مضامین کی فہرست


نومبر ۲۰۰۱

اگر ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون میں دہشت گردی کے سبب اکیسویں صدی کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا تو ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء افغانستان جیسے غریب‘ تباہ حال اور مظلوم ملک پر امریکہ اور برطانیہ کی جارحانہ فوج کشی کے باعث ایک سیاہ تر دن بن گیا۔ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد دنیا کی ہمدردیاں امریکہ اور ان معصوم انسانوں کے ساتھ تھیں جو دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے اور افغانستان کی طالبان حکومت سمیت دنیا بھر کے مسلمان‘ اہل امریکہ کے اس غم میں شریک ہوئے اور دہشت گردی کی مذمت بھی کی۔ غم و اندوہ کے یہ لمحات امریکی قیادت اور اس کی عسکری اور مالیاتی دراندازوں کے ستائے ہوئے مشرق و مغرب اور پس ماندہ و ترقی یافتہ سب ہی ممالک کے عوام ‘ اپنے رستے ہوئے زخموں کی کسک کو بھی بھول گئے۔ لیکن امریکہ کی قیادت پر رعونت‘ انتقام اور مخصوص مفادات کا غلبہ رہا اور اس نے بے لاگ‘ منصفانہ اور قانون کے نظام کے تحت ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی تباہی کے ذمہ داروں کے تعین اور اس دہشت گردی کے محرکات اور اسباب کے معروضی جائزے کے بجائے اس حکمت عملی کے تحت جس کی کھچڑی برسوں سے پکائی جا رہی تھی‘ افغانستان کے عوام کو کھلی جارحیت کا نشانہ بنایا اور محض طاقت کے بل پر اپنی بالادستی قائم رکھنے اور وسط ایشیا کے وسائل سے مالا مال علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ریاستی دہشت گردی کے بدترین اور ظالمانہ منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔

اس کے لیے دوسرے ممالک کو ترغیب اور ترہیب‘ رشوت اور دھونس اور دھمکی کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ایک نام نہاد عالمی الحاق (world coalition) کا ڈھونگ رچایا۔ برطانیہ تو پہلے دن ہی سے امریکہ کی جھولی میں گر گیا تھا۔ یہ ملک جسے کئی صدیوں تک ایک عالمی طاقت کی حیثیت حاصل رہی‘ اب امریکہ کا باج گزار بن چکا ہے۔ بش اور بلیر اِس عالمی غنڈا گردی کے سرخیل ہیں۔ نیٹو کے ۱۸ ممالک کو بھی خواہی نہ خواہی اس آپریشن میں شامل کرلیا گیا اور نیٹو کی دفعہ ۵ کو بھی متحرک کر لیا گیا کہ نیٹو کے کسی ایک ملک پر حملہ تمام ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا بلالحاظ اس کے کہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اسے متعین کیا جائے کہ ’’جنگ‘‘ اور حملے کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات کو خود ساختہ ملزموں کی طرف سے ’’اعلان جنگ‘‘ قرار دے کر ایک نام نہاد جنگ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا طبل بجا دیا گیا۔ باقی دنیا پر سیاسی دبائو اور بلیک میل کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔

یہ فسطائی فلسفہ بڑی ڈھٹائی سے پیش کیا گیا کہ دنیا دو کیمپوں میں منقسم ہے: ایک مہذب دنیا اور دوسری دہشت پسند اقوام۔ اور دنیا کی تمام اقوام کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ (option)نہیں کہ وہ یا امریکہ کے ساتھ ہوں یا اس کے مخالف--- یا اتحادی ہوں اور یا دہشت پسندوں کی حلیف شمار کی جائیں۔ جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں دنیا کو سرخ اور سفید میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح اب دنیا کو سفید اور سیاہ میں تقسیم کردیا گیا۔ کمزور ملکوں پر بندوق تان کر ان سے پوچھا گیا کہ کس کے ساتھ ہو؟ گو دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف موجود نہیں ہے (جیسا کہ خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۱۱ستمبر کے بعد کے اجلاس کی بحث سے پتا چلتا ہے کہ وہ کسی تعریف پر متفق نہیں ہو سکی) اور اس کی بڑی وجہ قوت کے جائز اور ناجائز استعمال اور متعلقہ اقدام کے پیچھے کارفرما محرکات اور مقاصد کا اختلاف اور ان کا معتبر اور غیرمعتبر ہونا ہے۔ مگر کم از کم اس حصے کے بارے میں سب متفق ہیں کہ دہشت گردی (terrorism)کی روح سیاسی مقاصد کے لیے تشدد یا قوت کے استعمال کی دھمکی ہے۔

دہشت گردی کا مطلب خصوصاً سیاسی مقاصد کی خاطر پرُتشدد اور دھمکی آمیز طریقے اختیار کرنا ہے۔  (آکسفورڈ ریفرنس ڈکشنری)

امریکہ نے اس اتحادمیں کمزور ممالک کی ایک خاص تعداد کو جس طرح شامل کیا ہے۔اس تعریف کی روشنی میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ وہ خود دہشت گردی کی ایک قبیح مثال ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک اس دھمکی کا نشانہ بنے ہیں اور جرأت اور بہادری کے بہت سے دعوے دار بش صاحب کی ایک ہی بھبکی پر سرنگوں ہو گئے‘ بقول غالب :

دھمکی میں مر گیا‘ جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ طلب گارِ مرد تھا

امریکہ اور جنرل مشرف کا موقف

افغانستان پر امریکہ کی جارحانہ فوج کشی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا کوئی تعلق ۱۱ستمبر کے واقعات سے نہیں۔ یہ اقدام سیاسی اخلاقیات ‘ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ صرف طاقت کی حکمرانی اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کی سیاست کی ایک مکروہ مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ایک نئے سامراجی دَور کی تمہید ہے۔ بہ ظاہر دعویٰ یہ ہے کہ:

     ۱- ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کا ذمہ دار اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القائدہ ہے۔

     ۲- افغانستان کی طالبان حکومت نے ان کو اور ان کے گروہ کو پناہ دی ہوئی ہے۔ اس لیے طالبان ان کو بے چون و چراں امریکہ کے حوالے کر دیں ورنہ امریکہ طالبان کو طاقت کے بل پر تباہ و برباد کر دے گا۔

     ۳-  دہشت گردی کے ان مراکز کو ختم کر کے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ ہوگی۔

     ۴-  یہ امریکہ ہی نہیں پوری ’’مہذب دنیا‘‘ کے اہداف ہیں اور ان کے حصول کے لیے ان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی تائید حاصل ہے۔

     ۵-  یہ دہشت گردی اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کے خلاف جنگ ہے‘ اسلام  یا مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ افغانستان کے عوام کے بھی خلاف جنگ نہیں ہے۔

جنرل مشرف نے اپنی ۱۹ ستمبر کی تقریر میں اور اس کے بعد کے بیانات اور انٹرویوز میں امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے کے دفاع میں جو باتیں کہی ہیں‘ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:

الف- فیصلے میں حق کی بالادستی ہونی چاہیے۔

ب- ملک کے مفاد کو اولیت حاصل ہو‘ یعنی اس کی سالمیت‘ معاشی ترقی اور عزت و وقار کی بلندی۔

ج- پاکستان دنیا میں تنہا نہ ہو بلکہ عالمی برادری کے ساتھ رہے۔

  د- اسلام کے عین مطابق ہونی چاہیے۔

یہ تقریر ۱۹ ستمبر کو ہوئی ہے لیکن امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ ۱۵ ستمبر ہی کو ہو گیا تھا۔ صدربش نے ۱۳ستمبر کو ’’اکیسویں صدی کی پہلی جنگ‘‘ کا اعلان کیا‘ ۱۴ ستمبر کو امریکی سینٹ نے دہشت گردی کے خلاف ہرممکن اقدام کا اختیار بش صاحب کو دیا اور ان کے پہلے ہی ٹیلی فون پر صدر مشرف نے ان کی تائید اور اس جنگ میں ان کے حلیف بننے کے ’’جرأت مندانہ‘‘ اور ’’دانش مندانہ‘‘ فیصلے کا اعلان کر دیا۔ فیصلہ ایک فردِ واحد کا تھا جس کی بہ ظاہر تائید ان کی اپنی نامزد کردہ کابینہ‘ سلامتی کونسل اور کورکمانڈروں نے کیا (اسے بھول جایئے کہ خود فوج میں اس کے ساتھ کیا اکھاڑ پچھاڑ کرنا پڑی اور اس کی کیا کیا داستانیں ملکی ہی نہیں ساری دنیا کی اخبارات میں آرہی ہیں) ۔پھر صدر صاحب کے بقول انھوں نے قومی زندگی کے مختلف رہنمائں سے مشورہ کیا اور اس طرح ان کے اس فیصلے کو اکثریت کی تائید حاصل ہو گئی۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ دلیل و برہان کی کسوٹی پر ان تمام دعووں اور خود امریکہ کے اہداف کا جائزہ لیا جائے اور حقائق اور صرف حقائق کی روشنی میں صحیح قومی اور ملی موقف کا تعین کیا جائے۔ ہمیں جنرل صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ قومی اُمور کا فیصلہ جذبات کی رَو میں بہہ کر نہیں کرنا چاہیے بلکہ  عقل و دانش‘ حکمت دین اور ملک و ملّت کے مفاد کو ہر چیز پر بالادستی ہونی چاہیے۔ البتہ ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ بیرونی دبائو اور خود اپنے سابقہ تجربات کو بھی فیصلہ کن مقام حاصل ہونا چاہیے۔ حضور پاکؐ کا ارشاد ہے کہ مومن فراست سے کام لیتا ہے اور ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔

تفتیش سے گریز

۱۱ ستمبر کے واقعات سے امریکہ کی اَنا پر جو بھی چوٹ پڑی ہو لیکن دنیا کے ۸۰ سے زیادہ ممالک کے ۶ہزار سے زائد معصوم انسانوں کی اس پیمانے پر ہلاکت ایک غیر معمولی واقعہ ہی نہیں انسانیت کے خلاف بھی ایک جرم ہے۔ جس طرح یہ اقدام امریکہ کے دستور اور بین الاقوامی قانون اور معاہدات کے تحت جرم ہے اسی طرح خود اسلامی قانون کے تحت بھی ایک جرم ہے۔ عالم اسلام کی تمام حکومتوں‘ تحریکوں اور علما نے شدید  اس کی مذمت کی۔ طالبان حکومت نے بھی اس کی اسی وقت مذمت کی اور خود اسامہ بن لادن نے اس سے لاتعلقی کا برملا اظہار کیا۔ اس کے باوجود اس حادثہ فاجعہ کے آدھ گھنٹے کے اندر سی این این نے اسامہ بن لادن کو ملوث کرنے کی کوشش کی اور ایک گھنٹے کے بعد اسرائیل کے سابق وزیراعظم باراک نے لندن میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں ایک لکھی ہوئی تقریر میں اسامہ بن لادن اور عربوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کے بعد سے کسی تحقیق‘ سائنسی تفتیش‘ قومی انکوائری یا جوڈیشیل کمیشن اور اس کی عدالتی کارروائی کے بغیر اُوپر سے نیچے تک سب نے ایک ہی راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اس اقدام کی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور القائدہ پر ہے اور افغانستان کی حکومت انھیں فی الفور غیر مشروط طور پر امریکہ کے حوالے کر دے۔

اس واقعے کو اب ۶ ہفتے ہو گئے ہیں لیکن اس ایک دعوے کے سوا‘ تحقیق و تفتیش کا کوئی دوسرا اقدام سامنے نہیں آیا ہے حالانکہ کینیڈی کی ہلاکت‘ اوکلاہاما کی تباہی‘ اور اسکول تک میں بچوں کے ہلاک کیے جانے کے واقعات کی باقاعدہ تفتیش ہوئی‘ کئی کئی کمیشن بنے ‘کھلی عدالتی کارروائی ہوئی‘ سینیٹ اور کانگرس کی کمیٹیوں نے اپنی اپنی تحقیقات کر کے ان کے نتائج پیش کیے لیکن ایک اتنے بڑے ‘ تباہ کن اور عالمی معیشت و سیاست کو متاثر کرنے والے واقعے کے اصل حقائق‘ اسباب و محرکات اور نتائج پر پردہ ڈالا جا رہا ہے اور سارا نزلہ اسامہ بن لادن پر گر رہا ہے جو اس سے اپنی برأت کا اظہار کر چکا ہے۔

اسامہ بن لادن اور اس کے رفقا پر دو مقدمے امریکی عدالتوں میں چل رہے تھے۔ ۵ سال سے اس کے خلاف وہ امریکی سراغ رساں ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں جن پر ۵۰ بلین ڈالر سالانہ سرکاری خزانے سے خرچ کیا جا رہا ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تیاری کم از کم دو سال سے ہو رہی تھی اور جہاز اغوا کرنے والوں (جو اب دنیا میں نہیں) کے علاوہ کم از کم ۵۰ مزید افراد اس میں شریک ہونے چاہییں مگر ان کا ابھی تک کوئی پتا نہیں۔ جن ۷۰۰ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان سے بھی کوئی قابل ذکر چیز حاصل نہیں ہوئی ہے۔ جس مہارت‘ نظم و ضبط‘ اور ملک کے مختلف شہروں میں باہمی رابطے کے ذریعے یہ کام ہوا ہے وہ کسی باہر کے ادارے کے لیے کیسے ممکن ہے۔ خصوصیت سے ایسے ادارے کے لیے جو دس ہزار میل دُور ہو‘ جس کے لوگوں کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر ہو‘ اور جس کی جڑیں اس ملک کے حساس اداروں میں نہ ہوں جہاں سے یہ کام ہوا ہے۔

انتھریکس کا الزام؟

حال ہی میں انتھریکس (Anthrax) کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ اسے پہلے اسامہ بن لادن کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اب خود برطانوی حکومت کے کیبنٹ آفس سے حاصل کردہ ۱۶۰صفحات کی ایک رپورٹ  Deliberate Release of Chemical and Biological Agents سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ القائدہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔

خود بش ایڈمنسٹریشن کا داخلی سلامتی کا نیا ڈائرکٹر تھامس ایج کہتا ہے:

ایف بی آئی نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ خطوط کہاں سے ڈاک میں ڈالے گئے تھے۔چونکہ انتھریکس کے لفافے ڈالنے کی کارروائی ۱۱ ستمبر کے قریب تھی‘ اس لیے شروع میں حکام نے یہ سمجھا کہ ان کا انتہاپسند مسلم بنیاد پرستوں غالباً اسامہ بن لادن اور اُن کی القائدہ تنظیم سے تعلق جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن گذشتہ چند دنوں میں رائے تبدیل ہو چکی ہے۔ تفتیش کار اس کے زیادہ قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ کوئی ایک فرد یا گروہ جو امریکہ میں رہایش پذیر ہے‘ سفید پوڈر کا ذمہ دار ہے جس نے ایک برطانوی ایڈیٹر کی جان لے لی اور امریکی میڈیا کی سیاست اور معیشت کی سرگرمیوں کو جامد کر دیا۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ ۲۱ اکتوبر‘ ص ۱‘ ۳)

سوال یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تحقیق کیوں نہیں ہو رہی۔ جتنے بھی امکانات ہیں ان سب کا جائزہ کیوں نہیں لیا جا رہا۔ سارا ملبہ صرف ایک شخص پر گرایا جا رہا ہے حالانکہ جو بھی شواہد سامنے آ رہے ہیں وہ اصل واقعے کو اور بھی پرُاسرار بنا رہے ہیں۔ اسامہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس نہ وہ مہارت اور ٹکنالوجی تھی‘ نہ ملک میں ان کے اثرات اور ایسے اصحاب و اعوان تھے جو یہ کام انجام دے سکیں۔ خود امریکہ سے کوئی واضح  رابطے (linkages) سامنے نہیں آ رہے ہیں اور تازہ ترین رپورٹوں کی روشنی میں خود یورپ کے رابطے بھی غیرثابت شدہ ہیں۔ برطانیہ کے بارے میں تو ۲۳ اکتوبر کے گارجین نے واضح رپورٹ دی ہے کہ اس ملک میں القائدہ کا کوئی باضابطہ حلقہ یا گروہ موجود ہی نہیں۔ پھر جو سوالات مبینہ اغوا کنندگان کے بارے میں سامنے آئے ہیں اور جس طرح ان کی شناخت کو خود سعودی عرب کے سرکاری حلقوں نے چیلنج کیا ہے‘ نیز ان کے طرز بودوباش اور عیاشیوں اور بدکاریوں کے بارے میں جو شہادتیں سامنے آئی ہیں وہ القائدہ سے ان کے تعلق کے لیے کوئی جواز فراہم نہیں کرتیں۔ اسی طرح ایک نہیں کئی ماہرین نے جو سب امریکی ہیں چیلنج کیا ہے کہ چھوٹے سویلین جہازوں پر تربیت لینے والے شوقیہ پائلٹ ۷۵۷ جہازوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے اصل ہوابازوں کو مار کر یا ہٹا کر قابو نہیں کر سکتے اور نہ اتنے ٹھیک ٹھیک نشانے سے نیویارک جیسے شہر میں اتنے چھوٹے ‘ متعین اور ہزاروں فلک بوس عمارتوں کے جنگل میں گھری ہوئی بلڈنگ سے ٹکرا سکتے ہیں۔ وہ انجینیرجو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تعمیر میں شریک تھے ان کے بیانات انٹرنیٹ پر آئے ہیں کہ صرف جہاز سے ٹکرائو اور جہاز کے تیل کی آگ سے ان عمارتوں کی تباہی ممکن نہیں۔ اس پورے معاملے کے پیچھے کچھ اور ہے جس کی پردہ کشائی کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ تمام متعلقہ ہوائی اڈوں کے واچ ٹاور سے اغوا شدہ جہازوں کی مانٹیرنگ اور پائلٹ سے کی جانے والی گفتگو بھی ایک معمّا ہے۔ بیشتر معلومات غائب ہیں۔ چار میں سے صرف ایک جہاز کا بلیک بکس ملا ہے ‘ باقی کے بلیک بکس غائب ہیں۔ ۶ ہزار افراد کے مرنے کی اطلاع ہے مگر لاشیں صرف ۶۰ کے قریب نکلی ہیں۔ بلڈنگ جس طرح تباہ ہوئی ہے یعنی اوپر سے نیچے اور ادھر ادھر نہیں گری‘ یہ بھی ایک معمّا بنا ہوا ہے۔ ملک میں کہرام ہے اور دنیا کو تہ و بالا کیا جا رہا ہے مگر ان معاملات کی کوئی تحقیق و تفیش نہیں کی جا رہی اور محض مفروضوں پر اسامہ بن لادن کو ملزم ٹھہرایا جارہا ہے۔ صدربش صاحب پوری رعونت سے کہتے ہیں کہ کسی تفتیش‘ کسی عدالتی عمل‘ کسی شہادت اور مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں۔ اسامہ مجرم ہے۔ ہم جانتے ہیں وہ guilty ہے۔ اسے ہمارے حوالے کرو ورنہ ہم تم کو تہس نہس کر دیں گے۔

اسامہ کے خلاف شواہد کی حقیقت

برطانوی وزیراعظم نے جو شواہد نامہ (evidence) پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا ہے وہ مضحکہ خیز ہے۔ ۲۳صفحات کی اس رپورٹ میں جو ۷۰ نکات پر مشتمل ہے پہلے ہی پیراگراف میں اعتراف ہے کہ

یہ دستاویز اسامہ بن لادن کے خلاف مقدمے کو کسی قانونی عدالت میں پیش کرنے کے لائق بناتی نظر نہیں آتی۔

رابرٹ فسک لکھتا ہے:

امریکیوں کو اسے مشرق وسطیٰ میں منوانے میں سخت دقت پیش آ رہی ہے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ برطانوی حکومت کی دستاویز‘ جس میں ۱۱ ستمبر کی ہلاکتوں کی ذمہ داری اسامہ بن لادن پر ’’ثابت‘‘ کی گئی ہے‘ عرب دنیا کو مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مجتمع کر سکے۔ مذکورہ دستاویز میں ۷۰ میں سے صرف ۹ نکات عالمی تجارتی مرکز اور پینٹاگون پر حملوں سے متعلق ہیں اور اس میں بھی ’’قیاس‘‘ پر انحصار کیا گیا ہے نہ کہ شواہد پر ۔ (دی انڈنٹ پنڈنٹ‘ ۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

روزنامہ گارجین ان شواہد کے بارے میں لکھتا ہے:

۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کے بارے میں اسامہ بن لادن کے باقاعدہ مقدمے کا سامنا کرنے کا بعیداز امکان واقعہ اگر پیش آ بھی جائے تو اُس کے خلاف جو مقدمہ برطانوی حکومت نے گذشتہ دنوں شائع کیا ہے قانونی نقطہ نظر سے اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ بش انتظامیہ کے اس اعلان کو کہ وہ بن لادن کے خلاف ’شواہد‘ پیش کرے گی (۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء)۔حقیقت یہ ہے کہ مسٹر بلیر کا مقدمہ دو لفظوں پر ختم ہو جاتا ہے: ’’مجھ پر اعتماد کرو‘‘۔

اور لطف یہ ہے کہ اب بش انتظامیہ اپنے دعوے سے اعلانیہ پھر گئی ہے۔ اب اس کا موقف ہے کہ کسی  شہادت یا ثبوت کی ضرورت نہیں‘ حالانکہ خود کولن پاول نے وعدہ کیا تھا کہ شہادتیں عوام کو دکھائیں گے۔ اخبارات صاف لکھ رہے ہیں کہ کوئی شہادت موجود ہی نہیں‘ دکھائیں گے کیا؟

انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون (۸- اکتوبر)نے نیویارک ٹائمز کا اداریہ نقل کیا ہے کہ گواہی تو موجود نہیں مگر پھر بھی یہ کیس قابل یقین ہے‘ عنوان ہے:  "A Believable Case"  لیکن اداریے میں جن حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:

یہ رپورٹ کوئی ۱۰۰ فی صد یقینی ثبوت فراہم نہیں کرتی۔ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کا کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہیں ہے جس میں مسٹر بن لادن نے حکم دیا ہو کہ امریکی جہاز اغوا کر لیے جائیں… مسٹربلیر نے ساری دنیا کو دعوت دی کہ میری بات پر یقین کر لیں اور خفیہ اداروں سے حاصل کردہ رپورٹیں قابل اعتماد ہیں…یہ برطانوی رپورٹ امریکی برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے فراہم کردہ شواہد‘ مسٹر بن لادن کے پبلک اعلانات اور القائدہ کے ارکان کے خلاف ماضی کی عدالتی کارروائیوں سے مرتب کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ استغاثہ دائر کرنے کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔

امریکی ہفت روزہ ٹائم کا مضمون نگار The Case Against Evidence کے عنوان سے ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے بین السطور میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ فی الحقیقت کوئی ثبوت موجود نہیں:

برطانیہ کے انڈی پنڈنٹ کے مدیر اس امر کی فیصلہ کن شہادت کے منتظر ہیں کہ اسامہ بن لادن نیویارک اور واشنگٹن پر ہولناک حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ آبزرور لکھتا ہے: ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے معمولی سا شبہہ‘ جسے کوئی وزن دیا جا سکتا ہے‘ اسامہ بن لادن کی طرف اشارہ کر رہا ہے  لیکن پھر فوراً ہی یہ لکھا ہے کہ ’’شبہہ اور ثبوت کی ذمہ داری بہت مشکل مسئلے ہیں‘‘۔ ایڈورڈ سعید نے لی مانڈے میں لکھا ہے: ’’آج کے دن تک کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں‘‘۔ واشنگٹن میں جرمنی کے سفیر نے گذشتہ ہفتے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ اپنے اتحادیوں کے سامنے بن لادن کے خلاف ثبوت پیش کرے۔ انھوں نے کہا: ’’تھوڑے سے ثبوت کی فراہمی بھی بہت زیادہ مفید ہوگی‘‘۔ (۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۹۸۰

جو ’’حقائق اور شواہد‘‘ برطانیہ کے وزیراعظم نے امریکہ کی سی آئی اے اور برطانیہ کی ایم آئی ۵ کی چار ہفتے کی تحقیق کے بعد پیش کیے ہیں اس کو گارجین کے کالم نگار جارج مون بیوٹ  اور انڈی پنڈنٹ کے سینیر مضمون نگار رابرٹ فسک نے تار تار کر دیا ہے۔ جارج مون بیوٹ تو یہاں تک لکھتا ہے کہ:

میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں نے اس کے خلاف پہلے ایک تھیوری جوڑ جاڑ کر بنائی اور پھر ان حقائق کو تلاش کیا جو اس میں فٹ ہونے کے لیے مطلوب ہیں--- میرا خیال ہے کہ بن لادن کے خلاف کچھ شبہہ پیدا کرنے والے نئے ثبوت طلب کرنے کا خاصا جواز ہے۔

مون بیوٹ صدر جارج بش کے عزائم کو صاف لفظوں میں یوں بے نقاب کرتا ہے کہ:

صدر بش نے عظیم الشان موت کا دستہ تیار کر کے روانہ کیا ہے تاکہ وہ ماوراے عدالت سزائے موت نافذ کر دے۔

ایک طرف تو یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف دیکھیے کیا منظر نامہ ہے۔

جنرل مشرف ایک فرد یا ایک جماعت نہیں‘ ایک پوری قوم کے سفاکانہ قتل میں جنرل مشرف نہ صرف شریک ہو گئے ہیں بلکہ یہ سرٹیفیکیٹ بھی عنایت فرما دیا ہے کہ وہی نام نہاد ثبوت جنھیں ساری دنیا کے غیر جانب دار قانون دان اور سیاسی مفکر اور مبصر ردّ کر رہے ہیں اور ثبوت کی جگہ محض شبہات قرار دے رہے ہیں وہ اسامہ بن لادن ہی نہیں طالبان کا جرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون اپنے اداریے میں جنرل مشرف کے اس طرز عمل پر تعجب بھری خوشی کا اظہار کیے بغیر نہیںرہ سکا‘ جو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

