اُمت مسلمہ کے مصائب اور آلام کی آج کوئی انتہا نہیں ہے۔ ہر سطح پر بگاڑ ہے اور سارا جسم زخم زدہ‘ گویا ’’تن ہمہ داغ داغ شد‘‘ کی کیفیت ہے۔ لیکن سب سے بڑا المیہ ایمان‘ معاملہ فہمی اور عوام کے جذبات اور احساسات کے ادراک کے باب میں ہماری قیادت کا افلاس اور دیوالیہ پن ہے جس نے دل و دماغ کو سوچنے اور صحیح راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ جنھیں معاملات کا امین بنایا گیا تھا‘ وہ اپنی اُمت کی دولت کو خود ہی برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دلوں کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے‘ مگر انسانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر پر حکم لگائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوںپر حکمران بلکہ قابض قیادتوں کے اعمال اور اعلانات کو دیکھ کر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ع
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اس المیے کا تازہ ترین مظہر وہ بیان ہے جو جنرل پرویز مشرف نے کشمیر جیسے نازک اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مسئلے پر ۲۵ اکتوبر کو اپنے ہی وزیراطلاعات کی طرف سے دی جانے والی افطار پارٹی میں اپنے ہی ملک کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے‘ بڑی سہل انگاری بلکہ دیدہ دلیری سے‘جو زبان پر آیا بس کہہ ڈالا (off the cuff) کے انداز میں دے ڈالا اور اس کے عواقب اور مضمرات کا کچھ بھی خیال نہ کیا۔ اب خود وطن عزیز کے سنجیدہ فکر عناصر کے منفی ردعمل اور اس سے بھی بڑھ کر بھارت کی بے حسی اور سینہ زوری دیکھ کر ان کی اور ان کے حواریوں کی طرف سے عجیب عجیب تاویلات کی جارہی ہیں اور عالم یہ ہے کہ ع
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
اہلِ دانش تو بچے کو بھی یہ سکھایا کرتے تھے کہ پہلے بات کو تولو‘ پھر منہ سے بولو‘ لیکن ہماری قیادت کا عالم یہ ہے کہ منہ سے بولنے کے بعد بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اب ارشاد ہو رہا ہے کہ مجھے misrepresent ] غلط پیش[کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کس نے misrepresent کیا؟ آپ کے اپنے وزیراطلاعات نے؟ آپ کے اپنے منتخب صحافیوں نے؟ آپ نے خود ہی تو ان سے کہا تھا:
ہم کیا چاہتے ہیں؟ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اور اس پر بحث کرنا چاہیے۔
میری نظر میں consensus ]اتفاق راے[ وہ ہوگی جو آپ debate ]بحث[ کروائیں۔ میں سن رہا ہوں گا‘ دیکھ رہا ہوں گا‘ ٹی وی پر میڈیا پر لوگ کیا باتیں کر رہے ہیںاور وہی consensus ہوتا ہے۔ کوئی ووٹنگ نہیں ہوتی ہے اس میں۔ اُسی سے میں judgment ]اندازہ اور فیصلہ[کروں گا کہ ok ] ٹھیک ہے[ یہ میرے خیال میں لوگوں کو پسند ہوگا۔ وہ لے کر پھر بات کروں گا… میری آپ سے درخواست ہے کہ اس پر بحث کا آغاز کریں‘ اس پر لکھیں‘ debate کروائیں‘ لوگوں کو بلائیں اور ان سے بات کروائیں۔ (بحوالہ ۲۵اکتوبر ۲۰۰۴ء کی تقریر کا سرکاری متن)
اگر کسی نے misrepresent کیا ہے تو وہ خود جنرل پرویز مشرف ہی ہیں‘ کوئی اور نہیں۔ پتا نہیں انھوں نے خود اپنے کو misrepresent کیاہے یا نہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان‘ پاکستانی قوم اور اس مسئلے پر قائداعظم سے لے کر اب تک کے قومی اجماع (national consensus) کو خود انھوں نے بری طرح misrepresent کیا ہے۔ انھوں نے جس قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے‘ اس پر ان کا بھرپور مواخذہ (impeachment) ہونا چاہیے۔
۱- جموں و کشمیر کی ریاست ایک وحدت ہے‘ اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا ہے۔
۲- ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے‘ اس کے دو تہائی علاقے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے‘ نام نہاد الحاق ایک ڈھونگ اور دھوکا ہے جسے کوئی دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں۔
۳- ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے جسے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی انتظام میں استصواب راے کرایا جائے گا۔
۴- کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا تنازع ہے‘ نہ سرحد کی صف بندی کا معاملہ ہے‘ اور نہ محض پاکستان اور بھارت میں ایک تنازع ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام ---جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔
۵- کشمیر بھارت کے لیے غاصبانہ ہوسِ ملک گیری کا معاملہ ہے اور پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق ان بنیادوں سے ہے جن پر پاکستان قائم ہوا اور تقسیمِ ہند عمل میں آئی۔ اس کے ساتھ اس کا تعلق ریاست کے مسلمانوں کے (جن کو عظیم اکثریت حاصل ہے) مستقبل اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات‘ نیز معاشی اور تہذیبی وجود سے بھی ہے۔
ان پانچ امور پر قومی اجماع تھا اور ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی ۱۳ اکتوبر ۱۹۴۸ئ‘ ۵ جنوری ۱۹۴۹ء اور سلامتی کونسل کی دوسری قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دوراقتدار کے اولین برسوں میں اسی موقف کا اظہار کیا اور ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی تقریر میں جنگِ آزادی اور دراندازی کے بارے میں ایک ابہام کے اظہار کے بعد‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ء کو مظفرآباد میں آزاد کشمیر کی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اصولی موقف کا ایک بار پھر پوری قوت اور صراحت سے اعادہ کیا اور قومی موقف پر ڈٹ جانے کے عزم کا اظہار کیا جسے موجودہ پسپائی کی اہمیت اور سنگینی کو سمجھنے کے لیے ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔
گذشتہ برسوں سے ۵ فروری ہم سب کے لیے ایک اہم دن ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ اس دن پاکستان کی حکومت اور عوام بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے یک جہتی کو تازہ کرتے ہیں‘ اور کشمیری عوام کو ان کے لاینفک حق خودارادی کی شان دار جدوجہد میں غیر متزلزل‘ واضح اور جائز حمایت کو تقویت دیتے ہیں۔ آج ہم تنازع کشمیر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تنفیذ کے لیے اپنے عہد کو تازہ کرتے ہیں‘ اور بین الاقوامی برادری خصوصاً ہندستان کو وہ حلفیہ وعدہ یاد دلاتے ہیں جو کشمیر کے عوام سے کیا گیا تھا کہ انھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہم ہندستان کے غیر قانونی قبضے کے خلاف اہلِ کشمیر کی جدوجہد کے شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
گذشتہ ۱۳ برسوں میں کشمیریوں کی حق خود ارادی کی جدوجہد نے خصوصی طور پر سخت لیکن المناک منظر دیکھا ہے۔ ۷ لاکھ بھارتی افواج نے ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ایسی روش اختیار کی جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس عرصے کے دوران ۸۰ ہزار سے زیادہ کشمیری شہید کیے گئے ہیں۔ ہزاروں کو تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ معذور ہوگئے ہیں اور ہزاروں تعذیب خانوں اور نظربندی مراکز میں انتہائی بے بسی کی حالت میں محبوس ہیں۔
خلاصہ یہ کہ کشمیر کے نوجوانوں کو عملاً انتہائی بے رحمی اور منظم انداز سے ختم کیا جا رہا ہے۔ بھارتی قابض فوجوں کا ایک خصوصی ہدف خواتین ہیں۔ بھارتیوں کا گھنائونا ہدف یہ ہے کہ کشمیر کے عوام کو جبراً جھکا دیا جائے اور انھیں مجبور کیا جائے کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کے استعمال کا مطالبہ ترک کر دیں۔
خواتین و حضرات! مقبوضہ ریاست کے ایک کروڑ عوام کو ان کے آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا ان کا حق‘ وقت گزرنے کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی برادری کی ناکامی نے ان کے جواز کو کم نہیں کر دیا۔
بھارت آزادی کی تحریک کو بدنام کرنے کی ایک بدباطن عالمی مہم میں مصروف ہے۔ وہ الزام لگاتا ہے کہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی باہر سے پاکستان کے ذریعے سرپرستی کی جارہی ہے۔ اس نے اس کو سرحد پار دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ وہ مغرب کے خدشات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی راے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔
بھارت پاکستان پر کشمیر میں پراکسی وار کا الزام لگاتا ہے۔ یہ سوال کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اگر کشمیر کی جدوجہد کو باہر سے منظم کیا جا رہا ہے تو وہ ۸۰ ہزار شہدا کون ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں دفن ہیں۔
خواتین و حضرات! کوئی بھی بیرونی عنصر کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو‘ عوام کی خواہشات کے علی الرغم کسی بھی تحریک کو اس پیمانے پر‘ اس شدت سے‘ اتنے طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کی بھاری بھرکم فوجی مشین کی‘ مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی جبری طاقت کے کلّی استعمال اور قوانین کے بلاامتیاز استعمال کے باوجود‘ آزادی کی تحریک کو کچلنے میں ناکامی کشمیری جدوجہد کی مضبوطی‘ مقبولیت اور مقامی ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ جدوجہد کشمیر کے عوام کے دل و دماغ میں پیوست ہے۔ اس کے لیے وسائل اور توانائی کا مخزن بہادر کشمیری مردوں اور عورتوں کا خون پسینہ اور ان کے قائدین کا استقلال و عزم ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ ’سٹیٹس کو‘ کی بنیاد پر سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے قبضے کو مستحکم کرے اور فوجی حل مسلط کرے۔ اس طرح کی کوششیں دنیا میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اصولوں اور فیصلوں سے انحراف تنازعات اور سنگین صورت حال میں اضافے اور طوالت کا باعث ہوا ہے۔ کشمیر کوئی استثنا نہیں ہے۔دوسرے عالمی مسائل کی طرح تنازع کشمیر کو بھی اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کی بنیاد پر اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
خواتین و حضرات! میں اپنے کشمیری بھائیوں کو واضح یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت‘ عوام اور میں خود اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے‘ اور ان کی منصفانہ اور عظیم جدوجہد کی مکمل سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ (آزاد جموں اورکشمیر اسمبلی اور جموں اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب‘ ۵ فروری ۲۰۰۲ئ)
ہم نے یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ یہ جنرل پرویز مشرف کی زبان سے قومی اجماع کا واضح اور مکمل اظہار تھا اور قوم آج بھی اس پر قائم ہے مگر جنرل صاحب نے ایک الٹی زقند لگاکر قومی اتفاق راے کو پارہ پارہ کرنے اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کو بھارت اور امریکا کے عزائم اور مطالبات کے تابع کرنے کی مجرمانہ جسارت کی ہے اور کچھ حاصل کیے بغیر لچک کے نام پر وہ سب کھو دیا ہے جو ہمارا سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی سرمایہ اور کشمیر کی تحریک مزاحمت کی تقویت کا سامان تھا اور اب خود بھی جھینپ مٹانے کے لیے اصولی موقف کی طرف پلٹنے کی بات کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء کے بیان کے بعد دیے جانے والے بیانات میں ۵ فروری کے بیان کو چھوڑ کر ایک طے شدہ انداز(pattern ) نظر آتا ہے۔ انھوں نے آہستہ آہستہ پسپائی اختیار کی۔ جنرل صاحب کی پسپائی کا نقطۂ عروج ان کا ۲۵ اکتوبر کا بیان ہے جو دائرہ پورا کر کے قومی کشمیر پالیسی کی یکسر نفی پر منتج ہوا۔
___ پہلے دبے لفظوں میں ’’سرحد پار مداخلت‘‘ کو بند کرنے کی بات کی گئی۔
___ پھر پاکستانی زمین کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کا اعلان ہوا (حالانکہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں اور لائن آف کنٹرول کسی سرحد کا نام نہیں اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں ایک ہی قوم آباد ہے)
___ پھر کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی عملی اعانت اور تعاون سے بڑی حد تک دست کشی اختیار کی گئی۔
___ پھر ایک انٹرویو میں رائٹر کے نمایندے سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالاے طاق رکھنے ( set aside کرنے) کا مجرمانہ اعلان کسی قانونی یا سیاسی اختیار کے بغیر کرڈالا گیا۔
___ اور اب ۲۵ اکتوبر کے بیان میں جسے بظاہر غوروفکر کے لیے لوازمہ (food for thought ) کہا جا رہا ہے‘ اور جو ہر قسم کے thoughtسے عاری ہے‘ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۹۷ء تک دس بار مختلف شکلوں میں بیان کردہ نام نہاد آپشن ( option) کو اپنے زعم میں ایک نئے راستے لیکن حقیقت میں پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کے طور پر پیش کیا ۔ اس سے بھی زیادہ بات یہ کی کہ اسے ایک خود ساختہ مگر برخود غلط اصول کے نام پر پیش کیا کہ جو چیز بھارت کے لیے ناقابلِ قبول (unacceptable) ہے‘ اس سے ہٹ کر راستہ نکالنا چاہیے۔
یہ بڑی ہی بنیادی تبدیلی ہے جسے اسٹرے ٹیجک پسپائی اور بھیانک سیاسی غلطی ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ بنیادی مفروضہ ہی ناقابلِ قبول ہے اس لیے کہ مسئلہ بھارت یا پاکستان کا قبول کرنا یا نہ کرنا نہیں بلکہ اصولی مسئلہ ہے جس کا تعلق ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت سے ہے۔ اس اصول کا انحصار کسی کی پسند اور ناپسند پر نہیں۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو پھر دنیا بھر کی سامراجی قوتوں سے گلوخلاصی کا تو کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا اس لیے کہ کوئی قابض قوت کبھی بھی اپنے تسلط کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ اسے مجبور کر دیا جائے اور اس کے لیے قبضہ جاری رکھنا ممکن نہ رہے۔
دوسرا انحراف یہ کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کی وحدت کو سات حصوں میں پارہ پارہ کرتے ہوئے مسئلے کا مرکزی نقطہ (focus) ہی بدل دینے کی حماقت کی گئی ہے۔ اصل مسئلہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق (accession) کا ہے جسے تبدیل کر کے ریاست کی تقسیم (division) کا مسئلہ بنا دیا گیا۔
تیسری بنیادی چیز ان علاقوں کی حیثیت (status)کی ہے جس میں بلاسوچے سمجھے امریکا کے عالمی کھیل کے لیے دروازے کھولنے کے لیے آزادی‘ اقوام متحدہ کی تولیت اور بھارت اور پاکستان کے مشترک انتظام کے تصورات کو مختلف امکانات کی شکل میں پیش کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی ادراک تک نہیں کیا گیا کہ ان میں سے ہر ایک کے پاکستان کی سالمیت‘ حاکمیت اور علاقے کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور ان عوام کے دل پر کیا گزرے گی جو ۵۷ سال سے بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں۔
چوتھی چیز شمالی علاقہ جات کے مسئلے کو نہایت سہل انگاری اور عاقبت نااندیشی سے سات میں سے ایک حصے کے طور پر پیش کر دیا گیاہے حالانکہ اس سلسلے میں پاکستان کی تمام حکومتوں نے اسے استصواب کے سلسلے میں جموں و کشمیر کی ریاست کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے ایک اسٹرے ٹیجک پردے میں رکھا تھا۔ اس کی اہم تاریخی اور علاقائی وجوہ تھیں کہ تقسیم سے قبل کشمیر کی اسمبلی میں نمایندگی کے باوجود یہ علاقہ اس طرح کشمیر کا حصہ نہیں تھا جس طرح باقی ریاست تھی اور نہ یہ اس خرید و فروخت کا حصہ تھا جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر پر ڈوگرا حکمرانی قائم ہوئی تھی۔ نیز یہ علاقہ وہاںکے لوگوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں شامل ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ آزاد کشمیر کا حصہ نہیں شمار کیا گیا۔چین سے ہمارے سرحدی رشتے کا انحصار اس حصے پر ہے جو چین کے دو اہم صوبوں سے ملحق ہے۔ جنرل صاحب نے شوق خطابت میں ان تمام نزاکتوں کو نظرانداز کر کے اس علاقے کو بھی ’’آزادی‘‘ بین الاقوامی تولیت اور بھارت کے ساتھ مشترک کنٹرول کی سان پر رکھ دیا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
سیاست‘ حکومت اور سفارت کاری کی نزاکتوں سے ناواقف جرنیل جب بھی اقتدار پر غاصبانہ قبضہ جماکر ایسے معاملات سے نبٹتے ہیں اور فردِ واحد کو اجتماعی اور اداراتی فیصلہ کاری سے ہٹ کر قوموں کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار مل جاتا ہے تو پھر ایسی بھیانک غلطیاں اور ٹھوکریں اس قوم کی قسمت بن جاتی ہیں۔
پاکستانی قوم اور اس کے معتبر سیاسی قائدین تو اس سیاسی غارت گری( vandalism ) پر آتش زیرپا ہیں لیکن دیکھیے کہ مغربی تجزیہ نگار اور خود بھارتی سیاسی‘ صحافتی دانش ور‘ جنرل صاحب کی ان ترک تازیوں کو کس رنگ میں دیکھ رہے ہیں۔
گذشتہ ۱۸ مہینوں سے بھارت اور پاکستان اپنے ۵۷ سالہ جھگڑے کے تصفیے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امن کے دو متوازی عمل جاری ہیں۔ ایک میں رکھ رکھائو والے سفارت کار جامع مذاکرات میں مصروف ہیں۔ دوسرا پاکستان کے صدر جنرل مشرف کا انفرادی مظاہرہ (solo show) ہے۔ بعض اوقات وہ سفارتی خندقوں سے تھک کر اوپر آجاتے ہیں اور عوامی سطح پر تبادلۂ خیالات کرتے ہیں۔ ان کے ابلاغی منتظمین (media managers) کو سوچنا چاہیے کہ جو ایک دفعہ کمانڈو بن گیا وہ ہمیشہ کے لیے ایک کھلی بندوق ہے (once a commando, always a loose cannon)۔ ان کے تازہ ترین ارشادات اب تک کے سب سے زیادہ غیر سفارتی ہیں۔ بھارت سے اپنے مرکزی تنازعے‘ یعنی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل مشرف اب تک عمومی اصولوں پر قائم رہے ہیں۔ کشمیر لائن آف کنٹرول کے ذریعے بھارتی اور پاکستانی انتظام کے حصوں میں تقسیم ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اسے مستقل سرحد تسلیم نہیں کرتا۔ جنرل مشرف نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ یہ ’سٹیٹس کو‘ کسی حل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ وہ کہتے ہیں یہ تنازع ہے اوریہی تین جنگوں کا سبب ہے۔ تازہ ترین جنگ ۱۹۹۹ء میں ہوئی۔
بہرطور ۲۵ اکتوبر کو ایک افطار ڈنر میں جنرل مشرف اپنے خیالات کو دو قدم آگے لے گئے۔
اول : وہ یہ قبول کرتے دکھائی دیے کہ جس طرح لائن آف کنٹرول پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے‘ اسی طرح استصواب کے لیے پاکستان کا مطالبہ جس میں کشمیری بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں گے‘ بھارت کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔
دوم: انھوں نے دوسرے متبادلات (options) کو بیان کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کے سات علاقے ہیں‘ دو پاکستان میں اور پانچ بھارت میں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں سے کچھ یا سب کو غیر فوجی کر دیا جائے اور ان کی حیثیت تبدیل کر دی جائے۔ جس کا نتیجہ آزادی ہو سکتا ہے‘ بھارت پاکستان کے درمیان کانڈومینیم (condominium) ]ایسا علاقہ جہاں دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں[ ہوسکتا ہے یا اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ۔
بہرحال شک و شبہے کی وجوہات ہیں۔ جنرل صاحب کی تجاویز کی اس وقت جو شکل ہے اس میں ان خیالات کی بازگشت سنی جا سکتی ہے جو عرصے سے فضا میں گردش کر رہے ہیں اور جو بھارت کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔بدتر بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس کے ذریعے بات چیت کا مطلب یہ ہے کہ دونوں فریقوں میں خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اس قسم کے خیالات پر کوئی ابتدائی بات بھی نہیں ہوئی ہے۔
بھارت نے سرد مہری کے ساتھ رسمی ردعمل دیا اور کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے کشمیر پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مگر اس نے کم سے کم ان خطوط پر بات چیت کو یکسر خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ شاید اس کو اندازہ ہے کہ جنرل مشرف ملک کی مذاکرات کی پوزیشن میں انقلابی تبدیلی کے لیے راے عامہ ہموار کرنے کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو اس کی ضرورت ہے۔ ان کے مخالفین نے ابھی سے ہی ان پر کشمیر کی فروخت کی سازش کا الزام لگا دیا ہے۔
اپنے اقتدار کے پانچ سال میں جنرل مشرف نے اپنی حکومت کو پالیسی کی کچھ غیرمعمولی تبدیلیوں سے گزارا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے پروردہ طالبان کو گہری کھائی میں پھنسا دیااور ایٹمی معلومات فروخت کرنے کے الزام پر ایک قومی ہیرو عبدالقدیر خان کی توہین کی۔ اس سب پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے جس پر انھوں نے اب تک قابو پایا ہے۔ اب انھوں نے غالباً اب تک کی سب سے مشکل فروخت شروع کر دی ہے: اپنے اہلِ وطن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ کشمیر پہ اپنے بیش تردعووں سے دست بردار ہوجائیں۔
جنرل صاحب کے ابلاغی منتظمین اور وہ خود اپنی ان تجاویز پر جو بھی روغن چڑھائیں‘ ان کا ماحصل کشمیر پر اپنی قومی پالیسی اور اہداف سے مکمل طور پر دست کش ہونا اور تحریکِ آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے سوا کچھ نہیں۔ دیکھیے خود بھارت کے دانش وروں اور تجزیہ نگاروں نے اسے کس رنگ میں دیکھا ہے۔
جنرل مشرف کی تجویز ہے کہ ریاست میں لائن آف کنٹرول کے پار جموں و کشمیر کا ایک حصہ باہمی سمجھوتے کے تحت متعین کیا جائے‘ وہاں سے فوجیں ہٹا لی جائیں اور اس علاقے کی سیاسی حیثیت کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہ تجویز پاکستان کے ہمیشہ سے قائم کئی مضبوط موقفوں سے انحراف کیا ہے‘ یعنی:
اول: استصواب راے کے خیال کو ایک طرف رکھنے سے جنرل مشرف نے یہ اشارہ دیاہے کہ پاکستان کا اپنا ہی پروردہ خود ارادیت کا نظریہ جموں و کشمیر میں عملاً بروے کار نہیں آسکتا۔
دوم: انھوں نے اس تصور کو ترک کر دیا ہے کہ پاکستان جموں و کشمیر کے بعض علاقوں پر قبضہ کر کے شامل کر لے۔
سوم : تیسری اور زیادہ اہم تبدیلی یہ ہے کہ نام نہاد شمالی علاقوں کو بھی معاملے کا حصہ بنا دیا ہے حالانکہ ۱۹۷۲ء کے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان نے شمالی علاقوں(بلتستان اور گلگت) کو پاکستانی ]آزاد[ کشمیر سے انتظامی طور ر علاحدہ کر دیا تھا۔
بھارت کے سفارتی مبصرین نے جنرل مشرف کی نئی پہل کاری میں کشمیر پر پاکستان کے قدیم موقف سے انحراف کو نوٹ کیا ہے۔ پہلی دفعہ ایک پاکستانی صدرِ ریاست نے اشارہ دیا ہے کہ لائن آف کنٹرول دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد کے لیے اندازاً خدوخال فراہم کرسکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کرلیا ہے کہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقے جو پاکستانی انتظام میں ہیں‘ متنازعہ علاقے ہیں۔
جنرل مشرف کی نئی تجویز نے استصواب کے مسئلے کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اس کے بجاے منقسم جموں و کشمیر کے سات علاقوں کو متعین کیا ہے۔ جنرل مشرف نے جو خیال پیش کیا ہے‘ اس کے مطابق ساتوں علاقوں کے لوگ علاحدہ علاحدہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
جان شیرین نے سری نگر مظفرآباد بس سروس اور گیس کی پائپ لائن کا بھی ذکر کیا ہے کہ اب پاکستان ان تمام امور کا کشمیر کے ’’کور ایشو‘‘ کے بنیادی مسئلے سے تعلق توڑنے (delink) کے لیے تیار ہے اور اس قلب ماہیت میں امریکا کا خصوصی کردار ہے جس کا امریکا کے وزیرخارجہ کولن پاول صاحب نے اپنے ۱۸ اکتوبر کے ایک بیان میں کریڈٹ لے بھی لیا ہے۔
صدر (جنرل مشرف) پاکستان کے وہ پہلے صدر ریاست ہوگئے جنھوں نے کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کی اس حقیقت کا اعتراف کیا جس پر کم بحث کی گئی ہے‘ یعنی جموںو کشمیر لسانی‘ نسلی اور جغرافیائی اور مذہبی طور پر ایک منقسم ریاست ہے اور کوئی بھی حل اس ناقابلِ تردید حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔
پاکستانی صدر نے پہلی دفعہ اس اہم حقیقت کو بیان کیا ہے کہ پاکستانی ]آزاد[کشمیر اور وادی کشمیر میں بہت کم قدرِ مشترک ہے‘ اس لیے کہ دونوں کی مختلف نسلی اور لسانی بنیادیں ہیں… مشرف کی تجویز گیلانی کی اس پرانی تجویز کے خلاف ہے کہ جموںو کشمیر کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے اور چونکہ یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے‘ اس لیے پاکستان کے حق میں رائے دے گی۔
مشرف کے فارمولے کے ماخذ کے بارے میں اشارہ پاکستان کی حامی جمعیت المجاہدین کی قیادت کے ردعمل سے سامنے آتا ہے:جنرل مشرف ایک امریکی حل کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح کشمیر کے مسئلے پر نظریاتی پسپائی دکھا رہے ہیں اور کشمیر کے عوام سے دغابازی کررہے ہیں۔
جب واقعات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے نئے فارمولے کے پیچھے بین الاقوامی ڈور بہت واضح ہو جاتی ہے۔ یکم دسمبر ۱۹۹۸ء کو تاجر فاروق کاٹھواڑی (جو اصلاً وادی کشمیر کا باشندہ ہے) کی سربراہی میں کام کرنے والے کشمیر اسٹڈی گروپ نے ایک رپورٹ میں تجویز دی تھی:
’’جموں و کشمیر کی سابقہ ریاست کے ایک حصے کو (کسی بین الاقوامی تشخص کے بغیر) ایک خودمختار وحدت کے طور پر تشکیل دیا جائے جس میں پاکستان اور بھارت دونوں طرف آنے جانے کی سہولت حاصل ہو‘‘۔ دراصل یہ تجویز زمینی اور آمدورفت کی رکاوٹوں کے باوجود کشمیری زبان کے حوالے سے نئی ریاست کی تہذیبی ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتی ہے۔
آخری نتیجے کے طور پر اس گروپ نے جس کے کئی ارکان امریکی ایوانِ نمایندگان کے رکن ہیں یا دانش ور ہیں‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان وادی کشمیر کے لیے کنڈومونیم (ایسا علاقہ جس میں دو خودمختار ریاستوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں) کا کیس پیش کر دیا تھا۔ تقریباً چھے سال بعد صدر مشرف ایک حل کے طور پر کنڈومونیم کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس طرح ایک متحدہ جموں و کشمیر میں استصواب راے کے پاکستان کے سخت اور اصرار کیے جانے والے مطالبے کو ایک دم ترک کر دیتے ہیں۔ صدر مشرف کے تجویز کردہ سات حصوں کی مشابہت ان سات علاقوں تک جاتی ہے جن کا تعین کاٹھواڑی رپورٹ کے دوسرے حصے میں کیا گیا ہے جو بعد میں آئی۔ (فرنٹ لائن‘ ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۹ئ)
