ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِبولہبی
شرارِ بو لہبی اور چراغِ مصطفویؐ کی کش مکش دراصل ایمان اور جا ہلیت کی کش مکش ہے اور یہ پہلے دن سے ہے۔ اس کا نمونہ آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے دکھا دیا گیا۔ افراد بدل جا تے ہیں‘ موضوعات تبدیل ہو جاتے ہیں ‘ایشوز بھی نت نئے سامنے آجاتے ہیں۔ زماں کی تبدیلی کے ساتھ مکان کی تبدیلی کو بھی دوام ہے۔ وہ سرزمین جہاں یہ برپا ہو اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کش مکش تاریخ کا حصہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ کش مکش اسلام کی دعوت کا لازمی تقاضا ہے۔ اس کش مکش کا ایک حصہ وہ ہے جو ہمارے اپنے سینے میں نفسِ امارہ اور نفسِ مطمئنہ کے درمیان پیکار سے عبارت ہے۔ پھر یہی کش مکش ہمارے ارد گرد‘ ہمارے گھروں میں ‘ ہمارے محلوں میں ‘ہمارے ملک میں اور پوری عالمی سطح پر ہو رہی ہے ۔ یہ نئی چیز نہیں‘ بالکل فطری ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس کش مکش کو سمجھا جائے‘اس کو جانا جائے اور اس کا مقابلہ کیا جائے۔ اس پہلو سے مغرب کی تہذیبی یلغار کے موجودہ دور میں‘ان کے اہداف‘ ان کے طور طریقے اور وہ ہماری جن چیزوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے‘ اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔
تہذیبی یلغار کی اصطلاح میں لفظ ’یلغار‘ کا استعمال بہت معنی خیز اور مغرب اور اسلامی دنیا کے موجودہ معرکے کی حقیقی کیفیت کاصحیح ترجمان ہے۔ آج جس کیفیت سے ہم گزر رہے ہیں وہ فی الحقیقت یک طرفہ حملے کی صورت ہے۔ فوجی‘ سیاسی ‘ سماجی‘ معاشی اعتبار سے قوی تر اور بالادست تہذیبی اور سیاسی قوت ہم پر حملہ آور ہے۔ یہ یک طرفہ جنگ ہے اور اسے یلغار ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ حقائق کی ٹھیک ٹھیک عکاسی ہے۔ جہاں تک تہذیبوں کے درمیان کش مکش کا اورخیالات کے ٹکراؤ کا سوال ہے‘ یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ افکار کے میدان میں مناظرہ اور مسابقت ایک ابدی حقیقت ہے۔ اقدار کا اختلاف اور موازنہ بھی ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ تہذیبوں کے ایک دو سرے کے اوپر اثر انداز ہو نے کایہی وہ طریقہ ہے جس سے افکار جلا پاتے ہیں‘ نئے تصورات ابھرتے ہیں اور ترقی کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ تبلیغ‘ ترقی ‘ دعوت‘شہادتِ حق یہ سب اس کے مختلف پہلو ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان مقابلہ اورمسابقت کوئی پریشان کن چیز نہیں ہے۔ میں اس کوخوش آمدیدکہتا ہوں۔ دعوت نام ہی اس بات کا ہے کہ ہم ہر گروہ ‘ہر فرد ‘ہر تہذیب ‘ ہرملک ‘ہر قوم تک پہنچیں ۔ان کی بات کو سنیں اور اپنی بات سنائیں۔دلیل سے بات کریں ۔ ا پنی دعوت کی صداقت کو ثابت کریں اور انھیں اپنے دائرے میں شامل کر نے کی کوشش کریں : اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔
تہذیبوں کے درمیان مسابقت اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہو نے کی کو شش ایک فطری چیز ہے۔ یہ فطری چیز تشویش کا باعث اس وقت بنتی ہے جب جن دو تہذیبوں یا جن دو قوموں یا جن دو افراد کے درمیان یہ معاملہ ہو رہا ہے وہ دلیل کی بنیاد پر نہ ہو‘حقائق کی بنیادپر نہ ہو ‘وہ مواقع کی یکسانی کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ ایک گروہ کو بالادستی حاصل ہوکہ وہ دوسرے کی کمزوری کا فا ئدہ اٹھا کر اس پر قوت کے ذریعے سے یا اثر انگیزی کے وہ ذرائع اختیار کرکے جو عقلی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہیں‘ اسے مغلوب کر نے کی کوشش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے یہ کہہ کر ایسے عمل کا در وازہ بند کر دیا کہ لا اکراہ فی الدین۔ اقدار میںمقابلہ ہو نا چاہیے ‘ انسانوں میں مذاکرہ ہونا چاہیے ۔ تبادلہ خیال اورڈائیلاگ انسانی زندگی ا ور تہذیب کے فروغ کا ذریعہ ہیں‘ ان کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے ۔ لیکن نہ آپ ظلم و جبراورطاقت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پرمسلط کریں اور نہ کسی کو اجازت دیں کہ وہ آپ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر محض اپنی قوت اور طا قت کا سہارا لے کر آپ کے عقائد‘ آپ کی اقدار ‘آپ کے اخلاق ‘آپ کے نظامِ زندگی ‘ آپ کے رہن سہن اور آپ کی تہذیب و تمدن پر چھاجائے ۔
یہ ہے کش مکش کی اصل نو عیت اورا سی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ تہذیبی کش مکش اور مقابلے کے لیے مغرب کی تہذیبی ’یلغار‘کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ بہت صحیح ہے۔ اس کے ذریعے وہ کیفیت ہمارے سامنے آجاتی ہے جس سے ہم سب دوچار ہیں۔ آیئے دیکھیں وہ کیفیت کیا ہے؟
مغربی تہذیب سے ہمارا معاملہ اب تقریباََ ۵۰۰‘۶۰۰ سال پرانا ہے۔ کو ئی نئی چیز نہیں۔ مغربی تہذیب کا عروج چو دہویں ‘پندرہویں ‘ سولہویں صدی میں یو رپ میں ہوا اور اسی زمانے میں اسلامی دنیا سے بھی شروع میں تعارف ‘پھر تعاون ‘پھر تصادم ‘ پھر غلبہ ‘پھر اقتدار کے استحکام کے دور آئے ‘اس کے بعد آزادی کی تحریکیں چلیں‘ جوابی رد عمل ہوا‘مغربی تہذیب کی بالا دستی اور اثر ورسوخ سیاسی حد تک ختم ہوا اورآزاد مسلمان مملکتیں وجود میں آئیں ۔ ہم ان سب ادوار سے گزرے ہیں۔ میں اس وقت پو ری تاریخ میں نہیں جا رہا ہوں ‘ صرف اشارہ کر رہا ہوں۔
اس وقت ہم جس دو رپر غور کر رہے ہیں اس کا آغاز افغانستان کے جہاد سے ہو تا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب بر پا ہوا ‘ افغانستان پر روس نے فوج کشی کی‘ اس کا مقابلہ کیا گیا اور پھر نو سال تک وہ تا ریخی جدو جہد بر پا ہوئی ‘جس کے نتیجے کے طور پر روس کی پسپائی ہوئی ۔اس سے پہلے کے دور کو ہم سردجنگ کا دور کہتے ہیں جس میں دو سوپرپاورز تھیں:امریکا اور روس۔ یہ دونوں مغربی تہذیب ہی کے مختلف مظہر تھے۔ لیکن ان کا اپنا اپنا تشخص‘ بنیاد اور عزائم تھے۔ اور یہ آپس میں بھی متصادم تھے۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ افغانستان میں جہاد اس علاقے ہی میں نہیں ‘اس دور کی تاریخ کو بدلنے میں موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس وقت ہمارے افغان بھائی بہنوں نے اور پو ری اسلامی دنیا نے جوجدو جہد کی اور عالمی سیاست کے پسِ منظر میں دنیا کی مختلف سیاسی قوتوں نے جس میں ہمارے مخالف اور دشمن اور مغربی تہذیب کے ایک حصے کے علمبر دار امریکا اور یورپ نے بھی شر کت کی وہ صحیح ‘ بروقت اور تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑنے والی جدوجہد تھی۔ البتہ اس جہاد کے آخری دور میں ہماری اور امریکا کی راہیں مختلف ہوگئیں۔ جب امریکا نے یہ محسوس کیا کہ اب روس کے لیے پسپائی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تو اس نے خالص اپنے تہذیبی اور سیاسی مقاصد کی خاطر اپنے کردار کوتبدیل کر ڈالا۔ اور وہ سیناریو وجود میں آیا جس کا ہدف یہ تھا کہ افغان جہاد کی کامیابی کے ثمرات سے افغان اور مسلمان امت کومحروم کیا جائے۔ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ افغانستان کی جہا دی قوتیں جہاں روس کے خلاف جہاد میں کا میاب اور سر خرو تھیں وہیں وہ اس تبدیلی کو نہ بر وقت محسوس کر سکیں اور نہ اس میں اپنا صحیح کردار ادا کرسکیں۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ جس نئے فراز کی طرف بڑھنے والی تھی‘ نہ بڑھ سکی اور اُمت مسلمہ ایک نئی اندرونی کش مکش اور بیرونی جنگ کی گرفت میں آگئی۔
جس وقت روس نے یہاں سے پسپائی اختیار کی ہے اور ابھی کوئی آثار نمودار نہیں ہوئے تھے کہ اسلامی قوتیں افغانستان میں مستحکم ہوکر وسط ایشیا اور باقی اسلامی دنیا کو ایک نئی صبح کی طرف لے جانے والے سفر کا آغاز کر رہی ہیں‘لیکن نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ ’’ہم اب یہ صاف دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر سے سرخ خطرہ ہٹ گیاہے لیکن سبزخطرہ نمودار ہورہا ہے‘‘۔ابھی توکوئی تبدیلی نمودار نہیں ہوئی تھی‘ ابھی توجہادی گروہ باہم دست و گریبان تھے لیکن انھوں نے یہ بات کہنا شروع کر دی ۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپرپاور کی حیثیت سے ابھر آیا اور پھر اس کے بعد سے اب تک کا دور یہ وہ دور ہے جس میں نیا نقشۂ جنگ مرتب کیا گیا ہے۔ یہ نقشۂ جنگ عسکری بھی ہے‘ سیاسی بھی ہے‘ معاشی بھی ہے ‘ فکری بھی ہے اور ثقافتی بھی ہے ۔ اس کے یہ سارے پہلو ہیں۔ کبھی کسی کا پلہ بھاری ہوتا ہے ‘ کبھی کسی کو آگے بڑھایا جا تا ہے ‘کبھی کسی کو پیچھے ہٹایا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمہ جہتی یلغار اورحملہ جاری ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد اپنی کیفیت اور کمیت ہر اعتبار سے گمبھیر سے گمبھیر ہو رہا ہے۔
تر جمان القرآن میں ‘میں اور میرے ساتھی اس یلغار کے مختلف پہلوؤں کی طرف مسلسل متوجہ کر رہے ہیں۔ اس پو رے زمانے میں ‘خواہ اس کا تعلق امریکا کے مفکرین سے ہو‘ جن میں فرانسس فوکو یو ما ‘سیموئیل ہنٹنگٹن ‘ڈینئل پائیس اور دسیوں دوسرے سرگرم جنگ ہیں‘ اور خواہ وہاں کے تھنک ٹینکس ہوں یا وہ این جی اوز ہوں‘ جو پو ری دنیا میں‘ خصوصاً مسلم دنیا میں‘ اس جنگ کے طبل بجا رہے ہیں‘ ان سب کا ایک ہی مرکزی خیال (theme) ہے۔اور وہ یہ ہے کہ اب اصل مقابلہ مغربی تہذیب اور اسلام ‘اسلامی تہذیب‘ مسلم دنیا اور خاص طور پر اسلامی تحریکوں کے درمیان ہونا ہے۔ آپ ان کی فکر کااندازہ اس بات سے کیجیے کہ ۱۹۸۹ ء میں جب روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائیں‘ تو اسی سال کے اکانومسٹ نے ایک خصوصی مضمون شائع کیا اور اس میں پو ری تاریخ انسانی کے ۲۰ اہم لمحات بیان کیے۔ اور ان میں آخری لمحہ روس کی پسپائی کے بعد بننے والا نیا سیاسی اور تہذیبی نقشہ تھا۔ اس میں ایک جملہ بڑاا ہم تھا ۔اس نے کہا کہ رو س کی فو جیں تو واپس چلی گئیں ‘ دیوار بر لن بھی ٹوٹ گئی‘اشتراکیت بھی پسپاہو گئی لیکن کیا ہمارے پاس دنیا کو دینے کے لیے کوئی نیا حیات بخش نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کر سکے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اس خلا کو پر نہیں کر سکتا۔ اور پھر اپنے مخصوص انداز میں یہ بات کہی کہ البتہ مسلمانوں کو یہ زعم ہے کہ ان کے پاس ایک نظریہ ہے جو اس خلا کو پر کر سکتا ہے۔ گو یا کہ یہ تنبیہ(warning) تھی کہ اب کش مکش کا جو نیاآہنگ ہے وہ کیا ہو سکتا ہے۔
اس کے دس سال کے بعد ایک اور دلچسپ چیز اکانومسٹ میں آئی اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے یہ بتایا کہ آج سے ایک ہزار سال بعدروس کا ایک مؤرخ گزرے ہوئے ہزار سال کا جا ئزہ لیتا ہے۔دو ہزا ریے ختم ہو گئے ہیں۔ تیسراہزا ریہ شروع ہو رہا ہے۔ وہ جا ئزہ لیتا ہے اور وہ جا ئزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سرد جنگ کے ختم ہو نے کے بعد اور روس کی اوراشتراکیت کی پسپائی کے بعدامریکا ایک عالمی کر دارلے کرکے اٹھا لیکن اس کے بعد پھر چین اور مسلم دنیا یہ دو نئی قوتیں ابھریں۔ اور اس طرح ایک نئی خلافت قائم ہوئی ۔اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ایسا ہو گا۔مقصد یہ تھا کہ ایسا نہ ہو نے پائے‘ہمیں اس کے لیے پیش بندی کر نی چاہیے۔یہی وہ خیالات ہیں جنھوں نے مغرب کی ذہنی اور فکری فضابنائی ہے اور آج ان کے تھنک ٹینکس اور سیاسی قیادت سب اس پسِ منظر میں کام کرتے ہیں اور حکمتِ عملی بناتے ہیں۔
ہمیں ۱۱ستمبر کا واقعہ اسی پسِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ کیسے ہوا ؟کس نے کیا؟ کون کون معاون قوتیں تھیں ؟سارے واویلے کے باوجود ان سوالات کا جواب دینے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی ہے اور نہ ہورہی ہے ۔ اس کے برعکس‘ ۱۹۸۹ء سے۲۰۰۱ء تک نئے تہذیبی تصادم کی جو فضا بنائی گئی تھی‘اس واقعے کو بنیاد بنا کراس نقشے میں رنگ بھرا جا رہا ہے اور اسے ایک واضح اور متعین رخ دیا جا رہا ہے۔امریکی صدر نے نائن الیون کمیشن بڑے حیص بیص کے بعد اور بڑے دباؤ کے بعد قائم کیا تھا اور ۱۸مہینے کی کوششوں کے بعد اس کی رپورٹ گذشتہ دنوں آئی ہے۔۶۰۰ صفحات کی رپورٹ پڑھ ڈالیے ‘ اس میں ایک جملہ بھی ان سوالات کے بارے میں نہیں ہے۔ ان کی ساری تو جہ اس پر ہے کہ جسے وہ ’’اسلامک ٹیررزم‘‘ کہتے ہیں‘ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ لطف کی بات یہ ہے کہ اس اہم ترین دستاویز میں ’دہشت گردی‘ نہیں ’اسلامی دہشت گردی‘ کومقابلے کی قوت قرار دے کر بتایاگیا ہے ہماری یعنی امریکا کی اور مغربی اقوام کی ساری قوت اور ساری فکر اورسا ری کوشش آیندہ اس سے مقابلے کے لیے کیا ہونی چا ہیے۔
پچھلے پانچ چھ مہینوں میں تین چار بڑی اہم رپورٹیں آئی ہیں۔ان میں رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ خاص طور پر اہم ہے جس کا میں نے جون ۲۰۰۴ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میںذکر کیا ہے۔اس سے پہلے ایک اور رپورٹ آئی ہے جس کے بارے میں برادرم سلیم منصور خالد نے مارچ ۲۰۰۴ء کے ترجمان القرآن میں لکھا ہے ‘ایشیا میں اس کا مکمل ترجمہ قسط وار شائع ہو رہا ہے۔اب یہ نائن الیون کمیشن کی رپورٹ آئی ہے ۔یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کو بغور پڑھنے اور تجزیہ کر نے کی ضرورت ہے۔پھر اس کو اس فکری کام کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو اس پورے زمانے میں ہوا ہے۔ جہاں تک نائن الیون کمیشن کی رپورٹ کا تعلق ہے میں اس کے صرف دو تین نکات بتا دیتا ہوں۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آج امریکا کے لیے سب سے بڑاخطرہ دہشت گر دی ہے۔ دنیا میں جنگوں کا نقشہ اب بدل چکا ہے۔ جنگوںکا جو کر دار تاریخ میں رہا ہے اس اندازکی فوج کشی درکار تو ہو گی لیکن قوموں کے درمیان جنگ کی شکل میں نہیں بلکہ دہشت گر دی کا تعاقب کیا جائے گا۔ اور پھر وہ یہ مرکزی جملہ لکھتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ صر ف دہشت گر دی ہے‘ہمارا اصل ہدف ’اسلامی دہشت گردی‘ ہے ۔اس طرح دہشت گردی کی باقی تمام شکلیں ‘اس کے مظاہر ‘حتیٰ کی خودا مریکہ کے اپنے نظام کو چیلنج کر نے کے لیے خود امریکی جودہشت گردی کے راستے اختیار کر رہے ہیں ان سب کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ واحدہدف ’اسلامک ٹیررزم‘ ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسلامک ٹیررزم تو عنوان ہے‘اصل چیز وہ نظریاتی بنیادی ڈھانچا (Infrastructure ) ہے‘جس نے ان کے خیال میں اس دہشت گر دی کو اور امریکا کے خلاف نفرت کوجنم دیا ہے اور امریکا کو چیلنج کرنے کا جذ بہ اور قوت دی ہے۔ یہاں وہ نام لے کر اسلامی تحریکات خصوصیت سے اخوان المسلمون اورسید قطب کا ذکر کرتے ہیں‘ستم ہے کہ امام ابن تیمیہؒ کو بھی اس کا منبع قرار دیتے ہیں۔ جماعت کا نام تو نہیں لیا لیکن حقیقت ہے کہ جن شخصیات اور اسلامی تحریک کا نام لیا ہے وہ امریکی استعمار کے تازہ ہدف کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ اس رپورٹ میں جس چیز کو ہدف بنایا گیا ہے وہ محض القاعدہ نہیں بلکہ وہ بنیادی ڈھانچا ہے جو ان کے زعم میں امریکا مخالف فکر اور مزاحمتی تحریکوں کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہی وہ منبع ہے جس سے یہ نیا ذہن‘ نئے جوان ‘ان کی مختلف کوششیں سامنے آئی ہیں اور انھی کوششوں میں سے ایک کوشش وہ ہے جو مسلح ہے اور جو دہشت گر دی کر تی ہے۔ یہ سارے کا سارا بنیادی ڈھانچا اب امریکا کا اصل ہدف ہے جسے وہ اپنے اقتدار کے لیے اصل خطرہ قرار دے رہے ہیں اور یہ ذہن پیدا کر رہے ہیں کہ گویا جب تک یہ باقی ہے‘ امریکا محفوظ نہیں ہے!
اس خطرے کے مقابلے کے لیے کیاحکمتِ عملی اختیار کی جائے؟ اس سلسلے میں ایک بڑی اہم کتاب آئی ہے :Imperial Hubris: Why the West is Loosing War on Terror جس کے لکھنے والے کا نام نہیں دیا گیا اسےanonymous یعنی گمنام کے نام سے لایا گیا ہے۔ یہ چند ہفتے پہلے آئی ہے۔دل چسپ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جسے گمنام بنایا گیا ہے وہ سی آئی اے کا حاضر سروس آفیسرہے اور اسے باقاعدہ سی آئی اے نے اجازت دی ہے کہ اپنا نام بتائے بغیر یہ کتاب لکھے اور شائع کرے۔ اس اہم کتاب کے ساتھ ہی برطانیہ سے ایک اور کتاب Collosus: The Price of American Empireشائع ہوئی ہے‘ اس کا مصنف وہاں کا مشہور مورخ Niall Fergusonہے۔ دونوں کتابیں ایک ہی طرز کی ہیں۔ گمنام کی کتاب میں جو نقشۂ جنگ بنایا گیا ہے وہ اس اعتراف پر مبنی ہے کہ امریکا کے خلاف جو نفرت عالم اسلام میں ہے وہ امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔یہ بات کھل کر پورے دھڑلے سے کہی گئی ہے اور اس میں یہ متعین کیا گیا ہے کہ اس نفرت کی وجہ وہ پالیسی ہے جو امریکا نے اسرائیل کی مکمل تائید میں اختیار کی ہے اور اسرائیل کی جو مدد وہ کر رہا ہے‘ ثانیاً مسلم ممالک کے حکمران جوظالم وجابر (tyrant) ہیں‘ وہ ہمارے ساتھ ہیں اورہم ان کی تائید کر رہے ہیں لیکن مسلمان عوام ان سے ناخوش ہیں ۔ تیسرے‘ چین‘ روس اور انڈیا جو مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کو کچل رہے ہیں‘ لیکن ہماری تائید ان تینوں ممالک کو حاصل ہے۔ اسی طرح افغانستان اور عراق پر قبضہ اور تیل کے ذخائر کو امریکی تسلط میں لانے پر مسلمان اور عرب برافروختہ ہیں۔
اس تمام اعتراف کے بعد وہ کہتاہے کہ ہمارے سامنے چار سیناریو ہیں۔پہلا راستہ جس پر صدر بش کار بند ہیں یہ ہے کہ ہم محض قوت کے ذریعے سے ‘ فوج کشی کے ذریعے سے ‘ ان ’’دہشت گردوں‘‘کو بھی اور ان کو پناہ دینے والوں کو بھی ختم کر دیں۔ یہ کام محض انھیں ختم کرنے سے پورا نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں قوت کا ایسا استعمال کر نا پڑے گا جس کے نتیجے کے طور پر ہزاروں لاکھوں انسانوں کی جا نیں جا ئیں گی‘ بستیاں تباہ ہوں گی‘نقل مکانی ہوگی اور بالآخر ان ملکوں پر فوجی قبضہ ہوگا۔ دو سرا را ستہ یہ ہے کہ ہم اپنی پالیسیاں تبدیل کریں ۔ ان سے بات چیت کریں اور کوئی را ستہ نکالیں ۔اس کا کہنا یہ ہے کہ پہلا ہم کرسکتے ہیں لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اور یہ بھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا اس سے فی الحقیقت تمام خطرات ختم ہوجائیں گے ۔البتہ اس سے جو کچھ حاصل ہو گا وہ یہ ہے کہ امریکا کو دنیا میں مسلم دنیا میں ایک نئی قابض قوت بننا پڑے گا۔ گو یا کہ جس طرح سترھویں‘ اٹھارھویں‘ انیسویں اوربیسویں صدی کے وسط تک سامراج قابض تھا وہ را ستہ ہمیں اختیار کر نا پڑے گا۔کیا ہم یہ کر سکتے ہیں ؟ اور کیا یہ قبضہ بہت عرصے چل سکتا ہے؟ اور کیا امریکی قوم اس کے لیے مسلسل قربانی دینے کو تیار ہے؟ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دوسرا راستہ بھی ہم اختیار نہیں کرسکتے کہ ہم اپنی پا لیسیاں بد ل لیں۔ یہ بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ پھر کیاکریں ؟
وہ کہتا ہے کہ پھر تیسرا را ستہ یہ ہے کہ ہم مسلم دنیا میں ’قوم سازی‘ (nation building) کریں ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں کے نظامِ تعلیم کو‘میڈیا کو‘نو جوانوں کو ‘حکمرانوں کو ‘ان سب کو اپنے زیرِ اثرلائیں ۔ یہ کام جمہو ریت ‘ آزاد روی(لبرلزم) اور Globalizationیعنی عالم گیریت کے نام پر کیا جائے۔ اس کا دائرہ کار بڑا وسیع اور متنوع ہے۔ اس میں معیشت ہے ‘اس میں کلچر ہے‘ اس میں افکار ہیں ‘اس میں پارلیمنٹیرینز کی تر بیت ہے ‘اس میں طلبا کے تبادلے ہیں ‘اس میں میڈیا کو ہر قیمت پر استعمال کر نا ہے۔ یہ ’قوم سازی‘ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک چوتھی چیز اور چا ہیے‘ اور وہ یہ ہے کہ امریکا ایک نئی قسم کی سلطنت (imperial power) بنے۔جس کے لیے اس نے Liberal Empire کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ قابض تو نہ ہوں ‘لیکن ذہنوں پرقبضہ کریں ‘معیشت کو گرفت میں لائیں‘بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں اور این جی اوز کے ذریعے سے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے آئیںاور اپنے اثر ورسوخ کو اتنا بڑھا لیں کہ ان ممالک کی قیادتیں اور ان کے کارفرما عناصر آپ ہی کے مطلب کی کہیں۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیا جائے کہ اگر ہمارے نقشے کے مطابق کام نہیں کرو گے اور ’’لبرل میانہ روئی‘‘ اختیار نہیں کرو گے تو قوت استعمال کی جا ئے گی،’سزا دی جا ئے گی‘۔ لفظ استعمال کیا ہے punishmentکا اور اس punishment میںدو چیزیں ہیں ۔ پیش بندی کے طور پر حملہ (preemptive strike) جس کے معنی یہ ہیں کہ جہاں خطرہ محسوس ہو وہا ں فوج کشی کر ڈالو۔ کوئی ثبوت ہو نہ ہو‘جیسا عراق اور افغانستان میں کیا ہے۔اورregime changeیعنی حکمران مفید مطلب نہ ہوںتو ان کو بدل کرمفید مطلب لوگوں کو اوپرلاؤ ۔ یہ وہ نیا ماڈل ‘نیا نمونہ اور نیا نقشہ ہے جس کے مطابق عمل کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اقتدار کو قائم رکھیں گے۔
ہم جس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں وہ یہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟اس کا مقا بلہ کر نے کا ایک طریقہ تو یہ ہے۔ اور یہ میں اس مفروضے پر کہہ رہا ہوں کہ ۱۱ستمبر کا واقعہ مسلمانوں نے کیا تھااور جسے وہ القاعدہ کہتے ہیںوہ اس کے ذمہ دار تھے ۔گو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس وا قعے کے بعد بن لادن نے‘ القاعدہ نے‘ officially انکار کیا تھا کہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب امریکا نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ بن لادن کو گر فتار کر کے دے دوتو طالبان نے یہ کہا کہ ہمارے پاس ثبوت لاؤ۔اور اگر تم ہمیں ثبوت نہیں دینا چا ہتے ہو تو کوئی بین الاقوامی عدالتی کمیشن قائم کر دو جس مین تین مسلمان ممالک کے جج ہوں‘ان کے سا منے شہادتیں لاؤ ۔اگر وہ طے کرتے ہیں کہ یہ حملہ بن لادن نے کیا ہے تو ہم اسے آپ کو دے دیں گے۔
جو تحقیق آزاد ذرائع سے ہوئی ہے وہ حیران کن ہے ۔ خود امریکا کے تجزیہ نگاروں نے یہ بات کہی ہے کہ اگر ان چار حملوں میں صرف یہ ۱۹ ہائی جیکر شریک تھے تو یہ کام ہو نہیں سکتا‘ جب تک کہ ان کے ۵۰‘۶۰ معا ونین امریکا میں زمین پر مو جود نہ ہوں اور خصوصیت سے ان ہوائی اڈوں پر جہاں سے یہ جہاز گئے ہیں ۔اس لیے کہ جس precision کے ساتھ ‘جس چابک دستی سے‘ ٹھیک ٹھیک نشانے پر اور بڑے مؤثر طریقے سے یہ اقدام ہوا ہے وہ کمپیوٹرائزکیے بغیر ہو نہیں سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ۷۴۷جہاز کو ایسے لوگ جن کو Executive Plan چلانے کی تربیت دی گئی ہووہ فضا میں اس جہاز پر قبضہ کر سکیں‘پا ئلٹ کو ہٹا دیں ‘ اسٹیرنگ پر آجائیں۔ اور پھر نیویارک جہاں دو ہزارفلک بوس عمارتیں تھیں اس میں سے متعین طور پر ایک خاص ٹاورکو اور وہ بھی ایک خاص مقام پر جا کر ہٹ کریں ۔ پھراس کے اٹھارہ منٹ کے بعد دوسرا ٹاور۔ اس کے چالیس منٹ کے بعدپینٹاگون ۔ یہ سب ممکن نہیں ۔ پینٹاگون کی عمارت تو صرف تین منزلہ تھی۔ اس کے بارے میں جو کتابیں آئی ہیں ان سے معلوم ہو تا ہے کہ خودپہلا اعلان جو وہاں ہواوہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک میزائل حملہ تھا۔ عمارت کو اگر آپ دیکھیں تو اس میں ایک بہت بڑاسوراخ ہے اور جہاز کا کوئی ملبہ وہاں نہیں پایاگیا۔ اور جس طرح ٹاور پر حملہ کرنے والے جہازوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جہاز ساراکا سارا تحلیل ہو گیا ‘پینٹاگون میں یہ ممکن نہیں تھا۔ لیکن ۴۸گھنٹے کے اندرپینٹاگون نے چھ بار اپنے سر کاری بیان کو بدلا ہے۔ اور بالآخر اسے جہاز قرار دیا۔
اس بارے میںاتنی چیزیں آئی ہیں ‘میں ان سب کو نظر انداز کر تا ہوں‘ میں کہتا ہوں مان لیجیے کہ انھوں نے یہ اقدام کیا ہے اور اگر فی الحقیقت انھوں نے ہی کیا تھا‘تو میں آپ سے صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی جرأت اورسوچ کا فیصلہ تو اللہ کرے گا‘ لیکن بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو اور اسلام کو اس سے نقصان پہنچا ہے۔ اور اس کے نتیجے کے طور پرتاریخ تہذیبی مکالمے کے جس رخ پر جا سکتی تھی وہ متاثر ہو ئی ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے تو نتائج کے اعتبار سے‘ اسلام کے مزاج کے اعتبار سے ‘ اسلامی احیا کے امکانات کے اعتبار سے ‘ اسلامی دعوت کے اعتبار سے ‘ اسلامی تہذیب وثقافت کے اعتبار سے یہ را ستہ مقصد حاصل کر نے کا راستہ نہیں ہے۔ میں فلسطین اور کشمیر کی جہادی تحریک کی بات نہیں کر رہا‘ میں ٹریڈ ٹاور اور اس قسم کے واقعات پر بات کر رہا ہوںاور یہی وجہ ہے کہ تمام اسلامی تحریکات کے قائدین نے اس کی مذمت کی اور۱۲ستمبر۲۰۰۱کو منصورہ سے ایک بیان جاری ہوا جس میں یہ کہا کہ ہم اس دہشت گر دی کے اس واقعے کی مذمت کر تے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ اعلان بھی کر تے ہیں کہ دہشت گردی افراد کی طرف سے ہو ‘گروہوں کی طرف سے ہو یا حکومتوں کی طرف سے ہو‘ مساوی طور پر قابلِ مذمت ہیں۔ اصل مسئلہ دہشت گر دی نہیں‘ بلکہ وہ اسباب ہیں ‘ وہ نا انصافیاں ہیں ‘وہ ظلم ہیں اوروہ مسائل ہیںجو لوگوں کو دھکیل دھکیل کر غلط راستے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اور جب تک ان معاملات کو حل نہیں کیا جائے گا دنیا میں امن اور سلامتی کا وجود عنقا رہے گا۔
