مضامین کی فہرست


مارچ ۲۰۰۱

فرد ہو یامعاشرہ‘ دونوں کی سلامتی اور بلند پروازی کے لیے معاشی استحکام اور ترقی اتنی ہی ضروری بلکہ ناگزیر ہے جتنی اخلاقی‘ نظریاتی‘ سیاسی اور عسکری قوت۔ یہ نہ صرف عقل کا تقاضا اور تاریخ کا سبق ہے بلکہ خود اسلام کے جامع اور متوازن نظامِ حیات اور تصورِ کامیابی کا لازمی حصہ ہے۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کو بڑے لطیف پیرایے میں دعا کی زبان میں یہی تعلیم دی ہے:

اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ھُوَ عِصْمَۃُ اَمْرِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَاشِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ اٰخِرَتِیَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَادِیْ (مسلم عن ابی ہریرہؓ)

اے اللہ! میرے دین کو میرے لیے سنوار دے جو میرے معاملات کی اساس ہے‘ اور میری دنیا کو میرے لیے سنوار دے جس میں میری معاش ہے ‘ اور میری آخرت کو میرے لیے سنوار دے جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے۔

اور

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ o (البقرہ ۲:۲۰۱)

اے ہمارے رب‘ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی ‘ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔

اور کفر اور فقر کے منطقی رشتے کے بارے میں یہ کہہ کر متنبہ فرمایا:

فقر کفر کی طرف لے جاتا ہے اور دونوں سے پناہ مانگی:  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنَ الکُفْرِ وَالْفَقْر ۔

موجودہ معاشی بحران : آج پاکستان جس معاشی بحران کا شکار ہے اس نے آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے جینا دوبھر کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نوبت فقر وفاقہ اور محرومی و بے روزگاری کے بعد‘ خودکشی اور خود سوزی تک آگئی ہے بلکہ ملک کی آزادی‘ سلامتی‘ اور اس کے اساسی مفادات تک خطرے کی زد میں ہیں۔ قوم کا بال بال قرضوں میں بندھا ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور بیرونی ساہوکار ہر روز نت نئے مطالبات کے ذریعے ایک طرف ملک کی معیشت اور مالیات کی باگ ڈور پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت‘ کشمیر کے بارے میں ہمارے برحق موقف‘ افغانستان میں استعماری کھیل میں ہماری مجبورانہ شرکت‘ بھارت کی علاقائی قیادت کو تسلیم کرانے کے لیے دبائو‘ عالم گیریت (globalization)کے نام پر ہماری صنعتی صلاحیت کی تباہی اور عالمی سامراج کے لیے اپنی منڈیوں کو کھول دینے کے لیے دائرہ تنگ سے تنگ تر کرتے جا رہے ہیں۔ ذہنی مرعوبیت اور معیشت کی کمزوری ہمارے حملے کی زد میں ہونے  (vulnerable)کا اصل سبب اور ذریعہ ہیں۔بیرونی قرضوں کی سختی اور نرمی (carrot and stick) کی پالیسی کو اس بیرونی ایجنڈے پر سجدہ ریز کرنے کے لیے پوری چالاکی اور بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

بظاہر اس حکمت عملی پر ایک عرصے سے عمل ہو رہا ہے لیکن ۱۹۹۸ء کے ایٹمی تجربات اور کشمیر میں بھارت کی فوجی کارروائیوں کے بے اثر ہو جانے کے بعد اور پھر ملک پر اندرونی اور خصوصیت سے بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بار کی کمر توڑ کیفیت نے ملک و قوم کو ایک نہایت خطرناک صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ پھر حال یہ ہے کہ اس وقت ملک میں ایک فوجی حکومت قائم ہے جو بحث مباحثے اور تبادلہ خیال کے ہر اس فورم سے محروم ہے جس میں قومی اُمنگوں اور جذبات کی ترجمانی ہو سکے‘ جہاں احتساب کو موثر بنایا جا سکے اور اقتدار کے غلط اقدامات پر گرفت کی جا سکے۔ بیرونی طاقتیں وزن بیت کے لیے جمہوریت کی باتیں کرتی ہیں لیکن وہ دوسرے ممالک کو اپنے قابو میں کرنے اور ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے ایسے ہی نظام کو پسند کرتی ہیں جن میں ایک فردِ واحد سے من مانی کرا سکیں اور اس کے گرد گھیرا تنگ کر کے اپنے مقاصد حاصل کرلیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی عملاً فردِواحد کی سیاست ہی کا دور دورہ تھا۔ رہی فوجی حکومت‘ تو وہ تو نام ہی ایک فرد کے ہاتھوں میں اقتدار کے مرکوز ہونے کا ہے۔ پھر موجودہ حکومت پر جس طرح بیرونی اداروں سے متعلق ٹیکنوکریٹس اور بیرونی روابط رکھنے والی این جی اوز کے کارپرداز اثرانداز ہیں اس نے سارے حفاظتی بند توڑ دیے ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر قوم کے اجتماعی ضمیر نے بروقت گرفت نہ کی اور عوام اپنی آزادی‘ نظریاتی تشخص اور معاشی اور سیاسی خود مختاری (sovereignty)کے لیے بروقت سینہ سپر نہ ہوئے اور گومگو‘ مسلسل پسپائی اور بیرونی مطالبات پر سرنگوں ہونے کا یہی سلسلہ چلتا رہا تو قوم و ملک کا مستقل محکومی اور آزادی اور سلامتی سے محرومی کی ذلت سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔

آج قوم ایک نازک اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے اور کیفیت یہ ہے کہ ایک طرف قرضوں کی غلامی‘ سیاسی فیصلے کے حق سے دست برداری اور بالآخر ذلت اور محکومی کی دلدل ہے تو دوسری طرف جرأت‘ قربانی اور جہاد مسلسل کا راستہ جو کانٹوں سے بھرا ہے مگر یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ایمان‘ آزادی اور عزت کی ضمانت حاصل ہو سکے۔ اس کے لیے فراست ایمانی کے ساتھ جرأت رندانہ اور جان کی بازی لگا دینے کا جذبہ درکار ہے۔ یہ جاں گسل جدوجہد کا راستہ ہے جو معاشی میدان میں ایک ایسی انقلابی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جو لگے بندھے اور پٹے ہوئے راستے سے یکسر مختلف ہو‘ اور جس کے نتیجے میں قوم اپنی آزادی اور خود انحصاری کو دوبارہ حاصل کر سکے‘ ہم خود اپنی قسمت کے مالک اور اپنے فیصلوں کے مختار ہو سکیں اور پاکستان اس منزل اور مشن کو حاصل کرنے کے لیے پھر اس جادہ مستقیم پر گام زن ہو سکے جس کے لیے لاکھوں انسانوںنے اپنی جان‘ مال اور آبرو کی قربانی دے کر‘ انگریز اور ہندو دونوں کی چالوں کو ناکام بنا کر یہ آزاد اسلامی ملک قائم کیا تھا۔ آج پھر ایسے ہی جرأت مندانہ‘ انقلابی اور مبنی بر حکمت اقدام کی ضرورت ہے جو آزادی‘ نظریاتی تشخص اور باعزت زندگی کا ضامن ہو سکے۔ اس کے لیے قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا‘ اس کے جذبہ ایمانی کو متحرک کرنا ہوگا‘ ہر سطح پر قربانیوں کے لیے تیار ہونا ہوگا‘ باطل کی قوتوں سے سمجھوتے کے بجائے ان سے مقابلے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا‘ اور اس عزم اور داعیے کے لیے حالات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا:

یا تن رسد بہ جاناں‘ یا جاں زتن بر آید

بحالی معیشت کا حکومتی پروگرام : فوجی حکومت کے بارے میں ہمیں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یہ خوش گمانی نہیں ہوئی کہ یہ ملک کے گھمبیر معاشی اور اجتماعی مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ یہ گذشتہ پندرہ سال میں برسرِاقتدار رہنے والی سیاسی قیادتوں کی غلط کاریوں اور بداعمالیوں کی سزا تھی کہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو قوم کو فوجی انقلاب کا منہ دیکھنا پڑا۔ قوم کے بہی خواہوں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ فوجی حکومت ہمارے مسائل کا حل نہیں اور جنرل پرویز مشرف کو جلد از جلد ضروری انتخابی اصلاحات اور ملک لوٹنے والوں کا فوری احتساب کر کے اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کی طرف منتقل کر دینا چاہیے۔ عدالت عالیہ نے بھی حالات کی مجبوری کے تحت فوجی حکمرانوں کو اس کام کو انجام دینے کے لیے مہلت دی لیکن فوجی قیادت نے اپنی اصل ذمہ داری کو پورا کرنے کے بجائے اپنے ذمہ بزعم خود ایسے کام لے لیے جن کی نہ وہ صلاحیت رکھتے تھے اور نہ قوم ان پر اس بارے میں کوئی اعتماد کر سکتی ہے۔ ان کی اولین ذمہ داری ملک کا دفاع ہے اور وہ آہستہ آہستہ ایسے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں کہ خود دفاع وطن کے کام کے لیے ان کی صلاحیت اور اہلیت مجروح ہو رہی ہے۔

معیشت کے لیے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء اور پھر ۱۵ دسمبر ۱۹۹۹ء کو جو ایجنڈا اور پروگرام جنرل مشرف صاحب نے پیش فرمایا اور مرکز اور صوبوں میں جس قسم کے افراد پر مشتمل اپنی ٹیم کا اعلان کیا اس نے قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو بری طرح مایوس کیا۔ قوم نے پھر بھی انھیں موقع دیا لیکن ان سولہ مہینوں میں جو نتائج سامنے آئے ہیں اور جن خطرات کی لپیٹ میں ملک آگیا ہے وہ ہوش ربا ہیں۔ جتنے بھی دعوے موجودہ حکومت اور اس کے کارپردازوں نے کیے وہ سب خالی خولی نعرے ثابت ہوئے۔ عملاً وہی پرانی ڈگر ہے جس پر کام جاری ہے‘ وہی قرضوں کی سیاست اور عالمی اداروں کی چاکری ہے جس پر نظام معیشت چل رہا ہے۔ نہ بے لاگ اور شفاف احتساب کے کوئی آثار ہیں اور نہ معیشت کی بحالی اور خود انحصاری کا کوئی نشان۔

۱۵ دسمبر ۱۹۹۹ء کے معاشی بحالی کے پروگرام اور پھر غربت میں کمی کی حکمت عملی کے ایجنڈے کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ تجارتی شعبے میں بے اعتمادی کا جو طوفان بپا ہے اور جس کے پیدا کرنے میں سب سے بڑا دخل روز روز بدلنے والی پالیسیاں اور غیر ملکی کرنسی حسابات کو منجمد کرنے جیسا اقدام تھا‘ اس پر قابو پایا جائے گا اور معاشی اعتماد کو بحال کیا جائے گا۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو خائف کرنے اور مقدمات میں اُلجھانے کا سلسلہ ختم ہوگا اور ملک کو سرمایہ کاری کے لیے ایک درست اور محفوظ ملک کا درجہ دیا جائے گا۔ تیسرا مرکزی ہدف یہ بیان کیا گیا تھا کہ ملک کو قرضوں کے جال سے نکالنے اور خود انحصاری کی راہ پر لگانے کو اولین اہمیت دی جائے گی۔ چوتھی بات یہ تھی کہ عام آدمی کی بہبود اور اس کے رہن سہن پر معاشی اقدامات کے  اثرات کو سب سے پہلے ملحوظ رکھا جائے گا۔ پانچواں نکتہ تھا کہ نج کاری کے عمل کو تیزی سے بروے کار لایا جائے گا۔

زراعت‘ نیز چھوٹی اور وسطی سطح کی صنعت کی ترقی اور صنعتی مال کاری (industrial finance) کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا بھی پیش نظر تھا۔ اس کے علاوہ:  ۱- بیمار صنعتوں کے لیے ایک کارپوریشن کا قیام اور ٹیکس کے نظام کی ایسی اصلاح کہ کرپشن دُور ہو سکے اور ضابطہ بندی کے قانونی احکامات  (SRO) کا غلط استعمال یک قلم روکا جا سکے‘ ۲- سیل ٹیکس کا نفاذ اور اسے آسان بنایا جائے‘ ۳- چُھوٹ (rebate)کی بروقت واپسی اور مالی مقدمات کو جلد نمٹانے کا نظام فوری طور پر نافذ کیا جائے‘ ۴- گیس اور پٹرولیم کے شعبوں کی ترقی اور ان شعبوں کے لیے سرمایہ کاری کا حصول‘ ۵- انفارمیشن ٹکنالوجی کی فوری اور ملک گیر ترقی اور پورے ملک میں معیشت کی دستاویز بندی (documentation)کا اہتمام‘  ۶-غربت کے خاتمے کے لیے ایک ملک گیر پروگرام پر عمل جس کے لیے ملکی اور بیرونی دونوں وسائل استعمال کیے جائیں گے اور پہلے سال ہی ۳۰ ارب روپے سے کئی ہزار پراجیکٹ شروع کیے جائیں گے جو ۵ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کریں گے‘ ۷-محصولاتی خسارے اور تجارتی خسارے کو کم کیا جائے گا اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کو ۸.۴ فی صد کی سطح پر لایا جائے گا۔

اس کے علاوہ یہ ضمانت بھی دی گئی کہ سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے فیصلے کے مطابق ملک کی داخلی معیشت کو ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک سود سے پاک کر دیا جائے گا۔

معیشت کی موجودہ صورت حال : اس معاشی پیکج کو ’’پاکستان ساختہ پروگرام‘‘ کہا گیا تھا اور یقین دلایا گیا تھا کہ فوج کے مانٹیرنگ نظام کے تحت اس پر سرعت سے عمل ہوگا۔لیکن سال سوا سال کی کارکردگی کی روشنی میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس حکومت کے وعدوں اور دعووں کا بھی وہی حال ہے جو ماضی کی حکومتوں کا رہا ہے۔ معاشی اعتماد مزید مجروح ہوا ہے اور مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اور بھی کمی ہو گئی ہے بلکہ اب تو ملک سے سرمایہ تیزی کے ساتھ باہر جا رہا ہے اور عملاً معکوس بہائو (reverse flow)کی کیفیت ہے۔ برآمدات اور درآمدات کا عدم توازن ۸۰۰ ملین ڈالر سے بڑھ کر ۷ .۱ بلین ڈالر پر پہنچ گیا ہے اور اگر ۵.۲ سے ۳ بلین ڈالر قرضوںاور سود کی واجب الادا رقم کو شامل کر لیا جائے تو مبادلہ خارجہ کا فرق ۶ بلین ڈالر کی خبر لا رہا ہے۔بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ہر سال جتنے افراد لیبر فورس میں شامل ہو رہے ہیں ان کابھی ۵۰ فی صد روزگار سے محروم ہے۔ ساری پکڑ دھکڑ کے باوجود پہلے ۷ مہینوں میں ریونیو مطلوبہ رقم سے ۱۴ ارب روپے کم ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ بجٹ کا خسارہ کم ہونے میں نہیں آ رہا حالانکہ ترقیاتی بجٹ میں نمایاں کمی کی جا چکی ہے۔

قیمتیں برابر بڑھ رہی ہیں اور بجلی‘ تیل‘ پٹرولیم کی قیمتوں میں اس زمانے میں چار بار اضافہ کیا گیا ہے جس کا کوئی تعلّق عالمی منڈی کی قیمتوں سے نہیں۔ روپے کی بیرونی قدر برابر کم ہو رہی ہے جس میں اس زمانے میں ۲۰ فی صد سے زیادہ کی کمی واقع ہو گئی ہے اور مزید کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ کاروبار مسلسل مندے کا شکار ہیں اور روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان کے علاوہ کہیں کوئی مثبت سرگرمی نظر نہیں آرہی۔ قدرت کے کرم اور گندم اور کپاس کی فصل کے بہتر ہو جانے سے زرعی پیداوار اچھی ہو رہی ہے مگر گنے کی پیداوار کی کمی کا اثر چینی کی فراہمی پر پڑا ہے۔ پھر بھی مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی متوقع شرح کو ۸.۴ فی صد سے کم کرکے ۵.۴ فی صد کیا گیا ہے۔اسی طرح برآمدات میں متوقع اضافہ رونما نہیں ہوا اور صنعتی پیداوار خصوصیت سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ براے نام ہی رہا ہے۔

سب سے تشویش ناک پہلو غربت میں اضافہ ہے جو پچھلے دس سال میں تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔ آبادی میں غربت کے شکنجے میں گرفتار لوگوں کا تناسب ۱۷ فی صد سے بڑھ کر ۳۶ فی صد اور ایک اندازے کے مطابق آبادی کے ۴۰ فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے۔ عمومی شرح افراطِ زر جو گذشتہ سال ۵.۳ فی صد قرار دی گئی تھی‘ اس سال ۶ اور ۷ فی صد تک پہنچ جائے گی اور اس کی بڑی وجہ مٹی کے تیل‘ گیس‘ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں بار بار اضافہ اور ان کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث بیشتر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ تعلیم اور صحت کا بجٹ متوقع ہدف کا نصف رہ گیا ہے۔ نج کاری کا عمل معطل ہے‘ اسٹاک ایکسچینج میں کساد بازاری ہے‘ بنکوں کے غیر متحرک (non-performing) کھاتوںمیں اضافہ ہو رہا ہے اور چند ارب کے ڈوبے ہوئے قرضوں کی وصولی کے باوجود بحیثیت مجموعی ڈیفالٹ کی رقم میں کمی نہیں اضافہ ہوا ہے ‘جب کہ تمام سرکاری بنک نقصان میں جا رہے ہیں اور قابل ذکر تعداد میں شاخیں بند اور ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بنک نے جو سالانہ رپورٹ ۲۰۰۰-۱۹۹۹ء کی معاشی حالت کے بارے میں جاری کی ہے اور جو سہ ماہی رپورٹیں حکومت کو پیش کی ہیں‘ ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت کی کارکردگی بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح سخت مایوس کن ہے اور اس کے بھی دعووں اور وعدوں کا وہی حال ہے کہ:

جام مے توبہ شکن‘ اور توبہ میری جام شکن

دُور تک ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا

درپیش بڑے اقتصادی چیلنج

اقتصادی زبوں حالی :  اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور اس کے گورنر ڈاکٹرعشرت حسین نے‘ اسٹیبلشمنٹ کا رکن ہوتے ہوئے بھی‘ ایک حد تک معاشی حقائق کو ظاہر کرنے اور قومی سطح پر مکالمے اور

بحث و مذاکرے کا راستہ اختیار کیا ہے جو لائق تحسین ہے۔ وزیرخزانہ اور خود گورنر اسٹیٹ بنک ایک عرصے تک  تو بیرونی دبائو کا انکار کرتے رہے لیکن اب دونوں نے کھل کر اعتراف کر لیا ہے کہ ملک ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے مجبور ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آج کے معاشی بگاڑ کی ساری ذمہ داری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی اور اسے اکتوبر ۹۹ء میں بڑے خراب حالات ورثے میں ملے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم سارے بلند بانگ دعووں کے باوجود کوئی نئی حکمت عملی وضع کرنے اور ملک کو خود انحصاری کی راہ پر ڈالنے میں ماضی کی قیادتوں کی طرح ناکام رہی ہے اور اس کے فکروعزائم کا تجزیہ کیا جائے تو دُور دُور کسی نئے آغاز کا امکان نظر نہیں آتا۔ گورنر اسٹیٹ بنک نے اپنی ۱۹جنوری ۲۰۰۱ء کی تقریر میں جس کا متن روزنامہ جنگ لندن میں ۶‘۷ اور ۸ فروری ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا ہے۔ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ:

بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری‘ بیرونی اور مقامی قرضوں کا بوجھ‘ مالیاتی خسارے میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی--- یہ وہ بڑے اقتصادی چیلنج ہیں جن سے پاکستان اس وقت دوچار ہے۔

انھوں نے اعتراف کیا ہے اور اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ:

گذشتہ پندرہ مہینوں میں حالات میں وہ بہتری پیدا کیوں نہیں ہوئی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

گذشتہ دس سال کے دگرگوں حالات کا جائزہ لے کر انھوں نے بجا طور پر سب سے بنیادی مسئلے کی نشان دہی کی ہے کہ:

ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کن لوگوں کی توقعات کی بات کر رہے ہیں۔ بیرونی ملکوں خصوصاً بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی ساکھ کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ اس طرح اندرون ملک عام لوگوں میں اس کا اعتماد اب تک بحال نہیں ہوا ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کو ایک پالیسی فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے امداد طلب کیے بغیر اپنے مالی وسائل کا انتظام خود کرنا ہے… مختصر یہ کہ اس وقت ملک کو درپیش سب سے زیادہ مشکل مسئلہ بیرونی سیّالیّت کا مسئلہ ہے یعنی موجودہ واجبات سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت۔

موجودہ ٹیم پر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے طلسم میں گرفتار (بلکہ ’’ان کا ایجنٹ‘‘) ہونے کے الزام پر اپنی ناپسندیدگی کے اظہار اور پچھلی حکومتوں کے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہونے کا بجا طور پر الزام لگانے کے بعد بڑے بھیانک انداز میں ڈیفالٹ کے خطرات سے خوف زدہ کیا گیا ہے: ’’کہ اس سے دوسرے ممالک پی آئی اے کے جہازوں پر قبضہ کر لیں گے اور مجموعی طور پر آبادی کے مصائب میں اضافہ ہو گا‘‘۔ اسے بیرونی مالیاتی اداروں کی تمام شرائط کو منظورکرنے کی وجہ جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اعتراف کیا گیا ہے کہ ’’ہم ان تمام کوتاہیوں کی ایک ساتھ تلافی کرنے پر مجبور تھے جو ماضی میں ہم سے سرزد ہوئیں‘ اور اسی  وجہ سے ان اداروں کی وہ تمام شرائط جو پالیسی یا معاشی ساخت (structures) سے متعلق ہیں‘ ہم کو قبول کرنی پڑ رہی ہیں‘‘۔

گورنر اسٹیٹ بنک نے موجودہ حکومت کے پالیسی اقدامات کا دفاع کیا ہے‘ مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اس کے کچھ اسباب بھی گنوائے ہیں۔ ہم ان کے اس جذبے کی قدر کرتے ہیں کہ انھوں نے دوسروں کی طرح بحث مباحثے سے گریز کا رویہ اختیار نہیں کیا اور تلخ حقائق کا سامنا کرنے اور ایک حد تک وجوہات بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ ان کے بیان‘ اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں اور چیف ایگزیکٹو اور وزیر خزانہ کے بیانات کے تضادات کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے‘ نیز ان ہدایات اور اعلانات کی بھی ایک طویل فہرست پیش کی جا سکتی ہے جن پر کوئی عمل نہیں ہوا یا عمل ہوا تو ان کے برعکس ہوا‘ لیکن ہم اس بحث سے اجتناب کرتے ہوئے صرف مرکزی ایشوز پر کلام کرنا چاہتے ہیں تاکہ خرابی کی اصل جڑ پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔

ملکی مفاد کے منافی معاشی پالیسی : پاکستان کے معاشی مسائل اور ایک کے بعد دوسرے اور پہلے سے بڑے بحران کے رونما ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری معاشی پالیسیاں اور ترجیحات ملک کے نظریے اور ملک کے عوام کی اصل ضرورتوں کو سامنے رکھ کر مرتب نہیں کی گئیں بلکہ مخصوص مفادات کے تحفظ اور مغربی استعمار کے عالمی پروگرام اور ایجنڈے کی شعوری اور غیر شعوری تکمیل ہی ان کا ہدف رہا ہے۔ جب سے ہماری معاشی منصوبہ بندی میں ہارورڈ گروپ اور بیرونی امداد کی ایجنسیوں کو عمل دخل حاصل ہوا ہے‘ہماری معاشی حکمت عملی کا رخ بدل گیا۔

معاشی آزادی اور صحت مند منڈی کے نظام کے ہم بھی قائل ہیں لیکن مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے جس طرح ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور لبرلائی زیشن اور گلوبلائزیشن کے نام پر جس طرح عالمی سامراجی اداروں‘ کارپوریشنوں اور حکومتوں کی گرفت ہم پر مضبوط ہو رہی ہے‘ اس سے صرفِ نظر کر کے حقیقی اقتصادی چیلنج کو سمجھنا ناممکن ہے۔آج کے معاشی پالیسی ساز ہوں یا ماضی کے کارپرداز سب نے بیرونی قرضوں کے سہارے معاشی ترقی کو اصل ہدف گردانا اور خود معاشی ترقی کے اس کرم خوردہ اور تباہ کن تصور قبول کر لیا جس کا اصل مقصد تیسری دنیا کے ممالک کو عالمی سرمایہ داری کے معاشی جال میں پھنسانا تھا‘ انھیں معاشی خوش حالی اور معاشی قوت فراہم کرنا نہیںتھا۔

یہ اسی غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ انسانی اور مادی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان میں آج چار سے پانچ کروڑ انسان غربت کا شکار ہیں اور گذشتہ ۱۱ سال میں یہ تعداد دگنی ہوگئی ہے۔ زراعت مسلسل بے توجہی کا شکار ہے حالانکہ آبادی کے ۷۰ فی صد کا اسی پر انحصار ہے اور ۱۱ میں سے ۹ صنعتیں جوملکی برآمدات کا دو تہائی فراہم کر رہی ہیں زراعت ہی کی پیداوار پر منحصر ہیں۔ جو بھی صنعتی ترقی ۱۹۸۰ء تک حاصل ہوئی تھی اسے برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے اور خاص طور پر گذشتہ پندرہ سال تو عملاً  صنعتوں میں کمی کے سال ہیں۔اس دوران معیشت میں صنعت کا کردار کم ہوا ہے۔ اسی طرح چھوٹی صنعت جو زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار فراہم کر رہی ہے وہ پالیسی سازی میں سب سے زیادہ غیر اہم ہے۔ انتظامی مصارف برابر بڑھ رہے ہیں اور ترقیاتی پراجیکٹ محض بیرونی قرضے حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ بلالحاظ اس کے کہ وہ ملک کے لیے مفید اور ضروری ہیں یا نہیں۔

قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ : ۱۹۸۰ء میں کل بجٹ ۲۰۰ ارب روپے تھا۔یہ اب بڑھ کر ۶۰۰ارب پر پہنچ گیا ہے لیکن اس میں ترقیاتی بجٹ اور سماجی خدمات کے بجٹ کا حصہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ قرضوں پر سود کی ادایگی ‘ فوجی اخراجات اور انتظامی مصارف سارے بجٹ کو چاٹ جاتے ہیں اور غیرپیداواری مصارف کے لیے بھی قرض لینا پڑتے ہیں۔ قرض کا بازار اس طرح گرم ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یہ قیادتیں کس طرح ملک کو مسائل و مصائب کی دلدل میں دھکیلتی رہی ہیں اور دھکیل رہی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہر نئے قرض کے حصول پر شادیانے بجائے جاتے ہیں ۔

ملکی اور بیرونی قرضوں کا کیا رخ رہا ہے اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے کیجیے:

   سال       بیرونی قرض          اندرونی قرض

۱۹۷۷ء   ۶ بلین ڈالر               ۵.۵ بلین روپے

۸۸-۱۹۸۷ء            ۱۳ بلین ڈالر            ۲۷۲ بلین روپے

(دس سال بعد)         (دگنے سے زیادہ اضافہ)        (۵۰ گنا اضافہ)

۹۹-۱۹۹۸ء            ۳۰ بلین ڈالر            ۱۲۰۰ بلین روپے

                (ڈھائی گنا اضافہ)   (پانچ گنا اضافہ)

۲۰۰۰ء   ۳۸ بلین ڈالر            ۱۳۰۰ بلین روپے

سود اور قرض کی ادایگی کی سالانہ قسط اب ۲۶۵ ارب روپے سے متجاوز ہے جو بجٹ کی کل آمدنی کا ۵۴ فی صد ہے۔ سالانہ زرمبادلہ کی شکل میں ادایگی کے لیے ۵.۳ ارب ڈالر درکار ہیں جس میں اگر ۵.۱ ارب ڈالر کے تجارتی خساروں کو بھی شامل کر دیا جائے تو صرف بیرونی خسارے کو پورا کرنے کے لیے سالانہ ۵ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور اگر یہ رقم سود پر قرض کی شکل میں حاصل کی جائے تو ہر سال قرض کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ ۳۸ بلین ڈالر کا بیرونی قرضہ بھی اسی طرح وجود میں آیا ہے کہ پچھلے قرض اور سودادا کرنے کے لیے نئے قرض لینے پڑے ہیں۔ ۱۹۷۷ء سے اب تک ۳۰ ارب ڈالر سے زیادہ ادا کرنے کے بعد یہ قرض ۳۸ بلین ڈالرہے جو آیندہ سال ۴۲ بلین ڈالر بن جائے گا۔

اس کے برعکس اگر جائزہ لیا جائے کہ ملک میں ان منصوبوں کے نتیجے میں جن پر قرضے لیے گئے ہیں حقیقی اثاثوں (assets)کا کتنا اضافہ ہوا ہے تو محتاط اندازے کے مطابق حقیقی اضافہ صرف ۵ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ گویا ۷۰ ارب ڈالر کے بوجھ کے عوض ۵ ارب ڈالرکے اثاثے وجود میں آئے ہیں۔باقی تمام تنخواہوں‘ کمیشنوں‘ غبن یا قرض دینے والے ملکوں کے افراد اور اداروں ہی کی جیبوں میں گیا ‘جب کہ قرض کے اس پہاڑ تلے ہر پاکستانی سسک رہا ہے۔

ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی حکمت عملی : ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی ترقیاتی حکمت عملی اپنی اساس میں خرابی رکھتی ہے۔ اس کا ہدف قرض حاصل کرنے والے ممالک کی معاشی ترقی اور خوش حالی نہیں بلکہ قرض دینے والے ملکوں کے مصالح اور قرض لینے والے شعبوں میں استحکام کے نام پر انھیں عالمی منڈیوں کا دست نگر بنانا ہے ۔ یہ ترقیاتی ترجیحات اور سماجی فلاح کے نظام کو مسخ کر دیتا ہے۔ اس وقت گورنر اسٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ سے لے کر بین الاقوامی ماہرین تک سب یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ بیرونی سیّالیّت (foreign liquidity)ہے حالانکہ اصل مسئلہ پیداوار کی کمی اور معیشت میں کسادبازاری ہے۔ جب تک پیداوار میں اضافہ نہ ہو‘ برآمد کرنے کے لیے وافر مال موجود ہو‘ اس میں اتنا تنوع‘ اعلیٰ معیار  اور بین الاقوامی مارکیٹ سے مناسبت نہ ہو اور شرح پیداوار اتنی نہ ہو کہ محض شرح مبادلہ کی بار بار کی تخفیف (devaluation)سے برآمدات کو نہیں بڑھایا جا سکتا۔ ہم پندرہ سال سے اس سراب کا تعاقب کر رہے ہیں اور ہمارا حال اس پیاسے شخص کا سا ہے جو سمندری پانی سے پیاس بجھا رہا ہو جو ہر جرعہ آب کے بعد اور بڑھ جاتی ہے۔

بجٹ کا خسارہ اور بیرونی ادایگیوں کا توازن سب اہم ہیں لیکن سب سے اہم چیز شرح پیداوار‘ پیداوار کے لیے صحیح اشیا کا انتخاب اور ان کا معیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور صنعتی بنیاد کا استحکام‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی اور اجرتوں کا منصفانہ نظام ‘ تقسیم دولت کا موثر انتظام اور انسانی صلاحیتوں کی ترقی اور مطلوبہ مہارتوں (skills)کی فراہمی‘ سب کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ آج اس بات کا اعتراف ورلڈ بنک کے سابق سرکردہ افراد سے لے کر آزاد معاشی ماہرین اور مختلف ممالک کی سیاسی قیادتیں کر رہی ہیں کہ ورلڈ بنک کی شرائط (conditionalities)نے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو تباہ کر دیا ہے اور عام انسانوں کو معاشی زبوں حالی کے سوا کوئی تحفہ نہیں دیا ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے لوگ کھلی بغاوت پر اتر آئے ہیں اور سیٹل‘ واشنگٹن‘پراگ اور ڈائی ووس کے عوامی مظاہرے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

