بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان کی ۵۷ سالہ تاریخ کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ یہاں ہر سربراہ ریاست یا رئیس مملکت کا ہر بیرونی دورہ ہمیشہ ’کامیاب‘ یا پھر ’بہت کامیاب‘ ہی رہا ہے اور اس کے نتائج اور ثمرات خواہ کچھ بھی ہوں‘ نہ اس کی کامیابی پر کبھی کوئی حرف آیا اور نہ تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے والوں میں کوئی کمی ہوئی۔ اس تاریخی پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا ان کے چھے سالہ دوراقتدار کا نواں دورہ ‘جو ۱۳ سے ۱۸ ستمبر ۲۰۰۵ء تک رہا‘ اپنی ساری تندوتیز جولانیوں‘ صحافتی مقابلوں اور کہہ مکرنیوں‘ سیاسی رہنمائوں سے مذاکرات اور ’عدو‘ سے اتفاقی ملاقات‘ روشن خیال خواتین اور دل پسند این جی اوز کے نمایندوں سے لفظی مچیٹوں اور پاکستانی خواتین کی مظلومیت اور ’کاروباریت‘ کو طشت ازبام کرنے کی خدمات اور دوسری بے شمار جرأت مندانہ پسپائیوں کے باوجود نہ صرف ’کامیاب‘ بلکہ ’بہت ہی کامیاب‘ ہی قرار دیا جائے گا۔ سرکاری میڈیا اور لبرل دانش ور اور قلم کار جو بھی کہیں اور لکھیں‘ آج کی دنیا میں حقیقت کو پردوں میں چھپانا ممکن نہیں رہا۔ امریکا کی قیادت سے ان کی دوستی اور اشتراکِ مفاد اور یہودی لابی سے نیا نیا عشق اپنی جگہ‘ لیکن جمہوری معاشرے اور آزادیِ صحافت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ حقائق سامنے آکر رہتے ہیں اور معاملہ خواہ نکسن کے واٹرگیٹ کا ہو یا کلنٹن کے مونیکا سے معاشقے کا___ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوکر رہتا ہے۔
۱- دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کا کردار بحیثیت حلیف اور تابع مہمل۔ ہر تقریر اور ہر ملاقات میں یہ موضوع سرفہرست رہا حالانکہ یہ نہ ہمارا مسئلہ ہے اور نہ ہمیں اب اس سے کوئی فائدہ ہو رہا ہے‘ بلکہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
۲- پاکستان اور امریکا کے تعلقات۔ خصوصیت سے بھارت سے امریکا کے بڑھتے ہوئے اسٹرے ٹیجک شراکت (partnership) کے پس منظر میں یہ تعلق پاکستان کے لیے اب ایک فیصلہ کن مرحلے (moment of truth) میں داخل ہوگیا ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ اب صاف معلوم ہوجانا چاہیے کہ پاکستان سے امریکا کے تعلقات کا موجودہ مرحلہ حقیقی دوستی اور رفاقت کا ہے یا محض وقتی ضرورت کی آشنائی کا۔ جنرل مشرف کا ٹائم میگزین کو حالیہ انٹرویو (نوائے وقت/ ڈان‘ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۵ئ) بھی امریکا کی سردمہری کا اعتراف ہے۔
۳- کشمیرکے سلسلے میں کسی حقیقی پیش رفت کی کوشش۔ صدر بش کی مداخلت اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے نیویارک کی ملاقات اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔
۴- پاکستان کے اسرائیل سے روابط استوار کرنے کے سلسلے کو آگے بڑھانا۔ اس میں اسرائیلی وزیراعظم شارون سے طے شدہ پروگرام کے تحت ’اتفاقی ملاقات‘، ’ورلڈ جیوش کانگرس‘ سے خطاب اور امریکا کی یہودی لابیز سے راہ و رسم پیدا کرنا اور اس سلسلے میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں پاکستان کے اصولی اور تاریخی مؤقف سے انحراف اور کسی طرح اس کا جواز پیش کرنا شامل ہے۔
۵- پاکستان کے امیج کو درست کرنے کی کوشش اور اس سلسلے میں خصوصیت سے پاکستان میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے باب میں جو پروپیگنڈا ہو رہا ہے‘ اس کا توڑ کرنا۔
یہ تھے پانچ اہداف۔ ان میں سے کسی ایک کے سلسلے میں کوئی حقیقی تو کیا‘ رسمی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔ بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ ساڑھے چار گھنٹے کی ملاقات میں بھی بھارت اپنی پوزیشن سے ٹس سے مس نہیں ہوا اور صدر بش نے ہر معاملے میں سرخ جھنڈی دکھا دی۔ اسرائیلی کی یہودی لابی نے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور مکھن لگانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ لیکن عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا‘ البتہ اس دورے کا نقصانِ عظیم وہ ہے جو پاکستان کے امیج کوپہنچا ہے اور اس کے ساتھ نائن الیون کی پسپائی کے بعد پہلی بار پاکستان کے ساتھ خود جنرل پرویز مشرف کے امیج پر وہ چوٹیں لگی ہیں کہ ع
پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!
اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو‘ اس کی زبان اور گندے الزامات‘ پھر اس بیان کا انکار‘ پھر اخبار کی طرف سے اصل بیان کی اشاعت اور جنرل صاحب کی آواز میں ۹ منٹ کے اس حصے کو انٹرنیٹ پر ڈال دینا‘ جس میں وہ ساری باتیں موجود ہیں جن کا وہ انکار کر رہے تھے اور یہاںتک کہہ رہے تھے کہ:
’’مجھے پورے خلوص کے ساتھ یہ کہنے دیجیے کہ میں نے ایسا کبھی نہیں کہا‘ اور یہ غلط منسوب کیا گیا ہے۔ مشرف نے خواتین کے گروپ سے کہا ’’یہ میرے الفاظ نہیں ہیںاور میں یہ بھی کہوں گا کہ میں اس قدر احمق اور بیوقوف نہیں ہوں کہ اس قسم کا تبصرہ کروں‘‘۔
جنرل صاحب کے امیج پر یہ چاند ماری جاری تھی کہ روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کے اجتماع میں ان کی برہمی اور خواتین کو دعوت مبارزت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بس چند جھلکیاں:
انھوں نے کچھ غیرسرکاری تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو خواتین کے مسائل ملک سے باہر اٹھاتے ہیں‘ ان کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں اور وہ ایسے لوگوں کو دیکھ لیں گے۔ انھوں نے غیر سرکاری تنظیموں کو تنبیہہ کی کہ ’میں ایک سپاہی ہوں اور مجھے لڑنا آتا ہے۔ میں آپ سے لڑوں گا اور اگر آپ چیخیں گی تو میں آپ سے زیادہ چیخ سکتا ہوں‘۔
صدر مشرف کے خطاب کے بعد سوال جواب کے دوران جب ایک خاتون نے کہا کہ وہ خواتین جو امریکا میں پاکستانی خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں‘ بے حد مخلص ہیں اور پاکستانی صدر کو ایسی بات نہیں کہنی چاہیے‘ تو اس بات پر جنرل مشرف برہم ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ ’آپ جیسے لوگ قومی مفاد کے خلاف ہیں‘ [انگریزی پریس نے جو الفاظ دیے ہیں‘ وہ یہ ہیں: you are against me and against Pakistan]۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے لوگوں کے اپنے معاشی یا سیاسی مفاد ہوتے ہیں جس کی خاطر وہ ان واقعات پر خاص روشنی ڈالنا چاہتے ہیں جس سے پاکستان کے وقار کو ٹھیس پہنچے۔ اس موقع پر امریکا میں پاکستان کے سفیر جہانگیر کرامت نے اٹھ کر صدر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مائیک خود سنبھال لیا۔
اس تقریب میں شریک ڈاکٹر اسماء چودھری نے صدر کے خطاب پر کہا کہ ’میں شدید غصے میںہوں‘ صدر صاحب غنڈوں کی طرح باتیں کر رہے ہیں‘۔
ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ان دونوں واقعات (واشنگٹن پوسٹ کا انٹرویو اور روز ولٹ ہوٹل میں خواتین کی کانفرنس) کے ردعمل میں عالمی میڈیا میں جو رسوائی پاکستان کی ہوئی‘ اس کا احاطہ کرسکیں۔ اس ہفتے میں جو نقصان پاکستان کو پہنچا اور جس طرح اس کا امیج مجروح ہوا وہ ہماری تاریخ کا سانحہ اور قدرت کی طرف سے جنرل صاحب کے کیے دھرے کا جواب ہے‘ جو انھی کے ہاتھوں انھیں ملا جن کی خاطر وہ پاکستان‘ اسلام‘ فلسطین‘ کشمیر ہر ایشو پر مغرب کی استعماری قوتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
اس ردعمل کا ایک نمونہ ہم پیش کرتے ہیں جو ان کے ایک بڑے مداح اور روشن خیال اعتدال پسندی کے عاشق ولیم می لام (Wiliam Milam)کا ہے جو پاکستان میں امریکا کے سفیر رہے ہیں اور آج کل ووڈرو ولسن سینٹر کے فیلو ہیں۔ اپنے تبصرے کا آغاز اس طرح کرتے ہیں کہ آج کل پاکستان امریکا میں اپنے امیج کو درست کرنے کے لیے مناسب مشیر (consultant) کی تلاش میں ہے جس کا اشتہار بھی دیا جا رہا ہے لیکن ضرورت پاکستان کے امیج سے کہیں زیادہ خود صدرصاحب کو صحیح مشورہ دینے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ صدر مشرف نے اپنے کارناموں پر جن کو وہ پہلے بھی بیان کرتے رہے ہیں‘ اپنے آپ کو خوب شاباش دی۔ لیکن مشیر کی اصل ضرورت تو مختاراں مائی جیسے مسئلے پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ان تنظیموں کے ہاتھ آگیا جو پاکستان کا امیج تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ امریکا میں مشرف کی اوّلین ترجیح خواتین کے مسائل تھی‘ لیکن انھوں نے جو کچھ کہا اس نے معاملات کو مزید خراب کر دیا۔ سب‘ صرف خواتین ہی نہیں‘ پاکستان کے اندر اور باہر ناراض ہوئے۔
سابق امریکی سفیر پاکستانی اخبار ڈیلی ٹائمز سے پاکستان میںصرف ایک دن میں ہونے والے واقعات اور بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے (subversion) کے شواہد کا حوالہ دینے کے بعد لکھتا ہے:
روشن خیال اعتدال پسندی یا بیرونی دنیا میں ایک بہتر امیج محض لفاظی سے اور وہ بھی بے نقط لفاظی سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے حکومت کو زمینی حقائق کو درست کرنا چاہیے‘ انسانی حقوق کا بہتر تحفظ ہونا چاہیے‘ ایک مختلف نصاب کے تحت بہتر تعلیم ہونی چاہیے‘ دہشت گردی اور عورتوں اور بچوں کے خلاف مظالم کے لیے بہتر نفاذ قانون ہونا چاہیے۔
یہ ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں پاکستان اور جنرل صاحب کے امیج کے کچھ نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔ جنرل صاحب گئے تو تھے پاکستان کا وقار بڑھانے اور بلند کرنے(image building) کے لیے اور اقوام متحدہ میں اس تاریخی موقع پر پاکستان اور اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے کے دعوے کے ساتھ‘ مگر حاصل کیا ہوا؟
ع بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رسوائی کی
پاکستان اپنے اہداف میں سے کسی ایک کی طرف بھی ایک انچ پیش رفت نہیں کرسکا۔ اُمت مسلمہ کے تصورات اہم ترین مسائل ناگفتنی ہی رہے اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ‘ یعنی مسئلہ فلسطین مزید کنفیوژن‘ انتشار اور بے وقعتی کا شکارہوگیا۔ اقوام متحدہ کی تشکیل نو اور اس میں ملت اسلامیہ کے کردار کا خواب‘ خواب گراں ہی رہا اور ان سب پر مستزاد پاکستانی عورت کی جس طرح سربراہِ مملکت کے ہاتھوں برسرِعام تذلیل ہوئی‘ اس کی مثال تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ کونڈولیزارائس جنرل صاحب کو جتنابھی ’غیرمعمولی انسان‘ (extraordinary person) قرار دیتی رہیں اور یہودی لابی انھیں ’ناگزیر انسان‘(indispensible) کہہ کر کتنا ہی مکھن لگائے‘ حقائق کی زبان پکار پکار کرکہتی ہے کہ معاملہ چاہے وردی کا ہو یا سچائی کا‘ سیاسی تدبر کا ہو یا تحمل اور بردباری کا‘ جوش کا ہو یا ہوش کا‘ پاکستان کا امیج تو اس دورے میں بری طرح مجروح ہوا ہی ہے لیکن خود جنرل صاحب کی شخصیت‘ جس کو اب تک پاکستان سے الگ کر کے تعریف و توصیف کا سزاوار سمجھا جاتا تھا‘وہ بھی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے اور بقول میردرد ؎
تہمتیں چند اپنے ذمے لے چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کرچلے
ہم نے تاریخ اور عمرانی علوم کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے‘ اس کی روشنی میں یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ جنرل صاحب امریکا گئے تو اس توقع پر کہ ۲۰۰۷ء کے بعد بھی اپنے دو’تاجوں‘ کو مزید مہلت دلوالیں گے مگر ان سات دنوں میں جو کچھ خود انھوں نے اپنے ساتھ کیا‘ اس سے جس عمل کا آغاز ہوگیا ہے اسے چرچل کے الفاظ میں: ’اختتام کا آغاز‘ (beginning of the end) ہی کہا جا سکتا ہے۔ کسی فرد اور ملک کے قابلِ اعتماد ہونے اور اس کی ساکھ قائم ہونے کا انحصار اس کی بات کے سچ ہونے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اس معاشرے میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور جسے مہذب معاشرہ شمار کیا جاتا ہے قیادت کی طرف سے جھوٹ اور غلط بیانی ناقابلِ معافی جرم ہے۔ بڑی سے بڑی غلطی سے درگزر ممکن ہے مگر دروغ حلفی (perjury) ناقابلِ معافی ہے۔ امریکا میں تو اس جرم پر صدرمملکت کا مواخذہ (impeachment) کیا جاسکتا ہے اور ہوا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے جنرل صاحب کے ۱۳ ستمبر والے انٹرویو کو ان کی اپنی آواز میں انٹرنیٹ پر ڈال کر ہماری رسوائی کا جو سامان کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری جنرل صاحب اور ان کی جرأت کے سوا کسی پر نہیں۔ ان کے سیاسی ترجمان (spin-doctors) جو کچھ بھی کہیں‘ پاکستان کے حقیقی بہی خواہ اس صورت حال پر جتنا بھی افسوس کریں کم ہے۔
مسلمان ملکوں کی قیادت سے یہ توقع تھی کہ اقوام متحدہ کے اس ۶۰سالہ سربراہی اجلاس کے موقع پر اُمت کے تصورات‘ عزائم اور مسائل کی مؤثر اور مدلل نمایندگی کریں گے۔ لیکن افسوس ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد کے سوا کسی ایک نے بھی ایمان اور جرأت کے ساتھ ان مسائل اور امور کا کوئی ذکر نہیں کیا جو اُمت کی اصل ترجیح ہیں۔ بش سے لے کر مشرف تک کی تقاریر کو کھنگال ڈالیے‘ معلوم ہوتا ہے کہ ’دہشت گردی‘ ہی آج کی دنیا کا اصل مسئلہ ہے حالانکہ یہ امریکا کا ایجنڈا ہے۔ عالمِ اسلام یا انسانیت کا مسئلہ نہیں۔ اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقاریر اور اس کی آخری قرارداد میں ’دہشت گردی‘ اور اس پر اُکسانے (incitment)کو وقت کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ دنیا دیکھ رہی ہے اور اہلِ نظر اس کا اب کھل کر اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکا نے دہشت گردی کو دنیا پر اپنی بالادستی (hegemony) اور تحکم قائم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کو بہانہ بناکر افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا ہے اور وہاں کے وسائل کو اپنے تصرف میں لا رہا ہے‘ نیز پوری دنیا کو زیادہ غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔۱؎
آج تک کسی نے دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں کی۔ اس موقع پر بھی اقوام متحدہ سابقہ ۵۰ سالوں کی طرح کوئی تعریف کرنے سے قاصر رہی ہے اور اگلے سال اس کے لیے کانفرنس کا اعلان کیا ہے مگر اس بے نام (nameless) غیرمرئی (faceless) اور ناقابلِ گرفت (elusive) دشمن کے خلاف جنگ کو ہر مسئلے پر فوقیت دی ہے اور جو ممالک عملاً دنیا میں سب سے زیادہ ظلم اور دہشت گردی پھیلا رہے ہیں‘ یعنی امریکا‘ اسرائیل‘ بھارت اور روس وہ ہرمواخذے سے بالا ہیں۔ ہمارے جرنیل صاحب نے بھی دہشت گردی کے اسباب کے بارے میں تو بڑے ادب کے ساتھ چند جملے کہے ہیں لیکن سارا زور دہشت گردی اور انتہاپسندی کو قوت سے ختم کرنے پر ہے حالانکہ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ دنیا بھر کے عوام اس کے خلاف صداے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ اس ہفتے انگلستان میں لاکھوں افراد نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت میں فقید المثال مظاہرے کیے ہیں۔ عالمی راے عامہ کے سارے جائزے ہواکا یہ رخ بتا رہے ہیں دنیا کے عوام کی ۷۰ سے ۹۰ فی صد آبادی اس کے خلاف ہے۔ خود امریکا میں اب ۶۱ فی صد افراد اس جنگ کو لاحاصل قرار دے رہے ہیں اور اس جنگ کے خلاف احتجاجی تحریک روز بروز مؤثر ہو رہی ہے۔
موقع ایک ہی دفعہ ملتا ہے۔ اگر جناب بش کترینا سے سبق سیکھنا چاہیں تو ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے نائن الیون کے مینڈیٹ کو کسی نئے اور بامعنی مینڈیٹ سے بدل لیں۔ اگر یہ ہوجائے تو کہا جا سکے گا کہ کترینا نے نیو آرلینز تباہ کردیا لیکن امریکا کو بحال کرنے میں مدد دی۔ اگر جناب بش اپنی سیاست حسبِ معمول جاری رکھیں تو ہر موڑ پر انھیں مخالفت کا سامنا ہوگا۔ گویا کہ کترینا نے ایک شہر اور ایک صدر کو تباہ کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بش اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ دم توڑ رہی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف اسی جرأت کے ساتھ بش کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جس جرأت سے ۱۳ستمبر ۲۰۰۱ء کو سجدہ ریز ہوئے تھے۔
نائن الیون کے چار سال بعد امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف کیا کسی حقیقی کامیابی کا ایمان داری سے دعویٰ کر سکتے ہیں؟ جواب ہے: کوئی خاص نہیں۔ نہ صرف یہ کہ دہشت گردی موجود ہے بلکہ یہ بڑھ رہی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال دنیا بھر میں دہشت گردی کے ۶۵۱ نمایاں حملے ہوئے جو ۲۰۰۳ء کی تعداد کا تین گنا ہیں۔ یہ تعداد ان دو عشروں میں سب سے زیادہ ہے جب سے واشنگٹن نے یہ اعداد و شمار جمع کرنے شروع کیے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا انحصار اس بات پر تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جمہوری انقلاب کا نسخہ بروے کار آئے۔ اصل تعجب کی بات امریکی عسکری طاقت کی ناکامی ہے۔ اس نے قبضہ تو کیا ہے لیکن تعمیرنو کی صلاحیت نظر نہیں آتی۔ سخت مزاحمت کی بناپر زمینی حقائق اور مطلوبہ اہداف کی وسیع خلیج نے امریکی راے عامہ کو متزلزل کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اصل الزام یہ ہے کہ یہ جن قوتوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے‘ انھی کے لیے بھرتی کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ (خلاصہ)
گارڈین کا اداریہ بھی نیویارک ٹائمز کے مقالہ نگار مارک ڈینر (Mark Danner)کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں "Al-Qaidaism" کا عنصر رونما ہوگیا ہے اور اس کے آسانی سے ختم ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ اداریے کا خاتمہ اس انتباہ پر ہے کہ:
اگر موجودہ نسل امریکی طاقت کے مقابلے میں نائن الیون واقع کر سکتی ہے تو عراق سے واپسی سے ظاہر ہونے والی امریکی کمزوری کے مقابلے پر اگلی نسل کیا کچھ کرے گی۔ ۲۰۰۱ء کے بعد بن لادن کی تنظیم کو نقصان پہنچا ہے‘ وہ منتشر ہوا ہے اور بہت سی جگہ اس کا کام غیر پیشہ ور نوآموزوں کے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ جڑواں ٹاوروں پر حملے کے چار سال بعد دنیا اس کے مقاصد کے لیے اتنی سازگار نظر آئے گی۔
گارڈین کا یہ تجزیہ منفرد نہیں۔ دنیا بھر کے اہل فکرودانش اپنے اپنے انداز میں یہی بات کہہ رہے ہیں لیکن اگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی تو وہ صدر بش‘ ٹونی بلیر اور خود ہمارے جنرل پرویز مشرف ہیں جو ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ سب ایک ہاری ہوئی جنگ میں اپنے اپنے ملکوں کو جھونکے ہوئے ہیں۔ جرنیل صاحب نے اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے عوام کو چھوڑ کر جنگ کی آگ بھڑکانے والے بش اور بلیر کا ساتھ اختیار کیا ہے اور پاکستان اور اس کی افواج کو بھی اس جنگ میں زخم خوردہ کر رہے ہیں۔ امریکا سے ہم کو نہ کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم اس جنگ کی آگ میں آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
افغانستان جس سے ہمارے بہترین تعلقات تھے‘ آج اس میں ہمارے خلاف ہر سطح پر لاوا پک رہا ہے۔ ہماری سرحدیں غیرمحفوظ ہوگئی ہیں اور ہم جھنجھلا کر باڑ لگانے کی باتیں کر رہے ہیں___ وہ راستہ جو اسرائیل نے فلسطین میں اور بھارت نے کشمیر میں اختیار کیا ہے اور ناکام ہیں۔ ہماری فوجیں وزیرستان میں اپنے ہی بھائیوں سے لڑ رہی ہیں اور گذشتہ سال کے آپریشن میں ۲۸۰ سے زیادہ ہمارے فوجی جان دے چکے ہیں اور ۶۰۰ زخمی ہیں‘ جب کہ مقابلہ کرنے والوں میں سے بھی ۴۰۰ کے قریب ہلاک ہوئے ہیں اور امن اب بھی عنقا ہے بلکہ کور کمانڈر اور گورنر بھانت بھانت کی بولی بول رہے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ نام نہاد جنگ ایک مبنی برظلم کارروائی ہے‘ یہ صرف امریکی استعمار کا کھیل ہے جس میں ہم اپنے‘ اُمت مسلمہ کے اور پوری دنیا کے عوام سے کٹ کر صرف امریکی نیوکون (new-con)‘ وہاں کے صہیونیوں اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے والی موجودہ امریکی قیادت کا دم چھلّا بن گئے ہیں۔ افسوس ہم کو خود امریکی عوام کے جذبات اور احساسات کا بھی ادراک نہیں جو بش کی اس جنگ گردی کے خلاف نوحہ کناں ہیں۔ امریکی عوام کے جذبات کا اندازہ کرنے کے لیے امریکا کی نامور شاعرہ شارون اولڈز (Sharon Olds) کا وہ خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو اس نے واشنگٹن کے مشہور زمانہ National Book Festival میں‘ جو ۲۴ ستمبر ۲۰۰۵ء کو واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا‘ شرکت نہ کرنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے لیڈی لارابش اور صدر بش کو لکھا ہے اور جس کا متن امریکی جریدہ The Nationنے شائع کیا ہے۔
شارون اولڈز کو اس اہم تقریب میں خطاب کرنا تھا اور فرسٹ لیڈی کی دعوت پر عشائیے میں شرکت کرنی تھی لیکن اس نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ اسے ان ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ہوگا جو عراق کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے معصوم انسانوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ وہی ہاتھ جنھیں چومنے کے لیے ہمارے حکمران بے چین ہیں۔
امریکا کی ایک معزز شاعرہ اور ادیبہ وہ بات کہہ رہی ہے جو مسلمان حکمرانوں اور دانش وروں کو کہنی چاہیے تھی اور اقوام متحدہ کے ایوانوں کو اس کی گونج سے بھر جانا چاہیے تھا۔ لیکن مسلم ممالک پر قابض حکمران صدر بش سے مصافحہ کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں اور خود اپنے لوگوں کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں ان کے سپاہی بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں جنرل پرویز مشرف کے دورۂ امریکا کا سب سے افسوس ناک پہلو اس نام نہاد دہشت کی جنگ کے دلدل میں پاکستان کو پھنسانا اور مزید پھنسانے کے لیے آمادگی کا اظہار ہے۔ حالانکہ یہ موقع اس جنگ کا پردہ چاک کرنے اور اس کے خلاف عالمی راے عامہ اور مسلم ممالک اور آزادی پسند اقوام کی قیادتوں کو گومنظم اور متحرک کرنا تھا۔ اگر ہم نے یہ کردار ادا کیا ہوتا تو اقوام متحدہ کا نقشہ بدلنے لگتا اور عالمی حالات کسی دوسرے ہی رخ پر مڑنے لگتے لیکن ہم تو دوسروں کے بنائے ہوئے جال میں اس بری طرح پھنس گئے ہیں کہ ع
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اس وقت دنیا میں ایک خاص منصوبے کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو‘ اور ان کے بنیادی عقائد کو بالعموم اور جہاد‘ اسلامی ریاست اور اصول حکمرانی کو خصوصیت سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیز اسلامی تعلیم اور مسلمانوں کا تاریخی اور روایتی تعلیمی نظام خصوصی ہدف ہیں۔ ضرورت تھی کہ اس اسلام فوبیا کا بھرپور رد کیا جاتا اور اس کے خلاف مؤثر اور منظم آواز اٹھائی جاتی لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر خود اسلام کی تراش خراش اور ایک معذرت خواہانہ اندازِ گفتگو اختیار کیا گیا اور ایک تاریخی موقع کو ضائع کر دیا گیا۔
عالمِ انسانی کے لیے اس وقت دو مسئلے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک امریکی استعمار کی نئی رو جو سیاسی‘ عسکری‘ معاشی‘ تہذیبی اور نظریاتی طور پر دنیا پر امریکی اور مغربی نظریات‘ تصورات اور سیاسی اور عسکری بالادستی مسلط کرنے سے عبارت ہے اور جس کے بارے میں کوئی پردہ بھی نہیں رکھا جا رہا۔ امریکی صدر نے صاف کہا ہے کہ ان کی لڑائی اپنی اقدار اور مغربی جمہوریت اور سرمایہ داری کو دنیا میں پھیلانے کے لیے ہے۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ایک جملے میں پوری بات یوں ادا کی ہے جسے سائمن جنکس (Simon Jenkus)نے دی گارڈین میں (بحوالہ دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۵ئ) میں نقل کیا ہے:
لیکن ٹونی بلیر ہمیں بتاتا ہے کہ بندوق کی نالی کے ذریعے پیش کی گئی مغربی اقدار ہی بے چارے مسلمان کو اس کے اپنے بدترین دشمن‘ یعنی خود اپنے آپ سے بچا سکتی ہیں۔
fighting not for territory but for values
اور ہنری کسنجر نے صاف لفظوں میں صدربش کو مشورہ دیا ہے کہ نائن الیون ایک تاریخی موقع ہے جس کے تحت امریکا کو دنیا پر اپنا اقتدار اس طرح مستحکم کرلینا چاہیے کہ اسے مستقبل قریب میں کوئی خطرہ نہ رہے۔ یہی وہ ہدف ہے جس کے حصول کے لیے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ پیشگی حملے‘ حکومتوں کی تبدیلی کے نظریے پیش کیے گئے اور اب تازہ ترین نئے نیوکلیر ڈاکٹرائن ہے جس کے مطابق ہر اس ملک کے نیوکلیر اثاثہ جات تباہ کیے جاسکتے ہیں جن کے بارے میں امریکا کو یہ واہمہ ہے کہ وہ اس کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں یا وہ اس کے زعم میں کسی دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں میں آسکتے ہیں۔
اس وقت امریکا کا یہ سامراجی ایجنڈا دنیا کے امن اور تمام اقوام کی آزادی اور حاکمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ان حالات میں اُمت مسلمہ کی قیادت کا فرض تھا کہ اس خطرے کو مؤثر انداز میں‘ دلیل کی قوت کے ساتھ بے نقاب کرے‘ اس کے خلاف اقوام عالم کو منظم کرے اور حکومتی اور عوامی محاذ پر وہ حالات پیدا کرے کہ اس نئے سامراج کامقابلہ کیا جا سکے اور اس کے مقابلے میں عالمی امن کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کو مضبوط کرے‘ اس پر پانچ ملکوں کی اجارہ داری کا خاتمہ کرانے کی تحریک کو تقویت بخشے‘ بین الاقوامی قانون کی بالادستی کے لیے تحریک چلانے اور دنیا میں ایک حقیقی تکثیری نظام (pluralistic order) کے قیام کی سعی کرے جس میں تمام ممالک‘ تمام تہذیبیں‘ تمام مذاہب‘ اور تمام اقوام عزت اور آزادی کے ساتھ باہمی تعاون اور اشتراک سے زندگی گزار سکیں۔ ایران کے صدر نے اس طرف ہلکا سا اشارہ کیا لیکن جنرل پرویز مشرف اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کو ادنیٰ سی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اس بنیادی عالمی مسئلے کی طرف اقوام عالم کی توجہ دلانے اور عالمی راے عامہ کو مسخر کرنے کی کوشش کریں۔
عالم انسانیت کا دوسرا بڑا مسئلہ عالمی سطح پر انصاف کا فقدان اور دولت اور اقتدار کی ایسی ناہمواریاں ہیں جن کے نتیجے میں دنیا کی آبادی کا تین چوتھائی عزت کی زندگی سے محروم ہے۔ امریکا کی آبادی دنیا کی آبادی کے ۶ فی صد سے بھی کم ہے مگر دولت کا ۲۵ فی صد اور توانائی کا ۳۰ فی صد اس کے قبضے میں ہے۔ امیرملکوں میں قائم ۵۰۰ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں‘ دنیا کی تجارت کے ۷۰ فی صد پر قابض ہیں اور ان میں ایسی کمپنیاں بھی ہیں جن میں سے ایک ایک کی دولت دنیا کے ۴۰/۵۰ ملکوں کی دولت سے زیادہ ہے۔ افریقہ کے ممالک کا حال یہ ہے کہ آج ان کی فی کس آمدنی اس سے بھی کم ہے جو ۱۹۷۰ء میں تھی‘ جب نئے معاشی عالمی نظام کی آواز بلند ہوئی۔ ان ۴۰ برسوں میں وہ ۱۹۷۰ء سے بھی خراب حالات میں ہیں۔ دنیا کے امیر ملکوں نے بین الاقوامی تجارت پر ایسے بند باندھ رکھے ہیں کہ امریکا اور یورپ کی منڈیوں تک غریب ممالک کی برآمدات کی رسائی ممکن نہیں‘ جب کہ ان کی اپنی منڈیاں ان ممالک کی چراگاہ بنی ہوئی ہیں۔
ستم ہے کہ آج دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ اسی غربت کا شکار ہے کہ اس کے رہنے والوں کو ایک ڈالر یومیہ بھی میسر نہیں ‘ جب کہ یورپ میں ہر گائے کے لیے سرکاری خزانہ سے دو ڈالر یومیہ کی سبسڈی دی جاتی ہے اور اس لیے دی جاتی ہے کہ دوسرے ممالک سے سستا دودھ‘ مکھن‘ گھی نہ منگوانا پڑے۔ امیر ممالک بیرونی امداد کے نام پر سالانہ ۵۰ ارب ڈالر دیتے ہیں‘ جب کہ اپنے ملکوں کی زراعت کو ترقی پذیر ملکوں کی زرعی مصنوعات سے بچانے کے لیے ۳۶۰ ارب ڈالر سالانہ سبسڈی دیتے ہیں اور غریب ملکوں سے آنے والی زرعی مصنوعات کا راستہ روکتے ہیں۔ دنیا میں جنگ کے کاروبار کو گرم رکھنے کے لیے سالانہ خرچ اب ایک ہزار ارب ڈالر کو چھو رہا ہے اور اس میں سے امریکا کا حصہ ۴۰فی صد سے زیادہ ہے لیکن غربت کو ختم کرنے‘ روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے وسائل فراہم کرنے کی کوئی فکر نہیں۔ جس نام نہاد دوسرے ہزاریے (millenium) کے ترقیاتی پروگرام کا آغاز پانچ سال پہلے ہوا تھا اس کا حشر یہ ہے کہ اس کے اہداف کا ایک چوتھائی بھی پورا نہیں ہوسکا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر خود امریکا نے آج تک لفظی حد تک بھی اپنی اس ذمہ داری کو قبول نہیں کیا ہے کہ اپنی قومی دولت کا ۷ئ۰ فی صد ہر سال ترقی پذیر ملکوں کی معاشی ترقی کے لیے فراہم کرے گا۔
یہ ہیں وہ بنیادی مسائل جن کی طرف اقوام متحدہ کے اس ۶۱ویں اجلاس میں غور ہونا تھا مگر اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ان کے ساتھ مسلم دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل میں فلسطینیوں کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی گئی بلکہ اُلٹا اسرائیل اور شارون کو غزہ کی پٹی سے انخلا کے ڈرامے کی بنیاد پر شاباش دی جارہی ہے۔ ہم اس سے تعلقات بحال کرنے کے لیے بے چین ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہودی لابی کے قدموں میں گرنے سے ہمیں کوئی مراعات حاصل ہوجائیں گی۔
کشمیر کا مسئلہ اُمت مسلمہ کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس کو بھی جس کمزور انداز میں اٹھایا گیا اور جہاد آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کی بھارتی کوشش کا کوئی مؤثر جواب تک نہیں دیا گیا بلکہ ہر طرح کی دہشت گردی ختم کرنے کا وعدہ کر ڈالا گیا جو تحریکِ مزاحمت کی کمر توڑنے کے مترادف ہے۔ بھارت کے وزیراعظم سے ملاقات کی بڑی دھوم تھی مگر چار گھنٹے کی ملاقات میں کیا حاصل ہو۱___ وہی ڈھاک کے تین پات! وہی سرحدوں میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان! وہی سرحدپار دہشت گردی کی رٹ! وہی مزید مذاکرات کی نوید!