تحریکِ اسلامی کا یہ ذہن ہے اوریہی ذہن حق پر مبنی ہے۔ جہاں مظلوم مجبور ہو کر تشدد کا راستہ اختیار کر تا ہے ‘دنیا بھر کی تحریکاتِ اسلامی اس کی کیفیت ‘اس کے احساسات ‘ اس کے جذبات کو محسوس کر تی ہیں۔ لیکن تبدیلی اور اسلامی انقلاب اور اسلامی احیا کا راستہ تشدد اور دہشت گردی کا راستہ نہیں ہے ۔ را ستہ وہی ہے جو اسلامی تحریکات نے سنت نبوی ؐاور قرآنی منہج کو سامنے رکھ کر مرتب کیا ہے۔ جہاد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاد تو انصاف کے قیام‘ اللہ کے کلمہ کی بلندی اور اخلاقی اقدار کے احیا کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں ‘میں اپنی بات کو سمیٹتے ہو ئے یہ کہوں گا کہ سب سے پہلی چیز دشمن کو جانناہے۔دشمن کے ہتھیاروں کو جاننا ہے‘دشمن کے اسالیب اور طریقوں سے واقفیت حاصل کرنا ہے‘ اور ان راستوں اور طریقوں کی تفہیم ہے جن سے یہ یلغار ہو رہی ہے۔ یہ ہمہ جہتی یلغار ہے‘ یہ فکری بھی ہے ‘یہ تعلیمی بھی ہے ‘ یہ ٹکنالوجیکل بھی ہے‘یہ معا شی بھی ہے ‘ یہ سیا سی بھی ہے ‘یہ فوجی بھی ہے۔ اس میں میڈیا بڑا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارے گھروں کونشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ ہماری ماؤں‘بہنوں اوربیٹیوں اور بچوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی غور کر نے کی ہے کہ کھلے دشمن کا مقابلہ آسان ہو تا ہے لیکن جب دشمن آپ کے اندر سے ایسے عناصر کو استعمال کرے جن کانام اورچہرے آپ جیسے ہوںتو یہ خطرہ اور یہ لڑائی زیادہ گمبھیر اور زیا دہ مشکل ہو جا تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے کفار کے بارے میں جتنی باتیں کہی ہیں ان سے زیادہ منافقین کے بارے میں کہی ہیں۔ہماری یہ جنگ تصادم و یلغار صرف با ہر سے نہیں‘ یہ اندر ونی سبوتاژ بھی ہے۔ آپ دیکھیے کہ مدارس کو نشا نہ بنایا جارہا ہے۔ نظامِ تعلیم کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وہ مسلم دنیا کو چار گروہوں میں پیش کر رہے ہیں۔ ایک کو وہ کہتے ہیں بنیاد پرست۔ جو ان کی نگاہ میںدہشت گرد ہیں۔ دوسرے کو وہ کہتے ہیں قدامت پر ست۔جو ہیں توروایت اور اسلامی اقدار کے حامی لیکن وہ کوئی بڑا چیلنج نہیں ہیں۔بس وہ اپنی روایات کے علم بردار ہیں۔ تیسرے ہیں ماڈرنسٹ‘لبرل اورچوتھے ہیں کھلے کھلے سیکولرسٹ ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کو آپس میں لڑانا چا ہیے۔سا ری قوت ہماری اس پرصرف ہو نی چا ہیے کہ اسلام کو ایک روشن خیال میانہ روی کے مذہب کے طور پرپیش کیا جائے ۔ہم ان کی تا ئید کریں اوران کی تقویت کاذریعہ بنیں ۔ ان کے ذریعے ہم مسلمان معاشرے کو اندر سے تباہ کریں۔
تو یہ حملہ با ہر سے بھی ہے اور اندر سے بھی ہے۔ اور مسلمانوں کی سیاسی اور معا شی قوتوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس کا مقابلہ کر نے کے لیے سب سے پہلی چیزیہ ہے کہ ہم دشمن کو سمجھیں۔ دو سری چیزیہ ہے کہ ایک ہمہ جہتی حکمت عملی بنائیں‘محض کسی ایک ٹارگٹ کونہ لیں۔اور تیسر ی چیز یہ ہے کہ ہم ہر میدان میں مقابلہ کریں اوراس کی تیاری کریں ۔ مقابلے کے ساتھ ساتھ ڈائیلاگ اور مذاکرہ بھی کریں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ آخری حل مذاکرات سے نہیں ہوگا۔ اپنے صحیح وقت پر ایک ہمہ گیر معرکے کے لیے آپ کو تیار ہو نا ہے۔ لیکن وہ تیاری دہشت گر دی کے اقدامات کے ذریعے نہیں ہوسکتی اور نہ یہ اس کے ممدومعاون ہوسکتے ہیں۔اس کا راستہ یہ ہے کہ عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے اپنے ملک میں اسلامی قیادت کو اوپر لائیں اور پھر ان ممالک کو اسلام کا حقیقی قلعہ بنائیں۔ یہی وہ جنگ ہے جو پاکستان میں ہم لڑرہے ہیں۔ اور یہی وہ جنگ ہے جو تحریکِ اسلامی ہر ملک میں لڑ رہی ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اس تہذیبی تصادم کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ یہ کوئی وقتی جنگ نہیں ہے یہ کوئی شارٹ ٹرم جنگ نہیں ہے۔ بلا شبہ اس کے وقتی تقاضے بھی ہیں اور شارٹ ٹرم تقاضے بھی ہیں لیکن اصل جنگ لمبی ہے اور ہمیں اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرنا ہے اور پوری بالغ نظری کے ساتھ اس کام کو انجام دینا ہے ۔
اس سلسلے میں سب سے اہم چیز اُمت کو اسلام کی بنیاد پر فکری‘ عملی‘ اخلاقی‘ نظریاتی‘ تعلیمی‘ معاشی‘ تہذیبی ہر اعتبار سے مضبوط تر کرنا ہے۔ اس کے رشتے کو ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اس طرح جوڑنا ہے کہ صرف اس کی مدد پر ہمارا بھروسہ ہو تو دوسری طرف اس کے فراہم کردہ وسائل کو اس کے بتائے ہوئے دین کی سربلندی اور اہداف کے حصول کے لیے منظم اور مرتب کرنا ہے۔ جن کو دنیا میں بڑی طاقتیں کہا جاتا ہے وہ عارضی اور بالآخر فنا ہونے والی ہیں۔ باقی رہنے والی قوت صرف حق کی قوت ہے۔ اللہ پر بھروسا اور اُمت کی صحیح خطوط پرتیاری ہی وہ راستہ ہے جس سے اس یلغار کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایمان‘ مادی اور اخلاقی قوت‘ اتحاد اور باہمی تعاون اور سب سے بڑھ کر مسلسل اور صبرآزما جدوجہد درکار ہے۔ اقبال نے مسجد قرطبہ کے سائے میں جو پیغام اُمت مسلمہ کو دیا تھا وہ اسی جدوجہد کا پیغام تھا ؎
جس میں نہ ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات‘ کش مکشِ انقلاب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
یہی وہ صحیح حکمتِ عملی ہے جس سے مغربی تہذیب کی اس یلغار کا مقا بلہ کیا جا سکتا ہے ۔
جس طرح فرعون نے انا ربکم الاعلٰی کا نعرہ لگایا تھامگر ذلت کی موت مرا ‘اسی طرح برطانیہ کے شاہ لوئی چہاردہم(xiv) نے دعویٰ کیا تھا کہ "I am the State" لیکن وہ اور اس کی سلطنت جلد ہی قصہ پارینہ بن گئی۔ آج کے فرعون اور لوئی بھی اُسی زبان میں بات کررہے ہیں اور اپنے حشر سے بے خبر ہیں۔ ہم امریکا کی قیادت اور اس کے عزائم پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں اور درپیش خطرات کا پورا شعور رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ تبدیلی کی ان لہروں پر بھی نظر ضروری ہے جو غالب نظام اور مغرور حکمرانوں کو چیلنج کر رہی ہے۔
یہ ردعمل عوامی سطح پر تو اول روز سے موجود ہے لیکن اب مقتدر حلقوں میں بھی اختلافی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں جو استبدادی قوتوںکے لیے زوال کے آغاز کی علامت ہیں۔ ۱۱؍۹ کمیشن کی کارروائیوں اور رپورٹوں نے امریکی قیادت کے دعوئوں کا پول کھولنا شروع کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیاں امریکا اور برطانیہ میں پالیسیوں کے پاے چوبیں کی نشان دہی کررہی ہیں۔ صحافی اور اہلِ قلم اب کھل کر بات کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈھائی سال کے حیص بیص کے بعد امریکا کی عدالت عالیہ نے گوانتاناموبے کے قیدیوں کے سلسلے میں پہلا اہم فیصلہ دیا کہ ان کے حق دفاع کو مستقلاً معطل نہیں رکھا جا سکتا اور عدالت نے اپنے فیصلے میں اس اصول کا بھی اعادہ کیا ہے کہ ’’جنگ ہو یا دہشت گردی کا خطرہ‘ انتظامیہ کو لوگوں کو ان کی آزادیوں سے محروم رکھنے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی‘‘۔ عدالت نے اس کلیے کو بھی بیان کیا ہے کہ:
"A state of war is not a blank cheque for the president".
عوامی سطح پر صدر جارج بش کی قباے شاہانہ کو تار تار کرنے کا کام ایک بہت ہی غیرمتوقع انداز میں ہو رہا ہے۔ ایک مشہور فلم ساز اور آسکرایوارڈ حاصل کرنے والے اداکار مائیکل مور (Michael Moore) نے ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جسے امریکا (ہالی ووڈ)کے وال ڈزنی نے تو جاری کرنے سے انکار کر دیا مگر فرانس کے کینزکے میلے کو اس نے لوٹ لیا۔ اب یہ فلم امریکا اور یورپ میں دکھائی جارہی ہے۔ اس کا عنوان ہے فارن ہائٹ ۱۱/۹ (Fahrenheit 9/11)۔ اس فلم میں جارج بش کا اصل چہرہ اور استعماری کردار‘ نیز سعودی حکمرانوں سے ان کی اور ان کے خاندان اور ساتھیوں کے تعلقات کی پوری داستان بیان کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ اس امریکی حکمران ٹولے نے اپنے سامراجی مقاصد اور دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کس طرح ۱۱/۹ کو استعمال کیا ہے۔ اس کا ایک مرکزی کردار وہ بدنصیب ماں ہے جس نے اپنے بیٹے کو اپنا پیٹ کاٹ کر فوج میں بھرتی کرنے کے لیے تیار کیا اور جسے وہ اپنا سہارا سمجھ رہی تھی مگر کس طرح عراق کی جنگ نے اسے بے سہارا کر دیا۔ یہ ایک ماں کی نہیں پوری امریکی قوم کی کہانی ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے کالم نگار پال کروگ مین (Paul Krugman) کے الفاظ میں یہ فلم اپنی ایک گونہ جانب داری کے باوجود ۱۱/۹ اور اس کے بعد کے کھیل کے بارے میں ان حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے جن سے امریکی عوام کو بے خبر رکھا گیا تھا۔
یہ ان لیڈروں کے بارے میں ضروری سچائی بیان کرتی ہے جنھوں نے ایک قومی المیے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور جس کی قیمت ایک عام امریکی نے ادا کی۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون‘ ۵ جولائی ۲۰۰۴ئ)
"Who gave the United States a whistle to be the world's refree?"
امریکا اپنی تمام چابک دستی اور اثرورسوخ کے باوجود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے امریکی فوجیوں کو جنگی جرائم سے مستثنیٰ رکھنے کی قرارداد منظور نہیں کرا سکا اور آخری وقت پر اسے اس قرارداد کو واپس لینا پڑا۔ امریکا کی ساری کوشش کے باوجود اسرائیل کو جنگ کی عالمی عدالت میں منہ کی کھانی پڑی اور ۱۵ میں سے ۱۴ ججوں نے (صرف امریکی جج نے فیصلے سے اختلاف کیا) فلسطینیوں کی زمین پر آہنی باڑ بنانے کو خلافِ قانون قرار دیا اور اسے منہدم کرنے کا مطالبہ کیا جس کی توثیق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی بھاری اکثریت سے کر دی ہے۔
امریکی فوج کے کچھ باضمیر افسر جو عراق سے واپس آئے ہیں صدر بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں۔۸۲ آرمڈ ڈویژن کا ایک افسر اعتراف کرتا ہے کہ صدر بش کے Mission Accomplishedاور عراق کی مبینہ آزادی کے اعلان کے بعد جو کچھ ہوا وہ مشن کی تکمیل نہیں بلکہ قتل و غارت گری کی نئی دوڑ کے سوا کچھ نہیں۔
ایک دفعہ پھر ہر طرف جنگ کی کیفیت تھی لیکن اس دفعہ آپ کا مقابلہ سول مزاحمت کاروں سے تھا۔ ہم عوام سے لڑ رہے تھے۔ ہر گھر‘ ہر چھت‘ ہر صحن‘ ہر اسکول کا میدان ایک مورچہ بن گیا تھا۔ ایک چیک پوائنٹ پر ایک نوجوان لڑکی نے کسی خوف کے بغیر مجھ سے بہترین انگریزی میں کہا: اگر میں تم کو قتل کر سکتی‘ تو ایسا ضرور کرتی۔
فلوجہ نے مجھے جنگ اس تناظر میں دکھائی۔ اگر ہم پورا شہر بھی روند کر رکھ دیتے اور اس کو ایک کھنڈر میں تبدیل کر دیتے‘ تب بھی ہم جیت نہیں سکتے تھے۔(فریڈرک ایف کلیرمونٹ: Faluja: A New Beginning بہ حوالہ: اکانومک اینڈ پولٹیکل ویکلی‘ ۳ جولائی ۲۰۰۴ئ)
کلیرمونٹ کے الفاظ میں فلوجہ میں جو کچھ ہوا ہے اگر کسی مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے تو وہ اسٹالن گراڈ ہے جس نے دوسری جنگ کا رخ بدل دیا۔
اسٹالن گراڈ سے مقابلہ اس لیے مناسب ہے کہ وہ بھی جنگ میں ایک فیصلہ کن موڑ (turning point ) تھا۔ فلوجہ عوامی شعور کے ایک نئے دور کا آغاز تھا جس میں صدام اور بعثی نظریہ بے معنی ہوگیا۔ مرد اور عورت‘ شیعہ اور سنی‘ عیسائی اور کُرد‘ سب شانہ بشانہ لڑے۔ یہ ایک نیا قومی شعور ہے جو مذہبی‘ اجتماعی اور سیاسی تفریقات سے بالا ہے۔ قابض فوج کی شعیوں اور سنیوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی۔ فلوجہ اس جدوجہد کی استعمار دشمن نوعیت کی علامت تھا۔ یہ عرب دنیا میں ایک نیا عنصر ہے اور آج قوم کی حرکی خصوصیت ہے۔
اگر صدر بش اپنی عراقی مہم کو بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تجویز ہے : جارج ٹینٹ جیسے سی آئی اے کے خوشامدیوں کے ساتھ کم وقت گزاریں اور زیادہ وقت الجزیرہ ٹیلی ویژن دیکھیں۔
بش انتظامیہ کے خفیہ اطلاعات کے نظام کا مرکزی عنصر یہ نہیں تھا کہ یہ مناسب تعداد میں ٹیلی فون ٹیپ کرنے میں ناکام رہا‘ بلکہ یہ تھا کہ اس نے عراق یا وسیع تر عرب دنیا کے ذہن (mindset)کو سمجھنے کی پروا نہیں کی اور اب بھی نہیں کر رہا۔
صدربش اور ان کے طائفے کے ذہن کی یہ عکاسی مبنی برحقیقت ہے لیکن ستم بالاے ستم کہ مسئلہ محض صدربش کا نہیں عرب اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کا بھی اس سے مختلف نہیں۔ اور مزید بدقسمتی ہے کہ خود ہمارے حکمران بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح کے ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ یہ سب ہی اپنے عوام کے جذبات‘ احساسات اور عزائم سے لاتعلق ہیں اور آج کے نیرو (Nero) کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس پر بھی کیا یہ سب یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کا حشر بھی نیرو کے حشر سے مختلف ہوگا؟
شماریات (Statistics) کی بحیثیت ایک علم عمر اب ۱۰۰سال سے زیادہ ہے۔ اس زمانے میں زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں قابلِ اعتماد اعداد و شمار کی اہمیت بے انتہا بڑھ گئی ہے اور معاشی اور معاشرتی منصوبہ بندی میں اعداد و شمار کا کردار روز بروز بڑھ رہا ہے۔ حکومت اور مختلف اداروں کی کارکردگی کا پیمانہ بھی یہی اعداد و شمار بن گئے ہیں۔ ان حالات میں اعداد و شمار کو جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے والے اداروں کو مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ ایک زمانے میں تو شماریات کو ناقابلِ اعتماد گورکھ دھندا سمجھا جاتا تھا اور ایک ماہرِ شماریات نے یہاں تک لکھ دیا تھا کہ جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں۔
Lies, white lies and statistics, in order of ascendence.
۱- اعداد و شمار کے نظام کو آزاد انتظام کے تحت مرتب کرنا ‘ اس کے لیے قانون کے ذریعے آزاد اداروں کا قیام جن کو دستوری تحفظ حاصل ہو اور جن کے مالی ذرائع حکومتوں کی مرضی پر موقوف نہ ہوں۔
۲- ہر موضوع کے بارے میں ایک سے زیادہ اداروں کے ذریعے اعداد وشمار کا حصول ‘ تاکہ ایک ہی موضوع کے بارے میں مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کا تقابل کیا جا سکے۔ نیز متبادل ذرائع کی موجودگی اعداد و شمار میں بددیانتی کرنے کے خلاف ایک مؤثر رکاوٹ کا کردار بھی ادا کر سکے۔ اس باب میں خصوصیت سے نجی شعبے کے اداروں کی خدمات اہمیت اختیار کرگئی ہیں جو سرکاری ذرائع کے لیے بھی checks & balances کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہے۔
۳- اب یورپ کے کئی ممالک خصوصیت سے انگلستان میں ایک ادارہ بہت مؤثر کردار ادا کر رہا ہے اور وہ ہے Statistics Commission جس کی حیثیت ایک طرح کے نگراں (Statistics Watch-dog ) یا محتسب (Statistics-Ombudsman) کی ہے جو دوسروں کی تحریک پر اور خود اپنے اختیار سے (suo moto) شماریات کے پورے نظام پر نگاہ رکھتا ہے ‘اور جہاں کہیں کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جاتی ہے جس سے شماریات کی صحت پر برا اثر پڑے‘ یہ کمیشن فوری طور پر احتساب کا فرض ادا کرتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں بنیادی سال (year base) کو تبدیل کرنے کا کام ۲۳سال کے تغافل کے بعد بہت ہی عجلت میں کیا گیا اور نئی اور پرانی دونوں بنیادوں پر اعداد و شمار اور تبدیلی کے رجحانات کا تقابل شائع نہیں کیا گیا جو علمی اعتبار سے سخت قابلِ گرفت ہے‘ خصوصیت سے اس لیے کہ جس سال کو نیا بنیادی سال قرار دیا گیا ہے وہ غیرمعمولی حالات کا شکارتھا‘ یعنی ۲۰۰۰-۱۹۹۹ئ۔ اسی طرح غربت کی کیفیت اور کمیت کا تعین کرنے کے لیے جو سال میں چار بار ہائوس ہولڈ سروے ہوتے ہیں اور ان کے اوسط کو سال کے لیے غربت کے تعین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ہٹ کر محض ایک مختصر (یعنی اصل نمونے کے صرف ایک تہائی) نمونے کی بنیاد پر اور وہ بھی صرف ایک سہ ماہی تک محدود رکھ کر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگر ہمارے ملک میں بھی شماریات کا کمیشن بحیثیت محتسب ہو تو ایسے واقعات پر بروقت گرفت ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کے کمیشن نے حال ہی میں قومی شماریات کے دفتر پر سخت تنقید کی ہے کہ اس نے بلاجواز اور تمام حقائق ظاہر کیے بغیر کچھ میدانوں میں اعداد و شمار جمع کرنے کے طریقے میں تبدیلیاں کرڈالی ہیں۔ کمیشن نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ:
سرکاری اعداد و شمار پر عوام کا اعتماد اعداد مرتب کرنے کے طریقوں کے معیار سے متاثر ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار مرتب کرنے کے انتظامات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے اعتماد کو تقویت دی جاسکے۔ (گارجین‘ جولائی ۲۰۰۴ئ‘ بیان پروفیسر ڈیوڈرڈ‘ چیئرمین شماریاتکمیشن)
پاکستان میں بھی شماریات کے سرکاری ادارے کی تنظیم نو‘ اس کے تمام معاملات میں مکمل شفافیت اور ایک آزاد کمیشن جو شماریات کے پورے نظام بشمول محکمہ کسٹم اور اسٹیٹ بنک کی فراہم کردہ معلومات پر نگاہ رکھے‘ وقت کی ضرورت ہے۔
خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَo وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِط اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْنَo وَاِخْوَانُھُمْ یَمُدُّوْنَھُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۹۹-۲۰۲)
اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو‘ معروف کی تلقین کیے جائو‘ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو‘ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی بُراخیال اگر انھیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند‘ تو وہ انھیں کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیںاور انھیں بھٹکانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔
ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضورؐ ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضوؐر کے ذریعے سے اُن سب لوگوں کو یہی حکمت سکھانا ہے جو حضوؐر کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے۔
۱- داعی حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو‘ متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق‘ عامۃ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے‘ نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے‘مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی‘ بہتان تراشی‘ ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو‘ اُس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری‘ درشت خوئی‘ تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعالِ طبع اِس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے یوں بیان فرمایاہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’’غضب اور رضا‘ دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں‘ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں‘ جو مجھے میرے حق سے محروم کرے‘ میں اسے اس کا حق دوں‘ جو میرے ساتھ ظلم کرے میںاس کو معاف کردوں‘‘۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپ ان لوگوں کو کرتے تھے جنھیں آپ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفروا ویسروا ولا تعسروا، یعنی ’’جہاں تم جائو وہاں تمھاری آمد لوگوں کے لیے مژدۂ جانفزا ہو نہ کہ باعث ِ نفرت‘ اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے‘‘۔اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ،یعنی ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹)
۲- دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنھیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (common sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعی حق کی اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتاہے اور ہرسامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ اب نکال لیتا ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپاکرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ عام انسان ‘ خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں‘ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلنداخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں‘ تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعیِ حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ آخرکار میدانِ مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہیں‘ یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ کے بعد تھوڑی ہی مدّت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سو فی صد اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہوگئے۔
۳- اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت ِ دعوت اور اصلاحِ نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہو جاتی ہے۔
۴- نمبر۳ میں جو ہدایت کی گئی ہے اسی کے سلسلے میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعی حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزعِ شیطانی (یعنی شیطان کی اُکساہٹ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے اور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اُس سے دعوتِ حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے۔ دعوتِ حق کا کام بہرحال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اُٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر‘ خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے۔ لیکن شیطان‘ جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا‘ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعی حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعی حق کو اُکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے۔ یہ اپیل جو شیطان داعی کے نفس سے کرتا ہے‘ اکثر بڑی بڑی پُرفریب تاویلوں اور مذہبی اصطلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی تہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی (یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہش مند) ہیں تو وہ اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی بُرے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوتِ حق کا مفاد کس طرزِعمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے ‘ تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلہ میں نہیں ٹھیرسکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پھر جس جس وادی میںشیطان چاہتا ہے انھیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم نہیں رُکتے۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔
اس ارشاد کا ایک عمومی محل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہل تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیرمتقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ بُرائی سے بچیں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بُرے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دل کو چھو جاتا ہے تو انھیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ وہ بُرے خیالات‘ بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اُسی طرح خلافِ مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انھیں محسوس ہو جاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبارِشر کو اپنے اُوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں‘ نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں‘ اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے‘ ان کے نفس میں بُرے خیالات‘ بُرے ارادے‘ بُرے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے‘ بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اوروہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے‘ یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے۔
(تفہیم القرآن‘ ج۲‘ص ۱۱۰-۱۱۳)
ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے‘ پاکستان کا قدرتی حصہ ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے تمام اصولوں کے پیشِ نظر‘ اگر اس مسلم ریاست پر ہری سنگھ ڈوگرہ کی حکمرانی نہ ہوتی تو یہ مسئلہ یقینا پیدا ہی نہ ہوتا۔ پاکستان کے قیام کو ہندو قیادت نے بادل نخواستہ قبول کیا تھا۔ چنانچہ نہرو اور پٹیل جیسے کانگریسی رہنمائوں کی یہ پیشین گوئیاں ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے چند برس کے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ شروع ہی سے اس نوزائیدہ مملکت کو کمزور اور پھر معدوم کرنا بھارتی قیادت کے ایجنڈے کا اہم حصہ تھا۔ اپنے اس منصوبے کو بروے کار لانے میں‘ انھوں نے مائونٹ بیٹن اور دیگر برطانوی فیصلہ سازوں کو بھرپور استعمال کیا۔ یوں مسئلہ کشمیر کی بنیاد اسی روز ڈال دی گئی تھی جب بائونڈری کمیشن نے مسلم اکثریتی ضلع پٹھان کوٹ کو‘ بھارت کے حوالے کر دیا تھا‘ کیونکہ اس کے بغیر کشمیر کے ساتھ بھارت کا کوئی زمینی رابطہ قائم نہ ہو سکتا تھا۔