اس میں ایک تفصیلی نقشے کے ساتھ سات تجاویز ہیں جو امریکا کے سیاسی جغرافیے کے ماہرین کی مدد سے تیار کی گئی ہیں۔ ساتوں تجاویز میں کمیونل فالٹ لائن (مذہبی بنیادوں پر علیحدگی) واضح طور پر نظر آتی ہے۔ رپورٹ کی چھے تجاویز میں جموں و لداخ کے علاقوں کی تقسیم کی تجویز دی گئی ہے۔ تقسیم کے لیے اصل بنیاد مذہب محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ زبان‘ ثقافت اور معیشت کے بندھنوں کو کم اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک مکمل آزاد مسلم ریاست تخلیق کی جائے۔
اسی روزنامے میں ایک اور صحافی اور دانش ور مرالی دھر ریڈی‘ جنرل صاحب کے ۲۵ اکتوبر کے خطاب پر ۲۹ اکتوبر کی وزارت خارجہ کی توضیحات پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ جنرل صاحب نے جو کچھ کہا‘ وہ ایک کمانڈو کے انداز کا مظہر ہے اور وہ اپنے یوٹرن کے لیے فضا بنانے کے لیے یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں:
تجویز پر ایک نظرڈالنا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کو ۱۹۴۷ء کے بعد سے پاکستانی انتظامیہ کی کشمیر پالیسی کے بارے میں ایک بالکل نئی سوچ کا عنوان دیا جائے۔ پاکستان کا بیان کردہ موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نافذ کیا جائے اور کشمیریوں کو موقع دیا جائے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا۔
ایک ایسے موڑ پر جب بھارت کے ساتھ مکالمہ جاری ہے‘ کس چیز نے مشرف کو اپنی تجویز کو عوام کے سامنے لانے پر آمادہ کیا؟ نئی تجویز ۱۱؍۹ کے اثرات کا منطقی نتیجہ نظرآتی ہے۔ مشرف کو افغانستان پر یوٹرن اور طالبان سے لاتعلقی پر اس وقت مجبور ہونا پڑا جب ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک میں جڑواں ٹاور زمین بوس ہوگئے۔ ان قوتوں کے چیلنج نے‘ جو ’’دہشت گردی ‘‘کے خلاف امریکا کے نام نہاد اتحاد میں پاکستان کی شرکت کی مخالف ہیں‘ پاکستان کے اندر اس بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ کشمیر پر ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے۔
ایک اور بھارتی روزنامے دی ٹربیون میں ڈیوڈ دیوداس نے کشمیر ڈائری کے عنوان سے ۱۰ نومبر کی اشاعت میں بڑی دل چسپ اور کھری کھری باتیں لکھی ہیں جن پر پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور سیاسی قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے بلکہ سردھننا چاہیے:
بے چارہ جنرل مشرف! کشمیر کے بارے میں انھوں نے حال ہی میں جو تجویز دی ہے‘ اس کی تاریخی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے سرحد کے اس طرف کے ردعمل سے ان کو شدید طور پر ناامید ہونا چاہیے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جولائی ۲۰۰۱ء میں انھوں نے آگرہ میں اہتمام کر کے میڈیا میں جو نئی اٹھان (come uppance) حاصل کی وہ انھوں نے کھلی کھلی باتیں کر کے نمبر بناکر حاصل کی۔ لیکن اس دفعہ اسی انداز کے کھلے پن نے ان کو ایک تکلیف دہ صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ انھوں نے پاکستان کی سوداکاری کی پوزیشن کو علانیہ بیان کر کے‘ جس پر دونوں ممالک بالآخر راضی ہو سکتے ہیں‘ بے حد محدود کر دیا۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے اپنے ملک میں اپنے مخالفین کے ہاتھ میں اپنی ٹھکائی کے لیے موٹا ڈنڈا تھما دیا ہے۔
جنرل صاحب کو خاص طور پر جسونت سنگھ کا ردعمل پڑھ کر پریشانی ہوئی ہوگی جنھوں نے بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے کسی تصفیے کی تلاش میں سرحدوں میں تبدیلی کو مسترد کر دیا۔ مسٹرسنگھ این ڈی اے کی حکومت میں مختلف اوقات میں وزیرخارجہ‘ وزیر دفاع اور وزیر خزانہ رہے ہیں۔ صدر مشرف نے جس حل کا ذکر کیا ہے اس کے بہت قریب کے حل پر اس وقت بحث ہوئی ہے‘ جب کہ این ڈی اے کی حکومت تھی…
معلوم ہوتا ہے کہ جنرل صاحب جس چیز کو آخری پیش کش ہونا تھی‘ وہاں سے مذاکرات کا آغاز کر کے انتہائی پیچیدہ صورت حال کا شکار ہوگئے ہیں۔ بلاشبہہ یہی ایک سپاہی اور سیاست دان کا فرق ہے۔ غالباً ان کا اعتماد اس ملاقات کی بنیاد پر ہے جو انھوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ستمبر میں وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ کی تھی۔ یقینا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جس آدمی سے بات کر رہے ہیںوہ سیاست کی غیریقینی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا اور ایک دانش ور کی طرح حقائق پر انحصار کرتا ہے۔
اگر یہ سچ ہے تو صدر مشرف کو دو عوامل کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ پہلا: ڈاکٹر سنگھ نے ایک طویل مدت ایک کامیاب بیوروکریٹ کے طور پر گزاری ہے۔ دوسرا: اگر وہ سیاست دانوں کے طریقوں میں کوئی دقت محسوس کرتے بھی ہیں تو بہرحال وہ سرکاری مذاکرات کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔
فوجی حکمرانوں کے ملمع سازاور ابلاغی ماہرین جنرل مشرف کی ذہنی قلابازیوں اور تکے بازیوں پر جو بھی رنگ روغن چڑھانے کی کوشش کریں‘ عالمی میڈیا اور خصوصیت سے بھارتی میڈیا نے ان کی تجاویز کے اصل خدوخال کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے اور اس آئینے میں جناب کمانڈو صدر صاحب کی الٹی زقند کا اصل چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر بھارتی قیادت نے جس بے التفاتی بلکہ حقارت سے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور اپنے موقف سے سرمو ہٹنے سے انکار کردیا ہے‘ اس نے جنرل صاحب کی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اب وہ بھارت سے غلط اشاروں کا گلہ کر رہے ہیں اور کسی بچے کی طرح بلبلا کر کہہ رہے ہیں کہ اگر بھارت اٹوٹ انگ کی بات کرے گا تو ہم بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات کرنے لگیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمراں نہ برعظیم کی تاریخ کے نشیب و فراز سے واقف ہیں اور نہ ہندو قیادت کے ذہن اور عزائم کا حقیقی ادراک رکھتے ہیں۔ ان کی گرفت برہمن کی سیاست کاری‘ دھوکا دہی اور کہہ مکرنیوں پر بھی نہیں‘ اور وہ مکروفریب کے ان حربوں سے بھی ناآشنا ہیں جو کانگرس اور بھارت کی ہندو قیادت کا طّرہ امتیاز ہیں۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاست اور سفارت کاری کو اس کے مسلمہ آداب کے مطابق انجام نہ دیا جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ جو قیادت اپنے اصولی موقف کو اس سہل انگاری کے ساتھ ترک کر دیتی ہے اس کا انجام ناکامی اور ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی قیادت نے اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں یہی چوٹ کھائی اور جنرل پرویز مشرف قوم کو اسی ہزیمت اور پسپائی کی طرف لے جارہے ہیں۔ لیکن ان شاء اللہ پاکستانی قوم ان کو اس راہ پر ہرگز نہیں چلنے دے گی اور جموں و کشمیر کی عظیم جدوجہد آزادی سے کسی کو غداری کرنے کا موقع نہیں دے گی۔
اولاً‘ یہ نتیجہ ہے ملک میں جمہوری اداروں کی کمزوری‘ فردِ واحد کے ہاتھوں میں فیصلے کے اختیارات کے دیے جانے اور اس کے ہر مشورے بلکہ خیال آرائی کے قانون‘ ضابطۂ احتساب اور جواب دہی سے عملاً بالاتر ہونے کا۔ یہ اس بات کا کھلا کھلا ثبوت ہے کہ شخصی نظام سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا اور اس میں ایسی ایسی بھیانک غلطیاں ہوتی ہیں جو تاریخ کا رخ بدل دیتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جنرل صاحب کو ایسے پالیسی بیانات دینے کا اختیار کس نے دیا؟ ان کی حیثیت ایک عام تبصرہ گو کی نہیں‘ وہ پاکستان کی پالیسی کے امین اور اس کے پابند ہیں اور ان کو ذاتی خیالات کے اس طرح اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں۔ دستور کے مطابق پالیسی سازی‘ پارلیمنٹ اور اس کابینہ کا کام ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے۔ دستور میں صدر کے لیے صواب دیدی اختیارات کے تمام اضافوں کے باوجود‘ صدر کو پالیسی سازی یا طے شدہ پالیسی سے ہٹ کر بیان دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ وہ ان تمام معاملات میں کابینہ کی ہدایت کا پابند ہے۔ لیکن کیا ستم ہے کہ نہ پارلیمنٹ سے مشورہ ہوتا ہے‘ نہ کابینہ کسی مسئلے اور تجویز پر غور کرتی ہے‘ نہ وزارتِ خارجہ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور صدر مملکت ایک کمانڈو کی شان سے اتنے بنیادی امور کے بارے میں طے شدہ پالیسی سے ایسے جوہری انحراف پر مبنی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور سرکاری پارٹی کے ارکان مواخذہ کرنے کے بجاے تاویلیں کرنے اور آئیں بائیں شائیں کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اصل وجہ ایک شخص کے ہاتھوں میں اقتدار کا ارتکاز اور قومی اور اجتماعی محاسبے کا فقدان ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو غیرمؤثر بنا دیا گیا ہے۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست اور سفارت دونوں میں اصولی اور انتہائی (maximal) پوزیشن کے بارے میں اس وقت تک کوئی لچک نہیں دکھائی جاتی جب تک مخالف قوت اپنے پتے کھیل نہیں لیتی۔ جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ بھارت کا ہے اور لچک ہم دکھا رہے ہیں۔ تجویز بھارت کی طرف سے آنی چاہیے اور ردعمل ہمارا ہونا چاہیے لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ قابض قوت تو اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے‘ اور لچک ہم دکھا رہے ہیں اور ایک خیالی آخری (minimal)پوزیشن کو بات چیت کے آغاز میں پیش کر رہے ہیں۔ایں چہ بوالعجبی است۔
وقت آگیا ہے کہ اس بات کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے کہ اس کام کے لیے مخصوص اہلیت اور ایک ایسی سیاسی قیادت جسے تاریخی حقائق اور عالمی سفارت کاری کا گہرا ادراک ہو‘ ضروری شرط ہے۔ فوج کا اپنا ایک مزاج اور تربیت ہوتی ہے اور فوجی کمانڈ کا یہ کام نہیں کہ وہ اہم اور سنجیدہ سفارتی‘ سیاسی اور فنی معاملات پر جولانیاں دکھائیں بلکہ اصول تو یہ ہے کہ فوج بلاشبہہ دفاع کے لیے ہے‘ لیکن جنگ و صلح ایسے اہم امور ہیں کہ ان کو صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پھر آمریت کا تو خاصّہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے‘ اور خود کو ہر مشورے سے بالا سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حق اور قانون کا درجہ دینے لگتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو تباہی کا سبب بنتی ہے اور انسانوں کو ہٹلر‘ مسولینی اور اسٹالن بنا کر چھوڑتی ہے۔ ان حالات میں خوشامد‘ چاپلوسی اور مفاد پرستی کا کلچر جنم لیتا ہے۔ فیصلے حقائق اور میرٹ کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے اور قومی مفاد تک کو دائو پر لگا دیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں۔ کابینہ بھی کچھ اصولوں اورحدود کی پابند ہوتی ہے۔ غیر ذمہ دارانہ انداز میںاعلانات اور صرف اپنی مرضی کے مطابق اتفاق راے بنوانے کے ڈرامے نہیں ہوتے۔ ادارے فیصلے کرتے ہیں اور قومی مفاد کو ذاتی ترنگ کی چھری سے ذبح کرنے کا کسی کو موقع نہیں دیا جاتا۔ دیکھیے کہ بھارتی صحافی اور سفارت کار کلدیپ نیر جس کو جنرل صاحب نے ۲۵اکتوبر سے ہی پہلے اپنے ان خیالات عالیہ سے روشناس کرا دیا تھا‘ بگاڑ کی اصل وجہ کو کس طرح بیان کرتا ہے:
مشرف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ ایک حکمران کو جو کچھ کرنا چاہیے وہ بس یہ ہے کہ جرأت کا مظاہرہ کرے اور لوگ اس کی پیروی کریں گے۔ مشرف کو پاکستان میں بہت سے مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ جمہوریتیں اتفاق راے کی بنیاد پر کام کرتی ہیں نہ کہ حکم دینے پر‘ حکمران کتنے ہی جرأت مند کیوں نہ ہوں… مشرف سے ملاقات کے بعد میں نے محسوس کیا کہ انھیں بھارت کے زمینی حقائق کے بارے میں کچھ زیادہ جاننے کی ضرورت ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی‘ حکمران کانگریس‘ بی جے پی یا کوئی دوسری جماعت لائن آف کنٹرول کو تبدیل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ (روزنامہ ڈان‘ ۲۳ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
پاکستان کی کمزوری کی اصل وجہ قیادت کا دستور‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ اجتماعی فیصلہ کاری اور ادارتی نظم و احتساب سے بالا ہونے کا تصور رکھنا اور اس کیفیت کا مسلسل برداشت کیا جانا ہے۔ جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوگی پاکستانی قوم ۲۵ اکتوبر جیسے اعلانات کی طرح کی بھیانک غلطیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قومی مفاد سے ایسا خطرناک کھیل کھیلنے والوں کا مؤثر مواخذہ کیا جائے؟ کیا پارلیمنٹ اور قوم ایسی عاقبت نااندیش قیادت کو لگام دے گی یا اس کی سواری کے لیے بدستور اپنی پشت پیش کرتی رہے گی؟
اس وقت جو عالمی حالات ہیں ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ۱۱؍۹ کے بعد جو فضا بنا دی گئی ہے‘ وہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ امریکا سے دنیا بھر کے عوام کی بے زاری اور عراقی عوام کی مجاہدانہ مزاحمت اپنا رنگ دکھا کر رہے گی۔ امریکا کا جنگی بجٹ آج دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی جنگی بجٹ کے برابر ہوگیا ہے۔ امریکا کا تجارتی خسارہ اس وقت ۵۵۰ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ رہا ہے جو اس کی کل قومی پیداوار کے ۷ئ۵ فی صد کے برابر ہے۔ اسی طرح اس کے بجٹ کا خسارہ ۴۰۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ امریکا میں قومی بچت کی سطح بہت گرگئی ہے اور دنیا کی دوسری اقوام کی قومی بچت کو امریکا کے لیے استعمال کرنے پر ہی اس کی ترقی بلکہ بقا کا انحصار ہے۔ اس وقت دنیا کی بچت کا تقریباً ۸۰ فی صد یعنی تقریباً ۶ئ۲ بلین ڈالر روزانہ امریکا کی نذر ہو رہا ہے۔ نتیجتاً امریکا دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بن گیا ہے۔ امریکی قیادت اور دنیا بھر کے عوام کے درمیان خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے۔ حالات ایک نئے رخ پر جا رہے ہیں--- مسئلہ وقت کا ہے‘ صبروہمت کا ہے‘ بصیرت اور تاریخ شناسی کا ہے۔ اور وقت ہمارے ساتھ ہے بشرطیکہ ہم حکمت اور صبر کا راستہ اختیار کریں۔
اسی طرح جموں و کشمیر کے زمینی حقائق بھی غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ بھارت ریاستی ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈے استعمال کر کے بھی وہاں کے عوام کو اپنی گرفت میں رکھنے میں ناکام ہے۔ اس امر پر سب ہی کا اتفاق ہے کہ وادیِ کشمیر ہی نہیں‘ جموں تک میں بھارتی حکومت اور دہلی کے اقتدار سے مکمل بے زاری ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے جن معروف زمانہ آزاد خیال اور سیکولر صحافیوں نے مقبوضہ جموں کشمیر کا دورہ کیا تھا‘ ان میں سے ہر ایک اس پر متفق ہے کہ وہاں کے عوام بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں۔ لبرل لابی کے ایک سرخیل کے الفاظ میں: alienation from Dehli is complete & irreversible. (دہلی سے بے زاری مکمل اور ناقابل رجوع ہے)۔
یہی وجہ ہے کہ اگر ۱۹۶۵ء کے زمانے میں پاکستان سے جانے والے کمانڈوز کو بھارتی فوج پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو آج کیفیت یہ ہے کہ چند ہزار مجاہدین نے سات لاکھ بھارتی فوجیوں کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ جہاد و حریت کی تمام تر جدوجہد مقبوضہ کشمیر کے جا ں نثاروں کے لہو کا ثمر ہے جس کا زندہ ثبوت ہر بستی میں وہاں کے شہیدوں کے مرقد ہیں۔ تاہم آزاد کشمیر اور پاکستان سے جو مجاہدین وہاں گئے ہیں وہ وہاں کے عوام کے ہیرو ہیں جن کو مکمل پناہ دی جاتی ہے اور شہادت کی صورت میں ۳۰‘۳۰ ۴۰‘۴۰ بلکہ ۵۰‘۵۰ ہزار افراد نماز جنازہ میں شرکت کر کے ان سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر جنازہ بھارت کے تسلط اور قبضے کے خلاف بستی بستی ایک استصواب کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ مزاحمت‘ متحدہ جہاد کونسل اور حریت کانفرنس کے قائد سید علی شاہ گیلانی نے جنرل پرویز مشرف کی تجاویز کی سخت مخالفت کی ہے اور پاکستانی قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ جب ہم اپنی جانوں کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور استبداد کی قوتوں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں توآپ کمزوری اور تھکن کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ ہم اس وقت آپ سے استقامت کی توقع رکھتے ہیں۔ اسلامی تاریخ سخت سے سخت حالات میں بھی حق کی خاطر ڈٹ جانے والوں کی تابناک مثالوں سے بھری پڑی ہے اور آج بھی فلسطین‘ عراق‘ افغانستان‘ کشمیر اور شیشان ہر محاذ پر طاقت ور دشمن کا مقابلہ کرنے والے کمزور مسلمان سینہ سپر ہیں۔ پھر پاکستان کی قوم اور قیادت کیوں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رہی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے جب مائوزے تنگ سے تائیوان کے بارے میں بات کی تو اس نے یہ کہہ کر کسنجر کی زبان بند کر دی تھی کہ’’ہم اس معاملے میں ۱۰۰ سال بھی انتظار کرسکتے ہیں‘‘۔
اہل جموں و کشمیر نے ۵۷ سال جدوجہد کی ہے اور ۱۹۸۹ء کے بعد سے تو ان کی جدوجہد دسیوں گنا بڑھ گئی ہے۔ کیا ایسی جرأت مند اور جان پر کھیل جانے والی قوم کی ہمتوں اور امنگوں کے باب میں ہم بحیثیت قوم فخر اور تائید کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرسکتے ہیں؟ وقت ہمارے ساتھ ہے۔ بھارت اس انقلابی قوت کا تادیر مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تاریخ میں کوئی بھی استعماری اور قابض قوت ہمیشہ غالب نہیں رہی ہے۔ جس قوم نے بھی بیرونی استبداد کے خلاف سپر نہ ڈالنے کا عزم کیا ہے‘ وہ ایک دن اپنی آزادی حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے: تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔ یہی زمانے کی کروٹیں اور نشیب و فراز ہیں جن سے تاریخ عبارت ہے۔
کیا ہم تاریخ کے اس سبق اور اللہ کے اس قانون کو بھول گئے ہیں؟ آزادی‘ ایمان اور عزت کوئی قابلِ خریدوفروخت اشیا نہیں۔ کشمیری قوم نے بھارتی وزیراعظم کے ۲ئ۵ بلین ڈالر کے معاشی پیکج کا ایک ہی جملے میں جواب دے دیا: ’’ہمیں سیاسی آزادی درکار ہے‘ معاشی پیکج ہمارا ہدف نہیں‘‘۔ اہلِ کشمیر نے تو اپنا جواب دے دیا‘ سوال یہ ہے کہ پاکستانی قوم کا جواب کیا ہوگا اور پاکستانی فوج جس کا مقصد وجود ہی ملک کا دفاع‘ کشمیر کی آزادی کا حصول اور علاقے پر بھارت کی بالادستی کو حدود کا پابند کرنا ہے‘ اس کا جواب کیا ہوگا؟ کیا یہ فوج معاشی کاروبار کرنے‘ زمینوں کا انتظام کرنے‘ سول ملازمتوں اور سیاست پر قبضہ کرنے کے لیے ہے یا ملک کے دفاع‘ مظلوموں کی مدد اور پاکستان کی شہ رگ کو دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ فوج کے سربراہ نے اپنی دستوری‘ قانونی‘ اخلاقی ہر ذمہ داری کے برخلاف ایک ایسی تجویز پیش کر دی ہے جس کے معنی کشمیر کی تقسیم ہی نہیں بلکہ کشمیر کو اس خطے کے نقشے سے ہمیشہ کے لیے غائب کر دینے کے مترادف ہے۔ ان کی غفلت اور خوش فہمی کا یہ حال ہے کہ ع
اک نشترِ زہرآگیں رکھ کر نزدیک رگ جاں بھول گئے!
اس خطرناک کھیل کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟ پارلیمنٹ اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ اپنا کردار ادا کرے۔ قومی احتساب کو موثر بنائے اور اس قومی اجماع پر سختی سے قائم ہوجائے جس کی شیرازہ بندی قائداعظمؒ نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی‘ اور اپنی ساری توجہ اصولی موقف پر مکمل اعتماد اور استقلال کے ساتھ مرکوز کرے اور کشمیری عوام کی تحریکِ مزاحمت کی بھرپور معاونت کی پالیسی اختیار کرے اور پاکستان کی معاشی‘ اخلاقی‘ عسکری اور سیاسی قوت میں اضافے کے لیے اقدامات کرے تاکہ یہ قوم اپنا حق لے سکے‘ مظلوموں کی مدد کر سکے اور ظالموں کو ظلم سے روک سکے:
وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًاo(النسائ۴:۷۵)
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِخاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
اور یہ اس لیے کہ ؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوے کم آب
اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی
جس میں نہ ہو انقلاب‘ موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات‘ کش مکش انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خون جگر کے بغیر
اس قوم کا مقدر پسپائی نہیں‘ اپنے ملّی اور تاریخی اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا ہے۔ یہ کم ہمت لوگوں کا شعار ہے کہ زمانے کے ساتھ بہ جاتے ہیں۔ زمانہ ساتھ نہ دے تو مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ وہ زمانے کو بدلنے کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے‘ اور یہی عزت اور کامیابی کا راستہ ہے۔ آج جن کے ہاتھوں میں مسلمانوں کی قیادت ہے اُن کو ہوا کے رخ پر مڑجانے والے مرغ بادنما کے مذموم کردار سے احتراز کرنا چاہیے اور اپنے مقاصد اوراہداف کے حصول کے لیے زمانے کو مسخر کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ؎
حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد تو بازمانہ ستیز
صبح و شام اقبال اور قائداعظم کا نام لینے والے کیا اقبال اور قائداعظم کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہیں؟
غازی فی سبیل اللہ ‘حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دعوت دی‘ انھوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا‘ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انھیں عطا کر دیا۔ (ابن ماجہ)
سبحان اللہ! کیا شان ہے! سب سے بڑی ذات میزبان ہے۔ اس کے بلاوے پر اس کے بندے مہمان بن کر حاضر ہیں‘ جو مانگیں وہ ملے۔ وہ جو اس کے بلاوے پر نہ جائے وہ کتنا بدبخت ہے‘ جب کہ بلاوا انھی کو ہوتا ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے کہ انسان استطاعت رکھتے ہوئے بھی حج کا ارادہ نہ کرے۔
حج جلدی سے کر لیں۔ تم میں سے کوئی آدمی نہیں جانتا کہ اسے کیا رکاوٹ پیش آجائے۔ (ابوالقاسم اصفہانی)
جو کام بعد میں بھی کیا جا سکتا ہو‘ انسانی فطرت ہے کہ وہ اسے مؤخر کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ بسااوقات ترک فرض کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس لیے اگر استطاعت ہو تو پھر تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
جو حج کے لیے نکلا‘ اس کے بعد فوت ہو گیا اس کے لیے قیامت تک حج کا اجر لکھا جائے گا‘ جو عمرہ کرنے کے لیے نکلا پھر مر گیا تو اس کے لیے قیامت تک عمرہ کرنے کا اجر لکھا جائے گا‘ اور جو شخص غازی بن کر نکلا پھر مر گیا تو اس کے لیے قیامت تک غازی ہونے کا اجر لکھا جائے گا۔ (ابویعلٰی)
اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ اس کی بندگی کے دوران میں جو فوت ہو جائے وہ مرنے کے بعد بھی اس عبادت میں مشغول شمار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہزاروں لاکھوں سال بعد قیامت برپا ہو اس کے لیے یہ عبادت لکھی جائے گی اور اسے اجر ملتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اس سے کوئی کمی نہیں آتی۔ حج اور جہاد کے علاوہ اگرکوئی اور عبادت ہو جس میں آدمی مشغول ہو تو اس کا بھی اجر ملے گا۔ ایک آدمی جو اپنے بعد اپنا اجر جاری رکھنا چاہے‘ اس کے لیے آسان نسخہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بندگی کی نیت دل میں تازہ رکھے۔ اس سے وہ ہمہ وقت عبادت میں مصروف سمجھا جائے گا اور ثواب پاتا رہے گا۔ ہے کوئی جو اس بے پایاں اجرو ثواب کی طرف لپکے اور اپنی جھولیاں بھرے؟ کاش! ہم سب کو اس کی توفیق ملے۔
حج میں خرچ کرنے کا اجر جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنے کی طرح سات سو گنا ہے۔ (احمد‘ طبرانی)
ان دونوں عبادتوں میں آدمی گھر بار چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اس پر خصوصی نظر کرم فرماتے ہیں اور ہر عبادت کی طرح ’’انفاق‘‘ کا ثواب بھی سات سو گنا ہوجاتا ہے۔
حاجی حج کے لیے پاکیزہ خرچے کے ساتھ نکلتا اور اپنا پائوں رکاب میں رکھتا ہے اور لبیک اللھم لبیک کی صدا لگاتا ہے تو آسمان سے ندا کرنے والا ندا دیتاہے لبیک و سعدیک! تیرا خرچہ حلال‘ تیری اونٹنی حلال‘ تیرا حج مقبول اور گناہ سے پاک ہے ‘اور جب ناپاک خرچہ کے ساتھ نکلتا ہے تو آسمان سے ندا دینے والا ندا دیتا ہے: کوئی حاضری نہیں‘ کوئی رحمت نہیں تجھ پر‘ تیرا توشہ حرام‘ تیری سواری حرام‘ تیرا نفقہ حرام اور تیرا حج مقبول نہیں۔ ( طبرانی فی الاوسط)
بہت سے لوگوں کو حج کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح سے وہ حج یا عمرہ پر چلے جائیں۔ یہ اہتمام نہیںکرتے کہ خالص حلال مال سے یہ سعادت حاصل کریں۔ چنانچہ ایسے لوگ بسا اوقات حرام مال سے حج کرکے اپنے لیے ثواب کی بجائے عذاب کا سامان کرتے ہیں۔
حضرت عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ مدینہ میں مہنگائی زیادہ ہو گئی‘ لوگ سخت تکلیف میںمبتلا ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاصبر کرو‘ خوش خبری قبول کرو‘ میں نے تمھارے مختلف پیمانوں کے لیے برکت کی دعا کی ہے‘ اکٹھے مل کر کھائو‘ الگ الگ نہ کھائو‘ ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہے‘ دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہے‘ چار کا پانچ اور چھے کے لیے کافی ہے‘ اکٹھے کھانے میں برکت ہے۔ جس نے مدینہ کی گرمی اور سختی پر صبر کیا‘ میں قیامت کے روز اس کی سفارش کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا‘ اور جو اس سے منہ موڑ کر چلا گیا اللہ اس کی جگہ بہتر آدمی کو لے آئے گا۔ جو مدینہ کے ساتھ برے ارادے رکھے گا‘ اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ (مسند بزاز)
