بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
امریکہ نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر دنیا کے طول و عرض میں دہشت گردی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اور ایک مہم کی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور توجہ ہٹانے کے لیے نت نئے اہداف کو نشانہ بنانے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس نے پوری دنیا کے چین اور سکون کو پامال کر دیا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ انسانیت کو امن و انصاف سے کوسوں دور لے جانے اور دنیا کی بیشتر اقوام کو ایک نئے سامراجی نظام کے شکنجے میں کسنے کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ طاقت کے نشے نے اسے ایسا بدمست کر دیا ہے کہ صدر جارج بش اور ان کے رفقا‘ نہ اپنے ملک کے اصحاب علم و بصیرت کی بات پر کان دھر رہے ہیں اور نہ عالمی رائے کی آہ و بکا کی انھیں کوئی پروا ہے۔ واشنگٹن اور نیویارک سے لے کر لندن‘ برلن‘ کوپن ہیگن‘ استنبول‘ سیول اور لاہور تک عوام جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں‘ لیکن افغانستان کو تباہ کرنے اور اپنی گرفت میں لے لینے کے بعد امریکہ عراق پر فوج کشی کے لیے تلا ہوا ہے اور ایران‘ سعودی عرب‘ پاکستان‘ شمالی کوریا سمیت۱۸ ممالک کو ضربِ کاری (hit list) کی زد پر رکھے ہوئے ہے‘ بین الاقوامی قانون کو عملاً ہی نہیں‘ نظری طور پر بھی rewrite کیا جا رہا ہے اور عالمی سلامتی کے لیے جو بھی برا بھلا نظام اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے تحت قائم ہونے والے اداروں‘ معاہدات اور ضوابط کی شکل میں بنایا گیا ہے اسے تہہ و بالا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ صدربش کسی شرم و حیا اور تکلف کے بغیر صاف کہہ رہے ہیں کہ:
امریکہ اپنے دشمنوں پر پیش بندی کے طور پر حملہ کرنے سے نہیں ہچکچائے گا خواہ اسے بین الاقوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ اپنی فوجی بالادستی کو خطرے میں پڑنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔عقل عام اور خود اپنے دفاع کا تقاضا یہ ہے کہ امریکہ اس طرح کے ابھرنے والے خطروں کے خلاف ان کے مکمل شکل اختیار کرنے سے پہلے اقدام کرے۔(دی گارڈین ویکلی‘ ۲۶ ستمبر تا ۲ اکتوبر۲۰۰۲ئ)
گویا: ؎
ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا خطاے نظر سے پہلے عتاب جرم سخن سے پہلے
یا تو عراق اپنے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کو غیر مسلح کر دے یا امریکہ عراق کو اقوام متحدہ کی حمایت یا بغیر حمایت کے غیر مسلح کر دے گا۔
بات صاف ہے ‘ اب نہ کوئی قانون ہے اور نہ ضابطہ‘ صرف طاقت کے ذریعے فیصلے ہونے ہیں اور پوری دنیا امریکہ کی باج گزار ہے۔
دنیا امریکہ کی اس سامراجی یلغار اور استعماری مملکت سازی (empire building) کی دراندازیوں پر ششدر‘ مضطرب اور ان سے متنفرہے۔ راے عامہ کے امریکی ادارے PEW Research کے تازہ ترین جائزے کے مطابق‘ جس میں دنیا کے ۴۶ ملکوں میں ۳۸ ہزار افراد سے ۶۳ زبانوں میں انٹرویو کیے گئے‘ یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دنیا کے ہر علاقے کے عوام امریکہ سے نالاں ہیں اور ان کی امریکہ سے خفگی اور نفرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ممالک جو بظاہر اس نام نہاد جنگ میں امریکہ کے ساتھ ہیں ان کے عوام بھی اپنی حکومتوں سے نالاں اور امریکہ کے جنگی عزائم کے مخالف ہیں۔ امریکہ کے ان عالمی تصورات اور اثرات سے اگر برطانیہ کے ۵۰ فی صد عوام غیرمطمئن اور متفکر ہیں اور ان کو منفی سمجھتے ہیں تو جرمنی میں یہ تناسب بڑھ کر ۶۷ فی صد‘ روس میں ۶۸ فی صد‘ فرانس میں ۷۱ فی صد‘ ترکی میں ۷۸ فی صد‘ پاکستان میں ۸۱ فی صد اور مصر میں ۸۴ فی صد ہو جاتا ہے۔ برطانیہ میں ۴۴ فی صد‘ جرمنی میں ۵۴ فی صد اور فرانس میں ۷۵ فی صد افراد نے اس سے اتفاق کیا ہے کہ عراق پر حملے کی اصل غایت شرق اوسط کے تیل کے چشموں پر قبضہ ہے۔ ترکی کے ۸۳ فی صد عوام عراق پر حملے کے لیے ترکی کے اڈوں کو استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ لبنان میں ۷۳ فی صد‘ اُردن میں ۴۳ فی صد‘ بنگلہ دیش میں ۴۴ فی صد اور نائیجیریا میں ۴۷ فی صد عوام خودکش حملوں کی تائید میں ہیں۔
This is alienation on the grandest scale.
یہ عظیم ترین پیمانے پر بیزاری ہے (دی گارڈین‘ لندن ۹ دسمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۱۹)
Website: www.people.press.org
جرمنی‘ترکی‘ بحرین‘ مراکش‘ پاکستان‘ ارجنٹائن اور جنوبی کوریا کے انتخابات میں عوام نے ہوا کے جس رخ کا اظہار کیا ہے وہ اس عالمی رائے کا ایک مظہر ہے۔
ایک طرف دنیا کے عوام کی بے چینی اور اضطراب کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف امریکہ کی قیادت کی رعونت اور انسانیت کو جنگ میں جھونک دینے کے عزائم روز افزوں ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس سے مجبور ہو کر امریکہ کا سابق صدر جیمی کارٹر ۲۰۰۲ء کے نوبل انعام کو وصول کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (۱۰ دسمبر ۲۰۰۲ئ) کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ انسانیت نئے ہزاریے میں ایک ایسے عالم میں داخل ہو رہی ہے جسے کسی صورت میں بھی امن و آشتی کی حالت نہیں کہا جاسکتا۔ کارٹر کے الفاظ میں:
The World is now, in many ways, a more dangerous place
حقیقت یہ ہے کہ دنیا مختلف پہلوئوں سے آج ایک بڑی خطرناک جگہ بن گئی ہے۔
وہ صاف اشاروں کے ذریعے اپنی قوم کو متنبہ کرتا ہے کہ نہ یہ صورت حال طویل عرصے جاری رہ سکتی ہے اور نہ کوئی بھی طاقت ور ملک پیش بندی کے طور پر جنگ (pre emptive war) کا راستہ اختیار کر کے اس کے خطرناک اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
امریکہ کی یہ پالیسی پوری دنیا اور خصوصیت سے عالم اسلام کو شدید خطرات سے دوچار کررہی ہے۔ اس نے اپنے استعماری اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جن خطوطِ کار پر کام شروع کر دیا ہے‘ ان کو سمجھنا اور حکمت اور فہم و فراست کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ گذشتہ تین ماہ میں جو اہم دستاویزات امریکہ کے فیصلہ ساز اداروں نے جاری کی ہیں ان کا مطالعہ اور تجزیہ بے حد ضروری ہے۔ ان میں سب سے اہم قومی حکمت عملی کی دستاویزات (ستمبر ۲۰۰۲ئ) (US National Strategy Papers) ہیں۔ اس کے ساتھ Nuclear Posture Review اور تازہ ترین دستاویز: عمومی تباہی کے ہتھیاروں کے مقابلے کی قومی حکمت عملی (دسمبر ۲۰۰۲ئ) کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اہم ترین نکات سامنے آتے ہیں:
۱- امریکہ کی انتظامیہ اب نہ اقوام متحدہ کو عالمی سلامتی اور صلح و جنگ کے لیے ایک بالاتر ادارہ تسلیم کرتی ہے اور نہ عالمی راے عامہ کو کوئی اہمیت دیتی ہے حتیٰ کہ خود اپنے دستور سے بھی اپنے کو بالارکھنے کا عزم کرچکی ہے۔ جنگ اور کسی دوسرے ملک کے خلاف قوت کے استعمال کے بارے میں جو پابندی امریکی دستور نے لگائی ہے اسے بھی ضروری اقدام کے لیے عمومی اجازت کا مبہم سہارا لے کر جنگ کے اہداف‘ وقت اور نوعیت طے کرنے اور فوج کشی کرڈالنے کے سارے مطلق اختیار امریکی صدر نے خود ہی اپنے ہاتھوں میں نہایت بے باکی سے بے جا طور پر لے لیے ہیں۔ یہ صاف لفظوں میں نئے استعمار اور استبداد کا راستہ ہے۔
۲- گذشتہ کئی صدیوں سے عالمی صلح و جنگ کا نظام جن دو اصولوں پر چل رہا تھا‘ یعنی طاقت کا توازن اور ردِ جارحیت‘ وہ دونوں اب ازکار رفتہ ہوگئے ہیں۔ اب نیا اصول پہلے ہی فوجی اقدام ہے جس کا خود دفاعی (self defence) کے نام پر جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس کی حد پوری دنیا ہے‘ کوئی بھی افراد‘ گروہ‘ اقوام اور ممالک۔ امریکہ جہاں چاہے اور جس انداز میں چاہے‘ اس بنیاد پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور اس میں روایتی جنگ کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو بھی روا رکھا جا سکتا ہے۔ غیر ایٹمی ممالک پر بھی کیمیاوی یا گیس کے ہتھیاروں کے بہانے ایٹمی حملہ کیا جا سکتا ہے۔
۳- پچھلے چار سو سال سے عالمی نظام جس قومی حاکمیت اعلیٰ (national sovereignty) کے تصور پر قائم تھا وہ اب غیرمتعلق ہو گیا ہے۔ امریکہ کی ستمبر۲۰۰۲ء کی قومی سلامتی کی ان دستاویزات میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ:
امریکہ کے فوجی اور متعلقہ سول اداروں میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ عمومی تباہی کے ہتھیاروں سے مسلح دشمنوں کے خلاف اپنا دفاع کرسکیں بشمول اس کے کہ جہاں ضرورت ہو پیش بندی کے طور پر دیگر اقدامات کریں۔ اس کے لیے اپنے دشمن کے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کے ذخائر کا پتا چلانا‘اس سے پہلے کہ انھیں استعمال کیا جائے اور انھیں تباہ کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ اس میں فوجی اور سول دونوں ایجنسیوں کو ان اختیارات سے مسلح کیا گیا ہے۔
۴- اس اختیار کے تحت امریکی صدر نے سی آئی اے کو صاف الفاظ میں یہ اختیار بھی دے دیا ہے کہ دوسرے ممالک میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ریاست کے سربراہوں تک کو قتل کر سکتی ہے۔ اس کے لیے امریکہ میں ایک نیا سیکورٹی نظام قائم کیا گیا ہے جس کا بجٹ ۳۹ارب ڈالر ہے اور جس میں ۲ لاکھ کے قریب عملہ ہوگا۔ ۱۸ ملکوں کو‘ جن میں ۱۷ مسلمان ممالک ہیں‘ ممکنہ دہشت گرد ملک سمجھ کر‘ ان کے شہریوں کے لیے امریکہ میں داخلے پر امتیازی طریق کار اختیار کیا گیا ہے اور مستقل نگرانی کا نظام وضع کیا گیا ہے۔اس فہرست میں سعودی عرب اور پاکستان کا اضافہ سارے احتجاج کے باوجود ابھی دسمبر۲۰۰۲ء میں کیا گیا ہے۔ وزارتِ دفاع میں ایک نیا شعبہ آگاہی اطلاعات (Information Awareness Office) کے نام سے قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے عالمی سطح پر جاسوسی کا ایک ایسا نظام قائم کیا جا رہا ہے جس کی بنیاد پر پیش بندی کے نام پر اقدامات کا کاروبارچلے گا۔
افسر برائے آگاہی اطلاعات‘ ایسی اطلاعی ٹکنالوجیوں کے بارے میں سوچنے‘ ان کو نشوونما دینے‘ اُن کو بروے کار لانے‘ ان کو منضبط کرنے‘ اُن کی وضاحت کرنے اور اُن کی ترسیل کا ذمہ دار ہوگا۔ اس طرح کی مکمل آگاہی پیش بندی‘ قومی سلامتی کے لیے تنبیہات اور فیصلہ سازی میں مفید ہوگی اور ہر طرح کے خطرات کا سدباب کرنے کا باعث ہوگی۔
اس کام کے لیے جن زبانوں کو فوری طور پر high terrorist risk زبانیں قرار دیا گیا ہے وہ عربی‘ پشتو‘ فارسی‘ دری اور مسلم ممالک میں بولی جانے والی دوسری زبانیں ہیں۔ اس ادارے کے ویب پیج پر جو تصویر دی گئی ہے وہ ایک باحجاب (اسکارف پہنے ہوئے) خاتون کی ہے جو فارسی میں ایک امریکی فوجی سے ہم کلام ہے۔ صرف اس ایک ادارے کے لیے ۲۰۰ ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں اور مشہور زمانہ سابق ایڈمرل جان پوائن ڈیکسٹر اس کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں جو صدر ریگن کے زمانے میں ایران کے معاملات کے سلسلے میں سزایافتہ ہیں اور امریکی کانگریس کے سامنے غلط بیانی اور اسے گمراہ کن معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں پانچ الزامات پر مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ دی گارڈین ویک اینڈ‘ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۲ئ)
۵- ایک محاذ جو اسی حکمت عملی کا حصہ ہے اس کا عنوان ’’جمہوریت کا فروغ‘‘ رکھا گیا ہے‘ خصوصیت سے عالم اسلام اور عرب دنیا میں۔ یہ کثیرجہتی پروگرام ہے جس میں ایک طرف ان ممالک میں اخبارات‘ رسائل اور میڈیا کو متاثر کیا جائے گا‘ تربیتی نظام قائم کیے جائیں گے اور متعلقہ افراد اور اداروں کو مالی وسائل اور دوسرے ذرائع فراہم کیے جائیں گے تاکہ امریکہ کے نقطۂ نظر کو عام کیا جا سکے اور راے عامہ کو اپنا ہم نوا بنایا جا سکے۔ دوسری طرف ان ممالک کے تعلیمی اداروں کو ’’نئی روشنی‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ان ممالک میں انسانی حقوق‘ عورتوں کی بیداری اور معاشرتی ترقی کے منصوبوں کو امریکی جمہوریت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ این جی اوز اس کا خصوصی آلہ کار ہوں گی۔ ان ممالک میں حکومتوں کو ’’زیادہ جمہوری‘‘ بنانے کے لیے وہاں کی ’’ہم خیال‘‘ قوتوں کو مضبوط کیا جائے گا۔عراق میں جمہوریت لانے کے لیے وہاں کی حزب اختلاف کو لندن میں حال ہی میں جو منظم کیا گیا ہے وہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہ عمل ان تمام ممالک کے لیے اختیار کیا جائے گا جہاں امریکہ تبدیلی ٔ قیادت کو ضروری سمجھتا ہے۔ اب تک جمہوریت کے معنی یہ تھے کہ ملک کے عوام اپنی مرضی کی قیادت منتخب کریں۔ اب جمہوریت کے معنی یہ ہوں گے کہ فوجی یا سیاسی عمل کے ذریعے دنیا کے ممالک میں ان قیادتوں کو ہٹا دیا جائے جو امریکہ کے لیے ناقابلِ قبول ہیں اور ان کو زمام کار سونپی جائے جو امریکہ کے لیے قابلِ قبول ہیں۔ فلسطین میں یاسرعرفات کا معاملہ ہو یا عراق‘ ایران‘ پاکستان‘ سعودی عرب یا کسی بھی ملک میں سیاسی قیادت کا--- اب امریکہ کو جمہوریت کے نام پر اپنی من پسند قیادت اوپر لانے کا اختیار ہے اور جسے وہ ناپسند کرے اسے ہٹانے کے لیے جو حربہ بھی وہ استعمال کرنا چاہے وہ جائز اور روا ہے۔ سیاسی نقشے کو تبدیل کرنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد شرق اوسط اور دوسری جنگ کے بعد افریقہ کا سیاسی نقشہ استعماری قوتوں نے بنایا جس کی سزا یہ عوام آج تک بھگت رہے ہیں اسی طرح اب امریکہ نیا نقشہ بنائے گا۔ جنگ‘ سیاست‘صحافت‘ ڈپلومیسی‘ یہ سب اس کے ہتھیار ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ کیا گیا‘ اس سے پہلے بوسنیا اور کوسووا میں جو تجربہ ہوا ‘ اور اب عراق میں جو کچھ کیا جانے والا ہے وہ سب اسی حکمت عملی کے شاخسانے ہیں۔
یہ نیا جمہوری اور خوشحال عراق اپنے پڑوسیوں کے لیے ایک نمونہ اور مقناطیس ہوگا جس طرح کہ مغربی جرمنی اور مغربی برلن سردجنگ کے زمانے میں اپنے غیرآزاد پڑوسیوں کے لیے تھے… پیش بیں سوچنے والے ایران کو جمہوری بنانے کے لیے نرم انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ پھر امریکہ کا مال دار‘ استبدادی دوست و حلیف سعودی عرب ہے‘ جس کے وہابی اسلام کے چشموں سے--- تیل کے چشموں کے ساتھ ساتھ‘ نفرت کے ان چشموں سے--- بہت سے دہشت گرد نکلے جنھوں نے ۹ستمبر کو امریکہ پر حملہ کیا۔ انتظامیہ میں کوئی بھی اس بات کو کھل کر کہنا نہیں چاہتا مگر عراق کو جمہوری بنانے کا واضح منطقی تقاضا سعودی عرب کو جمہوری بنانا ہے۔ اگر آپ اسلامی مچھروں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان جوہڑوں کو خشک کرنا ہوگا جہاں وہ پرورش پاتے ہیں۔ گو کھلے طور پر نہیں‘ لیکن اقتدار کے بغلی کمروں اور راہداریوں میں اب لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ پورے شرق اوسط کو نئے نقشے کے طابق بنانے کے لیے ولسن جیسے منصوبے پر عمل کیا جائے جس کا موازنہ تصور کی بلندی میں صرف یورپ کے لیے ۱۹۱۹ء اور ۱۹۴۹ء کے منصوبوں سے کیا جا سکتا ہے۔ (دی گارڈین‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)
اس نقشہ جنگ کے مختلف پہلو ہیں: عسکری‘ سیاسی‘ سفارتی‘ ابلاغی‘ نظریاتی اور تہذیبی۔ دوسرے پہلوئوں کے بارے میں پہلے بھی گفتگو ہوچکی ہے اور اس تحریر میں بھی اس کے واضح اشارات موجود ہیں۔ البتہ جس پہلو کے بارے میں ہم ذرا کھل کر بات کرنا چاہتے ہیں وہ نظریاتی اور تہذیبی ہے ‘ بالخصوص عالم عرب اور عالم اسلام کے بارے میں۔
ہزار کہا جائے کہ امریکہ کی یہ جنگ صرف تشدد کے خلاف ہے‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج اگر بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور تشدد کی کوئی علامت ہے تو وہ اسلام اور مسلمان ہیں۔ نہ بھارت کی جنتا پارٹی‘ ہندو بنیاد پرستی‘ تشدد اور خون آشامی کوئی مسئلہ ہے‘ نہ اسرائیل کی لیکود (likud) پارٹی کے شیرون کی فسطائیت کوئی قابلِ قدر مسئلہ ہے اور نہ شیشان میں روس کا ظلم و ستم ہی کسی زمرے میں آتا ہے بلکہ بھارت امریکہ کی اسٹرے ٹیجک دوستی ہمیشہ سے زیادہ مستحکم ہے۔ اسرائیل امریکہ کا اسی طرح چہیتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے اقوام متحدہ کے مبصروں کی ہلاکت پر سلامتی کونسل میں مذمت کی قرارداد کو ۱۵ میں سے۱۲ ووٹ حاصل ہوئے اور دو کے غیر جانب دار ہونے کی پروا نہ کرتے ہوئے امریکہ ویٹو کرکے اس ظلم میں شرکت اور اس کی سرپرستی کا اعزاز حاصل کر رہا ہے‘ اور سارے ظلم و زیادتی کے باوجود اسرائیل کو روس کے صدر پیوٹن کی آشیرباد حاصل ہے۔ ان حالات میں اگر عالم اسلام یہ نتیجہ نکالے کہ امریکہ کا یہ ساراکھیل صرف مسلمانوں کے لیے ہے‘ یعنی اصل نشانہ اسلام اور مسلمان ہیں تو اسے کسی طرح خلافِ حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ اس جنگ کا اصل ہدف مسلمان اور اسلام ہیں۔ اس بارے میں کسی غلط فہمی میں رہنا تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوئی پردہ تھا تو وہ صدربش کے قریب ترین مشیروں کے ہاتھوں تار تار ہو چکا ہے۔ ان کا ایک پالیسی ایڈوائزر کینتھ ایڈلمین ہے جو وزارتِ دفاع کے دفاعی پالیسی کے بورڈ کا رکن رکین ہے‘ وہ صاف کہہ رہا ہے کہ صدربش نے جو اسلام کو ایک ’’امن پسند دین‘‘ کہا ہے وہ قبول کرنا ممکن نہیں۔ اس کے الفاظ میں:
To call Islam a peaceful relegion is increasingly hard argument to make.
اسلام کو ایک پُرامن مذہب قرار دینا ایک ایسی دلیل ہے جسے دینا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
بہرحال اس کے بانی محمدؐ ایک جنگجو تھے‘مسیحؑ کی طرح امن کے علم بردار نہیں تھے۔
ایک دوسرے مشیرخاص ایلیٹ کوہن جو Johns Hopkin School of International Studies کے پروفیسرہیں اور اسی بورڈ کے رکن ہیں وہ بھی فرماتے ہیں کہ امریکہ کا اصل دشمن ’’دہشت گردی‘‘ نہیں ’’عسکری اسلام‘‘ (millitant islam)ہے۔
جارج بش کا دوست اور مشہور عیسائی خطیب پیٹ رابرٹسن تو دریدہ دہنی کی اس انتہا تک جاتا ہے کہ: ایڈولف ہٹلر برا تھا لیکن مسلمان یہودیوں کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ برا ہے۔
جیری فال ویل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’دہشت گرد‘‘ (نعوذ باللہ) کہنے کی جسارت کرتا ہے اور بلی گراہم کے صاحبزادے فرینکن گراہم جنھوں نے صدربش کی افتتاحی تقریب میں بائبل پڑھی تھی اسلام کو "evil" قرار دیتے ہیں۔ ہم نے دل پر جبر کر کے یہ تمام حوالے اس لیے دیے کہ مسلمانوں کے سامنے امریکہ کی نظریاتی جنگ کا صحیح نقشہ آسکے اورڈپلومیسی کی زبان کے پیچھے جو اصل عزائم کارفرما ہیں ان کو سمجھنے میں کوئی التباس باقی نہ رہے۔
ایک طبقہ وہ ہے جو اس طرح کھل کر اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنا رہا ہے اور امریکہ اور مغرب کی قیادتوں کو یقین دلا رہا ہے کہ اصل دشمن قوت اسلام ہے تو دوسرا زیادہ سمجھ دار طبقہ اس سے ذرا ہٹ کر یہ راستہ اختیار کر رہا ہے کہ اسلام اور موڈریٹ اسلام میں فرق کی ضرورت ہے۔ اسلام کو کھلے کھلے ہدف بنانا خلافِ حکمت اور ناقابلِ عمل ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے ان کے دین کو اس طرح چیلنج کر کے معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو بانٹنے‘ ان کے درمیان انتشار اور افتراق ڈالنے اور خود ان کو عسکری اور امن پسند‘ انتہا پسند اور معتدل‘ انقلابی اور موڈریٹ کے خانوں میں بانٹا جائے اور اندر سے نقب لگا کر ان کو اپنے رنگ میں رنگنے اور عالمی اقدار‘ جمہوریت اور آزاد روی (liberalism) کے نام پراپنے مفید مطلب کردار کے لیے تیار اور آمادہ کیا جائے۔ یہ اسلام پر سامنے سے حملہ آور ہونے کے بجائے اسے اندر سے سبوتاژ کرکے اور مسلم معاشرے کو آپس میں بانٹنے اور لڑانے کا منصوبہ ہے۔ اس میں انھیں اپنے اعوان و انصار کے طور پر خود مسلمانوں میں سے بھی کمزور ایمان و اخلاق والے عناصر اور ان افراد اور گروہوں کے تعاون کی توقع ہے جو مغربی استعمار اور تہذیبی یلغار میں اپنی دینی اور تہذیبی جڑوں سے کٹ گئے ہیں اور مغرب کے تہذیبی تصورات اور طور طریقوں کے دلدادہ بن چکے ہیں۔
اس جنگ کا ایک فکری محاذ ہے۔ اسلام کے بارے میں وہ سارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا پچھلی صدی میں کافی و شافی جواب دیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف دینی تعلیم کے نظام کو ہدف بنایا جا رہا ہے تاکہ علم دین اور تہذیبی روایت کے یہ محافظ ڈانواڈول ہو سکیں۔ معاشی ترقی اور مادی سہولتوں کے نام پر ایسے منصوبے فروغ دیے جا رہے ہیں جو ایک مفاد پسند طبقے کو جنم دے سکیں اور وہ مغربی استعمار کا آلۂ کار بن سکے۔ اسلام کو مسجد اور گھر کی چار دیواری میں محصور کرنے اور دین و سیاست کے دائروں کو الگ الگ کرنے کا سبق پڑھایا جارہا ہے اور یہ سب کچھ اسلام ہی کے ایک مطلوب کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اسلامی اداروں اور تحریکوں کو مادی اور مالی وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے اور ساری دنیا میں خوف و ہراس کی ایک ایسی فضا بنا دی گئی ہے اور اسے مزید مستحکم کیا جا رہا ہے کہ اسلامی سرگرمیوں کو مالیات فراہم کرنے کے آزاد ذرائع مفقود ہو جائیں اور صرف وہ میدان میںرہیں جو سرکار دربار کے ہم نوا ہیں۔ ہم اس سلسلے میں چند اہم حوالے صرف ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے دے رہے ہیں جو اب بھی امریکہ کی قیادت اور مغربی کوچہ گردوں سے کسی خیر کی توقع رکھتے ہیں۔
جدید ترکی اس امر کا مظہرہے کہ ایک جمہوری نظام یقینا اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور ریاست سے مذہب کو جدا کیا جا سکتا ہے جو انفرادی نیکی کے ساتھ مکمل موافقت رکھتا ہے۔
اسلام کی ایک اصلاح شدہ اور معتدل شاخ جمہوریت پر مبنی آفاقی اقدار کے نظام کی ایک شاخ کے طور پر سامنے آئے گی۔ اگر اقدار آفاقی ہوں گی تو تہذیبوں کا کوئی تصادم نہیں ہوگا۔
موصوف کو کون یاد دلائے کہ ترکی میں فوج سیکولرزم کے نام پر جمہوری قوتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے‘ کس طرح انھیں کان سے پکڑ کر پارلیمنٹ اور سیاست سے باہر کر رہی ہے اور پورے نظام کو اپنے فوجی بوٹ تلے دبائے ہوئے ہے۔ رہا معاملہ آفاقی اقدار کا‘ تو اگر موصوف اس میں ’’مغربی‘‘ کا اضافہ کر دیتے تو بات صاف ہو جاتی!
