مضامین کی فہرست


نومبر۲۰۰۶

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آزادی اور محکومی میں بنیادی فرق کسی خاص ہیئت اور نظام سے بھی کہیں زیادہ فیصلہ سازی کے اختیار اور اسلوب کا ہے۔ معاملہ فرد کا ہو یا قوم کا___ اگر بنیادی فیصلے اور پالیسیاں خوف‘ دبائو‘ بیرونی مداخلت یا بلیک میلنگ کے زیراثر مرتب کی جارہی ہوں تو ظاہری ملمع سازی جو بھی کی جائے‘ حقیقت میں یہ سب محکومی کی شکلیں ہیں اور فرد یا قوم کی آزادی پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا تھا کہ    ؎

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن

جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کے بعد جو قلابازیاں کھائی گئی ہیں‘ ان کے نتیجے میں ہماری خارجہ‘ عسکری اور داخلہ پالیسیاں امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو کے مطابق تشکیل پا رہی ہیں اور یہ سلسلہ عالمی حالات میں جوہری تبدیلیوں کے باوجود ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر آج بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ آزادی جو ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی قیادت میں لڑی جانے والی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی صورت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند نے حاصل کی تھی‘ وہ نئی محکومی کے سیاہ سایوں کی زد میں ہے۔ پاکستان ایک ایسی دلدل میں دھنس گیا ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے‘ نظر نہیں آرہی۔

خود کو دھوکا دینے کے لیے جو بھی خوش بیانیاں کی جائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی گردن اب امریکا اور مغربی اقوام کی گرفت میں اس طرح پھنسی ہوئی ہے کہ ہاتھ پائوں مارنے کے باوجود وہ فیصلہ کرنے کی آزادی سے محروم ہوچکے ہیں___ اور اس وقت ملک کو جو  سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے‘ اس کی زد ہماری آزادی‘ قومی عزت و وقار اور اپنے حقیقی ملّی مفادات کے تحفظ کے اختیار اور صلاحیت پر ہے۔ قوم اب اس فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف آزادی کی بازیافت کا ہدف ہے تو دوسری طرف خوف اور بیرونی دبائو کے تحت امریکا کے نئے سامراجی جال میں امان (survival) کے نام پر دائمی محکومی کی ذلت کی زندگی۔ قوم کے سامنے ایک تاریخی لمحہ انتخاب ہے جسے انگریزی محاورے میں moment of truthکہتے ہیں۔ موجودہ قیادت تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور اہداف سے بے وفائی کی راہ اختیار کرچکی ہے خواہ   یہ کسی نام نہاد مجبوری کی بناپر ہو یا مفادات اور مخصوص اغراض کے حصول کے لیے___ بات جو بھی ہو‘ قوم کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ اصل خطرات کا احساس کرے اور اپنی آزادی‘ ایمان اور عزت کے تحفظ کے لیے ایک فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ حقائق پر اب کسی طرح ملمع سازی کارگر نہیں ہوسکتی۔

۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو حالات جیسے بھی تھے اور فوجی ڈرامے کے پیچھے جو عوامل اور جو کردار کارفرما تھے اس کی تفصیل سے قطع نظر (گو ایک دن اصلیت سے پردہ اُٹھے گا) ملک و قوم کی آزادی اور عزت و وقار کو سب سے بڑا دھچکا ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحہ نیویارک و واشنگٹن کے بعد جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے امریکا کے آگے سرتسلیم خم کرنے اور پاکستان کو ان کی چراگاہ      بنا دینے کے اقدام سے لگا۔ اس واقعے کو اب پانچ سال گزر چکے ہیں اور اس زمانے میں وہ ایجنڈا‘ پروگرام اور اہداف کھل کر سامنے آگئے ہیں جن پر یہ قیادت عمل پیرا ہے۔ اس دور کے سب سے  اہم پہلو تین ہیں:

اوّلاً، قوم کی قسمت کا فیصلہ ایک فردِواحد کے ہاتھوں میں ہے جو کسی ادارے‘ کسی نظام اور کسی دستوری قانون کا پابند نہیں۔ محض فوج کے ادارے کی سربراہی کے بل بوتے پر اور فوجی ڈسپلن کا فائدہ اُٹھا کر بنیادی فیصلے اپنی ذاتی مرضی‘ خواہشات اور مجبوریوں کے تحت کر رہا ہے‘ اور عملاً   قیامِ پاکستان کے مقاصد اور ملت پاکستان کی تاریخی‘ نظریاتی‘ سیاسی اور تہذیبی عزائم کے برعکس اپنی خواہشات اور ترجیحات اور امریکا کے حکمرانوں کے احکام اور خواہشات کے مطابق کر رہا ہے۔ جب پارلیمنٹ نہیں تھی اس وقت بھی اور اب بھی جب بظاہر ایک پارلیمنٹ اور کابینہ ہے‘ فیصلہ سازی کا اختیار ایک فرد کو حاصل ہے۔ وہ کوئی لاگ لپیٹ رکھے بغیر برملا اعلان بھی کر رہا ہے کہ میں ہی اصل حکمران (man in command) ہوں اور باقی سب میری مرضی کے تابع ہیں۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس نے ملک و قوم کی آزادی کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ گو جنرل پرویز مشرف کی طاقت کا اصل منبع فوج اور اس کا ڈسپلن ہے‘ اور یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اس عرصے میں انھوں نے خود فوج کے اعلیٰ کمانڈ اسٹرکچر کو بھی اپنی ذاتی جاگیر (feifdom) کی شکل میں ڈھال لیا ہے جس کا اعتراف خود فوج کے وہ سابق جرنیل بھی کر رہے ہیں جو جنرل صاحب کے حامی رہے ہیں جس کی سب سے اہم مثال جنرل طلعت مسعود کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ فوج کی بالائی سطح پر جنرل صاحب نے اپنے یار دوستوں کو بھر لیا ہے اور وہ خود ایک father figure(باپ)کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ خود جنرل پرویز مشرف ناین الیون سے لے کر  آج تک جو بھی فیصلے کر رہے ہیں وہ حقائق‘ معروضی دلائل اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات سے ہٹ کر خوف اور امریکی دبائو کے تحت کر رہے ہیں۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ناین الیون کے بعد جو یوٹرن پاکستان کی پالیسیوں میں آیا اور جس نے وہ خشتِ اوّل ٹیڑھی رکھی جس کے نتیجے میں ’تا ثریا می رود دیوار کج‘ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے‘ وہ امریکی دھمکی کہ ’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف ہو‘ اور ہمارے ساتھ کے معنی ہمارے حکم کے تابع ہو ورنہ باغی اور دہشت گرد شمار کیے جائو گے اور ’پتھرکے دور کی طرف لوٹائے جائو گے‘ کا نتیجہ تھی۔ کسی خیالی وار گیمز (war games)کا جو بھی فسانہ جنرل صاحب نے اپنی خودنوشت میں کیوں نہ تراشا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فیصلہ پاکستانی قوم کا آزاد فیصلہ نہ تھا بلکہ  ایک خوف زدہ حکمران کا واحد سوپرپاور کی دھمکی کے تحت ایک محکومانہ تعمیل ارشاد کا منظر تھا جس نے جارج بش‘ کولن پاول ہی نہیں‘ پاکستان میں امریکی سفیر نینسی پاول تک کو ششدر کر ڈالا تھا‘ اور جو کچھ نہ کچھ مزاحمت کی توقع رکھتے تھے کہ شاید سات میں سے تین چار شرائط کو پاکستان تسلیم کرے مگر باقی پر ردوکد کرے گا۔ وہ حیرت میں پڑ گئے کہ ایک ہی سانس میں ساتوں شرائط تسلیم کر کے   جنرل صاحب نے طوقِ غلامی خوشی خوشی زیب تن کرلیا اور قوم کو خوش خبری سنائی کہ ’پاکستان بچ گیا‘ لیکن اس ’بچنے‘ کی کیا شکل بنی اس کا مختصر نقشہ ہم ابھی پیش کریں گے۔ اس وقت جس بنیادی بات تک گفتگو کو محدود رکھ رہے ہیں وہ آزادانہ فیصلے کا فقدان‘ اور خوف‘ دبائو اور بیرونی مداخلت کے خطرے کے تحت پالیسی کی بنیادی تبدیلی ہے۔

تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل امریکا کی نئی سامراجی حکمت عملی کا عنوان ہے اور اس کا مقصد نام نہاد دہشت گردی کا تعاقب نہیں‘ نئی سامراجی ملک گیری‘ عالمی سیکورٹی زونز کا قیام‘ شرق اوسط اور وسطی ایشیا کے معاشی وسائل پر تسلط اور گرفت‘ دنیا بھر کی مزاحم قوتوں اور ممالک کو اپنے قابو میں کرنا‘ خواہ تبدیلی قیادت کے ذریعے‘ یا جمہوریت کے فروغ کے نام پر سیاسی تبدیلیوںکے سہارے اور خواہ پیشگی حملے (pre-emptive strike) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فوج کشی کے ذریعے۔ بہانہ جو بھی ہو یہ جوع الارض‘ سیاسی غلبہ و تسلط کے قیام‘ معاشی وسائل پر گرفت اور اپنی تہذیب کو دوسروں پر مسلط کرنے کی عالم گیر جدوجہد ہے اور عملاًجنرل پرویز مشرف ناین الیون کے بعد امریکا کے اس پورے سامراجی عالمی پروگرام میں آلہ کار بن گئے ہیں‘ اور ان کی تازہ خودنوشت In The Line of Fire اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ امریکا کے اس پورے ایجنڈے میں اس کے شریک اور پاکستان اور مسلم دنیا میں اس امریکی نقشے میں رنگ بھرنے والے ایک کلیدی کردار ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے امریکا کو یقین دلایاہے کہ میں ہی تمھارے اس پروگرام کو آگے بڑھا سکتا ہوں۔ لیکن اس کے معنی صاف لفظوں میں یہ ہیں کہ اقبال اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کو بھول جائو اور اُمت مسلمہ پاک و ہند نے جن مقاصد اور عزائم کے لیے جدوجہد کی تھی‘ وہ اب قصۂ پارینہ ہے‘ اب اصل منزل بش کے تصور کا محکوم اور تابع دار پاکستان ہے جسے جنرل صاحب اب ’روشن خیال میانہ روی‘ کا لبادہ پہنے قوم کے لیے قابلِ قبول بنانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

ذلت و پسپائی کا آغاز

فیصلے کی آزادی کی قربانی اور خودی اور بیرونی دبائو کے تحت پالیسی سازی کا آغاز     ناین الیون کے بعد ہوا اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم یہ فیصلہ نہ کرتے تو ملک تباہ ہوجاتا اور اس کے تمام اسٹرے ٹیجک مفادات قربان ہوجاتے۔ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے امریکا سے جنگ کے خطرے کو سامنے رکھ کر war gamesکا پورا نقشہ بنایا اور اس کے بعد امریکا کی فوجی قوت اور عزائم اور اپنے وسائل کا جائزہ لے کر امریکی شرائط تسلیم کیں۔ یقین نہیں آتا کہ ایک جرنیل کو امریکا کی فوجی قوت اور تباہ کاریوں کا اندازہ کرنے کے لیے کسی خیالی وار گیمز کی ضرورت تھی۔ عام سوجھ بوجھ کا ہرشخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ دونوں میں کیا فرق ہے۔ مسئلہ وارگیمز کے ذریعے اپنی بے بضاعتی کی دریافت کا نہیں بلکہ اسٹرے ٹیجک حقائق کا جائزہ اور حق اور ناحق اور اپنی آزادی‘ عزت اور ایمان کے مطابق کسی موقف کے تعین اور ایک خونخوار سامراجی قوت کے عالمی عزائم‘ خصوصیت سے اپنے ہمسایہ مسلمان ممالک کے بارے میں اس کے ناجائز اور استعماری مقاصد میں آلہ کار بن جانے یا انھیں لگام دینے کی پالیسی یا کم از کم اس میں خود ذریعہ نہ بننے کا تھا۔

وسائل اور قوت کا فرق تو واضح تھا اور اس کے لیے کسی وار گیمز کی ضرورت نہ تھی۔ جنگی اور سیاسی حکمت عملی کا تعلق اس فرق کی روشنی میں جائز اور مبنی بر حق موقف کے تعین کا تھا اور یہ کام خوف کے تحت نہیں ہوش و حواس کے ساتھ مقاصد اور وسائل کی روشنی میں کرنے کا تھا۔ بلاشبہہ امریکا ایک زخمی شیر کی مانند تھا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ بظاہر اپنی کھال بچانے کے لیے ہم اپنی آزادی‘ اپنی عزت‘ اپنے ایمان کی قربانی دے دیں۔ آخر ایران‘ ترکی حتیٰ کہ لبنان تک نے اپنے قومی مقاصد اور وقار و عزت کے مطابق ردعمل کا اظہار کیا۔ آخر ساری دشمنی کے باوجود امریکا نے ایران کو دھمکی دینے کا راستہ کیوں اختیار نہ کیا حالانکہ افغانستان تک رسائی کے لیے ایران‘ پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تینوں راستے تھے۔ امریکا پاکستان کے عدمِ تعاون کی شکل میں اس کی مرضی کے برعکس اس کی فضائی حدود (air space) کی خلاف ورزی کرسکتا تھا جیساکہ ۱۹۹۸ء میں افغانستان میں کچھ ٹھکانوں پر حملے کے لیے کرچکا تھا۔ ترکی نے اپنی پارلیمنٹ میں معاملہ رکھا اور پارلیمنٹ کے فیصلے پر قائم ہوگیا۔ امریکا جزبز ہونے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔ امریکا نے لبنان سے مطالبہ کیا کہ  حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دو اور لبنان کی حکومت نے صاف انکار کردیا۔

پاکستان کے سامنے کم از کم چار راستے (options)تھے:

اوّل: یہ کہ سربراہ حکومت پوری قوم کو اعتماد میں لیتے‘ فوج کو مکمل طور پر تیاری کا حکم دیتے‘ اور جس طرح ۱۹۶۵ء میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے کی بنیاد پر بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو تیار کیا تھا اسی طرح امکانی حملے کے لیے پوری قوم کو متحد کرکے مستعدومتحرک (mobilize) کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا کے لیے یہ ایک مؤثر رکاوٹ ہوتا اور اگر افغانستان پر وہ فوج کشی کرتا بھی تو پاکستان پر فوج کشی کی جرأت نہ کرتا۔

دوم: اگر اس انقلابی فیصلے کی جرأت اور وژن نہیں تھا تو کم از کم یہ تو کیا جا سکتا تھا کہ ہم آنکھیں بند کرکے تمام شرائط ماننے کے لیے تیار نہیں البتہ بات چیت کے ذریعے کوئی قابلِ قبول صورت پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے عالمی راے عامہ کو بھی mobilizeکیا جاسکتا تھا۔ اسے No, Butکی حکمت عملی کہی جاسکتی ہے۔

سوم: اس سے بھی کم تر ایک تیسری صورت ہوسکتی تھی‘ یعنی Yes, Butکہ ہم تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔

چہارم: جنرل صاحب کے وارگیمز کا حاصل یہ تھا:Yes, Yes, Yes۔ انھوں نے چوتھا راستہ اختیار کیایہ کہ ہم یہ کام پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے کر رہے ہیں مگر نتیجہ برعکس نکلا۔ پاکستان کے ایک ایک مفاد پر شدید ضرب پڑی‘ یعنی ہماری آزادی‘ ہماری کشمیر پالیسی‘ استعماری جنگ کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور دہشت گردی کا فرق‘ پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کی حفاظت اور ترقی اور نیوکلیر میدان میں بھارت سے برابری کا مقام۔ اور جو معاشی نقصانات ملک کو برداشت کرنے پڑے‘ ان کا اندازہ خود امریکی نارتھ کمانڈ کے اعلان کے مطابق جو خود ان کی   ویب پر آیا تھا‘ صرف پہلے دو سال میں یہ نقصان ۱۲ ارب ڈالر تھا۔ جو نام نہاد معاشی امداد امریکا نے دی ہے‘ وہ اس کا ایک چوتھائی بھی نہیں۔

خوف اور بے اعتمادی کے تحت جو بھی فیصلے ہوتے ہیں‘ ان کا یہی حشر ہوتا ہے۔ آج افغانستان اور عراق دونوں جگہ امریکا کی ننگی جارحیت کی ناکامی اور دہشت گردی کی عالمی رو میں چنددرچند اضافے کے باوجود ہماری تابع داری کی پالیسی کا وہی حال ہے جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جو دھمکی ناین الیون کے وقت امریکی نائب وزیرخارجہ جارج آرمیٹج نے دی تھی‘ اسی نوعیت کی دھمکیاں مختلف انداز میں آج تک دی جارہی ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پاکستان کے کان نہیں مروڑے جاتے کہ طالبان کی درپردہ مدد کر رہے ہو۔ صدربش سے لے کر ڈک چینی‘ رمزفیلڈ‘ کونڈولیزارائس‘ جنرل ابی زائد اور نکولس برنر تک ہرموقعے پر مطالبہ کرتے ہیں: do more۔ جو کہتے ہو‘ وہ کرکے دکھائو۔ جنرل صاحب کے سارے اعلانات کہ ہم نے سب سے زیادہ القاعدہ کے ارکان پکڑے ہیں‘ ان کی صفائی کے لیے کافی نہیں سمجھے جاتے‘ حتیٰ کہ اب افغانستان کے  صدر حامد کرزئی صاحب بھی منہ در منہ جنرل صاحب پر دہشت گردی کی پناہ اور سرپرستی کا الزام لگارہے ہیں۔ اور صدربش کو وائٹ ہائوس کے ڈنر کے سلسلے میں کھلے بندوں کہنا پڑا کہ میں دونوں کی  زبانِ حال (body language)  پر نگاہ رکھوں گا۔ اس سے پہلے صدربش اسلام آباد آئے تھے تو اس موقع پر یہ طمانچا رسید کیا تھا کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ دیکھوں جنرل مشرف جو کہتے ہیں وہ کر رہے ہیں یا نہیں؟ دوسری طرف جس دن جنرل صاحب اپنے حالیہ دورۂ امریکا سے واپسی پر لندن نازل ہوتے ہیں‘ اسی دن برطانوی فوج کی ایک نیم سرکاری رپورٹ میں آئی ایس آئی کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جاتی ہے اور آئی ایس آئی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

اس شرم ناک یلغار کا تازہ ترین مظہر وہ رپورٹ ہے جو لندن کے اخبارات ڈیلی ٹیلی گراف اور سنڈے ٹائمز نے اکتوبر ۲۰۰۶ء کے شروع میں شائع کی ہے اور جس کا حاصل یہ ہے کہ افغانستان میں ناٹو کے کمانڈر نے ان پانچ ممالک کی حکومتوں سے جن کی فوجیں افغانستان کی ناٹو فوج کا بڑا حصہ ہیں‘ کہا ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کو اس نوعیت کا پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ’ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے دشمن ہو‘۔

ناٹو کے کمانڈر کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کو پاکستان میں تربیت دی جارہی ہے۔ سوال   یہ ہے کہ انھیں کسی تربیت کی ضرورت ہے؟ دراصل یہ ایک احمقانہ سوال ہے کہ وہ افغان مجاہد جو روس کے خلاف برسرپیکار رہے‘ جو خوں ریز خانہ جنگی میں ۲۰ سال سے مصروف ہیں اور جن کے رگ و پے میں عسکریت صدیوں سے جاری و ساری ہے‘ ان کو پاکستان میں کسی تربیت کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ ان کی تربیت کا نہیں پاکستان کی گوشمالی اور بے عزتی کا ہے۔

پاکستان کا مقام

جنرل پرویز مشرف کی اس پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ معتبر نہیں اور امریکا‘ برطانیہ اور ناٹو کمانڈر ہی نہیں‘ بھارت کی قیادت اور افغانستان کے نمایشی حکمران تک پاکستان کے خلاف شب و روز زبان طعن دراز کر رہے ہیں۔ بھارت آج افغانستان میں  معتبر اور بااثر ہی نہیں‘ وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے‘ اور پاکستان جس نے گذشتہ ۲۶‘ ۲۷ سال افغانستان کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں‘ تائید و معاونت کی ہے اور آج بھی جس کی سرزمین پر ۳۰ لاکھ افغان مہاجر موجود ہیں وہ سب سے زیادہ ناقابلِ اعتماد بلکہ گردن زدنی شمار ہو رہا ہے اور جن کی خاطر جنرل پرویز مشرف دوستوں کو دشمن بنانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں وہ ان کو ذاتی دوستی اور ان کی فوجی وردی کے تحفظ کے باب میں جو بھی کہیں لیکن سربراہ مملکت اور پاکستان کے کردار کے بارے میں بداعتمادی‘ طعنہ زنی اور تحقیر اور تذلیل کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ صدر بش نے اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف کے منہ پر کہا کہ نیوکلیر معاملے میں بھارت اور پاکستان برابر نہیں اور دونوں کی تاریخ اور ضرورتیں الگ الگ ہیں۔ بھارت کے لیے نیوکلیر تعاون کے دروازے کھول دیے ہیں اور پاکستان کے لیے نہ صرف ہردروازہ بند ہے بلکہ اس کی نیوکلیر صلاحیت آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے‘ اور عملاً اتنا دبائو ہے کہ نیوکلیر صلاحیت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے اور حرکی سدّجارحیت (dynamic deterrance) کے لیے جس سرگرمی کی ضرورت ہے وہ خود جنرل صاحب کی خودپسندی اور کوتاہ اندیشی کے ہاتھوں معرضِ خطر میں ہے۔

پاکستان امریکا کی نگاہ میں کتنا ناقابلِ اعتماد ہے اس کا اندازہ اس سودے سے کیا جاسکتا ہے جو ایف-۱۶ کے سلسلے میں ہوا ہے۔ پہلے تو امریکا نے سودا کر کے رقم وصول کرنے کے باوجود ایف-۱۶ دینے سے انکار کردیا۔ پھر اب ہزار منت سماجت کے بعد جو معاملہ طے کیا ہے وہ اتنا   شرم ناک اور ہماری آزادی اور وقار کے اتنا منافی ہے کہ اسے قبول کرنے کا تصور بھی گراں گزرتا ہے۔ جس حالت میں یہ جہاز ملیںگے‘ اگر ملے بھی تو‘ وہ مقابلے کی حقیقی دفاعی صلاحیت پیدا کرسکیں گے اور نہ پوری طرح ہمارے اپنے قبضہ قدرت میں ہوں گے۔ امریکی کانگریس کمیٹی میں ۲۰ جولائی ۲۰۰۶ء کو نائب وزیرخارجہ جان ہلر نے جو شرائط بیان کی ہیں اور ان کے بعد یہ اطلاع آئی ہے کہ ۳۰ستمبر کو پاکستان نے اس سودے کے بارے قبولیت کی دستاویز پر دستخط کردیے ہیں‘ انھیں پڑھ کر انسان حیرت میں رہ جاتا ہے کہ اس ملک کے فوجی حکمران‘ ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ملاحظہ ہوں وہ شرائط۔ اخباری اطلاعات کاخلاصہ یہ ہے:

  •  پاکستان کے تمام اڈوں اور سہولیات کا سیکورٹی سروے کرلیا گیا ہے۔ سیکورٹی کے منصوبے بنا لیے گئے ہیں‘ پاکستان ان سب کی پابندی کرے گا۔
  •  ان سیکورٹی منصوبوں کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے امریکی موجودگی ضروری ہوگی۔
  •   پاکستان ان جہازوں کو کسی تیسرے ملک کے خلاف امریکا کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرسکتا۔
  •  ان جہازوں میں وہ ٹکنالوجی نہیں ہے جو کسی ایسے ملک کی فضائی حدود میں داخل ہوسکے جس کا دفاع مضبوط ہو۔ یہ جوہری اسلحے بھی نہیں لے جاسکتے۔
  • ان جہازوں پر رسائی پاکستانی فضائیہ کے صرف ان افسروں کو حاصل ہوگی جن کی پیشگی منظوری امریکا نے دی ہو۔
  • جب تک امریکا کو اطمینان نہ ہو کہ پاکستان سیکورٹی منصوبوں کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کر رہا ہے‘ کوئی جہاز نہیں دیا جائے گا۔
  • ان جہازوں میں ایسے راڈار لگائے جائیں گے جو صرف غیرناٹو ممالک کے ہوائی جہازوں کو پہچان سکیںگے۔ دوسرے الفاظ میں ناٹو ممالک کے حملہ کرنے والے ہوائی جہازوں کے لیے یہ آسان نشانہ ہوں گے۔

ان شرائط پر بھی جب کمیٹی کے ممبران کی تسلی نہ ہوئی تو نائب وزیرخارجہ نے بتایا کہ اور بھی کچھ امور ہیں جو بند کمرے کے اجلاس میں بتائیں گے۔

یہ ہیں وہ کبوتر جو قوم کے گاڑھے پسینے کی کمائی کے ۵بلین ڈالر امریکا کو دے کر حاصل کیے جارہے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ ان سے ہمارے دفاع‘ خصوصیت سے بھارت کے مقابلے کے لیے دفاعی صلاحیت میں کتنا اضافہ ہوگا اور امریکا کی فوجی سازوسامان کی صنعت کی کتنی سرپرستی ہوگی؟

جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں خود ملک کا دفاع بھی خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔   اس سے صرف انحراف ممکن نہیں۔ ان کی خودنوشت کا تجزیہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں لیکن اس میں ان کی شخصیت کی جو تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں ایک ’داداگیر‘ کی ہے۔  صفحہ ۲۶ اور ۲۷ پر جو اپنی تصویر اُنھوں نے پیش کی ہے اور جو ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہے انھی کے الفاظ میں یہ ہے:

ایک لڑکے کو اپنی بقا کے لیے گلی یا محلے میں نمایاں ہونا پڑتا ہے۔ لازمی طور پر میرے محلے میں بھی ایسے گینگ تھے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں ان میں سے ایک میں شامل ہوگیا۔ اور یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں سخت جان (tough) لڑکوںمیں سے ایک تھا… پھر بغیر سوچے میں نے اپنی گرفت میں آئے لڑکے کو مار لگائی۔   لڑائی شروع ہوگئی اور میں نے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے مجھ کو ایک باکسر قسم کا آدمی سمجھ لیا اور میری شہرت داداگیر کی ہوگئی۔ اس لفظ کا ترجمہ  نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب ہے‘ ایک ایسا ’ٹف‘ لڑکا جس سے آپ نہیں اُلجھتے۔ (اِن دی لائن آف فائر)

بات صرف بچپن کی نہیں‘ خودنوشت کی تحلیل نفس کا حاصل اس کے سوا نہیں کہ یہ ان کی شخصیت کا طرۂ امتیاز ہے۔ البتہ وہ یہ بتانا بھول گئے کہ داداگیر اپنے سے کم تر پر‘ پریشر ہوتا ہے مگر اپنے سے قوی تر کے آگے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ چونکہ بش اور امریکا زیادہ بڑے داداگیر ہیں اس لیے جنرل صاحب اس کے ٹولے (gang) کے ایک چھوٹے ساتھی بن جاتے ہیں اور خود اپنے ماتحتوں اور ملک کے کمزور عوام کے لیے bully کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن کیا مہذب معاشرے اور اچھی حکمرانی میں بھی اس کی کوئی گنجایش ہوسکتی ہے؟

جنرل صاحب نے ناین الیون کے ضمن میں جن وار گیمز کا ذکر کیا ہے (ص ۲۰۱-۲۰۲)‘ وہ خودفریبی کا شاہکار ہے۔ اگر آزادی‘ ایمان‘ عزت اور بین الاقوامی عہدوپیمان کے دفاع کا یہی معیاری طریقہ ہے تو پھر انسانی تاریخ ازسرنو لکھنے (re-write) کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قرونِ اولیٰ کی بات چھوڑ دیجیے‘ صرف اپنے قریبی زمانے پر نگاہ ڈالیے۔ دوسری جنگ شروع ہونے سے قبل جرمنی کی طاقت کا موازنہ اگر خود برطانیہ کے حکمران اپنی قوت سے کرتے تو جرمنی کو چیلنج کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ چیمبرلین جرمنی کی عسکری قوت سے اتنا مرعوب تھا کہ مقابلے کی جگہ  اطمینان دلانے کا راستہ اختیار کرلیتا مگر چرچل نے ہارتی ہوئی بازی کو پلٹ کر رکھ دیا اور بیسویں صدی کی تاریخ نے نئی کروٹ لی۔ اگر دولت عثمانیہ کی زبوں حالی کے پیش نظر اور اس وقت کی یورپ کی تین سوپر پاورز کی ترکیہ پر یورش کے موقع پر جنرل پرویز مشرف کا ہیرو کمال اتاترک کسی ایسی ہی وارگیمز کا اسیر ہوجاتا تو آج ترکی کا کوئی وجود دنیا کے سیاسی نقشے پر نہ ہوتا لیکن قوت کے عدم توازن کے باوجود مقابلے کی حکمت عملی کامیاب رہی اور دولت عثمانیہ نہ رہی مگر ایک آزاد مسلمان ملک کی حیثیت سے ترکی نے اپنا سربلند رکھا۔ اگر فرانس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے والے الجزائری مجاہدین کسی جرنیل کے وارگیمز کے اسیر ہوتے تو ڈی گال کی افواج کا مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہ کرتے۔ اگرہوچی من کا مشیر کوئی جرنیل ایسے ہی وارگیمز کا طلسم بکھیرتا تو ویت نام کےتن آسان امریکا جیسی سوپرپاور کا مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کرتے اور امریکا ویت نام کی فوجی شکست اور سیاسی ہزیمت سے بچ جاتا۔ اگر ماوزے تنگ کی کسانوں کی فوج چیانگ کائی شیک اور امریکا کی مشترک قوت کا حساب کتاب کسی وارگیمز سے کرتے تو چین کی تاریخ بڑی مختلف ہوتی۔

دُور کیوں جایئے اگر افغانستان اور عراق میں وہاں کے عوام کو کوئی ایسا جرنیل میسر ہوتا جو وارگیمز کی روشنی میں معاملات طے کرتا تو امریکہ چین ہی چین میں بنسری بجا رہا ہوتا اور پانچ سال کے قبضے کے باوجود افغانستان سے فوجی واپس بلانے کے لیے برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سررچرڈ ڈرینٹ کو ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ہمیں افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کی فکر کرنی چاہیے‘ اور ساڑھے تین سال کی جنگ گیری کے بعد امریکا کی ۱۶ انٹیلی جنس ایجنسیز کی      یہ مشترک رپورٹ سامنے نہ آتی کہ مزاحمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوجی قوت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو‘ عوامی قوت کے سامنے نہیں ٹھیرسکتی۔ اور خدا بھلاکرے حزب اللہ کا کہ ان کے پاس کوئی ایسا جرنیل نہیں تھا جو وارگیمز کی مشق کرکے بتادیتا کہ دس بارہ ہزار مجاہدین کا اسرائیل کی پوری فوجی حکومت سے مقابلہ حماقت ہے اور اس طرح اسرائیل ۳۴ دن کی خوں ریزی کے بعد سیزفائر اور فوجوں کی واپسی کی زحمت سے بچ جاتا۔ باقی سب کو بھول جایئے‘ ۱۹۷۹ء کے اس دن کو یاد کرلیجیے جب روس کی سوپر پاور نے افغانستان پر کھلی فوج کشی کی تھی اور روسی سفیر نے جنرل ضیاء الحق سے‘ اس پاکستانی فوج کے ایک اور سربراہ سے‘ کہا تھا کہ اگر روس کو چیلنج کیا تو تمھاری خیر نہیں اور امریکا جیسی سوپر پاور نے بھی بس اتنا کیا تھا کہ ماسکو میں ہونے والے اولمپک میں اپنے کھلاڑی بھیجے سے انکار کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دفترخارجہ نے بھی شاید کسی وارگیمز کی مشق کرکے کہا تھا کہ اپنی انگلیاں نہ جلائو۔ لیکن ضیاء الحق نے مقابلے کی قوت کی فکر کیے بغیر ایک تاریخی فیصلہ کیا اور پھر خود امریکا کے صدر کے ایک نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر زبگینو برزنسکی نے افغان جہاد کی متوقع کامیابی کو بھانپ کر ۱۹۸۶ء ہی میں لندن ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا کہ:

افغانستان میں روس کی سیاسی اور عسکری شکست کے واحد معمار جنرل ضیاء الحق تھے۔ (لندن ٹائمز‘ ۱۸ اپریل ۱۹۸۶ء بحوالہ روزنامہ نواے وقت‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۶ئ)

تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر اس کے لیے قیادت میں ایمان‘ عزم‘ بصیرت اور شجاعت کے ساتھ اللہ اور اپنے عوام کی تائید ضروری ہے۔ جہاں فیصلے خوف اور دبائو کے تحت ہوتے ہوں وہاں آزادی اور مزاحمت کی جگہ محکومی اور پسپائی لے لیتے ہیں۔

قرآن کا اپنا اسلوبِ ہدایت ہے۔ سورۂ بقرہ میں خوف کو بھی جہاد اور شہادت کے پس منظر میں آزمایش کی ایک صورت قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اللہ سے تعلق اور اس کی طرف واپسی کی حقیقت کی تلقین کے ساتھ جہاد‘ شہادت اور صبروصلوٰۃ کا راستہ بتایا گیا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۵۳-۱۵۶)

امریکا کی تابعداری کب تک؟

اگر بہ فرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ۲۰۰۱ء میں کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا‘ پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ۲۰۰۶ء میں کیا مجبوری ہے کہ ہم صدربش کا اسی طرح دم چھلّا بنے ہوئے ہیں حالانکہ زمینی حقائق یکسر بدل چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا پھنس گیا ہے اور سارے عسکری کرّوفر کے باوجود نہ افغانستان کو اپنے زیرحکم لاسکا ہے اور نہ اسامہ بن لادن اور ملاعمر کو گرفتار کرسکا ہے۔ طالبان ایک ملک گیر قوت کی حیثیت سے اُبھر رہے ہیں اور ناٹو کے کمانڈر اور بین الاقوامی صحافی اور سفارت کار اعتراف کر رہے ہیں کہ کرزئی حکومت کی ناکامی‘ وارلارڈز کی زیادتیوں‘  معاشی زبوں حالی اور قابض فوجیوں کے خلاف نفرت اور بے زاری کے نتیجے میں طالبان کی قوت بڑھ رہی ہے۔ کئی صوبوں میں عملاً ان کی حکومت ہے‘ ایک صوبہ میں برطانوی افواج نے طالبان کے ساتھ معاہدہ امن تک کیا ہے اور ہرطرف سے طالبان سے معاملہ کرنے اور ان کو شریکِ اقتدار کرنے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔

اسی طرح عراق میں امریکی فوجیں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں۔ تشدد اور مزاحمت روزافزوں ہے۔ عراق کی تقسیم کے خطرات حقیقت کا روپ ڈھالتے نظرآرہے ہیں اور وہ سول وار کے چنگل میں ہے۔ دنیا میں دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ عراق کے بارے میں مشہور رسالے Lancetکے تازہ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) شمارے میں جو اعداد وشمار آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ساڑھے ۶لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جو آبادی کا ڈھائی فی صد ہے اور جنگ کی آگ  بجھنے کے کوئی آثار نہیں۔ اس وقت امریکا میں اس کی ۵۰ فی صد سے زیادہ آبادی جنگ کی مخالفت کر رہی ہے۔ یورپ میں یہ مخالفت ۷۰ اور ۸۰ فی صد کے درمیان ہے‘ جب کہ مسلم اور عرب دنیا میں ۹۰ فی صد سے زیادہ افراد اس جنگ کے خلاف ہیں‘ حتیٰ کہ عراق میں کیے جانے والے    تازہ ترین سروے کے مطابق عراق کی ۹۳ فی صدسنی آبادی اور ۶۵ فی صد شیعہ آبادی امریکی فوجوں کی فوری واپسی کے حق میں ہے۔

امریکا میں بش مخالف تحریک تقویت پکڑ رہی ہے۔ برطانیہ میں ٹونی بلیر کی پالیسی کے خلاف کھلی کھلی بغاوت ہے۔ برطانوی فوج کے ذمہ دار افراد فوجوں کی واپسی کی بات کر رہے ہیں۔ اسپین اپنی افواج عراق سے واپس بلاچکا ہے اور اس کے بعد سے وہاں امن ہے۔ اٹلی‘ جاپان وغیرہ تخفیف کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ہے ہوا کا رخ___ لیکن جنرل پرویز مشرف اب بھی بش کے دست راست اور پاکستان اور اس کی سیکورٹی افواج کو بش کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ بنائے رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خود اپنے وزیرستان کے تجربات سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور قبائلی علاقے کے طالبان اور دینی قوتوں سے معاہدہ کرنے کے باوجود اس پر طرح طرح کی ملمع سازی میں مصروف ہیں۔

امریکا کے جو بھی مقاصد تھے وہ ہمارے مقاصد اور اہداف ہرگز نہیں ہوسکتے اور اب تو امریکا خود ان مقاصد کے بارے میں شدید انتشار کا شکار ہے اور نکلنے کے راستوں کی تلاش میں ہے‘ جب کہ جنرل صاحب ’مدعی سُست گواہ چست‘ کے مصداق گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور  اپنی قدروقیمت کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنے میں مشغول ہیں۔

درپیش چیلنج اور فیصلہ کن مرحلہ

پاکستانی قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے۔ اس وقت ہماری آزادی‘ ہمارا ایمان‘ ہماری عزت اور ہمارا مستقبل سب دائو پر ہیں۔ امریکا سے اچھے تعلقات‘ اصولی اور خودمختارانہ مساوات کی بنیاد پر زیربحث نہیں۔ یہ تعلقات ہمیں ہرملک سے رکھنے چاہییں اور امریکا کے ساتھ جہاں جہاں مشترک مفادات کا معاملہ ہے‘ وہاں ہماری خارجہ پالیسی کے لیے اس کا ادراک ضروری ہے‘ البتہ صدربش کی تاریخی غلطی ___یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا غلط تھا اور اگر کسی بھی مجبوری کے تحت شریک ہوگئے تھے تو اس شرکت کو جاری رکھنا ملک و ملّت کے مفاد سے متصادم ہے۔ جتنی جلد ممکن ہو‘ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ موجودہ خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جائے اور تبدیلی کے ایک واضح راستے پر گامزن ہوکر اپنی آزادی اور عزت و وقار کو بحال کیا جائے۔ اور یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب قوم موجودہ حکمران ٹولے سے نجات پائے کہ اس کی موجودگی میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا کوئی امکان نہیں۔

اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کو ایک فردِ واحد کی گرفت سے آزاد کیا جائے اور قومی امور کے بارے میں سارے فیصلے جمہوری انداز میں بااختیار پارلیمنٹ کے ذریعے انجام دیے جائیں اور پارلیمنٹ اور حکومت حقیقی معنی میں عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ قومی بحث و مباحثے اور ہرسطح پر مشاورت کے ذریعے پالیسی سازی انجام پائے۔ اس کے لیے بھی جمہوری عمل کی مکمل بحالی اور اداروں کا استحکام اور بالادستی ضروری ہے۔

جہاں فوری مسئلہ آزادی کے تحفظ اور جمہوری عمل کی بحالی کا ہے‘ وہیں یہ بات بھی ضروری ہے کہ امریکا کا ایجنڈا صرف سیاسی اور عسکری بالادستی تک محدود نہیں۔ اس کا ہدف ایک نئے    عالمی سامراج کا غلبہ ہے جس میں سیاسی اور عسکری بالادستی کے ساتھ معاشی وسائل پر امریکا اور مغربی اقوام کا تصرف اور تہذیبی‘ تعلیمی اور ثقافتی میدان میں مغربی تہذیب کا غلبہ اور حکمرانی ہے۔ آخری تجزیے میں یہ جنگ تہذیبوں اور اقدار کی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ امریکا اسلام کے اس تصور کو کہ یہ ایک مکمل دین اور نظام تہذیب و حکومت ہے اپنا اصل حریف سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جب تک مسلمانوں کے دل و دماغ سے آزادی‘ اسلامی تشخص اور اسلام کے ایک مکمل ضابطۂ حیات و تہذیب ہونے کے تصورات کو خارج نہ کردیا جائے‘ امریکا کی بالادستی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز نت نئے مسائل کو اٹھایا جا رہا ہے جن کا اصل ہدف اسلام کی تعلیمات اور اقدار پر ضرب اور مسلمانوں کو ان کے جداگانہ تشخص سے محروم کرنا ہے۔ تہذیبوں اور مذاہب کے تکاثر (plurality) کی جگہ مغربی تہذیب کی بالادستی اور دوسری تہذیبوں‘ مذاہب اور اقوام کے اس کے نظامِ اقدار میں تحلیل کیے جانے کا ہدف ہے۔ اس کے لیے ایک حربہ مسلمانوں کو روشن خیال اور قدامت پسند‘ لبرل اور انتہاپسندوں میں تقسیم کر کے اُمت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے اور تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل ہے۔ یہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا تازہ اڈیشن ہے۔ اس میں بش‘ بلیر اور مشرف ایک ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی میں اور چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں ایک   مذہبی محاذ تصوف کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ اسلام کو اگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے پاک کردیا جائے‘ جہاد کے تصورات کو مجہول کردیا جائے‘ خیروشر اور کفرواسلام کی کش مکش کی بات ختم کردی جائے‘ تو پھر اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جاسکتا ہے جس سے باطل کی قوتوں اور ظلم کے کارندوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ غضب ہے کہ اس کے لیے اقبال اور قائداعظم کا نام استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ اقبال کے پورے پیغام کا حاصل حق و باطل کی کش مکش اور اس میں مسلمان کا جہادی کردار ہے۔ اقبال اور قائداعظم دونوں کو ہندو قیادت ہی نے نہیں انگریزی حکمرانوں اور ان کے قلمی معاونین نے انتہاپسند (extremist) اور فرقہ پرست (communalist) کہا تھا اور دونوں نے فخرسے کہا تھا کہ ہاں‘ ہم اپنے اصولوں پر قائم اور ان پر فخر کرتے ہیں اور اصولوں سے بے وفائی اور غداری کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ قائداعظم نے باربار کہا کہ میں تمام مسلمانوں کو    متحد کرنے میں مصروف ہوں اور ان کو گروہوں میں بانٹنے والوں کو ان کا دشمن سمجھتا ہوں۔ ایک موقعے پر انھوں نے لاہور میں طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ’’تمھاری تاریخ جہاد کی تاریخ ہے اور مسلمان کے لیے شہادت سے بڑا کوئی رتبہ نہیں‘‘۔ اقبال نے جہاد کو اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی قوت اور سطوت کو اپنی ساری جدوجہد کا ہدف قرار دیا اور ہر اس فتنے پر ضرب لگائی جو جہاد کے راستے سے فرار کی راہیں سمجھاتا ہے۔

آج محکومی کے جو تاریک سائے اُمت پر منڈلا رہے ہیں وہ خوف‘ دبائو اور غیروں کی  کاسہ لیسی اور دراندازی کا ثمرہ ہیں اور ملّت اسلامیہ پاکستان کی آزادی‘ ایمان اور عزت اس کی  زد میں ہیں۔ تحریکِ پاکستان ایسے ہی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے برپا کی گئی تھی‘ اور      ملّت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان ایک آزاد اسلامی ملک کی حیثیت سے نقشے پر اُبھرا۔ ان نقوش کو مٹانے کی جو عالم گیر سازشیں ہو رہی ہیں اور جس طرح اسے کچھ آلہ کار اپنی ہی قوم سے میسر آگئے ہیں‘ اس کا مقابلہ تحفظ پاکستان کے لیے ایسی ہی ہمہ گیر تحریک سے کیا جاسکتا ہے جس تحریک کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا۔ آج ہم ایک بار پھر اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی تہذیب اور اپنی عزت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور ہماری زندگی اور ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کا انحصار اس جدوجہد اور اس کی کامیابی پر ہے ۔

مشہور مقولہ ہے: ’’خدا شرے بر انگیز کہ خیرے مادر آں باشد‘‘ (کبھی شر سے بھی خیر رونما ہوتا ہے)۔ ایسا ہی ایک خیر حدود آرڈی ننس میں ’تحفظ نسواں‘ کے نام پر ترمیمی بل کے سلسلے کی بحث اور پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کی تحریک پر ایک علما کمیٹی کے قیام کی شکل میں رونما ہوا ہے۔ اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک فاضل رکن نے استعفا دے دیا اور پھر خبر آئی کہ کونسل کے کے صدر‘ جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے پوری کونسل کی طرف سے اجتماعی استعفے کا اقدام کرنے والے ہیں۔ مستعفی ہونے والے رکن نے اپنے استعفے کے خط میں لکھا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے اور اسے نظرانداز کرکے بالا ہی بالا ایک علما کمیٹی کے قیام اور اس کے مشورے سے کونسل کا استحقاق مجروح ہوا ہے اور اس طرح گویا اس کی بے توقیری کا پیغام دیا گیا ہے۔ تقریباً یہی موقف کونسل کے صدر اور باقی ارکان کا سامنے آرہا ہے اور ملک کے انگریزی کے سیکولر اور لبرل پریس نے اس کو خوب خوب اُچھالا ہے اور کونسل کو بانس پرچڑھا کر اس کے      اس اقدام کو حدود آرڈی ننس کے خلاف کام کرنے والی سیکولر اور غیرملکی این جی اوز کی لابی کی مہم میں کامیابی کے چند پروں کے اضافے کا رنگ دیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں غوروفکر کے چند ضروری نکات پر گفتگو کی جائے۔

نظریاتی کونسل کے جن ارکان نے اس موقع پر اپنی غیرت ایمانی اور ذاتی اور علمی عزوشرف پر ہونے والی دراندازی پر جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ اس پہلو سے تو بڑے قیمتی ہیں کہ      اس دستوری ادارے کو شاید اپنی تاریخ میں پہلی بار اپنے مقام‘ کردار اور استحقاق کا احساس ہوا۔    یہ اور بات ہے کہ اس وقت اس کی آواز جن دوسری آوازوں میں مل گئی ہے وہ اسلامی قوانین کے خلاف مہم چلانے والی سیکولر اور عالمی استعماری گروہ (lobbies) ہیں۔ اگر اس سے صرفِ نظربھی کرلیا جائے تو اسے قابلِ قدر ہی کہا جائے گا کہ اس ادارے اور اس کے ارکان کو اب یہ ہوش تو آیا کہ ان کا دستور اور قانون سازی کے نظام میں بھی ایک کردار ہے اور اگر ان کے اس کردار پر کوئی حرف آتا ہے تو اس پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک دستوری ادارہ ہوتے ہوئے بھی عملاً    ایک عضو معطل ہی کا مقام دے دیا گیاہے‘ یااس نے یہ مقام اپنے لیے قبول کرلیا ہے۔دستور کی  دفعہ ۲۲۸کونسل کی تشکیل ‘ دفعہ ۲۲۹ صدر‘ گورنر‘ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے مشورہ کے لیے بھیجے جانے والے ریفرنس کے بارے میں ہیں‘ اور دفعہ ۲۳۰ میں اس کونسل کے وظائف اور  ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔ کونسل کی رپورٹوں کا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کیا جانا اور ان پر بحث ایک دستوری ذمہ داری ہے لیکن ہمارے علم کی حد تک‘ گو ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت قائم کیے جانے کے بعد سے اب تک‘ کونسل ۵۰ سے زیادہ رپورٹیں تیار کرچکی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک پر بھی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی اور نہ ان کی روشنی میں کوئی قانون سازی یا پالیسی سازی ہوئی ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ کونسل یا اس کے ارکان کو اس بے توقیری پر کبھی احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی۔

اس پورے عرصے میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں نے دسیوں ایسے قانون بنائے ہیں جن کا بلاواسطہ یا بالواسطہ شریعت کے احکام سے تعلق ہے۔ چند قوانین تو شریعت کے نام پر بنائے گئے ہیں‘ مثلاً نوازشریف صاحب کے پہلے دورِحکومت میں منظور کیا جانے والا قانون نفاذ شریعت۔ نیز ان کے دوسرے دور حکومت میں دستور کا پندرھواں ترمیمی بل جسے قومی اسمبلی نے منظور بھی کرلیا تھا مگر وہ سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا اور اس میں شریعت اورامربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر وزیراعظم کے لیے غیرمعمولی اختیارات حاصل کیے گئے تھے۔ ہمیں یاد نہیں کہ ان دونوں اور دوسرے متعلقہ قوانین کے باب میں کونسل کی رگ حمیت کبھی پھڑکی ہو اور اسے اپنا دستوری کردار  یاد آیا ہو۔

دستور کی دفعہ (1-d) ۲۳۰ کی رو سے یہ کونسل کی ذمہ داری تھی کہ ملک کے تمام قوانین کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنے اور مزید قانون سازی کے لیے شریعت کے متعلقہ احکام و ہدایات کو ایک جامع رپورٹ کی شکل میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو پیش کرے گی اور یہ کام اپنے قیام کے سات سال کے اندر اندر مکمل کرے گی۔ ہماری اطلاع کی حد تک تمام قوانین کے بارے میں جامع رپورٹ آج تک مرتب نہیں ہوئی ہے۔ جسٹس تنزیل الرحمن کی صدارت کے دوران اسی سلسلے میں کئی سو قوانین کے بارے میں شق وار تبصرہ تیار ہواتھا مگر یہ کام مکمل نہیں ہوا‘ اور ملک کے۴ہزار سے زیادہ انگریز کے زمانے میں نافذ ہونے والے اور گذشتہ ۶۰ سال میں کتابِ قانون کا حصہ بننے والے چند سو قوانین کا مکمل جائزہ اور شریعت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متعین ترامیم کی تیاری کا کام ہنوز کونسل کی توجہ کا منتظر ہے۔ اسلامی احکام کے مجموعے پر مرتب ایک رپورٹ ضرور تیار کی گئی ہے لیکن آج تک اس پر بھی مرکزی یا صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی بحث نہیں ہوئی۔ ہمیں علم نہیں کہ اس سلسلے میں کونسل نے کبھی حکومت کو اپنی دستوری ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کرنے کی زحمت فرمائی ہو۔

دستور کی متعلقہ دفعات کے مطالعے سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ اسلامی احکام کے بارے میں مشورہ حاصل کرنے کے پارلیمان کے حق کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ محصور اور محدود کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ کونسل کے قیام کا مقصد ہی قوانین اور پالیسیوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرکے اس سے استفادہ کرنا ہے۔ لیکن ریفرنس کا اختیار صدر‘ گورنر‘ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو حاصل ہے۔ کونسل کو suo motto کوئی اختیار حاصل نہیں‘جیساکہ سپریم کورٹ یا وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہے۔ اسی طرح کوئی قدغن پارلیمنٹ کے اختیارات پر نہیں کہ وہ کونسل کے علاوہ کسی اور فرد‘ ادارے یا مشکل میں اپنی رہنمائی اور اعانت کے لیے کوئی اقدام نہیں کرسکتی۔ پارلیمنٹ کو   تو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ کونسل کو کسی معاملے کو ریفر کرنے کے باوجود قانون سازی کرلے اور کونسل کی سفارشات پر بعد میں غور کرے (دفعہ (۳) ۲۳۰)۔ ہمیں علم نہیں کہ دستور یا خود اس کے اپنے رولز آف بزنس کی کون سی دفعہ کے تحت کونسل کو یہ اختیار یا استحقاق حاصل ہے کہ پارلیمنٹ‘ صدر‘ گورنر‘ پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کونسل کے علاوہ کسی اور سے نہ مشورہ کرسکتے ہیں اور نہ کوئی اور مشاورتی نظام بنانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اگر کونسل کے فاضل ارکان اس سلسلے میں دستور یا ضوابط کار کے متعلقہ اندراجات کی وضاحت کردیتے تو معاملے کو سمجھنے میں سہولت ہوتی۔

ہم خود اسلامی نظریاتی کونسل کو بااختیار دیکھناچاہتے ہیں اور اس کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے حق میں ہیں لیکن کونسل کو بھی قوم کو یہ اعتماد دینا ہوگا کہ وہ شریعت کے احکام کی محافظ اور امین ہے اور محض بااثر گروہوں کے ایجنڈے کی شعوری یا غیرشعوری تکمیل کے راستے پر گامزن نہیں۔ سرحداسمبلی میں حسبہ بل کے باب میں جو کردار اس کونسل نے ادا کیا وہ اس کی عزت کو بڑھانے والا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کونسل کے فاضل ارکان کو علم ہوگا کہ حسبہ بل کا اصل مسودہ خود اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۰‘ ۲۵ سال پہلے بنایا تھا۔ اسی مسودے کی روشنی میں صوبائی اسمبلی نے ایک بل تیار کیا۔ اسی پر سیکولر لابی آتش زیرپا تھی۔ اس بل پر جو تبصرہ کونسل نے کیا‘ وہ نہ شریعت کے ساتھ انصاف تھا اور نہ کونسل کے حدودِکار کے ساتھ۔ دستوری بقراطیت کا جو مظاہرہ اس میں کیا گیا‘ اسے کونسل کے دائرہ کار سے متعلق قرار دینے کے لیے خاصی ذہنی عیاشی کی ضرورت ہے۔

موجودہ کونسل کی تشکیل جس طرح کی گئی‘ اس سے اس کے وقار اورکردار کے بارے میں بہت سے حلقوں کو تشویش ہے اور کونسل کی اب تک کی کارکردگی نے ان خدشات کو دُور کرنے میں کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ حدود آرڈی ننس کے سلسلے کی بحث میں جس طرح کونسل  ُکودی ہے‘  اس نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ شاید کونسل کے موجودہ ارکان یہ بھول گئے کہ اصل حدود آرڈی ننس جسٹس افضل چیمہ صاحب کی صدارت میں قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے تیار کردہ مسودے ہی پر مبنی ہے‘ اور جن امور میں اس میں اس کی تجاویز سے انحراف کیا گیا تھا ان کے بارے میں جسٹس تنزیل الرحمن کے دورِ صدارت میں قائم کونسل نے کئی بار متوجہ کیا تھا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ کونسل کے موجودہ ارکان اسی کونسل کے ماضی کے فیصلوں اور سفارشات سے واقف ہوں گے۔ بلاشبہہ ایک قانونی ادارے کو اپنی یا اپنے سابقین کی آرا پر نظرثانی کا حق ہے جس طرح عدالتی ادارے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ کام ایک ضابطے اور طریقے کے مطابق ہوتا ہے اور آرا سے اگر رجوع بھی کیا جائے تو ماقبل کی آرا پر بحث و تنقید اور نئے دلائل کی بنیاد پر کسی       نئے موقف کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہمارے علم میں نہیں کہ کونسل نے ایسی کوئی مشق (exercise) کی ہے یا نہیں اور اگر کی ہے تو اس کا حاصل کیا ہے۔

حدود آرڈی ننس میں ترمیم کی بحث کے موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل نے جس سرگرمی (activism ) کا اظہار کیا ہے‘ اس میں judical activismکے رویے سے کچھ مماثلت ضرور ہے لیکن اس میں ان آداب اورتقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جو اس activismکا حصہ ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ کونسل نے اپنے استحقاق اور کردار کے بارے میں جس بیداری کا اظہار کیا ہے وہ    اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بھی فکر کرے گی۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰئھُمْ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمِھَادُ o لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۸)

شہروں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت سے دھوکے میں نہ آنا۔ یہ بس تھوڑا ہی فائدہ ہے۔ پھر اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بڑا گہوارہ ہے وہ۔ برعکس اِس کے‘ جن لوگوں نے اپنے رب کی نافرمانی سے بچتے ہوئے زندگی گزاری‘ اُن کے لیے باغات ہیں‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے‘ سامانِ ضیافت اُن کے رب کے پاس سے۔ اور جو اللہ کے پاس ہے‘ وہ (لذائذِ دنیا سے) کہیں بہتر‘ حق شناسوں کے لیے ہے۔

شہروں اور ملکوں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت اِس بات کی مظہر ہے کہ وہ نعمتوں سے مالامال اور صاحب ِ مرتبت و اقتدار ہیں۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جس سے دلوں میں لامحالہ خلش محسوس ہوتی ہے‘ خصوصاً اہلِ ایمان کے دلوں میں‘ جو تنگ دستی اور محرومی کی مشقت جھیل رہے اور اذیت‘ ظلم و ستم اور جہاد کی زحمتیں اُٹھا رہے ہیں۔ اِس صورت حال سے غافل اور بے خبر عوام کے دل بھی متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ حق اور اہلِ حق زحمتوں اور مشقتوں سے دوچار ہیں اور اہلِ باطل نہ صرف یہ کہ اِن زحمتوں سے نجات پائے ہوئے ہیں‘ بلکہ خوش حالی کی زندگی گزار رہے ہیں (یہ صورتِ حال ان کے لیے فتنہ بن سکتی ہے)۔ پھر اِس صورتِ حال کا اثر خود گمراہ اہلِ باطل کے دلوں پر پڑتا ہے اور وہ ضلالت‘ کبروعناد اور شر اور فساد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

  • جاودانی نعمتیں اور اللّٰہ کا اعزاز: تب دلوں کو چھونے والی یہ آیت آتی ہے:  لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ o مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف ثُمَّ مَاْوٰئھُمْ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمِھَادُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶-۱۹۷)’’شہروں میں اہلِ کفر کی چلت پھرت سے دھوکے میں نہ آنا۔ یہ بس تھوڑا ہی فائدہ ہے۔پھر اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بُرا گہوارہ ہے وہ‘‘۔

تھوڑا سا سامان یا تھوڑا سا فائدہ جو جلد ختم ہوجائے گا‘ اِس کے بعد اُن کا دائمی و ابدی ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا گہوارہ ہے (’مہاد‘ کے معنی بچھونے‘ گہوارے اور آرام کی جگہ کے ہیں۔ اِس میں شدید طنز ہے کہ اُن کے لیے اگر کوئی آرام کی جگہ ہے تو وہ دوزخ ہے۔ مترجم)۔

اس قلیل اور فانی و ناپایدار متاع کے مقابلے میں جنتیں (باغات)‘ ہمیشگی اور اللہ کی جانب سے اعزاز و اکرام ہے: جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ o (۳:۱۹۸)’’باغات‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے‘ سامانِ ضیافت اُن کے رب کی طرف سے۔ اور جو اللہ کے پاس ہے‘ وہ (لذائذِ دنیا سے) کہیں بہتر‘ حق شناسوں کے لیے ہے‘‘۔

جو شخص اُس حصے (متاعِ دنیا) کو ایک پلڑے میں رکھے گا اور اِس حصے (جزاے اُخروی) کو دوسرے پلڑے میںرکھے گا‘ اُسے اِس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ متاعِ دنیا سے کہیں بہتر ہے اور وہ ’اَبرار‘ کے لیے ہے اور اس کے دل میں کوئی شبہہ نہ رہے گا کہ متقین کا پلڑا کفار کے مقابلے میں کہیں جھکا ہواہے۔ ہر صاحب ِ عقل اُسی حصے کو اپنا ناپسندکرے گا‘ جسے ’اولی الالباب‘ اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔

  • صرف اُخروی وعدہ: تربیت اور اسلامی فکر کی بنیادی قدروں کو بیان کرنے کے موقع پر اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان سے فتح و نصرت کا وعدہ نہیں کر رہا‘ نہ یہ وعدہ کر رہا ہے کہ اُن کے دشمن مغلوب ہوں گے‘ نہ یہ وعدہ کہ انھیں زمین میں غلبہ حاصل ہوگا۔ وہ اِس دنیا کی اشیا میں سے___ جن کا دوسرے بہت سے مواقع پر وہ اُن سے وعدہ فرماتا ہے اور جنھیں وہ اپنے دوستوں کے لیے‘ اُن کے دشمنوں سے جنگ کے مواقع پر مقدر اور لازم قرار دیتا ہے___  کسی بھی شے کا وعدہ نہیں کرتا۔

وہ یہاں اُن سے صرف ایک شے کا وعدہ کرتا ہے، ’’اُس اجر کا جواللہ کے پاس ہے‘‘۔ یہی اِس دعوت کی اصل اور بنیاد ہے اور اِس عقیدے کی راہ پر چلنے کا‘ اِسی پر انحصار ہے۔ ہر ہدف‘ ہر غایت اور ہرطمع سے کٹ کر صرف اجرِآخرت کے لیے یکسوئی! یہاں تک کہ مومن کو یہ خواہش بھی نہ رہے کہ اِس عقیدے کو غلبہ‘ اللہ کے کلمے کو سربلندی اور اللہ کے دشمنوں کو مغلوبیت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اِس خواہش سے بھی خود کو یکسو کرلیں‘ اپنے معاملے کو بالکلیّہ اللہ کے حوالے کردیں اوراپنے دلوں کو اِس خواہش سے پاک کرلیں (بلاشبہہ مومن سب کچھ رضاے الٰہی اور اجرِآخرت کے لیے کرتا ہے‘ خواہ دنیا میں کچھ بھی نہ پاسکے۔ لیکن حق کے غلبے‘ باطل کی مغلوبیت اور اللہ کے کلمے کی سربلندی کی خواہش فطری ہے‘ اِس سے دل کو پاک نہیں کیاجاسکتا اور نہ یہ مطلوب ہے۔مترجم)۔

  • اسلام ھرچیز کی قربانی کا نام: یہ عقیدہ سب کچھ قربان کرنے‘ عہد کو پورا کرنے اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا نام ہے۔ بغیر اِس کے کہ اِس کے معاوضے میں دنیا کا کوئی سازوسامان مطلوب ہو اور بغیر اس کے کہ اُس کے عوض فتح و نصرت‘ غلبہ‘ تمکن فی الارض اور سربلندی چاہیے ہو___ ان سب کے بجاے ہرچیز صرف آخرت میں چاہنا ہے اور اس کا انتظار کرنا ہے۔

عقیدے کی ذمہ داریوں کو اِس طرح ادا کرنے کے بعد فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے اور  تمکن فی الارض اور سربلندی بھی نصیب ہوتی ہے‘ مگر یہ اللہ سے معاہدے میں داخل نہیں ہے‘ اور نہ اُس سے کی ہوئی بیعت کا کوئی جز ہے۔ معاہدہ اور بیعت میں دنیا کی کوئی چیز شامل نہیں ہے‘ یہاں تو  ذمہ داریوں کو ادا کرنا‘ عہد کو پورا کرنا‘ سب کچھ قربان کرنا اورآزمایشوں سے گزرناہے‘ اور بس!