ہجرت سے پہلے مدینہ کی آب و ہوا صحت افزا نہ تھی۔ سخت قسم کے بخار کی وبا لوگوں کو کمزور کر دیتی تھی۔ ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرکزِ اسلام کی آبادی کے لیے جو دعائیں کیں‘ ان کے نتیجے میں یہ بیماریوں اور وبائوں سے محفوظ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شہر میں رہایش کو فضیلت اور برکت عطا فرمائی ہے۔ اہل ایمان کے سینوں میں مدینہ کی محبت اور تڑپ ہے۔ جو رہایش پذیرہیں وہ رہایش کی برکت پاتے ہیں اور دوسرے ’’تمنا‘‘ کی برکت پاتے ہیں۔ سچی تمنا ہو تو مدینہ میں رہایش کی برکت دور رہتے ہوئے بھی مل جائے گی۔ نبیؐ نے فرمایا‘ انما الاعمال بالنیات ، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
دو آدمی مل کر کھائیں تو ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہو گا۔ معاشی حالت کو بہتر بنانے اور تمام لوگوں تک ضروریات زندگی اور رزق کے دائرے کو وسیع کرنے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کھانے میں دوسرے کو شریک کرے۔ لیکن بات صرف مل بیٹھ کر کھانے تک کی نہیں‘ جو کچھ جسے ملا ہے‘ خواہ اس نے اپنے قوت بازو سے ہی حاصل کیا ہو‘ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صرف اس کا نہیں‘ اس میں دوسروں کے حقوق ہیں۔ اپنی ضروریات بھی انسان اوسط معیار سے پوری کرے‘اسراف و تبذیر‘ نمود ونمایش اور کبر سے بچے۔ مسلمانوں کا کلچر ہمدردی اور غم گساری کا اور ایک دوسرے کے کام آنے کا کلچر ہے۔ جتنا ہم اس سے دُور رہتے ہیں‘ دنیا میں بھی تکالیف اٹھاتے ہیں‘ آخرت میں بھی اجر سے محروم رہتے ہیں۔ سب اپنا اپنا جائزہ لیں اور اجتماعی طور پر بھی اس کلچر کو اپنانے کی تدابیر کی جائیں۔
زمزم کا پانی جس مراد کو پانے کی نیت سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے۔ اگر آپ اسے بیماری سے شفا کے لیے پیئیں تو اللہ بیماری سے آپ کو شفا دے دیں گے‘ اور اگر آپ بھوک سے سیر ہونے کے لیے پئیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو سیر کر دے گا‘ اور اگر پیاس بجھانے کے لیے پئیں تو اللہ تعالیٰ پیاس کو بجھا دیں گے۔ یہ جبرائیل علیہ السلام کے پائوں کے دبائو سے بنا اور وہ پانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو پلایا۔ (دارقطنی‘ حاکم)
’’زم زم‘‘ ایک زندہ معجزہ ہے جسے حاجی مشاہدہ بھی کرتے ہیں او ر اس سے فیض بھی حاصل کرتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ انسان جو اس پانی سے اپنے کام و دہن اور جسم کو سیراب کرے‘ جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سیراب کیا۔ یہ سوچ کر زمزم پیا جائے تو پھر کیوں نہ وہ تمام مرادیں حاصل ہوں جن کے حصول کے لیے زمزم پیا گیا ہو۔
حج عبادات میں اس لحاظ سے زیادہ نمایاں ہے کہ یہ کئی عبادات کو جمع کرتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ واحد عبادت ہے جو انسان کے روحانی‘ مالی اور بدنی‘ تینوں پہلوئوں پر مشتمل ہے۔ یہ خصوصیات نماز‘ روزہ اور زکوٰۃ میں یکجا نہیں ملتی ہیں۔
حج میں آدمی بیت اللہ کا سفر کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی مکمل روحانی اصلاح ہوجائے۔ اس سفر کا آغاز وہ مکمل طور پر اپنے رب کی طرف لوٹ آنے کے اعلان سے کرتا ہے۔ اگر کسی نے اس پر ظلم کیا ہوتا ہے تو وہ انتقام کے بجاے اس معاملے کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے۔ اپنے تمام حسابات کا تصفیہ کر کے اپنے اہل و عیال کے لیے نفقے کا اہتمام کرتا ہے‘ تاکہ اس کی واپسی تک اُن کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی خیال رکھتا ہے کہ اس کا مال حلال اور پاک ہو‘ نیز اس دوران وہ اپنے بارے میں یا فقرا و مساکین پر خرچ کرنے میں بخل میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کے لیے میدان جنگ میں آجاتا ہے اور اس واقعے کی یاد تازہ کرتا ہے جب حضرت ابراہیم ؑاور ان کی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل ؑنے شیطان کے وسوسوں اور اکساہٹوں کے باوجود اپنے رب سے وفا کرتے ہوئے قربانی کا نذرانہ پیش کیا۔
اس طرح حاجی اپنی اس عبادت کے دوران کئی پہلوئوں سے تربیت حاصل کرتا ہے‘ جن میں توبہ‘ انفاق‘ سخاوت‘ سچائی‘ بھلائی‘ احسان اور صبرنمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ نیز وہ حرص اور بخل جیسی بری عادتوں سے بھی چھٹکاراحاصل کرلیتا ہے۔
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا -
لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔(اٰل عمرٰن۳:۹۷)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟آپؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا۔پوچھا گیا کہ اس کے بعد؟ فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ۔پوچھا گیا: اور اس کے بعد؟فرمایا: حج مبرور‘ یعنی مقبول حج ۔
حج‘ ماہ رمضان کے بعد ادا کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی تربیت دیتا ہے۔ اس کے فوراً بعد حج کا حکم اس حکمت کے تحت دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے اخلاقی اور اجتماعی اقدارکے نظام کا تسلسل جاری و ساری رہے‘ اور ان کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کا جو سلسلہ رمضان کے روزوں اور قیام اللیل کے ذریعے شروع ہوا تھا‘ وہ مسلسل جاری رہے۔
قرآن پاک کے تربیتی نظام کے مطابق جس طرح رمضان میں برے اعمال سے چھٹکارے اور روحانی پاکیزگی کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے‘ اسی طرح حج کے مہینوں میں عملی طور پر انسان کی ذات اور اس کے نفس کی اصلاح اور تزکیہ و تربیت کو خصوصی ہدف بنایا جاتا ہے‘ تاکہ اسے ظلم و زیادتی اور گناہ کے کاموں میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔ خصوصاً‘ جب کہ ان حرمت والے مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے بے گناہوں کی جان کی حفاظت کے پیش نظر قتل و غارت کو حرام ٹھیرایا ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں انسانی جان کے تقدس و حرمت کا جذبہ بیدار کرتا ہے‘ اور یہ واضح کرتا ہے کہ برے اعمال سے اپنی حفاظت اور اچھے اعمال سے اپنے آپ کو مزین کرنے اور اپنی ذات کے تزکیہ و تربیت کے حوالے سے حج کا کیا مقام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍیَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۱۹۷)
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے‘ اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل‘ کوئی بدعملی‘ کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو اور جو نیک کام تم کرو گے‘ وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِحج کے لیے زادِراہ ساتھ لے جائو‘ اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔
کسی مقام یا زمانے کو محترم قرار دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان افہام و تفہیم‘ باہمی تعاون‘ چشم پوشی اور الفت و محبت جیسی اقدار کو اپنانے اور غیظ و غضب‘ لڑائی جھگڑے‘ بغض و حسد‘ مخالفت اور تفرقہ بازی جیسے رذائل سے اپنے دامن کو بچائے رکھنے کی تربیت حاصل کریں۔ اس کے نتیجے میں اس مخصوص مدت میں اور مخصوص مقامات پر میسر امن و سکون کے لمحے ہمیں اپنی زندگی کی حقیقی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
آج مسلمان ان اخلاقی قدروں کے ذریعے تربیت حاصل کرنے کے بے حد محتاج ہیں کیونکہ اس وقت ہماری صفوں میں افتراق و انتشار اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ آج امت مسلمہ جس پستی و انحطاط سے دوچار ہے‘ اس سے نجات کے لیے دینی اقدار سے آراستہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں۔
حج کے موقع پر اس اہم ترین اجتماع کے دوران‘ جس میں پوری دنیا سے آئے ہوئے عازمینِ حج کلمہ توحید کے جھنڈے تلے ایک سالانہ کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں‘ سب اس بات پر خوشی سے سرشار ہوتے ہیں کہ اُن کا تعلق عقیدۂ توحید پر ایمان رکھنے والی ایک اُمت سے ہے اور اُن کا یہ اجتماع اُن کی مقدس سرزمین میں منعقد ہو رہا ہے۔ قرآن کے نظامِ تربیت کے تحت اس سالانہ اجتماع کا ایک مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو عقیدئہ توحید سے وابستگی‘ اور اللہ کے لیے محبت کی بنا پر اپنے مقامی ماحول‘ مسائل اور سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں باہمی مشاورت‘ بحث و مباحثے ‘ تبادلۂ خیال اور باہمی تعارف و قربت کا موقع فراہم کیا جائے۔
بیت اللہ کے طواف کے دوران محدود دائرے میں چکر لگاتے ہوئے حاجی نظم و ضبط کی تربیت بھی حاصل کرتا ہے اور ایمان کی سچائی پر اس کا یقین بھی بڑھتا جاتا ہے‘ اور اس جگہ کی عظمت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کعبے کا غلاف پکڑتا ہے تو اس دوران اسے اللہ کے لیے خشوع اور عاجزی اور اس کے سامنے گڑگڑانے کی تربیت حاصل ہوتی ہے اور اُسے اطمینانِ قلب کی بھرپور کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حجراسود کا بوسہ لیتا ہے تو اس کیفیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ عمل انسان کو اپنے رب کی طرف لوٹنے کا احساس دلاتا ہے اور اس سے انسان میں رب العالمین کے ساتھ قربت کا احساس مزید تقویت پاتا ہے۔ اسی طرح حاجیوں کا حجراسود تک پہنچنے کے لیے بھرپور کوشش اُن کے اندر مشترکہ مقاصد کے لیے پختہ عزم اور بلند ارادوں میں مضبوطی اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد کا احساس پیدا کرتا ہے۔ رنگ و نسل کے اختلاف کے باوجود ایک گھر کی زیارت کرتے ہوئے ‘حرم مکی کے چاروں طرف محبت اور پاکیزگی کا دور دورہ ہوتا ہے جو حاجی کو اس گھر کے رب کی عظمت کے احساس سے سرشار رکھتا ہے۔
عرفات کے میدان میں وقوف کے لیے موجود جمِ غفیر سے یومِ حشر کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ یہاں مخلوقِ خدا بڑی تعداد میں جمع ہوتی ہے‘ اگرچہ ان کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر ہر ایک اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس سے دعائیں مانگتا ہے اور سفید چادروں میں ملبوس سراپا عجز و انکسارہوتا ہے۔ انسانوں کے ہجوم بے کراں میں اور سورج کی تیز شعاعوں کی زد میں ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں۔ پسینہ بہہ رہا ہوتا ہے اور وہ اپنے رب کے آگے تسلیم و رضا کی تصویر بن کر دن بھر اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔
مسجد نمرہ کے مقام پر پہنچتے ہیں تو یہ خیالی منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہیں اور خطبۂ حجۃ الوداع پیش فرما رہے ہیں‘ جس میں وہ مسلمانوں کو خبر دے رہے ہیں کہ ان کا دین مکمل ہوگیا ہے۔ یہ آواز دلوں میں گھر کر جاتی ہے۔ اس سے سفرِحیات کے اختتام کا یقین پختہ ہوجاتا ہے۔ ہر حاجی کی دل کی امنگ ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ بخیر اور حالت ِایمان میں ہو۔
جیسے ہی غروبِ آفتاب کا وقت قریب ہوتا ہے تو حاجی کوچ کی تیاری شروع کر دیتا ہے‘ گویا کہ وہ دنیا کو خیرباد کہہ رہا ہے۔ لوگوں کی دوڑ دھوپ شروع ہوجاتی ہے۔ ہر ایک کو کسی سواری کی تلاش ہوتی ہے تاکہ بَرُّ الأمان میں پہنچ سکے۔ مشعر الحرام سے کنکریاں اٹھا کر آدمی اپنے دل میں یہ عزمِ مصمم لے کر نکلتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے ساتھ وفاداری کرے گا اور اس غلط رسم کو توڑ کر رکھ دے گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَo ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (البقرہ ۲:۱۹۸-۱۹۹) ’’پھر جب عرفات سے چلو تو مشعرِحرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمھیں کی ہے‘ ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو۔ یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
پھر جب حاجی منیٰ میں ٹھیرتا ہے تو اپنے ساتھ جو کنکریاں لے کر آیا ہوتا ہے اُن کے ذریعے شیطان کو مارتاہے۔ گویا ان چھوٹے چھوٹے پتھروں سے وہ اُسے سنگ سار کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن تمام رذائل سے بچنے کی کوشش کرے گا جو شیطان نے انسان کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے حاجی کو سچائی‘ اخلاص‘ نصیحت افروزی اور پختہ ارادے کا درس ملتا ہے۔ وہ اس دوران نفسانی خواہشات اور اس کی شرارتوں کو پاے حقارت سے ٹھکراتا ہے‘ کیونکہ یہی چیزیں افراد اور معاشروں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔
حاجی کو نفس کی آگ سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے۔ دورانِ حج اس کا نفس اطمینان و سکون اور قناعت کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت انفاق و عطا کے ایک بہتے دریا کی سی ہوتی ہے۔ مسلمان جب اللہ کی راہ میں کوئی تحفہ پیش کرتا ہے تو اس سے قربانی‘ وفاداری‘ ایثار‘ اخلاص اور تسلیم و رضا کی اقدار کو فروغ ملتا ہے۔ وہ جب اللہ کی راہ میں کسی جانور کے گلے پر چھری چلاتا ہے تو جانور کے خون کے گرتے ہی اس کے گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ اس طرح یہ قربانی طہارت وپاکیزگی کے ساتھ قوتِ ارادی کے لیے بھی حجت کا کام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمھارے لیے شعائراللہ میں شامل کیا ہے‘ تمھارے لیے اُن میں بکثرت فوائد ہیں‘ پس انھیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو‘ اورجب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھائو اور اُن کو بھی کھلائو جو قناعت کیے بیٹھے ہیں‘ اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمھارے لیے مسخر کیا ہے‘ تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں‘ نہ خون‘ مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے اُن کو تمھارے لیے اس طرح مسخرکیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ! بشارت دے دے نیکوکار لوگوں کو‘‘۔(الحج ۲۲:۳۶-۳۷)
قربانی کا یہ جذبہ حاجی کو غلط اقدار اور شیطانی وسوسوں اور اقدامات کی بیخ کنی کے لیے قوت اور ہمت عطا کرتا ہے۔ خصوصاً اس وقت‘ جب انسان کا اپنے رب سے قرب و محبت‘ خشوع وخضوع اور اخلاص کا جذبہ اپنی انتہا پر ہوتا ہے۔ اس وقت شر کے مقابلے کے لیے اس کا عزم مزید پختہ ہو جاتا ہے اور وہ آگے بڑھ کر اس کی راہ روکنے کے لیے اپنے اندر قوت محسوس کرتا ہے۔ گویا حج ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کے ذریعے اس مقدس سرزمین میں قیام کے دوران حاجی کے احساسات میں انقلاب آجاتا ہے۔ اس کا دل اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ وہ یہ عزم صمیم لے کر گھر لوٹتا ہے کہ وہ خدا کی نافرمانی‘ گناہوں اور تمام رذائل کو اس طرح چھوڑ دے گا جس طرح اُس نے ارض مقدس میں اپنے رب کے حضور اپنے روز مرہ کے لباس کواتار کر اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیا تھا۔ اس سے اُسے یہ یاد دہانی بھی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کرے گا‘ نیز انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حاجی کو اسلامی جماعت کی قوت کا احساس بھی دلاتا ہے اور اس کے دل میں اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے کا جذبہ بھی بیدار ہو جاتا ہے جس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
حج کے بعد آدمی برائیوں کے میل سے پاک ہو جاتا ہے۔ اس کا دل صدف سے نکلے ہوئے سچے موتی کی مانند شفاف ہوجاتا ہے اور نتیجتاً اس کے کردار میں پاکیزگی و پختگی آجاتی ہے۔ اس کا ارادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس کی روح فتح و کامرانی کے جذبے سے سرشار ہوجاتی ہے جو اس کے حوصلوں اور عزائم کی بلندی کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ جب اس سفر سے واپس لوٹتا ہے تو وہ ایک نیا اور بدلا ہوا انسان ہوتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ حَجَّ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَلَدَتْـہٗ اُمُّہٗ، جس نے حج کیا اور اس میں نہ کوئی شہوانی باتیں کیں اور نہ کوئی نافرمانی کا کام کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی اس کی ماں نے اُسے جنا ہو! (ماخوذ: ماہنامہ الحج والعمرہ‘سعودی عرب‘ جلد۵۸‘ عدد۸‘ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
دنیا میں جہاں جو خرابی بھی پائی جاتی ہے اُس کی جڑ صرف ایک چیز ہے‘ اور وہ ہے اللہ کے سوا کسی اور کی حاکمیت تسلیم کرنا۔ یہی اُمُّ الخبائث ہے۔ یہی اصل بِس کی گانٹھ ہے۔ اِسی سے وہ شجرِخبیث پیدا ہوتا ہے جس کی شاخیں پھیل پھیل کر انسانوں پر مصیبتوں کے زہریلے پھل ٹپکاتی ہیں۔ یہ جڑ جب تک باقی ہے‘ آپ شاخوں کی جتنی چاہیں قطع و برید کرلیں‘ بجز اِس کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کہ ایک طرف سے مصائب کا نزول بند ہو جائے اور دوسری طرف سے شروع ہو جائے۔
ڈکٹیٹرشپ یا مطلق العنان بادشاہی کو مٹایا جائے گا توحاصل کیا ہوگا؟ یہی نا کہ ایک انسان یا ایک خاندان خدائی کے مقام سے ہٹ جائے گا اور اس کی جگہ پارلیمنٹ خدا بن جائے گی۔ مگر کیا فی الواقع اس طریقے سے انسانیت کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے؟ کیا ظلم اور بغی اور فساد فی الارض سے وہ جگہ خالی ہے جہاں پارلیمنٹ کی خدائی ہے؟
امپریلزم کا خاتمہ کیا جائے گا تو اس کا حاصل کیا ہوگا؟ بس یہی کہ ایک قوم پر سے دوسری قوم کی خدائی اُتر جائے گی۔ مگر کیا واقعی اس کے بعد زمین پر امن اور خوش حالی کا دَور شروع ہوجاتا ہے؟ کیا وہاںانسان کو چین نصیب ہے جہاں قوم آپ اپنی خدا بنی ہوئی ہے؟
سرمایہ داری کا استیصال ہوجائے گا تو اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا؟ صرف یہ کہ محنت پیشہ عوام مال دار طبقوں کی خدائی سے آزاد ہو کر خود اپنے بنائے ہوئے خدائوں کے بندے بن جائیں گے۔ مگر کیا اس سے حقیقت میں آزادی‘ عدل‘ اور امن کی نعمتیں انسان کو حاصل ہوجاتی ہیں؟ کیا انسان کو وہاں یہ نعمتیں حاصل ہیں جہاں مزدوروں کے اپنے بنائے ہوئے خدا حکومت کر رہے ہیں؟
اللہ کی حاکمیت سے منہ موڑنے والے زیادہ سے زیادہ بہتر نصب العین جو پیش کرسکتے ہیں وہ بیش ازیں نیست کہ دنیا میں مکمل جمہوریت قائم ہوجائے‘ یعنی لوگ اپنی بھلائی کے لیے آپ اپنے حاکم ہوں۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ یہ حالت واقعی دنیا میں رونما ہوبھی سکتی ہے یا نہیں(تجربات شاہد ہیں کہ حقیقی جمہوریت آج تک دنیا میں کبھی قائم نہیں ہوسکی اور عقلی دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ہونا عملاً محال ہے)‘ غور طلب سوال یہ ہے کہ ایسی حالت اگر رونما ہوجائے تو کیا اُس فرضی جنت میں انسان خود اپنے نفس کے شیطان‘ یعنی اُس جاہل اور نادان ’’خدا‘‘ کی بندگی سے بھی آزاد ہوجائے گا جس کے پاس خدائی کرنے کے لیے علم‘ حکمت‘ عدل‘ راستی کچھ بھی نہیں‘ صرف خواہشات ہی خواہشات ہیں‘ اور وہ بھی اندھی اور جابرانہ خواہشات۔
غرض دنیا کے مختلف گوشوں میں انسانی مصائب اور پریشانیوں کے جتنے حل بھی سوچے جارہے ہیں ان سب کا خلاصہ بس اتنا ہی ہے کہ خدائی یا حاکمیت بعض انسانوں سے سلب ہوکر بعض دوسرے انسانوں کی طرف منتقل ہوجائے۔ اور یہ مصیبت کا ازالہ نہیں ہے بلکہ صرف اُس کا اِمالہ ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ سیلابِ بَلااب تک جس راستے سے آتا رہا ہے اُدھر سے نہ آئے بلکہ دوسرے راستہ سے آئے۔ اِس کو اگر حل کہا جا سکتا ہے تو یہ ایسا ہی حل ہے جیسے دق کی بیماری کو سرطان سے تبدیل کر لیا۔ اگر مقصود محض دِق کو دُور کرنا تھا تو بے شک آپ کامیاب ہوئے‘ لیکن اگر اصل مقصد جان بچانا تھا تو ایک پیامِ اجل کو دوسرے پیکِ اجل سے تبدیل کرکے آپ نے کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کی۔
خواہ ایک انسان دوسرے کا خدا بنے‘ یا دوسرے کی خدائی تسلیم کرے‘ یا آپ اپنا خدا بن جائے‘ بہرحال ان تمام صورتوں میں تباہی اور خسران کا اصل سبب جوں کا توں باقی رہتا ہے۔ کیونکہ جو فی الواقع بادشاہ نہیں ہے وہ اگر بادشاہ بن بیٹھے‘ جو حقیقت میں بندہ اور غلام ہے۔ وہ اگر اپنے آپ کو خواجگی و خداوندی کے مقام پر متمکن سمجھ لے‘ جو دراصل ذمہ دار اور مسئول رعیت ہے وہ اگر غیرذمہ دار اور خودمختار حاکم بن کر کام کرنے لگے‘ تو اِس اِدّعا کی اور ایسے اِدّعا کو تسلیم کرنے کی حقیقت ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ اصلیت جو کچھ ہے وہ تو بہرحال وہی کی وہی رہے گی۔حقیقت میں تو جو خدا ہے وہ خدا ہی رہے گا اور جو بندہ ہے وہ بندہ ہی رہے گا۔ مگر جب بندہ اس عظیم الشان بنیادی غلط فہمی پر اپنی زندگی کی ساری عمارت اٹھائے گا کہ وہ خود حاکمِ اعلیٰ ہے یا کوئی دوسرا بندہ اِس کا حاکمِ اعلیٰ ہے‘ اور جب وہ یہ سمجھ کر کام کرے گا کہ اس سے بالاترکوئی حاکم نہیں ہے جس کے سامنے وہ جواب دہ ہو اور اپنے امرونہی میں جس کی رضا لینے کا محتاج ہو‘ تو یقینا اس کی زندگی کی عمارت ازسرتاپا غلط ہوکر رہ جائے گی اور اس میں راستی و صحت کو تلاش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
یہ بات آخر کس طرح انسان کی عقل قبول کر لیتی ہے کہ خلق کسی کی ہو اور امر کسی اور کا ہو؟ پیدا کرنے اور پالنے والا کوئی ہو اورحکم کسی اور کا چلے؟ ملک کسی کا ہو اور بادشاہت کسی اور کی ہو؟
جس نے انسان کو بنایا‘ جس نے انسان کے لیے زمین کی قیام گاہ بنائی‘ جو اپنی ہوا‘ اپنے پانی‘ اپنی روشنی اور حرارت‘ اور اپنے پیدا کیے ہوئے سامانوں سے انسان کی پرورش کر رہا ہے‘ جس کی قدرت انسان کا اور اُس پوری زمین کا‘ جس میں انسان رہتا ہے‘ احاطہ کیے ہوئے ہے‘ اور جس کے حیطۂ قدرت سے انسان کسی حال میں نکل ہی نہیں سکتا‘ عقل اور فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہی انسان کا اور اس زمین کا مالک ہو‘ وہی خدا اور رب ہو‘ اور وہی بادشاہ اور حاکم بھی ہو۔ اُس کی بنائی ہوئی دنیا میں خود اُس کے سوا اور کس کو حکومت و فرمانروائی کا حق پہنچتا ہے؟ کس طرح ایک مملوک یہ کہنے کا حق دار ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے مملوکوں کا مالک ہے؟ صانع اور پروردگار کے سوا اپنی مصنوعات اور اپنے پروردوں کی ملکیت اور کس کے لیے جائز ہوسکتی ہے؟ کون اتنی قدرت رکھتاہے‘ کس کے پاس اتنا علم ہے‘ کس کا یہ ظرف ہے کہ اس سلطنت میں فرمانروائی کرسکے؟ اگر انسان اس سلطنت کے اصلی سلطان کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا اور اُس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت مانتا ہے‘ یا خود اپنی حاکمیت کا اِدّعا کرتا ہے تو یہ صریح واقعہ کے خلاف ہے‘ بنیادی طور پر غلط ہے‘ ایک عظیم الشان جھوٹ ہے۔ سب سے زیادہ سفید جھوٹ‘ ایساجھوٹ جس کی تردید زمین و آسمان کی ہر شے ہر وقت کر رہی ہے۔ ایسے بے بنیاد دعوے اور ایسی غلط تسلیم و اطاعت سے حقیقتِ نفس الامری میں ذرّہ برابر بھی فرق واقع نہیں ہوتا۔ جو مالک ہے وہ مالک ہی رہے گا‘ جو بادشاہ اور حاکم ہے وہ بادشاہ اور حاکم ہی رہے گا‘ البتہ خود اُس انسان کی زندگی ازسرتاپا غلط ہوکر رہ جائے گی جو واقعہ کے خلاف دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرکے‘ یا خود اپنی حاکمیت کا مدّعی بن کر کام کرے گا۔ حقیقت اِس کی محتاج نہیں ہے کہ تم اس کا ادراک کرو تب ہی وہ حقیقت ہو۔ نہیں! تم خود اس کے محتاج ہو کہ اس کی معرفت حاصل کر کے اپنی سعی و عمل کو اس کے مطابق بنائو۔ اگر تم حقیقت کو محسوس نہیں کرتے اور کسی غلط چیز کو حقیقت سمجھ بیٹھتے ہو تو اس میں نقصان تمھارا اپنا ہے۔ تمھاری غلط فہمی سے حقیقت میں کوئی تغیر رونما نہیں ہو سکتا۔
ظاہر ہے کہ جس چیز کی بنیاد ہی سرے سے غلط ہو اس کو جزوی ترمیمات اور فروعی اصلاحات سے کبھی درست نہیں کیا جاسکتا۔ ایک جھوٹ کے ہٹ جانے اور اس کی جگہ دوسرے جھوٹ کے آجانے سے حقیقت میں کوئی فرق بھی واقع نہیں ہوتا۔ اس قسم کی تبدیلی سے طفل تسلی تو ہوسکتی ہے مگر غیرحق پر زندگی کی عمارت قائم کرنے کا جو نقصان ایک صورت میں تھا وہی دوسری صورت میں بھی علیٰ حالہٖ باقی رہتا ہے۔
اس نقصان کو دُور کرنے اور انسانی زندگی کو حقیقی فلاح سے ہمکنار کرنے کی کوئی صورت اِس کے سوا نہیں ہے کہ غیراللہ کی حاکمیت سے کلیتاً انکار کیا جائے اور اُس کی حاکمیت تسلیم کی جائے جو فی الواقع مالک الملک ہے۔ ہر اُس نظامِ حکومت کو ردّ کر دیا جائے جو انسانی اقتدارِ اعلیٰ کے باطل نظریات پر قائم ہو اور صرف اُس نظامِ حکومت کو قبول کیا جائے جس میں اقتدارِ اعلیٰ اُسی کا ہو جو فی الحقیقت مقتدرِ اعلیٰ ہے۔ ہر اُس حکومت کے حق حکمرانی کو ماننے سے انکار کر دیا جائے جس میں انسان بذاتِ خود حاکم اور صاحبِ امرونہی ہونے کا مدّعی ہو‘اور صرف اُس حکومت کو جائز قرار دیا جائے جس میں انسان اصلی اور حقیقی حاکم کے ماتحت خلیفہ ہونے کی حیثیت قبول کرے۔ یہ بنیادی اصلاح جب تک نہ ہوگی‘ جب تک انسان کی حاکمیت‘ خواہ وہ کسی شکل اور کسی نوعیت کی ہو‘ جڑ پیڑ سے اُکھاڑ کر نہ پھینک دی جائے گی‘ اور جب تک انسانی حاکمیت کے غیر واقعی تصور کی جگہ خلافتِ الٰہی کا واقعی (realistic) تصور نہ لے لے گا‘اُس وقت تک انسانی تمدّن کی بگڑی ہوئی کَل کبھی درست نہ ہوسکے گی‘ چاہے سرمایہ داری کی جگہ اشتراکیت قائم ہوجائے‘ یا ڈکٹیٹرشپ کی جگہ جمہوریت متمکن ہوجائے‘ یا امپریلزم کی جگہ قوموں کی حکومت ِخود اختیاری کا قاعدہ نافذ ہو جائے۔
صرف خلافت ہی کا نظریہ انسان کو امن دے سکتا ہے‘ اُسی سے ظلم مٹ سکتا ہے اور عدل قائم ہو سکتا ہے‘ اور اسی کو اختیار کرکے انسان اپنی قوتوں کا صحیح مصرف اور اپنی سعی و جہد کا صحیح رخ پاسکتا ہے۔ ربُّ العالمین اور عالم الغیب والشہادۃ کے سوا اور کوئی انسان تمدّن و عمران کے لیے ایسے اصول اور حدود تجویز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا جو بے لاگ ہوں‘ جن میں جانب داری‘ تعصب اور خودغرضی کا شائبہ تک نہ ہو‘ جو ٹھیک ٹھیک عدل پر قائم ہوں‘ جن میں تمام انسانوں کے مفاد اور حقوق کا یکساں لحاظ کیا گیا ہو‘ جو گمان و قیاس پر نہیں بلکہ حقائق فطرت کے یقینی علم پر مبنی ہوں۔ ایسے ضابطے کی نعمتوں سے انسان صرف اسی طرح بہرہ ور ہو سکتا ہے کہ وہ خود صاحبِ مراد اور قانون ساز بننے کے زعم سے دست بردار ہو جائے‘ خدا پر اور اس کے بھیجے ہوئے قانونِ زندگی پر ایمان لائے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوئے اُس ضابطے کو دنیا میں قائم کرے۔
