مضامین کی فہرست


نومبر۲۰۰۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کی صبح آٹھ بج کر باون منٹ پر پاکستان اور کشمیر کے طول و عرض میں اور خصوصیت سے صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں ایک ایسا تباہ کن بھونچال آیا جس نے ہزاروں جیتے جاگتے‘ ہنستے کھیلتے انسانوں کو چشم زدن میں موت کی نیند سلا دیا۔ ایک لاکھ کے قریب جوان‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورتیں اور بچے زخموں سے چور ہوگئے‘ ۵۰ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے اور دسیوں شہر اور سیکڑوں دیہات دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے۔ اس ہمہ گیر تباہی کے احساس سے پاکستان اور اُمت مسلمہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل کم از کم وقتی طور پر دہل گئے اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں___ لیکن کیا جاگتوں کو موت کی آغوش میں سلانے والا یہ قیامت خیز زلزلہ‘ پاکستان کے ۱۵ کروڑ نیند کے متوالوں اور ان کی غافل اور حق فراموش قیادت کی آنکھیں کھولنے اور ان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا کارنامہ بھی انجام دے سکتا ہے؟

ساری تباہی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے اور فوری امداد کی ہر کوشش وقت کا تقاضا اور انسانی اور قومی ضرورت ہے۔ جانیں بچانے‘ یعنی ریسکیو (rescue)‘ مدد پہنچانے یعنی ریلیف (relief) اور بحالی (rehabilitation) کی تمام مساعی ضروری اور فوری توجہ کی مستحق ہیں اور ان کے باب میں کوئی کوتاہی‘ اخلاقی اور اجتماعی ظلم کی بدترین مثال ہوگی لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مستقبل کی تاریکی یا تابناکی کا اصل انحصار اس امر پر ہوگا کہ کیا ہم اس چشم کشا انتباہ پر واقعی آنکھیں کھولتے ہیں؟ اور پھر یہ کہ اس گمبھیر آزمایش میں‘ بحیثیت قوم ہمارے رویوں اور ردعمل میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟

خود احتسابی‘ انفرادی اور اجتماعی رویوں کا جائزہ‘ قومی اور سرکاری پالیسیوں پر نظرثانی‘ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اعمال و احوال کا ادراک‘ اپنے رب سے توبہ و استغفار اور حقیقی خدمت‘ بھائی چارے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ٹھیک ٹھیک ادایگی کی فکر ہی ہمیں زندگی کے      مصائب و آلام سے حقیقی نجات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اسلامی اور غیراسلامی رویے میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ غیراسلامی رویے کا سارا دروبست صرف طبعی اور وقتی امورسے عبارت ہوتا ہے یعنی ریسکیو‘ ریلیف اور بحالی ___  اور اسلامی رویہ ان کے ساتھ ساتھ ان سرگرمیوں کی اصل روح‘ جذبہ اور حقیقی ہدف اللہ کی رضا کا حصول‘ اس سے تعلق اور استعانت کی طلب اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حق و انصاف کے قیام کے لیے اصلاحِ احوال سے عبارت ہوتا ہے تاکہ معاشرہ  خیر اور فلاح کا گہوارہ بن سکے اور زمین و آسمان سے اللہ کی برکتیں میسر آسکیں۔

قرآن و حدیث کا نقطہ نظر

قرآن نے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور غوروتدبر کرنے کا جو آہنگ دیا ہے‘ اس کا سب سے امتیازی پہلو ہی یہ ہے کہ وہ جہاں زندگی کے طبعی پہلو اور حوادثِ زمانہ کے مادی احوال و ظروف کا ادراک کرتا ہے اور انھیں نمایاں حیثیت دیتا ہے‘ وہیں ان کے پیچھے کارفرما اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی اسباب و عوامل کو بھی بھرپورانداز میں نمایاں کرتا ہے۔ بلکہ صحیح تر الفاظ میں ان طبعی حقائق کو زندگی کے حقیقی اور اخلاقی اسباب و اسباق کی تفہیم کا ذریعہ بناتا ہے اور اس طرح سوچ کے ان دو بنیادی زاویوں کو ایک دوسرے سے نمایاں کردیتا ہے جو اسلام اور غیراسلام کا خاصہ ہیں اور زندگی کے دو تصورات (paradigms) کے مظہر ہیں۔ زندگی کا ایک وہ رویہ ہے جو صرف طبعی پہلو پر اکتفا کرلیتا ہے اور دوسرا طبعی پہلو کے ساتھ اس کے اخلاقی‘ روحانی اور نظریاتی پہلو کو بھی اپنی گرفت میں لے آتا ہے اور اس طرح چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ہر واقعے کو زندگی کے بنیادی تصورات‘ اقدار اور مقاصد اور کامیابی اور ناکامی کے اخلاقی اور ابدی معیار سے وابستہ کردیتا ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ز وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْـرُ نِ o   الَّذیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ o (الملک ۶۷:۱-۲)

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی اور درگزر فرمانے والا بھی۔

موت ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور شب و روز ہم سب ہی اس کا نظارہ کرتے رہتے ہیں‘ کبھی اپنے اعزہ اور اقارب کی جدائی کی شکل میں اور کبھی بڑے بڑے اجتماعی حادثات کی صورت میں جو اپنے اور غیر سب کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں گزری ہوئی قوموں کی تباہی کے جو رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں‘ وہ صرف ان قوموں کے غضب ناک انجام ہی کا تذکرہ نہیں بلکہ قیامت تک سب انسانوں کے لیے اور خصوصیت سے اہلِ ایمان کے لیے انتباہ کا سامان بھی لیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیان کی اصل حکمت بھی یہی ہے کہ انسانوں کو غفلت سے بیدار کریں تاکہ وہ زندگی اور موت کے ان تمام مناظر سے عبرت لے سکیں جو خواہ ماضی میں واقع ہوئے ہوں یا ان کی جھلک خود ان کے اپنے گردوپیش میں دیکھی جا سکتی ہو‘ یا جس کا تجربہ وہ اور ان کے جیسے دوسرے انسان اور اقوام وقتاً فوقتاً کرتے ہیں۔

اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ ھُمْ نَآئِمُوْنَo اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَo اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَo اَوَلَمْ یَھْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ اَھْلِھَآ اَنْ لَّوْ نَشَآئُ اَصَبْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ (اعراف ۷:۹۷-۱۰۰)

پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا؟ جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ کیا ان لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں‘ اس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟

قرآن اقوامِ سابقہ کے حق سے انحراف اور ظلم و جور میں حد سے گزر جانے کے واقعات کا تذکرہ کر کے اور ان کے عبرت ناک انجام کا بار بار ذکر کر کے ہمیں سوچ کے اس انداز کی تعلیم دے رہا ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل کو باہم دگر مربوط دیکھنے کی روش اختیار کریں اور ماضی سے روشنی حاصل کرتے ہوئے حال کی اصلاح کی فکر کریں۔ اللہ کی اس گرفت کی حیثیت کب عذاب کی ہے اور کب انتباہ کی‘ نیز عذاب کی بھی مختلف حیثیتیں ہیں اور ہر عذاب ایک ہی نوعیت کا نہیں‘ لیکن یہ سب علمی بحثیں ہیں جن کا یہ محل نہیں ___ جو بات ناقابلِ انکار ہے‘ وہ یہ ہے کہ طبعی عوامل اور اخلاقی عوامل دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اورزلزلے‘ طوفان‘ سیلاب‘ تباہی پھیلانے والے جھکڑ جہاں اپنے طبعی اسباب و احوال رکھتے ہیں‘ وہیں ان کے پیچھے مضبوط اور چشم کشا اخلاقی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔  کوتاہ بیں اپنی نظر کو صرف طبعی احوال تک محدود رکھتے ہیں لیکن مومن صادق ان کے اخلاقی‘ روحانی‘ مابعد الطبیعیاتی اور تہذیبی اسباب و عواقب پر بھی اپنی نگاہ کو مرکوز کرتا ہے اور اُن سے اصلاح احوال کے لیے عبرت کا درس لیتا ہے۔

پورا قرآن غوروفکر کے اس اسلوب کی تعلیم دیتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیارے اور بڑے مؤثرانداز میں اس ربط و تعلق پر انسانوں کی توجہ کو مرکوز فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کی روایت ہے کہ آپ کا ارشاد ہے:

ما من قوم یظھرُ فیھم الزنا الا اخذوا بالسنۃ وما من قوم یظھر فیھم  الرّشا الا اُخذ وبالرعب (رواۃ احمد‘ مشکٰوۃ‘ کتاب الحدود)

کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں بدکاری عام ہو مگر یہ کہ وہ قحط سالی میں گرفتار ہوجاتی ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں رشوت پھیل جائے مگر یہ کہ اس پر خوف و دہشت طاری ہوجاتی ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جس قوم میں خیانت کا بازار گرم ہوگا‘ اس قوم میں اللہ تعالیٰ دشمن کا خوف اور دہشت پھیلا دے گا‘ جس معاشرے میں زنا کی وبا عام ہوگی وہ فنا کے گھاٹ اتر کر رہے گا‘ جس معاشرے میں ناپ تول میں بددیانتی کا رواج عام ہوگا وہ رزق کی برکت سے محروم ہوجائے گی‘ جہاں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں خوں ریزی لازماً ہوکر رہے گی اور جس قوم نے بدعہدی کی‘ اس پر دشمن کا تسلط بہرحال ہوکر رہے گا۔ (رواہ مالک‘ مشکوٰۃ‘ باب تفسیرالناس)

اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ چشم کشا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے ترمذی میں اس طرح روایت ہوا ہے:

جب مال غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے‘اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے‘ زکوٰۃ ادا کرنا جرمانہ اور چٹی بن جائے‘ اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو (محض دنیا کمانا ہو) اور مرد اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہوئے بیوی کی بات ماننے لگے‘ اور باپ سے دُوری اختیار کرے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے۔ مسجدوں میں شور ہونے لگے (اور مسجد کے آداب کا لحاظ نہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں بات چیت اور بحث و تکرار شروع ہوجائے) قبیلے کا سردار فاسق (اللہ رسولؐ کا نافرمان) بن جائے اور قوم کا سربراہ گھٹیا انسان بن جائے‘ اور آدمی کی عزت اس کے شرسے محفوظ رہنے کے لیے کی جانے لگے‘ آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہوجائیں‘ شراب پی جانے لگے‘ اس اُمت کا آنے والا گروہ گزر جانے والے گروہ پر لعنت ملامت کرنے لگے (اگر ایسی صورت حال ہوجائے) تو تم انتظار کرو‘ سرخ آندھیوں کا___ زلزلوں کا___ زمین کے دھنس جانے کا___ صورتوں کے بگڑ جانے کا___ آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا‘اور یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے اس طرح ظاہر ہونے لگیں گی جیسے اگر پرانی تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو اس کے موتی مسلسل گرنے لگتے ہیں۔(ترمذی‘ حدیث ۲۱۳۶‘ کتاب الفتن)

قرآن پاک نے زمانے کے نشیب و فراز اور قوموں کے عروج و زوال کے ذکر سے جس تذکیر کا اہتمام کیا ہے‘ ارشادات نبویؐ میں انھی پہلوئوں کی طرف مستقبل کے واقعات اور حالات کی نشان دہی کرکے ہمیں انتباہ کیا گیا ہے تاکہ انسان بحیثیت مجموعی اور مسلمان بطور خاص زندگی اور موت‘ اور حوادثِ زمانہ اور طبعی احوال سے بس یونہی نہ گزر جائیں بلکہ ان میں جو اصل معنویت پوشیدہ ہے اس کو سمجھیں‘ فساد فی الارض پیدا کرنے والے اعمال سے اجتناب کریں‘ خیروصلاح پھیلانے والے اقدام کی فکر کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ کا قانون ہے کہ جب بھی اس کی گرفت واقع ہوتی ہے تو وہ خود انسانوں کے اپنے اعمال اور ظلم و طغیان کی وجہ سے ہوتی ہے اور پھر اس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ ایسے حالات میں معاشرے کی تباہی کی زد میں صرف ظالم اور بدکردار ہی نہیں آتے بلکہ وہ بھی آتے ہیں جو خواہ شریکِ جرم نہ ہوں لیکن ظالم اور باغی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔

وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَـآصَّۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o (انفال ۸:۲۵)

اور بچو اس وقت سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ o (ھود ۱۱:۱۱۷)

اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح احوال کرنے والے ہوں۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ o (یونس ۱۰:۴۴)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا‘ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔

انتباہ کے ساتھ آزمایش کا بھی ایک نظام ہے جس کا اصل مقصد تو اخلاقی اور روحانی تزکیہ اور تربیت ہے لیکن وہ بھی طبعی عمل کے ذریعے کارفرما ہوتی ہے اور کچھ کے لیے تنزل اور تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور کچھ کے لیے ترقی اور کامیابی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ بھی اللہ کا ایک اٹل قانون ہے اور جس طرح انتباہ‘ گرفت اور سزا اصلاح کے عمل کا ایک حصہ ہے‘ اسی طرح آزمایش اور جانچ پرکھ کا الٰہی نظام بھی اس وسیع تر عمل کا ایک لازمی پہلو ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۲-۳)

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمٰرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُوْلٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷)

اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے‘ اور کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے جو چیز بالکل صاف ہوکر ہمارے سامنے آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ جو مصیبت بھی انسانوں پر آتی ہے وہ بے سبب نہیں ہوتی اور اس کے پیچھے محض طبعی عوامل ہی نہیں‘ اخلاقی اور مابعدالطبیعیاتی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں اور ہر ایسا واقعہ جہاں دلوں کو افسردہ کرنے والا ہے‘ وہیں اسے دل کی آنکھوں کو کھولنے والا بھی بننا چاہیے تاکہ انسانی زندگی سے بگاڑ‘ ظلم اور طغیانی ختم ہو اور انسان اللہ کی رحمت اور برکتوں کے مستحق بن سکیں۔

جائزے اور احتساب کی ضرورت

آج پاکستانی قوم جس آزمایش میں مبتلا ہے‘ اس میں جہاں زلزلے کے متاثرین کی مدد‘  ان کے غم اور تکلیف میں شرکت‘ مریضوں کی تیمارداری اور علاج ‘ تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ آباد کرنے کی کوشش ہماری ذمہ داری ہے‘ وہیں اللہ تعالیٰ سے خلوصِ دل کے ساتھ استغفارو توبہ اور انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ اللہ کے غضب سے بچا جاسکے‘ اور اس کی مغفرت اور رحمت کو دعوت دی جا سکے___ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف پلٹ کر آنے والے ہر فرد اور ہر قوم کو معاف کرنے والا‘ گنہگاروں اور خطاکاروں کو اپنی مغفرت میں ڈھانپ کر اپنے الطاف و اکرام سے نوازنے والا ہے۔

فَمَنْ تَابَ مِنْ م بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (المائدہ ۵:۳۹)

پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (التوبہ ۹:۱۰۴)

کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔

جن حالات سے آج ہماری قوم دوچار ہے ان میں صرف انفرادی توبہ و استغفار ہی نہیں بلکہ اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام بھی ضروری ہے۔

وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (النور ۲۴:۳۱)

اے مومنو‘ تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو‘ توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔

اس وقت جب کہ پوری قوم ۸ اکتوبر کے قیامت خیز زلزلے کے زیراثر غم اور خوف کی لپیٹ میں ہے‘ امدادی کاموں کے ساتھ ساتھ جو چیز بے حد ضروری ہے وہ رجوع الی اللہ‘ انفرادی اور اجتماعی احتساب‘ اللہ کے حضور توبہ و استغفار اور اللہ سے وفاداری اور ان مقاصد کے لیے عزم نو کے اظہار کی ضرورت ہے جن کے حصول کے لیے یہ ملک قائم ہوا تھا اور جس کا عہد ہم نے بحیثیت قوم اپنے رب سے کیا تھا کہ ہم کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی سربلندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق چلنے کے لیے یہ آزاد ملک حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

کیا آج اس سوال پر غور کرنا وقت کی اہم ضرورت نہیں کہ ہم نے اللہ سے اپنے اس عہد کے ساتھ عملاً کیا معاملہ کیا ہے؟ اللہ نے ہمیں ایک آزاد ملک سے نوازا اور ہم نے عملاً غیراسلامی قوتوں کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُمت مسلمہ کی نشات ثانیہ کا نقیب بنایا اور ہم نے ان قوتوں کا ساتھ دیا جنھوں نے مسلمان ممالک پر  فوج کُشی کی اور ہمارے ہی کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی۔ نتیجتاً مسلمان ممالک میں خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور امن و چین تباہ ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کو سود‘ سٹے‘ رشوت خوری‘ ناجائز منافع خوری‘ اور ظلم و استحصال کی آماج گاہ بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں آبادی کا ۴۰ فی صد غربت کی زندگی گزار رہا ہے اور صرف ایک دو فی صد عیش و عشرت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو فکری اور تہذیبی غلامی کا آلہ بنا دیا ہے اور نئی نسل کی اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے باب میں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ فواحش کا بازار گرم ہے اور زنا بالجبر کے واقعات روز افزوں ہیں۔ عام انسانوں کی جان‘ مال اور عزت محفوظ نہیں اور جن کا کام عام انسانوں کی جان اور مال کی حفاظت تھا‘ وہ خود جان اور مال کے لیے خطرہ بن گئے ہیں اور جن کے ذمے دفاع وطن کا مقدس فریضہ تھا‘ وہ چوکیدار کے بجاے حکمران بن بیٹھے ہیں۔ بنیادی قومی امور پر بے دردی سے یوٹرن لیے جا رہے ہیں اور حکمرانوں اور قوم میں اعتماد اور ہم آہنگی کا تعلق ختم ہوگیا ہے۔ پھر بات صرف حکمرانوں‘ اہلِ سیاست‘ اصحابِ ثروت اور بااثر طبقات ہی کی نہیں کہ وہ تو ہر حد کو پامال کر رہے ہیں‘ اب تو بات پوری قوم کی ہے الا ماشا اللہ___ جب عموم بلوہ کی کیفیت ہو تو پھر اللہ کی گرفت کا تازیانہ کیوں حرکت میں نہ آئے۔ تاریخ کا مطالعہ کرلیں‘ یہی سنت الٰہی ہے اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o

اس لیے ۸ اکتوبر کا پہلا اور سب سے اہم پیغام یہی ہے کہ متاثرہ افراد کی فوری مدد اور تباہ شدہ بستیوں کو دوبارہ بسانے کی مطلوب کوششوں کے ساتھ استغفار‘ انفرادی اور اجتماعی توبہ اور اس کے ساتھ اعمال اور پالیسیوں کے باب میں خوداحتسابی اور اجتماعی احتساب کا اہتمام کیا جائے۔ اس سے وہ بیداری اور روشنی رونما ہوگی جس میں غفلت‘ بے راہ روی‘ اللہ سے نافرمانی‘ اللہ کے بندوں کے حقوق سے روگردانی‘ ظلم و استحصال‘ اور غیروں کی مغلوبیت اور محکومی کی تاریکیوں سے یہ قوم نکل سکے گی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی‘ امن وامان‘ صلح و آشتی‘ عدل وا نصاف‘ خوداعتمادی‘ خودانحصاری اور خودمختاری‘ عزت و وقار اور انفرادی اور اجتماعی سربلندی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔

مثبت اور منفی پھلو

۸ اکتوبر کے قومی سانحے پر جو ردعمل ملک کے طول و عرض میں رونما ہوا ہے‘ وہ بھی اپنے اندر غوروفکر کے بڑے اہم پہلو رکھتا ہے۔ ایک طرف سہمی ہوئی قوم نے فوراً اپنے رب کو پکارا۔ ہم نے بچشم سر یہ منظر دیکھا کہ جس وقت زمین لرز رہی تھی اور فلک بوس عمارتیں کانپ رہی تھیں‘ خاص و عام سب قبلہ رو ہو کر اللہ کو پکار رہے تھے اور اس سے حفظ و امان کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر جیسے جیسے تباہی کے آثار نمایاں ہوئے‘ فی الفور عام انسان‘ خصوصیت سے نوجوان‘ یونی ورسٹیوں‘ کالجوں‘ اسکولوں اور دینی مدارس کے طلبہ جوق در جوق اپنے تباہ حال بھائیوں اور بہنوں کی مدد کو دوڑ پڑے۔ خیبر سے کراچی تک بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ عام و خاص ‘ امیر و غریب‘ جوان اور بوڑھے سب اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے بے چین ہوگئے۔ عطیات بارش کی طرح برسنے لگے‘ ننگے ہاتھوں لوگ ملبے کو صاف کرنے‘ ملبے تلے دبے انسانوں کی جان بچانے‘ زخمیوں کو خون دینے‘ اور مر جانے والوں کی میتوں کو دفن کرنے میں کسی تخصیص کے بغیر تن من دھن سے لگ گئے۔ قوم نے آزمایش کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے ایک نئے جذبے کا اظہار کیا___ یہ روشنی کی وہ کرن ہے جس نے اس تاریک رات کو صبح نو کا پیغام دیا۔

لیکن اس ایمان افروز ردعمل کے ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہے اور جن کو سب سے پہلے اس قومی تباہی کا ادراک کرنا چاہیے تھا اور تمام وسائل کو بلاتاخیر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جھونک دینا چاہیے تھا‘ وہ تین دن تک حیص بیص کا شکار رہے۔ وزیراطلاعات فرماتے ہیں کہ کاروبار چل رہا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ ایک کور کمانڈر کہتے ہیں کہ کیوں واویلا کرتے ہو‘ مرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ وزیراعظم بھی غصے میں کہہ ڈالتے ہیں کہ میڈیا منفی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسلام آباد جیسے مرکزی شہر میں پہلے دن مارگلہ ٹاور کا ملبہ اٹھانے کے لیے صرف ایک کرین میسرآسکی۔ برطانیہ اور جاپان سے تیزرفتار ایمرجنسی فورس ۲۴ گھنٹے میں پہنچ گئی مگر فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن اور کراچی سے مدد آنے میں تین دن لگ گئے۔ اسپین کی ریسکیو ٹیم ۲۴ گھنٹے میں آگئی مگر ایئرپورٹ پر ۴۸ گھنٹے انتظار کرتی رہی۔

بحران سے نمٹنے (Crisis Management) کے باب میں اپنے قومی افلاس اور  بے بسی کا منظر ہر دیکھنے والے کے لیے سوہانِ روح تھا۔ ہمارے پاس وہ آلات نہیں جن سے کنکریٹ کو چیرا جا سکے‘ زندوں کا پتا لگایا جا سکے‘ ملبے سے انسانوں کو نکالا جا سکے۔ پولیس اور فوج تک کو ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ فائربریگیڈ دنیا بھر میں ایسی ایمرجنسی کے لیے ہر قسم کے آلات اور تربیت یافتہ افراد سے آراستہ ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ ۱۹۵۲ء کا سول ڈیفنس ایکٹ موجود ہے‘ ۱۹۵۸ء کا مغربی پاکستان کا National Calamities (Prevention and Relief) Act کتابِ قانون کا حصہ ہے۔ ۲۰۰۰ء میں قومی بحرانوں سے نمٹنے کا ایک مرکز‘ مرکزی وزارت داخلہ میں قائم کیا گیا تھا جس کا ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر سربراہ بھی ہے۔ پانچ سال سے نیشنل ڈیفنس مینجمنٹ ایجنسی کا منصوبہ سرکاری فائلوں میں گردش کر رہا ہے جس کے لیے UNDP نے ۱۵ کروڑ ۵۰ لاکھ کا بجٹ (پانچ سال کی مدت کے لیے) طے بھی کیا ہوا ہے مگر یہ سب کاغذوں پر ہیں اور مصیبت اور آزمایش کے وقت بچائو کی معمولی کارروائی کے لیے بھی ننگے ہاتھوں پر انحصار کرنا پڑا یا بیرونی امداد پر!

یہ ہے قومی سطح پر ہماری تیاری کی کیفیت۔ اہم شاہ راہیں اگر بند ہوجاتی ہیں تو ہمیں ان کو کھولنے کے لیے ہفتوں اورمہینوں کی ضرورت ہے اور وہ انسان جو ان نامساعد حالات کی گرفت میں آجائیں ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب تک تریاق عراق سے آئے سانپ کا ڈسا اللہ کو پیارا ہوجائے!

قوم نے اربوں روپے‘ قرض کا بوجھ سر پر اٹھا کر‘ فوج پر خرچ کیے مگر اس کے پاس اتنے ہیلی کاپٹر بھی نہیں کہ کچھ علاقوں میں مؤثر امدادی کام انجام دے سکیں۔ وزیرستان میں آپریشن کے لیے تو ہیلی کاپٹروں کی کمی نہیں لیکن آزاد کشمیر اور سرحد کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کام کے لیے چندہیلی کاپٹر سے زیادہ ہم فراہم نہیں کرسکے۔ بلاشبہہ تباہی بہت عظیم اور غیر متوقع ہے مگر کسی درجے میں تو قوم اور اس کے کلیدی اداروں کو ایمرجنسی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس حادثۂ فاجعہ نے ہماری اس کمزوری کو بالکل طشت ازبام کر دیا اور سب کہنے پر مجبور ہوئے کہ Emperor has no clothes (بادشاہ سلامت بے لباس ہیں)۔

بات صرف نظام‘ اس کے اداروں‘ اور ذمہ داری پر فائز افراد کار ہی کی نہیں___ کرایوں میں اضافے‘ اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے‘ ملبے میں دبے ہوئے انسانوں کے بدن سے اور اجڑے ہوئے گھروں سے قیمتی سامان اور زیورات کی چوری‘ امدادی سامان کی لوٹ مار‘ حتیٰ کہ پولیس کے کارندوں کا ان قبیح کارروائیوں میں ملوث ہونا___ معاشرے کے وہ ناسور ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایک طرف خیر اور خدمت کا عوامی جذبہ‘ دوسری طرف ذمہ داروں کی غفلت اور معاشرے کے کچھ عناصر کا ان حالات میں بھی ایسے گھنائونے کردار کا مظاہرہ___  ہماری اجتماعی زندگی کے دو مختلف پہلوئوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ شر کی قوتوں کو قابو کرنے اور خیر کی قوتوں کو منظم کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے آج بھی حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ اپنوں ہی نے نہیں ‘غیروں نے بھی اس تضاد کو دیکھا اور عالمی صحافیوں نے اپنی رپورٹوں میں نمایاں کیا۔ تصویر  کے دونوں رخ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے منفی پہلو کو اس لیے بیان کیا کہ اس سے  صرفِ نظر ممکن نہیں لیکن ہم مثبت پہلو کو روشنی کی اصل کرن سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر قوم کے اس جذبے اور رویے کو صحیح طریقے پر منظم اور متحرک کیا جائے تو اس عظیم تباہی سے مستقبل کے لیے خیرکثیر کے سرچشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ ہم تحدیث نعمت کے طور پر عرض کریں گے کہ عوامی سطح پر جس طرح ملک کے ہر طبقے نے ایثار و قربانی اور جوش و جذبے کا اظہار کیا اور لوگوں نے انفرادی طور پر اور دینی‘ سماجی اور پروفیشنل تنظیموں نے اپنی بساط سے بھی بڑھ چڑھ کر خدمات انجام دیں وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ جماعت اسلامی اور مجاہد تنظیموں‘ خصوصیت سے حزب اسلامی اور جماعت الدعوۃ نے جس طرح اپنے دکھ کو بھول کر اپنے دکھی بھائیوںاور بہنوں کی خدمت کی‘ وہ روشنی کا مینار ہے۔

ابتدائی غفلت کے بعد سرکاری ادارے اور فوج بھی حرکت میں آگئی‘ گو اب تک ان کی کارکردگی توقعات سے بہت کم رہی ہے لیکن جتنا کام بھی وہ اب کر رہی ہیں‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے‘ لیکن ضرورت کا عشر عشیر بھی ابھی پورا نہیں ہو رہا۔ سب سے بڑھ کر مسئلہ جامع منصوبہ بندی کا فقدان‘ ضروری ٹکنالوجی اور صلاحیت کی کمی‘ اور فوج‘ سول حکومت‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں اور نجی خدمتی اداروں کے درمیان مؤثر رابطے کی کمی ہے جس کا جلد از جلد تدارک ہونا چاہیے۔

بے شمار افراد نے انفرادی طور پر اور دینی اور سماجی اداروں نے‘ خصوصیت سے ان اداروں کی جن کی اساس اسلامی بنیادوں پر ہے‘ بڑی جاں فشانی سے خدمت انجام دے کر ایک روشن مثال قائم کی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس قوم کو اٹھانے والی اصل قوت اسلام اور جذبہ خدمت ہے۔

مغربی تجزیہ نگاروں کی نظر میں

ہم نے جن دو پہلوئوں کی طرف متوجہ کیا ہے‘ ان کا مشاہدہ اور تجربہ ہزاروں انسانوں نے ان چند ایام میں کیا ہے اور ملکی اور غیرملکی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے بھی ان کو بیان کیا ہے۔ اس تضاد کے چند اہم پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہم ملکی اور غیرملکی مبصرین کی چند آرا کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔

اکانومسٹلکھتا ہے:

یہ ۱۱؍اکتوبر کے بعد ہوا کہ فوج نے قصبوں سے باہر پھیلنا شروع کیا… اس تباہی پر حکومت کے سست ردعمل پر ایک غصے کی کیفیت تھی۔ بالاکوٹ میں جہاں ۱۰ اکتوبر کو سڑکیں کھولی جاسکیں‘ لوگوں نے شکایت کی کہ فوج نے پہلا دن اپنے کیمپ قائم کرنے میں صرف کیا۔ مظفرآباد میں ایک چار منزلہ ہوٹل کے مالک نے‘ جو اب محض ایک کھنڈر تھا‘ بتایا کہ تین دن تک فوج کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اس تباہ شدہ ہوٹل میں اب ۵۰لاشیں دفن ہیں۔ لٹیروں نے ان کی جیبوں کو خالی کر دیا۔ صاف دکھ رہا ہے کہ فوج نے آغاز کرنے میں بہت سستی سے کام لیا۔ ۱۲ اکتوبر کو پنجاب سے تازہ دم جوانوں کی دو ڈویژن نے کشمیر اور سرحد میں آنا شروع کیا۔ بہت سے لوگوں نے فوجی اور سول اتھارٹیز کے درمیان خراب رابطے کی شکایت کی۔(۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ‘ ص ۲۳)

نوائے وقت کا نمایندہ مظفرآباد کے حالات کا نقشہ یوں کھینچتا ہے:

مظفرآباد کا پورا علاقہ قبرستان بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت کی بے حسی‘ لاقانونیت اور ہرطرف افراتفری نے لوگوں کو عدمِ تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔ بے گھر لوگ اپنے گھروں کے ملبے‘ سڑکوں‘چوراہوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں بغیر ٹینٹ کے چادروں میں گزارا کر رہے ہیں۔ ہر طرف مسلح نوجوانوں کی ٹولیاں پھرتی نظر آرہی ہیں۔ ان کے پاس کلاشنکوف‘ پستول‘ بندوقیں اور ڈنڈے ہیں۔مستحقین کا امدادی سامان جہاں نظر آتا ہے‘ لوٹ لیتے ہیں۔ مظفرآباد شہر میں ڈاکوئوں کے گروہ بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ گھروں سے قیمتی سامان لوٹ رہے ہیں۔ لوگوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں۔ شہر میں پولیس نام کی کوئی چیز نہیں‘ جب کہ فوج نے بھی ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے۔ (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

لندن کے دی ٹائمز نے اپنی ۱۵ اکتوبر کی اشاعت میں شائع ہونے والے اداریے میں مسائل کا یوں ذکر کیا ہے:

ٹیلی ویژن پر زلزلے کی خبر کے بعد باغ کے کسی آدمی نے حکومت کی طرف سے اگر کوئی امداد دیکھی ہے تو وہ تباہی کے تین دن بعد تھی۔ کسی وقت کے اس خوش حال چھوٹے سے قصبے کے لوگ آزاد کشمیر کی پہاڑیوں کے دامن میں تمام امیدیں کھو چکے تھے۔ باغ کے ایک دکان دار عبدالرزاق نے کہا: حکومت ٹیلی ویژن پر مدد دکھارہی ہے۔ ہم نے تو پانی کا ایک قطرہ‘ کوئی دوائی یا غلے کا ایک دانہ بھی اپنی طرف آتے نہیں دیکھا ہے۔ (روزنامہ ڈان‘ ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

جہاں یہ منفی پہلو ہیں جن کا مؤثر سدباب ہونا چاہیے‘ وہیں مثبت پہلو بھی ایسے ہیں جو امید کی شمعیں روشن کرتے ہیں۔ بی بی سی اور دی نیوز کا نمایندہ اور مشہور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی سرحد کے حالات کا یوں نقشہ کھینچتا ہے:

صوبہ سرحداور آزاد کشمیر میں زلزلے کے متاثرین کو مدد پہنچانے کے لیے اسلامی اور دوسری غیر سرکاری تنظیمیں ایک شدید لیکن بیشتر صحت مند مقابلے میں مصروف ہیں۔ بالاکوٹ میں تقریباً ۲۰ تنظیموں کے کیمپوں کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا اور وہ نظر بھی آتے تھے جو زلزلہ زدگان کے لیے مختلف خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی اکثریت‘ یعنی ۱۲ اسلامی ہیں۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے بھی تباہ شدہ بالاکوٹ کے بازار میں ایک بینر لگایا تھا لیکن ان کے رضاکار کوئی کام کرتے نظر نہ آئے۔ بالاکوٹ میں جن اسلامی تنظیموںنے کیمپ لگائے‘ ان میں جماعت اسلامی کی الخدمت اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ‘ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) کا الرحمت ٹرسٹ‘ امہ ویلفیئر ٹرسٹ‘ جماعت الدعوۃ‘ جامعہ فریدیہ‘ لال مسجد اسلام آباد اور جہادی گروپ حزب المجاہدین اور جیش محمد شامل ہیں۔ بعض چھوٹی اسلامی تنظیموں نے بھی بینر لگائے تھے اور امدادی سامان سے بھرے ٹرکوں کے ساتھ پھر رہے تھے جو ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے بھیجے تھے۔

الرحمت ٹرسٹ کے منتظم نوید مسعود ہاشمی نے دی نیوز کو بتایا کہ حزب المجاہدین اور جیش محمد کے ارکان ۸ اکتوبر کی صبح زلزلے کے بعد نہ صرف بالاکوٹ بلکہ آزاد کشمیر کے دوسرے مقامات پر بھی ریسکیو آپریشن کا سب سے پہلے آغاز کرنے والوں میں سے تھے۔ ان گروپوںسے وابستہ مجاہدین علاقے میں موجود تھے اور اس لیے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں دوسروں سے پہلے پہنچ پائے۔ انھوں نے تباہ شدہ مکانات میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچاکر جانیں بچائیں۔ اس نے بتایا کہ بالاکوٹ ہو یا مظفرآباد یا باغ‘ ہر جگہ حالات مختلف تھے۔ لیکن کوئی غیرجانب دار نمایندہ دیکھ سکتا تھا کہ زلزلے کے متاثرین کو امداد پہنچانے میں کون سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ دیکھنے ہی سے یقین آتا ہے‘اور ہم رپورٹروں اور سیاست دانوں اور قانون دانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں اور جائزہ لیں کہ کون متاثرین کی خدمت کر رہا ہے اور کون صرف شور مچا رہا ہے۔ اسلامی تنظیموں کے ارکان بالاکوٹ سے آگے مختلف پہاڑوں کے درمیان منتشرآبادیوں میں ان کے گائوں میں پہنچ چکے ہیں تاکہ ان کو امداد پہنچائیں۔

عوام کے اس مثبت رویے کا اعتراف سیکولر طبقے کے سرخیل The Friday Times (۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) نے بھی اپنے ادارتی کالم میں کیا ہے اور ایک برطانوی رپورٹر کی یہ رپورٹ نقل کی ہے جو ملاحظے کے لائق ہے:

کترینا کے بعد اور نیو آرلینز سے مقابلہ و موازنہ اس سے زیادہ واضح نہیں ہوسکتا۔ امریکا میں جب حکومت کی امداد نہیں پہنچی تو مسلح لوٹ مار کرنے والے سڑکوں پر آگئے اور بچنے والوںکو اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ دوسری طرف پاکستان میں پورے ملک سے لوگ مدد پہنچانے کے لیے آگئے۔ انھوں نے اپنے کام چھوڑ دیے‘ کچھ نے لفٹ لی اور ٹرکوں اور منی بسوں کے ساتھ خطرناک انداز سے لٹک کر انتہائی خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے‘ جب کہ نیچے وادی میں جھانکنے پر خوف آتا تھا‘ مدد کو پہنچ گئے۔ دوسرے پہاڑوں پر سورج کی تپش میں گھنٹوں پیدل چلے‘ جب کہ وہ مسلمانوں کے روزوں کے مہینے رمضان کی وجہ سے پانی بھی نہ پیتے تھے۔ پاکستان کے عظیم عوام کو اتنے شدید حالات میں اس بڑے پیمانے پر جذبۂ انسانیت کے مظاہرے سے زیادہ خراجِ تحسین نہیں پیش کیا جاسکتا۔

عالمی برادری کی مدد بھی ایک قابلِ قدر پہلو ہے اور اس میں مسلم ممالک اور مغربی اقوام دونوں نے حصہ لیا ہے۔ امریکا کی شرکت اس کے وسائل اور اس کے لیے پاکستان کی موجودہ حکومت کی خدمات کے پس منظر میں نہایت مایوس کن ہے۔ بھارت اور اسرائیل نے بھی حالات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

جن اقوام اور اداروں نے کھلے دل سے مدد کی ہے‘ اس کا اعتراف ہونا چاہیے اور قوم ان سب کی شکرگزار ہے لیکن یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی قوتوں کی عوامی خدمت‘ قربانی اور امتحان کی گھڑی میں تاریخی کردار کو مغربی میڈیا جس انداز میں پیش کر رہا ہے‘ وہ بڑا افسوس ناک ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۱۶ اکتوبر کی اشاعت میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ عنوان ہے: Extremists Fill Aid Chasm after Quake ۔ پورا مضمون زہرسے بھرا ہوا ہے‘ صرف چند اقتباسات دیے جا رہے ہیں جو قوم کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتے ہیں۔

مظفرآباد (پاکستان‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۵ئ) فوج ردعمل دینے میں سست رہی اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیاں بعض حالات میں ابھی آغاز ہی کر رہی تھیں‘ لیکن یہاں پاکستان کے زلزلے کے علاقے کے قلب میں ملبے اور بارش کے اندر جماعت الدعوۃ جو ملک کی سب سے نمایاں انتہاپسند گروپ ہے‘ کے پرجوش مجاہد نظر آرہے تھے۔

دریاے نیلم کے قریب ایک ڈھلوان پر اس گروپ نے ایک بڑا فیلڈ ہسپتال قائم کیا ہے جس میں ایکسرے مشین‘ شعبہ دندان سازی‘ عارضی آپریشن تھیٹر‘ حتیٰ کہ آنے والے صحافیوں کے لیے ایک خیمہ بھی موجود ہے۔ ڈسپنسریوں میں عطیہ کیے ہوئے انٹی بائیوٹک‘ دافع درد ادویات اور دوسرے طبی سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے شہر مظفرآباد میں ہفتے کی صبح جو دوسرے گروپ موجود تھے‘ ان میں جماعت اسلامی کا خیراتی شعبہ ہے جو ایک اسلامی سیاسی پارٹی ہے جس کی فلسطین کے جنگجو گروپ حماس سے نظریاتی وابستگی ہے‘ اور الرشید ٹرسٹ‘ کراچی کا ایک خیراتی ادارہ ہے جس کے امریکی اثاثے بش انتظامیہ نے اس بنیاد پر ضبط کر لیے تھے کہ یہ القاعدہ کو فنڈ پہنچاتے ہیں۔ گروپ نے الزام کو مسترد کیا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ صرف سماجی بہبود تک ہی محدود ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے نمایندے John Lancestor کے خبثِ باطن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جماعت اسلامی کا ذکر حماس سے اس کے نظریاتی رشتے کے بغیر اس کے لیے ممکن نہ تھا حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ جماعت اسلامی کا اپنا طریق کار ہے اور وہ ۱۹۴۱ء سے برعظیم میں سرگرمِ عمل ہے۔

قوم کے بڑے حصے نے اور خصوصیت سے اسلامی تنظیموں اور اداروں نے جس طرح اس قومی آزمایش میں کردار ادا کیا ہے‘ وہ اچھے مستقبل کا پیش خیمہ ہے اور ضرورت ہے کہ تمام اسلامی اور اصلاحی قوتیں مل کر تعمیرنو کا کام اخلاقی جذبے اور نظریاتی تعلیم اور بیداری کے ساتھ انجام دیں۔

مستقبل کا نقشہ

آخر میں ہم مستقبل میں کرنے کے کاموں کے حوالے سے چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں۔

ملک کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کی غفلت‘ کوتاہیوں اور جانب داری کے باوجود جس قومی یک جہتی اور سیاست سے بالا ہو کر خدمت اور وسیع تر ملکی اور ملّی مفاد کی خاطر ایک مثبت قومی رویے کا اظہار کیا ہے ‘وہ بہت قابلِ قدر ہے اور اسے ہر قیمت پر باقی رہنا چاہیے۔ لیکن  اسے برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف اپنا رویہ بدلیں۔ اس نازک وقت اور مصیبت کے اس لمحے میں بھی ان کی ساری مساعی اپنی ذات اور فوج کے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سول حکومت‘ کوئی دستوری ادارہ‘ کوئی پارلیمنٹ ملک میں موجود نہیں۔ بس جنرل صاحب اور فوج ہی ساری کرتا دھرتا ہے اور اب تو کھل کر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو اس بحران سے ملک کو نکال سکتا ہے جب کہ ہر اعتبار سے‘ فوج کی سیاست اور سول معاملات میں کارکردگی نہایت مایوس کن بلکہ تباہ کن رہی ہے۔ تعمیرنو کا کام فوج کا نہیں‘ سول دستوری نظام کا ہے۔ اس بارے میں قومی سیاسی جماعتوں کا نقطۂ نظر تو بالکل واضح اور  مبنی برحق ہے۔ لیکن جنرل صاحب کے امریکی سرپرست بھی اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں ایان بریمر (Ian Bremmer) کا تبصرہ جنرل صاحب کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ وہ لکھتا ہے:

یونان‘ ترکی اور انڈونیشیا میں ایک بڑی بنیادی بات مشترک ہے‘ یہ جمہوریتیں ہیں۔ ان کے رہنما عوام کی مرضی سے حکومت کرتے ہیں۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو ایسا کوئی عوامی جوازحاصل نہیں ہے۔ وہ ایک فوجی جنرل ہیں جنھیں فوج کے زیرحکمرانی ریاست میں بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیںجن کا مینڈیٹ پاکستانی عوام کے ساتھ ایک سمجھوتے پر منحصر ہے۔(۱۲ اکتوبر ۲۰۰۵ئ)

جنرل صاحب جتنی جلد ان حقیقی زمینی حقائق کا ادراک کرلیں‘ اتنا ہی ان کے لیے‘ بحیثیت ایک قومی ادارہ  فوج کے لیے اور سب سے بڑھ کر ملک اور اس کے دستوری نظام کے لیے بہتر ہے۔ اس لیے ہم تجویز کریں گے کہ فوری امداد کے کام میں فوج جو بھی مفید کردارادا کرے‘ لیکن مستقبل کے تعمیرنو کے پورے پروگرام کو پارلیمنٹ کے مشورے سے طے ہونا چاہیے۔ اسے سول نظام کے تحت انجام دیا جانا چاہیے اور سول نظام میں اس انفراسٹرکچر اور مردان کار کی تربیت (capacity building) کا پورا اہتمام ہونا چاہیے جو ایسے نظام کو مستقل بنیادوں پر چلانے کے لیے ضروری ہے۔ ہم یہ بھی تجویز کریں گے کہ مقامی اور علاقائی سیاست سے بالا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام میں مرکز اور صوبوں کے درمیان مناسب کوارڈی نیشن (باہمی موافقت اور تعاون) ہو اور صوبائی اسمبلی اور حکومت کے توسط سے ایک بااختیار ادارہ صوبہ سرحد کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر کے لیے قائم کیا جائے اور دوسرا آزاد کشمیر کے لیے ۔ مستقل بنیادوں پر مرکزی سطح پر ایک نظام تشکیل دیا جائے جس میں فیڈریشن اور تمام صوبوں کو مؤثر نمایندگی حاصل ہو‘ نیز کل جماعتی بنیادوں پر اس میں پارلیمنٹ کی نمایندگی ہو۔

چند قابل توجہ امور

دیگر قابلِ توجہ امور یہ ہیں:

۱-  جو بیرونی امداد وصول ہوئی ہے یا آیندہ ہوگی‘ اس کے استعمال پر مناسب پارلیمانی نگرانی ضروری ہے جس کے لیے سرکاری جماعت کے نمایندوں کے ساتھ تمام اہم اپوزیشن جماعتوں کی نگرانی و احتساب کا اہتمام ہونا چاہیے۔

۲- سول حکومت اور عوامی سماجی اداروں کے درمیان ربط اور کوارڈی نیشن کی شدید ضرورت ہے جسے شراکت باہمی کے کسی اصول پر منظم ہونا چاہیے۔ مسلسل عوامی شرکت اور اعتماد کے بغیر اس گمبھیر چیلنج کا مؤثر جواب مشکل ہے۔

۳-  درجہ وار منصوبہ بندی ضروری ہے جس کے تین مرحلے ہیں:

پہلا مرحلہ فوری مدد کا ہے جو کم از کم تین چار ماہ پر محیط ہوگا۔ اس میں راستوں کا کھولنا اور انھیں برقرار رکھنا نیز بجلی‘ پانی اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی‘ رہایش کا فوری انتظام اور ہر قسم کی مناسب سہولتوں کی فراہمی شامل ہے۔

دوسرا مرحلہ تعمیرنو کا ہے یعنی کئی شہروں کو آباد کرنا‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی‘ صحیح جگہ کا انتخاب‘ زلزلوں اور دوسرے خطرات کا اندازہ کرکے تعمیر کے لیے صحیح اصول و ضوابط کی تیاری اور ان کے نفاذ اور سختی سے جائزے کا انتظام۔ اس منصوبے میں رہایش‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ رسل و رسائل‘ پانی اور بجلی کی فراہمی کے لیے مربوط اسکیموں کی ضرورت ہوگی جنھیں اس طرح مرتب کیا جائے کہ ان علاقوں اور ان کے متاثر افراد کی مناسب وقت میں خود کفالت اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا بندوبست ہوسکے۔ نیز یہ سارا کام کم سے کم رقم میں کیا جائے۔

۴-  ایک بڑا مسئلہ زخمیوں اور خصوصیت سے ان ہزاروں افراد کا ہے جو اعضا سے محروم ہوکر مستقل معذوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کے لیے بالکل الگ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔

۵-  اسی طرح یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کا مسئلہ ہے۔ بچوں کا مسئلہ اور بھی گمبھیر ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد ۵۰‘ ۶۰ ہزار تک ہوسکتی ہے۔ اس سے قومی ایمرجنسی کی سطح پر ہی نبٹا جا سکتا ہے۔

۶-  تعمیرات کا کم تر معیار ایک بڑے مسئلے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ سڑکوں کا رونا تو مدت سے رویا جا رہا تھا۔ اب سرکاری عمارتوں (اسکول‘ ہسپتال) کی کمزوری کھل کر سامنے آگئی ہے۔ صرف صوبہ سرحد میں ۸ ہائی اسکول اور ایک ہزار ہسپتال زمین بوس ہوگئے۔ اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کا معاملہ بھی ایک اسکینڈل بن چکا ہے۔ اس پورے مسئلے کو بہت سائنسی انداز میں لینا ہوگا اور تعمیرات کے قواعد و ضوابط کے پورے معاملے کا ازسرنو جائزہ لینے اور قواعد و ضوابط کے مطابق تعمیرات کو یقینی بنانا بہت بڑا چیلنج ہے۔

۷-  قومی سطح پر تباہی کو روکنے اور بحرانوں سے نمٹنے کا مؤثر پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ فائر بریگیڈ‘ اسکائوٹس‘ این سی سی‘ سول ڈیفنس اور خصوصی دستوں  کی ٹریننگ اور ان کے لیے ضروری آلات و اوزار اور جدید ترین تکنیکی سہولتیں ضروری ہیں۔

۸-  ایسے حادثات کے بعد وبائوں کا پھوٹ پڑنا بھی ایک بڑا خطرہ ہے اور اس کی     پیش بندی نیز علاج کی سہولتوں کی فراہمی کو بھی اس منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔

۹- ہمہ پہلو بدعنوانی اور کرپشن ایک قومی ناسور ہے۔ حکومت اور اس کے اداروں پر لوگوں کا اعتماد باقی نہیں رہا ہے۔ لوکل گورنمنٹ میں ۷۰ فی صد اور سول حکومتوں میں ۵۰ فی صد بدعنوانی کی بات عام ہے۔ فوج بھی اب اس بیماری سے محفوظ نہیں رہی ہے۔ تعمیرنو کے کام میں بڑا خطرہ ہے کہ کرپشن کی وجہ سے سارا منصوبہ خاک میں مل جائے۔ اس لیے اس مسئلے کا کھل کر سامنے کرنے اور مناسب نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

آخر میں ہم ایک بار پھر اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں ہر کام میں اور ہر مرحلے پر اخلاقی تربیت‘ دیانت داری کے اہتمام‘ احتساب اور نگرانی کے مؤثر نظام اور حقیقی  شفافیت کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مادی وسائل کا استعمال اخلاقی ضابطوں کی حدود میں ہو اور دیانت داری کو صلاحیت اور قابلیت کے ساتھ ضروری صفت قرار دیا جائے۔ نیز حکومت‘ سول سوسائٹی اور عوام سب اخلاقی اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری اور سب سے بڑھ کر آخرت کی جواب دہی کے احساس کے ساتھ کام انجام دیں۔

یہ اسی وقت ممکن ہے جب قیادت کے پیمانوں کو تبدیل کیا جائے‘ قانون اور ضابطے کی حکمرانی کو حقیقت بنایا جائے‘ کھلی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا جائے‘ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے کا   ذمہ دار ہو اور کسی ایک ادارے کو سب پر مسلط کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قانونی احتساب کے ساتھ عوامی احتساب کا ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کوئی جواب دہی سے بالا نہ ہو اور کسی غلط کار کے بچ نکلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

اگر ۸ اکتوبر کا زلزلہ ہمارے لیے ماضی کی ڈگر کو بدلنے اور مستقبل کے لیے صحیح راستے پر اختیار کرنے کی راہ پر ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے تو پھر اس شر سے خیر کے چشمے بھی پھوٹ سکتے ہیں۔  صرف یہی وہ تبدیلی ہے جو ہماری دنیا کو سنوار سکتی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی کا امکان روشن ہوسکتا ہے۔

جمہوریت نے تو عوام کی پسند اور ناپسند کو معیاری حیثیت دینے کا کارنامہ دور جدید میں انجام دیا ہے اور اب راے عامہ کے عالمی جائزے اس کا ایک اہم پیمانہ بن گئے ہیں‘ لیکن انسانی ضمیر نے ہمیشہ عوام کے جذبات و احساسات کو ہوا کا رخ جاننے اور بھلے اور برے میں تمیز کرنے کا ذریعہ سمجھا ہے۔ پرانی کہاوت ہے     ؎

زبان خلق کو نقارئہ خدا سمجھو

برا کہے جسے دنیا اسے برا سمجھو

پچھلے دو ماہ میں ایسے کئی اہم جائزے سامنے آئے ہیں جن کے آئینے میں امریکا کی موجودہ قیادت‘ خصوصیت سے صدربش اور ان کی نیو کون (Neo-Con) ٹیم کے بارے میں اور اس سے بھی زیادہ امریکا کی جاری پالیسیوں کے بارے عالمی راے عامہ اور دنیا کے چوٹی کے تھنک ٹینکس کی حالیہ سوچ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ آج صدر بش دنیا کی واحد سوپر پاور کے کرتا دھرتا ہیں۔ وہ اور ان کے انتہاپسند حواری دنیا پر بزعم خود جمہوریت مسلط کرنے کے داعی ہیں بلکہ اس کے لیے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ لیکن جمہوریت کے یہ علم بردار ایک لمحہ توقف کرکے اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ جن پر وہ ’’جمہوریت‘‘ نازل کرنا چاہ رہے ہیں‘ وہ خود بش صاحب اور امریکا کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔

امریکا کے صدارتی انتخابات کے بعد سے امریکا میں راے عامہ کے تمام جائزے یہ بتارہے ہیں کہ صدر بش کی مقبولیت کا گراف خود امریکا میں مسلسل نیچے جارہا ہے اور تازہ جائزوں کے مطابق ۶۱ فی صد آبادی اب ان سے‘ ان کی کارکردگی سے اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے مایوس ہے۔

اس سے زیادہ دل چسپ اور چشم کشا نتائج اس سروے کے ہیں جس میں دنیا بھر سے ۱۵ہزار افراد نے شرکت کی اور جس کا اہتمام بی بی سی نے کیا تھا اور جسے power play game(اقتدار کا کھیل) کا نام دیا گیا تھا۔ ان ۱۵ ہزار افراد نے ایک باہمی عمل کے ذریعے عالمی راے کی روشنی میں ۱۱ افراد کی ایک ٹیم کا انتخاب کیا جو دنیا کی صحیح رخ پر قیادت کرے اور انسانی مسائل کو حل کرسکے۔ اس جائزے کے نتیجے میں جن ۱۱افراد کا انتخاب ہوا ان میں سرفہرست جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ بل کلنٹن نمبر۲ پر ہیں اور کوفی عنان گیارھویں ہیں۔ دل چسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس ٹیم میں کسی اور سیاست دان کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس جن افراد کو مذہبی قیادت فراہم کرنے کی نسبت حاصل ہے ان میں سے دو اس میں آسکے ہیں‘ یعنی دلائے لاما اور آرچ بشپ ڈیسمونڈ ٹوٹو۔ مؤخرالذکر کا تعلق بھی جنوبی افریقہ سے ہے اور وہاں کے Truth Commissionکے سربراہ تھے۔ امریکی پالیسیوں کے ناقد نوم چومسکی کو اس ٹیم میں نمبر۴ پر شریک کیا گیا ہے۔ باقی پانچ افراد کا تعلق IT اور عالمی مالیات سے ہے۔ جارج بش کا نمبر ۴۳ ہے‘ جب کہ ان کے دو بڑے ناقد ہیوگوشاواز اور فیڈل کاسترو نے ۳۳ ویں اور ۳۶ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس جائزے میں ۱۰۰ میں صرف ایک مسلمان کا نام آتا ہے اور وہ ہے اسامہ بن لادن جس کا نمبر ۷۰ واں ہے۔ بش کے ناقدین میں امریکا کا مشہور صحافی اور مصنف مائیکل مور بھی ہے جس کا نمبر ۱۵ ہے‘ یعنی بش سے ۲۸ منزلیں اوپر ہے۔

راے عامہ اور تحقیق کے امریکی ادارے Pew اور گیلپ کے تمام جائزے بھی ایسی ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں امریکا کی قیادت اور پالیسیوں سے بے اطمینانی کا اظہار ۶۰ سے ۷۰ فی صد آبادی کر رہی ہے اور عالمِ اسلام میں یہ بے زاری اور نفرت ۷۰ سے ۹۲ فی صد تک ہے۔

راے عامہ کے تمام جائزے تسلسل کے ساتھ عالمی ضمیر کا جو فتویٰ پیش کر رہے ہیں‘ اس کی توثیق ایک ایسے ادارے کی طرف سے بھی ہوئی ہے جس کے بارے میں کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کے اعلانات سے بھی ہوا کا یہی رخ سامنے آئے گا۔ ہماری مراد ہے سویڈن کے نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی عالمی کمیٹی۔ گذشتہ دو ہفتوں میں دو اہم ایوارڈ جن شخصیات کو دیے گئے ہیں‘ وہ بھی اسی رخ کی تائید کرتے ہیں۔ پہلا امن کا نوبل انعام ہے جو ویانا کی عالمی ایٹمی توانائی کی اتھارٹی اور اس کے سربراہ ڈاکٹر البرادی کو ملا ہے جس سے بش اور امریکا اتنے خفا تھے کہ اس کی مدت میں توسیع کی سرتوڑ مخالفت کر رہے تھے اور اس میں ناکام رہے۔ البرادی نے عراق میں تباہ کن ہتھیاروں (WMD's) کے امریکی ڈھونگ میں ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا اور  اتھارٹی کے انسپکٹر برٹس (Brits) نے امریکا کو انسپکشن ٹیم کے سارے کام کو سبوتاژ کرنے کا مجرم قرار دیا تھا۔ البرادی کو امن کا انعام ملنا صدر بش اور امریکا کی موجودہ قیادت کے منہ پر ایک طمانچا تھا اور امریکی قیادت اس پر اتنی جزبز ہوئی کہ کمیٹی کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ ہمارا فیصلہ معروضی حقائق پر مبنی تھا اور اسے کسی کے خلاف سمجھنا صحیح نہیں۔

ابھی امریکا کی قیادت اس زخم کو چاٹ رہی تھی کہ نوبل کمیٹی نے ایک اور بم گرا دیا۔ اس سال ادب کا نوبل انعام برطانیہ کے ادیب اور ڈراما نویس ہیرلڈ پنٹر (Harold Panter) کو دیا گیا ہے۔ ہیرلڈ پنٹر ویسے تو مشہور ادیب ہے اور ۱۹۶۰ء کی دہائی سے اسے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں خاص مقبولیت حاصل ہے۔ اس کا پہلا ڈراما The Birthday Party ۱۹۵۸ء میں شائع ہوا تھا اور اسٹیج بھی ہوا لیکن گذشتہ ۱۰ برس سے اس کی شہرت ڈراموں سے بھی زیادہ اس کے سیاسی بیانات اور سرگرمیوں کی بنا پر ہے۔ بلاشبہہ اس کے ڈراموں میں بھی سیاسی رنگ موجود ہے۔ دنیا کے بے سہارا اور مجبور انسانوں کے غم کو اس نے ادب کی زبان میں بیان کیا ہے بلکہ اندازِ بیان بھی منفرد ہے کہ وہ روانی اور لسانی چاشنی کے مقابلے میں بے ترتیبی اور ابہام کو ذریعہ بناتا ہے جو اس کی نگاہ میں اس دور کے کرب و اضطراب کا مظہر ہے۔ آج اس کی دھوم امریکا کی تشدد کے خلاف نام نہاد جنگ کی بھرپور سرگرم مخالفت اور بش اور بلیر پر جان دار تنقید کی وجہ سے ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ سے باہر ایک مظاہرے کے موقع پر ۲۰۰۲ء میں اس نے کہا تھا:

بش نے کہا ہے ’’ہم دنیا کے بدترین ہتھیاروں کو دنیا کے بدترین رہنمائوں کے ہاتھوں میں جانے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ بہت خوب! سامنے آئینہ دیکھو‘ یہ تم ہو!

ستمبر ۲۰۰۴ء میں امپیریل وار میوزیم کی تقریب میں اس نے کہا:

آزادی اور جمہوریت ___ بش اور بلیر کے نزدیک ان الفاظ کا مطلب موت‘ تباہی اور انتشار ہے۔

پنٹر نے ۲۰۰۳ء کے اپنے ایک مضمون میں بش کی انتظامیہ کو ہٹلر کے نازی جرمنی سے تشبیہ دی تھی۔ گوانتاناموبے کے قیدخانے کو جرمنی کے اجتماعی تعذیب گھروں کا تازہ نمونہ قرار دیا تھا‘ اور صدر بش کو خون کا پیاسا عالمی درندہ اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کو فریب زدہ احمق اور قتل عام کرنے والے کے لقب سے نوازا تھا۔ اس نے امریکی میڈیا پر بھی سخت تنقید کی تھی اور اسے بش کے جرائم میں شریک قرار دیا تھا۔ اس نے اپنی ایک نظم The Bombs میں آج کی سیاسی صورت حال کا نقشہ یوں کھینچا ہے:

بم چل رہے ہیں

The bombs go off

ٹانگیں دھڑ سے الگ ہو رہی ہیں

The legs go off

سر کٹ کر گر رہے ہیں

The heads go off

بیان کے لیے الفاظ نہیں مل رہے

There ar no more words to be said

ہمارے پاس اب بموں کے علاوہ کچھ نہیں

All we have left are the bombs,

بم ہمارے سر پھاڑ کر باہر آرہے ہیں

Which burst out of our head.

ہیرلڈ پنٹر کو ادب کا نوبل انعام اور ڈاکٹر البرادی کو امن کا نوبل انعام ان دونوں کے لیے تو اعزاز ہے‘ لیکن یہ امریکا‘ جارج بش اور ٹونی بلیر کی قیادت پر عالمی ضمیر کے عدمِ اعتماد (vote of no-confidence) کا بھی برملا اعلان ہے۔ سچ ہے‘ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!

اقبال کے کارنامے کو ہم مختلف عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں:

  • مغربی تھذیب پر ضرب کاری: سب سے اہم کام جو اقبال نے انجام دیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ اگرچہ یہ کام اس وقت علماے دین اور اہلِ مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے‘ مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا تھا اور کیا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفے اور مغربی تہذیب و تمدن سے واقفیت نہیں رکھتے۔ لوگ ان اہلِ علم کی بات کو کچھ زیادہ وزن نہیں دیتے تھے جو اگرچہ دین سے تو واقف تھے‘ لیکن مغربی علوم‘ مغربی فلسفے‘ مغربی تہذیب اور مغربی زندگی سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ان کے برعکس اقبال وہ شخص تھا کہ وہ اس سے زیادہ مغرب کو جانتا ہے اور اس سے زیادہ مغرب کے فلسفے اور مغربی علوم سے واقف ہے۔ اس لیے جب اقبال نے مغربیت‘ مغربی مادہ پرستی‘ مغربی فلسفے اور مغربی افکار پر چوٹ لگائی‘ تو مسلمانوں پر مغرب کی جو مرعوبیت طاری تھی وہ کافور ہونے لگی‘ اور واقعہ یہ ہے کہ اس مرعوبیت کو توڑنے میں اکیلے اقبال کا کارنامہ سب سے بڑھ کر ہے…

اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ اسلام کوئی پرانا اور ازکار رفتہ نظام نہیں ہے جو اس زمانے میں کام نہ کر سکتا ہو۔ انھوں نے اپنے شعر سے بھی اور اپنی نثر سے بھی یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی کہ اسلام ازلی و ابدی اصولوں کا حامل ہے۔ اسلام کسی وقت بھی پرانا نہیں ہو سکتا۔ اس کے اصول ہرزمانے میں یکساں قابلِ عمل ہیں…

  • وطنی قومیّت کی تردید: اس کے ساتھ علامہ اقبال نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا وہ یہ ہے کہ انھوں نے وطنی قومیت اور قوم پرستی پر ایک شدید ضرب لگائی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انھوں نے قوم پرستی‘ نیشنلزم اور وطنی قومیت پر بروقت ضربِ کاری نہ لگائی ہوتی تو آگے چل کر مسلمانوں کو کانگرس میں جذب کرنے کے لیے جو تحریک اٹھی تھی اس سے مسلمانوں کا بچ جانا محال تھا… اگر اقبال نے یہ تعلیم بروقت نہ دی ہوتی تو بعد میں کانگرس نے رابطہ عوام (mass contact) کی جو تحریک شروع کی تھی اور جس میں علما اور اشتراکی حضرات بھی شریک تھے‘ وہ تحریک مسلمانوں کو ہندوئوں کے اندر اس طرح سے گھلا دیتی جیسے نمک پانی کے اندر گھل جاتا ہے۔ لیکن اقبال نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ قومیت‘ وطن اور زبان سے نہیں بنتی ہے بلکہ قومیت دین اور عقیدے سے بنتی ہے۔اس نے مسلمانوں میں اس شعور کو بیدار کیا کہ تم ایک عقیدہ اور  ایک تہذیب رکھنے والی قوم ہو‘ تمھاری قومیت ان لوگوں سے بالکل مختلف ہے جن کی تہذیب اور عقیدہ و مسلک تم سے الگ ہے۔
  • وحدتِ ملّی کا احساس: اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس بھی اُبھارا کہ تمام دنیا میں ملتِ اسلامیہ ایک وحدت ہے اور اس کو ایک وحدت ہونا چاہیے۔ اس طرح انھوں نے بیک وقت دو کام کیے___ باہر کی دنیا میں مسلمان جس طرح قوم پرستی میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے سے کٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے‘ اور جس طرح ترکوں اور عربوں کے درمیان ایک المناک کش مکش برپا ہوئی اور اس کے نتیجے میں شرق اوسط پر جو تباہی آئی اور تمام ممالکِ اسلامیہ جس مصیبت میں مبتلا ہوئے‘ وہ سب اس قوم پرستی کا نتیجہ تھا جس کی تبلیغ و اشاعت عیسائیوں نے عربوں اور ترکوں کے درمیان کی تھی۔ ایک طرف تو اقبال نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دی کہ تم ایک ملتِ واحدہ ہو‘ اور جس قوم پرستی میں تم مبتلا ہو یہ ایک بالکل غلط اور مہلک تصور ہے ‘ دوسری طرف انھوں نے ہندی مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ تم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک قوم اور ایک ملت ہو۔ تمھارا کسی دوسری قوم میں جذب ہونا سراسر ایک باطل نظریہ ہے۔ اگر اقبال نے بروقت یہ اقدام نہ کیا ہوتا اور اسلامی قومیت کے صحیح تصور کی تبلیغ کرکے مسلمانوں کے اندر اپنی اسلامی قومیت کا احساس پیدا نہ کر دیا ہوتا تو آج اس پاکستان کا کہیں وجود نہ ہوتا…
  • دین و سیاست کے باطل تصور کی بیخ کنی: اقبال نے ایک بڑا کارنامہ یہ بھی انجام دیا کہ دین اور سیاست کی علیحدگی اور دین و دنیا کی تفریق کا جو تصور مغرب سے آکر مسلمانوں میں پھیل رہا تھا اور جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ اہلِ دین کو سیاست سے کیا تعلق اور دین کو سیاست میں گھسیٹنے کا کیا کام‘ اقبال نے اس باطل تصور کا ٹھیک وقت پر مقابلہ کیا۔ اس نے دین بے سیاست کی بھی برملا مذمت کی اور سیاستِ بے دین کو بھی علانیہ مذموم قرار دیا۔ سیاستِ بے دین کے متعلق اقبال کا ایک مصرع ایسا ہے کہ اس موضوع پر تمام دنیا کا لٹریچر ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف___ ان کا کہنا ہے کہ  ع