معاشی مسئلے کی جڑ: موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ وہ معاشی مسئلے کی جڑ کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ وہ ہے ہی نہیں جس سے آئی ایم ایف کی شرائط تعرض کرتی ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ معیشت میں کساد بازاری‘ سرمایہ کاری میں کمی‘ پیداوار میں جمود اور ملک میں غربت اور بے روزگاری ہے۔ گلوبلائزیشن ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے مسائل کا سبب ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی معیشت میں اعتماد اور پیداآوری عمل کو متحرک کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ کرپشن کا خاتمہ بہت ضروری ہے مگر جس طرح معیشت کے میدان میں خوف اور بے اعتمادی کی فضا پروان چڑھائی گئی اس میں کساد بازاری کے سوا کوئی اور حالت رونما نہیں ہوسکتی۔ ٹیکس کلچر بہت اہم ہے مگر تجارت کو خوف و ہراس کے ذریعے مندی کا شکار کر کے ٹیکس کی آمدنی میں اضافے کی توقع خام خیالی ہے۔ معیشت کی دستاویز بندی بھی مفید ہے مگر اس کا یہ طریقہ نہیں کہ پوری تجارتی برادری سے محاذ آرائی کی جائے۔ ٹیکس کلچر کا اگر ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہر صاحب حیثیت فرد ٹیکس دے تو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ٹیکس منصفانہ ہوں‘ حکومت ٹیکس کی آمدنی شفاف طریقے پر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہو‘ اور ٹیکس دینے والوں کو قانونی تحفظ اور سماجی مرتبہ حاصل ہو۔ امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں قانون کے تحت ٹیکس ادا کرنے والوں کے حقوق کا بھی اسی طرح تعین اور تحفظ ہوتا ہے جس طرح ٹیکس کے مطالبات کا۔ لیکن موجودہ حکومت نے محض ڈنڈے کے زور پر ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی کوشش کر کے معاشی اعتماد کو مجروح اور تجارتی فضا کو بھی مکدّر اور مسموم کر دیا ہے۔ ان حالات میں سرمایہ کاری کیسے ممکن ہے؟ یہ حالات تو سرمایے کے فرار اور انخلا ہی کا باعث ہو سکتے ہیں اور یہی ہو رہا ہے۔ معیشت ٹھٹھر گئی ہے اور اس میں زندگی اورحرارت کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔

اقتصادی مسائل کا حل

سوال یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج کا کس طرح مقابلہ کیا جا سکتاہے؟

غلط معاشی حکمت عملی کا اعتراف:  سب سے پہلے غلط معاشی حکمت عملی کا اعتراف اور اس سے نجات ضروری ہے۔ اور یہ کام موجودہ معاشی ٹیم کے ہاتھوں ممکن نہیں ہے۔ اس کا وژن‘ اس کا تجربہ و صلاحیت‘ اس کے مفادات سب اس حکمت عملی کے اسیر ہیں جس نے ہمیں تباہی کے اس غار تک پہنچایا ہے۔ یہ کام ایک نئی قیادت اور ایک نئی ٹیم ہی انجام دے سکتی ہے۔ یہ ٹیم ایسے لوگوں پر مشتمل ہونی چاہیے جن کا عوام سے گہرا رابطہ ہو‘ جو ان میں سے ہو‘ ان کے درمیان زندگی گزارتی اور ان کے مسائل‘ مشکلات‘ عزائم اور ترجیحات سے واقف ہو اور عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہو۔ درآمد شدہ ماہرین یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے نظام حکومت بھی وہ ہونا چاہیے جو جمہوری اقدار اور اصولوں کا پابند ہو‘ جو حقیقی مشاورت کے ذریعے فیصلے کرے اور پالیسیاں اور قوانین بنائے۔

معاشی ترقی کا صحیح تصور : دوسری بنیادی چیز معاشی ترقی اور استحکام کا صحیح تصور ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک کی نقالی اور ان کی مکھی پر مکھی بٹھانا کوئی ترقی نہیں۔ ترقی وہی معتبر ہے جس کے نتیجے میں ملک کے وسائل کا موثر استعمال ہو‘ خود انحصاری کی بنیاد پر ملک اس لائق بنے کہ غربت کا خاتمہ ہو سکے‘ پیداوار بڑھائی جا سکے‘ روزگار کے مواقع فراہم ہوں‘ معیارِ زندگی اور معیارِ اخلاق میں اضافہ ہو اور معاشی جدوجہد کے ثمرات سے معاشرے کے تمام افراد بہرہ ور ہو سکیں۔ اس کے لیے بالکل نئے وژن اور نئی ترجیحات کی ضرورت ہے اور ان میں پہلی اور سب سے اہم بات بیرونی قرضوں سے نجات اور اندرون ملک سودی معیشت سے مکمل گلوخلاصی ہے۔

موجودہ استحصالی نظام کا خاتمہ : حکومت کو ایک واضح قانون کے ذریعے اس استحصالی نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ یہی راستہ خود انحصاری کی طرف لے جا سکتا ہے۔ تبدیلی کے دَور کے مسائل ہوں گے اور ان کا مردانہ وار مقابلہ ہی ترقی و استحکام کا راستہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سود کا خاتمہ اس سمت میں ایک اہم قدم ہے لیکن حکومت نے اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے۔یہ فیصلہ دسمبر ۱۹۹۹ء میں آیا تھا اور آج تک نہ اسٹیٹ بنک کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن کی رپورٹ آئی ہے اور نہ وزارت مالیات اور وزارت قانون کی ٹاسک فورسز کی رپورٹیں۔ قوم کو تیار کرنے کے لیے نئے مالیاتی آلات (instruments)کی تشہیر و تعلیم‘ متبادل قوانین کے مسودوں کی اشاعت کہ ان پر بحث و گفتگو ہو سکے‘ سرکاری اور بنک کاری اداروں کے عملے کی تعلیم و تربیت--- کسی سمت میں بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ سرکاری اداروں سے متعلق اہم شخصیات اب عدالت سے وضاحتیں حاصل کرنے اور مزید مہلت کی باتیں کر رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے سوا سال میں وضاحت طلب کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی گئی؟ آخری تاریخ کا انتظار کس خوشی میں کیا جا رہا ہے؟ عدالت نے جن دوسرے اہم اداروں کے قیام کا مشورہ دیا تھا ان کے بارے میں کوئی پیش رفت آج تک کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ ہمیں تو یہ بھی شبہ ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں کوئی شریعت بنچ موجود بھی ہے یا نہیں؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی عوام کو اور خود خدا تعالیٰ کو دھوکا دینے کی مجرمانہ کارروائی میں مشغول ہے۔ اس طرح تبدیلی نہیں آ سکتی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب سود پر مبنی قرضوں کی معیشت کے دن ختم ہو گئے۔ اس خطرناک راستے پر جتنا آگے بڑھیں گے‘ دلدل میں اور بھی دھنستے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ممکن ہی نہیں کہ ایک واضح لکیر کھینچ کر ماضی کے فاسد نظام کا باب ختم کر دیا جائے اور بالکل نئے آغاز کا اہتمام کیا جائے۔ ڈیفالٹ (default)سے ڈرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ڈیفالٹ نہیں دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔

قرضوں کی معافی:  بیرونی قرضوں کے سلسلے میں ڈیفالٹ کا جو خوف ناک نقشہ اسٹیٹ بنک کے گورنر صاحب نے کھینچا ہے وہ حقیقی سے زیادہ تخیلاتی ہے۔ ہم خود ڈیفالٹ کے حق میں نہیں اور ایک متبادل حکمت عملی کو قابل عمل سمجھتے ہیں لیکن ڈیفالٹ کو ایسا ہوّا بنا کر پیش کرنا بھی صحیح نہیں۔ ۱۹۸۰ء میں جنوبی امریکہ کے ۱۳ ممالک نے عملاً ڈیفالٹ کیا اور کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا۔ گذشتہ ۲۰ برسوں میں ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر ورلڈ بنک اور عالمی مالی اداروں نے ۱۳۰ سے زیادہ قرضوں کی وصولی کے لیے نیا نظام الاوقات دیا ہے۔ آج بھی روس بار بار ڈیفالٹ کر رہا ہے اور عالمی ادارے مذاکرات بھی کر رہے ہیں اور قرض کی معافی کا راستہ بھی اختیار کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی G-7نے سویت دور کے قرضوں میں سے ۳۸ بلین ڈالر کے نصف کی معافی کی بات کی ہے اور باقی کے لیے ۳۰ سال میں ادایگی کی بات چیت ہو رہی ہے۔ ہم خود ۱۹۷۲ء میں ڈیفالٹ کر چکے ہیں اور اب بھی عملاً بروقت ادایگی نہ کر کے کئی بار چھوٹے موٹے ڈیفالٹ کر چکے ہیں جو مذاکرات کے پس منظر میں چھپ گئے۔ اس وقت دنیا میں قرضوں کے خلاف ایک عالم گیر مہم چل رہی ہے اورG-7 نے کولون‘ لندن اور پیرس کی کانفرنسوں میں ۶۱ ملکوں کے ۱۰۰ بلین ڈالر کے قرضے معاف کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

قرض دینے والے ملکوں اور اداروں کی جو ذمہ داری ’’برے قرض‘‘ (bad loans) دینے اور کرپٹ قیادتوں کے تحفظ کے لیے قرض دینے کے باب میں ہے اس سے وہ کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ قرض کی معافی کے حوالے سے قرض کی ادایگی کی صلاحیت کے سلسلے میں جو معیار زیربحث ہیں ان سے ہم بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں بشرطیکہ ہم مضبوطی کے ساتھ یہ موقف اختیار کریں کہ:

۱- آیندہ کوئی قرض نہیں لیں گے خواہ کسی بھی عنوان سے ہو۔

۲- محض قرض لے کر قرض ادا نہیں کریں گے۔

۳- اپنی برآمدات کا ایک خاص فی صد (مثلاً ۱۰ فی صد) قرض کی ادایگی کے لیے مخصوص کرنے کو تیار ہیں‘ لیکن معقول مہلت کی ایک مدت کے بعد۔

۴- موجودہ قرض کو منجمد کر دیا جائے اور ادایگی کے لیے ۵ سے ۱۰ سال کی مہلت (moratorium) حاصل کی جائے۔ اس کے بعد برآمدات کے ایک خاص تناسب سے ادایگی شروع کی جا سکتی ہے۔

۵- قرض کی معافی کے سلسلے میں جو معیار دوسرے ممالک کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے اس کا اطلاق ہم پر بھی کیا جائے۔ قرض کی معافی کے لیے بات چیت میں سبکی کاکوئی پہلو نہیں۔ قرض کی بھیک مانگنے میں اگر کوئی سبکی نہیں تو قرض کی معافی کی بات چیت میں سبکی کیوں ہو؟ اگر روس یہ کام کر رہا ہے اور ۵۰ دوسرے ممالک کر رہے ہیں تو ہمیں کیوں عار ہو؟ غلط قرض لے کر جو جرم ہم نے کیا ہے قرض دے کر وہی غلطی دوسروں نے بھی کی ہے۔ ہمیں ان معاملات میں ڈٹ کر معاملہ (bargain)کرنا چاہیے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مستقبل کے لیے قرض کے باب کو بالکل بند کر دیا جائے اور چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی حکمت عملی پر سختی سے کاربند ہوا جائے۔

یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم خود مضبوط ہوں‘ قوم ہمارے ساتھ ہو‘ جو بھی قربانی دینا پڑے اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں‘ اس کی ایک اسٹرے ٹیجک اہمیت ہے جسے کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ ہماری معیشت کا ۱۵‘ ۱۶ فی صد (کل درآمدات + برآمدات) بیرونی دبائو سے متاثر ہو سکتا ہے‘ باقی معیشت خودکفیل ہے۔ اگر دوسرے ممالک پابندیوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں (جو بظاہر ممکن نہیں) تو بھی ہم مقابلہ کر سکتے ہیں اور نقد ادایگی پر درآمدات کے نتیجے میں خود انحصاری کا حصول کر سکتے ہیں۔ نیز ایسی صورت حال قوم میںمقابلے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے جو ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو سکتی ہے۔

نئی معاشی حکمت عملی : جس انقلابی راستے کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں اس میں اللہ پر بھروسے کے بعد عوام کو اعتماد میں لینا اور ان کے تعاون اور شرکت سے نئی معاشی حکمت کی تشکیل اور اس پر عمل ضروری ہوگا۔ اس حکمت عملی میں زراعت کی ترقی کو اوّلیت حاصل ہوگی۔ چھوٹی اور وسطی درجے کی صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔ تعمیراتی صنعت جو بلاواسطہ ۴۰ دوسری صنعتیں اور پیشوں کو متاثرکرتی ہے ایک عمل انگیز (catalyst) کے طور پر موثر ہو سکتی ہے۔ جرمنی نے ۱۹۳۰ء میں اور چین نے ۱۹۵۰ء میں اسے کامیابی سے استعمال کیا ہے اور ہم بھی یہ راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نج کاری کا کام بھی آنکھیں بند کر کے نہیں کیا جانا چاہیے‘ اس میں قومی سلامتی‘ عوام کی ضروریات‘ اجرتوں کے منصفانہ نظام‘ صارفین کے حقوق اور روزگار کے استحکام کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ نئی صنعتی پالیسی وضع کرنا ہوگی‘ جو ملک کے حالات اور ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو۔ تقسیم دولت اور پیداواری عمل میں عوامی شرکت بھی پالیسی کے اہم موضوع ہیں۔ آج بھی جب وفاقی بجٹ میں بہ مشکل ۴ فی صد تعلیم‘ صحت اور سماجی بہبود پر خرچ ہو رہا ہے‘ نجی شعبے میں زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے ۶۰ ارب روپے سالانہ سے زیادہ معاشرے کے محروم گروہوں اور اچھے کاموں کی مدد کے لیے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اگر اس کام کو منظم طور پر اور مناسب ترغیبات کے ساتھ کیا جائے تو غربت کے خاتمے میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

معیشت میں ریاست کے کردار پر بھی واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔ نجی شعبہ اہم ہے اور مرکزی اہمیت کا حامل‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک موثر سرکاری شعبہ بھی ضروری ہے۔ محض سرمایہ دارانہ نظام سے مرعوبیت یا لبرلزم کے چلن کی وجہ سے اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ درست نہیں۔ پھر سرکاری شعبے کے یہ معنی نہیں کہ اسے بیوروکریٹس یا سیاست دان چلائیں۔ ملکیت اور انتظامیات ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ بہت سے معاملات میں ریاست کو مالکانہ اختیار دینا ملک اور عوام کے مفاد میں ہے۔ البتہ ان اداروں کا انتظام بھی تجارتی مہارت اور پیشہ ورانہ انداز میں ہونا چاہیے اور عوام کے سامنے احتساب کا موثر نظام بھی واضح کیا جا نا چاہیے۔ خود مغربی ممالک میں جہاں نج کاری کا کام بڑے زور شور سے ہوا ہے وہاں نگرانی ‘کارکردگی اور خدمت کے پہلوئوں سے احتساب کا موثر نظام بنایا گیا ہے اور مطلوبہ معیار پورا نہ کرنے پر شدید گرفت اور سزائیں بھی رکھی گئی ہیں۔

اس کے ساتھ ایک صحیح لیبر اور روزگار پالیسی‘ تعلیمی پالیسی‘ ہیلتھ پالیسی اور اساسی ڈھانچے (infra structure) کی فراہمی کے بارے میں طویل مدت کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک انقلابی حکمت عملی میں ان سب کو ملحوظ رکھا جائے گا۔

یہ ہے وہ کام جو کرنے کا ہے لیکن یہ کام موجودہ انتظامیہ کے بس کا نہیں۔ اس کے لیے صحت مند جمہوری عمل کو بروے کار لانے اور زمام کار بلند ہمت‘ خدا ترس اور اعلیٰ قیادت کی حامل اچھی قیادت کو سونپنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج بڑا حقیقی اور گھمبیر ہے ‘ اس چیلنج کا مقابلہ ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ مغرب کی کورانہ تقلید اور سابقہ حکومتوں کی تباہ کن پالیسیوں کو نئے قالب میں ڈھال کر یہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے نئے وژن‘ مخلصانہ اور ایمان دارانہ قیادت‘ باصلاحیت افراد کار‘ جمہوری طرزِ حکومت‘ عوامی شرکت کے موثر نظام‘ شفاف احتساب اور مضبوط اداروں کے قیام کی ضرورت ہے۔ معیشت کی ترقی اور اس کا استحکام صرف معاشی خوش حالی ہی کے لیے ضروری نہیں‘ یہ ملک کے نظریے اور اس کی آزادی اور سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔ آج ملک جس خطرناک موڑ پر آگیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ غلط راستے پر اٹھنے والے ہر قدم کو روک دیا جائے اور صحیح راستے کی طرف قوم کو سرگرم عمل کیا جائے۔ وقت کامنادی فرش اور عرش سے پکار رہا ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

 

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں:

میں منیٰ میں مسجد میں رسولؐ اللہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ آپؐ کے پاس ایک انصاری اور ایک ثقفی حاضر ہوئے۔ سلام کیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم آپؐ کی خدمت میں کچھ پوچھنے کے لیے آئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم چاہو تو میں تمھیں خود ہی بتلا دیتا ہوں کہ تم کیا پوچھنے آئے ہو اور چاہو تو سوال کرو‘ میں تمھارے سوال کا جواب دے دوں گا۔ اس پر انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ خود ہی ہمیں بتلا دیجیے۔ پھر ثقفی نے انصاری سے کہا: آپ پوچھ لیں۔ انصاری نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے (میرا سوال و جواب) بتلا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: تم میرے پاس آئے ہوتا کہ اپنے گھر سے بیت اللہ شریف کے ارادے سے نکلنے اور اس میں جو ثواب تمھیں ملے گا‘ اور طواف کے بعد دو رکعتوں اور اس میں تمھارے لیے جو ثواب ہے‘ اور صفا و مروہ کے درمیان دوڑنے اور چلنے اور اس میں تمھارے لیے جو ثواب ہے‘ اور عرفہ کے دن میں پچھلے پہر میدان عرفات میں وقوف کرنے اور اس میں جو ثواب ہے‘ جمروں (شیطان) پر کنکر پھینکنے اور اس میں جو ثواب ہے‘ اور قربانی کرنے اور طواف زیارت کے ساتھ اس کا جو ثواب ہے‘ اس کے بارے میں سوال کرو۔ انصاری نے یہ سن کر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق دے کر بھیجا ہے‘ میں انھی باتوں کے بارے میں سوال کرنے آیا ہوں۔

اس کے بعد آپؐ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

جب تم اپنے گھر سے مسجد حرام کے ارادے سے نکلے تھے اس وقت سے تیری اونٹنی نے جوکُھرْرکھا اور جو کُھرْ اُٹھایا‘ ان میں سے ہر ایک قدم کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے ایک نیکی لکھ دی اور ایک غلطی مٹا دی‘ اور طواف کے بعد کی تیری دو رکعتیں بنی اسماعیل میں سے ایک گردن کے آزاد کرنے کے مثل ہے‘ اور صفا و مروہ کے درمیان چکر ۷۰ گردنوں کو آزاد کرنے کے برابر ہے‘ اور عرفہ میں دوپہر کے بعد وقوف پر تو اللہ تعالیٰ تم پر فرشتوں کے مقابلے میں فخر کرتے اور فرماتے ہیں کہ میرے بندے دُور دراز علاقوں سے میری جنت کی اُمید میں اس حال میں میرے پاس آئے ہیں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور جسم غبار آلود ہیں۔ پس اگر ان کے گناہ ریت کے ذرّوں یا بارش کے قطروں یا سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں تو میں پھر بھی انھیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! واپس جائو اس حال میں کہ تم اورجن کے لیے تم نے شفاعت کی وہ بخش دیے جائیں گے۔ تم نے جمروں (شیطانوں) کو جو کنکر مارے ہیں‘ ہر ایک کنکر جو تم نے پھینکا‘ اس کے عوض میں ایک ہلاک کر دینے والے گناہ کبیرہ کا کفارہ ہو گیا‘ اور تمھاری قربانی تمھارے لیے تمھارے رب کے ہاں ذخیرہ ہو گئی‘ اور سر کے حلق کرنے میں ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے اور ایک خطا مٹا دی گئی ہے‘ اور بیت اللہ شریف کا طواف اس حال میں کرو گے کہ تم پر کوئی گناہ باقی نہ ہوگا (طواف سے پہلے ہی تمام گناہ ختم ہو جائیں گے)۔ ایک فرشتہ آئے گا اور تیرے شانوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھ کر کہے گا کہ اب آیندہ کے لیے نیکیوں کی فکر کرو‘ ماضی میں جو گناہ تھے وہ تمام معاف کر دیے گئے ہیں۔ (طبرانی)

سبحان اللہ! رسولؐ اللہ کی کیا شان ہے! سائل آتے ہیں تو قبل اس کے کہ وہ اپنے سوال پیش کریں‘ اللہ تعالیٰ اپنے نبیؐ  کو ان کے دل کی بات وحی کر دیتے ہیں۔ سائلین کی بھی کیا شان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بجائے ان کے سوال اپنے نبی کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ آپؐ کی صداقت اور عظمت اس حدیث پاک میں جلوہ گر ہے۔ پھر آپؐ کی شفقت اور رحمت سائلین پر سایہ فگن ہے۔ انھیں اختیار مل گیا‘ چاہیں تو سوال کریں اور جواب لیں اور چاہیں تو بغیر سوال کے سوا ل اور جواب دونوں سے سرفراز ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بھی کیا عالم ہے کہ جو اس کی طرف چل کر آیا‘ اسے اس طرح سے نواز دیا گیا کہ پاک و صاف ہو کر نیکیوں کا انبار لیے قابل فخر و مباہات بن کر واپس ہوتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ حاجی جو یہ مقام پا لیں! ظاہر ہے یہ مقام انھی کے لیے ہے جو آیندہ کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العبادادا کرنے کا فیصلہ کر چکے ہوں اور ماضی کے گناہوں سے تائب ہو گئے ہوں‘ جیسا کہ حدیث کے آخر میں تلقین کی گئی ہے کہ اب آیندہ کے لیے نیکیوں کی فکر کرو۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو لوگوں کے مال (بطور قرض یا اُدھار) اس نیت سے لے کہ ان کی ادایگی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس مال کی ادایگی کرد ے گا۔ اور جو لوگوں کے مال اس نیت سے لے کہ ان کے مال کو ضائع کرے گا‘ تو اللہ اس مال کو ضائع کر دے گا۔ (بخاری‘ ابن ماجہ)

اپنی نیت صحیح کر لیجیے‘ کام ہو جائے گا۔ نیت کام کی اصل ہوتی ہے۔ نیت ہی سے کام ہوتے ہیں۔ نیت ہی پر اجر ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی نیت کا لحاظ رکھتے ہیں۔ قرضوں کی واپسی میں تنگ دستی مانع نہیں ہے‘ بدنیتی مانع ہے۔ انسان حق دار کا حق ادا کرنا چاہتا ہو تو تنگ دستی کے باوجود اس قابل ہو جاتا ہے کہ ادا کر دے‘ لیکن نیت میں فتور ہو تو مال ہونے سے فرق نہیں پڑتا‘ بڑے سے بڑا مال دار بھی حق داروں کا حق ہڑپ کر لیتا ہے۔ اس مال سے اسے فائدہ نہیں پہنچتا اور اللہ تعالیٰ اسے اس قابل نہیں بناتا کہ وہ قرض کی ادایگی کر کے عزت پائے۔


حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

پہلاکام جسے ہم اس دن کرتے ہیں‘ نماز ہے۔ نماز کے بعد ہم واپس آتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے (نماز سے پہلے) ذبح کر لیا تو وہ گوشت ہے‘ جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے پہلے تیار کر لیا ہے‘ اس کا قربانی سے کوئی تعلّق نہیں ہے۔

حضرت ابوبردہ بن تیارؓ نے نماز سے پہلے ذبح کیا تھا۔ جب انھوں نے آپؐ کا یہ فرمان سنا تو عرض کیا: میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا بکرا ہے جو سال والے سے بہتر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تم اسے ذبح کر لو‘ تیرے بعد کسی کی طرف سے اس کی قربانی نہ ہو سکے گی۔ (مسلم شریف)

قربانی کا مقصد گوشت کا حصول نہیں ہے۔ اگر گوشت مقصود ہوتا تو پھر قربانی میں اس بات سے کوئی فرق نہ پڑتا کہ نماز عید سے پہلے ہوئی ہے یا بعد میں۔ اصل مقصد اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے۔ جس کی نیت  یہ ہوگی اس کی قربانی ہوگی‘ اور جس نے گوشت کھانے کی خاطر ذبح کیا اس کی قربانی نہ ہوگی۔ جو لوگ قربانی کی حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ قربانی اور گوشت کے بجائے رقم فقرا اور مساکین میں تقسیم کر دی جائے۔قربانی کے ذریعے فقرا اور مساکین کو گوشت کھلانا مقصد ہوتا تو پھر گوشت کی جگہ رقم دی جا سکتی تھی لیکن گوشت کھلانا مقصود نہیں بلکہ سنت ابراہیمی کو زندہ کرنا اور اللہ کے نام پر ذبح کرنا مقصود ہے جو قربانی کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو گنجایش پائے اور قربانی نہ کرے‘ تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ (مسند احمد)

عیدگاہ میں آنا‘ نماز پڑھنا‘ خطبہ سننا‘ دعائوں میں شرکت کرنا اور اُمّت مسلمہ کی شان و شوکت کے مظاہرے میں حصہ لینا‘ اس شخص کو زیب دیتا ہے جو واجبات اور سنن کو ادا کرنے والا ہو۔ اہل ایمان کو ایسے شخص کی قدر کرنا چاہیے اور اسی سے دوستی کا تعلّق رکھنا چاہیے۔ ایسے شخص سے میل ملاپ رکھنا چاہیے۔ کسی شخص کا داخلہ بند کر دینا اس سے ناراضی کی انتہا ہے۔ قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کا عیدگاہ میں داخلہ بند کر دیا گیا‘ گویا یہ کہا گیا کہ اس سے میل ملاپ ہی مناسب نہیں ہے۔


حضرت ابوالدرداءؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو‘ اس لیے کہ تمھیں رزق دیا جاتا ہے اور مدد کی جاتی ہے تمھارے کمزوروں کی بدولت۔ (ترمذی)

ضعیفوں‘ بوڑھوں‘ بچوں‘ بیوائوں‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ مریضوں اور محتاجوں کی تعظیم و تکریم کی تاکید کا اس سے زیادہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ضعفا کی ملاقات سے نبیؐ سے ملاقات ہو گی‘ رزق ملے گا اور اللہ کی نصرت آئے گی۔ کون ہے جس کے دل میں نبیؐ سے ملاقات اور آپؐ کی خوشنودی کی طلب اور تڑپ نہ ہو اور وہ رزق کی فراخی اور نصرت الٰہی کا طلب گار نہ ہو؟ کیا اس ارشاد کے بعد اسلامی معاشرے میں کمزور لوگ --- مستضعفین--- کس مپرسی اور بے قدری کا شکار ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں اپنے معاشرے کے بارے میں غور کرنا ہوگا۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مجھ پر وہ لوگ پیش کیے گئے جو سب سے پہلے دوزخ میں ہوں گے: وہ حکمران جو مسلّط کیا گیا ہو (شریعت کے مطابق عامتہ المسلمین کا منتخب کردہ نہ ہو)‘ مال دار آدمی جو اللہ کا حق نہ ادا کرتا ہو‘ اور فقیر جو

کبر و غرور میں مبتلا ہو۔ (ابن خزیمہ)

کیوں؟ یہ بندگانِ خدا پر ظلم کرنے والے ہیں‘ اس لیے دوزخیوں کے امام ہوں گے۔

 


حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:

عادل حکمران کا ایک دن ۶۰ سال کی عبادت سے افضل ہے‘ اور ایک حد جو زمین میںقائم کی جائے زمین والوں کے لیے صبح میں ہونے والی ۴۰ دن کی بارانِ رحمت سے زیادہ نفع بخش ہے۔ (طبرانی)

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں ہے ‘ایک دن کا عدل ۶۰ سال کی عبادت--- راتوں کے قیام اور دن کے روزوں ---سے بہتر ہے۔ (رواہ الاصبہانی) اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اے ابوہریرہؓ! کسی مقدمے میں ایک گھڑی کا ظلم‘ اللہ کے نزدیک ۶۰ سال کی معصیت کے مقابلے میںزیادہ سخت اور زیادہ بڑا ہے۔ (بحوالہ مختصر ترغیب و ترہیب)

انفرادی عبادت اور انفرادی زندگی میں معصیت سے بچنے کی فکر فرض ہے لیکن زیادہ اہمیّت کس کی ہے اور زیادہ توجہ کس چیز پر دینی چاہیے‘ اس کا جواب کسی مجتہد سے لینے کی ضرورت نہیں‘ یہ بحث و مباحثہ کی چیز بھی نہیں‘ اس کے جواب کے لیے یہ فرمان رسولؐ کافی ہے۔

 

ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اس وقت امن عالم کے خرمن پر ہر طرف سے بجلیاں گر رہی ہیں۔ فرد سے لے کر اقوام تک بے اطمینانی کا غلبہ ہے۔ انسان کے ہاتھوں انسان پر ظلم و زیادتی کابازار گرم ہے اور ہر فراز سے خون کی آبشاریں بہہ رہی ہیں۔ انسانیت کا ماہ شرف‘ ظلمت اور جبر کے اتھاہ اندھیروں میں غروب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ نام نہاد علم و تمدن کے ہاتھوں انسانیت سسکیاں لے رہی ہے۔ اخلاقی اقدار‘ نفسانیت اور ریاکاری کے سانچوں میں ڈھلتی چلی جا رہی ہیں اور غیر اخلاقی روایات خود غرضی کے فلسفے کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ ہوس زر نے خیانت ‘رشوت اور حصولِ دولت کے کسی بھی ذریعے کو ناجائز اور حرام نہیں رہنے دیا ہے۔ افراد اور اقوام نے انسانی اقدار سے بالاتر ہو کر وسعت پسندی کو اپنا ’’ماٹو‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اسی ’’وسعت پسندی‘‘ اور عدم برداشت کے رجحانات نے دنیا میں قیامت برپا کی ہوئی ہے۔ قومیں قوموں سے نبرد آزما ہیں اور ملک ایک دوسرے سے دست و گریباں۔ انسانوں کی اجتماعیت بری طرح متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ باپ بیٹے اور بھائی بھائی کے درمیان کھینچا تانی ہے۔ ہر شخص  انا ولا غیری کے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان حالات میں لازم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات سے رہنمائی حاصل کی جائے جن میں تحمل‘ برداشت‘ حلم و بردباری‘ عفو و درگزر‘ رواداری و احترام کا درس ملتا ہے۔

آج دنیا میں تحمل اور بردباری سے محرومی یعنی عدم برداشت انسانی معاشرے میں ایک خطرناک رخ  اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے وحشت اور دہشت کے سائے سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ہیجان خیزی اور شورش پسندی کے باعث کہیں مذہب کو بنیاد بنا کر اور کہیں سیاسی گروہ بندی کے حوالے سے تشدد

کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر عزتیں لُٹ جاتی ہیں اور انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ بچوں کے معمولی جھگڑے خاندانوں کی بربادی کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ مذہب سے بیگانگی اور دین سے دُوری کے سبب لوگ راہِ عمل کے بجائے راہِ فراراختیار کررہے ہیں۔ اسی لیے اس متمدن دور میں بھی خودکشی کی شرح حیرت انگیز ہے۔ عدم برداشت اور تشدد پسندی کے حوالے سے مذہبی حلقے آج سب سے زیادہ عدم توازن کا شکار ہیں۔ دوسرے کے نقطۂ نظرکو سننے اور برداشت کرنے کی روایت ختم ہو چکی ہے۔ اپنے عقائد اور نظریات کو دوسروں پر نافذ کرنا ہر شخص اپنا مذہبی حق سمجھتا ہے۔

عدم برداشت کا ایک اور اہم سبب معاشی اور معاشرتی ناہمواری ہے۔ امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک کو سوکھی روٹی میسر نہیں اور دوسری طرف کتے بھی ڈبل روٹی اور دودھ پر پَل رہے ہیں۔ محبت اور قناعت جیسے انسانی جذبے معاشرے سے مفقود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح سیاسی عدم توازن اور پسند و ناپسند نے بھی ہیجان خیزی اور تشدد پسندی کو فروغ دیا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس نے بین الاقوامی سطح پر کمزور قوموں اور چھوٹے ممالک کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔

دنیا کے ان تمام مسائل کا حل اگر کہیں ہے تو صرف اور صرف تاجدار مدینہؐ کی تعلیمات میں جو کہ سراسر عدل اور محبت پر مبنی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ایک فرمان: لاَ یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لاَِخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ‘ (الامام البخاری‘ الجامع الصحیح‘ کتاب الایمان‘ لجنۃ احیاء کتب السنۃ ‘مصر‘ ج ۱‘ ص ۲۸) ’’تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیزپسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے‘‘ کو کوئی بھی معاشرہ حرزِ جان بنا لے تو وہ امن کا گہوارہ اور محبت کا گلستان بن جائے گا۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنے لیے خوب صورت‘ اعلیٰ اور بہتر بات کو پسند کرتا ہے۔ ایمانی اور انسانی تقاضے کے مطابق جب وہ اپنے لیے پسند کی جانے والی اچھی چیز کو دوسروں کے لیے بھی مقدم بنائے گا تو اس سے ہر طرف امن اور محبت کی خوشبو پھیل جائے گی۔