سازشی عناصر کے ان مکروہ عزائم کو بھانپتے ہوئے کشمیری مجاہدین نے علَمِ جہاد بلند کردیا۔ مجاہدین سری نگر تک پہنچ گئے تھے کہ بھارت نے ہوائی جہازوں کے ذریعے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ ریاست میں بھارتی فوجوں کے داخل ہونے کے بعد قائداعظم نے بالکل درست فیصلہ کرکے پاکستانی افواج کو بھی حکم دیا کہ وہ مجاہدین کی مدد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن انگریز کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس حکم کو سبوتاژ کیا۔ ان تمام سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے سید مودودیؒ نے اس وقت کی مسلم لیگی قیادت نواب افتخار حسین ممدوٹ وغیرہ کو یہ بات سمجھائی کہ بھارت کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اُس زمینی راستے کو کاٹ دیا جائے جو ریاست کشمیر کو گورداسپور سے ملاتا ہے ایسا ہونے کی صورت میں بھارت کشمیر کے ساتھ اپنے زمینی رابطے کو استوار نہ کر سکے گا۔ اس ضمن میں سید مودودی نے اس حد تک پیش کش کی کہ اگر انھیں ہتھیار اور ضروری سازوسامان فراہم کیا جائے تو وہ خود اپنے کارکنان کو لے کر یہ خدمت سرانجام دینے کے لیے تیار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی عسکری حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے یہ ایک نہایت ہی سائنٹفک اور برمحل تجویز تھی۔ اگر اس پر بروقت عمل ہوجاتا تو بعد میں ہندو مہاسبھائوں کے ہاتھوں جموں میں مسلمانوں کا قتلِ عام نہ ہوتا۔بعد کے مراحل میں سری نگر میں بھارتی افواج کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے جموں‘ سری نگر شاہراہ کو موت کے کنویں میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن افسوس‘ کہ اس وقت کے حکمت کاروں نے اس نہایت ہی کارآمد حکمت عملی سے صرفِ نظر کیا جس سے بھارت کی شہ رگ پر ہاتھ رکھنے کا موقع ضائع کر دیا گیا۔ مجاہدین کی کوششوں سے وادی کا ایک بڑا حصہ آزاد ہوگیا۔
بعد میں جہاد کی کامیابی کے لیے مولانا مودودیؒ نے قائداعظم کے موقف کے ہم آہنگ یہ موقف اختیار کیا کہ ریاست پر بھارتی جارحیت کے جواب میں بھارت کے ساتھ تمام معاہدات کو مسترد کر کے‘ چوری چھپے کے بجاے مجاہدین کی علی الاعلان مدد کرنی چاہیے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کی مسلم لیگی قیادت نے مولانا کی اسلامی دستور کے نفاذ کی مہم سے خائف ہوکر‘ مولانا کے اس صائب موقف کو خلاف واقع معنی پہنائے اور انھیں سرے سے جہاد کشمیر کا مخالف ثابت کرنے کی کوشش کی‘ حالانکہ مولانا کے موقف اور قائداعظم کے فیصلے کی روشنی میں اس وقت ہر ممکن طریقے سے مجاہدین کی مدد کی جاتی تو بھی بھارت کو ریاست پر قبضے سے روکا جا سکتا تھا۔ لیکن تذبذب پر مبنی فیصلوں نے اُس وقت بھی مسائل پیدا کیے اور قربانیاں بے ثمر رہیں اورآج بھی پالیسی ساز اُسی تارِ عنکبوت کو ایک مدبرانہ حکمت عملی سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بہرحال تقسیم کے وقت جماعت اسلامی کی افرادی قوت مختصر ہونے کے باوجود‘ سید مودودی نے مجاہدین کشمیر کی عملی امداد کے لیے بھرپورکوشش کی۔ بعد میں تو جہاد کے حوالے سے‘ القابات اور خطابات تھوک کے حساب سے تقسیم ہوئے اور انھی کی بنیاد پر آج تک آزاد کشمیر میں سیاست بھی کی جاتی رہی ہے۔
جہاد کشمیر میں مولانا مودودیؒ کی خدمات کے سب سے معتبر گواہ اس وقت کے امیر المجاہدین سیدمظفرحسین ندوی تھے‘ جو ۱۹۴۷ء کے جہاد کے پہلے امیرتھے۔ وہ خود بھی ایک بلندپایہ عالمِ دین تھے اور مولانا مسعود عالم ندویؒ کے شاگرد اور دوست بھی اور انھی کی وساطت سے وہ تحریکِ اسلامی سے متعارف ہوئے۔ یوں ریاست جموں و کشمیر میں بالکل ابتدائی دور میں‘ جو لوگ سید مودودی کی دعوت سے متاثرہ ہوئے وہ تمام بقول مولانا ندویؒ جہاد کے آغاز میں مودودی صاحب سے ملے اور انھوں نے جہادی کامیابیوں اور مسائل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا اور انھوں نے مولانا سے دیگر معاملات میں تعاون کے علاوہ ایسے مربی حضرات فراہم کرنے کی بھی درخواست کی جو مجاہدین کی دینی اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کریں اور جو علاقے فتح ہوچکے تھے‘ ان میں شریعت کے نفاذ کے لیے رہنمائی اور معاونت کریں۔ ان کی اس درخواست پر سید مودودی نے ضروریاتِ زندگی سے بھرے ہوئے کئی ٹرک بھجوائے اور شیخ مختار صاحب کی قیادت میں مربین کا ایک دستہ بھی روانہ کیا جو جہاد کے اس سارے عرصے میں مجاہدین کے شانہ بشانہ رہے۔ بعد میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی تو وہ حضرات واپس چلے گئے۔ یوں نہ صرف ۱۹۴۷ء کے جہاد میں مولانا نے درست حکمت عملی کی نشان دہی کی‘ بلکہ جماعت کے وسائل سے جو تعاون ممکن تھا‘ مجاہدین کی نذر کیا۔
مولانا مودودیؒ کی رائے کے مطابق اگر حکومت‘ مجاہدین کی کھلے عام مدد کرتی تو وہ چند ماہ میں سارے کشمیر کو فتح کرسکتے تھے۔ میجر جنرل اکبر (جو جنرل عارف طارق کے نام سے مشہور تھے اور ۱۹۴۷ء کے سارے آپریشن کے انچارج تھے) نے اپنی کتاب Raiders in Kashmir میں مولانا کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ: اگر اُس وقت جی ایچ کیو انھیں چند اینٹی ایئرکرافٹ گنیں اور بکتربند گاڑیاں فراہم کر دیتا جس کا انھوں نے مطالبہ کیا تھا تووہ بھارتی افواج کو سری نگر ایئرپورٹ پر اترنے سے روک سکتے تھے۔ لیکن گومگو کی پالیسی چلانے والوں نے اس وقت بھی انھیں یہی جواب دیا کہ اس طرح کے ہتھیار مجاہدین کے حوالے کرنے سے پاکستان کی فوجی مداخلت ثابت ہوگی جس سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی خوف کی پالیسی آج بھی جاری و ساری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین نے بے سروسامانی کے باوجود جو خوف اور دھاک بھارتی افواج اور کانگریسی حکمرانوں کے دل و دماغ پر بٹھا دی تھی‘ اُسی کے نتیجے میں بھارت نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی اور مسئلے کے پُرامن حل پر زور دیا‘جس کے جواب میں سلامتی کونسل نے کشمیر پر راے شماری کا اہتمام کرنے کے لیے معروف قرار دادیں پاس کیں۔ لیکن ان کے نفاذ کی ہر کوشش کو بھارت نے سبوتاژ کیا‘ بلکہ اس سارے پراسس کی آڑ میں مزید وقت حاصل کر کے کشمیر کے مسلم تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان تو سیاسی لحاظ سے عدمِ استحکام کا شکار چلا آرہا ہے۔ خارجہ پالیسی کا کارنر سٹون تو بلاشبہہ کشمیر ہی رہا لیکن سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اور نہرسویز کے مسئلے پر برطانیہ کی حمایت کرنے کے نتیجے میں‘ مسلم دنیا بالخصوص روس کے حلقہ اثر ممالک میں پاکستان کا تشخص‘ امریکی استعمار کے ایک ایجنٹ کی حیثیت سے اجاگر ہوا‘ جس کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے لیے سفارتی محاذ پر بے پناہ مشکلات پیدا کردیں۔ نہرو ‘مارشل ٹیٹواور مصر کے صدر ناصر کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی۔ پوری عرب دنیا کی صحافت اور اہل دانش پر مصری ذرائع ابلاغ کے بے پناہ اثرات تھے‘ وہ گاندھی اور نہرو کو بین الاقوامی لیڈر باور کراتے تھے اور پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ اور مسلمانوں کی ایک بڑی تحریک کا ماحصل کے بجاے‘ اسے انگریزوںکی سازش کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ ایسے حالات میں حکومتوں کی سطح پر تعلقات نہایت سردمہری کی کیفیت سے دوچار رہے۔ اس برف کو پگھلانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ علما‘ اہل دانش و صحافت اور مسلم عوام تک رسائی حاصل کرتے ہوئے‘ انھیں بھارت کے حقیقی عزائم سے آگاہ کیا جاتا۔ یوں راے عامہ کے دبائو کے ذریعے‘ حکمرانوں کو بھی بھارتی شعبدہ بازوں کے سحر سے آزاد کرا کے کشمیریوں کی جدوجہد کی پشت پر کھڑا کیا جاتا۔
اس خلا کو پُر کرنے کے لیے سید مودودی نے بھی دنیاے عرب کے متذکرہ حلقوں کو حقائق سے آگاہ کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے خود بھی دورے کیے اور اپنے رفقا بالخصوص سید مسعود عالم ندوی مرحوم اور چودھری غلام محمد مرحوم کو بھی یہی ہدف دیا‘ جس کے حصول کے لیے انھوں نے شب و روز محنت کی اور اخوان اور دیگر اسلامی اداروں کو بھارتی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے متحرک کیا۔ بعد میں رابطہ عالمِ اسلامی جیسے عالمی اداروں (جن کے قیام میں خود سید مودودی کا بھی ایک اہم کردار تھا) کے پلیٹ فارم سے قراردادوں اور محاضرات کے ذریعے‘ مسئلہ کشمیر کو مسئلہ فلسطین ہی کی طرح‘ مسلم دنیا کا ملّی مسئلہ بنانے کے لیے‘ دنیاے عرب کی ممتاز شخصیات کو مسئلہ کشمیر کا سفیربنا دیا۔ سید مودودی کی ان کاوشوں کے اثرات سفارتی سطح پر بھی منعکس ہوئے ‘جنھیں دیکھ کر ممتاز کشمیری رہنما چودھری غلام عباس مرحوم نے کہا تھا کہ: مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بالخصوص مسلم دنیا میں تنہا جتنا کام کیا ہے اس کا عشرعشیر بھی پاکستان کے حکمران‘ سفارت کار اور تمام جماعتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔
بین الاقوامی محاذ کے ساتھ ساتھ اندرون ملک بھی راے عامہ کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیدار اور متحرک رکھنا بھی ایک اہم محاذ تھا‘ تاکہ آئے روز بدلتی حکومتیں اپنے موقف سے پسپائی اختیار نہ کریں اور پاکستان کم از کم اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی تمام اہم قومی جماعتوں اور شخصیات پر مشتمل نیشنل کشمیر کمیٹی کے قیام میں بھی سید مودودی نے اہم کردار ادا کیا۔ چودھری محمد علی‘ نواب زادہ نصراللہ خان ‘ چودھری غلام عباس اور سردار ابراہیم سمیت اس دور کی تمام اہم قومی شخصیات اس کمیٹی کا حصہ تھیں جس نے نہایت تاریخی کام سرانجام دیا۔ سید مودودی کی رائے میں ایک حقیقی اور جمہوری پاکستان ہی مسئلہ کشمیر کے حل میں مؤثر کردارادا کر سکتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے بارہا فرمایا کہ: اگر پاکستان میں صحیح معنوں میں اسلامی نظام قائم ہو جاتا ہے تو کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آگرے گا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا بنیادی محرک ایک اسلامی پاکستان کے ساتھ الحاق ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے ورنہ کشمیریوں کے لیے کاروبار اور معاشی آسودگی کے مواقع‘ خود بھارت کے ساتھ رہنے میں زیادہ وسیع ہوسکتے ہیں۔ کشمیر کی ملت اسلامیہ ان سارے مواقع کو مسترد کرکے آزادی کے حصول کے لیے جو قربانیاں دے رہی ہے وہ آزادی براے اسلام کے حوالے سے ہیں۔ پاکستان کو ایک عملی اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد‘ بجاے خود تحریکِ آزادی کی تقویت کا ذریعہ اور کشمیرکاز کی عظیم خدمت ہے‘ جسے سرانجام دینے کے لیے سیدمودودی اور جماعت اسلامی نے مثالی کردارادا کیا ہے۔
حقیقی اسلامی مملکت کا قیام‘ حقیقی جمہوری نظام کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ سید مودودی‘ جمہوریت کی بحالی کے لیے ایوب خان جیسے ڈکٹیٹر کے خلاف مسلسل مورچہ زن رہے۔ اس جرم کی پاداش میں سید مودودی اور آپ کے رفقا کو قیدوبند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ جماعت پر پابندی بھی لگائی گئی جسے بعد میں اعلیٰ عدالتوں نے غیرآئینی قرار دے دیا۔ ایوب خان کے ساتھ تلخی کے اس ماحول میں ۱۹۶۵ء کی جنگ چھڑ گئی (جو کشمیر کی آزادی کے لیے‘ لیکن مطلقا غیرمنطقی مفروضوں پر شروع کی گئی)۔ جنگ شروع ہوئی تو امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کو فوجی سازوسامان دینا بند کردیا۔ ادھر بھارت کو روس اور اس کے حلیفوں بلکہ درپردہ امریکہ سے دھڑا دھڑفوجی اسلحہ ملتا رہا۔ اس جنگ میں سرخرو ہونے کے لیے قومی یک جہتی پیدا کرنا ازبس ضروری تھا۔ چنانچہ سیدمودودیؒ نے نہایت اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوب خان کے ساتھ اختلافات کے علی الرغم قوم کو متحدہو کر افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کی اپیل کی اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو دو ٹوک الفاظ میں یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم متحد ہو کر خون کے آخری قطرے تک اس کی ننگی جارحیت کا مقابلہ کرے گی۔ ان کی یہ تقریر ریڈیو سے بھی نشر ہوئی جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کے حوصلے بلند ہوئے اور قومی سطح پر بھی ایک بھرپور یک جہتی کی فضا پیدا ہوئی۔ پونچھ اور راجوری کے خطے میں عوام نے جان پر کھیل کر مجاہدین کا ساتھ دیا جس کے جواب میں بھارتی افواج نے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ قتلِ عام کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو اس نے ۴۷ء میں جموں میں کیے تھے یا گذشتہ ۱۵ سال سے وادی میں کر رہا ہے۔
سید مودودی کا یہ دورہ محض ایک تقریر تک محدود نہ تھا‘ بلکہ بھارتی جارحیت سے تنگ آکر آزاد کشمیر کا رخ کرنے والے مہاجرین کی آبادکاری اور بحالی کا منصوبہ بھی ان کے پیشِ نظر تھا۔ اُس وقت آزاد کشمیر حکومت کا انفراسٹرکچر بھی بہت کمزور اور محدود تھا اور عوامی سطح پر بھی لوگ مالی لحاظ سے اس قدر آسودہ نہ تھے۔ چنانچہ مہاجرین کے قافلوں کو سنبھالنا اور انھیں حوصلہ اور تسلی دینا نہایت اہم کام تھا جسے سرانجام دینے کے لیے سید مودودی نے جماعت اسلامی کی پوری تنظیم وقف کر دی۔ دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ میڈیکل ریلیف پہنچانے کے لیے ڈاکٹر نذیر شہیدؒ کی سربراہی میں ایک ٹیم نے شب و روز محنت کر کے صورت حال کو سنبھالا۔ اس وقت کی کشمیری قیادت اور حکومت نے ان ساری خدمات کی بے پناہ تحسین کی۔
سید مودودی ؒنے اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ’’مسئلہ کشمیر کا حل کیا؟‘‘ کے عنوان سے ایک جامع اور بھرپور لائحہ عمل بھی تجویز کیا جسے اخبارات میں اشاعت خصوصی کے علاوہ ایک کتابچے کی صورت میں چھپوا کر وسیع پیمانے پر تقسیم کیا گیا۔ اس لائحہ عمل میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے سارے امکانات کا جائزہ لیا گیا اور اس بات کو واضح کیا گیا کہ مذاکرات‘ ثالثی یا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ کے ذریعے‘ مسئلے کا حل اُسی وقت ممکن ہوگا جب بھارت کا سامنا گذشتہ پندرہ سال سے جاری جہاد جیسے ایک ہمہ گیر جہاد سے ہوگا۔ ایسے جہاد کی تمام جہتوں کی وضاحت بھی لائحہ عمل میں موجود ہے (یہی لائحہ عمل مجاہدین کشمیر نے اختیار کر رکھا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کشمیر‘ دنیا میں ایک مرتبہ پھر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے)
سید مودودیؒ ہی کی تحریک نے ۱۹۸۹ء میں اس مسئلے کو زندہ کیا۔ یہ کام‘ ذہن اور کردار سازی کے بغیر ناممکن تھا۔ تحریکِ جہاد کے موجودہ مرحلے کے حوالے سے جگ موہن سے لے کر بھارتی آرمی چیف تک تمام تجزیہ نگار اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ تحریک اسلامی ہی اس جدوجہد کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘ اس لیے وہاں سب سے زیادہ نقصان بھی جماعت اسلامی ہی کا ہوا ہے۔ ذمہ داران اور ارکان کی ایک بڑی تعداد کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ جماعت کی پالیسی کی اس وضاحت کے بعد کہ جماعت‘ وہاں سیاسی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہے‘ اس وجہ سے جماعت سے وابستہ افراد بھارتی ایجنٹوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ حزب المجاہدین سمیت دیگر مختلف تنظیموں سے وابستہ مجاہدین کی فکری تیاری میں بھی سید مودودی کے لٹریچر نے اہم کردار ادا کیا۔ مجاہدین نے بھارتی افواج کو گذشتہ پندرہ سال میں ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اسلام کے یہ شاہین اندرونی اور بین الاقوامی سازشوں اور حوصلہ شکنی کے ماحول کے باوجود اپنے برحق موقف پر ڈٹے ہوئے بھی ہیں اور مصروفِ جہاد بھی ہیں۔ ہر مجاہد آج بھی وہاں کا ہیرو ہے اور بھارت کا ساتھ دینے والا قوم و ملت کا غدار۔ ہر آزادی کی تحریک یا تحریکِ مزاحمت کی پشت پر ایثار پیشہ لیڈرشپ ہوا کرتی ہے جو جذبوں کو جلا بخشتی ہے‘ استقامت‘ قربانی اور اپنے تدبر کی وجہ سے تحریکِ آزادی کی علامت بن جاتی ہے۔ یہ اعزاز موجودہ تحریکِ مزاحمت میں قائدِ تحریکِ حریت سید علی گیلانی اور مجاہدین کے سالار سید صلاح الدین کو حاصل ہے۔ یہ حضرات بھی سید مودودی کی اس تحریک اور فکر کا ثمرہ ہیں جس کا آغاز برصغیر میں سید مودودیؒ کی معرکہ آرا کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ سے ہوا تھا۔
مہاجرین اور مجاہدین کو سنبھالنے‘ میڈیا اور سفارتی محاذ پر راے عامہ کو متحرک کرنے اور پاکستان اور آزاد کشمیر میں تحریکِ آزادی کے تقاضوں سے ہم آہنگ فضا تیار کرنے میں جماعت اسلامی پاکستان اور آزاد کشمیر اور ان کی برادر تنظیموں نے ایک تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ یہ سارا کریڈٹ بھی یقینا تاریخ‘ سید مودودی کو دے گی کہ جن کی فکروتنظیم نے ایک ہندو بنیے کو آزادی کشمیر کے حوالے سے نوشتہ دیوار پڑھنے پر مجبور کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کی تنظیم کو بھارت اور پاکستان کی تنظیم سے الگ رکھنا بھی سید مودودی کی دوربین نگاہوں کا کرشمہ تھا ۔صورت حال اس کے برعکس ہوتی تو خود تحریکِ اسلامی کے حلقوں میں مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت ابہام کا شکار ہو جاتی اور پھر حکومتوں کو بھی قومی پالیسی پر گامزن رکھنا مشکل ہوجاتا۔
آج بحمدللہ‘ مشکل حالات کے باوجود میدان کارزار میں مجاہدین اور عوام‘ تحریک کی پشت پر کھڑے ہیں‘ کٹھ پتلی حکمران پارٹی کا کوئی آرگن یا مخبر غداری کرتے ہوئے مارا جائے تو اس کے لواحقین بعض اوقات نماز جنازہ پڑھے بغیر ہی اس ناسور کو مٹی میں دبا دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی مجاہد شہید ہوجائے تو لوگ ہیرو کی طرح دیوانہ وار اس کو الوداع کہتے ہیں۔ اس کی نماز جنازہ میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں‘ صرف شرکت ہی نہیں کرتے اس کے مشن کی تکمیل کا عہد کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں غلام رسول ڈار شہید کی نماز جنازہ جس میں پچاس ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کر کے سید علی گیلانی کو یقین دلایا کہ کشمیر کی آزادی تک جانوں اور اموال کی قربانی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سری نگر یا مظفرآباد میں بیٹھے ہوئے رہنما اور سیاست دان‘ جیسے بھی بے محل فارمولے پیش کرتے رہیں یا بے مقصد مذاکرات کرتے رہیں۔ لیکن جس پراسس کو سید مودودی کے فکری جانشینوں کی تائید حاصل نہ ہوگی‘ اُس سے خفت اور ذلت کے علاوہ کچھ برآمد نہ ہوگا۔ پاکستان کے حکمرانوں کی جس قدرمصلحتیں اور مجبوریاں ہیں۔ لیکن وہ قافلہ سالار قاضی حسین احمد اور سید کے کارواں کی رائے کو نظرانداز نہ کرسکیں گے۔ ہم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے دیے ہوئے لائحہ عمل پر صبروحکمت اور استقامت اور اللہ کی توفیق کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ تاآنکہ ع
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
جب گھر کے چوکیدار اپنی طاقت کے زور پر گھر کے مالک بن کر من مانے فیصلے کرنے لگیں تو اس گھر کے مکینوں کو سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کس پُرامن طریقے سے اپنے ان ملازموں سے گھرکو واگزار کرائیں۔ یہ معاملہ ایک گھر کا ہو تو تکلیف دہ اور اگر ایک قوم کے ساتھ ہو تو المناک ہوا کرتا ہے۔
پاکستان میں ملازمین ریاست نے (چاہے وہ باوردی ہوں یا بے وردی) اسی قوم کو اپنے جبروزیادتی کا نشانہ بنایا ہے‘ جس قوم نے سخت قربانیوں کے ساتھ ان کے کروفرکا بندوبست کیا اور اختیار کی امانت ان کے سپرد کی۔ یہ ملازمین بنیادی طور پر عوام کے مسائل و معاملات سے لاتعلق نہیں تو بے بہرہ ہونے کی ایک تاریخ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ اُن کی تربیت کا استعماری پس منظر ہے۔ بہرحال ایسے لوگ جب اقتدار کے سرچشموں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا شروع کرتے ہیںتو کبھی اس کا قبلہ درست کرنے پر تل جاتے ہیں اور کبھی اس کی تاریخ ٹھیک کرنے کی فکر میں غلطاں ہوتے ہیں۔ ایسے میں کچھ خود ساختہ حکمران‘ فکری بونوں اور سیاسی بالشتیوں میں کھڑے ہو کر جب اپنے عقل کل ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو کسی دل جلے کے ہونٹوں سے آہ پھوٹ پڑتی ہے۔ ایسے میں یہ عقلِ کل صاحبان ’’کچل دینے‘‘کی دھمکی سے کم پر نہیں رکتے۔ ایسے ہی عقلِ کل حکمرانوں نے پاکستان کے سیاسی مستقبل کو خدشات و خطرات شکار کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی مستقبل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قومی نظام تعلیم کے ساتھ جس کھیل تماشے کا انھوں نے آغاز کیا ہے‘ اس پر ہر محب وطن شدید صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے‘ تاہم قوم کو صدمے کی کیفیت سے نکل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔
جنرل یحییٰ خان کے زمانے سے اسماعیلی فرقے کے سربراہ کو پاکستان میں سرخ قالین پر استقبال کرانے والے شہنشاہ معظم کا رتبہ حاصل ہے‘ حالانکہ ان کے پاس کوئی ریاست اور کوئی حکومت نہیں۔ عجیب و غریب عقائد و نظریات کے حامل اس عالمی استعماری گروہ نے فی الواقع پاکستان میں ریاست در ریاست قائم کرنے کے لیے شمالی علاقہ جات کو اپنا مرکز بنایا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اپنے عقائد کے اعتبار سے اسماعیلی شیعہ بھی نہیں کہ مسلمانوں میں شمار کیے جائیں بلکہ ان کے عقائد قادیانیوں سے قریب تر ہیں۔ اہلِ تشیع ان کے بارے میں اسی رائے کو درست سمجھتے ہیں جو جمہور مسلمان قادیانیوں کے بارے میں رکھتے ہیں۔اور عجیب بات یہ ہے کہ انھی اسماعیلیوں کو اکثر ہمارے حکمران سب سے اچھا پڑھا لکھا‘ اور روشن خیال مسلمان قرار دیتے ہیں۔
۱۹۸۳ء میں جنرل ضیا الحق مرحوم نے آغاخان فائونڈیشن کو کراچی میںایک میڈیکل یونی ورسٹی کھولنے کی اجازت عطا کی۔ اس تعلیمی ادارے نے بے پناہ فنڈز رکھنے کے باوجود نہایت مہنگے داموں میڈیکل تعلیم کا چراغ روشن کیا۔ یہاں پر یہ مسئلہ زیربحث نہیں کہ کس طبقے کے کتنے بچوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی اور پھر ان میں سے کتنے فی صد پاکستان میں خدمت انجام دینے کے لیے رکے رہے۔ اس موضوع پر حقائق سامنے لائے جائیں تو خود بخود یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ ادارہ اپنے حتمی نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے بجاے دوسروں کی خدمت پر کمربستہ ہے۔ بلاشبہہ اس ادارے نے میڈیکل سائنس اور صحت کے میدان میں بڑے نمایاں نتائج دیے ہیں‘ مگر اس بات سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ پاکستان بھر کے ۱۵ کروڑ لوگوں کے بچوں کو بھی تعلیم دینے کی اہلیت اور قابلیت رکھتا ہے۔
اکتوبر ۲۰۰۲ء میں عام انتخابات ہوئے۔ قوم نے اپنے نمایندے چن لیے‘ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اپنی متنازعہ صدارت اور بوگس ریفرنڈم سے حاصل کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ۸ نومبر ۲۰۰۲ء کو اپنے دستخطوں سے ’’غیرمعمولی آرڈی ننس‘‘(CXIV/2002) منظور کیا‘ جسے ’دی گزٹ آف پاکستان‘ کے صفحات ۱۷۳۱ تا ۱۷۳۵ پردیکھا جا سکتا ہے۔ یوں قوم کے مستقبل پر ایک اور کمانڈوایکشن لیا گیا۔ افسوس کہ اہلِ سیاست اور اہلِ قانون اس آرڈی ننس کی نزاکت سے بے خبر رہے‘ اور اب یہ آرڈی ننس اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ قوم کی فکری‘ تاریخی‘ دینی اور معاشی مستقبل پر شب خون کا درجہ ہی نہیں رکھتا بلکہ دن دھاڑے ڈاکازنی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسے تیار کرنے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ کسی معاشرے اور قوم کے وقار‘ عزت اور خودی کو مسخر کرنے اور اسے ہمہ پہلو غلامی کے شکنجے میں کسنے کا سب سے کامیاب گر تعلیم ہے۔
یہاں پر آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ (AKU-EB) کے اس آرڈی ننس کی چند شقیں پیش کی جا رہی ہیں‘ جنھیں دیکھنا‘ پرکھنا اور اس پر آواز بلند کرنا تمام اہل نظر کی دینی‘ قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ آرڈی ننس کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے:
آرٹیکل (۱) اس آرڈی ننس کو ’’آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ ۲۰۰۲ئ‘‘ کہا جائے گا۔ (۲) یہ پورے پاکستان پر محیط ہوگا۔ (۳) یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
۴- امتحانی بورڈ کے مقاصد: ] سات آٹھ مقاصد درج ہیں[
۶- امتحانی بورڈ کو معقول حد تک امتحانات کی فیسیں عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔
۸- اس آرڈی ننس کے تحت نیک نیتی سے کیے گئے تمام کام کسی قسم کے عدالتی دعوئوں اور قانونی کارروائیوں سے محفوظ ہوں گے۔
واقعات کو اگر ترتیب سے دیکھیں تو نظرآتا ہے کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے گروہ نے اخلاقی جواز نہ رکھنے کے باعث کئی قسم کے دبائو قبول کیے اور کئی حوالوں سے‘ ہتھیار ڈالتے وقت خود دشمن کو بھی حیران کر کے شادی مرگ میں مبتلا کر دیا۔ اسلام آباد کے باخبر سرکاری حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ دسمبر ۱۹۹۹ء میں استعماری مفادات کی حامل این جی اوز نے بڑی تیزی کے ساتھ‘ مختلف وزارتوں اور پالیسی ساز اداروں میں اپنا عمل دخل بڑھا لیا۔ یوں رفتہ رفتہ پالیسی سازی اور پالیسی دستاویزات کی تیاری میں حیرت ناک حد تک اختیار حاصل کرلیا‘ بلکہ ۲۰۰۰ء کے اواخر تک اس حق کو ایک ’اعلیٰ قدر‘ کے طور پر تسلیم بھی کرا لیا۔ ڈیوولیوشن پلان یا ’اختیارات کی تقسیم پروگرام‘ کی ظاہری خوش نمائی کے باوجود اس کی داخلی بدنمائی نے قومی مرکزثقل کوہلا کر رکھ دیا۔