مکہ معظمہ میں اِسی پر بیعت اور دعوت کی بنیاد تھی اور اِسی پر اللہ سے بیع و شرا کا معاملہ ہوا تھا اور اللہ نے مسلمانوں کو نصرت‘ تمکن فی الارض اور سربلندی سے اُسی وقت سرفراز کیا اور انھیں زمین کی کنجیاں اور انسانیت کی قیادت اُسی وقت بخشی‘ جب وہ آخرت کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے پوری طرح ایفاے عہد کیا۔

محمد بن کعب قرظی اور دوسرے اصحاب نے کہا کہ عبداللہ بن رواحہ ؓنے بیعت ِعقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا‘ آپ اپنے رب اوراپنی ذات کے لیے ہم سے جو چاہے عہد لے لیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کہ اوس اور خزرج کے نمایندے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؐ کی ہجرت کے لیے بیعت کر رہے تھے) میں اپنے رب کے لیے اِس بات کا عہد لیتا ہوں کہ تم اس کی بندگی کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے‘ اور اپنے لیے یہ عہد لیتا ہوں کہ جس طرح تم اپنی جان اور مال کی حفاظت کرو گے‘ اسی طرح میری حفاظت    کرو گے۔ عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا‘ ہم یہ سب کچھ کردیں تو ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت‘‘___ انھوں (انصارکے ذمہ داروں) نے کہا‘ سودا نفع بخش ہے۔ ہم نہ اِس معاہدے کو خود فسخ کریں گے اور نہ اُسے فسخ کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

جی ہاں‘ جنت‘ اور صرف جنت! فتح و نصرت‘ عزت وحدت‘ قوت‘ تمکن فی الارض‘ قیادت‘ دولت اور خوش حالی‘ یہ سب چیزیں جو اللہ نے انھیں بخشیں اوران کے ہاتھوں میں دیں‘ اُن کا    اللہ تعالیٰ نے تذکرہ نہیں کیا کیونکہ یہ چیزیں معاہدے سے خارج تھیں۔

یہی بات تھی جو اوس اور خزرج کے نقبا نے کہی: ’’سودا نفع بخش ہے‘ ہم اُسے نہ خود فسخ کریں گے‘ نہ آپؐ سے اسے فسخ کرنے کا مطالبہ کریں گے‘‘۔

  • اُمت کی تربیت: اللہ تعالیٰ نے اِس طرح اُس جماعت کی تربیت کی جس کے سلسلے میں اُس نے طے کر رکھا تھا کہ زمین کی کنجیاں اور قیادت کی زمام اُس کے ہاتھ میں دے گا اور عظیم امانت اُس کے سپرد کرے گا‘ بعد اِس کے کہ وہ اپنی تمام خواہشات و مفادات سے کٹ گئے ہوں۔ یہاں تک کہ اُن خواہشات سے بھی‘ جو اُس دعوت سے متعلق تھیں‘ جس کے وہ حامل تھے‘ اُس نظام سے متعلق تھیں‘ جسے وہ برپا کر رہے تھے‘ اُس عقیدے سے متعلق تھیں‘ جس کے لیے وہ جان دے رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس امانت کبریٰ کے حامل وہی لوگ ہوسکتے ہیں‘ جن کی‘ اپنی ذات کے لیے کوئی خواہش باقی نہ رہی ہو۔ اِس صورت میں وہ اللہ کی اطاعت (سِلْم) میں پوری طرح داخل ہوسکتے ہیں۔ (فی ظلال القرآن‘ ج ۲‘ ترجمہ: سیدحامد علی‘ ص ۴۹۶-۵۰۰)

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی پہلی نظربندی کے دوران ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو ایک خط اپنی اہلیہ محترمہ کو لکھا۔ یہ خط سنسر میں روک لیا گیا۔ اب ایک کرم فرما کے توسط سے دستیاب ہوا ہے۔ ہم یہ خط قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

نیو سنٹرل جیل،ملتان

بیگم صاحبہ، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک مدتِ دراز کے بعد آپ کا خط ملا۔ مگر اس کی کچھ شکایت نہیں۔ میں خود بھی زیر نگرانی   خط و کتابت سے بیزار ہوں۔ گھر کا حال بچوں کے خطوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے۔ بس یہی کافی ہے۔

آپ کا یہ خیال صحیح ہے کہ دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد پاس ہو جانے کے بعد اصولی حیثیت سے‘ ہماری یہ ریاست ایک اسلامی ریاست ہو گئی ہے، اور آپ کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ میں بھی یہی چاہتا تھا، لیکن آپ کے اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے کہ پھر حکومت نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو کیوں نظر بند کررکھا ہے۔ میں اس کے وجوہ سے پہلے بھی لا علم تھا اور اب بھی لاعلم ہوں۔ قرار داد مقاصد کے بعد تو خیر معاملہ ہی دوسرا ہو گیا ہے کہ اب اس ریاست کی وفاداری و خیر خواہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہو گئی ہے، لیکن میں نے تو اُس سے پہلے بھی یہ بات اچھی طرح واضح کر دی تھی کہ اس ریاست کو مسلمان بنانے کے لیے ہم جو کچھ بھی کوشش کریں گے، پر امن جمہوری طریقوں سے ہی کریں گے اور کوئی ایسا طریق کار ہرگزا ختیار نہیں کریں گے جس سے پاکستان کے وجود کو کوئی نقصان پہنچ جائے، آخر کون مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ ہندستان میں ہم پر جو تباہی آ چکی ہے، وہی اب پاکستان میں بھی ہم پر اور ہمارے بال بچوں پر نازل ہو جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اپنی گرفتاری ہی کے راز کو جانتے تھے اور نہ اس معمے ہی کو کچھ سمجھ سکے ہیں کہ قرار داد مقاصد کے بعد ہماری نظر بندی میں پہلی توسیع کیوں ہوئی تھی اور اب یہ دوسری توسیع کیوں ہوئی ہے۔ ممکن ہے حکومت ہمارے متعلق کچھ ایسی باتیں جانتی ہو جو ہم خود اپنے متعلق نہیں جانتے۔ میں نے براہِ راست مغربی پنجاب کی حکومت کو بھی اس بارے میں ایک چٹھی لکھی ہے۔

یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ آپ کی صحت برابر گرتی جا رہی ہے۔ میں آپ کی تکلیف  کم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا، سواے اس کے کہ رضا بقضا اور توکل علی اللہ کی نصیحت کروں۔ یہ چیز جس قدر زیادہ آدمی میں موجود ہو گی، اتنا ہی زیادہ وہ ہر حال میں مگن اور مطمئن رہے گا۔ اس میں سے میں نے تھوڑا ہی حصہ پایا ہے اور اس کا فیض یہ ہے کہ میرے اطمینان قلب میں ذرا فرق نہیں آنے پایا ہے۔ ایک سال کی قید کے بعد‘ اس وقت میری صحت اتنی اچھی ہے کہ پچھلے ۱۵سال میں کبھی ایسی اچھی نہیں رہی۔

آدمی اپنی جہالت سے سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں کچھ انسانی منصوبے پورے ہو رہے ہیں، حالاں کہ یہاں دراصل ایک ہی منصوبہ پورا ہوا کرتا ہے اور وہ خدا کا منصوبہ ہے۔ دانش مند انسان خدائی منصوبے کے اچھے پہلوؤں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں اور سرخ رو ہوتے ہیں۔ نادان اس کے برے پہلوؤں میں کام کرنا انتخاب کرتے ہیں اور سیہ روئی مول لیتے ہیں۔یوسف کے حق میں جو کچھ مقدر تھا، وہی ہو کر رہا۔ بردران یوسف اور زلیخا اور عزیز  ِمصر جو جو کچھ کرتے گئے، خدا اسی کو اپنے منصوبے کی تکمیل ]کا[ ذریعہ بناتا گیا اور خود اُن کے حصے میں ندامت کے سوا کچھ نہ آیا۔ انسان کی دانائی کا سارا امتحان بس ا س میں ہے کہ وہ خدائی منصوبے کے کون سے پہلو میں کام کرنا اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اگر خدا کے دیے ہوئے علم و عقل سے کام لے کر اچھے پہلو کو پہچان لیا ہے اور  اسے اختیار کر لیا ہے تو انجام بہر حال بہتر ہے خواہ بیچ میں کتنی ہی برائیوں سے اس کو سابقہ پیش آئے۔ آخر دنیا میںکسی انسان کے ساتھ اس سے زیادہ کیا برائی ہوسکتی ہے جو حسین ابن علی، ابو حنیفہ، امام احمد، ابن تیمیہ، مجدد سرہندی اور سید احمد بریلوی کے ساتھ ہوچکی ہے۔ لیکن کسی کو ان کے انجام کا ہزارواں حصہ بھی میسر آجائے تو یقینا وہ خوش قسمت ہے۔

میری طرف سے گھر میں سب کو سلام اور بچوں کو بہت بہت پیار۔

ابو الاعلیٰ مودودی 

(ابوالاعلٰی مودودی‘ علمی و فکری مطالعہ‘ مرتبین: رفیع الدین ہاشمی/سلیم منصورخالد‘ ادارہ معارف اسلامی‘  لاہور۔ صفحات: ۶۴۸)

برادران اسلام!

اللہ تعالیٰ نے ہم پر کوئی عبادت ایسی فرض نہیں فرمائی ہے جس میں بے شمار روحانی‘ اخلاقی‘ اجتماعی‘ تمدنی اور مادی فوائد نہ ہوں۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے لیے تو کسی کی عبادت کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس نے جو عبادت بھی بندوں پر فرض کی ہے وہ خود بندوں ہی کی بھلائی کے لیے ہے۔ اللہ کی ذات ہر احتیاج سے بالاتر اور ہر نفع اور فائدے کی ضرورت سے بلند تر ہے…

تمام عبادتوں کا مقصودِ اصلی تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی پیش کرنا ہے‘ اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اگر بندے کو اللہ کی رضا حاصل ہو جائے تو اس کی عبادت کا اصل مقصد پُورا ہو گیا۔ لیکن اگر وہ عبادات میں اپنی ساری دَوڑ دُھوپ کے باوجود اللہ کی رضا پانے سے محروم رہ گیا تو حقیقت میں اس کی ساری محنت ہی اکارت گئی۔ اس نے عبادت کے حقیقی مقصد اور اصلی فائدے کو ضائع کر دیا…

آپ یہاں حج کے لیے آئے ہیں تو آپ کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ آپ میں سے ہرشخص حج‘ اپنی نیت کو خالص اور پاک کر کے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقصود سمجھتے ہوئے انجام دے۔ اگر کسی شخص نے نیت کے اخلاص اور ارادے کی درستی کے ساتھ حج کیا اور کوئی بڑا اجر نہیں‘ صرف اپنی مغفرت ہی حاصل کر لے گیا تو حقیقت میں وہ کامیاب ہے۔ اس کے آگے یہ سراسر  اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ وہ کسی آدمی کو اس پر مزید اجر اور بلند مراتب سے بھی نواز دے۔ بہرحال ایک آدمی کا حج کے ذریعے سے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کر لینا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس لیے میں آپ کو سب سے پہلی نصیحت یہ کرتا ہوں کہ اپنے ذہن کو ہر طرح کے بے اصل افکار اور غیر حقیقی تصورات سے صاف کر لیجیے اور حج کے مقصودِ حقیقی کو ذہن نشین کرنے کی کوشش کیجیے…

اس کے ساتھ جو دوسری بات میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ کے حضور بندگی پیش کرنے کی دُنیا میں جتنی شکلیں بھی ممکن ہیں وہ ساری کی ساری اللہ تعالیٰ نے حج میں جمع کر دی ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ ایک آدمی جس وقت حج کا ارادہ کرتا ہے اگر وہ خالصتًا اللہ کی رضا چاہنے کے لیے یہ ارادہ کر رہا ہے تو اس کا یہ عزمِ سفر بجاے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ کوئی دنیوی مقصد لے کر گھر سے نہیں نکل رہا ہے۔ اس کے پیش نظر کوئی تجارتی غرض نہیں ہے اور نہ اسے سیروسیاحت ہی کا شوق چرایا ہے۔ اس نے ہزاروں میل کا سفر کرنے کا ارادہ صرف اس لیے کیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرے اور اس کی رضا جوئی کے لیے تگ و دَو کرے۔

پھر آپ دیکھیے کہ ایک آدمی جب حج کے لیے نکلتا ہے تو اپنے بال بچوں کو چھوڑتا ہے۔ اپنا گھر بار‘ اپنا کاروبار‘ اپنے اعزہ و اقربا اور اپنے دوست‘ احباب‘ غرض بے شمار علائق و روابط کو توڑ کر نکلتا ہے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ اللہ کی عبادت انجام دے اور اس کی خوشنودی تلاش کرے۔ اس طرح ہجرت کا اجر اس کو آپ سے آپ مل جاتا ہے۔ ہجرت کے جو اخلاقی اور روحانی فوائد اور منافع ہیں وہ سارے کے سارے اس کو حاصل ہو جاتے ہیں‘ کیونکہ اس کی حیثیت اس شخص کی سی ہے جو محض اللہ کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ دیتا ہے۔

اس کے بعد دیکھیے کہ ایک شخص جب مکّہ معظمہ پہنچتا ہے تو اس جگہ وہ بے شمار مختلف عبادات انجام دیتا ہے۔ پانچوں اوقات کی نمازیں تو بہرحال وہ آپ سے آپ پڑھتا ہی ہے‘ لیکن اس کے علاوہ وہ بیت اللہ کا طواف بھی کرتا ہے جس سے اس کو اللہ تعالیٰ پر قربان ہونے اور اپنے آپ کو صدقہ کرنے کا اجر نصیب ہوتا ہے۔ وہ حجراسود کو بھی چومتا ہے اور اس طرح اسے اللہ تعالیٰ کی آستانہ بوسی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ وہ ملتزم سے بھی چمٹتا ہے‘ گویا اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ سے چمٹ رہا ہے اور اس سے دُعائیں مانگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے۔ اِس سے اُس کو اللہ کی راہ میں دَوڑ دُھوپ کرنے کا اجر ملتا ہے۔ اس طریقے سے اس کو اللہ سے دُعا کرنے‘ اس کے گھر کے گرد طواف کرنے اور اس کی راہ میں سعی و جہد کرنے کا اجر حاصل ہوتا ہے۔ پھر ان عبادات کے علاوہ حج کے دوران میں وہ منٰی سے عرفات اور عرفات سے مُزدَلِفَہ آتا ہے۔ مزدلفہ سے پھر منٰی جاتا ہے۔ یہ ساری دَوڑ دُھوپ جہاد سے مشابہت رکھتی ہے۔ جس طرح ایک آدمی جہاد کے لیے گھر سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکلتا ہے‘ راستے کی تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کرتا ہے‘ میدان جنگ کی سختیاں جھیلتا ہے‘ قریب قریب اسی طرح کی صعوبتیں اور محنتیں اور مشقتیں آدمی کو اِس تمام دَوران میں انگیز کرنی ہوتی ہیں۔ اس طریقے سے وہ گویا جہاد فی سبیل اللہ کے اجر کا مستحق بنتا ہے۔ پھر وہ یوم النحر کو (قربانی کے روز) قربانی کرتا ہے۔ اس طرح اس کو قربانی کا اجر بھی حاصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ حج جامع عبادات ہے۔ دُنیا میں آج تک جتنی ممکن قسم کی عبادتیں انسانوں نے کسی معبود کو پیش کی ہیں وہ ساری کی ساری یہاں ایک بندئہ مومن صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرتے ہُوئے انجام دیتا ہے۔ اسی بنا پر حج کو سب سے بڑی عبادت بھی قرار دیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر یہ عبادت انجام دے کر کوئی شخص اپنے گناہوں کی مغفرت ہی حاصل کر لے تو درحقیقت یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

بے عیب حج

مغفرت کی حد تک حج کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ آپ بے عیب حج کریں۔ بے عیب حج سے مراد یہ ہے کہ آدمی حج کے دوران میں ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کی پُوری پُوری کوشش کرے۔ غیبت سے پرہیز کرے۔ گالی دینے سے اور باہم جھگڑا کرنے سے بچے۔ حج میں انسان کو جو سب سے بڑی مشقت پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسے مناسک حج کی ادایگی میں قدم قدم پر رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک ہی وقت میں لاکھوں آدمیوں کو یہ مناسک ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اب چونکہ اس موقع پر لوگوں کا غیر معمولی ہجوم ہوتا ہے اور ہر کوئی ایک تگ و دَو میں لگا ہوتا ہے‘ اس لیے اس عالم میں ہر وقت اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے دانستہ یا نادانستہ کوئی تکلیف پہنچ جائے‘ یا کسی کو اپنا کوئی کام انجام دینے میں زحمت پیش آئے۔ ایسے تمام مواقع پر ہر شخص کو نہایت ضبط و تحمل سے کام لینا چاہیے اور کسی صورت میں بھی تنگ دلی اور تنک مزاجی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس عالم میں اس بات کی سخت ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی اپنے نفس پر ضبط کرے۔ باہم گالم گلوچ اور دنگے فساد سے پُوری طرح بچے اور اس امر کی کوشش کرے کہ اس کی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اور اگر کسی کی ذات سے اس کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ اس کو صبر کے ساتھ برداشت کرے۔ یہ کم سے کم وہ چیز ہے جو آدمی کے حج کو بے عیب بناتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:

فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ لا وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ط (البقرۃ ۲:۱۹۷) جو شخص ان مقرر کے مہینوں میں حج کی نیت کرے‘ اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دَوران میں اُس سے کوئی شہوانی فعل‘ کوئی بدعملی‘ کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔

حج کے دوران میں آدمی کا سب سے بڑا امتحان اسی معاملے میں ہوتا ہے اور جو آدمی حج میں لڑائی جھگڑا کرتا ہے‘ دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے اور دوسروں سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر نہیں کرتا‘ وہ اپنے حج کے اجر کو بہت بڑی حد تک ضائع کر دیتا ہے۔

خوبیوں والا حج

اس کے آگے اگر کوئی شخص خوبیوں والا حج کرنا چاہتا ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ کا ذکر کرنے میں صَرف کرے۔ بیٹھا ہُوا فضول گپّیں نہ ہانکے۔ بے کار   قصہ گوئی نہ کرے۔ کسی کی برائی کرنا تو بڑی چیز ہے‘ محض دُنیاوی معاملات پر ہر وقت باتیں کرتے رہنا بھی حج کے اجر و ثواب کو کم کر دیتا ہے۔ اُونچے درجے کا خوبیوں والا حج اگر آپ کو مطلوب ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اوقات کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ کا ذکر کرنے میں‘ نمازیں پڑھنے میں‘ قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں‘ نیکی اور بھلائی کی باتیں کرنے میں‘ لوگوں کو اللہ کا دین سمجھانے میں اور ان کو منکرات اور فواحش سے روکنے میں صرف کریں۔ اگر آپ ان کاموں میں اپنے اوقات صرف کرتے ہوئے حج کریں گے تو ان شاء اللہ وہ حج خوبیوں والا حج ہوگا اور اس پر آپ بہت بڑے اجر کے مستحق ہو سکیں گے۔(خطباتِ حرم‘ ص ۳۷-۴۳)

(آخری قسط)

روزمرہ زندگی میں انسان کو جو بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں ان کو ہم بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مادی رکاوٹیں‘ اور دوسری نفسیاتی رکاوٹیں ۔

مادی رکاوٹوں کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی مشکل پڑ جائے‘ کوئی نقصان ہوجائے‘ کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو‘ اور کوئی لالچ بھی ہو سکتاہے۔ جب ہم رکاوٹ کا لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت ہوگی۔ کوئی بھی شے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ کسی بھی چیز کی کشش ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مادی رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق آدمی کے جسم وجان اور مال سے ہے۔

دوسری قسم کی رکاوٹیں نفسیاتی ہیں۔ ان کی جڑ آدمی کے اپنے اندر‘ اس کے نفس کے اندر اور اس کے دل و دماغ کے اندر ہوتی ہے۔ یہاں جو چیزیں اٹھتی ہیں وہ اس کو راستے سے ہٹاتی ہیں۔ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں‘ اس کو ترغیب دیتی ہیں‘ اس کے اندر خواہشات پیداکرتی ہیں اور وسوسہ ڈالتی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس طرح کی ہوسکتی ہیں کہ: ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا‘ جیب سے پیسہ نکالو گے تو تمھارے پاس کچھ نہیں بچے گا اور تم فقیر اور نادار ہو جائو گے‘ لہٰذا جیب مت کھولو۔   یہ سارے وسوسے جو اندر سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہ نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو فی الواقع اصل چیز وہی ہے جو آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے‘ لہٰذا    اصل رکاوٹیں نفسیاتی رکاوٹیں ہیں۔ مادی مصائب‘ مادی ترغیبات اور مادی رکاوٹوں کی بھی اصل جڑ آدمی کے نفس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر کسی کوڈھیر سامال مل جائے‘ اس کی نظر میں اس مال کی قیمت پتھر کے چند ریزوں سے زیادہ نہیں ہوگی‘ اگر اس کا نقطۂ نظر صحیح ہو۔ اگر اس کو موت کے منہ میں جانا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ موت نہیں ہے بلکہ یہ تو جنت او راللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے‘ تو موت کا خوف اس کے دل میں نہ رہے گا۔ بڑی سے بڑی چوٹ آدمی کو لگتی ہے مگر اپنے اندر کے حوصلے سے‘ اپنے اندر کی نفسیاتی کیفیات سے وہ اسے سہار جاتاہے۔ دوسری طرف ذرا سی مصیبت پڑتی ہے تو آدمی ہمت ہار دیتاہے اوررونا دھونا شروع کردیتاہے۔ اس کا تعلق مصیبت کی مقدار یا آزمایش کی نوعیت سے نہیں ہے کہ آدمی کو کس چیزکا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے ذہن سے ہے۔ دراصل طاقت کا سرچشمہ انسانی ذہن کے اندر پوشیدہ ہے۔

یہ انسانی سوچ اور جذبہ یا نفسیاتی کیفیت ہی ہے جو اسے دلیر‘ نڈر اور بے باک بنا دیتی ہے‘ یا خوف اور ڈر سے پست ہمت یا بزدل۔ ایک کیفیت کے تحت وہ بڑا طاقت ور بن جاتا ہے۔ ایک ایک سپاہی سو سو سپاہیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے‘ اگرچہ مادی و عسکری لحاظ سے وہ مقابلتاً کمزور ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس زیادہ مادی طاقت ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو اسے نڈر اور بے باک بنادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ احساس کہ ہمارے اوپر مصیبت پڑسکتی ہے‘ یہ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک فرد کی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ وہ بہت سے وسائل رکھنے کے باوجود اور بہت کچھ کرگزرنے کی صلاحیت کا متحمل ہونے کے باوجود‘ حوصلہ و ہمت ہار دیتاہے اور عملاً ناکامی وشکست سے دو چار ہوکر رہتاہے۔

خوف اور حزن

اگر غور کریں تو ہم ان تمام نفسیاتی کیفیات کا دو حوالوں سے جائزہ لے سکتے ہیں: ایک خوف اور دوسرا حزن۔

خوف کے معنی ہیں ڈر یا اندیشہ کہ کچھ ہو جائے گا‘ جو ملنے والا ہے وہ نہیں ملے گا‘ یا کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ناخوش گوار اور ناقابل برداشت ہو گی اور نقصان کا باعث ہوگی۔

حزن سے مراد اس بات کا غم کہ کچھ چھن گیا یا نقصان ہو گیا‘ کوئی ضرب پڑگئی‘ کوئی چیز ملنا چاہیے تھی نہ ملی اور جو چیز نہ ملنا چاہیے تھی وہ مل گئی۔ غم کی اس کیفیت کو حزن وملال کہا جاتاہے۔

دراصل نفس کے اندر کی یہ وہ کیفیات ہیں جن سے اصل رکاوٹیں پیداہوتی ہیں۔ اگر آدمی خوف اور اندیشوں پر پہلے سے قابو نہ پائے تو جن چیزوں کا خوف و اندیشہ اس کو لاحق رہتاہے وہ اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ خدشات کہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ ہوجائے گا‘ ایک چیز جو ہاتھ لگنے والی ہے اگر ہاتھ نہ لگی تو یہ بڑا نقصان ہو جائے گا‘ میری عزت کو‘ میری دولت کو‘ معاشرے میں میرے مقام ومرتبے کونقصان پہنچ سکتاہے ‘ سیاسی‘ مادی‘ مالی یا جو کچھ بھی حیثیت ہے‘ ہاتھ سے نکل جائے گی ___یہ خوف وخدشات جب آدمی کے اوپر طاری ہوتے ہیں‘ تو پھر بالآخر وہ ان کے ڈر سے ہتھیار ڈال دیتاہے۔

دوسرا پہلو غم اور حزن کا ہے‘ یعنی یہ کہ جو چیز حاصل تھی وہ ہاتھ سے نکل گئی‘ کوئی مرگیا یا مال کا نقصان ہوگیا‘ یاکسی نے عزت کے اوپر حملہ کردیا‘ گالی دے دی وغیرہ۔ جب کوئی نقصان ہوجاتاہے یا عزت تک ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آدمی کو اس کا غم ہوتاہے۔ غم ہو تو پھر غصہ بھی آتاہے۔ غم وغصہ کا لفظ تو ہماری زبان میں‘ اردو ادب میں استعمال ہوتاہے۔ جہاں غم پیدا ہوتا ہے وہاں غصہ بھی لازماً آتاہے‘ کہ یہ چیز کیوں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی‘ میری عزت پہ یہ حملہ کیوں ہو گیا‘ جو چیز مجھے ملنے والی تھی وہ کیوں کوئی چھین کے لے گیا۔ اس طرح ایک طرف تو غم ہوتاہے جو غصے کے اندر تبدیل ہو جاتاہے‘ اور پھر غصہ بالآخر اشتعال دلاتاہے اور اس اقدام پر مجبور کرتاہے جو صبر کے منافی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ نہ خوف اور اندیشے کا شکار ہوں گے اور نہ کسی غم کے اندر مبتلا ہوں گے۔   جنت کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ فَلا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنَوْنَo (البقرۃ ۲:۳۸)‘ یعنی جنت کی زندگی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہاں نہ مستقبل کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی چیز کے چھننے کا خدشہ ہوگا۔ کوئی مصیبت پڑنے کا خوف بھی دل کے اوپر طاری نہیں ہوگا‘ اور نہ کوئی چیز ہاتھ سے نکل جانے کا غم وغصہ ہو گا بلکہ اطمینان ہوگا کہ صحیح زندگی گزار آئے اور صلہ پالیا۔      کوئی حسرت نہیں ہوگی کہ یہ کام کیوں نہیں کیا او راگر یہ کرتے تو یہ پیش نہ آتا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو صبر کے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں‘ اور صبر کے راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اظہار بھی انھی دو باتوں سے ہوتاہے‘ یعنی خوف اور حزن۔

مختلف نفسیاتی کیفیات

اگر اس بات کو مزیدواضح کیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ جو نفسیاتی کیفیات انسان کے اوپر طاری ہوتی ہیں‘ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ یہ مسلمانوں کے اُوپر بھی طاری ہوا کرتی تھیں۔ ان کیفیات کو قرآن مجید نے کھول کر بیان کردیا ہے کہ اگر ہم ان میں سے ایک ایک چیز کو دیکھیں تو اس کے اندر ہمارے لیے سبق اور نصیحت کا بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے۔ میں جسمانی و مادی مصائب کا ذکر نہیں کر رہا‘ یعنی جو مار پیٹ ہوئی‘ جو جانیں دینا پڑیں‘ جو محنت کرناپڑی‘ اور جان و مال کا جو نقصان ہوا‘ اس لیے کہ اس کی جڑ بھی نفسیاتی رکاوٹوں کے اندر ہے۔ دراصل آدمی اپنے اندر سے اٹھے والی کیفیات اور جذبات کا شکار ہو جاتاہے۔ نبی کریمؐجو دعوت لے کر آئے‘ جو پیغام آپؐنے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا‘ یہ دعوت او ریہ پیغام آپؐ کے لیے اتنا کھلا‘ واضح اور روشن تھا کہ جیسے عام آدمی کے لیے دن میں آسمان پر چمکتا ہوا سورج ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ‘ آخرت‘ اور جنت و دوزخ‘ یہ ساری چیزیں ہماری نظروں سے محو ہیں لیکن نبیؐ کے لیے   یہ ساری چیزیں غیب سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔

نبی کو تو اللہ تعالیٰ براہ راست علم دیتاہے۔ جس طرح دن کی روشنی میں ایک عام آدمی دیکھ سکتاہے کہ سورج نکلاہوا ہے اور یہ اس کے لیے ایک کھلی حقیقت ہوتی ہے‘ یہی کیفیت نبی کی اللہ اور آخرت کے بارے میں ہوتی ہے۔ اب اگر آدمی دن کے اجالے میں کھڑا ہو کریہ کہے کہ لوگو‘ سورج نکلا ہوا ہے لیکن لوگ اس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں‘ اس کے برعکس اس کو ملامت کریں‘ طعنے دیں کہ تم اندھے ہوگئے ہو‘ تم پر جادو کر دیا گیا ہے‘ تم شاعری کر رہے ہو‘ تم پر جنون ہوگیا ہے‘ اسی لیے تمھیں رات کے وقت سورج نظر آرہا ہے‘ یا سورج نہیں نکلا ہوا اور تم کہہ رہے ہو کہ نکلا ہوا ہے۔ کسی نے تم کو چکمہ دے دیا ہے‘ یا باہر سے کوئی چیز تمھارے اوپر آگئی ہے‘ کوئی تمھارا استاد ہے جو تمھیں باتیں گھڑ گھڑ کر دیتا ہے وغیرہ۔ گویا نبی جو چیز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘    دنیا اس کو جھٹلانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس موقع پر انسان جن کیفیات سے دو چار ہوتاہے‘ یا گزرتاہے وہ نفسیاتی کیفیات کہلاتی ہیں۔

دعوت حق قبول نہ کرنے پر اضطراب

ایک نبی بھی اس نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہوتاہے۔نبی کے لیے سب سے پہلی آزمایش یہی ہوتی ہے کہ جس حق کی دعوت لے کر وہ اٹھا ہے اس کو جھٹلایا جائے۔ یہ جھٹلانا معمولی جھٹلانا نہیںہوتا۔ جو آدمی جانتا ہو کہ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں سچی اوربر حق ہے‘ مگر اسے جھٹلایا جاتاہے او رکہا جاتاہے کہ تم بے وقوف ہو‘ تم جھوٹے ہو‘ تم کو دھوکا ہوگیا ہے‘ تم پر کسی نے جادوکردیا ہے‘ اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے وہ شدید غم اور حزن کی کیفیت ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا غم ہوتا تھا کہ لوگ سچی بات کیوں نہیں مانتے‘ اور نہ صرف یہ کہ کھلی حقیقت کو جھٹلاتے ہیں بلکہ مذاق بھی اڑاتے ہیں اور طرح طرح سے اذیتیں پہنچاتے ہیں۔قرآن مجید نے اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے : لَا یَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ (یونس ۱۰:۶۵)’’ اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں‘‘۔

قرآن مجید میں کئی جگہ کہا گیا ہے: وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) ’’جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کرو‘‘۔ اس لیے کہ سب سے بڑا فتنہ اور آزمایش تو لوگوں کی باتیں ہی ہوتی ہیں۔ یہ باتیں جو لوگوں کی زبان سے نکلتی ہیں‘ خواہ لوگ کان میں آکر کہیں‘ مجلس میں   بیٹھ کر کہیں‘ کتابوں میں لکھ کر چھپوائیں یا اخبار میں شائع کریں‘ یہ بڑی سخت آزمایش ہوتی ہے۔ کوڑے کی مار‘ پتھرکی چوٹ اور ریت پر گھسیٹا جانا شاید اتنی سخت آزمایش نہ ہوتی ہوگی جتنی سخت آزمایش طنز‘ طعن و تشنیع اور مذاق و استہزا سے ہوتی ہے۔ یہ اندرونی چوٹ زخم کاری کی مانند    ہوتی ہے۔ اس کی زد آدمی کی عزت نفس‘ اس کی سچائی‘ اس کے کردار اور مقام ومرتبے پر بھی پڑتی ہے۔یہ جسمانی چوٹ سے زیادہ گہری چوٹ ہوتی ہے ۔ اسی پر قرآن نے کہا:

وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) جوکچھ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر  کرو۔

مایوسی و ناامیدی

اس غم اور حزن کو برداشت کرنا صبر ہے۔ اس سے آدمی مایوس بھی ہوتاہے۔ اس مایوسی کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے۔ جو آدمی بات نہ مانے‘ بار بار کہنے کے باوجود نہ مانے‘ ہر قسم کی دلیل سننے کے باوجود بھی نہ مانے‘ نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی تسلیم نہ کرے‘ او رپھر پہلی قوموں کا بھی ذکر ہوا ہے کہ برسوں دعوت کا کام ہو الیکن ان لوگوں نے مان کے نہیں دیا‘ تو پھر آدمی کے اوپر مایوسی طاری ہوتی ہے۔ مایوسی اندورنی کیفیت ہے اور غم کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے اور آدمی کے اوپر طاری ہوجاتی ہے۔ جب لوگ نہیں مانتے اور سچی بات کو جھٹلاتے ہیں تو آدمی کو اس سے دکھ ہوتا ہے جو مایوسی کا باعث بنتاہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حزن کا لفظ کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ اسی حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ مایوسی کا قرآن پاک نے بار بار علاج کیا اور اس کے لیے مختلف طرح سے تسلی دی اور حوصلہ دیا کہ اگر یہ لوگ نہیں مانتے ہیں تو یہ ان کی اپنی غلطی اور اپنا قصور ہے۔ آپؐ کا کام تو بس اتنا ہے کہ آپؐ لو گوں تک خدا کا پیغام پہنچا دیں۔ زبردستی منوانا آپؐ کا کام نہیں ہے۔ ہم نے آپؐ کو داروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہے اورنہ ان کے سرپر مسلط کیا ہے۔ ماننا یا نہ ماننا‘ ان کا اپنا اختیار ہے۔ آپ ؐ ان کے سامنے حق پیش کرتے رہیں‘ جو قبول کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے قبول کرے گا اور جو انکار کرے گا وہ اپنی آزاد مرضی سے انکار کرے گا۔ ان کا فیصلہ ہم نے آپ ؐ کے ہاتھ میں نہیں دیا ہے۔ اگر انھیں زبردستی مسلمان بنانا ہوتا تو کیا اللہ تعالیٰ کے پاس خود کم طاقت تھی۔ وہ یہ سب کام کیوں کرتا کہ نبیؐ کو بھیجتا‘ دعوت کا کام کرواتا‘ کتاب اتارتا‘ اس کے لیے تو وہ ایک کلمہ کن کہتا اور سارے لوگ ایک ہی راستے پر آجاتے: وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً (ھود۱۱:۱۱۸)’’ بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا‘‘۔سب اس کی بندگی کرتے‘ سب فرشتوں کی طرح ہو جاتے۔ لیکن فرشتے  تو پہلے سے موجود تھے۔ انسان کو تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے اختیار کے استعمال کی آزمایش ہو۔ وہ اپنے ارادے سے اور اپنے فیصلے سے راہ حق پر آئے۔ اس کے لازمی معنی ہیں کہ جو آدمی چاہے گا مانے گا اور جونہیں چاہے گا نہیں مانے گا۔ لہٰذا تمھیں مایوسی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس طرح قرآن مجید نے اس حقیقت کو باور کیا کہ اگر ایک داعی اس بات کو بخوبی جانتا ہو کہ اس کا کام تو احسن انداز میں لوگوں تک پہنچانا ہے اور اس کا ماننا نہ ماننا‘ قبول کرنا یا رد کرنا‘ لوگوں کا اپنا اختیار ہے‘ اور وہ اس بات کا مکلف نہیں کہ لازماً لوگ حق بات کو تسلیم کریں‘ تو پھر مایوسی کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔

عجلت پسندی

ایک کیفیت آدمی پر یہ طاری ہوتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معاملہ جلدی سے نپٹ جائے‘ جب کہ یہ جدو جہد ایک طویل جدوجہد ہے۔ یہ تو یقین ہوتا ہے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا اور اس کا دین غالب آئے گا۔ یہ اللہ کا اپنے رسولؐ سے بالکل حتمی و یقینی وعدہ ہے کہ تمھارا کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا‘ خواہ یہ تمھاری زندگی میں ہو یا موت کے بعد۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس دین کو ضرور غالب کرکے رہے گا۔ یہی وعدہ نبی کریمؐکے ساتھ تھا اور آپؐکی جانشین اُمت‘ مسلمانوں سے بھی ہے‘ لیکن آدمی کی طبیعت میں عجلت پسندی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر کام جلد سے جلد ہوجائے۔ کافروں کے بارے میں عذاب کی جو دھمکی ہے وہ بھی ذرا جلد آجائے‘ اور جس منزل کا وعدہ ہے کہ دین غالب ہوگا‘ وہ بھی جلدسر ہو جائے۔ بسا اوقات نبی کریمؐ بھی پریشان ہو کر اس طرح سوچنے لگتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جلدی مت کرو۔ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ (القلم ۶۸:۴۸) ’’اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو او رمچھلی والے کی طرح نہ ہو جائو۔ ‘‘ یہاں حضرت یونسؑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب ان کی قوم نے برسوں دعوت کے کام کے بعد مان کے نہیں دیا‘ تو وہ مایوس ہوگئے اور اسی جلد بازی کی وجہ سے بستی چھوڑ کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی طرح نہ ہوجائو بلکہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کے ساتھ دعوت کا کام کیے چلے جائو۔ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ (الاحقاف۴۶:۳۵) ’’پس اے نبیؐ ، صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیاہے‘ اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو‘‘۔

جلد بازی صبر کے منافی ہے۔ جلد بازی مایوسی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حزن سے مایوسی پیدا ہوتی ہے اور پھر مایوسی سے جلد بازی ۔اگر آدمی کو امید بندھی رہے کہ میرا کام ہو جائے گا اور ہو کر رہے گا اور اس کاوقت مقرر ہے تو پھر وہ اتنی جلد بازی نہیں کرے گا۔ جلد بازی آدمی تب کرتا ہے جب اس کو خود پر یقین نہ ہواورمایوسی ہو۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ یہ کام اس طرح تو نہیں ہوگا‘ کچھ اور کرنا چاہیے یاکوئی اور راہ نکالنی چاہیے۔ اسی کے نتیجے میں عجلت پسندی یا جلد بازی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  فَلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ ط (النحل ۱۶:۱) ’’ ان کے بارے میں جلد بازی نہ کرو‘‘۔ اس لیے کہ ہم نے معاملات کو اپنے ہاتھ میںرکھا ہے‘ تمھارے ہاتھ میں نہیں دیا۔

خدا کی مدد اور وعدوں پر شک

اسی حزن و غم کے نتیجے میں جو اگلی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ وہ وعدے بھی مشکوک نظر آنے لگتے ہیںجو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کیے ہیں۔ اللہ کے نبی تو اس کیفیت میں مبتلا نہیں ہو سکتے‘ لیکن یہ ضرور پکار اٹھتے ہیں: مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ (البقرۃ ۲:۲۱۴) ’’ اللہ کی مدد کب آئے گی‘‘؟ ان کو شک تو نہیں ہوتا لیکن اس بارے میں شبہہ ہو نے لگتا ہے کہ کبھی ہم منزل پر پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں۔ اس بارے میں ہدایت یہ ہے فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ (الروم۳۰:۲۰)‘یعنی صبر کرو‘ راہ خدا پر جمے رہو‘ او راللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ اس کا وعدہ باکل سچا ہے۔

انسان کے لیے آخری خطرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلا جائے‘اور مخالفین کے ساتھ ملنے کی کوشش کرے کہ وہ چھائے ہوئے ہیں‘ غالب ہیں‘ اور انھی کا سکہ چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نبیؐ کے بارے میں یہ خدشہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایسا کریں گے‘ مگر نبیؐ کومخاطب کرکے نبیؐ کے ماننے والوں کو ہدایت دینا مقصود ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا: فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِماً اَوْ کَفُوْرًا o (الدھر۷۶:۲۴) ’’تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو‘ اور ان میں سے کسی بدعمل یا منکرحق کی بات نہ مانو‘‘۔ گویا اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور اس کے لیے صبر کرو۔ یہاں انتظار کا لفظ استعمال نہیں ہوا‘ میں نے ترجمہ کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔ اس کام میں لگے رہو اور جو غلط کاروں کا گروہ ہے‘ ان کے ساتھ ملنے کا مت سوچو۔ یہ کسی بے صبری کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور اس طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ چیز صبر کے منافی ہے۔

خوف اور حزن کاعلاج

اگر غور کیا جائے تو یہ سب نفسیاتی کیفیات حزن سے پیدا ہو رہی ہیں۔ ایک چیز جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ نہ ہو‘ مگر ہو جاتی ہے تو ہمیں اس کاغم ہوتاہے۔ اسی طرح جو چیز ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہو جائے اور نہ ہو تو ہمیں اس کا غم ہوتاہے۔ اس غم سے مایوسی‘ کم حوصلگی اورپست ہمتی اور بہت ساری کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ جلد بازی اور بے یقینی کی ساری کیفیات بھی اسی سے پیدا ہوتی ہیں۔ ہر ایک کے علاج کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے ‘ کہ اِصْبِرُوْا‘ اِصْبِرُوْا ،  یعنی صبرکرو اور اپنے کام پر جمے رہو اور صبر سے مدد چاہو‘ اپنے آپ کو اس سے باندھ کر رکھو‘ اپنے آپ کو ایک مقام پر روکے رکھو۔ اس لیے کہ یہی ان چیزوں کا علاج ہے۔

دوسری کیفیت خوف کی ہے۔ اس بات کا خوف کہ کل نہ جانے کیا ہو جائے۔ اسی طرح جان کا خوف ہوتاہے‘ مال کے ضائع ہونے کا خوف ہوتاہے‘ اور دنیا کے اندر جو عزت اوروقار ہے اس کے چھن جانے کا خوف بھی ہو سکتاہے۔ یہ تمام خوف اور اندیشے انسان کے اوپر حاوی ہیں۔ زندگی آدھی تو حسرت کی نذر ہو جاتی ہے کہ کیا نہیں ہو سکا‘ اور آدھی خوف کی نذر ہوجاتی ہے کہ نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ اس کا علاج بھی صبر ہے۔ چناں چہ جہاں اللہ تعالیٰ نے ابتلا و آزمایش کا ذکر کیا‘ وہاں سب سے پہلے خوف کا ذکر کیا ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیئٍ مِّنَ الْخَوْفِ (البقرۃ  ۲:۱۵۵)۔ اسی طرح دشمن کے حملہ آور ہو جانے اور مسلط ہو جانے کا خوف ہوتاہے۔ دیگر ہزاروں اندیشے اور خطرات ہوتے ہیں جو آدمی پر طاری ہوتے ہیں۔ وہ لرزتا ہے‘ کانپتاہے اور ڈرتا رہتاہے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے‘ رشتہ دار ساتھ چھوڑ دیں گے‘ دوست ساتھ نہ دیں گے‘ اور پتا نہیں کیا کیا نقصان ہو جائے۔ فرمایا کہ اس خوف سے ہم آزمائیں گے۔ اس خوف کا علاج بھی صبر ہے۔ خوف کے مقابلے میں جمے رہنا اور پیچھے نہ ہٹنا بھی صبر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دین کے راستے پر جمنے اور ہر طرح کی قربانی دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ کو باپ کے ذریعے حکم ملا کہ تمھاری جان مطلوب ہے تو انھوں نے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۰۲) ’’اس نے کہا ‘ ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیاجار ہا ہے اسے کرڈالیے‘ آپ ان شا ء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ یہ صبر عام قسم کا نہیں تھا بلکہ بڑے عزم اور حوصلے کا صبر تھا کہ میری جان حاضر ہے۔ اس کے لیے تیار ہوں۔ یہ اللہ پر توکل تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دین کے دوسرے احکام نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد سب کے ساتھ صبر کا ذکر کیا ہے۔ کیوں کہ صبر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم پر عمل نہیں ہو سکتا۔

مخالفت پر رویہ

دعوت کی راہ میں بہت سی مخالفتوں سے سابقہ پڑتاہے۔ جو چیزیں سہی اور برداشت کی جاتی ہیں‘ ان پر آدمی کو صدمہ اور غم ہوتاہے۔ اس میں مخالفین کے ساتھ روش کے حوالے سے بھی صبرکی تاکید ہے۔ صبر کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو عموماً نگاہوں سے محو ہو جاتے ہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم پر کوئی سختی کرے‘ کوئی نقصان پہنچائے‘ تو تمھیں بھی اس کی اجازت ہے کہ جتنا اور جس  طرح تم کو نقصان پہنچایا گیاہے‘ تم بھی اس کو پہنچائو لیکن اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا:

وَلَئِنْ صَبَرْ تُمْ لَھُوَ خَیْرٌّ لِّلصّٰبِرِیْنَ o (النحل۱۶:۱۲۶)

لیکن اگر تم صبرکرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہترہے۔

وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشورٰی ۴۲:۴۳)

البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور در گزر کرے، تویہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔

جہاں اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفات بیان کی ہیں‘ ان کے لیے جنت کا وعدہ کیا ہے جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں‘ وہاں اس نے جن صفات کا ذکر کیا وہ یہ ہیں:

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۳۴) جو ہرحال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال‘ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔

خرچ کرنے کے لیے بھی حوصلے اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک پہلو ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ خوبیاں ہیں کہ برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔ برائی کا جواب بھلائی سے دو۔ ایک جگہ ان لوگوں کا جو اللہ کی جنت میں جائیں گے یوں ذکر کیا : وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ ربِّھِمْ وَ اَقَامُوالصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزقْنٰھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً وََّیَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ (الرعد۱۳:۲۲) ’’ان کا حال یہ ہوتاہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں‘‘۔ ایک دوسری جگہ فرمایا: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ج وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوحَظٍّ عَظِیْمٍo (حٓم السجدۃ ۴۱:۳۴-۳۵) ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں‘ اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔گویا اخلاق کے اعلیٰ مقام تک وہی پہنچتے ہیں جو برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیتے ہیں۔ برائی کو تو وہی چیز مٹاسکتی ہے جو بھلی اور اچھی ہو۔

جسمانی مصائب اور موت کا خوف

یہ وہ مختلف نفسیاتی کیفیات ہیں جو صبر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس کے بعد پھر جسمانی مصائب اور جسمانی تکالیف ہیں۔ اگر اس حوالے سے بھی آدمی کا تصور واضح ہو تو وہ ہر طرح کے ظلم و جبر کو برداشت کرسکتاہے‘ حتیٰ کہ جان بھی دینا پڑے تو بے خوف جان دے گا۔ جب یہ بات واضح ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے‘ لہٰذا موت کوئی ڈرنے کی چیز نہیں ہے۔ اس چیز سے کیا ڈرنا جس کا نہ تو وقت معلوم ہو‘ نہ جسے روکا جا سکتا ہو‘ نہ اس سے بچا جا سکتاہو‘ نہ اس کو ٹالا جا سکتاہو اور نہ اس سے چھپ کر کہیں جایا جا سکتا ہو‘ اور نہ ایک گھڑی آگے کی جاسکتی ہو اور نہ پیچھے۔ بہت بے وقوفی ہے کہ آدمی اس سے ڈرے۔ ڈرنا تو اس چیز سے چاہیے کہ جو اس کے بعد پیش آنے والی ہے‘ جسے ٹالا جاسکتا ہے‘ جس سے بچا جا سکتاہے اور کچھ کرکے اس پر قابو پایا جا سکتاہے‘ یعنی آخرت۔ لہٰذا جس کو یہ معلوم ہو کہ موت کا وقت مقرر ہے تو پھر اس کو کبھی بھی موت کا خوف لاحق نہیں ہو سکتا۔

حضرت علیؓ کا مشہور قول ہے کہ دد دن ایسے ہیں کہ جب میں موت سے نہیں ڈرتا۔ ایک دن تو وہ ہے کہ جس روز موت کو نہیں آنا۔ اس دن موت سے ڈرنے کی کیا ضرورت‘ اس لیے کہ اس روز تو اس کو نہیں آنا۔ دوسرا دن وہ ہے جس دن موت کو آنا ہے۔ اس دن بھی موت سے کیا ڈرنا کہ اس دن ڈرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انھوں نے بڑے خوب صورت انداز میں یہ بات کہی ہے کہ یا تو آج کے دن موت کو آنا ہے‘ یا آج کے دن موت کو نہیں آنا۔ اگر آج کے دن موت کو آنا ہے تو ٹل نہیں سکتی‘ لہٰذا ڈرنے سے کچھ حاصل نہیں۔ اگرموت کو اس روز نہیں آنا تو خواہ مخواہ آدمی کیوں ڈرے‘ ۔ یہ تصور موت سے بے خوف کردیتاہے اور آدمی کے اندر صبروہمت پیدا کردیتاہے۔ پھر وہ عزم اور حوصلے کے ساتھ جما رہتاہے۔

صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ میں نے ان میں سے صرف چند پہلو سامنے رکھے ہیں۔ قرآن مجید اسے کہیں صبر کے نام سے اور کہیں نام لیے بغیر صبرکے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتاہے۔ کہیں اپنے نبی ؐ سے خطاب کرتاہے تو اس میں کوئی نہ کوئی صبر کا سامان ہوتا ہے اور کسی نہ کسی خزانے کا منہ کھولتاہے‘ جہاں سے دعوت کا کام کرنے والا صبر کاخزانہ حاصل کرتاہے۔ کوئی چشمہ ایسا بہتا ہے کہ جہاں سے کوئی فیض ملے۔ نبی کریمؐ اور آپؐ کے ساتھی جس طرح اپنے مقام پر ‘ اپنے موقف پر‘ اپنے کام اور اپنے مقصد کے اوپر جمے رہے‘ وہ اسی صبر کا نتیجہ تھا اور بالآخر ساری دنیا کے وارث بن گئے۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے صرف فلسطین عطا کیا تھا‘ لیکن حضوؐر کی امت کو اللہ تعالیٰ نے مشرق سے لے کر مغرب تک‘ شمال سے لے کر جنوب تک پوری دنیا صبر کی وجہ سے عطا کردی۔   یہ صبر کا نتیجہ تھا اور وہ صبر کے مقابلے میں کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

صبر اور ذرائع قوت

صبر کا سرچشمہ دراصل یہ احساس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر چیز قائم ہے‘ اور ہم ہر وقت اللہ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔اسی لیے قرآن مجید میں سورۂ مدثر میں سورۂ اقرأ کے بعد دوسری یا تیسری وحی میںیہی ہدایت فرمائی : وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر۷۴:۷) ’’اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘۔ گویا اپنے رب کی خاطر اور اپنے رب کے لیے جم جائو‘ اور یہ سمجھو کہ میں اپنے رب کے لیے کام کر رہا ہوں‘ رب کا کام کر رہا ہوں اور رب کی راہ میں ہوں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں۔ قرآن پاک نے اس طرح بار بار صبر کی تلقین کی ہے۔ ایک مقام پر فرمایا:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o (الطور۵۲:۴۸) اے نبیؐ،اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو‘ تم ہماری نگاہ میں ہو۔ تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔

حضرت موسٰی ؑ کو جب فرعون کے دربار میں بھیجا تو انھوں نے کہا کہ ہم فرعون کے دربار میں جائیں گے لیکن میرے اوپر خون کا دعویٰ بھی ہے اور مجھے ڈر اور خوف بھی ہے۔ اس پر فرمایا : اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۶) ’’ڈرو مت ‘ میں تمھارے ساتھ ہوں‘ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہاہوں‘‘۔ گویا تم جس حال میں بھی ہوگے‘ میں سن بھی رہا ہوں گا اور دیکھ بھی رہا ہوں گا۔

دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات صبر کا سرچشمہ ہے۔ جب آدمی کو یقین ہو جائے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے‘ کوئی چیز بھی میری اپنی نہیں ہے۔ یہ دین بھی میرا اپنا نہیں ہے۔ لوگوں کو دین کی راہ پر لانا‘ ان کے دلوں کو حق کی طرف موڑنا‘یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ اگر وہ  چاہے گا تو ہو گا‘ اور اگر نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ۲:۱۵۶) ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ ‘ میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ دراصل وہ چھوٹاسا کلمہ ہے جس کے اندر صبر کی ساری دنیا پنہاں ہے۔ اسی لیے حادثے اور صدمے پر اسی کو پڑھا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جس سے آدمی صبر حاصل کرسکتاہے۔ گویا کوئی چیز میری اپنی نہیں ہے‘ اللہ کی ہے۔ سب چیزوں کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اس کا انجام وہیں پر ہونا ہے۔

اسی طرح نماز کو صبر کے ساتھ اس لیے جوڑا گیا ہے کہ نماز میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ کے الفاظ ہیں‘ وَاسْتَعِینُوْا بِاللّٰہِ ،’’اللہ سے مدد مانگو‘‘۔ اور وہی الفاظ پھر ہیں کہ یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ کہ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد مانگو۔ صبر کا لفظ انھوں نے خود کہا۔ اللہ کی مدد کے لیے صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے۔ اس لیے کہ صلوٰۃ تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا نام ہے۔ اللہ کے سامنے حاضر ہونے ‘ اللہ سے بات چیت اور اللہ سے قرب کا نام ہے۔ سجدہ کرتے وقت آدمی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتاہے۔ جب اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتاہے تو اس کے دربار میںحاضر ہوجاتاہے۔ اسی لیے تو نماز اللہ کی یاد اور اللہ کے قرب کا نام ہے‘ نیز نماز صبر کا سامان فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے:

اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ ۲:۱۵۳) صبراور نماز سے مدد لو۔

فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغَرُوْبِ o وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ o (قٓ۵۰:۳۹-۴۰) پس اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔ طلوع آفتاب اورغروب آفتاب سے پہلے اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔

وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاًo وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلاً طَوِیْلاًo (الدھر ۷۶:۲۵-۲۶) اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو‘ رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو‘ اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو۔

جہاں بھی صبر کا ذکر آئے گا وہاں سے کسی نہ کسی پہلو سے اللہ کا‘ اس کی حمد کا اور نماز کا ذکر آئے گا۔ اس لیے کہ صبر کی پوری استعداد اسی تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ جتنا یہ تعلق مضبوط ہوگا‘ یقین مضبوط ہوگا‘ اتنا ہی آدمی بے خوف اور اللہ سے ملاقات کا شائق ہوگا۔ کوئی چیز جو اللہ کی ہے اگر اس نے لے لی‘ تو اس پر کوئی گلہ نہیں ہوگا‘ کوئی صدمہ نہیں ہوگا۔ اللہ کی عزت اس کی عزت ہے‘اور اس کی عزت اللہ کی عزت ہے۔ اسی کی خاطر وہ جما رہے گا۔ لہٰذا اس کو کسی بات کا صدمہ نہیں ہوسکتا۔ بڑے سے بڑا صدمہ تو جان کے ضیاع کا ہوتاہے‘ اگر جان کا ضیاع بھی ہو جائے تو یہ ہمارے ہاں بہت معروف ہے اور کہا جاتا ہے: لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلِلّٰہِ مَاعَطَا ‘ جو لے لیا وہ بھی اسی کا تھا‘ جو دیا ہے وہ بھی اللہ کا ہے۔ کوئی چیز ہماری نہیں ہے‘ سب کچھ اسی کا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اس کی بھر پور عکاسی کرتاہے۔ گویا سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے‘ سب اسی کی ملکیت ہے‘ ہمارے پاس تو ایک امانت ہے۔

جب نماز سے اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ ہوتی ہے‘ اللہ کی یاد دل میں بستی ہے‘ ڈیرے ڈالتی ہے‘ تو پھر صبر پیدا ہوتاہے۔ اللہ کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نماز کو خشوع کے ساتھ پڑھنے کے لیے بڑے صبر کی ضرورت ہے۔ اس لیے بھی دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ نماز ٹھیک ہو تو صبر پیدا ہوتاہے‘ اور نماز ٹھیک سے پڑھنے کے لیے صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہزاروں خیالات آتے ہیں‘ ہزاروں وسوسے پریشان کرتے ہیں‘ ان کے اوپر قابو پانا اور ان کے مقابلے میں اللہ کو یاد رکھنا‘ اس کے لیے بڑے ضبط اور بڑے صبرکی ضرورت ہے۔ حصول صبر کے لیے ایک جامع نسخہ ذیل کی آیات میں بیان کیا گیاہے:

وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰـقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرۃ ۲:۴۵-۴۶) صبر اور نماز سے مدد لو‘ بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے‘ مگر ان فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

گویا صبر اور نماز سے مدد مانگی جائے اور یہ مدد مانگنا بڑا مشکل ہے‘ سوائے ان کے جو خشوع کی کیفیت رکھتے ہیں‘ جن کے دل اللہ کے آگے پست ہیں‘ یا جن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھل جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں‘ جن کو اس کا دھڑکا لگا رہتاہے‘ کہ اللہ سے ملاقات کرنی ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ، یعنی ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ کے اندر پورے صبر کا نسخہ آگیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس اعلیٰ اخلاقی مقام پر پہنچائے‘ اور اس کو حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)

۱۱ ستمبر کی ستم کاریوں کی کوئی انتہانہیں ہے‘ اور امریکا کی موجودہ قیادت اقتدار اور قوت کے نشے میں عالمی قانون اور روایات‘ اور اخلاق اور تہذیب کے تمام مسلّمہ ضابطوں کو پارہ پارہ کرکے دنیا میں ظلم‘ تشدد اور دہشت گردی کا ایک طوفان برپاکر رہی ہے لیکن اس کا ایک نہایت مکروہ اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی کی کسی متعین تعریف سے مکمل صرف نظر کرکے دنیا کو ایک نہ ختم ہونے والے تصادم، بے یقینی اور قتل وغارت گری کی جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے اورہر اختلاف، اور ظلم، ناانصافی اور سامراجی تسلط کے خلاف احتجاج، آزادی اور حقوق کی ہر جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کا گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے۔

وہ کارروائیاں جنھیں دہشت گردی کی معروف تعریف کے تحت دہشت گردی قرار دیا جاسکے وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں اور ان کے لیے جواز تلاش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی تاریخ پیدایش ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء نہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح کے غلط استعمال کی مذمت کے ساتھ اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ یہ کوئی نیا عمل نہیں ہے۔

ایک افسوس ناک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تاریخ کے تمام ادوار میں اور عملاً دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں دہشت گردی یا ایسی ارادی اور مبنی برتشدد کارروائیاں جن کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں۔ دہشت گردی کا یہ عمل کسی معاشرے‘ تہذیب‘ مذہب‘ یا سیاسی امتیاز‘اور یا پھرکسی قدیم تاریخی‘ وسطی یا جدید عہد کے ساتھ بطور خاص وابستہ نہیں ہے اور نہ دہشت گردی کے فعل کی کوئی واحد‘ متعین اور یکساں صورت و شکل ہی ہے بلکہ دہشت گردی کے اظہار کے متعدد طریقے اوراسالیب ہیں۔ اسی طرح خودکش اقدام بھی کوئی     نئی ایجاد نہیں ہے۔ بہرحال‘ یہی وجہ ہے کہ میری نگاہ میں دہشت گردی (Terrorism) واحد صیغے میں نہیں بلکہ جمع کے صیغے میں یعنی بہ الفاظ صحیح تر ’دہشت گردانہ کارروائیاں‘ (Terrorisms) کا استعمال ضروری ہے۔

ایسی ٹھوس تاریخی شہادتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا یہ عمل اور فعل ایک امر واقعہ کے طور پر ایک حقیقت رہا ہے اور پھر اس کی مختلف اشکال اور احوال بھی موجود رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی الم نشرح کرنا ضروری ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کی تاریخی حیثیت و اہمیت کم از کم یورپ میں قرون وسطیٰ کی ہولی رومن ایمپائر کی ابتدا سے منسلک ہے۔۱؎

لہٰذا ‘ محض القاعدہ کو دہشت گردی کی علامت کے طورپر پیش کرنا اور دہشت گردی کی پوری تاریخ اور اس کے تمام انواع و اقسام کو نظرانداز کرنا تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح‘ ایک وسیع تر سیاسی حقیقت ہے جس کی موجودگی تمام ادوار اور تمام ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر دہشت گردی کو کسی ایک ہی مرتکب کے بارے میں ہمہ وقت سوچا اور استعمال کیا جائے تو ہرقسم کے تصور‘ تجزیہ‘ تشخیص اور علاج کی پوری تصویر ہی مغالطہ آمیز ہوجاتی ہے۔ اگر ہم محض اپنی پسند کے امیدوار کے بارے میں نہیں‘ بلکہ دہشت گردی کے پیچیدہ اور مختلف الجہت عمل کے متعلق واقعی کچھ جاننے کے خواہاں ہیں تو پھر ضروری ہے کہ اس کے وسیع پس منظر کو زیرغور لا کر اس کے مفہوم اور تقاضوں کا صحیح ادراک کیا جاسکے۔

۲-            اگرچہ دہشت گردی‘ ایک خوفناک حقیقت ہے لیکن مجموعی طور پر اس کا تصور نہایت ہی مبہم اور دھندلا ہے۔ Dictionary of International Affairs پینگوئن ۱۹۹۸ء (’لغت براے بین الاقوامی معاملات‘) میں اس صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

’دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کوئی معاہدہ اس لیے طے نہیں پاسکا کہ سیاسی ترجیحات کے باعث اس کی تعریف مسائل کا شکار رہی۔ اگر ایک نقطہ نگاہ کے مطابق ایک شخص ’دہشت گرد‘ ہے تو دوسرے نقطۂ نگاہ کے مطابق یہ شخص ’آزادی کی خاطر لڑنے والا‘ ہے، اور یہی وجہ ہے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس عمل کا احاطہ نہیں کیا جاسکا ہے۔

شمڈ نے اس اصطلاح کی ایک سو سے زائد مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔۲؎

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ابھی تک اس اصطلاح کی کوئی متفقہ تعریف متعین نہیں کرسکی۔ ایک عمومی متفقہ رائے کے مطابق: ’’مخصوص سیاسی مقاصد اور مفادات کے حصول کی خاطر بے گناہ اور معصوم شہریوں اور دیگر غیرمتعلقہ افراد کے خلاف دانستہ پُرتشدد کارروائی ’دہشت گردی‘ کہلاتی ہے‘‘۔

جب سیاسی تنازعات کا پُرامن حل سامنے نہیں آتا اور لوگوں کو ظلم و ستم‘ غاصبانہ تسلط یا جارحیت کے خلاف جدوجہد پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو ان حالات میں مزاحمتی تحریک پُرتشدد کارروائیوں کی طرف جانے پر مجبور ہوتی ہے اور اس جہت کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرملکی تسلط کے خلاف محکوم عوام کی جدوجہد‘ خواہ اس میں تشدد کا عنصر شامل ہو‘ کو کسی بھی متفقہ دستاویز کے ذریعے‘ دہشت گردی سے منسلک نہیں کیا جا سکا بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کثرت رائے سے اور غیر جانبدار تحریک کے اعلانات میں متفقہ طور پر یہ استثنیٰ کھلے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔

’ریاستی دہشت گردی‘ کا معاملہ بھی ابھی تک بظاہر وجۂ تنازع ہے۔ یہ امر ناقابلِ فہم ہے کہ اس دہشت گردی کو صرف انفرادی اور گروہی رویوں اور اقدامات تک ہی محدود کردیا جائے اور دیگر اقوام اور حکومتوں کے اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف ریاست کی مطلق العنان طاقت کا استعمال اس میں شامل نہ کیا جائے۔اس مسلمّہ اصول کا اعادہ ضروری ہے کہ ریاست کی طرف سے طاقت کے استعمال کا اختیار ان کارروائیوں کی قانونی حیثیت سے مشروط ہے‘ لہٰذا فطری طور پر‘ ریاستی دہشت گردی کو ’دہشت گردی‘ کے کسی بھی ممکنہ تصور سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ جب ایک غیرملکی طاقت کسی ملک پر غاصبانہ تسلط جما لیتی ہے تو ان حالات میں محکوم افراد کی حق خود ارادیت اور حق آزادی کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کی قانونی حیثیت کو کسی بھی صورت میں سیاسی تشدد کی دیگر اقسام کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان حالات میں ریاستی حکام کی طرف سے مسلح افواج کا استعمال دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ریاست کی جانب سے  اس کے اپنے عوام کے خلاف ’جنگی جرائم‘ یا ’نسل کشی کے اقدامات‘ اور یا پھر شہروں اور دیہاتوں پر بم باری‘ا جتماعی سزا اور مخصوص شخصیات کی ہلاکت اور قاتلانہ حملوں پر مشتمل ‘ شہریوں پر بلاامتیاز تشدد کو کسی طرح بھی ریاستی طاقت کا جائز اور قانونی استعمال قرار نہیں دیا جاسکتا اور نتیجتاً اس ریاستی دہشت گردی کو دہشت گردی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح ایک ملک یا قوم کا دیگر ممالک اور اقوام کے خلاف جارحیت (وہ اقدامات جو اقوام متحدہ کے منشورکے مطابق نہیں ہیں) کو بھی دہشت گرد کارروائیوں کے زمرے میں لازمی طور پر شامل کرنا چاہیے۔  نیور مبرگ ٹرائلز (Nuremberg Trials) کے وضع کردہ اصول اور اقوام متحدہ کے منشور کے احترام کے ذریعے ہی ریاست کے قانونی اور جائز رویے کا ثبوت ملتاہے۔ اقوام متحدہ کے ایک پینل نے ۲۰۰۴ء میں اقوام متحدہ کے منشور کی شق نمبر ۵۱ کی غیرضروری مزید تشریح کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

شق ۵۱ کے طویل عرصے سے سمجھے جانے والے مفہوم میں نہ کسی توسیع کی ضرورت ہے‘ نہ کسی تحدید کی … جس پر وہ قائم ہے‘ یک طرفہ من مانے اقدامات کی‘ اجتماعی طور پر اٹھائے جانے والے جائز اور متفقہ اقدامات کے مقابلے میں‘ قانونی حیثیت تسلیم کی جائے۔تو اس دنیا میں‘ جو ممکنہ خطرات سے ہر وقت گھری ہوئی ہے‘ عالمی نظام اور اصول عدمِ مداخلت کو خدشات لاحق ہو جائیں گے۔ کسی ایک فرد یا افراد کو اس قسم کے فعل کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کسی کو ان کاموں کی کھلی چھٹی حاصل ہو گی۔

نیورمبرگ ٹریبونل (Nuremberg Tribunal) نے واضح الفاظ میں ’جارحیت‘ کی یوں تعریف کی:

ایک انتہائی وسیع پیمانے پر کیا جانے والا عالم گیر جرم، ’جنگی جرم‘ سے اس بنا پر مختلف ہے کہ اس میں بدی کی تمام قوتوں کی مشترکہ خواہش شامل ہوتی ہے۔

اس ٹریبونل میں امریکا کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل رابرٹ جیکس (Robert Jackson) نے جو‘ اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں جج ہے‘ اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا:

کسی معاہدے کی خلاف ورزی جرم ہے‘ اور یہ فعل ہر حال میں ’جرم‘ ہی کہلائے گا خواہ اس کا مرتکب امریکا ہو یا جرمنی۔ ہم دوسروں کے لیے مجرمانہ طرزِعمل کے لیے کوئی اصول طے کرنے کے لیے تیار نہیں جس کا نفاذ ہم خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس پس منظر کی بنیاد پر ہم مدعا علیہان کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں‘ اسی پس منظر کی بنیاد پر تاریخ کل ہمارے متعلق فیصلہ کرے گی۔ اگر ہم ان مدعاعلیہان کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کریں گے تو پھر کسی وقت ہمیں بھی اس زہر کے پیالے سے ایک گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔۳؎