اسلام انسانی زندگی میں یہی بنیادی اصلاح کرنے آیا ہے۔ اس کو کسی ایک قوم سے دل چسپی اور کسی دوسری قوم سے عداوت نہیں ہے کہ ایک کو چڑھانا اور دوسری کوگرانا اُس کا مقصود ہو‘ بلکہ اُسے تمام نوعِ انسانی کی فلاح و سعادت مطلوب ہے جس کے لیے وہ ایک عالمگیر کلیہ و ضابطہ پیش کرتا ہے۔ وہ ایک تنگ زاویہ سے کسی خاص ملک یا کسی خاص گروہِ انسانی کو نہیں دیکھتا بلکہ وسیع نظر سے تمام روے زمین کو اُس کے تمام باشندوں سمیت دیکھتا ہے‘ اور چھوٹے چھوٹے وقتی حوادث و مسائل سے بالاتر ہوکر اُن اصولی و بنیادی مسائل کی طرف توجہ کرتا ہے جن کے حل ہوجانے سے تمام زمانوں اور تمام حالات و مقامات میں سارے فروعی و ضمنی مسائل آپ سے آپ حل ہو جاتے ہیں۔ اسے ظلم کی شاخوں اور فساد کی فروعی شکلوں سے بحث نہیں ہے کہ آج ایک جگہ ایک شاخ کو کاٹنے پر زور صرف کرے اور کل دوسری جگہ کسی دوسری شاخ سے طبع آزمائی کرنے لگے‘ بلکہ وہ ظلم کی جڑ اور فساد کے سرچشمے پر براہ راست حملہ کرتا ہے تاکہ اِن شاخوں کی پیدایش ہی بند ہو جائے اور جگہ جگہ آئے دن کی کاٹ چھانٹ کا جھگڑا ہی باقی نہ رہے۔
یہ چھوٹے چھوٹے ضمنی مسائل جن میں آج دنیا کی مختلف قومیں اور جماعتیں الجھ رہی ہیں‘ مثلاً یورپ میں ہٹلر کا طغیانِ ناز‘ یا حبش میں اٹلی کا فساد‘ یا چین میں جاپان کا ظلم‘ یا ایشیا و افریقہ میں برطانیہ و فرانس کی قیصریت‘ ] اسی طرح موجودہ عالمی مسائل کو قیاس کرلیجیے[ اسلام کی نگاہ میں اِن کی اور ایسے تمام مسائل کی کوئی اہمیت نہیں۔ اُس کی نگاہ میں ایک ہی سوال اہمیت رکھتا ہے۔ وہ تمام دنیا سے پوچھتا ہے:
ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ (یوسف۱۲:۳۹)
جو لوگ پہلی صورت کے پسند کرنے والے ہیں اسلام اُن سب کو ایک سمجھتا ہے‘ خواہ وہ آپس میں کتنے ہی مختلف شعبوں میں بٹے ہوئے ہوں۔ اُن کی ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد‘ اسلام کی نظر میں ایک فساد کے خلاف دوسرے فساد کی جدوجہد ہے۔ ان میں سے کسی کی دشمنی بھی نفسِ فساد سے نہیں ہے بلکہ فساد کی کسی خاص شاخ سے ہے اور اس لیے ہے کہ جس فساد کا جھنڈا ایک فریق نے بلند کر رکھا ہے‘ وہ سرنگوں ہو اور اُس کی جگہ وہ فساد سربلند ہو جس کا جھنڈا دوسرا فریق اُٹھائے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے فریقین میں سے کسی کے ساتھ بھی اُس کا اشتراکِ عمل نہیں ہو سکتا جو اصل فساد کا دشمن ہو۔ اُس کے لیے تو ایک جھوٹے رب کے پرستاروں اور دوسرے جھوٹے رب کے بندوں میں ترجیح کا سوال ہی نہیں۔ اس کی تو بیک وقت سب سے لڑائی ہے۔ وہ تو اپنا سارا زور صرف ایک ہی مقصد پر صرف کرے گا اور وہ یہ ہے کہ انسان کو متفرق غیرحقیقی ربوں اور الٰہوں کی بندگی سے نکالا جائے اور اُس اللہ واحد قہار کی حاکمیت تسلیم کرائی جائے جو فی الحقیقت رَبُّ النَّاس، مَلِکَ النَّاس اور اِلٰہُ النَّاس ہے۔
لفظ ’’مسلمان‘‘ اگر کوئی بے معنی لفظ ہے اور محض علم کے طور پر انسانوں کے کسی گروہ کے لیے استعمال ہونے لگا ہے‘ تب تو مسلمانوں کو پوری آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ اپنی زندگی کے لیے جو مقصد چاہیں قرار دے لیں اور جن طریقوں پر چاہیں کام کریں۔ لیکن اگر یہ لفظ اُن لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جنھوں نے اسلام کو بطورِ مسلک و مشرب قبول کیا ہے تو یقینا مسلمانوں کے لیے کوئی نظریہ‘ کوئی مقصد اور کوئی طریق کار اسلام کے نظریہ‘ مقصد اور طریق کار کے سوا نہیں ہو سکتا۔ غیر اسلامی نظریہ اور پالیسی اختیار کرنے کے لیے حالاتِ زمانہ اور مقتضیاتِ وقت کا بہانہ کوئی بہانہ نہیں ہے۔ مسلمان جہاں جس ماحول میں بھی ہوں گے ان کو وقتی حوادث اور مقامی حالات و معاملات سے بہرحال سابقہ پیش ہی آئے گا۔ پھر وہ اسلام آخر کس کا اسلام ہے جس کا اتباع صرف مخصوص حالات ہی میں کیا جائے اور جب حالات دگرگوں ہوں تو اسے چھوڑ کر حسبِ سہولت کوئی دوسرا نظریہ اختیار کر لیا جائے؟
دراصل تمام مختلف حالات میںاسلام کے اساسی نظریہ اور بنیادی مقصد کے مطابق طرزِعمل اختیار کرنا ہی مسلمان ہونا ہے‘ ورنہ اگر مسلمان ہر حادثے اور ہر حال کو ایک جداگانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے لگیں اور ہمیشہ موقع و محل دیکھ کر ایک نئی پالیسی وضع کر لیا کریں جس کو اسلام کے نظریہ و مقصد سے کوئی لگائو نہ ہو تو ایسے مسلمان ہونے میں اور نامسلمان ہونے میں قطعاً کوئی فرق نہیں۔ ایک مسلک کی پیروی کے معنی ہی یہ ہیں کہ آپ جس حال میں بھی ہوں آپ کا نقطۂ نظر اور طریق کار اُس مسلک کے مطابق ہو جس کے آپ پیرو ہیں۔ ایک مسلمان‘ سچا مسلمان اُسی وقت ہوسکتا ہے‘ جب کہ وہ زندگی کے تمام جزئی معاملات اور وقتی حوادث میں اسلامی نقطۂ نظر اور اسلامی طریقہ اختیار کرے ‘ جو مسلمان کسی موقع و محل میں اسلامی پہلو چھوڑ کر غیر اسلامی پہلو اختیار کرتا ہے اور یہ عذر پیش کرتا ہے کہ اِس موقع اور اِس محل میں تو مجھے غیراسلامی طریقے ہی پر کام کرلینے دو‘ بعد میں جب حالات سازگار ہوجائیں گے تو مسلمان بن کر کام کرنے لگوں گا‘وہ دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ یا تو اسلام کو وہ بجاے خود کوئی ایسا ہمہ گیر نظامِ زندگی ہی نہیں سمجھتا جو زندگی کے ہر معاملے اور زمانے کی ہر گردش پر یکساں حاوی ہوسکتا ہو‘ یا پھر اس کا ذہن اسلام کے سانچے میں پوری طرح نہیں ڈھلا ہے جس کی وجہ سے اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اسلام کے کلُیات کو جزئی حوادث پر منطبق کرسکے اور یہ سمجھ سکے کہ مختلف احوال میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔…
تمام مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ بحیثیت ایک مسلم جماعت ہونے کے ہمارا تعلق اُس تحریک سے ہے جس کے رہبر و رہنما انبیا علیہم السلام تھے۔ ہر تحریک کا ایک خاص نظامِ فکر اور ایک خاص طریق کار ہوتا ہے۔ اسلام کا نظامِ فکر اور طریق کار وہ ہے جو ہم کو انبیا علیہم السلام کی سیرتوں میں ملتا ہے۔ ہم خواہ کسی ملک اور کسی زمانہ میں ہوں‘ اور ہمارے گردوپیش زندگی کے مسائل و معاملات خواہ کسی نوعیت کے ہوں‘ ہمارے لیے مقصد و نصب العین وہی ہے جو انبیا کا تھا‘ اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ وہی ہے جس پر انبیا ہر زمانے میں چلتے رہے۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہ (الانعام ۶:۹۰)’’وہی لوگ تھے جن کی اللہ نے رہنمائی کی تھی‘ لہٰذا ان کی ہدایت کی پیروی کرو‘‘۔ ہمیں زندگی کے سارے معاملات کو اُسی نظر سے دیکھنا چاہیے جس سے اُنھوں نے دیکھا۔ ہمارا معیارِ قدر وہی ہونا چاہیے جو اُن کا تھا۔ اور ہماری اجتماعی پالیسی اُنھی خطوط پر قائم ہونی چاہیے جن پر انھوں نے قائم کی تھی۔ اس مسلک کو چھوڑ کر اگر ہم کسی دوسرے مسلک کا نظریہ اور طرزِعمل اختیار کریں گے تو گمراہ ہو جائیں گے۔ یہ بات ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم اُس تنگ زاویے سے معاملاتِ دنیا پر نگاہ ڈالیں جس سے ایک قوم پرست‘ یا ایک جمہوریت پسند‘یا ایک اشتراکی ان کو دیکھتا ہے۔ جو چیزیںان کے لیے بلند ترین منتہاے نظر ہیں وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں۔ اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے‘ انھی کی زبان میں باتیں کریں گے‘ اور اُنھی گھٹیا درجے کے مقاصد پرزور دیں گے جن پر وہ فریفتہ ہیں‘ تو اپنی وقعت کو ہم خود ہی خاک میں ملا دیں گے۔ شیر اگر بکری کی سی بولی بولنے لگے اور بُزغالوں کی طرح گھاس پر ٹوٹ پڑے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جنگل کی بادشاہی سے وہ آپ ہی دست بردار ہوگیا۔ اب وہ اس کی توقع کیسے کر سکتا ہے کہ جنگل کے لوگ اس کی وہ حیثیت تسلیم کریں گے جو شیر کی ہونی چاہیے؟
… خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہو کر تمام دنیا سے غیراللہ کی حاکمیت مٹادیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں۔ یہ شیر کا منصب ہے اور اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں ہیں‘ بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے۔ وہ شیر‘ شیر نہیں ہے جو اگر پنجرے میں بند ہو تو بکری کی طرح مِمیانے لگے‘ اور شیر وہ بھی نہیں جو بکریوں کی کثرت تعداد کو دیکھ کر یا بھیڑیوں کی چیرہ دستی دیکھ کر اپنی شیریّت بھول جائے۔ (انتخاب: تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘ حصہ دوم‘ ص ۹۴-۱۰۸)
ایک مدت کے بعد تم نے اپنے حالات و کوائف سے آگاہ کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس جہان کی پہنائی میں کھو گئے تھے۔ ماضی کے وسیع نشیب و فراز میں کتنے ہی احباب ہیں جنھوں نے حافظے کے وسیع میدان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ان کو آواز دیں تو انھیں سنائی نہیں دیتی۔ انھیں بلائیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حافظے کی دھندلی شاہراہ پر گزرے ہوئے راہ گیروں کے نقوشِ قدم ہیں جو ایام کی گرد کے نیچے مدہم پڑتے جا رہے ہیں۔ تم بھی انھی مدہم نشانات میں سے ایک نشان بن کر رہ گئے تھے۔
تم نے یہ کیا لکھ دیا کہ ’’میرے لیے دعا کرو۔ نماز سے رغبت کم ہوگئی ہے۔ دعوتِ دین سے نظری اتفاق باقی ہے لیکن عملی طور پر شل ہوگیا ہوں۔ شاید شیطان کا قابو چل گیا ہے۔ مقصدِزندگی سے دھیما دھیما سا لگائو ہے لیکن ساتھ چلنے سے جی چُراتا اور کتراتا ہوں۔ صحت بہتر ہے لیکن طبیعت بے چین رہتی ہے۔ بتائو کیا کروں‘ کیا پڑھوں‘‘۔
عزیز دوست! بعض اوقات کسی عزیز کی‘ مقصدی زندگی کے ایسے انجام سے اس کی موت زیادہ خوش گوار محسوس ہونے لگتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ محاذِ جنگ سے مفرور ہونے سے پہلے وہ محاذِ جنگ پر کام آگیا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ مجھے شدت سے کام لینے کا طعنہ نہ دینا۔ میرے نزدیک دین حق کی سربلندی کا جھنڈا اٹھانے کے بعد اسے پھینک دینا‘ بیٹھ جانا اور پیٹھ دکھانا موت سے بدتر انجام ہے۔
ایسا خوفناک خط تم مجھے نہ لکھتے تو شاید میں تمھاری طرف سے مطمئن رہتا اور سمجھتا کہ زندگی کے کارزار میں تم کسی نہ کسی محاذ پر ضرور مردانہ وار‘ باطل کے خلاف چومکھی لڑائی لڑ رہے ہوگے‘ لیکن تمھاری ان سطور نے تو کتنے ہی زخموں کے ٹانکے توڑ دیے ہیں۔ تم نے خط میں کاروباری کاموں کی کثرت اور معاشی جدوجہد کی مصروفیات کا رونا بھی بہت رویا ہے اور مجھے محسوس ہوا ہے کہ غربتِ اسلام کے اس پُرمصائب دور میں اسلام کے غریب خادموں میں سے ایک خادم کو جیسے خوش حالی نے ڈس لیا ہے۔
دعا تو میں ضرور کرتا ہوں۔ باطل کے خلاف حمایتِ حق میں لڑنے والے ہر ساتھی کے لیے دعائیں کیا کرتا ہوں۔ لیکن دُعا وہی کارگر ہوتی ہے جو انسان خود اپنے مالک سے قریب تر ہوکر ‘اُسے دردمندی سے پکار کر‘ اس کے سامنے اپنی ساری مجبوریاں‘ معذوریاں‘ کمزوریاں اور کوتاہیاں رکھ کر مدد کے لیے پکارتا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنْ سے بڑی دعا اور کیا ہوسکتی ہے۔ بس شرط یہی ہے کہ بندہ مدد مانگنے سے پہلے اپنی بندگی کو خالص کر کے‘ اپنے مالک کے سامنے اسے عاجزانہ ہدیے کے طور پر پیش کر سکے۔
مادہ پرستی کی دوڑ میں مصروفیت کی سب سے پہلی چوٹ نماز پر ہی پڑتی ہے جو مالک سے قربت کی ڈیوڑھی ہے اور اس کے سامنے عاجزانہ حاضری میں مدد طلبی کی واحد صورت ہے۔ پھر نماز تو اس کا حکم ہے‘ البتہ مالک کے حکم کے علاوہ مزید اس کی بارگاہ میں عرض معروض کرنے سے جو اخلاص پیدا ہوتا ہے اس کا ذریعہ نوافل ہیں جس سے پتا چلے کہ بندہ اس در سے کچھ مزید کا طالب ہے اور خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ ہو سکے تو الارم لگا کر رات کے پچھلے پہر اٹھو۔ چند دن ہی سہی‘ ڈیوٹی سمجھ کر ہی سہی‘ چاہے اپنے آپ پر جبر کر کے ہی سہی اور یہ سمجھو کہ حاکم سے ایک خاص کام پڑ گیا ہے اور اس کے دربار میں آسانی سے بازیابی کے لیے وہی وقت مقرر ہے۔ چھپ چھپاکر جب اس کے سامنے اظہارِ بندگی کیا جائے اور صرف اسی کو مخاطب اور متوجہ کر کے کیا جائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی جائے کہ حاکمِ اعلیٰ تک اپروچ کا بندے نے ایک راستہ ڈھونڈ لیا ہے‘ تب دعا میں تاثیر بڑھ جاتی ہے اور اخلاص کا ثبوت ملتے ہی دعا بجلی کی سی سرعت سے آدمی کی ہستی سے اٹھ کر افلاک کی پہنائیوں میں سرایت کر جاتی ہے--- تو بھائی میرے! اگر مصروفیت نے پکڑ لیا ہے تو اس وقت مالک کے پاس عرضداشت لے کر پہنچو جب تمھارے شہر میں کوئی دکان کھلی نہیں ہوتی اور کوئی کاروبار الجھانے کے لیے موجود نہیں ہوتا۔ اگر رغبت نہ ہو تو ابتداء ً یہ کام جبر سے ہی کرو۔ درِاجابت تو خود تمھارا دل ہے۔ اگر اسے سومنات کے مندر کی طرح بند رکھو گے تو پھر اسے دوسرے کی دعائیں کیسے کھولیں گی۔ دوسرے تو زیادہ سے زیادہ اخلاصِ عمل کی دعا کرسکتے ہیں اور وہ بھی تب اثر کرتی ہے جب پودا زمین میں جڑ پکڑ چکا ہو۔ اگر جڑ ہی اکھڑی ہوئی ہو تو باہر کا پانی کوئی سرسبزی پیدا نہیں کر سکتا۔
ایک کام اور کرو۔ تمھارے محلے میں ایک ہسپتال ہے۔ کبھی کبھی وقت نکال کر ہسپتال میں مریضوں کی مزاج پُرسی کے لیے چلے جایا کرو۔ بیمار‘ ناتواں‘ مجروح‘ زندگی سے بیزار اور پریشان حال نحیف و نزار انسانوں سے جاکر ملو‘ ان کے حالات معلوم کرو۔ ان کے دکھ درد کا جائزہ لو۔ ان کے غم و اندوہ اور رنج و الم کو دیکھو‘ ان سے تعارف حاصل کرو۔ روزانہ کم از کم تین مریضوں کی مزاج پُرسی کو آیا کرو۔ اسے چند دنوں کے لیے معمول بنائو اور یہ سمجھو کہ مالک اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا بندہ اس کے دوسرے مصیبت زدہ بندوں سے ہمدردی کرے۔ اگر کبھی کسی مریض کو حقیقی حاجت مند پائو تو ہمت کر کے اس کی مدد بھی کرڈالو۔ لیکن کراہت سے نہیں‘ خوش دلی سے۔ بس کبھی کبھی یہ محسوس کرنے کی کوشش کرنا کہ ان کے بجاے تم خود ہوتے تو تمھارا کیا حال ہوتا۔ تم کتنے دوسروں کی ہمدردی کے محتاج ہوتے۔ تم کتنے دوسروں کے ہمدردانہ الفاظ تک کے منتظر ہوتے۔ بس یہ سوچ کر خدا کے ان نحیف و نزار بندوں کی عیادت ضرور کر آیا کرو۔
اس کام کے ساتھ ساتھ ایک تیسرا کام بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوسکے تو کبھی کبھار محلے کے قبرستان میں بھی ہو آیا کرو۔ وہاں بڑے بڑے کاروباری اپنا کاروبارِ حیات سمیٹ کر پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مکانات تمھارے اپنے محلے میں ہیں جن کے گرنے یا کھڑے رہنے کی طرف سے وہ ایسے بے نیاز ہیں جیسے انھوںنے کبھی یہ بنائے ہی نہ تھے۔ ان کے کاروبار تمھاری بستی میں اب بھی چل رہے ہیں۔ لیکن جن کا گمان تھا کہ ان کے بغیر یہ کاروبار نہ چلیں گے‘ کاروبار چل رہے ہیں--- لیکن وہ کاروبار کے ساتھ نہ چل سکے جنھیں لمحہ بھر فرصت نہ ملتی تھی۔ اب انھیںتاقیامت فرصت ہی فرصت ہے۔ کاروبار سے بھی اور عمل سے بھی۔ اس لیے کہ دنیا کی امتحان گاہ میں یہی تو مقابلہ تھا کہ کاروبارِ دنیا کے اندر رہ کر عمل کیسے کیا جائے اور عمل کرتے ہوئے کاروبارِ دنیا کو کیسے نبھایا جائے۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی شے مطلوب نہ تھی۔ اگر ہوتی تو امتحان ہی کیوں ہوتا۔ امتحان تو تھا ہی اس مقابلے اور توازن میں۔ اس لیے چند دن اس شہرِخموشاں کا علی الصبح یا سرِشام دورہ رکھو۔ ان کی قبروں کا حال دیکھو۔ ان کے کتبے پڑھو۔ ان سے علیک سلیک کرو اور آخرت کی عدالت لگنے تک‘ عدالت کے احاطے میں ان کے صدیوں کے انتظار کا حال دیکھو۔ غور کرو کہ اس قطار میں کھڑے ہونے کے لیے ہم تم بھی قبرستان کے اس جمِ غفیر کی طرف رواں دواں چلے جا رہے ہیں۔ ] کبھی اپنے کسی بھائی بند کا جنازہ پڑھتے ہوئے ہی یہ بات ذہن میں لے آئو![
فی الحال یہ تین کام کرو اور یہ حمیت و غیرت بھی اپنے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرو کہ دشمنِ حق نے آخر تمھی کو نرم چارہ سمجھ کر‘ کیوںمقصدِحیات سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ پھر وہ اتنا جری کیوں ہوگیا ہے کہ علی الاعلان تمھیں احساسِ شکست دلا رہا ہے کہ میں نے تم پر قابو پالیا ہے۔ یہ تو بڑی شرم کی بات ہے بلکہ یہ بات حمیتِ مومن کے خلاف اوراس کی مردانگی کو کھلا کھلا چیلنج ہے۔ اس نے اگر تمھیںیہ احساس دلایا ہے کہ وہ تم پر قابو پاگیا ہے تو تم بھی اسے خم ٹھونک کر جواب دو کہ بندئہ مومن کو مفتوح کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ فرعون و نمرود بھی جس مومن کی سطوت سے پناہ مانگیں اس پر چند اندیشہ ہاے دُور و دراز کا جال پھیلا کر قابوپانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
پڑھنے کے لیے قرآن میں قیامت اور احوالِ آخرت کے مقامات‘ حدیث میں کتاب الرقاق کا حصہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی سیرتوں سے زیادہ موزوں چیزاور کوئی نہیں ہے۔ جنھوں نے یہ کام احسن طریقے پر پہلے کیا ہے ‘ ان کی درخشاں زندگیاں ہی تھکے ہوئے راہیوں کے لیے نشانِ منزل کا کام دے سکتی ہیں۔ ہو سکے تو قرآن کے ۳۰ویں پارے میں قیامت کا حال بتانے اور لرزا دینے والی سورتیں پڑھو۔
خلفاے راشدین کے احوال پڑھو۔ یہ سمجھ کر پڑھو کہ اصل وہ تھے اور ہمیں انھی کی نقل کے مطابق اصل کام کرنا ہے۔ کاروبار انھوں نے بھی کیے تھے لیکن ترازو کے ایک پلڑے میں سامانِ دنیا ہوتا تو دوسرے میں خوفِ خدا۔ پیمانے کے ایک سرے پرکپڑا ناپا جاتا تو دوسرے سرے پر قبر کا کنارہ نظرآتا رہتا۔ ایک طرف ملکوں کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہوتیں تو دوسری طرف رات کو ڈاڑھی ہاتھ میں پکڑے رو رہے ہوتے کہ اے دنیا مجھ سے دُور ہوجا! مجھے فریب نہ دے‘ میں تجھے طلاق دے چکا۔ یہی تو وہ لوگ تھے جو زمین کا نمک تھے جن کی مثل گروہ تختۂ زمین پر کبھی وارد نہ ہوا۔ ہمیں انھی کے نقشِ قدم کی تلاش ہے۔ وہ نقشِ قدم مل جائے تو عزیز دوست‘ زندگی سونے کی کان سے زیادہ قیمتی اور ہر سانس‘ جواہرات سے زیادہ بیش بہا ہوجائے--- اور تم خوب جانتے ہو کہ وہ جس پارس سے چھو کر سونا بنے تھے وہ خود فریضۂ اقامت دین کے لیے اٹھنے سے پہلے اپنے دیس کا ملک التجار تھا۔ لیکن جب اپنے مالک سے زندگی کا سودا کیا تو روپیہ کمانے والے کاروبارسے دامن جھاڑ کر اٹھ گیا اور روپیہ بناتے بناتے انسان سازی کا کام شروع کر دیا۔ تم خود جانتے ہو کہ اس کے بنائے ہوئے انسان دنیا میں بے مثل ثابت ہوئے اور دنیا کا بہترین گروہ کہلائے--- دائیں ہاتھ سے نوالا اٹھانے کی سنت تو آج ہر مسلمان کو یاد رہ گئی ہے۔ لیکن شاید یہ سنت یاد نہیں رہی کہ سرورِعالمؐ نے مالک کی راہ میں اپنی زندگی کا سارا سونا لگا دیا تھا اور اپنے پاس کھجور کے بوریئے کے سوا باقی کچھ نہیں رکھا تھا۔
دین حق سے دل و دماغ کا اتفاق‘ اور دست و بازو کا فالج تو بہت بڑی بیماری ہے جس کا تم نے اپنے بارے میں ذکر کیا ہے۔ اسی نفاق نے تو ہماری ساری قومی زندگی کو بے جان بناکر رکھ دیا ہے اور پوری ملت بھوسے کا ڈھیر بن کر رہ گئی ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے ڈنڈا ہاتھ میں لیے اس پر سوار ہوجاتا ہے اور یہ اپنے قیمتی اصولوں پر نظری ایمان رکھتے ہوئے عملی طور پر ہر ہنٹرباز کے اشارے پر چلتی رہتی ہے اور بالعموم پشتِ بمنزل ہی چلتی ہے۔
تم بہت مایوس نظر آتے ہو۔ کہتے ہو برسوں بیت گئے ہیں لیکن اسلامی نظام نہیں آیا ہے۔ تمھاری یہ مایوسی بھی دراصل اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ تم نے چشمۂ بیم و رجا سے رشتہ کمزور کر لیا ہے۔ جس راہ پر چلنے کا دعویٰ تم لے کر چلے تھے وہاں حساب کتاب نہیں کیا جاتا‘ کہ کب چلے اور کتنا چلے اور کہاں تک پہنچے‘ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس راستے پر جانا ہے وہ راستہ موجود ہے اور اس کی دی ہوئی ٹانگیں بھی ابھی موجود ہیں۔ وہ نہ رہیں گی تو گھٹنوں کے بل چلیں گے‘ پیٹ کے بل گھسٹیں گے‘ اور اس سے بھی گزر گئے تو آنکھیں تو نشانِ منزل کو دیکھنے کے لیے موجود ہیں‘ وہ کبھی مایوس نہ لوٹیں گی۔
بھائی میرے! یہ تو سوچو کہ جس راہ پر چلنے کا عزم رکھتے ہو‘ اس راہ پر ایسے ایسے راہ رَو گزر چکے ہیں جنھوں نے اگر ۹۰۰ سال تک دعوتِ دین کا کام بے ثمر کیا ہے تو بھی مایوس نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ زمین کے مالک نے جیسی زمین دی تھی‘ مزارع نے اسی کے اندر ہل چلانا تھا۔ ہمارا کام توا س کی زمین میں ہل چلاتے رہنا ہے۔ شورزمین میں کچھ پیداوار نہ ہوئی تو مالک خوب جانتا ہے کہ اس کے نوکر نے محنت کی یا نہیںکی اور فصل نہیں ہوئی تو اس میں کسان کی محنت کا قصور ہے یا زمین کے شور کا۔ تم نے خدا کے اس نیک بندے کا نام تو سنا ہی ہے جنھیں حضرت ایوب علیہ السلام کہتے ہیں۔ برسوں تک بیماری میں مبتلا رہنے اور بدترین تکلیف دہ حالات گزارنے کے بعد‘ جب انھیں کہا گیا کہ وہ اپنے مالک سے اپنی بیماری اور تکلیف کے لیے دعا کریں‘ تو انھوں نے فرمایا کہ مجھے اپنے مالک سے شرم آتی ہے جس نے عمر بھر خوش و خرم اور خوش حال رکھا‘ اب ابتلا کے چند ایام پر ہی بے صبر ہوکر‘ میں اس کے احسانات کیسے بھول جائوں۔ مالک خوب جانتا ہے کہ اس کا بندہ کس حال میں ہے‘ اور وہ اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ مالک کا شکر کرو کہ اس نے کامیابی کو اجر کا مدار نہیں قرار دیا‘ بلکہ اجر کی ابتدا نیت سے کی اور مومن کی دل شکستگی پر اسے دہرے اجر کی خوش خبری سنائی۔
تم نے ویت نام والوں کو دیکھا جو اپنے خدا سے کسی اجر کی توقع نہیں رکھتے تھے لیکن محض زمین کے ٹیلوں‘ باغوں‘ کھیتوں‘ کارخانوں اور جنگلوں تک کے لیے پیہم لڑنے اور ہزار سال تک نسل در نسل لڑنے کا داعیہ رکھتے تھے۔ اگر نفس کا بندہ انسان درختوں‘ ٹیلوں‘ پہاڑوں اور دریائوں کے لیے صدیوں تک لڑنے کا داعیہ رکھ سکتا ہے تو خدا کا بندہ مومن اپنے مالک کے لیے باطل کے خلاف زندگی بھر لڑنے اور کبھی نہ جھکنے کا عزم کیوں نہیں رکھ سکتا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان میں سے کفر کے حصے میں سونا اور اسلام کے حصے میں مٹی آئی ہے۔ اگر تم یہ کہو تو یہ احساسِ کمتری کا مظاہرہ کرو گے۔ میں تو یہ بات کہنے کے لیے تیارنہیں ہوں۔میں تو یہی کہوں گا کہ مومن کو اپنی پوشیدہ قوتوں کا شعور نہیں ہے۔ جس روز وہ جاگے گا دنیا کے اندھیرے روپوش ہوجائیں گے۔
ذاتی تربیت اور اصلاحِ فرد کے بارے میں بھی تمھارے خیالات میں الجھائو پیدا ہوگیا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ سیاسی الجھائو سے ہٹ کر یکسوئی کے ساتھ اپنی اور عوام الناس کی تربیت کی جائے۔ پھر مثال دیتے ہو کہ ہمارے تربیت کردہ لوگوں کے مقابلے میں فلاں فلاں طریقے پر تربیت یافتہ لوگ تقویٰ اور پرہیزگاری کے معروف پیمانے سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ تم کس طرح پلٹ کر‘ پھر گزرے ہوئے راستوں پر بھٹک رہے ہو۔
تحریکِ اسلامی کے نزدیک ذاتی تربیت اور اصلاحِ فرد کا وہی طریقہ بہترین اور فطری ہے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے لیے استعمال فرمایا تھا۔ جو بھی آگے بڑھا اس کے اعتقاد و ایمان کی بنیادیں درست کرکے اسے بھی دعوتِ دین کے اسی کام میںلگا دیا گیا جس میں حضوؐرخود مصروف تھے‘ یعنی نظامِ باطل سے کش مکش۔ یہ کام ہی خود ایسی بھٹی ہے جو سونے کو کندن اور کندن کو پارس بنا دیتی ہے اور جو مال کھوٹا ہو اسے کاٹ کر الگ پھینک دیتی ہے۔ اس تربیت کے لیے علیحدہ کسی خانقاہ کی تعمیر اور اس کے نظام الاوقات مرتب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ نہ کسی چلّہ کشی کی حاجت ہوتی ہے‘ جیسے صحابہ کرامؓ کو اس کی ضرورت نہ پڑی تھی۔
خانقاہی طریقہ تو نہایت خلوصِ نیت کے ساتھ ہی سہی‘ اس وقت مرتب ہوا جب ملوکیت نے مذہب کو سیاست بدر کر دیا اور مسلمانوں کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ مذہب سے آزاد ہو کر مذہب سے آزاد سیاست کے تحت چلا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی تنگ صورت حال میں جو نظامِ تربیت بھی بنے گا وہ ایک طرف انسانی زندگی کے بہت وسیع سیاسی دائرے کو چھوڑ کر بنایا جائے گا اور دوسری طرف انسانی زندگی کے لیے دیے ہوئے اسلام کے وسیع تر احکامات معطل ہوکر‘ جب صرف عبادت اور اوراد و اشغال تک ہی محدود ہوجائیں گے تو اسی محدود دائرے میں انہماک و اشتغال بھی بڑھ جائے گا۔
بلاشبہہ اس سے معروف رواجی متقیوں جیسی ہیئت ابھر آتی ہے۔ اس لیے کہ اس مذہبی ہیئت کی تیاری‘ مذہب بلاسیاست کے طریقے سے ہوتی ہے۔ لیکن تربیت ہمہ پہلو اور ہمہ گیر نہ ہونے کے سبب زندگی دو رنگی‘ سہ رنگی بلکہ پچرنگی تک ہوجاتی ہے اور عبادات و اوراد اور معروف شرعی ہیئت کے ساتھ ساتھ معاملات کی خرابی اور کردار کی کمزوری تک بیٹھ جاتی ہے‘ بلکہ لوگ منکرات تک میں مبتلا رہتے ہیں اور کوئی انقباض یا تضاد محسوس نہیں کرتے‘ چونکہ تربیت کا سانچہ ہمہ گیر نہیں بلکہ چند پہلوگیر بنا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے ایک معمار تو پوری عمارت بنانا جانتا ہو‘ چاہے معمار نہایت اعلیٰ نہ ہو اور دوسرا معمار صرف غسل خانہ ہی بنا سکتا ہو چاہے اس کا معیار اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو۔ اب ظاہر ہے کہ انسانی زندگی کو تو پورے مکان کی ضرورت ہے۔ ایک غسل خانے میں تو ساری زندگی بسر نہیں کی جا سکتی۔ غسل خانے میں چاہے غسل و طہارت کے تمام شرعی آداب کا لحاظ رکھا گیا ہو‘ لیکن اس سے باہر تو زندگی نہ معلوم کن کن آلودگیوں میں ملوث ہوتی رہے گی۔ گویا نظامِ باطل کے خلاف کش مکش سے ہی خالص ہمہ پہلو اسلامی کردار تعمیر ہوتا ہے۔ اس کش مکش سے علیحدہ کردار مکمل نہیں ادھورا بنتا ہے۔ اسلام نے اگر فرد کی اصلاح کا کوئی نظامِ تربیت مرتب کیا تھا تو اپنے غلبے کے لیے کیا تھا نہ کہ وہ باطل کے غلبے کو قائم رکھنے اور اسے دیانت دار کارکن فراہم کر کے‘ اس کی بنیادیں زیادہ مضبوط کرنے کے لیے کیا تھا۔
بھائی میرے! عملی پسپائی آدمی کو کہاں کہاں ذہنی پسپائی پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔ آج تم فرد کی اصلاح کے کسی ایسے طریقے کی تلاش میں ہو جو اسلامی بھی ہو اور نظامِ باطل اس سے ناراض بھی نہ ہو۔ سوچنے کا یہ ڈھنگ سخت بے چارگی کا آئینہ دار ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ ایسا کوئی اسلامی طریقہ ایجاد نہیں ہوا ہے جس پر باطل ناراض نہ ہو اور اگر کوئی ہے تو وہ ایجادِ بندہ کی قسم کا ہوگا۔ قرآن و سنت کے اسلام سے اسے کوئی قریبی تعلق نہ ہوگا۔ اس لیے کہ اسلام تو اپنے وجود کے اندر ہی اپنی سلطنت کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اس کے احکام نافذ ہوں۔ منظم فوجوں کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ باطل کے خلاف اس کا حکمِ جہاد پورا کیا جائے۔ پولیس کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اس کے قوانین کو نافذ و جاری کیا جائے اور اس کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی تادیب کی جائے۔ عدالتوں کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اس کے قوانین کے مطابق مجرموں کو سزائیں دی جائیں اور اس کے الٰہی قوانین کے مطابق فیصلے ہوں۔ پھر وہ یہ تک کہتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ مشرک‘ ظالم اور فاسق ہیں۔ اب بتائو ایسا اسلام کہاں سے لائو گے جو ایسا فرد تیار کرے جس پر نظامِ باطل بھی پورا اعتماد کرے اور اس کی خدمات سے خوش اور مطمئن بھی ہو۔