شیشان کا مسئلہ بھی کسی طرح کم اہم نہیں۔ اسی طرح فلپائن اور تھائی لینڈ کے مسلمانوں کے مسائل ہیں‘ لیکن کسی مسلمان حکمران کو ان مسائل کو اٹھانے اور ان علاقوں پر بیرونی قبضے‘ حکومتی ظلم و تشدد‘ حق خود ارادیت کی تحریکات کو کچلنے اور انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کرنے کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔
جنرل پرویز مشرف نے دعویٰ تو کیا تھا مسلمان اُمت کے مقدمہ کو پیش کرنے کا لیکن وہ صرف صدر بش کے ایجنڈے پر عمل کرتے رہے اور ان کی ساری توقعات صدر بش کے ذریعے کچھ حاصل کرنے کی تھیں مگر عملاً صدربش نے سفید جھنڈی دکھا دی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔ جنرل صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے صدربش سے تین توقعات کا اظہار کیا تھا‘ یعنی:
۱- بھارت کو جو اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور خصوصیت سے ایٹمی ٹکنالوجی کے میدان میں جو معاہدہ کیا گیا ہے اور جو تازہ ترین ٹکنالوجی نئے معاہدے کے تحت دی جارہی ہے‘ پاکستان کو بھی کم ازکم وہی سہولت دی جائے اور مساوی معاملہ کیا جائے۔ امریکا نے صاف انکار کردیا ہے کہ بھارت کا معاملہ خاص ہے‘ پاکستان کو اشک شوئی کے لیے کچھ پرانا اسلحہ دیا جاسکتا ہے مگر جو تعاون نیوکلیئر ٹکنالوجی کے سلسلے میں کیا جا تا رہا ہے اس کو پاکستان کو دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
۲- دوسری درخواست صدر بش سے یہ کی گئی تھی کہ کشمیر کے معاملے میں کچھ پیش رفت کرانے میں مدد دیں اور خاص طور پر بھارتی فوج میں کچھ کمی اور کم از کم دو چھوٹے سے علاقوں سے فوج کی واپسی کے لیے کچھ دبائو بھارت پر ڈالا جائے۔ لیکن بھارت نے صاف انکار کر دیا اور اس کے برعکس من موہن سنگھ نے صدر بش سے کہا کہ پاکستان سے اب بھی سرحدی دراندازیاں ہو رہی ہیں اور ان کو رکوایا جائے اور ہمارے جرنیل صاحب بغلیں بجاتے رہ گئے۔
۳- تیسری درخواست فلسطین کے پیش پا افتادہ روڈمیپ کی بحالی کے بارے میں تھی۔ لیکن یہاں بھی صدربش نے کوئی گھاس نہ ڈالی بلکہ محض غزہ کی پٹی سے فوجوں کی جزوی اور نام نہاد واپسی ہی کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیا اور سارا زور غزہ اور غرب اُردن کے علاقے میں حماس کا زور توڑنے کے مطالبات پر صرف کر ڈالا۔
یہ ہیں ہماری خارجہ پالیسی کی فتوحات! سب سے بڑھ کر ذلت اور فوجی غیرت کے منافی جنرل صاحب کا آخری دورہ تھا جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سربراہ مملکت فلوریڈا میں امریکی فوج کے ایک علاقائی نظام سنٹرل کمانڈ (Centcom ) کے دفتر میں بہ نفس نفیس اس کے کمانڈر ابوزید کے دربار میں حاضری دینے کے لیے گیا۔ جنرل پرویز مشرف چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے بھی سنٹرل کمانڈر کے کمانڈر سے اونچا درجہ رکھتے ہیں چہ جائیکہ صدرمملکت کی حیثیت سے لیکن قومی وقار اور ہر protocol کے تمام آداب کو بالاے طاق رکھ کر جرنیل صاحب سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر سے ملنے نیویارک سے فلوریڈا گئے اور دربار میں حاضری دینے کو اپنے لیے وجہِ عزت و افتخار قرار دیا۔ اس سے زیادہ قومی عزت کی پامالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا امریکا کا یہ دورہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ خدا کرے کہ یہ اس سلسلے کا آخری باب ہو۔
بات ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس امر کی نشان دہی بھی کر دی جائے کہ یہ ساری ناکامیاں‘ رسوائیاں اور ہزیمتیں اس لیے ہمارا مقدر ہوگئی ہیں کہ ہمارے ملک میں فیصلہ کرنے کا سارا اختیار فردِ واحد کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ سارے ادارے عملاً معطل ہیں اور مشاورت اور اجتماعی فیصلہ سازی کا کوئی نظام موجود نہیں اور ایک شخص قرونِ وسطیٰ کے بادشاہوں کی طرح I am the state کے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔ کابینہ‘ پارلیمنٹ‘ سیاسی جماعتیں‘ عوام سب غیرمتعلق ہوگئے ہیں۔ قومی احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں۔ حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتے جب تک اس بنیادی مسئلے کا فوری اور مؤثر حل نہیں کیا جاتا۔ یہ وقت کی اوّلین ضرورت ہے اور اصلاح احوال کے لیے پہلی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ہر دوسرے معاملے (consideration) سے بلند ہوکر اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ افراد جو آج حکومتی پارٹی سے منسلک ہیں‘ ان کو بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ ملک کو کس سمت میں دھکیل رہے ہیں اور خود اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو کس عذاب میں مبتلا کرنے میں شریک ہیں۔ ہم سب کو ایک دن اللہ کو جواب دینا ہے کہ اس نے جو امانت پاکستان کی شکل میں ہمارے سپرد کی تھی ‘ہم نے اس سے کیا معاملہ کیا۔ تاریخ تو اپنا فیصلہ دے گی ہی‘ مگر ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آخرت کے نقطۂ نظر سے بھی اپنا احتساب کرنا چاہیے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ برحق پر سنجیدگی سے عمل کرنا چاہیے کہ حاسبوا قبل ان تحاسبوا ، ’’خود اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے‘‘۔
یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳: ۱-۴)
اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔
یہ ابتدائی دورکی سورتوں میں سے ہے۔ دوسرارکوع خاص طور پر معلوم ہوتاہے کہ مدینہ طیبہ کا ہے‘جوآخرمیں نازل ہوا۔پہلا رکوع ابتدائی دورکا ہے جس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت فرمائی جارہی تھی۔لیکن ایسے ابتدائی دورکا نہیں ہے کہ کفارسے کش مکش شروع نہ ہوئی ہو۔ ایک وہ دورتھاکہ جب کفار سے کش مکش شروع نہیں ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علانیہ تبلیغ نہیں فرماتے تھے‘ بلکہ الگ الگ لوگوں سے فرداً فرداً مل کربات کرکے فضیلت اورمعنی بتاتے تھے۔اس زمانے میں کش مکش میں شدت اختیارنہیں ہوئی تھی۔
جب آپؐ نے علانیہ تبلیغ کرنا شروع کی‘اس زمانے میں کش مکش شروع ہوئی۔اس کش مکش کے زمانے میں اس بات کی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی جائے۔ اس کارِعظیم کے لیے آپؐ کوتیار کیاجائے۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے پیارے اندازسے حضوؐرکو خطاب کیا: یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ ۔
عربی زبان میں اوڑھ لپٹ کربیٹھ جانے یا لیٹ جانے کو مزمل کہتے ہیں۔ یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ کہہ کر خطاب کرنے کے دومفہوم ہوسکتے ہیں۔ایک مفہوم یہ ہوسکتاہے کہ اے شخص جواطمینان سے پاؤں پھیلائے پڑاہے‘اب تیرے اُوپر بہت بڑے کام کا بارہے۔دوسرامفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ اے شخص جوبہت غمگین اور اُداس ہے‘اُٹھ کریہ کام کر۔ گویا ایک آدمی جس کے اُوپر کارِعظیم کابار ڈال دیاگیا ہے وہ اب پریشان ہے کہ میں ِاس بارکوکیسے اٹھاؤں اور یہ فریضۂ عظیم کیسے انجام دوں؟اس پریشانی میں آپؐ لیٹے تھے‘ یا آپؐ آرام فرما رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے خطاب کیاکہ میاں اَب تمھارے آرام کرنے کا زمانہ گیا‘اَب تمھارے اُوپر ایک عظیم الشان کام کابار ہے ۔ اُٹھواوراَب یہ مشقت کرو۔
قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا o (۷۳: ۲-۵)
رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔
آدھی آدھی رات کھڑے رہوسے مراد تہجد کی نمازہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا کہ وہ بارِ عظیم جوتمھارے اُوپرڈالا گیا ہے اس کو سنبھالنے کے لیے تمھیں جس طاقت کی ضرورت ہے وہ اس تہجد کی نمازسے حاصل ہوگی ۔یہ وہ چیز ہے جوتمھیں تیار کرے گی ۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آدھی آدھی رات کھڑے رہویاآدھی رات سے کچھ کم یاآدھی رات سے کچھ زیادہ ۔
رسولؐ اللہ کا تہجد میں یہ طریقہ رہا کہ جب تک آپؐ کے جسم میں کافی طاقت تھی اُس وقت آپؐ بغیر درمیان میں بیٹھے ہوئے آٹھ رکعتیں مسلسل پڑھتے تھے۔ اس کے بعد بیٹھ کر آدھا تشہد پڑھتے تھے‘ پھر کھڑے ہوکرایک رکعت اُس میں اضافہ فرماتے تھے‘ اور نویں رکعت پڑھنے کے بعدآپؐ پھر بیٹھ کرپوراتشہدپڑھ کر سلام پھیرتے تھے۔پھر دورکعتیں اور پڑھتے تھے۔اس طرح کہ ۱۱رکعتیں آپؐ تہجد میں پڑھتے تھے۔ آپؐ کی ہر رکعت طویل ہوتی تھی کیونکہ قرآنِ مجید میں آپؐ کو ترتیل کا سبق دیا گیا ہے۔
ترتیل سے مراد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن مجیدکی ایک ایک آیت کوآپؐ بڑے غور سے پڑھا کریں۔یہاں تک بھی آتاہے کہ ‘مثلاً اگر کوئی عذاب کی آیت آگئی ہے توآپؐ اس کے اُوپر ٹھیر گئے اور اللہ سے استغفار کیا اور رحم کی درخواست کی۔کوئی غوروفکر کی دعوت دینے والی آیت آئی تو اس کے اُوپر ٹھیر گئے اورغوروفکر کیا۔ اس طرح آپؐ کی جوتلاوت ہوتی تھی وہ اس نوعیت کی نہیں ہوتی تھی کہ جیسے ہم آج کرتے ہیں‘ رواں دواں پڑھتے چلے جا رہے ہیں‘ بلکہ ٹھیر ٹھیرکر‘ ایک ایک آیت کے اُوپر‘ ایک ایک لفظ کے اُوپر غور کرتے اورپڑھتے تھے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسا مضمون آتا ہے اس کے مطابق اس کے جواب میں بات کرتے ہیں۔ اس طرح سے آپؐ کی ۱۱ رکعتوں میں کئی گھنٹے گزر جاتے تھے۔بعد میں جب آپؐ کے اندرطاقت کم ہوگئی توآپؐ نے دورکعتیں کم کردیں‘یعنی جب بڑھاپاآگیا تو آپؐ نے نورکعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔
یہاں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ تم نماز ٹھیر ٹھیر کرپڑھو‘ آدھی رات یاآدھی رات سے کچھ کم یاآدھی رات سے کچھ زیا دہ ۔ اور قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھو‘یعنی آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ کو اداکرو۔حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر آہستہ آہستہ قرآن پڑھتے تھے کہ اگر کوئی چاہتاتوایک ایک حرف کو گن سکتاتھا۔اتنا آہستہ پڑھتے تھے آپؐ۔ کہا گیا کہ ایک بڑے بھاری کلام کا بوجھ تمھارے اُوپرڈالاگیاہے۔ اس کوسنبھالنے کے لیے یہ تربیت درکار ہے کہ تم رات کوتہجدپڑھو۔
اب یہ بھاری کلام ایسا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپراس کانزول ہوتا تھاتوآپؐ فرماتے ہیں کہ مجھے ایسے معلوم ہوتاہے کہ جیسے میری جان نکل جائے گی۔ایک صحابیؓ فرماتے ہیںکہ آپؐ میرے زانو پرزانو رکھ کربیٹھے ہوئے تھے کہ اس حالت میں وحی آئی تومجھے محسوس ہوا کہ جیسے میرازانوٹوٹ جائے گا۔ایک اور روایت میں یہ آتاہے کہ آپؐ ایک اونٹنی پر سوار تھے کہ اس حالت میں آپؐ کے اُوپرقرآنِ مجید کا نزول شروع ہواتواونٹنی بوجھ کے مارے بیٹھ گئی اورتڑپنے لگی۔ یہ نزول وحی کی کیفیت ہوتی تھی۔ اس لیے فرمایا کہ یہ بھاری کلام جو تمھا رے اُوپر نازل کیا جا رہا ہے‘ اس کوسہارنے کے لیے تمھارے اندرجس روحانی قوت کی ضرورت ہے وہ اس چیزکے ساتھ آئے گی ۔
بھاری کلام وہ اِس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ ایک ایساکلام تھاکہ اس کے نازل ہونے کے بعدساری دنیا سے آپؐ کی لڑائی ہو گئی اور وہ دشمنی کے لیے کھڑی ہوگئی۔ آپؐ قرآن کے نزول کے وقت سے لے کرآخری سانس تک عمر بھر کی ایک جدوجہدمیں مشغول رہے۔ہر طرف جاہلیت کادوردورہ تھا۔ گردوپیش کی تمام طاقتیں سب کی سب آپؐ کے اُوپرٹوٹ پڑیں۔ گویا یہ ایک بھاری کلام تھا جو اپنے ساتھ بڑی بھاری ذمہ داریاں لے کر آیا تھا۔ان کو نبھانے کے لیے جس طاقت کی ضرورت تھی اس کے لیے تہجد پڑھنے کی تاکید فرمائی گئی۔
اب مزیدوجہ بتائی جاتی ہے کہ یہ تہجد کی نماز تمھارے لیے کیوں ضروری ہے۔
اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا o (۷۳: ۶)
درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔
راتوں کو اُٹھنا یہ بہت زیادہ مؤثر ہے اس با رے میں کہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیداہو جائے۔ اس لیے جو آدمی اپنی نیند توڑ کر رات کو اُٹھتا ہے ‘بالکل اپنی خلوت میں ‘جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے‘ اُٹھ کر نمازپڑھتاہے‘اوراپنے خداسے دیر تک خطاب کرتارہتاہے‘تویہ بغیرخلوص کے ممکن نہیں۔جب تک آدمی بالکل مخلص نہ ہوجائے‘ جب تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا انتہائی مخلصانہ تعلق نہ ہو‘اس وقت تک یہ کام ممکن نہیں ہے۔ آدمی باجماعت نماز میں اور پانچ وقت کی نماز میں ریاکاری کر سکتا ہے‘ نمایش کی خاطر کرسکتاہے ‘اس غرض کے لیے کرسکتاہے کہ میرا شمار صالحین میں کیاجائے اور میرالوگوں کے اندر اثرقائم ہو جائے۔ لیکن تہجد کی نماز جورات کواُٹھ کر پڑھی جائے‘ بغیر اِخلاص کے ممکن نہیں۔
اس لیے فرمایاکہ یہ راتوں کو اُ ٹھنا اس بارے میں سب سے زیا دہ مؤثر ہے کہ آدمی کے دل اور اُس کی زبان کے درمیان مطابقت پیدا ہو۔آدمی کا ظاہراورباطن یکساں ہوجائے۔ اگرایک آدمی یہ عمل کرتاہے اور اس کے بعد کھڑے ہوکر اللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو دعوت دے گا‘ ظاہر بات ہے کہ یہ اخلاص کی بنیاد پر ہوگا۔کیونکہ وہ روز اخلاص کی تربیت (training) لے رہا ہے۔اگر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق اخلاص کے ساتھ نہ ہوتووہ رات کو کیسے اُٹھے۔ رات کواُٹھ کر وہ اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ تعلق کوروزتازہ کرتا رہتاہے‘اس لیے اِس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہتاکہ وہ اللہ کے راستے میں دعوت دینے کے لیے ریا کاری کرے یااپنی کسی ذاتی غرض کے لیے‘کسی اپنے دنیوی مقصد کی خاطریہ کام کرے۔ اس طرح آدمی کاظاہر اورباطن یکساں ہوتاچلاجاتاہے۔ اس کے قول اور عمل میں مطابقت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔اس کی نیت درست ہوتی چلی جاتی ہے۔
وَّاَقْوَمُ قِیْلًا
اورآدمی کے قول کو زیادہ راست کردینے والا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس حالت میں جو آدمی دعوت الی اللہ کاکام کرے گاتووہ کامل راست بازی کے ساتھ کرے گا۔ اس آدمی میں کمال درجے کی راست بازی پیداہوجائے گی‘ جورات کو اُٹھ کر اپنے آپ کو اخلاص کی ٹریننگ دیتاہے۔
اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا o (۷۳: ۷)
دن کے اوقات میں تو تمھارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ دن کے وقت تمھیں اس طرح کی خلوت کی نماز کا موقع مل جاتا۔یہ بھی آدمی کر سکتاہے کہ دن کو اپنے حجرے کے دروازے بندکرے اوردروازے بندکرکے خاموشی کے ساتھ نمازپڑھتا رہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ دن کوتمھارے لیے ایک دوسری مشغولیت ہے جو تمھارا پورا پورا دن لے لینے والی ہے‘یعنی تبلیغ کی‘دعوت کی ‘اللہ کے راستے کی طرف بلانے کی۔ لہٰذا تم رات کو ٹریننگ لواور دن کو پوراوقت اس کام پرصرف کروکہ اللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاؤ۔ تمھارا دن کا وقت اس ٹریننگ کے لیے نہیں ہے۔
وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا o (۷۳: ۸)
اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اُسی کے ہو رہو۔
تبتل اس بات کو کہتے ہیں کہ آدمی سب سے اپنا تعلق توڑ کرایک طرف کا ہوجائے۔ حضرت فاطمہؓ کے لیے بتول کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ اپنے سارے تعلقات ختم کرو‘ایک اللہ کے ساتھ اپناتعلق جوڑو۔اس کے بعد اَب جو خلق کے ساتھ تعلق ہوگا وہ اللہ کے واسطے سے ہوگا‘براہِ راست نہیں ہوگا۔بیوی سے تعلق ہے تواللہ کی خاطرہے‘اولاد سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطر ہے‘دوستوں سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطر ہے‘محلے والوں سے تعلق ہے تو اللہ کی خاطرہے‘حتیٰ کہ دشمنوں سے جوتعلق ہے تووہ بھی اللہ کی خاطرہے۔اگر محبت ہے تو اللہ کے لیے اور دشمنی ہے تواللہ کے لیے۔ کسی قسم کی کوئی ذاتی آلایش اس کے ساتھ نہیں ہے۔یہ معنی ہیں تبتلکے۔
اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آدمی سب کچھ چھوڑکر گوشہ نشین ہوجائے۔ تبتـل اس چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی تارک الدنیاہو کرجنگل میں جابیٹھے یاپہاڑوں پرچڑھ جائے ۔ تبتـل اس کا نام ہے کہ آدمی اِسی معاشرے میں رہے ‘انھی لوگوں میں رہ کرکام کرے‘اپنی روزی کمائے ‘ دنیاکے تمام تعلقات رکھے‘ اور ان تعلقات کو رکھتے ہوئے سب سے کٹ کراللہ کا ہوجائے ۔یہ بہت بڑاکام ہے آدمی کے لیے۔تارکِ الدنیا ہوکر‘بے نیاز ہو کرجنگل میں بیٹھ جانا بڑا آسان ہے۔ لیکن معاشرے کے اندر رہتے ہوئے پھر تبتل کرنا‘ یہ بہت عظیم الشان کام ہے۔یہ ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ اس چیز کی تعلیم اسلام کے سوا کسی اور مذہب میں نہیںہے۔
دوسرے مذاہب نے جو کچھ سکھایا وہ یہ ہے کہ اگر خداکے ہوناچاہتے ہوتوخلق سے تعلق توڑواورجاکرپہاڑوں کے پہلومیں بیٹھ جاؤ۔جنگلوں میں بیٹھ جاؤاوروہاں بیٹھ کرتپسیّا کرو۔ اسلام نے یہ سکھایاہے کہ نہیں‘ تمھاراکام جنگلوں میں نہیں ہے ‘تمھاراکام انسانوں کے درمیان ہے۔تم یہاں انسانوں سے تمام تعلقات رکھ کر سارے معاملات چلا سکتے ہو‘ جس طرح سے کوئی دنیادار چلاسکتا ہے۔ اس لیے اس کے ساتھتبتـل اختیار کرو‘ سب سے کٹ کر اسی کے ہوجاؤ۔
رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا o (۷۳: ۱۹)
وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنالو۔
وکیل اُس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے اُوپراعتمادکرکے آپ اپنے معاملات اس کے حوالے کردیتے ہیں۔ہم اپنی زبان میں بھی وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جس پر ہم یہ اعتماد کرتے ہیں کہ ہمارامقدمہ یہ خود لڑے گا۔ اپنا مقدمہ اس کے حوالے کر کے آپ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہما رے سرسے یہ بلاٹل جائے گی ۔یہاں اسی معنی میں وکیل کا لفظ استعمال کیاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپناوکیل بنالو‘ جب کہ تم نے اتنا بڑا جھگڑادنیا میں چھیڑ دیاکہ شرک کے خلاف تم تبلیغ کرنے کھڑے ہوگئے‘ تمام معبودوں کی تم نے تردید کردی‘تمام جاہلانہ رسموں کی تم مخالفت کرتے ہو‘ غرض یہ کہ دنیا میں جوکچھ خداکے قانون کے خلاف ہو رہاہے ‘ اُن سب سے تم نے اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔اب یہ جنگ مول لینے کے بعد اگرتم اپنی طاقت پر بھروسا کروتو اس سے بڑی کوئی نادانی نہیں ہوسکتی کہ آدمی دنیا بھر سے جھگڑامول لے رہاہو اوربھروسا اس کا اپنی طاقت پر ہو۔ اسی طرح کسی دوسری انسانی طاقت کے بل بوتے پر یاکسی دوسرے بندے کی طاقت کے بل بوتے پراگر یہ جھگڑا مول لے گا توتب بھی نادانی کرے گا۔اس لیے کہ کوئی ایسا طاقت ور نہیں ہے کہ آدمی کو تمام دنیا سے جو اس نے لڑائی مول لے رکھی ہے اورہرمیدان میں لے رکھی ہے___ عقیدے کے میدان میں بھی اور عمل کے میدان میں بھی‘ معاشرت‘ سیاست‘ تمدن اور معیشت غرض ہرچیز کے میدان میں___ اس انسان کا ساتھ دے اور اسے کامیاب کرے۔ کون سی جما عت ایسی ہو سکتی ہے جو اتنی طاقت ورہوکہ جو اس دنیا بھر سے لڑائی میں اُس کے ساتھ ہو اور مقابلہ کرسکے۔اس وجہ سے فرمایاکہ جو رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ہے‘جس کے سواکوئی الٰہ نہیں ہے ‘اس کواپنا وکیل بناؤ۔پھر یہ لڑائی مول لواوراس کے اُوپر بھروسا کروکہ وہ تمھاراخالق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہوئے تو بالکل اکیلے تھے ۔دنیا بھر میں ایک ہی کی اقلیت سے یہ کام شروع ہوا ہے۔ایک بندئہ خدا تمام دنیا کے مقابلے میں کھڑاہوگیا‘ اور اس کے لیے تیارہوگیاکہ کوئی نہیں مانے گا تب بھی میں یہ کام کروں گااور اگر کوئی ساتھ نہیں دے گاتب بھی میں یہ کام کروں گا۔مجھے ہر حال میں یہ کام کرنا ہے۔یہ ہمت انسان کے اندر اس کے بغیرپیدا ہی نہیں ہوسکتی کہ اس کا خداپر بھروسا نہ ہو۔اپنی طاقت کے بل بوتے پر آدمی یہ کام نہیں کرسکتا۔ کسی بندے کی‘ کسی انسان کی یاکسی غیرانسان کی طاقت کے بل بوتے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے فرمایاکہ جو مشرق اورمغرب کا مالک ہے اسی پر بھروسا کرو۔
مشرق ومغرب سے مراد محض مشرق اور مغرب نہیں ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ مشرق اور مغرب کا مالک تو ہماری مراد ساری دنیا کامالک ہے۔کیونکہ ساری دنیا مشرق اور مغرب کے درمیان میں ہے۔ لہٰذا جو ساری دنیا کا مالک ہے اور جس کے سواکوئی الہ نہیں ہے‘ اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔
جس کے سواکوئی الہ نہیں ہے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اس کے سواکوئی پرستش کے قابل نہیں ہے ۔ظاہر بات ہے کہ اگر اس کے سواکوئی پرستش کرنے کے قابل نہیں ہے تواِس وجہ سے نہیں ہے کہ کسی کے ہاتھ میں کوئی اختیارات نہیں ہیں۔انسان کبھی اتنا بے وقوف نہیں رہاہے کہ کسی کی پرستش بغیر یہ سمجھے ہوئے کرے کہ اس کے اختیارات میں کچھ نہیں ہے۔اگر کوئی آدمی یہ سمجھے کہ کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے توکبھی اُس کی پرستش نہیں کرتا۔اگر کوئی شخص کسی کے متعلق یہ سمجھتا ہو کہ بیمار ہو گیاہوں تو کوئی مجھے اچھا کرنے والانہیں ہے‘ اگر اولاد نہیں ہے تو کوئی مجھے اولاد دینے والا نہیں ہے‘ اگر روزگار نہیں ہے تو مجھے روزگار دلوانے والانہیں ہے ‘توظاہر بات ہے کہ اس کی پرستش کیسے کرنے جائے گا۔پرستش تب کرنے جائے گاجب یہ سمجھ کر جائے گاکہ مجھے بیماری سے تندرست کرنے والایہ ہے‘ رزق دینے والایہ ہے‘ مجھے روزگار دلوانے والایہ ہے‘ مجھے اولاد دلوانے والایہ ہے‘دنیا میں کامیابیاں دلوانے والایہ ہے‘ یاآخرت میں نجات دلوانے والایہ ہے۔ اسی لیے فرمایاکہ اس کے سواکوئی الہ نہیں ہے‘ اور اس کامطلب یہ ہے کہ اس کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔اس کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ چونکہ سارے اختیارات کا مالک وہ ہے ‘مشرق ومغرب کامالک وہ ہے‘ اِس وجہ سے اِس کو اپناوکیل بناؤ‘یعنی اسی کے سپرداپنے سارے معاملات کردو۔
وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا o (۷۳: ۱۰)
اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہوجائو۔
ھجرِ جمیل کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کسی نے آپ کوگالی دی ‘آپ یہ سمجھ کرکہ میں بے بس ہوں ‘کمزور ہوں‘مقابلہ کیاکروں‘ غم کاگھونٹ پی کر اورخوب اچھی طرح دل میں رو کر‘ آپ خاموش ہوگئے ۔اس کانام ھجرِ جمیلنہیں ہے۔اس کانام بے بسی ہے۔ ھجرِ جمیل یہ ہے کہ ایک آدمی اِتنا شریف ہو کہ اگر کوئی اُس کو گالی دے تووہ اس کی ذرابرابرپروا نہ کرے اور اس گالی کے باوجود اس کے دل میں نیت یہی رہے کہ موقع ملے گا تو اس کو درست کرنے کی کوشش کروں گا۔ اِس وقت یہ غصے میں ہے‘اس وقت اس سے مخاطب ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ کوئی اور وقت آئے گاتو اس کی اصلاح کے لیے کوشش کروں گا۔اس غرض کے لیے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دینا‘یہ ھجرِ جمیل ہے۔اس کے خلاف دل میں میل تک نہ آئے‘اس کے خلاف دل میں کوئی غصہ اورکوئی نفرت پیدانہ ہو۔ یہ سمجھے کہ جیسے ایک بیمار تھا جس نے غصے اور تکلیف کی حالت میں مجھے گالی دے دی۔ فرض کیجیے کہ کوئی بیمار ہواور بیماری کے دورے کی حالت میں طبیب کو گالی دے توکوئی عقل مندطبیب غصے میں نہیں آئے گا اور اس سے نفرت پیدا نہیں ہوگی۔وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ کم بخت نے گالی دی ہے ‘اچھا !موقع ملے گا تو اسے زہردے کرمار دوں گا۔ اسے کبھی یہ خیال نہیں آئے گا۔ اگر اس کو کوئی خیال آئے گا تو یہ کہ اس پر سخت دورہ ہے اور وہ اس کے اور زیادہ علاج کی فکر کرے گا۔ لہٰذا ھجرِ جمیل اس چیز کانام ہے کہ آدمی کے دل میں کوئی غصہ اورکوئی نفرت پیدانہ ہو۔اس کے بجاے وہ کمالِ شرافت اورکمالِ خیر خواہی کی بنیاد پر اس کو نظرانداز کردے۔
وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (جو کچھ باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ‘ ان پر صبر کرو)‘یہ الفاظ خود بتارہے ہیں کہ یہ اس زمانے کی نازل شدہ سورہ ہے جب لوگوں نے آپؐ کے اُوپر باتیں بنانا شروع کر دی تھیں۔ قرآنِ مجید کے نزول کا زمانہ سمجھنے کے لیے خود قرآن میںکوئی اندرونی شہادت ایسی موجود ہوتی ہے جویہ بتا دیتی ہے کہ یہ کس دور کی نازل شدہ ہے۔ یہاں یہ الفاظ خود بتارہے ہیں کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپر طرح طرح کی باتیں بنائی جانے لگی تھیں۔کوئی گالیاں دے رہا تھا‘کوئی اعتراضات کر رہا تھا‘ کوئی الزامات اوربہتان چسپاں کررہا تھا‘کوئی طرح طرح سے نبی پاک ؐ کے خلاف لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا پھرتا تھا‘ کوئی طرح طرح کی تہمتیں جوڑ کرلوگوں کوبدگمان کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اسی لیے توفرمایا گیاکہ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ ، جو کچھ باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ‘اُن کے اُوپر صبر کرو۔
