بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
کسی ملک اور حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنے کے دو ہی پیمانے ہوسکتے ہیں--- ایک ملکی اور ملّی مفادات کا موثر تحفظ اور مطلوبہ مقاصد و اہداف کا حصول اور دوسرے عالمی برادری میں ساکھ‘ دوستوں اور حلیفوں کی تعداد میں اضافہ اور دشمنوں اور مخالفین میں کمی یا کم از کم ان کے شر کی تحدید۔ ویسے تو ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی بہت کامیاب نہیں رہی البتہ جنرل ایوب کے دور میں امریکہ کی حاشیہ برداری کے آغاز سے تو ہم نے اپنے ایک آزاد اور دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کی اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے کو نظرانداز کر کے امریکی نقشے میں رنگ بھرنے والے ایک خادم کی حیثیت سے اپنے اثرونفوذ اور کارفرمائی کے امکانات کو بہت محدود کر لیا۔ اس طرح دوسروں پر انحصار اور محتاجی ہمارا مقدر بن گئی جس کا سب سے تکلیف دہ نشیب ۱۹۷۱ء کی شکست اور نصف ملک سے محرومی تھا۔
اس تاریک ریکارڈ کے باوجود گذشتہ پچاس سالہ خارجہ سیاست میں کچھ روشن پہلو بھی رہے جن میں اُمت مسلمہ کے مسائل کے بارے میں ہمارا کردار‘ چین سے دوستی‘ برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے خلاف مسلمان اور دوسرے ممالک کی جنگ آزادی میں معاونت‘ افغانستان میں روسی جارحیت کے مقابلے میں برادر ملک کے عوام سے تعاون‘ وسط ایشیا کے مسلمان ملکوں کی آزادی میں کردار‘ اور بوسنیا اور کوسووا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد نمایاں ہیں۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے جو پالیسیاں جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں اختیار کی گئی ہیں اور جن کا سلسلہ دستور کی نامکمل بحالی اور جمالی حکومت کے قیام کے باوجود جاری بلکہ روز افزوں ہے‘ اس کے نتیجے میں ملک بیرونی دبائو اور اندرونی انتشار کے ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے جو تاریک ترین ہونے کے ساتھ مستقبل کے لیے اپنے اندر بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ یہ ناکامی اور نامرادی کی ایک ہولناک تصویر پیش کر رہا ہے۔ اگر ایک طرف بے اصولی‘ تضادات اور ایڈہاکزم کا وہ منظرہے جو قلابازیوں اور یو ٹرنز کا ریکارڈ قائم کر رہا ہے تو دوسری طرف ملک نہ صرف یہ کہ دوستوں اور عالمی عوامی تائید سے محروم ہو رہا ہے بلکہ دوسروں پر انحصار ہر دور سے زیادہ ہو گیا ہے۔ خصوصیت سے امریکہ کی حاشیہ برداری نے تو وہ رنگ اختیار کرلیا ہے کہ اب ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ نظریۂ حیات‘ تہذیبی تشخص‘ دفاعی صلاحیت‘ معاشی خودانحصاری اور علاقائی مفادات سب معرضِ خطر میں ہیں۔
یہ حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ خارجہ سیاست کا بے لاگ جائزہ لیا جائے‘ پالیسی سازوں میں اصول اور مفادات دونوں کا واضح ادراک پیدا کیا جائے اور خالص معروضی انداز میں بین الاقوامی اور علاقے کے حالات اور چیلنجوں کی روشنی میں خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کے خطوط پر قومی اتفاق رائے پیدا کیاجائے۔
بلاشبہہ یہ جائزہ اور تجزیہ زیادہ سے زیادہ معروضی انداز میں ہونا چاہیے۔ اس بارے میں جنرل پرویز مشرف کی یہ بات درست ہے کہ ان معاملات کو جذباتی انداز میں طے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اگر ایک طرف حقائق کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے تو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کی یہ تشکیل صرف اور صرف قومی مقاصد‘ اہداف اور مفادات کے محوری حوالے سے ہونی چاہیے۔ اور اسی کسوٹی پر موجودہ روش کا جائزہ بھی مطلوب ہے۔ یہ کام نہ جذباتی انداز میں ہونا چاہیے اور نہ دوسروں کے دیے ہوئے احکامات اور تصورات کے فریم ورک میں۔ ضروری ہے کہ یہ کام غلامانہ اور مرعوب ذہن کے ساتھ نہ ہو بلکہ صحیح معنی میں آزاد ذہن کے ساتھ اور خود اپنے ملکی اور ملّی مفادات‘ ضروریات اور سب سے بڑھ کر حق و انصاف کے مسلمہ اصولوں سے وفاداری کے جذبے سے ہو۔ نیز پوری قوم اور اس کے سیاسی اداروں اور خصوصیت سے پارلیمنٹ اور میڈیا کی بھرپور شرکت سے ہو۔ جہاں ہم الزام تراشی کو گناہ سمجھتے ہیں‘ وہیں حقائق کے بے لاگ جائزے سے فرار کو بھی ایک قومی جرم تصور کرتے ہیں اور محض پروپیگنڈے کے ذریعے اور کثرتِ تکرار کے سہارے ایک منکر کو معروف بناکر پیش کرنے کو بددیانتی اور قوم سے بے وفائی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اخلاص‘ علمی دیانت اور حقائق کی پاسداری کے ساتھ ہر قسم کی مداہنت سے دامن بچاتے ہوئے حالات کا جائزہ لیا جائے اور قوم‘ پارلیمنٹ اور قیادت کو ہمالیہ کی برابری کرنے والی غلطیوں سے بچانے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے لائق بنانے والی پالیسیوں اور اہداف کو دلیل کے ساتھ پیش کیا جائے ع
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
قوم اور قیادت کو اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی صدر اور وزیرخارجہ کی دھمکی کے تحت جو قلابازی کھائی ہے اس نے ہماری خارجہ پالیسی کو بالکل پٹڑی سے اُتار دیا ہے۔ بش صاحب نے تو بلاشبہہ یہ کہا تھا کہ ’’یا تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردی کے ساتھ--- اگر ہمارے ساتھ ہو تو سیدھے سیدھے نہ صرف یہ کہ اپنی زمین اور اپنے ہوائی راستے ہمارے حوالے کر دو بلکہ اپنے دل اور دماغ بھی ہمارے قبضے میں دے دو۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر پتھر کے دور کی طرف واپس جانے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ صدر بش‘ جن کی پالیسیوں کے اصل کارساز امریکہ کے عیسائی بنیاد پرست اور عالمی صہیونی لابی کے شاطردانش ور اور سیاست کار ہیں‘ دنیا کو ایک نئے امریکی استعمار کے جال میں گرفتار کرنے اور ایک جدید سامراج کے قیام کے لیے سرگرم ہیں۔ عالمی راے عامہ کے برعکس چند ممالک کی قیادتیں جن میں اسرائیل‘ برطانیہ‘ اسپین‘آسٹریلیا اور پولینڈ پیش پیش ہیں اپنے اپنے مخصوص مفادات اور عزائم کی خاطر ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ لیکن اس نئے سامراجی کھیل میں مسلمان ممالک کی قیادت میں سب سے پیش پیش جنرل پرویز مشرف ہیں۔ جن عرب ممالک نے طوعاً و کرہاً امریکہ کا ساتھ دیا ہے انھوں نے کچھ پردہ رکھا ہے لیکن جنرل صاحب کا معاملہ سب سے مختلف ہے۔ انھوں نے سب کچھ دائو پر لگا دیا ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ بش صاحب سے شاباشی‘ جرأت مندی کے سرٹیفیکیٹ اور کیمپ ڈیوڈ کی چند گھنٹے کی ملاقات! ان کی گفتار کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ ع
انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زبان میری ہے بات ان کی
اور اگر پالیسی اوراس کے حاصلات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات جو ’’پاکستان فرسٹ‘‘ کے دعوے سے شروع ہوئی تھی‘ وہ ’’مُش فرسٹ‘‘ سے ہوتی ہوتی ’’بش فرسٹ‘‘ تک پہنچ گئی ہے اور اب عالم یہ ہے کہ جس تین بلین ڈالر کی دھوم تھی اور جنھیں امریکی بجٹ ۲۰۰۴ئ-۲۰۰۵ء سے شروع ہو کر پانچ سال میں نازل ہونا تھا‘ ان کے بارے میں کانگرس میں نیا بل آگیا ہے اور اس رقم کو جہادِ آزادی کا گلا گھونٹنے اور نیوکلیر استعداد کو قابو کرنے سے مشروط کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں جہاں بات صرف ہفتوں میں معاملہ ختم ہونے کی تھی‘ دو سال ہونے کو آرہے ہیں اور امریکہ کے ساتھ ہم بھی دلدل میں پھنسے جا رہے ہیں‘ کابل میں سفارت خانے پر حملہ اور دو ہفتے اس کے بند رہنے کی نوبت آگئی ہے اور پاک افغان سرحد پر کشیدگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ لفظوں کی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے اور پاکستان میں تخریب کاری کے ڈانڈے سرحد پار دیکھے جا سکتے ہیں۔
کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور اس کے بارے میں ہر مشکل کے باوجود ہم اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے ہیں‘ اب امریکہ اور اس کے حلیف ہی بھارت کی زبان استعمال نہیں کر رہے بلکہ ساری کہہ مکرنیوں کے باوجود خود جنرل صاحب کی تقاریر اور سفارت کاریوں میں ’’جنگ آزادی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کا فرق مٹتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ کی حاشیہ برداری اب اس مقام پر پہنچتی نظر آ رہی ہے جہاں اس کی خوشنودی کی خاطر عراق میں امریکہ اور برطانیہ کے منہ پر ملی جانے والی کالک میں سے اپنا حصہ نکالنے کے لیے پاکستانی فوج کی ترسیل اور فلسطین میں خاک و خون کی ہولی کے گرم ہونے کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں ع
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
ان حالات میں اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کا بے لاگ جائزہ لیا جائے‘ اہم مسائل کے بارے میں صحیح موقف کو دلائل سے بیان کیا جائے اور قوم اور قیادت دونوں کے باب میں حق نصیحت ادا کرنے کا فرض انجام دیا جائے۔ قرآن نے حق کی شہادت کی یہی ذمہ داری اسلام کے علم برداروں کے لیے لازم کی ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور اللہ کے لیے سچی گواہی دینے والے بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلوتہی کی تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔(النساء ۴:۱۳۵)
اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کو لیا جائے یا داخلہ پالیسی کو‘ اس کا المیہ یہ ہے کہ فوج کی جس قیادت نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اقتدار پر قبضہ کیا تھا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے باوجود اقتدار چھوڑنے اور انتخابی نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور محض جبر‘ قوت اور عسکری طاقت کے غلط استعمال کے ذریعے ملک کی قیادت پر اپنی گرفت اسی طرح جاری رکھنا چاہتی ہے جس طرح اسے فوجی حکمرانی کے دور میں حاصل تھی۔ معاشی ترقی اور مبادلہ خارجہ کے ذخائر میں اضافے کو پالیسیوں کے تسلسل کے لیے بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے اور اس کی کوئی فکر نہیں کہ عملاً معیشت کس بگاڑ کی گرفت میں ہے اور عام آدمی کی زندگی کس تباہی سے دوچار ہے۔ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں اگر آبادی میں اضافہ سوا دو فی صد سالانہ ہے تو غریبوں کی آبادی میں اضافہ دس فی صد سالانہ کی رفتار سے ہے (بحوالہ ڈان‘ ۱۶جولائی ۲۰۰۳ئ‘ ڈاکٹرشاہد جاوید برکی کا مضمون)۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ء کو شائع ہونے والی UN Human Development Report 2003 کی رو سے Human Development Index کے باب میں پاکستان کی پوزیشن مزید خراب ہوئی ہے۔ چند سال پہلے ہم دنیا کے ۱۹۰ ممالک میں ۱۲۰ نمبر پر تھے جس سے گر کر اس رپورٹ کے مطابق اب ہمارا نمبر۱۴۴ ہے۔ یعنی ۲۴ مزید ملکوں سے ہم پیچھے آگئے ہیں۔ جو ملک سیاسی اور معاشی اعتبار سے اندرونی قوت و استحکام سے محروم ہو‘ وہ بین الاقوامی دنیا میں اچھی ساکھ کا حامل کیسے ہو سکتا ہے۔
محض امریکہ کی قیادت کی خوشنودی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ امریکہ تو اپنے مفاد میں ہر دور میں اپنے اپنے ملکوں کو تباہ اور کمزور کرنے والے آمروںکی سرپرستی کرتا رہا ہے اور ان سے اپنے مفادات حاصل کرتا رہا ہے۔ ویت نام کے تھیو‘ ڈومینکن ری پبلک کے جنرل ٹروجیلو‘ فلپائن کے مارکوس‘پاناما کے مینویل نوریجو ‘ ایران کے رضاشاہ‘ مصرکے انورالسادات اور حسنی مبارک سے لے کر پاکستان کے فوجی حکمرانوں (ایوب خان سے پرویز مشرف) تک کو امریکہ کی آشیرباد حاصل رہی ہے اور وہ ان کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ۱۱ستمبرکے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کو جس طرح امریکہ کے مفادات کے تابع کردیا گیا ہے اس سے ملک کی آزادی‘ سالمیت اور نظریاتی تشخص کو شدید خطرہ ہے۔
جنرل صاحب نے پالیسی کی تمام باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے اور وزیراعظم‘ کابینہ‘ پارلیمنٹ سب غیر متعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ دستور کا جس طرح حلیہ بگاڑا گیا ہے وہ خود ایک المیہ ہے لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ خارجہ اور داخلہ دونوں پالیسیوں کی باگ ڈور جنرل صاحب ہی کے ہاتھ میں ہے اور اپنے جن غیرمنتخب پسندیدہ افراد کو چاہتے ہیں اعتماد میں لیتے ہیں اور خود ان کے سیاسی طنبورے کچھ بھی کہتے رہیں وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو خود کرنا چاہتے ہیں اور جس کا سلسلۂ نسب بش انتظامیہ کی خواہشات سے ملتا ہے۔ ایک ماہ میں چار مغربی اور تین عرب ممالک کا دورہ وہ صدر فرماتے ہیں جن کی صدارت کی قانونی حیثیت (legality) بھی معتبر نہیں اور اگر بہ فرض محال اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی خارجہ سیاست دستور ہی نہیں‘ خود ایل ایف او کے تحت بھی صدر کی ذمہ داری نہیں۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ اور پارلیمنٹ سب غیرمتعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے جس طرح ایک فردِ واحد کو دستور میں ترمیم کا حق نہیں دیا جا سکتا اسی طرح خارجہ یا داخلی سیاست بھی کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑی جا سکتی۔ پالیسیوں کے افلاس اور حالات کی خرابی کا بڑا سبب پالیسی سازی اور حکمرانی کے اس پورے عمل (process) کا بگاڑ ہے‘ جس کی اصلاح کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔
اس اصولی بات کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ان سات ملکوں کے دوروں سے قبل‘ ان کے دوران اور ان سے واپسی پر خارجہ سیاست کے سلسلے میں جن بنیادی ایشوز کو اٹھایا ہے ان پر مختصر کلام کریں اور قوم اور پارلیمنٹ کے ساتھ خود ان کو اور ان کے قریبی رفقا کو دعوت دیں کہ اپنے موقف اور اس کے مضمرات پر ازسرنو غور کریں اور ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کر کے صرف حقائق اور دلیل و برہان کی بنیاد پر پالیسی سازی کے اصول کو تسلیم کریں اور صحیح جمہوری اور قانونی عمل (process) کے ذریعے پالیسیاںبنانے اور ان پر احتساب کا راستہ اختیار کریں۔
ہم نے جنرل صاحب کے امریکہ کے دورے کے بارے میں پہلے بھی لکھا ہے اور ایک بار پھر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ محض ’’درمدح خود می گوید‘‘ سے نہ حقائق تبدیل ہوتے ہیں اور نہ تلخ نتائج پر دھول ڈالی جا سکتی ہے۔
کیمپ ڈیوڈ میں پاکستان کے لیے کیا حاصل کیا جا سکا اور امریکہ کی خوشنودی کے لیے کیا کچھ قربان کر دیاگیا ہے؟ اس کی بیلنس شیٹ کو بہت عرصے تک ٹالا نہیں جا سکتا۔ امریکہ میں پاکستانی جن مصائب کا شکارہیں ان میں کوئی کمی آئی ہے؟ گنٹاناموبے کے عقوبت خانے میں جو پاکستانی آج بھی قید ہیں اور دو سال ہونے کو آرہے ہیں لیکن ہر داد رسی سے محروم ہیں ان کے بارے میں کیا حاصل ہوا؟ کشمیرکے مسئلے پر ہمارے موقف کو کہاں کوئی پذیرائی حاصل ہوسکی اور کہاں ہم خود کشمیرکی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو اس زمرے میں شامل کرنے کے مرتکب ہوئے جو امریکہ اور بھارت نے دہشت گردوں کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ افسوس کہ پہلی مرتبہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیرنے امریکی کانگریس کے سامنے اپنے خطاب میں کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے terrorists کا لفظ استعمال کیا اوریہ جنرل صاحب کے امریکہ اور برطانیہ دونوں کے دورے کے بعد ہوا۔ تین بلین ڈالر کے معاشی پیکج کی بڑی دھوم ہے لیکن ایک سال کے بعد شروع ہونے اور پانچ سال پر پھیلے ہوئے اس انتظام کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا کہ امریکی کانگرس میں بل آگیا ہے کہ ہر سال صدر امریکہ کو تصدیق کرنا ہوگی کہ:
۱- کشمیر میں تمام ٹریننگ کیمپ بند ہیں۔
۲- لائن آف کنٹرول سے کوئی آر پار نہیں ہو رہا۔
۳- پاکستان جنگ آزادی کے فرزانوں کی کوئی مدد نہیں کر رہا۔
۴- پاکستان کی نیوکلیر استعداد قابو میں ہے اور امریکہ کے احکام کی (یعنی جوہری عدم پھیلائو جس میں خود اپنی صلاحیت کا بہتر کرنا اور up-grading بھی شامل ہے) مکمل پاسداری کی جا رہی ہے۔
جنرل صاحب نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ امداد غیر مشروط ہے حالانکہ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے تین شرائط کا ذکر اس وقت بھی کیا تھا۔ اب ان میں سے جمہوریت کی طرف پیش رفت خارج کر دی گئی ہے اورکشمیر کی ناکہ بندی کی ہر تدبیر شامل کی جا رہی ہے۔
کیا اسی کا نام خارجہ سیاست کی کامیابی ہے؟
جنرل صاحب نے افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے پاکستان کا کندھا فراہم کرتے وقت کہا تھا کہ امریکہ کا یہ آپریشن مختصر ہوگا اور صرف متعین اہداف تک محدود ہوگا۔ اس کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ ہزاروں معصوم افغان شہید کیے جا چکے ہیں‘ سیکڑوں شہر اور دیہات بمباری سے تباہ ہوچکے ہیں‘ ملک دوبارہ بدنظمی اور وار لارڈز کے قبضے میں ہے۔ امریکی فوجیوں‘ سرکاری افواج اور عوام کے درمیان مسلسل تصادم ہے اور وہ روز افزوں ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر وہ پاکستان جس کے جہادِ افغانستان میں تعاون کے سبب پوری افغان قوم ممنونیت کے جذبات سے معمور تھی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہماری سرحدوں پر سکون تھا اور دونوں ممالک میں بھرپور تعاون کی فضا تھی--- وہ سکون درہم برہم ہوگیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا تنازع ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے‘ پاکستان کی سفارت خانے پر سنگ باری ہو رہی ہے‘ سرحدوں پر کشیدگی ہے‘ قبائلی علاقے میں فوج لگا دی گئی ہے اور دونوں طرف سے فوجیں صف آرا ہیں۔ امریکی کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ ہم ۵۰ فی صد تعاون پر مطمئن نہیںہیں‘ ۱۰۰ فی صد اطاعت مطلوب ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کرزئی صاحب نے اپنے تازہ انٹرویو میں جنرل صاحب پر بے اعتمادی کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔ لندن کے روزنامہ ڈیلی ٹیلی گراف کو انٹرویو دیتے ہوئے کرزئی صاحب نے کہا ہے کہ ہم پاکستان سے ’’مہذب رویے‘‘ کے متوقع ہیں۔ ان کے الفاظ جنرل پرویز مشرف کی افغان پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پاکستان کو افغانستان کے خلاف جارحانہ اقدامات سے باز رہنا چاہیے اور انتہاپسندوں کی جانب سے سرحدپار حملے بند ہوجانے چاہییں۔ ہم خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔ کرزئی نے واضح کیا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کو ذاتی طور پر دھوکا دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دوستی اور افہام و تفہیم کا رشتہ پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان دونوں کو اس سلسلے میں کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان کے موجودہ رویے کے ساتھ ممکن نہیں۔ (ڈیلی ٹیلی گراف‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ئ)
واضح رہے کہ طالبان کے سات سالہ دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بھی سرحدی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور ڈیورنڈ لائن کے سلسلے میں جو بھی تحفظات دونوں طرف سے ہیں‘ وہ تعلقات کو متاثر کرنے کا ذریعہ نہ بنے۔ لیکن امریکہ کے احکامات کے تحت سرحد کو بند کرنے کا اقدام اور علاقہ غیر میں فوجیں بھیجنے کے نتیجے میں جو صورتِ حال رونما ہوئی ہے وہ بالآخر دونوں برادر ممالک کے تعلقات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ جنرل صاحب کے کیمپ ڈیوڈ کے سفر سے دو ماہ قبل پاکستان کے سیکرٹری داخلہ امریکہ سے سرحد بند کرنے کا معاملہ طے کر آئے تھے اور اس پر عمل کا شاخسانہ ہے کہ دوست دشمن میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی بری طرح ناکام ہیں اور کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ شمالی علاقوں کی قیادت اور پشتون عوام میںبعد بڑھ رہا ہے۔ کابل حکومت کا اثر و رسوخ چند شہروں تک محدود ہے۔ امریکہ مخالف رجحانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور بیرونی افواج اور ان کے افغان معاونین کے خلاف تحریکِ مزاحمت زور پکڑ رہی ہے۔ افغانستان میں بھارتی اثرات بڑھ رہے ہیں اور اسرائیل بھی قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کو جلال آباد اور قندھار تک میں سفارتی دفاتر قائم کرنے کا موقع مل گیا ہے اور وہاں سے پاکستان کے خلاف تخریب کاری کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ کبھی جس strategic depthکی باتیں ہو رہی تھیں وہ اب strategic dearth میں تبدیل ہو گئی ہے۔ پاکستانی فوج کی ایک معقول تعداد (ایک اندازے کے مطابق ۵۰ ہزار سے ایک لاکھ) اب شمالی سرحد پر پابند ہوگئی ہے اور ہماری ساری خدمات اور کارگزاریوں کے باوجود کابل کے حکمران اور افغانستان میں امریکی فوجی قیادت دونوں ہم سے ناخوش ہیں‘ افغان عوام تو پہلے ہی کبیدہ خاطر اور مایوس تھے۔ یہ ہے ہماری ۱۱ستمبر کے بعد کی افغان پالیسی کا حشر!
دوسرا بڑا مسئلہ پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پایدار حل کا ہے۔ یہاں جو بھیانک غلطی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دن سے ہم نے ’’terrorism‘‘ کے بارے میں اپنے موقف کی نہ موثر وضاحت کی اور نہ امریکہ اور بھارت سے تعلقات کے سلسلے میں ان کے اور اپنے موقف کے فرق کو تسلیم کرایا۔ آنکھیں بند کر کے تائید کر دی گئی اور اس کا نتیجہ ہے کہ جنیوا میں اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کا کمیشن تو اپنے ۲۰۰۳ء کے اجتماع میں یہ کہتا ہے کہ جنگِ آزادی کے مجاہد اپنا الگ مقام رکھتے ہیں اور ان کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا اور ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول سے کوئی نام نہاد دراندازی نہیں ہونے دیں گے اور اپنی زمین کو کسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ عملاً بھی مجاہدین کے سارے کیمپ ختم کر دیے جاتے ہیں اور مجاہدین کو عملاً دہشت گردوں کے زمرے میں شامل کر دیا جاتا ہے بلکہ جہاد کی بات کو بھی ترک کر دیا جاتا ہے اور وہ فوج جس کا موٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے اس کے سربراہ کی زبان جہاد کی بات کرتے ہوئے گنگ ہو جاتی ہے۔
بھارت نے اس صورتِ حال کا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور ہم ایک ردعمل کی (reactionary) صورتِ حال کے اسیرہوگئے ہیں۔ بھارت میں امریکی سفیر کھل کر اور غالباً پہلی مرتبہ کشمیر کی جنگِ آزادی کو دہشت گردی اور پاکستان کو اس کا پشتی بان قرار دیتا ہے اور ہمارے احتجاج میں بھی کوئی جان باقی نہیں رہی ہے۔ مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اصل ایشوز پر کوئی واضح موقف باقی نہیں رہا ہے۔ جنرل صاحب یہاں تک چلے گئے ہیں کہ کشمیر کے دس بارہ حل کی بات کرتے ہیں اور لچک کے نام پر تجویز دیتے ہیں کہ process of elimination کو بروے کار لایا جائے اور جو حل دونوں کے لیے بالکل قابلِ قبول نہ ہو اس کو ترک کر دیا جائے۔ دوسرے الفاظ میںاگر بھارت یہ کہے کہ استصواب راے اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو ہم تسلیم نہیں کرتے تو یہ راستہ ترک کر دیا جائے۔ اگر اسی کا نام سیاست خارجہ ہے تو پھر ’’کار عقلاں تمام خواب شد‘‘۔
اس تمام ژولیدہ فکری اور سمجھوتہ کاری سے ہم جموں و کشمیر کے عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں--- ان عوام کو جو ۵۵سال سے بھارت کے تسلط کے خلاف صف آرا ہیں‘ جنھوں نے تقسیم کے فوراً بعد تین لاکھ جانوں کی قربانی دی اور جو ۱۹۸۹ء سے جہادِ آزادی کے دورِ نو میں ۸۰ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور بھارت کی سات لاکھ فوجوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں اور کسی قیمت پر بھی اس کے قبضے (occuption)کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اصل ایشو ہی ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے ناجائز اور محض مبنی بر جبر تسلط کا ہے۔ مسئلے کا کوئی حل وہاں کے عوام کی مرضی سے ان کے مستقبل کو طے کرنے کے سوا نہیں ہوسکتا۔ لیکن ہم تعلقات کو معمول پر لانے (normalization) کے فریب میں ایک بار پھر مبتلا ہوگئے ہیں اور اسی سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے لیے آمادہ ہیں جس سے ۱۹۴۷ء کے بعد سے برابر ڈسے جا رہے ہیں--- کیا یہی جنرل صاحب کی خارجہ پالیسی کا کارنامہ ہے۔
بلاشبہہ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ محض سرحدی تنازع یا زمین کا جھگڑا نہیں۔ سوا کروڑ مسلمانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے اور جس اصول پر پاکستان قائم ہوا تھا اس کے اطلاق اور تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا مسئلہ ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے ان کی خواہشات کے مطابق حل ہو جائے تو بھارت سے دوستی کے حقوق کے باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ تقسیم کے اصل منصوبے کے مطابق دونوں ملک عزت و احترام سے اپنے تعلقات استوار کریں لیکن جیساکہ چیئرمین چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل عزیزاحمد خاں نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد بھی پاک بھارت تعلقات کا انحصار علاقے کے تمام ممالک کی حاکمیت کے احترام پر مبنی ہے۔ اگر بھارت کے رویے اور عزائم پر علاقے میں بالادستی کا بھوت سوار رہتا ہے اور چھوٹے ممالک کو وہ اپنا باج گزار بنا کر رکھنا چاہتا ہے‘ نیز پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی پر عامل رہتا ہے جیسا کہ وہ اس وقت کر رہا ہے: بھوٹان اور نیپال کے بعد بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ پر گرفت مضبوط کرنے‘ چین سے بظاہر دوستی استوار کرنے‘ ایران سے تعلقات کا وہ آہنگ جس میں پاکستان کو بائی پاس کیا جاسکے‘ افغانستان میں اثر و رسوخ کا ایسا نظام جس کے ذریعے پاکستان پر دبائو ڈالا جا سکے‘ وسطی ایشیا میں اسرائیل کے ساتھ قدم جمانے کی کوشش‘ امریکہ سے ایسے تعلقات جن کی زد پاکستان پر بھی پڑتی ہو‘ اسرائیل سے اسٹرٹیجک گٹھ جوڑ‘ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا حصول‘ ایٹمی صلاحیت کا عالمی طاقت بننے کے لیے استعمال‘ عسکری قوت میں مسلسل اضافہ جو علاقے کے فوجی توازن کو تہہ و بالا کر دے--- یہ وہ تمام پہلو ہیں جن کو پاکستان اور علاقے کے دوسرے ممالک نظرانداز نہیں کرسکتے۔