تم جو طبیعت کی بے چینی کا تذکرہ کرتے ہو‘ تو دراصل یہ بے چینی راہِ مستقیم پر ڈگمگانے کا نتیجہ ہے۔ تمھیں شاید اسلام کا انقلابی اور ہمہ گیر تصور چھوڑ کر کسی عافیت کے گوشے کی تلاش ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ نظامِ باطل کی عمل داری میں مومن کے لیے کسی جگہ کوئی عافیت کا گوشہ نہیں پایا جاتا‘ جب تک وہ غلبۂ اسلام کے تصور سے ہی دست بردار نہ ہو جائے۔ دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں‘ اس کا کلمہ بلند کرنے کی جدوجہد میں اور اس کے دین کے نفاذ کے لیے سختیاں سہنے کے عزم میں ہی پایا جاتا ہے۔ خاطر جمع رکھو کہ دل کا اطمینان اور کسی جگہ بھی نہ ملے گا۔ دل کا اطمینان ابن زیاد کو نہیں‘ امام حسینؓ کو حاصل تھا۔ مامون کو نہیں‘ احمدؒبن حنبل کو حاصل تھا۔ جہانگیر کو نہیں‘ مجدد الف ثانیؒ کو حاصل تھا۔عیاش فاروق کو نہیں حسن البنا شہید کو حاصل تھا۔ یہ بات مجھ سے نہ پوچھو۔ ملتِ مسلمہ کی اپنی تاریخ سے پوچھ لو اور دل کے اطمینان کی تلاش میں ان کُوچوں کا رُخ نہ کرو جہاں چمک دمک تو بہت ہے‘ دنیوی مال و متاع بھی بہت ہے لیکن اگر کوئی شے نہیں پائی جاتی ہے تو وہ یہی دل کا اطمینان ہے۔
اللہ تعالیٰ تمھیں حقیقی قلبی اطمینان عطا فرمائے۔ (قافلۂ سخت جاں‘ ص ۶۵-۷۹)
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں‘ وہ سب کا چہچہانا
اس قید کا الٰہی‘ دکھڑا کسے سنائوں
ڈر ہے یہیں قفس میں‘ مَیں غم سے مر نہ جائوں
بانگِ درا میں شامل بچوں کے لیے بیشتر نظمیں‘ انگریزی شاعری سے ماخوذ ہیں‘ مگر ’’پرندے کی فریاد‘‘ پر ’’ماخوذ‘‘ کی وضاحت درج نہیں ہے۔ پروفیسر حمیداحمد خاں مرحوم کی تحقیق یہ ہے کہ اقبال کو اس نظم کی تحریک‘ معروف انگریز شاعر ولیم کوپر کی ایک نظم سے ہوئی‘اور انھوں نے اس نظم میں کوپر کی آزاد ترجمانی کی ہے‘ لیکن اس سے قطع نظر‘ کہ یہ کوپر سے ماخوذ ہے یا ایک طبع زاد تخلیق ہے‘ اقبال کی یہ نظم معنی خیز ضرور ہے۔ یہ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں‘ یعنی ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء تک کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب غلام ہندستان‘ برطانوی استعمار کے شکنجے میں بُری طرح جکڑا ہوا تھا ‘ اور غلامی کے خلاف کھل کر فریاد کرنا بھی مشکل تھا۔ اس لیے ہمارے بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اس نظم کے ذریعے،’گفتہ آید درحدیثِ دیگراں‘ کے مصداق‘ علامہ نے اہلِ وطن کی غلامی پر احتجاج کیا ہے۔
ہم اقبال کے شارحین اور نقادوں سے اتفاق کریں یا اختلاف‘ یہ مُسلّم ہے کہ علامہ ہرنوع کی غلامی کے خلاف تھے۔ غلامی‘ سیاسی اور مادی و معاشی ہو یا روحانی اور ذہنی‘ براہ راست ہو یا بالواسطہ‘ غیروں کی ہو یا اپنوں کی‘ اقبال اسے انسانیت کی توہین سمجھتے ہیں اور اُن کے لیے کسی کی خودساختہ حکمرانی‘ کسی کا من مانا اقتدار یا کسی کا جبری تسلط ناقابلِ قبول تھا۔ ان کا عقیدہ تو یہ تھا کہ قوت‘ طاقت اور حکمرانی کا سرچشمہ نہ عوام ہیں‘ نہ خواص‘ نہ اشرافیہ‘ نہ کوئی فردِ واحد‘ بلکہ صرف اور صرف باری تعالیٰ کی ذات ہے ؎
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بتانِ آزری
علامہ اقبال کی شاعری انھی بُتانِ آزری کے خلاف ایک پُرزور صداے احتجاج ہے۔ اقبال نے دورِ غلامی میں آنکھ کھولی تھی اور وہ دُور دیس سے آنے والے فرنگیوں کی محکومی کے ماحول میں پروان چڑھے۔ اُنھی کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی‘ پھر یورپ کے آزاد اور لادین معاشروں کا مشاہدہ کیا۔ وہ مختلف قوموں کی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن جیسے وسیع المطالعہ اور صاحبِ بصیرت دانش ور کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ غلامی‘ انسان کے لیے بہت بڑی لعنت کے مترادف ہے۔ غلامی کی زندگی‘ انسان کی فطرتِ آزاد کواعلیٰ انسانی اور اخلاقی اوصاف و اقدار سے محروم کرکے‘ اُسے حسنِ خیال و عمل سے تہی دامن اور مردہ ضمیر بنا دیتی ہے اور وہ ایک بے بصیرت و بے توفیق انسان کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے:
بدن غلام کا سوزِ عمل سے ہے محروم
کہ ہے مُرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام
غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں‘ آزاد بندے‘ ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے‘ غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
غلام اقوام میں خیروشر کے پیمانے بدل جاتے ہیں‘ خوب و ناخوب کی تمیز اٹھ جاتی ہے‘ اور حق و باطل میں کوئی تفریق باقی نہیں رہتی‘ بلکہ خوے غلامی راسخ ہو جائے تو‘ آج کل کی اصطلاح میں ’’یوٹرن‘‘لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ جہاد اور تحریکِ آزادی کو دہشت گردی مان لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا ؎
تھا جو ناخوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
قوموں کی تاریخ میں‘ ایسی صورتِ حال بہت تشویش ناک ہوتی ہے کیوں کہ بقول حضرت علامہ: ’’محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید‘‘۔ اپنی بے چارگی کا ذمہ دار وہ تقدیر کو قرار دیتا ہے (برلبِ او حرفِ تقدیر است و بس)۔ اس کے پاس ’’دیدئہ نمناک‘‘ کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا ع
محکوم کا سرمایہ فقط دیدئہ نمناک
علامہ کہتے ہیں کہ بے بسی و بے کسی کے اس عالم میں‘ نہ تو شمشیریں کام آتی ہیں نہ تدبیریں--- ’’ذوقِ یقین‘‘ تو اُس سے پہلے ہی چھن چکا ہوتا ہے‘ اس کے اندر’’نفسیاتِ غلامی‘‘ پیدا کرنے میں غلام قوم کے بعض شعرا‘ حکما اور علما اہم کردار ادا کرتے ہیں ؎
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
خوے غلامی پختہ کرنے میں‘ سیاست دان اور حکمران بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں کیوں کہ ’’حکمراں کی ساحری‘‘ محکوم کی نفسیات کو بہ خوبی سمجھتی ہے‘ اور اُسے چند پُرفریب مگر دل کش وعدوں کا نشہ پلا کر‘ اُسے سلا دینے کے فن میں بہت ماہر ہے ؎
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
یہ ساحری‘ بدیسی ہو یا مقامی‘ دونوں کے طور اطوار ایک جیسے اور طریقۂ واردات یکساں ہے---
قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں کاذکر ہے (یہ راقم کے لڑکپن کا زمانہ تھا) ایک سوال دیواروں پر لکھا نظر آتا تھا: ’’انگریز رخصت ہوچکا‘ انگریز کا نظام کب رخصت ہوگا؟‘‘--- یہ سوال آج بھی تشنہ جواب ہے ---بہ ظاہر تو ہم ایک آزادمملکت کے باشندے ہیں لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ یہ بیرونی قرضے‘ آئی ایم ایف کی چاکری اور بالادست قوتوں کی نیازمندی‘ وہی yours most obedient servant والا رویّہ--- حضرتِ علامہ نے اس ضمن میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ ظفر احمد صدیقی کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’غلام قوم‘ مادّیات کو روحانیات پر مقدّم سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور جب انسان میں خوے غلامی راسخ ہو جاتی ہے تو وہ ہر ایسی تعلیم سے بے زاری کے بہانے تلاش کرتا ہے جس کا مقصد‘ قوتِ نفس اور روح انسانی کا ترفّع ہو‘‘۔ (اقبال نامہ‘ اول‘ ص ۲۰۱)
اسی خوے غلامی کا شاخسانہ ہے کہ ہم نے بیرونی بالادستوں کے احکامات کی تعمیل میں قومی تعلیم کے پورے نظام کو تلپٹ کرنے میں کمال درجے کی مستعدی دکھائی ہے اور خاص طور پر ان شعبوں کو جن کا تعلق ہماری تہذیب‘ دین اور روایت سے ہے‘ مثلاً: اردو زبان کو بارہ پتھر باہر قرار دے کر انگریزی کو اوّل جماعت ہی سے جابرانہ طریق سے مسلّط کیا جا رہا ہے‘ پھر دینی تعلیم کو اپنے کنٹرول میں لینے اور اس کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش‘ اسی طرح عمرانی و مشرقی علوم سے بے اعتنائی --- غرض جملہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے فرنگی تہذیب کے غلبے کی ایک ہمہ جہتی تگ و دو ہے جس کا مقصد بقولِ اقبال یہ ہے کہ: ’’روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو‘‘۔
یہ روحِ محمدؐ، یہ خودی‘ یہ خودداری اور یہ اسلامی اور ملّی تشخص ہی وہ کانٹاہے جو بالادست طاقتوں سے لے کر سیکولر طبقوں‘ دیسی انگریزوں اور نام نہاد روشن خیال بزرجمہروں تک سب کو کھٹکتا ہے۔ یہی تشخص تو علامہ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد کی بنیاد تھا‘ اسی بنا پر قرارداد پاکستان پاس ہوئی اور اسی تشخص پر اصرار کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آیا--- اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنے تشخص سے دست بردار ہوجائو--- یہ دوستی کی باتیں‘ یہ سرحدیں گرانے اور مٹانے کے مشورے‘ یہ مشترکہ تہذیب کی باتیں‘ یہ ثقافتی طائفے اور ’’ہم ایک ہیں‘‘ کے راگ--- علامہ نے کیا خوب کہا ہے ؎
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر
نئی نسل کی تعلیم کے لیے جس قسم کا تیزاب تیار کیا جا رہا ہے‘ بلکہ تیار ہوچکا ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک اس غیرمعمولی آرڈی ننس میں دیکھی جاسکتی ہے جو دو سال پہلے (۸ نومبر ۲۰۰۲ئ) کو جاری ہوا جس کے تحت ہمارے امتحانات کا نظام‘ آغا خان امتحانی بورڈ کے تصرف میں چلا جائے گا۔ نہ صرف امتحانات‘ بلکہ نصابات بھی۔ (دیکھیے: سلیم منصور خالد کا مضمون ’’تعلیم کا استعماری ایجنڈا: آغا خان بورڈ‘‘، ترجمان‘ ستمبر۲۰۰۴ئ)
علامہ اقبال کے نزدیک کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا انحصار اس کے اجتماعی رویوں پر ہے۔ شاید ہم دورِ غلامی کی غلامانہ ذہنیت اور yours most obedient servant قسم کے فدویانہ رویّے سے چھٹکارا نہیں پاسکے‘ چنانچہ دوسروں کو دوش کیا دیں‘ علامہ اقبال کے بقول ؎
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے‘ یورپ سے نہیں ہے
حضرتِ علامہ کے خیال میں خودی کا احساس اور فقر کا رویّہ‘کسی قوم کو پستی سے اٹھانے اور سربلندی و آزادی کی طرف لے جانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس خودی اور فقر سے پہلوتہی اور غفلت‘ قوموں کو پستی کی طرف کھینچتی اور غلامی کے گڑھے میں گرا دیتی ہے۔ خیال رہے کہ علامہ کے ہاں خودی اور فقر‘ ایک دوسرے کے مترادف ہیں اور لازم و ملزوم بھی ؎
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی‘ فقر کی نگہبانی
سنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل
سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام
کیسا عبرت ناک منظر ہے کہ اُمتِ مسلمہ‘ جس نے انسانیت کو بتانِ آزری کی بندگی سے آزاد کیا‘ اور غلاموں کو آزاد کر کے‘ معاشرے کے معزز و محترم افراد کی حیثیت سے اپنے برابر لابٹھایا‘ اور علامہ کے نزدیک روے زمین پر ہم ہی وہ قابلِ فخر امت ہیں ع
نوعِ انسان کو غلامی سے چھڑایا جس نے
توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب
وہی اُمت آج دوسروں کی دست نگر ہے--- وطن عزیز میں اس وقت جو صورت حال ہے‘ اس کے پیشِ نظر قدرتی طور پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں یا غلام؟ جہاں اپنے ہی شہریوں کو پکڑ پکڑ کر غیرملکی ظالموں کے حوالے کیا جا رہا ہو اور جہاں پاکستان ہی نہیں‘ پوری اُمتِ مسلمہ کے محسن سائنس دانوں کو مجرموں کی طرح نظربند کر دیا گیا ہو‘ تو ایسا سوال پیدا ہونا فطری ہے۔
ہوا ہے بندئہ مومن فسونیِ افرنگ
اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نمناک
ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب
کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک
مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی
سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعتِ چالاک
’’شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراک‘‘
حاکم کی نگاہ میں محکوم کی حیثیت‘ پرِکاہ کے برابر بھی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ ’’جوہرِ ادراک‘‘ غیروں کے ہاتھ بیچنے کے بعد‘ اب اس بات کا فیصلہ بھی ہمارے غیرملکی آقا ہی کرتے ہیں کہ وزیراعظم کون ہوگا‘ کون سی وزارت کس کے لیے موزوں ہے اور کون سا قلم دان‘ کس کے سپرد کرنا چاہیے۔
علامہ اقبال ‘ سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ہمراہ ۱۹۳۳ء میں افغانستان گئے تھے۔ مثنوی مسافر اسی سفر کی یادگار ہے--- کابل کی مصروفیات سے فارغ ہو کر‘ بطورخاص غزنی اور قندھار کا سفر کیا اور بابر‘ حکیم سنائی‘ محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کے مقابر کی زیارت کی۔ بابر کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے ان پر جو کیفیت طاری ہوئی‘ اس کی ایک جھلک اس شعرمیں ملتی ہے ؎
خوشا نصیب کہ خاکِ نو آرمید ایں جا
کہ ایں زمیں ز طلسمِ فرنگ آزاد است
تو کیسا خوش نصیب ہے کہ تیرا جسدِ خاکی‘ اس سرزمین میں آرام کر رہا ہے‘ جو فرنگیوں کے طلسم سے آزاد ہے۔
میں سوچتا ہوں سرزمینِ غزنی و قندھار سے توآزادی چھن چکی اور اب سرزمین پاکستان بھی‘ جہاں علامہ اقبال کا جسدِخاکی دیوارِ مسجد کے سائے میں محوِخواب ہے‘ طلسمِ فرنگ کی زد میں ہے۔ جب کبھی ہم اقبال کی یاد تازہ کرتے ہیں تو رہ رہ کر احساس ہوتا ہے کہ روحِ اقبال‘ کس قدر افسردہ و رنجیدہ اور بے قرارو مضطرب ہوگی؟
فلسطین پر قابض برطانوی افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہونے والا نوجوان یاسر اسے اپنا ہیرو محسوس ہوا‘اور قاہرہ یونی ورسٹی میں انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے نوجوان محمد عبدالرحمن عبدالرئوف عرفات القدوہ الحسینی نے اپنا نام یاسر رکھ لیا۔ پھر کسی کو یاسر عرفات کا اصل نام‘ جو ۲۴ اگست ۱۹۲۹ء کو قاہرہ میں پیدا ہونے پر والدین نے رکھاتھا‘ یاد نہ رہا۔
دورِ جوانی ہی سے یاسر جس نے اپنی کنیت ابوعمار رکھی تھی فلسطین کے لیے بہت جذباتی اور متحرک تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں ’’فلسطینی طلبہ اتحاد‘‘ کی تشکیل میں اس کا نمایاں کردار تھا۔ تعلیم کے بعد ۱۹۵۶ء میں وہ مصری فوج میں بھرتی ہوگیا اور لیفٹیننٹ کا عہدہ حاصل کیا۔ اسی سال مصر پر اسرائیل‘ برطانیہ اور فرانس کا مشترکہ حملہ ہوا اور لیفٹیننٹ یاسر کو باقاعدہ جنگ کا تجربہ حاصل ہوا۔
علامہ یوسف قرضاوی‘ ابوعمار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ ’’فلسطین پر قبضے کے بعد اخوان المسلمون نے کسی بھی باقاعدہ فوج سے پہلے اور زیادہ جرأت و جذبے سے برطانوی و صہیونی قابض فوجوں کا مقابلہ کیا۔ امام حسن البناؒ نے اس دور میںمصر سے زیادہ فلسطین کو اہمیت دی اور قبلۂ اول کے دفاع و آزادی کے لیے اپنے ہزاروں مجاہدین فلسطین روانہ کیے۔ ان مجاہدین کی تربیت کے لیے مصر کے مختلف علاقوں میں تربیتی کیمپ قائم تھے۔ ایک کیمپ میں مَیں بھی شریک تھا۔ اس میں ایک نوجوان یاسر تربیت دیا کرتا تھا۔ میرا اس سے پہلا تعارف اس طرح ہوا کہ ایک ساتھی کی کسی غلطی پر طیش میں آکر یاسر نے اسے ڈانٹتے ہوئے اس پر بندوق تان لی۔ میں نے کیمپ انچارج‘ اخوان کے ذمہ داران سے اس واقعے کی شکایت کی اور انھوں نے یاسر کو بلا کر نوٹس لیا… یہ میری اور یاسر عرفات کی پہلی ملاقات تھی‘‘۔
فوج سے فارغ ہو کر ابوعمار نے کویت جاکر تلاش معاش کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں مقیم فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ مل کر ’’الفتح‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ان نوجوانوں کی اکثریت بھی اخوان المسلمون سے متاثر تھی جن میں سلیم زعنون‘ خلیل الوزیر (ابوجہاد) اور صلاح خلف نمایاں تھے۔ الفتح نے ۱۹۵۹ء میں بیروت سے فلسطیننا (ہمارا فلسطین) نامی رسالہ شائع کرنا شروع کیا اور اس طرح ’’الفتح‘‘ فلسطین کی آواز بن کر ابھرنا شروع ہوئی۔
یاسر عرفات کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے‘ اس دوران وہ طالب علم لیڈر بھی رہا‘ فوجی کمانڈر بھی‘ خفیہ مسلح جدوجہد کا نگران بھی رہا اور سیماب پا سیاسی لیڈر بھی۔ عرب حکمران اسے کبھی اپنا بھائی اور بازوے شمشیر زن قرار دیتے رہے اور کبھی اس سے ملنے سے بھی انکاری۔ اُردن میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد قیام پذیر ہے۔ یاسر عرفات نے وہاں اپنی سرگرمیوں کا مرکز قائم کیا۔ ’’العاصفہ‘‘ (آندھی) گوریلا تنظیم قائم کی اور مقبوضہ فلسطین میں فدائی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اُردن کا شہر الکرامہ‘ الفتح کی قیادت کا مسکن تھا۔ ۲۱ مارچ ۱۹۶۸ء کو الکرامہ پر اسرائیلی فوجوں نے حملہ کیا۔ اُردنی خفیہ اداروں کو اس حملے کی اطلاع ہو چکی تھی۔ انھوں نے الفتح کو بھی مطلع کر دیا اور جب حملہ ہوا تو اسرائیلیوں کو لاشیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
اسی اُردن میں دو سال بعد ستمبر ۱۹۷۰ء کو شاہ حسین کے حکم پر فلسطینی کیمپوں پر دھاوا بولا گیا۔ الزام یہ تھا کہ حکومتِ اردن کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ اس حملے میں۳ہزار فلسطینی شہید کر دیے گئے اور بالآخر ان کی قیادت اور مجاہدین کو اُردن چھوڑ کر لبنان آنا پڑا۔ فلسطینی اب بھی ان زخموں کو نہیں بھولے۔ اس حملے میں پاکستانی فوج بھی شریک تھی۔ نتیجتاً پاکستان سے بھی ابدی شکوہ قائم ہے۔ اس سانحے کے لیے عالمی قوتوں نے کس طرح اسٹیج تیار کیا تھا‘ اس کی ایک جھلک کسنجر کی یادداشتوں کے اس پیراگراف میں ملتی ہے: ’’میں نے اسحاق رابن کو اُردن سے موصولہ اطلاعات سے آگاہ کیا اور میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ اس دوران اسرائیلی فضائی حملہ ہمارے لیے باعث اطمینان ہوگا اور ہم اس بات کے لیے بھی تیار ہیں کہ نقصان ہونے کی صورت میں اس کا ازالہ کریں‘‘۔
۷۰ کی دہائی میں لبنان مختلف فلسطینی گروپوں کا مرکز رہا۔ اسرائیلی افواج اور صہیونی بستیوں کو ان کی لاتعداد گوریلا کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران یہودیوں نے ہر شیطانی چال اختیار کی۔ سیکڑوں ذمہ داران قتل کیے‘ ۱۹۷۵ء میں لبنان کی خانہ جنگی پر تیل چھڑکا۔ مشرق وسطیٰ کے اہم رکن ملک مصر کو پوری اُمت سے الگ کرتے ہوئے ۲۶مارچ ۱۹۷۹ء کو کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کر لیا اور بالآخر ۱۹۸۲ء میں لبنان پر حملہ کرتے ہوئے بیروت کے ۱۰ ہفتے کے مکمل محاصرے کے بعد‘ فلسطینی قیادت اور فدائی گروپوں کو لبنان سے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ یاسرعرفات ۳۰ اگست ۱۹۸۲ء کو بیروت کی بندرگاہ سے لبنان میں ۱۱سال قیام کے بعد رخصت ہوا اور مصر سے ہوتا ہوا تیونس میں جا مقیم ہوا۔
اب ابوعمار ایک فدائی لیڈر کے علاوہ سیاسی قائد بھی شمار ہوتا تھا۔ عرب سربراہی کانفرنس کے اہم مقرر ہونے کے علاوہ ۱۳ نومبر ۱۹۷۴ء کو وہ اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اجلاس میں پہلے فلسطینی لیڈر کی حیثیت سے خطاب کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ’’میں ایک انقلابی کی بندوق کے ساتھ ساتھ زیتون کی شاخ بھی لے کر آیا ہوں۔ اس سبز شاخ کو میرے ہاتھ سے نہ گرنے دو… جنگ کا آغاز بھی فلسطین سے ہوتا ہے اور امن کا آغاز بھی فلسطین ہی سے ہوتا ہے‘‘۔
یاسر عرفات ۱۹۹۴ء تک تیونس ہی میں مقیم رہا۔ اس دوران تنظیم آزادی فلسطین اور الفتح تنظیم بڑے اندرونی بحرانوں سے گزری۔ کئی لیڈر اسرائیل نے شہید کر دیے‘ بہت سے اپنوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ فلسطینی سرزمین اور سرحدوں سے دُور ہونے کے باعث کوئی قابلِ ذکر فدائی کارروائیاں نہ ہو سکیں۔البتہ اس دوران پورے مسئلہ فلسطین کو یاسر عرفات کی ذات تک محدود کرنے کی عالمی کوششیں عروج پر رہیں۔ مسئلہ فلسطین کو پہلے صرف عربوں کا‘ پھر صرف فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دیا گیا اور بالآخر یاسرعرفات کو فلسطینیوں کا ’’الممثل الشرعی والوحید‘‘ (اکلوتا قانونی نمایندہ) قرار دے کر کہا گیا کہ اس کے علاوہ کسی کو فلسطین کی وکالت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
فلسطین کی تاریخ میں‘ ۱۹۴۸ء کے بعد دسمبر ۱۹۸۷ء سے شروع ہونے والا مرحلہ سب سے اہم ہے۔ اس سال پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی‘ جس میں بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین سمیت پوری فلسطینی قوم نے حصہ لیا۔ تحریکِ انتفاضہ کا سہرا اسلامی تحریک مزاحمت حماس اور اس کے رہبر شیخ احمد یاسین کے سر جاتا ہے۔ صہیونی انتظامیہ نے پتھروں اور غلیلوں سے ’’مسلح دہشت گردوں‘‘ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے اور فلسطین پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ یاسر عرفات نے سیاسی محاذ پر‘ امن مذاکرات کی بات آگے بڑھائی اور ۱۹۸۸ء میں فلسطینی کونسل نے الجزائر میں اپنے اجلاس کے دوران پیش کش کی کہ غزہ اور مغربی کنارے پر فلسطینی ریاست کے قیام کے مقابل ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں کونسل نے یاسرعرفات کو مجوزہ فلسطینی ریاست کا مجوزہ صدر قرار دے دیا اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا ایک طویل دور شروع ہوگیا۔
تحریکِ انتفاضہ کی قربانیاں جاری رہیں اور یاسرعرفات کے مذاکرات بھی‘ یہاں تک کہ ۱۹۹۳ء میں ناروے کے دارالحکومت میں عرفات رابن اوسلو معاہدے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر رقبے میں سے صرف مغربی کنارے کے ۲ہزار ۲ سو ۷۰ مربع میل اور غزہ کے ۱۳۵ مربع میل علاقے پر فلسطینی ریاست کی تشکیل کا خواب دکھایا گیا۔ یہ رقبہ پورے فلسطین کا صرف ۲۳ فی صد بنتا ہے اور اس میں سے بھی ۶۰ فی صد علاقے پر یہودی بستیوں کی تعمیر کرکے وہاں لاکھوں یہودیوں کو بسا دیا گیا ہے۔ اپنے وطن سے دست برداری کے معاہدے کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ’’سلام الشجعان‘‘(بہادروں کا امن معاہدہ) ہے۔ جھوٹے وعدوں اور نو برس پر پھیلے اس گورکھ دھندے اور سراب سے فلسطینیوں کو یہ خواب دکھایا گیا کہ آزادی نہ سہی‘ چلیے فلسطین میں پائوں دھرنے کی جگہ تو ملی۔ لیکن اس معاہدے کی اصل قیمت تحریکِ انتفاضہ کے ابابیل بچوں نے چکانا تھی۔ غلیلوں اور پتھروں سے ’’لیس‘‘ نوجوانوں کو اب یہودی بمباری کا ہی نہیں فلسطینی انتظامیہ کی آٹھ خفیہ ایجنسیوں اور پولیس فورس کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
یاسرعرفات اپنی قوم کو مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی خوش خبری سناتے ہوئے تحریکِ انتفاضہ روکنے کے لیے ایک کے بعد دوسرے صہیونی مطالبے کو پورا کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا اور اگر حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی یہ دوٹوک پالیسی اور اصرار نہ ہوتا کہ ہم اپنی بندوقوں کا رخ صرف اپنے مشترکہ دشمن کی طرف رکھیں گے‘ حماس اور عرفات انتظامیہ کے درمیان لبنانی خانہ جنگی سے بھی خطرناک خانہ جنگی ہوچکی ہوتی۔ شیخ احمد یاسین نے ہمیشہ کہا کہ عرفات انتظامیہ کے لیے ہمارا پیغام ہمیشہ وہی رہے گا جو آدم علیہ السلام کے بیٹے نے پہلے انسانی قتل کے وقت اپنے بھائی کو دیا تھاکہ لَئِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَابِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ج (المائدہ ۵:۲۸)’’تم اگر مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائو گے تو بھی میں تمھیں قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ نہیں اٹھائوں گا‘‘۔
سات برس تک اوسلو معاہدے پر عمل درآمد کے ذریعے صہیونی انتظامیہ سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد‘ اور فلسطینی عوام میں فلسطینی انتظامیہ سے بڑھتی ہوئی مایوسی کے پس منظر میں جون ۲۰۰۰ء میں ایک بار پھر کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ صہیونی وزیراعظم ایہود باراک‘ یاسر عرفات اور صدر کلنٹن کے درمیان کئی دن بند دروازے میں ہونے والے یہ مذاکرات بالآخر صہیونی ڈھٹائی کی نذر ہوگئے۔ اسی اثنا میں صہیونی اپوزیشن لیڈر ارییل شارون اپنے لائولشکر سمیت مسجد اقصیٰ میں جا گھسا اور اس پر یہودی استحقاق کا اعلان کر دیا۔ ستمبر ۲۰۰۰ء میں یہی لمحہ دوسری تحریکِ انتفاضہ کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ اب الفتح بھی (یاسر عرفات کے اعتراف کے بغیر) اس شہادتی کارواں کا حصہ بنی۔
اس تحریکِ انتفاضہ کے خاتمے کے لیے جنین‘ رفح اور رام اللہ جیسے دیگر فلسطینی کیمپ اور شہر کھنڈروں میں تبدیل کر دیے گئے۔ تحریک کی پوری قیادت شیخ احمد یاسین‘ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی اور اب یاسر عرفات کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد ۸ ہزار ہوگئی‘ ہزاروں بچوں اور بڑوں کو شہید کر دیا گیا۔ لیکن تحریکِ انتفاضہ اب بھی جاری ہے۔ سیکڑوں میل لمبی دیوار عُنصریت بھی شہادتی کارروائیوں کا راستہ نہیں روک سکی۔ حالیہ رمضان میں بھی القدس میں ایک کامیاب شہادتی حملہ ہوا ہے۔
یاسر عرفات ۲۰۰۱ء سے اپنے ہیڈ کوارٹر میں محصور کر دیے گئے تھے۔ اوسلو معاہدے کے بعد امن کا نوبل انعام کا حق دار‘ اب فلسطینی قیادت میں سب سے ناپسندیدہ شخص بن گیا تھا۔ اسے قیادت سے یا پھر دنیا ہی سے ہٹا دینے کی تکرار ہو رہی تھی‘ یہی وہ عرصہ تھا جب فلسطینی عوام میں یاسرعرفات کی مقبولیت کا گراف دوبارہ بلند ہونا شروع ہوا۔ ابوعمار نے اپنی قوم کا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا شروع کیا۔ لیکن اب مضمحل قویٰ اور بیماریوں کی یلغار نے ۷۵ سالہ ابوعمار کا کردار محدود تر کر دیا تھا۔ اب وہ امیدوں کے مرکز کے بجاے ہمدردیوں کا مستحق قرار پایا۔ اس کے دست و بازو قرار دیے جانے والے بھی صہیونیوں کی چھیڑی گئی اس بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے کہ مابعد عرفات کیا ہوگا۔
ابوعمار کی وفات بھی اس کے متعلق پائے جانے والے کئی معموں میںسے ایک معمہ ہے۔ اس کے کئی ساتھی اور کئی افراد خانہ مصّرہیں کہ انھیں زہر دیا گیا ہے۔ اس کے بھائی محسن عرفات نے ۲۰نومبر کو پیرس سے واپسی پر کہا ہے کہ ہمیں یاسرعرفات کی وفات کے بارے میں صحیح حقائق نہیں بتائے جارہے۔ انھوں نے کہا کہ خود فرانسیسی وزیرخارجہ نے مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس وقت موت کے حقیقی اسباب جاننے پر اصرار‘ فلسطینیوں کے حق میں نہیں ہے‘‘۔ محسن عرفات نے اس امر پر بھی دکھ کا اظہار کیا کہ ’’فلسطینی قیادت اسرائیلی ذمہ داران کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے میں مصروف ہے اور سمجھتی ہے کہ موت کے اسباب جاننے پر اصرار مذاکرات کے ماحول پر منفی اثرات مرتب کرے گا‘‘۔
