۹ مارچ ۲۰۰۷ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن ایک جرنیل نے اقتدار کے نشے میں ملک کے چیف جسٹس کو کئی گھنٹے اپنے کیمپ آفس میں قید رکھنے کے بعد بڑی رعونت سے معطل کردیا اور دستور کے واضح احکام کے برعکس ایک قائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا۔ کراچی اور لاہور سے ججوں کو ہوا کے دوش پر اسلام آباد لاکر اپنی مرضی سے ایک سپریم جوڈیشل کونسل قائم کردی جسے ناشایستہ عجلت (indecent haste) کے ساتھ دستوری چیف جسٹس کے خلاف ایک ریفرنس سے بھی نواز دیا گیا اور اس کونسل نے چشم زدن میں چیف جسٹس کے غیرفعال (non functional) کیے جانے پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اس طرح عملاً فوجی قیادت کے ہاتھوں عدلیہ کے خلاف ایک کودِتا (coup d'e'tat) واقع ہوگیا۔
پاکستان ہی نہیں‘ مہذب دنیا کی تاریخ میں نظامِ عدل کے خلاف ایسے کمانڈو ایکشن کی مثال نہیں ملتی۔ پھر چیف جسٹس کو اس طرح من مانے طور پر معطل ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ سخت ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ اسے زبردستی سپریم کورٹ جانے سے روک دیا گیا۔ اس کی کار اور گھر پر سے قومی اور چیف جسٹس کا جھنڈا اُتار دیا گیا۔ گھر پر پولیس اور رینجرز کی ایک بڑی نفری لگادی گئی۔ سارے راستے بند کردیے گئے‘ گھر سے لفٹر کے ذریعے گاڑیاں اٹھا لی گئیں۔ ٹیلی فون‘ ٹی وی اور انٹرنیٹ سے رشتے منقطع کردیے گئے اور ایک دہشت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس لام بندی کے نتیجے میں فطری طور پر کچھ لمحات کے لیے پورے ملک پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن پھر جلد ہی دکھ‘ حیرت اور افسوس اور غم و غصے کے بادل چھٹنے لگے۔
جیسے ہی عوام و خواص کو معلوم ہوا کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے عدلیہ پر حملہ آور ہونے والوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا ہے اور اپنی اور عدلیہ کی عزت کی حفاظت کے عزم اور جرأت کا اظہار کیا ہے تو پوری قوم ایک نئے جذبے سے چیف جسٹس کے ساتھ یک جہتی کے اظہار اور عدلیہ کی آزادی‘ عزت اور وقار کی تائید‘ دستور اور قانون کی بالادستی اور فسطائی قوتوں کی دراندازیوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی اور یک زبان ہوکر انصاف اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے سرگرم ہوگئی___ اور ۹ مارچ کے بعد کا ہر دن گواہ ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں وکلا‘ سیاسی اور دینی جماعتیں‘ صحافی‘ تاجر‘ طلبہ‘ غرض سوسائٹی کے تمام ہی طبقے جرنیلی آمریت کے اس وار کا بھرپور توڑ کرنے کی ملک گیر جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ریاستی دہشت گردی اور پولیس اور رینجرز کی گولیوں اور لاٹھیوں کا پُرامن اور پُرعزم انداز میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو توقع تھی کہ وہ چیف جسٹس کو یوں دبوچ کر عدلیہ کو اپنی گرفت میں لے آئیں گے اور الیکشن کے اس فیصلہ کن سال میں اپنی من مانی کرنے کے لیے بگ ٹٹ کارفرمائیاں کرسکیں گے لیکن وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کچھ دوسری ہی تھی___ جو کام انھوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور عدالت کے مقدس ادارے کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کے لیے اٹھایا تھا‘ وہی ان کے زوال اور ان شاء اللہ بالآخر مکمل ناکامی کا وسیلہ بن گیا۔ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo (الانفال ۸:۳۰) ’’وہ اپنی چالیںچل رہے تھے‘ اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا‘ اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔
جس طرح عدلیہ پر جرنیلی آمریت کے اس حملے کے جواب میں وکلا برادری اور ملک کی تمام ہی دینی‘ سیاسی‘ سماجی اور تجارتی قوتیں اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں‘ اس سے ایک اہم تاریخی واقعے کی یاد تازہ ہوگئی جس میں آج کے پاکستان اور اس میں ہونے والی اس کش مکش کے لیے جو حکمرانوں اور عوام میں برپا ہے‘ بڑا سبق ہے۔
یہ واقعہ ساتویں صدی ہجری کے وسط (۶۳۹ھ) کا ہے جب مصر پر مملوک (خاندانِ غلاماں) حکمران تھے اور محض قوت کی بنیاد پر قانونی ضابطوں اور فقہی احکام کو پامال کر رہے تھے۔ اس زمانے میں ایک صاحبِ عزیمت قاضی شمس العلماء شیخ عزالدین عبدالسلامؒ نے ایک سنہری مثال قائم کرکے اسلام کے اصولِ حکمرانی اور نظامِ عدل کو نئی زندگی عطا کی۔ شیخ کا تعلق اصلاً بلادِشام سے تھا اور اپنے علم اور تقویٰ کی وجہ سے اسلامی دنیا میں شہرت رکھتے تھے۔ جب وہ مصر آئے تو الملک الصالح نجم الدین نے ان کو قضا (عدالت) کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کیا۔ شیخ عزالدین نے قانونی معاملات میں مملوک اربابِ اقتدار کے خلاف بڑی جرأت سے حق و انصاف کے مطابق فتوے دیے اور احکام صادر کیے جس سے اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ بادشاہ نے خود شیخ کے پاس آکر فتویٰ اور عدالتی فیصلہ تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر شیخ نے صاف انکار کردیا اور کہہ دیا کہ وہ عدالتی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں ورنہ شیخ قضا کے منصب سے دست بردار ہوجائیں گے۔ نائب سلطنت نہ مانا اور ننگی تلوار لے کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شیخ کو قتل کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ شیخ کے نوعمر بچے نے دروازہ کھولا تھا‘ شمشیر بدست سپاہیوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوا لیکن شیخ ایمان‘ عزم اور ہمت کا پیکر تھے۔ بلاخوف نائب سلطنت کے سامنے آئے اور وہ ایسا ہیبت زدہ ہوا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ شیخ نے فتویٰ تبدیل کرنے سے انکار کیا اور پوری متانت سے اپنا تمام سامان گھر سے نکال کے گدھے پر لادا اور قاہرہ چھوڑنے کا عزم کرلیا۔ سوال کیا گیا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ تو جواب دیا گیا کہ ’’کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں ہے کہ کسی ایسی سرزمین پر رہا جائے جہاں قانون کی پاس داری نہ ہو‘ جہاں اہلِ شریعت بے قیمت ہوجائیں اور عدالتی نظام میں اربابِ اقتدار مداخلت کریں‘‘۔
قاضی القضاۃ کے اس اقدام کی خبر قاہرہ کے طول و عرض میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر کیا تھا___ مؤرخ لکھتے ہیں کہ کیا عالم اور کیا عامی‘ پورا قاہرہ گویا قاضی کی ہم نوائی کے لیے اُمنڈ آیا اور شیخ کے ساتھ ہوگیا۔ عوام الناس مصر کے قاضی کی حمایت میں گھروں سے اس طرح نکل آئے کہ بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ مرد‘ خواتین سب ان کے ساتھ تھیں۔ اس عوامی یک جہتی نے حکمرانوں کو ششدر کر دیا اور سلطان نے قاضی کے آگے سپر ڈال دی۔ مملوک اربابِ اقتدار شیخ کے فیصلے کو ماننے پر مجبور ہوئے اور اس طرح قانون نے اپنی بالادستی منوا لی اور عدالت کی عصمت اور وقار کا بول بالا ہوا۔ (ملاحظہ ہو‘ عبدالرحمن الشرقاوی کی کتاب ائمہ الفقہ التسعہ‘ ص ۳۶۰-۳۶۱)
اس واقعے سے اسلامی قانون‘ نظامِ عدل اور اصولِ حکمرانی کے باب میں چند بنیادی اصول بالکل کھل کر سامنے آتے ہیں:
پہلا اصول قانون کی حکمرانی اور شریعت کی بالادستی کا ہے۔ اللہ کے دین اور انبیاے کرام علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ کی عبادت اور بندگی کے ساتھ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا قیام ہے (الحدید۵۷:۲۵)۔ مقاصدشریعت میں سرفہرست عدل اورقسط کی فراہمی ہے اور اس بارے میں کوئی سمجھوتا یا مداہنت ممکن نہیں۔
دوسرا اصول قانون کی نگاہ میں سب کی برابری ہے۔ اس سلسلے میں امیراور غریب اور طاقت ور اور کمزور میں کوئی تمیز نہیں۔ سب کے لیے ایک ہی قانون ہے جیساکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماضی میں قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ وہ کمزوروں پر تو قانون لاگو کرتے تھے مگر ذی اثر قانون سے بالا رہتے تھے‘ جب کہ آپؐ کے مشن کا ہدف ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کو ایک ہی قانون کا پابند کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر (العیاذ باللّٰہ) فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کی مرتکب ہوگی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔
تیسرا اصول عدلیہ کی آزادی اور قضا کے نظام کا انتظامیہ کی دراندازی سے مکمل طور پر پاک ہونا ہے۔ حاکمِ وقت پر بھی قاضی کا حکم اسی طرح نافذ ہے جس طرح کسی عام شہری پر۔ اور حکمرانوں کو قضا کے معاملات میںمداخلت یا اس پر اثرانداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔
چوتھی چیز قوم کا عدلیہ پر اعتماد ہے ‘جو قاضی کے علم اور تقویٰ اور انصاف کے باب میں اس کے بے لاگ ہی نہیں‘ ہر اثر سے بالا ہونے پر مبنی ہے۔ عدل کی میزان کے آگے قوت کی تلوار بے اثر ہے اور تلوار کو عدل کی میزان کے خادم کاکردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدالت اور عدل قائم کرنے کے ذمہ دار دیانت اور اپنے منصب کے تقاضوں کو پورا کرکے عوام کا اعتماد حاصل کریں۔
پانچواں اصول اور سبق اس واقعے سے یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر تلوار میزانِ عدل کی چاکری کرنے سے باغی ہو‘ تو پھر عوام کی قوت وہ قوت ہے جو تلوار کو قابو کرسکتی ہے اور تلوار کو حدود کا پابند اور عدل کا آلہ کار بنا سکتی ہے۔ اس کے لیے عوام کا چوکس ہونا اور نظامِ عدل کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہونے کا عزم اور آمادگی ہی نہیں‘ اس کا عملی اظہار بھی ضروری ہے۔ یہی جذبہ اور جرأت اس بات کا ضامن بن جاتا ہے کہ تلوار کمزور کے لیے خطرہ نہ بنے اور معاشرے میں انصاف اور خیر کی حفاظت اور افزایش کا ذریعہ بنے۔ نیز خود نظامِ عدل تلوار کی زد سے محفوظ رہے۔
یہ وہ اصول ہیں جن کی روشنی میں آج بھی ہمیں اپنے مقصد کا تعین اور اس کے حصول کی صحیح اور مؤثر حکمت عملی اور مناسب نقشۂ کار تیار کرنا چاہیے۔
جنرل پرویز مشرف نے ملک کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کو بظاہر جبری رخصت پر بھیج کر (مگربیک بینی و دوگوش عملاً برطرف کرکے) دراصل پورے نظامِ عدل اور دستوری حکمرانی کے عمل کو چیلنج کیا ہے۔ اگر اسے برداشت کرلیا جاتا ہے تو پھر ملک پر شخصی اور فوجی آمریت کواپنی قبیح ترین صورت میں مسلط ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ اور یہ سارا کھیل کھیلا بھی اسی لیے گیا کہ عدالت کو اپنی گرفت میں لے کر سیاسی دروبست اور حکمرانی (governance) کے پورے عمل کو اپنے تابع کرلیا جائے۔ جس طرح یہ کام کیا گیا‘ اس میں دستور اور قانون کی تو دھجیاں بکھیری ہی گئیں‘ لیکن افسوس ہے شرافت اور انسانیت کی ہر قدر کو بھی پامال کیا گیا اور مقصد یہ دکھانا تھا کہ فوجی حکمران جس طرح چاہیں اور جدھر چاہیں نظامِ حکومت کو ہنکا سکتے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ کام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا اور مستقبل کے سیاسی نقشے کی ایک خاص سمت میں صورت گری کے مقصد سے کیا گیا۔ چیف جسٹس کی ذات کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ ان کو قابو کرکے عدلیہ کے پورے ادارے (institution) کو اپنا تابع مہمل بنایا جاسکے اور یہ اس لیے ضروری تھا کہ دستور کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور جو مزید پیش نظر ہیں ان کو صرف اس صورت میں روا رکھا جا سکتا ہے کہ عدلیہ اس پر صاد کرے۔ فوجی حکمرانوں اور آمرانہ عزائم رکھنے والوں نے۱۹۵۴ء سے یہی راستہ اختیار کیا ہے اور بدقسمتی سے عدالتوں نے بھی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر فسطائی قوتوں کی کارفرمائیوں کے لیے سندجواز فراہم کرنے کی خدمت بالعموم انجام دی ہے۔ مجبوریاں اور توجیہات جو بھی ہوں‘ نیز جب بھی کسی صاحب ِ عزم جج نے دستور سے انحراف کے اس راستے کو روکنے‘ اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کی کوشش کی ہے‘ اسے راستے سے ہٹانے کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ کبھی یہ کام اچھے ججوں کی ترقی کا راستہ روک کر کیا گیا ہے تو کبھی ان کو راستے سے ہٹاکر‘ جس کے لیے نت نئے انداز میں عبوری دستوروں کا ڈھونگ رچا کر تازہ حلف کا مطالبہ کرکے یہ مقصد حاصل کیا گیا ہے۔
بات کسی کی ذات کی نہیں‘ اصول کی ہے اس لیے یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ جون ۲۰۰۵ء میں جسٹس افتخارمحمد چودھری کے چیف جسٹس بننے کے بعد حکمرانوں کو توقع تھی کہ چونکہ وہ ۲۰۱۳ء تک چیف جسٹس رہیں گے‘ اس لیے ان سے ایک طویل رفاقت (long partnership) کا سلسلہ استوار کیا جائے۔ لیکن ان کو اس ڈیڑھ پونے دو سال بعد یہ احساس ہوگیا کہ راوی کے لیے سب چین لکھنا ممکن نہیں۔ جسے ’عدالتی فعالیت‘(judicial activism) کہا جا رہا ہے‘ وہ حکمرانوں کے عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کی حفاظت‘ دستور کے مکمل احترام‘پارلیمانی جمہوریت اور فیوڈلزم کے اصولوں کی پاس داری اور سب سے بڑھ کر سیاست میں فوج کے مستقل رول کے سلسلے میں عدالت سے جس قسم کا تعاون فوجی حکمرانوں کو مطلوب تھا‘ وہ ملنا مشکل ہو رہا تھا‘ اس لیے چیف جسٹس کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کا اور فائلیں بنانے کا کھیل شروع کردیا گیا اور نئے انتخابی عمل کے شروع ہونے سے پہلے ہی ان سے نجات حاصل کرلینے کی منصوبہ سازی کی گئی۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی اقدام اور ۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے جواز (validation) میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی تائیدی آواز نے ان عناصر کو غالباً ہمت دلائی ہوگی‘ لیکن ان کی توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھیں۔ چیف جسٹس بننے کے بعد بھی جس حد تک حکومت کا لحاظ رکھا جاسکتا تھا‘ رکھا گیا۱؎ ،گو اس بارے میں دوسری راے بھی موجود ہے لیکن جس طرح سپریم کورٹ بنیادی حقوق‘ دستور کی بالادستی اور مظلوم افراد اور طبقات کی حق رسائی کے سلسلے میں محتاط لیکن آزاد روش اختیار کر رہی تھی اس سے اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور ایجنسیوں کی سکہ بند کارروائیوں کے سہارے جنرل صاحب نے بالآخر ۹مارچ کو عدالت عظمیٰ پر بڑی عجلت اور بھونڈے انداز میں بھرپور وار کردیا۔ پھر اس کے دفاع میں انھوں نے اور ان کے چند وزرا نے جو انداز اختیار کیا اس نے حق‘ انصاف‘ سچائی سب کو پرزے پرزے کردیا اور ملک اور ملک کے باہر پاکستان کے امیج کو جتنا نقصان اس جارحانہ حملے اور اس کے بعد کیے جانے والے غیردستوری‘ غیراخلاقی اور غیرمہذب اقدامات نے پہنچایا ہے‘ اتنا کبھی کسی اور نے نہیں پہنچایا۔
چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری صاحب کے خلاف جو اقدام کیا گیا ہے وہ دستور‘ قانون‘ اخلاق و آداب اور عقلِ عام ہر ایک کے خلاف ہے اور بدیہی طور پر بدنیتی (malafide) پر مبنی نظرآتا ہے۔ ہمیں توقع ہے سپریم جوڈیشل کونسل اس ریفرنس کا فیصلہ حق وانصاف اور دستور کے مطابق کرے گی۔ آج جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی زیرسماعت (on trial) نہیں خود اس ملک کا عدالتی نظام بھی زیرسماعت (on trial) ہے اور اللہ کی عدالت کے ساتھ اب عوام کی عدالت بھی ساتھ ہی ساتھ برسرِعمل ہے۔ دنیاوی حد تک آخری فیصلہ عوام ہی کا قبول کیا جائے گا‘ اس لیے بھی کہ ؎
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
بُرا کہے جسے دنیا ، اسے بُرا سمجھو
جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت کے زیرسماعت ہے اور اس پر صحافتی اور عوامی سطح پر کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے اور یہ بھی کہ ایک دستوری مسئلے پر حزبِ اختلاف اور وکلا حضرات سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قابلِ مذمت اور ناقابلِ قبول ہے۔ یہ اعلانات سنتے سنتے کان پک گئے ہیں‘ اس لیے سب سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان دعووں کے بارے میں کچھ عرض کردیا جائے۔
بلاشبہہ عدالت میں زیرسماعت معاملات کا فیصلہ عدالت پر چھوڑنا چاہیے اور کسی طرح بھی عدالت کو متاثر کرنا غلط ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی معاملات کسی بھی تنازع سے متعلق ہوں ان پر کلام نہ کیا جائے۔ عدالت کی کارروائی یا اس کو متاثر کرنے والی چیزوں پر تبصرہ معیوب نہیں‘ اصل مسائل پر بات چیت نہ صرف عدالت کے وقار کے منافی نہیں بلکہ عدالت کو حالات کو سمجھنے اور صحیح راے پر پہنچنے میں مددگار ہوتی ہے۔
قانون کی اصطلاح sub judice کے دو مفہوم ہیں: ایک under or before a
court or judge/ under judicial consideration اور دوسرے undetermined۔ یعنی ابھی اس متنازع امر کو طے کرنا باقی ہے جو کام عدالت کر رہی ہے۔ کوئی اقدام جو عدالت کے اس کام میں مخل ہو یا اسے انصاف کرنے سے منع کرنے والا ہو‘ وہ غلط ہے۔ لیکن ہر وہ کام‘ بحث‘ مدد جو انصاف کے قیام کو آسان بنانے اور مسئلے کی تنقیح میں مددگار ہو‘ وہ ممنوع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توہین عدالت (contempt of court) کی تعریف یہ کی گئی ہے:
ایسا عمل جو عدالت کو انصاف فراہم کرنے سے روکے‘ رکاوٹ بنے یا پریشانی کا باعث ہو‘ یا جو اس کے وقار کو نقصان پہنچائے۔ (Black's Law Dictionary‘ص ۲۸۸)
عدالت کے زیرسماعت کے نام پر دستوری اور سیاسی موضوعات پر بحث و گفتگو کا دروازہ بند کرنا یا ان تمام امور کا زیربحث لانا جن سے خود عدالت کو مسئلے کو سمجھنے اور تنازع کے منصفانہ حل میں مدد ملے‘ نہ توہینِ عدالت(contempt) کی تعریف میں آتا ہے اور نہ زیرسماعت کی قدغن ان پر لاگو ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی کے ہزاروں لاکھوں امور پر اظہار راے اور بحث و مباحثے کا دروازہ بند ہوجائے۔
یہ تو تھی اصولی بات‘ لیکن جب یہ بات ان کی طرف سے کی جاتی ہے جنھوں نے چیف جسٹس کا میڈیا ٹرائل آج نہیں‘ اسٹیل مل کے فیصلے کے فوراً بعد ۲۰۰۶ء کے وسط سے شروع کردیا تھا اور جو تسلسل کے ساتھ پریس کو ایک خاص نوعیت کی معلومات خفیہ طور پر فراہم کرکے پریشر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ع
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے
جرنیل صاحب خود ٹی وی پر دو گھنٹے لن ترانی فرماتے ہیں اور ہرجلسے میں گوہرافشانیاں کررہے ہیں۔ ان کے وزیر اور دو صوبائی وزراے اعلیٰ دن رات اسی مشق میں مبتلا ہیں اور جو وزیر خاموش ہیں جرنیل صاحب ان کو للکار رہے ہیں کہ میدان میں اترو‘ میرا دفاع کرو اور چیف جسٹس کے خلاف مہم چلائو۔ یہ سب سیاست نہیں تو کیا ہے؟ اس کے مقابلے میں ہماری سیاست شرافت‘ متانت اور دلیل کی سیاست ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ فوج کا سربراہ فوجی وردی میںسیاسی تقاریر کر رہا ہے‘ ووٹ مانگ رہا ہے۔ مخالفین کو تہس نہس کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے‘ قومی خزانے کو ہرجلسے میں بے دریغ لٹا رہا ہے۔ اگر یہ سیاست گندی سیاست نہیں تو کیا اسے فوجی پریڈ اور جنگی مشق (military exercise) کہا جائے گا؟ حکومت کا پورا اقدام اور اس پس منظر اور پیش منظر کی ہرہرحرکت سیاسی ہی نہیں‘ اوچھی سیاست بازی کی غماز ہے۔ اگر اہلِ سیاست اور قانون دان اس پر بھی ردعمل ظاہر نہ کریں تووہ اپنے فرائض منصبی کی ادایگی میں مجرمانہ کوتاہی کے مرتکب ہوں گے۔ سیاست خود کوئی برائی نہیں‘ جمہوری عمل تو عبارت ہی سیاست سے ہے۔ البتہ اوچھی سیاست نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا ارتکاب وکلا اور سیاست دانوں نے نہیں‘ جنرل صاحب اور ان کی حکومت نے کیا ہے۔ اس کے لیے ہماری بات نہیں‘ ان کے ان مداحوں کی سند بھی حاضر ہے جن کے بل بوتے پر فوج کے سربراہ سیاست فرما رہے ہیں۔
لندن کا روزنامہ دی ٹائمز اپنی ۱۴مارچ ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں Judicial Errorکے عنوان سے ادارتی کالم میں پاکستان کے حالات پر یوں تبصرہ کرتا ہے:
۱۹۹۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدرمشرف کا اصرار رہا ہے کہ ان کا مقصد پاکستان کے لیے حقیقی جمہوریت ہے… لیکن انھوں نے حسب وعدہ ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت کی واپسی کے لیے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔
چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی برطرفی اور اس کے خلاف عوامی ردعمل کا ذکرکرنے کے بعد دی ٹائمز فیصلہ دیتا ہے کہ:
Pakistan is literally without rule of law.