نیورمبرگ ٹریبونل کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق ریاستی حکام کے لیے یہ انتہائی لازمی اور ضروری ہے کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم‘ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور دیگر ممالک کے خلاف جارحیت سے گریز اور اجتناب کریں۔ یہ وہ اصول ہیں جن کی اہمیت و افادیت اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت‘ وسط بیسویں صدی کی نسبت‘ آج بہت زیادہ ہے۔ دہشت گردی کے عمل کو کسی ایک فرد یا گروہ کی کارروائیوں تک محدود نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں کو بھی اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔

۳- تاریخ سے یہ سبق حاصل کرنا بھی مشکل نہیں ہے کہ دہشت گردی کا عمل محدود مدت کے لیے ہوتا ہے۔ تمام ادوار اور تمام علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں لیکن یہ عمل حالات کے بدلنے اور تصادم کے اسباب کے ختم ہوجانے کے بعد آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا عمل محدود بھی رکھا جا سکتا ہے اوراس کی روک تھام بھی کی جاسکتی ہے لیکن یہ محض قوت کے بے محابا استعمال سے ممکن نہیں، بلکہ دہشت گردی کی ہر مختلف نوعیت کو اس کے سماجی اور تاریخی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اس کو محدود کرنے‘ اس کی روک تھام کرنے یا اس کو ختم کرنے کے لیے مناسب اور بہتر تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ اکثروبیش تر‘ جب معاشرے میں بحرانوں کو دُور کرنے اور تنازعات حل کرنے کے سیاسی اور افہام و تفہیم کے عمل میں ناکامی ہوتی ہے تو بالآخر دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انتقامی رویہ اور محض قوت کے ذریعے اسے ختم کرنے کی حکمت عملی زیادہ کارگر نہیں ہوسکتی ‘ بلکہ حقیقتاً ‘ اس کے نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود‘ دہشت گردی کا یہ مسئلہ صرف اور صرف مؤثر‘ سیاسی اور کم سے کم نقصانات کی حامل تدابیر کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے، جس میں اصل اہمیت تشدد کے اسباب کو دور کرنے کو دی جائے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے انتقامی جذبے قتل و غارت‘ طاقت کے غرور اور یک طرفہ طرزعمل پر مبنی طریقوں کے ذریعے ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بلکہ بعض اوقات تویہ اقدام معکوس نتائج دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دانش ور‘ تجزیہ نگار اور منصوبہ ساز ادارے امریکا کی طرف سے شروع کی گئی موجودہ عالم گیر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں‘ جو ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد شروع کی گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حساب لگایا جائے کہ اس حکمت عملی کے ذریعے کیا کچھ حاصل ہوا اور اس کے لیے امریکا اور دنیا کی دیگر اقوام کو کیا قیمت اداکرنی پڑی۔ اگر اس جنگ کے پانچ سال ہو جانے پر یہ جو تبصرے عالمی پریس میں آتے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو ۹۰ فی صدی تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کے نتیجے کے طورپر دنیا کے لیے زیادہ غیر محفوظ، تشدد کے استعمال میں غیرمعمولی اضافہ اور انسانی جان اور مال کے زیاں میں محیرالعقول اضافہ ہوا ہے یعنی ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے میں   جان بحق ہونے والے ۳ہزار افرادکے مقابلے میں ان پانچ سالوں میں ردعمل میں کی جانے والی جنگ میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ انسان موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں اور ابھی اس تباہی کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔

ایک فرانسیسی دانش ور ایمینیول ٹاڈ (Emmanuel Todd)کے دل چسپ تبصرے پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے جو ۲۰۰۴ء میں میڈرڈ سانحے کے بعد اسپین کی پالیسی میں تبدیلی کے تناظر میں کیا گیا: ’’میں اپنی بات ایک خوش گوار نکتے پر ختم کروں گا۔ اسپینی افواج کا عراق سے انخلا امید کا پیغام ہے۔ بش کی جنگی مہم کا نتیجہ یہ نکل سکتا تھا‘ یا یہ نکلنا مقصود تھا کہ تشدد کا مسلسل بڑھتا ہوا اور پھیلتا ہوا منحوس چکر شروع ہوجائے۔ اگر اسپینی‘ اطالوی‘ جاپانی‘ برطانوی اور دیگر اقوام پر ایک بار بھی حملہ ہو‘ تو ان کی آبادیاں نہ ختم ہونے والی جنگ کی منطق کے آگے شکست تسلیم کرلیں گی۔ جب حملہ آوروں نے ۱۱مارچ ۲۰۰۴ء کو میڈرڈ پر حملہ کیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسپینی عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔ اسپینی عوام عظیم جھوٹ کو تسلیم کرسکتے تھے‘ یعنی یہ تصور کہ عراق پر حملے کا مقصد دراصل دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔ اسپین کا دہشت گردی کے خلاف ردعمل نسلی تعصب پر مبنی نفرت کی ایک لہر اور امریکا کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات بھی ہوسکتا تھا۔ جنگ کے ابتدائی سبب کو بھول جانا (خاص طور پر‘ سبب نہ ہونے کی موجودہ صورت میں)‘ اور قدیم جنگوں کی طرح کے منحوس چکر میں پھنس جانا بہت آسان ہوتا ہے۔ غالباً پہلی جنگ عظیم اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ قومی مفادات کے حصول کے لیے معقول کوشش سے آگے بڑھی لیکن جلد ہی یہ ایک بے مقصد خونی غسل میں تبدیل ہوگئی۔ مغربی اقوام سب کچھ کھونے کے بعد بھی برسوں جنگ لڑتی رہیں۔ اسپین میں اس کے برعکس ہوا۔ اسپینی ووٹرز نے اپنے وزیراعظم ازنار (Aznar) سے نجات حاصل کی۔ زیپٹیرو (Zapatero) نے عراق سے اسپینی افواج واپس بلالیں۔ بڑھتا ہوا تشدد‘جس کی بہت سے لوگوں کو توقع تھی‘ اور کچھ اس کی امید لگائے بیٹھے تھے‘ اس کا چکر توڑنے کے لیے اسپین کا یہ قدم شاید کافی ہو‘ اور غالباً ہم اسپین کے عوام کے اس سے زیادہ رہینِ منت ہیں جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں‘ بش کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو ان کا ووٹ‘ ان کا فیصلہ یقینا نیکی کی بدی پر فتح ہے‘‘۔ (After the Empire: The Breakdown of the American Order, Emmanuel Todd, Constable and Robinson, U.K., 2004, p 210-211))

۴- یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ عام مسلمان شہریوں نے بالعموم اور سرکردہ مسلم علما اور اسلامی تحریکوں کے قائدین نے بالخصوص ابتدا ہی سے ایک آواز ہوکر‘ ۱۱ ستمبر کے اندوہناک واقعے سمیت‘ انسانیت کے خلاف حقیقی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی مذمت کی ہے لیکن مسلمانوں کے علاوہ بھی اس دنیا میں بسنے والے دیگر افراد کو بشمول امریکی اور یورپی شہریوں کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر کھیلے جانے والے ڈرامے کے متعلق شدید خدشات لاحق ہیں۔ ان کے نزدیک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یہ تمام کارروائی بھی کسی مجرمانہ فعل سے کم نہیں ہے اس لیے کہ اس کی بدولت لاکھوں معصوم اور بے گناہ مرد و زن موت کی نیند سو چکے ہیں۔ وہ سرعام یہ پوچھتے ہیں کہ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ اس طرح لڑی جاتی ہے جس طرح امریکا کی موجودہ قیادت لڑ رہی ہے؟ کیا دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت ہی مختلف اور کثیرالجہتی حکمت عملی کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا دہشت گردی کا واضح پس منظر اور وجوہات جانے بغیر اس کے خلاف اقدامات درست ہیں؟ یقینا‘ یہ حقیقت تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مقصد کے واضح تعین کے بغیر‘ دہشت گردی کے خلاف اقدامات نہیں اٹھائے جاسکتے ہیں‘ بصورت دیگر‘ یہ تمام عمل‘ یہ تمام اقدامات‘ یہ جنگ ہوا میں تلوارچلانے اور سایوں کا تعاقب کرنے کے مترادف ہے‘ جس کے باعث فکری تنازعات کے علاوہ سیاسی ابتری اور اندھے کشت و خون میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘ اور پھر بالآخر عدمِ استحکام، سیاسی انتقام اور فساد فی الارض میں اضافے کے مناظر سامنے آجاتے ہیں۔

اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ دہشت گردی اور افراد کی جانب سے طاقت کے استعمال مثلاً بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگ یا آزادی کے لیے حقیقی جدوجہد کے مابین تفریق کی جائے۔ ان کارروائیوں کو بلاامتیاز‘ دہشت گردی قرار دینے کا عمل‘ جیساکہ فلسطینی تحریک مزاحمت (بطور ایک مثال کے) کے سلسلے میں کیا جا رہا ہے‘ وہ نہایت ہی غلط بلکہ ضرررساں ہے۔ درحقیقت‘ آزادی کی ایسی ہی تحریکوں کو اگر ’دہشت گردی قرار دینے کی اجازت دے دی جائے تو پھر تاریخ کو ازسرنو تحریر کرنا پڑے گا جس کے مطابق جارج واشنگٹن اور نیلسن منڈیلا جیسے انسانیت کے محسن بھی دہشت گردقرار پائیں گے۔

اسی طرح‘ دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کارروائیاں‘ اپنی نوعیت‘ پس منظر‘ مقاصد اور محرکات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ ان حالات کو ٹھیک کیے بغیر جن کی وجہ سے دہشت گردی کا ظہور ہوا ہے‘ ان اسباب کو دُور کیے بغیر جو ان کو مخصوص آہنگ دیتے ہیں‘ اور ناانصافیوں اور ظلم و ستم کو ختم کیے بغیر جس نے کمزوروں کو اٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ کیا ہے‘ دہشت گردی کو نشانہ بنانا فاش غلطی ہوگی۔ طاقت کی عدم مساوات اور تنازعات کے تصفیے کے لیے معقول طریقے کا انکار وہ حقائق ہیں جن کو نظرانداز کرنا ہمارے اور یورپی دنیا کے لیے خطرے سے خالی نہیں۔ اس المیے، کہ اس کے باعث لوگ بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں‘ کی نوعیت اور حدود کے متعلق آگہی اور سیاسی مقاصد کے لیے پُرتشدد ذرائع استعمال کرنے کے رجحان کی وجوہات اور حقائق کی چھان بین‘ لازمی ہے۔

یہ حقیقت تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ’دہشت گردی‘ ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس کے حل کے لیے کسی یک رخی حکمت عملی کے لیے ناکامی مقدر ہے۔ اس سے صورت حال مزید سنگین ہوسکتی ہے جیسا کہ ہماری موجودہ صورت حال بتا رہی ہے۔

۵- دہشت گردی کسی مسئلے کے حل کی ضامن نہیںہے بلکہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک تدبیر اور سیاسی عمل کی طرف رجوع ضروری ہے، خود دہشت گردی کو اگر ایک نظریے کی حیثیت دے دی جائے جیساکہ بعض حلقوں میں کہا جا رہا ہے‘ تو پھر یہ معاملہ انتہائی خطرناک حد تک الجھ جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو منصفانہ قرار دینے کے دلائل خود مغرب کی فلسفیانہ سیاسی اور  حتیٰ کہ اخلاقی اور مذہبی پس منظر کی پیداوار ہیں۔

سائسرو (Cicero) سے لے کر جس نے کہا تھا: ’’قتل کرنا ایک نیکی ہے‘‘، یورپ میں ابتری پھیلانے والوں‘ روس میں بائیں بازو کے انقلابیوں (John Most's Revolutionary War Science, 1885)‘ مقدس مائیکل برے کے A Time to Kill (USA, 1980) تک‘اس نوعیت کے لٹریچر کی کوئی کمی نہیں۔ گو حتمی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے دفاع میں یہ لٹریچر بھی اسے فی الحقیقت ایک تدبیر سے زیادہ مقام نہیں دیتا۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ان سارے علمی اور فلسفیانہ مباحث کا حاصل بھی اس سے مختلف نہیں۔ دہشت گردی بہ نفس نفیس نہ کسی مسئلے کا حتمی حل ہے اور نہ یہ کوئی مستقل نظریہ ہے۔

دہشت گردی کی تشریح کے ضمن میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے مرتکب افراد   اس کوشش میں ہیں کہ دہشت گردی کو محض ایک تدبیر کے بجاے ایک نظریے یا اصول کے طور پر پیش کرکے اس مسئلے کو الجھا دیا جائے تاکہ دنیا کے سامنے اس کا کوئی واضح تصور نہ پیش کیا جاسکے۔  وہ دہشت گردی کی جڑیں مسخ شدہ مذہبی رجحانات میں تلاش کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں کیونکہ اس کے سبب دہشت گردی کی حقیقی وجوہات اور اس کے وقوع اور بڑھاوے کا باعث بننے والے فیصلہ کُن پالیسی امور کے بجاے اس کا رُخ اقدار کے مابین تنازعہ اور تہذیبوں کے ٹکرائو کے خیالی تصورات کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔۴؎  اس سلسلہ میں امریکا کے نوقدامت پسند (Neo-cons) ازخود صدر بش جو گل افشانیاں کر رہے ہیں وہ بڑی خطرناک اور دنیا کو نہ ختم ہونے والے تصادم اور تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں۔ اس سلسلے میں بش اور بلیر کی "evil ideology" اور Islamo-fascism کی لن ترانی بڑے خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔

شکاگو یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر رابرٹ اے پیپ (Robert A Pape) نے اپنے ایک تحقیقی جائزے میں دہشت گردی کی ایک ذیلی صِنف ’خودکش بم دھماکوں پر انتہائی چشم کشا تحقیقی و تجزیاتی روشنی ڈالی ہے۔ اس تحقیقی جائزے کا عنوان Dying to Win (موت کے ذریعے جیت) ہے اوراس کا لوازمہ ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک ہونے والے ’خودکش حملوں‘ کے متعلق معلومات و اعداد و شمار پر مشتمل ہے جسے کتابی شکل میں حال ہی میں خود امریکا سے شائع کیا گیا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ: ’خودکش حملوں کے ذریعے دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے مابین قائم کیے جانے والا فرضی تعلق گمراہ کن ہے۔ پروفیسر رابرٹ پیپ کے مطابق:

معلوماتی مواد اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خودکش حملوں کے ذریعے دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی‘ یا کسی دیگر مذہب کے مابین براے نام تعلق ہے۔ درحقیقت‘ خودکش حملوں کے بانی سری لنکا کے تامل ٹائیگرز ہیں۔ یہ گروپ مارکس اور لینن کے افکار کا پیرو ہے اور گو اس کے ارکان کا تعلق ہندو گھرانوں سے ہے لیکن یہ لوگ مذہب کے سخت مخالف ہیں۔ یہ گروپ خودکش حملوں کے مجموعی ۳۱۵ واقعات میں سے ۷۶واقعات میں ملوث ہے‘ جب کہ حماس کا نام اس فہرست میں بہت نیچے ہے… البتہ ان تمام خودکش حملوں میں جو عنصر مشترک نظر آتا ہے‘ وہ مخصوص غیرمذہبی اور سیاسی اہدافی مقاصد ہیں‘ تاکہ جدید جمہوری حکومتوں کو اپنے علاقوں سے مسلح فوج واپس بلانے پر مجبور کیا جائے جو بقول ان کے‘ ان کا وطن ہے۔ اگرچہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے وسیع مقاصد و اہداف حاصل کرنے کے لیے‘ مذہب کو اکثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں‘ لیکن مذہب‘ خودکش حملوں کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔۵؎

ایک طرف دہشت گردی کے اس عمل کے نفسیاتی پہلو‘ حتیٰ کہ اس کے انفرادی کرداروں کے ممکنہ ذہنی رجحانات سمیت‘ تمام پہلوئوں کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ نہایت مفید ہے‘ تو دوسری طرف اس کے سیاسی‘ ترکیبی اور پس پردہ منظرنامے کو مدنظر نہ رکھا جائے تو یہ غیرحقیقت پسندانہ ہوگا۔ یہ تو درست ہے کہ تحریکی اور بنیادی عناصر کا لازمی طور پر مطالعہ اور تجزیہ کیا جانا چاہیے لیکن ہرچیز کو چھوڑ کر‘ صرف اس کی ’ہیئت ترکیبی‘ اور ’سیاسی‘ صورت حال ہی کو پیش نظر رکھنا‘ ایک غلط‘ فریب کن اور غیرمفید رجحان ہے۔ تشدد پر اُبھارنے والی بنیادی اوراہم وجوہات سے اگر صرفِ نظر کیا جائے تو یہ رویہ دہشت گردی کے تصور سے حقیقی آگہی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اور بہتر حکمتِ عملی اختیار کرنے میں سدِّراہ ہوگا۔

ہمیں حقیقی مسائل کا سامنا کرنا چاہیے۔ یہ مسائل سیاسی ناانصافیوں اور ان رویوں اور پالیسیوں سے تعلق رکھتے ہیں کہ جن کے باعث عوام اتنے غضب ناک ہوجاتے ہیں کہ وہ بے بسی‘ رسوائی اور مظلومیت کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ جب تک ظلم کی یہ صورت نہیں بدلتی اور طاقت ور عناصر و اقوام کا یہ غلط رویہ اور رجحان تبدیل نہیں ہوتا‘ حالات تو یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ’دہشت گردانہ کارروائیاں‘ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا عمل متوازی طور پر جاری رہے گا اور امن و سکون کا حصول محال ہوگا۔

جہاد کے متعلق مختلف نظریات اور پھر تصور شہادت‘اور اس کے ساتھ ساتھ مساجد اور مدرسے بطور اداروںکے‘ ہمیشہ ہی سے موجود ہیں۔ ’انتہا پسند‘ اور ’مسخ شدہ‘ تعبیرات تاریخ میںنادر نہیں ہیں۔ ہر مذہب‘ ہر نظریاتی جماعت اور ہر سیاسی و سماجی نظام میں یہ سر اٹھاتی رہی ہیں۔    آج جن مقدس آیات اور اداروں پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے‘ ان کی موجودگی کے   باوجود‘ کرۂ ارض پر ایک عرصے سے امن و امان اور باہمی ہم آہنگی کی فضا قائم رہی ہے‘ اس لیے دہشت گردی کی تنظیم اور قوت میں جو اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کی وجوہ لازمی طور پر کہیں اور موجود ہیں اور وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو تلاش کیا جائے اور منظرعام پر لایا جائے اور کسی خاص مذہب یا چند مذہبی تصورات میں ان کا سراغ لگانے کی غیر حقیقت پسندانہ اور شرانگیز مساعی سے اجتناب کیا جائے۔

۶- اس وقت امریکا کی طرف سے جاری ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے باعث ہونے والے تصوراتی/ ادراکی‘ سیاسی اور انسانی نقصانات کے متعلق غوروفکر اور ان کا تجزیہ‘ نہایت ہی اہم ہے۔ کتنے بے گناہ شہری ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا شکار ہوئے ہیں اور ’دہشت گردی کے خلاف اس جنگ‘ کے باعث کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں؟ کیا یہ جنگ ’دہشت گردوں کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے؟ یا اس جنگ کے باعث ’دہشت گردوں‘ کی تعداد پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے؟ امریکا ان ممالک میں کن نظروں سے دیکھا جاتا ہے جن کو بزعم خود فائدہ پہنچانے کے لیے اس نے ان ممالک پر حملے کیے تاکہ ملزم دہشت گردوں کو تباہ و ہلاک کیا جاسکے اور پھر عوام کو ’حکومت کی تبدیلی‘ اور’قومی تعمیر‘ کا تحفہ پیش کیا جائے؟ کیا امریکا نے دنیا کے عوام کی نظروں میں اعتماد‘ محبت اور عزت حاصل کی؟ یا امریکا نے اپنے انسانیت دشمن اقدامات کے باعث نہایت تیزی سے تمام دنیا کے افراد کی نفرت و عداوت سمیٹ لی ہے؟ اور دنیا کو ایک ایسی      خون آشام حالت کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں سلامتی اور تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کرنا ممکن ہی نہیں رہا؟ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ دنیا کے وسیع خطے جو اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے پہلے سیاسی طور پر نہایت پُرامن تھے‘ اب وہی خطے دہشت گردی اور مسلسل تصادم،   خون ریزی اور جنگ و جدل کی خونی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ جو بے اطمینانی چند علاقوں تک محدود تھی‘ اس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور جس ایک اسامہ بن لادن کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے عالمی یورش کی گئی تھی اس کے نتیجے میں ہزاروں اسامہ وجود میں آگئے ہیں اور دہشت کسی ایک علاقے تک محدود رہنے کے بجاے زمین کے طول وعرض میں پھیلتی جارہی ہے۔

۷- متذکرہ بالا مسائل و معاملات کے علاوہ دیگر کچھ ایسے بنیادی معاملات و مسائل ہیں جو تمام دنیا کے عوام‘ خصوصاً امریکی عوام کو دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔ وسیع پیمانے پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ خاص طور پر تخلیہ کا حق‘ قانونی عمل کے بغیر گرفتاری سے آزادی کا حق‘ جب تک مجرم ثابت نہ ہو‘ بے گناہ تصور کیے جانے کا حق‘ مدعا علیہان کا اپنی پسندکے مطابق وکیل کے ذریعے اپنی صفائی پیش کرنے کا حق‘ ان حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہوش اُڑا دینے والی ہیں۔ ۱۱ستمبرکے بعد سے بہت سے افراد کو کسی مقدمے کے بغیر ہی گرفتار کرکے قیدوبند میں ڈال دیا گیا ہے۔ کسی بھی قانونی عدالت سے سزا پانے والے افراد کی شرح‘ بُش انتظامیہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک اوردھچکا ہے۔ ۳ ہزار سے زیادہ صرف شبہے کی بنیاد پر گرفتار ہونے والوں میں سے صرف چند ایک کو رسمی طور پر ہی فردِ جرم سنائی گئی ہے۔ ان حقوق کی خلاف ورزی کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور کئی ممالک بشمول امریکا میں آئین کی بالادستی ایک حد تک عملاً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ امریکا اور اس کے ’اتحادی‘ ممالک میں ’حب وطن‘ اور ’قومی تحفظ‘ کی آڑ میں عام مرد و زن کی شہری آزادیوں کے ساتھ بالعموم اور مخصوص مذہبی شخصیات اور اقلیتی جماعتوں کے ساتھ بالخصوص‘ کس قسم کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ انسانی عظمت کی اقدار‘ تمام بنی نوع انسان کے برابر حقوق‘ مہذب رویے کو اپناتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ ایک قانون کے مطابق سلوک اختیار کرنے کا حق‘ یہ سب حقوق نئے نئے خطرات کی زد میں آچکے ہیں اور مسلسل پامال ہو رہے ہیں۔اور کیا صرف گوانتاناموبے‘ ابوغریب اور بگرام ہی رستے ہوئے ناسور ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ’مجرموں‘ کی حوالگی اور ’زبردستی تفتیش‘ جیسے غیرمہذب افعال نے اس مہذب دنیا کے کئی ممالک کو آلودہ کردیا ہے؟Huxley's Brave, Orwell's 1984, New World اورSolzhenitsyn's Gulagکے روح فرسا واقعات ’آزاد دنیا‘کی جنت کے خوش کن تصور کو ہوا میں تحلیل کر رہے ہیں۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ہوس ملک گیری اور معصوم و بے گناہ انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے باعث‘ اس کرۂ ارض پر صدیوں سے مروج بین الاقوامی قانون اور پھر جنگ اور امن کے ادوار میں مہذب اخلاقیات کا نظام‘ اب خطرناک حد تک اپنی موت کی طرف رواں دواں ہے۔

بین الاقوامی قانون اور جنگ اور امن میں مہذب رویے کے بارے میں جو کچھ اتفاق راے صدیوں میں حاصل ہوا تھا‘ وہ سب خطرے میں ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی قوانین کے  نت نئے اور ناتراشیدہ تصورات کا یک طرفہ اور من مانے طور پر تعین بھی کیا جا رہا ہے اور عملاً انھیں لاگو بھی کردیا گیا ہے۔ طاقت ور ممالک، دوسرے ممالک اور اقوام کو اپنی دھونس کے ذریعے صرف اس لیے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کمزور ہیں۔ ایک بار پھر اس کرئہ ارض کے اُفق پر سامراجی اور غاصبانہ تسلط اور بالادستی کے منحوس سائے لہرا رہے ہیں۔ قومی خودمختاری کا تقدس ختم ہونے کو ہے اور بین الاقوامی حدود کی پابندی اب گئے وقتوں کی بات ہے۔ اقوام متحدہ روز بروز بے معنی ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں متعین امریکی نمایندے مسٹر بولٹن نے یہ کہنے کی جسارت کی ہے کہ اقوام متحدہ اجازت دے نہ دے‘ امریکا ایران پر حملہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دیگر ممالک میں یک طرفہ مداخلتیں اور زبردستی حکومتی تبدیلی‘ جائز قرار دے دی گئی ہے۔ طاقت ور اقوام کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ’اپنے دفاع‘ (self defence) کے تصور کو نئے معنی پہنائے جا رہے ہیں۔ امن اور بین الاقوامی طاقتی توازن کے لیے خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ پُرتشدد تنازعات کے امکانات روزافزوں ہیں۔

ان تمام حالات کا اثر مختلف ممالک کے اندر بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں عوام اور مختلف گروہ حکومتی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو کئی ایک ممالک اپنے ہی عوام کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بلاشک و شبہہ‘ اس ’جنگ‘ کے ’ضمنی‘ (collateral) نقصانات خوفناک تناسب سے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اب انہیں محض ضمنی سمجھنا خوفناک غیر حقیقت پسندی ہو گی!!

۸-  ایک بنیادی سوال جس کا ہر پہلو سے جائزہ بہت ہی ضروری ہے‘ دہشت گردی کے خلاف مبینہ جنگ میں فوجی حکمت عملی کی حدود سے متعلق ہے۔ کیا صرف فوجی طاقت اور بندوق کے بل بوتے پرہی دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیااس ’ بے نام و نشان دشمن‘ سے صرف اسی طریقے سے نمٹاجاسکتا ہے؟کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ دہشت گردی کے اس عمل کے رونما ہونے کی وجوہات اور ذمہ دار عناصر کو سمجھنے اور ان کو دُور کرنے کے لیے متبادل طریقے استعمال کیے جائیں؟ ہم کب تک کسی مسئلے کی جڑوں تک پہنچنے کے بجاے اس کی شاخوں سے الجھتے رہیں گے؟ اصل مسئلہ تسلط‘ ظلم و ستم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو بذاتِ خود تسلط‘ ظلم وستم اور ناانصافی ہے جس کے باعث مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ اگرہم مزاحمت کی وجوہ جانے بغیر اس کو نشانہ بناتے ہیں تو ہم کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں؟ جب صرف مزاحمت اور مبنی برحق مزاحمت ہی کوختم کرنے پر کمر باندھ لی جائے اور اصل، حقیقی اور خوفناک حقائق کو نظرانداز کردیا جائے جن کے باعث آزادی اور انصاف کے حصول کے لیے کوشش میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ تو یہ عمل بے سود ثابت ہونے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ درحقیقت یہ تمام عمل‘ دہشت گردی اور نفرتوں کو مزید فروغ دینے کا مجرب نسخہ ہے  ع

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے روایتی نقطۂ نظر کو تبدیل کیا جائے اور براے نام تبدیلیوں کے بجاے اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔ کھوکھلے الفاظ کے بجاے ہماری حکمت عملیاں منطق اور استدلال پر مبنی ہونا چاہییں۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے یہ دنیا ہم سب کے لیے امن و امان کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

۹- متذکرہ بالا تفصیلی تحقیق و تجزیے کے بعد ہمارے لیے اس بنیادی سوال کونظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے جس کا تعلق قانون کی حکمرانی اور ایسے عالمگیر نظام کے قیام سے ہے جس کے ذریعے ہر فرد، گروہ اور قوم کو انصاف اور یکساں مواقع حاصل ہوسکیں۔ تسلیم شدہ اور متفقہ بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق تنازعات کا پُرامن حل‘ عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے پیشگی شرط ہے۔ اس تناظر میں عالم گیریت کے پیدا کردہ اہم مسائل اور تہذیبوں کے تصادم کے نظریات اور کارروائیوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ عقائد و نظریات اور تہذیب و تمدن کا تعدّد (plurality) ایک حقیقت ہیں۔ یہ حقیقت اتنی ہی قدیم ہے جتنی تاریخ۔ باہمی بقا‘ تعاون اور خیالات‘ نظریات اور تہذیبوں کے درمیان مسابقت ایک قدرتی بلکہ صحت مند عمل ہے جس کی وجہ سے انسان کی ترقی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب حقیقی تکثیریت کو مسلّمہ حیثیت نہیں دی جاتی تو پھر یہ نااتفاقی‘ تنازعہ‘ ٹکرائو اور جنگ کا ذریعہ بن جاتی ہے پر ایک مخصوص اور یک طرفہ نظریہ اور عقیدہ یا سیاسی اور معاشی نظام دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اگر بزورِ طاقت‘ دیگر اقوام پر اقدار مسلط کردی جائیں‘ استحصال‘ قبضے یا مداخلت کے ذریعے ان کے وسائل ان سے چھین لیے جائیں تو پھر فساد‘ جھگڑا اورتلخی کا رونما ہونا  ناگزیر ہے۔ جب بالادستی پر مبنی ایک نظام دیگر اقوام کے سر منڈھ دیا جاتا ہے اور ان ممالک اور عوام کو محکوم بنا لیا جاتاہے تو بغاوت کے جذبات کا پیدا ہونا فطری امر ہے‘ جس کی بدولت عدم تحفظ‘ عدم استحکام‘ تلخیاں اورجھگڑے‘ جنگ‘ لاتعداد دہشت گرد کارروائیاں اور انتقامی جذبات اُبل پڑتے ہیں۔

وسیع تر تناظر میں امن، سلامتی اور حق پرستی کا جذبہ رکھنے والے تمام افراد کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ عالم گیریت کے موجودہ مرحلے میں ایک دوسرے کا بے لوث احترام‘ مختلف اقوام کے نظام حیات‘ مذاہب اور ثقافت کی توقیر‘ اور پھر ہرقسم کے بالادستی اور نوآبادیاتی مہم جوئی سے تحفظ ہی کے ذریعے اس کرۂ ارض پر تحفظ و سلامتی اور امن قائم کیا جا سکتا ہے۔

اس بحث کے تناظر میں ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے متعلق موجودہ بحث کا کریڈٹ سیموئیل ہن ٹنگٹن کو جاتا ہے۔ اس کی کتاب اس طرح کے تصادم کے لیے ایک دعوت کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ بہرحال‘ اس کتاب میں چند ایک واضح نکات ایسے بھی ہیں جن پر نہایت سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتا ہے:

تاریخی لحاظ سے دہشت گردی کمزور (افراد /اقوام) کا ہتھیار ہے‘ یعنی وہ افراد یا اقوام جو روایتی مسلح طاقت سے محروم ہوتے ہیں۔۶؎

مطلب صاف ظاہر ہے‘ اگر طاقت ور قانون کی حکمرانی‘ انصاف اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں‘ تو پھر دہشت گردی کو اُبھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اسی طرح اسلام اور مغرب کے درمیان مبینہ تصادم کے بارے میں ہن ٹنگن کہتا ہے:

مغرب کا اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے بلکہ مغرب کے لیے اصل مسئلہ ’اسلام‘ ہے جس کے پیروکار اپنی تہذیب کی عظمت پر فخر کرتے ہیں اور طاقت کے لحاظ سے اپنی کم تری کے احساس کا شکار ہیں۔ اسی طرح سلام کے لیے سی آئی اے (CIA)یا امریکی محکمہ دفاع مسئلہ نہیں ہے بلکہ خود ’مغرب‘ اصل مسئلہ ہے، جہاں کی تہذیب مختلف ہے‘اور لوگ اپنی ثقافت کے عالم گیر ہونے پرنہ صرف یہ کہ یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ ان کی بالاتر طاقت‘ خواہ روبہ زوال ہی کیوں نہ ہو‘ ان پر یہ فرض عائد کرتی ہے کہ اپنی تہذیب و ثقافت کو تمام دنیا میں پھیلا دیں۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔۷؎