مسلم دنیا کے لیے یہ مسئلہ خصوصی طور پر بہت حساس ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی پرزور ‘ کھلے عام توثیق بہت اہمیت رکھتی ہے۔ جمعرات کو مشرف حکومت برطانیہ سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئی اور اعلان کیا کہ جو ثبوت واشنگٹن نے دکھائے ہیں وہ کسی عدالت میں بن لادن کے خلاف مقدمہ چلانے کے جواز کے لیے کافی ہیں۔ (۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۲)

افسوس کا مقام ہے کہ ۱۰- اکتوبر کو اسلامی وزراے خارجہ کی کانفرنس میں قطر کے امیر شیخ محمدالثانی توبڑے ادب اور عجز سے کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے ۱۱ ستمبر سے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے مزید ٹھوس ثبوت (more concrete evidence)ضرورت ہے جب کہ ہمارے جرنیل فرماتے ہیں کہ بس یہی ’’ثبوت‘‘ پڑھا دیا وہ ایک قوم کو سولی پر چڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ اکانومسٹ کا یہ تبصرہ پاکستان کی قیادت کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔

اب تک ۱۹ مردہ ہائی جیکرز سے ملنے والے سراغوں پر ۵۴۰ تفتیشی انٹرویو کیے گئے ہیں‘ ۳۸۷---- ۴ ہزار ۴ سو عدالتی سمن جاری ہوئے ہیں اور ۵۰۰ سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اور یہ وہ ہے جو امریکہ کی حدود کے اندر ہوا ہے۔ دیگر ۲۵ ملکوں میں مزید ۱۵۰ افراد گرفتار کیے گئے ہیں تاہم ہائی جیکروں اور اسامہ بن لادن کے درمیان کوئی ٹھوس رابطہ ابھی عوام کے سامنے آنا باقی ہے۔ (۶ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۵۲)

اب تک کی ساری گواہیوں اور قرائنی شہادتوں کا نتیجہ اکانومسٹ یہ بتاتا ہے کہ:

ان میں سے کوئی چیز بھی اسامہ بن لادن کو یقینی طور پر سب سے بڑا ولن نہیں بنا سکتی۔ ابھی تک کسی نے بھی کسی بات کا اعتراف نہیں کیا ہے۔

بھارت تو اسامہ بن لادن اور طالبان کے خلاف پیش پیش ہے۔ اس کے اخبارات اور رسائل بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں اور امریکی ایف بی آئی کی ۴۰ ہزار تفتیشی سراغوں اور ایف بی اے کے ۴ ہزار ایجنٹوںکی دن رات کی سرتوڑ کوشش کے باوجود کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ (still does not reveal much)

اسامہ کے ملوث ہونے کے بارے میں الزامات تو بہ افراط ہیں لیکن شواہد ناقابل ذکر حد تک شاذ ہیں۔ (اکنامک اینڈ پولٹیکل ویکلی‘ ۶ اکتوبر ‘ ص ۳۸۰۸)

اسی اشکال کا اظہار بھارت کے وقیع مجلے فرنٹ لائن کے مضمون نگار نے کیا ہے بلکہ پردین سوامی نے لی مانڈے کے حوالے سے مشہور فرانسیسی محقق اور افغانستان کے اُمور پر چوٹی کے ماہر اور کئی کتابوں کے مصنف کی یہ رائے نقل کی ہے:

اسامہ بن لادن ساری دنیا کی انقلابی اسلامی تحریکوں کا ماسٹر مائنڈ نہیں ہے۔ اس کو ایسے جنگجوئوں کو ٹریننگ دینے والا سمجھنا چاہیے جو بعد میں خود اپنے عمل کا میدان منتخب کرتے ہیں۔ (فرنٹ لائن‘ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۸)

اور یہی تجزیہ ہے مشہور مصری سیاسی مبصر اور سابق وزیر محمد ہیکل کا جو روزنامہ گارجین میں اسٹیفن موس نے انٹرویو کی شکل میں شائع کیا ہے۔

اس نے یہ سوال بھی کیا کہ آیا اسامہ بن لادن اور اس کا القائدہ نیٹ ورک ۱۱ ستمبر کے حملوں کے واحد ذمہ دار قرار دیے جا سکتے ہیں‘ جب کہ جو کچھ ثبوت پیش کیے گئے ہیں وہ کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں۔ ’’بن لادن اس پائے کی کارروائی کے لیے صلاحیت نہیں رکھتا۔ جب میں بش کو القائدہ کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ جیسے یہ نازی جرمنی ہے‘ یا سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی ہے تو مجھے ہنسی آتی ہے‘ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ حقیقت کیا ہے۔ بن لادن کئی برس سے زیرنگرانی ہے۔ اس کی ہر ٹیلی فون کال مانٹیر کی جاتی ہے۔ القائدہ کے نیٹ ورک میں امریکی‘ پاکستانی‘ سعودی اور مصری خفیہ ایجنسیاں گھسی ہوئی ہیں۔ جس کارروائی میں اس درجے کے نظم اور باریک بینی کی ضرورت ہو‘ وہ اس کو راز نہیں رکھ سکتے تھے‘‘۔ ہیکل ان باتوں کو بہت کم وزن دیتا ہے کہ منصوبہ بندی میں زیادہ مرکزی کردار بن لادن کے نائب مصری اسلامی جہاد کے قائد ایمان الزہراوی نے انجام دیا ہو۔ ’’وہ خطرناک آدمی ہے اور سادات کے قتل میں شریک تھا لیکن وہ کوئی بڑا سوچنے والا یا منصوبہ ساز نہیں ہے۔ سادات کے قتل میں بھی اس نے مرکزی کردار ادا نہیں کیا۔ اس منصوبے میں بھی سطحی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ صرف خوش قسمتی کی وجہ سے کامیاب ہوا تھا۔ الجزیرہ سیٹلائٹ سے ان کے انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ بن لادن اور زہراوی صرف اپنے وجدان پر انحصار کرتے ہیں‘‘۔ ہیکل کو یقین ہے کہ ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بارے میں ابھی تک کئی وضاحتیں سامنے نہیں آئی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ حقیقت کچھ بھی ہو اب تک جو اسباب بیان کیے گئے ہیں وہ جلدبازی اور غیرمعمولی سہل پسندی کا مظہر ہیں اور غیر فیصلہ کن ہیں۔

’’میں سمجھتا ہوں کہ امریکی انتظامیہ کو امریکی عوام کے غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فوراً ہی کوئی دشمن مطلوب تھا جس کو ہدف بنایا جا سکتا۔ مگر میری خواہش ہے کہ وہ واقعی کچھ حقیقی ثبوت لاتے۔ مسٹر بلیر نے دارالعوام میں جو کچھ کہا میں نے اسے بڑے غور سے پڑھا ہے۔ انھوں نے ایسی فضا بنائی کہ یہ محسوس ہو کہ وہ کوئی ثبوت پیش کرنے والے ہیں۔ لیکن یہ کوئی ثبوت نہیں ہے‘ کوئی نہیں۔ یہ سب اخذ کردہ نتائج ہیں۔ کولن پاول نے سب سے زیادہ دیانت داری کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کہا کہ اگر ثبوت نہیں تو کوئی بات نہیں۔ اس نے دوسرے بہت سے ایسے جرائم کیے ہیں جن کی وجہ سے اس کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ اس چینی ضرب المثل کی طرح ہے کہ اپنی بیوی کو ہر روز مارو‘ اگر تم وجہ نہیں جانتے‘ وہ تو جانتی ہے۔ آپ اس طرح نہیں کرسکتے‘‘۔ (گارجین‘ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۶)

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے پاس کوئی حقیقی شہادت موجود ہی نہیں ہے۔ جو کچھ شہادت کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے وہ صرف شبہات کا مجموعہ ہے اور اس کی جو مجموعی تصویر اُبھرتی ہے وہ پراگندہ‘ خام‘ تشنہ‘ مفروضوں پر مبنی‘ غیر مربوط‘ تضادات سے پرُ‘ ناقابل اعتماد اور محروم ثبوت ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم ساری معلومات ظاہر نہیں کر سکتے لیکن یہ اصول انصاف‘ بنیادی حقوق اور نظام قضا کے خلاف ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ مخدوش اور ناقابل چیلنج معلومات کی بنیاد پر‘ دفاع اور جرح و تعدیل کے حق کے بغیر کسی بھی شخص یا گروہ کو ملزم ہی نہیں مجرم قرار دے اور پھر خود ہی اسے سزا سنا کر اس سزا پر عمل بھی کر ڈالے۔ صرف اسی کو نہیں بلکہ یہ ظالمانہ دعویٰ بھی کرے کہ جو ممالک بھی اس کی نگاہ میں اس کے مطلوبہ افراد کو پناہ دیں گے۔ وہ ملک بھی گردن زدنی ہیں اور ان کے عوام بھی عمومی تباہی (mass destruction)کے ہتھیاروں کا نشانہ بنائے جائیں گے۔ سچی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ معلومات باہر لائی گئی ہیں اس کے علاوہ کوئی پیش کیے جانے کے لائق معلومات یا شہادتیں ہیں ہی نہیں اور محض اپنی اَنا اور جذبہ انتقام کی تسکین‘ اپنے سلامتی اور خفیہ معلومات کے نظام کی ناکامی اور اپنے عوام کے جذبات کو غلط رخ پر ڈالنے کے لیے کشت و خون کا یہ بازار گرم کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعے کچھ دوسرے مقاصد ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے زمین ہموار کی جا رہی ہے ورنہ معقول راستہ صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ اگر اسامہ بن لادن اور ان کے القائدہ کے بارے میں کوئی مسکت معلومات اور شواہد تھے تو فوری طور پر ایک پارلیمانی یا عدالتی کمیشن بنایا جاتا جو آزاد تحقیق و تفتیش اور کھلی سماعت کے ذریعے کیس کا جائزہ لیتا اور اگر کوئی ٹھوس شہادت سامنے آتی تو عدالتی عمل کے ذریعے ملزموں کو یا امریکہ کی کسی اعلیٰ عدالت میں مقدمے کے لیے تحویل ملزمان کے معروف بین الاقوامی ضابطے کے تحت حاصل کیا جاتا یا متعلقہ حکومتوں کے ذریعے کسی عالمی عدالت اور غیر جانب دار کی عدالتی کمیشن کے سامنے مقدمہ چلایا جاتا۔ طالبان نے بار بار شواہد کا مطالبہ کیا اور یہاں تک کہا کہ ہم غیر جانب دار مسلمان ممالک کی اعلیٰ عدالت یا اعلیٰ عدالتی کمیشن کے آگے اسامہ کو پیش کرنے کو تیار ہیں لیکن صدر بش کی ہٹ دھرمی‘ رعونت اور سامراجی عزائم نے انھیں کسی معقول راستے کی طرف آنے ہی نہیں دیا بلکہ ان کا ایک ہی جواب تھا:

جب میں کہتا ہوں: کوئی مذاکرات نہیں‘ میرا مطلب یہی ہوتا ہے: کوئی مذاکرات نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ مجرم ہے۔ اسے حوالے کر دو۔ جرم یا بے گناہی پر گفتگو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (انڈی پنڈنٹ‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱)

حالانکہ خود برطانوی پارلیمنٹ کے سینیر ارکان (مثلاً: ٹیم ڈی لییل جو پارلیمنٹ کے سب سے معمر ممبر ہیں اور دارالعوام کے فادر کہلاتے ہیں) کہہ رہے ہیں:

۱۱ ستمبر کو نیویارک میں دہشت گرد حملوں کا برطانیہ میں ٹھیک وہی ردّعمل ہوا جو اسامہ بن لادن چاہتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف اینگلوامریکی پیش قدمی ساری دنیا میں برطانوی امریکی شہریوںپر حملوں کی صورت میں منتج ہو سکتی ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو اقوام متحدہ کو سامنے لایا جائے اور اسے ایک طرف نہ رکھا جائے۔ اب بھی کوشش ہونا چاہیے کہ طالبان کو پیش کش کی جائے کہ اسامہ بن لادن کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام کسی عدالت میں پیش کر دیں جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے جج ہوں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ ۹- اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۵)

بھارتی رسالے فرنٹ لائن نے بھی ادارتی کالموں میں اسے امریکہ کی غیر منصفانہ جنگ (American's Unjust War) قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ:

اس خوف ناک جرم کا صحیح ردّعمل یہ ہو سکتا تھا کہ ارتکاب جرم کرنے والوں کو سخت انصاف کے حوالے کرنے لیے ہر طرح کی کوشش کی جاتی۔ دنیا کو قائل کرنے کے لیے سب ثبوت تلاش کر کے سامنے لا کر‘قانون کی حکمرانی کے تحت اور قانونی عدالتوں کے ذریعے سامنے لائے جاتے‘ اقوام متحدہ کے اجتماعی ادارے کے ذریعے کارروائی کی جاتی۔ مگر اس طرح کے منصفانہ ردّعمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ امریکہ جو کچھ ہے‘ جو کچھ وہ کرنے کا عادی ہے‘ واحد سوپر طاقت ہونے کا اسے جو غرہ ہے اور اس کے بین الاقوامی کردار کی وجہ سے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ (۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۸)

دسیوں اخبارات و رسائل اور ان کے سیاسی مبصر اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن صدر بش ‘ وزیراعظم بلیر اور ان کے شریک کار جنگ پر تلے ہوئے ہیں اور افغانستان پر آگ اور خون کی بارش برسا رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک کو جس میں نہ سڑکیں ہیں اور نہ ریلوے لائن‘ جہاں بجلی‘ پانی اور خوراک کی سہولتیں بھی میسر نہیں‘ جن کی کوئی فضائیہ نہیں‘ ان پر اپنی فضائی برتری قائم کرکے فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ محدود و متعین نشانوں پر حملے (targetted bombing) کے نام پر شہر اور دیہات ہی نہیں‘ مساجد‘ مدرسے‘ شفاخانے اور یواین او اور ریڈکراس کے ڈپو تباہ کیے جارہے ہیں۔ بمباری کے اڑھائی ہفتوں میں تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زیادہ بے بس انسان شہید ہو چکے ہیں لیکن آتش انتقام ہے کہ سرد ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پاکستان کے جرنیل صدر اس خون ریزی میں برابر کے شریک ہیں۔ اس لیے کہ جس حملے کو وہ مختصر اور بہ ہدف (short and targetted) کہہ رہے تھے اور جس کی ضمانتوں کے وہ مدعی تھے اس کا پول پہلے ہی دن کھل گیا جب بش صاحب نے غضب ناک ہو کر کہا کہ صدر مشرف کو کس نے یہ ضمانت دی ہے۔ ہم جب تک چاہیں گے حملے کریں گے جو سردی‘ گرمی بلکہ کئی برسوں تک بھی پھیل سکتے ہیں۔ اس شاہی اعلان کے بعد ہمارے جرنیل  صدر ’’اسی تنخواہ پر‘‘ کام کرتے ہوئے بش صاحّ کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔

افغانستان کا مبنی برحق موقف

دنیا کے ہر آزاد ملک کا حق ہے کہ اپنے کسی شہری کو یا جسے پناہ دے اسے مناسب عدالتی کارروائی کے بغیر کسی دوسرے ملک کے حوالے نہ کرے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک کو مطلوب ہے تو اس کا ایک ہی جائز طریقہ ہے کہ اخلاق اور بین الاقوامی قانون اور ضابطے کے مطابق باقاعدہ عدالتی عمل کے ذریعے اسے طلب کیا جائے۔ اور اس صورت میں بھی جس ملک کے شہری کو طلب کیا جا رہا ہے اس کی عدالت فراہم کردہ شہادتوں کی بنیاد پر اپنا اطمینان کرنے کے بعدہی اسے منتقل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ برطانیہ جو اس مہم میں امریکہ کا شریک ہے خود اپنے قانون اور روایات کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ چلّی کے سابق سربراہ جنرل پنوشے برطانیہ علاج کے لیے آئے تھے کہ اسپین نے ان کو انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا۔ دو بار مقدمہ اعلیٰ عدالتوں سے گزر کر ہائوس آف لارڈز میں گیا اور بالآخر لارڈز نے طے کیا کہ ان کو چلّی واپس بھیج دیا جائے‘ اسپین کے حوالے نہ کیا جائے۔ لطف یہ ہے کہ بن لادن کے لیے تو برطانیہ نے بھی امریکہ کے ساتھ اپنی فوج بھیج دی ہے اور پہلے ہی دن سے ہوائی حملوں میں شریک ہے جبکہ اپنے ملک میں آج بھی یہ کیفیت ہے کہ حقوق انسانی کے یورپین کنونشن کے تقاضوں کے پیش نظر ۱۱ ستمبر ہی کے ایک ملزم کو جو جہاز کے اغوا کے سلسلے میں مطلوب ہے اس لیے حوالے نہیں کر رہا کہ امریکہ میں موت کی سزا ہے جبکہ یورپی قانون کاتقاضا ہے کہ جس ملک میں موت کی سزا ہو وہاں کسی ملزم کو تحویل میں نہ دیا جائے۔ امریکہ اور برطانیہ میں اس پر ردّ و کد ہو رہی ہے۔ یورپ کے ایک نمایندے کا کہنا ہے کہ:

ہم اس لڑائی میں مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ ہیں لیکن ہم سزاے موت کے مخالف ہیں اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ (دی سنڈے ٹیلی گراف‘ ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

یورپ کے ممالک ’’مہذب‘‘ ہیں اس لیے ان کو حق ہے کہ اپنے قانون کی بالادستی قائم رکھیں مگر افغانستان‘ پاکستان اور دوسرے مشرقی ممالک ’’غیر مہذب‘‘ ہیں‘ ان کے ملکی قانون‘ مذہب اور روایات کی کوئی حقیقت نہیں۔ امریکہ کو حق ہے کہ پاکستان ہو یا فلپائن اپنے مطلوبہ افراد کو زور و زبردستی کے ذریعے حاصل کر لیں بلکہ پانامہ کے صدر کو ۲۵ ہزار فوج بھیج کر اغوا کر لے اور پھر اپنے ملک میں مقدمہ چلائے مگر دوسرے ممالک کسی امریکی پر اپنے ملک میں کسی جرم کی پاداش میں بھی مقدمہ نہ چلا سکیں۔ اگر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قائم ہونے والی عدالت کے ہر فیصلے کے احترام کو چارٹر کے ذریعے ارکان ممالک پر لازم کیا جائے تو امریکہ جب چاہے یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے کہ ہم اس معاملے میں کورٹ کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ ۱۹۹۶ میں امریکہ نے نکاراگوا میں امریکی فوجی مداخلت کے سلسلے میں عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ صریح بین الاقوامی غنڈا گردی ہے۔ اسے کسی مہذب ملک کا طریقہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

افغانستان اپنے اقتداراعلیٰ (sovereign)کے اس حق کے لیے سینہ سپر ہے کہ جس شخص کو اس نے پناہ دی ہے اسے کسی واضح ثبوت اور عدالتی عمل کے بغیر محض امریکہ کے مطالبے پر امریکہ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔

افغانستان کے خلاف امریکہ کی موجودہ جنگ ایک صریح جارحانہ کارروائی ہے جس میں صرف طاقت کے بل پر وہ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی ضابطے اور اخلاقی اقدار کوپامال کر رہا ہے۔ ہم نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ امریکہ بن لادن اور القائدہ کے خلاف کوئی قابل قبول اور معتبر شہادت پیش نہیں کر سکا ہے اور صرف دھونس اور تشدد کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔

بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی

اس بہانے اس نے افغانستان پر جوفوج کشی کی ہے وہ صریح طور پر ریاستی دہشت گردی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

قانون کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی دوسرے فرد یا ریاست کو کسی اور کے جرم کی پاداش میں سزا نہیں دی جا سکتی خواہ وہ جرم ثابت بھی ہو چکا ہو۔ جرم میں اعانت (abetment)اور کسی کو پناہ دینا دو بالکل مختلف اُمور ہیں‘ خصوصیت سے جب کہ جرم ثابت بھی نہ ہوا ہو اور نہ کوئی فیصلہ کن شہادت موجود ہو۔ محض ایک ایسے شخص کا کسی ملک میں ہونا جو کسی دوسرے ملک کو مطلوب ہے‘ کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ ایک دوسرے ملک پر حملہ آور ہو جائے۔ انٹرنیشنل لا کمیشن نے اس سلسلے میں واضح قوانین وضع کیے ہوئے ہیں جو دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکہ اور برطانیہ قبول کر چکے ہیں۔ اس قانون کی دفعہ ۱۱ کہتی ہے:

ایک فرد یا گروہ کا ایسا طرزعمل ‘ جو کسی ریاست کی جانب سے نہ ہو‘ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست کا اقدام نہیں سمجھا جائے گا۔

اس طرح‘ اس کی دفعہ ۱۴ میں کہا گیا ہے:

کسی ایسی باغی تحریک کے کسی حصے کا عمل‘ جو کسی ریاست کی حدود میں‘ یا اس کے زیرانتظام کسی دوسرے خطے میں ہو‘ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست پر الزام نہیں سمجھا جائے گا۔

ہم نے نکاراگوا کی حکومت کے امریکہ کے خلاف جس مقدمے کا ذکر اُوپر کیا ہے‘ اس میں چند اقدامات کے بارے میں امریکہ کو مورد الزام اور ذمہ دار قرار دیا گیا تھا مگر کچھ دوسرے معاملات میں عدالت نے امریکہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تھا اور وہ اسی اصول کے تحت تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ:

عدالت کی رائے ہے کہ امریکہ نے نکاراگوا کی کی کنٹرا (contra) افواج میں ایک ہدایت نامہ تیار کر کے تقسیم کر کے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی ہے جو انسان دوستی کے عمومی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن عدالت کوئی ایسی بنیاد نہیں پاتی کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان اقدامات کو امریکہ کے اقدامات قرار دے سکے۔

ان اصولوں کی روشنی میں صاف ظاہر ہے کہ اگر افغانستان میں مقیم کسی فرد نے کوئی ایسا اقدام کیا ہے یا کوئی ایسا اقدام اس سے منسوب کیا جا رہا ہے جو انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے تب بھی اس کی ذمہ داری افغانستان کی حکومت پر نہیںڈالی جا سکتی۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون کے ان اصولوں کو اس لیے مرتب کیا گیا ہے کہ کوئی بھی حکومت‘ خصوصیت سے جن کے پاس طاقت ہے‘ ایسے اقدامات کا سہارا لے کر افراد کے جرائم کے لیے ریاست کو طاقت کے من مانے استعمال (arbitrary use) کا نشانہ نہ بنا ڈالیں۔ اس راستے کو روکنے کے لیے یہ قوانین بنائے گئے ہیں لیکن امریکہ نے ان کو صریحاً نظرانداز کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے تقاضے

اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ہی ریاستوں کی طرف سے یک طرفہ اور من مانی فوجی کارروائیوں کو روکنا تھا۔ چارٹر کی دفعہ ۵۱ میں خود حفاظتی (self defence) کا حق دیا گیا ہے لیکن اسے کسی بھی دلیل کے ذریعے دوسرے ممالک پر فوج کشی کے حق میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر حسب ذیل بنیادوں پر قائم ہے:

۱- آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے تحفظ دینے کے لیے۔

۲- مرد و زن اور بڑی یا چھوٹی اقوام کے مساوی حقوق۔

۳- بین الاقوامی قانون کے تحت معاہدات کے تفویض کردہ فرائض کا احترام (مقدمہ)۔

چارٹر کی دفعہ ۲۰ کی شق ۱‘۳ اور ۴ بہت واضح ہیں:

۱- ممبر ممالک کی خود مختار مساوات کا حصول (۲۰۱)

۲- تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تنازعے پرامن ذرائع سے اس طرح طے کریں گے کہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔(۲۰۳)

۳- تمام ممبران بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کی جغرافیائی وحدت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال‘ یا اس کی دھمکی سے‘ یا کسی بھی ایسے طریقے کو اختیار کرنے سے احتراز کریں گے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد کے مطابق نہ ہو۔

پھر دفعہ ۳۳ میں یہ ضابطہ بہت صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ:

کسی تنازعے کے فریق جس کے جاری رہنے سے عالمی امن و استحکام کے برقرار رہنے کو خطرہ ہو‘ حل تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے مذاکرات ‘ مصالحت‘ ثالثی‘ عدالتی تصفیے‘ علاقائی تنظیموں سے اپیل‘ یہ سب یا اپنی پسند کے دوسرے پرامن ذرائع کا راستہ اختیار کریں گے۔

نیز دفعہ ۳۶ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ دری قرار دی گئی ہے کہ دفعہ ۳۳ کے تحت جو معاملہ بھی اس کے سامنے آئے‘ اس میں تنازع کے حل کے لیے ضروری اقدامات تجویز کرے۔ دفعہ ۳۷ کے تحت اگر ممبر ملک مذاکرات اور دوسرے پرامن ذرائع سے تنازع طے نہ کر سکیں تو ان کے لیے ضروری ہوگا کہ سلامتی کونسل کی طرف رجوع کریں جو دفعہ ۳۶ کے تحت ضروری کارروائی کرے گی۔

کسی ایک ملک کے خلاف کوئی دوسرا ملک ازخود کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ دفعہ ۳۳‘ دفعہ ۳۶ اور  دفعہ ۳۷ کے تحت اقدامات کی ناکامی کی صورت میں سلامتی کونسل دفعہ ۴۱ کے تحت معاشی پابندیاں اور دفعہ ۴۲ کے تحت فوجی کارروائی کا فیصلہ کر سکتی ہے مگر ایسی فوجی کارروائی کوئی ملک خود نہیں کر سکتا اور نہ اقوام متحدہ کو نظرانداز کرکے کسی اتحاد (کولیشن) کے ذریعے کر سکتا ہے بلکہ یہ اقدام اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی فوجوں کے ذریعے دفعہ ۴۶ اور ۴۷ کے تحت اقوام متحدہ کی ملٹری اسٹاف کمیٹی کے تحت ہی ہو سکتے ہیں اور یہ کمیٹی سلامتی کونسل کے مشورے اور اجازت سے کوئی اقدام کر سکتی ہے۔