دوستی کے خالی خولی نعرے اور اعتماد بنانے والے نام نہاد حربے علاقائی حقائق کو نہ تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ ان سے پیدا ہونے والے خطرات کے مقابلے کی کوئی سبیل پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ٹھوس حقائق‘ دوسرے ممالک کے عزائم کے حقیقی ادراک اور خود اپنے مقاصد‘ مفادات اور اہداف کی روشنی میں ایک اقدامی پالیسی کے جملہ پہلوئوںکا احاطہ ہی پاکستان کے تحفظ اور ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ کیا ہماری خارجہ پالیسی میں ان تمام پہلوئوں کے شعور کی کوئی جھلک دیکھی جا سکتی ہے؟
جنرل پرویز مشرف نے اپنے حالیہ دوروں میں خارجہ پالیسی کے سلسلے میں تین نئے موضوعات کو چھیڑا ہے۔ یہ موضوعات اور ان پر بحث کا یہ وقت دونوںاہمیت کے حامل ہیں۔ بظاہر ان کا مقصد امریکہ کی خوشنودی ہے‘ جو ایک خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ لیکن اگر گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو یہ دراصل پوری خارجہ پالیسی ہی نہیں‘ پاکستان کے نظریاتی رخ کی تبدیلی کا پیش خیمہ اور اس کے لیے اولیں اقدام ہوسکتا ہے۔ اس لیے گربہ کشتن روزِ اول کے اصول پر یہی وہ وقت ہے کہ ان خطرناک feelers کا سرتوڑ دیا جائے اور پوری قوم کو ان کے خطرات اور مضمرات سے آگاہ کر کے اپنی نظریاتی سرحدوں‘ اپنے سیاسی‘ دفاعی اور تہذیبی وجود کی حفاظت اور تاریخی قومی عزائم کی تکمیل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔
پہلی چیز کا تعلق دہشت گردی کے نام پر کی جانے والی جنگ میں ہمارے کردار کا ہے۔ جنرل صاحب اور ان کے رفقا نے ملک کو ایک ہیجانی انداز میں ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد‘ اس سانحے کے اسباب اور ذمہ دار افراد کے بارے میں کسی معروضی تحقیق کے بغیر‘ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس کی کوئی انتہانہیں‘ جس کا کوئی واضح ہدف اور متعین منزل نہیں‘ جس کی قیادت ایک ایسے ملک کے ہاتھ میں ہے جو کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتا‘ جس کے اپنے عالمی عزائم ہیں اور جس پر ایک مذہبی بنیاد پرست گروہ چھایا ہوا ہے جو حق و انصاف اور سچ اور جھوٹ سب سے بالا ہوکر محض اپنے مذموم مقاصد کے لیے سب کچھ کرنے پر تلا ہوا ہے۔
ہم نے اپنے کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا ہے اور اب امریکہ کی دم سے بندھے‘ بے بسی کے عالم میں اس کے پیچھے پیچھے گھسٹ رہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پا ہے رکاب میں
امریکہ دہشت گردی کے عنوان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اسامہ بن لادن پہلا ہدف تھا مگر اس پر کوئی جرم ثابت کیے بغیر اعلانِ جنگ کر دیا گیا۔ وہ آج تک نہیں پکڑا گیا مگر اس کے نام پر دوسرا سال ہے کہ ایک عالمی جنگ کا بازار گرم ہے۔ طالبان نے کوئی جرم نہیں کیا تھا مگر اسامہ کو پناہ دینے کے الزام پر ان پر فوج کُشی کی گئی اور اب افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی خدمت انجام دی جا رہی ہے اور ایک ایسا ملک‘ جو چاہے غریب اور غیرترقی یافتہ تھا مگر آزاد اور پُرامن تھا‘مسلسل جنگ اور خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیاہے اور پاکستان اور افغانستان کو بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا گیا۔ ملاعمر اب بھی گرفت سے باہر ہیں اور طالبان کا ہّوا سروں پر منڈلا رہا ہے۔ عراق پر صریح جھوٹ اور اب خود اپنے اعتراف کے مطابق محض راے عامہ کو ساتھ ملانے کے لیے غلط اور بے بنیاد الزامات کو ہوا دے کر حملہ‘ ملک کی تباہی اور اس کے وسائل پر قبضے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔ شمالی کوریا پردبائو جاری ہے‘ ایران اور شام پر بندوقیں تانی جا رہی ہیں‘ اسرائیل کو کھل کھیلنے کا ہر موقع دیا جا رہا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ چند مغربی اقوام (برطانیہ‘ اسپین‘ آسٹریلیا‘ پولینڈ) کے علاوہ بھارت اور اسرائیل اس نام نہاد جنگ سے مستفید ہونے والے (beneficiaries)اصل فریق ہیں۔ البتہ ہم دم چھلے کی طرح امریکہ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ اخلاقی‘ مالی‘ سیاسی‘ ہر اعتبار سے نقصان اٹھا رہے ہیں مگر امریکہ سے نتھی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک وہ نظریاتی جنگ ہے جو اسلام‘ اور اس کے دین و دنیا اور مذہب اور ریاست کی یک جائی کے تصور کے خلاف امریکی دانش وروں اور سیاست کاروں نے شروع کی ہوئی ہے۔ ’’سیاسی اسلام‘‘ کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ایسا اسلام تو قبول ہے جو گھر اور مسجد تک محدود ہو لیکن اسلام کا یہ تصور کہ زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی ہدایت کی روشی سے منور کیا جائے‘ قابلِ قبول نہیں۔ اس تصورِ دین کا نام بنیاد پرستی‘ انتہاپرستی‘ رجعت ‘ جہادی کلچر اور دہشت گردی رکھا گیا ہے۔ دینی تعلیم کا نظام اس تصور کامنبع ہے اس لیے اس نظام کی تبدیلی نئی صلیبی جنگ کا ہدف ہے۔
اس نظریاتی جنگ میں بھی معلوم ہوتا ہے کہ جرنیل پرویز مشرف صدر بش کے ہم رکاب ہیں اور اس پورے سفر میں اسلام کے ایک ترقی پسند اور لبرل تصور کے داعی کے طور پر اُبھرے ہیں۔ یہ وہی راستہ ہے جو استعمار کے پہلے دور میں ماڈرن اسلام کے نام پر اختیار کیا گیا تھا اور جسے اُمت نے علامہ اقبال‘ جمال الدین افغانی‘ محمد علی جوہر‘ ابوالکلام آزاد‘ سید مودودی‘ حسن البنا شہید‘ سعید نورسی‘محمدعبدہ‘ رشید رضا‘ مالک بن نبی اور سید قطب جیسے مفکرین اور مجاہدین کی سرکردگی میں دفن کر دیا تھا۔ شیطان اپنے اسی حربے کو ایک بار پھر اختیار کر رہا ہے اور افسوس ہے کہ جنرل پرویز مشرف غالباً سوچے سمجھے بغیر اور تمام عواقب و مضمرات کا ادراک کیے بغیر اس صلیبی جنگ میں بھی شریک ہوگئے ہیں اورترقی پسند اسلام کو بھی خارجہ پالیسی کا ایک نظریاتی ستون (plank) بنانے کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ ایک المناک غلطی ہے۔ پاکستان کے عوام اور اُمت مسلمہ اس تصور کو بار بار رد کر چکی ہے اور خود پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سیکولر عناصر نے یہ بازی کھیلی ہے انھیں بری طرح شکست ہوئی ہے۔
اسلام وہی ہے جو قرآن و سنت کے ذریعے اس اُمت کو ملا ہے اور جب تک قرآن و سنت محفوظ ہیں اور ان کی حفاظت کی ضمانت خود زمین و آسمان کے مالک نے دی ہے‘ اسلام کے چہرے کوکوئی مسخ نہیں کر سکتا اور نہ اس کے جسم پر کوئی دوسرا چہرہ نصب کرسکتا ہے۔ البتہ اس کوشش کا ایک نتیجہ ضرور نکل سکتا ہے اور وہ ہے ملک و ملّت کے درمیان نظریاتی کش مکش اور تصادم اور قوم کی صلاحیتوں کا ضیاع۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جنرل صاحب اس لاحاصل تصادم سے اپنے کو بھی بچائیں اور قوم کو بھی اور امریکہ کی خوشنودی کی خاطر اسلام میں تراش خراش اور ایک قابلِ قبول وژن تیار کرنے کی کوشش نہ کریں اور یاد رکھیں کہ ؎
نورِ حق ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْط وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف۶۱:۸)
یہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام پر جو بھی ضرب لگی ہے اور اُمت کو جس نشیب سے بھی سابقہ پیش آیا ہے‘ اسلام پھر قوت بن کر اُبھرا ہے اور اُمت نئے فراز سے شادکام ہوئی ہے ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے
دوسرا شوشہ جو اس زمانے میں چھوڑا گیا ہے‘ وہ عراق میں امریکہ کی دعوت پر اور ان کی مدد کے لیے پاکستانی افواج کو بھیجنے کا ہے۔ ستم ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کسی مشورے‘ کسی قومی مشاورت‘ کسی پارلیمانی بحث کے بغیر اس سے ’’اصولی اتفاق‘‘ کااعلان بھی کر دیا اور صرف ’’مصارفِ لام بندی‘‘ اور کمانڈ کی بات کر کے مسئلے کو الجھانے کی کوشش کی۔
بات بہت صاف ہے۔ اگر پاکستانی فوج محض بھاڑے کے ٹٹو کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ ایک آزاد اور اسلام کی علم بردار قوم کی وہ فوج نہیں جو ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے آدرش کی دین ہے تو وہ اسے جہاں چاہیں بھیجیں اور جس جہنم میں جھونکنا چاہیں جھونک دیں لیکن نہ پاکستان کی فوج کسی ایسے بکائو مال (mercenaries)کا طائفہ ہے اور نہ پاکستانی قوم ایسی بے ضمیراور بے غیرت قوم ہے کہ اپنے شاہینوں کو امریکہ کی ایک ناجائز جنگ کی آگ میں جھونکنے دیں۔ یہ فوج کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ جہاں چاہے بھیج دے اور جس جنگ کا چاہے اسے ایندھن بنا دے۔ ایک مسلمان فوج اور ’’ضمیرفروشوں‘‘ میں یہی فرق ہے کہ وہ حق کے لیے تو جان کی بازی لگا دیتی ہے لیکن محض پیسے کی خاطر ظالموں کا آلہ کار نہیں بنتی۔ مولانا محمد علی جوہر نے خوب کہا تھا کہ ؎
مصلحت کوش مری فطرت پاکیزہ نہ تھی
قول انشا کو کبھی حکمِ الٰہی نہ کہا
گر یہی میری خطا ہے تو خطا کار ہوں میں
میں نے شمشیرفروشوں کو سپاہی نہ کہا
عراق کی جنگ کی حقیقت کونظرانداز کر کے‘ اور آج عراق میں جو کھیل امریکہ کھیل رہا ہے اور اس کی جو قیمت اسے ادا کرنا پڑ رہی ہے اس کے ادراک کے بغیر محض جناب بش کے ارشاد عالی کی تعمیل میں اپنی فوج بھیجنے اور اسے اصولی طور پر ایک صحیح بات کہنے کی جسارت وہی شخص کر سکتا ہے جو یا حالات کا کوئی ادراک نہ رکھتا ہو یا پھر قوم اور فوج دونوں کو دھوکا دینے کی جسارت کر رہا ہو۔
۱- یہ جنگ امریکی قیادت کے ہوسِ انتقام اور سامراجی عزائم کی جنگ ہے جس کی ساری دنیا کے عوام نے مخالفت کی‘ ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک نے اس میں شرکت سے انکار کیا‘ دنیا کی آبادی کے ۹۰ فی صد نے اسے ناجائز قرار دیا‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی امریکہ اس کی تائید حاصل نہ کر سکا اور اس کے سہارے ایڑی چوٹی کے زور لگا دینے کے باوجود جنگ کے بعد بھی اسے سلامتی کونسل سے جواز نہ مل سکا اور کونسل نے اپنی قرارداد ۱۴۸۳ کے ذریعے امریکہ اور برطانیہ کو قابض طاقت (occupying power) قرار دیا۔ ایسی ناجائز اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کی جانے والی فوج کُشی میں شرکت کا کوئی قانونی‘ اخلاقی اور سیاسی جواز ممکن نہیں۔
۲- جنگ کے بعد اب اس بات پر خود امریکہ اور برطانیہ میں کھلے بندوںاحتساب ہورہا ہے کہ جنگ کے لیے جن وجوہ کو سندِجواز بنایا گیا تھا وہ محض کذب اور دھوکے پر مبنی تھیں اور امریکی اور برطانوی قیادت نے اپنی پارلیمنٹوں اور اپنے عوام کو صریح دھوکا دیا۔ بش صاحب کی جنوری ۲۰۰۳ء کی State of the Nation تقریر جھوٹ پر مبنی تھی اور یہی حالت اس قرارداد کی تھی جو برطانوی پارلیمنٹ میں منظور کرائی گئی۔ دونوں ملکوں میں اب عوام اور سیاسی قوتیں احتساب اور جواب دہی کی بات کر رہی ہیں اور راے عامہ کے جائزوں میں قیادت کی ساکھ برابر روبہ زوال ہے۔ جنگ کے مبنی برباطل ہونے کے ان واضح اعترافات کے باوجود یہ سوچنا بھی ایک گناہ اور انسانیت کے خلاف ظلم ہے کہ ایسی جنگ برپا کرنے والوں کی معاونت کے لیے ایک مسلمان ملک کی فوج بھیجی جائے۔
۳- عراق میں یکم مئی کو جنگ کے خاتمے کے اعلان کے بعد بھی امریکی اور برطانوی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے جو روز بروز بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کے ۱۵۰ سے زیادہ فوجی مارے جا چکے ہیں اور برطانیہ کے ۳۰ سے زائد۔ فوج میں شدید بے چینی ہے اور ہر میت جو امریکہ یا برطانیہ جا رہی ہے ایک کہرام کو جنم دے رہی ہے۔ امریکہ کے ایک لاکھ ۴۸ ہزار فوجی عراق میں اسیر ہیں اور وہ ان میں سے بیشتر کو جلد از جلد واپس بلانا چاہتا ہے اور ان کی جگہ بھاڑے کے ٹٹوں کو عراقی عوام کی مزاحمت کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے ۱۷ ہزار فوجیوں کے لیے مزید کمک بھیجنے سے انکار کر دیا اور امریکہ اس کے تھرڈ ڈویژن کو واپس بھیجنے اور متبادل افواج کو لانے کو مشکل پا رہا ہے۔ اس نے فرانس سے فوج طلب کی جس نے انکار کر دیا۔ بھارت سے طلب کی اس نے انکار کر دیا۔ پاکستان سے طلب کی اور وہ جرأت انکار سے بھی محروم ہے اور چور دروازے تلاش کر رہا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک ناحق جنگ‘ ایک ظالمانہ اور سامراجی جنگ اور ایک ایسی صورت حال میں جہاں ایک مسلمان عرب ملک پر امریکہ قابض ہے اس بات کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے کہ اس خونی کھیل میں اپنے فوجیوں کو جھونک دیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر عراقی عوام درخواست کریں یا وہاں کی امریکہ کی نامزد کونسل درخواست کرے تو غور کرسکتے ہیں۔ کونسل ایک امریکی نامزد ادارہ ہے جس میں اعلیٰ اختیار عراق کے نئے امریکی وائسرائے پال بریمر کو حاصل ہے۔ امریکہ نے عراق کے انتظام کو اقوامِ متحدہ کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ وہاں فوجی اور سیاسی دونوں نظام دونوں امریکہ کے تحت ہیں۔ ایسے حالات میں کسی آزاد اور غیرت مند ملک کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی فوج وہاں بھیجے۔ بھارت نے پوری جرأت کے ساتھ انکار کر دیا لیکن ہماری قیادت حیص بیص کا شکار ہے۔
۴- تمام تجزیہ نگار اس بات کا اب کھل کر اظہار کر رہے ہیں کہ عراق میں ایک قومی تحریک مزاحمت وجود میں آگئی ہے۔ امریکہ ویت نام جیسے حالات سے دوچار ہونے کے خطرات سے بچنے کے لیے دوسروںکو اس آگ میں جھونکنے کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے۔ ولیم شوکراس نے لندن کے اخبار ایوننگ اسٹینڈرڈ کی ۲۵مارچ ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں جنگ سے پہلے ہی اس کی پیش گوئی کر دی تھی اور اب عالم گیریت کے مطالعے کے ییل مرکز کے ایک مطالعے میں جو یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے پروفیسر آر ویل اسکیل نے مرتب کیا ہے صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ:
ہمارا واسطہ ایک منتشر بھوت سے ہے جو دہشت گردی اور گوریلا جنگ سے مل کر بناہے۔ اس کا صفایا کرنا ہندچینی میں ہمارا جن گوریلا فوجوں سے واسطہ پڑا تھا‘ اس سے زیادہ سخت ہوگا۔ (ایشین ایج‘ لندن‘ ۲۱ جولائی ۲۰۰۳ئ)
کیا اس جہنم میں ہم محض امریکیوں کے نقصانات کم کرنے کے لیے اپنے مجاہد فوجیوں کو بھیجنے کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
۵- عراق میں خود امریکیوں نے جس گورننگ کونسل کو نامزد کیا ہے اس تک نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں امریکہ کے سارے دبائو کے باوجود صدر بش کا شکریہ ادا کرنے اور اسے عراق کا نجات دہندہ قرار دینے سے انکار کر دیا اور عراق کی سڑکوں اور گلیوں میں جو نعرے لگائے جارہے ہیں وہ امریکی کالم نگار نیل میک فرگوارہر کے بیان کے مطابق یہ ہیں:
"No to America! No to Colonialism
No to Tyranny! No to Devil".
(نیویارک ٹائمز‘ ۲۲ جولائی ۲۰۰۳ئ)
یہ ہے عراق کی عوامی فضا ۔ ہم کس کا ساتھ دینا چاہتے ہیں--- عوام کا یا ان پر تسلط حاصل کرنے والی امریکی افواج اور اس کی نامزد انتظامیہ کا؟
۶- ہمیں ان تاریخی حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ برطانوی استعمارکے دور میں پہلی جنگ کے بعد برطانیہ کی افواج میں شامل برعظیم کے سپاہیوں نے عراق کے لوگوں پر گولیاں چلائی تھیں اور جہادِ آزادی کے متوالوں کو کچلنے کی جنگ میں برطانوی استعماری افواج کے شانہ بشانہ شرمناک کردار ادا کیا تھا جس کی یادیں آج بھی موجود ہیں۔ کیا آزادی کے بعد اور اس دور کی پہلی آزاد مسلم مملکت کا شرف رکھنے والے پاکستان کی فوجوں کو پھر اس کی قیادت ایک ایسی ہی شرمناک جنگ میں جھونکنا چاہتی ہے؟ اس طرح پاکستانی قوم اور عراقی قوم میں محبت کا رشتہ استوار ہوگا یا نفرت کا؟ امریکہ کے فوجی تو عراقی عوام کی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کیا پاکستان کی فوجی قیادت پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کے منہ پر یہ کالک ملنے کی خدمت انجام دینا چاہتی ہے۔
۷- امریکہ کے جو عزائم عراق میں سیاسی بندربانٹ‘ اس کے تیل پر قبضے‘ تعمیرنو کے نام پر امریکی کمپنیوں کے تسلط کے قیام اور ہمیشہ کے لیے عراق کو عسکری اعتبار سے ایک غیرموثر ملک بنانے والے ہیں ان سے ہم ناواقف نہیں۔جو نقشہ کل کے لیے بن رہا ہے وہ عراق‘ عرب دنیا اور عالمِ اسلام سب کے مفاد کے خلاف ہے۔ کیا ہم میں اتنی بھی سیاسی فراست نہیں کہ نوشتہ دیوار کو پڑھ سکیں؟ اور امریکہ کے اس خونی کھیل میں محض چند پیسوں کی خاطر شریک نہ ہوں۔
۸- انگلستان میں ابھی جولائی کے دوسرے ہفتے میں ان ۱۴ ممالک کے سربراہوں کا اجتماع ہوا جو سوشل ڈیموکریسی کے علم بردار ہیں۔ ٹونی بلیر نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح ان کو عراق کی جنگ اور غربت کے خاتمے اور تعمیرنو کے نام پر کیے جانے والے منصوبوں میں شریک کریں لیکن سب نے بہ اتفاق اس میدانِ جنگ میں قدم رکھنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اس اصول کو بھی تسلیم کرنے سے انکارکر دیا کہ ناپسندیدہ حکومتوں کو ہٹانے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے اور جابر حکومتوں کے خاتمے کے لیے کسی بھی ملک کو اقدام کا اختیار دیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا‘ امن کو جو بھی خطرہ ہو اس کا مقابلہ کرنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلے کے ذریعے‘ بین الاقوامی قانون کے مطابق۔ ان کا اعلامیہ بہت واضح ہے:
ہم اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ اس نوعیت کے انسانی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی کارروائی کی اجازت دینے والا واحد ادارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ ۱۵ جولائی ۲۰۰۳ئ)
کیا اس اعلامیے میں پاکستان کی قیادت کے لیے کوئی پیغام نہیں؟
۹- آخری بات یہ ہے کہ عراق پر قبضے کے جملہ مقاصد میں ایک اہم مقصد اسرائیل کی تقویت اور اسے علاقے کا چوکیدار بنانا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کا اعتراف دوست دشمن سب کرتے ہیں۔امریکہ کی صہیونی لابی اور اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے عراق کی جنگ کو حقیقت بنانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا اور عراق کی تباہی پر سکھ اور چین کا سانس لیا۔ دی انڈی پنڈنٹ نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں اس کا کھل کر اعتراف کیا ہے:
عراق میں جنگ کا ایک سبب یہ تھا کہ علاقائی خطرے کا خاتمہ کیا جائے‘ اور امید کی جائے کہ اس طرح شرق اوسط میں امن فروغ پائے گا۔ عراق کے اندر داخلی سلامتی کتنی ہی غیراطمینان بخش ہو اور اس کے ہتھیاروں کے بارے میں تنازع کتنا ہی بھڑک رہا ہو‘ اس جنگ نے اسرائیل کے لیے ایک خطرے کاخاتمہ کر دیا ہے اور خطے کے دوسرے ممکنہ جنگ کرنے والوں کے لیے تنبیہ کا کردار ادا کیا ہے۔ اب اسرائیل کے لیے دنیا ایک نسبتاً زیادہ محفوظ جگہ ہو گئی ہے۔ (اداریہ ‘ ۱۵جولائی ۲۰۰۳ئ)
یہ ہے عراق پر امریکی قبضے کی اصل حقیقت۔ کیا پاکستان کی فوجی قیادت اسرائیل کی تقویت کے لیے کھیلے جانے والے اس کھیل میں اپنے لیے کوئی کردار تلاش کرنے کی حماقت کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ کیا اب اس ملک کی قیادت میں اس کھیل کو سمجھنے والا کوئی موجود نہیں۔ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیْد؟
اس خطرناک کھیل کا ایک اور شاخسانہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے امریکی دبائو اور ترغیبات سے عبارت ہے۔ جنرل صاحب کے دورے سے پہلے ہی اس کے شوشے چھوڑے جانے لگے تھے اور دورے کے دوران اور اس کے بعد اس بارے میں نت نئے نکتے تراشے جارہے ہیں جن کے تجزیے کی ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسرائیل ہی نہیں اُمت مسلمہ اور عالم انسانیت کے تمام ہی مسائل کے بارے میں مبنی برحق خارجہ پالیسی کے خدوخال متعین کیے جائیں۔ یہ موضوعات مستقل بحث کا تقاضا کرتے ہیں‘ اس لیے ان شاء اللہ ان پر آیندہ کبھی گفتگو ہوگی۔
عدلیہ ریاست کا ایک اہم ستون اور انصاف کے قیام اور جمہوری حقوق اور روایات کے فروغ بلکہ ان کی تنفیذ کی گراں قدر ذمہ داری کی امین ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور ساکھ دونوں قانون اور اصولِ انصاف کی پاسداری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کا انتظامیہ کی گرفت اور اثراندازیوں سے پاک ہونا اولیں شرائط میں سے ایک ہے۔ عدلیہ کے لیے سیاسی جانب داری اور کرپشن دونوں سے محفوظ ہونا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور اسے انصاف سے کام کرنے کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ضروری تحفظ فراہم کرتا ہے۔
عدلیہ کو اس کا اصل مقام اور احترام محض قانونی جکڑبندیوں سے نہیں‘ اس کی اعلیٰ صلاحیت‘ مکمل غیر جانب داری‘ انصاف کے معاملے میں بے لاگ رویے‘ حکومتی‘ سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالا ہوکر اپنے فرائض کی انجام دہی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ دستور اور قوم نے عدلیہ سے جو توقعات بجا طور پر وابستہ کی ہیں ان کے کماحقہ پورا نہ ہونے کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اس کا ثبوت وہ نصف درجن کے قریب خود نوشت ہیں جو خود ریٹائر ہونے والے ججوں کے قلم سے نکلی ہیں اور جن میں وہ واقعات بھی بہ زبان خود بیان ہوئے ہیں جن میں عدلیہ کے قابلِ احترام ججوں کو متاثر کرنے اور ان کے متاثر ہونے کا ذکر ہے۔ حال ہی میں جو کش مکش وکلا اور ججوں کے درمیان رونما ہوئی ہے اور جس کی انتہا ایک طرف وہ تالہ بندیاں ہیں جن کا تماشا اعلیٰ ترین عدالتوں میں ہو رہا ہے‘ اور دوسری طرف وہ قرطاس ابیض ہے جو عدلیہ کے کردار کے بارے میں پاکستان بار کونسل نے تیار کیا ہے جو وکلا کی اعلیٰ ترین تنظیم ہے اور جسے نظامِ عدل و قانون میں ایک باوقار مقام حاصل ہے۔ اسی طرح ایل ایف او کے ایک ضمیمے کے ذریعے جس طرح اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ہے اس نے عدلیہ کے وقار اور عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلق کے بارے میں بڑے پریشان کن سوالات پیدا کر دیے ہیں۔
اس پس منظر میں‘ بظاہر کسی غیرمعمولی ضرورت کے بغیر‘ ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ۱۹۷۶ء کے توہینِ عدالت ایکٹ کو‘ جسے پارلیمنٹ نے بحث کے بعد منظور کیا تھا‘ منسوخ کر کے صدارتی فرمان کے ذریعے دستورکی دفعہ ۸۹ کا سہارا لے کر نیا قانون فی الفور لاگو کر دیا گیا ہے جس نے فطری طور پر سیاسی اور قانونی حلقوں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا توہینِ عدالت کے قانون میں کسی ترمیم کی ضرورت تھی؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اس نئی قانون سازی کی ایسی کیا جلدی تھی کہ پارلیمنٹ کا انتظار کیے بغیر اور عوامی بحث اور بار سے مشورے کے اہتمام کو نظرانداز کرکے چار ملکوں کے سفر سے واپسی اور تین ملکوں کے سفر پر روانگی کے قلیل وقفے میں ایک نہایت بنیادی قانون کو آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے۔ یہ دونوں سوال بڑے اہم ہیں اور ان پر علمی‘ قانونی اور سیاسی‘ ہر سطح پر گفتگو ہونی چاہیے کہ جمہوریت نام ہی کھلی بحث اور مشورے کے بعد‘ عوام اور متعلقہ حلقوں سے بھرپور استفادہ کرنے‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مسئلے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر قانون سازی کا ہے۔
عدلیہ کے وقار کا اصل محافظ عدلیہ کااپنا کردار اور کارکردگی ہے۔ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر اب ایک لاعلاج مرض کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے ان فیصلوں کے بارے میں بھی مختلف حلقوں میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے جن کے اہم سیاسی مضمرات ہیں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی مکمل اور حتمی علیحدگی کا مسئلہ بھی دستور کے واضح احکامات اور طے شدہ میقات (time limit)کے گزرنے کے باوجود معرض التوا میں ہے۔ ججوں کی تقرری کا مسئلہ اور اس میں انتظامیہ کے کردار کو بھی شفاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں خود عدلیہ نے ججوں کے فیصلے میں جو راہ اختیار کی تھی اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ وزارتِ قانون میں اب بھی سیکرٹری کا عہدہ بنچ پر موجود جج کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام امور عدلیہ کے مقام‘ وقار اور کردار سے متعلق ہیں اور توہینِ عدالت کے مسئلے کو ان سے جدا کر کے نہیں لیا جا سکتا۔ پھر نئے آرڈی ننس میں صحت مند اور غیرصحت مند تنقید کا باب کھولا گیا ہے‘ جب کہ ان کی کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے حذف شدہ مواد کو بھی گواہی کے لیے پیش کرنے کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ scandalizeکرنے کی اصطلاح بھی بڑی مبہم اور مختلف المعنی ہوسکتی ہے۔ نہ معلوم ایسی کیا جلدی تھی کہ اتنا اہم قانون عوامی بحث اور جائزے اور پارلیمنٹ کے ذریعے قانون بنانے کی بجاے آرڈی ننس کے ذریعے مسلط کر دیا گیا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ توہینِ عدالت کے سلسلے میں عدالت کے اختیارات ہر قانونی نظام کا حصہ ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے قانون سازی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ برطانیہ اور چند دیگر ممالک میں اس سلسلے میں قوانین پائے جاتے ہیں لیکن امریکہ اور دوسرے بہت سے ممالک میں یہ معاملہ دستور کی ضمانت کے تحت‘ قانونی روایات اور عدلیہ کے ضمیر پر چھوڑا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عدالتی فیصلوں اور معاملات کے بارے میں عوامی اور علمی بحث و گفتگو میں لچک پیدا ہوئی ہے۔ اسلامی قانونی روایات کے مطالعے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عدلیہ کا احترام اور انتظامیہ سے مکمل علیحدگی خود ہماری روایت کا حصہ ہے مگر اس کے ساتھ قاضی کے فیصلوں پر بحث و تعدیل اور عدلیہ کے اپنے احتساب کا بھی موثر نظام رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے پر زیادہ گہرائی میں جاکر اور سارے پہلوئوں کا احاطہ کر کے قانون سازی کی ضرورت ہے اور جلدی میں یک طرفہ انداز میں قانون سازی کے اچھے اثرات نہیں ہو سکتے۔