ہن ٹنگٹن کے نظریے میں صرف ادھوری حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بلاشبہہ اسلام اور مغرب دو مختلف تہذیبوں کی نمایندگی کرتے ہیں لیکن اس کی یہ بات انتہائی غلط اور گمراہ کن ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے اور ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے لیے آپس میں جنگ کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دوسرے سے ضرور جنگ کی جائے۔ جھگڑا اور فساد تب پیدا ہوتا ہے جب زیادہ طاقت ور فرد یا قوم‘ اپنی بالادست قوت کے ذریعے دوسروں پر اپنی اقدار اور حکمرانی مسلط کرنے کا حق جتاتی ہے۔ یہ صرف ’اپنی ثقافت کو تمام دنیا میں پھیلانے کے اسی مبینہ فرض‘ کا شاخسانہ ہے جس کے باعث جھگڑا اور فساد پیدا ہوتا ہے ورنہ محض تنوع اور تکثیریت اس کا قطعاً باعث نہیں۔ اور یہ قوت کے ذریعے ایک ملک کی دوسروں پر بالادستی اور ایک تہذیب کے دوسری تہذیبوں پر غلبے کا فلسفہ اور پالیسی ہے جسے ہم’تہذیبی دہشت گردی‘ ہی کہہ سکتے ہیں جو موجودہ تصادم، بحران اورجھگڑے کی بنیاد ہے‘ جس کے باعث افراد و اقوام جنگ‘ دہشت گرد کارروائیوں اور قتل عام کی طرف دھکیلی جا رہی ہیں۔ اگر دیگر افراد واقوام کی روایات و عقائد کا احترام ایک اصول اور ضابطے کی شکل اختیار کرلے‘ تو پھر اقوام کے درمیان معاہدہ براے باہمی بقا‘ تعاون اور صحت مندانہ مسابقت پیدا ہوجائے گی اور انسانیت پھر دوبارہ سے زندہ ہوجائے گی۔ اگر اس نظریے پر عمل کیا جائے‘ یعنی دیگر افراد/ اقوام کے عقائد کا احترام نہ کہ بالادستی‘ تو پھر یہ دنیا یقینی طور پر امن و امان اور انصاف کی بستی بن سکتی ہے۔ پھر تہذیبوں کے مابین تصادم کے خدشات تحلیل ہوسکتے ہیں اور دہشت گردی کا پُراسرار خوف زمین میںدفن ہوسکتا ہے۔ صرف اسی صورت میں امن و امان‘ تحفظ وسلامتی اور خوش حالی کا راستہ بخوبی ہموار کیا جا سکتا ہے۔ کیا اب بھی وہ لمحہ اور وہ وقت نہیں آیا کہ جب دہشت گردی سے آگے کا سوچا اور اس کے لیے کوشش کی جائے؟ کیا انسان اس متبادل حل کو نظرانداز کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟

آخر میں سوچنے کے لیے ایک مزید نکتہ کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے۔ آج ’عالمی کمیونٹی‘  (World Community) کی اصطلاح بھی ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح کی طرح بڑی بے دردی سے استعمال کی جارہی ہے اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ امریکا اور اس کے چند حواری عالمی کمیونٹی کے مترادف ہیں حالانکہ اصل عالمی کمیونٹی وہ ساڑھے چھے ارب عوام ہیں جو ان استعماری قوتوں کے ہاتھوں خوار و پریشان ہیں اور جو سڑکوں پر آکر احتجاج کر رہے ہیں۔ جب تک اس اصل عالمی کمیونٹی کی آواز اور اس کی تمنائوں اور خواہشوں کو اہمیت اور مرکزیت حاصل نہیں ہوتی جمہوریت اور انسانیت کی بالادستی ایک خواب پریشان ہی رہے گی۔


حواشی

  • اس ضمن میں بیسویں صدی کے آغاز سے قبل کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
  •    پہلی صدی عیسوی میں رومی قبضے سے جودیا (Judia) کو آزاد کروانے کے لیے زیلٹس (Zealots) اور سکارٹس (Sicarits) کی جدوجہد۔
  •  گیارھویں اور بارھویں صدیوں میں خون آشام قتلِ عام کرنے والا گروہ ہے جسے Assassinکہا جاتا ہے۔
  • اٹھارھویں صدی میں جیکوبٹ (Jacobits) کی طرف سے قتلِ عام.
  • انیسویں صدی میں روسی حکومت کی طرف سے (People's Will) Narodnays Volyel اور
  •  یورپی اقوام کی انیسویں صدی کی تہلکہ خیز تحریک انارکسٹ

دہشت گردی کے ضمن میں بیسویں صدی کی بھی چند مثالیں ملاحظہ فرمایئے:

                ۱-            آرمینیا کی آزادی ASALA یعنی Secret Army for the liberation of Armenia اور اس کا بہیمانہ تشدد اور قتلِ عام۔

                ۲-            یہودیوں پر مشتمل اِرگون‘ سٹرن اور ہگانہ کے مسلح دہشت گرد دستے جو بعد میں اسرائیلی فوج کا حصہ بنے۔

                ۳-            قبرص کے یونانیوں کی مسلح تنظیم EOKA یعنی Ethnic's Organization Kyprion Agoniston

                ۴-            کینیا میں: مائومائو یا لینڈ اینڈ فریڈم آرمی۔

                ۵-            جرمنی میں: (i) Bader Meinhof, (ii) Red Army Factors and (iii) the 2nd June Movement of Germany.

                ۶-            اسپین میں: Euzkadi tes Akantasone (ETA)

                ۷-            اٹلی میں: Strategy of Tension and Red Brigades

                ۸-            برازیل میں: Marighda

                ۹-            آئرلینڈ میں:(i) IRA and (ii) Protestant Volunter Force Ireland

                ۱۰- یونان کی مسلح تحریک:November 17

                امریکا میں:             (i) Ku Klux Klan (KKK), (ii) Free Speech Movement of Berkly

                                                (iii) Christian Identity (Elohim City, Oklahoma

                                                (iv) Anti Abortionists (Rev. Michael Bray)

                ۱۱-         یوگنڈا میں: (i) Lord's Resistance Army (ii) Holy Spirit Mobile Force (HSMF)

                ۱۲-         پیرو میں: Sendero Luminose

                ۱۳-         کولمبیا میں: FARC

                ۱۴-         سری لنکا میں: LTTE

                ۱۵-         ترکی میں: PKK

                ۱۶-         فلسطین میں جارج حباش کی (i) Popular Front for the Liberation of Palestine‘     (ii)پی ایل او (PLO)‘ (iii) Islamic Jehad of Palestineاور حماس

                ۱۷- ایران میں:       (i)Fidayeen اور اشتراکی تنظیم جسے امریکا کی حمایت حاصل ہے مجاہدین خلق۔

                ۱۸-         بھارت میں: Nexalities اور دیگر گروپ۔

                یہ فہرست بطور مثال ہے ورنہ ایسی تنظیموں کی جنھوں نے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے قوت کا استعمال کیا ہے بڑی لمبی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

(i) Terrorisn in Context, ed. by Martha Crenshow, Pensylvania State University  Press, 1955

(ii) Origions of Terrorism: Psychologies, Ideologies, Theologies, States of Mind, ed by Walter Reich, Woodrow Wilson Centre, Washington, 1998.

(iii) Violences, Terrorism and Justice, ed. by R.G. Frey, Cambridge University Press, 1991.

(iv) Global Terrorism: The Complete References Guide, by Harry Henduson  Checkmark Books, New York, 2001.

(v) The Terrorism Reader, ed. by David J. Whiterlu , Rutbdgi, London 2001.

۲-            Political Terrorism: A reseach Guide to Concepts, Theories, data bases and Literature, by A.P. Schmid, North Holland Publishing, Amsterdam, 1983.

                (اے پی شمڈ ‘ سیاسی دہشت گردی: تصورات‘ نظریات‘ معلوماتی مواد اور ادبیات پر ایک تحقیقی رہنما کتاب‘ نارتھ ہالینڈ پبلشنگ کمپنی‘ ایمسٹرڈم‘۱۹۸۳ئ)

۳-            نوم چومسکی کے مضمون : A Just War? Hardly کا ایک اقتباس خلیج ٹائمز میں شائع ہوا اور دی ڈیلی ٹائمز (لاہور‘ ۱۰ مئی ‘ ۲۰۰۶ئ) میں دوبارہ شائع ہوا۔

۴-            ملاحظہ فرمایئے جوزف ای بی لمبارڈ کی مرتب کردہ کتاب: Islam, Fundamentalism and the Betrayal of Tradition (Indiano: World Wisdom 2004)۔ باب ۶ میں اٹھائے گئے مسائل پر سنجیدہ بحث و مباحثہ‘ مضمون نگار ولید الانصری The Economics of Terrorism, How Bin Laden is Changing  the Rules of the Game ‘ ص ۱۹۱- ۲۳۶ ضرور مطالعہ کیجیے۔

۵-            رابرٹ اے پیپ (Robert A Pape) Dying to Win: The Stragic Logic of Suicide Terrorism, New York: Random House, p 4.

۶-            سیموئیل ہن ٹنگٹن ‘ پی (۱۹۹۷ئ) The Clash of Civilization and The Remaking of World Order: Samuel and Schuster, London. ‘ ص ۱۸۷۔

۷-            ایضاً ، ص ۲۱۷-۲۱۸

آج مغرب‘ کرئہ ارض پر کسی جغرافیائی خطے کا نام نہیں‘ بلکہ ایک فکروفلسفے‘ ایک رویّے اور ایک استحصالی عفریت کا نام ہے‘ جو بقیہ ساری دنیا کو اپنی چراگاہ اور شکارگاہ تصور کرتا ہے۔ پیش نظر کتاب مغرب اور عالمِ اسلام کے مصنف خرم مراد کا مغرب سے تعلق بالواسطہ بھی تھا اور بلاواسطہ بھی۔ پاکستان میں انجینیرنگ کی تعلیم کے بعد بغرض مزید تعلیم وہ امریکا گئے اور اسلام کی نشرواشاعت کے لیے عرصے تک انھوں نے انگلستان میں بھی قیام کیا۔ اس طرح انھوں نے مغرب اور مغربی تہذیب کا صرف دُور ہی سے جلوہ نہیں دیکھا‘ بلکہ اس کے قلب و دماغ میں داخل ہوکر اس کا مشاہدہ کیا۔ لیکن وہ اس سے مرعوب نہیں ہوئے‘ بلکہ اپنے اسلامی ذہن سے اس کا مطالعہ کر کے اپنی گہری ایمانی وابستگی کی روشنی میں انھوں نے اس کا تجزیہ کیا۔

مغرب اور عالمِ اسلام اُن کے ۱۶ مضامین کا مجموعہ ہے‘ جن میں سے بیش تر ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں شائع ہوچکے ہیں۔ پروفیسر سلیم منصور خالد نے انھیں بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے اوربعض مقامات پر تصریحات اور حواشی لکھے ہیں۔ کتاب کے آخر میں تفصیلی اشاریے سے قاری کو موضوعات تک رسائی میں بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔

خرم مراد کا نقطۂ نظر (thesis) یہ ہے کہ اپنی تمام روشن خیالی اور ’معروضی‘ اندازِ تحقیق و تحریر کے باوجود یورپ (مغرب) کا ذہن آج بھی ازمنۂ وسطیٰ کے متعصب اور جاہل عیسائیوں سے مختلف نہیں‘ جنھوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوراسلام کے بارے میں جھوٹ اور مکر کے ہرہتھیار کو استعمال کر کے ہرزہ سرائی کی ایک طویل داستان رقم کی تھی۔ آج کے مغربی محققین‘ معروضیت اور متانت اور سائنسی طریق تجزیہ و تحقیق کا لبادہ اُوڑھ کر اسلام کی ایک ایسی تصویر   پیش کررہے ہیں‘ جو نہ صرف غیرمسلموں کے ذہن میں اسلام سے ایک تعصب اور نفرت پیدا کرنے میں فعال ہے‘ بلکہ نسلی مسلمانوں کی نژادِ نو کے دل میں بھی اپنے آبائی دین سے برگشتگی کا باعث   بن رہی ہے۔

عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی یہ جنگ‘ سیاسی اور معاشی بھی ہے‘ اور تہذیبی اور علمی بھی۔ خرم مرحوم کو اس کا واضح شعور تھا۔ ’قانونِ توہینِ رسالت‘ کے عنوان سے وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر مسلمانوں کے سخت ردِّعمل پر مغرب کا شوروغوغا اس امر کا غماز ہے کہ اُسے ہمارے احساسات کی کوئی پروا نہیں‘ یا وہ جانتا ہے کہ آں حضوؐر کی ذاتِ مبارکہ ہی ہماری قوت کا [سرچشمہ]… ہماری وحدت کا راز ہے (ص ۳۲)۔ بقولِ اقبال‘ ہمارے جسد میں رسالت ہی کی وجہ سے جان ہے۔ دنیا میں ہمارا وجود‘ ہمارا تشخص‘ ہمارا دین و آئین ذاتِ رسالت مآبؐ کی بنا پر ہے‘ اور حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مُطّہرہ پر حملہ کرکے اور پھر اس پر ہمارے ردِّعمل پر ہمیں مداہنت کی تلقین کرکے دراصل مغرب اس تعلق کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔

’نئی صلیبی جنگ اور دینی مدارس‘ کے عنوان سے انھوں نے یہ چشم کشا انکشاف کیے کہ برعظیم ہندوپاکستان میں ۹۵-۱۹۹۴ء میں تقریباً ایک ساتھ دینی مدارس کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ یہ محض اتفاق نہیں‘ بلکہ اس کے ڈانڈے کہیں دُور جاکر ملتے ہیں۔ ہندستان میں     ندوہ (لکھنؤ)‘ دارالعلوم (دیوبند) اور دوسری درس گاہیں اس کا ہدف بنیں‘ اور پاکستان میں بھی  اہلِ مغرب اور اُن کے حلیف حکمرانوں نے ان مدرسوں کو فرقہ واریت اور دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا۔ ’مغرب کے باج گزار حکمراں کیوں یہ کارروائیاں کر رہے ہیں؟ اس لیے کہ اُنھیں      یہ احساس ہے کہ یہی ادارے‘ مسلمانوں کے تشخص کو باقی رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں‘ اوراسلام سے سرشار یہی ’بنیاد پرستی‘ اُن کے لیے خطرہ ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مغرب‘ جو انسانی حقوق‘ قانون کی بالادستی‘ مہذب معاشرے اور  ’سول سوسائٹی‘ کی بات کرتا ہے‘ خود اپنے اندر خوف ناک دہشت گردوں کو پالتا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں اوکلاہوما کے بم دھماکے میں‘ جس میں ۱۹۰ سے زیادہ جانوں کا اتلاف ہوا‘ اور شہر کے وسط میں بڑی تباہی پھیلی‘ شروع میں الزام مسلمانوں ہی پر لگایا گیا۔ مگر مجرم ایک ’سفیدفام، اصلی، نسلی امریکی‘ نکلا‘ جو اپنے جیسے ہزاروں امریکیوں پر مشتمل ایک منظم گروہ کا رُکن ہے۔ خرم کہتے ہیں کہ اب ’’اسلام، فنڈامنٹل ازم اور دہشت گردی‘‘ کی یہ خودساختہ تکون ختم ہونی چاہیے۔ مغرب اور اسلام کے درمیان اس طرح کی محاذ آرائی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔

مگر یہ محاذ آرائی نئی نہیں۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء میں میڈرڈ (اسپین) میں نام نہاد ’مشرقِ وسطیٰ  امن کانفرنس‘ میں عرب ممالک کو اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور نام نہاد ’معاہدۂ امن‘ پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح امریکا کی ’نیوورلڈ ڈپلومیسی‘ نے مسلمانوں کو ذلّت کا ایک اور جام پینے پر مجبور کردیا۔ اس ’معاہدے‘ کے لیے اس مخصوص شہر اور ملک کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ خرم بتاتے ہیں کہ اس حادثے سے ٹھیک ۵۰۰ سال قبل نومبر ۱۴۹۱ء میں اسپین کی آخری عرب مسلم ریاست غرناطہ کے حکمراں ابوعبداللہ محمد نے عیسائی فاتح فرڈی نینڈ چہارم اور ملکہ ازابیلا کے آگے اسی طرح گھٹنے ٹیک دیے تھے‘ اور اس طرح حصولِ امن کے نام پر اسپین سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اندلس تا فلسطین‘ عبرت کے سفر میں وہ فلسطین‘ لبنان (صابرہ‘ شاتیلا‘ قانا ۱۹۹۶ئ) میں لاکھوں بے گناہوں کے قتل کی اندوہناک داستانیں سناتے ہیں۔

دنیا کی ترقی یافتہ ان ’مہذب‘ اقوام کے نزدیک جو ’اُن‘ کے گروہ سے نہیں‘ وہ انسان ہی نہیں۔ امریکی صدر جارج واشنگٹن کے بقول: ’’[ریڈ] انڈینوں میں کوئی چیز انسانی نہیں‘ سواے انسانی شکل کے‘‘۔ مہذب سفیدفام امریکیوں نے چند ہی سالوں میں ۲۰لاکھ سرخ ہندیوں کی آبادی گھٹاکر ۲ لاکھ کردی‘ اورانھیں بھی جنگلوں اور صحرائوں میں دھکیل دیا گیا۔ پھر بیسیویں صدی کے اواخر میں عین یورپ کے قلب میں بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ آج کے مغرب کی غیرجانب دار‘ مہذب پالیسی کا بھانڈا پھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ کمیونزم کے زوال کے بعد یوگوسلاویہ منہدم ہوا اور اس کی ’خودمختار‘ ریاستیں آزاد ہوئیں۔ سربیا‘ کروشیا اورسلووینیا تو اقوام متحدہ اور یورپی برادری کی سرپرستی اور تحفظ میں آزاد ہوئیں‘ لیکن بوسنیا نے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اعلانِ آزادی کیا تو سربیا کے یونانی آرتھوڈوکس چرچ حکمرانوں اورعوام نے وہاں قتل و غارت اور تاراج کا وہ بازار گرم کیا‘ جس کی مثال حالیہ تاریخ میں کم ہی نظر آتی ہے۔ مسلمان آبادیوں کا محاصرہ کر کے شہریوں کو جانوروں کی طرح‘ بلکہ بدتر انداز میں باڑوں میں قید کرکے ذبح کیا گیا‘ لاشوں کا مُثلہ کیا گیا اور خواتین کی بے حرمتی۔ مدرسے‘ کتب خانے اور ثقافتی مرکز تباہ کردیے گئے اور صدیوں کا قیمتی ورثہ‘ جو دراصل ساری انسانیت کی میراث تھا‘ راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ یہ سب  کرئہ ارض کے کسی دُورافتادہ‘ بعید گوشے میں نہیں‘ یورپ اور اقوامِ متحدہ کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ خرم مراد یہ ہولناک داستانیں سنانے کے بعد کہتے ہیں: ’’ہم گڑے مُردے اُکھاڑ کر نفرت کا الائو نہیں سلگانا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان امن و آشتی اور محبت عام ہو… سارے انسان ایک خدا کے بندے بن کر‘ اس کا خاندان بن کر ساتھ رہیں‘‘۔(ص ۱۶۶)

بدقسمتی سے بیش تر مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یورپ/مغرب سے تعلق (اور وہ بھی زبردستی کا فدویانہ تعلق) قائم کیے بغیر ہم گزارا نہیں کرسکتے۔ اس کی ایک مثال خود پاکستان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کو بنے ہوئے مشکل سے دوماہ ہوئے تھے کہ حکومت نے میرلائق علی کو پاکستان کے ایلچی کے طور پر امداد کے لیے امریکا بھیجا۔ اور اس طرح پاک امریکی تعلقات کی وہ بنیاد پڑی جس کے نتیجے میں پاکستان امریکا کی ایک باج گزار ریاست بن کر رہ گیا۔ فاضل مصنف کے اس خیال سے تواختلاف کیا جاسکتاہے کہ ’’پاکستان… بنا ہی ایسی کس مپرسی کے عالم میں تھا کہ اس کے لیے شاید کسی بڑے ملک کی مدد حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا…‘‘ (ص ۱۸۱)۔ ۲ ارب ڈالر کے سوال کوا مریکی حکومت نے جس طرح رَد کیا‘ اس کے بعد بھی پاکستان زندہ رہا‘ اور کسی طرح کی شکست و ریخت سے دوچار نہ ہوا۔ لیکن ان کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ جس ناعاقبت اندیشی‘ ملک و ملّت کے مفادات سے لاپروائی اور بے مثال فدویانہ خودسپردگی کے ساتھ پاکستان کوامریکا کے ساتھ فوجی معاہدوں میںباندھنے اور اقتصادی امداد کی بھیک حاصل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی‘ بہرحال اس کی چنداں ضرورت نہ تھی‘‘(ص ۱۸۱)۔ دفاع‘ معاش اور ثقافت و تہذیب‘ سبھی شعبوں میں خودکفالت کے بغیر ہم عزت کی زندگی نہیں گزار سکتے۔

مغرب کے ساتھ ہمارے تعامل میں ایک مسئلہ، ’مسلم مسیحی تعلقات‘ کا بھی ہے۔ اس مسئلے پر یورپ کے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچوں نے جو رپورٹ تیار کی تھی‘ اُس میں ’برابرکے بدلے کی بنیاد‘ پر یہ کہا گیا تھا کہ اگر ایک عیسائی‘ مسلمان بن سکتا ہے‘ تو ایک مسلمان کیوں عیسائی نہیں      بن سکتا؟ اسی طرح یہ کہا گیا کہ توہینِ رسالتؐ پر مسلمان جو شور مچاتے ہیں‘ وہ آزادیِ اظہار کے منافی ہے۔ خرم کہتے ہیں کہ ہرمذہب اور معاشرے کے کچھ اپنے بنیادی مزعومات ہوتے ہیں‘ جن کی خلاف ورزی گوارا نہیں کی جاتی۔ مثلاً یورپ میں یہودیت یا ’سامیّت‘ کے خلاف کچھ کہنا برداشت نہیں کیا جاتا۔ وہاں بہت سے ملکوں میں خواتین کو حجاب کا حق‘ ذبیحہ‘ نمازِ جمعہ کا وقفہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بوسنیا ہرذی گووینیا میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل‘ خواتین کی اجتماعی  بے حُرمتی اور ان کی اقتصادی بربادی کے جو واقعات ہوئے‘ اُن پر ’عیسائی یورپ‘ کا ردِّعمل کیا رہا؟ کیا یہ برابری کی بنیاد پرانصاف ہے؟

مغرب نے مسلم دنیا پر جو کاری زخم لگائے ہیں‘ اور جس طرح اُسے تاراج کیا ہے‘ اور کر رہا ہے‘ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت ِ عملی اختیار کی جائے؟ کیا عسکری مقابلہ اس کا حل ہے؟ خرم کا جواب نفی میں ہے۔ دوسرا حل بقاے باہمی اور کسی تصادم کے بغیر اپنے ملکوں/معاشروں میں اسلام کے مطابق اداروں کی تشکیل ہے۔ لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ خود مغرب اس بقاے باہمی کے لیے تیار نہیں‘ اور مسلم ملکوں کی اکثریت میں جو برسرِاقتدار طبقے ہیں‘ وہ خود بھی مغرب کے مُطیع مُہرے ہیں۔ مسلمانوں کو اس صورت حال کے پیش نظر مغرب کے ساتھ مشترک اُمور تلاش کرکے ایک داعیانہ روش اختیار کرنی چاہیے‘ اور اجتہاد فکرونظر کے ذریعے خود اپنی اصلاح کے لیے ایک   لائحۂ عمل مرتب کرنا چاہیے۔

مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ اس نے اللہ سے ایک ’ عہدِ وفا‘ کیا ہے۔ اس عہد کی تکمیل ہی میں ہماری بقا اور ترقی ہے۔ ’’دین جس راستے پر لے جاتا ہے‘ معاشی انصاف اور خوش حالی اس کے لازمی نشان ہاے منزل ہیں‘‘۔ لیکن یہ فی نفسہٖ نصب العین نہیں۔ ہماری آرزوئیں کیا ہیں؟ ’’ہم اُن جیسے بن جائیں‘ ہمیں اُن کا قرب حاصل ہو‘ ہم اُن کی داد و تحسین کے مستحق ٹھیریں‘ جو ترقی یافتہ اورمہذب کہلاتے ہیں___ حالاں کہ انھوں نے ہی زمین کو فساد اور ظلم و جور سے بھردیا ہے…‘‘

خرم کہتے ہیں کہ ’’آج اُمت کے لیے عصرِحاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کاایک ہی طریقہ ہے… وہ اللہ تعالیٰ کی… اُس پکار پر… لبیک کہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اللہ اور    اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو‘ جب کہ رسولؐ تمھیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے‘‘۔ (ص ۳۰۲)

خرم‘ نامساعد حالات میں بھی اُمید اور روشن مستقبل دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آج اُمت میں اللہ اور رسولؐ کی پکار ہر طرف اُٹھ رہی ہے۔ مرد‘ عورت‘ بوڑھے‘ نوجوان‘ بچے سب اس پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ اسلامی تحریکات نے جدوجہد کا دِیا جلا دیا ہے…‘‘ (ص ۲۰۳)۔ دنیا کا مستقبل اسلام ہے‘ لیکن مغربی ذہن کا خودساختہ خوف اسلام اور مسلمانوں ہی کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک: ’’[مسلمان] وہ روز بروز بڑھتی ہوئی سماجی اور سیاسی قوت ہیں جو مغرب کے مسلّمہ تصورات پر حملہ آور ہیں…‘‘۔ (ص ۳۱۱)

وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب آج اُمت مسلمہ کی حالت ِزار یہ ہے کہ ہم ’اُن‘ کے قرضوں کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے‘ ہمارا دفاع‘ اسکول‘ کالج‘ یونی ورسٹیاں‘ پارلیمنٹ‘ بنک‘ مارکیٹ‘ کارخانے اور تمام ادارے اُنھی کے نقشے اور تصورات کے مطابق کام کر رہے ہیں‘ ہمیں کہیں سیاسی استحکام نصیب نہیں‘ اقتصاد‘ تعلیم‘ ثقافت‘ سیاست‘ ہر لحاظ سے ہم پستی کی انتہائوں تک پہنچ چکے ہیں‘ تو پھر اس ’’کمزور اُمت سے انھیں اتنا خوف کیوں ہے؟‘‘ بات دراصل یہ ہے کہ مغرب کے کارفرمائوں کو یقین ہے کہ مستقبل کا ’فتنہ‘، فتنۂ اسلام ہے۔ آج دنیا کا ہر پانچواں انسان مسلمان ہے‘ اوردنیا کے گوشے گوشے میںاسلامی تحریکیں سراُٹھارہی ہیں ۔ لیکن اس تاریخی موقع پر مسلمانوں کو جوش سے نہیں‘ بلکہ ہوش سے کام لینا ہوگا۔ تحریروتقریر کے بجاے اسلامی زندگی کے عملی مظاہر‘ اور نفرت کے بجاے محبت سے دل جیتنے ہوں گے۔ اسلام کا پیغام دلوں کو مسخر کرنے والا ہونا چاہیے‘  نہ کہ تعصب اور نفرت کو اُبھارنے والا۔

مغربی ملکوں میں حکمرانوں اور عوام میں امتیاز کرنا ہوگا۔ حکمرانوں کی پالیسی اور ترجیحات اور ہوسکتی ہیں۔ ہمیں عوام تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ ’’خود اُن ممالک کی راے عامہ کو اپنے حکمرانوں کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ جب تک ہم معرکہ جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوں‘ معرکہ برپا نہ کیا جائے‘ نہ مقابلے میں غیرمطلوب شدت پیدا کی جائے…‘‘ (ص ۳۲۲)۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جنت اگر مطلوب ہے‘ تو جنت کی وسعت کے لحاظ ہی سے‘ دلوں میںوسعت‘ خیالات میں وسعت‘ مقاصد میں وسعت‘ رویوں میںوسعت‘ اور اللہ کے لیے زیادہ سے زیادہ لٹانے اور مٹانے میں وسعت… ناگزیر ہے‘‘۔ (ص ۳۲۴)

خرم کے نزدیک ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ جس طرح آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک ملک میں اپنے ترجمان اور نمایندے بھیجے تھے‘ آج ایک ارب سے زائد مسلمان دنیاکے گوشے گوشے میں آپؐ  کے ترجمان اور نمایندے ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں آپؐ کا خط ہے۔ جس کو بھی اپنی اس پوزیشن اور ذمہ داری کا احساس ہو‘ اُسے تڑپ کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔ سلیقے سے‘ حکمت سے‘ موعظۂ حسنہ سے‘ انسانوں کو حضوؐر سے قریب لانا چاہیے۔ جتنا زور ہم آپؐ  کا دین  پیش کرنے پر لگاتے ہیں‘ اتنا ہی اہتمام ہمیں آپؐ  کی ذات‘ شخصیت‘ کردار‘ اُسوۂ حسنہ اور زندگی کو پیش کرنے پر لگانا چاہیے۔ جو سراجِ منیرسے جتنا قریب آئے گا‘ اس کا دل کھلا ہوگا‘ وہ حضوؐر کی روشنی اور حرارت میں سے حصہ پائے گا۔ جتنے لوگ حضوؐر کی رسالت پر ایمان لاتے جائیں گے‘ آپؐ  کے آستانے سے وابستہ ہوتے جائیں گے‘ اتنا ہی تہذیبی جنگ میں حضوؐر کے پیغام کی فتح کے امکانات بڑھتے جائیں گے‘‘ (ص ۲۸)۔ بقول اقبال     ؎

بے خبر! ُتو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے

 ُتو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

(خرم مراد: مغرب اور عالمِ اسلام (تدوین و ترتیب: سلیم منصورخالد)‘ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور‘ ۲۰۰۶)

عام طور پر دعوتِ دین کے حوالے سے ہم مسلمانوں کا سوچتے ہیں‘ غیرمسلموں کا نہیں۔ روزمرہ زندگی میں بارہا ایسے مواقع سامنے آتے ہیں جوغیرمسلموں میں دعوت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہندو اور عیسائی ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ شہادتِ حق اور    دعوتِ دین کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان غیرمسلموں میں دعوت کا فریضہ احسن انداز میں انجام دیں تاکہ اپنی ذمہ داری سے بھی عہدہ برآ ہوسکیں اور کل خدا کے ہاں بھی سرخرو ہوں۔

غیرمسلموں میںدعوت کے ضمن میں‘ میں نے کچھ کام کیا‘ اس حوالے سے چند تجربات غوروفکر اور تحریک و عمل کے لیے پیش ہیں۔

  • روز مرہ زندگی میں سفر سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طرح واسطہ رہتا ہے۔ دورانِ سفر  فریضۂ دعوت کی ادایگی کے مواقع بھی میسرآتے ہیں۔ مجھے بھی ایک ایسا موقع میسر آیا۔ ایک مرتبہ مجھے اسلام آباد سے لاہور بذریعہ بس آنا تھا۔ میرے ساتھ بس میں ایک ہندو فیملی بھی سوار ہوئی۔ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان سے بات چیت شروع کی‘ معلوم ہوا کہ وہ نواب شاہ سے تعلق رکھتے ہیں اور لاہور سیر کی غرض سے جا رہے ہیں۔ نوجوان کا نام راج کمار تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ لاہور کی سیر کے لیے جا رہے ہیں تو ہمارے گھر بھی ٹھیریں۔ اتفاق سے ہماری بس علی الصبح چاربجے لاہور پہنچی۔ میں نے اس کے والد صاحب کو  دعوت دی کہ رات گئے آپ کہاں جائیں گے‘ آپ میرے شہر کی سیر کرنا چاہتے ہیں‘ میرے مہمان ہیں‘ لہٰذا میرے ہاں ٹھیریں۔ انھوں نے پہلے تو پس و پیش کی‘ پھر کہنے لگے کہ اگر بچے راضی ہیں تو ٹھیک ہے۔ میں نے وہیں سے آواز دی: راج کمار بیٹا‘ آپ ہمارے گھر ٹھیریں گے؟ اس نے ہامی بھرلی۔ چنانچہ مرد و خواتین تمام فیملی سمیت رات گئے ہم گھر پہنچ گئے۔

ہم نے ان کی خوب خاطر مدارت کی۔ میرے  پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ غیرمسلموں کی دل جوئی اور تالیفِ قلب کا بھی حکم ہے تاکہ ان کے دل میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوسکے۔ پھر انھیں گھر کے قریب واقع ماڈل ٹائون پارک کی سیر کروائی۔ انھوں نے شاہی قلعے کے نزدیک گوردوارہ جانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ میں نے کہا کہ وہ تو سکھوں کا ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ ہندو بھی وہاں جاتے ہیں۔ چنانچہ میں نے وہاں جانے کا انتظام بھی کر دیا۔