یہ ہے وہ ضابطہ کار جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں مرقوم ہے۔امریکہ اور برطانیہ نے اس کی ہر ہر دفعہ کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ امریکہ نے دفعہ ۵۱ کا سہارا لیا ہے لیکن اس کا جواز صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جب کسی ملک پر کسی متعین ملک کی فوجوں نے عملاً حملہ کر دیاہو (armed attack) اور اس صورت میں بھی جو ملک خود دفاعی (self defence) کے اس حق کو استعمال کرے اس کا فرض ہے کہ فوری طور پر اس کی اطلاع سلامتی کونسل کو دے اور پھر وہ سلامتی کونسل کے اس حق میں کوئی مداخلت کرنے کا مجاز نہیں ہوگا جو امن کی بحالی کے لیے سلامتی کونسل کرے۔ چارٹر کی دفعہ ۹۴ کے تحت یہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا فرض ہے کہ اگر کوئی ملک چارٹر کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا ازخود نوٹس لے اور سلامتی کونسل میں معاملے کو پیش کرے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں امریکہ اور برطانیہ کا رویہ مبنی برحق نہیں بلکہ صریحاً جارحانہ‘ ظالمانہ ‘ یک طرفہ‘ من مانا اور امن عالم کے لیے تباہ کن ہے۔ پاکستان کی حکومت نے اس بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے اپنی زمینی اور اپنے فضائی راستے فراہم کر کے جرم میں شرکت اور شر اور فساد میں تعاون کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ کے جرائم متعین طور پر یہ ہیں:

(الف) کسی حتمی ثبوت اور شہادت کے بغیر اور کسی مبنی برانصاف عدالتی عمل کے بغیر ایک فرد‘ ایک گروہ اور ایک ملک کو مجرم قرار دیا اور اس کے خلاف راے عامہ اور ملکوں کی کولیشن قائم کی۔

(ب) بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی عدالتوں کے واضح فیصلوں کے علی الرغم‘ اس ملک‘ اس جماعت اور ان گروہوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جن کا قانون کے تحت کسی جرم میں کوئی ہاتھ نہ تھا۔ اگر ان ممالک میں کچھ لوگ ایسے پناہ گزین تھے جن کا جرم عدالتی طریقے سے ثابت ہو تب قانون کے مطابق ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ تو ہو سکتا ہے مگر کسی فوجی اقدام یا اغوا کی کوشش کا کوئی قانونی جواز نہیں اور جن افراد کا جرم ثابت نہ ہوا ہو ان کے بارے میں تو مطالبے کا بھی کسی کو اختیار نہیں۔

(ج) اگر کوئی تنازع فی الحقیقت تھا بھی اور کوئی دوسرا ملک ایک جائز مطالبے کو پورا کرنے میں مزاحم ہو تو مذاکرات (negotiations) کا راستہ اختیار کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۳۳ کے تحت لازمی ہے۔ امریکی صدر نے مذاکرات سے انکار کیا اور معاملات کے تصفیے کے پرامن راستے کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا اور اس طرح چارٹر کی خلاف ورزی کی اور عالمی امن کو تہ و بالا کیا۔

(د) فوجی کارروائی کے سلسلے میں بھی چارٹر میں طے کردہ راستے کو اختیار نہیں کیا گیا۔ سلامتی کونسل نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس میں بن لادن یا افغانستان کو مجرم قرار دیا گیا ہو یا ان کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہو۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء کو جو قرارداد سلامتی کونسل نے منظورکی ہے اس میں اول تو دہشت گردی کی کوئی تعریف نہیں کی گئی اور نہ اس کا مخاطب کوئی ایک ملک ہے۔ اس میں تمام ممبر ممالک سے ۷ نکات کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں دہشت گردی کے مالیاتی وسائل کی روک تھام‘  دہشت گرد تنظیموں کے اثاثوں کی ضبطی‘ کسی فرد یا تنظیم کو دہشت گردوں کی مالی اعانت سے روکنا‘ ایسی تنظیموں میں نئے حامیوں کی بھرتی یا ان کو اسلحہ کی فراہمی ‘ دہشت گردی کے مرتکب افراد یا تنظیموں کو پناہ دینے والوں سے تعاون پر پابندی‘ سرحدوں پر کنٹرول اور دہشت گردی کے سلسلے کے جرائم کی تحقیق و تفتیش میں تعاون اور معلومات کا تبادلہ شامل ہے۔ اس میں نہ کوئی ملک متعین کیا گیا ہے اور نہ کسی کے خلاف فوجی کارروائی کرنے اور اس کارروائی میں مدد دینے کی کوئی بات ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک کسی فوجی کارروائی کا تعلق ہے اسے اقوام متحدہ کی بلاواسطہ یا بالواسطہ تائید حاصل نہیں اور ایسا ہر قدم چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔ فوج کشی کے دو ہفتے بعد بھی سلامتی کونسل کو باضابطہ اطلاع نہ دینا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا متحرک نہ ہونا بھی چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ جو فوجی کارروائی عالمی برادری کے نام پر ہو رہی ہے‘ اسے نہ عالمی برادری کی تائید حاصل ہے اور نہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ہے۔ اس کی حیثیت محض ایک سوپر پاور کی ریاستی دہشت گردی کی ہے اور جو بھی‘ اس میں جس درجے میں تعاون کر رہا ہے وہ اس حد تک دہشت گردی میں شریک اور ایک مظلوم ملک کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہے۔ دنیا کے ۱۹۸ ملکوں میں سے بمشکل ۴۰ امریکی دبائو یا ’’دوستی‘‘ کے سبب اس میں شریک ہوئے ہیں اور جو بظاہر شریک ہیں ان میں بھی اختلاف‘ اضطراب‘ تحفظات اور بے زاری کے آثار ہیں۔ افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ چند مسلمان ملک جن میں پاکستان‘ ترکی اور ازبکستان قابل ذکر ہیں اس جارحیت کے لیے اپنا کندھا پیش کیے ہوئے ہیں اور حق و انصاف ہی کا خون نہیں کر رہے بلکہ اُمت مسلمہ کے مظلوم انسانوں کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ یہ وہ جرم ہے جسے نہ خدا معاف کرے گا اور نہ ملّت اسلامیہ۔ جو جس درجے کے ظلم کا مرتکب ہے اسے ان شاء اللہ ایک دن اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا:

جو چپ رہے گی زبان خنجر‘ لہو پکارے گا آستیں کا

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ تم پر روزے فرض کر دیے گئے‘ جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو‘ یا سفر پر ہو تو دُوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے‘ تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن اگر تم سمجھو‘ تو تمھارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ (البقرہ ۲:۱۸۳-۱۸۴)

اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انھیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو۔  روزے کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجاآوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رُک جانے کے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتا ہے ۔ اور واہی ]بے ہودہ[اخلاق سے انسان کا تنقیہ ]تزکیہ [ہو جاتا ہے۔ اس حکم کے ساتھ ہی فرماتا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے کا حکم تھا۔ اس بیان سے یہ بھی مقصود ہے کہ یہ اُمت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی اُمتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہے لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا  ‘ یعنی ہر ایک کے لیے ایک طریقہ اور راستہ ہے اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک ہی اُمت کر دیتا لیکن وہ تمھیں آزما رہا ہے۔ تمھیں چاہیے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو۔ یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے اگلوں پر تھے۔ روزے سے بدن کی پاکیزگی ہے اور شیطانی راہ کی روک ہے۔صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اے جوانو! تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کر لے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے۔ اس لیے کہ یہ شہوت کو کمزور کرتا ہے۔ پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادایگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس خدائی فریضے کو بجا لائے۔ پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا۔ پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا۔ (تفسیرابن کثیر‘ ج ۱‘ ص ۱۸۹)

روزہ

صیام جمع ہے صوم کی۔ صوم اور روزہ اصطلاحِ شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے کو کھانے پینے اور عملِ زوجیت سے روکے رہے۔ جو روزے فرض ہیں وہ ماہِ رمضان کے ہیں۔ غیبت‘ فحش‘ بدزبانی وغیرہ زبان کے تمام گناہوں سے روزے میں بچے رہنے کی سخت تاکیدیں حدیث میں آئی ہیں۔ جدید و قدیم سب طبیں اس پر متفق ہیں کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دُور کرنے کا بہترین علاج اور جسم انسانی کے لیے ایک بہترین مصلح ہے۔ پھر اس سے سپاہیانہ ہمت اور ضبط نفس کی رُوح جو ساری اُمت میں تازہ ہو جاتی ہے‘ اُس کے لحاظ سے بھی مہینہ بھر کی یہ سالانہ مشق ایک بہترین نسخہ ہے۔ (تفسیر ماجدی‘ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ، ص ۶۸)

صوم اور صیام مصدر ہیں۔ صوم کے لغوی معنی کسی شے سے رک جانے اور اس کو ترک کرنے کے ہیں۔ صام الفرس صومًا کے معنی ہیں گھوڑے نے چارہ نہیں کھایا۔ نابغہ کا شعر ہے    ؎

خیل صیام وخیل غیر صائمۃ
تحت العجاج واخری تعلک اللجما

بہت سے بھوکے اور بہت سے آسودہ گھوڑے میدانِ جنگ کے غبار میں کھڑے تھے اور دوسرے بہت سے اپنی لگامیں چبا رہے تھے۔

مولانا فراہی ؒ لفظ صوم کی تحقیق کے سلسلے میں اپنی کتاب اصول الشرائع میں فرماتے ہیں: ’’اہل عرب اپنے گھوڑوں اور اُونٹوں کو بھوک اور پیاس کا عادی بنانے کے لیے باقاعدہ ان کی تربیت کرتے تھے تاکہ مشکل اوقات میں وہ زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرسکیں۔ اسی طرح وہ اپنے گھوڑوں کو تند ہوا کے مقابلے کی بھی تربیت دیتے تھے۔ یہ چیز سفر اور جنگ کے حالات میں‘ جب کہ ہوا کے تھپیڑوں سے سابقہ پیش آجائے‘ بڑی کام آنے والی ہے… جریر نے اپنے ایک شعر میں ان دونوں باتوں کا حوالہ دیا ہے‘ وہ کہتا ہے    ؎

ظللنا بمستن الحرور کاننا
لدی فرس مستقبل الریح صائم

ہم لُو کے تھپیڑوں کی جگہ جمے رہے گویا ہم ایک ایسے گھوڑے کے ساتھ کھڑے ہوں جو بادِ تند کا مقابلہ کر رہا ہو اور روزہ رکھے ہوئے ہو

اس شعر میںاس نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے حال کی تشبیہ ایک ایسے شخص سے دی ہے جو اپنے گھوڑے کے ساتھ کھڑا ہو اور اس کو بھوک اور بادِ تند کے مقابلے کی تربیت دے رہا ہو۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ اہل عرب تشبیہ کے لیے انھی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں جو ان کے عام تجربے میں آئی ہوں۔ ان کو نادر چیزوں کی تلاش زیادہ نہیں ہوتی… الغرض گھوڑوں کے صوم کے بارے میں اشعار بہت ہیں‘‘۔

اسی سے صائم ہے جس کے معنی وہ شخص جو کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جائے۔ اس کے لیے کچھ مخصوص شرعی حدود و قیود ہیں جن کی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ (تدبر قرآن‘ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، ج ۱‘ ص ۴۰۰-۴۰۱)

روزہ دوسری اُمتوں میں

روزہ کسی نہ کسی صورت میں تو دنیا کے تقریباً ہر مذہب اور ہر قوم میں پایا جاتا ہے‘ جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا‘ طبع چہاردہم کی جلد ۹‘ ص ۱۰۶ اور جلد ۱۰‘ ص ۱۹۳ سے ظاہر ہے لیکن قرآن کو مشرکانہ مذہبوں سے بحث نہیں۔ الذین من قبلکم سے اس کی اصل مراد اہل کتاب ہی سے ہو سکتی ہے۔ چنانچہ روزہ شریعت موسوی کا ایک اہم اور مشہور جزو ہے۔ مذاہب عالم سے اِتنی گہری واقفیت‘ کہ صاف صاف اُن میں روزے کے جزو مذہب ہونے کی خبر دے دی‘ ڈاک اور ریل کے زمانے سے صدیوں قبل اور اخبارات اور کتب خانوں کے دَور سے ہزار بارہ سو سال پیش تر عرب جیسے دُور افتادہ اور دنیا کے ہر ملک سے بے تعلق جزیرہ نما میں ایک اُمّی کے لیے کسی طرح ممکن نہیں--- بجز وحی الٰہی کے توسط کے۔ (تفسیر ماجدی‘ ص ۶۸)

پہلی اُمتوں میں سے نصاریٰ پر روزہ فرض ہونے کا بیان ایک حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ نصاریٰ پر ماہِ رمضان کا روزہ فرض ہوا تھا ۔اُن کا کوئی بادشاہ بیمار ہوا تو اُس کی قوم نے نذر مانی کہ اگر بادشاہ کو شفا ہو جائے تو ہم ۱۰ روزے اور اضافہ کر دیں گے۔ پھر اور کوئی بادشاہ بیمار ہوا اُس کی صحت پر سات کا اور اضافہ ہوا۔ پھر تیسرا بادشاہ ہوا سو اُس نے تجویز کیا کہ ۵۰ میں ۳ ہی کی کسر رہ گئی ہے لائو تین اور بڑھا لیں اور ایام بیع میں سب رکھ لیا کریں۔ (بیان القرآن‘ مولانا اشرف علی تھانویؒ ‘ ج ۱‘ ص ۱۰۲)

حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینے میں تین روزوں کا حکم ہوا جو حضورؐ کی اُمت کے لیے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اگلی اُمتوں پر بھی ایک مہینے کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے اگلی اُمتوں پر بھی فرض تھے۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگلی اُمتوں کو یہ حکم تھاکہ جب وہ عشا کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو اُن پر کھانا پینا‘ عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیںاگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر‘ ص ۱۸۹)

روزہ تعمیل ارشادِ خداوندی میں تزکیۂ نفس ‘ تربیت ِجسم دونوں کا ایک بہترین دستورالعمل ہے۔ اشخاص کے انفرادی اور اُمت کے اجتماعی ہر دو نقطۂ نظر سے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے ارشاد سے اسلامی روزے کی اصل غرض و غایت کی تصریح ہو گئی کہ اس سے مقصود تقویٰ کی عادت ڈالنا اور اُمت و افراد کو متقی بنانا ہے۔ تقویٰ انفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس طرح مضر غذائوں اور مضر عادتوں سے احتیاط رکھنے سے جسمانی صحت درست ہو جاتی ہے اور مادی لذتوں سے لُطف و انبساط کی صلاحیت زیادہ پیدا ہو جاتی ہے‘ بھوک خوب کھل کر لگنے لگتی ہے‘ خون صالح پیدا ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح اس عالم میں تقویٰ اختیار کر لینے سے (یعنی جتنی عادتیں صحت روحانی و حیاتِ اخلاقی کے حق میں مضر ہیں‘ ان سے بچے رہنے سے) عالم آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اُٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح پیدا ہو کر رہتی ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں اسلامی روزے کی افضلیت تمام دوسری قوموں کے گرے پڑے روزوں پر علانیہ ثابت ہوتی ہے‘ اور خیر مشرک قوموں کے ناقص ‘ ادھورے اور براے نام روزوں کا تو ذکر ہی نہیں‘ خود مسیحی اور یہودی روزوں کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ یا تو کسی بلاکو دفع کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں‘ یا کسی فوری اور مخصوص روحانی کیفیت کے حاصل کرنے کو۔ یہود کی قاموس اعظم جیوش انسائیکلوپیڈیا میں ہے: قدیم زمانے میں روزہ یا تو بطور علامت ِ ماتم کے رکھا جاتا تھا ‘ اور یا جب کوئی خطرہ درپیش ہوتا تھا ‘ اور یا پھر جب سالک اپنے میں قبولِ الہام کی استعداد پیدا کرنا چاہتا تھا‘‘ (جلد ۵‘ ص ۳۴۷)۔ (تفسیر ماجدی‘ ص ۶۸۰)

تقویٰ : روزے کی غرض و غایت

یہ ایک فطری بات ہے کہ جس اُمت پر اللہ کے نظام کو دنیا میں قائم کرنے ‘ اور اس کے ذریعے نوعِ انسانی کی قیادت کرنے اور انسانوں کے سامنے حق کی گواہی دینے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ فرض کیا جائے‘ اُس پر روزہ فرض ہو۔ روزے ہی سے انسان میں محکم ارادے اور عزم بالجزم کا نشوونما ہوتا ہے۔ روزہ ہی وہ مقام ہے جہاں بندہ اپنے رب سے اطاعت و انقیاد کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔ پھر روزہ ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان تمام جسمانی ضرورتوں پر قابو پاتا اور تمام دشواریوں اور زحمتوں کو--- جو وہ صرف اس لیے اٹھاتا ہے کہ اُس کا خدا اُس سے راضی ہو اور خدا کے یہاں جو اجر ہے‘ وہ اُسے حاصل ہو --- برداشت کرنے کی قوت حاصل کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اِس راہ کی‘ جو گھاٹیوں اور کانٹوں سے بھری ہوئی ہے‘ جس کے اطراف و جوانب میں مرغوبات و لذائذ بکھرے پڑے ہیں‘ اور جس پر چلنے والوں کو بہکانے والی ہزارہا صدائیں مسلسل اٹھتی رہتی ہیں--- مشقتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کے لیے نفوسِ انسانی کی تیاری کے مقصد کے لیے یہ عناصر لازمی و ناگزیر ہیں۔

اللہ تعالیٰ روزے کے ذکر کی ابتدا اُس ندا سے کرتا ہے جو اہل ایمان کو محبوب ہے۔ اس طرح وہ انھیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتا ہے۔ پھر وہ انھیں بتاتا ہے کہ روزہ ایک قدیمی فریضہ ہے جو ہر خدائی شریعت میں اہل ایمان پر فرض رہا ہے۔ اِس فریضے کا اوّلین مقصود تقویٰ‘ صفاے قلب‘ احساسِ ذمہ داری اور خشیت الٰہی کے لیے دلوں کو تیار کرنا ہے۔

آیت سے روزے کی عظیم غایت سامنے آتی ہے۔ یہ تقویٰ ہے! تقویٰ دل میں زندہ و بیدار ہو تو مومن اِس فریضے کو اللہ کی فرماں برداری کے جذبے کے تحت‘ اُس کی رضاجوئی کے لیے ادا کرتا ہے۔ تقویٰ ہی دلوں کا نگہبان ہے۔ وہی معصیت سے روزے کو خراب کرنے سے انسان کو بچاتا ہے--- خواہ یہ دل میں گزرنے والا خیال ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن کے اوّلین مخاطب جانتے تھے کہ اللہ کے یہاں تقویٰ کا کیا مقام ہے اور اس کی میزان میںتقویٰ کا کیا وزن۔ یہی اُن کی منزلِ مقصود تھی‘ جس کی طرف ان کی روحیں لپکتی تھیں۔ روزہ اُس کے حصول کا ذریعہ اور اس تک پہنچانے کا راستہ ہے۔ قرآن اس تقویٰ کو منزلِ مقصود کی حیثیت سے اُن کے سامنے رکھتا ہے تاکہ روزے کے راستے سے وہ اِس منزل کا رخ کر سکیں۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’امید ہے کہ تم خدا ترس بنو گے!‘‘

رخصت اور عزیمت

مرض اور سفر کے سلسلے میں آیت کے الفاظ مطلق ہیں‘ اُن میں کوئی قید اور تحدید نہیں ہے۔ کوئی بھی مرض اور کوئی بھی سفر ہو‘ اُس میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ مریض صحت پانے پر اور مسافر مقیم ہونے پر روزے ادا کر لے۔ اِس مطلق آیت کا یہی مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور یہی تنگی اور مشقت سے بچانے کے‘ اسلامی مقصد سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حکم مرض کی شدت یا سفر کی مشقت سے نہیں‘ مطلق مرض اور سفر سے متعلق ہے‘ تاکہ لوگوں کو سہولت ہو اور وہ دشواری میں نہ پڑیں۔

یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ اس رائے کو بیان کیا جائے تو رخصتوں کے متلاشی رخصتوں کے پیچھے دوڑ پڑیں گے اور معمولی معمولی باتوں کے بہانے فرض عبادات ترک کر دی جائیں گی--- اور یہی وجہ ہے کہ فقہا نے اس معاملے میں شدت برتی اور شرطیں عائد کی ہیں--- لیکن میرے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے کہ  نصِ قرآنی نے جس حکم کو مطلق اور عام رکھا ہے‘ اُسے اِس اندیشے سے مقید اور خاص کر دیا جائے۔ دین لوگوں کو طوق و سلاسل میں جکڑ کر خدا کی اطاعت کی طرف نہیں لاتا۔ وہ تقویٰ اور خوفِ خدا سے اپنی طرف کھینچتا ہے‘ اور اِس عبادت کی تو غایت خصوصیت سے تقویٰ ہی ہے۔ جو شخص کسی رخصت کی آڑ لے کر فریضے کی ادایگی سے کتراتا ہے‘ اُس میں شروع ہی سے کوئی خیر نہیں ہے۔ اُس میں فریضے کی ادایگی کی اوّلین غایت ‘ تقویٰ کا وجود نہیں ہے۔

یہ دین انسانوں کا نہیں‘ خدا کا دین ہے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ اُس نے کس طرح رخصتوں کے مواقع اور شدت کے مواقع کو ملا کر اس دین کو ایک وحدت کی شکل دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی موقع پر رخصت کے پیچھے کوئی مصلحت ہو سکتی ہے جو اُس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ نہیں‘ نہیں! ضروری ہے کہ ایسا ہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ لوگ اللہ کی بخشی ہوئی رخصتوں کو قبول کریں۔ اگر کسی دَور میں لوگ بگڑ جائیں تو اُن کی اصلاح کا طریقہ یہ نہیںہے کہ احکام میں شدت پیدا کر دی جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی اور ان کے دلوں کی اصلاح اور اُن کی اچھی تربیت کی جائے اور اُن کے باطن میں تقویٰ کا شعور زندہ و بیدار کیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ لوگ بگڑ جائیں تو اُن کے بگاڑ کے علاج اور سدباب کے ذریعے کے طور پر معاملات میں شدت برتی جا سکتی ہے لیکن عبادات کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ عبادت خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔ عبادات سے بندوں کے مصالح کا--- جن میں ظاہری حالات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے--- براہِ راست کوئی تعلق نہیںہے۔

عبادات میں اُس ظاہر کی‘ جس کی بنیاد تقویٰ پر نہ ہو‘ کوئی قیمت نہیں۔تقویٰ موجود ہو تو کوئی شخص راہِ فرار اختیار نہ کرے گا۔ وہ رخصتوں سے اُسی وقت فائدہ اٹھائے گا ‘ جب کہ اُس کا دل اس پر مطمئن ہو‘ وہ دیکھے کہ یہی صورت اولیٰ ہے اور وہ محسوس کر رہا ہو کہ جس صورت حال سے وہ دوچار ہے اُس میں خدا کی اطاعت اِس میں ہے کہ اس رخصت کو اختیار کیا جائے۔ عبادات کے احکام میں شدت پیدا کرنا اور جن رخصتوں کو نصوص نے مطلق اور بلاقید رکھا ہے‘ ان میں تنگی پیدا کرنا بعض لوگوں کے لیے تنگی پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے‘ جب کہ راہِ فرار اختیار کرنے والوں کو درست کرنے کے لیے یہ عمل بہت زیادہ سودمند نہیں ہوسکتا۔ ہر حال میں یہی بہترہے کہ ہم امور کو اُس شکل میں اختیار کریں جس شکل میں اللہ انھیں چاہتا ہے۔ اُس کے دین میں جو رخصتیں ہیں اور جن معاملات میں عزیمت کی راہ اختیار کرنی ہے‘ اُن دونوں میں جو دُور و قریب کی مصلحتیں مضمر ہیں‘ اللہ انھیں ہم سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہم سے زیادہ صاحب حکمت و دانش ہے --- یہ ہے اس معاملے میں خلاصۂ کلام۔ (فی ظلال القرآن‘ سید قطب شہیدؒ ، ترجمہ: سید حامدعلیؒ، ج ۱‘ ص۴۲۶-۴۲۹)

روزے کے حکم میں تدریج

روزوں کی تبدیلیاں سنیے:

اول‘ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینے میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورے کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ …الخ نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کیے۔

دوم ‘ ابتداً یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے۔ پھریہ آیت اُتری: فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے۔ پس جو شخص مقیم ہو‘ مسافر نہ ہو‘ تندرست ہو‘ بیمار نہ ہو‘ اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا۔ ہاں‘ بیمار اور مسافر کے لیے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا پھوس جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو‘ اُسے بھی رخصت دے دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتدا میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا۔ سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لیے منع تھا۔ پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابیؓ دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے‘ عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی۔ دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہو گئی۔ حضورؐ نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو انھوں نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ اِدھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا اُدھر حضرت عمرؓ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہؓ سے مجامعت کر لی اور حضورؐ کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا۔ جس پر آیت اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ط  سے ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج (البقرہ ۲:۱۸۷) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی۔ (تفسیر ابن کبیر‘ ج ۱‘ ص ۱۹۰)

