پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بار بار کی فوجی مداخلت سے ملک میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہاں براہِ راست سول اور ملٹری انتظامیہ حکمران رہی یا ان کی پسند کے لوگوں کو محدود وقت کے لیے محدود دائرے میں حکومت کرنے کا موقع دیا گیا۔ حقیقی جمہوریت، دستور اور قانون کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی کے فقدان اور سیاست میں فوجی مداخلت کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا اور باقی ماندہ ملک بھی مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔
امریکا میں ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد مسلمانوں کو بالعموم اور افغانستان و پاکستان کو بالخصوص ہدف بنا لیا گیا۔ امریکی سرکردگی میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو پرویز مشرف نے اس جنگ میں صف اول کا اتحادی بننے کا اعلان کردیا۔ اس طرح امریکی جنگ کو پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کے اندر لے آئی‘ جس کے نتیجے میں ہمارا ملک ایک بڑے بحران سے دوچار ہوگیا۔ یہ بحران آئے دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔سیکڑوں لوگوں کو پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر امریکی دباؤ پر عقوبت خانوں میں رکھا گیاہے۔ اپنے جگر گوشوں اور بزرگوں اور سرپرستوں سے محروم ورثا مسلسل احتجاج کے باوجود ان کی خیریت سے لاعلم ہیں اور اعلیٰ عدالتوںکی مداخلت اور حکم کے باوجود حکمران مفقود الخبرسیکڑوں شہریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکاری ہیں۔ جو لوگ پاکستان کے اندر ان عقوبت خانوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ اپنے گزرے ایام کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستانیں سناتے ہیں۔
باجوڑ اور وزیرستان میں براہ راست امریکی میزائل حملوں اور بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں معصوم لوگ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، شہید ہوچکے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکا کی کاسہ لیسی میں اس جرنیلی قیادت نے امریکی جرائم کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے اپنے بازوے شمشیر زن قبائلی علاقے کو اپنا مدمقابل بنا لیا ہے۔ جن مجاہدین نے افغانستان میں روسی اورکشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کی مدد کی ہے، ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور ان سربکف مجاہدین کو دہشت گردی کا ملزم گردانا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی امریکا نوازپالیسی کی وجہ سے پاکستان نہ صرف داخلی انتشار سے دوچار ہے بلکہ اس کی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں ، خاص طور پر مغربی سرحد جس سے پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے افواج پاکستان کو واپس بلا لیا تھااور جہاں سے پرویز مشرف کی حکومت سے قبل ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، آج انتہائی غیر محفوظ ہو گئی ہے۔
ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت متحدہ مجلس عمل سمیت تمام دینی اور مذہبی گروہوں کو پرویز مشرف انتہاپسندی کا طعنہ دے رہے ہیں اورعوامی جلسوں میںکھلم کھلا ان کے مقابلے میں نام نہاد اعتدال پسندوں کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں، حالانکہ اس طرح کی سیاسی مداخلت کی اجازت دستور پاکستان نہ آرمی چیف کو دیتا ہے اور نہ صدرِ پاکستان ہی اس کا مجاز ہے۔دستورِ پاکستان اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر پرویز مشرف مسلسل اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اہم فیصلے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے باہر کور کمانڈروں کی میٹنگوں اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں فردِ واحد اپنی مرضی سے کر لیتا ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں محض نمایشی کاموں کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اس سب کے باوجود پرویزمشرف اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ انھوں نے کئی عوامی جلسوں میں اس کااظہار کیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ سازش کرنے والے کون ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی اسٹیل مل کے کیس میں حکومت کی مرضی کے خلاف آزادانہ فیصلہ صادر کیاتھا۔ اسی طرح انھوں نے مفقود الخبرافراد (missing persons) کے بعض لواحقین کی درخواستوں پر ہمدردانہ رویہ اختیار کیا، کئی اور معاملات میں بھی انھوں نے آزاد انہ فیصلے کیے جس کی وجہ سے پرویز مشرف نے طے کیا کہ ان کی جگہ کسی ایسے شخص کو لایا جائے جس کے بارے میں انھیں اس حوالے سے مکمل اطمینان ہوکہ وہ ان کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرے گا۔ ان کے لیے یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ نومبر میں ان کی صدارت کی میعاد ختم ہورہی ہے۔ وردی میں صدر رہنے کا نام نہاد قانون بھی اس کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف کے صدر بننے کے لیے دستور کی جن دفعات کومعطل کیا گیا تھا‘وہ بھی نومبر میں بحال ہوجائیں گی۔ موجودہ الیکٹورل کالج سے صدر منتخب ہونے کی خواہش کو پورا کرنے میں بعض آئینی دفعات حائل ہیں جن کی تعبیر کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ میں اٹھایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتوں کو زیر کرنے کے لیے اپنی مرضی کا چیف جسٹس ضروری ہے، اس لیے انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی وردی پہن کر چیف جسٹس آف پاکستان کو آرمی ہاؤس میں رام کرنے کی کوشش کی اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کی موجودگی میںان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ افتخار محمد چودھری کے مستعفی ہونے سے انکار نے پرویز مشرف کے لیے ایک نیا عدالتی بحران پیدا کیا اور ملک و قوم کے لیے عدالتوں کی آزادی کی تحریک کا ایک راستہ کھل گیا۔ وکلا برادری نے آگے بڑھ کرچیف جسٹس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے فوری طور پر چند بڑے سیاسی اور دینی رہنماؤں سے مشورے کے بعداسلام آباد میں ۱۲ مارچ کو ایک قومی مجلس مشاورت منعقد کی۔ اس میں ایم ایم اے، اے آرڈی اور پونم کے علاوہ تحریک انصاف اور اے این پی کے رہنماؤںنے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں وکلا ، سول سوسائٹی اور مفقود الخبر افراد کے ورثا کی نمایندگی بھی تھی۔ ۹مارچ کے بعدچیف جسٹس کو اپنے گھر میں محبوس کردیا گیا تھا اور ان سے ملاقات پر پابندی تھی لیکن حکومت پابندی کا انکار کر رہی تھی۔حکومت کے اس جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے ہم لوگوں نے اپنے اجلاس کے فوراً بعد چیف جسٹس کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں زبردستی وہاں جانے سے روکا گیا اور اس طرح عدلیہ کی آزادی کی تحریک عملی طور پر شروع ہو گئی۔ عدلیہ کی آزادی کی اس تحریک میں خود وکلا کی خواہش پر سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔
عدل و انصاف انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ جہاں عدل و انصاف ہوگا وہاں سارے مسائل خود بخود حل ہوتے رہیں گے اور تمام ادارے اپنی اپنی جگہ پر درست کام کرتے رہیں گے۔جہاں عدل و انصاف کا ادارہ ٹوٹے گا وہاں ہر ادارہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ رب العالمین نے تمام رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا مقصد یہی بیان کیا ہے کہ تمام لوگوں کو انصاف پر کھڑا کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵)ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے اللہ کے لیے کھڑے ہونے اور انصاف کی علَم برداری‘ اللہ کے لیے گواہ بننے اور انصاف کے لیے گواہ بننے کو برابر قرار دیا ہے۔فرمایا:
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَج (النساء۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
اسی لیے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میںمتحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا فیصلہ کیا کہ عدلیہ کی آزادی کے ساتھ تمام اداروں کی آزادی اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے مسائل وابستہ ہیں، اور پھر عدل و انصاف کے قیام کے لیے کھڑے ہونا ایک دینی فریضہ بھی ہے۔
فوج جب سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے تو وہ دستور اور دستور میں شامل اپنے اس حلف کی خلاف ورزی کرتی ہے جس کے تحت وہ دستور کی پابندی اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی مکلف ہے۔نام نہاد اور بدنام زمانہ نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ نے ہمیشہ فوج کی اس مداخلت کے لیے جواز فراہم کیا ہے حالانکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان نہ صرف دستور کی پابندی بلکہ اس کی ’حفاظت‘ کا حلف لے کر جج بنتے ہیں‘ اور عدلیہ کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ وہ دستور کی حفاظت اور دستور کے مطابق سب کو انصاف فراہم کرے۔ جب اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے حلف سے منحرف ہو کرپی سی او کا حلف اٹھا کر دستور کے بجاے فوجی سربراہ کے وفادار بن جاتے ہیں تو ملک کے ادارے تباہ اور ملک کا پورا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان اسی حالت سے دوچار ہے اور سپریم کورٹ جن مسائل پر غور کررہی ہے اس سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔اسے بجا طور پر ’فیصلہ کن مرحلہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ مصلحتوں کا شکار ہونے کے بجاے آزادانہ فیصلہ کرتی ہے تو ہماری قومی زندگی سے تذلیل کے وہ سارے داغ دھل جائیں گے جو جسٹس منیر کے وقت سے بار بار کی فوجی مداخلت کو نظریۂ ضرورت کے تحت جواز عطاکرنے کی وجہ سے لگے ہوئے ہیں۔ ایک اچھے فیصلے سے ہمیں نئی زندگی مل جائے گی۔
عدلیہ کی آزادی کے ساتھ دستور کی بالا دستی، قومی حاکمیت، بنیادی انسانی حقوق، پارلیمنٹ کی بالادستی، صوبائی خود مختاری اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے سارے اعلیٰ مقاصد حاصل اور سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان دستور کے مطابق قرآن و سنت کی پابندی کرنے کے عہد کو پورا کریں گے تو اسلامی نظام زندگی اور اسلامی قوانین کے احیا کی قومی آرزو بھی آزاد عدلیہ اور صاحب ضمیر جج صاحبان کے ذریعے سے پوری ہو سکتی ہے۔ تاہم عدلیہ کی آزادی کا مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اعلیٰ و ارفع کردار کا مظاہرہ کریں گے اور اس ضابطۂ اخلاق کی مکمل پاس داری کریں گے جسے ان اعلیٰ مناصب کے حامل افراد کے لیے شریعت، قانون، اخلاق اور صحت مند روایات نے معتبر قرار دیا ہے۔ ملک بھر کے عوام جس طرح وکلا کے شانہ بشانہ چیف جسٹس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام فوجی ڈکٹیٹر شپ کے مقابلے میں آزاد عدلیہ اور دستور کی پابندی کے حامی ہیں اور امریکی دباؤ اور ذاتی خواہشات کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو پاکستان میں جس طرح پامال کیا جا رہا ہے، اس سے نفرت کرتے ہیں۔
آزاد عدلیہ کے حق میں عوامی حمایت کے مظاہرے سے گھبرا کرحکومت بدحواسی میں غلطی پر غلطی کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کے راولپنڈی سے لاہور تک پرجوش عوامی استقبال کے بعد کراچی میں حکومت نے چیف جسٹس کے استقبال کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا۔ پرویز مشرف نے اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا سہارا لیا اور اسے (free hand)‘ یعنی کھلی آزادی دے دی گئی کہ وہ کراچی میں اپنی تنظیمی قوت اور گروہی تائید و حمایت کے ذریعے طاقت کا متوازی مظاہرہ کرکے چیف جسٹس کی کراچی آمدکو روک دے۔ لیکن پرویز مشرف کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی طاقت کا اصل منبع عوامی پذیرائی نہیںبلکہ گولی اور دہشت گردی کی قوت ہے۔
ایم کیو ایم کراچی میں اپنی قوت کا لوہا منوانے کے شوق میںاپنی پوری قوت سے میدان میں اتری۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور خفیہ اداروں کی مکمل سرپرستی اسے حاصل تھی۔ رینجرز اور پولیس نے ’اُوپر والوں‘ کی ہدایت پر خاموش تماشائی کا کردار اختیار کرکے اسے کھل کھیلنے کا ہرموقع فراہم کیا۔ الیکٹرانک میڈیا کو دہشت زدہ کرکے اسے اپنے حق میں کرنے کی پوری منصوبہ بندی کی گئی۔ائیرپورٹ تک جانے والے سارے راستے مکمل طور پر سیل کردیے گئے اور ان راستوں پر ایم کیوایم کے مسلح تربیت یافتہ دہشت گرد کارکنوں نے مورچے سنبھال لیے۔اس کے ساتھ وہ راستے کھلے رکھے گئے جہاں سے ایم کیوایم کے جلوسوں نے گذر کر اپنی جلسہ گاہ میں پہنچنا تھا۔ دہشت کی فضا اتنی خوف ناک تھی کہ عوام کی بڑی تعداد اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئی اور ایم کیو ایم کی عوامی قوت کا مظاہرہ بھی فلاپ ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کے پرجوش کارکن قربانی کے جذبے کے ساتھ مختلف مقامات پر جمع ہوئے تو ایم کیو ایم کے مسلح دہشت گردوں نے انھیں روکنے کے لیے خون کی ہولی کھیلی۔ الیکٹرانک میڈیا کو دباؤ میںرکھا گیا لیکن اس کے باوجود کراچی کے ساتھ جو خونی کھیل کھیلا جا رہا تھا وہ چھپائے نہیں چھپ سکتا تھا۔’’آج‘‘ چینل کے دفتر کے اوپر جو کیمرے لگے ہوئے تھے، ان کے ذریعے پوری دنیا مسلح غنڈا گردی اور فوج، رینجرز اور پولیس کی بے حسی کا تماشااپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ غنڈا گردی اور تشدد کی سیاست تو پہلے دن سے ایم کیو ایم کا شعار رہی ہے لیکن ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو پہلی دفعہ ایم کیو ایم کی غنڈا گردی برہنہ ہو کر قوم اور پوری دنیا کے سامنے آگئی۔
ادھر اسلام آباد میںجنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ’ق‘ لیگ عوامی طاقت کے مظاہرے کا جشن منا رہی تھی۔ میلے کا سماں تھا، سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے بے دریغ خرچ کر کے لائے ہوئے کرائے کے لوگوں کو پورے ملک سے جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ ایک جگہ بیٹھ کرتقریر سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کچھ لوگ تو کراچی کے قتل عام سے باخبر تھے اور حاضری لگوا کر واپس جا رہے تھے اور کچھ لوگ اسلام آباد کی سیر کے لیے مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے تھے۔ جلسہ گاہ سے بڑھ کر حاضری فیصل مسجد کے اطراف میں نظر آرہی تھی۔پرویز مشرف نے اسلام آباد میں اپنی تقریر میں بڑھک ماری کہ کراچی میں’عوامی طاقت‘ سے ہم نے چیف جسٹس کے دورے کو ناکام بنا دیا۔ انھیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیوایم کی عوامی طاقت کا جنازہ نکل چکا تھا۔ پوری قوم کے سامنے وہ ایک فاشسٹ اور دہشت گرد تنظیم کے طور پر برہنہ ہو چکی تھی اور ایم کیوایم کی کھلی سرپرستی کے مظاہرے سے خود پرویزمشرف بھی دہشت گرد تنظیم کے سرپرست کے طور پر عریاں ہو چکے تھے۔تقریباً ۵۰شہدا اور سیکڑوں زخمیوں اور ایم کیوایم کے ظالمانہ رویے سے پوری قوم سوگوار تھی۔چنانچہ ۱۳ مئی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا گیالیکن ہم نے عوام کے صدمے اور غم و جذبات کے اظہار کے لیے قومی رہنماؤں کے مشورے سے ۱۴ مئی کو پورے ملک میں عام ہڑتال کی اپیل کی،جس کا قوم نے مثبت جواب دیا اور ۱۴ مئی کو پورے ملک کے بازار اور سڑکیں سنسان ہو گئیں۔
ایم کیو ایم ۱۲ مئی کے واقعات کے بعد منہ چھپاتی پھر رہی ہے اور اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوچکی ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مغربی دنیا میں اپنے تعارف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ایوانوں میں الطاف حسین کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور اگر وہ الطاف حسین کو برطانیہ کی عدالتوں میں لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے مظلوموں کی فریاد سننے کا دروازہ کھل جائے گا ۔ ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ہزاروں افراد میں ان کے سیاسی مخالفین کے علاوہ ایک بڑی تعداد خود ان کی اپنی پارٹی کے کارکنوں کی بھی ہے جو اپنی فریاد کے لیے کسی موقع کے منتظر ہیں ۔
عوام نے وکلا کے ساتھ تحریک میں پوری طرح اپنی شمولیت کا برملا اظہار کیاتو میڈیا نے اس حقیقت کو چھپانے کے بجاے اس کی بھرپور کوریج کا اہتمام کیا۔ اس پر ’آج‘، ’جیو‘ اور ’اے آروائی‘ پر خصوصی دباؤ پڑنے لگا اور اس کے ساتھ کیبل کے مالکان کو دھونس اور دھمکی کے ذریعے آزاد چینلوں کو بلیک آئوٹ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سب کے باوجود جب ان اداروں کے خلاف غنڈا گردی کا ہر حربہ ناکام ہوچکا تو پھر ایک نیاوار پیمرا کے قوانین میں ترمیمی آرڈی ننس کی مکروہ شکل میں کیا گیا۔ یہ حکومت کی بدحواسی کا ایک اور مظاہرہ تھا۔، اس کے بعدوکلا کے ساتھ صحافی برادری بھی کھل کر میدان میں نکل آئی۔
اس فضا میں متحدہ مجلس عمل کی پوری مرکزی قیادت نے راولپنڈی سے گوجرانوالہ، گوجرانوالہ سے فیصل آباد اور فیصل آباد سے لاہور تک کا تین روزہ تاریخی ’روڈکارواں‘ چلایا، جس کی عوامی پذیرائی کا مظاہرہ پوری قوم کے سامنے آگیا۔موجودہ عوامی تحریک کے دو بڑے مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں متفقہ طور پر مطالبہ کررہی ہیں کہ:
۱۔ پرویز مشرف اور حکمران ٹولہ استعفا دے۔
۲۔ قومی اتفاق راے سے ایک عبوری حکومت قائم ہو۔
۳۔ دستور کو اکتوبر۱۹۹۹ء کے پہلے والی صورت میں بحال کردیا جائے۔
۴۔ آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کر کے منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔
دوسرے مرحلے میں انتخابات میں ہر جماعت اپنے اپنے منشور کے ساتھ انتخاب لڑے اور انتخابات جیتنے والی اکثریت کو حکومت کرنے کا موقع دیا جائے جو آئین و قانون کی حدود میں رہ کر حکومت کرنے کا حق استعمال کرے۔
ان مطالبات کو روبۂ عمل لانے کے لیے متفقہ جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن بوجوہ اب تک پیپلزپارٹی اس طرح کے اتحاد کا حصہ بننے سے کترا رہی ہے ۔ لیکن اس کا یہ رویہ نہ عوام میں مقبول ہے اور نہ پیپلز پارٹی کے کارکن ہی کھل کر اس رویے کی حمایت کرسکتے ہیں ۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے اس رویے پر قائم رہتی ہے تو عوا م اس کو پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ ڈیل کا حصہ سمجھیں گے۔ متحدہ مجلس عمل اور پیپلزپارٹی کے پروگرام اور داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں بنیادی اختلاف ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کھل کر امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور پرویز مشرف کے ساتھی جرنیلوں پر ’اسلامی دہشت گردوں‘ کاساتھ دینے کا الزام عائد کررہی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے آئینے میں اپنے مستقبل کا اقتدار دیکھ رہی ہیں اور ان دونوں طاقتوں کو ابھی سے یقین دلانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ پرویز مشرف سے بھی بہتر اتحادی ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس طرح وہ عوامی تائید سے محروم ہو رہی ہیں۔ اگر بے نظیر صاحبہ نے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی بار بار کی دعوت کو نظر اندار کرتے ہوئے اپنا الگ راستہ بنانے کی کوشش جاری رکھی تو خود ان کی پارٹی کے لیے یہ رویہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔
عدلیہ، وکلا، صحافی برادری اور سیاسی اور دینی جماعتوں کے تحرک کے نتیجے میں پرویز مشرف اور ان کی حکومت بد حواسی کا شکار ہے ۔ پرویز مشرف نے برسرعام حکمران جماعت سے شکایت کی ہے کہ انھیں میدان میں اکیلاچھوڑ دیا گیا ہے اور حکمران جماعت خود اپنی بقا کے لیے بھی میدان میں اترنے سے کترا رہی ہے ‘ جب کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے کہاہے کہ حکمران جماعت کے بعض ارکان اپوزیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں‘ نیز سپریم کورٹ میں حکومتی وکیل ملک قیوم نے کہاہے کہ ریفرنس کا فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق میں ہوجائے تو وزیر اعظم شوکت عزیز کو استعفا دے دینا چاہیے ۔ یہ رویہ ظاہر کرتاہے کہ پرویز مشرف حکومت کا چل چلائو ہے اور انھیں اپنے چاروں طرف سازشیں اور سازشی عناصر نظر آرہے ہیں۔ ایسے وقت میں کور کمانڈروں کا اجلاس طلب کرکے آئی ایس پی آر کی طرف سے سیاسی بیا ن جار ی کروانا کمزوری کی علامت ہے ۔ فوجی کمانڈروں کا اس نوعیت کا ایک بیان ذوالفقار علی بھٹو کے آخری ایام میں بھی جاری ہواتھا لیکن کسی ڈکٹیٹر کے آخری ایام میں اس طرح کے بیانات سے کوئی بھی مرعوب نہیں ہوتا۔
ملک میں ایمرجنسی یا نیا مارشل لا نافذ ہونے کے خطرے کااظہار کیا جارہا ہے لیکن ملک کی موجودہ بحرانی کیفیت کا علاج مارشل لا یا ایمرجنسی نہیں ہے کیونکہ ملک میں پہلے ہی فوجی آمریت ہے اور بحران کا بڑا سبب بھی یہی ہے۔ اگر کوئی فوجی جرنیل نئے مارشل لا کے نفاذ کی حماقت کرے گا تویہ خود فوج کے حق میں سمِ قاتل ثابت ہوگا اور فوج اور عوام میں جو خلیج حائل ہوچکی ہے اس میں اضافے کا سبب بنے گا۔
عام انتخابات کے حوالے سے صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کی کارکردگی ہر مجلس میں موضوع سخن رہتی ہے۔ اگرچہ فوجی حکومت کی وجہ سے آئین عملاً معطل ہے اور صوبوں کو آئین کے عطاکردہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کے دو بڑے اور اہم مناصب پر مرکز اپنی صواب دید سے اشخاص کی تعیناتی کرتا ہے اور انھیں مرکز سے براہ راست ہدایات بھی ملتی رہتی ہیں۔ واپڈا کے ذمے صوبائی حکومت کے رائلٹی کے واجبات کی ادایگی سے کھلم کھلا پہلوتہی کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد نے ہرمیدان میں ترقی کی ہے۔
صحت اور تعلیم کے دو اہم شعبوں کا سابقہ ادوار کی کارکردگی سے موازنہ کیا جائے تو مجلس عمل کی حکومت کی اچھی کارکردگی بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ خواتین کے لیے الگ میڈیکل کالج قائم کیا گیا ہے اور الگ اسکولوں کی سہولت کے پیش نظر اسکول جانے والی بچیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہرضلعی ہیڈکوارٹر میں اعلیٰ درجے کی سہولتوں کے ساتھ ایک بڑا ہسپتال تعمیر کرنے کا کام جاری ہے۔ ایک آسان اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحت پر سالانہ ترقیاتی اخراجات سابقہ ادوار میں ۳۰ کروڑ روپے سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے‘ جب کہ مجلس عمل کی حکومت میں صحت کے شعبے کا ترقیاتی بجٹ ۳ ارب ۱۳ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت سے قبل کالجوں کی کل تعداد ۱۳۴ تھی‘ جب کہ گذشتہ چارسالوں میں ۸۰ نئے کالج تعمیر کیے گئے۔
سب سے اہم اور نمایاں تبدیلی حکومتی ایوانوں میں کلچر اور ثقافت کی تبدیلی ہے۔ گورنمنٹ ریسٹ ہائوس سابقہ ادوار میں عیاشی کے اڈے ہواکرتے تھے۔ اب یہ سادگی اور پاکیزگی کا نمونہ ہیں۔ وزرا باقاعدہ مساجد میںحاضری دیتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ گھلے ملے ہوئے ہیں۔ دفاتر میں عوام کا آزادانہ آنا جانا ہے اور حکومتی ایوانوں میں صوم و صلوٰۃ کی پابندی کی وجہ سے عوام اور خواص میں حائل پردے ہٹ گئے ہیں۔ دینی جماعتوں کی باہمی آویزش ختم ہونے کی وجہ سے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کے مقابلے میں کسی علاقائی یا سیکولر سیاسی تنظیم کی کوئی حیثیت نہیںہے۔ ایم ایم اے اگر داخلی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو تو کوئی دوسری جماعت انتخابات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
ایم ایم اے کی اس کارکردگی سے گھبرا کر عالمی قوتوں نے صوبہ سرحد میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کی مذموم سازشیں شروع کردی ہیں۔ پہلے مرحلے میں قبائلی علاقوں میں میزائل حملوں اور بم باریوں کے ذریعے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر باجوڑ اوروزیرستان میں بم باری کی گئی۔ خیبر ایجنسی میں عوام کو تقسیم کرنے کے لیے پیر اور مفتی کا جھگڑا کھڑا کیا گیا۔ ہنگو‘ پاراچنار اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ سنی کی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ اور بعض علاقوں میں کچھ دینی عناصر کے ذریعے متشدد طالبان کا رنگ اُبھارنے کی کوشش کی گئی جو بم دھماکوں‘ دھمکی آمیز خطوط اور تشدد کی کارروائیوں کے ذریعے صوبے میں بدامنی اور افراتفری کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو افراد ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کا بعض حکومتی ایجنسیوں کے ساتھ تعلق صوبائی حکومت پر واضح ہے‘ اور اس کے شواہد موجود ہیں کہ ان کی سرپرستی مرکزی حکومت کی ایجنسیوں کی طرف سے ہو رہی ہے۔
ایم ایم اے کے گرد تمام مسلمانوں کے متحد ہونے کے خدشے کے پیش نظر عالمی طاقتوں اور پرویز مشرف کی حکمت عملی ہوگی کہ خود مذہب کی بنیاد پرایم ایم اے کے لیے دوسرے حریف پیدا کیے جائیں اور انھیں منظم کیا جائے۔ ان گروہوں میں ایک گروہ وہ ہے جو لوگوں کو ووٹ دینے اور انتخابی عمل میں شریک ہونے سے منع کرتا ہے۔ ایک گروہ کو فرقہ وارانہ بنیاد پر منظم کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسی طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود متحدہ مجلس عمل کے گرد لوگ اکٹھے ہورہے ہیں اور صوبہ سرحد کے بعد اب پنجاب کے عوام میں ایم ایم اے کو پذیرائی مل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب میں کامیاب علما و مشائخ کانفرنسوں کا انعقاد اور مجلس عمل کے مرکزی رہنمائوں کا تین روزہ کارواں ایک روشن مستقبل کا اشارہ دے رہے ہیں۔
گرینڈ اپوزیشن الائنس کے لیے جب اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی جاتی ہے تو مجلس عمل پر مخالفین کی طرف سے دو اہم اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ پہلا اعتراض ۱۷ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دینے کا ہے‘ اور دوسرا اعتراض بلوچستان کی حکومت میں ’ق ‘ لیگ کا حلیف ہونے کا ہے ۔
سترھویں ترمیمی بل پر حکومتی پارٹی سے مفاہمت اور بلوچستان میں ق لیگ سے اتحاد بنیادی طور پر اس کمزوری کی علامت ہیں جو ملٹری سویلین اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے سیاسی اور دینی جماعتوں کو لاحق ہے۔ جب تک عوامی بیداری کے نتیجے میں عدل وانصاف پر مبنی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہمارا ملک اس نوعیت کی مشکلات اور الجھنوں سے دوچار رہے گا ۔ ہم نے سترھویں ترمیمی بل کے موقع پر جو مفاہمت کی تھی‘ اس وقت ہمارا خیال تھا کہ اس طرح ہم نے پرویز مشرف کو آئینی طور پر چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے دستبردار کرکے جمہوریت کی طرف قدم آگے بڑھایا ہے‘ لیکن جو لوگ طاقت کے بل بوتے پر حکمران بن جاتے ہیں وہ اپنی مرضی سے نہیں جاتے۔ انھیں قانون اور عہدوپیمان کا کوئی پاس نہیں ہوتا‘ اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہ بڑی سے بڑی بدعہدی سے بھی باز نہیں رہتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور سترھویں ترمیم کے باب میں بھی ہمیں اور پوری قوم کو یہی تجربہ ہوا۔
ہم نے نیک نیتی سے ایک کام کیا تھا مگر فی الحقیقت ہمیں اور پوری قوم کو بلکہ پوری دنیا کو دھوکا دیا گیا۔جب ہم نے دھوکا کھانے پر معذرت کی تو ہمارے کچھ ساتھیوں نے دلیل پیش کی کہ دھوکا کھانا گناہ نہیں ہے بلکہ دھوکا دینا گناہ ہے۔ اس لیے ہم کس بات کی معذرت پیش کریں لیکن دھوکا دینے والوں کے ساتھ بلوچستان حکومت میں شریک رہنے کی ہمارے پاس کوئی قوی دلیل نہیں ہے۔ اگرچہ اس بارے میں بھی کہا جاتاہے کہ اگر ہم حکومت سے نکل آئیں تو گویا گورنر راج ہوگا یا نیشنلسٹ قوتیں شریک اقتدار ہو کر مزید مشکلات پیدا کریں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی مسئلے کے کئی رخ ہوتے ہیں اور جس رخ کو بھی اختیار کیا جائے اس کے لیے دلائل فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر ہم عدلیہ اور فوجی ٹولے کے درمیان موجودہ آویزش میں عوام کو منظم کرکے عدلیہ کی آزادی کا راستہ کھول سکیں تو ہمیں اس طرح کے جوڑ توڑ (compromises)کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اللہ پر بھروسے اور صراط مستقیم پر چل کر ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرنا اور حق و باطل کے درمیان ہر طرح کی شراکت سے گریز کرنا ہی سیدھا راستہ ہے جس کی نشان دہی علامہ اقبال ؒنے اپنی اس دل نشیں نظم میں کی ہے :
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس دور میں ممکن نہیںبے چو ب کلیم
عقل عیار ہے‘ سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم
عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام
سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیںمقیم
ہے گراں سیر غم راحلہ و زادسے تو
کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم
مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی ومرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم
عزیمت کے اس راستے پر چلنے کے لیے ایم ایم اے کے سب ساتھیوں کو آمادہ کرنا ضروری ہے ۔ وقتی اختلاف راے پر علیحدگی اختیار کرنے یا کسی کو علیحدہ کرنے کے بجاے صبراور حکمت سے معاملات کو سلجھانا بہتر ہے اور یہی جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کی پالیسی ہے۔ اس راستے میں مشکلات ہیں لیکن ہر مشکل کو حل کرنے کے لیے راستہ موجود ہے ؎
مشکلے نیست کہ آساں نہ شو د
مردباید کہ ہراساں نہ شود
(ایسی کوئی مشکل نہیں ہے جو آسان نہ ہوسکے۔ مرد کو چاہیے کہ ہروقت حوصلہ مند رہے۔)
پشتو میں مثل ہے کہ ’’پہاڑ کی چوٹی اگرچہ بلند ہے لیکن اس کے اوپر راستہ ہے‘‘۔ ان شاء اللہ وقت آرہاہے کہ مومنانہ بصیرت ،باہمی اتحاداور اللہ پر توکل کے ذریعے دشمنوں کے مکر و فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا اور اسلامی قوتیں کامیاب و کامران ہوں گی‘ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے :
جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o
(بنی اسرائیل۱۷:۸۱) اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ ط (الانبیاء۲۱:۱۸) مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مِٹ جاتا ہے۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اس آیت کا حوالہ دے کر علامہ اقبال ایمان کامل کے ساتھ فرماتے ہیں : ؎
