مضامین کی فہرست


ستمبر۲۰۰۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیااُمت مسلمہ عدل و انصاف کی علم بردار ‘اُمت وسط ہے جو انسانیت پر گواہ بنا کر‘ لوگوں کی فلاح اور اللہ کی خاطر گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے بھیجی گئی ہے‘ یا یہ اُمت دہشت گرد اور انتہا پسند ہے جو دنیا میں فساد اور افراتفری مچارہی ہے ؟

آج پوری دنیاکواس سوال کے جواب کی بنیاد پرتقسیم کردیاگیا ہے ۔ صہیونی لابی اور ان کے زیرکنٹرول ذرائع ابلاغ شب و روز اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مترادف قرار دینے میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف تجزیاتی تبصرے ہو رہے ہیں‘ دستاویزی فلمیں ‘ ڈرامے اورناول تیار کیے جارہے ہیں‘ بلکہ عملاً بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا ارتکاب کرکے انھیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عام آدمی کے ذہن میں اسلام اور مسلمان کا ایک بدنما اور خوں خوارتصور قائم کیاجائے‘ اور وہ حقیقت کو معلوم کرنے اور سچائی کو   قریب سے دیکھنے کے بجاے دُورہی سے اسلام سے متنفر ہوجائے ۔ عدل و انصاف کا علم بردار نظام جو پوری انسانیت کے لیے رحمت اور عہد حاضر کے انسان اور انسانوں کی عالمی بستی (Global Village)کے لیے امن اور راحت کا پیغام لیے ہوئے ہے‘ لوگوں کی نظر وں سے اوجھل ہوجائے‘ اس کے خوب صورت چہرے کو بگاڑ کر مکروہ بنا دیا جائے۔

مغرب صہیونی پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہے کہ بقول اقبال’’ فرنگ کی رگ جاں  پنجۂ یہود میں ہے‘‘ ۔ ۱۰۰سالہ منصوبہ بندی کے تحت منظم کام کے نتیجے میں یہود نے عیسائی مغربی دنیا میں اس قدر اثر و رسوخ حاصل کرلیا ہے کہ پہلے یہودی جس مغرب میں شہروں کے مخصوص محلوں (Ghettos) میں محصور ہوکر رہتے تھے اور اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ کردیے جاتے    تھے بلکہ نفرت کا نشانہ تھے‘ اسی مسیحی مغرب کے باسی‘ اب اپنی ثقافت کو Judo-Christion (یہودی‘ عیسائی )کلچر قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ ہندوئوں نے بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے رشتے جوڑ لیے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی تحریک جاری ہے ۔

ہمارے حکمران جنھوں نے مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائی ہے‘ اس منظر سے خوف زدہ ہیں۔ ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ وہ ہمت کرکے اس صورت حال کے سدباب کے لیے صحیح سمت میں درست منصوبہ بندی کریں اور اپنے قیمتی اسلامی ورثے کو سینے سے لگاکر‘ اسی پیغام کو عام کردیں جس کے ذریعے انھیں ایک ہزار سال تک پوری انسانیت میں پذیرائی ملی تھی اور مغرب و مشرق کے سفید فام و سیاہ فام انسانوں نے ان کی قیادت قبول کرلی تھی ۔ وہ یہ حقیقت فراموش    کر رہے ہیں کہ نَحْنُ قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ وَکُلَّمَا ابْتَغَیْنَا الْعِزَّۃَ فِی غَیْرِہِ أَذَلَّنَا اللّٰہُ،ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزت و سرفرازی بخشی اور جب بھی ہم اسلام کے بغیر کسی اور چیز میں عزت کے متلاشی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں ذلت سے دوچار کر دے گا۔ مسلمانوں کے حکمران خود اُمت مسلمہ کو مغربی اقوام کی مرضی کے مطابق اپنا کلچر اور طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے اور نام نہاد اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے نام پر اپنی قوم کو مغربی تہذیب و ثقافت اپنانے کی تلقین کررہے ہیں ۔

اپنے دین‘اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کے ساتھ منسلک رہنے کو انتہا پسندی کا نام دیا جا رہا ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں دینی مدارس کو مطعون و محصور کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جا تی ہے ۔ مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے کاٹا جا رہا ہے۔ پاکستان جو اپنے اسلامی نظریہ مملکت اور مضبوط و منظم دینی تنظیموں کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا مرکز بنتا جا رہاتھا‘ اسے اب اُمت کے نوجوانوں ‘ طالب علموں اور سیاحوں کے لیے شجر ممنوعہ بنا یا جارہا ہے ۔ ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے تمام دروازے چوپٹ کھلے ہیں لیکن کسی مصری ‘الجزائری اور سوڈانی کے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا ‘امریکا اور یورپ کا ویزا حاصل کرنے سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تا کہ اُمت کا تصور ختم کردیا جائے‘ مسلمان اور مسلما ن کے درمیان ناقابل عبور دیواریں کھڑی کردی جائیں اور انھیں آپس میں متحد ہونے کے بجاے دوسری اقوام کی قیادت و سیادت میں ثانوی حیثیت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں طیاروں کے اغوا کے واقعے کی پوری ذمہ داری بغیرکسی ثبوت کے‘ پہلے ہی دن سے‘ مسلمانوں اور القاعدہ پر ڈال دی گئی۔ پھر القاعدہ کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری طالبان کی حکومت پر ڈال کر افغانستان پر فوج کشی کردی گئی ۔ اب حال ہی میں لندن کے زیرزمین ریلوے سسٹم اور ٹرانسپورٹ بسوں میںدھماکے ہوئے جس میں بے گناہ اور معصوم لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری بھی بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے اور برطانیہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے اقدامات شروع ہوگئے ہیں‘ یہاں تک کہ کسی جواز و منطق کے بغیر پاکستانی مدارس سے معصوم بچوں کو اٹھا کر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح نائن الیون اور سیون سیون مسلمانوں کے خلاف دوحوالے بنا دیے گئے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک کے حکمران بھی اپنے مغربی آقائوں کے ہمنوا بن کر اُمت مسلمہ کے خلاف صہیونیوں اور مسیحی استعماری طاقتوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور تہذیبی جنگ میں اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کے صف اول کے اتحادی بن گئے ۔ اُمت مسلمہ کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرے ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح اور درست راستہ  کون سا ہے؟ نائن الیون اور سیون سیون کے ذمہ داران کون ہیں؟ ان واقعات کے بارے میں اسلامی تحریکوں کا موقف کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن کے ہیبت ناک واقعات کو ٹیلی ویژن پر پوری دنیا نے دیکھا ۔یہ واقعات بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لیے صدمے ‘ خوف اور حیرت کا باعث بنے ۔ امریکی سرزمین پر امریکی قوم ہمیشہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔ نائن الیون کے واقعات سے امریکی قوم بھی ایک اچانک صدمے سے دوچار ہوئی۔ اسلامی تحریکوں نے بھی دنیا بھر کے ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کا موقف بیان کرتے ہوئے میں نے ۱۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو خطبہ جمعہ میں کہاتھا کہ:

اس واقعے پر ہمیں انتہائی صدمہ ہوا ہے ۔ اس میں ہر قومیت اور مذہب کے لوگ مارے گئے ہیں جن میں مسلمان اور پاکستانی بھی تھے ۔ کوئی مذہب بے گناہ افراد کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ واقعہ امریکا کی اپنی سرزمین پر ہوا ہے ۔ اس کے اپنے ہوائی اڈے اور اپنے ہوائی جہاز استعمال ہوئے ہیں۔ امریکا ان واقعات پر جذباتی ردعمل کے بجاے ٹھنڈے دل و دماغ سے اس کے اسباب ‘ محرکات اور وجوہات تلاش کرے ‘ یہ اس کے اپنے مفادمیں ہے ۔ پاکستان پر دبائو ڈالنا اور اس سے افغانستان پرحملے کی صورت میں ہوائی اڈے اور تعاون مانگنا خطرناک ہے ‘ یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے جس کا کڑوا پھل امریکا پہلے ہی چکھ رہا ہے۔ اس کی بجاے اسے عدل و انصاف اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

اس بات پر غور کرنے کے بجاے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں‘ امریکا پاکستان کے ایئربیس  استعمال کرنا چاہتا ہے ۔امریکا مدت سے ہمارے نیوکلیئر پروگرام اور فوج کا مخالف ہے۔ ہم افغانستان پر حملے کے لیے اپنے اڈے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔یہ اس کا غیر عادلانہ مطالبہ ہے ‘ خودامریکا بھی اس طرح مزید دلدل میں پھنسے گا ۔امریکا کو داخلی طور پربھی انصاف کا نظام قائم کرنا اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا چاہیے اور خارجی طور پر بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔دنیامیں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے ‘ جب تک اس کا ازالہ نہیں ہوگا ‘ امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ کشمیر ‘ چیچنیا اور فلسطین میں ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ظالموں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف ردعمل پیدا ہو رہا ہے ۔

امریکا کو اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس واقعے سے یہودی کیاکیافائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اسے مکمل غیر جانب داری سے جائزہ لینا چاہیے کہ اس سانحے کے پیچھے اس کی آڑ میںمفادات سمیٹنے والے یہودیوں کا ہاتھ کیوں نہیں ہوسکتا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے امریکا پر اسرائیل کا ’’جن ‘‘ سوار ہے جس نے امریکا کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔اس وقت پوری دنیا کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ امریکا کو بتائے کہ وہ جذباتی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجاے اصل حقائق تلاش کرے۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہیں امریکا کا اپنا کیا دھرا تو نہیں؟ چند سال پہلے کئی سو امریکیوں نے زہر پی کر اجتماعی خود کشی کرلی تھی اور اوکلوہومامیں ایک امریکی نے بارود سے بھرا ٹرک ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیا تھا‘جس سے سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے ملزم نے شہادت دی تھی کہ ہم اس نظام اور مصنوعی زندگی سے تنگ آچکے ہیں اور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ وہاں خاندانی نظام تباہ ہے ۔ بچوں کو  اپنے باپ کام نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ وہ آوارہ پھرتے ہیں۔ ہاسٹلوں اور اسکولوں میں ہم جماعتوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کے واقعات ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے کئی گروہ امریکا میں موجود ہیں ۔

امریکا کو سپر طاقت ہونے کا زعم ہے ‘ وہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے باوجود یہودیوں کی سرپرستی کررہا ہے ۔ وہاں عدل و انصاف کا جنازہ اٹھ گیا ہے ۔ امریکا کی یہ سیاست ظلم پر مبنی ہے ۔ کمزور اقوام کوذلیل کرنے اور ان پر اپنا طرز زندگی اور تہذیب واقدار مسلط کرنے کے نتیجے میں ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ امریکا نے خود ہر طرح کا اسلحہ اور جراثیمی ہتھیار جمع کررکھے ہیں جن کے ذریعے ایسے ایسے امراض پھیلا ئے جاسکتے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ۔ کیا اس طرح کے ہتھیار جو پوری قوم کو تباہ کردیں‘ کسی کے خلاف استعمال کرنا دہشت گرد ی نہیں ہے؟ ان ہتھیاروں سے ساری دنیا پاک ہونی چاہیے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب امریکا‘ روس اور برطانیہ بھی ایسے ہتھیار تلف کردیں ۔ وہ خود تو اس کے لیے تیار نہیں ہیں ‘ لیکن جن کمزور اقوام کے پاس یہ ہتھیار اپنے تحفظ کے لیے ہیں ‘ ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ ایسے ہتھیار ختم کریں۔ یہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے ‘ اس میں جیئیں گے تو سب جیئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ طاقت ور اقوام جیئیں اور غریب قومیں مٹ جائیں ۔ عدل و انصاف کے ساتھ سب جی سکتے ہیں ‘ ظلم کے ساتھ نہیں۔

لندن بم دھماکوں کے بعد بھی تمام اسلامی تحریکوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا۔ اس موقعے پر اخوان المسلمون کا موقف واضح کرتے ہوئے مرشد عام محمدمہدی عاکف نے فرمایا:

لندن کے قلب میں ہونے والے دھماکوں سے جن کے نتیجے میں ۴۰ افراد ہلاک اور ۱۹۰زخمی ہوگئے ہیں‘ اخوان المسلمون کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ وہ اس مجرمانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیتے ہیں کیونکہ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور شہری آبادیوں کو خوف زدہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔

اخوان المسلمون کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ عالمی سطح پر وسیع تر تشدد‘ عدمِ استحکام اور دہشت گردی کی یہ لہر امریکی اور برطانوی حکومتوں کی ان پالیسیوں کا براہِ راست نتیجہ ہے جن میں انھوں نے عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ انھوںنے تمام عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے طاقت کے اندھے استعمال ہی کو قانون قرار دے رکھا ہے اور دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس سے پہلے نومبر ۲۰۰۲ئ‘ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ میں اخوان المسلمون اور دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں نے لندن ڈیکلریشن کے نام سے مغربی اقوام اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اپنا اصولی مؤقف جامع انداز میں پیش کیا جس کے چند اہم نکات یہ تھے:

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مخلوقات بشمول بنی نوع انسان کا‘ واحد خالق‘ نگہبان اور رب ہے۔ تمام انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں‘ لہٰذا بھائی بھائی ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد مرضی کا اختیار بخشا ہے ۔ وہ اس کو غلط بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے اپنی کمالِ رحمت سے اس کے لیے ہدایت کا سامان بھی کیا ہے جس کی روشنی میںانسان درپیش مسائل کو بخوبی حل کرسکتا ہے۔یہ ہدایت انبیا کے ذریعے انسانوں کو دی گئی ہے جس کا آغاز حضرت آدم ؑسے ہوا اور حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ سے ہوتا ہوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا۔

آج ۳۰ کروڑ سے زائد مسلمان مغربی ممالک میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے بیش تر وہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں اور ترقی کے عمل میں شریک ہیں۔ وہ آگے بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اس قابل ہوں گے کہ ان ممالک میں ایک کثیرمذہبی‘ کثیرثقافتی اور کثیرنسلی معاشرے کو فروغ دے سکیں۔ لہٰذا وہ تمام حساس انسان جو امن سے محبت کرتے ہیں اور دو تہذیبوں کے اجتماعی ورثے اور انسانیت کے ایک مقدر پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سنگین حالات میں ایک بار پھر لوگوں کو اسلام کے اصولوں کی یاد دہانی کروائیں جو تمام مذاہب کی حقیقی اساس ہیں‘ اور بنی نوع انسان کے اجتماعی مسائل سے متعلق ہیں تاکہ رواداری‘ بقاے باہمی اور کثیریت فروغ پاسکے۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں‘ اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے تمام شرکا مغربی ممالک میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اصولوں کو اپنائیں:

۱- امن‘ بقاے باہمی اور باہمی تعاون کا انحصار‘ عقیدے کی آزادی‘ باہمی احترام اور قانون کے یکساں احترام پر ہے۔ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے اور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے حقوق اور آزادیوں سے مستفید ہو اور ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی یقینی بنائے۔

۲-  موجودہ مغربی معاشرے‘ دارالحرب نہیں بلکہ میدان دعوت ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ خواہ وہ وہاں کی شہریت رکھتا ہو یا عارضی طور پر رہایش پذیر ہو۔

اس عہد کے اہم ترین تقاضے حسب ذیل ہیں:

  • یہ کہ غیرمسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو اسی قانون کے تحت قابلِ احترام ہے جس کے ذریعے خود انھیں رہایش کا حق دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنا عہد پورا کرو‘‘۔ (۱۷:۳۴)
  • ملکی قوانین کا احترام کیا جائے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے اور اسے نقصان پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
  • بھرپور کوشش ہو کہ تعلیمی اداروں‘ تعلیمی و ثقافتی مراکز کے قیام کے ذریعے ایک ایسی نئی نسل تیار کی جائے جو سچی مسلمان اور مفید شہری ثابت ہو۔
  • اللہ کی رسّی (دین)‘ اخوت‘ رواداری کو مضبوطی سے تھاماجائے‘ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کیا جائے‘ متنازع امور میں مکالمے اور موعظۂ حسنہ کو اپنایا جائے اور ان امور سے دُور رہا جائے جو مختلف قومیتوں میں نفرت کا باعث ہوں‘ ان تمام   نقطہ ہاے نظر اور طریقوں سے اجتناب کیا جائے جو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تاثر کو مسخ کرنے کا باعث ہوں۔
  • اس بات کی مقدور بھر کوشش کی جائے کہ نیک اور مفید کاموں میں دوسروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون ہو‘ انسانیت کے درمیان باہمی اتفاق راے کے نکات کو رواج دیا جائے‘ مثلاً باہمی تعلقات کا فروغ‘ آزادی راے‘ انسانی حقوق‘ ماحول کی آلودگی‘ نفرت کے بجاے محبت کا فروغ اور جنگ کے اسباب کی مخالفت وغیرہ۔
  • جن ممالک میں وہ رہایش پذیر ہیں وہاں اسلام کو بطور سرکاری مذہب تسلیم کرانے کے لیے بھرپور اور متحدہ کوشش کی جائے تاکہ وہ بھی ان حقوق اور آزادیوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں‘ جوغیرمسلموں کو مسلم ممالک میں حاصل ہیں۔
  • اسلامی تعلیمات اور مروجہ قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے لبرل قوتوں سے بھی انسانی حقوق اور انسانیت سے متعلق امور میں مذہب اور قومیت کی تمیز کے بغیر تعاون کیا جائے۔

ان بیانات سے ظاہر ہے کہ اسلامی تحریکوں کا موقف عدل و انصاف کے سنہرے قرآنی اصولوں پر مبنی ہے ۔ انتہائی اشتعال انگیزی کے موقع پر بھی ہم نے کبھی عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑا ۔ قرآن کا فرمان ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

اس وقت عالم انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقت ور اقوام کی خارجہ پالیسی عدل و انصاف کے بجاے اپنے محدود قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہر اخلاقی اصول کو پامال کرنا ان کی نظر میں جائز ہے ۔ خلیج کی ریاستوں میںامریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے امریکا کے ایک سابق سفیر اور معروف دانش ور مارٹن انڈیک اپنی کتاب International Intrest in the Gulf Region میں امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’خلیج کے بارے میں ریاست ہاے متحدہ امریکا کی سلامتی کی حکمت عملی (security strategy) کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کے چشموں سے ضرورت کے مطابق تیل کی فراہمی‘ مناسب قیمتوں کے ساتھ جاری رہے ‘‘۔

اس مقصد کے لیے عراق پر جنگ مسلط کردی گئی‘عراقی فوج کا خاتمہ کردیا گیا۔ لاکھوں لوگ مار ڈالے گئے‘ پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ پوری قوم فساد اور قتل و غارت کی نذر کردی گئی‘ اسے تذلیل و تحقیر کا نمونہ بنا دیا گیا‘ ابوغریب میں ’’احترام آدمیت‘‘کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ ہمیں تیل چاہیے، ’’ہمارا سلامتی کا منصوبہ اس کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔ ان کے کہنے کے مطابق اس وقت سعودی عرب تیل فراہم کرنے والا ایسا واحد ملک ہے جس کی فراہمی کو ضرورت کے مطابق کنٹرول کیا جاسکتا ہے ‘ اس کی تیل کی پیدا وار کواپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیاجاسکتا ہے ۔ اگر عراق میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا جائے اور حالات میں استحکام پیدا ہوجائے تو عراق ہمیں تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ذریعہ بن جائے گا ‘جس کے تیل کی سپلائی کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیا جاسکے گا ۔ اس طرح تیل کی قیمتیں مکمل طور پر امریکا کی مرضی کے مطابق متعین کی جاسکیں گی اور نہ صرف امریکا بلکہ تمام صنعتی ممالک بشمول جاپان       اور یورپ کی مشینیں بغیر کسی تشویش کے چلتی رہیں گی ۔ اس پالیسی کا اعلان کرنے میں امریکی   دانش وروں کو کوئی باک نہیں ہے۔

یہ بحث الگ ہے کہ کیا امریکا عراق میں اپنے یہ اہداف حاصل کرسکے گا یا نہیں؟ یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہاںاس کا مالی اور جانی نقصان اسے وہاں مزید کتنی مہلت دیتا ہے۔ کیونکہ اب تو اس کے اکثر پالیسی ساز‘ عراق پر حملے کے فیصلے سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ۱۸ اگست کو آزادی صحافت کے نام پر تین ایسی خفیہ دستاویز جاری کی گئی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ عراق پر حملہ خطرناک اور مہلک ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک دستاویز خود امریکی وزارتِ خارجہ نے حملے سے تقریباً ایک ماہ پہلے ۷ فروری ۲۰۰۳ء کو تیار کی تھی۔

سلامتی کی حکمت عملی کے نام پر ہی عالم عرب کے عین قلب میں ایک مصنوعی یہودی ریاست کا خنجر گھونپا گیا تھا۔ فلسطین ہزاروں سال سے آباد خطہ تھا۔کوئی بیابان یا غیر آباد صحرائی علاقہ نہیں تھا۔ یہ اہم ترین انسانی تہذیبوں کو فروغ دینے والا مہذب انسانوں کا مسکن تھا ۔ ایک بین الاقوامی سازش کی خاطر استعماری ممالک نے مل کر یہاں سے فلسطینیوں کے اخراج اور یہودیوں کی آبادی اور بالآخر ایک خود مختار یہودی ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس ریاست کو اپنے مخصوص مفادات (strategic intrests)کے تحفظ کی خاطر پڑوس کی تمام ریاستوں پر فوجی اعتبار سے بالادست بنا دیا۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول کے بقول: ’’اسرائیل کی سلامتی کی خاطر اس پر سے خوف کے سارے خطرات کو ہٹانا ریاست ہاے متحدہ امریکا کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے‘‘۔ چنانچہ اس غرض کے لیے کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی توانائی کا وجود امریکا کو قابل قبول نہیں ہے اور کسی مسلمان ملک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے ایسے ہتھیار رکھے جن کے ذریعے وہ دشمن کو خود سے دُور رکھ سکے‘ جب کہ اسرائیل کو دوسروں کی حدودمیں مداخلت کی کھلی اجازت ہے۔ اسرائیل اپنی ان حدود سے بھی باہر نکل گیا ہے جو اقوام متحدہ میں بڑی طاقتوں نے ناجائز طور پر اس کے لیے مقرر کی تھیں ۔ جنگ کے ذریعے دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کو  اقوام متحدہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے لیکن اگر یہ علاقے مسلمانوں کے ہوں تو قابض چاہے اسرائیل ہو چاہے بھارت‘ ان کے لیے یہ قبضہ جائز قرار پاتا ہے ۔ اس لیے اسرائیل کو اپنے چاروں طرف کے علاقوں پر قبضے کا حق ہے کیونکہ اسے اپنی سلامتی کے لیے محفوظ سرحدوں کی ضرورت ہے۔

مغربی پالیسیوں کا ایک اور اہم نکتہ دنیا میں جمہوریت کی ترویج ہے۔ امریکا نے جمہوریت رائج کرنے کی خاطر وسیع تر مشرق وسطیٰ کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کی سرحدیں پورے عالمِ اسلام کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شخصی حکومتوں کا خاتمہ کر کے اقتدار عوام کے سپرد کرے گا۔ وہ خود کوبنیادی انسانی حقوق کے علم بردارقرار دیتا ہے ۔ اس کی نظر میں جمہوریت ہی ایک مستحکم    سیاسی نظام فراہم کرتی ہے اور آزاد عدلیہ جمہوریت کابنیادی ستون ہے لیکن جن جن ممالک میں ان کے مفادات تقاضا کرتے ہیں کہ یہاں فوجی اور سول آمراپنے عوام پر مسلط رہیں‘ مطلق العنان  شخصی حکمرانی ہو‘ وہاں وہ اپنی تمام توانائیاں اسی فوجی آمر یا جابر حکمران ہی کے لیے وقف کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر انھیں اپنی اقوام پر مسلط کرنے کے لیے غیر ملکی افواج کی ضرورت ہو تو   سیاسی استحکام کے نام پر یہ بھی جائز ہے۔

الغرض اپنی فوجی ‘ معاشی اور تہذیبی برتری (hegemony) قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے عسکری‘ معاشی اور ابلاغیاتی جارحانہ اقدامات مغربی ممالک کے لیے  عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ان اقدامات کی مخالفت ان کی نظر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اشتعال کے باوجود ایک عادلانہ موقف اختیار کیا لیکن مغربی ممالک اس پر راضی نہیں ہیں ۔وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم بقول ان کے ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ کے مقابلے میں پرویز مشرف کی طرح ان کا ساتھ دیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ ہماری تہذیب و ثقافت ہی نہیں عقیدہ و ایمان بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کو نعوذباللہ نفرت کی تعلیم دینے والی کتاب ثابت کرکے اسے نئی نسلوں کے ذہنوں سے کھرچنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ اس میں قرآنی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نکل کر اباحیت و آوارگی پر مشتمل مواد شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس ہی سے نہیں‘ کالجوں اور اسکولوں کے نصاب سے بھی جہاد کے ذکر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کی تعلیم کو دہشت گردی کی تربیت قرار دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام اقدامات کو جائز قرار دیں جنھیں وہ اپنی سلامتی کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔

ان کے اس ناروا مطالبے کے جواب میں اُمت مسلمہ کے عادلانہ مؤقف کو وضاحت کے ساتھ اور یک آواز ہو کر بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالم اسلام کے تمام علما‘ دانش ور اور ماہرین اپنی حکومتوں کے اثرات سے آزاد ہو کرقرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اپنا موقف بیان کریں اور مغربی ممالک میںحق و انصاف کی بات سمجھنے والوں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں ۔ عالم انسانیت کو اس طرح کے ایک گروہ کی ضرورت ہے جو جغرافیائی ‘نسلی اور مذہبی گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کرپوری انسانیت کی بھلائی کی سوچ رکھتے ہوں ۔ مبنی برانصاف بات کرنے والے خود مغرب میں موجود ہیں۔ وہاں کے کروڑوں لوگوں نے جنگ مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ خود لندن کے مئیر کین لیونگسٹن نے برملا کہا ہے کہ ’’اگر برطانیہ کے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو فلسطینی اور عراقی عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو یہاں بھی خودکش حملہ آور پیدا ہوجائیں گے‘‘۔ لیونگسٹن جو خود بھی ٹونی بلئیر کی حکمران پارٹی کا اہم اور مؤثر رکن ہے سوال کرتا ہے کہ اگر برطانوی شہریت رکھنے والا کوئی مسلمان اسرائیلی فوجوں کے مظالم دیکھ کر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے چلا جائے تو ہم اسے دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی برطانوی یہودی فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کے لیے جا کر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوجائے تو ہم اسے کیوں اس کا قانونی حق سمجھتے ہیں؟ یہ دہرے معیار ترک کرنا ہوں گے۔

اسی طرح جارج گیلوے جو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں‘ انصاف کے علم بردار اور عراق پر جنگ مسلط کرنے کے شدید ترین مخالف کے طور پر عالمی افق پر ابھرے ہیں ۔ امریکی دانش وروں پال فنڈلے اور گراہم وولر جیسے لوگوں نے بھی امریکی پالیسیوں کو مکمل طور پر یہودی ذہنیت اور سازشوں کے تابع قرار دیتے ہوئے ان پر نظرثانی کی بات اٹھائی ہے ۔انصاف کی یہ آواز یں خود مغربی ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ حال ہی میں انھی خیالات کے حامل کچھ دانش وروں اور مغربی ممالک کے سیاسی اور سلامتی کے مشیروں سے اسلامی تحریکوں کے کچھ افراد کو تین روز تک باہمی  تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ آج مغربی ممالک میں اچھی خاصی تعداد ایسی موجود ہے جو امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پالیسیوں کو خود امریکا اور برطانیہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اُمت مسلمہ کے ساتھ مستحکم اور دیر پا تعلق قائم کرنا عالمی امن کے لیے ضروری‘ اور پوری انسانیت کے مفادمیں ہے ۔ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے مغربی ممالک کو مسلمانوں کی حقیقی ترجمان تحریکوں سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں کہ عالم اسلام کے موجودہ حکمران اُمت کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں۔

مغربی ممالک کی قیادت کو جلد ہی معلوم ہوگا کہ حالات کو درست طریقے سے پڑھنے کے لیے ’’صہیونی عینک ‘‘ کے بجاے انھیں اپنی نظر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے مستقبل کو محفوظ کیا جاسکے ۔ مغربی ممالک کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے ۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوگئے تو اسلامی ممالک اور اسلامی تحریکوں کی طرف سے انسانیت کے وسیع تر مفاد کی خاطر عالمی امن کے تحفظ کے لیے پورے دلائل کے ساتھ ایک متفقہ موقف پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی سیمی نار کا انعقاد اور دنیا کے تمام انصاف پسند عناصر کے درمیان گفت و شنید وقت کا اہم تقاضا ہے‘ جس میں اہم مسلم شخصیات اور اسلامی تحریکوں کے نمایندوں کے علاوہ مسلمان حکام کے نمایندے بھی شامل ہوں اور مسلمان عوام کے ہر مؤثر طبقے کی نمایندگی بھی ہو۔ کئی روز تک  کھل کر اظہار خیال کیا جائے ۔ مغربی ممالک کے مبصرین کو بھی شریک کیا جائے اور واضح دلائل اور عالمی حالات کی روشنی میں ایک متفقہ موقف مرتب کرکے پوری دنیا میں پیش کردیا جائے اور اس کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے کہ اس کی زد کس پر پڑتی ہے۔ نہ کسی کی بے جاحمایت کی جائے‘ نہ کسی کی خواہ مخواہ مخالفت کی جائے ۔ اس طرح پوری انسانیت دیکھ لے کہ ہم عدل و انصاف کی علم بردار اُمت ہیں‘ اُمت وسط ہیں ۔ انصاف پر قائم اور اللہ کے لیے گواہ ہیں ۔ تمام علاقائی نسلی اور لسانی تعصبات سے پاک اُمت ہیں ۔ انسانیت کے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں۔

یومِ آزادی کی شب تھی۔ اسلام آباد میں ایوانِ صدر کا سبزہ زار تھا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمران اپنی بیگمات‘ بیٹوں اور بیٹیوں‘ بہنوں اور مائوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آزادی کی شب منائی جارہی تھی۔ نغمے اور گانے گائے جا رہے تھے۔ رقص بھی ہوئے اور صدرمملکت نے بذاتِ خود بھی رقص فرمایا۔ اسی دوران وقفے وقفے سے کیٹ واکس (catwalks) ہوئیں۔ یہ نت نئے  فیشن کا مظاہرہ کرتی مادرِوطن کی بیٹیاں خراماں خراماں آتیں اور سامنے سے اور پشت سے جسم کے نشیب و فراز دکھاتی چلی جاتیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں سے داد وصول کرتیں‘   ماں اور بیٹے ایک ساتھ تالیاں بجاتے۔

یہ پروگرام کراچی یا لاہور کے کسی پوش بنگلے کے سبزہ زار پر منعقد ہوتا اور شرکا خرمستیاں کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ چار دیواری کے اندر وہ جانیں‘ ان کا اللہ جانے۔ لیکن آزادی کی رات ایوانِ صدر میں یہ پروگرام ہو اور پورے ملک میں فخر سے بلکہ سینہ ٹھونک کر دکھایا جائے تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے دل صدمے کا شکار ہوتا ہے۔

پروگرام ختم ہوا تو صدر مملکت اسٹیج پر تشریف لائے‘ فرمایا: یہ جو پروگرام ہوا ہے‘ بہت اچھا ہوا ہے۔ یہ ہماری ’’خوش گوار تصویر‘‘ (soft image) ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم یہ ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: جن لوگوں کے مذہب میں یہ کوئی رکاوٹ بنتا ہے‘ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی عقلوں سے اور آنکھوں سے پردہ اٹھا دے۔

میں کانپ گیا۔ ایک ہوتا ہے‘ خدا کے غضب کو دعوت دینا۔ اس حوالے سے بھی ہم بہت کچھ کر رہے ہیں۔ لیکن ایک ہوتا ہے خدا کے غضب کو بھڑکانا۔ صدرمملکت کی دعا اسی ذیل میں محسوس ہوئی۔

تصور کیجیے کہ موقع کیا ہے؟ یہ ملک کس لیے حاصل کیا گیا (۵۸ سال اس کے ساتھ ہم نے جو بھی کیا ہو)‘ ملک بننے کے موقع پر جو قربانیاں دی گئیں‘ ہنستے بستے شہر جس طرح اُجڑ گئے‘  معصوموں اور حیاداروں کی عزتیں جس طرح لوٹی گئیں‘ جو خون بہا وہ سب اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے۔ الیکٹرانک میڈیا تو کل کی پیداوار ہیں‘ تاریخ سے بے بہرہ ہیں لیکن پرنٹ میڈیا میں تو  جدوجہدِ آزادی کے ساتھ قربانیوں کے تذکرے ضرور ہوتے ہیں (جب تک انھیں منافرت پیدا کرنے کے الزام کے تحت بند نہ کروا دیا جائے)۔ ایوان صدر کے اس پروگرام نے آزادی کے لیے قربانی دینے والوں کی روحوں کو کس کس طرح نہ تڑپایا ہوگا اور ابھی تو زمین پر وہ نسل موجود ہے‘ جس نے آنکھوں سے سب کچھ دیکھا ہے۔

غضب کو بھڑکانے کی بات اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ تاریخ سے‘ ماضی سے‘ بلکہ مستقبل سے بھی آنکھیں بند کرکے مادرپدر آزاد پروگرام کرنے پر اظہار فخر بھی ہے۔ اس کو اسلام کے مطابق نہ سمجھنے والوں پر نکیر بھی ہے‘ بلکہ جرأت دیکھیں کہ اللہ سے یہ دعا بھی ہے کہ وہ منکرات کو غلط سمجھنے والوں کی نظروں اور دماغ کو ان حکمرانوں کی طرح کر دے تاکہ وہ ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کی عینک لگا کر ناچ گانوں اور کیٹ واک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ’’حقیقی خوش گوار تصویر ‘‘ اور دینی لحاظ سے جائز سمجھیں۔

۲۵ سال میں ہم نے آدھے سے زیادہ ملک گنوا دیا اور اب جتنا بچا ہے اور جتنا خودمختار   رہ گیا ہے‘ سب کو نظر آتا ہے۔ ہماری آزادی چھن چکی ہے‘ بہت سوں کو خبر نہیں ہے۔ ہم بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے لیے ہمیں براہ راست احکام ملتے ہیں اور ہمیں ماننا پڑتا ہے۔ سرحدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہمیں چپ رہنا پڑتا ہے۔ اپنے  ٹی وی پر ہم خود اپنے عالمی اعلیٰ مقام کے گن گاتے ہیں (بھلا اپنی قوم کو فروخت کر کے بھی کسی کو عزت ملی ہے!) اور حال یہ ہے کہ ہفت روزہ ٹائم نے ماڈرن ایشیا پر اسپیشل ڈبل ایشو نکالا ہے تو پاکستان جیسے  ’’عظیم ملک‘‘ کا ذکر ہی نہیں‘ جب کہ نیپال اور ویت نام کا ہے (غالباً ان کی منطق کے مطابق جب انڈیا کا ذکر کر دیا تو پاکستان پر الگ اسٹوری کی کیا ضرورت ہے)۔

بات ہو رہی تھی صدر مملکت کی دعا کی اورخدا کے غضب کو بھڑکانے کی۔ یہ پروگرام جس موقع پر ہوا ہے‘ جہاں ہوا ہے اور جس طرح پوری قوم کو گواہ کر کے ہوا ہے‘ اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں اللہ کی دی ہوئی ڈھیل کب ختم ہوجائے۔ ہم اپنی باتوں میں‘ کھیل کود میں اور کیبل سے طرح طرح کے چینل دیکھنے میں مشغول ہوں‘ اور اللہ کی پکڑ آجائے۔ اگر پاکستانی ایک بیدار قوم ہوتے تو ان حکمرانوں کو ٹی وی پر یہ پروگرام دکھانے کی جرأت نہ ہوتی (یحییٰ خان کو اتنی شرم تھی کہ اپنی کارروائیاں کچھ نہ کچھ اخفا کے ساتھ کرتا تھا)۔ اب سب کچھ ببانگِ دہل ہے۔ اس لیے جو دیکھتا ہے‘ کچھ نہیں کرتا‘ کچھ نہیں کہتا‘ وہ بھی اس میں شریک ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں میں پڑھا ہوا ایک جملہ یاد آتا ہے کہ قدرت افراد کے گناہوں سے صرفِ نظر کرلیتی ہے لیکن قوموں کے اجتماعی جرائم معاف نہیں کیے جاتے۔