اس وقت مسلمانان عالم اوراسلامیان پاکستان تاریخ کے ایک نازک دَور سے گزر رہے ہیں۔ عالم کفر اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ سیاسی‘ سماجی‘ معاشرتی‘اقتصادی حتیٰ کہ نظریاتی اور اساسی پہلووں پر حملہ آور ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف موجودہ محاذ آرائی اور اشتعال انگیز کارروائیاں دراصل عدم برداشت کے اسی رجحان کی غماز ہیں۔

تحمل و برداشت اور حلم و بردباری ان اخلاقی صفات میں سے ہیں جو افراد کے لیے انفرادی طور پر اور اقوام کے لیے اجتماعی طور پر کامیابی‘ عزت و عظمت اور ترقی و بلندی کا ذریعہ بنتی ہیں۔حلم کی وجہ سے انسان کے نفس میں وہ قوت برداشت اور وہ سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ کسی حالت میں بھی قوت غضب غالب نہیں آتی۔ ایک حلیم انسان کی مرضی و منشا کے خلاف کوئی بات ہو یااس کو کتنی ہی تکلیف پہنچائی جائے وہ صبر و ضبط سے کام لے کر انھیں برداشت کرتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کی تاثیر یہ بیان کی ہے کہ دشمنی دوستی میں بدل جاتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (حم السجدہ ۴۱:۳۴)  اور اے نبیؐ ‘ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

رسول اکرم ؐ نے برداشت و تحمل‘ حلم و بردباری اور حوصلہ و صبر اختیار کرنے کی نہ صرف تعلیم دی ہے بلکہ اپنے اسوہ حسنہ کے ذریعے اس کی لازوال مثالیں قائم کی ہیں۔ رسول اکرمؐ کی محبوبیت کا ایک اہم راز یہ بھی ہے کہ مزاج مبارک میں برداشت وتحمل کی بے نظیر خصوصیت تھی۔ لوگوں کی سخت کلامی‘ ان کے ناروا سلوک اور سخت ترین اذیت رسانی کے باوجود آپؐ ان پر خفا نہ ہوتے۔ آپؐ کی یہی قوت برداشت اور متانت آپؐ کی صداقت کی بہت بڑی علامت ہے۔ اسی علامت کو دیکھ کر اور آزما کر یہود کا ایک بہت بڑا عالم زید بن سعنہ آپؐ پر ایمان لایا اور اپنا آدھا مال صدقہ کردیا اور پھر غزوئہ تبوک میں شہید ہو گیا۔ (محمد بن یوسف الصالحی الشامی‘ سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ‘ لجنۃ احیاء التراث الاسلامی‘ مطبوعہ قاہرہ‘  ۱۹۸۳ء‘ ج ۷‘ ص ۳۶)

قرآن مجید اسی طرف اشارہ کر رہا ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَ نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۵۹)  (اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کے کمال برداشت‘ کمال حلم اور کمال عفو و درگزر کی تعریف فرمائی ہے۔

حضوراکرم ؐ کی زندگی شاہد ہے کہ آپؐ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ؐ نے کبھی کسی ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا‘ سوائے اس کے کہ کسی نے احکام الٰہی کی خلاف ورزی کی ہو اور اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو توڑا ہو۔ (ابو الفضل قاضی عیاض بن موسیٰ‘ الشفاء‘ مطبوعہ بیروت‘ ج ۱‘ ص ۱۴۰)

طائف والوں نے آپؐ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ناقابل فراموش تھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ ام المومنین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کیا احد کے دن سے زیادہ تکلیف دہ دن آپ پر گزرا ہے؟ فرمایا: تیری قوم نے یوم العقبہ کو جو تکلیفیں پہنچائیں وہ بہت زیادہ سخت تھیں (یعنی جس دن ثقیف کے سرداروں عبدیالیل وغیرہ کو دعوت دی اور انھوں نے جو سلوک میرے ساتھ روا رکھا وہ بڑا روح فرسا تھا)۔ (محمد بن یوسف الصالحی الشامی‘ سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد‘ لجنۃ احیاء التراث الاسلامی‘ مطبوعہ قاہرہ ۱۹۸۳ء‘ ج ۲‘ ص ۵۷۹)

آپؐ نے مصائب و آلام اور حزن و الم سے بھرپور اس گھڑی میں بھی برداشت اور حوصلے کی وہ عظیم مثال قائم کی کہ شاید انسانی تاریخ ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہو۔ پہاڑوں کے فرشتے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا اور کہا: ’’اگر آپ فرمائیں تو پہاڑوں کو میں ان پراوندھا گرا دوں۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں انھیں زمین میںغرق کر دوں‘‘۔ رحمت مجسم ؐ نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں گے۔

ہجرت کے نویں سال اسی طائف کی وادی کے سرداروں پر مشتمل ایک وفد بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا۔ شفقتوں اور محبتوں کے سائبان اس انداز میں تان دیے گئے کہ ان کے قیام کے لیے سب سے اعلیٰ اور ارفع مقام یعنی مسجد نبویؐ میں خیمے نصب کردیے اور فیضان محبت و الفت کی برکھا ان پر ہمہ وقت مہربان رہتی۔

حضرت انس ؓ روایت فرماتے ہیں کہ نجران کی بنی ہوئی چادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہوئے تھے۔ ایک بدو نے اس چادر کو اس زور سے کھینچا کہ گردن مبارک پر نشانات پڑ گئے‘ بدو کہنے لگا: ’’اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس سے مجھے بھی حصہ دیں‘‘۔ اس قبیح حرکت کو برداشت فرماتے ہوئے‘ آپؐ مسکراکر خادم کو حکم دیتے ہیں کہ اس کو مال غنیمت سے کچھ عطا کر دیں۔ (الامام ابوالفدا اسماعیل بن عمر بن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ‘ بیروت‘ دارالفکر‘ ۱۹۷۸ء‘ ج ۳‘ ص ۶۸۱)

اس کائنات میں یقینا سب سے مشکل کام طاقت اور قوت رکھنے کے باوجود کسی زیادتی کو برداشت کر کے مسکرا دینا ہے۔ اور بے شک آپؐ کی حیات مبارکہ کے امتیازی اوصاف میں ایک بنیادی وصف بے مثال اور لازوال قوت برداشت ہے۔ اعلان نبوت کے بعد مکّی اور مدنی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں کہ جس میں اسلام دشمنوں نے ہر ممکن طور پر اسلام‘ مسلمانوں اور پیغمبر اسلام پر ظلم و زیادتی میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔ لیکن آپؐ ہمیشہ قرآن پاک کی تعلیمات کا مظہر اتم و اکمل بن کر صبر و رضا کا مجسم پیکر بنے رہے۔ ہر زبانی اور جسمانی اذیت کا جواب عفو و درگزر اور صبر و استقامت سے دیا۔ قرآن پاک نے صبر یعنی برداشت کرنے کو تمام آزمایشوں کے لیے نسخہ اکسیر قرار دیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ً ء مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o  الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ  لا  قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (البقرہ ۲ :  ۱۵۵ - ۱۵۶) اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اورآمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے‘ تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کو اپنی معیت کا یقین دلایا ہے۔ کتاب مبین میں ہے:  اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ  (البقرہ ۲: ۱۵۳) ’’بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ مسلمانوں کو ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر اور نماز سے مدد حاصل کرنے کا درس دیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:  وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ … الخ (البقرہ ۲: ۴۵) ’’اور صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔ مسلم معاشرے میں امن و امان اور اخوت و بھائی چارے کے قیام کے لیے ایک دوسرے کو مسلسل حق اور صبر کی تلقین کرتے رہنے کا حکم دیا ہے:  وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا  وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo  (العصر ۱۰۳ :۳) ’’اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘۔

برداشت اور صبر کی تعریف محققین نے یوں فرمائی ہے:

الصبر حبس النفس عند الالام والموذیات‘ یعنی تکلیف دہ اور پُراذیت حالات میں بھی انسان اپنے آپ کو بے قابو نہ ہونے دے۔

مذکورہ بالا آیات قرآنی نظام حیات کے بارے میں مثبت انسانی اور اخلاقی رویوں کی تعمیر کے لیے ایک انتہائی اہم ضابطے کو بیان کرتی ہیں جس کا مفہوم اور حقیقت یہ ہے کہ کسی فرد یاقوم کی طرف سے ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنے کی صورت میں حتی الامکان عفو و درگزر‘ رواداری اور قوت برداشت کا مظاہرہ کیا جائے۔یہ تعلیمات کسی قسم کی کمزوری کو ظاہر نہیں کرتیں بلکہ ان کا اصل مقصد قومی اور بین الاقوامی سطح پرامن کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ کسی ایک فریق کی اشتعال انگیزی پر دوسرے فریق کا ویسا ہی ردعمل نہ صرف امن و آشتی کے لیے زہرقاتل ہے بلکہ بسااوقات ایسے رویوں کی بھاری قیمت چکاناپڑتی ہے۔

میدانِ جنگ ہو یا جنگی قیدیوں کی قسمتوں کا فیصلہ‘ گلے میں کپڑا ڈال کر کھینچنے والے بدو کا ہاتھ ہو یا راہوں میں کانٹے بچھانے کے اقدامات‘ ازواج مطہرات پر تہمتیں لگانے والے فتنہ پرداز ہوں یا عین جنگ کے موقع پر ساتھ چھوڑنے والے منافقین‘ نامناسب کلمات بولنے والی زبانیں ہوں یا معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے فریق‘ انسان کاملؐ اور معلم انسانیتؐ ہر ہر مرحلے پر ایسی قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ زیادتی کرنے والا شرمندہ ہو جاتا ہے اور بے اختیار دامن نبوت کی پناہ میں آجاتا ہے۔ صبر و برداشت ایسا خوب صورت جذبہ ہے کہ جو انفرادی و اجتماعی سطح پر پروقار اور باعظمت مقام حاصل کرتا ہے اور اسی جذبے سے جانی دشمنوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ یہ جذبہ اگر انفرادی سطح پر ہو تو انسانی شخصیت کے گرد رعب و دبدے کا عظیم حصار قائم کرتا ہے اور اگرقومی سطح پر ہو تو اقوامِ عالم میں ایسا تشخص عطا کرتا ہے جس کا تاثر پختہ اور دیرپا ہوتا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:

اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْ ز وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْابِھَا ط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا ط اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ o (اٰل عمٰرن ۳:۱۲۰)  تمھارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے‘ اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس پر حاوی ہے۔

جب آپؐ نے مکہ مکرمہ کو فتح کیا تو آپؐ ظالموں سے ایک ایک ظلم کا بدلہ لے سکتے تھے۔ اس کے باوجود رحمت عالمؐ نے برداشت و تحمل کا وہ نمونہ پیش کیا جس کی مثال پوری تاریخ انسانی میں کہیں نہیں ملتی۔ آپؐ نے پیغمبرانہ جلال کے ساتھ سب کی طرف دیکھ کر فرمایا:

لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمْ الرّٰحِمِیْنَ اِذْھَبُوَا وَاَنْتُمُ الطُّلَقَآئُ‘آج میری طرف سے تم پر کوئی گرفت نہیں‘ اللہ تعالیٰ تمھارے سارے گناہوں کو معاف فرمائے اور وہ سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ جائو‘ چلے جائو میری طرف سے تم آزاد ہو۔(ابن قیم الجوزیہ‘ زاد المعاد فی ھدی خیر العباد‘ بیروت‘ موسسۃ الرسالۃ‘ ۱۹۸۵ء‘ ج ۳‘ ص ۴۴۲)

دشمنوں سے انتقام لینا انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور بالخصوص ان لوگوں سے جنھوں نے گھر چھین لیا ہو‘ زمین تنگ کر دی ہو‘ وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہو‘ پیاروں کا خون کیا ہو۔ لیکن فتح یاب ہو کر برداشت‘ تحمل اور عفو و درگزر سے کام لے کر خون کے پیاسوں کو معافی کاسرٹیفکیٹ دے کر تاریخ عالم پر ’’رحمت عالم‘‘کا نقش دوام ثبت فرما دیا۔ سعد بن عبادہ کی طرف سے جب یہ آواز آئی: الیوم یوم الملحمۃ ’’آج کا دن قتل و غارت کا دن ہے‘‘۔ تو نبی مکرم ؐ نے فرمایا: سعد نے غلط کہا ہے:  الیوم یوم المرحمۃ ’’آج کا دن رحمت کا دن ہے‘‘۔(سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد‘ ج ۵‘ ص ۳۳۸)

دراصل شخصیت کا حسن اور کمال زبردست قوت برداشت اور تحمل و بردباری میں پنہاں ہے‘ ماردھاڑ‘ تخریب اور بربادی میں نہیں۔ برداشت و تحمل اور حلم و بردباری سے دل جیتے جاتے ہیں اور اس کے برعکس وقتی طور پر خوف و ہراس کی فضا قائم کر کے کام تو نکالا جا سکتا ہے لیکن انجام ایسے انقلابات کی شکل میں رونما ہوتا ہے جس کے نتیجے میں تباہی چارسو پھیل کر معاشرے کو غارت کر دیتی ہے۔ اس لیے صحیح اور درست طریقہ وہی ہے جس کی قرآن و سنت نے تعلیم دی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کر کے دکھایا ہے۔ جیسا کہ حکم خداوندی ہے:

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشوریٰ ۴۲:۴۳)  البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے ‘ تو یہ بڑی اُولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔

ایک شخص حضورؐ کی خدمت میں حاضرہواور عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! مجھے کچھ نصیحت فرمایئے۔ آپؐ نے فرمایا: غصہ نہ کیا کرو۔ اس شخص نے کہا‘ کچھ اور نصیحت فرمایئے‘ آپؐ نے پھر یہی فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو  اور کئی بار یہی بات دہرائی۔  (مشکوٰۃ  المصابیح‘ باب الغضب والکبر‘ منشورات‘ المکتب الاسلامی‘ دمشق‘ ج ۳‘ ص ۶۳۲)

برداشت و تحمل‘ عفو و درگزر اور رحمت و شفقت کی سب سے بڑی مثال وہ انقلاب ہے جو ۲۳ برس کے عرصے میں بپا ہوا جس کے لیے حضورؐ نے مدنی زندگی میں ۲۷ غزوات کیے اور غزوات و سرایا کی شکل میں کل ۸۲ جنگیں لڑی گئیں۔ انسان سوچتا ہے کہ اتنی زیادہ جنگوں میں خون خرابے اور تباہی و بربادی کا کیا حال ہوگا لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس اسلامی انقلاب میں فریقین کے کل انسان جو کام آئے ۹۱۸ ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس سے بڑا غیر خونی انقلاب آج تک دنیا میں کبھی بپا ہوا ہے جس کے ذریعے انسان کا ظاہر و باطن اور نظام معیشت و سیاست سب کچھ بدل جائے۔ ان کے مقابلے میں دوسرے انقلابات کا حال سب پر عیاں ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں مقتولین کی تعداد ۶۴ لاکھ اور دوسری جنگ عظیم میںیہ تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ تھی۔ لیکن نبی کریمؐ کے انقلاب کی اساس نوع انسان کی خیرخواہی تھی۔اس میں برداشت و تحمل اور عفو و درگزر کی روح رواں تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قافلہ آدمیت تحریک اسلامی کے دھارے پر بہتا چلا گیا۔ اور دعوت حق کی کھیتی پھلتی پھولتی چلی گئی اور آہستہ آہستہ لوگ جوق در جوق انسانیت کے خیرخواہ اور برداشت و تحمل اور سلامتی والے دین اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔یہ حقیقت ہے کہ تلوار سر کاٹتی ہے اور تحمل وبرداشت دل جیتتا ہے۔ تلوار کی پہنچ گلے تک اور حلم و بردباری کی پہنچ دل کی گہرائی تک ہوتی ہے۔ جہاں تلوار ناکام ہوتی ہے وہاں عفو و درگزر فتح کا جھنڈا گاڑتا ہے۔ تیر و تلوار کی طاقت سے زمین تو چھینی جا سکتی ہے مگر کسی کا دل نہیں جیتا جا سکتا۔ دلوں کو ہاتھ میں لینے کے لیے ضرورت ہے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی!

عصرجدید میں واقعات کی صحت و صداقت اور شہادتوں کی جانچ پڑتال اور پرکھنے کے لیے جوذرائع اور وسائل ایجاد ہو چکے ہیں‘ اثباتِ حق اور قیامِ عدل کے لیے ان سے استفادہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ شریعت کا مقصود و منشا ہی قیامِ عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ  ج (الحدید ۵۷ : ۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

اسلام کے قانونِ شہادت میں قرائن قاطعہ یا شہادت حالی (circumstancial evidence) کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔فقہا نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

ایسی نشانی یا علامت جو حد یقین تک پہنچنے والی ہو (ابن الفرس: الفواکہ البدریہ‘ ص ۸۳‘ مجلہ الاحکام العدلیہ‘ ص ۳۵۳)

یہ ایسی ناقابل تردید شہادت ہوتی ہے جو حالات و واقعات سے اس طرح مستنبط ہوتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی اور نتیجہ نکالنا مشکل ہوتا ہے۔

جدید دور میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں قرائن میں بڑی وسعت پیدا ہو چکی ہے۔ مثلاً پوسٹ مارٹم‘ انگلیوں کے نشانات (finger prints) ‘پائوں کے نشانات‘ بالوں کا تجزیہ‘ ویڈیو اور آڈیو کیسٹ

کے ذریعے تصاویر اور آوازوں کی ریکارڈنگ‘ اشیا کا کیمیاوی تجزیہ‘ ایکس ریز‘ ڈی این اے (DNA)٭ ٹیسٹ‘ تحریروں کی شناخت‘ فوٹو اسٹیٹ کے ذریعے دستاویزات کی نقول وغیرہ ذرائع شہادت میں انتہائی موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا قرآن و سنت اور فقہا کی آرا کی روشنی میں جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا قرآن و سنت میں قرائن کی شہادت کو تسلیم کیا گیا ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کی آرا کیا ہیں؟ موجودہ دَور میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے قرائن میں جو اضافہ ہوا ہے ان کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی گنجایش شریعت میں موجود ہے یا نہیں؟ کیا عینی شہادت میسّر نہ ہونے کی صورت میں محض قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیاقرائن شریعت میں مستقل ذریعہ ء ثبوت ہیں یا ان کی حیثیت معاون ثبوت کی ہے کہ محض تقویتِ شہادت کے لیے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوالات اہل علم اور محققین کے لیے انتہائی اہم اور غور طلب ہیں؟ راقم نے اس مقالہ میں قرآن و سنت اور فقہا کی آرا کی روشنی میں اپنا نقطہ ء نظرپیش کیا ہے جس کی حیثیت محض طالب علمانہ بحث کی ہے اور اہل علم کو اس سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ اس موضوع پر بحث و تحقیق ہی کے ذریعے کسی متفقہ نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔

قرآن حکیم کی رُو سے:  ۱- قرآن حکیم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے کردار کی برأت کے لیے کوئی ظاہری شہادت موجود نہ تھی اس لیے قرائنی شہادت ہی کی تجویز پیش کی گئی۔

اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ o  وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَھُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ o فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنْ کَیْدِکُنَّ ط اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ o  یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا سکتۃ وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ ج اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الْخٰطِئِیْنَ o  (یوسف ۱۲ : ۲۶-۲۹)  اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچا۔ سو جب (شوہر نے) دیکھا کہ یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو کہنے لگا کہ یہ تم عورتوں کی چالاکی ہے۔ بے شک تمھاری چالاکیاں بڑے غضب کی ہوتی ہیں۔ اے یوسف! اس بات کو جانے دو اور اے عورت! تو اپنے قصور کی معافی مانگ‘ بے شک سرتاسر تو ہی قصوروار ہے۔

 

قرآن حکیم نے قرائنی شہادت کی بنیاد پر اس فیصلے کو درست تسلیم کیا۔

۲- حضرت یعقوب ؑنے حضرت یوسف علیہ السلام کی خون آلود قمیص دیکھ کر بغیر کسی چشم دید گواہ کے برادرانِ یوسف کو ملزم ٹھیراتے ہوئے فرمایا:

بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا  ط (یوسف ۱۲ : ۱۸)  بلکہ تمھارے دل نے ایک بات بنا لی ہے۔

قرطبی لکھتے ہیں: علما کا اس پر اتفاق ہے کہ یعقوب علیہ السّلام نے قمیص کے صحیح سالم ہونے کی وجہ سے ان کے جھوٹ پر استدلال کیا (قرطبی: الجامع لاحکام القرآن‘ ج ۹‘ ص ۱۵۰)

یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: بڑا صابربھیڑیا تھا کہ یوسف کو توکھا لیا مگر قمیص کو پھاڑا تک نہیں ۔ (ایضاً: ۹/۱۴۹)

شرائع سابقہ میں:  صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ دو عورتوں کے درمیان ایک بچے کے بارے میں تنازعہ ہوا۔ ان میں سے ہر ایک اسے اپنا بیٹا جتلاتی تھی۔حضرت سلیمان علیہ السّلام کے سامنے ان کا مقدمہ پیش ہوا تو انھوں نے فیصلہ دیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر کے ہر ایک کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا جائے۔ یہ سن کر حقیقی والدہ پکار اُٹھی کہ یہ بچہ دوسری عورت کا ہے‘ حضرت سلیمان علیہ السّلام سمجھ گئے کہ یہ بچہ اسی عورت کا ہے‘ چنانچہ آپ نے اس کے حق میں فیصلہ کر کے بچہ اسے دلوا دیا۔ (مسلم: الجامع الصحیح‘ کتاب الاقضیہ) اس واقعہ میں بھی فیصلہ قرائن کی بنیاد پر کیا گیا۔

سنت نبویؐ میں: سنت نبویؐ میں متعددایسی مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرائن کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا‘ مثلاً:

۱- ایک موقع پر ایک بچے کی ولدیت کے بارے میں آپ ؐنے یہ فیصلہ دیا کہ اگراس کی شکل‘ صورت اور اعضا ایسے ہوں تووہ شریک کا بیٹا ہوگا اور اگر ایسے ہوں تو ہلال بن امیہ کا ۔ (ابوداؤد :  السنن‘ کتاب الطلاق)

۲- غزوئہ بدر میں معوذ ؓ اور معاذ ؓ دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک ابوجہل کو قتل کرنے کا مدعی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان قرائن کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا۔ ان سے آپ ؐنے سوال کیا کہ انھوں نے تلواریں تو صاف نہیں کیں؟ انھوں نے عرض کیا‘ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: انھیں لائو‘ تلواریں دیکھ کر آپ ؐنے ایک تلوار کے متعلّق ارشاد فرمایا:  ھٰذا  قتلہ (اس تلوار نے اسے قتل کیا ہے)۔ پھر ابوجہل کا سامان اس تلوار کے مالک کو دے دیا۔ (مسلم: الجامع الصحیح‘ کتاب الجہاد)

۳- عہد نبوتؐ میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کے متعلّق شبہ ظاہر کیا کہ وہ ولد الزنا ہے کیونکہ اس کی صورت سیاہ رنگ کی ہے جب کہ اس کے خاندان میں کوئی شخص بھی سیاہ رنگت کا نہیں‘ آنحضرتؐ نے پوچھا: ’’کیا تمھارے پاس اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے عرض کیا: ’’جی ہاں!‘‘ آپؐ نے پوچھا: ’’ان کی رنگت کیا ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’سرخ رنگ کے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا ان میں کچھ سیاہی مائل بھی ہیں؟ ‘‘اس نے عرض کیا: ’’جی ہاں‘‘۔ آپ ؐنے فرمایا: ’’یہ کیسے ہو گیا؟‘‘ کہنے لگا:  اراہ عرق نزعہ (میرا خیال ہے کسی رگ نے اسے اس طرف کھینچ لیا ہے)۔ آپؐ نے فرمایا:

فلعل ابنک ھٰذا نزعہ عرق(بخاری :  الجامع الصحیح‘ کتاب المحاربین) ‘  ممکن ہے تیرے لڑکے کو بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔

۴- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نعیمان یا ابن النعیمان اس حالت میں پیش کیا گیا کہ وہ نشے کی حالت میں تھا۔ آپؐ نے اسے حد لگانے کا حکم دیا۔ چنانچہ اسے چھڑیوں اور جوتوں سے مارا گیا اور چالیس ضربیں پوری کی گئیں ۔(ایضاً: کتاب الحدود) واضح رہے کہ شراب کی حد عموماً قرائن کی بنا پر لگتی ہے اور کسی شخص کا نشہ کی حالت میں ہونا شراب پینے کا ایک قرینہ ہے۔

فقہا کی نظر میں:  متعدد مسائل میں فقہا قرائن کی بنیاد پر فیصلے کو درست قرار دیتے ہیں۔ ابوالحسن علی بن خلیل طرابلسی نے معین الحکام میں ایسے ۲۴ مسائل کا ذکر کیا ہے جن میں قرائن کی بنیاد پر فیصلہ دینے میں فقہا متفق ہیں۔(۱) علامہ ابن قیم نے بھی الطرق الحکمیۃ میں اس کی متعدد مثالیں پیش کی ہیں۔ (الطرق الحکمیۃ‘ ص ۶-۹) ان قرائن میں سے اہم یہ ہیں:  مثلاً شراب کی بو‘ منہ سے آنا یا شراب کی قے یا نشہ‘ شراب نوشی کا واضح قرینہ ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قرینہ ء ظاہرہ پر اعتماد کر کے اس شخص پر حد نافذ کرنے کا حکم دیا تھا جس کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو یا جس نے شراب کی قے کی ہو۔ (الطرق الحکمیۃ‘ ص ۶-۹) کسی ایسی عورت کا حمل ظاہر ہونا جس کا نہ کوئی شوہر ہو نہ آقا تو یہ زنا کے لیے واضح قرینہ ہے۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ نے اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ نے اس عورت کے رجم کا حکم دیا تھا جس کا حمل ظاہر ہو گیا تھا اور اس کا نہ کوئی شوہر تھا نہ آقا۔ (ایضاً)

ملزم سے مالِ مسروقہ کا برآمد ہونا بھی واضح قرینہ ہے جو ثبوت کی دیگر صورتوں میں گواہی اور اقرار دونوں کے مقابلہ میں قوی تر ہے‘ اسی طرح مقتول جو خون میں لت پت پڑا ہو اور ایک شخص اس کے سر پر چھری لیے کھڑا ہو۔ بالخصوص جب کہ وہ شخص مقتول کے ساتھ اپنی دشمنی کے لیے بھی مشہور ہو تو اس صورت میں اسی شخص کو قاتل ٹھیرایا جائے گا۔ قرینہ کی بنا پر حکم لگانے کی یہ مثال بھی فقہا نے ذکر کی ہے کہ اگر ہم کسی ایسے شخص کو جس کی عادت ننگے سر پھرنے کی نہیں‘ ننگے سر جاتے ہوئے دیکھیں‘ اس کے سامنے ایک اور شخص پگڑی باندھے ہوئے اور ایک پگڑی ہاتھ میں لیے بھاگ رہا ہو تو ہم یہ فیصلہ کر دیں گے کہ بھاگنے والے شخص کے ہاتھ میں جو پگڑی ہے وہ قطعی طور پر اس شخص کی ہے جو ننگے سر ہے۔ یہاں ہم قرینہء ظاہرہ کی بنا پر یہ فیصلہ دیں گے جو دوسرے ہر قسم کے ثبوت اور اعتراف سے کہیں زیادہ قوی طریقۂ ثبوت ہے۔ مدعا علیہ قسم اٹھانے سے انکار کر دے تو فیصلہ مدعی کے حق میں کیا جائے گا جسے ’’قضا بالنکول‘‘ کہا جاتا ہے‘ کیونکہ مدعا علیہ کا قسم سے انکار دعویٰ کی صداقت کا واضح قرینہ ہے جس کی بنا پر فیصلہ مدعی کے حق میں جائے گا۔(۲) 

اگرچہ متعدد مسائل میں فقہا قرائنی شہادت کو تسلیم کرتے ہیں مگر جمہور فقہا مثلاً شوافع‘ احناف اور حنابلہ حدود میں قرائن کو بطور دلیل تسلیم نہیں کرتے کیونکہ شریعت کا منشا یہ ہے کہ دم اور حدود کے معاملات میں احتیاط برتی جائے اور حدود شبہات کی وجہ سے ساقط ہو جاتی ہیں (ترمذی: الجامع‘ ابواب الحدود)‘ جیسا کہ شریعت کا اصول ہے۔ اس سلسلے میں وہ بعض احادیث سے بھی استدلال کرتے ہیں مثلاً ایک ایسی عورت کے متعلق جس کے بدکار ہونے کے بارے میں قرائن واضح طور پر شہادت دے رہے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لو کنت راجمًا اَحَدًا بغیر بینۃٍ لرجمت فلانۃً فقد ظھر فیھا الریبۃ فِی منطقھا وھئیتھا ومن یدخل علیھا  (ابن ماجہ‘ السنن‘ ابواب الحدود)  اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کر سکتا تو فلاں عورت کو ضرور رجم کر دیتا کیونکہ اس کی باتوں سے‘ اس کی ہیئت سے اور جن لوگوں کی اس کے پاس آمدورفت ہے‘ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زانیہ ہے۔

باوجود واضح قرائن کے آپؐ نے اس عورت پر حد جاری نہیں فرمائی۔

اسی طرح امام احمد اور امام ابودائود نے حضرت ابن عباسؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے شراب پی۔ وہ نشہ کی وجہ سے راستے میں جھوم رہا تھا۔ لوگ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے چلے۔ جب وہ حضرت عباسؓ کے مکان تک پہنچا تو جان چھڑا کر ان کے گھر داخل ہو گیا اور ان کے پاس پناہ لے لی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ واقعہ ذکر کیاگیا تو آپؐ ہنس پڑے اور فرمایا:  افعلھا  (کیا اس نے ایسا کیا تھا؟) پھر اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ (معالم السنن: ۳/۳۳۷) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐنے قرینہ (نشہ) کے باوجود حد جاری نہیں فرمائی۔

حنابلہ میں سے ابن قیم اور ابن تیمیہ‘ احناف میں سے ابن الفرس (م ۸۹۴ھ) اور مالکیہ میں سے ابن فرحون اور ابن جزی حدود میں بھی قضاء بالقرائن کو درست سمجھتے ہیں اور مالکیہ کا بھی عموماً یہی مذہب ہے۔ احناف کے نزدیک بھی حدِّخمر دو شرائط کے ساتھ جاری کی جائے گی۔ ایک یہ کہ کوئی شخص نشے کی حالت میں ہو اور دوسری شرط یہ کہ اس کے منہ سے شراب کی بو بھی آرہی ہو۔(۳) 

حدود میں قرائن کی شہادت کو درست سمجھنے والے فقہا ایسی عورت پر حد لگانے کے بھی قائل ہیں جو حاملہ ہو اور کسی کے نکاح یاملکیت میں نہ ہو۔ اسی طرح شراب کی بو‘ اور قے کی بنا پر حدِّخمر اورمالِ مسروق ملزم کے گھر سے برآمد ہونے کی بنا پر حدِّسرقہ کو درست سمجھتے ہیں۔(۴)

اس سلسلے میں ان کا استدلال قرآن حکیم میں مذکورہ قصّۂ یوسف ؑسے ہے جس میں حضرت یعقوب علیہ السّلام نے برادرانِ یوسف ؑ کے کذب پر یوسف ؑکی صحیح سالم قمیص سے استدلال کیا تھا اور عزیز مصر کی بیوی کے الزام سے ان کی برأت ایک قرینہ (یعنی پیچھے سے پھٹی ہوئی قمیص) سے ہوئی۔ نیز وہ بعض روایات و آثار سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمرؓ کا ایک شخص کو نشہ کی حالت میں دیکھ کر حد جاری کرنا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا شراب کی بو سونگھ کر ایک شخص پر حد جاری کرنا وغیرہ۔(۵)

شہادت کی اہمیّت اور ابن قیّم وغیرہ کا مسلک:  اسلامی قانونِ شہادت کی رُو سے زنا کے جرم کے ثبوت کے لیے چار گواہوںکی گواہی ضروری ہے ۔(النساء ۴:۱۵‘  النور ۲۴:۴)دیگر دیوانی اور فوجداری جرائم کے ثبوت کے لیے دو گواہ درکار ہیں (مثلاً وصیّت اور طلاق کے معاملے میں دو جگہ دو گواہوں کی گواہی کا ذکر ہے ۔(المائدہ ۵:۱۰۶‘ الطلاق ۶۵: ۲) اور مقدماتِ مالی میں دو مردوں یاایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو کافی سمجھا گیا ہے۔ (البقرہ ۲:۲۸۲)

قرآن حکیم میں اگرچہ شہادت کا یہ نصاب مقرر ہے مگر بقول ابن قیم قرآن و سنت میں کہیں یہ حکم موجود نہیں کہ جب تک (زنا کے علاوہ) دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں نہ ہوں تو شہادت تسلیم ہی نہ کی جائے اور نہ نصوصِ قرآن وحدیث سے یہ لازم آتا ہے کہ اس سے کم ہونے کی صورت میں ان کی شہادت پر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا۔ (اعلام الموقعین: ۱/۹۱-۹۲) جیسا کہ محض شراب کی بو‘ اور نشہ کی حالت کو حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے حد کے لیے کافی سمجھا ہے۔