تاخدا اَنْ یُّطْفِئُوْا فرمودہ است
از فسردن ایں چراغ آسودہ است
(جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ یہ اللہ کا روشن کردہ چراغ ہے تو اس چراغ کو بجھنے کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے)
کچھ لوگ درحقیقت ایم ایم اے کے اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس معذرت کو بنیاد بناکر ایم ایم اے کی یک جہتی پر ضرب لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایم ایم اے کی دو بڑی جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی میں کچھ امور پر اختلاف موجود ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ان وقتی اختلافات کی بنیاد پر ایم ایم اے کے اتحاد کو توڑنا نہیں چاہتی ہے ۔ اگر ایم ایم اے کے فوائد اور اس کی مشکلات کا موازنہ کیا جائے تو اس کے فوائد کہیں زیادہ اور دور رس مثبت نتائج کے حامل ہیں اور دینی جماعتوں کی یہ یکجہتی پورے مسلم معاشرے کو اغیار کی سازشوں سے بچانے اور اسے اصل چیلنج کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ ایم ایم اے کی دعوت پر کامیاب قومی مجلس مشاورت کے بعددرج ذیل چھے افراد پر مشتمل ایک قومی رابطہ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیاگیا جو آگے کی سیاسی تحریک کا نقشہ بنائے گی اور ان شاء اللہ عوامی تحریک کی رہنمائی کرے گی: قاضی حسین احمد‘ راجا ظفر الحق‘ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان‘ اسفند یار ولی خان‘ محمود خان اچکزئی۔
۷ اور۸جولائی کو اے آرڈی کی طرف سے میاں نوازشریف نے لندن میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک کانفرنس بلائی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی طرف سے ابھی سے شرکت سے معذرت آئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کا وفد شرکت کرے گا لیکن اب تک کے تجربے سے یہ ثابت ہے کہ بے نظیر صاحبہ کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کا کوئی بھی وفد فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو نظرانداز کرکے فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔مسلم لیگ (ن) عرصے سے پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے میں مشکلات سے دوچار ہے لیکن اسے چھوڑ کر الگ راستہ اختیار کرنا بھی اس کے لیے بوجوہ مشکل ہے ۔ اپوزیشن اور ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی مفید راستہ یہ ہے کہ دستور کی بالادستی ،عدلیہ کی آزادی اور فوجی آمریت سے نجات کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق راے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس کی ایک بار پھر پوری کوشش ہونی چاہیے لیکن وقت اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے اور انتظار اور مزید کوشش کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہی ہے۔ اس لیے اب یکسوئی اختیار کرنا اور عملی جدوجہد کو مہمیز دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
ایک مستحکم اسلامی سیاسی جمہوری پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ دستور اور قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔ عدلیہ کی آزادی یقینی بنا دی جائے اور عوام کو دینی تشخص رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ کیا جائے۔ عوام کی تنظیم کے بغیر دستور کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کی جڑیں عوام میں گہری ہیںلیکن مشترکات پر متحدہونے کے باوجودجماعت اسلامی کے سوا باقی جماعتیں اب تک اپنے اپنے مسلک کے دائرے سے اوپر نہیں اٹھ سکیں۔جماعت اسلامی اگرچہ اپنی تنظیمی قوت اور کارکنان کی اعلیٰ مقاصد کے ساتھ وابستگی کے سبب ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے اور الحمدللہ عوام میں اچھی شہرت اور پذیرائی رکھتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر عوام کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے اور عام آدمی کو یہ یقین دلانے میں کہ ’جماعت اسلامی اس کی ہے اور وہ جماعت اسلامی کا ہے‘ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کچھ مدت پیش تر ممبر سازی مہم اور محلہ وار رابطہ کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے شروع کیا گیا تھا لیکن نامکمل رہ گیا تھا۔ اب جماعت نے نئے سرے سے اس کا آغاز کردیا ہے۔
اگر ہم ۱۵ کروڑ کی آبادی میں ۱۰ فی صد یعنی ڈیڑھ کروڑ مرد اور خواتین کو ممبر بنا کر رابطہ کمیٹیوں کے ذریعے منظم کر سکیںاور مجلس عمل کی دوسری جماعتیں بھی اپنے اپنے دائرے میںمنظم اور عوامی پذیرائی حاصل کرلیں‘ اور ساتھ ہی ہم اس میں کامیاب ہوجائیں کہ مجلس عمل میں شامل جماعتوںکے افراد کو قدر مشترک اور درد مشترک پر جمع کرکے ایک جماعت ہونے کا احساس ابھار سکیں‘ اور دین کے ساتھ وابستگی رکھنے والے تمام افراد میں’ترجیحات‘ کے بارے میں صحیح فہم اور یکسوئی پیدا کرسکیں کہ وہ فروعی اختلافات سے اٹھ کر اعلاے کلمۃاللہ کے مقصد پر متحد ہوجائیں اور قرآن و سنت کی مشترک بنیاد کو مرکز و محور بنا کر آپس میں ایک دوسرے کی تعبیر کو تسلیم کر لیں‘ اور ایک دوسرے کے لیے دل میں جگہ پیدا کر لیں تو متحدہ مجلس عمل ایک مستحکم اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی پاکستان کی تعمیر میں اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ اس کے لیے قیادت اور کارکنوں کا اخلاص اور للہیت سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ اخلاص اور للہیت سے ہی قربانی کا جذبہ اور محنت شاقہ کی عادت پنپ سکتی ہے۔
پوری اسلامی دنیا میں ہر جگہ عوام دینی طور پر بیدار ہو رہے ہیں اور اغیار کی سازشوں سے باخبر بھی ہورہے ہیں کیونکہ میڈیا کے اس دور میںکوئی بھی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔ امریکی دانش ور جس طرح مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے پیش کررہے ہیں اور مسلمانوں ہی میں سے اپنے ڈھب کے لوگوں کو منظم کرنے اور انھیں مسلمانوں کے خلاف میدان میں لانے کی تیاری کررہے ہیں‘ وہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے عام ہونے کی وجہ سے مسلمان نوجوانوںسے مخفی نہیں ہیں۔ اگرچہ فحش اور بے حیائی عام کرنے اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اس کے ذریعے بے ہمت اور بودہ بنانے کی کوششیں بھی بڑے منظم انداز میں اور بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں لیکن مسلمانوں کی بڑی اکثریت حالات حاضرہ اور سیاسی تجزیوں پر مشتمل پروگراموں میں دل چسپی لینے لگی ہے۔
اس رجحان کی وجہ سے آمرانہ فوجی حکومت کو پیمرا آرڈیننس میں ایسی ترامیم کرنی پڑی ہیں جو اظہار راے اور پریس کی آزادی کے منافی ہیں۔ اس ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف جو شدید ردعمل صحافی برادری میں نمودار ہوا‘ حکومت اس سے گھبرا گئی اور پرویز مشرف کو پسپائی اختیار کرکے اس ترمیم کو واپس لینا پڑا۔ تاہم حالیہ عوامی بیداری اور خاص کر ۱۲ مئی کو ایم کیو ایم اور پرویز مشرف کا دہشت گرد چہرہ لوگوں کو دکھانے میں میڈیا نے جو کردارادا کیا ہے اور اب تک بڑی حد تک میڈیا اپنے اس آزادانہ کردار پر قائم ہے‘ وہ عوامی بیداری کے ایک نئے دور کی نوید سنا رہا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ۱۹۰۷ء میں اسلام کے روشن مستقبل کی جو خوش خبری سنائی تھی‘ اس میں بھی ’بے حجابی‘ اور تمام حقائق کے آشکارا ہونے کا ذکر ہے:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھاگیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
ان حالات میں ہمارا پیغام صرف ایک ہے۔ اس نازک اور فیصلہ کن لمحے میں کوئی باشعور مسلمان خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ یہ وقت اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کی جدوجہد میں سردھڑ کی بازی لگادینے کا وقت ہے۔ یہ وقت فیصلہ‘ یکسوئی‘ جدوجہد اور قربانی کا وقت ہے‘ اور اللہ سے اپنے کیے ہوئے عہدوفا کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل پوری قوم کو اس ملک عزیز کی بقا‘ استحکام اور اس کے نظریاتی کردار کی ادایگی کی اس تاریخی جدوجہد میں بھرپور شرکت کی دعوت دیتی ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ توعرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
دیوار برلن کو گرے ہوئے دو عشروں سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے۔یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک مضبوط تر بلاک بنانے میں مصروف ہیںمگرایک اُمت مسلمہ ہے جسے ٹکڑیوں میں بانٹنے کے لیے بغداد میں دیوار تعمیر ہو رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باڑ لگائی جارہی ہے اور ایران‘ پاکستان کی سرحد پر رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ اُمت مسلمہ اپنے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔۱۴سو سالہ تاریخ میں خون مسلم اتنا ارزاں نہیں ہوا جتنا آج ہے۔ یہ اُمت اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی بحرانوں سے گزرچکی ہے۔کبھی تاتاریوں نے اس پر حملہ کیا تو کبھی صلیبی یلغار نے اس کے وجود کو مٹانے کی کوشش کی۔دور جدید میں مغربی استعمار نے اس کی شناخت مسخ کرنے کی پوری کوشش کی مگر اس دین نے ثابت کردیا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے بحران کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتا ہے۔اس دین کے مزاج میں زیر ہوکر رہنا نہیں۔یہ حق کا غلبہ اور دیگر باطل ادیان کو سچی الہامی ہدایت کے سایے میں لانا چاہتا ہے کہ یہی خالق کائنات کی مرضی ہے۔ اس چراغ کو پھونکوں سے بجھایا نہیں جاسکتا ۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں اس پر حملے ہوتے رہے مگر ہر حملہ آور پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اس دین کے پیروکاروں کو زیر کرنے کے لیے اس میں نقب لگانا ضروری ہے ۔اُمت سے تعلق رکھنے والے چند افراد کا ایمان و ضمیر خرید نے پر ہر حملہ آور مجبور ہوا کہ اس کے بغیر اسے تمکنت حاصل نہ ہوسکی۔اس کارگرطریقہ کار کے علاوہ نقب لگانے والے دشمنوںنے ایک اور چال یہ چلی کہ اُمت میں تفرقے کو ہوا دی ۔مسالک اور گروہوں میں بٹی اُمت کا ہر گروہ خود کو حق پر اور دوسرے کو غلط سمجھتارہا ۔دور جدید کا ہلاکو بھی اُمت پر اپنا حق حکمرانی جتاتا ہے مگراپنے پیش روؤں کی طرح اسے بھی معلوم ہے کہ اُمت میں نقب لگانے کے لیے کارگر نسخہ یہی ہے کہ اس کی وحدت کو ختم کر دیا جائے اور تفرقہ بازی کواس قدر ہوا دی جائے کہ اُمت کے افراد باہم دست وگریباں ہوجائیں۔
اُمت کو گروہوں میں بانٹنا فرعون کا طریقہ ہے۔قرآن مجید میں اس حوالے سے ہمیں ملتا ہے:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا (القصص ۲۸: ۴) واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔
قرآن مجید میں فرعون کا ذکر ۷۰سے زاید مقامات پر ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرعون ایک شخص کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایساکردار ہے جس سے تاریخ کے مختلف ادوارمیں اُمت کو سابقہ پڑا۔موجودہ دور میں اُمت کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو مختلف واقعات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہمارے دشمن فرعون کے وتیرے کا دوبارہ احیا کرتے ہوئے ہمیں ٹکڑیوں میں بانٹنے کی سعیِ مذموم کررہے ہیں۔پاکستان میں پارہ چنار کے واقعات سے لے کر بغداد میں سنی شیعہ آبادی کے درمیان دیوار کی تعمیر، اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ ہمارے دشمن شیعہ سنی فسادات کو ہوا دینے میں جتے ہوئے ہیں۔ستم بالاے ستم یہ کہ دونوں گروہوں کے سادہ لوح پیروکار خود کو حق پر کاربند اور دوسرے کو باطل کا پیروکار قرار دے رہے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اُمت کے دونوں گروہ جس قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اس کی واضح ہدایت ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍط (الانعام ۶: ۱۵۹)جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے‘ یقینا ان سے تمھارا کچھ واسطہ نہیں۔
شیعہ اور سنی، مسلمانوں کے دو بنیادی فرقے ہیں جن کے درمیان ۱۴صدیاں پہلے خوںریزیاں ہوچکی ہیں۔ان اختلافات پر اب زمانوں کی گرد پڑی ہوئی ہے ۔اس گرد کو جھاڑنا نادانی ہی نہیںبلکہ خودکشی ہے۔ فتنے کا سر کچلنا اُمت کے ہر صاحب شعور کا فرض ہے۔ ان خوںریزیوں کو یاد کرنا سوئے ہوئے فتنے کو جگانے کے مترادف ہے۔یہ بات تو مسلمہ ہے کہ ہمارا مشترکہ دشمن اس گرد کو جھاڑ کر دونوں فرقوں میں سے کسی کی خدمت نہیں کررہا بلکہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے قدیم اصول پر عمل پیرا ہے۔ ۱۱ستمبر کے بعد ہمارے دشمن نے ہمیں زیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرڈالی مگر آخر کار وہ فرعون کے طریقے پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہوا۔پاکستان اور عراق سمیت مختلف مسلم ممالک میں شیعہ سنی تصادم کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔دشمن اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ اُمت کو زیر کرنے کے لیے جو کام اسے انجام دینا ہے‘ وہ کام اُمت کو تفرقے میں ڈال کر خود اسی کے ہاتھوں لیا جا سکتا ہے۔
اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ متعدد مسالک اور فرقے بذات خود معیوب نہیں‘ نہ یہ اجماع اُمت میں ہی مخل ہیںبلکہ مختلف مکاتب فکر سے پیدا ہونے والا تنوعِ افکار، اُمت کی تقویت کا باعث ہے۔مختلف مکاتب فکر کی موجود گی دین میں آزادیِ اظہار اور آزادیِ فکر کا باعث ہے۔ ہرمکتب فکر کا اپنا تشخص ہے جسے کسی طور مسخ کیا جاسکتا ہے نہ نظرانداز۔ صدیوں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں میں دو مکاتب فکر‘ شیعہ اور سنی‘ میں ہر ایک کے اپنے نظریات و افکار ہیں۔ تنوع افکار کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دونوں الگ الگ قومیں ہیں ۔علماے اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ چند اصولی اور بیش تر فروعی اختلافات کے باوجود اہلِ تشیع اُمت کا حصہ ہیں اور مل جل کر رہنا ہی سب کے لیے زندگی اور ترقی کا راستہ ہے۔ موجودہ دور کے جید علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے کسی گروہ کو کافر یا خارج از ملت قرار نہیں دیا جاسکتا، نیز ملت سے اخراج کا فیصلہ افراد کے ذمے نہیں بلکہ یہ شرعی عدالت کا کام ہے۔اس میں یہ اصول بھی طے ہے کہ انفرادی اعمال کا انطباق اجماع پر نہیں کیا جاتا۔قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔دین اسلام، مسلمان کی عزت و آبرو اور اس کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔کسی سنی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی شیعہ کو برا کہے‘ نہ کسی شیعہ کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی سنی کی عزت پر حملہ کرے۔ مسلمان خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی‘ دونوں کے درمیان بے شمار مشترکہ اقدار ہیں۔وہ ایک اللہ، ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ایک قبلہ اور ایک قرآن کریم کو مانتے ہیں۔دین کی بنیادی چیزوں پر دونوں کا اتفاق ہے‘ ایک آدھ مسئلے کے سوا سارے اختلافات فروعی ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فروعی معاملات میں تو اختلاف خود سنی مسالک میں بھی ہے۔ ان اختلافات کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے اور تفرقہ اور تصادم کا ذریعہ ہرگز نہیں بننے دینا چاہیے۔
اُمت کے دشمن صدیوں پرانے تفرقے کو ہوا دے کر اُمت کی وحدت کو مٹانے کے درپے ہیں ۔ اُمت کے مفکرین ، اہل قلم اور عوام کو دشمن کی چالوں سے باخبر رہنا چاہیے۔دونوں مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما پر بھاری ذمہ داری ہے اوروقت کی ضرورت ہے کہ عوام الناس کو بتایا جائے کہ ہمارا مسلک صحیح ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے مسالک غلط ہیں۔ہم نے جس طرح نصوص کو سمجھا ہے، ضروری نہیں کہ دوسرا بھی اسی طرح ان نصوص کو سمجھے۔دونوں مکاتب فکر کے مابین قدر مشترک کو ایک دوسرے سے قربت کا ذریعہ بنایا جائے اور جن باتوں میں اختلاف ہے‘ انھیں اچھالنے سے گریز کیا جائے ۔آج سب سے زیادہ زور تہذیبوں کے درمیان مکالموں پر دیا جارہا ہے مگر ایک ہی تہذیب کے پیروکاروں کے مابین مکالمے کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
دونوں مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اور گروہوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وقت ہمارا ساتھ نہیں دے رہا۔ہماری سرحدیں محفوظ ہیں نہ ہمارے ہوائی اڈے دشمن کی دسترس سے باہر ہیں۔دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔اس کے فوجی اڈے اور جنگی بیڑے ہمارے چاروں طرف ہیں۔ اس کے دو ر مار میزائلوں کا نشانہ ہمارے شہر اور دیہات ہیں۔اس کی نظر میں شیعہ، سنی کی کوئی تفریق نہیں۔یہ نازک ترین وقت تصادم کا نہیںتفاہم کاہے،دوری کا نہیںقربت کا ہے۔ طوفان ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں ؎
میری مانو چلو منجدھار میں موجوں سے ٹکرائیں
وگرنہ دیکھنا ، ساحل پہ سارے ڈوب جائیں گے
یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ ایمان کی مدد کے لیے فرشتے نازل ہوتے ہیں‘ ان کے لیے دعاے رحمت و مغفرت کرتے ہیں‘ مدح و ثنا کرتے ہیں اور ان پر سلام بھیجتے ہیں۔ قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے۔ ہم یہ مقامات پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج (حٰم السجدۃ۴۱:۳۰-۳۱) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘ یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ’’ نہ ڈرو‘ نہ غم کرو‘ اور خوش ہو جائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی‘‘۔
فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہلِ ایمان اُنھیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں۔ اگرچہ اللہ جل شانہ‘ جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے‘ لیکن بالعموم‘ اہلِ ایمان پرخصوصاً سخت وقتوں میں جب کہ دشمنانِ حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں‘ ان کا نزول غیرمحسوس طریقے سے ہوتا ہے‘اور اُن کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجاے دل کی گہرائیوں میںسکینت و اطمینانِ قلب بن کر اُترتی ہیں۔ بعض مفسرین نے فرشتوں کے اِس نزول کو موت کے وقت‘ یا قبر‘ یا میدانِ حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے۔ لیکن اگر اُن حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملے کو بیان کرنے کااصل مقصد اِس زندگی میں دین حق کی سربلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے‘ تاکہ انھیں تسکین حاصل ہو‘ اور ان کی ہمت بندھے‘ اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہوجائیں کہ وہ بے یارومددگار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں۔ اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہلِ ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں‘ اور قبر ( عالمِ برزخ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں ‘ اور جس روز قیامت قائم ہوگی اس روز بھی ابتداے حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر اُن کے ساتھ لگے رہیں گے‘ لیکن ان کی یہ معیت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے ۔ سلسلۂ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کش مکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین واشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہلِ ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں۔ ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوش نمابنا کر دکھاتے ہیں اور انھیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو‘ یہی تمھاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انھی سے دنیا میں تمھاری سرداری محفوظ رہے گی۔ دوسری طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آکر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے۔
یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہلِ ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اِس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی بالادست اور چیرہ دست ہوں‘ اُن سے ہرگز خوف زدہ نہ ہو اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں بھی تمھیں سہنی پڑیں‘ ان پر کوئی رنج نہ کرو‘ کیونکہ آگے تمھارے لیے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں توان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جارہے ہو وہاں تمھارے لیے کسی خوف کا مقام نہیں ہے‘ کیونکہ وہاں جنت تمھاری منتظر ہے‘ اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جارہے ہو ان کے لیے تمھیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ کیوں کہ یہاں ہم تمھارے ولی و رفیق ہیں۔ عالمِ برزخ اور میدانِ حشرمیں جب فرشتے یہی کلمات کہیں گے تواس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہاں تمھارے لیے چین ہی چین ہے‘ دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا غم نہ کرو‘ اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والاہے‘ ا س کا خوف نہ کھائو‘ اس لیے کہ ہم تمھیں اُس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۴۵۴-۴۵۶)
ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا o تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ وَ اَعَدَّ لَھُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا o(الاحزاب ۳۳:۴۳-۴۴)وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمھارے لیے دُعاے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمھیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے‘ وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔ جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا باعزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔
اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ کفار و منافقین کی ساری جلن اور کڑھن اُس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اِس رسول کی بدولت تمھارے اُوپر ہوئی ہے۔ اُسی کے ذریعے سے ایمان کی دولت تمھیں نصیب ہوئی‘ کفر و جاہلیت کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آئے‘ اور تمھارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم علانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو۔ اسی کا غصہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسولؐ پر نکال رہے ہیں۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اس رحمت سے محروم ہو جائو۔ صلٰوۃ کا لفظ جب علٰی کے صِلیکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی رحمت‘ مہربانی اور شفقت کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کی طرف سے انسانوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی دعاے رحمت کے ہوتے ہیں‘ یعنی ملائکہ انسانوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ تو اِن پر فضل فرما اور اپنی عنایات سے انھیں سرفراز کر۔ ایک مفہوم یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ کا یہ بھی ہے کہ یشیع عنکم الذکرالجمیل فی عباد اللّٰہ‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے بندوں کے درمیان نام وری عطا فرماتا ہے اور تمھیں اس درجے کو پہنچا دیتا ہے کہ خلقِ خدا تمھاری تعریف کرنے لگتی ہے اور ملائکہ تمھاری مدح و ثنا کے چرچے کرتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ، ’’ان کا تحیّہ اس سے ملاقات کے روز سلا م ہو گا‘‘۔ اس کے تین مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود السلام علیکم کے ساتھ ان کا استقبال فرمائے گا‘ جیسا کہ سورئہ یٰسٓ میں فرمایا: سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (۳۶:۵۸)۔ دوسرے یہ کہ ملائکہ ان کو سلام کریں گے‘ جیسے سورئہ نحل میں ارشاد ہوا : اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ،’’ جن لوگوں کی رُوحیں ملائکہ اس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ پاکیزہ لوگ تھے‘ اُن سے وہ کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر‘ داخل ہوجائو جنت میں اپنے اُن نیک اعمال کی بدولت جو تم دنیا میں کرتے تھے‘‘ (۱۶:۳۲)۔ تیسرے یہ کہ وہ خود آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے‘ جیسے سورئہ یونس میں فرمایا: دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّہُتُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ،’’وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ خدایا‘ پاک ہے تیری ذات‘ ان کا تحیّہ ہو گا سلام‘ اور اُن کی تان ٹوٹے گی اس بات پر کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے‘‘ (۱۰: ۱۰)۔ (ایضاً‘ ص ۱۰۴-۱۰۵)
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ج (المومن ۴۰: ۷) عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے‘ اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں‘ سب اپنے رب کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کررہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعاے مغفرت کرتے ہیں۔
یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفارِ مکّہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں ‘ اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اِن گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو‘ تمھارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمھارے حامی ہیں اور تمھارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرشِ الٰہی کے حامل اور اس کے گرد و پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار‘ وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت ِکے ستون ہیں اور جنھیں فرماںرواے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ‘ تمھارے ساتھ گہری دل چسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ جو فرمایا گیاکہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعاے مغفرت کرتے ہیں‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے‘ اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دل چسپی پیدا ہوئی ہے جو انھی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے‘ مگر انھوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ‘ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انھیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سراطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِمقام کے باوجود اُن کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔(ایضاً، ص ۳۹۴)
عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ تربیت اولاد کا معاملہ بھی امورِخانہ داری ہی کی کوئی شاخ ہے اور چونکہ گھر کے اندر کا میدان خواتین ہی کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے تربیت ِ اولاد صرف ماں کی ذمہ داری ہے۔ بے شک تربیت کا یہ کام ہوتا گھر کے اندر ہی ہے‘ اِس سے بھی انکار نہیں کہ یہ امورِخانہ داری ہی کی ایک شاخ ہے مگر گھر کے اِس کام کو دوسرے تمام امور پر ویسی ہی برتری حاصل ہے جیسی اللہ تعالیٰ کی کائنات کی تمام مخلوق میں انسان کو حاصل ہے۔ یہ ان ذمہ داریوں میں سے ہے جن کے اہتمام پر اسلام نے بہت زوردیا ہے اور ماں باپ دونوں کو اُن کے بدرجۂ اتم پورا کرنے پر اُبھارا ہے۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ اِس بات پر دلیل ہے کہ یہ دونوں کے کرنے کا کام ہے۔ چند آیات قرآنی ملاحظہ فرمائیں:
یاد کرو جب لقمان ؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان ۳۱:۱۳-۱۹)
اور ابراہیم ؑـنے اپنی اولاد کو اسی دین اسلام پر چلنے کی وصیت کی‘اور یہی وصیت یعقوب ؑ اپنی اولاد کو کرگیا۔ اُس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے‘ لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘ پھر کیا تم اس وقت موجود تھے‘ جب یعقوب ؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔ اُس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے۔ ان سب نے جواب دیا ہم سب اُسی ایک اللہ کی بندگی کریں گے جسے آپ ؑ نے اور آپ ؑ کے بزرگوں: ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑاور اسحاقؑ نے خدا مانا اور ہم اسی کے مسلم ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۳۲-۱۳۳)
اور اپنے متعلقین کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کے پابند رہو۔(طٰہٰ۲۰:۱۳۲)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بچائو اپنے آپ کو اور گھر والوں کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (التحریم ۶۶:۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے متعدد بار اس کی تاکید ووصیت فرمائی۔ چند احادیث درج ذیل ہیں:
اپنے بچوں کو ادب سکھائو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔ (ابن ماجہ)
اللہ اُس والد پر رحم کرے جو بھلائی میں اپنے بچے کی معاونت کرے۔(کتاب الثواب )
مرد اپنے گھر کا رکھوالا (راعی) ہے اور اُس سے اس کی رعیت (گھر والوں) کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ (بخاری، مسلم)
کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھے ادب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔ (ترمذی)
مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی و احادیث مبارکہ سے آخر کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری صرف ماں پر ڈالی گئی ہے‘ بلکہ ان سے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک مشترکہ عمل ہے جو میاں بیوی باہمی تعاون سے آپس میں مل جل کر کرتے ہیں۔ اسی لیے سلف صالحین اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اعلیٰ فضا مہیا کرتے تھے۔ چنانچہ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ خلیفہ منصور نے بنی اُمیہ کے جیل خانے میں قیدیوں سے دریافت کیا کہ قید کے دنوں میں آپ لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف کس چیز سے ہوئی؟ انھوں نے بتایا کہ اس چیز سے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنے سے محروم رہ گئے۔ (تربیتِ اولاد کا اسلامی نظام، عبداللہ ناصح علوان)