برطانیہ میں ججوں کے تقرر کے طریقوں پر آج کل عام مباحثہ جاری ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی ضرورت ہے کہ اس نوعیت کے تمام امور کو پہلے تجویز کی شکل میں لایا جائے تاکہ تمام متعلقہ حلقے ان کا جائزہ لے لیں۔ پھر پارلیمنٹ میں کھلی بحث کے بعد قانون سازی کی جائے۔ ورنہ خطرہ ہے کہ انصاف کا حصول‘ حقوق کی حفاظت کا اہتمام اور عدلیہ پر اعتماد اور اس کی آزادی کا تحفظ اور صلاحیت کار میں اضافہ حقیقت سے زیادہ محض ایک تمنا رہیں گے۔
حضرت ربیعہ بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دن بھر خدمت کرتا یہاں تک کہ عشاء کی نماز ہوجاتی۔ آپؐ اپنے گھر میں چلے جاتے تو میں آپؐ کے دروازے پر بیٹھ جاتا کہ شاید حضوؐر کو کسی خدمت کی ضرورت پیش آجائے۔ میں رسولؐ اللہ کی تسبیحات سبحان اللّٰہ وبحمدہ کی آواز سنتا رہتا۔ تھک جاتا تو واپس آجاتا‘ یا نیند آجاتی تو سو جاتا۔ میری خدمت اور اپنے اوپر میرے حق کے پیش نظر‘ ایک دن آپؐ نے فرمایا: کعب! مجھ سے جو مانگنا چاہو مانگو‘ میں دوں گا۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے سوچنے کی مہلت دیجیے کہ میں سوچ لوں کہ کیا مانگوں‘ پھر آپؐ سے عرض کر دوں گا۔
کہتے ہیں اس کے بعد میں نے سوچ بچار کی۔ میں نے سوچا کہ دنیا تو ختم ہونے والی چیز ہے۔ دنیا میں مجھے اتنا رزق مل جائے گا جس سے میرا گزارا ہو۔ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی آخرت کے لیے سوال کرنا چاہیے۔ آپؐ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت اُونچا مقام ہے۔ میں یہ سوچنے کے بعد حاضر ہوا۔ آپؐ نے پوچھا: ربیعہ! فیصلہ کرلیا؟ میں نے عرض کیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ! میں آپؐ سے سوال کرتا ہوں کہ میری شفاعت کریں کہ دوزخ کی آگ سے آزاد ہوجائوں۔ آپؐ نے پوچھا: ربیعہ ! آپ کو اس سوال کا مشورہ کس نے دیا؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کسی نے نہیں۔ جب آپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ سوال کرو‘ میں دوں گا‘تومیں نے آپؐ کے مقام پر جو اللہ کے ہاں ہے نظر ڈالی اور اپنے بارے میں سوچا‘ تو میں نے سمجھا کہ دنیا زائل ہونے والی چیز ہے۔ دنیا میں بقدر گزارا مجھے رزق مل رہا ہے‘ مل جائے گا۔ میں رسولؐ اللہ سے اپنی آخرت کے لیے سوال کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے طویل خاموشی اختیار کی۔ پھر فرمایا: میں شفاعت کروں گا۔ آپ کثرت سے سجدے کر کے اس سلسلے میں میری اعانت کریں۔ (مسنداحمد‘البدایہ والنہایہ‘ ج ۵‘ ص ۳۳۵‘ طبرانی فی الکبیر)
۱- کوئی بہت بڑی ہستی جو سب کچھ دے سکتی ہو آپ سے کہے: مانگو‘ کیا مانگتے ہو‘ دیا جائے گا--- تو آپ کا کیا جواب ہوگا‘ آپ خود ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن حضرت ربیعہؓ کا جواب‘ جو فوری ردعمل نہ تھا‘ سوچا سمجھا جواب تھا‘ آپ نے دیکھ لیا۔ دنیا کے بارے میں خوب سوچا‘ تولا‘ پھر آخرت میں آتشِ جہنم سے آزادی کو ترجیح دی۔
۲- طویل خاموشی کے دوران حضرت ربیعہؓ کے دل پر کیا کیا نہ گزر گیا ہوگا۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ شفاعت ہوگئی تو کتنے ہی گناہ کیوں نہ کیے ہوں‘ بیڑا پار لگ گیا--- لیکن رسولؐ اللہ خود فرماتے ہیں کہ ربیعہؓ! طویل سجدوں سے میری اعانت کرو۔
اہل اللہ کی‘ والدین کی‘ اساتذہ کی خدمت کو اپنا طریقہ بنایئے کہ ان کی دعائوں سے آخرت سنورنے کا امکان ہے۔
مگر یہ کافی نہیں۔ اپنے اعمال ‘ اللہ سے تعلق‘ نوافل‘سجدے ضروری ہیں۔
حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں پر تمھارے رب کی طرف سے حق کے دلائل اس وقت تک آشکارا ہوتے رہیں گے‘ جب تک دو نشوں کی بیماری تم پر حاوی نہ ہوجائے۔ ایک جہالت کا نشہ‘ اور دوسرا زندگی سے محبت کا نشہ۔ تم معروف کا حکم کرو گے‘ منکر سے روکو گے‘ اللہ کی راہ میں جہاد کرو گے لیکن جب تم پر دنیا کی محبت غالب ہو جائے گی تو معروف کا حکم کرو گے‘ نہ منکر سے روکو گے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہ کرو گے۔ ایسے وقت میں کتاب و سنت کی بات کرنے والے اُن مہاجرین اور انصار کی مانند ہوں گے جو السابقون الاولون کا مصداق بن گئے۔ (مسند بزاز‘ مجمع الزوائد ۷/۲۷۱)
اپنے آس پاس بلکہ اپنے اندر بھی دیکھیں تو یہ دونوں نشے نظر آئیں گے۔ جو لوگ اس میں مدہوش ہیں‘ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر تو کجا‘ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھ رہے ہیں۔ اقدار بدل گئی ہیں۔ برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا۔ خوش قسمت ہیں وہ جو ان حالات میں کتاب و سنت کی بات کرتے ہیں۔ اس سے بڑا رتبہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ السابقون الاولون مہاجرین و انصار کی مانند قرار پائیں۔ وفی ذٰلک فلیتنافس المتنافسون (یہی وہ چیز ہے جس کے لیے لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی حرص کریں)۔
حضرت عبداللہ بن حارثؓ سے روایت ہے: فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ‘ عبیداللہ اور کثیربن عباسؓ کو ایک صف میں کھڑا کرتے پھر (ان کی دوڑ لگواتے) فرماتے‘ جو میرے پاس پہلے پہنچے گا‘ اسے یہ اور یہ انعام ملے گا۔ وہ دوڑ کر آپؐ کی طرف پہنچتے۔ آپؐ کی پیٹھ اور سینے پر چڑھتے۔ آپؐ ان کے بوسے لیتے اور انھیں سینے سے لگاتے۔(مسنداحمد‘ مجمع الزوائد)
ہمارے گھروں میںیہ مناظر عام ہونا چاہییں۔ اس طرح جو معاشرت تشکیل پاتی ہے‘ وہی اسلامی معاشرت ہے۔ بچوں سے پیار اور محبت ان کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ ان پر بے جا سختی کرنا اور انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہنا‘ ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور کرنے کا سبب ہے۔ محبت اور پیارکو تربیت کا ذریعہ بنایئے۔ یہی نبیؐ کا طریقہ ہے۔ آپؐ اپنے اہل و عیال کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے۔ ڈانٹنے ڈپٹنے والے نہ تھے۔
بچوں پر تشدد‘ ان سے جبری مشقت لینے‘ یا ان کو تعلیم و تربیت سے محروم رکھنے کا تصور اسلام میں نہیں ہے۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ ارویٰ بنت اوس نے حضرت سعیدؓ بن زید پر دعویٰ کیا کہ انھوں نے ان کی زمین کا کچھ حصہ غصب کرلیا ہے۔ ان کو مروان بن حکم کی عدالت میں فیصلہ کے لیے بلایا گیا۔ حضرت سعیدؓ بن زید نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس کے بعد میں کیسے اس کی زمین کا کچھ حصہ دبا سکتا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ میں نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو زمین کی ایک بالشت ظلم سے لے گا‘ اسے اللہ تعالیٰ سات زمینوں تک کا طوق ڈالے گا۔ اس کے بعد سعیدؓ بن زید نے دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اس کی قبر اس کی زمین میں بنا دے۔
حضرت عروہؓ کہتے ہیں کہ اسے اس وقت تک موت نہ آئی جب تک وہ نابینا نہ ہوگئی۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اندھی تھی‘ دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر چلتی تھی‘ اور کہتی پھرتی تھی کہ مجھے حضرت سعیدؓ بن زید کی بددعا لگ گئی۔ وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ اس کا گزر ایک گڑھے پر ہوا‘ اس میں گر کر مر گئی۔ وہ گڑھا اس کی قبر بن گیا۔ (بخاری و مسلم)
ہر رسالے میں‘ ہر اخبار میں بلکہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی قرآن کی آیات اور رسولؐ کی احادیث ہم تک پہنچائی جاتی ہیں‘ مسلسل‘ اور کتنے ہی درس و وعظ ہم سنتے ہیں: احکامات‘ تعلیمات‘ ترغیبات‘ منہیات--- لیکن حضرت سعیدؓ کی سادہ دو ٹوک بات: رسولؐ اللہ کی کوئی بات علم میں ہو تو اس کے خلاف کرنے کا کیا سوال ہے؟ یہ منزل مطلوب ہے۔ مسلمان کی یہی کیفیت ہونا چاہیے۔ حضرت سعیدؓ نے اپنے اوپر الزام کو اس قدر سنجیدگی سے لیا کہ بددعا بھی دے دی۔ اور اللہ تعالیٰ نے قبول کر کے ظالموں کو ہمیشہ کے لیے تنبیہ کر دی۔
ظلم کے ان سب دائروں کو چھوڑیں جہاں ظلم خوب پھل پھول رہا ہے‘ صرف جایداد اور زمین کے معاملات میں ہی کیا کچھ‘ ہر کوئی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے‘ جب کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے---
اسلام کی نشاتِ ثانیہ اور احیا کے لیے مولانا مودودیؒ نے جس فکر کی آبیاری کی اور جس تحریک کی داغ بیل ڈالی اس کو آگے بڑھانے میں جن ہستیوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور فکری رہنمائی کا فریضہ انجام دیا‘ ان میں ڈاکٹر سید اسعد گیلانیؒ ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور قلم کی جولانیوں کو افکارِ مودودی کی ترویج‘ کارکنان تحریک اسلامی کے تزکیہ و تربیت اور تحریک کی صحیح سمت میں پیش رفت میں لگا دیا اور ساتھ ساتھ تحریک کی طرف سے تفویض کردہ بہت سی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ مولانا کی رحلت کے بعد انھوں نے اپنی ایک تحریر میں مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کی اہمیت‘ خصوصیات اور اثرپذیری کا جائزہ لیا ہے۔ مولانا مرحوم کے صدسالہ یومِ ولادت کی مناسبت سے ہم یہ تحریر پیش کر رہے ہیں‘ تاکہ تحریک اسلامی کے لٹریچر کی اہمیت و افادیت ایک بار پھر اُجاگر ہوسکے اور اس کی توسیع و اشاعت کے ذریعے مولانا مودودیؒ کو بہترین انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا جاسکے۔ (ادارہ)
مولانا مودودیؒ کا تیار کردہ لٹریچر زندگیوں کو بدل دینے اور انھیں ایک سمت سفر دینے کی قوت اور توانائی رکھتا ہے۔ اس میں یہ قوت موجود تھی کہ اس نے اپنے زور سے ایک عظیم اسلامی تحریک پیدا کر دی جو پھیلتے پھیلتے پورے برعظیم جنوب مشرقی ایشیا میں پھیل گئی۔ پھر اس کی وسعت کے لیے برعظیم بھی صغیر تر ثابت ہوا اور پورے عالم اسلام میں اور وہاں سے گزر کر دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنے نظریاتی اثرات کے ساتھ یہ تحریک وسعت پکڑتی چلی گئی۔
مولانا مودودیؒ کا تیار کردہ لٹریچر ہی دراصل تحریک اسلامی کا بنیادی اور اساسی لٹریچر ہے اور وہی اسلامی تحریک کی غذا اور نمود کا ذریعہ ہے۔ یہ لٹریچر ہر دم تازہ‘ ہر جگہ موزوں اور ہر حالت میں دعوت کا بہترین سرچشمہ ہے۔ اس لٹریچر کا کارنامہ اور پھل خود تحریک اسلامی ہے۔
تحریک اسلامی کا لٹریچر اس کے جسم کی روح‘ اس کے کارواں کی مشعل اور اس کے خزانے کا سرمایہ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اسی لٹریچر نے مردہ دلوں کو زندگی دی‘ پست ہمتوں کو بلند عزائم دیے اور شکست خوردہ ذہنیتوں کو ایک نہ تھکنے والا ولولہ تازہ دیا۔ تحریک کے اندر اور باہر جو کام یہ لٹریچر کر رہا ہے وہ نہ فوجیں کر سکتی ہیں‘ نہ خزانے انجام دے سکتے ہیں اور نہ بڑے بڑے لیڈروں کی لیڈری ہی وہ کام کر سکتی ہے۔
ہماری ملّی زندگی کے ہر گوشے میں صالح خون کی طرح پھیل پھیل کر یہ لٹریچر دیرینہ بیماریوں کا علاج کر رہا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اس کی تشخیص سے اور اس کے علاج سے جن لوگوں نے رجوع کیا ہے‘ ان کے قلوب کی بیماریوں کو اﷲ نے ضرور ہی شفا دے دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لٹریچر تمام تر کتاب اﷲ اور سنت رسول صلی اﷲ علیہ و سلم سے اخذ کردہ ہے۔ وہیں سے یہ اپنا رخ متعین کرتا ہے‘ وہیں سے یہ اپنا طرز فکر لیتا ہے اور وہیں سے دعوت لیتا ہے۔ جو کچھ قرآن کریم‘ انسانوں سے کہنا چاہتا ہے وہی کچھ یہ لٹریچر قرآن حکیم سے لے کر بندوں تک پہنچاتا ہے۔ جو کچھ سنت رسول صلی اﷲ علیہ و سلم سے ہدایت ملتی ہے‘ اس ہدایت کو یہ لٹریچر لے کر اﷲ کے بندوں میں تقسیم کرتا اور بانٹتا ہے۔ یہ لٹریچر انھی دونوں روشنی کے میناروں سے ضیا حاصل کرتا ہے اور اس راستے کی طرف بھولے بھٹکے لوگوں کو بلاتا ہے۔
جس طرح قرآن کے لانے والے رسولؐ کا پیغام روم میں پہنچانے کے لیے جانے والا روم کی زبان کو‘ اور فارس میں پہنچانے والا فارس کی زبان کو اختیار کرتا تھا اور ہر رنگ اور ہر زبان میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی ایک ہی بات‘ ایک ہی دعوت اور ایک ہی ہدایت پہنچائی جاتی تھی‘ اس میں زیر زبر یا شوشے کا اضافہ نہ ہوتا تھا‘ اسی طرح تحریک اسلامی کا لٹریچر بھی جن انسانوں تک اﷲ اور اس کے رسولؐ کا پیغام پہنچا رہا ہے‘ ان کی بولیوں کو اختیار کر کے بندوں کے خالق اور مالک کی وہی بات پہنچا رہا ہے جو قرآن اور سنت نے انسانوں سے کہی ہے۔ اس لٹریچر نے ہماری ملی زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا اور اسے کسی نہ کسی پہلو سے اسلام کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے قدم قدم پر اسلام کا مفہوم اور منشا نکھار نکھار کر پیش کیا ہے‘ تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ وہ اسلام سے دور رہا اور اس کے ذہن میں فلاں شبہات اور اشکال تھے جن کا کوئی تسلی بخش حل اسے نہ ملا۔ تحریک اسلامی کے لٹریچر نے اس پہلو سے باخبر انسانوں پر یہ حجت بڑی حد تک تمام کر دی ہے۔
دعوت دین میں مولانا مودودیؒ کا تخلیق کردہ لٹریچر جو کامیابی حاصل کرتا ہے‘ وہ کامیابی کارکنوں کی ذاتی گفتگو اور دعوت سے بالعموم بڑھ کر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ دعوت پہنچانے اور کسی فرد کو غور و فکر پر ابھارنے اور پھر مثبت انداز سے متاثر کرنے کے لیے ایک کتاب کو جو سہولتیں حاصل ہوتی ہیں‘ وہ ایک کارکن کو نہیں ہوتیں۔
ایک کارکن جب کسی کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتا ہے تو اصل داعی کی بات اس شخص تک بالواسطہ پہنچتی ہے۔ وہ جب اس کی دعوت کو سنتا ہے تو وہ اس کے ساتھ ہی بات پیش کرنے والے کی ذات کو بھی شامل رکھتا ہے۔ اس کی شخصیت‘ اس کی زبان‘ انداز‘ لہجہ‘ لباس‘ کارکن کے بارے میں کوئی گذشتہ تاثر‘ سبھی مل کر دعوت کے نفوذ کو بڑھاتے یا گھٹاتے ہیں‘ اور چونکہ شخصیتیں ہرقسم کے تاثرات ڈالتی ہیں اس لیے بہت ممکن ہوتا ہے کہ کارکن کا لہجہ‘ بات کا انداز‘ بحث کا طریقہ‘ یا کوئی گذشتہ ناپسندیدہ تاثر‘ اس بہترین دعوت کے اثر کو کم کر دے۔ پھر ظاہر ہے کہ ایک بات جس طرح اصل داعی کہہ سکتا ہے‘ اس طرح ایک کارکن نہیں کہہ سکتا۔
اسی وجہ سے ایک کتاب کسی کو متاثر کرنے کے لیے بہت سی سہولتیں رکھتی ہے۔ اس سے شخصی پرخاش ممکن نہیں۔ قاری اس کے ساتھ بحث نہیں کرتا۔ اس کی بات توجہ سے سنتا ہے۔ اس کے ساتھ شخصی اور ذاتی لحاظ سے کسی کے مخالفانہ یا ناپسندیدگی کے جذبات وابستہ نہیں ہوتے۔ کتاب کی بات وہ ٹھنڈے دل سے سنتا اور اس پر غور کرتا ہے۔ پھر کتاب‘ اسلامی تحریک کے بہترین دماغ یا داعی کی نمایندگی اس کے الفاظ میں کرتی ہے --- ظاہر ہے کہ جہاں ایک بات مولانا مودودیؒ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوں‘ وہ بہرحال ایک عام کارکن سے بہتر طور پر سمجھا سکتے ہیں۔ اسی طرح تحریک کا یہ لٹریچر قوت نفوذ اور تاثر و تاثیر کے لحاظ سے کارکنوں سے بھی زیادہ کام کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔
تعمیر کردار کے سلسلے میں اس لٹریچر نے قوم کی جو خدمات انجام دی ہیں‘ ان کی نظیر صدیوں سے مسلمان قوم میں نہیں ملتی۔ اول تو اﷲ کے فضل و کرم نے اس کی اشاعت کا اس وقت انتظام فرمایا جب مسلمان قوم اپنے انحطاط کی نچلی سطح کو چھو رہی تھی اور اس کی زندگی کا کوئی گوشہ بھی الا ماشاء اﷲ اس اسلام سے آشنا نہ رہا تھا‘ جسے مسلمانوں نے خود دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔
تحریک اسلامی کے اس لٹریچر نے قوم کی تعمیر سیرت میں زبردست حصہ لیا اور اسے اسلام کے تمام گوشوں سے نہ صرف آگاہ کیا‘ بلکہ اسلام کے مطابق چلنے پر ابھارا۔ ایک ایک فرد کا ہاتھ تھام تھام کر اسے بتایا کہ مسلمان کی حیثیت سے تیرا مقام یہ نہیں ہے۔ اس نے فرد فرد کو اس ’’حاضر و موجود‘‘ سے بے زار کیا جس پر یہ قوم تکیہ کر کے بیٹھ گئی تھی۔ انحطاط کے جس گھورے پر یہ قوم آ بیٹھی تھی اس کی غلاظت‘ کم مایگی اور پستی سے قوم کو آگاہ کیا اور اسے اس کا مقام بلند دکھایا۔ اسے بتایا کہ جس ٹہنی پر تو آشیانہ بنانے کی فکر میں ہے‘ یہ نخل طور نہیں ہے بلکہ الحاد و زندقہ کا زقوم ہے۔
اس لٹریچر نے الجھے ہوئے افکار کو صاف کیا۔ کسی ذہن پر اشتراکیت ہتھوڑے چلا رہی تھی‘ کسی ذہن کو الحاد لذت پرستی میں مبتلا کر رہا تھا‘ کسی ذہن کو آمریت میں اسلام اور اسلام میں آمریت نظر آنے لگے تھے‘ کچھ لوگ اسلام کو جنون اور دقیانوسیت کہہ کر اپنی آزاد خیالی کا اظہار فرمانے لگے تھے‘ اور کچھ لوگ حجروں میں بند ہو کر اور خانقاہوں میں چھپ کر اپنے بچے کھچے آثار ایمان کو بچانے کی فکر میں تھے۔ کچھ لوگ دنیا کے سامنے اسلام سے اپنی وابستگی پر معذرتیں پیش کر رہے تھے اور اسلام میں سے وہ سب کچھ نکال نکال کر پھینک رہے تھے جو یورپ کے تاجر کو ناپسند تھا‘ تاکہ وہ اپنی دکان میں وہ مال رکھیں جس کو سب لوگ پسند کریں۔ نہ اس پر شیطان کو اعتراض ہو اور نہ قیصر کو۔ ان ساری بوقلمونیوں نے قوم کے اجتماعی مزاج کو ایک عجیب انتشار‘ کج فکری‘ پست ہمتی اور معذرت خواہی سے بدل دیا تھا۔
تحریک اسلامی کا لٹریچر جب آیا تو اس نے سارے جھاڑ جھنکار کو چھانٹا۔ اس نے ذہنوں پر پڑی ہوئی ساری الجھنیں صاف کیں۔ اشتراکیت‘ آمریت‘ الحاد‘ مغرب پرستی‘ سب کو لا کر روشنی میں رکھا اور اس کے خدوخال واضح کیے۔ ان کے مقابلے میں اسلام کے گوشے گوشے کی وضاحت کی اور بتایا کہ یہ کمخواب میں ٹاٹ‘ مونج‘ کھدر اور گاڑے کے جو پیوند لگائے جا رہے ہیں‘ یہ اس لیے لگ رہے ہیں کہ بے چارے ضرورت مند ان کی علیحدہ علیحدہ جنس کی پہچان نہیں رکھتے۔ ان کی بصیرت کمزور ہے‘ اس لیے اس لٹریچر نے ان کو بصیرت کی روشنی دی اور تمام جنسوں کی پہچان بتائی۔ اب جو مخلص ضرورت مند ہو اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ دھوکے سے کمخواب کی جگہ ٹاٹ یا کھدر لے لے۔
یہ لٹریچر ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گیا۔ سیکڑوں دارالمطالعوں میں پہنچ گیا۔ ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی نظروں سے گزرتا چلا گیا اور انھیں اسلام کے سوا ہر چیز سے غیر مطمئن کر گیا۔ لاکھوں کو اس نے اپنا ماحول بدلنے پر آمادہ کیا۔ لاتعداد لوگوں کو جو بالکل خاموش طبع اور غیر حرکت پسند لوگ تھے‘ انھیں اپنے ماحول سے لڑ کر اسے بدلنے پر آمادہ کر دیا۔ جو مسجد کی طرف سے گزرتے ہوئے شرماتے تھے‘ انھیں مسجدوں میں بار بار حاضری کا عادی بنا دیا۔
جو لوگ مغربی علوم کے ساتھ مغربی تہذیب کو بھی آثار ترقی و تہذیب سمجھتے تھے‘ اس لٹریچر نے ان کے وہ سارے آثار ترقی و تہذیب دریا برد کر دیے‘ اور انھیں اچھا خاصا مرد مسلمان بنادیا۔ کالجوں کے وہ نوجوان جو سیر و تفریح‘ کھیل تماشا‘ ہنسی مذاق‘ غل غپاڑے اور لپاڈگی کو ہی حاصلِ زندگی سمجھتے تھے‘ انھیں زندگی کے مسائل پر غور کرنے کے لیے سنجیدگی‘ متانت اور وقار دے دیا۔ جو سڑکوں پر چلتے ہوئے چھیڑ چھاڑ کرتے جانا اپنے ماڈرن ہونے کا لازمی جزو سمجھتے تھے‘ انھیں شرافت سے چلنا‘ سنجیدگی سے گفتگو کرنا‘ متانت سے اٹھنا بیٹھنا اور وقار کے ساتھ غض بصر کا پورا پورا اہتمام کرنا سکھا دیا۔ اس لٹریچر نے ماڈرن تعلیم کے ساتھ تہذیب حاضر کے زخم خوردہ لوگوں کو اپنی بات انھی کی اصطلاحات‘ انھی کے انداز اور انھی کے ذوق اور معیار علم کے مطابق بتائی اور انھیں فتوے سے نہیں‘ بلکہ دلیل سے سمجھایا۔ پہلے ان کے دماغوں کو مطمئن کیا‘ پھر دل کی بیماریوں کو رفع کیا۔ اس نے پوری حکمت اور تدریج سے قوم کے اجتماعی شعور میں اسلام کے بارے میں جاہلیت کے لگائے ہوئے ایک ایک کانٹے کو چن چن کر دور کرنے کی مہم جاری کی۔ یہ مہم اس نے پوری قوت سے چلائی۔
ملت میں جس طرف کوئی فتنۂ جاہلیت اُبھرتا ہوا نظر آیا‘ اس نے آگے بڑھ کر اس کی جڑ کاٹنے کی کوشش کی۔ جس طرح کسان بیج بونے سے پہلے کھیت کے ایک ایک ڈھیلے کو توڑ کر زمین مکمل طور پر ہموار کرتا ہے‘ اسی طرح اس لٹریچر نے صحیح فکر کا بیج ڈالنے کے لیے غیر اسلامی فکر کے ایک ایک ڈھیلے کو ملی شعور کی کھیتی میں چن چن کر توڑا‘ اور پست کیا۔ آج مسلمان قوم کا کوئی فرد یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلامی زندگی کے متعلق فلاں مسئلے کے بارے میں تحریک اسلامی کا لٹریچر خاموش ہے اور کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ اس بیمار ملت کو جس جس دوا کی ضرورت پیدا ہوتی رہی یہ تیماردار فراہم کرتا رہا ہے‘ اور اب کیفیت یہ ہے کہ تیماردار کے پاس بیمار کی نفسیاتی کیفیات‘ امراض‘ عادات‘ تشخیص مرض اور علاج کا پورا چارٹ تیار ہے۔ اب مریض کو کچھ اپنی قوت ارادی کی بھی ضرورت ہے‘ جس کے بعد صحت کلی لازمی نتیجہ ہے۔
اس لٹریچر نے دینی احساس اور علم کے ساتھ اسلامی خطوط پر ملت میں سیاسی شعور بھی بیدار کیا۔ وہ لوگ جو دستور اور قانون کا فرق تک نہ جانتے تھے‘ تحریک اسلامی کے لٹریچر نے انھیں قانون اور دستور کے موضوعات پر تقریروں کے لیے تیار کر دیا۔ لوگوں کو دستور کی اہمیت بتائی۔ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو اس مسئلے پر حساس بنایا اور انھیں آمادہ کر دیا کہ وہ اپنا دستور حکومت سے طلب کریں۔ جس قوم کے عوام دستور کا تلفظ نہ جانتے تھے اس قوم کو دستوری مطالبے پر جلسے‘ جلوس‘ مظاہرے‘ تار‘ ریزولیوشن اور ہر جمہوری طریق سے اظہار خیال پر تیار کیا اور نہ صرف تیار کیا‘ بلکہ انھیں اسلامی اور غیر اسلامی دستور کے خدوخال اتنے واضح کرکے بتا دیے کہ اب کسی کے لیے ممکن نہیں رہا ہے کہ دجل و فریب سے کفر پر اسلام کا لیبل لگا کر قوم کو دھوکا دے جائے۔
اس لٹریچر نے قوم کو اسلامی اصولوں پر ایک بالکل ہی انوکھی انتخابی پالیسی سے روشناس کیا۔ ایسی انوکھی پالیسی جو اسلام سے ناواقفیت کی بنا پر انوکھی ہو کر رہ گئی تھی۔ ورنہ صفاتی نمایندگی پر مبنی انتخابی جدوجہد اسلام کے اصولوں سے ہی اخذ کی گئی تھی اور کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ اس میں فلاں فلاں جزو اسلام کی روح کے منافی ہے۔ اس طریق کار کے ذریعے اس لٹریچر نے عوام کے ہاتھ میں ایک ایسا معیار دے دیا کہ وہ اپنے درمیان سے اچھے اور برے لوگوں کو چھانٹ سکیں۔ بروں سے بچیں اوراچھوں کو آگے لانے کی کوشش کر سکیں۔
اس لٹریچر نے قومی سیاسیات میں پہلی بار شرافت‘ سنجیدگی‘ الزام تراشی سے اجتناب‘ وقار‘ متانت‘ صاف گوئی‘ ایمان داری اور دیانت کو داخل کیا۔ اس نے بتایا کہ قوموں کی تعمیر نعروں سے نہیں ہوتی‘ کام اور کردار سے ہوتی ہے۔ اس نے جلسوں میں غل غپاڑہ مچانے والوں کو شرافت سے مخالف کی بات سننا اور اپنی بات کہنا سکھایا۔ اس نے قوم میں جمہوری اقدار کی اس وقت بھی پاسبانی اور وکالت کی اور اس کے لیے پابندیِ نشرو اشاعت اور ضبطی کی مصیبتیں برداشت کیں جب آمریت اپنی ننگی تلواروں کے ساتھ روح ملت کو بار بار چھیدنے پر آمادہ ہوتی رہی۔ اس نے قیصر کے سامنے حق بات ہمیشہ کہی۔ اس نے سیاسیات میں دلائل کو شامل اور دھاندلی کو خارج کیا۔ شرافت کو داخل کیا اور غنڈا گردی کے خلاف مورچہ لگایا‘ اور بار بار یہ ثابت کیا کہ حق ہی ایک ایسی پونچی ہے جس کے لیے انسان جانیں دیں اور پھانسیوں پر چڑھیں۔
بعض لوگ تحریک کے لٹریچر کو اس تحریک کی روح رواں اور مروج سیاسیات میں اس کی سست رفتاری دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو ایک علمی ادارہ ہے جو بہت اچھا علمی کام کر رہا ہے لیکن اس کا سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ تحریک اسلامی کو ایسی سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں‘ جس کے جلسوں میں کرسیاں چلتی ہیں‘ جس کے انتخاب میں بوگس ووٹ‘ شرارت اور غنڈا گردی چلتی ہے۔ جس میں جوڑ توڑ اور اکھاڑ پچھاڑ چلتی ہے‘ اور جس میں اخلاق‘ دیانت‘ شرافت اور صاف گوئی کے بجاے بد اخلاقی‘ بد دیانتی‘ دھاندلی اور دھوکا بازی ہی اس کے معمولات میں شامل ہیں۔ لیکن تحریک اسلامی تو ظاہر ہے کہ ایک انقلابی فکر اور دعوت لے کر آگے آ رہی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں تعمیری اور اسلامی رحجانات کی پرورش کی داعی ہے۔ یہ کام دل و دماغ کی تبدیلی اور زندگی کی یکسر کایا پلٹ کا پروگرام ہے۔ یہ کام چند بلند بانگ نعروں یا جوڑ توڑ سے تو انجام نہیں دیا جا سکتا۔ جوڑ توڑ کے ذریعے داخلی سازشیں کر کے حکومت کا تختہ تو اُلٹا جا سکتا ہے لیکن قوم کا مزاج نہیں بدلا جا سکتا‘ جو انقلاب کی اصل کھیتی ہے اور جس میں جڑ پکڑے بغیر کوئی انقلاب بھی پاے دار نہیں ہو سکتا۔
تحریک اسلامی کا لٹریچر جس تدریج اور رفتار سے دل و دماغ کی تبدیلی اور اخلاقی بنیادوں پر معاشرتی اور ملی انقلاب کی تیاری کا کام کر رہا ہے‘ اس کی جڑ ملت کے دلوں میں اتر رہی ہے۔ یہ ایسی جڑ ہے جسے کسی داخلی جوڑ توڑ یا سازش یا فوج کی سیاسی مہم جوئی سے اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ تحریک اسلامی کی سیاست اوپر ہی اوپر چند سیاسی گٹھ جوڑ کر کے کسی اصلاح کا خواب نہیں دیکھتی۔ وہ پوری ملت کو آہستہ آہستہ تربیت دے کر اپنی اصلاح کے معیار مطلوب پر لا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ پوری قوم کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا کام کوئی کھیل نہیں ہے جسے چند آدمی مل کر اور چند دوسرے آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا کر کھیل لیں اور ساری قوم صرف منہ دیکھتی رہے۔
یہ لٹریچر ایک عظیم انقلابی قوت ہے جو قوم کے اندر پرورش پا رہی ہے۔ یہ انقلابی قوت انھی خطوط کی پیروی کر رہی ہے جن پر خاک حجاز سے انقلاب برپا ہوا تھا۔ جس طرح اس قوت نے پسماندوں کو اٹھا کر استحصال اور ظلم کے نمایندہ سرداروں سے لڑا دیا تھا‘ ایک اﷲ کی پرستش بتا کر سارے الہٰوں کے خلاف لڑ جانے کے لیے دبے اور پسے ہوئے لوگوں کو اُبھار دیا تھا‘ جس طرح بدوؤں کو شاہوں کے درباروں میں نیزوں کی انی ٹیکتے اور قالینوں کو چھیدتے ہوئے چلے جانے کا حوصلہ دے دیا تھا‘ اسی راستے پر چلنے کی اتباع کرتے ہوئے سید مودودیؒ کے اس لٹریچر نے بھی ہزاروں لاکھوں زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ جن لوگوں کے سینے سروس شیٹ کی معمولی خرابی پر دھڑکتے تھے‘ ان کے سینوں میں شیروں کا دل رکھ دیا ہے۔ اس نے ہزاروں کو اپنے قریب ترین ماحول سے لڑ جانے پر اُبھار دیا‘ حرام کمائی کے عیش چھوڑ کر حلال کی خشک روٹی پر آمادہ کر دیا۔ قریب ترین عزیزوں سے کٹ کر صرف اﷲ کی راہ میں سینے پر زخم سہہ جانے کا حوصلہ پیدا کر دیا۔