سارا مسئلہ ہی اسلام کو غیر سیاسی بنانے کا ہے جو خالص مغربی تصور ہے۔ اسلام تو اس کی ضد ہے ع
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
لیکن مغرب کا اسلامی دنیا میں ہدف یہی دین و سیاست کی تفریق ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ کرسٹیناروکا کے لیے امریکہ کی سفیرصاحبہ کے گھر پر منعقد ایک تقریب میں سفیرصاحبہ نے ساری بات ایک جملے میں ادا کردی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ ’’ہم پاکستان کو ایک روادار‘ سیکولر ملک کے طور پردیکھنا چاہتے ہیں‘‘ (نوائے وقت‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ئ)۔ پس یہی کانٹے کی بات ہے۔
تھامس فریڈمین امریکہ کے ان صحافیوں میں سے ہے جو سیاست دانوں سے زیادہ اہم ہے۔ سعودی ولی عہد نے فلسطین کے بارے میں اپنے خیالات اسی کے ذریعے امریکہ اور دنیا کے سامنے پیش کیے تھے۔ وہ مسلسل لکھ رہا ہے کہ ہماری اصل جنگ اس اسلام سے ہے جو جہاد کے تصور کو دین کا حصہ سمجھتا ہے۔ وہ صاف لکھتا ہے کہ:
اگر پاکستان جیسی قومیں غربت میں زندگی گزارتی رہیں‘ اگر اُن کے عوام صرف ان مذہبی مدارس کے مصارف ہی برداشت کر سکتے ہوں جو صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں تو پھر ہم خوف ہی کے عالم میں زندگی گزاریں گے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ آئی ایچ ٹی‘ ۹ دسمبر ۲۰۰۲ئ: Cause to worry)
اور اس سے بھی کھل کر اس نے نیویارک ٹائمز اور انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں بالی کے واقعے کے بعد صدربش کی طرف سے مسلم ممالک کے تمام قائدین کے نام ایک فرضی خط کی شکل میں امریکہ کے پورے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی قیادت کو مطعون کرنے کے بعد بش کی زبان سے موصوف یوں گویا ہوتے ہیں:
آپ کہتے ہیں کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں--- میرا خیال ہے کہ اس کا تعلق آپ کے درمیان اسلام کی ایک شدید غیرروادار قسم کے عروج سے ہے جو محض اسرائیل کے خلاف ایک ردعمل نہیں ہے بلکہ آپ کی ناکام ریاستوں‘ تیل کی ضائع شدہ دولت‘ شکستہ نظریات (ناصرازم) اور نسل درنسل آمریت اور ناخواندگی کا جواب ہے۔ یہ سخت گیر بنیاد پرستی جو مسلح اور ناراض ہے ایسا لگتا ہے کہ اب اعتدال پسند مسلمانوں کو بھی خوف زدہ کر رہی ہے۔ لیکن جن اقدار کی یہ تبلیغ کرتی ہے ‘ یہ آپ کے لیے تباہی لائیں گی اور ہمارے ساتھ تنازع کا باعث بنیں گی۔ جیسا کہ کیٹو (CATO) ادارے کے برنک لنٹسے نے نیشنل ریویو میں لکھا ہے: ’’کوئی مذہب جو قدیم کتابوں کا رٹا لگائے‘ ناقدانہ تجسس اور اختلاف کو دبائے‘ خواتین کو محکوم رکھے‘ اقتدار کے آگے غلاموں کی طرح جھکنا سکھائے‘ تہذیبی زوال کے علاوہ کسی چیز کا نسخہ نہیں ہے۔ وسط میں موجود شائستہ لیکن غیرسرگرم مسلمانوں کو اس سخت بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کرنا چاہیے۔
دوستو! جب تک تم خود اپنی تہذیب کے اندر جنگ نہیں کرتے تو ہماری تہذیبوں کے درمیان جنگ ہوں گی۔ ہم ا س سے صرف ایک اور ۹ ستمبر کے فاصلے پر ہیں۔ اس لیے آیئے ہم تہیہ کرلیں کہ آیندہ برس ہم اپنے درمیان عدم روادری کے خلاف لڑیں گے تاکہ ہمارے باہمی تعلقات قائم رہ سکیں۔ (دی ایشین ایج‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۱۴)
اصل ایشو کیا ہے؟ اس کا اس سے واضح بیان اور کہاں سے حاصل ہوگا۔ اگر اس پس منظر میں سعودی وزیرداخلہ کے اس بیان کو پڑھا جائے جو پچھلے ایک مہینے میں انھوں نے دو بار دیا ہے اور اخوان المسلمون کو اپنے سارے عتاب کا نشانہ بنایا ہے تو بات سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ اس لیے کہ سعودیوں کو بھی امریکہ کی قیادت اور صحافت نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی نیا وار کر کے وہ اسے حواس باختہ کیے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف محض نام نہاد اور نامعلوم ’’دہشت گردوں‘‘ کی مالی معاونت نہیں‘ اس ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کی تلاش ہے۔
امریکہ کے ایک دانش ور جن کا پالیسی ساز اداروں پر بڑا اثر ہے جم ہوگ لینڈ ہیں‘ وہ صاف لفظوں میں لکھتے ہیں کہ:
دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ اور پیٹروڈالر کے وافر ذخائر کے غائب ہونے نے سعودی حکمرانوں کو فیصلے کی نازک گھڑی میں لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ اکیسویں صدی میں اپنی بقا کے لیے اُن کو دہشت گردوں اور رقمیں وصول کرنے والوں کے کام کو سرگرمی سے بند کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ اُن کو تحفظ دیں اور رقم فراہم کریں۔ سب سے بڑی تبدیلی اپنے گھر میں آنی چاہیے۔ آل سعود کو وہابی فرقے کے ساتھ اپنے عہدکو ختم کر دینا چاہیے جس کو بادشاہت کی حمایت کے بدلے میں مملکت کے اجتماعی‘ اقتصادی اور سیاسی زندگی میں غیرمعمولی غلبہ حاصل ہے۔ وہابی علما نے اسلامی خیرات کو شرق اوسط اور وسط ایشیا میں دہشت گردی نفرت پھیلانے کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کیا۔ سعودی بادشاہت کو انتہا پسندوں سے دست کش ہوجانا چاہیے اور اُن کا جواز ختم کر دینا چاہیے… یا دنیا سے نیست و نابود ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امریکیوں کو سعودیوں کو دیانت داری سے بتا دینا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کو حقیقی تحفظ فراہم کرنے کی یہ واحد صورت ہے۔(آئی ایچ ٹی ‘۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)
مبصرین جب اسلامی دنیا میں جدیدکاری کے بحران پر گفتگو کرتے ہیں تو دراصل وہ تنازعے کی حقیقی وجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وجہ اسلامی معاشرے کی اور جدید مغرب کی اقدار میں عدم مطابقت ہے۔
مغرب کا غلبہ اور مادی رفتارِ ترقی ایک ایسے نظام اقدار سے علیحدہ نظر نہیں آتا جس کا مطالبہ ہے کہ مسلمان اپنے اخلاقی تشخص کو ترک کر دیں۔ ایک تازہ کتاب میں برطانوی مصنف ریجر سکروٹن یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہم اسلام کو مغربی ٹکنالوجی‘ مغربی ادارے اور مذہبی آزادی کے مغربی تصورات کو رد کرنے کی کوشش کرنے کا الزام کیوں دیں جب کہ ان میں ان تصورات کو مسترد کیا گیا ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے: اللہ کا ناقابل تغیرفرمان جو اُن کے نبی پر نہ تبدیل ہونے والے مجموعہ قانون کی شکل میں ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لیے نازل کیا گیا۔
آخر مغرب نے خود ہی سے کیوں یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے موجودہ مذہبی تصورات کو بہ زور ختم کر دیا جائے‘ صرف اس لیے نہیں کہ وہ مغرب کو موافق نہیں آتے بلکہ اس لیے کہ مغرب یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ خودمسلمانوں کے لیے بھی مناسب حال نہیں۔
اسلامی حکومتوں پر مسلسل مغربی دبائو ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مغربی تصورات کے مطابق ہو جائیں اور آزادانہ اور ناقدانہ مذہبی فکر کی حوصلہ افزائی کریں۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)
ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ اصل ایشو ہی یہ ہے کہ عالم اسلام اپنا تشخص اسلامی رکھنا چاہتا ہے یا ’’ماڈرن اسلام‘‘ کے عنوان تلے اپنے کو مغرب کے رنگ میں رنگنے اور اس کے تہذیبی اور معاشی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ اصل جنگ ہے جو سیاست اور عسکری میدانوں میں لڑی جا رہی ہے اور فکری‘ تہذیبی‘ معاشی اوراخلاقی میدانوں میں بھی۔ امریکہ اور اس کے کارندے ہر محاذ پر سرگرم ہیں۔ بات افغانستان پر فوج کشی اور نام نہاد امن فوج کی کارگزاریوں کی ہو یا عراق پرحملہ اور عمومی ماس کے ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی مہم جوئی کی‘ پاکستان کے جوہری وسائل کا تعاقب ہو یا ایران پر جوہری صلاحیت کے حصول کے الزامات--- یہ سب تو سیاسی اور عسکری دبائو کا حصہ ہیں لیکن ان کے ساتھ معاشی ترغیبات و ترہیبات اور ثقافتی‘ تعلیمی اور ابلاغی جارحیت اس ہمہ جہتی جنگ کے اہم پہلو ہیں۔ آسٹریلیا کی نیشنل یونی ورسٹی کے دفاعی اور اسٹرے ٹیجک مطالعات کے شعبے کے ڈائرکٹر ایل ڈنیورٹ نے جنگ کے اس محاذ کی یوں نقشہ کشی کی ہے:
ایک ایسی جنگ مذہبی مدارس اور ان کے ہوسٹلوں میں لڑی جانی چاہیے جو مستقبل کے انتہا پسندوں کی پرورش گاہ (incubator) ہیں۔ یہ جنگ جنوب مشرقی ایشیا کے ظہور پذیر سول سوسائٹی کے مدیران جرائد‘ اسکولوں کے اساتذہ‘ مذہبی رہنمائوں‘ سیاست دانوں‘ غیر حکومتی انجمنوں اور دیگر عناصر کو لڑنا چاہیے اور معتدل مسلمانوں کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ئ)
نقشہ جنگ آپ کے سامنے ہے۔ ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کی تلاش بالکل اسی نوعیت کی کوشش ہے جیسی برطانوی استعمار نے اپنے عروج کے زمانے میں جہاد کے خلاف محاذ قائم کیا اور ایسی نبوتوں کی افزایش کی کوشش کی جو جہاد کو منسوخ قرار دیں تاکہ اس طرح برطانوی استعمار کے سائے میں زندگی کو عین اسلامی قرار دینے کی سعادت حاصل ہو لیکن جس طرح وہ حکمت عملی ناکام رہی اسی طرح یہ حکمت عملی بھی بارآور نہیں ہو سکتی۔
اصل نقشۂ جنگ کو سمجھنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری جوابی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ اس پر آیندہ شمارے میں اظہارِ خیال کیا جائے گا۔
خدا خدا کر کے جمہوری عمل شروع ہوا۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو انتخابات ہوئے‘ نتائج آنا شروع ہوئے تو اس طرح کہ جو علاقہ جتنا دُور تھا اس کا نتیجہ اتنا ہی جلدی آگیا اور جو جتنا قریب تھا وہاں کا نتیجہ آنے میں اتنی ہی دیر لگی اور شکوک و شبہات کا ایک دفترکھل گیا۔ جن علاقوں میں حزب اختلاف کو کامیابی حاصل ہوئی وہاں ووٹوں کی تعداد ملکی اوسط کے قریب تھی اور جہاں سے سرکاری لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی وہاں ڈبوں سے نکلنے والے ووٹوں کا اوسط ایک دم زیادہ تھا اور ریفرنڈم کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ اس بار انجینیری زیادہ سمجھ داری سے کی گئی۔
لیجیے نتائج مکمل ہو گئے مگر پارلیمنٹ کی ولادت ہے کہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی التوا کا نیا دور شروع ہو گیا۔ پھر ووٹوں کی خرید وفروخت‘ لوٹوں کی آمدورفت‘ گھوڑوں کی تلاش و تجارت‘ پارٹیوں کی شکست و ریخت‘ غرض سارے ہی جتن پورے ہوئے اور بالآخر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگیا اور انتخاب کے ۶ ہفتے کے بعد مرکزی حکومت قائم ہوگئی خواہ ایک ووٹ کی اکثریت سے اور وزارت میں لوٹوں کی بھرمار کے ساتھ!
صوبہ سندھ کا معاملہ سب سے اہم اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن تھا۔ سرحد میں جیسے تیسے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی حکومت بن گئی۔ پنجاب میں بھی جیسی بھی تھی اکثریت واضح تھی اور بڑی پارٹی ہی کی حکومت بنی۔ لیکن سندھ میں ساری کوشش تھی کہ سب سے بڑی پارٹی کی حکومت نہ بننے پائے اور اس کے لیے وہ وہ جتن ہوئے کہ شیطان بھی امان پائے۔ جوڑ توڑ‘ دھونس دھاندلی‘ وفاداریوں کی تبدیلی‘ نیب اور عدالتوں کے سزا یافتہ افراد سے معانقہ‘ جو نوگوایریا تین سال سے نظر نہیں آ رہے تھے ان پر یورش‘ جو عدالتوں کو مطلوب تھے ان کو سیاست کا چاند تارا بنانے کی سازش‘ فارورڈ بلاک کی تشکیل‘ نامزدگیوں کے وقت میں غیر قانونی تبدیلیاں‘ اسمبلی پر پولیس کی یورش اور ۱۰ گھنٹے کا محاصرہ‘ رکن اسمبلی کی اسمبلی کے احاطے میں گرفتاری اور ارکان اسمبلی بشمول خواتین ارکان کی مارپیٹ‘ جعلی ڈگریوں کی بازگشت‘ فوج کے باوردی اعلیٰ افسروں اور سول سروس کے سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا حلف لینے والے ملازمین کی کھلی یوریش--- یہ سب ہوا اور بالآخر سندھ کی اسمبلی بھی وجود میں آگئی اور وزارت اعلیٰ کا ہُما ایک اقلیتی جماعت کے فرد کے سر پر آبیٹھا--- لیکن اس سارے معاملے میں جمہوریت کی جو تصویر اُبھر کر آئی وہ ایسی مکروہ تھی کہ اسمبلی کے درودیوار بھی شرمندہ ہوگئے ۔ چلتے پھرتے سیاست دانوں اور ان کی باگ ہلانے والے فوجی اور سول افسران کو شرم نہ آئی‘ ان کی غیرت کا رونا روتے ہوئے بے جان ایوان کی بجلیاں ضبط نہ کر سکیں اور شرم سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ کہا تو یہی گیا کہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے اسمبلی تاریکی میں ڈوب گئی--- تاریکی تو ایسی جمہوریت کامقدر ہے لیکن اس اسمبلی کے درودیوار نے اس طرح اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا جس نے ۵۵ سال پہلے اسی ہال میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا پورا اجلاس دیکھا تھا اور پاکستان زندہ باد کی گونج سنی تھی۔
کیا یہی وہ جمہوریت کا جوہر (substance)ہے جس کی نوید جنرل پرویز مشرف نے دی تھی۔ کیا یہ اس "sham democracy" سے بدتر نہیں جس کی مذمت کرتے جنرل صاحب تھکتے نہ تھے۔ کیا جمہوریت کی بحالی کا یہی وہ وعدہ ہے جس کے ایفا کے اعلانات جنرل صاحب اور ان کے نامزد وزیراعظم کر رہے ہیں ع
جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ!
لاہور کے قریب مناواں میں ڈاکٹر احمد جاوید خواجہ اور ان کے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا تعلق صرف ایک فرد یا خاندان سے نہیں بلکہ پوری قوم اور اس کی بنیادی اقدار کی پامالی سے ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں آج کے پاکستان کا اصل چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔
واقعات کی پوری تصویرکشی اخبارات میں ہو چکی ہے۔ کس طرح نصف شب پولیس اور کسی دوسری سرکاری ایجنسی کے کارپرداز بیرونی ایجنٹوں کے ہمراہ ایک معزز گھرانے پر حملہ آور ہوتے ہیں‘ چوکیدار کا سر پھاڑ کر گھر میں داخل ہو جاتے ہیں‘ عورتوں کو ایک کمرے میں بند کرا دیتے ہیں‘ تمام مردوں کو ہتھکڑیاں لگاکر اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔ تلاشی کے بہانے نقدی اور قیمتی اشیا پر قبضہ کر لیتے ہیں اور یہ سب اسی طرح کہ نہ وزیراعلیٰ کو خبر ہے اور نہ وزیراعظم کو اطلاع---! چار افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دو کا ریمانڈ لیا جاتا ہے‘ باقی سب بھی غیرقانونی تحویل میں ہیں اور پولیس مزاحمت‘ ناجائز اسلحہ‘ فساد اور نامعلوم کس کس جرم کی ایف آئی آر کاٹنے میں مشغول ہے۔
اس شرم ناک واقعے پر جتنا بھی احتجاج کیا جائے کم ہے۔ جماعت اسلامی‘ متحدہ مجلس عمل‘ ڈاکٹروں کی تنظیم سب ہی نے احتجاج کیا ہے اور قائداعظم لیگ کے پارلیمانی لیڈر نے بھی صاف الفاظ میں مذمت کی ہے۔ معاملہ عدالت میں بھی چلا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کے چند اصولی پہلوئوں کی طرف ملک و قوم کی توجہ مبذول کرائیں۔
ایک مہذب معاشرے کی پہچان اس کے شہریوں کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرے کا آج یہ حال ہے کہ کسی کی جان‘ مال اور آبرو محفوظ نہیں۔ ابھی ایک ماہ پہلے ڈاکٹر عامر عزیز کا اغوا ہوا اور چار مہینے زبردست احتجاج کے بعد رہائی عمل میں آئی۔ اسی زمانے میں کوئٹہ میں ایک غیرملکی ڈاکٹر کو ناجائز حراست میں رکھا گیا اور ہائی کورٹ نے اس پر سخت نکیر کی۔ اور اب بھی اسی قسم کا واقعہ لاہور میں ایک اور معزز ڈاکٹر اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ ہوا۔
یہ سب کیا ہے؟ کیا اس ملک میں کوئی قانون نہیں؟ یہ حق کس کو ہے کہ جب چاہے کسی کے گھر میں داخل ہو جائے‘ عورتوں کو کمرے میں محصور کر دے‘ مردوں کو بے عزت کرے اور گرفتار کر لے۔ وارنٹ کے بغیر لے جائے اور غیرملکیوں کے سامنے تفتیش کے لیے پیش کر دے۔ اسلامی تو کیا کوئی مہذب معاشرہ بھی اس کا روادار نہیں ہو سکتا۔
دوسرا پہلو ہمارے اندرونی معاملات میں امریکہ کا عمل دخل ہے۔ اس کا تعلق ہماری آزادی اور قومی غیرت سے ہے۔ ایف بی آئی کا ایک ایجنٹ ہو یا ایک سو‘ ہمارے معاملات میں ان کی اس طرح کی مداخلت‘ قومی آزادی کے لیے ایک چیلنج ہے اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی گوارا کرنا ممکن نہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ اس پر پردہ ڈالنے اور حقائق کو چھپانے کے بجائے سیدھے سیدھے اقدام کرے اور امریکہ کو بتا دے کہ خفیہ اطلاعات میں تعاون ایک چیز ہے اور سی آئی اے اور ایف بی آئی کا ملکی معاملات میں عمل دخل بالکل دوسری شے۔ یہ دراندازی فوراً رکنی چاہیے اور قومی اسمبلی اور اعلیٰ عدالتوں کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ چودھری شجاعت حسین نے جو بات اپنے جذبات کے اظہار کی شکل میں کہی ہے ان کا اور ان کی حکومت کا فرض ہے کہ اسے عملاً نافذ کرے۔ یہ دراندازی امریکہ کے لیے بھی بہت مہنگی پڑے گی اور اس سے اس کے خلاف نفرت کے شعلے اور بھی بلند ہوں گے۔
تیسری بات کا تعلق ہماری پولیس اور ایجنسیوں کے رویے اور طریق واردات سے ہے۔ اگر کسی فرد سے پوچھ گچھ کرنا بھی ہے تویہ کام ایک شائستہ انداز میں بھی ہو سکتا ہے۔ قانون کے تقاضے پورے ہونے چاہییں۔ دن کے وقت آپ کے افسر متعلقہ اشخاص سے ربط قائم کرسکتے ہیں اور ضروری معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ آدھی رات کو سوتے ہوئے افراد پر حملہ آور ہوا جائے۔ سیدھے سیدھے ربط قائم کرنے کی بجائے دروازے توڑنے (gate crash) کا راستہ اختیار کیا جائے۔بدتمیزی اور بے تہذیبی کا ہر حربہ استعمال ہو۔ بچے اور بوڑھے میں تمیز نہ ہو۔ چور‘ ڈاکو اور مہذب شہریوں میں فرق نہ کیا جائے۔ یہ سارے ہتھکنڈے کسی بھی مہذب معاشرے میں ایک لمحے کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔
اسی طرح پولیس کا یہ رویہ کہ جھوٹی ایف آئی آر درج کی جائیں‘ اپنی ہرزیادتی کے لیے بطور بہانہ مقابلہ اور مزاحمت کی داستانیں گھڑی جائیں--- یہ کھیل ۵۰ سال سے کھیلا جا رہا ہے‘ اب اسے ختم ہونا چاہیے۔
نہ صرف پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی اور اس کا نوٹس لینا چاہیے بلکہ شہریوں کی تنظیموں کو بھی ان مسائل کو اٹھانا چاہیے اور سب کی عزت و تحفظ کے لیے مناسب ضابطہ کار تسلیم کرائے اور نافذ کرائے جانے چاہییں۔
سود کے بارے میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ ماضی کے ساہوکاری نظام میں تو یہ ظلم کا آلہ تھا مگر آج کے جدید بنک کاری نظام میں یہ خیر ہی خیر کا باعث ہے۔ اگر گہرائی میں جا کر موجودہ نظام کا مطالعہ کیا جائے تو سود آج بھی اسی طرح آلۂ ظلم ہے جس طرح ماضی کے ادوار میں رہا ہے۔ اس کا اندازہ انگلستان کے ایک تحقیقی ادارے Jubilee Research کی ایک تازہ رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے جو ترقی پذیر ملکوںکے سودی قرضوں کے بارے میں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۰ء میں تمام ترقی پذیر ملکوں پر امیر ملکوں کا مجموعی قرض ۷.۷۲ ارب ڈالر تھا۔ اس میں اس وقت کا کل قرض اور جمع شدہ سود دونوں شامل تھے۔ ۳۰ سال میں یہ قرض ۷.۷۲ ارب سے بڑھ کر ۵.۲۵۲۷ ارب ڈالر ہو گیا ہے‘ جب کہ اس پورے عرصے میں یہ ممالک قرض کی اقساط بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ ۳۰ سال میں یہ اضافہ ۳۵گنا ہے۔ آج کا قرضہ ان ممالک کی کل قومی پیداوار کے ۳۷ فی صد کے برابرہو گیا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں ۷.۷۲ ارب ڈالر کے کل قرضوں کے مقابلے میں ۱۹۹۰ء میں‘ یعنی ۲۰ سال کے بعد صرف سود اور اداے قرض کی مد میں یہ ممالک ۸.۱۶۳ ارب ڈالر سالانہ ادا کر رہے تھے جو اب سنہ ۲۰۰۰ء میں بڑھ کر ۹.۳۹۸ ارب ڈالر ہو گیاہے۔ گویا ۲۰ سال بعد اصل قرض سے ڈھائی گنا رقم صرف سالانہ سود ادا کرنے کی نذر ہو رہی تھی۔ ۲۰۰۰ء کے بارے میں یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ اس سال بیرونی امداد کے نام پر جو رقم تمام ترقی پذیر ملک وصول کر رہے تھے وہ صرف ۶۵ ارب ڈالر تھی‘ جب کہ اس سال جو سود اور ادایگی قرض انھوں نے امیرملکوں کو کیا وہ اس سے ۷ گنا زیادہ تھا ‘یعنی ۹.۳۹۸ ارب ڈالر۔
کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ سودی قرضوں کا نظام دراصل ایک نیا غلامی کا نظام ہے جس کے ذریعے امیر ملکوں نے غریب ملکوں کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور وہ ان کا خون چوس رہے ہیں۔
کل کے ساہوکارکو ہر کوئی نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اسے ظالم سمجھتا تھا مگر آج کا ساہوکار محسن بن کر آیا ہے‘اور احسان جتا کر قرض لینے والے ملکوں کو لوٹ رہا ہے اور آہستہ آہستہ معاشی جال میں پھنسا کر ان کی سیاسی آزادی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ جس معاشی ترقی کی خاطر قرض کا یہ سلسلہ چلا تھا‘ وہ ناپیدہے۔ افریقہ کے ممالک کی مجموعی پیداوار ان ۳۰ سالوں میں کم ہوئی ہے۔ غربت ہر جگہ بڑھی ہے۔ قرضوں کا بوجھ ہمالیہ صفت ہو گیا ہے۔ ان ممالک کی اشیاے پیداوار کی قیمتیں گر رہی ہیں اور سود اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ کیا وہ وقت اب بھی نہیں آیا کہ سودی بنیاد پر قائم پوری معاشی حکمت عملی پر ازسرنو غور ہو اور معاشی ترقی کا کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو فی الحقیقت غربت و افلاس کو دُور کر سکے اور عوام کے لیے حقیقی خوش حالی ممکن ہو سکے۔
______________
ترجمان القرآن کا جو شمارہ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اس میں آپ صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے کچھ تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔ آج سے ۷۰ برس پہلے ترجمان القرآن کا جو قدوقامت اس کے مؤسس مدیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترتیب دیا تھا اس پورے عرصے میں اس پر قائم رہنے کی کوشش کی گئی۔ کاغذ اور فن طباعت نے اس زمانے میں جو بھی کروٹیں لیں ترجمان ان سے متاثر نہ ہوا۔رسالے کا سائز وہی رہا ‘صفحات میں کمی اور اضافے کا سلسلہ ہوتا رہا۔ اب اس سلسلے میں ایک فیصلہ ناگزیر ہوگیا۔ جس سائز پر اب تک یہ شائع کیا جاتا رہا ہے اس میں کاغذ کی دستیابی کے علاوہ طباعت کی جدید سہولتوں کے حوالے سے بھی مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ اس لیے ادارے نے طے کیا کہ سائز میں تبدیلی کر دی جائے لیکن مطالعے کے لوازمے کی مقدار کو نہ صرف باقی رکھنے بلکہ اس میں کچھ اضافہ کرنے کے لیے صفحات کو بڑھا دیا جائے۔ اس لیے اس شمارے کا سائز پہلے سے چھوٹا ہے اور ہر صفحے پر ۲۵ کے بجائے ۲۳سطریں ہیں۔ ضخامت کے اعتبار سے ۸۸ صفحات کے بجائے ۱۱۲ صفحات پیش خدمت ہیں۔اس طرح سابقہ قیمت پر ہی ۲۴ صفحات کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
ترجمان القرآن کے اشارات کا بھی ایک اپنا ہی آہنگ ہے۔ اس کی ابتدا سید مودودیؒ نے ۷۰ سال پہلے کی تھی اور پھر برادران محترم نعیم صدیقی‘ عبدالحمید صدیقی اور خرم مراد نے اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے انداز میں اسے برقرار رکھا اور پروان چڑھایا۔ میں نے بھی مقدور بھر اسی کی کوشش کی اور دوستوں کے مختصر نگاری کے مطالبوں کے باوجود اپنی ہی ڈگر پر چلتا رہا کہ ؎
ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
اس اسلوب کا ایک نقصان یہ ہوا کہ مہینے میں ایک ہی مسئلے پر بات ہوسکی اور بہت سے موضوعات جو دعوت کلام دیتے تھے رہ جاتے تھے۔ اب ایک جدت یہ کی جا رہی ہے کہ اشارات کے بعد چند شذرات کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس عنوان کے تحت مدیر یا رفقاے ادارہ مختلف موضوعات پر نقدوتبصرہ کرسکیں گے۔ اس سے تنوع میں اضافہ ہوگا اور دوسرے لکھنے والے بھی ادارتی صفحات میں اظہار خیال کر سکیں گے۔ اس طرح ترجمان القرآن کی کہکشاں پر چاند اور تاروں کا سماں پیدا ہو سکے گا۔
یہ دونوں تبدیلیاں صوری اور معنوی اعتبار سے جدت کی طرف ایک قدم ہیں لیکن درحقیقت روایت ہی کے تسلسل کی علامت ہیں۔ گویا ؎
فصل بہار آئی ہے لے کر رت بھی نئی‘ شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رخ پر لیکن رنگ قدامت آج بھی ہے
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترجمان القرآن کی اشاعت کی توسیع کے سلسلے میں چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ترجمان القرآن روزاول سے ایک پیغام کا علم بردار رسالہ ہے۔ اس کے پڑھنے والوں نے ہمیشہ اس کے پیغام کو پھیلایا اور آگے بڑھایا ہے۔ آج جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں حقیقی اسلام کے احیا کی جو لہر اٹھی ہوئی ہے اس کا آغاز اس صدی میں سید مودودی ؒکے رسالے ترجمان القرآن نے کیا۔
۱۴۲۳ھ کے آغاز پر ہم نے اسے توسیع اشاعت کا سال قرار دیا اور اپنے سب خیرخواہوں کو متوجہ کیا کہ اس پیغام کی وسیع سے وسیع تر حلقے میں اشاعت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ ۱۴۲۳ھ کے اختتام میں صرف دو ماہ رہ گئے ہیں‘ ہم ایک دفعہ پھر توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تمام رفقا نظم کی ہر سطح پر خصوصی منصوبہ بندی کر کے ممکنہ حد تک جو کچھ کر سکتے ہیں اس میں کمی نہ کریں۔
دورانِ سال کا ہمارا تجربہ اور تاثر یہ ہے کہ دل چسپی لینے والوں نے جہاں بھی کوشش کی اس کے نتائج بڑے مثبت آئے۔ ایک ایک جگہ ۵۰ سے زائد خریدار بنائے گئے۔ جب مرکزی منصوبے میں ۲۵ فی صد اضافے کا ہدف دیا گیا ہے تو ہرسطح پر اس کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش کی جانی چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے (ایک آسان نسخہ کاغذ پر لکھنے کی حد تک تو یہ ہے کہ ہر خریدار ایک نیا خریدار بنا دے تو اشاعت دگنی ہو جائے گی)۔ ایسے فرد بھی موجود ہیں جو ۵۰۰ پرچہ لے کر فروخت کردیتے ہیں‘ لیکن اس سے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پورے پاکستان میں‘ تمام شہروں اور قصبات میں جہاں تحریک کا کام ہے‘ ایسے ۶۰ آدمیوں کے برابر کام ہو رہا ہے؟
جب ارادہ ہوتا ہے تو راستہ بھی نکل ہی آتا ہے۔ کرنے کے دس طریقے اور نہ کرنے کے سو بہانے۔ اس پرچے کو ایسے ہر شخص تک پہنچانا جو اس کا قدردان اور امکانی خریدار ہو سکتا ہے۔ متعلقہ افراد اور نظم کی ذمہ داری ہے۔ کوشش ہوگی تو اللہ تعالیٰ ضرور نتائج دے گا۔ اس کا وعدہ ہے۔ تربت جیسے ضلع اور آزاد کشمیر کی ایک یونین کمیٹی میں ۵۰ خریدار بن سکتے ہیں تو زیادہ آباد‘ اور زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ باشعور شہروں اور قصبات میں ہزاروں کیوں نہیں بن سکتے؟
متحدہ مجلس عمل کی کامیابی نے بھی ایک خداداد موقع فراہم کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اور ملک کے ہر گھرانے میں مجلس عمل موضوع ہے۔ جہاں ہم خود پہنچنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے‘ اسلام موضوع بن گیا ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تصویر پہنچائیں تاکہ وہ ہماری کارکردگی صحیح معیار سے جانچیں۔ یقینا ترجمان القرآن کا مطالعہ اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
حسن اتفاق سے ۲۰۰۳ء میں سید مودودی علیہ الرحمہ کی پیدایش کو صدسال مکمل ہو رہے ہیں۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے دو ماہ میں ان کے رسالے ترجمان القرآن کا نئے حلقوں میں تعارف کروانے اور نئے خریدار بنانے کے لیے خصوصی کوشش کریں۔ یاد کریں کہ ۷۰ سال قبل جب انھوں نے ترجمان القرآن کا آغاز کیا تھا تو اس کی اشاعت کس کس طرح اور کس جذبے اور محنت سے کی تھی۔ آج اس پرچے کو ہر طالب حق تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے‘ آیئے اس چیلنج کو قبول کریں اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کوشش میں کوئی کمی نہ چھوڑیں۔
--- بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے ہمیں اپنا حریف سمجھ لیا ہے حالاں کہ ہم کسی انسان‘ گروہ‘ یا فریق کے حریف نہیں ہیں۔ ہم تو معاشرے کی برائیوں کے مخالف ہیں۔ ہماری عداوت شر اور فساد سے ہے۔ ہم انسانوں کے دشمن نہیں بلکہ ہمدرد ہیں۔ اگر ہم نے اصلاح کے لیے کبھی کوئی سخت طریقہ اختیار کیا تو ہمارا رویہّ دشمن کا سا نہیں بلکہ اس ڈاکٹر کا سا تھا جو مرض کو ختم کرنے کے لیے مریض سے سختی روا رکھتا ہے۔ محض اخلاص کی بنا پر ہماری تنقید میں سختی تھی۔ ہماری طرف سے کسی کو بدنام کرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف توجہ اور اصلاح کی خاطر بنیادی برائیوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ پھر اس کارِخیر کے لیے ہم اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھے تھے کہ ہم فرشتے اور اس قوم کے صالح ترین لوگ ہیں بلکہ اس معاشرے کی اصلاح کے لیے ‘ جس کے ساتھ ہمارا مرنا‘ جینا ہے۔ اس خیال سے اٹھے کہ اگر عذابِ الٰہی آیا تو ہم سب میں سے کوئی نہ بچ سکے گا۔ برائیوں کے برے نتائج سے بچنے کے لیے ہم اپنی اور خلق خدا کی اصلاح چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے گروہ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں نے خود اپنا‘ معاشرے کا اور پوری قوم کا نقصان کیا ہے۔ بہرحال یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں پھر کام کا موقع عطا فرمایا۔