آیئے سب سے پہلے ’تعلیم و تربیت‘ کے معنی پر غور کرتے ہیں:
تعلیم: سکھانا‘ تلقین‘ ہدایت‘ تربیت۔
تربیت: پرورش‘ پرداخت (دیکھ بھال‘ حفاظت)‘ تعلیم و تہذیب‘ تعلیم.ِ اخلاق۔ (فیروز اللغات اُردو جدید، نیا اڈیشن)
معلوم ہوا تعلیم سے مراد علم حاصل کرنے کی وہ کیفیت ہے جو بہرحال اپنی انتہا کو پہنچ سکتی ہے۔ چند خال خال اشخاص ہی ملیںگے جو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ڈگریاں جمع کرنے پر صَرف کردیتے ہیں ورنہ آدمی اپنی تعلیم کا سلسلہ ایک حدتک جاکرمنقطع کردیتا ہے‘ جب کہ تربیت کا سلسلہ مرتے دم تک چلتا رہتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی چند سال نہایت مؤثر ہوتے ہیں۔ موقع محل کی مناسبت سے اپنے اندر مناسب تبدیلی لانا‘ ہمہ وقت اپنا احتساب مدنظر رکھنا وغیرہ ایک نہ ختم ہونے والی تربیت ہی کا حصہ ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تربیت ہی تعلیم کو چمکاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد اگر اچھی تربیت سے بھی آراستہ ہو تو اپنا الگ نمایاں مقام پیدا کرلیتا ہے اور مہذب بھی کہلاتا ہے‘ جب کہ تربیت سے تہی دامن تعلیم یافتہ فرد معاشرے میں خاطرخواہ مقام حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
دوسری طرف ایک بہترین تربیت یافتہ فرد اگر کسی وجہ سے زیادہ اعلیٰ تعلیم نہ بھی حاصل کرسکے تو اس کی تھوڑی سی حاصل شدہ تعلیم بھی اسے معاشرے میں اچھا مقام عطا کرتی ہے۔ شاید اسی لیے کسی عقل مند کا قول ہے کہ ’’نرا علم کافی نہیں ہوتا لیکن نری صحبت کافی ہوجاتی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں تعلیم یافتہ زیادہ اور تہذیب یافتہ کم ملتے ہیں‘تاہم تعلیم بھی ناگزیر ہے‘ اس لیے اس کا حصول بھی لازم ہے۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ بحیثیت ’باپ‘ ایک فرد کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔
اس ضمن میں باپ کی اوّلین کوشش یہ ہو کہ اس کے بچے کی ماں دینی شعور رکھنے والی ہو۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کے لیے اچھے خاندان والی عورت کا انتخاب کرو‘ اس لیے کہ خاندان کا اثر سرایت کرجاتا ہے‘‘۔ (ابنِ ماجہ)
اگر اس سلسلے میں ذرا بھی عدمِ اطمینان ہو تو یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی ماں کو ایسی فضا فراہم کرے جو حصولِ علم کے لیے سازگار ہو‘ نیز کم از کم ہفتے میں ایک بار اتنا وقت ضرور نکالے کہ جو دعائیں‘ قرآنی آیات اور تاریخی واقعات ماں نے بچے کو سکھائے یا سنائے ہیں‘ انھیں سنے اور بچے کے ساتھ کچھ وقت گزارے۔ تربیت کے اس مرحلے میں باپ کا عملی کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک بہت چھوٹا بچہ نہ نماز پڑھتا ہے‘ نہ روزہ رکھ سکتا ہے اور نہ اپنے ہاتھ سے انفاق ہی پر قادر ہے‘ مگر جب باپ کو عملی طور پر ان دینی فرائض کو انجام دیتے ہوئے دیکھتا ہے تو یہ چیز اس کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہے اور جب وہ خود عمل کی عمر کو پہنچتا ہے تو باپ کے کردار کی یہی تصویر اس کی رہنمائی کرتی ہے۔
تعلیم و تربیت کے تمام مراحل میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بچے کی عمر کے حساب سے کام کریں۔ اگر آپ چاہیں گے کہ ایک چھوٹی عمر کا بچہ ہر وقت ہاتھ میں قرآن لیے بیٹھا رہے تو یقینا آپ اسے انحراف اور بے زاری کا راستہ دکھائیں گے۔ جس وقت وحی کے ذریعے احکامات نازل کیے جاتے تھے تو وہ بھی بتدریج نازل ہوتے تھے تاکہ پیروی میں آسانی ہو۔ یہی انسانی فطرت ہے۔ بچے کو آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور مثالوں سے اسلام‘ رسولؐ، اہلِ بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور صالحین سے محبت کرنا سکھایئے اور اس کام میں تعاون اور نرمی کو یقینی بنایئے۔ یاد رکھیے‘ آپ سے آپ کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ کون پوچھے گا یہ سوال؟ کیا آپ اس سوال کے جواب کے لیے تیار ہیں؟ اس جواب کی تیاری کے لیے آپ درج ذیل باتوں سے مدد لے سکتے ہیں:
۱- جونہی بچہ ذرا بڑا ہو اسے تلاوتِ قرآن پاک کی ابتدا کرایئے۔
۲- استاد اصولِ تجوید اور دینی بصیرت کا حامل ہو۔ ان امور سے ناواقف استاد باعثِ نقصان ہے‘ نیز لڑکیوں کے لیے کوشش کی جائے کہ کسی خاتون کا انتظام ہو۔ اگر ممکن نہ ہو تو چھوٹی عمر میںقرآن ختم کرانے کی طرف توجہ دیں اور گھر کے ایسے حصے میں بٹھا کر پڑھانے کا بندوبست کریں جو سب کی نظروں میں ہو۔ اس دوران بچیوں کو تنہا چھوڑ دینا باعثِ فتنہ ہے۔
۳- اگر اولاد کا رجحان دیکھیں توحفظِ قرآن پر توجہ دیں اور اس خواہش کو اُبھارنے کی کوشش کریں‘ نیز ناظرہ ختم ہوجانے کے بعد قرآن کے معنی اور تفسیر بھی پڑھوائیں۔ وہ لوگ جو ایسے معلم حضرات کا انتظام کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ وہ بڑی اعلیٰ جگہ اپنا پیسہ لگا رہے ہیں۔ یاد رکھیں‘ بیٹی کو شادی سے پہلے اور بیٹے کو نوکری سے پہلے پہلے جس قدر دینی علوم میں مہارت دلوا سکتے ہیں ضرور دلوایئے۔ یہ آپ کے لیے سب سے بڑا صدقۂ جاریہ ہوگا اور… یہ بچے پھر بڑی مشکل سے ہاتھ آئیں گے۔
۴- جب بچہ اسکول جانے کی عمر کو پہنچ جائے تو مناسب ’تربیت گاہ‘ کا انتخاب کیجیے جو بچے کو دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بھی مستند بنائے۔ اس موقعے پر بھی بچیوں کے لیے مخلوط نظام کا انتخاب مت کیجیے۔
۵- فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی اہمیت بتایئے اور ان کا شوق دلایئے۔
تربیت کے سلسلے میں توازن کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ تربیت روحانی ہو یا جسمانی‘ فکری ہو یا ایمانی‘ نفسیاتی ہو یا معاشرتی‘ ہر حیثیت میں بچے کی انفرادی اہمیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ چیز جہاں اُس میں عزتِ نفس اور اعتماد پیدا کرتی ہے وہاں آپ سے محبت کو بھی مضبوط بناتی ہے۔ یاد رکھیے‘ آپ کی طرح آپ کے اہلِ خانہ بھی دن بھر اپنے فرائض منصبی میں مصروف رہے اور اب وہ شام میں آپ کے منتظر ہیں اور آپ کی ایک مسکراہٹ کو ہرچیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ایسے باپ جو گھرمیں داخل ہوتے ہی دن بھر کی تھکن اور کوفت کو اپنے اہلِ خانہ پر غصہ‘ چیخ پکار کی شکل میں ظاہر کرتے ہیں‘ بہت جلد جان لیتے ہیں کہ بچپن میں سر جھکا لینے والے یہ بچے اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے ہی انحراف‘ فرار اور نفرت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ کس نے سکھایا یہ طرزِعمل؟ آپ آج جس چیز کا بیج بوئیں گے‘ کل اُسی کی فصل کاٹیں گے۔
لڑکے اور لڑکی کی تربیت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں‘ تاہم لڑکیاں نسبتاً زیادہ حسّاس ہوتی ہیں۔ باپ کی نرمی یا سختی کو خصوصی طور پر محسوس کرتی ہیں۔ ان کی ذات کا احترام اور ان کی موجودگی کو باعثِ رحمت ظاہر کرنا ان کی ذات میں پختگی پیدا کرتا ہے۔ لیکن لڑکوں کی تربیت میں باپ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ روزمرہ معاملات میں بچوں سے راے لینا‘ ان کی باتوں کو اہمیت دینا‘ ان کی پسند اور ناپسند کو جائز امور میں فوقیت دینا‘ ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا‘ان کے نقصان کی تلافی کرنا‘ ان کی ضروریات کو پورا کرنا خاص کر اُن چھوٹی چھوٹی خواہشات کو جن کا اظہار وہ خود کریں___ یہ تمام وہ امور ہیں جو بچے کو نفسیاتی بالیدگی عطاکرکے اُن میں اعتماد و وقار پیدا کرتے ہیں۔ وہ باپ جو گھر کا سودا سلف خریدنے کے دوران اپنے لڑکوں کو ساتھ رکھتے ہیں‘ وہ نہ صرف انھیں دوستی کا ماحول فراہم کرتے ہیں بلکہ خریداری کا سلیقہ بھی سکھاتے ہیں۔ ناپسندیدہ رویے پر سرزنش کیجیے مگر ساتھ ہی کوئی سخت جسمانی سزا دینے میں جلدی نہ کیجیے۔ کوشش کریں‘ مارپیٹ کی نوبت ہی نہ آئے۔ یہ سمجھ لیں کہ جب کبھی اور جہاں کہیں یہ نوبت آتی ہے تو اس کے لانے میں بڑی حد تک باپ کاہاتھ بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے حساب سے ان کی ذمہ داری بس پیسہ کماکر لانے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ بعض ایسے باپ اگر کبھی اتفاق سے بچے کو پڑھانے بھی بیٹھ جائیں تو ابتدا ہی سے چیختے ہیں اور بالآخر بچے کے سر پر کتاب دے مارتے ہیں۔ ایسے غصہ ورباپوں سے اکثر مائیں بچوں کی بہت سی باتیں پوشیدہ رکھتی ہیں اور یوں حالات مزید بگڑتے ہیں۔
بچہ اپنے آپ کو شتر بے مہار سمجھنے لگتا ہے۔ بات بات پر تنقید‘ نکتہ چینی اور نامناسب برتائو بچوں میں شدید ہیجانی کیفیت پیدا کرتا ہے جسے وہ وقتی طور پر روک لیتے ہیں لیکن یہ عمل لاتعداد جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ ماہرین نفسیات کی راے میں وہ مرد جو گھروں میں اُونچی آواز سے چیخ کر غصے کا اظہار کرتے ہیں‘ ان کے اہلِ خانہ ہکلاہٹ‘ عدم توجہی و دل چسپی‘ بھول‘ نسیان وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوکر بالآخر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔
جسمانی نشوونما کے لیے بھی محتاط رہیں۔ حسبِ توفیق صحت مند غذا فراہم کرنا اور بیماری کی صورت میں مناسب علاج معالجہ بچے کا حق ہے۔ یہی نہیں‘ ہلکی پھلکی تیمارداری سے آپ بچے کے دل میں اپنی محبت کے مزید چراغ جلا سکتے ہیں۔ غرض بچے پر جو کچھ خرچ کریں خوش دلی سے کریں۔ اس کے اثرات نہایت مؤثر ہوںگے۔ وہ بچے جو بچپن میں بلاوجہ معمولی چیزوں کے لیے ترسائے جاتے ہیں‘ بڑے ہوکر کسی چھوٹے سے مقصد کا حصول بھی ان کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اور یوں وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آپ کے پیسے پر سب سے زیادہ حق آپ کی اولاد کا ہے جو آپ کی توجہ کی بھی محتاج ہے۔ بہت سے حضرات اپنے اہلِ خانہ پر بڑی مشکل سے اور گن گن کر خرچ کرتے ہیں‘ یہ نہایت ناپسندیدہ عمل ہے اور اسلام اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔ تربیتی نکتے مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کے معاملے میں حددرجہ نرمی و شفقت کو اپنا شعار بنایئے‘ انھیں لپٹایئے‘ پیار کیجیے۔ یاد رکھیے‘ یہ کام آپ صرف اُن کے بچپن ہی میں کرسکتے ہیں‘ بڑے ہوتے ہی ان کے اندر ایک قدرتی جھجک پیدا ہوجائے گی۔ ایک بار ایک صحابیؓ نے آنحضرتؐ کو ایک بچے کو پیار کرتے دیکھ کر کہا: اے اللہ کے رسولؐ میرے تو کئی بچے ہیں مگر میں نے کبھی انھیں لپٹا کر اس طرح پیار نہیں کیا۔ حضوؐر نے فرمایا: اگر اللہ نے تیرے دل میں رحم نہیں ڈالا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔
ایک گھرانے کے تمام افراد کے درمیان باہمی ربط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر چھوٹے بڑے کی تمیز‘ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت نہ ہو تو توازن بگڑ جاتاہے۔ ایک صحت مند ماحول کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو آپس میں کھیل کود کی مکمل آزادی ہو۔ ان کی عمر اور رجحان کے مطابق کھلونے اورسامان مہیا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے‘ مگر خیال رکھیں ایسے کھلونے جو تخریبی رجحان پیدا کرنے والے ہوں‘ گھر میں نہ لائے جائیں مثلاً بندوق یا چاقو وغیرہ۔ یہی معاملہ اخلاق بگاڑنے والے کھیل کھلونوں کا ہے۔
اپنے اہلِ خانہ کو سیروتفریح کے مواقع مہیا کیجیے۔ ہرطبقے کا گھرانہ اپنے ماحول اورحالات کا لحاظ رکھتے ہوئے چھوٹی موٹی تفریح فراہم کرسکتا ہے۔ بنیادی بات اس نظریے کی موجودگی ہے کہ شرعی حدود میں رہ کر جائز تفریح کو اسلام پسند کرتاہے۔ مہینے میں ایک بار گھر میں تیار کیا گیا سادہ سا کھانا ساتھ لے جاکر اگر کسی نزدیکی پارک میں کھا لیا جائے تو اس کے بے شمار مثبت اثرات نکلتے ہیں۔ یہ چیز جہاں ایک گھر کے افراد کو قریب لاتی ہے‘ وہاں روزمرہ کام کاج اور معمول کے منفی اثرات کو دُور کرکے ذہن کو تازگی دیتی ہے۔
بچوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیں اور انھیں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دیں۔ ان کے ساتھ برتائو اور لین دین میںبرابری و مساوات کا خیال نہ رکھا جائے تو ان میں تفریق و امتیاز کا عنصر پیدا ہوگا جو آگے چل کر باہمی حسدو رقابت کا باعث بنے گا۔ بہن بھائیوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مقابلے کرانا‘ انعام دینا‘ عید اور دیگر خوشی کے موقعوں پر انھیں تحائف دینا جہاں اسلامی اقدار کے عین مطابق ہے وہاں بچوں میں عزتِ نفس اور اطمینان کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یوں انھیں اپنا ایک مقام نظر آتا ہے۔ اسلام نے اچھے اوصاف و کارکردگی کو سراہنے کی تاکید کی ہے اور سب کے سامنے شرمندہ کرنے سے منع کیا ہے۔
اپنے گھر کو لڑائی جھگڑوں اور ایک دوسرے کی مخالفتوں کا اکھاڑہ مت بنایئے۔ آپس کے تنازعات کے لیے وقت مخصوص کر کے بچوں سے علیحدہ ہوکر بات کیجیے۔ ان کے سامنے چیخ پکار اور غصے کا مظاہرہ کرکے آپ ان سے کس سیرت و کردار کی توقع کریں گے؟ اپنے ماحول کو ہروقت کے تنائو سے بھی محفوظ رکھیے۔ اپنے اہلِ خانہ کو خوش رکھ کر آپ یہ کام کرسکتے ہیں۔ بچے میں انحراف اور بغاوت کا ایک بہت بڑا سبب باپ کی سخت مزاجی اور ڈکٹیٹرشپ ہے۔ جب بچہ خود کو‘ اپنے بہن بھائیوں کو اور اپنی ماں کو ہروقت بے جا پابندیوں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہے تو دکھی ہوجاتا ہے اور اس ماحول سے فرار کے راستے ڈھونڈتا ہے۔ ایسے ماحول کے اکثر بچے بڑے ہوکر گھر سے بھاگ جاتے ہیں یا بھاگنے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں اور اپنے اندر باپ کے لیے وہ الفت اور محبت محسوس نہیں کرتے جس کا تقاضا فطرت کرتی ہے۔ یوں اللہ کے سپاہی بننے والے یہ فرشتے جسمانی و نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ ذرا قرآن کا مطالعہ کیجیے‘ جب اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام کو اپنے کام کے لیے چنا تو انھوںنے اپنے اہلِ خانہ اور بھائی بندوں کو اپنی مدد پر مامور کرانے کے لیے اللہ سے دعا فرمائی۔ (طٰہٰ ۲۰:۲۹-۳۴)
اسلامی قوانین کی رو سے ایک گھرانہ ہی اس اعلیٰ منصب کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کے سربراہ آپ ہیں۔ افرادِ خانہ کے اندر ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ پیدا کیجیے۔ خصوصی طور پر لڑکوں کو بچپن ہی سے گھرکے چھوٹے موٹے کام کرنے کی عادت ڈالیے۔ ہمارے گھروں میں عام رواج یہ ہے کہ اگر مرد گھریلو کام کاج کو ہاتھ لگا لیں تو یہ اُن کی مردانگی کے خلاف سمجھا جاتاہے۔ اسی طرز پر لڑکوں کی پرورش بھی ہوتی ہے‘ جب کہ اللہ کے رسولؐ جب اپنے گھروالوں کے درمیان ہوتے تو ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹھاتے۔ بچہ جب باپ کو خود یہ عمل کرتے دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں اس عمل کی کوئی قباحت نہیں رہتی بلکہ وہ باپ کی طرح بننے کو قابلِ فخر سمجھتا ہے۔
یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ والدین کا اچھا طرزِعمل بچپن میں تو اولاد کے لیے صرف اچھی تربیت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے مگر جب اولاد جوان اور باشعور ہوتی ہے تو والدین کی یہی تصویر ان کے دل میں وہ عزت اور محبت پیدا کردیتی ہے‘ جس سے وہ والدین محروم رہتے ہیں جن کا کردار اور عمل بچوں کے بچپن میں کمزور رہا تھا۔
گھر کے باہر کے ماحول میں خاندان کے دیگر لوگ‘ پڑوسی اور میل جول کے دوسرے لوگ شامل ہیں۔ اسلام نے واضح طور پر ایسے احکام دیے ہیں جن کی رو سے ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ حقوق العباد کا خیال رکھے اور میل جول کے ذریعے لوگوں کی خوشی اور غمی میں شریک رہے۔ اس اسلامی فریضے کو پورا کرنے کے لیے اہلِ خانہ کو سہولت دیجیے‘ انھیں باہر لے جایئے اور ان کی سرگرمیوں پر خوش دلی کا مظاہرہ کیجیے۔ اپنی استطاعت اور موقع محل کی مناسبت سے عزیزوں اور دوستوں کو خود بھی ہدیہ دیں اور اہلِ خانہ کو بھی ترغیب دیں۔ اللہ کے رسولؐ ہدیہ دیتے بھی تھے اور قبول بھی کرتے تھے۔ اپنے حقیقی بہن بھائیوں کے علاوہ بھی بچے کو ہم عمر دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے کی سہولت دیجیے۔ صحت مند جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے بچوں کو کھیلنے کا وقت زیادہ دینا مفید ہے۔ اس طرح بچے میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوں گی۔ بچوں کے دوستوں کا احترام کیجیے۔ ان کے سامنے بچے کی اچھی عادتوں کا ذکر کیجیے۔ بچوں سے باہر ہونے والی سرگرمیوں کو دل چسپی لے کر سنیے۔ جو والدین خصوصاً باپ اس کام کے لیے وقت نکالتے ہیں وہ بہت سی حقیقتوں سے واقف رہتے ہیں‘ اُنھیں اصلاح کا موقع ملتا ہے اور یہ کہ بچہ والدین ہی کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ بس خیال رہے کہ یہ گفتگو غیبت یا عیب جوئی کا رنگ اختیار نہ کرے۔
بچوں کے سامنے ماںاور ماں کے گھر والوں کو عزت اور توقیردیجیے۔یہ چیز بچے کو دہری شخصیت کا شکارہونے سے بچائے گی۔ یہ مت بھولیے کہ یہ سب بھی بچے کے رشتے دار ہیں‘ ان کی مخالفت بچے کو آپ کا مخالف بناکر چھوڑے گی۔ اکثر معزز داماد حضرات کا رویہ اپنی بیوی کے گھر والوں کے ساتھ بڑا عجیب و غریب اور ہتک آمیز ہوتا ہے۔ ایسے داماد سمجھ لیں کہ انھیں محبت کا ملنا تو دُور کی بات ہے‘ جو تھوڑی بہت عزت ملتی ہے وہ بھی بس اوپرائی ہوتی ہے‘ نہ بیوی کے دل میں کوئی وقعت رہتی ہے اور نہ اولاد کے دل ہی میں۔ سسرال والوں کو تو خیر اپنا بنایا ہی نہ تھا… حالانکہ اسلامی قوانین کی رُو سے شادی دو خاندانوں کاملاپ اور باہمی طاقت اور اخوت کا ذریعہ ہونا چاہیے۔
خاندان کے دیگر گھرانوں کے معاملات و تقاریب میں خود بھی دل چسپی لیں اور بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔ خاص کر قریبی رشتوں کی پہچان اور عزت افزائی یقینی ہونی چاہیے۔ اپنے دفتری اوقات اور دوسرے اہم مواقع پر وقت کی پابندی کا خیال رکھیے۔ آپ کا یہ ڈسپلن بچے کے لیے مشعلِ راہ ہوگا۔
کبھی کبھی بچوں کے دوستوں کو گھر مدعو کرنے کی اجازت دیں‘ان کے دوستوں سے بات چیت کریں۔ وقفے وقفے سے دوستوں کا حال احوال اور ان کی سرگرمیوں کو پوچھتے رہیں۔ باپ کے نہایت اہم فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ باہر لڑکوں کے دوستوں پر نظر رکھیں اور اُس صحبت کی جانچ پڑتال کرتے رہیں جس میں بچہ وقت گزارتا ہے۔ یہ کام صرف ایک دن کے کرنے کا نہیں ہے بلکہ متواتر عمل ہے۔ آپ کا لڑکا جس دوست سے ملنے جائے اس کا نام پتا اور فون نمبر لے کر رکھیں لیکن اس تمام کارروائی میں آپ کا رویہ مخلصانہ اور بچے کی حفاظت پر مبنی ہو۔ جاسوسی کے انداز میں ہرگز نہیں۔ اپنی اس نیت کا آپ برملا اظہار بھی کریں تاکہ بچے کے سامنے آپ کے طریقۂ کار کی وضاحت ہو۔ ہمارے گھروں میں اولاد اور والدین‘ خصوصاً باپ کے درمیان عدمِ رابطہ یا ناقص رابطے کی بنیادی وجہ یہی اظہارِ خیال کا فقدان ہے۔ افرادِ خانہ ایک دوسرے کے بنیادی خیالات ہی کو نہیں سمجھ پاتے اور بعض اوقات بڑی بڑی غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ لہٰذا گھر کا عام ماحول کھل کر بات کرنے کا ہو۔ اسلام مبہم بات چیت سے منع کرتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بچے کی تربیت کا تمام دارومدار والدین کے آپس کے تعلقات پر ہے۔ زوجین کی ذہنی ہم آہنگی جہاں اس دشوار کام کو آسان بلکہ پُرکیف بناتی ہے وہیں یہ تعلق اُن عوامل اور محرکات کو استحکام اور دوام بخشتا ہے جن کی مدد سے زوجین بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ والدین کے خیالات کا فرق و تکرار بچے کو دوراہے پر لاکھڑا کرتا ہے۔ ایک کی راے کچھ اور دوسرے کی کچھ اور۔ بچہ کس کی مانے‘ اس کے لیے تو دونوں برابر ہیں۔ ایسا بچہ اپنی منزل کا تعین کس طرح کرے گا جس کے سامنے ابھی غلط اور صحیح کی گتھی ہی نہیں سلجھی۔ اس طرح کے اکثر بچوں میں قوتِ فیصلہ کی سخت کمی ہوتی ہے اور واقعے کو سمجھنے میں انھیں دشواری رہتی ہے۔ بعض بچے والدین کی اس کمزوری کو بھانپ لیتے ہیں اور اس کمزوری سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ والدین سے الگ الگ اپنی باتیں منواتے ہیں لہٰذا حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ باہمی اختلاف کو محسوس کرتے ہی خاموشی اختیار کرلی جائے۔ بچے کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے اور باہمی معاملات کو طے کرنے کے لیے ہفتے میں کم از کم ایک دن ایسا رکھا جائے جس میں گفتگو کے ذریعے ایک نتیجے پر پہنچا جائے۔
اس کے لیے چھٹی کے دن نمازِ فجر کے بعد کا وقت نہایت موزوں رہتا ہے۔ عموماً اس وقت بچے سو رہے ہوتے ہیں۔ دورانِ گفتگو اگر کوئی بدمزگی ہو بھی جائے تو بچے اُس سے متاثر نہیں ہوتے۔ بچوں کے سامنے اپنے آپ کو ایک راے والا بناکر پیش کریں۔ یاد رکھیے‘ بچے والدین کے درمیان اعتماد اور پیارو محبت کا سلوک دیکھ کر اپنے اندر محفوظ ہونے کی ایک عجیب کیفیت محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے اکثر گھرانوں میں خواتین کو دباکر رکھنے کا رجحان ہے۔ بچے قدرتی طور پر ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ کیا ایسے بچوں سے کسی مضبوط شخصیت کی توقع کی جاسکتی ہے جس کے باپ بات بات پر ماں کو طلاق کی یا چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھبرا کر گھر سے بھاگ جانے کی دھمکیاں دیتے ہوں۔ یہ دھمکیاں ان کے ننھے ننھے دلوں کو ہرلمحہ لرزاتی رہتی ہیں۔ ’’کہیں یہ ہمیں چھوڑ کر نہ چلے جائیں‘‘ یہ خوف ان کے شعور اور لاشعور کی دنیا کو تباہ کردیتا ہے۔
اگر کسی وقت محسوس کریں کہ آپ کے مقابلے میں آپ کی بیوی کا موقف زیادہ وزنی ہے تو بلاتامل اُس کی بات چلنے دیں۔ زبردستی اپنی بے تکی راے جمانے والے باپ بڑی جلدی اپنی حیثیت متاثر کرلیتے ہیں‘ خاص کر جب اولاد بڑی ہوکر صحیح اور غلط کو سمجھنے کی اہل ہوجائے۔
اپنی بیوی کی بیماری یا مصروفیت کے دوران روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے کام اپنے ہاتھ سے کرلینے کو اپنی شان کے خلاف نہ سمجھیے۔ اس طرح بچہ نہ صرف اپنی ماں بلکہ ضرورت پڑنے پر آپ کی مصروفیت کو بھی اہم جانے گا۔ اس طرح بچوں میں ایسے حالات میں باہمی مدد کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اور وہ یہ بھی سیکھیں گے کہ ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو‘ اس کی سزا بہت سخت ہے‘‘۔(المائدہ ۵:۲)
ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا برتائو کرتا ہو اور میں اپنے گھروالوں کے ساتھ تم سب سے بہتر برتائو کرتا ہوں‘‘ (ابن ماجہ‘ حاکم)۔ حدیث کا آخری حصہ ظاہر کرتاہے کہ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ ایک مسلمان کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔
شادی کے مقدس بندھن کے بعد نیک اور صالح اولاد کے لیے اللہ سے دعا کرنا چاہیے۔ ’’میرے رب! تواپنے پاس سے مجھے پاک باز اولاد عطا فرما‘بے شک تو دعا کا سننے والا ہے‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۳۸) ۔جب اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرما دیں تو بچے کی پرورش میں جہاں وہ تمام امور ضروری ہیں جن کا ابھی تک ذکر ہوا‘ وہاں قدم قدم پر اُسے باپ اور اُس کی دعائوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ اپنی بھرپور عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ بچے کے لیے دعا بھی کرتے رہیے۔ یہ دعائیں صرف حال کے لیے نہیں بلکہ اس کے مستقبل اور پھر مستقبل بعید کے لیے بھی ہوں۔ انسان کی زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ اللہ نے آپ کو ’آج‘ دیا ہے‘ اس میں اپنے بچے کے ’آج اورکل‘ کے لیے دعا کریں۔ اگر آپ کا بچہ ۳‘۴ سال کا ہے تو اس کی معاش اور پھر شادی شدہ زندگی کے مراحل جیسے دُور کے کام آپ کے ذہن میں نہیں آتے‘ مگر نہیں‘ بچے کے ہردَور کے لیے دعاکریں۔ حضرت عبداللہ بن مبارک جیسے بزرگ کا دل والدین کی شبانہ روز دعائوں سے ہی پلٹا تھا۔ قرآن پاک اس ضمن میں ایک مسلمان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ دیکھیے سورۂ فرقان (۲۵:۷۴): ’’اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے جوڑوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔ حضرات غور کریں آپ کی ذریت کون ہے؟؟ آپ کے بچے اور پھر ان کی اولادیں… سورئہ ابراہیم (۱۴:۳۵) میں ہے: ’’اور جب ابراہیم ؑنے دعا کی پروردگار! اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا‘‘۔ اسی سورہ میں آیت ۴۰ میں ہے: ’’اے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی۔ بے شک تو دعا قبول کرنے والا ہے‘‘۔ (ابراہیم ۱۴:۴۰)
یہی نہیں اپنے بچے کو بھی اپنے لیے دعا کرنا سکھایئے۔ یہ بھی اسلامی تربیت کا حصہ ہے۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے کہ ’’جب کوئی آدمی مرجاتاہے تو اس کے عمل کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ صرف تین چیزیں مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتی ہیں: ایک صدقۂ جاریہ‘ دوسرے اس کا پھیلایا ہوا وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں‘ تیسرے وہ صالح اولاد جو اس کے لیے دعاے مغفرت کرتی رہے‘‘(آدابِ زندگی، یوسف اصلاحی‘ ص ۱۹۹)۔’’اوردعا کرو پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جس طرح بچپن میں انھوں نے میری پرورش کی‘‘(بنی اسرائیل ۱۷: ۲۴)۔ اس کے علاوہ سورئہ نوح آیت ۲۸ اور سورئہ ابراہیم آیت ۴۱ میں اولاد کو اپنے والدین کے لیے بہترین انداز سے دعا کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
اولاد کے لیے والدین اور والدین کے لیے اولاد دنیا کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ پس ہرکسی کو اس معاملے میں اللہ رب العزت کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ قرآن ہمیں ایسی جامع دعائیں سکھاتا ہے جن کے ذریعے ہم نیک و صالح اولاد کے لیے شکرگزاری بجا لاسکتے ہیں۔ شکرگزاری کا لازمی نتیجہ برکت ہے۔ ’’شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میںاسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا سنتا ہے‘‘۔(ابراہیم ۱۴:۳۹)
اسی طرح اولاد بھی ہرلمحہ والدین کے احسان یاد کرکے ان کے لیے دعاگو رہے۔ ’’اے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کیں اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہوجا۔ اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کہ مجھے سکھ دے۔ میں ترے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں‘‘۔ (احقاف ۴۶:۱۵)
تمام گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ کمزوریوں سے زیادہ سے زیادہ پاک گھرانہ ہی وہ ادارہ ہے جہاں صحت مند شخصیت کی نشوونما ممکن ہے۔ بطور سربراہِ خانہ اپنے اہل و عیال کو اپنے لیے صدقۂ جاریہ بنائیں۔ غالباً آپ کا معاملہ کچھ یوں ہے: حیثیت بڑی‘ ذمہ داریاں زیادہ‘ جواب دہی سخت۔
آیئے آخر میں مختصراً کچھ باتوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں ہم نے اِس بھاری ذمہ داری کی جواب دہی کے لیے کتنی تیاری کی:
۱- اپنے اہلِ خانہ سے گفتگو کے دوران آپ کا لہجہ ویسا ہی میٹھا اور نرم ہے جتنا باہر لوگوں سے گفتگو کے وقت تھا؟
۲- آپ ان کی راے پر بھی اعتماد کرتے ہیں یا بس اپنی چلاتے رہتے ہیں؟
۳- کبھی آپ کو اپنی کمزوریاں بھی نظر آئیں یاقصور اکثراہلِ خانہ ہی کا ہوتا ہے؟
۴- کمزوری سب میں ہوتی ہے۔ اس کی نشان دہی پر اُسے دور کرنے کی کوشش کی یا ___ آپ تو قبیلے کے سردار ہیں‘ سب کچھ چلے گا‘ والا معاملہ ہے۔
۵- کیا واقعی آپ کی گھر میں موجودگی اہلِ خانہ کے لیے خوشی کا باعث ہے یا یہ صرف آپ کا خیال ہے؟
اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا کرتے ہوئے سچائی سے ان سوالات کا جواب تلاش کیجیے۔
بجٹ بنانا بلاشبہہ ایک انتہائی اہم سرگرمی ہے اور بجٹ جہاں حکومت کی کُل آمدنی اور خرچ کا میزانیہ اور معاشی پالیسی اور ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے وہیں اس کی حیثیت قانون سازی کے ایک ایسے کام کی ہے جس کے ذریعے معاشی مشکلات کے حل کے لیے قوم کے عزائم اور طرزِفکر کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی قوم ملکی معیشت کے تمام شعبوں میں معاشی خودکفالت کے حصول کے لیے دستیاب وسائل کو کتنی ہنرمندی سے استعمال کرتی ہے۔
بدقسمتی سے حکومت کی طرف سے مالی سال ۲۰۰۷ء-۲۰۰۸ء کے لیے پیش کیا گیا بجٹ انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ یقینا ایک الیکشن بجٹ ہے جسے کسی بھی لحاظ سے حقیقی معاشی بنیادوں پر تیار کیا گیا بجٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جی ڈی پی میں ۷ فی صد اضافہ کرنے کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کو ۱۵ ارب روپے تک پہنچا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کامیابی کہاں تک حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کا ثمرہ اور ان کے مؤثر ہونے کی دلیل ہے اور کہاں تک نائن الیون کے بعد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کرنے اور پاکستانی حکومت کے امریکا کے آگے ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے سیاسی اور معاشی امداد کا نتیجہ ہے۔
عالمی بنک کی جانب سے ترقیاتی اشاریوں کے حالیہ مطالعے میں‘ جو ۱۵ اپریل ۲۰۰۷ء کو جاری کیا گیا ہے‘ قوتِ خرید کے تطابق (parity) کی بنیاد پر پاکستان میں ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۵ء تک جی ڈی پی میں فی کس اضافہ ۶۲ء۴ فی صد رہا‘ جب کہ اسی دورانیے میں دوسرے ترقی پذیر ممالک کی فی کس اوسط اضافہ کچھ اس طرح رہا: فلپائن ۱۷ء۵ فی صد‘ انڈونیشیا ۷۷ء۵ فی صد‘ ترکی ۷۹ء۵ فی صد‘ جب کہ بھارت ۳۲ء۷ فی صد۔ یاد رہے کہ اسی دورانیے میں کم آمدنی والے ممالک میں اوسط فی کس اضافہ ۳۸ء۶ فی صد تھا جو پاکستان میں اس اضافے سے ۳۰ فی صد زیادہ ہے۔ گویا اس حوالے سے حکومتِ پاکستان جو بلندبانگ دعوے کر رہی ہے اس علاقائی تناظر میں اس کا قدکاٹھ بہت ہی کم ہوجاتا ہے۔
حکومت کا ایک اور دعویٰ یہ ہے کہ اس کے دور میں غربت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور کُل آبادی کا ۱۰ فی صد غربت سے نجات پا چکا ہے‘ یعنی اس حکومت سے پہلے ملک کی ۳۴ فی صد آبادی غربت کی حد سے نیچے تھی جو اَب صرف ۲۴ فی صد ہے۔ یہ دعویٰ بھی درست ثابت کرنا مشکل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خط ِ غربت سے نیچے رہنے والوں میں سے ۳۳ فی صد اس خط کو عبور کرگئے ہیں۔ گویا ہرسال کُل آبادی کا دو سے تین فی صد خط ِ غربت سے اُوپر چلا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ غربت کے خط سے نیچے رہنے والے ۵کروڑ ۲۰ لاکھ افراد میں سے ایک کروڑ ۳۰لاکھ افراد غربت کی گرفت سے نکل گئے ہیں۔ اُسے محض ایک شماریاتی کرشمہ ہی کہا جاسکتا ہے!