شریعت اسلامی رسولؐ اللہ کی حیاتِ رسالت میں بتدریج نازل ہوئی۔ کہیں تو ایسا کلام ہوا کہ احکام شروع میں نرم تھے۔ رفتہ رفتہ سخت کیے گئے‘ مثلاً شراب نوشی‘ کہ پہلے صرف ناپسند کی گئی ‘ اور پھر ہوتے ہوتے اُس کی حرمت کا حکم آگیا‘ اور کہیں اس کے برعکس ہوا ہے‘ یعنی ابتداً قانون سخت تھا‘ رفتہ رفتہ اس میں سہولتیں اور رعایتیں زیادہ ہوتی گئیں۔ چنانچہ یہی روزے کا معاملہ ہے کہ پہلے صحبت رات میں بھی حرام تھی‘ بعد کو جائزکر دی گئی۔ رَفَثُ کے لفظی معنیٰ شہوت انگیز کلام کے ہیں۔ لیکن جب صیغۂ متعدی میں اسے لایا جاتا ہے تو اس سے مراد صحبت یا مباشرت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہاں الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ہے۔ … یہیں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ بیوی کی طرف میل و رغبت ذرا بھی کمالِ رُوحانیت و تزکیۂ نفس کے منافی نہیں‘ جیسا کہ بہت سے مشرکانہ اور جاہلی مذہبوں نے سمجھ لیا ہے‘ اور ماہِ صیام کی طاعت و عبادت‘ اور بیوی سے خلوت و صحبت کے درمیان منافقت ذرا بھی نہیں‘ جیسا کہ مذہب کے جوگیانہ اور راہبانہ تخیل نے دلوں میں بٹھا دیا ہے۔ شریعت اسلامی نے جس چیز پر سخت پہرہ بٹھا رکھا ہے ‘ وہ شہوتِ حرام اور اس کے مبادی و مقدمات ہیں‘ نہ کہ نفسِ شہوت--- بھوک‘ پیاس‘ نیند کی طرح جنسی بھوک بھی اگر اپنے حدود کے اندر ہے تو ایک طبعی اور بے ضرر خواہش ہے۔ (تفسیر ماجدی ‘ ص ۷۱)

اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی ‘ مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر ۲ ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا‘ مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی روزہ نہ رکھیں‘ وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسوخ کر دی گئی۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڈھے لوگوں کے لیے جن میں روزے کی طاقت نہ ہو‘ اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انھیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں اُن سے چھوٹ گئے ہیں۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۱)

سفر میں روزہ

سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ سفر میں جایا کرتے تھے ‘ اُن میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرتؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بدحال ہو کر گر گیا اور اس کے گرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپؐ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمرؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر‘ اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضورؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فافطروا۔ دوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ  انکم قددنوتم من عدوکم فافطروا اقوی لکم‘یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے‘ روزے چھوڑ دو تاکہ تمھیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔

عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘ حضورؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابۂ کرام کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافرانہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے‘وہ افطار کے لیے کافی ہے۔

یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو‘ اُس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اُسے اختیار ہے‘ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے‘ اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے۔ دونوں عمل صحابہؓ سے ثابت ہیں۔

یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو‘ تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں‘علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علامہ ابن تیمیہؒ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۲-۱۴۳)

(اداے فدیہ کے باب میں) یعنی]ایک شخص کو کھانا کھلائے[‘ اس قدر مقدار تو بہرحال واجب ہے۔ اب اگر اس میں کوئی زیادتی کرنا چاہے‘ یعنی ایک شخص کے بجائے دو شخصوں کو کھلا دے‘ کھانے کی تعداد بڑھا دے‘ کھانے کی قسم بہتر کر دے‘ فدیے کے ساتھ روزے کو بھی جمع کر لے تو اور بہتر ہے۔ خیر‘ خیرات‘ فیاضی و سیرچشمی‘ حسن سلوک و حسن معاشرت کی تاکید تو اسلام میں ہمیشہ اور ہر حال کے لیے موجود ہے۔ لیکن رمضان کے ماہِ مبارک میں اس کی اہمیت اور زیادہ ہے۔ چنانچہ ماہِ مبارک کے ختم پر‘ یا ختم سے ذرا قبل جو صدقہ فطرواجب بتایا گیا ہے کہ آس پاس کا کوئی کلمہ گو بھوکا نہ رہنے دیا جائے وہ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ رسول ؐاللہ فیاضی‘ سخاوت‘ جودوکرم میں اپنی نظیر آپ تھے ‘ تاہم متعدد حدیثوں میں آتا ہے کہ اس ماہ مبارک میں آپؐ کا جوش کرم اور بڑھ جاتا تھا اور آپؐ فیاض سے فیاض تر ہو جاتے تھے۔ (تفسیر ماجدی‘ ص۶۹)

رمضان اور قرآن

رمضان وہ مہینہ ہے ‘جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے‘ جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے‘ اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو‘ تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے‘ سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمھیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔ (البقرہ ۲:۱۸۵)

قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اُوپر والی آیت کے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی جس میں ایک حقیقت تو یہ واضح کی گئی کہ رمضان کے مہینے کو اللہ تعالیٰ نے روزوں کے لیے کیوں منتخب فرمایا۔ دوسری یہ کہ اب تک سفر یا بیماری کے سبب سے قضا شدہ روزوں کے لیے فدیہ کی جو اجازت تھی وہ اجازت منسوخ ہوئی۔ اب روزوں کی تلافی روزوں ہی کے ذریعے سے ضروری قرار دے دی گئی۔ (تدبر قرآن‘ ج ۱‘ص ۴۰۶)

ماہِ رمضان شریف کی فضیلت و بزرگی کا بیان ہو رہا ہے کہ اسی ماہِ مبارک میں قرآن کریم اترا۔ مسنداحمد کی حدیث میں ہے: رسولؐاللہ نے فرمایا ہے کہ ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور تورات چھٹی تاریخ‘ انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارھویں کو اور انجیل اٹھارھویں کو۔ اگلے تمام صحیفے اور تورات و انجیل و زبور جس جس پیغمبر پر اتریں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزۃ سے آسمانِ دنیا تک تو ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتاً فوقتاً حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا۔ یہی مطلب ہے: انا انزلنہ فی لیلۃ القدر اور انا انزلنہ فی لیلۃٍ مبارکۃٍ اور انزل فیہ القرآن کا‘ کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضا ن المبارک کے مہینے میں لیلۃ القدر کو نازل ہوا اور اسی کو لیلۂ مبارکہ بھی کہا ہے۔ ابن عباسؓ وغیرہ سے یہی مروی ہے۔ آپ سے جب یہ سوال ہوا کہ قرآن کریم تو مختلف مہینوں میں برسوں میں جا کر اُتر چکا‘ پھر رمضان میں اور وہ بھی لیلۃ القدر میں اُترنے کے کیا معنی؟ تو آپ نے یہی مطلب بیان کیا (ابن مردویہ وغیرہ)۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آدھے رمضان میں قرآن کریم آسمانِ دنیا کی طرف اُترا ‘بیت العزۃ میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت وقائع اور سوالات پر تھوڑا تھوڑا اُترتا رہا اور ۲۰ سال میں کامل ہوا۔ اس میں بہت سی آیتیں کفار کے جواب میں بھی اتریں۔ کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن کریم ایک ساتھ سارے کا سارا کیوں نہیں اُترا جس کے جواب میں فرمایا گیا: لنثبت بہ فوادک ورتلنہُ ترتیلا … الخ یہ اس لیے کہ تیرے دل کو برقرار اور مضبوط رکھیں وغیرہ۔

پھر قرآن کریم کی تعریف میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کی ہدایت ہے اور اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں۔ تدبر اور غوروفکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے۔ یہ حق اور باطل‘ حرام و حلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے۔ ہدایت و گمراہی اور رشد و برائی میں جدائی کرنے والا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر‘ ج ۱‘ ص ۱۹۱)

یہی مبارک مہینہ ہے جس میں دنیا کی ہدایت کے لیے قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس ہدایت کے متعلق فرمایا کہ یہ ہدایت بھی ہے اور اس میں ہدایت اور فرقان کی بینات بھی ہیں‘ یعنی یہ صراط مستقیم کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ عقل کی رہنمائی اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کے لیے وہ واضح اور قاطع حجتیں بھی اپنے اندر رکھتا ہے جو کبھی کہنہ ہونے والی نہیں ہیں… بینات سے مراد واضح‘ دل نشین اور ہر اُلجھن کو دُور کر دینے والے براہین و حجج ہیں۔ قرآن صرف حلال و حرام بتانے کا ضابطہ ہی نہیں ہے بلکہ حجج و حکمت کے بینات کاکبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ بھی ہے۔ اس وجہ سے یہ رہتی دنیا تک عقلِ انسانی کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔

 اس عظیم نعمت کی شکرگزاری کا تقاضا یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا تاکہ بندے اس میں اپنے نفس کی خواہشات اور شیطان کی ترغیبات سے آزاد ہو کر اپنے رب سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو سکیں اور اپنے قول و فعل‘ اپنے ظاہر و باطن اور اپنے روز و شب ہر چیز سے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کریں کہ خدا اور اس کے حکم سے بڑی ان کے نزدیک اس دنیا کی کوئی چیز نہیں ہے۔

غور کرنے والے کو اس حقیقت کے سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں پیش آ سکتی کہ خدا کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقل ہے اور عقل سے بھی بڑی نعمت قرآن ہے۔ اس لیے کہ عقل کو بھی حقیقی رہنمائی قرآن ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو تو عقل سائنس کی ساری دُوربینیں اور خردبینیں لگا کر بھی اندھیرے ہی میں بھٹکتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے جس مہینے میں دنیا کو یہ نعمت ملی وہ سزاوار تھا کہ وہ خدا کی تکبیر اور اس کی شکرگزاری کا خاص مہینہ ٹھہرا دیا جائے تاکہ اس نعمت عظمیٰ کی قدروعظمت کا اعتراف ہمیشہ ہمیشہ ہوتا رہے۔ اس شکرگزاری اور تکبیر کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزوں کی عبادت مقرر فرمائی جو اس تقویٰ کی تربیت کی خاص عبادت ہے جس پر تمام دین و شریعت کے قیام و بقا کا انحصار ہے اور جس کے حاملین ہی کے لیے درحقیقت قرآن ہدایت بن کر نازل ہوا ہے جیسا کہ اس سورہ کی بالکل پہلی ہی آیت میں اس نے خود یہ حقیقت واضح فرما دی ہے۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَرَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (یہ آسمانی کتاب ہے‘ اس کے آسمانی ہونے میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے‘ یہ متقیوں کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوئی ہے)۔

گویا اس حکمت قرآنی کی ترتیب یوں ہوئی کہ قرآن حکیم کا حقیقی فیض صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جن کے اندر تقویٰ کی روح ہو اور اس تقویٰ کی تربیت کا خاص ذریعہ روزے کی عبادت ہے۔ اس وجہ سے رب کریم و حکیم نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن اس دنیا کے لیے بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسم بہار اور موسم بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے وہ تقویٰ کی فصل ہے۔ (تدبرقرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۰۶-۴۰۷)

حقیقت یہ ہے کہ روزہ ایک ایسی نعمت ہے جس پر خدا کی بڑائی کرنا اور اُس کا شکر ادا کرنا چاہیے: ’’اور تم اللہ کی کبریائی کا اعتراف کرو اِس بات پر کہ اُس نے تمھیں ہدایت سے نوازا  اور امید ہے کہ تم (اُس کا شکر ادا کرو گے!‘‘)

یہ اِس فریضے کی ایک غرض و غایت ہے کہ اہل ایمان اُس ہدایت کی قدروقیمت کا احساس کریں جو اللہ نے انھیں عطا کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روزے کے زمانے میں اہل ایمان ہر زمانے سے زیادہ اِس ہدایت کی قدروقیمت کو اپنے نفوس میں محسوس کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں اُن کے دل خدا کی نافرمانی کے لیے سوچ بچار سے‘ اور اُن کے اعضا و جوارح معصیت کے ارتکاب سے رکے‘ ہوتے ہیں۔ انھیں خدا کی ہدایت کا اِس طرح زندہ احساس ہوتا ہے گویا کہ وہ اُسے اپنے ہاتھوں سے چھو رہے ہوں!--- اور یہ سب اس لیے کہ وہ اِس ہدایت پر اللہ کی کبریائی کا اعتراف اور اس عظیم نعمت کی بخشش پر اُس کا شکر ادا کریں اور روزے کی اِس اطاعت کے ذریعے ان کے دل خدا کی طرف رجوع ہوں‘ جیسا کہ روزے پر گفتگو کے آغاز ہی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’امید ہے کہ تم خدا ترس بنو گے‘‘۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ روزہ‘ جو جسم اور نفسِ انسانی پر شاق ہے ‘ اللہ کی عظیم نعمت ہے اور اُس کی غرض و غایت مومن کی تربیت ہے اور اُمت مسلمہ کو اُس رول کے ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے جسے ادا کرنے کے لیے وہ برپا کی گئی ہے۔ اِس رول کی ادایگی کی حفاظت تقویٰ‘ اللہ کے نگراں و نگہبان ہونے کے شعور اور ضمیر کے احساسِ ذمہ داری سے ہوتی ہے۔ (فی ظلال القرآن‘ ج ۱‘ ص ۴۳۷)

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے ‘ بلکہ اُنھیں مزیدبرآں اُس عظیم الشان نعمت ِ ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے جو قرآن کی شکل میں اُس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانش مند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکرگزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہو سکتی ہے‘ تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے‘ جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔

قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دُنیا کو اس پر چلائیں ۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزول قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے‘ اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ خود اس نعمت ِقرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکرگزاری ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۳)

 

رمضان کا مہینہ‘ تلاوت قرآن کا مہینہ‘ قیام اللیل کا مہینہ اور رحمت و مغفرت اور آگ سے آزادی کا مہینہ ہونے کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا مہینہ بھی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایک اعلیٰ درجے کی نیکی ہے جس کی طرف قرآن و حدیث میں مختلف انداز سے توجہ دلائی گئی ہے۔ سیرت پاکؐ، واقعات صحابہ ‘ اسلامی تاریخ اور خود ہمارے آج کے دور میں بھی اس حوالے سے درخشندہ اور قابل تقلید مثالیں ملتی ہیں۔ بھلا جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ اللہ کے وعدوں کو سچا جانتا ہو‘و ہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کیوں بچائے گا۔ قرآن کے مطابق‘ انفاق کی مثال ایسے بیج کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں ۱۰۰ دانے ہوں (البقرہ ۲:۲۶۱)۔ یوں ۷۰۰ گنا اجر کا محاورہ بن گیا۔ جو ۲۰‘ ۲۵ فی صد کی امید پر لاکھوں حاضر کر دیتے ہیں ‘ وہ اگر ۷۰۰ گنا کے یقینی وعدے پر ہزاروں پیش کرنے میں تکلف کریں‘ تو یہ ضرور کچھ غور کرنے کی بات ہے۔ اور پھر رمضان میں تو مزید ۱۰ گنا کا حساب لگایا جائے تو بات ۷ ہزار گنا تک پہنچتی ہے۔ لیکن مسئلہ تو اللہ کے وعدوں پر ایمان اور یقین کا ہے۔

روایات کے مطابق رمضان کا مبارک مہینہ آتا تھا تو اللہ کے رسولؐ کی سخاوت دوچندہو جاتی تھی‘ ایک تیز ہوا کی مانند‘ جس سے ہرکس و ناکس فیض یاب ہوتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جن کو اللہ نے دیا ہے ‘ وہ اس مہینے کو دینے کا مہینہ بنا دیں‘ اللہ کی راہ میں انفاق کرنے کا مہینہ! اللہ کی ہستی ایک کریم اور فیاض ہستی ہے اور اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ وہ ’’قرض‘‘ واپس کرنے کے لیے آخرت کا انتظار نہیں کرے گا۔ وہ اپنی راہ میں اخلاص سے دینے والوں کو اتنا نوازے گا ‘ اتنی برکت دے گا کہ وہ نہال ہو جائیں اور آنے والے ۱۱ ماہ سنبھال بھی نہ سکیں اور آخرت کا اجر بھی باقی رہے گا۔ اس حوالے سے کچھ احادیث پیش کی جا رہی ہیں:


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: انسان کا اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ کرنا بہتر ہے‘ موت کے وقت ۱۰۰ درہم صدقہ کرنے کے مقابلے میں۔ (ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! کون سا صدقہ سب سے زیادہ اجر والا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ جو اس حال میں کرو کہ تندرست ہو‘ حریص ہو‘ فقر کا خطرہ ہو اور دولت مندی کی آرزو ہو--- دیر نہ کرو! جب جان حلق میں آ جائے تو اس وقت تم کہنے لگو کہ فلاں کا اتنا ہے اور فلاں کا اتنا ہے حالانکہ وہ تو فلاں کا ہو گیا (متفق علیہ)

روز مرہ زندگی گزارتے ہوئے‘ معمول کی ضروریات پر اپنا مال خرچ کرتے ہوئے موت کے بعد کی تیاری کرنا ہی اصل بات ہے۔ جب موت سامنے نظر آجائے ‘ تو پھر وہ بات نہیں رہتی۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے دسیوں عنوان سامنے آتے ہیں۔ ان سے آدمی ایسے ہی نہ گزر جائے بلکہ ان مواقع کو اپنی آخرت کی تیاری کے لیے استعمال کرے۔


حضرت عثمانؓ کے ایک مولیٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اُم سلمہؓ کو گوشت کا ایک ٹکڑا ہدیہ کیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گوشت بہت پسند تھا۔ حضرت اُم سلمہؓ نے خادمہ سے کہا: اسے محفوظ کر کے رکھ دو‘ شاید رسولؐ اللہ تشریف لائیں تو اسے تناول فرمائیں۔ انھوں نے یہ ٹکڑا گھر کے طاق میں رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد ایک سائل آیا اور دروازے میں کھڑے ہو کر اس نے آواز لگائی: صدقہ کرو‘ اللہ آپ لوگوں کو برکت دے--- گھر والوں نے جواب دیا: اللہ آپ کو برکت دے۔ سائل واپس چلا گیا۔ پھر نبی کریمؐ تشریف لائے اور فرمایا: اُم سلمہؓ ! تمھارے پاس میرے کھانے کے لیے کچھ ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ! اور خادمہ سے کہا: جائو‘ اور رسولؐ اللہ کے لیے وہ گوشت لے آئو۔ وہ گئیں تو طاق میں ایک پتھر کے ٹکڑے کے سوا کچھ نہ پایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نے سائل کو نہ دیا تو وہ گوشت پتھر بن گیا۔ (بیہقی)

اپنی ضرورت پر سائل کی ضرورت کو ترجیح دینا یقینا صدقے کا اعلیٰ درجہ ہے (اور جب رسولؐ اللہ کے گھر میں یہ نہ کیا گیا تو نتیجہ بھی سامنے آگیا)۔ لیکن اپنی ضروریات بلکہ ایک حد تک آسایش پوری کرنے کے بعد جو بچتا ہے اُسے تو کھلے دل سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی روش ہر کسی مسلمان کی ہونا چاہیے۔ یہ کیا ہے کہ ہم نہ صرف اپنی تاحیات ضروریات کا مکمل انتظام کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی دنیا کی سب فکروں سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ اہل ضرورت فہرست میں آ ہی نہیں پاتے یا بہت دُور کہیں براے نام۔ جب آخرت حق ہے‘ اجر یقینی ہے‘ دنیا میں برکت کے وعدے ہیں‘ (اور اللہ کے وعدے ہیں!) تو پھر پس و پیش کیسا؟ اگر معاشرے میں‘ ضرورت سے زیادہ جو کچھ پاس ہے‘ اسے جمع کرنے کے بجائے دینے کا چلن ہو جائے تو معیشت کے کتنے ہی مسائل حل ہو جائیں اور اسلام کا مطلوب معاشرہ نظر آجائے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:

جو پاکیزہ مال میں سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے--- اور اللہ قبول نہیں کرتا مگر پاکیزہ مال--- تو اللہ تعالیٰ اُسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے‘ اور اس کی اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ ایک کھجور جتنا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ (متفق علیہ)

ایک دوسری روایت میں‘ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:

صدقے نے کبھی بھی مال میں کمی نہیں کی۔ اور معافی دینے کے سبب اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔ کوئی بھی اللہ کے لیے تواضع نہیں کرتا‘ مگر اللہ تعالیٰ اُسے رفعت عطا کر دیتے ہیں۔ (مسلم)

اجر عطا کرنے کے کیا کیا انداز ہیں۔ بڑھانے کا وعدہ ہے اور اس کی کوئی حد نہیں۔ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جائے ‘ بندہ اور کیا چاہتا ہے! عزت میںاضافہ ہو‘ رفعت عطا ہو‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور کیا چاہیے! اکثر اس لیے رقم نہیں نکالی جاتی کہ کمی ہو جائے گی۔ سچ بتانے والے رسولؐ نے بتایا کہ صدقے نے کبھی مال میں کمی نہیں کی۔ ہمیں اعتبار کیوں نہیں آتا۔


حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ رب کے غضب کو بجھا دیتا ہے اور بری موت کو دُور کرتا ہے۔ (ترمذی)

یہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے دو مزیدفوائد ہیں۔


حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپؐ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب آپؐ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا: وہ لوگ تباہ و برباد ہو گئے۔

میں نے کہا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! کون لوگ تباہ و برباد ہو گئے؟

آپؐ نے فرمایا: وہ تباہ و برباد ہو گئے جو زیادہ دولت مند ہونے کے باوجود خرچ نہیں کرتے۔ کامیاب صرف وہی ہوگا جو اپنی دولت لٹائے‘ سامنے والوں کو دے‘ پیچھے والے کو دے‘ اور بائیں جانب والوں کودے اور ایسے مال دار خرچ کرنے والے تو بہت ہی کم ہیں۔ (بخاری و مسلم)

کیوں نہ مسلمانوں کے دولت مند ‘ ایسے خرچ کرنے والے بنیں اور تباہ و برباد ہونے سے بچ جائیں۔


حضرت ابومسعودؓ انصاری سے روایت ہے کہ ایک آدمی مہاربند اونٹنی لے کر آیا اور عرض کیا کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: قیامت کے روز اس کے بدلے تیرے لیے ۷۰۰ اونٹنیاںہوں گی جو سب مہاربند ہوں گی۔ (ابوداؤد)

لیجیے‘ ۷۰۰ گنا کی تصدیق--- اور رمضان بھی ہو تو--- آپ خود حساب لگا لیں۔


حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل صدقہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سایہ دار خیمہ ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے خادم کا عطیہ ہے‘ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جوان سواری دینا ہے۔

یعنی‘ کوئی جایداد ‘ مکان‘ کمرہ یا کسی کل وقتی کارکن کا ماہانہ مشاہرہ یا (اچھی حالت کی  موٹر گاڑی۔ اور یہ نہ بھی ہو توتھوڑی سی کھجوریں ہی زر و جواہر کے ڈھیر پر بھاری ہو جاتی ہیں کہ اصل وزن اخلاص اور حسن نیت کا ہے۔

اللہ نے جو مال دیا ہے اُسے خرچ کرنے کے بارے میں جو ہدایات و تعلیمات ہیں وہ سب ہی جانتے ہیں۔ مسئلہ دل سے مال کی محبت نکالنے کا ہے جو اصل مرض اور سبب فساد ہے۔ انفاق اسی مرض کا علاج ہے۔

اموال میں سائل و محروم کا حق ہے۔ کسی کو دیتے ہیں تو احسان نہیں کرتے‘ اس کا حق پہنچاتے ہیں۔ احسان جتانا تو اجر ضائع کرنے کا مجرب نسخہ ہے جس کے سایے سے بھی بچنا چاہیے۔

کہاں خرچ کیا جائے؟ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنا بھی صدقہ ہے۔ اعزہ و اقارب میں جو مفلوک الحال ہوں‘ حاجت مند ہوں‘ خاموشی سے اُن کی مدد کرنا چاہیے۔ محلے میں جو ضرورت مند ہوں‘ خصوصاً بیوہ یا یتیم اُن کا پہلا حق ہے۔ شادیوں کی جائز ضروریات ‘ علاج‘ تعلیم سب حقیقی مسائل ہیں۔ معاشرے میں اللہ کا دین غالب نہ ہو تو اُس کو غالب کرنے کی کوششوں میں وقت و صلاحیت کے ساتھ اپنے مال کا بھی انفاق کرنے کی اہمیت محتاج بیان نہیں۔ اور جب جہاد کی نفیرعام ہو جائے تو اپنی ذات اور اہل خانہ کی ضروریات تک روک کر جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔

آنے والا مہینہ رمضان کا ہے جس میں نیکی کا اجر بہت زیادہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ موقع ہی موقع ہے۔ فائدہ اٹھانا آپ پر ہے۔ اس سال زکوٰۃ کے علاوہ اپنی ایک ماہ کی کل آمدنی (اگر آپ کے پاس اس کے بقدر بچت ہے) اس ماہ مبارک کے دوران اللہ کی راہ میں خرچ کریںتاکہ نہ صرف آنے والے ۱۱ ماہ میں بلکہ آپ کی پوری زندگی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی برکتوں سے خوب خوب نوازے۔

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ گویا رمضان المبارک کی اہمیت روزے کی وجہ سے نہیں بلکہ نزول قرآن کی شان اس کو اہم بناتی ہے۔یہ جشن قرآن کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہ ’’لوگو! تمھارے پاس رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے‘ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کے لیے شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ! کہو کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی۔ اس پر تو لوگوں کو خوشی منانا چاہیے۔ یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘ (سورہ یونس ۱۰:۵۸)۔ گویا روزوں میں جس چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ‘ وہ قرآن سے تعلق ہے۔ روزے کی شان یہ ہے کہ اس میں کلام الٰہی سے نسبت بڑھائی جائے۔

قرآن سے تعلق بڑھانے اور روزے کی شان دوبالا کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے؟