اسی لٹریچر کی حرارت کا اثر ہے کہ اس کا داعی ہنسی خوشی اﷲ کی رضا کے حصول کے لیے پھانسی کے تختے تک بلا جھجک پہنچ گیا اور اس کا قدم نہ ڈگمگایا۔ اس کے ساتھی وہ لوگ جو لٹریچر سے متاثر ہو کر آگے بڑھے‘ وہ بڑی سے بڑی تکلیف میں سے گزر گئے لیکن اف تک نہ کی۔ اس لٹریچر کی قوت نے لوگوں کی رگوں کا خون گرم رکھا اور ان کے عزائم کو پہاڑ سے زیادہ بلند کر دیا۔ اس لٹریچر نے ان میں یہ اخلاص پیدا کیا‘ کہ قوم کی ہر مصیبت پر وہ تڑپ گئے اور ان کی راتوں کی نیند حرام اور دن کا چین رخصت ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خود تحریک اسلامی کے داعی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ یہ لٹریچر ہمیشہ اپنے مطالعے میں رکھتے تھے اور کبھی اس سے اس بنا پر غافل نہیں ہوئے تھے کہ یہ لٹریچر بیش تر ان کا اپنا ہی تیار کردہ ہے۔
یہ لٹریچر اقتصادی لحاظ سے بھی ہمیشہ اس تحریک کی ریڑھ کی ہڈی رہا‘ اور اس نے تحریک کو چندا بازی کی اس پست جگہ سے ہمیشہ بلند رکھا جس سطح پر آکر تحریکیں اپنا وقار اور اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔ ایک طرف اس نے عوام میں انفاق فی سبیل اﷲ کا جذبہ اُبھارا‘ اور تحریک کی طرف آنے والے کو اس بات پر مطمئن کر دیا کہ جب وہ خدا کی راہ میں آ رہا ہے تو اپنے ساتھ اپنے سارے ذرائع و وسائل لے کر آئے۔ اپنے کردار کے ساتھ ساتھ اپنی جیب کو بھی مسلمان بنائے اور دوسری طرف اس کی وسعت اشاعت نے تحریک کی مالیات کو سب سے زیادہ تقویت پہنچائی۔
دراصل یہ لٹریچر خون جگر سے لکھا گیا ہے۔ اس میں خلوص نیت کو تحلیل کر کے شامل کیا گیا ہے۔ اس کی سطر سطر میں لکھنے والے نے اپنی رگوں کا خون نچوڑا ہے۔ وہ راتوں کو لکھنے کی میز پر بیٹھا ہے تو لکھتے لکھتے صبح کر دی ہے۔ اس نے اپنی زندگی کی راتیں قرآن کے تدبر پر صرف کی ہیں۔ اس نے سنت رسولؐ کے انمول موتیوں کو چُننے کے لیے غواصی کی ہے۔ اس نے پہلے اپنے رب سے پیمان وفا باندھا ہے‘ پھر اس کی راہ میں قدم اٹھایا ہے۔ اس نے پہلے جنگ میں لڑ کر شہید ہو جانے کی نیت کی ہے‘ پھر اس کے بعد ہاتھ میں قلم اٹھایا ہے۔ جب دنیا آرام کی نیند سوتی رہی ہے تو اس نے شب بیداریاں کی ہیں اور ان شبوں کا گداز اپنی تحریروں میں سمویا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا لٹریچر اپنے اندر کتنی کچھ تاثیر رکھ سکتا ہے اور کتنی کچھ قوت تسخیر اس کے اندر پوشیدہ ہوسکتی ہے۔
یہ وہ لٹریچر ہے جس نے خدا کے ہزاروں لاکھوں کھوئے ہوئے بندوں کو زندگی کا نصب العین سمجھایا ہے۔ طاغوت کی فوج کے سپاہیوں کو حق کے رضاکاروں میں شامل کیا ہے۔ دوزخ کے گڑھے کی طرف جوق درجوق جانے والوں کو اﷲ کی رضا کے راستے پر لگایا ہے۔ کتنے ماں باپ کی دعائیں اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ کتنی عورتوں کا سہاگ لٹتے لٹتے اس لٹریچر نے بچایا ہے۔ کتنی اﷲ کی رضا ہے جو اس کی روشنی میں اس کے بندوں کو حاصل ہوئی ہے۔ یہ تو وہ روشنی ہے جس نے کتنے ہی زندگی کے بھٹکے ہوئے مسافروں کو سیدھی راہ پر لگا دیا ہے۔ وہ جن کے دلوں میں ذاتی سربلندی کے ولولے تھے‘ ان کو اسلام کی سربلندی کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینا سکھایا‘ جن کے سروں میں اغراض کا سودا تھا‘ انھیں رضاے الٰہی کے حصول کا جنون عطا کیا۔
یہ لٹریچر تووہ متاع عزیز ہے جس کا ایک ایک ورق سونے میں تولا جائے اور ہیرے جواہرات سے بھی اس کی قیمت لگائی جائے تو اس کی قیمت نہ لگ سکے‘ اور وہ لوگ جنھوں نے اپنی زندگیوں کے رخ اس لٹریچر کے زور سے بدلتے ہوئے دیکھے ہیں‘ وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کے لیے اس لٹریچر کی معنوی قیمت سونے چاندی کے ڈھیروں سے ہزار گنا بڑھ کر ہے۔ (۲۰مارچ ۱۹۸۳ئ)
اسلام انسانی زندگی کو براہِ راست اللہ کی بندگی پر قائم رکھنے کا ضابطہء کار ہے۔ اسلام عقیدہ و نظام عمل‘ اخلاق و قانون اور سلطان و اقتدار اور تبلیغ کا جامع ہے۔ اسلام خارجی طور پر احکام و ضوابط سے اور داخلی طور پر احساسات و رجحانات اور نفسیاتی کیفیات کی اصلاح اور تربیت کرتا ہے تاکہ معاشرے میں فطری عدل‘ ہم آہنگی اور توازن پروان چڑھے۔
اسلام میں نماز کے ساتھ جو فریضہ سب سے اہم ہے وہ زکوٰۃ ہے۔ اگر نماز سے شکرگزاری‘ عبدیت‘ محبت اور تعلق مع اللہ کا رشتہ استوار ہوتا ہے‘ تو زکوٰۃ سے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں۔ دونوں فریضے اجتماعی ہیں اور باہم لازم و ملزوم ہیں‘ دونوں یکساں اہم ہیں۔ زکوٰۃکی فرضیت معاشرتی استحکام و اخوت کے فروغ کے لیے ایک ربانی تدبیر ہے۔ یہ ربانی تدبیر بقول سید سلیمان ندویؒ ہر ربانی دین میں ملحوظ رکھی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے عشر مقرر کیا تھا‘ کوہِ سینا پر جو احکام حضرت موسٰی ؑکو ملے تھے ان میں عشرکا حکم بھی تھا۔ (مولاناریاض الحسن ندوی‘ تاریخ عشر‘ ص ۱۷۸‘ مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری‘ لاہور)
حضرت عیسٰی ؑ نے بخیل دولت مندوں کو اللہ کے عتاب سے ڈراتے ہوئے صدقات دینے کی اخلاقی تعلیم دی تھی۔ تہذیب نفس اور بخل کی بیماری سے شفا کا واحد علاج عشروزکوٰۃ کا اہتمام ہے جو آسودہ اور حیوانیت سے مغلوب نفس کو خدا کی فرماں برداری کے قابل بنا دیتا ہے (ڈاکٹر سید اسعد گیلانی‘ فلسفۂ عشر‘ ص ۶‘ مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری‘ لاہور)۔ جب انسان اپنے مال کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں نکالتا ہے تو وہ مال کے حرص اور اس کی بندگی سے نکل کر خدا کی بندگی میں داخل ہوجاتاہے اور آخرت پر اس کا یقین مستحکم ہوجاتا ہے۔
جس طرح نماز کا آغاز مکہ کے ابتدائی دور سے ہوا اور اس کے نظام کی تکمیل مدینہ میں ہوئی۔ اسی طرح زکوٰۃ اور انفاق کی ترغیب بھی مکی دور سے شروع ہوئی اور اس کا پورا نظام آہستہ آہستہ فتحِ مکہ کے بعدتکمیل کو پہنچا۔ (سیدسلیمان ندوی‘ سیرۃ النبیؐ،ج ۵‘ ص ۱۵۹‘ مطبع معارف‘ اعظم گڑھ‘ بھارت)
اسلام کے یہ دونوں اجتماعی فرائض مساوی اہمیت کے حامل ہیں۔ محمد رسولؐ اللہ کی شریعت دو لفظوں سے عبارت ہے: خدا کا حق اور بھائیوں کا حق۔ پہلے لفظ کا مظہرِاعظم نماز ہے‘ اور دوسرے کا زکوٰۃ۔ یہ دونوں چیزیں اسلام میں ساتھ ساتھ ہیں۔ دونوں کی انفرادی حیثیت بھی اہم ہے اور اجتماعی بھی۔ نماز جماعت اور مسجد کے بغیر بھی ادا ہو جاتی ہے لیکن اپنی فرضیت کے بعض مقاصد و اغراض سے محروم رہتی ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ و عشر کو بھی بیت المال کے نظم کے بغیر انفرادی طور سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے مگر اس کی فرضیت کے بعض اہم مقاصد فوت ہو جاتے ہیں۔ (ایضًا‘ ص ۱۵۳)
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اس بحث کو تفصیل سے اپنے مقالے فقہ الزکوٰۃ میں پیش کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی ادایگی صرف انفرادی حسن سلوک نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی ادارہ ہے جس کا انتظام ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اپنے موقف کی تائید میں وہ عبارۃ النص کے طور پر قرآنی آیت وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا (التوبہ ۹:۶۰) کو پیش فرماتے ہیں۔ عاملین کا زکوٰۃ میں حصہ مقرر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ زکوٰۃ ایک خودکار اور خودکفیل ادارہ ہے۔ نیز ارشاد ربانی خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’اے نبی تم ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کرو‘‘ سے بھی زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کا سرکاری ذمہ داری ہونا مستفاد ہے۔ (ڈاکٹر یوسف القرضاوی‘ فقہ الزکٰوۃ‘ ص ۹۲)
ڈاکٹر القرضاوی نے امام مالک‘ امام شافعی‘ ابن تیمیہ‘ امام شوکانی‘ ابن حزم اور حنفی فقیہ ابن ہمام کے حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ عہدِنبوتؐ میں زکوٰۃ کے معاملات سرکاری سطح پر طے پاتے تھے۔ آپؐ ہر قوم اور ہر قبیلے میں اپنے عمال روانہ فرمایا کرتے تھے تاکہ وہ ان کے دولت مندوں سے زکوٰۃ لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کریں (ایضًا‘ ص ۱۲۳) اور عامۃ الناس کی حوائج ضروریہ کی کفالت کا اہتمام کریں۔
حضورنبی کریمؐ نے فتح مکہ کے بعد اپنے تمام عمال کو زکوٰۃ و عشر کی تحصیل اور ان کی تقسیم پر بڑی تفصیل سے ہدایات دی ہیں۔ عمال کے علاوہ قبائل کے سرداروں اور بااثر اصحاب کو خصوصیت سے ادایگی زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی ہے۔
ڈاکٹر حمیدؒاللہ نے اپنی معروف تصنیف الوثائق السیاسیہ میں آنحضوؐر کے ایسے خطوط کو بڑی جامعیت اور تاریخی تحقیق کے ساتھ جمع کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضوؐر کی اپنے آخری ایام میں‘ سب سے زیادہ جس فرض کی ادایگی کی طرف توجہ تھی وہ زکوٰۃ و عشر سے متعلق تھی۔ آپؐ بحرین‘ عمان اور نجران سے لے کر بنی ہوازن‘ اہل جرش‘ دومۃ الجندل‘ بنی حارثہ بنی کلب اور قبیلہ طئی کے سرداروں کو اپنی وفات کے آخری دنوں تک خطوط کے ذریعے زکوٰۃ اور عشر کی ادایگی کی تاکید فرماتے رہے۔
اس عہد میں‘ جب کہ خط و کتابت و مراسلت کا بہت ہی خال خال رواج تھا‘ آنحضورؐ نے اس وسیلے کو بھرپور طریقے سے استعمال فرمایا۔ الوثائق السیاسیہ میں اس موضوع سے متعلق لکھے جانے والے خطوط کی تعداد ۷۰ تک پہنچتی ہے۔ اس سے یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہوتی ہے کہ زکوٰۃ و عشر کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکومت کی ایک اہم ذمہ داری اور اجتماعی فریضہ کی ادایگی ہے۔
علامہ محمد یوسف گورایہ نے اپنے ایک مضمون ’’نظامِ زکوٰۃ‘‘ میں سورۂ توبہ کی آیت ۶۰ میں وفی الرقاب اور فریضۃ من اللّٰہ سے زکوٰۃ کے اجتماعی پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس آیت سے ان کا استنباط یہ ہے کہ اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مال زکوٰۃ میں سے غلاموں کی آزادی پر اتنا صرف کرے کہ غلامی کے پھندے میں پھنسے ہوئے انسان آزاد ہو جائیں۔ زکوٰۃ کا فریضہ من اللہ ہونا جس طرح ہر مسلمان کے لیے فرضِ عین ہے‘ اسی طرح حکومت پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ معاشی وسیاسی اور ہر قسم کی غلامی کا سدباب کرے۔ (یوسف گورایہ‘ ’’نظام زکوٰۃ اور موجودہ معاشی مسائل کا حل‘ ‘ فکرونظر‘ج ۷‘اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ اسلام آباد)
زکوٰۃ کا سرکاری ادارہ ہونا ارشاد ربانی کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْط (الحشر۵۹:۷)‘ کہ دولت محض تمھارے سرمایہ داروں کے مابین لینے دینے میں نہ رہے‘ نیز وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo (الذّٰریٰت ۵۱:۱۹) ’’اور ان کے مال میں حصہ مقرر ہے مانگنے والے اور محروم کا‘‘ سے واضح ہوتا ہے۔ یہ آیات ہمیں زکوٰۃ کے اجتماعی فریضہ اور نظم و نسق کے قیام کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔
اس بحث کو حضرت ابوعبیدہ نے کتاب الاموال میں بہت سے آثار کے حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے کہ مال تجارت کی زکوٰۃ لوگ خود بھی انفرادی طور سے دیتے تھے اور خلفا کو بھی دیتے تھے لیکن زرعی پیداوار اور مویشیوں کی زکوٰۃ کی ادایگی صرف حکومت کو ہی ادا کرنے سے ادا ہو سکتی ہے۔ انفرادی طور پر زکوٰۃ دینے سے فرض پورا نہ ہوگا۔ (ابوعبیدہ‘ کتاب الاموال‘ ص ۶۸۵‘ مطبوعہ قاہرہ مع تعلیق محمد خلیل ہراس‘ ۱۹۷۹)
حضرت شاہ ولی ؒ اللہ نے بھی ازالۃ الخفاء میں مسئلے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو جو وصیتیں کی تھیں ان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ جو شخص زکوٰۃ خلیفہ کے مقررہ عامل کے علاوہ کسی اور کو دے گا تو اس کا صدقہ مقبول نہ ہوگا‘ چاہے ساری دنیا صدقے میں کیوں نہ دے دے۔(حضرت شاہ ولی اللہ‘ ازالۃ الخفائ‘ ج ۳‘ ص ۳۶۹‘ مطبوعہ کارخانہ تجارت کتب‘ کراچی)
اس ساری بحث کا ماحصل یہ ہے کہ زکوٰۃ اجتماعی فریضہ اور سرکاری ذمہ داری ہے اور اسے بیت المال میں جمع کیا جانا چاہیے۔
اسلام کے اقتصادی نظام میں زکوٰۃ کی حیثیت اساسی اور محوری ہے۔ قرآن حکیم کی آٹھ مکی اور ۲۲ مدنی سورتوں میں زکوٰۃ کا بیان ہے۔ ۲۷ مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ساتھ ساتھ ہے۔ ڈاکٹر نصیراحمد ناصر نے اپنی ایک تصنیف میں توجہ دلائی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے جو احکامات قرآنِ حکیم میں ہیں وہ ایتاے زکوٰۃ سے متعلق ہیں۔ اسی طرح بخل‘ تکاثر اور ذخیرہ اندوزی کے لیے جو نواہی ہیں وہ بھی زکوٰۃ کے مقتضیات سے ہیں (ڈاکٹر نصیراحمد ناصر‘ فلسفۂ زکوٰۃ‘ ص ۵۵‘ فیروز سنز‘کراچی و محولہ از ڈاکٹر عبدالخالق مصالح زکوٰۃ‘ مطبوعہ)۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم میں ۸۲ مقامات میں زکوٰۃ کا ذکر صراحتاً یا اشارۃ النص کے طور پر ملتا ہے۔
۱- سنن ابی داؤد میں حضرت سمرہؓ سے مروی ہے: قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یامرنا ان نخرج الصدقۃ مما تُعدُّ للبیع ، حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم اس مال سے زکوٰۃ نکالیں جو خرید و فروخت کے لیے متعین کر دیا گیا ہو۔(محولہ از محمد طاسین‘ اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۷۹‘ مجلس علمی فائونڈیشن‘ کراچی)
۲- حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے: لیس فی العروض زکوٰۃ الا ان تکون تجارۃً، استعمال اور صَرف کی چیزوں میں زکوٰۃ نہیں ہے مگر ان میں جو تجارت کے لیے ہوں۔ (سنن البیہقی محولہ از مولانا محمد طاسین‘ اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۷۹)
۳- طبرانی میں حضرت ابودرداء سے مروی ہے: اَدُّوْا زکٰوۃ اموالکم ، اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔ (ایضًا‘ ص ۱۷۹)
ان قرآنی آیات اور احادیث نبویہ اور آثار واقوال صحابہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اموال جو خرید و فروخت کے کاروبار سے تعلق رکھتے ہوں ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ فقہاے کرام نے ان سے یہ کلیہ مستنبط کیا ہے کہ زکوٰۃ ہر اس سرمائے پر عائد ہوتی ہے جو نفع کمانے کی غرض سے کسی بھی کاروبار میں زیرتصرف ہو۔ گویا ہر طرح کی تجارت کا مال جو بقدر نصاب ہو اور ایک سال کی مدت پوری ہو چکی ہو‘ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے‘ جب کہ وہ مال اس کی ضروری حاجات سے زائد ہو۔
سونا چاندی ‘ نقد و زیورات و دیگر عروض تجارت کے مسائل عام طور پر کتب فقہ میں اور ائمہ مساجد سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اختصار کی غرض سے ان کا بیان نہیں کر رہے ہیں البتہ بعض جدید اموال اور صنعتوں کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے۔
سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے بعض ایسے اموال وجود میں آگئے ہیں اور ایسی شکلیں پیدا ہوگئی ہیں جو پہلے موجود نہ تھیں۔ ایسے اموال کی زکوٰۃ کے مسائل میں فقہا کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے‘ مثلاً بڑی بڑی مشینیں جو مختلف صنعتی کارخانوں میں نصب ہیں‘ ٹرانسپورٹ میں مستعمل بسیں اور ٹرک‘ بحری اور ہوائی جہاز جو حمل و نقل میں کام آتے ہیں‘ زرعی آلات ٹریکٹر وغیرہ جن کی قیمتیں لاکھوں اور کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی مالیت کی ہوتی ہیں۔ اسی طرح تجارتی کمپلیکس‘ ہوٹل وغیرہ۔ آیا یہ اموالِ زکوٰۃ کے زمرے میں شمار ہوں گے یا یہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوں گے؟
ہندو پاک کے اکثر مکاتب ِ فقہ کے علما بشمول دیوبندی مکتب فکر کے مفتیان‘ مذکورہ مشینوں اور آلات وغیرہ پر زکوٰۃ عائد نہیں کرتے ۔ البتہ ان کارخانوں اور صنعتوں سے جو دولت حاصل ہوتی ہے اس پر زکوٰۃ عام تجارت کے اصولوں کے مطابق عائد ہوگی(مولانا محمد رفعت قاسمی‘ مسائلِ زکوٰۃ‘ مطبوعہ ادارہ اسلامیات‘ لاہور)۔ ڈاکٹر سید اسعد گیلانی بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ (سید اسعد گیلانی‘ ڈاکٹر‘ اسلام کا نظامِ عشر و زکوٰۃ‘ ص ۱۸۴‘ مطبوعہ مکتبہ تعمیرانسانیت‘ اُردو بازار‘ لاہور)
دیوبندی مکتب فکرکے عظیم فقیہ مولانا محمد طاسین رحمتہ اللہ علیہ جو عرصہ تک اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے‘ انھوں نے اپنی فاضلانہ تصنیف اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات میں اس موضوع پر بڑی مفصل اور مدلل بحث کی ہے۔ ان کے نزدیک تمام جدید صنعتیں‘ کارخانے‘ آلات اور مشینیں سب کے سب اموالِ تجارت قرار پاتی ‘ہیں اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک کے اندر نفع کمانے کے لیے سرمائے کا تصرف ہے۔ اوریہ تمام اموال عروض تجارت کی شرائط پوری کرتے ہیں اور وجوب زکوٰۃ کی گرفت میں آتے ہیں۔ اس لیے مارکیٹ کی قیمت کے لحاظ سے ڈھائی فی صد سالانہ ان اموال کی زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔ (مولانا محمد طاسین‘ اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۸۰)
موصوف رحمۃ اللہ علیہ اپنی رائے میں منفرد نہیں ہیں۔ مصروشام کے محققین بھی ان کی رائے سے اتفاق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی تصنیف فقہ الزکوٰۃ کی ساتویں فصل میں بڑی تفصیل سے اس موضوع پر بحث پیش کی ہے اور اسی موقف کی حمایت کی ہے۔ دوسرے بڑے اسکالروں میں ڈاکٹر ابوزہرہ‘ پروفیسر عبدالوہاب خلاف اور ڈاکٹر عبدالرحمن حسن جیسے اہل علم اسی رائے کے حامی ہیں (ڈاکٹر یوسف القرضاوی‘ فقہ الزکوٰۃ‘ ج ۱‘ص ۵۹۲‘ ترجمہ: البدر پبلی کیشنز‘ لاہور)۔ ڈاکٹر ابوزہرہ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اموال منقولہ کی زکوٰۃ ڈھائی فی صدتسلیم کرتے ہیں اور اموال ثابتہ کی زکوٰۃ پیداوار اور منافع پر عائد کرتے ہیں اور ان سے عشرکے حساب سے زکوٰۃ وصول کرنے کی سفارش کرتے ہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: فان تطبیق ھذا المبدأ فی المصانع والدور یکون باخذ عشر الصافی بعد النفقات ‘ کارخانوں اور گھروں کے سلسلے میں ابتدا کی تطبیق یہ ہے کہ ان پر اٹھنے والے مصارف کو وضع کر کے باقی صافی اموال پر عشر لیا جائے گا۔
۱- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن اموال کی تحدید فرما دی ہے جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور اُن اموال میں حاصل شدہ منافع‘ زمین‘ جانور اور مشین کے کرائے شامل نہیں ہیں۔ جب تک اللہ اوررسولؐ کی جانب سے کوئی نص صریح موجود نہ ہو‘ کوئی حکم لازم نہیں کیا جاسکتا۔
۲- کسی بھی زمانے میں فقہا نے ان اشیا پر وجوب زکوٰۃ کی بات نہیں کی۔
۳- رہایشی گھروں‘ پیشہ وروں کے آلات‘ سواری کے جانور‘ زیراستعمال گھریلو سامان پر زکوٰۃ نہ ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔
صدر اول میں ایسے مسائل پیدا ہی نہیں ہوئے اس لیے ہمیں تصریح کے ساتھ ان کے احکام بھی نہیں ملتے۔ البتہ قرآن وسنت میں ایسی اصولی ہدایات ضرور ملتی ہیں جن کی روشنی میں ہم زیربحث مسائل کا شرعی حکم دریافت کر سکتے ہیں۔ اسی طریقے کو اجتھاد فی المسائل کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ یہ حضرات اپنی آرا کے حق میں درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:
۱- اللہ سبحانہ نے ہر ایک مال پر ایک مقرر حق‘ حق معلوم‘ یا زکوٰۃ‘ یا صدقہ لازم فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌo (المعارج ۷۰: ۲۴) ’’جن کے مالوں میں ایک مقرر حق ہے‘‘۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً (التوبہ ۹: ۱۰۳) ’’اے نبی ان کے اموال میں سے صدقہ لے لیجیے‘‘۔
ابن العربی کہتے ہیں کہ یہ فرمان الٰہی ایک حکم عام ہے جو مال کی تمام انواع اور اقسام پر مشتمل ہے خواہ اس مال کا نام کچھ بھی ہو‘ اور اس کا مقصد کوئی بھی ہو۔ جو شخص اس حکم میں تخصیص کا خواہاں ہے‘ اس پر دلیل لازم ہے۔ (فقہ الزکٰوۃ‘ شرح الترمذی‘ ج ۳‘ ص ۱۰۴)
۲- تجارت بمعنی بیع و شرا کے متعلق وجوب زکوٰۃ کا واضح حکم مذکور ہے۔
ارشاد ربانی ہے: یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِص (البقرہ ۲:۲۶۷) ’’اے صاحبان ایمان ان پاکیزہ اموال میں سے خرچ کرو جو تم نے تجارت میں کمائے او رغلہ جات اور ثمرات میں سے جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالے‘‘۔
جمہور مفسرین حضرات نے جن میں امام طبری‘ امام ابوبکر الجصاص‘ امام ابوبکر ابن العربی اور امام فخرالدین الرازی شامل ہیں‘ اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس کے اندر مسلمانوں کے لیے وجوبی حکم ہے کہ وہ تجارت کے ذریعے کمائے ہوئے مال اور پیداوار زمین سے زکوٰۃ ادا کریں۔
اس سلسلے میں سنن ابی داؤد کے حوالے سے حضرت سمرہ بن جندبؓ اور طبرانی میں مذکور حضرت ابودردا ؓ سے مروی روایات پیش کی جا چکی ہیں۔ جہاں تک آثار صحابہؓ کا تعلق ہے امام ابوعبیدہ کی کتاب الاموال میں سند صحیح کے ساتھ ان میں سے متعدد کا ذکر ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ سے مروی دو آثار میں پوری صراحت کے ساتھ بیان ہے کہ آپ اپنے عہدِخلافت میں مال تجارت پر زکوٰۃ لیتے تھے ۔ (محمد طاسین‘ عادلانہ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۸۰)
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن حکیم‘ احادیث نبویہ اور آثار و اقوال صحابہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اموال جو خرید وفروخت کے کاروبار سے متعلق ہوں ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔
بالعموم بیع اور تجارت کو بعینہٖ ایک چیز سمجھا جاتا ہے‘ جب کہ ان دونوں میں فرق ہے جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اشکالات پیدا ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے ان دونوں میں عموم اور خصوص کا فرق ہے۔ ہر بیع تجارت ہے مگر تجارت کی بعض صورتیں بیع میں داخل نہیں ہیں۔ یہ بات اشارتاً قرآن سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: رِجَالٌلا لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ (النور ۲۴:۳۷) ’’ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنھیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد اور اقامت نماز و اداے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی‘‘۔ تجارت کا معطوف علیہ ہونا اور بیع کا معطوف ہونا مغائرت پر دلالت کرتا ہے۔ غرض یہ کہ تجارت کا دائرہ بہت وسیع ہے جو زیربحث بہت سی شکلوں پر صادق آتا ہے۔
قیاس پر عمل کرنے والے فقہا وجوب زکوٰۃ کی علت نمو‘ یعنی افزایش کو قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر علامہ وہبہ الزخیلی اپنی عظیم تصنیف الفقہ الاسلامی وادلتہ میں زیربحث جدید طریق تجارت و اموال پر عروض تجارت کی طرح بلحاظ قیمت زکوٰۃ عائد کرنے کے حامی ہیں۔ وہ اپنی رائے اس طرح ظاہر فرماتے ہیں:
میری رائے یہ ہے کہ مذکورہ اموال پر زکوٰۃ واجب ہے۔ کیونکہ وجوب زکوٰۃ کی علت بھی ان اموال میں پائی جاتی ہے‘ یعنی نمو اور مشروعیت زکوٰۃ کی جو حکمت ہے وہ بھی ان میں پائی جاتی ہے اور وہ حکمت ہے مال داروں کے نفوس کا تزکیہ اور معاشرے کے محتاج لوگوں کی مواسات و ہمدردی مالی امداد کے ذریعے‘ اور اس فقروافلاس کے خاتمے میں حصہ لینا جو دنیا کے مختلف نظاموں پر چھایا ہوا ہے۔
الحاصل یہ ہے کہ اہم شرعی ماخذ سے اس مکتبہ فکر کے اصحاب کا موقف بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ موازنے کے لیے قدیم فکر کی اساس مختصراً پیش ہے۔
ان حضرات کے پاس قرآن و سنت کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ اس کا سارا انحصار فقہا کی درج ذیل عبارت پر ہے جو حاجات اصلیہ پر زکوٰۃ نہ ہونے سے متعلق ہے:
زکوٰۃ واجب نہیں رہایشی گھروں پر‘ گھریلو سامان و فرنیچر پر‘ پیشے کے آلات و اوزار پر‘ سواری کے جانوروں پر کیونکہ یہ سب حاجات اصلیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ ہلاکت سے بچاتی ہیں۔ امرواقعہ کے طور پر‘ جیسے کھانے پینے کا غذائی سامان‘ رہایشی گھر‘جنگی اسلحہ‘ لباس کپڑے جو گرمی اور سردی سے بچاتے ہیں۔ دوسری صورت تقدیری طور پر ہونے کی ہے‘ جیسے قرض کا مال جس کا ادا کرنا مقروض شخص پر واجب ہوتا ہے ورنہ اس کو قیدوبند کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو بربادی کی صورت ہے۔ اسی طرح پیشے کے اوزار‘ گھریلو سامان سواری کے جانور اور اہل علم کی کتابیں جو بے علمی سے بچاتی ہیں۔ جہالت بھی بربادی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ (محمدطاسین‘ اقتصادی تعلیمات‘ ص ۱۸۴)
اس عبارت پر غور فرمایئے۔ خود رہایشی مکان ضروری حاجات میں سے ہے۔ اس پر زکوٰۃ نہیں ہوتی مگر اس پر کرائے پر اٹھائے جانے والے بڑے بڑے عمارتی کمپلیکس کو کیونکر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ہنرمند لوگوں کے آلات و اوزار جن کو استعمال کر کے وہ خود روزی کماتے ہیں زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ اس لیے کہ وہ آلات ان کے لیے حاجات اصلیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر ان آلات پر کارخانوں کی مشینوں کو جن کو ملازمین انجینیروغیرہ چلاتے ہیں کیونکر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ یہ واضح طور پر قیاس مع الفارق ہے۔
نئے اموال پر وجوب زکوٰۃ سے متعلق بحث کو جناب ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنی تحقیقی مقالے کی ساتویں فصل میں پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں دمشق میں ۱۹۵۲ء میں منعقدہ زکوٰۃ کانفرنس کے نتائج بحث کو بھی تفصیل سے بیان فرماتے ہیں۔ (حلقہ الدراسات الاجتماعیہ‘ للجامعۃ العربیہ‘ ص ۲۴۱ تا ۲۴۸ محولہ فقہ الزکٰوۃ‘ ۵۹۸-۶۵۰)
اسلام کے نظام کفالت عامہ اور مقاصد شرع کو ملحوظ رکھتے ہوئے احقر بھی حضرت مولانا محمد طاسین مرحوم اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور ڈاکٹر ابوزہرہ‘پروفیسر عبدالوہاب خلاّف کے نظریات کی پوری طرح تائید کرتا ہے اور اس یقین کا اظہار کرتا ہے کہ جب تک ہم اللہ اور رسولؐ کے عطا کردہ احکامات پر ان کی سچی روح اور جذبے سے عمل نہیں کریں گے‘ ہم نہ استحکام حاصل کرسکیں گے‘ نہ اپنی آزادی ہی باقی رکھ سکیں گے۔ مسلم حکومتوں کے عروج و زوال پر بہت سے محققین نے قلم اٹھایا ہے اور تجزیے پیش کیے ہیں مگر ایک بڑی حقیقت یہی ہے کہ انھوں نے انھی احکامات سے انحراف کیا‘ بیت المال کو اپنی خواہشات کے مطابق خرچ کیا‘ عوام پر ایسے ٹیکس لگائے جو ظلم پر مبنی تھے۔ محبت‘ اخوت‘ مساوات اور ہمدردی کے بجاے عصبیتوں اور نفرتوں کو پروان چڑھایا۔ بنی امیہ‘ بنی عباس‘ آل عثمان اور مغل حکمران‘ سب کے زوال کے جو اسباب تھے آج بھی ہم انھی معائب میں گرفتار ہیں۔ اگر ہم نے حقیقی معنوں میں زکوٰۃ‘ صدقات اور عدل اجتماعی کا نظام قائم نہ کیا‘ تو ہم بھی زوال اور بربادیوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے!