اور پھر چیف جسٹس چودھری کے ’عدالتی تحرک‘ پہلے سے جمع شدہ مقدمات کو نمٹائے اور خصوصیت سے لاپتہ ہوجانے والے افراد کے حقوق کی حفاظت کے باب میں مساعی کا ذکرکرنے کے بعد جنرل صاحب کے دوسروں پر سیاست چمکانے کے دعوے کے جواب میں بڑی مسکت انداز میں اداریے میں کہا گیا ہے کہ:
حکومت کے لیے کسی سیاسی محرک کا انکار لاحاصل ہے۔ اس کے اقدام کو تقریباً پوری دنیا میں اس سال کے انتخابات کے‘ اُن ضوابط کے تحت انعقاد سے پہلے جن کو قانونی طور پر چیلنج کرنے کی توقع ہے‘ عدلیہ کو سدھانے کی کوشش سمجھا جارہا ہے۔
اگر سیاست کا جواب سیاست سے نہ دیا جائے تو کیا کیا جائے؟ جنرل صاحب کے مقدمے کے بودے پن کا پول بھی ٹائمز نے یہ کہہ کر کھول دیا ہے کہ:
اب تک حکومت نے مسٹر چودھری کے خلاف جو کچھ کہاہے اگر ان کا مقدمہ اس سے بہت زیادہ خراب نہیں ہے تو ان کو بحال کردیا جانا چاہیے۔ اچھے جنرل جانتے ہیں کہ کب قدم پیچھے ہٹانے چاہییں۔ (ٹائمز، اداریہ‘ ۱۴ مارچ ۲۰۰۷ء)
نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلز ٹائمز اور دوسرے مغربی اخبارات اور رسائل نے اپنے اپنے انداز میں یہی بات لکھی ہے کہ اصل کھیل سیاسی ہے اور جرنیل صاحب عدالت عالیہ کے دستوری اور قانونی امور اور حقوق انسانی کے معاملات میں حکومت پر گرفت سے پریشان ہیں‘ اور اس انتخاب کے سال میں اپنی وردی بچانے اور انتخاب کو من پسند انداز میں منعقد کرانے میں عدالت کی ممکنہ رکاوٹ کو دُور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیاست نہیں‘ بلکہ گندی اور پست سطح کی سیاست نہیں تو اور کیا ہے اور اس کا مقابلہ سیاسی تحریک سے نہیں تو پھر کس طریقے سے ہوسکتا ہے؟ ہم صرف اہم ذرائع یعنی لندن کے اخبار دی گاڑدیناور ہفت روزہ اکانومسٹ سے ضروری اقتباس دینے پر کفایت کرتے ہیں تاکہ جنرل صاحب اور ان کے میڈیا منتظمین کو اندازہ ہوجائے کہ ؎
پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ توسارا جانے ہے
دی گارڈین لندن اپنے ۱۷ مارچ ۲۰۰۷ء کے اداریے Justice Deniedمیں‘ جنرل مشرف اور چیف جسٹس کی ملاقات کا حال بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے:
پاکستان ایک جوش کی کیفیت میں ہے۔ جب جنرل مشرف نے آٹھ سال قبل فوجی انقلاب کے ذریعے قبضہ کیا تھا‘ اس کے بعد مسٹر چودھری پہلے شہری ہیں جو اس کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ کم قیمت پر اسٹیل مل کی نج کاری کے فیصلے کو اُلٹ دینے‘ اور ان سیکڑوں لوگوں کے مسئلے کو جنھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے غائب کررکھا ہے لے کر اُٹھنے کی وجہ سے وہ حکومت کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے۔ لیکن مشرف کا وار حفظ ماتقدم کے طور پر بھی تھا۔
صدر کا انتخاب ایک پارلیمنٹ نے کیا ہے جس کی مدت اگلے سال ختم ہورہی ہے۔ مشرف کی اتنی مخالفت ہے کہ آنے والی پارلیمنٹ کا صاد کرنے کا امکان نہیں‘ خاص طور پر اس لیے کہ اس نے فوج کے سربراہ کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ ہی سے اپنا انتخاب کروانے کی کوشش پر بہت سے قانونی اقدام ہوں گے۔ اس لیے ضرورت ہے ایک تابع دار چیف جسٹس کو مسند پر بٹھانے کی۔
لندن اکانومسٹ پاکستان کی صورت حال کا اپنے کالم میں جائزہ لیتے ہوئے یہ لکھتا ہے:
پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں کو زیر کرنے کی فوج کی کوششیں جنرل کی گرتی ہوئی مقبولیت کی ایک وجہ ہیں۔ اس وجہ سے وہ لوگوں کو ایک امریکی کٹھ پتلی لگتا ہے۔ اس بات نے حال ہی میں پاکستان کے بڑے شہروں میں چھے خودکش حملوں سمیت دہشت گردی کی ایک لہر کو اٹھادیا۔ صدر کی کوشش یہ ہے کہ اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے عدلیہ کا بازو مروڑ دیا جائے۔
اپنے اب تک کے دوسالہ دور میں مسٹر چودھری نے کم و بیش ہر وہ چیز کی ہے جس کی توقع ایک پاکستانی جج سے نہیں کی جاتی۔ انھوں نے بلوچستان میں مشتبہ باغیوں کے غائب کیے جانے پر انکوائری شروع کروا دی۔ انھوں نے حکمران سیاست دانوں اور پولیس کے سربراہوں کو‘ غریبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے پر سخت سرزنش کی۔ انھوں نے شادیوں کی شان و شوکت سے بھرپور تقریبات پر پابندی لگائی کہ اس سے طبقاتی امتیاز پیدا ہوتا ہے۔ انھوں نے افراطِ زر کے خلاف مقدمات سنے‘ پبلک پارکوں کو امیروں کے لیے گاف کلب بنانے کی ممانعت کی اور بچوں کی شادیوں کو غیرقانونی قرار دیا۔ گذشتہ برس انھوں نے ایک بڑی اسٹیل مل کی نج کاری کو بولیوں کے عمل میں بے قاعدگی کی وجہ سے روک کر صدر کو خاص طور پر ناراض کیا۔
اگر جنرل مشرف واقعتا مزید پانچ سال کے لیے صدر اور فوجی سربراہ رہنا چاہتے ہیں تو قانونی چیلنجوں کے ایک سیلاب کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح بات ہے کہ ایک آزاد ذہن کا اعلیٰ جج ان کی پسند کا نہیں ہو سکتاتھا۔ لیکن مسٹرچودھری کے معطل کرنے سے صورت حال زیادہ خراب ہوگئی ہے۔
اگر مسٹر چودھری کو برطرف کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے لیے یہ دعویٰ کرنا مشکل ہوگا کہ ان کی حکومت دستوری ہے‘ اور اگر انھیں بحال کیا جاتا ہے تو وہ ان کے لیے بہت سی پریشانیوں اور دردسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے میں لوگ سوچتے ہیں: الیکشن ہوں گے بھی؟
سیاست چمکانے اور عدالت کے زیرسماعت ہونے کے بارے میں اتنی وضاحت کافی ہے۔ نیز مندرجہ بالا معروضات سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اصل مسئلہ اس ریفرنس کا نہیں جو ساری بے قاعدگیوں کے بعد بظاہر اب داخل کردیا گیا ہے بلکہ اپنے سیاسی کھیل کے ’رنگ میں بھنگ پڑنے‘ کے خطرے سے بچنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل نے ملک کے اندر بھی جرنیل صاحب کی ساکھ کو‘ (جو پہلے ہی کون سی اچھی تھی) بالکل خاک میں ملا دیا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان اور خصوصیت سے جرنیل صاحب نے جو سیاسی کھڑاگ کیا تھا اس کا پول بھی کھول دیا ہے۔
اس حقیقی پس منظر کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ دستوری اور قانونی اعتبار سے بھی ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے جو ۹ مارچ اور اس کے بعد کیے گئے ہیں۔
سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ملک کا دستور‘ تمام کچھ تبدیلیوں اور ترامیم کے باوجود اختیارات کی تقسیم کا ایک واضح نقشہ پیش کرتا ہے اور اقتدار کو تین متعین اداروں میں تقسیم کرتا ہے یعنی انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ۔ انتظامیہ کا سربراہ وزیراعظم ہے‘ جب کہ صدرمملکت وفاق کی علامت۔ صدر ان امور کو چھوڑ کر جن میں اسے صواب دیدی اختیارات حاصل ہیں‘ وزیراعظم اور کابینہ کی ہدایات کا پابند ہے۔ مقننہ کاکام قانون سازی‘ پالیسی ہدایات دینا اور انتظامیہ پر نظر رکھنا اور اس کا احتساب ہے‘ جب کہ عدلیہ دستور اور قانون کی محافظ اور دونوں سے آزاد اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ موجودہ صدر نے اپنی فوجی وردی کی بنیاد پر پوری انتظامیہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور کابینہ بشمول وزیراعظم ان کے تابع مہمل بنے ہوئے ہیں جو دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے کا سبب بنا ہوا ہے لیکن اس سے بڑھ کر اب وہ عدالت پر بھی مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور اس کے لیے ۹ مارچ کا اقدام کیا گیا ہے۔ اس سے اختیارات کی تقسیم (separation of power)کا پورا نقشہ درہم برہم ہوگیاہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آمریت اور فسطائیت کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووڈرو ولسن نے جو امریکی صدر ہونے کے ساتھ ایک قانونی ماہر بھی تھا‘ یہ اصول بیان کیا ہے کہ:
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ طاقت کا غلط استعمال نہیں ہوگا‘ واحد راستہ یہ ہے کہ اس کو محدود کیا جائے‘ یعنی طاقت کو طاقت سے روکا جائے۔ آزادی کی تاریخ حکومت کی طاقت پر تحدیدات کی تاریخ ہے۔
اور امریکی جج جسٹس برانڈل نے ایک مشہورمقدمہ Myees vs. United States کے فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا‘ جسے دستور کا ایک مسلّمہ اصول شمار کیا جاتا ہے کہ:
۱۷۸۷ء کے کنونشن میں‘ اختیارات کی علیحدگی کا ڈاکٹرائن منظور کیا گیا‘ اس لیے نہیں کہ کارکردگی کو بڑھایا جائے بلکہ من مانی طاقت کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے۔ مقصد ٹکرائوسے بچنا نہیں تھا بلکہ تین شعبوں (مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ) میں حکومت کے اختیارات کی تقسیم کی بنا پر ناگزیر ٹکرائو عوام کو آمریت سے بچانے کا سبب بن جاتا ہے۔(ملاحظہ کیجیے:Fundamental Law of Pakistan ، اے کے بروہی‘ ص ۷۰-۷۱)
ہمارے دستور کی بھی یہی بنیاد ہے لیکن unity of command کے نام پر جرنیل صاحب نے اس کا حلیہ بگاڑدیا ہے اور ملک پر من مانے اور آمرانہ حکمرانی (arbitarary rule) کی سیاہ رات طاری کردی ہے۔
دستورکی رو سے عدلیہ‘ انتظامیہ سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ صدر کو دستور کے مطابق اور دستوری روایات کا احترام کرتے ہوئے‘ جنھیں Judges Case میں قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے‘ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا اختیار دیا گیا ہے لیکن ایک بار کسی جج کے تقرر کے بعد دستور نے صدر اور انتظامیہ سے یہ اختیار سلب کرلیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اور جب چاہے ایک جج کو فارغ کردے‘ رخصت پر بھیج دے‘ غیرفعال بنا دے‘ معطل کردے یا کسی اور شکل میں اس کے اختیارات میں تخفیف کرسکے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ صرف اس دفعہ کے تحت اعلیٰ عدالت کے کسی جج کے سلسلے میں کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ وزیرقانون کی یہ ہرزہ سرائی کہ جسے ججوں کے تقرر کا اختیار ہے‘ اسے ان کو رخصت کرنے یا معطل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے اس لائق ہی نہیں کہ اس پر سنجیدہ گفتگو کی جائے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔
بلاشبہہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیںاور کوئی قانون سے بالا نہیں اور اگر کسی جج نے اپنے منصب کے منافی کوئی کام کیا ہے تو اس کا بھی اسی طرح محاسبہ ہونا چاہیے جس طرح کسی اور کا۔ لیکن بنیادی اصول یہ ہیں کہ:
اوّل، ہر اقدام اور احتساب قانون کے تحت اور اس کے دائرے کے اندر ہو۔
دوم، نیز صرف اسے اقدام کرنے کا حق ہے جسے قانون یہ حق دیتا ہے۔
سوم، اس حق کا استعمال بھی قرار واقعی قانونی عمل (due process of law) ہی کے تحت ہوسکتا ہے۔
چہارم، قانون کا استعمال من پسند (selective) نہیں بلکہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ جس سے آپ خوش ہیں اس کے لیے قانون کا کوئی وجود نہ ہو اور جس سے آپ ناراض ہوجائیں اس کے لیے ’قانون سب کے لیے‘ کا فرمان جاری ہوجائے۔
اور پنجم، قانون کا استعمال بدنیتی پر مبنی نہ ہو یعنی اسے نیک نیتی (bonafide) سے استعمال کیا جائے بدنیتی (malafide)سے نہیں۔
چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے معاملے میںصاف نظر آرہا ہے کہ قانون کے ان پانچوں مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری وکلا برادری اور ملک کے تمام ہی دینی‘ سیاسی اور پروفیشنل اداروں اور دانش وروں نے اسے قانون اور انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل ایک دستوری ادارہ ہے جس کی تشکیل بھی دستور میں کردی گئی ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ صدر کو دستور یہ اختیار دیتا ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس اسے بھیج دے۔ الزامات کی تحقیق اور جرم کے تعین کا اختیار صدر‘ وزیراعظم یا کسی اور کو حاصل نہیں اور نہ صدر کا یہ کام ہے کہ چیف جسٹس سے سوال جواب کرے اور کہے کہ چونکہ وہ مجھے مطمئن نہیں کرسکے اس لیے میں ریفرنس بھیج رہا ہوں۔ یہ دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہمیں ان دستوری ماہرین کی راے تسلیم کرنے میں تامل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس ہو ہی نہیں سکتا۔ دفعہ ۲۰۹ میں اس کے لیے اگر لفظی گنجایش ہے بھی‘ تو یہ عدل کے اساسی اصول کے خلاف ہے۔ ہماری نگاہ میں ریفرنس تو چیف جسٹس کے خلاف بھی دیا جاسکتا ہے لیکن یہ دستوری طور پر متعین کردہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی کو بھیجا جاسکتا ہے۔ قانون کے ایک دوسرے اساسی اصول کہ ایک شخص اپنے معاملے میں خود جج نہیں ہوسکتا اس کی رو سے ایسی صورت میں متعلقہ جج اس ریفرنس کی حد تک کونسل میں شریک نہیں ہوگا اور دستور کے مطابق دوسرا سینیر جج اس کا رکن ہوجائے گا۔ صدر کا چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں طلب کرنا‘ خود استفسار کرنا‘ جواب طلب کرنا اور وہ بھی فوجی وردی میں دستور اور شایستگی ہرایک کے خلاف تھا۔ اس طرح صدر نے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے اور دستورکے ایک ستون یعنی عدلیہ کی آزادی پر ضرب لگائی ہے۔
دوسری چیز چیف جسٹس سے استعفا طلب کرنے سے متعلق ہے۔ یہ اختیار دستور نے صدر کو نہیں دیا اور انھوں نے یہ مطالبہ کرکے دستور کی خلاف ورزی اور عدلیہ کی آزادی پر ایک اور حملہ کیا ہے۔
تیسرا غیرقانونی عمل چیف جسٹس کے استعفا نہ دینے کے عندیے کے اظہار پر انھیں معطل (suspend) کرنے کا ہے جس کا کوئی اختیار صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل کسی کو بھی حاصل نہیں۔ چیف جسٹس اس وقت تک چیف جسٹس رہتا ہے جب تک اس کے خلاف کونسل فیصلہ نہ دے دے۔ آداب عدالت کا تقاضا ہے کہ وہ خود چھٹی پر چلا جائے یا خود کو ان امور سے غیر متعلق کرلے جو فیصلے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ لیکن اسے غیرفعال کرنا یا جبری رخصت پر بھیجنا دستور اور قانون کے خلاف ہے۔ اب ۱۹۷۰ء کے جس قانون کی بات کی جارہی ہے وہ۱۹۷۳ء کے دستور کے بعد غیرمؤثر ہوچکا ہے اور ۱۹۷۵ء کے جواز (validation) کا تعلق صرف ان امور سے ہے جو اس قانون کے تحت ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۵ء کے درمیان ہوئے۔ آیندہ کے لیے ۱۹۷۳ء کا دستور اصل حَکَم ہے۔
چوتھی دستوری خلاف ورزی چیف جسٹس کی موجودگی میں قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور دستور کے واضح احکام میں ’available‘ کا غیرقانونی اضافہ کرکے سینیرترین جج کی جگہ اس کے جونیر جج کا اس عہدے پر تقرر ہے۔ یہ روایت خود بڑی غلط ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بڑا خطرہ اور انتظامیہ کے لیے دراندازیوں کا دروازہ کھولنے والی ہے۔
پھر یہ بھی ایک معما ہے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری ۱۱بجے صبح سے ۴بجے شام تک خاکی صدر کے کیمپ میں محصور تھے۔ جرنیل صاحب کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے جمعہ کی نماز سے قبل یعنی ایک اور دو بجے کے درمیان چیف جسٹس کو ریفرنس کی چارج شیٹ دی۔ قائم مقام چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری ۴ بجے ہوجاتی ہے اور اس میں سندھ اور پنجاب کے چیف جسٹس حضرات نے بھی شرکت کی جو جوڈیشل کونسل کے رکن تھے اور جن کو خاص طور پر خصوصی جہاز کے ذریعے لایا گیا جس میںلازماً ۴گھنٹے لگے ہوں گے۔ پھر طرفہ تماشا ہے کہ وزارتِ قانون کا نوٹی فکیشن ۳بجے جاری ہوا ہے جس میں قائم مقام چیف جسٹس کے تقرر کا اعلان ہے اور کونسل نے ۵بجے ایک ہنگامی اجلاس میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کو غیرفعال کرنے کا فیصلہ کیا۔
اوّل تو یہی محل نظر ہے کہ کیا دستور‘ جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار دیتا ہے؟ لیکن بفرض محال اگر یہ اختیار تھا بھی‘ تو صدر کے چیف جسٹس کو غیرفعال کرنے کے بعد اسے غیرفعال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ صدر نے غیرفعال کرنے کا جو اقدام کیا وہ صحیح نہیں تھا اور اسی وجہ سے کونسل نے دوبارہ یہ اقدام کیا۔ لیکن اگر صدر کا وہ اقدام درست نہیں تھا تو قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور اس کے حلف کا اقدام قانونی اور دستور کے مطابق کیسے ہوسکتے ہیں؟ خاص طور پر‘ جب کہ دستور میں سینیرترین جج کا قائم مقام مقرر کیا جانا دفعہ ۱۸۰ کے تحت ایک لازمی فرض (obligatory imperative) ہے اور availableکا اضافہ دستور میں کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔
یہ سب بڑے سنگین دستوری اور قانونی سوال ہیں اور ان کا سامنا کیے بغیر ملک قانون کی حکمرانی کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ جرنیل صاحب نے یہ سب کچھ کرکے خود کو دستوری اور قومی مواخذے کا مستحق بنالیا ہے___ دیکھیے ’قانون سب کے لیے‘ کا اصول کب حرکت میں آتا ہے۔
جس طرح یہ سارا اقدام کیا گیا ہے‘ اس کے دستوری پہلوؤں کے ساتھ اہم سیاسی اور اخلاقی پہلو بھی ہیں۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں بلانا‘ ان سے سوال جواب کا وہ عمل کرنا جو صرف جوڈیشل کونسل ہی کسی جج سے کرسکتی ہے‘ اور پھر فوج کے چیف آف اسٹاف کی وردی میں یہ عمل کرنا اور ٹی وی اور میڈیا میں اس کی تصاویر جاری اور نشر کرنا‘ پھر جب تک قائم مقام چیف جسٹس کی حلف برداری مکمل نہ ہوگئی۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں محبوس رکھنا‘ جب کہ جرنیل صاحب بقول خود اس عرصے میںیعنی ۳بجے کی فلائٹ سے کراچی روانہ ہوگئے۔ (یہ بات انھوں نے جیو کے انٹرویو میں خود کہی ہے) پھر چیف جسٹس کی کار سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کے گھر سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کو سپریم کورٹ نہ جانے دینا اور زبردستی ان کو گھر میں محبوس کرنا‘ ان کے گھر کی پولیس اور رینجرز کی ناکہ بندی‘ ٹیلی فون‘ ٹیلی وژن‘ اخبارات‘ ذاتی عملہ ہر چیز سے محروم کردینا‘گھر کے اندر سیکورٹی ایجنسیوں کا ہرچیز پر قبضہ کرلینا اور پورے خاندان کو ایک وقت تک صرف ایک کمرے میں بند کردینا‘ ملنے جلنے پر پابندی___ یہ کس اخلاق کا مظاہرہ ہے؟ چیف جسٹس قومی پروٹوکول میں صدر‘ وزیراعظم اور سینیٹ کے صدر کے بعد چوتھے یا پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ آرمی کے چیف آف اسٹاف کا نمبر پھر اس کے دس نمبروں کے بعد آتا ہے۔ پھر ابھی آپ نے ریفرنس بھیجا ہے‘ اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن جرم کے اثبات سے پہلے ایسی گھنائونی سزا قانون‘ انصاف اور اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو (خواہ وہ کیسے ہی اُونچے مراتب پر فائز ہوں) سزا نہ دینا قومی جرم ہوگا۔
یہ تو ۹مارچ کی بات ہے۔ پھر چیف جسٹس کے ساتھ ۱۳ مارچ کو جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ شرم ناک اور مجرمانہ فعل ہے۔ اس پورے عرصے میں وکلا برادری کے احتجاج اور سیاسی جماعتوں اور عوام کی احتجاجی سرگرمیوں کو جس طرح اندھی قوت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی ہے اور میڈیا کے ذریعے صریح جھوٹ اور دھوکے کی جو مہم چلائی گئی ہے‘ اس نے قانون اور اخلاق دونوںکی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جو حکمران اس سطح پر اتر سکتے ہیں وہ ہر قسم کے جواز سے محروم ہوجاتے ہیں اور ان کا شمار مجرموں کی صف میں ہوتا ہے۔ کیا جرنیل صاحب اور ان کے حواریوںکو ان حقائق کا کچھ بھی شعور ہے؟ اور کیا وہ قوم اور پوری دنیا کو بالکل بے عقل سمجھتے ہیں کہ گوئبلز کو مات کرنے والے ان کرتبوں سے وہ انھیں بے وقوف بناسکتے ہیں؟ملک اور بین الاقوامی میڈیا پر جس کی نظر ہے وہ جانتا ہے کہ حکومت کی ان تمام کارستانیوں کا انجام اس سے مختلف نہیں کہ آسمان پر تھوکا منہ پر___
چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی جو جھلکیاں سرکاری’خفیہ خبررسانی‘ (leakege) کے ذریعے سامنے آئی ہیں‘ ان کے بارے میں سب حیران ہیں کہ کیا یہی وہ چارج شیٹ ہے جس کے سہارے جرنیل صاحب نے یہ اقدام کیا ہے؟ جسٹس افتخارمحمد چودھری نے اپنے کھلے دفاع کا اعلان کیا ہے اور یہ ان کا حق ہے اور فرض بھی۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن جو کچھ اخبارات میں آیا ہے یا جو ریفرنس سے پہلے ان کے میڈیا ٹرائل کے ذریعے قوم کے سامنے لایا گیا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسی چیز نہیں جسے دستور‘ قانون یا عدالتی آداب کی صریح اور قابلِ گرفت خلاف ورزی کہا جاسکے۔ لیکن اس سلسلے میں اصل فیصلہ انصاف اور حق کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل ہی کرسکتی ہے اور اسے ہی کرنا چاہیے۔ البتہ ’قانون سب کے لیے‘ کے علَم برداروں سے اتنی گزارش کرنے کی جسارت ہم بھی کرسکتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑکا مشہور واقعہ آپ کے لیے بھی بہت کچھ پیغام رکھتا ہے کہ:
Whoever of you has committed no sin may throw the first stone.
تم میں سے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے وہ پہلا پتھر پھینکے۔
اور تاریخ گواہ ہے اس مجمع میں پہلا پتھر پھینکنے والا کوئی سامنے نہ آیا۔
جیساکہ ہم نے پہلے کہا آج صرف جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی کا مقدمہ ہی زیرسماعت نہیں‘ ہماری عدلیہ کا بحیثیت ادارہ بھی امتحان ہے اور پوری قوم ہی سخت امتحان کی گھڑی میں ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں روشن اور تاریک دونوں پہلو نظر آتے ہیں۔ جس طرح مختلف ادوار میں نظریۂ ضرورت کے نام پر اصول اور اداروں کے صحیح خطوط پر ارتقا کے عمل کو نقصان پہنچا ہے اب اس کی تلافی کا وقت آگیا ہے۔ نیز اربابِ اختیار کے پروٹوکول‘ مالی فوائد اور مراعات کا مسئلہ بھی اب ڈھکا چھپا نہیں بلکہ اس کا کھل کر سامنا کرنا ہوگا۔
مسئلہ ایک فرد کے کاروں اور جہازوں کے استعمال کا نہیں‘ حکمرانی کے اس پورے کلچر کا ہے جس کو ایک مخصوص طبقے نے ملک پر مسلط کردیا ہے اور ہر کوئی اس دوڑ میں شریک ہوچکا ہے۔ بات عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلق ہی کی نہیں بلکہ ملکی اور غیرملکی تجزیہ نگاروں کے اس اضطراب پر بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ غوروفکر کرنے کی ہے جسے military judiciary allianceتک کا نام دیا گیا ہے۔ ہرفوجی طالع آزما کے لیے جواز فراہم کرنے والوں اور ہر عبوری دستور پر حلف لینے والوں کی روش پر اب نہ صرف کھلا احتساب ہونا چاہیے بلکہ اس بُری روایت کو ختم ہونا چاہیے تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت‘ دستور اور قانون کے احترام‘ اداروں کے استحکام‘ اداروں کی بنیاد پر پالیسی سازی اور فیصلہ کرنے کا نظام قائم ہوسکے اور یہ قوم اور ملک جن مقاصد کے لیے جمہوری جدوجہد اور اُمت مسلمہ پاک و ہند کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ آج عدلیہ اور سیاسی قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی (moment of truth) ہے اور سابق جج اور نام ور وکیل فخرالدین جی ابراہیم نے ایک مجلے میں جس چیلنج کی نشان دہی کردی ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا وقت ہے:
If people give up protesting now, they might as well forget about independent judiciary.