یاسر عرفات کی حیات و موت بے حد عبرت آموز ہے۔ عہدشباب میں جب وہ اخوان سے وابستہ تھے تو قبلۂ اول اور جہاد کی دینی اہمیت و منزلت کا پرچار کیا کرتے تھے۔ الفتح کی تشکیل اور عالمی روابط کے آغاز کے بعد دینی تعلیمات ہی نہیں اسلام کے ذکر سے بھی احتراز کرنے لگے۔ حجت یہ تھی کہ فلسطین میں عیسائی بھی ہیں اور لامذہب بھی‘ ہمیں ان سب کی نمایندگی کرنا ہے۔ جمال عبدالناصر‘ابوعمار کے اخوانی پس منظر کے باعث ان سے تعاون میں متردد تھا اور ابوعمار نے اس تردد اور اخوانی چھاپ کے ازالے کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جس سے ان کے تئیں عرب حکمران مطمئن ہو سکتے تھے۔ پھر جب اسرائیل سے مذاکرات شروع کیے تو اسے مطمئن کرنے‘ اس کا دل جیتنے اور معاہدہ یقینی بنانے کے لیے دست برداری کو وقتی حکمت قرار دیتے ہوئے اپنی مستقل پالیسی بنا لیا۔ اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینی انتظامیہ نے تحریکِ انتفاضہ کو صہیونی فوج سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ کچلا۔ صہیونی مطالبے پر الفتح کے بنیادی دستور سے وہ تمام شقیں خارج کر دی گئیں جو پورے فلسطین کی آزادی اور جہاد کے وسیلۂ آزادی ہونے سے متعلق تھیں۔ مجوزہ فلسطینی ریاست کی ’’وسیع تر‘‘ سرحدوں کا دائرہ ۱۹۶۷ء تک صہیونی قبضے سے آزاد رہ جانے والے علاقوں تک محدود کردیا‘ لیکن بالآخر قابلِ گردن زدنی قرار پائے۔ بش اور شارون دونوں نے اعلان کر دیا کہ یاسر عرفات فلسطینی ریاست کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکی روڈمیپ پر سفر کا آغاز نئی فلسطینی قیادت سے مشروط قرار دے دیا گیا۔ پھر اسرائیلی ٹینک اور بلڈوزر ابوعمار کے ہیڈ کوارٹر کی ایک کے بعد دوسری دیوار گرانے لگے۔ اس وقت ابوعمار کا خطاب ایک بار پھر وہی خطاب تھا جو وہ کبھی عہدِشباب میں کیا کرتا تھا۔ آج الجزیرہ سے ان کی تقریروں کے اقتباس نشر ہوتے ہیں جن میں وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے حوالے دیتا ہے کہ:’’ میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہے گا۔ وہ اللہ کی مدد سے اپنے دشمن پر غالب رہے ہوگا‘ اسے اپنوں کی بے وفائی اور غیروں کا جور کوئی نقصان نہ دے گا۔ وہ اسی حال میں رہیں گے جب تک اللہ کا فیصلہ نہ آجائے۔ آپؐ سے پوچھا گیا: یہ گروہ کہاں ہوگا یارسولؐ اللہ؟ توآپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے گردونواح میں‘‘۔(متفق علیہ)
تاریخ کے طالب علم اظہار حسرت کرتے ہیں کہ کاش! یاسر عرفات کو یہ سبق قوتِ کار کے عروج میں بھی یاد رہتا۔
آج یاسر عرفات کی وفات کے بعد اس کے جانشین کا مسئلہ درپیش ہے اور بدقسمتی سے ہلاکت کی اسی ڈگر پر چلنے کی تیاریاں ہیں‘ جن پر پہلے رسوائی حاصل ہوئی۔ ۹جنوری کو فلسطینی انتظامیہ کے صدارتی انتخابات ہونا طے پائے ہیں۔ اب یہ بات تقریباً طے ہے کہ محمود عباس (ابومازن) جو یاسر عرفات کی متبادل قیادت کے مطالبے پر‘ وزیراعظم بنائے گئے تھے اور چار ماہ کے بعد مستعفی ہوگئے تھے‘ آیندہ صدر منتخب کر لیے جائیں گے۔ ابومازن عرفات کے ابتدائی رفقا میں سے ہیں۔ عرفات جب کویت میں تھے تو ابومازن قطر میںتھے۔ الفتح کی تشکیل میں دونوں شریک تھے۔ ابومازن نے حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑوں سے مذاکرات کیے ہیں۔ گاہے بہ گاہے قومی حکومت کی تشکیل کی بات بھی کی ہے لیکن پالیسی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کیا جائے‘ امریکی سرپرستی حاصل کی جائے اور اس کے دیے گئے روڈمیپ پر آگے بڑھا جائے۔
شارون نے مذاکرات کے لیے پانچ شرائط عائد کی ہیں جو اصل میں ایک ہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ: ۱-فلسطینی عرفات سے زیادہ معتدل قیادت کا انتخاب کریں۔ ۲- یہ قیادت دہشت گردی کچلنے کی ضمانت دے۔ ۳- دہشت گرد تنظیموں کا انفراسٹرکچر ختم کرے۔ ۴- نئی انتظامیہ شدت پسند کارروائیوں (انتفاضہ) کا خاتمہ کرے۔ ۵-نئی قیادت اسرائیل کے ساتھ مذاکرات و مفاہمت کا اختیار و صلاحیت رکھتی ہو۔ شارون نے امریکا کے سامنے بھی تین بنیادی شرطیں رکھیں: ۱- امریکا ضمانت دے کہ فلسطین سے باہر موجود فلسطینیوں (مہاجرین) کو واپسی کی اجازت نہیں ہوگی۔ ۲-تقریباً تمام یہودی بستیوں پر اسرائیل کا کنٹرول تسلیم کیا جائے گا۔ ۳- دیوار تقسیم کی تکمیل و حفاظت کی جائے گی۔
لیکوڈ پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شارون نے کہا ہے کہ فلسطینی یہ ضمانت بھی دیں کہ اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیز پروپیگنڈا بند کیا جائے گا۔ اس نے کہا: ’’اسرائیل کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈا‘ اسکولوں اور ذرائع ابلاغ میں اس کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت‘ فلسطینی ہتھیاروں سے کم خطرناک نہیں ہیں‘‘۔بالمقابل ابومازن نے اسرائیلی جنگ بندی اور فلسطینی وزیراعظم احمدقریع ابوعلاء نے نقل و حرکت کی آزادی‘ اسرائیلی فوج کے محدود انخلااور اسی صورت حال کی بحالی کی بات کی ہے جو ستمبر ۲۰۰۰ء سے پہلے تھی۔
فلسطینی انتظامیہ کے لیے صہیونی زور و سفاکیت کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ اندرونی اختلافات ہیں۔ فلسطینی انتظامیہ کے کئی ارکان پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی ہیں۔ یاسر عرفات کی تعزیت کے لیے بلائے گئے ایک اجتماع میں محمود عباس کے ایک گارڈ کو قتل کر دیا گیا۔ ایک اور حادثے میں محمد دحلان کی گاڑی جلا دی گئی۔ محمد دحلان خود بڑا قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ امریکی و اسرائیلی بھی اسے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ اوسلو معاہدے کے بعد عرفات انتظامیہ میں داخلی امن و امان کا ذمہ دار تھا اور حماس و جہاد اسلامی کے خلاف تقریباً تمام کارروائیاں اس نے اور جبریل رجوب نے کی تھیں۔ اس کے اور اسرائیلیوں کے چاہنے کے باوجود فی الحال اس کے لیے قیادت کے دروازے نہیں کھل سکے۔
حماس نے خود کو اس ساری اندرونی کش مکش سے دور رکھا ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کے صدارتی انتخابات میں وہ حصہ نہیں لے گی۔ البتہ بلدیاتی انتخابات میں ضرور حصہ لے گی تاکہ عوام کو روز مرہ خدمات فراہم کی جا سکیں۔ صہیونی انتظامیہ بدستور حماس کی قیادت پر قاتلانہ حملے کر رہی ہے۔ حال ہی میں دمشق میںاس کے ایک اہم کمانڈر کو شہید کر دیا گیا۔ خالد المشعل سمیت متعدد لیڈر تو اس کی ہٹ لسٹ پر ہیں ہی‘ اس کارروائی سے شام کو بھی پیغام دیاگیا ہے کہ صہیونی کارروائیوں کا دائرہ اب شام تک وسیع ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف فلسطین و مصر سرحد پر تین مصری فوجیوں کو ٹینکوں کے گولوں سے شہید کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ بعد میں معذرت کرتے ہوئے کہہ دیا گیا کہ یہ غلط فہمی سے ہواہے لیکن ایسی غلطیاں پہلے بھی کئی بار ہوچکی ہیں اور ان میں چھپا پیغام صرف ’’غلطیوں‘‘ کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔
تیسری طرف اُردن نے وہاں موجود فلسطینی مہاجر کیمپوں میں اچانک تعمیراتی کام شروع کروا دیے ہیں اور بلامانگے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ سرگرمی ان کیمپوں کو مستقل کرنے اور فلسطینی مہاجرین کو مستقل طور پر اُردن ہی میں رکھ لینے کے لیے نہیں ہیں‘ بلکہ فلسطینی مہاجرین کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ واضح رہے کہ مسئلہ فلسطین کے صہیونی حل میں محدود فلسطینی علاقے میںمحدود تر خودمختاری دینے کے ساتھ ساتھ اُردن میں فلسطینیوں کا مستقل قیام بھی شامل ہے۔
اس تناظر میں آیندہ فلسطین میں مزید آزمایشیں اور سازشیں منہ پھاڑے آگے بڑھ رہی ہیں۔ امریکا اور اسرائیل یاسرعرفات کے وجود کو امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے رہے ہیں اور اب اس رکاوٹ کے ہٹ جانے سے وہ اپنے تمام اقدامات کی تکمیل خود فلسطینیوں کے ہاتھوں کروانے کے لیے بے تاب ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو خاکم بدہن خود فلسطینی فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگتے دکھائی دیں گے اور اگر محمود عباس اور ساتھیوں نے حماس اور دیگر جہادی قوتوں کے ساتھ مفاہمت و یک جہتی کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا تو نہ صرف سیاسی طور پر ان کے وزن و رسوخ میں اضافہ ہوگا بلکہ میدان میں بھی وہ اپنی کئی شرطیں تسلیم کروا سکیں گے۔ اس ضمن میں ایک بڑی ذمہ داری مسلم حکمرانوں کے سر عائد ہوتی ہے۔ اگر یہ ممالک فلسطینی اتحاد کی سعی کریں گے تو نہ صرف فلسطینیوں کے لیے اُمید کی شمع روشن کریں گے بلکہ اپنے مصائب میں بھی کمی کا سامان کریں گے۔
امریکی دہشت گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہیروشیما ہو یا ناگاساکی‘ ابوغریب جیل ہو یا گوانتانامو‘ یا پھر افغانستان کے گمنام بیسیوں ابوغریب جیل--- ہر جگہ ظلم کی نئی تکنیک آزمائی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکی افواج کو بھی اس ظلم کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ کم ہونے کے بجاے مزید پھیل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’دہشت گردی‘‘ میں کمی کے بجاے شدت پیدا ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے امریکا اپنی حکمت عملی میں ناکام ہوچکا ہے۔ امریکا کو اپنے ماضی سے ہی کچھ سبق سیکھنا چاہیے۔
عراق پر جارحیت سے محض ۳۰ برس قبل امریکا نے ویت نام میں جنوری ۱۹۷۳ء میں جنگ ہاری تھی۔ اس جنگ میں ۵۸ہزار امریکی فوجی ہلاک‘ ۳ لاکھ ۴۰ ہزار فوجی زخمی اور ڈھائی ہزار فوجی لاپتا ہوگئے‘ جب کہ امریکا کا ۱۵۰ ارب ڈالر سے زائد کا خرچ اٹھا۔ سابق سوویت یونین کا تجربہ بھی اس کے سامنے ہے۔ جیسے جیسے ظلم و تشدد میں اضافہ ہوگا‘ امریکا کے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا‘ امریکا کے خلاف نفرت بڑھے گی اور ردعمل میں شدت آتی چلی جائے گی۔ نتیجتاً امریکا اپنے انجام کی طرف مزید تیزی سے بڑھے گا۔ خود مغربی اہلِ دانش کو بھی اس پر تشویش لاحق ہے۔
۲۹ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو تمام ذرائع ابلاغ نے یہ خبر دی کہ گذشتہ سال عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ عام شہری ہلاک (شہید)ہوچکے ہیں۔ جان ہوپکن یونی ورسٹی کے پبلک ہیلتھ اسکول میں ہونے والی تحقیق کے مطابق‘ ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی یہ تعداد ایک سروے کے ذریعے حاصل کی گئی ہے۔ زیادہ تر افراد گنجان آباد علاقوں پر ہونے والی بم باری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں گھر تباہ ہو رہے ہیں‘ بے گناہ شہری‘ معصوم بچے بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں جو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
عراق میں ابھی امریکا اور اتحادیوں کی جارحیت جاری ہے اور تحقیقی ادارے امریکی نقصانات کا بھی تجزیہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میںامریکا کی ایک مجلس دانش (think tank) دی انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز نے عراق پر امریکی جارحیت کے حوالے سے ایک تحقیقی منصوبہ شروع کیا جس میں مارچ ۲۰۰۳ء سے ۲۲ستمبر ۲۰۰۴ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا اور ۳۰ستمبر ۲۰۰۴ء کو ۸۸ صفحات پر مشتمل ایک نہایت اہم اور دل چسپ رپورٹ جاری کی جو انٹرنیٹ پر درج ذیل ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
www.ips-dc.org/iraq/failedtransition
ناکام عبوری عراقی حکومت: ناکام عبوری حکومت کی وجہ سے جنگِ عراق کے نقصانات کا امریکا عراق اور پوری دنیا کو سامنا ہے۔ بش نے دعویٰ کیا تھا کہ عراق میں عبوری حکومت کے قیام سے جانی اور مالی نقصانات کم ہوجائیں گے۔ لیکن اِس دوران زخمی اور ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد میں ماہانہ اضافہ اوسطاً ۴۱۵ سے بڑھ کر ۷۴۷ ہوگیا ہے۔
عراقی مزاحمت میں اضافہ: پینٹاگون کے اندازوں کے مطابق نومبر۲۰۰۳ء اور اوائل ستمبر ۲۰۰۴ء کے دوران عراقی مزاحمت کاروں (حریت پسندوں) کی تعداد میں ۴ گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ تعداد پہلے ۵ ہزار تھی اب یہ ۲۰ ہزار تک جاپہنچی ہے۔ عراق میں اتحادی افواج کے نائب کمانڈر برطانوی میجر جنرل اینڈریو گراہم نے ستمبر کے اوائل میں ٹائم میگزین کو بتایا تھا کہ اس کے خیال میں مزاحمت کاروں کی بیان کردہ تعداد ۲۰ ہزار نہایت کم ہے‘ جب کہ اس کے اپنے تخمینے کے مطابق یہ تعداد ۴۰ سے ۵۰ ہزار کے درمیان ہے۔ مزاحمت کاروں کی تعداد میں اس اضافے کی صورت حال اس وقت اور بھی حیران کن ہوجاتی ہے جب بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تخمینے کا پہلو بہ پہلو جائزہ لیا جائے۔ اُس کا اندازہ ہے کہ مئی ۲۰۰۳ء اور اگست ۲۰۰۴ء کے درمیان مذکورہ بالا مزاحمت کاروں کی تعداد کے علاوہ ۲۴ ہزار عراقی مزاحمت کاروں کو یا تو ہلاک (شہید) کر دیا گیا ہے یا پھر گرفتار۔ جنگ کے آغاز پر امریکی قیادت میں جنگ لڑنے والے اور اتحادی ممالک کی تعداد ۳۰ تھی۔ اب آٹھ ممالک نے اپنی افواج واپس بلا لی ہیں۔ جنگ کے آغاز پر اتحادی ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کی ۱۹ فی صد نمایندگی کرتی تھی‘ جب کہ آج وہ ممالک جن کی افواج ابھی عراق میں موجود ہیں ان کی آبادی دنیا کی کل آبادی کی ۶.۱۳ فی صد نمایندگی کرتی ہے۔
امریکا اور اتحادیوں کا جانی نقصان: جنگ کے آغاز ۱۹مارچ ۲۰۰۳ء سے ۲۲ستمبر ۲۰۰۴ء کے درمیان ۱۱۷۵ اتحادی فوجی ہلاک ہوئے جن میں ۱۰۴۰ امریکی فوجی بھی شامل تھے۔ جنگ کے آغاز سے ۷ ہزار ۴ سو ۱۳ امریکی فوجی زخمی ہوئے جن میں سے ۶ہزار ۹ سو ۵۳ یکم مئی ۲۰۰۳ء کے بعد زخمی ہوئے۔ اندازاً ۱۵۴ شہری ٹھیکیدار‘ عیسائی مشنری اور عام شہری کارکن ہلاک ہوئے جن میں سے ۵۲ کی شناخت بطور امریکی ہوئی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے منسلکہ ۴۴ کارکن عراق میں ہلاک ہوئے جن میں وہ ۳۳ صحافی بھی شامل ہیں جو صدربش کے اعلانِ جنگ کے بعد ہلاک ہوئے۔ ان ہلاک شدگان میں سے آٹھ صحافی امریکی تھے۔
امریکی ساکھ کو نقصان: آٹھ یورپی اور مغربی ممالک کے جائزوں کے مطابق اس جنگ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد نہیں کی‘ بلکہ اس میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اندرون ملک‘ انیسن برگ الیکشن سروے کی جانب سے کیے گئے مطالعاتی جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ ۵۲ فی صد امریکیوں کی رائے میں صدر بش‘ عراق کے معاملے کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
عسکری غلطیاں: متعدد سابق امریکی فوجی حکام نے جنگ پر تنقید کی ہے۔ تنقید کرنے والوں میں شامل ریٹائرڈ میرین جنرل انتھونی زینی نے کہا ہے کہ جنگ کے لیے جھوٹے جواز گھڑنے‘ روایتی اتحادیوں کو چھوڑنے‘ عراقی جلاوطنوں کو ابھارنے اور ان پر اعتماد کرنے اور بعد از جنگ‘ عراق کے لیے منصوبہ بندی میں ناکامی کے ذریعے‘ بش انتظامیہ نے امریکا کو کم محفوظ بنا دیا ہے۔
فوجیوں میں کم حوصلگی : مارچ ۲۰۰۴ء میں کیے گئے ایک فوجی جائزے سے پتا چلا کہ ۵۲ فی صد فوجیوں میں کم حوصلہ (low morale) ہے‘ جب کہ تین چوتھائی فوجیوں نے بتایا کہ ان کے افسران نے ان کی اچھی قیادت نہیں کی۔
نیشنل گارڈ ٹروپس اس وقت عراق میں امریکی فوج کا تقریباً ایک تہائی ہیں جن میں پولیس‘آگ بجھانے والے کارکنان اور ہنگامی طبّی امدادی عملے کے کارکنان ہیں۔ ان کی تعیناتی سے ان کے اپنے علاقوں کی کمیونٹی پر بھاری بوجھ آن پڑا ہے اور کسی ہنگامی صورت حال کے پیش آنے پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اندازاً ۲۰ ہزار غیر سرکاری ٹھیکیدار اس وقت عراق میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو اس سے پہلے روایتی طور پر خود امریکی فوج انجام دیا کرتی تھی۔
امریکی معیشت پر طویل المدت اثرات : اب تک کا نقصان (The bill so far) کانگریس نے عراق کے لیے ۱.۱۵۱ ارب ڈالر کا بل منظور کیا ہے۔ کانگریس کے رہنما توقع کر رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد ۶۰ ارب ڈالر کا اضافی ضمنی بل کانگریس میں پیش ہوگا۔
ماہر اقتصادیات ڈائوگ ہین وڈ (Doug Henwood)نے اندازہ لگایا ہے کہ جنگ کی وجہ سے ایک امریکی گھرانے کا اوسطاً کم از کم ۳ ہزار ۴ سو ۱۵ ڈالر کا خرچ بڑھ جائے گا۔ ایک اور ماہر اقتصادیات جیمز گالبریتھ (James Galbraith) نے‘ جو یونی ورسٹی آف ٹیکساس سے تعلق رکھتے ہیں‘ پیشین گوئی کی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جنگی اخراجات سے ابتدائی طور پر معیشت کو فروغ ملے‘ مگر امکان ہے کہ یہ معاشی مسائل میں اضافے کا باعث ہوں گے جن میں بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور افراطِ زر کی بلند شرح بھی شامل ہے۔
امریکی خام تیل کی قیمتیں ۱۹ اگست ۲۰۰۴ء کو ۴۸ ڈالر فی بیرل تک جا پہنچیں جو ۱۹۸۳ء سے اب تک سب سے زیادہ قیمت ہے۔ اس صورت حال کو اکثر تجزیہ نگار‘ عراق میں بگڑتی ہوئی صورت حال سے جزوی طور پر جوڑ رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۴۰ ڈالر فی بیرل کے حساب سے ایک سال تک خام تیل کی قیمتیں برقرار رہتی ہیں تو پھر امریکا کی قومی خام پیداوار (GDP) ۵۰ ارب ڈالر سے بھی زیادہ گر جائے گی۔
فوجی خاندانوں پر معاشی اثرات : افغانستان اور عراق پر جنگوں کے آغاز سے ۳لاکھ ۶۴ ہزار ریزرو فوجی اور نیشنل گارڈ سے منسلک سپاہیوں کو فوجی خدمات کے لیے طلب کیاگیا ہے۔ فوجی ہنگامی امداد (Army Emergency Relief) کے ادارے کا بیان ہے کہ فوجی خاندانوں کی جانب سے فوڈسٹیمپ اور سستی خوراک کے لیے درخواستوں میں ۲۰۰۲ء اور ۲۰۰۳ء کے درمیان کئی سو فی صد اضافہ ہوا ہے۔
سماجی اثرات : بش انتظامیہ کی جانب سے بھاری جنگی اخراجات اور امیروں پر ٹیکس کٹوتی میں چھوٹ کے مشترکہ اقدامات کا نتیجہ‘ سماجی ترقی کے لیے رقم میں کمی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ حالانکہ اس سال ہونے والے ۱.۱۵۱ ارب ڈالر کے جنگی اخراجات سے کم آمدن والے خاندانوں‘ بزرگوں اور معذوروں کے لیے‘ امریکی وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سہولت اور ہائوسنگ ووچرز کے تحت ۲۳ ملین گھر تعمیر ہو سکتے تھے‘ ۲۷ ملین غیرانشورنس شدہ امریکیوںکے لیے صحت کی انشورنس ہوجاتی‘ ایلیمنٹری اسکولوں کے تقریباً ۳ ملین اساتذہ کی تنخواہیں ادا ہوجاتیں‘ ۶لاکھ ۷۸ہزار ۲ سو آگ بجھانے والی گاڑیاں خرید لی جاتیں‘ ایک سال کے لیے ۲۰ملین بچوں کی مدد ہوسکتی تھی یا ۸۲ ملین بچوں کی صحت کی ضروریات پوری ہوتیں۔
سابقہ فوجیوں کے علاج پر اخراجات: زخمی ہونے والے ۷ ہزار سے زائد فوجیوں کے تقریباً ۶۴ فی صد کو ایسے کاری زخم آئے ہیں جن کی وجہ سے وہ ڈیوٹی پر نہیں پلٹ پائے‘ جب کہ علاج پر اخراجات الگ اٹھ رہے ہیں۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن نامی جریدے نے جولائی ۲۰۰۴ء میں تحریر کیا کہ جنگِ عراق سے پلٹنے والے ہر چھے میں سے ایک فوجی میں مابعد اعصاب زدگی‘ زبردست ذہنی دبائواور شدید نوعیت کی بے چینی کے آثار پائے گئے ہیں۔ اس مطالعے میں شامل فوجیوں میں ۲۳ سے ۴۰ فی صد فوجیوں نے ذہنی صحت کے لیے علاج معالجے کی خواہش ظاہر کی۔
عراقی ھلاکتیں اور زخمیوں کی تعداد : امریکی جارحیت کے نتیجے میں ۱۲ہزار ۸ سو سے ۱۴ ہزار ۸ سو ۴۳ عراقی شہری ہلاک ہوئے‘ جب کہ ایک اندازے کے مطابق ۴۰ہزار عراقی زخمی ہوئے۔ بڑے جنگی آپریشن کے دوران ۴ ہزار ۸سو ۹۵ سے ۶ہزار ۳ سو۷۰ عراقی فوجی اور مزاحمت کار ہلاک (شہید) ہوئے۔
تخفیف شدہ یورینیم کے اثرات : پینٹاگون کے مطابق امریکا اور برطانیہ کی افواج نے زہریلے (toxic) اور ریڈیو ایکٹو دھاتوں سے بنا ۱۱۰۰ سے ۲۲۰۰ ٹن گولہ بارود مارچ ۲۰۰۳ء کی بم باری کی مہم میں استعمال کیا۔ بہت سے سائنس دان جنگِ خلیج کے دوران میں تخفیف شدہ یورینیم (DU) کے استعمال کو‘ جو عراق میں استعمال شدہ مقدار سے کہیں کم تھی‘ امریکی فوجیوں میں بیماری اور بصرہ اور جنوبی عراق میں بچوں کے پیدایشی نقص میں سات گنا اضافے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
جرائم میں اضافہ: قتل ‘ زنا اور اغوا کی وارداتوں میں بے پناہ اضافے نے عراقی بچوں کو اسکولوں سے اور عورتوں کو بازاروں اور گلی کوچوں سے دُور رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پُرتشدد اموات کے ضمن میں ۲۰۰۲ء میں ۱۴ فی ماہ کے مقابلے میں ۲۰۰۳ء میں فی ماہ ۳۵۷ اموات کا اضافہ ہوا ہے۔
بے روزگاری: عراق میں بے روزگاری کی شرح ‘جنگ سے پہلے ۳۰ فی صد تھی جو بڑھ کر ۲۰۰۳ء کے موسمِ گرما میں ۶۰ فی صد ہوگئی ہے‘ جب کہ بش انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ بے روزگاری میں کمی آئی ہے۔ امریکا نے عراق کی ۷۰ لاکھ لیبر فورس میں سے صرف ایک لاکھ ۲۰ہزار کو تعمیرنو کے منصوبوں میں ملازمت دی ہے۔
عراق کی تیل کی معیشت : امریکا مخالف قوتوں نے عراق کی عبوری حکومت کو اپنے تیل کے اثاثے استعمال میں لانے سے روک رکھا ہے۔ جون ۲۰۰۳ء سے عراقی تیل کے انفراسٹرکچر پر کم از کم ۱۱۸ حملے ہوچکے ہیں۔
نظامِ صحت کے بنیادی ڈہانچے کی تباھی: ایک عشرے سے زائد کی پابندیوں نے عراق کے نظامِ صحت کی سہولیات کو دورانِ جنگ اور بعداز جارحیت‘ لوٹ مار (post- invasion looting) نے مزید ابتر بنا دیا۔عراقی ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی میں کمی اور مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تعلیم کی صورت حال : اقوام متحدہ کے ادارۂ اطفال (UNICEF)کا تخمینہ ہے کہ اس تنازع کے دوران ۲۰۰ سے زائد اسکول تباہ ہوئے اور مزید ہزاروں اسکولوں کو صدام حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والی افراتفری کے دوران لوٹا گیا۔
ماحولیات: عراق میں نکاسی آب اور فراہمی آب کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ تیل کے کنوئوں کو آگ لگ جاتی ہے جس کا دھواں بڑے پیمانے پر پھیل کر عوام اور ماحول کے لیے آلودگی اور خطرات میں اضافے کا باعث ہے۔ باوردی سرنگوں اور بے پھٹے اسلحے سے ہر ماہ اندازاً ۲۰ اموات واقع ہوتی ہیں۔
منتقلی اقتدار کی ’’قیمت‘‘ : عراق کو ’’انتقالِ حاکمیت اعلیٰ‘‘ کے اعلان کے باوجود ابھی تک ملک امریکی اور اتحادی افواج کے قبضے میں ہے اور سیاسی اور معاشی آزادیوں کو محدود کر دیا گیا ہے۔ عبوری حکومت کو یہ اختیار تک حاصل نہیں کہ وہ سابق امریکی منتظم پائول پریمر کے قریباً ۱۰۰ احکامات کو کالعدم قرار دے سکے۔ ان میں عراق کے تیل کے سرکاری نظام کی نج کاری کی اجازت بھی شامل ہے۔ یہ احکامات تعمیرنو میں عراق کی قومی تعمیراتی فرموں کو ترجیحی بنیادوں پر شراکت سے روکتے ہیں۔
دنیا پر اثرات : عراق پر امریکی جارحیت کے عالمی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اتحادی افواج کی موجودگی کے سبب مختلف ممالک کی افواج کو ہلاکتوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی دیگر ممالک کے لیے بھی مثال بن گئی ہے کہ وہ عالمی قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے‘ طاقت کے بل بوتے پر دوسرے ممالک پر حملہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح امنِ عالم خطرے سے دوچار ہوگیا ہے اور خود اقوام متحدہ کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بش انتظامیہ نے عراق پر قبضے کے جواز کے لیے بھی اقوام متحدہ پر دبائو ڈالا جو اس کے چارٹر کے منافی تھا۔ اسی وجہ سے کوفی عنان نے اپنی ستمبر ۲۰۰۴ء کی تقریر میں واضح طور پر کہاکہ یہ غیرقانونی جنگ ہے۔ سلامتی کونسل سے حمایت نہ ملنے پر امریکا نے دبائو کے ذریعے‘ دیگر ممالک کو اتحادی بنانے کی کوشش کی‘ جب کہ ان ممالک کی ۹۰ فی صد تک آبادی اس جنگ کے خلاف تھی۔
عالمی معیشت کو نقصان: ۱.۱۵ ارب ڈالرجو امریکا نے جنگ میں خرچ کیے ہیں اس رقم سے دنیا بھر میں بھوک کو نصف کم کیا جا سکتا تھا اور ایچ آئی وی ایڈز کے لیے ادویات‘ بچوں کو بیماریوں سے مامون‘ ترقی پذیر ممالک کی صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی دو سال کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے نے ۱۹۷۰ء کے زمانے کی معاشی جمود کی کیفیت کے پلٹنے کے اندیشوں کو جنم دینا شروع کر دیا ہے۔ پہلے ہی بڑی فضائی کمپنیاں ہر ماہ اپنے اخراجات میں ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اضافے کی توقع کر رہی ہیں۔
عالمی سلامتی کو خطرات : امریکی قیادت میں جنگ اور دوسرے ممالک پر قبضے نے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کو نہ صرف عراق بلکہ دنیا بھر میں کارروائیوں کے لیے محرک فراہم کر دیا ہے جس سے دنیا کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ محکمہ خارجہ کی بین الاقوامی دہشت گردی کے بارے میں سالانہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ۲۰۰۳ء میں دہشت گردی سے متعلقہ واقعات میں شدت سے اضافہ ہوا۔
عالمی ماحولیاتی نقصان : امریکا کی جانب سے داغے گئے تخفیف شدہ یورینیم نے عراق کی سرزمین اور پانی کو تو آلودہ کیا ہی ہے مگر اس کے ناگزیر اثرات دوسرے ممالک تک بھی پہنچیں گے مثلاً اس کے نتیجے میں دریاے دجلہ بری طرح سے آلودہ ہوگیا ہے جو عراق‘ ایران اور کویت کے درمیان بہتا ہے (یہ سب اس کے اثرات سے متاثر ہوں گے)۔
حقوقِ انسانی : محکمۂ انصاف کا وہ میمو جس میں وائٹ ہائوس کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ تشدد اور اذیت دینے کا عمل قانونی تھا۔ یہ تعذیب کے خلاف اُس بین الاقوامی کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے جس پر امریکا نے بھی دستخط کیے ہیں۔ عراقی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی اور توہین آمیز رویے نے ہر جارحیت پسند کو تعذیب اور بدسلوکی کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ سے عراق پر امریکی جارحیت کے اثرات کی ایک جھلک سامنے آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا امریکا ویت نام کے بعد عراق کی دلدل سے جلد نکلنے کے لیے تیار ہے یا قانونِ مکافات کے تحت اپنے پیش روئوں کی طرح کسی بدتر انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔فاعتبروا یااولی الابصار!