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

… اسی طرح سے مسلمانوں کے دماغوں میں جو یہ خیال جاگزیں ہوچکا تھا کہ اہلِ دین کا کام تو بس اللہ اللہ کرنا ہے یا مسجدوں اور مدرسوں میں فقط قرآن و حدیث پڑھنا ہے‘ ان کا سیاست سے بھلا کیا تعلق___ اس غلط تصور پر بھی اقبال نے ایک کاری ضرب لگائی ہے اور اس کو بھی ایک مصرع میں بیان کر دیا‘ اور واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر جتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے وہ سب ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف۔ اقبال کہتا ہے کہ  ع

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

… اس کے ساتھ اقبالؒ نے مثبت طور پر یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی ہے کہ تمھاری مصیبتوں اور مسائل کا اگر کوئی حل ہے‘ تو وہ صرف یہ ہے کہ تم قرآن کی پیروی کرو اور اپنی زندگیوں پر اسلام کے آئین کو نافذ کرو۔ انھوں نے ۱۹۳۷ء میں قائداعظمؒ کے نام جو خط لکھا تھا اس میں واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کا کوئی حل ہے تو وہ صرف اسلامی آئین کے نفاذ میں مضمر ہے۔

یہ وہ کارنامہ تھا جو اقبال نے اپنی زندگی میں انجام دیا…

  • اقبال اور عدلِ اجتماعی: سوشلزم یا کسی دوسرے غیر اسلامی نظریہ و فکر کے برعکس اقبالؒ نے تو بڑی وضاحت اور قطعیت کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تصور دیا کہ محض سیاسی آزادی یا اقتصادی بہبود ہی تمھارا مقصود نہیں ہے بلکہ اسلام کی حفاظت تمھارا اصل مقصد ہے۔ اس نے بار بار یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کی تھی کہ ہمارا عقیدہ‘ ہماری تہذیب‘ ہماری روایات اور ہماری    اخلاقی اقدار ہی ہمارے لیے اصل چیزیں ہیں۔ محض روٹی یا زمین کا ٹکڑا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے ایک مسلمان جئے یا مرے۔ اقبال نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ مسلمانوں کوایک وطن صرف اس لیے چاہیے کہ وہ وہاں اسلام کے اصولوں پر زندگی بسر کرسکیں۔ ان کی ۱۹۳۰ء کی تقریر سے جس میں انھوں نے پاکستان کی اصطلاح استعمال کیے بغیر پاکستان کا تخیل پیش کیا تھا‘ یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نظر میں اگر کوئی چیز اہم تھی تو صرف یہ کہ کسی طرح اسلام اور اہلِ اسلام کو سربلندی نصیب ہو۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندستان میں ہندوئوں کے ساتھ رہ کر مسلمان اپنی تہذیب پر قائم نہیں رہ سکتے۔ اس لیے انھوں نے صرف مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے ایک الگ اور آزاد مملکت کے حصول کا تصور پیش کیا___ ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد محض کسی ایسے لفظ یا اصطلاح کی بنیاد پر جو انھوں نے اتفاقاً کسی موقع پر کسی دوسرے سیاق و سباق (context) میں‘ کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کی ہو‘ اس کی طرف کسی خاص نظریے کو منسوب کرنا صریح بددیانتی بھی ہے اور مسلمانوں کو دھوکا اور فریب دینا بھی ہے۔

آخری بات: اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ آپ کو اسلام کی بنیاد پر ایک وطن دے کر گئے ہیں۔ اقبال نے آپ کو فکر اور نظریہ دیا اور قائداعظم کی قیادت میں آپ کو یہ وطن حاصل ہوا۔ اس وطن کی انوکھی شان یہ ہے کہ اس کا نظریہ پہلے وجود میں آیا اور ملک بعد میں بنا۔ اگر اس ملک کے بنیادی نظریے کو یا دوسرے لفظوں میں اس کی نظریاتی بنیاد کو ہٹا دیا جائے‘ تو یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ آج اس ملک کی نظریاتی بنیاد پر مختلف اطراف سے حملے کیے جا رہے ہیں [اور اب ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کی آڑ میں یہ حملے جاری ہیں]‘ لیکن کیا آپ اس چیز کو جو اتنی محنتوں اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی یونہی اپنی غفلت اور کوتاہ ہمتی سے ضائع کر دیں گے___؟ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ نے اس کو کھو دیا تو گویا تاریخِ انسانی میں یہ بات ثابت کردیں گے کہ ایک بیوقوف قوم تھی جس نے لاکھوں جانوں‘اَن گنت عصمتوں اور کروڑوں اور اربوں روپوں کی جایدادیں قربان کر کے ایک وطن حاصل کیا‘ مگر وطن حاصل کرنے کے بعد ۲۳ برس کی مدت کے اندر ہی اندر اس کو کھو بھی دیا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تاریخ میں آپ کا مقام ایک بے وقوف اور ایک احمق قوم کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا (بشرطیکہ آپ کی تاریخ کو باقی رہنے دیا گیا)۔ اگر آج آپ نے اشتراکیت یا وطنی قومیت کے نظریے یا کسی اور باطل ازم کو اختیار کیا تو صرف یہی نہیں کہ آپ کی آزادی ختم ہوجائے گی‘ بلکہ میں کہتا ہوں کہ آپ کا وجود بھی ختم ہوجائے گا‘ اور مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اسپین کے بعد تاریخ کا یہ دوسرا بھیانک المیہ ہوگا کہ اس برعظیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کا خاتمہ ہوگیا۔

اس وجہ سے یہ وقت ہے کہ مسلمانوں کے نوجوان‘ مرد اور عورتیں‘ بچے اور بوڑھے‘    سب اس بات کے لیے متحد ہوجائیں کہ وہ یہاں اسلام کا نظام ہی غالب کریں گے اور اُن لوگوں کی کوششوں کو قطعی طور پر ناکام بنا دیں گے جو مسلمانوں کو اسلام کے عقیدے اور نظامِ حق سے  منحرف کرنا چاہتے ہیں‘ اور اس طرح ان کو فتنوں میں مبتلا کر کے تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ (انتخاب از خطاب بموقع یومِ اقبالؒ، ۲۱ اپریل ۱۹۷۰ئ‘ پنجاب یونی ورسٹی ہال‘ لاہور)

(شخصیات‘ البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘لاہور‘ ص ۲۳۲-۲۴۴)

انسانی تاریخ کا سفر جاری ہے۔ لمحۂ موجود میں عالم اسلام مسلح کفر کی بے رحم جارحیت سے دوچار ہے۔ مسلم ممالک کی کاہلی و غفلت اور احکام الٰہی کی حکم عدولی کی بنا پر اُمت مسلمہ کو ذلت و رسوائی کا سامنا ہے‘ ان کی آزادیاں چھینی جارہی ہیں‘ تہذیب ملیامیٹ کی جارہی ہے اور ان کی زمینوں میں مغرب کے ایجنٹ ہراول دستے تعلیم و ثقافت اور سیاست و سرکار کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ وقت کی ضرورت اور پکار ہے کہ اُمت مسلمہ اپنے حالات کا تفصیلی و تنقیدی جائزہ لے کر اصلاح حال کی کوشش کرے۔ اسی سلسلے کی کڑی یہ مضمون ہے جس میں گذشتہ صدی کے مفسرین کی تفاسیر سے سورۂ انفال کی آیت نمبر ۶۰ اور ۶۱ کے حوالے سے رہنمائی حاصل کی جارہی ہے۔ یہ خالصتاً دین و ایمان کا مسئلہ ہے اور اسی اہمیت کے پیش نظر اس کا دقتِ نظر سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ بالخصوص اس لیے کہ یہ اُمت آخری آسمانی کتاب ہدایت کی حامل اور آخری و رہنما اُمت کے مقام پر فائز ہے‘ اور اس شمع ہدایت کو مٹانے والوں کی آرزوئوں کے سامنے ڈٹ جانا اس کے منصب کا تقاضا ہے۔ آیئے علماے اُمت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانیؒ

مسلمانوں پر فرض ہے کہ جہاں تک قدرت ہو سامانِ جہاد فراہم کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں گھوڑے کی سواری‘ شمشیرزنی اور تیراندازی وغیرہ کی مشق کرنا    سامانِ جہاد تھا۔ آج بندوق‘ توپ‘ ہوائی جہاز‘ آبدوز کشتیاں‘ آہن پوش کروز وغیرہ کا تیار کرنا اور استعمال میں لانا اور فنون حربیہ کا سیکھنا‘ بلکہ ورزش وغیرہ کرنا‘ سب سامان جہاد ہے۔ اسی طرح آیندہ جو اسلحہ و آلات حرب و ضرب تیار ہوں‘ ان شاء اللہ وہ سب آیت کے منشا میں داخل ہیں۔ باقی گھوڑے کی نسبت تو آپؐ خود ہی فرما چکے کہ قیامت تک کے لیے خدا نے اس کی پیشانی میں خیر رکھ دی ہے۔ اور احادیث میں ہے کہ ’’جو شخص گھوڑا جہاد کی نیت سے پالتا ہے‘ اُس کے کھانے‘ پینے بلکہ ہر قدم اٹھانے میں اجر ملتا ہے اور اُس کی خوراک وغیرہ تک قیامت کے دن ترازو میں وزن کی جائے گی‘‘… یہ سب سامان اور تیاری دشمنوں پر رعب جمانے اور دھاک بٹھانے کا ایک ظاہری سبب ہے۔ باقی فتح و ظفر کا اصلی سبب تو خدا کی مدد ہے… اور وہ لوگ جن کو بالیقین تم نہیں جانتے منافقین ہیں جو مسلمانی کے پردہ میں تھے‘ یا یہود بنی قریظہ‘ یا روم و فارس وغیرہ سب قومیں جن سے آیندہ مقابلہ ہونے والا تھا۔

مالی جھاد: جہاد کی تیاری میں جس قدر مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا‘ یعنی ایک درہم کے ۷۰۰ درہم اور بسااوقات دنیا میں بھی اس سے کہیں زیادہ معاوضہ مل جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تیاری اور مجاہدانہ قربانیوں کو دیکھ کر بہت ممکن ہے کہ کفار مرعوب ہوکر صلح و آشتی کے خواستگار ہوں تو آپ کو ہدایت ہے کہ حسب صوابدید آپ بھی صلح کا ہاتھ بڑھا دیں کیونکہ جہاد سے خونریزی نہیں‘ اعلاے کلمۃ اللہ اور دفع فتنہ مقصود ہے۔ اگر بدون خونریزی کے یہ مقصد حاصل ہوسکے تو خواہی نہ خواہی خون بہانے کی کیا حاجت ہے۔ اگر یہ احتمال ہو کہ شاید کفار صلح کے پردے میں ہم کو دھوکا دینا چاہتے ہیں تو کچھ پروا نہ کیجیے‘ اللہ پر بھروسا رکھیے وہ اُن کی نیتوں کو جانتا اور اُن کے اندرونی مشوروں کو سنتا ہے۔ اُس کی حمایت کے سامنے ان کی بدنیتی نہ چل سکے گی۔ (تفسیر عثمانی‘ ص ۲۳۸)

مولانا مفتی محمد شفیعؒ

مقابلے کی قوت جمع کرو۔ اس میں تمام جنگی سامانِ اسلحہ‘ سواری وغیرہ بھی داخل ہیں اور اپنے بدن کی ورزش‘ فنونِ جنگ کا سیکھنا بھی۔ قرآن کریم نے اس جگہ اُس زمانے کے مروجہ ہتھیاروں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قوت کا عام لفظ اختیار فرماکر اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ یہ قوت ہرزمانے اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اُس زمانے کے اسلحہ تیر‘ تلوار‘ نیزے تھے۔ اس کے بعد بندوق توپ کا زمانہ آیا۔ پھر اب بموں اور راکٹوں کا وقت آگیا۔ لفظ قوت اُن سب کو شامل ہے۔ اس لیے آج کے مسلمانوں کو بقدرِ استطاعت ایٹمی قوت‘ ٹینک اور لڑاکا طیارے‘ آب دوز کشتیاں جمع کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہیں اور اس کے لیے جس علم و فن کو سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں سے دفاع کا اور کفار سے مقابلے کا کام لیا جائے گا تو وہ بھی جہاد کے حکم میں ہے۔

آج بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں جن کو گھوڑوں کے بغیر فتح نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑوں کی پیشانی میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے۔ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامانِ جنگ فراہم کرنے اور اُس کے استعمال کی  مشق کرنے کو بڑی عبادت اور موجبِ ثواب عظیم قرار دیا ہے۔ تیربنانے اور چلانے پر بڑے بڑے اجروثواب کا وعدہ ہے۔ اور چونکہ جہاد کا اصل مقصد اسلام اور مسلمانوں کا دفاع ہے‘ اور دفاع ہرزمانے اور ہر قوم کا جدا ہوتا ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جَاہِدُوا الْمُشْرِکِیْنَ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح دفاع و جہاد ہتھیاروں سے ہوتا ہے بعض اوقات زبان سے بھی ہوتا ہے اور قلم بھی زبان ہی کے حکم میں ہے۔ اسلام اور قرآن سے کفر والحاد کے حملوں اور تحریفوں کی مدافعت زبان یا قلم سے‘ یہ بھی اس صریح نص کی بنا پر جہاد میں داخل ہے۔ سامانِ جنگ و دفاع جمع کرنے کا اصل مقصد قتل و قتال نہیں بلکہ کفرو شرک کو زیر کرنا اور مرعوب و مغلوب کر دینا ہے۔ وہ کبھی صرف زبان یا قلم سے بھی ہو سکتا ہے اور بعض اوقات اُس کے لیے قتل و قتال ضروری ہوتا ہے۔ جیسی صورت حال ہو اُس کے مطابق دفاع کرنا فرض ہے۔ جنگ و جہاد کی تیاری سے جن لوگوں کو مرعوب کرنا مقصود ہے اُن میں سے بعض کو تو مسلمان جانتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن سے مسلمانوں کا مقابلہ جاری تھا‘ یعنی کفار مکہ اور یہود مدینہ۔ اور کچھ وہ لوگ بھی ہیں جن کو ابھی تک مسلمان نہیں جانتے۔ مراد اس سے پوری دنیا کے کفار و مشرکین ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے مقابلے پر نہیں آئے۔ آیندہ ان سے بھی تصادم ہونے والا ہے۔ مگر اس آیت نے بتلا دیا کہ اگر مسلمانوں نے اپنے موجودہ حریف کے مقابلے کی تیاری کرلی تو اس کا رعب صرف انھی پر نہیں بلکہ دُور دُور کے کفار‘ کسریٰ و قیصر وغیرہ پر بھی پڑے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خلفاے راشدین کے عہد میں یہ سب مغلوب و مرعوب ہوگئے۔ جنگی سامان جمع کرنے اور جنگ کرنے میں ضرورت مال کی بھی پڑتی ہے بلکہ سامان جنگ بھی مال ہی کے ذریعے تیار کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے آخر آیت میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور اُس کا اجرعظیم اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس راہ میں تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اُس کا پورا پورا بدلہ تمھیں دے دیا جائے گا۔(معارف القرآن‘ ج ۴‘ ص۲۷۲ تا ۲۷۴)

مولانا سید ابوالاعلٰی مودودیؒ

اس سے مطلب یہ ہے کہ تمھارے پاس سامانِ جنگ اور ایک مستقل فوج (standing army) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کارروائی کرسکو۔ بین الاقوامی معاملات میں تمھاری پالیسی بزدلانہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ خدا کے بھروسے پر بہادرانہ اور دلیرانہ ہونی چاہیے۔ دشمن جب گفتگوے مصالحت کی خواہش ظاہر کرے‘ بے تکلف اس کے لیے تیار ہوجائو۔ صلح کے لیے بڑھنے والے ہاتھ کے جواب میں ہاتھ بڑھائو تاکہ تمھاری اخلاقی برتری ثابت ہو اور لڑائی کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کو اپنی قوت بازو سے توڑ کر پھینک دو تاکہ کبھی کوئی غدار قوم تمھیں نرم چارہ سمجھنے کی جرأت نہ کرے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۵۵ تا ۱۵۶)

مولانا ابوالکلام آزادؒ

فرمایا: ’’جہاںتک تمھارے بس میں ہے‘‘ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی جماعت اس طرح کا سروسامان جنگ مہیا کرسکے جو ہر اعتبار سے مکمل ہو۔ پس معلوم ہوا‘ مسلمانوں کو اس بارے میں جو کچھ حکم دیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مقدور کے مطابق جو کچھ کرسکتے ہیں کریں‘ اور اداے فرض کے لیے آمادہ ہوجائیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ جب تک دنیا جہان کے ہتھیار اور ہرقسم کے سازوسامان مہیا نہ ہوجائیں اس وقت تک بے بسی کا عذر کرتے رہیں اور فرض دفاع سے بے فکر ہوجائیں۔ اگر مسلمانوں نے اس آیت کی روح کو سمجھا ہوتا تو اس اپاہج پنے میں مبتلا نہ ہوتے جو ۱۵۰برس سے تمام مسلمانانِ عالم پر طاری ہے۔ چونکہ جنگ کی تیاری بغیر مال کے نہیں ہوسکتی تھی‘ اس لیے اس کے بعد کی آیت میں انفاق فی سبیل اللہ پر زور دیا۔ اگر اس انفاق کی حقیقت آج مسلمان صحیح طور پر سمجھ لیں‘ تو ان کی ساری مصیبتیں ختم ہوجائیں۔ آیت ۶۱ نے کیسے قطعی لفظوں میں قرآن کی دعوتِ امن کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی‘ جب کہ جنگ بدر کے فیصلے نے مسلمانوں کی  فتح مندی آشکار کر دی تھی اور تمام جزیرہ عرب ان کی طاقت سے متاثر ہونے لگا تھا۔ تاہم‘ حکم ہوا جب کبھی دشمن صلح و امن کی طرف جھکے‘ چاہیے کہ بلاتامل تم بھی جھک جائو۔ اگر اس کی نیت میں   فتور ہوگا تو ہوا کرے اس کی وجہ سے صلح و امن کے قیام میں ایک لمحے کے لیے بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ (ترجمان القرآن‘ ج ۲‘ ص ۶۸-۶۹)

سید قطب شھیدؒ

اسلام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ضروری قوت موجود ہو اوروہ اس قوت کے  بل بوتے پر آگے بڑھے اور تمام انسانوں کو تمام غلامیوں سے رہا کرائے۔ چنانچہ اس قوت کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس قدر آزاد کرا دے کہ وہ کوئی بھی نظریہ قبول کرنے میں آزاد ہوں۔ انھیں کوئی روکنے والا نہ ہو اور نہ دنیا میں ایسی قوت ہو کہ کسی کو کسی مخصوص عقیدے کے اختیار کرنے پر مجبور کرسکتی ہو۔ دوسرا فریضہ یہ ہے کہ یہ قوت دین اسلام کے دشمنوں کو اس قدر خوف زدہ کرے کہ وہ اسلامی ریاست کے قوت مرکز ‘یعنی دارالاسلام پر حملے کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیں۔ اور تیسرا فریضہ یہ ہے کہ دین اسلام کے دشمنوں کو اس قدر مرعوب کر دیا جائے کہ وہ اسلام کی راہ روکنے کے بارے میں کسی بھی وقت نہ سوچیں تاکہ اسلامی تحریک اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو آزاد کرسکے۔ اور چوتھا فریضہ یہ ہے کہ یہ اسلامی قوت ان تمام قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھ دے جو اللہ کے مقابلے میں اپنی حاکمیت قائم کرتی ہیں اور لوگوں پر اللہ کے مقابلے میں اپنی حاکمیت اور اپنا قانون جاری کرتی ہیں‘ اور وہ یہ اعتراف نہیں کرتیں کہ حق حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے کیونکہ وہی الٰہ ہے‘ وحدہ لاشریک۔ اسلام پوری زندگی کا ایک عملی نظام ہے اور وہ تمام دوسرے نظاموں کے مقابلے میں آکر کھڑا ہوتا ہے اور وہ ان تمام قوتوں سے برسرِپیکار ہوجاتا ہے جو ان باطل نظاموں کی پشت پر کھڑی ہوتی ہیں۔ لہٰذا اس کے سوا اسلام کے لیے اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی راہ میں حائل ہونے والی تمام قوتوں کو پاش پاش کر کے رکھ دے کیونکہ یہ قوتیں اسلام کی راہ روکتی ہیں اور اسے قائم ہونے نہیں دیتیں بلکہ یہ قوتیں اسلام کے بالمقابل دوسرے نظام قائم کرتی ہیں۔

اس آیت میں ہمیں جس حد تک تیاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی حدود کا بھی ہمیں اچھی طرح علم ہونا چاہیے‘ یعنی جس قدر تمھاری استطاعت میں ہو‘ یعنی تیاری میں اپنی پوری قوت صرف کردو۔ پھر اس آیت میں اس تیاری کی غرض و غایت بھی بتا دی گئی ہے: ’’تاکہ اس کے ذریعے تم اپنے دشمنوں اور اللہ کے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کرسکو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘، یعنی اس تیاری کے مقاصد یہ ہیں کہ اس سے تمھارے دشمن جو اللہ کے دشمن ہیں خوف زدہ ہوجائیں۔ ان میں وہ ظاہری دشمن بھی شامل ہیں جن کو مسلمان جانتے ہیں اور کچھ ان کی پشت پر دشمن طاقتیں ہیں جن کا علم مسلمانوں کو تو نہیں ہے لیکن اللہ کو ہے۔ مسلمانوں پر یہ بات فرض ہے کہ وہ صاحبِ قوت ہوں اور ان پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کی حد تک قوت جمع کریں تاکہ وہ زمین کے تمام لوگوں کے لیے باعث خوف ہوں اور یہ اس لیے کہ دنیا پر اللہ کا کلمہ بلند ہو اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔ اب جنگی تیاریوں کے لیے چونکہ اخراجات ہوں گے اور تھے--- لہٰذا جنگی تیاریوں کے حکم کے ساتھ ہی حکم دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں اپنی دولت کو      خرچ کر--- اسلام جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کو تمام دنیاوی اغراض و مقاصد سے پاک کردیتا ہے۔ اسلام صرف ایک جنگ کی اجازت دیتا ہے‘ یعنی جہاد فی سبیل اللہ۔ اور اللہ یہ نہیں چاہتا کہ کوئی نسل دوسری نسلوں‘ یا کوئی وطن دوسرے اوطان پر‘ یا کوئی ایک طبقہ دوسرے طبقات پر‘ یا فرد دوسرے افراد پر‘ یا کوئی قوم دوسری قوم پر غالب ہوکر اپنی حاکمیت‘ اپنی حکومت اور اپنا اقتدار اعلیٰ قائم کرے۔(فی ظلال القرآن‘ ترجمہ: معروف شاہ شیرازی‘ ج ۳‘ ص ۳۶۲-۳۶۴)

مولانا امین احسن اصلاحیؒ

جہاد کے لیے قابل جہاد لوگوں کو بھی منظم کرو اور تربیت دیے ہوئے گھوڑے بھی تیار رکھو۔ اپنی فوجی قوت نفری کے اعتبار سے بھی اور اسلحہ و اسباب جنگ کے اعتبار سے بھی زیادہ سے زیادہ بڑھائیں۔ اس زمانے کی جنگ میں گھوڑوں کو وہی اہمیت حاصل تھی جو اس زمانے میں ٹینک اور ہوائی جہاز کو حاصل ہے۔ اس تیاری کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ کے اور تمھارے دشمنوں پر تمھاری دھاک اور ہیبت قائم رہے کہ تمھیں نرم چارہ سمجھ کر وہ تم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کریں۔ یہاں مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اللہ کا دشمن ٹھیرایا ہے‘ اس لیے کہ مسلمانوں کی جنگ جس سے بھی تھی‘ اللہ کے دین کے لیے تھی‘ اس میں کسی اور چیز کا کوئی دخل نہیں تھا۔ اللہ اور مسلمانوں کے یہ دشمن دو قسم کے تھے۔ ایک تو وہ جو سامنے آچکے تھے‘ مثلاً قریش‘ جو روز اوّل سے دشمن تھے۔ دوسرے وہ جو ابھی پردے میں تھے‘ مثلاً یہود‘ جن کی خفیہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ذکر اُوپر گزر چکا ہے۔ نیز وہ قبائل جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ غیر جانب داری تھا لیکن‘ یہود اور قریش کی تحریک سے وہ بھی پر تولنے لگ گئے تھے۔ علاوہ ازیں وہ منافقین جو منافقت میں بڑے مشاق تھے اور برابر دشمنوں کی مقصد برآری کے لیے مصروف سازش رہتے تھے۔(تدبر لقرآن‘ ج۳‘ ص ۹۳)

مولانا اشرف علی تہانویؒ

حدیثوں میں تیراندازی کی مشق اور گھوڑوں کو رکھنے اور سواری سیکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اب بندوق اور توپ قائم مقام تیر کے ہے اور عموم قوت میں یہ سب اور ورزش بھی داخل ہے۔(بیان القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۸۰)

مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ

آیت میں بڑی گہری حقیقت کی تعلیم ہے وہ یہ کہ اہلِ کفر تو برابر تمھارے دین کے دشمن رہا ہی کریں گے۔ تم ان سے مقابلے کے لیے ہمیشہ تیاررہو۔ ان کی طرف سے غافل کبھی نہ ہو اور اپنے پاس وہ سامان برابر تیار رکھو جن سے ان پر ہیبت طاری ہوتی ہو اور ان کے دل دہلتے ہوں۔ مِنْ قُوۃِ… قوۃ کا لفظ عام ہے‘ عددی قوت‘ سامانِ جنگ کی قوت‘ آلاتِ حرب کی قوت‘ سب کچھ اس کے اندر آگیا‘ یہاں تک کہ بڑھے ہوئے ناخن بھی۔ صاحب روح المعانی نے آیت کے تحت میں بندوق کا ذکر تصریح کے ساتھ کیا ہے اور اگر آج ہوتے تو مشین گن‘ طیارہ‘ اور ٹینک اور جیپ اور  ایٹم بم وغیرہ سب کے نام لکھ جاتے۔ رِبّاطِ الْخَیْل ،سوار فوج کی اہمیت اس حکم سے ظاہر ہے۔ یہاں اشارتاً یہ بتا دیا کہ علاوہ ان کافروں کے جن سے تمھارا سابقہ رہا کرتا ہے کچھ اور بھی قومیں ہیں جو ابھی تمھارے علم میں نہیں مگر اللہ کے علم میں تو ہے کہ کبھی اُن سے بھی تمھاری مڈبھیڑ ہوگی۔ اس میں ایران کے مجوسی اور رومہ کی مسیحی قومیں تو آہی گئیں جن سے آگے چل کر حضرات صحابہؓ کو معرکہ آرائی کرنی پڑی‘ باقی قیامت تک کی ساری مخالف قومیں آسکتی ہیں۔ مرشد تھانویؒ نے فرمایا کہ ان آیتوں میں تدابیر حرب و سیاست بتائی گئی ہیں۔ اُن سے صاف دلالت اس امر پر ہورہی ہے کہ یہ سیاسی تدبیریں بڑے سے بڑے کمالاتِ باطنی کے بھی منافی نہیں۔(تفسیر ماجدی ‘ ص ۳۸۸)

ڈاکٹر غلام مرتضٰی ملک شھیدؒ

ہمہ وقت اتنی تیاری رکھو کہ کوئی تمھیں میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کرسکے۔ مزید فرمایا کچھ اور لوگ بھی ہیں جنھیں تم نہیں جانتے لیکن اللہ انھیں جانتا ہے‘ان کے لیے بھی تمھیں تیاری کرنا پڑے گی۔ یہاں قوت کے حصول سے مراد جدید ترین ٹکنالوجی کا حصول ہے۔ اس میں ہمیں اپنے دور کی جدید ترین ٹکنالوجی حاصل کرنا پڑے گی۔ یہ تو ہمارے لیے اللہ کی طرف سے قرآن مجید میں فرض کر دیا گیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی علوم کا حصول ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہوگیا۔ اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف دینی کتب کی تیاری سے کام بن جائے گا‘ وہ بھی   غلط ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیوی علوم سے کام بن جائے گا‘ وہ بھی غلطی پر ہیں۔ دونوں کے  حسین امتزاج ہی سے کام چلے گا۔ ان کو باہم یک جان کرنے سے کام بنے گا۔ اس کے بغیر تیاری ممکن نہیں لیکن سائنسی علوم کے حصول سے قبل اچھا مسلمان اور اچھا انسان بننا ضروری ہے۔ اس لیے ایسی طرزتعلیم کی ضرورت ہے جس میں دینی‘ روحانی اور دنیوی علوم خوب صورت توازن کے ساتھ یک جان ہوچکے ہوں۔ اس کے بغیر اس آیت پر عمل ممکن نہیں۔ اسی لیے آیت کریمہ کے بعد قتال اور صلح کے خصوصی احکام کا تذکرہ ہوا کہ ہم بہترین انسان کی حیثیت سے ایک عملی نمونہ بن کر پیش ہوسکیں۔(انوارالقرآن‘ ج ۱‘ ص ۲۲۷-۲۲۸)

پیر کرم شاہ الازھریؒ

قوۃ سے یہاں کسی خاص ہتھیار کی تخصیص مقصود نہیں بلکہ ہر وہ چیز جس سے جنگ میں طاقت حاصل ہو (حوالہ: بیضاوی‘ احکام القرآن)۔ اس سے مراد ہر وہ اسلحہ ہے (جدید ہو یا قدیم) جس سے جنگ میں قوت و طاقت میسر ہوسکے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لفظ قوت کی تفسیر ان الفاظ میں منقول ہے: خبردار قوت رمی ہے (تین بار)۔ کلامِ رسالت کی گیرائی ملاحظہ ہو۔ سہم اور قوس (تیروکمان) نہیں فرمایا بلکہ ’’رمی‘‘ کا عام لفظ استعمال فرمایا تاکہ دُور سے نشانے پر پھینکے جانے والے تمام ہتھیار جو اس وقت موجود تھے اور جو قیامت تک ایجاد ہونے والے تھے سب کو شامل ہو۔ قیامت تک اس شمع حق کو بجھانے کی کوشش کرنے والی خدا معلوم کتنی قومیں کس کس علاقے سے اٹھیں گی‘ سب کی سازشوں کو ناکام بنانا‘ سب کے منصوبوں کو خاک میں ملانا‘ اُمت مسلمہ کا فرض اوّلین ہے۔(ضیاء القرآن‘ ج ۲‘ ص ۸۳۳-۸۳۴)

مولانا محمد ادریس کاندہلویؒ

دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لیے جس قدر مادی قوت اور طاقت تم مہیا کرسکو‘ اس میں دقیقہ اٹھا نہ رکھو اور اتنی طاقت فراہم کرو کہ تمھارا رعب دشمن پر قائم ہوجائے۔ اور وہ تمھاری طاقت سے اتنا مرعوب اور خوف زدہ ہوجائے کہ وہ خود تمھارے ساتھ بدعہدی کرسکے اور نہ تمھارے کسی دشمن کی مدد کرسکے۔ ان لوگوں کو جب تمھاری طاقت کا علم ہوگا تو وہ نہ تم پر حملہ کرنے کی جرأت کریں گے اور نہ تمھارے دشمن کے ساتھ علانیہ تعلق قائم کرنے کی ہمت کریں گے‘ اور اتنا سازوسامان کرو کہ تمھارا دشمن تمھاری طاقت سے مرعوب ہوجائے اور اس پر تمھاری دھاک بیٹھ جائے۔ جو قوت اور طاقت اور زور تم سے بن پڑے وہ مہیا کرو۔ تم کو ایسی طاقت اور قوت فراہم کرنی چاہیے کہ جس سے تمھارے ظاہری دشمن اور چھپے دشمن سب مرعوب اور خوف زدہ ہوجائیں۔ تم اتنی قوت اور طاقت فراہم کرلو جو آیندہ چل کر ان دشمنوں کے مقابلے میں بھی کام آسکے جن کی دشمنی کا تم کو علم نہیں‘ اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ وہ تمھارے چھپے دشمن ہیں‘ تمھاری تاک میں اور موقع کے منتظر ہیں‘ جیسے آج کل خاص کر مغربی ممالک جو دن رات اسلامی حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ احادیث میں اگرچہ قوت کی تفسیر تیراندازی سے کی گئی ہے مگر باعتبار عموم الفاظ اس سے مراد ہر قسم کا سامانِ حرب ہے۔ وہ سازوسامان اور آلات حرب مہیا کرو جس کے ذریعے سے تم دشمن کی مدافعت کر سکو اور اس پر غالب آسکو۔ جس قدر طاقت اور قوت فراہم کرسکتے ہو اس میں کسر نہ چھوڑو اور ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں سامان جنگ بدلتا رہا ہے۔ آیندہ جو اسلحہ اور آلات حرب و ضرب تیار ہوں گے ان شاء اللہ وہ سب اس آیت کے عموم اور مفہوم میں داخل ہوں گے اور عین منشاء قرآنی ہوں گے۔ لہٰذا اس آیت کی رو سے مسلمان حکومتوں پر جدید اسلحہ کی تیاری اور ان کے کارخانوں کا قائم کرنا فرض ہوگا‘ اس لیے کہ اس آیت میں قیامت تک کے لیے ہر مکان و زمان کے مناسب قوت و طاقت کی فراہمی کا حکم دیا گیا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر و تلوار کے علاوہ جدید آلاتِ حرب بھی استعمال کیے اور صحابہؓ کو ان کے بناکے کا حکم بھی دیا۔ پس حق جل شانہ نے اس آیت (وَاَعِدُّوا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃ) میں ہر قسم کی قوت اور طاقت کے مہیا کرنے کا قطعی حکم دے دیا۔