اگر لوگ اس وقت احتجاج کرنا چھوڑ دیں تو وہ بھلے آزاد عدلیہ کو بھول جائیں۔
ان کی بات سے مکمل اتفاق کے ساتھ ہم اس پر یہ اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ بلاشبہہ اولین چیلنج عدلیہ کی آزادی اور اس پر فوجی حکمرانی کے شب خون سے پیدا شدہ حالات کے مقابلے کا ہے لیکن بات اس سے زیادہ ہے۔ یہ حملہ جس وجہ سے ہوا ہے وہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور انتظامیہ پر چیف آف اسٹاف کا قبضہ ہے۔ اب عدلیہ کی آزادی بھی اسی وقت حاصل ہوسکے گی جب جرنیلی آمریت سے نجات حاصل کی جائے‘دستور کو اس کی اصل شکل میں نافذ کیا جائے‘ پارلیمنٹ کی بالادستی بحال ہو‘ دستور کی تینوں بنیادوں پر خلوص اور دیانت سے عمل ہو یعنی اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور حقیقی فیڈرل نظام کا قیام۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب قومی جدوجہد عدلیہ کی آزادی کے ہدف کے ساتھ عدلیہ پر حملے کے اسباب اور ان قوتوں کو بھی غیرمؤثر بنانے پر توجہ مرکوز کرے جو دستور‘ جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کی بساط لپیٹ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
یہ اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار دستور کے مطابق عوام کو منتقل کیا جائے‘ جرنیلی آمریت سے نجات پائی جائے اور حقیقی طور پر آزاد عبوری حکومت کے تحت آزاد الیکشن کمیشن کے تحت صاف اور شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں تاکہ عوام اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کریں جو دستور کے مطابق اور قومی احتساب کے بے لاگ نظام کے تحت اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ فوج اپنے پروفیشنل دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہو اور سیاست کو سرکاری ایجنسیوں کی دست برد سے پاک کیا جائے۔ جزوی اہداف سے اصل مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ اب اس جدوجہد کو مکمل جمہوریت اور دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے مکمل نفاذ تک جاری رہنا چاہیے۔
جارحیت کسی اخلاق کی پابند نہیں ہوتی۔ دورِحاضر میں مسلم دنیا جس ہمہ گیر جارحیت کا سامنا کر رہی ہے‘ یہ کوئی وقتی اُبال نہیں ہے۔ ماضی میں اس جارحیت کا انداز مختلف تھا‘یعنی محاذجنگ‘ الزامی پروپیگنڈا اور پھر سازش کا سہارا۔ تاہم موجودہ دور میں دشمن نے ان اسالیب کو اختیار کرنے کے ساتھ‘ مسلم اُمت کے فعال کارکنوں اور بزرگوں کی زبان بندی‘ روابط و تعلقات کی تنسیخ اور اظہاروبیان کے حق کے تعطل کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس ظلم کے فتنوں کو اُبھارنے کے لیے بین الاقوامی اداروں اور ریاستی وسائل سے مدد لی جاتی ہے اور مسلم دنیا کے باج گزار حکمرانوں کی معاونت سے‘ خود مسلم دنیا پر عذاب مسلط کرنے کے منصوبوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ اسی تسلسل کی ایک کڑی الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ پر عائد کی جانے والی پابندیاں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ۱۸ فروری ۲۰۰۷ء کو امریکی حکومت نے کہا کہ الرشید اور الاختر ٹرسٹ کے رفاہی پردے میں دہشت گردی کی پشت پناہی ہورہی ہے۔ جس پر اسی رات پاکستانی وزارتِ خارجہ کے حکم پر ان دونوں تنظیموں کے دفاتر پر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے دھاوا بول دیا۔ راولپنڈی کے موتی پلازا اور کراچی کی طارق روڈ پر ان کے دفاتر نشانہ بنائے گئے۔ سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرکے صرف الرشید ٹرسٹ کے ۲۸دفاتر سربمہرکردیے۔ بنکوں میں کھاتے منجمد کردیے‘ رفاہی منصوبوں کو معطل کرنے کی جانب پیش قدمی کی‘ جرائد کی اشاعت منسوخ کرنے اور انٹرنیٹ ویب سائٹس روک دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد کرنے والی کمیٹی کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں‘‘۔
۲۰۰۱ء میں امریکی صدر کے حکم پر حکومت پاکستان نے الرشید ٹرسٹ کے مالی وسائل منجمد اور دفاتر سربمہر کردیے۔ الرشید ٹرسٹ نے سندھ کی عدالت عالیہ میںدادرسی کے لیے رجوع کیا جس نے اگست ۲۰۰۳ء میں ٹرسٹ کو بحال کردیا۔ ۲۰۰۵ء کے زلزلے میں اس ٹرسٹ نے غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ لیکن اب پھر ان ملّی و قومی اداروں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
اس جارحیت کے متعدد مضمرات ہیں‘ جن پر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ غور کرنا ملک و ملّت کے ہر بہی خواہ کی ذمہ داری ہے۔ بعض قابلِ غور پہلو:
کیا ہمارے حکمرانوں کو اب بھی نظر نہیں آتا کہ امریکا پاکستان کادوست نہیں۔ اب تو روز بے وفائی کا اظہار ہوتا ہے ‘ لیکن اب بھی وہ خوشی خوشی ان احکامات کی بھی تعمیل کرتے ہیں جو صاف صاف پاکستان کے مفاد کے خلاف اور اس کے شہریوں کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ کاش! اس ملک میں راے عامہ بیدار ہوتی تو حکومت کو اس قسم کا اقدام کرنے کا حوصلہ ہی نہ ہوتا۔
جس نبیؐ نے اپنے ماننے والوں کی جان و مال آبرو کی حُرمت کی تعلیم دی تھی‘ اس نبیؐ کے ماننے والوں کے معاشرے کا آج کیا حال ہوگیا ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے لیکن روز اخبار اُٹھائیں تو انسانیت کتنی دفعہ قتل ہوتی نظر آتی ہے۔ دشمنی میں قتل کیا جاتا ہے‘ بھنگڑا ڈالا جاتا ہے‘ پھر بھی انتقام کی آگ سرد نہیں ہوتی تو فائرنگ کی جاتی ہے۔ رشتوں کا تقدس ختم ہوگیا ہے۔ باپ بیٹے کواور بیٹے باپ کو قتل کر رہے ہیں۔ سوچا نہیں جا سکتا ہے لیکن ہم نے اپنے اخباروں میں ماں کے قتل کی خبر بھی پڑھی‘ بدفعلی اور زنا بالجبر کے بعد قتل کردیا جاتا ہے اور لاش گٹر میں‘ کھیتوں میں اور سڑکوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ یہ ہمیں کیا ہوگیا ہے؟کیا ہمارے ہوش و خرد رخصت ہوچکے ہیں۔ انسانی جان کی حُرمت کے حوالے سے کچھ دوسری احادیث ملاحظہ فرمایئے:
آج کل جان و مال کی حفاظت کے اس طریقے کی تعلیم دی جاتی ہے کہ قاتلوں‘ ڈاکوؤں‘ چوروں کا مقابلہ مت کرو‘ اپنی جان بچائو۔ خواتین تک کو کہا جاتا ہے کہ ہر بات مانو تاکہ جان تو بچے۔ قاتل اور ڈاکو چونکہ اس بات کو جانتے ہیں‘ لہٰذا اس کا پورافائدہ اٹھاتے ہیں۔ احادیث کی تعلیم تو یہ ہے کہ مقابلہ کرو‘ جان کی پروا نہ کرو۔ اگر جان چلی گئی تو یہ شہادت اس زندگی سے جسے بچا رہے تھے بہتر اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ اگر مزاحمت کا کلچر عام ہوتو ڈاکوؤں اور قاتلوں کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ چند جانیں مزاحمت کرتے ہوئے جاسکتی ہیں لیکن اس طرح بہت سے بے گناہوں کی جانیں بچیں گی۔
جان کی حفاظت کا عملی طریقہ یہ بھی ہے کہ قصاص پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا جائے۔ قاتل سے لازماً قصاص لیا جائے‘ اس سے قتل کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ قاتلوں کا بچ جانا اور آزاد پھرنا قتل کی حوصلہ افزائی کا موجب ہوتا ہے۔ قصاص تو جان کے علاوہ بھی ہے۔ ہرطرح کے ظلم پر قصاص ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معمولی چوٹ پر بھی اپنے آپؐ کو قصاص کے لیے پیش کرتے ہیں تو کسی دوسرے کو کیا مفر ہے۔پولیس کے جو لوگ شہریوں کو ٹارچر کرتے ہیں اگر قصاص میں ان کو بھی اسی طرح ٹارچر کیا جائے تو پھر دیکھتے ہیں کہ کون ٹارچر کرتا ہے۔ اس طرح گھروں میں زیردستوں پر رونگٹے کھڑے کرنے والے مظالم بلاتکلف کیے جاتے ہیں۔ دوچار کا قصاص لے لیا جائے تو پتا چلے۔
ایک طرف ہم مسلمانوں کایہ طرزِعمل اور کردار ہے۔ تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیںملتی ہیں۔ لیکن مغرب کی بے خدا تہذیب آج کسی قسم کی جواب دہی سے بے نیاز جس انداز سے‘ جس نوعیت اور جس بڑے پیمانے پر قتل و غارت کر رہی ہے وہ انسانیت کے لیے ہمیشہ شرمندگی کا باعث رہے گا۔ افغانستان میں اور پھر عراق میں جو کچھ ہوا‘ اس نے ویت نام کو بھلا دیا۔ اشتراکیوں نے جو مظالم اپنے شہریوں پر کیے وہ اب حقیر نظر آتے ہیں۔ وہ وقت آنا چاہیے کہ ظالموں کو اس دنیا میں بھی کچھ سزا ملے‘ آخرت میں تو ان کا حساب ہوگا ہی۔ المیہ یہ ہے کہ صلیبی جنگ کرنے والوں کی فرنٹ لائن میں مسلم ممالک کے حکمران ہیں جو دنیا میں اتنے مست ہیں کہ اپنی قبر اور آخرت کو بھول چکے ہیں۔
رخصت وعزیمت خاصا مشکل موضوع ہے۔ اس لیے کہ رخصت و عزیمت کا معاملہ اس طرح واضح اور متعین نہیں ہے جس طرح کہ حلال و حرام واضح اور متعین ہیں، بلکہ یہ ان دونوں کے درمیان ایک وسیع میدان ہے جس کا تعین ترجیحات کی بنیاد پر ہوتاہے۔
اگر رخصت کا پہلو لیا جائے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں:یہ کہ یہ دور دین پر چلنے کے لیے ایسا دور ہے، جس کے بارے میں وہ حدیث نبویؐصادق آتی ہے کہ جب کسی ایک حکم پر عمل کرنا، اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارہ پکڑنے کے مترادف ہوگا۔ دوسری طرف وہ بہت ساری احادیث ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ، آسانی پیدا کرو، سختی نہ کرو (یسر وا ولا تعسّروْا)‘یا یہ فرمایا گیاہے کہ دین آسان ہے، (الدین یسر)۔ اسی طرح قرآن کی وہ آیات بھی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زینتیں انسان کے لیے اتاری ہیں، ان کو حرام کرنے والا کون ہے۔ اب ،جب کہ اللہ کے دین پر چلنا ایسا ہے جیسا کہ کانٹوں پر چلنا‘ اور اس کے احکام پر عمل کرنا اس طرح ہے جیساکہ اپنے ہاتھ میں انگارہ پکڑ لینا، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ساری واضح ہدایات موجود ہیں، جن میں کہا گیا کہ دین آسان ہے اور آسانی پیدا کرو، توخیال آتا ہے کہ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ لوگوں کو اس راستے کی طرف بلایا جائے جو کہ آسانی کا راستہ ہو، اور جس پر چل کر آسانی کے ساتھ اللہ کے دین کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
دوسری طرف اگر عزیمت کا پہلو لیا جائے تو خیال آتا ہے کہ ہمارا گروہ تو ایک ایسا گروہ ہے، جو وہ کام کرنے چلا ہے جو کام انبیاے کرام ؑ نے انجام دیا تھا۔ اس کی خاطر انھوں نے ہر قسم کی قربانی دی۔ وہ آگ میں ڈالے گئے، آروں سے چیرے گئے، ان کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، پتھر برسائے گئے، ان پر طرح طرح سے تشدد کیا گیا، جسموں کو داغا گیا، طعنے دیے گئے، تمسخر کا نشانہ بنایا گیا، تذلیل کی گئی، گھر سے بے گھر کر دیا گیا‘ مال و اسباب سے محروم کر دیا گیا لیکن وہ اپنے مقام پر ثابت قدم رہے۔
پھر خیال آتا ہے کہ ہماراگروہ تو وہ گروہ ہے، جو یہ عزم لے کر اٹھا ہے کہ ساری دنیا کو ایک اللہ کی بندگی کی طرف لے کر آنا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ کام شیروں کے کرنے کا کام ہے۔ اگرچہ بظاہر ہمارے دلوں میں کتنے ہی امراض کیوں نہ پیدا ہو چکے ہوں اور ہماری زندگیوں میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں، ہمیں یہ کام کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے یہ سوچا کہ آپ کو عزیمت کی دعوت دوں، اس لیے کہ یہی راستہ شیروں کا راستہ ہے۔ ان لوگوں کا راستہ ہے جو دنیا کو بدلنے کا عزم لے کر کھڑے ہوتے ہیں، اور دنیا کو بدل ڈالتے ہیں۔تاہم‘ جب میں نے بحیثیت مجموعی تحریک کا جائزہ لیا اور عزیمت کی کسوٹی پر پرکھا تو مجھے بڑی شرم آئی کہ میں اس مقام پر کھڑے ہو کر، یہ کہوں کہ آپ سب لوگ رخصت کی راہ چھوڑ کر عزیمت کا راستہ اختیارکریں۔
ہم دنیا اور خاص طور پر مسلم دنیا میں دین حق کا یہ حال دیکھتے ہیں کہ مسلمان ایک ارب سے زائد ہونے کے باوجود عزت سے محروم اور ذلت سے ہم کنار ہیں اور خون مسلم پانی کی طرح ارزاں ہے۔ برسوں سے دنیا کے مختلف حصوں میں، بے شمار افراد اس عزم کا اعلان کر رہے ہیں کہ اللہ کے دین کی سر بلندی ان کا مقصد زندگی ہے، یہ ان کی ساری تگ ودو کا نصب العین ہے اور اس کے باوجود کہ ان کے قدم آگے بڑھے ہیں، مگر وہ ابھی تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکے ہیں۔ اسلام موجود ہے، اس کے نام لینے والے موجود ہیں، اس کے لیے تقریریں کرنے والے بہت ہیں‘ اس پر کتابوں کی نکاسی بھی کم نہیں ہے، لیکن ہر طرف اپنوں کی چیرہ دستی، اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے پورا جسد مسلم زار زار اور فگار فگار ہے۔ ایسے میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ گروہ، مختصر اور مٹھی بھر گروہ جوان حالات میں اس عزم کے ساتھ کھڑا ہوا ہے کہ اللہ کے دین کو زمین پر دوبارہ غلبہ اور عزت حاصل ہو، اور مسلمان قوم ایک بار پھر غلامی کے بجاے ہادی اور امام بن کر کھڑی ہوجائے، یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور عزیمت کی راہ بھی، لہٰذااس کے لیے سواے عزیمت اور عظمت کی راہ کے اور کوئی راہ نہیں ہے۔
جب میں نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ رخصت کی بات کرنا آپ جیسے گروہ کے مناسبِ حال نہ ہوگا تو پھرمیں نے یہ سوچا کہ عزیمت کی بات کس انداز اور کس پیرایے میں کروں؟ اس لیے کہ زمانہ بڑا نازک ہے، اور ہرطرف انسان اپنے آپ کو مشکلات کے اندر گھرا ہوا محسوس کرتا ہے، مصالحت اور مفاہمت کا دور دورہ ہے، قدم قدم پر ایسی پرکشش چیزیں ہیں جو نگاہ کو کھینچتی ہیں، جہاں قدم پھسلنے لگتے ہیں اور آدمی کا دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہیں بیٹھ جائے۔
سوال یہ ہے کہ رخصت اور عزیمت کیا ہے؟
اگر ایسا ہوتا کہ ہربات بڑی وضاحت کے ساتھ معلوم ہو جاتی کہ یہ کرنا صحیح ہے اور یہ کرنا غلط‘ توشاید زندگی بڑی آسان ہو جاتی۔ مثال کے طور پر روز مرہ زندگی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتاکہ ٹیلی ویژن گھر میں رکھناچاہیے یا نہیں رکھنا چاہیے، گھر میںقالین بچھانا صحیح ہے یا غلط، دبئی یا سعودی عرب کا رخ کرنا جائز ہے یا ناجائز، تو ترجیحات کے تعین میں بہت سارے لوگوں کے لیے فیصلہ آسان ہو تا۔پھر یا تو وہ جان بوجھ کرایک ناجائز کام میں پڑتے ، یا سوچ سمجھ کر اپنا نقصان گوارا کرتے، اورناجائز کام سے پرہیز کرتے۔
مشکل یہ ہے کہ زندگی اس قدر آسان نہیں ہے۔ زندگی ایک امتحان ہے‘ اور اس میں رخصت و عزیمت‘ یعنی ترجیحات کا تعین ایک کڑا مرحلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امتحان کو اس عظیم الشان امتحان کو‘ جس میں کامیابی کے اجرکو اس نے مخصوص کر رکھا ہے، اور جس کے بارے میں اس نے کہا ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ جس کا خیال بھی انسان کے دل میں گزرا، اس کو اس نے اس طریقے سے دو الگ الگ راستے کر کے واضح نہیں کیا ہے، بلکہ حرام و حلال کے درمیان ایک وسیع میدان چھوڑدیا ہے جس میں آدمی چاہے تو ادھر سے اُدھر نکل جائے، اور یہی محسوس کرتا رہے کہ وہ سیدھے راستے پر ہے اور اس کو خیال بھی نہ آئے کہ وہ غلط راستے پر چل پڑا ہے اور حرام کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ وہ بیچ کا دائرہ ہے جہاں رخصت اور عزیمت کا سوال پیدا ہوتاہے۔ رخصت و عزیمت میں اصل مسئلہ ترجیحات کے تعین کا ہی ہے۔
حلال ، واضح طورپر حلال ہے اور جس کا واضح طور پر کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔اسی طرح حرام‘ واضح طور پر حرام ہے اور جس سے واضح طورپر روک دیا گیا ہے۔ اس حلال اور حرام کے درمیان بہت سے ایسے معاملات ہیں جن سے روزمرہ زندگی میں ہمیں واسطہ پڑتا ہے لیکن ان میں دو ٹوک اور واضح ہدایات نہیں دی گئی ہیں‘بلکہ ترجیحات کی بنا پر ان کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتاہے۔ ہم اس طرح کے بے شمار فیصلے کرتے ہیں کہ کیاکمائیں اور کہاں خرچ کریں، کہاں سچ بولیں اور کہاں جھوٹ‘ کہاں ہم رشوت دیں اور کہاں نہ دیں، کہاں حق کے لیے اپنا مال قربان کریں، اور کس چیز کو کس چیز پر ترجیح دیں۔ یہ وہ پورا دائرہ کار ہے، جہاں پر حلال اور حرام کی بحث ختم ہو جاتی ہے، جہاں صحیح اور غلط کی راے واضح کشادہ اور نمایاں نہیںرہتی، بلکہ ہم کو ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے اور یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کسے اختیار کریں اور کسے نہ کریں۔ یہ وہ نازک مقام ہے جہاں فیصلہ دشوار بھی ہوتا ہے، اور مشکل بھی۔
اللہ کے راستے پر چلنے کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں سیدھی سیدھی اللہ کی اطاعت کرنے کی کوشش کرے، اور مسلمان بن کر رہنے کے لیے اپنے آپ کو تیارکرے۔ بعض لوگوں کی نظر میں اتنا ہی ہو جائے تو کافی ہے۔
ایک بدو نبی کریمؐکے پاس آیا اور آپؐ سے پوچھا کہ میرے فرائض کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: کلمہ شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس نے کہا کہ بس۔ آپؐ نے فرمایا: بس۔ اس پر اس نے کہا کہ یہ میرے لیے کافی ہے اور وہ چلا گیا۔ اس کے لیے اتنا ہی اسلام کافی تھا۔
ایک اور شخص نبی کریمؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے قرآن کریم کی تعلیم دیں۔ آپؐ نے اسے سورئہ زلزال پڑھنے کا حکم دیا۔ اس نے پوری سورہ پڑھی اور کہا کہ میں اس میں کوئی کمی بیشی نہ کروں گا اور یہ میرے لیے کافی ہے۔ یہ کہہ کروہ چلاگیا۔
بعض لوگوں کے نزدیک یہ سیدھا سادا نسخہ بڑا آسان ہے، اور یہ بالکل ہمارے لیے کافی ہے۔ اس لیے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اورحج پر عمل درآمد کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے۔یہ ایک صاف اور واضح راستہ ہے جس پر ہم بآسانی چل سکتے ہیں۔
یہیں سے رخصت اور عزیمت کا ایک اورپہلو سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اس کا کوئی حتمی معیار نہیں ہے۔ اس کے لیے دو اور دوچار کی طرح کوئی اصول نہیں ہیںبلکہ ہر ایک کے لیے اس کا معیار الگ ہوگا۔ ہر ایک کو اپنا انفرادی فیصلہ کرنا ہو گا، کہ وہ کس راہ پر چلنا چاہتاہے۔ ہر ایک سے مطالبہ بھی الگ ہو گا، اور ہر ایک کا حساب بھی الگ ہوگا اور جزا وسزا بھی الگ الگ ہو گی۔
دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں کہ آدمی نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃاور حج کا اہتمام کرے بلکہ اس کا تقاضا دعوت اورجہاد بھی ہے۔ اس کا تقاضا وہ کام بھی ہے جو انبیاے کرام ؑنے سر انجام دیا۔ اس کے نتیجے میں ہم وہ سارے کام کرتے ہیں جن کی دعوت ہم اقامت دین، شہادت حق اور اسلامی نظام کے قیام کے الفاظ سے دیتے ہیں۔ اب، جب کہ ہمارا تعلق اس گروہ سے ہے جو اگرچہ تعداد میں کم ہے، تاہم اس نے اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے وقف کر دیا ہے، اور اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر غالب کرنے کے لیے کھڑا ہواہے‘ لہٰذا اس کے لیے جو حدود ہوں گی، وہ شاید اس بدو سے مختلف ہوں جس کے لیے نماز، روزہ ،زکوٰۃ اور حج پر قناعت کرنا کافی قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا قانون بتا دیا ہے کہ جو شخص دین کا عَلم لے کر کھڑا ہو، دین کا جھنڈا اٹھائے، شہادت حق کا نعرہ بلند کرے، اور اقامت دین کا دعویٰ کرے، اس کو ٹھنڈے پیٹوں اس راہ سے گزرنے نہیں دیا جائے گا۔ اس کی آزمایش بڑی سخت ہوگی۔ اس کے سامنے صبح سے شام تک بے شمار انتخاب کے مواقع آئیں گے۔ لمحہ لمحہ اس کا امتحان ہو گا۔ اس کو جان ایک دفعہ نہیں دینا پڑے گی بلکہ روز جینا اور روز مرنا ہوگا۔ ایک دفعہ مرنا تو شاید آسان ہو لیکن روز روز مرنا بڑا مشکل ہوتاہے۔ موت صرف جسم سے جان کے نکل جانے کا نام نہیں ہے، بلکہ اپنی خواہش‘ اپنی آرزو اور اپنی تمنا کو مارنا بھی موت کی ایک صورت ہے۔ آخرانسان عبارت کس چیز سے ہے، ہڈیوں اور گوشت سے نہیں بلکہ ان آرزوئوں اور تمنائوں سے، جو اس کے دل و دماغ کے اندر بستی ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کے بغیر راہ حق، دعوت اور جہاد کی منزل طے نہیں ہو سکتی۔
اس بات کو واضح طور پر کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا:
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo (العنکبوت۲۹:۲) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟
ذرا انداز بیان پر غور کیجیے۔ ذکر ان کا ہو رہا ہے جو مٹھی بھر لوگ مکے میں ایک اللہ کے اوپر ایمان لے کر آئے ہیں، جو خدا سے محبت کرتے ہیں اور خدا ان سے محبت کرتاہے، لیکن لہجے میں بڑی اجنبیت ہے اور بڑی غیریت ہے کہ کیالوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد انھیں آزمایا نہ جائے گا۔ حالانکہ یہ کوئی عام لوگ نہیںہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جسم وجان کا سودا کرکے اپنا ہاتھ رسولؐ اللہ کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ پھر بھی یہ نہیں کہا کہ میرے بندے یہ سمجھ بیٹھے ہیں، بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ گویا ایمان لانے کے بعد ہر ایک کو آزمایش کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے کسی کومفر نہیں۔
ایمان کا دعویٰ ہوگا تو آزمایا بھی ضرور جائے گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جب تک کہ برے کو بھلے سے الگ نہ کر دیا جائے۔ ایک مقام پر قرآن مجید نے اس طرف یوں اشارہ کیاہے:
مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِط (اٰل عمرٰن۳:۱۷۹)ا للہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو نا پاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔
گویا اس وقت تک کامیابی سے ہم کنار ہونا ممکن نہیں ہے جب تک کہ برے اور بھلے کی تمیز نہ ہوجائے۔ یہ اس لیے کہ زبان سے دعویٰ کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں، لوگ بہت سے لبادے اوڑھ لیتے ہیں‘ بظاہر شیر نظرآتے ہیں، لیکن کس کے سینے میں واقعی شیر کا دل ہے، اور کون اتنی ہمت اور جرأت رکھتا ہے کہ نہ صرف حلال وحرام کی پابندی کرے،بلکہ آگے بڑھ کر ان جائز اور حلال چیزوں کوبھی چھوڑ دے کہ جن کی قربانی راہ حق میں چلنے کے لیے ناگزیرہو۔ یہ وہ چیزیںہیں جن کی آزمایش ضروری ہے، جس کے لیے وہ ہلا ڈالے جائیں گے ، جس کے لیے انھیں جھنجھوڑا جائے گا، آروں سے چیرے جائیں گے، زندہ زمین کے اندر گاڑے جائیں گے اور ان کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچا جائے گا۔ یہ سب کس لیے ہے، اس لیے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام یعنی عدل و انصاف کا نظام قائم ہو۔
حضرت خبابؓ بن ارت کے واقعے کو تازہ کیجیے۔ جوبات حضرت خبابؓسے نبی کریمؐنے ارشاد فرمایا تھا کہ تم دیکھنا کہ ایک روز یہ دین غالب آکر رہے گا۔ اس بات پر اگرغور کیا جائے تو اس میں بڑی گہری حکمت نظر آئے گی۔ آج ہم بھی اسی دین کو قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ہمارے پیش نظر بھی نبی کریمؐ کا وہی مشن ہے جسے لے کر آپؐ آگے بڑھے۔ البتہ یہ کام صرف چند افراد کی تبدیلی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ خدائی عدل کے قیام کا نام ہے۔
ایک انسان کے کردار اورکیرکٹر کے لیے اس سے بڑی کوئی آزمایش نہیں کہ وہ اختیار اور اقتدار کا مالک ہو۔ دوسری طرف انسان کا یہ حال ہے کہ اگر کہیںاس کو اختیار مل جائے، خواہ یہ اختیار گھر میں مل جائے یا کہیں اور‘ تووہ فوراً پھیلنے لگتا ہے،اور آپے سے باہر ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے پیش نظر قیادت کے لیے اگر کوئی معیار ہے تو وہ بہترین صاحب کردار لوگ ہیں۔
اسلام کا نام لینے والے ہمیشہ بہت رہیں گے، لیکن اسلام کے نام لیوائوں اور اسلام کے مدعیوں کو اقتدار اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ آزمایش کی بھٹی میں تپ کے، اور عزیمت کی راہ پر چل کر، کھرا سونا نہ بن جائیں، جن پر یہ اعتماد کیا جا سکے کہ جب ان کے ہاتھ میں اختیار اور اقتدار آئے گا، تو وہ اللہ کے بندوں کی خدمت کریںگے، نہ کہ انسانوں کے خدا بن جائیں گے۔ دراصل صبر، قربانی اور آزمایش کے فلسفے کی حقیقت یہی ہے۔
آپ سوچیں گے کہ عزیمت کی بات کرتے کرتے اچانک صبر کا لفظ کہاں سے آگیا، اورمیں نے اچانک قربانی کا لفظ کیوں بول دیا؟ اگر غور کیا جائے تو یہ تینوں چیزیں ایک ہی ہیں، اور تینوں کے معنی بھی ایک ہیں۔
صبر کے معنی بظاہر یہی ہیں کہ مصیبت پڑے تو برداشت کا مظاہرہ کیا جائے، لیکن یہ صبر کے منفی(negative) معنی ہیں۔ صبر کے مثبت (positive) معنی یہ ہیں کہ ہم آگے بڑھ کر وہ کام کریں، جس کے لیے ہم اپنی جان، اپنامال ، اپنا وقت اور احساسات و جذبات اور ترجیحات کی قربانی دے سکیں۔ جب اس قسم کا صبر پیدا ہو جائے، تب کہیں جا کر اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے پورے ہوتے ہیں جو اس نے دنیا اور آخرت میں سربلندی کے لیے کر رکھے ہیں۔
آئیے ہم اس کا تفصیل سے جائزہ لیں، کہ یہ عزیمت کا راستہ کون سا راستہ ہے، اور اس میں کیا کیا چیزیں ہیں جو ہم کو پیش آسکتی ہیں، جن کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے۔
ایک حدیث میں‘جو کہ دجال کے بارے میںہے، کہا گیا ہے کہ اس کے ساتھ ایک جہنم ہوگی اور ایک جنت۔ جو دجال پر ایمان لائے گا وہ اس کی جنت میں داخل ہو گا، اورجو خدا پر ایمان لائے گا وہ اس کی جہنم میں داخل ہو گا۔ بات یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان لانا، آج کی دنیا میں جہنم میں داخل ہونے کے مترادف ہے، اور یہ بات سب سے زیادہ مال کمانے کے بارے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مال کمانے کی اجازت دی ہے، اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنے کا بھی حکم ہے، لیکن جو آدمی دعوت حق کے کام کے لیے کھڑا ہو‘ آخر اس کو اس سے زیادہ مال سے دل چسپی کیوں ہو جو اس کی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔ جو لوگ مال کما رہے ہیں ان کی تعداد دنیا کے اندر ایک، دو نہیں، کروڑوں نہیں بلکہ اربوں میں ہے، جن کا صبح سے شام تک بس یہی کام ہے کہ مال کیسے کمائیں۔ وہ صرف یہ سوچتے ہیں کہ ہم کتنا کمائیں اور کہاں جمع کریں، کہاں لگائیں اور کہاں خرچ کریں، اور اس پر ہمیںکتنے فی صد نفع ہو گا۔
اس کے مقابلے میں ایک ارب ، ایک کروڑ یا ایک لاکھ نہیں، بلکہ صرف چند ہزار آدمی جو اللہ کی زمین پر اللہ کی بندگی کا عزم لے کر کھڑے ہوئے ہوں، اگر وہ بھی یہی سوچنا شروع کردیں کہ کیسے زیادہ سے زیادہ کمائیں، اور کیسے اس کو جمع کریں، اور کہاں اس کولگائیں کہ زیادہ سے زیادہ کما سکیں، جایداد اور بنک بیلنس بنانے کی فکر ان کے دامن گیر ہو جائے، تو ایسے لوگوں کو کیسے اللہ تعالیٰ اپنے دین کی کامیابیوں سے سرفراز کرے گا۔ یہ کام تو وہی لو گ کر سکتے ہیں جن کو جائز ذرائع سے مال کمانے میں صرف اس قدر دل چسپی ہو، جو ضروری اور ناگزیرہو، جس سے ان کی ضروریات زندگی پوری ہو جائیں۔
خرچ کرنے میں بھی صرف اسی پر اکتفا نہیں ہونا چاہیے، کہ آدمی زکوٰۃ ادا کر دے ‘ یا اپنی ساری ضروریات زندگی اور سارے شوق پورا کرنے کے بعد تحریک اسلامی کے بیت المال کے لیے ایک ماہوار رقم مقرر کرلے۔ اپنا فرض ادا کر نے کے لیے قرآن و حدیث سے اس سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری ثابت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن یہ معاملہ قرآن و حدیث کے احکامات کا نہیںہے، بلکہ قرآن و حدیث کے منشا اور اس کی روح کا ہے۔
عام مسلمانوں اور خدا کی بندگی کرنے والوں کے لیے، شاید یہ بات صحیح ہو کہ زکوٰۃ دے دیں اور راہ خدا میں ایک ماہوار رقم اپنی آمدنی سے باندھ لیں، اور اس رقم کے تناسب کا کوئی مقابلہ اس چیز سے نہ کریں، اس خرچ سے نہ کریں جو وہ اپنی ضروریات زندگی پر کرتے ہیں۔ بہر حال جب ایک مخصوص رقم ہر ماہ کے لیے باندھ لی اور یہ زندگی کا ایک شعبہ ہے جو ہم نے الگ کر دیا، اب اس کے علاوہ ہماری آمدنی ہماری اپنی ہے، وہ ہم چاہیں تو مہینے میں چار پانچ سو کاپان کھائیں، سگریٹ پییں، کہیں ہوٹل میں چلے جائیں اور دو چار سو خرچ کر ڈالیں، ہمیں اس کا کوئی دکھ نہ ہوگا۔ اگر کوئی مانگنے کے لیے آجائے تو کہیں کہ کل ہی تو چندہ لے کر گئے تھے، آج پھر آگئے ہو، آخر ہم کہاں تک دیتے رہیں۔ اگر آدمی ضرورت سے زیادہ نہ کمائے، اور ضرورت سے زیادہ کمانے کے لیے کوئی ناجائز کام نہ کرے، تو خرچ کرنے کا سوال پھر بھی پیدا ہوتا ہے اور خرچ کرنے میں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ خرچ کرنے کے حوالے سے ہمارا ایمان اور یقین کس قدر مضبوط ہے۔
عزیمت کا راستہ تو یہ ہے کہ آدمی اپنا مال خدا کی راہ میں دونوں ہاتھوں سے لٹائے، اور اس کو یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ اس نے مجھے توفیق بخشی، نہ کہ میں نے دین پر یا تحریک اسلامی اور جماعت پر کوئی احسان کیاہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ لوگ جو اللہ کے دین کو قائم کرنے کا عزم اور اعلان دن رات کرتے ہیں، جوصبح شام اس کا وظیفہ پڑھتے ہیں، اور بے چین ہو کر پوچھتے ہیں کہ وہ گھڑی کب آئے گی جب اسلامی نظام قائم ہوگا‘ اگر ان کی اکثریت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کی آمدنی کا بہت کم حصہ ایسا ہے جو راہ خدا یا تحریک کے لیے صَرف ہوتا ہے۔ خدامیری اس بد گمانی کو معاف فرمائے، لیکن جہاں تک میرا علم ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ اپنے مال کا بہت کم حصہ ہے جو ہم نے خدا کی راہ کے لیے مخصوص کر رکھا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا حق ادا ہو گیا ہے۔
میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جو لوگ تحریک اسلامی کا عَلم بلند کیے ہوئے ہیں، اگر ان کو کہا جائے کہ ہم آپ کو ایسی جگہ پیسہ لگانے کی دعوت دیتے ہیں جس میں ایک کے سات سو گنا سے ایک ہزار گنا تک ہو جائیں گے، اور ایسے وقت آپ کوملے گا،جب کہ واقعی آپ کو اس کی ضرورت ہوگی، تو ان کی جیب مشکل سے کھلتی ہے۔ جب ہم ان سے کہیں کہ فلاں جگہ زمین بک رہی ہے، اس کو اگر آج خرید لیا جائے تو کل اس کے دگنے روپے ملیں گے تو وہ جانتے ہیں کہ نہ زمین ان کے ساتھ جائے گی اور نہ اس کی دوگنی آمدنی ساتھ جائے گی،آخر دوگز زمین ہی ان کو ملے گی، لیکن وہ دوڑ کر اس کے لیے پیسہ نکالتے ہیں۔ اگر تحریک کو مالی وسائل کی ضرورت ہو تو مشکل سے چند سو روپیہ نکلتا ہے، دوسری طرف گھر میں اگر قالین ڈالنا ہو یا عالی شان پردے لگانا ہوں، یاماربل کے مکان بنانے ہوں، توجیب ختم ہی نہیں ہوتی۔ لہٰذا عزیمت کا راستہ تو یہ ہے کہ ہم دل کھول کر راہ خدا اور تحریک پر خرچ کریں۔اگرچہ قرآن و سنت سے ایک مخصوص رقم صرف کرنے کو شاید کوئی حرام نہ کہہ سکے، لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا اس روش اور طرز عمل پر جو عموماً ہم نے اپنا رکھا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی کے انعام سے سرفراز کرنے والا ہے!