لائوس‘ کمبوڈیا‘ میانمار اور ملائشیا کے درمیان واقع تھائی لینڈ‘ مسکراہٹ کی سرزمین‘ کے نام سے معروف ہے۔ ۶کروڑ ۳۰ لاکھ آبادی والا یہ ملک رقبے میں فرانس کے برابر ہے‘ جب کہ اس کے دارالحکومت ’بنکاک‘ کو ایک اہم سیاحتی‘ تجارتی و تفریحی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ تھائی لینڈ کی اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے‘ تاہم پٹانی‘ نراتھی وٹ‘ جایا اور سونگھلا چار جنوبی مسلم اکثریتی صوبے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار مسلمانوں کی تعداد ۴ فی صد بتاتے ہیں‘ جب کہ مسلم آبادی کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ یہ مسلم اکثریتی صوبے ملائشیا سے متصل اور تھائی دارالحکومت سے ۱۲۰۰ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
۱۱ رمضان المبارک کو نراتھی وٹ صوبے کے ٹک بے شہر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بدھ مت کے پیامِ امن کی پیروکار تھائی حکومت نے اُن ۱۵۰۰ مظاہرین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا جو ٹک بے شہر کے ضلعی پولیس اسٹیشن کے گرد اکٹھے ہوگئے تھے۔ یہ لوگ اُن چھے افراد کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جن کو تھائی فوج نے چند روز قبل گرفتار کر لیا تھا۔ الزام یہ عائد کیا گیا کہ اُنھوں نے مسلح افواج کے جوانوں سے چھے بندوقیں چھین کر علیحدگی پسند مسلمانوں کے حوالے کردی تھیں اور فوج نے اسلحہ بازیاب کرانے کے لیے اُنھیں گرفتار کیا ۔ ہفت روزہ اکانومسٹ کی رپورٹ بھی یہی ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ کے اخبارات کا کہنا ہے کہ یہ افراد ٹک بے شہر کے حفاظتی اداروں کی طرف سے چوکیداری پر معمور تھے اور تھائی فوج نے مقامی آبادی پر دہشت ڈالنے کے لیے اسلحہ بازیابی کے بہانے اُنھیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔
پولیس اسٹیشن کے گرد جمع ہونے والے ۱۵۰۰ مظاہرین مکمل طور پر غیرمسلح تھے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے کہ جو دیکھا دیکھی مجمع میں شامل ہوتے چلے گئے۔ اُن کی اکثریت چھوٹے کاشت کاروں اور قریبی دکان داروں پر مشتمل تھی۔ وہ حکومت کے لیے کیا مسئلہ کھڑا کرسکتے تھے‘ لیکن تھائی فوج نے مظاہرے میں موجود ہر شخص کو سیکیورٹی رسک سمجھا۔ یاد رہے کہ جنوبی تھائی لینڈ کے تین مسلم صوبوں میں گذشتہ ۱۰ ماہ سے مارشل لا نافذ ہے۔ دو ماہ قبل موجودہ وزیراعظم نے اپنے وزیر دفاع کو اس بنا پر برخواست کر دیاکہ وہ جنوبی علاقوں میں ’نمایاں‘ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ۲۵ اکتوبر کو فوج کو موقع ہاتھ آگیا کہ اُن کے بقول ’’دہشت گرد مسلم علیحدگی پسندوں اور شرپسندوں‘‘ کے دماغ درست کیے جاسکیں۔
اے ایف پی‘ رائٹر‘ بی بی سی اور دیگر خبررساں ایجنسیوں نے خبر جاری کی کہ فوج کے سربراہ جنرل یراوت ونگ سوان کی اجازت کے بعد ہی یہ کارروائی ہوئی۔ اولین طور پر ۳۰۰ فوجی کمانڈو مظاہرین کے گرد حصار بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کی پشت پر خودکار اسلحہ سے لیس سیکڑوں فوجی دستے بھی موجود تھے ۔ فوج نے مظاہرین پر پائپوں سے پانی برسایا‘ پھر آنسوگیس پھینکنا شروع کی اور اس کے بعد لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ اس افراتفری کے دوران کم از کم ۲۰۰ مظاہرین قریبی علاقوں میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد قتلِ عام پر تُلی ہوئی فوج نے براہ راست گولیاں برسانا شروع کر دیں جس سے چھے افراد موقع پر شہید اور ۳۰ زخمی ہوگئے۔ ابھی مظاہرین سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ آرمی کمانڈر نے انھیں منشتر ہونے کا اعلان کیے بغیرگرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ فوجیوں نے مسلم نوجوانوں کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا‘ اُن کی قمیصیں اُتروا کر اُن کے ہاتھ اُن کی پشت پرباندھ دیے اور اُنھیں منہ کے بل زمین پر لیٹنے کا حکم دیا‘ سرتابی کرنے والوں کے سروں پر بندوقوں کے بٹ مارے جاتے‘ یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ تھائی ٹیلی ویژن نے ۲۶ اکتوبر کو فلم دکھائی جس میں تھائی فوجی M-16آٹومیٹک رائفلیں چلا رہے تھے۔
وزیراعظم تھک سِن شِنا وترا نے پارلیمنٹ میں بھی اور ذرائع ابلاغ کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ یہ لوگ روزے سے تھے اور اُن سے تباہ کُن اسلحہ اور ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔ گرفتار شدگان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ کچھ عورتوں اور بچوں کا ذکر بھی ہے۔ ان لوگوں کومال برداری کے لیے چھ پہیوں والے ٹرکوں میں بھرکر فوج کے تفتیشی مرکز میں لے جایا جانے لگا۔ تفتیشی مرکز ۶۰ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ مظاہرین کو ٹرکوں میں بھرنے اور تفتیشی مرکزتک پہنچانے میں چھے گھنٹے لگے۔جب یہ ٹرک تفتیشی مرکز پہنچے تو ۷۸ روزہ دار بے بس مسلمان‘ دم گھٹنے اور ایک دوسرے کے نیچے دب کر شہید ہوچکے تھے‘ جب کہ دو ڈھائی سو کی حالت نازک تھی۔ خبرجب پھیلی تو تھائی لینڈ کے ہر مسلم گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی‘ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں افطار کے وقت آنکھیں اشک بار نہ ہوئی ہوں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ تھائی ہیومن رائٹس کمیشن اور کئی اداروں نے تھائی لینڈ حکومت کے اس رویّے کی مذمت کی اور غیر جانب دارانہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے تلاشِ حقیقت کا مطالبہ کیا۔ کچھ دنوں بعد وزیراعظم نے علاقے کا دورہ کیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ نشہ کرنے والوں‘ دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور دوسرے ممالک سے ہدایات لے کر تھائی لینڈ میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے والوں سے اس علاقے کو پاک کر دیا جائے گا‘ نیز یہ کہ اب مزید کوئی نرمی نہ برتی جائے گی۔ تھائی لینڈ کے تمام اخبارات نے وزیراعظم کی تقریر کو شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی سرزمین پر ’لاقانونیت‘ برداشت نہیں کرسکتے۔ اُنھوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ ٹرکوں کی کم تعداد کی وجہ سے تھائی مسلمان جاں بحق ہوئے‘ تاہم انھوں نے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہ کی کہ اس علاقے کے شہری نشہ آور اشیا استعمال کرنے اور روزہ رکھنے کی وجہ سے کمزور ہوگئے تھے۔ دم گھٹنے کے علاوہ اُن کی جسمانی کمزوری بھی ان کے انتقال کا سبب بنی۔ گویا فوج کا کوئی قصور ہی نہیں تھا۔
اے بی سی نیوزکے رپورٹر نے وزارتِ انصاف کے افسر مَنِت سُتاپورن کے حوالے سے یہ خبر جاری کہ کہ ٹرکوں میں محبوس لوگوں پر آنسو گیس بھی پھینکی گئی اور اُن کی موت آکسیجن کی کمی اور دم گھٹنے کے سبب ہوئی۔ یہ تمام لوگ نیم برہنہ تھے‘ اُن میں سے تین افراد کی گردن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہلاکتیں تشدد اور دم گھٹنے سے ہوئیں۔
ملائشیا کے وزیراعظم عبداللہ بداوی نے تھائی لینڈ کے وزیراعظم تھک سن شنا وترا کو احتجاجی فون کیا اور کہا کہ تھائی لینڈ کی حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اسلامی پارٹی ملائشیا نے کئی مقامات پر مظاہرے کیے اور تھائی لینڈ کی حکومت کی پُرزور مذمت کی۔ انڈونیشیا کے کئی اداروں اور تنظیموں نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب قاضی حسین احمد نے ۸۴ بے گناہ مسلمانوں کے بہیمانہ قتل پر شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کا کمیشن اس قتلِ عام کی تحقیقات کرے۔ بھارت کی حکومت نے بھی سرکاری طور پر مذمتی بیان جاری کیا۔ بنگلہ دیش‘ عرب ممالک اور یورپ کی کئی تنظیموں نے اس بہیمانہ واقعے کی پُرزور مذمت کی۔
چھے ماہ قبل ۲۸ اپریل کو اُس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی تھائی لینڈ کے دورے پر گئے تھے اور اُسی روز ۱۰۸ مسلمانوں کو تھائی افواج نے ہلاک کر دیا تھا۔ افسوس کہ وہ شدید احتجاج تو کیا اظہار مذمت بھی نہ کرسکے۔ مسلم ممالک کی مجموعی بے حسی کے سبب تھائی حکومت گذشتہ ۱۵ برس سے اس کوشش میں ہے کہ پٹانی‘ نراتھی وٹ ‘ سونگھلا اور جایا کے صوبوں میں علیحدگی کی تحریک کے آخری آثار کو بھی کچل دیا جائے اور وہ اس میں بظاہر کامیاب دکھائی دیتی ہے۔
تھائی لینڈ میں خوش حالی کا جو دور دورہ ہے اُس کے اثرات جنوبی تھائی لینڈ میں دُور دُور تک نہیں ملتے۔ وہاں کی اکثریت غریب کسانوں‘ مزدوروں اور نیم تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ میں شرح تعلیم ۹۳ فی صد ہے۔ حکومتِ تھائی لینڈ یہ الزام بار بار عائد کرتے ہوئے نہیں تھکتی کہ ان علاقوں میں نشہ بازوں‘ اسلحہ فروشوں اور بدعنوانی کرنے والوں کے گینگ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور اس علاقے کو مجرموں سے پاک کرنا ضروری ہے۔
تھائی حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ پٹانی یونائیٹڈ لبریشن آرگنائزیشن‘ پٹانی نیشنل یوتھ موومنٹ‘ بی آر این اور جی ایم آئی پی نیز آزاد اسلامی ریاست پٹانی کے خیالات کی معمولی سی حمایت کرنے والی تنظیموں کا‘ سنگاپور کی جماعت اسلامیہ اور اسامہ بن لادن کی القاعدہ تنظیم کے ساتھ تعلق ڈھونڈ نکالا جائے اور اُن کے خلاف ایسی ہی سخت کارروائی کی جائے جیسی امریکا افغانستان و عراق میں ’’دہشت گردی سدِّباب مہم‘‘ کے نام سے کر رہا ہے۔ امریکی مثال سے روشنی حاصل کرنے کے سبب گذشتہ ۱۰ ماہ کی مہم میں تھائی لینڈ میں ۴۰۰ مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں۔ نہ ان کے خلاف کہیں رپورٹ درج ہوئی ہے نہ کوئی اس خونِ ناحق کا دعویدارہے۔
اس علاقے میں بسنے والے مسلمان مَلے اور چم نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو۱۴۹۵ء میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور یہاں کے سلطان نے پٹانی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ۱۷۹۵ء میں تھائی سلطنت نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور جنگِ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد بھی یہ علاقہ آزاد حیثیت حاصل نہ کر سکا۔
پٹانی تحریکِ آزادی کے راہنما اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ دس برس ’بنیاد پرستی‘ مخالف طوفان کی نذر ہوگئے۔ اگلے دس برس ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کی مہم میں بش جونیئر کی قیادت میں صرف ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان میں عوام کا اقتدار ختم کر دیا گیا‘ عراق میں آگ و خون کی بارش اس طرح ہو رہی ہے کہ شہروں کے شہر تباہ ہو رہے ہیں‘ فلسطین کا مسئلہ کسی صورت حل ہوتا نظر نہیں آتا‘ جموں و کشمیر کے دعوے داروں نے ہاتھ جوڑ رکھے ہیں۔ ان حالات میں بچارے پٹانی والوں کی خبرگیری کون کرے گا‘ واللّٰہ المستعان!
عالمی پیمانے پر کام کرنے والی اُن تنظیموں اور خبررساں اداروں کے کردار کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جنھوں نے ٹک بے کے قتلِ عام کی تصاویر بنائیں اور جاری کیں۔ ایمنسٹی کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس کی ڈپٹی ڈائرکٹر نے اقوام متحدہ اور ریاست ہاے متحدہ سے مطالبہ کیا کہ ’’غیرانسانی قتلِ عام کی فی الفور تحقیقات کرائیں‘ ہانگ کانگ کے انسانی حقوق کمیشن نے تھائی حکومت کے سرکاری بیان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’’تمام افراد دم گھٹنے سے ہلاک نہیں ہوئے چند کے جسم سے گولیاں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ۱۳۰۰ کے مجمعے سے حکومت صرف چار رائفلیں بازیاب کرسکی۔ تھائی حکومت کو اپنے اقدام پر شرم آنی چاہیے‘‘۔
پٹانی کے ایک شہری کا یہ سوال برحق ہے کہ ایسا قتلِ عام اگر یورپ کے کسی ملک میں ہُوا ہوتا تو کیا عالمی ضمیر اُس وقت بھی سویا رہتا‘ یا کوئی اقدام کرتا؟
ولندیزی فلم ساز‘ تھیووان گوخھ (Theovan Gogh) کی اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع پر "Submission" نامی فلم جس میں اسلام کی تصویر کو نہایت مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے‘ حال ہی میں یورپ کے ٹی وی چینلوں پر نشر ہوئی۔یہ فلم درحقیقت ۱۰منٹ پر محیط تقریر پر مبنی ہے جس کی مصنفہ ڈچ پارلیمنٹ کی ممبر صومالی خاتون آیان حرسی علی (Ayaan Hirsi Ali) ہیں جو گذشتہ کئی برس سے اس تصور کو عام کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں کہ اسلام عورتوں پر جبر اور ظلم و ستم کا نام ہے۔ متذکرہ فلم بھی حرسی علی کی اسی فکر کی ترجمانی کرتی ہے جس کے اشتعال انگیز مواد نے پورے یورپ کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی جس کا انتہائی اور شدید ترین ردعمل ۲نومبر ۲۰۰۴ء کو وان گوخھ کے ایک مسلمان کے ہاتھوں افسوس ناک قتل کی صورت میں رونما ہوا۔
وان گوخھ کے قتل کے نتیجے میں یورپی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار ہو رہا ہے جس کے باعث فلم کے مواد‘ اس کے محرکات‘ مضمرات اور نتائج کا تجزیہ مسلمانانِ یورپ کے مستقبل کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ فلم ایک خاتون کی افسانوی کہانی پر مبنی ہے جو ساری عمر باپردہ رہتی ہے اور اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنی پاک محبت کو قربان کر کے اپنے والد کے پسند کیے ہوئے لڑکے سے ۱۷ برس کی عمرمیں محض اس لیے شادی کرلیتی ہے کہ اسلام ولی کی پسند کو تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے‘ حالانکہ لڑکی کو لڑکے کے وجود سے ہی کراہت محسوس ہوتی ہے۔ جب جب وہ خواہش کرتا ہے وہ اپنے شوہر سے خلوت بھی کرتی ہے کیونکہ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْص فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ (البقرہ ۲:۲۲۳)‘ کی رو سے اُس کے شوہر کو یہ حق حاصل ہے اور عورت انکار کرنے کی مجاز نہیں۔
وقت گزرتا جاتا ہے وہ خاتون نہ کہیں باہر جاتی ہے نہ کوئی مشاغل ہی رکھتی ہے۔ اُس کی زندگی کا مرکز و محور صرف اور صرف اپنے شوہر کے احکام کی تعمیل ہوتی ہے۔ اس اطاعت شعاری کے باوجود اُس کا شوہر اُس کو مارتا پیٹتا ہے۔ وہ اپنی زینت کسی پر ظاہر نہیں کرتی سوائے اپنے محرموں کے سامنے۔ اس پاکیزگی اخلاق اور احتیاط کے باوجود اس کا چچا اُس سے جبراً زنا کرتا ہے۔ وہ اپنی والدہ کے ذریعے سے اپنے والد تک یہ بات پہنچاتی ہے تاکہ اپنے چچا کے ظلم سے نجات کی کوئی سبیل بنے مگر اُس کا باپ جواباً یہ فرماتا ہے کہ اُس کے بھائی کی عزت پر شک کی نگاہ سے دیکھنے کی جرأت نہ کی جائے۔ فلم کا اختتام اس طرح ہوتاہے کہ عورت اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاتی ہے‘ گویا کہ یہی اس کا مقدر اور منزل ہے۔
یہ کہانی اپنی جگہ یقینا آنکھوں کو نم کر دینے اور دلوں کو دہلا دینے والی ہے لیکن حرسی علی اور وان گوخھ کا مقصد کسی مظلوم خاتون کی فریاد سنانا نہیں‘ بلکہ فلم کی کہانی اور پیش کش دونوں کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات خواتین پر ظلم و ستم کی ترغیب دیتے ہیں اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ مرد عورت کے ساتھ جو سلوک چاہے روا رکھے۔ گویا یہی اسلام کی تعلیمات ہیں اور یہی اسلامی معاشرے کا دستور ہے۔
اس مختصر فلم کی اشتعال انگیزی کا اندازہ تو اُس کو دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے جس میں متذکرہ عورت ایسے لباس میں ملبوس ہے جس میں سے اُس کا جسم چھلکتا ہے اور اسی حالت میں وہ نماز ادا کر رہی ہے۔ فلم میں جہاں جہاں آیاتِ قرآنی کی تلاوت ہوئی ہے یا کسی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے‘ اُس موقع پر خاتون کے برہنہ جسم کے کسی حصے پر اُس آیت کو لکھا دکھایا گیا ہے۔ خاتون کی تقریر شکوے کے طور پر بیان ہوئی ہے جس کا انداز طنزیہ ہے۔
اسلام آزادی اظہار کے قائل ہونے کا ہی نہیں بلکہ اس کی پُرزور اور پُرجوش حمایت کرنے کا نام ہے‘ تاہم اسلام اس آزادی اظہار کو اخلاقی ضابطوں کا پابند قرار دیتا ہے۔ وہ تعمیری تنقید کی اجازت ہی نہیں بلکہ دعوت دیتا ہے لیکن اشتعال انگیزی کو آزادی اظہار کا بدل ہرگز نہیں مانا جاسکتا۔ احکامِ اسلام کو شعوری طور پر سیاق و سباق سے کاٹ کر بیان کرنا ہی ایک مذموم کارروائی ہے‘ کجا کہ قرآن جیسی مقدس کتاب کی آیات کو برہنہ جسم پر لکھ کر پیش کرنا۔ اگرچہ فلم بالواسطہ متعدد موضوعات کو زیربحث لاتی ہے‘ تاہم کلیدی نکتہ اسلام میں عورت کا مقام‘ حقوق اور کردار ہے۔
قرآن کی آیات کو برہنہ جسم پر لکھنا اپنی جگہ توہین آمیز ہے‘ مگر اصل مسئلہ تو اسلام میں عورت کے مقام کی حسب مرضی پیش کش اور اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے اذہان میں اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنا اور غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت سے متنفر کرنے کی کوشش ہے۔ فلم میں اسلام پر جو چارج شیٹ پیش کی گئی ہے وہ کسی بھی لحاظ سے نئی نہیں ہے۔ عرصۂ دراز سے مغرب اور مغرب زدہ مفکرین و مبصرین کی جانب سے مسلم خواتین اور اسلام میں اُن کے مقام کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ مذکورہ فلم بھی مفہوم کے اعتبار سے مختلف نہیں۔ فرق محض اتنا ہے کہ زوالِ اشتراکی روس اور ۱۱ستمبر کے بعد مغربی تہذیب کی اسلام اور مسلمانوں پر یلغار نے ان مسائل کو عصرِحاضر کے سلگتے مسائل بنا دیا ہے‘ بالخصوص جب کہ مسلم ردعمل اکثر جذباتی و انتقامی نوعیت کا ہوتا ہے نہ کہ مدبرانہ سوچ اور دعوت و اصلاح کے جذبے سے سرشار‘ جیسا کہ وان گوخھ کے قتل سے بھی ظاہر ہوا ہے۔
وان گوخھ کے قتل کے نتیجے میں یورپ کے سیاسی و حکومتی حلقوں میں اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار بلکہ بعض مقامات پر کھلم کھلا تحقیر کی جا رہی ہے اور تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ سزاے موت‘ رجم‘ پردہ وغیرہ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی حاکمیت کے تصور سے دست برداری کا اعلان کریں۔ جویہ کرے وہ مہذب ہے اور جو یہ نہ کرے وہ انتہاپسند (extremist) ہے جس کو معاشرہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتا۔
وان گوخھ کے قتل نے یورپی ممالک میں اس بحث کو ایک دفعہ پھر مزید قوت کے ساتھ ابھار دیا ہے کہ اسلام جمہوریت اور آزادی اظہار کی ضد ہے اور اگر ہم نے خود اسلام کی اصلاح (reform) کرنے کی تحریک نہ چلائی تو انتہاپسند اور دہشت گرد ہمارے معاشروں پر قبضہ کرلیں گے۔ ڈنمارک میںحکومتی پارٹی نے ۲۱نومبر کو اجتماعِ ارکان میں حرسی علی کو اُن کی فلم پر خصوصی انعام سے نوازا اور ملک کے وزیراعظم نے یہ کہا کہ ’’مغربی معاشروں میں انجیل و قرآن ہر چیز کو ہدفِ تنقید بنایا جا سکتا ہے اور اس بنیادی اصول سے انحراف برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔ جرمنی سے بھی یہ تقاضا اُٹھ رہاہے کہ مساجد کو ضابطے کے اندر رکھنے کے لیے یہ قانون نافذ کیا جائے کہ خطبہ جمعہ وغیرہ جرمنی زبان میں ہو۔ اسلام کی نام لیوا متعدد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا جارہا ہے‘ اور وہ مسلم سیاست دان جو مغرب کے تصور جمہوریت وغیرہ پر ایمان نہیں لائے اور علانیہ شریعت کو ناقابلِ عمل قرار نہیں دیتے‘ اُن کو سیاسی دائرے میں بے اثر کرنے یا نکالنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے مسئلے پر بھی یہ قتل اثرانداز ہوگا۔ سب سے پریشانی والی بات reformation of Islam کی ہے۔ یہ بات اب علانیہ کہی جارہی ہے کہ صلوٰۃ و زکوٰۃ سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں لیکن اسلام کی سیاسی و قانونی ہیئت کو بدل کر ’’جدید‘‘تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے جیسا کہ عیسائیت نے کیا ہے۔ غالباً پاکستان میں اس کا عنوان ’’روشن خیال اعتدال پسندی ‘‘ہے۔
فرانس‘ یورپ میںمسلمانوں کی آبادی (۵۰ لاکھ) کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک تصور کیا جاتا ہے جہاں مسلمان سیکولرزم اور مذہبی آزادی کی بنیاد پر مسلم تشخص کی بقا کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اسکارف پر حالیہ پابندی کے قانون نے اس جدوجہدمیں مزید سرگرمی پیدا کی ہے۔ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں پر اس کے آیندہ کیا اثرات مرتب ہوںگے‘ اس کا ایک اندازہ اگلے برس اپریل میں ہونے والے فرانسیسی کونسل براے مسلم فیتھ (French Council of the Muslim Faith- CFCM) کے انتخابی نتائج سے بھی لگایا جا سکے گا۔
CFCM بنیادی طور پر فرانسیسی مسلمانوں کا نمایندہ حکومتی ادارہ ہے جو ۲۰۰۳ء میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے صدر دلیل بوبکر ہیں جو پیرس کی قدیم مسجد کے جدید ذہن کے حامل ریکٹر ہیں اور ان کی تعیناتی وزیرداخلہ نکولس سارکوزی (Nicolos Sarkozy) سے مذاکرات کے بعد کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کونسل کے دو نائب صدر ہیں جن میں سے ایک کا تعلق یونین آف اسلامک آرگنائزیشن آف فرانس (UOIF) سے ہے اور دوسرے کا نیشنل فیڈریشن آف فرنچ مسلمز (FNMF) سے‘ دونوں ہی سخت موقف کے حامل گروپ شمار کیے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ محتاط قیادت کے تحت فرانسیسی مسلمانوں کی اجتماعی طور پر نمایندگی ہوسکے۔
اس مرتبہ خیال کیا جارہا ہے کہ انتخاب کھلے ماحول میں ہوں گے۔ ایک انتخابی حلقہ مسجد یا نماز کے لیے مختص جگہ پر مشتمل ہوگا۔ ۴ ہزار نمایندے تقریباً ۹۰۰انتخابی حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ موجودہ ۴۱ رکنی CFCM میں ۷۰ فی صد ارکان کا تعلق UOIFیا FNMFسے ہے‘ جب کہ صرف ۱۵ فی صد کا تعلق بوبکر کے کیمپ سے ہے۔ اس بار مزید دو سخت گیر جماعتوں کا انتخاب میں حصہ لینے کا امکان ہے۔ دوسرے لفظوں میں‘ مروجہ قوانین کے تحت موجودہ صدر کو بآسانی شدت پسند گروپ کی اکثریت ہٹاسکتی ہے۔
بوبکر نے اس خدشے کے پیش نظر دھمکی دی ہے کہ اگر مروجہ انتخابی قوانین کو تبدیل نہ کیا گیا تو وہ انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ ووٹنگ کی بنیاد مسجد کے رقبے کو بنایا گیا ہے۔ ان کے خیال میں قدیم اور جدید مساجد کو رقبے کی بنیاد پر برابر شمار کرنا ناانصافی ہے۔ حالانکہ پیرس کی مسجد قدیم ترین مسجد ہے جو ۱۹۲۰ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے مقابلے میں مخالفین کا اصرار ہے کہ قوانین میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ یہ بحث شدت پکڑ رہی ہے۔
کچھ لوگوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس طرح سخت گیر موقف کے حامل گروہ کونسل پر چھا جائیں گے۔ وہ اس کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ موجودہ صدر کی قیادت میں کونسل اسکارف کی سرکاری پالیسی کی حمایت کرتی ہے اور مسلمانوں کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی کریں‘ جب کہ اس کے برعکس UOIFاسکول کی بچیوں کو اسکارف پہننے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
UOIF اگرچہ کسی بیرونی تنظیم سے تعلق کی نفی کرتی ہے لیکن یہ بنیادی طور پر اخوان المسلمون سے متاثر ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کی علم بردار ہے۔ UOIF کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ لڑکیوں کی تیراکی کے لیے الگ تالاب کا بھی ہے جس سے ان کی فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات بھی ایک اہم موضوع ہے۔ اس سے وہ سیاست دان جو شدت پسند اسلام کے مخالف ہیں‘ ان کی تشویش میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ ان اختلافات کے ساتھ امن و امان سے کس طرح رہا جا سکتا ہے۔
وزیرداخلہ سارکوزی اور ماڈریٹ مسلمانوں کے خیال میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کی نمایندگی پر مشتمل ایک مضبوط کونسل کا قیام اس لحاظ سے مفید ہوگا کہ اس طرح مسلم راے عامہ کے تمام نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی ممکن ہوسکے گی۔ فرانسیسی سیاست دانوں میں بھی دونوں آرا کے حامی پائے جاتے ہیں۔ وزیر داخلہ اگرچہ اسکارف پر پابندی کے حامی ہیں لیکن انھوں نے UOIF کی سالانہ کانفرنس میں بھی شرکت کی جو اس پابندی کی مخالف ہے۔
فرانسیسی وزیرداخلہ اس نقطۂ نظر کی نمایندگی بھی کر رہے ہیں جن کے خیال میں فرانس کو ۱۹۰۵ء کے قانون میں تبدیلی کرنی چاہیے جس کے تحت مذہب اور ریاست کو جدا جدا کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک تازہ کتاب میں مطالبہ کیا ہے کہ جب حکومت ثقافتی اور کھیل پر مبنی گروہوں کی مالی اعانت کرتی ہے تو مذہبی گروہوں کی اعانت کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر مذہبی گروہوں کی حمایت کی جائے تو بیرونی ممالک کی مداخلت کو جو مساجد اور مذہبی اسکولوں کی بہت بڑی تعداد کی اعانت کرتے ہیں‘ روکا جا سکتا ہے۔ یاد رہے عراق میں (اگست ۲۰۰۴ئ) فرانسیسی صحافیوں کو اغوا کرنے والوں کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ فرانس میں اسکارف پہننے پر پابندی ہٹائی جائے۔
فرانسیسی مسلم کونسل کا متوقع انتخاب‘ مسلمانوں کے لیے متفقہ مؤقف اور یک جہتی کے مظاہرے کا تاثر پیش کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ اختلاف راے اپنی جگہ لیکن اجتماعی مفاد پر اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ: اکانومسٹ‘ ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۴ئ)
