرت کے میدانوں میں جو کام ہوئے ہیں ان کا تعارف کروایا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اکابر اہلِ قلم‘ ممتاز مصنفین‘ عہدساز مصنفین‘ محققین اور دورحاضر کے معروف اہلِ قلم کے عنوان سے پانچ باب قائم کرکے مختلف اہلِ قلم کی خدمات کے بارے میں تعارفی مضمون لکھے گئے ہیں۔ مصنف نے ایک نہایت وسیع موضوع کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور یوں قاری کو دینی ادب کے وسیع اُفق پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ دینی ادب کو اسلامی ادب کے معنی میں نہیں لیا گیا ہے۔(م - س)
ترجمان القرآن کے اشارات بہت تحقیقی اور حالاتِ حاضرہ کے صحیح اور بے لاگ تجزیے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے دل سوزی کے ساتھ حکومت کے اقدامات پر تعمیری تنقید کی جاتی ہے اور قارئین کو رہنمائی کا مفید مواد مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر عطا فرمائے اور زورِ قلم میں اضافہ فرمائے!آمین۔
’حدود اللہ کے خلاف اعلانِ جنگ‘ (دسمبر ۲۰۰۶ء) بہت خوب ہے۔ اس میں جنرل پرویز مشرف کے سیکولر ایجنڈے اور امریکی صدربش کے نام نہاد اصلاحِ اسلام کے کروسیڈ میں آلۂ کار بننے سے لے کر حدود قوانین کے نفاذ کی تاریخ‘ ان پر اعتراضات کی حقیقت‘ خواتین پر مظالم کے جھوٹے پروپیگنڈے کی حقیقت‘ بھارت اور پاکستان میں زنا کے اعدادوشمار‘ برطانیہ میں جرائم کے سروے کے اعدادوشمار‘ پروفیسر چارلس کینیڈی کی تحقیق پر مشتمل ان کی کتاب کے حوالہ جات اور نسواں بل میں حال ہی میں کی گئی قرآن و سنت کے صریحاً خلاف ترمیمات کا بے لاگ جائزہ چشم کشا ہے‘ اور اس شرم ناک قانون کی منظوری کے خلاف احتجاج اور اس اقدام کو روکنے کے لیے مؤثر جدوجہد کرنے کے سلسلے میں مفید رہنمائی ملتی ہے۔
۷۹-۱۹۷۸ء کی نظریاتی کونسل کے اراکین کے ناموں میں قمرالدین سیالوی‘ فخرالدین شائع ہوگیا ہے‘ تصحیح کرلیں۔
’جب مہلت ختم ہوجاتی ہے!‘ (دسمبر ۲۰۰۶ء) جہاں جابروں اور سرکشوں کے لیے تنبیہہ ہے کہ خدا کو غافل نہ سمجھو‘ بس ظالم اپنا پیمانہ خوب بھرلیں‘ وہاں ان بزدلوں کے لیے بھی کسی تازیانے سے کم نہیں جو ظلم و تعدّی کے خلاف اقدام سے گریز کرتے ہیں۔ درحقیقت ظلم کے خلاف خاموشی ظالم کی مدد کے مترادف ہے۔ اسلوبِ تحریر بھی بہت مؤثر ہے۔
’مساجد میں خواتین کی شرکت‘ (دسمبر ۲۰۰۶ء) پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مساجد میں خواتین کی شرکت اس لیے بھی مفید ہے کہ دین کے مسائل سیکھنے کا ذریعہ مساجد ہی ہیں اور اگر ہم خواتین کو مساجد سے دُور رکھیں گے تو وہ دینی مسائل سے بے بہرہ رہیں گی اور اولاد کی صحیح تربیت بھی نہ کرسکیں گی۔ رہا فتنے کا مسئلہ‘ تو دورحاضر میں تقریباً سب ہی عورتیں اپنے گھریلو ضروریات کے لیے بازاروں میں جاتی ہیں۔ اگر وہاں وہ فتنے سے بچ سکتی ہیں تو مساجد میں کیوں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علماے کرام کو اجتہادی صلاحیتیں عطا فرمائے۔ آمین!