صبر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے گھر بیٹھ جائے ۔صبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام کیے جاؤ جس کی وجہ سے یہ باتیں کر رہے ہیں اور پھر کسی سے جھگڑامت کرو۔ کسی سے مت اُلجھو۔جو باتیں وہ بناتے ہیں اُن کو نظر انداز کر دو اوراپناکام کیے جاؤ۔ صبر کے معنی محض برداشت کر لینے بھی نہیں ہیں۔صبر کے معنی یہ ہیں کہ جوکام آپ کو کرنا ہے وہ کام آپ کیے جائیں اور اس کے اُوپرآپ ٹھیریں نہیں۔صبر کے آخری معنی اپنے آپ کو روک لینے او رٹھیرانے کے ہیں۔ گویا اس کام کے اُوپر ڈٹے رہو ‘اس کے اُوپر جمے رہو‘ اوروہ سب باتیں برداشت کرو جو یہ لوگ آپ کے اُوپر بناتے ہیں۔
یہاں پھرآپ دیکھیے کہ تہجد کے ذریعے نبی پاکؐ کی تربیت کا جو انتظام کیا گیا تھا‘اس میں ایک چیز تو یہ پیشِ نظر تھی کہ کامل اخلاص پیدا ہوجائے اورکلام میں راست بازی پیدا ہوجائے اور آدمی کاظاہروباطن یکساں ہو جائے۔دوسری مصلحت یہ بیان کی گئی کہ تمھارے اُوپرایک ثقیل کلام کا بار ڈالاجانے والا ہے‘بہت بھاری کلام کا بارڈالاجانے والاہے‘اس کو سہارنے کی طاقت تمھارے اندر اس سے پیدا ہوگی۔ تیسری جو ضرورت تھی وہ یہ تھی کہ تمھارے اُوپرجو باتیں چھاپی جا رہی ہیں اس کے لیے صبرِ جمیل کی جو ضرورت ہے‘ یہ طاقت تمھارے اندرتہجد کی نماز سے پیدا ہوگی۔ تہجد کی نماز تمھارے اندر یہ صلاحیت اوریہ طاقت پیداکرے گی کہ تمھیں گالیاں دی جا رہی ہیں‘ تمھارے اُوپرالزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے ‘لیکن تم صبر کے ساتھ اپنا وہ کام کیے جائو جو تمھارے سپرد کیا گیاہے۔دل میں میل نہیں آتا‘دل کے اندر کوئی غصہ اور کوئی نفرت پیدانہیں ہوتی اور اس کے ساتھ آدمی اصلاحِ قلب کے لیے برابر کام کیے چلا جاتا ہے۔ یہ طاقت اس کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی کہ آدمی اخلاص الی اللہ اور اخلاص فی الدین اپنے اندر پیداکرے۔ یہ چیز بھی تہجدکی نماز سے پیدا ہوتی ہے۔
وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ وَمَھِّلْھُمْ قَلِیْلًا o (۷۳: ۱۱)
اِن جھٹلانے والے خوش حال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو اور انھیں ذرا کچھ دیر اِسی حالت پر رہنے دو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا معاملہ میرے سپردکر دو میں ان سے نمٹ لوں گا۔فرمایا: اس کو وکیل بنا لو‘ اور فرمایاکہ تم صبر جمیل کرواور ان کوباتیں کرنے دو‘اس کے بعد فرمایاکہ ان کوچھوڑ دو‘ میں ان سے نمٹ لوں گا‘ اِن کا معاملہ میرے حوالے کرو ۔ گویا تم میرے بھروسے کے اُوپر اپناکام کیے چلے جاؤاور اطمینان رکھو کہ میں ان سے نمٹ لوں گا‘تمھیں فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
مکذبین کی صفت یہ بیان کی کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کوہم نے نعمت دی۔ بجاے اس کے کہ ان کے اندر کوئی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوتااور وہ اپنے خدا کے سامنے جھکنے والے ہوجاتے ‘ ان کا دماغ خراب ہوگیاہے۔ یہ بھول گئے ہیں‘ نمک حرام بن گئے ہیں اور اپنے رب کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ لہٰذا جو اس طرح سے کھاتے پیتے لوگ ہیں اور نعمتیں پانے کی وجہ سے جھٹلارہے ہیں اِن کو اور مجھے چھوڑ دو‘ میں ان سے نمٹ لوں گا۔
ذرا مہلت دے دو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اپنے پاس سے ان کو کوئی مہلت دو‘بلکہ مراد یہ ہے کہ ذرا انتظار کرواس بات کاکہ ان کے ساتھ میں کیا معاملہ کرتاہوں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بے چین مت ہوکہ اِن کو جلدی سزادے دی جائے ۔بسااوقات آدمی پریشان ہوجاتا ہے ‘ جب دیکھتا ہے کہ چہارسو بندوں پر ظلم ڈھایا جارہاہے ‘خداکے بندوں کو ستایاجارہاہے محض اس لیے کہ خداکے دین کاکام کرنے والے ہیں ۔پھانسیوں پر ان کوچڑھایاجاتاہے‘ جیلوں میں ان کو ٹھونسا جاتا ہے ‘ طرح طرح کی مار ان کو دی جاتی ہے‘مگر اس ظالم کا کچھ نہیں بگڑ رہا‘تو بڑا بڑا نیک آدمی‘بڑا بڑا خداپرست آدمی ‘ بڑابڑاصابرآدمی بھی ایک مرتبہ تو پریشان ہوجاتا ہے کہ یااللہ یہ کیامعاملہ ہے ؟یہ کیا ہورہا ہے؟حضرت موسٰی ؑ تک نے یہ کہہ دیاکہ یااللہ فرعون کو برابرنعمتیں ملی چلی جا رہی ہیں‘اس کا زور بڑھتاہی چلاجا رہا ہے‘ اس کو دنیا کی زینتیں دی چلی جا رہی ہیں‘ حالانکہ یہ دنیا پر ظلم ڈھارہاہے۔ چونکہ اس طرح کی صورتِ حال کو دیکھ کر انسان بے صبرا ہوجاتاہے تو فرمایا کہ َمَہِّلْھُمْ قَلِیْلًا ، ذرا اِن کو مہلت تودوتم‘بے چین مت ہواس بات کے لیے کہ یہ ظلم ڈھارہاہے تو جلدی سے اس کوختم کردیا جائے۔اب اس مہلت میں جو اللہ تعالیٰ دیتاہے‘ بے شمار مصلحتیں ہوتی ہیں جن کوکوئی نہیں جانتا۔
اب دیکھیے‘ مثال کے طور اگر اس ابتدائی زمانے میں‘ جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ڈھارہے تھے اور آپؐ کے خلاف طرح طرح کا جھوٹا پروپیگنڈاکر رہے تھے‘اگر اسی زمانے میں عذاب نازل ہوجاتا تو یہ خالدبن ولید کہاں سے آتے؟یہ بڑے بڑے مجاہدین جو اُسی شہر سے پیداہوئے ہیں‘ وہ کہاں سے آتے اگر اسی وقت عذاب نازل کردیاجاتا؟ اگر مسلمانوں نے تمام ظلم وستم کے مقابلے میں صبر نہ دکھایاہوتا‘اس کے مقابلے میں ڈٹے نہ رہتے ‘ہر قسم کی تکلیف کا مقابلہ نہ کرتے‘خداپرستی پر قائم نہ رہتے تو ان کے اندر وہ زبردست روحانی طاقت کہاںسے پیداہوتی جس سے انھوں نے دنیا بھرکو فتح کیا۔وہ عزم کیسے پیدا ہو سکتاتھا؟اسی طرح سے اگر کفار کو ظلم کاموقع نہ دیاجاتااورمسلمانوں کو اس کے مقابلے میں صبراورصبرِ جمیل کا موقع نہ دیا جاتا تو سارا عرب کیسے قائل ہوجاتاکہ یہ گروہ واقعی دنیاکا نہایت نیک گروہ ہے‘ اور ساراعرب کیسے اس کا حامی ہوتا چلاجاتا؟لہٰذا اللہ تعالیٰ کی بے شمارمصلحتیں ہوتی ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ کسی گروہ کوجوظالم ہے‘ دنیامیںبرائی پھیلانے والاہے‘ اس کومہلت دیتا ہے۔لیکن ان مصلحتوں کو آدمی سمجھ نہیں سکتا۔جس وقت وہ کام ہورہاہوتاہے اُس وقت آدمی کی سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ آگے چل کر اس سے کیا خیر پیدا ہونے والی ہے؟آدمی یہ سمجھتاہے کہ یہ تو شرہی شرہورہاہے۔حالانکہ شر اس کائنات میں جہاں کہیں بھی ہے‘ کسی خیر کی خاطرہے‘ بجاے خود شر کی خاطر نہیں۔
اِنَّ لَدَیْنَـآ اَنْکَالًا وَّجَحِیْمًا o وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّعَذَابَا اَلِیْمًا o یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّھِیْلًا o (۷۳: ۱۲-۱۴)
ہمارے پاس (ان کے لیے) بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ اور حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔ یہ اُس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اُٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہوجائے گا جیسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جارہے ہیں۔
یعنی وہ سزاجس کے لیے ہم کہہ رہے ہیں وہ سزاہما رے پاس تیارہے۔ ایساہوجائے گا جسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جا رہے ہیں۔ ایسے مواقعوں پر بالعموم قرآن مجید نے دنیوی عذاب کا کہیں ذکر ہی نہیں کیاہے۔کثرت سے ایسے مقامات ہیں کہ جہاں ظالموں کے ظلم کے مقابلے میں صبر کا مشورہ دیاگیاہے اور بتایا گیاہے کہ عالمِ آخرت میں اِن کے لیے ہما رے ہاں یہ سزاموجود ہے۔بعض مقامات پر دنیوی عذاب کی دھمکی دی گئی ہے ‘بعض مواقع پر خبر دی گئی ہے کہ ان کے اُوپر اب دنیا میں عذاب ہوگا‘لیکن ایسے مواقع کم ہیں۔زیا دہ تر مواقع وہ ہیں کہ جہاں یہ بتایاگیاہے کہ اِن ظالموں کے ظلم پرصبر کرو اور اِن کے لیے آخرت میں قیامت کے روزہمارے ہاں یہ سزاتیارہے۔
اِس کی مصلحت پرغورکیجیے کہ یہ بات کہی کیوں گئی ہے؟یہ بات اس لیے کہی گئی ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ہرظالم کے اُوپراس دنیاہی میں عذاب آجائے۔تاریخ بھی بتاتی ہے ‘یہ انسانی مشاہدہ بھی ہے کہ ہر ظالم پر دنیامیں ہمیشہ عذاب نہیں آسکتا۔اگر دنیامیں کسی ظالم قوم پرکبھی عذاب آیابھی ہے تواُن لوگوں پر آیا ہے جو اس وقت موجود تھے ۔اس گھڑی سے ایک منٹ پہلے جوآدمی مرچکا تھا اُس پر کبھی کوئی عذاب نہیں آیا۔اس لیے اصل عذاب وہ ہے جوظالموں کو آخرت ہی میں دیا جائے۔
دوسری مصلحت اس میںیہ ہے کہ آدمی اس غرض کے لیے بیٹھ کر بے چین نہ ہوکہ جو لوگ ہم پر ظلم کررہے ہیں ‘اُن پر دنیا میں عذاب آئے گا۔ اور اس بھروسے کے اُوپر کہ دنیا میں اُن پر عذاب آئے گا‘ ان کو مہلت نہ دیں اور صبر نہ کریں اور نہ یہ ہی سمجھیں کہ یہ جیتے جی ساری عمربھی ظلم کرتے رہے توتب بھی کچھ نہیں بگڑتا‘ آخرکارآخرت میں ان کی شامت آنی ہے۔ مسلمان کو جس صبر کی تلقین کی گئی ہے اس میں نیکی کااَجر بھی اصل وہ ہے جو آخرت میں ملے گانہ کہ وہ جودنیا میں ملے گا۔اتنا صبر مسلمان میں ہونا چاہیے کہ عمر بھروہ نیکی کرتارہے‘ چاہے اُس نیکی کانتیجہ اُس کے حق میں اِس دنیامیں ‘عمربھر برانکلتا رہے‘اُس نیکی کی وجہ سے عمر بھر ستایاجاتا رہے ‘عمرقید اس کو دے دی جائے یاکوئی بھی ظلم وستم اُس کے اُوپر کیا جائے‘ تب بھی وہ اس یقین کے اُوپرصبر کر سکے کہ بہرحال آخرت میں میرا اجریقینی ہے۔جب تک کوئی شخص آخرت تک کے لیے صبر کرنے پر تیار نہ ہو‘ وہ اس دین کے راستے پر نہیں چل سکتا۔
اسی طرح سے ظالموں کو سزا دینے کے معاملے میں بھی قرآن جس چیز کا اطمینان دلاتا ہے وہ یہ ہے کہ چاہے اس دنیا میں وہ پھلتے پھولتے رہیں ‘مگر آخرت میں اُن کی شامت آکر رہے گی۔ بہت سے ظالم ایسے ہیں کہ جو مرتے وقت تک ظلم کرتے رہتے ہیں‘ مثلاً اسٹالن آخر وقت تک اس کا اعتبارقائم رہااورمرتے مرتے وہ ڈکٹیٹر بنارہا‘ اور مرتے مرتے وہ خلقِ خداپرظلم ڈھاتارہا‘ اس دنیا میں اس کی کوئی شامت نہیں آئی۔اگر کوئی شخص اسی دنیا کے اُوپر انحصار کرنے والاہواور آخرت کا قائل نہ ہوتو وہ یہ سمجھے گاکہ یہ سارانظامِ کائنات ظلم کے لیے بناہے کہ ایک شخص عمربھر ظلم کرتا رہااورمزے سے ٹانگیں پھیلاکرمر گیا‘ اوراس بات کی کوئی سزااُسے دنیامیں نہیں ملی۔ دنیا کو ایک عادل خداکی مملکت ہونے کا یقین اُسی آدمی کو ہوسکتا ہے جس کویہ یقین ہوکہ اس دنیاسے اگرظالم گزر بھی گیا توآخرت میں اُس کی شامت آنی ہے۔لہٰذا ایک مسلمان کویہاں جو صبر کی تلقین کی گئی ہے‘ یہ وہ صبر ہے کہ جو دنیا کے اندر آخرت تک انتظارکرسکتاہو۔ دنیا کے لیے بے چین نہ ہوکہ دنیاہی میں اس کو اجر بھی مل جائے اور دنیاہی میں ظالم کو بھی سزا مل جائے۔(جاری)
(کیسٹ سے تدوین: امجدعباسی)
قرآن کے درس دیے جاتے ہیں اور عمل کی دعوت دی جاتی ہے۔ ایک برادر مسلم ملک میں خواتین کے حلقۂ درس نے یہ پروگرام بنایا کہ بات دعوت تک نہ رہے‘ بلکہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اپنے مسائل قرآن کے ذریعے حل کریں۔ محترمہ سمیّہ رمضان کی زیرِنگرانی یہ حلقہ قائم تھا۔ شرکاے درس ہر ہفتے ایک آیت کو حفظ کرتے‘ اسے بار بار پڑھتے ‘ اس پر عمل کی کوشش کرتے اور اگلے ہفتے کی مجلس میں اپنی رواداد سناتے۔ شرکا کی دل چسپی بڑھی‘ تعداد بھی بڑھی۔ جب گھروں میں خواتین نے عمل کیا تو برکات وثمرات مردوں تک بھی پہنچے۔ یہ درس ایک مسجد میں ہوتا تھا (عرب دنیا میں مسجد کے ساتھ خواتین کے لیے تعمیرکردہ حصہ نمایشی نہیں ہوتا‘ آباد ہوتا ہے)۔ حاضری اتنی بڑھی کہ مسجد کے ذمہ داران کو عمارت میں توسیع کرنا پڑی۔ محترمہ سمیّہ رمضان نے اس کی روداد کویت کے رسالے المجتمع میں قسط وار شائع کرنا شروع کی‘ تاکہ ہر کوئی قرآن پر عمل کی اس تحریک میں شامل ہوجائے۔ اس کی ایک قسط یہاں پیش کی جارہی ہے۔(ادارہ)
قرآن مجید تو عمل ہی کے لیے اُترا ہے۔ قرآن کی رہنمائی میں سفرِزندگی طے کرنا دراصل دنیا میں جنت بسانا ہے۔ قرآن مجید پر عمل کرنے سے کتنے زخم مندمل ہوئے‘ کتنی جدائیاں ختم ہوئیں‘ کتنے گھر تباہ ہوتے ہوتے سلامتی کے گھر بنے۔ یہ سب کچھ قرآن کریم پر عمل کرنے کی برکت ہے۔ قرآنی رہنمائی سے انفرادی اصلاح کس طرح ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بہن کا اپناتجربہ اُسی کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے:
مجھے رات دیر تک جاگتے رہنے کی عادت تھی۔ جب مؤذن نماز فجر کے لیے اذان دیتا تو میں غافل و لاپروا سوئی رہتی۔ اللہ کے فرشتے مجھے نمازیوں میں نہ پاتے۔ اس مبارک وقت میں‘ مَیں اور میرے گھر والے شیطان کی گرفت میںہوتے تھے‘ ہم سب گہری نیند سوتے۔ بیدار ہونے کے بعد مجھے سارا دن اس کا قلق رہتا۔ میںنے کئی بار صبح سویرے نماز کے لیے اٹھنے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلے نے کبھی عملی صورت اختیار نہ کی۔ ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب محترمہ بہن سمیّہ رمضان کی زیرِنگرانی ابھی ان کے درسِ قرآن اور قرآنی آیات پر عمل کے تجربے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ محترمہ سمیّہ نے بہت سی بہنوں کے مسائل حل کردیے ہیں تو میں نے بھی اپنا مسئلہ حل کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ ان سے مشورہ کیا تو انھوں نے مجھے ذیل کے ارشاد الٰہی کو بار بار دہرانے کی تاکید کی:
الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَo (الشعرا ۲۶: ۲۱۸-۲۱۹) جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو‘ اور سجدہ گزار لوگوں میں تمھاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔
چنانچہ میں اس نورانی ارشاد کو بار بار دہراتی رہتی اور میں نے کوشش کی کہ یہ ارشاد مبارک جس طرح میری زبان پر جاری ہے اسی طرح دل میں بھی پیوست ہوجائے۔
بالآخر وہ وقت آگیا‘ فیصلہ کن وقت‘ آیت کے مطابق حرکت کرنے کا لمحہ‘ اُدھر مؤذن نے اللّٰہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر کے کلمات ادا کیے‘ اِدھر میں نے اپنے بستر پر کروٹیں بدلنا شروع کر دیں۔ میں مؤذن کی آواز پر لبیک کہنے سے ہچکچا رہی تھی‘ شیطان میرے لیے نیند کو خوش گوار بناکر پیش کر رہا تھا اور نماز کے معاملے کو میری نظر میں معمولی بناکر دکھا رہا تھا۔ اُدھر مؤذن کے کلمات مجھے یہ حقیقت یاد دلا رہے تھے کہ میں مسلمان ہوں۔ مؤذن کہہ رہا تھا: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ، اب مؤذن میرے رسولِ محترم کا ذکر کر رہا تھا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کو وہ بیان کر رہا تھا‘ اشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ۔اب تو مجھے مؤذن نماز کے لیے بلا رہا تھا‘ حیّ علی الصلاۃ ‘ حیّ علی الصلاۃ۔ مؤذن مجھے بتا رہا تھا کہ فلاح و کامیابی نماز ادا کرنے میں ہے حیّ علی الفلاح۔ مؤذن کے یہ الفاظ اور قرآن کی اس آیت کے کلمات اور جس آیت کو بار بار پڑھنے اور عمل کرنے کا مجھے مشورہ دیا گیا تھا ___ مجھے نماز کے لیے پکار رہے تھے۔ پھر اذان اور آیت کے کلمات میرے دل میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ اب نیند میری آنکھوں سے دھل چکی تھی۔ میں نے اللہ رحمن کو اپنے قریب محسوس کیا اور اس احساس کے بیدار ہوتے ہی میں یکدم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنے کپڑے سنبھالے‘ بڑی شدت سے احساس ہوا کہ میں کمرے میں تنہا نہیں ہوں۔ یہاں کوئی اور بھی ہے۔ وہی جو میری شاہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے۔ اُس کے قرب کا احساس ہوا تو میں وضو کے لیے لپکی۔ نماز فجر ادا کرنے کے لیے اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ یہی وہ نماز تھی جس کے پڑھنے کی مجھے بے حد حسرت رہی‘ کتنی بار ارادے باندھے اور توڑے۔ میری آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں اور نماز کے بعد میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے: اللہ کا شکر ہے‘ وہ ذات ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے جس نے مجھے‘ میرے مرنے سے پہلے اس نماز کی توفیق دی اور یوں مجھ پر بڑا کرم کیا۔ اللہ نے مجھ پر چار نہیں پانچ نمازیں فرض کی تھیں مگر میں اپنی سُستی و کاہلی کے سبب صرف چار نمازیں ہی ادا کرتی رہی۔ میں نے رو رو کر اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگی اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے آخری عمر تک اسی طرح پانچوں نمازیں بروقت ادا کرنے کی توفیق دے۔
توبہ واستغفار کے بعد میں پُرسکون ہوکر بیٹھ گئی تو میرے سامنے میری زندگی کی فلم چلنے لگی۔ میں چشمِ تصور سے اپنی گزری ہوئی زندگی کے مناظر دیکھ رہی تھی۔ میں ایک عام سی لڑکی تھی‘ جس کی زندگی کاکوئی واضح ہدف نہ تھا۔ میں زندگی کو کولھو کے بیل کی مانند گزار رہی تھی۔ بالآخر میری شادی ہوگئی۔ مجھے اپنے شوہر کے خیالات و افکار سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ مجھے تو اس کی پوزیشن اور مال و دولت سے غرض تھی۔ اُسے بھی نماز روزے سے کوئی غرض نہ تھی۔ صرف دنیا کی گہماگہمی سے سروکار تھا۔ زندگی کی گاڑی یونہی چلتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوب صورت بچے بھی عطا کیے۔ مجھے اپنے بچوں سے بس یہ تعلق تھا کہ وہ کیا کھاتے ہیں؟ کیا پہنتے ہیں؟ اسکول جاتے ہیں؟پڑھائی کیسی ہورہی ہے؟ ہوم ورک کیسے ہو رہا ہے؟۔ لیکن میں نے اپنے بچوں سے کبھی بھول کر بھی نہ پوچھا کہ انھوں نے نماز پڑھی یا نہیں؟ انھوں نے کتنا قرآن شریف حفظ کرلیا ہے؟ کیاوہ انبیاے کرام ؑکے حالات سے واقف ہیں؟ انھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں کتنا کچھ پتا ہے؟ مجھے بچوں کے ان معاملات میں قطعاً دل چسپی نہ تھی بلکہ میں تو دیر تک ان کے ساتھ ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھی رہتی اور ڈراموں اور فلموں کے مختلف پارٹ سمجھنے میں ان کی مدد کرتی۔
میں نماز پڑھ کے بیٹھی تھی‘ اور گذشتہ زندگی کے بیتے ہوئے شب و روز کی یہ فلم میرے ذہن کی اسکرین پر چل رہی تھی کہ میں یکایک اپنے خاوند کے خراٹوں سے چونک پڑی۔ مناظر دھندلا گئے۔ میرارفیقِ زندگی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ میں نے چاہا کہ اُسے جگائوں‘ اُسے نماز کے لیے بیدار کروں اور اپنا قصہ بھی سنائوں۔ میں نے اُسے اُس کا نام لے کر نہیں جگایا‘ جیساکہ میرامعمول تھا بلکہ میں نے آج اس کے کندھوں پر جھک کر قدرے بلند آواز سے یہ آیت پڑھی: الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَo (جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمھاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے)۔ یہ آیت سن کر میرا خاوند اُٹھا‘وضو کیا‘ نماز پڑھی اور پھر آکر میرے پاس بیٹھ گیا۔ کہنے لگا: آج کی صبح کتنی مبارک اور کس قدر حسین ہے کہ آج مجھے تم سے قرآن سننے کا موقع ملا‘ میں اسے اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا: خوش قسمتی تو میری ہے کہ میں نے آج مؤذن کی اذان پر بیدار ہوکر قرآن کی آیت پر عمل کیا ہے‘ خوش قسمت تو میں ہوں کہ میں نے آج تمھیں پہلی بار نمازِ فجر پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر میرے شوہر کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اُٹھا۔ اُس نے کہا: میں تمھیں ایک عجیب واقعہ سناتا ہوں۔
کل گھر واپس آتے ہوئے میں اپنی گاڑی میں نصب ریڈیو کی سوئی گھما رہا تھا کہ وہ سوئی قرآن چینل پر آکر رک گئی۔ میں نے چاہا کہ اس اسٹیشن سے سوئی کو ہٹا دوں مگر میں ایسا نہ کرسکا کیونکہ ٹریفک پولیس نے مجھے گاڑی روکنے کے لیے اشارہ کیا تھا۔ گاڑی جب دوبارہ چلائی تو قرآن چینل سے اللہ تعالیٰ مجھ سے مخاطب تھا۔ جی ہاں‘ مجھ سے ہی مخاطب تھا‘ مجھے اُس وقت یہی احساس ہوا کہ اللہ مجھ سے خطاب کر رہا ہے۔ تم جانتی ہو کہ میرا رب مجھ سے کیا کہہ رہا تھا:
وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ق وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ م بِیَمِیْنِہٖ ط سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o (الزمر ۳۹:۶۷) ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیساکہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
قرآن کریم کے اس ارشاد نے میرے پورے وجود کو ہلا کے رکھ دیا۔ میں سمندر کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا‘ میں نے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو دیکھا اور پھر سمندر کی جانب دیکھا۔ اس فرق نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ یہ سمندر تو کچھ بھی نہیں‘ اللہ کے ہاتھ میں تو پوری زمین ہے‘ اللہ کس قدر بڑا ہے؟ میں نے فوراً یہ آیت یاد کرلی‘ مجھے محسوس ہوا گویا یہ آیت میرے دل میں ہے اور میرا دل اسی کی وجہ سے دھڑک رہا ہے۔ مجھے اپنے پورے جسم میں ایک سکون و حلاوت کا ادراک ہوا‘ اور میرے پروردگار کا فضل مجھ پر آج اس وقت پورا ہوا جب تم نے قرآن مجید کی آیت پڑھ کر جگایا۔ مجھے تم نے نہیں جگایا‘ بلکہ مجھے میرے اللہ نے جگایا ہے‘ نماز فجر ادا کرنے کے لیے۔
میں نے کہا: مجھے بھی میرے رب نے ہی آیت کریمہ کے ذریعے جگایا ہے۔ میرے اور تمھارے عمل سے یہ آیت زندہ و متحرک ہوئی ہے۔ میرے شوہر نے کہا: میری عمر ۴۰ سال سے زائد ہے۔ قرآن میرے گھر میں موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں قرآن پڑھتا نہیں ہوں۔ میں پڑھتا ہوں‘ بہت سی سورتیں اور آیتیں حفظ بھی کرلی ہیں۔ مگر میرے اور قرآن کریم کے درمیان ایک رکاوٹ تھی۔ میں نے فوراً جواب دیا: جی ہاں‘ یہ رکاوٹ تھی‘ قرآن کے مطابق عمل نہ کرنے کی‘ قرآن کے مطابق حرکت نہ کرنے کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین پر چلتا پھرتا قرآن تھے۔
’’ہم بھی زمین پر چلتے تھے مگر قرآن کے ساتھ نہیں‘‘، میں نے یہ کہا اور زار و قطار رونے لگی۔ میرے خاوند کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے‘ وہ یک دم کھڑا ہوگیا۔ بچوں کے کمرے کی جانب بڑھا۔ اُس نے کمرے کی بتیاں روشن کیں پھر بجھا دیں۔ چند بار ایسا کیا توبچے نیند سے بیدار ہوگئے۔ اُس نے زور سے اللہ اکبر کہا۔ بچے حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میرے رفیقِ زندگی نے بچوں سے کہا: جانتے ہو ہمیں کون ملنے آیا ہے؟ اور ہمیں اب دیکھ رہا ہے؟ اللہ تم لوگوں سے ملنے آیا ہے۔ بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا‘ ان کا والد بڑی ہی میٹھی آواز میں پڑھ رہا تھا: ’’جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمھاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے‘‘۔ پھر اُس نے اعلان کیا: ’’آج گھر میں نماز پڑھ لو‘ کل سے ان شاء اللہ مسجد میں نماز پڑھنے جایا کریں گے‘‘۔ میرا شوہر بچوں کو نماز پڑھتے دیکھتا رہا۔ سب نے نماز پڑھ لی تو اس کا دل مطمئن ہوا۔ پھر اس کا ذہن اس آیت کی طرف منتقل ہوا: وَکَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہ‘ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا(مریم ۱۹:۵۵) ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا‘‘۔ یہ سوچتے ہی اُس نے دعا کی: ’’یااللہ! مجھ سے راضی ہوجا‘ مجھے معاف فرما دے‘ مجھ پر رحم کر‘‘۔ پھر مجھ سے کہنے لگا: آج سے تم بچوں کی نگرانی کرو گی اور انھیں نماز پڑھنے کا حکم دو گی۔ میں نے کہا: یہ میری بات نہیں سنتے‘ انھیں نماز کا پابند بنانے میں مجھے کافی محنت کرنا پڑے گی۔ میرے خاوند نے مجھے مشورہ دیا کہ تم انھیں اس آیت سے متحرک کرو: ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا‘‘(مریم۱۹:۵۵)۔ میں نے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنانے کا تہیہ کرلیا‘ میں نے ایک بڑا چارٹ لیا اور یہ آیت جلی خط میں اس پر لکھ دی۔
ہم میں سے ہر ایک اس امر کا محتاج ہے کہ وہ اپنی آنکھوںاور کانوں اور دل پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹا دے‘ دلوں پر لگی مہروں کو کھرچ کھرچ کر پھینک دے۔ دلوں پر غفلت کے پڑے ہوئے پردوں کی وجہ سے ہم بلاسوچے سمجھے یونہی قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں۔ نہ ہم اُسے سمجھتے ہیں‘ نہ عمل کرتے ہیں۔ ہماری یہ دعوت صرف مسلمان عورتوں کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آیئے! ہم قرآن کا مطالعہ روحِ محمدؐ اور ارواحِ صحابہؓ کے ساتھ کریں۔ وہی جذبہ‘ وہی ولولہ جو آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ میں تھا‘ ہمارے اندر آجائے۔ ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت یہ عہد کریں کہ یہ نورانی آیات سطور و صفحات سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ہمیں بلا رہی ہیں‘ پکار رہی ہیں۔ یہ آیتیں خالق و مالک کی وحدانیت کا اعلان کر رہی ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ قرآن جس بات کا ہمیں حکم دے گا ہم اس کی تعمیل کریں گے اور جس بات سے روکے گا اس سے رک جائیں گے۔
جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا‘ نمازوں میں اضافہ ہوجاتا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے اور خوف بہت غالب ہوجاتا۔
ایک حدیث میں ہے کہ ’خدا رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادت چھوڑ دو اور روزہ رکھنے والوں کی دعائوں پر آمین کہو‘۔ (آدابِ زندگی‘ ص ۱۰۱)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ افطار کے وقت روزہ دار جو دعا مانگے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے‘ رد نہیں کی جاتی۔ (ایضاً‘ ص ۱۰۳)
نیکیوں کا موسم بہار‘ ماہِ رمضان المبارک ایک مرتبہ پھر ہماری زندگی میں خوش قسمتی سے رحمتوں‘ مغفرتوں اور جہنم سے نجات کا مژدہ لیے آپہنچا ہے۔