ہمارے ملک اور قوم کا اخلاقی انحطاط پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جرائم کی کثرت‘ فواحش کی زیادتی اور اخلاق کا بگاڑ--- یہ ساری کیفیت آپ کے سامنے ہے۔ ہر اخلاقی حس رکھنے والا آدمی بگاڑ کی اس رفتار کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو‘ اپنی طاقت اور ذرائع استعمال کر کے اس رفتار کو روکا جائے اور قوم کو برائی سے روکنے اور بھلائی کی طرف موڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس موقع پر‘ جب کہ ہم یہ کام شروع کر رہے ہیں ضرورت ہے کہ ہم ایک مرتبہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اصل کام کیا ہے؟ خود وہ حالات کیا ہیں جن میں ہمیں کام کرنا ہے‘ اور اس کام کو انجام دینے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر اور اس کے ساتھ باہر کیا کیا تبدیلیاں لانی ہیں۔
جماعت اسلامی کے پیشِ نظر اوّل روز سے یہ مقصد رہا ہے کہ پورے نظام زندگی کو جو خدا کی بندگی سے بے نیاز اور آزاد ہو کر چل رہا ہے‘ تبدیل کیا جائے اور اسے ازسرنو اللہ کی بندگی اور انبیاے کرام ؑ کی لائی ہوئی تعلیمات پر استوار کیا جائے۔ جماعت کسی جزوی مقصد کے لیے کام نہیں کر رہی۔ ویسے وہ محدود مقاصد کو برا نہیں سمجھتی اور نہ ان کی مخالف ہے۔ اس زمانے میں‘ جب کہ کوئی اللہ کی بندگی کی طرف بلاتا ہو اور چاہے صرف کلمہ ہی کیوں نہ پڑھواتا ہو وہ بہرحال نیکی کا کام ہے۔ شیطان کی طرف بلانے والوں کے مقابلے میں نیکی کی طرف بلانے والے کا ہم خیر مقدم ہی کرتے ہیں۔ چاہے وہ ہمیں غلط کہے۔ اسی طرح اگر کوئی علم دین کا کام کررہا ہے تو ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا اس کے کام میں برکت دے مگر ہمارے پیش نظر جو کام ہے وہ نظامِ زندگی کی بحیثیت مجموعی اصلاح اور پورے نظامِ زندگی کا دین حق کی بنیاد پر قیام ہے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے انبیا ؑ بھیجے جاتے رہے ہیں۔ ا نبیاؑ کسی جزوی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ کلی اصلاح کے لیے آئے تھے۔ خدا سے بے نیازی اور بغاوت ختم کر کے اس کی بندگی اور قانونِ شرعی کی پیروی کے سوا ہم کوئی اور مقصد نہیں رکھتے۔ اس مقصد کو ہم اوّل روز سے واضح کرتے چلے آئے ہیں۔
یہ ایک اجتماعیت پذیر دور ہے۔ اس میں لیڈرشپ ایک فیصلہ کن عامل کی حیثیت سے سیاسی‘ فکری‘ ذہنی اور اخلاقی حیثیتوں سے نظامِ زندگی کو کنٹرول کرتی ہے۔ اسی لیڈرشپ کے مرتب خطوط پر ذہنیتیں بنتی ہیں اور اسی کے مقرر کردہ اصولوں پر زندگی کے شعبے چلتے ہیں۔ عدالت‘ قانون اور معاش سب پر ان کا کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ گویا جب تک یہ بنیادی تبدیلی نہ ہو‘ اس وقت تک نظامِ زندگی میں تبدیلی کا امکان نہیں۔ اس سب کچھ کے ساتھ جس حد تک وہ ہمیں مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے کا موقع دیں گے‘ اسی حد تک ہم مسلمانوں کی سی زندگی بسر کر سکیں گے‘ ورنہ اسلامی زندگی کا دائرہ سکڑتا چلا جائے گا۔ اس سیلاب میں ہم نہ چاہیں گے تب بھی ہمیں چلنا پڑے گا۔ کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ قدم جما کر اس سیلاب میں ٹھہر جائے۔ اسی لیے زندگی کے ہر شعبے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ صرف سیاسی تبدیلی ہمارے پیشِ نظر ہے۔ نہیں! ہم ہر شعبے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ جو کام ہمارے پیشِ نظر ہے وہ جوے شیر لانے سے زیادہ سخت ہے۔ پہاڑوں کو کاٹنا آسان ہے لیکن یہ کام مشکل ہے۔ یہ کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہے۔
یہاں سب سے پہلے پورے نظامِ تعلیم کو بدلنے کی ضرورت ہے جو لاکھوں انسانوں کو تبدیل کر رہا ہے۔ معاش‘ قانون‘ عدالت‘ کاروبار‘ صنعت--- غرض زندگی کے تمام شعبے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جن کے اصولوں‘ نظریات اور طور طریقوں کو مغربی تعلیم نے تبدیل کر دیا ہے۔ ان حقائق کی موجودگی میں اس نظامِ زندگی کو بدلنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک خیالات اور ذہنوںکو تبدیل نہ کیا جائے۔
اس نظامِ تعلیم نے ہمارے اخلاقی نظریات اور اقدار کو تبدیل کر دیا ہے۔ جسے دین برا سمجھتا ہے وہ ثقافت اور شائستگی بن گئی ہے‘ اور دین جن کاموں کو بہترین قرار دیتا ہے وہ رجعت پسندی‘ مولویت اور مضحکہ قرار دے دیے گئے ہیں۔ یہ کیفیت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آزادی کے بعد سے اس کی رفتار خصوصاً تیز ہے۔ پہلے باہر کے لوگ ہماری اندرونی زندگی میں دخل نہیں دیتے تھے لیکن اب اپنوں نے ہماری معاشرتی اور اندرونی زندگی میں گھس کر اس رفتار کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ آج سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ پہلے ہمارے اخلاق اور معاشرتی زندگی کا اسلام سے اتنا اختلاف نہ تھا‘ جتنا آج ہے۔ معاشی زندگی اس وقت پہلے سے کئی گنا زیادہ سودی نظام پر مبنی ہو چکی ہے بلکہ وہ تمام چیزیں جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے شدت سے پھیل رہی ہیں۔ ایک آدمی کے لیے حلال روٹی کمانا اور حرام سے بچنا کئی گنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس چیز نے رفتہ رفتہ لوگوں پر مادہ پرستی مسلط کر دی ہے۔ اب انھیں ایک ہی شے مطلوب ہے اور وہ مادی خوش حالی ہے۔ وہ دولت کے پیچھے عزت و آبر اور ایمان ہر چیز کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور اس کیفیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں ذہن بگڑ جائیں‘ اخلاقی قدریں تبدیل ہو جائیں‘ فواحش کی کثرت ہو جائے‘ فسق و فجور پھیلنے لگے وہاںاسلامی نظام کے قیام میں رکاوٹیں بڑھتی چلی جاتی ہیں‘کم نہیں ہوتی۔ یہ کیفیت جیسے جیسے بڑھے گی‘ اسلامی نظام کا قیام مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ اس رفتار کو روکنے کی ضرورت ہے۔
ان لوگوں کا تسلط بڑھتا جا رہا ہے جو اپنے مفاد کو دنیا کی ہر چیز کے مقابلے میں زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں خواہ وہ ایمان‘ اخلاق‘ انسانیت اور شرافت ہی کیوں نہ ہو۔ ان حالات کو بدلنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ حقیقت میں ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اصلاح کیسے ہو سکے گی۔ ایک طرح کی مایوسی ہوتی ہے کہ اس بگاڑ کو درست کرنا کسی طرح ممکن نہیں--- لیکن یہ حقائق کی دنیا ہے اور حقائق کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ مشکلات کا تصور کر لینے کے بعد ایک مسلمان کو سوچنا یہ چاہیے کہ کیا میں سپرڈال دوں؟ اور یہ سیلاب مجھے بھی بہا لے جائے اور آیندہ نسلوں کو بھی‘ یا اصلاح کی جدوجہد کرنی چاہیے خواہ میں اسی میں ختم ہوجائوں۔ ہر آدمی کو سوچنا چاہیے کہ کیا مایوسی کا تقاضا یہ ہے کہ بگاڑ کو قبول کر لیا جائے۔ حقیقت میں ایک مسلمان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بہرحال اس صورتِ حال کی مزاحمت کی جائے اور جیسی کچھ بھی طاقت ہو اصلاحِ احوال کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ا نبیاؑ پر بھی حالت بدلنے کی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ دعوت دینے کی ذمہ داری تھی۔
ایک مومن کا کام کوشش کرنا ہے۔ اللہ کی مرضی اگر ہے کہ اس قوم کو تباہی سے بچائے تو وہ ہماری کوششوں میں طاقت اور برکت عطا فرمائے گا۔ اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو بے شک ہم اس دنیا کے نقطۂ نظر سے ناکام رخصت ہوں‘ اس کے ہاں کامیاب ہوں گے۔ مسلمانوں کی حیثیت سے ہمارا کام اصلاح کی کوشش کرنا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ وہ اگر کامیابی عطا کرے تو اس کی عنایت ہوگی ورنہ دنیا کی ناکامی کا نام ناکامی نہیں بلکہ آخرت کی ناکامی کا نام ناکامی ہے۔ اس نقطۂ نظر کو ہمیشہ اپنے ذہن میںرکھنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اصلاح کے لیے جو کوشش کریں وہ اندھا دھند نہیں ہونی چاہیے۔ یونہی ہاتھ پائوں نہ ماریں۔ کوشش کا قدرتی تقاضا یہ ہے کہ حکمت اور معاملہ فہمی سے کام کیا جائے۔ قانونِ فطرت کے مطابق جو کوشش کی جائے وہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ آگ جلانے کے لیے سوکھی لکڑیاں ہوں‘ دیاسلائی ہو اور پھر لکڑیوں کو ہوا ملے تب وہ بھڑک اٹھتی ہیں۔ کوئی اور طریقہ جو قانونِ فطرت کے مطابق نہ ہو تو اس کے ذریعے سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ بگاڑ کی نوعیت کیا ہے اور کام کس طرح کرنا ہے۔ معاشرے میں کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ضروری ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ہمہ گیر‘ ہمہ پہلو اور قانون فطرت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حکیمانہ طریقے سے کوشش کرنی چاہیے۔
اوّلین بات یہ ہے کہ جو لوگ اصلاح کی یہ کوشش کرنے کے لیے اٹھیں‘ وہ پہلے اپنے آپ کو انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے تیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق کے بعد اپنے یہ اوصاف ہی اس راستے میں کام آتے ہیں اور اللہ کی مدد بھی تب ہی آتی ہے جب ان اوصاف کے مطابق کام کیا جائے۔ ہماری تربیت گاہوں کا مقصد بھی ایسے اوصاف پیدا کرنا ہے۔ اگر یہ اوصاف پیدا نہ ہوں تو ہم اصلاح کے لیے اہل اور موزوں نہیں۔
۱- اسلام کا صحیح فہم: ہم اسلام کا نظامِ حیات قائم کرنے کے لیے اٹھے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بجائے خود کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کیا ہے؟ اس کی تعلیم کیا ہے؟ دین کے صحیح فہم سے مراد پورا مولوی ہونا ہی نہیں ہے۔ پورے علوم دینی کی تحصیل اگرچہ مطلوب ہے لیکن دینی نظام کے قیام کی خاطر عام آدمیوں کے لیے اتنا دین جاننا ضروری نہیں۔ عرب کے بدو برسوں کی درس و تدریس سے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ انھیں دین کا اتنا خلاصہ معلوم ہو جاتا تھا کہ برائی کیا ہے جسے مٹانا ضروری ہے اور بھلائی کیا ہے جسے قائم کرنا چاہیے۔ دین کے اتنے سے فہم کے ساتھ موجودہ زمانے کی ذلالتوں اور گمراہیوں اور ان کے اثرات سے صحیح آگاہی کافی ہے۔
کارکنوں کے لیے جو تربیتی نصاب مقرر کیا گیا ہے آپ کو چاہیے کہ اس نصاب کو نگاہ میں رکھیں۔ پانچ چھ برس پہلے کی پڑھی ہوئی چیز کو بھی دوبارہ پڑھنا ضروری ہے کیونکہ واقعات کے سطحی مطالعے اور اتار چڑھائو سے دماغوں میں کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاج کے لیے تربیتی نصاب کا بار بار مطالعہ ضروری ہے۔
۲- پختگی ٔ ایمان: دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے اندر ایمان کو زیادہ سے زیادہ پختہ اور مضبوط کریں۔ یہ زمانہ ایسا ہے کہ ہر وقت ایمان کو متزلزل کرنے والی طاقتیں اس طرح مصروفِ کار ہیں کہ پختہ آدمی کا ایمان بھی ہل جاتا ہے۔ کسی مرحلے پر بھی متزلزل نہ ہوں اور ایمان کو اٹل اور مستحکم رکھیں۔
۳- مقصدِ وحید: ہم اعلاے کلمۃ اللہ کو اپنا مقصدِزندگی قرار دے چکے ہیں۔ لیکن یہ بات نگاہ میں رکھیں--- یہ جماعت کا نہیں بلکہ آپ کا اپنا مقصد ہے۔ بسااوقات آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ جماعت پر احسان کر رہا ہے۔ حالانکہ اگر وہ اسے اپنا مقصد سمجھے تو ایسی بات ذہن میں بھی نہیں آسکتی۔ سمجھنا یہ چاہیے کہ اگر جماعت نہ رہی تب بھی مجھے یہ کام کرنا ہوگا۔ یہ چیز نہایت اہم ہے۔ کیونکہ جب تک کوئی شخص اسے اپنی زندگی کا مقصد قرار نہیں دیتا تب تک صحیح کام نہیں ہوسکتا۔ اپنا مقصد قرار دے لینے کے بعد اگر کوئی آدمی جماعت چھوڑ بھی دے تو بھی مقصد تو نہ چھوٹے گا۔ اگر کسی شخص کا بچہ بیمار ہو تو وہ بچے کو نہیں چھوڑ سکے گا۔ لیکن کسی دوسرے شخص کے بیمار بچے کے علاج میں وہ کوتاہی برت سکتا ہے اور اپنے گھر بیٹھ سکتا ہے۔ اپنا مقصد قرار دینے والا آدمی جماعت میں ہو یا نہ ہو‘ مضبوطی کے ساتھی یہی کام کرتا چلا جائے گا۔
۴- یک رنگی: چوتھی چیز یہ ہے کہ ہم اپنے اندر دو رنگی‘ تناقض‘ تضاد اور منافقت نہ پیدا ہونے دیں۔ ایک دو رنگی وہ ہوتی ہے جو معاشرے میں گھرے ہونے کی وجہ سے ناگزیر طور پر آدمی میں پائی جاتی ہے اور دوسری وہ جسے آپ اپنے اختیار سے پسند کریں اور اس پر راضی ہو جائیں۔ دونوں میں فرق ہے۔ مثلاً ایک آدمی ہوش میں آنے پر خود کو گندگی کے تالاب میں گرا ہو اپاتا ہے۔ اب وہ وہیں گندے پانی میں ہاتھ پائوں مارنے پر مجبور ہے۔ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ یہ گندا پانی ہے‘ وہ اس سے نہیں بچ سکتا۔ اس کے باہر بلاشبہہ گندگی ہے اور یہ ناگزیر ہے مگر قلب میں طہارت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس میں ڈوب کر مر جائے لیکن اس کا قلب پاک ہوگا--- اس کے مقابلے میں دوسرا شخص وہ ہے جو خود گندگی میں رہنا چاہتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے--- دونوں میں فرق ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دانستہ دو رنگی کو اپنے اندر نہ آنے دیں جس حد تک آپ کے بس میں ہو۔ کوشش کر کے اپنے آپ کو یک رنگ بنائیں۔ جس کی زندگی میں تناقض اور تضاد ہو‘ اس کا قول اور عمل بے اثر ہوتا ہے۔ آپ کے نظریات اور عمل میں فرق ہوگا تو لوگ آپ کی بات آپ کے منہ پر دے ماریں گے۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے کوشش کیجیے کہ جن نظریات کو آپ پیش کرتے ہیں‘ ان کی جھلک آپ کی عملی زندگی میں نظر آنی چاہیے۔
۵- اہلیت پیدا کرنا : پانچویں ضروری چیز یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان قابلیتوں سے آراستہ کریں جن کی اس دنیا میں کام کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ جس حد تک بس میں ہو خود کو ذہنی اور اخلاقی حیثیت سے اس قابل بنائیں کہ آپ میںاُس نظامِ زندگی کو چلانے کی اہلیت پیدا ہو‘ جس کے لیے آپ کوشش کر رہے ہیں۔ جس قابلیت کی بہت بڑی ضرورت ہے وہ حکمت اور دانائی ہے۔
دین کبھی بے وقوفوں کے ہاتھ سے قائم نہیں ہوا۔ اس کے لیے معاملہ فہمی اور معاشرے کی اُلجھنوں سے واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ بات کرنے والے شخص کو سمجھیں۔ اگر اسے نہ سمجھیں گے تو اسے سیدھے راستے پر لانے کے بجائے اُلٹے راستے پر ڈال دیں گے۔ حکمت نہ ہوگی تو بنتے کام کو بگاڑ دیں گے اور اگر حکمت ہوگی تو بگڑتے کام کو بھی سنوار لیں گے۔ اس کے لیے قرآن پاک‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیرت اور صحابہؓ کی سیرت سے سبق حاصل کریں۔ پھر دنیا کے معاملات کو چلانے کے لیے جو عقل و دانائی درکار ہے اس کو نشوونما دیں۔ ہر آدمی کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اگر کوئی ساتھی حکمت کے خلاف کوئی کام کر رہا ہو تو اسے بروقت متنبہ کر دیا جائے--- پوری جماعت میں عقل و دانائی کی ضرورت ہے۔ ایک آدمی چاہے کتنا ہی دانا کیوں نہ ہو‘ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر وقت دانائی کے بلند معیار پر قائم رہے۔ جماعت بحیثیت مجموعی عقل مند اور دانا ہونی چاہیے۔
۶- صبروحکمت: دوسری صفت صبر کی ہے جو اتنی ہی اہم ہے جتنی حکمت--- دونوں صلاحیتوں کی پہلے بھی تاکید کی جاتی رہی ہے‘ اور اب بھی کی جا رہی ہے۔ جس میں صبر نہ ہو‘ وہ جلدبازی سے کام کرنا چاہتا ہے لیکن وہ بڑے مقصد کے لیے کام نہیں کر سکتا اور نہ کامیاب ہو سکتا ہے۔موجودہ حالات میں تو صبر کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ حالات کو سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے اور جتنا قدم اٹھانا ناگزیر ہو‘ اتنا ہی اٹھانا چاہیے۔ پھر جو مزاحمتیں اور مخالفتیں ہوں‘ اگر ان کے مقابلے میں تحمل اور برداشت نہ ہو تو اصلاح کے بجائے خرابی ہوگی۔ ایک آدمی میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ سخت اشتعال انگیز حالت میں دماغ کو ٹھنڈا رکھے۔ جو کہنے کی بات نہ ہو‘ زبان سے نہیں نکلنی چاہیے۔ پھر بات جتنی کچھ کہنی ہو‘ اس سے آگے نہ بڑھیں۔ شیطان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دین کا کام کرنے والوں کو غصہ دلائے مگر انھیں صبروضبط اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بے موقع زبان کو نہ کھولیں۔ گالیاں سنتے رہیں لیکن جواب میں کچھ نہ کہیں۔ اس کے بغیر کام ممکن نہیں ہے۔ الزام تراشی کے جواب میں اگر آپ بھی الزام تراشی شروع کر دیں گے تو آپ بھی اسی مقام پر کھڑے ہو جائیں گے جہاں دوسرا فریق کھڑا ہے۔
۷- قربانی کا جذبہ: ایک اور اہم مطلوب صفت قربانی کا جذبہ ہے۔ وقت‘ مال اور محنت کی قربانی تو دی جاسکتی ہے لیکن سب سے زیادہ سخت قابلیتوں کی قربانی ہے۔ ایک آدمی جب یہ محسوس کرتا ہے کہ مجھ میں شہرت اور منصب حاصل کرنے کی قابلیتیں موجود ہیں‘ تو اس کے لیے ضبط کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دنیاوی مواقع کو چھوڑ کر قربانی دینا دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ آدمی پیسہ دے جاتا ہے‘ وقت بھی دے جاتا ہے لیکن ایک ایسے کام میں پڑنا جو دنیاوی لحاظ سے بنجر ہو اور جس میں روٹی چٹنی بھی مشکل سے میسر آئے‘ کسی آدمی کے لیے حقیقی امتحان ثابت ہوتا ہے۔ یہاں پتا چلتا ہے کہ وہ کس حد تک قربانی دینے کو تیار ہے۔ آپ اپنے اندر جذبۂ قربانی کو بیدار کیجیے۔ یہ اس مقصدِعظیم کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ جس قدر یہ سپرٹ پیدا ہوگی‘ اتنا ہی زیادہ کام ہوگا۔ اگر قربانی کا جذبہ ہم میں پیدا ہو جائے تو ہم ہزار گنا زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ ہم میں جذبۂ قربانی کی کمی ہے۔
قربانی کے معنی یہ نہیں کہ اندھا دھند چھلانگ لگا دی جائے--- نہیں! حالات کا جائزہ لے کر اور سوچ سمجھ کر یہ متعین کرنا چاہیے کہ ہمیں اپنی ذات اور اپنے متعلقین کے لیے کتنا کچھ مطلوب ہے۔ اس کے لیے ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ--- اپنی ذات کا بھی انسان پر حق ہے۔ اپنی ذات کے علاوہ بچوں اور بیوی کا بھی حق ہے۔ ان حقوق کو تلف نہیں کرنا ہے--- غیر معتدل رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں‘ جس حد تک اوسط درجے کی زندگی کے لیے ضروری ہو‘ وہ کافی ہے--- اگر یہ کام ہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ یقین کریں کہ ہماری جتنی تعداد اس وقت ہے ہم اسی تعداد کے ساتھ موجودہ حالت کی نسبت بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں۔
۱- باہمی ہمدردی و خیرخواہی: کوئی جماعت دنیا میں مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک اس کے رفقا اور شرکا میں باہمی محبت نہ ہو۔ محض میل جول کافی نہیں ہے۔ کسی سے محبت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے متعلق کوئی برا خیال نہ رکھیں۔ محبت وہ چیز ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے سے پیوستہ کرتی اور انھیں بنیان مرصوص بناتی ہے اور محبت کی کمی انھیں پھاڑتی ہے۔ کسی ساتھی میں کوئی برائی محسوس ہو تو وہ درد مندی اور اخلاص کے ساتھ اس سے کہی جائے تاکہ وہ بھی یہ محسوس کرے کہ یہ میری اس برائی پر خوش ہو کر نہیں بلکہ جذبۂ ہمدردی کے تحت کہہ رہا ہے--- اس طرح کہیے کہ زخم نہ لگے۔ اگر آپ اس برائی کو دوسروں کے سامنے بیان کریں گے تو یہ محبت نہ ہوگی۔ ایک دوسرے کے متعلق برے خیالات دلوں میں ہوں تو کوئی بھلا کام نہیں ہو سکتا‘ اور نہ اس طرح کوئی جماعت قائم ہی رہ سکتی ہے۔ باہمی ہمدردی و اخلاص اور خیرخواہی جماعتی زندگی کی اوّلین شرط ہے۔ جب اس چیز کی کمی محسوس ہو تو آپ کو فکرمند ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کی تلافی روپے پیسے کی بارش یا دنیا کی کسی دوسری چیز سے نہیں ہوسکتی۔
۲- نظم و ضبط: دوسری اہم چیز نظم و ضبط اور سمع و اطاعت کی صفت ہے۔ جب تک نظم اور ڈسپلن موجود نہ ہو‘ جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کوئی ایسی فوج جسے پکارا جائے اور وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے‘ وہ کہیں دھاوا نہیں بول سکتی۔ ڈسپلن نہ ہو تو کام نہ ہوگا۔ جن لوگوں کو احساس ہو‘ انھیں خود بھی بدنظمی سے بچنا چاہیے اور جماعت کو بھی بدنظمی و انتشار سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کوئی کام اپنے ذمے نہ لینا اس سے بہتر ہے کہ ذمے لے کر نہ کیا جائے۔ جو فیصلے جماعت کے اندر ہوں‘ انھیں تسلیم کرنا کارکنوں کا فرض ہے۔
۳- باہمی مشورہ: تیسری صفت یہ ہے کہ باہمی مشورے سے کام کیاجائے۔ قرآن اہل ایمان کی صفات کی تعریف کرتا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو مشورے سے طے کرتے ہیں۔ بغیر مشورے کے کوئی فیصلہ کرنا جماعتی زندگی کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ جس فیصلے میں آپ کی اپنی رائے بھی شامل ہو‘ اس پر عمل کرنا آسان ہوتا ہے۔ محض دوسرے کی رائے پر خوش دلی کے ساتھ عمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں‘ اور جن کی رائے کے خلاف فیصلہ ہو‘ وہ اپنی رائے کے خلاف فیصلہ ہونے کے باوجود اطاعت کریں‘ الا یہ کہ جماعت دین سے باہر ہو جائے۔ جماعت بڑا ظلم کرے گی اگر وہ آزادی رائے کا حق نہیں دے گی۔ لیکن جب اتفاق رائے یا کثرت رائے سے کوئی فیصلہ ہو جائے تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی رائے کو نہیں بلکہ جماعت کے فیصلے کو کامیاب کرنے کے لیے زور لگا دے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ خود پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کسی معاملے میں جہاں نصِ صریح موجود ہو‘ وہ تو درست مگر جہاں اجتہاد کا معاملہ ہو وہاں ایک آدمی پوری جماعت کے مقابلے میں زیادہ دانا اور عقل مند نہیں ہو سکتا۔ اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرلینا چاہیے۔ مشورے میں پوری آزادی ہونی چاہیے اور ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ ہر شخص پوری قوت سے اپنی رائے بیان کرسکے۔ لیکن جب بحثیں ہو چکیں اور اکثریت سے فیصلہ ہو جائے تو لوگوں کا کام ہے کہ اس کے ساتھ چلیں۔
آخر میں دوباتیں اور کہنا چاہتا ہوں--- ان تمام اوصاف کو جو بیان کیے گئے ہیں‘ اپنے اندر انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں ملحوظ رکھیں مگر چند باتیں ایسی ہیں جن سے بڑی شدت کے ساتھ پرہیز کریں۔
پہلی چیز یہ ہے کہ آپ کے اندر کبر اور فخر نہ ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ جماعت کے افراد میں اور جماعت کے اندر مجموعی طور پر فخر اور تکبر کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے۔ بسااوقات باتیں کرتے ہوئے‘ مخالفین اور مخالفتوں کا ذکر کرتے ہوئے مجبوراً ایسی بات کرنی پڑتی ہے جس سے یہ بتانا ہوتا ہے کہ مخالفین جو الزامات و تہمتیں ہم پر لگاتے ہیں‘ اس کے برعکس ہم میں یہ اور یہ خوبیاں ہیں--- ایسے موقعوں پر اگر اس طرح کی کوئی بات کہہ بھی دی جائے تو جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں اس میں کبر تو نہیں پایا جاتا۔ جس روز ہم نے سمجھ لیا کہ ہم بڑی چیز ہیں‘ اسی روز چھوٹی چیز ہو جائیں گے۔ خودپسندی اور تعلّی فرد اور جماعت دونوں کو گرا دیتی ہے۔
دوسری چیز جس سے بچنا لازم ہے ‘وہ ریاکاری‘ نمود و نمایش اور خلقِ خدا کی تحسین کا معاملہ ہے۔ ہمیں جو کچھ کرنا ہے اللہ کے لیے کرنا ہے۔ کسی کی تحسین کی حاجت نہیں ہے۔ دنیا خواہ تعریف کرے یا برائی‘ہمیں بہرحال خدا کا کام کرنا ہے۔ لیکن اگر کام میں ریا آگیا تو ساری نیکی بربادہو جائے گی۔ ریا کو حدیث میں شرک کہا گیا ہے‘ یعنی تحسین چاہنے والا انسان گویا دوسروں کو معبود بنا لیتا ہے اور انھیں خوش کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ جو آدمی خدا کے لیے کام کرنے والا ہے‘ اسے کسی دوسرے کی جزا مطلوب نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر رفیق ان باتوں کو اپنی گرہ میں باندھ لے اور خالص خدا کے لیے کام کرے۔ (اچھرہ‘ لاہور میں تربیت گاہ سے خطاب‘ ۳۰ مئی ۱۹۶۵ئ‘رپورٹ: رفیع الدین ہاشمی۔ ہفت روزہ آئین‘ لاہور‘ ۶جون ۱۹۶۵ئ)
محترم خرم مرادؒ لاہور میں گارڈن ٹائون کی مسجد بلال میں خطبہ جمعہ سے قبل ۴۰ منٹ کا خطاب کرتے تھے۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۰ء سے جنوری ۱۹۹۶ء میں آخری سفر کے لیے برطانیہ روانگی تک‘ بیرونی سفر اور بیماری کے وقفوں علاوہ‘ مسلسل جاری رہا۔ انھوں نے یہ خطاب ایک اسکیم کے تحت ایمانیات‘ عبادات‘ عبادات قلبی‘تعلق باللہ‘ فضائل اخلاق‘ رذائل اخلاق‘ اُمت‘ دعوت و جہاد سے متعلق موضوعات پر احادیث کو بنیاد بنا کر کیے تھے۔ ۲۴ آخری سورتوں کے اور دعائوں کے درس بھی یہیں ہوئے۔ یہ خطاب وہ ہمیشہ مکمل تیاری کرکے کرتے تھے‘ کبھی وقت گزاری نہ کی۔ ان خطابات کو کیسٹ سے تدوین کر کے پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دیگر تحریکی رسائل میں بھی شائع ہو رہے ہیں۔ یہاں ان میں سے ایک پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے انسانوں کو بھی بدلا‘ ان کی سوسائٹی بھی بدلی اور ان کی پوری دنیا بھی بدل دی۔ اس کام کو آپؐ نے کیسے سرانجام دیا‘ وہ کون سی کنجی تھی جس سے آپؐ نے لوگوں کی زندگیوں کے تالے کھول دیے اور ان کوبدل کر ان کے ذریعے ساری دنیا کو بدل دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب درج ذیل حدیث میں دیا گیا ہے۔
اس حدیث کو ایک انصاری صحابی حضرت نعمان بن بشیرؓ نے روایت کیا ہے اور اس طرح روایت کیا ہے کہ جب انھوںنے یہ بیان کیا کہ میں نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو انھوں نے اپنے کانوں کی طرف اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا کہ یہ وہ کان ہیں جن سے سنا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
الْحَلاَلُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَّبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لاَّ یَعْلَمُھَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الْمُشْتَبِھَاتِ اسْتَبْرَاَلِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِیْ الشُّبْھَاتِ کَرَاعٍ یَّرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یُّوَاقِعَہٗٓ اَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی اَلاَ اِنَّ حِمَی اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ مُحَارِمُہٗ اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً۔ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلاَ وَھِیَ الْقَلْبُ (بخاری‘کتاب الایمان‘ باب فضل من استبرالدینہ)
بے شک حلال واضح اور صاف ہے اور بے شک حرام بھی واضح اور صاف ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہہ والی چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تو جس نے اپنے آپ کو شبہے والی چیزوں سے بچایا اس نے اپنے دین کو اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا۔ اور جو مشتبہ چیزوں کے اندر پڑ گیا تو پھر وہ حرام میں پڑ گیا۔ جس طرح کہ کوئی چَرانے والا کسی بادشاہ کی مخصوص چراگاہ کے گرد جائے اور قریب ہے کہ وہ اسی چراگاہ کے اندر داخل ہوکر چَرنا شروع کردے۔ اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ اللہ کی چراگاہ وہ چیزیں ہیں جن کو اس نے حرام کیا ہے ۔ اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ سدھر جائے تو ساراجسم سدھر جاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ یہ قلب ہے۔
اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں میں روایت کیا گیا ہے۔ جو الفاظ میں نے آپ کے سامنے پڑھے ہیں وہ بخاریکے الفاظ ہیں۔ دونوں کے الفاظ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن جس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے بیان کیا ہو وہ اپنی صحت کے لحاظ سے بہت اونچے درجے کی حدیث شمار ہوتی ہے۔حدیث کی بعض کتابوں کو دوسرے طبقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ پہلے طبقے میں بخاری‘ مسلم اور مؤطا امام مالک ہیں اور دوسرے طبقے میں ترمذی‘ نسائی‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ اور دارمی کی کتابیں ہیں۔ دوسرے طبقے کی کتابوں میں سے ابن ماجہ اور دارمی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور ان کے الفاظ بھی تقریباً وہی ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پڑھے ہیں۔
اس حدیث کو محدثین اور علماے کرام نے بہت عظیم الشان حدیث قرار دیا ہے بلکہ بعض لوگوں نے یہاں تک کہا ہے کہ اسلام کامدار اس حدیث پر ہے‘ یا یہ کہ یہ ان تین یا چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر پورے اسلام کی بنیاد قائم ہے۔
اس حدیث کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ حلال اور حرام اور مشتبہات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ہم تک پہنچاتا ہے اور دوسرا حصہ دل یا قلب کے بارے میں ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں حصوں کا آپس میں کوئی گہراتعلق نہیں ہے۔ محدثین نے عام طور سے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے کہ ان دونوں حصوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کیوں جمع کیا؟ ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ لیکن پہلا حصہ جو کہ حلال و حرام اور مشتبہات کے بارے میں ہے اس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے‘ اور دوسرا حصہ جو دل کے بارے میں ہے اس پر ہم پہلے گفتگو کریں گے۔ اس طرح اس حدیث کاجو مطلب ہے اور اس میں ہمارے لیے جو ہدایت ہے اس کا سمجھنا ہمارے لیے آسان ہوگا۔
دوسرے حصے میں آپؐ نے یہ فرمایا کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے‘ اگر وہ سدھر جائے‘ سنور جائے‘ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم سدھر جاتا ہے‘ اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ اچھی طرح جان لو کہ یہ قلب ہے!