نیت

سب سے پہلے تو ہم اپنی نیت کو خالص کریں کہ تمام نیکیوں اور اعمال کا دارومدارنیت پر ہے۔ نیت شعور و احساس پیدا کرتی ہے‘ شعور بیدار ہو تو ارادہ مستحکم ہوتا ہے اور پھر محنت اور کوشش کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اسی لیے نماز ‘ روزہ اور عبادت کے لیے نیت کی تاکید کی گئی۔ اگر اعمال میں صحیح نیت کی روح ہو تو وہ اثرآفرینی ‘نشوونما اور نتیجہ خیزی کی قوت رکھتے ہیں۔ اگر نیت خالص نہ ہوگی اور آپ کام صرف اللہ تعالیٰ کے لیے نہ کریں گی تو وہ قبول نہ ہوگا ‘محض راکھ کا ڈھیر ثابت ہوگا۔

قرآن سے مضبوط تعلق

۱- خالص نیت کریں کہ رمضان المبارک میں قرآن سننا اور پڑھنا اپنے رب کی رضا کے لیے ہوگا اور اس تمنا کے ساتھ کہ یہ کلام میرے عمل کا حصہ بن جائے۔

۲- یہ بھی رمضان المبارک کی تیاری کا حصہ ہے کہ پہلے سے سوچ لیا جائے کہ کتنی مرتبہ قرآن پاک پڑھنا ہے۔ عربی متن کے ساتھ اُردو ترجمہ کتنی مرتبہ پڑھنا ہے۔ روزانہ کا پارہ اور پھر ترجمہ روز پڑھ لینا ہرگز مشکل نہیں۔ یہ نہ ہو سکے تو پورے پارے کا خلاصہ جو اکثر اخبارات میں روزانہ تراویح کے حساب سے چھپتا ہے‘ ذہن نشین کر لیا جائے۔

۳- حفظ کی کوشش کرنا ۔جو قرآن کا حصہ حفظ ہے‘ اس کو دہراتے رہنا ۔

ذا تی محاسبہ

رمضان المبارک کے آغاز پر ہی ہم کوئی ایک اچھی عادت اپنانے کا ارادہ کر لیں‘ کوئی ایک بری عادت چھوڑنے کا سوچ لیں اور پورا مہینہ اس پر کاربند رہیں۔ جس طرح ہم ہر وقت کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ظاہری لباس کو خوب سے خوب تر بنائیں‘ اسی طرح تقویٰ کا لباس بہترین سے بہترین بنانے کے لیے کوشش تیز کر دینی چاہیے۔

مطالعہ قرآن و حدیث ‘ اسلامی لٹریچر‘ نوافل‘ خیرات‘ نیکی کی جستجو‘ ذکر و دعا‘ قیام اللیل‘ شب قدر‘ اعتکاف اور اللہ کے بندوں کی مدد--- یہ وہ چیزیں ہیں جو تقویٰ کا لباس بنانے کے لیے ہمیں درکار ہیں۔ ان سب کے لیے اپنے اوقات کار اور اپنے کاموں کو منظم کرنا اور سہولت حاصل کرنا ضروری امر ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں‘ راتوں کو اپنے رب سے لو لگانے کا خاصا وقت مل سکتا ہے۔

میں یہ ضرور ذکر کرنا چاہوں گی کہ رمضان المبارک کے استقبال کے لیے ہم جہاں گھر کی صفائی خوب توجہ اور خاص محنت سے کرتے ہیں‘ کچھ ایسی ہی صفائی اپنی روحانی دنیا کی بھی کرنی چاہیے۔ تقویٰ جو دل میں اپنا مقام بناتا ہے‘ اس دل کی صفائی کتنی کر لی گئی ہے۔ کتنے اخلاقی اوصاف اس گھر میں سجائے گئے ہیں اور اخلاقی برائیوں کے کتنے جالے اور جھاڑ جھنکار‘ اس گھر میں لگے ہوئے ہیں۔ جب تک اس اندرونی گھر کی صفائی نہ ہوگی گھروں‘ کپڑوں اور جسم کی صفائی ادھوری رہے گی۔

امور خانہ داری کی منصوبہ بندی

رمضان المبارک کی پہلی سحری آپ کی جدوجہد کا بنیادی نقطہ بن سکتی ہے۔ کچن کے معاملات میں تھوڑی سی سمجھ داری سے کام لیا جائے تو بہت سا وقت اور بہت سی پریشانی سے بچا جا سکتا ہے۔

رمضا ن المبارک کی سحری و افطار کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے چند دن پہلے ہی کچھ کام کر لیے جائیں تو انتہائی سہولت رہتی ہے:

پیاز‘ لہسن اور ادرک چھیلنے پیسنے میں بہت وقت لگتا ہے‘ اگر ایک دن بچوں کو ساتھ ملا کر یا گھر میں کام کرنے والی ماسی کے ذریعے مہینے بھر کا مسالہ پسوا لیا جائے‘ پیاز سرخ کر کے پیس لی جائے اور یہ سب چیزیں شیشیوں میں بھر کر فریج میں رکھ دی جائیں تو رمضان میں بہت سی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے اور وقت بھی وافر مل جائے گا۔ بہت سی سبزیاں بھی صاف کر کے اُبال کر یا اُبالے بغیر محفوظ کی جا سکتی ہیں‘ بلکہ اب تو ایک ہی دن بہت سے کھانے پکانے کے کام کر کے باقی دنوں میں فارغ رہا جا سکتا ہے۔

افطاری میں ڈھیر سارے کھانے دسترخوان پر سجانے کے بجائے سادگی اور ون ڈش کو رواج دیا جائے۔ اس میں سہولت بھی ہے‘ بچت بھی اور صحت بھی۔ گھر میں کام کرنے والے ملازموں سے مشقت میں کمی کرنا اور ان کا ہاتھ بٹانا بہت زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہے۔ اس کے لیے بھی خصوصی اور شعوری کوشش کرنی چاہیے۔ برتنوں کا کم سے کم استعمال کیا جائے اور گھر کے ہر فرد کو ہدایت کی جائے کہ اپنا گلاس اور پلیٹ خود دھوکر رکھ دے ۔ ان کو احساس دلایا جائے کہ اس کا کتنا اجر ہے۔

عید کی تیاری

عیدالفطر کی تیاری بھی رمضان المبارک کے آنے سے پہلے مکمل کر لی جائے تو رمضان کے قیمتی وقت سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ شب قدر جیسی عظیم راتیں اور چاند رات جیسی قیمتی رات کہ اس وقت ’’مزدور‘‘ کا ’’مزدوری‘‘ لینے کا وقت ہوتا ہے‘ خواتین چوڑیوں‘ کپڑوں‘ دوپٹوں اور بٹن دھاگوں کے مسائل میں الجھی رہتی ہیں ۔ یوں شیطان ان سے وہ تمام محنتیں ضائع کرا دیتا ہے جو پورے مہینے کی تھیں۔ یاد رکھیے کہ رمضان المبارک کے دن اور رات کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے کہ ایک پوری زندگی دے کر بھی اس کا نعم البدل ملنا محال ہے۔ رمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے ایک فہرست بنا لی جائے کہ اس ماہ مبارک میں وہ دنیاوی امور جو انجام دینا ناگزیر ہیں‘ کون سے ہیں‘ اور کون سے کام ایسے ہیں جن کی بجاآوری ضروری نہیں۔ ترجیحات کا تعین انسان کو سچی خوشی اور کامیابی عطا کرتا ہے۔

عید کے موقع پر نئے کپڑے اور زیور بنانا آپ کا حق ہے۔ مگر کیا ہم اپنے ارد گرد تمام انسانوں کی ضروریات پوری کر چکے ہیں یا جتنا ہم کر سکتے ہیں کر لیا ہے؟ کیا ہمارے لباس پر خرچ ہونے والی رقم کا کوئی اس سے بہتر مصرف نہیں ہے؟ کیا ہم سے زیادہ ضرورت مند کوئی موجود نہیں؟

راہ خدا میں خرچ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’بندوں کے عمل اللہ کے نزدیک سات درجے پر ہیں۔ دو عمل ایسے ہیں کہ دو چیزوں کو واجب کرتے ہیں اور دو ایسے ہیں کہ ان میں بدلہ عمل کے برابر ملتا ہے۔ ایک عمل وہ ہے جس کے بدلے ۱۰ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ایک عمل ایسا ہے کہ اس کے بدلے ۷۰۰ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ایک عمل ایسا ہے کہ اس کے ثواب کی حد سوائے اللہ پاک کے اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ عمل جس کا بدلہ ۷۰۰ گنا تک ہے وہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے‘ اور وہ عمل جس کے اجر کی کوئی حد نہیں‘ رمضان المبارک کا روزہ رکھنا ہے۔

جب رمضان المبارک میں روزے کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس قدر ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے تو ہمیں ضرور اس کو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے پاس اگر اتنی گنجایش نہیں کہ خوب خرچ کریں تو یہ ایثار تو کر سکتے ہیں کہ بہت شان دار اور قیمتی لباس کے بجائے سادہ لباس بنالیں یا اس لباس کو کسی ایسے کو دے دیں جو زیادہ مستحق ہو۔

اپنی اور اولاد کی تربیت

رمضان المبارک میں اپنی اولاد کی طرف اس طرح خصوصی نظر کرم کریں کہ جس طرح اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ روزے کے ساتھ چند دن تو ایسی مشق کی جا سکتی ہے کہ بچوں کے سامنے ایک بہتر نمونہ موجود ہو۔ بچے کو بھی معلوم ہو کہ روزہ دار ماں اور عام دنوں میں ماں کی مہربانی میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ وہ جان لے کہ روزہ رکھنے والی ماں کتنی اچھی ماں ہوتی ہے اور پھر یہی مشق دوسرے ۱۱ مہینوں میں بھی جاری رہنی چاہیے۔ روزہ رکھ کر چیخنا چلانا روزے کو خراب کرتا ہے۔ روزہ رکھ کر بدزبانی اور غیبت کرنا حرام ہے۔ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں زبان کی حفاظت نہ کی گئی ہو۔ اپنے بچوں کو روزے کی خوب صورتی کا احساس دلائیں۔ روزے کی محبت ان کے دل میں جاگزیں کرنا چاہیے۔

افطار کے وقت ہر عمر کے بچے کو روزہ دار ہونا چاہیے۔ عمر کے لحاظ سے روزہ رکھوایا جا سکتا ہے۔ اسکول جانے والے چھوٹے بچے اسکول سے آکر عصر سے مغرب تک روزہ رکھ سکتے ہیں حتیٰ کہ دو سال کا بچہ بھی افطاری سے چند منٹ پہلے روزے کا احساس کر سکتا ہے۔ بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو افطاری کی خوشی میں شریک کرنا چاہیے۔ افطاری مغرب کی اذان سے ۱۵‘ ۲۰ منٹ پہلے تیار کر لینی چاہیے۔ تمام کاموں سے فارغ ہو کر ذکر الٰہی کیا جائے۔ تمام اہل خانہ سمیت اجتماعی و انفرادی دعائیں کی جا سکتی ہیں۔

سحری کے وقت خواتین اپنے رب سے راز و نیاز کر سکتی ہیں‘ کام کاج کرتے ہوئے بھی‘ چند منٹ پہلے اٹھ کر اپنے رب کے حضور سجدہ کر کے بھی‘ اپنے گناہوں کی معافی چاہنا اللہ کو بے حد پسند ہے۔ توبہ استغفار سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے تو دنیاوی پریشانیوں سے بھی نجات ملتی ہے۔ شب قدرکی تلاش اور اس کی معراج ہر روزہ دار کی آرزو ہوتی ہے۔ اپنے قلب و روح‘ مزاج و انداز‘ فکروعمل کو اپنے اللہ کے رنگ میں رنگنے کی جستجو اور کوشش جاری رہے تو یہ نعمت بھی ملنا ناممکن نہیں۔ خودپسندی‘ عجب‘ تکبر‘ اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرنے میں مانع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو اپنا قرب عطا نہیںکرتا جو خود پسندی اور تکبر میں مبتلا ہوں۔

سحری کے وقت نفل پڑھنا یا کوئی بھی نفل نماز پڑھنے سے پہلے اعتکاف کی نیت کر لینا چاہیے۔ اگر مسجد میں نمازتراویح پڑھنے کا موقع ملے تو اس سے ضرور مستفید ہوں اور مسجد میں داخل ہوتے وقت اعتکاف کی نیت کر لی جائے۔

سالانہ منصوبہ بندی کیجیے

رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ ہر عمل نیکی کے بیج سے پھوٹ کر پھل پھول لا رہا ہوتا ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ بہار کس کے لیے ہے؟ کس کی زندگی میں؟ کس کے رمضان میں؟ لازماً گذشتہ پورے سال میں اپنے دل میں نیکیوں کے بیج بوئے ہوں گے تو موسم بہار میں رنگینی بہار نظر آئے گی۔ دلوں میں ایمان اور نیکیوں کے بیج بو کر ان کی آبیاری کتنی کی گئی‘ اسی لحاظ سے یہ بہار بھی آئے گی۔ اگر اس رمضان میں ثمربار شجر اور پھولوں کی مہکار نظر نہیں آ رہی تو اس کی تلافی ممکن ہے۔ ابھی اور آج ہی سے وہ بیج بو لیے جائیں۔ دل کی زمین جتنی زرخیز ہوگی پھل اسی کثرت سے اور خوب تر آئے گا۔

رمضان المبارک تو سالانہ نیکیوں کا میلہ ہے جس کے تین حصے بنا دیے گئے: رحمت‘ مغفرت اور آگ سے رہائی۔ ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق وصول کر رہا ہے۔جو محروم رہ گیا‘وہ نہ جانے دوبارہ اس میلے میں شریک ہو سکے گا یا نہیں؟ نیکیوں کی سیل لگی ہوئی ہے۔ کم دام دے کر زیادہ چیزیں خرید لو‘ قیمتی خرید لو۔ نفل نیکی کا فرض کے برابر اور فرض کا ۷۰ فرض کے برابر ثواب۔ رحمت خداوندی جوش میں ہے۔ خوش نصیب ہیں جواس سے فیض حاصل کرلیں۔

رمضان المبارک ہمارے لیے سالانہ امتحان کا سا درجہ رکھتا ہے۔ جنت اور رضاے الٰہی ہمارا مقصود و مطلوب ہے۔ یہی ہماری منزل ہے۔ اس منزل کو پانے کے لیے ہم درجہ بہ درجہ اُوپر کی طرف جا رہے ہیں‘ نیچے کی طرف جا رہے ہیں‘ اپنے ربّ سے قریب ہو رہے ہیں‘ یا دُور ہو رہے ہیں؟ یہ ہمارے جائزے کا وقت ہے۔ رمضان المبارک ہمارے لیے سالانہ منصوبہ بندی کا وقت ہے۔ اس رمضان اور آیندہ رمضان کے دوران ہم نے کیا حاصل کرنا ہے‘ کیا چھوڑنا ہے‘ کیا خریدنا ہے‘ کیا چیزیں ضروری ہیں‘ کتنا دین کا علم حاصل کرنا ہے اور آگے پھیلانا ہے؟ قرآن و حدیث کی تعلیم کا نصاب بنانا‘حقوق اللہ و حقوق العباد میں توازن پیدا کرنا اور خوب سے خوب تر کی تلاش کرنا کیسے ممکن ہے؟

گھر کی کون سی چیزیں ضروری خریدنا ہیں اور کن کے بغیر گزارا ہو جائے گا۔ اپنے بچوں کے لباس اور دیگر مشاغل میں سادگی کا عنصر کتنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ کون سی اخلاقی خوبیاں اپنے اندر اجاگر کرنا اور کون سی برائیاں چھوڑنی ہیں؟ اس بابرکت مہینے میں جو بھی منصوبہ بنایا جائے گا اس میں اللہ کی رحمت شامل ہوگی۔ پورا نہیں تو کچھ مفید منصوبہ پورا ہوگا۔ زندگی ایک منظم طریقے سے بسر ہوگی۔ دل کو اطمینان اور خوشی ملے گی اور آیندہ رمضان اگر نصیب ہوا تو معلوم ہو جائے گا کہ ہم اپنے دفتر میں کیا جمع کر رہے ہیں۔

رمضان کا پیغام

روزوں کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ دل کا چراغ ہے‘ عبادت اس چراغ کا تیل ہے۔ تیل ہوگا تو چراغ روشن ہوگا۔ اس چراغ کی روشنی باطن کو منور کرتی ہے‘ ظاہر کو حسن بخشتی ہے۔ مضبوط قوت ارادی کے ذریعے خواہشات و جذبات کو قابو میں کر لینے کا نام ضبط نفس ہے۔ یہ ضبط نفس ہی اصل میں پرہیزگاری اور تقویٰ ہے۔

انسان کی خواہشات اور جذبات اعتدال کی حدود سے آگے گزر جائیں تو برائی سرزد ہوتی ہے۔ خواہشات کی یہ خصوصیت ہے کہ جب ہم انھیں پورا کرتے چلے جائیں تو یہ مضبوط ہوتی ہیں‘ دباتے رہیں تو کمزور ہوتی ہیں۔ ہر خواہش نفس کو دباتے رہنے سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ روزے میں بھوک‘ پیاس کی خواہش کے دبے رہنے سے یہ خواہش پورا دن سر نہیں اُبھارتی۔ قوت ارادی سے روزے میں بھوک‘ پیاس کے احساس کو مغلوب کر لیا جاتا ہے‘ اسی طرح اپنے تمام اعضا کو قوت ارادی کے ذریعے برائی سے دُور رکھا جا سکتا ہے۔ دراصل پیٹ کے روزے سے مومن کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ جب اپنی قوت ارادی سے بھوک‘ پیاس اور نفسانی خواہشات پر قابو پا سکتے ہو تو دیگر خواہشات اور اعضا اور فکروعمل پر پابندی لگانا‘ ان پر قابو پانا تو آسان ہے۔ دنیا میں تمام جرائم اور اخلاق رذیلہ کی بنیاد پیٹ ہے۔ جس نے اس پر قابو پا لیا وہ دیگر روحانی مدارج کو طے کرنے کے لیے اپنے آپ کو کامیابی کی راہ پر گامزن سمجھے۔

 

قرآن حکیم میں عذاب قبر کا کیوں بیان نہیں؟ حالانکہ اسے جاننے اور اس پر ایمان لانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ انسان خوف کرے اور تقویٰ اختیار کرے۔

اس کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے رسول پر دو قسم کی وحی اُتاری اور لوگوں پر واجب کردیا کہ دونوں طرح کی وحی پر ایمان لا کر عمل کرتے رہیں۔ فرمایا: ’’وہی ہے جس نے امیّوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اُٹھایا‘ جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگیاں سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (الجمعۃ ۶۲:۲)

’’کتاب‘‘ سے مراد قرآن اور ’’حکمت ‘‘سے مراد بالاتفاق سنت ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جن باتوں کی خبر دی ان پر ایمان و تصدیق‘ ان باتوں کی طرح ہے جن کی حق تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی زبانی خبر دی۔ یہ مسلمانوں کا ایک اجماعی اصول ہے۔ کوئی فرقہ اس کے خلاف نہیں ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کتاب کے ساتھ اس کی مانند سنت بھی دی گئی۔ لہٰذا اگر کوئی مسئلہ قرآن میںنہیں اور حدیث میں ہے تو سمجھ لو‘ گویا قرآن ہی میں ہے کیونکہ حدیث بھی مثل قرآن ہی کے ہے۔

قرآن پاک میں بھی کئی جگہ برزخ کے عذاب و ثواب کا بیان ہے۔ مثال کے طور پر اس آیت میں: وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ ج اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْط اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ o (الانعام ۶:۹۳) ’’کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈُبکیاں کھا رہے ہوتے اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’’لائو‘ نکالو اپنی جان‘آج تمھیں اُن باتوں کی پاداش میں ذِلّت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔

یہ باتیں فرشتے موت کے وقت مرنے والوں سے کہہ رہے ہیں۔ فرشے سچے ہوتے ہیں۔ اگر یہ عذاب ان سے دنیا میں مرتے ہی ختم ہو جاتا تو یہ جملہ الیوم تجزون (آج تمھیں عذاب دیا جا رہا ہے) صحیح نہ ہوتا۔ فرمایا:  فَوَقٰہُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ o  اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا ج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ o (المومن ۴۰:۴۵-۴۶) ’’آخرکار اُن لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اُس مومن کے خلاف چلیں‘ اللہ نے اُن سب سے اُس کو بچا لیا‘ اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے۔ دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں‘ اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو‘‘۔

اس آیت میں صراحت سے برزخ و آخرت کے عذاب کا بیان ہے۔ فرمایا:  فَذَرْھُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِیْ فَیْہِ یُصْعَقُوْنَ  o  یَوْمَ لاَ یُغْنِیْ عَنْھُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا وَّلاَھُمْ یُنْصَرُوْنَo وَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُونَ ذٰلِکَ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لاَیَعْلَمُوْنَ o (الطور ۵۲:۴۵-۴۷) ’’پس اے نبیؐ، انھیں اِن کے حال پر چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے اُس دن کو پہنچ جائیں جس میں یہ مار گرائے جائیں گے‘ جس دن نہ اِن کی اپنی کوئی چال اِن کے کسی کام آئے گی نہ کوئی ان کی مدد کو آئے گا۔ اور اُس وقت کے آنے سے پہلے بھی ظالموں کے لیے ایک عذاب ہے‘ مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں‘‘۔

عذاب قبر: اس سلسلے میں مختصر جواب تو یہ ہے کہ اس کے اسباب جہالت‘ حق تلفیاں اور گناہ ہیں۔ حق تعالیٰ ارباب محبت و معرفت اور فرماں برداروں کے بدنوں اور رُوحوں پر عذاب نہیں فرماتا‘کیونکہ عذابِ قبروعذاب آخرت اللہ کے غصے اور ناراضی کی نشانی ہیں۔جس نے دنیا میں اللہ کو غصہ دلایا اور اسے ناراض کیا‘ پھر بلاتوبہ کے مر گیا‘ اس پر بقدر اللہ کی ناراضی کے‘ برزخ میں عذاب ہوگا۔ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ‘ خواہ وہ برزخ کے عذاب کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔

حدیث میں ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں پر قبر میں عذاب ہوتا دیکھا۔ آپؐ نے عذاب قبر کی دووجوہ بتائیں۔ ایک تو اِدھر کی اُدھر لگایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے نہیں بچا کرتا تھا۔ دوسرے نے تو پاکی کو چھوڑ دیا تھا جو واجب تھی‘ اور پہلا ایسی حرکت کرتا تھا کہ اس کی زبان سے لوگوں میں عداوت ہو جاتی تھی‘ اگرچہ واقعات سچے ہی بیان کرتا ہو۔

معلوم ہوا کہ جھوٹ و بہتان اور کذب و افترا سے لوگوں میں عداوت پیدا کرنے والا سخت ترین عذاب قبر میں مبتلا ہوگا ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے نماز چھوڑ دی‘ جس کی شرطوں میں سے ایک شرط پیشاب سے پاکی بھی ہے‘ وہ بھی سخت ترین عذاب قبر میں مبتلا ہوگا۔ ابن مسعودؓ کی حدیث میں ہے کہ ایسا کوڑا مارا جس سے اس کی قبر آگ سے بھر گئی کیونکہ اس نے بلاوضو کے ایک نماز پڑھ لی تھی اور مظلوم کے پاس سے گزرا تھا تو اس کی مدد نہیں کی تھی۔ بخاری کی سمرۃ والی حدیث میں گزر چکا کہ اُس پر قبر میں عذاب ہو رہا تھا جو جھوٹ بولا کرتا تھا اور دنیا میں اس کا جھوٹ پھیل جایا کرتا تھا ‘ اور اس پر بھی عذاب ہو رہا تھا جو قرأت قرآن کے باوجود رات کو سو جاتا تھا اور دن میں اس پر عمل نہ کرتا تھا۔ اسی طرح رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے زناکار مردوں اور عورتوں پر اور سودخوروں پر برزخ میں عذاب کا مشاہدہ فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ کچھ لوگوں کے سر پتھر سے کچلے جا رہے تھے‘ کیونکہ ان کے سر نماز سے بھاری ہو جاتے تھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ ضریح و زقوم (دوزخ کے پھل) کھاتے تھے کیونکہ وہ زکوٰۃ نہیں دیا کرتے تھے۔ کچھ لوگ بدبودار سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے کیونکہ زناکار تھے۔ بعض لوگوں کے ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے‘ کیونکہ وہ اپنی باتوں اور تقریروں سے فتنے بھڑکایا کرتے تھے۔  بعض کے منہ میں انگارے ٹھونسے جا رہے تھے جو ان کی دبر سے نکل جاتے تھے۔ یہ ظلم سے یتیموں کا مال کھانے والے تھے۔ کچھ عورتوں کی چھاتیاں بندھی ہوئی تھیں اور لٹک رہی تھی‘ یہ زناکار عورتیں تھیں۔ بعض کی کروٹوں سے گوشت کاٹ کاٹ کر انھی کو کھلایا جا رہا تھا‘ یہ چغل خور تھے۔ بعض کے تانبے کے ناخن تھے اور ان سے اپنا منہ اور سینہ کھرچ رہے تھے‘ یہ لوگوں کی آبروریزی کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے غنیمت کے مال میں سے چادر چرا لی تھی۔ آپؐ نے بتایا کہ اس پر اس کی قبر میں آگ بھڑک رہی ہے حالانکہ اس کا بھی مال غنیمت میں حق تھا۔ پھر جس کا کسی مال میں حق نہ ہو اور ظلم سے کسی کا مال مارے اس پر تو بدرجہ اولیٰ عذاب ہوگا۔