زمینی حقائق کیا ہیں؟ کیا یہ حقائق حکومتی دعوؤں کی تصدیق کرتے ہیں؟ خود یہی سروے (پی ایس ایل ایم ۰۵-۲۰۰۴ء) جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے‘ اسی میں ایسے شواہد موجود ہیں جو سرکاری دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔ اس سروے رپورٹ کی جلد دوم میں‘ جس میں صوبائی اور ضلعی ڈیٹا کے حوالے سے ص ۴۰۶‘ جدول ۱.۵ میں کہا گیا ہے کہ انٹرویو کیے گئے افراد میں سے ۱۵ء۲۴ فی صد نے کہا کہ وہ ۲۰۰۵ء میں ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کہیں خراب یا بہت زیادہ خراب حالت میں رہ رہے ہیں‘ جب کہ اسی گروپ کے ۵ء۵۱ فی صد لوگوں نے بتایا کہ اس دوران ان کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ اس صورت حال کی روشنی میں حکومتی بیان کی قلعی کھل جاتی ہے جس میں انھوں نے غربت کے خط کے نیچے کے ۳۳ فی صد افراد کے غربت سے نکل آنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پاکستان میں ’غربت کے خاتمے‘ کے رواں پروگرام سے متعلق ایشیائی ترقیاتی بنک کی تازہ ترین رپورٹ (ورکنگ پیپر نمبر۴‘ ۲۰۰۷ء) میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں عوام کا تاثر یہ ہے کہ اس پروگرام کے نتیجے میں (جس میں سوشل ایکشن پروگرام بھی شامل ہے) خصوصاً ملک کے دیہی علاقوں میں کوئی خوش گوار تبدیلی یا ترقی کے مظاہر نظر نہیں آتے۔
حکومت کا حقائق کو مسخ کر کے اعداد و شمار کو غلط انداز میں پیش کرنا ہرسنجیدہ شہری کے لیے فکروتشویش کا باعث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بجٹ کی دستاویز اور بجٹ تقریر میں بہت سے واضح تضادات ہیں جو حیرت کا باعث ہیں۔ مثلاً وزیرمملکت براے خزانہ‘ وزیراعظم اور ان کے مشیران کے بقول بجٹ کا کُل حجم ۱۸ کھرب ۷۵ ارب روپے ہے‘ جب کہ بجٹ میں جو مختلف اخراجات کے تخمینے دیے گئے ہیں ان کا میزان ۱۵ کھرب ۹۹ ارب روپے بنتا ہے (خلاصہ بجٹ‘ باب دوم‘ ص ۷)۔ اور اس امر کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ۱۸ کھرب والی رقم میں صدیوں کے بجٹ کی رقوم بھی شامل کرلی گئی ہیں تاکہ تاثر یہ ہو کہ تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔
بجٹ کا سرسری جائزہ لینے سے ہی کم از کم چھے ناکامیوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے:
۱- ملک کو ادایگیوں اور تجارتی خسارے کے حوالے سے سخت عدم توازن کا سامنا ہے۔ جب ۱۹۹۹ء میں حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا‘ اس وقت تجارتی خسارے کا حجم ایک ارب ۷۴ کروڑ ڈالر تھا‘ جب کہ آج سات سال کے عرصے میں یہ ۱۱ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ بلکہ یہ بھی خدشہ ہے کہ اس خسارے کا اصل حجم ۱۳ ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوگا۔ اسی طرح ادایگیوں کے خسارے کا حجم ۰۰-۱۹۹۹ء میں ایک ارب ۱۴ کروڑ ڈالر تھا‘ جب کہ یہ خسارہ ۰۳-۲۰۰۲ء یعنی جس سال موجودہ قومی اسمبلی کا انتخاب ہوا مثبت ہوگیا اور ۳ ارب ۱۶کروڑ ڈالر ہوگیا۔ بدقسمتی سے اب‘ یعنی ۲۰۰۷ء میں ادایگیوں کے توازن میں خسارے کا حجم ۶ ارب ۲۰کروڑ ڈالر کی ہوش ربا حد تک ہوچکا ہے جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ادایگیوں کا خسارہ ہے۔ اس سے زیادہ حیرت اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں ان دو قسم کے خساروں کو فوری طور پر نیچے لانے کے لیے کوئی حکمت عملی تجویز نہیں کی گئی ہے۔
۲- معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے معیشت کا اشیا کی پیدایش کے سیکٹر (commoduty sector) میں اضافہ ضروری ہے کیونکہ اسی سے ترقی اور معیشت نمو پاتی ہے۔ اس وقت جس بڑھوتری کو ہم دیکھ رہے ہیں اس کی بنیاد دراصل خدمات کے شعبے اور خارجی عوامل پر ہے۔ جن میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کا بھیجا ہوا سرمایہ (جو حکومت کی ملکیت نہیں) اور وہ امداد شامل ہے جو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاوضے کے طور پر امریکی حکومت سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح زراعت کے شعبے میں‘ جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ کوئی قابلِ ذکر اور دیرپا معیاری یا مقداری بہتری نہیں ہوئی ہے۔ درحقیقت زراعت کے شعبے کو مسلسل نظرانداز کیاجاتا رہا ہے۔ اس میں پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے جو اشیاے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کاسبب بنا ہے۔ اسی طرح صنعتی شعبے خصوصاً ٹیکسٹائل کی صنعت سخت عدم توجہی کا شکار رہی ہے جس پر پاکستان کی ۶۰ فی صد سے زیادہ برآمدات کا دارومدار ہے۔ یہ ٹیکسٹائل کے شعبے میں بحران ہی ہے جس کے باعث ہماری برآمدات کافی کم ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تیار شدہ مال (جس کی زیادہ قیمت ہوتی ہے) کے بجاے خام روئی برآمد کی جارہی ہے (اس سال ۳ ارب ڈالر کی روئی برآمد ہوئی ہے)۔ اسی طرح بعض دوسری صنعتیں مثلاً چمڑاسازی‘ سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کی صنعت بھی بحران کا شکار ہیں۔ ان صنعتوں میں بھی پیداواری اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کی مصنوعات عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ حکومت نے ان مسائل کو نظرانداز کردیا ہے۔ اگر ان مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہوا گیا تو پاکستان چند ہی سالوں میں ایک غیرصنعتی ملک بھی بن سکتا ہے۔ ۱۱۶ ٹیکسٹائل مِلیں پچھلے دو سال میں بند ہوچکی ہیں۔ کوئی پانچ لاکھ تکلے ساکت ہوگئے ہیں اور لاکھوں افراد کو روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے اور زورِخطابت کے باوجود‘ ملک کی سب سے اہم اور نازک پیداوار کے بارے میں بجٹ خاموش ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور زندگی کی عام ضروریات بھی پوری کرنا ہرکسی کے بس سے باہر ہے۔ عام شہری اس کی تکلیف دہ گرفت میں ہے۔ اسے دو وقت کی روٹی کا یارا نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کھانے پینے کی اشیا میں افراطِ زر ۱۰ فی صد‘ جب کہ غیرسرکاری اندازوں کے مطابق ۱۵ سے ۲۰ فی صد ہے۔ شاندار فصلوں (گندم اور چاول) کی موجودگی میں یہ اعدادوشمار عجب لگتے ہیں۔ بجٹ میں جن امدادی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا شاید آغاز بھی نہ ہوسکے۔ تاریخ شاہد ہے کہ زرتلافی سے بدعنوانی بڑھتی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سبسڈی کی جو بظاہر پُرکشش رقم بجٹ میں دی گئی ہے یعنی ۲ کھرب ۱۰ ارب روپے اس میں ۹۰ ارب تو واپڈا اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے لیے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کے باب میں دی جانے والی زرتلافی جو ۶ ارب روپے کے لگ بھگ ہے اور دو ڈالر سے کم آمدنی والی آبادی پہ اگر اسے تقسیم کیا جائے تو بمشکل ۷روپے فی کس فی مہینہ آتا ہے۔ ہرشخص سوچ سکتا ہے کہ اتنی ’بڑی رقم‘سے عام آدمی مہنگائی پر کیا قابو پاسکے گا اور اس سے غریبوں کو کیا ریلیف مل سکے گا؟
اس ملک کو ایسی معاشی اور صنعتی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو روزمرہ استعمال کی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی اور سیل ٹیکس کم کر کے پیداواری اخراجات میں کمی کرے۔ یوٹیلٹی سٹور سے صرف دوفی صد آبادی فائدہ اٹھا سکتی ہے اور یہ دو فی صد بھی صرف غریب افراد نہیں ہوتے۔کسی بھی طرح یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ افراطِ زر پر ہمیشہ مالیات اور محاصل پالیسیوں کے اشتراک سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے جن میں طلب و رسد دونوں کی ایک ساتھ فکر کی جائے‘ جب کہ یہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کے دورِاقتدار میں مہنگائی کا بھوت لوگوں کی خوشیوں کے قتل میں مصروف رہا ہے۔ ۲۰۰۰ء-۱۹۹۹ء میں افراطِ زر کی شرح صرف ۵۸ء۳ فی صد تھی۔ ۰۳-۲۰۰۲ء میں یہ تناسب ۱ء۳ فی صد رہا‘ جب کہ صرف ایک سال میں یعنی ۰۵-۲۰۰۴ء میں یہ ۳ء۹ فی صد تک پہنچ گیا۔ موجودہ اور گذشتہ سالوں کے دوران یہ اوسطاً ۸ فی صد رہا۔ موجودہ بجٹ کسی بھی پہلو سے افراطِ زر جیسے شدید اہم مسئلے کے مختلف پہلوؤں سے سنجیدگی سے نبٹنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔
۴- ملک کو جس دوسرے اہم مسئلے کا سامنا ہے‘ اس کا تعلق غربت اور بے روزگاری سے ہے۔ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہی حال انسانی وسائل کی ترقی و تربیت‘ افرادی قوت اور تعلیمی منصوبہ بندی کا ہے۔ بجٹ ان کے متعلق بھی بلندبانگ دعوؤں پر مشتمل ہے مگر ان چیلنجوں کا ٍمؤثر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ غربت میں کمی اور صحت کی سہولیات کی بڑے پیمانے پر فراہمی کے لیے بڑی رقوم مختص نہیں کی گئی ہیں۔ تعلیم جیسے اہم شعبے کے لیے وسائل کا قحط ہے‘ جب کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں اضافہ کیا ہے اور شان و شوکت کی زندگی کا جیسے نشہ ہوگیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ پر نظرثانی کرکے ۳۶ ارب تک کم کردیا گیا ہے۔ بجٹ حقیقی ترقی‘ غربت کے خاتمے‘ انسانی وسائل میں بہتری اور معاشرتی فلاح و بہبود کے حوالے سے ایک ناکام بجٹ ہے۔
۵- پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی پالیسیوں نے غریبوں کو غریب تر اور امیروں کو امیر تر کردیا ہے۔ گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران یہ فاصلہ شرمناک حد تک بڑھا ہے۔ اکنامک سروے جیسی اہم سرکاری دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اس وقت اُوپر کے ۲۰ فی صد افراد کے پاس نیچے کے ۲۰فی صد افراد کے مقابلے میں قومی وسائل کا بہائو ۴۰۰ فی صد زیادہ ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق حکومتی آمدنی میں ۱۰۰ روپے اضافہ ہو تو صرف ۳ روپے نیچے کی ۱۰ فی صد آبادی تک پہنچتے ہیں اور ۳۴ روپے اُوپر کے ۱۰ فی صد تک۔ اسٹاک ایکسچینج اور جایداد (رئیل اسٹیٹ) کے کاروبار میں تیزی جس کے نتیجے میں لوگ لکھ پتی اور کروڑپتی ہوگئے ہیں‘ سٹہ بازی کا مرہونِ منت ہے۔ یہ معاشی پالیسیوں کی خوبیوں کی وجہ سے نہیں ہے۔ ملک میں بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا اشرافیہ طبقہ ڈاکوؤں کے سرداربن چکے ہیں۔ ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔ عام آدمی تمام براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے پس رہا ہے اور جو استحصال کرنے والا طبقہ ہے وہ کسی بھی قابلِ ذکر ٹیکس سے مبرا ہے۔ عدمِ مساوات میں غیرمعمولی اضافے کے باعث معاشرہ تقسیم اور پولارائزیشن کا شکار ہوچکا ہے۔ اس خوف ناک صورت حال کا بجٹ میں ذکر تک نہیں ہے۔
۶- جہاں تک حکومت کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ملک میں مالیاتی ڈسپلن قائم ہوگیا ہے‘ یہ محض ایک افسانہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ ۳ کھرب سے زیادہ ہے‘ جب کہ بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سات برسوں میں قرضوں کا کُل حجم بڑھ کر ۱۵ کھرب روپے ہوچکا ہے‘ جب کہ قرضوں سے نمٹنے کی سرکاری حکمت عملی مکمل طور پر ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔ حکومت کی مالیاتی ناکامی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت تقریباً ۴۰ ارب ڈالر کا قومی مقاصد کے لیے مفید استعمال نہ کرنا ہے‘ جس میں ۲۶ ارب ڈالر وہ ہیں جو بیرون ملک پاکستانیوں نے بھیجے ہیں اور ۱۰ سے ۱۲ ارب ڈالر وہ ہیں جو بیرونی امداد کے طور پر وصول کیے گئے ہیں۔ یہ خطیر وسائل سرمایہ کاری میں نہیں گئے‘ زیادہ تر خرچ شان و شوکت کے لیے‘ جایدادوں کی خریدوفروخت میں اور اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازی کی صورت میں ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی حالت اس فرد کی سی ہے جو چادر سے زیادہ پائوں پھیلاتا ہے۔ اس سلسلے میں خود حکمرانوں نے بدترین مثالیں قائم کی ہیں۔ غیرپیداواری اخراجات میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ یہی حال مسلح افواج کے بجٹ کا ہے جسے ۰۸-۲۰۰۷ء کے لیے تین کھرب کردیا گیا ہے جو ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ اس سے معیشت عدمِ توازن کا شکار ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کو حکمت عملی کی ناکامی کے لیے یقینا جواب دہ ہونا پڑے گا۔
آخری بات یہ کہ اس سال ضلعی اور تحصیل حکومتوں کے علاوہ یونین کونسلوں کو جو بے حساب اور غیرمنطقی طور پر زیادہ رقوم فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے‘ یہ دراصل انتخابات میں استعمال کے لیے دی جانے والی سیاسی رشوت ہے۔ یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کا بدترین اور بددیانتی پر مبنی استعمال ہے۔ یہ رقوم صرف سرکاری پارٹی سے متعلق افراد کو دی جارہی ہیں۔
اس تبصرے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ بجٹ (۰۸-۲۰۰۷ء)اس قابل ہے کہ اسے پارلیمنٹیرین بالکل اُسی طرح ایوان سے باہر پھینک دیں جس طرح ۸۷-۱۹۸۰ء کے جناب یٰسین وٹو کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ کے ساتھ ہواتھا۔ اس سال کے بجٹ کا بھی وہی حشر ہونا چاہیے۔ کیا قومی اسمبلی اس ضمن میں اپنا قومی اور اخلاقی فریضہ ادا کرے گی یا وردی والی حکومت کے سامنے سرتسلیم خم کردے گی؟
عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے ضمن میں ‘پاکستان میں آزادیِ اظہار کا مسئلہ ایک بار پھر معرض بحث میں آگیا ہے۔ یہ ان معنوں میں ’فطری‘ بات ہے کہ وطن عزیز میں کوئی حکومت ایسی نہیں رہی جس نے کسی نہ کسی عنوان سے پریس کی آزادی پر شب خون نہ مارا ہو۔ جنرل ایوب نے پریس پر کالے قوانین مسلط کیے جن سے نجات حاصل کرنے میں پاکستانی قوم کو تقریباً دو عشرے لگ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست دانوں کے ساتھ صحافیوں کو بھی فکس اَپ (Fix up) کرنے کی روایت ڈالی۔ جنرل ضیاء الحق نے صحافیوں کو کوڑوں کے ساتھ ساتھ توڑوں کے تحفے دیے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار میں صحافیوں پر بغاوت کے مقدمے قائم ہوئے اور ایک دن میں چھے چھے اخبارات کو زبان پر تالے لگانے پڑے۔ جنرل پرویز بھی اسی ورثے کے امین ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی اس طویل روایت کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا آئیڈیل ایک ایسی قوم ہے جو مستقلاً اندھی‘ بہری اور گونگی ہو۔ اس کی وجہ ہے اور وہ یہ کہ وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی کے بجاے حکمرانوں کا قانون چلتا ہے جس کے باعث پریس اور حکومت کے درمیان ایک دائمی آویزش برپا رہتی ہے۔ حکومت جن حقائق کو چھپانا چاہتی ہے‘ پریس کا کام ان حقائق کو سامنے لانا ہے۔ حکمرانوں اور پریس کے درمیان یہ کش مکش ختم ہوسکتی ہے بشرطیکہ حکومت بھی ’حق و صداقت‘ کی علَم بردار بن جائے۔
ہماری قومی تاریخ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ ذرائع ابلاغ کو ہر دور میں آزادیِ اظہار دریافت یا ایجاد کرنی پڑتی ہے اور آزادیِ اظہار کا مسئلہ ہر عہد میں نئے طریقے سے سامنے آتا ہے۔ ایک ایسی قوم جسے آزاد ہوئے ۶۰ برس ہونے کو آرہے ہیں‘ اس کے حوالے سے یہ عمل حیران کن ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے ۵۹ سال بعد بھی آزادی ہمارے دانش وروں اور صحافیوں کے لیے ’قدر‘ نہیں بن سکی۔ اس سلسلے میں امریکا کے جج لرنڈ ہینڈ (Lerned Heand) نے ایک بے مثال فقرہ کہا ہے:
’آزادی انسانوں کے دل میں ہوتی ہے اور جب یہ دل میں مر جاتی ہے تو پھر دنیا کا کوئی آئین‘ کوئی قانون اور دنیا کی کوئی عدالت اس کا تحفظ نہیں کرسکتی‘۔ (The Naked Society By Vance Packard ‘ ص ۱۴)
پاکستان کے عدالتی بحران اور پریس کی آزادی کے حوالے سے شاید ہی اس سے بہتر بات کوئی کہی جاسکے۔
آزادی کے دل میں ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ’قدر‘ بن گئی ہے۔ بلاشبہہ قانون‘ آئین اور عدالتیں اسے تحفظ فراہم کرتی ہیں اور صحافی آئین پر عمل درآمد کے مطالبے کا ’حق‘رکھتے ہیں لیکن اگر آزادی دل میں نہ ہو تو آزادیِ اظہار کے سلسلے میں قانون اور آئین کے حوالے بیساکھیاں بن جاتے ہیں اور آزادیِ اظہار کا مطالبہ ’بھیک‘ کا تاثر پیدا کرنے لگتا ہے اور آزادی بہرحال بھیک ہے‘ نہ بھیک میں ملتی ہے۔ جس کے لیے آزادیِ اظہار سانس لینے کی طرح اہم ہوتی ہے‘ وہ اس کا استعمال کرتا ہے‘ تمام خطرے مول لیتا ہے اور اس کی قیمت ادا کرتا ہے۔ ہماری قومی و ملی تاریخ اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر‘ حسرت موہانی‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ مولانا ظفر علی خان___ ناموں کی یہ فہرست طویل ہے لیکن لفظ کی حرمت کی پاس داری کی اتنی شان دار تاریخ رکھنے والی قوم جبر اور آزادیِ اظہار کے درمیان معلق ہے۔ استثنائی مثالوں سے قطع نظر‘ یہ قوم آزادیِ اظہار ’مانگتی‘ ہے‘ اسے بروے کار نہیں لاتی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے لیے آزادی ’اضافی‘ ہے‘ بنیادی نہیں۔
ایک ایسا ملک جس کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی قوم کے دشمن کے لیے بھی آزادیِ اظہار کا حق تسلیم کیا ہو‘ اس کے حوالے سے یہ صورت حال افسوسناک ہے۔ قائداعظم نے بھارتی صحافی ڈی ایف کراکا سے فرمایا: ’’ہمارا ہر نکتے پر اختلاف ہے۔ آپ نے مسلسل ہمارے خلاف جنگ کی ہے لیکن میں آپ کا احترام کرتا ہوں۔ کیونکہ آپ نے جو کچھ لکھا‘ آپ کو اس پر مکمل یقین تھا‘‘۔(صحافت پابند سلاسل ازضمیرنیازی‘ص ۵۱)
ہماری قومی صحافت اور ذرائع ابلاغ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت تو انھیں شاذ ہی ہوتی ہے‘ البتہ معاشرے میں منفی رجحانات کے فروغ کے حوالے سے انھوں نے خود بھی آزادی کا خوب استعمال کیا ہے اور حکمرانوں کی جانب سے بھی انہیں اس سلسلے میں کسی سنسر شپ اور روک ٹوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں ممتاز صحافی صلاح الدین شہید کا یہ تبصرہ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اپنے مضمون ’آزادیِ اظہار یا آزادیِ آزار‘ میں انھوں نے لکھا:
اگر کوئی کہے کہ کراچی کے حالات بگاڑنے میں اور پورے ملک میں صوبوں‘ علاقوں اور لسانی گروہوں میں چیرنے پھاڑنے کے عمل میں سرفہرست کون ہے؟ تو میں گردن جھکا کر کہوں گا: ’قومی پریس‘ (صحافت اور تشدد‘طاہر مسعود‘ص ۶۷)
صلاح الدین شہید کا یہ تبصرہ ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا۔ اس وقت سے آج تک حالات مسلسل خراب ہوئے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو یہ صورت حال رونما ہوئی کہ اخبارات کے صفحات اور ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں مصور پاکستان علامہ اقبال اور بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح پر رکیک حملے ہوئے۔ بعض ٹی وی چینلوں پر حدود اللہ کے خلاف کھلم کھلا مہم چلائی گئی۔ کچھ چینلوں پر ہم جنس پرستی کے لیے جواز جوئی کی جرأت بھی دیکھنے میں آئی۔ ایک ٹی وی چینل نے صنفی امتیاز کے تصور پر کلہاڑا چلاتے ہوئے بیگم نوازش علی کا کردار متعارف کرا ڈالا۔ طوائفوں کے کرداروں اور ان کی زندگی پر مبنی ڈراموں کی بھرمار اور بھارتی فلموں کی یلغار اس کے علاوہ ہے۔ قائداعظم کے نزدیک قومی صحافت یا قومی ذرائع ابلاغ کا تصور یہ تھا کہ ان کے دل ’مسلم قوم‘ کے ساتھ دھڑکتے ہوں لیکن ۲۰۰۷ء تک آتے آتے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ باالخصوص ٹی وی چینلوں کا دل کیا بل بھی پاکستانی نہیں رہا۔
ذرائع ابلاغ کے لوازمے کی دو صورتیں ہیں: ۱- خبری لوازمہ ۲- تفریحی لوازمہ
جن قوموں کے سامنے قومی ایجنڈا واضح ہوتا ہے‘ وہاں ذرائع ابلاغ بھی وسیع تر معنوں میں قومی ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہیں۔ اس سے ان کے خبری اور تفریحی لوازمے میں ایک طرح کی معروضیت اور ذمہ داری خودبخود پیدا ہوجاتی ہے لیکن ہمارے یہاں تو حکمرانوں کے ساتھ قومی ایجنڈا بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ایک ’ٹاک شو‘ میں ملک کے کئی معروف ٹی وی میزبانوں نے تسلیم کیا کہ ان کے پروگراموں کے موضوعات بھی ’اوپر‘ طے ہوتے ہیں اور ان کے شرکا بھی۔
ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں سب سے زیادہ مقبولیت گفتگو کے پروگراموں کو حاصل ہوئی ہے‘ جنھیں عرف عام میں ٹاک شوز کہا جاتا ہے۔ہماری مذہبی روایت میں گفتگو کا مفہوم کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے تصوف کی مشہور زمانہ لغت سردلبراں کا ص ۲۹۰ دیکھنا چاہیے‘ جہاں لکھا ہے‘ گفتگو کا مطلب ہے:’ہر وہ چیز جو محبت انگیز ہو‘۔ یہ صرف ہمارا معاملہ نہیں‘ دنیا میں جس شخص کو تہذیب کا لمس میسر آیا ہے‘ اس نے گفتگو یا مکالمے کو بڑی اہمیت دی ہے۔انگریزی کے ممتاز نقاد اور شاعر رالف والڈو ایمرسن نے اپنے ایک دوست سے کہا:
I would gladly walk a hundred mile through snow storm for one good conversation.