عہد نبویؐ اور خلافت ِ راشدہ میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے جن میں گواہوں کی تعداد مقررہ نصابِ شہادت سے کم تھی‘ بعض مقدمات میں صرف ایک ہی گواہ دستیاب تھا۔ اس صورت میں آپؐ نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے قسم لے کر مقدمہ کا فیصلہ فرمایا اور قضاء بالیمین مع الشاھد کا اصول دیا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے:

اِنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم قضٰی بیمین وشاھد  (مسلم ‘ کتاب الاقضیہ)  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی کی قسم اور ایک گواہی کی بنا پر فیصلہ فرمایا۔

اسی قانون کے مطابق حضرت ابوبکر صدیقؓ  ‘ حضرت علیؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فیصلے کیے۔(۶)

فقہا کے نزدیک بوقت ضرورت ان شہادتوں کو بھی تسلیم کیا جائے گا جنھیں عام حالات میں قبول نہیں کیا جاتا۔ مثلاً خود قرآن حکیم میںاس کی اجازت ہے کہ دورانِ سفر اگر وصیّت ضروری ہو جائے تو بوقت ضرورت دو غیر مسلموں کی گواہی کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ (المائدہ ۵:۱۰۶) اس سے یہ اصول سامنے آتا ہے کہ بوقتِ ضرورت اثباتِ حق و اظہارِ حق کے لیے مقررہ معیارِ شہادت کے علاوہ کم معیار اور دیگر ذرائع کو بھی ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ شہادت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دعویٰ کی صداقت پر ثبوت واضح ہو جائے۔ اب اگر مقررہ نصابِ شہادت کے علاوہ کسی اورذریعے سے وہ ثبوت حاصل ہو جاتا ہے تو فقہا کے نزدیک اس کا اعتبارہے جیسا کہ زیلعی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث روایت کی ہے:

تنہا عورت کی گواہی صرف ان معاملات میں جائز ہے جنھیں مرد نہیں دیکھ سکتے۔ (شرح کنز ۴/۲۰۹)

تمام فقہی مذاہب میں اس گواہی کو بالاتفاق قبول کیا گیا ہے۔ مجلۃ الاحکام العدلیہ (جو فقہ حنفی کی قانونی دفعات کا اہم مجموعہ ہے) میں ہے کہ معاملاتِ مال میں ان چیزوں کے متعلق جنھیں مرد معلوم نہیں کر سکتے‘ تنہا عورتوں کی گواہی قبول کی جائے گی۔ (مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘دفعہ: ۱۶۸۵‘ ص ۳۴۰)

ابن قیم کے نزدیک حقوق کے تحفظ اور دفعِ مظالم کے لیے قرائنی شہادت پر بھی فیصلہ دینا ضروری ہے۔ چاہے مقررہ نصابِ شہادت موجود نہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اگر قاضی قرائن کو بالکل نظرانداز کر دے تو بہت سے ایسے لوگوں کے حقوق برباد اور ضائع ہوجائیں گے جن کے پاس عینی گواہ تو موجود نہ ہوں لیکن قرائن اور واقعاتی شواہد ان کے حق میں ہوں۔ اگر قاضی بے احتیاطی کرے اور قرائن کی قطعیت اور ظنیت کا جائزہ لیے بغیر فیصلہ دے دے تو اس طرزِعمل سے ظلم و فساد کا اندیشہ ہے۔ (الطریق الحکمیۃ‘ ص ۳-۴)

آگے لکھتے ہیں: ’’اگر قاضی کو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے علاوہ دوسرے مقدمات کے موقع پر گواہی کی سچائی معلوم ہو جائے تو وہ ایک مرد کی گواہی پر فیصلہ دے سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکام پر یہ لازم قرار نہیں دیا کہ وہ بغیر دو گواہوں کے بالکل ہی فیصلہ نہ کریں۔ البتہ حق دار کا حق محفوظ رہنا ضروری ہے۔ یہ حق خواہ دو گواہوں کے ذریعے محفوظ ہو‘ خواہ ایک مرد اور دو عورتوں کے ذریعے‘ مگر اس حدبندی سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ حاکم ایک گواہی پر فیصلہ نہیں دے سکتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور ایک قسم بلکہ صرف ایک گواہ کے ساتھ بھی فیصلہ فرمایا ہے۔ (الطرق الحکمیۃ ‘ ص ۶۶-۶۷)

وہ اپنی اس رائے کی تائید میں علامہ ابن تیمیہ کے اس قول سے بھی استناد کرتے ہیں کہ ’’قرآن حکیم میں دو مرد اوردو عورتوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ فیصلہ کرنے والے اس تعداد کے پابند ہیں‘ بلکہ صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ اتنے گواہوں سے حق دار کا حق محفوظ رہتا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۷۰)

مزید لکھتے ہیں: ’’شارع نے حقوق کے تحفظ کا دارومدار صرف دو مرد گواہوں پر نہیں رکھا ہے‘ نہ خون کے معاملے میں ‘ نہ مال کے مقدمے میں اورنہ حد کے بارے میں‘ بلکہ خلفاے راشدین اور صحابہ کرامؓ نے حمل کی وجہ سے حدِّزناجاری کی اور صرف بو‘ اور قے کی بنا پر حدِّخمر لگائی‘ اسی طرح جب چور کے قبضے سے چوری کا مال جوں کا توں برآمد ہو جائے تو اسے حد لگائی جائے گی بلکہ یہ قرینہ حمل اور شراب کی بو‘ سے زیادہ ظاہر ہے۔ (اعلام الموقعین‘ ۱/۱۰۳)

ابن قیم گواہی کی اس تعریف کو راجح قرار دیتے ہیں کہ جو چیز حق بات کو ثابت کر دے وہی گواہی ہے۔ وہ حدیث البینّۃ علی المدّعی والیمین علیٰ المدعٰی علیہ  (ترمذی‘ ابواب الاحکام)  (ثبوت کا بار مدعی پر ہے اور مدعا علیہ پر قسم ہے) کی توضیح لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن حکیم‘ احادیث ِ رسول ؐاور کلام صحابہؓ میں بیّنہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حق کو ظاہر اور ثابت کر دے اور قرآن وحدیث میں اس سے یہی معنی مراد لیے گئے ہیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:  لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ (الحدید ۵۷:۲۵)  قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ (الانعام ۶:۵۷)  وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلاَّ مِنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنَۃُ (البینہ ۹۸:۴)  اَمْ اٰتَیْنٰھُمْ کِتٰبًا  فَھُمْ عَلٰی بَیِّنَتٍ مِّنْہُ ج (فاطر ۳۵:۴۰) ان آیات میں لفظ ’’بینہ‘‘ یا ’’بینات‘‘ روشن دلیل یا ظاہرِ حق یادلیلِ حق کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مدعی سے سوال کیا: ألَکَ بَیِّنَۃ؟ (کیا تمھارے پاس (دعویٰ کی سچائی پر) کوئی دلیل ہے؟) اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیّنہ سے مراد ہر وہ دلیل ہے جو دعویٰ کو ثابت کر دے خواہ اس کی حیثیت گواہ کی ہو یا کوئی دوسری چیز ہو (جس سے ثبوت ملتا ہو)‘ گویا ثبوتِ حق کسی ایک معیّن چیز پر موقوف نہیں ہے جیسا کہ فقہا نے اسے صرف دو گواہ یا ایک گواہ اور قسم کے ساتھ خاص کرد یا ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں کہ: ’’عینی شہادت‘ تحریری شہادت‘ قسم‘ اقرار اور ہر قسم کی واقعاتی شہادت‘ غرض یہ سب چیزیں ’’بینہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک گواہ کے قائم مقام ہے۔ اس لیے اگر کسی مقدمہ میں عینی گواہوں کی مقررہ تعداد میں کمی ہو یا گواہ بالکل نہ ہوں تو اس وقت کسی بھی قسم کے بیّنہ کو جو یقین کا فائدہ دیتا ہو‘ قبول کر لیا جائے گا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا ۔(اعلام الموقعین‘ ۱/۹۰-۹۱)

علامہ ابن قیم اپنی دوسری کتاب الطرق الحکمیۃ میں اسی مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بیّنہ ہر اس دلیل کو کہتے ہیں جو حق کو واضح اور ظاہر کرتی ہو۔ جو لوگ اسے دو گواہوں یا چار گواہوں یا ایک گواہ کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں وہ اس لفظ کا پورا حق ادا نہیں کرتے۔ قرآن حکیم میں بینہ کا لفظ کسی جگہ بھی دو گواہوں کے معنی میں نہیں استعمال ہوا بلکہ حجت‘ دلیل اور برہان کے معنوں میں آیا ہے۔ خواہ کوئی چیز انفرادی طور پر دلیل ہو یا کئی چیزیں مل کر دلیل بنی ہوں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد البینہ علی المدّعی کا مطلب یہ ہے کہ مدّعی ایسی دلیل اور ثبوت پیش کرے جس سے اس کے دعویٰ کی صحت و صداقت ثابت ہوتی ہو۔ تاکہ اس کے حق میں فیصلہ ہو جائے۔ دو گواہ بھی بینہ کے مفہوم میں شامل ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات گواہوں کے علاوہ دوسرے دلائل قوی تر ہوتے ہیں مثلاً مدعی کے صادق ہونے پر حالات و واقعات کی شہادت گواہ کی گواہی سے قوی تر دلیل ہے۔ (الطرق الحکمیۃ‘ ص ۱۱-۱۲)

عصر حاضر میں اہمیت اور شرعی حیثیت: قرآن حکیم ‘ احادیث نبویؐ ‘ روایات و آثار اور فقہا کی آرا سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت اسلامی میں واقعات اور قرائن کے ذریعے شہادت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے اس کی بنیاد پر فیصلے کیے ہیں۔ آج سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے قرائن میں غیر معمولی وسعت پیدا ہو چکی ہے اور واقعات کی صحت‘ شہادتوں کی جانچ پرکھ‘ اثباتِ دعویٰ اور ردِّ دعویٰ میں ان کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے‘ بلکہ بعض اوقات ان کی شہادت عینی شہادتوں سے بھی زیادہ واضح‘ درست (authentic)قطعی اور یقینی ہو جاتی ہے‘ اس لیے شریعت کے اصولوں کی روشنی میں نہ صرف ان سے استفادہ ضروری ہے بلکہ عین منشاے شریعت ہے تاکہ حقوق کا تحفظ اور جرائم کا انسداد ممکن ہو سکے۔

یہ امر ملحوظ رہے کہ بالخصوص حدود کے معاملے میں محض قرائن پر اکتفا کافی نہیں کیونکہ یہ عموماً مستقل اور فیصلہ کن ذریعہء ثبوت نہیں ہوتے اور حدود شبہات سے ساقط ہو جاتی ہیں‘ البتہ قرائن سے شہادت کو تقویت ملتی ہے جس سے عدل و انصاف کا حصول ممکن ہوجاتا ہے ‘ اس لیے ہماری رائے میں حدود کے معاملے میں اگر شہادت کا مقررہ نصاب مکمل نہ ہو مگر قرائنی شہادت دستیاب ہو تو جرائم کے انسداد کے لیے ضروری ہے کہ تعزیری سزا ضرور دی جائے اور جہاں قرائن انتہائی قطعی اور یقینی ہوں وہاں حد جاری کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض احادیث وآثار میں قرائن کے اعتبار اور عدمِ اعتبار سے متعلق اختلاف کی وجہ ان قرائن کی قطعیت و ظنیّت ہے۔ جہاں قرائن کی دلالت قوی ہوتی ہے اور وہ قطعی اور یقینی ذریعہء ثبوت ہوتے ہیں وہاں شارع نے ان کا اعتبار کیا ہے‘ جیسے شراب کی بو اور نشہ وغیرہ۔ جہاں قرائن کی دلالت ضعیف ہوتی ہے ‘ وہاں محض ظن حاصل ہوتا ہے‘ اس لیے ان کا اعتبار نہیں کیا گیا‘ جیسا کہ مدینہ کی بدکار عورت کے متعلق آپؐ نے قطعی اور یقینی ثبوت میسّر نہ آنے کی وجہ سے محض ظن کی بنیاد پر حدِّرجم جاری نہیں فرمائی (کیونکہ معاملہ حدود کا تھا)۔ فقہا قرائن سے ایسی دلالت مراد لیتے ہیں جو ظنِّ قوی کا فائدہ دیتی ہو یا ایسی علامت جو حدِّ یقین تک پہنچنے والی ہو۔ (جاری)


حواشی

۱- طرابلسی‘ معین الحکام فی مایترددّبین الخصمین من الاحکام‘ ص ۱۶۱-۱۶۲۔ ابن القیم‘ الطریق الحکمیۃ فی السیاسۃ الشرعیہ‘ بیروت‘ دارالکتاب العلمیۃ (س-ن)‘ ص ۶-۹۔ عبدالقادر عودہ‘  التشریع الجنائی الاسلامی‘ القاہرہ‘ مکتبہ دارالتراث‘ ج ۲‘ ص ۳۳۹-۳۴۱)

۲- دیکھیے معین الحکام ‘ ص ۱۶۱-۱۶۲‘ ابن قدامہ‘ ا لمغنی‘ ۱۰/۶ ۔’’النکول عن الیمین وردّہا‘‘ کی بحث کے لیے دیکھیے: التشریح الجنائی‘ ۲/۳۲۹-۳۴۱)

۳- ابن ہمام‘ شرح فتح القدیر‘ بولاق‘ مصر‘ مطبع الکبریٰ الامیریہ‘ ۱۳۱۵ھ‘ ج ۴‘ ص ۱۷۸-۱۸۱۔ نیز التشریح الجنائی‘ ۲/۵۱۱-۵۱۲۔

۴- ابن قیم‘ اعلام الموقعین‘ بیروت‘ دارالجیل‘ ۱۹۷۷ء‘ ج ۱‘ص ۱۰۳

۵- الطرق الحکمیۃ‘ ص ۶۔نیز المنتقی بشرح المؤطا ‘  ۳/۱۴۱

۶- تفصیل کے لیے دیکھیے‘  مالک‘ مؤطا ‘ کتاب الاقضیہ‘ باب القضاء بالیمین مع الشاہد۔ ترمذی‘ابواب الاحکام‘ باب ماجاء فی الیمین مع الشاہد۔ ابوداؤد‘ باب ماجاء فی الیمین مع الشاہد۔سیوطی‘ تنویرالحوالک شرح علیٰ مؤطا مالک‘ قاہرہ‘ مکتبہ ومطبعہ المشہد الحسینی‘ ج ۳‘ ص ۲۰۱۔ عینی‘  عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‘ بیروت‘ دارالفکر‘ ج ۱۳‘ ص ۲۴۴۔ معین الحکام‘ ص ۱۱۰-۱۱۸

ترجمہ:  تور اکینہ قاضی

یہ دنیا نہایت سرعت کے ساتھ جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی‘ ایک عالمی گائوں کی شکل اپنا رہی ہے۔ نہیں کہا جا سکتا کہ برائی کے لیے یا بھلائی کے لیے۔ یہ تبدیلی معاشرے میں خواتین اور بچوں کے کردار سمیت زندگی کے تمام پہلوئوں پر بڑی تیزی سے اثرانداز ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین اور بچے اس عالم گیر (گلوبیائی) عمل میں خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ مزید برآں اقوام متحدہ کے نظام کے تحت جو کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں وہ ایسی اقدار کو تقویت دے رہی ہیں جو روایتی شادی اور کنبے کے تصورات کو ڈرامائی طور پر تبدیل کرنا چاہ رہی ہیں۔ آیا یہ معاشرتی تجربے درست ہیں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ امریکی اور یورپی کنبے جہاں جدید اصلاحات کا نفاذ سب سے پہلے ہوا ‘ شکست و ریخت کا شکار ہو چکے ہیں اور نتیجتاً ان کے عدم استحکام نے جاری معاشرتی ترقی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

جوں جوں گلوبیائی عمل آگے بڑھتا جا رہا ہے‘ دنیا کو شادی اور عائلی زندگی کے بارے میں مغرب کی رہنمائی کو بہ نظر تشویش دیکھنا چاہیے۔

میں سب سے پہلے اس امر پر گفتگو کروں گا کہ اقوام متحدہ کا نظام جن اقدار کو تشکیل دے رہا ہے انھیں کس طرح نافذ کیا جائے گا۔ یہ موضوع اہم ہے کیونکہ یہ گلوبیائے جانے کے عمل کی اسی حد تک رہنمائی کر سکتی

 

ہیںجس حد تک ان اقدار کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔ میں مختصراً اس پر بھی بحث کروں گا کہ اقوام متحدہ کی پیش کردہ اقدار کس طرح عائلی اور خاندانی رشتوں کو ازسرنو ترتیب دینا چاہ رہی ہیں۔ پھر میں ان اثرات کا خلاصہ پیش کروں گا جو مغرب میں نئے عائلی تعلقات نے خاندانوں میں برپا کر دیے ہیں۔ آخر میں تجویز پیش کروں گا کہ قدامت پسند (خصوصاً مذہبی) اقوام اس بات پر زور دے کر کہ گلوبیائی معاشرہ خاندان کی اہمیت کو‘ جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے‘ تسلیم کرے‘ اس گلوبیائی عمل پر بہت مثبت اور گہرے طور پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔  رواں مغربی تجربہ بتا رہا ہے کہ مضبوط و پایدار شادیاں اور خاندان عورتوں اور بچوں کی بہبود کے لیے لازمی ہیں۔ لہٰذا گلوبیائی کوششوں کو عائلی اور خاندانی استحکام کو مضبوط بنانا چاہیے نہ یہ کہ وہ اس کی بیخ کنی کریں۔

بین الاقوامی قانون اور گلوبل ازم (عالم گیریت) : اقوام متحدہ نظام نے عالمی پالیسی سازی کا نیا بڑا کردار اپنا لیا ہے۔ حالیہ کانفرنسیں مثلاً قاہرہ کانفرنس برائے آبادی و ترقی‘ بیجنگ کی چوتھی عالمی کانفرنس برائے خواتین‘ ریو (RIO) کانفرنس برائے ماحولیات اور استنبول کانفرنس برائے آبادیات نے دنیا بھر میں اہم توجہ حاصل کی ہے اور ان کو اقدار پر اثرانداز ہونے والے واقعات کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کانفرنسوں سے جو اعلامیے‘ لائحہ عمل اور ایجنڈے جاری کیے گئے خواہ وہ تکنیکی طور پر لاگو نہ بھی ہوں تب بھی وہ بین الاقوامی قانون کی تصوراتی شکل کوحقیقی بنانے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی کانفرنسوں کے اعلامیے گلوبیانے کے عمل میں موثر رول ادا کرنے لگے ہیں۔

اقوام متحدہ کی کانفرنسیں اور ان کے اعلامیے ’’نرم‘‘ قسم کے بین الاقوامی قانون کی تعریف میں آتے ہیں یعنی وہ جو خود بخود لاگو نہ ہوں‘ اگرچہ ان پرشریک ممالک کے نمایندگان کے دستخط ثبت ہوتے ہیں۔ انھیں عالمی معاشرے کے لیے ایک قسم کی تحریک یا مہمیز قرار دیاجا سکتا ہے۔ بہرحال یہ اعلامیے غیر لازمی ہوتے ہوئے بھی اقوام متحدہ کی حقیقی دنیا کے تصور کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ غیر محسوس حقیقت ہے کہ بہت سا بین الاقوامی قانون موجود بھی ہے اور اس کی پابندی بھی کی جاتی ہے‘ اگرچہ نفاذ کا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا گیا ہو۔

اقوام متحدہ کے اعلامیے چار بڑے طریقوں سے گلوبیانے کے عمل پر اثر ڈالتے ہیں۔ اوّل:یہ اعلامیے بین الاقوامی قانون تشکیل دیتے ہیں۔ دوم: اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو عملی رہنمائی دیتے ہیں۔ سوم: ملکی دائرے میں فیصلوں اور منصوبوں کو متعین کرتے ہیں۔ آخری بات: سیاسی اور عوامی رجحان ڈھالتے ہیں۔

ا- عام قانون کی تشکیل کرنا:  عام بین الاقوامی قانون کا ریاستوں پر پورا اطلاق ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر ایک غیرلازمی قانون اس حد تک لازمی ہوتا جاتا ہے جس حد تک وہ بین الاقوامی معمول کا عکس پیش کرنے لگے۔ قانونِ عمومی (customary law) کی تعریف یہ ہے کہ یہ خود مختار ریاستوں کے اندریکساں طور پر رائج اور لاگو ہونے والی اقدار اور قواعد کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ کانفرنس اعلامیے ان اقدار پر بحث و تمحیص کا آغاز کر کے ان کو شکل دیتے ہیں اور رہنمائی کرتے ہیں۔ ان اعلامیوں کو بجائے خود بھی عملی شہادت سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ اہل علم یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ چوں کہ یہ غیر لازمی اعلامیے عالمی معاشرے کی اس مرضی کا اظہار ہیں کہ وہ ان اقدار کی پاسداری کریں گے جو ان دستاویزات میں بیان ہوتی ہیں‘ اس طرح وہ فوری طور پر قانون بنا دیتے ہیں۔ اس طرح اب رائج الوقت بین الاقوامی قانون کے واضح شکل اختیار کرنے میں صدیاں صرف نہیں ہوتیں بلکہ اب یہ قوانین بڑی تیزی سے تشکیل پا جاتے ہیں۔

ب- اقوام متحدہ ایجنسی کی سرگرمیوں کی سمت : اقوام متحدہ کانفرنس کے اعلامیے‘ نہ صرف بین الاقوامی قوانین پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ وہ اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کے لیے بھی راہنما ثابت ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا نظام بہت سی ایجنسیوں کی مدد سے چلایا جاتا ہے جنھیں مختلف ذمہ داریاں تفویض ہوتی ہیں‘ مثلاً معاہدات کا نفاذ‘ کنونشن ‘ کسی دستاویز کی تیاری یا اعلان۔ یہ ایجنسیاں ورلڈ بینک‘ انٹرنیشنل  مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)‘ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او)‘ یونیسف اور ہیبیٹٹ (habitat) پر مشتمل ہیں‘ لیکن صرف انھی تک محدود نہیں ہیں۔ عالم گیری عمل پر ان ایجنسیوں کے اثرات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیاں اپنے اختیارات کی حدود میں اضافے کے لیے اکثر غیر لازمی بین الاقوامی قوانین کو بنیاد بناتی ہیں۔ اس طرح ان ایجنسیوں نے اس اصول کو عملی طور پر نرم بنا دیا ہے کہ کوئی ریاست اس کی رضامندی کے بغیر پابند نہیں بنائی جا سکے گی۔ نتیجے کے طور پر متن جو صرف سفارشاتی ہوتے ہیں ریاستوں کے رویے کو رخ دینے میں قانون جیسا اثر رکھتے ہیں۔

ج - داخلی پالیسی کی تشکیل: اقوام متحدہ کانفرنس اعلامیے مختلف ممالک کے نفاذ قانون کے اندرون ملک ایجنڈے کو بھی متعیّن کر دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ استدلال ہے کہ مقامی عدالتوں کو یو این چارٹر کے آرٹیکل ۵۵ اور ۵۶ کے تحت‘ کانفرنس اعلامیے بین الاقوامی قانون کی حیثیت سے براہِ راست نافذ کر دینے چاہییں۔ اگر ایک ریاست نے یو این چارٹر کی توثیق کی ہے جیسا کہ سب نے کیا ہوا ہے‘ تو اس موقف کے حامل لوگوں کا اصرار ہے کہ چارٹر کی باضابطہ قوت کے تحت ریاست پر اس اعلان کی پابندی لازم ہو جائے گی۔ یہ نظریہ تاحال محدود کامیابی پا سکا ہے۔

باقاعدہ لازم نہ ہوں‘ تب بھی مقامی عدالتیں کانفرنس اعلامیوں کو مقامی قانون کو نئی شکل دینے کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ بعض لوگوں نے تجویز پیش کی ہے کہ مقامی عدالتیں انسانی حقوق کے دائرے میں مقامی قانون کی تعبیر میں بین الاقوامی قوانین اور اعلامیوں کے غیر لازم اصولوں پر انحصار کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میںانسانی حقوق کے اکثر عہدنامے اور کنونشن کوئی لازمی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ سینیٹ نے ان کی توثیق نہیں کی ہے‘ تاہم مقدمات کرنے والوں نے یو این کی غیر لازمی دستاویزات کو بنیاد بنایا ہے۔ اسے کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اصول جو قاہرہ‘ بیجنگ اور استنبول کانفرنس میں پیش ہوئے‘ ایک دن وہی وزن حاصل کر لیں گے اور اسی طرح لازمی قوانین کے طور پر استعمال ہوںگے۔ اگر ایسا ہو گیا تو واضح ہو جائے گا کہ یہ اعلامیے گلوبیانے کے عمل کی مبادیات تھے۔

د-  سیاسی بحث کی سمت: کانفرنس اعلامیے مقامی قانون کو ترقی دینے ‘ اقوام متحدہ ایجنسیوں کی کارروائیوں کی رہنمائی کر نے اور داخلی پالیسی کو شکل دینے کے علاوہ بھی اپنی اہمیت و اثرات کو نمایاں طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ کانفرنسیں اور ان کے اعلامیے رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں‘ میڈیا کو متوجہ کرتے ہیں اور سیاسی دبائو پیدا کرتے ہیں۔ یہ باتیں بین الاقوامی اور مقامی قانونی نظاموںکی تمام سطحوں کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

کانفرنسیں نہ صرف رائے عامہ کو متاثر کرتی ہیں بلکہ چھوٹے گروپوں اور غیر حکومتی تنظیمات (این جی اوز) کے افکار اور سرگرمیوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ ان افراد اور گروپوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے‘ یہ اعلامیے اس وقت موثر ہتھیاروں کا کام دیتے ہیں جب وہ اپنی حکومتوں سے مذاکرات کرتے ہیں۔ یہ گروپ کانفرنس کے اعلامیے کی جواز فراہم کرنے والی امداد کے ساتھ مضبوط طاقت بن کر عوامی رجحان اور حکومتی پالیسیوں کو اپنے حق میں کر کے ان کی تعمیل کروا سکتے ہیں۔ ایسے گروپ اگر مناسب عوامی مدد و حمایت حاصل کر لیں تو ایک حکومت کے لیے سیاسی طور پر یہ ناممکن بنا سکتے ہیں کہ وہ (حکومت) اقوام متحدہ کانفرنس کے اعلامیے پر عمل درآمد کرنے سے انحراف کرسکے۔

گلوبیانے کا عمل اور کنبہ:  گذشتہ بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افراد‘ غیر حکومتی تنظیمات اور قومی حکومتوں کو اقوام متحدہ کانفرنسوں کے مباحث کے ماحصل اور نتائج پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ یہ کانفرنسیں‘ حقیقت میں ان اقدار کو ترقی دے رہی ہیں جو گلوبیانے (عالم گیریت) کے عمل کی رہنمائی کرتی ہیں۔ اب ہم دیکھیں گے کہ کس طرح یہ روبہ ترقی بین الاقوامی قانون اوراصول عورتوں‘ بچوں اور خاندانوں کو متاثر کر رہے ہیں۔

اس صدی کے نصف اواخر میں عورتوں (اور ان کی نمایندگی کرنے والی غیر حکومتی تنظیموں) نے بین الاقوامی کانفرنسوں کے مباحث اور ماحصل میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عورتوں کی تنظیموں نے گلوبیائی عمل کے پھیلائو اور ترویج پر تاریخی طور پر بے مثال اثر مرتب کیا ہے۔ بین الاقوامی منظرنامے میں عورتوں کے سیاسی نظریات کی نمایندگی کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور اسے سراہنا چاہیے۔ البتہ بہت سے بین الاقوامی مباحث میں عورت کے نقطۂ نظر پر اکثر اوقات مغربی غیر سرکاری تنظیمیں غالب رہی ہیں جو شادی‘ خاندان اور مذہب کے روایتی تصورات کی مخالف ہیں۔ شادی‘ مادریت‘ خاندان اور مذہب اکثر ایسے ثقافتی اور معاشی مسائل کی حیثیت سے پیش کیے جاتے ہیں جو عورت کی مکمل آزادی کی راہ میں حائل ہیں۔ نتیجتاً گلوبیائی (عالم گیری) عمل کے ایک حصے کے طور پر ترقی پذیر ممالک پر غیر معمولی دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ مغربی نمونوں کے مطابق اپنے خاندان اور عائلی زندگی کا ڈھانچہ تشکیل دیں۔

یہ مساعی کئی جہتوں کی طرف پیش قدمی کرتی ہیں۔ ایک بڑی کوشش مبادیاتی طور پر اور شاید انتہائی نمایاں طور پر عورتوں کو حمل کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے اسقاط کے حقوق دینے پر فوری اصرار کرنے کے ذریعے ہوئی۔ اس کے ساتھ یہ کوششیں بھی شامل ہو گئیں کہ روایتی مادرانہ کردار کم کیا جائے اس لیے کہ مادریت‘ بلکہ خود کنبہ بھی‘ ایک فرسودہ اور ظالمانہ چیز ہے جو عورتوں کو خود سازی سے باز رکھتی ہے۔ خاندان کی تخریب کا ری ان تجاویز سے کی گئی کہ بچوں کو خود اختیاری کے حقوق دیے جائیں اور اس پر اصرار کیا گیا کہ ریاستوں کو ہم جنسیت بلکہ ہم جنس سے شادی کو قانونی حیثیت دے دینی چاہیے۔ نیزمذہب پر ایمان رکھنے کی اہمیت پر حملے کیے گئے۔ میں ان کوششوںکی چند مثالیں دوں گا:

۱۹۰۶ء میں نیویارک میں عہدنامہ حقوق انسانیت کی تنظیموں نے حقوقِ نسواں پر ایک گول میز کانفرنس کی۔ اس اجلاس کی رپورٹ کھلے طور پر حقوقِ انسانیت کی دستاویزات کو نئے معنی دیتے ہوئے اسقاطِ حمل کے حقِ بلااعتراض کو شامل کرتی ہے۔ حقوق نسوانیت کے گروپ کھلے عام اور سیاسی عمل سے یہ کبھی حاصل نہ کر سکے تھے۔ گول میز رپورٹ تائید کے طور پر یہ تذکرہ بھی کرتی ہے کہ ہم جنسیت اور اغلام بازی ایک محفوظ انسانی حق ہے۔ یہ رپورٹ مذہب کو نشانہ بناتی ہے کہ یہ (مذہب) ان نودریافت شدہ حقوق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

پدرانہ حقوق کو مذہبی حقوق کی طرح بے حیثیت کیا جا رہا ہے۔ عالمی حقوق انسانیت کا اعلان والدین کو یہ اوّلین حق دیتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ بین الاقوامی عہدنامہ بابت سول و سیاسی حقوق اور بین الاقوامی عہدنامہ بابت معاشرتی ‘معاشی و ثقافتی حقوق بھی واضح طور پر والدین کے حقوق کو تحفظ دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی اور مذہبی پرورش کریں۔ تاہم یو این کے کئی پلیٹ فارم اس خیال کو آگے بڑھانے میں مسلسل طور پر لگے ہوئے ہیں کہ دس سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم‘ جنسی صحت کی تعلیم اور اس سے ملتی جلتی دوسری خدمات کی فراہمی کوتسلیم کرایا جائے‘ ساتھ ساتھ بچوں کو جنسی طور پر آگاہی دینے میں والدین کے کسی کردار سے انکار کیا جاتا ہے۔

کسی بھی ثقافت کا کتنا ہی باربار مطالعہ کیا جائے وہ یہی بتائے گا کہ والدین کا کمزور ہوتا ہوا تنفیذی کردار غربت کی بہ نسبت زیادہ یقینی طور پر بچوں کو نشہ اور جرم کی طرف لے جاتا ہے۔ بایں ہمہ یو این کمیٹی برائے حقوقِ اطفال اس پر بہت زیادہ مائل نظر آتی ہے کہ وہ کنونشن برائے حقوقِ اطفال کا اطلاق کرتے ہوئے بچوں اور والدین کے تعلقات میں مداخلت کرے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کمیٹی کی نظروں میں بچہ ایک ننھا بالغ فرد ہے‘ جس کو رازداری‘ اظہار رائے کی آزادی اور وہ کیا سیکھے‘ یہ فیصلے کرنے کی آزادی والدین کے علی الرغم ہونی چاہیے۔ کمیٹی نے معمولی سے معمولی جسمانی سزا کو بھی بچے کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھا ہے۔ کمیٹی پرانے روایتی رویوں کی مذمت کرتی ہے اور آئے دن ریاستوں کو متنبہ کرتی رہتی ہے کہ وہ ایسے طریقے اختیار کریں جن سے بچہ اپنے والدین کے خلاف شکایات پیش کر سکے۔ کمیٹی نے برطانیہ کو محض اس وجہ سے کنونشن کی عدم تعمیل کا مرتکب قرار دیا کہ یہ ملک ایسے قوانین رکھتا ہے جو والدین کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان کے بچے پبلک اسکولوں میں جنسی تعلیم کا کورس لے سکتے ہیں یا نہیں؟