ایک مومن سے گناہ بھی سرزد ہو سکتے ہیں۔ ایک مومن زانی بھی ہو سکتاہے، چوری بھی کرسکتا ہے دوسرے بہت سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں‘ مگر ایک مومن اور منافق کے طرز عمل میں فرق ہوتا ہے۔ منافق کی نظر میں چونکہ معمولی گناہوں یا چھوٹی چھوٹی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ خیال کرتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک مومن چوکس و چوکنا ہوتاہے۔اس کو معلوم ہوتاہے کہ اس راہ میں جگہ جگہ کھائیاں ہیں، جو بظاہر نظرنہیں آتیں، جگہ جگہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہوا ہے جو برابر کہیں نہ کہیں نقب لگائے گا، دائو مارے گا، کہیں پھندا پھینکے گا، اورمجھے گرا لے گا اور پھانسے گا، راستے سے ہٹادے گا اور تباہ و برباد کر دے گا۔ اس لیے وہ ہر وقت چوکنا رہتاہے، معمولی باتوں کو بھی اہمیت دیتا ہے اور انھیں نظر انداز نہیں کرتا۔ یہ وہ پہلو ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
چند مثالوں سے اس بات کو سمجھیے:
جن دنوں میں ڈھاکہ رہتا تھا، میرے پاس کوئی ٹیلی ویژن سیٹ نہیں تھا۔ اس کے بعد میں انگلینڈ پہنچا، وہاں کوئی گھرانا ٹی وی سے خالی نہیںہوتا۔ میرے اچھے اچھے مسلمان دوستوں نے کہا کہ اپنے بچوں کی انگریزی بہتر بنانے کے لیے ٹی وی خرید لو، اور کچھ نہیں تو کم از کم نیوز ہی سن لیا کریں گے۔ میں تین سال تک برابر اس حال میں رہا کہ میں نے اس سے انکار کیا۔ اس کے بعد ایران میں انقلاب آگیا۔ لوگوںنے کہنا شروع کیا کہ آج ٹی وی پر یہ آیا ، وہ آیا، یہ دکھایا گیا، انقلاب کی یہ لہر اٹھ رہی ہے، توسب گھر والوںنے جمع ہو کر یہ سوچا کہ اس انقلاب کو دیکھنے کے لیے تو کم از کم ٹی وی خرید لینا چاہیے۔ چنانچہ ہم نے سیکنڈ ہینڈ ٹی وی اپنے گھر کے لیے خرید لیا۔ مگرمجھے آج بھی اس پر شرمندگی ہے۔ پھرمیں نے محسوس کیا یہ راہ واقعی بڑی خطرناک ہے۔ اگرچہ میرے بچے سواے سپورٹس اور نیوز کے کچھ نہیں دیکھتے، مگر میرا ضمیرا س بوجھ سے آج تک آزاد نہیں ہو سکا۔
میں نے یہ مثال اس لیے دی ہے کہ یہ راہ بڑی خطرناک راہ ہے۔ شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ آدمی کسی طرح پھسل جائے۔میں یہ نہیں کہتا کہ ٹی وی کوئی غلط چیز ہے لیکن جن لوگوں نے عزیمت کی راہ پر چلنے کادعویٰ کیا ہو، اور اس راہ پر چل پڑے ہوں، ان کو آخر اس کے لیے وقت کہاں سے مل سکتاہے، کہ وہ بیٹھ کر ٹی وی دیکھیں اور اس میں اپنا وقت لگائیں۔
ایک ایک لمحے کا حساب اللہ کو دینا ہے، ایک ایک لمحہ دعوت کے کام میں صرف ہونا چاہیے۔ محلے کے ساتھی اور بیوی بچے قیامت کے روز گریبان پکڑ کر کھڑے ہو جائیں گے، اگر آپ نے ان تک اللہ کا پیغام نہ پہنچایا۔ وہ پوچھیں گے کہ ہم جہنم کی راہ پرسفر کرتے رہے اور تم ٹی وی دیکھتے رہے۔ اب بتائو ہمارے اس انجام کا ذمہ دار کون ہے، تم یا ہم؟ شاید ہم اس کا جواب نہیں دے سکیں۔
یہ کیا چیز تھی؟ ایک لمحے کے لیے آپ سوچیں۔ یہ ذمہ داری کا احساس تھا کہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر صرف اپنے اعمال کی جواب دہی ہی نہیں کرنا‘ بلکہ سارے انسانوں کی زندگی اور سارے انسانوں کے اعمال کی جواب دہی میرے ذمے ہے۔ یہ وہ احساس تھا جس سے نبی کریمؐ جنھوں نے اس شہادت کے فریضے کو سب سے بڑھ کر سرانجام دیا، ان کا قلب بھی پگھل کر رہ گیا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ جس کے سامنے ذمہ داری کا یہ احساس ہو، وہ جائز اور ناجائز کی بحث میں کہاں پڑ سکتا ہے۔ اس کو تویہ سوچنا ہے کہ یہی واحدمقصد زندگی ہے۔ ایک ہی راہ ہے جس پر مجھے چلنا ہے، ایک ہی منزل ہے جو مجھے سر کرنا ہے۔ اس راہ میںجو چیز رکاوٹ ہو، خواہ اس کی اجازت ہو یا نہ ہو،خواہ جائز ہو یا ناجائز، مجھے اس سے دامن بچا کر آگے نکلنا ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر جس عزیمت کی ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ آدمی برائی کا جواب بھلائی سے دے سکے، گالیاں سن کر بھی دعا دے سکے، کانٹوں پر چل کر بھی پھول نچھاور کرسکے۔ قرآن نے اس طرز عمل اور روش کو اپنانے کا کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں تمھارے کٹر دشمن بھی گہرے دوست بن جائیں گے، لیکن یہ کام معمولی کام نہیں ہے۔ یہ صفت ان کے حصے میں آتی ہے جو بڑے حوصلے والے ہیں، جو بڑے صبر کرنے والے ہیں، جن کے اندر عزیمت پوری طرح موجود ہو۔
میں نے عزیمت کے چند پہلو آپ کے سامنے گنوائے ہیں۔ اصل بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عزیمت کا راستہ اسی وقت آسان ہو سکتا ہے جب کبھی آپ کچھ وقت نکال کر اور رات کی تنہائی میں ایک دفعہ بیٹھ کر اس کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ جسے آپ مقصد زندگی قرار دیتے ہیں، کیا وہ آپ کے دل کے اندر بھی وہی مقام رکھتا ہے؟ اس لیے کہ مقصد زندگی تو وہ ہوتاہے جس کی محبت آدمی کے دل کے اندر بیٹھ چکی ہو، جس کی خاطر وہ پوری زندگی وقف کرنے کے لیے تیارہو۔ پھر وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کی اجازت بھی ہے کہ نہیں۔ پھر تو وہ یہ سوچتا ہے کہ میرے وقت کا ہر لمحہ، میرے مال کا ہر پیسہ، میری تمام صلاحیتیں اور وسائل،میری ہر چیز اللہ کی راہ میں اور اس کی مرضی کے مطابق کھپنا چاہیے۔
ایک اوربات بھی غور کرنے کی ہے، وہ یہ کہ جب سختیاں ہوں، آزمایش ہو، مشکلات پیش آئیں تو آدمی کے لیے جم جانا اور ڈٹ جانا بہت آسان ہوتاہے، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مخالفتوں کے طوفان کے آگے،لوگ پامردی کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ راستے جن کا ابھی میں نے ذکر کیا، جو بظاہر بڑے صاف اور سیدھے نظر آتے ہیں، لیکن جن میں چھوٹے چھوٹے پیچ و خم ہوتے ہیں، جن میں جگہ جگہ قدم پھسلنے کا سامان ہوتاہے، وہ خطرناک راستے ہوتے ہیں۔
ایک خطر ناک راستہ وہ بھی ہوتا ہے، جہاں پر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمانے لگتا ہے، جہاں سختی سے نہیں بلکہ نعمت سے آزمانے لگتا ہے۔ جیسا کہ امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں کہا گیاہے کہ ان کو اتنے کوڑے مارے گئے، کہ کوئی ہاتھی بھی ان کو برداشت نہ کرسکتا ، مگر وہ مسکراتے ہوئے اور جواں مردی سے، اس کا مقابلہ کرتے رہے۔ جب خلیفہ بدلا، اور اس نے ان کی خدمت میں دولت اور دینار کی تھیلیاں بھیجیں، تو وہ کانپ اٹھے، اور انھوں نے کہا کہ اب زیادہ کڑی آزمایش آگئی۔ انھوں نے فوراًسارا کا سارا مال واپس کر دیا۔
دراصل رخصت اور عزیمت کی یہ ساری بحث بڑی مختصر ہے۔ اگر آپ کوئی بڑا کام کرنے چلے ہیں اور آپ کے سامنے پوری دنیا کی نئی تعمیر کا ایک نقشہ ہے، اگر آپ پورے ملک کا نظام بدلنا چاہتے ہیں، تو یہ وہ کام ہے جو عزیمت کا راستہ اختیار کیے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سر کے بل جانا پڑے گا، نقد جان بھی گنوانا پڑے گی، جیب بھی خالی کرنی پڑے گی، تن کے کپڑے بھی دینے پڑیں گے، تب جا کر کہیں شاید وہ منزل آئے کہ جب یہ ملک اسلامی انقلاب سے ہم کنار ہو۔ اگریہ کام صرف تبلیغی اور اصلاحی کام ہے، ایک گروہ کو منظم کرنا ہے، تھوڑے بہت نعرے لگانا ہیں، تو یہ کام ۴۰سال سے ہوتا آیا ہے، اور ۴۰سال اور بھی ہوتا رہے گا، مگر اس سے معاشرے کے مجموعی اقتدار کے سرچشموں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اللہ تعالیٰ کو تو وہ لوگ چاہییں جن کے بارے کہا گیا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌصَدَقُوْا مَاعَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ زصلے وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
یہ عہدصرف جائز سے فائدہ اٹھانے، اور حلال اور جائز کام کرنے اور حرام کاموںسے بچنے کا عہد نہیںتھا بلکہ یہ اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کا عہد تھا۔
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبۃ ۹:۱۱۱)حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔
یہ سودا عزیمت کا سودا ہے، رخصت کا نہیں۔ اس راہ میںجان بھی کھپانا ہے اور مال بھی۔ جب آپ نے اس سودے کو سچ کر دکھایا، اس معاہدے میں جو آپ کا حصہ اور کردارہے پورا کردیا، تو سب سے زیادہ سچا وعدہ کرنے والا بھی اپنا وعدہ پورا کر دکھائے گا۔
(کیسٹ سے تدوین: امجدعباسی )
یہ حیاتِ اقبال کا ایک معروف واقعہ ہے‘ جسے خود اقبال نے اپنی فارسی مثنوی رمـوزِ بے خودی (۱۹۱۸ء) میں بیان کیا ہے۔ مثنوی کے متعلقہ حصے کا عنوان ہے: ’’درمعنیِ ایں کہ حسنِ سیرتِ ملّیہ از تادّب بآدابِ محمدیہ است‘‘ یعنی اس مضمون کی وضاحت میں کہ ملّت اسلامیہ کا حسنِ سیرت و کردار‘ آدابِ محمدیہؐ کی اتباع میں ہے۔
علامہ اقبال بتاتے ہیں کہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا‘ بلکہ آغازِ عہدِشباب تھا۔ ایک روز ایک بھکاری ہمارے گھر کے دروازے پر آیا اور اُونچی اُونچی آواز سے بھیک مانگنے لگا۔ میں نے چاہا کہ وہ ٹل جائے مگر وہ پیہم صدا بلند کرتا رہا۔ مجھے غصہ آگیا۔ جوشِ جذبات میں مجھے اچھے بُرے کی تمیز نہ رہی‘ اور میں نے اس کے سر پر ایک لاٹھی دے ماری۔اس نے اِدھر اُدھر سے بھیک مانگ کر جو کچھ بھی جمع کیا تھا‘ وہ سب کچھ اس کی جھولی سے زمین پر گرگیا۔ والد صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے‘ میری اس حرکت سے بے حد آزردہ ہوئے‘ چہرہ مرجھا گیا اور افسردگی چھا گئی۔ ان کے لبوں سے ایک جگرسوز آہ نکلی‘ اور دل سینے میں تڑپ اُٹھا۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھوں سے نکلا‘ پلکوں پر چمکا اور گرگیا۔
یہ دیکھ کر مجھے بے حد ندامت اور خفّت ہوئی کہ میں نے والد کو سخت تکلیف پہنچائی۔ اپنی اس حرکت پر بے قرار بھی ہوا (کہ اب تلافی کیسے ہو؟)
اسی کیفیت میں والدماجد کہنے لگے: اُمت مسلمہ کل اپنے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جمع ہوگی۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ ہوں گے: غازی‘ حفاظِ حدیث‘ شہدا‘ اکابراُمت‘ زاہد‘ عالم اور گنہگار بھی‘ اس موقع پر اس دردمند گدا کی صدا بلند ہوگی (وہ فریاد کرے گا کہ مجھ سے ایک نوجوان نے زیادتی کی ہے) چنانچہ نبی کریمؐ مجھ سے مخاطب ہوں گے:
حق جوانے مسلمے با تو سپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد
از تو ایں یک کار آساں ہم نہ شد
یعنی آں انبارِ گل آدم نہ شد
حق تعالیٰ نے ایک مسلمان نوجوان کو تیرے سپرد کیا تھا (کہ تو اسے صحیح تعلیم و تربیت دے) لیکن اس نوجوان نے میری ادب گاہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ (حضوؐرفرمائیں گے کہ) تو اس آسان سے کام کو بھی انجام نہ دے سکا‘ یعنی تجھ سے ایک تودۂ مٹی آدمی نہ بن سکا۔
والد نے فرمایا کہ اگرچہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس ملامت میں بھی نرم گفتار ہی ہوں مگر میں تو سخت خفیف اور شرمندہ ہوں گا اور اُمیدوبیم میں گرفتار ہوں گا۔ پھر مجھے مخاطب ہوکر کہا: بیٹا! ذرا سوچو اور رسولؐ اللہ کی اُمت کے جمع ہونے کامنظر تصور میں لائو‘ پھر میری یہ سفید ڈاڑھی دیکھو اور میرے اُمیدوبیم کے لرزے کو نگاہ میں رکھو۔ اس کے بعد بڑے دردمندانہ لہجے میں کہنے لگے:
بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن
پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن
غنچہ ای از شاخسارِ مصطفی
از بہارش رنگ و بو باید گرفت
گل شو از بادِ بہار مصطفی
بہرۂ از خلقِ اُو باید گرفت
(دیکھو‘ بیٹا) اپنے باپ پر یہ نازیبا ظلم نہ کرو ۔(کل) آقا کے سامنے غلام کو رسوا نہ کرنا۔ تو شاخسارِ مصطفی کا ایک غنچہ ہے‘ حضوؐر ہی کی نسیمِ بہار سے شگفتہ ہوکر پھول بن جا۔ تجھے آپؐ کی بہار سے رنگ وبو حاصل کرنی چاہیے اور تجھے آپؐ کے خلقِ عظیم کی اتباع کرنی چاہیے۔
وجوہات تو اور بھی ہیں‘ مثلاً اقبال کے گھرانے کی دین سے گہری وابستگی‘ مذہبی شعائر کی پابندی‘ والدۂ اقبال کا جذبۂ خدمتِ خلق‘ پھر علامہ میرحسن کی علمی اور اخلاقی تربیت اور خود اقبال کے والد شیخ نورمحمد کا روحانی مزاج‘ نیک نفسی‘ اور پرہیزگاری وغیرہ ___ لیکن راقم کی دانست میں یہی وہ واقعہ ہے جس نے اقبال کے قلب و ذہن میں‘ آخرت میں جواب دہی کے احساس و شعور کو بیدار کیا اور ان کے نیک طینت والد نے اپنی مذکورہ بالا دل سوز و دردمندانہ گفتگو اور پندونصیحت کے ذریعے‘ ان کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دلی محبت اوروابستگی کا بیج بویا___ اقبال کی شاعری اور شخصیت میں یہ بیج ایک تن آور‘ اور بلندوبالا اور اطراف میں خوب پھیلی ہوئی شاخوں والا گھنا درخت بن کر نمودار ہوا___ (کَشَجَرۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ) (ابراہیم ۱۴:۲۴)
عین ممکن ہے اقبال کے لڑکپن میں اسی طرح کے کچھ اور واقعات بھی رونما ہوئے ہوں تاہم بالیقین یہ واقعہ اقبال کی محبتِ رسولؐ میں ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوائلِ عمر کے بعض وقوعات‘ انسانی ذہن پر گہرے اور دُور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ متذکرہ بالا واقعہ نوجوان محمداقبال کے قلب ودماغ پر مرتسم ہوکر رہ گیا اور پھر پایانِ عمر وقتاً فوقتاً اورطرح طرح سے اظہار ہوتا رہا۔
علامہ اقبال کی زندگی‘ شخصیت‘ شاعری اور نثرنگاری کا مطالعہ کریں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ‘ علامہ اقبال کا تعلقِ خاطر‘ ایک قلبی و ذہنی وابستگی اور عشق و محبت کا جذبہ مطالعۂ اقبال کا ایک نمایاں اور زرّیں باب نظر آتا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر دور میں عشقِ رسولؐ ایک زندہ‘ توانا اور ایک انقلاب انگیز جذبے کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ یہ حکایت دراز ہے اور لذیذ بھی‘ لیکن فی الوقت یہاںاس کے فقط چند پہلو پیش کیے جارہے ہیں:
ابتدا ہی سے اقبال کی شاعری میں جذبۂ عشق رسولؐ کا ایک والہانہ اظہار ملتا ہے مگر اظہارِ عقیدت کا انداز بالعموم رسمی و روایتی ہے۔ وہ اس عبوری دور سے آگے بڑھتے ہیں تو اُن کی توصیف ِمحمدؐ میں ہمیں ایک خاص معنویت نظر آتی ہے‘ مثلاًآںحضوؐر کی پیغمبرانہ اور بشری عظمت اور آپؐ کی رحمت و شفقت کا پہلو اُن کے لیے سب سے زیادہ جذب و کشش کا باعث بنتا ہے۔ ابتدائی نظموں میں سے ’نالۂ یتیم‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو ؎
درد ، انساں کا جو تھا، وہ میرے پہلو سے اُٹھا
قلزمِ جوشِ محبت ، تیرے آنسو سے اُٹھا
نظم ’فریادِ اُمت‘ کے متعدد شعروں میں عشق و محبت سے اقبال کی مراد دردِ انسانیت ہے‘ اور یہ درد عشقِ رسولؐ ہی سے پیدا ہوتا ہے ؎
تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
۱؎
پھر رموز بے خودی میں کہتے ہیں ؎
تا دمِ تو آتشے از گلِ کشود
تودہ ہاے خاک را آدم نمود
(آپؐ کے نفسِ گرم سے مٹی کے پیکروں نے آگ پیدا کی اور خاک کے تودوں نے آدم کی صورت اختیار کرلی۔)
گویا‘ اقبال کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے ’انسان سازی‘ کی عظیم الشان خدمت انجام دی۔ آپؐ نے اپنی ۲۳ سالہ مثالی زندگی میں جو گوناگوں کارنامے انجام دیے‘ اقبال کی شاعری میں مختلف مقامات پر ان کا ذکر ملتا ہے۔ ایک مفصل تذکرہ تو رموزِ بے خودی کے آخری باب بعنوان: ’عرضِ حالِ مصنف بحضورِ رحمت للعالمینؐ، میں کیا گیا ہے ؎
اے ظہورِ تو شبابِ زندگی
جلوہ اَت تعبیرِ خوابِ زندگی
(حضورِ والاؐ! آپؐ کا ظہور زندگی کے لیے شباب کا باعث ہے۔ آپؐ کا جلوہ خوابِ زندگی کی تعبیر ہے۔)
فارسی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں ’درِحضورِ رسالت مآبؐ، کے عنوان سے ایک نظم شامل ہے جسے اقبال نے پروفیسر سلاح الدین محمد الیاس برنی کے نام ایک خط میں (حضوؐراکرم کی خدمت میں ایک)’عرض داشت‘ کہا ہے۔ یہ ’عرض داشت‘ ان کی نعتیہ شاعری کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔ اس میں ملّت اسلامیہ کی کس مپرسی‘ بے چارگی اور خواری و زبوں حالی کا حوالہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔
علامہ اقبال سب سے پہلے انسانیت پر آپؐ کے احسانِ عظیم کا ذکر کرتے ہیں کہ آپؐ نے اُسے لات و منات اور چوپایوں اور کاہنوں کی عبدیت (غلامی) کے بوجھ سے آزاد کیا اور امرا و سلاطین کی غلامی کے چنگل سے نجات دلائی۔ پھر افرادِ اُمت کی موجودہ حالت ِ زبوں کا ذکر کرتے ہوئے افرادِ اُمت کے مختلف طبقوں (نوجوانوں‘ اہلِ مکتب‘ افرنگ کے نقالوں) کی ذہنی پستی اور پس ماندگی پر رنج و تاَسف کا اظہار کرتے ہیں:
درِ عجم گردیدم و ہم در عرب
مصطفی نایاب و ارزاں بولہب
ایں مسلماں زادۂ روشن دماغ
ظلمت آباد ضمیرش بے چراغ
درِ جوانی نرم و نازک چوں حریر
آرزو در سینۂ او زود میر
ایں غلام ابن.ِ غلام ابن.ِ غلام
حریت اندیشۂ او را حرام
(میں عجم میں بھی پھرا ہوں اور عرب میں بھی۔ بولہب زیادہ ہیں اور آپؐ کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگ نایاب ہیں۔ یہ روشن دماغ مسلمان زادہ‘ اس کے ضمیر کی اندھیرنگری چراغ کے بغیر ہے۔ یہ جوانی میں ریشم کی طرح نرم و نازک ہے۔ اس کے سینے میں آرزوئیں پیداہوتے ہی مرجاتی ہیں۔ اس غلام ابن غلام ابن غلام پر آزادی کی سوچ حرام ہے۔)
پھر کہتے ہیں کہ جدید تعلیم نے اس سے دین کا جذبہ چھین لیا ہے۔ اور اب تو وہ ایک بے جان لاشہ ہے‘ اس کا وجود: ’’ایں قدر دانم کہ بود‘‘ (اتنا جانتا ہوں کہ کبھی ’’تھا‘‘___)
یہ نوجوان اپنے آپ سے ناآشنا ہے اور افکارِ فرنگ میں مست ہے۔ یہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ فرنگیوں کے ہاتھ سے اسے َجو کی روٹی مل جائے۔ اس فاقہ کش نے اپنی جانِ پاک دے کر روٹی خریدی۔ اس کے اس طرزِعمل نے ہمیں دردناک نالوں پر مجبورکردیا۔ یہ پالتو پرندوں کی طرح (دوسروں کے ہاتھ سے) دانہ چگتا ہے اور فضاے نیلگوں کی پہنائیوں سے ناآشنا ہے۔ فرنگیوں کی آگ نے اسے پگھلا دیا ہے۔ اس دوزخ نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اسکول کا استاد نالائق اور کم نظر ہے‘ اس نے نوجوان کو اس کے حقیقی مقام سے آگاہ نہیں کیا۔
اقبال اُمت کے امراض سے بخوبی واقف تھے‘ جن میں سے ایک بڑی بیماری ’ترسِ مرگ‘ ہے۔ اس نظم کے ابتدا میں انھوں نے فریاد کی تھی کہ: وارہاں ایں قوم را از ترسِ مرگ (اس قوم کو موت کے خوف سے نجات دلایئے) یہاں وہ اس تاَسّف کا اظہار کرتے ہیں کہ ؎
مومن و از رمزِ مرگ آگاہ نیست
در دلش لاغالب الااللہ نیست
(مومن ہے اور موت کی رمز سے آگاہ نہیں۔اس کا دل لاغالب الا اللہ سے خالی ہے)
اقبال نے اس نوحہ و فریاد میں ایک ایسی بات کہی ہے جو اقبال کے دور میں تو سچی تھی ہی‘ آج ۷۰سال بعد‘ دورِاقبال سے کہیں زیادہ ہمارے حسبِ حال ہے___ کہتے ہیں ؎
ما ہمہ افسونیِ تہذیبِ غرب
کشتۂ افرنگیاں بے حرب و ضرب
(ہم سب مغرب کی تہذیب کے سحر زدہ ہیں۔ ہمیں افرنگیوں نے بغیر جدال و قتال کے قتل کردیا ہے۔)
تاہم‘ اقبال کو علم نہیں تھا کہ جب یہ سخت جان اُمت‘ صرف تعلیم اور (نام نہاد)ثقافتی حربوں کے ذریعے پوری طرح بے جان نہ ہوسکے گی تو فرنگی جدال و قتال پر بھی اتر آئیں گے___ (یہ الگ بات ہے کہ اس محاذ پر بھی انھیں منہ کی کھانی پڑے گی۔)
علامہ اقبال کے حبِّ رسولؐ کے جذبے پر ایک اور پہلو سے بھی نظر ڈالنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں حبِّ رسولؐ اور عشقِ رسولؐ کا جذبہ چند ظاہری آداب (نعت نویسی‘ نعت خوانی‘ مجلس میلاد‘ میلادالنبیؐ کا جلوس یا رسمی و روایتی انداز میں دھواں دھار تقریروں) تک محدود ہوکر رہ گیا ہے‘ اور الا ماشاء اللہ اب یہ ہمارا ایک ’ثقافتی مظہر‘ ہے۔ لیکن علامہ اقبال کی محبتِرسولؐ فقط آپ کی زبانی کلامی توصیف و تحسین یا درود و سلام تک محدود نہیں (گو کہ علامہ اقبال نے نبی ِکریمؐ پر بکثرت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی ہے) وہ محبتِرسولؐکو خدمتِرسولؐ اور خدمتِرسولؐ کو خدمتِدین کے مترادف سمجھتے ہیں‘ یعنی ان کے نزدیک:
محبتِرسولؐ= خدمتِرسولؐ
اور:
خدمتِرسولؐ = خدمتِاسلام
چنانچہ متذکرہ بالا ’عرض داشت‘ پیش کرتے ہوئے انھیں خیال آتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے نہ تو اپنی نسبتِ رسولؐ کا خیال رکھا اور نہ محمدؐ کے نام لیوا ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا۔ ہم مسلمان ہیںتو اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ رسالتِمحمدیہؐ پر ہمارا ایمان ہے تو اس کے تقاضے کیا ہیں؟___افراد ِاُمت‘ اس ضمن میں ایک عمومی غفلت کا شکار ہیں۔ اقبال کے لیے یہ چیز دلی اذیت.ّکا باعث ہے۔ اس کیفیت کو‘ وہ ذاتی حوالے سے اس طرح بیان کرتے ہیں:
میں تو جب کبھی سوچتا ہوں‘ شرم و ندامت سے میری گردن جھک جاتی ہے کہ کیا ہم مسلمان آج اس قابل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر فخر کریں؟ ہاں‘ جب ہم اس نور کو اپنے دلوں میں زندہ کرلیں گے‘ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں داخل کیا تھا‘ تو اس وقت اس قابل ہوسکیں گے کہ حضوؐر ہم پر فخر کریں۔
وہ نور کیا تھا جو آپؐ نے ہمیں عطا کیا؟ اسلام کی نعمت‘ قرآن حکیم کی دولت‘ احکام الٰہی کا سرمایہ اور خدمتِدین کا جذبہ___ یہ سب عشقِ رسولؐ کا تقاضا اور اس کے ثمرات ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’اقبال کے تجربے میں تو عشقِ رسولؐ ہی ایسی نعمت ہے‘ جس کے ذریعے‘ وہ اپنے تمام فکری مسائل حل کرسکتے تھے‘‘۔ اقبال کے نزدیک حبِّ رسولؐ کے ذریعے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت کا حصول ممکن ہے‘ بلکہ زمین و آسمان کی ساری عزتیں اور ساری نعمتیں صرف اسی طریقے سے مل سکتی ہیں ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح وقلم تیرے ہیں
ہر کہ عشقِ مصطفی سامانِ او ست
بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست
(جس شخص کو بھی عشقِ مصطفیؐ کی نعمت مل جاتی ہے‘ وہ دریا و صحرا دونوں پر متصرف ہوجاتا ہے۔)
لیکن جیساکہ اکثر ابناے زمانہ کا شیوہ ہے‘انسان غفلت کا اسیر رہتا ہے‘ مکروہاتِ زمانہ ہی سے فرصت نہیں ملتی‘یا ساری تگ و دو حصولِ دنیا کے لیے وقف رہتی ہے۔ دین کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ ہمارے گردوپیش بہت کم لوگ ہوں گے‘ جنھیں تفہیم دین‘ خدمتِ اسلام یا اتباعِ رسولؐ کا حقیقی شعور ہو اور وہ ان فرائض کو اداکرنے کااحساس بھی رکھتے ہوں۔ اقبال کو اس کا احساس تھا مگر انھیں ایک گونہ ندامت ہوتی تھی کہ وہ اتباعِ رسولؐ کے تقاضوں کو خاطرخواہ طریقے سے پورا نہیں کرسکے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:
میں جو اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ خدا تعالیٰ نے مجھ کو قواے دماغی بہت اچھے عطافرمائے تھے۔ اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے‘ تو آج خدا کے رسولؐ کی ‘ میں کوئی خدمت کرسکتا اور جب مجھے یاد آتا ہے کہ والدِمکرم مجھے علوم دینی ہی پڑھانا چاہتے تھے‘ تو مجھے اوربھی قلق ہوتا ہے کہ باوجود اس کے‘ کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی‘ تو بھی وقت کے حالات نے اس راہ پر چلنے نہ دیا۔ بہرحال جو کچھ خدا کے علم میںتھا‘ ہوا‘ اور مجھ سے بھی جو کچھ ہوسکا‘ میں نے کیا‘ لیکن دل چاہتا ہے کہ جو کچھ ہوا‘ اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا‘ اور زندگی تمام و کمال نبیِکریمؐ کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی۔
اگرچہ جیسا اُوپر بھی ذکر ہوا‘ علامہ اقبال نے آنحضوؐر پر بہ کثرت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی ہے‘ مگر درجِ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عشقِ رسولؐ ان کے نزدیک محض درود شریف پڑھنے اور محبت کے زبانی کلامی دعووں یا ان کی یاد میں آنسو بہانے تک محدود نہیں۔ عشقِرسولؐ کا حقیقی تقاضا ’’نبی ِکریمؐ کی خدمت ہے‘‘۔ یہ خدمتِ رسولؐ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا احیا اور اس کا نفاذ___ یعنی خدمتِ رسولؐ، خدمتِ اسلام کے مترادف ہے۔ سیدغلام میراں شاہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت‘ ہمت‘ اثر‘ رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائقِ اسلام کی نشرواشاعت میں صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضور رسالت مآبؐ کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی باطل کے خلاف سراپا جہاد تھی۔ عصرِحاضر میں بھی گوناگوں باطل نظریات‘ اسلام کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کے خاتمے کے لیے کوشش و کاوش ایک طرح سے سنت ِنبویؐ ہے‘ خدمتِ رسولؐ بھی اور خدمتِ دین بھی۔ علامہ اقبال کے نزدیک ایک مومن کی زندگی کا یہی مشن ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی میں انھیں ’نازک زمانے میں اسلام کی حفاظت‘ کی فکر برابر دامن گیر رہی اور وہ ’اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے اس کے مستقبل کو محفوظ‘ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ ۲۲ اپریل ۱۹۳۱ء کو مولوی صالح محمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
مسلمانوں کو ابھی تک اس کا احساس نہیں ہوا کہ جہاںتک اسلام کا تعلق ہے‘ اس ملک ہندستان میں کیا ہو رہا ہے‘ اوراگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل‘ اس ملک میں کیا ہوجائے گا؟ آیندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل اقوام کی طرح ہوجائے اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک سے فنا ہوجائے۔
آپ خواجہ صاحب کے دل میں بھی یہی تڑپ پیدا کریں کہ وہ اپنے دیگر احباب میں بھی یہی تحریک کریں‘ ورنہ ہم سب لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
اسی تسلسل میں ۳۰ جولائی ۱۹۳۴ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس وقت مسلمان کا فرض ہے کہ جو قوت‘ خداتعالیٰ نے اسے عطا کی ہے‘ اسے اسلام کی خدمت اور اقوام و مللِ اسلامیہ کے احیا و بیداری میں صرف کردے‘‘۔ یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کی نشاَتِ ثانیہ کے بارے میں علامہ اقبال کارجائی ذہن بہت واضح تھا۔ شاعری کے علاوہ خطوں میں بھی یہ رجائیت‘ اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ ایک صاحب نے خواب میں رسولِ پاکؐ کی زیارت کی تعبیر دریافت کی‘ اقبال انھیں جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
عام مسلمانوں کی طرح میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ حضورِ رسالت مآبؐ کی زیارت خیروبرکت کا باعث ہے۔ گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِ رسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاے اسلام کی ہے۔
خود علامہ اقبال اپنے تئیں احیاے اسلام کے لیے کاوش و کوشش کا فریضہ ادا کرنے کی سعی کرتے رہے‘ اور انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے خدمتِ اسلام اور خدمتِ رسولؐ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
محبت ِ رسولؐ کے ضمن میں علامہ اقبال کو اپنی ’نسبتِ حجازی‘ بھی بہت عزیز تھی‘ وہ آں حضوؐر کی زبانِ مبارک سے خود کو ’اے عندلیبِ باغِ حجاز‘ کہلوا کر فخرومسرت اور روحانی لذت و سرشاری محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے حالات میں حجازِ مقدس کے سفر اور زیارتِ روضۂ رسولؐ کی تمنا کا بہ تکرار اظہار ملتا ہے۔ بارہا سفرِحجاز کا ارادہ بھی کیا مگر بوجوہ یہ ارادہ بروے کار نہ آسکا۔
آخری زمانے میں نبی پاکؐ کے لیے ان کا ذوق و شوق بڑھ گیا تھا‘ اس بنا پر آںحضوؐر کا ذکر آتے ہی وہ آبدیدہ ہوجاتے اور اکثر اوقات ان پر رقت طاری ہوجاتی۔ غلام رسول مہر کا بیان ہے کہ :
آپؐ کا نام زبان پر آتے ہی چہرہ سرخ ہوجاتا تھا اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ آپؐ ذاتِ بابرکات کے ساتھ اقبال کا عشق‘ بیان کا متحمل نہیں۔ ان کی تصانیف میں جو اشعار حضوؐر کے متعلق ہیں‘ ان میں سے ایک شعر بھی ایسا نہیں‘ جسے انھوں نے سنایا ہو اور اس پر بے اختیار اشک بار نہ ہوئے ہوں۔
وفات سے کوئی آٹھ دس ماہ پہلے‘ علامہ کے ایک دوست مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ نے حج بیت اللہ کا عزم کیا اور غالباً ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ جواباً انھیں لکھا کہ حجِ بیت اللہ کی آرزو تو گذشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت عطا فرمائے‘ تو یہ آرزو پوری ہو‘ اور اگر آپ رفیقِراہِ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو۔ آپ ایسے باہمت جوان کے لیے تو یہ سفر قطعاً مشکل نہیں۔ ہمت تو میری بھی بلند ہے لیکن بدن عاجز و ناتواں ہے۔ کیا عجب کہ خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور آپ کی معیت، اس سفر میں نصیب کرے۔
یہی زمانہ تھا‘ جب وہ ’حضورِ رسالتؐ، (جو اَب ارمغانِ حجاز میں شامل ہیں) کے عنوان سے فارسی رباعیات لکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے حج پر جانے کے لیے مختلف جہاز ران کمپنیوں سے خط کتابت بھی شروع کردی تھی، گویا عملاً حالتِ سفر میں تھے۔ اسی زمانے کی رباعی ہے:
بہ ایں پیری رہِ یثرب گرفتم
نوا خواں از سرورِ عاشقانہ
چوں آں مرغے کہ در صحرا سرِشام
کشاید پر بہ فکرِ آشیانہ
(اس بڑھاپے میں‘ میں مدینے کی طرف سرورِعاشقی سے مست‘ گاتا چلا جا رہا ہوں اور میرا حال اُس پرندے کی طرح ہے جو صحرا میں شام ہوتے ہی اپنے آشیانے کی طرف لوٹنے کی فکر کرتا ہے۔)
اپنی بیماری کے سبب‘ اقبال کے لیے جسمانی طور پر سفر بہت مشکل ہوگیا تھا چنانچہ عالمِ خیال ہی میں وہ مدینہ طیبہ کی جانب رواں دواں رہے۔ اپنی علالت کے حوالے سے اسی زمانے کی حسبِ ذیل رباعی ان کے حسبِ حال تھی:
سحر با ناقہ گفتم: نرم تر رَو
قدم مستانہ زد چنداں کہ گوئی
کہ راکب خستہ و بیمار و پیر است
بہ پایش ریگِ ایں صحرا حریر است
(بوقت صبح میں نے اُونٹنی سے کہا کہ ذرا آہستہ چل کیوں کہ سوار خستہ‘ بیمار اور بوڑھا ہے۔ اس پر وہ اس طرح مستانہ انداز میں قدم زن ہوئی گویا اس کے پائوں کے نیچے پھیلی ہوئی ریگِ صحرا‘ ریت نہیں ریشم ہے۔)
مگر اثناے سفر کی لذت ایسی سرور انگیز اور وجدآفریں ہے کہ مسافر‘ سارباں کو راہِ دراز اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ سفرِشوق میں مسرت کے لمحات دراز تر ہوسکیں:
غمِ راہی نشاط آمیز تر کن
فغانش را جنوں انگیز تر کن
بگیر اے سارباں راہِ درازے
مرا سوزِ جدائی تیز تر کن
(اے سارباں! تو مسافر کے غم میں نشاط اور کیف کی آمیزش بڑھا دے اور اس کی آہ و زاری میں جنوں کا عنصر زیادہ کردے۔ اے سارباں! لمبا راستہ اختیار کر اور یوں میرے سوزِ جدائی کو تیز تر کردے۔)
علامہ اقبال کو ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن کا سفر درپیش ہوا۔ واپسی پر موتمرعالم اسلامی میں شرکت کے لیے بیت المقدس گئے۔ وہاں سے مصر گئے اور پھر براہِ راست ہندستان چلے آئے۔ اس پر بعض لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ علامہ نے عمرے اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کے اس موقعے سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا؟ اس ضمن میں روزگارِ فقیر کے مؤلف فقیر سید وحیدالدین کی ایک روایت قابلِ غور ہے۔ [فقیرسیدوحیدالدین کے والد فقیر سیدنجم الدین علامہ اقبال کے قریبی اور بے تکلف دوستوں میں شامل تھے] وہ بتاتے ہیںکہ علامہ یورپ سے واپس آئے تو والدمرحوم اس موقعے پر ان سے ملنے گئے۔ بڑی مدت کے بعد‘ ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی تھی‘ اس لیے بڑے تپاک سے ملے‘اور ڈاکٹرصاحب سے ان کے سفر کے تجربات کے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ والدمرحوم نے اثناے گفتگو میں کہا: ’’اقبال! تم یورپ ہوآئے ہو‘ مصر اور فلسطین کے سیر بھی کی‘ کیا اچھا ہوتا کہ واپسی پر روضۂ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کرلیتے‘‘۔ یہ سنتے ہی ڈاکٹرصاحب کی حالت دگرگوں ہوگئی‘ یعنی چہرے پر زردی چھاگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ چند لمحے تک یہی کیفیت رہی۔ پھر کہنے لگے: ’’فقیر! میں کس منہ سے روضۂ اطہر پر حاضر ہوتا‘‘۔
انھی دنوںکسی شخص نے دریافت کیا کہ فلسطین سے زیارتِ حرمین کے لیے جانا مشکل نہ تھا‘ پھر کیاامر مانع ہواکہ آپ نے اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھایا؟ جواباً علامہ نے انھیں لکھا:
مدینۃ النبیؐ کی زیارت کا قصد تھا‘ مگر میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا کہ دنیوی مقاصد کے لیے سفر کرنے کے ضمن میں حرمِ نبویؐ کی زیارت کی جرأت کرنا سوئِ ادب ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامی احباب سے وعدہ تھا کہ جب حرمِ نبویؐ کی زیارت کے لیے جائوں گا‘ تو وہ میرے ہم عناں ہوں گے۔ ان دونوں خیالوں نے مجھے باز رکھا‘ ورنہ کچھ مشکل امر نہ تھا۔
بہ الفاظِ دیگر‘ انھیں دربارِ رسالت مآبؐ میں ضمنی طور پر حاضر ہونا اچھا نہ لگا۔ دراصل آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اُمتی کی طرح علامہ اقبال کو بھی اپنے گناہوں اور کوتاہیِ فکروعمل کا شدید احساس تھا۔ احساسِ ندامت کے سبب‘ وہ روضۂ رسولؐ پر حاضری سے گریزاں تھے‘ اور غالباً اسی لیے وہ ایک جگہ بارگاہِ خداوندی میں اس طرح التماس کرتے ہیں:
تو غنی از ہر دو عالم، من فقیر
روزِ محشر عذر ہاے من پذیر
وَرحسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر ۲؎
(اے اللہ) تو سراپا غنی ہے(اور) میں تہی دست ہوں۔ روزِحشر مجھے جواب دہی سے معاف رکھنا۔ لیکن اگر جواب دہی ناگزیر ہو تو پھر آں حضوؐر کی نظروں سے اوجھل ہوکر حساب لیجیو۔ (تاکہ آپؐ کے سامنے‘ میری رسوائی نہ ہو۔)
بہرحال انھوں نے سفر ِحجاز کا ارادہ ترک نہیں کیا‘ مگر سوئِ اتفاق سے‘ یورپ سے واپسی کے چندماہ بعد وہ شدید طور پر علیل ہوگئے۔ انھیں وکالت ترک کرنی پڑی‘ معمولات متاثر ہوگئے‘ علاج معالجے کے لیے بار بار دہلی اور بھوپال جانا پڑا۔ بیماری کے نتیجے میں طرح طرح کے تفکرات اور غم ہاے روزگار نے گھیرلیا‘ مگر اس عالم میں بھی سرزمین مقدس کے لیے ان کے عزم و ارادے میں فرق نہیں آیا۔ ارادۂ سفر نہ صرف برقرار رہا‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سفرِحجاز کی آرزو تیز تر ہوتی گئی۔ اس آرزو نے رسول اکرمؐ کے ساتھ ان کی دل بستگی میں اضافہ کردیا تھا۔
دورِ آخر میں وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور دل بستگی کی جس کیفیت سے گزر رہے تھے‘ اس کا ذکر‘ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بڑے عمدہ الفاظ میں کیا ہے:
زندگی کے آخری ایام میں پیمانۂ عشق اس طرح لبریز ہوا کہ مدینے کا نام آتے ہی اشکِمحبت بے ساختہ جاری ہوجاتے۔ وہ اپنے اس کمزور جسم کے ساتھ مدینۃ الرسولؐ میں حاضر نہ ہوسکے لیکن اپنے مشتاق اور بے تاب دل‘ نیز اپنی قوتِ تخیل اور زورِ کلام کے ساتھ انھوں نے حجاز کی وجدانگیز فضائوں میں باربار پرواز کی اور ان کا طائرِ فکر ہمیشہ اسی آشیانے یا آستانے پر منڈلاتا رہا۔
مدینۃ النبیؐ اقبال کے خوابوں کا شہر تھا۔ وہاں ان کی عزیز ترین ہستی محوِاستراحت تھی۔ ان کی دیرینہ آرزو تھی کہ انھیں حجاز جانے کا موقع ملے تو سرزمینِ مدینہ ہی میں پیوندِ خاک ہوجائیں۔ یہ تمنا بھی آپؐ سے ایک تعلقِ خاطر کی دلیل‘ اور قلبی وابستگی کی ایک شکل ہے جس کا اظہار ایک شعر میں اس طرح کیا ہے ؎
ہست شانِ رحمتت گیتی نواز
آرزو دارم کہ میرم در حجاز
(آپؐ کی شانِ رحمت ایک زمانے کو نوازتی ہے۔ میری آرزو یہ ہے کہ مجھے موت آئے تو سرزمین حجاز میں۔)
اقبال کے سفرِحجاز کا خواب تو شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکا اور نہ اُن کی ’میرم درحجاز‘ کی تمنا بروے کار آسکی۔ مگر ’عرضِ حال مصنف بہ حضوؐر رحمت للعالمین‘ (رموزِ بے خودی‘ ۱۹۱۸ء) کے ۲۰سال بعد (۱۹۳۸ء میں) جب وہ اس عالمِ فانی سے رخصت ہوکر عالمِ جاودانی کو سُدھارے اور عالم گیری مسجد لاہور کے سایۂ دیوار میں سپردِ خاک ہوئے‘ تو ان کی آرزو تھی:
کوکبم را دیدۂ بیدار بخش
تا بیاساید دلِ بے تابِ من
مرقدے در سایۂ دیوار بخش
بستگی پیدا کند سیمابِ من
با فلک گویم کہ آرامم نگر
دیدۂٖ آغازم انجامم نگر
(میری قسمت کے ستارے کو بھی دیدۂ بیدار عطا فرمایئے اور اپنی دیوار کے سایے میں آسودئہ خاک ہونے کے لیے ذرا سی جگہ عطا فرمایئے تاکہ میرے دلِ بے تاب کو سکون نصیب ہو اور میری سیمابیت کو قرار آجائے‘ اور مَیں فلک سے کہہ سکوں کہ دیکھو‘ مجھے کیسے آرام نصیب ہوا‘ تو میرا آغاز دیکھ چکا ہے‘ اب میرے انجام پر بھی نظر ڈال۔)
اس آرزو کو ایک شکل میں تو یوں شرفِ قبولیت حاصل ہوا کہ وہ عالم گیری مسجد لاہورکی دیوار تلے آسودئہ خاک ہیں جہاں ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء سے آج تک‘ نماز اور زیارتِ مسجد کے لیے آنے والے ہزاروں لاکھوںمسلمان‘ ان کے لیے مستقلاً دست بدعا رہتے ہیں___ یہ ’رُتبہ بلند‘ ہرکسی کو نصیب نہیں ہوتا اور ایسا اعزاز و افتخار عشقِ رسولؐ کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا ہوگا۔
۱- مذکورہ بالا دونوں اشعار‘ اقبال کے متداول کلام میں شامل نہیں ہیں‘ بلکہ دوسرے شعر سے متصل ومابعد حسب ذیل نہایت عمدہ شعر بھی اقبال نے‘ نمعلوم کیوں اپنے متداول کلام میں شامل نہیں کیا:
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
۲- یہ رباعی‘ اقبال کے متداول کلام میں شامل نہیں ہے‘ اقبال نامہ (جدید یک جا اڈیشن‘ شائع کردہ: اقبال اکادمی پاکستان لاہور‘ ۲۰۰۵ء‘ ص ۲۵۶) میں موجود ہے۔ اس کا قصہ یوں ہے کہ مذکورہ رباعی اوائل ۱۹۳۷ء میں کسی اخبار یا رسالے میں شائع ہوئی تو ڈیرہ غازی خاں کے ایک مدرس محمدرمضان عطائی نے‘ علامہ سے تحریراً درخواست کی کہ یہ رباعی مجھے عطا کریں۔ علامہ کا ظرف دیکھیے کہ انھوں نے عطائی صاحب کو لکھا: ’’شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رباعی جو آپ کو پسند آگئی ہے‘ اپنے نام سے مشہور کریں‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے___‘‘اور علامہ واقعی اس بے مثال رباعی سے دست بردار ہوگئے اور اسے اپنے مجموعۂ کلام میں شامل کرنے کی ممانعت کردی‘ تاہم راقم کی راے میں‘ اب یہ رباعی ارمغانِ حجاز میں شامل کرلینی چاہیے۔
اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اقتدار سنبھالنے والی فوجی حکومت نے، پاکستان کے تعلیمینظام، نصاب اور نظامِ امتحان کی جڑوں کوبنیاد سے ہلا دیا ہے اور اب اسے فیصلہ کن انداز سے تبدیل کرنے کے لیے نئی قومی تعلیمی پالیسی لانے کی تیاری کی جاری ہے۔ جس کا اظہار وفاقی وزارت تعلیم کے وائٹ پیپر (قرطاس ابیض) سے ہوتا ہے۔
تعلیمی پالیسی کے اس مسودے میں کہیں کہیں چلتے چلاتے اسلام کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن شعوری طور پراس سے اجتناب برتا گیا ہے اور پالیسی کی اساس کو بنیادی طور پر لادین بنایا گیا ہے۔
بعض مقامات پر زور دار انداز میں خود احتسابی پر مبنی جملے لکھے گئے ہیںجن میں درد کا احساس پایا جاتا ہے۔ مگر اس طرح بڑے فنی انداز سے پورے قومی نظام تعلیم کو ناقص، ناقابل اعتماد اور ایک بے مقصد تماشا ثابت کرنا دکھائی دیتا ہے۔ وزیرتعلیم بلاتکلف اسے بھوٹان سے بھی بدتر قرار دے رہے ہیں (چار سال کی ’تعمیری پالیسیوں‘ کے باوجود بھی)۔ اس تاثر کے بعد پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام کو ایک بے مصرف ڈھانچا قرار دے کر تلپٹ کر دینا آسان اور جائز بھی ہو جاتا ہے۔ آیندہ صفحات میں ایسی تجاویز کی نشان دہی کی جا رہی ہے، جو پالیسی سازوں کا اصل مقصد ہیں اور جن پر عمل کا زیادہ امکان اور یقین ہے‘ جب کہ بعض مفید تجاویز درج تو ہوگئی ہیں لیکن تشنہ تعمیل ہی رہیں گی۔
قرطاس ابیض کے اختتام پر پاکستان کی گذشتہ ۹ تعلیمی پالیسیوں (۱۹۴۷، ۱۹۵۱، ۱۹۵۹، ۱۹۶۶، ۱۹۷۰، ۱۹۷۲، ۱۹۷۹، ۱۹۹۲، ۱۹۹۸) کا ایک تقابلی چارٹ(ص ۶۷-۷۴- ۷۷- ۸۶) پیش کیا گیا ہے۔ واضح ہوتا ہے کہ مقاصدِ تعلیم کے حوالے سے ان تمام گذشتہ پالیسیوں میں اسلام ایک غالب مثالی نمونے کے طور پر موجود رہا ہے، جب کہ پالیسی دستاویزمیں پاکستان کے اساسی نظریے، اسلام کو نظر انداز ہی نہیں کیا گیا بلکہ نام لیے بغیر بے دلیل عقیدہ اور ماضی پرستانہ یا دایام (nostalgia) قرار دے کر مسترد کیا گیا ہے اور بے وزن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے(ص۲)۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ [تعلیمی] پالیسیاں غیرحقیقت پسند انہ اور ترقی کی دشمن تھیں‘‘ (ایضاً، ص۲)۔ ایسا فتویٰ دینے والوں کے نزدیک: صدر جنرل ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف تک سبھی حکومتیں کور فہم یا ترقی دشمن تعلیمی پالیسیوں کی خالق تھیں۔
نصاب تعلیم:رپورٹ میںنصابات اور درسی کتب کے تحت یہ کہا گیا ہے: ’’مرکزی ریاستی کنٹرول نے نصابی تشکیل اور درسی کتب کی تیاری کے عمل کو جمود کا شکار کر دیا ہے (ایضاً، ص۱۸)‘ ان کتابوں کا معیار سخت خراب ہے‘ یہ بے روح ہیں‘ منتشر خیالی سے لبالب ہیں اور طباعت کی غلطیوں سے بھرپور ہیں‘‘(ایضاً، ص۱۷)۔ پھر یہ بھی اطلاع دی ہے کہ:’’ہم نے گذشتہ برس نصاب کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا تھا(ایضاً، ص۱۶)‘ اور یہ دیکھا کہ: نجی شعبے کی کتب دل چسپ اور مجموعی طور پر اچھی لکھی ہوئی ہیں‘ جن میں سے بیش تر سنگاپور کی چھپی ہوئی ہیں‘‘۔(ایضاً، ص۱۷)
اوپر بیان کردہ کہانی ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ وفاقی وزیرتعلیم جنرل جاوید قاضی نے صوبوں کی راے کو نظرانداز کرتے ہوئے صوبائی درسی بورڈوں اور مرکزی ادارہ نصابیات کو ’خاموش رہو اور انتظار کرو‘کی تصویر بنا کر، براہ راست درسی کتابوں کی تیاری کے لیے جرمن این جی او GTZ‘ اور اسی طرح کے دوسرے منظور نظر عناصر کا بالواسطہ تعاون لیا‘ جن کی شائع کردہ کتب واقعتا توجہ طلب ہیں، مگر اس کی ذمہ داری درسی بورڈوں پر نہیں آتی۔ اس ’انقلابی حرکت‘ کا ایک ابتدائی فائدہ یہ ضرور ہوا کہ سرکاری درسی کتب کو اور زیادہ برا کہنے کا جواز مل گیا۔
جنرل مشرف یہی چاہتے ہیں کہ درسی کتابوں کی تیاری کا کام کھلی مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے جس کو وہ ڈی ریگولیشن کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کتاب چاہے پڑھائی جائے‘ جو ادارہ چاہے درسی کتاب شائع کرے اور جس قیمت پر چاہے فروخت کرے مگر ریاست کا درسی کتاب سے نہ کوئی تعلق ہو اور نہ اشاعت و فراہمی کی کوئی ذمہ داری۔ یہی خواہش ایس ڈی پی آئی جیسی این جی اوز کی ہے، جنھیں: راجا داہر سے محبت اور محمد بن قاسم سے نفرت ہے اور جن کے نزدیک دو قومی نظریہ نفرت کی علامت ہے اور عزیز بھٹی شہید کے تذکرے سے سارک ممالک کا امن ڈانواں ڈول ہو جاتاہے۔
عقل و دانش اور انصاف کا تقاضا ہے کہ پہلے سے قائم قومی نصابی ادارے ہی مسلسل، مربوط اور مؤثر انداز سے اپنا فرض ادا کریںاور وہی پاکستان کے تہذیبی تقاضوں اورقومی ترقی کے مطلوبہ اہداف کا ادراک کرتے ہوئے یہ فریضہ انجام دیں۔ پھر انھی اداروں کا تشکیل کردہ نصاب اور درسی لوازمہ پورے پاکستان کے تمام تعلیمی اداروںمیں پڑھایا جائے (اس چیز کو ’یکساں نصاب تعلیم‘ کہتے ہیں)، تاکہ نصاب ، درس وتدریس اور علمی لیاقت کی پیمایش کا کم از کم پیمانہ ایک ہو۔
تعلیم و تدریس ایک ہمہ وقت ذمہ داری ہے‘ لیکن اساتذہ کو عارضی مدت کے معاہدے (contract) پر ملازمت دینے کا اصول نافذ کرکے رہی سہی کسر نکال دی گئی ہے۔ اس غیردانش مندانہ عمل کانتیجہ یہ ہے کہ استاد نے توہین آمیز شرائط پر ملازمت تو لے لی‘ مگر ساتھ ہی کسی بہتر ، متبادل یا مستقل ملازمت کے لیے دیکھنا شروع کر دیا۔ ممکن ہے کہ اس سے چند کروڑ روپے بچ گئے ہوں‘ مگر ان غیرمطمئن اساتذہ سے پڑھنے والے طلبہ کے مستقبل کی قیمت کا کسی نام نہاد جدیدیت پسند کو کوئی اندازہ نہیںہے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا نقشہ حکومت پاکستان کی پہلی جامع نمبر شماری کے مطابق یہ ہے :’’۵۳ ہزار۴سو ۸۱ اسکولوں کے گرد چار دیواری نہیں ہے‘ ۴۶ہزار۷سو۶۶ سرکاری اسکولوں میں پینے کے پانی کا بندوبست تک نہیں‘ ۵۷ہزار۲سو۱۶ اسکولوں میں بیت الخلا کا وجود نہیں ہے‘ ۸۱ہزار ۶سو ۳۳ اسکولوں میں بجلی کا کنکشن نہیں ہے‘ جب کہ ۹ہزار۷سو ۷۶ اسکولوں کی کوئی عمارت تک نہیں (نیشنل ایجوکیشن سینسس پاکستان‘ اسلام آباد دسمبر۲۰۰۶ء‘ ص ۲۷)۔ ایک طرف عالم یہ ہے اور دوسری جانب نئے نئے منصوبوں پر قوم کا قیمتی زرمبادلہ پھونکا جا رہا ہے۔ پہلے ’نئی روشنی‘ اور پھر ’پڑھا لکھا پنجاب‘ جیسے منصوبوں میں کتنا سرمایہ واقعی تعلیمی اداروں کی بہتری پر خرچ ہوا‘ اور کتنا محض تنخواہوں اور انگریزی اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بے مغز تشہیری مہم کی آگ میں جھونکا گیا؟ اس کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ اس پس منظر میں ’ابتداے بچپن کی تعلیم‘ کے ۴۲ہزار ۵ سو مراکز کے منصوبے پر بے پناہ اخراجات ہوں گے۔ اس کے لیے: ’’الگ بجٹ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے‘‘(ص ۳۵)۔