برعظیم میں انگریزی حکومت کے قائم ہونے کے بعدمسلمانانِ ہندنے اپنی آزادی اور اسلامی تشخص کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تحریک پاکستان کا سب سے بڑا محرک ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جہاں مسلمان مذہبی تعلیمات اور اپنے رسم رواج کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ یہی وجہ تھی کہ برعظیم میں پاکستان کے قیام کا مطلب’’لاالٰہ اِلا اللہ محمدؐ رسول اللہ‘‘کی سربلندی سمجھا اور مانا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کئی ایک کوششیں کی گئیں۔ ان کے نتیجے میں قانون ساز اسمبلی نے ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد منظور کی‘جس میں اس بات کا عہد کیا گیاکہ نئی مملکت میں مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی روشنی میں بسر کرسکیں۔اُس کے بعد سے ملک کے جتنے بھی آئین بنے‘ اُن سب میں اسی عہد کا اعادہ کیا گیا ہے۔
۱۹۷۳ء کے آئین نے بھی یہ قرار دیا کہ موجودہ قوانین قرآن وسنت کے احکامات کے ساتھ ہم آہنگ کیے جائیں گے‘ اور ملک میں کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو اسلامی احکامات سے متصادم ہو۔ ممبران پارلیمنٹ کے لیے ضروری قرار پایا ’’کہ وہ اچھے اخلاق رکھتے ہوں‘ اور جن کے متعلق یہ تاثر نہ ہو کہ وہ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اُنھیں اسلامی تعلیمات کا علم ہو، فرائض بجا لاتے ہوں اور کبائرسے اجتناب کرتے ہوں‘‘۔ قرارداد مقاصد، جو آئین میں دیباچے کی شکل میں شامل کی گئی تھی‘۱۹۸۵ء میں ایک ترمیم کے ذریعے اس کو دستور کا حصہ بنادِیا گیا۔
یہ مقامِ افسوس ہے کہ ان ساری کوششوں کے باوجود ملک میںاسلامی قوانین عملی طور پر نافذ نہ ہو سکے۔ ۱۹۹۱ ء میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی نے شریعت ایکٹ کے نام سے ایک مسودہ قانون منظور کیا۔لیکن یہ ایکٹ بھی سینیٹ سے پاس نہ ہو سکا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام پارٹیوں کے انتخابی منشور میں نفاذ شریعت ایک اہم نکتہ تھا۔ ان پارٹیوں نے اس امر کا وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ برسِر اقتدار آگئیں تو وہ ملک میں نفاذ شریعت کے لیے عملی اقدامات اُٹھائیںگی۔ انتخابات کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی، تو اس نے نفاذ شریعت کے لیے ایک کونسل تشکیل دینے کی تجویز پیش کی۔ صوبہ سرحد کے گورنر نے۳ فروری ۲۰۰۳ء کو Law Reform Council کے نام سے شریعت کونسل کی منظوری دے دی۔ یہ کونسل جو ۲۱ ارکان پر مشتمل تھی مفتی غلام الرحمن کی سربراہی میں قائم کی گئی۔اس میںجید علماے کرام کے علاوہ ماہرین قانون اور تعلیم بھی شامل تھے۔ اس میں ہرطبقۂ فکر کو نمایندگی دی گئی تھی اور اقلیتی برادری کا نمایندہ بھی شامل تھا‘جب کہ صوبائی سیکرٹری محکمہ قانون وپارلیمنٹ وانسانی حقوق قانون سازی میں بحیثیت ممبر کونسل کی معاونت کر رہے تھے۔
شریعت کونسل کے ذمے یہ کام سونپاگیا کہ وہ صوبہ سرحد میں امور مملکت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے مناسب تجاویز مرتب کرے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل‘ وفاقی شرعی عدالت اوراپیلٹ بنچ آف سپریم کورٹ کی تجاویز کی روشنی میں عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے سفارشات پیش کرے۔
فروری اورمارچ کے مہینے میں کونسل نے کل۲۵ اجلاس منعقد کیے۔ ان اجلاسوں میں کونسل نے عدالتی اور انتظامی نظام سے وابستہ وکلا، ججوںاور افسران سے تبادلۂ خیال کیا اور مختلف امور پر ان کی رائے حاصل کی۔ ملک کے دیگر علما اور ماہرین قانون سے رائے طلب کرنے کے لیے کونسل کے دو ارکان نے کوئٹہ‘ کراچی اور لاہور کا دورہ کیا۔الغرض کافی غوروخوض اور تحقیق کے بعد کونسل نے اپنی سفارشات مرتب کیں۔ ان پر متحدہ مجلس عمل کی سپریم کونسل کی رائے بھی لی گئی۔ ان کی آرا کی روشنی میں رپورٹ کو حتمی شکل دی گئی۔ کونسل نے یہ رپورٹ وزیراعلیٰ صوبہ سرحد کو پیش کی۔اسے صوبائی محکمہ قانون کو بھیجا گیا تاکہ ان کو ایک بل کی صورت میں مرتب کرکے صوبائی اسمبلی میں پیش کیاجاسکے۔ اِسے اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے صوبائی گورنر کی منظوری کے لیے بھی بھیجا گیا۔
۱۰ مئی ۲۰۰۳ء کو گورنر سرحد نے شریعت بل کو اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دے دی۔اس کے فوراً بعد سرحد کی کابینہ نے ایک اجلاس میں شریعت بل کی منظوری دے دی اور ۲۷مئی ۲۰۰۳ء کو اسمبلی کا اجلاس بلانے کے احکامات صادر کیے ۔ اس دوران صوبائی وزیر قانون نے وفاقی وزرات قانون اور وزرات مذہبی امور کے حکام سے شریعت بل پر مشورہ کیا۔ اُنھوں نے اس سے مکمل اتفاق رائے کیا اور اسمبلی میں پیش کرنے کی سفارش کی۔
۲۷ مئی ۲۰۰۳ء کو شریعت بل اسمبلی میں پیش ہوا۔ دو تین دِن اس پرگرما گرم بحث ہوئی۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیر ین گروپ کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر قانون نے اس میں چند ترامیم پیش کیں۔ لیکن ۲ جون ۲۰۰۳ء کے اجلاس میں یہ ترامیم واپس لے لی گٗئیں اور شریعت بل کو تمام جماعتوں کے ۱۲۴ارکان نے بِالاتفاق منظور کیا۔
اس بل کے مطابق صوبہ سرحد میں صوبائی دائرہ اختیار کی حد تک شریعت بالا دست قانون ہو گی۔ تمام عدالتیں صوبائی دائرہ اختیار میں آنے والے قوانین کی تشریح و تعبیر شریعت کے مطابق کرنے کی پابند ہوں گی ۔ دیگر قوانین میں اگر ایک سے زائد تشریح وتعبیرکی گنجایش ہو‘ تو عدالتیں اُس تشریح وتعبیر کو اختیار کرنے کی پابند ہوں گی جو شریعت کے مطابق ہو۔ صوبہ سرحد میں ہرمسلمان شہری شرعی احکامات کا پابند ہوگا۔ صوبائی حکومت اور اس کے اہل کاروں کو شرعی احکامات کا پابند اورشرعی اقدار کا پاسدار بنانے کے لیے قانونی ضوابط مرتب کیے جائیں گے۔
شریعت کی تعلیم وتربیت کے لیے لا کالجوں میں اسلامی فقہ کو نصاب میں شامل کیا جائے گا اور عربی زبان کی تعلیم وترویج کااہتمام کیاجائے گا۔ صوبائی حکومت کا تعلیمی نظام‘شریعت کی درس وتدریس‘ اسلامی کردار سازی اور اسلامی تربیت کا ضامن ہو گا۔اس کے لیے شریعت بل کے نفاذ کے ایک ماہ کے اندر صوبائی حکومت ایک تعلیمی کمیشن مقرر کرے گی،جو علما‘ تعلیمی ماہرین‘ فقہا اور عوامی نمایندوں پرمشتمل ہو گا۔ کمیشن کی سفارشات کو صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کے لیے پیش کیاجائے گا۔
معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھی صوبائی حکومت شریعت بل کے نفاذ کے ایک ماہ کے اندر کمیشن مقرر کرے گی۔یہ کمیشن ان اقدامات کی سفارش کرے گا جن کے ذریعے معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کیا جا سکتاہے اور سود سے پاک قابل عمل متبادل نظام قائم کیا جا سکتاہے۔ اس کے علاوہ کمیشن موجودہ قوانین براے حصول ٹیکس، انشورنس اور بنک کاری کو اسلامی معیشت کے اُصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے تجاویز مرتب کرے گا۔کمیشن کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
وہ ذرائع ابلاغ جن تک صوبائی حکومت کی رسائی ہو، اسلام کی تشہیر وترویج کے لیے استعمال ہوں گے۔ ہر شہری کی جان ومال ‘ عزت وآبرو اور شخصی آزادی کے تحفظ کے لیے صوبائی حکومت ضروری انتظامی اور قانونی اقدامات کرے گی۔رشوت‘ دھونس دھاندلی کے خاتمے کے لیے انتظامی احکامات کے ساتھ ساتھ ضروری قانون سازی ہو گی۔ جرائم کی روک تھام کے لیے مثالی اور تعزیری سزائیں مقرر کرے گی۔ معاشرے سے سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے قرآن پاک کے حکم کے مطابق امربالمعروف اور نہی عنِ المنکر کا اہتمام کرے گی۔ اسی طرح بے حیائی اور آوارہ گردی کے خاتمے کے لیے انتظامی احکامات کے ساتھ ساتھ قانون سازی بھی کی جائے گی۔
صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا جائے گا جو علما‘ فقہا اور قانونی ماہرین پر مشتمل ہو گا۔یہ کمیشن رائج الوقت قانون کا جائزہ لے گا اور ان میں نقائص کی نشان دہی کے ساتھ متبادل تجاویز پیش کرے گا۔ اس کے علاوہ کمیشن کو اسلامی ضابطہء دیوانی‘ اسلامی ضابطہء فوجداری اور اسلامی قانون شہادت کی تدوین کی ذمہ داری بھی دی جائے گی۔
سرحد اسمبلی سے شریعت بل کا بالاتفاق پاس ہونا ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سرحد کے عوام کا مزاج دینی ہے اور وہ سیاسی اختلافات کے باوجود نفاذ شریعت کے حامی ،شیدائی اور آرزومند ہیں۔ شایدیہی وجہ تھی کہ حضرت سید احمد شہیدؒ بریلوی نے تحریک مجاہدین کی سرگرمیوں کے لیے صوبہ سرحد کی سرزمین کا انتخاب کیا تھا۔سید احمد شہیدؒ کی بالاکوٹ میں شہادت کے کئی سال بعد تک سرحد کے مجاہدین انبیلہ، مالاکنڈ، مہمند اور کالا ڈاکہ اور دیگر قبائلی علاقہ جات میں انگریزوں سے برسرپیکار رہے ۔ اس تحریک کو انگریز ی افواج نے پوری قوت اور شدت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی‘ لیکن وہ بری طرح ناکام رہیں۔ یہی جذبہ ۱۹۴۷ء کے ریفرنڈم میں بھی کارفرما تھا، جب سرحد کے عوام کو اختیار دِیاگیا کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، تو اُنھوں نے بھاری اکثریت سے پاکستان سے الحاق کے حق میں فیصلہ کیا۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ۱۹۷۴ء میں سرحد اسمبلی نے ختم نبوتؐ کے بارے میں قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی۔اسی طرح سرحد اسمبلی کا اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینا اور خیبر بنک میں بلاسود بنک کاری بھی ایک بہت ہی دلیرانہ اور مستحسن اقدام ہے۔ یہاں اس امر کا ذکربھی ضروری ہے کہ صوبہ سرحد کی اسمبلی ملک کی دوسری صوبائی اسمبلیوں سے قدرے مختلف ہے۔ یہاں مسائل پر بحث وگفتگو، پشتونوں کی روایات کے مطابق افہام وتفہیم اور عزت و وقار کے ماحول میں ہوتی ہے۔ یہ امتیازی رویہ ہر پارٹی کے ممبراسمبلی کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ اچنبھے کی بات نہیںہے کہ جب اسمبلی نے شریعت بل کی منظوری دے دی تو سب ارکان اسمبلی نے بیک آواز بلند نعرہ تکبیر‘ اللہ اکبر سے شریعت بل کا خیر مقدم کیا جس سے اسمبلی کا ہال گونج اُٹھا۔
نفاذ شریعت کی خوشی میں ۲۲ جون ۲۰۰۳ء کو پورے صوبے میں یومِ تشکر منایا گیا۔ لوگوں نے اجتماعی طور پر مسجدوں میں نوافل ادا کیے۔ متحدہ مجلس عمل کے رہنمائوں کے لیے بالخصوص یہ مسرت اور خوشی کا موقع تھا ‘اس لیے کہ نفاذِ شریعت کا جو وعدہ انھوں نے انتخابی منشور میںعوام سے کیا تھا اسے پورا کرنے کا آغاز ہوگیا۔
۲۷ جون ۲۰۰۳ء کو وزیر اعلیٰ سرحد کے زیر قیادت متحدہ مجلس کے قائدین اور صوبائی وزرا کا ایک جلوس مسجد درویش پشاورصدر سے نکالا گیا‘جو شہر کے مختلف گلی کوچوں سے ہوتا ہوا جناح پارک پرختم ہوا۔ اس جلوس کا جس گرم جوشی اور والہانہ انداز سے شہریوں نے استقبال کیا اور جس طرح جلوس پرجگہ جگہ پھول نچھاور کیے گئے‘ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرحد کے عوام کونفاذ شریعت پر کتنی مُسرت اور خوشی ہوئی ہے۔
مرکز میں برسراقتدار پارٹی کے رہنمائوں کا ردِعمل مایوس کن تھا۔ اُنھوں نے اس بل کی بھرپور مخالفت کی اور یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ صوبہ سرحد میں نفاذ شریعت کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ افغانستان کے طالبان اور طالبنائزیشن کے منصوبے کا حصہ ہے۔اس منفی پروپیگنڈے کا آغاز جنرل مشرف نے خود کوہاٹ دوستی ٹنل کی افتتاحی تقریب میں کیا‘ اور کھلے بندوں داڑھی ،شلوار قمیص اور پردے کا مذاق اُڑایا۔ برسراقتدار پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے اسی تضحیک آمیزانداز میں شریعت بل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ایک وفاقی وزیر نے تو یہاں تک کہا کہ سرحد اسمبلی کے ممبران جنھوں نے شریعت بل منظور کیاہے بالکل ’’جاہل‘‘اور ’’ان پڑھ‘‘ہیں۔ حالانکہ اگریہی ناقدین شریعت بل کو پڑھتے تو ان کومعلوم ہوتا کہ جن امور کو وہ تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اُن کااس بل میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ مغربی اقوام اور بالخصوص امریکہ کے ذرائع ابلاغ نے شریعت بل کا سختی سے نوٹس لیا۔ اُنھوں نے اس کا تانابانا طالبانائیزیشن سے جوڑا۔ عوام کو شریعت کے نفاذ سے خوفزدہ کیا اور ڈرایا۔ کئی دِنوں تک مسلسل پروپیگنڈا کرتے رہے کہ شریعت بل میں ’’خواتین کو زبردستی پردے کا پابند بنایا جائے گا۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی ہو گی۔ خواتین علاج معالجے کے لیے ہسپتال نہیں جا سکیں گی۔ شلوار قمیص کا پہننا لازمی ہوگا۔ ہر ایک آدمی داڑھی رکھنے کا پابند ہو گا۔ مسلمانوں کو نماز کے لیے بہ زور مساجد میں لایا جائے گا‘‘۔
یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ۱۹۹۱ ء میںجب نواز شریف کے دورِ حکومت میں اسی سے مشابہ شریعت بل نیشنل اسمبلی نے منظور کیا تھا‘ تو کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا اور نہ کسی نے اس پر کوئی تنقید کی ۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اس بل پر شوروغل صوبائی اسمبلی کو معطل کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے کیا گیا تھا ۔اسی لیے جنرل مشرف نے اعلان کیا تھا کہ ’’اگر طالبانائزیشن کا یہ عمل آگے بڑھتا ہے، تو وہ اسمبلی توڑنے سے گریز نہیں کریں گے‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا کوخطرے کا پیغام دِیا جارہا تھا کہ ’’صوبہ سرحد میں طالبنائیزیشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کو روکنا اور کنٹرول کرنا صرف فوج کے بس کی بات ہے‘ اس لیے جنرل مشرف کو کسی صورت میں بھی اقتدار سے نہ ہٹایا جائے بلکہ اس کے ہاتھ مزید مضبوط کیے جائیں‘‘۔جنرل مشرف نے اپنے دورۂ برطانیہ اور امریکہ میں صوبہ سرحد کے نفاذ شریعت کے اقدامات کو بلاضرورت منفی تنقید کا نشانہ بنایا ، طالبانائزیشن کا ہوّا کھڑا کر کے اپنے آمرانہ طرز حکومت کے لیے عذر لنگ پیش کیا‘ اوراپنے ناجائز قبضہء اقتدار کو دوام اور تقویت دینے کے لیے بش اور بلیئر کی پشت پناہی اور تائیدحاصل کرنے کی کوشش کی۔
اب ‘جب کہ نفاذ شریعت کے لیے قانونی راہ ہموار ہو چکی ہے‘ اس کے عملی نفاذ کے لیے بہت ہی فراست اور حکمت سے کام لینا ہو گا۔تعلیم ‘ معیشت اور عدالتی نظام کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بل میں جن کمیشنوں کا ذکر کیا گیاہے، ان کو جلد از جلد تشکیل دینا ہو گا۔ ان میں ایسے علما‘ فقہا اور جدید ماہرین تعلیم‘ معیشت اور قانون کو شامل کرنا ہو گا‘ جو تعلیم‘ معیشت اور عدلیہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ڈھالنے کی صلاحیت اور مہارت رکھتے ہوں۔ یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اس کو کم سے کم وقت میںاور اولین فرصت میں سر انجام دینا ضروری ہو گا‘ تاکہ کمیشن کی سفارشات کو قانون سازی کے لیے اسمبلی میں جلد از جلدپیش کیا جا سکے۔ اس کے لیے ایک حکمت عملی کے تحت ممبران اسمبلی کوبھی ہم خیال بنانا ہو گا‘تاکہ قانون سازی کا مرحلہ بخیروخوبی طے ہو سکے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلامی نظام میں نفاذ شریعت کا آغاز تعزیرات سے نہیں بلکہ فلاح عامہ سے ہوتا ہے۔ یہ نظام ہر فرد کی جان ومال اورعزت وآبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے‘ اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی طرف سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اُمید ہے کہ جب معاشرے پرنفاذشریعت کے اثرات مرتب ہوں گے، تو لوگوں کی زندگی میں واضح تبدیلی کے آثار نظر آئیں گے۔ اس خوشگوار تبدیلی سے دوسرے صوبے غیرمتاثر نہیں رہ سکیں گے۔ وہاں بھی نفاذ شریعت کا مطالبہ ہو گا۔اس طرح جس نیک کام کا آغاز صوبہ سرحد سے ہواہے وہ پورے ملک میںمقبول عام ہو گا اور اس کی پذیرائی ہو گی۔
نفاذ شریعت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت کے اہل کار نمودونمایش اور بے جا اخراجات کی مکمل روک تھام کریں۔ اس سلسلے میں سرحد کے صوبائی وزرا نے خود پہل کی ہے اور سادگی اور کفایت شعاری کا نمونہ پیش کیا ہے۔ کئی وزرا نے سرکاری شاہا نہ رہایش گاہ میں رہنے سے انکار کیا ہے۔ نئی اور مہنگی گاڑیاں جو وزرا کے لیے خریدی گئی تھیں اُن کے استعمال سے بھی اجتناب کیاہے۔کئی نے اپنی تنخواہوں میں رضاکارانہ طور پرکمی کا اعلان کیاہے۔عوام سے مسلسل ان کا رابطہ ہے ۔ دفاتر‘ گھروں اور مساجد میں اُن سے بغیر کسی روک ٹوک کے ملاقات ہو سکتی ہے۔
یہ امربھی باعث مُسرت ہے کہ نفاذ شریعت کے سلسلے میں صوبائی حکومت نے پہلے ہی سے کئی ایک مستحسن اقدامات کیے ہیں۔ ان میں خواتین یونی ورسٹی اور خواتین میڈیکل کالج کا قیام‘ خیبر بنک میں سود سے پاک بنک کاری کا آغاز‘فحش کیسٹوں کے کاروبار اور عریاںفلمی پوسٹروں کی نمایش کی ممانعت ،پبلک ٹرانسپورٹ میں گانے بجانے پر پابندی‘بس اڈوں پر خواتین کے لیے پردہ دار انتظار گاہ اور طہارت خانوںکی تعمیراورشراب کے لائسنس اور پرمٹ کی منسوخی‘ ہسپتالوں میں نادار اور غریب مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی شامل ہیں۔مزید براں اوقات نماز میں بسوں کو ٹھہرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ خواتین کی تصاویر کے تجارتی اشیا کے فروغ کے لیے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ ان اقدامات سے صوبہ سرحد میں ایک واضح اور مثبت تبدیلی نظر آرہی ہے‘ اور نفاذ شریعت کے لیے مناسب اور پاکیزہ ماحول کی تیاری اور آب یاری ہورہی ہے!
مغرب (مغربی یورپ اور امریکہ) کے معاشروں کو اکیسویں صدی میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘ ان میں سے ایک روایتی ازدواجی رشتوں کی شکست و ریخت اور نتیجتاً خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کا مسئلہ ہے۔ ’’تغیرجنس کا معاشرہ: نسوانیت زدہ برطانیہ اور مردانگی سے محروم مرد‘‘ (The Sex Change Society - Feminized Britain and the Neutered Male)جدید دنیا کے اس رجحان کا ایک تحقیقی اور نہایت سنجیدہ مطالعہ ہے۔ مصنفہ میلینی فلپس (Melanie Phillips)نے اگرچہ اپنی اس تحقیقی کوشش کو بڑی حد تک صرف برطانوی معاشرے کے مطالعے ہی تک محدود رکھا ہے‘ لیکن یہ بات واضح ہے کہ جس رجحان کی طرف برطانوی معاشرے کی حرکت کی نشان دہی کی گئی ہے‘ وہ کسی طرح بھی صرف برطانیہ تک محدود نہیں‘ بلکہ آج کی دنیا کا قائد مغرب دنیا کے سبھی معاشروں کو اسی سمت میں کشاں کشاں لے جا رہا ہے‘ اور عموماً اس رجحان کو ’’ترقی‘‘ کی علامتوں میں سے ایک علامت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
آزادیِ نسواں کا تصور نیا نہیں‘ لیکن اب اس کے ساتھ جو ایک نیا تصور اُبھارا گیا ہے‘ وہ مرد کی مذمت ہے۔ جدید مغربی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ‘ نوعِ انسانی کا ’’مذکّر‘‘ہے۔ انھیں کام اور پیشے کی پروا نہیں‘ بے روزگار‘ بے کار اور لڑکیوں اور عورتوں سے چالاکی میں فزوں‘ یہ نوجوان لڑکے اور مرد اپنے فطری رجحان‘ یعنی عصمت دری اور غارت گری میں ہر جگہ مصروف نظر آتے ہیں۔ اسکول سے نکلتے ہی وہ شراب اورمنشیات میں اور دوسرے جرائم میں مشغول اور ’’گرل فرینڈز‘‘ کو قطار اندر قطار اولاد کی نعمت سے بہرہ ور کرتے پائے جاتے ہیں۔ آج کتابوں اور مضامین کا انبار ان موضوعات (لڑکے‘ مرد اور مردانگی) سے اٹا پڑا ہے۔ ’’لونڈاپے کا رویہ (Laddish behaviour) ‘برطانوی حکومت کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ وزیرداخلہ جیک اسٹرا (Jack Straw) فرماتے ہیں: ’’بے ہنر‘ کم تعلیم یافتہ نوجوانوں سے نمٹنا ہمارے لیے اہم ترین‘ واحد نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے‘ جس سے ہم دوچار ہیں‘‘۔
نوجوانوں سے کہا جا رہا ہے کہ سنجیدگی اختیار کریں‘ اپنی ذمّہ داریاں محسوس کریں‘ اور اینڈی برن کے رویے سے گریز کریں‘ جس نے ۱۵ سالوں میں بے قید نکاح سے نوکم سن لڑکیوں سے نو بچے پیدا کرلیے‘ جن کی اس پر کوئی ذمّہ داری نہیں‘ کیوں کہ اس کا بوجھ تو حکومت اُٹھاتی ہے۔ اب وہ ۳۱ سال کا ہے‘ اور کہتاہے کہ ’’میں صرف بچے پیدا کرنے ہی کے کام آسکتا ہوں‘ اور کوئی کام مجھ سے ہونہیں سکتا!‘‘ اس کا خیال ہے کہ اس طرح سے وہ ایک سماجی خدمت انجام دے رہا ہے‘ کیوں کہ ’’ان مائوں‘‘ کو سرکاری فلیٹ کے حصول میں ترجیح حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ نوجوان دوسرے کارنامے بھی انجام دیتے ہیں‘ جن میں لوٹ مار‘ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ‘ توڑپھوڑ،’’گینگ وار‘‘ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں سے لڑائیاں‘ڈکیتیاں‘ اور عورتوں کو مارنا پیٹنا اور قتل جیسی وارداتیں شامل ہیں۔
اس طرح کی بہت سی کہانیاں ہر روز اخباروں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ مرد کی تصویرکشی یوں کی جا رہی ہے کہ وہ پیدایشی طور پر عورت باز‘ سفّاک اور نامعتبر ہوتا ہے۔ یہی ان کا اصلی کردار ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت سدا کی دکھیاری‘ صبروبرداشت کا پیکر اور مرد کی زیادتیوں کا شکار رہی ہے‘ اور ہے۔ اب خواتین مردوں کی جو تصویرکشی کر رہی ہیں بہت سے حلقے انھیں ایک فطری ردعمل قرار دیتے ہیں۔ مردوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ انھیں بہ نظر تحقیر دیکھا جاتا ہے: یہ معاشرے کے اُس احمق طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جسے ہر شعبے میں خواتین کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہے۔ نہ صرف وہ خواتین کے مقابلے میں کم عقل‘ بلکہ کم تر درجے کے اخلاق کے حامل‘ کندذہن‘ اُجڈ‘ بدتمیز‘ حسِ لطیف سے عاری‘ خودغرض‘ محدود مقاصد کے پرستار‘ سماج دشمن اور حد یہ کہ جنسی طور پر بھی پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیںاور پھر پیدایشی طور پر وہ متشدد بھی ہیں۔ گویا وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں‘ اور یہاں صرف انسانوں کی آبادی بڑھانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ بھلا ہو جدید سائنس کااب ان کا یہ کردار بھی محدود ہوچلا ہے۔ نئی فنّیات نے ان کے وجود کو بے مصرف بنا دیا ہے‘ کیوں کہ نسل کو چلانے کے لیے ہمیں ’’اسپرم فارم‘‘ پر صرف چند ہی معطی درکار ہوں گے‘ جہاں انھیں تھوڑا سا پیزا‘ تھوڑی سی شراب اور ’’پلے بوائے‘‘ میگزین جیسی چند چیزوں کی ضرورت ہوگی اور بس۔ نسل کُشی کے لیے ان کروڑوں مردوں کی کیا ضرورت ہے؟
میڈیا‘غلط نہیں کہتا۔ اب لڑکیاں‘ لڑکوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ (انگلستان میں) ۱۹۹۶ء میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین طبّی تعلیم کے اداروں میں داخل ہوئیں‘ اور ۱۹۹۱ء میں قانون کے پیشے میں داخل ہونے والوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔ سبھی تعلیمی اداروں میں لڑکیاں‘ لڑکوں کے مقابلے میں آگے ہیں‘ اب وہ کسی بھی میدان میں کیوں پیچھے رہیں؟
صاف نظرآرہا ہے کہ مرد سخت دبائو کا شکار ہیں۔ مرد محسوس کرتے ہیں کہ ان کی مردانگی خطرے میں ہے۔ مگر دبائو کا شکار تو خواتین بھی ہو رہی ہیں۔ اب ان کی ذمّہ داریاں گھر تک محدود نہیں رہیں۔ کام کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘ اور ان کی ذمّہ داریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ انھیں گھر اور بچوں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے ‘ اور اپنے کام (پیشے) کے ساتھ بھی انصاف کرنا ہوتا ہے‘ تاہم ان کی جسمانی ساخت ہی ہر ماہ انھیںیاد دلاتی ہے کہ وہ مختلف ہیں۔ پھر فطری طور پر بچے بھی انھی کو پیدا کرنے ہوتے ہیں‘ اگرچہ بہت سی خواتین اس بچے پیدا کرنے کے رول سے اب انکاری ہوتی جا رہی ہیں۔ ’ایک زمانہ تھا کہ کچھ کام مردوں کے کرنے کے ہوا کرتے تھے‘ اور کچھ عورتوں کے۔ اب عورتیں‘ مردوں کے کام کر رہی ہیں‘ مگر مرد عورتوں کے کام نہیں کر رہے‘ (ایک ۱۴ سالہ لڑکی)۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۱۹۸۶ء سے غیرشادی شدہ تنہا مائوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں غیرشادی شدہ مائیں ۹ فی صد تھیں‘ ۱۹۹۶ء میں ۳۶ فی صد ولادتیں بلانکاح ہوئیں‘ اور اب انگلستان میں نصف حمل شادی کے بغیرہی قرار پاتے ہیں (ص ۳۶)۔ پہلے اس طرح کی مائوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا‘ اب اس طرح کی کوئی بات نہیں بلکہ یہ عورت کا حق ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے ماں بن جائے (یا نہ بنے)۔
اکیلی مائوں (Lone mothers) کی تحقیر کی بجاے تعظیم کی جاتی ہے اور ان کی رُوح حرّیت کو بہ نظراستحسان دیکھا جاتا ہے۔ اب عورتیں یہ محسوس کرنے لگی ہیں کہ انھیں بچوں کی پرورش کے لیے مردوں کی ضرورت نہیں‘ پرورش تو بعد کا مرحلہ ہے‘ انھیں ’’بارور‘‘ہونے کے لیے بھی کسی مرد کی ضرورت نہیں۔ کیرول فاکس (Carol Fox) --- اسکاٹش پارلیمان کے لیے لیبرامیدوار --- نے خود کو دوسرے بچے کی ماں بنانے کے لیے ۱۵ ہزار پائونڈ خرچ کیے اور بارھویں کوشش کے بعد مصنوعی طور پر بارآور ہونے میں کامیاب ہوئی (اس کی پہلی بیٹی نتاشا بھی یونہی پیدا ہوئی تھی)۔بلاشوہر بچوں کی پیدایش (اگر خواہش ہو) اب شرم کی بجاے فخرکی بات ہے‘ اور مشہور خواتین اسے ایک بلند درجے کی علامت (status symbol) کے طور پر لیتی ہیں۔ بہت سی خواتین برملا کہتی ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کو ایک ’’ذریعے‘‘ یا ’’آلۂ کار‘‘کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتیں۔ ایک نیا رجحان یہ بھی ہے کہ مصنوعی تخم کاری سے پہلے کئی مردوں کے تخم یوں باہم آمیز کر دیے جائیں کہ پتا ہی نہ چل سکے کہ ہونے والے بچے کا باپ کون ہے!
خواتین میں آزادی کی یہ لہرکم سن لڑکیوں کو بھی اپنی آغوش میں لے چکی ہے۔ صرف انگلستان میں ہر سال (۱۹۹۹ئ) ۹۰ ہزار نوبالغ لڑکیاں (teenagers)حاملہ ہوتی ہیں‘(ان میں سے ۷ہزار ۷ سو کی عمر ۱۶ سال سے کم ہوتی ہے)‘ اور۵۶ ہزار بچے پیدا کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر خود بھی ’’تنہا مائوں‘‘ کی اولاد ہوتی ہیں۔ فطری طور پر وہ اپنے بچوں کی اس سماجی ماحول میں پرورش نہیں کرپاتیں (نہ انھیں اس کی تعلیم دی گئی تھی) کہ وہ متوازن ذہنی اور نفسیاتی اٹھان کے ساتھ پرورش پائیں۔ ۹ سے ۱۵ سال کی عمر کی ان مائوں کے بچے ظاہر ہے مسائل کا انبار ہوتے ہیں۔
مردوں پر انحصار سے آزادی کے نتیجے میں نہ صرف شادی کے بندھن کمزور ہوئے ہیں‘ بلکہ طلاقوں کی بھی کثرت ہوئی ہے۔ وکیلوں کے مطابق طلاق کی بڑی وجہ بُرا کردار نہیں‘ بلکہ میاں بیوی میں گفتگو اور رابطے کی کمی‘ شوہر کا توقعات پر پورا نہ اُترنا اور ایسی ہی چھوٹی موٹی اور نامعلوم وجوہ ہوتی ہیں۔ تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع نے خواتین کی توقعات بڑھا دی ہیں‘ اور اب وہ کم پر گزارہ کرنے پر تیار نہیں۔
مابعد الطلاق کلچر میں (خصوصاً جہاں خواتین مناسب روزگار سے بہرہ ور ہوں) ’’ہم خانگی‘‘ نے بھی فروغ پایا ہے۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۵ء کے درمیان انگلستان میں غیرشادی شدہ مرد کے ساتھ ایک ہی گھر (فلیٹ) میں رہنے والی عورتوں کی تعداد ۱۱ فی صد سے بڑھ کر ۵۵ فی صد تک پہنچ گئی۔ یہ غیرشادی شدہ جوڑے میاں بیوی کے مقابلے میں خود کو زیادہ آزاد‘ زیادہ ’’محفوظ‘‘اور طلاق اور وراثت کے قانونی جھمیلوں سے دُور محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ ان تعلقات کا دورانیہ اوسطاً دو سال سے زیادہ نہیں ہوتا‘ لیکن اس دوران بچوں کی پیدایش سے اس تعلق کی بقا پر عموماً منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں۔ چوں کہ ہم خانگی کے اس تعلق میں دونوں فریق عموماً معاشی طور پر آزاد ہوتے ہیں‘ اور اس طرح کوئی کسی کا ’’قوام‘‘نہیں ہوتا‘ یہ تعلقات زیادہ دن نہیں چلتے۔ جہاں مرد ہی کماتے ہیں‘ وہ جلد ہی ’’نکھٹو اور بے روزگار ساتھی‘‘ سے بے زار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کلاسیکی عیسائیت نے ساری عمر کے لیے جس بندھن کی رِیت ڈالی تھی وہ ٹوٹ چکا ہے‘ اور اس میں نقصان عورت ہی کا ہوا ہے۔
عورت (خصوصاً ماں) تنہا اپنا اور اپنے بچوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ نکاح‘ صرف مردکے ساتھ اختلاط ہی نہیں۔ وہ آنے والی نسل (جس کی پیدایش صرف عورت ہی کے ذمّے ہے) کا محافظ اور ایک خاندان کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن ۱۹۷۲ء میں امریکی مفکرۂ سماجیات جیسی برنارڈ (Jessie Bernard) نے کہا تھا کہ ’’شادی‘ عورت کے لیے نقصان دہ‘ خطرناک ہوسکتی ہے‘‘۔ حقوقِ نسواں کی علم بردار تنظیموں نے اس کو خوب اُچھالا‘ مگر حقیقت اس کے خلاف ہے۔ شادی شدہ خواتین میں بیماریوں اور ناوقت اموات کا تناسب کم ہے۔ ذہنی‘ جسمانی اور سماجی طور پر وہ زیادہ متوازن اور خوش و خرم رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر معاشروں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان یہ فطری تقسیمِ کار ایک زمانے سے موجود اور اب بھی قائم ہے کہ مرد کو بنیادی طور پر معاشی بوجھ اُٹھانے والا‘ اور عورت کو بنیادی طور پر گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کا رول دیا گیا ہے۔ یہ ان کی ذہنی‘ جسمانی اورنفسیاتی ساخت کے عین مطابق ہے۔ بدقسمتی سے غیر فطری طور پر خواتین کی آزادی کے نام پرتقسیمِ کار کے اس توازن کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ عورتوں کو کام کرنے اور روزی کمانے پر راغب کیا جا رہا ہے کہ وہ معاشرے کی ’’مفید‘‘ اور ’’کارآمد‘‘شہری بن سکیں‘ تاہم انگلستان اور بعض دوسرے مغربی ملکوں میں بچوں کو پالنے اور اُن کا خرچ اُٹھانے کی بیشتر ذمہ داری باپ کی بجاے ریاست نے سنبھال لی ہے۔ کیوں کہ بے شوہر کی ایسی بیشتر مائیں کم یافت کے پیشوں سے منسلک ہیں‘ اور وہ بچوں والے گھر کا پورا بوجھ نہیں اُٹھا سکتیں۔ بے باپ کی ان کی یہ اولاد بھی شفقت و تربیت ِ پدری سے محروم اُٹھتی ہے‘ اور ایک ’’بے راہ رَو‘‘ اور خاطی نسل ہی کو جنم دیتی ہے۔کیوں کہ معاشی طور پر مصروف ماں کے پاس باپ کے خلا کو پُرکرنے کا وقت نہیں ہوتا‘ اور نہ وہ ایسے وسیع تر خاندان کی باسی ہوتی ہے‘ جہاں دوسرے لوگ اولاد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں لے لیں۔ اس طرح ریاست بھی اس نئے رجحان کے فروغ میں اپنا کردار اداکر رہی ہے۔
تحریکِ نسواں کے کئی رنگ ہیں۔ جیسا کہ شروع میں کہا جا چکا ہے‘ مردوں کو خلقی طور پر غیرذمّہ دار‘ بدخو‘ تُندمزاج اور غبی دکھایا گیا۔ ایک دوسرے رنگ میں ان کی تصویرکشی یوں کی گئی کہ وہ عیاری سے عورتوں کا استحصال کرنے والے‘ انھیں غلام (لونڈی؟) بنانے والے اور کسی بھی اخلاقی معیار سے عاری ایک مخلوق ہیں۔ مظلوم عورتوں کو خاندان کے ’’بیگار کیمپ‘‘ سے چھٹکارا پالینا چاہیے‘ اور اپنی خواہش اور ضرورت پر ہی ان سے مرضی کے مطابق تعلق قائم کرنا چاہیے۔ پہلے ’’مساوی حقوق‘‘ اور صنفی برابری کی بات ہوئی اور پھر ’’نسائی برتری‘‘ کا فلسفہ پیش کیا گیا‘ اور تحریک نے اب ایک جارحانہ روش اختیار کرلی ہے‘ جس میں مردوں کا مقام شہد کی مکھیوں کے نکھٹّو نر(drones) سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک ’’معتدل‘‘رجحان یہ بھی تھا کہ صنفی رول کا اختلاف فطرت کا پیدا کردہ نہیں‘بلکہ مصنوعی اور معاشرے کا پیدا کردہ ہے۔ ’’نہ ہر زن است و نہ ہر مرد‘ مرد‘‘ (ہر عورت‘ عورت نہیں‘ اور نہ ہر مرد‘ مرد ہوتا ہے)۔ جسمانی اور خلقی فرق بہت معمولی سا ہے‘ جسے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کو شروع سے امتیازی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے‘ جو درست نہیں۔ باروری کو مانع حمل طریقوں سے روکا جا سکتا ہے‘ اور ضرورت ہو تو مصنوعی طریقوں سے اولاد بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔
امریکہ کے ماہرین عضویات اور ماہرین نفسیات اب انسانوں کی ایسی نوع کی بات کرنے لگے ہیں‘ جو صنفی امتیازات سے بلند ہو‘ یا جس میں دونوں اصناف کی خصوصیات موجود ہوں! اس طرح باپ اور ماں کا جھگڑا ہی ختم ہوجائے۔ اولگا سلورسٹین (Olga Silverstein) ’’صنفی اختلاف کے خاتمے‘‘ کی بات کرتی ہیں‘ اور سوسان مولر اوکن (Susan Moller Okin) ایک ایسے ’’عادلانہ مستقبل‘‘ کی نوید دیتی ہیں‘ جو ’’صنف ]کی آلایش[ سے پاک ہوگا‘‘۔ یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ مردوں کا کچھ اس طرح علاج کیا جائے کہ ان میں عورتوں کی خصوصیات پیدا ہوجائیں۔ اس طرح مردوں نے نسوانیت کے جس جال میں طبقۂ اناث کو پھانس رکھا ہے‘ اس سے آزادی‘ ایک مثالی معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ (ص ۱۷۴-۱۷۵)
یہ تو تھی نسائی تحریکوں کی بات۔ مغرب میں خود ریاست اور سرکاری مشینری بھی ’’ماضی کی غلطیوں‘‘ کی اصلاح کرنے میں پیچھے نہیں۔ ۱۹۹۹ء میں برطانیہ کے وزیرخزانہ گورڈن برائون (G.Brown) نے بجٹ پیش کرتے ہوئے نوید سنائی کہ یہ ’’خواتین کے لیے بجٹ ہے‘‘۔ ساری تنہا مائیں کام کرنا چاہتی ہیں‘ اور ریاست بھی انھیں مفید کام پر لگانا چاہتی ہے۔ بے شادی والی مائیں‘ سرکاری امداد وصول کرنے والا سب سے بڑا گروہ بن چکی ہیں‘ اس لیے انھیں روزی کمانے پر آمادہ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ جاب مارکیٹ میں آسامیاں تو محدود ہیں‘ اور امیدوار زیادہ۔ حکومتی پالیسی یہ ہے کہ تنہا مائوں کو شادی شدہ پر‘ اور کام کرنے والی مائوں کو خواتین خانہ پر ترجیح دی جائے۔ یہ بھی ایک طرح کی سماجی انجینیرنگ ہے۔ اگرچہ ’’قدامت پسند‘‘ اور ’’جدید لیبر‘‘ دونوں گروہ‘ شادی خانہ آبادی کی اہمیت پر وعظ کہتے رہتے ہیں‘ لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ بقول فائننشل ٹائمز (Financial Times) حکومت کی پالیسی کے مطابق بچے کے سارے فوائد ماں ہی کے حصے میں جاتے ہیں‘ اور آج کی مائیں مردوں سے آزاد اور کل وقتی ماں کے تصور سے دُور ہٹتی جا رہی ہیں۔
مصنفہ کہتی ہیں کہ کوئی مہذب معاشرہ یہ توقع نہیں رکھے گا کہ عورت روزی کمانے اور گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کی دُہری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھائے۔ لاکھوں نوجوان خواتین کو روزی کمانے کے لیے بازار میں بھیج کر نہ صرف مسابقت میں اضافہ کر دیا گیا ہے ‘ بلکہ اس طرح تنخواہ/مزدوری کی شرح میں بھی کمی ہوئی ہے (سرمایہ داری میں طلب و رسد کا قانون)۔ نوجوان مردوں کی کم یافت‘ انھیں شادی کو ملتوی کرنے (یا اس سے دست بردار ہونے) پر مجبور کر دیتی ہے‘ اس سے پھر ’’بلانکاح ازدواج‘‘ اور ’’ہم خانگی‘‘، ’’یک زوجی‘‘ یا ’’تنہا مادری‘‘ کے مسائل جنم لیتے ہیں‘ اور پھر وہی سماجی اور اقتصادی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں‘ جنھیں حل کرنے یا کم کرنے کے لیے یہ تدبیریں کی گئی تھیں۔ برطانیہ میں’’شعوری طور پر‘ تدریجاً‘ پدریّت کو تباہ کیا جارہا ہے‘‘۔اور اس کے نتیجے میں مردوں اور لڑکوں میں مایوسی‘ غیرذمّہ دارانہ رویے اور تشدد کے رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لڑکے‘ اب اسکول میں پس ماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔ مردوں کے گروہ اور تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں‘ جنھیں حکومت اور معاشرے سے بڑی شکایتیں ہیں۔ مردوں نے اپنی نئی نسل میں دل چسپی لیناکم کر دی ہے۔ نئی فنیّات نے خواتین کو بڑی حد تک مردوں سے مستغنی کر دیا ہے۔
’’عورتوں کی آزادی اور مردوں کی غیرذمّہ داری‘‘ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ خاندان کی شکست و ریخت‘ معاشرے کی شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہے‘ اگرچہ اس کا اعتراف نہیں کیا جا رہا۔ خواتین کی حقیقی شکایات اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے تدارک نے اب نوبت یہاں تک پہنچا دی ہے کہ ریاست اور ابلاغ کے سارے ذرائع مردوں کو دوسرے‘ بلکہ تیسرے درجے کی صنف سے بڑھ کر کوئی درجہ دینے کے لیے رضامند نظر نہیں آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت کا تعلق بہت پیچیدہ اور نازک ہے۔ انسانی معاشرے نے ہزاروں سال کے تجربے کے بعد ایک خاندانی نظام وضع کیا ہے‘ جس میں باپ کا ایک کردار ہے‘ اور ایک کردار ماں کا۔ مرد اور عورت صنفی طور پر مختلف ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ دونوں کے حقوق مساوی ہیں‘ مگر یکساں نہیں۔ان کے درمیان تقسیمِ کار عین تقاضاے فطرت ہے۔ سبھی سماجوں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کچھ بوجھ وہ ہیں‘ جو عورتیں نہیں اُٹھا سکتیں اور کچھ وہ ہیں‘ جن کے لیے مرد بنائے ہی نہیں گئے اور صرف عورتیں ہی انھیں اٹھا سکتی ہیں۔ مردو زن کی کلّی مساوات کا تصور بھی اسی قدر احمقانہ ہے‘ جس قدر عورت کی برتری کا۔
بدقسمتی سے ’’بے خدا‘‘ معاشروں میں توازن کم ہی نظرآتا ہے۔ کہیں تو یہ کہا جا رہا تھا کہ ’اے عورت‘ تیرا ہی نام کمزوری ہے (شیکسپیئر)‘ اور ’وہ آدمی کتنا بے وقوف ہوتا ہے‘ جو ایک عیار عورت کا شکار ہو کر بیوی کا بوجھ اٹھا لیتا ہے‘ (شوپنہائر)۔ کہیں اُسے محض خادمہ اور لونڈی سے بڑھ کر کوئی درجہ نہیں دیاجاتا‘ اور حیوانوں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اور پھر جب پنڈولم دوسری سمت میں حرکت کرتا ہے‘ تو نئی آزاد عورت وجود میں آتی ہے‘ جو قیدِنکاح ہی نہیں‘ خود کو ہرقیدسے آزاد تصور کرتی ہے--- شاید اُسے معلوم نہیں کہ اس کی یہ آزادی بھی ایک عیار اور سفاک مرد کا دامِ تزویر ہے! (Melanie Phillips: The Sex-Change Society - Feminised Britain and the Neutered Man; The Social Market Foundation, London, 1990.)