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن لکھ کر اردو کے دینی ادب میں جو گراں قدر اضافہ کیا‘ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تفہیم سادہ و سلیس ادبی زبان میں فقہی مسائل‘ کلامی مباحث اور اسلام کی تحریکی روح کا وہ مرقع ہے جس سے ہر سطح اور ہر طبقۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
تفہیم کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس کا ترجمہ دنیا کی بہت سی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ اسے پاکستان کی بعض مقامی زبانوں میں بھی منتقل کیا جا چکا ہے۔ اب چھے جلدوں میں اس کا پشتو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے۔ پشتوزبان نہ صرف صوبہ سرحد کے بڑے حصے میں بولی جاتی ہے بلکہ افغانستان کی قومی زبان بھی ہے۔ جہادِ افغانستان کے زمانے میں محترم قیام الدین کشّاف نے مولانا مودودیؒ، سید قطب شہیدؒ اور حسن البنا شہیدؒ کی متعدد کتب کے ساتھ ساتھ تفہیم القرآن کا بھی پشتو میں ترجمہ کیا تھا مگر یہ افغانی پشتو میں تھا۔ افغانی پشتو اور صوبہ سرحد کے اکثر علاقوں میں بولی جانے والی یوسف زئی پشتو میں‘ الفاظ و تراکیب کی مماثلت کے باوجود‘ لہجے کے اعتبار سے‘ اور بعض اوقات لغات کے لحاظ سے بھی خاصا فرق ہے۔ یوسف زئی پشتو نہ صرف صوبہ سرحد کے تمام علاقوں کے لوگ سمجھتے اور بولتے ہیں بلکہ افغانستان کے اہلِ پشتو بھی اس کو بڑی حد تک سمجھتے ہیں۔ جب کہ افغانی پشتو سرحد والوں کے لیے کسی قدر نامانوس ہے‘ چنانچہ تخت بھائی ضلع مردان کے پروفیسر شفیق الرحمن صاحب نے یوسف زئی پشتو میں تفہیم القرآن کا مکمل ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس میں مولانا مودودیؒ کی تحریر کو پشتو کے قالب میں کچھ اس انداز سے ڈھالا گیا ہے کہ اس میں پشتو کی ادبی چاشنی بھی ہے اور تفہیم القرآن کی سلاست اور روانی بھی برقرار ہے۔ اس ترجمے میں بھی ایک کشش ہے جو آدمی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
اس اشاعت کی ایک خوبی یہ ہے کہ تفہیم القرآن کے صفحات کی ترتیب کو بالکل اصل کی طرح برقرار رکھا ہے اور جہاں ترجمے کے صفحات میں اضافہ ہوگیا ہے‘ وہاں ترتیب کو برقرار رکھنے کے لیے حروفِ تہجی کی ترتیب سے اضافی اوراق لگا دیے ہیں۔تفہیم القرآن کے آخر میں جو اشاریہ ہے‘ وہ بھی اسی ترتیب اور اسی انداز سے‘ بہ زبان پشتو‘ شامل کیا گیا ہے۔ (مگر تعجب ہے کہ جلداول‘ دوم اور چہارم میں اشاریہ نہیں دیا گیا؟)
اس مکمل ترجمے کے بعد‘ اسی مترجم کے قلم سے مختصر ترجمۂ قرآن بھی منظرعام پر آیا ہے۔ اس میں مترجم نے ایک طرف مولانا مودودیؒ کے اردو ترجمے کو سلیس پشتو میں ڈھالا ہے اور دوسری طرف بین السطور میں آسان لفظی ترجمہ بھی شامل کردیا ہے۔ مزید یہ کہ مختصرتفسیر میں دوسرے مفسرین سے بھی استفادہ کیاگیا ہے۔اس طرح دو جلدوںمیں یہ ایک مختصر مگر جامع پشتو تفسیر بن گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ پروفیسر شفیق الرحمن کا پشتو بولنے والوں پر احسانِ عظیم ہے۔ اس تفسیر کی مقبولیت کے سبب دو ماہ بعد اس کا دوسرا اڈیشن شائع کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مترجم اور مؤلف دونوں کو اجرعظیم سے نوازے اور اہلِ اسلام کو اس سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (گل زادہ شیرپاؤ)
دنیا کی مختلف زبانوں خصوصاً عربی اور اردو میں آنحضوؐر کی سیرت نگاری کی ایک پختہ روایت موجود ہے البتہ پنجابی زبان میں اس روایت نے قدرے مختلف صورت اختیار کی ہے اور یہ روایت منظوم سیرت نگاری کی ہے۔ زیرنظر کتاب‘ پنجابی زبان میں منظوم سیرت النبیؐ کے اُس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس کا آغاز گلزارِ محمدی (۱۸۶۵ئ) سے ہوا اور اب تک جاری ہے۔
محمد انورمیر کا شمار‘ ہمارے گوشہ نشین مگر پختہ فن شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے قرآن‘ حدیث اور سیرت پاکؐ کے وسیع مطالعے کی بنیاد پر پنجابی زبان میں یہ شہکار تخلیق کیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول: ’’اس کا اساسی آہنگ میاں محمد صاحب کی سیف الملوک کا ہے جو پنجابی میں اخلاقی و روحانی شاعری کا معیاری آہنگ بن چکا ہے‘‘۔ اس کی ہیئت مثنوی کی ہے جو طویل نظم کے لیے موزوں ہے‘ کہیں کہیں قصیدے کی ہیئت بھی اختیار کی ہے اور کچھ حصے آزاد نظم کے اسلوب میں ہیں۔
مصنف بتاتے ہیں کہ اس منظوم سیرت کی تحریک انھیں حفیظ تائب کی ایک نعت سے ہوئی تھی۔ انورمیر صاحب نے اس کے کچھ حصے حلقۂ ادب لاہور کے اجلاس میں بھی پیش کیے جس پر انھیں داد وتحسین ملی اور ان کا حوصلہ بڑھا۔ واقعاتِ سیرت منظوم کرتے ہوئے انھوں نے صحت و استناد کا خاص خیال رکھا ہے۔ کتاب پر پروفیسر تحسین فراقی نے پنجابی میں اور حفیظ الرحمن احسن نے اردو میں مقدمہ لکھا اور ڈاکٹر خورشید رضوی نے تقریظ۔ ان اصحابِ نقد و انتقاد کی تحسین و آفرین بھی اس کی عمدگی پر دال ہے اور اسے شہکار قرار دیے جانے کا جواز بھی۔
مجموعی طور پر یہ منظوم سیرت‘ محمد انورمیر کی راست فکری اور فنی صلابت کا عمدہ نمونہ ہے۔ سب سے اہم تو میرِحجازسے شاعر کی گہری قلبی وابستگی ہے‘ جو اس تخلیق کا محرک بنی اور جس نے اُن سے یہ پُرتاثیر منظوم سیرت لکھوائی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
جناب طالب الہاشمی صحابہ کرامؓ کی سیرت نگاری میں ایک قابلِ رشک تخصّص حاصل کرچکے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی ۱۵ تالیفات شائع ہوچکی ہیں‘ جن میں سات آٹھ سو صحابہ کرامؓ کے سوانحی نقوش منضبط کیے جاچکے ہیں۔ ان میں سے بعض تالیفات (سیرت خلیفۃ الرسول سیدنا صدیق اکبرؓ - سیرت حضرت ابو ایوب انصاریؓ- سیرت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ- سیرت حضرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ اور سیرت حضرت فاطمۃ الزہرائؓ) یک موضوعی تفصیلی مطالعے ہیں۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔
جملہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سیدنا حضرت ابوہریرہؓ کا امتیاز و انفرادیت یہ ہے کہ آپ سب سے بڑے راویِ حدیث ہیں‘بقول مؤلف: ’’ان سے ۵۳۷۴ احادیث مروی ہیں‘‘۔ یہ تعداد دوسرے کسی بھی صاحبِ رسولؐ یا صحابیہؓ سے مروی احادیث کی تعداد سے زیادہ ہے۔ اکثر اربابِ سیر نے حضرت ابوہریرہؓ کی جلالتِ قدر کا ذکر ان کی روایتِ حدیث ہی کے حوالے سے کیا ہے‘‘ (ص ۱۵)۔ آپ سفروحضر میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت رسول کریمؐ کی صحبت میں گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔
جناب طالب الہاشمی نے نہایت تحقیق و تدقیق اور تلاش و تفحص کے بعد سیدنا ابوہریرہؓ کے شخصی حالات و سوانح کے ساتھ کچھ اور پہلوئوں (مثلاً: آپ کے معمولاتِ شب و روز‘ جہادی سرگرمیوں‘ اخلاق و عادات‘ علمی زندگی‘ سفرِ آخرت اور آپ کے مقام و مرتبے) کی تفصیل جمع کی ہے۔ آخری حصے میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کردہ تقریباً ڈیڑھ سو ایسی احادیث کا اردو ترجمہ شاملِ کتاب کیا ہے جو زیادہ تر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اور چند ایک دیگر کتبِ حدیث میں ملتی ہیں۔
اپنے موضوع پر یہ مفصل اور مستند سوانح عمری‘ تعلیم و تربیت کے اعتبار سے بھی‘ ایک مفید کتاب ہے۔ کتابت و طباعت اطمینان بخش اور قیمت مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
بھارت اپنے دستور کی رُو سے ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولرازم کے معروف مفہوم کے مطابق بھارت میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور مذہب کی تبلیغ کی مکمل آزادی ہے۔ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ بھارت کی نصف صدی میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا‘ وہ سیکولرازم کا منہ چڑھا رہا ہے۔ ملازمتوں میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا ‘ اُردو زبان کو بتدریج ختم کرنے کی حکمت عملی‘ سیکڑوں خوں ریز فسادات‘ بلادریغ اور بعض اوقات پولیس کی سرپرستی میں قتل و غارت گری اور مکانات و املاک کی آتش زنی‘ پھر اسی تسلسل میں ۶دسمبر۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا۔ زیرنظرکتاب کے مرتب کہتے ہیں کہ اب رام مندر کی تحریک اپنے شباب پر پہنچ چکی ہے اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی زبردست تیاریاں کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف بھارتی مسلمانوں کی نوجوان نسل کو علم نہیں کہ بابری مسجد کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ اور رام مندر کے پسِ پردہ کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس موضوع پر کتابوں‘ اخباروں اور رسائل کو کھنگال کر اور بہت سی رپورٹوںاورقانونی و عدالتی دستاویزات کا مطالعہ کرکے بابری مسجد کے تاریخی پس منظر اور پیش منظر کے بارے میں دو جلدوں میں بڑا ہی اہم اور قیمتی لوازمہ جمع کیا ہے‘ اس کی حیثیت بابری مسجد کے انسائیکلوپیڈیا کی ہوگئی ہے۔ پہلی جلد ’’شہادت سے قبل‘‘ کی صورت حال پر اور دوسری جلد ’’شہادت کے بعد‘‘ کے وقوعات پر لکھے گئے مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے۔
یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابواب کے عنوانات سے اس کی جامعیت اور مباحث کے وسیع دائرے کا اندازہ ہوتا ہے: بابری مسجد کی دینی اور شرعی حیثیت۔ ہندتو: حقیقت‘ تاریخ‘ عزائم۔ بابری مسجد کی تاریخی حیثیت۔ بابری مسجد بنام جنم بھومی۔ شہید بابری مسجد: قانونی پہلو۔ اجودھیا تنازع۔ بابری مسجد‘ شہادت کے بعد۔ اجودھیا تنازع اور وزیراعظم واجپائی کے بیانات۔ متنازعہ مقامات کی کھدائی اور محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ۔ راے بریلی عدالت کا فیصلہ۔ بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں گواہوں کی دل چسپ داستان۔ وشواپریشد کے عزائم۔ بابری مسجد: موجودہ صورت حال۔ موجودہ حالات میں مسلمانانِ ہند کے لیے راہِ عمل‘ دستاویزات۔
ان مباحث میں بہت سی نئی باتیں اور چونکا دینے والے انکشافات ہیں‘ مثلاً: اترپردیش کے وزیر پنڈت لوک پتی ترپاٹھی کا بیان کہ ’’رام جنم بھومی کی تحریک امریکا میں شروع ہوئی اور ہندو مسلم تعلقات کو بگاڑنے کے لیے سی آئی اے اجودھیا میں شرارت کرتی رہی وغیرہ۔ مولانا عبدالحلیم اصلاحی نے ’’پیش لفظ‘‘ میں لکھا ہے کہ بابری مسجد کا مسئلہ ہندستان میں ملّتِ اسلامیہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور مسجد کو ازسرنو تعمیر کرنے کی کوشش مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے۔ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا تو آیندہ بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ذہنی اور فکری طور پر پسپا ہوچکا ہے اور یہ کتاب اسی پسپائی سے نکالنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔
بظاہر یہ متفرق تحریروں کا انتخاب ہے لیکن جو لوگ اخذ و ترتیب اور تدوین و تصنیف کے آداب اور دکھ درد سے واقف ہیں‘ وہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ عارف اقبال صاحب نے کتنے وسیع مطالعے‘ کتنی محنت اور کتنی کاوش و دیدہ ریزی کے بعد یہ کتابیں تیار کی ہیں۔
سارے لوازمے کو نہایت سلیقے اور حسن ترتیب کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے۔ کتابت‘ طباعت‘ سرورق اور جلدبندی سب کچھ عمدہ اور معیاری ہے اور قیمتاً نہایت مناسب ہے۔ مرتب اور ناشر اس کارنامے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (ر - ہ )
آندرے ژید نے ٹرائے کی جنگ کے حوالے سے ایک عجیب و غریب کردار کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب حملہ آوروں نے شہر پر قبضے کے لیے یلغار شروع کی تو شہر کے سبھی لوگ مال و دولت سمیٹے بھاگ رہے تھے‘ لیکن ایک نوجوان لڑکا اپنی پشت پر ایک بوڑھے کو‘ جو محض ہڈیوں کا پنجر تھا‘ لیے چلا جا رہا تھا۔ پوچھا گیا: ’’تم سب کچھ چھوڑ کر اس بڈھے کھوسٹ کو کیوں اٹھائے جا رہے ہو؟‘‘ نوجوان نے کہا:’’دولت تو کوشش کر کے دوبارہ مل جائے گی‘ لیکن ہڈیوں کا یہ پنجر میرے ماضی‘ میری دانش‘ اور میرے مستقبل کا نشانِ راہ ہے‘ یہ چھن گیا تو میرا سب کچھ چھن جائے گا‘‘--- افسوس کہ ہم نے اپنے نشاناتِ راہ کو بھلا دیا‘ گنوا دیا‘ بلکہ بوجھ سمجھ کر واقعی دفن کر دیا ہے۔ حالانکہ جو قومیں قحط الرجال کا شکار ہوں‘ ان کے لیے ماضی کے عظیم انسان لائٹ ٹاور کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔
پروفیسرڈاکٹر محمد سلیم ‘ نہ صرف پاکستان بلکہ ملت اسلامیہ کے ایک مایہ ناز سائنس دان‘ عالمی شہرت کے حامل ماہر طبیعیات (فزکس) اور ایک دردمند قلم کے مالک ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب‘ مصنف کے نومضامین کا مجموعہ ہے‘ جن میں: قائداعظم‘ مولانا محمد علی جوہر‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ حسرت موہانی‘ مولانا سید سلیمان ندوی‘ ظفر علی خان‘ مولانا شبیراحمد عثمانی‘ نواب بہادریار جنگ اور حکیم محمد اجمل شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی فرد کے ساتھ مصنف کو ہم نشینی کی سعادت تو نصیب نہیں ہوئی‘ لیکن اپنے سائنسی اسلوب‘ اختصار اور ’دوجمع دو مساوی چار‘ کے فارمولے پر عمل پیرا ڈاکٹر محمد سلیم صاحب نے مذکورہ بالا شخصیات پر قلم اٹھایا اور خوب لکھا ہے۔ ادب سے گہری مناسبت اور تاریخ کے پختہ ذوق نے ان کے اسلوب کو دل چسپ بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مستند مآخذ کو کشید کرکے‘ اور تنکا تنکا جمع کر کے ان خلدآشیانی حضرات کے شخصی خاکے تحریر کیے ہیں‘ بلکہ یوں سمجھیے کہ چلتی پھرتی تصویروں پر مشتمل ایک فلم پیش کی ہے‘ اس طرح زیربحث شخصیت کا ہر قابلِ ذکر پہلو ذہن پر نقش ہوجاتا ہے‘ اور خود شخصیت چلتی‘ پھرتی‘بولتی اور رہنمائی کرتی دکھائی دیتی ہے۔
ان تحریروں سے مختلف شخصیات کا جوہری پہلو اُبھر کر سامنے آیا ہے‘ اسے دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ اس کتاب کا نام ہوتا: ’’مسلم انڈیا کے نورتن‘‘۔ ہم ان مضامین کو نئی نسل کے مطالعے کے لیے لازم قرار دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مضامین ایک ثقافتی تحرک کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
صوفی محمد ضیاء الحق (۱۹۱۱ئ-۱۹۸۹ئ) مولانا اصغر علی روحی (۱۸۶۷ئ-۱۹۵۴ئ)کے بیٹے اور فارسی و عربی کے فاضلِ اجل تھے۔ نصف صدی کے قریب تدریسی خدمات انجام دیں اورہزاروں تلامذہ میں عربی زبان و ادب کا ذوق پیدا کیا۔ نام و نمود سے گریزاں‘ اور عمربھر گوشہ نشین رہے۔ ان کی بیشتر تصانیف مسودوں کی صورت غیرمطبوعہ پڑی رہ گئی۔ زیرنظر تالیف‘ مرحوم کے دو لائق شاگردوں (ڈاکٹر خورشید رضوی اور ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا) کی توجہ اور کاوش اور ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ کی دل چسپی اور علم دوستی سے منصہ شہود پر آئی ہے۔
بارہ منتخب نعتیہ عربی قصائد کا یہ مجموعہ ہے‘ معروف نعت گووں (حسان بن ثابت‘ امام بوصیری‘ امام برعی‘ شاہ ولی اللہ دہلوی‘ یوسف نبھانی‘ احمد شوقی‘ مولانا روحی اور خطیب مکی) کے دس ایسے قصیدوں پر مشتمل ہے جن کا قافیہ ہمزہ پر ختم ہوتا ہے۔ مجموعے میں دو بائیہ قصیدے (یعنی جن کا قافیہ حرف ’’ب‘‘ پر ختم ہوتا ہے) بھی شامل ہیں۔
انتخابِ قصائد کے ضمن میں مصنف کا معیار کیا رہا؟ اس سلسلے میں انھوں نے بڑی پتے کی بات کہی ہے‘ لکھتے ہیں: ’’نعت لکھنا درحقیقت بہت مشکل اور نازک کام ہے‘ بعض لوگ جادئہ اعتدال سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں اور صحیح نعت وہی ہوگی جس میں خدا کو خدا‘ رسول کو رسول اور اولیاء اللہ کو اولیاء اللہ ہی سمجھا جائے ورنہ یہ دھوکا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تعریف سے کبھی خوش نہیں ہو سکتے جس میں خدا کا درجہ کم کر کے رسولؐ کا رتبہ بڑھا دیا جائے یا جس میں خدا اور رسولؐ میں فرق نہ رکھا جائے ‘‘(ص ۴)۔ گویا نعت گو کے لیے مقامِ رسالت کا صحیح ادراک وشعور لازم ہے۔
مصنف ِ علام نے فقط نعتوں کے انتخاب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر نعت سے پہلے شاعر کے مختصر حالات‘ پھر شعر بہ شعر مشکل الفاظ و اصطلاحات اور اعلام کے معنی و مفہوم بتائے گئے ہیں‘ اس کے بعد اردو ترجمہ‘ پھر تشریح۔ اگر کسی شعر میں سیرت کے کسی خاص پہلو یا واقعے کی طرف اشارہ ہے تو تشریحات میں وہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح بعض اشعار کی تشریحات خاصی بھرپور اور طویل ہوگئی ہیں۔ بعض نعتوں میں مذکور مقامات کا تعارف بھی کرایا گیا ہے (ص ۳۶۷-۳۷۲)۔ یہ تشریحات مصنف کے علم و فضل اور سیرت النبیؐ پر ان کی عمیق نظر کی دلیل ہیں۔
یہ عربی نعت کا ایک خوب صورت تعارف ہے اور سیرت پاکؐ پر ایک اعلیٰ درجے کی کتاب بھی--- شیخ زاید اسلامی مرکز نے اسے شائع کر کے ایک لائقِ تحسین علمی خدمت انجام دی ہے۔ (ر-ہ)
مصنف نے دیباچے میں بتایا ہے کہ انھوں نے مسیحی فکر کو سمجھنے کا آغاز زمانۂ طالب علمی سے کیا۔ رفتہ رفتہ دل چسپی بڑھتی گئی‘ مطالعہ وسیع تر ہوتا چلا گیا اور انھوں نے اس موضوع پر باقاعدہ تحقیق شروع کی۔ اس کام کے سلسلے میں وہ بہت سے عیسائی اسکالروں سے بھی ملے جہاں جہاں سے جو جو معلومات انھیں دستیاب ہوئیں‘ ان سب کو تحقیق کی چھلنی سے گزار کر انھوں نے یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔ یہی ناشر (اسلامک اسٹڈی فورم) قبل ازیں بہائیت‘ قادیانیت اور فری میسنری پر کتابیں پیش کرچکا ہے۔
کتاب میں بائبل کے ارتقا‘ اس کی تدوین اور تشکیل کے مراحل اور ان تحریفات پر بحث کی گئی ہے جو مختلف ادوار میں کی جاتی رہیں۔ مصنف نے بائبل‘ یہودیت‘ عیسائیت وغیرہ پر مختلف مقالات کو بنیادی مآخذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔
کتاب بنیادی طور پر دو حصوںمیں ہے۔ پہلے حصے میں عیسائیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور عیسائیوں کی اناجیلِ اربعہ اور اس کی زمانی تشکیلات کا بیان ہے‘ نیز بعض عقائد کے سلسلے میں اسلام اور عیسائیت کا اختلاف اور متضاد نقطۂ نظر بھی بتایا گیا ہے۔ پھر عیسائیوں کے ان تبلیغی ہتھکنڈوں اور ان کی خفیہ اور علانیہ چالوں کا تذکرہ ہے جو وہ مسلم ممالک میں عیسائیت کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتاب کا دوسرا حصہ یہودیت اور یہود کی بائبل (عبرانی بائبل‘ اس کے قدیم نسخوں اور اس کے ترجموں) سے بحث کرتا ہے۔ پھر یہود کے عہدنامۂ قدیم کے بارے میں پائے جانے والے ایسے شکوک وشبہات کا ذکر ہے جو یہودیت اور خود عیسائیت کے اندر موجود ہیں۔ اس کے بعد یہودیت کے مختلف فرقوں کا بیان ہے۔ مجموعی اعتبار سے ‘آسمانی مذاہب میں جس قدر یہودیت اور نصرانیت نے تحریف کی ہے‘ اس کا مختصر مگر جامع خاکہ اس کتاب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اسلام کی حقانیت کا صحیح ادراک ہوتا ہے۔ یہ خالصتاً ایک علمی اور تحقیقی مطالعہ ہے۔ اردو اور انگریزی مآخذ کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
٭ رحمن کیانی‘ منتخب کلام۔ ناشر: رحمن کیانی میموریل سوسائٹی۔ بی‘۱۶۰‘ بلاک ۱۰‘ گلشنِ اقبال کراچی‘ فون: ۴۹۶۰۰۲۱۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ ] رحمن کیانی ۲۵ برس تک فضائیہ سے بطور ماسٹر ورانٹ افسر وابستہ رہے۔ ان کی شاعری میں اسلام اور پاکستان سے نظریاتی وابستگی بہت نمایاں ہے۔رزمیہ شاعری کی قومی‘ ملّی اور جہادی ترانے لکھے ؎
میں نقیبِ ملّتِ بیضا ہوں‘ میری شاعری
نغمۂ بربط نہیں‘ تلوار کی جھنکار ہے
ڈاکٹر سید عبداللہ‘ ممتاز حسن‘ نعیم صدیقی اور اشتیاق حسین قریشی ایسے اکابر نے ان کی شاعری کی تحسین کی ہے۔[
’’پاکستانی جمہوریت کا المیہ‘‘ (نومبر ۲۰۰۴ئ) میں موجودہ حکومت اور صدر مملکت کے رویے پر مثبت دلائل کے ساتھ تنقید کی گئی ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھانے کی ضرورت ہے‘ یعنی سیاست دانوں کا طرزِعمل جنھوں نے فوج کو سیاست میں بے جا مداخلت کے پیہم مواقع فراہم کیے۔ عوام اور اہلِ دانش کے لیے وہی حل قابلِ قبول ہوگا جو دونوں رخ دکھانے کے ساتھ پیش کیا جائے۔اس پر مکالمے کی ضرورت ہے۔
ترجمان القرآن کے تحقیقی اشارات رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ’’اشارات‘‘ (نومبر۲۰۰۴ئ) میں پاکستان کی سیاسی صورت حال کا بخوبی پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے صدر کی بدعہدی کو آشکارا کیا گیا ہے اور ملک کی ابتر صورت حال کے پیش نظر عوامی تحریک کی ضرورت پر زور گیا دیا ہے‘ تاہم سیاست دانوں کی ماضی کی کارکردگی‘ مفاد پرستی‘ منافقانہ کردار‘ فوجی آمریت کا تسلط اور آئین کی منسوخی کے خدشات کے پیشِ نظر لائحہ عمل کیا ہو‘ یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے۔
’’ساس بہو تعلقات: مسائل اور حل‘‘ (نومبر ۲۰۰۴ئ) اہم معاشرتی مسئلے پررہنمائی ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ان دنوں پاکستان ٹیلی ویژن بھی اس مسئلے کو مذاکروں کے ذریعے ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے اور خواہ مخواہ مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ہماری اقدار اور معاشرے کو تبدیل کرنے کی سوچی سمجھی پالیسی ہے۔
میں نے جب ۲۰۰۰ء میں بش کو ووٹ دیا اور وہ جیت گیا تو میں مایوس ہوا۔ اب ۲۰۰۴ء میں‘ میں نے اس کے خلاف ووٹ دیا اور وہ پھر بھی جیت گیا تو بھی میری کیفیت ویسی ہی ہے‘ اگرچہ بالکل ویسی نہیں۔ دونوں آپشن ہمیں کہیں نہیں پہنچاتے۔ یہ انتظامیہ جو لبرل کو لعنتی لفظ (cuss word )تصور کرتی ہے‘ کیسے پاکستان کو اور دنیا کو لبرل اقدار کی تلقین کرسکتی ہے؟ وہ پاکستان میں لبرل ازم چاہتے ہیں لیکن امریکا میں کنزرویٹو ازم۔ وہ پاکستان میں تو خاندانی منصوبہ بندی چاہتے ہیں لیکن کیری کو خواتین کے اسقاطِ حمل کے حق کی حمایت کرنے پر مرتد قرار دیتے ہیں اور کسی ایسے ہسپتال کو جو اسقاط کی سہولت فراہم کرتا ہے یا اپنے مریضوں کے سامنے اسقاط کے لفظ کا ذکر کرتا ہے‘ اس کو وفاقی حکومت کی امداد دینے سے انکار کرتے ہیں۔وہ پاکستان کے نصاب تعلیم سے اسلام کو خارج کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکا کے سرکاری اسکولوں میں ازسرنو مذہبی دعا کے آغاز کے لیے دستوری ترمیم چاہتے ہیں۔ کیا دو رنگی ہے! آج کے ری پبلکن امریکا کی بی جے پی بن چکے ہیں‘ بلکہ اس سے بھی بدتر‘ کیونکہ واجپائی ایک مانا ہوا شاعر ہے اور درست انگریزی بول سکتا ہے!
فقہ میں اپنی تحقیق یا کسی عالم کی تحقیق کی پیروی کرتے ہوئے کوئی ایسا طرزِعمل اختیار کرنا جس کے لیے شریعت میں گنجایش موجود ہو‘ فرقہ بندی نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی قباحت واقع ہوسکتی ہے۔ اس طریقے سے مختلف لوگوں کی تحقیقات اور ان کے طرزعمل میں جو اختلاف واقع ہوتا ہے وہ مذموم تفرق و اختلاف نہیں ہے جس کی برائی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ایسے اختلافات خود صحابۂ کرام اور تابعین میں رہ چکے ہیں۔ دراصل فرقہ بندی جس چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ فروع کے اختلافات کو اہمیت دے کر اصولی اختلاف بنا دیا جائے اور اس میں اتنا غلو کیا جائے کہ اسی پر الگ الگ گروہ بنیں اور ہر گروہ اپنے مسلک کو بہ منزلۂ دین قرار دے کر دوسرے گروہوں کی تکفیروتضلیل کرنے لگے۔ اپنی نمازیں اور مسجدیں الگ کرلے‘ شادی بیاہ اور معاشرتی تعلقات میں بھی علیحدگی اختیار کرے اور دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کے سارے جھگڑے انھی فروعی مسائل پر ہوں‘ حتیٰ کہ اصل دین کے کام میں بھی دوسرے گروہوں کے ساتھ اس کا تعاون ناممکن ہوجائے۔ اس قسم کی فرقہ بندی اگر پیدا نہ ہو اور فروع کو صرف فروع کی حیثیت میں ہی رہنے دیا جائے تو مسائلِ فقہ میں مختلف مسلکوں کے لوگ اپنے اپنے طریقے پر عمل کرتے ہوئے بھی ایک ساتھ جماعت میں منسلک رہ سکتے ہیں…
فقہی اختلافات کی بنا پر نمازوں کو الگ کرنے کا کوئی ثبوت سلف میں نہیں ہے۔ یہ فقہی اختلافات صحابۂ کرام کے درمیان بھی تھے اور تابعین کے درمیان بھی اور تبع تابعین کے درمیان بھی‘ لیکن یہ سب لوگ ایک ہی جماعت میں نماز پڑھتے تھے۔ یہی طریقہ ائمہ مجتہدین کا بھی رہا۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ نماز دین کی بنیادوں میں سے ہے اور فقہی اختلافات بہرحال فروعی ہیں۔ ان فروعی اختلافات کی بنا پر نمازیں الگ کرنا تفرق فی الدین ہے جس کو قرآن نے گمراہی قرار دیا ہے۔ نمازیں الگ کرلینے کے بعد مسلمانوں کی ایک اُمت نہیں رہ سکتی اور اس کا امکان نہیں ہے کہ جو لوگ مل کر نماز نہیں پڑھ سکتے وہ دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کی سعی میں متحد ہوکر کام کر سکیں گے۔ یہ چیز اب نظری نہیں رہی ہے بلکہ صدیوں کے عملی تجربے نے اسے ثابت کر دیا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اپنے فرقی اختلافات کی وجہ سے نمازوں کی علیحدگی پر اصرار کرتے ہیں وہ دراصل دین کی جڑ پر ضرب لگاتے ہیں۔ (’’رسائل و مسائل‘‘، مولانا مودودیؒ، ترجمان القرآن‘ جلد۲۵‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ و ذی الحجہ ۱۳۶۳ھ۔ نومبر‘ دسمبر ۱۹۴۴ئ‘ ص ۷۷-۷۸)