بات چیت کے دوران میں نے راج کمار سے پوچھا کہ بیٹا تمھارا مستقبل کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ ابھی تو پڑھ رہا ہوں‘ بعد میں دیکھوں گا۔ پھر میں نے پوچھا کہ بیٹا! زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ کبھی مقصد زندگی پر بھی تم نے غور کیا؟ تو اس نے کہا کہ اس طرح تو میں نے نہیں سوچا۔ تب میں نے اُس کو بتایا کہ اس کائنات کا مالک خدا تعالیٰ ہے جسے تم بھگوان کہتے ہو۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور اپنی زندگی گزارنے کے لیے ہمیں اس سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ نبی اور اُوتار اور الہامی کتابیں اس نے اسی غرض سے بھیجی ہیں۔ میری گفتگو سن کر اس کے والد صاحب نے بھی کہا کہ آپ نے اچھی توجہ دلائی ہے۔ ہم نے تو اس طرح سے نہیں سوچا تھا۔ اس وقت میرے پاس سید مودودیؒ کی کتاب خطبات موجود تھی۔ میں نے کہا کہ ان باتوں کو مزید اچھے انداز میں جاننے کے لیے آپ اس کا مطالعہ کریں۔ پھر ہم نے مل کر خطبات کے چند اوراق کا اجتماعی طور پر مطالعہ بھی کیا اور انھوں نے اسے پسند بھی کیا۔

میری کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح ان سے قربت حاصل کی جائے‘ اور جب وہ متوجہ ہوں تو انھیں اسلام کی دعوت دی جائے۔اس طرح ایک ہندو خاندان کو جو محض اتفاق سے میرے قریب ہوا‘ میں نے دین کی دعوت پہنچانے کی کوشش کی اور انھیں مطالعے کے لیے کتب بھی دیں‘ لیکن ایسی کتب کی کمی محسوس ہوئی جو غیرمسلموں کے لیے دعوت کے پیش نظر لکھی گئی ہوں۔

  • ایک بار چند رفقا نے ایک درس قرآن میں شرکت کی دعوت دی۔ جب میں درس میں شرکت کے لیے پہنچا تو باہر کھڑے چند لوگوں پر میری نظر پڑی جو مجھے عیسائی لگے۔ میں نے سوچا کہ انھیں بھی درس قرآن کی دعوت دینی چاہیے۔ چنانچہ ان کے قریب گیا‘ ان سے ہاتھ ملایا‘ ان کو گلے لگایا اور کہا کہ تم میرے باپ کے بیٹے ہو (میری مراد حضرت آدمؑ تھے جن کی تمام انسان   اولاد ہیں)‘ میرے بھائی ہو۔ آئو تمھارے اور ہمارے خدا کا کلام سنیں کہ خدا نے ہمارے لیے  کیا رہنمائی دی ہے۔ وہ بہت متاثر ہوئے اور چلنے پر راضی ہوگئے۔

جب ہم درس قرآن میں شرکت کے لیے گھر میں داخل ہونے لگے تو میزبان نے آہستگی سے مجھے کہا کہ آپ کن لوگوں کو ساتھ لے آئے ہیں؟ یہ تو عیسائی ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ کیا یہ خدا کے بندے نہیں؟ کیا ان کا حق نہیں کہ ان تک دین کی دعوت پہنچائی جائے؟ وہ میری بات سمجھ گئے۔

آخرت کے موضوع پر درس قرآن ہو رہا تھا۔ آخر میں‘ میں نے اعلان بھی کیا کہ آج ہمارے مسیحی بھائی بھی درس قرآن میں شریک ہیں اور یہ بات بڑی خوش آیند ہے۔ پھر ان سے بھی کہا کہ آپ بھی اپنے تاثرات بیان کریں کہ آپ نے اسے کیسا پایا؟ انھوں نے کہا کہ ہم نے اسے بہت مفید پایا۔ آخرت کا تصور اسلام اور عیسائیت دونوں میں پایا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے اس حوالے سے غور کیا کہ عیسائی جو اہلِ کتاب ہیں‘ ان تک ہمیں دعوتِ دین پہنچانا ہے؟ انھیں جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے ہم تڑپیں اور ان تک مؤثر انداز میں اسلام کی دعوت پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں۔ پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں عیسائی بلدیاتی سطح پر صفائی اور سیوریج کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والی بہت سی خواتین کا تعلق بھی عیسائیت سے ہے۔ لیکن ہمارا ان کے ساتھ کیسا رویہ ہوتا ہے۔ اگر خدا نے کسی بہانے انھیں ہمارے قریب کر ہی دیا ہے تو بجاے اس کے کہ ہم ان سے حسنِ سلوک سے پیش آتے‘ ان کو عزت و احترام دیتے‘ ان کی تالیف قلب کا سامان کرتے اور ان کو کسی نہ کسی بہانے دعوتِ دین دیتے___ ہم نے ان کو اپنے سے کاٹ کر رکھ دیا ہے‘ یا ہندوؤں کی طرح انھیں شودر بناکر رکھ دیا ہے‘ جیسے وہ نیچ ذات کے ہوں۔ کیا ہماری یہ روش اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟کیا ہم خدا کے ہاں جواب دے سکیں گے کہ ہم نے ان تک تیرا پیغام پہنچا دیا ہے؟

  • ایک بار میں اپنی کار میں سوار سڑک سے گزر رہا تھا کہ مجھے چند سکھ نوجوان نظر آئے۔ میں نے سوچا کہ ان سے بات چیت کی جائے۔ چنانچہ میں نے ان کے نزدیک جاکر گاڑی روک دی اور ان سے کہا کہ آپ میرے شہر میں آئے ہیں‘ لہٰذا میرے مہمان ہیں۔ گاڑی میں تشریف رکھیں۔ میں آپ کو وہاں چھوڑ دیتا ہوں جہاں آپ کو جانا ہے۔ پہلے تو انھوں نے انکار کیا اور جب میں نے بہت اصرار کیا تو کہنے لگے کہ ہمیں توقریب ہی جانا ہے‘ آپ زحمت نہ کریں‘ آپ کا شکریہ! میں نے کہا کہ چلیے قریب ہی سہی‘ بالآخر وہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ لاہور اور بھارت میں آپ کو کچھ فرق نظر آیا تو وہ کہنے لگے کہ ایسا کوئی خاص فرق تو نہیں دیکھا۔ مجھے خیال آیا کہ ایک مسلمان ملک میں اور ایک کافر ملک میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس لیے آئے ہیں؟ وہ کہنے لگے کہ ہم تو سیر کے لیے آئے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ نے یہ نہیں سنا: جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا)۔ انھیں حیرت ہوئی۔ چنانچہ میں نے انھیں کہاکہ میں آپ کو لاہور کی سیر کرواتا ہوں۔ اس پر وہ راضی ہوگئے۔ میں نے انھیں مختلف جگہوں پر  گھمایا پھرایا اور حسب توفیق خاطر تواضع بھی کی۔ اسی دوران میں نے انھیں مقصدِ زندگی کی طرف توجہ دلائی اور بابا گرونانک کی تعلیمات کے حوالے سے خداے واحد کی بندگی کی دعوت بھی دی۔

جب وہ رخصت ہونے لگے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اب آپ نے لاہور اور بھارت میں کچھ فرق محسوس کیا؟ انھوں نے کہا کہ ہاں‘ اب فرق محسوس ہوا ہے۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے اس اپنائیت اور محبت کے ساتھ ہمیں مقصدِ زندگی سے آشنا کیا اور ایک خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔ یہی پاکستان اور بھارت میں فرق ہے۔ مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ چلو پاکستان کے حوالے سے کچھ تو فرق انھیں محسوس ہوا۔

  • ایک روز برانڈرتھ روڈ سے گزرتے ہوئے ایک نوجوان نے مجھ سے رام گلی کا پتا پوچھا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہاں تو کئی رام گلیاں ہیں‘ تمھیں کہاں جانا ہے؟ کچھ پس وپیش کے بعد اس نے بتایا کہ اسے احمدی مرکز جانا ہے۔ وہ قادیانی تھا۔ میں نے اسے پتا بتایا اوراس کا سامان اُٹھا کر سر پر رکھا اور اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے مجھے منع کیا تو میں نے کہا کہ یہ میرے رسولؐ کی سنت ہے۔ انھوں نے ایک بوڑھی عورت کا سامان اُٹھا کر اس کے گھر پہنچایا تھا‘ اب مجھے یہ سنت پوری کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ چلتے چلتے میں نے اس سے پوچھا کہ تم پتا پوچھنے میں کیوں جھجک رہے تھے؟ اس نے کہا کہ لوگ ہمیں بری نظر سے دیکھتے ہیں‘ اس لیے ہمیں جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہ اگر تمھارا عقیدہ سچا ہے تو پھر جھوٹ کیوں بولتے ہو۔ پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ رہو۔ پھر میں نے پوچھا کہ تم احمدی کب ہوئے؟ اس نے کہا کہ میں تو پیدایشی احمدی ہوں۔ میں نے کہا کہ مرزا غلام احمد بھی پیدایشی قادیانی نہیںتھا‘ تم کیسے ہوگئے؟ اپنے مذہب کو سوچ سمجھ کر  قبول کرو۔ اس کے غوروفکر کے لیے میں نے چند اور باتیں بھی اس کے سامنے رکھیں۔ اتنی دیر میں احمدی مرکز آگیا تو میں نے اس کا سامان سر سے اُتارا اور اسے کہا کہ وہ سامنے مرکز ہے۔ وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملااور کہا کہ آپ جس محبت سے میرے ساتھ پیش آئے ہیں اور جس طرح   میری رہنمائی کی ہے‘ آج تک کوئی مسلمان ایسا نہیں ملا۔ اس نے مجھ سے میرا پتا بھی لیا۔

چند روز بعد وہ میرے گھر آیا اور اس نے بتایا کہ میں نے جب اپنے بزرگوں سے قادیانیت کے بارے میں اطمینان کرنا چاہا تو وہ مجھے مطمئن نہ کرسکے۔ لہٰذا میں نے توبہ کرنے اور مسلمان ہونے کافیصلہ کیا ہے۔ میں بہت خوش ہوا اور اسے قریبی مسجد کے امام صاحب کے پاس لے گیا اوراس نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔ پھر اسے مولانا مودودیؒ کی چند کتب بھی مطالعے کے لیے دیں کہ اسلام کا مطالعہ کرو تاکہ پورے اطمینان کے ساتھ اسلام کی راہ پر چل سکو۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کے فضل و کرم سے مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی۔

  • مجھے ایک تلخ تجربہ بھی ہوا۔ ایک عیسائی کو میں نے دعوت دی کہ حضرت عیسٰی ؑنے اپنے حواریوں کو ہدایت کی تھی کہ میرے بعد ایک نبی آئے گا‘ تم اس کی پیروی کرنا اور اس پر ایمان لے آنا۔ لہٰذا اگر تم سچے عیسائی ہو تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائو کہ یہی وہ نبیؐ ہیں جن کی آمد کی خبر حضرت عیسٰی ؑنے دی تھی۔ اس نے کہا کہ آپ کی بات صحیح ہے اور میں اسلام قبول بھی کرلوں مگر جب میں عیسائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا کردار دیکھتا ہوں تو سچ پوچھو تو مجھے اپنے عیسائی بھائی ہی بہتر لگتے ہیں۔ وہ تو یہ بات کہہ کر چلا گیا‘ مگر میں سوچتا رہ گیا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ایک شخص مسلمانوں کے کردار کی وجہ سے اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔(ترتیب: امجد عباسی)

ترجمہ:محمد ظہیر الدین بھٹی

رسالہ الحج والعمرۃ نے اپنی شعبان ۱۴۲۷ھ (ستمبر ۲۰۰۶ئ) کی اشاعت میں جنرل کونسل براے مسلمانان فرانس،کے صدر ڈاکٹر محمد البشاری کا انٹرویو شائع کیا ہے جو اس رسالے کے قاہرہ میں مقیم نمایندے نے ڈاکٹر البشاری سے ان کے قاہرہ کے دورے کے موقع پر لیا تھا۔اس انٹرویو سے فرانس کے مسلمانوں کے موجودہ حالات اور اسلام کی پیش رفت کے بارے میں ایک تصویر سامنے آتی ہے۔ اس کا ترجمہ پیش ہے۔ (ادارہ)

  • سوال: یورپی ممالک میں مقیم مسلمان اقلیتوں کو ’مغرب زدگی‘ (Westernaization) کے مسائل کا سامنا ہے۔ مسلم نوجوان نسل کے تشخص کی حفاظت کے لیے فرانسیسی اسلامی ادارے کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟
  • جواب:یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب میںبسنے والی تمام اقلیتوں کو جن بنیادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘ وہ دو ہیں۔ اوّل: مغرب زدگی‘ دوم: علامات تشخص کا واضح نہ ہونا۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ پہلی مسلم نسل کو بھی انھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تھا مگر اس نے ان مسائل پر قابو پا لیا ،اس لیے کہ اس کے پاس اسلامی تعلیمات کا عمدہ ذخیرہ تھا ،جس کی بنا پر وہ اپنے تشخص کی حفاظت کر نے کے قابل رہی۔مگر فرانس کی موجودہ مسلم نسل کا سب سے بڑا مسئلہ تشخص کا ابہام ہے۔اسے مغربی کلچر اور مضبوط و تواناذرائع ابلاغ کا سامنا ہے،جن کا سارا زور اس پر ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی اصولوں پر عمل کرنے سے دُور رکھا جائے۔مسلمان اپنی اصل سے ہٹے رہیں۔

فرانس میں اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرانس کا اسلام سے تعارف   براہ اندلس ہوا ہے۔ اسلامی فاتح افواج کا فرانس کی طرف رخ کرنے کا آ غاز۹۴ھ سے ہوا۔  ایک با ر تواسلامی فاتح افواج پیرس کے قریب تک پہنچ گئی تھیں۔ فرانس کے جنوب میں۳۲۱ھ میںاندلسی اسلامی مملکت قائم ہو ئی جو ۸۲ سال تک قائم رہی۔اسی طرح مسلمانوں نے۱۹۱ھ میں جزیرہ ’کورسیکا‘ فتح کر لیا۔ اس جزیرے پر اسلامی حکومت ۱۲۴ سال تک رہی۔۱؎

پہلی عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی مسلم ممالک سے مسلمانوں نے فرانس کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ان تارکین وطن کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔اس وقت سے لے کر اب تک فرانس میںمسلمانوں کی بہت سی ایسی نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں جنھیں مغرب کی تہذیبی و فکری یلغار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

فرانس کی مسلم تنظیمیں اور جمعیتیں بھی اپنے فرض سے غافل نہیں رہیں۔ انھوں نے فرانس میں پیدا ہونے یا پروان چڑھنے والی نسل کی حمایت میں کافی مثبت اقدامات کیے ہیں۔ انھیں اسلام کی تعلیمات وہدایات سے با خبر رکھا ہے۔اب ہم یہ بات پورے اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ فرانس میں مسلمانوں کا اسلامی تشخص محفوظ ہے۔

  • کیا فرانس کے اسلامی اداروں میں یہ اہلیت ہے کہ وہ فرانسیسیوں کے سامنے  اسلام اور مسلمانوں کی درست تصویر پیش کرسکیں؟  اس کا طریق کا ر کیا ہے؟
  • اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی نقطۂ نظر ابھی تک واضح نہیں ہے‘ اور   اہلِ مغرب کے ذہنوں میں ایک مسخ شدہ صورت پائی جاتی ہے۔تاہم اب اس نقطۂ نظر میں کچھ کمی ہو رہی ہے‘ اگرچہ یہ بالکلیہ ختم نہیں ہوا۔مسلمانوں اور اسلام کے بارے میںصحیح تصور پیش کرنے میں ان متعدد فرانسیسی حضرات نے حصہ لیا ہے جنھوں نے اسلام قبول کیا اور دین کے بارے میںدرست حقائق پیش کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کی۔

فرانسیسی حکام نے بھی اسلامی انجمنوں کے نمایندوں اور فرنچ اسلامک کونسل کے ارکان کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کو ہم اس بات سے تعبیر کر سکتے ہیں کہ یہ گویا حکومت فرانس  کی طرف سے دعوت ا سلامی کو سرکاری طور پر تسلیم کرلینا ہے۔

ماضی قریب میں مسلمانوں کے بارے میں فرانسیسی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ غیر ملکی اوربدیشی ہیں۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ سکولوںکی کچھ مسلمان طالبات کو محض اسلامی لباس پہننے کی وجہ سے کس قدر مخالفت کا سامنا کرناپڑاتھا۔ اسی طرح فرانسیسی عوام کی طرف سے قربانی کے جانوروںکے ذبح کرنے پر مسلمانوں کی کس قدر شدید مخالفت کی گئی تھی‘ اور قربانی کو وحشت کا اسلوب قرار دیا گیا تھا۔ اس لیے کہ فرانسیسی قربانی کی حکمتوں سے ناآشنا تھے۔ مگر جب اسلامی انجمنوں نے قربانی اور ذبیحے کے موضوع پر مذاکرات کا اہتمام کیا تو یہ سب مخالفتیں کمزور پڑگئیں اور فرانسیسی قوم نے جانوروں کی قربانی کو حق بجانب سمجھ لیا۔ چنانچہ فرانسیسی حکام نے بھی ہمیں حلال گوشت وافر مقدار میں مہیا کرنے کے لیے کافی انتظامات کیے۔ ابتدا میں صرف پیرس کی جامع مسجدمیںحلال گوشت فراہم کرنے کا بندوبست تھا مگر بعد میں حکومت نے یہ پابندی ہٹالی‘ اور اب پورے فرانس میںحلال گوشت فراہم کرنے والی کمپنیاں اور مارکیٹیں پھیل چکی ہیں۔ غرضیکہ فرانسیسی معاشرے میں اب قابل لحاظ حد تک اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تصورات بہتر ہو چکے ہیں‘بلکہ اب تو فرانسیسی ذرائع ابلاغ بھی مسلم اقلیت کے مفاد میں پروگرام پیش کرنے لگے ہیں۔

  • آپ کچھ اپنی تنظیم کے بارے میں بتائیے۔ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرنے میں اس کا کیا کردار ہے؟
  • یہ ایک اسلامی ادارہ ہے جو مسلمانانِ فرانس کے مفاد میں کام کرتا ہے ۔اس میں ۵۰۰سے زیادہ اسلامی انجمنیں شامل ہیں جو دعوت،تعلیم اور ابلاغ کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔یہ فرانس کی ۶۰۰ مسجدوں اور عبادت گاہوں کی بھی نگرانی کرتی ہے۔ اس کی بنیاد رابطۃ العالم السلامی مکۃ مکرمۃ کی تحریک پر رکھی گئی تھی۔اس کا بنیادی مقصد فرانس میں مسلمانوں اور اسلام کا دفاع ہے۔ مسلمانوں کے تشخص کو محو کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنانا ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کے مقصد سے کی جانے والی مساعی کو ناکام کرناہے۔

’پبلک فیڈریشن‘ کی سربراہی متعدد فرانسیسی مسلمانوں نے کی ہے۔ اس کے پہلے صدر یعقوب روتینیہ تھے، جو فرانسیسی مسلم تھے۔ اس کے دوسرے صدر ایوب لوسیسیہ تھے، یہ بھی فرانسیسی مسلمان تھے۔ تیسرے صدربھی ایک فرانسیسی مسلمان دانیال یوسف دی کلیر تھے۔ اس کے چوتھے سربراہ مصطفی دوجون ترکی الاصل فرانسیسی مسلمان تھے۔ میں اس تنظیم کا پانچواں صدر ہوں اور میں مغربی الاصل(مراکش نژاد) فرانسیسی ہوں۔

ہم نے فرانسیسی عوام اور فرانس میں مسلمانوں کی نئی نسل کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ مسلمان صرف مغربی ممالک اور دیگر مسلم ممالک سے آنے والے تارکین وطن ہی نہیں‘ بلکہ   یہ فرانسیسی شہری ہیں جو ان تمام آزادیوں اور حقوق سے بہرہ ور ہوتے ہیں جن سے فرانسیسی قوم متمتع ہوتی ہے۔ الحمد للہ‘ اب ہم فرانس میں دوسری بڑی نظریاتی طاقت ہیں ۔

ہم نے متعدد مسجدیں تعمیر کی ہیں ، نماز کے لیے ہال بنوائے ہیں ، اسلامی مدارس قائم کیے ہیں جو پروان چڑھنے والی مسلم نسل کے تشخص کو سلامتی و تحفظ فراہم کرتے ہیں‘ اور اسے اکثریت کے معاشرے میں ضم ہو جانے سے بچاتے ہیں۔

ہم سب سے بڑی مثبت تبدیلی یہ لائے ہیں کہ ہم نے فرانس کے سب مسلمانوں کو متحد کردیا ہے۔ مختلف لسانی یا مختلف ممالک سے منسوب نسلی امتیازختم کردیے ہیں۔ اب اسلام ہی فرانس میں رہنے والے تمام مسلمانوں کی قومیت اور شناخت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام فرانس میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ فرانسیسی قوم پوری دل جمعی کے ساتھ اسلام قبول کررہی ہے۔ ہماری اسلامی فیڈریشن نو مسلم خواتین و حضرات کا خیر مقدم کرتی ہے۔ انھیں مفید اسلامی لٹریچر فراہم کرتی ہے تاکہ ان کے قلوب و اذہان میں اسلام کے درست تصورات و مفاہیم ثبت ہوں۔

  • فرانس پہلی صدی ہجری میں ہی اسلام سے متعارف ہوگیا تھا اور کچھ علاقوں میں اسلامی حکومتیں قائم ہوئی تھیں‘ تو کیا اب بھی فرانس میں اسلامی آثار قدیمہ ملتے ہیں؟ نیز اسلامی اثرات وآثار کے بارے میں فرانسیسی قوم کا   نقطۂ نظر کیا ہے؟
  • پیرس کے مشہور عالم عجائب گھر Lourve میں قیمتی جواہرات اور گراں قدر پتھروں کے نہایت قیمتی مجموعے ہیں جن پر قرآنی آیات کندہ ہیں۔ نباتاتی و تعمیراتی نادر نمونوں پر مبنی قیمتی منقش پوشاکوں کا بھی نادر مجموعہ موجود ہے۔ یہ سب کچھ عالمِ اسلام کے متعدد علاقوں سے یک جا کیا گیا ہے۔اس عجائب گھر کے اسلامی آثار قدیمہ کے حصے میں ایک نادر لائبریری ہے جس میں مختلف علوم و معارف پر مبنی اسلامی کتابیں اور مخطوطے موجود ہیں۔علاوہ ازیں قرآن مجید کے نسخوں کا ایک قیمتی مجموعہ بھی ہے۔ان مصاحف پر منفرد اسلامی نقش ونگار ہیں اور یہ حسین عربی خطاطی کے شاہکار ہیں۔

پیرس کے اس عجائب گھر میں اسلامی آرٹ کے کئی ہال ہیں جہاں عالم اسلام کے اہم تعمیراتی شاہکاروں‘ مساجد‘مدارس اور محلات وغیرہ کے تعمیراتی نمونے دستیاب ہیں۔مسلم عمارات کے یہ نمونے دیواروں پر نقش و نگار ،لکڑی اور شیشے کے کام کی وجہ سے انتہائی دل کش ہیں۔اس عجائب گھر میں قالینوں کا ایک نادر مجموعہ بھی ہے جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان میں ایک ایرانی قالین ہے جو شاہ ایران عباس نے پولینڈ کے بادشاہ کو تحفتاً دیا تھا ۔اس قالین کاطول ۱۲میٹر اور عرض ۸ میٹر ہے۔یہ قالین اون سے بنایا گیاہے،جس میں قدرتی ریشم کو سونے اور چاندی کی تاروںسے اون کے ساتھ ملایاگیا ہے۔اس نادر قالین کی قیمت۵۰ ملین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے ۔ اس کی بناوٹ اوراس کے نقش ونگار کا جمال انتہائی دل کش ہے۔ جب اس قالین پر روشنی پڑتی ہے تو اس سے حسین رنگوں کی رنگین روشنیاں پھوٹتی ہیں۔

پیرس کے مذکورہ عجائب گھر میں۱۸۸۱ء میں مشرقی آثار قدیمہ کے لیے الگ سے شعبے کا قیام عمل میںآیا۔جس میں متعدد عربی اسلامی لوحیں اور آثار شامل ہیں۔فرانسیسی ویورپی عوام نے اس میں گہری دل چسپی کا اظہار کیا۔چنانچہ عجائب گھر کی انتظامیہ نے۱۹۴۵ء میں اسلامی آثار قدیمہ کی حفاظت کی خاطر اور ان کی نمایش کے لیے ایک نئی شاخ قائم کی ۔اس عجائب گھر میں     اسلامی آرٹ کے سات ہال ہیں جن میں اسلامی ممالک کے نادر آثار قدیمہ رکھے ہوئے ہیں‘جیسے تلواریں ،خنجر اور مختلف قسم کا اسلحہ جو اُمت اسلامیہ کی تاریخ کے ایک اہم دور کی عکاسی کرتا ہے۔

اسلامی بنک کاری: چند ذہنی الجھنیں

سوال: آج کل ملک میں اسلامی بنک کاری کا بہت چرچا ہے اور ایک خاص مکتبۂ فکر کے ماہرین اسلامی بنک کاری کے لیے خوب محنت کر رہے ہیں‘ جب کہ جماعت اسلامی سے وابستہ لوگ اس سلسلے میں زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔ میں نے ایک بنک میں اسلامی بنک کاری کی وجہ سے ملازمت کی ہے مگر اب تھوڑے بہت مطالعے کے بعد دل مطمئن نہیں۔ اس لیے آپ کی خدمت میں چند سوالات پیش ہیں:

۱- کیا اسلام میں بنک کاری کا کوئی وجود ہے؟ میرے خیال میں بیت المال‘ قرض حسنہ‘ زکوٰۃ‘ صدقہ‘ خیرات کے واضح تصورات کی موجودگی میں لوگوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا بنک کاری ضروری ہے۔ بالخصوص موجودہ اسلامی بنک کاری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

۲- کیا کچھ افراد نفع و نقصان کی بنیاد پر ضرورت مندوں کو قرض فراہم کرنے کا کام کرسکتے ہیں؟ کیا باقاعدہ کوئی ادارہ بنا کر ایسا کام ہوسکتا ہے؟

۳- موجودہ اسلامی بنکوں کی پراڈکٹس جن کے متعلق خود ان کے بنانے والوں کی راے ہے کہ یہ مکمل اسلامی نہیں ہیں بلکہ اسلامی بنک کاری کی جانب ایک پیش رفت ہیں‘ کیا ان بنکوں میں ملازمت کرنا جائز ہے‘ جب کہ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اسی کے   ہم پلّہ مجھے دوسری ملازمت بھی مل سکتی ہے؟

جواب: آج کی دنیا میں معاشی مسائل غیرمعمولی اہمیت اختیارکرگئے ہیں اور خصوصاً  بنک کاری سے متعلقہ مسائل اہلِ علم کی خصوصی توجہ کے محتاج ہیں۔ آپ نے تین بنیادی سوالات اٹھائے ہیں اور آغاز میں ایک تبصرہ بھی کیا ہے کہ جماعت اسلامی سے متعلقہ افراد نے بنک کاری میں کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی۔ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ  دو قائدین پروفیسر خورشیداحمد اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کی طرف سے اسلامی معاشیات اور بنکنگ میں نئی فکر پیش کرنے پر ایوارڈ دیا گیا اور پروفیسر خورشید صاحب کو   شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ جماعت سے وابستہ افراد نے نہ صرف نظری کام کیا ہے بلکہ عملاً خیبربنک نے صوبہ سرحد میںاسلامی بنک کاری کا آغاز کیا ہے اور اس کام میں جماعت اسلامی کے ذمہ داران براہِ راست حصہ لے رہے ہیں۔ پروفیسر خورشیدصاحب اس کے شریعہ بورڈ کے   سربراہ ہیں۔

آپ کے پہلے سوال کے سلسلے میں گزارش ہے کہ قرآن کریم ’قرض حسن‘ کی اصطلاح جس معنی میں استعمال کرتا ہے وہ غیرسودی قرض ہی ہے۔ یہ قرض اگر ایک فرد دے یا ایک ادارہ‘ دونوں میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل تجارتی سامان پر منافع میں شرکت اور منافع سے کمیشن کے اصول پر سیدہ خدیجہؓ کے کاروباری معاملات میں خود حصہ لیا اور بعد کے ادوار میں بھی اُمت میں  اس پر عمل ہوتا رہا۔ ایک غیرسودی بنک بھی اسی طرح تجارتی سامان کی فراہمی پر اپنا ایک مقررہ کمیشن لیتا ہے جو اس کی خدمات کا معاوضہ تصورکیا جائے گا۔

موجودہ اسلامی بنک کاری کے لیے ہر معروف بنک نے اپنا ایک شریعہ بورڈ بنایا ہے جس میں ملکی اور بین الاقوامی شہرت کے ماہرین فقہ بنک کی پراڈکٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کے اسلامی ہونے پر اپنی رائے دیتے ہیں‘ اور صرف وہ پراڈکٹس جاری کی جاتی ہیں جن کو بورڈ جائز قرار دیتا ہے۔

باہمی شراکت اور امداد باہمی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے افراد بھی مل کر ایسے ادارے بنا سکتے ہیں جو ضرورت مند افراد کو قرض فراہم کریں۔ ایسے ادارے اپنے شرکا کی رضامندی سے  جمع شدہ رقم کے ایک حصے کو غیرسودی کاروبار میں بھی لگاسکتے ہیں اور اُس سے حاصل ہونے والے   نفعے سے اداراتی ضروریات پوری کرنے کے بعد رقم کو متناسب طور پر شرکا میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

موجودہ اسلامی بنک کاری پر یہ اعتراض عموماً کیا جاتاہے کہ یہ مکمل طور پر اسلامی نہیں ہے بلکہ اس جانب ایک قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اولاً: ایسے بنک موجود ہیں جو اپنے بارے میں مکمل طور پر اسلامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے معاملات کو باقاعدگی سے فقہی ماہر جانچتے رہتے ہیں۔ لیکن فرض کرلیا جائے کہ دعوے کے باوجود یہ بنک مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کر پا رہے تو کیا ایسی صورت میں ایسے ادارے بند کر دیے جائیں‘ اور اس وقت تک انھیں دوبارہ نہ کھولا جائے جب تک وہ ہر ہرمعاملے میں مکمل طور پر شریعت کے اصولوں پر عمل کرنے کا ثبوت نہ پیش کر دیں؟

میرے خیال میں یہ کہنا تو بہت آسان ہے لیکن ایسے مثالی بنک کے وجود میں آنے تک جو لوگ حرام سے بچنا اور حلال پر عمل چاہتے ہیں وہ کیا کریں؟ اس لیے اس عبوری مدت (transitory period ) میں جس حد تک اسلامی پراڈکٹس کو متعارف کرایا جا سکے اس کی کوشش کرنا چاہیے۔

رہا ملازمت کا معاملہ‘ تو اگر آپ کی تحقیق کی حد تک ایک بنک میں اسلامی اصول کارفرما ہیں تو محض گمان کی بنا پر اس سے علیحدگی کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا۔ اسلامی احکام کی بنیاد ظاہر پر ہے اور جب تک وہ خرابی جس سے آپ پریشان ہیں واضح طور پر حرام نہ ہو‘ محض گمان کی بنا پر اسے حرام قرار دے لینا مناسب نہیں۔ اگر کسی ایسے اسلامی بنک کی ملازمت کے مقابلے میں ایک ایسی ملازمت مل سکتی ہے جس میں آپ کو حالیہ ملازمت سے زیادہ اطمینان ہو‘ تو اطمینان کی بنا پر آپ دوسری ملازمت شوق سے اختیار کرلیں تاکہ ذہنی خلجان سے نجات ملے‘ گو ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔

کسی بھی مروجہ نظام کی جگہ ایک ایسا نظام لانا جو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر مبنی ہو    ایک طویل‘ منظم اور مسلسل جدوجہد کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ مغرب کی   سیکولر ڈیموکریسی اسلامی نقطۂ نظر سے غیراسلامی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کواعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوتا لیکن اس غیراسلامی جمہوریت کو تبدیل کرنے کے لیے جو ذرائع ممکن ہیں ان میں فوجی انقلاب‘ خونی انقلاب اور جمہوری عمل کے ذریعے اسلامی نظام کا قیام‘ تین معروف طریقے ہیں۔ اگر جمہوری عمل کو اختیار کیا جائے تو ظاہر ہے اس عمل کے دوران کچھ عرصے کے لیے جمہوری اداروں میں شرکت کرنا ہوگی‘ جب کہ وہ اصولی طور پر لادینی نظام پر چل رہے ہوں گے۔      اس عبوری عرصے کے لیے اس برائی کو گوارا کیے بغیر تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوگا‘ الا یہ کہ ایک ایسا غیرخونی انقلاب برپا ہو جو ان اداروں کو راتوں رات تبدیل کردے۔