اگر قوم بیدار ہو ‘ اس کے نوجوان‘ بچے‘ مرد و عورت بیدار ہوں تو اس طرح کے حکمران مسلط ہی نہ کیے جائیں۔ آج بھی یقینا سب نہیں سو رہے‘ کچھ لوگ ضرور جاگ رہے ہیں۔ اگر یہ جاگنے والے خود جاگتے رہیں‘ سونے والوں کو نہ اٹھائیں‘ تو ان کا حشر سونے والوں کے ساتھ ہوگا۔ کشتی میں چھید کرنے والوں کا ہاتھ نہ پکڑا گیا تو کشتی سب سواروں کو لے ڈوبے گی۔

پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اِس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی‘ جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا‘ جب کہ وہ کھیل  رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔(الاعراف ۷:۹۷-۹۹)

پھر جب انھوں نے اُس نصیحت کو جو اُنھیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی   خوش حالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے‘ یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انھیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے اُنھیں پکڑلیا۔ (الانعام  ۶:۴۴)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیااُمت مسلمہ عدل و انصاف کی علم بردار ‘اُمت وسط ہے جو انسانیت پر گواہ بنا کر‘ لوگوں کی فلاح اور اللہ کی خاطر گواہی دینے کا فریضہ ادا کرنے کے لیے بھیجی گئی ہے‘ یا یہ اُمت دہشت گرد اور انتہا پسند ہے جو دنیا میں فساد اور افراتفری مچارہی ہے ؟

آج پوری دنیاکواس سوال کے جواب کی بنیاد پرتقسیم کردیاگیا ہے ۔ صہیونی لابی اور ان کے زیرکنٹرول ذرائع ابلاغ شب و روز اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مترادف قرار دینے میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف تجزیاتی تبصرے ہو رہے ہیں‘ دستاویزی فلمیں ‘ ڈرامے اورناول تیار کیے جارہے ہیں‘ بلکہ عملاً بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا ارتکاب کرکے انھیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عام آدمی کے ذہن میں اسلام اور مسلمان کا ایک بدنما اور خوں خوارتصور قائم کیاجائے‘ اور وہ حقیقت کو معلوم کرنے اور سچائی کو   قریب سے دیکھنے کے بجاے دُورہی سے اسلام سے متنفر ہوجائے ۔ عدل و انصاف کا علم بردار نظام جو پوری انسانیت کے لیے رحمت اور عہد حاضر کے انسان اور انسانوں کی عالمی بستی (Global Village)کے لیے امن اور راحت کا پیغام لیے ہوئے ہے‘ لوگوں کی نظر وں سے اوجھل ہوجائے‘ اس کے خوب صورت چہرے کو بگاڑ کر مکروہ بنا دیا جائے۔

مغرب صہیونی پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہے کہ بقول اقبال’’ فرنگ کی رگ جاں  پنجۂ یہود میں ہے‘‘ ۔ ۱۰۰سالہ منصوبہ بندی کے تحت منظم کام کے نتیجے میں یہود نے عیسائی مغربی دنیا میں اس قدر اثر و رسوخ حاصل کرلیا ہے کہ پہلے یہودی جس مغرب میں شہروں کے مخصوص محلوں (Ghettos) میں محصور ہوکر رہتے تھے اور اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ کردیے جاتے    تھے بلکہ نفرت کا نشانہ تھے‘ اسی مسیحی مغرب کے باسی‘ اب اپنی ثقافت کو Judo-Christion (یہودی‘ عیسائی )کلچر قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ ہندوئوں نے بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے رشتے جوڑ لیے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو پوری دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی تحریک جاری ہے ۔

ہمارے حکمران جنھوں نے مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائی ہے‘ اس منظر سے خوف زدہ ہیں۔ ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ وہ ہمت کرکے اس صورت حال کے سدباب کے لیے صحیح سمت میں درست منصوبہ بندی کریں اور اپنے قیمتی اسلامی ورثے کو سینے سے لگاکر‘ اسی پیغام کو عام کردیں جس کے ذریعے انھیں ایک ہزار سال تک پوری انسانیت میں پذیرائی ملی تھی اور مغرب و مشرق کے سفید فام و سیاہ فام انسانوں نے ان کی قیادت قبول کرلی تھی ۔ وہ یہ حقیقت فراموش    کر رہے ہیں کہ نَحْنُ قَوْمٌ أَعَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ وَکُلَّمَا ابْتَغَیْنَا الْعِزَّۃَ فِی غَیْرِہِ أَذَلَّنَا اللّٰہُ،ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزت و سرفرازی بخشی اور جب بھی ہم اسلام کے بغیر کسی اور چیز میں عزت کے متلاشی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں ذلت سے دوچار کر دے گا۔ مسلمانوں کے حکمران خود اُمت مسلمہ کو مغربی اقوام کی مرضی کے مطابق اپنا کلچر اور طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے اور نام نہاد اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے نام پر اپنی قوم کو مغربی تہذیب و ثقافت اپنانے کی تلقین کررہے ہیں ۔

اپنے دین‘اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کے ساتھ منسلک رہنے کو انتہا پسندی کا نام دیا جا رہا ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں دینی مدارس کو مطعون و محصور کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جا تی ہے ۔ مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے کاٹا جا رہا ہے۔ پاکستان جو اپنے اسلامی نظریہ مملکت اور مضبوط و منظم دینی تنظیموں کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا مرکز بنتا جا رہاتھا‘ اسے اب اُمت کے نوجوانوں ‘ طالب علموں اور سیاحوں کے لیے شجر ممنوعہ بنا یا جارہا ہے ۔ ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے تمام دروازے چوپٹ کھلے ہیں لیکن کسی مصری ‘الجزائری اور سوڈانی کے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا ‘امریکا اور یورپ کا ویزا حاصل کرنے سے مشکل تر بنادیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تا کہ اُمت کا تصور ختم کردیا جائے‘ مسلمان اور مسلما ن کے درمیان ناقابل عبور دیواریں کھڑی کردی جائیں اور انھیں آپس میں متحد ہونے کے بجاے دوسری اقوام کی قیادت و سیادت میں ثانوی حیثیت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں طیاروں کے اغوا کے واقعے کی پوری ذمہ داری بغیرکسی ثبوت کے‘ پہلے ہی دن سے‘ مسلمانوں اور القاعدہ پر ڈال دی گئی۔ پھر القاعدہ کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری طالبان کی حکومت پر ڈال کر افغانستان پر فوج کشی کردی گئی ۔ اب حال ہی میں لندن کے زیرزمین ریلوے سسٹم اور ٹرانسپورٹ بسوں میںدھماکے ہوئے جس میں بے گناہ اور معصوم لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری بھی بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے اور برطانیہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے اقدامات شروع ہوگئے ہیں‘ یہاں تک کہ کسی جواز و منطق کے بغیر پاکستانی مدارس سے معصوم بچوں کو اٹھا کر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح نائن الیون اور سیون سیون مسلمانوں کے خلاف دوحوالے بنا دیے گئے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک کے حکمران بھی اپنے مغربی آقائوں کے ہمنوا بن کر اُمت مسلمہ کے خلاف صہیونیوں اور مسیحی استعماری طاقتوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور تہذیبی جنگ میں اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کے صف اول کے اتحادی بن گئے ۔ اُمت مسلمہ کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرے ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح اور درست راستہ  کون سا ہے؟ نائن الیون اور سیون سیون کے ذمہ داران کون ہیں؟ ان واقعات کے بارے میں اسلامی تحریکوں کا موقف کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن کے ہیبت ناک واقعات کو ٹیلی ویژن پر پوری دنیا نے دیکھا ۔یہ واقعات بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لیے صدمے ‘ خوف اور حیرت کا باعث بنے ۔ امریکی سرزمین پر امریکی قوم ہمیشہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔ نائن الیون کے واقعات سے امریکی قوم بھی ایک اچانک صدمے سے دوچار ہوئی۔ اسلامی تحریکوں نے بھی دنیا بھر کے ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کا موقف بیان کرتے ہوئے میں نے ۱۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو خطبہ جمعہ میں کہاتھا کہ:

اس واقعے پر ہمیں انتہائی صدمہ ہوا ہے ۔ اس میں ہر قومیت اور مذہب کے لوگ مارے گئے ہیں جن میں مسلمان اور پاکستانی بھی تھے ۔ کوئی مذہب بے گناہ افراد کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ واقعہ امریکا کی اپنی سرزمین پر ہوا ہے ۔ اس کے اپنے ہوائی اڈے اور اپنے ہوائی جہاز استعمال ہوئے ہیں۔ امریکا ان واقعات پر جذباتی ردعمل کے بجاے ٹھنڈے دل و دماغ سے اس کے اسباب ‘ محرکات اور وجوہات تلاش کرے ‘ یہ اس کے اپنے مفادمیں ہے ۔ پاکستان پر دبائو ڈالنا اور اس سے افغانستان پرحملے کی صورت میں ہوائی اڈے اور تعاون مانگنا خطرناک ہے ‘ یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے جس کا کڑوا پھل امریکا پہلے ہی چکھ رہا ہے۔ اس کی بجاے اسے عدل و انصاف اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

اس بات پر غور کرنے کے بجاے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں‘ امریکا پاکستان کے ایئربیس  استعمال کرنا چاہتا ہے ۔امریکا مدت سے ہمارے نیوکلیئر پروگرام اور فوج کا مخالف ہے۔ ہم افغانستان پر حملے کے لیے اپنے اڈے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔یہ اس کا غیر عادلانہ مطالبہ ہے ‘ خودامریکا بھی اس طرح مزید دلدل میں پھنسے گا ۔امریکا کو داخلی طور پربھی انصاف کا نظام قائم کرنا اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا چاہیے اور خارجی طور پر بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔دنیامیں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے ‘ جب تک اس کا ازالہ نہیں ہوگا ‘ امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ کشمیر ‘ چیچنیا اور فلسطین میں ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ظالموں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف ردعمل پیدا ہو رہا ہے ۔

امریکا کو اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس واقعے سے یہودی کیاکیافائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اسے مکمل غیر جانب داری سے جائزہ لینا چاہیے کہ اس سانحے کے پیچھے اس کی آڑ میںمفادات سمیٹنے والے یہودیوں کا ہاتھ کیوں نہیں ہوسکتا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے امریکا پر اسرائیل کا ’’جن ‘‘ سوار ہے جس نے امریکا کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔اس وقت پوری دنیا کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ امریکا کو بتائے کہ وہ جذباتی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجاے اصل حقائق تلاش کرے۔

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہیں امریکا کا اپنا کیا دھرا تو نہیں؟ چند سال پہلے کئی سو امریکیوں نے زہر پی کر اجتماعی خود کشی کرلی تھی اور اوکلوہومامیں ایک امریکی نے بارود سے بھرا ٹرک ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیا تھا‘جس سے سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے ملزم نے شہادت دی تھی کہ ہم اس نظام اور مصنوعی زندگی سے تنگ آچکے ہیں اور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔ وہاں خاندانی نظام تباہ ہے ۔ بچوں کو  اپنے باپ کام نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ وہ آوارہ پھرتے ہیں۔ ہاسٹلوں اور اسکولوں میں ہم جماعتوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کے واقعات ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے کئی گروہ امریکا میں موجود ہیں ۔

امریکا کو سپر طاقت ہونے کا زعم ہے ‘ وہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے باوجود یہودیوں کی سرپرستی کررہا ہے ۔ وہاں عدل و انصاف کا جنازہ اٹھ گیا ہے ۔ امریکا کی یہ سیاست ظلم پر مبنی ہے ۔ کمزور اقوام کوذلیل کرنے اور ان پر اپنا طرز زندگی اور تہذیب واقدار مسلط کرنے کے نتیجے میں ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ امریکا نے خود ہر طرح کا اسلحہ اور جراثیمی ہتھیار جمع کررکھے ہیں جن کے ذریعے ایسے ایسے امراض پھیلا ئے جاسکتے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ۔ کیا اس طرح کے ہتھیار جو پوری قوم کو تباہ کردیں‘ کسی کے خلاف استعمال کرنا دہشت گرد ی نہیں ہے؟ ان ہتھیاروں سے ساری دنیا پاک ہونی چاہیے۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب امریکا‘ روس اور برطانیہ بھی ایسے ہتھیار تلف کردیں ۔ وہ خود تو اس کے لیے تیار نہیں ہیں ‘ لیکن جن کمزور اقوام کے پاس یہ ہتھیار اپنے تحفظ کے لیے ہیں ‘ ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ ایسے ہتھیار ختم کریں۔ یہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے ‘ اس میں جیئیں گے تو سب جیئیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ طاقت ور اقوام جیئیں اور غریب قومیں مٹ جائیں ۔ عدل و انصاف کے ساتھ سب جی سکتے ہیں ‘ ظلم کے ساتھ نہیں۔

لندن بم دھماکوں کے بعد بھی تمام اسلامی تحریکوں نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا۔ اس موقعے پر اخوان المسلمون کا موقف واضح کرتے ہوئے مرشد عام محمدمہدی عاکف نے فرمایا:

لندن کے قلب میں ہونے والے دھماکوں سے جن کے نتیجے میں ۴۰ افراد ہلاک اور ۱۹۰زخمی ہوگئے ہیں‘ اخوان المسلمون کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ وہ اس مجرمانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیتے ہیں کیونکہ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور شہری آبادیوں کو خوف زدہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔

اخوان المسلمون کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ عالمی سطح پر وسیع تر تشدد‘ عدمِ استحکام اور دہشت گردی کی یہ لہر امریکی اور برطانوی حکومتوں کی ان پالیسیوں کا براہِ راست نتیجہ ہے جن میں انھوں نے عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ انھوںنے تمام عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے طاقت کے اندھے استعمال ہی کو قانون قرار دے رکھا ہے اور دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف دھکیل دیا ہے۔

اس سے پہلے نومبر ۲۰۰۲ئ‘ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ میں اخوان المسلمون اور دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں نے لندن ڈیکلریشن کے نام سے مغربی اقوام اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اپنا اصولی مؤقف جامع انداز میں پیش کیا جس کے چند اہم نکات یہ تھے:

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مخلوقات بشمول بنی نوع انسان کا‘ واحد خالق‘ نگہبان اور رب ہے۔ تمام انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں‘ لہٰذا بھائی بھائی ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد مرضی کا اختیار بخشا ہے ۔ وہ اس کو غلط بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ اللہ نے اپنی کمالِ رحمت سے اس کے لیے ہدایت کا سامان بھی کیا ہے جس کی روشنی میںانسان درپیش مسائل کو بخوبی حل کرسکتا ہے۔یہ ہدایت انبیا کے ذریعے انسانوں کو دی گئی ہے جس کا آغاز حضرت آدم ؑسے ہوا اور حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ سے ہوتا ہوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا۔

آج ۳۰ کروڑ سے زائد مسلمان مغربی ممالک میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے بیش تر وہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں اور ترقی کے عمل میں شریک ہیں۔ وہ آگے بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اس قابل ہوں گے کہ ان ممالک میں ایک کثیرمذہبی‘ کثیرثقافتی اور کثیرنسلی معاشرے کو فروغ دے سکیں۔ لہٰذا وہ تمام حساس انسان جو امن سے محبت کرتے ہیں اور دو تہذیبوں کے اجتماعی ورثے اور انسانیت کے ایک مقدر پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سنگین حالات میں ایک بار پھر لوگوں کو اسلام کے اصولوں کی یاد دہانی کروائیں جو تمام مذاہب کی حقیقی اساس ہیں‘ اور بنی نوع انسان کے اجتماعی مسائل سے متعلق ہیں تاکہ رواداری‘ بقاے باہمی اور کثیریت فروغ پاسکے۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں‘ اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے تمام شرکا مغربی ممالک میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اصولوں کو اپنائیں:

۱- امن‘ بقاے باہمی اور باہمی تعاون کا انحصار‘ عقیدے کی آزادی‘ باہمی احترام اور قانون کے یکساں احترام پر ہے۔ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے اور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے حقوق اور آزادیوں سے مستفید ہو اور ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی یقینی بنائے۔

۲-  موجودہ مغربی معاشرے‘ دارالحرب نہیں بلکہ میدان دعوت ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ خواہ وہ وہاں کی شہریت رکھتا ہو یا عارضی طور پر رہایش پذیر ہو۔

اس عہد کے اہم ترین تقاضے حسب ذیل ہیں:

  • یہ کہ غیرمسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو اسی قانون کے تحت قابلِ احترام ہے جس کے ذریعے خود انھیں رہایش کا حق دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنا عہد پورا کرو‘‘۔ (۱۷:۳۴)
  • ملکی قوانین کا احترام کیا جائے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے اور اسے نقصان پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
  • بھرپور کوشش ہو کہ تعلیمی اداروں‘ تعلیمی و ثقافتی مراکز کے قیام کے ذریعے ایک ایسی نئی نسل تیار کی جائے جو سچی مسلمان اور مفید شہری ثابت ہو۔
  • اللہ کی رسّی (دین)‘ اخوت‘ رواداری کو مضبوطی سے تھاماجائے‘ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کیا جائے‘ متنازع امور میں مکالمے اور موعظۂ حسنہ کو اپنایا جائے اور ان امور سے دُور رہا جائے جو مختلف قومیتوں میں نفرت کا باعث ہوں‘ ان تمام   نقطہ ہاے نظر اور طریقوں سے اجتناب کیا جائے جو دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تاثر کو مسخ کرنے کا باعث ہوں۔
  • اس بات کی مقدور بھر کوشش کی جائے کہ نیک اور مفید کاموں میں دوسروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون ہو‘ انسانیت کے درمیان باہمی اتفاق راے کے نکات کو رواج دیا جائے‘ مثلاً باہمی تعلقات کا فروغ‘ آزادی راے‘ انسانی حقوق‘ ماحول کی آلودگی‘ نفرت کے بجاے محبت کا فروغ اور جنگ کے اسباب کی مخالفت وغیرہ۔
  • جن ممالک میں وہ رہایش پذیر ہیں وہاں اسلام کو بطور سرکاری مذہب تسلیم کرانے کے لیے بھرپور اور متحدہ کوشش کی جائے تاکہ وہ بھی ان حقوق اور آزادیوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں‘ جوغیرمسلموں کو مسلم ممالک میں حاصل ہیں۔
  • اسلامی تعلیمات اور مروجہ قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے لبرل قوتوں سے بھی انسانی حقوق اور انسانیت سے متعلق امور میں مذہب اور قومیت کی تمیز کے بغیر تعاون کیا جائے۔

ان بیانات سے ظاہر ہے کہ اسلامی تحریکوں کا موقف عدل و انصاف کے سنہرے قرآنی اصولوں پر مبنی ہے ۔ انتہائی اشتعال انگیزی کے موقع پر بھی ہم نے کبھی عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑا ۔ قرآن کا فرمان ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

اس وقت عالم انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ طاقت ور اقوام کی خارجہ پالیسی عدل و انصاف کے بجاے اپنے محدود قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہر اخلاقی اصول کو پامال کرنا ان کی نظر میں جائز ہے ۔ خلیج کی ریاستوں میںامریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے امریکا کے ایک سابق سفیر اور معروف دانش ور مارٹن انڈیک اپنی کتاب International Intrest in the Gulf Region میں امریکی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’خلیج کے بارے میں ریاست ہاے متحدہ امریکا کی سلامتی کی حکمت عملی (security strategy) کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں کے تیل کے چشموں سے ضرورت کے مطابق تیل کی فراہمی‘ مناسب قیمتوں کے ساتھ جاری رہے ‘‘۔

اس مقصد کے لیے عراق پر جنگ مسلط کردی گئی‘عراقی فوج کا خاتمہ کردیا گیا۔ لاکھوں لوگ مار ڈالے گئے‘ پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ پوری قوم فساد اور قتل و غارت کی نذر کردی گئی‘ اسے تذلیل و تحقیر کا نمونہ بنا دیا گیا‘ ابوغریب میں ’’احترام آدمیت‘‘کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ ہمیں تیل چاہیے، ’’ہمارا سلامتی کا منصوبہ اس کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔ ان کے کہنے کے مطابق اس وقت سعودی عرب تیل فراہم کرنے والا ایسا واحد ملک ہے جس کی فراہمی کو ضرورت کے مطابق کنٹرول کیا جاسکتا ہے ‘ اس کی تیل کی پیدا وار کواپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیاجاسکتا ہے ۔ اگر عراق میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا جائے اور حالات میں استحکام پیدا ہوجائے تو عراق ہمیں تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ذریعہ بن جائے گا ‘جس کے تیل کی سپلائی کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کیا جاسکے گا ۔ اس طرح تیل کی قیمتیں مکمل طور پر امریکا کی مرضی کے مطابق متعین کی جاسکیں گی اور نہ صرف امریکا بلکہ تمام صنعتی ممالک بشمول جاپان       اور یورپ کی مشینیں بغیر کسی تشویش کے چلتی رہیں گی ۔ اس پالیسی کا اعلان کرنے میں امریکی   دانش وروں کو کوئی باک نہیں ہے۔

یہ بحث الگ ہے کہ کیا امریکا عراق میں اپنے یہ اہداف حاصل کرسکے گا یا نہیں؟ یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہاںاس کا مالی اور جانی نقصان اسے وہاں مزید کتنی مہلت دیتا ہے۔ کیونکہ اب تو اس کے اکثر پالیسی ساز‘ عراق پر حملے کے فیصلے سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ۱۸ اگست کو آزادی صحافت کے نام پر تین ایسی خفیہ دستاویز جاری کی گئی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ عراق پر حملہ خطرناک اور مہلک ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک دستاویز خود امریکی وزارتِ خارجہ نے حملے سے تقریباً ایک ماہ پہلے ۷ فروری ۲۰۰۳ء کو تیار کی تھی۔

سلامتی کی حکمت عملی کے نام پر ہی عالم عرب کے عین قلب میں ایک مصنوعی یہودی ریاست کا خنجر گھونپا گیا تھا۔ فلسطین ہزاروں سال سے آباد خطہ تھا۔کوئی بیابان یا غیر آباد صحرائی علاقہ نہیں تھا۔ یہ اہم ترین انسانی تہذیبوں کو فروغ دینے والا مہذب انسانوں کا مسکن تھا ۔ ایک بین الاقوامی سازش کی خاطر استعماری ممالک نے مل کر یہاں سے فلسطینیوں کے اخراج اور یہودیوں کی آبادی اور بالآخر ایک خود مختار یہودی ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس ریاست کو اپنے مخصوص مفادات (strategic intrests)کے تحفظ کی خاطر پڑوس کی تمام ریاستوں پر فوجی اعتبار سے بالادست بنا دیا۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول کے بقول: ’’اسرائیل کی سلامتی کی خاطر اس پر سے خوف کے سارے خطرات کو ہٹانا ریاست ہاے متحدہ امریکا کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے‘‘۔ چنانچہ اس غرض کے لیے کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی توانائی کا وجود امریکا کو قابل قبول نہیں ہے اور کسی مسلمان ملک کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے ایسے ہتھیار رکھے جن کے ذریعے وہ دشمن کو خود سے دُور رکھ سکے‘ جب کہ اسرائیل کو دوسروں کی حدودمیں مداخلت کی کھلی اجازت ہے۔ اسرائیل اپنی ان حدود سے بھی باہر نکل گیا ہے جو اقوام متحدہ میں بڑی طاقتوں نے ناجائز طور پر اس کے لیے مقرر کی تھیں ۔ جنگ کے ذریعے دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کو  اقوام متحدہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے لیکن اگر یہ علاقے مسلمانوں کے ہوں تو قابض چاہے اسرائیل ہو چاہے بھارت‘ ان کے لیے یہ قبضہ جائز قرار پاتا ہے ۔ اس لیے اسرائیل کو اپنے چاروں طرف کے علاقوں پر قبضے کا حق ہے کیونکہ اسے اپنی سلامتی کے لیے محفوظ سرحدوں کی ضرورت ہے۔

مغربی پالیسیوں کا ایک اور اہم نکتہ دنیا میں جمہوریت کی ترویج ہے۔ امریکا نے جمہوریت رائج کرنے کی خاطر وسیع تر مشرق وسطیٰ کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کی سرحدیں پورے عالمِ اسلام کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ شخصی حکومتوں کا خاتمہ کر کے اقتدار عوام کے سپرد کرے گا۔ وہ خود کوبنیادی انسانی حقوق کے علم بردارقرار دیتا ہے ۔ اس کی نظر میں جمہوریت ہی ایک مستحکم    سیاسی نظام فراہم کرتی ہے اور آزاد عدلیہ جمہوریت کابنیادی ستون ہے لیکن جن جن ممالک میں ان کے مفادات تقاضا کرتے ہیں کہ یہاں فوجی اور سول آمراپنے عوام پر مسلط رہیں‘ مطلق العنان  شخصی حکمرانی ہو‘ وہاں وہ اپنی تمام توانائیاں اسی فوجی آمر یا جابر حکمران ہی کے لیے وقف کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر انھیں اپنی اقوام پر مسلط کرنے کے لیے غیر ملکی افواج کی ضرورت ہو تو   سیاسی استحکام کے نام پر یہ بھی جائز ہے۔

الغرض اپنی فوجی ‘ معاشی اور تہذیبی برتری (hegemony) قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے عسکری‘ معاشی اور ابلاغیاتی جارحانہ اقدامات مغربی ممالک کے لیے  عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ ان اقدامات کی مخالفت ان کی نظر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اشتعال کے باوجود ایک عادلانہ موقف اختیار کیا لیکن مغربی ممالک اس پر راضی نہیں ہیں ۔وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم بقول ان کے ’’دہشت گردی‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ کے مقابلے میں پرویز مشرف کی طرح ان کا ساتھ دیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ ہماری تہذیب و ثقافت ہی نہیں عقیدہ و ایمان بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کو نعوذباللہ نفرت کی تعلیم دینے والی کتاب ثابت کرکے اسے نئی نسلوں کے ذہنوں سے کھرچنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ اس میں قرآنی تعلیمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نکل کر اباحیت و آوارگی پر مشتمل مواد شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس ہی سے نہیں‘ کالجوں اور اسکولوں کے نصاب سے بھی جہاد کے ذکر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جہاد کی تعلیم کو دہشت گردی کی تربیت قرار دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام اقدامات کو جائز قرار دیں جنھیں وہ اپنی سلامتی کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔

ان کے اس ناروا مطالبے کے جواب میں اُمت مسلمہ کے عادلانہ مؤقف کو وضاحت کے ساتھ اور یک آواز ہو کر بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالم اسلام کے تمام علما‘ دانش ور اور ماہرین اپنی حکومتوں کے اثرات سے آزاد ہو کرقرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اپنا موقف بیان کریں اور مغربی ممالک میںحق و انصاف کی بات سمجھنے والوں کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں ۔ عالم انسانیت کو اس طرح کے ایک گروہ کی ضرورت ہے جو جغرافیائی ‘نسلی اور مذہبی گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کرپوری انسانیت کی بھلائی کی سوچ رکھتے ہوں ۔ مبنی برانصاف بات کرنے والے خود مغرب میں موجود ہیں۔ وہاں کے کروڑوں لوگوں نے جنگ مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ خود لندن کے مئیر کین لیونگسٹن نے برملا کہا ہے کہ ’’اگر برطانیہ کے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو فلسطینی اور عراقی عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے تو یہاں بھی خودکش حملہ آور پیدا ہوجائیں گے‘‘۔ لیونگسٹن جو خود بھی ٹونی بلئیر کی حکمران پارٹی کا اہم اور مؤثر رکن ہے سوال کرتا ہے کہ اگر برطانوی شہریت رکھنے والا کوئی مسلمان اسرائیلی فوجوں کے مظالم دیکھ کر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے چلا جائے تو ہم اسے دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی برطانوی یہودی فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کے لیے جا کر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوجائے تو ہم اسے کیوں اس کا قانونی حق سمجھتے ہیں؟ یہ دہرے معیار ترک کرنا ہوں گے۔

اسی طرح جارج گیلوے جو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں‘ انصاف کے علم بردار اور عراق پر جنگ مسلط کرنے کے شدید ترین مخالف کے طور پر عالمی افق پر ابھرے ہیں ۔ امریکی دانش وروں پال فنڈلے اور گراہم وولر جیسے لوگوں نے بھی امریکی پالیسیوں کو مکمل طور پر یہودی ذہنیت اور سازشوں کے تابع قرار دیتے ہوئے ان پر نظرثانی کی بات اٹھائی ہے ۔انصاف کی یہ آواز یں خود مغربی ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ حال ہی میں انھی خیالات کے حامل کچھ دانش وروں اور مغربی ممالک کے سیاسی اور سلامتی کے مشیروں سے اسلامی تحریکوں کے کچھ افراد کو تین روز تک باہمی  تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ آج مغربی ممالک میں اچھی خاصی تعداد ایسی موجود ہے جو امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی پالیسیوں کو خود امریکا اور برطانیہ کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اُمت مسلمہ کے ساتھ مستحکم اور دیر پا تعلق قائم کرنا عالمی امن کے لیے ضروری‘ اور پوری انسانیت کے مفادمیں ہے ۔ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے مغربی ممالک کو مسلمانوں کی حقیقی ترجمان تحریکوں سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں کہ عالم اسلام کے موجودہ حکمران اُمت کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں۔

مغربی ممالک کی قیادت کو جلد ہی معلوم ہوگا کہ حالات کو درست طریقے سے پڑھنے کے لیے ’’صہیونی عینک ‘‘ کے بجاے انھیں اپنی نظر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے مستقبل کو محفوظ کیا جاسکے ۔ مغربی ممالک کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے ۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوگئے تو اسلامی ممالک اور اسلامی تحریکوں کی طرف سے انسانیت کے وسیع تر مفاد کی خاطر عالمی امن کے تحفظ کے لیے پورے دلائل کے ساتھ ایک متفقہ موقف پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی سیمی نار کا انعقاد اور دنیا کے تمام انصاف پسند عناصر کے درمیان گفت و شنید وقت کا اہم تقاضا ہے‘ جس میں اہم مسلم شخصیات اور اسلامی تحریکوں کے نمایندوں کے علاوہ مسلمان حکام کے نمایندے بھی شامل ہوں اور مسلمان عوام کے ہر مؤثر طبقے کی نمایندگی بھی ہو۔ کئی روز تک  کھل کر اظہار خیال کیا جائے ۔ مغربی ممالک کے مبصرین کو بھی شریک کیا جائے اور واضح دلائل اور عالمی حالات کی روشنی میں ایک متفقہ موقف مرتب کرکے پوری دنیا میں پیش کردیا جائے اور اس کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے کہ اس کی زد کس پر پڑتی ہے۔ نہ کسی کی بے جاحمایت کی جائے‘ نہ کسی کی خواہ مخواہ مخالفت کی جائے ۔ اس طرح پوری انسانیت دیکھ لے کہ ہم عدل و انصاف کی علم بردار اُمت ہیں‘ اُمت وسط ہیں ۔ انصاف پر قائم اور اللہ کے لیے گواہ ہیں ۔ تمام علاقائی نسلی اور لسانی تعصبات سے پاک اُمت ہیں ۔ انسانیت کے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں۔

یومِ آزادی کی شب تھی۔ اسلام آباد میں ایوانِ صدر کا سبزہ زار تھا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمران اپنی بیگمات‘ بیٹوں اور بیٹیوں‘ بہنوں اور مائوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آزادی کی شب منائی جارہی تھی۔ نغمے اور گانے گائے جا رہے تھے۔ رقص بھی ہوئے اور صدرمملکت نے بذاتِ خود بھی رقص فرمایا۔ اسی دوران وقفے وقفے سے کیٹ واکس (catwalks) ہوئیں۔ یہ نت نئے  فیشن کا مظاہرہ کرتی مادرِوطن کی بیٹیاں خراماں خراماں آتیں اور سامنے سے اور پشت سے جسم کے نشیب و فراز دکھاتی چلی جاتیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں سے داد وصول کرتیں‘   ماں اور بیٹے ایک ساتھ تالیاں بجاتے۔

یہ پروگرام کراچی یا لاہور کے کسی پوش بنگلے کے سبزہ زار پر منعقد ہوتا اور شرکا خرمستیاں کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ چار دیواری کے اندر وہ جانیں‘ ان کا اللہ جانے۔ لیکن آزادی کی رات ایوانِ صدر میں یہ پروگرام ہو اور پورے ملک میں فخر سے بلکہ سینہ ٹھونک کر دکھایا جائے تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے دل صدمے کا شکار ہوتا ہے۔

پروگرام ختم ہوا تو صدر مملکت اسٹیج پر تشریف لائے‘ فرمایا: یہ جو پروگرام ہوا ہے‘ بہت اچھا ہوا ہے۔ یہ ہماری ’’خوش گوار تصویر‘‘ (soft image) ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم یہ ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: جن لوگوں کے مذہب میں یہ کوئی رکاوٹ بنتا ہے‘ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی عقلوں سے اور آنکھوں سے پردہ اٹھا دے۔

میں کانپ گیا۔ ایک ہوتا ہے‘ خدا کے غضب کو دعوت دینا۔ اس حوالے سے بھی ہم بہت کچھ کر رہے ہیں۔ لیکن ایک ہوتا ہے خدا کے غضب کو بھڑکانا۔ صدرمملکت کی دعا اسی ذیل میں محسوس ہوئی۔

تصور کیجیے کہ موقع کیا ہے؟ یہ ملک کس لیے حاصل کیا گیا (۵۸ سال اس کے ساتھ ہم نے جو بھی کیا ہو)‘ ملک بننے کے موقع پر جو قربانیاں دی گئیں‘ ہنستے بستے شہر جس طرح اُجڑ گئے‘  معصوموں اور حیاداروں کی عزتیں جس طرح لوٹی گئیں‘ جو خون بہا وہ سب اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے۔ الیکٹرانک میڈیا تو کل کی پیداوار ہیں‘ تاریخ سے بے بہرہ ہیں لیکن پرنٹ میڈیا میں تو  جدوجہدِ آزادی کے ساتھ قربانیوں کے تذکرے ضرور ہوتے ہیں (جب تک انھیں منافرت پیدا کرنے کے الزام کے تحت بند نہ کروا دیا جائے)۔ ایوان صدر کے اس پروگرام نے آزادی کے لیے قربانی دینے والوں کی روحوں کو کس کس طرح نہ تڑپایا ہوگا اور ابھی تو زمین پر وہ نسل موجود ہے‘ جس نے آنکھوں سے سب کچھ دیکھا ہے۔

غضب کو بھڑکانے کی بات اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ تاریخ سے‘ ماضی سے‘ بلکہ مستقبل سے بھی آنکھیں بند کرکے مادرپدر آزاد پروگرام کرنے پر اظہار فخر بھی ہے۔ اس کو اسلام کے مطابق نہ سمجھنے والوں پر نکیر بھی ہے‘ بلکہ جرأت دیکھیں کہ اللہ سے یہ دعا بھی ہے کہ وہ منکرات کو غلط سمجھنے والوں کی نظروں اور دماغ کو ان حکمرانوں کی طرح کر دے تاکہ وہ ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کی عینک لگا کر ناچ گانوں اور کیٹ واک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ’’حقیقی خوش گوار تصویر ‘‘ اور دینی لحاظ سے جائز سمجھیں۔

۲۵ سال میں ہم نے آدھے سے زیادہ ملک گنوا دیا اور اب جتنا بچا ہے اور جتنا خودمختار   رہ گیا ہے‘ سب کو نظر آتا ہے۔ ہماری آزادی چھن چکی ہے‘ بہت سوں کو خبر نہیں ہے۔ ہم بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے لیے ہمیں براہ راست احکام ملتے ہیں اور ہمیں ماننا پڑتا ہے۔ سرحدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہمیں چپ رہنا پڑتا ہے۔ اپنے  ٹی وی پر ہم خود اپنے عالمی اعلیٰ مقام کے گن گاتے ہیں (بھلا اپنی قوم کو فروخت کر کے بھی کسی کو عزت ملی ہے!) اور حال یہ ہے کہ ہفت روزہ ٹائم نے ماڈرن ایشیا پر اسپیشل ڈبل ایشو نکالا ہے تو پاکستان جیسے  ’’عظیم ملک‘‘ کا ذکر ہی نہیں‘ جب کہ نیپال اور ویت نام کا ہے (غالباً ان کی منطق کے مطابق جب انڈیا کا ذکر کر دیا تو پاکستان پر الگ اسٹوری کی کیا ضرورت ہے)۔