عذاب قبر کے مختلف اسباب: عذاب قبر دل‘ آنکھ‘ کان‘ منہ‘ زبان‘ پیٹ‘ شرم گاہ ‘ ہاتھ‘ پائوں اور تمام بدن کے گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اِدھر کی اُدھر لگانے والا‘ جھوٹا‘ چغل خور‘ جھوٹا گواہ‘ پاک دامنوں پر الزام لگانے والا‘ فتنہ بھڑکانے والا‘ بدعت کی اشاعت کرنے والا‘ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر جھوٹ باندھنے والا‘ اللہ کے کلام میں اٹکل اور رائے سے کام لینے والا‘ سود کھانے والا‘ ناحق یتیموں کا مال ہڑپ کرنے والا‘ رشوت وغیرہ سے حرام کھانے والا‘ ناحق مسلمان کا مال کھانے والا‘ شراب پینے والا‘ شجرملعونہ سے نوالہ توڑنے والا‘ لواطت و زنا کرنے والا‘ چور‘ خائن‘ غدار‘ دھوکا باز‘ مکار‘ سود کا گواہ و کاتب‘ حلالہ کرنے اور کرانے والا‘ اللہ کے فرائض ساقط کرنے کے لیے حیلے بہانے کرنے والا‘ حرام کا ارتکاب کرنے والا‘ مسلمانوں کو ایذا دینے والا‘ ان کے عیبوں کے پیچھے لگنے والا‘ غیر شرعی قانون سے فیصلہ کرنے والا‘ غیر شرعی باتوں کا فتویٰ دینے والا‘ گناہوں اور زیادتیوں پر تعاون کرنے والا‘ ناحق قتل کرنے والا‘ حرم میں بے دینی پھیلانے والا‘ اسما و صفات کے حقائق معطل کرنے والا اور ان میں الحاد سے کام لینے والا‘ اپنی رائے‘ ذوق اور تدبر کو سنت پر مقدم کرنے والا‘ نوحہ کرنے والی‘ نوحہ سننے والے‘ حرام گانا گانے والے اور انھیں سننے والے‘ قبروں پر مسجدیں بنانے والے‘ ان پر قندیلیں اور چراغ جلانے والے‘ لیتے وقت پورا لینے والے مگر دیتے وقت کم دینے والے‘ جبار‘ متکبر‘ ریاکار‘ آنکھ یا زبان وغیرہ سے نکتہ چینی کرنے والے‘ اسلاف کو برا کہنے والے‘ کاہن‘ نجومی‘ رَمّال‘ جفر اور فال وغیرہ کھولنے والوں کے پاس جانے والے اور ان سے پوچھ کر ان کی باتوں کی تصدیق کرنے والے‘ ظالموں کے مددگار‘ جنھوں نے غیروں کی دُنیا کے بدلے اپنی آخرت فروخت کر ڈالی‘ اللہ سے ڈرانے اور پندوموعظت کے باوجود نہ ڈرنے والے اور گناہوں سے باز نہ رہنے والے لیکن مخلوق سے ڈرائے جائیں تو ڈرنے والے اور باز آجانے والے وہ لوگ جن کی اگر قرآن و سنت سے رہنمائی کی جائے تو پروا نہ کریں اور راہ پر نہ آئیں لیکن جن سے حسن عقیدت ہے اگر ان کی کوئی بات بتا دی جائے تو دل و جان سے قبول کرلیں‘ حالانکہ انبیا کے سوا تمام لوگ غیرمعصوم ہیں اور سب سے غلطیاں ہوتی ہیں۔

وہ جنھیں قرآن سنایا جائے تو اس سے متاثر نہ ہوں بلکہ گھبرانے لگیں لیکن اگر شیطانی کلمات‘ زنا کا منتر اور نفاق کا مادہ سن لیں تو کھل جائیں‘ حال پر حال آنے لگیں‘ دل میں بے حد مسرت محسوس کرنے لگیں ‘ دلی خواہش رکھیں کہ گانے والے یا گانے والیاں خاموش نہ ہوں۔ اللہ کی جھوٹی قسم کھانے والے اور غیراللہ کی جھوٹی قسموں کو کسی حال میں بھی نہ ترک کرنے والے خواہ کتنی ہی سخت سزا کیوں نہ دی جائے۔ گناہوں پر فخر کرنے والے‘ اور اپنے بھائیوں اور دوستوں میں دل کھول کر بے پروائی سے خوب گناہ کرنے والے‘ وہ جن سے لوگوں کی عزتیں اور مال محفوظ نہ ہوں‘ بدزبان و بدخلق ‘ جن کے غنڈے پن سے ڈر کر لوگ انھیں چھوڑ دیں۔ آخری وقت نماز پڑھنے والے‘ مرغ کی طرح ٹھونگیں مارنے والے اور اللہ کا ذکر نہ کرنے والے‘ خوشی سے زکوٰۃ نہ دینے والے‘قدرت کے باوجود حج نہ کرنے والے‘ قدرت کے باوجود حقوق نہ ادا کرنے والے۔ حرام نگاہ سے‘ حرام بات سے اور حرام لقمہ و حرام قدم سے نہ بچنے والے‘ کمائی میں حرام و حلال کی تمیز نہ کرنے والے‘ صلہ رحمی نہ کرنے والے۔ مسکینوں‘ بیوائوں‘ یتیموں اور بے زبان جانوروں پر ترس نہ کھانے والے بلکہ یتیموں کو ڈانٹنے والے اور محتاجوں کو کھانے کی رغبت نہ دلانے والے‘ دکھاوے کے لیے عمل کرنے والے۔ برتنے کی چیزوں کو روکنے والے اور اپنے عیب و گناہ چھوڑ کر لوگوں کے عیب و گناہ ٹٹولنے والے۔ غرضیکہ ہر قسم کے گناہ گار اپنے اپنے گناہوں پر قبر کے عذاب کا شکار ہوں گے اور گناہوں کے ہلکے اور سنگین ہونے سے عذاب قبر بھی سنگین یا ہلکا ہو گا۔

قبر کی پکار:  اکثر لوگ گنہ گار ہوتے ہیں اس لیے اکثر مرُدوں پر عذاب ہوتا ہے۔ عذاب قبر سے محفوظ رہنے والے تھوڑے ہیں۔ آہ! بہ ظاہر قبروں پر مٹی ہے مگر ان کے اندر عذاب اور حسرتوں کے انبار ہیں۔ ان پر مٹی یا نقشین پتھروں کی عمارات ہیں لیکن اندر مصائب و آفات ہیں جن میں حسرتیں کھول رہی ہیں‘ جیسے ہانڈیوں میں کھانا کھولتا ہے اور انھیں کھولنا بھی چاہیے۔ انسان کے اور اس کی خواہش و تمنائوں کے درمیان قبروں کے مصائب حائل ہیں۔ اللہ کی قسم! قبر ایسا جامع وعظ ہے جس نے کسی واعظ کے لیے کوئی بات نہیں چھوڑی۔

قبروں سے آواز آ رہی ہے: اے دنیا میں رہنے والو! تم نے ایسا گھر آباد کر رکھا ہے جو بہت جلدی تم سے چھن جائے گا اور اس گھر کو اُجاڑ رکھا ہے جن میں تم تیزی سے منتقل ہونے والے ہو۔ تم نے ایسے گھر آباد کر رکھے ہیں جن میں دوسرے رہیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے اور وہ گھر اُجاڑ رکھے ہیں جن میں تمھیں دائمی زندگی گزارنی ہے۔ دنیا دوڑ دھوپ کرنے کا اور کھیتی کی پیداوار مہیا کرنے کا گھر ہے اور قبر عبرتوں کا مقام ہے۔ یہ یا تو باغیچۂ جنت ہے‘ یا جہنم کا خطرناک گڑھا !

عذاب قبرسے رہائی بخشنے والے اعمال:  ان تمام اسباب سے بچنا چاہیے جو عذاب قبر کا باعث ہیں۔

اس سلسلے میں ایک انتہائی نفع بخش عمل یہ ہے کہ انسان رات کو سوتے وقت تھوڑی دیر اپنے نفس کا حساب لینے بیٹھ جائے اور دن بھر کی کمائی کا حساب لگائے کہ کیا کھویا اور کیا پایا‘ نفع ہوا یا نقصان؟ سچے دل سے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ سے توبہ کرے اور پکا ارادہ کر لے کہ اگر صبح تک زندہ رہا تو پھر گناہ نہیں کروں گا اور اسی توبہ پر سوئے۔ روزانہ رات کوسوتے وقت تجدید توبہ کرتا رہے۔ اگر رات میں فوت ہو گیا تو توبہ پر فوت ہوگا اور اگر زندہ رہا تو نیک عملوں کے لیے خوشی خوشی کمربستہ ہو گا کہ حق تعالیٰ نے مجھے زندگی کا ایک دن اور بخش دیا کہ ربّ کی ملاقات کے لیے تیاری کر لوں‘ اور جو کچھ زیادتیاں ہوئی ہیں ان کی رو دھو کر تلافی کر لوں اور معافی مانگ لوں۔ انسان کے لیے اس نیند سے زیادہ نفع بخش کوئی عمل نہیں جس کے بعد اللہ کا ذکر ہو۔ نیز ان دعائوں کو استعمال میں رکھا جائے جو سوتے وقت رحمت عالمؐ سے ثابت ہیں اور انھی کو پڑھتے پڑھتے نیند آجائے۔ بڑا خوش نصیب ہے وہ جسے اللہ اس عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ توفیق و قدرت اسی کی طرف سے ہے۔

اس سلسلے میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی سن لیجیے:

حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ایک صحابیؓ نے لاعلمی میں ایک قبر پر خیمہ گاڑ لیا۔ اندر سے سورہ ملک پڑھنے کی آواز آئی۔ صاحب قبر نے اول سے آخر تک اس سورہ کی تلاوت کی۔ آپؐ نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہ واقعہ بیان کیا۔ فرمایا: یہ سورہ عذاب قبر روکنے والی اور اس سے نجات دینے والی ہے۔ (ترمذی)

حضرت ابن عباسؓ نے ایک شخص سے کہا: کیا میں تمھیں ایک حدیث بطور تحفہ نہ سنائوں‘ تم اسے سن کر خوش ہوگے؟ وہ شخص بولا: ضرور سنایئے۔ فرمایا:  سورہ ملک پڑھا کرو‘ اسے تم بھی یاد کر لو‘ اپنے بیوی بچوں کو بھی یاد کرا دو اور اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے بچوں کو بھی یاد کرا دو‘ کیونکہ یہ نجات دلانے والی اور جھگڑنے والی ہے۔ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے رب سے جھگڑے گی۔ اگر وہ جہنم میں ہوگا تو ربّ سے درخواست کرے گی کہ آپ اسے جہنم کے عذاب سے بچا دیں۔ اللہ پاک اس کی وجہ سے عذاب قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری تمنا ہے کہ سورہ ملک میری امت کے ہر فرد کو یاد ہو (عبدبن حمید)۔یہ صحیح حدیث ہے کہ رحمت عالمؐ نے فرمایا: ۳۰ آیتوں والی سورہ (سورہ ملک) نے اپنے پڑھنے والے کی یہاں تک سفارش کی کہ حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ (ابن عبدالبر)

عذاب قبر سے بچانے کے بارے میں دلوں کو اطمینان دینے والی حدیث ابوموسیٰ اپنی کتاب‘ ترغیب و ترہیب میں بیان کرتے ہیں:

حضرت عبدالرحمنؓ بن سمرۃ روایت کرتے ہیں کہ ہم مدینہ کے ایک چبوترے پر جمع تھے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور کھڑے ہو کر فرمایا: کل رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ ملک الموت اس کی روح قبض کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے ہیں لیکن ماں باپ کی اطاعت آکر ملک الموت کو اس سے ہٹا دیتی ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ شیطانوں نے اسے بوکھلا رکھا ہے لیکن ذکر لاالٰہ آکر تمام شیطان اس سے بھگا دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اسے عذاب کے فرشتوں نے وحشی بنا رکھا ہے لیکن اس کی نماز آکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیتی ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا‘ پیاس سے بے تاب تھا‘ جس حوض کے پاس جاتا ہے‘ دھکا دے دیا جاتا ہے اور بھگا دیا جاتا ہے لیکن رمضان کے روزے آکر اسے خوب سیراب ہو کر پانی پلاتے ہیں۔

میں نے دیکھا‘ انبیا اپنے اپنے حلقے باندھ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ جس حلقے میں جاتا ہے ‘ اس کا غسل جنابت اس کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لا کر بٹھا دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اس کے چاروں طرف اور اُوپر نیچے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ وہ اس میں حیران و سراسیمہ ہے لیکن اس کا حج اور عمرہ آکر اسے اندھیرے سے نکال کر اُجالے میں پہنچا دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ آگ کے شعلوں اور انگاروں سے بچنا چاہ رہا ہے‘ اتنے میں اس کا صدقہ آکر اس کے اور آگ کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور اس کے سر پر سایہ بھی کر لیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ مومنوں سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی اس سے بات نہیں کرتا لیکن اس کی صلہ رحمی آکر کہتی ہے‘ مسلمانو! یہ صلہ رحمی میں پیش پیش رہتا تھا‘ اس سے بولو چالو۔ آخر مسلمان اس سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور مصافحہ بھی کرتے ہیں۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اسے جہنم کے فرشتوں نے پریشان کر رکھا ہے لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکرآکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیتے ہیں اور رحمت کے فرشتوں میں داخل کر دیتے ہیں۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ دوزانو بیٹھا ہے اور اس کے اور اللہ کے درمیان پردہ حائل ہے لیکن اس کا حسن خلق آتا ہے اور ہاتھ پکڑ کر اللہ کے پاس لے جاتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ اس کا اعمال نامہ اس کی بائیں طرف سے دیا جاتا ہے لیکن خوف الٰہی اس کے پاس آکر اعمال نامہ لے کر دائیں طرف رکھ دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا اس کی تول ہلکی ہو گئی ہے لیکن اس کے پاس کم سنی میں مر جانے والے بچے آتے ہیں اور اس کا وزن بھاری کر دیتے ہیں۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ جہنم کے کنارے کھڑا ہے لیکن اس کے پاس اللہ سے اُمید آتی ہے اور اسے وہاں سے ہٹا لیتی ہے اور وہ چلا جاتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ وہ آگ میں گر گیا ہے لیکن آنسو کا وہ قطرہ آتا ہے جو اللہ کے خوف سے گرا تھا اور اسے جہنم سے نکال لیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ پل صراط پر کھڑا ہوا اس طرح کانپ رہا ہے جیسے آندھی میں کھجور کا تنا ہلتا ہے لیکن اس کا اللہ کے ساتھ حسن ظن آکر اس کی کپکپاہٹ کو دُور کر دیتا ہے۔ ایک اُمتی کو دیکھا کہ پل صراط پر گھسٹ رہا ہے‘ کبھی گھسٹتا ہے اور کبھی لٹک جاتا ہے لیکن اس کی نماز آ کر اسے اس کے پیروں پر کھڑا کر دیتی ہے اور بچا لیتی ہے‘ اور ایک اُمتی کو دیکھا کہ جنت کے دروازوں پر پہنچ جاتا ہے‘ دروازے بند ہو جاتے ہیں‘ لیکن کلمہ توحید آکر دروازے کھلوا کر اسے جنت میں داخل کرا دیتا ہے۔

حافظ ابوموسٰی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اعلیٰ درجے کی حسن ہے۔ اسے حضرت سعید بن مسیب‘ حضرت عمر بن زر اور حضرت علی بن زید روایت کرتے ہیں۔ ایسی ہی احادیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نبیوں کے خواب بھی وحی ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر ہے۔ یہ خواب ان خوابوں کی طرح نہیں جو تعبیر کے محتاج ہیں۔ اس خواب میں مختلف عذابوں کے ساتھ ان اعمال کا بھی بیان ہے جو صاحب عمل کو عذاب سے چھڑا دیتے ہیں۔ میں نے شیخ الاسلام سے اس حدیث کی عظمت سنی۔ آپؐ نے فرمایا: سنت کے اصول اس کی گواہی دیتے ہیں اور یہ بہترین احادیث میں سے ہے۔ (کتاب الروح‘ تدوین:  مسلم سجاد)

 

حقیقت حکم دفاع : اسلام کے شرعی واجبات و فرائض میں ایک نہایت اہم ‘ اور اکثر حالتوں میں ایمان و کفر کا فیصلہ کر دینے والا فرض ’’دفاع‘‘ ہے۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ جب کبھی کسی مسلمان حکومت یا کسی مسلمان آبادی پر کوئی غیر مسلم گروہ حملہ کرے‘ تو یکے بعد دیگرے تمام دنیا کے مسلمانوں پر شرعاً فرض ہو جاتا ہے کہ دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوں‘ اس حکومت اور آبادی کو غیر مسلم قبضے سے لڑ کر بچائیں۔

اسلامی فرائض میں یہ اس درجہ مشہور فرض ہے کہ شاید ہی دنیا میں کوئی مسلمان اس سے ناواقف نکلے۔ یہی باہمی مدد اور دفاع اعدا کا قانون ہے جس پر اسلام نے شریعت و اُمت کی حفاظت کی ساری بنیادیں استوار کی ہیں۔

سورہ بقرہ میں فرمایا: اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو مسلمانوں سے لڑائی لڑ رہے ہیں مگر زیادتی نہ کرو۔ اللہ حد سے گزر جانے والوں کو پسند نہیں کرتا (۲:۱۹۰)۔ پھر اس حکم کی علت بھی بتلا دی کہ الفتنۃ اشدُّ  من القتل۔ بلاشبہ یہ جنگ قتل ہے اور انسانی قتل بہت بڑی برائی ہے‘ لیکن اس برائی سے بڑھ کر برائی یہ ہے کہ لوگ اپنی آبادیوں اور حکومتوں پر قانع نہیں رہتے‘ دوسروں کے حقوق آزادی و حکومت چھیننا چاہتے ہیں۔ توحید کے بجائے کفر و شرک کے ماتحت مسلمانوں کو لانا چاہتے ہیں۔ قوموں کاقدرتی حق حریت پامال کرتے رہے ہیں۔ اگر اس کے دفع کا انتظام نہ کیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی قوم زندہ و باقی نہیں رہ سکتی۔ پس بڑی برائی کے دُور کرنے کے لیے چھوٹی برائی اختیار کر لینی چاہیے۔ یہ خود نیچر کا عالم گیر قانون اور کارخانۂ حیات کا دائمی عمل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا خود کبھی جنگ کا حکم نہ دیتا۔

فضائل دفاع : اسلامی احکام میں یہ حکم ’’دفاع ‘‘جو اہمیت رکھتا ہے وہ عقائد ضروریہ کے بعد کسی حکم‘ کسی فرض‘ کسی رکن عبادت کو حاصل نہیں۔ سنن ابوداؤد میں ہے: ’’جب کوئی جماعت جہاد فی سبیل اللہ ترک کر دیتی ہے تو اس پر بلائیں نازل ہوتی ہیں جو کبھی دُور نہیں ہو سکتیں الا یہ کہ وہ اس معصیت سے باز آئیں‘‘۔

کوئی خاص وقت اور عہد اس (جہاد) کے لیے مخصوص نہیں۔ ہر حال اور ہر زمانے میں ایک مسلم و مومن زندگی کے ایمان و صداقت کی بنیاد یہی چیز اور اس کا سچا عشق و ولولہ ہے۔ یہی سنامِ دین ہے‘ یہی عمادِ ملّت ہے‘ یہی اساسِ شرع ہے‘ یہی ملاکِ اسلام ہے‘ یہی ایمان و نفاق کی اصل پہچان ہے۔ نماز اسی سے ہے‘ روزہ اسی سے ہے‘ حج اسی سے ہے۔ زکوٰۃ کا سب سے پہلا اور افضل مصرف یہی ہے۔ سب اس کے لیے ملتوی ہو سکتے ہیں‘ اس کو کسی کی خاطر نہیںچھوڑا جا سکتا۔ پس اس کی فضیلت کو نہ نماز پہنچ سکتی ہے‘ نہ روزہ‘ نہ اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا عمل ہے۔ ہزاروں نمازیں اور ہزاروں روزے بھی اُس ایک قطرئہ خون کی فضیلت و تقدیس نہیں پا سکتے جو اس راہ میں بہایا گیا‘ اور عمر بھرکے صدقات و خیرات بھی اُس ایک درہم (روپے) کے اجر کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو اس راہ میں خرچ کیا گیا حتیٰ کہ یہی عمل اسلام و ایمان کی اصل پہچان قرار پایا۔  صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جو مسلمان اس حالت میں دنیا سے گیا کہ نہ تو کبھی اللہ کی راہ میں لڑائی لڑی اور نہ اس کے دل میں اس بات کی طلب رہی‘ اس کی موت ایسی حالت میں ہوئی جو نفاق کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔

بخاری میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے‘ آپؐ سے پوچھا گیا: سب سے زیادہ افضل آدمی کون ہے؟ فرمایا: وہ مومن جو اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال سے جہاد کرتا ہے۔ ترمذی میں ہے: ’’جس مسلمان نے ایک رات بھی جہاد کرتے ہوئے دشمن کے انتظار میں کاٹی‘ اس کے لیے ایسا اجر ہے‘ گویا ہزار دنوں کا روزہ اور ہزار راتوں کی عبادت‘‘۔ جو لوگ خود اپنی ذات سے جہاد و دفاع میں حصہ نہ لے سکیں مگر مجاہدین کو اپنے مال و متاع سے مدد پہنچائیں‘ تو اگرچہ وہ مجاہدین کا اجر و ثواب نہیں پا سکتے لیکن ان کے لیے بھی اجر ہے‘ اور ساری عبادتوں اور طاعتوں سے بڑھ کر اجر ہے۔ ابن ماجہ میں ہے: جو مسلمان ایسے وقتوں میں گھر سے نہ نکلا صرف اپنے روپے سے جہاد میں مدد دی تو اس کو ایک روپے کے بدلے ۷۰۰ روپے کا اجر ملے گا۔ اگر اُمت کے لیے دفاع و جنگ کا وقت آ گیا تو ایسے وقتوں میں صرف نفس جنگ ہی نہیں بلکہ سعی و کوشش کی ساری باتیں شریعت کے نزدیک جہاد ہیں۔ جس کی طاقت میں جنگ کرنا نہیں ہے اور اس نے مال دیا تو وہ بھی مجاہد ہے‘ جس نے زبان سے دعوت و تبلیغ کی وہ بھی مجاہد ہے‘ جس نے اس راہ میں کسی طرح کی کوئی تکلیف و محنت اٹھائی وہ بھی مجاہد ہے۔ البتہ ایسے وقتوں میں اگر کوئی مسلمان لڑائی کی طاقت رکھتا ہے اور اس سے پہلوتہی کرے تو اس کا کوئی عذر نہیں سنا جائے گا۔ اس کا شمار مومنوں کی جگہ منافقوں میں ہوگا۔ جو مال دے سکتا ہے اور نہ دیا‘ تو وہ بھی ایمان و اخلاص کی زندگی سے نکل گیا۔

احکام قطعیہ دفاع : غرضیکہ ’’دفاع‘‘ اسلام کے اُن بنیادی احکام میں سے ہے جن کو ایک مسلمان مسلمان رہ کر بھی کبھی ترک نہیں کر سکتا۔ اگر ایک مسلمان کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان کی محبت باقی رہ گئی ہے تو اُس کی طاقت سے باہر ہے کہ اللہ کی یہ صداے حق سنے اور ازسرتاپا کانپ نہ اُٹھے: ’’مسلمانو! تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوتو تمھارے قدموں میں حرکت نہیں ہوتی اور زمین پر ڈھیر ہوئے جاتے ہو۔ کیا تم نے آخرت چھوڑ کر صرف دنیا کی زندگی پر قناعت کر لی ہے؟ اگر یہی بات ہے تو یاد رکھو‘ جس زندگی پر تم ریجھے بیٹھے ہو وہ آخرت کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہے۔ (التوبہ ۹:۳۸)۔ اور اسی بنا پر مسلمانوں پر فرض ٹھہرایا کہ اگر دنیا کے کسی ایک اسلامی حصے پر غیر مسلم حملہ کریں اور وہاں کے مسلمان ان کے مقابلے کی کافی قوت نہ رکھتے ہوں‘ یا بالکل مغلوب و مقہور ہو گئے ہوں‘ تو تمام دوسرے حصص عالم کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان کی یاوری و اعانت کے لیے اسی طرح اُٹھ کھڑے ہوں جس طرح خوداپنی آبادیوں کی حفاظت کے لیے اُٹھتے‘ اور اپنی جان و مال سے اسی طرح مدد کریں جس طرح خود اپنے گھر بار کی حفاظت کے لیے مدد کرتے۔

یہ نہ تو کوئی نیا مذہبی اجتہاد ہے‘ نہ کوئی پولٹیکل فتویٰ۔ تمام دنیا کے مسلمان فقہ و قوانین کی جو کتابیں صدیوں سے پڑھتے پڑھاتے آتے ہیں‘ اُن سب میں یہ احکام موجود ہیں۔ اسلامی دینیات کا کوئی طالب علم ایسا نہیں ملے گا جو ان احکام سے بے خبر ہو اور ان سب کے اوپر مسلمانوں کی کتاب اللہ ہے جو اپنے ہر پارہ اور ہر سورہ کے اندر اس حکم کا اعلان اور اس قانون کی پکار صدیوں سے بلند کر رہی ہے۔

یہ (دفاع) فرض کفایہ نہیں ہے بلکہ بالاتفاق مثل نماز روزہ کے ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ ایک گروہ کے دفاع کرنے سے باقی مسلمان بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ جس طرح ایک گروہ کے نماز پڑھ لینے سے باقی مسلمانوں کے ذمے نماز ساقط نہیں ہو جاتی۔

ابن حمام اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’فرض کفایہ کی صورت اس وقت تک ہے کہ نفیر کی حالت نہ ہو۔ لیکن اگر مسلمانوں کے شہروں میں کسی شہر پر غیر مسلموں نے حملہ کر دیا تو اس وقت جنگ کرنا ہر مسلمان فرد پر فرض عین ہوگا۔ خواہ جنگ کے لیے دعوت دینے والا عادل ہو یا فاسق (فتح القدیر‘ ۴:۲۸)۔ موطا امام مالک میں ہے: ’’اگر کفار اپنے اپنے ملکوں میں ہیں‘ مسلمانوں پر حملہ آور نہیں ہوئے ہیں تو اس حالت میں جہاد فرض کفایہ ہے لیکن جب وہ ہمارے ملکوں کا قصد کریں اور امیر اسلام نفیر کا اعلان کرے تو پھر (دفاع) فرض عین ہو جائے گا‘‘۔