اس آیت کا عموم قیامت تک ظاہر ہونے والی قوتوں کو شامل ہے‘ لہٰذا اب اگر کوئی اسلامی حکومت اس سے غفلت برتتی ہے تو یہ قصور اس کا ہے اسلام کا کوئی قصور نہیں۔(معارف القرآن‘ ج ۳‘ ص ۲۵۳‘ ۲۵۵‘ ۲۵۷)

انسانوںکے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں کمی اور کوتاہی فطری ہے کیونکہ انسان نہ عقل میں کامل ہے اور نہ ہی پوری بصیرت کا حامل ہے۔ اس لیے اسلام نے انسان کی ان بنیادی کمزوریوں کو دُور کرنے‘ انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہترانداز سے گزارنے‘ صحیح سمت پر قائم رہنے اور بڑے نقصانات سے بچنے کے لیے جو ہدایات اور احکام دیے ہیں ان میں ایک اہم ہدایت اپنے معاملات میں باہم مشورہ کرنا ہے۔

امام راغب اصفہانیؒ نے مفردات القرآن میں لکھا ہے کہ: ایک دوسرے سے رجوع کرکے کسی رائے پر پہنچنے کا نام مشورہ ہے‘ اور شوریٰ اس معاملے کو کہتے ہیں جس کے بارے میں مشورہ کیا جائے۔ شوریٰ کا لفظ اسمبلی اور مجلس شوریٰ کے لیے بھی مستعمل ہے۔ لفظ شوریٰ قرآن مجید میں تین مقامات پر وارد ہوا ہے اور ان تینوں مقامات پر انسانی زندگی کے نہایت اہم مسائل سے بحث کی گئی ہے۔ جس سے نہ صرف اس لفظ کے معنی اور مفہوم کا تعین ہوجاتا ہے‘ بلکہ اسلام میں  مشورے کی اہمیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

مشاورت کا مقصد باہمی گفت و شنید کے بعد کسی منصوبے کو تیار کرنا اور اس کے اطلاق کو قابلِ عمل بنانا ہے۔ ایک محقق جونز کے نزدیک مشاورت ایک ذاتی حرکت کا عمل ہے جو دو افراد کے درمیان واقع ہوتا ہے جس میں ایک فرد عمررسیدہ اور زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے یا دوسرے سے زیادہ ذہین ہوتا ہے۔ یہ عمررسیدہ فرد باہمی گفت و شنید کی بدولت اپنے سے کم عمر یا کم تجربہ کار فرد کے مسائل کی تشریح کرتا ہے اور مسائل کے حل میں مدد دیتا ہے۔ مشاورت کا مطلب درحقیقت خود آگاہی ہے‘ اس کی بدولت فرد کو اس بات سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو کس طرح استعمال کر سکتا ہے اور اپنی مشکلات پر کس طرح قابو پاسکتا ہے۔ اس طرح مشاورت میں ایک فرد مشورہ دینے والاہوتا ہے جسے مشیر کہتے ہیں اور دوسرا فرد وہ ہے جسے مشورہ دیا جاتا ہے۔ مشورے سے کسی مسئلے کے جملہ پہلو سامنے آتے ہیں جس سے مسئلے کی نوعیت سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ مشورہ اور مشاورت کے معنی ہیں رائے معلوم کرنا‘ باہمی سوچ بچار کرنا۔

قرآن سے استدلال

۱- سورئہ شوریٰ میں ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشورٰی۴۲:۳۸) ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ گویا‘ اہلِ اسلام کا ہر معاملہ باہمی مشورے سے طے ہوتا ہے۔

یہ مکی سورہ ہے اور مکہ میں اسلامی ریاست ابھی تک وجود میں نہ آئی تھی اس لیے اہلِ اسلام کو ہر معاملے اور ہر بات میں باہمی مشورہ کرنے کی ترغیب دی گئی تاکہ وہ ایک منفرد معاشرہ قائم کرنے اور اسے چلانے کی صلاحیت اور استعداد پیدا کرلیں۔ یہ بات اسلام میں شوریٰ اور افہام و تفہیم کی اہمیت کی دلیل ہے۔

۲- سورہ بقرہ میں ہے: فَاِنْ اَرَادَ فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَا (۲:۲۳۳) ’’پھراگر وہ دونوں (میاں بیوی) آپس کی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں توا ن پر کوئی گناہ نہیں ہے‘‘۔

۳- سورئہ اٰل عمران میں ہے: وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (۳:۱۵۹) ’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو‘پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘‘۔

سورئہ آل عمران کی مذکورہ آیت کریمہ مفسرین اور اہلِ علم کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی امورِ دنیا اور معاملاتِ حکومت میں اہلِ اسلام سے مشورہ لینے اور کثرتِ رائے کا احترام کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ حالاں کہ اللہ کے رسولؐ پر وحی نازل ہوتی تھی اور آپؐ کسی سے مشورے کے محتاج نہ تھے۔ لیکن اُمت کے لیے ایک اسوہ اور سنت قائم کرنا مقصود تھا۔ ان آیات کے علاوہ بھی بے شمار آیات سے مشورے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

اسوۂ رسولؐ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے بھی یہ ثابت ہے کہ شوریٰ قانون بھی ہے اور حکمت عملی بھی ہے۔

  • حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب شوریٰ کا حکم آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول‘ اگرچہ مشورہ کرنے سے بے نیاز ہیں مگر مشورے کایہ حکم اس لیے ہے تاکہ اُمت کے لیے رحمت کا باعث ہو۔ اُمت کا جو فرد رائے اور مشورہ طلب کرے گا کبھی اعلیٰ درجے کی رہنمائی سے محروم نہ ہوگا اور جو مشورے کو ترک کرے گا وہ کبھی بھی مشکلات سے نہ نکلے گا۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
  • حضرت قتادہؓ کی رائے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی نازل ہونے کے باوجود‘ اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ لوگوں کے دل مطمئن ہوجائیں اور شوریٰ اُمت کے لیے قانون بن جائے (روایت ابن جریر)
  • حضرت حسنؓ کی روایت سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ شوریٰ کے حکم کا مقصد یہ تھا کہ اس میں صحابہؓ کے لیے قانونی جواز پیدا ہوجائے اور بعد میں اُمت کے لیے ایک مستقل حکمت عملی بن جائے۔ (فتح الباری‘ ص ۲۸۶)
  • حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص سے اس کے مسلمان بھائی نے (اپنے کسی معاملے میں) مشورہ طلب کیا ہو اوراس نے اُس کے مفاد کے خلاف مشورہ دیا تو اس نے اپنے بھائی سے خیانت کی۔ (الادب المفرد‘ ص ۳۵۳) ’

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو جہاں اجتہاد کا حکم دیا وہاں مشورے کا بھی حکم دیا۔ آپؐ کا ذاتی معمول بھی یہی تھا کہ تمام معاملات میں صحابہ کرامؓ سے اجتماعی اور انفرادی مشورہ لیتے تھے۔

  • ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:عقل مند سے مشورہ کرو‘ ہدایت پائو گے اور اس کی نافرمانی مت کرو‘ کہیں نادم نہ ہونا پڑے۔(الدرالمنثور ۲:۹۰)
  • حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو اپنے رفقا سے مشورہ کرنے میں اتنا زیادہ سرگرم ہو جس قدر رسولؐ اللہ تھے۔(ترمذی‘ کتاب الجہاد۔ بخاری)
  • حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب تمھارے حکمران تم میں سے بہتر لوگ ہوں اور تمھارے دولت مند لوگ سخی ہوں اور تمھارے معاملات باہمی مشورے سے طے کیے جاتے ہوں تو زمین کی پیٹھ تمھارے لیے اس کے پیٹ سے بہتر ہے‘‘۔(ترمذی‘ ج۲‘ ص ۳۳۰)
  • حضرت عائشہؓ بھی فرماتی ہیں کہ میں نے لوگوں سے رائے لینے اور مشورہ کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں دیکھا۔
  • حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرتؐ نے مشورے کی اہمیت بیان کی اور فرمایا: اگر میں شوریٰ کے بغیر کسی کو خلیفہ بناتا تو اُم عبد کے بیٹے(عبداللہ بن مسعودؓ) کو بناتا۔ (مستدرک حاکم‘ ج ۳‘ص ۳۱۸۔ ترمذی‘ ج ۲‘ص ۴۴)

معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص موقع پر یہ حضوؐر کی ذاتی رائے تھی مگر آپؐ نے اس پرعمل نہیں کیا۔ آپؐ خود نامزد فرما سکتے تھے مگر آپؐ نے شوریٰ کے حق کو باقی رکھا۔

  • جنگِ بدر کے موقع پر اجتماعی مشورے کے بعد جنگ کے لیے میدان میں نکلے۔ (مسلم‘ باب غزوئہ بدر)
  • جنگِ احزاب میں حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے خندقیں کھدوائی گئیں۔(ابن سعد‘ ص ۶۶‘ ج ۲)
  • حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اِفک و بہتان کے سلسلے میں بھی آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ لیا‘ حالانکہ یہ آپؐ کا ذاتی اور گھریلو معاملہ تھا۔ آنحضوؐر نے اپنی عائلی زندگی کے اس مخصوص معاملے میں بھی حضرت علیؓ اور حضرت اسامہؓ اور عام مسلمانوں سے بھی انفرادی طور پر مشورہ کیا اور ثابت فرمایا کہ زندگی کے ہر معاملے میں مشورہ مفید ہوتا ہے۔آپؐ ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے مشورے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ چنانچہ‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اگر ابوبکرؓ اور عمرؓ شوریٰ میں ایک رائے پر جمع ہوجائیں تو میں اس کے خلاف نہیں کروں گا۔ (مظھری‘ ج ۲‘ ص ۱۶۱)

خلفاے راشدین کا طرز عمل

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے حکمران‘ ان لوگوں سے مشورہ لیا کرتے تھے جو اپنی دیانت اور امانت کے اعتبار سے قابلِ اعتماد ہوتے اور جو دین کا علم رکھتے تھے۔ (بخاری‘ ج ۲‘ ص ۱۰۹۰)

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا طرز عمل یہ تھا کہ جب آپ کو کسی فیصلہ طلب معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ملتی تو معاشرے کے سرکردہ افراد سے مشورہ لیتے تھے۔ جب کسی بات پر اتفاق رائے ہوجاتا تو اسی کے مطابق فیصلہ فرما دیتے۔ حضرت عمرؓ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (الدارمی‘ ج ۱‘ص ۵۸)

حضرت عمرؓ کی مجلسِ شوریٰ کے ارکان علومِ قرآنیہ کے ماہرین ہوا کرتے تھے۔

حضرت عثمانؓ نے منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ    کتاب و سنت کے بعد‘ میں اس فیصلے کا پابند ہوں گا جس پر تمھارا اتفاق رائے ہوچکا ہو۔ (تاریخ طبرانی‘ ج ۲‘ ص ۱۵۹)

حضرت علیؓ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر ہم کوئی چیز قرآن وسنت میں نہ پائیں تو کیا کریں؟۔ حضورؐ نے فرمایا: قانون جاننے والے عبادت گزار مسلمانوں سے مشورہ کرو۔ مزید فرمایا: ایسے موقع پر کسی کی انفرادی رائے جاری نہ کرو۔ (اعلام الموقعین‘ج ۱‘ ص ۵۴)

مشورے کی مختلف صورتیں

معاملات دو طرح کے ہوتے ہیں: ۱- انفرادی معاملات ۲- اجتماعی معاملات۔

  • انفرادی معاملات: انفرادی معاملات میں مشورہ شخصی ہوتا ہے کہ جس میں آدمی اپنے ذاتی معاملے میں کسی سے مشورہ کرتا ہے۔ جس کو انفرادی مشورہ کہتے ہیں۔
  • اجتماعی معاملات: اجتماعی معاملات سے مراد وہ معاملات ہیں جن میں دو یا دو سے زائد افراد کے مفادات وابستہ ہوں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی معاملات میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلقہ اشخاص کو نظرانداز کر دینا درست نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں سب کی رائے لی جائے۔

اس میں سب سے اہم اور نازک حیثیت شوریٰ اہلِ حل و عقد کی ہے‘ یعنی حکومتی سطح کے فیصلے‘ جن میں وزرا اور مشیران اور عوامی نمایندے ریاست کو چلانے کے لیے سربراہِ حکومت کو مشورے اور رائے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی اجتماعی فیصلہ ہوتا ہے۔ جیسے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا گورنر بناتے وقت شوریٰ بلائی گئی تھی۔ ارکان شوریٰ نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور کافی غوروخوض کے بعد معاذؓ بن جبل کو (گورنر بناکر) یمن بھیجا گیا۔ (مجمع الزوائد‘ ص ۴۶‘ ج ۹ بحوالہ اسلامی سیاست)

آخر الذکر صورت دراصل اسلامی نظامِ حکومت کی بنیاد ہے جس پر اہلِ قلم نے سیاست کے عنوان سے قلم اٹھایا ہے۔ دراصل اسلامی حکومت شورائی حکومت ہے اور صاحبِ اقتدار اُس کا رہنما ہے۔ امام‘ شوریٰ کے اختیارات کا نمایندہ ہے اور حکمت عملی کے دائرے میں مجلسِ شوریٰ کے فیصلوں کا ترجمان ہے۔ اس حیثیت سے اسلامی حکومت کا راہنما عام انسانوں میں سے ایک انسان ہے۔ شوریٰ کا فیصلہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی شخص صدارت کے منصبِ عظمیٰ پر فائز ہوتا ہے اور اُمت کی راے عامہ ہی سربراہِ حکومت کو اس کے عہدے سے معزول کرسکتی ہے۔ شوریٰ وہ اصول ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نظام میں پارلیمنٹ کا فیصلہ صدر کے فیصلے پر قانونی فوقیت رکھتا ہے۔ سربراہِ حکومت کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی طاقت شوریٰ کی طاقت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اس سے بے نیاز ہوکر کام کرنا اس کے دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔

علامہ ابن عطیہؒ نے اس معاملے میں واضح لکھا ہے کہ اگر سربراہِ حکومت ماہرین علم و فن اور اُمت کے دین دار افراد کی شوریٰ طلب کیے بغیر اپنی رائے سے کام کرتاہے تو اس کو عہدے سے معزول کر دینا چاہیے۔ اس پر تمام علماے قانون متفق ہیں۔ (فتح القدیرشوکانی‘ ص ۳۶۰)

حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر جماعت کا کوئی فرد اپنے کسی بھائی سے مشورہ طلب کرے‘ تو مشورہ دینا اس کے لیے لازمی ہو جاتا ہے۔(ابن ماجہ)

صلح حدیبیہ کے موقع پر معاہدے سے فارغ ہو کر حضوؐر نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اب اسی حدیبیہ کے مقام پر قربانی کر کے سر منڈوائو اور احرام کھول دو۔ یہ بات تین مرتبہ فرمائی مگر کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا‘ کیونکہ صحابہؓ پر اس وقت رنج و غم کا شدید غلبہ تھا۔ حضوؐر کے دورِ رسالت میں اس ایک موقعے کے سوا کبھی ایسی صورت حال پیش نہیں آئی تھی کہ آپؐ صحابہؓ کو حکم دیں اور وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ نہ پڑیں۔ حضوؐر کو اس موقعے پر سخت صدمہ ہوا۔ اس کٹھن مرحلے میں آپؐ نے اُم المومنین حضرت سلمہؓ سے مشورہ کیا اور اپنی کبیدہ خاطری کا اظہار فرمایا اور اُم المومنینؓ کے مشورے پر خود قربانی کی اور سر منڈایا اور پھر آپؐ کو دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی قربانیاں کرلیں اور احرام کھول دیے۔

یہ ہیں وہ روایات جن سے مشورے کی اہمیت و ضرورت پر روشنی پڑتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ ایک قانون بھی ہے اور حکمت عملی بھی ہے۔

مشورے کا دائرہ کار

قرآن مجید میں مشورے کا جو حکم دیا گیا ہے یہ حکم ان امور کے بارے میں ہے جو قرآن کے قانونِ اساسی میں طے شدہ نہیں ہیں اور مشورے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ دنیاوی امور کودین کے ماتحت چلایا جائے۔ (اسلام کا نظامِ حکومت بحوالہ شوکانی‘ ج ۱‘ ص ۳۶۰)

اس قاعدے کلیے کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کرسکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کس طریقے سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کرسکتے کہ جس معاملے کافیصلہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۵۱۰)

اسی طرح معصیت اور نافرمانی کے کسی معاملے میں مشورہ لینا یا دینا بھی معصیت ہے اور مومن کی شان کے خلاف ہے۔

مشورے کی حقیقت

امام راغب اصفہانیؒ نے تصریح کی ہے کہ مشورے کا مفہوم آرا کا حاصل کرنا ہے اور اس کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف رائے لینے والے ہوتے ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف رائے دینے والے ہوتے ہیں۔ ایک سمت کے اصحاب دوسری سمت کے لوگوں سے رائے طلب کرتے ہیں اور کامیابی کے لیے ایک فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں بس اسی کا نام مشورہ ہے۔ (مفردات القرآن‘ ج ۲‘ ص ۳۴۵)

اس لحاظ سے مشاورت کے پانچ اہم پہلو سامنے آتے ہیں:

۱- مشاورت کے عمل میں شریک دونوں حضرات کے مابین خوش گوار تعلقات۔ ۲- دونوں افراد کے مابین مطلوبہ مسئلے پر کھل کر گفتگو۔ ۳- مشیر میں اہلیت‘ تجربے اور خوداعتمادی اور قوتِ فیصلہ۔ ۴- مشاورت کے عمل میں مشیر کا مطلوبہ مسئلے کو آہستہ آہستہ آگے بڑھانا۔ ۵- مشاورت سے قبل مکمل تیاری کرنا۔

مشاورت کے طریقے

مشاورت کے بہت سارے طریقے ہیں ان میں ذیل کے طریقے قابلِ ذکر ہیں:

۱- یک جھتی پیدا کرنا: اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد کو اُس کے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔

۲- ماحول کی تبدیلی: فرد کے ماحول کو تبدیل کر دیا جاتا ہے کیونکہ ایک بدلے ہوئے ماحول میں انسان اپنے لیے آسانی محسوس کرتا ہے۔

۳- مناسب مھارتوں کا حصول: مشورہ لینے والے کی کمزوریوں کی نشان دہی کرکے انھیں دُور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

۴- رویے میں تبدیلی: مشورہ طلب کرنے والے فرد کے رویے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور پھر اسے اپنے رویے میں مناسب تبدیلی لانے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔

۵- انٹرویو: یہ مشورے کی ایک اہم تکنیک ہے۔ اس کی بدولت فرد سے روبرو گفتگو کی جاتی ہے اور ایسا اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اندرونی کیفیت کا خود بخود اظہار کرتا چلا جائے۔ انٹرویو کے دوران دوستانہ فضا قائم ہو اور ہر قسم کی معلومات کو محفوظ رکھا جائے اور آخر میں نتیجہ اخذ کرکے درپیش معاملے کا حل تجویز کیا جاتا ہے۔

مشورے کی حکمت

                ___        مشورہ کرنے سے من جانب اللہ حق اور صحیح بات کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔

                ___        مشورے سے معاملے میں خیر و برکت ہوتی ہے اور وزن اور قوت آتی ہے۔

                ___        اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی پیروی ہوتی ہے۔

                ___        کسی معاملے میں مشورہ کرنے اور اس پر کھل کر گفتگو کرنے سے اس کے مثبت و منفی پہلو سامنے آتے ہیں جس سے مثبت پہلو کو اپنا کر اس کے منفی پہلو سے بچ جانے سے نقصان کا اندیشہ نہیں رہتا۔

                ___        مشورے سے کام کی نئی نئی راہیں نکلتی ہیںاور کام میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔

                ___        اجتماعی معاملات میں مشورہ کرنے سے راے عامہ کا اعتماد اور تعاون حاصل ہوتا ہے۔

                ___        مشورہ کرنے سے اعلیٰ رہنمائی اور رشد و ہدایت حاصل ہوتی ہے۔

                ___        مشورہ کرنے سے صحیح غورورفکر اور درست نتائج تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔

                ___        مشورے سے یکسوئی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور صبروتحمل کی صفت پیدا ہوتی ہے۔

                ___        مشورے کے بعد کام میں اگر کوئی کمی رہ جائے تو بھی انسان نفس اور لوگوں کی ملامت سے بچ جاتا ہے۔

                ___        مشورہ کرنے سے لوگوں میں خوش گوار برادرانہ تعلق مستحکم ہوتا ہے۔

                ___        مشورے سے رویوں کا جائزہ لے کر انسان کو مناسب تبدیلی پر آمادہ کیا جاتا ہے۔

                ___        مشورے سے خوداعتمادی اور مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت پیداہوتی ہے۔

مشیر کی صفات

مشیر کا کردار ایک کنجی کی مانند ہے جس سے وہ صندوق کا تالا کھول کر حقیقت کا اندازہ کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ معتمد ہوتا ہے‘‘ (ابوداؤد‘ ج ۵‘ ص ۳۴۵)۔ گویا مشیر وہ ہونا چاہیے جس کی امانت و دیانت پر بھروسا کیا جا سکتا ہو۔

مشیر کی صفات دو طرح کی ہوتی ہیں: ایک مثبت‘ یعنی وہ صفات جن کا پایا جانا بہتر اور ضروری ہے۔ دوسری منفی صفات جن کا نہ ہونا بہتر اور ضروری ہے۔

  • مثبت صفات: ۱- مسلمان ہو ۲- عاقل‘ بالغ ہو ۳- معتمد علیہ ہو‘۴-عادل اور دیانت دار ہو‘ ۵-امین (امانت دار) ہو ‘۶- حسنِ ظن رکھتا ہو‘ ۷- علم و ذہانت سے آراستہ ہو (کم از کم جس مسئلے میں مشورہ لیا جا رہا ہو اس میں گہری بصیرت رکھتا ہو)‘ ۸- معاملہ فہم اور صاحب الرائے ہو‘ ۹-حالات سے باخبر ہو‘ ۱۰- تدابیر کے اعتبار سے پختہ ہو‘ ۱۱- حلم و بردباری سے آراستہ ہو اور ۱۲-راست باز اور سچا ہو۔
  • منفی صفات: ۱- لالچی اور حریص نہ ہو ‘۲- خودغرض اور خودپسند نہ ہو‘ ۳- بخیل اور ڈرپوک نہ ہو‘ ۴- بدظن نہ ہو‘ ۵- مشورہ طلب کرنے والے کا دشمن نہ ہو‘ ۶- متکبر‘بے پروا اور لااُبالی نہ ہو۔

مشورہ اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اس تفصیلی جائزے سے یہ بات بخوبی اجاگر ہوجاتی ہے کہ اسلامی معاشرت میں اس کی مضبوط روایت رہی ہے۔ یہ مسلمانوں کی ایک اہم معاشرتی قدر ہے۔ ایک جمہوری معاشرے کی روح بھی مشاورت میں ہے نہ کہ آمریت۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مضبوط روایت اور قدر کو آگے بڑھایا جائے۔ مشورہ محض رسم بن کر نہ رہ جائے بلکہ ایک فرد کی ذاتی زندگی‘ خاندان‘ اداروں‘ تنظیموں اور جماعتوں سے لے کر‘ اقتداراعلیٰ تک تمام امور میں اس روایت اور قدر کو ملحوظ رکھا جائے تاکہ یہ ایک معاشرتی چلن بن جائے۔ آمریت کے بجاے مشاورت فروغ پائے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ بحیثیت مجموعی اگر مشورے کے ان مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھا جائے ‘تو بہت سی ذہنی الجھنوں سے نجات مل سکتی ہے اور زندگی آسان اور پُرمسرت ہوسکتی ہے۔

بچوں کی تربیت کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو عموماً والدین پر آکر ختم ہوجاتی ہے‘ جب کہ ان کی تربیت میں دوسرے رشتے داروں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ یہ حصہ یہ رشتہ دار غیرشعوری طور پر ادا کرتے ہیں۔ دادا دادی اور نانا نانی کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے۔ انھیں ہم   ’بزرگ والدین‘کہہ سکتے ہیں۔ یہ تربیت میں اپنے حالات کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ کردار ضرور    ادا کرتے ہیں‘ لیکن اس کی ضرورت ہے کہ یہ کردار شعوری طور پر ادا کیا جائے اور ’بزرگ والدین‘ اس باب میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں کہ اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کے بعد اب انھیں اپنے بچوں کے بچوں کی بھی تربیت میں حصہ لینا ہے۔

ان بنیادی رشتوں کا کیا کردار ہو؟موجودہ طرزِ معاشرت اور ترجیحات کی تبدیلی نے ان کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کمزور کر دیا ہے۔ ان رجحانات کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے ’بزرگ والدین‘ کا کردار متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اسلامی تہذیب میں یہ رشتے ’شجرسایہ دار‘ کی حیثیت سے مستحکم و مضبوط مقام رکھتے ہیں۔ اسی مقام کی پاس داری ہمارا مطمح نظر ہے۔ بچے جنت کے پھول‘ گھر کی رونق اور زندگی میں رعنائیوں کے پیام بر ہوتے ہیں۔ والدین کے لیے ان کے قہقہے‘ معصوم باتیں‘ سکون اور اطمینان کا باعث بنتے ہیں‘ جب کہ دادا دادی‘ نانا نانی کے لیے ان کا والہانہ تعلق ماضی کی حسین یادوں سے وابستہ رکھنے کا سبب بنتا ہے    ؎

اگر کوئی شعیب آئے میسر

شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

اس کے مصداق ’مستقبل کے والدین‘ کہلانے والے ان بچوں کو مناسب تربیت اور توجہ مل جائے تو تعمیرملت کا سامان کر کے نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہی بچے‘ خاندان اور ملک و ملت کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب فارغ اوقات میں اور بالخصوص شام کے سائے پھیلتے ہی بچے آج کی طرح ٹیلی ویژن‘ کیبل یا انٹرنیٹ سے دل بہلانے کے بجاے دادا دادی‘   نانا نانی کے پاس جمع ہو جاتے اور ان سے پرستان کی پریوں اور کوہ قاف کی حیرت انگیز شہزادیوں کے بارے میں کہانیاں سنا کرتے تھے جن کا اختتام ہمیشہ کسی اخلاقی قدر سے وابستہ ہوتا تھا۔   الف لیلیٰ‘ راجا رانی‘ ٹارزن‘ عمروعیار‘ حاتم طائی کی کہانیاں بچوں کو کچھ نہ کچھ سبق دے کر ہی ختم ہوتیں۔ اسی طرح تاریخِ اسلام کے سچے واقعات‘ صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم کی روشن مثالیں دے کر بچوں کو نیک اور صالح فطرت سے قریب تر رکھا جاتا۔ غرض‘ ہر گھر میں اپنی علمی استعداد کے مطابق اور ماحول کے پیش نظر بچوں سے ذہنی‘ قلبی اور جسمانی قرب و تعلق بزرگوں کے ساتھ قائم رہتا تھا۔ دین دار گھرانوں میں نماز‘ چھوٹی سورتیں‘ دعائیں یاد کروانا انھی ’بزرگ والدین‘ کا کام ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ سب کچھ ایک خواب بن چکا ہے۔ غربت‘ جہالت‘ بے شمار مصروفیات اور مشینی زندگی نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے حُسن کو گہنا دیا ہے۔ ’بزرگ والدین‘ کی حکیمانہ باتیں اور دادی‘نانی کی لوریاں پس پردہ چلی گئی ہیں۔ ٹی وی‘ انٹرنیٹ اور کیبل کی آمد نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔

’بزرگ والدین‘ تنہائی کا شکار ہیں۔ معمولاتِ زندگی سے عملی طور پر معطل ہوجانے کا احساس ان کو نفسیاتی و جسمانی عوارض میں مبتلا کر رہا ہے۔ بچوں کے والدین دن بھر گھر سے باہر رہنے کے بعد تھکے ہارے گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ بھی انٹرنیٹ اور کیبل میں راحت کا سامان تلاش کرتے ہیں‘ یا پھر دیگر سرگرمیاں یا ذمہ داریاں ان کو گھریلو ماحول سے دُور رکھتی ہیں۔ بچوں پہ   ہوم ورک‘ ٹیوشن‘ نصابی کتب کا بوجھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ گھر کے افراد میں مل جل کر بیٹھنے اور کچھ کہنے سننے کی حسرت دل میں لیے سو جاتے ہیں اور موجودہ دور کا المیہ ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے کہ والدین اور اولاد میں خلیج تیزی سے وسیع ہوتی جارہی ہے۔ (اس میں والدین کا ’بزرگ والدین‘ کے ساتھ اور بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ) ترجیحات کے تعین‘ حالات و ماحول اور ذمہ داریوں کے بوجھ کو دیکھا جائے تو والدین کی حالت قابلِ رحم نظر آنے لگتی ہے (قطع نظر اس کے کہ یہ سب کچھ ان کا خودساختہ ہے یا یہ حقیقت میں ذمہ داریوں کا بوجھ ہے)۔ بہرحال ان حالات میں اپنی معاشرتی اور سماجی زندگی کے رکھ رکھائو اور اخلاقی اقدار کی عمارت کو قائم رکھنا ہی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

’بزرگ والدین‘ (دادا دادی‘ نانا نانی) بننے سے پہلے ایک اہم مرحلہ اور بنیادی رشتہ ’قانونی والدین‘ (ساس‘ سسر) کا ہے۔ قانون ایسی پابندی ہے جسے انسان سزا یا نقصان کے خوف سے نبھاتا ہے یا پھر محبت سے (محبت سے اُسی صورت میں‘ جب کہ انسان کو ہر پہلو سے اُس میں مفاد اور خیرنظرآتا ہو)۔ قانونی رشتے بھی اسی اصول کے تحت جڑے رہتے ہیں ورنہ وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ قانونی (in-law) رشتے کا مغربی تصور انسانوں کو دلی محبت‘ لگائو‘ سمجھوتہ اور ایثار کرنے میں مانع ہے۔ بہت سے الفاظ‘ بہت سے معاملات‘ رشتوں کی چاشنی کا حقیقی حسن غارت کر دیتے ہیں۔ اُردو زبان ان معاملات میں بہت خوب صورت پہلو رکھتی ہے۔ جہاں Grand ‘Uncle ‘ Ant جیسے نامکمل اور بے اثر رشتوں کے بجاے ہر رشتے کی مکمل شخصیت کا ادراک‘ فہم اور قدرومنزلت کا بھرپور اظہار موجود ہے: دادا‘ دادی‘ نانا نانی‘ تایا‘ چچا‘ پھوپھی‘ خالہ‘ ماموں۔ پھر اُس کے ساتھ منجھلے‘ چھوٹے‘ بڑے کا سابقہ لاحقہ رشتے کو مزید پُرتاثیر بنا دیتا ہے۔ اسی طرح سسرالی رشتوں کا تشخص دو خاندانوں کے باہم تعلقات کو نکھار دیتا ہے۔

وَھُوَالَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہ‘ نَسَبًا وَّصِہْرًاط(الفرقان ۲۵:۵۴)

اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا‘ پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔

معاشرے میں سسرال (ساس‘ سسر) کے درجے کو پہنچ جانا‘ خصوصاً کسی لڑکی کا ساس بننا ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ یہ ایک ایسے دور کا آغاز ہے جہاں نفسیات بدل جاتی ہیں‘ توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاںانسانوں کے اصل روپ‘ اس کی انصاف پسندی‘ باطنی رویے اور اعلیٰ ظرفی کی پہچان ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کے سسرال خصوصاً ساس نندوں کا کردار ہی یہ حقیقت متعین کرتا ہے کہ وہ بہو یا بھابی کے ساتھ کس قسم کا سلوک و رویہ رکھ کر اور اُسے کون سا مقام دے کر اپنی آیندہ نسل سے کس قسم کے تعلق کو پروان چڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کھیتی جہاں سے اپنی فصل حاصل کرنا ہے اس کے ساتھ جذباتی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ معاشی روابط کیسے ہیں؟ کیا کچھ لینے کی توقعات وابستہ ہیں اور دینے کے لیے بھی کچھ اخلاقی اقدار مدنظر ہیں یا نہیں؟ گھر کی بہو کو جو ماحول میسر ہے جن خوش گوار یا تلخ حالات کا وہ سامنا کرتی ہے اور جن مختلف طبیعتوں سے اُسے نباہ کرنا پڑتا ہے اور جتنی عزتِ نفس کے ساتھ وہ اپنے بچے کی آبیاری کرتی ہے‘ بچہ ان سب اثرات کو لے کر دنیا میں آتا ہے۔ غرض بہو کو جو عزت‘ محبت‘ شفقت ملنی چاہیے وہ نہ دی جائے تو یہ رویہ اپنی آیندہ نسل پہ سراسر ظلم کرنا ہے۔ یہی وہ شجر ہے جس کی کوکھ سے نام و نسب وابستہ ہے۔ لڑکی کے والدین اور اس کے رشتہ داروں کی ہتک‘ تحقیر اورانھیں کم تر جاننے کا ہندوانہ احساس قابلِ گرفت ہے۔