اس قسم کے نئے معنی ان حقوق کو بھی دیے جا رہے ہیں جو عورتوں کے خلاف امتیاز کے خاتمے کی کنونشن (CEDAW)میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ’سی ڈا‘ کمیٹی مادریت کو فرسودہ قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے عورتوں کو پس ماندہ رکھا ہوا ہے۔ جب کچھ ملکوں نے کوشش کی کہ عالمی اعلانِ حقوقِ انسانیت کے تحت حق مادریت کو تحفظ دیا جائے تو ’سی ڈا‘ نے شکایت کی کہ یہ کوششیں عورتوں کو کام کا معاوضہ حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ مثلاً کمیٹی نے آرمینیا کو تنبیہہ کی کہ وہ تعلیم اور الیکٹرانک میڈیا کو فرسودہ مادرانہ ’نیک کردار‘ کے خلاف استعمال کرے۔ ’سی ڈا‘ کمیٹی مذہب اور ثقافت کو مسلسل نشانہ بناتی رہتی ہے اور کہتی ہے کہ ثقافتی اور مذہبی اقدار کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ عورتوں کے حقوق کو زک پہنچائیں۔ یہ کمیٹی اتنی دلیر ہو گئی ہے کہ اس نے ثقافتی ڈھانچے اور مذہبی اقدار کو سب ممالک میں عورتوں کی پس ماندگی کا ذمہ دارقرار دے دیا ہے۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ صنفی مساوات اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ ملک کی داخلی‘ مذہبی‘ قانونی روایات اور رسوم کے تحت بین الاقوامی قانون کی مختلف تشریحات کی جائیں۔ ’سی ڈا‘ نے بچوں کی مناسب دیکھ بھال کے ضمن میں ایک حیرت انگیز رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ افسوس ہے کہ سلونیا میں تین سال سے کم عمر کے بچوں میں سے صرف ۳۰ فی صد مناسب روزانہ دیکھ بھال حاصل کرتے ہیں جب کہ باقی بچوں کی دیکھ بھال خاندان کے لوگ یا دوسرے غیر متعلق لوگ کرتے  ہیں۔ کمیٹی نے کہا: ’’جن بچوں کو روزانہ دیکھ بھال میسّرہے وہ خاندانی دیکھ بھال کے تحت پرورش پانے والے بچوں سے بہتر ہیں۔ تین سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے بھی سرکاری سطح پر روز کی دیکھ بھال ہونی چاہیے‘‘۔

مغربی خاندان کی ٹوٹ پھوٹ: میں نے جو پالیسی اور تجاویزآغازمیں بیان کی ہیں وہ خلا سے برآمد نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ مغربی اقوام بالخصوص امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ کے تجربات سے حاصل کی گئی ہیں۔ مغرب کی معاشرتی ترقی میں کچھ قابل توصیف پہلو ضرور موجود ہیں لیکن مجموعی ترقی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ۔ خصوصاً اوپر بیان کردہ ترقی نے مثبت نتائج نہیں دیے۔

بین الاقوامی تجاویز نے‘ جو مادریت کی اہمیت کو گھٹا رہی ہیں‘ بچوں اور والدین کے مابین حکومت کو لاکھڑا کیا ہے اور خاندانی نظام کمزور کر دیا ہے۔ مذہبی عقیدے نے صدیوں سے ازدواجی بندھن کے لیے بنیاد فراہم کیے رکھی‘ اب اس کی کمزور ہونے کی وجہ سے شادی اور خاندان کے ادارے بیخ و بن سے اکھڑتے نظر آرہے ہیں۔

مغرب سے تعلق نہ رکھنے والی اقوام کی عورتوں کو جاننا چاہیے کہ کس طرح مغربی خاندانوں میں ازدواجی قانون نے عورت اور بچے پر اثر ڈالا ہے۔ ایسی بصیرت کے بغیر یہ عورتیں عالم گیریت کے اثرات کو جو نہایت اہم ہیں‘ سمجھ نہ پائیں گی۔ یہ ہیں: شادی کا ترک کرنا اور خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ۔ یہ شکست و ریخت معاشرتی ترقی پر بہت گہرا منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

سائنسی تحقیق سے بغیر کسی شبہ کے ثابت ہوتا ہے کہ پایدار ازدواجی اور خاندانی تعلقات معاشرتی ترقی کے لیے ازبس ضروری ہیں۔ تحقیقات نے دستاویزی ثبوت فراہم کیا ہے کہ فطری خاندانی بندھن بچے کو ہمہ  جہتی بہبود کا فائدہ دیتے ہیں۔ اس میں زیادہ تعلیمی مواقع‘ بہترجذباتی اور جسمانی صحت‘ کمسنی میں لڑکیوں کی کم جنسی سرگرمی اور لڑکوں میں کم بے راہ روی شامل ہیں۔ امریکہ میں ۵۰ فی صد بچے صرف ماں کے ساتھ غربت کے ماحول میں رہ رہے ہیں جب کہ صرف ۱۰ فی صد بچے اپنے والدین کے گھروں میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

لیکن تعلیم کی خرابی سے بڑھ کر جس بات کا زیادہ خطرہ ہے وہ غربت اور جذباتی صحت ہے۔ عورتوں اور بچوں کی زندگیاں شادی کے استحکام پر منحصر ہیں۔ ایسی مجامعت کا جو شادی کے فوائدکے بغیر ہو‘ امریکہ اور یورپ میں عام رجحان پایا جاتا ہے۔ ۲۰ اور ۲۵ سال عمر کے جو لوگ (بغیر شادی) ایسی زندگیاں گزار رہے ہیں وہ شمالی یورپ میں ۴۵ تا ۹۰ فی صد ہیں‘ جب کہ شادی کی شرح بہت کم ہے یعنی ایک ہزار میں ۳۶۔ مغربی معاشرے میں بلاشادی اکٹھے زندگی گزارنے کا رجحان مائل بہ ترقی ہے لیکن بڑی بھاری شہادت نے ثابت کیا ہے کہ مجامعت بلاشادی میں عورتوں اور بچوں کے لیے گھمبیر خطرات ہیں۔

ڈاکٹر ڈیوڈ پوپینو اور ڈاکٹر باربرا ڈیفووائٹ ہیڈ نے سائنسی لٹریچر کے ایک بنیادی سروے سے یہ ثابت کیا ہے کہ شادی شدہ عورتوں کی بہ نسبت ناکتخدا عورتوں سے مجامعت جسمانی اور جنسی اعتبار سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ ایسی مجامعت کے نتائج بچوں کے لیے اور بھی بھیانک ہیں۔ ڈاکٹر پوپینو اور ڈاکٹر وائٹ ہیڈ کہتے ہیں:

’’جو بچے اپنے غیر شادی شدہ حیاتیاتی والدین کے ساتھ رہتے ہیں ان میں ان بچوں کے مقابلے میں جو اپنے شادی شدہ حیاتیاتی والدین کے ساتھ رہتے ہیں بگاڑ کا ۲۰ گنا امکان موجود ہوتا ہے‘ جب کہ ایسے بچوں میں جو اپنی ماں اور اس کے مرد دوست کے ساتھ رہتے ہیں (جو ان کا باپ نہیں ہوتا) یہ خطرہ ۳۳ گنا زیادہ ہوتا ہے‘ جب کہ اس بچے کے لیے جو اپنی حیاتیاتی ماں کے ساتھ رہتا ہے جو بالکل تنہا رہتی ہے یہ خطرہ ۱۴ گنا ہوتا ہے‘‘۔ یہ شہادت یہ ثابت کرتی ہے کہ بچے کے لیے انتہائی درجہ غیر محفوظ ماحول وہ ہے جس میں اس کی حیاتیاتی ماں اس کے حیاتیاتی باپ کے بجائے کسی اور کے ساتھ رہ رہی ہو۔ مغربی معاشرے میں بچوں کی اکثریت آج کل زیادہ تر ایسے ہی ماحول میں رہ رہی ہے۔

مختصراً یہ کہ مضبوط اور پایدار ازدواجی بندھن مرد‘ عورت اور بچوں کی صحت‘ تحفظ اور معاشرتی ترقی کے ضامن ہیں اور انھیں تقویت دیتے ہیں‘ جب کہ کمزور ازدواجی بندھن غربت‘ جرائم ‘ بے راہ روی اور معاشرتی انتشار کا سبب بنتے اور ان میں اضافہ کرتے ہیں۔یہ حقائق عورتوں اور بچوں کے لیے زیادہ سنگینی رکھتے ہیں۔ شادی‘ مادریت اور پرورشِ اطفال جیسے امور پر عورتوں کی ان تنظیموں کی جانب سے حملہ کیاجاتا ہے جو عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود کی علم بردار ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایسی تنظیموں کی کاوشوں نے عورتوں اور بچوں کی زندگیاں بہتر نہیں کیں۔ عورتوں کے حقوق کے جدید علم بردار اس حقیقت کا ضرور ادراک کریں گے کہ ’’خاندان کا وجود بحیثیت ایک ادارہ ماں بچے کی اکائی کو قانونی تحفظ عطا کرتا ہے اور معتدل معاشی وسائل والدین کے ہاتھوں سے گزر کر بچوں کو باصلاحیت ‘ بالغ افراد بنانے میں صرف ہوتے ہیں‘‘۔

شادی اور خاندان کی واضح اہمیت کے باوجود مغرب میں شادی کی اہمیت اور مقام گذشتہ ۵۰ برسوں میں ایک انتہا پسندانہ تبدیلی کے عمل سے گزرے ہیں۔ مردوں اور عورتوں میں شادی کے قانونی دائرے میں آئے بغیر اکٹھے رہنے کا رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شادی بذاتِ خود ایک کمزور بندھن ہو گئی ہے اور اکثر ٹوٹ جاتی ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں امریکہ میں اندازاً ۵۰ فی صد شادیاں طلاق پر منتج ہوئیں۔ معاشرتی ترقی کے یہ نتائج افسوس ناک کہے جا سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف بچوں کے لیے بلکہ مرد عورت اور معاشرے کے لیے بھی برے اثرات کے حامل ثابت ہوتے ہیں۔ معاشرتی بگاڑ اور خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ پروفیسر ماریہ صوفیہ اگوائر نے بتایا ہے: ’’خاندانی شکست و ریخت کی جو قیمت مغرب نے ادا کی وہ منعکس ہوئی ہے بہبود پر خرچ میں اضافے کی صورت میں جو شکستہ خاندانوں کی مدد کے لیے اور اس کے ذیلی اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا جاتا ہے: یعنی بچے کی بحالی‘ جرائم سے نبٹنے کے پروگرام‘ منشیات ‘ ۲۰ سال سے کم عمر میں حمل‘ خصوصی تعلیم اور معمر آبادی۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ۱۹۹۸ء میں خاندانی امداد کے اخراجات ۱۹۷۰ء کے مقابلے میں ۵ گنا زیادہ تھے۔ صحت کے اخراجات اسی عرصہ کے دوران ۱۵ گنا بڑھ گئے۔ امر واقعہ یہ بھی ہے کہ صحت پر اخراجات ۲۲۵ بلین کے لگ بھگ بڑھے۔ ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۶ء کے مابین معاشرتی بہبود پر صرف کی جانے والی رقوم میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔ اربوں ڈالر عدالتوں کے چکروں میں ضائع ہو رہے ہیں جب کہ یہی رقم زیادہ مثبت کام میں بھی استعمال ہو سکتی تھی‘‘۔

خاندان‘ عالم گیریت اور انتباہ:  اس مسئلے کی حقیقی اہمیت کیا ہے؟ جیسا کہ پروفیسر اگوائر بجا طور پر توجہ دلاتی ہیں کہ خاندانی ٹوٹ پھوٹ معاشرتی استحکام پر نہایت برے اورمنفی اثرات ڈالتی ہے۔ یہ برے اثرات ملک کی معاشی ترقی پربھی برا اثر ڈالتے ہیں۔ میں اس پر یہ اضافہ کروں گا کہ خاندانی شکست و ریخت گلوبیانے کے عمل پر بھی اثرانداز ہوتی ہے اور اس عمل میں عورت کے کردار پر بھی۔ اس طرح جوں جوں گلوبیائی (عالم گیری) عمل جاری رہتا ہے‘ غیر مغربی اقوام--- بالخصوص خواتین کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ مغربی معاشرتی ترقی میں جو خطرات واضح اور عیاں ہو چکے ہیں‘ ان سے بچیں۔

میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک مختصر واقفیت یا علم مہیا کروں کہ کس طرح اقوام متحدہ کی کانفرنسوں کے اعلامیے گلوبیانے کے عمل کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ میں نے یہ کوشش بھی کی ہے کہ اقوام متحدہ کی ان کوششوں کی ٹھوس مثالیں پیش کروں جو ان لوگوں کے لیے چیلنج ہیں جو اپنی روایت کے تحت شادی اور خاندان سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ آخر میں‘ میں نے مختصراً بتایا کہ کس طرح خاندانی شکست و ریخت نے مغربی معاشرے کو متاثر کیا ہے۔ اب میں آپ کے غور کرنے کے لیے دو نتائج پیش کروں گا۔

پہلے یہ کہ غیر مغربی دنیا کو بین الاقوامی کانفرنس کے معاہدات کی تیاری میں انتہائی سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آج تک ایک ریاست کے نمایندے کے اقوام متحدہ کی کسی کانفرنس کے اعلامیے پر دستخط کو اس ریاست کے لیے ان اصولوں کو جو اعلامیے میں مذکور ہوں تسلیم کرنے کی واضح علامت یا آیندہ تعمیل کا اعلان نہیں سمجھا گیا۔ درحقیقت غیر لازمی وعدے صرف اس لیے کیے جاتے ہیں کہ اتفاق رائے تک پہنچا جا سکے یا عوامی یا سیاسی طور پر درست جذبات کی تسکین کی جائے۔ ایک مصنف نے لکھا ہے کہ ایک لاطینی سفارت کار نے اسے بتایا کہ وہ عہدنامے جن پر اس مصنف کے ملک نے دستخط کیے‘وہ وزارتِ خارجہ میں مذاکرات سے طے ہوئے‘ اور جب ان کو مان لیا گیا تو ان کو ایک الماری میں رکھ کر تالا لگا دیا گیا۔ پھر انھیں کسی نے کبھی نہ دیکھا۔ بین الاقوامی اعلامیوں پر بحث و تمحیص اور حتمی صورت دینے کا یہ طریقہ غیر دانش مندانہ ہے۔

اگرچہ بین الاقوامی اعلامیوں کے عالم گیریت پر اثرات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں لگایا جا سکتا‘ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کانفرنس اعلامیے‘ اپنا اثر ضرور رکھتے ہیں۔ ہر دستاویز سابقہ کانفرنسوں کے مقاصد اور زبان پر ایک اضافہ ہوتی ہے اور نتیجتاً یہ عمل ایک اہم زنجیر بنا دیتا ہے جس میں بین الاقوامی معاشرہ ناگزیر طور پر جکڑا جاتاہے۔ اس لیے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ دنیا کی قومیں احتیاط سے اس زبان پر غور کریں جو ایک بین الاقوامی اعلامیے میں وہ استعمال کرتی ہیں۔ زبان چاہے آج ملتجیانہ یا تحریک دلانے والی ہو‘ کل تحکمانہ بھی ہو سکتی ہے۔ ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ یہ قانونی لازمی زنجیریں شادی اور خاندان کا گلا ہی نہ گھونٹ دیں۔ یا پھر اس ایمان یا مذہب کی روح کو‘ جس نے دنیا کی قوموں کو صدیوں حیات بخشے رکھی‘ آخری ہچکی لینے پر مجبور نہ کردیں۔

دوسرے یہ کہ قدامت پسند اقوام کو جہاں خواتین کی بہتری کے لیے معاشرتی‘ ثقافتی و معاشی میدانوں میں مثبت پہلوئوں سے کام کرنا چاہیے‘ وہاں ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ان معاشرتی نتائج سے جو مغربی معاشرے میں ازدواجی انقلاب سے آئے ہیں‘ بچنے کی کوشش کریں۔ مغرب کا تجربہ بتاتا ہے کہ عورتوں اور بچوں کا بہترین مفاد مضبوط اور پایدار شادیوں اور خاندانوں میں ہے۔

جیسا کہ پروفیسر اگوائر نے نوٹ کیا ہے کہ معاشروں کو خاندان کی بیخ کنی کی نہایت گراں اور بھاری معاشرتی قیمت ادا کرنا پڑی ہے جیسا کہ ہم ترقی یافتہ ملکوں میں دیکھ رہے ہیں۔ مزید برآں ایسے اخراجات کے حجم ظاہر کرتے ہیں کہ اگر یہی کچھ ترقی پذیر ممالک میں ہوتا تو یہ ممالک ان کے ہرگز متحمل نہ ہو پاتے بلکہ ایسی صورت حال ان کم ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کرنے کی مساعی کو مزید پیچھے لے جاتی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عالم گیریت کے عمل کے جاری رہنے اور ترقی کرنے کے ساتھ قدامت پسند اقوام ‘مغرب کے اس دبائوکی مزاحمت کریں جو وہ شادی اور خاندان کے تقدس اور مرکزیت کو ختم کرنے کے لیے ان پر ڈال رہا ہے۔

 

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے‘ تاہم اس کا اختیار صرف سفارشات پیش کرنے کا ہے۔ ان پر عمل درآمد کا کلی اختیار حکومت کو حاصل ہے۔ کونسل کا بنیادی مقصد اسلامی قانون سازی کے لیے سفارشات پیش کرنا‘ ملک میں رائج قوانین کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینا اور نفاذِ اسلام کے لیے علمی و فکری رہنمائی دینا ہے۔

اپنے قیام کے بعد سے کونسل بہت سے اہم امور میں سفارشات پیش کر چکی ہے جن پر اگر حکومت عمل درآمد کرتی تو نفاذ اسلام کے کئی مراحل طے ہو سکتے تھے۔ ۱۹۹۶ء کے اواخر میں دستور کے آرٹیکل ۲۳۰  (۴) میں مذکور فائنل رپورٹ پیش کی گئی جو ۱۴ اگست ۱۹۷۳ء تک کے قوانین کے جائزے پر مشتمل تھی۔ اسی طرح ۱۵ اگست ۱۹۷۳ء سے ۴ جولائی ۱۹۷۷ء تک ہونے والی قانون سازی کا جائزہ قوانین کی اسلامی تشکیل کے نقطۂ نظر سے بھی لیا جا چکا ہے۔ اب ۵ جولائی ۱۹۷۷ء سے ۳۱ دسمبر ۱۹۸۵ء کے عرصے میںنافذ العمل قوانین کے جائزے پر کام ہو رہا ہے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری ۱۸۹۸ء کا جائزہ کونسل کی چوتھی رپورٹ میں (مطبوعہ اپریل ۱۹۸۲ء) اور مجموعہ ضابطہ دیوانی ۱۹۰۸ء کا جائزہ کونسل کی نویں رپورٹ (مطبوعہ‘ ستمبر ۱۹۸۳ء) میں سامنے آچکا ہے۔

خواتین انکوائری کمیشن کی اگست ۱۹۹۷ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ بھی لیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اہم قانونی‘ معاشی‘ معاشرتی مسائل پر کونسل ازخود غوروفکر اور سفارشات پیش کرتی رہتی ہے۔ مثلاً نابالغ لڑکیوں کے اغوا براے تبدیلی مذہب کے انسداد کے لیے مجوزہ ترمیم ‘

 

ظالمانہ طلاق اور متعۃ الطلاق ‘ بعض کالجوں کے نصاب میں مبینہ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی مواد پر نوٹس‘ قومیائے گئے مسیحی تعلیمی اداروں کی واپسی پر موقف‘ بیمہ و دیگر اہم امور وغیرہ۔

 

اسلامی نظریاتی کونسل اپنے اغراض و مقاصد کے پیش نظر قوانین کے جائزے‘ معاشی و معاشرتی مسائل پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سفارشات مرتب کرنے کا کام‘ بحمدہ تعالیٰ پوری مستعدی اور تن دہی سے کرتی رہی ہے لیکن یہ کام بالکل بے نتیجہ اور کارِعبث ہے اگر ارباب اختیار کی طرف سے سنجیدہ غوروخوض نہ ہو اور اس کے نتیجے میں عملی اقدامات بروے کار نہ لائے جائیں۔

اس ضمن میں چند اہم امور کی طرف نشان دہی کی جا رہی ہے جو کونسل کے اغراض و مقاصد کی روشنی میں حکومت کی طرف سے فوری توجہ اور مخلصانہ تنفیذ کے متقاضی ہیں۔

قوانین کی اسلامی تشکیل

قرآن وسنت اور اسلامی نظامِ عدل کی چودہ صد سالہ تاریخ کی روشنی میں سچے اور فوری انصاف کی فراہمی اور اسلامی قوانین کے ثمرات کو ممکن الحصول بنانے کے لیے ایک ایسا ضابطہ مرتب کیا جانا چاہیے جو براہِ راست اسلامی فکر سے مستفاد اور عدل اسلامی کی رُوح کے عین مطابق ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں رائج قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے اور ان کی تنفیذ کی جائے تاکہ ہر طرح کی ناانصافی کا سدِّباب کیا جا سکے۔

کونسل یہ پیش کش بھی کر چکی ہے کہ آیندہ قانون سازی میں قرآن و سنت سے متعارض کوئی عنصر شامل نہ کیے جانے کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل (۱) ۲۲۷ کے تناظر میں یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ ہر بل مقننہ کے سامنے پیش ہوتے ہی متعلقہ مجلس قائمہ کے ساتھ ساتھ کونسل کو بھی ریفر کر دیا جائے تاکہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے بارے میں کونسل کی رائے بھی ایوانِ کے سامنے آجائے۔ مزیدبرآں ہر قانون کی نقل منظور ہوتے ہی کونسل کو بھیج دی جائے۔ کونسل ایسے تمام مسودات و قوانین پر فوری غوروخوض کے لیے الگ اور مستقل منہج وضع کر سکتی ہے مگر ہماری اس پیش کش پر باضابطہ توجہ نہیں دی گئی۔اگرچہ بعض بل کونسل کو ریفر کیے گئے ہیں‘ مثلاً انفساخِ نکاح مسلمانان ایکٹ کا ترمیمی بل ۱۹۹۹ء (The Dissolution of Muslim Marriages Act, Amendment Bill 1999) ‘انسانی اعضا کے عطیہ و پیوندکاری کے مجوزہ آرڈی ننس ۲۰۰۰ء کا مسودہ بھی حال ہی میں کونسل کی رائے معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری اس گذارش کو پذیرائی بخشی جائے تو قوانین کی اسلامی تشکیل کے عمل میں خاصی سہولت اور تیزی پیدا ہو سکتی ہے۔ کسی قانون کے اجرا اور پھر کئی سال تک نافذ العمل رہنے کے بعد اس میں ترمیم کا مرحلہ خاصا دشوار ہو جاتا ہے۔

تعلیم کی اسلامی تشکیل

نظام تعلیم کے گھمبیر مسئلے پرکونسل برابر اپنی تشویش کے اظہار کے ساتھ اس کی اسلامی تشکیل کے لیے تجاویز پیش کرتی رہی ہے۔ نظریہ تاسیسِ پاکستان کے تناظر میں نظام تعلیم کے بنیادی تقاضے یہ ہیں کہ وہ اسلامی اصولِ مساوات و عدل کے مطابق تمام اہل وطن کے لیے تعلیم و تربیت کی یکساں سہولتوں کی ضمانت دے۔ ابتدائی تعلیم تو ہر فرد کا حق ہی نہیں بلکہ فریضہ ہے۔ اس سے ماورا ہر سطح پر معلّم و متعلّم کے انتخاب میں میرٹ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی ریاست کے لیے یہ ناگزیر چیلنج ہے کہ کوئی طالب علم کسی شعبے میں کسی سطح پر صرف اس لیے داخلے سے محروم نہ رہے کہ وہ اعلیٰ ترمیرٹ کے باوجود غریب یا کم آمدنی والے طبقے سے تعلّق رکھنے کے باعث اس شعبے یا اس سطح پر تعلیمی اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تعلیم کے موجودہ منظرنامے کو دیکھتے ہوئے ہر حساس شخص کے دل میں اس دکھ کی کسک بڑھتی جا رہی ہے کہ تعلیم کا عمل معاشرے کے ایک فرض کے بجائے ایک نفع بخش کاروبار یا صنعت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے‘ حتیٰ کہ پبلک سیکٹر میں بھی تعلیمی اداروں میں صلاحیت یا میرٹ کی بنیاد پر داخلوں کے بجائے‘یا اس کے ساتھ ساتھ‘ سیلف فنانسنگ (self financing) کے تحت والدین کی مالی حیثیت کو گویا اہلیت کی پہلی شرط قرار دے دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں انگلش میڈیم اور جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کے نام پر معتبر و غیر معتبر‘ مستند و غیر مستند‘ ملکی و غیر ملکی اداروں کا ایک سیلاب اس ملک کی تعلیمی ضروریات کو اپنی منڈی سمجھ کر اس کے استحصال کے لیے ٹوٹ پڑا ہے۔ پرائمری‘ مڈل اور ہائی اسکولوں کے علاوہ سرکاری کالجوں کا (جو ابھی تک سرکاری رہ گئے ہیں‘ خودمختار ادارے نہیں بنے) اب یہ حال ہو گیا ہے کہ ان کا معیار پست سے پست تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اپنی سہولتوں‘ اساتذہ کی صلاحیتوں اور کارکردگی کی بنا پر چند سال پہلے جو سرکاری اسکول اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا مقابلہ کر سکتے تھے‘ اب وہ صرف ان غریبوں کے بچوں کے لیے رہ گئے ہیں جن کے لیے اور کوئی چارئہ کار نہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ روزنامہ ڈان (۱۹ اکتوبر ۲۰۰۰ء) کے مطابق کراچی کے سرکاری ہائیرسیکنڈری اسکولوں میں اس سال ۳ ہزار۵ سو سیٹوں کی گنجایش کے مقابل صرف ۵۰۰ طلبہ وطالبات کا داخلہ ہوا تھا‘ جس سے ان اداروں میں عوام کے عدم اعتماد کی نشان دہی ہوتی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ غیر مراعات یافتہ افراد کے بچوں کے لیے تسلی بخش تعلیمی سہولتوں کا باب آہستہ آہستہ بند ہوتا جا رہا ہے۔ ارباب بصیرت اندازہ کر سکتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی طبقاتیت کی یہ صورت حال ایک خوف ناک طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

دینی اور دنیوی تعلیم کی دوئی جو سرکاری و دینی مدارس کی صورت میں موجود تھی اب بیسیوں طرح کے سسٹم کے انتشار کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ تعلیمی میدان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی طبقاتیت‘ دینی اور اسلامی و پاکستانی اقدار سے متصادم ثقافتی رجحانات‘ جونیئر و سینئر انگلش میڈیم اسکولوں اور کئی پرائیویٹ کالجوں میں مخلوط تعلیم کی ازسرنو ترویج‘ ہر صاحب فکر کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہ صورت حال یقینا اصلاح‘ نظم اور صحت مند ضابطہ بندی کی متقاضی ہے۔

نظام تعلیم میں عدل و مساواتِ اسلامی کے اصول کی ترویج کے علاوہ دو بنیادی تقاضے ہمارے تمام تعلیمی اداروں کے لیے اساسی حیثیت رکھتے ہیں:

اولاً ‘ ضروری ہے کہ تمام درس گاہیں نصاب اور اپنے تعلیمی ماحول کی اصلاح کے ذریعے اسلامی تربیت کے اصولوں کے مطابق کردارسازی کی ضمانت دیں۔

ثانیاً‘ نصاب تعلیم اسلامی تعلیمات اور علوم و فنون میں جدید ترین تحقیق سے ہم آہنگ ہو اور مسلسل تفکیر و تجدید کے عمل سے گزرتا اور ہر شعبے میں دورِحاضر کی علمی تیز رفتاری سے ہم قدم رہے‘ اور اسلامی اصول ’’احسان‘‘ (excellence)کے مطابق ہر ادارہ بہتر سے بہتر معیار کی طرف گام زن رہے۔

ابھی تک مختلف علوم و فنون کے نصابات اور نصابی کتب کو اسلامی تعلیمات و فلسفہ حیات کی ضیا اور پچھلی چودہ صدیوں میں مسلم مفکرین و علما کی فکر سے روشناس کرنے کے لیے کوئی قابل لحاظ کام نہیں ہوا۔ کونسل نے اپنے مخصوص دائرہ کار کی ترجیحات کے پیش نظر‘ تدریس قانون کے سہ سالہ نصاب کی اسلامی تشکیل پر بھرپور توجہ دی ہے۔ ہمارے نزدیک پاکستان میں قانون کی تمام درس گاہوں کے فلسفہ و مقاصد میںایسے انقلاب کی ضرورت ہے جس کے ذریعے اسلامی قانون کو اوّلین مقصودکا مقام حاصل ہو اور کامن لا ‘برطانوی و امریکی قوانین سمیت‘ اضافی عصری و تقابلی تناظر میں پڑھایا جائے‘ نہ یہ کہ برطانوی استعمار سے میراث میں ملنے والا قانون ہی ہماری درس گاہوں کا اصل مادہ تدریس ہو اور تبرک کے لیے ایک آدھ پرچے پر مشتمل اسلامی قانون بھی شامل نصاب رہے۔ بدقسمتی سے قانونی درس گاہوں میں معلّمین قانون بھی اسی روایت سے وابستہ ہونے کے سبب اس نظریاتی تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔ کونسل حکومت سے یہ مطالبہ کرنے میں اپنے آپ کو بالکل حق

بہ جانب تصور کرتی ہے کہ ۲۴ پرچوں کی مفصل نصابی تفصیلات پر مشتمل ہمارا تجویز کردہ سہ سالہ نصاب براے

 لا کالجز فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ ضروری ہو تو فی الحال متعلقہ فنون کے ماہر جزوقتی طور پر تدریس کے لیے متعین کیے جا سکتے ہیں‘ اور پھر طویل المیعاد منصوبے کے تحت موجودہ فیکلٹی کی ری اورینٹیشن اور آیندہ تشکیل نو کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال ہرگز قابل قبول نہیں کہ ہمارے لا کالجز سے ایسے قانون دان فارغ ہو کر نکلیں جوعربی زبان کی شدبد بھی نہ رکھتے ہوں‘ اسلامی قوانین سے نابلد ہوں مگر عدالتوں میں بحیثیت وکیل یا منصف اسلامی قوانین کی تعبیر کا نازک فریضہ سرانجام دیں۔

خواتین کے اسلامی حقوق

بلاشبہ معاشرتی سطح پر خواتین کے حقوق کا تحفّظ ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے۔ اور ہمیں اپنے پورے وسائل بروے کار لا کر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انسانی عظمت و مساوات کے علم بردار دین اسلام اور قرآن و سنت کے احکام نے ہماری مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں‘ بیویوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں‘ انھیں غصب کرنے کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں۔ بیویوںکے ساتھ حسن معاشرت‘ نرم روی اور زندگی کے سفر میں ایسی رفاقت و ہم آہنگی اور ان کے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہونے کی وہ کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جسے قرآن کریم نے ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّط (البقرہ ۲:۱۸۷)‘ کی حسین تعبیر سے واضح کیا ہے۔ شادیوں میںاسراف و تبذیر‘ جہیز کے جبر‘ والور کے نام پر لڑکیوں کی فروخت‘ قرآن سے شادی کی مکروہ اور قطعی غیر اسلامی رسم (جو درحقیقت توہین قرآن کے مترادف ہے) کے پردے میں بیٹیوں‘ بہنوں کو ان کے حق میراث سے محروم کرنے‘ بعض علاقوں میں ابھی تک لڑکیوں کو اسلامی تعلیمات کے نام پر حصول تعلیم سے دُور رکھنے ‘اور شادی بیاہ کے موقع پر ان کی رائے سے بے نیازی یا صرفِ نظر جیسے رواج ختم کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک دینی و معاشرتی جہاد کی ضرورت ہے۔ کاروکاری یا غیرتی قتل جیسے مسائل میں یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام اس معاملے یا کسی بھی معاملے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا اور قتل کو قتل تصور کرتا ہے‘ اگرچہ اسلامی آداب معاشرت‘ احترام والدین‘ حیاداری و عزت نفس کی قدریں بھی ہماراسرمایہ حیات ہیں۔