اگر ایک اچھی گفتگو کے لیے مجھے برفانی طوفان میں 100 میل کا سفر طے کرکے جانا پڑے تو میں بخوشی جائوں گا۔(The Way Things Are by Hustonsmith ‘ ص ۱۰)
البتہ ہمارے ٹی وی چینلوں پر گفتگو کے بعض پروگراموں میں نہ قومی زندگی کے بنیادی مسائل اور موضوعات کا تعین ہوتا ہے‘ نہ ان سے ناظرین کی ذہنی سطح بلند ہوتی ہے۔ پروگراموں کے پروڈیوسروں اور میزبانوں کی کوشش بظاہر یہ لگتی ہے کہ وہ تنازع (controversy) پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں مگر انھیں معلوم نہیں کہ صحافت میں تنازع برپا کرنے کی تین بڑی صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک ’انکشاف‘ دوسری خیالات کا ٹکرائو‘ تیسری انحرافی یا ڈگر سے ہٹی ہوئی گفتگو۔ لیکن ہمارے ٹاک شوز میں ان چیزوں کا خلا الزام تراشی اور جوابی الزام تراشی سے پُر کیا جارہا ہے۔
تفریحی لوازمے کا دائرہ تہذیب و ثقافت کا دائرہ ہے اور اس شعبے میں تو ہمارے ذرائع ابلاغ نے آزادیِ اظہار کے نام پر قیامت ہی ڈھا دی ہے۔ امریکا کی ایک اشتہاری کمپنی یونی لیور کا اشتہاری سلوگن تھا: Soap is civilization ’صابن تہذیب ہے‘۔(The Visual Culture Reader edited by Nicholas Mirzoeff‘ ص ۳۰۵)
ہمارے ذرائع ابلاغ مغربی فکر کی یلغار کے زیراثر تہذیب و ثقافت کے تصور کو اس سطح پر گھسیٹ کر لارہے ہیں اور قوم کو بتا رہے ہیں کہ صابن تہذیب ہے‘ شیمپو ثقافت۔ صبح مارجرین سے طلوع ہوتی ہے اور سورج اوولٹین میں غروب ہوتا ہے۔ شرم و حیا نفسیاتی عارضے اور اعتماد کی شدید کمی کے شاخسانے ہیں اور بے باکی شخصیت کی پختگی کا اظہار۔ ان سب کا لب لباب ہے ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کاش! ہمارے معاشرے نے علامہ اقبال اور مولانا مودودیؒ کے اس تجزیے پر توجہ دی ہوتی کہ تہذیبوں کی تعریف ان کے رہن سہن‘ لباس اور تراش خراش کی بنیاد پر نہیں‘ ان کے تصورِ الٰہ‘ تصورِ علم‘ تصورِ انسان‘ تصورِ روح‘ تصورِ نفس‘ تصورِ تخلیق اور کامیابی و ناکامی کے حتمی پیمانے کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہماری قوم کو ’صابن تہذیب ہے‘ کی بات علمی سطح پر معلوم نہیں مگر وہ بسر اسی تصور کو کررہی ہے۔ مغرب کا کلچر حسی اور بصری (sensual and visual) ہے اور اس کا یہی اثر ہوتا ہے۔ اس کا علم اور تفہیم ضروری نہیں۔ یہ مغربی تہذیب کے بارے میں اتنی بنیادی بات ہے کہ جسے سمجھے بغیر ہم مغرب اور اس کے مقامی آلۂ کاروں کا مقابلہ تو کیا کریں گے‘ ہم ان کے سامنے صرف کھڑے ہونے کا حق بھی ادا نہیں کرسکتے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ذرائع ابلاغ کی ایک عجیب تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ جہاں تک خبری لوازمے اور اس کے توسیعی دائرے کا تعلق ہے تو یہاں ذرائع ابلاغ خود بھی اپنے اوپر سنسر عائد کررہے ہیں اور حکومتی سنسر بھی ان کے لیے قابل قبول ہے۔ یہاں تک کہ کسی واقعے یا سانحے کے سلسلے میں آزادی کا مظاہرہ کرنا ہے تو کرلیا جائے مگر اس پر بھی ’پابند آزادی‘ کی مہر یا ’آرڈر پر تیار شدہ‘ کا بورڈ لگا ہوتا ہے۔ البتہ تفریحی لوازمے کے سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو نہ آسمانی ہدایت کی پروا ہے‘ نہ زمینی احکامات کا خیال۔ ان کے سامنے صرف کارپوریٹ کلچر اور اس کے تقاضے ہیں اور بس۔
حالانکہ یہ ذرائع ابلاغ ایک مسلمان معاشرے کے ذرائع ابلاغ ہیں۔ ان کے کارپرداز کتنے بھی گئے گزرے کیوں نہ ہوں‘ اللہ رسول کا نام تو لیتے ہیں۔ پاکستانی ہیں‘ جس کے دستور نے زندگی گزارنے کے لیے کتاب و سنت کو معیار مقرر کیا ہے۔ انھیں اپنے شہریوں کو سنانے اوردکھانے کے لیے اقدارسے بے بہرہ نہیں ہوجانا چاہیے کہ اس طرح سب کچھ تہذیب کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ چند لمحات کی نفسانی تسکین فراہم کرکے‘ اپنے لیے عذابِ الیم کا سودا کوئی دانش مندی کی بات نہیں۔ اگر حکومت ملک کے عوام کی خواہشات کی آئینہ دار ہے (سمندر پار کی کسی میگاپاور کے مفادات کی نگہبان نہیں) تو وہ ذرائع ابلاغ کو اسی نقطۂ نظر سے آزادی بھی دے گی اور پابند بھی کرے گی۔
مغرب ہمیں ’کم بچے خوش حال گھرانا‘ کا سبق پڑھا رہا ہے۔ ہمارے حکمران اسے ترقی کے پھل ہر گھر تک پہنچانے کا نسخہ سمجھ کر بے سوچے سمجھے اس پر دل و جان سے عمل پیرا ہیں‘ لیکن خود مغرب کو جو قانونِ قدرت سے لڑنے میں ایک مدت گزار چکے ہیں اس کے کیا پھل مل رہے ہیں‘ اس نے ان کے اہلِ فکر کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس پر مستزاد اس مسئلے میں مسلم عنصر کا دخل بھی ہے جس کی وجہ سے انھیں کافی ڈرائونے خواب آرہے ہیں۔ معلوم نہیں کیا سمجھ کر خود ہی نائن الیون کیا‘ اور کیوں خود ہی اپنی رات کی نیندیں حرام کرلی ہیں۔ بے بنیاد افواہ پر بھی شہر کے شہر سُونے ہوسکتے ہیں۔ مل جل کر رہنے کے بجاے‘ تصادم کا راستہ اپنایا‘ اب اسی کے نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ مالتھس نے نظریہ پیش کیا‘ مغربی تہذیب نے اسے اپنا لیا۔ اس کے پیچھے یہودی ہاتھ بتایا جاتا ہے جس نے اس طرح عیسائی دنیا کو مسائل کا شکار کردیا۔
تاریخ نے دیکھا ہے کہ تاتاریوں کے قبولِ اسلام کے بعد کعبے کو صنم خانے سے پاسباں مل گئے‘ آج بھی یہ عمل دہرایا جاسکتا ہے اس لیے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اگر آج مسلمان صرف رفتارِ پیدایش پر تکیہ نہ کریں‘ بلکہ عصرِحاضر کے دعوتی تقاضوں کو کماحقہ پورا کریں‘ چیلنجوں کا ادراک کریں اور ان کا قرار واقعی مقابلہ کریں تو جو بات مغرب کے اہلِ فکر کچھ دُور دیکھ رہے ہیں‘ اللہ اپنی مشیت سے اسے بہت جلدی برپا کرسکتا ہے۔ اگر غیرمسلم معاشرے مسلمان ہوجائیں تو ہمیں اور کیا چاہیے۔ ہمارے لشکر جب کہیں حملہ کرنے جاتے تھے تو پہلا آپشن یہی دیتے تھے۔ نئے تناظر میں سارا مغرب دارالدعوۃ ہے۔ ہم جو وہاں موجود ہیں ‘ اسلام کے سچے داعی ہوں‘ اور ہم ۱۵۷ نہ سہی‘ ۱۰‘ ۲۰ ممالک میں اسلامی معاشرہ قائم کرلیں‘ تو رسل و رسائل کی ترقی کی وجہ سے اس کے اثرات پریشان اور سکون سے محروم معاشروں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائیں گے۔ انسان اپنے فطری دین کی طرف پلٹ آئے گا۔
عیسائی مملکتوں میں آبادی آج اتنی گھٹ گئی ہے کہ وہاں خطرے کا الارم بج چکا ہے۔ دسیوں قسم کے خطرے وہاں کے حکمرانوں اور دانش وروں کو آیندہ محض چند برسوں میں پیش آتے نظر آرہے ہیں۔ اسی حوالے سے بعض چونکا دینے والے حقائق قابلِ غور ہیں:
آبادی میں کمی کے جو حقائق اُوپر بیان کیے گئے ہیں‘آبادی منصوبہ بندی کا وہ صرف ایک پہلو ہیں۔ یعنی کام کرنے والے ہاتھوں کی شدید کمی۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ یورپ اور امریکا میں مقامی عیسائی آبادی کا تناسب تیزی سے کم‘ اورمسلم آبادی کا تناسب تیزی سے زیادہ ہورہا ہے۔ مغرب اس وقت افزایش نسل پر عمل پیرا نہیں ہے۔ اگرچہ تحدید آبادی کا اثر مسلمانوں پر بھی پڑا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایک مسلم خاندان میں آج بھی تین چار بچے تو ہوتے ہی ہیں۔ یوں آبادی کا تناسب ازخود مسلمانوں کے حق میں جارہا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں افرادِ کار کی شدید قلت کے باعث اسلامی ممالک سے مسلم نوجوانوں کی مغرب میں تیزی سے آمد کے باعث بھی وہاں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے بڑھ رہی ہے‘ یا کم از کم ان کے برابر آرہی ہے۔ وہ اپنے ہاں مسلمانوں کی آمد کو روک نہیں سکتے کیونکہ انھیں اپنا کاروبارِ ریاست بھی چلانا ہے۔ یوں آبادی کے لحاظ سے وہ دوطرفہ دبائو میں ہیں۔ وہاں کے دانش ور‘ صحافی‘ پروفیسر اور حکمران سب واویلا مچارہے ہیں کہ اگر آبادی کا تناسب اسی طرح الٹتا رہا تو عیسائی خود اپنے ہی ممالک میں اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ ملاحظہ ہو:
مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا جو عالمی پروپیگنڈا ہورہا ہے‘ اس سے خیر کا یہ پہلو برآمد ہوا ہے۔ مغرب میں اسلام کو سمجھنے اور پھر قبول کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اس وقت جاپان سمیت امریکا اور یورپ میں مقامی عیسائی آبادی کے قبولِ اسلام کے واقعات تیزی کے ساتھ رونما ہورہے ہیں جس میں ان کے نمایاں اور ممتاز افراد بھی شامل ہیں۔
مغرب میں مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عیسائیوں کی تہذیب و ثقافت پر مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اثرانداز ہورہی ہے۔ یورپ اور امریکا کے ہر بڑے شہر میں مسجدوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور بلند ہوتے ہوئے مینار جابجا اسلامی اثرات کو نمایاں کر رہے ہیں۔ وہاں سڑکوں پر اسکارف پہنی خواتین اور داڑھی ٹوپی والے مرد زیادہ نظر آنے لگے ہیں۔ دکانوں پر عربی اور دوسری مشرقی زبانوں کے بورڈ بھی پہلے سے زیادہ آویزاں نظر آتے ہیں۔ اُردو اور عربی اخبارات ورسائل کی اشاعت میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ مسلم آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کے باعث اب وہاں مقامی اور ریاستی حکومتوں میں مسلم شخصیات کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ جب کہ ایوانِ عام اور ایوانِ بالا میں بھی مشرقی و نومسلم افراد نشستیں حاصل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکی کانگریس میں ایک نومسلم فرد نے قرآن پاک پر حلف اٹھانے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ نواے وقت(کراچی ‘ ۲۱ مئی ۲۰۰۷ء) کی ایک خبر کے مطابق فرانس میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون وزیر نے حکومت میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس خاتون کا تعلق شمالی افریقہ سے ہے۔ لہٰذا جیسے جیسے ان ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا‘ مرکزی حکومتوں اور سینٹ و کانگریس میں ان کی نمایندگی کا تناسب بھی بڑھتا چلا جائے گا۔
مسلم آبادی میں اضافے کی وجہ سے مغرب میں عملی‘ دعوتی اور اسلام پسند نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے اثرات وسیع ہوں گے۔ لہٰذا مغرب جو یہ خدشہ ظاہر کررہا ہے کہ عنقریب عیسائی دنیا اپنے ہی اکثریتی علاقوں میں اقلیت بن کر رہ جائے گی اور مسلمان وہاں غالب آجائیں گے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ یورپی عیسائی ایک بار پھر اپنی آبادی بڑھانے کی کوشش کریں۔ لیکن مغربی مرد و عورت اپنے عیش و آزادی میں اب اتنے آگے جاچکے ہیں کہ وہاں سے پلٹ کر آنا ان کے بس میں نہیں رہا ہے۔
عربی کا مشہور اور بڑا سچا مقولہ ہے کہ ’’عالِم کی موت پورے عالَم کی موت کے مترادف ہے‘‘۔ دنیا میں روشنی علم اور اہلِ علم و تقویٰ کے وجود سے ہے اور زندگی میں سب سے بڑا خسارہ ارباب علم و تقویٰ کی محبت سے محرومی اور ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے‘ اور اگر رخصت ہونے والا عالِم شخصی طور پر آپ کا استاد‘ محسن اور مربی بھی ہو تو پھر یہ نقصان اور بھی سِوا ہوجاتا ہے۔ میرے لیے ہی نہیں‘ تحریک اسلامی‘ تحریک اہلِ حدیث اور عالمِ اسلام کے ہزاروں طالبانِ علم کے لیے استاد محترم مولانا عبدالغفارحسنؒ کا ۲۲ مارچ ۲۰۰۷ء کو اس دنیاے فانی سے ابدی زندگی کی طرف کوچ ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔ اِنَّا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی دینی‘ علمی‘ دعوتی اور تربیتی خدمات کو قبول فرمائے‘ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے‘ اور جنت میں ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ اللھم اغفرلہٗٗ وارحمہٗ۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ سے میری پہلی حقیقی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب وہ جماعت اسلامی کے شعبۂ تربیت کے ناظم مقرر ہوئے۔ میں اس وقت جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کو دیکھنے کا اس سے پہلے بھی بارہا موقع ملا تھا لیکن وہ سرسری سلام و دعا سے زیادہ نہ تھا‘ اس لیے اس کا کوئی خاص نقش دل و دماغ پر نہیں۔ البتہ ۱۹۵۴ء سے ملاقاتوں اور استفادے کا جو سلسلہ شروع ہو وہ میری زندگی کا بڑی قیمتی سرمایہ ہے۔ فطری طور پر جس پہلی ملاقات کا میں ذکر کررہا ہوں اس کا موضوع جمعیت کی تربیت گاہوں میں مولانا عبدالغفار حسنؒ کی شرکت اور ہمارے پورے تربیتی پروگرام کو مرتب کرنے کے لیے ان کے مشورے اور ہدایات تھیں۔ مولانا کے علم اور خصوصیت سے علمِ حدیث کا رعب تو پہلے سے تھا لیکن اس ملاقات کی سب سے نمایاں یاد مولانا کی طبیعت کی سادگی‘ جس پر معصومیت کی چھاپ نمایاں تھی اور غرورعلم کی جگہ کسرنفسی اور سب سے بڑھ کر طلبہ کے لیے شفقت اور ان کے سارے ہی مطالبات کو بے چوں و چراں تسلیم کرکے دل موہ لینے والی ادا تھی۔مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک بار بھی انھوں نے ہمارے کسی مطالبے کا جواب نفی میں دیا ہو۔
۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۶ تک مجھے مولانا مرحوم سے جمعیت کے پروگراموں کے سلسلے میں بارہا ملنے‘ گھنٹوں استفادہ کرنے‘ اور پھر دو روزہ تربیت گاہ سے بڑھ کر ایک ہفتہ اور دس دس دن کی تربیت گاہوں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ بالعموم وہ ہمارے ساتھ ہی قیام فرماتے۔ درسِ حدیث اور اصولِ حدیث تو ان کے خاص موضوع تھے ہی مگر درسِ قرآن اور تربیتی موضوعات پر بھی باقاعدہ تقاریر کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی نشستوں میں ہماری رہنمائی فرماتے اور کبھی کسی سوال پر کبیدہ خاطر نہ ہوتے۔ ان کے علم کے ساتھ ان کی سیرت‘ ان کی سادگی اور ان کی شفقت کا ہم سب پر گہرا اثر تھا۔ خرم بھائی [خرم مراد] تو ان کے گرویدہ تھے ہی‘ لیکن ہم سب بھی ان کی شخصیت کے اسیر تھے۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ کے جماعت میں آنے کے بعد بہت تھوڑا عرصہ قریبی تعلقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ ماچھی گوٹھ میں ان سے کئی بار گفتگو ہوئی اور معاملات کا حل نکالنے کے لیے ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر کوٹ شیرسنگھ کی طویل شوریٰ کے دوران جس میں نئے دستور کی تدوین ہوئی برابر ملاقاتیں رہیں۔ بدقسمتی سے اس کے بعد مولانا عبدالغفار حسنؒ جماعت سے مستعفی ہوکر مولانا عبدالرحیم اشرف کے ساتھ فیصل آباد چلے گئے لیکن الحمدللہ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ان سے ملنے اور استفادے کا موقع ملتا رہا۔ جب وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں استاذ حدیث تھے‘ اس زمانے میں مجھے پروفیسر عبدالغفور اور جناب صادق حسین کے ساتھ مسجدنبویؐ میں اعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہر روز ہی مولانا سے ملاقات ہوتی اور ہم ان سے استفادہ کرتے۔ کئی بار انھوں نے درسِ قرآن دیا اور ہمارے بہت سے سوالات کا جواب دیا اور اشکال کی گرہ کشائی فرمائی۔
جمعیت کے زمانے میں مولانا سے حدیث کا سبقاً سبقاً درس لینے کا موقع بھی ملا۔ تقریباً ۸۰احادیث ہم نے ان سے پڑھیں اور کمالِ شفقت سے ایک بار تربیت گاہ کے آخری پروگرام میں فرمایا کہ حدیث کی روایت کے سلسلے کی آخری کڑی وہ خود ہیں۔یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نسلاً بعد نسل ۲۴ سلسلوں سے‘ وہ چند احادیث جن کا انھوں نے ہمیں درس دیا ہے‘ بلافصل ہم تک بھی پہنچ گئی ہیں اور اس طرح مولانا عبدالغفار حسن کے توسط سے ہم بھی وہ خوش نصیب ہیں جو اپنی ساری کمزوریوں اور محرومیوں کے باوجود اس ذہبی سلسلہ سے مربوط ہوگئے ہیں۔ اس وقت مولانا کے اس فیض خاص پر ہم سب پھولے نہیں سمائے۔ بعد میں ان کی کتاب عظمتِ حدیث میں روایت کے اس پورے سلسلے کو دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی کہ اس طرح ہم کو بھی مولانا کے توسط اور ان کی شاگردی کی نسبت سے اس سلسلے کا دامن تھامنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ کی پیدایش ۲۰جولائی ۱۹۱۳ء کو ضلع رہتک (مشرقی پنجاب) میں ہوئی۔ انھوں نے دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے درس نظامی کی تکمیل اور دورہ حدیث کیا۔ پھر لکھنؤ یونی ورسٹی سے ۱۹۳۵ء میں فاضل ادب عربی اور ۱۹۴۰ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے مولوی فاضل کی سندات حاصل کیں۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی‘ مدرسہ رحمانیہ بنارس اور مدرسہ کوثرالعلم مالیرکوٹلہ میں درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔
ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا مودودیؒ سے تعلق قائم ہوا اور ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو گو تاسیسی اجلاس میں شریک نہ ہوسکے مگر خط کے ذریعے تاسیسی ارکان میں شامل ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان ہجرت کی۔ کچھ عرصہ راولپنڈی میں جماعت کی تربیت گاہ میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا مودودیؒ کی پہلی گرفتاری کے موقع پر ایک ماہ کے لیے قائم مقام امیرجماعت کی ذمہ داری ادا کی۔ اس کے بعد بھی دو بار قائم مقام امیرجماعت کی حیثیت سے تحریک کی خدمت اور قیادت کی۔ ۱۹۴۳ء سے مرکزی شوریٰ کے رکن رہے اور ۱۹۵۷ء تک جماعت سے وابستہ رہے۔ طریق کار کے بارے میں کچھ اختلاف اور انتخابی سیاست سے اصولی بے زاری کے سبب جماعت سے الگ ہوئے لیکن جماعت کے مقصد‘ یعنی اقامتِ دین کے باب میں کبھی کسی تحفظ کا اظہار نہیں کیا۔ جماعت کے اور خصوصیت سے مولانا مودودیؒ کے علمی کام کے ہمیشہ معترف رہے اور کلمۂ خیر کہتے رہے۔ یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے جماعت جمعیت کے بعد بھی وہ اپنے انداز میں اسی مقصد کی خدمت میں آخری وقت تک مصروف رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے لیے درس و تدریس کا راستہ اختیار کیا۔ فیصل آباد میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ اور مدینہ یونی ورسٹی میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں نوسال رہنمائی کے فرائض انجام دیے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران ۱۱ ماہ سنت یوسفی ادا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور جیل میں بھی درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کا اس طرح اہتمام کیا کہ جیل مدرسہ میں تبدیل ہوگیا۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ کی زندگی بڑی سادہ اور پاک صاف تھی۔ وہ سلف کا نمونہ تھے اور انھیں دیکھ کر اور ان سے گفتگو کرکے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا۔ ان کی حکمت بھری مگر بڑی آسان‘ ہلکی پھلکی اور دل نشین باتیں دل پر نقش ہوجاتی تھیں۔ توازن اور میانہ روی مولانا کی زندگی کا شعار تھی۔ کتاب ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ دنیا سے ان کو بس اتنی دل چسپی تھی جتنی روح اور بدن کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دنیا کو خدا کے دین کے مطابق بدلنے کے لیے جس جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے‘ وہ ان کی زندگی کا مشن تھا۔ میرا پہلا اور اصل رشتہ تو ان سے شاگردی اور تحریکی رفاقت کا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں یہ خوشی بھی لکھی ہوئی تھی کہ ان کے پوتے ڈاکٹر اسامہ حسن کا عقد میری بیٹی سلمیٰ سے ہوا اور اس طرح ہمارے خاندانوں میں بھی ارتباط کی ایک اور خوش گوار صورت پیدا ہوگئی۔
یہ مولانا عبدالغفار حسنؒ کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے خاندان میں کم از کم پانچ پشتوں تک علم کی شمع بلافصل روشن رہی ہے۔ ان کے دادا مولانا عبدالجبار عمرپوری بڑے جیدعالمِ دین اور استادعصر تھے۔ ان کے والد مولانا حافظ عبدالستار عمرپوری کم عمری کے باوجود علمی دنیا میں نام پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مولانا عبدالغفار حسنؒ خود اپنے عصر کے اہلِ علم و تقویٰ میں اُونچا مقام رکھتے ہیں اور ان کے صاحبزادے خصوصیت سے ڈاکٹر صہیب حسن‘ ڈاکٹر سہیل حسن اپنے اپنے میدان میں علم کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں۔ ان کا پوتا ڈاکٹراسامہ حسن انگلستان کی ایک یونی ورسٹی میں انفارمیشن ٹکنالوجی کا استاد ہے۔ وہ بھی‘ الحمدللہ علم دین کے حصول اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں سرگرم ہے۔ یہ اللہ کا بڑا فضل اور انعام ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے‘ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتی من یشاء۔
فون کی گھنٹی بجی‘ فون اٹھایا تو نبیلہ کی رندھی ہوئی آواز سنائی دی: باجی مسعودہ افضل فوت ہوگئیں۔ مجھے یقین نہ آیا۔ مسعودہ آپا کے گھر نمبر ملایا تو اُن کی بہو نے اس بات کی تصدیق کردی۔ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔یوں لگا جیسے میں گھنی چھائوں سے تپتے صحرا میں پہنچ گئی ہوں۔ گھریلو مسائل ہوں یا تحریکی مصروفیات‘ حقیقت میں وہ ہم دونوں بہنوں کے لیے گھنی چھائوں تھیں۔ کبھی سوچا ہی نہ تھا وہ اتنی جلدی آرام کی نیند سو جائیں گی۔ بھاگتی دوڑتی مسعودہ آپا ہروقت فاستقبوا الخیرات کی عملی تصویر بنی نظر آتیں۔ کبھی آرام سے بیٹھے‘ سوتے اور سستاتے ہوئے نہ دیکھا۔ اس وقت ملاقات کے لیے جانا ہے‘ اب درس دینا ہے‘ اب قرآن کلاس ہے‘ شام کو اجتماع ہے‘ اور ساتھ ساتھ گھروالوں کی دل جوئی‘ بچوں کی تربیت اور بہوؤں کو جماعت اسلامی کے ساتھ منسلک کرنے کی فکردامن گیر رہتی۔ اسی طرح بھاگتے دوڑتے بہت ساری بہنوں اور بیٹیوں کو روتا ہوا چھوڑ کر اللہ کے گھر اپنی ابدی قیام گاہ چلی گئیں۔
مسعودہ آپا کا تعلق تحریکی گھرانے سے تھا۔ آپا جی اُم زبیر رشتے میں ان کی خالہ لگتی تھیں۔ تاہم جماعت اسلامی کا لٹریچر اُنھوں نے اپنے بیٹوں کے ذریعے پڑھا۔ ابتدائی طور پر اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر ہوکر دعوت دین کا کام شروع کیا۔ بعد میں جماعت اسلامی کے ساتھ باقاعدہ منسلک ہوگئیں اور وقت گزرنے کے ساتھ جماعت کے ساتھ اُن کی محبت اور رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔حلقہ خواتین لاہور کی نائب ناظمہ بھی رہیں۔ انھوں نے باقاعدہ طالبہ کی حیثیت سے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ جب بی اے میں پہنچیں تو امتحانات سے قبل ہی شادی ہوگئی اور پھر گھریلو مصروفیات کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کرسکیں۔
اللہ نے اُنھیں بیٹی نہیں دی تھی مگر وہ سیکڑوں بیٹیوں کی ماں تھیں۔ لاہور میں پورے ٹائون شپ کے علاقے میں مسعودہ باجی سے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنے والی لڑکیاں اُنھیں بیٹیوں سے زیادہ عزیز تھیں۔ جو طالبہ ایک مرتبہ اُن کے درس میں آنا شروع کردیتی‘ اُ س سے ہمیشہ تعلق رکھتیں۔ خوشی غمی میں شرکت اور ضروریات کا خیال رکھنا‘ اخلاقی‘ فکری اور مالی امداد یہاں تک کہ اُس طالبہ کے تمام گھروالے بھی مداح ہوجاتے کہ تمھاری استاد تم سے کتنا پیار کرتی ہے۔ بہت ساری خواتین کو جماعت اسلامی کے پروگرام میں شرکت کی اجازت صرف مسعودہ باجی کے اخلاق کی وجہ سے مل جاتی تھی کہ تمھاری درس والی باجی نے بلایا ہے تو ہم انکار نہیں کرسکتے۔
انتخابات کے دنوں میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے جو لوگ بہت اعتراضات کرتے اور ووٹ دینے سے انکار کردیتے‘ جب اُن کے ہاں مسعودہ باجی چلی جاتیںتو گھروالے فوراً کہہ دیتے کہ اب آپ آگئی ہیں تو ہم انکار نہیں کرسکتے۔ ٹائون شپ کے حلقے میں جماعت کے ووٹ بنک میں ان کا کلیدی کردار تھا۔