۲۰۰۱ء میں حکومت نے بڑی تیزی کے ساتھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم کے نام پر سال بہ سال چھوٹی چھوٹی تعلیمی پالیسیاں جاری کرنا شروع کیں۔ حالانکہ اس سے قبل تعلیم کے حوالے سے یہ طے شدہ امر تھا کہ پالیسی واضح طور پر مشتہرکی جائے کہ اہل حل و عقد‘ تعلیم کے میدان میں آیندہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے اتنے اہم اسٹرے ٹیجک شعبے کو بے سروپا انداز میں چلانا شروع کیا۔ ۲۰۰۲ء میں آغا خان یونی ورسٹی کے فرنٹ مین مسٹر شمس قاسم لاکھا کی نگرانی میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونی ورسٹیوں کے نظام کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ پھراسی سال آغا خان امتحانی بورڈ کو رات کے اندھیرے میں پاکستان بھر کے تعلیمی مستقبل کا مستقل مالک بنا دیا گیا۔ بعدازاں امریکی ادارے‘ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (USAID) نے آغا خان یونی ورسٹی سے ۱۳؍اگست ۲۰۰۳ء کو کراچی میں ایک معاہدہ کیا‘ جس پر امریکی سفیرہ نینسی پاول اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندے شمس قاسم لاکھا نے دستخط کیے۔ اس تقریب میں وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال صاحبہ (جنھیں امریکی حکومت ’’ونڈرفل لیڈی‘‘ کے طور پر یاد کرتی ہے) اور سندھ کے وزیرتعلیم عرفان اللہ مروت بطور سرکاری گواہ موجود تھے۔ ان دستخطوں سے حکومتِ امریکا نے آغا خان یونی ورسٹی کو اپنے امتحانی بورڈ کی تعمیروترقی کے لیے ۴۵۰ لاکھ ڈالر عطا کیے اور ’’جب تک یہ بورڈ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوجاتا اسے امداد دی جاتی رہے گی‘‘ کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ ہدف یہ مقرر ہوا کہ پاکستان بھر کے اعلیٰ و ثانوی تعلیمی بورڈ‘ آغا خان بورڈ کے قبضۂ اختیار میں چلے جائیں۔
آغا خان امتحانی بورڈ نے آغاز کار میں صرف تین ہزار ۸ سو روپے رجسٹریشن فیس فی طالب علم مقرر کی ہے‘ جسے ہر طالب علم نومبر ۲۰۰۴ء تک ادا کرے گا۔ یاد رہے کہ سرکاری تعلیمی بورڈ میں یہ فیس ۳۰۰ روپے ہے۔ بعدازاں امتحان کے لیے فیس الگ سے لی جائے گی‘ اور وہ بھی چار ہزار ہوگی۔ کیا عام طالب علم اتنی فیس ادا کر سکے گا۔ موجودہ تعلیمی بورڈوں میں امتحانی فیس میٹرک کے لیے ۷۰۰ روپے اور انٹرمیڈیٹ کے لیے ۹۰۰ روپے ہے۔تعلیم کو سستا کیے بغیر معاشرے میں تعلیم عام نہیں ہو سکتی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم مفت ہے‘ کتاب اور کاپی بھی مفت ہے‘ جب کہ انٹر تک طالبات کیبہت بڑی تعداد کو وظیفہ دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں تعلیم عام کا ہدف سرکاری سرپرستی اور اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہوا‘ لیکن یہاں پر تعلیم کی زمامِ کار ساہوکاروں اور کثیرقومی کارپوریشنوں کے ہاتھ میں دے کر ’’روشن پاکستان‘‘ (رائزنگ اور توانا پاکستان) بنانے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔
چند ماہ پیش تر قومی ادارہ نصابات (نیشنل کریکولم ونگ) اور صوبائی درسی کتب بورڈوں کے ہاتھوں جہالت پر مبنی جن غلطیوں پر قوم سراپا احتجاج بنی‘ واقعہ یہ ہے کہ اس احتجاج نے جہاں ان اداروں پر سے قوم کے اعتماد کو مجروح کیا ہے‘ وہیں حکومت اپنے منصوبے کے مطابق‘ خود نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈوں ہی کے وجود پر فاتحہ خوانی کے لیے تیار ہے۔ نصابی کتب کی ڈی ریگولیشن سے جنرل مشرف اور زبیدہ جلال کی یہ والہانہ وابستگی دراصل قومی نصابی عمل کوختم کرنے کا واضح اعلان ہے۔ قوم نے اپنے نصابی اداروں کو ٹھیک کرنے کے لیے آواز بلند کی‘ جسے عملاً دبا دیا گیا اور محض چند سطروں کی اصلاح اور دو تین مضامین کو حذف کرنے کے سوا تمام کا تمام متنازعہ نصاب درس گاہوں میں آج بھی موجود ہے‘ اور قومی نمایندے اس سارے ظلم سے بے خبر‘ لاتعلق اور غیرمتعلق ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس موضوع پر ایک دو بار بات ہوئی اور حکومتی نمایندوں کے جھوٹے‘ مبہم اور متضاد بیانات سن کر‘قوم کے نمایندے ’مطمئن‘ ہوگئے۔
اب ‘ جب کہ آغا خان بورڈ‘ امریکی امداد اور حکومت پاکستان کی سرپرستی میں امتحانی نظام پر مرحلہ وار انداز میں قبضہ کر رہا ہے‘ تو پھرلامحالہ یہی بورڈ اپنا نصاب خود بنائے گا‘ خود پڑھائے گا اور اس کے مطابق امتحان لے گا۔ اس کے نصاب یا مالی طریق کار اور پیمایشی نظام پر قوم کے نمایندوںکا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں قوم کو دھوکا دینے کے لیے حقیقی حکمران اور ان کے دست راست افراد غیرمنطقی بیانات دے رہے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یہ بورڈ ’’قومی نصاب کے مطابق کام کرے گا‘‘ (اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مختلف جگہ پر آغا خان امتحانی بورڈ نے یہ لکھا بھی ہے) تاہم‘ قدم قدم پہ‘ یہ اعلان بھی کرتے جا رہے ہیں کہ ’’ہم وہی کریں گے جو ہم چاہیں گے‘‘--- مثال کے طور پر آغا خان بورڈ نے الحاق کے لیے جو شرائط نامہ جاری کیا ہے‘ اس کی شق ۳ئ۳ کے مطابق کہا گیا ہے: ’’اسکول لازماً اسی قومی نصاب کو اختیار کریں گے‘ جسے آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ جاری کرے گا‘‘۔ اس شق میں بظاہر لفظ ’’قومی‘‘ سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کا طے شدہ قومی نصاب ہوگا‘ لیکن خود اس جملے کی ساخت بتاتی ہے کہ یہاں مراد وہ ’’قومی‘‘ ہے‘ جسے آغاخان بورڈ ’’قومی‘‘ قرار دے گا۔ اس معاملے کو ایک دوسری مثال سے پرکھتے ہیں۔ آغا خان بورڈ نے میٹرک کے لیے اسلامیات کے جس نصابی خاکے کو جاری کیا ہے‘ اس کے ابتدایئے میں وعدہ کیا ہے کہ ’’پاکستان کے نصابی شعبے کی ہدایات کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ لیکن اس کے صفحہ ۵ پر پہنچتے ہی اعلان کیا گیا ہے: ’’قومی مقاصد کے مطابق‘ اسلامیات کا نصاب وضع کرنے کے لیے‘ زیتونیہ یونی ورسٹی‘ تیونس سے رہنمائی لی جائے گی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو چھوڑ کر تیونس ہی کی مثال کیوں؟
اس لیے کہ وہاں کے آمرمطلق حبیب بورقیبہ نے ۹۸ فی صد آبادی کے مسلمان ملک میں جبری طور پر روزے پہ پابندی لگانے اور اسکارف و حجاب کو جبراً ممنوع قرار دینے کے علاوہ مسجدوں میں خطبہ و نماز پر اپنے من مانے احکام چلانے شروع کر دیے۔ قوم کو عریانی اور یورپی اقوام کی تفریحی شکارگاہ بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ تفصیل کے لیے مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی کتاب مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش دیکھی جاسکتی ہے۔ بلکہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر خود جنرل مشرف کو تیونس کا لبرل اسلام پسند ہے تو اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ نماز‘ روزے سے نجات‘ شراب اور ڈانس پارٹیوں کی فراوانی کا کلچر‘ عریانی و آوارگی کا چلن--- یہ ہے تیونس کے ’’لبرل اسلام کی منزل‘‘ ۔ ایسے ہی جابر اور آمر حکمرانوں کی رہنمائی میں تیار کردہ ’’اسلامیات‘‘ ہمارے آغاخان امتحانی بورڈ کو پسند ہے۔ آغاخان بورڈ نے اسلامیات کے لیے میٹرک کا جو نصاب پیش کیا ہے‘ اس میں قرآن کے متن کو تلاش کرنے کے لیے خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہا یہ گیا ہے کہ ’’پاکستان کے قومی نصاب کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ کیا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ حکومت نے نصاب میں قرآن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تیونس کے اسلام بذریعہ آغا خان کا یہی طریقہ مناسب سمجھا ہے؟ --- یہی صورت حال تاریخ‘ مطالعہ پاکستان اور سماجیات و ادب کے دیگر مضامین میں روا رکھی گئی ہے۔
امریکا و یورپ نے پہلے پہل یہ کہا کہ دینی مدارس سے دہشت گردی پیدا ہو رہی ہے‘ بعد میں یہ کہنا شروع کیا: ’’جدید تعلیم کے اداروں سے دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں‘‘۔ اس لیے مغرب کے بھتے (پے رول) پر کام کرنے والی این جی اوز نے گذشتہ چار برس سے اس پروپیگنڈے کا آغاز کیا کہ: ’’دو قومی نظریہ نفرت کی علامت ہے‘ محمد بن قاسم نے چوری چھپے حملہ کر کے وطن کے بیٹے راجہ داہر جیسے بے ضرر انسان کو خواہ مخواہ شکست دی۔ ہندستان پر قبضہ کرنے والے انگریز ماضی کی داستان تھے اور آج کے انگریز دوسری چیز ہیں جو ہمارے دوست ہیں‘ اس لیے انگریزی سامراج کے خلاف حصے نصاب سے خارج ہونے چاہییں۔ میجرطفیل‘ راجہ عزیز بھٹی‘ راشد منہاس اور دیگر نشانِ حیدر رکھنے والے افراد کا تذکرہ بھی خارج از نصاب قرار دیا جائے‘ کیونکہ اس طرح بے جا طور پر ہندوئوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ محمود غزنوی اور غوری حکمرانوں کا ذکر بھی ہندو کے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے۔ نہرو اور کانگریس کے خلاف بھی مواد حذف کیا جائے۔ اصل اسلام صوفیوں نے پیش کیا۔ اسی طرح حضرت فاطمہؓ، حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ کے ذکر کے بجاے بلقیس ایدھی اور عاصمہ جہانگیر وغیرہ کو رول ماڈل (خاکم بدہن) کے طور پر پیش کرنے کے لیے پیش رفت کی جائے (بلکہ ایسا کر بھی دیا)۔ صحابہ کرامؓ بڑے ’’لبرل‘‘ تھے۔ رسول اکرمؐ نے مسلمانوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا‘ جس سے مسلم اور یہودی اسلامی ریاست کے شہری بن گئے‘‘--- ان چیزوں کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک حد تک سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈوں کو استعمال کیا گیا اور آیندہ یہ کام زیادہ یکسوئی کے ساتھ کرنے کے لیے آغا خان بورڈ کے ذمے لگایا گیا ہے۔
اس مسئلے پر اسی قبیل کے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ترجمان جہد حق (اگست ۲۰۰۴) نے تو یہ لکھا ہے: ’’اب وقت آن پہنچا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک مشترکہ کتاب کے طور پر برصغیر کی تاریخ مرتب کی جائے --- بچوں کو بجاے اس کے کہ کسی واحد سرکار کی طرف سے منظور کردہ آلایشوں سے پاک سچائی سے روشناس کرایا جائے‘ انھیں ہر قسم کے نظریات سے واقفیت کرائی جائے۔ ’’نظریہ پاکستان‘‘ جس سے یہ [پاکستان] چمٹا ہوا ہے وہ بھارت کے لیے حکمران فوجی اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مذہبی گروہوں کی نفرت سے کسی حد تک علیحدہ چیز ہونا چاہیے۔ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ‘ جن کی اجارہ داری ہے نظریاتی چوکیداروں کے فرایض سرانجام دیتے ہیں اور تابع دار مصنفین کی سرپرستی کرتے ہیں‘‘۔ (ص ۸)
اس سال کے آغاز میں‘ حکومت نے ان تمام وعدوں کو پس پشت ڈال کر‘ کہ آغا خان بورڈ تو بنیادی طور پر نجی تعلیمی اداروں کے لیے ہے‘ سب سے پہلا وار وفاق کے زیرانتظام تعلیمی اداروں پر کیا۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں اس حوالے سے سرگرمی سے کام شروع کیا گیا‘ جس پر اسلام آباد کے شہریوں کی بے چینی کو زبان دیتے ہوئے روزنامہ دی نیشن نے اپنی رپورٹ (۹فروری ۲۰۰۴ئ) میں بتایا: حکومت نے وفاقی تعلیمی بورڈ (ایف بی آئی ایس ای)کو آغا خان بورڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے وفاقی وزیرتعلیم زبیدہ جلال اور فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ڈائرکٹر جنرل بریگیڈیر (ر) مقصودالحسن نے سرگرمی سے دبائو بڑھانا شروع کیا ہے۔ لیکن والدین اور اساتذہ کی انجمن نے اس امر کی مخالفت کی‘ اور ۲۰ جنوری کو ہونے والے اجلاس میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب معلوم ہوا کہ اس منصوبے پر دو طریقے سے عمل کیا جائے گا۔ پہلے والدین کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ ایک ہی تعلیمی ادارے میں اپنے بچے کو آغا خان بورڈ کے تحت امتحان دلانا چاہتے ہیں یا نہیں‘ جب کہ دوسرے مرحلے میں اس ادارے کے سب بچوں پر لازم کر دیا جائے گا کہ وہ آغا خان بورڈ ہی کو منتخب کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہم دہم کا امتحان ایک ہی مرتبہ لیا جائے۔ کسی سرکاری تعلیمی ادارے کو کسی پرائیویٹ ادارے کے زیرانتظام منسلک کرنا مکمل طور پر غیرقانونی فعل ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ آغا خان بورڈ کے فارغ التحصیل طلبہ کو بیرون پاکستان آسانی سے داخلہ مل جائے گا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے طلبہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور اس معمولی تعداد کے لیے کیا پورے پاکستان کے بچوں کو اس مہلک سسٹم میں دھکیل دینا کوئی عقل مندی کی بات ہوگی‘‘۔
تاحال وفاقی تعلیمی بورڈ پر گرفت مضبوط بنانے کے لیے آغا خان بورڈ سرگرداں ہے‘ جب کہ وفاقی بورڈ میں قومی درد رکھنے والے چند افسر مزاحمت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کے بورڈوں کے چیئرمینوں نے بھی سردست آغا خان کے سامنے ہتھیار نہ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن یہ مزاحمت یا ضد علامتی ہے۔ اکثر چیئرمین سفارش یا ذاتی جوڑ توڑ سے اس منصب تک پہنچتے ہیں۔ جو چند ملّی درد رکھنے والے افراد ہیں‘ ان کی مزاحمت اس وقت تک باثمر نہیں ہو سکتی جب تک کہ قومی سطح پر اہل دانش اور عوامی حلقے انھیں اخلاقی امداد بہم نہ پہنچائیں۔ ایک طرف امریکی استعمار کھلے عام‘ امریکی سفیرہ کی قیادت اور جنرل مشرف و زبیدہ جلال صاحبہ کی سیادت میں تعلیمی ڈھانچے اور نظام پر قبضہ کرنے کے لیے کھلے عام پیش رفت کر رہا ہے‘ دوسری جانب ریٹائرمنٹ کے قریب تھکے ہارے چند بے نوا پروفیسر حضرات اپنے اپنے بورڈوں کو کب تک بچائیں گے۔ پھر جس طرح کا ہمارے ہاں نظام ہے کہ ایسے مباحث میں کئی مفاد پرست ناصحین مشورہ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ ’’قبول کر لیا جائے‘‘۔ دوسرا یہ کہ آغا خان بورڈ کے کارندوں نے مختلف انجمنوں اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے رابطوں میں تیزی پیدا کی ہے۔ اس حوالے سے وہ مذہبی پس منظر کے چند اداروں اور دینی شکل و صورت رکھنے والے چند بندگانِ زر کو بھی شیشے میں اتار رہے ہیں‘ بلکہ اس نوعیت کے کچھ لوگوں سے رابطوں کو انھوں نے کمپنی کی مشہوری اور مذہبی طبقے کی جانب سے سندِ قبولیت کے طور پر پیش کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
آغا خان امتحانی بورڈ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر تھامس کریسٹی جو برطانوی نژاد انگریز اور مانچسٹر یونی ورسٹی کے سابق ڈین ہیں‘ شب و روز کی جدوجہد سے اپنے وابستگان میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے ہمراہ شمس قاسم لاکھا ہیں‘ جن کے ہاتھوں یونی ورسٹی کے نظام کار کا حلیہ بگاڑنے اور تعلیم کو تجارت و زرپرستی کا دوسرا نام دینے کا المیہ رونما کرانے کے بعد‘ اب ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کی بساط بھی لپیٹی جارہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے دروازے تو اب نچلے اور متوسط طبقے کے بچے کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ سیلف فنانس‘ سیلف سپورٹ اور لوٹ مار کے بے شمار نجی تعلیمی اداروں نے ناداروں کو زندگی بہتر بنانے کی دوڑ سے باہر نکال دیا ہے۔ مختلف ناموں کی یونی ورسٹیاں ہر شہر میں کھل رہی ہیں‘ جو اپنی جگہ قانون کی نہایت سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن ہمارا ریاستی نظام ان جعلی اداروں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجاے‘ انھیں مختلف اقدامات کے ذریعے پروان چڑھانے میں مددگار بن رہا ہے۔
آغا خان اقلیت کی حکمت عملی قادیانیوں اور یہودیوں سے ملتی جلتی ہے۔ وہ یہ کہ قوت کے سرچشموں کو اپنے اثرونفوذ میں لیا جائے‘ بظاہر امن پسندی کا ڈھونگ رچایا جائے اور اصل میں ہڈیوں میں اتر جانے والا ظلم ڈھایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ان کے ہاں مادی وسائل پر قبضہ اور پس پردہ سازش دو بنیادی اصول ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آغا خان بورڈ میں فی طالب علم کی محض رجسٹریش فیس کا سرکاری بورڈوں کے مقابلے میں تناسب تقریباً چار ہزار بمقابلہ تین سو ہے‘ اور امتحانی فیس کا تناسب بھی یہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کے لیے اپنے بچے کو پڑھانا ممکن نہ ہوگا۔ اسی طرح جنرل مشرف کے ڈی ریگولیشن کے محبوب تصور کے تحت درسی کتب بے پناہ مہنگی ہوجائیں گی۔ ممکن ہے اس مہنگائی کا کوئی عارضی علاج امریکا اور اس کے حلیف سوچ لیں (جس کے تحت وقتی طور پر آغا خانی تعلیم کو کچھ سستا بھی کر دیں) لیکن اصل چیلنج ہمارے نزدیک اس تعلیم کا مہنگا ہونا نہیں ہے‘ بلکہ دیسی‘ بدیسی اور دشمن قوتوں کے ہاتھوں نئی نسل کے ذہن‘ فکر‘ تربیت اور مستقبل کو غلام بنانے کے راستے پر چلنا ہے۔
یورپی اقوام نے نظام تعلیم کو محکوم قوموں کے خلاف ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا‘ جس کی ایک مثال لارڈ میکالے کا فرمان ہے‘ دوسرا اعلان نپولین کا ہے کہ مسلمان ملکوںمیں ’’مقامی لوگوں کو مقامی لوگوں سے مرواو‘‘ (یعنی (natives to kill natives۔ گذشتہ تین برسوںکے دوران امریکا نے مسلم دنیا کے بارے میں جتنی رپورٹیں جاری کی ہیں‘ ان میں مسلمان ملکوں کے نظام تعلیم کو بنیادی ہدف بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ عراق پر قبضہ کرنے سے ایک سال پیش تر جون ۲۰۰۲ء میں عراقیوں کے لیے امریکا نے درسی کتب تیار کر لی تھیں اور ۱۰‘ اپریل ۲۰۰۳ء کو بغداد پر کنٹرول حاصل کرنے کے آدھے گھنٹے بعد امریکا نے عراق کے لیے جاری کی جانے والی سب سے پہلی امداد عراقی نظام تعلیم سے منسوب کی تھی۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انگریز اور یورپی استعمار نے ہر مسلمان ملک میں سیکولر اور مذہبی نظام تعلیم کو رواج دے کر خود مسلمانوں کو دو‘ مسلسل متحارب اور اجنبی گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ ایک گروہ پر ملازمت‘ عزت اور احترام کے دروازے بند ہیں‘ چاہے وہ جس قدر بھی دیانت دار اور اسلامی تعلیمات سے قریب تر ہو۔ دوسرے گروہ کے لیے دولت‘ ثروت‘ عزت اور قوت کے تمام دھارے کھول کر رکھ دیے ہیں‘ چاہے وہ گروہ مجموعی طور پر‘ خود اپنی قوم کے لیے نفرت‘ حقارت اور بے رحمی کی چلتی پھرتی علامت ہی کیوں نہ ہو۔
اب آغا خان بورڈ اور بیکن ہائوس قسم کی برگر پود تیار کر کے خود جدید تعلیم کے فاضلین میں بھی ایک نہایت گہری تقسیم پیدا کی جا رہی ہے۔ اس ظلم کو متعارف کرانے کا کام ’’فوجی یونٹی آف کمانڈ‘‘ کے سنہری اصول کے تحت کیا جا رہا ہے۔ معاشی وسائل پر دسترس دینے کے لیے ایک جانب امریکا کی طرف سے کھلی مالی امداد ہے‘ جب کہ خفیہ طور پر دیے جانے والے فنڈز ہماری معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔ گذشتہ دنوں حبیب بنک جیسے قومی ادارے کو ’’آغا خان فنڈ براے ترقی‘‘ کے سپرد کرتے وقت یہ شفافیت اپنائی گئی کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ۷۰ارب روپے کے اثاثوںوالا بنک صرف ۲۲ ارب میں فروخت کر دیا۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے دبائو کا اعتراف خود وکلا حضرات نے سپریم کورٹ کے سامنے کیا۔ وفاقی تعلیمی بورڈ کو سب سے پہلے آغا خان کے حوالے کرنے کا جو ڈول ڈالا گیا ہے‘ تو یاد رہنا چاہیے کہ اس بورڈ کی صرف اسلام آباد اور بیرون پاکستان میں اربوں روپے کی جایداد ہے‘جب کہ پاکستان کے ۲۳ تعلیمی بورڈوں کو‘ جنھیں رفتہ رفتہ آغا خان فاؤنڈیشن جیسے مگرمچھ کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے‘ ان کے اثاثہ جات کئی ارب سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ اور پھر قوم کے ہر بچے کی جانب سے سالانہ تاوان دینے کی مجبوری الگ۔ یہ تمام چیزیں لمحۂ فکریہ ہیں۔
آغا خان بورڈ حالات کو کس رخ پر لے جائے گا‘ یا اپنے تصورِ جہاں (ورلڈ ویو) کے مطابق اس کے کرتا دھرتا کن دائروں میں زندگی گزارنے کی پہچان رکھتے ہیں‘ اسے دیکھنے کے لیے آغاخان ایجوکیشن کے دو سوال ناموں پر نظر ڈالنا مفید رہے گا۔ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان نے کلاس نہم سے گیارھویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کے ’’بالغانہ صحت کے سروے‘‘ کے لیے ایک سوالنامہ مرتب کیا ہے۔ اس سروے کو ’’دی گلوب فنڈ‘‘ اور حکومت پاکستان کے ایک شعبے کا بھی تعاون حاصل ہے۔ ان میں بچوں سے سوال پوچھا گیا ہے:
__ آپ کے خیال میں پاکستان میں ایڈز کا سب سے خطرناک ذریعہ کون ہے؟
(۱) غیرمحفوظ جنسی تعلقات (کمرشل جنسی ورکر‘ ایک سے زیادہ جنسی تعلقات) (۲) مرد سے مرد کا جنسی تعلق‘ وغیرہ (ص ۹)
__ آپ خود کو کس طرح ایڈز سے متاثر ہونے سے بچاسکتے ہیں؟
(۱)محدود جنسی تعلقات رکھنے سے (۲) کمرشل جنسی ورکر سے گریز (۳) حکیمی جڑی بوٹیوں اور دوائوں کے استعمال سے ‘ وغیرہ (ص ۱۰)
__ مندرجہ ذیل جملوں میں سے سب سے زیادہ اہمیت کون سے جملے رکھتے ہیں؟
(۱) اپنی مرضی سے زندگی گزارنا (۲)اپنا ہم سفر خود چننا (۳) شادی اور بچے‘ وغیرہ (ص ۲۲)
__ ان میں سے کون سی چیزیں آپ نے پچھلے چھے مہینوں میں کی ہیں؟
(۱) والدین سے جھوٹ بولا (۲) مزے کے لیے اسکول سے فرار ہوئے (۳) دکان سے چرا کر بھاگے (۴) گھر سے بھاگے (ر) دوستوں کے بہکاوے میں اگر غلط کام کیا (۵) شراب پی ہے‘ وغیرہ (ص ۲۲‘ ۲۳)
__ کیا آپ دوستوں سے گرل فرینڈ/بواے فرینڈ رکھنے کی خواہش کا اظہار کرسکتے ہیں؟
(۱) جی ہاں (۲) بالکل نہیں (۳) میں کر سکتا ہوں وغیرہ (ص ۲۳)
__ کیا آپ نے کبھی جنسی تعلقات استوار رکھے ہیں؟
(۱) ہاں (۲) نہیں (ص ۲۳)
__ اگر ہاں تو پہلی بار جنسی تعلقات استوار کرتے وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟
(۱) ۱۳سال سے کم عمر میں (۲) ۱۳ سال کی عمر میں (۳) ۱۴سال کی عمر میں (۴) ۱۵ سال کی عمر میں (۵) ۱۶ سال کی عمر میں (۶) ۱۷ سال یا اس سے زیادہ عمر میں‘ وغیرہ (ص ۲۳)
__ جو آپ درست سمجھتے ہیں ان پر صحیح کا نشان لگائیں؟
(۱) میں اپنے جنسی اقدار اور عقیدوں کی وجہ سے پریشان ہوں (۲) میں نے کبھی بھی کسی سے جنسی تعلقات نہیں رکھے (۳) میرے گرل/ بواے فرینڈ کے ساتھ جنسی تعلقات ہیں (۴) میں اپنے جنسی رویے پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں (۵) میرے جنسی تعلقات کی وجہ سے میرے دوست حسد کرتے ہیں (ص ۲۴)
__ آپ کتنی مرتبہ نشہ کرتے ہیں؟
(۱) روزانہ (۲) ہفتے میں ایک بار (۳) مہینے میں ایک بار‘ وغیرہ (ص ۲۶)
__ کیا آپ شراب پیتے ہیں؟
(۱) ہاں میں پیتا/پیتی ہوں (۲) نہیں‘ میں نہیں پیتا/ پیتی ہوں (۳) کبھی کبھار پیتا/پیتی ہوں (ص ۲۷)
__ آپ نے شراب پینا کیوں شروع کی؟
(۱) میرے تمام دوست شراب پیتے ہیں (۲) میں دوستوں کے سامنے اچھا نظر آنا چاہتاہوں /چاہتی ہوں (۳) میں اکثر شراب کے بارے میں سنتا تھا اور پی کر دیکھتا چاہتا تھا/چاہتی تھی (۴) میں بہت پریشان رہتا تھا/رہتی تھی (ص ۲۷)
__ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار اور اصولوں کو بہت اہمیت حاصل ہے‘ آپ کے
خیال میں کیا ایک لڑکی کا شادی سے پہلے جنسی تعلقات رکھنا جائز ہے؟
(۱) اخلاقی طور پر غلط ہے (۲) بالکل غلط نہیں (۳) میں نہیں جانتا (ص ۲۸)
__ آپ جن جوابات کو درست سمجھتے ہیں ان پر نشان لگایئے؟
(۱) میرے دوست جی بھر کے تمام قسم کے جنسی تعلقات میں حصہ لیتے ہیں (۲) میں وہ کرنا چاہتا ہوں جو میرے دوست کرتے ہیں (۳) دو محبت کرنے والوں کے لیے شادی سے پہلے جنسی تعلق ٹھیک ہے۔
__ کیا آپ گاڑی لے کر گئے؟
(۱) دوست کے گھر (۲) گھر کے آس پاس (۳) اپنے بواے/گرل فرینڈ کے گھر تک‘ وغیرہ (ص ۲۹)
اسی نوعیت کا سوال نامہ میٹرک‘ انٹر کے اساتذہ کے لیے بھی ہے۔
اوپر درج شدہ چند سوالات اور ان کے مجوزہ جوابات دیکھیے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حکومت کی آشیرباد سے فائونڈیشن اول روز سے ہی حلال و حرام کے مذہبی ضابطوں اور جملہ اخلاقی اقدار کو تہس نہس کر کے پاکستان کے مسلم معاشرے کو یورپ و امریکا کے طرز کی اباحیت میں ڈوبی ہوئی مادر پدر آزاد سوسائٹی میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ کسی کلاس روم میں طلبہ و طالبات کے ان فارموں کو پُر کرنے کا تصور کیجیے‘ جس سے آپ کو وہ ماحول سمجھ میں آجائے گا‘ جس میں باقاعدہ بھڑکا کر لانا مطلوب ہے۔ اس سوالنامے کے نفسیاتی اور سماجی پہلو پر گفتگو کرنے سے خود حیا آتی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ سوال نامہ ’لبرل ماڈریٹ‘ مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس بحث کے آخر میں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ظلم پر مبنی اس آرڈی ننس اور حقارت و زیادتی پر مبنی اس نظام کو مسلط کرنے کے لیے مختلف استعماری این جی اوز اور حکومت کے بارسوخ افراد نے بڑے تسلسل سے کام کیا ہے۔ حکومت کے ’’اصل لوگ‘‘ سرخوشی کے عالم میں کچھ اچھے اور زیادہ تر برے فیصلے کرتے جارہے ہیں۔ بلاشبہ آغا خان امتحانی بورڈ کا آرڈی ننس بھی سترھویں ترمیم کے پردے میں قوم پر مسلط کیا جانے والا ظلم ہے۔ سترھویں ترمیم کو تسلیم کرنے والوں پر یہ بہت بڑا قرض ہے کہ وہ اپنی نئی نسلوں کو اس طوق غلامی سے نجات دلانے کے لیے‘ اس پر پارلیمنٹ میں بحث کریں اور مسترد کریں۔ لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ خود منتخب نمایندوں کو ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کی نزاکت سے آگاہ کیا جائے۔ سترھویں ترمیم کی منظوری کے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ گذشتہ عہد مشرف میں جو آرڈی ننس یا فیصلے ہوچکے ہیں‘ انھیں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں زیربحث لا کر‘ قبول کرنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس مشترکہ کمیٹی کا قیام التوا میں چلا آرہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ طے شدہ طریقے کے مطابق خصوصاً اس آرڈی ننس کا جائزہ لیا جائے اور اسے مسترد کیا جائے۔