پہلا سوال یہ ہے کہ یہاں قلب کا کیا مطلب ہے؟ حدیث کے الفاظ تو یہ بتاتے ہیں کہ جسم میں دل کی شکل میں گوشت کا جو ٹکڑا ہے‘ آپؐ نے اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے لیکن قرآن مجید اور حدیث میں قلب کی اصطلاح بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ اس کے مطابق ہماری پوری شخصیت کا نام قلب ہے۔ یہ جسم فنا ہوجائے گا اور انسان کی روح جس کو قرآن مجید میں قلب بھی قرار دیاگیا ہے وہ باقی رہ جائے گی۔ انسان کی شخصیت کے مختلف پہلو قلب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کی طرف قرآن مجید میں بے شمارمقامات پراشارہ کیا گیا ہے‘ مثلاً عقل اور سمجھ بوجھ‘ شعور اوراحساس‘ ان سب کا مرکز بھی قرآن کی زبان میں قلب ہے۔ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا ز (الاعراف ۷:۱۷۹) ’’ان کے دل ہیں لیکن وہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں ہیں‘‘۔ یا یہ کہ کیا ان میںایسے لوگ نہیں تھے جن کے پاس دل ہوتے اور وہ اپنی عقل سے کام لیتے۔ لہٰذا قرآن میں عقل‘ تفکر اور سمجھ بوجھ کامرکز بھی قلب کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں ارشاد ہوا: اَفَلاَیَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا ان لوگوںنے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘ گویا تدبر‘ یعنی قرآن پر غور و خوض کا مرکز بھی قلب ہے۔
قلب کا لفظ جن دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے وہ ہماری خواہشات ہیں۔ یہ خواہشات دنیوی چیزوں کے لیے بھی ہوسکتی ہیں‘ ان سے اعلیٰ چیزوں کے لیے بھی ہوسکتی ہیں۔ ان خواہشات کامرکز بھی قلب ہے۔ اسی طرح جو جذبات انسان کے اندر ہوتے ہیں‘ مثلاً شفقت کا جذبہ‘محبت کا جذبہ‘ نرمی کاجذبہ‘ نفرت اور غصے کا جذبہ‘ ان سب کا مرکز بھی قرآن و حدیث کی رو سے انسان کا قلب ہے۔ اور سب سے آخر میں وہ چیز جو انسان کوانسان بناتی ہے‘ یعنی اس کاارادہ اور نیت۔ وہ ارادہ‘ جس سے وہ اپنے اعضا کو حرکت دیتا ہے‘ کام کرتا ہے‘ کچھ چیزوں کو طلب کرتا ہے اور کچھ چیزوں سے رک جاتا ہے‘ اس کے اس ارادے کا مرکز بھی قلب ہے۔ اس لحاظ سے قلب دراصل انسان کی شخصیت کا پورامرکز ہے۔ ہاتھ پائوں نہ بھی رہیں‘کٹ جائیں‘ ختم ہوجائیں‘ جسم کے اور دوسرے اعضا بھی ناکارہ ہوجائیں لیکن ایک چیز انسان کی شخصیت ہے‘ وہ باقی رہتی ہے۔ اسی کو قلب کہا گیا ہے ۔
اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے کہ حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ’’گوشت کا ایک ٹکڑا‘‘ ہے تو اس سے کیا مطلب ہے؟ا س بارے میںہمارے محدثین نے کافی لکھا ہے اور لوگوں کا اختلاف بھی نقل کیا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک عقل دماغ میں ہے اور بعض کے نزدیک دل میں ہے۔ سائنس کی رو سے بھی گوشت کا یہ ٹکڑا صرف اتنا کام کرتا ہے کہ خون پمپ کرتا رہے اور باقی انسان کے سارے جذبات اور سوچ سمجھ کا مرکز اس کا دماغ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بحث حدیث سے بالکل غیر متعلق ہے اور میری رائے میں حدیث کو سمجھنے کے لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم یہ متعین کریں کہ فی الواقع یہ دماغ ہے یا قلب۔جب انسان آپس میں بات کرتے ہیں تو وہ اپنے مشاہدے کی بنا پر اور ادب کے پیرایے میں بات کرتے ہیں۔ اگرچہ سائنس یہ کہتی ہو کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ سورج نکل آیا اور سورج ڈوب گیا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ زمین نکل آئی اور زمین ڈوب گئی۔ اسی طرح ہماری زبان کے اندر معروف محاورہ یہ ہے کہ میرا دل یہ کہتا ہے‘ میرا دل یہ چاہتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو ادب کی زبان ہے اور اس لحاظ سے اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ متعین کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے کہ عقل کا مرکز کہاں ہے اور دماغ کا مرکز کیا ہے۔ قرآن نے یہ لفظ اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ جسد سے کیا مراد ہے؟ جب جسم کہا تو اس سے ظاہری جسم مراد ہے یا کچھ اور۔ یہاںاس سے ہمارا یہ جسم مراد ہے۔ اس کی طرف محدثین نے اشارہ کیا ہے اور یوں کہا ہے کہ جسم کی حیثیت رعایا کی ہے اور قلب کی حیثیت بادشاہ کی۔ جس طرح رعایا بادشاہ کے ماتحت ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ ہاتھ پائوں‘ ناک کان‘ آنکھ ہر چیز قلب کے تابع ہے۔ آنکھ وہ چیز نہیں دیکھے گی جو دل دیکھنا نہ چاہے بلکہ وہی چیز دیکھے گی جس کو دل دیکھنا چاہے گا۔ ہاتھ وہ چیز نہیں کمائے گا جس کے بارے میں دل نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ نہیں کمانا چاہیے اور وہی چیز کمائے گا جس کے بارے میں دل یہ فیصلہ کرلے کہ اسے کماناچاہیے۔ یہ سارے اعضا رعیت ہیں‘ رعایا ہیں اور قلب کی حیثیت ایک بادشاہ کی ہے۔
جسد کے دو اور معنی بھی ہوسکتے ہیں اگر ہم اس کو ایک استعارہ سمجھیں۔ ایک تو یہ کہ جسد سے مراد وہ شریعت ہے جس کا ذکر حدیث کے پہلے ٹکڑے میں ہوچکا ہے اور یہاں سے ان دونوں کا ربط قائم ہوتا ہے کہ وہ شریعت جو حلال اور حرام کو واضح کرتی ہے‘ اس شریعت کے قائم ہونے کے لیے قلب کی بنیاد اور قلب کی قوت ضروری ہے۔احکام کی اطاعت کے لیے سینے کے اندر دل بیدار ہونا چاہیے۔ سننے کے لیے‘ سمجھنے کے لیے‘ دیکھنے کے لیے‘ صحیح فیصلہ کرنے کے لیے‘صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے‘ صحیح راہ پر چلنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دلِ بیدار موجود ہو۔
اس کے دوسرے معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ جسد سے دراصل پوری انسانی زندگی مراد ہے۔ اس کی انفرادی زندگی بھی اور اجتماعی زندگی بھی‘ اور اس کی زندگی کا ہر پہلو۔ اگر دل میں سکون ہے تو زندگی میں سکون ہوگا‘ اگر دل میں اطمینان ہے تو زندگی میں اطمینان ہوگا ‘اگر دل میں اچھے خیال آتے ہیں تو زندگی اچھے راستے پر جائے گی۔ اور اگر دل میں برے خیال آتے ہیں تو زندگی برے راستے پر جائے گی۔ اجتماعی طور پر بھی جو خرابیاں قوم کے اندر پیدا ہوتی ہیں ‘ لوٹ مار ‘خون خرابہ یا ڈاکے پڑنا وغیرہ ان سب کے پیچھے اصل خرابی دل کی خرابی ہوتی ہے۔ انسان گناہ کرتا ہے‘ اس لیے کہ اس کے دل میں خرابی ہوتی ہے اور وہ غلطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ گویا اس حدیث کی رو سے اصلاح کاراستہ قلب ہے۔ اگر قلب کی اصلاح ہوگی تو آدمی کے اعضا بھی صحیح کام کریں گے‘ شریعت کی اطاعت کی قوت بھی اس کے اندر پیدا ہوگی اور پوری انسانی زندگی کی اصلاح ہوجائے گی۔ اگر اس میں بگاڑ پیدا ہو تو پھر اعضا بھی غلط کام کریں گے‘ شریعت بھی کتابوں میں لکھی رہ جائے گی اور اس پر عمل نہیں ہوگا۔ یوں پوری انسانی زندگی کے اندر بگاڑپیدا ہوجائے گا۔
یہاں ’’صلاح‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی دراصل ہر قسم کی اچھائی اور بھلائی اور اصلاح ہے‘ اور فساد سے بھی ہر طرح کا فساد مراد ہے۔ حدیث میں اس کا کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے کہ کس قسم کی صلاح اور کس قسم کا فساد مراد ہے۔ ہر قسم کی صلاح اور ہر قسم کا فساد مراد ہو سکتا ہے خواہ وہ انسان کی جسمانی زندگی سے متعلق ہو یا اخلاقی زندگی سے یا مادی زندگی سے‘ خواہ اس کی انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اس کی اجتماعی زندگی سے۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ ہر صلاح اور ہر قسم کی صلاح‘ ہر فساد اور ہر قسم کے فساد کاانحصار قلب پر ہے۔ قرآن مجید نے اس بات کو بہت کھول کر بیان کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ پوری انسانی زندگی میں جو کچھ بھی پیش آ رہا ہے وہ اس دل کی وجہ سے ہے۔ فرمایا : فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ (البقرہ ۲:۱۰) ’’ان کے دلوں میں مرض ہے‘‘۔ کسی منافقت ‘نافرمانی اور تغافل کے رویوں کے پیچھے جو چیز ہے وہ دراصل دلوں کامرض ہے۔ مرض کی جڑ دلوں میں ہے۔ فرمایا: فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (الحج ۲۲:۴۶)’’حقیقت یہ ہے کہ وہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔ گویا یہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں کہ دیکھنے سے انکار کردیں کہ صحیح راستہ کیا ہے اور صحیح کام کیا ہے‘ بلکہ جو دل سینوں کے اندر ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد آنکھیں دیکھتی بھی ہیں اور کان سنتے بھی ہیں‘ لیکن نہ صحیح راستہ دکھائی دیتا ہے‘ نہ صحیح آواز سنائی دیتی ہے اور نہ آدمی ہدایت قبول کرتا ہے۔ قرآن مجید نے کہا ہے کہ ایمان اور تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے: وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ (الحجرات ۴۹:۷)’’مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنا دیا‘‘۔ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی (الحجرات ۴۹:۳)‘یعنی جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزمالیاوہی اہل تقویٰ ہیں نہ کہ ظاہر کی چیزیں تقویٰ ہیں۔
اس بات کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق حضورؐ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کیا اور فرمایا کہ التقویٰ ھٰھنا ‘ تقویٰ دراصل یہاں ہے۔ تقویٰ کو تم کبھی لباس میں ڈھونڈتے ہو‘کبھی شکل و صورت میں‘ کبھی ظواہر میں‘ لیکن تقویٰ کا مرکز اور سرچشمہ تو یہاں پر ہے۔ تین دفعہ آپؐ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کرکے اس بات کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن مجید نے بھی کئی دفعہ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل پرسش قلب کے اعمال کی ہے۔ اگر کسی آدمی کو زبردستی کلمۂ کفر کہنا پڑے لیکن اس کے دل کے اندر ایمان ہو تو اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ جس کو مجبور کردیا گیا لیکن قلبہ مطمئن‘ اس کا دل ایمان کے اوپر مطمئن ہے‘ اس سے کوئی بازپرس نہ ہوگی۔ آپؐ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ تم گناہ تو کرتے ہو لیکن پرسش تو اس گناہ کی ہے جس کا دل نے ارادہ کیا ہو‘ جو دل نے کمایا ہو۔ دل کی کمائی پر انسان سراسر قابل مواخذہ ہے۔
انسان اس لیے جواب دہ اور قابل مواخذہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کوارادے کی آزادی دی ہے۔ کوئی چاہے تو نیکی کرے اور کوئی چاہے تو برائی کرے۔ اس ارادے کا سرچشمہ اور ڈوری کیونکہ قلب کے ہاتھ میں ہے اس لیے اصل ذمہ داری قلب کی ہے۔ گناہ کا ذمہ دار بھی انسان کا قلب ہے‘ یعنی اس کے اندر کی شخصیت جو اس کے جذبات اور ارادے اور محرکات اور ہر چیز کی مرکز ہے۔ قیامت کے روزبھی وہی آدمی نجات پائے گاجو صحیح سالم دل لے کر اللہ کے پاس جائے گا۔ اس کو قرآن مجید میں واضح کردیا گیا: جس دن نہ مال کام آئے گا‘ نہ بیٹے کام آئیں گے‘ نہ دولت کام آئے گی‘ نہ جایداد کام آئے گی سوائے اس کے کہ جو ’’قلب سلیم‘‘ لے کر آئے گا۔ جو سالم‘صحیح‘ درست دل لے کر اللہ کے پاس آیا‘ بس وہی نجات پائے گا۔ جو لوگ مال و دولت جمع کرتے ہیں‘ فرمایا کہ اللہ کے ہاں آگ تیار ہے‘ بھڑک بھڑک کر ان کے دلوں تک جھانکے گی۔ مختلف جگہ قرآن نے یہ اشارہ دیا ہے کہ دراصل ذمہ داراندر کی شخصیت ہے۔ جسم تو ہر پانچ سال میں نیا بن جاتا ہے اور مٹی میں مل کے دوبارہ بھی نیا بنے گا۔ اس ہاتھ میں اس وقت جو گوشت ہے وہ کوئی گناہ کرنے کاذمہ دار نہیں ہے۔ یہ تو فناہوجائے گا لیکن جو اندر کی شخصیت ہے‘ جو ارادہ کرتی ہے‘ اور اس کے نتیجے میں انسان نیکی کرتا ہے یا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے‘ وہی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔
حضورؐ نے جو بات یہاں پر فرمائی ہے یہ انسان کی زندگی کے تالے کھولنے کے لیے پہلی کنجی ہے‘ انفرادی زندگی کے بھی اور اجتماعی زندگی کے بھی۔ اصل ذمہ دار دل ہے۔ اگر دلوں کے اندر بگاڑ ہوا تو زندگی بھی بگڑے گی‘معاشرہ بھی بگڑے گا‘ سوسائٹی بھی بگڑے گی‘ ریاست بھی بگڑے گی‘ سیاست بھی بگڑے گی اور معیشت بھی بگڑے گی‘ اور اگر دل درست ہوں گے تو ہر چیز میں سدھار پیدا ہوجائے گا۔
اب ہم حدیث کے پہلے حصے کی طرف آئیں تو اس کا مفہوم بہت صاف اور واضح ہوجاتا ہے۔ حضورؐ نے بات کا آغاز اس طرح کیا کہ حلال بالکل واضح اور صاف ہے‘ اور حرام بھی واضح اور صاف ہے۔ جو چیزیں اللہ نے حلال کردی ہیں ان میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے اوران کو بیان فرمادیا ہے۔ حلال کے واضح ہونے کے معنی دراصل یہ ہیں کہ اس کے اندر کوئی شبہہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح شراب‘ جوا اور سود کے بارے میں بھی کوئی شبہہ نہیں پیدا ہوسکتا۔ یہ وہ حرام ہیں جوبالکل واضح ہیں۔ اسی طرح حلال بھی واضح ہیں۔ اس میں آپؐ نے بیّنکا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ میرے فہم کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس قدر روشن اور کھلی بات ہے کہ اگر شرعی دلیل نہ بھی ہو تب بھی انسان اپنی عقل اور فطرت سے بھی حلال و حرام اور برا بھلا سمجھ سکتا ہے۔ یہ بات قرآن مجید میں مختلف انداز میں کئی جگہ بیان کی گئی ہے‘ مثلاً نیکی کو معروف کہا‘ یعنی وہ چیز جو انسان کی جانی پہچانی ہے اور برائی کو منکر کہا‘ یعنی وہ چیز جو انسان کے لیے اجنبی ہے۔ اس کی فطرت اس سے خود ہی کہتی ہے کہ یہ بات بری ہے۔ انسان نے کتنے ہی گناہ کیے ہوں‘ کتنی ہی برائیوں کے اندر پڑا ہو‘ کتنے ہی فلسفے بنائے ہوں لیکن انسانوںکی عظیم اکثریت آج تک اس بات پر متفق نہیںہوئی کہ کوئی نیکی جو مسلمہ نیکی ہو‘ برائی ہے اور کوئی برائی نیکی۔ دنیا میں کبھی قوموں نے مل کر اس بات کو نہیں مانا‘ یہاں تک کہ وہ قومیں جو دن رات شراب پیتی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ شراب مضر ہے۔ جو سود کھاتی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ سود کے اندر نقصان ہے‘ اور جو زنا کرتی ہیں وہ بھی اسے برا کہتی ہیں۔ زنا کی کوئی تعریف نہیں کرتا کہ زنا اچھی بات ہے۔ اس کو گوارا کرلیا گیا‘ اس کے لیے دلائل گھڑے گئے لیکن اگر آپ اسلاف کی تاریخ نکال کر پڑھیں تو کبھی بھی انسانوں کی اکثریت نے اس برائی کو اچھائی نہ سمجھا۔ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جن کا ذائقہ بگڑ جائے لیکن انسانوں کی بڑی اکثریت نے کبھی معروف نیکیوں کے برے ہونے پر اصرار نہیں کیا اور معروف برائیوں کے اچھے ہونے پر اصرار نہیں کیا۔
اس کا مطلب یہ ہواکہ جو آدمی ایمان کے راستے پر آئے گااور جس کے پاس سالم دل ہوگا جس کی اصلاح ہوچکی ہوگی وہ حرام اور حلال کی پابندی تو لازماً کرے گا۔ جو چیز روزِروشن کی طرح دِکھ رہی ہے اور بیّن ہے‘ جیسے سورج چمک رہا ہو‘ اور آدمی کومعلوم ہو کہ یہ راستہ میرے گھرکی طرف جاتا ہے تو پھر وہ دوسرے راستے پر کیوں جائے گا۔ یہ تو اس طرح سے بیّنات ہیں کہ جس کے دل میں ایمان کی روشنی ہے وہ ان میں سے کسی حلال کو نہ حرام کرسکتا ہے نہ حرام کو حلال۔
آپؐ نے ایک بات اور فرمائی: فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان ایک چیز اور ہے جو شبہے والی ہے۔ لَا یَعْلَمُوْنَھُنَّ کَثِیْرَ مِّنَ النَّاسْ‘ اکثر لوگ اس کوجانتے نہیں۔ شبہے والی چیزوں سے کیا مطلب ہے؟ یہ بڑااہم سوال ہے۔ شبہے والی چیزو ںسے یہ مراد ہے کہ وہ چیزیں جن کے بارے میں قرآن و سنت کے دلائل سے واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعی حلال ہیں یا حرام‘ یا جس پر اختلاف ہوجائے۔ اس سے وہ چیزیں مراد نہیں ہیںجن کو اللہ تعالیٰ نے بالکل حلال کردیا ہے۔ اب آدمی خواہ مخواہ شبہہ پیدا کرے کہ پتا نہیں یہ پانی حلال ہے یا نہیں‘ یا پتا نہیں یہ جانور کھانے کے لائق ہے یا نہیں۔ اس قسم کے شبہات سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے ہدایت کی گئی ہے کہ یہ سارے وسوسے ہیں‘ ان کے پیچھے مت پڑو۔ لیکن جہا ں پر شرعی دلائل کی بنیاد پر آدمی شبہے میں پڑجائے کہ یہ بات حلال ہے یا حرام‘اور آج کی موجودہ دنیا میں بے شمار نئی چیزیں پیدا ہوئی ہیں جن کے بارے میں شبہہ پیدا ہوا ہے‘ جن کو اکثر لوگ نہیں جان سکتے‘ اس کے لیے شریعت اور دین کاعلم ضروری ہے۔
فرمایا کہ جس نے اپنے آپ کو ان چیزوں سے بھی بچایا‘ یعنی مشتبہ چیزوں سے‘ اس نے اپنے دین کو شریعت کے لحاظ سے برا ہونے سے بچا لیا اور اپنی عزت کو دنیا کے اندر محفوظ کرلیا۔ یہ جو فرمایاکہ دین اور عزت دونوں کوبچالیا اور شبہے سے اپنے آپ کو بچایا‘ تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی حرام اور حلال کی تو پروا نہ کرے اور جو چیزیں مشتبہ ہیں ان سے اپنے آپ کو بچائے۔ اس قسم کامضمون اور بھی بہت سی حدیثوں میں آیا ہے۔ مشہور حدیث قدسی ہے کہ ایک بندہ فرائض اداکرتے کرتے مجھ سے قریب ہو جاتا ہے اور وہ مجھے بہت محبوب ہے۔ پھر وہ نوافل بھی ادا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں‘ اس کا کان بن جاتا ہوں‘ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نوافل کا درجہ فرائض سے اونچا ہے بلکہ اس میںجوبات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب دل اتنا بیدار اورحساس ہوجاتا ہے کہ حرام اور حلال کی لازماً پابندی کرے تو وہ چیز جو مشتبہ ہو اس سے بھی اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ جو آدمی بہت پاک صاف رہتا ہو اگر شبہہ بھی ہوجائے کہ کپڑوں پر گندگی کاداغ لگ گیا ہے تو وہ اس سے اپنے آپ کو بچائے گااور اسے صاف کرے گا۔ یہ دراصل دل کی اس کیفیت کااظہار ہے۔ یہ نہیں کہ مشتبہات کا درجہ حلال و حرام سے اونچا ہے۔ اصل چیز تو حلال و حرام سے بچنا ہے لیکن یہاں دل کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تقویٰ کی کیفیت ہے۔ جس کے اندر تقویٰ ہوگا‘ جس کا دل صالح اور سالم ہوگا تو وہ ان مشتبہات سے بھی دور رہے گا۔ فرمایا کہ اس طریقے سے اس کا دین بھی محفوظ ہوجائے گا اور اس کی عزت بھی محفوظ ہوجائے گی۔
دین کس طرح محفوظ ہوگا؟ اس کی تفصیل بھی یہ بتائی کہ جو مشتبہ چیزوں کے پیچھے جائے گا وہ بالآخر حرام میں پڑ جائے گا۔ یہ کس طرح ہوگا؟ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب آدمی ایک مشتبہ چیز کے پیچھے جائے گا کہ چلو یہ تو بہت چھوٹی بات ہے‘ اس کے بہت دلائل ہیں‘ توکل اس سے زیادہ مشکوک چیز کی طرف جائے گا‘ اور پرسوں اس سے بھی زیادہ مشکوک چیز کی طرف جائے گا اور بالآخر حرام کو بھی حلال ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ طبیعت کے اندر سستی پیدا ہوجائے گی۔ وہ طبیعت جس کو چست و چالاک ہونا چاہیے‘ کوئی ذرا سی بات ایسی نہ ہو جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہو‘ جواللہ کو ناپسند ہو‘ مشتبہات کرتے کرتے اس کی طبیعت کی حس کمزور پڑجائے گی اور جب یہ غائب ہوجائے گی تو پھر آدمی لازماً حرام کا بھی ارتکاب کر بیٹھے گا۔ اس لیے طبیعت کی چستی ضروری ہے۔
یہاں آپؐ نے بڑی خوب صورت مثال اور تشبیہ دی ہے۔ پرانے زمانے میں جو بادشاہ اور عرب قبائل کے سردار ہوتے تھے ان کو چراگاہیں بہت محبوب ہوتی تھیں‘ جہاں جانور چَرائے جاتے تھے۔ وہ بعض چراگاہوں کو اپنے لیے مخصوص کرلیتے تھے کہ اس کے اندر کوئی جانورنہیں لائے گا‘ کوئی نہیں چَرائے گا۔ اگر آئے گا تو سزا ملے گی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس طرح جب ایک مخصوص چراگاہ کے قریب کوئی جانور چر رہا ہو تو جب وہ اس کی چار دیواری کے پاس پہنچ جائے گاتو اس بات کا بھی امکان ہے کہ اندر سے لہراتا ہوا سبزہ نظر آئے اور حرام کی ترغیب و کشش ہوگی تو وہ ممنوعہ چراگاہ میں بھی چرنے لگے۔قریب تو اس لیے آتا ہے کہ یہاں تک تو میں آسکتا ہوں لیکن پھر وہ اچانک احاطے کے اندر بھی داخل ہوجائے گا۔ اس کے لیے بخاری میں تو حدیث کے الفاظ ہیں کہ وہ احاطے میں داخل ہوجائے گا اور مسلم میں ہیں کہ یرتع یزنع۔ یہ آہستہ آہستہ چگنے کے معنوں میں آتا ہے۔ یوں وہ چگنا شروع کردیتا ہے۔ پھر آپؐ نے بہت ہی تاکید کے ساتھ اور بہت زوردار انداز میں کہا کہ ہر بادشاہ کے لیے ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو چراگاہ اپنے لیے مخصوص کرلی ہے جس میں کسی کو داخل نہیں ہونا چاہئے وہ محارمات ہیں جن کو اس نے حرام کردیا ہے۔ پھر فرمایا کہ الا وان فی الجسد مضغۃ‘ غور سے سنو کہ جسم میں گوشت کاایک ٹکڑا ہے۔ الاوھی القلب ‘ سن لو‘یہ دل ہے۔ آپؐ نے چار دفعہ الا کہا۔
ان دونوں حصوں کے درمیان جو بظاہر غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں‘ کیا ربط ہے؟ اس مسئلے سے محدثین اور علما نے کوئی بحث نہیں کی لیکن میں نے اس پر غور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کے درمیان بڑاگہرا ربط ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دل کی زندگی کا انحصار اس پر ہے کہ آدمی اطاعت گزارہو۔ یہ سارے شیطانی وسوسے ہوتے ہیں کہ عمل سے یا عبادات سے کیا ہوتا ہے‘ اصل چیز تو دل کی نیکی ہے‘ اخلاق ہیں۔ دل کی فلاح‘ اچھائی اور سنورنا ہے۔ اس کاانحصار اس پر ہے کہ آدمی اللہ کی اطاعت کرے‘ حرام اور حلال میں تمیز کرے۔ اگر اس کی حس تیز ہو‘ دل زندہ ہو تو ان چیزوں سے بھی بچے جو حرام اور حلال کے درمیان ہیں‘ جن کے اندر شبہہ ہے۔ یہ توایک وجہ ہے دونوں کے درمیان ربط کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ حرام اور حلال کی حدود کو ہم سب جانتے ہیں۔ آج آپ کسی مسلمان سے پوچھ لیں کہ حلال کیا ہے تو وہ آپ کو بڑے بڑے حلال بتادے گا۔حرام پوچھ لیں تو بڑے بڑے حرام گنوا دے گا۔ لیکن اس کے اندر اتنی استعداد اور قوت نہیں ہے کہ اپنے آپ کو حرام سے بچائے اور حلال کے راستے پر لے کر جائے۔ ابھی حال میں ایک سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ سیورریفل کے ٹکٹ کو کتنے لوگ اسلام کی رو سے جائز سمجھتے ہیں‘ تو سب نے کہا کہ یہ ناجائز ہے۔ پوچھا گیا کہ کتنے لوگوں نے ٹکٹ خریدا ہے‘ ہر دو میں سے ایک آدمی نے ٹکٹ خریدا ہوا تھا‘ یعنی علم تھا کہ یہ حرام ہے لیکن عمل اس سے مختلف ہے۔ لہٰذا یہ قوت‘ نفس کے اندر یہ استعداد جس سے آدمی شریعت کی عمارت کا بار اٹھاسکے اور احکام کابوجھ اپنے اوپر لے سکے اور اس عمارت کی پوری تعمیر شریعت پر کرسکے‘ اس کا سرچشمہ آدمی کا قلب اور اس کادل ہے۔ دل کے اندر اگر یہ ایمان اور یہ جذبہ ہوگا‘ یہ قوت اور استعداد ہوگی اور یہ کیفیت ہوگی تو پھر جو شریعت میں حلال و حرام طے کیا گیا ہے آج ہم اس کی پابندی کریں گے‘ اور اگر یہ نہیں ہوگی تو ہزار وعظ کہے جائیں‘ تقاریر کی جائیں‘ لیکن اگر دل کے اندر یہ نور نہیں ہوگا‘ یہ قوت نہیں ہوگی‘ یہ استعداد نہیں ہوگی تو حلال و حرام کتابوں میں لکھا رہے گا‘ وعظ کے اندر بیان ہوگا‘ علما کی زبان پر بھی ہوگا‘ غلط اور صحیح سب کو معلوم ہوگا لیکن عمل نہیں ہوگا‘ اور جب عمل مختلف ہوگا تو عمل کا اثر دل پر بھی پڑے گا۔
اب یہاں یہ حدیث ایک اور اہم مسئلہ طے کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں شریعت اور طریقت کی اور ظاہر اور باطن کی مسلسل بحث چلتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شریعت الگ چیز ہے‘ اور طریقت الگ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حدیث میں دونوں کو ایک جگہ جمع کرکے اور جسم کی مثال دے کر رسولؐ اللہ نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ یہ تو ایک وحدت ہے۔ دل ہو یا شریعت‘ اندر کی زندگی ہو یا باہر کی‘ جس طرح دل کاتصور جسم کے بغیر نہیں ہوسکتا‘ اخلاق اور روح اور دل کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کہاںباقی رہے گا اگر نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ اور حلال و حرام کی پابندی نہ ہو۔ اسی طریقے سے جسم کاتصور بھی دل کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں‘ ایک ہی چیز کا حصہ ہیں‘ ایک ہی چیز کے ٹکڑے ہیں‘ اور ایک دوسرے کے ساتھ بالکل مربوط ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ یہ حدیث بالکل واضح طور پر طے کردیتی ہے کہ انسان ایک وحدت اور ایک اکائی ہے۔ اس کادل و دماغ اور جسم سب یکساں ایک ہی طرح ڈھلے ہوئے ہیں۔ یہ بات قرآن نے بار بار کہی ہے کہ ظاہر کے اعمال کا اثر دل پر پڑتا ہے اور دل ظاہر کے اعمال کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کر صحیح یا غلط راستہ پر لے جاتا ہے۔ فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ط (الصّف ۶۱:۵)‘ یعنی جب لوگوں نے برائی کاراستہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کوبھی ٹیڑھا کردیا۔ جب لوگوں نے اللہ کے ساتھ اطاعت اور بندگی کے اپنے عہد کو توڑ دیا تو ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ان کے اوپر لعنت ہے۔ ظاہر کے اعمال کا اثر دل پر اور دل کے اعمال کا ظاہر پر کیسے اثر ہوتا ہے‘ یہ بات روز مرہ مشاہدے میں آتی ہے۔ ہم روز اس بات کو دیکھتے ہیں کہ کوئی آپ کو گالی دے تو دل کی حرکت تیز ہوجائے گی‘ جبڑا اُوپر چڑھ جائے گا‘ کنپٹی سرخ ہوجائے گی۔ ایک ایک لفظ کااثر جسم پر پڑتا ہے۔ اگر کوئی آپ کی تعریف کردے تو دل کو بڑی راحت اور اطمینان محسوس ہوگا۔ باہر کی بات اور باہر کے اعمال کا اثر دل پر پڑتا ہے اور دل کا اثرباہر پڑتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں کی فکر کرنے ہی سے انسانی زندگی درست اور صحیح راستے پر چلے گی۔یہ وہ بات ہے جس کی بنا پر اس حدیث کوبڑی عظیم حدیثوں میں شمار کیا گیا ہے۔ بعض محدثین نے تو یہ تک کہا ہے کہ جن تین یا چار احادیث پر پورے دین کی عمارت قائم ہے ان میں سے ایک حدیث یہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دل کی اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ اس سوال کا میں ایک مختصر جواب دے رہا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے پر پانی گرے تو اس کو زنگ لگ جاتا ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑجاتا ہے اور استغفار نہیں کرتا‘ توبہ نہیں کرتااور پھر گناہ کرتا ہے تو ایک اور داغ پڑ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پورے کا پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے‘ پورے کاپورا سیاہ ہوجاتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضورؐ اس کاعلاج کیا ہے؟ دل کیسے صاف ہوسکتا ہے؟ فرمایا کہ کثرۃ ذکر الموت و تلاوت القرآن۔ یہ بیہقی کی حدیث ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ موت کو کثرت سے یاد رکھو اور قرآن کی تلاوت کرو ۔اگر اِعراب تھوڑاسا بدل کر پڑھے جائیں تو اس کا ایک ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ موت کوبھی کثرت سے یاد رکھو اور قرآن کی تلاوت بھی کثرت کے ساتھ کرو۔ ان اعراب کے ساتھ حدیث میں روایت تو نہیں آئی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترجمہ بھی ممکن ہے۔ چنانچہ کثرت کے ساتھ موت کو یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا ہے‘ اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا یہ وہ چیزیں ہیں جن سے دل کی برائیاں دور ہوتی ہیں‘ زنگ دھلتا ہے‘ سیاہی صاف ہوتی ہے اور دل چمکتا ہے۔ اس کے اندر ایمان کا نور پیدا ہوتا ہے‘ اور اس سے پوری زندگی کی اصلاح ہوتی ہے۔ دل کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہوجائے‘ اللہ کی یاد دل کے اندر بس جائے تو یہی چیز دل کو صحیح راستے پر لگاتی ہے۔