اس نفیر کی وضاحت شاہ ولی اللہؒ نے موطا کی شرح میں یہ کی ہے کہ ’’یہ ضروری نہیں کہ کوئی خاص شخص مسلمانوں کو یہ کہہ کر پکارے کہ آئو جہاد کرو۔ مقصود یہ ہے کہ ایسی حالت پیدا ہو جائے جو مقتضاے نفیر ہے۔پس جب غیر مسلموں نے اسلامی ملکوں کا قصد کیا اور مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی شروع ہو گئی تو جہاد فرض ہو گیا اور جب دشمنوں کی طاقت اُن ممالک کے مسلمانوں سے زیادہ قوی ہوئی اور ان کی شکست کا خو ف ہو‘ تو یکے بعد دیگرے تمام مسلمانانِ عالم پر جہاد فرض ہو گیا‘ خواہ کوئی پکارے یا نہ پکارے۔ یہی حال تمام فرائض کا ہے۔ نماز کا جب وقت آجائے تو خواہ موذن کی صداے حی علی الصلوٰۃ سنائی دے یا نہ دے‘ وقت کا آنا وجوب کے لیے کافی ہوتا ہے (مسویٰ‘ جلد ۲‘ ص ۱۲۹)۔

ترتیب وجوب دفاع : صورت اس کی یہ ہے کہ جب غیر مسلموں نے کسی اسلامی حکومت اور آبادی کا قصد کیا‘ تو اُس شہر کے تمام مسلمانوں پر بہ مجرد قصد اعداء دفاع فرض عین ہو گیا۔ باقی رہے دیگر ممالک کے مسلمان تو اگر زیرجنگ مقامات کے مسلمان دشمن کے مقابلے کے لیے کافی قوت نہیں رکھتے تو اُس حالت میں یکے بعد دیگرے تمام دنیا کے مسلمانوں پر بھی دفاع فرض عین ہو جائے گا۔  فتح القدیر میں ہے: ’’اگر غیر مسلموں نے حملہ کیا تو پھر اُس شہر کے تمام باشندوں پر دفاع کے لیے اٹھ کھڑا ہونا فرض عین ہو جائے گا‘ اور اگر دشمن زیادہ طاقت ور ہے اور مقابلے کے لیے وہاں کے مسلمان کافی نہیں ہیں تو جو مسلمان اُن سے قریب ہوں گے‘ اُن پر بھی فرض عین ہو جائے گا۔ اور اگر وہ بھی کافی نہیں یا انھوں نے سستی کی‘ یا دانستہ انکار کیا‘ تو پھر اُن تمام لوگوں پر جو اُن سے قریب ہوں یہ فرض عائد ہوگا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے اس کا وجوب منتقل ہوتا جائے گا حتیٰ کہ تمام مسلمانوں پر مشرق میں ہوں یا مغرب میں‘ دفاع کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا فرض ہوجائے گا۔ (جلد ۴‘ ص۸۲)

اگر قیامت کا آنا حق ہے ‘ اور یہ جھوٹ نہیں کہ خدا کا وجود ہے‘ تو مسلمانان عالم کے پاس اس وقت کیا جواب ہوگا‘ جب قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ تم کروڑوں کی تعداد میں زندہ و سلامت موجود تھے‘ تمھارے جسموں سے روح کھینچ نہیں لی گئی تھی‘ تمھاری قوتوں کو سلب نہیں کر لیا گیا تھا‘ تمھارے کان بہرے نہ تھے‘ نہ ہاتھ کٹے ہوئے اور پائوں لنگڑے تھے‘ پھر تمھیں کیا ہو گیا تھا کہ تمھارے سامنے تمھارے بھائیوں کی گردنوں پر دشمنوں کی تلواریں چل گئیں‘ وطن سے بے وطن اور گھر سے بے گھر ہو گئے‘ اسلام کی آبادیاں غیروں کے قبضہ و تسلط سے پامال ہو گئیں‘ پر نہ تو تمھارے دلوں میں جنبش ہوئی‘ نہ تمھارے قدموں میں حرکت ہوئی‘ نہ تمھاری آنکھوں نے محبت و ماتم کا ایک آنسو بخشا‘ اور نہ تمھارے خزانوں پر سے بخل و زر پرستی کے قفل ٹوٹے؟ تم نے چین اور آرام کے بستروں پر لیٹ کر بربادیٔ ملّت اور پامالی اسلام کا یہ خونیں تماشا دیکھا‘اور اُس بے درد تماشائی کی طرح بے حس و حرکت تکتے رہے جو سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر ڈوبتے ہوئے جہازوں اور بہتی ہوئی لاشوں کا نظارہ کر رہا ہو۔ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ ج فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلاَّ قِلِیْلٌ o (التوبہ ۹:۳۸)

(مسئلہ خلافت ‘ انتخاب و تلخیص: جاوید اسلام خان)

 

۷- فوج داری قوانین کا مسئلہ: اسلام کے فوج داری قوانین پر عربی میں اچھا کام ہوا ہے‘ جس میں سے بعض چیزیں اردو میں منتقل بھی کی جا رہی ہیں۔ بعض مخصوص شرعی سزائوں کے سلسلے میں مختلف پہلوئوں کی مزید تحقیق و وضاحت درکار ہے۔ کیوں کہ جرم و سزا کے بارے میں جدید فلسفوں اور جدید انسان کے مزاج نے حدود شرعیہ کی نسبت سے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کر دیے ہیں۔ اس وضاحت کا ایک پہلو خود فلسفوں کے تنقیدی جائزے اور اس بارے میں اسلامی فکر کے بیان اور ان حقائق کی یاد دہانی سے تعلّق رکھتا ہے جن کی طرف پہلے دو مسائل کے بیان میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔ دوسرا پہلو ہر شرعی سزا پر علیحدہ تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔ چور‘ زانی‘ زنا کی تہمت لگانے والے اور برسرِجنگ باغیوں کی سزا قرآن میں مقرر کر دی گئی ہے‘ لیکن معاصر اسلامی مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سزائیں اسلامی معاشرہ برپا ہو جانے کے بعد ہی نافذ کی جانی چاہییں۔ اس اتفاق رائے کی بنیاد یہ ہے کہ ابتدا میں بھی یہ قوانین اسلامی معاشرے کے برپا ہونے کے بعد نافذ کیے گئے تھے۔ نیز سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ غیر معمولی حالات میں بعض شرعی سزائوں کا نفاذ روک دیا گیا تھا۔ اس اجمالی موقف کی مزید تشریح کے طور پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دورِ جدید میں ان سزائوں کا نفاذ کن شرائط کی تکمیل کے بعد کیا جا سکے گا۔

قرآن کریم میں شراب پینے والے کو سزا دینے کا ذکرنہیں‘ مگر یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ یہ قابل سزا جرم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شراب خور کو سزا دینا ثابت ہے مگر سزا کی جو کیفیت اور مقدار فقہ مرتب میں بیان ہوئی ہے‘ اس کی بنیاد خلفاے راشدین کا عمل اور صحابہؓ کا فیصلہ ہے۔ مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں یہ امر قابل غور ہے کہ جدید اسلامی قانون سازی میں اس بارے میں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے۔

شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن متعین مجرموں کے سلسلہ میں یہ طریقہ اختیار کیا‘ ان کے جرم کی نوعیت کی ازسرنو تحقیق درکار ہے تاکہ یہ بات صاف ہو سکے کہ یہ سزا صرف احصان کے باوجود زنا کے ارتکاب کی تھی یا جرم کی نوعیت زیادہ پیچیدہ تھی۔ پھر یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ اصل سزا سزائے موت ہے یا یہ مخصوص طریقہ سزا بھی شرعی حیثیت رکھتا ہے۔

قرآن کریم میں مرتد کی سزا نہیں بیان ہوئی ہے۔ مرتد کی جو سزا سنت سے ثابت ہے‘ اس کے ساتھ ہی حضرت عمرؓ کے ایک مشہور اثر کی بنا پر اکثر فقہا مرتد کو تین دن تک توبہ کی مہلت دینے اور اس طرح اس کے شکوک و شبہات کا ازالہ کر کے اسے اسلام کی طرف واپس لانے کی کوشش کو واجب یا کم از کم مستحب قرار دیتے ہیں۔ آزادی ضمیر کی ضمانت دینے کے باوجود ارتداد کو قابل سزا جرم قرار دینا اور اس جرم کی ایک ایسی سزا دینا جو آیندہ اصلاح کے مواقع ختم کر دے‘ بہت نازک مسئلہ ہے۔ فساد عقیدہ اور بنیادی امور میں اختلاف نیز اہل قبلہ کی تکفیر کے بارے میں موجودہ علما کا طرزِعمل اس مسئلے کی سنگینی میں اور اضافہ کر دیتے ہیں‘ کہ مرتد کی تعریف کیا ہوگی اور اس کو کن شرائط کی تکمیل پر سزا دی جا سکے گی؟ اس صورت میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا جب ملزم کو اس بات پر اصرار ہو کہ وہ مرتد نہیں ہوا ہے؟

ترک اسلام کے ساتھ اسلامی ریاست سے بغاوت اور اسلام دشمنی کا مسئلہ علیحدہ ہے۔ نازک تر مسئلہ‘ مجرد تبدیلی دین اور ترک اسلام کی سزا کا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ قتل اس جرم کی آخری سزا ہے یا واحد سزا۔ کیا وجہ ہے کہ مرتد کے شکوک و شبہات دُور کرنے کے لیے تین ہی دن کا موقع دیا جائے‘ مزید وقت دینے میں کون سی دلیل شرعی مانع ہے؟ اور ایک جدید اسلامی ریاست اس بارے میں کوئی قانون بناتے وقت اس حقیقت کو کتنا وزن دے گی کہ اسلامی نظام عرصہ سے معطل رہا ہے اور عہدجدید کے انسان پر حجت اس طرح نہیںتمام ہوئی ہے جس طرح اہل عرب پرہوئی؟

۸- اقدار کا موضوع:  اسلامی تعلیمات کامدار اخلاقی قدروں پر ہے‘ شریعت انھی قدروں کی تحصیل متعین احکام و ہدایات کے ذریعے کرتی ہے‘ اور یہی قدریں زندگی کے نت نئے مسائل میں انسان کی صحیح رہنمائی کر سکتی ہیں۔

انفرادی اور اجتماعی کردار کی تعمیر‘ سماجی اداروں کی تشکیل اور جدید مسائل میں نئی اسلامی قانون سازی میں ان قدروں کی رہنما اہمیت مسلم ہے۔پھر یہی قدریں نظام تعلیم و تربیت میں مقاصد کا درجہ رکھتی ہیں اور مطالعۂ حیات میں اسلامی ادیب کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ اخلاقی قدروں کی اس کلیدی اہمیت کے پیش نظر ان کے مطلق یا اضافی ہونے کی بحث بہت اہم ہے۔ اسلامی مفکرین جب اخلاقی قدروں کے مطلق ہونے پر زوردیتے ہیں تو ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟ کیا اخلاقی قدروں کا مفہوم احوال وظروف کی تبدیلی کے ساتھ نہیں بدلتا اور ان قدروں کے عملی اظہار کے طریقوں میں تبدیلی نہیں ہوتی؟ کیا انھی باتوں کی تعبیر اس طرح مناسب نہ ہوگی کہ اخلاقی قدروںکے تصور میں ارتقا ہوتا رہتا ہے اور اس ارتقا کے امکانات لامحدود ہیں؟ دورِ جدید میں نظام تعلیم‘ قانون‘ ادب اور سماجی علوم کی تشکیل جدید کے ضمن میں اس بنیادی بحث کا حق نہیں اداکیا گیا ہے۔

۹- فلسفہ تاریخ:  اسلام کے نظام فکروعمل میں اخلاقی قدروں کی اہمیت کے ضمن میں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اسلامی مبصر کی نگاہ میں تاریخ انسانی میں اصل کارفرما قوتیں کیا ہیں جن کے حوالے سے ماضی کی توجیہ و تعبیر اور مستقبل کی تعمیر میں رہنمائی حاصل کی جا سکے؟

اسلامی فلسفہ تاریخ کی ترتیب تاریخ انسانی کو ایک مخصوص رخ پر لے جانے کی کوشش کرنے والی اسلامی تحریک کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل ہی اس کے طریق کار میں حقیقت پسندی‘ خود اعتمادی اور اس کی صفوں میں اپنی بالآخر کامیابی کا یقین پیدا کر سکتی ہے۔ اسلامی فلسفہ تاریخ کی ترتیب اور اس کی روشنی میں پوری انسانی تاریخ کی نئی تدوین اس لیے بھی ضروری ہے کہ معاصر فکری مزاج کی تشکیل میں تاریخ کی مادی تعبیر نے اہم حصہ لیا ہے۔ آج تاریخ کا مطالعہ انسانی تاریخ میں روحانی قوتوں اور اخلاقی مقاصد کے عمل سے غفلت برتتا ہے اور ثانوی درجہ کے دوسرے عوامل ہی کو فیصلہ کن اہمیت دیتا ہے۔ تاریخ کے اس مطالعہ کو ردّ کر کے ایک نیا تاریخی شعور حاصل کیے بغیر انسانوں سے کسی تہذیبی انقلاب کی توقع لاحاصل ہے۔ افسوس کہ اس عظیم کام کے سلسلہ میں جو ابتدائی کوششیں کی بھی گئی ہیں‘ ان کا بہت کم نوٹس لیا گیا ہے اور بظاہر اس کام کے آگے بڑھنے کے کوئی آثار نہیں نظرآتے۔ اسلامی مفکرین کی توجہات زیادہ تر ان مسائل پر مرکوز ہیں جو مخصوص سیاسی یا کلامی فضا کی وجہ سے فوری اہمیت حاصل کر گئے ہیں۔ مگر جب تک اسلامی انقلاب کی اس جیسی بنیادی فکری ضرورتوں کو نہیں پورا کیا جاتا‘ عصرحاضر کے مزاج کی اصلاح ناممکن ہوگی۔

معاشرتی مسائل

۱- پردہ: معاشرے میں عورت کے مقام اور اس کے سیاسی اورسماجی حقوق کے سلسلے میں تحریک اسلامی کے صف اوّل کے مفکرین کے درمیان بھی بنیادی اختلافات موجود ہیں۔

الاخوان المسلمون کے رہنما مصر و شام کے دوسرے علما کی طرح‘ عورت کے لیے اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں اور یہی ان کے نزدیک اصل شرعی حکم ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما صرف ضرورت کی بنا پر ایسا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور عام حالات میں چہرے کے پردے کے قائل ہیں۔ جو لوگ اس اختلاف سے واقف ہیں ان کے لیے یہ بڑا دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے علما کی رائے کو خدا کی شریعت کا درجہ دیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص خود کتاب وسنت سے مسئلے کی پوری تحقیق نہیں کر سکتا ہے۔

یہ مسئلہ بہت اہم ہے اور عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعلیمی‘ سماجی اور بسااوقات معاشی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں نے اسے اور زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ دونوں رائیں اپنے دلائل کے ساتھ سامنے آئیں۔ اسلامی تحریکیں بالخصوص اور مسلمان معاشرہ بالعموم ایک ایسا مزاج اختیار کرے جو مخلص مسلمانوں کو اختلافی مسائل میں اس بات کی پوری آزادی دے کہ وہ جس رائے کو زیادہ وزنی پائیں اسے عمل کی بنیاد بنائیں۔ رواج کے قہر یا سماج کے دبائو کے ذریعے کسی ایک رائے کا نفاذ اسلامی تحریک اور مسلمان معاشرے کے لیے نہ صرف نتیجے کے اعتبار سے مہلک ہوگا بلکہ دینی اعتبار سے بھی غلط ہوگا۔

اس سیاق میں یہ بات قابل افسوس ہے کہ مسلمانوں کی کسی دینی یا اصلاحی تحریک نے اپنی قوتوں کا کوئی قابل لحاظ حصہ اس اہم کام پر نہیں صرف کیا کہ ایسی صاحب علم خواتین تیار کرے جو پوری ذمہ داری کے ساتھ ان جیسے مسائل پر غوروفکر اور تحقیق کا حق اداکر سکیں اور کسی ایک رائے تک پہنچنے میں مدد کر سکیں۔ جب تک یہ کمی پوری نہیں ہوتی ان مسائل پر غوروفکر کرنے والوں کی ایک مخصوص ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ دورِ جدید کی مسلمان عورت کی علمی‘ معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی ضروریات اور حوصلوں کی پوری رعایت ملحوظ رکھیں۔

۲- عورت کے سیاسی حقوق: عورت کے سیاسی حقوق پر غور کرتے وقت ہم اس ضرورت کو زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ مسلم ممالک میں تحریک اسلامی کے مفکرین نے اس مسئلے میں مختلف موقف اختیار کیے ہیں۔

انتخابات میں رائے دہی‘ مجالس قانون سازی کی رکنیت‘ مناصب حکومت پر تقرر‘ ہر مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے اور گذشتہ ۵۰ برسوں میں تبدیلی رائے کی بھی دل چسپ مثالیں ملتی ہیں۔ مسئلے کو سلجھانے کے لیے چندبنیادی امور پر ازسرِنو غور ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ آیت قرآنی  امرھم شورٰی بینھم میں ھم کی ضمیر صرف مسلمان مردوں کی طرف راجع ہے یا مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف۔ یہی سوال قرآن و سنت کے بعض دوسرے نصوص کی تعبیر کے سلسلے میں بھی پیدا ہوگا۔ عہد نبوت اور خلافت راشدہ کا تعامل بھی تحقیق طلب ہے۔ اور یہ مسئلہ بھی تنقیح کا محتاج ہے کہ اگر اجتماعی امور پر مشورے میں مردوں کی نسبت عورتوں کی شرکت کم رہی تھی تو اس کے اسباب مقامی اور عارضی تھے یا شارع جل شانہ کے کسی دائمی منشا کی تکمیل کے لیے ایسا کرنا ضروری سمجھا گیا تھا۔

یہی سوال اس دور کے سیاسی‘ سماجی ‘معاشی اورزندگی کے بعض دوسرے مظاہر کی نسبت سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ اتنے اہم مسائل جن کا تعلّق انسانوں کی نصف تعداد کے اہم حقوق سے ہو‘ بڑی ذمہ داری اور باریک بینی کے متقاضی ہیں‘ اور یہ ضروری ہے کہ ہمارے فیصلے کا مدار کتاب و سنت ہو۔ اگر کوئی مفکرنفسیاتی‘ حیاتیاتی‘ مطالعے کی روشنی میںاور متعلقہ مصالح کے ذاتی فہم کی بنا پر کوئی رائے رکھتا ہے تو اس رائے کو صرف اس دائرے میں کوئی وزن دیا جاسکتا ہے جس میں کتاب و سنت سے کوئی واضح رہنمائی نہ ملتی ہو۔ ہمارے نزدیک اس مسئلے اور متعلقہ مسائل پر غوروبحث کے دوران میں یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا جا سکا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ مزید بحث و تحقیق کے ذریعے کسی رائے تک پہنچا جائے۔

جیسا کہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں‘ اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اس غوروبحث میںمرد علما اور اصحاب رائے کے ساتھ صاحب علم و بصیرت‘ دین دار خواتین بھی پورا حصہ لیں۔ اگرآج ایسی خواتین کی کمی ہے تو ہمیں ان کی ضرورت و اہمیت محسوس کر کے ایسے اقدامات کرنے چاہییں کہ یہ کمی جلد از جلد پوری ہو۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر اس ضرورت کی عدم تکمیل کے سبب ہم نے اسلامی معاشرے کو اس انداز پر تشکیل دینا چاہا جسے خود دین دارخواتین بھی دل سے نہ قبول کرتی ہوں تو خطرناک نتائج رونما ہو سکتے ہیں۔ ان خطرات کے سدّباب کا واحد محفوظ طریقہ عورتوں میں علم و بصیرت پیدا کرنا اور ان مسائل کی بابت کیے جانے والے فیصلوں میں ان کی شرکت ہے۔

۳- عائلی قوانین میں اصلاح:  اسلام کی عائلی قوانین یا پرسنل لا کی جو دفعات کتاب و سنت سے ماخوذ اور متفق علیہ ہیں ان کی حکمتوں اور مصالح کے بیان پر‘ نیز ان پر مغرب کی جانب سے کیے جانے والے اعتراضات کے جواب میں اردو اور عربی میں خاصا لٹریچر موجود ہے‘ جو کسی حد تک جدید ذہن کو مطمئن بھی کر سکتا ہے۔ مگر جوچیز کھٹکتی ہے وہ وہ اختلاف ہے جو جزئی امور میں اصلاح و ترمیم‘ اور ریاست کی مداخلت اور نئی ضابطہ بندی کے ذریعے عدل و انصاف کی ضمانت دینے کے باب میں تحریک اسلامی کے مفکرین کے درمیان پایا جاتا ہے۔کسی حد تک اختلاف سے تو مفر نہیں‘ مگر جتنا اختلاف اس باب میں نظر آتا ہے وہ بہت کچھ کم ہوجاتا اگر ایک دوسرے کی رایوں سے واقف ہوکر بحث و مذاکرے کے ذریعے اختلافات میں کمی کی کوشش کی جاتی۔

یہاں تفصیل کا موقع نہیں صرف اشارہ کیا جاسکتا ہے‘ مثلاً پاکستان میں علما اور جماعت اسلامی نے جو موقف اختیار کیا وہ اپنی تفصیلات میں اس موقف سے بہت مختلف ہے جو مصر‘ شام اور مراکش وغیرہ کے بعض علما اور الاخوان المسلمون کے رہنمائوں نے اختیار کیا ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے‘ اس لیے اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ تعدد ازدواج کے حق کی تحدید اور ضابطہ بندی‘ طلاق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بنانا‘ حق خلع کی تجدید‘ مطلقہ کے حقوق‘ ایک ساتھ تین طلاقوں کا مسئلہ‘ صغیرہ کے نکاح‘ ولایت اجبار‘ اور خیار بلوغ کے مسائل‘ نیز یتیم پوتے کی وراثت کے ضمن میں جبری وصیت کا مسئلہ اس دائرے کے چند ایسے مسائل ہیں جن پر غوروفکر ضروری ہے۔

۴- غیر مسلموں کے سیاسی حقوق: دورِ جدید میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی اور مدنی حقوق کا مسئلہ بھی نازک اور اہم ہے۔ اگرچہ تحریک اسلامی کے رہنمائوں نے اس بارے میں خاصا حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے مگر عام ذہنوں پر مغرب کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا کافی اثر ہے۔

موجودہ موقف یہ ہے کہ رائے دہندگی اور مجالس قانون ساز کی رکنیت نیز دوسرے مدنی حقوق میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے گا‘ البتہ یہ مجالس ازروے دستور اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتیں۔اسلامی ریاست کا صدر مملکت لازماً مسلمان ہوگا اور اس کی شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ غیر مسلموں سے جزیہ لینا ضروری نہیں اور انھیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنا مناسب ہوگا۔ ان میں سے پہلی بات یعنی صدر ریاست کا مسلمان ہونا متفق علیہ اور ہر ایک کے لیے قابل فہم ہے۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جس دستوری پابندی کے تحت مجالس قانون ساز میں غیرمسلموں کی شرکت روا رکھی گئی ہے‘ اسی دستوری پابندی کے تحت کابینہ یا شوریٰ کی کسی دوسری شکل میں ان کی شرکت کیوں نہیں روا رکھی جا سکتی ہے؟ فوجی خدمات کوکسی حالت میں بھی غیر مسلمانوں کے لیے لازمی نہ قرار دینا ایک معقول بات ہے۔ لیکن اگر وہ خود کو اس خدمت کے لیے پیش کریں تو ان کے لیے اس کا دروازہ بند کرناضروری نہیں معلوم ہوتا۔ یہ بات زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے کہ فوجی خدمت اور دوسرے مناصب پر تقرر کا معیار دستور سے وفاداری کو بنایا جائے اور اس اصولی موقف کے ساتھ عملی طور پر انتخاب یا تقرر میں متعلقہ غیر مسلم افراد کے واقعی رجحانات اور کردار کو بھی نظرمیں رکھا جائے۔ اس طرح مسلمانوں اور اسلام کے کسی اہم مفاد کو مجروح کیے بغیر غیر مسلموں کو ان تمام سیاسی اورمدنی حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے جو دورِجدیدکی کسی ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا جن کا شمار مجلس اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق میں کیاہے۔ اپنے موقف کی تعیین اور اس کے بیان میں مزاج عصر کی رعایت رکھنے میں اس حد تک کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا جس حد تک نہ کسی متعین شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو‘ نہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اہم مفاد مجروح ہوتا ہو۔

اس بارے میں مسلم ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے موقف کی تعیین میں دنیا کی رائے عامہ اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلمان اقلیتوں کے مفاد و مصالح کی رعایت رکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام کے مجموعی مفاد کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو جملہ سیاسی اور مدنی حقوق اوراسلام کی طرف دعوت دینے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ زیرغور مسئلہ میں‘ شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فراخ دلانہ پالیسی اختیار کرنے اور اس کو مزاج عصر سے مناسبت رکھنے والے انداز میں سامنے لانے سے اس مفاد کے تحفظ میں مدد ملے گی۔