بات ہو رہی تھی صدر مملکت کی دعا کی اورخدا کے غضب کو بھڑکانے کی۔ یہ پروگرام جس موقع پر ہوا ہے‘ جہاں ہوا ہے اور جس طرح پوری قوم کو گواہ کر کے ہوا ہے‘ اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں اللہ کی دی ہوئی ڈھیل کب ختم ہوجائے۔ ہم اپنی باتوں میں‘ کھیل کود میں اور کیبل سے طرح طرح کے چینل دیکھنے میں مشغول ہوں‘ اور اللہ کی پکڑ آجائے۔ اگر پاکستانی ایک بیدار قوم ہوتے تو ان حکمرانوں کو ٹی وی پر یہ پروگرام دکھانے کی جرأت نہ ہوتی (یحییٰ خان کو اتنی شرم تھی کہ اپنی کارروائیاں کچھ نہ کچھ اخفا کے ساتھ کرتا تھا)۔ اب سب کچھ ببانگِ دہل ہے۔ اس لیے جو دیکھتا ہے‘ کچھ نہیں کرتا‘ کچھ نہیں کہتا‘ وہ بھی اس میں شریک ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں میں پڑھا ہوا ایک جملہ یاد آتا ہے کہ قدرت افراد کے گناہوں سے صرفِ نظر کرلیتی ہے لیکن قوموں کے اجتماعی جرائم معاف نہیں کیے جاتے۔

اگر قوم بیدار ہو ‘ اس کے نوجوان‘ بچے‘ مرد و عورت بیدار ہوں تو اس طرح کے حکمران مسلط ہی نہ کیے جائیں۔ آج بھی یقینا سب نہیں سو رہے‘ کچھ لوگ ضرور جاگ رہے ہیں۔ اگر یہ جاگنے والے خود جاگتے رہیں‘ سونے والوں کو نہ اٹھائیں‘ تو ان کا حشر سونے والوں کے ساتھ ہوگا۔ کشتی میں چھید کرنے والوں کا ہاتھ نہ پکڑا گیا تو کشتی سب سواروں کو لے ڈوبے گی۔

پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اِس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی‘ جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا‘ جب کہ وہ کھیل  رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔(الاعراف ۷:۹۷-۹۹)

پھر جب انھوں نے اُس نصیحت کو جو اُنھیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی   خوش حالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے‘ یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انھیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے اُنھیں پکڑلیا۔ (الانعام  ۶:۴۴)

بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ گزر گیا۔ ۲۵ اگست ۲۰۰۵ء کو دوسرا مرحلہ بھی گزر جائے گا۔ جیتنے والے جیت گئے اور ہارنے والے ہار گئے۔ سرکاری ٹی وی اور بعض دیگر ذرائع ابلاغ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ انتخابات کا عمل بالکل ٹھیک گزرا ہے۔ ہارنے والے گڑبڑ‘ دھاندلی‘   بے قاعدگی اور ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھرنے کے کتنے ہی شواہد پیش کر دیں‘ روزِ روشن کی طرح سب کچھ عیاں ہو‘ جیتنے والوں نے یہی کہنا ہے کہ ہارنے والے ہمیشہ یہی رونا روتے ہیں۔ کراچی میں کس طرح مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے‘ نوشہرہ میں کس طرح نتیجہ پلٹ دیا گیا‘ تھرپارکر میں انتخابات سے پہلے ہی کیا کچھ نہ ہوا‘ یہ تو موٹی موٹی شہ سرخیاں ہیں جب کہ ہزاروں پولنگ اسٹیشنوں پر کھلے عام ہونے والی بدعنوانیاں سامنے ہی نہیں آئیں۔ کسی ادارے کو فرصت ہو یا وہ اس کی ضرورت سمجھے تو ہزار دو ہزار صفحات کا قرطاس ابیض چشم دید شواہد کی بنا پر تیار کر دے۔

لیکن ہم یہاں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ جیتنے والے یقینا خود کو جیتا ہوا ہی کہیں گے‘ لیکن ایک شے انسان کا ضمیر بھی ہے۔ اسے کتنا ہی سلایاجائے‘ زندگی کی رمق پھر بھی اس میں رہ جاتی ہے۔ اخبار میں جیتنے کی خبر لگ جائے‘ لیکن ناجائز جیتنے والا اپنے ضمیر کے سامنے ضرور شرمندہ ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اتنے سو یا ہزار بوگس ووٹ ڈالے ہیں‘ یا عملے کو   ہم خیال بنانے کے لیے کتنی رقم خرچ کی ہے۔ یہ جیت بھی کوئی جیت ہے؟

جیت کی خوشی تو جب ہو جب کھیل قواعد کے مطابق ہو۔ ریفری غیر جانب دار ہو (یہاں تو ریفری کپتان بن کر ٹیم کو کھیلا رہا تھا‘یا دوسری طرح دیکھیں کہ جو بیچارہ ریفری بنایا گیا تھا اس کی مجال نہ تھی کہ کپتان کے اشارہ ابرو کے خلاف کوئی فیصلہ دے سکے)۔ اس طرح کے کھیل میں جیتنا اور جیت کر خوشیاں منانا‘ خود اپنا مذاق اڑانے کے سوا اور اپنے کو دھوکا دینے کے سوا کیا ہے۔ دل‘ کتنے ہی گناہ گار آدمی کا کیوں نہ ہو‘ خود اپنے سامنے تو سچی گواہی دیتا ہے۔

سب بیٹھ کر ملک کے مسائل کا رونا روتے ہیں۔ مسائل کی فہرست بنائیں‘آخری تجزیے میں سبب اخلاقی ہوتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں‘ اللہ کو مانتے ہیں‘ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ برا بھلا جو کر رہے ہیں اس کی جواب دہی یقینا ہونا ہے۔ لیکن ان امور کو ہم نے بھلا دیا ہے۔ ان احساسات کو بے شعوری کی نیند سلا دیا ہے۔ ساری فکر اس بات کی ہے کہ چند روزہ زندگی میں جتنے ہاتھ مارے جا سیکیں مار لیں‘ عاقبت کی فکر خدا جانے۔

اگر انتخابات اخلاقی طور پر صحیح انداز سے لڑے جائیں‘ سب امیدوار ووٹروں کو آزادانہ قائل کریں‘ اور پھر وہ کسی دبائو اور لالچ کے بغیر اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کریں اور ریاستی نظام اس کی ضمانت دے‘ تب جمہوریت کا آغاز ہوگا۔

بحیثیت قوم نے ہم نے ۵۸ سال کی زندگی گزاری ہے لیکن سچ یہ ہے کہ جمہوریت کی شاہراہ پر پہلا قدم بھی نہیں رکھا ہے۔ اس لیے کہ حقیقی معنوں میں کوئی انتخابات نہیں ہوئے۔ کچھ حلقوں میں صحیح انتخاب ہوجاتا ہے‘ شاید اس وجہ سے نظام چلتا ہے۔ جب دھاندلی بہت زیادہ ہو تو نظام تل پٹ ہوجاتا ہے‘ اس کا مشاہدہ بھی ہم کرچکے ہیں۔

ان انتخابات کو ۲۰۰۷ء کے موعودہ انتخابات کا عکس کہنا چاہیے۔ اگر وہ انتخابات بھی     اسی طرح ہونا ہیں تو ملک کے بہی خواہوں کو ابھی سے تشویش محسوس کرنا چاہیے۔ اگر انتخابات کروانے والے اپنے پسندیدہ نہیں‘ بلکہ عوام کے پسندیدہ افراد کا انتخاب چاہتے ہیں تو کم از کم یہ تو ہو کہ بنگلہ دیش کی طرح نگران حکومت کے زیرانتظام کروائے جائیں۔ اس سے بھی نیت درست ہونے کا پتا چل جائے گا۔

موجودہ انتخابات میں جو جائز نمایندے ہر طرح کی مشکلات کے باوجود حقیقی ووٹوں کی بنیاد پر جیتے ہیں‘ وہی اس انتخابات کا حاصل ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر اخلاقی احیا کے مسئلے کو لیں‘ جو سرِفہرست ہے۔ اس حوالے سے کچھ کام ہوا تو ہم آیندہ برسوں میں نئی نسل کے لیے ایک بہتر پاکستان کی توقع رکھ سکتے ہیں۔

اُمت وسط ہونے کی حیثیت سے فریضہ اقامت دین اور شہادتِ حق اُمت مسلمہ کا بنیادی فریضہ ہے جو جماعت دعوتِ دین اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے اُٹھے‘ اسے کن ناگزیر صفات سے متصف ہونا چاہیے؟ (ادارہ)

صبر کا وسیع مفھوم

سب سے پہلی صفت جس پر زور دیا گیا ہے‘ صبر ہے۔ صبر کے بغیر خدا کی راہ میں کیا کسی راہ میں بھی مجاہدہ نہیں ہو سکتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کی راہ میں اور قسم کا صبر مطلوب ہے اور دنیا کے لیے مجاہدہ کرتے ہوئے اور قسم کا صبر درکار ہے‘ مگر بہرحال صبر ہے ناگزیر۔ صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جلدبازی سے شدید اجتناب کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے دشواریوں اور مخالفتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جائے اور قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ کوششوں کا کوئی نتیجہ اگر جلدی حاصل نہ ہو‘ تب بھی ہمت نہ ہاری جائے اور پیہم سعی جاری رکھی جائے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرات‘ نقصانات اور خوف و طمع کے مواقع بھی اگر پیش آجائیں تو قدم کو لغزش نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی صبر ہی کا ایک شعبہ ہے کہ اشتعال انگیز جذبات کے سخت سے سخت مواقع پر بھی آدمی اپنے ذہن کا توازن نہ کھوئے‘ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی قدم نہ اٹھائے‘ ہمیشہ سکون‘ صحت‘ عقل اور ٹھنڈی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرے۔

پھر حکم صرف صبر ہی کا نہیں مصابرت کا بھی ہے‘ یعنی مخالف طاقتیں اپنے باطل مقاصد کے لیے جس صبر کے ساتھ ڈٹ کر سعی کر رہی ہیں‘ اسی صبر کے ساتھ آپ بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔ اسی لیے اصبروا کے ساتھ وصابروا کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے مقابلے میں آپ حق کی علم برداری کے لیے اٹھنے کا داعیہ رکھتے ہیں ان کے صبر کا اپنے صبر سے موازنہ کیجیے اور سوچیے کہ آپ کے صبر کا کیاتناسب ہے؟ شاید ہم ان کے مقابلے میں ۱۰ فی صدی کا دعویٰ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ باطل کے غلبے کے لیے جو صبر وہ دکھا رہے ہیں اس کا اندازہ کرنے کے لیے موجودہ جنگ [جنگ عظیم دوم] کے حالات پر نظر ڈالیے۔ کس طرح وقت آپڑنے پر ان لوگوں نے اپنے ان کارخانوں‘ شہروں اور ریلوے سٹیشنوں کو اپنے ہاتھوں سے پھونک ڈالا جن کی تعمیر و تیاری میں سالوں کی محنتیں اور بے شمار روپیہ صرف کیا گیا تھا۔ یہ ان ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں جو فوجوں کو اپنے آہنی پہیوں تلے کچل ڈالتے ہیں۔ یہ دشمن کے ان بم بار طیاروں کے سائے میں استقامت سے کھڑے رہتے ہیں جو موت کے پر لگا کر اُڑتے ہیں۔ جب تک ان کے مقابلے میں ہمارا صبر ۱۰۵ فی صدی کے تناسب پر نہ پہنچ جائے ان سے کوئی ٹکر لینے کی جرأت نہیں کی جا سکتی۔ جب سروسامان کے لحاظ سے ہم ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو پھر سروسامان کی کمی کو صبر ہی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

جذبۂ ایثار

دوسری چیز جو مجاہدہ کا لازمہ ہے ‘ ایثار کی صفت ہے۔ وقت کا ایثار‘ محنتوں کا ایثار اور مال کا ایثار۔ ایثار کے اعتبار سے بھی باطل کا جھنڈا اٹھانے والی طاقتوں کے مقابلے میں ہم بہت ہی پیچھے ہیں۔ حالانکہ بے سروسامانی کی تلافی کے لیے ہمیں ایثار میں بھی ان سے میلوں آگے ہونا چاہیے۔ مگر یہاں صورت واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص بیس‘ پچاس‘ سو اورہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض اپنی پوری صلاحیتیں خود اپنے دشمن کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اور اس طرح ہماری قوم کا کارآمد جوہر بیکار ہوجاتا ہے۔ یہ دماغی صلاحیتیں رکھنے والا طبقہ اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ ایک بڑی آمدنی کو چھوڑ کریہاں محض بقدر ضرورت قلیل معاوضے پر اپنی خدمات پیش کر دے۔ پھر فرمایئے کہ اگر یہ لوگ اتنا ایثار بھی نہ کریں گے اور اس راہ میں پتہ مار کر کام نہ کریں گے تو پھر اسلامی تحریک کیسے پھل پھول سکتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی تحریک محض والنٹیروں کے بَل پر نہیں چل سکتی۔

جماعتی نظم میں والنٹیروں کو اُسی درجے کی اہمیت حاصل ہے جیسی ایک آدمی کے نظامِ جسمانی میں ہاتھ اور پائوں کو ہے۔ یہ ہاتھ اور پائوں اور دوسرے اعضا کس کام کے ہوسکتے ہیں‘ اگر ان سے کام لینے کے لیے دھڑکنے والے دل اور سوچنے والے دماغ موجود نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں والنٹیروں سے کام لینے کے لیے اعلیٰ درجے کے جنرل چاہییں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ جن کے پاس دل اور دماغ کی قوتیں ہیں وہ دنیوی ترقیوں کے دل دادہ ہیں اور مارکیٹ میں اسی کی طرف جاتے ہیں جوزیادہ قیمت پیش کرے۔ نصب العین سے ہماری قوم کے بہترین افراد کی وابستگی ابھی اس درجے کی نہیں ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنے منافع کو بلکہ منافع کے امکانات تک کو قربان کرسکیں۔ اس ایثار کو لے کر اگر آپ یہ توقع کریں کہ وہ مفسدین عالم جو روزانہ کروڑوں روپیہ اور لاکھوں جانوں کا ایثار کر رہے ہیں‘ ہم سے کبھی شکست کھاسکتے ہیں تو یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔

دل کی لگن

مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے تیسری صفت دل کی لگن ہے۔ محض دماغی طور پر ہی کسی شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہوجانا‘ یہ اس راہ میں اقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے۔ لیکن اتنے سے تاثر سے کام چل نہیں سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اُٹھے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہو جانی چاہیے جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ہوجاتی ہے اور آپ کو کھینچ کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے‘ یا اتنی جتنی گھر میں غلہ نہ پاکر بھڑکتی ہے اور آدمی کو تگ و دو پر مجبور کر دیتی ہے اور چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی دُھن میں لگائے رکھے‘ دل و دماغ کو یکسو کر دے اور توجہات کو اس کام پر ایسا مرکوز کردے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیرمتعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف کھینچیں۔ کوشش کیجیے کہ اپنی ذات کے لیے آپ قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصدحیات کے لیے ہو۔

جب تک یہ دل کی لگن نہ ہوگی اور آپ ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے‘ محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔ بیش تر لوگ دماغی طور پر ہمارا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو دل کی لگن کے ساتھ تن من دھن سے اس کام میں شریک ہوں۔ میرے ایک قریبی رفیق نے جن سے میرے ذاتی اور جماعتی تعلقات بہت گہرے ہیں‘حال ہی میں دو برس کی رفاقت کے بعد مجھ سے یہ اعتراف کیا کہ اب تک میں محض دماغی اطمینان کی بنا پر شریکِ جماعت تھا مگر اب یہ چیز دل میں اُتر گئی ہے اور اس نے نہاں خانۂ روح پر قبضہ جما لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اسی طرح اپنے اُوپر خود تنقید کر کے دیکھے کہ کیا ابھی تک وہ اس جماعت کا محض ایک دماغی رکن ہے یا اس کے دل میں مقصد کے عشق کی آگ مشتعل ہوچکی ہے۔ پھر اگر دل کی لگن اپنے اندر نہ محسوس ہو تو اسے پیدا کرنے کی فکر کی جائے۔ جہاں دل کی لگن ہوتی ہے وہاں کسی ٹھیلنے اور اُکسانے والے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس وقت کے ہوتے ہوئے یہ صورت حال کبھی پیدا نہیں ہو سکتی کہ اگر کہیں جماعت کا ایک رکن پیچھے ہٹ گیا یا نقل مقام پر مجبور ہوگیا تو وہاں کا سارا کام ہی چوپٹ ہوگیا۔ بخلاف اس کے پھر تو ہر شخص اس طرح کام کرے گا جس طرح وہ اپنے کو بیمار پاکر کیا کرتا ہے۔

خدانخواستہ اگر آپ کا بچہ بیمار ہو تو آپ اس کی زندگی و موت کے سوال کو بالکلیہ کسی دوسرے پر ہرگز نہیں چھوڑ سکتے۔ ممکن نہیں کہ آپ یہ عذر کر کے اس کے حال پر چھوڑ بیٹھیں کہ کوئی تیماردار نہیں‘ کوئی دوا لانے والا نہیں‘ کوئی ڈاکٹر کے پاس جانے والا نہیں۔ اگر کوئی نہ ہو تو آپ خود سب کچھ بنیں گے کیونکہ بچہ کسی دوسرے کا نہیں آپ کا اپنا ہے۔ سوتیلا باپ تو بچے کو مرنے کے لیے چھوڑ بھی سکتا ہے مگر حقیقی باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کیسے چھوڑ دے گا۔ اس کے تو دل میں آگ لگی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کام سے بھی اگر آپ کا قلبی تعلق ہو تو اس کو آپ دوسروں پر نہیں چھوڑ سکتے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے کی نااہلی‘ یا غلط روی یا بے توجہی کو بہانہ بناکر آپ اسے مر جانے دیں اور اپنے دوسرے مشاغل میں جاکر منہمک ہوجائیں۔ یہ سب باتیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ خدا کے دین اور اس کی اقامت و سربلندی کے مقصد سے آپ کا رشتہ محض ایک سوتیلا رشتہ ہے۔ حقیقی رشتہ ہو تو آپ میں سے ہر شخص اس راہ میں اپنی جان لڑا کر کام کرے۔ میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اگر آپ اس راہ میں کم از کم اتنے قلبی لگائو کے بغیر قدم بڑھائیں گے جتنا آپ اپنے بیوی بچوں سے رکھتے ہیں توا نجام پسپائی کے سوا کچھ نہ ہوگا اور یہ ایسی بری پسپائی ہوگی کہ مدتوں تک ہماری نسلیں اس تحریک کا نام لینے کی جرأت بھی نہ کرسکیں گی۔ بڑے بڑے اقدامات کا نام لینے سے پہلے اپنی قوتِ قلب کا اور اپنی اخلاقی طاقت کا جائزہ لیجیے اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے جس دل گردے کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کیجیے۔

منظم اور پیھم سعی

چوتھی ضروری صفت اس راہ میں یہ ہے کہ ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور منضبط (systematic) طریقے سے کام کرنے کی عادت ہو۔ ایک مدت دراز سے ہماری قوم اس طریق کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام ہو‘ کم سے کم وقت میں ہوجائے۔ جو قدم اٹھایا جائے‘ ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو‘ چاہے مہینہ دو مہینہ میں سب کیا کرایا غارت ہوکے رہ جائے۔ اس عادت کو ہمیں بدلنا ہے۔ اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگامہ کام کرنے کی مشق ہونی چاہیے۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی‘ جو بجاے خود ضروری ہو‘ اگر آپ کے سپرد کر دیا جائے تو بغیر کسی نمایاں اور معجل نتیجہ کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمرصبر کے ساتھ اسی کام میں کھپا دیں۔ مجاہدہ فی سبیل اللہ میں ہر وقت میدان گرم ہی  نہیں رہا کرتا ہے اور نہ ہر شخص اگلی ہی صفوں میں لڑسکتا ہے۔ ایک وقت کی میدان آرائی کے لیے بسااوقات پچیس پچیس سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنی پڑتی ہے اور  اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لڑتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہر بین نظر میں بہت حقیر ہوتے ہیں۔ (رُوداد جماعت اسلامی‘ دوم‘     ص ۳۲-۳۶)

قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے‘انسانوں کے لیے قیامت تک کا منہج اس میں محفوظ کردیا گیا ہے۔قرآن نے جہاں کائنات کے وسیع وعریض عناصر سے استشہاد کرکے انسان کے لیے سامانِ عبرت فراہم کیا ہے‘وہیں انسانی تاریخ کو بھی عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے بطور سبق پیش فرمایا ہے۔تاریخ کے متعلق قرآنی فلسفہ کئی آیات میں بیان ہوا ہے۔بطور مثال سورہ اعراف کی ایک آیت کا مختصر سا حصہ اس مضمون کی بہترین تشریح کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ارشاد ہے: فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْن(الاعراف ۷:۱۷۶)’’تم ان کو یہ حکایات سناتے رہو شاید یہ غوروفکر کریں‘‘۔

غوروفکر اور نصیحت وعبرت کے اس ارشاد کی روشنی میں ہم ماضی اور حال کے مستبد حکمرانوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔یہاں بھی قرآن ہی کا تبصرہ پیش خدمت ہے جو جامع اور ابدی ہے: کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِثْلَ قَوْلِھِمْط(البقرہ ۲:۱۱۸) ’’ایسی ہی باتیں (اور کام) ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ان سب اگلے پچھلے گمراہوں کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں‘‘۔

حکمران انتہائی نازک طبع لوگ ہوتے ہیں‘ وہ کسی مخالفت کو تو کہاں برداشت کریں گے بقول حافظ شیرازی’’ تابِ سخن بھی نہیں رکھتے‘‘۔مخالفین کوکو لہو میں پیل دینا‘آگ میںجلا ڈالنا‘  تختۂ دار پر لٹکا دینا اور بدترین قسم کے انتقامی ہتھکنڈوں سے خوف وہراس کی فضامستقل پیدا کیے رکھنا‘ حکمرانوں کے مزاج شاہی کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔بات بات پہ اندھی قوت کا استعمال‘ریاستی طاقت کو حرکت میں لانے کی ظالمانہ دھمکیاں اور جھوٹ کے زہریلے پروپیگنڈے کا سہارا لے کر مخالفین کی کردار کشی‘ ظالم حکمرانوں کے نزدیک ان کے اقتدار کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔معاشی استحصال‘معاشرتی بائیکاٹ‘حوصلہ شکنی کے لیے استہزا‘مخالفین کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے‘ ان کی غربت کا مذاق اور اس کے مقابل اپنی قوت‘دولت‘حشمت اور لامحدود وسائل پر فخرومباہات ‘پنداروانانیت کے اس مہلک مرض کے لیے نسخۂ شفا قرار پاتے ہیں۔قرآن ان اور ان سے بھی زیادہ مذموم اوصاف کا تذکرہ کرکے‘ ان حکمرانوں کے عبرت ناک انجام سے باخبر کرتا ہے۔

قرآن مجید کی سورہ النمل بادشاہوں کی قوت اور باہمی آویزش کا ایک دل چسپ تاریخی واقعہ پیش کرتی ہے۔ایک جانب تورسولِ خدا حضرت سلیمان ؑ حکمران ہیں‘دوسری جانب یمن کے متمدن اور طاقت ور خطّے میں ایک بت پرست خاتون ملکۂ سبا تخت پر براجمان ہے۔حضرت سلیمان ؑ کی طرف سے ملکہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی توایک اہم اور ہنگامی اجلاس میں اس نے اپنے وزرا سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’اے سردارانِ قوم! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو‘میں کسی معاملے کا فیصلہ تمھارے بغیر نہیں کرتی ہوں‘‘۔ اُنھوں نے جواب دیا’’ہم طاقت ور اور لڑنے والے لوگ ہیں۔آگے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم دینا ہے‘‘۔ملکہ نے کہا کہ’’بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں۔میں اِن لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں‘پھر دیکھتی ہوں میرے ایلچی کیا جواب لے کر آتے ہیں‘‘۔ (آیت ۳۲-۳۵)

سید مودودیؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

اس ایک فقرے میں امپیریلزم اور اس کے اثرات ونتائج پر مکمل تبصرہ کردیا گیا ہے۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں کی دوسری قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی۔اس کی غرض یہی ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدا نے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل وذرائع عطا کیے ہیں ان سے وہ خود متمتع ہوں اور اس قوم کو اتنا بے بس کردیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں سر اٹھا کر اپنا حصہ نہ مانگ سکے۔اس غرض کے لیے وہ اس کی خوشحالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کردیتے ہیں‘اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے انھیںکچل کر رکھ دیتے ہیں‘اس کے افراد میں غلامی‘خوشامد‘ایک دوسرے کی کاٹ‘ایک دوسرے کی جاسوسی‘ فاتح کی نقالی‘اپنی تہذیب کی تحقیر‘فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کردیتے ہیں‘اور انھیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس چیز کو بھی بیچ دینے میں تامل نہ کریں اور اُجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔(تفہیم القرآن‘ سوم‘ ص ۵۷۳)

ملکۂ سباء کا یہ دانش مندانہ تجزیہ جہاں اس کی عقل وفہم کا پتا دیتا ہے ‘وہیں انسانی تاریخ کا یہ پہلو بھی واضح کرتا ہے کہ خدا سے برگشتہ اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے بے خوف حکمرانوں کے ہاتھوں عزتیں برباد ہوتی اور مال وجان غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔انسانی تاریخ کا پورا نچوڑ بھی یہی ہے۔آج بھی پوری دنیا میں یہی کھیل جاری ہے۔امریکا اور اس کے اتحادی نیز بھارت اور اسرائیل اس کی زندہ مثالیں ہیں۔طاقت جس طرح کی بھی ہو وہ انسان کو خودسر‘    سنگ دل‘ اور ظالم بنانے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ہاں‘ اس طاقت کے ساتھ خدا خوفی‘احساسِ آخرت اور جواب دہی کا تصور شامل ہوتو انسان حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔معاشی ومعاشرتی اور ذہنی وجسمانی قوت سبھی بڑا امتحان ہوتی ہیں مگر سیاسی وحکومتی طاقت کا معاملہ سبھی سے زیادہ شدید اور فتنہ سامان ثابت ہوتا ہے۔

حکمران اور مقتدر طبقے اللہ کی دی ہوئی مہلت کو اپنی قوت کا کمال سمجھتے ہیں۔ خلق خدا کی جان لے لینا ان کے نزدیک معمولی کام ہے۔قوم نوح کے مقتدر طبقے نے سیدنا نوحؑ کو قتل اور سنگسار کردینے کی بار بار دھمکیاں دیں اور کئی بار ان پر حملہ آور ہوئے۔قرآن نے اس نکتے پر روشنی ڈالی ہے ۔ سورۂ قمرمیں ارشاد ہے ’’(قوم نوح نے) ہمارے بندے کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اور وہ بری طرح جھڑکا اور دھمکایا گیا‘‘(آیت ۹)۔سورۂ شعراء کے مطابق اس قوم نے حضرت نوحؑ کو ان الفاظ میں دھمکی دی’’اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہوکر رہے گا‘‘(آیت ۱۱۴)۔ آیت میں ’’مرجومین‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کا ترجمہ پھٹکارے ہوئے بھی ہے اور سنگسار کیے ہوئے بھی ہوسکتا ہے۔

حضرت صالح علیہ السلام کو بھی ان کی قوم نے قتل کی دھمکی دی اور ان کے خلاف سازش تیار کی۔سورہ نمل کی آیات ۴۹ تا ۵۲ میں اس پورے واقعے کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے ’’اُس شہر میں نوجتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔انھوں نے آپس میں کہا’’خدا کی قسم کھا کر عہد کرلو کہ ہم صالحؑ اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے‘ہم بالکل سچ کہتے ہیں‘‘۔یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انھیں خبر نہ تھی۔اب دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیا ہوا۔ہم نے تباہ کرکے رکھ دیا اُن کو اور ان کی پوری قوم کو۔ اُن کے گھر خالی پڑے ہیں اُس ظلم کی پاداش میںجو وہ کرتے تھے‘اس میں ایک نشان عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں‘‘۔

سید مودودی ؒ نے ان آیات کی تفسیر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کاموازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

[ولی سے مراد]حضرت صالحؑ کے قبیلے کا سردارہے‘جس کو قدیم قبائلی رسم ورواج کے مطابق ان کے خون کے دعوے کا حق پہنچتا تھا۔یہ وہی پوزیشن ہے جو نبیؐ کے زمانے میں آپؐ کے چچا ابوطالب کو حاصل تھی۔کفار قریش بھی اسی اندیشے سے ہاتھ روکتے تھے کہ اگر وہ آنحضرتؐ کو قتل کردیں گے تو بنی ہاشم کے سردار ابوطالب اپنے قبیلے کی طرف سے خون کا دعویٰ لے کر اٹھیں گے۔

[قومِ ثمود کی سازش] بعینہٖ اُسی نوعیت کی سازش تھی جیسی مکہ کے قبائلی سردار نبیؐ کے خلاف سوچتے رہتے تھے‘اور بالآخر یہی سازش انھوں نے ہجرت کے موقع پر حضوؐر کو قتل کرنے کے لیے کی‘یعنی یہ کہ سب قبیلوں کے لوگ مل کر آپؐ پر حملہ کریں تاکہ بنی ہاشم کسی ایک قبیلے کو ملزم نہ ٹھہرا سکیں اور سب قبیلوں سے بیک وقت لڑنا ان کے لیے ممکن نہ ہو۔

[دوسری طرف ہوا یوں کہ] قبل اس کے کہ وہ اپنے طے شدہ وقت پر حضرت صالحؑ کے ہاں شب خون مارتے‘اللہ تعالیٰ نے اپنا عذاب بھیج دیا اور نہ صرف وہ‘ بلکہ ان کی پوری قوم تباہ ہوگئی۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ سازش ان لوگوں نے اونٹنی کی کوچیں کاٹنے کے بعد کی تھی۔سورۂ ہود میں ذکر آتا ہے کہ جب انھوں نے اونٹنی کو مار ڈالا تو حضرت صالحؑ نے انھیں نوٹس دیا کہ بس تین دن مزے کرلو‘اس کے بعد تم پر عذاب آجائے گا(فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِکُمْ ثَلٰـثَۃَ اَیَّامٍ ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوْبٍo  ھود۱۱:۶۵)۔اس پر شاید انھوں نے سوچا ہوگا کہ صالحؑ کا عذابِ موعود  تو آئے چاہے نہ آئے‘ہم لگے ہاتھوں اونٹنی کے ساتھ اس کا کام بھی کیوں نہ تمام کردیں۔چنانچہ اغلب یہ ہے کہ  انھوں نے شب خون مارنے کے لیے وہی رات تجویز کی ہوگی جس رات عذاب آنا تھا اور قبل اس کے کہ ان کا ہاتھ حضرت صالحؑ پر پڑتا خدا کا زبردست ہاتھ ان پر پڑ گیا۔ (تفہیم القرآن‘ جلد ۳‘ ص ۵۸۴-۵۸۵)

یہ انسانی تاریخ کے بہ تکرار رونما ہونے والے واقعات ہیں جو قدیم دور میں تو پورے جتھے اور باغی عوام کو ملیامیٹ کر دیتے تھے مگر جدید دور میں بھی ظالم اپنے مظالم کا کچھ نہ کچھ مزا دنیا میں چکھ ہی لیتے ہیں۔پھر بھی کوئی عبرت نہیں پکڑتا‘ہر آمر مطلق یہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے قبل جو گرفت میں آگئے تھے‘بے وقوف تھے‘میں تو بڑا جزرس‘محتاط اور منصوبہ ساز ہوں۔میں کیسے پکڑ ا جائوں گا‘ مگر سارے دریچے بند کردینے کے باوجود‘ وہ اپنی تباہی کا سبب بننے والے دریچے کو بند کرنا بھول جاتا ہے۔

حضرت نوحؑ اور حضرت صالحؑ کو قتل کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر حضرت ابراہیم ؑ کو تو عملاً قتل کرنے کے لیے آگ میںپھینک دیا گیاتھا۔وقت کے مستبد حکمران نمرود کے دربار سے قرآن کے الفاظ میں یہ فیصلہ صادر ہوا’’انھوں نے کہا جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خدائوںکی اگر تمھیں کچھ کرنا ہے‘‘۔ (الانبیائ۲۱:۶۸)

مستبد حکمران اپنی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں مگر اللہ کی قدرت ِ کاملہ ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو سب منصوبے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔چنانچہ‘ اس منصوبے کی ناکامی کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے’’ ہم نے کہا اے آگ! ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا  ابراہیم ؑ پر۔ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیم ؑکے ساتھ برائی کریں مگر ہم نے ان کو بری طرح ناکام کردیا‘ اور ہم اُسے اور لوط ؑکو بچا کر اس سرزمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں‘‘۔(الانبیاء ۲۱:۶۸-۷۱)

فرعون کا ذکر قرآن میں زیادہ تفصیل کے ساتھ آیا ہے کیونکہ قرآن نے موسٰی ؑ کی جدوجہد کا بھرپور تعار ف کرایا ہے۔قرآن کے مطابق ’’فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘۔(القصص۲۸: ۴)

بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کرنے کا تذکرہ قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے۔مثلاًسورہ البقرہ ۲:۴۹‘ الاعراف ۷:۱۴۱‘ ابراہیم ۱۴:۶‘ القصص ۲۸:۴۔اسی طرح اس نے اپنے درباری جادوگروں کو بھی ان کے ایمان لانے کے بعد پھانسی لگا دیا تھا۔اس موقع پر فرعون نے وہی گھسی پٹی دلیل پیش کی جو ظلم کرنے والے حکمران ہر دور میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قرآن میں اس کا تذکرہ کئی مقامات پر آیا ہے۔یہاں ہم سورۃ الاعراف سے یہ مضمون نقل کرتے ہیں۔ ’’فرعون نے کہا’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمھیں اجازت دوں؟ یقینا یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی‘ تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے  بے دخل کردو۔اچھا‘ تو اس کا نتیجہ اب تمھیں معلوم ہواجاتا ہے۔میں تمھارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھائوں گا‘‘۔انھوںنے جواب دیا ’’بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ توجس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انھیں مان لیا۔ اے رب!ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماںبردار ہوں‘‘۔ (آیات ۱۲۳ تا ۱۲۶)اس کے علاوہ ملاحظہ فرمائیے: طہٰ۲۰:۵۷-۷۶‘ الشعراء ۲۶: ۳۴-۵۱۔