اس الم ناک صورت حال پر اہلِ دانش اور اساتذہ کرام کا یہ دینی اور قومی فریضہ ہے کہ وہ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کو یہ بات سمجھائیں۔ یہ مسئلہ متحدہ مجلس عمل‘ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا نہیں ہے‘ بلکہ سبھی کے لیے مشترکہ درد اور کرب کا مسئلہ ہے۔ کیا اہلِ دانش اور اہلِ سیاست کسی جابر کی حکمت عملی کو تسلیم کر کے صدیوں تک اپنی نسلوں کو غلامی کے غار میں دھکیلنے کے لیے تیار ہیں یا حکمت و دانش سے بیداری و یک جہتی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ان زنجیروں کو توڑنے کے لیے آمادہ ؟
کسی نبی کا کبھی یہ مقصد نہیں رہا کہ وہ دوسروں کو جبر کے ذریعے اپنے ساتھ لائے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہی اور صرف وہی حق پر ہیں‘ پھر بھی انھوں نے اپنے مخاطبین کو کبھی اپنا پیغام قبول کرنے پر مجبور کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ ان کی ذمہ داری ابلاغ تھی‘ پیغام پھیلانا‘ بات پہنچانا۔ ابلاغ کے مفہوم میں بات کرنا‘مکالمہ‘ آزادیِ تقریر اور آزادیِ انتخاب شامل ہے۔ قرآن‘ انبیا اور ان کے مخاطبین کے مکالموں سے بھرا پڑا ہے۔ ہدایت کے راستے کا انتخاب یا گمراہ رہنا‘ رسول کے دائرہ اختیار سے باہر‘ انسان اور اس کے خداکے درمیان ایک انفرادی معاملہ تھا۔ آنحضرتؐ کو اکثر بتایا گیا: ’’(اے نبیؐ) نصیحت کیے جائو۔ تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو‘ کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘(الغاشیہ ۸۸:۲۱-۲۲)۔ اے نبیؐ، ’’تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے‘ مگر اللہ جسے چاہتا ہے‘ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں‘‘ (القصص ۲۸:۵۶)۔ ہدایت کے راستے پر لے آنا یا فیصلہ کرنا رسول کی ذمہ داری نہیں ہے۔ نجات‘ مغفرت و بخشش یا سزا کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے آخری فیصلے میں رسول کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ’’فیصلے کے اختیارات میں تمھارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اللہ کواختیار ہے‘ چاہے انھیں معاف کرے‘ چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں‘‘۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۸)
اسلام میں نبوت کے چند اہم پہلوئوں کا یہ انتہائی مختصر جائزہ کسی معاشرے میں مختلف بلکہ متضاد سچائیوں کے دعوئوں کے باوجود مل جل کر رہنے کے لیے‘ وسیع مضمرات کی نشان دہی کرتا ہے۔
تمام بڑے مذاہب کا الہامی سرچشمہ ایک ہی ہے۔ بعض اختلافات جو بنیادی طور پر اتنے اہم نہیں ہیں اصلی الہامات کا حصہ تھے‘ بعض مختلف تہذیبوں اور انسانی فکر کے دھاروں سے ان کے باہمی تعامل سے وجود میں آئے۔ اختلافات کا یہ دوسرا دائرہ مذاہب کو سختی سے ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ پھر بھی ان میں بہت سی بنیادی صداقتیں مشترک ہیں۔کوئی ایک طرف یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کے مابین اختلافات اور دوسری طرف ہندومت اور بدھ مت کے مابین اختلافات کی طرف اشارہ کرسکتا ہے جن کی میرے خیال میں بالترتیب پیغمبرانہ اور صوفیانہ حیثیتوں سے غلط طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ لیکن اگر آج یہ سوالات کھڑے ہوئے ہیں کہ کیا حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنے آپ کو وہی کچھ سمجھتے تھے اوروہی کچھ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے جو بعد کی نسلوں نے انھیں سمجھا‘ تو کیا یہی سوالات رام‘ کرشن اور بدھا کے بارے میں نہیں کھڑے ہوسکتے؟
یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ اسلام نظریۂ نبوت کو صرف انھی تک محدود نہیں کرتا جن کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس اصول کے بیان کے بعد کہ انبیا ؑہرقوم کی طرف مبعوث کیے گئے‘ آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’اے نبی، تم سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے‘‘۔ (المومن ۴۰:۷۸)
یہ بات کہ مسلمانوں نے اس اصول کو ان مذہبوں پر خوشی خوشی منطبق کیا جن سے انھیں واسطہ پڑا ہے‘ یعنی زرتشتی اور ہندو مذاہب‘ اس کے مذہبی اور معاشرتی مضمرات ہیں‘ انھیں آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہ نظریہ کہ تمام دوسرے مذاہب اپنے موجودہ پیروکاروں کے خیال کے مطابق اپنے صحیح اور اصل راستے سے دور ہوچکے ہیں‘ کسی بین المذہبی رشتے اور اسلام کے مکمل سچائی کا حامل ہونے کے دعویٰ میں ایک بڑی رکاوٹ دکھائی دے سکتا ہے۔ لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے خیال میں بعد کی نسلوں کے اسلام کے وژن کے بارے میں اسلام بھی وہی بات کہے گا‘ یعنی یہ کہ یہ اصل حقیقی اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر اسلام دوسرے عقائد کے پیروکاروں کو ایسی زندگی بسر کرتے دیکھتا ہے جو ان کی بانیوں کی تعلیمات کے خلاف ہیں تو وہ یہی بات مسلمانوں کی غالب اکثریت کے بارے میں بھی کہے گا۔ دوسرے یہ کہ شاید کوئی عقیدہ مضبوط‘ مؤثر اور زندہ نہیں رہ سکتا اگر اسے اس خود اعتمادی سے محروم کر دیا جائے کہ صرف وہی مکمل سچائی کا حامل ہے۔
اسلام دوسرے مذاہب کے نظام عقائد سے کلی طور پر متفق نہیں ہے تب بھی وہ غیرمبہم طور پر تسلیم کرتا ہے کہ ’’وہ سب اللہ کا نام لیتے ہیں‘‘۔ اس طرح عبادت کے تمام مقامات صاف طور پر اللہ کی عبادت کے مقامات تسلیم کیے گئے ہیں۔ ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں‘ جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے‘ سب مسمار کر ڈالی جائیں‘‘۔ (الحج ۲۲:۴۰)
کیا اسلامی نظریۂ نبوت کتابوں میں ایک عقیدے اور تصور ہی کی حیثیت سے محفوظ رہا یا مثبت رویوں اور اعمال سے اس کا اظہار بھی ہوا؟ اس میں سے کچھ رویوں کا قرآن پاک میں تذکرہ کیا گیا ہے‘ مثلاًیہ کہ ایک مسلمان مسلمان نہیں رہے گا اگر وہ پہلے تمام انبیاؑ پر ایمان نہ لائے---اسی طرح قرآن پاک کا عقائد کے اختلافات کے باوجود دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ خوردونوش اور شادی بیاہ کی اجازت انسانیت کی بنیاد پر معاشرے کی تخلیق کے لیے انقلابی مضمرات رکھتا ہے۔
تاریخ میں مسلمانوں کا طرزِعمل اور پالیسیاں کئی لحاظ سے قابلِ اطمینان نہیں کہی جاسکتیں۔ مسلمان انسان ہی تھے اور اسی لیے خام تھے۔ لیکن ان میں جو اچھائی اور خیر کا عنصر دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ نبوت کے متعلق وہی خاص اسلامی نظریہ ہے۔ اس میں اچھائی یا خیر کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ ہرچند کہ ہمارے موجودہ معیارات (عمل کتنا ہوتا ہے؟) کی رو سے اسے مثالی نہ کہاجاسکے‘ مثلاً عبادت کی آزادی اور مذہبی خودمختاری جو مسلم علاقوں میں بڑے وسیع پیمانے پر موجود تھی۔۱؎ لباس پر پابندی‘ عبادت گاہوں کی جگہوں کی تخصیص‘ دفاعی خدمات کے بجاے خصوصی ٹیکس یعنی جزیہ‘ امتیازی درآمدی محاصل جیسی کچھ اِکا دکا مثالیں کم تر حیثیت کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں‘ لیکن آج کل کے بعض جدید اور مہذب معاشروں میں بھی پائی جانی مشکل نہ ہوں گی۔
بعض قرآنی احکامات کی سختی اور اسلام کے ابتدائی دور میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف بعض اقدامات اکثر لوگوں کو پریشان کرتے ہیں لیکن یہ مقام ان کے تنقیدی جائزے کا نہیں۔ ان کا تفصیلی جائزہ یہ ثابت کرسکتا ہے کہ جو کچھ بہت عرصے تک امرواقعہ سمجھا جاتا رہا ہے وہ دراصل سچ نہیں تھا۔۲؎ لیکن انھیں سمجھنے کے لیے دو تناظر خاصے مددگار ثابت ہوں گے۔
پہلا یہ کہ یہ سیاسی دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ محض اس لیے کہ کوئی ایک خاص عقیدے کے پیروکار ہے۔ اس کے خلاف کوئی اعلانات نہیں کیے گئے‘ کوئی کارروائیاں نہیں کی گئیں‘ کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ بے شک مذہبی جبر کو بدترین ظلم اور کبیرہ گناہ (فتنہ) قرار دیا گیا ہے۔ سیاسی بنیاد اس وقت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے جب کوئی قرآن کی مسلمانوں کو کفار تک سے اس وقت تک صلہ رحمی کرنے کی ہدایت دیکھتا ہے جب تک وہ مسلمانوں کے خلاف آمادہ شروفساد نہ ہوجائیں۔ ’’بعید نہیں کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے۔ وہ غفور و رحیم ہے۔ ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا… اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ ’’وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے‘ اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔ (الممتحنہ ۶۰:۷-۹)
تم کتنے ظالم ہو! اے فریسیو! اے قانون سکھانے والو! اے ریاکار لوگو! تم سفیدی کیے گئے مقبروں کی طرح ہو جو بظاہر بہت خوش نما دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے اندر ہڈیاں اور لاشیں گل سڑ رہی ہیں… پس تم عملاً اعتراف کرتے ہو کہ تم ان کی اولاد ہو جنھوں نے انبیاؑ کو قتل کیا۔ اے سانپو! اے سانپوں کے بچو! تم کیونکر توقع رکھتے ہو کہ تم دوزخ کی آگ سے بچ سکو گے۔
پس میں تمھیں بتاتا ہوں کہ میں تمھارے پاس پیغمبر اور اہل دانش اور تعلیم دینے والے بھیجوں گا۔ تم ان میں سے بعض کو قتل کرو گے‘ بعض کو مصلوب کرو گے‘ اور بعض کو اپنے معبدوں میں کوڑے مارو گے اور شہر بہ شہر ان کا تعاقب کرو گے۔
یروشلم! یروشلم! تو انبیاؑ کو قتل کر دیتا ہے! اور اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو سنگسار کر دیتا ہے۔ (متی ۲۳:۳۷-۲۷)
مجھے ان خوشبوئوں سے جو تم جلاتے ہو‘ سخت گھن اور کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ان میں تمھارے گناہوں کی بدبو رچی ہوتی ہے۔
تمھارے ہاتھ خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ وہ شہر جو کبھی وفاکیش ہوا کرتا تھا‘ اب کسی بیسوا کا رنگ ڈھنگ اختیار کر گیا ہے۔ تمھارے راہنما باغی اورچوروں کے دوست ہیں۔ وہ ہر دم تحفے اور رشوتیں وصول کرتے رہتے ہیں۔ (یسیلیا: ۱-۱۳-۲۳)
جب کبھی کوئی رسول تمھاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمھارے پاس آیا تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی اختیار کی۔ کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کرڈالا۔ (البقرہ ۲:۸۷)
آخرکار ان کی عہدشکنی کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا… ان کے اس ظالمانہ رویے کی بنا پر… اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور سود لیتے ہیں جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائزطریقوں سے کھاتے ہیں (النساء ۴:۶۱)
شاید کسی بھی مذہب کے اہم مسائل میں سے ایک نجات کا مسئلہ ہے۔ یہ جانچنا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس حوالے سے مسلم عقائد‘ تصورات اور رویوں کی تشکیل میں اسلامی نظریۂ نبوت کا کیا کردار ہے۔
اس لحاظ سے میرا خیال ہے کہ نجات کے اسلامی نظریے کا تعین بیش تر اس کے نظریۂ نبوت سے ہوتا ہے۔ پہلے یہ کہ اسلام بہت واضح طور پر ایک معروف مذہب سے منسلک ہونے‘ اور سچا ایمان رکھنے اور عملِ صالح کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔ یا جسے ہم دوسری قرآنی اصطلاح میں سچائی (الحق یا الدّین یا آیات اللہ جو مطالب میں ایک ہیں) تلاش کرنے‘ پانے‘ قبول کرنے‘ تصدیق کرنے اوراس کے مطابق زندگی گزارنے سے تعبیرکرسکتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے‘قرآن نے ان کے لیے نزول کے وقت بھی (الذین اٰمنوا) کے الفاظ استعمال کیے۔ اس کے دو مفہوم تھے۔ ایک وہ جو اُمت مسلمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو واقعی ایمان رکھتے ہیں‘ (البقرہ ۲:۶۲‘۴: ۱۳۶‘ ۵:۶۹) ۔چنانچہ نجات کا انحصار محض اُمت مسلمہ سے تعلق رکھنے پر نہیں۔
دوسرے یہ کہ نجات کا راستہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے وسیلے یا تعلق پر منحصر نہیں۔ وہ بہت سے انبیاؑ میں سے ایک تھے گو کہ آخری پیغمبر تھے۔ اس کے کچھ ایسے اہم مضمرات ہیں جن کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔
کیا ضروری ہے کہ نجات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی تسلیم کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس سوال کے تمام پہلو اور اس پر مسلمانوں کے مختلف موقفوں پر تحقیق ابھی ہونا ہے۔ البتہ یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا نبی ہونا پہچان چکے ہیں (یعرفون) انھیں اپنی نجات کے لیے انھیں سچا نبی تسلیم کرنا چاہیے۔ دوسرا لفظ جو اس سلسلے میں استعمال ہوتا ہے وہ سَمِعُوْا ہے‘یعنی وہ جو انؐ کی باتیں سنتے ہیں۔ لیکن لفظ سَمَعَ (سننا) قرآن پاک میں سننے کے طبعی فعل کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ یقینا اس کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے اور شاید قرآن سماعت میں قبولیت پر آمادگی کے لیے علم بھی شامل کرتا ہے۔
بہرکیف یہ دونوں الفاظ ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کو شامل نہیں کرتے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کبھی نہیں سنا۔ ظاہر ہے کہ نجات کا کوئی دعویٰ مطلق نہیں ہے۔ شاید اسی لیے الغزالی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و کرم بہت سے عیسائیوں اور ترکوں کے لیے بھی ہے۔ جن لوگوں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں پہنچا‘ ان کے پاس ایک جائز عذر ہے۔۳؎میرے خیال میں انھی باتوں کا اطلاق اسلام اور قرآن کے آخری وحی خداوندی ہونے پر کیا جا سکتا ہے۔
تیسرے یہ کہ جو بات بڑی اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے پیش نظر تمام نوع انسانی کو خداے واحد کی حاکمیت کے تحت لانا ہے۔ لیکن یہ اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا کہ کسی خاص فرد یا جماعت کو اپنے خداے واحد کے تصور اور طریقۂ عبادت کی طرف لے آئے۔ اس کا کوئی ایسا الوہی منصوبہ نہیں ہے کہ تمام نوع انسانی کو لازماً اسلام کی طرف پھیر لائے یا مذہبی اقلیتوں کو اپنے علاقے سے نکال دے یا ان کا نام و نشان مٹا دے۔ شاید یروشلم میں صلیبیوں اور مسلمانوں کے داخلے کے وقت ان دونوں کے رویوں اور اقلیتوں کے مسائل کے مسلمانوں کے حل اور دوسروں کے حل میں فرق کی وجہ یہی ہے۔
چوتھی اور اہم بات یہ ہے کہ میری نظر میں اسلامی رویوں میں ان انسانی فیصلوں کا کہ کون سا شخص جنت میں جائے گا اور کون ہمیشہ کے جہنم میں‘ کوئی مقام نہیں ہے۔ درحقیقت سختی سے منع کیا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے بارے میں پہلے ہی کوئی رائے قائم کرے۔ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ تمام مذہبی تنازعات کا فیصلہ کرے گا۔ ایک مسلمان خود اپنے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا اسے نجات حاصل ہوگی یا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ’’ایمان بیم و رجا کے بین بین ہے‘‘۔
ایک دوسری اہم روایت میں آپ ؐ نے ایک ایسے گناہ گار شخص کا قصہ سنایا تھا جس نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے جسم کو جلا دینے اور اپنی راکھ کو بکھیردینے کی وصیت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ اکٹھی کی‘ اسے دوبارہ زندہ کیا اور اس سے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا: صرف تیرے خوف کی وجہ سے۔ اور وہ بخش دیا گیا۔
اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا یادگار قول خصوصی اہمیت کا حامل ہے: اگر روز قیامت میں یہ اعلان سنوں کہ سوائے ایک کے سب لوگ جنت میں جائیں گے تو مجھے یہ خوف ہوگا کہ یہ وہ شخص میں ہی نہ ہوں‘ اور اگر یہ اعلان سنوں کہ سوائے ایک کے سب لوگ دوزخ میں جائیں گے تو میں یہ امید کروں گا کہ وہ ایک شخص میں ہی ہوں گا۔ مسلم رویے کی اس سے بہتر اور دلکش نمایندگی نہیں کی جا سکتی۔
ہر مذہب کے اپنے اصولوں کی حقانیت پر قائم رہتے ہوئے‘ کیا اسلام میں نبوت کا تصور مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رہنے کے لیے کسی ایک اہم راستے کی نشاندہی کرتا ہے؟ مجھے امید ہے کہ بین المذہبی اجتماعات میں اس سوال کی طرف زیادہ توجہ دی جائے گی۔
ایک اور اہم اور متعلق سوال جسے ہماری گفتگو کے دائرے سے طویل عرصے کے لیے باہر نہ ہونا چاہیے یہ ہے کہ کیا آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے سچے نبی تھے۔ وہ ان میں سے ایک تھے جن سے اللہ ہمکلام ہوا‘ اور جو انسانیت کے سامنے درست طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اللہ نے یہ کہا۔ اس سوال کو مناسب الفاظ میں اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے: ’’کیا قرآن اللہ کا کلام ہے؟‘‘ یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر واقعی اللہ کی وحی آتی تھی‘ مسلم نقطۂ نظر کا بیان ہے۔۴؎
کسی بین المذہبی نشست میں آسانی سے قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے ہی سے معلوم شدہ اور مسترد شدہ بات کا دعویٰ کرنے یا دہرانے سے زیادہ کی کوشش نہیں ہے‘ یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی کے اپنے عقیدے کی سچائی کی گواہی دینا اور تبلیغ کرنا ہے جس کا نتیجہ یا مذہب کی تبدیلی ہوگی یا اختلافات کی شدت میں اضافہ‘ بعض دفعہ اول الذکر‘ اور اکثر ثانی الذکر۔۵؎
مسلمانوں کے ساتھ ایک عشرے سے زائد کے مکالمے میں اس مسئلے (issue) کی گہرائی میں اترنے کی بجاے اس سے پہلو کیوں بچایا جاتا رہا ہے؟ عموماً بحث اس مثبت مسئلے کے اندر اترنے کے بجاے اس کے قریب ہی سے گزر جاتی رہی۔ اس طرح‘مکالمے کے لیے تیار کیے جانے والے تمام بیانات‘ قراردادوں اور رہنما خطوط میں اس کا جگہ نہ پانا قابلِ توجہ ہے۔ وٹیکن II کا ناسٹرا ایٹیٹ(Nastre etate) میں محمدؐ کا حتیٰ کہ اسلام تک کا تذکرہ نہیں ملتا۔ یا تو مذہبی مضمرات اس موضوع پر بحث میں مانع ہیں‘ یا اس راستے کو مختلف مذاہب کے افراد کے مابین دوستی کے لیے خطرات سے بھرپور سمجھا گیا‘ یا اس کے متوقع نتائج کی قدروقیمت اتنی مشکوک تھی کہ اس کے لیے کوشش نہ کی گئی۔
اگر ہم مذہبی افراد کی حیثیت سے بین المذہبی تعلقات کے لیے ایک ایسا فریم ورک تشکیل دینے کے لیے اپنے درمیان اتفاق و اختلاف کے دائروں کو تلاش کریں جو ہمیں ’’ایک عالم گیر دنیا‘‘ میں رہنے کے قابل بنا دیں تو ایسی صورت میں کیا ہمیں اس مسئلے سے زیادہ عرصے تک صرفِ نظر کرنا چاہیے؟اور کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟ یہ مستقبل کے کسی مذہبی مباحثے کے لیے جس میں مسلمان بھی شامل ہوں‘ ایک اہم سوال ہے۔ اگر شرکا خوف اور بے اعتمادی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے اور سنجیدگی سے غوروفکر نہیں کر سکتے اور کم سے کم یہ کوشش نہیں کرتے کہ ان اختلافات کو دُور کریں یا ان کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کریں جنھوں نے ان کو پُرتشدد طور پر جدا کر رکھا ہے تو وہ بھلا ’’ایک عالم گیر دنیا‘‘… ایک مشترکہ انسانیت کے محبوب آدرش کی طرف پیش قدمی کی امید کیونکر کرسکتے ہیں؟ اگر مکالمہ اپنی بقا کے لیے ہے تو ان بنیادی مسائل پر مشترکہ گفتگو کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جو ناقابلِ عبور دکھائی دیتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم یہ امید کرلیں کہ کل صبح یا مستقبل قریب کی کسی صبح‘ اس مسئلے کا کوئی حل مل جائے گا۔ بے شک ہماری زندگی میں کوئی حل نہ ملے لیکن کیا ہمیں کبھی نہ کبھی ان مسائل پر کھلی بحث کی کوشش کا آغاز نہیں کرنا چاہیے جو ہمارے باہمی جھگڑے اور فساد کی اصل جڑ ہیں۔ اگر ایسا ہونا ہے‘ تو آج ہی کیوں نہ ہوجائے؟ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ اس طرح شاید یہ مسئلہ حل نہ ہو۔ لیکن یہ کم از کم زیادہ سننے‘ زیادہ جاننے‘ زیادہ سمجھنے‘ زیادہ اعتماد و بھروسا‘ زیادہ دوستی اور شاید زیادہ قرب کی جانب رہنمائی کرے گا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ دُوری کی خلیج کو کم اہمیت دی جا رہی ہے۔ کوئی بھی چیز اسلام کو دوسرے مذاہب بالخصوص یہودیت و عیسائیت سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور قرآن کے بارے میں اس کے دعویٰ سے زیادہ جدا نہیں کرتی۔ ایک طرف اس کے مضمرات دینی ہیں۔ سادہ طور پر بیان کیے جائیں‘ تو بے لچک دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی عیسائی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کچھ سمجھے جو مسلمان سمجھتے ہیں تو وہ عیسائی نہ رہے گا۔ یہی بات یہودیوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے‘ اور اگر کوئی مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سمجھنا چھوڑ دے جو وہ سمجھتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قطع نظر اسلام میں یہودیت اور عیسائیت سے اتنی بہت سی باتیں کم سے کم ظاہری طور پر مشترک ہیں کہ اسے بلاہچکچاہٹ یہودیت سے ماخوذ یا عیسائیت میں جڑیں رکھنے والا مذہب کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہہ بعض مغربی تحریروں میں یہودیت اور عیسائیت اس بارے میں مقابلہ کرتی نظرآتی ہیں کہ ان میں کون ولدیت میں زیادہ حصہ رکھتا ہے۔ اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کا کانٹوں بھرا مسئلہ نہ ہو تو ان میں سے کوئی بھی اس بچے کو گود لے سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ مضمرات معاشرے کے لیے اور ایک لادین شخص کے لیے جو صرف انسانی صورت حال ہی سے دل چسپی رکھتا ہے کچھ کم اہمیت نہیں رکھتے۔ اس لیے کہ جدید دور میں بھی مسلمان اپنی زندگیاں قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے متمنی ہیں جن کی دائمی صداقت پر وہ ایمان رکھتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ مزیدبرآں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں اسلام کے تصور کی تشکیل میں انتہائی نمایاں۶؎،انتہائی مرکزی اور انتہائی اہم مقام ہمیشہ حاصل رہا ہے اور آج بھی ہے۔ مسئلہ کتنا ہی گمبھیر کیوں نہ ہو‘ قریب آنے میں مشکلات بلکہ ناممکنات کی نوعیت اور وسعت کیسی ہی ہو‘ ہم اس کام کو چاہے نتیجہ خیز نہ پائیں‘ روحانی‘ دینی اور عملی طور پر مفید اور تحرک خیز پائیں ضرور گے۔
مذہبی لحاظ سے ایک مسلمان کی حیثیت صاف اور واضح‘ حتمی اور غیرتغیر پذیرہے۔ میں اس حقیقت کو محض بیان کرنا نہیں چاہتا بلکہ ایک قدم آگے جانا پسند کروں گا۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مسئلے پر مختلف نقطہ ہاے نظر تلاش کرنے اور متعین کرنے میں جو سوال اٹھیں ان کو متعین کرنے کی کوشش کروں گا خواہ میرے پاس کوئی قابلِ قبول جواب نہ بھی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ مسلمان اور دوسرے مذاہب کے پیروکار جو ایک دوسرے سے کھلے دل سے ملنے کے لیے تیار ہیں‘ ان مسائل کا سامنا کریں گے اور اپنے محدود دائرے کے اندر لکھنے اور بولنے کی بجاے مختلف نظریات اور سوالات پر آمنے سامنے گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سنیں گے۔ ذرائع اور حدود کار صرف وہ ہونے چاہییں جن پر ہم متفق ہیں۔ ان میں مغربی علمی روایت کے پروردہ زمرے‘ معیار اور ذرائع لازماً شامل یا باہر نہ ہونے چاہییں۔ بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ قرآن پر ہی نہیں‘ بائیبل کے لوازمے پر بھی بعض مغربی طریقوں کا اطلاق خصوصاً ’انسان اورخدا‘ اور’خدا اور تاریخ‘ کے باہمی تعلق کے بارے میں پہلے سے طے شدہ تصورات پر مبنی قیاس آرائی سے زیادہ نہیں۔
اولاً: نبوت کا تصور ہی سائنسی طریقے کے خلاف ہے۔ کوئی خدا نہیں ہے اور اگر ہے تو اسے انسانی تاریخ میں مداخلت کی کوئی ضرورت یا حق نہیں۔ مغرب کا ایک عام فرد انسانی زندگی کے ہر پہلو کو حسی مشاہدات و معلومات‘ تاریخ‘ عمرانی اقتصادی‘ ثقافتی پس منظر اورماحول کی بنیاد پر وضاحت کرنا چاہے گا۔ ایسے اندازنظر سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مسئلے سے زیادہ وسیع اور گہرے ہیں۔
ثانیاً: اللہ انسان سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن اللہ کی انسان سے ہمکلامی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ یہ ہم بہت کم جانتے ہیں۔ اس زاویے کی جو تعبیر اسلام پیش کرتا ہے اور جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت میں بھی سمجھا جاتا ہے (جسے گب ازمنہ وسطیٰ کی ترجمانی کہتا ہے) جدید سائنسی تصورِ جہاں کی روشنی میں قابلِ مدافعت نہیں ہے۔ اس کا یقینا یہ مطلب نہیں کہ انسان جو وصول کرتا ہے وہ واقعتا اللہ ہی کے الفاظ ہیں۔ وہ کسی صورت میں ابدی نہیں ہیں۔ جو بھی تجربہ یا جذبہ ہو‘ وصول کنندہ کی اپنی شخصیت‘ معاشرتی حیثیت اور اس کے نظریۂ کائنات کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ مثال کے طور پر عہدنامہ عتیق کے پیغمبر مسلمانوں کے عقیدہ وحی کے مطابق اللہ کا کلام وصول نہیں کرتے تھے۔ یہ طرزِفکر اگرچہ عام نہیں‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پیغمبر تسلیم کرسکتی ہے‘ لیکن پیغمبر کے اپنے تصور کے مطابق‘ نہ کہ اس طرح جس طرح مسلمان سمجھتے ہیں۔
ثالثاً: ہرچند کہ اللہ انسان سے ہمکلام ہوتا ہے‘اور تاریخ میں بھی اپنی ذات کی حد تک بھی مداخلت کرتا ہے‘ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیغمبر نہیں تھے۔ یہاں سے یہ طرزفکر دو راستوں میں بٹ جاتا ہے۔ اول: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے اللہ کا کلام سمجھا وہ ان کی اپنی اندرونی آواز تھی‘ جو ان کے اپنے معاشرے کے تجربات‘ اپنے معاشرتی ماحول پر غوروتفکر اور اللہ کے بارے میں انہماک اور اس سوچ و بچار کے نتیجے میں کہ عرب کیا چاہتے تھے‘ ان کے اندر سے اُٹھی تھی۔ وہ ایک مخلص لیکن خودفریبی میں مبتلا انسان تھے۔ دوم: وہ (نعوذباللہ) ایک جعلی شخصیت تھے۔ وہ اپنی تحریر کے مصنف تھے‘ جسے انھوں نے اپنے گردوپیش کے مختلف ذرائع سے حاصل کیا تھا اور اسے کلامِ الٰہی کہہ کر پیش کیا تھا۔