میرے بھائیو اور بہنو! اگر ہمیں اپنی زندگی کی تعمیر اس نقشے پر کرنا ہے جو نبی کریمؐ نے ہمیں دیا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اسی چیز سے آغاز کرنا ہوگا۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم عمل کو چھوڑ دیں گے۔ یہ میں نے بالکل واضح کردیا ہے‘ جیسا کہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عمل بھی ساتھ ساتھ ہوگا‘ لیکن دل نقطہء آغاز ہے۔ اس میں اللہ کی محبت‘ اس کاخوف‘اس پر یقین و بھروسا‘ اچھے خیالات کو اگر آپ پروان چڑھائیں گے تو دل میں زندگی پیدا ہوگی۔ دل میںزندگی پیدا ہوگی تو آپ کے اندر وہ قوت اور استعداد آئے گی جس سے آپ اللہ کی اور اس کے نبیؐ کی راہ پر چل سکیں گے۔
جب ڈوری بہت زیادہ الجھ جائے تو آپ کوشش یہ کرتے ہیں کہ اس ڈوری کاکہیں سے سرا پکڑ لیں تو پھر آہستہ آہستہ پوری ڈوری کھلتی چلی جاتی ہے۔ آج ہماری زندگی اس ڈوری کی طرح بہت ساری گرہوں میں الجھ گئی ہے۔ معیشت میں‘ سیاست میں‘ معاشرت میں‘ روزمرہ کی زندگی میں‘ اپنی نفسیاتی زندگی میں‘ معاشرتی زندگی میں‘ گھر میں‘ غرض بے شمار گرہیں ہیں جو زندگی کی اس ڈوری کے اندر پڑچکی ہیں۔ ہم کو کہیں سے اس سرے کو پکڑنا ہے۔ پکڑ کر بیٹھ ہی نہیں جانا بلکہ پوری رسی کو کھولنا ہے۔ انسان کا سرا‘ اس کا دل ہے۔ جب بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ڈوری ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور زندگی ہمارے ہاتھ سے نکل کر خرابی کے راستے پر چل نکلی ہے تو پھر ہمیں واپس جاکر وہیں سے اپنے کام کو شروع کرنا چاہیے‘ اس کی نگرانی کرناچاہیے‘ اس پر نگاہ رکھنا چاہیے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی ہمیں فکر کرنا چاہیے۔ دن میںجتنی بار بھی ممکن ہو اس بات کو یاد کریں کہ اللہ سے ملاقات کرنا ہے اور جتنا وقت بھی اللہ توفیق دے اس کی کتاب کی تلاوت کریں۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید کابیشتر حصہ دراصل موت کی یاد دلاتا ہے اور موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کی دعوت دیتا ہے۔ گویا یہ دونوں چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔
یہ ایک عظیم الشان حدیث کامفہوم ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
اس دور میں احیاے اسلامی کی جو تحریکیں مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک میں کام کر رہی ہیں ‘ ان میں خواتین کا کردار مطالعے کا دل چسپ اور اہم موضوع ہے۔ ان تحریکات کے لیے خود بھی‘ اور بیرون سے ان کا جائزہ لینے والوں کے لیے بھی۔ اس پس منظر میں‘اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے کہ مغرب اور اسلام کی کش مکش جن موضوعات کے گرد ہے‘ ان میں عورت کا مقام خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔
اگر ہمارے ہاں پیش آمدہ مسائل پر تحقیقی مطالعوں کی روایت ہوتی تو اس موضوع پر کئی مطالعے کیے جا چکے ہوتے اور معروضی اور غیر معروضی آرا سامنے آئی ہوتیں۔ اس وقت تویہی نہیں معلوم کہ مختلف اسلامی ممالک میں جو تحریکیں چل رہی ہیں‘ عملاً ان میں خواتین کی دل چسپی ‘ سرگرمی اور کارکردگی کی کیا نوعیت ہے اور انھوں نے پیش آمدہ مسائل کو کس طرح حل کیا ہے؟ ہم ایک طرح کی تاریکی میں ہیں‘ جب کہ دور اطلاعات میں دھماکے کا ہے۔
ایک مغربی تحقیق کار ماریا ہولٹ نے فلسطینی تحریک مزاحمت کے حوالے سے خواتین کے کردار کا جو مطالعہ کیا ہے‘ مناسب معلوم ہوا کہ اس کے اہم حصے قارئین کے لیے پیش کیے جائیں۔ (ادارہ)
فلسطینی‘ خودمختاری کی توقع میں عدم وجود سے جزوی خودمختاری تک اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نظریاتی اختلافِ رائے کے سبب ان کے عوام میں عدم اعتماد و نااتفاقی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال نے فلسطینی عورتوں میں اپنے کردار کی ادایگی کے لیے فکرواضطراب کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس حوالے سے بہت سے حقائق ایسے ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اول یہ کہ اس بحث کو فلسطینی قوم کی تاریخی ترقی سے الگ نہیں رکھا جا سکتا۔ دوم یہ کہ اسلام اور قومی تحریک دو الگ چیزیں ہرگز نہیں ہیں۔ سوم یہ کہ اسلام کو روایتی حیثیت سے اور جدید سیاسی تحریک کے طور پر الگ الگ حیثیتوں سے شناخت کیا جائے۔ آخراً یہ کہ عورتوں کے مساوی حقوق کے تعلق سے اشتراکِ عمل کے مروجہ و غیر مروجہ طریقوں کا سوال بڑی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔
اسلامی خاکے میں ایک ظاہری تناقض موجود ہے جسے مغربی اور شرقِ اوسط کے تنقید نگاروں کی زبان میں رجعت پسندانہ‘ روشن خیالی کا دشمن اور عورتوں کے حقوق کو معطل کرنے والا کہا جا سکتا ہے لیکن فلسطینی عورتیں اسے اسرائیلی قبضے اوراپنی ذاتی زندگیوں میں ہونے والی بے انصافیوں دونوں سے چھٹکارے کے لیے ایک روشن امید سمجھتی ہیں۔ اس مقالے میں‘ میں یہ بتائوں گی کہ کس طرح اس اسلامی تحریک نے‘ جو اسرائیلی جبرواستبداد کے نتیجے میں بے بس و مجبور فلسطینیوں میں ابھری ہے غزہ کی پٹی اور غربی کنارے کی فلسطینی برادری کے مردوزن دونوں کو اپنی آزادی کے لیے ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے سیاسی اکھاڑے میں اترنے کی تحریک دلائی ہے۔
مسلم معاشروں میں عورتوں پر اسلامی تحریک کے مثبت اثرات کی صحیح قدروقیمت گھٹانے کا رجحان موجود ہے۔ فلسطینی معاشرہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اس کے باوجود اس تحریک کے جو قابل ذکر فوائد فلسطینی عورتوں کو حاصل ہو رہے ہیں ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے پہلے تو یہ بات تسلیم کرنا چاہیے کہ اپنی روایات سے محبت عورتوں کے رویے کا اہم ترین نکتہ ہے۔ دوسرے یہ کہ بے دین اور مغربی طرز کی سیاست کی بے مقصد ہنگامہ آرائی کے برخلاف اس بامقصد اسلامی تحریک میں شمولیت اور عملی مساعی قدامت پسند فلسطینی معاشرے کی عورتوں اور لڑکیوں کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول ہے۔ تیسرے یہ کہ فلسطینی عورتیں اسلامی تحریک کی پُراثر اور قبولیت پذیر خصوصیات کے سبب اس میں دل چسپی اور کشش محسوس کرتی ہیں۔ وہ دیکھتی ہیں کہ جہاں سیکولر قوم پرستی ناکام ہوئی ہے وہاں یہ تحریک کامیاب ہو رہی ہے۔ ان کے لیے سب سے زیادہ کشش انگیز جدید اسلامی تحریک کا پیش کردہ وہ مقام ہے جو انھیں ثانوی حیثیت دینے اور اس تک محدود رکھنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ انھیں جو حقوق اسلام نے عطا کیے ہیں ان کے حصول کے لیے وہ جدوجہد کریں۔
اسلامی تحریک کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ازمنۂ وسطیٰ تک پھیلتی چلی گئی ہیں۔ ایک نظریاتی تحریک کی حیثیت سے بیسویں صدی کے آخری حصے میں بعض عوامل کے ردعمل کے نتیجے میں مقبولیت کی نئی بلندیوں پر پہنچ چکی ہے۔ لادین قوم پرستی جو اسلامی اخلاقی نظام کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے‘ مغرب کا اثر و مداخلت‘ اسرائیل اور اس کے مغربی حمایتیوںکے ہاتھوں عرب قوم کی تذلیل اور نوآزاد عرب ریاستوں میں جدید یا مغربی طرز کی حکومتوں کی عوامی مسائل سے نمٹنے میں ناکامی‘ ان شکایات میں مسئلہ فلسطین مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔
اسلامی تحریک کی طرف رجحان‘ جو آج کل عرب دنیا میں بالعموم دکھائی دے رہا ہے‘ قابلِ فہم ہے۔ ۱۹۹۰ء کے وسط میں فلسطینی علاقوں میں برپا ہونے والی اسلامی تحریک دراصل اپنی بے طاقتی و کمزوری‘ شکست اور ایمان کے اتلاف کے احساس کا عرب اور مسلم جواب ہے۔ یہ فلسطینیوں کی مزاحمت اور بقا کی جدوجہد کی ایک صورت ہے۔
یہ ضروری ہے کہ اسلام کی بہت سی صورتوں میں اور ان کے عورتوں پر مختلف اثرات میں امتیاز کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تحریک نے عورتوں کی روز مرہ کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس کے مثبت و منفی اثرات کا جائزہ لیا جائے جو اس پر مبنی ہوں کہ خود عورتیں کیا کہتی ہیں؟
فلسطینی علاقوں میں ’’جدید سیاسی اسلام‘‘ کے مظاہر پر بحث کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسے متوازن فریم ورک کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ اسلامیت ایک جدید مظہر کے لیے جدید اصطلاح ہے۔ سیاسی تحریکات جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں‘ بالعموم پیشوایانِ مذہب کی رہنمائی میں نہیں چلائی جاتیں۔ یہ تو پیشوائی نظام اور اس کے فرسودہ نظریات کو للکارتی ہیں۔ ان تحریکوں کو پبلسٹی کے جدید طریقہ ہاے کار سے اور عوام کی تحرک انگیزی سے دل چسپی ہے۔ یہ سیاسی ایجنڈا رکھتی ہیں جو محض مذہبی منازل سے آگے جا کر ریاست اور معاشرے کی اصلاح چاہتا ہے۔ یہ تحریکات نچلے اور متوسط نچلے طبقے کے مفاد میں سیاسی‘ اقتصادی اور معاشرتی تبدیلیوں کی حمایت کرتی ہیں۔
مسلم دنیا کے عوام میں ‘حکومتوں کی جانب سے اسلام کے احیا کے لیے آواز اٹھانے پر پابندیوں کے خلاف سخت برہمی پائی جاتی ہے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے مسلم شرقِ اوسط ایک ایسے بحران سے گزر رہا ہے جو اندرونی و بیرونی دونوں اسباب کا پیدا کردہ ہے۔ اس بحرانی حالت میں اسلام کے پاس پیش کرنے کے لیے بہترین پروگرام موجود ہے۔ سیاسی اسلام میں سیکولر نظریات سے زیادہ اپیل موجود ہے۔ اسلامی تحریک معاشرتی و اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ابھری ہے۔ جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے‘ اسلامی تحریک انھیں ایک ایسا کردار عطا کرنا چاہتی ہے جس میں وہ مناسب اسلامی لباس پہنیں اور معاشرتی و خاندانی ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآ ہوں۔
انتفاضہ سے قبل کے زمانے میں اخوان فلسطینی کمیونٹی اور نوجوانوں میں اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے اور اسلامی ریاست کے لیے عملی جدوجہد کی بجائے اسلامی اخلاقی کردار کی تخلیق و تعمیر کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اخوان المسلمون اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔ ایک رائے کے مطابق غزہ اور غربی کنارے کے بڑے بڑے قصبات میں کرشماتی شخصیت کی مالک خاتون رہنمائوں کے زیراثر مہاجر کیمپوں کی اور مقامی عورتوں کی خاصی بڑی تعداد اپنے گھروں سے نکال کر مساجد میں لائی گئی۔ نوجوان عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے‘ حتیٰ کہ نوجوان لڑکیوں نے بھی ’’اسلامی تحریک کی وردی‘‘یعنی کھلا لبادہ اور سرپوش پہننے شروع کر دیے۔ اس قسم کے نظارے فلسطینی مسلمانوں کی غالب اکثریت کے مذہبی شعور سے یکسر مختلف مذہبی شعور و شناخت کی وضع قطع کے رائج کرنے میں اسلام پسندوں کی کامیابی کا مظہر ہیں۔
دسمبر ۱۹۸۷ء میں مقبوضہ علاقوں میں انتفاضہ کے آغاز کے ساتھ اخوان المسلمون کی ایک نئی شاخ اسلامی تحریک مزاحمت‘ حماس‘ معرض وجود میں آئی۔ ابتدا میں اسرائیلی غاصب حکام نے حماس کے وجود کو قوم پرست گروپوں کی زیادہ جنگجویانہ سرگرمیوں کے جوابی دھڑلے کے طور پر برداشت کیا۔ مگر یہ صورت حال اس وقت بدل گئی جب حماس نے مسلح جدوجہد کا رخ اختیار کیا۔ جب ۱۹۸۹ء میں اسرائیلیوں نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا تو اسلام پسندوں نے جنھوں نے اپنی قیادت کی مساعی کو ناکام ختم ہوتے دیکھ لیا تھافلسطینی عوام کی مایوسیوں اور بے تابیوں کو اپنا اثاثہ بنالیا۔ وہ لوگ اب ان کی (حماس کی) اسرائیلی افواج کے خلاف فوجی کارروائیوں کو بنظراستحسان دیکھنے لگے۔ مزیدبرآں ایسی صورت حال جس میں روایتی معاشرتی سہارے ٹوٹ گئے تھے‘ اس میں حماس ہی موزوں و مناسب مقام رکھتی تھی کہ وہ مقامی آبادی کو معاشرتی خدمات اور امداد بہم پہنچائے۔ حماس نے ۱۹۹۳ء کا عہدنامہ اوسلو مسترد کر دیا‘ اس لیے کہ اس میں فلسطینی قومی امنگوں سے غداری کی گئی تھی۔
اسلامی تحریک مسلم خواتین کے لیے بوجوہ باعث کشش ثابت ہوئی۔ ان کی غالب اکثریت مغرب کی آزادی نسواں سے تنگ تھی۔ یہ عورتیں چاہتی تھیں کہ انھیں اپنی روایات کے مطابق نعم البدل ملے۔ اسلامی لباس پہن کر وہ مردوں کی بری نظروں سے محفوظ ہو جاتی ہیں اور اس طرح وہ عوامی میدانِ عمل میں زیادہ آزادی سے نقل و حرکت کر سکتی ہیں۔ وہ فیشن کی ترنگ بازیوں اور جنسی تحریص سے احتراز کرتی ہیں۔ اس طرح وہ روز مرہ کی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکتی ہیں۔ غزہ کی ایک نوعمر خاتون کے الفاظ ہیں--- ’’میں نے موزوں و مناسب اسلامی لباس کے متعلق پڑھا۔ پھر میں نے اپنے کپڑوں پر نگاہ ڈالی۔ میں نے محسوس کیا کہ میں مکمل طور پر مستور نہیں ہوں… یہ (اسلامی لباس) مجھے ایسا لگا جیسے شرم و حیا کا لباس پہن لیا۔ یہ لباس مجھے اس معاشرتی کش مکش سے محفوظ رکھتا ہے جو مجھے وہ بے ہودہ لباس پہنتے ہوئے پیش آیا کرتی تھی‘‘۔
اسلامی تحریک سے وابستہ یہ خواتین یہ شعور بھی رکھتی ہیں کہ اسلام ’’انھیں تمام حقوق اور آزادیاں دیتا ہے جو ان کا حق ہیں۔ یہ اسلام تعلیمِ نسواں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور معاشرے میں عملی مقام اور خاندان کے اندر ان کے کردار کے لیے خصوصی قواعد طے کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برسرِاقتدار مردوں نے قرآنِ حکیم کی کچھ ایسی ہدایات جو خواتین کے بارے میں ہیں صدیوں کی تاریخ اسلام کے دوران مسخ کر دی ہیں۔ مگر یہ معاملہ ثقافتی رویوں اور پس ماندہ روایات کا ہے نہ کہ مذہب کا۔ لہٰذا عورتوں کی سرگرمیوں کا ایک مرکزی نکتہ ہے کہ اسلام کے پیغام کو بازیافت کیا جائے۔
حماس کے منشور کی دفعہ ۱۷ کے مطابق: جنگ آزادی میں مسلمان عورت کا کردار مردوں کے کردار سے کم تر نہیں۔ مرد بھی خواتین کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔اس کا کردار نسلوں کی رہنمائی اور ان کی تربیت کرنا ہے اور یہ ایک بہت بڑا کردار ہے۔ دشمنوں نے اس کے کردار کی اہمیت کو بھانپ لیا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اگروہ اس کو اپنی پسندیدہ راہ پر ڈال سکیں جو اسلام سے دور ہے تو وہ جنگ جیت گئے۔
دفعہ نمبر ۱۸ میں ہے: مجاہد اور جہاد کرنے والے خاندان کی خواتین کا‘ خوہ وہ ماں ہو یا بہن‘ گھر کی دیکھ بھال کے لیے کردار سب سے اہم ہے۔ بچوں کو نیک سیرت بنانے‘ اسلامی سمجھ بوجھ کا مالک بنانے اور مذہبی فرائض کی ادایگی کے قابل بنانے کی جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں‘ انھیں بطریق احسن نبھانا ان کے اہم ترین فرائض میں داخل ہے تاکہ ان کے یہ بچے آگے چل کر اچھے مجاہد ثابت ہوں۔ اس پس منظر کے لیے ضروری ہے کہ اسکولوں اور نصابوں کا خیال رکھا جائے تاکہ لڑکیوں کو وہ تعلیم مل سکے جو انھیں نیک اور اچھی مائیں بنائے جنھیں جدوجہد آزادی میں اپنے کردار سے آگہی ہو۔ انھیں گھرداری کا ضروری علم و تجربہ ہونا چاہیے۔ کفایت شعاری اور حسن سلیقہ ان کی نمایاں صفات ہونی چاہییں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جو نامساعد حالات میں جدوجہد جاری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔
غربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں اسلام پسند تحریک کا عورتوں کی زندگیوں پر مخالفانہ اثر مرتب ہوا ہے۔ ایک طرف قدامت پسندانہ اور محدود کر دینے والے پروگرام نے ان کے رویے پر قدغن لگا دی اور ان پر اسلام کا وہ رنگ چڑھا دیا جو فلسطینی معاشرے کے دوسرے زیادہ آزادانہ رجحانات کے مخالف سمت رواں ہیں۔
اس وقت اس تحریک نے خواتین کو ایک حد تک آزادی مہیا کی ہے تاکہ وہ اسرائیلی غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد میں حصہ لے سکیں۔ اس نے ان میں اپنی روایات اور شناخت پر فخربحال کیا ہے اور ایک احساسِ مقصدیت دیا ہے کہ وہ اپنی مقدس سرزمینِ وطن کی بازیابی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ خواتین اپنی سرگرمیوں کو اپنے خاندانوں اور مرد جنگ آزمائوں ہر دو کے لیے مدد کی ذیل میں شمار کرتی ہیں۔ جہاں کچھ خواتین اسلامی مفاد کی متشدد حامی ہیں وہاں کچھ دوسری خواتین اس بات کو ترجیح دیتی ہیں کہ وہ باحیا اور نیک نمونے والی زندگی گزاریں۔ نہ وہ حماس کی زیادہ ہیجان خیز حکمت عملی کو سراہتی ہیں نہ وہ لامذہب ریاست کی آرزو رکھتی ہیں۔ دیگر فلسطینی عورتیں بلاشبہہ اسلام پسند تحریک اور اپنے معاشرے میں اس کے اثر سے کم دلی لگائو رکھتی ہیں۔ انھیں دو واضح کیمپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک کیمپ سرگرم قوم پرست خواتین کا ہے جنھوں نے عرصہ سے الفتح کی یا زیادہ دائیں بازو کے گروہوں کی حمایت کی۔ یہ عورتیں ایک سیکولر فلسطینی ریاست کی پرجوش حامی ہیں۔ یہ عورتوں کی قانونی مساوات پر زور دیتی ہیں۔ ایک معمولی اقلیت مغربی طرز کی آزادی نسواں کی وکالت کرتی ہے۔ یہ عورتیں اس صورت حال سے خوف زدہ ہیں جس کو وہ مشرقی پس ماندگی اور رجعت پسند اسلامی رجحان سمجھتی ہیں۔
فلسطینی خواتین کا ایک حصہ اپنے آپ کو بے طاقت اور گویائی سے محروم محسوس کرتا ہے۔ یہ عورتیں اپنے آپ کو مردوں کے زیردست مجبور و بے بس محسوس کرتی ہیں۔ ان مردوں نے اسلامی تعلیمات کو توڑ موڑ کر اپنے حق میں نافع بنا رکھا ہے۔ مردوں کے اس دبائو اور جبر کے زیراثر وہ مجبور ہیں کہ اسلامی لباس پہنیں‘ اپنے گھروں تک محدود رہیں اور شادی اور بچوں کے بارے میں اپنے حقوق سے محروم رہیں۔ غربی کنارے کی ایک عورت بیان کرتی ہے: ’’اصل مذہب اور دیہاتی رسومات میں بہت سے اختلافات ہیں۔ ہمارا اسلام عورتوں کو بہت سے حقوق اور جائز آزادی دیتا ہے۔ مگر اکثر مرد قرآنِ پاک پڑھتے ہی نہیں اور نہیں مانتے کہ ہمیں یہ حقوق حاصل ہیں۔ مثلاً میرا بھائی مجھے یونی ورسٹی جانے اور کام (ملازمت) کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتا ہے۔ وہ وہی کچھ کر رہا ہے جو دیہاتوں کے لوگ ہمیشہ سے عورتوں کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کو پنجرے میں اور جہالت میں قید رکھنے کی کوشش--- تاکہ وہ ہمیشہ ان پر غالب رہیں‘‘۔
۱۹۹۳ء میں اسرائیل اور پی ایل او کے مابین معاہدے کے مطابق جنوری ۱۹۹۶ء میں تمام علاقوں میں فلسطینی نیشنل اتھارٹی (پی این اے) کی لیجسلیٹیو کونسل کے لیے انتخابات ہوئے جس میںمٹھی بھر خواتین ہی ممبر منتخب ہوسکیں۔
اس دور میں اسلام پسند گروپ خصوصاً حماس اور جہادِ اسلامی مخالف کیمپ میں رہے۔ انھوں نے نہ صرف امن کا معاہدہ ماننے سے انکار کر دیا ہے بلکہ وہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے خلاف مہمات میں مصروفِ کار ہوگئے ہیں۔ یہاں ہم قوم پرست عورتوں کے مقاصد اور اسلام پسندوں کے مقاصد میں بنیادی اختلافات کو دیکھ سکتے ہیں۔ آج تک پی این اے کی عورتوں کے حقوق میں اضافہ یا انھیں قانونی تحفظ دینے کی کوششیں نتیجہ خیزثابت نہیں ہو سکیں۔ تاہم ایک فلسطینی ماہرعمرانیات اصلاح جدّ کے الفاظ میں: حقوقِ نسواں کے لیے خطرہ حماس کے معاشرتی مطالبات پر زور نہیں بلکہ اس کی محتاط نرم روی میں ہے۔ حماس کے اس مطالبے کو کہ شریعت کو تمام شخصی قوانین کی بنیاد بنایا جائے‘ قوم پرستی کے دھارے میں بہنے والے مرد کم ہی قابلِ اعتراض پائیں گے بلکہ قدامت پسند مرد تو اس کی زور وشور سے تائید کریں گے۔ خواتین کارکنان کو پریشانی ہے کہ عورتوں کو بالعموم یا بطورِ سیاسی لیڈر جو کامیابیاں یا فوائد حاصل ہوئے ہیں انھیں پیشوایانہ کردار کی حامل اتھارٹی نظرانداز کر دے گی۔
اسلام پسند تحریک کا دوسرے نظریات کے مقابلے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کے شعور میں جڑیں رکھتی ہے۔ مایوسی اور غربت کے ایام میں اسلامی گروپوں نے سالہا سال بہت سے قابلِ قدر کام کیے ہیں۔ مقبوضہ علاقے کے فلسطینیوں کے لیے انھوں نے جامع معاشرتی پروگراموں کے ذریعے مالی دیانت داری و معاشرتی فلاح و بہبود کے سلسلے میں نیک نامی حاصل کی ہے۔ یہ پی ایل او کے اداروں سے یکسر مختلف ثابت ہوئے ہیں۔ وہ ایک اسلامی روایت کی ’’ایجاد‘‘ میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔ تاہم کڑمذہبیت کا خاص طور پر عائلی قوانین میں گہرا اثرہے۔ یہ انتہائی اہمیت کا عنصر ہے۔ یہ مذہبی ضابطوں کے مطابق قانونی اور معاشرتی طور پر عورتوں کی حیثیت واضح کرتے ہوئے انھیں مردوں کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ عورتوں کی ذیلی حیثیت کو قانونی جواز‘ وحی الٰہی نے فراہم کر دیا ہے۔ اور اس طرح اس میدان میں کسی قسم کی اصلاح کرنے کو خاص طور پر مشکل بنا دیا۔
عورتوں کے وہ حقوق بھی‘ جن کے بارے میں فرض کیا جاتا ہے کہ ان کو اسلام کا تحفظ حاصل ہے‘ انھیں پوری طرح عطا نہیں کیے جاتے‘ بعض اوقات تو یہ بالکل نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے خلاف زبردستی کر دی جاتی ہے۔ اکثر اوقات ان سے اسکول کی تعلیم اس لیے چھڑوا دی جاتی ہے کہ ان کی شادی کر دی جائے۔ ایک بار ان کی شادی ہو جائے تو وہ گھریلو تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں۔ لیکن ایک زیر مرد ماحول میں انھیں قانون کی مدد کم ہی ملتی ہے۔ ایک فلسطینی خاتون وکیل کی رپورٹ کے مطابق بہت سی فلسطینی عورتیں یا تو اپنے قانونی حقوق سے بے خبر ہیں یا ان پر اصرار کرتے ہوئے ڈرتی ہیں۔ اس عورت کی نظر میں جدوجہد کا مرکزی نکتہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آیا شریعت کو قانون کی بنیاد بنا لینے کو رد یا قبول کیا جائے۔ اس کے بجائے (چاہیے کہ) عورتیں قانونِ اسلام کی ترقی یافتہ ترجمانی کریں۔
جب ۱۹۸۷ء میں انتفاضہ کا آغاز ہوا تو لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ مل کر اسرائیلی سپاہیوں پر پتھر پھینکنے گلیوں میں نکل آئیں۔ اسرائیلی غاصبانہ قبضے کے خلاف ہر عمر کی عورتوں نے مظاہروں میں شرکت کی اور بڑے غضب ناک تیوروں سے حکام کا سامنا کیا۔ اس جولانی کے دور میں یہ خوش فہمی عام تھی کہ عورتیں بڑے خاطرخواہ فوائد حاصل کر رہی ہیں جو آیندہ بھی حاصل ہوتے رہیں گے۔ لیکن کئی وجوہات کی بنا پر یہ توقع پوری نہ ہوئی۔ انتفاضہ کے دوران سب کا اتفاق اس نکتے پر تھا کہ غاصبانہ اسرائیلی قبضہ ختم کیا جائے۔ اسی ذہنی ہم آہنگی کے سبب اندرونی اختلافات دب گئے تھے۔ اب‘ جب کہ حکومت اپنی ہے‘ مخالف سیاسی طاقتیں اقتدار کے لیے باہم دست بہ گریبان ہو رہی ہیں‘ عورتوں نے انتفاضہ کے دوران جو سیاسی پیش قدمی کی‘ اس کے باوجود معاشرتی ترقی نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ فلسطینی معاشرہ اپنی گہرائی میں قبائلی ہی رہا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم فلسطینی معاشرے میں مختلف نظریاتی رجحانات کو الگ الگ نہ دیکھیں۔ اسلام جمہوریت کے لیے اتنا مانع نہیں جتنی ایک اسلامی قانون پر مبنی ریاست حقوقِ نسواں کے لیے مانع ہوتی ہے۔ ہمیں امید کرنا چاہیے کہ فلسطین میں ایک ہم آہنگ ریاست کا ظہور ممکن ہو جائے گا۔
اسلام پسند تحریکوں میں لوگوں کو سہانے خواب دکھانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ وہ اکثر عملی مدد بھی کرتی ہیںجیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ غربی کنارے اور غزہ کی ضرورت مند آبادی کے لیے ان کے سماجی بہبود کے پروگرام انتہائی سودمند ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد نے ان میں ایک قومی شعور کو پھر بیدار کر دیا ہے اور ان کے سیاسی ایجنڈے مرد اور عورت دونوں کو ثبات و استقلال عطا کرتے ہیں۔
اگر اسلام پسندوں کی سخت گیری اور پاکیزگی ٔ نگاہ کو قومی سیاست پر اثرانداز ہونے کی اجازت دی گئی تو ہو سکتا ہے کہ ایک آمیزہ نمودار ہو اور مختلف النوع رجحانات یکجا ہو سکیں اور یوں فلسطینی عورتوں کے لیے بھی موقع مہیا ہو جائے۔ (Palestinian Women And The Contemporary Islamist Movement از Maria Holt)
سینیگال افریقہ کے مغرب اور موریتانیا کے جنوب میں واقع ایک اسلامی ملک ہے۔ ۹۵ فی صد آبادی (تقریباً ایک کروڑ) مسلمان ہے لیکن اس کے باوجود اسلامی بیداری اور سیکولر حلقوں کے درمیان گذشتہ ۵۰ برس سے کش مکش جاری ہے۔ یہ سیکولر طبقہ فرانسیسی استعمار کا وارث ہے۔ اس کے علاوہ عیسائی بھی ان کے پشتی بان ہیں۔ بے روزگاری‘ غربت‘ ناخواندگی اور معاشرتی انتشار عام مسائل ہیں۔ اس پر مستزاد سینیگال کے ایک حصے میں علیحدگی کی تحریک ہے جسے فرانسیسی استعمار نے سینیگال کے حکمران کے راستے میں کانٹے کے طور پر بویا ہے تاکہ اس پر دبائو برقرار رہے۔
سینیگال میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں۔ اہم مناصب پر عیسائی براجمان ہیں۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں خاص طور پر مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ تعلیم اور صحت کے مراکز پر عیسائی چھائے ہوئے ہیں۔ البتہ مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ کوئی مسلمان ملک کے کسی بھی حصے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے‘ اپنے دین کے بارے میں تقریر کر سکتا ہے۔ اسلامی اداروں اور تنظیموں کے قیام اور اُن کی سرگرمیوں پر بھی کوئی پابندی نہیں‘ لیکن وہ کسی قسم کی سیاسی پارٹی (مذہب کی بنیاد پر) تشکیل نہیں دے سکتے۔ اگرچہ ملک میں سیکولر اور کمیونسٹ پارٹیاں موجود ہیں لیکن مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی جماعت نہیں بنائی جا سکتی۔ حکومت کا یہ موقف ہے کہ سینیگال ایک سیکولر ملک ہے اس لیے اس میں مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی پارٹی تشکیل نہیں دی جا سکتی۔
ملک کا دستور سیکولر ہے اور اس کے آغاز میں درج ہے کہ سینیگال ایک سیکولر ملک ہے۔ یہ وہ مشکل ہے جو ۱۹۶۰ء میں فرانسیسی استعمارکے جانے کے بعد سے سینیگال کو ورثے میں ملی ہے۔ ملک کا پہلا سربراہ لیولولاسنجور عیسائی تھا جس نے دستور میں یہ بات درج کی تھی۔ اس کے بعدعبدہ ضیوف ملک کے صدر بنے لیکن انھوں نے دستور میں یہ شق برقرار رہنے دی لیکن موجودہ صدر عبداللہ واد‘ اس شق کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کے بارے میں متردد ہیں۔ اس شق کے خاتمے کے لیے دبائو ڈالنے میں بھی کچھ رکاوٹیں ہیں۔ بعض مسلمان دستور سے اس شق کے خاتمے کوحکمت کے خلاف سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح مغرب کا دبائو بڑھ جائے گا کہ سینیگال میں مسلمان اسلامی حکومت کے قیام کے ذریعے عیسائیوں کے لیے عرصۂ حیات کو تنگ کرنا چاہتے ہیں۔
دستور میں اس شق کی موجودگی نے نصاب‘ نظام تعلیم اور ذرائع ابلاغ کوبھی متاثر کیا ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اس کے اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم اور ابلاغ کے شعبے ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود فرانسیسی استعمار کے تربیت یافتہ ہیں۔ یہ لوگ سیکولر رجحانات کی حفاظت کرتے ہیں اور حکومت کی پالیسیوں میں بھی یہ رجحانات نمایاں نظر آتے ہیں۔ لیکن گذشتہ دو سالوں سے حکومتی سطح پر سیکولر تقریبات‘مثلاً سال نو کی آمد اور کرسمس ڈے منانے میں وہ سرگرمی اور جوش و خروش نظر نہیں آتا جو ماضی کا حصہ تھا۔