اُن کی زندگی بھی قابلِ رشک تھی اور موت بھی۔ جمعہ کا مبارک دن‘ ہفتوں کی شدید گرمی کے بعد اللہ نے بارش برسائی اور موسم ٹھنڈا ہوگیا اور اُن کی وفات کے بعد مسلسل تین دن بارش ہوئی اور موسم خوش گوار رہا۔ اللہ نے روح سعید کی تمام علامتیں دکھا دیں تاکہ قریب کے افراد سمجھ لیں کہ اللہ کو کس طرح کے بندے پسند ہیں۔ انھیں ہر وقت ایک ہی فکر تھی کہ دین کی دعوت آگے پہنچ جائے۔ جس تک دعوت پہنچا دی ہے‘ اُسے جماعت اسلامی میں شامل کرلوں۔ اِسی مقصد کے لیے دوستی‘ اسی کے لیے رشتہ داری‘ اسی کے لیے محبت‘ اسی کے لیے خوشی اور غمی میں شرکت۔ دل جوئی‘ تحفے تحائف‘ ضرورت مند کی مدد‘ غرض ہر ذریعہ اختیار کرتیں۔ چپکے سے مدد کردیتی تھیں لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دینا کہ یہ جماعت اسلامی کی طرف سے ہے۔ کسی ضرورت مند کو ایک سوٹ بھی دیا تو یہ کہہ کر دیا کہ یہ جماعت اسلامی کی طرف سے ہے۔ کسی کو ڈھیر سامان بھی دیا تو یہی کہا۔
ہمیشہ ہرکام نظم سے پوچھ کر کیا۔ ڈسٹرکٹ کونسل کی ممبر منتخب ہوئیں تو کچھ حلقوں اور افراد کی طرف سے مطالبات آئے مگر انھوں نے یہی جواب دیا کہ جو میرا نظم کہے گا۔ زندگی کی آخری رات بھی اُن کا فون آیا کہ ناظمہ ضلع کا فون نہیں مل رہا تم بتائو مجھے کیا کرنا ہے۔ میں نے تو متعلقہ فرد سے کہہ دیا ہے کہ جیسا میرا نظم کہے گا‘ میں خود کوئی فیصلہ نہیں کروں گی۔
مسعودہ باجی سے ہمارا تعلق کوئی دو چار روز کا نہیںتھا۔ ۱۸برس پہلے کی بات ہے جب ہم لوگ ٹائون شپ منتقل ہوئے۔ اُس وقت پورے ٹائون شپ میں ایک رکن جماعت صفیہ آپا تھیں اور ہمارے گھر کے قریب مسعودہ باجی درسِ قرآن دیا کرتی تھیں۔ ایک دن جماعت اسلامی کا جھنڈا دیکھ کر ہمارے گھر آگئیں اور درس کی دعوت دی۔ اُس وقت تک ہم لوگ بھی کسی درس یا کلاس کے حلقے سے واقف نہ تھے۔ ابوجماعت کے کارکن تھے‘ اس لیے نام کی حد تک واقفیت تھی۔ جب ہم نے مسعودہ باجی کے درس میں جانا شروع کیا تو ایک دن وہ جمعیت طالبات کی ناظمۂ حلقہ کو ڈھونڈ لائیں اور ہم دونوں بہنوں کو جمعیت میں شامل کروا دیا۔ ہماری جمعیت میں شمولیت کے بعد بھی اُن کا یہ مطالبہ برقرار رہا کہ درس میں ضرور آنا ہے۔ اُن کی محبت اور چاہت کی وجہ سے جب تک وہ حلقہ قائم رہا ہم دونوں بہنیں باقاعدگی سے شریک ہوتی رہیں۔ اسی دوران حمیرا احتشام کراچی سے ٹائون شپ شفٹ ہوئیں تو ان تینوں نے مل کر ٹائون شپ کو جماعت اسلامی کا گڑھ بنا دیا۔ اس وقت ٹائون شپ کے حلقے میں ۱۸ خواتین ارکان اور ۳۰۰کے قریب کارکنان ہیں۔
جمعیت میں چلے جانے کے باوجود ہمارا مسعودہ باجی کے ساتھ اُسی طرح تعلق قائم رہا۔ دن میں بعض اوقات دو تین بار ملاقات ہوجاتی۔ ملاقاتیں کرنے اکٹھے نکلتے‘ درس دینے اکٹھے جاتے‘ خوشی غمی میں شرکت کرنے جاتیں تو ہم میں سے کسی ایک کو ساتھ لے جاتیں اور واپسی پر چھوڑنے آتیں تو دو چار منٹ ضرور بیٹھ کر جاتیں۔ شام کو پانچ بجے درس ہوتا تو تین بجے ہماری طرف آجاتیں۔ کہتیں تم لوگ تو سوتے نہیں ہو‘ بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ اُن کی گفتگو کبھی دنیاداری کی نہیں ہوتی تھی۔ جو کتاب پڑھی ہوتی اُس کے ڈائری پر لیے ہوئے نوٹس پڑھ کر سناتیں۔ اِسی طرح تفسیر کے نوٹس اور اکثر اوقات ڈائری پر پورے پورے واقعات لکھے ہوئے پڑھ کر سناتیں‘ تبادلۂ خیال کرتیں۔ اگر کوئی دنیاوی گفتگو یا کسی کی برائی کرنے کی کوشش کرتا تو اُسے منع کردیتیں۔ میں نے ۱۸سال کے عرصے میں کبھی انھیں کسی کی برائی کرتے نہیں سنا۔
ملاقاتوں کے لیے اکثر پیدل جاتیں اور بعض اوقات زیادہ چلنے سے پائوں میں چھالے پڑجاتے۔ جب ہم لوگ منع کرتے تو کہتیں یہ چھالے قیامت کے دن گواہی دیں گے۔ دوپہر میں جب تپتی دھوپ میں گھر سے نکلتیں تو ہمیشہ یہ کہتیں کہ اس کے بدلے اللہ جہنم کی آگ سے بچالے۔ اُنھیں ہرلمحے موت کی تیاری‘جنت کی طلب اور جہنم کا خوف دامن گیر رہتا۔
اگر کبھی اُن کے دوپٹے‘ پرس‘ ڈائری وغیرہ کی تعریف کردیتے تو فوراً اصرار کے ساتھ دے دیتیں کہ تمھیں پہنا ہوا تو یہ مجھ سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اگر کبھی کسی ضرورت کا تذکرہ کردیتے تو اُسے پورا کرنے کی دُھن سوار ہوجاتی۔ وفات سے دو دن پہلے میں نے کہا مسعودہ باجی دفتر کے لیے فی ظلال القرآن اور معارف القرآن لے دیں۔ کہنے لگیں رمضان میں مل جائے گا‘ ان شاء اللہ! زندگی کی آخری رات ان کا فون آیا: حمیرا‘ تم نے پتا نہیں کس خلوص سے مانگا تھا۔ فی ظلال القرآن کا سیٹ آگیا ہے‘ کل تمھارے دفتر پہنچا دوں گی اور کچھ دنوں میں معارف القرآن کا بھی آجائے گا۔
کسی پریشانی کا پتا چل جاتا تو بہت دعائیں کرتیں۔ تقریباً سال پہلے کی بات ہے میرے پاس گھریلو کام کے لیے معاون نہ تھی جب پتا چلا تو بہت دعائیں کرتیں‘ کوشش کرتیں پھر فون کر کے پوچھتیں حمیرا‘ کام والی مل گئی ہے؟ میں تو تمھارے لیے صلوٰۃ حاجت پڑھ کردعا کرتی ہوں کہ اللہ کرے تمھیں معاون مل جائے تاکہ تم دعوت دین کا کام سہولت سے کرسکو۔
جب بھی مجھے امی کی طرف جانا ہوتا تو ضرور ہی ملنے آتیں (حالانکہ مرکز میں بھی عموماً ملاقات ہوجاتی تھی)۔ اُنھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم ملنے آجائو‘ ہمیشہ خود ہی بھاگی ہوئی آتیں۔ اگر میں کہتی بھی کہ مسعودہ باجی‘ میں آجاتی ہوں تو کہتیں مجھے زیادہ اجر مل گیا اور تمھارا وقت بچ گیا۔ میں توسوچتی ہوں تمھاری بڑی مصروفیت ہے‘ اس لیے تمھیں مشکل نہ ہو‘ تمھارا وقت قیمتی ہے۔ جب بھی ملتیں تو بہت سارے کام اور منصوبے مع مسائل ہوتے جن پر گفتگو ہوتی۔ ہرچھوٹی بڑی بات پر جب مشورہ مانگتیں تو مجھے بڑی شرمندگی ہوتی۔ میں کہتی: مسعودہ باجی آپ تو میری استاد ہیں۔ آپ سے ہم نے قرآن سنا‘ آپ نے مجھے درس دینا‘ ملاقات کرنا سکھایا اور جمعیت اور جماعت کی دعوت دی۔ آپ اس طرح سے چھوٹی چھوٹی باتیں نہ پوچھا کریں۔ اس پر کہتیں کہ مجھے بات کرکے تسلی ہوجاتی ہے۔ بغیر مشورے کے کام کرنا مشکل لگتا ہے۔ یہ روش آخری دم تک رہی۔
وہ میری استاد بھی تھیں اور محسن بھی‘ ماں بھی تھیں اور دوست بھی۔ یقینا وہ نعمت بھری جنت میں چلی گئیں اور اپنے رب سے انعامات پا رہی ہوں گی۔ لیکن ہمارے لیے وہ ایک خلا چھوڑ گئیں جو کوئی اور پُر نہیں کرسکتا۔ اُن کے بہت سے محاسن ہیں جن کو لکھنا میرے جیسے کم علم کے لیے ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی سعی و جہد کو قبول فرمائے۔ اُن کی حقیقی اور روحانی اولاد کو اُن کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین
’’سیکولر بھارت اور بھارت کے مسلمان‘‘ (اپریل ۲۰۰۷ء) از ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی نظر نواز ہوا۔ ایک بھارتی مسلمان کی حیثیت سے یہ عاجز محترم ڈاکٹر صاحب کا شکر گزار ہے کہ ان کو سرحدپار کے مسلمانوں کی فکر اور ان کا خیال ہے۔ آخر بقولِ اقبال ع
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
بھارتی مسلمانوں کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کی دل سوزی، خلوص اور ملی درد مندی صاف عیاں ہے۔ لیکن انھوں نے جن باتوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ان کے سلسلے میں کچھ عرض کرناضروری محسوس ہوتا ہے۔ در حقیقت دور رہتے ہوئے صرف میڈیا کی مدد سے اگر کوئی رائے قائم کی جائے تو حالات کی سنگینی کا حقیقت سے کہیں زیادہ ادراک ہوجاناکوئی بعید نہیں‘ بالخصوص اس وقت جب دل میں ہمدردی کے جذبات ہوں توایسا ہوہی جایا کرتاہے۔ یہاں بھارت میں بھی جو لوگ صرف اخبارات پڑھ کر پاکستان کے بارے میں اظہار خیال کیا کرتے ہیں‘ ان کی باتوں میںبھی شدتِ احساس کا وہی حال دیکھنے کو ملتا ہے جو اس مضمون میں نظر آرہا ہے۔
مضمون کے آغاز میں پنجاب اور اترا کھنڈ میں بی جے پی کی کامیابی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ حالانکہ درحقیقت سکھ اکثریت کے پنجاب میں بی جے پی کی نہیں‘ سکھوں کی سیاسی جماعت اکالی دل کی حکومت بنی ہے۔ بی جے پی تو اس کی بس ایک اتحادی ہے۔اسی لیے وہاں کے وزیر اعلیٰ بھی اکالی دل کے سردار پرکاش سنگھ بادل ہیں۔ رہا اتراکھنڈ‘ تو چونکہ وہ بڑی ذات کے ہندوؤں کی واحد ریاست ہے‘ اس لیے وہاں بی جے پی کی حکومت بن جانا کوئی زیادہ حیران کن نہیں۔ اس کے قیام کے پہلے دن سے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہاں کانگریس اور بی جے پی باری باری اپنی حکومتیں بنائیں گی۔ جب یہ صوبہ بنا تھا تو بی جے پی کی حکومت بنی تھی، پھر الیکشن ہوئے تو کانگریس آئی اور اس مرتبہ پھر بی جے پی برسر اقتدار ہوئی ہے۔مستقبل میں بھی اس ریاست سے اسی طرح کی امید ہے۔
جن باتوں پر فاضل مضمون نگار نے بڑی تشویش کا اظہار کیا ہے‘ ان میں بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا پارٹی کی قومی کونسل میں دیا گیاایک بیان بھی ہے‘ جس میں انھوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندرکی تعمیرکے لیے ایک قانون بنائے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ لیکن یہ قانون کہاں بنے گا؟ پارٹی کی قومی کونسل یا کوئی پریس کانفرنس تو قانون ساز نہیں ہوا کرتی، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اکیلے اپنے دم پر پارلیمنٹ میںصرف اکثریت ہی نہیں‘ دو تہائی اکثریت لے کر آئیں۔ ایسا مستقبل قریب تو کیا غالباً مستقبل بعید میں بھی کبھی نہ ہوسکے کیونکہ اب بی جے پی کے لیے مستقبل میںکبھی سیاسی ماحول اتنا ہموار نہ ہو گاجتنا بابری مسجد کی شہادت کے بعدتھا۔ لیکن اس وقت بھی بی جے پی برسر اقتدار نہ آسکی، بعد میں کرسی ملی بھی تو اس کے لیے تقریباً ۲۰ دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں کا سہارا لینا پڑا۔ اس ’جمبوجٹ‘ محاذ کو بھی دو تہائی اکثریت حاصل نہیں تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سواے بی جے پی اور شیوسینا کے کوئی پارٹی اس طرح کے قانون کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ راج ناتھ کا یہ بیان اپنی نوعیت کا نیا بیان نہیں ہے، ایسے بیانات الیکشن کے زمانے میں ہر صبح وشام سننے کو ملتے ہیں۔
حیرت ہوئی کہ فاضل مضمون نگار نے وشوا ہندو پریشد (ورلڈ ہندو کونسل) اور اس کے سیکرٹری پروین توگڑیا کو بھی قابلِ اعتنا جانا۔ یقینا یہ لوگ ماضی میں ہندو معاشرے کے اندراپنا ایک مقام رکھتے تھے لیکن اب تو ع ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ کے مصداق بنے ہوئے ہیں۔ ثبوت کے لیے صرف ایک واقعے کا ذکر کافی ہے۔
چند ماہ قبل الٰہ آباد میں ہندوؤں کے سب سے بڑے مذہبی میلے (کمبھ) میں ۲کروڑ عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ اس پریشد نے بھی اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہا، اور اپنا ایک اجلاسِ عام وہاں رکھا۔ بے چارے توگڑیا جی اپنی کارکے بونٹ پر کھڑے ہوکر لوگوں کو بلاتے رہے، تب بھی کوئی قابلِ لحاظ تعداد جمع نہ کرسکے۔
ان شاء اللہ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ان کے ماضی سے بہتر ہوگا۔ ہندو شدت پسندی ،جو رام مندر تحریک کے زمانے سے اپنے عروج پر تھی ،غالباً گجرات کے فسادات کے بعد اس کے غبارے سے ہوا نکلنی شروع ہوچکی ہے۔ان فسادات کے چند مہینوں کے بعدہی پچھلے پارلیمانی الیکشن ہوئے تھے جس میں اندرونی اور بیرونی ہر طرح سے مدد کے باوجود ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے واجپائی جی اور بی جے پی کو شرم ناک شکست کا سامناکرنا پڑا تھا۔ درحقیقت بھارت کا مضبوط جمہوری نظام مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ہے۔ اسی نے مسلمانوں کو یہ طاقت بخشی ہے کہ ان کی مرضی کے خلاف مرکز میں کوئی مضبوط حکومت نہیں بن سکتی۔ جو کچھ لکھا گیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے سامنے کچھ مسائل نہیں ہیں۔ مسائل ہیں ، یقینا ہیں، ان میں سے کچھ سنگین بھی ہیں ، لیکن ان شاء اللہ مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے۔
تصحیحات اشاعتِ خاص
صفحہ
سطر
غلط
درست
۲۸
۸
یوسف مغایریف
یوسف مقریف
۹۸
۲۴
دسمبر ۱۹۴۹ء
دسمبر ۱۹۴۶ء
۱۱۹
۱۰
مسلم افواج
مسلح افواج
۱۲۹
۸
غاتینا
غایتنا
۲۱۴
۲۱
میں جس شخص کا ذکر ہے
یہ آیت کس شخص کے بارے میں نازل ہوئی
۲۱۵
۱۴
ابوبکر انصاری
ابوبکر الانباری
۲۲۲
۲۱
القصص الفنی فی القرآن
الفن القصصی فی القرآن
۲۲۵
۱
علی طنطاوی
طنطاوی جوہری
’غض بصر نہ کرنے کے نقصان‘ (ص ۳۸۳) میں حدیث کو اس طرح پڑھیں: لَعَنَ اللّٰہ…
ابھی کعبے کے سایے میں طے پانے والے ’معاہدۂ مکہ‘ کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ۱۹۴۸ء میں آدھے سے زائد فلسطین کو اسرائیل قرار دے دیے جانے اور ۱۹۶۷ء میں پورے فلسطین‘وادیِ سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر قابض ہوتے ہوئے عرب افواج کو شکست فاش دینے کے علاوہ بھی فلسطینی قوم کو بہت بڑے بڑے صدمے‘ سانحے اور قیامتیں دیکھنا پڑی ہیں لیکن حالیہ سانحہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء کے بعد سب سے تکلیف دہ گھائو ہے۔ دشمن کے وار سہنا اور اس کی طرف سے ظلم‘ زیادتی اور سازشوں کی توقع رکھنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ درندے درندگی نہ دکھائیں تو اور کیا کریں، لیکن ’اپنے‘ بھی ان کی صف میں جاکھڑے ہوں تو صدمہ و اذیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
۲۵ جنوری ۲۰۰۶ء کو بھاری اکثریت سے جیتنے کے باوجود حماس نے حیرت انگیز اصرار کیا کہ تنہا ہم حکومت نہیں بنائیں گے۔ انتخاب میں ہمارے مقابل شکست کھانے والی الفتح بھی آئے‘ ہم سب کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ الفتح سے پہلے امریکا اور اسرائیل کی طرف سے جواب آیا: خبردارکسی صورت حماس سے اشتراک نہ کیا جائے‘ ہم ایسی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انتخاب کے بعد حکومت سازی کے لیے دی گئی مدت ختم ہونے لگی تو حماس نے مجبوراً تنہا حکومت بنانے کا اعلان کردیا۔ الفتح کے سابق وزرا نے نئی تشکیل شدہ حکومت سے ’بھرپور تعاون‘ کیا، اور وہ یوں کہ دفاتر چھوڑتے ہوئے وہاں سے سارا فرنیچر‘ اسٹیشنری کا سامان‘ گاڑیاں حتیٰ کہ چائے کے برتن تک اپنے ساتھ لے گئے۔ ساتھ ہی امریکا‘ یورپ اور اسرائیل نے ہر طرح کی مالی امداد بند کردی۔ اسرائیل اپنے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی سامان رسد پر ماہانہ ۵۵ملین ڈالر کے ٹیکس جمع کرتا ہے جو اس کے پاس فلسطینی اتھارٹی کی امانت قرار دی گئی ہے‘ اس نے وہ بھی اداکرنے سے انکار کردیا۔ حکومت کے پاس کسی چپڑاسی تک کو تنخواہ دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ اس سارے کھیل کا اصل ہدف یہ تھا کہ فلسطینی عوام‘ حماس کو اپنے سارے دکھوں کا سبب قرار دیتے ہوئے بھوکے مریں گے تو ازخود بغاوت کردیں گے‘ حماس کی ناکامی درودیوار پر ثبت ہوجائے گی‘ لیکن صہیونی لومڑی دن رات ناچتے رہنے کے باوجود ’کھٹے انگوروں‘ تک نہ پہنچ سکی۔ فلسطینی عوام نے پہلے سے بھی بڑھ کر حماس پر اعتماد کیا۔ حماس کے وزیراعظم سمیت تمام ذمہ داروں نے بھی اپنا چولھا بجھا کر اپنے عوام کی خدمت کا بیڑا اُٹھا لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بلدیہ کے جمعداروں کو بھی تنخواہ دینا ممکن نہ رہا تھا تب وزیراعظم خود ان کے ساتھ مل کر غزہ کی سڑکوں پر صفائی کرنے کے لیے اُتر آیا۔
عین انھی لمحات میں امریکا نے صدر محمود عباس (ابومازن) کی ذاتی حفاظت کے لیے آٹھ کروڑ ۶۰ لاکھ (۸۶ ملین) ڈالر کی امداد فراہم کی۔ صدر کے مشیرخاص اور خود الفتح کی صفوں میں بھی بدنام اورمتنازع ترین شخصیت محمد دحلان کو اسلحے اور سرمایے کے ڈھیر فراہم کرنا شروع کردیے گئے تاکہ فلسطینی حکومت کی تابع سیکورٹی فورسز کے مقابل صدارتی فوج تیار کی جائے۔ تقریباً ۳۳ہزار افراد پرمشتمل متوازی سیکورٹی کھڑی کردی گئی‘ حماس کے ذمہ داران کے علاوہ ان کی حمایت کرنے والے عوام کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کردی گئیں اور بالآخر فلسطینی صہیونی کے بجاے الفتح حماس جھڑپیں ہونے لگیں۔ اس موقع پر مختلف اطراف و اکناف سے مصالحت کی کوششیں ہوئیں اور گذشتہ مارچ میں طرفین نے سعودی فرماںروا شاہ عبداللہ کی دعوت پر مکہ آکر مذاکرات کیے‘ جن کے نتیجے میں ایک سال سے زائد عرصے کے بعد حماس کی یہ خواہش پوری ہوئی کہ فلسطین میں متفق علیہ قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ حماس نے اس ضمن میں کئی کڑوے گھونٹ پیے‘ واضح اکثریت رکھنے کے باوجود خزانہ‘ خارجہ اور داخلہ سمیت کئی اہم وزارتوں سے دست برداری قبول کرلی اور حکومت میں امریکا کے منظورنظر کئی نام بھی قبول کرلیے جیسے خزانہ کے لیے سلام فیاض۔
معاہدۂ مکہ اور قومی حکومت کی تشکیل فلسطینی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے دحلان گروپ نے اس پر ایک روز کے لیے بھی عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ وزیرداخلہ (جس کا تعلق حماس سے نہیں تھا) نے وزارت سنبھالنے کے چند ہفتے بعد ہی استعفا دے دیا کہ فلسطینی پولیس کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ دحلان سیکورٹی فورس ہرطرف غالب ہے اور خود کو ہرحکومت سے بالاتر سمجھتی ہے۔ حماس کے مختلف مراکز‘ اس کی سرپرستی میں چلنے والے رفاہی اداروں‘ اسکولوں اور یتیم خانوں پر ہلے بولے جانے لگے اور عملاً خانہ جنگی کی شروعات کردی گئیں۔ عین انھی دنوں میں مصری اور اُردنی سرحدوں سے صدر کی حفاظت کے نام پر جدید اسلحے کی بڑی کھیپ محمود عباس اور ان کے مشیر سیکورٹی دحلان کو پہنچائی گئی۔ یہ سیکورٹی فورس مسجدوں اور تعلیمی اداروں میں گھس گھس کر حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے لگی۔ صہیونی حکومت نے بھی ۶۰ افراد پر مشتمل مطلوبہ افراد کی ایک ہٹ لسٹ جاری کردی جس میں وزیراعظم اسماعیل ھنیہ اور حماس کے سیاسی امور کے سربراہ خالدالمشعل سمیت تمام سرکردہ قائدین کے نام شامل تھے۔ پھر گلیوں اور بازاروں میں باقاعدہ لڑائیاں ہونے لگیں۔ الفتح کے نام پر دحلان سیکورٹی اور حماس کے افراد باقاعدہ مورچہ بند ہوکر لڑنے لگے۔ حماس نے اس موقع پر بھی حالات کا رخ موڑنے کی ایک اور کوشش کی۔ اس نے مقابل فلسطینی دھڑے کے حملے تو روکے‘ لیکن خود اپنے حملوں کا رخ اسرائیلی یہودی بستیوں کی طرف موڑ دیا۔ ان پر خودساختہ راکٹوں کے سیکڑوں حملے کیے اور فلسطینی عوام کو یاد دلایا کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے؟
یہ ایک سانحہ ہے کہ الفتح کے دحلان دھڑے نے صدر محمود عباس کی سرپرستی میں حماس کے پائوں تلے سے بساط کھینچنے کی کوششیں عروج پر پہنچا دیں اور وزیراعظم کے دفتر پر بھی ہلہ بول دیا گیا۔ اس موقع پر حماس کے مسلح بازو نے بھی دحلان سیکورٹی سے نجات کا آپریشن شروع کردیا اور حیرت انگیز طور پر ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر ان کے اہم ترین جاسوسی قلعے سمیت ان کے تمام مراکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ حماس کے اس آپریشن کے بارے میں خود الفتح کے دحلان مخالف دھڑے اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے ذمہ داران نے بیانات دیے ہیں کہ اگر حماس یہ کارروائی نہ کرتی تو الفتح غزہ پر ایک مہیب خانہ جنگی مسلط کردیتی۔ غزہ میں موجود الفتح کے اعلیٰ عہدے دار احمد حلس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اس ساری خوں ریزی اور حماس سے الفتح کی شکست کی ذمہ داری محمود عباس اور دحلان کے سرعائد ہوتی ہے۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ دحلان پر انقلابی عدالت میں بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے اور محمود عباس جیسے کمزور صدر کو جس کے اعصاب پر دحلان سوار تھا‘ ہٹا کر الفتح کے گرفتار لیڈر مروان البرغوثی کو اپنا سربراہ بنایا جائے۔
حماس کی یہ کارروائی اور الفتح کی سیکورٹی فورسز کا غزہ سے انخلا ۱۴ جون کو ہوا۔ اسی شام محمودعباس کے ساتھیوں کی طرف سے بیان آگیا کہ یہ کارروائی حماس کی طرف سے کھلی بغاوت ہے‘ اس کی حکومت فوراً ختم کی جائے اور جلد دوبارہ انتخاب کروائے جائیں۔ کچھ ہی دیر بعد محمودعباس کا فرمان جاری ہوا کہ ھنیہ حکومت ختم کردی گئی ہے‘ جلد ایمرجنسی حکومت قائم کی جائے گی اور پھر ۱۵ جون کو وزیرخزانہ سلام فیاض سے وزیراعظم کا حلف پڑھوا کر ہنگامی حکومت قائم کردی گئی۔
اس موقع پر ایک انوکھی لیکن پوری طرح سمجھ میں آنے والی پیش رفت یہ ہوئی کہ اس عبوری حکومت کو سب سے پہلی مبارک باد اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور امریکی صدر جارج واکر بش کی طرف سے موصول ہوئی۔ فوراً ہی ان اعلانات کا تانتا بندھ گیا کہ محمود عباس اور ہنگامی حکومت کو مالی امداد دی جائے گی‘ ان پر سے تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں گی‘ غزہ پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ تیل‘ بجلی اور غذائی سامان بھی نہیں جانے دیا جائے گا۔ ساتھ ہی اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ کے گردونواح میں گھیرا ڈالنا شروع کردیا ہے اور چھے فلسطینی نوجوان شہید کردیے ہیں۔
اب مقبوضہ فلسطین دوہری آگ میں جل رہا ہے۔ ایک طرف صہیونی تسلط اور مظالم اور دوسری طرف خود فلسطینی عوام کی دو علیحدہ علیحدہ حکومتیں۔ غزہ میں اسماعیل ھنیہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے‘ الفتح کے جو کارکنان و ذمہ داران یہاں رہنا چاہیں‘ رہیں یہ ان کا گھر ہے اور جو مغربی کنارے جانا چاہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب مغربی کنارے میں حماس سے تعلق رکھنے والوں کو چن چن کر پکڑا جارہا ہے۔ کئی ماہ سے اسرائیلی جیلوں میں پڑے فلسطینی منتخب اسپیکر عبدالعزیز الدویک کا گھر نذرِآتش کردیا گیا ہے۔ایک بحث ھنیہ کی منتخب حکومت کے مقابلے میں بنائی جانے والی ہنگامی حکومت کی دستوری حیثیت کی بھی ہے‘ کیونکہ فلسطینی دستور کے مطابق اگر صدر کو ہنگامی حکومت بنانا بھی پڑے تو اسے ۳۰دن کے اندر اندر پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے‘ اور حماس کی اکثریت کے باعث پارلیمنٹ کو یہ زحمت نہیں دی جارہی۔ پارلیمنٹ کی منظوری سے بھی ایسی حکومت صرف۳۰ روز کے لیے ہی بنائی جاسکتی ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ توثیق کرے تو مزید ۳۰دن کے لیے اس کی عمر بڑھائی جاسکتی ہے۔ لیکن اس بحث سے قطع نظر‘ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ۲۰لاکھ آبادی پر مشتمل مغربی کنارے اور پندرہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل غزہ کی پٹی کو دو الگ الگ کنٹونمنٹس میں تقسیم و مقید کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عوام کو عوام سے اس طور لڑا دیا جائے کہ لاکھوں لوگ اپنے لاکھوں بھائیوں کو بھوک اور ہلاکت کی نذر ہونے دیں اور امداد کے وعدوں اور تسلیم کرلیے جانے کی صحرا نوردی کو اپنی گم شدہ جنت قرار دے لیں۔ اس سوال کا جواب غزہ سے واپس آنے والے مصری وفد میں شامل ایک اعلیٰ سیکورٹی افسر نے اپنا نام خفیہ رکھے جانے کے وعدے پر مصری اخبار ’المصری الیوم‘ کو دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائی فلسطینیوں کی فلسطینیوں سے نہیں بلکہ ۷۰ فی صد فلسطینی عوام کی دحلان سے ہے۔فلسطینی عوام کی بھاری اکثریت دحلان اور اس کے ساتھیوں سے نجات چاہتی ہے۔