اس نظریے کی کہ وہؐ ایک مخلص انسان تھے اگرچہ پیغمبر نہیں تھے‘ دوسری ترجمانی جومیر (Jomier) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مسیحی نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے نسبتاً زیادہ قابلِ قبول اصطلاحات میں کی ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم مذہبی راہنما قرار دیتا ہے جنھوں نے‘ جیسا کہ اس نے تصور کی وضاحت کی ہے، ’’زوال پذیر مذہب میں بہت سے مثبت اضافے کیے… وسیع منصوبۂ نجات میں کچھ اصلاحات کیں‘… انھیں ایک تاریخی مشن تفویض کیا گیا… (اور اپنے آپ کو) اور عیسائیوں کو مخاطب کیا‘ مؤخر الذکر کو اپنی اقدار اور تشخص کے کھو ڈالنے کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے‘‘۔۷؎
یہ تمام نقطۂ ہاے نظر کچھ سوال اٹھاتے ہیں جن پر ہم پھر کسی وقت بحث کریں گے‘ ان میں سے چند پر یہاں گفتگو کی جاتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ جو لوگ نبوت کی شکل میں وحی الٰہی پر یقین رکھتے ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیغمبر نہیں پاتے؟ ظاہر ہے‘ اس لیے نہیں کہ وہ اس تصور کو خلافِ عقل اور غیر سائنٹفک سمجھتے ہیں‘ بلکہ اس لیے کہ ان کا خیال ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس معیار پر پورے اترنے میں ناکام رہے ہیں جس پر کسی کو ایک سچے پیغمبر کی حیثیت سے قبول کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ مناسب رہے گا اگر تحقیق و جستجو کو اس طور پر آگے بڑھایا جائے‘ معیارات کا تعین قطعیت سے کیا جائے‘ زیادہ تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیا جائے‘ خصوصاً نبوت سے متعلق ان نظریات کی روشنی میں جو دو طرفہ طور پر قابلِ قبول ہوں خواہ وہ انجیل میں آئے ہوں یا قرآن میں۔اس کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کو اس معیار پر پرکھا جاسکے گا۔ اس کا جواب اگرچہ نتیجہ خیز نہ ہوگا لیکن تحقیق مکمل طور پر بے فائدہ بھی نہ ہوگی۔
مزیدبرآں یہ نظریہ کہ ہرچند کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعوے میں سچے نہیں تھے اور جو کچھ انھوں نے کہا ہمیشہ سچ نہیں تھا‘ پھر بھی وہ انتہائی اخلاص کے ساتھ اپنی باتوں کے کلام الٰہی ہونے پر یقین رکھتے تھے‘ کیا اس بیان سے کہ وہ ایک مدعی کاذب تھے‘ زیادہ مضبوط ہے؟ ایک اندازنظرمصالحانہ اور مہذب ہے اور دوسرا مخالفانہ اور کھردرا۔ لیکن کیا ان کا آخری نتیجہ یکساں نہیں ہے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سچا نہیں تھا۔ اس پر جو کچھ سوچا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ باتیں ان کی حیات میں ان کے سامنے پیش کی گئیں اور قرآن نے بہت صاف طور پر وضاحت اور قطعیت سے انھیں مسترد کیا۔ یہ الزام کہ وہ جو کچھ اللہ سے منسوب کرتے تھے اللہ کی طرف سے نہیں تھا‘ اسے نہ صرف جھٹلایا گیا ہے‘ بلکہ قرآن کے ہرصفحے پر جھٹلایا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ مثبت بات کہ یہ من جانب اللہ ہے اسے بھی کم نہیں دہرایا گیا ہے۔ بیشتر قرآنی سورتوں کا آغاز ہی اسی واضح بیان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ یقین کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲۳ سال کی طویل مدت تک اپنے رسول ہونے پر اصرار کرتے رہے اور اس کے برعکس بات کی تردید ان الفاظ میں کرتے رہے جو وہ خدا کی طرف منسوب کر رہے تھے اور پھر بھی وہ ایک مخلص انسان تھے۔ جس وقت وہ اپنی زبان میں وہ کچھ تحریر کرنے میں مصروف تھے جس کی ہدایت ان کی اندرونی آواز دے رہی تھی یا وہ بیرونی ذرائع سے جانتے بوجھتے یہ مواد اکٹھا کررہے تھے‘ اس وقت اسی مسئلے پر دلائل میں مصروف تھے۔ تو کیا کوئی مخلص شخص ایسے تیزوتند تنازعات میں مصروف ہو سکتا ہے‘ جب کہ وہ اسی وقت اپنے آپ کو وہ کچھ ظاہر کر رہا تھا جو وہ حقیقتاً نہیںتھا۔ کیا وہ اپنے پیروکاروں کو ناقابلِ تسخیر ایمان سے مالا مال کر سکتا ہے اوران کی زندگیاں اپنے تصورات کے سانچے میں ڈھال سکتا ہے‘ جب کہ وہ تمام عرصہ غلط شناخت کا شکار رہے؟ یقینا غلط شناخت قرآن میں ایک تیزوتند استدلال کا سبب نہیں ہوسکتی۔ صرف ایک مدعی کاذب ہی اتنی ثابت قدمی کے ساتھ قطعی باتیں کرسکتا ہے۔
آپؐ ان تمام پیغمبروں کے آخر میں‘ جن پر یہود و نصاریٰ اور مسلمان ایمان رکھتے ہیں‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بھی بعد تشریف لائے۔ یہ مذہبی نظریہ نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے۔ لیکن آپؐ نے کبھی تمام پیغمبروں سے بہتر اور اعلیٰ پیغمبر ہونے کا یا کسی تاریخی عمل کا نقطۂ عروج ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ یہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے‘ خواہ مسلمان انھیں ایسا مقام دیتے ہوں۔ قرآن مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ کہیں: ’’لانفرق بین احد من رسولہ‘‘۔ ایک مرتبہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں مخاطب کیا: ’’یااشرف المخلوقات!‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ ابراہیم ؑ تھے… خلیل اللہ‘‘۔ ایک موقع پر آپؐ سے پوچھا گیا: ’’کس پیغمبر کا خاندان سب سے معزز و محترم ہے؟‘‘ آپؐ نے جواب دیا: ’’یوسف ؑکا خاندان۔ جو اس پیغمبر کے بیٹے تھے جس کا باپ بھی پیغمبر تھا‘ اور اس کے باپ ابراہیم ؑ خلیل اللہ تھے‘‘۔ ایک مرتبہ ایک مسلمان اور ایک یہودی میں اس بات پر جھگڑا ہوگیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور موسٰی ؑ میں کون بہتر وبرتر ہے۔ یہ معاملہ آپؐ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپؐ نے سختی سے مسلمان کی سرزنش کی اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ موسٰی ؑ اور دوسرے انبیاؑ کے مقابلے میں انؐ کی ستایش اور مدح سرائی نہ کیا کریں۔ رچرڈبیل (Bell) جیسے لوگ اسے یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور انھیں پرچانے کے لیے پریشان حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی تدبیر سے تعبیر کریں گے لیکن کیا مسلمانوں کا دوسرے انبیا علیہم السلام کے بارے میں رویہ ان تعلیمات کے سانچے میں ڈھلا ہوا نہیں دکھائی دیتا؟
ولفریڈ اسمتھ کا خیال ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم بات ہے کہ کوئی مذہب زمانے کے لحاظ سے کسی دوسرے مذہب سے پہلے یا بعد آیا ہے۔ جو کسی کے بعد آئے وہ پہلے والے کے ساتھ سرپرستانہ رویہ رکھتا ہے۔ اس لیے عیسائیوں نے یہودیوںکی تمام کتب مقدسہ کو اپنی انجیل میں جمع کر لیا ہے۔۸؎ یہ تاریخی نقطۂ نظر مسلم رویے کے ایک پہلو کی توجیہہ کرسکتا ہے لیکن وسیع تر پہلو کی گنجایش چھوڑتا ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بنیادی تعلیمات‘زندگی اور مشن کے ساتھ عہدنامہ عتیق کے زمانے اور فضا میں پہنچا دیے جائیں تو وہ کیا ایک سچے پیغمبر سے بڑھ کر بھی کچھ ہوسکتے تھے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نوعیت کا اسلامی نقطۂ نظر ‘ نہ کہ ان کی سچائی ہرچند کہ دونوں باہم دگر متعلق ہیں‘ ہماری توجہ ایک دوسرے اہم مسئلے کی طرف مبذول کرتے ہیں۔ وہ ہے اسلام کا سائنس اور ٹکنالوجی کے چیلنج پر ردعمل اور جدیدیت کے پیدا کردہ مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان جدیدیت کے مسئلے سے بہت قریبی طور پر منسلک ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے افراد سے ملاقاتیں کرنے اور ان چیلنجوں کو معلوم کرنے اور ان کے ممکنہ جواب دینے کے قابل نہ ہوں۔ جو چیز اس کام کو سہل بنائے گی وہ یہ ہے کہ جواب کو جدیدیت کی پہلے ہی سے دی گئی شرائط کی بنیاد پر نہیں دیا جانا چاہیے‘ جنھیں اس لیے قبول کیا جائے کہ یہ فی نفسہ درست ہیں۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے--- مجھے امید ہے کہ میں غلطی پر ہوں--- مذہبی اجتماعوں کے شرکا‘ ایسے طرزِعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جسے کسی نے کھردرے اور ناشایستہ لیکن صاف اور واضح الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’اسلام اور مغرب کے مابین کوئی مکالمہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا‘ نہ ہوگا جب تک کہ اسلام عورت اور سزا کے بارے میں اپنی پوزیشن میں تبدیلی یا ترمیم پر آمادہ نہیں ہو جاتا‘‘۔ شاید استدلال اور تفہیم سے‘ بیان کرنے اور سننے سے مغرب اور اسلام ایک دوسرے سے زیادہ سیکھ سکیں گے۔
ایک ممکنہ جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے ہی سے طے شدہ سائنسی نظریے کے زیراثر اسلام اس حد تک باقی رہ سکتا ہے جس حد تک عیسائیت مغرب میں باقی رہی ہے۔ کیا انسانیت کے وسیع تر مفاد میں ہمیں اس امکان کو خوش آمدید کہنا چاہیے؟ کیا یہ نسلِ انسانی کے لیے بہتر ہوگا کہ اگر اسلام بھی اتنا کچھ کھودے جتنا کہ عیسائیت نے کھویا ہے اور صرف اتنا بچائے جتنا اس نے بچایا ہے؟ کیا یہ بدقسمتی نہ ہوگی کہ دوسرے مذاہب خود اپنے مختلف ردعمل دینے میں ناکام رہیں؟ ہم زیادہ بہتر صورت حال میں (richer) ہوں گے اگر ہر مذہب اپنا الگ ردعمل ظاہر کرے اور بالکل اس طرح کا ردعمل نہ دے جس طرح کا عیسائیت نے سائنس اور عقل پرستی‘ اثباتیت اور انسان دوستی کے نظریات کے پہلے حملے کے خلاف ظاہر کیا تھا۔ کیا یہ کوئی اچھی بات ہوگی کہ ہم تمام مذاہب کو محض ہر آن بدلتے رہنے والے تجربی علوم کی روشنی میں معتبر رہنے کے لیے بڑی بڑی تبدیلیوں سے گزرنے پر مجبور کریں؟ یہ انسانی زندگی میں مذہب کے کردار اور اصل مقصد کو ہی ختم کر دے گا۔
یہ تعین کہ ’قرون وسطیٰ ‘ کیا ہے اور ’جدید کیا ہے؟‘ ،’قرون وسطیٰ کا انسان کیا ہے‘ اور ’جدید انسان کیا ہے‘ اور ’جدید ذہنیت کیا ہے؟‘ یہ سمجھنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا کہ مغربی نظریات کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسرے مذاہب کو اپنے جوابی اقدام کس طرح تشکیل دینا چاہییں۔ ظاہر ہے کہ قدیم اور جدید کے تصورات مغربی فکر کے پیدا کردہ ہیں جن کا ماخذ وہ خاص راستہ ہے جس پر مغربی تہذیب نے ترقی کی ہے۔ اگر جدیدیت حصولِ علم کے واحد ذریعے کے طور پر سائنٹفک اسلوب پیش کرتی ہے‘ اور اگر جدیدیت کا آغاز بقول ٹوئن بی اس طرح ہوا تھا کہ ’’مغربی انسان نے اللہ کا نہیں بلکہ خود اپنا شکر ادا کیا تھا‘‘ تب واقعتا قدیم ذہنیت سے جس کا اعلان تھا: الحمدللّٰہِ رب العلمین (تمام حمدوثناء اللہ کے لیے ہے)‘ جدیدیت تک روحانی سفر کرنا آسان نہ ہوگا‘ نہ ’ایک عالم گیر دنیا‘ کے مستقبل کے لیے ہی فائدہ مند ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے مذہبی عقائد کے لیے بہت سے سنجیدہ چیلنج پیش کیے ہیں لیکن انسانیت کی بقا کے لیے ان کا چیلنج بہت زیادہ سنگین ہے۔ بلاشبہہ مذاہب کو اپنے نظامِ عقائد‘ وحی اور نبوت کے بارے میں اپنے نظریات‘ اپنی آسمانی کتابوں اور مذہبی لٹریچر‘ اپنے اخلاقی ضوابط اور انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے اپنے دعوئوں کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے مناسب اور قابلِ قبول جواب دینے کی عظیم ذمہ داری کا سامنا ہے۔ لیکن ٹھیک اسی وقت اس قبر سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش بھی‘ جوانسانیت کے وجود کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے‘ ان کی کچھ کم ذمہ داری نہیں ہے۔
صرف سائنس اور ٹکنالوجی کو ہر اس مصیبت کی جڑ قرار دینا جس میں آج کل کا انسان مبتلا ہے مشکل ہی سے منصفانہ مؤقف قرار دیا جا سکتا ہے‘ لیکن شاید بغیر کسی خاص اختلاف کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سائنسی نقطۂ نظر سے پیدا ہونے والے نظریۂ ہاے حیات اور اخلاقی بندشوں سے آزاد ترقی کی اندھا دھند دوڑ نے اسے مکمل تباہی کی دہلیز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسے ہلاکت عظمیٰ کی خبر دینے والوں کی مایوسانہ باتیں کہا جا سکتا ہے لیکن انسانوں کی غالب اکثریت کو درپیش حد درجہ غربت اور افلاس‘ امیر اور غریب کے مابین گہری اور وسیع ہوتی خلیج‘ سلگتے ہوئے سیاسی قضیے‘ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قرضے‘ ان میں سے کوئی بھی یکایک پھٹ کر ہمیں ایک ناقابلِ تصور تباہی کے ’ہولوکاسٹ‘ کی طرف لے جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک انتہائی سنگین نوعیت کا چیلنج ہے جس کا سامنا اہل مذہب کو کرنا چاہیے۔ ان کے مذہب مختلف ہوسکتے ہیں لیکن خطرہ ان سب کے لیے مشترک ہے۔ مذہب پر قابو پانے کے لیے ایٹم بم آسانی سے بنایا جا سکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر ایک مرتبہ اس کی تباہ کاریوں کے دائرے کو پھیلنے دیا گیا تو یہ اپنا شکار ہونے والوں میں ان کے مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کرے گا۔
میں نے ابراہیم کو منتخب کیا کہ وہ اپنے بیٹوں اور اپنی نسلوں کو میری اطاعت کی ہدایت دے اور حق و انصاف کی راہ دکھائے۔ (پیدایش ۱۸:۱۹)
سوائے میرے کسی خدا کی عبادت نہ کرو۔ اپنے لیے آسمانوں اورزمین پر اور زیرزمین پانی میں کسی چیز کے عکس پیدا نہ کرو۔ (متی ۵:۷-۸)
خلوصِ دل سے‘ اپنی روح اور ذہن کی پوری گہرائیوں کے ساتھ‘ اپنے مالک اللہ سے محبت رکھو۔ یہ اس کا سب سے بڑا اور اہم ترین حکم ہے۔ دوسرا سب سے بڑا اہم حکم یہ ہے کہ اپنے ہمسائے سے بھی ویسی ہی محبت رکھو جیسی کہ تم اپنے آپ سے رکھتے ہو۔ (متی ۲۲:۳۷-۳۹)
یہ مت سوچو کہ میںموسیٰ کے قانون اور دوسرے پیغمبروں کی تعلیمات منسوخ کرنے آیا ہوں۔ میں انھیں منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ ان کی تصدیق اور حقانیت واضح کرنے آیا ہوں۔ (متی :۵-۱۷)
آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔ (آلِ عمران ۳: ۶۴)
شاید ہم ایسے مسائل کا کوئی حل تلاش نہ کر سکیں جنھوں نے ہمیں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ ان پر گفتگو سے احتراز کا کوئی معقول عذر نہیں لیکن ہم کافی مشترکہ ماخذ دریافت کر سکتے ہیں تاکہ انھیں یکجا کریں۔ اس سلسلے میں ایک انتہائی چبھتا ہوا سوال ہمیشہ باقی رہے گا: کیا ہم مذہب تسلیم کرنے والوں کی حیثیت سے مل رہے ہیں‘ اور کیا ہمارا یہ ملنا اللہ کے ہماری زندگی کے لیے بنائے گئے منصوبے کے مطابق‘ جیسا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں‘ زندگی گزارنے میں ہمارا معاون ثابت ہوگا۔
۱- مثال کے طور پر دیکھیے مذکورہ بالا نوٹ (۵) اور برکت احمد Muhammad and Jews: A Reexamination نئی دہلی‘ ۱۹۷۹ئ)
۲- ابوحامد الغزالی‘ فیصل ا لتفرقہ بین الاسلام والزندق (مرتب)‘ (سلیمان Dunya ‘قاہرہ‘ ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ئ‘ ص ۲۰۶)
۳- جان ہِک‘ God Has Many Names (دی مک ملن پریس‘ لندن ۱۹۸۰ئ)‘ ص ۸۵)
۴- جان ہِک‘ Truth and Dialogue (شیلڈن پریس‘ لندن ۱۹۷۵ئ)‘ ص ۱۵۴۔
۵- دیکھیے نارمین ڈینیل کی کتاب: Islam and the West: Making of an Image (ایڈن برگ یونی ورسٹی پریس‘ ایڈن برگ‘ ۱۹۶۰ئ)
۶- God Has Many Names حوالہ بالا‘ ص ۹۳۔
۷- On Understanding Islamحوالہ بالا‘ ص ۲۹۳۔
۸- (احمد وان ڈینیفر‘ Muhammad A Prophet or a Great Religious Leader?" ‘ امپیکٹ انٹرنیشنل‘لندن‘ ج ۱۰‘ شمارہ ۱۳‘ ۱۱-۲۴ جولائی ۱۹۸۰ئ)‘ ص ۲۔
انسانی حقوق کے عالم گیر منشور میں روے زمین کے تمام انسانوں کو یکساں حقوق کا حق دار قرار دیا گیا ہے لیکن نسلی امتیاز اور لسانی و مذہبی تفریق و تعصب نہ صرف آج بھی موجود ہے بلکہ حکومتیں اس کی سرپرستی کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سیکڑوں تنظیمیں اس قسم کے سروے شائع کرتی رہتی ہیں کہ کہاں کہاں قوم‘ قبیلے‘ گروہ یا اجتماعیت کے خلاف مذہب‘ نسل‘ خاندان‘ علاقے‘ پیشے یا صدیوں سے جاری رواج کی بنا پر ظلم و تشدد یا تعصب و امتیاز برتا جا رہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے قراردادیں تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہے‘ سب غالب اقوام ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کے نام پر انسانی حقوق پامال کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں آواز کون بلند کرے گا۔
یُوری ڈیوس کی کتاب Apartheid Israel, Possibilities for the Struggle Withinکی اشاعت سے اسرائیل اور امریکا کے یہودی نواز حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف عرصۂ دراز سے انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے کام کر رہے ہیں‘ اُن کا مرکز توجہ اسرائیل ہے جو ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء سے قبل فلسطین تھا اور برطانیہ کے زیرانتظام تھا۔ یُوری نے انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی روشنی میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت اور اسرائیل کی نسل پرست حکومت کا ٹھوس حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔ وہ انسانیت پروری اور انسان دوستی کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ آج جو حقوق‘ مثلاً جرمنوں یا فرانسیسیوں کو حاصل ہیں وہ فلسطینیوں کو بھی حاصل ہوجائیں۔ اُن کی دوسری دل چسپی اس امر میں ہے کہ مختلف افریقی ممالک میں بالعموم اور جنوبی افریقہ میں بالخصوص نسلی امتیاز اور تعصب کے خاتمے کے لیے عالمی برادری نے جو جدوجہد کی ہے وہ اسرائیل کے خلاف بھی کی جائے۔
یوری ڈیوس کی تحریریں متنازعہ قرار دے دی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے رُکن رہے ہیں۔ وہ تاریخی تحقیق کی روشنی میں جب اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہیں کہ برطانوی انتداب کے دورمیں ارضِ فلسطین پر یہودیوں کی آبادی سات فی صد تھی‘ بالفور اعلان کی روشنی میں بے زمین قوم کو غیرآباد سرزمین پر لاکر بسا دیا گیا۔ مصنف نے اُن ۵۰۰ دیہاتوں کی مقامی فلسطینی آبادی اور اُن کی زیرملکیت اراضی کی تفصیل فراہم کی ہے جن کو اسرائیلی فوجیوں نے ظلم و زیادتی اور وحشیانہ تشدد کے ذریعے خالی کرا لیا۔ جوانوں‘ بوڑھوں‘ بچوں اور عورتوں کے ساتھ اس جبری انخلا میں جو سلوک روا رکھا گیا اُس کو چشمِ تصور سے بھی دیکھیں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ بیت المقدس شہر‘ یروشلم‘ الخلیل‘ ہَبرون‘ اریحا‘ جیریکو اور دیگر شہروں کے نام تبدیل کر کے اُن کی سیکڑوں سال پر محیط اسلامی شناخت نسل پرست حکومت نے ختم کرنے کی کوشش کی۔ بیت لحم‘ جافا‘ رملے‘ لدِّہ‘ جنین‘ طُل قرم‘ حیفا‘ عکرے‘ نظارت‘ صفاد‘ طبریاس‘ لیبان اور غزہ پورے کے پورے خالی کرا لیے گئے۔
برطانوی حکومت نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان اور بندوبست کیا تھا لیکن ڈیوس کا خیال ہے کہ اسرائیل کی حکومت کو نہ ۵۰ برس قبل یہ حق حاصل تھا نہ آج حاصل ہے کہ اس سرزمین پر سیکڑوں برس سے قیام پذیر لوگوں کو اپنے گھروں‘ زرعی اراضی‘ دیہاتوں اور قصبوں سے نکال پھینکیں اور بعدازاں دلیل یہ پیش کریں کہ یہ لوگ یہاں سے جاچکے ہیں‘ اراضی کے سروے کے دوران ان کو موجود نہ پایا گیا‘ لہٰذا یہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں واپس آنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرست سفید قوم اقلیت میں تھی لیکن وہ سیاہ فام اکثریت پر حکمران تھی اور اُس نے ۲ کروڑ میں سے ایک کروڑ ۲۰ لاکھ افریقیوں کو افریقہ کا باشندہ تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا تھا۔ یہی حال اسرائیل کا ہے۔ اُس نے ۶۰ لاکھ فلسطینیوں میں سے ۵۰ لاکھ کو فلسطین کا حقیقی باشندہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عالمی قراردادوں اور سفارتی دبائو کے باوجود مختلف خلیجی و یورپی ممالک میں مقیم فلسطینیوں کو اسرائیل واپسی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ سفید کا امتیاز تھا‘ اسرائیل میں یہودی‘ غیریہودی کی بنا پر فیصلے ہوتے ہیں۔ نسل پرست سفید یورپی اقوام جنوبی افریقہ کی حکومت کی پشتیبان تھیں‘ سوپرپاور اسرائیل ’’مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوریت‘‘ کا سرپرست ہے۔ واشنگٹن اسرائیل کو عرصۂ دراز سے ۲ ارب ڈالر سالانہ امداد ترقیاتی منصوبوں کے لیے ادا کر ہی رہا ہے۔ حال ہی میں مزید ایک ارب ڈالر سالانہ امداد کی منظوری دے دی گئی ہے تاکہ اسرائیل ’’مقامی دہشت گرد تنظیموں اور سرگرمیوں‘‘ کا سدباب کر سکے‘ جس طرح امریکا عراق میں بندوق کی نوک پر کر رہا ہے۔
مصنف نے ۱۹۵۰ء میں لاگو ہونے والے Absentee's in Property Law پر شدید تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اسرائیل قائم ہوا تو مقامی یہودیوں کے پاس ۲۰لاکھ دنوم (۵لاکھ ایکڑ) زمین تھی۔ حکومت کو برطانوی انتظامیہ سے ۴ لاکھ دنوم (ایک لاکھ ایکڑ) اراضی ملی۔ ۲ کروڑ ۲ لاکھ ۲۵ہزار دنوم (تقریباً ۵۱ لاکھ ایکڑ) قانونی طور پر عربوں کی اراضی تھی لیکن فلسطینی عورتوں کے برہنہ جلوس نکال کر اور فلسطینی کسانوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے قتل کرکے بہت بڑے رقبے پر قبضہ جما لیا گیا۔ آج اسرائیل کا رقبہ ۲۰ ہزار ۸ سو ۵۰ مربع کلومیٹر ہے اور یُوری ڈیوس انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی روشنی میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کا تعاون چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کو اُن کی اراضی واپس دلائی جاسکے۔ اُس کی دلیل یہ ہے کہ نسل پرست استعمار اسرائیل کو محدود نہ کیا گیا تو بعد کے ادوار میں کئی توسیع پسند ممالک دوسرے ممالک کو باجگزار بناسکتے ہیں اور اُن کی نسلوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ آج نصف کروڑ کے قریب فلسطینی شام‘ لبنان‘ اردن‘ یورپ و امریکا میں درجہ دوم کے شہری بنے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لوگ نسلی امتیاز والی حکومت کا حق رکھتے تھے اور فلسطینی نسلی امتیاز کے خاتمے اور اپنے وطن واپس لوٹنے کے حق دار نہیں ہیں۔ اس دُھرے معیار کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
کتاب کے پہلے باب ’صہیونیت‘ میں مصنف عالمی صہیونی تنظیم(WZO) اور جیوش ایجنسی کے کردار کا خصوصی ذکر کرتا ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں برس ہا برس سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آرتھوڈوکس اور پروگریسو یہودیوں کو سمجھا رہی ہیں کہ جو یہودی ہے اُسے توریت کی تعلیمات کے مطابق سرزمین اسرائیل پر سکونت اختیار کرنا چاہیے۔ ۸۵ ممالک کے یہودی‘ خالصتاً نسلی بنیادوں پر اسرائیل میں لاکر بسا دیے گئے ہیں۔ رُوس کے لاکھوں یہودی اسرائیل میں لائے گئے۔ امریکا سے بھی کئی ہزار سالانہ کی شرح سے یہودی خصوصی طیاروں میں’’امن کی سرزمین‘‘ پہنچ رہے ہیں۔ یہودی ہونے کے دعویدار بھارت کے ایک قبیلے کے سے یہودی اکابر علما ملاقات کرچکے ہیں اور ان کی تاریخی و نسلی روایات کو درست اور اُنھیں بنی اسرائیل کے گم شدہ ۱۲قبیلوں میں سے ایک تسلیم کر لیا گیا ہے اور جلد ہی اُن کو اسرائیل پہنچا دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں اُن ۱۳لاکھ عربوں کی حالتِ زار پر غور فرمایئے کہ جنھیں اپنی ملازمت سے گھر واپس جانے تک کئی بار شناختی کاغذات معائنے کے لیے پیش کرنا پڑتے ہیں۔ رفح ٹرمینل اسرائیلی حکم پر ڈیڑھ ماہ تک بند رکھا گیا اور کئی لوگ علاج کی سہولت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایک فلسطینی عورت نے اسی حالت میں بچے کو جنم دیا‘ مرج الظہران کی سرد پہاڑیوں پر کئی سو فلسطینیوں کو سازوسامان کے بغیر دھکیل دیا گیا تاکہ وہ سردی سے مرجائیں۔ اسلامی تحریک مزاحمت کے بانی شیخ احمد یاسینؒ اور دوسرے سربراہ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کو باضابطہ منصوبہ بندی کرکے شہید کیا گیا اور وزیراعظم اپنے گھر میں بیٹھ کر ان کارروائیوں کی براہ راست نگرانی کر رہا تھا۔ اُن ۴ ہزار فلسطینیوں کو بھول جایئے جو پچھلے ساڑھے تین برسوں میں ہلاک کر دیے گئے‘ اُن کی عمریں دو ماہ سے ۸۴ برس تک تھیں‘ اِن کارروائیوں کے لیے صرف ایک الزام کافی ہے کہ ’’یہ لوگ اسرائیل کی مسلح فوج کی کارروائیوں میں مزاحم‘‘ تھے۔ ڈیوس یہ سوال اٹھانے میں برحق ہے کہ ’’کیا سکنڈے نیویا میں‘ مشرقی یورپ میں‘ مغربی ممالک میں اور شمالی امریکا میں بھی انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک برداشت کیا جاسکتا ہے؟‘‘
اعداد و شمار کے مطابق ۷۰ فی صد فلسطینی اسرائیل کی نسل پرست ریاست کے زیرانتظام خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی کاشتکاری‘ کاروبار‘ ملازمت‘ ہر چیز انتشار اور تذبذب کا شکار ہے۔ ایک یہودی عالم نے فتویٰ دیا ہے کہ غیریہودی کا خون‘ یہودی کے پائوں کے ناخن سے بھی کم اہمیت کا حامل ہے۔ لہٰذا اسرائیل میں قائم ہونے والی حکومتیں اس کی بالکل پروا نہیں کرتیں کہ اُن کے زیرتسلط علاقوں میں عرب باشندوںکو جو وہاں کے حقیقی باشندے ہیں‘ بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔ اسرائیل میں حکومت دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی‘ اُن کی اولین کوشش یہی چلی آ رہی ہے کہ فلسطینیوں کا ناطقہ بند کیے رکھا جائے۔ مسجد الاقصیٰ کو (معاذاللہ) نقشۂ ارض سے مٹا دیا جائے اور یہاں پر عظیم الشان ہیکل سلیمانی تعمیر کر دیا جائے۔
اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی چھے روزہ جنگ میں عرب ممالک کو شکست دی تھی‘ نیز مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی پر بزور طاقت قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل کا اس پر یقین ہے کہ اس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں اور سعودی عرب‘ شام‘ لبنان‘ اُردن سمیت کئی عرب ممالک پر اسرائیل دائمی تسلط جمالینا چاہتا ہے تاکہ دنیا پر بنی اسرائیل کی حکمرانی کا خواب حقیقی روپ اختیار کر لے۔
غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کی حالتِ زار کے بارے میں ڈیوس لکھتے ہیں: ’’۱۹۶۷ء سے ۳۰ لاکھ فلسطینی عرب باشندے اسرائیل کے فوجی تسلط میں ہیں۔ اُن کو اسرائیل کی شہریت بھی نہیں دی جاتی‘اُن کو جایداد اور زمین خریدنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اُن کو شہری حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ اسرئیل کی جیلیں غزہ اور مغربی کنارے کے باشندوں سے بھری رہتی ہیں (اس وقت بھی اسرائیلی جیلوں میں ۸ ہزار فلسطینی قید ہیں اور بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہیں)۔ اُن کے گھروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے مسمار کیا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر شہریوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ شہریوں پر بموں سے حملہ سرکاری انتظام میں کیا جاتا ہے (شیخ احمد یاسینؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کو سرکاری انتظام اور سرکاری نگرانی میں شہید کیا گیا)۔ بار بار سزائیں دے کر اُن کو جسمانی طور پر معذور اور ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں سے زمین چھینی جاتی ہے اور اسرائیلوں کے جتّھے وہاں لاکر بسا دیے جاتے ہیں۔ اِن کے گھروں اوربازاروں کے درمیان دیوار کھڑی کی جارہی ہے ]اسرائیل فلسطینی آبادیوں کے گردا گرد جو متنازعہ دیوار تعمیر کر رہا ہے اُس کی لمبائی ۶۵۰ کلومیٹر اور بلندی ۸ میٹر ہے[۔ فوجی حملوں سے‘ تشدد سے‘ جھوٹے مقدمات سے‘ نظربند اور قید کرنے سے‘ کرفیو کے نفاذ سے‘ علاقے کے گھیرائو سے‘ دیہاتوں اور شہروں کے محاصرے سے فلسطینیوں کی زندگی دُوبھر کر دی گئی ہے۔ اس پر مستزاد ملازمت اور کاروبار سے محرومی‘ پانی اور غذائی اجناس حاصل کرنے میں رکاوٹ اور طبی امداد حاصل کرنے میں درپیش رکاوٹیں ہیں جن کی بنا پر اسرائیل کا چہرہ سابقہ جنوبی افریقہ سے بھی بھدّا نظرآتاہے‘‘ (ص ۱۶۶)
یُوری اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے آئین میں اس کے لیے جمہوری یا پارلیمانی ریاست نہیں‘ بلکہ ’’یہودی ریاست‘‘ کا ذکر ہے۔ دنیا کا ہر یہودی یہاں آکر ملازمت حاصل کر سکتا ہے‘ کاروبار کر سکتا ہے اور شان دار زندگی گزار سکتا ہے لیکن ۵ہزار برس سے مقیم فلسطینیوں کے لیے زندگی دُوبھر بنا دی گئی ہے۔
ابوغریب جیل کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مبصر نے کہا کہ فلسطینی قیدیوں کی حالت اِن سے زیادہ ژولیدہ ہے۔نسل پرست اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ جما رکھا ہے اور عربوں کی ریاستیں تو درکنار تمام اسلامی دنیا بھی انھیں واگزار کرانے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہیں۔
اس کتاب کے پہلے باب ’’صہیونیت‘‘ میں صہیونی تحریک کی تاریخ‘تھیوڈر ہرزل کے کردار‘ عالمی صہیونی تحریک کی طویل جدوجہد پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور فلسطینیوں کے جبری اور کئی برسوں تک جاری رہنے والے انخلا کو بنیاد بناکر اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دیا گیا ہے۔ یُوری کا کہنا ہے کہ ’’فلسطینیوں کا اجتماعی‘ جبری انخلا انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی خلاف ورزی ہے‘‘ (ص ۸)۔ ہٹلر کے ہاتھوں ۶۰لاکھ یہودیوں کے قتل کو وہ مبالغہ آمیز قرار دیتا ہے۔ اُس کا خیال یہ ہے کہ یہودیوں کی اتنی بڑی تعداد میں قتلِ عام کی داستانیں اس لیے مشہور کی گئیں تاکہ ارضِ فلسطین پر قبضہ جمایا جائے اور ایک بے وطن قوم کے ساتھ ہمدردی کے جذبات ابھارے جاسکیں۔ ڈیوس تسلیم کرتا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے یہ آواز بلند کرنے کے نتیجے میں مجھے ’اچھوت‘ قرار دے دیا گیا ہے اور میں اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہوں (ص ۱۰)۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے استعمار اور آمریت پر پردہ ڈالنے کے لیے سب سے بہتر یہی سمجھا ہے کہ فلسطین کا ایک ایک انچ ریاستی تصرف میں آجائے‘ بعد میں سیاسی جنگ تو وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر امریکا کی مدد سے جیت سکتا ہے (ص ۱۸)۔ یہ پالیسی اسرائیل کو یہودی قومی فنڈ (JNF) کے نائب سربراہ جوزف ویز نے دی تھی۔ (ص ۱۹)
یہودیوں کے ظالمانہ کردار کے حوالے سے دیریاسین کے کئی واقعات بیان کیے گئے ہیں کہ اس علاقے کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے لیے اور عوام پر دہشت بٹھانے کے لیے ذبح کرنے سے لے کر جلا کر راکھ کر دینے تک کے حربے استعمال کیے گئے۔ پہلے باب میں عالمی صہیونی تحریک کے مکروہ عزائم اور اِن کے خوفناک منصوبوں پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
یُوری کے نزدیک یہ حکومتی غفلت نہیں‘ یہودی نسل کی فلسطینی عرب نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے محروم کر دینے کی کوشش ہے (ص ۵)۔ وہ اس پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ معروف ذرائع ابلاغ بھی اسرائیل کو ’’مشرقِ وسطیٰ کی واحد جمہوری کونپل‘‘ سمجھتے ہیں اور عرب ممالک کی بادشاہتوں کو عوام دشمن قرار دے کر اسرائیل کے کردار کو قابلِ تعریف بناکر پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس صورت حال میں اسلامی تاریخی آثار کی فکر کون کرے گا (ص ۳۸)۔ اس سلسلے میں وہ اقوامِ متحدہ اور اسرائیل کے معاملات پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور اس کے بعد یہ دل چسپ بحث اٹھاتا ہے کہ اصل میں یہودی کون ہے (ص ۷۱)۔ یُوری اس پر یقین رکھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کا منشور جو ۱۹۴۸ء میں تیار ہوا تھا اُس پر ہی عمل درآمد کر لیا جائے تو فلسطینی بہتر زندگی کا راستہ دیکھ سکتے ہیں۔
اگلے ابواب میں اسرائیل پی ایل او معاہدوں میں جس طرح اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا گیا اور جس طرح یاسر عرفات کو شکار کیا گیا اُس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل نسل پرستی مخالف تحریک (MAIAP) کا تعارف بھی کرایا گیا‘ نیز فلسطینی تاریخ میں جو اتار چڑھائو آئے ہیں اُن کا کہیں کہیں سرسری جائزہ لیاگیا ہے۔
یُوری ڈیوس کی کتاب ہر لحاظ سے ایک جامع کتاب ہے اور اس میں اسرائیل کی نسل پرستی کے حوالے سے ممکنہ حد تک تمام معلومات اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ اُمت کے صاحبِ دل اور فہیم طبقے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دشمنوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مجتمع کریں۔ بابری مسجد تو زمین بوس ہوچکی ہے‘ مسجد الاقصیٰ کے دشمن اپنے ’حتمی وار‘ کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اس کے سدباب کے لیے تیاری کی بھی ضرورت ہے اور بیداری کی بھی۔ انسانی حقوق کا ایک کارکن تحقیق کی بنیاد پر اتنا کچھ کہہ سکتا ہے‘ اگر امت مسلمہ کا ہر فرد اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے‘ اور اس کا کھل کر اظہار کرے تو بھی نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ (Apartheid Israel, Possibilities for the Struggle Within‘ Yri Davis ‘زیڈ-ای- ڈی پبلشرز‘ لندن‘ نیویارک‘ قیمت: ۹۵.۱۴ ڈالر۔ صفحات: ۲۴۸)
سرزمینِ روس پر ہونے والے ہر تخریبی سانحے کے بعد روسی حکام‘ سیاست دان‘ تجزیہ نگار اور مختلف ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے اہلکار ان تخریبی کارروائیوں کا ذمہ دار چیچنیا کو قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں زیادہ تر خفیہ ایجنسیاں اپنی مخصوص سیاسی اغراض کی تکمیل کی خاطر اپنے ہی ملک کے شہریوں کی جان و مال سے کھیلتی ہیں اور اپنی ان کارروائیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جواز کا بہانہ بناتی ہیں۔ چنانچہ امریکی خفیہ ایجنسی نے ویت نام کے سمندر میں امریکی جہاز غرق کر دیا تاکہ ویت نام کے خلاف لڑائی کو حق بجانب قرار دیا جاسکے۔ اسی طرح اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے مراکش‘مصر اور عراق وغیرہ میں دھماکے کر کے یہودیوں کو نشانہ بنایا تاکہ ایک طرف تو یہودیوں کے لیے اسرائیل کی طرف ہجرت آسان ہوجائے اور دوسری طرف ان مسلم ممالک کے تعلقات مغربی ممالک سے خراب ہوں۔
روسی خفیہ ایجنسی بھی اسی طریقۂ واردات کو اپناتی رہی ہے۔ اس نے پبلک مقامات پر دھماکے کیے اور ذرائع مواصلات کو نشانہ بنایا ہے۔ ان دھماکوں کا مقصد سیاسی قیادت کی مدد کرکے چیچنیا سے متعلق روسی راے عامہ کو ہموار کرنا تھا۔
حکومتِ روس نے ۱۹۹۴ء میں جب دیکھا کہ چیچنیا کو ازسرنو اپنے تسلط میں لانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں تو اس نے حکومتِ چیچنیا کے خلاف جارحیت کا فیصلہ کرلیا‘ مگر جارحیت سے اس وقت کے چیچنیا کے صدر جوہر دائود کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور روس کی راے عامہ نے چیچنیا کے مسائل حل کرنے پر زور دیا۔ اسی طرح بین الاقوامی تائید بھی حکومتِ چیچنیا کو ملی‘ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر نئی جمہوریہ کو تسلیم نہ کیا گیا۔ چنانچہ روس نے چیچنیا کے نظام کو اسلحے کے زور پر بدلنے کا تہیہ کرلیا۔ ۱۵نومبر ۱۹۹۴ء کو چیچنیا کو فتح کرنے کے لیے دارالحکومت گروزنی پر حملہ کر دیا گیا۔ روسی افواج کی تمام تر جارحیت کے باوجود چیچن مزاحمت جاری رہی اورصدر جمہوریہ چیچنیا کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا جا سکا۔ روسی حکومت کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ حملے میں شریک ۱۵روسی فوجیوں کو قیدی بنالیا گیا۔ حکومت روس نے پہلے پہل تو اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا مگر جب حکومتِ چیچنیا نے دھمکی دی کہ ان روسی قیدیوں کو کرائے کے فوجی قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا تو روس نے اپنے ان فوجیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات شروع کر دیے۔
روسی خفیہ ایجنسیوں نے اب تخریبی کارروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تاکہ چیچنیا کو بدنام کیا جا سکے اور اس کے خلاف ایک بڑے فوجی اقدام کا جواز پیداکیا جا سکے۔ چنانچہ ۱۸نومبر ۱۹۹۴ء کو ماسکو کے قریب دریاے یازا سے گزرنے والی ریلوے لائن کے پل پر شدید دھماکا ہوا‘ جس سے پل کا ۲۰ میٹرکا حصہ تباہ ہوگیا۔ بہت بڑی تباہی ہوتی اگر ریل گاڑی کے پل پر سے گزرتے وقت یہ دھماکا ہوتا۔ اس دھماکے میں صرف ایک آدمی مارا گیا جو دھماکا خیز مواد نصب کر رہا تھا۔ اس کا جسم حادثے کی جگہ سے ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر پایا گیا۔ اس دھماکے کے فوراً بعد حکومت روس نے چیچنیا پر الزام عائد کر دیا۔ جلد ہی یہ معلوم ہوگیا کہ دھماکے میں مارا جانے والا شخص آندرے شیلنکوف ہے جو روس کی خفیہ ایجنسی سے وابستہ ہے اور وہ چیچنیا میں کام کرنے والی تیل کی کمپنی ’لاناکو‘ میں ملازمت کرتا تھا۔
اس دھماکے کے ناکام ہونے کے ایک ہفتے بعد روسی افواج نے ۲۶ نومبر ۱۹۹۴ء کو چیچن حکومت کے خلاف دوبارہ عسکری حملے کا ارادہ کیا۔ یہ دوسری کوشش بھی پہلی کوشش کی طرح ناکام رہی۔ اس لڑائی میں ۵۰۰ حملہ آور ہلاک ہوئے۔ ۲۰۰ فوجیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ بہت سے ہتھیاروں کو نقصان پہنچا۔ ۲۰ بالکل صحیح و سالم ٹینکوں پر قبضہ ہوگیا۔ قیدیوں میں سے ۷۰ روسی فوجیوں نے چیچنیا کی ٹیلی وژن اسکرین پر یہ اعتراف کیا کہ ان کا تعلق روس کی مسلح افواج سے ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں روسی خفیہ ایجنسیاں اس جنگ میں لائی ہیں۔
۱۱ دسمبر ۱۹۹۴ء کو روسی افواج سرزمینِ چیچنیا میں داخل ہوئیں تو ہزاروں روسی شہریوں نے اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کے جذبے جوان تھے۔ اس لیے کہ روس کی افغانستان میں شکست ان کے سامنے تھی۔ اس موقع پر اراکینِ پارلیمنٹ نے صدر بورس یلسن کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کا تہیہ کر لیا۔
اب روسی خفیہ اداروں کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ ایک طرف توملک کے اندر سے ہونے والی مخالفت کم کرنے کے لیے کام کریں اور دوسری طرف روسی صدر کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کریں تاکہ روسی صدر کو ’چیچنیا کی علیحدگی پسند کی تحریک کو کچلنے اور وہاں دوبارہ دستوری نظام بحال کرنے‘ کا موقع مل سکے۔
چنانچہ ۲۳ دسمبر ۱۹۹۴ء کو ماسکو کے قریب کا جوخوفا اور کانتچیکوفا ریلوے اسٹیشنوں کے درمیان ریلوے لائن پر دھماکا کیا گیا۔ اس کے صرف چار دن بعد ایک بس میں دھماکا ہوا جو ۳۳نمبر سڑک پر چل رہی تھی۔ جب فوجی ایجنسی نے ریلوے لائن اور بس میں دھماکا کرنے والوں کو گرفتار کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک فلادیمیر فربیوف ہے جو روس کے محکمہ داخلہ کی خفیہ ایجنسی میں لیفٹیننٹ کرنل ہے۔ دوسرا گرفتار شدہ شخص فلاڈیمیراکیموف ہے۔ یہ دونوں لاناکو تیل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔
روس نے چیچنیا کے خلاف جنگ شروع تو کر دی مگر وہ چیچن افواج کے خلاف کوئی فیصلہ کن اقدام نہ کر سکا۔ اب روس کو صلح و صفائی کی ضرورت کا احساس ہوا۔ چنانچہ روسی صدر نے جنگ بندی کی پیش کش کر دی۔ روسی صدر نے چیچن قیادت کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں لڑائی رک گئی اور امن و سلامتی کے معاہدے کے لیے مذاکرات کرنے پر اتفاق ہوگیا‘ مگر بہت سے روسی مفاد پرستوںکے لیے امن و صلح کی یہ کوشش ناپسندیدہ تھی لہٰذا انھوں نے پرامن مذاکرات کا سلسلہ ختم کر دینے کا تہیہ کر لیا۔
۱- ۱۱؍اگست ۱۹۹۶ء کو مڑو اسٹیشن پر دھماکا ہوا جس میں چار افراد مارے گئے اور ۱۲زخمی ہوئے۔ ۲- اسی دن بوشکین کے مشہور میدان کے قریب ایک بس میں دھماکا ہوا جس میں چھے افراد مارے گئے۔۳- اگلے روز ایک اور بس میں دھماکا ہوا جس میں ۲۸ مسافروں کو نقصان پہنچا۔
ان دھماکوں کے بعد انگلیاں چیچن جانبازوں کی طرف اٹھیں۔ اسی لیے ماسکو کی بلدیہ کے چیئرمین نے مطالبہ کیا کہ شہر میں مقیم تمام چیچن قومیت کے شہریوں کے خلاف مناسب اقدامات کیے جائیں۔
۱۹۹۶ء میں چیچنیا کی آزادی کے بعد روس نے ذلت محسوس کی۔ روسی قومی سلامتی کونسل کے سابق سیکرٹری جنرل لیبیڈ کے بقول: ’’روسی افواج چیچنیا سے ذلیل و خوار ہو کر نکلیں‘‘۔
۱۹۹۷ء میں روس نے حکومتِ چیچنیا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے فریقین کی حیثیت کے تعین کے لیے بین الاقوامی قانون کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ یہ گویا روس کی طرف سے چیچنیا کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا تھا۔ لہٰذا اب حکومت روس ایک ایسے مناسب موقع کی تلاش میں تھی کہ اس تاریخی ذلت کے داغ کو کیسے دھویا جائے۔ یہ موقع اس وقت ملا جب چیچن جاں باز اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے داغستانی علاقے میں داخل ہوئے تاکہ وہاں کی اس مقامی حکومت کے خلاف لڑیں جسے ماسکو کی حمایت حاصل تھی۔
روسی افواج نے چیچن جانبازوں کو داغستانی علاقوں سے نکال کر چیچنیا میں دھکیل دیا۔ اس کے ساتھ ہی روس نے ازسرنو چیچنیا میں داخل ہونے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھاکہ آیندہ جنگ کے لیے راے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ ایک ہدف اور بھی تھا‘ وہ یہ کہ ولادی میر پوٹین نئے روسی وزیراعظم کی حمایت کی جائے۔
۳۱ اگست ۱۹۹۹ء کو کرملین سے ۱۰۰میٹر کے فاصلے پر تجارتی بازار میں دھماکا ہوا۔ اس دھماکے کا الزام بھی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق چیچنیا پر لگایا گیا۔
اس کے بعد بونیاکسک‘ ماسکو اور وولجوڈاشک کے شہروں میں رہایشی عمارتوںمیں دھماکے ہوئے جن میں ۳۰۰ لوگ مارے گئے اور سیکڑوں آدمی زخمی ہوئے۔ حسبِ معمول روسی حکام نے اس کی ذمہ داری بھی چیچن حکومت پر ڈالی اور چیچنیا کے خلاف ایک بار پھر لڑائی شروع کر دی‘ جب کہ چیچن حکومت نے ان دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور اعلان کیا کہ وہ ان دھماکوں کی تحقیقات میں ہر طرح سے مدد دینے کے لیے تیار ہے اور وہ ایک اور جنگ چھڑنے سے بچنے کے لیے تمام تر طریقے اختیار کرنے پر آمادہ ہے۔ مگر روس نے سرے سے کسی قسم کی انکوائری سے ہی انکار کیا۔ ایک طرف چیچنیا ان دھماکوں میں ملوث ہونے سے صاف انکار کر رہا تھا اور دوسری طرف روس کے پاس ان دھماکوں میں حکومتِ چیچنیا کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ تھا۔ یوں دھماکے کرنے والوں کے سامنے راستہ بالکل صاف تھا۔
۱- روسی انٹیلی جنس کے ایک سابق افسر لیفٹیننٹ کرنل لیتفننسکو(جو اب منحرف ہوکر برطانیہ میں پناہ گزین ہے) نے ان تمام دھماکوں کا ذمہ دار روس کی داخلی انٹیلی جنس کو قرار دیا ہے۔ اس نے اپنی کتاب (روسی خفیہ ایجنسی روس کو تباہ کر رہی ہے) میں اس امرکے بہت سے تفصیلی دلائل دیے ہیں کہ کس طرح روس کی خفیہ ایجنسیاں روس میں دھماکے کرتی ہیں۔ ’’سرکاری راز فاش‘‘ کرنے کی بنا پر اس کتاب کی اشاعت کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
۲- عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیے جو مواد استعمال کیا جاتا ہے وہ ’یکسوجین‘ کہلاتا ہے۔ یہ مواد روس کی صرف دو فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے۔ روسی انٹیلی جنس ان فیکٹریوں کی کڑی نگرانی کرتی ہے اور انھی کی نگرانی میں یہ مواد تیار ہوتا ہے۔
۳- روسی خفیہ ایجنسی کے لوگوں نے ۲۳ ستمبر ۱۹۹۹ء کو ریزان شہر میں ایک پانچ منزلہ عمارت کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی۔ جب پولیس نے ان افراد کو گرفتار کرلیا تو روسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنرل نیقولائی بیتروشیف نے اعلان کیا کہ یہ واقعہ تو محض سول ڈیفنس کی ایک مشق تھی اور اس کا مقصد عوام کی بیدارمغزی کا اندازہ لگانا تھا اور یہ دیکھنا تھا کہ اس قسم کے حالات میں ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ اس دھماکے میں استعمال ہونے والا مواد وہی ’یکسوجین‘ تھا جو پہلے دھماکوں میں استعمال ہوتا رہا اور اسے چینی کی بوریوں میں چھپایا گیا تھا۔
۴- روسی حکومت نے دھماکوں کے لیے کسی باضابطہ سرکاری انکوائری کمیٹی کے قیام سے انکار کیا۔ کیونکہ روسی حکومت کو خطرہ تھا کہ انکوائری کے نتیجے میں حکومت روس کا ملوث ہونا ثابت ہوجائے گا اور اس کے مقامی و عالمی سطح پر خطرناک نتائج نکلیں گے۔ اگر انکوائری سے یہ بھی ثابت ہوجاتا کہ اس میں چیچن لوگوں کا ہاتھ ہے تو یہ بھی چند افراد کا کام ہوتا نہ کہ پوری چیچن قوم کا اور یوں روس کو لڑائی روکنا پڑتی‘ جب کہ روس نے لڑائی کا تہیہ کر رکھا تھا۔
۵- دھماکوں کے مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے اور اصل حقیقت کا سراغ لگانے کے لیے ایک عوامی کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی گئی کیونکہ حکومت روس نے سرکاری کمیٹی کی تشکیل سے انکار کر دیا تھا۔ اس کمیٹی کے سربراہ روسی پارلیمنٹ کے دو رکن یرغی یوشنکوف اور یوری شیکو چیچن تھے۔ یہ دونوں یکے بعد دیگرے مار ڈالے گئے۔یوشنکوف تو ۱۷ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنے گھر کے سامنے گولی لگنے سے مارا گیا‘جب کہ شیکوچیچن کو اسی سال ۳ جولائی کو زہر دے کر ہلاک کر دیا گیا۔ انکوائری کمیٹی کے ان سرکردہ افراد سے اس لیے گلوخلاصی کرائی گئی کیونکہ ان کے پاس اس امر کے بہت سے ثبوت تھے کہ دھماکوں میں روسی حکومت کا ہاتھ ہے۔
۶- روسی صدارتی انتخابات کی ایک خاتون امیدوار ایرینا خاکامادی نے بار بار اعلان کیا کہ وہ رہایشی عمارات میں دھماکا کرنے اور ’’نورداوست‘‘تھیٹر کے مسئلے پر روشنی ڈالے گی اور یہ کہ اسے یقین ہے کہ روسی حکام ان کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
۷- ڈوما پارلیمنٹ کے سابق سربراہ غینادی سیلیزنیوف نے پیشن گوئی کی تھی کہ دو دن کے بعد فولجوڈانسک شہر میں دھماکے ہوں گے۔ چنانچہ اس شہرمیں واقعی زینوف کے بتائے ہوئے وقت پر دھماکے ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیلیزنیوف کو علم غیب تھا؟ پھر متعلقہ حکام نے ان دھماکوں کو روکنے کے لیے کارروائی کیوں نہیں کی؟
۸- معروف روسی وکیل میخائیل تریباشکین نے اعلان کیا کہ اس کے پاس اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ دھماکوں میں روسی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ اس وکیل کو ۲۲نومبر ۲۰۰۳ء کو گرفتار کر لیا گیا۔
۹- روسی خفیہ اداروں نے مارک بلومینفیلڈ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس شخص کی نشان دہی اور حلیہ بیان کرے جس نے اس سے جگہ کرایے پر لی تھی۔ یاد رہے کہ مارک کے ایک مکان کو دھماکا خیز مواد کے سٹور کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ مارک نے جس شخص کا حلیہ بیان کیا وہ روسی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ ولاڈیمیررومانوفیچ تھا۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد فائل سے ولادیمیرکے حلیہ وغیرہ پر مبنی کاغذات غائب تھے اور یہ ولادیمیر دھماکوں کے چند ماہ بعد قبرص میں کار کے ایک حادثے میں مارا گیا۔ مالک مکان مارک کو ایک بار پھر ازسرنو ایک تصویر دکھائی گئی اور اس سے کہا گیا کہ وہ اس شخص کا حلیہ بیان کرے۔ اب یہ حلیہ اچیمیز غوچائیف چیچن سے ملتا تھا۔ روسی حکومت نے ان دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام اس بے گناہ چیچن باشندے پر دھر دیا۔
۱- ۲۴ فروری ۲۰۰۱ء کو میرالنی فودی شہر کے بازار میں ایک دھماکا ہوا جس میں ۱۳ لوگ مارے گئے۔
۲- ۹ مئی ۲۰۰۲ء کو داغستان کے شہر کابسی میں دھماکا ہوا جس میں ۴۳ آدمی مارے گئے اور ۱۰۰ زخمی ہوئے۔
۳- ۵ جولائی ۲۰۰۳ء کو ماسکو میں دھماکا ہوا جس میں ۱۸ آدمی ہلاک ہوئے اور ۶۰ زخمی۔ اس کا الزام چیچنیا پر لگا۔ روسی حکام کو ایک چیچن خاتون کا پاسپورٹ ملا جس کا نام زلیخان ایلیحا تھا۔ روس کے پارلیمانی انتخابات سے قبل ہونے والے اس دھماکے سے حکومت چیچنیا نے لاتعلقی ظاہر کی۔ اس دھماکے کا مقصد چیچنیا کے خلاف راے عامہ کو برانگیختہ کرنا تھا۔ چیچن حکومت نے کہا کہ یہ پاسپورٹ جعلی ہے۔ روسی حکام نے جو انکوائری کی تھی اس میں یہ تاثر دیا تھا کہ زلیخان روس جانے کے لیے جارجیا میں سے گزری ہے۔ جارجیا کے حکام نے اس روسی دعوے کی تردید کی۔
۴- دسمبر ۲۰۰۳ء میں ماسکو کے مرکز میں ایک دھماکا ہوا۔ روسی حکام نے اسے چیچنیا کی کارستانی قرار دیا کیونکہ ان کے بقول حادثے کی جگہ سے ایک پاسپورٹ ملا تھا جسے حکومت چیچنیا نے جاری کیا تھا اور اس پاسپورٹ پر’’اینفاغیزوییفا‘‘ کا نام تھا۔
آپ نے دیکھا کہ ان تمام دھماکوں کا ذمہ دار چیچنیا کو قرار دیا گیا‘ جب کہ چیچن حکام نے ہر بار اس کی نفی کی۔ کافی عرصے تک چیچنیا کو نظرانداز کرنے کے بعد ۶ فروری ۲۰۰۴ء کو مڑوسرنگ پر دھماکا ہوا جس میں بیسیوں لوگ مارے گئے۔ یورپ میں حکومت چیچنیا کے نمایندے احمدزکاییف نے واضح کیا ہے کہ روسی خفیہ ایجنسیاں ہی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ۶ فروری اور دیگر تمام واقعات کی ذمہ دار ہیں۔ زکاییف نے واضح کیا کہ چونکہ پورے یورپ میں چیچن مسئلے کو سفارتی و سیاسی مدد مل رہی ہے‘ اس لیے روسی حکومت ان دھماکوں پر مجبور ہے تاکہ وہ ان دھماکوں کا الزام چیچنیا پر لگا کر یورپ کی حمایت حاصل کرے ‘اور یہ تاثر دے سکے کہ روس دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شریک ہے‘ نیز اسے چیچنیا کے خلاف اپنی تباہ کن کارروائیاں جاری رکھنے کا جواز مل سکے۔
دھماکوں سے چیچنیا کی ہر طرح سے تعلق کی نفی کرتے ہوئے احمد زکاییف نے کہا کہ چیچنیا روس کے ساتھ ان دھماکوں کو روکنے کے لیے تحقیقات کروانے کے لیے ہر طرح سے تیار ہے‘ اور یہ کہ چیچنیا اس بات کا خواہاں ہے کہ روس چیچن جنگ ختم ہو۔ احمد زکاییف کے اس مثبت ردعمل کا روس نے بالکل جواب نہیں دیا۔
معلوم یہی ہوتا ہے کہ روس نے اپنی سابق روش پر کاربند رہنے کا عزم مصمم کر رکھا ہے۔ چیچنیا کو بدنام کرنے کے لیے وہ ایک طرف تو روس میں خوفناک دھماکوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف روسی عوام اور عالمی راے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا چاہتا ہے۔
(المجتمع‘ شمارہ ۱۵۹۷‘ ۱۷ اپریل ۲۰۰۴ئ)
ادارہ معارف اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد باصلاحیت نوجوانوں کو تحقیق کے عمل سے گزارنا اور علومِ اسلامیہ و عصریہ میں اسلام کی ترجمانی کے قابل بنانا تھا۔ اس کام کے بارے میں سوچ و بچار ہوتی رہی مگر عملاً اس کا آغاز نہ ہوسکا۔ آخرکار ایک مشاورت میں طے پایا کہ پہلا قدم اگرچہ لڑکھڑاتے ہوئے اٹھایا جاتا ہے مگر منزل تک پہنچنے کے لیے پہلا قدم ہی اولین ترجیح اور تقاضا ہوتا ہے۔ اس سوچ کے بعد پہلا قدم اٹھانے کا فیصلہ ہوگیا۔
ابتدائی مرحلے میں تین ماہ کا تصنیفی و تربیتی اقامتی پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اشتہار کے ذریعے ایم اے پاس یا اس کے برابر دینی تعلیم کے حامل نوجوانوں کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ۲۵ درخواستیں موصول ہوئیں۔ انٹرویو کے بعد آٹھ نوجوانوں کا انتخاب ہوا جنھوں نے اس پروگرام میں شرکت کی۔