سینیگال میں دو نظام ہاے تعلیم رائج ہیں‘ ایک آزاد‘ یا پرائیویٹ اور دوسرا حکومتی۔ ذریعۂ تعلیم سرکاری زبان فرانسیسی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمام مراحل میں عربی زبان کی تدریس بھی کی جاتی ہے۔ یونی ورسٹی میں ’’کلیہ آداب‘‘ میں ایک شعبہ عربی زبان کا بھی ہے۔ رہے وہ اسکول جو پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں انھیں اختیار ہے‘ چاہے وہ صرف عربی زبان کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر استعمال کریں یا عربی اور فرانسیسی دونوں کو۔ سرکاری اسکولوں میں کسی بھی دین کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ البتہ پرائیویٹ اسکولوں میں دینی تعلیم دی جاتی ہے۔
ہم ’’عبادالرحمن‘‘ کے مدارس میں عربی اور فرانسیسی دونوں کی تدریس کرتے ہیں کیونکہ عربی مدارس سے فارغ التحصیل اہم مناصب پر پہنچ نہیں پاتے‘ مثلاً نائب وزیر یا وزیر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے فرانسیسی زبان پر اچھی دسترس رکھنا ضروری ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ایک مسلمان اپنے دین کا اچھا فہم رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تبدیلی لانے میں بھی شریک ہو۔ اس ضمن میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ ہماری جماعت کے ایک فرد ایک صوبے میں اہم عہدے پر فائز ہیں۔ بعض طلبہ ڈاکار یونی ورسٹی یا عرب ممالک یا مغربی جامعات میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں۔ اس طرح جدید و قدیم تعلیم کے امتزاج کے ساتھ ہم تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
ہمارے انسٹی ٹیوٹ (انسٹی ٹیوٹ آف عریبک فرنچ) میں‘ جس کی بنیاد ۱۹۶۲ء میں رکھی گئی‘ ایک پروگرام اسلامی تہذیب کا ہوتا ہے۔ میں بھی اس پروگرام کے شرکا میں شامل تھا۔ اس پروگرام میں مکمل اسلامی تہذیب کی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ محض چند مضامین کی تدریس نہیں ہوتی‘ جیسے عقیدہ‘ حدیث یا سیرت کے مضامین۔ موجودہ صدر نے اس سال کے آغاز میں یہ عندیہ دیا کہ ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے دین یا مذہب کی تعلیم کی اجازت دی جائے گی۔ مسلمان اسلام کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھ سکتے ہیں اور عیسائی اپنے دین کو پڑھ سکتے ہیں۔ عربی زبان کی تدریس ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ لیکن ہم حقیقت پسند بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عربی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان کی تدریس بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے مدارس میں عربی اور فرانسیسی دونوں زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔
ہمارا نظام حکومت ‘ سیکولر جمہوری ہے لیکن یہ ترکی کے سیکولر نظام کی طرح نہیں کہ مسلمانوں کو اپنے شعائر پر عمل کرنے کی آزادی نہیں اور ایک مسلمان خاتون کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہمارے ہاں وزرا اور حکومتی اہل کار اسلامی تنظیموں کے کارکنان کا احترام کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے مدارس ہیں۔ مختلف موضوعات پر ہم خطبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ۴۰ پارٹیاں ہیں۔ بعض ایسی پارٹیاں ہیں جن میں اسلامی رجحان پایا جاتا ہے‘ مثلاً سوشل ڈیموکریٹک موومنٹ (الحرکۃ الدیمقراطیۃ الاجتماعیۃ)۔ اس کے سربراہ ایک امام مسجد ہیں۔
سیاسی پارٹیوں کی آزادی محدود ہے۔ انھیں بیرونی امداد لینے کی اجازت نہیں اور نہ وہ کسی دین یا مذہب کے بارے میں گفتگو کر سکتی ہیں اور نہ سیکولرازم پر تنقید کر سکتی ہیں۔ لیکن اسلامی تنظیموں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے اور یہ تنظیمیں دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہیں اور اس طرح اس کے ارکان پارلیمنٹ میں پہنچ سکتے ہیں۔
جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کہ اسلامی تنظیموں کے سیاست میں حصہ نہ لینے سے اسلام کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور سیاست کا میدان اور اقتدار سیکولر طبقے کے ہاتھ میں رہے گا تو اس ضمن میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہم سیاسی پارٹی کی حیثیت کو قبول نہیں کرتے اور ’’جماعت‘‘ ہونے کی حیثیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں سرِدست اس حکمت عملی کے نتیجے میں ہم اپنے مقاصد کو بہتر طور پر حاصل کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ سیاسی پارٹیوں کے قیام کے حق میں ہیں۔ ہم ان کی مخالفت نہیں کرتے‘ تاہم یہ مسئلہ گہرے غوروخوض کا متقاضی ہے۔
فرانسیسی استعمار سے کچھ مخصوص مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ ان مشکلات میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی حکومت کے قیام کا مطلب دوسری اقلیتوں کو حقوق سے محروم کرنا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا اقتصادی‘اجتماعی اور صحت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اسلام کی طرف رجوع کریں جو ان مشکلات کا حل پیش کرتا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیم کے سلسلے میں ہمیں مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ اس تعلیم کے خلاف پروپیگنڈا ہے۔ قرآن مجیدکی تعلیم کے سلسلے میں اب کچھ مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ ماضی میں ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ پہلے اگر کوئی اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دلوانا چاہتاتھا تو وہ اپنے بچوں کو دیہات بھجوا دیتا تھا لیکن اب تو دارالحکومت میں بھی تحفیظ القرآن کے مدارس موجود ہیں۔
اسلامی قوتوں کے مقابلے میں دیگر عناصر اور قوتیںبھی موجود ہیں جو رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں اور مسائل کھڑے کرتی رہتی ہیں۔ان میں ماسونی تحریکیں اور سیکولرطبقہ نمایاں ہے۔ ماسونی تحریکیں زیرزمین سرگرم ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں اہم مناصب پر قبضہ کیا جائے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا وزارت کے قلم دان تک نہ پہنچ سکے۔
سیکولر طبقہ بھی مشکلات اور مسائل پیدا کرتا ہے۔ یہ مشکلات علانیہ نہیں ہوتیں بلکہ خفیہ طریقے سے دبائو ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سینیگال کے معاشرے میں مشائخ کا اثر و رسوخ ہے جس سے معاشرے میں دینی رجحانات نمایاں ہیں۔ اس لیے کوئی شخص بھی علانیہ اسلام کی مخالفت کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ درحقیقت یہ طبقہ تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ ان کا ہدف سیاست کا میدان ہے۔ ابھی تک ان کا دائرہ اثر ان خواتین تک محدود ہے جو فرانسیسی زبان بولتی ہیں۔ ان خواتین کا ہدف تعدد ازدواج جیسے مسائل ہیں‘ لیکن اس طبقے میں بھی ان کا اثر ورسوخ کم ہے۔ بعض خواتین جو تعدد ازدواج کے خلاف سرگرمی سے تحریک چلا رہی ہیں‘ خود ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں جہاں ان کے شوہروںکی کئی کئی بیویاں ہیں۔
ہمارا ایک مسئلہ ’’کاز اماس‘‘ کے صوبے میں خانہ جنگی ہے۔ وہاں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ یہ بھی فرانسیسی استعمار کا پیدا کردہ مسئلہ ہے۔ جاماکون سانجورا اس تحریک کی قیادت کر رہا ہے لیکن نئے صدر نے حکمت کے ساتھ اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ صدر نے مذاکرات اور ملکی سلامتی کے استحکام کی طرف دعوت دی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ عرصے کے بعد یہ تحریک ختم ہو جائے گی۔ اس کا اثر ورسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔
دراصل یہ تحریک ایک ٹائم بم ہے جو استعمار نے صدیوں پہلے نصب کیا تھا۔ فرانسیسیوں کی یہ منصوبہ بندی تھی کہ جب کبھی کوئی مسلمان صدر بنے تو وہ اس علاقے میں علیحدگی کی تحریک کو ہوا دیں کیونکہ اس علاقے میں عیسائی اکثریت میں ہیں۔ اس لیے جب کوئی عیسائی سربراہ مملکت بنتا ہے تو علیحدگی کی کوئی تحریک نظر نہیں آتی۔ جب عبدہ ضیوف نے صدارت کی کرسی سنبھالی تو یہ تحریک بھی شروع ہو گئی اور ۲۰ سال جاری رہی۔
سینیگال کو اس وقت زیادہ تر معاشرتی مسائل کا سامنا ہے۔ غربت‘ موسیقی اور مغربی ثقافت کی طرف میلان اور شہوات کی پیروی جیسے مسائل ان میں نمایاں ہیں۔ ان مشکلات کے حل کے لیے معاشرے کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ملک کی ۵۰ فی صدسے زیادہ آبادی خط ِافلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور نان شبینہ تک کی محتاج ہے۔
سینیگال میں مشنری تنظیمیں بھی سرگرم عمل ہیںلیکن انھیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ البتہ تعلیم کے میدان میں انھوں نے اپنا رنگ جمانے کی کوشش کی ہے۔ عیسائیوں کے زیرانتظام بہت سارے اسکول ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت ان اسکولوں میں زیرتعلیم ہے۔ جب یہ بچے اسکولوں سے فارغ ہوتے ہیں تو وہ عیسائیت کو توقبول نہیں کرتے لیکن سیکولر افکار کے حامل بن کر نکلتے ہیں اور عیسائیوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ آگے چل کر اہم مناصب اور عہدوں پر یہی لوگ فائز ہوتے ہیں۔ دارالحکومت میں مقدس مریم نامی اسکول میں تقریباً ۳ ہزار کے قریب طالب علم زیرتعلیم ہیں۔ ان میں ۹۵ فی صد مسلمان ہیں۔ یہ طالب علم ’’عیسائیت‘‘ بطور مضمون نہیں پڑھتے لیکن عیسائیت زدہ ماحول سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار اسکول سینیگال کے گوشے گوشے میں پائے جاتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں عیسائی بہت آگے ہیں۔ تقریباً ۵۰ کے قریب ڈسپنسریاں ہیں جو عیسائیوں کے زیرانتظام ہیں۔ ہماری جماعت کی بھی تین ڈسپنسریاں ہیں لیکن مسلمانوں کا کوئی ہسپتال سینیگال میںنہیں ہے۔
مشنری سرگرمیوں کے مقابلے کے لیے جذبے کی تو کمی نہیں ہے البتہ بنیادی رکاوٹ غربت اور وسائل کی کمی ہے۔ ہماری ترجیحات دینی تعلیم‘ صحت اور معاشرتی خدمات ہیں۔ اگر ہمارے مدارس اور اسکول بھی بڑی تعداد میں ہوں تو ہم مشنری سرگرمیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ لوگ عیسائیوں کے بجائے ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔
اسلامی بیداری کے حوالے سے خاصی پیش رفت ہے۔ گذشتہ ۵۰ سال سے اسلامی بیداری موجود رہی ہے لیکن اب زیادہ واضح رنگ نظر آتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب اسلامی تحریکوں کے دعوتی کام کی وجہ سے نمایاں پیش رفت ہے جو تعلیم کے میدان میں بھی کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ چینلوں پر اسلامی موضوعات پر لیکچر نشر ہوتے رہتے ہیں جس سے لوگوں کو اسلام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ حکومتی ذرائع ابلاغ دین کے فہم کو عام کرنے کے لیے کم وقت دیتے ہیں۔ البتہ اس کمی کو دعوتی سرگرمیوں‘ تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ چینل کے ذریعے مختلف پروگراموں سے کسی نہ کسی طور پر پورا کرنے کی کوشش جاری ہے‘ اور اس سے اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اسلامی معاشرے کا قیام ہماری تمنا اور خواہش ہے۔ اس لیے پہلے دن سے ہم نے اس کو نصب العین قرار دیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو اسلام کے مطابق زندگی بسر کرے‘ ہماری سب سے بڑی تمنا ہے‘ ہمارا نصب العین ہے اور اسی کے لیے ہم سرگرم عمل ہیں۔ جب ہماری یہ تمنا بر آئی تو ہماری تمام آرزوئیں پوری ہو جائیں گی۔
ہمیں تنظیمی حوالے سے اور ملکی سطح پر کئی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم اور تنظیم کا فقدان سب سے بڑی مشکل ہے۔ اسلامی سرگرمیاں منتشر ہیں۔ ان میں ربط اور ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بعض اسلامی جمعیتیں مخلص (سنجیدہ) نہیں ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ملک کے لوگ فعال اور غیرفعال میں فرق نہیں کرسکتے۔ اس لیے انتشار اور تفرقہ ہماری بڑی مشکل ہے‘ تاہم مجموعی طور پر پیش رفت ہے۔ ہم ان مسائل کے حل کے لیے تگ و دو بھی کر رہے ہیں اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
سینیگال میں اسلام کے مستقبل کے حوالے سے میں بہت زیادہ پُرامید ہوں۔ عوام میں بیداری پائی جاتی ہے۔ دعوتی کام کی آزادی ہے۔ ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ۵۰سال پہلے کوئی خاتون پردہ نہیں کرتی تھی لیکن اب پردے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یونی ورسٹیوں میں بھی طالبات پردے کا التزام کرتی ہیں حتیٰ کہ فرانسیسی تعلیم حاصل کرنے والی ماڈرن خواتین بھی پردہ کرتی ہیں۔ بہت سارے لوگ اپنے بچوں کو عام اسکولوں سے نکال کر ہمارے مدارس میں داخل کروا رہے ہیں۔ یہ دین سے دل چسپی اور دین کی طرف رجوع کے حوالے سے اچھی علامت ہے۔ مجموعی طور پر عوام کی دل چسپی اسلام سے بڑھ رہی ہے اور ان کا رجحان اسلام کی طرف ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے۔ (انٹرویو : عبدالرحمن سعد‘ المجتمع‘ شمارہ ۱۵۱۲‘ ۲۱ اگست ۲۰۰۲ئ)
ڈیپریشن (مایوسی‘ غم زدگی‘ افسردگی‘ پست حوصلگی) ہمارے معاشرے میں پھیلا ہواایک نمایاں مرض ہے۔ نفسیاتی اور طبی کلینکوں پرآنے والے نفسیاتی مسائل کے شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈیپریشن کا شکار ہوتی ہے۔ ہم چونکہ مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لہٰذا مغربی معاشروں کو درپیش ڈیپریشن کے اسباب کا ہمیں بھی سامنا ہے۔ اس مضمون میں ڈیپریشن‘ اس کے اہم اسباب اور قرآن کریم کی تعلیمات کے ذریعے ا س سے بچائوپر گفتگو کی جائے گی۔
اہم اسباب: خوف یا بے چینی انسان کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے‘ تاہم اعصابی امراض انسان کو ورثے میں ضرور ملتے ہیں۔ ماحولیاتی اسباب ان وراثتی امراض میں اضافہ کردیتے ہیں۔ ڈیپریشن کے اسباب خاندان‘ اسکول‘ دفتر یا کارخانے (کام کرنے کی جگہ) کے ماحول میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ بے چینی کا اہم ترین سبب وہ گھر ہے جس میں اختلاف ہو یا غلط فہمی ہو یاوالدین اپنے بچوں کو نظرانداز کرتے ہوں۔ گو ایسا معاشرہ بھی ڈیپریشن کاسبب بنتا ہے جس میں مادی برتری اور تنازع للبقا کی کش مکش جاری ہو۔ انسان کی آرزوئیں اورخواہشات جب اخلاق اورضمیر سے متصادم ہوں تو ڈیپریشن کا مرض جنم لیتا ہے۔ ہمارے مسلم ممالک میں اگرچہ نفسیاتی امراض اور ان کے پھیلائو کے بارے میں مستند اعداد و شمار مہیانہیں ہیں مگر امریکہ کے اعداد و شمار کی رو سے ڈاکٹروں کے پاس آنے والے ۸۵ فی صد مریض نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں جن میں ڈیپریشن سرفہرست ہے۔ پاکستان میں بھی یہ تناسب کم نہیں ہے۔
اہم علامات: تنگ دلی کا احساس‘ عدمِ اطمینان‘ تلخ سوچ‘ نیند میں گڑبڑ۔ کبھی یہ نفسیاتی اضطراب جسم پر بھی ظاہر ہوتا ہے‘ مثلاً پہلوئوں کا ٹھنڈا ہو جانا‘ زیادہ پسینہ آنا‘ دل زور زور سے دھڑکنا‘ معدے کا سکڑنا‘ جسم کی کمزوری اور انتہائی تھکاوٹ‘ کام کرنے کی صلاحیت میں تعطل۔ کبھی انسان وقتی علاج کے لیے بیداری کے خوابوں میں پناہ لیتا ہے۔ معاملہ اعصابی بے چینی تک پہنچ جاتا ہے۔ مریض وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ موت یا بیماری کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے۔ اُونچی جگہوں پر چڑھنے سے ڈرنا‘ تنگ کمروں سے گھبرانا‘ غیرارادی وسوسوں میں مبتلا ہونا‘ جیسے ہاتھوں کو بار بار دھونا۔ ڈیپریشن کا مریض کبھی کبھی تیز دوروں کا شکار رہتاہے جو کئی منٹوں یا گھنٹوں تک جاری رہتے ہیں۔ ڈیپریشن کے مزمن یا شدید ہونے کی صورت میں مریض کئی نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے‘ مثلاً معدے کا السر‘ ہائی بلڈپریشر‘ دمہ (asthma) اورجلدی ایگزیما۔
۱- تشخیص: سب سے پہلے اس بیماری کا سبب تلاش کیا جاتاہے اور مریض کی مکمل میڈیکل ہسٹری دریافت کی جاتی ہے۔ اسباب کا کھوج لگاتے ہوئے مریض کے بچپن تک پہنچا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں شخصی چھان بین کی جاتی ہے‘ یا نفسیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے‘ یا اجتماعی علاج کیاجاتا ہے۔
۲- سستانا: اس سے مراد مریض کو ذہنی الجھنوںاور پریشانیوں سے نکالنے کی کوشش کرنا اور اس کو ذہنی سکون پہنچانا ہے۔
۳- مسکن ادویات سے طبی علاج :علاج کے کچھ دوسرے طریقے بھی ہیں‘ مثلاً مریض کو کسی کام پر لگا کر اس کی سوچ سے اسے ہٹا دیا جاتا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ جدید نفسیاتی و طبی ذرائع سے ڈیپریشن کا علاج بعض اوقات کامیاب اور بعض اوقات ناکام ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جدید نفسیاتی اور طبی علاج میں زیادہ تر بیماری کا علاج کیا جاتا ہے مگر بیماری کی جڑ کا علاج نہیں کیا جاتا۔
ڈیل کارنیگی نے اپنی کتاب بے چینی چھوڑیے اور زندگی شروع کیجیے میں ڈیپریشن کے خلاف کافی مفید مشورے دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: پُل پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے عبور نہ کیجیے‘ یعنی کسی کام کے ہونے سے پہلے ہی اس کے بارے میں پریشان نہ ہو جایئے۔ گرے ہوئے دودھ پر افسوس کا اظہار نہ کیجیے‘ یعنی جو کچھ ہو گیا‘ سو ہو گیا۔ سیٹی کو اس کی قیمت سے زیادہ میں نہ خریدیے‘ یعنی معاملات کو اتنی ہی اہمیت دیجیے جن کے وہ مستحق ہیں۔ ماضی اور مستقبل کے دروازے بند کر دیجیے اور آج میں رہیے۔
۱- دل کی کھٹک اور بدگمانی۔
۲- انسانی امنگوں اور ان کے حصول میں حائل رکاوٹوں کے مابین کش مکش۔
ان دو اسباب کے پیچھے کئی عام اسباب بھی پوشیدہ ہوتے ہیں‘ جیسے ذاتی خلفشار‘ خاندانی انتشار‘ اخلاقی گراوٹ اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا نہ ہونا۔
قرآن کریم ان تمام اسباب و علل کا احاطہ کرتا ہے‘ پرہیز سے بھی اور علاج کے ذریعے سے بھی۔
پرہیز: ہماری زندگی اور اس کے ارد گرد جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ دین اسلام نظامِ زندگی ہے۔ یہ صرف عبادات کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ اسلام ہماری زندگی‘ ہمارے تعلقات و معاملات سب کے بارے میں رہنمائی دیتا ہے۔ قرآن کریم ڈیپریشن سے پرہیز کے صحت مندانہ ذرائع کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ ہمارے لیے ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جس میں ہم پورے ثبات و اطمینان سے رہ سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے غوروفکر کرنے اور عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا o (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘
اگر ہم ڈیپریشن کے پہلے سبب پر غور کریں جو خوف اور دل کی کھٹک ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ مومن کیوں ڈرتا ہے اور کس سے ڈرتا ہے؟ وہ جانتا ہے‘ ہر چیز اللہ کے قبضے میں ہے۔ مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے وسائل و ذرائع اختیار کرے کہ خود کو بھوک‘ بیماری اور غربت سے محفوظ رکھ سکے۔ وہ ان اسباب کی فراہمی میں ہرگزکوتاہی نہ کرے اور پھر معاملے کو اللہ پر چھوڑ دے۔ وہ ڈر اور خوف کے ساتھ زندگی نہ گزارے۔ رزق اول و آخر اللہ کے قبضے میں ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لاَّ تَحْمِلُ رِزْقَھَاق اَللّٰہُ یَرْزُقُھَا وَاِیَّاکُمْز وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o (العنکبوت ۲۹:۶۰) ’’کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے‘ اللہ ان کورزق دیتا ہے اور تمھارا رازق بھی وہی ہے‘‘۔
کیا انسان زندگی کے مصائب سے ڈرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کو جہاں تک اس کے بس میں ہو ان مصائب کے اسباب سے بچناچاہیے اور پھر معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے اور اپنی ذات کو خوف سے آزاد کر دینا چاہیے۔ ارشاد باری ہے: مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ (الحدید ۵۷:۲۲) ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمھارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو‘ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے‘‘۔ اسی طرح فرمایا: وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٗٓ اِلاَّ ھُوَ ط وَاِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌo (الانعام ۶:۱۷) ’’اگر اللہ تمھیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمھیں اس نقصان سے بچا سکے‘ اور اگر وہ تمھیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
کیا وہ اپنی بیماری سے ڈرتاہے؟ اگر ایسا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی استطاعت کی حد تک پرہیز اور علاج کرے اور معاملہ اللہ کے حوالے کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے کہا ہے: وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ o (الشعراء ۲۶:۸۰) ’’اور جب بیمار ہوجاتاہوں تووہی مجھے شفا دیتا ہے‘‘۔
دوسرا سبب داخلی کش مکش اور خواہشات و حدود کے مابین تنازع ہے۔ قرآن کریم مسلمانوں کی تربیت حق پر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ حلال و حرام دونوں واضح ہیں۔ انسان کومخلوق کی ایسی فرماں برداری نہ کرنا چاہیے جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو۔
اِنَّ ھَذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتاہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انھیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑااجر ہے۔
۱- نماز: یہ بندئہ مومن اور اس کے رب کے درمیان رابطہ ہے۔ نماز عقل‘ شعور اور وجدان کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا روحانی علاج ہے جو مومن کو سکونِ قلب اور طمانیت نفس مہیا کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی پریشان ہوتے تو نماز پڑھتے اور فرماتے کہ اے بلالؓ ! نماز کے ذریعے ہمیں راحت پہنچائو۔ آپؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج کتنے مسلمان ہیں جو خشوع و خضوع سے اس طرح نماز ادا کرتے ہوں کہ اپنے ارد گرد سے بے خبر ہو جاتے ہوں اور صرف اللہ کے ساتھ ان کا رابطہ رہ جاتا ہو۔
۲- اللّٰہ کا دائمی ذکر: ہر وقت اللہ کا ذکر کرنے سے نفس انسانی میں اللہ سے تعلق کا احساس پیداہوتا ہے۔ اس کی ذات پر توکل کرنے سے انسان احساس تنہائی سے بچ جاتا ہے۔ ارشاد ہوا: اَلَّذِ یْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد۱۳:۲۸) ’’ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبیؐ کی دعوت کو)مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جب بھی کچھ لوگ اللہ کو یاد کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں تو فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں۔ رحمت ان پر چھا جاتی ہے۔ ان پر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ انھیں یاد کرتا ہے‘‘۔
ذکر کے ساتھ ساتھ پریشانیوں سے نجات کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے ۔ پریشان حال اور غم زدہ کے لیے اللہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ ٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ o (المومن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے ’’مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا‘ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔
۳- تلاوت قرآن: قرآن کی تلاوت سے نفس کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کے دوران شور مچایا کریں تاکہ ان کے دل قرآن کے بیان سے متاثر ہو کرایمان کی طرف مائل نہ ہوں۔ تلاوتِ قرآن کریم سے بندے کا اپنے پروردگار کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ اور انسان اپنی پریشانیوں اور تکلیفوں کامداوا پا لیتا ہے۔ قرآن اہل ایمان کے لیے شفا اور رحمت ہے۔
۴- اللّٰہ کا تقویٰ: درج بالا سب اعمال نفس میں اس وقت سکون واطمینان پیدا کرتے ہیں جب ان کے ساتھ ساتھ نیک اعمال اور پاکیزہ گفتار کو بھی اپنایا جائے۔ ارشاد الٰہی ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۷) ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر‘ ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔
۵- خود کو پہچانیے: روحانی علاج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اپنے آپ کو بھی پہچانے۔ اس پہچان سے وہ ڈیپریشن کے اسباب جاننے میں اور پھر ان کا تدارک کرنے میں کامیاب ہوگا۔ کسی دانش ور کا قول ہے: من عرف نفسہ عرف ربہ، ’’جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے پروردگار کو جانا‘‘۔مگر یاد رہنا چاہیے کہ خودکوپہچاننے میں اور اپنی ذات میں مستغرق رہنے میں بہت فرق ہے۔
وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلاَتَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِط اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِِیْنَ o (القصص ۲۸:۷۷) جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اوردنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اورزمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر‘ اللہ مفسدوں کو پسند نہیںکرتا۔
قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ ہم گناہ گار ہونے کے احساس کو ختم کریں کیونکہ گناہ گار ہونے کا احساس ہی انسان کو غم‘ بے چینی اور تشویش سے دوچار رکھتا ہے۔ گناہ سرزد ہونے کی صورت میں فوراً توبہ کرنا چاہیے اور پھر یہ یقین کر لینا چاہیے کہ اللہ نے گناہ معاف فرما دیا ہے۔ ارشاد ہوا:
وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمْنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی o (طٰہٰ ۲۰:۸۲) جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے‘ پھر سیدھا چلتا رہے اس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔
قرآن مجید ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے حسد نہ کریں۔ حسد نفسیاتی اضطراب پیدا کرتا ہے۔ اگر حسد کرنے والا یہ سمجھ لے کہ دینے والا اور عطا کرنے والا اللہ ہے تو وہ حسد سے باز رہے اور اپنے نفس کو حسد کی مشقت میں نہ ڈالے۔
انسان کو چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر اپنے اوپر بوجھ نہ ڈالے۔ قرآن شریف ہمیں تلقین کرتاہے کہ ہم اپنی آرزوئوں اور استطاعت میں توازن رکھیں تاکہ ہم نفسیاتی بے قراری اور بے چینی سے بچ سکیں۔
برعظیم پاک و ہند کے علمی اور دینی اُفق کو درخشاں کرنے والے تمام ستارے ایک ایک کر کے ڈوب گئے ہیں--- !