اسلامی انقلاب کے لیے جہاں ایسے افراد کار کی تیاری بنیادی شرط ہے جو مکمل طور پر اللہ کی بندگی اختیار کرچکے ہوں‘ وہاں ان افرادکا سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی میدانوں میں آگے بڑھ کر شرکت کرنا اور عبوری دور میں بھی اپنے کردار و عمل سے اعلیٰ سیرت کا مظاہرہ کرنا اس عمل کا لازمی حصہ ہے۔ یہ کام معاشرے اور اداروں سے کٹ کر اور باہر بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ تبدیلی کا راستہ بعض اوقات ایسے مقامات سے بھی گزرتا ہے جہاں بعض ناگوار حالات ہوں لیکن جب تک منزل‘ مقصد اور سمت درست ہو‘ ایسا کرنا ناگزیر ہوگا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)


مسئلۂ تقدیر

س: ایک شخص نے ایک عجیب اعتراض پیدا کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہرشخص کی موت کا وقت معیّن ہے۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اقوامِ مغرب نے حفظانِ صحت کے اصولوں کی پابندی اور بیماریوں کی روک تھام کر کے اپنی عمروں کے اوسط میں اضافہ اور شرحِ اموات میں کمی کرلی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمر کا بڑھانا گھٹانا اور موت کو ٹالنا انسان کے بس میں ہے۔ اس بات کو واضح کریں کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صحیح ہے۔ آیا زندگی کی مدت اور موت کی گھڑی مقرر ہے یا اس میں ردّ و بدل انسان کے بس میں ہے؟

ج: آپ نے جو سوال کیا ہے وہ دراصل ایک بڑے اور بنیادی سوال کا جز ہے۔ وہ بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کس حد تک تقدیر اور مشیت ِالٰہی کے تحت مجبور اور بے بس ہے اور کس حد تک اُسے ارادہ و عمل کی آزادی دی گئی ہے‘ اور کوشش سے نتائج مطلوب پیدا کرنا کس حد تک اس کے امکان میں ہیں؟ یہ سوال ایسا نہیں ہے جس کا جواب آسانی اور اختصار کے ساتھ اثبات یا نفی کی صورت میں دیا جاسکے۔ اگر جواب میں یہ کہا جائے کہ انسان اپنی تقدیر کا خالق خود ہے اور کوئی بالاتر طاقت اس کے افعال اور نتائجِ افعال پر حاوی و مؤثر نہیں ہے تو یہ بات بالبداہت غلط ہے۔   انسان جب اپنے آپ کو وجود میں نہیں لاسکتا تو جو اعمال اس کے وجود سے صادر ہوتے ہیں‘ ان کا فاعلِ مختار آخر وہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر اگر یہ کہا جائے کہ انسان مجبور محض ہے اور اختیار و آزادی سے قطعی محروم ہے تو یہ بات بھی صریحاً غلط اور خلافِ عقل و مشاہدہ ہے اور یہ دین کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔

حقیقت اِن دونوں انتہائوں کے بین بین ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک خاص پہلو سے اور ایک خاص دائرے کے اندر انسانوں کو ایک حد تک آزادی حاصل ہے اور یہ آزادی انسان اور پوری کائنات کے خالق ہی کی عطا کردہ ہے۔ لیکن اس دائرے سے باہرجاکر انسان کی آزادی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے سارے اعمال اور ان کے نتائج آخرکار مشیت ِالٰہی کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں۔ انسان کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادی یا مجبوری کے حدود کو ناپنے کی کوشش کرے‘ یا یہ مسئلہ حل کرنے میں اپنا دماغ لڑائے کہ یہ جبرواختیار ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتے ہیں؟ انسان جب تک انسانی حدود میں مقید ہے اور جب تک وہ مخلوق کے بجاے خالق نہیں بن جاتا‘ اس وقت تک وہ اس پیچیدہ مسئلے کی تہہ اور کنہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان کا کام یہ ہے کہ جس حد تک اُسے آزادی دی گئی ہے اس حد تک اُسے خالق کی رضا اور منشا کے مطابق استعمال کرے اور جن حدود سے آگے اُسے آزادی حاصل نہیں‘ وہاں وہ آزاد اور خودمختار ہونے کا ادّعا نہ کرے۔

اس اصولی بات کو سمجھ لینے کے بعد آپ عمر کے گھٹنے اور بڑھنے کے سوال پر خود غور کریں۔ یہ بات آخر کس کو معلوم ہے کہ خدا نے کس شخص کی موت کے لیے کون سا وقت مقرر کیا تھا‘ اور کسی خاص دور یا عہد میں کسی خاص قوم کی عمر کا اوسط اس نے کیا متعین فرمایا تھا؟ اگر اس کا علم کسی کو  نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ خودبخود بے معنی ہوجاتا ہے کہ خدا کے مقرر کیے ہوئے وقت پر فلاں شخص نہ مرسکا اور اس نے یا کسی دوسرے نے اس کی عمر میں اضافہ کردیا۔ یہ سب دراصل بے عقلی کی باتیں ہیں جو بہت سے لوگ بے سمجھے بوجھے کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم کو خدا نے علم اورعقل کی جو طاقتیں دی ہیں‘ انھیں استعمال کرکے ہم امراض کے علاج اور صحت کی حفاظت کے زیادہ سے زیادہ بہتر ذرائع مہیا کریں اور ان کے مہیا ہوجانے پر خدا کا شکر بجالائیں۔ اس سے آگے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم نہ کسی کو بیمار پڑنے دیتے اور نہ کسی کو مرنے دیتے۔ لیکن مرض یا موت کو بالکل روک دینے پر نہ کبھی قدیم زمانے کا انسان قادر تھا‘ نہ آج کے زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا معالج یا سائن ٹسٹ قادر ہوسکا ہے۔ (جسٹس ملک غلام علی‘ ترجمان القرآن‘ ستمبر ۱۹۶۴ئ‘ ص ۶۲-۶۴)

مطالعات قرآن، ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی۔ ناشر: اپنا ادارہ‘ منظور منزل‘ ۴۲- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

زیرنظر کتاب قرآنیات سے متعلق ۱۰ مقالات اور ایک مقدمے پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے کو موضوعات کے لحاظ سے چار حصوں میںتقسیم کیا جاسکتاہے۔ پہلا حصہ: ’قرآن کے چند خصائص اور ان سے استفادہ‘ ، ’قرآن کریم میں زمین کا ذکر‘ ، ’قرآنی اصطلاح فساد فی الارض کا ایک جائزہ‘ ، ’پانی، قرآن کریم اور سائنس کی رو سے‘ پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں دو مقالے سرسید کی تفسیر سے متعلق ہیں۔ مصنف نے سرسید کی لغوی تحقیق اور کلامِ عرب پر عبور کو سراہا ہے لیکن اس بات پر افسوس کااظہار کیا ہے کہ تفسیر قرآن میں سرسید نے اپنے عمومی رویے کے برعکس متانت اور بردباری کا دامن چھوڑدیا ہے اور مفسرین کو پاگل اور احمق تک کہا ہے۔

تیسرا حصہ ’تفسیر تـدبر قرآن اور تـفسیر مـاجدی کا موازنہ‘ اور ’تـدبر قرآن اور تفہیم القرآن سے چند تراجم آیات کے موازنے‘ پر مشتمل ہے۔ مصنف نے تمام مقالے علمی اور معروضی انداز میں پیش کیے لیکن جہاں تدبر قرآن کی کسی دوسری تفسیر سے موازنے کی بات آئی وہاں فکرِاصلاحی سے تعلق کا غلبہ نمایاں ہے۔ اسی وجہ سے مولانا مودودیؒ کی ترجمانی پر بھی مصنف کو اعتراض ہے۔

چوتھے حصے میں مشہور محقق اور ماہر اسلامیات ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی قرآنی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ عمدہ کاغذ‘ مناسب طباعت کے ساتھ اچھی پیش کش ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


الروح والریحان‘ محمد وقاص۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ راحت مارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔  صفحات: ۲۸۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

سیرت النبیؐ مسلم معاشروں میں ہمیشہ سے ایک سدابہار موضوع رہا ہے۔ اُردو زبان میں بھی کسی ایک موضوع پر اس قدر عظیم الشان ذخیرئہ علمی موجود نہیں ہے۔ لیکن سیرت پر ایسی کتابیں کم ہی سامنے آتی ہیں جو رسمی اور روایتی انداز سے ہٹ کر قاری کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ زیرنظر کتاب انھی کم کتابوں میں شمار ہونی چاہیے۔

بنیادی طور پر یہ مصنف کے لیکچر ہیں جنھیں کتابی صورت میں ڈھالنے اور سامنے لانے میں پانچ برس صرف ہوگئے۔ ’’ایک ایک صفحہ مجھے کئی کئی بار لکھنا پڑا‘‘۔ مصنف نے کس ذہن‘       کن احساسات اور کن کیفیات میں یہ کتاب لکھی: ’’اس کتاب کی تصنیف گویا ایک سفر ہے۔ میں نے اس سیرتؐ کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے رسولؐ اللہ کی پیدایش سے لے کر آپؐ کی رحلت تک کے مراحل کو روحانی طور پر محسوس کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے آپ کو وہاں موجود رکھ کر اپنی حیثیت متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جاننے کی برابر کوشش کی ہے کہ میں فلاں موقع پر موجود ہوتا تو میرا کیا ردِّعمل ہوتا۔ اس طرح گویا میں ایسا مسافر تھا جو تمام وادیوں میں گھومتا رہا‘ محسوس کرتا رہا‘ خوشی کے مقامات پر خوش ہوتا رہا‘ خوف کے مقامات پر خوف کا شکار ہوتا رہا اور غم کے مقامات پر دل کی کیفیت بوجھل رہی۔ دورانِ تصنیف میری کوشش رہی کہ دل رسولؐ اللہ کی محبت سے سرشار رہے‘‘۔(ص ۱۹)

سیرتِ طیبہؐ کے مختلف واقعات و مراحل کے بیان میں‘ مصنف کا انداز بظاہر عالمانہ نہیں‘ مگر صحت‘ استناد اور احتیاط کا بہراعتبار خیال رکھا گیا ہے۔ آیاتِ قرآنی اور حدیث کا متن‘ ترجمہ اور روایات کے حوالے مصنف کی احتیاط کا پتا دیتے ہیں۔ مصنف نے سیرت پاک کو مرحلہ وار عنوان دے کر مختلف ادوار قائم کیے ہیں‘ اور پھر ضمنی سرخیوں کی مدد سے ایک ایک واقعے اور شخصیت کے ایک ایک پہلو کو عام فہم انداز میں بیان کرتے اور نکھارتے چلے گئے ہیں۔ موضوع کی تفصیلات اور جزئیات میں مطالعہ‘ تحقیق اور مشاورت کے بغیر کوئی بات نہیں لکھی۔ کہیں کہیں بعض مفاہیم پر سیرت کی دوسری کتابوں سے بعض مفاہیم اخذ کیے ہیں (یہاں کتابوں کے نام کے ساتھ اڈیشن اور صفحہ نمبر کا حوالہ دینا ضروری تھا)۔ ہمیں امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے نبی کریمؐ کی شخصیت سے   ایک قربت بھی محسوس ہوگی‘ آپؐ کی دعوت کا اسلوب بھی نکھر کر سامنے آئے گا‘ اور یوں سیرت کا قاری ایک لطف و انبساط اور سر خوشی کی کیفیت سے دوچار ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اقبال اور قادیانیت ، بشیراحمد۔ ناشر: مجلس علم و دانش‘ پوسٹ بکس ۶۳۹‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۲۸۳۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ختم نبوتؐ دین اسلام کا بنیادی ستون ہے۔ مغرب نے اپنے نوآبادیاتی عزائم کی تکمیل کے لیے جہاں مسلم دنیا کے مادی وسائل پر قبضہ جمایا اور ان کی تہذیب و ثقافت کو اپنی مرضی کے مطابق تہہ و بالا کیا‘ وہاں اسلامی عقائد‘ دینی شعائر اور دینی علوم کو بھی اپنے دست شرانگیز کا      نشانہ بنایا۔ اسی روایت کا ایک پہلو‘ برعظیم پاک و ہند میں مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کاذبہ کی تشکیل و تعمیر ہے۔ قادیانیت کا فتنہ محض مذہبی تخریب تک نہیں رکا‘ بلکہ مغربی سامراج کی سیاسی  کاسہ لیسی اور وکالت کے ساتھ‘ مقامی اقوام کی حق تلفی کے لیے بھی پیش پیش رہا ہے۔ علماے کرام نے بجاطور پر‘ مرزاے قادیاں کے عقائد کے تاروپود بکھیر دیے تھے‘ لیکن ان کا یہ استدلال     عوام الناس اور بالخصوص پڑھے لکھے مسلمانوں میں اسی وقت راسخ ہوا‘ جب علامہ اقبال نے دوٹوک الفاظ میں جواہر لعل نہرو کو لکھا:’’میںاس بات میں کوئی شک و شبہہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ احمدی‘ اسلام اور ہندستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔

قادیانیت کے بارے میں پہلے پہل خود اقبال کے ہاں سادگی پر مبنی تاثر اور بعدازاں شفاف حقیقت بیانی کو جناب بشیراحمد نے علمی دیانت‘ باوقار استدلال اور گہری تجزیہ کاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ۱۸۰ مآخذ سے نظائر کو چنا اور سلاست سے پیش کیا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ قادیانیت کسی فرقہ وارانہ مذہبی بحث کا موضوع نہیں ہے‘ بلکہ اہلِ مغرب کے اسٹرے ٹیجک مفادات کی تکمیل میں یہ ایک سرگرم گماشتہ گروہ بھی ہے۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں‘ جب کہ پاکستان کے ایوان ہاے اقتدار اور فیصلہ ساز اداروں میں اس گروہ کا اثرونفوذ گہرے خطرات کو نمایاں کر رہا ہے‘ بعض دینی عناصر بھی اسے نظرانداز کرنے کی غیردانش مندانہ روش کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔

کتاب پر جناب ڈاکٹر سفیراختر کی تقدیم‘ جناب شکیل عثمانی کے دیباچے اور ڈاکٹر ظفراللہ بیگ کے تعارف نے موضوع کی داخلی پرتوں کو مزید نمایاں کیا ہے۔ سنجیدہ تحقیق اور مقصدی اسلوب نے اس کتاب کو ۲۰۰۶ء میں اقبالیات پر ایک قیمتی اضافے میں ڈھال دیا ہے۔ (سلیم منصورخالد)


پروفیسر محمد منور بطور اقبال شناس، زبیدہ جبین۔ ناشر: اقبال اکادمی‘ ۱۱۶-میکلوڈ روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

یوں تو ہر فرد اپنی قدروقیمت کا ثانی نہیں رکھتا‘ لیکن وہ لوگ جو خیر کے پیامی‘ عمل کے داعی اور اعلیٰ مقصد زندگی کے حامل ہوتے ہیں‘ ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند اور بعض صورتوں میں قابلِ رشک ہوتا ہے۔ پروفیسر محمد منور مرحوم (المعروف پروفیسر مرزا منور) ایسے قیمتی افراد میں سے تھے۔

عام طور پر یونی ورسٹی سطح کے مقالات ایک فارمولے کے اسیر ہوتے ہیں لیکن زیرتبصرہ کتاب اظہاروبیان اور موضوع کے بنیادی عناصر کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر صاحب مرحوم کے غیر متزلزل ایمان‘ حصولِ علم کے لیے سخت محنت اور زندگی بھر خیروصداقت کے لیے سرگرم کار رہنے کی مناسبت سے مطالعے کے لیے ایسی بنیادی معلومات ملتی ہیں کہ رشک اور احترام کے جذبات کے ساتھ دل سے بے ساختہ دعاے مغفرت نکلتی ہے۔

پروفیسر منور عربی‘ فارسی‘ اُردو اور انگریزی میں تحریر و تقریر پر قدرت رکھتے تھے‘ جب کہ مادری زبان پنجابی تھی۔ بحیثیت استاد اُن کے ہونہار شاگرد صدقہ جاریہ ہیں۔ اور حضرت علامہ سے ان کی عقیدت و محبت‘ درحقیقت اسلام سے عقیدت و محبت کا مظہر تھی۔ انھوں نے ادب‘ فلسفہ‘  اسلامی تاریخ‘ بالخصوص ہندو ذہن کا بڑی عرق ریزی سے مطالعہ کیا تھا‘ جب کہ اقبال کے شعری اور نثری اثاثے کو علوم اسلامیہ اور اسلامی تاریخ کے فہم کا ذریعہ بنایا۔

ایم فل اقبالیات کے لیے لکھے گئے اس مقالے میں مصنفہ نے احوال کے تذکرے کے ساتھ‘ پروفیسر محمد منور مرحوم کی خدماتِ اقبالیات کا بھی اختصار مگر جامعیت سے احاطہ کیا ہے۔ تصانیف کا مفصّل تعارف‘ اقبالیاتی دورے اور دیگر کاوشیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے اقبالیات کو ایک تحریک بنا دیا۔ مقالہ بڑے سلیقے سے مرتب کیا گیا ہے۔ (س - م - خ)


Sex and Sexuality in Islam [اسلام میں جنس اور جنسیت]‘ ڈاکٹر محمدآفتاب خان۔ ناشر: نشریات‘ ۴۰-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۷۷۰۔ قیمت (مجلد): ۶۵۰ روپے۔

قرآن و سنت کا یہ امتیاز ہے کہ وہ بعض ایسے معاملات میں بھی جہاں زبان بات کرتے ہوئے ہچکچاتی ہے‘ ایک ایسا اسلوب اختیار کرتے ہیں کہ خاندان کا ہر فرد اس کا مطالعہ کرسکے اور  معنی و مفہوم کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ یہ بات فرما کر کہ بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ہو‘ ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام معاملات کا احاطہ فرما لیا جن کا تعلق معاشرت‘ ازدواجی تعلق اور قانون و ادب کے ساتھ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ہر وہ انسانی کاوش جو بعض ایسے موضوعات پر اختیار کی جائے گی جو حسّاس سمجھے جاتے ہیں اور میرے خیال میں ان کے حسّاس رہنے میں نہ صرف حرج نہیں بلکہ شاید زیادہ خوبی ہے‘ہمیشہ ایک کوشش ناتمام رہے گی۔

اس انسانی مشکل کے باوجود ڈاکٹر آفتاب خان نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے جو عرصے سے حسّاس رہا ہے۔ گو گذشتہ سات برسوں میں اس ملک عزیز کے نام نہاد آزاد میڈیا نے اپنی مقدوربھر کوشش کرلی ہے کہ وہ شرم و حیا کے تمام پیمانوں کو توڑتے ہوئے ایسی اصطلاحات کو جو بحالتِ مجبوری عدلیہ میں ایک جج ملزم سے جرح کے دوران استعمال کرتا تھا‘ اتنا عام کردے کہ ایک ۱۰سال کی بچی بھی والدین سے پوچھنے پر مجبور ہو کہ یہ ’زنا‘ کیا ہوتا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے!

یہ کتاب ایک علمی کاوش ہے جس میں اس موضوع سے متعلق کثیر معلومات کو یکجا کردیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ بڑی حد تک جو ضمنی اور ذیلی موضوعات اس دائرے میں آتے ہوں ان پر بھی اپنی رائے کا اظہار کردیا جائے۔ اس لحاظ سے یہ ایک جرأت مندانہ کاوش ہے۔

تاہم‘ بعض ایسے پہلو ہیں جن کی وضاحت اگر اتنی مفصل نہ ہوتی تو شاید مناسب ہوتا۔  موجودہ صورت حال میں یہ کتاب ایک بالغ نظر علوم عمران کے طالب علم کے لیے تو مفید ہے   لیکن ایک عام قاری کے لیے بعض معلومات غیرضروری ہیں۔

کتاب سات حصوں اور ۲۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں جنس اور جنسی تعلیم سے بحث کی گئی ہے اور قدیم یورپی تصورات اور اسلام کے تصورات کا موازنہ کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اسلام کا عمومی تعارف ہے۔ اس میں اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ‘ اسلام کا تصورِ حجاب وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ چوتھے حصے میں تعدد ازواج اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس حوالے سے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ پانچویں حصے میں زنا اور قحبہ گری سے بحث کی گئی ہے۔ چھٹے حصے میں جنسی بے راہ روی کا بیان ہے اور آخری حصے میں جنس اور تشدد کے موضوع سے بحث کی گئی ہے۔ مغرب میں مروجہ بعض جنسی طریقوں کے حوالے سے بحث میں دورِ جدید کے بعض فقہا کی آرا اور معروف مسلک سے اختلاف نظر آتا ہے جو شاید کم عمر نوجوانوں اور اسکول کے طلبہ و طالبات کے لیے ضرر کا باعث ہو۔ اگر کتاب کے دوسرے ایڈیشن میںان حسّاس مقامات پر نظرثانی کرلی جائے تو اس ممکنہ ضرر کو دُور کیا جاسکتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


خواب منزل، تحفہ عروسِ نو، ڈاکٹر شگفتہ نقوی۔ ناشر: مکتبہ خواتین میگزین‘ نزدمنصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۱۶۵ روپے۔

ایک نئے خاندان کی داغ بیل ڈالنے اور اس سفر کو شاہراہِ حیات پر خوب صورتی اور کامیابی سے رواں دواں رکھنے کے لیے جس محبت‘ صبر‘ ایثار اور سمجھ داری کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کو ڈاکٹر شگفتہ نقوی نے اپنی نئی تصنیف خواب منزل میں ایک نئے طرز کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ اختصار کتاب کا حُسن ہے‘ اس کے باوجود انھوں نے انتہائی جامعیت کے ساتھ تمام اہم پہلوئوں پر بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ شادی سے پہلے اور بعد میں پیش آنے والے سلگتے مسائل اور پوشیدہ الجھنوں کا نہ صرف احاطہ کیا بلکہ نہایت کھرے اور بے لاگ انداز میں اس کا حل بھی پیش کردیا۔ اگرچہ موضوع کی گہرائی قلم کوبے باک کردیتی ہے جس سے حیا کا تاثر مجروح ہوتا نظر آتا ہے۔

یوں تو کتاب بنیادی طور پر نئے شادی شدہ جوڑوں کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی ہے مگر اس میں صنفِ نازک کے سدھارے سے زیادہ صنفِ مخالف اورسسرالی قبیلے کے سدھار پر مقابلتاً زیادہ توجہ دی گئی ہے۔بہرحال اس کتاب میںمعاشرتی زندگی کے تناظر میں نئے شادی شدہ جوڑے کے لیے اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے گُر‘ ایک مضبوط اور مستحکم خاندان کی بنیاد رکھنے کے اصول‘ اور ایک مثالی اور خوش گوار زندگی سے روشناس کرنے کے لیے فکرانگیز معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ (ربیعہ رحمٰن)


تعارفِ کتب

  •  حج وعمرہ کی کتاب، تالیف و تخریج: حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ملنے کا پتا: نعمانی کتب خانہ‘ حق سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ فون:۷۳۲۱۸۶۵-۰۴۲۔ صفحات: ۳۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [حج و عمرے کے لیے راہنما کتابوں کے سلسلے میں یہ ایک اچھا اور مفید اضافہ ہے۔ حج کے مسنون آداب‘ مناسک اور مسائل مستند روایات اور صحیح احادیث کی روشنی میں ترتیب دیے گئے ہیں۔]
  • Highway to Success ‘ محمدبشیرجمعہ‘ ترجمہ: صبیح محسن۔ ملنے کا پتا: فضلی بک‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ کتاب سرائے‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت (مجلد): ۲۵۰ روپے۔ [مصنف کی مشہور کتاب شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اُردو میں اپنی نوعیت کی منفرد اور جامع کتاب ہے۔ اچھا ہے کہ اب یہ انگریزی جاننے والوں کے لیے بھی فراہم ہوگئی ہے۔ اس لیے بھی کہ   اب پاکستان میں کامیابی کی شاہراہ انگریزی سے ہوکر ہی جاتی ہے‘ بلکہ انگریزی میں مہارت ہی کامیابی کی    شاہِ کلید ہے۔]
  • تذکرہ سوانح حضرت مولانا سیداسعد مدنی‘ اشاعت خاص ماہنامہ القاسم‘ مرتب: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد‘ ضلع نوشہرہ۔ صفحات: ۵۱۲۔ قیمت:درج نہیں۔ [جمعیت علماے ہند کے صدر مولانا سید اسعد مدنی کا انتقال فروری ۲۰۰۶ء میں ہوا۔ چھے ماہ میں ان کے حالاتِ زندگی‘ خدمات اور کارناموں پراتنی ضخیم اشاعت مرتب کرنے پر القاسم اکیڈمی مبارک باد کی مستحق ہے۔ ایک پورا دور نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی تصویر بھی اس آئینے میں موجود ہے۔]
  • فہم ودراسہ (الفاتحہ‘ البقرہ)‘ مرتب: راجا محمد قاضی۔ ناشر: ادارہ ترجمان القرآن‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۷۶۔ قیمت: درج نہیں۔ [تفہیم القرآن کے مضامین کو طالب علموں کے ذہن نشین کرنے کے لیے   سوالاً جواباً مرتب کیا گیا ہے۔ عربی متن اور ترجمے کے ساتھ اہم الفاظ کے معنی بھی دیے گئے ہیں۔   ایک اچھی اور مفید کاوش۔]
  • مسجد اسلامی معاشرے میں، ڈاکٹر محمد مسعود عالم قاسمی۔ناشر: دفتر ناظم سنّی دینیات‘ مسلم یونی ورسٹی‘   علی گڑھ‘ بھارت۔ صفحات:۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔[۲۵ سے زیادہ عنوانات کے تحت اسلامی معاشرے میں مسجد کا مقام اور کردار بیان کیا گیا ہے۔امام‘ موذن‘ صف بندی‘ خواتین وغیرہ کے ساتھ ساتھ روحانی‘ تعلیمی‘ ثقافتی‘ سماجی اور سیاسی کردار بھی زیربحث آئے ہیں۔]
  • مسلمانوں کی حقیقی تصویر ، مولانا محمد جرجیس کریمی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی‘ڈی-۳۰۷‘ ابوالفضل انکلیو‘ جامعہ نگر‘اوکھلا‘ نئی دہلی‘ بھارت۔ صفحات: ۱۶۴۔ قیمت: ۵۵ روپے۔[مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں‘ اس پس منظر میں‘ مصنف نے مسلمان کی حقیقی تصویر قرآن اور سنت کی روشنی میں پیش کی ہے۔ اگر کہیں عمل نہیں کیا جاتا تو ذمہ داری اسلام کی نہیں‘ مسلمانوں کی ہے‘ مثلاً خواندگی کی کم شرح وغیرہ۔]
  • رحمت ہی رحمت، الشیخ عطاء اللہ بن عبدالغفار فیض کوریجہ۔ ترجمہ: مولانا امیرالدین مہر۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی‘ ڈی-۳۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔[ان تمام روایات کو  جمع کردیا گیا ہے جن سے آپؐ کے رحمت کے پہلو کا اظہار ہوتا ہے۔ ترجمے کے ساتھ قابلِ توجہ امور کو بطور تشریح نکات واردرج کردیا گیا ہے۔ بچوں کے ساتھ‘ خواتین کے ساتھ‘ اہل و عیال کے ساتھ‘ اُمت کے ساتھ‘ غرض ہرلحاظ سے رحمت کے سلوک کے واقعات یک جا ہوگئے ہیں۔]
  • ماہنامہ ہمدرد (خاص نمبر) مدیراعلیٰ: مسعود احمد برکاتی۔ ناشر: ہمدرد فائونڈیشن‘ ناظم آباد نمبر۳‘ کراچی ۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۳۰ روپے۔ [ہمدرد نونہال نے اپنی ۵۴ سالہ زندگی میں ادب‘ نونہالوں اور پاکستان کی بڑی خدمت انجام دی ہے اور کوشش کی ہے کہ عہدحاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئی نسل کے لیے اخلاق اور علم کا پیغام عام کرتارہے۔ زیرنظر خاص نمبر اسی کا تسلسل ہے‘ نیز ایک کہانی بطور تحفہ بھی۔]
  • سیرتؐ کا پیغام ، مرتب: ڈاکٹر ممتاز عمر۔ ملنے کا پتا: ۴۴۵-T‘کورنگی نمبر۲‘ کراچی ۷۴۹۰۰۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت :۶روپے کے ڈاک ٹکٹ۔[حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختصر اور متنوع مضامین کا مجموعہ اور عقیدت سے لبریز اشعار کا گلدستہ۔ علمی سے زیادہ عمل پر اُبھارنے والی مؤثر تحریریں۔]
  • اسلام میںخواتین کے حقوق‘ جدید یا فرسودہ ، ڈاکٹرذاکر نائیک۔ ترجمہ: سید امتیاز احمد۔ ناشر: دارالنوادر‘ الحمدمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۴۔ قیمت: ۵۰ روپے۔[معروف اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا اپنے مخصوص انداز میں عورت کے حقوق پر اظہار خیال۔ موضوع کے حوالے سے جدید ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور شبہات کا مدلل جواب۔ مفید‘ معلوماتی اور مبسوط استدلال۔]

جستجوے حق کا طریقہ

آپ کے جو دوست یہ کہتے ہیں کہ انھوںنے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ اگر جماعت اسلامی ہی صحیح راستے پر ہے تو مجھے اسی کے مطابق چلا دے۔ ان سے کہیے کہ کسی معاملے میںحق معلوم کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی شریعت کے اصولوں کو سامنے رکھ کر ان پر پوری طرح غور کرے۔ اگر غور کرنے سے اس کا دل کسی ایک طرف مطمئن اور یکسو ہوجائے تو اس طریق کو اختیار کرلے اوراگر تردد باقی رہے تو شرح صدر کے لیے   اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور تلاش و تحقیق میں پوری سرگرمی سے مصروف بھی رہے۔ مجرد دعاپر بھروسا کرلینا اوراپنے فکروعقل سے کام نہ لینا صحیح شرعی طریق نہیں ہے۔ یہ کوئی معقول حرکت نہیں ہے کہ تحقیق حق کے لیے اللہ تعالیٰ نے علم و عقل اور قوتِ استدلال کے جو ذرائع بخشے ہیں اور اپنی آیات ہدایت اور اسوۂ انبیا کی جو نعمتیں عنایت فرمائی ہیں‘ ان سب سے قطع نظر کرکے آدمی محض اللہ سے ہدایت و راستی کی آرزو کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائے۔ جس شخص نے خدا کے دیے ہوئے چراغ کو گل رکھا اور روشنی کی دعا کی‘ یا خدا کی دی ہوئی آنکھ موندے رکھی اور راستہ دیکھنے کی التجاکرتا رہا‘ اس نے اللہ کی بخششوں کاکفران کیا‘ اسے کب حق پہنچتا ہے کہ اللہ اس پرمزید بخششیں فرمائے۔ ایسا رویہ دین سے بے پروائی اور عدم دل چسپی کی دلیل ہے‘ اور اس میں کسی سنجیدگی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ خود یہ حضرات دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں فکروعقل کو معطل کرکے محض دعا پر بھروسا نہیں کرسکتے لیکن اسے فریب نفس کے سوا اور کیا کہاجائے کہ دین جیسے نازک معاملے میں عقل کی آنکھیں بند کر کے محض اندھی دعائوں سے مقصد حاصل کرنے کی فکر کی جاتی ہے۔ وہ حق جس پر پوری زندگی کی درستی اور نادرستی اور آخرت کے ابدی راحت و الم کا دارومدار ہے‘ اس کی تلاش میں‘ چراغ گل کر کے‘ آنکھیں موندکر‘ کان بند کرکے‘ ذہن کے دروازوں پر قفل لگاکر آدمی نکلے اور مجرد دعا کی لاٹھی سے راستہ ٹٹولنا چاہے‘ حددرجہ مضحکہ خیز حرکت ہے! عقل و فکر اور چشم و گوش کا اولین فطری مصرف یہی ہے کہ ان کی مدد سے حق کو اور دین کی سیدھی راہ کو پہچانا جائے‘ اور اگر یہ اعلیٰ درجے کے قویٰ اسی پاکیزہ مصرف پر صرف نہ ہوئے تو پھر کیا ان کو نظامِ کفر کی پہچان اور اس کی اطاعت کے لیے صرف ہونا ہے؟ سوچتی ہوئی عقل اور  کھلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ طلب ہدایت کی دعا کیجیے تو وہ ان شاء اللہ نشانے پر بیٹھے گی۔(’رسائل و مسائل‘، دعاے استخارہ‘ خواب‘ کرامت‘ مولانا امین احسن اصلاحی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد۶‘ ذی الحجہ ۱۳۶۵ھ‘ نومبر ۱۹۴۶ئ‘ ص۶۲-۶۳)