سوشل مارکیٹ فائونڈیشن‘ برطانیہ کا ایک خودمختار ادارہ ہے‘ جو معاشیات اور دوسرے سماجی مسائل پر تحقیق کے لیے اہل فکر کو دعوت دیتا ہے‘ اور ان کی نگارشات کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے۔ میلینی فلپس ایک سماجی محقق‘ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں‘ ایک برطانوی شہری ہیں۔
وسطی ایشیا‘ پانچ ریاستوں(قازقستان‘ کرغیزستان‘ ازبکستان‘ترکمانستان اور تاجکستان) پرمشتمل ۱۵ کروڑ سے زائد مسلمان آبادی کا یہ خطہ تیل‘گیس اور قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ امریکہ اور یورپ کی حریص نگاہوں کا مرکزبنا ہوا ہے جو کسی نہ کسی طور جلد از جلد یہاں رسائی حاصل کرکے اس کے قدرتی وسائل کو من مانے طریقے پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کے اس خطے میں ان کے عزائم کی راہ میں اگر کوئی بڑی رکاوٹ ہے تو وہ اسلام پسند مسلمان ہیں جو ان کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔
۱۹۹۱ء میں سابق سوویت یونین سے رسمی آزادی حاصل کرنے کے بعد سے یہ ریاستیں جمہوری لبادے میں کمیونسٹ آمریت کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہیں۔ مقتدرطبقے کو روس کی پشت پناہی حاصل ہے۔ آج بھی یہ خطہ باقی دنیا اور اس کی مارکیٹوں سے زمینی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے کٹا ہوا ہے‘ اور اس کی معیشت کا بڑی حد تک انحصار روس پر ہی ہے۔ ۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۲ء کے درمیان باقی دنیا کے مقابلے میں ان کی برآمدات بہت ہی محدود ہیں۔ قازقستان کی صورتِ حال استثنائی ہے ‘اس لیے کہ بحیرئہ کیسپین سے تیل کی برآمد سے اس کی معیشت میں تیزی سے بہتری آئی ہے لیکن یہاں کے عوام کو جابرانہ آمریت کا سامنا ہے۔ (رپورٹ‘ یورپین بنک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘ برطانیہ‘ امپیکٹ انٹرنیشنل‘ جون- جولائی ۲۰۰۳ئ)
مسلمانوں کی دلی خواہش نفاذِ اسلام ہے۔ آزادی کے بعد ہی سے اس پورے خطے میں احیاے اسلام کی ایک لہر پائی جاتی ہے اور اس کا ثبوت بڑے پیمانے پر مساجد کا قیام اور دین اسلام کو سیکھنے کا جذبہ اور اسلام سے بڑھتی ہوئی دل چسپی ہے۔ مگر اس جذبے کے علی الرغم ایک اجنبی کلچرمسلط کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم و تشدد‘ ریاستی جبر‘قیدوبند اور ہر طرح کا جبرواستبداد روا رکھا جا رہا ہے۔ عوام کو اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی آزادی نہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ اس طرح وسطی ایشیا میں ایک مسلسل جدوجہد اور کش مکش جاری ہے۔
ازبکستان : ازبکستان وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس کی کیفیت عملاً ’’جیلستان‘‘ کی سی ہے۔ صدر اسلام کریموف کے دورِ امارت میں ایک اندازے کے مطابق ۵۰ ہزار سے زائد افراد قیدوبند سے دوچار ہیں۔ ان میں سے بیش تر اسلام پسند ہیں اور اپنے مذہبی و سیاسی نظریات کی بنا پر گرفتار ہیں۔ حزب التحریر خلافت کی علم بردار اسلامی تحریک ہے۔ ازبک جیلوں میں پابندسلاسل ۶ ہزار ۵سو افراد میں سے نصف کا تعلق اسی تحریک سے ہے۔ بیش تر کا قصور یہ ہے کہ وہ پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے یا ان کے گھر سے عربی عبارت پر مبنی اوراق ملے ہیں۔ تحریک اسلامی ازبکستان(IMU) کو۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے شدید دبائو کا سامنا ہے۔ کارکن خوف و ہراس کی بنا پر منتشرہیں‘ سامنے آنے کی جرأت نہیں کرپاتے۔ حکومتی جبر اور آزادی اظہار کا یہ عالم ہے کہ ’’آزادی مذہب آرڈیننس‘‘ کے تحت باپردہ خواتین کو تو پابندسلاسل کر دیا جاتا ہے‘ جب کہ مسیحی راہبات اپنے مذہبی لباس میںامن و آزادی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں۔ ازبکستان کے مفتی محمد صادق کا کہنا ہے کہ غیر حکومتی اسلام کی اجازت نہیں ہے۔
کرغیزستان اور ترکمانستان: کرغیزستان کس ابتری کا شکار ہے اور اس سے اس کی عملاً صورتِ حال کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہاں ۲۰ فی صد عوام فقروفاقہ کی حالت سے دوچار ہیں‘ جب کہ نصف آبادی کو قحط و افلاس کا سامنا ہے۔ ترکمانستان بھی کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ اس کی معاشی ترقی کا بڑی حد تک انحصار گیس کی برآمد پر ہے۔
تاجکستان: تاجکستان میں بظاہر جمہوریت ہے مگر روس نواز صدر امام علی رحمانوف کی ذات میں تمام اختیارات مرتکز ہیں۔ آزادی کے پہلے روز ہی سے مسلمانوں نے اس جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور بتدریج یہ تحریک مسلح جدوجہد میں بدل گئی۔ بالآخر ۱۹۹۷ء میں ایک معاہدے کے تحت اسلامک ریوائیول پارٹی (IRP)کو قانونی جواز دیا گیا۔ انتخابات کے ذریعے حکومت کا قیام عمل میں لایاگیا۔ لیکن صدر اختیارات کے ارتکاز کے لیے جو دستوری ترامیم کر رہے ہیں اس پر اپوزیشن کو تشویش ہے اور وہ جمہوریت کی بحالی‘ آزادی اظہار اور بنیادی حقوق کی بازیابی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
وسطی ایشیا کے مسلمان فی الواقع کن حالات سے دوچار ہیں اور عملاً انھیں کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے‘ اس کی ایک واضح تصویر قازقستان کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے۔
بحیرئہ کیسپین کے کنارے واقع قازقستان میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں ۱۰ بلین ٹن تیل اور ۲ ٹریلین کیوبک میٹر گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ کل ذخائر کا ایک حصہ ہے (روس کے کل تیل کے ذخائر ۶.۷ بلین ٹن ہیں)۔ گیس کے کل معلوم ذخائر ۷.۵ ٹریلین کیوبک میٹر ہیں‘ جب کہ نامعلوم کا اندازہ ۳۰ ٹریلین کیوبک میٹر ہے (ترکمانستان میں تیل کے ذخائر ۳۷ بلین بیرل ہیں)۔ انھی ذخائر پر امریکہ‘ مغرب اور روس کی نظریں ہیں۔
قازقستان آزادی کے بعد ۱۹۹۱ء سے مسلسل سیاسی بحران کا شکار ہے۔ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا استحصال عام ہے۔ صدر نورسلطان نذربایوف کا دورِ حکومت اس کی بدترین علامت ہے۔ ظلم و جبر‘ قیدوبند‘ اذیت‘ غیرقانونی گرفتاریاں‘ ماوراے عدالت قتل‘ اپوزیشن رہنمائوں پر حملے اور میڈیا کو مختلف حربوں سے خوف و ہراس میں مبتلا رکھنا‘ روز مرہ کا معمول ہے۔
صدر نذربایوف کی شہرت ایک بدعنوان‘ نااہل اور غیرمقبول صدر کی ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق قازقستان کو دنیا کے ۲۰ کرپٹ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔
وسطی ایشیا کی دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی آمریت کا دور دورہ ہے۔ حکومت کو اگر کسی سے کوئی خطرہ ہے تو وہ اسلام پسند ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر نے مسلمانوں اور اسلام کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ قومی سطح پر حکومت کی طرف سے نامزد کردہ مفتی کی سربراہی میں ایک نیشنل باڈی بنائی گئی ہے۔ اس باڈی کے دائرے سے باہر اسلامی تنظیموں کو حکومتی غضب اور قہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کے اس رویے کے ہاتھوں تنگ آکر جون ۲۰۰۱ء میں نیشنل باڈی کے سربراہ نے استعفا دے دیا۔
ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد حکومت نے بیرونی اشارے پر کئی اقدامات اٹھائے۔ دہشت پسندوں کی گرفتاری کی آڑ میں مقدس مقامات اور مساجد کی توہین کی گئی۔ بیرونِ ملک دینی تعلیم پانے والے تمام قازق طلبہ کو ملک واپس بلا لیا گیا۔ نومبر ۲۰۰۲ء میں سنٹرل ایشین کوآپریشن آرگنائزیشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر نذر بایوف نے مذہبی انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کے نام پر اسلام پسندوں کے خلاف خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے ذریعے مزید اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔
۱۹۹۹ء میں‘ تاراز میں پولیس نے ایک اسلامی تنظیم کے ان ۷۰ ارکان کو تشدد کا نشانہ بنایا جنھیں عارضی طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔ گذشتہ دو برسوں میں حزب التحریر کے ۲۵ سے زائد کارکنان کو محض پمفلٹ تقسیم کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ انھیں چار سال تک سزا سنائی گئی اور بھاری جرمانے کیے گئے۔ ازبکستان سے وابستگی رکھنے والی تنظیموں کے کارکنان کو گرفتار کر کے ازبکستان بھیج دیا گیا جہاں انھیں قیدوبند اور جبروتشدد کا سامنا ہے۔
قید کیے جانے والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جاتا ہے‘ اس کا اندازہ نومبر ۲۰۰۱ء میں حزب التحریر کے ایک کارکن Kanat Beiembetov کی تشدد کی وجہ سے ہسپتال میں ہلاکت ہے۔ خود Beiembetovکے بیان اور اس کے اہل خانہ کے دستخط شدہ بیان کے مطابق اس کی موت کا سبب KNB (خفیہ ایجنسی)کے اہل کاروں کا تشدد ہے۔ اب بھی کے این بی والے اس کے گھر والوں کی نگرانی کرتے ہیںاور اس کے بچوں کو ہراساں کرتے ہیں۔
ملکی وسائل کو نذر بایوف اور ان کے اہل خانہ کے ہاتھوں اس بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے کہ قازقستان کو ’’نذربایوف اینڈ سنز لمیٹڈ‘‘کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تمام اہم سرکاری محکموں اور عہدوں پر اس کے گھرانے کے افراد یا اقربا متمکن ہیں۔ سرکاری ٹیلی وژن اور کانگرس آف قازقستان جرنلسٹ کی سربراہ صدر کی بیٹی ڈوریگو ہیں۔ اس طرح انکم ٹیکس‘کسٹم دیگر اہم سرکاری ادارے بھی اقربا پروری کے کھلے ثبوت ہیں۔
ملکی سرمایہ بیرونِ ملک میںکس طرح منتقل کیا جا رہا ہے‘ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امریکی تیل کمپنی Exxon Mobil سے وصول کردہ تیل اور گیس کے ایک ارب ڈالر ریونیو کو نذربایوف اور ان کے رشتے داروں کے سوئس بنک اکائونٹس میں خاموشی سے منتقل کر دیا گیا۔ کچھ سوئس اکائونٹس منجمد کیے جانے پر صدر نذر بایوف نے خود دورہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ سرکاری خرچ پر کیا جانے والا یہ دورہ دراصل اکائونٹس کی بحالی کے لیے کیا گیاتھا۔ اسے ’’قازق گیٹ‘‘ سکینڈل کہا جاتا ہے۔
اپوزیشن کو ہراساں کرنا معمول ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں کی نگرانی کی جاتی ہے اور فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ مخالفین کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور نمایاں رہنمائوں کو جلاوطن کر دیا گیا ہے۔ ۱۹۹۹ء کے انتخاب میں صدر دوبارہ منتخب ہوئے لیکن کھلی دھاندلی سے۔
اپوزیشن کو غیرمستحکم کرنے کے لیے بھی صدر نذر بایوف نے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں انتخابی ضابطے میں تبدیلی کی گئی جس کے نتیجے میں نمایاں اپوزیشن رہنمائوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اسی سال آرٹیکل ۷ کے تحت مذہبی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں پارٹی رجسٹریشن کے قانون میں تبدیلی کردی گئی۔ نمایندوں کے لیے قازق زبان کا ایک امتحان لازم قرار دے دیا گیا۔ رجسٹریشن کے لیے بہت بھاری فیس عائد کر دی گئی۔ ۲۰۰۲ء میں سیاسی پارٹیوں کے قانون میں مزید تبدیلی کر کے پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے ۵۰ ہزار ممبران کی شرط لازم قرار دے دی گئی۔ اس طرح ملک کی نمایاں جماعتوں‘ جیسے ڈیموکریٹک چوائس آف قازقستان اور ری پبلکن نیشنل پارٹی آف قازقستان پر عملاً پابندی عائد ہو گئی۔ اس کے علاوہ مختلف حربوں اور دبائو سے جماعتوں اور ان کے سربراہوں کو ہراساں کیا گیا‘ جرمانے عائد کیے گئے‘جیل میں ڈالا گیا اور قاتلانہ حملے کیے گئے۔ سابق وزیراعظم اور RNPK کے سربراہ پر ہتھیار رکھنے کا الزام لگایا گیا اور انھیں بھاری جرمانہ کیا گیا۔
اپوزیشن کی سرگرمیوں کو جبراً روکا گیا۔ اپوزیشن رہنمائوں کو گھروں میں نظربند کر دیا گیا اور گھروں پر حملے کروائے گئے۔ ۱۹۹۹ء میں اپوزیشن رہنما الیکسی مورٹینوف کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں قتل کی دھمکیاں دی گئیں ‘ مجبوراً انھیں ملک چھوڑنا پڑا۔ قازقستان کے پریس اور میڈیا کو ہراساں کرنے کا حکومتی ریکارڈ بھی اچھا خاصا طویل ہے۔
ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے جرنلسٹ ایڈوائزری کونسل تشکیل دی تاکہ آزاد میڈیا کو کنٹرول کیا جا سکے۔ گذشتہ چند سالوں میں کئی اخبارات‘ پرائیویٹ ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ معروف صحافی لوزی مفک ایک ٹریفک حادثے کی نذر کر دیے گئے اور ان کی جان چلی گئی۔ محض اس لیے کہ وہ ’’قازق گیٹ‘‘ سکینڈل کے کئی رازوں سے واقف تھے۔ صحافیوں کا اغوا‘ تشدد‘ قتل اور مختلف پابندیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اس ضمن میں بیان کی جا سکتی ہے۔
قازقستان انٹرنیشنل بیورو فار ہیومن رائٹس اور رول آف لا کی رپورٹس کے مطابق پولیس گردی اور قید میں جبروتشدد بہت عام ہے۔ امن و امان کی صورت حال دگرگوں ہے۔ حکومت توجہ دلانے کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ ۲۰۰۱ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تسلیم کیا کہ نصف سے زیادہ گرفتاریاں غیرقانونی تھیں۔ ۲۰۰۱ء کے ابتدائی چند ماہ میں ۳ ہزار ۵ سو افراد کو بغیر کسی جرم کے قید کر دیا گیا۔ اسی طرح ۴ ہزار ۳ سو افراد کو ابتدائی تفتیشی مراکز میں گرفتار کر لیا گیا۔
حکومت کی اس تمام تر غیر جمہوری‘ غیرانسانی اور غیر اخلاقی روش کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ حکومت پر کسی قسم کا کوئی بیرونی دبائو نہیں ہے۔ نذر بایوف نے امریکی نائب صدر ڈک چینی سے ملاقات کے بعد کہا: ’’انھوں نے ہماری کامیابی کو سراہا ہے اور ہمیں امریکی حکومت کی تائید حاصل ہے‘‘۔ امریکہ نے حکومت سے کئی معاہدے بھی کیے ہیں۔ اسے امریکہ کا مکمل فوجی تعاون حاصل ہے۔ امریکہ نے وسطی ایشیا میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے قازقستان میں مستقل اڈے بنا رکھے ہیں‘ فوجی مشقیں کی جاتی ہیں۔ اکتوبر۲۰۰۲ء میں پنٹاگون نے کئی ملین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ نومبر ۲۰۰۲ء میں امریکی کامرس سیکرٹری اور قازقستان کے ڈپٹی وزیراعظم کے درمیان ایک ملاقات بھی ہوئی جس میں تیل کے معاہدے‘ امریکی تیل کمپنی Charron Texaco Corp کا قازقستان میں کردار بھی زیربحث آیا۔
قازقستان میں نذر بایوف حکومت کی امریکہ کی مکمل پشت پناہی بہت سے خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ اس نوعیت کی پالیسیاں دنیا بھرمیں بگاڑ اور عدمِ توازن کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ روش زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ وسطی ایشیا کے مسلمان اپنے حقوق کی جنگ بڑی ہمت‘ صبرواستقامت اور ثابت قدمی و پامردی سے لڑ رہے ہیں۔ ان کی یہ جدوجہد ایک روز ضرور رنگ لائے گی۔ ان شاء اللہ! (ماخوذ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ ۱۶-۳۰ جون ۲۰۰۳ئ‘ اکانومسٹ ۱۷مئی ۲۰۰۳ئ)
۷۰ کے عشرے میں الجزائر کے شہر الاصنام میں شدید زلزلہ آیا جس کی شدت سے شہر میں واقع جیل بھی تباہ ہو گئی۔ جیل کی تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے بچ جانے والے قیدیوں نے موقع غنیمت جانا اور فرار ہوگئے۔ لیکن ایک قیدی اس تباہ شدہ جیل کے ایک کونے میں بیٹھا جیل کے اہل کاروں کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ قیدی الجزائر کی اسلامی تحریک کے قائد الشیخ محفوظ نحناحؒ تھے جو ۱۹ جون ۲۰۰۳ء کو اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
حرکۃ مجتمع السلم (تحریک براے پُرامن معاشرہ) کا بانی سربراہ‘ لاکھوں دلوں پر حکومت کرنے والا قائد‘ ۳۳ سال کی پُرآشوب تحریکی زندگی میں طوفانوں سے کھیلنے اور ستم زدہ انسانوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرنے کے بعد ابدی نیندسو گیا۔ اس نے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ تشدد اور تعذیب کے زیورات سے بھی آراستہ ہوا‘ دعوت و تبلیغ کی مہمیں بھی سرکیں‘ خطابت کے معرکوں میں بھی شادکام ہوا اور تنظیم و تربیت کے تمام ہی مراحل سے خود بھی گزرااور ہزاروں انسانوں کو بھی گزارا۔
الشیخ محفوظ نحناح ؒ الجزائر کے شہر البلیدۃ میں ۱۹۴۲ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک تحریکی مدرسے سے حاصل کی۔ علم النفس میں بی اے کیا۔ آپ عمر کے ابتدائی حصے ہی میں اسلامی تحریک سے منسلک ہوگئے تھے۔ پھر اپنے شب و روز دعوت و تحریک کے لیے وقف کردیے۔
آپ نے سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۷۰ء میں حواری بومدین کی اشتراکی حکومت کے خلاف جدوجہد سے کیا۔ وہ اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر لوگوں میں جہادی لٹریچر تقسیم کرنے لگے۔ ۱۹۷۶ء میں حکومت کے خلاف ’’سازش‘‘ کرنے کے جرم کی پاداش میں آپ کو ۱۵ سال قید کی سزا سنائی گئی اور پسِ دیوارِ زنداں کر دیا گیا۔ لیکن چار سال بعد ہی‘ بومدین کے انتقال کے بعد ۱۹۸۰ء میں آپ کی رہائی عمل میں آئی۔
۱۹۸۹ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے الجزائر کی تاریخ سے‘ نیشنل فریڈم فرنٹ کی لادینی اشتراکی مطلق العنانیت کا ۲۷ سالہ دور اپنی تمام کارروائیوں سمیت حذف کر دیا گیا۔ اس فضا میں مسجد کا روایتی کردار لوٹ آیا اور کوچہ و بازار میں اسلامی تحریکوں کا علَم لہرانے لگا۔
شاذلی بن جدید کے دورِ حکومت میں جب سیاسی فضا میں آزادی کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں تو الشیخ محفوظؒ نے اپنے طریقۂ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر دعوت و تبلیغ کی طرف توجہ دی۔ اس دوران آپ کے اصلاحی افکار اُبھرکر سامنے آئے۔ آپ الجزائر کی مسجدوں میں جمعہ کے خطبات دیتے اور لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف حکمت ودانائی سے بلاتے۔ بالخصوص نوجوانوں کو اس بات پر اُبھارتے کہ تم درخت کی مانند ہوجائو کہ لوگ اسے پتھر مارتے ہیں لیکن وہ انھیں پھل دیتا ہے۔
۱۹۸۹ء میں آپ نے اپنے رفیق کار الشیخ محمد بوسلیمانی ؒ کے ساتھ مل کر ’’جمعیت ارشاد و اصلاح‘‘ کی بنیاد رکھی۔ آپ ’’رابطہ دعوتِ اسلامی‘‘ کے تاسیسی ارکان میں بھی شامل تھے جس کے سربراہ الشیخ محمد سحنون ہیں۔۱۹۹۱ء میں حرکۃ المجتمع الاسلامی (تحریک براے اسلامی معاشرہ) کی تاسیس کا اعلان کیا جس کا بعد میں نام بدل کر حرکۃ المجتمع السلم رکھا گیا کیونکہ ۱۹۹۷ء میں الجزائر میں ایک ایسا قانون نافذ کیا گیا جس کی رو سے کوئی پارٹی اپنے نام کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ کا لفظ نہیں لگا سکتی تھی۔
۱۹۹۱ء کے قومی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اسلامی فرنٹ نے عباس مدنی کی قیادت میں دوتہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی۔ یہ اسلامی انقلاب کا آغاز تھا۔ اسے الجزائر کی فوج کے سیکولر اور لبرل جنرل برداشت نہ کر سکے۔ فوج نے اگلا مرحلہ منسوخ کر دیا اور فرنٹ کی منتخب قیادت کو جیل میں ڈال دیا۔ اس موقع پر اسلامی قوتوں میں دو رائیں پیدا ہوگئیں۔ایک یہ کہ مسلح مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا اور الجزائری فوج نے اپنے ہی ڈیڑھ لاکھ شہریوں کا خون کرڈالا۔ دوسری رائے راستہ نکالنے اور مفاہمت کی تھی۔ محفوظ نحناحؒ اسی رائے کے قائل تھے۔ سیاسی خلفشار کے اس دور میں ان کی رواداری‘ اعتدال پسندی‘ بردباری اور معاملہ فہمی کی صفات اُبھر کر سامنے آئیں۔
انھوں نے الجزائری قوم کے تمام مسائل کا حل تعلیمات اسلام کی روشنی میں پیش کیا اور قومی سلامتی کے لیے تین چیزوں کو اہمیت دی۔ اول: اسلام‘ عربیت اور قبائل کی اہمیت۔ دوم: ملک کی تعمیر اور اصلاحِ معاشرہ میں بغاوت سے اجتناب۔ سوم: دعوت و تبلیغ کا کردار۔ الشیخ محفوظ نحناحؒ اس موقف کے خلاف تھے کہ مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے قتل و غارت گری‘ تخریب کاری اور معصوم جانوں کا قتل جائز ہے۔ آپ کی اسی سوچ کی وجہ سے آپ کے بارے میں یہ کہا گیا کہ آپ اسلامی تحریکوں کے خلاف غیراسلامی نظام کا ساتھ دے رہے ہیں۔
انھوں نے تشدد کے راستے سے اجتناب کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کے مخصوص طریق کار کو نمایاں اور مستحکم کیا۔ وہ سیاست میں بات چیت اور انسانی حقوق کی پاسداری اور اقلیتوں کے حقوق کے احترام پر یقین رکھتے تھے۔ یہ ان کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ اسلامی تحریک ایک سے زائد مرتبہ حکومت میں شریک ہوئی۔ انھوں نے اپوزیشن اور حکومت دونوں میں رہتے ہوئے تحریک کی دعوت کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے خود تو کوئی وزارت نہ لی لیکن تحریک کے نوجوانوں کو اس کی اجازت دی تاکہ اصلاحِ معاشرہ کے وہ کام کیے جا سکیں جو حکومت میں رہ کر ہی کیے جاسکتے ہیں۔ ان کا یہ مقولہ بہت مشہور تھا کہ ہم حکومت میں شریک تو ہیں لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کا حصہ نہیں ہیں۔
۱۹۹۵ء میں الشیخ محفوظ نحناحؒ نے سابق صدر الیامین زروال‘ سعید سعدی اور نورالدین بوکروح کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لیا اور زروال کے بعد دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ان انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے تحریک براے پُرامن معاشرہ‘ الجزائر میں ایک متبادل سیاسی قوت بن کر اُبھری اور نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھنے لگیں کہ تحریک موجودہ نظام کا متوقع متبادل ہو سکتی ہے۔
انھیں سخت گیرموقف کے حامل گروہوں کی شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ جو حکومت کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کرنے کے مخالف تھے۔ ان کے ساتھی نذیرمودی لکھتے ہیں کہ ’’مجھے آج تک وہ یادگار بحث نہیں بھولی جس میں ہم نے تحریک کے طریقۂ کار کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ الشیخ محفوظ نحناحؒنے حقیقت پسندی‘ مرحلہ وار منزل کی طرف رواں دواں ہونے اور ان ذرائع کے متعلق تفصیل سے بات کی جن کے ذریعے سے حکام اورقوم کے مابین تعلقات کو انسانی سطح پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ظلم و ستم کا سدباب ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد جمہوری اور شورائی نظام کے بارے میں سیرحاصل بحث ہوئی۔ ہمارے بعض ساتھی جمہوریت کا راستہ اختیار کرنے کو غلط اقدام قرار دیتے تھے۔ لیکن محفوظ نحناحؒ نے اس بات پر زور دیا کہ حکمت کا راستہ یہی ہے کہ موجودہ سیاسی آزادی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسی لیے جب ۱۹۹۲ء کی خوں ریز کارروائیاں شروع ہوئیں توآپ ان پر بڑے دل گرفتہ تھے۔ حالات جیسے بھی ہوں وہ اس رجحان کو ناپسند کرتے تھے اور افہام و تفہیم سے ہی معاملات حل کرنے کے خواہاں تھے۔
الجزائر کی اسلامی تحریک کے دودھڑوں کا متحد ہونا آپ کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا جو آپ کی زندگی میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ ان میں سے ایک کے سربراہ وہ خود تھے اور دوسرا دھڑا الشیخ عبداللہ جاب اللہ کی تحریک ہے۔ اگر نیتوں میں خلوص آجائے اور عزم پختہ ہو تو یہ خواب ان کی زندگی کے بعد بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔
آج جب اتحاد اُمت کے داعی الشیخ محفوظ نحناح ؒ اس دنیا میں نہیں رہے تو زخمی الجزائر کو ایسے اطبّا کی ضرورت ہے جو زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔ یہ اطبّا تحریک براے امن معاشرہ کے وہ نوجوان بھی ہوسکتے ہیں جن کے مربی الشیخ محفوظ نحناحؒ تھے اوراسلامک سالویشن فرنٹ کے وہ بزرگ بھی ہوسکتے ہیں جو دعوت و تبلیغ اور پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے اسلامی فرنٹ کے قائدین عباسی مدنی اور علی بلحاج کو ۱۲سال کی قید کے بعد رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اکانومسٹ (۱۲ جولائی ۲۰۰۳ئ)کے مطابق فوجی جنتا ان لیڈروں سے اب بھی اتنی خوف زدہ ہے کہ اس نے غیرملکی صحافیوں کو ان کی رہائی کی کوریج نہیں کرنے دی۔ رہائی بھی کیسی رہائی ہے کہ نہ جلسوں سے خطاب کرسکتے ہیں‘ نہ انتخابات میں کھڑے ہو سکتے ہیں‘ نہ کسی کی حمایت کرسکتے ہیں‘نہ ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمان حکمرانوں کو عقل دے اور ان پر رحم کرے!