ظلم اور ظالم کی بنیاد کمزور ہوتی ہے۔پتّا بھی ہلے تو ظالم سمجھتا ہے کہ جان پر بن گئی۔ذرا سی حرکت کہیں سے محسوس ہو تو اسے سازش اور حکومت کا تختہ الٹنے کا ’’خطرناک منصوبہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔واقعہ مذکورہ میں قرآن کے بیان کے مطابق فرعون کے اس سارے ظلم کے باوجود مخلص مومن‘ موت سے ڈر کر کفر کی جانب پلٹنے کے بجاے موت قبول کرنے پر تیار ہوگئے اور اللہ نے ان کو ایسی ثابت قدمی بخشی جو مثال بن گئی۔اس مثال کا اتباع اہل حق ہر دور میں کرتے رہے ہیں ۔یہاں تک کہ آج کا دورِ انحطاط بھی اس سے خالی نہیں ہے۔عالم اسلام میں غیر ملکی حملہ آوروں اور نام نہاد مسلمان آمروں کے مقابلے پر جگہ جگہ استقامت اور مضبوط کردار کی یہ شمعیں روشن ہیں۔اسی مصر میں قدیم فرعون نے اہلِ ایمان کو تختۂ دار پر لٹکایا تھا جہاں دور جدید کے فراعنہ کے ہاتھوں عبدالقادر عودہ شہید اور اُن کے رفقا سیدقطب شہید اور آج کئی دیگر اہل حق پھانسی گھاٹ کی یہ منزلیں جرأت واستقامت کے ساتھ سرکرتے چلے آرہے ہیں۔فلسطین کی مقدس سرزمین‘انبیا وآئمہ اور صحابہ کا مسکن عراق‘ اہلِ عزیمت کا وطن افغانستان‘ جنت نظیر وادیٔ کشمیراور کوہ قاف کے بلند ہمت شیشانیوں کا مولد چیچنیا اسی تابناک تاریخ کا تسلسل بن کر ظلم اور ظالم کی ہزیمت کا اعلان کررہے ہیں۔اس موقع پر وادیٔ نیل کے پرعزم اسلامی راہ نما جناب سید عمر تلمسانی ؒ کا یہ فقرہ شدت سے یاد آرہا ہے کہ ’’ظالم کے سامنے مظلوم کا جھکنے سے انکار کردینا دراصل ظالم کی شکست اور مظلوم کی فتح ہوتی ہے اگرچہ اس میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے‘‘۔

فرعون نے حضرت موسٰی ؑ کو بھی کئی بار قتل کرنے کی دھمکیاں دیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ موسیٰ زمیں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے قرآن کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں’’ایک روز فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا: چھوڑو مجھے‘ میں اس موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو۔مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمھارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میںفساد برپا کرے گا‘‘(المومن۴۰:۲۶)۔ اس کے جواب میں پیغمبرحق سیدنا موسٰی ؑ خوف زدہ ہونے کے بجاے ان الفاظ میں نعرۂ حق بلند فرماتے ہیں ’’موسٰی ؑ نے کہا میں نے تو ہر اس متکبر کے مقابلے میں‘جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا‘اپنے رب اور تمھارے رب کی پناہ لے لی ہے‘‘۔ (المومن ۴۰: ۲۷)

فرعون اپنے سارے لائو لشکر اور قوت کے باوجود موسٰی ؑ کو دھمکیاں تو دیتا رہا مگر آپ پر ہاتھ اٹھانے کی اسے کبھی ہمت وجرأت نہ ہوئی۔فرعون نے دنیا کے دیگر قدیم وجدید رعونت پسند حکمرانوں کی طرح موسٰی ؑکو حقیر اور بے وقعت ثابت کرنے کی بھی کوشش کی‘ اپنی دولت وحشمت پر فخروغرور اور موسٰی ؑکی غربت کا مذاق اس کے نزدیک اس دعوت اور داعی کو ہلکا کرنے کا ذریعہ تھا مگر حقیقت میں یہ اس کی اپنی ہی کم ظرفی تھی کیونکہ اس طرح حق کا استخفاف کسی دور میں ممکن نہیں ہوا۔ قرآن اس سارے واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے۔’’ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا ’’لوگو! کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے‘اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں؟کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا؟میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل وحقیر ہے اور اپنی بات کھول کر بیان نہیں کرسکتا؟کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا؟‘‘اُس (فرعون) نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انھوں (قومِ فرعون) نے اس کی اطاعت کی‘درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔آخر کار جب انھوں نے ہمیں غضب ناک کردیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کردیا‘‘۔(الزخرف ۴۳:۵۱ -۵۵)

حضور اکرمؐ کو بھی آپؐ کے دور کے منکرین حق نے ہرطرح ہراساں کرنا چاہا۔ڈرایا دھمکایا‘ قتل کی سازشیں تیار کیں‘قید اور جلا وطنی کی دھمکیاں دیں‘مگر آنحضوؐر اپنی بات پر ڈٹے رہے۔اس صورت حال کا نقشہ قرآن کی سورۂ الانفال میں یوں کھینچا گیا ہے۔’’وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب منکرین حق آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیںیا جلاوطن کردیں۔وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے ‘‘۔(آیت ۳۰)

آج عالمی نقشے پر ایک نگاہ ڈالیں تو ساری تاریخ خود کو دہراتی نظر آتی ہے۔قتل عام‘ جلانا‘ پھانسی چڑھانا ‘بچوں کا قتل‘معاشی قتل‘استہزا‘جھوٹا پروپیگنڈہ اورکردار کشی‘جلا وطنی اور وسائل پر قبضہ سارے مناظر موجود ہیں۔اس کائنات کا مالک کتنا حلیم اور واسع ہے۔انسان کو کتنی ڈھیل دیے چلا جاتا ہے۔ وہ جب رسی کھنچنے پر آئے تو ذرا دیر نہیں لگتی اس کا ارشاد ہے’’قومِ عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے’’کون ہے ہم سے زیادہ زورآور؟‘‘ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے‘وہ ان سے زیادہ زورآور ہے۔وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے‘‘۔(حم السجدہ ۴۱:۱۵)

آج کے دور میں ہیروشیما‘ناگاساکی اوراس کے بعد مظالم کی ایک طویل داستان ‘گیس میمرز‘نیپام بم‘ڈیزی کٹرز‘کیمیکل اور بائیو ہتھیار جس بے دردی اورظلم کے ساتھ استعمال ہورہے ہیں‘وہ دورِجدید کے بظاہر اور بزعمِ خویش مہذب انسان کی خونخواری‘درندگی اور خدا سے بغاوت کا نمایاں نمونہ ہیں۔آبادیوں کی آبادیاں جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دینا‘انسانوں کو بلکہ ان کی آنے والی نسلوں تک کو معذور‘اپاہج اور ناکارہ کردینے کے لیے نت نئے ہتھیاروں کی ایجاد ایک دیوانگی کا روپ دھار چکی ہے۔ اس حوالے سے بھی قرآن مجید قدیم قوموں کا حوالہ دیتا ہے کہ وہ آگ کی خندقیں تیار کرکے اہل ایمان کو ان میں بھون ڈالتے تھے۔سورۂ البروج کا یہ مضمون دل دہلا دینے والا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی ‘اور اُس دن کی جس دن کا وعدہ کیاگیا ہے‘اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی کہ مارے گئے گڑھے والے‘(اُس گڑھے والے) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی‘ جب کہ وہ اُس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اُسے دیکھ رہے تھے‘اور اُن اہل ایمان سے اُن کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہیں تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے   جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے‘اور وہ    خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے‘ یقینا اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور اُن کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے‘‘۔ (البروج ۸۵:۱-۱۰)

ان آیات کی تفسیر میں علامہ ابن کثیرؒ اور دیگر متقدمین آئمہ تفسیر نے کافی تفصیلات لکھی ہیں۔دور جدید کے عظیم مفسر قرآن سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی شرح وبسط کے ساتھ ان آیات کے تفسیری حاشیے لکھے ہیں۔ وہ ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکا کرایمان لانے والے لوگوں کو اُس میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے اُن کے جلنے کا تماشا دیکھا تھا۔مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ اُن پر خدا کی لعنت پڑی اور وہ عذاب الٰہی کے مستحق ہوگئے‘ اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ایک‘ برجوں والے آسمان کی۔ دوسرے‘روز قیامت کے ہولناک مناظر کی اور اُس ساری مخلوق کی جو اُن مناظر کو دیکھے گی۔ پہلی چیز اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر وذلیل انسان کہاں بچ سکتے ہیں۔دوسری چیز کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ دنیا نے اُن لوگوں پر جو ظلم کرنا چاہا کرلیا‘مگر وہ دن بہر حال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبردار کیا جا چکا ہے کہ اُس میں ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہوگی۔تیسری چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح اِن ظالموں نے اُن بے بس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اُسی طرح قیامت کے روز ساری خلق دیکھے گی کہ اِن کی خبر کس طرح لی جاتی ہے۔

گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں۔جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کیے گئے ہیں۔

ان میں سے ایک واقعہ حضرت صہیب رومیؓ نے رسول ؐاللہ سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا۔اُس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کہ کوئی لڑکا ایسا مامور کردے جو مجھ سے یہ سحر سیکھ لے۔بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا۔مگر وہ لڑکا ساحر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی(جو غالباً پیروانِ مسیحؑ میں سے تھا) ملنے لگا‘اور اس کی باتوں سے متاثر ہوکر ایمان لے آیا حتیٰ کہ اس کی تربیت سے  صاحبِ کرامت ہوگیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا۔بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے تو راہب کو قتل کیا ‘پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا‘مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اُس پر کارگر نہ ہوا۔آخرکار لڑکے نے کہا کہ اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمعِ  عام میں بِاسْمِ رَبِّ الْغُلَامِ (اس لڑکے کے رب کے نام پر) کہہ کر مجھے تیر مار‘ میںمر جائوں گا۔چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مرگیا۔اس پر لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اُس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہوگیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کو مان گئے۔بادشاہ یہ حالت دیکھ کر غصے میں بھر گیا۔اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے ‘ان میں آگ بھروائی اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیااس کو آگ میں پھکوا دیا۔ (احمد‘مسلم‘ترمذی‘ابن جریر‘عبدالرزاق‘ابن ابی شیبہ‘طبرانی‘عبد بن حُمَید)

دوسرا واقعہ حضرت علیؓ سے مروی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زنا کا ارتکاب کیا اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات استوار ہوگئے۔بات کھلی تو بادشاہ نے لوگوں میں اعلان کردیا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کردیا ہے۔لوگوں نے اسے قبول نہ کیا تو اس نے طرح طرح کے عذاب دے کر عوام کو یہ بات ماننے پر مجبور کیا‘یہاں تک کہ آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ہر اس شخص کو پِھکواتا چلا گیا جس نے اِسے ماننے سے انکار کیا۔حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ اُسی وقت سے مجوسیوں میں محرمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے۔(ابن جریر)

تیسرا واقعہ ابن عباسؓ نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے    بنی اسرائیل کو دین ِموسٰی ؑ سے پھر جانے پر مجبور کیا یہاں تک کہ انھوں نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں اُن لوگوں کو پھینک دیا جو اس سے انکار کرتے تھے۔(ابن جریر‘عبد بن حُمَید)

سب سے مشہور واقعہ نجران کاہے جسے ابن ہشام‘طبری‘ابن خلدون اور صاحب معجم البلدان وغیرہ اسلامی مؤرخین نے بیان کیا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیر(یمن)کا بادشاہ تبان اسعد ابوکرب ایک مرتبہ یثرب گیا جہاں یہودیوں سے متاثر ہوکر اس نے دین ِیہود قبول کرلیا اور بنی قریظہ کے دو یہودی عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا۔وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی۔اس کا بیٹا ذونواس‘ اس کا جانشین ہوا اور اُس نے نجران پر جو جنوبی عرب میں عیسائیوں کا گڑھ تھا‘حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کردے اور اس کے باشندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ (ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسٰی ؑ کے اصل دین پر قائم تھے)۔ نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین ِیہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انھوں نے انکار کیا۔اس پر   اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا اور  بہت سوں کو قتل کردیا‘یہاں تک کہ مجموعی طور پر ۲۰ ہزار آدمی مارے گئے۔اہل نجران میں سے ایک شخص دَوس بن ذُوثعلبان بھاگ نکلا اور ایک روایت کی رو سے اُس نے قیصر روم کے پاس جاکر‘اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے پاس جاکر اس ظلم کی شکایت کی۔پہلی روایت کی رو سے قیصر نے حبش کے بادشاہ کو لکھا ‘اور دوسری روایت کی رو سے نجاشی نے قیصر سے بحری بیڑہ فراہم کرنے کی درخواست کی۔ آخرکار حبش کی ۷۰ ہزار فوج اریاط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی‘ ذونواس مارا گیا‘یہودی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ‘اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۹۵-۲۹۷)

ظالم حکمرانوں اور ظلم کی بساط پر قرآن حکیم کا یہ تبصرہ ایک کھلی حقیقت‘ تاریخی شہادت اور اہلِ عقل و دانش کے لیے سامانِ عبرت ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایک موقع پر ایک ایسی ہی کھلی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:

دنیا میں ہمیشہ غلط کار لوگوں کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ غلط کاروں کے انجام کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ اس سے سبق نہیں لیتے۔ حتیٰ کہ اپنے پیش رَو غلط کاروں کا جو انجام خود ان کے اپنے ہاتھوں ہوچکا ہوتا ہے اس سے بھی انھیں عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا قانونِ مکافات صرف دوسروں ہی کے لیے تھا‘ اُن کے لیے اس قانون میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ پھر اپنی کامیابیوں کے نشے میں وہ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ دنیا میں سب احمق بستے ہیں۔ کوئی نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے‘ نہ اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے اور نہ اپنے دماغ سے واقعات کو سمجھ سکتا ہے۔ بس جو کچھ وہ دکھائیں گے اسی کو دنیا دیکھے گی‘ جو کچھ وہ سنائیں گے اسی کو دنیا سنے گی‘ اور جو کچھ وہ سمجھائیں گے دنیا بُزِاخفش [سر ہلاتی بکری] کی طرح اس پر سر ہلاتی رہے گی۔ یہی برخود غلطی پہلے بھی بہت سے بزعمِ خویش عاقل اورفی الحقیقت غافل لوگوں کو لے بیٹھی ہے‘ اور اسی کے بُرے نتائج دیکھنے کے لیے اب بھی کچھ برخود غلط حضرات لپکے چلے جارہے ہیں۔ (رُوداد کل پاکستان اجتماع جماعت اسلامی پاکستان‘ لاہور‘ اختتامی خطاب‘ ۱۹۶۳ئ‘ ص ۷۷-۷۸)

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

قطع رحمی ایک ایسی بیماری ہے جو سرطان کی طرح انسانی معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور بہت سے باعمل لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اُمت مسلمہ آج جن مسائل سے دوچار ہے اس میں قطع رحمی کا بھی بڑا کردار ہے۔

مفھوم

عربی لغت میں قطعیۃ الرحم ایک مرکب اضافی ہے ‘اور یہ دو کلموں سے مرکب ہے: (الف)قطعیۃ یہ لفظ متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:

۱- کاٹنا اور الگ کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ: قَطَعَ التَّسِیَٔ قطعاً ‘یعنی چیز کے ایک حصے کو کاٹا اور اس کو الگ کیا۔ قَطَعَ الثَّّمَرَ  ‘یعنی پھل کے ٹکڑے کر دیے۔

۲- چھوڑنا اور لاتعلق ہونا۔ کہتے ہیں: قَطَعَ الصِّدْقَ ، یعنی سچ بولنا چھوڑ دیا اور اس سے لاتعلق ہوگیا۔ قَطَعَ رَحِمَہٗ ، یعنی اس سے لاتعلق ہوگیا اور اسے جوڑا نہیں۔(المعجم الوسیط‘ ۲: ۷۴۵-۷۴۶۔ الصحاح فی اللغۃ والعلوم‘ ص ۹۳۵)

ان دونوں معانی کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ قطع تعلق بھی کاٹنے اور الگ ہونے کی صورت میں لاتعلقی اور ترک ہی ہوتا ہے۔

(ب) الرَّحِمْ : اس کا اطلاق بھی مختلف معانی پر ہوتا ہے:

۱- بچے کی تخلیق کی جگہ ۲- وہ رشتہ دار جو عصبہ اور ذوی الفروض کے علاوہ ہوں جیسے بھتیجیاں اور چچازاد بہنیں (المعجم الوسیط‘۱:۳۳۵۔  الصحاح فی اللغۃ والعلوم‘ ص۳۷۳) ۳-مطلق رشتہ داری‘ خواہ ان کے ساتھ نکاح جائز ہو یا ناجائز۔

یہ تیسری تعریف زیادہ مناسب ہے کیونکہ یہی اسلام کی روح سے مطابقت رکھتی ہے‘ جو اتحادو اتفاق کا داعی ہے۔

اصطلاحِ شرع میں قطع رحمی سے مراد رشتہ داروں سے بھلائی اور احسان کو ترک کرنا‘ اُن کی ضروریات پوری نہ کرنا اور بعض اوقات ہاتھ یا زبان یا پھر دونوں سے اُن کو ایذا پہنچانے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے۔

قطع رحمی کے مظاھـر

قطع رحمی کے کچھ رویّے ہیں جن سے اس کی پہچان ہوتی ہے ۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

۱- زبان سے تکلیف دینا۔ غیبت کے ذریعے‘ چغلی کے ذریعے‘ ان کے خلاف افواہیں پھیلاکر‘ مختلف رشتہ داروں کے درمیان تعلقات خراب کرکے‘ گالی یا بددعا دے کر اُن کی برائی کرکے‘ غلط ناموں سے پکار کر اور اس طرح کی اور بے شمار ایذائیں۔

۲- ہاتھ سے تکلیف دینا‘ جیسے مارنا پیٹنا اور معاملاتِ زندگی میں تعاون نہ کرنا۔

۳- ذوی الارحام کی تکلیف اور مصیبت میں اُن کا زبانی اور عملی طور پر مددگار نہ بننا۔

۴- ذوی الارحام کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف نہ کرنا۔

۵- ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے گریز کرنا‘ خواہ وہ تنگی میں اُن کے حال احوال پوچھنے اور دادرسی کرنے کی صورت میں ہو‘ یا خوشی کے موقع پر مبارک باد دینا ہو‘ اُن کی خبرگیری کے لیے اُن کے گھروں میں آمدورفت اور اُن کی خوبیوں کا اظہار کرنے کی صورت میں یا چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے‘ یا مجلس میں جگہ دینے کی صورتوں میں ہو۔

قطع رحمی کے نتائج و اثرات

قطع رحمی کے اثرات نہایت مضر اور اس کے نتائج بڑے دُور رس ہیں۔

(الف) افراد اُمت پر اثرات:

  • خدا کی رحمت سے دُوری: اللہ تعالیٰ قطع تعلق کرنے والے کی تعریف نہیں کرتا اور نہ اسے اپنے قریب کرے گا اور نہ کسی حال میں اسے اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے گا: وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِ o (الرعد ۱۳:۲۵) ’’اور وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں‘ جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنھیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں‘ وہ لعنت کے مستحق ہیں اور اُن کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔
  • اللّٰہ کی مدد سے محرومی: اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ صلہ رحمی کرنے والوں سے تعلق جوڑتا ہے اور قطع رحمی کرنے والوں سے اپنا تعلق کاٹتا ہے۔ اللہ سے کسی کا تعلق کٹ جانا اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس پر بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیث دلالت کرتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَلرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ ، تَقُوْلُ: مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہٗ اللّٰہُ ، وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ رَحِم ‘(رشتہ داری) عرش سے چمٹ کر پکارتی ہے کہ: جس نے مجھے جوڑ دیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے تعلق جوڑ دے گا اور جس نے مجھے کاٹ دیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے قطع تعلق کرے گا۔

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی خَلَقَ الْخَلْقَ ، حَتّٰی اِذَا فَرَغَ مِنْھُمْ قَامَتِ الرَّحِمُ ، فَقَالَتْ : ھَذَا مَقَامُ العَائِذِ بِکَ مِنَ القَطِیْعَۃِ ، اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات کو پیدا کیا‘ جب اس سے فارغ ہوا تو رشتہ داری اٹھ کر کہنے لگی: یہ اُن لوگوں کا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نَعَمْ! الَاتَرْضِیْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَصَلَکَ وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکَ‘ جی ہاں! کیا تو نہیں چاہتی کہ جو لوگ تمھیں جوڑتے ہیں میں اُن سے تعلق جوڑ دوں اور جو لوگ تجھے کاٹتے ہیں میں اُن سے اپنا تعلق کاٹ دوں؟ وہ کہنے لگی: کیوں نہیں (میں تویہی چاہتی ہوں)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس تیرے ساتھ اس کا وعدہ ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھا کرو۔ فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ o اُوَلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَھُمْ o اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا o (محمد ۴۷: ۲۲-۲۴)۔ کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے سے تعلق توڑو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزید فرماتے ہیں: قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : اَنَا اللّٰہُ ، اَنَا الرَّحْمٰنُ ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَھَا اِسْمًا مِنْ اِسْمِیْ ، فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَھَا بَتَتُّہٗ (الترغیب والترہیب، للمنذرین۳:۳۴۰) ۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں‘ میں رحمن ہوں‘ میں نے رَحم (رشتہ داری) کو پیدا کیا اور اپنے نام کا ایک حصہ اس کے لیے مقرر کر دیا‘ پس جو اس کو جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا اور جو اس کو کاٹے گا میں اس سے اپنا تعلق توڑوں گا۔

  • رزق اور عمر کی بے برکتی:اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ جب ہم صلہ رحمی کریںگے تو ہمارے رزق اور عمر میں برکت ہوگی۔ اگر ہم صلہ رحمی نہیں کریںگے تو اس کی سزا یہ ہوگی کہ ہمارے رزق اور عمر دونوں سے برکت کو اٹھا دیا جائے گا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: مَنْ اَحبَّ اَنْ یُّبْسَطَ لَہٗ فِیْ رِزْقِہٖ ، وَیُنْسَأَ فِیْ أثَرِہٖ ، فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ (صحیح مسلم‘ کتاب البروالصلہ)‘ جو چاہتا ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کی موت میں تاخیر ہو‘ تو اُسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ واقعات اور مشاہدہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو آدمی صلہ رحمی کا خیال نہیں رکھتا اس سے رشتہ دار متنفرہوتے ہیں اور اس کو زندگی کی دوڑ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے اس پر زیادتی کرتے ہیں‘ اس کا مال چھینتے ہیں۔اس کی زندگی اسی طرح   بے مقصد و بے فائدہ گزر جاتی ہے۔
  • عمل کی عدم قبولیت: اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس میں وہ کمزوری بھی رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ خواہشات اور ترغیبات نفس سے بعض اوقات شکست کھاجاتا ہے‘ اور وہ قوت بھی اسے ودیعت کی گئی ہے جس کے ذریعے اگر وہ چاہے تو اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ جب آدمی اپنے اندر انقلاب پیدا کرتا ہے‘ اپنی حالت درست کرتا ہے‘ تو بعض چھوٹی موٹی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں جو نیک اعمال کی قبولیت میں حائل نہیں ہوسکتیں‘ سوائے قطع رحمی کے۔ قطع رحمی کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کو روک سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اِنَّ اَعْمَالَ بَنِیْ اٰدَمَ تُعْرَضُ کُلُّ خَمِیْسٍ لَیلَۃَ الْجُمُعَۃِ، فَلَا یُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ            (مسند احمد‘ ج ۲‘ ص ۴۸۴‘ طبع استنبول‘ ۱۹۸۲ئ)‘(بنی آدم کے اعمال ہرجمعرات کو (اللہ کے سامنے) پیش کیے جاتے ہیں‘ لیکن قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔
  • دنیا میں فوری سزا: عموماً ہر گناہ کی سزا مل جاتی ہے ‘ خواہ فوری ہو یا تاخیر سے۔ لیکن سرکشی اور قطع رحمی کی سزا اللہ تعالیٰ فوری طور پر دنیا میں ہی دے دیتا ہے تاکہ ایک طرف    رشتہ داروں کا سینہ ٹھنڈا ہوجائے اور دوسری طرف معاشرے کے دوسرے لوگ قطع رحمی کے ارتکاب سے محتاط رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا مِنْ ذَنْبٍ اَجْدَرُ اَنْ یُّعَجِّلَ اللّٰہُ لِصَاحِبِہِ الْعُقُوْبَۃَ فِیْ الدُّنْیَا مَعَ مَا یَـدَّفِرُ مِنَ الْبَغِیْ وَقَطِیْعَۃِ الرَّحِمَ (تـرمذی‘ کتاب     صفۃ القیامۃ)‘ سرکشی اور قطع رحمی سے زیادہ کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اس کی فوری سزا مل جائے۔
  • جنت سے محرومی: اللہ تعالیٰ نے جنت کو ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے لیے بدلے اور ثواب کی جگہ بنایا ہے‘ اور جس نے قطع رحمی کی اس نے نیک عمل سے منہ موڑا‘ اس کا انجام جنت سے محرومیت کی شکل میں نکلے گا‘ یا تو ہمیشہ کے لیے‘ یا پھر اتنے عرصے کے لیے جو اس کے عمل کے مناسب ہو۔ پھر اس کو معاف کر کے جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ فرماتے ہیں: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعُ ،قاطع الرحم جنت میں نہیں جائے گا۔
  • رشتہ داروں کی نفرت‘ بددعا اور قطعِ تعلق: رشتہ داروں سے بھلائی اور احسان نہ کرنا بلکہ اُلٹا اُن کو تکلیف دینا اور اُن کا برا چاہنا‘ ردّعمل کے طور پر اُن کو بھی اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس سے نفرت کریں اور اسے بددعائیں دیں۔ اور ایک حدیث کے مطابق ان کی بددعا قبول بھی ہوتی ہے۔ نبی کریمؐنے فرمایا: اَلرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ ، تَقُوْلُ: مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ ، وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ ،رشتہ داری عرش کے ساتھ لپٹ کر دعا کرتی ہے کہ اے اللہ جو مجھے جوڑتا ہے اُسے جوڑ دے اور جو مجھے کاٹتا ہے اس کو کاٹ دے‘ بلکہ رشتہ دار اس کی مدد اور نصرت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور پھر لوگ اس کے ساتھ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔
  • لوگوں کا اعتماد کہو دینا: لوگ اس آدمی کے ساتھ اعتماد اور احترام کا رویہ رکھتے ہیں جو اپنے اہل و عیال پر شفقت کرتاہے۔ جب وہ قطع رحمی کرتا ہے تو لوگوں کے دلوں سے اس کا احترام نکل جاتا ہے اور وہ اس پر اعتماد نہیں کرتے کیونکہ جس آدمی میں اپنے رشتہ داروں کے لیے کوئی خیر نہیں تو اس میں کسی دوسرے کے لیے کیا خیر ہوسکتا ہے۔
  • روحانی بے چینی و اضطراب: قاطع الرحم ایک گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور مرتکبِ کبیرہ کا دل سیاہ ہوتا ہے اور دل کا سیاہ ہونا اس کا اضطراب اور قلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴)’’اور جو میرے ذکر (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔

(ب) بحیثیت اُمت اجتماعی طور پر:

  • معاشرے اور اُمت کا پارہ پارہ ھـونا: جب رشتے کٹ جائیں تو معاشرے اور اُمت کی وحدت پارہ پارہ ہوجاتی ہے‘ اور جب اتحادِ اُمت پارہ پارہ ہوجاتا ہے تو دشمنوں کے لیے زمین پر قبضہ کرکے معاشرے اور اُمت کی عزت کو تار تار کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ تمام وسائل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اُمت کی تہذیب و ثقافت کو بدل ڈالتے ہیں۔
  • مشکلات و مسائل کی کثرت: جب دشمن اُمت اور معاشرے کی عزت و حُرمت پر قابض ہوجاتا ہے اور اُمت کے افراد اپنے دشمنوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں تو اس میں اُن کو بڑی مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ بہت زیادہ وقت اور وسائل صرف ہوتے ہیں۔

قطع رحمی کے اسباب

  • شریعت الٰھی ، خصوصاً جھاد کا معطل ھونا: شریعتِ ربانی‘ خصوصاً جہاد کو عملاً اختیار کرنے سے افراد اُمت کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ جرائم دب جاتے ہیں اور آپس میں ربط و ضبط اور اتحاد پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب احکامِ شریعت‘ خصوصاً جہاد کو معطل کیا جائے تو اس سے جرائم کی کثرت ہوگی‘ آپس میں لڑائی جھگڑے ہوں گے جو قطع رحم کی ایک صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ o (محمد ۴۷:۲۲) ’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے توزمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور قطع رحمی کرو گے۔
  • رشتہ داروں کی بدسلوکی:بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر اگر زیادتی ہوجائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: وَجَزَآئُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا (الشورٰی ۴۲:۴۰) ’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘‘، اور فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (البقرہ ۲:۱۹۴) ’’جو تم پر دست درازی کرے‘ تم بھی اُسی طرح اس پر دست درازی کرو‘‘ کے مصداق‘ برابر برابر مقابلہ کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ چنانچہ رشتہ داروں میں سے جو بھی اس کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے تو یہ بھی اُسی طرح بُرا سلوک کرنا چاہتا ہے۔ اسی کا نام قطع رحمی ہے۔
  • صلہ رحمی کی اھمیت سے غفلت: صلہ رحمی کی بڑی اہمیت ہے اور اللہ کے ہاں اس کا بڑا ثواب ہے ۔ اس کی یہ فضیلت کیا کم ہے کہ:
  •   صلہ رحمی‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑنے کا ذریعہ ہے اور قطع رحمی‘ اللہ سے کٹ جانے کا۔ l اس سے رزق میں وسعت‘ عمر میں برکت اور دنیا میں تعمیر ہوتی ہے۔
  •  یہ عمل کی قبولیت اور دخولِ جنت کا ذریعہ ہے۔
  •  صلہ رحمی کے لیے صدقہ‘صلہ رحمی بھی ہے اور صدقہ بھی۔
  • یہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی ایک نشانی ہے۔
  • اس سے آدمی کے احترام‘اس کی عزت اور اس کے رعب کی حفاظت ہوتی ہے۔
  • اس سے دل کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ lیہ پیٹھ پیچھے دعا کا ذریعہ ہے۔
  •   اس سے آدمی بُری موت مرنے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
  • اس کے سبب گناہ مٹ جاتے ہیں اور خطائیں معاف ہوجاتی ہیں۔
  • یہ جنت میں اعلیٰ درجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے‘ وغیرہ۔

جو آدمی ان فضائل اور صلہ رحمی کی اس اہمیت سے بے خبر ہوگا تو لازماً اس میں کوتاہی کرے گا کیونکہ: اَلنَّاسُ اَعْدَائٌ لِّمَا جَھِلُوْا ، لوگ جس چیز سے بے خبر ہوتے ہیں اُس کے دشمن ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہ‘ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَo (یونس ۱۰:۳۹) ’’اصل [بات] یہ ہے کہ جو چیز ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا‘ اس کو انھوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچو) جھٹلا دیا۔ اسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں‘ پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا‘‘۔

  • غلط تربیت: بعض اوقات غلط تربیت کی وجہ سے بھی آدمی رشتہ داروں کو بھول جاتا ہے‘ بلکہ انھیں ایذا پہنچاتا ہے۔ چنانچہ رشتہ داری کا مفہوم‘ اس کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ اسے بے فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہاں کسی طرح بھی صلہ رحمی کا خیال پیدا نہیں ہوتا۔ ان حالات میں بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں صلہ رحمی کا کوئی خیال نہیں ہوتا‘ نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
  • معاشرے کی کوتاھـی:بعض اوقات معاشرے کے اہل فکرودانش افراد‘ قطع رحمی کرنے والوں میں حقوق اور ذمہ داریوں کی ادایگی کا شعور اُجاگر کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ قطع رحمی کرنے والوں سے بائیکاٹ تو کیا عدمِ دل چسپی کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا کہ قطع رحمی کرنے والے کو محسوس ہو کہ اس کے مفادات خطرے میں ہیں۔ جب معاشرہ اپنے اس فرض کو پورا نہیں کرتا تو قطع رحمی کرنے والا مزید جرأت اور استقلال کے ساتھ اپنی    ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے سامنے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھتا جو اس کو سیدھا کرے اور سرکشی اور ظلم سے روکے۔
  • رشتہ داروں کی لاپروائی: بعض اوقات رشتہ دار بھی قطع رحمی کرنے والے کے بارے میں اپنے فرض کی ادایگی سے بے پروائی برتتے ہیں کہ اس کو نصیحت کریں‘ اس کی اصلاح کریں‘ ترغیب و ترہیب سے کام لیں۔ جب رشتے دار کا رویّہ یہ ہو تو قطع رحمی کرنے والا بھی اپنے کام پر شیرہوجاتا ہے اور اس کو جاری رکھتا ہے۔
  • انجام سے بے خبری: خوش قسمت ہے وہ جو دوسروں سے عبرت حاصل کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو اس انجام کا علم ہو جو ماضی اورحال میں قطع رحمی کرنے والوں کا ہوچکا ہے۔ اس لیے کہ معاملات اور حقائق کے تمام پہلوئوں سے بے خبری سخت نقصان کا باعث بنتی ہے۔ قطع رحمی کے بڑے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اس کے نتائج نہ صرف افراد کے لیے بلکہ مجموعی طور پر پوری اُمت کے لیے بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان نتائج سے بے خبرہوتے ہیں‘  وہ لامحالہ قطع رحمی میں آگے بڑھتے ہیں اور اس کو جاری رکھتے ہوئے کسی نقصان کا خوف دل میں نہیں رکھتے۔

قطع رحمی کا علاج

قطع رحمی کا علاج درج ذیل اقدامات سے کیا جا سکتا ہے:

  • شریعت الٰھی کا نفاذ: کلمہ لا الٰہ الا اللہ سے لے کر راستے سے تکلیف دہ چیزکے ہٹانے تک تمام امور میں زمین پر اللہ تعالیٰ کی شریعت کا نفاذ معاشرے اور اُمت کے تمام عناصر کو فطری انداز سے سرگرم کار رکھے گا‘ ایسے مواقع پیدا نہیں ہوں گے کہ شیاطینِ الانس اور شیاطینِ الجن‘ جرائم کی اشاعت کرسکیں اور قطع رحمی کے لیے لوگوں کو گمراہ کرسکیں۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا‘ کہ: فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ (محمد ۴۷:۲۲) ’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور قطع رحمی کرو گے‘‘۔
  • احسان کا رویّہ : اللہ تعالیٰ نے ہمیں برائی کے بدلے میں احسان کا حکم دیا ہے۔ اس سے دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (حم السجدہ ۴۱:۳۴) ’’اور نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔ اس بنا پر جب آدمی کو رشتہ داروں کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اُن سے بھلائی کرے اور اُن کے ساتھ اور زیادہ حُسنِ سلوک سے پیش آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف ان الفاظ میں تنبیہہ فرمائی ہے: لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِی وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ النَّوِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا (بخاری‘ کتاب الادب) ‘صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ آدمی صلہ رحمی کا بدلہ چکائے‘ بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ اگر لوگ آدمی سے تعلقات توڑیں تو یہ اُن کو جوڑے۔
  • قطع رحمی کے انجام پر نظر: صلہ رحمی کی اہمیت و فضیلت اور اس کی قدروقیمت کا ذکر اور اسی طرح قطع رحمی کے انجام کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صلہ رحمی کے فوائد اور قطع رحمی کے اثرات و نتائج کو‘ خواہ اس کا تعلق افراد سے ہو یا جماعتوں سے‘ ہمیشہ یاد رکھے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا بعض اوقات قطع رحمی کی روک تھام اور صلہ رحمی کی ترویج کا ذریعہ بنتا ہے۔
  • تربیت بذریعہ ترغیب و ترھیب: بھول جانا انسان کی فطرت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ یاد دہانی کا سلسلہ جاری رہے۔ اس لحاظ سے قطع رحمی کرنے والا اُس آدمی کا محتاج ہوتا ہے جس کے ساتھ اس کی زندگی گزرتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اس کو صلہ رحمی کی طرف مائل کرسکتا ہے‘ اور یہ عمل برابر حکمت و دانش سے جاری رہنا چاہیے۔ اسی بنا پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آپؐ کو لے کر یثرب (مدینہ منورہ) میں اپنے والدین کے رشتہ داروں سے ملنے گئیں‘ تاکہ آپؐ بڑے ہو کر صلہ رحمی کا خیال رکھیں اور قطع رحمی سے بچیں۔
  • اجتماعیت کا فرض:قطع رحمی کے سدّباب میں معاشرے اور اجتماعیت کا کردار بڑا اہم ہے‘ اور معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اپنا یہ کردارادا کرے۔ وعظ و نصیحت کے ذریعے قطع رحمی کرنے والے سے ترکِ تعلق کرکے اور اس کے مفادات کو معطل کرنے کی کوشش کرکے یہاں تک کہ وہ قطع رحمی چھوڑ دے اور صلہ رحمی اختیار کرے۔

یہ معاشرے کی طرف سے دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کی ذمہ داری اور اس کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں‘ یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی‘ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے‘‘۔(التوبہ ۹:۷۱)