۱۴ اپریل سے ۱۴ جولائی ۲۰۰۴ء تک تحقیقی و تصنیفی تربیتی پروگرام ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ لاہور میں منعقد کیا گیا۔ اس میں عربی‘ انگریزی‘ فارسی (ابتدائی) کی تعلیم دی گئی۔ درست اردو لکھنے کی مشق کرائی گئی۔ مختلف موضوعات پر مہمان مقررین نے ایک گھنٹے سے دوگھنٹے تک کے لیکچر دیے۔ سوال و جواب کی نشست بھی ہر خطاب کے بعد ہوئی۔ بیشتر خطابات ریکارڈ کیے گئے۔ درجن بھر منتخب کتب کا مطالعہ کرایا گیا۔ ان میں تنقیحات‘ تفہیمات (اول)‘ سنت کی آئینی حیثیت‘ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘ محسن انسانیتؐ‘ مشاہدات‘ رسائل و مسائل اور چند ادبی کتب شامل ہیں۔
شرکا لاہور کی کئی اہم لائبریریوں میں گئے اور مختلف تحریکی رہنمائوں کے ساتھ نشستیں بھی ہوئیں۔ ان میں امیرجماعت اسلامی پاکستان‘ نائب امرا‘ قیم جماعت اور محترم میاں طفیل محمد خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ مختلف تقاریب کی رپورٹنگ کی مشق کرائی گئی‘ مختلف مسائل اور موضوعات پر مدیرانِ اخبارات کے نام خطوط اور مضامین لکھوائے گئے۔ ان میں سے کئی ایک اخبارات اور رسائل میں شائع بھی ہوگئے۔
آخری ہفتے میں طے شدہ موضوعات پر مقالے لکھنے کے لیے شرکا کو پورا وقت دیا گیا‘ تاہم ان کا قیام ادارے ہی میں رہا۔ الحمدللہ مقالے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ تین ماہ کی مختصر مدت میں شرکا نے کافی منازل کامیابی سے طے کی ہیں۔ اس سارے پروگرام میں ادارے کے تمام احباب و رفقا نے بھرپور حصہ لیا مگر اس کے روحِ رواں ڈائرکٹر ریسرچ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تھے۔ یہ پہلا قدم تھا لیکن اس سے دوسرے قدم اور پھر اگلا قدم اٹھانے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ آگے کے مراحل کے لیے مشاورت جاری ہے۔
دینی مدارس کا محدود کردار‘ اسباب‘ اثرات(عرفان عادل)‘ پاکستان میں عیسائیت کا فروغ (محمد ریاض)‘ پاکستان میں تحریک حقوق نسواں (محمد رمضان راشد)‘ نصاب تعلیم میں تبدیلیاں (حمیداللہ خٹک)‘ ملٹی نیشنل کمپنیاں: اغراض و مقاصد اور اسلام دشمنی (شیخ افتخار احمد)‘ خانہ بدوش اور ان میں دعوتِ اسلامی (محمد رفیق)‘ منبرومحراب: انقلاب کا پیش خیمہ (حافظ محمد ہاشم)‘ انقلاب کی راہ (عبدالجبار بھٹی)۔
ان مقالہ جات کی تدوین کر کے اخبارات اور رسائل میں اشاعت کے لیے بھی ارسال کیا جائے گا۔
ایک تاریخ نویس‘ صحابہ کرامؓ کے سوانح نگار اور سیرتِ نبویؐ کے مولّف کی حیثیت سے جناب طالب الہاشمی کا نام نامی محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ سیرتِ طیبہؐ سے متعلق اس سے پہلے سات تالیفات شائع کر چکے ہیں (اخلاقِ پیمبریؐ، معجزاتِ سرورِ کونینؐ، ارشاداتِ داناے کونینؐ، وفودِ عرب، بارگاہِ نبویؐ میں، ہمارے رسول پاکؐ، جنت کے پھول، حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ)۔ ان میں سے بیشتر سیرت نبویؐ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ زیرنظر کتاب اس اعتبارسے ان سب میں ممتاز‘ منفرد اور جامع ہے کہ اس میں سیرتِ پاکؐ کے جملہ پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
رحمتِ دارینؐ کے دیباچہ نگار جناب حفیظ الرحمن احسن نے اس کے بعض امتیازات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایجاز و اطناب میں توازن‘ اختلافی امور میں طویل مباحث سے گریز‘ سیرت کے بعض نادر پہلوئوں کا ذکر‘ مستند اور معتبر روایات سے استناد اور متعلقاتِ سیرت پر مفید حواشی کا ذکر کیا ہے۔ ہمارے خیال میں سیرت النبیؐ کے موضوع پر یہ کتاب فاضل مولّف کی ماہرانہ دسترس کا ثبوت ہے۔ مولّف نے موقع بہ موقع قرآن پاک‘ حدیث نبویؐ اور تواریخِ سیرت سے حوالے دیے ہیں۔ اسی طرح عربی اشعار اور(حالی‘ شبلی وغیرہ کی) بعض اردو نظموں کے ذریعے بیان کو زیادہ واضح اور مؤثر بنایا ہے۔
رحمت ِدارینؐ کی ایک خوبی یہ ہے کہ مولّف نے افراد‘ مقامات اور کتابوں وغیرہ کے ناموں کے صحتِ تلفظ کا اہتمام کیا ہے اور بڑے التزام سے اِعراب لگائے ہیں (ص ۳۸۶ پر عربی شعر پر اعراب نہیں لگ سکے)۔ یہ اہتمام و التزام‘ سیرت پاکؐ کی بہت کم کتابوں میں نظرآتا ہے۔ بعض اختلافی روایات کا ذکر حواشی میں کر دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر جناب طالب الہاشمی نے رحمتِ دارینؐ کی تحریر و تصنیف میں نہایت اہتمام‘ لگن اور دیدہ ریزی سے کام لیا ہے۔ یہ ان کے طویل تصنیفی و تالیفی تجربے‘ سیرت نبویؐ کے برسوں کے مطالعہ و تحقیق اور تین برس کی محنت ِشاقہ کا نتیجہ ہے۔ امید ہے سیرتِ پاکؐ پر ان کی یہ تالیف قبولِ عام حاصل کرے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
الفرقان کے نام سے قرآن پاک کے ابتدائی حصے کے مطالب و مضامین پر دو جلدیں شائع کرنے کے بعد‘ شیخ عمرفاروق نے احادیث کا مجموعہ الحکمہ کے نام سے پیش کیا ہے اور یہ بھی طالبان و شائقین کو ہدیتاً فراہم کیا جا رہا ہے۔
انداز و اسلوب ایسا دل کش کہ پڑھنے کو دل چاہے اور پڑھتے ہی چلے جائیں۔ آیات‘ احادیث‘ اشعار اور عام متن میں صحت کا خصوصی اہتمام‘ موضوعات کے لحاظ سے انسانی زندگی کے تمام دائروں کے بارے میں خصوصاً اخلاقی حوالے سے ہدایات‘ ہر باب کے آخر میں ایک دعا کا التزام‘ اس مجموعے کی خصوصیات کہی جا سکتی ہیں۔ بیشتر احادیث ریاض الصالحین سے لی گئی ہیں اور عبادات و معاملات کے ابواب آگئے ہیں۔ شیخ عمرفاروق کا تشریح و بیان کا اپنا انداز ہے جس میں دوسری متعلقہ احادیث وآیات‘ برمحل اشعار‘ دیگر علما کی کتابوں کے اقتباسات‘ سب جڑتے چلے جاتے ہیں اورایسا مختصر وعظ بن جاتا ہے جو مجلسوں میں پڑھا جائے تو دل چسپی سے سنا جائے۔ اس لیے کہ حالاتِ حاضرہ کے حوالے بھی آجاتے ہیں۔ شیخ صاحب اس عمر میں جو محنت کر رہے ہیں‘ وہ انھی کا حصہ ہے اوریقینا من جانب اللہ ہے۔
شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ باہرجاکر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینا سب پر فرض نہیں ہے‘ یہ تو اہلِ علم کا منصب ہے کہ اہل خانہ کے لیے نان و نفقہ مہیا کر دیا‘ بال بچوں کی حفاظت کا انتظام بھی ہوگیا‘ اب شوق سے دعوت و تبلیغ کے لیے نکلیے (ص ۲۷۳)۔ یہ ایسا لگا کہ سب بچوں کی شادیاں کر کے حج کا سوچا جائے۔
الحکمہ‘ ڈاک سے بھیجنے کا انتظام نہیں‘ مصنف سے بطور ہدیہ دستی وصول کیا جا سکتا ہے (فون: ۷۵۸۵۹۶۰)۔ (مسلم سجاد)
عبادت کے حوالے سے ایک عام تصور نماز‘ روزہ‘زکوٰۃ‘ حج ہی کو کل عبادت سمجھ لینا ہے‘ جب کہ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں میں سید مودودی علیہ الرحمہ نے زندگی کے ہر دائرے میں اللہ کی اطاعت کو ’عبادت‘ قرار دیا جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے‘اور نماز روزہ کو اس عبادت کے لیے تیار کرنے کے ذرائع قرار دیا۔زیرنظر کتاب اسلام کے اس تصور کو نہایت جامع اور علمی و تحقیقی انداز سے پیش کرتی ہے۔ اس میں‘ مصنف نے علامہ ابن تیمیہؒ، ابن قیمؒ، امام غزالیؒ، مولانا مودودیؒ، سید سلیمان ندویؒ اور دیگر اصحابِ علم سے بھی استفادہ کیا ہے۔
علامہ یوسف قرضاوی نے انسان کے مقصدِحیات سے آغاز کرتے ہوئے عبادت کی حقیقت پر گفتگو کی ہے اور دوسرے مذاہب میں عبادت کے ناقص تصور کے پس منظر میں اسلام کے جامع تصور کو واضح کیا ہے۔ عبادت کی قبولیت کا معیار کیا ہے؟ اس حوالے سے روحِ عبادت‘ عبادت میں اخلاص‘ خشوع و خضوع اور احکامِ شریعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آخر میں (۱۵۰ صفحات) مسنون عبادات ‘یعنی نماز‘ روزہ ‘ حج‘ زکوٰۃ پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ دو عبادات کا اضافہ کیا ہے: امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ۔
فاضل مصنف نے عبادت کے حوالے سے شرک اور بدعت پر بھی گفتگو کی ہے‘ یعنی عبادت صرف اللہ کی کی جائے اور بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کی جائے۔ انھوں نے دین کے آسان ہونے پر ایک الگ باب قائم کیا ہے اور بہت سی مثالیں دے کر‘ دین کو مشکل بنانے والوں پر گرفت کی ہے۔ موزوں پر مسح‘ جمع الصلاتین‘ ننگے سرنماز جیسے مسائل اسی ذیل میں آتے ہیں۔
تبصرہ نگار اس راے کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بہت اچھی اور معلومات افزا مفصل کتاب ہے لیکن ایک تاثر یہ ہوتا ہے کہ جیسے اصل موضوع پر گرفت نہیں ہو رہی اور تمام امور منطقی ربط میں نہیں ہیں۔
خدابخش کلیار صاحب نے بہت خوب ترجمہ کیا ہے‘ تاہم ’اسلام کا تصورِ عبادت‘ بہتر نام ہو سکتا تھا۔ (م - س)
گذشتہ ۳۲ برس سے افغانستان کی سرزمین بارود کی بو اور خون کے سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ظاہرشاہ بیک وقت روسی اور اشتراکی آلہ کار تھا‘ اس کے اقتدار کے خاتمے پر کمیونسٹوں نے ’انقلاب کے لیے خون‘ کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ۱۹۷۸ء میں ملفوف جوابی اشتراکی انقلاب آیا اور ۱۹۷۹ء میں اشتراکی کوچہ گردوں نے کابل کو اپنی آماج گاہ بنانا چاہا۔ ۱۹۹۲ء میں ان کا چراغ گل ہوا تو وہ ایک دوسرے روپ میں جہادی گروپوں کو باہم لڑانے کے لیے امریکی کیمپ کے طرف دار بن گئے۔ بعدازاں اکتوبر ۲۰۰۱ء میں امریکا نے پورے لائولشکر کے ساتھ افغانیوں کے کوہ و دمن کو نشانہ بنایا۔ ایک ملک دو انتہائی ظالم سامراجیوں کا نشانہ بنتا ہے اور اس کے ہمسائے ملک پاکستان میں چند ایک کے سوا کوئی صاحب ِ علم صحافی دکھائی نہیں دیتا جو حالات و واقعات کا صحیح تناظر میں تجزیہ کرسکے۔ مختارحسن کے انتقال (اگست ۱۹۹۵ئ) کے بعد اس فریضے کی ادائی کے لیے امان اللہ شادیزئی ایک صاحب ِ نظر دانش ور اور ہوش مند تجزیہ نگار کی صورت میں سامنے آتے ہیں‘ جو واقعات کو ان کے ظاہر سے زیادہ‘ ان کے پسِ پردہ حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
اس کتاب میں مصنف نے اپنے مضامین میں مسئلہ افغانستان کو سمجھنے اور پاکستان میں اس مسئلے سے پیوستہ جڑوں کو کھوجنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔انھوں نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں آنے والی تباہی کے دیگر محرکات کے ساتھ خود پاکستان کے نام نہادقوم پرستوں نے بھی اس ظلم میں اپنا حصہ ڈالا۔ آج بلوچستان میں پیدا کی جانے والی بے چینی کے محرکات بھی اس کتاب میں ظاہر ہیں اور خود افغانستان میں رونما ہونے والی مزاحمت کے آثار بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ (سلیم منصورخالد)
عامر عثمانی ؒ(امین الرحمن عامر ۱۹۲۰ئ-۱۹۷۵ئ) مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ کے برادر زادے تھے۔ ماہنامہ تجلّی کے مدیر کی حیثیت سے ان کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ ایک بے باک صحافی‘ پختہ قلم نگار اور منفرد طنزنگار کے علاوہ عمدہ شاعر بھی تھے۔
یہ قدم قدم بلائیں ان کی نظموں اور غزلوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے حفیظ جالندھری کے انداز میں ان کی ایک کتاب شاہنامہ اسلام‘ جدید منظرعام پر آچکی ہے۔
یہ مجموعہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں ۴۵ غزلیں اور دوسرے حصے میں ۲۲ نظمیں شامل ہیں۔ آخر میں مختلف موضوعات پر خاصی تعداد میں قطعات بھی موجود ہیں۔ ان کی غزل ہو یا نظم‘ ہر جگہ ان کی دینی سوچ اور پاکیزہ خیالات بولتے سنائی دیتے ہیں۔ ان کے قلم کی روانی کے ہمراہ ان کا منطقی اندازِفکر ہر کہیں جلوہ گر نظرآتا ہے۔ قومی شاعری کے ضمن میں ان کا کلام ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ بعدازمرگ ان کی شاعری کے مجموعے کی یہ اشاعت ان سے مولانا حسن احمد صدیقی کی محبت اور ان کے دیگر نیازمندوں کی عقیدت کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ کتاب کے شروع میں مولانا عامر عثمانی کی وفات پر مولانا ماہر القادری کا لکھا مضمون بھی کتاب میں شامل ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ (سعید اکرم)
بڑی شخصیات اپنے بہت سے مداحوں کے ساتھ‘چند معاندین اور مخالفین بھی پیدا کرتی ہیں۔ بیسویںصدی کے آغاز میں شیخ محمد اقبال نے ایک اردو شاعر کی حیثیت سے‘ دنیاے شعروادب کو چونکا دیا۔ فکر‘خیال‘ فن اور زبان و بیان ہر اعتبار سے وہ ایک منفرد لہجے کے شاعر تھے۔ ان کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں کی طرف سے ان کے کلام پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ معترضین کے بہت سے گروہ تھے۔ یہ اعتراضات زبان و بیان کے مختلف پہلوئوں‘ روز مرہ ‘ محاورہ‘ تذکیرو تانیث‘ تعقید‘ لفظی اسقام‘ نامانوس تراکیب‘ فارسیت‘ معنوی لغزشوں اور عروض و قافیے کے حوالے سے کیے گئے تھے۔ بعض نقادوں نے کلام اقبال کو نقد و انتقاد کی جدید سان پر کسنے کی کوشش کی۔ ایک صاحب فرقہ واریت کی عینک سے اقبال کی شاعری پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب صابر نے زیرنظر تحقیقی جائزے میں اقبال کے اردو کلام پر ہر نوعیت کے اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ شافی و کافی جواب دیے ہیں۔ موصوف کئی برسوں سے ایک لگن کے ساتھ اقبال کی شخصیت اور فکروفن پر اعتراضات پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی دو کتابیں اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ اور تصورِ پاکستان: اقبال پر اعتراضات کا جائزہ شائع ہوچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ذخیرئہ اقبالیات میں‘ اس موضوع پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے‘ فاضل مولّف نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا ہے اور یوں ایک جامع تصنیف پیش کی ہے۔
بحث کے اختتام پر پروفیسر ایوب صابر نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ (ص ۱۴۳)۔ ان کا خیال ہے کہ دانتے‘ شیکسپیئر اور گوئٹے کو محض براعظمی اور قومی تعصبات کے سبب نسلِ انسانی کے سب سے بڑے شعرا قرار دیا جاتا ہے۔ شیکسپیئر کو تو برطانیہ نے اپنی سامراجی قوت کے بل بوتے پر بڑا شاعر منوایا۔ اگر فیصلہ اہلیت و انصاف کی بنیاد پر ہو تو اقبال ہی دنیا کا سب سے بڑا شاعر قرار پائے گا۔
پروفیسر محمد ایوب صابر کی یہ کتاب اقبالیاتی ادب میںوقیع اضافہ ثابت ہوگی۔ کتابت اور اشاعتی معیار اطمینان بخش ہے‘ اشاریہ بھی شامل ہے‘ مگر یہ بات کھٹکتی ہے کہ مباحث کا آغاز مصنف کی کسی تمہید یا دیباچے کے بغیراچانک ہوتا ہے۔ (ر - ہ)
اردو زبان میں جرم و سزا کے موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے اُس کا بیش تر حصہ حقیقت سے زیادہ افسانے پر مشتمل ہے‘ البتہ معروف ادیب عنایت اللہ مرحوم اور کچھ نیک نام پولیس افسران کی بعض نگارشات افسانے سے بھی زیادہ دل چسپ ہیں اور ان میں افادیت کا پہلو غالب ہے۔ زیرِنظر کتاب اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔
چودھری احمد خان چدھڑ نے ملازمت کا آغاز بطور کانسٹیبل کیا اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ترقی کرتے ہوئے ایس پی کے عہدے تک پہنچے۔ اس دوران میں انھوں نے تجربے اور ذہانت سے کام لے کر بڑے بڑے اندھے جرائم کی تفتیش کی اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا۔ گو اس کے لیے انھیں بڑی قربانی دینا پڑی اور ذاتی نقصانات بھی اٹھائے‘ لیکن فرض شناسی کو اہمیت دے کر انھوں نے اپنی عظمت تسلیم کرائی۔
سید شوکت علی شاہ کے بقول یہ کتاب: ’’محکمہ کے اہل کاروں اور افسران کے لیے ایک گائیڈ اور ریفرنس کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔ مصنف کے تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ اسلام جرائم کی بیخ کنی کے لیے ان محرکات کو ختم کرنے پر زور دیتا ہے جن سے دوسروں کے حقوق پر زد پڑتی ہو‘ اس لیے سماجی انصاف اور عدل ضروری ہے۔
کتاب کے حصہ اول میں مصنف نے اپنے حالات بیان کیے ہیں۔ دوسرے حصے میں جرائم اور ان کی بیخ کنی کے لیے جدوجہد کا ذکر کیا ہے ‘ جب کہ تیسرے حصے میں چند اہم واقعات کا مختصر ذکر ہے۔ پوری کتاب کا حاصل یہ بنتا ہے کہ اگر پولیس دیانت داری سے جرائم کی بیخ کنی کا عزم کرلے اور انھیں ’’اُوپر‘‘والوںکی تائید بھی حاصل ہو تو معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن سکتا ہے اور چونکہ ایسا نہیں ہو رہا ہے‘ اس لیے ملک میں فساد اور بدامنی روز افزوں ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
پیش نظر کتاب مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم و مغفور کا تذکرہ ہے‘ جس میں ان کی زندگی کے اہم تر احوال و آثار‘ شخصیت کے مختلف رنگ اور علمی و دینی کارہاے نمایاں قلم بند ہوئے ہیں۔ کتاب کا اندازِ تحریر سادہ اور شگفتہ ہے۔ اقتباسات کے ساتھ حوالے بھی دیے گئے ہیں‘ مگر دو باتیں خاص طور پر کھٹکتی ہیں:
۱- پروف خوانی ٹھیک طرح سے نہیں کی گئی‘ جس کی وجہ سے خاصی تعداد میں غلطیاں موجود ہیں اور کتنے ہی شعر بے وزن ہوگئے ہیں۔ (ملاحظہ ہوںصفحات: ۴۲‘ ۶۲‘ ۶۵‘ ۷۴‘ ۹۶‘ ۱۰۸‘ ۱۰۹‘ ۱۱۰‘ ۱۳۷‘ ۱۴۷‘ ۱۶۳‘ ۱۷۳‘ ۱۷۹‘ ۱۸۰‘ ۲۵۴‘ ۲۵۶‘ ۲۶۴)
۲- ضروری تھا کہ ایسی علمی کتاب میں کتابیات کی ترتیب کا اہتمام محنت اور دقتِ نظر سے انجام پاتا۔ اگر اس نوعیت کے تسامحات سے قطع نظرکرلیا جائے تو یہ کتاب اپنے مندرجات کی ثقاہت کے اعتبار سے بہت اہم اور معلومات افزا ہے۔ (عبدالعزیز ساحر)
پانچ عنوانات (۱- اسلامی ورلڈ ریویو ۲- قرآن ۳- محمدؐ رسول اللہ ۴- عبادات‘ قانون‘ اخلاق ۵- تزکیۂ نفس) کے تحت موجودہ دور کے عالمِ اسلام کے تمام ہی نامور قائدین (حسن البنا‘ سید مودودی‘ ابوالحسن علی ندوی‘ یوسف قرضاوی‘ خرم مراد‘ خورشید احمد‘ محمد الغزالی‘ محمدقطب‘ سید قطب‘ سعید رمضان‘ محمد اسد‘علی عزت بیگووچ‘ اسماعیل فاروقی وغیرہ) کی کل ۳۳ نگارشات کا یہ گلدستہ انگریزی پڑھنے والوں کے لیے اسلام کا ایک حقیقی تعارف ہے۔ تمام پہلو خوب اچھی طرح روشن ہو گئے ہیں۔ جہاں کی زبان انگریزی نہیں‘ (مثلاً پاکستان) وہاں بھی انگریزی پڑھنے والوں کی کمی نہیں‘ لیکن مسئلہ ان کتب کی مقامی شرح پر دستیابی کا ہے جسے حل کیا جانا چاہیے۔ (م - س )
نواے بے نوا محترم عبدالرشید صدیقی کی نظموں اور غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے جس میں آغاز سے اب تک کے تمام کلام کا انتخاب شامل ہے۔ ان کا خوب صورت شعری ذوق اب اس کتاب کے ذریعے کھل کر سامنے آیا ہے۔ یہ کتاب اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ان کی شاعری کے موضوعات عشق و محبت تک محدود نہیں ہیں اور اُن کا دائرہ کار وطن کی محبت اور اس کی خوشبو کے علاوہ مسلم امہ کے احیا اور دین ہدیٰ کی سربلندی اور اس کی سرفرازی کی تمنا تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ بقول پروفیسر خورشید احمد یہ کتاب ’نے نوازی کا ایسا مرقع ہے جس میں قدیم و جدید‘ مشرق و مغرب اور نغمہ و پیغام‘ قوسِ قزح کے مختلف رنگوں کی بہاریں دکھا رہے ہیں اور قلب ونظر دونوں کی تسکین کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔
صدیقی صاحب گوالیار میں پیدا ہوئے۔ ممبئی میں یونی ورسٹی تک تعلیم حاصل کی۔ لندن میں لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ کیا اور پھر لسٹر یونی ورسٹی میں طویل عرصے تک انفارمیشن لائبریرین کے طور پر کام کرتے رہے۔ حال ہی میں اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے اشاعت و فروغِ دین کے مقاصد کے پیشِ نظر انگریزی میں ان کی تین کتابیں شائع کی ہیں۔ وہ برطانیہ میں کئی اسلامی تنظیموں اور اداروں میں آج بھی بھرپور طریقے سے سرگرمِ عمل ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی نفاست ِ طبع کا ایک اور پہلو نمایاں کرتی ہے۔ (سعید اکرم)
٭ معارف الاسماء شرح اسماء اللہ الحسنٰی‘ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری‘ تحقیق و تخریج: محمد سرور عاصم‘ ناشر: مکتبہ اسلامیہ بالمقابل رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۳۔ قیمت: ۱۳۰روپے۔] اللہ تعالیٰ کے ۹۹ناموں کی شرح۔ طبع اول ۱۹۳۰ء کی نئی خوب صورت اشاعت۔ آیات و احادیث کے حوالوں کا اضافہ از محمد سرور عاصم۔ سرورق پر اور پشت سرورق کے فلیپ میں بھی نام کتاب معارف الاسمٰی درست نہیں۔[
ہم مغرب میں خاندانی نظام کی ابتری کو موضوع بناتے ہیں لیکن اپنے اخبارات ہماری بھی کوئی کچھ اچھی تصویر پیش نہیں کرتے۔ ’’خاندان کو لاحق خطرات، ممکنہ لائحہ عمل‘‘ (اگست ۲۰۰۴ئ) میں اہم مسئلے کی طرف توجہ دی گئی ہے۔ مضمون نگار نے جو تجاویز دی ہیں‘ ان پر ہماری تنظیموں کو عمل کرنا چاہیے۔
ملک میں علاج کتنا مہنگا ہوگیا ہے‘ اس کا تجزیہ کیا جائے تو عجیب و غریب حقائق سامنے آئیں گے۔ کتنی ہی دوائیں پڑوسی ممالک سے دس گنا قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں‘ یہ نفع کس کی جیب میں جاتا ہے۔’’ علاج کی صورت حال’’ (اگست ۲۰۰۴ئ) میں کسی پارلیمانی کمیٹی کے لیے ضروری نشاندہی کی گئی ہے
’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) میں وقت کے اس نعرے کی حقیقت بہت خوب کھول کر بیان کی گئی۔ جو لوگ سرکاری پروپیگنڈے سے گمراہ ہوتے ہیں‘ ان کے لیے یہ تحریر چشم کشا ہے۔ مقالہ نگار نے اسلام کا حقیقی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا حقیقی تصور پیش کرکے حق ادا کر دیا۔ جو دانش ور امریکی راگ الاپ رہے ہیں‘ وہ ضرور اس کا مطالعہ کریں۔
’’غلبۂ اسلام کی بشارتیں اور عملی تقاضے‘‘ (جولائی ۲۰۰۴ئ) بہت جامع‘ پُراثر اور امیدافزا تھی‘ جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ غلبۂ اسلام کے لیے مومنانہ اوصاف ناگزیر ہیں۔ اور دل نے محسوس کیا کہ ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔(آل عمران۳:۱۳۹)
جولائی کے شمارے میں اشارات بہت خوب تھے۔ حالاتِ حاضرہ کی اور موجودہ حکومت کی صحیح تصویرکشی کی گئی۔ جنرل صاحب کے عزائم سے پردہ اٹھایا گیا۔ جہاں اشارات پڑھ کر دل افسردہ ہوا وہاں ’’غلبۂ اسلام کی بشارتیں‘‘ پڑھ کر دل کو یقین ہوا کہ آخرکار حق کو غالب آنا ہے۔ یقینا غلبۂ دین کے لیے کام کرنے والوں کو قرآن پر غورکرنا چاہیے‘ اور اسی سے رہنمائی لینی چاہیے۔
قوم میں موجود ہمہ جہت خرابیوں اور ان کی اصلاح پر ملک کے عالی مرتبت اہل فکرونظر کے دل سوزی کے ساتھ لکھے ہوئے مقالات شاید میری طرح دیگر قارئین کے بھی غم و افسوس کو تووقتی طور پر بڑھا دیتے ہیں لیکن ان کی اکثریت میں کوئی ایسا ردعمل پیدا کرتے نہیں دکھائی دیتے جو ان کے قول و فعل اور معاملات میں کسی مثبت اخلاقی تبدیلی کے ذریعے ظاہر ہو۔ میرا خیال ہے کہ لمبے لمبے مضامین‘ طول طویل پروگرام اور ان میں دشوار طلب مطالبے عام لوگوں کی ہمتیں عمل سے پہلے ہی پست کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سالہا سال سے نامی گرامی واعظین‘ مقررین اور مصنفین کو سننے اور پڑھنے کے باوجود قوم کی اخلاقی حالت مسلسل روبہ تنزل ہے۔
میں عاجز گمان کرتا ہوں کہ ابلاغ کے حوالے سے حکمت اختیار کرنے کی ضرورت ہے‘ مثلاً چند حضرات دو ایک بینر ہاتھوں میں پکڑے خاموشی کے ساتھ کسی عام گزرگاہ پر کھڑے ہوجائیں‘ اور ان پر کوئی ایک پیغام مختصر الفاظ میں لکھا ہو۔ ان مختصرالفاظ اور جملوں کے ذریعے شان دار دعوت کو سہل اور اثرانگیز انداز میں عوام الناس تک پہنچانے کی حکمت ضرور موثر ہوگی۔ ان بینرز کی عبارات کچھ اس طرح کی ہو سکتی ہیں: ۱- دیانت و امانت کی خوبیاں پیدا کیجیے ۲- وعدوں کی پابندی کیجیے وغیرہ۔
اس خدافراموشی‘ آخرت فراموشی‘ اور پیغمبروں کی تعلیمات سے استغنا و بے نیازی کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب آج اِس قدر روشن ہے کہ اس کی رات بھی دن ہے لیکن اس قدر تاریک ہے کہ دن بھی رات ہے۔ روشنی اور ترقی کے اس دور میں آج وہ سب کچھ پیش آ رہا ہے جو وحشت و بربریت کے دور کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ بقول میراکبر حسین الٰہ آبادی مرحوم ؎
لکھے گا کلکِ حسرت دنیا کی ہسٹری میں
اندھیر ہو رہا تھا بجلی کی روشنی میں
اگر حضرت مسیح اس دنیا میں تشریف لے آئیں‘ تو زیادہ عرصے تک زندہ نہ رہ سکیں گے۔ وہ ملاحظہ یہ فرمائیں گے کہ دو ہزار برس کے بعد بھی انسان فتنہ و فساد‘ کشت و خون‘ قتل و غارت میں بدستور مبتلا ہے‘ بلکہ اس وقت توانسانیت کے جسم سے تاریخ کی عظیم ترین جنگ کے اثر سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں‘ اور زمین اس قدر تاراج ہوچکی ہے کہ نوبت فاقہ کشی کی آگئی ہے۔ اور حضرت آکر کیا دیکھیں گے؟ کیا اخوت و مساوات کے ساتھ لوگوں کو ہاتھ ملاتے؟ یا اس کے بالکل برعکس اس جنگِ عظیم سے بھی بڑھ کرمہلک و پُراذیت جنگ کی تیاریاں کرتے؟ ایک سے بڑھ کر ایک جان لیوا اور ستم کش آلاتِ ہلاکت ایجاد کرتے اور تعذیب کی نئی نئی ترکیبیں سوچتے؟
…… اس دنیا کے باشندے اس صدی کے پچھلے حصے میں غاروں میں زندگی گزارنے والے دنیا کے قدیم وحشیوں کا طرزِ زندگی اختیار کرلیں گے اور اُسی وحشت و بربریت کا دور شروع ہوجائے گا جو ہزاروں سال پہلے دنیا میں قائم تھا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تمام ممالک ایک ایسے ہتھیار سے بچنے کے لیے کروڑوں روپیہ صرف کر رہے ہیں جس سے ہیں تو سب کے سب خائف مگر اس کو قابو میں رکھنے پرراضی نہیں ہوتے۔ میں بعض اوقات تعجب سے سوچتا ہوں کہ اگر کسی دوسرے سیارے سے کوئی سیاح اور زائر اس زمین پر آئے تو وہ ہماری اس دنیا کو دیکھ کر کیا کہے گا۔ وہ دیکھے گا کہ ہم سب اپنی ہی بربادی اور ہلاکت کے وسائل تیار کر رہے ہیں اورطرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک دوسرے کو اس کے طریق استعمال کی اطلا ع بھی دے رہے ہیں۔
(سیرت محمدیؐ کا پیغام بیسویں صدی کے نام‘‘، مولانا ابوالحسن علی ندوی‘ ترجمان القرآن‘ ج۲۵‘ عدد ۱-۴‘ رجب تا شوال ۱۳۶۳ھ‘ جولائی تا اکتوبر ۱۹۴۴ئ‘ ص ۴۸)