پاکستان کی سول اور ملٹری نوکر شاہی کی انگریزی سے مرعوبیت ختم ہونے میں نہیں آئی۔ اس مراعات یافتہ طبقے نے اردو کو ہمیشہ صوبائی زبانوں سے لڑا کر انگریزی کا راستہ صاف کیا ہے۔اسی لیے پالیسی دستاویز میں مذاق اڑاتے ہو ئے کہا گیا ہے : ’’زبان اور ذریعہ تعلیم کے مسئلے کو پاکستان میںسیاسی اور مذہبی حوالے سے لیا گیا ہے۔ یہاں کچھ علاقوں میں یقینا اردو ایک سامراجی زبان(imperialist language) سمجھی جاتی ہے‘جب کہ انگریزی ترقی اور عمل کا ذریعہ ہے‘‘ (ص۳۱)۔ اس کے ساتھ ہی یہ سفارش کی گئی ہے : ’’پانچویں تک ذریعہ تعلیم کا مسئلہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا جائے، پہلے تین سال کی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے… پنجابی اور بلوچی زبان کو کبھی ذریعہ تعلیم بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لیے اس سمت میں کام کیا جانا چاہیے کہ ان زبانوں میں درسی کتب تیار ہوں… اور۲۰۰۸ء تک جماعت سوم میں انگریزی زبان کی تعلیم لازمی کر دی جائے‘‘ (ص۳۱-۳۲)۔یہ بات بھی ’انکشاف‘کا درجہ رکھتی ہے کہ ’’پاکستان میں اردو کے خلاف فضا پائی جاتی ہے‘‘ اور یہ بھی ایک ’دریافت‘ ہے کہ پاکستان میں ذریعہ تعلیم کا مسئلہ ’مذہبی ہوّا‘ بنا ہوا ہے۔
صوبائی زبانوں کی اشاعت و ترویج ضروری ہے، لیکن محض روا روی میں یہ کہنا کہ مادری یا صوبائی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنا دیا جائے، کوئی سنجیدہ بات نہیں معلوم ہوتی۔ امرواقعہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں کوئی بھی پنجابی کو باقاعدہ ذریعہ تعلیم بنانے میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ صوبہ سرحد کے غیرپشتون علاقوں میں چترالی، بلتی، پوٹھوہاری، سرائیکی وغیرہ کے وسیع لسانی پس منظرکے تحت صوبہ سرحد کی حکومت پشتو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔پھر صوبہ بلوچستان کو دیکھیں جہاں بلوچی کے علاوہ سندھی، پشتو ، سرائیکی، بروہی بولنے والی بڑی آبادیاں موجود ہیں۔ ان سب کے لیے بلوچی زبان کو بطورذریعہ تعلیم قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے ۱۹۷۲ میں نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچ پشتون قوم پرست حکومت نے بھی صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں اردو ہی کو بطور سرکاری زبان اور بطور ذریعہ تعلیم اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ محض پرائمری کلاسوں میں انگریزی لازمی کر دینے سے انگریزی نہیں آجائے گی۔ حکومت آج تک میٹرک، ایف اے، بی اے کی سطح پر طالب علموں کو کم از کم معیار کی انگریزی پڑھانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ وہ اس کے لیے مناسب تعداد میں اساتذہ‘ موزوں ماحول، لازمی تربیت اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایسی صورت میں وہ اسکول جہاں ریاضی اور دوسرے لازمی مضامین پڑھانے کے استاد تک میسر نہیں ہیں‘ وہاں اس قدر بڑے پیمانے پر کس قیمت پر اور کس طرح انگریزی کی تدریس ممکن ہو گی؟ خدشہ ہے کہ دستاویز میں پیش کردہ ’تعلیمی منصوبہ بندی‘پرائمری ہی سے تعلیمی عمل برباد کرنے کے سوا کچھ اور نہ کرپائے گی۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۹۰۸ء سے ۱۹۳۸ء کے دوران سالانہ اجلاسوں میں ۹ قراردادیں اردو کی بھرپور حمایت کے لیے منظور کیں۔ قائداعظم نے ۱۹۴۱ء، ۱۹۴۲ء، ۱۹۴۶ء میں اردو کو مسلمانان ہند کی قومی زبان، جب کہ ۱۹۴۸ء میں چار بار اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی ایک اہم بنیاد اردوتھی‘ مگر اسی بنیاد کو متنازع بنانے میں نوکر شاہی آج تک کامیاب رہی ہے۔ ۱۹۷۳ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں متعین کیا گیا کہ ۱۵سال کے اندر اردو کو انگریزی کی جگہ ملک کی سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر دیا جائے گا اور یہ مدت ۱۴ اگست ۱۹۸۸ء تک تھی۔ دستور پاکستان میں یہ وعدہ آج بھی قائم ہے لیکن اب کہاں پر اردو کے خلاف آگ بھڑکائی جائے، اسے مقتدر طبقہ ہی خوب جانتا ہو گا، جو برعظیم میں مسلمانوں کے اتحاد کی علامت اردو کو گرانے کے لیے صوبائی زبانوں کا نعرہ لگاتا اور انگریزی کا راستہ ہموار کرتا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت کے خاتمے تک (۸۸-۱۹۴۷ء)‘ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم پر امیر اور مراعات یافتہ طبقوں کی وہ یک طرفہ اور ظالمانہ اجارہ داری نہیں پائی جاتی تھی‘ جس کا دور دورہ آج دیکھا جا رہا ہے۔ زیادتی پر مبنی اس نظام کی نہ صرف ریاست کی پوری مشینری سر پرستی کر رہی ہے‘ بلکہ اس تعلیمی قرطاس ابیض میں بھی اس تضاد کو مزیدگہر ا کرکے تقویت دی گئی۔
آج سرکاری یونی ورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی فیسیں، مخصوص پس منظر کے داخلہ ٹیسٹ، سیلف فنانس اور سیلف سپورٹ کے نام پر ایک ہی چھت کے نیچے دو تین رنگوں کا تعلیمی و تدریسی ماحول، کسی درس گاہ سے زیادہ تعلیمی ڈپارٹمنٹل اسٹور کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو نجی شعبے کے ڈگری دینے والے بیش تر ادارے کسی اخلاق اور معیار سے بالا تر رہ کر بدنام زمانہ فنانس کارپوریشنوں جیسی لوٹ کھسوٹ کا منظر پیش کرتے اور بچوں کے مستقبل سے کھیلتے نظرآتے ہیں۔ افسوس کہ یہ دستاویز ظلم و زیادتی کے اس کھیل پر بالکل خاموش ہے۔
یہ بات اہل وطن کے علم میںرہنی چاہیے، کہ وفاقی وزیر تعلیم جنرل جاوید قاضی نے ۲۹ نومبر ۲۰۰۶ء کو امریکا میں جس مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ: ’’امریکا نے پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کے لیے ۲۰۰۲ء سے اب تک ۲۰ کروڑ ڈالر دیے ہیں، لیکن اب ان میں مزید ۱۰ کروڑ ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔ اور رقم کو خرچ کرنے کے لیے من جملہ دوسری چیزوں کے ’سرکاری اور نجی شراکت داری‘ کے لیے بھی روابط جاری رکھے جائیں گے‘‘ (دوماہی خبر ونظر، سفارت خانہ امریکا، اسلام آباددسمبر ۲۰۰۶ء، ص۷)۔ امریکی حکومت، حکومت پاکستان سے معاہدہ کرتے ہوئے نجی شراکت کے لیے فنڈ خرچ کرنے کا اختیار حاصل کر رہی ہے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لفظ ’نجی‘ کہاں سے آ گیا‘ جب کہ یہ معاہدہ دو حکومتوں کے درمیان طے پا رہا ہے‘ نہ کہ نجی شعبوں کے درمیان۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ امریکی حکومت اپنے جس اعلامیے کو اسٹرے ٹیجک معاہدہ قرار دے رہی ہے، اس کے تحت وہ ان رقوم کو مختلف منظور نظر مقامی یا عالمی این جی اوز یا مشنریوں کے ذریعے استعمال کر سکتی ہے۔ یوں امریکیوں کی اس پر اکسی (proxy) خرید و فروخت کو ریاستی پروٹوکول کے تحت، پاکستان میں تعلیمی اداروں اور ان کی زمینوں کو طویل مدتی پٹے پر خریدنے اور من مانے نصاب پڑھانے یا انتظام و انصرام چلانے کا لائسنس مل جائے گا۔ اب سے ایک سو برس قبل سرزمین فلسطین پر یہودیوں نے اسی طرح رفتہ رفتہ املاک خرید کر اسرائیل کی ناجائز ریاست بنائی تھی‘ جب کہ عیسائی مشنری تعلیمی ادارے آج بھی پاکستان میں، ریاست در ریاست کا عکس پیش کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان مشنری تعلیمی اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے طاقت ور لوگ اگرچہ عیسائی نہیں بنے، مگر ان میں سے ایک قابل ذکر تعداد کے لیے، اسلام سے وابستگی شرمندگی کا باعث ضرور بنتی ہے، جس کے لیے وہ ’روشن خیالی‘ کے خود ساختہ مذہب میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
یہاں پرایک اور توجہ کے قابل یہ خبرہے کہ، وفاقی وزیر تعلیم جنرل جاویدقاضی نے اخبار نویسوں کو بتایا: ’’صوبہ سرحد کی حکومت نے نویں جماعت کی اردو کی کتاب میں اسلامی تاریخ کے مزید مضامین‘ جب کہ اسلامیات کی کتاب میں مزید آیات اور احادیث کو اردو ترجمے کے ساتھ شامل کرنے کے مطالبات کیے تھے۔ ہم نے مزید دینی مواد شامل کرنے کے یہ مطالبے تسلیم کر لیے ہیں‘ لیکن نصاب میں یہ تبدیلیاں صرف صوبہ سرحد میں نافذ العمل ہوں گی‘‘ (نواے وقت، لاہور ۷فروری۲۰۰۷ء)۔ اس خبر کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ایسا صرف سرحد میں ہو سکتا ہے، غالباً باقی پاکستان کے تین صوبوں کو اسلامی تاریخ یا دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔یہ متضاد فیصلے کون سی ’روشن خیالی‘ ہے؟
وزارتِ تعلیم نے مارچ ۲۰۰۷ء کے وسط میں قرطاس ابیض کا نظرثانی شدہ مسودہ شائع کیا ہے۔ اسے دسمبر ۲۰۰۶ء کے وائٹ پیپر سے ملا کر دیکھیں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی بلکہ قابلِ اعتراض حوالوں کو مزید زور سے بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ تعلیمی پالیسی تو آئے گی‘ مگر ان میں سے اکثر چیزوں پر حکومت پہلے سے عمل کر رہی ہے۔
اس مختصر جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قومی تعلیمی پالیسی، مغربی مراکز دانش (think tanks) کی طرف سے وقتاً فوقتاً دیے جانے والے احکامات کو عملی جامہ پہنانے کی ایک عاجلانہ اور غیر دانش مندانہ کوشش ہے۔ یہ قرطاس ابیض قومی نظام تعلیم اور بالخصوص قومی تعلیمی اداروں میں تازگی، فعالیت اور معنویت لانے کے باب میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا‘ بگاڑ ضرور پیدا کرے گا۔
تاحال پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘ بالخصوص صوبہ پنجاب کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہی ہے۔ حتیٰ کہ اس میں قائم اور جاری صنعتی اداروں کی بنیاد بھی اکثر زرعی خام مال ہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ تمام شعبہ ہاے زندگی جو بنکاری سے منسلک ہیں‘ سود کی بنیاد پر متحرک ہیں۔ مرکزی حکومت اور اس کے زیرانتظام مرکزی بنک (اسٹیٹ بنک) نے گذشتہ تین برس سے اسلامی بنکاری کی طرف مثبت پیش رفت کی ہے۔ اگرچہ پنجاب میںاس کی رفتار غیرمحسوس سی ہے۔ اگر پنجاب کے مالیاتی ادارے اور حکومت پنجاب اس میدان میں سرگرمی کا مظاہرہ کریں تو اس غیرشرعی عامل سے جس نے صوبے کی معیشت کے ہر پہلو کو گھیرے میں لے رکھا ہے، ایک مربوط اور منضبط طریق کار کے تحت نجات حاصل ہوجائے گی۔ موجودہ پارلیمان اس حالت میں ہے کہ کم از کم وہ صوبائی سطح پر اسلامی قانون سازی کرکے وہ کام انجام دے سکتی ہے جو اللہ اور رسولؐ کا فرمان ہے۔ اس ضمن میں کسی نئے مفرد یا مرکب (پروڈکٹ) کی ضرورت نہیں‘ بلکہ رسالت مآبؐ کے حکم ’بیع سلم‘ کے تحت پیش رفت ہوسکتی ہے، جس کے لیے کسی فتوے یا مشیرشرعی کا حوالہ ضروری نہیں۔ حکومت کے اپنے دونوں ادارے امداد باہمی کا بنک اور پنجاب بنک پرچم بردار کے طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں اور یوں جناب وزیراعلیٰ اور ان کی حکومت دنیا و آخرت میں اپنی سرخ روئی کا سامان کر سکتے ہیں۔
’فصل کی پیشگی فروخت‘ تاکہ کاشت کار جسے فصل اُگانے کے لیے رقم کی ضرورت ہے (اور فصل کی برداشت کے دوران خاندان کی کفالت بھی کرتا ہے)‘ اس بیع سے رقم حاصل کرسکے۔
واضح رہے کہ بیع سلم صرف فصل کے لیے ہے‘ کسی اور مقصد کے لیے نہیں۔
۲- فصل کی مقدار کی کُل قیمت پیشگی ادا کی جائے گی۔
۳- کوئی اور تفصیل جو معاہدے کی پُرامن تکمیل میں معاون ہو۔
۲- تاجر حضرات اپنے کاروبار کو جاری اور اس میں وسعت پیدا کرسکتے ہیں۔
۳- بالعموم فصل کا دورانیہ مختصر ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سہولت کو زرعی اجناس کی عالم گیر تجارت تک پھیلایا جاسکتا ہے۔
۴- فصل پر اسلامی محصولات کی بروقت اور درست ادایگی و وصولی ممکن ہوگی۔
۱- یہ بیع حضوؐر کی اُمت کو عطاہوئی اور ’اللہ کی حلال بیع‘ میں شامل ہے۔
۲- اس سے ’ربا کے حرام کام‘ کو ترک کیا جا سکتا ہے۔
۳- دیگر اُمتوں کے پاس اس ’بیع‘ کی موجودگی کا ذکر کتب میں نہیں ملتا۔
۴- یہ طریق بیع ازخود باعث تبلیغ بھی ہوگا۔
۵- اس بیع میں مال کی فراہمی مستقبل میں ہے کیوں کہ پیداوار اللہ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا اسے انسانی عقل سے پابند یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
۶- اس کے محدود اختلافات بھی بنکاری کی عدالتوں سے باہر منڈی کے افہام و تفہیم کے ماحول میں طے ہوسکتے ہیں جس کے لیے قانون میں پہلے ہی گنجایش موجود ہے۔ اس طرح تجارتی معاملات میں عدالتی پیچیدگیوں سے نجات مل جائے گی۔
۷- سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی رحمت اور رسولؐ کی شفاعت کی امید کی جاسکے گی۔
۸- یہ تجارتی معاملہ ہے۔ اس کا اندراج کتابوں میں قرض کے تحت نہیں ہوگا بلکہ خرید و فروخت کے حساب کتاب کے تحت ہوگا۔
۱- اسلامی دنیا کے تجارتی شعبے کو اپنی بنکاری کے دائرے میں محفوظ رکھنا (صنعتی بھی)۔
۲- اسلامی ممالک میں اپنی بنکاری کو توسیع دے کر ان کے اندرونی کاروبار پر قبضہ رکھنا۔
۳- اپنی زیادہ تعداد‘ بنکاری کی مہارت اور تکنیکی برتری کی بنا پر عالم گیریت کو اپنے حق میں اور انتظام میں رکھنا۔
۴- اسلامی ممالک کے بنکوں (جب بھی صحیح اسلامی بنکاری اختیارکریں) اور اداروں کے لیے مسابقت کی گنجایش نہ چھوڑنا۔
۵- عالم گیریت کے دور کے قوانین کے تحت مرکزی بنکوں اور حکومتوں کے متعلقہ شعبوں کو زیراثر رکھنا اور عالمی اداروں میں برتری برقرار رکھنا۔
۶- اسلامی بنکاری کے عالمی اداروں میں (جب بھی وجود میں آئیں) اپنا کنٹرول رکھنا۔
۷- ایسے عوامل جو مستقبل میں ظاہر ہوں گے۔
دوسری بات جو سامنے آئی ہے انھوں نے ہمارے فقہا کے طریق کار بیع مرابحہ کو بیع کے بجاے بنکاری کے نظامِ قرض کے تحت اپنایا ہے۔ اس میں شماریات کا نظام وہی رہتا ہے جو مروجہ بنکاری میں ہے۔ لہٰذا وہ اسی طریق کو آگے بڑھا کر عالمی نظام پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ زراعت ہر ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر موجودہ حالات میں (بالخصوص پاکستان) تجارت اور صنعت کی طرح بنکاری یا اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے حاوی ہونا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیع سلم عالمی اسلامی بنکاری میں مقبول نہیں ہوسکی۔
آخری بات یہ کہ بیع میں مفرد (پراڈکٹ) شامل کر کے فنانسنگ کا طریق کار اس بیع کا متبادل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس کامفرد مستقبل میں رضاے الٰہی سے وجود اختیار کرے گا۔ اس طرح اس کی اصلیت اور پاکیزگی کے برقرار رہنے کابندوبست اللہ کی طرف سے ہے،اوریہی اس کی مقبولیت عامہ کا باعث ہوگا۔ ان شاء اللہ!
۱- بیع کے لیے تجارتی کھاتے شروع کر کے نئے شعبے قائم کرنا ہوں گے۔
۲- پیشگی ادایگی کے نظام کو متفرق ادایگیوں کے تحت ترتیب دے کر (suspense account)
۳- ذیلی تجارتی ادارے قائم کر کے یہ نئے ادارے چونکہ افراد کی موجودگی سے چلیں گے اور مشین ان کا بدل نہیں بن سکتی‘ ملازمت کے غیرمحدود مواقع پیدا ہوں گے۔
ترجمہ: ریاض محمود انجم
افغانستان میں گرفتار ہونے سے قبل ‘ میں نقاب لینے والی عورتوں کو نہایت ہی کمزور‘ مظلوم اور ستم رسیدہ مخلوق سمجھتی تھی۔امریکا پر دہشت گردانہ حملے کے صرف ۱۵ روز بعد‘ ستمبر ۲۰۰۱ء میں‘ مَیں افغانستان میں اس حلیے میں داخل ہوئی کہ میں سرتاپا نیلے رنگ کے برقعے میں ملبوس تھی اور افغانستان میں موجود حکومتی جبروظلم کے دور میں گزرتی زندگی کے متعلق‘ اخبار کے لیے ایک مضمون لکھنا چاہتی تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ میرا بھید کھل گیا اور مجھے گرفتار کر کے نظربند کردیا گیا۔
میں جن لوگوں کی قید میں تھی‘ ۱۰ دن تک ان پر برہم ہوتی رہی اور انھیں برا بھلا کہتی رہی۔ وہ مجھے ’بری‘ عورت کہتے تھے۔ انھوں نے مجھے اس شرط اور وعدے پر رہا کردیا کہ میں قرآن پڑھوں گی اور دین اسلام کا مطالعہ کروں گی (صحیح بات یہ ہے کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ رہا کرتے وقت کون زیادہ خوش تھا؟ وہ یا میں)۔
لندن‘ واپس اپنے گھر پہنچ کر دین اسلام کے مطالعے کے متعلق میں نے ان سے کیا ہوا اپنا وعدہ نبھایا‘ اور جو کچھ مجھے معلوم ہوا ‘ اس نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ میں قرآن میں ان موضوعات پر ابواب کی توقع کر رہی تھی کہ اپنی بیوی کی کس طرح پٹائی کی جاتی ہے اور کیسے اپنی بیٹیوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے بجاے قرآن کی آیات کے مطالعے کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ دین اسلام نے عورت کے حقوق اور احترام پر زور دیا ہے۔ اپنی گرفتاری کے اڑھائی برس بعد ‘ میں نے اسلام قبول کیا تو کچھ دوست اور عزیز حیران اور مایوس ہوئے اور کچھ نے حوصلہ افزائی کی۔
برطانیہ کے سابق سیکرٹری خارجہ جیک سٹرا کا یہ تبصرہ نہایت افسوس ناک ہے کہ مسلمان عورتوں کی طرف سے پہنے جانے والا نقاب باہمی تعلقات کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ وزیراعظم ٹونی بلیر‘ سلمان رشدی اور اطالوی وزیراعظم رومانو پروڈی نے بھی جیک سٹرا کی حمایت میں بیانات دے دیے۔
اب‘ جب کہ مجھے بغیر نقاب اور مع نقاب‘ دونوں صورت احوال کا تجربہ ہے‘ میں آپ کو یہ بتاسکتی ہوں کہ جو مغربی مرد سیاست دان اور صحافی‘ اسلامی معاشرے میں نقاب والی عورت پر جبر کے متعلق افسوس کا اظہار کرتے ہیں‘ انھیں یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کس چیزکے متعلق بات کر رہے ہیں۔ وہ نقاب‘ بچپن کی شادی‘ عورتوں کے ختنے‘ غیرت کے نام پر قتل اور زبردستی کی شادی کے متعلق‘ جو منہ میں آئے کہے جاتے ہیں اور وہ دین اسلام کو نہایت غلط طور پر ان سب امور کا قصوروار ٹھیراتے ہیں۔ ان کی رعونت پر مستزاد ان کی بے خبری ہے۔
ان تہذیبی مسائل اور رسم و رواج کا دین اسلام کے ساتھ قطعی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر قرآن مجید کا مطالعہ سمجھ بوجھ کرکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مغربی دنیا میںآزادیِ نسواں کے حامیوں نے ۷۰ ۱۹ء کے عشرے میں جس مقصد کے لیے جدوجہد کی‘ وہی چیز مسلمان عورتوں کو ۱۴۰۰برس قبل عطا کردی گئی تھی۔ اسلام میں دینی اور روحانی لحاظ سے عورتیں مردوںکے برابر ہیں‘ مردوں کی طرح علم کا حصول ان کے لیے بھی فرض کی حیثیت رکھتا ہے اور عورت کی اہمیت مرد سے کسی طور کم نہیں ہے۔ بچے کی پیدایش اور بچے کی پرورش میں مہارت‘ مسلمان عورت کی مثبت خوبی گردانی جاتی ہے۔
اب‘ جب کہ اسلام نے عورت کو بے شمار حقوق عطا کیے ہوئے ہیں تو پھر مغربی مرد‘ مسلمان عورتوں کے لباس کے بارے کیوں متفکر ہیں؟ اسی پر اکتفا نہیں‘ بلکہ برطانوی حکومت کے وزرا گورڈن برائون اور جان ریڈ نے نقاب کے متعلق حقارت آمیز تبصرہ کیا ہے‘ جب کہ ان کا اپنا تعلق سرحد پار اسکاٹ لینڈ سے ہے‘ جہاں مرد اسکرٹ پہنتے ہیں۔
جب میں مسلمان ہوگئی اور سر پر اسکارف پہننا شروع کیا تو مجھے بہت زیادہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے اپنا سر اور اپنے بال ہی ڈھانپنے تھے لیکن اس کے باعث میں فوراً ہی دوسرے درجے کے شہری کی سی ہوگئی۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے کسی اسلام دشمن سے کچھ سننا پڑے گا۔ لیکن مجھے یہ توقع نہ تھی کہ اجنبیوں کی طرف سے بھی کھلے عام مخالفت کا اظہار ہوگا۔ رات کے وقت for hire کے روشن الفاظ کے ساتھ ٹیکسیاں میرے آس پاس سے گزر رہی تھیں۔ میرے سامنے رکنے والی ایک ٹیکسی میں سے ایک سفیدفام مسافر اترا‘ میں آگے بڑھی تو ڈرائیور نے گھور کر دیکھا اور گاڑی بھگاکر لے گیا۔ دوسرے ڈرائیور نے کہا کہ عقبی نشست پر بم رکھ کے نہ جانا اور مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ اسامہ بن لادن کہاں چھپا ہوا ہے؟
یہ درست ہے کہ مسلمان عورت سے اس کے مذہب کا تقاضا ہے کہ اپنے لیے مناسب لباس استعمال کرے لیکن جن مسلمان عورتوں کو میں جانتی ہوں ان کی اکثریت حجاب پہننا پسند کرتی ہے جس سے چہرہ کھلا نظر آتا ہے‘ جب کہ کچھ مسلمان خواتین نقاب کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ میرا ذاتی طریقہ اظہار ہے۔ میرے لباس سے آپ کو یہ معلوم ہوجاتاہے کہ میں مسلمان ہوں اور میں خود کو عزت واحترام پر مبنی سلوک کی مستحق سمجھتی ہوں‘ جس طرح بنک کا ایک افسر بزنس سوٹ پہن کر یہ اظہار کرتا ہے کہ اسے ایک ایگزیکٹو سمجھا جانا چاہیے۔ خاص طور پر مردوں کا عورتوں کی طرف نامناسب اور ہوس بھری نظروں سے گھورنا میری جیسی نومسلم خواتین کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
میں برسوں تک مغرب میں خواتین کی آزادی کی علَم بردار رہی لیکن اب مجھ پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسلامی معاشرے میں آزادیِ نسواں کے حامی‘ اپنے سیکولر ساتھیوں کی نسبت زیادہ انقلابی ہیں۔ ہمیں ’مقابلہ ہاے حُسن‘ سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں اس وقت اپنی ہنسی روکنا پڑی جب ۲۰۰۳ء میں ’حسینۂ عالم‘ کے مقابلے کے موقع پر مختصرلباس میں ملبوس حسینۂ افغانستان ویدہ سمادزئی کو آزادیِ نسواں کی طرف ایک عظیم الشان قدم قرار دیا گیا۔ سمادزئی کو ’حقوقِ نسواں کی فتح کی علامت‘ کے طور پر ایک مخصوص انعام بھی پیش کیا گیا۔
آزادیِ نسواں کی حامی کچھ نوجوان خواتین حجاب اور نقاب کو سیاسی علامت بھی سمجھتی ہیں جس کے ذریعے مغربی تہذیب کی لعنتوں: بے تحاشا شراب نوشی‘ آزادانہ جنسی تعلقات اور نشہ آور ادویات کے استعمال کو مسترد کیا جاتا ہے۔ آزادیِ نسواں کا اظہار کس بات سے ہوتا ہے؟ اسکرٹ کی لمبائی اور چھاتی کے مصنوعی اُبھار یا کردار اور ذہانت سے۔ اسلام میں عزت کا معیار حسن‘ دولت‘ طاقت‘ عہدہ یا جنس نہیں‘ بلکہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ میں اٹلی کے وزیراعظم پروڈی کے اس طرزِعمل پر روؤں یا ہنسوں جس کے تحت انھوں نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ نقاب کو استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے باہمی میل جول زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ کیا واہیات بات ہے۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر موبائل فون‘ ای میل اور فیکس کے استعمال کا کیا جواز ہے؟ اور پھر جب ریڈیو پر سامع کو بولنے والے کا چہرہ نظر نہیں آتا تو وہ ریڈیوبند تو نہیں کردیتا!