  • رشتہ داروں کی طرف سے تعاون: قطع رحمی کرنے والا بعض اوقات اس برائی کو چھوڑتا ہے اور صلہ رحمی کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے لیکن رشتہ داروں کی طرف سے اس کو بے رُخی‘ بلکہ رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ قاطع الرحم پھر اپنے پرانے راستے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے رشتے داروں کا فرض ہے کہ وہ قاطع الرحم کو مثبت جواب دے کر اس کے ساتھ نرمی برتیں اور اس کو جرأت دلائیں اور اس کے عمل کی قدر کریں۔ حضرت عائشہؓ نے عبداللہ بن زبیر سے قطع تعلق کیا تھا۔ جب وہ معذرت کر کے دوبارہ صلہ رحمی کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اسی طرح بعض تابعین کے ساتھ بھی یہ واقع پیش آیا تھا تو حضرت عائشہؓ نے اُن کا کام آسان کر دیا اور اُن کے ساتھ نیک کام میں مدد کی۔
  • حکومت اور سرپرست کی ذمہ داری:حکومت اور سرپرست کا بھی قطع رحمی کرنے والوں کی اصلاح میں بڑا کردار ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اِس فرمانِ نبویؐ کو پیشِ نظر رکھیں: تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے یں جواب دہ ہے۔ حکمران سے بھی اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور ہر آدمی اپنے گھر میں راعی ہے اور اس سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

قطع رحمی کا علاج تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ اگر دل میںخدا خوفی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس توانا ہو تو انسان اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے بچ سکتا ہے۔ ہر فرد اپنی انفرادی ذمہ داری کو محسوس کرے‘ اجتماعیت اپنا کردار ادا کرے‘ حکومت تمام ذرائع کو بروے کار لائے‘ قطع رحمی کے اسباب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے سدّباب کے لیے اقدامات اٹھائے جائیںتو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ اس اخلاقی مرض سے پاک نہ ہو۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۴۸‘ ۱۶۴۹‘ ۲۳/۳۰ اپریل ۲۰۰۵ئ)

راقم کوتقریباً نصف صدی تک‘ ایک خاص دائرے میں دعوتی کام کرنے کا موقع ملا۔ اس ضمن میں جو ذاتی تجربات پیش آئے‘ وہ ایک دل چسپ اور اپنی نوعیت میں منفرد داستان ہے جس کا آغاز ۱۹۵۵ء میں منڈی بہائوالدین میں ہوا۔ تب راقم وہاں روزنامہ تسنیم کا اعزازی نمایندہ بھی تھا‘ مصباح الاسلام فاروقی اس کے مدیر تھے۔ اختصار کے ساتھ اس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے۔

بنیادی طور پر یہ دعوتی کام چار دائروں پر محیط ہے:

  • مغرب میں اشاعت اسلام
  • امریکی جیلوں میں دعوتی کام
  • بیرون ملک رسائل و جرائد سے مراسلت
  • انفرادی رابطہ اور کارکن سازی۔

مغرب میں اشاعت اسلام

مجھے ابتدا ہی سے اسلام‘ عالمِ اسلام اور بین الاقوامی امور سے دل چسپی رہی ہے۔ اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے ایک موقع پر ایک رسالے کی ورق گردانی کے دوران‘ جنوبی کوریا میں ترک بریگیڈ کے مسلمان فوجی دستے کے امام زبیرقوج کی طرف سے ایک اپیل نظر سے گزری کہ جنوبی کوریا میں اسلام کی تبلیغ کے لیے اسلامی لٹریچر ارسال کیا جائے۔ میں نے اس اپیل کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہوئے Towards Understanding Islam(دینیاتکا انگریزی ترجمہ) کے چھے نسخے ارسال کر دیے جو اُنھیں موصول ہوگئے۔ دینیات کو مؤثر اور مفید پاکر انھوں نے لکھا کہ مزید چند نسخے ارسال کیے جائیں‘ چنانچہ میں نے مزید چھے نسخے بھجوا دیے۔ تین ماہ بعد ان کا خط آیاکہ اس کتابچے کا کوریائی زبان میں ترجمہ کرلیا گیا ہے جس سے تبلیغ کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بے پایاں ہے کہ شرمیں خیر کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ شمالی کوریا نے ۱۹۵۱ء میں جنوبی کوریا پر دونوں حصوں کو متحد کرنے کے لیے حملہ کیا۔ جنوبی کوریا پر امریکی فوج کی چند بٹالین قابض تھیں جو شمالی کوریا کا مقابلہ نہ کرسکتی تھیں‘ کیونکہ اُسے روس اور چین کی حمایت بھی حاصل تھی‘ چنانچہشمالی کوریا کا حملہ ہونے پر امریکا نے اپنے اتحادیوں کو مدد کے لیے بلایا‘ جس پر ترکی نے بھی اپنا ایک بریگیڈ امریکی امداد کے لیے بھیج دیا۔ اس ترک بریگیڈ کے ذریعے ہی کوریا میں اشاعتِ اسلام کی راہ ہموار ہوئی‘ جب کہ ترک بریگیڈ کے امام کی طرف سے ہی اسلامی لٹریچر ارسال کرنے کی اپیل شائع کی گئی تھی۔

غالباً ۱۹۶۲ء میں ترک بریگیڈ کی واپسی سے قبل‘ اُس نے سیول میں کوریا اسلامک سوسائٹی کے نام سے اسلامی تنظیم کی بنیاد رکھ دی اور مجھے مطلع کر دیا کہ میں آیندہ اس تنظیم سے مراسلت جاری رکھوں۔ مگر اس تنظیم کی طرف سے میرے خطوط کا کوئی جواب نہیں ملا۔

اسلام نے اس سرزمین میں خاصی قبولیت حاصل کی۔ چند ہی سال بعد سیول کے ایک تعلیمی ادارے میانگ جی کالج میں مسلم طلبہ نے نہ صرف میانگ جی مسلم اسٹوڈنٹس یونین کے نام سے‘ اس کالج کے مسلم طلبہ کی ایک تنظیم کی بنیاد رکھ دی‘ بلکہ میانگ جی مسلم ہیرالڈ کے نام سے اپنا ایک خبرنامہ بھی شائع کرنا شروع کر دیا۔ ۱۹۶۷ء کے خبرنامے کے مطابق اس کالج میں مسلم طلبہ کی تعداد ایک سو سے زائد تھی۔ بعدازاں کوریا اسلامک سوسائٹی نے اپنا نام تبدیل کر کے کوریا مسلم فیڈریشن رکھ لیا اور حاجی صابری سونگ کلی سُوہ پہلے صدر مقرر ہوئے۔

اس وقت میرے سامنے کوریا مسلم فیڈریشن کی فائل ہے۔ ذیل میں‘راقم کے نام فیڈریشن کے ۱۸ جون ۱۹۶۸ء کے ایک خط سے اقتباس پیش ہے:

۱۵ سال قبل کوریا میں کوئی مسلمان نہ تھا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس ملک میں ۳ ہزار سے زائد کوریائی مسلمان ہیں۔ جن میں ایک صد سے زائد تعداد کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی ہے‘ جب کہ بقیہ بیش تر پروفیسر‘ٹیچر‘ ڈاکٹر‘ انجینیر‘ تاجر‘  سرکاری افسران اور ایک ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں۔

آج کوریا میں مسلمان مرد و خواتین کی تعداد ۵۰ ہزار سے زائد ہے ‘ جس میں بیش تر ایسے باشعور تعلیم یافتہ افراد ہیں جنھوں نے اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر خلوصِ دل سے اسلام قبول کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں قبولِ اسلام کا رجحان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

لوگوں کے تیز رفتاری سے قبولِ اسلام کا تقاضا تھا کہ جلد از جلد ایک مسجد تعمیر کرلی جائے۔ چنانچہ میرے نام ۱۹۶۲ء کے خط کے مطابق‘ دارالحکومت سیول میں مسجد کی تعمیر ایک باقاعدہ منصوبے اور ڈیزائن کے تحت شروع کر دی گئی اور مجھے زیرتعمیر مسجد کی چند تصاویر بھی بھیجی گئیں جس میں خود کوریا کے ہر طبقے کے مسلم افراد کے علاوہ‘ مختلف ممالک کے مسلمانوں نے بھی دل کھول کر مالی تعاون کیا۔ میں نے بھی ۱۹۶۸ء میں مختلف سرکاری مراحل طے کر کے ۱۲ ڈالر کی رقم بنک ڈرافٹ کے ذریعے ارسال کی جس کی رسید کوریا مسلم فیڈریشن کے لیٹرہیڈ پر پریذیڈنٹ‘ سیکرٹری جنرل اور ڈائرکٹر جنرل کے دستخطوں کے ساتھ مجھے ملی جو میرے ریکارڈ میں موجود ہے۔ ان دنوں ایک امریکی ڈالر ساڑھے چار روپے کے برابر تھا۔ بہرحال سیول میں وسیع رقبے پر ایک خوب صورت اور عالیشان مسجد تعمیر ہوئی۔ ۱۹۹۵ء تک پانچ شہروں میں مزید پانچ خوب صورت مساجد تعمیر ہوچکی تھیں۔ اُن سب کی تصاویر میرے پاس موجود ہیں۔ یقینا اس کے بعد بھی مزید مساجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہوگا۔

یہ ہے ایک غیرمسلم ملک میں مضبوط بنیادوں پر‘ اشاعت اسلام کی تیزرفتاری کی ایک معمولی جھلک!

الحمدللہ‘ اس طرح سے مجھے بہت سے غیرملکی افراد اور اداروں سے مراسلت اور ترسیلِ لٹریچر کا موقع ملا۔ ان میں بحرالکاہل کے جزائر فجی‘ نیوزی لینڈ‘ براعظم آسٹریلیا‘ تائیوان اور بحراوقیانوس کے جزائرماریشس ‘ ویسٹ انڈیز اور افریقہ کے مختلف ممالک شامل ہیں۔ اگر کوئی فرد‘ مذکورہ ممالک میں اشاعتِ اسلام کے مختلف مراحل پر تحقیق کرنا چاہے تو اس کے لیے وافر لوازمہ موجود ہے۔

امریکی جیلوں میں دعوتی کام

گذشتہ ۲۵ سال سے زائد عرصے سے بذریعہ مراسلت اور ترسیل اسلامی لٹریچر‘ میں انفرادی طور پر خالصتاً رضاے الٰہی کے جذبے سے‘ امریکی جیلوں میں دعوتِ دین کا کام بھی کررہا ہوں۔

امریکی جیلوں میں دراصل میرے کام کرنے کا سبب اسلامک پبلی کیشنز بنا۔ اس ادارے کی انگریزی مطبوعات کسی نہ کسی ذریعے سے نہ صرف امریکی جیلوں میں پہنچتی رہی ہیں‘ بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی۔ چنانچہ جس شخص کے پاس اس ادارے کی انگریزی زبان کی کوئی اسلامی کتاب پہنچی‘ اُس نے اس ادارے کو خط لکھا کہ وہ نومسلم ہے اور اُس نے جیل میں اسلام قبول کیا ہے اور وہ اسلام کو مزید سمجھناچاہتا ہے۔ اُسے جیل کے پتے پر کوئی اسلامی کتاب بھیجیں‘ یا وہ غیرمسلم ہے اور جیل کے ایک مسلمان ساتھی کے ذریعے آپ کے ادارے کی فلاں کتاب مطالعے میں آئی ہے‘ جس کی وجہ سے وہ اسلام کو مزید سمجھ کر قبول کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا‘ اُس کے پتے پر کوئی موزوں کتاب بھیجی جائے‘ یا میں اس جیل میںکافی عرصے سے قید ہوں اور میں خود صوم و صلوٰۃ کا پابند ہوں اور اس جیل میں بڑی تعداد میں اور بھی مسلمان قید ہیں۔ ضرورت ہے کہ اُنھیں اسلام کی زیادہ سے زیادہ تعلیمات سے آراستہ کیا جائے۔ لہٰذا‘ اس پتے پر اُسے اسلامی لٹریچر ارسال کیا جائے۔

کوئی ۳۰ سال قبل میں وقتاً فوقتاً کتب کی خریداری کے لیے اسلامک پبلی کیشنز کے دفتر واقع شاہ عالم مارکیٹ لاہور آتا جاتا رہتا تھا۔ ابتدا ہی سے تجسس میرے مزاج کا حصہ رہا ہے‘ چنانچہ بیرون ممالک سے آئی ہوئی ڈاک بھی میرے لیے باعث دل چسپی تھی۔ میرے پوچھنے پر پتا چلتا کہ یہ کسی امریکی جیل سے آتی ہے۔ اسلامک پبلی کیشنز والوں نے بتایا کہ وہ اِن خطوط کو ضائع کر دیتے ہیں کیونکہ ادارے کی پالیسی کے تحت وہ کوئی کتاب بلاقیمت کہیں ارسال نہیں کرسکتے۔ لہٰذا‘ میں نے ان سے گزارش کی کہ ایسی ڈاک میرے لیے رکھ  لیا کریں۔ میں یہ خطوط ارسال کرنے والے قیدیوں سے خود رابطہ قائم کروں گا اور ادارے سے اسلامی لٹریچر خرید کر انھیں ارسال کروں گا۔ اس طرح امریکی جیلوں میں دعوت کے کام کا آغاز ہوا۔ اس عرصے میں جیلوں میں قید سیکڑوں امریکی قیدیوں سے میرا تعلق قائم ہوا‘ اور میں نے اُن کوخطوط لکھے اور اُن کو اسلامی لٹریچر بھیجا۔

بیش تر قیدی جو جیل سے باہر کی زندگی میں غیرمسلم تھے وہ اچھے پڑھے لکھے تھے‘ لیکن  بے مقصد زندگی کی وجہ سے وہ کسی جرم میں ملوث ہوگئے‘ بعدازاں جب جیل میں اسلامی شعائر کے پابند کسی مسلمان قیدی کو دیکھا‘ تو اُن کے دل میں تحریک ہوئی کہ وہ اسلام کے بارے میں تحقیق کریں۔ چنانچہ اسلامی شعائر کے پابند کسی مسلمان قیدی سے جب کسی غیرمسلم قیدی کو سادہ رہن سہن اور اسلام کی فطری تعلیمات میں معاشرتی زندگی کا ایک خوب صورت تصور نصیب ہوا‘ تو اب اُس نے یہ ضروری خیال کیا کہ کوئی شخص یا ادارہ اُس کی صحیح رہنمائی کرے۔ لہٰذا‘ جس قیدی کو کسی دوسرے قیدی کے ذریعے اسلامک پبلی کیشنز کی کوئی کتاب میسر آئی‘ اُس نے اُسے خط لکھ دیا کہ وہ نومسلم یا غیرمسلم ہے اور اسلام کو سمجھنا چاہتا ہے‘ اس لیے اسے اسلامی لٹریچر بھیجا جائے۔

ایک بات جو ان قیدیوں کے خطوط میں مشاہدے میں آئی ہے وہ ہمارے ملک کی جیلوں کے قیدیوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ملک کی جیلوں کے اکثر قیدی بلاشبہہ کسی جرم کے مرتکب ہونے کے ساتھ معمولی تعلیم سے بھی عاری ہوتے ہیں‘ چہ جائیکہ اُن سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے ہوں‘ جب کہ امریکی قیدی جن کے ساتھ میرا تعلق قائم ہوا ہے بلااستثنا اچھی سوچ و فکر کے مالک اور اُن کا ہینڈ رائٹنگ بھی اچھا ہوتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ قارئین کو یہاں بعض قیدیوں کے کام سے متعارف کرائوں۔

میرا سب سے زیادہ تعلق ڈلاویر ریاست کی سمرنا(Smyrna) جیل سے اب تک چلا آرہا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس جیل میں ہمیشہ مسلمان قیدیوں کی کافی تعداد موجود رہی ہے۔ جیل سے ملحق ایک مسجدالزمر کے نام سے موجود ہے جس کے امام عبدالرحمن ہیں۔ میرا ان سے تعلق قائم ہوا اورمراسلت رہی ہے اور میں اُنھیں اسلامی لٹریچر بھی بھیجتا رہا ہوں۔ امریکی جیلوں میں وارث دین محمد کی جماعت ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے پیروکار بھی ہوتے ہیں جو بعض مخصوص نظریات کی حامل نسلی تعصب کی بنیاد پر قائم کی گئی تنظیم ہے جس کا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاہ فام امریکیوں میں اس کی دعوت اپنے اندر کافی کشش رکھتی ہے‘ جب کہ یہ خود بھی    سیاہ فام ہیں۔ ایسے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہاں دعوت کا کام کتنا مشکل ہوگا؟

محترم عبدالرحمن کے ایک خط سے‘ جو اُنھوں نے یکم مئی ۱۹۸۸ء مطابق ۱۵ رمضان ۱۴۰۸ھ کو تحریر کیا اور جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے‘ معلوم ہوتا ہے کہ اُن سے میرا تعلق ۱۹۸۲ء میں قائم ہوا اور مجھ سے مراسلت سے قبل وہ عام قیدیوں ہی کی طرح تھے‘ لیکن خوب ذہین‘ تاہم یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے اسلام کب قبول کیا۔

عموماً وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اور خوش خط عربی سے اپنے خطوط کا آغاز کرتے ہیں اور اپنے خطوط میں الحمدللہ‘ اللہ کا شکر کا بار بار استعمال کیا ہے۔ ان کے ذریعے کئی غیرمسلم امریکیوں کو    قبولِ اسلام کی نہ صرف سعادت نصیب ہوئی‘ بلکہ صحیح اسلامی زندگی اپنانے کی بھی۔ بیش تر خطوط انھوں نے جمعہ کے روز اور خطبۂ جمعہ دینے کے بعد لکھے ہیں اور ان تمام خطوط سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان کا علم و فہم دین صحیح ہے‘ جس کا کسی امریکی جیل کے ایک نومسلم قیدی سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے خطوط سے ہی میں معلوم کر سکا ہوں کہ ایک مرتبہ میں نے اُنھیں Towards Understanding Islam کے چھے نسخے بھیجے تھے جن سے انھوں نے نہ صرف خود استفادہ کیا‘ بلکہ نومسلم قیدیوں کو بھی صحیح اسلامی تعلیم سے متعارف کرایا۔ تفہیم القرآن کے انگریزی ترجمے کی جلد اول‘ سوم‘ ہفتم‘اور ہشتم بھی اُنھیں بھیجی تھیں جو اُنھیں موصول ہوئیں اور ان سے خوب استفادہ کیا گیا۔

امریکی جیل کا یہ قیدی مجھے ایک خط میں لکھتا ہے کہ:

مجھے اسلام میں پانچ فقہی مسالک کا علم ہے۔ لیکن اس جیل میں دعوت کے کام کے لیے میرے لیے Towards Unerstanding Islam بہترین کتاب ثابت ہوئی ہے اور میں اسے زیادہ سے زیادہ تقسیم کرتا رہتا ہوں۔

میرے پاس ان کے جتنے بھی خطوط ہیں‘ وہ ایمان تازہ کرنے والے ہیں‘ کیونکہ ہر خط میں انھوں نے ایک یا دو افراد کے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سزائوں کے بارے میں مختلف قوانین ہیں۔ ایک قیدی کے بارے میں انھوںنے لکھا کہ اُسے ۴۵ سال کی سزا ہوئی ہے مگر میں اس کوشش میں ہوں کہ وہ کم ہوجائے اور مجھے امید ہے کہ وہ کم ہوکر صرف چھے سال رہ جائے گی۔

چونکہ امریکا میں قید کی سزائوں کے بارے میں مختلف قوانین ہیں‘ جن میں جیل کے حکام کی طرف سے نیک چلنی کی وقتاً فوقتاً رپورٹوں کے باعث سزا میں تخفیف بھی ہوسکتی ہے۔ پھر ایک جیل سے کسی دوسری جیل میں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ بعض قیدی جو سزا میں تخفیف کے باعث رہا ہوجاتے ہیں‘ رہائی کے بعد اُن سے مراسلت ختم ہوجاتی ہے۔

سمرنا جیل کے امام سے مراسلت اور ان کے ذریعے جیل میں دعوتِ دین اور قبولِ اسلام سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکی جیلیں‘ جیلیں نہیں بلکہ متلاشیِ حق کے لیے قبولِ حق کی سعادت کا سرچشمہ ہیں۔ میرے سامنے اس عرب قیدی کی جیل کے ایک سفیدفام نومسلم قیدی عبداللہ کا خط ہے‘ جو اُس نے مجھے میرے خط مورخہ ۲۷ جون ۲۰۰۳ء کے جواب میں مورخہ ۹جولائی ۲۰۰۳ء کو لکھا۔ اپنے خط کے ساتھ اُس نے چند سیاہ فام قیدیوں کے ساتھ اپنی تصویر بھی بھیجی ہے جس میں اُس نے اپنے ہاتھ میں قرآن پاک کے انگریزی ترجمے کا نسخہ تھام رکھا ہے۔

اُس نے اپنے خط میں قبولِ اسلام کی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ اُس نے اسلام کیسے قبول کیا‘ صرف اتنا لکھا ہے کہ ۱۹۹۴ء میں جیل میں ہی اُس نے اسلام قبول کیا۔ خط لکھتے وقت اُس نے اپنی عمر ۳۲ سال لکھی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے ۲۳ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ وہ کسی امریکی بنک پر ڈکیتی کے جرم میں گرفتار ہے‘ اور لکھتا ہے کہ اس کی جیل میں ڈیڑھ سو سے زائد مسلمان قیدی ہیں اور اُن میں اچھے اور برے دونوں طرح کے ہیں۔

اپنے خاندان کے بارے میں لکھتا ہے کہ اُس کا باپ کافر ہے‘ اس کے علاوہ اُس کا اور خاندان نہیں۔ دین سے اپنے شغف کے بارے میں اُس نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس نے قرآن کریم کی ۳۸ سورتیں حفظ کرلی ہیں‘ جب کہ اپنے خطوط کی ابتدا بھی وہ عربی میں تحمید و صلوٰۃ سے کرتا ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ اُس نے نو سال کی قید کے دوران اسلام کا کتنا علم حاصل کیا ہے اور اپنی زندگی کو اسلام میں کتنا ڈھال لیا ہے‘ جو ہم آزاد زندگی میںبھی نہیں کرپاتے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس نے  احادیث‘ فقہ‘ تفسیر‘ علوم القرآن‘ اسلامی تاریخ اور تجوید پر وسیع مطالعہ کر رکھا ہے۔

اس وقت میرے سامنے ریاست اوہائیو کے ایک قیدی عبدالغفار کے ۱۹۹۷ء تا ۱۹۹۹ء کے پانچ خطوط ہیں جس نے جیل میں اسلام قبول کیا۔ ایک خط میں ‘ مَیں نے اُسے لکھا کہ جیل میں آنا اُس کے لیے باعث رحمت ہوا۔ اُس نے جواباً لکھا کہ واقعتا ایسا ہی ہے۔ کیونکہ مجھ سے مراسلت نے اُسے وارث دین محمد کی ’’نیشن آف اسلام‘‘ سے بچا لیا۔ اُس کی تحریر بڑی عمدہ ہے اور عربی لکھنا بھی سیکھ لیا ہے۔ اپنی والدہ اور اپنے چار بچوں‘ سب کو ان شاء اللہ اسلام میں داخل کرے گا۔ اس کے چار بچے جیل میں آنے سے قبل اور بغیر کسی باقاعدہ شادی کے ہیں‘ لیکن وہ اُن کو اپنی اولاد کہتا اور سمجھتا ہے۔ بڑی اولاد بیٹی ہے جس کی عمر ۱۸ سال ہے۔ اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے اور جیل سے اُن کو دعوتِ دین دے رہا ہے۔

میری مراسلت کئی سو قیدیوں پر محیط ہے۔ ان میں بیش تر سیاہ فام ہیں اور چند ایک گورے امریکی اور ایک خاتون قیدی بھی ہے۔ اگرچہ امریکا میں جرائم کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن میرے رابطے میں آنے والے قیدیوں میں سے کوئی بھی جنسی جرائم میں ملوث نہیں۔ بیش تر ڈکیتی‘ قتل اور لڑائی جھگڑے اور دنگافساد کے الزامات کے تحت قید ہیں۔ مجھ سے مراسلت‘ فراہمی لٹریچر اور اس کے مطالعے نے ان پر مثبت اثرات مرتب کیے اور سبھی کو اسلام کا ایک اچھا مبلغ بنا دیا۔

شروع میں دینیات‘ اسلام و جاہلیت‘ شہادت حقکے انگریزی تراجم‘  انگریزی رسالے امپیکٹ  ‘برطانیہ اور ریڈیئنس ‘بھارت کے منتخب مضامین بڑے کارآمد رہے ہیں‘بعد میں ذہنی رجحان کے مطابق مذہبی اور سیاسی مواد بھی بھیجا جاتا رہا ہے۔ قیدیوں سے میرے رابطے کی ایک صورت اسلامک پبلی کیشنز تھی۔ پہلے اسلامک پبلی کیشنز کے ہاں خطوط کے ذریعے لٹریچر کی مانگ اور دعوتی کتب کی طلب ہوتی رہی ہے لیکن اب وہ بتاتے ہیں کہ کوئی خط نہیں آتا۔

افسوس ہے کہ جیل سے رہائی کے بعد قیدیوں نے مراسلت کا سلسلہ بند کر دیا لیکن سیکڑوں کی تعداد میں جو قیدی رہا ہوئے وہ سبھی نومسلم تھے اور مجھ سے مراسلت نے اُن میں انقلاب برپا کر دیا‘ امید ہے کہ اب وہ امریکی معاشرے میں یقینا ایک عمدہ کردار کے مالک ہوں گے۔

امریکی جیلوں کے علاوہ افریقی ممالک میں بہت زیادہ دعوت کے کام کی ضرورت ہے۔ اس دائرے میں بھی میرا وسیع تجربہ ہے۔ ابھی زمبیا (Zambia) میں بھی مَیں نے ایک عیسائی نومسلم کے ذریعے دعوت کا کام شروع کیا ہے۔ جہاں تک اندرونِ ملک جیلوں میں دعوت کے کام کا سوال ہے‘ میری رائے میں تحریک اسلامی کے لیے وسیع میدان موجود ہے۔ مقامی جماعت کی یہ سوچ اور فکر ہونی چاہیے کہ جیلوں میں قید افراد سے مسلسل رابطہ رکھا جائے‘ اُن کے بارے میں یہ معلوم کیا جائے کہ اُن میں سے کون سا فرد کتنی تعلیم اور صلاحیت کا مالک ہے‘ لہٰذا اُس کی سوچ کو مثبت بناکر اُسے اسلام کے بنیادی تقاضوں سے قریب کر کے دعوت دی جائے۔ اس بارے میں دینیات‘خطبات‘ اسلام اور جاہلیت‘ شہادتِ حق‘ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں وغیرہ کتابیں مؤثر کام دے سکتی ہیں۔

میں نے اپنے محدود وسائل کی حد تک جیلوں میں دعوت کے کام کو جاری رکھا‘ مسائل و مشکلات کا سامنا بھی رہا‘ لیکن اللہ مسبب الاسباب نے کسی نہ کسی طور اس کام کو آگے ہی آگے بڑھایا۔ اگرچہ نائن الیون کے واقعے سے رابطے میں مسائل کا سامنا ہے‘ حکومت نے ڈاک خرچ میں بے تحاشا اضافہ کرکے یقینا امریکی و صہیونی عزائم کی تکمیل چاہی ہے کہ لٹریچر وغیرہ کی ترسیل عملاً ممکن نہ رہے‘ مگر ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود جس رفتار سے امریکا میں اسلام اپنے قدم جما رہا ہے اور خود امریکی شہری صہیونیت کے خلاف اپنی نفرت کا کھلے بندوں اظہار کرتے ہیں‘ اس سے یہ اُمید بندھتی ہے کہ صہیونیت کے خلاف امریکی عوام کی یہ ملک گیر نفرت بالآخر نہ صرف امریکا میں‘ بلکہ دنیا بھر میں سامراجی و صہیونی عزائم کے خاتمے کا باعث ہوگی‘ اور اسلام غالب آکر رہے گا۔ ان شاء اللہ!

بیرون ملک رسائل و جرائد سے مراسلت

دعوتی سرگرمیوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ میرے بعض احباب نے گذشتہ ۱۵‘ ۲۰ برس میں  کم و بیش لندن کے تمام اخبارات میں سے بین الاقوامی اور عالمِ اسلام کے حالات اور اُن کے منتخب اداریوں کے اصل تراشے اتنی تعداد میں ارسال کیے ہیں کہ میرے پاس ایک ایسا وافر ذخیرہ جمع ہوچکا ہے کہ اُس کی مدد سے مختلف موضوعات پر تحقیقی کام ہو سکتا ہے۔ بش اور بلیر کے خلاف برطانوی اخبارات نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ یہ دونوں نام برطانیہ میں گالی بن کر رہ گئے ہیں۔

ان اخبارات میں بعض کالم نویس اپنے کالموں میں اسلام کے خلاف اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل معروف روزنامے ڈیلی میل میں اُس کے کیمبرج یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر جان کیسی کا‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک فرضی تصویر کے ساتھ ایک مضمون شائع ہوا۔ جس میں ایک طرف نبی کریم ؐ کی ذاتِ مبارکؐ کو غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک‘ بروقت صحیح فیصلہ کرنے والا اور انتہائی دلیر اور جرأت مند پیش کیا گیا‘ وہاں نعوذ باللہ عورتوں کا عاشق اور قزاق کے لفظ بھی استعمال کیے گئے۔ میں نے اُس روزنامے کے چیف ایڈیٹر کو خط لکھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرزہ سرائی پر ان کی گرفت کی وہاں یہ بھی لکھا کہ یہ عیسائیت ہی ہے جس نے حضرت عیسٰی ؑکی مختلف فرضی حالتوں میں بت بناکر ان کو خدا کا درجہ دیا‘ جب کہ آپ سمیت پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ہاں پیغمبرؐ اسلام کی تصویر کا تصور تک نہیں پایا جاتا۔

چیف ایڈیٹر نے میرے خط کا جواب دیا کہ روزنامے نے اگلے ہی روز معذرت شائع کردی تھی اور اُس نے معذرت کی نقل بھی ارسال کی۔میں نے ایڈیٹر سے متعلقہ کالم نویس کا پتا بھی طلب کیا ‘ جو اُس نے مجھے ارسال کیا۔ چنانچہ میں نے کیمبرج یونی ورسٹی کے اس پروفیسر کو خط تحریر کیا اور اُس کی نقل روزنامے کے چیف ایڈیٹر کو بھی ارسال کی۔ اگرچہ اُس نے میرے خط کا کوئی جواب تو نہ دیا لیکن میرا ایک مقصد اُسے قائل کرنا تھا کہ اُس نے پیغمبراسلامؐ کی ذاتِ مبارک کو اپنی تنقید کا جو نشانہ بنایا ہے‘ وہ اُس جیسے اسکالر کی علمیت اور مقام سے گری ہوئی بات تھی۔

اس طرح وقتاً فوقتاً برطانوی اخبارات میں بعض مضامین شائع ہوتے رہے ہیں جن کا میں نے جواب دیا ہے۔ بعض امریکی اور برطانوی اسکالروں سے بھی صہیونیت کے خلاف میری مراسلت رہی ہے۔

اس میدان میں بھی مجھ سے جو بن پڑا ہے‘ میں نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں برتی۔ کوئی دو ڈھائی سال قبل اسی اخبار میں Pakistan today is the most dangerous place on Earth کے عنوان سے پاکستان کے خلاف ایک مضمون شائع ہوا جس کا نہ     ہماری امریکا نواز حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آیااور نہ ہمارے انگریزی یا اُردو اخبارات نے ہی کوئی نوٹس لیا‘ البتہ میں نے اس اخبار کے چیف ایڈیٹر (ایڈیٹوریل) Fred Hiattکو کئی حوالہ جات کے ساتھ ۲۰ صفحات کا خط لکھا جس کا عنوان تھا:

1. USA & U.K's Governments under Zionism control are the only enemies of world peace. 2. Bush, Blair and Sharon are war criminals.