دوسری طرف غزہ کے لاکھوں لوگ ایک اور معمے پر حیرت زدہ ہیں اور وہ یہ کہ غزہ کی فضائوں میں مسلسل ۲۴ گھنٹے بغیر پائلٹ کے جاسوسی صہیونی طیارے محوپرواز رہتے تھے۔ بعض اتنے قریب ہوتے تھے کہ فضا میں ہر وقت ان کی آواز سنائی دیتی رہتی تھی۔ جب سے غزہ سے الفتح کا انخلا ہوا ہے یہ جاسوسی طیارے غائب ہوگئے ہیں۔ ۱۸جون کو معروف عربی اخبار الحیاہ میں فکری عابدین نے ایک مضمون میں اسرائیلی جاسوسی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ غزہ سے الفتح کے جاسوسی مراکز سے معلومات کا بے حد قیمتی خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ اس میں صرف حساس معلومات ہی نہیں‘ جدید ترین آلات اور حساس اسلحے کی بڑی مقدار بھی ان کے ہاتھ چلی گئی ہے۔ حماس حکومت کے وزیرخارجہ محمود الزھار نے‘ جنھیں اصرار کرکے متفق علیہ قومی حکومت سے باہر رکھا گیا‘ اپنے ایک انٹرویو میں ۱۴ جون کے بعد غزہ کی صورت حال کے بارے میں کہا ہے کہ غزہ کے عوام کو ۱۴ سال بعد سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ اب انھیں کسی سیکورٹی فورس کی دہشت گردی کا خطرہ اور خوف لاحق نہیں ہے۔
فلسطینی سیکورٹی فورسز کی حد تک تو شاید یہ درست ہو لیکن اب ایک بڑا خطرہ اور خدشہ یہ ہے کہ حماس سے نجات پانے کے لیے اسرائیلی افواج غزہ پر خوفناک چڑھائی کردے۔ بن گوریون یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈرور زئیفی نے اس موقع کو اسرائیل کے لیے ایک سنہری موقع قرار دیتے ہوئے ۱۸جون کو اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہم اگر کسی اعلیٰ پایے کی لیبارٹری میں بھی کوئی ایسا فارمولا تیار کرنے کی کوشش کرتے تو ناکام رہتے۔ اب حالات نے خود یہ فارمولا فراہم کردیا ہے کہ ہمارے سامنے دو فلسطینی دھڑے واضح تقسیم میں بٹے ہوئے ہیں جو جغرافیائی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ ہمیں کسی صورت یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ ۱۸جون ہی کو عبرانی روزنامے ھآرٹز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’محمود عباس کے اس دلیرانہ اقدام سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور اسرائیل کو اس سے بھرپور استفادہ کرنا ہے‘‘۔ لیکن اسی روز کے روزنامہ معاریف میں اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شلومو گازیٹ کی راے اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے بقول: ’’الفتح اور ابومازن اب تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں اور ہمیں کسی ایسی فلسطینی قیادت یا تحریک پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے جسے مستقبل بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے‘‘۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ: ’’اسرائیل نے پہلے بھی تباہ کن غلطی کی تھی کہ فلسطینی عوام کو فوجی اور اقتصادی دبائو کی نذر کیا۔ اب اگر ہم نے دوبارہ یہ غلطی دہرائی تو اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ فلسطینی عوام حماس کی جانب مزید یکسوئی سے لپکیں گے۔ ہمیں خود کو اس وہم کا شکار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم گھڑی کی سوئیاں ۴۰ سال پیچھے گھما سکتے ہیں‘‘۔
ان دونوں متضاد آرا پر مشتمل دسیوں تحریریں عبرانی صحافت اور ذرائع ابلاغ میں بکھری ہوئی ہیں لیکن ایک بات پر تقریباً سب اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ اسرائیل کو اب اپنے پڑوسی عرب ممالک کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے‘ خاص طور پر اُردن اور مصر کی۔ اس بحران کے فوراً بعد عرب لیگ کے وزراے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس کے اختتام پر فریقین سے تحمل اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ عرب لیگ دونوں میں سے کسی کی طرف داری نہیں کرے گی ساتھ ہی مصر‘ اُردن‘ سعودی عرب‘ تیونس اورعرب لیگ سیکرٹریٹ پر مشتمل ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے۔ حماس نے اس وفد کا خیرمقدم کیا ہے لیکن غیر جانب داری کا اعلان کرنے کے باوجود مصر نے سب سے پہلے غزہ میں قائم اپنا سفارت خانہ مغربی کنارے منتقل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
ان تمام بیانات اور اقدامات کاتجزیہ اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن گذشتہ ۵۹سالہ صہیونی دہشت گردی‘ جہاد کو کچلنے کی کوششوں اور فلسطینی قوم میں سے کچھ غداروں کے ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے باوجود ہم برسرِزمین عملی نتیجہ کیا دیکھتے ہیں؟ کیا یہی نہیں کہ فلسطینی جہاد اور اس کی سرخیل تحریک حماس اب پہلے سے کہیں زیادہ توانا‘ کہیں زیادہ فعال اور کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ کیا ربانی ہستی شیخ احمد یاسین کی یہ پیش گوئی تکمیل کی جانب بڑھ رہی ہے کہ ۲۱ویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ہماراجہادی سفر نصرت الٰہی کی منزل پالے گا۔
سوال: ہم چند دوست احباب نے ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے‘ جس کا بنیادی مقصد غریب عوام کو علاج معالجے اور طبی سہولیات کی فراہمی ہے۔ اس ٹرسٹ کا ذریعہ آمدن زکوٰۃ اور صدقات ہیں۔ اسی سے ٹرسٹ کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ درج ذیل امور میں ہماری رہنمائی کریں:
۱- کیا ہم اس رقم سے ٹرسٹ کے جائز اور ضروری اخراجات‘ مثلاً دوائیں‘ ڈاکٹر اور سٹاف کی تنخواہیں پورا کرسکتے ہیں؟
۲- کیا عوام کے لیے مختلف امراض کے بارے میں معلوماتی پمفلٹ اس رقم سے شائع کر سکتے ہیں؟
۳- فری میڈیکل کیمپ اور امورِ صحت سے متعلق پروگرام کے انعقاد کے لیے اخراجات اس سے پورے کرسکتے ہیں؟
۴- کیا اس زکوٰۃ کی رقم کو ٹرسٹ کے مفاد میں اس کی آمدن بڑھانے کے لیے وقتی طور پر زمین کے کاروبار میں لگا سکتے ہیں؟
۵- کیا اس رقم کو ٹرسٹ کا ہسپتال یا ڈسپنسری بنانے کے لیے زمین اور اس کی عمارت کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے؟
جواب: زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں مقرر کردیے گئے ہیں‘ اس لیے ان میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی‘ اور نہ کسی کو اس میں کمی بیشی کا اختیار ہے۔ زکوٰۃ سے جو ٹرسٹ قائم کیا جائے اس کا پروگرام ایسا ہو کہ صرف فقرا و مساکین پر اسے صَرف کیا جائے۔ زکوٰۃ کی رقم کو تعمیرات پر نہیں لگایا جاسکتا‘ نہ ہسپتال کے لیے دیگر سامان اس سے خریدا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کوئی ایسا ٹرسٹ قائم کرتے ہیں جس میں زکوٰۃ کی رقم صرف کی جائے‘ تو صرف ایسی صورت میں قائم کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ آپ ٹرسٹ کی ایک مد میں زکوٰۃ جمع کریں اور دوسری مد میں عطیات‘ عمارت‘ ہسپتال کا سازوسامان‘ ڈاکٹروں کی تنخواہیں عطیات سے پورا کریں‘اور فقرا و مساکین کے لیے دوائیں اور علاج کے اخراجات‘ ایکسرے اور آپریشنز وغیرہ کی فیس زکوٰۃ کی مد سے ادا کریں تاکہ زکوٰۃ کی رقم صرف مستحقین پر صَرف ہو۔ عمارت‘ ہسپتال کا سازوسامان اگر آپ زکوٰۃ سے خریدیں گے تو یہ اس لیے صحیح نہ ہوگا کہ اس سازوسامان سے غریب کے ساتھ امیر بھی استفادہ کرے گا۔ زکوٰۃ کی رقم سے خرید کردہ سازوسامان کا استعمال امیرکے لیے درست نہیں ہے‘ الا یہ کہ اس سازوسامان کے استعمال کا عوض امیر سے لے کرزکوٰۃ فنڈ میں جمع کیا جائے اور اس کو فقرا و مساکین پر صَرف کیا جائے۔ البتہ ڈاکٹر کی فیس اور جو خرچ غریب کے علاج کی مد میں آئے‘ اسے زکوٰۃ کی رقم سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
آپ اپنے ٹرسٹ کو مذکورہ اصولوں کے مطابق قائم کریں۔ موجودہ صورت حال میں آپ کا ٹرسٹ اس معیار پر پورا نہیں اُترتا جو زکوٰۃ کی رقم جمع کرنے اور صَرف کرنے کے لیے ضروری ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س : اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب کی خاطر ہم نے ایک فنڈ قائم کیا ہے تاکہ صدقۂ جاریہ کا ایک نظام بنا سکیں۔ اس فنڈ کا طریقۂ کار یہ ہے کہ ہم چند رشتہ داروں نے مل کر ایک اسلامی بنک میں جوائنٹ اکائونٹ کھولا ہے۔ اس اکائونٹ میں صدقہ‘ خیرات‘ عطیات اور چندے کی نیت سے نکالی جانے والی رقم جمع کی جاتی ہے۔ یہ رقم یا سرمایہ ہم خود‘ اپنے خاندان اور اپنے اعزہ و اقربا سے مندرجہ بالا اکائونٹ میں جمع کرتے ہیں۔ یہ اکائونٹ چند حضرات کے مشترکہ کنٹرول میں ہے اور جمع شدہ سرمایہ کسی کی بھی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ بطورِ امانت اُن کے پاس ہے۔ ہم اس سرمائے کو اسلامی بنکوں کے ذریعے سود سے پاک سرمایہ کاری میں لگاتے ہیں‘ اور جو منافع حاصل ہوتا ہے‘ وہ کسی فلاحی مقصد میں بہ نیت ایصالِ ثواب استعمال کرلیتے ہیں۔
اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ اس اکائونٹ میں مندرجہ بالا مقصد کے لیے ہم کن کن مدات کی رقم وصول کرسکتے ہیں؟ اگر ہم اس سرمائے اور اس کے نفع کو محض ایک مقصد‘ یعنی امراضِ جگر و گردہ میں مبتلا مستحق مریضوں اور اس کام سے منسلک ہسپتالوں کے لیے استعمال کریں تو کیا زکوٰۃ کی رقم سے بھی اس فنڈ کی اعانت کی جاسکتی ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا طریقۂ کار سے جو سرمایہ حاصل ہوتا ہے اُسے ہم پانچ سالوں کے دورانیے کے لیے مختلف حلال منافع بخش اسکیموں میں لگا رہے ہیں۔ کیا اس سرمائے پر زکوٰۃ واجب ہے؟
ج: آپ نے فقرا ومساکین اور نادار لوگوں کی خدمت کے لیے جو اسکیم بنائی ہے وہ قابلِ قدر اور قابلِ تقلید ہے۔ تمام صاحب ِ حیثیت لوگ حاجت مندوں کو روٹی کپڑا‘ رہایش‘ علاج اور تعلیم کے وسائل فراہم کرنے کے لیے اس طرح کی اسکیمیں بنائیں تو اسلامی تہذیب و ثقافت کا احیا ہوگا۔
اصلاً یہ کام تو حکومت کا ہے۔ گذشتہ ادوار میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات کی روشنی میں زکوٰۃ و عشر اور بیت المال کا جو نظام ترتیب دیا گیا‘ ان سفارشات کو اصل شکل میں نافذ کرنے کے بجاے ترمیم کرکے ناقص شکل میں نافذ کیا گیا۔جس کے نتیجے میںزکوٰۃ و عشر اور بیت المال کا نظام غریبوں کی ضروریات کا کفیل بننے میں ناکام رہا ہے۔
آپ اپنی اس اسکیم کو مستحقینِ زکوٰۃ‘ غربا اور نادار لوگوں کی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے تک محدود رکھیں تو اس اسکیم میں زکوٰۃ بھی جمع کرسکتے ہیں۔ اگر امراضِ جگر و معدہ وغیرہ کے لیے مختص رکھنا چاہیں تو ایسا بھی کرسکتے ہیں‘ لیکن اس سلسلے میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ رقم کسی ہسپتال کو دینے کے بجاے براہِ راست مریض جو زیرعلاج ہے اس کو نقد یا اس شکل میں دیں کہ اخراجات کے بل جو آپ کو دیے جائیں ان کی ادایگی ہسپتال میں کردیں۔ مریض کو ہسپتال میں داخل کرتے وقت ہسپتال کے ساتھ طے ہوجائے کہ بلوں کی ادایگی ہمارے ذمہ ہوگی‘ اس لیے بل ہمیں دیے جائیں اور اگر مریض کو علاج کے علاوہ ضروری اخراجات کے لیے رقم کی ضرورت ہو تو آپ اس کی ادایگی براہِ راست مریض کو کردیں۔
یہ رقم چونکہ فقرا کو دینے کی نیت سے مشترکہ اکائونٹ میں جمع ہے‘ مالکوں کی ملکیت سے نکل چکی ہے لیکن کسی فقیر کی ملکیت میں بھی نہیں آئی‘ اس لیے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ جو بھی نفع ہوگا وہ سب کا سب فقرا و مساکین کو مل جائے گا۔
البتہ اس رقم کو اکائونٹ اور کاروبار میں لگاکر منجمد نہ رکھا جائے‘ بلکہ جس مقصد کے لیے جمع کیا ہے اس پر خرچ بھی کیا جائے اور اتنا خرچ کیا جائے جس سے ایک آدمی کی وہ ضرورت جس کو پورا کرنے کے لیے آپ رقم صرف کر رہے ہیں‘ پوری ہوجائے اور وہ کسی دوسرے کا محتاج نہ رہے۔ تھوڑے افراد کی پوری خدمت‘ زیادہ کی ناقص خدمت سے بہتر ہے۔ آپ جگر و گردے کے علاوہ کسی دوسری بیماری یا دوسری ضروریات کو پورا کرنے کا منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے یہی اصول پیشِ نظر رہے کہ ضرورت مند کو براہِ راست نقد یا فیس کی شکل میں ادایگی کی جائے‘ یا اتنی رقم دے دی جائے جس سے وہ معقول کاروبار کرسکے۔
اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کے خاندان کو خدمتِ خلق کی برکت دنیا میں عزت و وجاہت اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے بچائو کی صورت میں عطا فرمائے۔ آمین!(ع-م)
س: میں پیدایشی طور پر بصارت سے محروم ہوں لیکن میں نے اپنی معذوری کو رکاوٹ نہ بننے دیا اور پی ایچ ڈی کرنے میںکامیاب ہوگیا اور اچھی ملازمت بھی مل گئی۔ میری والدہ میری تعلیم کے حق میں نہیں تھیں کہ اس سے دماغ پر زور پڑے گا اور اس پر وہ کچھ ناراض سی ہیں۔ والدصاحب کا تعلق بھی تحریک سے تھا اور والدہ بھی تحریک سے وابستہ ہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ کا رویہ میرے مقابلے میں دوسرے بھائیوں سے زیادہ ہمدردانہ ہوگیا اور میری اہلیہ سے بھی ناراض رہنے لگیں۔ میں نے والدہ کی خوشی کے لیے طرح طرح سے کوشش کی‘ جس کا دوسرے لوگ بھی اعتراف کرتے ہیں لیکن والدہ کی ناراضی دُور نہ ہوئی۔
دیگر اہلِ خانہ سے میرا رویہ ہمیشہ جانثارانہ اور ایثار پر مبنی رہا۔ بہت سے مواقع پر میں نے بڑھ چڑھ کر معاونت بھی کی۔ اس سب کے باوجود ایک موقع پر والدہ کی ناراضی مجھے مشتعل کرگئی اور کچھ تلخی ہوگئی۔ چھوٹے بھائی نے مجھے گھر سے چلے جانے کا حکم دیا‘ جب کہ والدہ اور دیگر بہن بھائی خاموش رہے۔ مجھے مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔ ان حالات میں‘ میں نے بنک سے سود پر قرض لے کر ایک چھوٹا سا مکان لیا۔ اب میں مزید قرض تلے دبا جا رہا ہوں۔ سخت ذہنی دبائو میں ہوں‘ رہنمائی فرمایئے۔
ج: آپ کے خط سے جہاں آپ کی ذہنی کوفت اور پریشانی کا اظہار ہوتا ہے وہاں اس سے کہیں زیادہ آپ کے پُرعزم ہونے‘ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد‘ صلہ رحمی اور قطع رحمی سے اجتناب اور والدہ صاحبہ اور اپنے بھائی بہنوں کے لیے ایثار و قربانی کے جذبے کا پتا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین اجر اس دنیا میں اور آخرت میں دے۔
مسئلہ میری نگاہ میں‘ آپ کی اہلیہ اور آپ کے بھائیوں کی بیویوں کے طرزِعمل میں اختلاف کا نہیں ہے بلکہ دعوتِ اسلامی‘ نظمِ جماعت اور حقوق العباد میں باہمی تعلق کا ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام سے لے کر آج تک تحریک اسلامی نے جن بنیادی امور پر زور دیا ہے‘ ان میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ساتھ ساتھ‘ خاندان میں دعوت و اصلاح کو بھی یکساں اہمیت دی ہے۔ فرد کی اصلاح کے ساتھ خاندان اور معاشرے کی اصلاح آخرکار تبدیلیِ قیادت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ لیکن عملاً ہوا یہ ہے کہ شاید تحریک کے نظامِ تربیت میں توسیع دعوت‘ تبدیلیِ معاشرہ اور تبدیلیِ اقتدار زیادہ مرکزیت اختیار کرگئے اور خاندان کے ادارے کی اصلاح کو کارکنوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا۔چنانچہ ایک جانب ایک کارکن خلوصِ نیت اور اپنی تمام تر قوت کے ساتھ تحریک کی دعوت پھیلانے اور نظم کی اطاعت میں مطلوبہ سرگرمیوں میں تو مصروف ہوگیا لیکن وہ اپنے گھر میں مروجہ روایات‘ برادری اور خاندان کے رواج سے اپنے آپ کو آزاد نہ کرسکا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں آپ کے والد آپ کی پیدایش سے قبل جماعت کے رکن بن چکے تھے اور بعد میں آپ کی والدہ بھی رکن بن گئیں‘ یعنی انھوں نے مطلوبہ نصابِ کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد شعوری طور پر تحریکِ اسلامی کی دعوت پر لبیک کہا‘ اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اجتماعات میں شرکت‘ دعوتی سرگرمیوںمیں حصہ اور دیگر فرائض کی ادایگی کا عہد کیا لیکن دعوت کے ایک بنیادی اور اہم نکتے‘ یعنی معاملات کو وہ ترجیح نہ دی جاسکی جس کا وہ مستحق ہے۔
ترجمان القرآن کے قاری اکثر اپنے سوالات کے ذریعے جو مسائل اٹھاتے ہیں وہ معاملات کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ مثلاً خصوصاً شوہر کا بیوی کے ساتھ سلوک‘ یا والدین کے ساتھ اولاد کا معاملہ‘ یا شادی کے بعد ایک شادی شدہ جوڑے اور سسرالی رشتے داروں کے ساتھ ان کے تعلقات۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ اور تبدیلیِ زمام کار میں اپنی کوشش اور کاوش میں ہم اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ معاملات سے متعلق بہت سی باتیں نظر سے محو ہوجاتی ہیں۔
اس طویل تمہید کے بعد جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں ان کے حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ والدہ کی زیادتی کے باوجود اب‘ جب کہ آپ الگ گھر میں رہ رہے ہیں‘ ان سے تعلق اور ان کے احترام میں کمی نہ آنے دیں۔
دوسری بات یہ کہ جو کچھ آپ کے چھوٹے بھائی بہنوں نے آپ کے ساتھ کیا‘ وہ سراسر ناانصافی اور ظلم ہے‘ لیکن اس کے باوجود آپ ان کی اس زیادتی کو اللہ کی خوشی کے لیے معاف کرتے ہوئے‘ ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں‘ کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع تعلقی کرنے والے رشتے دار سے جڑنے کا حکم دیا ہے۔
تیسری بات یہ کہ جن حالات میں آپ نے بنک سے سود پر قرض لے کر مکان لیا ہے وہ بظاہر اضطرار‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ آپ جلد اس حالتِ اضطرار سے نکل سکیں۔ تحریکی ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ اس قرض سے نکالنے کے لیے آپ کے ساتھ تعاون کریں۔
اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ محترمہ کو اپنی غلطی کا احساس دلائے اور وہ کشادگیِ قلب کے ساتھ آپ سے شفقت و محبت سے پیش آسکیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س : میرے والد اور سسر کی بہت اچھی دوستی تھی جس کی وجہ سے والدصاحب نے ہم دونوں بہنوں کی منگنیاں چھوٹی عمر میں ہی ان کے دو بیٹوں سے کردیں۔ میری شادی منگنی کے چار سال بعد ہوگئی۔ منگنی کے وقت میری امی چھوٹی بہن کے لیے راضی نہ تھیں۔ ایک تو اُس کی عمر کی وجہ سے‘ دوسرا یہ کہ ہماری طرف خاندان سے باہر رشتہ کم دیا جاتا ہے۔ لیکن والدصاحب اور سسر کے اصرار پر یہ رشتے طے ہوگئے۔
شادی کے کچھ عرصے بعد میرے والد صاحب بیمار ہوئے اور اسی بیماری کے دوران انھوں نے چھوٹی بہن کے رشتے سے انکار کردیا جس پر میرے سسر ناراض ہوگئے اور مجھے بھی واپس بھیجنے کا کہا۔ مگر میں نے جانے سے انکار کردیا۔ اس پر انھوںنے کہا کہ تم اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھو گی۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ اسی دوران میرے والدصاحب بہت بیمار ہوگئے حتیٰ کہ ان کی وفات پر بھی مجھے جانے کی اجازت نہیں ملی۔
آج اس واقعے کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے‘ میرے سسر الحمدللہ میرے ساتھ بہت اچھے ہیں مگر ان کے دل میں اُن سب کے لیے نرمی نہیں آتی۔ وہ بظاہر مجھے کہتے ہیں کہ تم پر کوئی پابندی نہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ بچیاں نہیں جائیں گی۔ میں اُن کو چھوڑ کر بھی نہیں جانا چاہتی اور سسر کی اجازت کے بغیر بھی جانا ٹھیک نہیں لگتا۔ اگرچہ میرے شوہر کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی نہیں لیکن عملاً یہ مشکلات کا باعث ہوگا۔ میری والدہ اب کافی پریشان رہتی ہیں۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
ج: آپ کے سسرصاحب نے ‘ گو وہ عموماً اچھا طرزعمل رکھتے ہیں اور آپ نے بھی ان کے لیے تعریفی کلمات لکھے ہیں‘ عصبیت جاہلیہ کی بنا پر آپ کو آپ کے والد صاحب کی بیماری کے دوران ان کی عیادت اور وفات پر دعاے مغفرت میں شرکت سے محروم رکھ کر اپنے آپ پر اور آپ پر ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرے۔ اسی بات کو صاحب قرآن نے قطع رحمی کہہ کر پکارا ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے‘ خواہ کسی قسم کی رنجش کیوں نہ ہو‘ تین دن سے زائد اپنے آپ کو کاٹ رکھنے کا حق نہیں ہے۔ انھیںچاہیے کہ وہ استغفار کریں اور آپ کو اپنی والدہ سے ملنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں۔ یہ بھی ظلم ہی کی ایک شکل ہے کہ بچیوں کو لے کر نہ جائو۔
آپ کے شوہر کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگروہ اپنے والد کی اطاعت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کریں گے تو یہ اللہ اور رسولؐ سے بغاوت کے مترادف ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے والد کو اس ظلم سے روکیں اور خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہ کریں۔ آپ کے والد کی وفات پر آپ کو روک کر آپ کے سسر اور شوہر دونوں نے آپ پر اور اپنے اُوپر بہت سخت زیادتی کی ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اللہ کی راہ میں صدقات اور اللہ سے توبہ و استغفار کے ذریعے اپنی غلطی کی تلافی کی کوشش کریں۔(ا-ا)
س: میرے شوہر حافظ قرآن ہیں۔ میری چار بیٹیاں ہیں۔ بچیوں کو حفظ کرانے کا ارادہ اور خواہش اُن کی پیدایش سے ہی میرے دل میں تھی۔ مگر اکثر لوگ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بچیوں کے حفظ کے معاملے میں احتیاط کرو‘ وہ سنبھال نہیں پائیں گی۔ اس خواہش کی وجہ سے اُن کے لیے ایسے اسکول کا انتخاب کیا تھا جہاں حفظ کا اہتمام تھا اور ساتھ میں تھوڑا سا ماحول بھی نظر آیالیکن اطمینان نہیں۔ رہنمائی فرمائیں۔
ج: والدین پر اولاد کا یہ حق ہے کہ وہ ان کی صحیح اسلامی تربیت کریں کیونکہ حدیث کی روشنی میں وہ اولاد پر راعی بنائے گئے ہیں اور انھیں اس کا جواب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔ اس لیے بچیوں کی صحیح اسلامی تربیت آپ پر اور آپ کے شوہر پر فرض ہے۔ یہ بات بے بنیاد ہے کہ لڑکیاں قرآن کریم کے حفظ کا حق صحیح ادا نہیں کرسکتیں۔ قرآن وسنت کی تمام تعلیمات بغیر کسی جنسی تفریق کے مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ اہتمام ضرور کریں کہ کسی ایسی قاریہ سے حفظ کرائیں جو اپنے طرزِعمل سے انھیں قرآن کے قریب لاسکے‘ کیونکہ بعض معلمین اپنے طرزِعمل کی وجہ سے بچوں کو قرآن کے مطلوبہ طرزِعمل سے دُور کردیتے ہیں۔(ا-ا)
نزولِ قرآن کے بعد کوئی صدی ایسی نہیں گزری جس میں قرآن کے اعجاز بیان کے موضوع پر علمی مباحث کی گرم بازاری نہ رہی ہو۔زیرنظر کتاب عالمِ اسلام کی ایک محقق استاذہ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن کی عربی تالیف الاعجاز البیانی للقرآن الکریم کا اُردو ترجمہ ہے۔مصنفہ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمی ناروں میں قرآنی موضوعات پر مقالات پیش کرچکی ہیں اور ان کے زیرنگرانی متعدد پی ایچ ڈی اسکالر قرآنی موضوعات پر ریسرچ کرچکے ہیں۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ منکرین‘ قرآن کے ہر چیلنج کے سامنے عاجز آگئے۔ وہ عرب قوم جو اپنی فصاحت و بلاغت اور خطابت و زبان آوری پر فخر کرتی تھی‘ اس کے شاعر و خطیب اس قرآن کی معجزبیانی کے سامنے اپنی بے بسی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آخر وہ قرآن کی مثل ایک سورت بھی لاسکنے سے کیوں عاجز رہے؟ جب کہ عربی ان کی مادری زبان تھی اور وہ زبان و بیان پر پوری طرح قادر تھے‘ اس سوال کا جواب مصنفہ نے کتاب میں دینے کی بڑی اچھی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک اہلِ عرب نے قرآن کے اعجاز بیان کا ادراک کرلیا تھا جس نے انھیں کسی بھی ایسی کوشش سے مایوس کردیا کہ وہ قرآن کے کسی بھی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ لاسکیں یا کسی آیت کو دوسرے انداز میں پیش کرسکیں۔ (ص ۱۵)