اخبارات کے مطابق پاکستان میں روزانہ کم از کم پانچ زنا بالجبر (rape) کے واقعات ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض توبین الاقوامی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں کمسن لڑکیاں بھی شامل ہیں لیکن کسی کو سزا نہیں دی جاتی۔ کوڑے لگانا‘ حد جاری کرنا تو دُور کی بات ہے۔ اب تحفظ حقوق نسواں بل کے ذریعے اسے مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں ممبئی ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ چشم کشا اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
ایک برہمن نوجوان بیوہ کو ایک جنکشن پر دوسری ٹرین کے انتظار میں پلیٹ فارم پر رات کے چند گھنٹے گزارنے تھے۔ ڈیوٹی پر موجود کانسٹیبل اس کو ورغلا کر اپنے کوارٹر میں لے گیا‘ اور وہاں چار آدمیوں :کانسٹیبل‘ پوائنٹس مین‘ اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر اور ٹکٹ کلکٹر نے رات بھر اپنا منہ کالا کیا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس مقدمہ دائر کروایا گیا۔ مجسٹریٹ صاحب نے بہ لحاظ روداد مقدمہ ‘اس کانسٹیبل کو حبس بے جا کی علت میں چھے ماہ کی قید کی سزا سنائی اور باقی تین کو بری کردیا۔ گورنمنٹ نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جس پر ممبئی ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے فیصلہ سنایا: ’’روداد مقدمہ ظاہر کرتی ہے کہ ان چاروں نے جن کا فرض تھا کہ بیوہ کو ظلم سے بچاتے‘ اس پردرندگی اور ظلم ڈھایا۔ لہٰذا ہر ایک کو نو‘ نو سال قیدبامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ایک کو احاطۂ عدالت میں ۲۰‘ ۲۰ کوڑے مارے جائیں‘‘۔ ججوں نے فیصلے میں یہ ریمارکس بھی دیے: ’’قانون میں نہایت زبردست لزوم صواب دید اور ضمیر کا ہوتا ہے نہ کہ قانون کی پرستش کا‘‘۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب کی تنزلی کرکے ان کو عدالتی کام سے فارغ کردیا گیا۔ (ہفت روزہ صدق جدید‘ ۸ جنوری ۱۹۶۰ء)
گذشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پاکستان آمد کے موقع پر فیصل مسجد میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اسپیکر پر اذان ہی نہ دی گئی۔ روشن خیالی کے اس دور میں ہمیں یہ بھی دیکھنا تھا۔
دوسری طرف تاریخ کا ایک حوالہ یہ بھی ہے اورغوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ ملکہ الزبتھ دوم ۱۹۶۱ء میں پاکستان کے دورے میں متحدہ پاکستان ڈھاکہ بھی گئیں۔ رمنا میدان میں بلدیہ کے استقبالیے سے ان کے خطاب کا جب حتمی پروگرام طے پایا تو اس میں نماز مغرب کا وقفہ نہ رکھا جاسکا۔ لیکن کمشنر ڈھاکہ نے رمنا میدان میں وضو اور نماز کا انتظام کیا اور جب خواجہ خیرالدین نائب صدر بلدیہ ڈھاکہ کی تقریر کا بنگالی سے انگریزی میں ترجمہ ہو رہا تھا اور مغرب کا وقت آگیا‘ توملکہ کے ملٹری سیکرٹری کو نماز کا بتاکر کہا کہ ۱۵منٹ کے وقفے کے بعد ملکہ جوابی تقریر فرمائیں۔ چنانچہ ملکہ نماز کے دوران اسٹیج پر خاموشی سے بیٹھی رہیں اور سب حاضرین نماز کے لیے چلے گئے۔ (نقوشِ حیات‘ منصورکاظم‘ سابق چیف سیکرٹری آزادکشمیر)
قوموں کی یہ عجیب فطرت ہے کہ جب ان پر کوئی تباہی آتی ہے تو ہمیشہ اس کے اسباب اپنے اندر تلاش کرنے کے بجاے دوسروں کے اندر ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں‘ حالانکہ اس کے اسباب خود ان کے اندر موجود ہوتے ہیں‘ نہ کہ دوسروں کے اندر۔ لیکن جس طرح بعض آنکھیں بند کر کے چلنے والے کسی روڑے سے ٹھوکر کھاکر اپنے آپ کو الزام دینے کے بجاے روڑے کو گالیاں دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سارا قصور اسی روڑے کا ہے نہ کہ ان کی غفلت کا۔ اسی طرح قوموں کا بھی بالعموم یہی حال رہا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اُس ظاہر ہونے والے طاقت ور ہاتھ کو دیکھا ہے جس کا طمانچا ان کے منہ پر لگا ہے‘ اس بزدلی اور اخلاقی کمزوری کی طرف ان کی نظر کبھی نہیں گئی جس نے دراصل اس طاقت ور ہاتھ کو ان پر حملہ کرنے کی جرأت دلائی اور جس کی اپنے اندر پرورش کرنے کی ۱۶ آنے ذمہ داری خود ان پر عائد ہوتی تھی نہ کہ دوسروں پر۔
قوموں کی اس برخود غلطی کی کھلی وجہیں دو ہیں: پہلی وجہ یہ ہے کہ ان کا قومی غرور اس امر کے اقرار سے مانع ہوتا ہے کہ ان پر جو تباہی آئی ہے وہ خود ان کی کسی مذہبی و اخلاقی کمزوری کا نتیجہ ہوسکتی ہے… دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون مکافات اس دنیا میں ہمیشہ قوموں کو ان کی غلطیوں کی سزا دوسروں سے دلواتا رہا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ان کے اعمال و کردار خود مجسم ہوکر ان کے سامنے آجاتے ہوں۔ اس وجہ سے وہ اپنے اعمال و اخلاق پر غصہ ہونے کے بجاے ساری غضب ناکی ان لوگوں پر ظاہر کرتی ہیں جن کا قصور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کی کمزوریوں سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں جس کے لیے ان کی قوت تقاضا کرتی ہے…
مسلمان اگر دنیا میں ایک قوم کی حیثیت سے جینا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر وہ قومی کردار پیدا کریں جو کسی قوم کی قومی ہستی کا اصلی محافظ ہوتا ہے‘ اور اگر ایک جہانی طاقت بن کر رہنا چاہتے ہیں تو اس نظامِ زندگی کو اختیار کرنے کی ہمت کریں جو اللہ و رسولؐ کا بتایا ہوا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے بغیر نہ وہ بحیثیت ایک قوم کے زندہ رہ سکتے نہ بحیثیت ملت کے برپا ہوسکتے۔ اس کے بغیر نہ کوئی زمین ان کو پناہ دے گی‘ نہ کوئی آسمان ان کو اپنے سایے کے نیچے لے گا۔… (’رسائل و مسائل‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن‘ جلد ۳۰‘ عدد ۲‘ صفر۱۳۶۶ھ‘ جنوری ۱۹۴۷ء‘ ص ۶۶-۶۹)