دعا کی ضرورت‘ اہمیت اور افادیت سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ گذشتہ دنوں مولانا اشرف علی تھانویؒ کی دعائوں پر مشتمل ایک کتاب مُناجاتِ مقبول جس کا ترجمہ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے کیا ہے‘ زیرِمطالعہ رہی۔ اس میں سے کچھ چھوٹی چھوٹی دعائیں جو بہت اچھی لگیں‘ پیشِ خدمت ہیں۔ ان کا یاد کرنا اور یاد رکھنا اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا آسان ہے‘ نیز اپنے الفاظ اور مضمون میں بہت تاثیر کی حامل ہیں۔
۱- اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَالَّذِیْ تَـقُوْلُ وَخَیْرًا مِّمَّا نَقُولُ ، ’اے اللہ ! تیرے واسطے سب تعریف ہے جیسی کہ تو خود فرماتا ہے اور اس سے کہیں بڑھ کر جو ہم بیان کرتے ہیں‘۔ (عن علیؓ)
۲- اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنِی لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ وَالْفِعْلِ وَالنِّیَّۃِ وَالْھُدٰی اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ ، ’اے اللہ مجھے اس چیز کی توفیق دے جسے تو پسند کرے‘ اچھاسمجھے‘ خواہ وہ قول ہو یا عمل یا فعل یا نیت یا طریق‘ بے شک تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔ (عن ابن عمرؓ)
۳- اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ بِالْعِلْمِ وَزَیِّـنِّیْ بِالْحِلْمِ وَاَکْرِمْنِیْ بِالتَّقْوٰی وَجَمِّلْنِیْ بِالْعَافِیَۃِ، ’اے اللہ ‘ میری مدد کر علم دے کر اور مجھے آراستہ کر وقار دے کر اور مجھے بزرگی دے تقویٰ سے اور مجھے جمال دے امن و چین دے کر‘۔(عن ابن عمرؓ)
۴- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَحْسَنُوْا اِسْتَبْشَرُوا وَاِذَا اَسَآئُ وْا اِسْتَغْفَرُوْا، ’اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے جو جب کوئی نیک کام کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور جب کوئی برائی کرتے ہیں تو مغفرت چاہنے لگتے ہیں۔ (عن عائشہؓ)
۵- اَللّٰھُمَّ خِرْلِیْ وَاخْتَرْلِیْ، ’اے اللہ تو ہی میرے لیے (چیزوں کو) چھانٹ لے اور پسند کرلے‘۔ (عن ابوبکر صدیقؓ)
۶- اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِی فِی زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْن، ’اے اللہ مجھے خاکسار بناکر زندہ رکھ اور خاکساری ہی کی حالت میں موت لا اور خاکساروں ہی میں مجھے اُٹھا‘۔(عن ابن عمرؓ)
۷- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ مِنْ فُجْئَۃِ الْخَیْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فُجْئَۃِِ الشَّرِّ، ’اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں غیرمتوقع بھلائی اور تیری پناہ چاہتا ہوں ناگہانی برائی سے‘۔(عن انسؓ)
۸- اَللّٰھُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِیْ لِذِکْرِکَ وَارْزُقْنِیْ طَاعَتَکَ وَطَاعَۃَ رَسُولِکَ وَعَمَلًا بِکِتَابِکَ ، ’اے اللہ میرے دل کے کان اپنے ذکر کے لیے کھول دے اور مجھے نصیب کر اپنی فرماں برداری اور اپنے رسولؐ کی فرماں برداری اور اپنی کتاب پر عمل‘۔ (عن علیؓ)
۹- اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ قُلُوبًا اَوَّاھَۃً مُّنِیْبَۃً فِی سَبِیْـلِکَ، ’اے اللہ ہم تجھ سے ایسے دل مانگتے ہیں جو تیری راہ میں بہت تاثر قبول کرنے والے‘ بہت عاجزی کرنے والے اور بہت رجوع کرنے والے ہوں‘۔(عن ابن مسعودؓ)
۱۰- اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ، ’اے اللہ مجھے اپنا حلال رزق دے کر حرام روزی سے بچالے اور اپنے فضل سے مجھے اپنے سوا ہر چیزسے بے نیاز کر دے۔ (عن علیؓ)
۱۱- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ رِزْقًا طَیِّبًا وَعِلْمًا نَافِعًا وَعَمَلًا مُتَقَـبَّلًا، ’اے اللہ میں تجھ سے پاکیزہ رزق‘ کارآمد علم اور مقبول عمل طلب کرتا ہوں‘۔ (عن اُم سلمہؓ)
۱۲- اَللّٰھُمَّ قِنِی عَذَابَکَ یَـومَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ ، ’اے اللہ! جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا مجھے اپنے عذاب سے بچا دینا‘۔(عن حفصہؓ)
۱۳- یَاحَیُّ یَاقَـیُّومُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِی شَأْنِی کُلَّہٗ وَلَا تَکِلْنِی اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ، ’اے حی‘ اے قیوم! تیری رحمت کے واسطے سے فریاد کرتا ہوں کہ میرے سارے حالات کو درست کر دے اور مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر‘۔(عن انسؓ)
۱۴- اَللّٰھُمَّ اَحْسَنْتَ خَلْقِیْ فَاَحْسِنْ خُلُقِیْ وَاذْھَبْ غَیْظَ قَلْبِیْ وَاَجِرْنِیْ مِنْ مُّضِلَّاتِ الْفِتَنِ مَا اَحْیَـیْتَنَا ، ’اے اللہ تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے پس میری سیرت بھی اچھی کر دے اور میرے دل کی کھولن (غصہ) دُور کر دے اور جب تک زندہ رکھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے مجھے بچائے رکھ‘۔ (عن اُم سلمہؓ)
۱۵- اَللّٰھُمَّ لَقِّنِی حُجَّۃَ الْاِیْمَانِ عِنْدَ الْمَمَاتِ ، ’اے اللہ موت کے وقت مجھے حجتِ ایمان کی تلقین فرما دے‘۔ (عن عائشہؓ)
۱۶- اَللّٰھُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَاَکْرِمْنَا وَلَا تُھِنَّا وَاَعْطِنَـآ وَلَا تَحْرِمْنَا وَاٰثِرْنَا وَلَا تُـؤْثِرْ عَلَیْنَا وَاَرْضِنَا وَارْضَ عَنَّا، ’اے اللہ ہم میں اضافہ کر اور کمی نہ کر‘ ہمیں عزت و آبرو دے اور خوار نہ کر۔ ہمیں عطا فرما اور محروم نہ رکھ‘ ہمیں دوسروں پر بالا رکھ اور دوسروں کو ہم پر مؤثر نہ بنا اور ہمیں خوش رکھ اور ہم سے خوش رہ‘۔ (عن ابن عمرؓ)
۱۷- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ الْاَعْلٰی، ’اے اللہ مجھے بخش دے‘ مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیقِ اعلیٰ کے ساتھ جا ملا‘۔(عن عائشہؓ)
۱۸- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ الصِّحَۃَ وَالْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الخُلُقِ وَالرِّضٰی بِالْقَدْرِ ، ’اے اللہ میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں تندرستی کی‘ پاک بازی کی‘ امانت کی‘ حسنِ خلق کی اور تقدیر پر راضی رہنے کی‘۔ (عن ابن عمرؓ)
۱۹- اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لَنَا اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَسَھِّلْ لَّنَا اَبْوَابَ رِزْقِکَ، ’اے اللہ ہم پر رحمت کے دروازے کھول دے اور اپنے رزق کے دروازے ہمارے لیے آسان کردے‘۔(عن ابی حمیدؓ)
۲۰- اَللّٰھُمَّ اعْصِمْنِیْ مِنَ الشَّیْطَانِ ، ’اے اللہ مجھے شیطان سے محفوظ رکھ‘۔ (عن ابی ہریرہؓ)
۲۱- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَاھْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ وَعَافِنِیْ وَاھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِکَ ، ’اے اللہ! مجھے بخش دے‘ مجھے ہدایت دے‘ مجھے رزق دے‘ مجھے عافیت دے اور جس چیز کے حق ہونے میں اختلاف ہو اس میں مجھے راہِ صواب دکھا دے‘۔(عن عائشہؓ)
۲۲- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اَوَّلَ ھٰذَا النَّھَارِ صَلَاحًا وَاَوْسَطَہٗ فَلَاحًا ، وَاٰخِرَہٗ نَجَاحًا اَسْأَلُکَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ ، ’اے اللہ میرے آج کے دن کے اول حصے کو بہتر‘ درمیانی حصے کو باعثِ فلاح اورآخری حصے کو باعثِ کامیابی بنادے۔ اے سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان‘ میں تجھ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہوں‘۔ (عن عبدالرحمن بن ابی عوفؓ)
۲۳- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ اِیْمَانًا دَائِمًا وَھُدًی قَیِّمًا وَعِلْمًا نَافِعًا ، ’اے اللہ میں تجھ سے ایمانِ دائم ‘ہدایتِ محکم اور علمِ نافع کا طلب گار ہوں‘۔(عن انسؓ)
۲۴- اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مُسْلِمًا وَاَمِتْنِیْ مُسْلِمًا ، ’اے اللہ مجھے مسلمان ہی زندہ رکھ اور مسلمان ہی (رکھ کر) وفات دے‘۔ (عن سمرہؓ)
۲۵- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی ذَنْبِی وَوَسِّعْ لِی فِی دَارِی وَبَارِکْ لِی فِی رِزْقِی، ’اے اللہ میرے گناہ بخش دے‘ میرے گھر میں وسعت دے اور میرے رزق میں برکت دے‘۔(عن ابی موسیٰ اشعریؓ)
۲۶- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِکَ عَلَیَّ عِنْدَ کِـبَرِ سِنِّی وَانْقِطَاعِ عُمْرِیْ، ’اے اللہ میرے بڑھاپے میں اور عمر کے ختم ہونے کے وقت میرے لیے اپنا رزق خوب فراخ کر دینا‘۔ (عن عائشہؓ)
۲۷- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ خَیْرَ عُمْرِی اٰخِرَہٗ وَخَیْرَ عَمَلِیْ خَواتِیْمَہُ وَخَیْرَ اَیَّامِیْ یَومَ اَلْقَاکَ فِیْہِ ، ’اے اللہ میری عمر کا بہترین حصہ اس کا آخری حصہ کرنا اور میرا بہترین عمل میرا آخری عمل کرنا اور میرا بہترین دن تجھ سے ملاقات والا دن ہو‘۔ (عن انسؓ)
۲۸- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَارْضَ عَنَّا وَاَدْخِلْنَا الجَنَّۃَ وَنَجِّنَا مِنَ النَّارِ وَاَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا کُلَّہٗ ، ’اے اللہ ہمیں بخش دے‘ ہم پر رحم کر‘ ہم سے راضی ہوجا‘ ہمیں بہشت میں داخل کر‘ ہمیں دوزخ سے بچا دے اور ہمارے سب حالات درست کر دے‘۔(عن ابی امامہؓ)
۲۹- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی خَطِٓیئَتِیْ وَجَھْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ ، ’اے اللہ بخش دے میری خطا‘ میری نادانی اور اپنے کاموں میں میری زیادتی اور وہ بھی جو مجھ سے بڑھ کر تو خود جانتا ہے‘۔(عن ابوموسیٰ اشعریؓ)
۳۰- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِّنْ عَلَانِیَـتِیْ وَاجْعَلْ عَلَانِیَـتِیْ صَالِحَۃً ، ’اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر کر دے اور میرے ظاہر کو صالح بنادے‘۔(عن ابن عمرؓ)
۳۱- اَللّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَزَکِّھَآ اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکّٰـھَآ اَنْتَ وَلِیُّھَا وَمَوْلَاھَا ، ’اے اللہ میرے نفس کو اس کی پرہیزگاری عطا کر اور اسے پاک کر دے تو ہی اس کو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے اور تو ہی اس کا مالک اور آقا ہے‘۔(عن زید بن ارقمؓ)
۳۲- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالغِنٰی ، ’اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت‘ پرہیزگاری‘ پارسائی اور سیرچشمی مانگتا ہوں۔ (عن عبداللہ بن عمرو بن العاص)
۳۳- اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ وَسَدِّدْنِی ، ’اے اللہ! مجھے ہدایت دے اور مجھے استوار رکھ‘ (عن علی)
۳۴- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّی ، ’اے اللہ! مجھے بخش دے جو کچھ میں نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا اور جو کچھ میں نے پوشیدہ کیا اور کچھ علانیہ کیا اور اس کو بھی جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے‘۔ (عن ابن عمرؓ)
۳۵- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ المَائِ البَارِدِ، ’اے اللہ! اپنی محبت مجھے پیاری کر دے‘ میری جان سے اور میرے گھر والوں سے اور ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر‘۔ (عن ابی الدرداء و عن معاذ)
۳۶- یَا مُقَّلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْـنِکَ ، ’اے دلوں کو پلٹنے والے‘ میرا دل اپنے دین پر مضبوط رکھ‘۔ (عن انس)
۳۷- اَللّٰھُمَّ اَعِنَّا عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ، ’اے اللہ! اپنے ذکر اور اپنے شکر اور اپنی اچھی سے اچھی عبادت کے باب میں ہماری مدد فرما‘۔ (عن معاذ و عن ابی ہریرہؓ)
۳۸- اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُورًا وَاجْعَلْنِیْ شَکُورًا وَاجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا ، ’اے اللہ! مجھے بڑا صبر کرنے والا اور بڑا شکر ادا کرنے والا بنا دے اور مجھے اپنی نظر میں چھوٹا اور دوسروں کی نظر میں بڑا بنا دے‘۔ (عن بریدہ)
۳۹- اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم ، ’اے اللہ! مجھے بخش دے‘ مجھ پر رحم کر اور میری توبہ قبول کر‘ بے شک تو ہی بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم فرمانے والا ہے‘۔ (عن ابن عمرؓ)
۴۰- اَللّٰھُمَّ اَعْطِ مُحَمَّدَنِ الْوَسِیْلَۃَ وَاجْعَلْ فِیْ الْمُصْطَفَیْنَ مَحَبَّتَہٗ وَفِیْ الْاَعْلَیْنَ دَرَجَتَہٗ وَفِیْ الْمُقَرَّبِیْنَ ذِکْرَہٗ ، ’اے اللہ‘ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو مقامِ وسیلہ عطا فرما‘ آپؐ کو برگزیدہ لوگوں کا محبوب بنا دے‘ آپؐ کا مرتبہ عالی مقام لوگوں میں کر دے اور آپؐ کا ذکر اہلِ تقرب میں ہو‘۔ (عن ابی امامہؓ)
ترجمہ: نعیم صدیقی ؒ
شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب منصبِ امامت میں خلافت راشدہ (یا امامت تامہ)‘ سلطنت عادلہ‘ سلطنت کاملہ‘ سلطنت جابرہ‘ سلطنتِ ضالہ اور سلطنتِ کفر کے عنوانات کے تحت مختلف طرز کی حکومتوں کے نظام کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہم موجودہ آمریت کے دور میں‘ سلطنتِ جابرہ کا بیان پیش کر رہے ہیں۔ ترجمہ محترم نعیم صدیقی کا کیاہوا ہے اور یہ ۶۰ سال قبل جولائی‘ اگست ۱۹۴۵ء اور ستمبر‘ اکتوبر ۱۹۴۵ء کے ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ (ادارہ)
سلطان جابر‘ اس آمر کو کہیں گے جس پر نفس امارہ کا اتنا زیادہ غلبہ ہوچکا ہو کہ نہ خوفِ خدا اسے مانع ہو‘ نہ شرمِ مخلوق! نہ شرع کی پروا ہو‘ نہ عرف کا لحاظ! بس نفس کی طرف سے کوئی فرمان صادر ہوا تو جھٹ سے اس کی تعمیل ہوگئی‘ چاہے شریعت موافق ہو‘ چاہے مخالف۔ اس کے نزدیک تو اپنی خواہشات کا پورا کر لینا ہی سلطنت کا منتہاے مقصود ہے۔ ایسے لوگوں کا ’’نظامِ حکومت‘‘ سلطنتِ جابرہ کہلاتا ہے۔
یہ ملحوظ رہے کہ سلاطین جابرہ‘ شرع کی مخالفت میں‘ مزاج کی افتاد کے مطابق مختلف مدارج پر فائز ہوتے ہیں۔ کوئی سرشار کبرونخوت ہوتا ہے تو کسی دوسرے کو ناز و تبخترکے مظاہرے کا خاص ذوق ہوتا ہے‘ کسی کو جور و تعدّی سے اور کسی کو فسق وفجور سے خاص مناسب ہوتی ہے‘ کوئی صنفی لذات میں سرمست ہے تو کوئی شراب گلگوں کا رسیا ہے۔ ایک چٹ پٹے کھانوں کا شیدا ہے اور دوسرا نفیس پوشاکوں پر فریفتہ۔ کہیں کھیل تماشے سے زیادہ دل چسپی ہے اور کہیں نغمہ و سرود سے خاص وابستگی ہے۔ بہرحال ہوا و ہوس کے راستے بے شمار ہیںاور نفس پرستی کی شکلیں لاتعداد‘ اور اگر ان کی تفصیل شروع کر دی جائے تو اسے پورا کرنے کے لیے کئی صفحے چاہییں۔ یہاں اس شجرِخبیث کی چند بڑی بڑی شاخوں کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے‘ جن سے آگے بے شمار فروع نکلتی ہیں۔
۱- سفاھت: مخالفتِ شرع کی ایک وجہ سلطان جابر کی سفاہت ہے۔ ظاہر ہے کہ نعمتِ عقل وخرد سے جو شخص محروم اور دُوراندیشی کے فن سے کورا ہو‘ وہ کسی اصول و مسلک کی پیروی میں استقامت کیا دکھائے گا اور اس سے متانت کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے؟ اس کے نزدیک وفا و استقلال کی صفت کو کوئی قیمت حاصل نہ ہوگی‘ نہ ننگ و عار کا اسے ذرہ بھر پاس ہوگا۔ اپنی سفاہت کی وجہ سے وہ ہر خواہش کو‘ جس کا گزر آدمی کے دل میں ہوسکتا ہے‘ فوراً پوری کرنے کی فکر کرے گا۔ یہ ہرگز نہ دیکھے گا کہ اس سے کیا نفع و نقصان ہوسکتا ہے اور اس کا آخری نتیجہ کیا ہونے والا ہے۔ وہ جو کچھ کرے گا‘ بالکل بچوں کی طرح دیوانہ وار کرے گا اور جہاں جہاں منہ مارے گا ٹھیک شتربے مہار کی طرح مارے گا۔
اس طرز کا آدمی جب منصبِ سلطنت پر براجمان ہوتا ہے تو سیاست کا سارا کاروبار چوپٹ ہوجاتا ہے‘ کیوں کر اس کے کرتوت نہ قوانینِ شریعت کے پابند ہوتے ہیں‘ نہ آئین عرفی کے مطابق۔ ایسے شخص کی سلطنت میں کون ہے جو نالاں نہ ہوگا؟ چھوٹے بڑے اور خواص و عوام سبھی دکھ پا پا کر فریاد کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بلاے عظیم ہے جس کی گرفت سے نادان و دانا اور غافل و ہوشیار سبھی چھوٹ بھاگنا چاہتے ہیں۔ ذیل کی حدیث میں اسی بلاے عظیم کی طرف اشارہ ہے:
اُعِیْذُکَ بِاللّٰہِ مِنْ اِمَارَۃِ السُّفَھَائِ وَقَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ رَأسِ السَّبْعِیْنَ وَاِمَارَۃِ الصِّبْیَانِ -
میں تمھارے لیے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں بے وقوفوں کی امارت سے۔ مزید فرمایا کہ اللہ کی پناہ مانگو ۷۰(برس کی عمر) سے اور لونڈوں کی حکومت سے۔
ھَلَکَ اُمَّتِیْ عَلٰی اَیْدِی غِلْمَۃٍ مِنْ قُرْیْشٍ -
میری یہ اُمت قریش کے چند چھوکروں کے ہاتھوں تباہ ہوگی۔
۲- عیش پرستی: آپ جانتے ہیں کہ بعض لوگ کسی جبلی سبب کے تحت‘ اپنی قوتِ شہوانیہ سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ساری قوتیں لذتوں اور راحتوں کے جنوں میں صرف ہوتی ہیں اور ان کی عقل‘ عیاشی کی بھول بھلیوں میں گم رہتی ہے۔ دن رات چٹ پٹی غذائوں اور دلفریب لباسوں اور سرور بخش شرابوں کے موضوع پر کاوشیں ہوں گی‘ شطرنج بازی اور نے نوازی کا مشغلہ ہوگا۔ رقص و سرود کے چرچے ہوں گے‘ عورتوں اور لونڈوں میں انہماک ہوگا‘ محلات تعمیر کرنے اور دل کش باغات لگانے میں خاص توجہ رہے گی وغیرہ۔ فکروتدبیر کے گھوڑے ان میدانوں میںخوب دوڑائے جائیں گے اور دل کھول کر دادِ فسق دی جائے گی۔
اس قماش کے لوگ جب منصبِ سلطنت پر قابض ہوجاتے ہیں تو بذلہ سنج لوگ ان کے درباروں میں جمع ہونے لگتے ہیں اور خوب اچھی طرح بھانپ لیتے ہیں کہ یہاں رغبت صرف لذتوں اور راحتوں کی طرف ہے۔ پس وہ سب کھیل تماشے اور راگ رنگ کے نئے نئے ڈھنگ ایجاد کرنے میں لگ جاتے ہیں اور ایک ایک مشغلے کو بڑا لمبا چوڑا فن لطیف بناکر چھوڑتے ہیں۔ پھر مدتوں محنت کر کر کے اسے کمال کو پہنچاتے ہیں۔ عیش پسند سلاطین بھی ایسے ہی فنون کے ماہرین کو اپنا مقرب اور خیرخواہ شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ جو کوئی مانا ہوا عیاش ہو‘ یا بے حیا بھانڈ ہو‘ یا چال باز دیّوث ہو‘ یا طبلہ سارنگی کا استاد ہو‘ وہی دربارِ سلطانی میں مسندآرا ہوگا۔
لیکن فسق و فجور کی یہ گرم بازاری دولت کو پھونکے بغیر کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔ اسے جاری رکھنے کے لیے خزانے بھرپور ہونے چاہییں۔ چنانچہ سلاطین جبابرہ مجبور ہوتے ہیں کہ مال جمع کرنے کے لیے رعایا پر قسم قسم کے جوروستم روا رکھیں اور بے دھڑک دست درازی کا مظاہرہ کریں۔ اس سے لازماً ملک میں تباہی پھیلتی ہے۔ مفلس اور کمزور لوگ بے خانماں ہوجاتے ہیں اور تاجر و زمین دار بدحال۔ اتنا ہی نہیں‘ یہ طوفان فسق وفجور بعض صورتوں میں آبرومندوں کی بے آب روائی اور پردہ داروں کی پردہ دری پر منتہی ہوتا ہے‘ اور یہ حالت بھی سلطنت کی تباہی کا سامان بنتی ہے۔ پھر یہ کہ سلطان جب کھیل تماشوں اور نغموں‘ شرابوں میں مستغرق ہوگیا‘ تو نظام حفاظت و عدالت کا بگڑجانا لازمی ہے جس کا نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ رعایا میں باہم جور وستم کا بازار گرم رہے۔ الغرض سلاطین کا فسق و فجور‘ رعایا کی بدحالی اور ملک کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے:
اِنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ بَدَئَ نَبُوَّۃً وَرَحْـمَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ خِـلَافَۃً وَرَحْـمَۃً ثُـــمَّ مُلْکًا عَضُوْضًا ثُمَّ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً وَعُتُوًّا وَفَسَادًا فِی الْاَرْضِ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحَرِیْرَ وَالْفُرُوْجَ وَالْخُمُوْرَ ‘ یَـرْزُقُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ وَیَنْصُرُوْنَ حَتّٰی یُلٰـقُوا اللّٰہَ -
یہ نظام ‘نبوت و رحمت سے شروع ہوا‘ پھر خلافت و رحمت بنے گا‘ پھر سلطنت مستبد کی شکل اختیار کرے گا‘ پھر جبر‘سرکشی اور فساد فی الارض کی مملکت بن جائے گا (اس وقت کے امرا وسلاطین) ریشم‘ عورت اور شراب کو بالکل حلال کرلیں گے اور اسی قسم کی کارروائیوں پر لوگوں کو عطیے دیں گے اور ان کی مدد کریں گے‘ یہاں تک کہ اللہ کو جاملیں گے۔
اس حدیث میں سلطنت جبر کی مکمل تعریف آگئی ہے جس سے اس کی ماہیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
فسق و ظلم کی یہ بادشاہت پوری اُمت کے لیے ایک خوفناک مصیبت ہوتی ہے‘ خصوصاً اس وجہ سے کہ اہلِ دین و دانش سلاطین وقت سے دُور بھاگتے ہیں اور ان کی مجالس سے کنارہ کشی کرتے ہیں اور ان کا تقرب نہیں چاہتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی معاش میں خلل آجاتاہے اور اطمینانِ قلب سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس حال میں وہ اصلاح معاد کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہوسکتے‘ اور نہ ان کی پوری مساعی جستجوے راہِ حق پر صرف ہوسکتی ہیں۔
لیکن اگر وہ سلاطینِ وقت کے تقرب کو پسند کریں اور وہی ڈھنگ سیکھ لیں جو اُن کے تقرب کا لازمہ ہیں تو اس صورت میں انھیں سب سے پہلے دین و ایمان سے دست بردار ہونا پڑے گا‘ پھر عزت و آبرو کو چھوڑنا ہوگا‘ پھر فحش گوئی کو اپنا خاص کمال اور نغمہ سرائی کو اپنا خاص ہنر قرار دینا ہوگا۔ پس ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ سلاطین (جبابرہ) کی ملازمت اختیار کرکے‘ اپنے دین و ایمان کی جڑ پر کلہاڑا نہ چلائیں۔ انھیں یہ خیال ہرگز دل میں نہ لانا چاہیے کہ اپنا دین بھی بچالیں گے اور زندگی کے معاشی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے درباروں سے کچھ کما بھی لائیں گے۔ ایسا خیال کرنا خوش فکری اور غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ؎
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
۳- حُبِّ مال: عموماً ایسے اشخاص دنیا میں پائے جاتے ہیں جنھیں پیدایشی طور پر مال کی غیرمعمولی حرص ہوتی ہے۔ مگر حرص بھی اس عجیب قسم کی کہ فقط گوناگوں اموال کے جمع ہوجانے ہی پر اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور حصولِ لذت کے لیے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہاں تو نفسِ اجتماع دولت ہی سب سے بڑی لذت اور اس کی کثرت ہی سب سے بڑی راحت ہے۔ ایسے لوگ جب اپنے خزانوں اور دفینوں کی ایک جھلک دیکھتے ہیں تو باغ باغ ہوجاتے ہیں اور انھیں ترقی کی خواہش دلوں میں اور بھڑک اُٹھتی ہے‘ چنانچہ خزانے سمیٹنے کے لیے سو طرح کے دکھ سہتے ہیں اور ہزار طرح کی مشقتیں برداشت کرتے ہیں۔ حد یہ کہ بھوکے ننگے رہ کے عمرگزار دیںگے مگر کیا مجال کہ اپنے خزانے میں سے ایک دمڑی بھی صرف کرسکیں۔
اب خود ہی غور کیجیے کہ ایسے لوگ اگر نظامِ سلطنت پر قابض ہوجائیں تو ان سے بجز اس کے اور کیا توقع ہو سکتی ہے کہ اپنی حرص کی آگ خوب بھڑکائیں۔ چنانچہ اہلِ زراعت و تجارت سے لے کر اغنیا و فقرا تک سے حق حکمرانی (ٹیکس وصول کرتے ہیں وہ بھی اس اہتمام کے ساتھ کہ مچھر کی ٹانگ سے لے کر چیونٹی کے انڈے تک کوئی چیز حساب سے باہر نہ رہے اور ایک رائی کادانہ بھی کسی کو معاف نہ کیا جائے۔ بلکہ ان ظالموں کی تو دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ رعایا کے کسی فرد سے کوئی جرم سرزد ہو‘ یا کوئی قصور کسی پر ثابت ہوجائے تو اس کی پکڑدھکڑ اور سزا و تعزیر کے دوران میں‘ اس کے مال و اسباب کو بہ لطائف الحیل اڑا لیاجائے۔ ایسے لوگ خود بھی رات دن یہی سوچتے رہتے ہیں کہ رعایا سے کس طرح مال ہتھیایا جائے اور ان کے درباری بھی اسی موضوع پر عقل لڑاتے رہتے ہیں۔ اب جس نے پرایا مال مارنے کے لیے کوئی کارگر تدبیر گھڑلی اور جس نے رعایا کو جُل دینے کا کوئی کامیاب گُرڈھونڈ نکالا وہی ان کا خاص امیرہے۔ وہی خیرخواہ وزیر ہے اور وہی مخلص مشیر! اس طرح سلطان جابر اور اس کے درباریوں کی مسلسل کاوشوں سے حیلہ سازی‘ اور فریب بازی کے فنونِ لطیفہ اپنے کمال کو پہنچتے ہیں اور ان کے اصول و فروع مدوّن ہوجاتے ہیں۔
رہا بخل‘ سو اس کے تقاضے کے ماتحت ظالم سلاطین اپنے ملازمین سے یہ تو چاہتے ہیں کہ وہ وفاداری سے خدمت کریں اور اس خدمت کو اپنا فخر سمجھیں‘ مگر یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ خزانے سے کوئی ایک تنکا بھی نکالا جائے یا دفینے میںسے ایک کوڑی بھی کم ہوجائے۔ چنانچہ ان سے خدمت لینے کے لیے کتنی ہی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں اور ریاست و سیاست کی کامیابی کے لیے خلق اللہ کو بالکل مصنوعی خُلق سے رام کرتے ہیں‘ نیز جب مناسب سمجھتے ہیں اپنے خدام کو محض تعظیم و تکریم کے نشے میں مست رکھتے ہیں۔ ان باتوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدمت تو لیتے ہیں مگر معاوضہ کچھ نہ دینا پڑے‘ یا اگر دینا ہی پڑے تو ایسے ڈھنگ سے دیا جائے کہ ملازمین کو پورا پورا حق نہ ملنے پائے‘ بلکہ ان کے حق میں سے جتنا ممکن ہو خزانے میں روک لیا جائے۔ مثلاً سونے چاندی میں سے کھرا مال بچا کے رکھیں گے اور کھوٹی دھات سے معاوضے ادا کریں گے یا یہ کہ زمانۂ خدمت کا کچھ حصہ حساب سے خارج کر دیں گے‘ یا پھر یوں ہوگا کہ ایک عرصے تک مفت خدمت لینے کے لیے‘ ان کا نام دفتر کے رجسٹروں میں درج کریں گے‘ وغیرہ!