اسلام نے مجھے عزت دی ہے۔ میرے دین نے مجھے تعلیم حاصل کرنے کا حق بخشاہے اور میں شادی شدہ ہوں یا کنواری‘ تحصیلِ علم میرے لیے فرض قراردیاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں کو لازمی طور پر اپنے شوہروں کے کپڑے دھونے چاہییں‘ گھر کی صفائی کرنی چاہیے اور یا پھر کھانا پکانا چاہیے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مردوں کو اپنی بیویوں کی پٹائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے‘ غلط ہے۔ اسلام کے ناقد قرآن مجید کی اِکا دکا آیات اور احادیث کا حوالہ دیتے ہیں لیکن سیاق و سباق سے کاٹ کر۔اگر کوئی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھائے‘ اس کو اس طرح سے مارنے کی اجازت نہیں جس سے اس کے جسم پر نشان پڑجائیں۔ قرآن کا یہ کہنے کا انداز ہے کہ احمق‘ اپنی بیوی کو مت مارو۔
عورت کے مقام اور اس سے سلوک سے متعلق صرف مسلمان مردوں ہی کا نام نہیں لینا چاہیے۔ حال ہی میں کیے گئے ایک سروے (گھریلو تشدد کا قومی ہاٹ لائن سروے) کے مطابق ۴لاکھ امریکی خواتین ‘ اوسطاً ۱۲ ماہ کی مدت کے دوران اپنے ساتھی مردوں کی طرف سے شدید حملوں اور مارپیٹ کا نشانہ بنتی ہیں اور ہر روز تین سے زائد عورتیں اپنے خاوندوں اور اپنے مرد دوستوں کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتی ہیں۔ ۹ستمبر سے اب تک یہ تعداد تقریباً ۵۵۰۰ تک پہنچ چکی ہے۔
عورتوں پر تشدد کا یہ رجحان ایک عالمی المیہ ہے اور متشدد مردوں کا تعلق کسی خاص مذہب یا تہذیب سے نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق‘ دنیا بھر میں تین میں سے ایک عورت مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہے۔ اس میںمارپیٹ‘ جنسی زیادتی اور ذلت آمیز سلوک‘ سب شامل ہیں۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا مذہب‘ دولت‘ طبقاتی امتیاز‘ نسل اور تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت اور سچ ہے کہ عورتوں کی طرف سے احتجاج کے باوجود مغرب میں مرد خود کو عورتوں سے برتر سمجھتے ہیں۔ وہ کسی شعبے میں بھی ہوں‘ عورتوں سے زیادہ بہتر معاوضہ اور تنخواہ پاتے ہیں اور عورتوں کو ابھی تک ایک جنسی شے سمجھا جاتا ہے جن کی کشش اور اثرآفرینی براہِ راست ان کی ظاہری حالت سے عیاں ہوتی ہے۔
اس طبقے کے لیے‘ جو ابھی تک یہ کوشش کر رہا ہے کہ اسلام کو ایک ایسا دین ثابت کرے جو عورتوں پر ظلم وستم روا رکھتا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں پادری پیٹ رابرٹ سن کی طرف سے دیے گئے ایک بیان کو یاد کریں۔ اس نے ’بااختیار‘ عورت کے بارے اپنے خیالات کا اظہار درج ذیل الفاظ میں کیا: ’’آزادیِ نسواں کی تحریک ایک خاندان مخالف سوشلسٹ سیاسی تحریک ہے جو عورتوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کو چھوڑ کر چلی جائیں‘ اپنے بچوں کو ہلاک کردیں‘ جادوٹونا کریں‘ سرمایہ داری کو تباہ کردیں اور ہم جنس پرست بن جائیں‘‘۔
اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ کون مہذب ہے اور کون غیرمہذب؟
(ترجمہ: How I Come to Love the Veil ، واشنگٹن پوسٹ‘ ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء)
مصر پر طویل عرصے تک فراعنہ حکمران رہے۔ مصر کے ان حکمرانوں کے مظالم تاریخ ہی میں نہیں‘ سابقہ الہامی کتب اور قرآن مجید میں بھی بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ دورِجدید کے مسلمان مصری حکمرانوں نے اس مسلمان ملک کو سرزمینِ فراعنہ اور خود کو ابناے فراعنہ کہنے میں فخر محسوس کیا۔ آج اسی فرعونی دَور کی یادیں مصر میں تازہ کی جارہی ہیں۔ اخوان ایک دفعہ پھر حکمرانوں کے انتقام کا نشانہ ہیں مگر سرزمین مصر بحیثیت مجموعی بھی تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہے۔ اخوان المسلمون‘ عرب دنیا سے اٹھنے والی وہ اسلامی تحریک ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی تربیت کی ہے۔ اخوان نے اسلام کے جامع تصور کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اُجاگر کیا ہے اور معاشرتی‘ سیاسی‘ معاشی اور تعلیمی میدان میں عالمِ عرب کی گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں مصر میں قائم ہونے والی یہ تحریک‘ آج عالمِ عرب ہی نہیں‘ پوری دنیا میں معروف اور ایک حقیقت ہے۔
غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے تمام لوگ ہردور میں ابتلا و آزمایش سے ہمت و استقامت سے گزرتے رہے ہیں مگر دورِ جدید میں اخوان المسلمون نے عزیمت کی جو بے مثال تاریخ رقم کی ہے وہ قرونِ اولیٰ کے عظیم مسلمانوں کی یاد تازہ کردیتی ہے۔ ابتلا و آزمایش کا یہ سلسلہ تحریک کے آغاز سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ آفرین ہے ان جواں ہمت لوگوں کے جذبۂ ایثار و قربانی پر کہ جو مستبد حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجاے راہِ عزیمت پر مسلسل چراغ جلاتے جارہے ہیں۔ حسن البنا‘ عبدالقادر عودہ اور سیدقطب کی شہادت‘ حسن الہضیبی‘ عمرتلمسانی‘ محمد حامد ابوالنصر‘ مصطفی مشہور اور ہزاروں اخوانیوں کی قیدوبند کی ناقابلِ بیان صعوبتیں ان کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ عمرتلمسانی نے کیا خوب فرمایا تھا کہ طاغوت کے مظالم کے سامنے اہلِ حق کا ڈٹ جانا اور جھکنے سے انکار کردینا‘ طاغوت کی شکست اور حق کی فتح ہے‘ اگرچہ اہلِ حق اس جدوجہد میں جان ہی سے کیوں نہ گزر جائیں!
تازہ ترین فرعونی کوڑا‘ جو صرف اخوان ہی پر نہیں‘ بحیثیت مجموعی ملک کی معیشت پر برسایا گیا ہے‘ بہت خطرناک اور دُور رس نتائج کا حامل ہے۔ اخوان المسلمون کے مرکزی رہنما‘ مرشدعام کے نائب دوم‘ انجینیرخیرت الشاطر سمیت ۳۰ کے قریب تجارتی و کاروباری فرموں کے اخوانی مالکان کو نہ صرف گرفتار کرلیا گیا ہے بلکہ ان کے تجارتی اداروں اور ان کے ذاتی و شراکت داروں کے مشترکہ اثاثہ جات کو بھی منجمد کردیا گیاہے۔ ان کاروباری لوگوں کی حالیہ گرفتاری کے علاوہ اخوان کے سیکڑوں سیاسی کارکنان پہلے ہی سے جیلوں میں مقید ہیں۔ ہنگامی قوانین کے ذریعے حکومت مصر نے گذشتہ انتخابات سے قبل اور بعد‘ بہت سے سیاسی مخالفین بالخصوص اخوان سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کو تسلسل کے ساتھ جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے کا مذموم سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کالے قوانین کے خلاف سیاسی جماعتوں کے علاوہ مصر کے وکلا بلکہ ججوں نے بھی شدید احتجاج کیا ہے۔ ججوں کے حکومتی ایما پر فیصلے کرنے سے اجتناب کی وجہ سے حکومت‘ خصوصی اور فوجی عدالتیں قائم کرکے ان لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔
حالیہ گرفتاریوں کے نتیجے میں چونکہ ملک کے معروف تاجر‘ صنعت کار اور سرمایہ کار گرفتار کیے گئے اور ان کے اداروں پر قبضہ کرکے اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں‘ اس لیے مصر سے سرمایہ کار اپنا سرمایہ دھڑا دھڑ بیرونِ ملک بھجوا رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباً ۲۱ارب مصری پائونڈ کا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا جاچکا ہے۔ غیرجانب دار تجارتی حلقے بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ملک کے تمام ایوان ہاے صنعت و تجارت نے اس صورتِ حال کو ملک کی معاشی تباہی اور مصری عوام کے معاشی قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ ثقہ اخباری اطلاعات کے مطابق مصر میں سکیورٹی فورسز نے ۴۵ جاسوسی نیٹ ورک پکڑے ہیں‘ جو صہیونی و صلیبی اداروں نے قائم کررکھے ہیں اور ان کا مقصدمصر کی سالمیت کو تباہ کرنا ہے۔ مگر طُرفہ تماشا ہے کہ ان اداروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجاے اُلٹا اخوان کوہدفِ انتقام بنایا گیا ہے۔
اخوان کے مرشدِ عام جناب محمد مہدی عاکف نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی ہتھکنڈوں کو بوکھلاہٹ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اخلاقی و دینی اصولوں کے مطابق بھی پابندیاں لگانے اور قیدوبند کے مراحل سے گزارنے کا یہ عمل ناپسندیدہ ہے اور ملک کا دستور بھی اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ دستور کو حکمرانوں نے موم کی ناک بنادیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اخوان‘ سیاسی و معاشی کسی سطح پر کوئی غیر قانونی کام نہیں کرتے۔ یہ ساری کارروائی امریکی دبائو کے تحت کی گئی ہے۔ امریکا اخوان کی مقبولیت اور پارلیمنٹ میں ان کے مضبوط گروپ کی وجہ سے اخوان کو خطرہ سمجھتا ہے۔(نیوزویک‘ عربی اڈیشن‘۲۷ فروری ۲۰۰۷ء)
ترکی کے اخبار المساء سے گفتگو کرتے ہوئے مرشدعام نے کہا کہ جن اداروں بالخصوص اخوان کے راہنما حسن مالک کی فرم پر پابندی لگائی گئی ہے‘ وہ اپنی ساکھ اور اپنے شفاف و کامیاب کاروبار کی وجہ سے اتنے مقبول تھے کہ مصر ہی نہیں‘ مصر سے باہر کے سرمایہ کار اور شراکت دار بھی ان میں سرمایہ لگائے ہوئے تھے‘ حتیٰ کے ترکی کی کئی کاروباری کمپنیوں نے بھی مصر کے ان اداروں میں حصص خرید رکھے تھے۔ یہ مصر کی گرتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال اور متزلزل اخلاقی ساکھ کو مزید تباہ کرنے کی حکومتی کوشش ہے‘ جسے کوئی بھی عقلِ سلیم رکھنے والا شخص درست قرار نہیں دے سکتا۔ مرشدعام نے حسنی مبارک اور ان کی حکومت کی غیر قانونی کارروائیوں پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ۱۰ برسوں میں حکومت نے اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۵ ہزار بے گناہ شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سے ۳۰۰ کے قریب لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیںدلوائی گئی ہیں۔
مصر میں اس ظالمانہ اقدام کے خلاف کافی بے چینی اور ردعمل پایا جاتا ہے۔ اخوان کے مجلہ رسالہ الاخوان (شمارہ ۴۹۵‘ مارچ ۲۰۰۷ء) نے مختلف انٹرنیٹ سے حاصل کردہ کچھ نمونے پیش کیے ہیں جن میں گرفتار شدگان کی خدمات اور صلاحیتوں کا تذکرہ ہے اور نہایت مؤثر انداز میں ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف صداے احتجاج بلند کی گئی ہے۔ صحافت پرقدغن کے باوجود اب ایسے وسائل و ذرائع موجود ہیں کہ لوگ ان کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔
روزنامہ ڈان لاہور نے آئی پی ایس نیوز سروس کے حوالے سے ۱۶ فروری ۲۰۰۷ء کو ایک تفصیلی رپورٹ چھاپی ہے جس کے مطابق ۲۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو اخوان سے تعلق رکھنے والے ۲۹معروف صنعت کاروں اور تاجروں کو غیرقانونی طور پر اس وقت گرفتار کرلیا گیا‘ جب کہ ایک دن قبل ان میں سے بعض کو مصر کی ایک عدالت نے سابقہ مقدمات سے رہا کیا تھا۔ حسنی مبارک نے ۱۵جنوری ۲۰۰۷ء کو ایک اعلان کیا‘ جس کے مطابق اخوان کو مصر کی سلامتی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مصری صدر نے اخوان کے دینی تشخص کو خطرے کی علامت قراردیا۔
مصر کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین کے نزدیک ۲۰۰۵ء کے انتخاباتِ عام میں حکومتی جبر اور پابندیوں کے باوجود اخوان نے پارلیمنٹ کی ۲۰ فی صد نشستوں پر جوکامیابی حاصل کی تھی‘ اس نے پوری دنیا کو حیرت اور مصری حکمرانوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ اخوان کی مقبولیت میں ایک بڑا سبب ان کی خدمتِ خلق اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ یہ متمول کاروباری ادارے ان فلاحی خدمات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ پارلیمانی امور کے ذمہ دار اور قانونی امور کے ماہر اخوانی راہنما صبحی صالح نے اس حکومتی اقدام کو امریکا اور اس کے زیراثر مسلمان حکومتوں کی طرف سے اسلام کے خلاف جنگ کا ایک محاذ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حماس کو بھی معاشی لحاظ سے اپاہج کیا گیا‘ اب مصر میں اخوان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔
اخوان کے نائب مرشدعام اوّل ڈاکٹر محمدحبیب نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈے ہمارے خلاف ہمیشہ استعمال کیے جا تے رہے ہیں۔ گذشتہ ۲۵ برسوں سے ملک پر ہنگامی قوانین کی تلوار لٹک رہی ہے اور انھی کو بنیاد بناکر تازہ حملہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مصر کے لیے حکمران طبقہ ہر لحاظ سے خطرہ ہے۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس کی مجوزہ دستوری ترامیم کے خلاف اخوان کی احتجاجی اور سیاسی جدوجہد کا راستہ روکا جائے۔ اسی لیے وہ ہماری معاشی شہ رگ کاٹنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ لیکن ہمارے تمام کام قانون کے دائروں میں ہیں اور ہمارے کاروبار شفاف ہیں۔ ہم پر ہمیشہ اوچھے حملے ہوتے رہے ہیں مگر اللہ نے ہمیں ہر مرتبہ سرخ رو کیا ہے اور ہم مصر کو ایک اسلامی اور جمہوری ملک بنانے کی کوششیں کسی صورت ترک نہیں کرسکتے۔(المجتمع، ۱۷فروری ۲۰۰۷ء)
مرشدعام نے تازہ ترین صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مصر کی سیاست میں تحمل و برداشت کے علَم بردار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کے پروگراموں کے ساتھ صرف اسلام چندپروگرام رکھنے والی قوتوں کو ہی اختلاف نہیں بلکہ تمام لبرل‘ سیکولر اور بائیں بازو کی پارٹیاں بھی اختلاف رکھتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم جس اسلام کی بات کرتے ہیں وہ قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی ہے۔ مذہبی پاپائیت (تھیاکریسی) کا الزام لگانے والے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
مصر کے ججوں کی تنظیم کے صدر جسٹس زکریا عبدالعزیز نے ایک بیان میں حکومت کی دستوری ترامیم پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت دستور کی دفعہ ۸۸ اور ۱۷۳ میں جو ترمیمات کر رہی ہے‘ وہ دراصل مصری عدلیہ کے پَر کاٹنے اور انھیں آزادی سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ مصر کی عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا جو قانونی و دستوری حق حاصل ہے‘ اسے ختم کرکے محض مبصر کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۱۶۵-۱۶۶ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ دفعات عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کا مستقل اختیار دیتی ہیں۔ انھوں نے حکومت کے اس اقدام کو بھی حرفِ تنقید بنایا جس کے مطابق جوڈیشل کونسل کو ختم کرکے ہرسطح کی عدالت کے چیف پر مشتمل ایک نئی کونسل بنائی جارہی ہے جو آزادانہ فیصلے نہیں کرسکے گی۔(المجتمع‘ عدد ۱۷۳۹ )
مصر میں کاروباری اداروں پر لگائی جانے والے حالیہ پابندیوں کو پاکستان کی جانب سے بعض فلاحی تنظیمات پر پابندی اور ان کے اثاثہ جات اور اداروں کو منجمد و مقفل کرنے کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام کے سب حکمران باہر کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔ یہ صورتِ حال کسی خوش حال اور مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ اُمت مسلمہ کو اس اہانت آمیز صورت سے نکلنے کے لیے پُرامن مگر منظم و مسلسل جدوجہدکی ضرورت ہے۔ اخوان کی قیادت نے اسی عزم کا اظہار کیا ہے جو خوش آیند ہے۔
بھارتی پنجاب اور اتر اکھنڈ (ڈیرہ دون)کے فروری ۲۰۰۷ء کے اسمبلی انتخابات میں جیت کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قومی کونسل کے اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں اس کے قومی صدر پروفیسر راج ناتھ سنگھ کا بیان یکم مارچ ۲۰۰۷ء میں سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے: اوّلاً: اگر انھیں ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ متنازع بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے لیے ایک قانون بنائیں گے۔ ثانیاً: بی جے پی کی قوم پرستانہ پالیسی کے زیرسایہ ایک طاقت ور بھارت کی تعمیر ضروری ہے تاکہ مرکز کی حکومت (من موہن سنگھ) کی اقلیتوں کو خوش کرنے کی خطرناک سیاست کو بھارت کی سرزمین پر ختم کیا جاسکے (روزنامہ نواے وقت‘ لاہور‘ یکم مارچ ۲۰۰۷ء)۔المیہ یہ ہے کہ بھارت میں کانگریس نے مسلمانوں کو عملاً کچھ نہیں دیا۔ مگر دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی‘ اسے مسلمانوں کی اقلیت نوازی کے نام پر شورمچا کر مسلمانوں کو مزید ملیامیٹ کرنے کی ہندتو پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا کھلا نعرہ ہے: ہندی ، ہندو ، ہندستان
بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا تازہ ترین بیان بلکہ اعلان‘ اس بات کا غماز ہے کہ اگر کانگرس یا کسی اور سیاسی جماعت نے مسلمانوں کی پس ماندگی دُور کرنے کی بات کی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کا مسلم دشمن رویہ مزید جارحانہ سمت میں آگے بڑھے گا ۔ ان کی دوسری فوری وجہ یوپی (اترپردیش) میں ماہِ اپریل ۲۰۰۷ء میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوپی صوبہ بھارت کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی بھارت کی قومی سیاست میں بڑی اہمیت ہے۔ وہاں سماج وادی پارٹی اور اس کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے مقابل مایاوتی کی بہو جن سماج وادی پارٹی‘ کے علاوہ بھارتیہ جنتاپارٹی ایک متبادل اور متحرک سیاسی جماعت ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی پنجاب اور اتر اکھنڈ کے بعد یوپی میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے روایتی اور تاریخی تعصب کو ہوا دے کر پھر سے ہندتو کارڈ اور رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ اٹھائے سامنے آرہی ہے‘ جب کہ گجرات میںمسلمانوں کے حالیہ قتلِ عام کے بعد پٹنہ (بہار) میں وشواہند پریشد (ورلڈ ہندوکونسل) کے جنرل سیکرٹری پروین توگڑیا کا تازہ ترین اعلان بھی سامنے آیا ہے۔ جس میں انھوں نے ہندو آبادی کو مشتعل کرنے کے لیے کہا ہے کہ ’’وہ مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجائیں‘‘۔ انھوں نے مسلمانوں پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کر رہے ہیں اور وہ جلد ہندستان کے ہندوئوں کو اقلیت بنا دیں گے‘‘۔ یہ وہ مسلم دشمن لہریں ہیں جو بھارتی سماج کے دروبام ہلانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ جس طرح بھارت‘ پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے بعینہٖ بھارت کے ہندو‘ مسلمانوں کو بھی اپنا دشمن نمبر ایک ہی سمجھتے ہیں‘ جسے یقین نہ آئے بھارت جاکر بچشم خود دیکھ لے۔
دوسری طرف مسلمان ایک سہمی ہوئی اقلیت کے طور پر حکمرانوں اور ہندو سیاست دانوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ صاف کہنا چاہیے کہ بھارت کے مسلمانوں کے گذشتہ ۶۰ برس‘ ہندو اکثریت کے تاریخی تعصب اور ہندو حکمرانوں کی دانستہ پالیسی کے نتیجے میں معاشی پس ماندگی کا آئینۂ ایام ہیں۔ جس سے بالفعل یہ ثابت ہوا ہے کہ قومیں دین سے بنتی ہے سرزمین سے نہیں‘ ورنہ بھارت کی مسلم ملت یوں اپنے وطن میں غریب الوطن تو نہ ہوتی کہ سانحہ گودھرا گجرات کے بعد بھارت کے مسلمانوں کا مستقبل اپنے ہی وطن میں تاریک ہوکر رہ گیا ہے اور مسلمانوں کی بے بسی اور برستی آنکھیں انصاف مانگتے مانگتے اندھی ہوگئی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے بعض احکامات کے تحت‘ کچھ قانونی کارروائی اور کچھ مظلوم مسلمانوں کی شنوائی جاری ہے۔ مگر گجرات میں ’ہندوتو‘ کا تجربہ وہ نمونہ ہے جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیراقتدار مسلمانوں کے مستقبل کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے مگر گجرات کے مسلمانوں کا صوبائی حکومت کے ایما پر قتلِ عام اور پھر یہ اعلان:’’مسلمانوں کے دواستھان پاکستان یا قبرستان!‘‘کس طرح کے عزائم کی پھنکار ہے۔
بھارت کا مسلمان گذشتہ ۶۰ برس سے ہندو اکثریت کے ہندستان میں جس جمہوری اور سیکولر تجربے سے گزرا ہے‘ اس کی بازگشت دسمبر ۲۰۰۶ء کو مسلمانوں کے بارے میں معاشی‘ سماجی اور تعلیمی کوائف جاننے کے لیے قائم سچرکمیٹی میں سنائی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہندستان میں مسلمان‘ اپنی معاشی پس ماندگی میں دلتوں سے بھی کہیں نچلے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ’شرمساری کے ساتھ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ بھارت میں برسرِاقتدار کانگریسی قیادت کی یوپی اے سرکار کا بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں حقائق جاننے کا مقصد کیا واقعی مسلمانوں کی پس ماندگی کا مداوا کرنا ہے یا صرف مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے کی روایتی سیاست ہے؟ اس پر سردست کچھ کہنا مناسب نہ ہوگا۔ البتہ ایک حقیقت جو سامنے ہے وہ یہ کہ بھارت کے حکمرانوں‘ سیاست دانوں اور ہندو اکثریت کی یہ اجتماعی اور مستقل پالیسی رہی ہے کہ مسلمانوں کو مسلسل دوسرے درجے کے خوف زدہ شہری ہی نہیں‘ ایک یرغمال رعایا کے طور پر محبوس رکھا جائے‘ جس کا بدیہی ثبوت سچرکمیٹی رپورٹ ہی نہیں ‘ بھارت بھر میں پھیلے ۱۷ کروڑ سے زائد مسلمانوں کے شب و روز ہیں۔ جہاں گذشتہ ۶۰ برس میں ۲۴ ہزار کے لگ بھگ مسلم کش فسادات برپا ہوچکے ہیں اور بھارتی مسلمان معاشی‘ معاشرتی طور پر پریشانیوں کا شکار ہیں۔
مسلمانوں نے اپنے طور پر تعلیمی‘ فلاحی اور سماجی نوعیت کے ادارے تو بنا رکھے ہیں مگر مسلمان نوجوان اگر بمشکل تعلیم یافتہ ہو جائیں تو بھی انھیں روزگار ملنا مشکل ہوتا ہے۔ اکثریت کا رویہ مسلمانوں کے تئیں تعصب و حقارت ہی نہیں‘ شر اور شرارت سے بھرپورہے۔ کسی جگہ مسلمان اپنے روایتی پیشوں میں کامیاب ہوں بھی تو فرقہ وارانہ فسادات کی آڑ میں پاور لومز جلانا‘ ان کے کارخانوں کو نذرِآتش کرنا اور لوٹ مار کرکے پھر انھیں معاشی پستی کی سطح پر دھکیل دینا ایک عام رویہ ہے۔
کانگریس کے ہم نوا بعض علما کے پرستار حلقے پاکستان کے قیام کو غلطی قرار دے کر اُسے مسلمانانِ ہند کی سزا کی بات کرتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی نہیں محض مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ کانگریس نے اپنے دورِاقتدار میں مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟ یہ متحدہ قومیت کے ہندستان میں مسلمانوں کے معاشی‘ سماجی اور تعلیمی حالات سے واضح ہے۔ بھارت کے حکمرانوں کا رویہ کیا عملاًسیکولر ہے یا فرقہ وارانہ؟ اس کاصحیح جواب‘ بھارت کے مسلمانوں کی حالت سے عیاں ہے۔ دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کا متعصبانہ اور متشددانہ طرزِعمل ہے جس کی زد میں بھارت کے مسلمانوں کی اولادیں اور جایدادیں ہی نہیں‘ مساجد و مزارات اور اوقاف تک ہیں۔
سوال : میرا بچہ چار سال کا ہے اور اسے اسکول میں داخل کرانا ہے۔ بظاہر یہ کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں سوچ سوچ کر پریشان ہوگئی ہوں۔ آپ مجھے کسی ایسے اسکول کا نام بتا دیجیے جہاں بچے کو داخل کرانے سے اس میں آخرت کا تصور دنیا کے تصور پر حاوی ہوجائے۔
میں نے حال ہی میں اسلام کا مطالعہ شروع کیا ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں نے ساری زندگی ضائع کی ہے۔ اگر ایک شخص پہلے کوئی چیزسیکھ کر اپنے اُوپر نافذ کرے اور پھر بچے کو سکھائے تو اس طرح تو بہت وقت لگ جائے گا اور پھر بھی معلوم نہیں کہ بچے کی صحیح تربیت ہو یا نہ ہو۔ ایک بات مجھے اور پوچھنا ہے وہ یہ کہ جیساکہ اسلام د ین .ِ فطرت ہے تو اسلامی نقطۂ نظر سے کس عمر میں بچے کو ماں سے الگ کر کے اسکول بھجوانا چاہیے؟
جواب: آپ نے دو بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ ایک کا تعلق تربیت اولاد سے ہے اور دوسرے کا خود اپنی تعلیم اور تزکیہ سے۔ دین کے علم کے حصول کے لیے نہ عمر کی کوئی قید ہے نہ وقت کی۔ ایک ۷۰سالہ شخص اگر چاہتا ہو کہ قرآن کریم کو صحیح طور پر پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک طالب علم کی حیثیت سے حصول علم کرے تو اسلام اس کے اس عمل کو عبادت میں شمار کرتا ہے۔ دین کے علم کو صرف قرآن کریم کی تلاوت یا ترجمہ و تفسیر کی مدد سے پڑھ لینے یا حدیث کی کسی کتاب کا مطالعہ کرلینے یا فقہ کی کسی مستند تحریر کو پڑھ لینے تک محدود کردینا بھی مناسب نہیں۔ اس لیے کہ قرآن کریم خود اپنے ماننے والوںکو نہ صرف کتابِ عظیم کے معانی پر غور کرنے اور اس کی تعلیمات کی تطبیق کرنے کا حکم دیتا ہے‘ بلکہ کتابِ کائنات کے مطالعے اور اس پر غوروفکر کرنے کے بعد ان علوم کی تدوین اور حصول کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات کے تنوع‘ نظم و ضبط اور خوب صورتی میں پوشیدہ اسرار و رموز کہلاتے ہیں۔