اسی طرح ہمارے معاشرے میں ’داماد‘ تکبر‘ نخوت‘ نازبرداریاں اٹھوانے والا‘ بیوی کے پیارے رشتوں کو پامال کرنے (الا ماشا اللہ) والی عجیب و غریب شخصیت ہوتی ہے۔ داماد کی حددرجہ اہمیت اور بہو کے بنیادی حقوق کی پامالی‘ یہ افراط و تفریط ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل کی جڑ ہے جس نے بے شمار گھرانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

مشترک خاندانی نظام ہو تو بیٹوں کی اولاد کے ساتھ روابط کا سلسلہ پہلے روز سے ہی    براہِ راست شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شہر میں مگر علیحدہ گھر میں رہنے والی اولاد ___ دوسرے شہر میں مکین یا پھر بیرون ملک مقیم اولاد کے ساتھ ’بزرگ والدین‘ اپنا تعلق اور ذمہ داریاں کیسے نبھائیں‘ یہ ہمارا اصل موضوع ہے۔

اولاد کہیں بھی مقیم ہو‘ دُور‘ بہت دُور یا نزدیک بہرحال دل کے پاس ہمیشہ رہتی ہے اور رہنی بھی چاہیے۔ مگر محبت کا جب تک اظہار نہ ہو وہ ایک ایسی شے ہے جو ملفوف ہو۔ حجم اور قیمت میں کتنی ہی زیادہ ہو جب تک ظاہر نہ ہو‘ کسی کام کی نہیں۔ محبت کو چھپائے رکھنا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ظلم ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اظہار محبت کی تلقین کی ہے۔ لیکن آج کے مشینی دور میں‘ والدین اپنے بچوں کو بھرپور شفقت و محبت نہیں دے پاتے۔ دادا دادی اور نانا نانی کے پاس یہ فرصت کتنی مفید ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جس انداز سے محبت نہ دے سکے اب وہ اس کمی کو اپنے بچوں کی اولاد کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔

تربیت کے مختلف اسلوب

محبت کے اظہار کے لیے آپ اپنی صوابدید (حالات‘ صحت‘ ماحول‘ فاصلے) کے مطابق تدابیر متعین کرسکتے ہیں اور تعلق بڑھا سکتے ہیں۔

  • براہِ راست تعلق: اظہارِ محبت اور شفقت کے لیے براہ راست تعلق کی حسبِ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں: اسکول لانا اور لے جانا‘ ہوم ورک میں تھوڑی بہت مدد‘ بچوں کے دوستوں سے دل چسپی‘ اسکول کے معمولات پہ خوش دلی سے بات چیت‘ شام کو ہلکی پھلکی تفریح‘ ہفتہ وار مجلس‘ کارکردگی پہ انعام (چاہے معمولی ہی ہو)‘ بچوں کی باتوں کو توجہ سے سننا‘ حوصلہ افزائی‘ شاباشی دینا___ محبت و شفقت کی بنیاد ہیں۔

دوسرے شہر میں رہنے والے بچوں کے ساتھ فون کے ذریعے بات کرنا‘ کوئی دلچسپ بات جو بچے کو یاد رہے‘ گاہے بگاہے ان کو خطوط‘ ای میل‘ تصاویر بھیجنا‘ اور اُن سے خصوصی طور پر خط اپنے ہاتھ کی ڈرائنگ‘ تصویر کا تقاضا کرنا‘ باہم دلوں کو قریب رکھنے کا باعث بنے گا۔ بچوں کے ارسال کردہ خطوط اور اشیا کو امانت سمجھ کر محفوظ رکھیں گے تو بڑے ہونے پر یہی چیزیں لازوال اور سچی خوشی کا باعث بنیں گی۔

  • تحفے تحائف دینا : یہ ایک عظیم الشان عمل ہے جس سے محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر بچے کو لازمی ضرورت کی چیز خرید کر تحفہ میں دی جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے‘ خصوصاً وہ چیز جو بچے کے والدین خرید کر دینے کی استعداد نہ رکھتے ہوں۔ بچوں کے ہاتھ میں رقم دینے کے بجاے اسکول / کالج کی لازمی ضرورت کی چیزخرید کر دینا ان کے اور ان کے والدین کے دلوں میں قدرو منزلت بڑھا دے گی۔
  • مشاغل میں دل چسپی: بچوں کے ساتھ مل کر کچھ تخلیقات عمل میں لائی جائیں۔ اگر آپ ترنم کے ساتھ گاسکتے ہوں‘ دستکاری‘ سلائی یا لکڑی کا کوئی ہنر جانتے ہوں تو اپنے ان پیارے بچوں کو ایسے مشاغل سے روشناس کرایئے۔ اس طرح کے مشاغل میں بچوں کو شریک کرنے سے ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر میں آپ کا یہ ہنر یادگار حیثیت اختیار کرجائے گا۔ قریب رہنے والے‘ بیرون شہر یا بیرونِ ملک رہنے والے بچوں سے جب بھی رابطہ ہو‘ ان کے ساتھ ہر ملاقات کو یادگار بنانے کا خصوصی پلان ہونا چاہیے۔ ہفتہ وار‘ ماہانہ‘ ششماہی یا سالانہ‘ جب بھی ملاقات ہو‘ بزرگ والدین کا نقش بچے اپنی عمر کے ساتھ ساتھ مضبوط تر اور حسین تر اور یادگار بناتے جائیں۔
  • ذوق مطالعہ کی حوصلہ افزائی:بچوں کو پڑھ کر سنانا ایک انتہائی دل چسپ عمل ہے۔ اپنے بچپن کی کتابیں ان کو پڑھنے کے لیے دی جائیں یا ان کے والدین کے بچپن میںزیراستعمال رہنے والی کتابوں کو مل کر پڑھنے پڑھانے میں خاص مزہ ہے۔ بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ اس سے تلفظ‘ روانی عبارت‘ لہجہ اور تقریر کی مشق ہوگی۔
  • ماضی کی یادیں اور تجربات:بچوں کو اپنے ماضی کی دل چسپ کہانیاں اور واقعات سنائیں‘ اپنے محلے اور شہر کے خاص کرداروں کا اور ماحول کا تذکرہ کریں۔ دور رہنے والے بچوں کو اپنی آواز میں کہانی‘ نظم‘ باہم بچوں کی مجلس‘ بات چیت کو ریکارڈ کر کے بھیجا جائے یا ویڈیو فلم بنا لی جائے۔ اپنے بچپن اور جوانی کے تجربات کی روشنی میں بچوں کی عمر کے مطابق گفت و شنید کی جائے۔ اپنی ناکامیوں اور نقصانات کو واضح کریں کہ ان کی کیا وجوہات تھیں۔ بچوں سے سوال کیا جائے کہ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کیا کرتے؟ بچوں کی ذہنی استعداد جاننے کا یہ بہترین ذریعہ ہے اور ان کی رہنمائی کرنے کا بھی۔
  • شخصیت کی تعمیر: جب بھی موقع ملے بچوں کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ان کے ساتھ کھیلا جائے۔ ان کے بنائے ہوئے گھروں میں مہمان بن کر جایا جائے۔ فٹ بال‘ لوڈو‘ کیرم اور اندرون خانہ کھیلوں میں شریک ہوا جائے۔ بچوں میں ہار جیت کا صحیح تصور پیدا کیا جائے اور اعلیٰ ظرفی اور دوسروں کی کامیابی پہ خوش ہونے کی تربیت کی جائے۔

بچے ننھے ہوں یا نوجوان‘ ان کو بولنے اور اپنا ما فی الضمیربیان کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ انہماک اور توجہ سے بات سننا‘ بچے کی شخصیت پہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں میں یہ ظرف اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ جب ایک بچہ بات سنا رہا ہو تو دوسرا بچہ اس میں مخل نہ ہو۔

ہر عمر کے بچوں کے ذاتی رجحانات آپ کے علم میں ہونے چاہییں۔ ہر بچہ آپ کو اپنا رازداں ساتھی سمجھے۔ یقین کیجیے اگر آپ اپنے ان معصوم بچوں کے رازداں ساتھی بن گئے‘ ان کے ننھے منے دکھ اور سکھ آپ کے دل میں ارتعاش اور ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ پھول مرجھانے سے بچ جائیں گے۔

اپنے بیٹے اور بیٹی کے بچوں سے دلی محبت پیدا کرنے کا ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ ان کے والدین کو اچھے الفاظ سے یاد کریں۔ یہ نہ ہو کہ بچے کوا پنے دکھوں کی داستان (اپنی اولاد کی نافرمانیوں کے قصے) سنانے لگیں۔ ننھے بچوں کے دل میں ان کے والدین کی عزت و توقیر بڑھانا آپ کے لیے ہی نافع ہے۔ خصوصاً بہو اور داماد کے بارے میں۔

بچوں کو ترجیحات کے تعین کا احساس دلانا ایک اہم فریضہ ہے‘ یعنی کس وقت کون سا کام اہم ہے‘ کون سا بچہ کس عمر میں ہے‘ اُس کے لیے کیا اہم ہے۔ اس ضمن میں نماز‘ قرآن‘ اسلامی لٹریچر کی طرف توجہ دلانا‘ ان کی نگرانی کرنا‘ بچوں میں باہم مسابقت کرانا اور انعام دینا جیسے امور اہم ہیں۔ پیارومحبت سے تعلیمی مدارج اور کارکردگی کے بارے میں پوچھنا‘ مشکل میں آسانی تلاش کرکے دینا‘ بچوں کے تعلیمی رجحانات کا اور دیگر مشاغل کا بنظر غائر جائزہ لینا اور ان کے والدین کے ساتھ گفت و شنید کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا‘ ترجیحات کے تعین میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

  • گہریلو امور میں دل چسپی لینا: اگر والدین اور بچوں میںکوئی تنازعہ ہوجائے‘ (تعلیم‘ روزگار یا شادی کے معاملے میں) تو غیر جانب داری سے حالات کا جائزہ لینا اور بچے کے مؤقف کو ٹھنڈے دل سے سننا اور والدین اور بچوں کے درمیان مفاہمت کی راہ تلاش کر کے دینا ’بزرگ والدین‘ کا فرض ہے۔
  • بچیوں سے خصوصی لگاؤ: لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو شایستگی اور رکھ رکھائو سکھانا خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ بچیوں کے رجحانات کا ان کی عمر کے مطابق خیال رکھا جانا چاہیے۔ بچیوں کی جذباتی عمر ایک مضبوط‘ بااعتماد شخصیت کا سہارا چاہتی ہے۔ لڑکیاں قاہرانہ نظر سے زیادہ محبت و شفقت اور رحمت کی نظر کی طلب گار ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا دستِ شفقت ان کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔

چند احتیاطیں

کچھ معاملات اور باتیں ایسی بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے۔

  • کہلانے پلانے میں بے اعتدالی: ’بزرگ والدین‘ کو اپنے بچوں کی نسبت ان کے بچوں کو کھلانے پلانے‘ ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے میں لطف آتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ معاملہ خرابی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کو ان کی عادتیں خراب کرنے میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ قریب رہنے والے بچے اور دُور رہنے والے بچوں میں یہ فرق بھی ہوتا ہے کہ قریب رہنے والے بچوں کی عادات‘ مزاج‘ گھریلو ماحول اور روز مرہ کے اُتار چڑھائو سے آپ واقف ہوتے ہیں۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بچوں کے والدین خصوصاً والدہ نے ان کے کھانے پینے کا جو معمول بنایا ہے اس میں خلل واقع نہ ہو۔ ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ بچے کو کس وقت‘ کتنا اور کیا کھانے کو دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ جو چیزیں آپ اپنے بچپن میں کھاتے تھے یا اپنے بچوں کو بے دریغ کھلاتے تھے‘ ان کے لیے بھی مناسب ہوں۔
  • والدین کو بے وقعت کرنا:بچوں کے قلب و نظر میں ان کے والدین کو بے وقعت کرنا ایک اخلاقی گراوٹ ہے۔ خصوصوصاً بہو یا داماد کے بارے میں منفی طرزعمل اختیار کرنا‘ ان کی گستاخیوں یا نافرمانیوں کو بچوں کے سامنے زیربحث لانا‘ یا بچوں کے ذریعے اپنی کسی حق تلفی یا رنجش کا انتقام لینا‘ اپنے پائوں پہ کلہاڑی مارنا ہے۔ بچے ایسے لوگوں کی ہرگز قدر نہیں کرتے جو ان کے والدین کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہوں۔ بہواور داماد کا آپ سے ’صہر‘ کا رشتہ ہے مگر ان کے حوالے سے بچوں کے ساتھ آپ کا ’نسب‘ کا رشتہ ہے۔ اپنے نسب کے بارے میں حددرجہ حساس اور محتاط رویہ اسی صورت ممکن ہے جب آپ ان کے والدین کو عزت و توقیر سے نوازیں گے۔
  • رویے میں فرق: گھروں میں جہاں ایک سے زیادہ بیٹے بیٹیاں موجود ہوتے ہیں‘ ان کے بچوں کے ساتھ بڑوں کا رویہ بھی قابلِ غور ہے۔ جس بیٹے سے ماں باپ خوش ہیں‘ اس کی بیوی بھی پیاری لگتی ہے‘ اور اسی لحاظ سے اُس کے بچے بھی دادا دادی کے دُلارے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی بہوئوں میں سے کسی سے کسی خاص رشتہ داری یا نسبت یا کوئی اور وجہ بہوئوں کے درمیان تفریق کا باعث بنتی ہے‘ اور پھر بچے بھی خواہ مخواہ خاندانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ رویہ بھی غیرمناسب ہے۔ ساس سسر (خصوصاً ساس کو) گھریلو معاملات میں عقل و دانش کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسی طرح دامادوں کے ساتھ یا نواسے نواسیوں کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ لگائو اور محبت اپنی جگہ‘ مگر معاملات مبنی برعدل اور یکساں ہونے چاہییں۔
  • بے جا طرف داری: ایک اہم معاملہ جو عموماً گھروں میں بے چینی کا باعث بنتا ہے‘ بیٹی کی اولاد کے سامنے بیٹوں کی اولاد یا اس کے مخالف معاملے میں ترجیح اور افراط و تفریط ہے۔ ماموں‘ پھوپھی یا چچا‘ تایا کے بچوں میں دُوری‘ منافرت‘ بلاوجہ مسابقت، ’شریکے‘ کا احساس پیدا کرنا‘ بزرگوں کے طرزعمل کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔ کسی ایک داماد یا بہو کی بے جا حمایت‘ طرف داری بچوں پر بھی برے اثرات ڈالتی ہے۔
  • توھین آمیز رویہ :عموماً دادی کی طرف سے اس طرح کے جملے ’میرا بیٹا تو بہت اچھا تھا‘ جب سے تمھاری ماں آئی ہے…‘ سن کر بچے ہرگز اپنی دادی سے الفت محسوس نہیں کرسکتے۔ ان سے لازماً اجتناب کیا جائے۔
  • اپنی رائے پر اصرار اور ضد:اگر بچوں کی تربیت کے معاملے میں ’بزرگ والدین‘ کی رائے بچوں کے والدین سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو بزرگوں کو زیادہ اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اختلاف کی صورت میں والدین کی خواہشات کے پیش نظر اپنی رائے سے دست بردار ہوجانا چاہیے‘ تاہم اولاد کو بھی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواہ مخواہ اور بے جا ضد نہ کرنی چاہیے اور درست بات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بعض اوقات بچے کا نام رکھنے سے لے کر جو مخالفت شروع ہوتی ہے تو بچوں کے رشتے کرنے تک برقرار رہتی ہے۔ بچوں کے معاملات میں فیصلہ اور حتمی رائے بہرحال اُن کے والدین کا حق ہے۔

بعض ’بزرگ والدین‘ رشتوں ناطوں کے معاملے میں ایسا رویہ بنا لیتے ہیں جس سے اپنی اولاد اور بچوں کو باغی تو بنایا جا سکتا ہے‘ اپنا حامی نہیں۔ یہ طرزعمل سخت نقصان دہ غیر شرعی اور قابلِ گرفت ہے۔ رشتے ناطے کرنے کی ذمہ داری بہرحال اپنے والدین کی ہی ہوتی ہے۔ اپنی رائے دینا‘اپنے تجربات اور دلائل کی بنا پر کچھ اصرار کرنا آپ کا حق ہے مگر جبر کرنا‘ ضد سے اپنی اہمیت کو کیش کرانا‘ بچوں کی شادیوں میں رخنے ڈالنا‘ خوشی سے شریک نہ ہونا‘ دل میں رنجش رکھنا‘ قطع تعلق کرلینا یا دھمکی دینا سخت معیوب ہے اور ’بزرگ والدین‘ کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔

  • منفی طرزِعمل : اگر آپ نے بچوں کے دلوں میں اپنی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے کوئی ایسا قدم اٹھایا کہ جس کام سے بچے کے والدین منع کرتے ہوں اور آپ نے چوری چھپے اُس کو موقع دیا‘ مدد کی‘ پھر چھپانے کے طریقے بتائے تو آپ نے اپنی نظروں میں بھی اور بچوں کی نظروں میں بھی خود کو گرا لیا۔ یہ طرزعمل جتنا بچوں کے لیے نقصان دہ ہے اُس سے کہیں زیادہ آپ کی شخصیت کے لیے باعث وبال ہے۔ ہاں‘ یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اُس کام میں مدد دیں‘ تعاون کریں جس کو بچے کے والدین مشکل سمجھ کر اُن کو کرنے نہیں دیتے اور آپ اُس کو اپنے تجربے سے کروا لیتے ہیں۔ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے آپ کیا کیا چھوٹے بڑے کام کرسکتے ہیں‘ اس پہ غور کیا کیجیے۔
  • بچوں کو مشتعل کرنا:بچوں کو ہر وقت دوسروں کے سامنے نظمیں‘ تقریریں وغیرہ سنانے پہ مجبور نہ کریں۔ بچے کی ذہنی اور قلبی کیفیت ہر وقت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ ہر ملاقات پر ان کو کتابیں سنانے یا ان کو پڑھنے پر مجبور کرنا دل میں تنگی اور انقباض پیدا کرتا ہے۔ ہر وقت ہر کام‘ ہرکھیل‘ہر واقعہ‘ کہانی‘ لطیفہ یا ایک ہی جیسا طرزِعمل (ہر بچے کے ساتھ) مناسب نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو بچوں سے قلبی تعلق پیدا کرنا ہے تو جبر سے یہ کام نہیں ہوتا۔ یہ پورے صبروثبات کا متقاضی ہے۔ بچوں کو بلاوجہ قابو میں لانے کی کوشش کرنا ان کو مشتعل کرنا ہے۔
  • بچوں میں امتیاز برتنا :اپنے پوتے پوتیوں‘ نواسے نواسیوں میں کسی ایک سے کبھی ایسی بات نہ کیا کیجیے کہ ’یہ تو سب سے ہوشیار ہے‘ ذہین ہے‘ یہ میرا فرماں بردار ہے‘ یہ تو اپنے باپ کی طرح فرماں بردار ہے اور یہ اپنے باپ یا ماں کی طرح ہمیشہ سے ضدی اور گستاخ ہے‘۔ اپنے ان بچوں کی کامیابیوں پہ یکساں خوشی کا اظہار کیجیے۔ اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کی حد درجہ محبت میں آکر ان کے بچوں کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ رکھنا اور کسی دوسری اولاد کے بچوں کے ساتھ معاندانہ رویہ‘ ان کی کامیابیوں اور خوشیوں میں دل کے پورے افراح کے ساتھ شریک نہ ہونا سخت ناانصافی ہے۔ یقین کیجیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے اس رعیت کے بارے میں سوال کرنا ہے۔ جذبات‘ احساسات‘ خوشی‘ غمی اور مالی و اخلاقی طور پر سب کے ساتھ انصاف کرنا آپ کے اجر و ثواب کو قائم رکھے گا۔ کسی بچے کو خوب بڑھانا اور کسی کی اہمیت کو گھٹانا اپنے خاندان کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔ اپنے دل کے میلان یا دوسروں کی طرف سے اُکسانے پہ بچوں کی صلاحیتوں کو گھٹانا بڑھانا اپنی عزت و توقیر کم کرنے کے مترادف ہے۔ باہم بچوں میں رقیبانہ اور حاسدانہ جذبات پیدا کرنا ایک بہت بڑا اخلاقی عیب ہے۔
  • بے جا خودنمائی :اپنی جوانی کی غیراخلاقی سرگرمیوں کو فخر سے بچوں کو بتانا حد درجہ حماقت ہے‘ یا پھر اپنے کارناموں کو نمک مرچ لگاکر پیش کرنا کہ بچے جان جائیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بچہ فطرت کے قریب ہوتا ہے۔ وہ سچ اور جھوٹ کا ادراک کرلیتا ہے اگرچہ اُس کو اس کے اظہار کا طریقہ نہ آتا ہو۔ ہر بات میں اپنی تعریف کرنا‘اپنے گن گانا‘ ہر وقت دوسروں پہ خود کو ترجیح دینا‘ شیخی بگھارنا‘ درحقیقت اپنی کمزور شخصیت کا اظہار ہے۔
  • ننہیال ددہیال کا فرق رکہنا :لڑکوں کو لڑکیوں پہ ترجیح دینا‘ یا ننھیال /ددھیال والوں کی برائیاں کرنا‘ یا بچوں کا ننھیال/ددھیال والوں سے قلبی تعلق برداشت نہ کرنا‘ لڑکیوں کی پے درپے پیدایش سے دل تنگ ہونا اور ان کے مقابلے میں لڑکے کی آئوبھگت کرنا‘ لڑکیوں کے والد کو بے چارہ‘ بوجھ کے تلے دبا ہوا جیسے احساسات دلانا‘ ایک طرح کا گناہ میں ملوث ہونا ہے۔ لڑکیوں کی پیدایش پہ انقباض محسوس کرنے والوں کی مذمت قرآن پاک میں کی گئی ہے۔
  • خواہ مخواہ کا رعب ڈالنا:بزرگوں کو اپنی بزرگی اور مقام و مرتبے کا احساس دلانے کے لیے رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ سلام کروانے کے لیے بچوں پہ سختی کرنا کوئی اعلیٰ اخلاق کی مثال نہیں۔ اعلیٰ اخلاق تو یہ ہے کہ آپ خود بڑھ کر بچوں کو سلام کریں‘ محبت سے‘ پیار سے‘ اور یہی سنت رسول اللہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ بچے آپ کو وہی کچھ لوٹائیں گے جو آپ ان کو پہلے عطا کریں گے۔

حضوؐر کا بچوں سے طرزِ عمل

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اسوۂ کامل ہیں‘ ہمیشہ اسے پیش نظر رکھیے۔

بچوں کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِعمل انتہائی مشفقانہ تھا۔ سیرت رسولؐ کے مطالعے سے یہ بات روشن ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے محبت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی عزت و توقیر کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ ان کی  عزت نفس کو پوری اہمیت دیتے تھے۔ ان کے جذبات و احساسات کو پامال نہیں کرتے تھے۔

بحیثیتِ والد‘ اور نانا کے آپؐ کا طرزِعمل ہمارے لیے روشن مثال ہے۔ اپنے دوست احباب کے چھوٹے ننھے بچے‘ راستہ چلتے ہوئے‘ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ آئی ہوئی ان کی اولاد‘ دُور و نزدیک کے قرابت دار بچے‘ اجنبی بچے‘ غرض بچوں سے حضوؐر کی محبت ایسی تھی گویا کہ ان کی اپنی اولاد ہو۔ بچوں کو گود میں بٹھاتے‘ کندھے پہ سوار کرتے‘ نماز میں بچوں کو اٹھا لیتے‘      منہ چومتے‘ غمگین بچوں کا دل بہلاتے‘ بچوں کو تحفہ دیتے‘ غرض اپنی دلی محبت کا اظہار ہر ممکن طریقے سے کرتے‘ اور ساتھ ہی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ بے تکلفی سے باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جنت میں ایک گھر ہے جسے ’دارالفرح‘ (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش رکھتے ہیں ۔(کنزالعمال)

اس دور میں جب کہ ہر مسلمان غفلت و بے ہوشی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ نابالغ بچوں کی شخصیت ایسی ہے جس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ جب تک بچہ نابالغ ہوتا ہے‘ معصوم ہوتا ہے۔ ان سے اس احساس کے ساتھ ہی رحمت و شفقت کی جائے تو یقینا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے قرب کا احساس بیدار ہوجائے گا۔ ایک بڑے سے بڑے دین دار آدمی سے بہرحال ایک معصوم بچہ اللہ کی نظر میں زیادہ پیارا ہے۔

بچوں کو خوش رکھنے کے بے شمار طریقے ہیں۔ ہر فرد اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اُن کو خوش رکھ سکتا ہے اور اپنی آیندہ نسل کے دلوں میں اپنی محبت کے نقوش جاگزیں کرکے     اپنی عاقبت کا سامان کر سکتا ہے اور اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اہتمام کرسکتا ہے۔

دعا ایک لازمی امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فرقان میں دعا سکھائی:

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (۲۵:۷۴) اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کاامام بنا۔

اس دعا میں ’متقین کا امام‘ بننے کی خصوصی درخواست سکھائی گئی‘ یعنی وہ نسل جو ہم پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ ’متقین‘ میں سے ہو___ اور ہم بحیثیت ’راعی‘ کے رعیت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

بچوں کو اس بات کا احساس دلانا چاہیے اور ان کی عادت بنانی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہیں‘ نیز فوت شدہ بزرگوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کی نیکیوں کو یاد کرنا‘ کروانا اور دعا کرنا ایک اہم نکتہ ہے۔

ہمارے ہاں والدین کے حوالے سے تو بہت لٹریچر موجود ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنا فریضہ کس طرح ادا کریں‘ لیکن غور کا مقام یہ ہے کہ خاندان میں ’بزرگ والدین‘ کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ’بیاج‘ کو خسارے سے بچاسکیں۔ ایک جوڑے کی اولاد کا دائرہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ کل تک جو صرف ماں باپ تھے‘ دادا دادی اور نانا نانی بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زندگی دیتا ہے تو ان کے سہرے کے پھول بھی کھلتے دیکھتے ہیں۔ اس طرح نئے خاندان بھی وسیع ترخاندان بن جاتے ہیں۔ بزرگ والدین کے مؤثر کردار اور خاندان کے استحکام کے پیش نظر ہی یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کے ہر والدین کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!

چند روز پیش تر شرق اوسط میں جو عبرت ناک واقعات پیش آئے ہیں اور‘ اس کے نتیجے میں مسلمان جس ذلت اور رسوائی کا شکار ہوئے ہیں‘ اس کی مثال ہماری چودہ سو سالہ تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔٭

ذلت کا عذاب

اس جنگ کے دوران ہماری یہ رسوائی بھی ہوئی کہ چودہ عرب ریاستیں اپنے تمام وسائل و ذرائع کے ساتھ ایک حقیر سی ریاست سے شکست کھاگئیں‘ جب کہ ان کی پشت پر تمام مسلمان ممالک کی ہمدردیاں بھی تھیں۔ پھر ہم نے یہ ذلت بھی اٹھائی کہ جو جنگ اس بلند بانگ دعوے سے شروع ہوئی تھی کہ: ’’عالمِ اسلام کے سینہ کا خنجر چار دن میں نکال کر سمندر میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ وہ اس شرمناک انجام پر ختم ہوئی کہ یہ خنجر دو دن میں سینے سے اُوپر ہماری شہ رگ تک پہنچ گیا۔   خلیج عقبہ اور نہر سویز دونوں دشمن کی دست برد سے نہ بچ سکیں۔

سب سے بڑھ کر شرمناک بات یہ ہے کہ جس مقدس شہر (بیت المقدس) کی حفاظت ہمارے سپرد ہوئی تھی اس کو ہم نے نہ صرف یہ کہ ضائع کر دیا‘ بلکہ اس قوم نے ہم سے اسے چھینا جس کو ڈھائی ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ذلیل و خوار کر کے وہاں سے نکال دیا تھا۔ ان سب پر مستزاد ہمارے نوجوانوں کا وہ گرم گرم خون اور ہمارے ترکش کے وہ تیر ہیں‘ جو بغیر کسی مقابلے کے دشمنوں کے قدموں پر ڈھیر ہوگئے۔

آج ہر مسلمان اپنی اس ذلت پر سوگوار ہے۔ وہ بے چین ہوہو کر پوچھ رہا ہے: ’’آخر یہ سب کیسے ہوگیا؟‘‘

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اب بھی جاگ جائیں اور اس سوال کا جواب پاکر اپنے حالات درست کرلیں تو یہ تازیانۂ عبرت ہمارے لیے سامانِ رحمت بن سکتا ہے۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اس دنیا میں ایک حکیم اور مدبر ہستی کا راج ہے۔ یہ کوئی اندھیرنگری اور چوپٹ راج نہیں ہے کہ بلاسبب اور بلاقانون اتنے بڑے بڑے واقعات رونما ہوجائیں۔ جہاں ایک پتّہ بھی خدا کی مرضی کے بغیر نہ ہل سکتاہو وہاں اتنا بڑا زلزلہ اچانک کہیں خلا سے یوں ہی نمودار نہیں ہوگیا‘ بلکہ ہم نے خدا کے قانون کے تحت وہی فصل کاٹی ہے جس کے بیج ہم عرصے سے بو رہے تھے۔

اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں اور شکست کے اسباب اپنے اندر ڈھونڈنے کے بجاے اس کی ذمہ داری مغربی استعماری طاقتوں کی دخل اندازی‘ دشمن کی مکاری‘ نام نہاد دوستوں کی بے وفائی اور ٹکنالوجی میں اپنی کم تری جیسے عذرات لنگ کے سر منڈھتے رہے تو ہم کو مستقبل میں اس سے بھی بدتر ذلت کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ اس لیے کہ قدرت بار بار سبق نہیں دیا کرتی۔

ذرا سوچیے___

کیا ہمارے حکمرانوں کو پہلے سے یہ معلوم نہ تھا کہ اسرائیل بڑی طاقتوں کا قائم کردہ اور پروردہ ملک ہے اور کسی بھی جنگ میں یہ طاقتیں اس کی پشت پناہی کریں گی۔ پھر دخل اندازی کا یہ گلہ کیوں؟

کیا ہمارے حکمران یہ سمجھتے تھے کہ دشمن ہم سے پوچھ کر حملہ کرے گا‘ کہ کب کریں اور کدھر سے آئیں اور اگر اس کی طاقت ہمارے اندازے سے زیادہ نکلی تو قصور کس کا ہے؟

اگر ’دوستوں‘ نے بے وفائی کی تو ہم اتنے نادان کیوں بن گئے تھے کہ یہ بھی نہ سوچ سکے کہ کفر خواہ واشنگٹن میں ہو یا ماسکو میں‘ پیرس میں ہو یا بیجنگ اور دہلی میں‘ کہیں بھی اسلام کا دوست نہیں بن سکتا۔ پھر شکایت کس لیے؟

اور جہاں تک سائنس اور ٹکنالوجی میں کم تری کا سوال ہے تو کیا ویت نام اور کیوبا اس لحاظ سے اپنے دشمن [امریکا] سے برتر ہیں کہ انھوں نے اس کے دانت کھٹے کر دیے؟

سوال یہ ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کی جتنی قوت پہلے سے ہمارے مسلم عرب حکمرانوں کے پاس تھی‘ کیا وہ ہمارے کام آئی۔ اگر ہمارے لڑاکا جنگی طیارے اُڑ نہ سکے‘ ہمارے میزائل فائر نہ ہوسکے اور ہمارے ٹینک آگے نہ بڑھ سکے تو اور مزید قوت حاصل کرلینے سے ہمارا کیا بھلا ہوجاتا؟ اگر جنگ کے فیصلے کا دارومدار اسلحے اور تعداد پر ہوتا تو آج اسلام دنیا میں کہیں نظر بھی نہ آتا۔

مسلمانوں کے لیے قانونِ الٰھی

دراصل اتنا بڑا المناک حادثہ جس قانونِ الٰہی کے تحت ہوا ہے۔ وہ اس لیے کہ جب اللہ کی طرف سے کتاب پانے والی قوم اس کتاب کو پیچھے ڈال کر اللہ کے مقابلے میں سر اٹھاتی ہے‘ اللہ کی کتاب کو غالب کرنے کا مشن بھول کر ہر گمراہی کے پیچھے دوڑتی ہے اور اس کے اپنے اندر جو لوگ اس کتاب پر عمل کی دعوت دیتے ہیں ان کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتی ہے‘ اور ان کا خون بہاتی ہے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوکر دنیاوی طاقتوں کے آگے سجدہ ریز ہوجاتی ہے___ تو اللہ تعالیٰ اس پر دشمنوں کو مسلط کرکے اس کی عزت و آبرو کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ منکرین پر تو اس کا عذاب اکثر طوفان‘ کڑک اور زلزلہ کی صورت میں آکر ان کو مٹادیتا ہے‘ لیکن اپنے سے بے وفائی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ مٹانے کے بجاے ذلیل و خوار کر کے رہتی دنیا میں ایک سامانِ عبرت بناکر رکھ دیتا ہے:

اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُھُمْ اَنَّ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۸۷) ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے۔