اس قسم کی بخیل و حریص بادشاہت آخر مملکت کو تہ و بالا کر کے چھوڑے گی اور حکومت کی جڑوں کو کھوکھلا کردے گی۔ لیکن پھر بھی رعیت کے لیے یہی مناسب ہوگا کہ سلطانِ بخیل کے افکار و کردار پر صبر کرے اور اس سے متصادم نہ ہو۔ ورنہ اس کا اندیشہ ہے۱؎ کہ وہ اب تک جو کچھ چرب زبانی اور فریب کاری کے پس پردہ کر رہا ہے اسے دھڑلے سے سرانجام دینے لگے گا اور خوب کھل کر ستم ڈھانا شروع کر دے گا۔ وجہ یہ کہ طمع اس کے خمیر میں شامل ہے اور اگر کسی وقت اس پر مال حاصل کرنے کے دروازے بند ہوجائیں گے تو وہ اپنی جبلت کے تقاضے سے مجبور ہوکر آمادہ ظلم ہوجائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذرؓ سے فرمایا کہ:
کَیْفَ اَنْتُمْ وَاَئِمَّۃٌ مِنْم بَعْدِیْ سَیَأْثِرُوْنَ لِھٰذَا الْفَیْیِٔ؟ قَالَ اَبُوْذَرٍّ اَمَّا وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ اَضَعُ سَیْفِیْ عَلٰی عَاتِقِیْ ثُمَّ اَضْرِبُ بِہٖ حَتّٰی اَلْقٰکَ قَالَ اَوَلَا اَدُلُّکَ عَلٰی خَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکَ تَصْبِرْ حَتَّی تَلْقَانِیْ -
میرے بعد کے ان امرا [حُکَّام] کے زمانے میں تمھارا رویہ کیا ہوگا‘ جو اس اموالِ فے کو خرچ کرنے میں اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دیں گے؟ حضرت ابوذر نے جواب دیا کہ اس ذات کی قسم‘ جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا‘ اس وقت میں اپنی تلوار اپنی گردن پر رکھ دوں گا اور اس کو تن سے جدا کرلوں گا تاکہ آپ سے جا ملوں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: کیا میں تم کو اس سے بہتر راہ نہ بتادوں؟ اس وقت تم صبر سے کام لینا یہاں تک کہ مجھ سے آملنا۔
اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ ۲؎ بَعْدِیْ اَثْرَۃً وَاُمُوْرًا تُنْکِرُوْنَھَا وَرُوِیَ اَنَّ الصَّحَابَۃَ قَالُوْا یَانَبِیَّ اللّٰہِ اَرَأَیْتَ اِنْ قَامَتْ عَلَیْنَا اُمَرَائٌ یَسْئَلُوْنَنَا حَقَّھُمْ وَیَمْنَعُوْنَنَا حَقَّنَا فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا ، فَاِنَّ عَلَیْھِمْ مَا حُمِّلُوْا وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلْتُمْ -
تم میرے بعد (غیروں پر اپنے حقوق کو) ترجیح (دینے والے امرا) پائو گے اور ایسی صورتِ حال سے دوچار ہو گے جس کو تم ناپسند کرو گے۔ اور روایت ہے کہ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ اگر ہم پر ایسے امرا مسلط ہوگئے جو ہم سے تو اپنا حق لے لیں___ لیکن ہمارے حقوق ادا نہ کریں تو اس وقت ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ان کی سننا اور ان کی اطاعت کرنا‘ کیوں کہ ان کی کمائی کا بار ان کے اُوپر ہے اور تمھاری کمائی کا بار تمھارے اُوپر۔
بعض اشخاص اپنی فطرت کے اعتبار سے مغلوب الغضب اور شترکینہ ہوتے ہیں۔ ایسوں کا جب غصہ اُبلتا ہے تو ترش روئی اور بدگوئی کی حد کر دیتے ہیں اور موذی پن کے مظاہرے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ یہ تو ان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ مجرم کے قصور کی نوعیت کا خیال کریں‘ بلکہ قانوناً اگر مجرم کی خطا معمولی درجے کی ہو تو انھیں اور زیادہ غصہ آتا ہے کہ وہ کوئی جرمِ عظیم کیوں نہ کر کے آیا۔ ایسے اربابِ ظلم‘ جرم کو عقل کے کانٹے پہ کیوں تولنے لگے‘ بس اندھا دھند ادنیٰ سے ادنیٰ غلطی پر بھی قتل اور قرقی اور تذلیل و تحقیر سے کم درجے کی سزا تجویز نہ کریں گے‘ کیونکہ اس کے بغیر ان کو اطمینان قلب اور سکونِ خاطر حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کسی گروہ کا محض ایک فرد اگر ان کی مخالفت کر بیٹھا تو سمجھ لیجیے کہ اس پورے گروہ کی شامت آئی! اچھا برا کوئی نہ بچنے پائے گا۔
اب اگر دنیا کی بدقسمتی سے ایسے ہی لوگ مسندِسلطنت پر متمکن ہوجائیں تو وہ داد ظلم و جور نہ دیں گے تو کریں گے کیا؟ یہ ظالم‘ خدا کے بندوں کو طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کرتے ہیں اور عزت داروں کو ذلیل و خوار کرکے چھوڑتے ہیں۔ غلط نہ ہوگا کہ اگر انھیں بنی آدم کے لیے بھیڑیے یا کٹ کھنے کتے سمجھا جائے۔ ان کے زہریلے ڈنک سے نہ مساکین بچتے ہیں‘ نہ عزت و اعتبار والے‘ نہ غریبوں کو ان سے پناہ ملتی ہے نہ امیر ان کے گزند سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ ان کی ایذا رسانی ہوتی اس درجے کی ہے کہ غریب اور بے بس مسلمان ان کی ’’اسلامی حکومت‘‘ سے کفار کی کافرانہ حکومت کو ہزار درجے بہتر سمجھنے لگتے ہیں اور وہی ان کے نزدیک خدا کے بندوں کے لیے جاے امن قرار پاتی ہے۔ ایسی حالت میں ادھر رعایا سلطان ظالم سے رنجیدہ ہوتی ہے اور ادھر سلطان ظالم بھی اپنی رعایا سے بیزار ہوتا ہے۔ بس یہ اس کی تباہی میں خوش ‘ وہ اس کے زوال میں راضی۔ اس حالت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
خِیَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تَبْغُضُوْنَھُمْ وَیَبْغُضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ -
تمھارے امرا [حُکّام] میں سے بھلے وہ ہیں کہ تم ان سے محبت کرو‘ وہ تم سے محبت کریں اور تم ان کے لیے دعاے رحمت کرو اور وہ تمھارے لیے دعاے رحمت کریں اور تمھارے امرامیں سے برے وہ ہیں کہ تم ان سے نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور تم ان پر لعنت کرو‘ وہ تم پر لعنت کریں۔
سلطانی مظالم جس طرح رفتہ رفتہ رعایا کی معاش کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں‘اسی طرح ان کے شجرِایمان کی جڑیں بھی کھودتے جاتے ہیں۔ آخر لوگ اقامتِ دین و ایمان کی فکر کیا کریں‘ جب کہ انھیں سلطان ظالم کے خوف سے ایک ساعت بھی مخلصی نہیں ہوتی۔ چنانچہ سلطنتِ ظالم کا قیام کسی مذہب باطل کے پھیل نکلنے کے مشابہ ہے جو ملت کے نظام اور سنت کے آئین و حدود کو توڑتا چلا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اِنَّمَا اَخَافُ عَلٰی اُمَّتِیْ اَلْاِسْتِسْقَائَ بِالْاَنْوَائِ وَحِیْفِ السُّلْطَانِ وَالتَّکْذِیْبِ بِالْقَدْرِ -
مجھے اپنی اُمت کے بارے میں صرف یہ خوف ہے کہ ۱- وہ نچھتروں [بادلوں] سے بارش طلب کرے گی۔ ۲-بادشاہ اس پر ظلم ڈھائیں گے ۳- اس میں قضا و قدر کا انکار پیداہوگا۔
سلطانِ ظالم بعض وجوہ کے ماتحت ‘اگر کسی گروہ سے رنجیدہ ہوتا ہے اور اس سے انتقام لینے پر تل جاتا ہے تو اس کے انتقام کی تلوار مطیع اور غیرمطیع اور گنہ گار و بے گنہ میں ہرگز امتیاز نہیں کرتی‘ بلکہ بے دریغ سروں کو کاٹتی چلی جاتی ہے اور ملکوں اور شہروں کو بے چراغ کرکے چھوڑتی ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ:
مَنْ خَرَجَ عَلٰی اُمَّتِیْ بِسَیْفِہٖ یَضْرِبُ بِرَّھَا وَفَاجِرَھَا وَلاَ یَتَحَاشٰی مِنْ مُؤْمِنِھَا وَلَا یَـفِیُٔ لِذِیْ عَھْدٍ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْہُ -
جس شخص نے اپنی تلوار لے کر میری اُمت پر حملہ کیا اور قتل و غارت میں نیک و بد کی تمیز نہ کی اور اُمت کے سچے مومنوں کو قتل کرنے سے پرہیز کیا اور نہ کسی سے اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھا اس کا نہ مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ میرا اس سے۔
پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی گروہ کے متعلق سلطان ظالم کے دل میں آتش غضب بھڑکتی ہے لیکن حالات ایسے نہیں ہوتے کہ عملاً انتقام لیا جا سکے۔ اب لازماً اس کے سینے میں کینہ پرورش پاتا رہے گا اور وہ اس تاک میں رہے گا کہ اس کینے کی بھڑاس نکالنے کا کب مناسب موقع پیدا ہوتا ہے۔
مَامِنْ وَالٍ یَلِیْ رَعِیَّتَہٗ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَمُوْتُ وَھُوَ غَاشٍ لَھُمْ اِلاَّ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ -
جو حکمران بھی اپنی مسلم رعایا پر غدر اور خیانت کے ساتھ حکومت کرتا ہوا مرگیا اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے۔
بعض لوگ ایسے پائے جاتے ہیں کہ عین ان کی سرشت میں سرکشی اور خودپسندی کا خمیر شامل ہوتا ہے۔ ان کو اپنے منہ میاں مٹھو بننے اور ڈینگیں مارنے اور شیخی بگھارنے میں مزہ آتا ہے۔ اپنی ہستی کو ہمیشہ کچھ غلافوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ کیونکہ اولادِ آدم انھیں میل جول کے قابل نظر نہیں آتی۔ دوسروں کے بڑے سے بڑے کمال کو اپنی کسی ادنیٰ سی خوبی کے مقابلے میں ہیچ ثابت کردیں گے‘ چاہے اپنی خوبی محض ایک سرابِ تخیّل ہو‘ جیسے حسب و نسب کا غرہ! دوسروں کے ساتھ کسی معاملے میں برابر ہونا تو ان کے لیے بڑی شرم کی بات ہوتی ہے‘ اس وجہ سے اپنے ساتھیوں کی تحقیر کو اپنی آبرو شمار کرتے ہیں اور اپنے بھائیوںکے زوال کو اپنی عظمت کا ثبوت قرار دیتے ہیں‘ نیز دوسروں کے کمالات کو پایۂ اعتبار سے گرا گرا کر اپنی خصوصیات پر اِتراتے ہیں۔ بس ان کا منتہاے مقصود فقط یہ ہوتا ہے کہ انھیں افرادِ انسانی کے درمیان اتنا امتیاز حاصل ہوجائے کہ کوئی ان کی برابری کی جرأت نہ کرسکے۔
اس قسم کا آدمی جب تختِ حکومت پر قابض ہوگا تو کبرونخوت کی داد دینے کے لیے‘ آداب و القاب‘ چال ڈھال‘ میل جول اور دوسرے تمام معاملات میں اپنی ایک امتیازی شان پیدا کرے گا۔ پھر وہ اپنی ذات کے لیے مختلف چیزیں مخصوص کرلے گا۔ ان میں کسی دوسرے کی شرکت و مساوات سے بہت رنجیدہ ہوگا بلکہ اس کی قطعی ممانعت کر دے گا۔ وہ جس تخت کو استعمال کرے گا اس پر بیٹھنا دوسروں کے لیے حرام کر دے گا‘ جس مجلس میں رونق افروز ہوگا اس میں دوسروں کا داخلہ روک دے گا‘ پھر جو خاص الفاظ اپنے لیے تجویز کر دے گا‘ مثلاً ’سلطان‘، ’شاہ‘ ، ’بادشاہ‘، ’ملک‘ اور ’حضوراقدس‘ وغیرہ۔ ان الفاظ کو اگر خود سلطان کے بیٹے پر بھی کسی نے استعمال کردیا تو وہ مجرم قرار پائے گا اور شدید تعزیر اس پر عائد ہوگی۔ الغرض ایسے لوگوں کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ کسی طرح خدا کے بندوں اور نبی کے امتیوں سے بالکل جدا اور ممتاز سمجھے جائیں کیوں کہ انھیں وہ اپنا ہم جنس تسلیم نہیں کرتے اور ہر معاملے میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد دوسروں سے الگ ہی بناتے ہیں۔
پھر ان ظالموں کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے قوانین‘ جمہور میں اصولِ دین اور ضوابطِ شریعت کا درجہ حاصل کرلیں اور ہر خاص و عام ان کی پوری اطاعت کرے‘ نیز اُن کے سامنے قیل و قال اور بحث و تمحیص کی کسی کو جرأت نہ ہو۔ گویا خود یہ لوگ احکامِ الٰہی کے مخاطب ہیں ہی نہیں‘ اور نہ ان احکام کی مخالفت پر انھیں کوئی پوچھنے والا ہے۔ یہ بڑا بننے اور حکم چلانے کی خواہش جلد جلد ترقی کر کے تعلّٰی کی صورت اختیار کرتی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ نبوت یا الوہیّت کا صاف صاف دعویٰ کر دیا جاتا ہے۔ اب سلطانِ متکبر فراعنہ اور نماردہ کا بھائی بن جاتا ہے۔ خداے بزرگ و برتر کی کوئی صفت ایسی نہیں رہ جاتی‘ جسے یہ ظالم اپنے پروانوں اور حکم ناموں میں اپنی ذات سے منسوب نہ کرے‘ اور خالق اکبر کے ناموں میں سے کوئی نام ایسا نہیں چھوٹ جاتا جسے یہ جاہل اپنے لقب کے طور پر استعمال نہ کرتا ہو۔ پھر انبیا و مرسلین کے مدارج میں سے کوئی درجہ ایسا نہیں بچ رہتا کہ یہ دشمنِ دین اس کا مدعی نہ بنے۔ پھر خلفاے راشدین کے مراتب میں سے کوئی رتبہ ایسا نہیں باقی رہتا جس میں یہ شرارت کا استاد ان کی برابری کا دم نہ بھرتا ہو۔
غرور و کبر کی یہ سلطنت جس طرح پوری اُمت کے لیے اور پورے دین کے لیے حددرجہ مضر ہے‘ اسی طرح‘ بلکہ اس سے ہزار گنا زیادہ‘ خود اس جاہل شیخی باز کے لیے سمِ قاتل ہے۔ کوئی سلطان اپنی سلطنت سے وہ نقصان نہیں اٹھاتا جو سلطانِ متکبر اپنی سلطنت سے اٹھاتا ہے۔ یہ ظالم اپنی ہستی کو رعایا کا گویا خالق سمجھتا ہے‘ خصوصاً جب زمانہ اس کا ساتھ دے رہا ہو اور قسمت یاوری کررہی ہو‘ یعنی دنیا اس کے پنجے میں بے بس ہو اور کسی کو سرکشی کی جرأت نہ ہو تو اس کا انداز استکبار خوب نمایاں ہوجاتاہے اور اس کا طرئہ نخوت عرش کو جاچھوتا ہے‘ فرمایا صاحبِ نبوت نے۔
اِذَا مَشَتْ اُمَّتِیِ الْمَطِیْطَائَ وَخَدَّمْتَھَا اَبْنَائُ الْمَلُوْکِ اَبْنَائُ فَارِسَ وَالرُّوْمِ سَلَّطَ اللّٰہُ شِرَارَھَا عَلٰی خِیَارِھَا -
جب میری اُمت اکڑ کر چلنے لگے گی اور فارس و روم کے شاہزادے اس کی خدمت بجا لانے لگیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ اُمت کے شریر لوگوں کو اس کے نیکوکار بندوں پر مسلط کر دے گا۔
اَلْکِبْرِیَائُ رِدَائِیْ وَالْعَظْمَۃُ اِزَارِیْ فَمَنْ نَازَ عَنِیْ وَاحِدًا مِّنْھُمَا اَدْخَلْتُہُ النَّارَ-
کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار‘ سو جس کسی نے ان دونوں میں سے کسی چیز کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی اس کو میں جہنم میں جھونک دوںگا۔
اَغْیَظُ رَجُلٍ عَلَی اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَاَخْبَثُ رَجُلٍ کَانَ یُسَمّٰی مَلِکُ الْاَمْلَاکِ لَامَلِکَ اِلاَّ اللّٰہُ -
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کو سب سے زیادہ بھڑکانے والا اور بدترین انسان وہ ہوگا جو دنیا میں بادشاہوں کا بادشاہ (شہنشاہ) کہا جاتا تھا۔ [لیکن یاد رکھو کہ] اللہ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں۔
لَا یَقُوْلَنَّ اَحَدُکُمْ عَبْدِیْ وَاَمَتِیْ کُلُّکُمْ عَبِیْدُ اللّٰہِ وَکُلُّ نِسَائِ کُمْ اَمَائُ اللّٰہِ وَلٰکِنْ لِیَقُلْ غُلَامِیْ وَجَارِیَتِیْ وَفَتَایَ وَفَتَاتِیْ وَلاَ یَقُلِ الْعَبْدُ رَبِّیْ وَلٰکِنْ لِیَقُلْ سَیِّدِیْ وَفِیْ رِوَایَۃٍ وَلَا یَقُلِ الْعَبْدُ السَّیِّدِیْ مَوْلَائِیْ فَاِنْ مَوْلَاکُمْ اللّٰہُ -
تم میں سے کوئی کسی کو ’’میرا بندہ‘‘ یا ’’میری بندی‘‘ نہ کہے۔ تم سب لوگ اللہ کے ’’بندے‘‘ ہو اور تمھاری ساری عورتیں اسی کی ’’بندیاں‘‘ ہیں بلکہ یوں کہے کہ میرا ’’غلام‘‘ اور ’’میری لونڈی‘‘ یا ’’میرا خادم‘‘ اور ’’میری خادمہ‘‘۔ اسی طرح کوئی غلام اپنے آقا کو ’’رب‘‘ نہ کہے بلکہ ’’سید‘‘ [جناب والا] کہہ کر پکارے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا کو مولا نہ کہے کیوں کہ تمھارا مولا صرف اللہ ہے۔
سلطنتِ جابرہ جس کا مفصل بیان اُوپر ہوچکا ہے‘ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک صورت اس کی یہ ہے کہ سلطانِ جابر اپنی شوخ چشمی اور گستاخی کے باوجود ایمان کی بھی کوئی رمق دل میں رکھتا ہے اور اس سے بعض اعمالِ صالحہ۳؎ بھی ظاہرہوتے رہتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس کے اعمال صالحہ طریق مشروع پر منطبق نہیں ہوتے‘ ورنہ اہلِ دیانت کے نزدیک ان کو کوئی وزن حاصل ہو سکتا ہے‘ کیوں کہ وہ ان کی انجام دہی کے لیے اپنا ہی ایک ڈھنگ نکالتا ہے اور اپنی ہی پسند کے مطابق اقدام کرتا ہے۔ لیکن دل میں وہ ان اعمال کو تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتاہے اور پورے خلوصِ نیت سے انھیں بجا لاتا ہے‘ مثلاً ہوا و ہوس کی راہ میں جس دریادلی سے اپنے خزانے لٹاتا ہے اسی کشادہ دلی سے ایک مسجد کی تعمیر پر بھی خرچ کرتا ہے اور اسے سونے چاندی کے نقش و نگار سے خوب مزین کراتا ہے اور اس کو مالی عبادت سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی مسجد بنانا خود اسراف میں داخل ہے اور اسراف شریعت میں حددرجہ مذموم فعل ہے اور اس وجہ سے خدا کے ہاں اس کی مقبولیت کی کوئی توقع نہیں ہوسکتی‘ مگر چونکہ سلطان مُسرف ہے اور اس کی رائے میں یہی اسراف انفاق فی سبیل اللہ ہے اور اسے سرانجام دیتے ہوئے وہ یہی یقین کرتا ہے کہ ایسے دینی کاموں میں جتنا زیادہ بڑھ چڑھ کے خرچ کروں گا اتنا ہی خدا کے ہاں مقبول ٹھہروں گا۔ ان خیالات کے ماتحت وہ تقرب الی اللہ کے لیے بیش بہا دولت لٹا دیتا ہے۔
دوسری صورت میں سلطان جابر کا دل خوفِ خدا سے بالکل ہی بے نصیب ہوتا ہے اور وہ اعمال شرعی کو اخلاص سے انجام نہیں دیتا‘ بلکہ کچھ بطورِ عادت اور کچھ دنیاوی شہرت یا اہلِ خانہ پر تفوّق کے لیے بعض احکامِ شریعت کی اطاعت کرلیتا ہے اور اس پابندیِ شرع کو جاہ و جلال کا لازمہ سمجھتا ہے۔ پس صورتِ اوّل میں تو سلطان کے اعمال کی ظاہری شکل مردود تھی اور اس کی نیت محمود۔ مگر اس دوسری صورت میںباہر بھی کھوٹ ہے اور اندر بھی کثافت!
۱- کوئی وجہ نہیں کہ جو سلطان اسلامی مالیات کا نظم تہ و بالا کر رہا ہو اور بالواسطہ ریاست کے اندر معاشی و اقتصادی فساد پھیلا رہا ہو‘ اس کی کارگزاریوں پر اربابِ دین و دانش چپ بیٹھے رہیں۔ حدیث ابوذر کی رُو سے اتنے صبر کا مطالبہ تو کیا جا سکتا ہے کہ تلوار نہ اٹھائی جائے لیکن یہ صبر بے جا صبر ہوگا کہ زبان اور قلم کو بھی حرکت سے روک رکھا جائے۔ یہ اندیشہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ اگر سلطانِ بخیل کی روک ٹوک ہوتی تو مزید زیادتیوں کا امکان زیادہ ہے اور اگر تنقید و تذکیر اسے بھڑکائے بھی‘ تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا نا کہ سلطان ان حدود سے آگے نکل جائے جن کے اندر اس کے خلاف خروج کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو کچھ برا نہیں۔ انقلاب کا ایک ریلا ازسرِنو خالص خلافتِ راشدہ کو اُبھار دے گا (ن-ص)
۲- اس روایت سے کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اس کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اگر تم سے معصیتِ خالق کا مطالبہ کیا جائے تو بھی اپنے امرا کے غلام رہو۔ ہرگز نہیں اس میں صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر امرا تمھارے حقوق تمھیں نہ دیں تو صبر کرو اور نظامِ سمع و طاعت کو برقرار رکھو ‘ یعنی خروج و بغاوت سے اجتناب کرو۔ امرا کا بوجھ امرا کے سر اور تمھارا تمھارے سر۔ لیکن اگر حقوق اللہ ہی کو یہ لوگ پی جائیں تو پھر مسلمان کے لیے اطاعت کوبرقرار رکھنا ممکن نہیں ہے (ن -ص)
۳- نیکی اور تقویٰ اور صالحیت حدودِ شرعی کے باہر کہیں نہیں پائی جاتی۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کی شریعت سے آزاد ہو کر آپ اپنے نیک ارادوں کو جس طرح چاہیں پورا کریں‘ نہیں! بلکہ اسلام کی شریعت سے بے نیاز ہو کر اگر آپ لاکھ تسبیحیں روز پڑھیں اور کروڑ سجدے دن رات میں کرلیں تو بھی آپ متقی اور صالح نہیں ہیں۔ تصوف نے غلطی اگر کی تو یہی کہ تقویٰ کی راہ کو شریعتِ اسلام کی حدود اربعہ سے آزاد کردیا۔ شاہ صاحب نے موقع پر بات واضح کر دی کہ ایسے ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کو جو طریقۂ مشروع پر منطبق نہ ہوں مومن کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں ملتی۔ (ن - ص)
مجھے وہ لمحات بھلانے سے نہیں بھولتے کہ جب فلسطینی مائیں ہمارے پائوں پڑتیں کہ خدارا ہمارے بچوں سے پہلے ہمیں ذبح کر دو‘ ہم انھیں ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ ہم انھیں ٹھکرا دیتے اور پہلے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے ذبح کرتے‘ پھر خود انھیں اور پھر آدمیوں اور بوڑھوں کو۔ (اسرائیلی ایجنٹ کا انٹرویو ‘ اسرائیلی ٹی وی‘ ۱۷ ستمبر ۲۰۰۵ئ)
۲۳ سال پہلے ۱۶ سے ۱۸ ستمبر ۱۹۸۲ء تک صبرا اور شاتیلا کی مہاجر بستیوں میں ۳ ہزار سے زائد فلسطینی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے بے حمانہ قتلِ عام کا ذمہ دار اُس وقت کا وزیردفاع آرییل شارون تھا۔ وہی وزیر دفاع آج اسرائیل کا وزیراعظم ہے۔
صبرا و شاتیلا قتلِ عام کی تیئسویں برسی کے موقع پر اس سال بھی ۱۸ ستمبر کو فلسطینی کیمپوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس بار ۱۰۰ فرانسیسی‘ اطالوی‘ جرمن اور امریکی باشندوں نے بھی ان احتجاجی مظاہروں میں علامتی شرکت کرتے ہوئے شارون کو جنگی درندہ قرار دیا۔ لیکن جب یہ مظاہرے ہو رہے تھے عین اسی لمحے ’’امریکی یہودی کانگرس‘‘ کی دعوت پر خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف جنرل شارون کو ایک بار پھر بہادر اور شجاع انسان قرار دیتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کے ساتھ گفت و شنید مزید آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پرویز مشرف کا یہ خطاب صبرا‘ شاتیلا کیمپ کے قتلِ عام کی برسی کے عین موقع پر ہو؟ اور کیا یہ بھی صرف اتفاق تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور صہیونی ریاست کے درمیان پہلے باضابطہ مذاکرات اسلامی خلافت کے آخری مرکز استنبول میں ۲۶ رجب کو یعنی عین شبِ معراج کے موقع پر ہوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر اپنے روسیاہ وزیرخارجہ کے ذریعے شارون کو پیغام دے کہ آج ہم مقامِ معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘ سرزمینِ مسجدِاقصٰی پر تمھارا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرتے ہیں۔
پرویز مشرف کے اس اقدام کی وجہ سے پوری اُمت مسلمہ میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ تیزرفتار ابلاغیاتی دور میں کہ جب اہم ترین خبریں بھی چند روز کے بعد قدیم قرار پاتی ہیں‘ آج بھی اس اقدام کے مالہ وما علیہ پر بحث ہو رہی ہے۔ اسلامی ذہن رکھنے والے ہی نہیں اسلامی تحریکوں اور اسلام پسند عناصر کے خلاف لکھنے والے بھی اسے ایک فاش غلطی اور جرم قرار دے رہے ہیں۔ اگر کسی نے پرویز مشرف کے لیے بہت ہی گنجایش نکالی ہے تو صرف یہ کہ قصور پرویز مشرف کا نہیں خود عرب حکمرانوں کا ہے کہ انھوں نے اس جرم کا ارتکاب کرنے میں سبقت کی۔ لیکن جرم کو کارنامہ نہیں قرار دیا گیا۔
الشرق الاوسط سب سے بڑا عرب روزنامہ سمجھا جاتا ہے جو بیک وقت کئی ممالک سے شائع ہوتا ہے۔ عبدالرحمن الراشد اس کا ایک سینیئر سیکولر صحافی ہے اور اسلام پسندوں کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ۳ستمبر کے شمارے میں ’’پرویز مشرف نے یہ سب کیوں کیا؟‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ’’پرویز مشرف نے فلسطینی عوام کی مدد کرنے‘ بھارت کے ساتھ حساب برابر کرنے یا اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے جیسی جو وجوہات بیان کی ہیں ان سب کے باوجود میری نظر میں پرویز مشرف نے یہ ایک بہت بھیانک غلطی کی ہے۔ اس نے ایک طرف تو ملک کے اندر اپنے مخالفین کے ہاتھ میں ایک مہلک بارود دے دیا ہے اور دوسری طرف اس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا کچا پھل‘ پکنے سے پہلے ہی بیچ ڈالاہے‘‘۔
وہ مزید لکھتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ مشرف نے بیروت میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں سعودی عرب کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز کی روشنی میں عرب ممالک کی طرف سے اپنائے جانے والے عرب منصوبۂ امن کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ پاکستان ایک اہم اور بڑا ملک ہے اور مستقبل کے کسی بھی منصوبہ امن میں اسرائیل پر دبائو کے لیے اہم کارڈ ثابت ہو سکتا تھا۔ مناسب وقت آنے پر مشرف‘ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک مضبوط کارڈ کے طور پر استعمال کرسکتا تھا۔ یہ مناسب وقت ایک فلسطینی ریاست وجود میں آنے کے امکانات دکھائی دینے پر آسکتا تھا نا کہ صرف غزہ سے انخلا پر‘‘۔
’’ہر عرب انسان کا حق ہے کہ وہ غصے اور تکلیف سے چلّاتا ہوا پوچھے: عالمِ عرب اور عالمِ اسلامی کی وہ دیواریں ایک ایک کر کے کیوں ڈھے رہی ہیں جو اب تک ممنوعہ علاقوں میں اسرائیلی نفوذ کی راہ میں حائل تھیں۔ کسی بھی عرب شہری بالخصوص فلسطینی شہری کو کیسے باور کروایا جا سکتا ہے کہ یہ سب جو ہوچکا یا جو ہونے جا رہا ہے فلسطین اور اس کے عوام کی خاطر ہے‘ اس سے انھیں اپنے حقوق واپس ملیں گے۔ اپنی مقدس سرزمین واپس ملے گی اور بے وطن کر دیے جانے والے لاکھوں فلسطین اپنے وطن واپس جاسکیں گے۔
’غزہ سے بظاہر اور پُرفریب انخلا کے علاوہ شارون نے ابھی تک کیا کیا ہے؟ اب بھی غزہ کے بری‘ بحری اور ہوائی راستے اس کے قبضے میں ہیں۔ سب دروازے اب بھی بند ہیں‘ سرحدیں اب بھی آگ و خون کے نرغے میں ہیں اور انھیں کسی بھی لمحے دوبارہ روندا جاسکتا ہے۔ غزہ کے عوام آزادی کی خوشیاں منانا چاہتے ہیں لیکن حصار نے ہر خوشی کا دم گھونٹ رکھا ہے۔
’شارون نے یہ تو کیا کہ عاجز آکر اور ہضم نہ کرسکنے کے باعث غزہ سے فوجیں نکال کر ان کی نئی صف بندی کردی تاکہ مغربی کنارے پر اپنے قبضے کو مزید پکا کرلے۔ لیکن کیاشارون نے کسی ایسی خودمختار فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے جو تمام یہودی بستیوں اور بلندوبالا آہنی فصیلوں سے آزاد ہو؟ کیا اس نے بیت المقدس کو اس فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا ہے؟ کیا اس نے ملک بدر کیے جانے والے فلسطینیوں کو وطن واپس آنے کا حق دے دیا ہے؟ یا اس نے اپنی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا ہے؟
’اسرائیل سے معمول کے تعلقات قائم کرنے اور اس خاطر سر کے بل دوڑتے چلے جانے کے بارے میں اٹھنے والے سوالات بہت تلخ ہیں۔ یہ ایک دہشت گرد کو بہادر‘ امن پسند قرار دینے اور ہاتھ لمبے کر کر کے اس سے گلے ملنے کا دور ہے۔ یہ مظلوم کو دہشت گرد قرار دینے‘ اس کا پیچھا کرنے‘ اس کا محاصرہ کرنے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا دور ہے‘‘۔
یہ کسی بنیاد پرست اسلام پسند یا رجعت پسند مُلّا کی تحریر نہیں‘ اہم خلیجی ریاست کے اہم روزنامے کا اداریہ ہے اور اس طرح کی ایک دو نہیں سیکڑوں تحریریں پوری دنیا میں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں۔ ۱۶ستمبر کے اماراتی اخبار البیان میں مستقل کالم نگار عبدالوہاب بدر ’’شرمناک جرائم‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’اس سے زیادہ بے حیائی اور ڈھٹائی کی بات اور کوئی نہیں ہوگی کہ شارون تو نیویارک میں عالمی کانفرنس میں جانے سے پہلے بھی یہ بیان دے کہ مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیاں تعمیر کی جائیں گی‘ لیکن اس کے باوجود اسے غزہ سے انخلا کے اپنے ’’جرأت مندانہ‘‘ اقدام پر مبارک بادیں وصول ہو رہی ہوں۔ وہ یقینا جی ہی جی میں ہنستا ہوگا کہ اس دنیا کا باوا آدم ہی نرالا ہوچکا ہے‘ وہ اسرائیلی دھوکوں کو بھی سچ مان رہی ہے‘‘۔