بحرین ‘ مراکش ‘یمن‘ ترکی اور پاکستان کے بعد اب اُردن میں بھی اسلام پسندوں نے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اخوان المسلمون نے’’اسلامک ایکشن فرنٹ‘‘ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اور ۱۰۴ عام نشستوں میں سے ۱۶‘ اور خواتین کی چھ مخصوص نشستوں میں سے ایک پر کامیابی حاصل کی۔ اسلامک ایکشن فرنٹ اُردن کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اتنی تعداد میں نشستیں حاصل کی ہیں۔
کامیاب ہونے والوں میں سے اکثر نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان کا تعلق بدوی قبائل سے ہے‘ یا یہ وہ ارکان ہیں جو گذشتہ حکومتوں میں وزیر رہے ہیں اور ان کو حکومتی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ بعض ایسی سیاسی جماعتیں جن کا عالم عرب میں بڑا نام تھا‘ ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکیں۔ بائیں بازو کی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ نے انتخابات میں ۱۴نمایندے نامزد کیے لیکن ایک بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ اسی طرح تحریکِ اصلاح جمہوریت نے ۲۳ نمایندے نامزد کیے جن میں سے صرف تین کامیاب ہوسکے‘ ان میں سے دو عیسائی ہیں۔
اخوان المسلمون نے ۱۹۹۷ء کے عام پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حالیہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح‘ ۱۹۸۹ء سے جاری اس براے نام جمہوری نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ ‘یعنی ۵۹ فی صد رہی۔ کل رائے دہندگان کی تعداد ۲۳لاکھ ۲۵ ہزار ہے۔ یہ انتخابات شاہِ اُردن عبداللہ الثانی کے دورِ حکومت میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابات ہیں۔ انھوں نے اسلامی تحریک کے انتخابات میں حصہ لینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اخوان المسلمون اُردن کے سیاسی و معاشرتی دھارے کا حصہ ہے‘‘۔
اسلامک ایکشن فرنٹ کے قائدین نے انتخابی عمل کے شفاف ہونے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فرنٹ کے سربراہ منصور حمزہ کہتے ہیں: ’’اگر ہمارے ہاں منصفانہ قانون ہوتا تو ہم بہ آسانی اکثریت حاصل کر سکتے تھے‘‘۔ ایک ووٹ کے قانون پر تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں نے اعتراضات کیے‘ جس کی وجہ سے آزاد اور قبائلی اُمیدواروں کو بے حد فائدہ پہنچا جو حکومت کو مطلوب تھا۔ فرنٹ کے سربراہ نے اس قانون کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس قانون کی وجہ سے ہماری نشستوں میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ انتخابی حلقہ بندی اس طریقے سے کی گئی جو اسلام پسندوں کی کامیابی میں رکاوٹ بنے۔ اُردن کو ۴۶ انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا لیکن حلقوں کی حدبندی حقیقت پسندانہ نہیں تھی۔ کہیں ضلع کی سطح پر حدبندی کی گئی توکہیں تحصیل کی سطح پر۔ حدبندی کرتے وقت آبادی کا لحاظ بھی نہیں رکھا گیا۔ کہیں ۱۰ہزار شہریوں کے لیے ایک نشست مقرر کی گئی تو کہیں ایک لاکھ ۱۵ ہزار شہریوں کے لیے ایک نشست‘‘۔ اس طرح کی ترکیبوں سے ہم لوگ پاکستان میں اچھی طرح واقف ہیں۔
ایک اور انتخابی قانون کا براہِ راست منفی اثر اسلامک ایکشن فرنٹ پر پڑا۔ اس قانون کی رُو سے باپردہ خواتین کے لیے ووٹ ڈالتے ہوئے چہرے سے نقاب اُتارنا لازمی قرار دیا گیا۔ فرنٹ نے اس قانون کی شدید مخالفت کرتے ہوئے تجویز دی کہ انتخابی عملے میں عورتوں کو شامل کر دیا جائے تاکہ باپردہ خواتین کو ووٹ ڈالنے میں کوئی دشواری نہ ہو لیکن اُردن کی حکومت نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وزیرداخلہ سے جب اس ظالمانہ قانون کے بارے میں سوال کیا گیا کہ گذشتہ انتخابات میں تو خواتین پر انتخابی عملے کے سامنے نقاب اُتارنے کی پابندی نہیں تھی۔ اب ایسا کیوں کیا گیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہم نے اس بارے میں شرعی مجلسِ فتاویٰ سے رائے لی ہے‘ جس نے ووٹ ڈالتے ہوئے خواتین کو انتخابی عملے کے سامنے نقاب اُتارنے کی اجازت دی ہے۔ یہ گواہی کی ہی ایک قسم ہے‘ اس لیے اس میں کوئی گناہ نہیں‘‘۔
اُردنی حکومت نے اسلامک ایکشن فرنٹ کی کامیابی کوانتخابی عمل کے شفاف ہونے کی دلیل قراردیتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابی عمل شفاف نہ ہوتا تو فرنٹ کو اتنی نمایاں کامیابی نہ ملتی۔ بالخصوص وہ شخصیات انتخابات میں کامیاب نہ ہوتیں جو حکومت کی شدید ترین مخالف ہیں۔ ان میں ڈاکٹر محمد ابوفارس‘ ڈاکٹر علی العتوم‘ الشیخ عبدالمنعم اور انجینیرعلی ابوالسکرکے نام قابل ذکر ہیں۔
اسلامک ایکشن فرنٹ نے ملکی سیاست میں عورت کے کردار کی مسلمہ اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے محترمہ ڈاکٹر الحیاۃ المسیمی کو خواتین کی مخصوص نشست کے لیے نامزد کیا‘ جنھوں نے چھ مخصوص نشستوں کے لیے ڈالے جانے والے ووٹوں میں سے ۷ ہزار ایک سو ۳۳ ووٹ حاصل کیے‘ جب کہ باقی پانچ کامیاب ممبرخواتین نے مجموعی طور پر ۵ ہزار ۵ سو ۴ ووٹ حاصل کیے۔ ان نشستوں پر خواتین امیدواروں کی کل تعداد ۵۴ تھی۔ اس طرح محترمہ ڈاکٹر المسیمی الحیاۃ نے تمام خواتین امیدواروں کوملنے والے ووٹوں کا ۵۶ فی صد حاصل کیا۔
۱- ان قوانین کا جائزہ لینا جوگذشتہ دو برس کے دوران پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے بعد نافذ کیے گئے۔ جن میں (ایک ووٹ) کا قانون اور بلدیاتی اداروں کے بارے میں نافذ کیے گئے قوانین سرِفہرست ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ میئر اور بلدیاتی اداروں کے آدھے ممبران نامزد کرے۔
۲- عراق کی موجودہ صورت حال اور اُردنی معیشت اور عالم عرب پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا۔
۳- فلسطین کے نقشۂ راہ (روڈمیپ) میں اُردن کا کردار اور صہیونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانا۔
۴- اُردن کے معاشی و معاشرتی حالات کے تناظرمیں نعرہ ’’اُردن سب سے پہلے‘‘ کے مضمرات کا جائزہ۔
فرنٹ کے سربراہ حمزہ منصور نے ان مسائل کے بارے میں اپنے اراکین کی ترجیحات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے سیاسی و معاشرتی طرزِعمل کی نگرانی‘ صہیونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کا سدباب اور فلسطینیوں اور عراقیوں کی جدوجہد اور مزاحمت میں ان کی مدد کرنا ہمارا اولیں فرض ہوگا۔ہم ان قوانین کے خلاف ووٹ دیں گے جن کے ذریعے عام شہریوں کی آزادی کو سلب کیا گیا ہے۔ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے اور شہریوں کو ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے ہرممکن اقدام کریں گے۔
اسلامک ایکشن فرنٹ نے اعلان کیا ہے کہ ہم صرف اپنی شرائط پر شریکِ اقتدار ہوسکتے ہیں‘ دوسروں کی مسلط کردہ شرائط کے ساتھ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہم ایک ایسی حکومت میں شامل ہوسکتے ہیں جو ’’معاہدہ وادی عربہ‘‘ کی مخالف اور صہیونی استعمار کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات نہ کرے۔ یہ شرائط آیندہ حکومت کے لیے تسلیم کرنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔
فرنٹ کے کامیاب امیدوار بیشتر نوجوان ہیں۔ اس حوالے سے منصور حمزہ نے کہا کہ: ’’ہم نے ایک ایسا سیاسی قدم اٹھایا ہے جو شاید تمام عرب سیاسی جماعتوں کے لیے مثال ہو۔ ہم نے پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی مدت انتخاب دو سال کر دی ہے۔ اس مدت میں صرف دو سال کی اور توسیع ہو سکتی ہے‘ اس کے بعد اس کو اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے جگہ خالی کرنا ہوگی۔ یہ چیز ہم نے اس سیاسی مطلق العنانیت کے جواب میں کی ہے جو ہم عالم عرب میں پاتے ہیں۔ ہم نے انتخابات میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی شرکت یا عدمِ شرکت کے بارے میں غور کیا اور فیصلہ کیا کہ اعلیٰ قیادت کو پارلیمانی عمل سے دُور رکھا جانا چاہیے‘ کیوں کہ ایک تو یہ عمل مکمل فراغت کا متقاضی ہے اور دوسرا یہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ تنظیمی قیادت ہی پارلیمانی گروپ کا مرجع ہو۔ پارلیمانی قیادت کو پارلیمنٹ میں مختلف دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کے فیصلے متاثر ہو سکتے ہیں‘‘۔
اُردن کے انتخاب میں آزاد امیدوار بہت زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے جن کا تناسب پارلیمنٹ میں ۸۰ فی صد ہے۔ اس طرح آیندہ حکومت بھی ایسے آزاد ارکانِ اسمبلی ہی تشکیل دیں گے جن کا کوئی سیاسی منشور ہے نہ ایجنڈا۔
ان انتخابات میں اسلامک ایکشن فرنٹ کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت قابلِ ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ حتیٰ کہ دارالحکومت عمان میں کسی بھی قومیت پسند یا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعت کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کی نسبت دوسری سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی کچھ صورتِ حال مصر‘یمن‘ ترکی اور پاکستان کے انتخابات سے بھی ظاہر ہے۔ جہاں پر روایتی جماعتیں (قومیت پسند‘ اشتراکی‘ لبرل اور لادینی جماعتیں) عام شہری کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔
اگر ان انتخابات کو علاقائی تناظر میں دیکھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عوام میں اسلامی تحریک کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں اور اسلامی تحریکوں کی دعوت کے میدانِ کار میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔
آیندہ لائحہ عمل: اسلامک ایکشن فرنٹ کے سربراہ حمزہ منصور نے تحریک کے آیندہ لائحہ عمل کے بارے میں کہا کہ: ’’تحریک ملک اور پارلیمنٹ میں موجود اچھے عناصر سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم نے گذشتہ گیارھویں پارلیمنٹ میں ’’پارلیمانی یونٹی‘‘ کے نام سے اتحاد بنایا تھا۔ جس میں اسلامی‘ سیاسی‘ نیشنلسٹ‘ لبرل اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہر قسم کے افراد موجود تھے اور جس کے نتیجے میں اسلامی فرنٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبداللطیف تین سیشنوں کے لیے پارلیمنٹ کے اسپیکرمنتخب ہوئے۔ ابھی ہم ارکان پارلیمنٹ کی صورتِ حال کا بغور مطالعہ کر رہے ہیں کیوں کہ اس پارلیمنٹ میں ۸۰ ایسے ممبران ہیں جو پہلی دفعہ منتخب ہوکر آئے ہیں۔ ہم ایسے افراد کو ساتھ رکھیں گے جن سے تعاون ممکن ہے۔ چاہے ان کا تعلق کسی وسیع تر گروپ سے یا اتحاد کی کسی بھی شکل سے ہو۔ ہم ہر اس شخص سے تعاون کے لیے تیار ہیں جو ملک و ملّت کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔
بعض دیگر امور کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’ہمارے پاس ایک اعلان کردہ منشور ہے جو ہم نے اپنے عوام کے سامنے رکھا ہے۔ ہم چند محوروں کے گرد کام کررہے ہیں۔ پہلا محور قانونی ہے‘ جس سے ہماری مراد قانونی اور دستوری دونوں پہلو ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی زندگی میں پارلیمنٹ کا وجود ناگزیر ہے اور کسی بھی طرح کے حالات میں اس کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا سیشن پورا سال جاری رہنا چاہیے‘ جب کہ ہمارے ہاں پارلیمنٹ کا سیشن چار ماہ کا ہوتا ہے۔ باقی آٹھ ماہ چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سال میں گیارہ مہینے کام کرے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اقتدار کے تسلسل کو برقرار رکھنا چاہیے اور اکثریتی پارٹی کو حکومت تشکیل دینے کا حق ہونا چاہیے۔ ملک بہت سے ایسے جزوقتی قوانین سے متاثر ہوتا ہے جو ہماری رائے میں غیردستوری ہیں۔ اگر ہمارے ہاں کوئی دستوری عدالت ہوتی تو وہ معاملات کا فیصلہ کرتی۔ ہم سب سے پہلے ایک دستوری عدالت قائم کریں گے جو اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کون سا قانون دستور کے مطابق ہے اور کون سا قانون خلافِ دستور ہے‘‘۔
سوال: امریکہ اور یورپ میں عرصۂ دراز سے یہ رواج قائم ہے کہ جب سوسائٹی کی کسی ضرورت کے لیے چندا کیا جائے تو اُس کے لیے ’’فنڈ ریزنگ ڈنر‘‘ (عشائیہ براے عطیات) کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اِس ڈنر میں اکثر ملک کے نامور اور شہرت یافتہ فنکار حصہ لیتے ہیں‘ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں (جس میں ناچ‘ گانا‘ موسیقی‘ مزاح اور ڈراما وغیرہ شامل ہوتے ہیں) اور لوگوں سے فنڈ دینے کی اپیل کرتے ہیں۔ اِس ڈنر کی تیاری مہینوں پہلے کی جاتی ہے‘ اشتہاری مہم چلائی جاتی ہے‘ ویڈیو اور سلائڈز بنوائے جاتے ہیں تاکہ اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ کھانے کے لیے بہترین (مہنگے ہوٹل) جگہ اور اعلیٰ قسم کے مختلف ورائٹی کے کھانوں کا اہتمام اسراف کی حد تک کیا جاتا ہے۔ اکثر مخلوط مجالس ہوتی ہیں‘ جس میں لوگ بہترین لباس اور خواتین میک اَپ‘ خوشبو اور جیولری کی چمک دمک کے ساتھ’’بے پردہ‘‘حاضر ہوتی ہیں۔ اس سارے عمل سے معاشرے کے غریب طبقات غیرحاضر ہوتے ہیں کیونکہ اس ڈنر کا ایڈوانس ٹکٹ قیمتاً فروخت کیا جاتا ہے‘ جس میں سنگل اور فیملی پیکج ہوتا ہے اور اُس کے بغیر کوئی اِس جگہ داخل نہیں ہو سکتا۔
اِس ڈنر کے دوران چندا جمع کرنے کے لیے مسابقت کی ایک دوڑ شروع کرائی جاتی ہے تاکہ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ رقم نکلوائی جائے۔ زبردستی وعدہ فارم (pledge form) بھروائے جاتے ہیں اور مجلس کے دوران بہت زیادہ دکھاوا اور نمود و نمایش واضح طور پر دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ دورانِ مجلس افراد کی تعریف و تحسین کرکے اُن کے نفس کو پھلایا جاتا ہے تاکہ زیادہ رقم وصول کی جائے۔ بعد میں اس فنڈ سے ہوٹل اور کھانے کے اخراجات‘ فن کاروں کی آمدورفت اور رہایشی اخراجات کے بڑے بڑے بل ادا کیے جاتے ہیں۔ اکثر حاصل شدہ فنڈ سے فن کاروں کی فی صد بھی طے شدہ معاملے کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔
اسلامی تنظیموں نے بھی اپنی ضرورت کے لیے کچھ ترمیمات کے ساتھ مغرب کی اس روایت کو اپنا لیا ہے۔ اسلامی تنظیمیں جوفنڈ ریزنگ ڈنر کرتی ہیں‘ اُس میں صرف رقص و موسیقی نہیں ہوتی‘ بقیہ تمام وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کا تذکرہ اُوپر کیا گیا ہے۔ فن کار کی جگہ ہم کسی ایسے لیڈر یا مقررین کا اہتمام کرتے ہیں جو لوگوں کو قرآن اور حدیثیں سُنا کرجوش دلاتے ہیں اور ہر طرح کی کوشش کر کے مسابقت کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ فنڈ دینے والوں کی دورانِ مجلس منہ پر تعریف کرتے ہیں (جسے اللہ کے رسولؐ نے ناپسند فرمایا ہے) کم فنڈ دینے والوں کو کم تر درجہ دیتے ہیں (بعض اوقات تحقیر کے درجے تک) اور حددرجے کا ڈرامائی ماحول بناتے ہیں۔ کبھی رُلاتے ہیں‘ کبھی ہنساتے ہیں‘ کبھی جوش دلاتے ہیں اور اس طرح ایک طرح کی عجیب مصنوعی فضا تیار کرتے ہیں۔ اسلامی تنظیمیں ایسے افراد کو بعض اوقات طے شدہ فی صد بھی جمع شدہ فنڈ سے ادا کرتی ہیں۔ بعض اوقات مقررین بعض افراد کے لیے دورانِ مجلس اپنی جانب سے زبردستی رقم مقرر کرتے ہیں‘ جسے وہ مجلس میں شرمندگی کے باعث قبول کرلیتے ہیں۔ ایڈوانس ٹکٹ (سنگل اور فیملی) فروخت کیے جاتے ہیں۔ مخلوط ماحول ہوتا ہے‘ خواتین و حضرات سج دھج کر آتے ہیں۔ بعض خواتین پردے میں اور اکثریت بغیر پردے کے ہوتی ہے۔ خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور جوش دلانے کے لیے اپنی جیولری مجلس میں پیش کرتی ہیں‘ جسے کوئی دوسرا خرید کر اُس کی رقم فنڈ میں دے دیتا ہے۔
اسی طرح زبردستی وعدہ فارم بھروائے جاتے ہیں(جسے اکثریت بعد میں بھول جاتی ہے)۔ بہترین جگہ اور اعلیٰ قسم کے کئی طرح کے کھانوں کا اہتمام ہوتا ہے اور تمام تر اخراجات کی ادایگی حاصل شدہ فنڈ سے کی جاتی ہے۔ براے مہربانی عامۃ الناس کے استفادے کے لیے یہ بتائیں کہ---
۱- شرعی لحاظ سے اس قسم کے پروگرام کی کیا حیثیت ہے؟ کیا سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا کوئی واقعہ ملتا ہے یا پھر یہ ایک بدعت (innovation) ہے۔
۲- کیا شرعی لحاظ سے کوئی عام پروگرام ایسا ہو سکتا ہے جس میں سوسائٹی کے امیرطبقات کو آنے کی اجازت ہو اور غریب طبقے کو غیرمحسوس طریقے سے روک دیا جائے؟
۳- کیا شریعت کسی ایسے پروگرام کی اجازت دیتی ہے جس میں نمود و نمایش ہو‘ منہ پر تعریف کی جائے‘ زبردستی تحریری وعدے لیے جائیں‘ غیرضروری اخراجات (اسراف کی حد تک) کیے جائیں‘ فنڈ دینے کی اپیل کرنے والے مقررین کو مناسب فی صد ادا کیا جائے‘ یہاں تک کہ یہ اُن کا پیشہ (profession) ہی بن جائے؟
۴- کیا کسی نیک مقصد کے لیے جمع کیے جانے والے اس فنڈ سے اُس کے دینے والے فرد کے کھانے اور تقریب کے دیگر اخراجات کی ادایگی کی جا سکتی ہے؟
۵- بعض اوقات اس تقریب کے اخراجات اس پروگرام کے جمع شدہ فنڈ سے کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں‘ جن کی ادایگی بعد میں بیت المال سے کی جاتی ہے۔ کیا یہ فنڈ اور بیت المال کا غلط استعمال تو نہ ہوگا؟
۶- کیا شرعی لحاظ سے زبردستی وعدہ لینا جائز ہے؟ جس شخص سے وعدہ لیا گیا اور وہ اُسے بھول جائے یا ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو کیا یہ گناہ تصورہوگا۔ منتظمین کس حد تک اس کے ذمہ دار ہوں گے؟
۷- بعض اوقات لوگوں کو جوش دلانے کے لیے ارادتاً بعض افراد بڑی بڑی رقومات کا وعدہ کر لیتے ہیں اور ادا نہیں کرتے‘ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم اگر ایسا نہ کرتے تو دوسرے لوگ فنڈ نہ دیتے ‘یعنی ارادتاً جھوٹ پر مبنی عمل کیا جاتا ہے۔ کیا اس طرح کوئی چیز کی جا سکتی ہے؟
جواب: آپ کے سوال کا تعلق دورِ جدید میں دعوت کے مسائل سے ہے۔ آپ کی یہ بات قابلِ قدر ہے کہ جدید ذرائع کا استعمال کرتے وقت آپ کی خواہش یہ ہے کہ ایک تعمیری اور اصلاحی کام کے لیے بھی ذرائع جائز و مباح ہوں۔ آپ کے سوال میں بیک وقت کئی اصولی باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ پہلی چیز یہ کہ انفاق کے حوالے سے قرآن و سنت کیا ہدایات دیتے ہیں؟ دوسری چیز یہ کہ دعوت و اصلاح کے لیے کن جدید ذرائع کا استعمال درست ہوگا اور اس کی اصولی حیثیت کیا ہوگی؟ تیسرے ‘آپ نے ہمارے ایک اہم معاشرتی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلامی معاشرت اور اجتماعیت میں مرد و زن کے باہمی ربط کی حیثیت کیا ہے؟ نیز آپ نے ایسی تقریبات میں اسراف کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے۔ ان چاروں امور کے بارے میں ترتیب کے ساتھ چند نکات پر غور کیا جائے تو اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
۱- اللہ کی راہ میں کام کرنے کے لیے‘ خواہ وہ ظلم و تعدی کے خلاف مسلح جہاد ہو یا ایک اسلامک سنٹرکی تعمیر کے ذریعے عام انسانوں کو اللہ کے دین کی دعوت پہنچانا‘کسی رفاہی تعلیمی ادارے کا قیام ہو یا کسی مدرسے کے ذریعے علم و حکمت کا فروغ‘ قرآن و سنت ان تمام حوالوں سے اللہ کی راہ میں انفاق کرنے اور صدقات کرنے کو اللہ کو قرضِ حسن دینے اور حقوق العباد کے ادا کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا بعض صورتوں میں انفاق فی سبیل اللہ فرض ہوگا اور بعض صورتوں میں اس کی حیثیت ان صدقات کی ہوگی جو درجے کے لحاظ سے فرض کے قریب ترین ہیں۔ جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں مال اور نفس سے ایثار کیا ‘ان کے اس عمل کو ایسی تجارت کہا گیا جس کے نفع کا وعدہ رب کریم نے خود کیا ہے۔ چنانچہ تقریباً۱۸ مقامات پر قرآن کریم نے صدقات اور صدقات دینے والوں کے بارے میں وضاحت سے فرمایا کہ اللہ انھیں وسعت اور فراخی دیتا ہے (البقرہ ۲:۲۷۶)۔ گویا جو کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ کیا جاتا ہے وہ اللہ کے ذمے قرض ہے‘ اور اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے کہ جو سب کو دیتا ہے اور پھر بھی اس کے ہاں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی‘ اس کو قرض دیا جائے (الصافات ۳۷:۵۲)۔ مزید ملاحظہ ہو‘الحدید ۵۷:۱۸۔
۷۰ سے زائدمقامات پر قرآن کریم انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کرتا ہے اور اسے اہل ایمان کی صفات میں سے ایک اہم صفت قرار دیتا ہے (النساء ۴:۳۴)۔ یہاں پر یہ بات خصوصاً واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ قرآن انفاق کے معاملے میں چھپا کر دینے اور علانیہ دینے کو یکساں مقام دیتا ہے (الرعد ۱۳:۲۲)۔ اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ اگر کسی عطیات جمع کرنے کی تقریب میں علانیہ رقم دی جائے‘ یا اس پر ابھارا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
قرآن کریم کے اس طرح چھپے اور ظاہراور علانیہ دینے میں زکوٰۃ‘ صدقات‘ عام انفاق‘ تینوں شامل ہیں۔ البتہ جس چیز کی فکر کی ضرورت ہے وہ ریا اور تملُّق ہے‘ یعنی نہ تو دکھاوے کے لیے کوئی چیز دی جائے‘ اور نہ کسی کی تعریف و توصیف کھلے بندوں کی جائے۔ خصوصاً کسی کے منہ پر تعریف کرنا خود موصوف کے لیے مہلک ہے۔
۲- فنڈ ریزنگ ایک جدید اور جامع اصطلاح ہے جس میں عطیات کے حصول کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں‘ مثلاً ایک لیکچرہال میں کسی معروف عالم کی تقریر جس میں داخلے کی فیس ہو اور وہ رقم کسی کارِخیر میں استعمال کرلی جائے۔ کسی جگہ کھانوں کا بازار لگایا جائے اور کھانوں کی فروخت سے جو رقم ملے وہ کسی سینٹر یا تعلیمی ادارے یا شفاخانے کی تعمیر پر خرچ کی جائے‘ یا اخبارات میں اشتہار دے کر اپنی ضرورت سے آگاہ کیا جائے اور جواب میں عطیات مل جائیں۔ گویا یہ تعلقاتِ عامہ کے ذریعے مالی وسائل پیدا کرنے کی ایک حکمت ِعملی اور طریقے کا نام ہے۔
اس کی نظیر اگر سنت میں تلاش کی جائے‘ تو غزوات کے موقع پر اہل ایمان سے اپیل کے ذریعے جو وسائل جمع کیے گئے ان میں مل سکتی ہے۔ متعدد واقعات ہمیں ملتے ہیں جن میں بعض صحابہؓ نے اپنی کل ملکیت‘ بعض نے آدھی‘ کسی نے سیکڑوں سواروں کے لیے سازوسامان پیش کر دیا‘ اور بعض صحابیات نے اپنا زیور اللہ کی راہ میں دیا۔ اس اصولی مماثلت کی بنا پر جدید دور میں نہ صرف قیادت کی طرف سے اپیل بلکہ ان بہت سے ذرائع کا استعمال بھی کرنا ہوگا جوقرونِ اولیٰ میں معروف نہ تھے‘ مثلاً فنڈ ریزنگ ڈنر۔
دعوت و اصلاح کے لیے جدید ذرائع کا استعمال اسلام کا مدعا ہے۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے اپنے زمانے میں مروجہ تمام طریق دعوت کو استعمال فرمایا‘ مثلاً خطابت‘ خط وکتابت‘ تربیت یافتہ دعاۃ کے وفود‘ حتیٰ کہ بڑے خطابات کے موقع پر مکبرین کا استعمال جو آج کل کی اصطلاح میں ایک طرح کا پبلک ایڈریس سسٹم کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے فنڈ ریزنگ ڈنر میں کسی معروف اسکالر کو بلاکر لوگوں تک بھلی بات پہنچانے کے ساتھ ان سے انفاق و صدقات کی اپیل کرنے میں کسی قسم کی قباحت نہیں۔ شریعت کا اصول ہے کہ ہر وہ کام مباح ہے جس کی ممانعت نہ آئی ہو۔
یہاں یہ بات واضح کرنی بھی ضروری ہے کہ ایک اخلاقی اور اصلاحی مقصد کے لیے اسلام اس کے حصول کے طریقوں کو بھی اخلاقی اور اصلاحی دیکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ پیشہ ور گانے والوں اور نام نہاد ثقافتی پروگرام کرنے والوں کو مدعو کرنا‘ لہوولعب کی محفل سجانا‘ اس کی قرآن و سنت میں واضح ممانعت ہے۔ اگر ایسی تقریبات میں نوجوان ایسے نغمے پیش کریں جن میں روحِ جہاد اُبھارنے کی تلقین ہو‘ یا چھوٹی بچیاں ایسے نغمات پیش کریں‘ جیسے انصار کی بیٹیوں نے حضورنبی کریمؐ کی آمد پر گائے تھے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
جہاں تک سوال ایک ہی تقریب میں نشستوں کے لحاظ سے معاوضے کا ہے‘ اس پر ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے جو زیادہ رقم ادا کر کے اگلی نشست پر بیٹھے گا اور جس نے کم رقم پر پیچھے کی نشست حاصل کی ہے‘ تفریق پائی جائے گی۔ بات بہت معقول نظرآتی ہے لیکن کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں سے یکساں اجر کا وعدہ کیا ہے‘ یا جو اس کی راہ میں زیادہ قربانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے زیادہ بلند درجات دیں گے! بنیاد کسی کی تملیک نہیں ہے بلکہ قربانی ہے۔ چنانچہ ایک انتہائی غریب صحابی اگر رات بھر کھیت میں پانی دے کر مٹھی بھرکھجور کماکر نبی کریمؐ کو پیش کرتے ہیں تو بظاہر اس کم قیمت صدقے کو سب کے مال پر بھاری قرار دے دیا جاتا ہے۔ گویا اصل بنیاد کسی کی غربت یا امارت نہیں بلکہ جذبۂ انفاق ہے۔
اگر تمام افراد سے ایک ہی مقررہ رقم‘ فرض کیجیے ۵۰ روپے لی جائے تو ۵۰۰ افراد کے جمع ہوجانے کی شکل میں ۲۵ہزار روپے جمع ہوتے ہیں۔ اگر ۵۰ کے علاوہ ۵۰۰‘ ۵ ہزار اور ۵۰ ہزار روپے کے ٹکٹ بھی ہوں اور ۱۰‘ نہیں محض دو افراد ایسے مل جائیں جو ۵۰‘۵۰ ہزار کے ٹکٹ خرید سکتے ہوں اور ۱۰۰ ایسے جو ۵ ہزار کے اور ۴۰۰ ایسے جو ۵۰۰ کے‘ تومطلوبہ فنڈ کی شکل بالکل مختلف ہوگی۔ کم دولت والے اور زیادہ دولت والے افراد کو یکساں موقع فراہم کرنا لیکن ان سے ان کی حیثیت کے لحاظ سے توقع رکھنا‘ نہ اسلام کے منافی ہے اور نہ سرمایہ پرستی۔
جس نے کم قیمت والی جگہ کا ٹکٹ لیا ہے اسے کم اہمیت دینا‘ ایک سخت غیر اسلامی رویہ ہے۔ اس کی اصلاح بہرصورت ہونی چاہیے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ہوائی جہاز میں جو فرسٹ کلاس یا بزنس کلاس یا اکانومی کلاس کا ٹکٹ لے کر سفر کرتا ہے وہ بحیثیت مسافر یکساں حقوق رکھتا ہے لیکن اس کی نشست اور کھانا ٹکٹ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ اسے تفریق نہیں کہا جا سکتا۔
ضمناً یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ اگر فنڈ ریزنگ کی تقریب کے شرکا کو اس بات کا علم ہے کہ جو رقم وہ بطور عطیہ دیں گے اسی میں سے تقریب کا خرچ بھی نکلے گا اور بقیہ رقم جس کارِخیر کے لیے عطیہ کی جا رہی ہے اس میں استعمال ہوگی تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ فنڈ ریزنگ کے نام پر دھوم دھام سے عشائیہ جس کا خرچ فنڈ ریزنگ کی رقم کے برابر یا اس سے بڑھ جائے‘ ایک ناعاقبت اندیشانہ بات ہے اور کسی بھی بھلے انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی حماقت کرے گا۔
شرکاے محفل کو ترغیب دینا‘ انفاق پر اُبھارنا اور ان سے عطیات کا حصول ہی تو تقریب کا سبب ہے۔ اس لیے ایسے مواقع پر ایسے خطابات ضروری ہیں جو اس تصور میں مددگار ہوں۔ ہاں‘ ریا اور دکھاوے یا اپنے نام کے لیے کوئی رقم دینا وہ چھوٹی ہو یا بڑی‘ ایک خودفریبی ہے۔ میرے علم کی حد تک کسی بھی تقریب میں زبردستی فارم نہیں بھروائے جاتے۔ یہ سارا کام رضاکارانہ ہی ہوتا ہے جو مطلوب و مقصود ہے۔