خدا کے اس قانون کی بہترین مثال خود بنی اسرائیل ہیں‘ جن کا ذکر قرآن نے شروع میں ہی اتنی تفصیل سے اسی لیے کیا ہے کہ مسلمان اس انجام سے ہوشیار رہیں‘ جو ان کے حصہ میں آیا ___وہ ہم مسلمانوںسے پہلے کتابِ الٰہی کے حامل تھے۔ پھر انھوں نے اپنے خدا سے بے وفائی کی تو اللہ نے ان کو اس لیے زندہ نہ رکھا کہ وہ زندہ رہنے کے مستحق تھے‘ بلکہ اس لیے کہ خدا سے  بے وفائی کی سزا یہی ہو سکتی تھی کہ وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ اس لیے بھی کہ اگر ان کے بعد آنے والی اُمت بھی خدا سے بے وفائی کرے تو اس پر انھی کو مسلط کیاجائے۔

سوچنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت مسلم اُمہ ہم نے وہ کون سے اعمال کیے ہیں کہ مشیت الٰہی نے یہ تک گوارا کرلیا کہ جس قوم کو وہ ذلیل کر کے دنیا میں تتربترکرچکی تھی‘ اسی کو وہ ہمارے اُوپر مسلط کرنے کے لیے دوبارہ کھڑا کر لائے۔ ظاہر بات ہے کہ جس درخت نے بنی اسرائیل کی جھولی کانٹوں سے بھر دی تھی اگر وہی درخت ہم بوئیں گے‘ تو ہماری جھولی میں پھول نہیں گریں گے بلکہ ویسے ہی کانٹے گریں گے۔ خدا کا قانون نہ بدل سکتا ہے اور نہ جانب داری برت سکتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل کے راستے پر چل کر ہمارا انجام ان سے مختلف ہوتا تو خدا کے عدل پر سوال اٹھایا جاتا۔

ذرا تورات اُٹھا کر دیکھیے تو بنی اسرائیل کے اعمال اور ان کی سزا کے آئینے میں ہم کو اپنی تصویر نظر آئے گی۔ تورات کہتی ہے:

  •  تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں اپنے دین کے تابع نہ رہوں گا۔
  • یہ اپنی مخالف قوموں سے مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے۔ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا‘ یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔
  • تیرے سردار خونی اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں ہر ایک رشوت دوست اور انعام کا طلب گار ہے۔ وہ یتیموں کو انصاف فراہم نہیں کرتے اور بیوائوں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔
  • تم اس کلامِ الٰہی کو حقیر جانتے ہو اور کج روی پر بھروسا کرتے ہو۔ اس لیے یہ بدکرداری تمھارے لیے ایسی ہوگی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے۔ وہ اسے کمہار کے برتن کی طرح توڑ ڈالے گا اور بے دریغ چکنا چور کر دے گا۔
  • اسی لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی قوم سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان کو قوموں کے قبضہ میں دے دیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمران بن گئے۔
  •  اے اسرائیل کے گھرانے‘ دیکھ میں ایک قوم کو دُور سے تجھ پر چڑھا لائوں گا‘ وہ تیرے مضبوط شہروں کو جس پر تیرا بھروسا ہے‘ تلوار سے ویران کر دیں گے۔
  •  انھوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی۔ پھر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اللہ ہم کو بچا___ لیکن تیرے وہ سہارے کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا۔ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اٹھیں کیونکہ اے یہوداہ! جتنے تیرے ملک ہیں اتنے ہی تیرے معبود ہیں۔

عرب قیادت کا کردار

ویسے تو پوری اُمت مسلمہ کسی نہ کسی طرح اسی تصویر کا ایک نمونہ ہے لیکن اس کا وہ حصہ جو اس جنگ میں اسرائیل سے برسرِپیکار تھا‘ اس کی قیادت تو ایسے عناصر کے ہاتھ میں تھی جو خدا سے بے وفائی‘ اسلام دشمنی اور مسلمانوں کا خون بہانے میں سب سے ہی آگے بڑھ گئے تھے۔

ان عناصر میں سب سے نمایاں مثال مصر کے آمرمطلق جمال عبدالناصر[م: ۱۹۷۰ئ] کی ہے۔ ہر مسلمان کو جاننا چاہیے کہ پچھلے چودہ سال سے وہ کس روش پر گامزن رہے ہیں۔ یہ جاننے سے اس سوال کا جواب ملے کہ یہ عبرت ناک حادثہ کیسے پیش آیا۔

خدا پرستی نھیں‘ قوم پرستی

خدا کے دیے ہوئے دین کے ساتھ ان کا سلوک یہ رہا ہے کہ اپنے ریاستی دستور سے کھلم کھلا اسلام کو خارج کر کے عرب سوشلزم (قوم پرستی+سوشلزم) کو سرکاری مذہب کے طور پر اختیار کیا۔ مسلمان ہونے کے بجاے عرب ہونے پر فخر کیا۔ عربوں میں سے بھی ان ممالک کو جو سوشلسٹ پارٹیوں کے زیرنگیں نہ تھے‘ انھیں مسلمان اور عرب ہونے کے باوجود دشمن اور گردن زدنی قرار دیا۔ اس عبرت ناک جنگ سے صرف تین ہفتے پہلے ناصرصاحب نے ایک ہی سانس میں‘ اسرائیل کے ساتھ ساتھ سعودی عرب‘ اُردن اور تیونس کو مغربی استعمار کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے مٹا دینے کی دھمکی دی۔

حد یہ ہے کہ اس پوری جنگ میں نہ عالمِ اسلام کو مدد کے لیے پکارا‘ اور نہ اپنی قوم کو اسلام کے لیے لڑنے کی دعوت دی۔ قوم کو اس کلمہ کی بنیاد پر لڑائی کے میدان میں نہیں اتارا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے‘ یعنی لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، بلکہ وہ اس کلمہ پر میدانِ جنگ میں اترے جو عیسائی پادریوں نے سکھایا اور جو عربیت کا کلمہ ہے‘ یعنی اللّٰہ اکبر والعزۃ للعرب___ حالاں کہ مسلمان تو بنا ہی ایسے خمیر سے ہے کہ وہ صرف فی سبیل اللّٰہ ہی لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہوسکتا ہے۔ فی سبیل العرب [عرب کے لیے] مرجانے کا جذبہ وہ کہاں سے لاتا‘ جب کہ اس کو یہ معلوم تھا کہ جو وطن کے لیے مرا وہ جاہلیت کی موت مرا۔

قوم پرستی کا مذہب صدر ناصر کو اتنا عزیز ہوا کہ اس کی خاطر انھوں نے فرعونی تہذیب کو دوبارہ زندہ کیا۔ اس کی تصویریں نوٹوں اور ٹکٹوں پر چھاپیں‘ اس کے مجسّمے بازاروں میں لگائے اور اس بات پر فخر کیا: ’’ہم فرعون کی اولاد ہیں‘‘۔ حد یہ ہے کہ بوسمبل کے بتوں کے نیچے قرآن کے نسخے دفن کیے۔ اس جسارت کے بعد کیا مشیت ایزدی صرف اس لیے جدید فرعونیت کی تائید کرتی کہ بدقسمتی سے وہ اُمت محمدیہ میں پیدا ہوگئی ہے!

مصلحین کا خون

معصوموں کا خون بہانے میں وہ اس حد تک نکل گئے کہ اپنی قوم کے مصلحین اور مجاہدین تک کو بے دریغ پھانسی پر چڑھا دیا۔ اخوان المسلمون جس ظلم و ستم کا نشانہ بنائے گئے ہیں‘ اس ظلم کو زبان بیان نہیں کر سکتی اور آنکھ نم ہوئے بغیر سنا نہیں جاسکتا۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ قرآن کی طرف دعوت دے رہے تھے اور عرب قومیت اور سوشلزم کے بجائے اسلام پر چلنا چاہتے تھے حالانکہ یہ وہی اخوان تھے جنھوں نے ۱۹۴۸ء میں خاک و خون میں لوٹ کر اور اپنی جانیں قربان کرکے بغیرکسی حکومت کی پشت پناہی کے اسی اسرائیل کو اسی صحرائے سینا اور بیت المقدس میں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔

مسلم مفادات کے دشمن

مسلمانوں کے مفادات کے حوالے سے تو عرب قوم پرستی کے علم بردار جمال عبدالناصر کی دردمندی کا یہ عالم ملاحظہ ہو:

  •  یمن میں اپنی فوجوں اور گیس بموں سے ایک لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا‘ اور اپنی معیشت تباہ کر ڈالی۔ جس مسلمان حکمران سے مخالفت ہوگئی‘ اس کو قتل کر دینے کے لیے سازشیں شروع کر دیں۔
  •  سایپرس میں جب ترک مسلمان عورتوں اور بچوں کا قتلِ عام ہو رہا تھا تو جمال ناصر نے ترکی کے مقابلے میں عیسائیوں کی مدد پر اپنے وہی راکٹ برسانے کے وعدے کیے جو یہودیوں کے مقابلے میں فائر نہ ہوسکے۔
  • حبشہ [ایتھوپیا] میں حکمران [بادشاہ ہیل سلاسی۔ م: ۱۹۷۵ئ] نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا خون بہایا اور ان کو جبراً عیسائی بنایا‘ اس سفاک حکمران سے جمال ناصر کی گہری دوستی [رہی] ہے۔
  • کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے خلاف ووٹ اشتراکی روس کے علاوہ مصر نے ہی دیا تھا۔ پھر جب [ستمبر ۱۹۶۵ئ] بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو ان کی زبان سے ایک لفظ بھارت کی مذمت میں نہ نکلا۔ حد یہ کہ کاسابلانکا (مراکش) میں منعقد ہونے والی عرب سربراہی کانفرنس کے دوران یہی صدر ناصر وہ واحد عرب سربراہ تھے‘ جنھوں نے پاکستان کی حمایت میں پیش کردہ قرارداد کی مخالفت کی۔ صدر ناصر کی نظر میں عرب سوشلسٹ ممالک کا اتحاد تو ہر صورت میں جائز تھا‘ لیکن مسلمان ممالک کا اتحاد بالکل ناجائز۔

خدا سے اپنے بندھن توڑ ڈالنے‘ خدا کی مخالف قوموں کے سے کام سیکھنے‘ معصوموں کا خون بہانے‘ (نعوذ باللہ) کلامِ الٰہی کو حقیر جاننے کے بعد‘ اگر یہ بدکرداری پہلے بنی اسرائیل پر دیوار کی طرح گری تھی تو اب ہمارے اُوپر کیوں نہ گرے ___ اگر ان پر خدا کا قہر بھڑکا اور ان کے دشمن ان پر حکمران ہوگئے تو ہمارے اُوپر قہرالٰہی کیوں نہ بھڑکے اور ہم پر ہمارے دشمن کیوں نہ مسلط ہوں۔

ہم نے مصر کا تذکرہ اس لیے تفصیل سے نہیں بیان کیا کہ ان جرائم کا ارتکاب صرف وہیں پر ہوا ہے۔ آپ کسی بھی مسلمان ملک کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس پیمانے پر نہ سہی لیکن کم و بیش یہی داستان ہر جگہ دہرائی جارہی ہے۔ ہر جگہ: پاکستان‘ تیونس‘ الجیریا‘ انڈونیشیا وغیرہ میں جنگِ آزادی اسلام کے نام پر لڑی گئی‘ مگر ہر جگہ آزادی کے بعد عوام کو اختیارات سے بے دخل کرکے اس بات کی کوشش کی گئی کہ اسلام سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ہر جگہ اسلام کے احکام و حدود کو پامال کیا گیا۔ ہرجگہ اسلام کے علم برداروں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہر جگہ وطنیت اور قوم پرستی کو پروان چڑھایا گیا اور ملکی مفادات پر عالمِ اسلام کے مفادات کو قربان کیا گیا۔

مادی و قومی معبود

کیا یہ حقیقت نہیں کہ جتنی مسلم ریاستیں ہیں‘ بنی اسرائیل کی طرح اتنے ہی ان کے معبود ہیں۔ ممکن ہے یہ معبود پتھر کے بتوں کی صورت میں نہ موجود ہوں‘ لیکن ڈالر‘ روبل‘ اور پونڈ کی صورت میں بالضرور موجود ہیں۔ مسلم ممالک میں سے کسی کا قبلہ لندن‘ کسی کا واشنگٹن‘ کسی کا ماسکو اور کسی کا بیجنگ ہے‘ لیکن یہ بت نہ آج تک ہم کو مصیبت سے بچا سکے ہیں اور نہ آیندہ یہ ہمارے کسی کام آئیں گے۔ یہ سب جھوٹے سہارے ہیں اور کفر کا کوئی بھی ایڈیشن ہو‘ خو اہ وہ سرمایہ داری ہو‘ قوم پرستی ہو‘ یا سوشلزم‘ وہ اسلام کا اور مسلمان کا حقیقی دوست ہرگز نہیں بن سکتا۔ یہ ہماری انتہائی  سادہ لوحی اور بیوقوفی ہے کہ ہم پھر انھی جھوٹے سہاروں سے امیدیں باندھ رہے ہیں اور انھی کی طرف دوڑ دوڑ کر جارہے ہیں‘ حالانکہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔

عزت کا ایک ھی راستہ

سب راستے آزمانے کے بعد اور ہر طرف سے ٹھکرائے جانے کے بعد ہم کو اچھی طرح جان لینا چاہیے‘ کہ ہمارے لیے عزت و سربلندی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم خدا کے مخلص بندے بن جائیں۔

دنیا کی غالب قوموں اور گمراہ نظریات‘ یعنی سرمایہ داری‘ قوم پرستی اور سوشلزم کو چھوڑ کر اسلام کا راستہ اختیار کریں۔ دین حق کی نصرت کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ خدا سے بے وفائی چھوڑ کر اس کے وفادار بنیں اور اس کے ساتھ اپنا عہد پورا کریں۔ اس نے جس کام پر ہم کو مامور کیا ہے اور جو مشن ہمارے سپرد کیا ہے‘ یعنی اس کی اطاعت کی دعوت اور اس کے دین کا غلبہ‘ اس کو پورا کرنے کے لیے تن‘ من‘ دھن سے لگ جائیں۔

اگر ہم اللہ کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کرے گا۔ اللہ ہماری مدد کرے گا تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اُوپر غالب نہیں آسکتی۔ یہ اس کا وعدہ ہے جو خدا کی قسم‘ غلط نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنی قوم کو کہیں ذلیل نہیں کیا جب تک وہ اس کی رہی اور جب اس نے دوسروں سے آشنائی کی تو اس نے اسے کبھی معاف نہیں کیا۔

یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ جو قوم کسی ایک راستے کے لیے یکسو نہ ہو وہ ہمیشہ دوسروں کی جھولی بلکہ قدموں میں گری رہے گی اور دنیا میں اس کا اپنا کوئی مقام نہیں ہوگا۔ اب اس کو کیا کہیے کہ مسلمان قوم کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ان کے حکمران چاہے لاکھ دماغ سوزی کریں‘ وہ قوم پرستی‘ سوشلزم اور دنیا پرستی کے لیے یکسو نہیں ہوسکتی۔ وہ صرف اپنے دین ہی کے لیے یکسو ہوکر بے نظیر کارنامے دکھا سکتی ہے۔

تاہم‘ یہ اسلام کے لیے یکسو نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ آج سارا عالمِ اسلام اتنی عظیم الشان آبادی اور اتنے وسیع وسائل و ذرائع کے باوجود پارہ پارہ ہے اوردوسروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے۔ لیکن عالمِ اسلام کے اتحاد کی ہر دعوت صدا بہ صحرا ثابت ہوگی‘ جب تک ہر مسلمان ملک کی قیادت اخلاص سے اسلام کے راستے پر چلنا شروع نہ کر دے۔

اس معاملے میں بحیثیت پاکستانی ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو کسی نسلی یا علاقائی قومیت کے بجاے اسلام کی بنیاد پر بنا ہے اور جس نے اپنے پروردگار سے علانیہ عہد کیا ہے کہ یہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی۔ جب تک ہمارا یہ عہد بیان کی دنیا سے نکل کر عمل کی دنیا میں پورا نہ ہوگا‘ اس وقت تک ہمارا پروردگار ہم سے خوش نہ ہوگا۔

آج سارا عالمِ اسلام ہماری رہنمائی کا منتظر ہے اور اس کی نگاہیں ہماری طرف لگی ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہمارا ہر جوان‘ مرد‘ عورت‘ بوڑھا‘ بچہ اس کام میں لگ جائے کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنایا جائے اور خدا کی ہر نافرمانی کو ترک کر کے اس کی اطاعت کو اختیار کیا جائے۔ اس کے بعد عالمِ اسلام بھی متحد ہوجائے گا۔ اس کے بعد ہم مشقت کی زندگی بسر کرکے اسلحہ کے کارخانے بھی بنائیں گے۔ پھر اگر ہماری تعداد کم بھی ہو اور ہمارے پاس اسلحہ نہ بھی ہو تو ہمارا ایک آدمی دس دشمنوں پر بھاری ہوگا۔

آیئے! اللہ سے تعلق جوڑیئے۔

آیئے! ہم میں سے ہر آدمی اس تازیانۂ عبرت سے سبق حاصل کر کے اپنے خدا سے   اپنا تعلق جوڑے‘ اس کی اطاعت کا عہد کرے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے میدان میں نکل کھڑا ہو۔

روس میں اسلام کی آمد

۹۸۸ء میں روسی بادشاہ ولاڈی میر نے تینوں آسمانی مذاہب کے نمایندوں کو اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ وہ ان سے بات چیت کرنے کے بعد ان میں سے کسی ایک مذہب کو اپنی نوخیز مملکت کا مذہب قرار دے۔ گفتگو کے بعد بادشاہ کو اسلامی اصول و تعلیمات بھائے۔ چنانچہ اس نے قبولِ اسلام اور اسلام کو سرکاری مذہب کا درجہ دینے کا عندیہ ظاہر کیا۔ اس نے مسلم عالمِ دین سے یہ رعایت طلب کی کہ بادشاہ اور روسی رعایا کو شراب نوشی کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ روسی شراب کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مسلمان فقیہہ نے یہ شرط قبول کرنے سے صاف انکار کیا۔ اس پر ولاڈی میر نے عیسائیت قبول کرلی۔

یہ حقیقت ہے یا من گھڑت‘ اس سے قطع نظر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سرزمینِ روس میں ۹۲۲ء کے قریب پہنچا اور ۱۲۲۹ء تک پھیلتا رہا۔ ۹۲۱ء (۳۰۹ھ) میں عباسی خلیفہ المقتدر باللہ نے‘ بلغاریہ کے بادشاہ الموش بن یلطوار کی درخواست پر‘ بغداد سے ایک دینی سیاسی وفد براعظم ایشیا کے مرکز‘ جو اُس وقت ارضِ صقالبہ کہلاتا تھا ‘کی جانب روانہ کیا۔ یہ وفد علما‘ فقہا‘سرکاری اعلیٰ افسروں اور مؤرخوں پر مشتمل تھا‘اس کی قیادت احمد بن فضلان نے کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عالمِ اسلام سے بلغاریہ جانے والے یہ اوّلین لوگ تھے۔ ان سے پہلے مسلمان تاجر بغرضِ تجارت بلغاریہ تک آجارہے تھے اور انتہائی سادگی سے عام اسلامی اصولوں کو پیش کرتے رہے تھے۔ ان کی امانت و دیانت اور حسنِ معاملہ سے لوگ پہلے ہی متاثر تھے۔ ان تاجروں نے ایک طرف بغداد سے وسطِ ایشیا کے ممالک تک اور دوسری طرف بلغاریہ اور روسی قبائل تک ایک طویل تجارتی راستہ اختیار کیا ہوا تھا۔

جدید تحقیقات کی رُو سے موجودہ مسلم علاقوں کا روس سے تعلق کم از کم آٹھویں مسیحی صدی سے ہے۔ مثال کے طور پر مسلم جمہوریہ بشکیریا کے علاقے لیوشووسیکی میں ہونے والی کھدائی سے اسلامی تہذیب کی کئی علامات ملی ہیں۔ ان میں اہم ترین عباسی خلفاکے چاندی اور سونے کے درہم و دینار ہیں‘ بلکہ کچھ ایسے عربی سکّے بھی ملے ہیں جن کا تعلق دوسری مسیحی صدی سے ہے۔

احمد بن فضلان کی سرکردگی میں سفارتی وفد نے عباسی خلیفہ اور شاہِ بلغاریہ کے مابین سرکاری معاہدے پر دستخط کیے کہ حکمران طبقے تک اسلامی افکار پہنچائے جائیں۔ منتخب و ممتاز افراد کے قبولِ اسلام کے بعد‘ اہلِ بلغاریہ نے اسلامی شعائر و عقائد کے ساتھ ساتھ اپنی عادات و رسوم اور عرف و رواج بھی اپنائے رکھے حتیٰ کہ مرکز ایشیا کے منبع نور یعنی دبستانِ بخارا سے اُبھرنے والے افکارِ جدید کی روشنی نے بلغاروی عادات و رسوم کو ختم کر ڈالا۔

یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجانا چاہیے کہ مذکورہ بالا ’’وفد ابن فضلان‘‘ نے صدیوں سے جغرافیائی لحاظ سے مختص روسی خطے تک اسلام نہیں پہنچایا تھا بلکہ صرف بلغاروی قوم تک پہنچایا تھا۔ بلغاروی وسط ایشیا کے ترکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وسط ایشیا ہی سے وہ دریاے مولغا کی طرف بڑھے تھے اور اس کے کناروں پر اپنی آبادیاں قائم کر لی تھیں۔ ان ہی میں سے بعض لوگوں نے قبیلہ ہن کی معیت میں‘ چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مشرقی یورپ کا رخ کیا اور جنوب مشرقی یورپ میں بلغاریہ کی مملکت قائم کر لی۔

اس زمانے میں روس کی آخری سرحدیں کوہِ ارال تک تھیں۔ گویا روس محض مولغا بلغار مملکت کا ہمسایہ تھا۔ روس اور بلغاریہ کے مسلمانوں کے مابین تعلقات برابری کی سطح پر قائم رہے مگر روسی حکمرانوں کی نظر بلغاروی مسلمانوں کے مال و دولت اور ثروت پر رہی۔ دسویں صدی کے اوائل سے سولھویں صدی کے نصف تک وہ موقع کی تلاش میں رہے۔ بالآخر روسی بادشاہ ایفان نے مولغا مسلمانوں کو اطاعت پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ ۱۵۵۲ء میں مسلم دارالحکومت کازان کا سقوط ہوگیا۔

آرتھوڈکس عیسائیت قبول کرنے کے ساتھ ساتھ روس میں بت پرستی بھی جاری رہی۔  (سنی حنفی) اسلام بھی روس میں حالات کے مطابق اپنی جگہ بناتا رہا۔ سولھویں صدی میں اسلام مولغا‘ تترستان اور بشکیریا میں اپنے قدم مضبوطی سے جما چکا تھا۔ جب روس اور تتارستان میں مسلح تصادم ہوا تو بشکیر اورشاہِ روس کے مابین اس امر پر اتفاق ہوگیا کہ بشکور توستان کو روسی مملکت میں داخل کرلیا جائے‘ جب کہ دین اسلام اس کے مذہب کے طور پر بحال رہے۔ آرتھوڈکس روسی شہنشاہیت نے تترستان اور بشکیریا میں سرکاری طور پر تو اسلام کو بطور دین قبول کرلیا مگر عملاً مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے خوف اور لالچ کا ہر حربہ استعمال کیا حتیٰ کہ اذان کے میناروں پر صلیبیں گاڑ دی گئیں مگر کسی ایک مسلمان کو بھی عیسائی نہ بنایا جا سکا۔

روسی تسلط کے بعد مسلم اوقاف پر دستِ ستم دراز کیا گیا۔ روسی حکمرانوں نے وقف ناموں کے منشا و مضمون کو نظرانداز کرتے ہوئے مسلم اوقاف کی املاک میں تصرفِ بے جا کیا۔ اسلامی تشخص کو مسخ کر کے اسے مسیحی رنگ دینے کی کوشش کی۔ دریاے مولغا کی ریاست میں مساجد کو تباہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے جواب میں جب ردعمل سامنے آیا تو حکومت نے اوقاف کی تمام املاک پر قبضہ کر کے انھیں مسیحی اداروں کے حوالے کر دیا۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۳۸)

  • زار شاھی دور حکومت: روسی شہنشاہیت اسلامی اقدار سے متاثر ہوئی‘ چنانچہ اس نے امن و امان کے فروغ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے اسلامی قوانین سے استفادہ کیا۔ روسی سیاح اواناسی نیکٹن نے مشرق کی سیاحت کی تھی‘ اس کا مسلمانوں کے ساتھ بہت میل جول رہا۔ اس نے مسلمانوں کے عدل و انصاف‘ عاجزی و تواضع‘ کمزوروں اور غریبوں پر ظلم نہ کرنا‘ ضعیفوں اور عورتوں سے رحم دلی وغیرہ جیسی صفات کا اپنی یادداشتوں میں بھرپور اظہار کیا۔

اسلامی اقدار سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا روسی شہنشاہ ایفان سوم (۱۴۴۰ئ- ۱۵۰۵ئ) تھا۔ اس کا شمار روسی تاریخ میں مجددین میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنے ملک کی عدلیہ کا نظام سدھارنے میں بہت زیادہ دل چسپی لی اور کئی اصلاحات متعارف کروائیں۔ اس نے عدلیہ کی بالادستی قائم کی‘ عوام کو کمرہ عدالت میں کارروائی دیکھنے کی اجازت دی‘ عدالتی اخراجات پانچ گنا کم کر دیے اور عدل و انصاف اور امن و امان کے لیے اس نے اسلامی سزائوں کا بھی نفاذ کیا۔ اس طرح روسی شہنشاہیت کی اصلاح اور اسے عثمانی اسلامی نمونہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۴۲)

  • کمیونزم اور مسلمانانِ روس: انیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ ملا تو مسلمانوں نے بھی زمینیں‘ دکانیں‘ تجارتی گودام خریدنے شروع کیے۔ انھوں نے مساجد بھی تعمیر کیں مگر جونھی بیسویں صدی کے نصف اول میں کمیونزم کا تسلط ہوا تو مذہب حقیر ہو کے رہ گیا۔ تشدد کے نئے مفہوم سامنے آئے۔ مذہب عوام کے لیے افیون اور سوویت اقوام کا دشمن قرار دیا گیا۔ سرمایہ داری کے زمانۂ عروج میں تشکیل پانے والے دینی ادارے مقفل کر دیے گئے اور کمیونزم کے فلسفے: ’’مذہبی پیشوا محنت کش انسان کا استحصال کرتے ہیں‘‘ کو فروغ ملا۔

روسی مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں میں ’’اسلامی اتحاد‘‘ اور ’’تُرک اتحاد‘‘ کے نظریات کو کچلنے میں کمیونسٹ حکام نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی کیونکہ اگر یہ افکار عملی جامہ پہن لیتے تو روسی سرحدوں میں بہت بڑی تبدیلی ہوسکتی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافتِ عثمانی کا خاتمہ اور بیسویں صدی کے ربع اوّل میں متعدد مسلم ممالک میں سیکولرازم کے ظہور نے روسی کمیونسٹوں کو اپنے زیرتسلط مسلمانوں کو کچلنے میں مدد دی‘ حتیٰ کہ روسی مسلمان ’’بے ضرر‘‘ سمجھے جانے لگے۔ ان کی عادات‘ اخلاق‘ رسوم و رواج اور طور طریقوں سب کو بظاہر ختم کر کے رکھ دیا گیا۔

مسلمان زیرزمین خفیہ طور پر نماز ادا کرتے کیوں کہ انھیں سوویت کمیونسٹ حکام کی طرف سے سزا ملنے کا اور جلاوطن کیے جانے کا خطرہ رہتا تھا۔ اُدھر روس کے مرکزی اقتدار کو ہمیشہ یہ اندیشہ دامن گیر رہتا کہ مسلمانوں کو ذرا سی بھی ڈھیل ملی تو ان کے ہاتھوں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اسلام میں بقا اور تجدد کی صلاحیت ہے‘ وہ دبانے سے اُبھرتا ہے۔ اسلام انسانی تاریخ کے اس خوفناک ترین دور میں بھی زندہ رہا۔ غربت و افلاس‘ ظلم و تشدد اور سائبیریا جیسے سرد ترین مقام میں جلاوطن مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی ختم نہ کرسکی۔ عام مسلمان بلکہ حکمران کمیونسٹ پارٹی کے نمایاں ترین مسلمان ارکان بھی تمام تر پابندیوں اور کڑی نگرانی کے باوجود خفیہ طور پر اسلامی شعائر پر کاربند رہے۔ جب ۸۰ کی دہائی میں اسلامی شعائر کو ادا کرنے کی اجازت ملی تو مسلمانانِ روس نے اس اجازت کو اپنے دینی و قومی تشخص کو نمایاں کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا۔

سوویت یونین میں بہت سے غیرقانونی (غیر رجسٹرڈ) دینی ادارے قائم تھے۔ اس کا آغاز ۶۰ کی دہائی سے ہوا تھا۔ ۱۹۶۳ء کے آغاز میں پورے سوویت یونین میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ مساجد کی تعداد ۳۲۵ تھی‘ جب کہ غیرسرکاری (غیرقانونی) مساجد کی تعداد ۲۰۰۰ تھی۔ ان تمام غیررجسٹرڈ مساجد کے لیے ہر مسجد کا الگ الگ امام ہوتا تھا۔ یہ ائمہ حضرات عیدین‘ جمعہ اور تمام دینی مواقع پر خفیہ طور پر امامت کراتے تھے۔ سب سے زیادہ دینی تقریبات تتارستان میں ہوتی تھیں۔ چیچن اور انگوش مسلمانوں پر چوں کہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے اور ان کی اکثریت کو سائبریا میں جلاوطن کر دیا گیا تھا‘ اس لیے ان دونوں مقبوضہ مسلم ریاستوں میں غیرقانونی مساجد کی تعداد بہت کم تھی۔ اگرچہ یہاں کے مسلم پورے سوویت یونین میں سب سے زیادہ دین دار تھے۔

۹۰ کے عشرے میں روس میں اسلام کو بہت فروغ ملا۔ اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ فریضہ حج ادا کرنے والوں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ ہونے لگا۔ صرف داغستان سے ہر سال ۱۲ ہزار سے زیادہ مسلمان حج پر جانے لگے۔ جنوبی روس کے شہر استراخان میں شیدائیانِ اسلام کی کانفرنس منعقد ہوئی تو نہضتِ اسلام پارٹی قائم ہوئی۔ یہ پارٹی سوویت یونین میں اسلامی تحریک کی محرک ثابت ہوئی۔ تاجکستان میں ۱۹۹۲-۱۹۹۳ء کے عرصے میں یہ پارٹی ملک کی سب سے طاقت ور حزبِ مخالف ثابت ہوئی۔ ماسکو میں رجسٹرڈ ہونے کے باوجود اسے سوویت یونین میں اپنی سرگرمیوں کی اجازت نہ تھی۔ اسے نومبر ۱۹۹۱ء سے مارچ ۱۹۹۳ء تک تاجکستان میں قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت ملی۔ ۱۹۹۱ء میں اس پارٹی نے سوویت یونین کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے اپنے عزم کا اعلان کیا۔ پورے سوویت یونین میں کئی اسلامی تحریکیں برسرِکار تھیں۔ داغستان‘ تتارستان وغیرہ میں بہت سی علاقائی سطح کی مسلم جماعتیں ظہور میں آئیں جیسے چیچنیا میں اسلامک پاتھ اور داغستان میںڈیموکریٹک اسلامی پارٹی وغیرہ۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۳۹)

  • ریشین فیڈریشن میں شامل مسلم ریاستیں اور ان کے مسائل: طویل تاریخی تصادم کے نتیجے میں سوویت یونین کے ڈھانچے سے چھے اسلامی مملکتیں برآمد ہوئیں‘ جب کہ ابھی تک تقریباً ۲۳ ملین مسلمان‘ سوویت فیڈریشن میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے بعض اقوام آزادی کے لیے کوشاں ہیں‘ جب کہ باقی فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یوں مسلمانانِ روس تین مرحلوں سے گزرے ہیں۔ عیسائی بنانے کے درپے زارانِ روس‘ مارکسزم اور کمیونزم کا فولادی شکنجہ اور وفاقی سیکولرازم۔

روس ۹۰ سے زائد انتظامی وحدتوں میں منقسم ہے‘ ہر وحدت گویا وفاق کی ایک اکائی ہے جو عملاً دارالحکومت ماسکو کے زیرانتظام ہے۔ یہ انتظامی وحدت جمہوریہ‘ صوبہ‘ علاقہ یا حق خود ارادیت رکھنے والی ریاست ہوسکتی ہے۔ روس میں مسلمانوں کی اکثریت ایسی جمہوریائوں میں رہ رہی ہے جنھیں یونائٹیڈ ریشین فیڈریشن کے قانون کی رُو سے یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ چاہیں تو آزادی کے لیے کوشش کرسکتی ہیں۔ ان میں سے ہر جمہوریہ کی اپنی الگ پارلیمنٹ ہے‘ اپنا صدر اور بجٹ ہے جو وفاقی بجٹ کا حصہ ہوتا ہے۔ ملحقہ جدول سے روس میں مسلمانوں کی جغرافیائی پوزیشن       واضح ہوگی۔ مسلمان دو علاقوں میں مرکوز ہیں۔ پہلا علاقہ: روس کے مرکز میں فولغا اور اورال کا علاقہ۔  اس میں چھے جمہوریائیں ہیں: ۱- تترستان ‘۲- بشکیریا‘ ۳- جوفاش‘ ۴- مورود وفیا‘ ۵-ماری یل‘ ۶-اودموت۔ مسلمان بڑی انتظامی وحدت‘ یعنی صوبہ اورن برگ میں موجود ہیں۔ دوسرا علاقہ: شمالی کوہِ قاف جو سات جمہوریائوں پر مشتمل ہے: ۱-داغستان‘ ۲-چیچنیا‘ ۳-انگوشیا‘ ۴-قبردین بلغاریا‘ ۵- شمالی اوسیٹما الانیا‘ ۶- ادیغہ‘ ۷- قارچیف چرکپیا۔