کچھ عرصے پہلے تک مصر کے وزیرخارجہ رہنے والے احمد ماہر خود مشرق وسطیٰ امن منصوبے میں شریک رہے ہیں۔ ۱۶ ستمبر کے الشرق الاوسط میں لکھتے ہیں: ’’کوئی بھی چیز ہمیں شارون کے اس عظیم دھوکے اور فراڈ کی حقیقت سے غافل نہ کرپائے۔ شارون اس فریب کی قیمت وصول کرنا چاہتا ہے۔ وہ مزید امریکی مالی اور سیاسی امداد کے علاوہ کئی عرب اور غیر عرب ممالک کو ورغلانا چاہتا ہے۔ وہ ان سے اپنے لیے اچھے کردار کا ایسا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا وہ قطعاً حق دار نہیں‘ کیونکہ اس کے حقیقی ارادے جاننے کے لیے کسی کو اس کا سینہ چیر کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
یہ تو ان لاتعداد مضامین‘ اداریوں اور تجزیوں کی ایک جھلک ہے کہ جن کے لکھنے والے کوئی اسلامی شناخت نہیں رکھتے۔ رہے اسلامی عناصر تو دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں‘ سیاسی جماعتوں اور آزاد صحافیوں نے اُمت کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اس ترجمانی میں افسوس بھی تھا‘ صدمہ بھی تھا اور پاکستان و فلسطین کے مستقبل کے حوالے سے گہری تشویش بھی۔ پارٹیوں‘ ان کے سربراہوں اور مسلم دانش وروں کے بیانات کی فہرست بہت طویل ہے‘ یہاں صرف ایک معروف مصری صحافی فہمی ہویدی کے ایک مقالے سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ فہمی ہویدی گذشتہ سال پرویز مشرف کی طرف سے بلائی جانے والی اس کانفرنس میں بھی شرکت کرچکے ہیں جو انھوں نے اپنی روشن خیالی کے پرچار کے لیے دنیا بھر سے معتدل و مؤثر دانش وروں اور اہلِ قلم کو اسلام آباد میں جمع کر کے منعقد کی تھی۔
فہمی ہویدی لکھتے ہیں: ’’گذشتہ ہفتے دنیا میں تین آفات ٹوٹیں۔ امریکی ریاست لویزیانا میں تباہ کن طوفان کترینا‘ امام کاظم کی برسی کے موقع پر بغداد کے ائمہ پل پر لوگوں میں بھگدڑ مچ جانے کے باعث دریائے دجلہ میں ہزار سے زائد انسانی جانوں کا اتلاف اور پاکستان و اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان۔ تینوں آفات میں مشترک عنصر یہ تھا کہ تینوں کے نتیجے میں پہنچنے والا صدمہ بہت بھاری تھا اور تینوں ایسی جگہوں سے آئیں کہ جہاں سے کسی کو ان کی توقع نہیں تھی۔ فرق ان تینوں میں یہ ہے کہ پہلی دونوں تو ایک انسانی المیہ تھیں‘ جب کہ تیسری آفت انسانی المیہ ہونے کے ساتھ ساتھ گہرا سیاسی اثر بھی رکھتی ہے۔
’پاکستان کے اندرونی حالات اور اس کی گہری اسلامی شناخت کے تناظر میں میرا خیال ہے کہ اسلام آباد نے بہت مہیب غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کے باعث موجودہ حکومت کو ہلا دینے والے واقعات جنم لیں گے‘ جب کہ حکومت کو درپیش مشکلات سے سب لوگ پہلے ہی آگاہ ہیں۔ ان مشکلات کا ایک مظہر خود صدر مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملے بھی ہیں۔
’اگر ہم پاکستان کے اندرونی حالات سے صرفِ نظر بھی کرلیں تب بھی اس فیصلے پر ایک آفت ہونے کا ہی اطلاق ہوگا کیونکہ پاکستان اسرائیل سفارتی تعلقات شروع کرنے کا سیدھا سادھا مطلب یہی ہے کہ عالمِ اسلام میں ایک سیاسی حرام کو حلال قرار دے دیا گیا ہے… ترکی کی تو اٹھان ہی سیکولر‘ مغرب کی گود میں کھیلنے والے‘ اسلام اور عربیت سے نفرت کرنے والے کی حیثیت سے ہوئی تھی‘ جب کہ پاکستان نے اپنی یہ حیثیت و جواز اسلامی شناخت کے باعث حاصل کیا تھا اور گذشتہ پوری تاریخ میں مسئلہ فلسطین پاکستانی عوام کے وجدان میں رچا بسا رہا ہے۔ رہا سوال بعض دیگر ممالک کے خفیہ رابطوں کا‘ تو یقینا یہ بھی ایک مکروہ و ناپسندیدہ فعل ہے جو بہرحال علی الاعلان منکر کے ارتکاب سے کم برا قرار پائے گا…بلاشک پاکستانی فیصلہ اس سلسلے میں ’’رہبر‘‘ قرار پائے گا جو کئی مسلم ممالک کو اپنی پیروی کرنے پر اُبھارے گا۔
’اس پاکستانی فیصلے سے دو امور واضح ہو کر سامنے آئے ہیں: ایک تو یہ کہ اسرائیل بعض لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ غزہ سے انخلا کے ذریعے اس نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا دروازہ کھول دیا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ فیصلہ پاکستانی حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں پر امریکی تسلط کی واضح اور کھلی دلیل ہے ---خود اسرائیل کے لکھنے والوں نے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’’تاریخی اقدام‘‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے بصراحت یہ لکھا ہے کہ پاکستان نے یہ اقدام واشنگٹن میں سندِقبولیت حاصل کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔ ایک اسرائیلی کالم نگار نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی حیثیت ٹکٹ گھر کی ہے۔ امریکی حکومت کا دل جیتنے کی کوشش کرنے والے ہرشخص کو اسی کھڑکی سے گزرنا پڑتا ہے اور ہمیں اپنی اس حیثیت پر خوشی ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ کافی ہے کہ ٹکٹ کی قیمت ہمیشہ اس کی جیب میں جاتی ہے‘‘۔
یہ ایک جھلک ہے ان مضامین و تجزیوں کی جو تمام مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ عوامی ردعمل کی ایک وسیع لہر بھی دن بدن وسیع تر ہو رہی ہے۔ مسجدوں اور مجلسوں میں گلیوں اور بازاروں میں‘ چائے خانوں اور ایوانوں میں ہر جگہ پاکستان اسرائیل تعلقات زیربحث ہیں۔ پاکستان کے بعد انڈونیشیا‘ قطر اور بحرین کے حوالے سے بھی خبریں شائع ہوچکی ہیں کہ کسی نے صہیونی ریاست سے تجارت پر پابندی اٹھا لی ہے تو کوئی صہیونی ذمہ داران سے ملاقات کرچکا ہے۔ ان کے بارے میں بھی عوامی حیرت و نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کا جرم پاکستان کے نامۂ اعمال میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے کئی علاقوں میں پاکستان کے اس اقدام کے خلاف مظاہرے ہوچکے ہیں۔ خود فلسطینی اتھارٹی کے ذمہ داران باصرار کہہ چکے اور کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ سراسر پرویز حکومت کا فیصلہ ہے۔ محمود عباس انتظامیہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے ایک ذمہ دار نے راقم کو بتایا کہ پاکستان سے اسرائیل بھیجے جانے والے وفد کے بارے میں بھی ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اپنا وفد غزہ تو بھیج دیں لیکن اسے القدس نہ بھیجیں کیونکہ اسرائیلی تسلط میں وہاں کا دورہ اس اعلان کے مترادف ہوگا کہ ہم اس پر یہودی قبضہ تسلیم کرتے ہیں اور صہیونی انتظامیہ کے مہمان کی حیثیت سے وہاں جانے پر بھی معترض نہیں ہیں۔ پاکستان کے اس بیان پر کہ ہم امن مذاکرات میں فلسطینی عوام کا ساتھ دینا چاہتے ہیں‘ محمود عباس انتظامیہ کے اس ذمہ دار نے استہزائیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام مذاکرات کے علاوہ جہاد بھی کرر ہے ہیں۔ پاکستان اس میں ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتا۔
اس تمام احتجاج‘ اظہار کرب اور غم و غصے کی عالمی لہر کے باوجود امریکی یہودی کانگرس سے اپنے ’’تاریخی‘‘ خطاب میں پرویز مشرف نے اسی راہ پر مزید آگے بڑھنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ یہودی کانگرس صہیونی اور اسرائیلی مفادات کی سب سے بڑی محافظ تنظیم ہے۔ امریکی صدور بھی ہربرس وہاں جاکر اپنی اسرائیل نوازی کی ضمانت دیتے ہیں۔ پرویز مشرف کو وہاں بلانے کا مقصد بھی یہی تھا جو انھوں نے پورا بھی کیا‘ دوسرا مقصد یہ تھا کہ عالمِ اسلام‘ بالخصوص مسلم عوام میں یہودیوں کے متعلق پائی جانے والی نفسیاتی دیوار توڑی جائے۔ کسی بھی سطح پر یہودی ذمہ داران سے ملنے میں کسی کو تردد نہ رہے اور تعلقات معمول میں لانے کا عمل مزید تیزی سے مکمل ہو۔
پرویز مشرف کے خطاب میں سب سے قابلِ اعتراض اور باعث استعجاب بات ان کا یہ کہنا تھا کہ ’’اسرائیل سے ہمارا براہِ راست کوئی تنازعہ نہیں ہے اور ہمیں اسرائیل سے کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ قبلہ اوّل اور مسجد اقصیٰ پر صہیونی قبضہ دنیا کے ہرمسلمان کا اسرائیل سے براہِ راست تنازعہ ہے۔ اور کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صہیونی انتظامیہ کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھبا ہوا ہے۔ ذرابتایئے آخر ایران کا صہیونی انتظامیہ سے کیا براہِ راست تنازعہ ہے کہ ان کی نظر میں ایران کا ایٹمی پروگرام اس وقت علاقائی اور عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ سوال دنیا بھر میں پرویز مشرف سے پوچھا جا رہا ہے۔ ثریا الشہری ایک معروف عرب کالم نگار ہے۔ ۵ستمبر کے الشرق الاوسط میں ان کا کالم شائع ہوا ہے: ’’اسلام آباد اور تل ابیب: کیا اسرائیلی عوام نے بھی فریق ثانی کو قبول کر لیا ہے‘‘۔ اس کالم میں انھوں نے اسرائیلی معاشرے میں مسلمانوں اور عربوں کے متعلق پائی جانے والی گہری نفرت اور شدید تعصب کے بارے میں اعداد و شمار اور متعصب صہیونی مدارس کا حوالہ دیتے ہوئے پرویز مشرف سے پوچھا ہے کہ آپ تو آگے بڑھ بڑھ کر ان سے مل رہے ہیں۔ کیا آپ نے اسرائیلی معاشرے میں اپنے اور مسلمانوں بلکہ ہر غیر یہودی کے لیے پائی جائے اور مسلسل پھیلائی جانے والی نفرت کا بھی جائزہ لیا ہے۔
گذشتہ دنوں فلسطین کی تحریک حماس کے ایک مرکزی ذمہ دار سے ملاقات ہوئی۔ وہ شدید صدمے کی حالت میں تھے۔ کہنے لگے پاکستان ہماری مدد نہیں کر سکتا تھا تو ایک کڑے وقت میں پیٹھ میں چھرا تو نہ گھونپتا۔ پھر کہنے لگے: پہلے صہیونی وزیراعظم بن گوریون نے اسرائیل کا دفاعی نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل صرف اسی وقت محفوظ و مامون ہوسکتا ہے جب ہم ترکی‘ حبشہ (اریٹیریا/ایتھوپیا) اور ایران پر مشتمل ایک دفاعی تکون تشکیل دے لیں‘ یعنی ان تینوں ممالک میں اپنے اثرو نفوذ اور تسلط کو یقینی بنا لیں۔ اس دفاعی نظریے کا جائزہ لیں تو اریٹیریا اس وقت بحراحمر میں اسرائیل کا سب سے قابلِ اعتماد حلیف اور جاسوسی و عسکری اڈہ ہے۔ ترکی کی فوج‘ وہاں کے ذرائع ابلاغ اور تجارت میں اسرائیلی اثرونفوذ کسی سے مخفی نہیں‘ ترکی میں اصل حکمرانی اسی مثلث کی ہے۔ البتہ ایران سے شاہ کے خاتمے کے بعد سے لے کر اب تک یہ خواب خاک میں ملا ہوا ہے۔ ایران کی کمی بھارت سے اپنے تعلقات کے ذریعے پوری کرنے کی سعی کی گئی ہے لیکن ایک تو بھارتی حکومت فیصلوں کا حق ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے پر مصر ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ بھارت صہیونی گٹھ جوڑ عالمِ اسلام میں مثبت فوائد کے بجاے ردعمل اور تشویش و نفرت کا باعث بنتا ہے۔ بن گوریون کے الفاظ میں بھی: ’’چونکہ ہندستان میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوئوں کی ہے جن کے دلوں میں صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت بھری پڑی ہے‘ اس لیے ہندستان ہمارے لیے اہم ترین اڈا ہے جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف ہر قسم کی کاروائیاں کرسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت کارآمد اڈے سے پورا فائدہ اٹھائیں اور انتہائی چالاک اور خفیہ کارروائیوں سے پاکستانیوں پر زبردست وار کر کے انھیں کچل کر رکھ دیں‘‘۔
حماس کے ذمہ دار کا خیال تھا کہ اب اسرائیل بن گوریون کے دفاعی نظریے میں ترمیم کرکے یہ دفاعی تکون حبشہ‘ ترکی اور پاکستان پر مشتمل کرنا چاہتا ہے جس کے لیے ایک طرف تو بھارت کے ذریعے دھمکیوں اور خفیہ کارروائیوں کی زد میں رکھتے ہوئے پاکستان کو مکمل طور پر اپاہج کرنا ضروری ہے اور دوسری طرف اسے براہِ راست صہیونی گرفت میں لینا اور گرفت میں لینے کے لیے مالی لالچ دینا‘ تعریفوں کے پُل باندھنا اور وسیع تر تعلقات قائم کرنا ضروری ہے۔ کیا پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بننے والے اس خطرے اور اس کی سنگینی سے آگاہ ہیں؟ کیا کوئی اس خطرے کے سدباب کا ارادہ و ہمت رکھتا ہے؟ اگر خدانخواستہ نہیں‘ تو وہ جان لیں کہ پاکستان کے عوام یہ ارادہ بھی رکھتے ہیں‘ اور اللہ کی توفیق سے اس کی ہمت بھی۔
حال ہی میں یونی ورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر رابرٹ پاپ (Robert Pape)نے ایک کتاب Dying To Win (فتح کے لیے مرنا) خودکُش دہشت گردی کے موضوع پر لکھی ہے۔ یہ موضوع بھی ہمارا ہے‘ لیکن شاید پاکستان یا عرب دنیا میں کہیں اس طرح کا ریکارڈ اور تحقیقی مطالعہ نہ کیا گیا ہو۔ مصنف نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ اس کے پاس اس طرح کے دہشت گردوں کا ایک پورا ڈیٹابیس ہے جس میں ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۴ء تک خودکُش دہشت گردوں کی نام بہ نام ہر ایک کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔ یہ صرف اخباری اطلاعات پر مبنی نہیں ہے بلکہ متعلقہ فرد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کی گئی ہیں اور ان کی اپنی زبان (عربی‘ روسی اور تامل) میں بات چیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مصنف سے ایک انٹرویو لیا گیا ہے جو The American Conservative (۱۸جولائی ۲۰۰۵ئ) میں شائع ہوا ہے۔ یہ تحریر اسی انٹرویو پر مبنی ہے۔
رابرٹ پاپ کا کہنا ہے: ’ان معلومات کے نتیجے میں اس سے ایک بالکل مختلف تصویر اُبھرتی ہے جو ہمیں امریکا میں دکھائی جارہی ہے۔ دہشت گردی کی تحریک کو غذا کس چیز سے مل رہی ہے؟ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں‘ اس کا اسلامی بنیاد پرستی سے تعلق ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کے پیچھے ایک واضح اسٹرے ٹیجک مقصد ہے: وہ سرزمین جس کو دہشت گرد اپنی مادرِ وطن سمجھتے ہیں وہاں سے جدید جمہوریتوں [مغربی ممالک] کو اپنی فوجیں واپس بلانے پر مجبور کرنا۔ لبنان سے سری لنکا تک‘ چیچنیا سے کشمیر اور دریاے اُردن کے مغربی کنارے تک‘ ہرخودکُش دہشت گرد مہم کے تمام واقعات کے تقریباً ۹۵ فی صد کا ہدف یہی تھا‘۔
مصنف کہتا ہے: ’امریکا میں تو یہی کہا جاتا ہے کہ اگر ہم دہشت گردوں سے وہاں لڑلیں تو ہمیں ان سے یہاں اپنی زمین پر نہیں لڑنا پڑے گا۔ اگر ہم صاف دلی سے دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گردی اسلامی بنیاد پرستی کی وجہ سے نہیں ہے‘ بلکہ غیرملکی قبضے کا ردعمل ہے۔ اس لیے مسلم معاشروں کو فوجی قوت کے ذریعے تبدیل کرنے کی ہماری کوشش کا نتیجہ اُلٹا ہی ہوگا کہ ہم یہاں اپنے گھر میں اور زیادہ خودکُش حملوں کا نشانہ بنیں گے۔ ۱۹۹۰ء سے امریکا نے جزیرہ نماے عرب میں لاکھوں کی تعداد میں فوج بٹھا رکھی ہے۔ امریکی فوج کی یہی موجودگی‘ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے گرد لوگوں کو جمع ہونے کا سب سے بڑا محرک ثابت ہوئی ہے۔ ہمارے جن پالیسی سازوں کا استدلال یہ ہے کہ بہتر ہے کہ یہ حملے وہاں ہوتے رہیں‘ لیکن وہ یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ یہ عمل ایسا نہیں ہے کہ جس میں رسد محدود ہو اور صرف چند سو دہشت گرد یا مذہبی دیوانے یہ کرنے کے لیے آمادہ ہوں‘ بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے طلب اور رسد دونوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ مثلاً عراق پر ہمارے حملے نے دہشت گردی کو تحریک دی ہے اورخودکُش دہشت گردی کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔
رابرٹ پاپ تجزیہ کرتا ہے: ’اسامہ بن لادن کی تقریریں چالیس چالیس‘ پچاس پچاس صفحوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان میں پہلی بات یہی ہوتی ہے کہ امریکی فوجیوں کو اس سرزمین سے نکالا جائے‘۔ ۱۹۹۶ء میں اسامہ نے کہا تھا:’’امریکا کا منصوبہ یہ ہے کہ عراق کو ختم کریں‘ اس کے تین ٹکڑے کریں‘ ایک اسرائیل کو دیں تاکہ وہ اپنی سرحدیں وسیع کرے‘ اور پھر یہی کچھ سعودی عرب کے ساتھ کریں۔ ہم اس پیش گوئی کو حرف بحرف سچا ثابت کر رہے ہیں۔ اس طرح اسامہ کی اپیل میں بڑی کشش پیدا ہوگئی ہے‘۔
’سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان علاقوں میں امریکی افواج کی موجودگی کو زیادہ وزن دیا جائے‘ یا مغرب کو تہذیبی طور پر مسترد کرنے کے جذبے کو؟ حقائق بتاتے ہیں کہ اس ردعمل میں اصل چیز‘ ان علاقوں میں امریکی افواج کی موجودگی ہے۔ اگر اسلامی بنیاد پرستی ہی ان خودکش حملوں کی اصل محرک ہوتی تو دنیا کی بڑی بڑی اسلامی بنیاد پرست حکومتوں میں دہشت گردوں کی اکثریت ہوتی‘ لیکن عراق اور سعودی عرب سے تین گنا زیادہ آبادی والے ۷ کروڑ مسلمانوں کے ملک ایران سے کوئی بھی دہشت گرد پیدا نہیں ہورہے‘ اور نہ عراق میں یہ ایران سے آرہے ہیں۔ پھر ۲کروڑ آبادی کا ملک سوڈان انتہائی بنیاد پرست ہے۔ اسامہ بن لادن نے تین سال یہاں بھی گزارے ہیں‘ لیکن یہاں سے کوئی بھی حملہ نہیں ہوا۔ خود عراق کو دیکھیے‘ ہمارے حملے سے پہلے عراق کی تاریخ میں کسی خودکُش حملے کا ریکارڈ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے حملے کے بعد اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں ۲۰ حملے‘ ۲۰۰۴ء میں ۴۸ حملے اور ۲۰۰۵ء کے پہلے پانچ مہینوں میں ۵۰ سے زیادہ۔ امریکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے ان حملوں میں ہر سال دگنا اضافہ ہو رہا ہے‘۔
رابرٹ پاپ وضاحت کرتا ہے: ’۱۹۸۰ء کے بعد سے ہونے والے اُن ۴۶۲ خودکُش حملوں کا میں نے پورا ریکارڈ جمع کیا ہے جس میں حملہ آور نے اپنا مشن بھی مکمل کیا اور اپنے آپ کو ہلاک بھی کردیا۔ ان میں چند ہی وہ ہیں جو کسی دہشت گرد گروپ سے طویل عرصے تک سے وابستہ رہے ہوں۔ زیادہ تر کے لیے تشدد کا پہلا تجربہ خود ان کا یہ حملہ ہی ہوتا ہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہمارے حملے سے پہلے عراق میں دہشت گرد تنظیمیں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ امرواقع یہ ہے کہ ہمارے حملے اور عراق پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش نے خودکُش دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق دہشت گرد زیادہ تر عراقی سنی اور سعودی باشندے ہیں۔ یہی وہ دو علاقے ہیں جہاں ہماری افواج موجود ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری خودکُش دہشت گردی کی منطق درست ہے‘۔
وہ دعویٰ کرتا ہے کہ القاعدہ کی ایک خفیہ دستاویز سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ اگلی مختصر مدت میں امریکا پر حملہ کرنے کے بجاے اس کے حلیفوں کو نشانہ بنائیں گے تاکہ دہشت گردی کے خلاف قائم اتحاد ٹوٹ جائے۔ اس دستاویز میں یہ بحث موجود ہے کہ حملہ برطانیہ پر کریں‘ پولینڈ پر یا اسپین پر۔ یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ اسپین پر مارچ ۲۰۰۴ء کے انتخابات سے پہلے حملہ کیا جائے تو وہ اپنی فوجیں واپس بلا لے گا اور پھر دوسرے بھی یہی کریں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ اس دستاویز کے علم میں آجانے کے بعد میڈرڈ میں حملہ ہوا‘ اسپین نے فوجیں واپس بلا لیں‘ اور کچھ دوسرے ممالک نے بھی۔ القاعدہ نے ۲۰۰۲ء میں ۱۵ خودکُش حملے کیے ہیں۔ یہ نائن الیون سے پہلے کے مجموعی حملوںسے زیادہ ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود القاعدہ کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔
پوچھا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح کا کیا مطلب ہے؟ فتح یہ ہے کہ ہمیں اپنا کوئی اہم مفاد قربان نہ کرنا پڑے اور نہ امریکی باشندے خودکُش حملوں کی زد میں آئیں‘ یعنی ہمیں تیل کی فراہمی برقرار رہے اور دہشت گردوں کی کوئی نئی نسل پیدا نہ ہو۔ ۷۰ء اور ۸۰ء کے عشروں میں ہم نے اپنے یہ مقاصد عرب سرزمین پر اپنا کوئی فوجی بھیجے بغیر حاصل کیے۔ اب بھی اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
دیکھا جائے تو ہرغیرملکی تسلط سے خودکُش دہشت گردی پیدا نہیں ہوتی۔ یہاں مذہب کا دخل سامنے آتا ہے مگر اس طرح کا نہیں جس طرح کا لوگ سوچتے ہیں۔ اگر قبضہ کرنے والے اور مقبوضہ معاشرے اور علاقے کے مذاہب مختلف ہیں تو دہشت گردی کا عمل سامنے آتا ہے۔ لبنان اور عراق میں بھی یہی وجہ ہے اور ایسا ہی معاملہ سری لنکا میں سنہالی بدھ اور تامل ہندوئوں کا ہے۔ مذہبی فرق کی وجہ سے دہشت گرد رہنما قابض حکمرانوں کا خراب نقشہ پیش کرتے ہیںلیکن ضروری ہے کہ قبضہ کرنے والا وہاں ہو۔ اگر قابض فوج وہاں موجود نہ ہو تو اسامہ بن لادن خواہ کتنی ہی دلیلیں دے‘ اس کے مخاطب لوگوں میں اس کا کوئی وزن نہ ہوگا۔ چونکہ ہماری فوجیں وہاں موجود ہیں‘ اس لیے ہم اس کی اس بات کا جواب نہیں دے سکتے۔
رابرٹ پاپ کے بقول: ’یہ سمجھا جاتاہے کہ امریکی فوج واپس چلی جائے تب بھی یہ حملے بند نہ ہوں گے۔ لیکن میرے خیال میں یہ صحیح نہیں ہے۔ گذشتہ ۲۰ برس کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ دہشت گردوں کے وطن سے اگر غیرملکی فوج واپس چلی جائے تو عموماً حملے فوراً رک جاتے ہیں۔ لبنان سے اسرائیلی فوجیں واپس چلی گئیں تو دہشت گردوں نے ان کا پیچھا تِل ابیب تک نہیں کیا۔ فلسطین کی دوسری تحریک انتفاضہ میں بھی یہی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کے صرف یہ وعدہ کرلینے سے کہ وہ علاقے خالی کرے گا‘ حملوں میں کمی آگئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ افواج کی واپسی مزید خودکش حملہ آوروں کی بھرتی کے امکانات کو کم کردیتی ہے‘۔
رابرٹ سے پوچھا گیا کہ اس کا امکان کہاں تک ہے کہ کسی امریکی شہر میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) استعمال کیے جائیں؟ اس نے جواب دیا: ’اس کا بیش تر انحصار اس پر ہے کہ ہماری مسلح افواج کتنے عرصے تک خلیج میں رہتی ہیں۔ امریکا مخالف دہشت گردی‘ خودکُش دہشت گردی اور تباہ کن دہشت گردی کا مرکزی محرک غیرملکی قبضہ‘ یعنی دوسرے ممالک میں ہماری افواج کی موجودگی کا ردعمل ہے۔ ہماری افواج دنیاے عرب میں جتنی دیر قیام کرتی ہیں کسی نہ کسی نائن الیون کا اندیشہ موجود ہے ‘خواہ یہ خودکُش حملہ ہو‘ جوہری حملہ ہو یا حیاتیاتی۔ (اخذو تلخیص)
خط تو بہت آتے ہیں لیکن اس خط کی اپنی بات ہے۔ پڑھیں تو پڑھتے رہ جائیں‘ سوچیں تو سوچتے رہ جائیں۔ یااللہ! ہم مسلمان کس چیز کو چھپائے بیٹھے ہیں! ہر کلمہ پڑھنے والا اس جذبے سے سرشار ہوجائے تو دنیا کیا سے کیا ہوجائے۔ (ادارہ)
میری عمر ۴۴ سال ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے جیل میں ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہا ہوں۔ قید تو ۱۵ سال کی ہے لیکن اللہ جل جلالہ جانتے ہیں کہ کب رہائی ہوگی۔ قید کیوں کاٹ رہا ہوں؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ آپ نے حوصلہ افزائی کی تو پھر دوبارہ ان شاء اللہ تفصیل سے لکھوں گا۔ آپ کو خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی توجہ ایک واقعے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔
قصہ یوں ہے کہ میں اس جیل کے ایک یونٹ کا قائم مقام امام ہوں۔ اس جیل میں تقریباً ساڑھے تین ہزار قیدی ہیں۔ اس جیل میں ایک خاص یونٹ ہے‘ جس میں تقریباً ۳۰۰ قیدی ہیں۔ یہ یونٹ خاص طور پر قانون ساز اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد پولیس‘ وکیل‘ جج‘ ایف بی آئی‘ کسٹم‘ سی آئی اے اور دیگر قانون ساز اداروں سے تعلق رکھنے والے افسروں کے لیے ہے۔ میں بھی پہلے ایک فیڈرل ایجنسی میں ملازمت کرتا تھا۔ بات یوں ہے کہ چند مہینے پہلے کسی قیدی نے مجھے ترجمان القرآن مئی ۲۰۰۰ء کا ایک پرانا شمارہ دیا۔ میں نے ایک سرسری نظر ڈال کر ایک طرف رکھ دیا۔ ایک دن کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا تو میں نے شمارے کی ورق گردانی کی اور خرم مراد صاحب کا مضمون ’’دعوتِ عام کی بنیادیں‘‘ دھیان سے پڑھا۔ اُن کی باتیں دل کو لگیں۔ اگلے جمعہ کو اُن کے مضمون سے کچھ حصے لے کر انگریزی میں ترجمہ کیا اور جمعۃ المبارک کے خطبے کے دوران وہ سب باتیں دہرائیں۔ سبحان اللہ‘ جمعہ کی نماز کے بعد سات افراد نے اسلام قبول کیا‘ جن میں دو جیل کے اہل کار بھی شامل تھے۔ یہ میرے لیے تو ایک بہت بڑی بات تھی۔ جب سے اسلام کی دعوت کا کام شروع کیا ہے‘ ایسا بڑا واقعہ پہلے کبھی رونما نہیں ہوا‘ گو کہ کافی لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔
صاحب‘ بات یہ ہے کہ میں گناہ گار‘ کم عقل اپنے آپ کو اس قابل نہیں گردانتا۔ میں تو دنیادار‘ کم فہم اور رند خرابات قسم کا بندہ تھا۔ میری معلومات دین کے بارے میں صرف اتنی تھیں کہ کبھی کبھار نماز پڑھ لی یا قوالیاں سن کر اپنے آپ کو مسلمان سمجھ لیا۔ یہ تو جیل آکر پتا چلا کہ دین کیا ہے۔ کبھی تو سوچتا ہوں کہ شاید میرے مالک نے مجھ سے یہ کام لینا تھا‘ اس لیے جیل میں آیا۔ مجھے نہیں پتا کہ خرم مراد صاحب کون ہیں۔ میں نے تو اُن کا نام پہلی بار پڑھا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے بارے میں اتنا پتا تھا کہ وہ وہابی ہیں۔ گھر میں والد صاحب اُن کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ جیل کی مسجد کی صفائی کرتے وقت مجھے اُن کی لکھی کتاب خلافت و ملوکیت ملی‘ پڑھ کر ایمان تازہ ہوگیا۔ ایک دوست سے گزارش کرکے مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن منگوا کر پڑھی تو قرآن پاک کے اصل مفہوم سے واقف ہوا اور اُسی کو لے کر کالے گوروں میں دین اسلام بانٹتا پھر رہا ہوں۔ باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع ہے‘ ورنہ مولانا مرحوم کی لکھی ہوئی سب کتابیں پڑھوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُن کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین!