آپ کا دین اسلام کا مطالعہ کرنا اور اسلام کو بحیثیت نظامِ حیات سمجھنے کے لیے کوشش کرنا ایک انتہائی قابلِ تعریف اقدام ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیق دے کہ آپ قرآن و سنت کے دیے ہوئے نظامِ حیات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکیں۔ اس کام کا آغاز کردینا سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم ہم پر صرف اسی بات کی جواب دہی عائد کرتا ہے جو ہمارے علم میں ہو۔ اگر آپ نے محض قرآن کریم کی ایک آیت پر غور کیا اور اس کا مفہوم سمجھا تو آپ کی جواب دہی جو کچھ آپ کے علم میں ہے اسی کی ہے۔ اگر آپ اس علم کو آگے نہیں پہنچاتیں تو گرفت ہوگی۔ اس لیے خود حصولِ علم اور تزکیہ کرتے وقت اس انتظار میں قطعاً نہ رہیں کہ جب تک سفر علم کو مکمل نہ کرلیا جائے اس وقت تک آپ اپنے بچے کی تعلیم کسی اور کے سپرد کردیں بلکہ جتنا علم ہو اُسے اولاد تک پہنچانے میں تاخیر نہ کریں۔ اس طرح خود آپ کو مزید غور کرنے اور اپنی معلومات کو وسیع کرنے کا موقع ملے گا۔
دوسری اہم بات جو آپ نے اپنے خط میں ذکر کی ہے وہ آپ کی یہ خواہش کہ آپ کا بچہ دنیا کے بجاے آخرت کی طرف متوجہ ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم صحیح معنوں میں آخرت پر ایمان لے آئیں تو دنیا میں برپا ہونے والے بے شمار فتنوں اور فساد سے نجات حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آخرت بنانے کے لیے دنیا کو شیطان پر چھوڑ دیا جائے۔ آخرت کا راستہ دنیا ہی سے گزر کر جاتا ہے اور اگر ہم صراطِ مستقیم کو اختیار کرلیں اور دنیا میں اس پر قائم ہوجائیں تو ان شاء اللہ آخرت کی منزل خودبخود آسان ہوجاتی ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ بچے کو قرآن کریم حفظ کرا دینا اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ آخرت کی طرف خود بخود مائل ہوجائے گا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ صحت اچھی کرنے کے اصولوں کی ایک کتاب جو فارسی یا ترکی میں لکھی گئی ہو پوری حفظ کرلیں تو کیا اس کا یہ حفظ کرنا آپ کی صحت کو بہتر بنا دے گا؟ ہاں‘ قرآن کریم چونکہ رب کریم کا کلام ہے‘ اس لیے اس کے ہرہرحرف کا مفہوم سمجھے بغیر بھی وہ کلام الٰہی ہی رہتا ہے اور اس بنا پر ان کا اجر ہمیں ملتا ہے۔ لیکن جب الکتاب خود بار بار یہ کہہ رہی ہو کہ اس کے کلمات بعض عربی سمجھنے والے بدوؤں کے حلق سے نیچے نہیں اُترتے‘ وہ اسے سنتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں‘ ان کے دل پر تالے پڑے ہوئے ہیں جو اس کلیدِ حیات سے بھی نہیں کھلتے تو اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ بچے کو نہ صرف روایتی دینی علوم بلکہ ان دینی علوم کو صحیح طور پر استعمال کرنے کے لیے وہ علوم بھی سکھانے چاہییں جنھیں بعض سادہ لوح دنیاوی علوم کہتے ہیں۔
آخرت کی کامیابی کے لیے نہ صرف عقیدے کا درست ہونا بلکہ اس کے ساتھ عملِ صالح کا اختیار کرنا بھی شرط ہے اور عمل صالح کا مطلب رزق حلال‘ حلال معاشرت‘ حلال سیاست‘ حلال ثقافت اور حلال تفریح ہے۔ گویا زندگی کے تمام معاملات کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کا تابع بنانا۔ یہ کام اسی وقت ہوگا جب آپ کا بچہ تمام علوم سیکھے لیکن اس کا مقصد محض حصولِ ملازمت نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رضا کا حصول ہو۔ اس کام کے لیے آپ کو ہرلمحے بچے کے ساتھ گفتگو کرکے یہ بات ذہن نشین کرانی ہوگی کہ وہ سچ‘ امانت اور بلاخوف حق پر عمل کرنے میں فخر محسوس کرے۔ اس طرح اس کی دنیا ان شاء اللہ آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بن سکے گی۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ کامیابی کا یقین نہیں آتا۔ کیا کروں؟
ج: پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم ان شاء اللہ سب کچھ بہت اچھا کرو گے۔ بس ایک دفعہ پختہ ارادہ کرلو کہ تم اپنے کام میں لگے رہو گے۔ یہی اصل بات ہے۔ کامیابی اور مسرت کے حصول کی دو شرائط ہیں: اوّل، تمھاری سعی/کوشش/شرکت/ موجودگی۔ دوم، اللہ تعالیٰ کی مدد اور رضامندی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ تمھاری سعی کُل کا صرف ایک فی صد ہے‘ جب کہ اللہ کا حصہ ۹۹ فی صد ہے۔ اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حصہ لازماً مل کر رہتا ہے‘ اُس نے اس کی ضمانت دی ہے۔ (فاروق مراد)
الاشباہ والنظائر قرآنی الفاظ کے مختلف معانی پر مشتمل ایک مفید لغت ہے۔ اسی نام سے حنفی فقہ کی بھی ایک مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک ہی لفظ کے مختلف معانی اور اُن کے قرآنِ مجید میں مختلف استعمالات بتاتی ہے‘ بلکہ مترادفات کی بھی وضاحت کرتی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے مقاتل بن سلیمان (م: ۱۵۰ھ) کے بارے میں لکھا ہے کہ انھیں تجسیم سے متہم کیا گیا ہے‘ چنانچہ یہ متروک الحدیث تھے۔ علمِ تفسیر میں البتہ ان کا بہت بلند رتبہ تھا۔
حیدرآباد دکن کے مشہور عالمِ دین ابوالنصر ڈاکٹر محمدخالدی نے‘ جو خود عربی ادب کے رمزشناس تھے اور جنھوں نے بدنامِ زمانہ مختار ابن ابی عبیدہ الثقفی پر مقالہ لکھ کر مصر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی‘ اس کتاب کا ترجمہ کیا اور تحقیق سے کام لیا۔ مولانا عطاالرحمن قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ڈاکٹر محمد خالدی (مرحوم) کے مسودے کا جائزہ لیا‘ تصحیح کی اور تعلیقات کے ساتھ اسے کتابی شکل میں شائع کردیا۔
قرآنی لغات کے جو مختلف معانی مقاتل بن سلیمان نے بیان کیے تھے‘ اُن کے شواہد قرآن مجید کے اُردو مترجمین کے کلام سے ڈھونڈے گئے ہیں۔ قاسمی صاحب نے ’توضیح‘ کے عنوان سے مزید قرآنی مثالوں کا اضافہ بھی کیا اور بعض اہم تفسیری نکات کی وضاحت ’انتباہ‘ کے عنوان کے تحت کی۔ قرآنی لغات پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ امام راغب کی مفردات‘ مولانا عبدالرحمن کیلانی کی مترادفات القرآن اور مولانا عبدالرشید نعمانی کی لغات القرآن زیادہ مشہور و معروف ہیں۔ زیرنظر کتاب ان میں ایک خوب صورت اضافہ ہے اور اُردو دان افراد کے لیے ایک نعمت ِ غیرمترقبہ۔ پیش کش کے لحاظ سے کئی جزوی امور توجہ چاہتے ہیں۔ کسی نئی طباعت کے موقع پر ان کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ (خلیل الرحمٰن چشتی)
ریگ زارِ عرب میں خاتم الانبیا والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک ایسی بارانِ رحمت تھی جس نے خزاں رسیدہ بے برگ و بار شجرِانسانیت کو سرسبز اور شاداب کردیا۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ نے بنی نوعِ انسان کی رہنمائی نہ کی ہو۔ حضوؐر کی سیرت طیبہ پر مجموعی طور پر بھی اور اس کے ہر پہلو پر بھی الگ الگ اب تک بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
زیرنظر کتاب بھی سیرت نبوی ہی کے ایک پہلو پر ہے جسے محترمہ نجمہ راجا یٰسین نے ’عہدنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق‘ کے زیرعنوان اپنا موضوعِ تحریر بنایا ہے۔ محترمہ تصنیف و تالیف کے میدان میں نووارد ہیں لیکن انھوں نے تاریخ و سیر کی ۳۶مستند کتابوں سے کتاب کا لوازمہ اخذ کرنے میں جو کاوش کی ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ اُن کا اسلوبِ نگارش عام فہم اور دل نشیں ہے۔ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں تمدنِ عرب کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں ظہورِ اسلام سے قبل عرب معاشرے کی حالت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے باب میں عرب معاشرے میں بلدیاتی اداروں کے تصور کی تفصیل دی گئی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ نے جس نظم و نسق کو بلدیاتی کہا ہے‘ وہ عہدرسالت میں اسلامی حکومت کی تاسیس کے بعد اسلام کے سیاسی اور تمدنی نظام کا جزو لازم تھا۔ مصنفہ نے اپنے موضوع کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی‘ تاہم صحابہ کرامؓ کے ناموں کی صحت کے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔ (طالب ہاشمی)
۴۵ مربع میل پر پھیلا ہوا گوانتاناموبے نامی جزیرہ دنیا کا بدترین عقوبت خانہ ہے جس میں ۴۳ ممالک کے ۶۶۰ باشندے جدید سائنسی تشدد کاشکار ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت بہت سے قیدیوں پر تشدد میں برابر کی ذمہ دار ہے۔
زیرنظر کتاب پاکستان میں سابق افغان سفیر مُلا عبدالسلام ضعیف کی پشتو خودنوشت کا اُردو ترجمہ ہے جس میں امریکی حکومت اور پاکستان کے بعض کارپردازان کے بھیانک چہرے نظرآتے ہیں۔ پہلے حصے میں مُلا عبدالسلام اور گوانتاناموبے کے تعارف کے ساتھ مُلا عبدالسلام کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی ۲۰۰۱ء کی گفتگو (جب وہ پاکستان میں سفیر تھے) اور پھر ۲۰۰۶ء کی وہ گفتگو شامل ہے جو ان کی رہائی کے بعد ہوئی۔ ایک حصہ ان اخباری مضامین پر مشتمل ہے جو مُلا عبدالسلام کی کتاب کے حوالے سے پاکستان کے مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوئے ہیں جن میں عطاء الحق قاسمی‘ عرفان صدیقی‘ پروفیسر خورشیداحمد‘ عبدالقادرحسن‘ عباس اطہر‘ ایازامیر‘ اوریا مقبول جان‘ حسن عباسی اور شبیراحمد میواتی کی تحریریں شامل ہیں مگر حوالے نہیں دیے گئے۔ آخر میں مُلا عبدالسلام کی آپ بیتی کا تلخیص و ترجمہ ہے جسے پڑھ کر ایک پاکستانی مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ایک مسلمان سفیر کو ایک مسلمان ملک کی سرزمین سے پکڑ کر چند مسلمانوں کے ہاتھوں امریکی حکام کو فروخت کر دیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بردہ فروشی کی تفصیل بھی بیان کر دی ہے کہ پاکستانی حکام نے فی کس ۵ ہزار ڈالر کے عوض بے گناہوں کو امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا۔ گردپوش خوب صورت ہے ‘کتاب دل چسپ ہے۔ (محمدالیاس انصاری)
یہ کتاب احمد خلیل نامی ایک فلسطینی عرب مہاجر کی سوانح حیات ہے۔ واضح رہے کہ ’احمدخلیل‘ حقیقی نہیں بلکہ ایک افسانوی کردار ہے۔ احمد خلیل کا وطن فلسطین ہے۔ بچپن ہی سے وہ ہم وطنوں کی بے بسی‘ یہودیوں کی چیرہ دستیوں اور بڑھتے ہوئے صہیونی اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا آیا ہے۔ جوانی کے دور تک پہنچتے پہنچتے حالات اسے ہجرت پر مجبور کردیتے ہیں۔ چھوٹے بھائی اورچند عزیزوں کے ساتھ وہ مصر کے راستے سعودی عرب پہنچتا ہے اور فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد مدینے ہی کو اپنا مسکن بنالیتا ہے۔ اس کی زندگی کے باقی ایام یہیں گزرتے ہیں۔
احمدخلیل کا اکلوتا بیٹا اسماعیل آرامکو (سعودی عرب) میں امریکی کمپنی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ وہ ایک مغرب زدہ عیسائی لڑکی سے شادی کرکے‘ بری طرح مغربیت کا اسیر ہوجاتا ہے۔ ایک روز وہ اپنے گھرآتا ہے اور والدین کی ’دقیانوسیت‘ پر ناک بھوں چڑھاتا ہے۔ احمدخلیل اس کی مغرب زدگی پر سخت تنقید کرتا ہے۔ اس کا والد احمدخلیل کئی ماہ سے تپ دق میں مبتلا ہے۔ اب اسماعیل کی باغیانہ روش اسے بالکل ہی نڈھال کردیتی ہے۔ کہانی معنی خیز ہونے کے علاوہ معلومات افزا بھی ہے۔ مصنفہ نے انگریزی میں یہ ناول قبولِ اسلام سے پہلے لکھا تھا‘ بعد میں اس میں حذف و اضافہ کرکے کئی برس پہلے شائع کیا تھا۔ اب پروفیسر اعوان نے اُردو ترجمہ پیش کیا ہے۔
ناول نگاری کی روایت کے مطابق کسی نہ کسی رومانس کو کہانی میں ایک ضروری عنصر کی حیثیت سے شامل کیا جاتا ہے مگر مصنفہ نے اس سے احتراز کیا ہے۔ ان کے کردار انحطاط پذیر عرب معاشرے کے مسلمان کردار ہیں‘ مگر اپنی تمام تر جاہلیت اور اخلاقی انحطاط کے باوجود‘ مذہبی اور دینی فرائض ادا کرنے میں مستعد اور پُرجوش ہیں۔ احمدخلیل کا کردار‘ مثالی مسلمان کا کردار تو نہیں ہے مگر اس کے اقوال و افعال سے اس کی دین پسندی اور ملّی حمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ احمدخلیل بعض مواقع پر قرآن اور احادیث کے حوالے دیتا ہے۔ ناول کا فنی پہلو البتہ کمزور ہے۔ ناول کی حیثیت سے اس کی پہلی خامی اس کا محدود کینوس ہے۔ اس وجہ سے ناول صرف یک کرداری (احمدخلیل) کہانی بن گیا ہے۔ اُسی کے حالات‘ اُسی کے واقعات‘ بلکہ اُسی کے اردگرد کی دنیا اور معاشرہ ___فلسطین سے احمدخلیل کی ہجرت کے بعد ہم وہاں کے حالات سے بالکل بے خبر رہے ہیں۔ بعد میں صرف چند سطری خط کے ذریعے ایک مجمل سی خبرملتی ہے۔ (آخری حصے میں اس روش میں تبدیلی آگئی ہے)۔ ناول کی یہ صورت ہمیں بار بار‘ اس کتاب کو ’ناول‘ کہنے سے روکتی ہے۔ دراصل ’احمدخلیل‘ نہ تو بیاگرافی ہے اور نہ ایک ناول___بس درمیان میں کوئی چیز ہے۔ مگر جو کچھ بھی ہو‘ یہ ایک دل چسپ کتاب کی حیثیت سے پڑھی جائے گی۔(رفیع الدین ہاشمی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو‘ یعنی رمضان کا آغاز بھی چاند دیکھ کر اور چاند دیکھ کر ہی عید کرو۔ اُمت مسلمہ ۱۴۰۰ سال سے زیادہ عرصے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی پر عمل پیرا رہی ہے۔ رمضان اور عیدین کے نظام کو درست اور ٹھیک رکھنے کے لیے چاند کا دیکھنا ضروری قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود رئویت ہلال کے کچھ پہلوئوں اور تفصیلات پر فقہاے اُمت کے درمیان اختلاف راے پایا جاتا رہا ہے۔ اب دورجدید میں ذرائع ابلاغ کی بے پناہ سہولت اور آسانی نے رئویت ہلال کے فقہی اور فنی پہلوئوں کو بہت نمایاں اور اُجاگر کردیا ہے۔
اہلِ علم حضرات نے رئویت ہلال کے اختلافی پہلوئوں کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ اتفاق کی فضا پیدا کرنے اور علمی مباحث کو کسی مفید نتیجے تک پہنچانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔
جناب خالد اعجاز مفتی صاحب کی تحقیقی اور علمی سعی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس مسئلے کے ہر پہلو پر مفتی صاحب نے بڑی عرق ریزی‘ جاں فشانی اور محنت سے تحقیق کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ مسئلہ رئویت ہلال کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور جدید کے علماے کرام کاجدید فلکیاتی علوم سے بہت حد تک ناواقف اور نابلد ہونا ہے۔ اختلاف مطالع اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اعلان رئویت ہلال پر فتویٰ دینے کے مجاز وہی ہوسکتے ہیں جودینی علوم پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید فلکیاتی علوم سے بھی آگاہ ہوں۔
دینی علوم اور فلکیاتی علوم کے ماہرین کو مل کر اس کا قابلِ عمل حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (عبدالوکیل علوی)
قصہ کہانی ادب کی وہ قسم ہے جس میں انسان کی دل چسپی بالکل فطری ہے۔ اس طرح بات سمجھانا اور ذہن نشین کرانا آسان ہوتا ہے۔ انسانی فطرت اور کہانی کی اثرآفرینی کے پیش نظر اسلام نے اس کو تفہیم و تربیت کا ذریعہ بنایا ہے۔
زیرنظر کتاب معروف مسلم اسکالر مصطفی محمد طحان کی کتاب التربیۃ بالقصۃ کااُردو ترجمہ ہے۔ فاضل مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے احادیث مبارکہ میں بیان کیے جانے والے سبق آموز واقعات اور آسمان نبوت کے درخشاں ستاروں (صحابہ کرامؓ) کی ایمان افروز داستانوں سے انتخاب پیش کیا ہے۔ ہرقصے کے آخر میں اہم علمی مباحث اور عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔ یوں یہ کتاب قرآن و سنت کے حوالوں سے مزین ۴۰ دروس کا خوب صورت گل دستہ ہے۔ دل چسپ اور منفرد انداز بیان کے یہ واقعات ذہن کو متاثر‘ روح کو معطر اور انسان کو آمادہ بہ عمل کرتے ہیں۔ بچوں اور بڑوں کے تزکیہ و تربیت کے لیے یکساں مفید ہے۔ ترجمہ رواں اور سہل۔ (حمید اللّٰہ خٹک)
صدارتی ایوارڈ یافتہ اس کتاب میں علامہ اقبال سے نئی نسل کو کہانی ہی کہانی میں روشناس کروانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال کی شخصیت‘ خدمات اور اُمت کے لیے تڑپ کو ان کی زندگی کے مختلف واقعات سے اُجاگر کیا گیا ہے۔
علامہ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں: شاہین کا تصور اور نوجوانوں سے اقبال کی توقعات‘ دین سے لگائو اور عشقِ رسولؐ، رزقِ حلال‘ فیاضی و خودداری‘ شگفتہ مزاجی اور مزاح کا دل چسپ پیراے اور واقعاتی انداز میںتذکرہ کیا گیا ہے۔ اقبال کے حوالے سے عام تصور سے ہٹ کر کئی اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ بسااوقات مکالماتی انداز کی وجہ سے کہانی میں بوجھل پن بھی محسوس ہوتا ہے۔ چند واقعات کا انتخاب بھی غورطلب ہے۔ مصنف نے بجاطور پر توجہ دلائی کہ نئی نسل کو اقبال سے روشناس کرانے کے لیے اقبالیات کو بطور مضمون نصاب میں شامل کیا جائے‘ اور نجی تعلیمی اداروں کو اس سلسلے میں پہل کرنا چاہیے۔ کتابیات سے کتاب کی جامعیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ مطالعے کے لیے بھی تحریک ملتی ہے۔ مصنف اس سے قبل قائدکہانی بھی لکھ چکے ہیں۔(امجدعباسی)
’مسئلہ کشمیر کے چار حل‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) سید مودودی علیہ الرحمہ کا تاریخی تجزیہ آج بھی زندہ حقیقت ہے اور دعوتِ عمل دیتا ہے۔
’قائداعظم اور سیکولرزم‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) کے مطالعے سے ایک تاریخی حقیقت بے نقاب ہوئی‘ اور سیکولر حلقوں کی نام نہاد معروضیت بالخصوص جسٹس منیر کی علمی دیانت کا پول کھل کر رہ گیا۔
’شرق اوسط میں امریکی حکمت عملی خانہ جنگی‘ (فروری ۲۰۰۷ء) اور اسی موضوع پر امریکی نقطۂ نظر (مارچ ۲۰۰۷ء) چشم کشا تحریریں ہیں۔ امریکا مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور مسلم ممالک پر اپنا تسلط جمانے کے لیے کون کون سے منصوبے بنا رہا ہے‘ جب کہ مسلم دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک امریکا نوازی اور خودسپردگی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ انتشار و افتراق‘ عدم اتحاد و اتفاق‘ ٹکڑوں میں بٹ جانے اور میرجعفروں و میرصادقوں کی وجہ سے مار کھائی ہے۔ اہلِ پاکستان اور اہلِ ایران کے لیے اس میں بڑاسبق ہے۔
سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تحریر ’مسئلہ کشمیر کے چار حل‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) سے موجودہ حکومت نے جو کنفیوژن پیدا کردیا ہے اس کی تصویر واضح ہوگئی ہے۔ مدیر کی جانب سے وضاحتی نوٹ نے اس کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا۔ ’عصرحاضرکا بحران اور آیندہ لائحہ عمل (مارچ ۲۰۰۷ء) خاصے کی چیز ہے۔ اس میں قرآنی اصولوں کی روشنی میں بڑی خوبی سے عملی رہنمائی دی گئی ہے۔
’غیرمنظم نیکی بمقابلہ منظم برائی‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) میں معاشرے کی ابتر صورت حال کا صحیح تجزیہ کیا گیا ہے‘ اور منظم جدوجہد کے لیے عملی راہ دکھائی گئی ہے۔ ’حقیقی بنیاد پرستی کے خدوخال‘ میں ڈاکٹر انیس احمد نے بجا فرمایا کہ عوام تو دین کے لیے مرمٹنے کا جذبہ رکھتے ہیں‘ اصل مسئلہ مغرب کے آلۂ کار مسلم حکمران ہیں۔
شذرہ نگار نے ہر روز مغرب کے بعد مسجد سے باہر آکر تین چار نعرے لگاکر احتجاج کو زبان دینے کی ایک قابلِ عمل تجویز پیش کی ہے (مارچ ۲۰۰۷ء)۔ اس میں ترمیم کر کے نمازِعصر کے بعد کرلیا جائے‘ اس لیے کہ اس نماز کے بعد سب لوگ ایک ہی وقت مسجد سے باہر نکلتے ہیں۔ ایرانی انقلاب کے زمانے میں شہروں میںوقت مقررہ پر ہارن بجا کر احتجاج کیاجاتا تھا۔ اسے بھی آزمایا جاسکتا ہے۔ حکمرانوں کا اصل ہدف مساجد‘ مدارس اور علماے دین ہیں۔ اس لیے ردعمل بھی انھی کی طرف سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اگر ایک پروگرام کے تحت رات کے تین بجے پورے ملک میں ہرطرف اذانیں دی جائیں تو یہ احتجاج اور حصولِ نجات کا شرعی طریقہ ہے۔ احتجاج کے طریقۂ کار میں جدت کی ضرورت ہے۔ ریلیوں کے نام پر جلسے اور ان میں طویل تقریریں پہلے سے مسئلہ جاننے کی وجہ سے دل چسپی نہیں رکھتیں۔
’ترکی میں چند روز‘ (فروری‘ مارچ ۲۰۰۷ء) دل چسپ اور معلومات افزا‘ رُودادِ سفر ہے۔ ترک عوام اور ان کے ہر دلعزیز قائدین کی دین اسلام سے وابستگی‘ پوری دنیا کے مسلمانوں خصوصاً اسلامیانِ پاکستان سے محبت‘ سیدمودودیؒ اور علامہ اقبالؒ سے عقیدت‘ دینی اور سیکولر حلقوں میں تفہیم القرآن کی پذیرائی‘ دُوررس نتائج کے حامل ہیں۔ کاش! پاکستان کے حکمران نفاذِ دین کے عہد کی پاس داری کرتے تو آج پاکستان پوری اسلامی دنیا کا رہنما اور غیرمسلم دنیا کے لیے بھی مینارئہ نور ثابت ہوتا۔
’اسلامی نظریاتی کونسل اور قانونِ تحفظ نسواں‘ (جنوری ۲۰۰۷ء) جان دار تحریر تھی۔ ڈاکٹر خالد مسعود اسلامی نظریاتی کونسل کی بجاے حکومت کا دفاع کرتے نظر آئے‘ لیکن پروفیسر خورشیداحمد نے ان کے استدلال کا تاروپود بکھیرکر رکھ دیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سابقہ رپورٹیں توثیق کے بغیر من و عن شائع کرنے سے کترا رہی ہے۔ یوں لگتاہے کہ وہ پہلے اسے روشن خیال نظریات کی پالش سے چمک دار بنانا چاہتی ہو۔ ان میں علمی مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں۔
’عزیمت و استقامت کی ایمان افروز داستان‘ (فروری ۲۰۰۷ء) پڑھ کر ایمان تازہ ہوگیا۔ ایسی تحریریں پڑھنے سے انسان کا ایمان مضبوط اور اس کے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسان ثابت قدم رہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات انسان کے لیے آسانیاں پیدا کردیتی ہے۔
تعداد اور سروسامان کی انتہائی کمی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں پر غلبہ دیا ہے‘ اور تاریخ میں کوئی ایک دو مثالیں اس کی موجود نہیں ہیں بلکہ ایسی فتح مندیوں کا ایک پورا سلسلہ ہے جس سے مسلمان واقف ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ آخروہ خود غور کریں کہ وہ کیا چیز تھی جس نے تعداد اور سروسامان دونوں چیزوں کی کمی کے باوجود ان کے دشمنوں پر ان کو غالب اور فتح مند کیا… اس سوال کا ایک ہی جواب ان کو ملے گا‘ اور وہ یہ کہ اس وقت ان کے پاس دنیا کے لیے ایک پیغام تھا جس کی دل کشی کا یہ حال تھا کہ ہرشخص کا دل اس کی طرف آپ سے آپ کھنچتا تھا اور اس پیغام کی حامل ایک جماعت تھی جو اگرچہ تعداد کے لحاظ سے کچھ ایسی بڑی نہیں تھی لیکن اپنی سیرت کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ تھی۔ بس یہ پیغام اور یہ سیرت___ دو چیزیں تھیں جس کی وجہ سے بڑی بڑی جماعتوں کے مقابل میں اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو غالب کیا۔…
آج بھی اگر مسلمان اس دنیا میں عزت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخ روئی چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ ایک ہی ہے کہ اس پیغام کو لے کر اُٹھیں جسے لے کر وہ اس دنیا میں آئے تھے‘ اور اپنی سیرت اس طرح کی بنائیں جیسی کہ اس پیغام کے حاملین کی ہونی چاہیے۔ وہ دفعتاً محسوس کرنے لگیں گے کہ ان کی قوت دس گنی بڑھ گئی ہے۔ آج جو مزاحمتیں ان کی راہ میں ہیں وہ آہستہ آہستہ سب دُور ہوجائیں گی۔ ان سارے خطرات کا آپ سے آپ علاج ہوجائے گا جن کو دفع کرنے کے لیے وہ نہ جانے کیا کیا تدبیریں کر رہے ہیں لیکن کوئی تدبیرکارگر نہیں ہورہی ہے۔ ان کے اندر نفوذ کرنے کی ایسی قوت پیدا ہوجائے گی کہ ان کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہ ہوگی‘ دوسرے ان سے خود ڈریں گے۔ ان کے اندر ایسی کشش اور محبوبیت پیدا ہوجائے گی کہ جو لوگ ان سے نفرت کرنا چاہیں گے وہ بھی ان کا احترام کریں گے‘اور جو لوگ ان کو گالیاں دینا چاہیں گے ان کے دل بھی ان کی عظمت سے لبریز ہوں گے۔ وہ ہرمذہب و ملّت والوں کے نزدیک بہترین پڑوسی سمجھے جائیں گے‘ بہترین شریکِ کار خیال کیے جائیں گے اور بہترین ساتھی گنے جائیں گے۔ لوگ اپنوں سے بدگمان ہوں گے اور ان پر اعتماد کریں گے۔ اپنے ہم مذہبوں کو شک و شبہہ کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان کے پاس اپنی امانتیں رکھوائیں گے۔ ان کے پڑوس میں اپنے جان و مال اور عزت و آبرو کو اس سے زیادہ محفوظ خیال کریں گے جتنا کہ وہ اپنے سگے بھائیوں کے پڑوس میں سمجھ سکتے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ کاروبار کرنے میں ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں‘ ان کے ساتھ دوستی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کریں گے اور جو کامیاب ہوجائے گا وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھے گا۔(’اشارات‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن‘ جلد ۳۰‘ عدد ۵‘ جمادی الاول ۱۳۶۶ھ‘ اپریل ۱۹۴۷ء‘ ص ۲۶۳-۲۶۴)