سوشل ورک‘ بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو اگر صحیح معنوں میں خلوص نیت کے ساتھ کسی طرح کے مفاد‘ لالچ یا کسی طرح کی بیرونی تحریک یا دبائو کے بغیر‘ خواتین کے حقوق کی بحالی مقصود ہے تو ان اداروں میں کام کرنے والی عزیز بہنوں سے یہ التماس ہے کہ وہ اپنے آپ کو خواتین کے اسلامی حقوق کی بحالی کے لیے وقف کر دیں۔ اسی طرح ان کے مقاصد کے حصول کا راستہ آسان ہوسکتا ہے۔ وہ مساوات مرد و زن (gender equality)جیسے درآمد شدہ نعروں کے ذریعے مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی خاندان کے ادارے کی شکست و ریخت کے بجائے بہن بھائی‘ میاں بیوی‘ باپ بیٹی کے رشتوںکے تقدس‘ لحاظ‘ محبت‘ شفقت کے احیا اور استحکام کے لیے سرگرم ہوں۔ سچی اسلامی اقدار کے احیا کو اپنا نصب العین بنائیں۔ ہماری اپنی اخلاقی و ثقافتی روایات کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں۔ کیا یہ حیرت و استعجاب کا مقام نہیں کہ ہر طرح کی مادر پدر آزادی حتیٰ کہ ہم جنسیت اور ایک جنس کے درمیان شادی تک کو روا رکھنے والا مغربی معاشرہ اسکولوں میں مسلمان بچیوں کے سر پر اسکارف کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اس معاملے میں شخصی آزادی کے سارے آئیڈیل موقوف ہو جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اپنی مظلوم بہنوں کے لیے کام کرنے والی خواتین ہمارے دیہات میں دوپٹوں اور اسلامی حجاب کے ساتھ جائیں تو ان کا اعتماد حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب ہوں گی اور ہم سب اپنی بہنوں بیٹیوں کو غیر اسلامی رسوم کے جبر سے نجات دلانے میں جلد کامیاب ہو سکیںگے۔

معیشت کی اسلامی تشکیل

سال رواں میں سپریم کورٹ کا ربا کے بارے میں تاریخی فیصلہ بے حد اہمیت کا حامل ہے اور معیشت کی اسلامی تشکیل کے لیے ہمارے سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔کونسل اس سلسلے میں پہلے ہی کچھ ابتدائی کام سرانجام دے چکی تھی بالخصوص اس موضوع پر کونسل کی ۱۹۸۰ء میں زیورطبع سے آراستہ ہونے والی رپورٹ بعنوان: Elimintation of Riba from Economy, & Islamic Modes of Financing ایک وقیع کام کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کا دوسرا نظرثانی و توسیع شدہ ایڈیشن ۱۹۹۲ء میں طبع کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی کی سربراہی میں قائم ہونے والی ٹاسک فورس پچھلے سات آٹھ مہینوں سے امتناع ربا آرڈی ننس کے مسودے کی تیاری اور اس کے عملی مضمرات پر نہایت احتیاط‘ فکری گہرائی اور جزئیاتی تفاصیل کے ساتھ غور کر رہی ہے اور کونسل اس مہتم بالشان کام میں برابر شریک ہے۔ اسی فیصلے کے تحت اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں قائم کیا گیا Transformation Commission  اسلامی معیشت کے تحت رائج ہونے والی دستاویزات اور بنک کاری کے اسلامی نظام کی تاسیس کے عملی پہلوئوں پر کام کر رہا ہے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالم اسلام پر دو صدیوں تک مغربی استعمار کے غلبے کے دوران اسلامی نظام معیشت عملاً رائج نہیں رہا‘ پھر نئے عصری مسائل پوری دنیا پر مغرب کے استحصالی اور ربائی نظام کی بالادستی‘ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کے کئی مسلم ممالک کی معیشت پر تسلّط نے صورت حال کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ربا سے پاک مالیاتی اداروں کا قیام معیشت کے تمام شعبوں کے لیے ضروری ہے۔ اس عظیم کام کے لیے ماہرین معاشیات ‘ تاجروں‘ صنعت کاروں‘ بنک کاروں‘ علما اور دانش وروں کے علاوہ اقتصادی استحکام کے لیے آبادی کے ہر طبقے کا تعاون ضروری ہے۔ بیرونی قرضوں سے خلاصی بھی اسلامی نظام اقتصاد کے احیا کے لیے جہاد کا نہایت اہم حصہ ہے۔ لہٰذا لاربائی نظام کے قیام کے لیے ہر سطح پر حکومت سے تعاون اور اس عظیم ہدف کو ممکن بنانے کے لیے پورے جوش و جذبہ ایمانی کے ساتھ دیانت‘ ایثار‘ محنت اور کام میں لگن کا رویہ ناگزیر ہے۔ میں نہایت ادب سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اس عظیم اور کٹھن کام کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی سے کہیں زیادہ ضروری معرکہ‘ اسلامی نظام اقتصاد کے قیام کے لیے علمی وفکری و تحقیقی‘ تجارتی و کاروباری‘ صنعتی اور عوامی حلقوں میں اس نظام کے تقاضوں کے ادراک اور اس کے لیے مخلصانہ جدوجہد کی مہم کا ہے۔ صرف قوانین و ضوابط سے یہ نظام وجود میں نہیں آئے گا۔ ہم سب کو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے دائرہ کار میں دیانت و امانت کا وہ مفہوم سختی کے ساتھ اپنانا ہوگا جو ہمارے آقا و مولا‘ ہادی و رہبر‘ سید و سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ؐ و احمد مجتبیٰؐ کی مبارک تعلیمات پر مشتمل ہے۔اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ حکومتی اقدامات سے بھی یہ واضح ہوناچاہیے کہ ہم اجتماعی طور پر اس سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔ حکومتی سطح پر اسلامی اقتصادی نظام کی تیاری کے اقدامات کے بجائے نئی سودی اسکیموں کا اجرا اور سود و قمار کے عناصر پر مشتمل

بے شمار پبلک اور پرائیویٹ اداروں کی انعامی اسکیموں کے لیے کھلی چھٹی‘ حکومت کے عزم کے بارے میں‘ اس گراں قدر کام کے باوجود جو اسلامی معیشت کی تشکیل کے لیے ہو رہا ہے‘ صحیح سگنل نہیں دیتے۔

سابقہ حکومت نے بیرون ملک متوطن پاکستانیوں کے پاکستان میں فارن ایکسچینج اکائونٹ منجمد کر کے اصول دیانت کی خلاف ورزی کے ساتھ ان کے اعتماد کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچایا۔ موجودہ حکومت بہرحال اس حکومت کی جانشین اور اس کی ذمہ داریوں کی وارث ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی تحفّظ یا ہچکچاہٹ کے بغیر اس دھاندلی پر غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں سے غیر مشروط معافی مانگنی چاہیے۔ ان کے اعتماد کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرنے چاہییں اور اپنے ملک کے اندر سادگی‘ کفایت شعاری‘ دیانت‘ اصول پرستی کا روشن نمونہ قائم کر کے اس مشکل وقت میں قرضوں سے چھٹکارے اور اسلامی معیشت کے قیام کے لیے ان سے مدد کی درخواست کرنی چاہیے۔ یہ سادگی اور کفایت شعاری سب سے پہلے حکومتی ایوانوں کی سب سے اونچی سطح پر صاف نظر آنی چاہیے۔ تعیش اور صارف  (consumer) کلچر کی شدید حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور جنگی سطح  (war footing)پر یہ مہم پورے خلوص اور استقلال سے جاری رہنی چاہیے۔

ذرائع ابلاغ کا منفی کردار

اسلامی اور پاکستانی ثقافت کے احیا اور اس کی ترویج و سرپرستی کے حوالے سے اور اسی طرح کی اقتصادی مہم کے حوالے سے ہمارے ذرائع ابلاغ برابر ایک منفی کردار ادا کر رہے ہیں اور سرکاری الیکٹرانک میڈیا اس کردار میں پیش پیش ہے۔ خودانحصاری کے نام پر‘ غیر ملکی ٹی وی چینلوں سے مقابلے کی آڑ میں‘ لباس ‘ چال‘ ڈھال‘ رہن سہن‘ گفتگو اور معاشرتی رویوں کے ایسے ماڈل ٹیلی وژن پر ڈراموں‘ کلچرل شوز‘ موسیقی کے پروگراموں‘ اور سب سے بڑھ کر اشتہارات کے ذریعے پیش کیے جا رہے ہیں جو ہماری اخلاقی اقدار اور معاشرتی آداب کے تقدس کو تہس نس کرنے کے ساتھ ساتھ ان منفی رویوں کو دل کشی کے ساتھ پیش کر کے گمراہی‘ مایوسی‘ احساسِ محرومی اور جرائم کے ارتکاب کی آبیاری کرتے ہیں۔ فلموں سے قطع نظر ٹی وی پر بھی مغربی ممالک میںڈراموں کی عکس بندی کے بہانے مغربی معاشرت کو ایک قابل قبول اور نارمل طرز زندگی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سپانسرشپ کے پردے میں سپورٹس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے سگریٹ نوشی اور بالواسطہ منشیات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے‘ جس کا ہدف خصوصی طور پر نوجوان نسل بن رہی ہے کیونکہ وہی کھیلوں کے مقابلوں کو زیادہ شوق سے دیکھنے والے ہیں۔ اگر اس سے ٹی وی کو آمدنی ہو رہی ہوجو خود انحصاری کے لیے ضروری ہے‘ تو اس کی وجہ سے معاشرے میں وسیع پیمانے پر پھیلنے والی بیماریوں کے تدارک کے لیے سرکاری اور رفاہی اداروں پر جو بوجھ پڑ رہا ہے‘ وہ کس کے کھاتے میں جائے گا۔

ذرائع ابلاغ کی اصلاح‘ بالخصوص سرکاری ذرائع ابلاغ کی اصلاح‘ تو ایک ایسا پروگرام ہے جو کسی بھاری بجٹ کا متقاضی نہیں‘ اس کے لیے صرف سوچ درست کرنے اور عزم صمیم کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں اللہ کے فضل سے بہترین تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ادیب اور فن کار موجود ہیں جو ہماری اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی نہیں بلکہ ان کی تعمیر و اشاعت کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں‘ بشرطیکہ ان سے اس جنس کی طلب کی جائے۔ اب نیو ایر ڈے اور بسنت کے موقع پر غیر اخلاقی رجحانات کی سرکاری سرپرستی کے علاوہ نئی نئی غیر ملکی روایتیں بھی حملہ آور ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ویلنٹائن ڈے (valentine's day) کے موقع پر اخبارات میں چھپنے والے پیغامات کے نئے رجحان کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی وزارت کو اسلامی و پاکستانی روایات کے تحفّظ اور سرپرستی کے لیے قومی رہنمائی کا کردار ادا کرناچاہیے۔

شام کے اوقات میں جب ٹی وی سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے‘ ایڈز کے اشتہارات ہمارے ذرائع ابلاغ کی بے حسی کی ایک اور علامت ہیں۔ مغرب کی ہوبہو نقالی کرتے ہوئے ’’احتیاط‘‘ کی تلقین کی جاتی ہے۔ چشم بددور‘ یہ قیمتی معلومات تو مہیا کی جاتی ہیں کہ یہ مہلک مرض’’مرد سے مرد کو‘ مرد سے عورت کو…‘‘ لگ سکتا ہے مگر ہماری اپنی اقدار اور دینی تعلیمات کی روشنی میں یہ کہنے کی توفیق یا جرأت نہیں ہوتی کہ ایک پاکیزہ زندگی ہی بابرکت زندگی ہے اور خدائی احکام سے منہ موڑنا اس طرح کے وبال کا سبب بنتا ہے۔ کونسل کے مطالبے پر گذشتہ سالوں میں کچھ عرصے کے لیے ایسے اشتہارات کے لیے ۱۰ بجے رات کے بعد کا وقت معین کر دیا گیا تھا مگر اب اس پابندی کو بھی غیر ضروری تکلف سمجھ کر ترک کر دیا گیا ہے۔

رب رحیم و کریم کی بارگاہ عالی میں اس التجا کے ساتھ ان معروضات کو ختم کرتا ہوں کہ وہ اپنے لطف و کرم سے عالم اسلام اور ہمارے پیارے پاکستان کودشمنوں کے فتنوں سے محفوظ رکھے‘ اسے سالمیت اور استحکام عطا کرے‘ صاف ‘ سچا اور سادہ اسلام ہمارے دلوں میں راسخ اور ہماری زندگیوں میں رائج فرمائے‘ اور ہم سب کو اپنا تاریخی وعدہ وفا کرتے ہوئے وطن عزیز میں قرآن و سنت کا نظام برپا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین! (نو تشکیل شدہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے افتتاحی اجلاس‘ ۹-۱۱ فروری ۲۰۰۱ء میں صدر پاکستان کی موجودگی میں پڑھا گیا۔ ابتدائیہ مختصر کیا گیا ہے‘ ادارہ)

 

ترجمہ:  امجد عباسی

مغرب‘ مذہب کے بارے میں یہ تصور رکھتا ہے کہ یہ نجی زندگی کا معاملہ ہے اور کاروبار حکومت سے اسے سروکار نہیں‘ جب کہ اسلام اجتماعی اور انفرادی زندگی کے ہر دائرے کے لیے ہدایات کا نام ہے۔ مسلم ممالک میں احیاے اسلام کی جو تحریکیں برپا ہیں‘ انھیں مغرب نے پالی ٹیکل اسلام کا نام دیا ہے۔ اس کا ترجمہ سیاسی اسلام‘ مفہوم کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کرتا۔ ان کی اس سے مراد اسلام بحیثیت ایک اجتماعی قوت کے ہے۔  ’’پالی ٹیکل اسلام‘‘ کے بارے میں امریکہ کی پالیسی پر حال ہی میں دو کتابیں آئی ہیں:

1- America and Political Islam: Clash of Cultures or Clash of Interests?  ] امریکہ اور پالی ٹیکل اسلام: تہذیبوں کا تصادم یا مفادات کا تصادم[۔ فواز اے گرجیز(Fawaz A. Gerges)۔ ناشر: کیمبرج یونی ورسٹی۔

Study of   2- Political Islam and the United States: A

US Policy Towards Islamist Movements in the Middle East  ]پالی ٹیکل اسلام اور ریاست ہاے متحدہ امریکہ: امریکہ کی مشرق وسطیٰ میںاسلامی تحریکوں کے بارے میں پالیسی پر ایک مطالعہ[۔ ماریہ ڈوسی پنٹو(Maria do CEu Pinto)۔ناشر:  ایتھے کا پریس۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کمیونزم کے بجائے پالی ٹیکل اسلام‘  ’’مغرب کو درپیش نئے خطرے‘‘ کی حیثیت سے مغربی میڈیا‘ علم و دانش کے حلقوں اور پالیسی ساز اداروں کا وقفے وقفے سے مرکزی موضوع

رہا ہے۔ ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ نظریہ بنیادی طور پر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis) کی اختراع ہے اور سیموئیل ہنٹنگٹن کے نام سے معروف ہوا ۔اسے بڑی ہوشیاری سے اسلام اور مغرب کے درمیان ناگزیر

 تصادم پر منطبق کر دیا گیا۔ ابھی تک یہ مغرب میں بہت سے مفکرین کی سوچ پر چھایا ہوا ہے۔

 

کیا امریکہ کے پالی ٹیکل اسلام کے تصور میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ مغربی ماہرین اسلام (Islamologists) جس چیز پر اب پالی ٹیکل اسلام کا ٹھپہ لگاتے ہیں‘ امریکہ کے اشرافیہ (elite) اس کا کیا تصور رکھتے ہیں؟ ان کے اس تصور کے کیا مآخذ ہیں؟ ان کے یہ تصورات پالیسی بنانے میں کس طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں؟ اسلامی تحریکوں کے لیے زبانی کلامی اور عملی دونوں سطح پر امریکی پالیسی کی کیا نوعیت ہے؟ امریکہ اینڈ پالی ٹیکل اسلاماور پا لی ٹیکل اسلام اینڈ دی یونائیٹڈ اسٹیٹس  ان سوالوں پر روشنی ڈالتی ہیں اور پالی ٹیکل اسلام اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں امریکی اشرافیہ کا نقطۂ نظر ‘ تصورات اور پالیسیوں کا گہری نظر سے تجزیہ کرتی ہیں۔

 

دونوں مصنف امریکی اشرافیہ کے تصورات کو محاذآرائی (confrontation) اور مصالحت پسندی (accommodation) کے درمیان تقسیم کرتے ہیں۔ ’’محاذ آرا‘‘ فطری طور پر اسلام کو آمریت پسند ‘ تشدد پسند‘ جمہوریت مخالف اور مغربی اقدار سے مطابقت نہ رکھنے والا پاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ سب ایک ہی موقف رکھتے ہیں اور ناگزیر طور پر مغرب دشمن‘ امریکہ دشمن اور اسرائیل دشمن ہیں۔ امریکی فیصلہ سازوں کو ان کی یہ پالیسی ہدایت ہے کہ وہ اسلام کا ہر سطح پر مقابلہ کریں۔ وہ اسلامی دنیا میں اسٹیٹس کو (status quo) برقرار رکھنے کی وکالت کرتے ہیں‘ جس کا مطلب مطلق العنان جابر حکومتوں کی حمایت کرنا ہے جو مغرب کے جغرافیائی‘ سیاسی اور اقتصادی مفادات کا تحفّظ کرتی ہیں۔ وہ مسلم ممالک میں ہر ایسی تحریک کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں جو نمایندہ حکومت کے لیے ہو‘ اس خدشے سے کہ کہیں اسلام پسند اقتدار میں نہ آجائیں‘ جس کا مطلب‘ ان کی نگاہ میں‘ اللہ کے نام پر جمہوریت کا خاتمہ ہے۔

دوسری طرف ’’مصالحت پسند‘‘ اسلام کو خطرہ سمجھنے کو محض ایک وہم سمجھتے ہیں نہ کہ ایک حقیقت۔ اسلام نہ تو monotholicہے اور نہ unified۔ وہ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ پالی ٹیکل اسلام دراصل سماجی‘ اقتصادی اور نوآبادیاتی دَور کی سیاسی محرومیوں کا نتیجہ ہے ‘ اور اسلام جمہوریت سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ مسلم ممالک میں جمہوریت کے فروغ سے مغرب کی وابستگی کا سوال اٹھاتے ہیں‘ اور مسلم ممالک میں ان کے دہرے معیار پر مبنی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔

دونوں مصنفین کا خیال ہے کہ امریکی اشرافیہ کا نقطۂ نظر محاذ آرائی اور مصالحت پسندی میں متوازن طور پر بٹا ہوا ہے‘ اور بش اور کلنٹن انتظامیہ نے پوری سنجیدگی سے ان دونوں مکاتب فکر اور اپنی پالیسیوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

مصنفین کا خیال ہے کہ اشرافیہ کے نقطۂ نظر کے مآخذ مختلف ہیں۔ وہ امریکہ میں مروجہ کلچر سے متاثر ہیں جس کے مطابق اسلام ایک ’’معاندانہ کلچر‘‘ ہے‘ اور مسلمان ’’مذہبی انتہا پسند‘‘ ‘ جمہوریت مخالف‘ متشدد اور ناقابل اعتماد‘ اور صلیبی جنگوں کے بعد سے یورپ اور اسلام کے باہمی عمل کا ورثہ ہیں۔

گرجیز (مصنف) ‘ امریکہ میں اسلام کے بارے میں عوامی تاثرات معلوم کرنے والے بہت سے قومی سروے حوالے کے طور پر پیش کرتا ہے‘ جن کے مطابق ۳۶ فی صد امریکی اسلام کو امریکہ کے لیے ایک ’’شدیدخطرہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی اسرائیل نواز لابیاں بھی ایک بہت اہم ذریعہ ہیں‘ گو دونوں مصنفین کے اسرائیل کے بارے میں نقطۂ نظر میں فرق ہے۔ گرجیزکا اسرائیل اور اسرائیل کے حلیفوں کے کردار کے بارے میں تجزیہ مقابلتاً مختصر اور ذومعنین (ambivalent) ہے اور وہ اس امکان کو ردّ نہیں کرتا کہ تجزیہ نگار اسرائیل کے اثرات کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

تاہم‘ پنٹوکاتجزیہ نہ صرف چبھتا ہوا ہے بلکہ تفصیلی بھی ہے۔ یہ کوئی شبہ نہیں رہنے دیتا کہ کس طرح اسرائیل اور اسرائیل نواز لابیاں دونوں امریکہ کے اسلام کے حوالے سے نقطۂ نظر اور پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جو ایسے دبائو کی شکل اختیار کر لیتی ہیں جس سے ان کی ترقی اور آزادی عمل متاثر ہوتی ہے۔ پنٹونے بہت عمدگی سے اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ کس طرح اسرائیل سرد جنگ کے بعد کے دور میں اسلام کو امریکہ کے لیے اگلے نظریاتی خطرے کے طور پر پیش کر کے اپنے اسٹرے ٹیجک اور سیاسی مفادات پورے کرتا ہے۔

مغرب نواز مسلم حکومتوں نے بھی امریکہ کے اسلام مخالف نقطۂ نظر کو تقویت پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مصر‘ الجزائر‘ ترکی‘ اردن‘ سعودی عرب اور پاکستان کے سربراہان‘ امریکی قیادت کو مغرب کو درپیش ’’بنیاد پرست اسلام کے خطرے‘‘ سے آگاہ کرنے کے لیے بڑے بے چین رہتے ہیں۔ ساتھ ہی اس خطرے کو دبانے اور محدود رکھنے میں اپنے کردار کی اہمیت بھی بتاتے رہتے ہیں۔

دونوں مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ بش اور کلنٹن انتظامیہ دونوں نے خوب سوچ سمجھ کر پالی ٹیکل اسلام کے متعلق مصالحت پسندانہ لفاظی اختیار کی‘ اسلام کی روایتی اقدار کی کھلے دل سے تعریف کی اور مختلف کلچروں اور مذاہب کے درمیان امریکہ کے بہ طور پُل کردار پر زور دیا۔ لیکن جب اسلامی تحریکوں سے متعلق امریکہ کی حقیقی پالیسیوں کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے تو کوئی شبہ نہیں رہتا ہے کہ امریکہ کی اسلام اوراسلامی دنیا سے متعلق تمام پالیسیوں پر محاذ آرا مکتبہ فکربڑے گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

الجزائر‘ مصر ‘ ترکی‘ ایران اور سوڈان کے مطالعات کے دوران دونوں مصنفین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ نے آزمایش کے طور پر الجزائر اور مصر میں اسلامی تحریکوں سے مکالمے کاآغاز کیا ‘لیکن پھر الجزائری اور مصری حکومتوں کی طرف سے احتجاج اور ان کے تنہا رہ جانے کے خوف کے پیش نظر مزید رابطے سے اجتناب کیا۔ امریکہ نے ترکی میں رفاہ پارٹی کے اقتدار میں شرکت کے تجربے کو برداشت کرنے کی بھی کوشش کی‘ لیکن؎ مختصر عرصے کے لیے۔ تاہم‘ انھوں نے جرنیلوںکو نجم الدین اربکان پر‘ اس کی تاریخ ساز پالیسیوں کے باوجود‘ استعفا دینے کے لیے دبائو ڈالنے سے نہ روکا۔ امریکہ‘ ایران اور سوڈان میں شدید معاندانہ‘ فی الواقع غیر اعلان شدہ جنگ‘ اور دونوں ممالک کو ہر ممکنہ طور پر نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان دونوں جگہ کلنٹن انتظامیہ نے اسلام پسند حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے اور ان کا تختہ اُلٹنے کے لیے خفیہ فنڈ مختص کیے۔

گرجیز کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اسلام سے متعلق امریکہ کی پالیسیوں کا حتمی تعیّن امریکہ کے سیاسی‘ اسٹرے ٹیجک اور معاشی مفادات کرتے ہیں نہ کہ ثقافتی اقدار۔ امریکی پالیسی سازوں کو یقین ہے کہ اگر اسلام پسند اقتدار میں آتے ہیں تو وہ اس بات کے پابند ہوں گے کہ عرب اسرائیل امن مذاکرات کی مخالفت کریں‘ عالم اسلام میں مغرب نوازحکومتوں کو غیر مستحکم کر دیں‘ مغرب کو تیل کی فراہمی‘ خطرات سے دوچار ہو جائے۔ وہ ہولناک تباہی کے حامل اسلحہ جات بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس سے اسرائیل کی سلامتی کو شدید خطرات درپیش ہوں گے۔

اسلامی تحریکوں کی جمہوریت سے وفاداری اور ان کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے کے حوالے سے بھی  امریکہ کی فکری قیادت کے ہاں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ چونکہ امریکہ کے اشرافیہ‘ عالم اسلام میں مفید مطلب اور بے ضرر اسٹیٹس کو بدلنے میں دل چسپی نہیں رکھتے‘ اس لیے جمہوری نصب العین‘ انسانی حقوق اور کثیر جہتی نظام (pluralism) پس پشت چلے جاتے ہیں۔ امریکی پالیسی میں یہ تضاد جتنا عالم اسلام میں نمایاں ہے‘ کہیں اور نہیں ہے۔

دونوں مصنف ‘اپنے تجزیے میں‘ اپنے قاری کے ذہن کو کسی شک میں نہیں رہنے دیتے کہ زور و شور سے اپنائی گئی مصالحت پسندی کی بش اور کلنٹن امریکی انتظامیہ کی پالیسی صرف عوام کو دکھانے کے لیے ہے‘ اور یہ کسی حقیقت (substance)سے خالی ہے۔ ان کی حکومتی پالیسیاں واضح طور پر محاذ آرا مکتبہ فکر کے حوالے سے طے کی جاتی ہیں۔

گرجیزنے اس حوالے سے دلائل پیش کیے ہیںکہ مصلحت پسند اور محاذ آرا مکاتب فکر کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ایک کمزور سی کوشش کی گئی ہے۔ کلنٹن انتظامیہ نے اسلام پسندوں کے ساتھ سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کی کوئی حقیقی کوشش نہیں کی۔ ان کی پالیسیاں قلیل مدتی تناظر کے سیاسی‘ اسٹرے ٹیجک اور معاشی مفادات کے مطابق ہوتی ہیں جو عالم اسلام میں اسٹیٹس کو کے تحفظ کے ساتھ قریبی طور پر وابستہ ہیں۔

ہر اس شخص کو دونوں کتب کا مطالعہ لازماً کرنا چاہیے جو اسلام اور عالم اسلام سے متعلق امریکہ کی فکر اور پالیسی کو سمجھنے میں دل چسپی رکھتا ہو۔ انھوں نے نہ صرف اپنے موضوع پر بیش بہا معلومات فراہم کر دی ہیں بلکہ اس موضوع کے حوالے سے امریکی اشرافیہ کی دل چسپ اندرونی سوچ کو بھی اُجاگر کیا ہے۔

امریکہ کی اسلام سے متعلق متوازن پالیسیوں کے بارے میں مصنفین کی رجائیت سے خواہ کوئی اتفاق نہ کرے‘ البتہ ان کے نتائج ٹھوس تحقیق پر مبنی ہیں اور دانش وروں اور پالیسی سازوں کے سنجیدہ غوروفکرکے مستحق ہیں۔ (ماہنامہ امپیکٹ انٹرنیشنل‘  لندن ‘ جنوری ۲۰۰۱ء)

امریکہ‘ جنگ ِ ویت نام میں لاپتا ہونے والے اپنے فوجیوں کو ابھی تک نہیں بھولا‘ اُسے اب تک قرار نہیں آیا۔ وہ ان کی تلاش میں سرگرم ہے اور اس مقصد کے لیے وہ سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ان لاپتا افراد کی تعداد صرف ایک ہزار ۴ سو ۹۸ ہے‘ جب کہ بوسنیا ہرزگونیا میں لاپتا افراد کی تعداد اڑھائی لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے ۹۸ فی صد سویلین ہیں جن میں سے۳ فی صد بچے ہیں جن کی عمریں چھ ماہ اور ۱۶ سال کے درمیان ہیں‘ ۱۳ فی صد عورتیں ہیں جن کی عمریں ۹ اور ۱۰۲ سال کے درمیان ہیں۔ ۹۹ فی صد لاپتا افراد مسلمان ہیں‘ جب کہ سرب اور کروٹ صرف ایک فی صد ہیں۔ معاہدہ ڈیٹن پر دستخط ہونے کے بعد سے لے کر اب تک ۶ ہزار ۵ سو اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ۳ ہزار ۵ سو قبریں‘ لاپتا افراد کی بین الاقوامی کمیٹی نے ڈھونڈی ہیں اور بقیہ کا کھوج‘ بوسنیا کی تحقیقی کمیٹی نے لگایا ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ عمر ماشوویچ ہیں۔ اُن سے ایک ملاقات کی تلخیص یہاں دی جا رہی ہے۔

۲۱ نومبر ۱۹۹۵ء کو معاہدہ ڈیٹن پر دستخط کرنے کے بعد لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی‘ پہلے اس کا نام ’’کمیٹی برائے تبادلہ اسیران‘‘ تھا۔ اس معاہدہ کی چوتھی شق میں مختلف کمیٹیوں کو اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے لیے ۱۳ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی‘ اس کے دو حصے تھے۔ ایک حصے میںپانچ ارکان تھے جن کا کام صوبوں میں تلاش کے کام کی نگرانی تھا‘ جب کہ دوسرے حصے میں آٹھ حضرات تھے جنھوں نے سرائیوو میں رہ کر تلاش کے نتائج تیار کرنا اور ان کی توثیق کرنا تھا۔ اس کمیٹی کا مقصد ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۵ء کے عرصے میں مسلمانوں پر سربوں اور کروٹوں کی جانب سے مسلّط کردہ جنگ کے دوران لاپتا اور اجتماعی قبروں میں دفن کردہ افراد کی تلاش تھا۔ اس کمیٹی نے سرکاری طور پر اپنا کام اپریل ۱۹۹۶ء میں شروع کر دیا۔

لاپتا افراد کی تلاش کی بین الاقوامی کمیٹی کے قواعد و ضوابط کی رُو سے ‘ اجتماعی قبر وہ ہے جس میں پانچ یا اس سے زائد اشخاص کے ڈھانچے ہوں۔ اس تعداد سے کم‘ خواہ چار افراد کے ڈھانچے کیوں نہ ہوں‘ اجتماعی قبر شمار نہیں کی جاتی۔

لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے دوران ‘ ہمیں دونوں عالمی جنگوں کے دوران کی بھی کئی اجتماعی قبریں ملیں۔ ان میں سے کچھ بوشناق شہرکے مسلمانوں کی تھیں۔ ہم نہیں جان سکے کہ ان کا تعلّق کن علاقوں اور خاندانوں سے تھا۔ ہمیں ۵۰ جرمن فوجیوں کی بھی اجتماعی قبر ملی‘ جن کے ڈھانچے ہم نے سرائیوو کے جرمن سفارت خانے کے حوالے کر دیے۔

بوسنیا کی اجتماعی قبروں میں ہر قسم کے لوگ دفن ہیں‘ ان میںوہ بھی ہیں جن کا جنگ کے دوران‘ بین الاقوامی قانون کی رُو سے قتل ناجائز ہے ‘ جیسے ڈاکٹر‘ قیدی‘ معذور‘ علماے دین‘ بچے اور عورتیں۔ہم نے کچھ عرصہ قبل نوا سواچی گائوں میںایک اجتماعی قبر دریافت کی جس میں ۴۴ افراد دفن تھے جن میں یہاں کے امام مسجد بھی شامل تھے۔ ایک اجتماعی قبر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے نیچے سے ملی۔ ایک اجتماعی قبر کے اُوپر مسجد گرا کر اس کا ملبہ ڈال دیا گیا تھا۔ ایسا دھوکا دینے کے لیے کیا جاتا تھا۔ سرائیوو کے مضافات میں سمینروفاتس کے علاقے میں امام مسجد‘ اس کی بیوی اور چار بچوں کو مار ڈالا گیا‘ سب سے چھوٹے بچے کی عمر چار ماہ تھی۔ بوسنیا کے وسطی علاقے جیبحپا کے گائوں یالاچ سے مسلمان بھاگے تو سربوں نے انھیں پکڑ کر واپس گائوں چلنے کے لیے کہا اور کچھ نہ کہنے کا وعدہ کیا مگر گائوں پہنچنے کے بعد انھیں ذبح کر ڈالا۔ ان کی تعداد ۳۰۰ تھی۔ پھر انھیں اجتماعی قبر میں پھینک دیا گیا۔ اس قبر کا کچھ عرصہ پہلے انکشاف ہوا ہے۔ ایک اجتماعی قبر میں سربوں نے مسلمانوں کی لاشوں کے ساتھ چار مردہ گھوڑے بھی پھینک دیے اور ان کے ساتھ دھماکا خیز مواد باندھ دیا تھا۔

حنیویچ گائوں کی مسجد میں ہم نے سات مسلمان مقتول پائے۔ دوسنیا کے گائوں میں امام مسجد کو قتل کرنے کے بعد‘ اس کی لاش مسجد کے دروازے پر لٹکا دی گئی۔ ائمہ مساجد کی ایک بڑی تعداد کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا ہے۔ ابھی تک کئی امام مسجد لاپتا ہیں۔