آپ سے گزارش ہے کہ اگر آپ مجھے ترجمان القرآن کا شمارہ بھیج دیا کریں تو میرے علم میں اضافہ ہوگا اور میں تبلیغ کا کام بہتر طریقے سے کر پائوں گا۔
خرم مراد صاحب کی خدمت میں میرا مؤدبانہ سلام عرض کریں اور اُن تک یہ خبر پہنچا دیں۔ اُن سات افراد میں‘ میں نے دو کا نام آپ کے نام سے رکھا ہے۔ ایک کا خرم اور دوسرے کا مراد۔ اُن کی لکھی ہوئی ایسی ہی عمدہ تحریریں اگر آپ بھیج دیں تو نہایت مشکور ہوں گا۔
بس اتنی خواہش ہے کہ دین اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کروں تاکہ نومسلموں کی صحیح رہنمائی کر سکوں۔ (۲۷ اگست ۲۰۰۵ئ)
مصر کے حالیہ انتخابات کو مغربی ذرائع ابلاغ جمہوریت کی طرف اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں‘جب کہ مصر کے محبِ وطن‘ جمہوریت پسند اور اسلام دوست حلقے اسے نہایت شرمناک ڈرامابازی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟
گذشتہ برس کے اختتام پر پورے مصر میں تبدیلی کا نعرہ پورے شدّ ومد سے گونجتا نظر آیا۔ مصر کے تمام عناصر بالاتفاق نصف صدی کے جور واستبداد سے بیزاری کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ ایمرجنسی قوانین کے نام پر شہری آزادیوں کی بُری طرح پامالی‘ سیاسی آزادیوں بالخصوص جماعت سازی‘ اظہار رائے اور صحافتی آزادیوں پر مکمل قدغن کی نصف صدی تھی۔ مصر میں صدارتی انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی تھی یہ خدشات بڑھتے چلے جارہے تھے کہ ۷۷سالہ صدر حُسنی مبارک اقتدار کی باگ ڈور اپنے مشہور زمانہ بدعنوان بیٹے جمال مبارک کے سپرد کر رہے ہیں۔ اسی کے ردِّعمل میں تحریک ’’کفایہ‘‘ (Enough) منظرعام پر آئی۔
اس کی باگ ڈور لبرل عناصر کے ہاتھ میں تھی۔ اس لیے مغربی ذرائع ابلاغ میں اسے بے حد پذیرائی ملی۔ اس مرحلے پر اخوان المسلمون نے بھی سیاسی تبدیلی کے لیے مکمل اصلاحات کا ایک منشور پیش کیا۔ دیگر اسلام پسند عناصر کے ساتھ مل کر بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے منظم کیے جنھیں حکومت نے گرفتاریوں اور فائرنگ کے ذریعے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ سیاسی میدان میں جاری اس ہلچل سے ایک مرتبہ تو یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید مصری حکومت کا آقاے ولی نعمت‘ امریکا‘ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے جمہوری ایجنڈے کی تنفیذ پر آمادہ ہے۔ اگر اس کی خاطر حُسنی مبارک سے خلاصی بھی حاصل کرنا پڑی تو شاید دریغ نہ کرے‘ اور عین ممکن ہے کہ جمہوریت کی خاطر اسلامی تحریک کو بھی گوارا کرلے۔ لیکن ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اسی دوران امریکی وزیرخارجہ کونڈو لیزارائس دو مرتبہ مصر گئیں۔ دورے کے دوران انھوں نے یہ بات واضح کردی کہ مصر بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں فی الوقت امریکی ترجیح حقیقی جمہوریت نہیں بلکہ ڈکٹیٹرشپ علیٰ حالہٖ (status quo) ہے۔عالمی طاقت امریکا کے اس رویے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کے اس عالمی چیمپئن کا عالمِ اسلام کے لیے ایجنڈا کیا ہے؟
اخوان المسلمون کے احتجاجی مظاہرے ہوں یا تحریکِ کفایہ اور حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام کی عدمِ شرکت‘ ایک بات واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ عوام پر اب خوف کا وہ عالم باقی نہیں رہا جس نے نصف صدی تک حکمرانوں کو ان کے سیاسی و سماجی اور بنیادی حقوق سلب کیے رکھنے کا حوصلہ دیا تھا۔ عراق میں پٹنے کی وجہ سے امریکا اور اس کے کاسہ لیس حکمرانوں کی ہوا اُکھڑچکی ہے اور عام لوگ بھی اب حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں۔
گذشتہ برس کے اختتام پر اندرونی و بیرونی دبائو کے تحت صدر حُسنی مبارک نے صدارت کے لیے سابقہ طریقہ کار (ریفرنڈم) میں تبدیلی کا عندیہ دیا۔ سابقہ طریقہ کار کے مطابق ملک کی قومی اسمبلی ایک فرد کو نامزد کرتی اور پھر ملک بھر کے عوام سے اس نام پر ہاں یا ناں میں رائے لی جاتی۔ اس طرح کے ریفرنڈم کا پاکستان میں بھی نتیجہ ہمیشہ ۹۰ فی صد تک ہاں کی شکل میں ہی نکلتا رہا ہے اورمصر جیسے آزادیوں سے محروم ملک میں اس کا نتیجہ ہمیشہ ۹۹ فی صد رہا کرتا تھا۔ نئے طریق کار میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر ایسی ترامیم متعارف کروائی گئیں کہ کسی ’خطرے ‘ کا امکان نہ رہے۔
اب تک کی پارٹی پوزیشن کے مطابق پارلیمنٹ میں حکمران جماعت حزب الوطنی کو ۹۵ فی صد نشستیں حاصل ہیں۔ حکمران جماعت کے بعد سب سے زیادہ نشستیں اخوان المسلمون کے پاس ہیں جن کی تعداد ۱۷ ہے۔ پھر دیگر پارٹیوں کا نمبر آتا ہے جیسے ’’وفد‘‘ (۵)، ’’غد‘‘ (۶)، ’’ناصری‘‘ (۱)، ’’احرار‘‘ (۱) وغیرہ وغیرہ۔
نئی ترمیم کے مطابق کوئی بھی رجسٹرڈ پارٹی اپنا نمایندہ بطور صدارتی امیدوار کھڑا کرسکتی ہے۔ عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اخوان المسلمون پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ غیررجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا کوئی نمایندہ بھی بطور امیدوار میدان میں نہیں اُتار سکتی۔ حالانکہ تمام تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ حکمران جماعت کا مقابلہ کرنے کے لیے جس ملک گیر نیٹ ورک اور عوامی مقبولیت کی ضرورت ہے وہ صرف اخوان المسلمون کے پاس ہے۔
راے عامہ کے مختلف سروے بھی یہی ظاہر کر رہے تھے کہ اخوان المسلمون کا نمایندہ ہو تو اسے کل ووٹوں کا ۳۰ فی صد حاصل ہوسکتا ہے۔
اخوان آزاد حیثیت سے اپنا امیدوار براے صدارت میدان میں اتار سکتے تھے لیکن آزاد امیدواروں کا راستہ روکنے کے لیے مذکورہ ترمیم میں اس سے بھی زیادہ سخت تر قانون یہ متعارف کروایا گیا کہ ایسے امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ (قومی اسمبلی و سینیٹ) کے کم از کم ۶۲ ارکان کی تائید رکھتا ہو۔ اب اگر تمام اپوزیشن پارٹیاں مل کر بھی چاہیں تو مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ قومی اسمبلی کی ۹۵ فی صد سیٹوں پر حکمران جماعت قابض ہے‘ جب کہ سینیٹ میں اپوزیشن کا ایک بھی ممبر موجود نہیں۔
اسی طرح یہ شرط بھی رکھی گئی کہ ۲۶ صوبائی اسمبلیوں میں سے بھی کم از کم ۵ فی صد لوگ آزاد امیدوار کی تائید کریں۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ملک کی ۲۶ صوبائی اسمبلیوں میں ۹۷ فی صد ارکان حکمران جماعت حزب الوطنی کے ہیں۔
حکمران جماعت کی ۹۵ اور ۹۷ فی صد عوامی مقبولیت کا راز کیا ہے؟ اس کے لیے حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہوگا۔
مصر میں کل ۳۲ ملین ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۳ فی صد‘ جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق صرف ۱۸ فی صد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ۷۷ فی صد لوگوں نے موجودہ نظام بالخصوص حکمرانوں کے طریقہ کار کو ناپسند کرتے ہوئے اور بہتر متبادل امیدوار نہ ہونے کی بنا پر پولنگ اسٹیشنوں تک آنا ہی گوارا نہ کیا۔
سرکاری نتائج کے مطابق کل ووٹوں میں سے ۱۹ فی صد ووٹ حُسنی مبارک کو‘ جب کہ ۶ فی صد غد پارٹی کے ایمن نور اور ۲ فی صد ووٹ وفد پارٹی کے نعمان جمعہ کو ملے۔ حکمران پارٹی کو یہ ۱۹ فی صد ووٹ کیسے ملے؟اطلاعات ہیں کہ حکمران پارٹی کو ووٹ دینے والے ووٹر‘ سرکاری ملازمین تھے یا گھیرگھار کر لائے ہوئے کسان اور فیکٹریوں کے مزدور۔ گائوں کے سیدھے سادھے لوگوں کے لیے نمبردار ہی کافی تھا‘ جب کہ شہروں میں حکمران پارٹی کے رئیس البلدیہ کا دبائو کارگر رہا۔ اگر اتنی عام دھاندلی نہ کی جاتی تو شاید حُسنی مبارک کو یہ ۱۹ فی صد ووٹ ملنا بھی مشکل تھے۔
مطلب برآری کے لیے میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری میڈیا نے ۶۰ فی صد وقت حُسنی مبارک کو‘ جب کہ ۹ فی صد ’’وفد‘‘ کے نعمان جمعہ کو اور ۶ فی صد وقت ’’غد‘‘ کے ایمن نور کو دیا۔ سرکاری اخبارات توحُسنی مبارک کی ۲۴ سالہ کامیابیوں کے گن گا ہی رہے تھے البتہ اھرام جیسے نیم سرکاری اخبارات کو بھی خصوصی ضمیمہ جات نکالنے پر مامور کیا گیا تھا۔
اس سارے منظرنامے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس بار چونکہ حُسنی مبارک کا متبادل پیش کرنا ممکن نہیں تھا‘ اس لیے کارفرما قوتوں نے سردست حُسنی مبارک ہی کو برقرار رکھا ہے۔ بعدازاں ایک آدھ برس کے بعد جمال مبارک کو بقیہ مدت صدارت کی تکمیل کے لیے اقتدار منتقل کروایا جائے گا۔ موصوف کی مصر میں عمومی شہرت آصف زرداری صاحب کے ۱۰ فی صد والی ہے اور مصری عوام انھیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
جہاں تک خطے میں امریکی پالیسی کا تعلق ہے اس حوالے سے شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ کو امریکی مفادات سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ سے امریکا کے تین مفادات وابستہ ہیں:۱- اسرائیل کی امن و سلامتی ۲-پٹرولیم کی بلاانقطاع ترسیل ۳- خلیج میں امریکی فوج کی تادیر موجودگی۔ حقیقی جمہوریت کے نفاذ سے یہ تینوں مقاصد ہی تشنہ تکمیل رہ جائیں گے۔ لہٰذا جمہوریت کا مصرف بس یہ ہے کہ اس کا ہوّا دکھاکر خلیجی حکمرانوں کو دبائو میں لایا جاتا رہے اور انھی سے اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کروائی جائے۔
مصر کے ان انتخابات سے مستقبل میں ہونے والے کسی بھی عرب ملک کے انتخابات کی تصویر جھلکتی ہے۔ بحرین‘ سعودیہ اور قطر و امارات کے بلدیاتی انتخابات اور اس کے بعد قومی انتخابات سے ایسی مخصوص لبرل لابی اُبھاری جائے گی جو موجودہ حکمرانوں سے بھی بڑھ کر امریکی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن سکے۔
چین دنیا کی دوسری عسکری اور معاشی سپرپاور بن کر تیزی سے اُبھر رہا ہے۔ اب شنگھائی‘ نیویارک اور واشنگٹن سے بتدریج زیادہ اہم بنتا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت کی سخت گیر پالیسیوںکی وجہ سے وہاں کی اندرونی خبریں دنیا کو بہت زیادہ معلوم نہیں ہوپاتی ہیں۔ چین نے کمیونزم سے ایک قسم کی توبہ کر کے بڑے پیمانے پر اپنے آپ کو کارپوریٹ معیشت سے ہم آہنگ کرلیا اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت سے ہم آہنگی کے باعث ہی اس کے لیے ممکن ہوسکا ہے کہ وہ جاپان کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کرے اور امریکا کا مدمقابل بنتا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے ایک مخصوص طبقے کی نظر کرم بھی اب امریکا کے بجاے چین کی طرف مبذول ہو رہی ہے۔ چین کی روس سے ملنے والی سرحد پر سنکیانگ کا صوبہ ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ ایغوری نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بنیادی طور پر ترکوں‘ تاتاریوں کی ایک شاخ ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سنکیانگ کے لوگ اس صوبے کو مشرقی ترکستان کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
چین میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ کمیونسٹ دورِ اقتدار میں سابق سوویت یونین کی طرح یہاں کے مسلمان بھی ہر طرح کے ریاستی تشددو جبر کا شکار تھے۔ بعد میں اس جبریہ نظام میں کچھ سہولتیں پیدا کردی گئی ہیں‘ البتہ ایغوری مسلمان کبھی بھی چینی تسلط سے خوش نہیں رہے‘ اس لیے وہاں گاہے بگاہے علاحدگی و خودمختاری کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ لیکن چینی حکام ہر بار ان آوازوں کو سخت بے رحمی سے کچل دیتے رہے ہیں۔بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ نہایت کمزور رہا۔
اب دیوارِ چین تو کھل گئی‘ لوگوں نے چین جانا اور تعلقات قائم کرنا شروع کر دیا ہے‘ تاہم ادھر چند مہینوں سے سنکیانگ میں حکومت پھر مسلمانوں پر شکنجہ کس رہی ہے۔ حال ہی میں چینی پولیس نے اس صوبے میں ۱۰ ایغوری مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور ان پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ وہ علاحدگی پسند ’’نیرہابوت‘‘ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور علاقے میں انقلابیوں کومنظم کرنے اور سنکیانگ کی آزادی کی مہم چلانے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ یہاں صورت حال اتنی پُرسکون اور’’سب خیریت ہے‘‘ کی نہیں ہے جیساکہ چینی حکام دنیا کو بتاتے ہیں اور عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ہر ہفتہ ایک یا دو واقعات ہوتے ہیں جن میں گائوں والے‘ دیہاتی اور غریب لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر پولیس سے بھڑ جاتے ہیں۔ مظاہرے ہوتے ہیں جنھیں فرو کرنے اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس چھوڑنے‘ بے تحاشا ڈنڈے برسانے اور کریک ڈائون کرنے جیسے اقدامات کیے جاتے رہتے ہیں۔ عوامی سلامتی کے وزیر زوپونگ کانگ کے مطابق گذشتہ سال ۲۰۰۴ء میں ۷۴ ہزار عوامی احتجاجی مظاہرے اور جھڑپیں ہوئی تھیں‘ جب کہ ۲۰۰۳ء میں یہ ۵۸ہزار تھے۔ ایک دہائی پہلے یہ ریکارڈ محض ۱۰ ہزار واقعات تک محدود تھا۔ ان مختصر اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ عام لوگ (جن میں مسلمان زیادہ ہیں) چین کی معاشی پالیسیوں‘ جابرانہ اقدامات اور نظم و نسق کی موجودہ صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ یہ تشویش ناک حالات بتدریج کسی بڑے حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کسی دن پون صدی سے دبے کچلے ایغوریوں میں اندر ہی اندر پکنے والا لاوا پھوٹ پڑے گا‘ لیکن چینی حکام یہاں کے حالات سے سختی سے نبٹ رہے ہیں اور اپنے ظالمانہ و جابرانہ اقدامات میں مزید تیزی لارہے ہیں۔ مسلم دنیا کو اور بطور خاص ان ملکوں کو جن کے چین سے نہایت قریبی تعلقات ہیں اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے ۔کم از کم اپنے وفود تحقیق حال کے لیے تو بھیجنا ہی چاہییں کہ اس علاقے کی صحیح صورت حال دنیا کے سامنے آسکے۔ (بشکریہ‘ سہ روزہ دعوت‘ دہلی‘یکم ستمبر ۲۰۰۵ئ)
لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ
سوال: مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ اس کے بعد سے راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے۔ کیا کروں‘ کہاں جائوں؟ کیا اپنا سب کچھ صدقہ کر دوں؟ کیا اللہ اس طرح معاف کر دیں گے؟ سخت پریشانی میں ہوں۔ میرے لیے کیا راستہ ہے؟ میری رہنمائی فرمایئے۔
جواب : جب گناہ پر ندامت اور پشیمانی ہو تو یہ ایمان اور زندگی کی علامت ہے۔ جب کوئی کانٹا چبھے یا چوٹ آئے اور آدمی اسے محسوس کرے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ جسم شل اور بے حس نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تجھے نیک کام کرکے خوشی ہو اور گناہ کر کے تکلیف ہو تو‘ تو مومن ہے‘‘۔(ترمذی)
گناہ کی مثال ایک بیماری کی ہے۔ جب بیماری کا آغاز ہو اور آدمی کو تکلیف پہنچے تو وہ اس کا علاج کرتا ہے۔ اگر علاج کر کے بیماری کا ازالہ کرلیاجائے تو آدمی صحت مند ہوجاتا ہے‘ لیکن اگر غفلت میں مبتلا ہوجائے اور علاج نہ کرے تو بیماری بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ کینسر یا ٹی بی کی طرح مہلک بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور پھر لاعلاج ہوکر ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص شراب یا نشہ آور چیز کا استعمال کرے تو ایک دو مرتبہ ایسا کرنے کے بعد اسے چھوڑنا آسان ہوتا ہے لیکن اگر وہ نشے کا عادی ہوجائے تو پھر جان دے دیتا ہے لیکن نشہ نہیں چھوڑ پاتا۔ اگر شروع میں احساسِ گناہ ہوجائے تو یہی وقت ہے کہ اس سے باز آجائیں۔ جو پریشانی لاحق ہوتی ہے اسے دُور کرنے کے لیے استغفار کریں۔
آدمی سے جب گناہ ہوجائے تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ یہ دروازہ اس وقت بند ہوتا ہے جب آدمی پر جاں کنی کا عالم طاری ہو۔ اس سے پہلے پہلے توبہ کرے تو توبہ قبول ہوتی ہے۔ کفر‘ شرک‘ کبیرہ اور صغیرہ گناہ‘ سب قابلِ معافی ہیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب گناہ سرزد ہوجائے تو آدمی کو اولاً اس پر ندامت اور شرمندگی ہونی چاہیے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اس پر بخشش اور معافی مانگے۔ تیسرے درجے میں ارادہ کرے کہ آیندہ اس گناہ کے قریب نہیں جائے گا اور گناہ کے کاموں کا دوبارہ ارتکاب نہ کرے گا‘ بلکہ نیکی کو اپنا معمول بنائے گا۔ حدیث میں ہے کہ گناہ کرنے والا جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے‘ اگر توبہ کرلے تو وہ دُور ہو جاتا ہے۔ اگر توبہ کرنے کے بجاے گناہ کا دوبارہ ارتکاب کرے تو ایک سیاہ دھبہ مزید لگ جاتا ہے اور اگر اس طرح گناہ کرتا چلا جائے تو تاریکی دل پر چھا جاتی ہے۔ آدمی کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ پھر اسے توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔
آج کل ہمارے معاشرے میں جو لوگ برائی کے رسیا نظر آتے ہیں‘ یہ برائی کے علم بردار‘ مبلغ اور اسے قائم و نافذ کرنے اور رواج دینے والے ہیں۔ انھیں بے حیائی‘ عریانی‘ فحاشی‘ بدکاری‘ مرد و زن کا اختلاط‘ شراب و کباب کی محفلوں میں ننگے ناچ کرنا‘ ریڈیو‘ ٹی وی‘ کیبل کے ذریعے رقص و سرود کی مخلوط محفلیں سجانا اور گھروں میں مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کو دیکھنا‘ یہ سب ان کو نہ صرف گوارا ہے بلکہ یہ انھیں روشن خیالی نظر آتی ہے۔ پاک بازی اور پاک دامنی‘ نیکی و تقویٰ اور غیرمحرموں کے ساتھ میل جول سے احتراز‘ ان کو اچھا نہیں لگتا۔ پاک باز اور پاک دامن لوگوں کو وہ دقیانوسی‘ غیرترقی یافتہ اور رجعت پسند قرار دیتے ہیں۔ یہ سب لوگ نیکی کے مدمقابل کھڑے ہوتے ہیں‘ نیک لوگوں کے ساتھ محاذ آرائی کرتے ہیں اور کفار کے آلۂ کار اور ان کی تہذیب کے رسیا ہیں۔ یہ یک دم نہیں بلکہ تدریجاً اس مقام تک پہنچے ہیں۔ یہود بھی معصیتوں کے مختلف مراحل سے گزر کر انبیا علیہم السلام کے قتل اور کفر تک پہنچے تھے اور اللہ تعالیٰ کے غضب در غضب کے مستحق ٹھیرے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَo (البقرہ۲:۶۱) ’’یہ اس سبب سے ہوا کہ انھوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور وہ حد سے بڑھے جاتے تھے‘‘۔
لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ اس طبقے میں شامل ہونے سے اپنے آپ کو بچایا جائے ۔ برائی کی شدت اور فحاشی و عریانی اورثقافتی یلغار کو دیکھ کر مایوسی بھی نہ ہو بلکہ توبہ و استغفار کی راہ کو اپناتے ہوئے گناہ کے جذبات کو کنٹرول کریں‘ قوتِ ارادی کو مضبوط کریں ‘ شیطانی وساوس اور گناہ کے لیے اُکساہٹ پر قابو پائیں۔ اپنے آپ کو معذور سمجھنا چھوڑ دیں۔ گناہ کے لیے جواز تلاش کرنے کی غلطی ہرگز نہ کریں۔ نفس و شیطان کے چنگل میں گرفتار نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت دیتے ہیں جو ہدایت حاصل کرنا چاہیں۔ جو چاہیں کہ انھیں خودبخود ہدایت مل جائے‘ اس کے لیے انھیںکچھ مشقت اور تکلیف نہ اٹھانی پڑے‘ ایسے لوگ ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے اپنے نفس کو لگام دیں‘ اسے تکلیف پہنچتی ہے تو پہنچنے دیں‘ اس پر واضح کر دیں کہ اس کی تسکین کے لیے ناجائز طریقے اختیار نہیں کرنا ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن پاک نے جو عمومی ہدایت دی ہے وہ درج ذیل ہے: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹:۵۳) ’’اے نبی (آپ ہمارافرمان) ان سے کہہ دیجیے (وہ یہ ہے) کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘ وہ غفور و رحیم ہے‘‘۔
یہ آیت رہتی دنیا تک تمام گنہگاروں کے لیے‘ اپنے نفس پر زیادتی کرنے والوں کے لیے ایک نوید ہے۔ جمیعًا ، یعنی سب کے سب گناہ ایک ساتھ معاف کر دینے کی خوش خبری ہے۔ آپ معاف کروانے کے آداب کے ساتھ معافی مانگیے‘ آپ کی درخواست ہرگز رد نہ کی جائے گی۔
پس‘ سب سے پہلے توبہ کی شرائط کے مطابق توبہ کرنی چاہیے (اس کے لیے دیکھیے: تفہیم القرآن‘ ج۶‘ ص ۳۲) ۔ دوسرے درجے میں گناہ کے اسباب کا ازالہ کرنا چاہیے‘ جو معمولات گناہ کی طرف لے جاتے ہیں‘ ان سے دُور رہیں‘ انھیں بدلیں۔اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اپنے گناہ کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ پریشانی میں آپ نے یہاں رابطہ کیا‘ اپنی شناخت کو ظاہر نہ کیا‘ اس طرزِعمل پر قائم رہیں‘ کسی کے سامنے اپنے گناہ کا ذکر نہ کریں۔ حدیث میں اس کی مذمت آئی ہے کہ آدمی ایک تو گناہ کرے پھر اس کا چرچا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مدد کرے‘ اپنی بندگی کی سعادت بخشے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)
س: میں عام مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والدین نے بڑی مشکل سے میری تعلیم مکمل کروائی۔ اب سی اے کر کے مجھے ۴۰ ہزار روپے کی ملازمت مل گئی ہے۔ میں یہ رقم کس طرح خرچ کروں؟ کیا اس میں بھی قرآن و سنت کی کوئی رہنمائی ہے؟
ج: ایسے معاشی حالات میں جب بے روزگاری روبہ ترقی ہو‘ ایک معقول ملازمت کا مل جانا محض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کرم ہی سے ممکن ہے۔ اس لیے اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو جیسا کہ ان کا حق ہے ادا کرنے کی توفیق دے۔
رزق میں تنگی اور کشادگی دونوں ایک بندہ مومن کے لیے امتحان کی شکلیں ہیں۔ جس طرح بعض اوقات فقروفاقہ ایک انسان کو شرک کے دروازے تک لے جاتا ہے‘ ایسے ہی دولت کی فراوانی باآسانی ایک شخص کو اسراف و تبذیر کی طرف مائل کرسکتی ہے۔ قرآن کریم نے مالی معاملات میں جو رہنما اصول دیا ہے وہ دونوں صورتوں میں اہلِ ایمان کو جادہ اعتدال پر قائم رکھتا ہے۔ چنانچہ کہا گیا کہ نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردنوں سے باندھو اور نہ انھیں بالکل کھلا چھوڑ دو۔ اگر ایک شخص کا خیال ہو کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلی ملازمت کم تنخواہ پر بھی اختیار کرلے گا اور اسے توقع سے زیادہ معاوضہ مل جائے تو عموماً دو ردّعمل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک طرف مال کی کشش یہ سجھاتی ہے کہ اس مال کو سنبھال کر رکھو‘ اپنے طرزِ رہایش میں کوئی تبدیلی نہ کرو اور جیسے پہلے تنگی میں گزارا کرتے تھے کرتے رہو۔ حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابیؓ کو بظاہر خستہ حال دیکھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کے پاس وسائل ہوں تو اس کا اثر اس کے لباس اور وضع قطع پر نظر آنا تقویٰ کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ دین جو ایک اُمت وسط پیدا کرنے آیا تھا یہ پسند نہیں کرتا کہ نمود و نمایش اور اپنی برتری کے اظہار کے لیے ایسا لباس یا ایسے انداز اختیار کیے جائیں جن سے تکبر کا اظہار ہو۔
دین کا مدعا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے ذہن میں اپنے مال کے چار حصے کرے۔ پہلے حصے میں وہ اپنی ضروریات اور حاجات کو پورا کرے‘ دوسرے حصے میں اقربا کو ان کا حق دے‘ تیسرے حصے میں غیرمتوقع حالات کے لیے ایک مقدار کو الگ کرے اور چوتھے حصے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ان ضروریات سے زائد مال کو استعمال کرے۔ احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کسی صحابی نے اپنی تمام دولت اللہ کی راہ میں دینی چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں متوجہ کیا کہ کیا وہ اپنے بعد اپنی اولاد کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا بنانا چاہتے ہیں یا اس کے لیے کچھ چھوڑنے کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں۔
دراصل ہمارے ذہنوں میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اپنے پیچھے اپنی اولاد کے لیے کوئی مال چھوڑنا ایک دنیاوی اور مادی فعل ہے‘ جب کہ اللہ کی راہ میں تمام مال کو صرف کر دینا ایک دینی کام ہے۔ اسوئہ حسنہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اولاد پر خرچ کرنا بھی دین پر عمل کرنا ہے اور جو کچھ ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی دین ہے۔ دونوں شکلوں میں توازن اور عدل کرتے ہوئے قرآن وسنت کے اصولوں کو سامنے رکھنا اور ہر کام کوا للہ کی رضا کے لیے حلال طریقے سے انجام دینا ہی دین کا مقصد و مدعا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی توقع سے زیادہ تنخواہ کی ملازمت دلوا دی ہے تو توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اُوپر ذکر کیے گئے چار حصوں کی روشنی میں اپنی تنخواہ کو تقسیم کر لیجیے۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی دے گا اور آپ نہ اسراف کے مرتکب ہوں گے اور نہ بخل کا شکار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر نہ صرف نماز کی شکل میں بلکہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر دیگر افراد کے ساتھ معاملات میں رویہ اختیار کرکے اور دین کے قیام کے لیے ہونے والی جدوجہد میں خرچ کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س: میرا بیٹا ایک سافٹ ویئر کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے۔ان کا کام ان کمپنیوں سے ہے جو زیادہ تر کار لیزنگ کا کاروبار کرتی ہیں۔ اس میں سود کا بھی لین دین ہے۔ آپ سے رہنمائی چاہتے ہیں کہ کیا اس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟
ج: تجارت اور مالی معاملات میں قرآن و سنت کے اصول وضاحت سے بیان کرتے ہیں کہ سود‘ جوا‘ احتکار اور کسی منکر یا فحش کے ذریعے جو رقم حاصل کی جائے گی وہ حرام ہوگی‘ مثلاً ایک شخص یہ جانتے ہوئے کہ ایک دکان پر صرف شراب فروخت ہوتی ہے جا کر ملازمت کرتا ہے تو وہ براہِ راست ایک منکر اور حرام کام میں شریک ہوجاتا ہے‘ لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ ایک ملک عالمی بنک کا مقروض ہے اور ملک کا بچہ بچہ سالہا سال تک اس قرض پر سود کی رقم دینے پر مجبور ہوگا‘ اگروہ ایک سرکاری اسکول میں معلم ہے تو اس کی تنخواہ اس کے لیے بالکل حلال اور سود کی برائی سے پاک تصور کی جائے گی۔ ایسے ہی اگر ایک دستکار انتہائی محنت و مشقت سے ایک تیزدھار چاقو یا ایک عمدہ قسم کا پستول بناکر ایک گاہک کو فروخت کرتا ہے اور وہ بجاے چاقو کو گھر میں استعمال کرنے یا پستول کو دفاعی ہتھیار کے طور پر اپنے پاس رکھنے کے‘ کسی کی جان لینے کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس کا کوئی گناہ دستکار پر نہیں ہوگا۔
سافٹ ویئر انجینیرنگ کو ہم ایسی دستکاری پر قیاس کریں گے جو کسی بھلے اور مفید کام کے لیے کی جارہی ہے۔ اگر کوئی ادارہ اس کا استعمال کسی ایسے معاملے میں کرے جو مشتبہ ہو تو اس کے بنانے والے پر بظاہر اس کا کوئی گناہ تصور نہیں کیا جائے گا۔ ہاں‘ اگر ایک گاہک یہ کہہ کر ایک کام کرواتا ہے کہ تم جو کچھ بنا کر دو گے‘ میں اس کا ایک حرام استعمال کرنے جا رہا ہوں‘ اور ایک کاریگر اس غرض سے اسے کوئی آلہ بنا کر دے تو وہ بھی گناہ میں برابر کا شریک ہوگا۔
بلاشبہہ رزقِ حلال کی طلب اور حصول ہی ہمارے ایمان کا صحیح پیمانہ کہا جا سکتا ہے‘ لیکن جن معاملات میں بظاہر دین نے حرام کا حکم نہ لگایا ہو انھیں حرام کے دائرے میں لے آنا دین کا مقصد نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح جن معاملات میں دین کا رجحان واضح طور پر یہ ہو کہ فلاں چیز حرام ہے‘ اسے خوش گمانیوں کی بنا پر حلال کے دائرے میں کھینچ لانا بھی دین کے ساتھ ظلم ہے۔
گاڑیوں کی لیزنگ (leasing) کی بنیاد اگر سود ہو تو اسے کسی بھی شکل میں جائز نہیں کہا جاسکتا لیکن اگر وہ بغیر سود کے ہو تو اسے حرام نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے اگر کسی سافٹ ویئر کا استعمال ایسے لیزنگ کے کاروبار میں ہو رہا ہے جو سود پر مبنی نہیں ہے تو بالواسطہ طور پر بھی سافٹ ویئر بنانے والے پر کوئی الزام نہیں دیا جاسکتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! (ا-ا)
قرآن‘ اور ایک لحاظ سے اسلام پر لکھی گئی ‘ ایک پاکستانی نژاد کی دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی مصنف کی یہ کتاب‘ جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے "dummies" کے لیے لکھی گئی ہے (ناشر نے ’’کند ذہن‘‘ لوگوں کے لیے اور بھی بہت سی کتابیں شائع کی ہیں‘ بشمول Islam for Dummies ‘مصنفہ:مالکم کلارک)۔ مصنف نے قرآن کو "Q"کے بجاے "K" سے لکھنے کی توجیہہ یوں کی ہے کہ مغربی قاری انھی ہجوں سے مانوس ہے۔
غیرمسلم معاشروں (اور نام نہاد مسلم معاشروں بشمول پاکستان) میں پرورش پانے والی نژادِ نو کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی تحفے سے کم نہیں‘ جو اسلام کی اساسی تعلیمات پر مشتمل اللہ کی آخری کتابِ ہدایت کی تعلیمات کو اس زبان اور انداز میں پیش کرتی ہے‘ جس سے یہ نسل مانوس ہے۔ کتاب چھے اجزا (۲۲ ابواب) پر مشتمل ہے‘ جن میں قرآن کی زبان اور اندازِ بیان کے بارے میں کچھ ابتدائی گفتگو کے بعد اُن اہم امور پر روشنی ڈالی گئی ہے‘ جو قرآن کے بنیادی موضوع ہیں‘ یعنی توحید‘ رسالت‘ کائنات اور انسان (آخرت‘ جزا و سزا کا بیان بہت آخر میں نویں باب میں ہے‘ دُور کی بات جو ٹھیری)۔ غیرمسلموں کے لیے یہ بات باعثِ طمانیت ہوگی کہ قرآن بنیادی طور پر براہیمی روایت کی پیش رفت ہے۔ قرآن کے دورِ جدید کے مفسرین مولانا مودودی‘ سید قطب‘ سید رضا‘ محمد الغزالی (مصری) کے ساتھ کچھ شیعی تفاسیر کا بھی حوالہ ہے۔