علامہ اقبال گئے‘ مولانا اشرف علی تھانوی گئے‘ مولانا ابوالکلام آزاد گئے‘ مولانا شبیراحمد عثمانی گئے‘ سید سلیمان ندوی گئے‘ مفتی محمد شفیع گئے‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی گئے‘ ڈاکٹر فضل الرحمن گئے‘ مولانا امین احسن اصلاحی گئے‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی گئے--- اور اب مشرق سے اُبھرنے والے اس سنہری سلسلے کا آخری تارہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مغرب کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو گیا--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
محمد حمیدؒاللہ ۱۶محرم الحرام ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹ فروری ۱۹۰۸ء حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ دولت آصفیہ ہی میں ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک کے مراحل طے کیے اور عثمانیہ یونی ورسٹی سے‘ جو برعظیم کی تاریخ میں اُردو کے محوری کردار اور اپنی اعلیٰ علمی روایات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی تھی ایم اے اور ایل ایل بی کی سندات امتیازی شان سے حاصل کر کے اسی جامعہ میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تقسیم ملک سے کچھ قبل اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے اور بون (Boun) یونی ورسٹی سے بین الاقوامی قانون کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر حمیدؒاللہ کی یہی تحقیق تھی جو بعد میں ضروری اضافوں کے ساتھ ان کی شہرہ آفاق تصنیف Muslim Conduct of State بنی۔جرمنی سے فرانس منتقل ہو گئے اور سوربون (Sorbonne) یونی ورسٹی سے عہدنبویؐ اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔
اس زمانے میں سقوطِ حیدرآباد (۱۹۴۸ئ) کا سانحہ رونما ہوا ۔ اس کے بعد پھر ڈاکٹر حمیداللہ پیرس ہی کے ہو کر رہ گئے۔ میرے استفسار پر ایک بار بتایا کہ میں دولت آصفیہ کے پاسپورٹ پر یورپ آیا تھا۔ پھر میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں۔ فرانسیسی شہریت بھی ساری عمر حاصل نہ کی۔ پناہ گزیں کی حیثیت پر تمام عمر قانع رہے اور محض وثیقہ راہ داری (travel documents) کے ذریعے عالمی سفر کرتے رہے جس کے تحت چھیماہ کے اندر اندر انھیں فرانس واپس آنا پڑتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی ملک کے بھی شہری نہ تھے بلکہ ذہنی اور مادی ہر دو اعتبار سے اس دنیا ہی کے شہری نہ تھے۔ ۷۰ سال بغیر پاسپورٹ کے گزارے اور بالآخروہاں چلے گئے جہاں کسی دنیوی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی--- ہاں ان کے پاس ایمان‘ عمل صالح اور علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کی جانے والی زندگی کا سرمایہ تھا اور یہی سب سے کام آنے والی چیز ہے۔
ڈاکٹر حمیداللہ مشرق اور مغرب کی نو زبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور چار میں (اُردو‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ عربی) بلاواسطہ تحریر و تقریر کی خدمت انجام دیتے تھے۔ مطالعہ اور گفتگو کی اعلیٰ استعداد جرمنی‘ اطالوی‘ فارسی‘ ترکی اور روسی زبانوں میں بھی حاصل تھی۔ پیرس کے مشہور تحقیقی مرکز Centre National de la Researche Scientifiqueسے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔
علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج کی فکر کی مہلت بھی نہ ملی اور امام ابن تیمیہؒ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھربار کے جھگڑے سے آزاد رہے اور صرف علم کا ورثہ چھوڑا۔ عالم اسلام کی چوٹی کی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے‘ خصوصیت سے جامعہ استنبول سے طویل عرصے تک متعلق رہے۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں بھی ۱۲ خطبات دیے جوخطبات بہاول پور کے عنوان سے شائع ہوئے اوران کا خوب صورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افضل اقبال نے کیا اور یہ The Emergence of Islam کے نام سے شائع ہوئے۔
میری نگاہ میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ مسلمانوں میں پہلے اور آخری مستشرق (orientalist) تھے۔ مستشرق میں ان کو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انھوں نے مستشرقین کے طریق تحقیق (methodology) پر ایسی ہی قدرت حاصل کر لی تھی جیسی غزالی نے یونانی فلسفے پر۔ وہ تحقیق اور طریق تالیف کے باب میں مستشرق ہوئے لیکن اس پہلو سے مستشرقین سے مختلف تھے کہ ان کا قبلہ درست تھا۔ ان کے اصل مآخذ قرآن و سنت اور مسلمانوں کے معتبر اہل علم کی تصانیف تھیں۔ انھوں نے اسلام کو‘ جیساکہ وہ ہے‘ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ البتہ تحقیق و تصنیف‘ تلاش و جستجو‘ نقد و احتساب کے ان تمام ذرائع کو کامیابی اور قدرت کے ساتھ استعمال کیا جو مستشرقین کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے ہیں اور اس طرح علمی میدان میں اہل مغرب کا جو قرض مسلمانوں پر تھا‘ اسے فرض کفایہ کے انداز میں ڈاکٹر صاحب نے چکا دیا اور ساتھ ساتھ وہ کیا جسے انگریزی محاورےpaying in the same coin کہا جاتا ہے۔ الحمدللہ!
ڈاکٹر حمیداللہ فکرونظر کے اعتبار سے ٹھیٹھ مسلمان تھے۔ انھوں نے سلف کے نقطۂ نظر کو پوری دیانت سے جدید زبان اور استشراق کے اسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیش کیا اور ایک حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلامی علوم اور دورِ جدید کے طلبا اور محققین کے درمیان ایک پُل بن گئے۔
ڈاکٹر حمیداللہ کی علمی دل چسپیوں کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور اس حیثیت سے ان کا کام کثیرجہتی (multi dimensional) تھا۔ انھوں نے تحقیق کے مختلف میدانوں میں بڑے معرکہ کی چیزیں پیش کیں لیکن شاید ان کی سب سے زیادہ دین (contribution) مسلمانوں کے بین الاقوامی قانون کے میدان میں ہے جس میں انھوں نے علمی دنیا سے یہ منوا لیا کہ بین الاقوامی قانون کے اصل بانی مسلمان فقہا اور علما ہیں‘ سترھویں صدی کے مغربی مفکرین نہیں۔ تدوین حدیث کے باب میں بھی ان کا کام بڑا وقیع ہے اور صحیفہ ھمام ابن مُنبّہ کی تالیف اور اشاعت ان کا بڑا کارنامہ ہے جس نے یہ ثابت کر دیا کہ حدیث کی کتابت دور رسالت مآبؐ اور دور خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئی تھی۔ یہ مسودہ ان کو جرمنی کی ایک لائبریری سے ملا جس کو مناسب انداز میں تدوین کرکے اور یہ دکھا کر کہ اس اولین مسودے میں لکھی ہوئی احادیث اور بعد کے مجموعوں میں پائی جانے والی احادیث میں کوئی فرق نہیں ‘ہے انھوں نے بڑے سائنسی انداز میں حدیث کی صحت کو منوانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی‘ آپؐ کے غزوات‘ سفرہجرت‘ خطوط اور وثائق کی تلاش اور ترتیب--- ان سب میدانوں میں ڈاکٹر حمیداللہ نے تحقیق اور تسوید کے وہ نقوش قائم کیے ہیں جو تادیر چراغ راہ رہیں گے۔
اسلامی فقہ کی تدوین اور خصوصیت سے امام ابوحنیفہؒ کی methodology پر ان کا کام راہ کشا حیثیت رکھتا ہے۔اسلامی قانون اور قانون روما کے فرق کو بھی انھوں نے بڑے قاطع دلائل سے ثابت کیا اور مستشرقین کے اس غبارے سے ہوا نکال دی کہ اسلامی قانون دراصل قانون روما سے ماخوذ ہے۔دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کے ترجموں کی معلومات کو جمع کرنا بھی ان کا ایک پسندیدہ موضوع تھا اور اس سلسلے میں ان کی کاوش اساسی اور بنیادی کوشش کا مقام رکھتی ہے۔ ان کے طرزِ تحقیق میں صرف کتابی محنت ہی شامل نہ تھی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرہجرت کی تحقیق میں انھوں نے پاپیادہ اور گھوڑے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس راستے پر عملاً سفر کیا جس سے حضورپاکؐ نے ہجرت فرمائی تھی اور اس طرح اس شاہراہ کو متعین کیا جو روایات میں دھندلی ہوگئی تھی۔ قرآن پاک اور سیرت مبارکہ ان کی زندگی کے صورت گر ہی نہ تھے‘ ان کی علمی دل چسپی کا بھی محور تھے۔
فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان ہی میں دو جلدوں میں سیرت پاکؐ کی تدوین بھی ان کے نمایاں کاموں میں سے ایک ہے۔ سیرت کی کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خود ہی کیا ہے جو شائع ہو گیا ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ مقالے اور مضامین ان کے قلم سے نکلے اور اہل علم کی تشنگی دُور کرنے کا ذریعہ بنے۔ یقینا ان کی چھوٹی بڑی کل کتب کی تعداد ۱۵۰ سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹر حمیداللہ سے میری پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب میں ابھی طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھا اور وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو اسلامی دستور سازی میں مدد دینے کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ مولانا سید سلیمان ندوی‘ مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفراحمد انصاری کے ساتھ مجلس تعلیمات اسلامی کے رکن تھے اور اسمبلی کی عمارت ہی کے ایک حصے میں ان کا دفتر تھا۔ ان کے علم کی وسعت اور اس کے رعب کے تحت میرے ذہن نے ان کی ایک تصویر بنا لی تھی لیکن ان کو دیکھ کر مجھ کو ایک دھچکا سا لگا۔ میں نے ان کو ایک دبلاپتلا اور سادہ سا فقیرمنش انسان پایا۔ اکہرا بدن‘ لمباقد‘ صاف رنگ‘ کتابی چہرہ‘ اوسط لمبائی کی مگر غیرکفی ڈاڑھی‘ پُرنور آنکھیں--- اور ان سب سے بڑھ کر انکسار کا مجسمہ‘ تواضع کا پتلا‘ سادگی کا پیکر اور جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ اسمبلی کے دفتر میں کرتے پاجامے میں ملبوس اور پائوں میں کھڑاوں--- پتا نہیں آج کی نسل اس شے سے واقف بھی ہے یا نہیں۔ ہمارے بچپن میں وضو کے لیے لکڑی کی سادہ سی چپل ہوتی تھی جسے کھڑاوں کہتے تھے اور جو بالعموم غسل خانے میں رکھی جاتی تھی۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہ آ سکتا تھا کہ کوئی اسمبلی کے دفتر میں کھڑاوں پہنے بیٹھا ہوگا۔
حیرانی کی یہ کیفیت چند ہی لمحات میں ان کی شفقت اور پیار سے بھری باتوں سے دُور ہو گئی اور تبحرعلمی کے ساتھ ان کا انکسار دل پر نقش ہوگیا۔ بات آہستہ آہستہ دھیمے لہجے میں‘ کچھ کچھ رک کر اور سر ہلا ہلا کر کرتے تھے مگر اس طرح کہ دل میں اتر جاتی تھی۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے اس وقت مجھے چونکا دیا جب چراغ راہ کے اسلامی قانون نمبر کی اشاعت پربالکل غیر متوقع طور پر ان کا تین صفحے کا خط موصول ہوا۔ اور تین صفحے بھی ایسے کہ ان میں ۱۰ صفحوں کا لوازمہ موجود تھا‘ کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہلکے کاغذ پر چھوٹے حروف میں اس طرح لکھتے تھے کہ مختصرحاشیے کے سوا ہر جگہ بھری ہوتی تھی۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات ان کی محنت تھی۔ اسلامی قانون نمبر پر بہت خوش تھے۔ بڑی فراخ دلی سے اس کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی بڑے انکسار سے لکھا کہ آپ کو زحمت سے بچانے کے لیے دوسرے ایڈیشن کے لیے کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی کر رہا ہوں--- اور اس طرح صفحہ اور سطرکے تعین کے ساتھ تین صفحوں میں انھوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی بے احتیاطی کی تلافی کا سامان کر دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے مگر کس دل سے لکھوں کہ اس کا بیشتر حصہ محفوظ نہ رہ سکا! آخری خط میری مختصر کتاب Family Life of Islam کے فرانسیسی ترجمے پر ان کی تصحیح و تنقید سے عبارت تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۴۸ء میں جو فلیٹ پیرس میں کراے پر لیا تھا‘ وہ ایک ایسی عمارت کی چوتھی منزل پر تھا جس میں لفٹ نہ تھی۔ انھوں نے پیرس کے قیام کے آخری ایام تک اسی میں سکونت رکھی۔ اس فلیٹ کا ایک ایک کونہ بشمول باورچی خانہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی دولت تھی۔ زندگی اتنی سادہ کہ کپڑے کے چند جوڑوں اور کھانے کے چند برتنوں کے سوا ان کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ کھانے کے بارے میں بھی اتنے محتاط تھے کہ حلال گوشت نہ ملنے کے باعث زمانہ طالب علمی میں ہی گوشت کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ سبزی اور پنیر پر گزارا کرتے تھے اور جب یہ شبہہ ہوا کہ پنیر میں بھی جانورکی آنتوں کی چربی استعمال ہوتی ہے تو اس سے بھی دست کش ہوگئے۔ علم و تقویٰ ‘ قناعت اور سادگی میں سلف کی مثال تھے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ متعدد علمی مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن سب سے زیادہ یادگار وہ مخیّم (تربیتی کیمپ) تھا جو فرانس میں ایک دیہاتی علاقے میں فرانس کی مسلمان طلبہ کی اسلامی تنظیم (UMSO) کے تحت منعقد ہوا تھا اور جس میں پانچ دن رات ہم نے ساتھ گزارے۔ ڈاکٹر صاحب بھی عام طلبہ کی طرح زمین پر سوتے اور اپنے برتن اپنے ہاتھ سے دھوتے تھے۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ کمالِ التفات سے ڈاکٹر صاحب نے میری تقاریر کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ فرمایا۔ جزاھم اللّٰہ خیرا الجزائ۔
وقت کی پابندی میں بھی ڈاکٹرصاحب اپنی مثال آپ تھے۔ اس کی کوئی دوسری مثال اگر میں دے سکتا ہوں تو وہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے۔ یہاں اس واقعے کا ذکر بھی شاید غیرمتعلق نہ ہو (اور اس کے راوی ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ ساتھی اور میرے بزرگ دوست احمد عبداللہ المسدوسی مرحوم ہیں) کہ حیدرآباد کا نوجوان حمیداللہ اپنی پوری طالب علمی کے دور میں صرف ایک بار کلاس میں تاخیر سے پہنچا (غیرحاضری کا تو سوال ہی نہ تھا) اور یہ وہ دن تھا جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ تدفین کے بعد یہ نوجوان سیدھا جامعہ گیا اور کلاس میں شریک ہوگیا ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
ڈاکٹر حمیداللہ صرف علم و تحقیق ہی کے مرد میدان نہ تھے‘ دعوت و تبلیغ میں بھی ڈوبے ہوئے تھے۔ پیرس کی جامع مسجد میں ایک مدت تک تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔ انفرادی ملاقاتوں سے لے کر تبلیغی دورے اور ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسیں--- ہر جگہ انھوں نے دعوت کا کام انجام دیا۔ فرانس میں وہ صرف شمالی افریقہ کے مسلمانوں کا ہی مرجع نہ تھے بلکہ فرانسیسی مسلمانوں کا بھی ایک حلقہ ان کے گرد قائم تھا۔ طلبہ اورنوجوانوں میں وہ بے حد مقبول تھے۔ وہ ان کو وقت دینے میں بے پناہ فراخ دل تھے۔
ڈاکٹر حمیداللہ سیاسی آدمی نہ تھے۔ اربابِ حکومت نے ان کو قریب لانے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ ان سے کنارہ کش رہے۔ علمی اور ادبی اعزازات سے ان کا پیچھا کیا لیکن وہ ہمیشہ ان سے دامن کش رہے۔ مجھے علم ہے کہ فیصل ایوارڈ میں ان کا نام آیا لیکن انھوں نے معذرت کرلی۔ پاکستان نے ہجری ایوارڈ ان کو پیش کیا مگر انھوں نے رسمی طور پر قبول کرنا پسند نہ کیا اور رقم اسلامک یونی ورسٹی کے لیے وقف کر دی۔ سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ آزاد حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدر آباد دکن کبھی واپس نہ آئے بلکہ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں تو بڑے دکھے دل سے کہا کہ میں اس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے۔
ڈاکٹرحمیداللہ اس وقت تک تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مصروف رہے جب تک قویٰ نے ساتھ دیا۔ جب بیماریوں نے اس طرح آلیا کہ یہ کام جاری نہ رکھ سکے تو اپنی جان سے قیمتی لائبریری علمی کاموں کے لیے وقف کر دی اور خود امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے۔ جب مجھے ایک اعلیٰ پاکستانی افسر اور سید حسین نصر کے توسط سے ان کی اس حالت کا علم ہوا تو میں نے کوشش کی کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں اور اس سلسلے میں صدرمملکت کو میں نے ایک خط بھی لکھا جس کا مثبت جواب ملا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے اعزہ کی پیش کش کو ترجیح دی اور فلوریڈا منتقل ہو گئے۔ افسوس پاکستان ان کے اس آخری دور میں ان کی خدمت کی سعادت سے محروم رہا۔ ۲۰۰۲ء کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک صدی (۹۵ سال) اس عالم ناپایدار میں گزار کر‘ علم و دعوت کی سیکڑوں شمعیں روشن کر کے‘ اللہ کا یہ بندہ اپنے رب کی طرف مراجعت کر گیا تاکہ عبادالرحمن کے ابدی مسکن کو پا لے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری لغزشوں سے صرفِ نظر کرے اور انھیں جنت کی بہترین وادیوں میں جگہ دے ع
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سوال: میں جماعت اسلامی کی کارکن ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر شوہر کی رضامندی نہ ہو کہ اُس کی بیوی جماعت میں کام کرے تو وہ بیوی کیا کرے؟ میری ساس خود بھی دعوت کا کام سرگرمی سے کرتی رہی ہیں لیکن اب مزاحم ہیں۔ وہ اور میرے میاں کوشش کرتے ہیں کہ میں گھر کے کاموں میں ہی مصروف رہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک کارکن (لڑکی) کو اُس کی ساس اور اُس کے میاں گھر کے کاموں میں ہی مسلسل مصروف رکھنے کی کوشش کریں تو بیوی کہاں تک تابعداری کرے؟ ایک بیوی اپنے شوہر یا اپنے رب کی ناراضی میں سے کس چیز سے ڈرے؟ میرے ابھی بچے نہیں ہیں‘ لہٰذا میں یہ چاہتی ہوں کہ جتنا کام ہو سکے ابھی کر لوں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میری عمر بھی کام کرنے کی ہے۔ میری رہنمائی فرمایئے۔
جواب: اسلام کے نظم اجتماعی اور معاشرتی نظام میں اخلاق کی بنیادی اہمیت ہے۔ دونوں نظاموں میں ہر وہ کام مطلوب اور جائز ہوتا ہے جو اخلاق کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایک کارکن کے لیے نظم کے کسی فیصلے کی اطاعت ایمان کے تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ قرآن و حدیث نے اولی الامر کی ہر اس بات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے حکم کے مطابق ہو۔ یہی شکل معاشرتی نظام میں ہے۔ گھر میں ذمہ دار فرد سربراہ خاندان‘ یعنی بیوی کے لیے شوہر اور بچوں کے لیے والدین قرار پائیں گے۔ ایک بیوی شوہر کی ان تمام خواہشات کو پورا کرنا چاہے گی جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔ یہی مطلب ہے اس کی رضامندی کا‘ اور یہی مفہوم ہے اس حدیث کا جس میں کہا گیا ہے کہ لاطاعۃ المخلوق فی معصیۃ الخالق (اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اب یہ بات تو آغاز ہی میں طے ہوگئی کہ شوہر کی رضامندی سے مراد ہر الٹی سیدھی خواہش نہیں ہے بلکہ ہر وہ خواہش ہے جس کے لیے بنیاد اور دلیل قرآن وسنت میں موجود ہو‘ مثلاً اگر شوہر یہ کہے کہ بغیر حجاب اس کے ساتھ کسی مخلوط پارٹی میں شرکت کی جائے تو یہ خواہش قرآن و سنت دونوں سے متصادم ہے۔ اگر شوہر کی اطاعت اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں انتخاب ہو تو بیوی ہی کو نہیں خود شوہر کو اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے بیوی سے اپنی بندگی کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اللہ اور رسولؐ دونوں کی ناراضی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
جماعت اسلامی میں کام کا واضح مفہوم دعوت دین ہے۔ دعوت دین ایک خاتون کارکن مختلف شکلوں میں دے سکتی ہے۔ اپنے محلے میں‘ کسی اسکول یا تنظیم کی خواتین کے ساتھ حلقہ درس قرآن کے ذریعے اور دینی موضوعات پر تبادلۂ خیال کرکے‘ یا کسی بستی میں فلاحی کام کرکے‘ یا اپنے ہی گھر میں شوہر‘ ساس‘نند یا جو بھی اہل خانہ ہوں ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرکے اور خود شوہر کو حکمت کے ساتھ دعوت کے قریب لا کر کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کھانے کے دوران یہ تجویز رکھیں کہ چھٹی کے دن گھر کے تمام افراد نصف گھنٹے کے لیے ساتھ بیٹھ کر قرآن کریم کی چند آیات ترجمے کے ساتھ مطالعہ کریں اور آغاز آپ کے شوہر کریں‘ یا آپ کی ساس یا نند کریں تو خود بخود ترجمہ سننے کے دوران کوئی سوال ایسا اٹھے گا جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے آپ کو کسی تفسیر کا حاشیہ پڑھنا پڑے گا۔ فرض کیجیے کہ آپ نے تفہیم القرآن‘ تدبر قرآن‘ معارف القرآن‘ فی ظلال القرآن یا کسی بھی تفسیر کو اس غرض کے لیے بنیاد بنایا اور خود آپ کے شوہر نے وہ حاشیہ پڑھ کر سنایا تو اسی کا نام دعوت دین اور جماعت اسلامی کا کام ہے۔
یہ کام گھر سے باہر جائے بغیر گھر ہی میں ہو سکتا ہے۔ یہ کام صرف تین ماہ کر لیجیے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کے شوہر اور ساس خود آپ سے کہیں گے کہ بیٹی‘ اگر اللہ نے تمھیں دوسروں کو بات سمجھانے کی صلاحیت دی ہے اور تم ہماری وجہ سے اس کا استعمال نہیں کرو گی تو جواب دہی ہم سے بھی ہوگی کہ تمھیں اس کام سے کیوں روکا۔
دعوت دین کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے گھر میں درس قرآن کا حلقہ قائم کر لیجیے۔ اس طرح دیگر خواتین کے ساتھ ساتھ آپ کے اہل خانہ کو بھی شرکت کا موقع ملے گا۔ آپ بھی کبھی درس دے سکیں گی۔ اس طرح دعوت کا کام بھی ہو جائے گا اور اہل خانہ بھی قرآن سے اثر لیں گے اور وہ مزاحمت نہ ہوگی۔
دعوت دین‘ امر بالمعروف ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے اور شوہر اور بیوی دونوں پر یکساں طور پر عائد ہوتا ہے۔ اگر اس کا شعور اس وقت آپ کے شوہر کو نہیں ہے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ حکمت کے ساتھ انھیں متوجہ کرتی رہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی دے گا۔ ان شاء اللہ!