جب ہمیں کسی اجتماعی قبر کا پتا چلتا ہے تو ہم مقامی اور بین الاقوامی حکام کو مطلع کرتے ہیں۔ پھر کھدائی کرتے ہیں۔ مقتول کی شخصیت اور طریقہ قتل جاننے کے لیے طبّی تجزیہ‘ ہڈیوں کی لمبائی اور لباس وغیرہ پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہم لاش کی شناخت کے لیے لوگوں کے بیانات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے تو صرف انتہائی قریبی رشتے داروں (ماں‘ باپ‘ بیٹا‘ بیٹی) کے بیانات کو درست سمجھتے ہیں۔ مگر یہاں تو بعض ایسے خاندان ہیں جو پورے کے پورے ختم کر دیے گئے ہیں۔ ہم لوگوں کو بلاتے ہیں کہ وہ اپنے عزیزوں کو پہچانیں‘ پھر لاشوں کو کفناتے‘ نماز جنازہ ادا کرتے اور الگ الگ دفن کرتے ہیں۔ ہر قبر پر میّت کا نام لکھتے ہیں۔

سب سے بڑی اجتماعی قبر زفورنیک میں دریافت ہوئی جس میں ۲۷۰ مسلمانوں کے ڈھانچے تھے۔ اس کے بعد لانیچ گائوں کی اجتماعی قبر ملی جس میں ۱۸۸ مسلمان دفن تھے۔ اس کے بعد کلیوچ شہر کی قبر ہے جس میں ۵۱ ڈھانچے تھے۔ فوچا میں ۷۰ مسلمان مرد و زن کو قتل کرنے کے بعد اکٹھا دفنایا گیا۔ اس قبرپر بوسنیا کی قدیم اور خوب صورت ترین مسجد ’الام جامع‘‘ کا کچھ ملبہ ڈالا گیا۔ یہ مسجد پندرھویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ قبریں مختلف علاقوں میں ہیں‘ مثلاً پہاڑوں‘ جنگلوں ‘ دریائوں کے کناروں اور وادیوں میں۔ قبر کی زیرزمین گہرائی ۶ میٹر اور ۴۰ میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ جس اجتماعی قبر میں ہمیں ۱۸۸ ڈھانچے ملے‘ یہ سرب فوج کے کیمپ کے وسط میں تھی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ بھیانک جرائم سربوں کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے حکم سے ہوئے۔ میں‘ آپ کو مسلمانوں کے اس قتل عام کے واقعات‘ رکے بغیر سناتا جائوں تو ختم ہونے میں نہ آئیں۔

دھاندلی یہ ہے کہ مغرب‘ لاپتا افراد کی تلاش وغیرہ کے سلسلے میں سربیا‘ کروٹیا اور بوسنیا کو برابر مالی امداد دیتا ہے۔ بوسنیا کا فنڈ تین گروہوں یعنی مسلمانوں‘ آرتھوڈکس اور کیتھولک میں تقسیم ہوتا ہے‘ حالانکہ سربوں اور کروٹوں کی کوئی اجتماعی قبر نہیں ہے۔ ہم نے صرف پچھلے ایک ماہ میں مختلف عمروں کے مسلمان مرد و زن کے ۳۲۰ ڈھانچے دریافت کیے۔ سرب اور کروٹ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انھوں نے اجتماعی قبر دریافت کی ہے۔ کبھی یہ لوگ اپنے فوجیوں کی لاشوں کو اجتماعی قبر ظاہر کردیتے ہیں مگر کوئی بھی ان کی بات کو سچ نہیں مانتا‘ اس لیے کہ سائنس‘ طب اور ابلاغیات کے اس دَور میں دھوکا دینا مشکل ہے۔

ابھی تک ۳۰۰ اجتماعی قبروں کا پتا نہیں چل رہا۔ بوسنیائی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک بوسنیا سے باہر ہے۔ یہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت‘ اس امر کے سب سے بڑے گواہ ہیں کہ مسلم شہریوں پر کیا گزری او راجتماعی قبریں کہاں کہاں ہیں۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو مار ڈالا گیا اور وہ قاتلوں کو بھی پہچان سکتے ہیں۔ انھی اشخاص میں سے ایک ہائی اسکول کے مدرس تھے۔ یہ اومارسکا کے سرب کیمپ میں گرفتار تھے مگر بچ نکلے۔ اس علاقے میں ہمیں ایک اجتماعی قبر ملی جس میں ۵۰ افراد کے ڈھانچے تھے۔ ہمیں مقتولین کے بارے میں کچھ نہیں پتا چل رہا تھا۔ یہ مدرس آئے‘ انھوں نے ہمیں مدفون افراد کے نام بتائے‘ مقتولوں کی زیادہ تعداد ان کی کلاس کے طلبہ کی تھی۔ جرمنی اور دیگر ممالک میں مقیم بوسنیائی ہمیں اجتماعی قبروں کے بارے میں بتاتے ہیں لیکن وہ اس ڈر سے اپنے ملک میں نہیں آتے کہ کہیں وہ متعلقہ ملک کی شہریت سے محروم نہ ہوجائیں اور یوں روزی روٹی سے بھی رہ جائیں۔

بین الاقوامی قوتوں کی سازباز:  ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مغربی ممالک نے بوسنیائی شہریوں کو عمداً بوسنیا سے نکل جانے پر مجبور کیا تھا تاکہ بوسنیا مسلمانوں سے خالی ہو جائے۔ وہ انھیں موت سے بچانے کا جھانسا دیتے تھے مگر اصل مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ مسلم دفاعی افواج میں شامل نہ ہوں۔ فرانسیسی افواج نے کرونیا کے صوبے میں ہزاروں سویلین مسلمانوں کے قتل عام کا مشاہدہ کیا مگر کسی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔ بریڈورمیں ۲۲ ہزار مسلمان قتل ہوئے ‘ فرانسیسی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے ۸۰ اشخاص کو نکالا گیا اور گہرا گڑھا کھود کردفن کیا گیا۔ یہ سب کچھ فرانسیسی فوجیوں کے علم میں تھا مگر انھوں نے کچھ نہ بتایا۔ ہم نے خود اس قبر کو تلاش کیا‘ شہدا کے ڈھانچے نکالے‘ جنازہ پڑھا اور شہدا کے قبرستان میںدفن کیا۔ ہالینڈ کے عسکری کیمپ میں ۳ ہزار ۵ سومسلم سویلین تھے جنھیں سربوں کے حوالے کر دیا گیا۔ جوارجدہ کے مذبح کے بعد‘ انگریز فوجی سربوں کو دیکھ کر صلیب کا نشان بنا رہے تھے تو ٹیلی وژن کیمروں نے اسے ریکارڈ کیا اور بعد میں اسکرین پر دکھایا۔

کئی بین الاقوامی شخصیات‘ مختلف انداز سے بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ چونکہ انھیں تحفّظ حاصل ہے‘ اس لیے انھیں عدالت میں لانا ناممکن ہے‘ جیسے بطروس غالی‘ یا سوشی اکاشی‘ کارل بلٹ‘ جنرل موریاں‘ جنرل مکنیزی۔ مؤخرالذکر پانچ مسلم دوشیزائوں کو زبردستی کینیڈا بھیجنے کے جرم میں شامل ہے۔

ہالینڈکی وزارتِ دفاع نے وہ تمام کیسٹیں جلا ڈالیں جو ہالینڈ کے فوجیوں کی سربوں کے ساتھ ملی بھگت کا ثبوت تھیں۔ فرانسیسی فوجی‘ سرائیوو ایئرپورٹ پر صحافیوں کی تلاشی لیتے اور وہ کیسٹیں چھین لیتے تھے جو مختلف جرائم کا ثبوت ہوتیں یا جن کا بین الاقوامی فوجیوں کے بالعموم اور فرانسیسی افواج کے بالخصوص جرائم سے تعلّق ہوتا۔ بوسنیائی حکام کو ہالینڈکے میجر فرانکن کے دفتر سے ایک رجسٹر ملا‘ جس میں‘ اُس نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا کہ ہالینڈ کی افواج کے کیمپ میں ۲۷۱ مسلم بوسنیائی شہری تھے ‘ مگر تین کے سوا باقی سب کو قتل کر دیا گیا۔

لاپتا افراد کے عزیزوں کی حالت زار:  بوسنیا کے بے شمار مسلمان لاپتا ہیں جن کے انجام سے کوئی واقف نہیں۔ ایک ماں نہیں جانتی کہ اس کا بیٹا زندہ ہے یا موت کے گھاٹ اتر چکا ہے۔ بیوی کو اپنے خاوند کے زندہ بچ رہنے یا فوت ہو جانے کی خبر نہیں۔ موت کا یقین ہو جانے پر تو بالآخر صبر و قرار آہی جاتا ہے مگر لاپتا فرد کے عزیزوںکو کسی پل چین نہیں آتا۔ بہت سی نوجوان عورتوں کے خاوند لاپتا ہیں‘ ان عورتوں کی عمر ۱۸ سے ۲۰ سال کے لگ بھگ ہے۔ یہ نوجوان عورتیں سخت نفسیاتی کرب میںمبتلا ہیں۔ ہر روز ہمارے پاس لاپتا افراد کی مائیں آتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ان کے بیٹوں کے بارے میں کچھ پتا چلا۔ پھر کہتی ہیں کہ ہمیں کوئی ہڈی دے دو یا کوئی اور نشانی دے کر کہو کہ یہ تمھارے بیٹے کی ہے تاکہ ہم اس کی قبر بنائیں اور اس قبر پر جایا کریں۔ اسی طرح بیویاں اپنے لاپتا شوہروں کے بارے میں پوچھتی ہیں۔ ایک ماں کا بیٹا شہید ہو گیا تھا‘ وہ میرے پاس آتی ہے‘ اپنے بیٹے کے بارے میں جاننا چاہتی ہے تاکہ قبر پر جایا کرے۔ ایک ماں رامیزا‘ ہماری کمیٹی کے دفتر میں قرآن شریف کے نسخے لے کر آئی اور کہا: ’’میرے بیٹے کی تلاش کے وقت قرآن شریف ساتھ رکھا کرو۔ ڈرو نہیں‘ قرآن پاک کی موجودگی میں‘ اللہ کے حکم سے‘ آپ کو کوئی خطرہ نہ ہوگا‘‘۔

والدہ اور بیوی کے حقوق

سوال: مجھے درج ذیل تین اہم مسائل درپیش ہیں۔ ان میں میری رہنمائی فرما دیجیے۔

۱- میری ماہانہ تنخواہ ۲۵ ہزار روپے ہے۔ میری دو بیٹیاں ہیں۔ والد صاحب انتقال فرما چکے ہیں‘ جب کہ بوڑھی والدہ میری دو چھوٹی بہنوں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ علیحدہ رہتی ہیں۔ دو بڑے بھائی ہیں جو الگ رہتے ہیں لیکن والدہ کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ میں اپنی والدہ کو ہر ماہ ۶ ہزار روپے بھیجتا ہوں۔ ان کا اس کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدنی نہیں۔ میری بیوی کا میرے ساتھ اس بات پر مستقل جھگڑا رہتا ہے کہ میں اپنی بچیوں کا خیال نہیں کرتا ‘ ان کے لیے پیسہ جمع نہیں کرتا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں یا تو بالکل پیسے نہ بھیجوں یا پھر صرف ۳ ہزار روپے بھیجوں‘جب کہ ہمارے گھریلو اخراجات بہ خوبی چل رہے ہیں۔ میرے لیے ناممکن ہے کہ بوڑھی والدہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دوں۔ جھگڑے سے بچنے کے لیے میں کیا رویہ اختیار کروں؟

۲- میں ہر ماہ والدہ سے ملنے آبائی گھر بھی جاتا ہوں جس پر خرچ بھی اٹھتا ہے۔ میری بیوی اس پر جھگڑتی ہیں اور کہتی ہیں کہ چار پانچ ماہ بعد جایا کروں‘ ماہانہ خرچ بھی بھیجتے ہیں اور ہر ماہ جاتے بھی ہیں‘ یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہے۔ میرے لیے ناممکن ہے کہ والدہ کو نہ ملوں۔

۳- میں جماعت اسلامی کا رکن بھی ہوں۔ دفتری مصروفیات کے بعد کچھ نہ کچھ وقت تحریکی کاموں کو دیتا ہوں۔ پھر چھٹی کے روز چونکہ طویل پروگرام ہوتے ہیں‘ ان میں بھی شرکت کرتاہوں۔ وہ اس بات پر جھگڑتی ہیں کہ میں دفتر یا جماعت کو زیادہ وقت دیتا ہوں‘ گھر اور بچیوں کے لیے میرے پاس کوئی وقت نہیں۔ میری اہلیہ طالب علمی کے زمانے سے جمعیت کی مخالف تنظیم کی سرکردہ رکن رہی ہیں۔ وہ لٹریچر کا مطالعہ بھی نہیں کرتی ہیں بلکہ مجھے نماز کی ادایگی کے لیے مسجد جانے سے روکتی ہیں اور بسااوقات بچیوں کو پیچھے لگا دیتی ہیں۔ سختی کروں تو کہتی ہے کہ جماعتیوں کا اپنی بیویوں سے صحیح رویہ نہیں ہوتا۔ میرے لیے تو تحریک مقصد زندگی ہے۔ میں نے ایک بار کہا بھی کہ جماعت اسلامی یا بیوی میں سے ایک کو ترجیح دینا پڑی تو جماعت کو ترجیح دوں گا۔ گھر میں جھگڑے اور مستقل تنائو کی کیفیت ہے۔

جواب: آپ کا خط ہمارے آج کے معاشرتی ماحول کی بہترین عکاسی اور بعض بنیادی زمینی حقائق کی نشان دہی کرتاہے۔ آپ کی اہلیہ کا مطالبہ کہ آپ ان کو اور اپنی بچیوں کو وقت دیں اور خصوصاً اتوار کا دن صرف ان کے لیے وقف کر دیں حتیٰ کہ نماز بھی گھر میں ادا کریں‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ الحمدللہ آپ کی اہلیہ آپ سے بہت قلبی تعلّق رکھتی ہیں اور اس بنا پر چاہتی ہیں کہ آپ ان کی نگاہوں کے سامنے گھر میں رہیں۔ مزید یہ کہ وہ آپ کی بچیوں سے بھی بہت محبت کرتی ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کی ضروریات کی طرف سے فکرمندی کی بنا پر چاہتی ہیں کہ آپ ان کے لیے جو کچھ مال و زر بچا سکتے ہیں‘ محفوظ کر لیں تاکہ انھیں آیندہ کوئی تکلیف نہ ہو۔ یہ دونوں پہلو بہت قابل قدر ہیں۔ لیکن اپنے اور آپ کے اور آپ کی بچیوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم پہلو جو غالباً ان کی نگاہ سے اوجھل ہو گیا اسے قرآن کریم میں یقینی طور پر آنے والے دن (الیوم) سے تعبیر کیا گیاہے۔ کہیں اسے یومِ عظیم کہا ہے‘ کہیں یوم الفرقان‘ یوم الآخر اور یوم الدین۔

دراصل ہم آج کی ضروریات اور خواہشات میں اتنے گم ہو جاتے ہیں کہ یقینی طور پر واقع ہونے والی کَل کو بھول جاتے ہیں۔ بچیوں کی تعلیم‘ ان کے لیے سازوسامان کی فراہمی اور وقت آنے پر ان کے ہاتھ رنگین کر کے انھیں اپنے گھر کا بنانا ‘ یہی وہ فوری معاملات ہیں جو ہمارے ذہن پر چھائے رہتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو ایک دن اپنی دولت‘ وقت‘ صحت اور سب سے بڑھ کر ادایگی حقوق کا حساب دینا ہے‘ اور یہاں کی چند روزہ زندگی کے مقابلے میں ایک ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہونا ہے۔ اُس زندگی میں اگر اہل خانہ سکون‘ آرام اور راحت میں نہ ہوں تو ماں باپ کو بھی کبھی چین نہیں آسکتا۔ اس لیے اِس زندگی میں اولاد اور بیوی کی صرف اس خواہش کا احترام کرنا چاہیے جو صاحب خانہ اور اہل خانہ کو آخرت میں مشکل پریشانی اور تکلیف میں مبتلا نہ کرے۔

اب آیئے قرآن کریم کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ایک شخص جو کچھ کماتا ہے‘ اس مال پر کس کا حق ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:

یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o (۲:۲۱۵) لوگ پوچھتے ہیں‘ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرواپنے والدین پر‘ اقربا پر‘ یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی بھی تم کروگے اللہ اس سے باخبر ہوگا ۔

یہاں اپنی کمائی خرچ کرنے کے حوالے سے سب سے پہلے والدین کا حق قیامت تک کے لیے طے کر دیا گیا ہے۔ پھر اقربا‘ بیوی‘ اولاد اور دیگر رشتے دار اور پھر یتیم‘ مسکین اور مسافر۔ گویا اہمیت کے لحاظ سے والدین کا ذکر خود اپنی اولاد اور بیوی سے پہلے کیا گیا۔ اس بات کو سورہ بنی اسرائیل میں ’’والدین کے ساتھ احسان کرو‘‘ (۱۷:۲۹) کہا گیا۔ یہاں احسان کا مفہوم وہ نہیں جو ہم اردو میں سمجھتے ہیں بلکہ قرآن میں اس کا مفہوم بہترین‘ احسن اور بدرجہ کمال ایک کام کا انجام دینا ہے جسے ہم excellence اور perfection کہتے ہیں۔

والدین اور خصوصاً والدہ کا عملی شکریہ اپنی خدمت‘ محبت‘ احترام اور ان کی ہر خوشی پوری کرنے کی شکل میں کرنے کا حکم بھی قرآن کریم نے یوں دیا: ’’یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا: ’’بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اس لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۴) اس بات کو  سورہ الاحقاف (۴۶:۱۵) اور سورہ العنکبوت (۲۹:۸) میں دہر ایا گیا۔ اسی طرح  سورہ بنی اسرائیل میں واضح احکام اس سلسلے میں دیے گئے ’’ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا‘‘ ایک یا دونوں کے بوڑھے ہونے کی شکل میں ’’انھیں اُف تک نہ کہنا‘‘ ‘ ’’احترام سے بات کرنا‘‘ اور ان کے لیے ہر وقت دعا کرنا کہ ’’پروردگار‘ ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔ (۱۷:۲۳-۲۴)

ان آیات قرآنی سے یہ بات واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے کہ اولاد کاوالدین پر خرچ کرنا‘ ان سے نرمی‘ محبت و احترام سے بات کرنا‘ ان کا کہنا ماننا‘ ان کی خوشی کرنا‘ اور ان کے لیے دعا کرنا یہ والدین کا حق ہے۔ آپ کو علم ہے‘ حق کسی پر احسان نہیں ہوتا بلکہ اس کا ادا نہ کرنا گرفت کا باعث بنتا ہے۔

ایک حدیث صحیح میں یوں آتا ہے کہ ایک صحابیؓ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہ شکایت کی کہ وہ مالی طور پر زیادہ مستحکم نہیں ہیں‘ جب کہ ان کا بیٹا مالی طور پر مستحکم ہے اور ان پر خرچ نہیں کرتا۔ آپؐ نے ان صحابی کے بیٹے کو بلا کر فرمایا کہ تم اور تمھارا مال تمھارے باپ کا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی مشہور حدیث ‘ جس میں کسی کے پوچھنے پر آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ ’’حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ماں ہے‘‘ (بخاری)‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔پھر مسلم کی وہ حدیث جس میں آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا: ’’اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل ہو)‘‘۔ لوگوں نے پوچھا کہ کون ذلیل ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا‘ ان دونوں میں سے ایک کو یا دونوں کو‘ پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا‘‘۔

اتنی واضح قرآنی آیات اور احادیث کی موجودگی میں صرف وہی شخص جو آخرت میں ذلیل ہونا چاہتا ہو‘ اپنی ماں یا باپ پر خرچ کرنے سے ہاتھ روکے گا۔

گویاآپ کا اپنی والدہ ‘ دو چھوٹی بہنوں اور ایک چھوٹے بھائی پر خرچ کرنا ان کا حق اور آپ کا فریضہ ہے۔ اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو نہ صرف آپ بلکہ جو آپ کو اس فریضے سے باز رکھے وہ بھی جواب دہی میں شریک ہوگا۔اپنی اہلیہ اور بچیوں کی ضروریات پورا کرنے کے بعد آپ جو رقم بھی والدہ ‘ بہنوں اور بھائی پر خرچ کریں حقیقتاً وہی آپ کی اصل بچت ہے جس کا اجر آپ کو‘ آپ کی اہلیہ اور بچیوں کو بھی ان شاء اللہ ملے گا۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ اپنے تمام مالی معاملات اہلیہ کے حکم سے طے کریں۔ نہ یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے حقوق کی ادایگی اُن سے جھوٹ بول کر کریں۔ آپ کی اہلیہ کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آپ کی کمائی میں ان سے پہلے آپ کے والدین کا حق ہے۔

آپ کا اپنی والدہ سے ہر ماہ جا کر ملاقات کرنا عین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اس میں چھ سات گھنٹے لگیں یا زیادہ‘ یہ ان کا حق ہے۔ اس کا کوئی تعلّق ماہانہ خرچ کے ساتھ نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اسے ’’صلہ رحمی‘‘ یعنی رشتے کے احترام سے تعبیر کیا ہے‘ جب کہ ایسا نہ کرنا ’’قطع رحمی‘‘ یا رشتے کو توڑنا قرار دیا ہے۔ مجھے یقین ہے آپ کی اہلیہ اپنی اولاد کے بارے میں کبھی یہ پسند نہیں کریں گی کہ جب آپ کی اولاد بڑی ہو جائے تو وہ انھیں اور آپ کو اپنی محبت اور تعلّق سے آگاہ کرنے کے لیے سال میں صرف ایک مرتبہ ایک کارڈ پر یہ لکھ کر بھیج دیا کریں کہ ’’مجھے آپ سے بہت محبت ہے‘‘ ‘بلکہ وہ لازماً یہ چاہیں گی کہ ان کی اولاد ان کی مزاج پرسی اور دل جوئی کے لیے کم سے کم وقفے کے بعد ان سے آکر ملتی رہے۔

جہاں تک آپ کی تحریکی ذمہ داریوں کا تعلّق ہے‘ اپنے اتوار کے اوقات کار کو اس طرح مرتب کیجیے کہ دعوتی کام کے ساتھ کچھ وقت گھر میں بھی دے سکیں۔ گھر کا محاذ باہر کے محاذ سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ ترمذی میں حضرت ثوبانؒ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہتر ذخیرہ اللہ کو یاد کرنے والی زبان اور اللہ کے شکر کے جذبے سے معمور دل اور نیک بیوی ہے جو دین کی راہ پر چلنے میں اپنے شوہر کی مددگار بنتی ہے‘‘۔ اگر آپ کی محبت بھری کوشش سے آپ کی اہلیہ اس حدیث کے مصداق بن جائیں تو یہ تحریک اسلامی ہی کا کام ہے۔

گھریلو ماحول کو بہتر بنانا آپ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ حدیث شریف میں سربراہ خاندان کو اپنے اہل خانہ پر مسئول کیا گیا ہے۔ لیکن اس حدیث میں یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ ایک بیوی اپنے شوہر کے مال اور بچوں پر مسئول‘ نگراں یا جواب دہ ہے۔ باہمی انسانی تعلّقات ایک بہت نازک معاملہ ہے۔ اس میں قانونیت کی جگہ حکمت‘ محبت ومؤدت زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ اگر آپ کی اہلیہ تحریکی لٹریچر میں دل چسپی نہیں لیتیں تو اس کا سبب تنہا وہ نہیں‘ خود آپ کا طریق دعوت بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ اپنی اہلیہ کو ہدایات دینے کی جگہ ان سے اپنے لیے ہدایت طلب کریں اور دریافت کریں کہ فلاں معاملے میں مجھے کیا کرنا چاہیے‘ اس سلسلے میں قرآن و سنت کیا کہتے ہیں‘ تووہ آپ کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے مطالعے پر مجبور ہوں گی اور ان شاء اللہ‘ اللہ کے کلام اور اللہ کے رسولؐ کی سنت کا مطالعہ براہِ راست کریں گی تو اس کام کی برکت سے ان کی فکر خود بخود تبدیل ہو گی۔ آپ کا یہ کہنا کہ اگر انتخاب کرنا ہو تو تحریک آپ کی اوّلیت ہوگی‘ ایک قابل قدر جذبہ ہے لیکن اس بات کا کہنا حکمت کے منافی ہے۔ آپ کے یہ کہنے کے بعد اگر آپ کی اہلیہ تحریک کے ساتھ سوکن کی طرح پیش آتی ہیں‘ تو یہ بالکل فطری بات ہے۔ کوشش کیجیے کہ نہ آپ کا کچھ کہنا حرفِ آخر ہونہ وہ ضد کو اپنائیں‘ بلکہ دونوںخلوصِ نیت کے ساتھ قرآن و حدیث سے رہنمائی طلب کریں۔ اس طرح بغیر کسی ’’انا‘‘ کے ٹکرائو کے آپ دونوں کو فکری یک جہتی کا موقع ملے گا۔

نماز باجماعت کے اجر اور افضل ہونے پر احادیث میں واضح ہدایات پائی جاتی ہیں۔ آپ محبت اور نرمی سے ان احادیث کو اپنی اہلیہ سے پڑھوا کر سنیں اور ان سے پوچھیں کہ ان پر کس طرح عمل کیا جائے۔ اپنی بچیوں کو بھی ان احادیث کو سننے اور سمجھنے پر آمادہ کریں تاکہ جب آپ جماعت سے نماز پڑھنے جائیں تو وہ بجائے راستہ روکنے کے خوش ہوں۔ بیوی بچوں کے ساتھ سختی کے رویے کی جگہ محبت و نرمی کا رویہ سنت اور قرآن کو مطلوب ہے۔نبی کریم ؐ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب سے زیادہ اچھے‘ محبت کرنے والے اور دوسروں کی فکر کرنے والے تھے۔ اس لیے آپ کو بھی محبت اور نرمی سے اپنے اہل خانہ کو تحریک سے قریب لانا چاہیے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

مقبوضہ کشمیر میں قربانی

س : میں عیدالاضحی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں قربانی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے قربانی کا اہتمام کرنے والی تنظیم سے طریقۂ کار دریافت کیا تو معلوم ہو ا کہ ہر سال عید سے قبل جانور کی قیمت کا اندازہ لگا کر قربانی کی قیمت کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ قربانیوں کی متوقع تعداد کا اندازہ لگا کر رقم پہلے ہی مقبوضہ کشمیر بھیج دی جاتی ہے اور شہدا ‘ متاثرین اور مجاہدین کے گھروں میں قربانی کا انتظام بھی بروقت کر لیا جاتا ہے۔ ملک اور بیرون ملک سے لوگ قربانی کی رقم عید سے ایک روز پہلے تک جمع کرواتے رہتے ہیں۔ حتمی تعداد مقبوضہ کشمیرمیں منتظمین کو بتا دی جاتی ہے۔ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ جانوروں کی تعداد ان لوگوں کی طرف سے پوری کر لی جائے جو قربانی کرانا چاہتے ہیں۔ اس طریق کار میںقربانی کے لیے رقم فراہم کرنے والوں کے نام تنظیم کے پاس موجود ہوتے ہیں اور قربانی انھی کی طرف سے ہوتی ہے‘ لیکن ہر جانور پر قربانی کرنے والے کا نام لینا ممکن نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کرنے والے کا نام جانور ذبح کرتے وقت لیا جانا ضروری ہے۔ براہِ کرم اس پورے نظام کی شرعی حیثیت سے آگاہ کریں۔

ج : کسی کی طرف سے کوئی دوسرا آدمی اس وقت قربانی کر سکتا ہے جب اسے کہا جائے کہ اس کی طرف سے قربانی کر دیں یا کرا دیں۔ اس لیے کوئی بھی فرد یا تنظیم پاکستان یا کشمیر میں کسی فرد یا تنظیم کو ان لوگوں کی طرف سے قربانیوں کے لیے کہہ سکتی ہے جنھوں نے اسے قربانیوں کے لیے کہا ہو اور ان کے نام اس کے پاس ہوں۔ اس طرح جگہ جگہ سے قربانیوں کے جو آرڈر ملیں گے ان سب کی مجموعی تعداد اپنے ناموں کے ساتھ متعین ہوگی۔ پاکستان یا کشمیر میں جو لوگ دوسروں کی طرف سے قربانیاں کرائیں گے وہ اس نیت سے قربانیاں کرائیں گے کہ یہ قربانیاں ان لوگوں کی طرف سے باری باری کی جا رہی ہیں جن کی قربانیوں کے لیے کہا گیا ہے۔

اس لیے قربانی کی قیمت کا قبل از وقت اندازہ کر لیا جائے اور مقبوضہ کشمیر میں منتظمین کو قربانیوں کی خریداری کی ہدایت علی الحساب دے دی جائے اور رقم بھی علی الحساب بھیج دی جائے لیکن واضح کر دیا جائے کہ یہ سب کچھ علی الحساب ہے۔ حتمی تعداد کا تعین ہونے کے بعد اس کے مطابق ایک بار پھر اطلاع کر دی جائے کہ ہمارے پاس اتنے افراد کی قربانی آئی ہے‘ آپ ان کی طرف سے علی الترتیب اتنی قربانیاں کر دیں۔ جو رقم ہم نے آپ کو بھیجی ہے اس کے عوض ہم نے متعلقہ لوگوں سے رقم وصول کر لی ہے‘ اور جو قربانیاں زائد خریدی گئی ہیں‘ ان کو فروخت کر کے رقم اپنے پاس ہمیں واپس دینے کے لیے رکھ لیں۔ اگر اس طرح قربانی کی جائے گی تو متعلقہ لوگوں کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔ آپ اگر کشمیر میں قربانی کرانا چاہیں تو مذکورہ طریقے کے مطابق کرا سکتے ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری‘ ج ۳‘ ص ۳۵۱)  (مولانا عبدالمالک)

 

بچوں کا دینی لغت ‘ محمد اسحاق جلال پوری۔ ناشر: ادب الاطفال‘ ۴-اے‘ سیکٹر ۴-بی‘ خیابانِ سرسید‘ راولپنڈی۔صفحات: ۲۶۰۔ قیمت: مجلد ۲۰۰ روپے‘ کارڈکور: ۱۵۰ روپے۔

زیرنظر کتاب میں ثانوی مدارس تک کے بچوں کو دینی نوعیت کے الفاظ و تراکیب اور اصطلاحات کے ذریعے دین کی بنیادی تعلیمات ‘ عقائد‘ عبادات‘ اسلامی تاریخ‘ دینی شخصیات اور دینی اماکن وغیرہ سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے (مثلاً: اشراق‘ فارقلیط‘ ذمّی‘ اشہر الحرام‘ تشہّد‘ جنت المعلّٰی‘ شنبہ‘ خسوف‘ صحاح ستّہ‘ طور‘ سبا‘ سجدئہ سہو‘ رکن یمانی‘ شارع‘ کفو وغیرہ)۔ اس اعتبار سے اہم بنیادی دینی الفاظ و اصطلاحات کی تشریح و تفصیل پر مبنی اس مفید کتاب میں‘ فراہمی معلومات کے ساتھ تربیتِ اطفال کا مقصد بھی پیشِ نظر رہا ہے۔ چنانچہ بعض صفحات پر بچی ہوئی خالی جگہوں کو ۴۰ مختصر احادیث کے متن اور ترجمے کے ذریعے پُر کیا گیا ہے۔ احادیث کا یہ انتخاب بچوں کے لیے خاص معنویت رکھتا ہے اور ذہن سازی میںمعاون ہے۔

بچوں کا دینی لغت کی زبان سلیس اور آسان ہے۔ اختلافی مباحث سے گریز کرتے ہوئے  مولّف نے اعتدال و توازن کو ملحوظ رکھا ہے۔ مولّف نے یہ کام ویسی محنت‘ لگن اور باریک بینی سے انجام دیا ہے جو معیاری تحقیق کا خاصہ ہے۔ صحت تلفظ کے لیے الفاظ و اصطلاحات پر اِعراب لگائے گئے ہیں۔ مزیدبرآں الفاظ کے بجائے ہجائی ارکان (syllables) کے ذریعے درست تلفظ کی صراحت کر دی گئی ہے۔ لغت میں یہ اہتمام اس لیے قابل قدر ہے کہ متعدد الفاظ و تراکیب کے تلفظ اور املا میں غلطی کی جاتی ہے‘ جیسے:  شبِ بَراْ ئَ ت‘

 قِرا ئَ ت‘ لِلّٰہ‘ رحمتہٌ للعالمین (یہی ان کی صحیح صورت ہے)۔ البتہ بعض الفاظ کے اِملا میں تبصرہ نگار کو مولّف سے اتفاق نہیں ہے‘ مثلاً: جراء ت (ص ۱۶۹) میں ہمزہ زائد ہے۔ اسی طرح ’’اشیاء’’ (ص ۱۶۹)  (اور اسی طرح شعرا‘ ارتقا‘ وغیرہ)کو بلاہمزہ لکھنا بہتر ہے کیوں کہ اب یہ اُردو الفاظ ہیں‘ نہ کہ عربی--- (جیسا کہ بیسیوں عربی الفاظ‘ اردو میں رائج ہوئے تو اِن کا املا بدل گیا‘ اور اس تبدیل شدہ اِملا ہی کو صحیح سمجھا جاتا ہے‘ جیسے: مولا (نہ کہ مولیٰ) وغیرہ۔ کہیں تشنگی کا احساس ہوتا ہے جیسے: ص ۱۶۹پر عجمی غلام کا نام دینا مناسب تھا۔  ص ۱۷۲ پر احادیث کے متن میں اِعراب رہ گئے۔