’’قرآنی زندگی‘‘ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور آپؐ کے مشن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مسلمان کی زندگی‘ قرآن کے مطابق اس کے اخلاق و آداب اور عادات‘خاندانی نظام‘ معاشرتی اقدار‘ قانون‘ خواتین کی زندگی اور ان کے حقوق و فرائض‘ جہاد اور جدیدیت پر سلیقے سے گفتگو کی گئی ہے۔ آخر میں قرآن کے بارے میں کچھ ’’غلط فہمیوں‘‘ کے ازالے کی کوشش ہے‘ جیسے یہ کہ خدا‘ صرف مسلمانوں کا خدا ہے‘ جہاد کا مطلب ’’مقدس جنگ‘‘ ("Holy War")ہے‘ اور قرآن مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کا مخالف ہے‘ وغیرہ۔
مصنف نے ‘ ہر موضوع سے متعلق اپنی رائے کے مطابق جو قرآنی نقطۂ نظر پیش کیا ہے‘ اس کے لیے قرآن ہی سے حوالے دیے ہیں۔ مگر چونکہ ان کے مخاطب زیادہ تر عیسائی /یہودی یا وہ مسلم نوجوان ہیں‘ جو مغربی روایت میں پرورش پا رہے ہیں‘ اس لیے بعض جگہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام یہودیت/ عیسائیت ہی کا ایک نظرثانی شدہ ایڈیشن ہے‘ جب کہ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ اصل مذہب یہی ہے‘ اور نام نہاد یہودی اور عیسائیوں نے اللہ کی نازل کردہ کتابوں: تورات اور انجیل میں تحریف کرلی ہے۔
بعض مقامات پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قاتل کے لیے سزاے موت کے علاوہ ایک اور سبیل ہے اور وہ ہے ’’دیت‘‘۔ مگر فاضل مصنف نے اسے ’’قصاص‘‘ کہا ہے‘ یعنی یہ کہ اگر وارثین راضی ہوجائیں تو قاتل جرمانہ ادا کر کے چھوٹ سکتا ہے‘ اور قرآن اس دوسری صورت کو پسند کرتا ہے (ص ۲۶۶)۔ اسلام میں بدکاری کی سزا ’’سنت کے مطابق‘‘ ۱۰۰ کوڑے‘ نیز ’’سنگ ساری کے ذریعے موت‘‘ بتائی گئی ہے‘ جو درست نہیں‘ اور کم سواد مسلموں اور غیرمسلموں کو مزید اُلجھن میں ڈالنے کا باعث ہوگی (ص ۲۶۹)۔ تاہم‘ قرآنی اخلاقیات‘ معاشرت کے قرآنی اصول‘ اسلام میں خواتین کی حیثیت پر مباحث‘ متوازن ہیں۔ ’’قرآن اور جدیدیت‘‘ کے تحت بجا طور پر کہا گیا ہے کہ جدیدیت‘ ایک مخصوص ثقافت کو اختیار کرنے کا نام نہیں بلکہ معاشرے کو جدید علوم و فنون کی برکات سے بہرہ مند کرنے‘ اور بلاتفریق مذہب و جنس‘ لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا نام ہے۔
اُمید ہے کہ مغربی معاشروں میں رہنے والے مسلمان بچوں ہی کے لیے نہیں ‘ بلکہ ہمارے مغرب زدہ نوجوانوں‘ نیز غیرمسلموں کے لیے یہ کتاب نہایت معلومات افزا اور دل چسپ ثابت ہوگی۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
کتاب کے نام سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ منتخب حصوں کے دروس کا مجموعہ ہے لیکن درحقیقت یہ سورئہ فاتحہ اور سورئہ بقرہ (آیت ۱ تا ۱۷۶) کی مسلسل تفسیر ہے۔ آیات اور اہم الفاظ کی تشریح کے لیے عنوانات اور ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ الفاظ اور جملوں کی علمی مگر عام فہم تشریح کے ساتھ ساتھ آیات میں مضمر فلسفہ بیان ہوا ہے۔ ایک آیت یا ایک مضمون کی حامل آیات کا عصری حالات پر انطباق کیا گیا ہے۔ عقل و ذہن کی بیداری کے ساتھ ساتھ خطیبانہ آہنگ میں جذبات کو اُبھارنے‘ حق کے قیام کے لیے کھڑا کرنے‘ اور خشیت و انابت الی اللہ کی پرداخت کے لیے تذکیر و نصیحت کا اندازاختیار کیا گیا ہے۔
صاحبِ کتاب پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کی شہرت ایک صاحبِ طرز خطیب کی ہے۔ قرآن ان کا موضوع خاص ہے۔ ان کے درس لوگوں کو جگانے والے ہوتے ہیں۔ غالباً یہی درس اس تفسیر کی مسلسل صورت میں طبع کیے جا رہے ہیں‘ اس لیے کہ تحریر میں خطابت کا انداز قائم ہے۔
وہ اصحاب جو تفہیم القرآن کی جلد اوّل کے اختصار کے باعث تشنگی محسوس کرتے ہیں‘ ان کے لیے یہ مجموعہ کافی حد تک تشفی کا باعث بنے گا۔
تفسیری نکات پر مشتمل زیرنظر مجموعہ جدید اشکالات کے حل‘ خوب صورت انداز بیاں اور خطیبانہ آہنگ کے باعث جدید تعلیم یافتہ افراد اورمدرسین کی تیاری کے لیے مفید اور بیش بہا تحفہ ہے۔(اخترحسین عزمی)
برعظیم کے علمی اُفق پر ماضی قریب میں چند ایسی شخصیات اُبھری ہیں‘ جن کا علم و فضل اور تخلیقات و تحقیقات کی نوعیت قاموسی ہے۔ ان میں سے ایک سید مناظراحسن گیلانی ؒ (یکم اکتوبر ۱۸۹۲ئ-۵ جون ۱۹۵۶ئ) بھی ہیں۔
جامعہ عثمانیہ کی طویل ذمہ داریوں کے علاوہ دارالعلوم دیوبند‘ دارالمصنفین اعظم گڑھ اور ندوۃ المصنفین دہلی کی مجالس مشاورت کے رکن رہے۔ تحریر و تقریر دونوں میں اپنا ایک مخصوص رنگ اور ڈھنگ رکھتے تھے۔ ۲۱ کے قریب مستقل کتابیں اور مختلف رسائل میں بیسیوں مضامین و مقالات لکھے۔ ان کی تصنیفات میں النبی الخاتمؐ، تدوین حدیث ، اسلامی معاشیات، ہندستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ‘ ہزار سال پہلے‘ امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی اور ابوذرغفاری‘ زیادہ معروف ہیں۔
پیش نظر کتاب‘ مقالاتِ گیلانی ان ۱۴ تحقیقی و علمی مقالات کا گراں قدر مجموعہ ہے جو ایک زمانے میں معارف، اعظم گڑھ میں شائع ہوتے رہے۔ یہ مضامین زیادہ تر قرآنیات‘سیاست و معیشت‘ تقابل ادیان‘ علمِ کلام‘ تعلیمات‘ تاریخ وثقافت‘ تزکیہ و تصوف اور سیرت و سوانح پر مشتمل ہیں۔ یہ سب مضامین ان کی وسعتِ مطالعہ کے شاہکار ہیں۔ بعض مواقع پر ان کے استحضار کی داد دینا پڑتی ہے۔
مضامین کی اس زنبیل میں پہلا مضمون ’’قرآن کے صائبین‘‘ سے متعلق ہے۔ گیلانی مرحوم ٹھوس دلائل کی بنا پر باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ صائبین بدھ مت کے ماننے والے تھے۔ مصنف کے نزدیک ’’الصائبہ‘‘جن کا قرآن میں یہود و نصاریٰ جیسی اُمتوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے‘ یہ مہاتما بدھ کے ماننے والوں کی تعبیر ہے۔ اپنے موضوع پر یہ مضمون حتمی نتائج کا حامل نہ ہونے کے باوجود منفرد ہے۔
دوسرے مضمون میں اسلام اور ہندومت کی بعض مشترک تعلیمات کا ذکر کیا ہے‘ جس سے ایک عام قاری کے ذہن میں وحدتِ ادیان کا تصور پیدا ہوسکتا ہے۔ اس مجموعے کا تیسرا مضمون ’’مسئلہ سود مسلم و حربی میں‘‘ ایک اجتہادی کوشش ہے۔ بعض مسائل کی نوعیت یکساں ہونے کے باوجود دارالسلام اور دارالحرب میں تقسیم کے باعث احکام میں مختلف ہو جاتی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ دارالحرب کے حربی سے سود لینے کو جائزسمجھتے تھے۔ مولانا ظفراحمد عثمانی ؒنے اپنے ایک مضمون میں اس رائے پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے امامؒ کے اس فتویٰ کو تنہا مفتی کی رائے قرار دیا ہے (ص۱۲۷)۔ سید مناظر احسن گیلانی نے امامؒ کا دفاع کرتے ہوئے اس مضمون میں دلائل و براہین کا اپنا اسلوب پیش کیا ہے۔
پانچواں مضمون برعظیم کی تقسیم سے دو سال قبل ایک تعلیمی خاکے پر مشتمل ہے جس میں نظریۂ وحدت نظام تعلیم کو پیش کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو لکھے ہوئے چھے عشرے گزر چکے ہیں مگر تعلیم کی ثنویت کا ہنوز وہی عالم ہے۔ چھٹے مضمون میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکومت کو تاریخِ انسانی میں ایک منفرد طرزِ حکمرانی کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ہے۔ ساتواں مضمون اس لحاظ سے دل چسپ ہے کہ اس میں اسلامی حکمرانوں سے مسلم رعایا کی ایک بے جا شکایت پر تبصرہ کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے عہدِحکومت میں غیرمسلم رعایا کو مسلمان کیوں نہیں بنایا۔ آٹھویں مضمون میں مسلمان حکومتوں میں غیرمسلموں کے حقوق کی حفاظت و نگہداشت پر بہت قیمتی لوازمہ پیش کیا گیا ہے۔ نویں مضمون میں مسلمانوں کے اندلس کو خود مسلمانوں کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کے نزدیک اسپین کی تمدنی شان و شوکت کا باعث محض اندلس کے ذرائع نہیں بلکہ مروانی حکمرانوں نے اس کے لیے اردگرد کی ریاستوں سے بہت کچھ حاصل کیا۔دسویں مضمون میں شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی کے نظریۂ علم پر ایک تنقید نما اور تحسین آمیز نگاہ ڈالی گئی ہے۔ گیارھویں مضمون میں بلگرام کے یمنی محدث اور صاحب تاج العروس علامہ سیدمرتضیٰ زبیری پر ایک سوانحی مضمون تحریر کیا گیا ہے جس میں ان کے علمی کارناموں کو متعارف کرایا ہے۔ بارھواں مضمون ہندستان کے ایک مظلوم مولوی حکیم محمد حسن کے بارے میں ہے۔ اس مضمون میں ہند کے قدیم نوشتوں کے حوالے سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی آمدوبعثت کی دل چسپ پیش گوئیوں کا بھی تذکرہ ہے۔
مناظر احسن گیلانی کے مضامین کا یہ مجموعہ متنوع موضوعات پر تاریخی معلومات کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اسلامی تہذیب اور اس کے اکابر کے کارنامے جھلکتے ہیں۔ ہرمضمون کے آخر میں حواشی اور حوالہ جات نے مضامین کی قدروقیمت میں اضافہ کیا ہے۔ (عبدالجبار شاکر)
رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہی نہیں بلکہ نیکیوں کا موسم بہار اور اللہ کی خصوصی عنایات و رحمتوں کا ماہ ہے۔ زیرنظر کتاب میں‘ اس بابرکت مہینے کو قرآن و سنت کے سائے میں گزارنے اور اس کے ہر لمحے کو بامقصد بنانے کے لیے مفید رہنمائی دی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب دروس المسجد فی رمضان کا اُردو ترجمہ ہے جس میںروزے کے مقاصد‘ احکام و مسائل‘ عظیم حکمتیں اور فضیلتیں‘ آداب و اہتمام‘ رمضان میں واقع ہونے والے اہم واقعات و فتوحات کی تفصیل‘ مواعظ کے دل آویز تذکرے‘ توبہ و استغفار اور انابت الی اللہ کے طریقے‘ دعوت و تبلیغ کے حکیمانہ اسلوب اور روزوں کے ثمرات و فوائد تفصیل سے یکجا کیے گئے ہیں۔باب ’رمضان میں رسول کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل‘ بہت اہم‘ ایمان پرور اور عمل پر اُبھارنے والا ہے۔ روزوں کے آداب اور فقہی پہلوئوں کے علاوہ اخلاقی و معاشرتی پہلو‘ مثلاً اہلِ خانہ کی تربیت‘ سنت کو کیسے زندہ کریں‘ وقت کی حفاظت جیسے موضوعات نے کتاب کو منفرد بنا دیا ہے۔ قرآن و حدیث سے مرتب کردہ اس خوب صورت مرقع میں اختصار اور جامعیت کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔
مقدمہ کے زیرِعنوان ‘ رمضان المبارک کی اہمیت و فضلیت پر محترم خرم مرادؒ کا دل کش اور مفید مضمون شامل کیا گیا ہے۔ آیات اور احادیث کی صحت اور اعراب خصوصی اہتمام چاہتے ہیں۔ اگرچہ کتاب میں خطیبانہ رنگ غالب ہے‘ تاہم قارئین کتاب کو دل چسپ اور روح پرور پائیں گے۔ خوب صورت سرورق‘ مضبوط جلد اور قیمت بہت مناسب۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
دین اسلام ہمہ گیر اور عالم گیر نظام ہے جس میں جدید ترین مسائل کا حل موجود ہے۔ حالات میں تغیروتبدل اور تنوع ناگزیر ہے۔ اسی لیے خاتم النبیینؐ کے بعد مسائل کے حل کے لیے اجتہاد سے کام لینا بھی ناگزیر ہے۔نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریباً تین صدیوں تک تحقیق و اجتہاد‘ حریت فکرونظر اور آزادانہ طلبِ حق کی جستجو جاری رہی۔ تقلید کو اس طرح اختیار کیا گیا کہ جمود کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ماضی قریب میں حضرت شاہ ولیؒ اللہ، علامہ اقبالؒ، سید سلیمان ندویؒ اور سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسی ہستیوں نے تدبر‘ تفکر‘ تعمق‘ تفتیش‘ تعدیل‘ تشریح اور تعین کے ہتھیاروں سے جمود پر کاری ضربیں لگاکر اجتہاد کا دروازہ ایک مدت کے بعد کھولا۔
زیرمطالعہ کتاب تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں پانچ اہم ابواب کے تحت بڑی تحقیق و جستجو سے ۱۵۰ مسائل کا حل پیش کیا ہے۔ خصوصاً باب دوم سائنس و طب اور باب سوم معیشت اور اقتصادیات میں تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔
تولید کی جدید ترین اشکال کے بارے میں نہ صرف اسلامی مؤقف کی وضاحت کی ہے بلکہ نفسِ مضمون کو سمجھانے کے لیے ایک ماہر کی طرح عرقِ تولید‘ کلوننگ‘ پیوندکاری کی ٹکنالوجی کے بارے میں بھرپور معلومات بھی فراہم کی ہیں۔ معیشت اور اقتصادیات کے باب میں ملٹی لیول مارکیٹنگ کی تمام اسکیموں کا بڑا عمیق مطالعہ پیش کرکے ان کی فراڈ اور دھوکادہی کو طشت ازبام کیا ہے۔پوسٹ مارٹم اور زکوٰۃ پر بہت مفصل مطالعہ پیش کیا گیا ہے جو بڑا ہی قابلِ قدر کام ہے۔ والدین کے حکم پر بیوی کو طلاق دینے کی شرعی حیثیت پر تحقیقی کام ابھی تشنہ ہے۔ اس موضوع پر تمام احادیث اور ان کی صحت کا محاکمہ پیش کرکے رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
عصرِحاضر کے مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب ہر طالب علم کی ضرورت ہے۔ مصنف نے نفس مسئلہ اور اس کی کنہ و حقیقت کا معروضی مطالعہ پیش کر کے کتاب کی افادیت میں بڑا اضافہ کردیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اکابر علما کی آرا بھی مع حوالہ جات مل جاتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ایسے ہی تحقیقی کام کرنے والے افراد ملت کی رہنمائی کے لیے عطا فرمائے جو مسلکی تعصب سے بالاتر ہوکر مسائل کا حل پیش کریں۔ (پروفیسر خاوربٹ)
سیرت حضرت ابوایوب انصاریؓ ہمارے دور کے معروف ادیب‘ مورخ اور مصنف جناب طالب الہاشمی کی ایمان افروز تحقیقی تصنیف ہے۔ یہ صحابہ کرامؓ کی عظیم المرتبت کہکشاں کے اس درخشندہ و تابندہ ستارے کی سوانح عمری ہے جسے کئی منفرد اعزازات سے قدرتِ حق نے نوازا تھا۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا نام آتے ہی ہرصاحبِ ایمان کا سر عقیدت سے جھک جاتا ہے کہ انھوں نے اس کائنات کے حامل‘ خاتم النبیین رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف پایا تھا۔ پھر اس میزبانی کا جو حق انھوں نے ادا کیا اسے دیکھ کر روح جھوم اُٹھتی ہے کہ خالق ارض و سما نے آنحضوؐر کی اُونٹنی کو وہاں بیٹھنے کا جو حکم دیا وہ کس قدر حکمتوں سے مالا مال تھا۔ اہلِ علم بھی اس عظیم اور معروف صحابی رسولؐ کے اصلی نام کو کم ہی جانتے ہیں۔ یہ نام دورِصحابہ میں بھی حضرت ابوایوبؓ کی کنیت کے بہت زیادہ شہرت پا جانے کی وجہ سے پس منظر میں چلا گیا تھا۔ ان کا خاندانی نام خالد بن زید المالکیؓ تھا۔
حضرت ابوایوبؓ نے قبولِ اسلام سے لے کر آخری سانس تک مسلسل بلندیوں کی جانب سفر جاری رکھا۔ آپؓ انصار مدینہ کے سابقون الاولون میں سے تھے۔ انھوں نے بیعت عقبہ کبریٰ میں اوس و خزرج کے ساتھ حضوؐر سے پیمانِ وفا باندھا‘ میزبانِ رسولؐ بنے‘ ۳۱۳ مجاہدین بدر میں سے ایک تھے‘ ان ۱۴۰۰ اصحاب الشجرہ میں شامل تھے جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر بیعت رضوان کی سعادت حاصل کی‘ تمام غزوات نبویؐ میں حصہ لیا‘ ضعیفی کے عالم میں جہاد میں حصہ لیا اور قسطنطنیہ کے مقام پر ۸۰ برس سے زائد عمر میں شہادت پائی۔ حفظ قرآن اور علم و تفقہ سے بہرہ مند تھے‘ان کے ذریعے متعدد احادیث اُمت کو پہنچیں اور عمربھر حق گوئی کا حق ادا کیا۔ (ص ۱۳‘ ۱۴)
جناب طالب الہاشمی نے حضرت ابوایوب انصاریؓ کی زندگی کے جملہ احوال کو اپنی تصنیفی و تالیفی روایات کے مطابق خوب سجاکر ایک مرقع تیار کیا ہے۔ ہر واقعے کا تذکرہ پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ سیدنا ابوایوبؓ کے ہم رکاب اور ہم نشین ہے اور تاریخ اسلام کے اس دور سے گزر رہا ہے۔حضرت ابوایوبؓ سے مروی روایات کاتذکرہ بھی ہے اور ان کے اہل و عیال کا تعارف بھی کرا دیا گیا ہے۔ کتاب اہلِ علم‘ خطبا اور علما کے علاوہ عام قارئین کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ (حافظ محمد ادریس)
کوئی خاتون پانی کے علاوہ کسی اور چیز کی بھی پیاسی ہو سکتی ہے‘ اسی لیے اس کتاب کا سادہ سرورق جس پر کسی ناشر کا نام بھی نہیں ہے‘ عنوان کی وجہ سے ہرکس و ناکس کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اپنی دنیا میں مگن رہنے والوں نے‘ جن کے لیے ’’پیاسی‘‘ ان کا روز مرہ تھا‘ یہ ضرورت نہیں سمجھی کہ اندرون سرورق پر ہی اس کی وضاحت کر دیتے‘اور یہ عقدہ ۲۸ویں صفحے پر کھلتا ہے کہ ’’پیاسی‘‘ دراصل پی آئی اے کی مزدور یونین‘ PIAC ہے۔ کتاب اس جدوجہد کی داستان ہے جو ملک کی اس اہم لیبر یونین نے مزدور تحریک کو بائیں بازو کے چنگل سے نکالنے کے لیے کی۔ مصنف نے جو خود اس کہانی کا کردار ہے بلاکم و کاست‘بغیر رو رعایت بلکہ بعض اوقات نہایت سادگی سے تفصیلات لکھ دی ہیں۔ یہ دراصل مزدور تحریک میں اسلامی قوتوں کے لڑنے‘ آگے بڑھنے اور ’’سرخوں‘‘ کو باہر نکالنے کی دل چسپ داستان ہے۔ بہت سے معاملات کے بہت سے پہلوئوں پر جدوجہد میں مصروف لوگوں کی نظر نہیں جاتی لیکن جب ۳۰‘ ۴۰ برس بعد پیچھے نظر ڈالی جائے تو سب پہلوئوں کا مطالعہ ہوسکتا ہے۔ تبصرہ نگار کی نظر میں اس کتاب کی اصل وقعت یہ ہے اس میں ایک سیاسی پارٹی‘ یعنی جماعت اسلامی کے ایک مزدور یونین کے لیڈروں اور گروپوں سے تعلقات کو صاف صاف بیان کردیا گیا ہے۔ بہت اچھا اور فرسٹ پرسن مطالعہ ہے‘ جسے دل چسپی ہو وہ ضرور پڑھے۔ (مسلم سجاد)
محمد متین خالد نے پچھلے چند سالوں میں جس خلوص‘ دلی وابستگی اور محنتِ پیہم کے ساتھ کام کیا ہے‘ اس نے انھیں قادیانیت کا متخصّص بنا دیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی بعض کاوشوں پر انھی صفحات پر تبصرہ ہوچکا ہے‘ جیسے: ثبوت حاضر ہیں‘ جو ردِّقادیانیت کے سلسلے میں ایک بے مثل کتاب ہے۔
زیرنظر کتاب‘اس موضوع پر ان کی تازہ کاوش ہے۔ اس میں ایک تو قادیانیت پر علامہ اقبال کی تمام تر اُردو انگریزی نثری تحریریں (انگریزی تحریروں کے تراجم) خطوط اور منظومات و اشعار کو جمع کیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قادیانیوں کے بارے میں‘ اوائل سے آخر تک ان کا مؤقف کیا رہا ہے___ دوسرے: اس موضوع اور اہلِ قلم کی نئی پرانی مختلف النوع تحریروں اور مضامین کا انتخاب دیا گیا ہے۔ بعض تو کتابوں سے مُقتبس ہیں اور چند ایک رسالوں وغیرہ سے ماخوذ ہیں۔ حسبِ ضرورت ہرمضمون کے آخر میں حوالے اور حواشی بھی دیے گئے ہیں___ لکھنے والوں میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘ سید نذیرنیازی‘ مولانا ظفر علی خاں‘ یوسف سلیم چشتی‘ شورش کاشمیری‘ جسٹس (ر) جاوید اقبال‘ مولانا یوسف لدھیانوی‘ ڈاکٹروحید قریشی اور بہت سے دوسرے اصحاب شامل ہیں۔
یہ تو واضح ہے کہ اقبال کے نزدیک قادیانی‘ اُمت مسلمہ کا حصہ یا فرقہ نہیں‘ بلکہ ایک الگ مذہب (قادیانیت) کے پیروکار ہیں اور انھوں نے قادیانیوں کو اسلام اور ہندستان‘ دونوں کا غدار قرار دیا ہے‘ اور اس کے لیے ان کے پاس نقلی و عقلی اور فکری دلائل موجود تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد‘ قادیانیوں کی سرگرمیوں نے‘ اقبال کی رائے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے‘ مثلاً اسرائیل میںقادیانیوں کا مشن (بذاتِ خود یہی بات ان کے غیرمسلم ہونے کے لیے کافی ہے۔ اگر وہ اُمت مسلمہ کا حصہ ہوتے تو یہودی انھیں کبھی اسرائیل میںقدم رکھنے کی اجازت نہ دیتے)۔
زیرنظر مضامین سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قادیانیوں نے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا‘ اور وہ اب بھی اس کے خلاف سازشوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔
کتاب سلیقے سے مرتب اور اچھے معیار پر شائع کی گئی ہے۔ اپنے موضوع پر ایک عمدہ جامع دستاویز ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
قرآن مجید کو برقی مقناطیسی فیتوں اور جدید کُہربائی اطلاعی آلات پر منتقل کرنے کا کام بیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہوا‘ اور اب اس کے ترجمے اور تفاسیر بھی ان جدید آلات کے ذریعے نشر ہورہے ہیں۔ سمع و بصر نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی منفرد تفسیر تفہیم القرآن کو سی ڈی پر منتقل کر کے نہایت خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ ہر سورہ کے آغاز میں تعارف ہے‘ پھر تلاوت‘ اس کے بعد ترجمہ (بقول مولانا مودودی‘ قرآنی آیات کی ’’ترجمانی‘‘)‘ اور پھر تفسیری حواشی‘ آواز کے ذریعے سامع تک پہنچتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد کی تفہیم القرآن پر جامع تحریر ایک کتابِ انقلاب سمع و بصرنے تحفے کے طور پر ساتھ دی ہے۔
مولانا مودودیؒ کے ترجمے اور تفسیر کی زبان نہایت سادہ اور بے تکلف ہے۔ وہ روایتی اور اختلافی بحثوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں اسلام کی اساسی تعلیمات کو پیش کرتے ہیں۔ تاریخی واقعات میں اسرائیلیات اور کمزور روایات سے اجتناب کرتے ہیں۔ چونکہ قرآن کا بنیادی موضوع انسان سازی ہے‘ اس لیے تفسیر میں ہر پہلو سے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن مجید انسان کا مقصدِحیات کیا متعین کرتا ہے اور اس کے حصول کے لیے کس طرح کے اخلاقی‘ معاشرتی‘ معاشی‘ قانونی اور سیاسی اصول اور جہاں ضرورت ہو‘ تفصیلات اور فروع مہیا کرتا ہے۔ قرآنی قصص‘ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں جہاں بیان کی گئی ہیں‘ ان کا مقصد بھی یہی رہنمائی ہے۔ تفہیم القرآن احکام اور فقہی مباحث سے خالی نہیں۔ نکاح‘ طلاق‘ وراثت اور معاملات میں غیرضروری قانونی موشگافیوں سے گریز کرتے ہوئے ضروری مسائل بھی بیان کردیے گئے ہیں‘ لیکن اس کا مرکزی نکتہ انسان سازی ہی ہے۔ ایک ایسا انسان‘ جوا پنی فکر میں طبع سلیم‘ معاشرت میں اسلامی اقدار اور میانہ روی کا حامل ہو۔ تفہیم میں نہ وہ اندھی تقلید ہے جو فرد کو جمود کا شکار اور دین کو ناقابلِ عمل بنا دیتی ہے اور نہ وہ روشن خیالی ہے جو قرآن کو بازیچۂ اطفال اور دین کو ہوا کے ہرجھونکے کے ساتھ متغیر کردیتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے آج کے پڑھے لکھے اور سوچنے سمجھنے والے انسان کے لیے آج کے مسائل‘ آج کی زبان میں نہایت خوب صورتی سے بیان کردیے ہیں۔
چھے سی ڈیز‘ جن میں تفہیم القرآن کی چھے جلدیں مکمل پیش کی گئی ہیں‘ اُن لوگوں کے لیے تو ایک گراں قدر تحفہ ہیں ہی‘ جو پڑھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں‘ یہ اُن کے لیے بھی نہایت کارآمدثابت ہوں گی‘ جو اپنی مشغولیتوں کے ساتھ قرآن فہمی سے بھی جدا نہیں رہنا چاہتے۔
معاملہ فہمی اور سمجھ بوجھ خواندگی سے مشروط نہیں ہے۔ ناخواندہ‘ کتابی علمی خزانوں سے محروم سہی‘ تجرباتِ زندگی ان کے معلم ہوتے ہیں‘ لیکن اب تفہیم القرآن جیسے علم و معرفت کے خزانے بھی ان کی رسائی میں آگئے ہیں۔ اب ایسی تعلیم یافتہ نسل بھی وجود میں آچکی ہے جسے اُردو پڑھنا نہیں آتا لیکن سن کر پورا سمجھتے ہیں۔ جو کسی وجہ سے فارغ یا صاحبِ فراش ہیں اور ذوق رکھتے ہیں‘ ان کے لیے یہ سی ڈی ایک نعمت‘ غیرمترقبہ ہے۔ طلبہ و طالبات گروپ بناکر نصاب کے انداز میں سننے کے ساتھ ساتھ پڑھیں تو نہ صرف قرآن کا بہتر فہم حاصل کریں گے بلکہ ان کے مجموعی علمی معیار میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوگا۔
تلاوتِ قرآن‘ مسجد نبویؐ کے امام الشیخ علی عبدالرحمن الحذیفی کی ’میٹھی‘ آواز میں ہے۔ترجمہ اور سورتوں کا تعارف عظیم سرور کی پُرشکوہ آواز میں ہے‘اور تفسیری حواشی سید سفیرحسن مرحوم‘ پروفیسر عبدالقدیرسلیم اور سید اشفاق حسین نے اپنے اپنے انداز سے‘ لیکن سامع کو اپنے اندر جذب کرنے والے لہجے میں پڑھے ہیں۔ جدید ترین اسلوب پر ریکارڈ کی گئی ان سی ڈیز کی آواز نہایت صاف‘ واضح اور نقص سے پاک ہے۔ صوت بندی‘ Sound Communications کراچی نے کی ہے۔
صرف ترجمہ قرآن مجید دو سی ڈی کے علیحدہ کیس میں پیش کیا گیا ہے۔ قرآن کی اپنی تاثیر ہے لیکن جب سید مودودیؒ کی اردوے مبین‘ عظیم سرور کی آواز میں پڑھی جائے تو یہ سِوا ہو جاتی ہے۔ رمضان المبارک کے لیے نہایت بر موقع ہدیہ ہے۔(مسلم سجاد)
’’خدا سے بے خوف لوگوں کا مجمع‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ) پڑھا۔ آپ کے تاثرات عام مسلمانوں کے جذبات کے عکاس ہیں۔ ثقافت کے نام پر بڑھتی ہوئی بے حیائی کا جو طوفان اٹھا ہے اس کی تباہ کاریاں ملک و ملّت کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو رہی ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس کے خلاف منظم جدوجہد ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔
ہمارے ہاں قطع رحمی یا صلہ رحمی کی حقیقت کبھی نزاعی مسئلہ نہیں رہا (ستمبر ۲۰۰۵ئ)۔ مسئلہ یہ ہے کہ قریبی رشتہ داروں میں خواتین کو ترکے یا وراثت سے شرعی طور پر مقرر حصہ نہیں دیا جاتا۔ اپنا حق وراثت لینا ایک گستاخی سمجھی جاتی ہے۔ رہنمائی یہ ہونی چاہیے کہ اگر کچھ لوگ جانتے بوجھتے اللہ کا یہ حکم نہیں مانتے‘ اگر ان سے صرف یہ قطع تعلق کیا جائے کہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے ان کے ساتھ کھانے پینے سے پرہیز یا احتراز کیا جائے‘ تو کیا یہ عمل قطع رحمی میں شمار ہوگا؟
’’ایک منفرد دعوتی تجربہ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ) نظر سے گزرا۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد معلوماتی اور چشم کشا تحریر ہے۔ امریکا میں قیدیوں پر اسلام کے اثرات سے متعلق کچھ نامکمل معلومات تو اکثر ملتی تھیں‘ اسی طرح دیگر یورپی ممالک سے متعلق بھی بعض تحریریں نظر سے گزریں لیکن فاروقی صاحب نے کوریا اور امریکی قیدیوں کے حوالے سے جو معلومات فراہم کی ہیں اور اشاعت اسلام کے لیے انھوں نے جو علمی اور عملی طریقہ اختیار کیا ہے‘ وہ قابلِ ستایش ہی نہیں‘ قابلِ تقلید بھی ہے۔
’’ایک منفرد دعوتی تجربہ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ)‘ میں محترم شفیق الاسلام فاروقی کے تجربات نے بہت متاثر کیا۔ البتہ ایک وضاحت بھی ضروری ہے۔ مضمون میں ’’نیشن آف اسلام‘‘ تنظیم کا وارث دین محمد سے تعلق ظاہر کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔ درحقیقت وارث دین محمد کا تعلق اُمت مسلمہ سے ہے‘ جب کہ لوئیس فرح خان نیشن آف اسلام کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ لوئیس فرح خان اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کے سالانہ کنونشن میں اسلام سے اپنی وابستگی کا اعلان کرچکے ہیں‘ یعنی وہ اللہ پر ایمان اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں‘ تاہم وہ جس گروپ کی نمایندگی کرتے ہیں وہ ابھی تک نیشن آف اسلام کے نظریات پر عمل پیرا ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد نے ’’رسائل و مسائل‘‘ میں ’’اسلامی نظام معاشرت: بعض اہم بنیادی اصول‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ) کے تحت جس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے‘ اسی پر مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’شوہر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خدا کے احکام کی خلاف ورزی پر بیوی کو مجبور کرے اور اگر وہ ایسا کرے تو مسلمان عورت کا فرض ہے کہ ایسے مطالبات پورے کرنے سے انکار کر دے۔
سسرال اور میکے میں عورتوں کا عموماً جن غیرمحرم مگر قریبی رشتہ داروں کے ساتھ رہن سہن ہوتا ہے ان سے پردے کی نوعیت وہ نہیں ہے جو بالکل غیرمردوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ عورتیں ان کے سامنے بغیر زینت کے‘ سادہ لباس میں پورے ستر کے ساتھ آسکتی ہیں‘ مگر صرف اس حد تک ان کے سامنے رہنا چاہیے جس حد تک معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے بالکل ناگزیر ہو۔ خلاملا اور بے تکلفی اور ایک مجلس میں بیٹھ کر ہنسی مذاق اور تنہائی میں بیٹھنا اس قسم کے رشتہ داروں کے ساتھ جائز نہیں ہے۔
اس معاملے میں فی الواقع ہماری معاشرت میں بڑی پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ اگرچہ شریعت کا جو حکم ہے‘ میں نے بتا دیا ہے لیکن مسلمانوں میں رواج سے جو غیرشرعی حالات پیدا ہوگئے ہیں ان کو دُور کرنے کے لیے بڑی جرأت اور عزم کی ضرورت ہے۔ ایک طرف مسلمان غیروں سے اتنے پردے کا اہتمام کرتے ہیں جو کہیں کہیں خود شریعت کے مطالبات سے بڑھ جاتا ہے‘ اور دوسری طرف رشتے داروں کے معاملے میں انھوں نے تمام حدودشرعیہ کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس معاملے میں شاید ہم کو کسی وقت ایسا سخت طرزِعمل اختیار کرنا پڑے گا جس سے بعید نہیں کہ ہمارے خاندانی تعلقات میں بہت سی تلخیاں پیدا ہوجائیں‘‘۔ (رسائل و مسائل ‘ اوّل‘ ص۹۹-۱۰۰)
بعض لوگ مباحات٭ اور رخصتوں سے مستفید ہونا شانِ تقویٰ کے منافی سمجھتے ہیں اور ہرمنزل میں اپنا ڈیرہ سنگلاخ زمین میں ہی ڈالنا کمال دین داری سمجھتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط فہمی کا بھی ازالہ فرمایا۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے‘ فرمایا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا پھر اس میں رخصت دے دی تو بعض لوگ اس رخصت سے فائدہ اٹھانے میں احتراز کرنے لگے۔ جب رسولؐ اللہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپؐ نے خطبہ دیا: اللہ تعالیٰ کی حمد کی‘ پھر فرمایا بعض لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بعض ایسی باتوں سے احتراز کرتے ہیں جن کو میں کرتا ہوں۔ خدا کی قسم! میں ان سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والا ہوں اور ان سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں۔(متفق علیہ)
ابوداؤد میں ایک روایت اس سے بھی زیادہ واضح ہے: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اپنے اوپر سختی مت کرو کہ اللہ بھی تم پر سختی کرنے لگے۔ ایک قوم نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ انھی کی یادگاریں کلیسائوں اور گرجوں میں دیکھ رہے ہو۔ یہ ان کی گھڑی ہوئی رہبانیت ہے جس کو اللہ نے ان کے اُوپر فرض نہیں کیا۔
یہ حدیثیں اس بات کا صاف ثبوت ہیں کہ جس طرح رخصتوں کی تلاش اور مباحات سے فائدہ اٹھانے میں جانب حق کی رعایت سے بے پروائی تقویٰ کے خلاف ہے‘ اسی طرح دین میں خواہ مخواہ سختی اور تشدد کے پہلو کا التزام بھی تقویٰ کے منافی ہے۔ تقویٰ کی راہ اُس سہل انگاری اور اس تشدد پسندی کے بیچ سے ہو کے نکلی ہے۔ (’’اشارات‘‘، مولانا امین احسن اصلاحی‘ترجمان القرآن، جلد۲۷‘ عدد۳-۴‘ رمضان و شوال ۱۳۶۴ھ‘ ستمبر و اکتوبر ۱۹۴۵ئ‘ ص ۶-۷)