ممکن ہے کہ ان کی والدہ نے دعوتی کام میں زیادہ مصروفیت کی وجہ سے خود ان پر توجہ نہ دی ہو جس کے ردعمل کے طور پر وہ آپ کو دعوتی کام میں زیادہ مشغول نہ دیکھنا چاہتے ہوں۔ اس کا حل صرف اور صرف صبرواستقامت اور حکمت کے ساتھ مستقل مزاجی سے اچھے اخلاق اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنا کام کرتے رہنا ہے۔
اگر انتخاب رب کی ناراضی یا شوہر کی ناراضی میں ہو تو اسلام کا اصول واضح ہے کہ رب کو کسی شکل میں بھی ناراض نہ کیا جائے اور شوہر کو محبت و احترام سے یہ بات سمجھائی جائے۔
اگر شوہر اور ساس جان بوجھ کر دعوتی کام سے دُور رکھنے کے لیے گھریلو کاموں میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں حکمت کے ساتھ ان کی غلطی سے آگاہ کریں۔ اس معاملے کو براہِ راست ٹکرائو اور گرما گرم جنگ کی شکل نہ بننے دیں۔ حکمت کے ساتھ مسلسل کوشش کریں۔ اگر اس کے باوجود آپ کو دعوتی کام کرنے کی فرصت نہ مل سکے تو جو گھریلو کام بھی آپ نے اس دوران کیا ہے اس کا اجر دعوتی کام کے برابر ہی آپ کو ملے گا کیونکہ دین میں آپ کی نیت اور آپ کا اخلاص ہی اجر کی بنیاد ہے۔ دو تین ماہ صبر کے ساتھ اور حکمت سے کوشش کیجیے‘ ان شاء اللہ آپ کے شوہر بھی آپ کی طرح کارکن بن جائیں گے۔ فی الوقت گھر کے ماحول کو پُرسکون اور مودت و رحمت سے معمور کیجیے۔ یہی دعوتی حکمت کا تقاضا ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)
س: ایک پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا افہام و تفہیم کے لیے ملنا جلنا اور تبادلۂ خیالات کوئی زیادہ بری چیز نہیں۔ اس کے خیال میں قباحت تو لازم ہے مگر خلوصِ نیت اور مقاصد کی بلندی کے پیشِ نظر ’’چھوٹی برائی والا نظریہ‘‘ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مخصوص حالات میں اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے جھوٹ اور حرام تک جائز ہے تو پھر خوش گوار ازدواجی زندگی کے نقطۂ نظر سے لڑکے اور لڑکی کا تنہا ملنا جلنا کیوں جائز نہیں‘ جب کہ والدین بھی صورت حال سے آگاہ ہوں اور رضامند ہوں۔ براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کیجیے کہ شادی سے پہلے فریقین کے لیے کم سے کم حدود کا تعین کیا ہے؟
ج: شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی کا ’’افہام و تفہیم کے لیے ملنا جلنا‘‘اور ’’بالغ ذہنی‘‘ اور کسی نفسانی جذبات سے بلند ہو کر باہم تبادلۂ خیال کرنا بظاہر بہت معصوم اور بے ضرر سی بات نظر آتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام اہل ایمان کے درمیان حُسنِ ظن ہی کو اصل اور مثبت بنیاد قرار دیتا ہے اور سوء ظن سے منع کرتا ہے لیکن بات صرف یہ نہیں ہے کہ کتنی اچھی نیت کے ساتھ یہ بات چیت کی جا رہی ہے۔ ایک ایسا کام جو بجائے خود غلط ہو‘ نیک نیتی اور بالغ نظری کے ساتھ کرنے سے درست نہیں بن سکتا۔ اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلام کے اخلاقی نظام میں غیرمحرموں کے درمیان تنہائی یا خلوت کے بارے میں کیا حکم پایا جاتا ہے۔
ہمارا عام مشاہدہ یہی ہے کہ روایتی معاشروں میں شادیاں عموماً خاندان یا برادری ہی میں ہوتی ہیں اور چونکہ خاندان کے افراد ایک دوسرے کے مزاج اور پسند ناپسند سے واقف ہوتے ہیں اس لیے شادی سے قبل یہ ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ لڑکے یا لڑکی کا تفصیلی انٹرویو یا اس کے ساتھ ایک تحقیقاتی ملاقات کرنے کے بعد رشتے کے مناسب ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ شہری معاشروں میں جہاں پہلے سے واقفیت نہیں پائی جاتی‘ یہ سوال اٹھتا ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی قبل از نکاح ملاقات کہاں تک ایک دوسرے کو پسند ناپسند اور مزاج سے واقف کرنے میں مفید ہوسکتی ہے۔
نفسیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو شادی جیسے اہم اور نازک معاملے میں اس نوعیت کی ملاقات عموماً انتہائی مصنوعی اور غیرحقیقی ماحول میں ہوگی۔ ایک لڑکی ہی نہیں‘ لڑکا بھی جب اس صورتِ حال میں ہو تو معلومات کا تبادلہ مصنوعی ہی ہوگا اور اصل چہرہ ہمیشہ چھپا رہے گا۔
جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے‘ اسلام دین فطرت ہونے کے سبب انسانی زندگی کے تمام معاملات کو ایک اخلاقی ضابطے (مقاصدِ شریعہ) کی روشنی میں طے کرتا ہے۔ سب سے پہلے وہ نکاح کو محض ایک مادی ضرورت نہیں سمجھتا بلکہ اسے تکمیلِ ایمان کا ذریعہ قرار دیتاہے۔مجرد افراد کے نکاح کروانے کو ریاست اور افرادِ معاشرہ کی ایک ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ ساتھ ہی ایک لڑکی کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار آزادانہ طور پر کرسکے اور اگر اس کی مرضی کے خلاف نکاح کر دیا جائے تو اسے فسخ کروا سکے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس رشتۂ مودت و رحمت کے وجود میں آنے سے قبل اگر لڑکا لڑکی کے چہرے کو دیکھنا چاہتا ہو تو اسے یہ حق حاصل ہو۔ حدیث شریف میں واضح طور پر مثال ملتی ہے کہ ایک ایسے قبیلے کی لڑکی کے رشتے کے بارے میں جس میں عموماً لڑکیوں کی آنکھ میں کوئی عیب پایا جاتا تھا حضور نبی کریمؐ نے ایک صحابی ؓ کو یہ اجازت دی کہ وہ شادی سے قبل لڑکی کا چہرہ ایک نظر دیکھ لیں۔ اس حدیث کے مفہوم کو وسعت دیتے ہوئے یہ قیاس کرنا کہ نہ صرف چہرہ بلکہ مفصل ملاقاتیں تحقیق مزاج کے لیے کرلی جائیں‘ شارع علیہ السلام کی اجازت کا بالکل ناجائز استعمال ہوگا۔
جہاں تک سوال ’’کم تر برائی‘‘ کا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ شیطان اپنے تمام وار اسی راستے سے کرتا ہے کہ یہ تو کوئی ایسی حرام بات نہیں ہے چاہے اس میں کراہیت پائی جائے۔ اسی طرح وہ مکمل حرام تک پہنچاتا ہے۔ جو دین غض بصر‘ نفس صوت‘ چلنے کے آداب‘ سوال کا جواب دینے کے آداب وحی الٰہی کے ذریعے متعین کر دیتا ہو اور شارع علیہ السلام کے ذریعے غیرمحرموں کے تنہائی میں ایک چھت کے نیچے بیٹھنے کو حرام قرار دیتا ہو‘ اس میں یہ گنجایش نکالنا دین کے ساتھ زیادتی ہے۔ بجائے ’’کم تر برائی‘‘ میں پڑنے کے کیوں نہ بھلے طریقوں کو اختیار کیا جائے کہ ایک نوجوان جن افراد پر پورا اعتماد کرتا ہو‘ مثلاً اس کی والدہ‘ بہن‘ خالہ‘ پھوپھی یا بھاوج یا کوئی اور قریبی عزیز خاتون‘ اس کے ذریعے لڑکی کے بارے میں جو معلومات درکار ہوں ان کی تحقیق کرلے اور ساتھ ہی استخارہ کرکے دل کو یکسو کرلے۔ اچھی نیت کے ساتھ ایک ممنوع کام کرنا‘ اسلام کے اخلاقی ضابطے کے منافی ہے۔ adjustment کے جو مراحل نکاح کے بعد ہرشادی شدہ جوڑے کو پیش آتے ہیں انھیں نکاح سے قبل گزار لینے کی خواہش نہ مسئلے کا حل ہے اور نہ شادی کو زیادہ خوش گوار بنانے میں مدد کرتا ہے۔
مغربی تہذیب میں dating کا رواج اسی غرض سے عام ہوا کہ شادی سے قبل محض ایک دوسرے کو جاننے کے لیے معصوم سی ملاقات کر لی جائے۔ لیکن یہی مغربی تہذیب میں فساد‘ فحاشی‘ اخلاقی بے راہ روی اور بداخلاقی کا ذریعہ بن گیا۔ انسان وہی ہے جو دوسروں کی غلطیوں سے سبق لے اور شیطان کے بہکاوے میں نہ آئے۔ (۱ - ۱ )
کتاب و سنت کے ذخیرے میں جن امور پر سب سے زیادہ توجہ دلائی گئی ہے‘ ان میں سے ایک‘ اسلامی ریاست میں انصاف پروری اور عدل گستری کا پہلو ہے۔ اس عادلانہ نظام کے قیام کے لیے جو اولیں ادارہ تشکیل دیا گیا اور اس میں قاضیوں کا تقرر ہوا‘ اس کا تعلق عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ آپؐ کے یہ فیصلے (اقضیہ) اور احکام حدیث کے مجموعوں کے مختلف حصوںمیں منقسم اور منتشر تھے۔ حتیٰ کہ پانچویں صدی ہجری میں اسلامی اندلس کے ایک نامور فقیہ اور محدث نے سب سے پہلے ان احکام و قضایا کو ہزاروں حدیثوں میں سے تلاش کر کے جمع کیا‘ جنھیں ڈاکٹر محمد ضیا الرحمن اعظمی نے ۱۹۷۳ء میں جامعہ ازہر (مصر) کے ایک ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے مرتب کیا اور اس تحقیقی کام پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
ڈاکٹر اعظمی ۱۹۴۳ء میں اعظم گڑھ کے ایک ممتاز ہندو خاندان میں پیدا ہوئے‘ ۱۹۶۰ء میں اسلام قبول کیا۔ طرح طرح کے مصائب و شدائد کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ استقامت کے ساتھ راہِ حق پر قائم رہے۔ بھارت کے مختلف دینی اداروں سے فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ سے تحصیل علم کرتے رہے۔ بالآخر‘ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ہی میں استاد الحدیث کے منصب سے ریٹائر ہوئے اور آج کل سعودیہ ہی میں اپنے مختلف علمی اور تحقیقی منصوبوں میں مصروف ہیں۔
اسلام میں عدل و انصاف کی اساس کتاب و سنت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ کتاب اللہ کے احکام عدل تو احکام القرآن کی صورتوں میں متعدد فقہا نے جمع کیے ہیں ‘ مگر احادیث رسولؐ سے عدالتی نظائر کا یہ پہلا مستند اور معتبر مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر اعظمی نے اس میں تمام تر احادیث کی تخریج کر دی ہے۔ جرح و تعدیل کے حوالے سے‘ ہر روایت کی صحت و عدم صحت پر بھی بحث کی ہے۔ مختلف احادیث سے مستنبط ہونے والے احکام اور ان کے بارے میں مختلف فقہی مسالک کے اختلافات اور آرا کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ آخر میں ’’استدراکات ‘‘کے عنوان سے اصل مخطوطے میں ان اقضیہ کا اضافہ کیا گیا ہے جو فاضل محقق نے دوران تحقیق دریافت کیے۔ تحقیقی مقالے کی نسبت سے مجموعے کے آخر میں عنوانات‘ اعلام اور مراجع و مصادر کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں۔
اس مجموعہ احکام و قضایا میں کتاب الحدود پر ۱۷‘ کتاب الجہاد پر ۱۰‘ کتاب النکاح پر ۱۰‘ کتاب الطلاق پر ۱۰‘ کتاب البیوع پر ۴‘ کتاب الاقضیہ پر ۴‘ اور کتاب الوصایا پر ۲۵ فیصلے جمع کیے گئے ہیں۔ فاضل محقق نے کتاب الحدود والآیات پر مزید ۱۸‘ کتاب الجہاد پر ۴‘ کتاب النکاح والطلاق پر ۱۰‘ کتاب البیوع پر ۷۶‘ کتاب الحسبہ پر ایک‘ کتاب القضا پر ۶ اور کتاب الفرائض والعتق پر ۱۷‘ احکام و قضایا کا اضافہ کر کے اصل کتاب کی قدروقیمت میں اور اضافہ کر دیا ہے۔
اس عظیم کتاب کا ترجمہ مولانا غلام احمد حریری جیسے فاضل مترجم نے کیا ہے۔ یہ کتاب ان تمام طلبہ ‘ اساتذہ‘ علما‘ ماہرین قانون‘ وکلا اور جج حضرات کے لیے مفید اور ناگزیر ہے جو اسلام کے نظام عدل سے دلچسپی اور اس کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ کتاب عمدہ معیار طباعت پر شائع کی گئی ہے۔ (عبدالجبار شاکر)
لغت نویس نے عربی کے ایسے الفاظ اور تراکیب کو جمع کیا ہے جو اردو میں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ بھی بتا دیا ہے کہ کوئی لفظ یا ترکیب مذکر ہے یا مونث‘ اس کا معنیٰ کیا ہے اور کیا اُردو میں بھی اس کا وہی مفہوم لیا جاتا ہے جو عربی میں ہے یا اُس سے کچھ مختلف۔ لغت نویس نے کہیں کہیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ اردو والے بعض الفاظ کا تلفظ عربی سے مختلف کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سمیر‘ اگرچہ کئی سال اپنے ڈاکٹریٹ کے سلسلے میںلاہور رہے ہیں (ان کا مقالہ ابھی تک چھپا نہیں) مگر تلفظ کے سلسلے میں ان کی رائے محض ذاتی محدود مشاہدے پر مبنی ہے‘ مثلاً ان کے مطابق اردو والوں کا تلفظ اس طرح ہے: ہرفی ندا (حرفِ ندا)‘ ہرفو ہکایت (حرف و حکایت)‘ ہرمین (حرمین)‘ انفرادی سولہ (انفرادی صلح) آساروس سنادید (آثار الصنادید) لہو و لئب (لہو ولعب) لیلۃ ہو القدر (لیلۃ القدر)۔ اس طرح کی مثالوں سے وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ اُردو والے: ح اور ہ‘ ث‘ س اور ص‘ ض‘ ظ اور ذ جیسے الفاظ میں تمیزنہیں کرتے۔ ظاہر ہے یہ تاثر اور رائے ناانصافی اور معلومات کی کمی پر مبنی ہے۔
اُردو میں بعض ایسی تراکیب ہیں جو مخصوص معنی رکھتی ہیں۔ لغت نویس نے ان کی بھی نشان دہی کر دی ہے۔ ’’لسان العصر‘‘اکبر الٰہ آبادی کا اور ’’لسان الغیب‘‘حافظ شیرازی کا لقب ہے۔ ڈاکٹر سمیر نے ’’آثار الصنادید‘‘ کے تحت فقط اس کے لغوی معنی بتائے ہیں۔ لغوی معنوں میں یہ ترکیب اُردو والوں کے ہاں استعمال نہیں ہوتی۔ اس سے زیادہ ضروری تویہ بتانا تھا کہ یہ سرسیداحمد خان کی ایک معروف تصنیف کا نام ہے۔ لغت میں اس طرح کے متعدد مقامات و نکات ہیں جن پر نگاہ اٹکتی ہے اور ان پر بحث کی گنجایش موجود ہے۔
بہرحال مصنف نے خاصی محنت کی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو نے کتنے بڑے پیمانے پر عربی کے اثرات قبول کیے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو خوشی سے اس کا استقبال کیا جاتا ہے۔ دنیا میں پہلا سانس لیتے ہی وہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ بلاشبہہ افراد کو سماجی اور خاندانی طور پر حوصلہ افزائی اور تعاون بھی ملتا ہے‘ کم و بیش تمام ہی افراد کو اپنے اپنے دائرے میں یہ سہارے ملتے ہیں‘ مگر اُن کی زندگی پر شخصیت‘ ایسی شخصیت کا گمان نہیں ہوتا کہ جو اپنے ماحول میں کوئی اَنمٹ نقش چھوڑ رہا ہو۔
زیرنظر کتاب کے مرتبین نے گذشتہ ایک ہزار برس کے دوران‘ لاہور شہر کے دامن میں آسودۂ خاک ہونے والے ایک سو افراد کے مختصر تعارف‘ خدمات اور امتیازی حیثیتوں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ بلااکتاہٹ‘ قاری کتاب پڑھتا چلا جاتا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اختلافی نکات کو نہ اٹھایا جائے اور شخصیت کا مثبت نقش ہی نمایاں ہو۔ ہمارا خیال ہے کہ اس پہلو سے یہ ایک کامیاب کتاب ہے۔ یہ صوفیا‘ علما‘ جرنیلوں‘ سیاست دانوں‘ اساتذہ‘ سماجی افراد‘ دانش وروں‘ مصوروں‘ خطاطوں اور کھلاڑیوں وغیرہ کا ایک مفید تذکرہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)
ایک حدیث نبویؐ کے مطابق صحابہ کرامؓ اُمت محمدیہؐ کے بہترین لوگ ہیں--- اور ان کے بعد تابعین عظام کا درجہ ہے۔ تابعینؒ کے بارے میں رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی (کامیابی کی) خوشخبری ہے۔
اس کتاب میں ۲۹ جلیل القدر تابعینؒ کا تذکرہ شامل ہے جن میں سے بعض تو اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کی تاریخ میں بہت نامور ہوئے ہیں‘ مثلاً عطا بن ابی رواحؒ، عروہ بن زبیرؒ، حسن بصریؒ، قاضی شریح ؒ،رجا بن حیوہؒ، سعید بن مسیبؒ،عمر بن عبدالعزیزؒ،احنف بن قیسؒ اور امام ابوحنیفہؒ وغیرہ۔
مصنف نے تابعین کی سوانح نہیں لکھی‘ نہ ان کی حیاتِ مستعار کے سنین وار کوائف سے تعرض کیا ہے بلکہ ان کے طرزعمل‘ بعض واقعات یا چند رویوں کی روشنی میں ان کی سیرت کے پُرتاثیرپیکر تراشے ہیں۔ یہی انفرادی خصائص کسی شخصیت کے کردار کو عام انسانوں کے درمیان منفرد‘ تابناک اور زندئہ جاوید بناتے ہیں۔ چنانچہ ان کی حیاتِ جاوداں آج صدیوں بعد بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان ۲۹ کرداروں میں طرح طرح کے نمونے ملتے ہیں۔ کوئی حق گوئی و بے باکی کا نمونہ ہے‘ کوئی مجسم تقویٰ ہے‘ کسی نے کفار کے خلاف جہاد و معرکہ آرائی کو شعار حیات بنا لیا ہے‘ کسی نے علم و تعلم کی دنیا آباد کر رکھی ہے اور کسی نے قرآن و سنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ کسی کی پوری عمر تفقہ فی الدین میں گزر گئی۔ مگر ایک بات ان سب میں مشترک ہے کہ دنیا انھیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ فقیرمنش‘ غیور‘ خوددار‘ بوریا نشین‘ ان کی نظر آخرت پر تھی اور ساری زندگی آخرت کی تیاری ہی میں گزری۔
یہ لوگ‘ اپنے کردار کی کوئی ایک نہ ایک نمایاں جہت رکھنے کے باوجود‘ یک رُخے نہیں تھے بلکہ ان کے اندر دین و دنیا کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تشریح و تعبیر اور اسلامی کردار کی جو عمدہ روایات صحابہؓ اور پھر تابعینؒ نے قائم کی ہیں‘ ہم آج تک ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
اصل کتاب کے مصنف ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا ہیں لیکن مترجم اور نہ ناشر نے بتایا کہ پاشا مرحوم کون تھے؟ کس ملک یا خطے کے باشندے تھے؟ کس زمانے کے آدمی تھے؟ ان کا علمی مقام و مرتبہ اور کارنامہ کیا ہے؟ غریب مصنف کا تعارف ایک آدھ صفحے میں دینا مناسب تھا۔
ارشاد الرحمن ایک پختہ کار صاحب ِقلم اور منجھے ہوئے مترجم ہیں۔ ان کا ترجمہ بالکل‘ طبع زاد تحریر معلوم ہوتا ہے (مگر اصل کتاب کا نام کیا یہی ہے یا کچھ اور؟)۔ یہ ایک بہت اچھی کتاب ہے۔ سیرت اور تاریخ و رجال کی جامع--- آپ اسے کسی کو سچی‘ اثرانگیز اور دل چسپ کہانیوں کی کتاب کے طور پر تحفے میں دیں تو مضائقہ نہیں۔ (ر - ہ)
وہ نوجوان محمد بن قاسم کی سرزمین‘سندھ کے ماتھے کا جھومر ہیں جنھوں نے تعلیمی زندگی کو خیرباد کہہ کر جہاد و شہادت کے راستے کو چنا اور آخرت کی لازوال نعمتوں کے حق دار ٹھہرے۔ ایک ایسے دور میں کہ جب منافقت ہی سب سے مقبول چلن بن چکا ہے‘ اور بڑے بڑے سپہ سالار ’’ایک فون‘‘ پر ادب سے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں وہاں ایسے نوجوان قابلِ تحسین ہیں جو خوب صورت مستقبل کے حسین خوابوں کو فراموش کرکے تلواروں کے سائے میں دادِ شجاعت دینے کے لیے افغانستان اور کشمیر پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح اُمت کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اس قوم کو عروج کے راستے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
لبیب عباد شہید میرپور خاص میں پیدا ہوئے ‘کراچی میں زیرتعلیم رہے‘ ۱۹۸۸ء میں افغان جہاد میں شریک ہوئے اور ۲۷ اپریل ۱۹۹۲ء کو تپہ نادر شاہ میں دوستم ملیشیا سے لڑائی میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔
اس کتاب میں‘ لبیب عباد صدیقی کے چچا ابوطیب صدیقی نے اس خاندان کے حالات‘ شہید کے بچپن کے حالات‘ اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت‘ جہادی تربیت اور مختلف معرکوں کی تفصیلات بیان کی ہیں‘ علاوہ ازیں جہاد میں اُن کے ساتھ شریک اور مختلف معرکوں میں دادِشجاعت دینے والے کمانڈروں اور مجاہدین کے تاثراتی مضامین اور قریبی اعزہ کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں لبیب عباد شہید کی عزم اور جدوجہد سے بھرپور زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ ضرورت ہے ایسے نوجوانوں کو ’’مثالی نوجوان‘‘ قرار دے کر ان کی زندگی کو قومی تاریخ کا حصہ بنایا جائے۔ طباعت و اشاعت انتہائی معیاری اور دیدہ زیب ہے۔ کاغذ عمدہ استعمال کیا گیا ہے۔ قیمت قابل تعریف حد تک کم ہے۔ جہاد‘ شہادت اور افغانستان جیسے موضوعات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک قابل قدر تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)
اس مجموعے میں کئی طرح کی تحریریں شامل ہیں: افسانہ‘ انشائیہ‘ شخصیہ اور معاشرتی و دعوتی مضمون وغیرہ۔ یہ سب تحریریں اخلاقی اور اصلاحی رنگ لیے ہوئے ہیں اور ’’مقصدیت سے معمور‘‘ ہیں۔ تقدیم از ڈاکٹر اسرار ‘احمد جملہ تحریریں ایک تعمیری‘ دینی اور تحریکی ذہن کی تخلیق ہیں‘ اور ان کا اسلوب سادہ اور پُرتاثیر ہے۔
حمیرا عبدالرحمن (بنت قاضی عبدالقادر) وقتاً فوقتاً جو کچھ لکھتی رہی ہیں‘ اُسے ان کے والد محترم نے جمع کرکے چھپوا دیا ہے تاکہ بیٹی کو ’’سرپرائز‘‘ دیا جا سکے۔ کتاب کا دیباچہ عائشہ منور صاحبہ کے قلم سے ہے جنھوں نے بتایا ہے کہ یہ تحریریں حمیرا کے دورِ طالب علمی کی ہیں۔ ان کے بقول ’’حمیرا کو قدرت نے دردمند دل اور شعورکشا ذہن عطا کیا ہے اور مشاہدے اور مطالعے نے ] ان[ تحریروں میں ایک وقار پیدا کیا ہے‘‘۔
کتاب خوب صورت چھپی ہے۔ اہتمام اشاعت نور اسلام اکیڈمی ماڈل ٹائون‘ لاہور نے کیا ہے۔ (ر-ہ)
یہ تقریباً ایک سو سال پرانا لغت ہے‘ جسے ممتاز ماہر لغت جناب محمد احسن خاں کی نظرثانی کے بعد دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ اس میں عورتوں کے محاورے اور روز مرہ جمع کیے گئے ہیں اور ان کے معانی کے ساتھ جملوں میں ان کا استعمال بھی اس طرح کیا گیا ہے کہ مفہوم پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔
زیرنظر ایڈیشن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نظرثانی میں کچھ اضافہ بھی کیا گیا ہے یا نہیں۔ ابتدا میں ایک مختصر مقدمے کی کمی محسوس ہوتی ہے‘ جس میں اس لغت کے مصنف کا مختصر تعارف دیا جاتا اور اندازہ ہوتا کہ لغت نویس ہندستان کے کس علاقے کے رہنے والے تھے؟ اس سے لغت کی بہتر تفہیم میں مدد ملتی۔ اگر اولین ایڈیشن کا سرورق اور دیباچہ بھی دے دیا جاتا تو اور بہتر تھا۔ بہرحال موجودہ صورتِ حال میں بھی یہ افادیت سے خالی نہیں ہے۔ امید ہے اس سے شائقین اور ضرورت مند استفادہ کریں گے۔
ناشر نے بتایا ہے کہ وہ بعض دوسری قدیم لغات کو بھی چھاپنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امید ہے وہ ان کی اشاعت میں متذکرہ بالا معروضات کا خیال رکھیں گے۔ (ر- ہ)
’’قرآن پاک کا موضوع‘‘ (دسمبر۲۰۰۲ئ) ایک بڑی قابل قدر اور نتیجہ خیز تحریر ہے۔ ڈاکٹر محموداحمد غازی صاحب نے اس موضوع کے تمام پہلوئوں کو نمایاں کر کے پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مضمون پڑھنے کے بعد پہلا تاثر یہ ملتا ہے کہ تمام نیک اور قابل ثواب کاموں کا اجر مادی چیزوں اور امن و امان کا حصول ہے۔ دنیا میں گویا چھ چیزوں کا حصول یقینی ہوتا ہے‘ جب کہ آخرت میں سات اشیا نصیب ہوتی ہیں۔ اسلام پر حکومت کی شکل میں عمل درآمد کے نتیجے میں عوام کو روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘علاج‘ تعلیم‘ شادی اور امن کی سہولت ہوتی ہے جن کا ہر مسلم اور غیرمسلم دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے‘ جب کہ آخرت میں مخلص مسلمانوں کے لیے صحت یاب اور دائمی زندگی کی ضمانت بھی ان کے علاوہ ہے۔ یہ مضمون غیرمحسوس طریقے سے ایک قاری کے دل میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ اللہ کرے زورقلم اور ہو!
’’حج کی تیاری‘‘ (دسمبر ۲۰۰۲ئ) میں نائیجیریا کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ دوسرے حج کے لیے لوگ مکہ ہی میں ٹھہر جاتے تھے۔ گذشتہ دنوں مراد ہوف مین کی Journey to Islam جو ان کی ۱۹۵۱ء سے ۲۰۰۱ء کی ڈائری ہے پڑھنے کا موقع ملا۔ حج کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’یہاں مراکش میں لوگوں کو خوب اچھی طرح یاد ہے کہ مکہ آنے جانے کا ۱۲ ہزار کلومیٹر کا سفر کتنا خطرناک ہوتا تھا۔ جیٹ کے زمانے سے پہلے اس میں ایک سال لگ جاتا تھا اور عام طور پر اس سفر سے واپسی نہ ہوتی تھی‘‘۔ (ص ۱۹۵)
’’حکمت دین‘‘ (دسمبر ۲۰۰۲ئ) میں بہت کام کی باتیں آگئی ہیں۔ بس تمنا ہی کی جا سکتی ہے کہ دین کے علم بردار حکمت کے یہ پہلو عملاً اختیار کریں۔ عام تاثر اور مشاہدہ تو یہ ہے کہ دینی لوگ تنگ نظر‘ متشدد‘ دوسری رائے کو تسلیم نہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس پر غور ہونا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ دین میں تو ایسی کوئی بنیاد نہیں۔ کیا ہمارے ہاں دین کی تعلیم اس طرح دی جاتی ہے کہ یہ بات پیدا ہو جاتی ہے؟
’’حکمت مودودی‘‘ کے تحت مولانا مودودیؒ کے افکار کا عمدہ انتخاب دیکھنے کو ملتا ہے لیکن بسااوقات بہت پتے کی چیز سامنے آجاتی ہے۔ ’’منشورعمل‘‘ (دسمبر ۲۰۰۲ئ) پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوا۔ اگر اس منصوبۂ عمل پر عمل درآمد کیا جائے تو بہت جلد معاشرتی بگاڑ کا سدباب ہو‘ ایک تحریک مزاحمت سامنے آ جائے اور اصلاح اور خیرخواہی کی ایک نئی روح قوم میں دوڑنے لگے۔مولانا مودودیؒ تو ایک مدت ہوئی نسخہ بتاگئے لیکن اس منشور پر کس حد تک عمل درآمد کیا جاتا ہے؟
’’جنرل مشرف اور پارلیمنٹ کا امتحان‘‘ (دسمبر ۲۰۰۲ئ) کے حوالے سے عرض ہے کہ عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے ارباب اقتدار کو اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عائد کرنا ہوں گی اور دوستوں کو ناراض کرنا ہوگا۔ اسی طرح نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کرنا ضروری ہے‘ لیکن جو قوانین موجود ہیں ان کے حقیقی نفاذ کے لیے تدابیربھی کرنی چاہییں۔
معروف شیرازی صاحب نے تحریر فرمایا تھا کہ ترتیب نزولی کے مطابق "The Story of the Quran" لکھ رہا ہوں… (’’مدیر کے نام‘‘ ،اکتوبر۲۰۰۲ئ)۔ میرا خیال ہے کہ ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو مرتب کرنا‘ یہودیوں اور دوسرے اعداے قرآن کے لیے تحریف کی طرف ایک روزن کھولنے کے مترادف ہے۔ اگر ترتیب نزولی میں بعد کے زمانوں کے لیے کوئی افادیت ہوتی تو رسول کریمؐ ضرور اس کو محفوظ کرنے کا حکم دیتے۔ رسول کریمؐ کی موجودہ ترتیب ہی اصل ترتیب ہے اور یہ وحی الٰہی اور ہدایت رسولؐ کے عین مطابق ہے۔ خود رسول کریمؐ نے قرآن کو اس ترتیب سے اللہ کے حکم کے مطابق لکھوایا تھا۔ اگر کسی مسلمان کو کسی بھی زبان میں قرآن کی تفسیر یا شرح لکھنی ہے تو اس کو موجودہ ترتیب ہی پر ایمان لاکر اس کے مطابق لکھنا چاہیے۔ حتمی رائے تو کتاب دیکھ کر ہی ظاہر کی جا سکتی ہے۔ ایک نکتہ میرے ذہن میں کھٹک پیدا کر رہا تھا‘ وہ حوالۂ قرطاس کر دیا۔ واللّٰہ یھدی الی سواء السبیل۔
قومی کیرکٹر ہر قوم کی زندگی میں اس کی مادی دولتوں سے کہیں بڑھ کر بیش قیمت ہوتا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کی اسلامی سیرت‘بڑی سے بڑی اسلامی سلطنت اور بڑے سے بڑے قومی ادارہ اور زیادہ سے زیادہ قومی ترقی اور اقتصادی خوش حالی سے زیادہ قیمت رکھتی ہے۔ کسی بڑی سے بڑی قیمت اور عظیم سے عظیم بدل پر بھی اس کے نقصان یا زوال کو گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس پر زوال آگیا یا اس میں کچھ غلط تبدیلی واقع ہوگئی تو بڑی سے بڑی مادی کامیابی اور فتح سے اس کا کفارہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تبدیلی مختلف تاریخی وسیاسی و تعلیمی و تہذیبی اسباب‘ بعض موثر اور اشتعال انگیز حالات و واقعات اور زیادہ ترقیادت کی کمزوری سے صدیوں میں پیش آتی ہے…
ایک نہایت اہم اور گہری اور انقلاب انگیز تبدیلی جو مسلمانوں کی ذہنیت و نفسیات میں اس پچاس سال کے اندر اندر واقع ہوئی ہے‘ وہ یہ ہے کہ آخرت پر ایمان عملاً کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے--- اس سے مسلمان ایک بااصول‘ بلنداخلاق‘ پختہ سیرت جماعت کے بلند مقام سے گر کر ایک بے اصول‘ ناقابلِ اعتبار‘ ابن الوقت اورمصلحت پرست قوم کی ادنیٰ سطح پر آتے جا رہے ہیں جس کے سامنے کوئی اخلاقی معیار نہیں ہے بلکہ صرف منافع و مصالح اور اغراض و مقاصد ہیں…
اخلاق و سیرت اس اُمت کے نظامِ جسم میں قلب کا درجہ رکھتے ہیں۔ لوگ تنومند و فربہ جسم کو دیکھ کر اس جسم کی صحت و طاقت کا حکم لگا دیتے ہیں‘ اور یہ نہیں دیکھتے کہ قلب کس قدر کمزور اور ماؤف ہے اور کس طرح بتدریج اس کی حرکت بند ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کی ترقی کا اندازہ مردم شماری کے اعداد‘ ان کے قومی جوش‘ ظاہری تنظیم اور سرکاری عہدوں کے تناسب سے لگانا بالکل غلط ہے۔ ایک بااصول‘ دنیا کے لیے ایک پیغام رکھنے والی‘ اور اخلاق و سیرت میں دنیا کی تمام قوموں کے لیے معیار بننے والی اُمت کی پیمایش کا ہرگز یہ صحیح پیمانہ نہیں۔ ضرورت ہے کہ دیکھا جائے کہ وہ اخلاق و اوصاف جو زندگی کے صحیح عناصر ہیں‘ اور جن سے اس اُمت کا تشخص و امتیاز ہے وہ روبہ انحطاط ہیں یا روبہ ترقی … (’’مسلمانوںکی موجودہ قومی سیرت کے بعض کمزور پہلو‘‘ ، مولانا ابوالحسن علی ندوی‘ ترجمان القرآن‘ جلد۱ ۲‘ عدد ۵-۶‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۱ھ‘ دسمبر ۱۹۴۲ئ‘ جنوری ۱۹۴۳ئ‘ ص ۴۲-۴۳‘ ۵۰)