آخر میں ۱۶ تصاویر کے ذریعے اداے نماز کا صحیح طریقہ سمجھایا گیا ہے۔ نیت باندھنے‘ ہاتھ باندھنے‘ رکوع‘ قومے‘ سجدہ اور اس میں ہاتھوں‘ پیروں اور پیشانی کی حالت‘ اسی طرح جلسے اورقعدے میں مردوں اور خواتین کے پیروں کی حالت (بچوںاور بچیوں کی) تصاویر شامل ہیں۔

بچوں کا دینی لغت اپنی نوعیت کی ایک مستحسن اور قابل قدر کوشش ہے جو بچوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں‘ بلکہ بڑوں کے لیے بھی لائق استفادہ ہے۔ پروفیسر اصغر علی شیخ کی یہ تجویز قابل توجہ ہے کہ اس لغت کو انگریزی کے قالب میں ڈھال کر بھی چھاپنا چاہیے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اشاریہ رسائل و مسائل‘ میجر (ر) محمد اقبال مراد پوری۔ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۶۳۔ قیمت: ۳۰ روپے۔

مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ستمبر ۱۹۳۲ء میں ماہ نامہ ترجمان القرآن کی ادارت سنبھالی تو حیدرآباد (دکن‘ ہندستان) سے نکلنے والے اس رسالے کے بارے میں اس کے مدیر سمیت شاید کسی کو یہ اندازہ نہ ہوگا کہ ایک ڈیڑھ عشرے میں یہ جریدہ برصغیر میں احیاے اسلام کی تحریک کا ایک منفرد علم بردار ثابت ہوگا۔ اس کی فکر بالآخر سارے عالمِ اسلام کی رہنمائی میں ایک ممتاز مقام اختیار کر لے گی‘ اور لوگ اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کریں گے۔ مولانا مودودیؒ نے  رسائل و مسائل کے عنوان سے اس جریدے میں ایک مستقل سلسلہ شروع کیا تھا‘ جس میں وہ لوگوں کے استفسار پر اُن کے شبہات‘ اشکالات اور مختلف نوعیتوں کے سوالات کے جواب دیتے تھے۔ بعد میں ملک غلام علیؒ اور پھر دوسرے حضرات کے ذریعے ترجمان میں یہ سلسلہ جاری ہے۔

مولاناؒ کی زندگی ہی میں رسائل و مسائل کے عنوان سے ان سوالات و جوابات کو مرتب کر کے شائع کر دیا گیا تھا۔ اس کتاب کی پہلی پانچ جلدیں مولاناؒ کے جوابات پر مشتمل ہیں اور چھٹی اور ساتویں ملک غلام علیؒ کے جوابات پر۔ سوالات کی نوعیت‘ آخرت‘ آسمان‘ آلات موسیقی سے لے کر ملازمین کے حقوق‘ واقعۂ قرطاس‘ وضو اور ویٹو تک اتنے متنوع موضوعات پر مشتمل ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ مولانا اپنی بھرپور مصروفیات کے باوجود ان مسائل پر غوروفکر اور (اکثر) تشفی بخش جوابات کے لیے کیوں کر وقت نکال پاتے تھے۔ بعض جوابات تو اتنے تفصیلی ہیں کہ اپنی جگہ ایک پورے مقالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

رسائل و مسائل کی جلدوں میں اگرچہ ان جوابات کو مختلف عنوانوں کے تحت جمع کر دیا گیا تھا‘ تاہم اس کی ضرورت تھی کہ ان سب جلدوں کے عنوانات کو ایک تفصیلی اشاریے کے تحت یک جا کیا جاتا کہ ان سے رجوع کرنے میں آسانی ہوتی۔ خرم جاہ مرادؒ نے اس ضرورت کو محسوس کیا‘ اور میجر (ر) محمد اقبال نے ان کی ایما پر اس کام کی تکمیل کی۔ پیشِ نظر اشاریے میں الف بائی ترتیب کے ساتھ رسائل و مسائل کی

سات جلدوں کے موضوعات کو ’’آخرت‘‘ سے لے کر ’’یہودی‘‘ تک کے عنوانات کے تحت جمع کر دیا گیا ہے۔ ان کتابوں کے دو ایڈیشنوں (اپریل ۱۹۹۵ء سے شائع ہونے والے اور مئی ۱۹۹۷ء سے اشاعت پذیر) کے صفحات کے حوالے دیے گئے ہیں۔ لیکن ۱۹۹۵ء میں شائع شدہ چھوٹی تقطیع کے ایڈیشن دراصل اس سے پہلے ہی کے شائع شدہ ہیں‘ اس کی وضاحت ضروری تھی۔ اس اشاریے میں موضوع کے بعد متعلقہ جلد اور صفحے کے حوالے کے بعد موضوع کی مختصر وضاحت بھی کر دی گئی ہے‘ جس سے جواب کے مشتملات کا پتا چلتا ہے  (تاہم بعض عنوانات جیسے ’’قزع‘‘ ‘ ’’قیام للخیر‘‘  ‘  ’’محرمات‘‘ کی بہتر وضاحت ہو جاتی تو اچھا تھا)۔ اس طرح رسائل و مسائلکے اس نہایت قابل قدر ذخیرے تک رسائی نہایت سہل ہو گئی ہے اور قاری رسائل و مسائلکے سیکڑوں صفحات کی ورق گردانی سے بچ سکتا ہے۔ اگرچہ بغیر کسی متعین سوال کے بھی ان صفحات کی ورق گردانی ایک نہایت مفید‘ مسّرت انگیز اور حیران کن تجربہ ہوگی۔ مولاناؒ کی تحریریں‘ علم و آگہی کا ایک بحرِزخّار ہیں۔ کاش کوئی ادارہ ان سب کا ایک معیاری اشاریہ تیار کر دے اور سب کتابیں ایک معیاری ہیئت (format) میں شائع ہو جائیں۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


تجلیات صحابہؓ  ‘ عامر عثمانی‘ مرتبہ: سید علی مطہر نقوی امروہوی۔ ناشر: مکتبہ الحجاز‘ اے ۲۱۹‘ بلاک سی‘ شمالی ناظم آباد‘ حیدری‘ کراچی۔ صفحات: ۶۶۱۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

صحابہ کرام ؓ کی حیات مقدسہ پر لکھنا ایک سعادت ہے۔ تاہم‘ سیرت صحابہؓ پر لکھنے کے لیے ایمان و ایقان کی نعمت کے ساتھ ساتھ علمی دیانت کی دولت بھی ضروری ہے۔ مزید برآں فکرونظر کا وہ زاویہ بھی جو حقائق اور حکایات و قصص میں تفریق کر سکے۔ گذشتہ چودہ سو برس کے دوران بہت سے اہل ایمان اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر انھیں بارہا سوقیانہ حملوں‘ حتیٰ کہ کفر کے فتووں کا سامنا کرنا پڑا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسی فتوے بازیوں میں مگن حضرات‘ جیسی تحقیقات پر اپنے قبیلے کے لوگوں کو معاف کرتے رہے ہیں‘ ویسی تحقیقات پر دوسروں کو زندیق قرار دے کر ان پر سب و شتم کے تیر چلاتے رہے۔ اس ضمن میں نشانہ ستم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی بنایا گیا۔

زیرنظر کتاب مولانا محمد میاں کی تصنیف شواہد تقدس کا ایک بے لاگ جائزہ ہے۔ یاد رہے کہ شواہد تقدس مولانا مودودی کی خلافت و ملوکیت کے رد میں لکھی گئی تھی۔ مولانا عامر عثمانی مرحوم‘

علامہ شبیر احمد عثمانی   ؒکے حقیقی بھتیجے‘ مولانا حسین احمد مدنی  ؒ کے شاگرد رشید اور فاضل دیوبند تھے۔ عامر عثمانی مرحوم نے‘ مولانا محمد میاں کی مذکورہ بالا کتاب (اور آخر میں تجدید سبائیت از مولانا محمد اسحاق سندیلوی) کو علمی سطح پر جانچتے ہوئے اپنے رسالے ماہ نامہ تجلّی دیوبند کے دو خصوصی شمارے شائع کیے تھے۔ یہ معرکہ خیز تحریر تجلّی میں دب کر رہ گئی تھی‘ جس کی بازیافت کر کے سید علی مطہر نقوی نے اسے تجلیات صحابہؓکے نام سے کتابی شکل دی ہے اور استفادہ عام کا ذریعہ بنایا ہے۔

تجلیات صحابہؓکا مطالعہ بعض علما کی‘ مخالفت براے مخالفت اور حقائق کو مسخ کرنے کی پے درپے کوششوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اونچی مسندوں پر جلوہ افروز بعض سکّہ بند لوگ کس طرح غصے اور نفرت سے مغلوب ہو کر عدل و انصاف کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ دوسری جانب مولانا مودودیؒ کے متوازن اسلوب کی پرتیں کھلتی ہیں اور مقصدیت کی کرنیں روشنی بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں۔

اس موضوع پر مطالعہ کرتے ہوئے اگر تجلیات صحابہؓکے ساتھ دو اور کتابیں بھی پڑھ لی جائیں تو مسئلے کی تفہیم کا دائرہ اور وسیع ہو جاتا ہے: پہلی خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا علمی جائزہاز جسٹس ملک غلام علی اور دوسری عادلانہ دفاع اور علماے اہل سنت از جمیل احمد رانا--- مولانا عامر عثمانی بڑے تاسف سے سوال اٹھاتے ہیں: ’’آخر چاروں طرف سے ]مولانا[ مودودیؒ پر یلغار کیوں؟کیوں ایک امر قطعی میں کیڑے ڈالے جا رہے ہیں‘ کیوں قلم انگارے اُگل رہے ہیں‘ اور زبانیں گولیاں برسا رہی ہیں؟ اس کی وجہ پر اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو اس کے سوا کوئی بات تہہ سے نہیں نکلے گی کہ اصل محرک اس شوروغل کا‘ حسد و تعصب ہے‘‘۔ (ص ۱۹۵-۱۹۶)

تجلیات صحابہؓمیں حقائق کی کھوج کا ری کے دوران‘ عامر عثمانی مرحوم نے سنگ بدست کرم فرمائوں کی طرزِ ادا کا جواب دیتے وقت بعض مقامات پر مناظرانہ رنگ بھی اختیار کیا ہے مگر اس رنگ نے ان کے

تفقہ فی الدین اور تحقیقی اسلوب کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے سیرت‘ تاریخ اور تفسیر کے ہزاروں صفحات کا مطالعہ کیا اور غیر جذباتی انداز سے تجلیات صحابہؓکے مضامین سپردقلم کیے۔ (سلیم منصور خالد)


تحقیق ۱۲‘ ۱۳‘ مدیر: ڈاکٹر نجم الاسلام۔ پتا: شعبہ اردو‘ سندھ یونی ورسٹی‘ جام شورو‘ حیدر آباد‘ سندھ۔ صفحات: ۱۰۱۱۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

پاکستانی جامعات میں تحقیقی سرگرمیوں کی کمی کا شکوہ اور معیارِ تحقیق پر عدمِ اطمینان کا اظہار بالعموم کیا جاتا ہے مگر اس کے برعکس بعض حوصلہ افزا مثالیں بھی سامنے آتی ہیں۔ شعبہ اردو‘ سندھ یونی ورسٹی کا تحقیقی مجلہ اس کی ایک مثال ہے۔ یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ کسی پاکستانی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کا یہ سب سے معیاری اور بلند پایہ تحقیقی رسالہ ہے۔ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تازہ ضخیم شمارہ (نمبر ۱۲ اور ۱۳) علمی و ادبی مقالات‘ مکتوبات‘ تبصرات اور تحقیقی نوعیت کی فہارس کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ ایک گوشہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر عربی ڈاکٹر مختارالدین احمد کے مقالات اور ان کے نام امتیاز علی عرشی‘ قاضی عبدالودود‘ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی‘ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ غلام رسول مہر‘ عبدالماجد دریابادی‘ مالک رام‘ پروفیسر حمیداحمد خاں اور مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی جیسی نامور شخصیات کے ۲۲۵ علمی مکتوبات پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ پوری ایک کتاب کے بقدر ہے۔ مکتوب الیہ کے حواشی و تعلیقات نے ان مکاتیب کی قدروقیمت بڑھادی ہے۔ ان سے تقریباً نصف صدی کے ایک دَور کے بہت سے نامور عالموں کے علمی مشاغل و مصروفیات اور اُن کی تحقیقی کاوشوں میں پیش رفت پر روشنی پڑتی ہے۔ علمی تحقیق سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس مجلے میں رہنمائی کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔ ڈاکٹر نجم الاسلام اس مجلے کے بانی مدیر تھے (اسلامی ادب خصوصاً دینی نثر پر ان کا تحقیقی کام بہت وقیع ہے۔ ۱۳ فروری کو ان کا انتقال ہوا‘ اللہ ان کی مغفرت کرے)۔ زیرنظر شمارے میں خود مرحوم کے چار مقالے شامل ہیں (شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی کی اردو تفسیر۔ موضح قرآن از شاہ عبدالقادر دہلوی کی دو روایتیں‘ حکیم شریف خان دہلوی کا ترجمہ قرآن‘ قاضی محمد معظم سنبھلی کی تفسیر ہندی قلمی) ۔ڈاکٹر محمد سلیم اختر نے نامور ایرانی مصنف اور دانش ور ڈاکٹر سید جعفر شہیدی کی علمی شخصیت کا احاطہ کیا ہے۔ (ر-ہ)


اربعین امام نوویؒ ‘  ترجمہ و تشریح: مولانا امیر الدین مہر۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۶۔ مجلد‘ قیمت: ۷۵ روپے۔

اس کتاب میں ایک حدیث کی رُو سے کسی کام کو اچھی طرح سے کرنا اسلام کا تقاضا بتایا گیا ہے۔ کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہوئے یہی امید تھی کہ ایک بہت اچھا مجموعہ‘ بہت اچھی تشریح کے ساتھ‘ بہت اچھی طرح شائع کیا گیا ہے۔

اربعین کے نام سے ۴۰ احادیث کا انتخاب ہمارے علما کا طریقہ رہا ہے۔ امام نوویؒ نے ان ۴۲ احادیث میں (حافظ ابوعمر بن صلاح کی ۲۹ میں ۱۳ کا اضافہ) دین کی بنیادی تعلیمات جمع کر دی ہیں اور مولانا امیرالدین مہر نے ان کے معنی کو وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ نفس مضمون کی تائید میں دیگر آیات اور احادیث بھی وہ لائے ہیں۔ اکثروبیشتر موجودہ ماحول کا بھی حوالہ ہے‘ مثلاً غصّے والی حدیث کی تشریح میں ’’آج کا دَور ذہنی و نفسیاتی اُلجھنوں کا دَور ہے‘‘ (ص ۹۴) لیکن کہیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ مفہوم سے زائد بات کہی جا رہی ہے۔ مثلاً لاضرر ولاضرار کی تشریح میں یہود و ہنود کی سازش‘ قرضوں کا جال اور شہوت پرستی کے چکر کا ذکر (ص ۱۵)۔ شارح نے تعارف میں بتایا ہے کہ ان اربعین میں عقائد و ایمانیات‘ قانون و قواعد‘ عبادات و معاملات‘ اخلاق و معاشرت وغیرہ کے اہم پہلو بیان ہوئے ہیں۔ اگر محنت کر کے ان احادیث کو ابواب میں تقسیم کر دیا جاتا تو یہ ایک اضافی خدمت ہوتی۔ اچھا ہوتا کہ امام نوویؒ کے حالات زندگی پر دو تین صفحات کا نوٹ ہوتا۔ قاری کا تعلّق اپنے محسن سے جڑتا ہے‘ اس کے لیے دعاے خیر کرتا ہے اور اس کے بارے میں جاننے کا شائق ہوتا ہے۔

اگرچہ احادیث پر اعراب لگانے کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن صحتِ متن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ آیات قرآنی میں بہت سے مقامات پر غلطیاں نظر آتی ہیں۔ یہ امر ہر قاری کے لیے دلی اور ذہنی کوفت اور تکلیف کا باعث ہوگا۔ اس کی ذمّہ داری ناشر پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اگر ناشر کتاب واپس نہیں لے سکتے تو اغلاط نامہ لگانا اپنا فرض جانیں۔ (مسلم سجاد)


حدیث کی اہمیت اور ضرورت ‘ خلیل الرحمن چشتی۔ناشر: الفوز اکیڈمی‘ مکان۳۱۷- گلی ۱۶‘ ایف /۱۰-۲‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۸۹۔ قیمت: ۷۰ روپے۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ تو ویسے ہی قرآن و سنت سے نابلداور بے بہرہ ہے اور شاید اُسے اپنی بے خبری کا شعور بھی نہیں ہے۔ دین دار طبقے میں بھی کثیر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو حدیث کی ضرورت و اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ کچھ لوگ فقط قرآن کو رہنمائی کا کافی ذریعہ گردانتے ہوئے حدیث و سنت کو پس پشت ڈالتے ہیں یا نظرانداز کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ قرآن و سنت کی تفہیم کے بجائے بزرگوں اور ائمہ کے چند مجموعہ ہاے اقوال کو مکمل دین تصور کرتے ہیں۔ ان حالات میں حدیث کی ضرورت و اہمیت پر یہ عام فہم کتاب مؤلف کے دینی جذبے اور وابستگی قرآن و سنت کی علامت ہے۔اس کتاب میں نہ صرف مقام حدیث کی آسان اندازمیںوضاحت کی کوشش کی گئی ہے بلکہ علم حدیث سے متعلق ابتدائی معلومات کے علاوہ کتابت حدیث‘ اصطلاحات حدیث اور اصول حدیث کی مختلف جہات کا احاطہ بھی مختصر انداز میں کیا گیا ہے۔ حدیث پر عمل کرنے کے حوالے سے چند بنیادی فقہی اصول بھی شامل کتاب ہیں۔ کتاب کا انداز علمی سے زیادہ تدریسی ہے جو کتاب کی مقصدیت کو واضح کرتا ہے۔

کتاب کے تقریباً ایک چوتھائی صفحات حدیث کی اہمیت و ضرورت کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ بقیہ تین چوتھائی صفحات اصول وتاریخ حدیث سے متعلق ہیں۔ کتاب کا موضوع قانونی‘ آئینی‘ معاشرتی اور دیگر حوالوں سے حجیت حدیث کے دلائل کا تقاضا کرتا ہے۔ مؤلف کا طرز تحریر و ترتیب اور اندازِ استدلال بہت عمدہ اور عام فہم ہے۔ مثلاً ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کی وضاحت کے لیے قانون اور آئین سے متعلق چند مثالیں دی گئی ہیں۔ اسی طرح ’’معاشرت میں سنت کے مقام‘‘ کی وضاحت کے لیے عورت کے گھر سے نکلنے کی اجازت سے متعلق دو احادیث نقل کر کے معاشرتی حوالے سے سنت کی اہمیت ثابت کی گئی ہے۔ اسی طرح ’’حلال و حرام میں سنت کا مقام‘‘ اور ’’انفرادی اور اجتماعی سنتیں‘‘ کے عنوانات بھی قابل توجہ ہیں۔

کتاب کی کتابت جلی ہے مگر متنِ احادیث و آیاتِ قرآنیہ میں اعراب کی غلطیاں خاصی ہیں۔کتابت کی عمومی غلطیاں بھی ہیں۔ اتنی زیادہ غلطیوں کا دوسرے ایڈیشن میں بھی باقی رہ جانا باعث تشویش ہے۔ عام قاری کی سہولت کے لیے اعراب کے التزام کے ساتھ اصطلاحات حدیث کو چارٹوں کی صورت میں تکنیکی مہارت کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے۔ حدیث کی بنیادی کتابوں کا تعارف اور ان کی مرویات کی نوعیت اور صحت سے متعلق مفید ابتدائی معلومات بھی کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔ کتاب درست فکری جہت کی طرف رہنمائی اور تعلیمات کتاب و سنت کے فروغ کے علاوہ عام قارئین کو علم حدیث سے روشناس کرانے کی مفید اور مخلصانہ کاوش ہے۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)


محمدؐ رسول اللہ : صبروثبات کے پیکراعظم‘  مولانا عبدالرحمن کیلانی۔ ناشر: مکتبہ السلام‘ وسن پورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۴۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے اس کتاب میں سیرت پاکؐ کا مطالعہ صرف اس پہلو سے کیا گیا ہے کہ آپؐ کے خلاف کیا مخالفتیں اور سازشیں کی گئیں‘ کیا ظلم روا رکھے گئے اور آپؐ نے کس طرح ان کے مقابلے میں صبروثبات کا مظاہرہ کیا۔ مصنّف نے مقدمے میں اختصار سے آپؐ کی عظمتِ کردار کے مختلف پہلو بیان کرنے کے بعد صرف اس ایک موضوع کو لیا ہے۔ سیرت کا مطالعہ ہمیشہ اس لحاظ سے کیاجانا چاہیے کہ یہ محض تاریخی دل چسپی کے گزرے ہوئے واقعات نہیں بلکہ ان کے آئینے میں آج کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ آج اُمّتِ مسلمہ کے خلاف جو سازشیں کی جا رہی ہیں اور جس طرح انھیں ظلم و جبر کا شکار کیا جا رہا ہے‘ یہ اپنی اصل میں اس سے مختلف نہیں جو کفار و مشرکین نے رسولؐ سے روا رکھے۔ مسلم ممالک میں اسلام کے علم برداروں کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے گذشتہ ۵۰‘ ۶۰ برسوں میں جو کچھ ہوا ہے‘ چاہے مسلمان نام کے افراد نے کیا ہو‘ وہ بھی یہی کچھ ہے۔ افغانستان پر پابندیوں کو ہم شعب ابی طالب سے مختلف کیوںسمجھیں؟

اگر مسلمان خود سیرت کی اتباع میں داعی کی زندگی نہ گزار رہے ہوں تو سیرت کا یہ پہلو ان کے لیے بے معنی ہو جاتا ہے۔ خود عمل ہو تو ان واقعات سے رہنمائی اور توانائی ملتی ہے۔ عبدالرحمن کیلانی نے اس زاویے سے سیرت کا مطالعہ پیش کر کے مخالف و موافق سب کے لیے ایک خدمت انجام دی ہے۔ (م - س)

تعارف کتب

  •  قربانی کا مقصد‘ جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ اور نمازِ عید کے مسائل‘ مولانا غلام محمد منصوری۔ ناشر: اسلامک ایجوکیشن کمیٹی‘ کویت۔ صفحات: ۶۹۔ قیمت: درج نہیں۔ ]قربانی‘ ذبیحے اور عید کے متعلق مختصر مگر مفید رہنمائی[
  •  سید مودودیؒ : ایک جامع تعارف‘ عبدالحفیظ رحمانی۔ دارالعرفان ‘ ۴ قاسم سٹریٹ‘ آر این پلایام‘ ویلور‘ تمل ناڈو‘ بھارت۔ صفحات: ۱۷۷۔ قیمت: ۵۰ روپے۔ ]کتابت‘ طباعت‘ سرورق خوب صورت۔ زیادہ تر رسائل‘ اخبارات اور کتب سے اقتباسات۔ تصنیف سے زیادہ تالیف و تدوین۔ موضوع کا مفید تعارف[
  •  اقبالیات نیرنگ خیال‘ محمد وسیم انجم۔ ناشر: انجم پبلشرز‘ کمال آباد ۳‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۳۶۸۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

 ] ایم فل اقبالیات کا تحقیقی مقالہ۔ معروف ادبی رسالے نیرنگ خیال میں اقبالیات سے متعلق لوازمے کا جائزہ اور اشاریہ--- ایک مفید کاوش[

  •  معین الطریقت ‘شیخ اکبر امام محی الدین ابن عربیؒ  ‘ترجمہ: معین نظامی۔ ناشر: کلیہ علوم اسلامیہ و شرقیہ‘ اورینٹل کالج‘ جامعہ پنجاب‘ لاہور۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۵۰ روپے۔]مترجم نے بہ قول ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ: اس ’’مختصر مگر جامع اور مفید رسالے‘‘ کا ترجمہ ’’آسان اور عام فہم اسلوب‘‘ میں کیا ہے [
  •  سیکولرزم‘ جمہوریت اور انتخابات‘ ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی۔ صفحات: ۲۴۔ قیمت: ۸ روپے۔ ]اپنے موضوع پر‘ خصوصاً بھارت کے حوالے سے ‘ ایک مفید اور فکر انگیز مقالہ[
  •  پردیس کی زندگی اور اسلام‘ سلطان احمد اصلاحی۔ ناشر:منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۹۰۔ قیمت: ۲۵روپے۔ ]’’مسلمان مرد جو خدا اور رسولؐ کے ساتھ بے لاگ وفاداری میں زندگی بسر کرنے کا آرزومند ہو‘ اس کے لیے کسی صورت جائز نہیں ہو سکتا کہ بال بچوں سے دُور کئی کئی سال کے تنہا پردیس کو وہ زندگی کا معمول بنا لے‘‘ ص ۸۴[
  • گلزارِ عابد‘ سید عابد شاہ عابد۔ ناشر: سیرت اکادمی بلوچستان‘ ۲۷۲-اے‘ او بلاک ۳‘ سیٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۶۰ روپے ۔]چشتی مودودی خانوادے کے ‘ ۱۹ ویں صدی کے شاعر کا مجموعہ غزلیات‘ طبع اوّل ۱۹۱۵ء کی عکسی اشاعت[

ابوعبداللّٰہ احمد وڑائچ ‘  پیناکھہ ‘ گوجرانوالہ

پاکستان کے نامور سائنس دان  پر تبصرے (فروری ۲۰۰۱ء) میں بطور فخربتایا گیا ہے کہ بعض پاکستانی سائنس دان بیرونی ممالک میں نہایت اہم شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ تو المیہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں‘ مسلم ممالک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ مغربی ممالک کی اقتصادی ترقی میں معاونت فراہم کر کے عملاً امت مسلمہ کو کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ویزا بھی ترجیحاً وکلا‘ ڈاکٹر‘ انجینر اور سائنس دانوں کو دیا جاتا ہے۔ مسلمان ایک زندہ امت ہونے کا ثبوت دیں‘ دارالکفر میں رہنے کے بجائے مسلم ممالک واپس لوٹ آئیں اور اپنی خدمات امت مسلمہ کی عظمت و سربلندی کے لیے پیش کریں۔ طاغوتی قوتوں کی اعانت‘ طاغوت کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔

عبداللّٰہ گوھر   ‘ کراچی

رسائل و مسائل میں ’’موسیقی اور گانا : چند پہلو‘‘ (فروری ۲۰۰۱ء) کے تحت ڈاکٹر انیس احمد نے بخاری اور  مسلم کی روایت کے حوالے سے لکھا کہ: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طبلہ بجانے کے ساتھ گانے کو جائز قرار دیا ‘‘ (ص ۷۱)۔ روایات میں ’’دف‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو بہرحال طبلے کے لیے جواز نہیں بنایا جا سکتا۔

فضل الٰہی چوہان ‘  فلوریڈا

’’ایم ایم احمد کے انکشافات‘‘ (دسمبر ۲۰۰۰ء) میں آپ نے لکھا ہے کہ مارشل لا لگانے پر ’’کابینہ نے اس پر چوں بھی نہ کی‘‘ (ص ۴۴)۔ حکومت پنجاب نے جسٹس منیر احمد اور جسٹس ایم آرکیانی پر مشتمل جو تحقیقاتی عدالت قائم کی تھی‘ اس میں جب خواجہ ناظم الدین صاحب سے مارشل لا کے نفاذ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا:  "Martial Law was imposed under my order and I accept its responsibility".  ۔ راقم الحروف مذکورہ کمیٹی کے سٹاف میں متعین تھا۔ میں سول سیکرٹریٹ لاہور سے بطور سیکشن آفیسر ریٹائر ہوا ہوں۔

میاں احمد حسین ‘  تاج گڑھ‘ رحیم یار خاں

تبلیغی جماعت کے ہمراہ تبلیغی دورے پر یہاں کی جامع مسجد میں پہنچا تو اچانک میری نظر کھڑکی میں پڑے ماہنامہ ترجمان القرآن (جنوری ۲۰۰۱ء) پر پڑی جس میں ’’خدمت و محبت‘‘ کے زیرعنوان خرم مراد مرحوم کا انتہائی جامع اور لاجواب مضمون شامل تھا۔ اس علاقے میں شوق جہاد بہت فراواں ہے اور لوگ حزب المجاہدین کے زیراثر ہیں۔ جب ہم انھیں تبلیغ کی دعوت دیتے ہیں تو وہ جہاد ہی کو مقدم قرار دیتے ہیں۔ خرم مرحوم نے اپنے اس مضمون میں دین اسلام کو دعوت و خدمت کے ذریعے پوری زندگی کا نظام بنانے کی اہمیت کو خوب صورتی سے اُبھارا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسی تحریریں ایمان کی بستی میں موسمِ بہار کی سی تازگی اور خوشبو کا ذریعہ بنتی ہیں۔

 

--- ہم اسلام کے مالک نہیں ہیں‘ اُس کے صانع نہیں ہیں‘ اُس کے شارع نہیں ہیں۔ اسلام ہمارا مال نہیں ہے کہ مارکیٹ میں جیسی طلب ہو‘ اس کے مطابق اپنے اس مال کو بنا کر بازار میں لائیں--- اسلام تو ایک حکم ہے خالق کی طرف سے مخلوق کی طرف۔ خالق کا کام مخلوق کی خوشامد کرنا اور اس کو راضی کرنا نہیں ہے۔ مخلوق کو یا تو اس کا حکم‘ جیسا کہ وہ ہے‘ جوں کا تواں ماننا پڑے گا۔ ورنہ وہ خود اپنا ہی کچھ بگاڑے گی‘ خالق کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گی---

یہ کتنی غیر معقول تجویز ہے کہ اسلام کے مجموعی نظام میں سے محض اس کے معاشی و سیاسی اصولوں کو لے لیا جائے اور انھی کی بنیاد پر ایک پارٹی ایسی بنائی جائے جس میں شامل ہونے کے لیے توحید‘ آخرت‘ قرآن‘ رسالت‘ کسی چیز پر بھی ایمان لانے کی ضرورت نہ ہو اور نہ عبادات کی بجاآوری اور احکام شرعیہ کی پابندی ضروری ہو۔ کیا کوئی صاحب نظر آدمی ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ کسی اجتماعی نظریے اور لائحۂ عمل کو اُس کے بنیادی فلسفے ‘ اُس کے نظامِ اخلاق اور اس کے تعمیر سیرت کرنے والے ارکان سے الگ کر کے چلایا جا سکتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت کا تصور نکال دینے کے بعد اسلام کا نظامِ سیاسی آخر ہے کس چیز کانام؟ اور اگر قرآن کو مآخذ ِ قانون اور محمدؐ رسول اللہ کو رعیت (انسان) اور بادشاہ (اللہ) کے درمیان نزولِ احکام کا واحد مستند ذریعہ نہ مانا جائے تو کیا اسلامی طرز کے اسٹیٹ کی تعمیر ہوا پر کی جائے گی؟ نیز وہ کون سا نظامِ تمدن و سیاست ہے جو کسی نظامِ اخلاق کا سہارا لیے بغیر قائم ہو سکتا ہو؟ اور کیا اللہ کے سامنے انسان کی ذمّہ داری و جواب دہی کا تخیل نکال دینے کے بعد اُس نظام تمدن و سیاست کے لیے کوئی اخلاقی سہارا باقی رہ جاتا ہے جس کا نقشہ اسلام نے پیش کیا ہے؟ کیا اس نظام کو آپ مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بل پر ایک دن کے لیے بھی قائم کر سکتے ہیں؟ مزیدبرآں وہ خاص قسم کی انفرادی سیرت اور جماعتی زندگی جو اس نظامِ تمدّن و سیاست کے لیے درکار ہے‘ نماز‘ روزہ اور حج و زکوٰۃ کے سوا اور کس ذریعے سے پیدا ہو سکتی ہے؟ اور وہ نہ ہو تو یہ نظام چل کہاں سکتا ہے؟ پس یہ غایت درجے کا افلاسِ فکر ہے کہ کوئی شخص محض شاخوں کا حُسن دیکھ کر کہنے لگے کہ آئو جڑ کے بغیر اِن شاخوں ہی سے درخت قائم کریں۔ (’’اسلام کی راہ راست اور اس سے انحراف کی راہیں‘‘ ‘ ابوالاعلیٰ مودودی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۱‘ محرم ۱۳۶۰ھ‘ مارچ ۱۹۴۱ء‘ ص ۳۱-۳۲)