قرآن کا اعجاز کیا تھا؟ اس سوال کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے دلائل اور تذکروں سے تاریخ ادب کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ کتاب کے مقدمے میں مصنفہ نے بڑی عرق ریزی سے علماے سلف کی عبارات کے حوالے سے یہ دل چسپ حقیقت بیان کی ہے کہ ہرزمانے کے محققین نے یہ دعویٰ کیا کہ اعجاز قرآن پر جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں‘ وہ حرف آخر ہے۔ حافظ ابن قتیبہ سے ابوبکرالسجستانی تک‘ رمّانی و قاضی عبدالجبار سے باقلانی تک‘ یحییٰ علوی وابن رشد سے ابن سراقہ و برہان الدین بقاعی تک‘ جرجانی سے رافعی تک‘ انھی دعووں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ لیکن ایک صدی بھی نہ گزر پاتی تھی کہ ان کے دعوے پر خط تنسیخ کھینچنے والا نیا دعوے دار اُٹھ کھڑا ہوتا اور قرآن کے اعجازِ بیان کو اپنی عقل و فکر کی محدودیتوں کا پابند کرنے کی کوشش کرتا حالانکہ قرآن کا اعجازبیان ان کی قائم کردہ حدبندیوں سے بالاتر تھا۔
اعجاز اور تحدی (چیلنج) میں فرق کیاہے؟ اس پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ ماہرین بلاغت کی عبارات و اقتباسات کے ذریعے اعجاز قرآن کی بابت ان کا نظریہ بیان کیا ہے۔ مصنفہ نے اپنی تحقیقات کو تین فصول ’’اعجاز قرآن (۱) حروف میں (۲) الفاظ میں (۳) اسالیب میں‘‘ تقسیم کرکے ہر ایک کی وضاحت کے لیے آیات و سورتوں سے مثالیں دی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی بہترین کوشش کی ہے کہ قرآن کا ہر لفظ‘ ہر حرف اور ہر اسلوب اپنی جگہ بھرپور بلاغت رکھتا ہے اور یہی اعجازِ قرآن ہے۔ کسی بھی قرآنی لفظ کے معانی کا تعین یا حرف کی وضاحت ’’تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ کے اصول پر کی گئی ہے۔ کتاب اپنے موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے ثقیل ہونے کے باوجود مترجم نے جملوں کو بوجھل نہیں ہونے دیا۔ ترجمہ سلیس اور رواں ہے۔ (ڈاکٹر اختر حسین عزمی)
قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنی زندگی میں متحدہ ہندی قومیت کے علَم برداروں کی تنقید کا سامنا تھا‘اور انتقال کے بعد پاکستان کے کانگرسی عناصر اور بالخصوص ’روشن خیال اور ماڈریٹ‘ دانش وروں کی مخالفت بلکہ کردار کشی کی مہم کا نشانہ بننا پڑا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دوسری قسم کے لکھنے والوں کے جارحانہ رویے میں وسعت آئی‘ جب کہ قائداعظم کے بارے میں حقیقت پسندی اور ہمدردی سے لکھنے والے اہلِ قلم میں ویسا عزم اور ویسی قوت سے نظر نہیں آتی۔ اس فضا میں پاکستان کے معروف صحافی اور دانش ور شریف فاروق کی زیرنظر کتاب متعدد حوالوں سے ایک گراں قدر کاوش ہے۔
مؤلف نے قائداعظم پر ولی خاں کی الزام تراشی کا مسکت جواب دیا ہے (ص ۲۳‘ ۲۸۵)۔ انھوں نے بجاطور پر یہ گلہ کیا ہے کہ: ’’پاکستانی مصنفین نے قائداعظم کے برطانوی سامراج کے خلاف انقلابی رول [کو نمایاں کرنے] کی طرف کوئی توجہ نہیں دی‘‘ (ص ۲۰۵)‘جب کہ اس کتاب میں اس موضوع پر بہت سے چشم کشا حوالے درج ہیں۔ بھارتی اسکالر ڈاکٹر اجیت جاوید کی کتاب سے اس ضمن میں نہایت دل چسپ حقائق پیش کیے ہیں (ص ۳۳۹-۳۷۹)۔ قائداعظم کی اسلامی یا سیکولر سوچ کے موضوع پر بڑی سیرحاصل بحث پیش کی گئی ہے۔ اسی طرح سٹینلے ولپرٹ کی جانب سے قائد کی سوانح پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔
اسلوبِ بیان کسی خشک تحقیقی کتاب کا سا نہیں ہے‘ بلکہ صحافتی اسلوبِ نگارش میں تحقیقی حقائق کو عام فہم انداز میں ’جوشِ پاکستانی‘ (بروزن جوشِ ایمانی) کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ پروفیسر پریشان خٹک‘ شریف الدین پیرزادہ اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی تقاریظ نے کتاب کے داخلی حسن کو نمایاں کیا ہے۔ کتاب مختلف اوقات میں مذکورہ بالا موضوع پر لکھے جانے والے مقالات کا مجموعہ ہے۔ ہماری نئی نسل کو اس طرح کی کتابیں پڑھنا چاہییں۔ (سلیم منصور خالد)
یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ مذہب و سیاست کی حدود کیا ہیں؟ کیا انھیں ایک دوسرے کے ساتھ متحرک ہونا چاہیے یا دونوں کے اہداف و دائرہ کار مختلف ہیں‘ اس لیے ایک کو دوسرے کے امور میں دخل نہ دینا چاہیے۔ جدید تہذیب کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ مذہب کو کاروبارِ زندگی سے بالکل الگ تھلگ رکھنا چاہیے۔ اس موضوع پر بحث جاری ہے۔
انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی‘کوالالمپور‘ ملایشیا میں شعبہ اقتصادیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد عارف ذکاء اللہ کی کتاب Religion and Politics in America: The Rise of Christian Evangaelists and Their Impact فروری ۲۰۰۷ء میں منظرعام پر آئی ہے۔ کتاب کا بنیادی خیال امریکا میں مذہب اور سیاست کا باہمی تعامل اور اس کی جہات کا تعین ہے۔ اس کتاب میں مسیحی ایوینجیلیکل (بنیاد پرست) مذہب کے تاریخی پس منظر اور نشوونما کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے دلائل اوراعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں لیکن اس تحقیق کا مقصد کسی ملک یا اس کے عوام کو موردالزام ٹھیرانا نہیں ہے بلکہ بین التہذیبی مکالمے کے لیے فضا ہموار کرنا ہے۔
کتاب کا آغاز مسلم دنیا اور امریکا کے درمیان پائے جانے والے موجودہ حالات کے جائزے سے کیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ۲۰ویں صدی کے پہلے ۱۰برسوں میں دونوں اطراف کے انتہاپسندوں نے کچھ ایسے اقدامات کیے جن کی بدولت غلط فہمی اور بداعتمادی کی خلیج زیادہ گہری ہوگئی۔ مغربی ممالک اور عالمِ اسلام دونوں کی اکثریت امن سے محبت کرنے والی ہے۔ مغرب کے شاطروں نے تہذیبی کش مکش اور اسلامی فوبیا جیسے نظریات پیش کرکے سارا الزام مسلمانوں اور اسلام کے سرمنڈھ دیا ہے۔ دوسری طرف مسلم دنیا کا یہ عالم ہے کہ مسائل کے حل کے لیے جو ماڈل پیش کیے گئے ہیں ان سب میں ہر الزام مغرب پر جاتا ہے یا اسرائیل پر۔ مصنف کا خیال ہے کہ ایک مختلف اپروچ کی شدید ضرورت ہے۔
مسلم دنیا کو اس بات کی قدر کرنا چاہیے کہ مغربی معاشروں میں عوامی راے کو غیرمعمولی قدروقیمت حاصل ہے۔ وہاں صدر‘ وزیراعظم اور کابینہ کی خواہشات کو راے عامہ پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ کتاب میں امریکا میں مسیحیت کے پس منظر کو بیان کیا گیا ہے۔ ذکاء اللہ نے ان اقتصادی و معاشرتی اسباب کا جائزہ بھی لیا ہے جن کی بدولت امریکی معاشرہ ’موجودہ مسیحی بنیاد پرستی‘ کی طرف راغب ہوا اور قدامت پسند اقلیت بن گئے۔یہ ’بنیاد پرست مسیحیت‘ فکری، تعلیمی اور تنظیمی میدانوںمیں سرگرم ہوگئی۔ اس کا زیادہ انحصار ذرائع ابلاغ پر رہا‘ تاہم اس نے ’سیاست میں عدم شرکت‘ کی پالیسی پر بھرپور عمل کیا‘یہاں تک کہ ۱۹۷۶ء کے صدارتی انتخابات نے مسیحی بنیاد پرستی کا راستہ ہموار کیا اور اسے سیاسی قوت کا راستہ مل گیا۔
آخر میں مصنف کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تعلیمی و فکری حلقوں میں نئی تہذیبی اپروچ اور بیداری کی ضرورت ہے۔ مسلمان دانش وروں‘ ذرائع ابلاغ اور پالیسی سازوں کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنا چاہیے کہ مغرب میں معاشرہ کس طرح کام کرتا ہے۔ انھیں مغرب کی راے عامہ سے تعمیری انداز میں معاملہ کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں تہذیبوں کے درمیان ایک حقیقی‘ بامعنی اور بین التہذیبی مکالمے کا آغازہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے کئی مسائل کے حل کے لیے پرامن اور باہمی طور پر فائدہ مند فضا پیدا ہوسکتی ہے۔ کتاب کا عربی میں ترجمہ بھی دستیاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
محمودعالم (م: ۲۴ مارچ ۲۰۰۷ء) ایک حساس دل کے مالک تھے۔ ان کے زیرنظر مجموعے میں شامل ۱۶کہانیوں کے موضوعات بالکل منفرد ہیں۔ ادگھڑ‘ خواجہ سراڈائسٹی‘ تماشا میرے آگے‘ اب کوئی گلشن نہ اُجڑے‘ صاحب کا کتا‘ برمردار‘ ایک دوست کا مرثیہ‘ سونامی اور اصیل مرغ۔ بعض افسانوں میں کہانی پن تو بہت کم ہے لیکن احساسات و جذبات کا ایک سیلِ رواں ہے۔ ان کے ہاں اُمت مسلمہ کی حالتِ زار اور اس کی وجوہ کی بنیادیں تلاش کرنے کی کامیاب کوشش دکھائی دیتی ہے۔ سپرطاقتوں کے ہاتھ میں بنے کٹھ پتلی مسلم حکمرانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر کس طرح وحدت ملّی کو پارہ پارہ کردیا‘ اپنے پرائے کی پہچان ختم ہوگئی اور یہود و نصاریٰ کے اشاروں پر اپنے ہی بھائی بندوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔
محمودعالم کی ان کہانیوں میں قرآن و حدیث کے حوالے بکثرت ملتے ہیں۔’انوکھا تجربہ‘ میں اخلاق کی تبلیغ خاص طور پر بوڑھوں کے ساتھ برتائو کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خدا کے ہاں اس عمل کا کیا درجہ ہے۔ ’خوشبو‘ اور ’طائران حرم‘ میں سچے اور پاک جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ ’دیدۂ تر‘ ایک معصوم خوب صورت لڑکی کی کہانی ہے جو محبت کے پاکیزہ جذبات رکھتی ہے اور فطرت کی طرح نہایت ہی سادہ و معصوم اور مادیت پرستی سے بے گانہ ہے۔ ’سفید جھوٹ‘ اور ایک ’دل ناصبور‘ میں بھی محبت کے پاکیزہ جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی کہانی ’پشیمانی‘ کے نام سے ہے جو اگرچہ بچوں کے لیے ہے لیکن اس میں ایک بھائی کی محبت کا قصہ ہے خاص طور پر جب انسان کسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے تو عمربھر اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔
محمودعالم کی یہ کہانیاں تصنع اور بناوٹ سے پاک ہیں‘ بلکہ ایک ایسے شخص کی آواز ہیں جو اپنے گھر کو جلتا ہوا دیکھتا ہے اور بے اختیار چلّاتا ہے۔چلّانے کے اس عمل میں اگرچہ فنی تقاضوں کا خیال رکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ ’ازدل خیز دبر دل ریزد‘ یعنی دل سے یہ جذبات اُٹھتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔(محمد ایوب لِلّٰہ)
ماہ نامہ بتول گذشتہ ۶۰ سال سے شائع ہو رہا ہے۔ ’اشاعتِ خاص‘ بتول کی روایت رہی ہے۔ زیرنظر ’افسانہ نمبر‘ اسی کا تسلسل ہے۔ اس میں افسانوں اور کہانیوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ادب کی ماہیت و مقاصد اور اسلامی ادب کی بنیادی اقدار کی وضاحت پر سیدامجدالطاف‘ عمادالدین صدیقی اور ماہرالقادری کے خاص مضامین‘ بتول کی قلم کاروں کے بارے میں فرزانہ چیمہ کا سروے‘ شاہدہ ناز قاضی سے ایک ملاقات‘ سلمیٰ اعوان کے سفرِاستنبول کی ایک جھلک‘طویل اور مختصر افسانے۔ کلاسیکی ادب سے پریم چند کا معروف اضافہ ’حج اکبر‘ اور امریکی افسانہ نگار کیٹ چوپن کا شاہ کار افسانہ ’پچھتاوا‘ جسے خاص نمبر کی بہترین تحریر کہا جاسکتاہے۔
بتولکے نئے پرانے لکھنے والوں کے یہ افسانے‘ اس خاص ذوق اور ذائقے کے آئینہ دار ہیں جو بتولکا نصب العین اور اس کی پہچان ہیں‘ یعنی حسنِ معاشرت کا وہ اسلوب اور وہ طریقہ جس میں حضرت فاطمۃ الزہراؓ ، اسوۂ کامل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان افسانوں میں ایک پاکیزہ اور صالح زندگی کے نمونے ملتے ہیں اور یوں یہ افسانے ایک مثبت اور تعمیری فکر کی نمایندگی کرتے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
اشاعت خاص حسن البنا کا دوسرا حصہ جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے کتاب ہوگی۔ اشاعت کے بارے میں آیندہ شمارے میں اطلاع ملاحظہ فرمایئے۔ (ادارہ)
امام حسن البنا شہیدنمبر میں ماشاء اللہ کافی اچھے مضامین ہیں‘ خاص طور پر وہ انٹرویو جو عبدالغفار عزیز صاحب نے لیے ‘ اور ان میں بھی عبدالمعز عبدالستار سے انٹرویو بہت معلومات آفریں ہے۔ شمارے میں تین باتوں کی کمی محسوس ہوئی‘ ایک تو ضروری تھا کہ ایک خاص صفحے پر شہید امام کا سوانحی خاکہ دیا جاتا‘ بچپن سے شہادت تک کے واقعات سال بہ سال۔ دوسرے یہ کہ ان پر لکھی جانے والی تصنیفات ایک مضمون میں جمع کر دی جاتیں‘ خاص طور پر جو عربی‘ اُردو اور انگریزی میں خاص ہیں۔ تیسرے یہ کہ عالمِ عرب میں‘ شہید اور ان کی تحریک کے اثرات‘ جو آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں ان کا تذکرہ کیا جاتا۔ ڈاکٹر انیس احمد صاحب کے مضمون میں پروفیسر کینٹ ویل اسمتھ کا ایک اقتباس اس کی کتاب Islam in Modern History سے دیا گیا ہے‘ جس میں اخوان کی یک گونہ تعریف ہے۔ لیکن اسی مصنف نے اپنی اسی کتاب میں سید قطب اور مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف بہت زہر اگلا ہے۔ پروفیسر اسمتھ نے میک گل یونی ورسٹی‘ کینیڈا کے ادارہ تحقیقات اسلامی سے وظائف دلوا کر متعدد پاکستانیوں کو وہاں تعلیم و تحقیق کے لیے بلایا‘ جن میں سے متعدد ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی تصویر ثابت ہوئے ہیں۔[ترجمان: ڈاکٹر صاحب کی بیان کردہ پہلی دونوں چیزیں‘ آنے والے مجموعہ مضامین کے خاکے میں شامل ہیں‘ البتہ تیسرے نکتے پر کوئی جامع تحریر حاصل نہیں کرسکے۔]
اشاعتِ خاص خوب صورت ‘ دل آویز اور مؤثر تحریروں پر مشتمل ہے۔ بیش تر قدیم تحریریں‘ جن کے ترجمے شاملِ اشاعت ہیں پہلی مرتبہ نظر سے گزری ہیں۔ جہاں تک یہ کہا گیا ہے کہ: ’’یہ [تحریریں] ابھی تک اُردو میں شائع نہیں ہوئیں‘‘ (ص ۴) عرض ہے کہ ان میں سے ’قرآن کی تفسیر کا اسلوب‘ (ص ۲۰۹) اور’اُمت کا معمار (ص ۸۵) بالترتیب سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی علی گڑھ جنوری ۱۹۹۰ء میں اور مکتبہ اسلامی دہلی ۱۹۹۶ء سے شائع ہوچکی ہیں۔ترجمے کی سعادت راقم کو حاصل ہوئی۔ ایک جگہ طٰہ حسین کی بے دینی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’لوگوں نے بجاطور پر گرفت کی‘اور وہ بعدازاں یہ کہنے پر مجبور ہوئے: لیکن میں قرآن مجید پر ایمان رکھنے کے باعث دونوں [ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام] کے تاریخی وجود کا اقرارکرتا ہوں‘‘ (ص ۲۲۲)۔ یہ بات درست نہیں ہے‘ انھوں نے اپنی بات سے رجوع نہیں کیا تھا‘ دیکھیے: فی الادب الجاہلی۔پروف کی چند دیگر غلطیوں کے باوجود ترجمان کی اشاعتِ خاص کی اہمیت مسلّم ہے۔ اتنا معیاری‘ خوب صورت اور وقیع نمبر شائع کرنے پر ‘ پُرخلوص مبارک باد قبول فرمائیں۔
خصوصی شمارہ پڑھ کر دل میں جذبہ اور تڑپ پیدا ہوئی۔ اس طرح کی دستاویزات کے مطالعے سے اسلام سے عقیدت اور تحریک کی خدمت کا جذبہ سِوا ہوجاتا ہے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے دل کش اور معلومات افزا مضمون نے گویا کہ رسالے میں جان ڈال دی ہے۔ میاں طفیل محمدصاحب کے پُرسوز انٹرویو نے دل کو موم کردیا۔ حسن البنا اور قائداعظم کے خطوط پر مشتمل مضمون سے حسن البنا کی پاکستان سے محبت اور عالمِ اسلام کے تعلق کا لازوال پہلو اُبھر کر سامنے آیا۔ ہمارے مرشدین اور قائدین کس طرح زمینی فاصلوں کی دُوری کو ایمان کی تڑپ سے اتنا قریب کردیتے تھے کہ مصر میں بیٹھا فرد پاکستان کے بارے میں اس طرح سوچتا نظر آتا ہے جیسے وہ یہاں پر سب کچھ دیکھ کراپنے جذبات بیان کر رہا ہے۔ افسوس کہ مشکل اور مصیبت کے لمحات میں پاکستانی حکام نے اخوان کی مدد کے لیے کچھ نہ کیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ شمارہ پاکستان کے ہرکالج‘ اسکول اور یونی ورسٹی کو بھیجا جاسکے۔[ترجمان: کیوں نہیں‘ کوئی صاحب ِ دل (و جیب )اسپانسر کرے۔]
سرورق اخوان المسلمون کی دعوت کا خلاصہ ہے۔ سلیم منصورخالد نے جس سلیقے سے‘ بانیِ اخوان اور بانیِ پاکستان کی ملاقات‘ ان کے باہمی تعلقات‘ مسلمانانِ ہندوپاک سے اخوان اور بانیِ اخوان کے خالص اخوتِ اسلام پر مبنی تعلقات جن کی کڑیاں تقسیم کے جان لیوا اور خون چکاں فسادات اور حیدرآباد دکن پر فوج کشی سے جاملتی ہیں‘ پیش کیا ہے اور اس سلسلے میں وثائق کو برسرِعام لائے ہیں‘ وہ بجاے خود تاریخ کو زندہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دونوں طرف کے سیکولر ذہن کے علَم برداروں نے کس طرح اس اُمت کو بحرانوں کا شکار کیا ہے۔ ان سازشوں کا سلسلہ آج بھی ہر جگہ جاری ہے۔ دیگر مقالات ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی کی تحریر کا نہ ہونا باعثِ حیرت ہے۔ سیف الاسلام حسن البنا نے اگرچہ نادر وثائق فراہم کرکے ایک بڑی خدمت انجام دی‘ تاہم ان کی تحریر کی کمی محسوس ہوئی۔
حسن البنا شہید نمبر کے جن مضامین نے بالخصوص متاثر کیا‘ اور حسن البنا کی شخصیت سے آگاہی ملی ہے‘ ان میں احمد عبدالرحمن‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‘ ڈاکٹر رضوان علی ندوی‘ میاں طفیل محمد‘ جنرل عزیز مصری‘ عبدالحلیم وشاحی اور ڈاکٹر صلاح الدین شامل ہیں‘ جزاکم اللّٰہ!
حسن البنا شہید نمبر ہراعتبار سے شان دار‘ پُروقار ‘ مکمل اور وقیع دستاویز ہے۔ ہرمضمون دل چسپ‘ توجہ کھینچنے والا اور اس عظیم شخصیت سے آگاہ کرنے والا ہے۔ ’حسن البنا اور قائداعظم‘ خاصا معلوماتی مضمون ہے۔ میری طرح اکثر پاکستانیوں کو بھی اس سے قبل یہ معلوم نہیں تھا کہ امام شہید کی قائداعظم مرحوم سے کبھی کوئی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ امام شہیدکے قلم سے سورہ الحجرات کی تفسیر پڑھ کر روحانی مسرت ہوئی۔
اشاعتِ خاص کی خصوصی کاوش پر ہدیہ تبریک پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام شہید کی طرح زندگی کا ایک ایک لمحہ‘ دین اسلام کی خدمات اور اس کی سربلندی کے لیے وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جناب میاں طفیل محمد کا انٹرویو بہت پُراثر اور ایک اعلیٰ کردار اور وسیع الظرف شخصیت کا مظہر ہے۔
ایمان اور دین اسلام سے وابستگی کے جذبوں سے لبریز اور معلومات و دل چسپی سے بھرپور ترجمان کی اشاعتِ خاص کواوّل سے آخر تک میں نے اس انہماک سے پڑھا کہ جب آخری صفحے پر پہنچا تو اس دعوت‘ اس تحریک اور اس شخصیت کے بارے میں پڑھنے کی پیاس اور زیادہ بڑھ گئی۔ کیا آپ کے بس میں یہ ہے کہ اس کا دوسرا حصہ جلد از جلد لائیں‘ اور اس سے زیادہ اہم یہ بات کہ اشاعتِ خاص تحریک کے ہرکارکن تک پہنچ جائے‘ اور اس سے بھی زیادہ اہم تر یہ امر کہ کارکن اس کو پڑھ بھی لیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دستاویز‘ کارکنوں کو ایک نئی قوت اور ایمان کی نہ ختم ہونے والی لذت دے سکتی ہے۔
اشاعتِ خاص حسن البنا بہت سے قیمتی ہیروں سے آراستہ دستاویز ہے‘ جنھوں نے اخوان المسلمون کی تاریخ اور داخلی خوبیوں کو آشکارا کیا ہے۔ ان تحریروں میں خصوصی دل چسپی کا حامل وہ حصہ ہے‘ جس میں حسن البنا کے محمدعلی جناح کے نام خطوط ہیں‘ اور ان دونوں عظیم شخصیتوں کی ملاقات کا تذکرہ ہے‘ جب کہ سب سے زیادہ حیرت زدہ کردینے والی وہ تصویر ہے‘ جس میں حسن البنا کی جانب سے جناح مرحوم کو پیش کیا جانے کا نسخہ قرآن ہے اور جو آج بھی قائداعظم کے مزار کے گوشہ نوادرات میں موجود ہے۔
اشاعتِ خاص بلاشبہہ ایک اہم تاریخی دستاویز ہے۔اگر فکری سطح پر دیکھیں تو سیدمودودی‘ حسن البنا اور علامہ اقبال ایک ہی فکری دھارے کی عظیم شخصیات ہیں۔ اس لیے مستقبل قریب میں علامہ اقبال پر ایک اشاعتِ خاص کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔
اشاعت ِ خاص کے مطالعے سے معلومات میں وہ گراں قدر اضافہ ہوا جو شاید بہت سے متفرق لوازمے یا کتب کے مطالعے سے حاصل نہ ہوپاتا۔ شرق اوسط میں شہید حسن البنا اور برعظیم پاک و ہند میں مولانا سیدابوالاعلیٰ کی کاوش و جدوجہد بلاشبہہ بڑی عزیمت کی مثالیں ہیں‘ لیکن اس دوران میں ایران میں آیت اللہ روح اللہ خمینی مرحوم کی قیادت میں‘ وہاں کے عوام نے طاغوت کی غلامی سے نجات پاکر اسلامی جمہوریہ قائم کی۔ وہاں پر لادینی اور مغربی سامراج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے اس تجربے کا بھی مطالعہ پیش کیا جانا چاہیے۔
یہ ایک جامع اشاعت ہے جس میں معلومات افزا اور امام حسن البنا کی حیات و خدمات کے متنوع گوشوں کی وضاحت پر مبنی مقالات شامل ہیں۔ امام البنا کے قائداعظم کے نام خطوط‘ ان کی مسلمانوں سے محبت‘ اوردردمند دل کا ثبوت ہیں۔ اس اشاعتِ خاص سے مسلمانانِ عالم میں باہمی تعلق اور فکری آگہی کی ترقی ہوگی۔ رسالہ دوچار بار کھولنے سے ہی اوراق علیحدہ ہوکر باہرآجاتے ہیں‘ افسوس کہ اتنی قیمتی اشاعت کی جلدبندی ناقص ہے۔
’علامہ اقبال کی وابستگیِ رسولؐ: چند پہلو‘ (اپریل ۲۰۰۷ء) سے ایک طرف تو اقبال کے حبِ رسولؐ سے بے قرار دل کے احوال کا علم ہوتا ہے اور کلامِ اقبال کے بعض نکات کی وضاحت ہوتی ہے‘ دوسری طرف قاری کے دل میں عشقِ رسولؐ کی شمع جگمگا اُٹھتی ہے۔
’کون مہذب ہے؟ کون غیرمہذب؟‘ (اپریل ۲۰۰۷ء) ’وُون رِڈلے‘ کی تحریر ہے۔ ان کے نام کا صحیح تلفظ اِی وان رِڈلے ہے۔یہ خاتون برطانیہ میں ایک ٹی وی چینل (اسلام چینل) میں کمپیئرنگ بھی کرتی ہیں۔ ان کے نام کا تلفظ سب لوگوں سے وہاں ’اِی وان‘ ہی سنا ہے۔
’قائداعظم اور سیکولرزم‘ (مارچ ۲۰۰۷ء) میں اگر قائداعظم کی ۱۱؍اگست کی تقریر کے متنازع حصے کو بہ مقابلہ ان حصوں کے جو غلط نقل کیے گئے ہیں یا کیے جاتے ہیں‘نقل کردیا جاتا تو قاری کے لیے اس بددیانتی کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی‘ اور یہ breaking news ہوتی۔
مولانا مودودیؒ کا لٹریچر جیلوں کی مسجدوں سے اٹھایا جا رہا ہے۔ سرعام مولانا کو ’منحرف‘ (deviant) کہا جا رہا ہے۔ تکفیر کے فتوے انگلش میں چھاپے جارہے ہیں۔ سیدقطب‘ حسن البنا‘ مولانا اشرف تھانوی کو بھی حقارت آمیز لہجے میں یاد کیا جارہا ہے۔امام مسجد بھی بدل گیا ہے۔ مسجد میں سے سب کتابیں اٹھا لی گئی ہیں۔ بہت پریشان ہوں۔ اپنی کم علمی پر شدیدرونا آتا ہے۔ میرے لیے بہت ساری دعا فرمائیں۔
حیرت ہے کہ آپ سوشلزم‘ کمیونزم‘ نازی ازم اور فاشزم اور دنیا کی ہرتحریک کا کھلے دل سے مطالعہ کرتے اور اس کے حسن و قبح کی بنا پر اس پر غور کرتے ہیں لیکن اسلام کے معاملے میں تعصب کی عینک چڑھا لیتے ہیں‘ اور یہ صرف اس لیے کہ جن لوگوں سے آپ کی ایک مدت سے سیاسی کش مکش ہے وہ اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ’اسلام‘ خدا کا دین ہے اور اس کے بندوں کے لیے اسی طرح نعمت ہے جس طرح اس کی ہوا‘ پانی‘ اناج‘ پھل پھول‘ بارش اور خدا کی پیدا کردہ زمین و آسمان کی باقی ساری چیزیں۔ جب آپ ان نعمتوں کے استعمال سے اس لیے ہاتھ نہیں کھینچتے کہ مسلمان بھی ان کو استعمال کرتے ہیں تو آخر اس نعمت سے محض مسلمانوں کی ضد میں کیوں بھاگتے ہیں۔
میرے عزیز بھائیو! یہ شیطان کا بہت بڑا فریب ہے۔ وہ انسان کو حق سے روکنے کے لیے مختلف قسم کی رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ آپ اس کے اس فریب میں مبتلا ہوکر اپنی دنیا اور آخرت خراب کررہے ہیں۔ ہم خدا کے دین کو آپ کے روبرو پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے جو ہمارے اور آپ کے رب نے ہمارے ذمے لگایا ہے۔ خدا نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہ نیکی اور بھلائی کی ہربات جو انھیں معلوم ہو‘ اسے اپنے دوسرے بھائیوں تک پہنچائیں تاکہ وہ بھی ان سے مستفید ہوں اور دنیا سے برائی ختم ہو۔ جب مرنے کے بعد آپ خدا کے روبرو پیش ہوںگے تو آپ سے پوچھا جائے گا کہ میرے کچھ بندوں نے میرا دین آپ کے روبرو پیش کیا‘ آپ کو اس پر غور کرنے کی دعوت دی‘ لیکن آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔ فرمایئے اس کا آپ کیا جواب دیں گے؟ یہ دن آنے والا ہے اور اس کے آنے میں قلب کی ایک حرکت کے سوا کوئی شے حائل نہیں۔(روداد اجتماع عام حلقہ جنوبی ہند، مدراس، میاں طفیل محمد، ترجمان القرآن‘ جلد ۳۱‘ عدد ۱‘ رجب ۱۳۶۶ھ‘ جون ۱۹۴۷ء‘ ص ۹)