 میں نے اس خط کی نقول اسلام آباد میں تمام غیرملکی سفیروں‘ پاکستانی وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری اور لندن کے بعض اخبارات کے چیف ایڈیٹر اور بعض مغربی دانش وروں کو بھی بھیجیں۔ اس کے جواب میں مشہور صہیونیت مخالف امریکی دانش ور اور مصنف پال فنڈے کا خط میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ اسی طرح لندن کے لارڈمیئر کا میرے نام ذاتی خط بھی میرے لیے ایک یادگار ہے کہ میں نے قومِ یہود اور ہنود کے خلاف عیسائیت اور اسلام دشمنی جنگ کے بارے میں اُسے اپنا ۱۶صفحات کے اس مضمون کی جو نقل بھیجی تھی‘ اُس نے یورپین سوشل فورم کے ۲۰ہزار یورپی اسکالروں اور دیگر شعبوں کے اجتماع میں‘ میرے اس مضمون کو بطور ایک ایشو پیش کیا۔ اس طرح سے بیرون ممالک کے رسائل و جرائد سے مراسلت کا سلسلہ جاری رہا اور اسلام کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کے تدارک اور اسلام کی حقیقی تصویر اور پیغام کو پیش کرنے کی مقدور بھر کوشش جاری رکھی اور یہ سلسلہ الحمدللہ ابھی تک جاری ہے۔

انفرادی رابطہ و کارکن سازی

اپنی دعوتی ذمہ داریوں کی ادایگی کے پیش نظر میرا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ میرے رابطے میں جو بھی فرد آیا‘ دفتر میں‘ دوران سفر‘ یا کہیں بھی‘ میری کوشش رہی ہے کہ اس اتفاقی تعارف کو ایک مستقل رابطے میں بدل دوں اور ایک فرد کے اندر اس کی ذمہ داریوں کا احساس اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اُبھارا جائے اور حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ مستقبل میں تحریک کو اچھے کارکن میسر آسکیں۔ میںتعارف حاصل کرتا‘ پتااپنی ڈائری میں درج کرتا اور پھر باہمی گفتگو کے بعد اپنے بیگ سے لٹریچر یا پمفلٹ وغیرہ تحفتاً دیتا اور پھر مراسلت جاری رکھتا۔ میری کوشش رہی ہے کہ نوجوانوں کو خاص طور پر آگے بڑھایا جائے اور خاص طور پر عبدالحمیدصدیقی کی کتاب انسانیت کی تلاش بہت سے لوگوں کو تحفتاً دی۔ میں نے اپنی کتاب کارکن کی یادداشتیں میں اپنے تجربات کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ اندرون ملک مراسلت کا ایک بڑا ریکارڈ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جو کارکن سازی‘ تربیت افراد‘ دعوتی مسائل اور رہنمائی وغیرہ کے موضوعات پر ایک اچھا لوازمہ ہے۔

اشاعتِ اسلام کے لیے بیرون ملک مراسلت و ترسیلِ لٹریچر‘ امریکی جیلوں میں قیدیوں میں دعوت کا کام‘ ملکی و غیرملکی جرائد میں اسلام کے خلاف چھپنے والی تحریروں پر ردعمل‘ گرفت اور ترسیل لٹریچر اور اس کے ساتھ ساتھ اندرون ملک افراد سے بڑے پیمانے پر مستقل رابطہ‘ اور کارکن سازی کے لیے مساعی--- اس پر خدا کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ اہلِ خانہ کی ذمہ داریوں اور حصول رزق کی سرگرمیوں کے ساتھ یہ ہمہ جہت اور عالم گیر نوعیت کا کام‘ بغیر کسی معاونت اور مالی تعاون کے کیسے انجام پاگیا ہے ۔ یہی خیال آتا ہے کہ   ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشند خداے بخشندہ

عقائد و عبادات کے بعد اسلام کا ایک عورت سے یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے گھر کی رونق بنے‘ خاوند کی اطاعت و خدمت کرے‘ بچوں کی دیکھ بھال اور امورخانہ داری بہتر طور پر انجام دے۔ جہاں تک گھر سے باہر جانے کا تعلق ہے تو معقول وجوہات کی بنا پر اس کی گنجایش موجود ہے۔   ان سطور میں خواتین کی ملازمت کے حوالے سے ضروری امور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

عورت اور معاشرتی صورت حال

اسلام نے عورت پر یہ احسان کیا ہے کہ پیدایش سے لے کر وفات تک اس کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری اس کے سرپرستوں اور شوہر پر ڈال دی ہے۔ شادی سے پہلے اس کا باپ یا بھائی یا چچا وغیرہ اس کے اخراجات کے ذمہ دار ہیں اور شادی کے بعد اس کا شوہر۔ گویا عورت کو فکرمعاش سے آزاد کر دیا گیا ہے تاکہ وہ پوری یکسوئی سے اپنے خانگی وظائف کو پورا کر سکے۔ اب ایک عورت اگر اپنی خانگی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی سے انجام دے تو عام طور پر اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ روزانہ آٹھ دس گھنٹے گھر سے باہر گزار کر ملازمت کی مشقت بھی اٹھائے۔ اگر وہ بلاناغہ اتنا وقت گھر سے باہر صرف کرے گی تو لازمی بات ہے کہ پھر وہ اپنی گھریلو ذمہ داریاں پوری کرسکے گی نہ شوہر کے حقوق کماحقہ ادا کرسکے گی۔ اگرچہ بعض استثنائی صورتیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جہاں ایک عورت گھر سے باہر ملازمت کی ذمہ داریاں بھی انجام دے لے اور خانگی فرائض کو بھی پورا کرلے‘ لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے میں تین قسم کی خواتین ہیں:

۱- درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی: اس طبقے کی خواتین کو گھر کا سارا کام کاج تقریباً خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ شوہر کے بروقت کھانے‘ لباس اور دیگر چھوٹی موٹی چیزیں مہیا کرنا‘ بچوںکی دیکھ بھال اور خانہ داری کے چھوٹے موٹے کام کرنا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔اس دوران عورت بیمار بھی ہوتی ہے‘ تھکاوٹ کا سامنا بھی کرتی ہے اور دودھ پیتے بچے کو بھی اٹھائے پھرتی ہے۔ اگر اس عورت کو یہ کہا جائے کہ وہ روزانہ صرف چار گھنٹوں کے لیے تن تنہا گھر سے باہر وقت دے تو یہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو خانگی امور سخت متاثر ہوں گے یا پھر دہری مشقت اٹھا کر خود بہت سے مسائل اور دبائو کاشکار ہوجائے گی۔ ہمارے معاشرے کی اکثر خواتین کا تعلق اسی طبقے سے ہے۔

۲-  خوش حال طبقے سے تعلق رکھنے والی: اس قسم کی خواتین کو نہ معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور نہ گھریلو کام کاج ہی کی زیادہ مشقت ہوتی ہے۔ گھر کے سارے کام نوکر چاکر اور خادمائیں وغیرہ انجام دیتی ہیں۔ اس طبقے کی خواتین گھر سے باہر وقت صرف کرسکتی ہیں۔ ان کے لیے   ممکن ہوتا ہے کہ اپنی تعلیم‘ قابلیت اور صلاحیت کے حوالے سے معاشرے کی اسلامی حدود کے اندر خدمت انجام دینے کے لیے کوئی ملازمت کریں۔

۳- غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی: اس قسم کی خواتین کو سخت معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پھر گھر کے تمام کام کاج بھی خود انجام دینے ہوتے ہیں۔ شوہر کی آمدنی کم ہوتی ہے مگر گھریلو اخراجات کی فہرست طویل ہوتی ہے۔ چنانچہ شوہر کے ساتھ بیوی کو بھی کوئی نہ کوئی ملازمت کرنا پڑتی ہے‘ خواہ گھر میں رہ کر کرے‘ یا گھر سے نکل کر۔ حتیٰ کہ ان کے بچے بھی بلوغت سے پہلے ہی ان کے ساتھ محنت مزدوری شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس طبقے کی بھی کمی نہیں ہے۔

یہ تو تھی ہمارے معاشرے کی واقعاتی صورت حال‘ اب ہم اسلامی نقطۂ نظر سے اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں۔

عورت کی ملازمت اور اسلام

اسلام نے اگرچہ عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر یا شوہر کی عدمِ موجودگی کی صورت میں اس کے سرپرستوں پر ڈالی ہے مگر اس کے ساتھ اسلام عورت کے مالی حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ عورت کو اگر تحفے‘ وراثت یا مہر وغیرہ کی شکل میں مال ملتا ہے تو اس پر اسی کا حق ملکیت ہے۔ اس مال کو بڑھانے کے لیے اگر وہ کسی جائز کاروبار میں لگانا چاہے تو شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے وہ ایسا بھی کرسکتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک عورت یہ سمجھتی ہے کہ وہ خانگی ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ گھر میں رہ کر یا گھر سے باہر نکل کر کوئی کام یا ملازمت بھی کرسکتی ہے تو اسے چند حدود و شرائط کے ساتھ ایسا کرنے کا یقینا حق حاصل ہے۔ وہ حدود یہ ہیں:

۱-            ستروحجاب کی پوری پابندی کرے۔

۲-            شوہر کی اجازت کے ساتھ ملازمت کرے۔

۳-            ملازمت کے سلسلے میں بغیر محرم کے طویل سفر نہ کرے۔

۴-            ایسی ملازمت سے بچے جہاں مردوں سے اختلاط رہتا ہے۔ اگر بوقت ضرورت مردوں سے گفتگو کرنا پڑے تو لوچ دار انداز اختیار نہ کرے۔

۵-            یہ ملازمت اس کی خانگی ذمہ داریوں کو درہم برہم نہ کرے۔

عورت اگر ان حدود کی پابندی کرے تو وہ ملازمت اور تجارت وغیرہ کرسکتی ہے۔ اس کے چند دلائل یہ ہیں:

۱-            حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ فرماتی ہیں کہ حضرت زبیر بن عوامؓ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اُونٹ اور گھوڑے کے سوا روے زمین پر کوئی مال‘ کوئی غلام اور کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی‘ اسے پانی پلاتی‘ ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح     روٹی پکانا بھی نہیں جانتی تھی۔ چنانچہ کچھ انصاری لڑکیاں جو بڑی سچی تھیں‘ میری روٹیاں پکا جاتی تھیں۔ حضرت زبیرؓ کی وہ زمین جو اللہ کے رسولؐ نے انھیں دی تھی‘ میں اس سے کھجور کی گٹھلیاں   سر پر لاد کر لایا کرتی تھی‘ جب کہ یہ زمین گھر سے دو میل دُور تھی۔ اس کے بعد میرے والد (حضرت ابوبکر صدیقؓ)نے ایک غلام ہمارے پاس بھیج دیا جو گھوڑے کی دیکھ بھال کا سب کام کرنے لگا اور میں بے فکر ہوگئی۔ گویا والد ماجد نے (غلام بھیج کر) مجھ کو آزاد کر دیا۔ (بخاری‘ کتاب النکاح: باب الغیرۃ… ح ۵۲۲۴۔ مسلم‘ کتاب السلام‘ باب جواز ارداف المرأۃ‘ ح ۲۱۸۲)

۲-            حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ پردے کاحکم نازل ہونے کے بعد حضرت سودہؓ اپنی کسی حاجت کے لیے (پردہ کر کے) گھر سے باہر نکلیں۔ ان کا جسم چونکہ فربہ تھا اس لیے جو انھیں پہلے سے پہچانتا تھا (پردے کے باوجود) اس کے لیے انھیں پہچاننا مشکل نہ تھا۔ چنانچہ راستے میں حضرت عمرؓ نے انھیں دیکھ لیا اور کہا: اے سودہؓ! اللہ کی قسم! آپ تو ہم سے چھپ نہیں سکتیں‘ پھر سوچیے آپ کیوں گھر سے باہر نکلی ہیں؟ حضرت سودہؓ اُلٹے پائوں واپس آگئیں۔ اللہ کے رسولؐ میرے حجرہ میں تشریف فرما تھے اور رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ آپؐ کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ سودہؓ نے داخل ہوتے ہی کہا: یارسولؐ اللہ! میں اپنی کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلی تھی اور عمرؓ نے مجھ سے یہ کہا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا۔ پھر جب نزولِ وحی کی کیفیت دُور ہوئی تو تھوڑی دیر بعد آپؐ نے فرمایا: أَنَّہُ قَدْ أَذِنَ لَکُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِکُنَّ (بخاری‘ کتاب التفسیر‘ باب قولہ لاتدخلوا بیوت النبی الا… ح ۴۷۹۵) ’’اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت دے دی ہے‘‘۔

۳-            حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میری خالہ کو جب تین طلاقیں ہوگئیں تو وہ (دورانِ عدت) اپنے کھجوروں کے درخت کاٹنے کے لیے گھر سے باہر چلی گئیں۔ ایک آدمی نے راستے میں انھیں دیکھا تو اس نے انھیں (دورانِ عدت) گھر سے باہر نکلنے پر منع کیا۔ چنانچہ آپ اللہ کے رسولؐ کے پاس آئیں اور یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی۔ آنحضرتؐ نے ان کی بات سن کر فرمایا: أَخْرُجِیْ فَجَدِّی نَخْلَکِ لَعَلَّکِ أَن تَصَدَّ فِیْ مِنْہُ أَوْ تَفْعَلِیْ خَیْرًا (ابوداؤد، کتاب الطلاق‘ باب فی المبتوتۃ تخرج بالنھار ‘ ح ۲۲۹۴۔ مسلم‘ ح ۱۴۸۳) ’’تم باہر (اپنے کھیت کی طرف) ضرور جا سکتی ہو‘ شاید تم اس (درخت کے پھل سے) صدقہ کرو یا کوئی اور بھلائی کاکام کرو‘‘۔

۴-            حضرت سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے دور میں ایک صحابیہ خاتون تھیں جن کا اپنا کھیت تھا اوروہ اس کی پانی کی نالیوں کے اطراف میں چقندر کی کاشت کیا کرتی تھیں۔ جمعہ کے دن وہ اس چقندر کو جڑوں سے اُکھاڑتیں اور ایک ہنڈیا میں اسے پکاتیں۔ پھر اُوپر سے ایک مٹھی جو کا آٹا اس پر چھڑک دیتیں۔ اس طرح یہ چقندر گوشت کی طرح ہوجاتا۔ جمعہ سے واپسی پر ہم ان کے ہاں جاتے اور انھیں سلام کرتے۔ وہ یہی پکوان ہمارے آگے کردیتیں اور ہم اسے چاٹ جاتے۔ ہم لوگ ہرجمعہ ان کے اس کھانے کے آرزومند رہا کرتے تھے۔ (بخاری‘ کتاب الجمعۃ‘ باب قول اللّٰہ تعالٰی: فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا… ح ۹۳۸)

۵-            حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی بعض ہنر جانتی تھیں۔ ایک دفعہ وہ اللہ کے رسولؐ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا کہ میں ایک ہنر جانتی ہوں اور چیزیں بناکر فروخت کرتی ہوں۔ مگر میرے شوہر اور بچوں کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں توکیا میں اپنے کمائے ہوئے مال سے ان پر خرچ کرسکتی ہوں؟آپؐ نے فرمایا: ہاں بلکہ تمھیں اس پر ثواب ملے گا۔ (طبقاتِ ابن سعد‘ ج ۸ ص ۲۱۲)

۶-            امام ابن سعد نے اپنی کتاب الطبقات میں اس طرح کے کچھ اور واقعات بھی نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدنبویؐ میں عورتیں چھوٹے موٹے کام کاج کیا کرتی تھیں۔ بعض عورتیں عطر بنا کر فروخت کرتی تھیں۔

عملی مسائل

ایک مسلمان عورت ستروحجاب کے احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے ملازمت یا تجارت کر سکتی ہے۔ اس اصول کا جب ہم اپنے معاشرے پر اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں بڑی پریشانی ہوتی ہے‘ اس لیے کہ پورے ملک میں اختلاط مرد و زن کی ایسی لہر اُٹھی ہوئی ہے کہ کوئی شعبہ بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ تدریس‘ طب‘ قانون‘ انتظامیات اور اس طرح کے بے شمار شعبوں میں خواتین کی ضرورت ہے۔ لیکن اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انتظامات مناسب نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری تھا کہ مرد وزن کا اختلاط روکنے کے لیے الگ الگ ادارے قائم کیے جاتے۔ خواتین کی یونی ورسٹیاں الگ بنائی جاتیں۔ پھر خواتین کے متعلقہ اداروں کا انتظام و انصرام عورتوں ہی کے پاس ہوتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا اور   اب بھی اسے انتہائی دشوار کہہ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے حالانکہ نیت درست ہو تو یہ کچھ دشوار نہیں۔ اگر خواتین کے لیے الگ یونی ورسٹیاں اور دیگر ادارے بنانا ہرجگہ ممکن نہیں تو کم از کم خواتین کے شعبے ہی الگ بنا دیے جائیں اور وہاں مردوں کے اختلاط کو ختم کر دیا جائے۔

بیوی کی کمائی پر شوھر کا حق

عورت کی ملازمت کے ساتھ یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیوی ملازمت یا تجارت وغیرہ کے ذریعے جو مال حاصل کرتی ہے اس کی وہ اکیلی مالک ہے یا اس کا شوہر بھی اس کا حق دار ہے؟ جہاں تک عورت کو ملازمت کے علاوہ دیگر ذرائع (مثلاً وراثت‘ مہر‘ہبہ وغیرہ) سے حاصل ہونے والے مال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ واضح رہے کہ اس پر شوہر کا کوئی حق نہیں۔ عورت ہی اس مال کی مالک ہے۔ ہاں‘ اگروہ اپنی خوشی سے شوہر کو کچھ دیتی ہے تو یہ الگ بات ہے۔ البتہ اگر عورت شادی کے بعد مال کماتی ہے تو اس مال کے بارے میں سب سے پہلے تو یہ دیکھا جائے گاکہ آیا اس مال کمانے کی محنت میں شوہر کے حقوق میں کمی تو نہیں ہوئی۔ اگر شوہر کے حقوق میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی تو پھر اس مال پر قانونی طور پر شوہر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا‘ مثلاً عورت کو وراثت میں ایک مکان یا دکان ملی جسے اس نے کرائے پر اٹھا دیا ہے اور بغیر محنت یا وقت صرف کیے اس کی کمائی اسے حاصل ہو رہی ہے۔ اس کمائی پر خاوند کا قانونی طور پر کوئی حق نہیں ہے۔

اگر عورت کسی ملازمت یا دستکاری وغیرہ کے ذریعے مال کماتی ہے اور اس میں محنت اور وقت صرف کرنے کی وجہ سے خانگی ذمہ داریاں متاثر ہوتی ہیں تو شوہر کو اس پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ شوہر اگر اعتراض کرے تو اس کے نتیجے میں میاں بیوی کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ طے پاسکتا ہے جس پر دونوں رضامند ہوں۔ ایسی صورت میں خاوند اپنی بیوی کی کمائی سے کچھ حصے کا دعویٰ بھی کرسکتا ہے اور ملازمت چھوڑنے پر اسے مجبور بھی کرسکتا ہے۔ اگر بالفرض خاوند ایسا کوئی اعتراض نہ کرے تو الگ بات ہے۔ پھر بھی اخلاقی طور پر عورت کو چاہیے کہ اپنے اس مال سے خاوند کے ساتھ تعاون کرے۔

یہ تو تھا اس مسئلے کا قانونی حل‘ لیکن ضروری نہیں کہ ہر مسئلے کو قانونی انداز سے دیکھا جائے‘ بالخصوص میاں بیوی کے درمیان جو رشتہ ہے وہاں صرف قانونی تقاضوں ہی کو اگر مدنظر رکھا جائے تو یقینا اکثر شادیاں ناکام ہو جائیں اور خاندانی زندگی کا امن و سکون تباہ و برباد ہوجائے۔ ازدواجی زندگی میں قانونی پہلو کے ساتھ اخلاقی پہلو کی بنیادی اہمیت ہے۔ اخلاقی پہلو کی رعایت کرتے ہوئے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اپنے شریکِ حیات کا خیرخواہ بن کر رہنا چاہیے۔ مرد نان و نفقہ کا ذمہ ار ہے لیکن اس کی معاشی حالت اگر کمزور ہے اور بیوی کی معاشی حالت اچھی ہے تو بیوی کو ازخود خاوند کی مدد کرنی چاہیے۔ حضرت خدیجہؓ مال دار تھیں اور شادی کے بعد انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طرح اپنے مال سے دل کھول کر مدد کی وہ قابلِ اتباع ہے۔

لیکن اگر شوہر صاحب ِ حیثیت ہے‘ اسے مال کی ضرورت بھی نہیں‘ بیوی کی ملازمت پر اعتراض بھی نہیں‘ تو عورت اپنی آمدنی کو اپنی آزاد مرضی سے شرعی لحاظ سے ہر طرح کی جائز مدات میں صرف کرنے کا حق رکھتی ہے۔ تاہم‘ اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری شوہر کی ہی رہے گی۔

سورت (انڈیا) کے ایک گائوں میں یکم جولائی ۱۹۱۸ء کو ایک بچہ نے آنکھ کھولی جس کا نام والدین نے احمد رکھا۔ خاندانی نام احمد حسین دیدات تھا۔ خاندان کاروباری پس منظر رکھتا تھا مگر جنگِ عظیم نے اکثر کاروبار ٹھپ کر دیے تھے۔ میمن برادری اور سورتی آبادی کا ایک حصہ جنوبی افریقہ میں مقیم تھا اور وہاں روزگار کے بہتر مواقع موجود تھے۔ اس خاندان کے سربراہ حسین دیدات اپنے بیٹے احمد کی پیدایش کے چند ماہ بعد جنوبی افریقہ چلے گئے تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ احمد دیدات بھی ۹ سال کی عمر میں اپنے باپ کے پاس نیٹال (جنوبی افریقہ) پہنچ گئے۔ ان کی والدہ اور باقی افراد خانہ سورت ہی میں مقیم تھے۔ والدہ اپنے بیٹے کی روانگی کے چند ہی ماہ بعد فوت ہوگئیں۔ شیخ دیدات اپنی والدہ کا تذکرہ جب بھی کرتے آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔

احمد دیدات کی تعلیم کچھ بھی نہ تھی مگر وہ بلا کے ذہین تھے۔ انھوں نے سٹینڈرڈ سکس (چھٹی کلاس) تک پڑھا مگر اپنے طور پر انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے اور لکھنے‘ پڑھنے کا عمل جاری رکھا۔ چھوٹی عمر ہی سے ایک سٹور میں ملازمت کرلی۔ اس علاقے میں بہت سے عیسائی مشن اور گرجاگھر سرگرمِ عمل تھے۔ پادری اور راہبہ خواتین اسٹور پر خریداری کے لیے آتے تو ساتھ تبلیغ بھی کرتے۔ کم سن احمد دیدات بڑا پکا مسلمان تھا۔ وہ اُن مبلغین سے سوال کرتا مگر اسے کوئی اطمینان بخش جواب نہ ملتا۔ اس نے اسلام کا مطالعہ کیا مگر اس سے زیادہ عیسائیت پر تحقیق شروع کر دی۔ بائیبل کو لفظ بہ لفظ حفظ کرنا کسی عیسائی بشپ کے بھی بس میں نہیں مگر احمد دیدات نے یہ کارنامہ کردکھایا۔ مولانا رحمت اللہ کی کتاب اظہار الحق نے احمد دیدات کی بڑی رہنمائی کی۔

ملازمت اور کاروبار کے بجاے قدرت نے اس ذہین مسلمان نوجوان کو اسلام کا مبلغ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اپنے طور پر تحقیق کرتا رہا اور سفیدفام اقلیت کے نظامِ جبر اور نسلی امتیاز کی ظالمانہ پالیسیوں کے باوجود نہایت جرأت اور دھڑلے سے بڑے بڑے پادریوں کو چیلنج کرنے لگا۔ پادریوں کو اپنی قادر الکلامی کا بڑا پندار تھا۔ وہ اس ’’انڈین بوائے‘‘ کے مقابلے پر مناظرے کے میدان میں اترے تو دنیا حیران رہ گئی کہ بڑے بڑے بت یوں بے بس ہو کر دھڑام سے زمین بوس ہونے لگے کہ حضرت ابراہیم ؑکی تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ شیخ دیدات نے انگریزی زبان میںکمال حاصل کیا اور پیدایشی طور پر وہ تھے بھی شعلہ نوا خطیب۔ ان کا خطاب سماں باندھ دیتا تھا اور ہمیشہ وہ مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے مناظروں کی روداد بھی لکھنا شروع کر دی۔ اسلام پر عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے علاوہ خود جارحانہ انداز اپناکر عیسائی مشنریوں پر بائیبل ہی کے حوالوں سے ایسے اعتراضات کیے کہ ان کے پاس کوئی جواب تھا‘ نہ اب تک ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ یہ انداز دعوت کے لیے کتنا مفید ہے‘ مگر ایک مرتبہ شیخ احمد دیدات نے خود اس کے جواب میں کہا کہ جنوبی افریقہ کے جس استحصالی اور نہایت جبرورعونت کے نظام میں انھوں نے اسلام کا دفاع شروع کیا تھا اس کے معروضی حالات ایسے تھے کہ کوئی اور چارئہ کار نہ تھا۔

۱۹۴۰ء تک احمد دیدات جنوب افریقی ممالک میں معروف مبلغ کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ جنوبی افریقہ میں ہندو اثرات بھی خاصے تھے اور مسٹرگاندھی نے تو اپنی سیاسی سوچ اور جدوجہد آزادی کا سارا منصوبہ بھی وہیں سے شروع کیا تھا۔ احمد دیدات جس طرح اسلام اور عیسائیت کا موازنہ کرنے میں محنت کررہے تھے اسی طرح تحریکِ پاکستان کی بھی اکھنڈ بھارت کے مقابلے میں کھل کر حمایت کرتے تھے۔ پاکستان بنا تو احمد دیدات پاکستان آگئے۔ تین سال یہاں مقیم رہے مگر محسوس کیا کہ ان کے لیے مفید کردارادا کرنے کے لیے جنوبی افریقہ ہی بہترین سرزمین ہے۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔

شیخ احمد دیدات نے ایک تحقیقی و تعلیمی ادارہ السلام انسٹی ٹیوٹ کے نام سے برائمار (جنوبی افریقہ) میں قائم کیا جہاں سے ہزاروں نوجوانوں نے اسلام اور عیسائیت کے موازنے اور عیسائی مشنریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر تعلیم حاصل کی۔ بلاشبہہ اس ادارے کی بڑی خدمات ہیں۔ ڈربن میں ایک جامع مسجد اور اسلامک پروپیگشن سنٹر کا قیام بھی مرحوم کا بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ہزاروں تقاریر کی وڈیو اور آڈیو کیسٹس دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ دو درجن کے قریب ان کی کتب   کئی زبانوں میں منتقل ہوچکی ہیں۔ انھوں نے دنیا بھر میں سفر کیا۔ کئی ممالک نے ان کو ویزا دینے سے بھی انکار کیا۔ انھوں نے ویٹی کن میں پوپ جان پال سے ملاقات کی اور امریکا میں کئی عیسائی مناظرین سے مباحثے کیے۔ امریکا میں جمی سواگرٹ کے ساتھ ان کا مناظرہ پوری دنیا میں مشہور ہوا۔

خدمت و تبلیغ اسلام کے اعتراف کے طور پر مرحوم کو ۱۹۸۶ء میں کنگ فیصل عالمی انعام ملا۔ انھوں نے اسلامی ممالک میں جاکر جو لیکچر دیے ان کو بے پناہ پذیرائی ملی۔ جنوبی افریقہ کی تحریک آزادی کا ہیرو اور باباے قوم نیلسن منڈیلا ان کا بڑا مداح تھا۔ اس کے الفاظ میں سفیدفام سر پر غرور جنگِ آزادی کے نتیجے ہی میں سرنگوں ہوا مگر اس پر اوّلین چرکے احمد دیدات ہی نے لگائے تھے۔ منڈیلااپنے دورِ صدارت میں شیخ دیدات سے قریبی رابطہ رکھتا تھا۔

شیخ دیدات پر ۱۹۹۶ء میں فالج کا شدید حملہ ہوا۔ ان کا نچلا دھڑ تقریباً مکمل طور پر     جامد ہوگیا تھا‘ زبان بھی بند ہوگئی مگر وہ ایک خاص مشین کے ذریعے اشاروں سے بات چیت  کرتے تھے۔ مئی ۱۹۹۷ء میں جب میں جنوبی افریقہ گیا تو ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ ان کے بیٹے یوسف دیدات سے بھی پہلے سے تعارف تھا۔ انھوںنے استقبال کیا اور فوراً شیخ کے کمرے میں لے گئے۔ انھوں نے پہچان لیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھ سے کئی سوالات کیے۔ ان کے ہاں عیادت کے لیے بہت سے لوگ آئے تھے۔ میں نے شیخ دیدات کے ساتھ کینیا‘ تنزانیہ ‘ پاکستان اور خلیجی ریاستوں اور پاکستان میں کچھ وقت گزارا تھا۔ وہ سارے واقعات انھیں یاد تھے۔ ۹سال تک اس تکلیف دہ مرض کے ساتھ وہ زندہ رہے اور ۸۷ سال کی عمر میں ۸ اگست ۲۰۰۵ء کو     خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں داخل کرے۔

عالمِ اسلام کی معروف عالمہ‘ مبلغہ اور دعوتِ اسلامی کی مجسم تصویر سیدہ زینب الغزالی (۱۹۱۷ئ-۲۰۰۵ئ) ۸۸سال کی عمر میں ایک پُرآشوب‘ ابتلا و آزمایش سے بھرپور‘ عزیمت و عظمت سے مالا مال اور ہر لحاظ سے سعید و کامیاب زندگی گزار کر ۸ اگست ۲۰۰۵ء کو خالقِ حقیقی سے جاملیں ___ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔

زینب الغزالی مصر کے ایک گائوں میتِ عمر میں ایک کاشتکار گھرانے میں پیداہوئیں۔ ان کے والد بہت نیک نہاد مسلمان اور تاریخِ اسلام سے گہراشغف رکھتے تھے۔ بچپن ہی سے زینب کے سامنے تاریخِ اسلام اور سیرتِ صحابیاتؓ کے زریں واقعات کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجاہد صفت صحابیہ نُسیبہ بنتِ کعبؓ کو ان کے جہادی کارناموں کی وجہ سے اپنا آئیڈیل بنا لیا تھا۔ زینب الغزالیؒ کے عنفوانِ شباب میں مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ نوجوان زینب نے امام حسن البنّا کی دعوت کو اپنے دل کی آواز جانا اور اس دعوت کا حصہ بن گئیں۔ امام حسن البنّا سے اپنے بھائی کی معیت میں ملاقات کی اور انھی کی ہدایت پر ۱۹۴۸ء میں خواتین کو منظم کرنے کا کام جاری رکھا جو امام البنّا سے ملاقات سے قبل بھی وہ کر رہی تھیں۔ مردوں میں امام البنّا نے تحریک کی بنیاد رکھی تو خواتین میں یہ کارنامہ زینب الغزالی کے حصے میں آیا۔

زینب الغزالی نے خود ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا نام سیدات مسلمات تھا‘ جب کہ اخوان کا حلقہ خواتین اخوات مسلمات کے نام سے کام کر رہا تھا۔ کچھ حکمتوں اور مصالح کی وجہ سے انھوں نے اپنی تنظیم کو ختم کرنے یا اخوات میں ضم کرنے کے بجاے اسی نام سے کام جاری رکھا مگر اخوان سے بھرپور تعاون بھی کرتی رہیں۔ وہ بہت اچھی منتظم اور امام حسن البنّا ہی کی طرح نہایت مؤثر خطیبہ تھیں جو خواتین میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرنے میںکامیاب ہوئیں۔ یہ اخوان کی تحریک کا   دل چسپ تاریخی واقعہ ہے کہ جب امام حسن البنّا نے سیدہ زینب کو اخوات میں شامل ہونے کی دعوت دی تو انھوں نے دلائل کے ساتھ انھیں قائل کیا کہ الگ تنظیم کے بھی کچھ فوائد ہیں۔ جب ۱۹۴۸ء میں سیدہ زینب نے اخوان پر ابتلا کو دیکھا تو امام البنّا کو پیش کش کی کہ وہ اخوات میں شامل ہونے پر آمادہ ہیں۔ اس موقع پر امام نے ان کو ہدایت دی اور قائل کیا کہ وہ اس تنظیم کو قائم رکھیں۔ یہ دونوں فیصلے اپنے اپنے وقت پر حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھے۔سیدات مسلمات تحریکی سوچ اور مکمل یک سوئی کے ساتھ مظلوموں کی امداد اور حاجت مندوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا اہم کام کرتی تھیں۔ دورِ ابتلا میں نہایت حکمت اور خاموشی کے ساتھ ان عظیم خواتین نے اخوانی گھرانوں کو بڑا سہارا دیے رکھا۔

زینب الغزالی نے اپنی رودادِ ابتلا میں ایسے ایسے واقعات بیان کیے ہیں کہ رونگٹے کھڑے اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ امام حسن البنّا کی شہادت سے قبل ان کو کسی نے بتا دیا تھا کہ حکومت کے کیا عزائم ہیں۔ شاہ فاروق کے عہد میں امام کی شہادت اور بعد میں فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والے طالع آزما کرنل جمال عبدالناصر کے اخوان کو بیخ و بُن سے اکھاڑ دینے کے حالات و واقعات انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہیں۔ اس دورِ ابتلا میں سیدہ زینب نے اخوان کے گھرانوں کی امداد اور دعوت کے میدان میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی داعیانہ ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کیا۔ وہ عورت تھیں مگر اللہ نے ان کو بے پناہ قوتِ ارادی اور عزمِ صمیم سے مالا مال کررکھا تھا۔ اخوان کے چھے قائدین ۱۹۵۴ء میں تختہ دار پر شہید کر دیے گئے۔ باقی ماندہ لوگ مرشدِعام دوم حسن الہضیبی کے ساتھ بدترین زنداں خانوں میں اذیت و کرب کی زندگی گزار رہے تھے۔ جیل سے باہر مردوں کے محاذ پر سید قطب اور خواتین کے حلقوں میں سیدہ زینب نے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔ سید قطب کو بھی ۱۹۵۶ء میں بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔ وہ ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پہ لٹکائے گئے۔

زینب الغزالی کی بھی نگرانی کی جاتی رہی تھی۔ ان کی گرفتاری ۲۰ اگست ۱۹۶۵ء کو بغاوت ہی کی فردِ جرم کے تحت عمل میں آئی۔ ایام حُیاتی (اُردو ترجمہ رودادِ قفس از مولانا خلیل احمد حامدیؒ) میں مرحومہ نے اپنے اُوپر ڈھائے جانے والے مظالم بیان کیے ہیں۔ ان پر کتے چھوڑے گئے جو ان کو بھنبھوڑتے رہے‘ ان کو تازیانے مار مار کر لہولہان کر دیا گیا۔ ان کی ٹانگ توڑ دی گئی‘ ان کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ وضو اور پینے کے لیے پانی تک نہ دیا گیا۔ رفعِ حاجت کے لیے بیت الخلا جانا بھی ممنوع تھا اور یہ کیفیت کئی روز تک رہی۔ آفرین ہے اس خاتون کی ہمت و عزیمت پر کہ ظالم ظلم توڑتے توڑتے تھک گئے مگراس نے باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ ترغیب کا ہرجال بھی پھیلایا گیا اور ترہیب کا آخری حربہ تک بھی استعمال میں لایا گیا۔ ان کے فالج زدہ خاوند محمدسالم کی کنپٹی پہ پستول رکھ کر محبوس و مظلوم زینب کے طلاق نامے پر دستخط کرنے پر مجبورکیا گیا۔ ان سے زبردستی دستخط کرائے جا رہے تھے توان کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’اے اللہ تو گواہ رہ‘ میں نے اپنی بیوی زینب الغزالی الجبیلی کو طلاق نہیں دی‘‘۔ (رودادِ قفس‘ ص ۲۷۵)

انھیں عمرقید کی سزا سنائی گئی مگر ناصر کی موت کے بعد سادات نے اخوانی زندانیوں کو رہا کرنا شروع کیا تو ۹ اگست ۱۹۷۱ء کو سیدہ زینب کی رہائی کا پروانہ جاری ہوگیا۔ اس وقت جیل میں ان کے ساتھ سید قطب کی عظیم بہن محترمہ حمیدہ قطب بھی مقید تھیں۔ زینب الغزالی نے حمیدہ قطب کو جیل میں چھوڑ کر رہا ہونے سے انکار کر دیا مگر کارندوں نے انھیں زبردستی جیل سے نکال باہر کیا اور عظیم سید قطب کی عظیم بہن نے بھی انھیں تسلی دی کہ وہ اطمینان سے جائیں‘ حمیدہ کے حوصلے اللہ کی توفیق سے پست نہ ہوں گے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۳۰۲-۳۰۳)

محترمہ زینب الغزالی کو چار مرتبہ خواب میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ جیل میں آنحضوؐر نے ان کو ان کے پیدایشی نام سے تین مرتبہ پکارا۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا نام زینب غزالی رکھا گیا تھا‘ الغزالی بعد میں معروف ہوگیا۔ آنحضوؐر نے زینب غزالی ہی کہہ کر پکارا اور تسلی دی کہ وہ آنحضوؐر کے نقشِ قدم پر چل رہی ہیں (ایضاً‘ ص ۷۸-۷۹)۔ یہ عظیم ترین اعزاز ہے۔

جیل سے رہائی کے بعد محترمہ زینب الغزالی اپنی وفات تک اخوان کی قیادت میں نمایاں شخصیت رہیں۔ امام حسن الہضیبیؒ‘ سید عمرتلمسانیؒ ،جناب محمد حامد ابوالنصرؒ، استاذ مصطفی مشہورؒ، جناب مامون الہضیبیؒ اور موجودہ مرشدعام الاخ محمد مہدی عاکف سبھی ان سے مشورے لیا کرتے تھے۔ وہ اخوان کی تحریک میں اس وقت مادرِ مشفق کا مقام رکھتی تھیں۔ ان کی زندگی قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ تھی۔ حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

۴۵ کلومیٹر لمبی اور ۶ سے ۱۱ کلومیٹر تک چوڑی غزہ کی پٹی فلسطینی سرزمین کا صرف ۵ئ۱فی صد بنتی ہے۔ اس کا کل رقبہ ۳۶۵ مربع کلومیٹر ہے اور یہاں ۱۴ لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ ۲ ہزار ۹ سو افراد فی مربع کلومیٹر آبادی کی کثافت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ان کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے اور ان کی روزانہ آمدنی تقریباً دوڈالر ہے۔ ۳۸ سال پہلے ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کیا‘ یہاں بھی یہودی بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں اور دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ان میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ ۲۱بستیوں کے علاوہ فوج کی کئی چھائونیاں اور حفاظتی پٹیاں قائم کی گئیں۔ یہاں تک کہ غزہ کا ۵۸ فی صد علاقہ اسرائیلیوں کے زیرتصرف آگیا۔

ان یہودی بستیوں میں اگست ۲۰۰۳ء کے اعداد و شمار کے مطابق ۷ ہزار ۳ سو یہودی آبادکار رہتے تھے۔ ۱۴ لاکھ فلسطینیوں کے سمندر میں صرف ۷ ہزار۳ سو یہودی آباد کار اور ان کی حفاظت کے لیے ہر طرح کے امریکی اور اسرائیلی اسلحے سے لیس ہزاروں یہودی فوجی۔

جنرل (ر) شارون جب اپوزیشن میں تھا تو اس نے بڑھتے ہوئے فلسطینی شہادتی حملوں کو روکنے میں ناکام اسرائیلی حکومت سے کہا: ’’انھیں روک نہیں سکتے تو اقتدار چھوڑ دو‘ میں برسرِاقتدار آکر ۱۰۰ دن کے اندر اندر تحریکِ انتفاضہ ختم کرکے دکھا ئوں گا‘‘۔ خوف زدہ صہیونی عوام نے جنرل شارون کو وزیراعظم بنا دیا‘ اس نے سفاکیت و خوں ریزی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے لیکن فلسطینی عوام کی تحریکِ مزاحمت و آزادی کو نہیں کچل سکا۔