اسلامی تحریکات میں ایک کارکن جو ۱۰ روپے اعانت دیتا ہے ایک حیثیت سے انفاق میں اس سے بڑھ کر ہے جو کروڑوں کماتا ہے اور اپیل کرنے پر ۵۰ ہزار کا ایک چیک بھیج دیتا ہے۔ آپ حضرات کو امریکہ میں خصوصاً اس کی فکر کرنی چاہیے کہ وہاں کے مادہ پرستانہ معاشرے میں محض مادی برتری کی بنیاد پر احترام نہ کیا جائے۔ اسلام نے اِکرام کی جو بنیاد ہمیں دی ہے وہ تقویٰ اور علم کی ہے۔ اس بنا پر جو متقی ہے وہ دوسروں سے افضل ہے‘ اور جو علم زیادہ رکھتا ہے وہ کم علم کے مساوی نہیں۔
۳- آپ کے سوال میں تیسری اہم چیز مخلوط محافل سے متعلق ہے۔ اسلام جس معاشرے کی تشکیل کرتا ہے ‘ وہ بنیادی طور پر ایک اخلاقی معاشرہ ہے۔ ہر وہ چیز جو اخلاق کو نقصان پہنچانے والی ہو‘ اس کی نگاہ میں غیرمطلوب ہے۔ اسی لیے معاشی میدان میں سود ایک غیراخلاقی حرکت ہے۔ معاشرت میں بے حیائی ایک غیر اخلاقی فعل ہے۔ گفتگو اور خطابت میں دوسرے پر چیخنا چلانا‘ برا بھلا کہنا‘ حتیٰ کہ آواز بلند کرنا‘ قرآن نے سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور ابلاغ کے لیے ایک اخلاقی ضابطہ تجویز کیا ہے۔ اسی طرح ایسی محفلوں کو ناپسند کیا گیا ہے جہاں آزادانہ طور پر مرد و زن کا اختلاط ہو۔
جہاں ناگزیر شکل ہو‘ جیسے حج یا عمرہ یا مسجد نبویؐ میں نماز باجماعت‘ وہاں صرف اس حد تک اجازت ہے۔ اس بنا پر اسے عموم نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر امریکہ میں عطیات کے حصول کے لیے فیملی ڈنر کیا جائے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ مرد اور عورتیں ایک ساتھ بیٹھیں۔ ۱۹۶۹ء سے امریکہ میں ISNA اور ICNA کے پروگراموں میں تعلیم و ترغیب کے ذریعے کوشش کی گئی کہ کھانے پینے کا موقع ہو‘ یا کنونشن ہال میں نشست و برخاست‘ مردوں اور خواتین کی نشستیں الگ ہوں‘ اور اس میں کامیابی بھی ہوئی۔ اگر بعد کے ادوار میں کوئی اپنی ’’روشن خیالی‘‘ یا احساسِ کمتری کی بنا پر اس پر عمل نہ کرے‘ تو یہ اس کا اپنا غیر دانش مندانہ فعل ہوگا۔ میں یہ بات اس لیے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۸۱ء تک عدمِ اختلاط کی روایت قائم کرنے میں‘ میں خود شریک رہا ہوں۔ اس لیے جو کچھ عرض کیا گیا وہ نظری نہیں عملی بات ہے۔
ایسے بڑے اجتماعات میں جہاں ایک بڑے ہال میں کسی عملی مشکل کی بنا پر مکمل طور پر الگ انتظام ممکن نہ ہو‘ ہال کی ایک جانب خواتین اور دوسری جانب مردوں کی نشست کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔ یہی چیز ہمارے تشخص اور اقدار کے فرق کو ظاہر کرے گی۔
۴- جہاں تک خواتین کے زیبایش کر کے مجالس میں جانے کا تعلق ہے‘ قرآن و حدیث نے دو ٹوک انداز میں اسے تبرج جاہلیہ سے تعبیرکیا ہے۔ پاکستانی ثقافت کے نام پر ناچ گانا نظریۂ پاکستان سے بغاوت اور اسلام کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ڈنر یا شو میں اس قسم کی سرگرمی کو حکمت اور دعوتی دل سوزی کے ساتھ بدلنے کی کوشش کرتے رہنا آپ کا دینی فرض ہے۔ کھانے کی دعوتوں میں ورائٹی کی گنجایش تو ہے لیکن اسراف قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔ اگر محض عطیات کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے‘تب بھی اسراف کو گوارا نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توازن پر قائم رہتے ہوئے اپنے دین کی خدمت کے مواقع فراہم کرے۔ (پروفیسر ڈاکٹرانیس احمد)
جناب طالب ہاشمی کا شمار معاصر دینی ادب کے معروف مصنفین میں ہوتا ہے--- انھوں نے تاریخ اسلام کے مختلف شعبوں‘ خصوصاً اسلامی اور دینی و مذہبی شخصیات پر ۵۰ سے زائد نہایت وقیع تصانیف و تالیفات شائع کی ہیں۔ وہ تاریخ اسلام پر گہری نظر کے ساتھ‘ بنیادی مصادر سے براہِ راست اخذ و اکتساب کا سلیقہ رکھتے ہیں اور زبان و بیان پر بھی انھیں پوری دسترس اور قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں نبی آخرالزماںؐ، خلفاے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، ائمہ عظام، صلحاے اُمت‘ ارباب سیف و قلم اور دیگر مشاہیرِ تاریخِ اسلام کے تذکروں سے ایک خوب صورت کہکشاں مرتب کی ہے۔
زیرنظر کتاب ۱۲ برگزیدہ خواتین (حضرت حواؑ،حضرت سارہؑ،حضرت ہاجرہؑ،حضرت مریمؑ وغیرہ)‘ ۱۰۰ سے زائد صحابیات‘ چند تابعیات اور قریبی زمانے کی چند صالحات (والدہ علامہ اقبال‘ والدہ سید مودودی‘ والدہ میاں طفیل محمد‘ والدہ حکیم محمد سعید وغیرہ) کے تذکرے پر مشتمل ہے۔
مصنف نے یہ تذکرہ نہایت محنت و جاں فشانی اور تحقیق وتدقیق کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ مستند مآخذ (زیادہ تر قرآن و حدیث اور مسلّمہ ارباب سیر و مورخین) کو ترجیح دی ہے۔ اس طرح بیسیوں صالحات کے مفصّل حالات‘ صحت و جامعیت کے ساتھ سامنے آگئے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے خوش بیاں واعظین نے اسرائیلیات کے زیراثر ان نفوسِ قدسیہ کے حالات میں بہت کچھ رطب و یابس شامل کر دیا ہے۔ مصنف ِ محترم نے حسبِ ضرورت مفید ومعلومات افزا حواشی کا اضافہ بھی کیا ہے۔ آخر میں شامل کتابیات‘ مصنف کی علمیت پر دال ہے۔
جناب طالب ہاشمی ‘ اپنے اسلوب میں صحت ِ زبان کا خاص خیال رکھتے ہیں‘ بلکہ املا‘ رموزِ اوقاف اور اعراب وغیرہ کے اہتمام خصوصاً اعلام و اسما کے صحت ِ تلفظ کے لیے ان کے ہاں خاصا تردّد ملتا ہے‘ جس سے دورِحاضر کے اکثر لکھنے والے بے نیاز و تہی دامن نظر آتے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اس کائنات کا سب سے دل چسپ موضوع انسان ہے ‘مگر انسانوں میں عورت کئی اعتبار سے بحث ‘ سوال اور تحیّرکا موضوع بنا دی گئی ہے‘ حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ عورت بنیادی طور پر تخلیق‘ شفقت ‘ توازن‘ محنت اور ایثاروقربانی کا پیکر ہے لیکن اس کے وجود کو بے جا طور پر بحث اور استحصال کا ہدف بنایا گیا۔ مختلف مذاہب اور قبائل نے اپنے روایتی قوانین کے شکنجے میں اسے کسا اور حقیقت یہ ہے کہ انسانیت سے کم تر درجے پر معاملہ کیا۔ اب سے چودہ سوسال قبل اسلام نے عورت کی اس درماندگی و بے چارگی کو دُور کر کے اسے جاہلیت کے قوانین سے آزاد کرایا۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ آج اسی جاہلیت کے طرفدار‘ اسلام پر عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام دھرتے ہیں۔
زیرنظر کتاب‘ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے‘ جس میں تحقیق کار نے عرق ریزی اور جاں کاہی سے ان اعتراضات کا تجزیہ پیش کیا ہے اور موضوع کی مناسبت سے‘ وسیع پیمانے پر ماخذ و مراجع سے ایک ایک چیز کو حسنِ ترتیب سے یکجا بھی کر دیا ہے‘ اس لیے اسے کتاب یامقالہ کہنے کے بجاے ’’اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے پر انسائی کلوپیڈیا‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ کتاب عورت پر اسلام کے احسان اور رحمت کی تفصیل پیش کرتی ہے جس سے مسلمان عورت کے اعتماد کو سہارا اور ایمان کو تقویت ملتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت نے‘ عورت کے مقدمے کے جملہ نظائر و دلائل کو خوبی‘ مہارت اور لیاقت کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس طرح ایک اہم دینی خدمت انجام دی ہے‘ جس سے یہ کتاب اسلام میں عورت کے امتیازات کا تذکرہ اور اعتراضات کا شافی جواب بن گئی ہے۔ کتاب کا موضوعاتی اشاریہ مطالعے کے لیے خاصا معاون ہے۔ (سلیم منصور خالد)
تاریخِ اسلام کے مطالعے کا آغاز عموماً دورِ رسالتؐ سے ہوتا ہے۔ لفظ اسلام کی زیادہ اصولی تعبیر کرلی جائے تو نبی اول حضرت آدمؑ کی بعثت تک بات جاسکتی ہے۔ لیکن سید علی اکبر رضوی صاحب نے خالق کائنات ‘ خلقت کائنات اور ارتقاے کائنات پر بھی بحث کی ہے اور پہلا عنوان ہی یہ ہے کہ ’خدا کب سے ہے؟‘ اس سے اس سفر کی ’وسعت‘ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو ابھی آگے بھی جاری رہنا ہے۔
اس کے بعد کتب سماوی اور دیگر مذاہب کے بنیادی تصورات کا تذکرہ ہے جس میں ہندومت کے بارے میں نسبتاً زیادہ تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ قرآن میں جن انبیا کا ذکر ہے‘ ان کے مختصر حالات جو بیشتر قرآن کے حوالے سے ہیں‘ بیان کیے گئے ہیں۔ ۶۵۵ صفحات کی کتاب (علاوہ اشاریہ) میں ٹھیک نصف‘ یعنی ۳۲۸ صفحات دورِ رسالتؐ سے قبل تک کے اِن مباحث پر مشتمل ہیں۔
اس حصہء کتاب میں جو مباحث اٹھائے گئے ہیں‘ ان پر گفتگو کا یہ تبصرہ‘ متحمل نہیں ہوسکتا۔ کائنات کی تخلیق اور انسان کی تخلیق بجاے خود نہایت وسیع موضوعات ہیں‘ آسان اور سادہ نہیں۔ صاحب ِ کتاب نے قرآن اور تفاسیر کی بنیاد پر جدید سائنسی بیانات کی روشنی میں کلام کیا ہے۔
کتاب کا نصف آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کے بیان پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر منظوراحمد نے اپنی تقریظ میں لکھا ہے کہ ’’آگے چل کرغالباً کچھ سخت مقامات آئیں گے‘‘، لیکن تبصرہ نگار کی رائے میں ان مقامات کا آغاز اسی حصے سے ہو گیا ہے۔ صاحب ِ کتاب اہل تشیع سے ہیں۔ بقول سلطان احمد اصطلاحی: ’’وہ اپنے مسلک کے مخلص پیروکار ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔ ان کا سراپا جس قدر جدید اور سیکولر نظر آئے لیکن اپنے مسلکی خیالات میں وہ بالکل قدیم اور خالص ہیں۔ تاریخ اسلام میں اس نقطۂ نظر کے مظاہر کا جابجا سامنے آنا فطری ہے۔ چنانچہ حسب ِ موقع اس کے نمونے کتاب میں دیکھے جا سکتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۳۰)
صاحب ِ کتاب نے سنی ماخذ سے بھی استناد کیا ہے۔ تفاسیر بھی تمام علما کی سامنے رہی ہیں۔ ہمارا دامن فکرونظر تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کا نقطۂ نظر جان کر ہی وسعت فکروذہن پیدا ہوسکتی ہے۔
کتاب بہت عمدہ‘ رواں اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ علمی‘ تحقیقی امور خشک انداز کے بجاے پُرکشش انداز سے بیان ہوئے ہیں اور خوب صورت اشعار نے لطف دوبالا کر دیا ہے۔ کتاب نقشوں اور تصاویر سے بھی مزین ہے جو قاری کے لیے دل چسپی کا باعث ہیں۔ اعلیٰ معیار کی پیش کش ہے۔(مسلم سجاد)
مولانا عامر عثمانی کا ماہنامہ تجلّی تقریباً ربع صدی تک علمی و ادبی اور مذہبی دنیا میں اپنے جلوے بکھیرتا رہا۔ مولانا نہ صرف دین و دنیا کا نہایت گہرا شعور رکھتے تھے بلکہ قدرت نے انھیں حسِّ مزاح بھی نہایت معقول پیمانے پر ودیعت کر رکھی تھی۔ تجلّیکے ایک مستقل کالم ’’مسجد سے میخانے تک‘‘ میں اس کا خوب صورت مظاہرہ نظرآتا ہے۔ وہ ابن العرب مکی کے فرضی نام سے نہایت شگفتہ افسانے رقم کیا کرتے تھے۔ بعضعلماے دین کی بے ذوقی بلکہ کور ذوقی کی بنا پر تبلیغ دین اور مذہبی مباحث نہایت خشک اور یبوست زدہ بیانات بن کر رہ گئے جس کی وجہ سے ہمارا دینی مبلغ (الاماشاء اللہ) واعظ ِ خشک کے مرتبے پر فائزہوگیا۔ ایسے میں مولانا عثمانی کی یہ لطافت و خوش گوئی بہار کے تازہ جھونکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ اُردو ادب کے ناقدین نے مولانا کی دینی وابستگی اور مقصدپسندی پر ناک بھوں چڑھایا لیکن وہ ان کے طنزومزاح کے اعلیٰ معیار کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
اُردو شاعری میں ملا و مسٹر کی روایتی کش مکش کے حوالے سے کتاب کا عنوان گہری معنویت لیے ہوئے ہے۔ اس مجموعے کی تمام تحریریں خوب صورت اور دل چسپ افسانے معلوم ہوتے ہیں جن میں مزاح اور طنز کا تڑکا نہایت تناسب اور فن کاری کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ ہمارے ہاں پیری مریدی کا ’’ادارہ‘‘ اس شدت سے لوگوں کے اذہان و قلوب میں جاگزیں ہوچکا ہے کہ لوگ پیر کی بُری سے بُری حرکت کو بھی معجزے سے تعبیر کرتے ہیں۔ مولانا عثمانی نے ایسے نام نہاد بزرگوں کے ’’کشف‘‘ کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑا ہے۔
یہ تمام کہانیاں کسی نہ کسی اخلاقی درس پر منتج ہوتی ہیں لیکن مصنف کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اچھوتے کہانی پن‘ رنگا رنگ کرداروں‘ مزے مزے کے مکالموں‘ شگفتہ اسلوب‘ بھرپور تجسس اور سب سے بڑھ کر تجاہلِ عارفانہ سے اسے تبلیغ یا پروپیگنڈا بننے سے صاف بچا لے گئے ہیں۔ ان کہانیوں کی سب سے خاص بات مصنف کی کردار نگاری ہے۔ اس کتاب میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ دل چسپ اور زندگی سے بھرپور کرداروں سے پڑتا ہے۔ وہ کردار شیخ اصرار حسین کا ہو یا قاری سماعت علی کا‘ منشی مروارید علی ہوں یا مولوی منقار الدین‘ وہ خواجہ مسکین علی ہوں یا صوفی غمگین‘ وہ حاجی بردبار علی ہوں یا صوفی ھل من مزید‘ صوفی ٹاٹ شاہ بریلوی ہوں یا پیرجنگل شاہ‘ حاجی دلدل ہوں یا خواجہ قالوبلیٰ‘ یہ سب اپنے ناموں ہی کی طرح دل چسپ ہیں‘ بلکہ خود ملا اور ملائن کے کردار بھی قدم قدم پر پھلجھڑیاں چھوڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ مولانا عامرعثمانی کے طنز کا تیر عین نشانے پہ لگتا ہے اور ان کا مزاح دل کے غنچوں کے لیے بادِ نسیم کی خبر لاتا ہے۔ مولانا عثمانی نے تہذیبی و دینی افراط و تفریط کا خوب نوٹس لیا ہے۔ یہ کتاب دینی ادب میں فکاہیات کی صنف میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ (ڈاکٹر اشفاق احمد ورک)
مولف نے کفار‘ اہل کتاب اور مسلمانوںکے بارے میں ان کے رویے‘ اسلام میں ان کے حقوق‘ اور مسلمانوں کے لیے ان کے طرزِ زندگی سے بچنے کے خدائی احکامات و فرمودات نبویؐ کو محنت اور عرق ریزی سے جمع کیا ہے۔ یہ ایک لائق تحسین کوشش ہے جس سے ان موضوعات پر نئے لکھنے والوں کو سہولت حاصل ہوگی۔
اسلام کے نزدیک مسلم اور کافر کے درمیان فرق انسانی حقوق اور معاشرتی تعلقات میں مزاحم نہیں ہے۔ دورِ نبوت و خلافت میں خصوصاً اور بعد کے ادوار میں بھی‘مسلم معاشروں اور حکومتوں نے غیرمسلموں کے ساتھ حتی الوسع حسنِ سلوک سے کام لیا۔
چند فروعی مسائل (بالوں کی کٹنگ‘ تہہ بند و پاجامے ‘ پینٹ شرٹ‘ داڑھی اور مونچھ اور چمڑے کے موزے وغیرہ) پر بحث کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ نہیں کرتی۔ مصنف نے بتایا ہے کہ دوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے سے حضرت عمرؓ اور محمد بن سعد بن ابی وقاص نے منع کیا تھا (ص ۳۱۳)۔ یہ اس وقت کی حکمت و مصلحت ہوگی‘موجودہ دور میں غیرمسلم‘ نومسلم اور خود مسلمانوں میں دین کی اشاعت و تبلیغ‘ سفارت کاری ‘ معلومات کے تبادلے و فراہمی اور ترقی یافتہ قوموں کے تعلیمی و اقتصادی اور جدید ٹکنالوجی کے نظاموں سے استفادے اور دشمن کی سازشوں سے باخبر رہنے کے لیے ان کی زبانیں سیکھنا ضروری ہی نہیں بلکہ واجب و فرض ہے۔ اسی طرح دشمن کی زبان پر عبور کیے بغیر زبان کے ذریعے کیسے جہاد ہوگا؟
ہماری راے میں کتاب کی تدوین کو اور بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ کئی مقامات پر الفاظ اور جملے اصلاح طلب ہیں اور ایک ہی موضوع سے متعلق آیات و احادیث کی تکرار سے اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ بہرحال مولف کا جذبہ قابلِ قدر اور کوشش بھی اچھی ہے۔ (عبدالجبار بھٹی)
کلیار والا‘ جھنگ سے کوئی ۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک انتہائی پس ماندہ گائوں تھا۔ یہاں کے باشندوں کو شہروں کی کوئی سہولت میسرنہیں تھی۔ اس قصبے کے ایک سپوت حاجی حکیم اللہ بخش کلیار کی ربع صدی کی ان تھک جدوجہد کے نتیجے میں سڑک بن گئی‘ قریبی نہر پر پل تعمیر ہوا اور اب اس گائوں کا رابطہ شہروں سے ہو گیا ہے اور یہاں بچوں اور بچیوں کے لیے کئی تعلیمی ادارے بھی قائم ہوگئے ہیں۔ انھی میں سے ایک ادارے کا یہ پہلا میگزین ہے جس میں گائوں اور علاقے کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ کچھ علمی اور معلوماتی مضامین بھی ہیں اور منظومات بھی۔ بہت سی تصاویر اور اساتذہ و طلبا کی سرگرمیاں وغیرہ۔
اُردو اور انگریزی دونوں حصے بڑی خوب صورتی سے مرتب اور شائع کیے گئے ہیں۔ یہ ادارہ اور اس کے پس منظر میں کی جانے والی کاوش میں پس ماندہ علاقوں کے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے‘ سبق آموز اور عبرت انگیز۔ نیت نیک ہو اور حوصلہ بلند ہو تو ہر مشکل اور ہر عقدہ حل ہوسکتا ہے۔ (ر-ہ)
مصنف‘ حیوانیات کے استاد اور ایک مجلے اسلام اور سائنس کے مدیر ہیں۔ انھوں نے اپنے وہ تمام مضامین جمع کر دیے ہیں جو مضمون نویسی کے مختلف مقابلوں کے لیے لکھے گئے تھے۔ عدمِ برداشت کا قومی و بین الاقوامی رُجحان‘عصرِحاضر کے مسائل اور اُن کا حل‘ نیز فلاحی مملکت کے قیام کے لیے عملی تجاویز‘اچھے مضامین ہیں۔ اس کے علاوہ سیرت‘ اسلامی ثقافت اورمثالی نظامِ تعلیم کے موضوع پر بھی تحریریں شامل ہیں۔ ’’وقت: انسان کی سب سے قیمتی متاع‘‘ ایک اہم مضمون ہے۔
جناب قاری محمد طیب‘وحیدالدین خان‘ باوا محی الدین کے مضامین اور مدیر افکارِ معلم کے نام مصنف کا ایک خط بھی شامل ہے۔ اس طرح مضامین میں تنوع تو پیدا ہوگیا ہے لیکن ہمارے خیال میں‘ ’’مسائل کا حل‘‘ مزید محنت کا متلاشی ہے اور اس موضوع پر اُمت کے اہل دانش و بینش ہی کو نہیں بلکہ اداروں اور انجمنوں کو مل جل کر کام کرنا چاہیے۔
افراد اُمت کو دین سے ناواقفیت‘ جہالت‘ پس ماندگی‘ سیاسی و فوجی زیردستی‘ غیریقینی مستقبل اور ذلّت و نکبت کے تاریک دور کا سامنا ہے۔ ضروری ہے کہ اصحابِ علم و دانش ان مسائل پر قارئین کی رہنمائی کریں تاکہ تاریک رات‘ روشن صبح میں تبدیل ہوسکے۔
حالاتِ حاضرہ اور اسلام کو درپیش چیلنج جیسے موضوعات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے یہ ایک معلوماتی کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
’’مشرف‘طالبان اور سرحد میں شریعت بل کا نفاذ‘‘ (جولائی ۲۰۰۳ئ) اگرچہ ہر لحاظ سے جامع ہے‘ تاہم ایک اہم نکتے کے حوالے سے بہت تشنگی محسوس ہوئی ‘اور وہ ہے ’’اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق مشرف کا بیان‘‘۔ اس اہم نظریاتی معاملے پر سیرحاصل گفتگو کی ضرورت ہے--- تاکہ کارکنان و عامۃ الناس کے سامنے اس معاملے کے تمام پہلو نمایاں ہوجائیں۔حکمت مودودیؒ : ’’موجودہ مسلم معاشرے کا تاریخی پس منظر‘ کام کی راہیں‘‘بہت بروقت ہے ۔
’’امریکہ کا المیہ‘‘ (جولائی ۲۰۰۳ئ) کے زیرعنوان سروے رپورٹ پر تبصرہ خاصا معذرت خواہانہ سا ہے۔ امریکہ کی اصل خامی جو درحقیقت تہذیب مغرب کی امتیازی خصوصیت ہے‘ وہ مادہ پرستی‘ مال و دولت کی کشش اور حرص ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو پوری دنیا پر تسلط کی خواہش کا محور اور محرک ہے۔ ان خواہشات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب اور معاشرے کی اخلاقی پابندیاں ہیں‘ اور ان پابندیوں سے نجات کے لیے تہذیب مغرب کا نعرہ ہے: آزادی۔ مسلم اُمہ کے لیے تو ہرگز یہ آئیڈیل نہیں ہو سکتا۔ دولت کی حرص و ہوس کا سرمایہ دارانہ چکر جو امریکہ اور اُس کی تہذیب کے زیراثر پوری دنیا میں پھیل رہا ہے‘ اسی کا مظہریہ رائے ہے کہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ امریکہ کی دولت اور آزادی کو پسند کرتا ہے۔
یہاں ایک صاحب کے ذریعے ہر ماہ ترجمان القرآن پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ دل و دماغ تازہ ہوجاتے ہیں اور ایمان میں پختگی آتی ہے۔ رسالہ صرف میں ہی نہیں پڑھتا ہوں بلکہ اس سے بہت سے دوسرے حضرات بھی مستفید ہوتے ہیں۔ یہ رسالہ گردش میں رہتا ہے۔ ان صاحب کو اسلام اور اُردو سے بہت محبت ہے۔ ہر وقت مسلمانوں کے حالِ زار پر فکرمند رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے محلے میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ قائم کر رکھا ہے جہاں ذریعۂ تعلیم اُردو ہے۔ لڑکوں کے لیے بھی اُردو اسکول کے لیے کوشاں ہیں مگر اہل ثروت آگے نہیں آتے۔ ان کی بے حسی پر رونا آتا ہے۔
جون ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ’’پاک بھارت مذاکرات اور مسئلہ کشمیر‘‘ فکرانگیز ہے اور وقت کی اہم ضرورت۔ خرم مراد کا ’’قوموں کا عروج و زوال‘‘ وقت کی ضرورت ہے۔ محمد ایوب منیر کا ’’ذرائع ابلاغ کی جنگ‘‘ مسلمانوں کو پیش رفت کی دعوت دیتا ہے۔ بنگلہ زبان میں ترجمان القرآن جیسا ایک بھی رسالہ نہیں ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کا بنگلہ ایڈیشن ہونا چاہیے۔
’’رسائل و مسائل‘‘میں بعض جوابات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ روایتی دینی فکر کے بجاے دورِ جدید کے تقاضوں کی خاطر نسبتاً لبرل نقطۂ نظر اختیار کیا جا رہا ہے (خصوصاً خواتین کے حوالے سے)۔ یہ میرا تاثر ہے‘ میں مثال دانستہ نہیں دے رہا۔
ہمارا معاشرہ خود بھی لبرل ہوتا جا رہا ہے ۔ دینی گھرانوں تک میں فرق پڑ گیا ہے۔ اس صورت حال میں اگر جواب دینے والے محترم حضرات یہ انداز رکھیں کہ مثالی صورت تو یہ اور یہ ہے‘ تاہم مجبوری کے لیے کوئی اس سے کم تر روش جس کی گنجایش نکل سکتی ہے اختیار کرنا چاہیے تو ایسا کیا جا سکتا ہے‘ لیکن احسن یہ ہے کہ مثالی طریقہ اختیار کرے۔
دونوں باتیں سامنے آجائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں جو خواتین عظمت کا مینار ہیں وہ عظمت کی راہ اپنا کر مزید اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جائیں‘ اور جو ابھی اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتیں‘وہ ممکنہ اجازت کو استعمال کرلیں اور بہتر کی کوشش جاری رکھیں‘ مطمئن نہ ہو جائیں۔
’’معاشری مسائل میں راہ صواب‘‘ (بحث و نظر‘ جولائی ۲۰۰۳ئ) میں مضمون نگار نے بین السطور بلکہ غالباً سطورمیں یہ تاثر دیا ہے کہ گویا کہ اب ترجمان القرآن کے ’’رسائل و مسائل‘‘ میں نصوص شرعی کی بنیاد پر جواب نہیں دیے جاتے۔ مجھے ان کی یہ بات کچھ زیادتی محسوس ہوئی۔ یقینا جوابات کا معیار وہ نہیں ہے‘ اور غالباً نہیں ہو سکتا‘ جو محترم مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے دور میں قائم کیا تھا لیکن کوشش قرآن و سنت کا نقطۂ نظر ہی معلوم کر کے بیان کرنے کی نظر آتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر حضرات اپنے تصورِ دین کو (بلکہ مخصوص مراسم اور رواجوں کو)ہی دین سمجھ لیتے ہیں اور اس حد تک سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن و سنت کو بھی اس کا پابند بنا دینا منشاے دین سمجھتے ہیں۔ قرآن و سنت میں بنیادی طور پر جو وسعت اور ہر دور اور بدلتے ہوئے حالات کے لیے رہنمائی کے اصول ہیں‘ وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ ہی یہ ہے کہ انھوں نے لکیرپیٹنے کے بجاے زمانے کے تقاضوں کے مطابق دین کو سمجھا اور سمجھایا۔ ان کے جوابات ان کے دور کے لحاظ سے ماڈرن ہوتے تھے اور روایت پسندوں کو پسند نہ آتے تھے۔ ان کا حقیقی سبق یہ نہیں ہے کہ ہم ان کی باتوں کو دہرائیں‘ بلکہ یہ ہے کہ درپیش مسائل میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کریں۔ میرے خیال میں تو ’’رسائل و مسائل‘‘ میں آج بھی یہی کوشش احسن طریقے سے کی جاتی ہے‘ اور دورِحاضر کے مسلمانوں کے لیے گرہ کشائی کا سبب بنتی ہے۔ دین نے جو وسعت دی ہے‘ وہ دین کا حصہ ہے اور اس سے فائدہ نہ اٹھانا‘ دین کا منشا نہیں بلکہ فائدہ اٹھانا دین کا منشاہے۔ راہِ صواب کی تلاش اسی ذہن سے ہونا چاہیے۔
آج کل مغرب کی کتابی دنیا میں ہیری پوٹرکا غلغلہ ہے۔ ’’پوٹرمینیا‘‘ کی اصطلاح چل پڑی ہے۔ آپ کے قارئین کے لیے کچھ دل چسپ معلومات: ہیری پوٹر‘۳۷ سالہ برطانوی مصنفہ جے کے رولنگ کا تخلیق کردہ کردار ہے جو پہلے ناول میں ۱۱ سال کا تھا‘ اب پانچویں میں ۱۵ سال کا ہوچکا ہے۔ مصنفہ کے وعدے کے مطابق کل سات لکھنا ہیں‘ یعنی ابھی دو اور آئیں گے۔ چار ناول ۱۹ کروڑ ۲۰ لاکھ کی تعداد میں ۵۵ زبانوں میں شائع ہوکر ۲۰۰ممالک میں فروخت ہوئے۔پانچواں ‘پبلشرنے ۸۵ لاکھ شائع کیا ہے جو ۲۰ جون سے فروخت ہو رہا ہے۔ لاہور تک میں ۱۰ ہزار کا جعلی ایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔۷۰۰ سے زائد صفحات کا ناول ہے۔ اشاعت کے دوران حفاظت مسئلہ رہا کہ کوئی جعلی شائع نہ کر دے۔ ایک ٹرک سے ۷ ہزار ایک سو ۸۰ چوری ہوئے۔ ایک اخبار نے کچھ حصہ شائع کیا تو اس پر ۱۰۰ ملین ڈالر کا مقدمہ مصنفہ اور پبلشرنے کیا ہے۔ ایک پریس کے ملازم کو کچھ صفحے فروخت کرنے کی کوشش کے الزام میں سزا دی گئی۔
پہلے تین ناولوں پر فلمیں بن چکی ہیں اور پوٹر کے لباس‘ مشاغل اور عادات و اطوار کی خوب نقلیں ہورہی ہیں۔ مصنفہ کو کبھی یہ فکر ہوتی تھی کہ فریج میں کھانے کے لیے کچھ ہے یا نہیں‘ یا اب وہ ملکہ الزبتھ سے زیادہ مال دار ہے‘ ۵۰۰ ملین ڈالر کی مالک ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں رہتی ہے۔ ناول میں کیا ہے؟ سبب قبولیت کیا ہے؟ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ میں نے ہاتھ میں لیا‘وزن کیا‘ پھر پڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ گمان ہوتا ہے کہ کچھ طلسم ہوش ربا قسم کی چیز ہے جس نے مغرب کو دیوانہ بنا دیا ہے۔ اُس دنیا کا اندازہ کروانے کے لیے یہ کچھ باتیں آپ کو لکھنا مناسب محسوس ہوا۔ اور اس لیے بھی کہ ہم اپنی دعوتی کتب کے ساتھ کیا کرتے ہیں‘ اس طرف بھی توجہ ہو۔
مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک جہاں کہیں انسانی نسل آباد ہے‘ آج ہر طرف بے چینی‘ اضطراب‘ مصیبت‘ تباہی و بربادی اور تزلزل و انتشار کے عجیب وحشت ناک اور پُرالم مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ دنیا ایسے دورِ انقلاب سے گزر رہی ہے جس میں کئی انقلابی محرکات اُلجھ کر گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے کا سارا نظامِ حیات زیروزبر ہوکر کسی نئے نقشے پر مرتب ہونے والا ہے اور پرانے نظام کی بوسیدگی و فرسودگی سے اُکتا کر منتظمانِ قضا و قدر یہ پکار اُٹھے ہیں ؎
بیاتاگل بہ افشانیم ومَے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بستگافیم و طرح نودراندازیم
انقلاب کی بدترین ہولناکی اُن ممالک میں برپا ہے جہاں جنگ ] عظیم دوم[ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ یورپ کے تمدّن زاروں پر نگاہ کیجیے کہ کیا سے کیا ہوگئے ہیں۔ آبادیاں ویران ہیں اور ویرانے محشرستان۔ سربفلک محلات آتش زدگی اور بربادی کی ہولناک داستان سنانے کے لیے اپنا انجرپنجرآسمان کو دکھا رہے ہیں۔ سرسبز جنگل اور زرخیززرعی میدان جلے بجھے کوئلوں کے ڈھیر اور بے ترتیب خس و خاشاک کے انباروں سے اٹے پڑے ہیں۔ آہ! کیا تقدیرِ اُمم کا مفسر وَجَعَلْنَاھُمْ حَصِیْدًا خَامِدِیْنکی واقعی تفسیر سمجھا رہا ہے؟
جس سائنس کی ترقی نے انسان کو مہذب و متمدن بنانے میں کئی صدیوں کی مسلسل محنت سے ارتقائی صورت حال پیداکرنے میں مذہب اور اخلاق کے روحانی نظام کا ہاتھ بٹایا تھا‘ اب وہی سائنس انقلاب کے فرشتوں کے لیے ایسے ایسے ہلاکت آفریں اسلحہ تیار کر رہا ہے اور بربادی کے ایسے بھیانک مناظرآنکھوں کے سامنے لا رہا ہے کہ الامان والحفیظ۔ نہ کسی آنکھ نے اس سے پہلے تباہی کا ایسا سماں دیکھا‘ نہ کسی کان نے ایسے مہالک سنے اور نہ کسی ذہن نے اُن کا تصور باندھا۔ جن ممالک میں جنگ کا دیو دندناتا پھر رہا ہے اُن کی دکھ بھری داستان سے تصور تک کی روح لرزتی ہے۔ (’’اجتماعیت کی شیرازہ بندی‘‘، ڈاکٹر عبدالقوی لقمان‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۳‘ عدد ۱-۲‘ رجب و شعبان ۱۳۶۲ھ‘ جولائی ‘اگست ۱۹۴۳ئ‘ ص ۴۱-۴۲)