شمالی کوہ قاف بڑے کوہ قاف کے برابر کا حصہ ہے۔ اس بڑے کوہ قاف کا جنوبی نصف روسی سرحدوں سے باہر ہے اور تین ممالک میں منقسم ہے۔ ان میں سے ایک مسلم ملک‘ یعنی آذر بائیجان ہے‘ جب کہ باقی دو ملک جارجیا اور آرمینیا عیسائی ہیں۔

روسی مسلمان مختلف لسانی اور نسلی خاندانوں کی طرف منسوب ہیں۔ روسی مسلمان ۴۰ مختلف نسلی گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم ایک چھوٹی سی جمہوریہ داغستان کی مثال دیتے ہیں جس کے باشندے ۱۲ (لسانی نسلی) گروپوں کی طرف منسوب ہیں۔

قلب روس (فولغا اور اورال کے علاقوں) میں رہنے والے مسلمان بے بہا معدنی ثروت‘ تیل کے ذخائر‘ بھاری اور متوسط صنعتوں کے باوجود علیحدگی کے لیے کوشاں نہیں‘ اس لیے کہ وہ روس کے مرکز میں ہیں‘ روس انھیں کسی قیمت پر آزادی نہیں دے گا۔ بالفرض اگر وہ آزاد ہوبھی گئے تو وہ چاروں طرف سے روس میں گھرے ہوںگے‘ جب کہ کوہ قاف کی مسلم ریاستیں___ چیچنیا اور کسی حد تک داغستان کی حالت دیکھتے ہوئے کم از کم مستقبل قریب میں کسی ایسے تلخ تجربے کے لیے تیار نہیں جس میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں اور آبروئیں ضائع ہوں۔ (المجتمع‘ شمارہ ۱۶۳۶)

چند نمایاں مسائل

کمیونزم کے طویل تسلط سے نجات کے بعد روس کے مسلمان صحت‘ تعلیم اور دیگر سماجی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بالخصوص نوجوان طبقہ بے روزگاری کا شکار ہے۔ چند مسائل یہ ہیں:

آبادی میں اضافہ اور سھولیات میں کمی:شرحِ پیدایش کے لحاظ سے روس اس وقت دنیا کے ممالک کی فہرست میں ۱۴۱ ویں نمبر پر ہے۔ مسلم اکثریت کی روسی ریاستوں چیچنیا‘ داغستان‘ انگوش‘ شرکس اور کارچیف کی مسلم آبادی کا روس کی عام آبادی سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ غیرمسلم روسی آبادی میں کمی ہو رہی ہے۔ ۱۹۹۲ء سے روس کی آبادی میں ۵ئ۳ ملین افراد کی کمی ہوئی ہے۔ روسی وزارتِ داخلہ کی تحقیق کے مطابق روس کی آبادی ۱۴۵ ملین سے کم ہو کر ۲۰۱۰ء میں صرف ۱۳۰ ملین رہ جائے گی‘ جب کہ ۲۰۵۰ء میں روس کی کل آبادی گھٹ کر صرف ۷۰ملین ہوجائے گی۔ مسلمانوں کی روز افزوں آبادی روسی حکام کے لیے خطرہ ہے کیونکہ مسلمان روسیوں سے نظریاتی اختلاف اور تاریخی تصادم و کش مکش کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے پیش نظر مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے جا رہے‘ بلکہ مختلف حربوں سے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں جس وجہ سے مسلمانوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔

حکومت کی بدنظمی و زیادتی : روسی مسلمان اسلام کے سنہری اصولوں عدل‘ مساوات‘ آزادی اور اخوت کو اپنے لیے آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ وہ خلافتِ راشدہ کو تاریخ انسانیت کا سنہری دور سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف روسی حکمرانوں کی بدانتظامی‘تعصب اور نفرت پر مبنی کارروائیوں کو دیکھ کر وہ دل برداشتہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں روس سے الگ ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن چیچنیا کے خونی تجربے کے بعد وہ روس سے لڑ کر علیحدہ ہونے کا نہیں سوچتے۔ مسلمانوں پر زیادتی روسی حکام کا وتیرہ ہے۔ جس سے مسلمان مشتعل ہوجاتے ہیں۔مسلم کارکنوں اور روسی پولیس کے مابین ایسے ہی ایک تصادم کے بعد ۹ جون ۲۰۰۳ء کو ۱۰۰ سے زائد افراد کو ماسکو میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر الزام لگایا کہ یہ ممنوعہ حزب آزادی اسلامی (اسلامک فریڈم پارٹی) کے ارکان کی سرکردگی میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی تدبیر کر رہے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ روسی حکام مسلمانانِ روس کے اتحاد سے سخت خوف زدہ ہیں اور اس اتحاد کو کسی بھی حالت میں قائم نہیں ہونے دیتے۔ ادھر روس کے چوٹی کے اخبارات جہاد کے بارے میں منفی شرانگیز پروپیگنڈے میں منہمک ہیں۔ روسی مسلمانوں کی انٹرنیٹ پر صرف دو ویب سائٹ ہیں۔ دونوں کو ماسکو کی طرف سے سخت حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ سابق سوویت صدر میخائل گوربا چوف نے ان حالات کو دیکھ کر روسی حکام سے کہا ہے کہ وہ چیچنیا کو خصوصی اہمیت دے اور امریکا کے عراق میں پھنسنے سے عبرت حاصل کرے۔ (المجتمع‘  شمارہ ۱۶۴۰)

یھودی مذموم پروپیگنڈا :روسی یہودی مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے میں پیش پیش ہیں۔ بہت سے اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ یہودی سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں۔ چنانچہ پچھلے دنوں ایک یہودی حاخام عفروم شمولی ویچ (سربراہ تحریک براے مادر وطن) نے کئی مضامین میں یہ شرانگیز بات کہی کہ روس میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مسلمان ملوث ہیں لہٰذا مسلمانوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

مسلمانانِ روس کی قومی تنظیم نے اس یہودی کی الزام تراشی کا سخت نوٹس لیا ہے‘ جب کہ روسی پارلیمنٹ کے ارکان کے ایک گروپ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ روس میں یہود کی تمام مذہبی‘ ثقافتی اور سیاسی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔ ان ارکانِ پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ یہودی تنظیمیں ملک میں فرقہ واریت‘ نفرت اور انتشار کو ہوا دیتی ہیں۔ یہود کا ایک مختصر سا ٹولہ روس جیسی عظیم مملکت کے تمام وسائل پر قابض ہے‘ جس طرح امریکا میں مختصر سی یہودی اقلیت نے پورے امریکا کو اپنے اور اسرائیل کے مفادات کا اسیر بنا رکھا ہے۔ روس میں یہودیوں کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہے مگر وہ ملک کے ۷۰ فی صد سے بھی زائد وسائل پر قابض ہیں۔ یاد رہے کہ صہیونیت دشمنی اور یہودی تسلط کا سب سے بڑا مخالف ایک ریٹائرڈ جنرل ماکشوف ہے۔ اُسے روسی عوام کی زبردست حمایت حاصل ہے۔

  • روسی خاندان اور معاشرہ بحران کا شکار: روس کی کل آبادی ۱۴۴ ملین ہے‘ جس میں سے ۲۳ملین مسلمان ہیں۔ روس کے مشہور ماہر عمرانیات الگزینڈر سینی لینیکوف کی رائے میں روسی خاندان اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ روسی تکبر اور انانیت میں مبتلا ہیں۔ روس میں ہر سال ۷۷۰ ہزار شادیاں ہوتی ہیں۔ سال میں ۲۰ فی صد طلاقیں ہوتی ہیں۔ گذشتہ سال ۳۴ ملین افراد شادی کے بندھن میں بندھ گئے مگر ان میں سے ۳ ملین کا سرکاری طور پر اندراج نہیں ہوا۔ روسی ماہر عمرانیات کے بقول: ’’شادی کو رجسٹرڈ کرانے کا کیا فائدہ؟ جب بعد میں یک دم طلاق تک نوبت پہنچتی ہو۔ طلاق کی صورت میں مرد کو بچوں کا نفقہ ادا کرنا پڑتا ہے‘ نیز اپنے گھر اور ملکیت میں سے ایک حصے سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے بہت سے جوڑے شادی کو رجسٹرڈ ہی نہیںکراتے تاکہ علیحدگی کی صورت میں ان اخراجات سے بچا جا سکے‘‘۔

ماسکو یونی ورسٹی کے ایک ماہر عمرانیات کے بقول: شادیوں کی ناکامی میں ذرائع ابلاغ کا بہت دخل ہے۔ ڈائجسٹوں اور رسالوں میں ازدواجی زندگی کے تلخ پہلو سامنے لائے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کو صرف مادی طور پر خوش حال ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بڑی عمر میں کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

گذشتہ ۱۵ برسوں میں شرحِ پیدایش میں بہت زیادہ کمی ہوئی ہے۔ اب شرح پیدایش صرف ۲۵ئ۱ ہے‘ جب کہ بقا کے لیے شرح پیدایش ۱۵ئ۲ درکار ہے۔ بچوں کی پیدایش اور ان کی تربیت کے لیے شادی ضروری تصور نہیں کی جاتی۔ حکومت کو شرحِ پیدایش میں کمی پر تشویش ہے اور وہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مالی امداد اور دیگر سہولتوں کی ترغیب دے رہی ہے۔

روس کی اعداد وشمار کمیٹی کے سربراہ ولادی میر سوکولین نے کہا ہے کہ اب تقریباً ۳۰ فی صد بچے ایسے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی سرکاری طور پر رجسٹریشن نہیں ہوئی۔ روس‘ امریکا‘ کینیڈا اور آسٹریلیا اس معاملے میں یکساں ہیں۔ فرانس اور برطانیہ میں ناجائز بچوں کی شرح   ۴۰فی صد ہے‘ جب کہ سویڈن میں یہ شرح ۵۰ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔

چیچنیا پر فوج کشی کا بھی روسی معاشرے پر اثر پڑا ہے۔ ۱۹۹۳ء سے لے کر اب تک ۸۰ہزار روسی فوجی چیچنیا میں ہیں۔ روسی صدر نے اعلان کیا ہے کہ ۲۰۰۶ء کے آغاز سے پہلے وہاں سے فوج مکمل طور پر نکل جائے گی۔ چیچنیا میں روسی فوجی شہریوں سے بدسلوکی کرتے ہیں۔ عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں عورتوں پر تشدد کے بارے میں مختص خاتون یاک ہین ارتورک نے کہا ہے کہ انھوں نے ایسی شہادتیں جمع کرلی ہیں جن سے روسی فوجیوں کی طرف سے چیچن خواتین پر تشدد کی تصدیق ہوتی ہے۔ روسی ذرائع ابلاغ میں مجاہدین اور شہدا کی مائوں‘ بہنوں‘ بیویوں اور بیٹیوں کو ’’سیاہ عورتیں‘‘ کہا جاتا ہے۔

ریشین فیڈریشن کے زیرانتظام بحیثیت مجموعی مسلم ریاستوں کو مشکلات‘ مسائل اور روسی حکومت کے جبر کا سامنا ہے۔ روسی افواج مظالم بھی ڈھا رہی ہیں‘ وسائل کی قلت بھی درپیش ہے‘ سیاسی آزادیوں سے بھی محرومی ہے‘ تاہم مسلمان منظم ہو رہے ہیں‘ اسلامی تنظیمیں آگے بڑھ رہی ہیں‘ جمہوری حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور اس کے لیے تمام ممکنہ ذرائع و وسائل کام میں لا رہی ہیں‘ جذبۂ جہاد سے سرشار مجاہدین بھی سرگرم عمل ہیں۔ دوسری طرف روسی معاشرہ خود انتشار کا شکار ہے‘ اقتصادی حالت بگڑ رہی ہے___ ریشین فیڈریشن جبر اور طاقت کے بل پر مسلمانوں کو زیادہ دیر تک دبا کر نہیں رکھ سکتی۔ (ماخوذ: المجتمع‘ شمارہ ۱۶۲۴‘ ۱۶۳۸)

انتظامی وحدت

رقبہ

آبادی

مسلمانوں کی شرح

تتارستان

۶۸ ہزار مربع کلومیٹر

۴۲ لاکھ

۶۵ فی صد

بشکیریا

۶ئ۱۴۳ ہزار  "

۴۳   "

۶۰   "  

چوفاش

۱۲  ہزار

۱۶    "

۵۸   "  

موردوفیا

۲۸    "

۱۲    "

۵۵   "  

ماری یل

۳۴   "

۱۰    "

۵۲   "  

اودمورت

۴۳   "

۲۰    "

۵۲   "  

اورن برگ

ایک لاکھ ۲۴ ہزار

۲۵    "

۵۳   "  

داغستان

۵۳ ہزار

۳۲   "

۷۵   "  

چیچنیا

۱۷   "

۱۰    "

۷۴   "  

انگوشیتیا

۴    "

۵۰   "

۷۴   "  

کابردین بلکاریہ

۱۲ ہزار ۵ سو

۹     "

۷۵   "  

اوسیتیا شمالی الانیہ

۸   ہزار

۸    "

۵۳   "  

ادیغہ

۷۶  "

۶    "

۶۰   "  

قارچییف - چیرکیسیا

۱۴   "

۶    "

۷۵   "  

 

ترجمہ: حافظ ساجد انور

کسی بھی دن کا اخبار لے لیں‘ عراق کی مزاحمت کے ساتھ ساتھ‘ ایک نہ ایک خبر افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کی بھی ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے سمجھا تھا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی آمد کے بعد طالبان کی تحریک کا خاتمہ ہوگیا۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے حملوں کا سارا ملبہ طالبان پر گرایا گیا اور اسی بنا پر افغانستان پر تسلط عمل میں لایا گیا تھا۔ امریکی میڈیا کی عسکری کارروائیوں کے بارے میں امریکی ذرائع ابلاغ کی نشریات میں شدید مزاحمت اور مسلح کارروائیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ طالبان کی تحریک ازسرنو پوری قوت کے ساتھ افغانستان میں ابھر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان سے گفت و شنید کی خبریں بھی آنے لگیں۔

بعض عالمی ماہرین اس بات کو اہمیت دے رہے ہیں کہ القاعدہ تنظیم کے بعض دھڑے افغانستان میں ازسرنو منظم ہو رہے ہیں تاکہ طالبان کی صفوں کو مستحکم کیا جا سکے اور بھرپور منظم ہوکر جنوبی اور مشرقی علاقوں میں کارروائیاں کی جا سکیں۔ نیوز ایجنسیوں کی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی جنگجو ان علاقوں میں افغانی‘ امریکی اور ناٹو کی قابض افواج کو پھانسنے اور ناکام کرنے کے لیے واپس آگئے ہیں تاکہ شدید مزاحمت کے ذریعے ان کو نکلنے پر مجبور کر دیں۔

عسکری کارروائیوں میں سے ایک کے بارے میںقندھار کے والی گل آغا شیرازی نے زور دے کر کہا کہ القاعدہ کے کئی عرب دھڑے افغانستان میں داخل ہوچکے ہیں اور فدائی حملوں  کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ یہی بات افغانستان کے وزیردفاع عبدالرحیم وردگ نے   نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی: ہم القاعدہ کو اکٹھے ہوتے دیکھ رہے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ افغانستان میں مزید مشکلات پیدا کرے گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئی مواقع پر کارروائیوں میں غیرملکی افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے (۱۵ جولائی ۲۰۰۵ئ)۔ اسی طرح افغانستان کے وزیرخارجہ عبداللہ نے ہندستان کے دورے کے اختتام پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:طالبان کے دھڑوں کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انھیں باہر سے امداد مل رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک خصوصی گروپ کے ذمہ دار فرانس کے جان آرنو نے سلامتی کونسل  میں ۲۶ جون ۲۰۰۴ء کو گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’یقینا مجاہدین مزید وسائل حاصل کرچکے ہیں اور  تباہی پھیلانے والا اسلحہ اور بہترین تشہیری وسائل اُن کے پاس ہیں اور وہ بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ قوت استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ سال ۲۰۰۴ء کے آغاز سے عسکری کارروائیوں میں اب تک ۶۰۰ کے لگ بھگ طالبان کے مقابلے میں ۸۵۰ افراد مارے گئے ہیں۔

امریکی جاسوسی اداروں کی ایجنسی میں بن لادن یونٹ کے ذمہ دار مائیکل شاور نے کہا: افغانستان میں سب کچھ القاعدہ کے نظریات اور منصوبہ بندی کے مطابق اور اُس کے تحت ہو رہا ہے۔ ان کا کام مسلح اسلامی تحریکوں کی معاونت ہے۔ یقینا طالبان کی قیادت یہاں بڑھتی ہوئی قوتوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری بخوبی جانتی ہے۔ القاعدہ کا نظریہ اس لحاظ سے واضح ہے کہ وہ مسلح افراد کی مکمل مدد کریں اور سامنے آنے سے اجتناب کرتے ہوئے انھیں مختلف امور سکھائیں اور مقامی اہم افراد کو اپنی منشا کے مطابق مختلف کارروائیوں کی قیادت کے لیے چھوڑ دیں۔

امریکی اور افغانی افواج نے کئی دُور دراز علاقوں میں سخت جان جنگجو افراد کا کھوج لگایا ہے جو گھنٹوں مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی موسم گرما کی کارروائیاں بہت سخت اور پچھلے سالوں کے مقابلے میں جان لیوا ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی افواج پر مسلسل دبائو کی وجہ پاک افغان سرحد کے قبائلی علاقوں میں بسنے والی القاعدہ کی قیادت ہے۔ اُن کی نقل و حرکت کی وجہ سے ہی طالبان کا ان علاقوں پر کنٹرول ہے۔ علاوہ ازیں ان امور کے ماہر اولیفیہ روا نے‘ جو فرانس کی علمی تحقیق کے ادارے المرکز الوطنی میں ہیں اور ان علاقوں کے حوالے سے عالمی ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے جلدبازی سے اجتناب کرنے کو کہا ہے: اس وقت ہمارے پاس کوئی ایسی ٹھوس دلیل نہیں ہے جس کی بنیاد پر طالبان کے ساتھ غیرملکیوں کی موجودگی ثابت کی جا سکے۔ اس نے مزید کہا: افغانستان کے حکمرانوں کے مفاد میں ہے کہ یوں کہیں: یقینا یہ سب غیرملکیوں کی کارروائیاں ہیں جن میں پاکستان میں طالبان عناصر بھی شامل ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عرب مجاہدین کی یہاں موجودگی ثابت نہ ہوئی تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔

حملوں کی کیفیت

افغانستان کی سرزمین پر طالبان کے وسعت پذیر عسکری حملوں سے چند مہینے پہلے کی امریکا کی عسکری رپورٹس کی تائید ہوتی ہے جن میں کہا گیا کہ طالبان کی تحریک پھر قوت پکڑ رہی ہے اور اُن کی صفیں ازسرنو منظم ہو رہی ہیں۔ امریکی افواج کے خدشات ہیںکہ یہاں کی صورت حال عنقریب عراق کا منظرنامہ پیش کرے گی۔ عالمی ماہرین اور ناٹو کی افواج کو نظر آرہا ہے کہ افغانستان میں بھی عراق کی صورت حال دہرائی جارہی ہے۔ طالبان کا مطمح نظر مختلف جماعتیں اور ملیشیا تشکیل دے کر امریکیوں اور افغان فوج کی توجہ کو تقسیم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے گوریلا جنگ اور شہروں میں جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ ساری صورت حال عراق کی طرح ہے۔ یہاں تک کہ اگر تفصیل میں جایا جائے تو اغوا‘ فدائی حملے‘ مختلف افراد‘ سیاسی شخصیات کا قتل اور اس کی تصویریں___ یہی کچھ افغانستان میں گذشتہ چند مہینوں سے ہو رہا ہے۔

بعض لوگوں کا یہ گمان تھا کہ امریکی تسلط کے کئی سال گزرنے اور افغانستان کے اکثر علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد حالات معمول پر آگئے ہیں اور امریکا کے لیے سازگار ہوگئے ہیں‘ جب کہ اس کے برعکس ناٹو کی افواج جو موسم گرما ۲۰۰۳ء کے بعد سے افغانستان میں ہیں‘ یہ سمجھ چکی ہیں کہ اصل امتحان ابھی شروع نہیں ہوا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سیکورٹی فورسز کی ساری کوششوں کا مرکز قندھار ہے اور اُن کا یہ کہنا ہے کہ ان علاقوں میں طالبان کی آواز اب بھی توانا ہے‘ اُن کی تعداد بہت ہے اور انھیں قبائل اور عوام الناس کی بڑی تائید حاصل ہے۔

طالبان کے حملوں کا آغاز کرنے میں جغرافیائی حدود کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔ یہاں کے پہاڑی سلسلے امریکیوں کے لیے بڑی سخت رکاوٹ ہیں۔ جغرافیائی قبائلی حدود کا باہم ملنا بھی طالبان تحریک کی سرگرمیوں کو چھپنے کے لیے مواقع اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ ہم امریکا کو پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ مغربی کنارے اور شہروں کے مضافات سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ قندھار ایئرپورٹ کو امریکی افواج نے اپنا بیس کیمپ بنا یا ہے‘ وہاں بھی ہیلی کاپٹر عام پرواز نہیں کرسکتے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لڑائی کے جلد ختم ہونے کے آثار نہیں ہیں۔

اب امریکی قندھار‘ زابل اور ازرگان کے علاقوں کی مثلث میں روزانہ کی جھڑپوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان‘ اُن کا اسلحہ‘افرادی قوت‘ عسکری طاقت‘ اُن کے حمایتی اور قائدین بڑھ رہے ہیں۔ اُن کا خاتمہ نہیں ہوا جس طرح بعض لوگوں کا گمان ہے۔ امریکی ذرائع نے کئی سالوں سے طالبان سے بات چیت کی کوششیں کی اور گویا اب یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ امریکا نے ابھی تک کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں کیا‘علاوہ اس کے کہ طالبان جنگجوئوں کو تقسیم کر کے کمزور کر دیا ہے۔ حقیقتاً طالبان کی قوت موجود ہے۔ اُن کے قائد ملاعمر گرفتاری سے بچے ہوئے اور آزاد ہیں۔

پچھلے کچھ دنوں سے امریکا مجبور ہوگیا ہے کہ طالبان کے وجود اور اُن کے خطرے کااعتراف کرے۔ وہ حقیقت سے آنکھیں چرانے اور بلاوجہ تاویل کرنے اور راہ فرار اختیار کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے آخری لڑائیوں میں طالبان کے نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہاہے۔حالیہ عسکری کارروائیوں میں اکثر ’مارو اور چھپ جائو‘ کی صورت حال اور سڑکوں پر لڑائی کی کیفیت رہی جن میں طالبان کو کافی مال غنیمت ہاتھ آتا رہا۔

افغانستان میں موجودہ صورت حال فقط عسکری کارروائیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ طالبان کی بھرپور واپسی کا آغاز ہے اور اُن کی صفوں کی ازسرنو ترتیب ہے‘ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان میں طالبان کے لیے نہایت مثبت ردعمل ہے۔ افغانستان کے عوام جنھوں نے حامدکرزئی اور امریکی تسلط کے چار سال گزارے ہیں ‘ ان کے لیے افغانستان کے معاملات میں واپسی کا ایک اچھا موقع ہے۔ اس کا آغاز امریکی تسلط کے خلاف جدوجہد سے ہوچکا ہے۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۷۰‘ ۲۴ ستمبر ۲۰۰۵ئ)

فنڈ جمع کرنے کے لیے ورائٹی شو

سوال: میں ایک مقامی گورنمنٹ کالج میں ملازم ہوں۔ کالج میں آج کل غیرشرعی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں جن کی وجہ سے پریشان رہتی ہوں اور اب آپ سے مشورہ طلب کر رہی ہوں۔

آج کل حکومت سرکاری تعلیمی اداروں کو بہت کم گرانٹ دے رہی ہے۔ اس لیے کالج کی انتظامیہ اخراجات کے مسئلے پر بہت مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ کالج انتظامیہ جب اخراجات کی زیادتی اور فنڈز کی کمی کی شکایت کرتی ہے تو ڈائریکٹریٹ سے جواب ملتا ہے ورائٹی شو اور مینابازار کروا لو۔ اس طرح گرلز کالجوں میں فنڈ ریزنگ کے نام پر ورائٹی شو‘ مینابازار‘ میوزک فیسٹیول اور کلچرل شو تقریباً ہر دوسرے چوتھے دن کے مسائل بن چکے ہیں جس سے ایک طرف تو ان کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف طالبات میں بے راہ روی پھیلتی ہے‘ اور نادار طالبات پر بوجھ بھی ہے۔ ان مینابازاروں اور کلچرل شوز میں عموماً آدھے اسٹال باہر کے مردوں کو دے دیے جاتے ہیں۔ پھر مردوں والے اسٹالوں پر زیادہ رش ہوتا ہے اور آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہاں ناچ گانا‘ ڈانس‘ ہوٹنگ‘ چیٹنگ‘ فوٹوسیشن وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ اسلامی شعائر کے خلاف ہے۔ دین دار اساتذہ کو ایسی ڈیوٹیاں انجام دینے پر سخت پریشانی لاحق ہوتی ہے۔

ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ میراتھن ریس کی ناکامی کے بعد حکومت نے خواتین کے میچوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس میں بھی کئی قباحتیں ہیں۔ جبری ڈیوٹی سے انکار پر محکمانہ کارروائی کا خوف دلایا جاتا ہے۔کیا ہمارے لیے کسی حد تک ان ڈیوٹیوں کی گنجایش نکلتی ہے؟ ہم بارِ گناہ و جرم سے اپنے آپ کو کس حد تک سبکدوش سمجھ سکتے ہیں؟

جواب :تعلیمی اداروں میں چندہ جمع کرنے کے لیے ورائٹی شو منعقد کرنا لادینی تہذیب کی ایک حکمت عملی ہے اور قیام پاکستان سے آج تک برسرِاقتدار طبقے نے ہمیشہ ایسے کاموں کی حمایت ہی کی ہے‘ الا ماشاء اللہ۔ لیکن کسی برائی کا مسلسل کیا جانا نہ اسے حلال کر دیتا ہے اور نہ اس کی خرابی میں کمی کرتا ہے۔ قرآن کریم نے ایسی برائیوں کی جاے ارتکاب پر سے الگ سے گزر جانے کا حکم دیا ہے اور لغو سے مکمل طور پر بچنے کی تلقین کی ہے۔ اس لیے ایک باشعور مسلمہ کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ ایسے کسی کام میں تعاون سے بچے۔

اس اصولی موقف کی وضاحت کے بعد زمینی حقائق کے پیش نظر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ضرر اور منکر کو رفع کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ ایک شکل یہ ہوسکتی ہے کہ ایک معلمہ اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے پرنسپل کو تحریری یا زبانی طور پر مطلع کر دے کہ اس کی تدریسی ذمہ داری میں خلاف اسلام ورائٹی شو کروانا شامل نہیں ہے۔ اس لیے اسے اس سے رخصت دے دی جائے۔ اگر انتظامیہ معقول ہو تو اسے اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ امریکا میں ویت نام کی جنگ کے موقع پر غیرمسلم عیسائی اور دہریہ امریکیوں میں سے بعض نے حکومت کی جبری بھرتی میں جانے سے محض اپنے ضمیر کی بنا پر انکار کیا اور بعض نے ملک چھوڑنا اور بعض نے جیل میں جانا پسند کیا لیکن جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس صورت حال میں جیساکہ آپ نے لکھا ہے‘ یہ امکان ضرور رہتا ہے کہ انتظامیہ بعض قوانین کی من مانی تعبیر کرتے ہوئے ایسے کسی فرد کو فارغ کر دے یا احکام کی حکم عدولی کی بنیاد پر کوئی کارروائی کر ڈالے۔ گویا اس حکمت عملی میں ملازمت سے فارغ کیے جانے کا خطرہ لازماً رہے گا۔

دوسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ وہ معلمات جو اس سرگرمی کو غلط سمجھتی ہیں دیگر معلمات سے تبادلۂ خیال کریں اور اس کے مضر پہلوئوں پر انھیں قائل کرنے کے بعد سب مل کر متبادل طریقے تلاش کریں جن سے فنڈ بھی مل سکے اور سرگرمی اسلامی اصولوںکے منافی نہ ہو۔ اس غرض کے لیے باہمی مشاورت سے ایسے پروگرام سوچے جائیں جن میں کھانے پینے کی اشیا کی فروخت‘ جیسے bakesale ہوتی ہے‘ کے ذریعے فنڈ پیدا کیا جائے اور اسٹال صرف خواتین لگائیں‘ مردوں کا داخلہ مکمل طور پر ممنوع ہو۔ اس کے لیے باہمی مشورے سے شرائط وغیرہ تیار کی جائیں اور ایک جائز طریقے سے فنڈز کا حصول ممکن بنایا جائے۔

اس کے ساتھ اخبارات میں کالم اور خطوط کے ذریعے راے عامہ کو کالج اور اسکول کے اس مسئلے سے مطلع بھی کیا جائے اور اسے تیار بھی کیا جائے۔ اگر معلمات کی کوئی مقامی یا مرکزی تنظیم ہو تو وہ اس مسئلے پر علمی مکالمے کاانتظام کرے تاکہ انتظامیہ کو مختلف نقطہ ہاے نظر سننے کا موقع ملے اور وہ اسے کوئی سیاسی رنگ دے کر چند ایسے افراد کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہ ہو جن پر ’’ملائیت‘‘ کی چھاپ جب چاہیں لگا سکتے ہیں۔یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اگر تمام مثبت کوششوں اور ابلاغ کے ذریعے اپنے مؤقف کی وضاحت کے باوجود آپ کو کامیابی نہ ہو تو کم از کم ایک برائی کو دُور کرنے کی کوشش کا اجر آپ کو ضرور ملے گا۔ ہاں‘ اگر حالتِ اضطرار میں‘ یعنی مجبوری کی شکل میں جب آپ کے پاس حلال طور پر حصول رزق کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہوئے اور اپنی حد تک برائی کو برائی قرار دیتے ہوئے‘ ایسی سرگرمی میں حصہ لیں۔

جہاں تک معاملہ طالبات کے دوڑ میں حصہ لینے‘ کرکٹ میچ‘ یا کھیلوں میں حصہ لینے کا ہے‘ اگر ایسا پروگرام کسی ایسے مقام پر کیا جا رہا ہے‘ جہاں طالبات مردوں کی نگاہوں سے محفوظ ہیں اور ان کے لباس ساتر ہیں تو دوڑنا بجاے خود کوئی غیرشرعی فعل نہیں ہے لیکن یہی کام اگر غیرساتر لباس اور مردوں کی موجودگی میں کیا جائے تو اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔ اس سلسلے میں بھی معلمات اور طالبات میں راے عامہ کو ہموار کرنا‘ انھیںاسلامی حدود میں رہتے ہوئے سرگرمی کرنے پر اُبھارنا اور غیراسلامی طریقے کا رد کرنا آپ کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے دعوتی انداز میں حکمت عملی وضع کرنا ہوگی محض غصہ اور نفرت کے اظہار سے مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا۔ طالبات کی جانب سے بھی اس پر رائے کا اظہار اجتماعی طور پر ہونا چاہیے لیکن اس سے قبل آپ کو کوشش کر کے طالبات اور معلمات کے ذہن کو اسلامی نقطۂ نظر سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ وقت کی قید سے آزاد ہوکر اور جلد نتائج پیدا کرنے سے بچتے ہوئے ایک طویل حکمت عملی کے ذریعے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے صبرواستقامت ہی واحد ذریعہ ہیں۔ یہ جہاد ہمارے ملک کی ہر باشعور معلمہ کو کرنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد ایسے کاموں میں برکت پیدا کرے گی‘ان شاء اللہ۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

تاریخِ اسلام کی عظیم شخصیات ‘ ناعمہ صہیب۔ ناشر: فضلی بک سپرمارکیٹ‘ نزد ریڈیو پاکستان‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات:۵۰۰ (مجلاتی سائز)۔ قیمتمجلد: ۳۵۰ روپے۔

انسانی زندگی کا قافلہ‘ روشن دماغوں اور کردار کی دولت سے مالا مال انسانوں ہی کے دم سے انسانیت کی پہچان رکھتا ہے۔ قحط الرجال کے اس عہد میں‘گزرے لمحوں کی عظیم شخصیات سے واقفیت مایوسی کے پردے ہٹاتی اور امید کے دیے روشن کرتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب عصرِحاضر کو زیربحث نہ لانے کے باوجود ۲۰ منتخب شخصیات پر کلام کرتے ہوئے بڑی خوب صورتی سے ماضی کو حال سے جوڑ دیتی ہے۔ پھر عصری بحران سے نکلنے کے متعدد راستے خود بخود نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں۔