ہر قتل عام اور فوج کشی‘ فلسطینی عوام کے عزم و ہمت میں مزید اضافے کا سبب بنی اور بالآخر خون آشام شارون نے اعلان کیا: ’’میں امن کا پیغام لے کر آیا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔ اس نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو اعلان کیا کہ وہ غزہ کی پٹی سے مکمل اور مغربی کنارے کے شمال میں چار یہودی بستیوں سے یک طرفہ انخلا کر دے گا۔ تب سے لے کر اب تک اس اعلان پر بہت لے دے ہوئی‘ دنیا بھر میں اس یہودی قربانی اور امن پسندی کا ڈھول پیٹا گیا۔ مختلف یہودی تنظیموں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ انخلا سے ہفتہ بھر پہلے شارون کے وزیر اور سابق اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔ انخلا کے وقت یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی اور تصادم کے مزاحیہ ڈرامے پیش کیے گئے‘ جن میں فلسطینی بچوں پر گولیوں اور راکٹوں کی اندھادھند بارش کرنے والے دسیوں سورما فوجی ایک ایک یہودی آبادکار پر بمشکل قابو پاتے دکھائے گئے اور غزہ سے انخلا کا عمل اسرائیلی ریڈیو سے نشر ہونے والے شارون کے ان الفاظ کی گونج میں تکمیل کی جانب بڑھا کہ ’’ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غزہ سے چمٹے نہیں رہ سکتے‘ وہاں ۱۰ لاکھ سے زیادہ فلسطینی‘ گنجان آباد مہاجر بستیوں میں رہتے ہیں… بھوک اور مایوسی کے عالم میں‘ ان کے دلوں میں پائی جانے والی نفرت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور انھیں اُفق میں اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی… یہودی بستیاں خالی ہوتے دیکھ کر کلیجہ منہ کوآتا ہے لیکن بلاشک و شبہہ قیامِ امن کی راہ پر یہ بہترین ممکنہ قدم ہے۔ اسرائیلی عوام مجھ پر اعتماد کریں‘ خطرات کے باوجود یہ ان کی سلامتی کے لیے بہترین اقدام ثابت ہوگا… اب دنیا فلسطینی جواب کی منتظر ہے۔ ہم دوستی کے لیے بڑھنے والے ہرہاتھ کو زیتون کی شاخ پیش کریں گے‘‘۔ یہی جنرل شارون اس سے پہلے غزہ کے بارے میں کہا کرتا تھا: ’’غزہ میں موجود یہودی بستیاں اسرائیلی سلامتی پلان کا ناگزیر حصہ ہیں۔ ان کا مستقبل ہمارے لیے‘ تل ابیب (القدس) کے مستقبل کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔

اس سرتاسر تبدیلی کی حقیقت کیا ہے؟ ناجائز اسرائیلی ریاست کی تاریخ میں یہ اہم ترین واقعہ ہے جس کے انتہائی دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ حماس اور دیگر جہادی تنظیمیں ہی نہیں خود اسرائیلی اخبارات بھی اسے اسرائیل کی شکست فاش کا عنوان دے رہے ہیں۔ روزنامہ ہآرٹس (بڑا عبرانی اخبار) نے ۱۴ اگست ۲۰۰۵ء کے شمارے میں ’’تسافی برئل‘‘ کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ہے: ’’اسرائیلی امپائر کا اختتام‘‘۔ اس میں وہ کہتا ہے: ’’کل سے غزہ کے یہودی آباد کار اپنا یہ لقب کھو دیں گے‘ کل کے بعد وہ آبادکار نہیں اجنبی حملہ آور اور نافرمان باغی کہلائیں گے‘ انھیں آبادکاری کا کوئی تمغہ یا انعام نہیں ملے گا بلکہ انھیں زبردستی ان جگہوں سے نکال دیا جائے گا‘ جہاں انھیں شروع ہی سے نہیں ہونا چاہیے تھا… وہ وہاں سے اس لیے نکالے جائیں گے کیونکہ اسرائیلی امپائر اب پہلے کی طرح ان کی حفاظت کے قابل نہیں رہی‘‘۔

ہآرٹس کے سیاسی مراسلہ نگار ’’الوف بن‘‘ نے لکھا کہ ’’فلسطینی عوام نے اسرائیلیوں کو کاری داغ لگایا ہے اور انھیں یہ باور کروا دیا ہے کہ آبادکاری کا منصوبہ بے فائدہ تھا۔ ان سے یہ اعتراف کروا لیا ہے کہ طاقت کا استعمال ادھورے اور محدود نتائج ہی دے سکتا ہے۔ اکثر اسرائیلیوں پر جن میں خود وزیراعظم ارائیل شارون بھی شامل ہے‘ یہ امر واضح ہے کہ ’’پہلے غزہ‘‘ کا مطلب ’’صرف غزہ‘‘ ہی نہیں بلکہ اب مغربی کنارے کی یہودی بستیوں سے بھی وسیع پیمانے پر انخلا کرنا ہوگا‘‘۔

حماس کے ایک اہم رہنما محمود الزھار نے غزہ سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ: ’’اسرائیلی انخلا کا اکلوتا سبب کہ جس سے ہمیں یہ تاریخی فتح حاصل ہوئی ہمارا جہاد اور مزاحمت ہے۔ حماس نے شروع ہی میں کہا تھا کہ مزاحمت ہی راہِ نجات ہے اور وقت نے اس مؤقف کی صحت پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انخلا شارون کا کسی پر کوئی احسان ہے۔ یہ انخلا ناجائز عبرانی ریاست کا غرور خاک میں ملانے والی شکست فاش ہے۔ اس انخلا کی کوئی بھی اور تفسیر‘ حقائق کو مسخ کرنا ہوگا۔ عبرانی ریاست تحریکِ مزاحمت کے القسام راکٹوں‘ سرنگوں کے ذریعے بارودی حملوں اور شہادتی کارروائیوں کا کوئی توڑ نہیں نکال سکی‘‘۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا غزہ سے صہیونی انخلا کے بعد بھی حماس اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی؟ تو محمود الزھار نے کہا: ’’ہمارا ہدف صرف غزہ کی پٹی آزاد کروانا نہیں‘ نہ صرف مغربی کنارے کی آزادی ہی ہے اور نہ صرف القدس کی بلکہ پوری کی پوری مقبوضہ سرزمین کی آزادی ہے۔ اس کے پہلے مرحلے میں ہم ان علاقوں کی آزادی پر زور دے رہے ہیں جو ۱۹۶۷ء میں غصب کیے گئے۔ غزہ کے بعد ہم اپنی جدوجہد کا مرکز مغربی کنارے کو بنائیں گے اور غزہ میں کی جانے والی ہماری کارروائیاں مغربی کنارے میں اور بھی زیادہ اثر انگیز اور صہیونی استعمار کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوں گی‘‘۔

الفتح کے مرکزی رہنما ہانی الحسن نے بھی بعینہ انھی خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’اسرائیلی انخلا ایک اہم ترین قومی کارنامہ اور فلسطینی شہدا‘ قیدیوں اور مجاہدوں کی قربانیوںکا ثمر ہے۔ یہ کسی کا ہم پر احسان نہیں‘ فلسطینی عوام کی بے مثال قربانیوں اور صبروثبات کا نتیجہ ہے‘‘۔ انھوں نے فلسطینی عوام میں اتحاد و تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’غزہ سے انخلا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتا ہے‘ جس کا دارالحکومت القدس ہوگا‘‘۔ یہ اور اس طرح کے سیکڑوں بیانات اور تجزیے ہیں جو اس اہم حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ’’یہودی انخلا  بھڑوں کے چھتے سے نجات پانے کی نمایاں ترین کوشش ہے‘‘۔ (تیونسی اخبار الشروق‘ ۱۶ اگست ۲۰۰۵ئ)

درپیش چیلنج

عبرانی ریاست کی تاریخ کے اس منفرد اور اکلوتے واقعے کے بعد ابھی مزید کئی چیلنج درپیش ہیں۔ اگرچہ مغربی کنارے کے جنین کیمپ کے گردونواح میں واقع چار بستیوں سے بھی انخلا کیا جا رہا ہے جس کا منطقی انجام پورے مغربی کنارے سے انخلا ہونا چاہیے لیکن فی الحال یہ خطرہ موجود ہے کہ مغربی کنارے سے نکلنے کے بجاے وہاں مزید یہودیوں کو لا بسایا جائے اور اس پر اپنا قبضہ مستحکم کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے نہ صرف انخلا کا عمل ادھورا رہے گا بلکہ فلسطینیوں پر مظالم اور ان کی جوابی کارروائیوں میں بھی یقینی اضافہ ہوگا۔

غزہ کی پٹی سے انخلا کے باوجود اس کی تمام سرحدیں زمینی و آبی گزرگاہیں اور فضائیں اسرائیلی کنٹرول میں رہیں گی۔ فلسطین کے جنوب مغرب میں واقع اس پٹی کی ۱۱کلومیٹر لمبی سرحد مصر سے ملتی ہے‘ ۵۱ کلومیٹر سرحد مقبوضہ علاقوں سے ملتی ہے اور ۴۵ کلومیٹر بحرِمتوسط کا ساحلی علاقہ ہے۔ ان چہار اطراف میں اسرائیلی فوجیں ہوں گی جو غزہ سے آنے یا وہاں جانے والے ہر شخص اور سازوسامان کی آمدورفت کنٹرول کریں گی۔

پوری پٹی کے چار بڑے شہر ہیں۔ پرانا ساحلی شہر ’’غزہ‘‘ ہے جس کی بندرگاہ تباہ کر دی گئی ہے اور مصر کی یہ پیش کش مسترد کر دی گئی ہے کہ وہ اس بندرگاہ کی تعمیرنو میں مدد دے۔ دوسرا قدیم شہر ’’رفح‘‘ ہے جس کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ بند کر دیا گیا ہے۔ فتح اسلامی کے بعد تعمیر ہونے والے دوبڑے شہر ’’دیرالبلح‘‘ اور ’’خان یونس‘‘ ہیں جن میں بڑی تعداد میں پائے جانے والے فلسطینی   بے روزگاروں کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یوں اس بات کی پوری کوشش کی جارہی ہے کہ غزہ سے انخلا کے بعد اس کا مکمل اقتصادی محاصرہ کر دیا جائے۔ غزہ کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں فلسطینی دیہاڑی دار دیگر مقبوضہ علاقوں میں مزدوری کے لیے جایا کرتے تھے‘ سیکورٹی کے نام پر انھیں بھی محصور کردیا جائے اور اس طرح ایک طرف تو غزہ سے نکل کر فلسطینیوں کے آئے دن کے حملوں سے خود کو محفوظ کرلیا جائے اور دوسری طرف پوری پٹی کو ایک بڑے جیل خانے میں بدل دیا جائے۔

جنرل شارون اور امریکی انتظامیہ دنیا کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ غزہ سے انخلا صہیونی ریاست کا بہت جرأت مندانہ اقدام اور بہت بڑی قربانی ہے‘ اب گیند فلسطینیوں کی کورٹ میں ہے اور شارون کے الفاظ میں: ’’اب دنیا فلسطینی جواب کی منتظر ہے‘‘، یعنی ہماری اس قربانی کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔ محمود عباس کی بنیادی خوبی ہی یہ گردانی جاتی ہے کہ وہ انھاء عسکرۃ الانتفاضہ (انتفاضہ تحریک سے عسکریت کا خاتمہ) کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر اس حساس موڑ پر انھوں نے جنرل شارون اور صدربش کے دبائو میں آتے ہوئے اس کامیابی کے اصل ہیروئوں کے خلاف اقدامات کیے تو یہ سب کے لیے ایک بڑی بدقسمتی ہوگی۔

انخلا کے عین دوران شارون کا یہ بیان بہت اہم تھا کہ ’’اب ہم عرب دنیا سے تعلقات قائم کرنے کے بہت قریب ہیں‘‘۔ عرب دنیا سے تعلقات کا ایک اہم مرحلہ اوسلو معاہدے کے بعد دیکھنے کو آیا تھا۔ جب کہا گیا کہ ’’خود فلسطینیوں نے اسرائیل سے صلح کرلی ہے تو ہم کیوں نہ کریں‘‘۔ اب ایک بار پھر یہی فریب دیا جارہا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اب‘ جب کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کا الگ وطن تسلیم کرلیا ہے تو ہم جواباً اسرائیل کا وجود تسلیم کیوں نہ کریں۔ حکومت پاکستان نے بھی بیان دیا ہے کہ ’’آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی ہے جس کا دارالحکومت القدس ہو اور جو امن کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ رہ سکے‘‘۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’پاکستان نے ایسے مثبت اقدامات کی حمایت کی ہے جس کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل برآمد ہوسکے‘‘۔ اس بیان میں ’’مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل‘‘ اور ’’فلسطینی ریاست کا اسرائیل کے ساتھ امن سے رہنا‘‘ قابلِ غور ہیں۔

ایک اور بڑا چیلنج خود فلسطینی اتھارٹی پر کرپشن کے سابقہ واضح الزامات کے تناظر میں غزہ کے خالی کیے جانے والے علاقوں کو مزید شخصی اور تنظیمی کرپشن سے محفوظ رکھنا ہے۔ ایک مفلوک الحال‘ بے روزگار و محروم معاشرے میں آزاد ہونے والے علاقوں کو کسی نزاع کا باعث بننے سے بچانا ہے۔ اگر مکمل ایمان داری اور احساس امانت و ذمہ داری سے ان علاقوں کو معاشرے کی فلاح اور قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا گیا تو یہ نہ صرف ایک آزمایش میں سرخروئی ہوگی بلکہ تعمیرمستقبل کے لیے ایک مضبوط بنیاد ثابت ہوگی۔

ان چیلنجوں سے فلسطینی قوم اور اُمت مسلمہ کیونکر نمٹتی ہے‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا  لیکن ایک حقیقت سب کو نوشتۂ دیوار دکھائی دیتی ہے کہ وسیع تر اسرائیل اور فرات سے نیل تک اسرائیل قائم کرنے کا خواب فلسطینی بچوں اور پتھربردار نسل نے بری طرح پریشان کر دیا ہے۔ پہلے جنوبی لبنان سے فرار ہوئے اور اب غزہ اور مغربی کنارے کی چار یہودی بستیوں سے‘ آیندہ پورے مغربی کنارے سے‘ بیت المقدس سے اور… یقینا یہ سب فلسطینی شہدا کے خون‘ لاکھوں افراد کی مسلسل قربانیوںاور جہاد ہی کا ثمرہے۔

اسلامی نظام معاشرت: بعض اہم بنیادی اصول

سائل نے اپنے طویل خط میں ان عملی مسائل کا ذکر کیا ہے جو ایک گھر میں نئی آنے والی بہو کے اپنے یا معروف تصور کے مطابق احکامِ دین پر سختی سے عمل کرنے سے پیدا ہو رہے ہیں‘ یعنی ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھانا‘ بیش تر وقت اپنے کمرے میں گزارنا‘ والدہ کے ساتھ ملنے جلنے کے لیے نہ جانا وغیرہ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے تفصیل سے دین کے مزاج اور حکمت کے پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر جامع جواب لکھا جو دیگر معاملات میں بھی اصولی رہنمائی دیتا ہے۔ (ادارہ)

اسلامی نظام حیات کے امتیازات میں سے ایک اہم اور بنیادی پہلو اس کا معاشرت کے تصور کو انقلابی انداز میں الہامی اخلاقی بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اسلام سے قبل ہی نہیں اسلام کے بعد بھی بہت سی اقوام کے خودساختہ تصور مذہب میں نیکی‘ روحانی ترقی اور نفس کو زیر کرنے کے لیے تجرد اور اہلِ خانہ سے دُوری کو بطور ایک نسخہ کیمیا سمجھا جاتا رہا ہے۔ بعض عیسائی راہبوں کے عبرت ناک واقعات سے پتا چلتا ہے کہ وہ اہلِ خانہ سے دُوری کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ کسی راہب کی بوڑھی ماں نے طویل مسافت کے بعد جب چاہا کہ اپنے بیٹے کی صرف   ایک جھلک دیکھ سکے تو روحانیت کی طلب سے معمور اس راہب نے اپنی محنت و مشقت کے  ضائع ہوجانے اور ماں کی محبت سے مغلوب ہوجانے کے خطرے کے پیش نظر ماں کی درخواست کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا۔ بعض مذاہب نے زندگی کے ادوار کی تقسیم کی حد تک تو یہ بات مانی کہ طالب علمانہ دور کے بعد کچھ عرصے کے لیے ایک ہندو (گرہستیا) بن سکے اور جب اس کے بال بھورے ہونے لگیں تو پھر وہ جنگل کی راہ لے اور بقیہ تمام زندگی غوروفکر اور روح کی آواز کو سننے کی کوشش میں تنہائی و تجرد میں صرف کردے۔ حتیٰ کہ اس کی انفرادی روح کائناتی روح کے ساتھ یکجا ہوجائے جس طرح قطرہ دریا میں یا جزو کل میں فنا ہوکر بقاے دوام حاصل کرلیتا ہے۔

آج بھی عیسائیت اور مثالی ہندوازم سے متاثر ذہن کے لیے‘ وہ چاہے یورپ و امریکا میں ہو یا ایشیا و آسٹریلیا میں‘ خاندانی زندگی گزارتے ہوئے روحانیت کا حصول ایک ناقابلِ فہم معاملہ ہے۔ ایک مذہبی شخص کا تصور ہی یہ پایا جاتا ہے کہ خدا سے قرب حاصل کرنے کے لیے اسے اپنی جسمانی خواہشوں کو سسکا سسکا کر مارنا ہوگا۔ اسلام پر بنیادی اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ جس دین کے داعی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ مکرمہ میں مصلوب ہوکر حیاتِ جاودانی حاصل کرلینے کے مقابلے میں ہجرت کرنے اور تمام عمر مجرد رہنے کی جگہ ایک سے زائد نکاح کو جائز سمجھا وہ دین کہے جانے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانی زندگی کے قیام اور عقدِنکاح کو ایمان کی تکمیل قرار دیا جب کہ نام نہاد مذہبیت اورروحانیت کے علم بردار مذاہب اسے ایک خالص مادی اور کم تر درجے کا عمل سمجھتے ہوئے حصولِ روحانیت میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع ملی کہ بعض صحابہ نے آپ کی عبادت کے بارے میں معلومات کرنے کے بعد یہ سمجھا کہ آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں‘ معصوم ہیں‘ معصیت کا ارتکاب نہیں کرسکتے‘ غالباً اس بنا پر عبادات میں اتنی کثرت نہیں کرتے جتنی ان اصحاب نے اپنے خیال میں ضروری سمجھی تھی‘ چنانچہ یہ سوچ کر ان میں سے کسی نے طے کیا کہ تمام رات سوئے بغیر نماز قائم کرے گا۔ کسی نے طے کیا کہ مستقلاً روزہ رکھے گا اور کسی نے طے کیا کہ وہ نکاح سے دُور رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصحاب کو طلب فرمایا اور بجائے اپنے تصوراتی تقویٰ اور پاک بازی کے انھیں اپنی سنت پر عمل کرنے اور اس طرح اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔

حضرت انسؓ سے مروی اس حدیث صحیح میں جسے مسلم نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے‘ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک یوں درج ہے: واللّٰہ انی لاخشاکم للّٰہ واتقاکم لہ لکن اصوم وافطروا صلی وارقد واتنزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی، ’’یعنی بلاشبہہ میں تم سے زیادہ اللہ کی خشیت اور تقویٰ کرنے والا ہوں لیکن دیکھو میں (نفلی) روزے کبھی رکھتا ہوں کبھی نہیں رکھتا اسی طرح (رات میں) نوافل بھی پڑھتا ہوں‘ سوتا بھی ہوں‘ دیکھو میں بیویاں بھی رکھتا ہوں جو میری سنت سے بے رخی برتے وہ میرے (گروہ) میں سے نہیں ہے‘‘۔

اس ارشاد مبارک نے قیامت تک کے لیے رشتۂ نکاح کے احترام و اعزاز کو ثبات بخش دیا اور عیسائی و ہندو تصوراتِ نفس کشی اور خشیت و تقویٰ کو بنیاد سے اُکھاڑ کر صحیح تقویٰ اور خشیت کا پیغمبرانہ تصور اور عملی نمونہ ہمارے لیے بطور روشن مثال کے پیش کر دیا ہے۔

گویا معاملہ عبادات کا ہو یا معاشرتی معاملات کا‘ ہمیں اپنی پسند یا ناپسند اور اپنے ذاتی اطمینان کی بنا پر کسی عمل کو‘ کسی خاندانی روایت کو‘ کسی رسم کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ہر وہ چیز جو قرآن وسنت کے اصولوں اور احکامات کے مطابق ہو‘ اختیار کی جائے گی اور ہر وہ عمل جو ان دو ناقابلِ تغیر اصولوں کے مطابق ہوگا‘ مطلوب و مقصود سمجھا جائے گا۔

اُوپر جس حدیث شریف کی طرف اشارہ کیا گیا وہ یہ بات بھی واضح کر دیتی ہے کہ روحانیت (spirituality) میں اضافے کے لیے اصل بنیاد نہ جسم کو بے آرام رکھنا ہے اور نہ معاشرتی زندگی کو چھوڑ کر تجرد کی زندگی گزارنا ہے بلکہ اصل روحانیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حد تک ایک کام کو کرنے کا حکم دیا ہے‘ اسی حد تک کرنے میں ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت کو ناپسند کیا (نہ چاہا) وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔ اسی بناپرایک دوسری حدیث میں رشتۂ ازدواج قائم کرنے کو ایمان کی تکمیل قرار دیا گیا۔

اسلام کا بنیادی امتیاز یہی ہے کہ وہ دین کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کرتا ہے اور معاشرتی معاملات کو محض مادی اور دنیاوی فوائد یا حصولِ لذت سے وابستہ نہیں کرتا۔ معاشرتی زندگی کی اس مرکزیت کی بنا پر سورہ النساء کے آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے انسان پر احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ اس نے اسے ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔ اس لیے اللہ سے تقویٰ اور خشیت کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اس رشتۂ رحم کو اُس مقام پر رکھے جو اس کا حق ہے۔ نہ اس میں کمی ہو نہ زیادتی۔ نہ اس کا غلام اور بندہ بن جائے نہ اس کا باغی اور مفرور بنے۔ سورۂ روم میں اس تعلق کو اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی اور آیت قرار دیا کہ وہ دو ایسے افراد کے درمیان جو کل تک اجنبی تھے‘ گہری مؤدت و رحمت پیدا کر دیتا ہے۔

خاندان کے بنیادی ادارے کا وجود میں لانا مقاصد شریعہ میں سے ایک اہم مقصد ہے۔ چنانچہ نسلِ انسانی کے تحفظ‘ انسان کی پہچان اور بقا کے لیے انسان کے خالق نے جو راستہ تجویز کیا وہ خاندان کے اخلاقی ادارے کا قیام ہے۔ سورہ النساء میں اس ادارے کے قیام کو تقویٰ یعنی اخلاقی رویے کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے محبت و استفادہ کرنے‘ تعاون کرنے اور ایک دوسرے کو یاد دہانی کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

جہاں خاندان کا ادارہ بنیادی تحفظ فراہم کرتا ہے اور بالخصوص افراد خاندان کی جان‘ دین‘ عزت و ناموس‘ املاک اور عقلی و فکری معاملات میں تقویت اور پشت پناہی کرتا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ ایک انسانی ادارہ ہونے کے سبب بعض فطری مسائل سے بھی دوچار رہتا ہے۔ یہ معاملات اس معنی میں فطری ہیں کہ نہ صرف انسانی معاشرے میں بلکہ کسی بھی معاشرتی نظم میں ان کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ جس طرح ایک بچہ ہر لمحہ خود کو ماحول اور ضروریات کے مطابق ڈھالتا ہے۔ جب وہ پہلی مرتبہ چلنا شروع کرتا ہے تو وہ سطح زمین پر بھی لڑکھڑاتے ہوئے چلتا ہے۔ پھر وہ زینہ پر چڑھنا سیکھتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے مطابق کر لیتا ہے۔ اب نہ لڑکھڑاتا ہے نہ ڈرتا ہے‘ بلکہ تیزی سے سیڑھی پر چڑھتا ہے حتیٰ کہ پلنگ پر اُچکنے کے باوجود اپنا توازن برقرار رکھتا ہے۔ ایسے ہی خاندان میں جب وسعت پیدا ہوتی ہے اور ایک گھرانے کے چار یا چھے بھائی بہنوں اور والدین کے جانے پہچانے ماحول میں ایک نئے فرد کا اضافہ ہوتا ہے تو وہ تمام مراحل جو مطابقت پیدا کرنے (adjustment) سے تعلق رکھتے ہیں فطری طور پر سامنے آتے ہیں۔

ان میں سے ایک بنیادی سوال گھر میں آنے والی دلہن یا بہو یا بھابی کے گھر کے مروجہ ماحول میں گھلنے ملنے کا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ابدی ہیں‘ اصولی بھی ہیں اور بعض معاملات میں متعین بھی۔ لیکن چونکہ اکثر مسلمان گھرانوں میں وہ چاہے پاکستان میں ہوں‘ مراکش میں ہوں‘ انڈونیشیا اور ملایشیا میں ہوں یا ترکی اور وسط ایشیا یا افریقہ میں‘قرآن و سنت کی تعلیمات پر براہِ راست غور کم کیا جاتا ہے اور مقامی رواج‘ بزرگوں کے اقوال اورخاندانوں کی اپنی روایات ہی کو اسلامی ثقافت سمجھ لیا جاتا ہے‘ اس لیے بہت سے معاملات میں ہم قران وسنت سے انحراف اور بعض میں ان تعلیمات میں غلو اور شدت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نئے آنے والے فرد کا پہلے سے موجود خاندان کے ساتھ تعلق اُس اخلاقی اور قانونی ضابطے کی وجہ سے عمل میں آتا ہے جسے ہم عقدِنکاح کہتے ہیں اور جو ایک معاشرتی عہد کے طور پر معاشرے کے افراد کے سامنے کیا جاتا ہے۔ عقدنکاح ان دو اجنبی افراد کو اخلاقی رشتے میں یکجا کردیتا ہے۔ ساتھ ہی ان دونوں سے وابستہ ان کے خونی رشتہ دار بھی ایک نئے اخلاقی اور قانونی رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ شوہر کے والدین لڑکی کے ساس سسر ہونے کے ساتھ بمنزلہ باپ اورماں کے حرام رشتے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی بیوی کی بہن اور بھائی بھی اخلاقی اور قانونی طور پر اس نئے تعلق کے تناظر میں محترم رشتہ اختیار کرلیتے ہیں۔

اسلا م نے خونی رشتہ داروں کے حوالے سے اطاعت وفرماں برداری کی حدود‘ معاشرتی اختلاط کا دائرہ‘ مادی طور پر استفادے کا طریقہ اصولی اور قانونی طور پر وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ ایک فرد اپنے ماں باپ‘ بھائی بہن‘ خالہ‘ پھوپھی‘ ماموں‘ چچا کے گھر میں بلاتکلف (اسلامی آداب کے ساتھ) جاکر کھاپی سکتا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو‘ بحث و نظر‘ حصولِ علم اور معاشرتی تقریبات میں شرکت کر سکتا ہے۔ ان رشتوں کے احترام کے پیش نظر سفروحضر میں ان پر کوئی پابندی نہیںلگائی گئی۔

ان رشتوں کے احترام کے پیش نظر بعض کی کفالت بھی فرض کر دی گئی اور بعض کے سلسلے میں عمومی حکم دے دیا گیا کہ انھیں دیا جائے (سورہ النحل ۱۶:۹۰)۔ اس کی مقدارکیا ہو‘ اسے موقع کی مناسبت سے متعین کرنے کا حق فرد کو دے دیا گیا۔ عمومی حکم یہی رہا کہ ’’عفو‘‘ یعنی جو بھی ضرورت سے زائد ہو۔

لیکن سسرالی رشتہ کے حوالے سے اصول تو متعین کردیے گئے لیکن تفصیلات میں سے بعض پہلوئوں کو دین میں آسانی پیدا کرنے کے اصول کے تحت مستقبل میں پیش آنے والے حالات کے پیش نظر اصولوں کی روشنی میں طے کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ان میں پہلا اصول جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا دین کے آسان ہونے کا اصول ہے‘ یعنی الدین یسر۔البقرہ میں بیان کر دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے دین میں دقّت‘ حرج اور مشکل کی جگہ آسانی چاہتا ہے۔ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ ایسے ہی ہر وہ عمل جو شریعت کے اصولوں سے نہ ٹکراتا ہو مباح کے دائرے میں رکھ دیا گیا اور بنی اسرائیل کی طرح سے کھوج لگالگا کر بار بار سوالات اُٹھاکر بلاوجہ اپنے لیے مشکلات پیدا کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں لیا جاسکتا کہ جس کا جو دل چاہے مباح سمجھتے ہوئے کربیٹھے۔ دین اپنے معاملات میں انتہائی سنجیدگی‘ تحقیق اور دلیل کا مطالبہ کرتا ہے اور اہلِ علم پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ جو لوگ‘ دین کے گہرے فہم سے آگاہ نہ ہوں اان میں اس کو پہنچایا جائے۔کسی بھی دَور کی فضا اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور لوگوں کی سستی اور تساہل کی بنا پر جہاں لچک کی گنجایش نہ پائی جاتی ہو وہاں بھی ’’یسر‘‘ کے اصول کے تحت ان کو اجازت دے دینا دین کے ساتھ مذاق ہے۔ لیکن جہاں پر قرآن و سنت سے دلیل تلاش کرنے کے بعد کوئی رخصت اور آسانی پائی جاتی ہو‘ اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

مناسب ہوگا کہ اس تمہید کے بعد اب ایک دو ایسے معاملات پر غور کرلیا جائے جو آج ہمارے معاشرے میں روزمرہ کے معاملات بن گئے ہیں۔ ان میں پہلا معاملہ ایک گھر میں آنے والی بہو کا اس کے دیوروں اور ساس سسرکے سامنے آنا اور ساتھ بیٹھ کر کھانے کا ہے۔ بعض حضرات نے اُس اہم حدیث کو جس میں دیور کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے لفظی معنی میں لیتے ہوئے یہ قیاس کرلیا ہے کہ اس سے بات چیت‘ اس کے سامنے عام ساتر لباس میں آنا یا ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا سب ممنوع ہے۔ دیور کو موت سے تعبیر کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ جس طرح موت بغیر اطلاع کے آجاتی ہے اسی طرح اگر مناسب اخلاقی حدود کا خیال نہ رکھا گیا تو ایک ایسا شخص جو دن رات گھر میں موجود ہے‘ غیرمحسوس طور پر بے احتیاطی اور غیرمحتاط رویے کی طرف لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب اس کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کرنا نہیں ہے۔ احتیاط‘ خشیت‘ تقویٰ اور غلو اور شدت پسندی دو الگ چیزیں ہیں یعنی دین نام ہی تقویٰ‘ احتیاط اور خشیت کا ہے لیکن وہ تقویٰ جو سنت وطیرہ سے ثابت ہو۔ وہ نہیں جو ہم بزعمِ خود اپنے ذہن میںتعمیرکرلیں اور ان رشتوں کو اُس تعلق سے بھی کم تر قرار دے دیں جو ایک اجنبی شخص کے ساتھ پایا جاتا ہے۔

قرآن و سنت نے حرام و حلال کو مبہم نہیں چھوڑا ہے‘ اس لیے کسی بھی عمل کو حرام و حلال کرنے کا حق اگر ہے تو صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کو ہے۔ متشابہات سے بچنا بھی ایمان کا تقاضا ہے لیکن مباح کو بلاوجہ حرام کے دائرہ میں لے جانا بھی دین کی حکمت کے منافی ہے۔

اسلام کی ستروحجاب کی حدود معروف ہیں۔ کوئی بھی غیرساتر لباس میں‘ خواتین کا سب کے سامنے آنا جائز قرار نہیں دے گا۔ اگر ایک لڑکی ساتر لباس میں اپنے چہرے اور ہاتھ کو چھوڑتے ہوئے تمام جسم کو ڈھانکے ہوئے ہے تو جس طرح وہ اس حالت میں گھر سے باہر جاسکتی ہے اسی طرح وہ گھر کے اندر ان کے سامنے جن سے اس کا رشتہ بازار میں پھرنے والے افراد کے مقابلے میں مختلف ہے بغیر کسی تکلف کے آسکتی ہے۔ جس عمل کو سنت نے جائز قرار دیا ہو اسے خاندانی روایات کی بنا پر ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چہرے کے بارے میں دو آرا کا پایا جانا اس میں وسعت پیدا کرتا ہے اور اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دین کے مجموعی مزاج کو دیکھتے ہوئے گھر میں مل جل کر رہنے پر ایسی ناروا پابندیاں نہ لازم کر لی جائیں‘جو لگائی نہیں گئی ہیں۔

اس کا ایک انتہائی اہم معاشرتی پہلو یہ ہے کہ نکاح محض شوہر اور بیوی کے درمیان ایک اخلاقی اور قانونی رشتہ نہیں پیدا کرتا بلکہ دو خاندانوں کے درمیان باہمی بھلائی اور معروف کے قائم کرنے میں تعاون کا رشتہ پیدا کرتا ہے جس کا مقصد انھیں قریب لانا ہے‘ فاصلے اور دُوری پیدا کرنا نہیں ہے۔ لیکن قریب لانے کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ ایک شادی شدہ خاتون چونکہ شادی شدہ ہے اس لیے وہ اپنے دیور کے ساتھ ہنسی مذاق کرے‘ اس کے ساتھ جسم ملا کر بیٹھے‘ اس سے مصافحہ کرے ‘ اس کے ساتھ تنہا کار میں ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرے یا اس کے ساتھ تنہائی میں ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھے۔ ان تمام باتوں کو چونکہ دین نے مبہم نہیں چھوڑا بلکہ متعین کر دیا ہے اس لیے ان کی ممانعت شریعت سے ثابت ہے۔

لیکن اُس سے بات کرنا‘ مناسب انداز میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا‘جس طرح ایک لڑکی اپنے حقیقی بھائی کی بھلائی چاہتی ہے اس کی بھلائی چاہنا یہ تمام معاملات نہ صرف مباح بلکہ بعض اوقات فرائض کے دائرہ میں آئیں گے۔ انھیں ممنوع قرار دینے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔

بظاہر دین کا مدعا یہی نظر آتا ہے کہ شادی کے بعد ایک لڑکے اور لڑکی کو اتنی آزادی ہو کہ وہ اپنے شوہر کے سامنے جس طرح کا لباس شوہر کو پسند ہو پہن سکے یا وہ سنگھار کرسکے جو وہ دیور یا دیگر اعزہ کے سامنے نہیں کر سکتی اور یہ اسی وقت ہوگا جب اس کے پاس محض ایک سونے کا کمرہ نہ ہو بلکہ مکان میں اتنی وسعت ہو کہ وہ بغیر کسی اور کے دیکھے آزادی سے اپنا زینت کرنے کا حق استعمال کرسکے۔ گویا دین کا رجحان یہی نظر آتا ہے کہ شادی شدہ جوڑے کو اتنی آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنی پسند کے مطابق شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا لباس اور بنائوسنگھار کرسکے جو رشتے میں مزید قربت پیدا کرنے میں مددگار ہو۔ جب قرآن کریم نے شوہر اور بیوی کو بمنزلہ لباس قرار دیا تو اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ بلاتکلف اور رکاوٹ ایک دوسرے کو اپنی زینت میں شریک کر سکیں جو وہ دیگر رشتوں کے سامنے حتیٰ کہ حقیقی رشتوں کے سامنے بھی نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب رہایش ایسی ہو جس میں ایک لڑکی اپنا یہ حق استعمال کر سکتی ہو۔

لیکن فرض کرلیا جائے کہ کسی گھر میں اتنی گنجایش نہیں ہے تو ایسی شکل میں بغیر سنگھار کے ساتر لباس میں اس کا گھر والوں کے ساتھ آکر بیٹھنا‘ ان کے ساتھ باہمی گفتگو میں شرکت کرنا‘ کھانا کھانا کسی بھی اسلامی اصول سے نہیں ٹکراتا۔

یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ ایک شادی شدہ لڑکی بنائوسنگھار سرے سے نہ کرے کیونکہ یہ حرام ہے۔ زینت کی نمایش کی ممانعت خصوصاً ان رشتوں کے سامنے جو حرام ہیں قرآن وسنت سے ثابت ہے لیکن اس کے بھی تین دائرے ہیں۔ ایک وہ جو صرف شوہر کی حد تک ہے۔ دوسرا وہ جو حقیقی ماں باپ‘ بھائی بہن کے سامنے ہے اور تیسرا وہ جو ان کے علاوہ دوسروں کے سامنے ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کئی گھنٹے تک بنائو سنگھار کروانے کے بعد جس طرح نیم عریاں لباس میں ایک دلہن کو محفل میں پیش کیا جاتا ہے وہ نکاح کے بعد صرف شوہرکے سامنے کیا جاسکتا ہے۔ حقیقی ماں باپ کے سامنے بھی نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن سرجھاڑ منہ پہاڑ بنا کر رہنا بھی تقویٰ اور خشیت کی علامت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام تو اس حد تک معاشرتی زندگی کی اہمیت کا قائل ہے کہ ایک حدیث کے مطابق جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے‘ حضرت ابوحجیفہ نے روایت کیا ہے دو انتہائی قابلِ احترام اصحابِ رسولؐ یعنی ابوالدردائؓ اور سلمان فارسیؓ کے حوالے سے جنھیں نبی کریمؐ نے ہجرت کے بعد بھائی بھائی بنا دیا تھا یہ روایت ملتی ہے کہ جب ایک مرتبہ سلمان ابوالدرداء سے ملاقات کوگئے تو دیکھا کہ ابوالدردائؓ کی بیوی معمولی لباس میں ہیں‘ کوئی بنائوسنگھار نہیں ہے‘ تو انھوں نے پوچھا تمھارا ایسا حال کیوں ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: تمھارے بھائی ابوالدرداء کو دنیا سے کوئی مطلب نہیں رہا ۔پھر میں بنائوسنگھار کس کے لیے کروں؟ جب ابوالدردائؓ گھر آئے تو سلمانؓ نے ان کا روزہ تڑوا کر ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ رات کو نوافل کی جگہ انھیں ان کی بیوی کے پاس جاکر سونے کے لیے کہا اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر پوری بات بیان کی جس پر آپؐ نے فرمایا: ’’سلمان نے صحیح بات کہی‘‘۔

گویا اپنے گھر میں ساتر لیکن ایسا لباس جو بدنما نہ ہو‘ ایسا سنگھار جو عریاں کرنے والا نہ ہو‘ اختیار کرنا سنت کا مدعا ہے۔ اسی کا نام توازن و اعتدال اور سنت کی روشنی میں عمل ہے۔

حدیث معاشرتی تعلقات کی نوعیت کو واضح کرتی ہے کہ بعض صورتوں میں انتہائی شخصی نوعیت کے معاملات میں بھی ایک دینی بھائی ’’دخل در معقولات‘‘ کرسکتا ہے اور اس کے ایسے معاملات میں بات چیت کرنے پر کوئی ممانعت دین نے عائد نہیں کی۔

بعض گھرانوں میں دیور یا سسر کے سامنے آتے وقت گھر میں پہننے کے عام لباس مثلاً شلوارقمیص‘ دوپٹہ کے اُوپر عبایا پہن لیا جاتا ہے۔ دین نے جو پابندی عائد کی ہے وہ زینت کے ظاہر نہ ہونے کی ہے۔ اگر شلوار قمیص اور دوپٹہ اس طرح سے استعمال کیا گیا ہے کہ سینہ اور تمام جسم ڈھک گیا ہے اور صرف چہرہ اور ہاتھ کھلا ہے تو اس کے اوپر سے مزید عبایا پہننا غیرضروری ہے۔ شلوارقمیص کے ساتھ جو جسم سے چپکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی اتنا باریک ہوکہ جسم کی جلد اوراُبھار نظر آرہے ہوں اہلِ خاندان کے سامنے آنے میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اپنے آپ کو اہلِ خانہ سے کاٹ کر اپنے کمرے میں بند ہو جانا دین کے مدعا سے ٹکراتا ہے۔

دین نے جن معاملات میں دو ٹوک ممانعت کی ہے مثلاً تنہائی میں کسی غیرمحرم کے ساتھ بیٹھنا اس میں کسی قسم کی لچک پیدا نہیں کی جاسکتی لیکن ایک خاندان کے افراد ہوتے ہوئے جب کہ رہایش اس نوعیت کی ہو کہ الگ باورچی خانہ نہ بنایا گیا ہو‘ الگ بیٹھ کر کھانا غلو ہی کہا جائے گا۔

اسلام کے معاشرتی نظام کی بنا پر اخلاقی روایات اور دین کی تعلیم آنے والی نسلوں میں تربیت کے ذریعے مستقل ہوتی چلی آئی ہے۔ اس میں نہ صرف بزرگوں کا بلکہ ایک بیوی کا بڑا اہم کردار ہے۔ وہ نہ صرف اپنے شوہر بلکہ اپنے ساس سسر اور دیوروں کو اپنے اخلاقی طرزعمل سے دین کی تعلیمات سے آگاہ اور متعارف کرا سکتی ہے۔ یہ اس کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے اور ابلاغ اور تبادلۂ خیالات کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا‘ اس لیے ایسے مواقع کا صحیح استعمال کرنا اور نئے حالات میں اپنا مقام اس کے اپنے لیے اور پورے خاندان کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جس تیزی کے ساتھ دو رجحانات فروغ پا رہے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ ایک طرف بعض حضرات ہر مغرب مستعار ’’ترقی پسند‘‘ عمل کو حلال کرنے کی فکر میں لگے ہیں۔ دوسری طرف بعض حضرات دین کو شدت پسند بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دین وسط کے راستے کی تعلیم دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ حرام سے بچتے ہوئے منکرات و فواحش سے بچا جائے اور مباح کو اختیار کرتے ہوئے‘ معروف کی ترویج و تلقین کے لیے تمام وسائل کو استعمال کیا جائے۔

To God Belong the Names, Most Beautiful[اسماء الحسنٰی] نیراحسان رشید۔ ناشر: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ پوسٹ بکس ۱۰۳۵‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۰۰ (بڑی تقطیع)۔ قیمت: ۹۹ ڈالر۔ ۱۵۰۰ پاکستانی روپے۔

محترمہ نیر احسان رشید ایک ممتاز پورٹریٹ مصور اورخطاط ہیں۔ انھوں نے اپنے مخصوص اور منفرد (مصوری+ خطاطی کے) امتزاجی اسلوب میں اللہ پاک کے ۹۹ ناموں کا ایک رنگین مرقع تیار کیا ہے۔ بڑی تقطیع میں اسماء الحسنیٰ کا یہ البم‘ اس کام سے ان کی لگن‘ دلی وابستگی اور مہارت کا عمدہ نمونہ ہے۔

نیراحسان کا آبائی تعلق گلبرگہ (حیدرآباد دکن) سے ہے اور انھوں نے خطاطی کی باقاعدہ تعلیم بچپن میں ایک ماہر خطاط مولوی شمشیر علی صاحب سے حاصل کی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ مولوی صاحب ٹھیک چھے بجے صبح ہمارے گھر تشریف لاتے‘ آیا مجھے وضو کرا کے تیار کراتی اور قرآن پاک کے سبق کے بعد‘ میں تختی پر لکھنے کی مشق میں مشغول ہوجاتی۔ ہر حرف‘ بار بار‘ ہزار بار لکھنے کے  بعد ہی صحیح شکل میں لکھنے میں کامیاب ہوتی۔ اس پس منظر میں انھوں نے شبیہ مصوری (portrait painting) میں تخصّص حاصل کیا۔ ۲۰ برس قبل‘ جب وہ اُردن میں تھیں‘ ایک حادثے میں معذور ہوکر انھیں چھے ماہ کے لیے پابند بستر ہونا پڑا۔ اس معذوری نے ان کا اسلوبِ حیات بالکل تبدیل کر دیا۔ مطالعہ و تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے اسماء الحسنیٰ کو برش اور رنگوں کے ذریعے صفحۂ قرطاس پر رقم کرنے کا خیال آیا۔ کام شروع کیا اور رفتہ رفتہ ان کے لیے یہ نیا تخلیقی تجربہ بنتا گیا۔ وہ رات دن اس کام میں منہمک رہتیں۔ اس دوران ان کا درد معجزانہ طور پر کم ہوتا گیا۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے تاثرات بھی ریکارڈ کرتی رہیں۔ شاعرانہ زبان و اسلوب میں‘ ان کے وہی تاثرات‘ اس خوب صورت مرقّعے کے ہر صفحے پر اللہ کے نام کے بالمقابل درج ہیں اور ساتھ ہی عربی ترجمہ بھی دیا گیا۔ یوں انگریزی کے ساتھ عربی قارئین بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ یہ ہے___ الصّبور آخری صفحے پر ہے۔اس کے بالمقابل توضیح ان الفاظ میں ہے:

The final reward shall be mine, Ya Sabur

Your blessing, I patiently wait.

ان کی مصوری پر فنّی رائے تو کوئی ماہر ہی دے سکتا ہے تاہم مصوری کے یہ نمونے بالعموم ہلکے اور خوش گوار رنگوں میں ہیں اور سادگی‘ نرمی اور دھیمے پن کا تاثر دیتے ہیں۔ پس منظر یا گرائونڈ میں ایک جھلملاہٹ سی ہے‘ جیسے بارش کے باریک قطروں کے نشانات ہوں یا ہلکی ہلکی خم کھاتی اور کہیں کہیں دائرہ کرتیں۔

مرقّع بہت اہتمام سے‘ نہایت عمدہ دبیز کاغذ پر اور بہترین طباعت کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


مبشرصحابہؓ، مولانا محمود احمد غضنفر۔ ناشر: حدیبیہ پبلی کیشنز‘ رحمن مارکیٹ‘غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۴۶‘ اعلیٰ کاغذمجلد۔قیمت: ۱۸۰ روپے۔

اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرامؓ کو اپنے راضی ہونے کی بشارت دی: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (التوبہ ۹:۱۰۰)۔ لیکن ان میں سے متعدد کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ساقیِ کوثر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام لے کر ان کو جنت کی بشارت دی۔ مولانا محمود احمد غضنفر نے ایسے ہی ۲۴مبشر صحابۂ کرامؓ کی سیرت و سوانح کی جھلکیاں اس کتاب میں ایسے دلآویز پیرائے میں پیش کی ہیں کہ قاری کتاب کے اندر جذب ہوکر رہ جاتا ہے۔ عشرہ مبشرہ وہ صحابہ کرامؓ ہیں جن کو حضوؐر نے ایک ہی نشست میں جنت کی بشارت دی‘ جب کہ ۱۴ وہ ہیں جن کو وقتاً فوقتاً آپ نے یہ بشارت دی۔کتاب کی ابتدا میں قرآن وسنت کی روشنی میں جنت کی جھلک پیش کی گئی ہے۔ ایک  انفرادیت ہرصحابیؓ کے تذکرے سے قبل ان کی شان میں تمام فرمودات رسولؐ کو یکجا کرنا ہے‘ اور آخر میں فضائل و خصوصیات کا مختصراً تذکرہ بھی موجود ہے جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوجاتی ہے۔

بہت سی خوبیوں کے ساتھ ’’ہر گُلے را خارے‘‘ کے مصداق اس میں کچھ چیزیں نظرثانی کی محتاج ہیں۔ بالخصوص صحابہ کرامؓ کے ناموں کی صحت کا اہتمام لازم ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے (ص ۱۸۶)‘ یہ صحیح نہیں۔ حضوؐر کی والدہ ماجدہ کا کوئی  حقیقی بھائی نہ تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے گھر کا سارا سامان جہاد کے لیے پیش کر دیا (ص۱۹۷)‘ یہ شرف صرف صدیق اکبرؓ کو حاصل ہوا۔ کتاب کے بیشتر الفاظ اِعراب اور علاماتِ اضافت (ہمزہ یا زیر‘ پیش) کے بغیر ہیں۔ ایسی کتابوں میں اِعراب اور علاماتِ اضافت لگانے کا اہتمام کرنا بہت ضروری ہے (بالخصوص اسما پر)۔ امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔ کتاب کی پیش کش شایانِ شان ہے۔ (طالب الہاشمی)


Lift Up Your Hearts‘ جلد دوم ‘ عبدالرشید صدیقی‘ ناشر: اسلامک فائونڈیشن‘ لسٹر۔ صفحات:۱۴۵۔ قیمت: ۵ پائونڈ۔

اسی عنوان سے ۳۰ خطبات کے ایک مجموعے کی اشاعت کے بعد‘ عبدالرشید صدیقی صاحب نے یہ ۲۵ خطبات کا مجموعہ پیش کیا ہے۔ کہاجا سکتا ہے کہ اگر پہلا حصہ نماز روزہ جیسے دینی موضوعات سے بحث کرتا تھا تو اس حصے میں دہشت گردی‘ ہم جنس پرستی‘ انفارمیشن ٹکنالوجی‘ انسانی حقوق‘ جانوروں کے حقوق‘ غیرمسلموں سے تعلق وغیرہ جیسے ’’جدید‘‘ موضوعات زیربحث آئے ہیں۔ دراصل یہ تحریریں چھے چھے‘ سات سات صفحات کے خطبات ہیں جو جہاں ضرورت ہو جمعہ کی نماز میں انگریزی زبان میںدیے جا سکتے ہیں۔ پہلے حصے میں ۳۰ موضوعات تھے اور مقدمے میں دعا کی گئی تھی کہ مصنف ۵۲ پورے کر دیں۔ دعا کچھ زیادہ قبول ہوگئی اور اب ہمارے پاس ایک سال کے لیے ۵۵ خطبات ہیں۔

دراصل یہ خطبے اپنے موضوع پر نہایت مختصر‘ جامع‘ مستند اور علمی حیثیت سے اعلیٰ معیار کے مضامین ہیں جن سے ایمان کو طاقت اور توانائی فراہم ہوتی ہے۔ انگریزی تو اب ہر ملک کی زبان ہے۔ خود ہم پاکستان میں اس کی قدر افزائی اور بیچاری اُردو کی ناقدری کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اسلامک فائونڈیشن کا اصل کام اسے چھاپنے سے زیادہ ضرورت مندوں تک پہنچانا ہے۔ یہ کس طرح ہو‘ پانچ پائونڈ میں یہ معمہ بظاہر ناقابلِ حل ہی لگتا ہے۔ (مسلم سجاد)


ماہنامہ آئین، ماڈرن ازم کا چیلنج اور اسلام‘ اشاعت جون ۲۰۰۵ئ‘ مدیر: مرزا الیاس۔ ملنے کا پتا: فرسٹ فلور‘ اے-۱/۹‘ رائل پارک‘ لاہور۔ صفحات: ۲۲۵۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

ماہنامہ آئین لاہور نے مغربی تہذیب کو سمجھنے‘ اس کے اثرات کا احاطہ کرنے اور اس کے عمق کا جائزہ لینے کے لیے اہلِ فکرودانش کی آرا اکٹھی کیں اور دنیا بھر کے اُردو داں طبقے کے لیے تین عظیم خاص نمبر ’’مغربی تہذیب‘‘ کے نام سے پیش کر دیے۔بیش تر مرزا الیاس کی ناقابلِ یقین محنت ہے‘ جس پر وہ بجاطور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

گذشتہ خاص نمبروں کی طرح مغربی تہذیب ’اشاعت خاص سوم‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ایک تحریر اور مرزا محمد الیاس صاحب کے سات تجزیاتی مضامین پر مشتمل ہے۔ اِس خاص نمبر میں ماڈرن ازم کی تعریف متعین کرنے‘ اس کے تاریخی حوالوں سے متعارف کرانے اور اس کے دور رس اثرات کی وسعت کھنگالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ سے اس کے حوالے‘ چرچ پر اس کے اثرات اور اس نظریے کے زوال پر پہلے مضمون میں بحث موجود ہے۔

لبرل ازم‘ جدیدیت کا ایک اور چہرہ ہے۔ اس کے خدوخال ’’جدید معاشروں میں مسائل‘ مشکلات اور بحران‘‘ میں واضح کیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق‘ آج کے دور کا سب سے معروف چلتا ہوا سکّہ ہے‘ خدا کو پیچھے کر دینے اور انسان اور اُس کی خواہشات کو آگے کر دینے کا کام موجودہ دور میں جس طرح ہو رہا ہے اُس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان اور انسانی حقوق کو اتنا مقام دے دیا جائے کہ خد اور اُس کے حقوق ازکارِ رفتہ محسوس ہوں‘ کیتھولک عیسائیت نے پہلے ماڈرن ازم کو پروان چڑھایا اور بعدازاں اسی ماڈرن ازم نے اس کا تمسخر اُڑایا‘ مغرب میں نشاتِ ثانیہ کے عمل کی جو جہتیں رہی ہیں اُن پر بھی سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔

مابعد جدیدیت‘ تقسیم و تنسیخ اور جدید معاشرے کے عنوان سے سرمایہ داری نظام اور جدیدیت کے بارے میں مغربی معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خاندان کو ختم کرنے اور انفرادیت کے نام پر انسانیت کو سُولی چڑھانے کی جو کوشش ہو رہی ہے اُس پر بھی تفصیلی تجزیہ موجود ہے۔

’’گلوبل کلچر‘ امکانات‘ خطرات‘‘ میں مرزا صاحب نے سرمایہ داری نظام‘ کلب کلچر‘ اور انگریزی زبان کو اقتدار دلانے کی کوششوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں خاصے کی چیز ’’تہذیبوں کا تصادم___ مقاصد اور محرکات‘‘ ہے۔ عراق پر جس طرح حملہ کیا گیا اور اس سے پہلے عرب دنیا میں جس طرح بادشاہتوں کی سرپرستی کی گئی اور اُس کے جو سنگین اثرات مرتب ہوئے وہ اس باب کا موضوع ہیں۔

یہ عظیم الشان ‘ وقیع اور جان دار تہذیبی محاکمے‘ ہر تعلیمی ادارے‘ ہر فکری مرکز اور دین اسلام سے محبت و تعلق رکھنے والے ہر شخص کی میز پر ہونا چاہییں۔ (محمد ایوب منیر)


فرینڈلی فائر‘ نگہت سیما۔ ناشر: المجاہد پبلشرز‘ ۴-دین پلازہ‘ جی ٹی روڈ‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۶۸۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

محترمہ نگہت سیما صاحبہ نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے آغاز کیا۔ اسکول کے زمانے میں اخبار میں ایک ویت نامی بچے کی تصویر دیکھی جو زمین پر اوندھے منہ گرا ہوا تھا اور ایک امریکن فوجی اسے ٹھوکریں مار رہا تھا۔ وہ بچہ مصنفہ کی عمر کا تھا۔ اسکول کی اس طالبہ نے اس بچے کا دکھ اپنا بنالیا اور کہانی لکھی ’’وانگ ھو کی کہانی‘‘۔ یہاںسے ان کے قلمی سفر کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا۔ ’’مسجداقصیٰ کی کہانی‘‘ ان کی دوسری کہانی تھی۔ نوحہ گری کا یہ سفر فلسطین‘ مشرقی پاکستان‘ افغانستان‘ کشمیر اور بوسنیا سے ہوتا ہوا اب عراق تک آن پہنچا ہے۔

زیرنظر کتاب ان کے پانچ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ’’دانہ و دام کی کہانی‘‘ اس کتاب کا پہلا طویل افسانہ ہے جو ناولٹ کہلانے کا زیادہ حق دار ہے۔ ایک کالم نویس کی کہانی جس کا قلم عراق کی حکایت خونچکاں کے سوا کچھ اور لکھنے سے انکاری ہے۔ اس کا ایڈیٹر شکوہ کرتا ہی رہ جاتاہے۔ ایک بیٹی کی کہانی‘ جس کی ماں کو ایک یہودی این جی او کی سربراہی سے فرصت نہیں‘ جو تنہائی اور سرطان کے مرض کا شکار لمحہ لمحہ موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جب ماں کی آنکھیں کھلتی ہیں تو کرنے کو کچھ نہیں رہا۔ یہ محب اللہ کی کہانی ہے جو سرتاپا محبِّ وطن تھا‘ جو وانا سے آتی تشویش ناک خبروں سے پریشان ہو کر اپنے اخبار سے چھٹی لے کر اپنے عزیزوں کا پتہ کرنے گیا اور گولی کا نشانہ بن گیا۔ اور یہ پاک فوج کے ایک بانکے افسر اسجد کی داستان بھی ہے جو وہاں غیروں کی بھڑکائی آگ کا ایندھن بن گیا۔ اس داستان میں نائن الیون کے بعد کے بہت سے تلخ حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔

فرینڈلی فائر نائن الیون کے بعد ایک امریکی دوست کی طرف سے موصول ہونے والے گالیوں بھرے خط (فرینڈلی فائر) کا جواب ہے‘ جس میں ایک پاکستانی کے المیے کی جھلک ہے جو قلعہ جنگی اور ابوغریب کی تصاویر دیکھ کر روتا بھی ہے لیکن امریکا جاکر ڈالر کما کر لانے کا آرزو مند بھی۔ ’’لاینحل‘‘ ایک ایسے پاکستانی نژاد امریکی کی داستان ہے جو امریکی تہذیب کو اس کی تمام تر آزاد روی سمیت اپنا چکا ہے‘ لیکن جب اس کے بیوی بچے ایک سکھ خاندان سے دوستی کا رشتہ استوار کرتے ہیں تو ہجرت کا وہ سفر جو اس نے اپنی ماں کے ساتھ اس کی انگلی تھام کر ۱۹۴۷ء میں کیا تھا‘ اپنی تمام تر ہولناک یادوں کے ساتھ اس کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔

باقی دو افسانے ذرا مختلف پہلوئوں کو چھوتے ہیں۔ ’’روشن چراغ رکھنا‘‘ خاندانی چپقلشوں‘‘ کی ایک ایسی داستان ہے جو ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر بکھری ہوئی ہے۔ اس مجموعے کی آخری کہانی ’’انتہا پسند‘‘ ایک اہم معاشرتی المیے کو ہمارے سامنے لاتی ہے جہاں ایک خاوند دین کی غلط تعبیر کرتے ہوئے اپنی نوبیاہتا کو اپنے لیے بھی بننے سنورنے سے روک دیتا ہے۔ بیوی جو اپنے آپ کو اس کے رنگ میں رنگنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتی چلی جاتی ہے‘اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اور جب خاوند کو اپنی غلط روش کا احساس ہوتا ہے تو وہ اللہ سے لو لگا کر دنیا کی تمام اُمنگوں اور آرزوئوں سے بے نیاز ہوچکی ہوتی ہے۔یہ تمام افسانے سبق آموز اور چشم کُشا ہیں۔ (خالد محمود)


ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ (حکایات آزادی نمبر) مدیر مسئول: الطاف حسن قریشی۔ ناشر: ۲۱- ایکڑ اسکیم‘ سمن آباد‘ لاہور۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

اس اشاعت خاص میں ۲۰۰ سالہ داستانِ آزادی کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے‘ یعنی: ۱۷۰۷ء تا ۱۸۵۷ئ، ۱۸۵۷ء تا ۱۹۰۶ء اور ۱۹۰۶ء تا ۱۹۴۷ئ۔ ’’آزادی مبارک‘‘ خصوصی کہانی سے اشاعت خاص کا باقاعدہ آغاز دل چسپ انداز میں ہوتا ہے جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قیامِ پاکستان کا عمل کس آگ اور خون کے سمندر سے گزر کر عمل میں آیا اور ہم کسی ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کے قانون کے تحت مغلیہ سلطنت کے زوال کا جائزہ اور پاکستان کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جدوجہد آزادی کے تمام اہم مراحل‘ نمایاں شخصیات‘ قائداعظم اور ان کے رفقا کی خدمات کا تذکرہ دل چسپ پیراے میں پیش کیا گیا ہے۔

علماے کرام کی ناقابلِ فراموش خدمات‘ نوجوانوں کا جذبۂ آزادی‘ خواتین کا تاریخ ساز کردار‘ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی‘ خوابِ غفلت سے بیدار کر دینے والا کلامِ اقبال اور بہت کچھ‘ تاہم دیگر شعرا کرام کے کلام کی تشنگی محسوس ہوئی۔ اقتباسات کا عمدہ انتخاب بھی خاصے کی چیز ہے‘ البتہ حوالوں کی کمی کھٹکتی ہے۔ دیگر عمومی مستقل سلسلے بھی موجود ہیں بالخصوص ڈاکٹر صہیب حسن کا  بیت المقدس کا سفر لائقِ مطالعہ ہے۔

اُردو ڈائجسٹ مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے نئی نسل کا قرض بڑی حد تک چکا دیا۔ خوب صورت سرورق‘ مناسب قیمت‘ عمدہ پیش کش متقاضی ہے کہ اس کاوش کی قدردانی ہو۔ (امجدعباسی)


تعارف کتب

  • ماہنامہ سیارہ‘ لاہور‘ اشاعت خاص ۵۲‘ سالنامہ ۲۰۰۵ئ۔ ادارت: حفیظ الرحمن احسن اور دوسرے۔ ناشر: ایوان ادب‘ چوک اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ [پاکستان میں ادب اسلامی کی تحریک کے وجود کا احساس دلانے والے رسالے ماہنامہ سیارہ نے اشاعت خاص ۵۲ پیش کی ہے۔ غزلوں‘ نظموں‘ افسانوں‘ انشائیوں اور دیگر متنوع تحریروں کے ساتھ ایک گوشۂ خاص بنام الطاف گوہر گنجینہ گوہر (۵۰ صفحات) کے نام سے ہے۔]
  • مقالاتِ اسلامیہ، پروفیسر قاری محمداقبال۔ ناشر: انجمن نوجوانانِ اسلام (رجسٹرڈ)‘ حاجی آباد‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۱۵۳۔ قیمت: ۸۰ روپے۔[ o قرآن اور تصوف o امام اعظم ابوحنیفہؒ امام ربانی کی نظر میں‘ o رسول اکرمؐ کی رفاہی منصوبہ بندی o اسلامی فلاحی مملکت اور اس کے قیام کے لیے عملی تجاویز اور دیگر چار مقالات پر مشتمل یہ کتاب مختلف مواقع پر پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔ انجمن نوجوانانِ اسلام‘ فیصل آباد کی اشاعت اسلام کے لیے علمی کاوش۔ اہم نظری و عملی موضوعات پر غوروفکر کا سامان‘ عملی اقدام اور دعوتِ عمل۔]
  • تبلیغی جماعت کی علمی و عملی کمزوریاں، ڈاکٹر محمد سلیم۔ ناشر: مکتبہ دارالحکمت‘ لاہور۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔[کتاب کا نام اگرچہ تبلیغی جماعت کی علمی و عملی کمزوریاں ہے لیکن کتاب کا بیش تر مواد فضائل اعمال میں درج بزرگانِ دین سے منسوب غیرمستند واقعات کے محاکمے تک محدود ہے۔ تبلیغی طریق کار کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک انفرادیت: مؤلف کی تبلیغی جماعت سے عملی وابستگی اور ایک مدت تک اندرون و بیرون ملک فعال و سرگرم رہنا اور تنقید قریبی مشاہدے کی بنیاد پر۔ طباعت اور جلدبندی کا عمدہ معیار۔]
  • Le Roman De Renart [لومڑ دی کہانی]‘ Pierre de Saint Clond ‘پنجابی ترجمہ: عامر ظہیر بھٹی۔ ناشر: عدنان بکس‘ دبئی پلازہ‘ 6th روڈ چوک‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۲۵ روپے۔ [فرانسیسی کلاسیکی ادب کی معروف کتاب جو دل چسپ کہانیوں پر مشتمل ہے۔ جانوروں سے متعلق ہر کہانی انسانی مزاج‘ اچھے اور برے کردار کی نشان دہی کرتی ہے۔ آخر میں مشکل پنجابی الفاظ کے معنی الگ سے دیے گئے ہیں۔ ناشر کے خیال میں عالمی گائوں میں ایک دوسرے کے قریب آنے کا تقاضا ہے کہ ایک دوسرے کے ادب سے بھی واقف ہوا جائے۔ علاقائی ادب میں ایک مفید اضافہ۔]

خالد ہمایوں ‘لاہور

’’مسلمانوں کا دل جیتنے کی امریکی کوششیں‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ) آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اخباراُمت والا گوشہ عالمی سیاست کی اونچ نیچ سے بہت آگاہی دیتا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے جون کے شمارے میں شائع ہونے والے سلیم منصورخالد کے مضمون نے پاکستان کے تہذیبی مستقبل کے بارے میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ کتنا قیامت خیز منظر ہے کہ بیرونی یلغار کے سامنے ہماری ریاستی مشینری بالکل بے بس ہوچکی ہے۔ عسکری لحاظ سے بیرونی یلغار کو روکنے والی مشینری کا حال تو ہم ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں میں بہت اچھی طرح دیکھ چکے ہیں۔ باڑ اپنے ہی کھیت کو چرنے چگنے میں اب بہت دلیر ہوچکی ہے۔ خداوندتعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔


شفیق الرحمٰن انجم ‘قصور

’’پاکستان میں خواتین کا لائحہ عمل‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ)‘ میں عورتوں کے مسائل اور ان کے حل پر جامع گفتگو کی گئی ہے۔ اس وقت مغرب‘ مشرق وسطیٰ‘ امریکا اور افریقہ میں خواتین کو جس کرب ناک صورت حال کا سامنا ہے‘ اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مغرب اس کے حق میں آواز تو اٹھاتا ہے لیکن عملی اقدام نہیں کرتا۔ پاکستان میں عورتوں پر جو مظالم ڈھائے جاتے ہیں‘ وہ عورتوں کے حقوق کی دعوے دار حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔


عطاء اللّٰہ چودھری ‘خوشاب

میری تجویز ہے کہ گھر سے باہر عورتوں سے جو خدمات لی جائیں ان کے اوقات کار مردوں کے مقابلے میں نصف ہونے چاہییں اور انھیں ٹرانسپورٹ کی سہولت لازماً فراہم ہونی چاہیے۔


خلیق الرحمٰن فائق ‘دھیرکوٹ‘ آزاد کشمیر

ترجمان القرآن اُمت مسلمہ کے سلگتے مسائل پر رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ چند پہلو غورطلب ہیں: بعض اہم مضامین کا انگریزی ترجمہ ویب سائٹ پر دینے سے قلمی جہاد کو مزید تقویت مل سکتی ہے اور دعوتِ حق کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔ فہم حدیث مفید سلسلہ ہے‘ ہر ماہ دیا جائے۔ کیسٹ سے تدوین کردہ مضامین میں ادبی چاشنی کی کمی‘ طوالت اور انداز بعض اوقات گراں محسوس ہوتا ہے۔


عزیز احمد ‘ملتان

اہلِ علم کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے آپ نے مصر کا مطالعہ شائع کیا (اگست ۲۰۰۵ئ)۔ ضرورت ہے کہ پاکستان کے حوالے سے بھی اسی نوعیت کا کوئی ہمہ پہلو مطالعہ کیا جائے۔ ہمارے ٹیکسوں سے تعلیم حاصل کر کے باصلاحیت اور قابل افراد‘ دوسرے ممالک میں محض کچھ زیادہ رقم اور آسایش کے لیے زندگی گزار دیتے ہیں اور اپنی اولاد بھی غیروں کی تہذیب کے حوالے کر دیتے ہیں۔ واپسی کے لیے ویسی ہی تنخواہوں کی شرط رکھ دیتے ہیں جیسی انھیں وہاں ریالوں‘ ڈالروں اور پونڈوں میں دی جا رہی ہے۔ معلوم تو ہو کس کس قابلیت کے کتنے کتنے لوگ کن کن ممالک کی خدمت کر رہے ہیں اور اپنے ملک کو اپنی صلاحیت اور خدمت سے محروم کر رکھا ہے‘ اور فرارِ ذہانت (brain drain) کا کیا عالم ہے؟


فضل الرحمٰن بخشی ‘برمنگھم‘ برطانیہ

ترجمان القرآن کی توسیع اشاعت کے لیے آپ کی اپیل کے جواب میں (مدیر ترجمان کی یہ اپیل ہفت روزہ ایشیا نے شائع کی تھی)‘ میں نے برطانیہ میں ۱۱‘ بھارت میں ۱۹ خریدار‘ جب کہ پاکستان میں چھے معاون خصوصی کے نام‘ پتے اور رقم ارسال کر دی ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ۱۰‘ ۲۰ فی صد قارئین بھی میری طرح کے ہوں تو اشاعت کہاں سے کہاں پہنچ جائے۔ خدا جانے علم سے محبت جن کو رکھنا چاہیے وہ کیوں ایسے ہیں۔ بھارت میں غریب سے غریب ہندو اخبار روز خرید کر پڑھتا ہے۔ مسلمان پوری بستی میں ایک اخبار بھی نہیں خریدتے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ‘ میں نے جو کچھ کیا‘ اس کو خالص اپنی رضا کے لیے قبول فرمائے۔

ترجمان: اشاعت میں اضافے کے لیے ہم نے اپنے تمام قارئین کو پیش کش کی تھی کہ وہ چار پتے ارسال کریں‘ ہم انھیں نمونے کا پرچہ ارسال کر دیں گے۔ سب قارئین اس پیش کش سے فائدہ اٹھاتے تو ایک بہت بڑے حلقے میں ترجمان القرآن پہنچ جاتا۔ فضل الرحمن بخشی صاحب کی طرح بہت سے دیگر احباب بھی اپنے اپنے دائرے میں جذبے اور خلوص سے اشاعت کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب رفقا کی کوششوں کو قبول فرمائے اور ترجمان کا پیغام وسیع سے وسیع تر حلقے میں پھیلے۔

تقویٰ

یہ تقویٰ جس کا مرکز دل ہو‘ جو انسان کی زندگی کے تمام اطراف کو روشن کرے‘ جو ہر شعبۂ زندگی میں اس کو اللہ کے حدود کا پابند بنائے‘ جس میں کامل توافق ہو‘ کامل اعتدال ہو‘ پوری ہمہ گیری ہو‘ جو نہ ایک قدم اللہ کی حد سے آگے بڑھنے پائے‘ نہ ایک قدم اس سے پیچھے ہٹنے پر راضی ہو‘ جو دل کو مجبور کرے کہ وہی سوچے جو سوچنا چاہیے‘ آنکھوں کو مجبور کرے کہ وہی دیکھیں جو دیکھنا چاہیے‘ کانوں کی نگرانی کرے کہ وہی سنیں جو سننا چاہیے‘ زبان کی حفاظت کرے کہ وہی بولے جو حق ہے‘ اور ہاتھ پائوں کی دیکھ بھال کرے کہ اسی کام کے لیے اور اسی راہ میں اٹھیں جو اللہ نے انسان کے لیے کھولی ہے‘ بطن و فرج پر پہرہ بٹھا دے کہ یہ کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام نہ کرلیں۔ جو خدا کی صحیح معرفت‘ آخرت کے سچے خوف‘ احکام الٰہی کے سچے جذبۂ احترام کے ساتھ ہو‘ جو انسان کے ظاہر میں بھی ہو‘ اور اس کے باطن میں بھی ہو‘ خلوت میں بھی ہو اور جلوت میں بھی ہو۔

یہ تقویٰ ہے جس کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ یہی تقویٰ ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے کو رونق و جمال بخشتا ہے (اوصیک بتقوی اللّٰہ فانہ ازین لامرک کلہ)۔ یہی تقویٰ ہے جس کو قرآن میں لباس سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جس طرح لباس زندگی کو سردی و گرمی سے اور میدانِ جنگ میں خطرات سے بچاتا ہے اسی طرح یہ بھی انسان کو مادی و روحانی مہالک سے بچاتا ہے‘ جس طرح لباس انسان کی سترپوشی کرتا ہے اسی طرح یہ بھی انسان کو معاصی سے بچاکر اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور پھر جس طرح لباس انسان کو زینت و جمال بخشتا ہے اسی طرح تقویٰ بھی انسان کی ساری زندگی کو سنوار دیتا ہے۔ یہی وہ تقویٰ ہے جس کی تعلیم دینے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوذرؓ کو برابر چھے روز تک متنبہ کرتے رہے کہ غور سے سننا کچھ باتیں کہنی ہیں اور چھے روز کے بعد زبان حق ترجمان جو گویا ہوئی تو پہلی بات یہ ارشاد ہوئی کہ اوصیک بتقوی اللّٰہ فی سرامرک وعلانیہ۔ (’’اشارات‘‘، مولانا امین احسن اصلاحی‘ترجمان القرآنجلد ۲۷‘ عدد۳-۴‘ رمضان و شوال ۱۳۶۴ھ‘ ستمبر و اکتوبر ۱۹۴۵ئ‘ ص ۱۰-۱۱)