قرن اوّل سے لے کر موجودہ عہد تک ۲۰ شخصیات کا انتخاب ایک بڑا مشکل اور نازک کام تھا۔ مصنفہ نے ہر شخصیت کے انتخاب کے لیے مطالعے اور دانش کے منصف سے فیصلہ لیا۔ بڑی وسیع معلومات میں سے بنیادی چیزوں کو اس طرح گوندھ کر ہر مضمون کو تشکیل دیا کہ واقعات   حسنِ توازن‘ ہمواری اور معنویت کی شیرازہ بندی کر کے نظروں میں سما جاتے ہیں۔ ایک جانب فقہ‘ حدیث‘ دعوت‘ جہاد جیسے علمی اور عملی کاموں کی تفصیل سامنے آتی ہے تو دوسری طرف تکفیر‘ فرقہ پرستی‘ مفاد پرستی اور شرک کی آکاس بیل سے بچائو کی تدابیر بھی نظرنواز ہوتی ہیں۔

خوب صورت نقشے اور عام فہم اسلوب نے تاریخ اور تجزیے جیسے بھاری موضوع کو ناول سے زیادہ دل چسپ بنا دیا ہے۔ ہر شخصیت اسلامی تاریخ کے کسی نہ کسی بنیادی رنگ سے واقفیت   بہم پہنچاتی ہے۔

زیرمطالعہ شخصیت سے ایک خاص نوعیت کی انسیت پیدا ہوتی ہے اور دل میں امنگ پیدا ہوتی ہے کہ خدا کرے ایسی شخصیات دیکھنے کو ملیں‘ طلب اور امید کا یہ سنگم مطالعے کو باثمر بنا دیتا ہے۔ تواریخ کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ’’مسلمانوں کی مختصر سیاسی تاریخ‘‘ ۱۴۰۰ برسوں پر ایک جامع تبصرہ ہے۔ کتاب کے مندرجات سے اکثر جگہ اتفاق کرنے کے باوجود چند مقامات سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ جس میں احیا پسنداشخاص اور تحریکوں کو ’بنیاد پرست‘ گروہ میں شامل تصور کرنا (ص ۴۹۳)‘ یا پھر یہ کہنا: ’’اخوان المسلمون [کو] عالمِ عرب میں بے تحاشا مقبولیت حاصل ہوئی۔ مگر اس نے سیاست میں حکومت سے شدید محاذ آرائی کا رویہ اختیار کر کے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا‘ اور بری طرح مار کھائی‘‘ (ص ۴۹۴)‘ یک رخا تبصرہ ہے۔ پھر یہ کہنا: ’’تمام اصلاحی‘ احیائی اور تجدیدی [تحریکیں] ماضی کی تمام غلط‘ صحیح روایات کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اصلاح کی خواہش اور ذرا سی ترمیم بھی انھیں گوارا نہیں۔ یہ اپنے حال میں خوش اور مطمئن ہیں‘‘ (ص ۴۹۵)‘ بذات خود ناہموار بیانیہ ہے۔ چند جگہ سنین کا بھی مسئلہ ہے‘ لیکن ایسی اِکا دکا مثالیں کتاب کے مجموعی کارنامے کی قدرومنزلت اور پیش کش کے خوش رنگ و وقار میں کمی نہیں پیدا کرتیں۔ مصنفہ اور ناشر دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصورخالد)


بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد، ابن رشد القرطبی۔ ناشر: دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۲۴۰۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔

مختلف مسالک کی علمی تحقیقات کا یہ بے مثال اور نادر مجموعہ قاضی ابوالولید محمدبن رشدالقرطبی الاندلسی کی تصنیف ہے۔ ان کا خاندان پشت ہاپشت سے علوم و فنون کا گہوارہ چلا آرہا تھا‘ اس طرح اللہ کے فضل سے انھیں تعلیم و تربیت کا بہترین اور سنہری موقع میسرآیا۔ ابن رشد نے قرآن‘حدیث اور فقہ پر پوری دسترس حاصل کرکے فلسفے کی طرف توجہ کی اور اس وقت کے مشہور علماے فلسفہ و طب سے علم فلسفہ و طب کی تکمیل کی۔

ہردور میں نادرِ روزگار شخصیتیں حاسدوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ علامہ ابن رشد بھی حاسدین کی رقابت کا شکار ہوئے۔ آپ کو بے دین اور ملحد قرار دیا گیا۔ جس کی وجہ سے آپ کو جلاوطنی کی سزا بڑی بے بسی اور زبوں حالی سے گزارنی پڑی۔ حقیقت حال کھل جانے پر خلیفہ منصور عباسی نے انھیں رہا کیا۔ رہائی کے ایک سال بعد مراکش میں بیمار ہوکر ۵۹۰ھ میں وفات پائی۔

مختلف علوم‘ مثلاً فلسفہ‘ طب‘ فقہ‘ اصول فقہ‘ علمِ نحو اور علمِ ہیئت پر کم و بیش ۷۰ کتابیں ان کی یادگار ہیں۔ سب سے زیادہ شہرت زیرنظر بدایۃ المجتہد کو ملی کیوں کہ یہ کتاب کسی مسئلے کے بارے میں تمام بڑے بڑے ائمہ کرام اور علماے عظام کی آرا کا انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں آرا کے ساتھ ساتھ ان کے دلائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ کتاب بیک وقت فقہ اور مصادر فقہ کا ایک بہترین اور حسین امتزاج بن گئی ہے۔ علامہ ابن رشد مختلف ائمہ اسلام کی آرا کے اختلاف کی وجہ بھی بتاتے ہیں‘ پھر اپنے نزدیک ترجیحی مسلک کا ذکر کر کے اس کی وجہ بھی بیان کردیتے ہیں۔ آپ اندھی تقلید کے بجاے علمی و تحقیقی تقلید کے قائل ہیں۔ وہ تعصبِ مسلکی کا شکار نہیں‘ علمی ترجیح کو وزن دیتے ہیں۔

اس قدروقیمت کی حامل کتاب اچھے اُردو ترجمے سے محروم تھی۔ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی نے اس شاہ کار کتاب کا اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا بڑا علمی کام ہے اور قابلِ قدر ہے مگر اس کتاب کا ترجمہ کرتے وقت کافی مقامات پر تسامح ہوگیا ہے‘ مثلاً (ص ۹۷ پر) انما ذلک عرق ولیس بالحیضۃ کا ترجمہ موصوف نے کیا ہے:’یہ تو بس پانی ہے حیض نہیں ہے‘ جو صحیح نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے: ’یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں‘۔اس سے استحاضہ اور حیض میں فرق واضح کیا گیا ہے۔ اسی طرح ص ۱۰۹ پر عرق کا معنی ’’رطوبت‘‘ کیا ہے حالاں کہ یہاں بھی وہی ’رگ‘ کا معنی ہے۔ اسی طرح ترجمہ‘ اعراب اور پروف کی اغلاط کافی پائی جاتی ہیں‘ تاہم اغلاط و تسامحات کے باوجود ڈاکٹر صاحب اور ناشرین نے بڑی خدمت انجام دی ہے۔ (عبدالوکیل علوی)


حدود قوانین اور رضوی کمیشن تجزیاتی مطالعہ ، ثریا بتول علوی۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۹۶۔قیمت: ۲۱ روپے۔

زیرنظر کتاب میں مصنفہ نے جنرل پرویز مشرف صاحب کے مقرر کردہ ویمن کمیشن کا حدود قوانین کے بارے میں اعتراضات کا علمی انداز میں جائزہ لیا ہے۔ یہ دراصل ایک مکتبِ فکر کا جائزہ ہے جو اسلامی روایات اور اقدارِ حیات سے ناآشنا ہے۔ اس سے وابستہ لوگ جن میں خواتین کچھ زیادہ سرگرم نظرآتی ہیں یورپ کی کورانہ تقلید سے اپنا تشخص مسخ کرچکے ہیں۔ اس کتاب میں حدود آرڈی ننس مجریہ ۱۹۷۹ئ‘ جو منتخب اسمبلی کے ۱۹۸۵ء میں منظوری کے بعد ملکی قوانین بن چکے ہیں‘ کمیشن کے مطالبات کا علمی و فکری جائزہ لیا گیا ہے جو بنیادی طور پر نہ صرف غیرآئینی‘ غیرقانونی بلکہ مضحکہ خیز ہیں۔ مصنفہ نے کمیشن کے اعتراضات کا قرآن و سنت‘ الہامی اور غیرالہامی مذاہب کے حوالے سے مضبوط دلائل کے ساتھ جواب دیا ہے۔ ان اسباب اور عوامل کی بھی نشان دہی کی ہے جن کی وجہ سے قوانین حدود کے نفاذ سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ ’’منافی قانون اور الٰہی قانون کا فرق‘‘، ’’اسلامی قانون اور مغربی قانون کا تقابلی جائزہ‘‘، نیز ’’نفاذ حدود کی مختصر تاریخ‘‘ عنوانات کے تحت اہم علمی نکات زیربحث آئے ہیں۔

اصلاح احوال کے لیے انھوں نے ملّت (اُمّہ) اور مملکت کے سامنے چند تجاویز اور سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ ان میں ایک تجویز فقہ کی تدوینِ جدید بھی ہے۔

ہمارے جدید تعلیم یافتہ اسلامی ذہن رکھنے والے طبقے نے اس معاملے کو ایک مسئلہ بنا دیا ہے‘ جب کہ اسلام میں یہ ایک طے شدہ معاملہ ہے کہ اجتہاد کے دروازے قرآن و سنت اور    خاص طور پر حدیث معاذؓ کے حوالے سے ہمیشہ ہر دور کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب محض قرآن و سنت کے قوانین‘ یعنی حدود کو زمانے کے احوال و ظروف کے سانچوں میں ڈھالنا نہیں ہے بلکہ اجتہاد کا مطلب ہر دور کے معاملات جن کا تعلق معاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور ہر شعبۂ زندگی سے ہے‘ ان کو قرآن و سنت کے ابدی احکام سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ جیساکہ ہمارے اس استدلال سے اتفاق کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ نے ۱۹۹۳ء میں اپنے معرکہ آرا فیصلہ ظہیرالدین بنام سٹیٹ میں حتمی طور پر یہ قرار دیا ہے کہ آئین کے بنیادی حقوق (fundamental rights) بھی قرآن و سنت کے تابع ہیں اور جو قانون بھی اس سے متصادم ہو وہ کالعدم ہوگا۔ (محمد اسماعیل قریشی ایڈوکیٹ)


لمحہ بہ لمحہ زندگی ، ابوالامتیاز ع س مسلم۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۷۳۰۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

زیرنظر آپ بیتی مصنف (پیدایش: ۱۹۲۲ئ) کی کثیرالجہات‘ متحرک اور جدوجہد سے بھرپور زندگی کے واقعات و حوادث اور فکری و ذہنی رویوں کی ایک دل چسپ داستان ہے۔ اس کے ساتھ یہ اپنے عہد اور ماحول کی معتبر تاریخ بھی ہے۔ یہ اس اعتبار سے بھی قابل توجہ ہے کہ ابوالامتیاز فقط ایک شاعر اور ادیب نہیں اور انھوں نے محض قلم کی جولانیاں ہی نہیں دکھائیں (نظم و نثر کی ۱۵کتابوںکے مصنف ہیں)‘ بلکہ ملک کے اندر اور بیرون ملک کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ سماجی خدمات بھی انجام دیں‘ سرکاری اور غیرسرکاری نوکریاں کیں‘ طرح طرح کے خطرات اور مشکلات سے دوچار ہوئے۔ نہ صرف بچپن بلکہ عملی زندگی میں بھی خوش حالی کے ساتھ مفلوک الحالی کا مزہ چکھا‘ بایں ہمہ انھوں نے زندگی کو ایک مسلسل آزمایش اور پیہم امتحان کی طرح گزارا۔ اپنے سفرحیات میں مسلم صاحب نے جو کچھ دیکھا‘ سنا اور تاثر اخذ کیا ہے لمحہ بہ لمحہ زندگی میں حتی الامکان اس کی سچی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔

پہلے دو ابواب میں آبا و اجداد اور وطن (لوہ گڑھ) جالندھر کا ذکر ہے۔ یہ ابتدائی حصہ پنجاب کی اچھی بری روایات‘ تہذیب و ثقافت اور رسوم و رواج کا ایسا سچا اور بھرپور مرقع ہے کہ شہروں میں پلے بڑھے اور دیہاتی زندگی کے تجربے سے ناآشنا نوجوانوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ اسکول کی تعلیم کے لیے عبدالستار (ع س)کو میلوں روزانہ سفر کر کے آنا جانا پڑتا تھا۔ اس سخت کوشی نے انھیں مابعد زندگی میں بہت فائدہ پہنچایا۔ ان کا بیشتر وقت کراچی اور بیرون ملک گزرا۔ انگریزوں سے الجھے‘ تحریک پاکستان میں بھرپور شرکت کی اور طباعت و اشاعت کا کام بھی کیا۔ پاکستان رائٹر گلڈ کا پہلا انعام یافتہ ناول خدا کی بستی انھوں نے ہی چھاپا مگر اس کے مصنف شوکت صدیقی نے جس دھڑلے سے تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کی‘ جھوٹی قسمیں کھائیں‘ مسلم صاحب کو مغلّظات سنائیں اور الٹا ’’اُوپر‘‘ سے کہہ کہلوا کر انھیں عدالت کے ذریعے سزا دلوانے کی کوشش کی‘ وہ اشتراکیوں اور نام نہاد ترقی پسندوں کے گھنائونے کردار کی افسوس ناک مثال ہے۔

ابوالامتیاز کی مہم جو طبیعت کبھی نچلّا بیٹھ رہنے پر قائع نہیں رہی۔ یوں تو انھوں نے طرح طرح کی انجمنیں بنائیں اور کئی چھوٹے موٹے ادارے قائم کیے‘ مگر ان کا بڑا کارنامہ ۱۹۶۰ء میں ذہنی پسماندگان کے لیے قائم کردہ ادارہ سائنوسا ہے(اس صدقۂ جاریہ کی تفصیل ان کی کتاب پاکستان میں ذہنی پس ماندگی میں دیکھی جاسکتی ہے)۔

لمحہ بہ لمحہ زندگی خاصی متنوع کتاب ہے ذاتی شخصی حالات‘ گھریلو زندگی ’’لون‘ تیل‘ لکڑیاں‘‘ سیلزمینی‘ افسری‘ طرح طرح کی مہم جوئی‘ ادب‘ سیاست‘ ٹریڈ یونین لیکن اس سب کچھ میں ان کی سلیم الطبعی ہمیشہ برقرار رہی۔ اس خودنوشت میں ملک و ملت سے ان کی محبت کا جذبہ اور دین سے ایک گہری وابستگی نمایاں ہیں۔ قابلِ تحسین بات یہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور ہر قسم کی بے اصولی اور بددیانتی سے اجتناب کیا۔ اگر اس خود نوشت کے بعض حصے نصابات میں شامل ہوسکیں تو بہت اچھا ہے۔

کتاب میں ترقی پذیر‘ تنزل پذیر جیسی تراکیب میں ’’پذیر‘‘ کو ہر جگہ ’’پزیر‘‘ لکھا گیا ہے۔ یہ لفظ ذال سے ہونا چاہیے نہ کہ زے سے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


آسمانِ رحمت، اعجاز رحمانی۔ ناشر: ادارہ مدحتِ رسولؐ، اے ۴۴‘ سیکٹر ۵-ایم‘ نارتھ کراچی‘ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

اعجاز رحمانی ایک پختہ فکر‘ پُرگو اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔ نعت‘ ان کی سخن گوئی کا خاص میدان ہے۔ ۱۱ شعری مجموعوں میں سے پانچ نعتیہ ہیں۔ ان کی نعتیں رسمی‘ روایتی یا رواجی نہیں بلکہ حب رسولؐ کے جذبے کا ایک بے ساختہ مگر متوازن اظہار ہیں۔ بڑی ہوش مندی سے وہ توحید و رسالت کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان کے ایک تجزیہ نگار انوار عزمی کہتے ہیں کہ میں نے ایک ایک شعر کو ہرہر زاویے سے چھانا پھٹکا ہے کہ اعجاز رحمانی نے بشری تقاضے یا اندھی عقیدت کے تحت توحید کو کہیں مجروح نہ کیا ہو مگر خدا کا شکر ہے کہ مجھے اس طرح کا کوئی قابلِ اعتراض شعر نظر نہیں آیا۔

دوسری اہم بات جس کی طرف خواجہ رضی حیدر نے اشارہ کیا ہے‘ یہ ہے کہ چونکہ اعجاز رحمانی اسلامی انقلاب کے داعی ہیں‘ اس لیے ان کے ہاں اظہار عقیدت کے وفور کے ساتھ‘ دعوت و اصلاح کا شعور بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ (ر - ہ )


متاعِ فکرونظر، عثمان غنی عادل۔ ناشر: فاران بک ڈپو‘ ۸ وہائٹ ہائوس‘ سی ایس ٹی روڈ‘ کرلا (ویسٹ) ممبئی-۷۰۔ صفحات: ۳۵۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے بھارتی۔

یہ کتاب متفرق مضامین‘ مصاحبوں اور تبصروں وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے اکثر بھارت کے مختلف رسائل و جرائد میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ کتاب میں موضوعات کا پھیلائو زیادہ ہے جو بعض صورتوں میں گراں محسوس ہوتا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ ایک مثبت علمی اور فکری کاوش ہے۔

مصنف نے معاصر مسلم دنیا کے مسائل کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور ان کے حل کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ ہمیں فروعی اختلافات اور ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں کو اُچھالنے کے بجاے اپنی توانائیاں اتحاد اُمت کے لیے وقف کرنی چاہییں۔ سیدابوالحسن علی ندوی اور شیخ عبدالبدیع صقر کے مختصر مصاحبے بھی شامل ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی‘ مولانا احمد رضا خاں بریلوی‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شیخ مولانا محمد زکریا وغیرہ کی خدمات کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔

کتاب کے ایک حصے کا رنگ ادبی اور صحافتی ہے۔ چنانچہ میڈیا اور تعلیم کے مسائل سے لے کر زبان وادب کے مسائل‘ تعارف کتب‘ خطوط بنام مدیرانِ جرائد‘ سوال نامہ اور تبصرۂ معاصرین جیسی متنوع تحریروں کو شامل متن کیا گیا ہے۔ اس سے ربط و ترتیب کی موزونیت متاثر ہوئی ہے۔ اگر مصنف اس کتاب کے مندرجات کو ایک سے زائد الگ الگ حصوں کی زینت بناتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)


بچوں کی صحافت کے سو سال، مرتب: ضیاء اللہ کھوکھر۔ ناشر: عبدالحمید کھوکھر‘ یادگار لائبریری‘ ۸۳-بی‘ ماڈل ٹائون‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۱۱۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

علمی و ادبی اور دینی و مذہبی رسائل کی بہت سی فہرستیں مرتب کی گئی ہیں (اور ان کے متعدد اشاریے بھی)‘ مگر بچوں کے رسائل کی یہ پہلی فہرست ہے جو عبدالمجید کھوکھریادگار لائبریری گوجرانوالہ میں ۲۰۰۲ء تک موجود ۲۰۰ سے زائد رسائل کی توضیحی فہرست ہے‘ یعنی اس میں ہر رسالے کا مقامِ اشاعت‘ ایڈیٹر‘ آغاز کا سنہ وغیرہ بھی بتایا گیا ہے۔

اس فہرست کے مطابق بچوں کا سب سے پہلا رسالہ بچوں کا اخبار تھا جو لاہور سے مولوی محبوب عالم نے مئی ۱۹۰۲ء میں جاری کیا تھا۔ ۱۰۰ سال سے زائد عرصے میں‘ بچوں کے سیکڑوں رسالے نکلے اور چند ایک اب بھی نکل رہے ہیں۔ اس اعتبار سے اُردو‘ ایک باثروت زبان ہے۔ بہرحال یہ ایک معلومات افزا فہرست ہے جس میں قدیم و جدید رسائل کے سادہ و رنگین سرورق بھی شامل ہیں۔(ر-ہ)


تعارف کتب

  • تدوین سیرو مغازی، قاضی اطہر مبارکپوری۔ ناشر: فضلی بک‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘کراچی۔ صفحات: ۳۴۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [اپنے موضوع پر پہلی اور منفرد کتاب جس میں پہلی صدی کے نصف آخر سے تیسری صدی تک کے علماے سیرومغازی اور ان کی تصانیف کا ذکر ہے۔ مصنف نے آٹھ سال کی طویل مدت (۱۴۰۱ھ تا ۱۴۰۹ھ) میں لکھا ہے۔ ڈاکٹر عبدالجبار شاکر کا ۲۲ صفحات کا مقدمہ اپنی جگہ ایک قیمتی علمی کاوش ہے]۔
  • سہ ماہی اُردو سائنس میگزین ‘ اُردو سائنس بورڈ۔ مدیر: اسلم کولسری ۔وفاقی وزارت حکومت پاکستان‘ ۲۹۹-اپرمال‘ لاہور۔ [سائنس کے مضامین کو آسان زبان اور عام فہم انداز میں بیان کرنے والا سہ ماہی رسالہ ہے۔ اس شمارے میں مسلم سائنس دان الجزری‘ ذیابطیس‘خلائی اسٹیشن اور دیگر مضامین شامل ہیں۔ سائنسی ذہن بنانے اور سائنسی شعور بیدار کرنے میں مفید۔ مسئلہ تو پاپولر سائنس کے اس رسالے کو پاپولر بنانے کا ہے۔ عوام میں نہ سہی‘  طالب علموں میں ہی ہوجائے۔
  • رسائل توحید ‘حصہ اوّل‘ محمد بن عبدالوہاب‘ ترجمہ: حامد محمود۔ اسلامک سنٹر نزد سخی سلطان کالونی‘ سورج میانی روڈ‘ ملتان۔[محمد بن عبدالوہاب کی یہ تحریر گہرے غوروفکر کے ساتھ مطالعے کی متقاضی ہے۔ عقائد کے حوالے سے بنیادی مباحث آگئے ہیں۔ لا الہ الا اللہ کی شروط‘ اور نواقض الاسلام‘ یعنی جن باتوں سے آدمی مسلمان نہیں رہتا (۱۰باتیں بیان کی گئی ہیں) توحید‘ شرک‘ کفر‘ سب کچھ انھی ۵۰ صفحات میں آگیا ہے۔ مترجم نے بھی ۷ صفحے میں ’’عرض‘‘ کیا ہے۔]

پروفیسر نذیر احمد بھٹی‘بہاول پور

’’دہشت گردی کے الزام اور اُمت مسلمہ‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ)‘ میں محترم قاضی حسین احمد نے جس سوز و درد سے تجزیہ کیا ہے‘ اصحاب فکر و دانش کو اس پر توجہ کرنی چاہیے۔ ’’عالمی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی سیمی نار‘‘ منعقد کرنے اور ایک متفقہ مؤقف مرتب کرنے کی تجویز جلد عمل درآمد کی متقاضی ہے۔


پروفیسر نصیرالدین ہمایوں ‘لاہور

’’تہجد اور تزکیہ نفس‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۵ئ) ہمارے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوا ہے‘ بالخصوص موجودہ حالات میں جو مسائل ذہن کو پریشان رکھتے ہیں ان کا شافی جواب مل گیا ہے۔ تفہیم القرآن کی اہمیت مسلمہ ہے مگر مولانا مودودیؒ کے درس قرآن کی اپنی تاثیر اور اہمیت ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ کوئی تحریکی تحقیقی ادارہ ان سب دروسِ قرآن کو کتابی صورت میں لے آئے۔


محمد یاسر عابد ‘دیر

’’نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۵ئ) نے بہت متاثر کیا بلکہ آب دیدہ کر دیا۔ امریکا میں قید ایک قیدی کو ترجمان القرآن کا کوئی گذشتہ شمارہ ملتا ہے‘ اور خرم مراد کے ایک مضمون کوخطبہ جمعہ کا موضوع بناتا ہے اور اس کے ذریعے کئی غیرمسلم مشرف بہ اسلام ہوجاتے ہیں۔ تحریک سے وابستہ افراد کو سوچنا چاہیے کہ ہم دعوت کے کتنے امکانات کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے۔


عبدالوکیل علوی ‘لاہور

’’اشارات‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۵ئ) میں حاسبوا قبل ان تحاسبوا،خود اپنا احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے (ص ۱۸) کو فرمانِ رسول لکھا گیا ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کا قول ہے جیسا کہ ترمذی نے بیان کیا ہے‘ نیز درست یہ ہے: حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا۔


سید حامد عبدالرحمٰن الکاف‘یمن

’’عورت کی ملازمت‘‘ (ستمبر ۲۰۰۵ئ) میں درمیانی طبقے اور غریب طبقے کی عورتوں کی ضروریات کا ذکر ہے لیکن شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کی کمائی کے مواقع کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ ان مواقع کو ان عورتوں کے گھروں سے ۳۰۰‘ ۵۰۰ میٹر کے اندر اندر کسی مناسب مرکزی مقام پر ہونا چاہیے جہاں وہ پیدل‘    کم وقت میں اور آسانی سے پہنچ سکیں۔ ان مراکز میں چھوٹی چھوٹی‘ دستی اور گھریلو صنعتوں کو قائم کرنا چاہیے۔   اس میں کم سرمایہ لگتا ہے اور زیادہ کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ خام مواد اور مقامی‘ قومی اور عالمی نکاسی پر منصوبہ بندی کے ساتھ عمل ہونا چاہیے۔یہی اباحت پسند این جی اوز کا عملی جواب بھی ہے۔


روشن غنی ،خمیس ‘ سعودی عرب

ایران کے انتخابات پر محترم سلیم منصور خالد کے مضمون (اگست ۲۰۰۵ئ) کے بارے میں اپنے احساسات پیش کر رہا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ ایران کے انقلاب کو اسلامی انقلاب کہنا خلافِ حقیقت ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ مضمون شائع کر کے ہمیں کیا ثواب ملا‘ بلکہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ لوگ صحابہ کے دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ ایسے مضامین سے ہمارا ووٹ بنک بڑھے گا نہیں بلکہ کم ہوگا۔ تیسری بات یہ کہ خمینی کے لیے ’امام‘ کا لاحقہ استعمال کرنا بھی حد سے تجاوز کرنا ہے۔

سلیم منصور خالد: چند باتیں واضح رہنی چاہییں۔ پہلی یہ کہ ہر فرد‘ قبیلہ‘ گروہ‘ قوم یا ملک اپنے حوالے سے کچھ امتیازی پہچان کے پہلو رکھتا ہے۔ اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ انھیں اسی نام سے پکارا جاتاہے۔ ایران کا انقلاب‘ قومی سطح پر اپنے آپ کو اسلامی انقلاب کہلاتا ہے‘ اس لیے ہمیں اس کا حق بالکل اسی طرح تسلیم کرنا چاہیے‘ جس طرح ہم ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ نہ ہونے کے باوجود اسے ’اسلامی‘ اور ’جمہوریہ‘ قرار دیتے اور لکھتے ہیں۔عوامی جمہوریہ چین کو بھی ’عوامی‘ اور ’جمہوریہ‘ لکھتے ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب اپنے آپ کو شریعت کے مطابق اسلامی ریاست قرار دیتا ہے لیکن شیعہ حضرات سے قطع نظر خودسنی لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اس سے اتفاق نہیں رکھتی‘ تو کیا ہم اُن سے‘ اُن کی طے کردہ پہچان چھین کر اپنا لیبل  لگا دیں۔ یہ آپ نے گری ہوئی بات لکھی کہ مضمون ’ووٹ‘ بنک بڑھانے کے لیے لکھا گیا تھا اور آپ لوگ صحابہ کے دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ ایک عجیب بات ہے کہ جب علما کے ۲۲ نکات کا مسئلہ ہو تو علما کی مجلس میں شیعہ علما کے دستخط اکٹھے ہوں(جہاں پر مفتی محمد شفیع‘ مولانا ابوالحسنات قادری اور سیدسلیمان ندوی وغیرہ‘ شیعہ علما کے پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوں)‘ قادیانیت کے خلاف تحریک میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہمراہ شیعہ علما اور ذاکرین صفِ اوّل کے سُنی علما کے ساتھ بیٹھے نظر آئیں‘ متحدہ مجلس عمل یا ملّی یک جہتی کونسل بنے تو شیعہ‘ بریلوی‘ دیوبندی اور اہلحدیث اکٹھے جدوجہد کریں (اپنے اصولی مؤقف پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر)‘ لیکن جب ایک امرواقعہ یا سیاسی صورت حال پر تبصرے کا وقت آئے تو اسے ’صحابہ دشمنی اور شیعہ نوازی‘ کہا جائے اور ووٹ بنک بڑھانے کا حربہ قرار دے دیا جائے۔

جہاں تک لفظ ’امام‘ کے لاحقے کا تعلق ہے تو ریاست ایران اور ان کی عظیم اکثریت اپنے قائد کو ’امام‘ کے لفظ سے یاد کرتی یا پکارتی ہے۔ ترکی میں مصطفیٰ کمال کو ’اتاترک‘ اور پاکستان میں محمد علی جناح مرحوم کو ’قائداعظم‘ لکھاجاتا ہے۔ جو یہ نہیں لکھنا چاہتا نہ لکھے‘ مگر ہماری خواہش کے احترام میں ’قائداعظم‘ لکھنے والے کو مطعون کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔

قرآن و حدیث اور سائنسی حقائق

مجھے تو اپنی ۲۵ سالہ علمی تحقیق و تفتیش کے دوران آج تک ایک مثال بھی ایسی نہیں ملی ہے کہ سائنٹفک طریقے سے انسان نے کوئی حقیقت ایسی دریافت کی ہو جو قرآن کے خلاف ہو‘ البتہ سائنس دانوں یا فلسفیوں نے قیاس سے جو نظریے قائم کیے ہیں ان میں سے متعدد ایسے ہیں جو قرآن کے بیانات سے ٹکراتے ہیں‘ لیکن قیاسی نظریات کی تاریخ خود اس بات پر شاہد ہے کہ ایک وقت جن نظریات کو حقیقت سمجھ کر ان پر ایمان لایا گیا دوسرے وقت خود وہی نظریات ٹوٹ گئے اور آدمی ان کے بجاے کسی دوسری چیز کو حقیقت سمجھنے لگا۔ ایسی ناپایدار چیزوں کو ہم یہ مرتبہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قرآن کے بیانات سے ان کی پہلی ٹکر ہوتے ہی قرآن کو چھوڑ کر ان پر ایمان لے آئیں۔ ہمارا ایمان اگر متزلزل ہوسکتا ہے تو صرف اس صورت میں‘ جب کہ کسی ثابت شدہ حقیقت سے‘ یعنی ایسی چیز سے جو تجربے و مشاہدے سے مبرہن ہوچکی ہو‘ قرآن کا کوئی بیان غلط قرار پائے… ایسی کوئی چیز آج تک میرے علم میں نہیں…

ا: ڈارون کا نظریۂ ارتقا اس وقت تک محض نظریہ ہے‘ ثابت شدہ حقیقت نہیں۔ علی گڑھ ایک علمی مرکز ہے جہاں اس نظریہ پر ایمان لانے والوں کی اچھی خاصی تعداد آپ کو ملے گی۔ آپ خود انھی سے پوچھ لیجیے کہ یہ نظریہ (theory) ہے یا واقعہ (fact)؟ اگر ان میں سے کوئی صاحب اسے واقعہ قرار دیں تو ذرا ان کا اسم گرامی مجھے بھی لکھ دیجیے۔ ب: علی گڑھ میں فلکیات (astronomy) جاننے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ذرا ان لوگوں سے پوچھیے کہ کیا واقعی آفتاب ساکن ہے؟ اگر ایسے کوئی صاحب مل سکیں تو ان کے نام نامی سے بھی علمی دنیا کو ضرور مطلع کرنا چاہیے۔ غالباً آپ ابھی تک انیسویں صدی کی سائنس کو سائنس سمجھ رہے ہیں‘  جب کہ آفتاب متحرک نہ تھا۔ موجودہ سائنس کا آفتاب تو اچھی خاصی تیزی کے ساتھ حرکت کر رہا ہے۔ ج: قرآن مجید کی کوئی آیت میرے علم میں ایسی نہیں ہے جس میں کہا گیا کہ بادلوں میں چمک اور کڑک بجلی کے بجاے فرشتوں کے کوڑے برسانے سے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس قرآن مجید میں بارش کا جو عمل (process) بیان کیا گیا ہے وہ بالکل ٹھیک ٹھیک موجودہ زمانے کی سائنٹفک تحقیقات کے مطابق ہے اور اتنا جدید (up to date) ہے کہ پچھلی صدی کے وسط تک جو معلومات انسان کے پاس بارش کے متعلق تھیں ان کی بنا پر بعض لوگوں کو ان آیات کی تفسیر میں سخت پریشانی پیش آتی تھی  جن میں بارش کی کیفیت بیان کی گئی ہے…(’’رسائل و مسائل ‘‘، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ،ترجمان القرآن، جلد۲۷‘ عدد۳-۴‘ رمضان و شوال ۱۳۶۴ھ‘ ستمبر و اکتوبر ۱۹۴۵ئ‘ ص ۸۹-۹۰)