۵- مسلمان اقلیتوں کا سیاسی مسلک :  غیر مسلم اکثریت والے آزادممالک میں بڑی تعداد میں رہنے والے مسلمانوں کے اپنے ملک کے سیاسی نظام سے تعلّق کی نوعیت بھی مذکورہ بالا مسئلے سے کم اہم نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تعلّق ان کی سیاسی قوت اور اس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی اور معاشی حالت پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ان مسلمانوں کی سیاسی قوت‘ تعلیمی اور معاشی حالت کی اس داعیانہ کردار کے لیے بھی اہمیت ہے جو انھیں ان ملکوں میںاختیار کرنا چاہیے۔ اب تک یہ سمجھا گیا ہے کہ انسانوں کو حاکمیت الٰہ کی طرف دعوت دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ جس ملک میں حاکم اعلیٰ جمہور کو قرار دیا گیا ہو اس کے سیاسی نظام سے کنارہ کش رہا جائے۔ یہ موقف نظرثانی کا محتاج ہے۔ قانون سازی‘تشکیل حکومت اور انتظام ملکی میں فعال حصہ لے کر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ اور تعلیمی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے علاوہ خود ملک کی رائے عامہ پر اثرانداز ہونا زیادہ آسانی سے ممکن ہوگا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حاکمیت الٰہ کا عقیدہ اور اس کی طرف دعوت اصولی طور پر ایسا کرنے میں مانع ہے۔ اس مسئلے پر کھل کر بحث و مذاکرہ ہونا چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ بحث مسلم ممالک کے اسلامی مفکرین کی شرکت سے محروم رہے۔ اگر مستقبل میں اسلامی تحریکوں کا منتہائے نظر صرف مسلم ممالک میں اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب ہے تو اس مسئلے کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

معاشی مسائل

۱- اسلام اور معاشی ترقی: اگرچہ معاصر اسلامی فکر کے بعض توجہ طلب پہلوئوں کی نشان دہی میں ہم معاشی مسائل کا ذکر سب سے آخر میں کر رہے ہیں۔ مگر یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ دورِجدید میں ان مسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

بہت سے جدید ذہنوں کی اسلام اور اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں بے دلی یا مخالفت ان مسائل سے وابستہ ہے۔ بہت سے مسلم دانش ور یہ احساس رکھتے ہیں کہ بعض اسلامی تعلیمات معاشی ترقی کے لیے ناسازگارہیں اور اسلام تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے ایجابی طور پر سازگارفضا نہیں پیدا کر سکتا۔ مسلمان ماہرین معاشیات نے اپنے مغربی اساتذہ سے یہ سیکھا ہے کہ صنعتی ترقی کا ایک لازمی نتیجہ اور تیز رفتار ترقی کی ایک شرط روایتی سماج کے شیرازے کا منتشر ہونا ہے۔ ان دانش وروں کا تصور اسلام روایتی مذاہب کے تصور سے زیادہ نہیں ہے‘ اور اسلا م کے مطالعے کی کمی کے سبب وہ مشرق کے مسلمان ممالک کے روایتی سماج ہی کو اسلامی سماج سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ان کا ذہن یہ بات بھی تقریباً قبول کر چکا ہے کہ اسلام تیزرفتار معاشی ترقی کے صدمات نہ سہہ سکے گا۔

اگر تحریک اسلامی کو نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنے ماہرین معاشیات کا تعاون حاصل کرنا ہے تو ان کی ان غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ معاشی ترقی کے حقیقی تقاضوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور اسلام کے حرکی رجحانات کی مخفی قوتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہیے کہ کس طرح وہ معاشی ترقی کے لیے سازگار فضا بناتے ہیں۔ قدرتی طور پر ہمیں ان امور سے بھی بحث کرنی ہوگی کہ اسلام میں ترقی آخری مقصود کا نہیں بلکہ فلاح انسانی کا درجہ رکھتی ہے۔ اس ذیل میں بیش از بیش سامان حیات پیدا کرنے‘ معیار زندگی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ چاہنے‘ انسانی ضروریات میں بے تحاشا وسعت پیدا کرتے چلے جانے اور فردِانسانی کو مزید سامانِ حیات کی کبھی نہ تشفی پانے والے طلب کے دبائو کے تحت مصروف محنت رکھنے کے معاصر مقاصد و مناہج پر تنقید بھی ضروری ہوگی۔ زندگی کے روحانی‘ اخلاقی اور جمالیاتی پہلوئوں کے اہم تقاضوں پر زور دیتے ہوئے معاشی ترقی کے سلسلے میں ایک ایسا معتدل نقطۂ نگاہ سامنے لانا ہوگا‘ جو مقام انسانیت کے شایان شان ہو۔

اسلام کے مجموعی نظام اقدار کے پس منظر میںمعاشی قدروں کے صحیح مقام کی تعیین کے بعد یہ بات واضح کرنی ہوگی کہ اسلام مطلوبہ معاشی ترقی کے لیے قوی محرکات فراہم کرتا ہے اور اس کا اجتماعی نظام اس کے اہتمام کا ذمہ دار ہے۔ اس موضوع پر اب تک بہت کم لکھا گیا ہے۔ موجودہ لٹریچر عام لوگوں کے لیے کچھ مفید ہو سکتا ہے مگر معاشیات کے ماہرین کے لیے تشفی بخش نہیں ہے۔

۲- پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کی بحث:  دورِ جدید میںمعاشی ترقی‘معاشی عدل کے قیام اور فی الجملہ زندگی کی تنظیم میں انفرادی اور نجی کوششوں کی اہمیت روز بروز کم ہوتی جاتی ہے اور تعاون باہمی پر مبنی اداروں نیز ریاست کا دائرہ عمل وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کسی مخصوص فلسفے کا اثر نہیں بلکہ جدید ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے جو اشیا کی پیداوار کے لیے بڑے پیمانے پر اہتمام‘ طویل عرصہ پیداوار اور اس کے تقاضے کے طور پر پیداواری منصوبہ بندی اور کامیاب منصوبہ بندی کے لیے رسد اورطلب نیز خام اشیا اور تیار شدہ سامانوں کی قیمتوں میںیک گونہ استقرار کی طالب ہے۔ ایک اسلامی معیشت میں پبلک سیکٹر‘ کوآپریٹو سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کے اضافی مقامات پر اور صنعتوںکو قومی ملکیت میں لینے یا نہ لینے کے مسئلے پر غور کرتے وقت انفرادی حقوق اور شورائی نظام کے تقاضوں کے ساتھ جدید ٹکنالوجی کے ان تقاضوں کو بھی پوری طرح سامنے رکھنا ہوگا۔ متعلقہ عملی مسائل میں فیصلہ کا مدار مصالح کو بنانا چاہیے اور یہ ظاہر ہے کہ اکثر اوقات بالاتر مصالح کے حصول کے لیے کم تر مصالح کی قربانی یا ان کے تحفظ کے لیے دوسری تدابیر اختیار کرنا بھی لازم آئے گا۔

اس مسئلے پر جو لٹریچر ہمارے سامنے ہے‘ اس کا بیش تر حصہ مستقبل کی اسلامی ریاست کے متوقع مسائل کو سامنے رکھ کر تیار نہیں ہوا ہے‘ بلکہ غیر اسلامی معاشی نظاموں کے ردّ میں تیار ہوا ہے۔ اصل ضرورت ایک ترقی پذیر اسلامی ریاست کے لیے موزوں معاشی پالیسی مرتب کرنے کی ہے‘ اور اس مسئلے میں اصل اہمیت اصطلاحوں کے ترک و قبول کی نہیں‘ بلکہ پالیسی کے ایسے رہنما اصول وضع کرنے کی ہے جو قومی ملکیت میں لینے‘ تحدید ملکیت‘ مسئلہ ملکیت زمین‘ آزادی کاروبار کے حدود اور معاشی منصوبہ بندی جیسے امور میں موزوں فیصلوں کی بنیاد بن سکیں۔

بلاشبہ اس کام کا حق تو اس وقت ادا کیا جا سکے گا‘ جب کسی ملک میں اسلامی نظام عملاً قائم ہو جائے۔ مگر خودایسا ہونا اب اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان دانش وروں اور ماہرین معاشیات کو خصوصاً اور دورِجدید کے انسان کو عموماً اس بات پر مطمئن کر سکیں کہ اس سلسلے میں تحریک اسلامی ایک واضح‘ حقیقت پسندانہ اور حرکی موقف اختیار کرتی ہے۔

۳- غیر سودی معیشت: اسلا م میں سود کی حرمت اور معاصر معاشی نظاموں میں سود کی کلیدی اہمیت اکثر جدید تعلیم یافتہ افراد کو الجھن میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سود کو مکمل طور پر ممنوع قرار دینے کے بعد بنک کاری‘ نظام زر و کریڈٹ‘ تجارت خارجہ‘ بین الاقوامی مالی تعلّقات کن بنیادوں پر منظم کیے جا سکیں گے۔ بہت سے مسلمان بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ بنک کا سود ان خرابیوں سے پاک ہے جو قرآن کے حرام کیے ہوئے ربا میں پائی جاتی ہیں۔ اس غلط فہمی کے ازالے‘ حرمت سود کی حکمتوں کے بیان اور مذکورہ بالا امور کی تنظیم کے لیے متبادل بنیادوں کی وضاحت پر جو کام اب تک کیا گیا ہے وہ ابتدائی معیار کا ہے۔ مزید تفصیلات پر غور اور متبادل نظام کی فنی وضاحت درکار ہے۔ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ تاریخ انسانی میں بالعموم اور معاصر دنیا میں بالخصوص سود کے کردار اور اس سے پیدا ہونے والی حق تلفیوں‘ عدم توازن اور فساد پر گہرا تجزیاتی اور معلوماتی کام کیا جائے۔ ساتھ ہی سود کی وضاحت کرنے والے اور اس کا جواز فراہم کرنے والے علمی نظریات پر علمی تنقید کا کام بھی آگے بڑھانا چاہیے۔

۴- انشورنس : صنعتی دَور میں انشورنس ایک اہم کاروباری ضرورت ہے۔ انشورنس کارخانہ دار کے لیے یہ ممکن بنا دیتی ہے کہ وہ ایک متعین سالانہ صرفہ برداشت کر کے ناگہانی خطرات کے مالی عواقب سے  بے نیاز ہو جائے۔ اس تحفظ کے بغیر وسیع پیمانے پر صنعتی پیداوار کی تنظیم دشوار ہے۔ یہی ضرورت زندگی کے دوسرے دائروں میں بھی پیش آتی ہے۔ موت کے وقت کے عدم تعین کے سبب افراد زندگی کی انشورنس کے ذریعے موت کے مالی عواقب سے تحفظ چاہتے ہیں۔ ان تمام صورتوں میں تحفظ کی بنیاد یہ فنی حقیقت فراہم کرتی ہے کہ جس خطرے کا وقوع افراد کے لیے مجہول اور غیر متعین ہوتا ہے اسی خطرے کا افراد کے ایک بہت بڑے مجموعے میں وقوع حسابی طور پر معلوم اور متعین ہوتا ہے۔ اس بنیاد پرتعاون باہمی کے اصول پر افراد کے مجموعے خطرات کے مالی عواقب برداشت کرنے اور فردِ واحد کے لیے ان کی شدت کم کرنے کا اہتمام کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر تجارتی کمپنیاں بڑی تعداد میں افراد سے انشورنس کے معاہدے کر کے مذکورہ بالا مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ خود نفع کماتی ہیں ‘اور اسی بنیاد پر اجتماعی نظام سوشل انشورنس کی مختلف صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔

ان حقائق کے پیش نظر اسلامی معاشرے کے لیے چند بنیادی سوالات غور طلب ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ وہ اس ضرورت کو زندگی کے تمام دائروں میں اجتماعی نظام کے زیراہتمام پورا کرے گا یا بعض دائروں میں ایسا کرے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہر دائرے میں اس ضرورت کی تکمیل کا اہتمام ریاست کے سپرد نہ کیاجاسکتا ہو تو ایسے دائروں میں صرف تعاون باہمی پر مبنی اداروں کو روا رکھا جائے گا یا تجارتی انشورنس کو بھی بعض دائروں میں گوارا کیا جائے گا؟

انشورنس کا موجودہ نظام سود سے ملوث ہے مگر سود کے بغیر انشورنس کی تنظیم جدید اس سے کہیں زیادہ آسان ہے‘ جتنی بنک کاری کی تنظیم جدید۔اس حقیقت کو سامنے نہ رکھنے اور بڑی حد تک انشورنس کمپنی کی فنی بنیادوں سے ناواقفیت کی وجہ سے اس موضوع پر ظاہر کی جانے والی آرا میں بہت کم وزن ہے۔ اردو میںاس پر کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے۔ گذشتہ برسوں میں عربی میں اس پر کئی مقالات لکھے گئے ہیں ‘ مگر اب تک مسئلہ صاف نہیں ہوا ہے۔ انشورنس کمپنی کی فنی بنیادوں کے پیش نظر بعض علما کی یہ رائے کہ اس میں قمار پایا جاتا ہے نظرثانی کی محتاج معلوم ہوتی ہے۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اس کی مزید تحقیق اور جامع بحث کی ضرورت ہے۔

۵- نظام محاصل : دورِ جدید کی اسلامی معیشت کے نظام محاصل پر کسی جامع کام کی ضرورت ہے۔ اگرچہ متعدد معاصر فقہا و مفکرین نے مال کی نئی قسموں مثلاً کمپنیوں کے حصص‘ مشینوں اور کارخانوں اور کرایہ پر دیے جانے والے مکانات وغیرہ کے سلسلے میں زکوٰۃ کے وجوب پر روشنی ڈالی ہے‘ مگر ابھی اس سلسلے کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں کیا جا سکا‘ اور زیرغور مسائل میں اختلاف رائے کم کرنے کے لیے بحث و فکر کی رفتار بہت سست ہے۔ مثال کے طور پر یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ کاروباری پیمانے پر کی جانے والی زراعت کے سلسلے میں شرعی محصول کیا ہوگا؟ عشر و زکوٰۃ کے مصارف اور جدید حالات میں ان کے مطابق عمل کی صورتیں کیا ہوں گی؟ اس بارے میں بھی مزید غوروبحث کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ شرعی محاصل اور مزید محاصل‘ مالیاتی پالیسی (fiscal policy) اور سماجی تحفظ پر روشنی ڈالتے ہوئے غیر سودی اسلامی معیشت کے پس منظر میں ایک جامع نظام تجویز کیا جائے۔

۶- تحدید نسل:  آج کل کم ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسی میں تحدید نسل نے بھی ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ انفرادی سطح پر ضبط ولادت کا مسئلہ قومی پیمانے پر آبادی کو کنٹرول کرنے کے مسئلے سے بڑی حد تک علیحدہ ہے‘ لیکن اس موضوع پر معاصر بحث و مذاکرہ اول الذکر مسئلے کے زیرسایہ شروع ہوا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض مفکرین اس بارے میں غیر معمولی شدت اختیار کر رہے ہیں۔

جہاں تک پہلے مسئلے کا سوال ہے اس پر اس بڑے مسئلے کے پس منظر میں غور کرنا چاہیے جس کا ذکر معاشی ترقی کے تصور اور مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ مسئلے کے دونوںپہلوئوں پر مزید تحقیقی کام کی اور بحث و مذاکرے کے ذریعے موجودہ اختلاف رائے کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔

 

یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو بنگلہ دیش میں آٹھویں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)‘ جماعت اسلامی‘ جاتیو پارٹی اور متحدہ اسلامی الائنس پر مشتمل چار جماعتی اتحاد اور عوامی لیگ کے درمیان اصل مقابلہ ہوا۔ چار جماعتی اتحاد کا تشخص یہ تھا کہ: یہ اسلامی رحجان کی حامل‘ پاکستان سے تعلقات کی حامی اور دو قومی نظریے کی طرف دار پارٹیاں ہیں۔ دوسری طرف عوامی لیگ واضح طور پر سیکولرزم کی علم بردار‘ ہندو اور بھارتی مفادات کی حلیف جماعت کے طور پر قوم کے سامنے تھی۔ عوامی لیگ کی پشت پر ماضی کے کمیونسٹوں اور حال کے این جی اوز مافیا کی بھرپور تائید کا آسرا اور ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہندوئوں کی طرف داری بھی شامل تھی۔

عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد کے مقابلے میں چار جماعتی اتحاد کی مرکزی قیادت بی این پی کی بیگم خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی کے سپرد تھی۔ اس انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ کے غنڈا عناصر نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی طلبہ تنظیم) کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بی این پی کے کارکنوں کو بھی مارا جس کے نتیجے میں متعدد قیمتی کارکن شہید ہوگئے‘ تاہم چار جماعتی اتحاد نے تشدد کے واقعات کا تشدد سے جواب دینے کے بجائے سیاسی تعلیم اور انتخابی مہم پر زور دیا۔ جن دنوں انتخابی مہم زوروں پر تھی‘ انھی دنوں ۱۱ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا حادثہ بھی رونما ہو گیا۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر عوامی لیگ نے چار جماعتی اتحاد کو: پاکستان کا دلال‘ طالبان کا ہراول دستہ اور اسلامی بنیادی پرستی کا قائم مقام گردانتے ہوئے بھرپور الزامی مہم شروع کر دی۔

یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء کو جب انتخابات ہوئے تو ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب ۷۳ فی صد سے زیادہ نکلا۔ ۲۸۲ میں سے عوامی لیگ کو ۶۲ اور چار جماعتی اتحاد کو ۲۰۲ نشستیں ملیں‘ جن میں سے جماعت اسلامی کے ۳۱نامزد امیدواروں میں سے ۱۷ ارکان نے‘ جماعت کے انتخابی نشان ترازو کے تحت کامیابی حاصل کی اور جماعت کو ۱۰ فی صد ووٹ ملے۔ ہارنے والے ۱۰ امیدوار ۵۰۰ سے ایک ہزار تک کے ووٹوں کے فرق سے ہارے (جماعت اسلامی اور اسلامی متحدہ محاذ کے مجموعی طور پر ۲۹ امیدوار کامیاب ہوئے)۔ جماعت اسلامی کے کامیاب امیدواروں میں: مولانا مطیع الرحمن نظامی (امیر جماعت)‘ مولانا عبدالسبحان‘ مولانا دلاور حسین سعیدی‘ مولانا فریدالدین‘ مولانا عبدالعزیز‘ مفتی عبدالستار‘ ڈاکٹر عبداللہ محمد طاہر‘ پروفیسر عبداللہ کافی‘ پروفیسر شہادت حسین‘ مولانا ریاست علی‘ پروفیسر محمد روح القدوس‘ پروفیسر عزیز الرحمن‘ محمدشاہ جہاں‘ میزان الرحمن‘ پروفیسر غلام پرواز‘ پروفیسر عبدالخلیق‘ اور غازی نذرالاسلام پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مطیع الرحمن نظامی نے عوامی لیگ کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات ابوسعید کو شکست دی۔

یہ نتائج بھارت و مغرب نواز اور بنگلہ قوم پرستی کے حامی لوگوں کے لیے دھچکا ثابت ہوئے۔ اسی لیے متعدد بھارتی اور مغربی مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ: ’’یہ نتائج اس اعتبار سے خطرے کی گھنٹی ہیں کہ بنگلہ دیش میں اسلامی بنیاد پرست انتخابی عمل کے ذریعے ایک بڑا مرحلہ طے کر کے آگے نکل آئے ہیں‘‘۔ سہ روزہ  دعوت دہلی کے اداریے کے مطابق ’’ہندستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ تشویش جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ خالدہ ضیا کے اتحاد پر ظاہر کی جا رہی ہے--- کہا جا رہا ہے کہ خالدہ ضیا کی حکومت جماعت کے زیراثر رہے گی‘‘۔ بنگلہ دیش میں متعدد مبصرین نے ان نتائج کو دو قومی نظریے کی تجدید قرار دیتے ہوئے ۱۹۴۶ء میں سلہٹ کے اس ریفرنڈم کا اعادہ قرار دیا ہے‘ جس میں وہاں کے لوگوں نے پاکستان میں شمولیت کا ووٹ دیا تھا۔ یہ تبصرے کسی جذباتی ردعمل کا مظہر قرار دیے جائیں یا انھیں حقیقت سمجھا جائے‘ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے ایک واضح ‘ مثبت‘ اسلامی اور مسلم قوم پرستانہ سوچ کی تائید میں یک جہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔

اگرچہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے عوامی لیگ کی شکست کو سیکولرزم کی شکست اور پاکستان نواز گروہ کی کامیابی قرار دیا ہے‘ لیکن خالدہ ضیا نے بھارتی حکومت کو متعدد بار یقین دہانی کرائی ہے کہ: ’’اسے بھارت کے خلاف کسی مہم جوئی سے سروکار نہیں‘‘۔ اس موقف کا سبب یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت نے جس درجے کا اثر و نفوذ حاصل کر رکھا ہے اور اس کی سرحدات جس قدر غیر محفوظ ہیں‘ اس پس منظر میں وہاں کی حکومت کا ایک بڑا مسئلہ ریاست کے اقتداراعلیٰ کا تحفظ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’را‘‘ ۱۰ اخبارات چلا رہی ہے۔ ملک کے پانچ بڑے اخبارات میں سے تین اِن میں شامل ہیں۔

پاکستان میں بسنے والا کوئی بھی فرد اس مشکل چیلنج اور بے شمار عملی مسائل کو نہیں سمجھ سکتا جو وہاں کی اسلام دوست اور تعمیری قوتوں کو درپیش ہیں۔ بنگلہ قوم پرستی‘ لادینیت‘ ہندو اور بھارت کا اتحاد تو تھا ہی‘ لیکن اس ’’اتحاد‘‘ کو ان نام نہاد رضاکار تنظیموں (NGOs)کی بھی بڑی کمک میسر ہے جو اسٹرے ٹیجک مفادات کی حامل اور غیر ملکی امداد یافتہ پروپیگنڈا تنظیمیں ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ چار جماعتی اتحاد کی مدمقابل عوامی لیگ کی اصل قیادت انھی تنظیموں کے وفاق کے پاس تھی۔ یاد رہے ان مخصوص سیاسی مفادات کی حامل این جی اوز کی فیڈریشن ’’اداب‘‘ (دی ایسوسی ایشن آف ڈویلپمنٹ ایجنسیز بنگلہ دیش‘ADAB) کے نام سے منظم ہے جو عملاً ایک طاقت ور سیاسی پارٹی کا عکس ہے۔ اس میں یو ایس ایڈ‘ دی ایشیا فائونڈیشن‘ کاریتاس‘ وائی ایم سی اے‘ پروشیکا‘ براک وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۱ مئی ۲۰۰۱ء کو ’’اداب‘‘ نے اس قرارداد کے تحت بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا مہم کا آغاز کیا کہ: ’’بنگالی قوم میں یہ بیداری پیدا کی جائے کہ وہ ان قوتوں کوووٹ نہیں دیں گے‘ جو ملک کی ترقی کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتی ہیں‘‘۔ ان تنظیموں کا یہ نعرہ بذاتِ خود ان کے ہدف اور مقصد کو واضح کر رہا ہے۔

انتخابی نتائج اور عمل کی تکمیل پر تمام غیر جانب دار مبصرین نے اطمینان کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش میں دستوری ترمیم کے بعد اب انتخابات غیر جانب دار عارضی حکومت کی نگرانی میں ہوتے ہیں (یہ پاکستان کے لیے بھی قابل تقلید ہے)۔ یاد رہے کہ دستور میں اس ترمیم کی تجویزاور مہم سابق امیر جماعت بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم نے چلائی تھی لیکن اس کے باوجود‘ عوامی لیگ کی لیڈر نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی انتخاب ہارنے والی پارٹی کے لیے نتائج کو تسلیم کرنا سخت اذیت ناک عمل ہوتا ہے۔ پچھلی مرتبہ خالدہ ضیا نے الیکشن جیتا تو پورا عرصہ حسینہ واجد نے ان کے خلاف مہم جوئی کی‘ اور پھر جب ۱۹۹۶ء میں حسینہ واجد ۱۴۶ نشستوں پر کامیاب ہوئیں تو خالدہ ضیا نے تسلسل کے ساتھ احتجاجی عمل جاری رکھا‘ تاہم بنگلہ دیش میں جمہوریت کے وجود کو اس پیمانے پر خطرہ لاحق نہیں ہوتا جس طرح پاکستان میں ہو جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی فوج اتنی مضبوط نہیں اور نہ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں کو وہ ’’احترام و مقام‘‘ حاصل ہے جو پاکستان میں پایا جاتا ہے ۔ بہرحال بنگلہ دیشی فوج میں بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد میں‘ عبوری حکومت کے ساتھ بنگلہ دیشی فوج نے بھرپور معاونت کی۔

اس تناظر میں بنگلہ دیش کے انتخابات کے بعد یہ منظر اُبھرتا ہے کہ عوامی لیگ ان تمام عناصر کے تعاون کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر چلے گی۔ بھارت کے مفادات کی نگہبانی کو درپیش خطرہ بھی ان کے لیے باعث تکلیف امر ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ مخالف عنصردانش ور طبقے اور صحافت میں کارفرما لوگوں کو متحرک کر کے جماعت اسلامی کے حوالے سے اپنی مہم کو استوار کر رہا ہے‘ اور غالباً ان کا مرکزی ہدف بھی جماعت ہی ہوگی۔

یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ عوامی لیگ بے لوث کارکنوں کی ایک بڑی ٹیم رکھنے کے باوجود‘ اپنے کارکنوں کو نئی قیادت اور نئی پارلیمنٹ کے خلاف متحرک کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کارکنان سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن ہارے ہیں (اس لیے ارکان پارلیمنٹ کی حلف برداری کے روز عوامی لیگ کی ہڑتال کی اپیل بری طرح ناکام ہوئی۔ عوامی لیگ کے ارکان نے پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے ۲۴ اکتوبر کو حلف اٹھایا ہے)۔ عوامی لیگ کے منجھے ہوئے صلاح کاروں نے بھی حسینہ واجد کی ردعمل کی پالیسی پر لبیک نہیں کہا۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح نہ صرف ملک میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ عوامی لیگ کے لیے آیندہ فتح کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

خالدہ ضیا کی ۶۰ رکنی کابینہ میں جماعت اسلامی کے مطیع الرحمن نظامی نے وزیر زراعت اور علی احسن محمد مجاہد نے وزیر سوشل ویلفیئر کا حلف اٹھایا ہے (امیر اور قیم دونوں کے وزیر بن جانے کے جماعت پر کیا اثرات ہوں گے‘ یہ الگ موضوع ہے) ۱۹۷۱ء کے ’غداروں‘ کو وزیر بنانے پر خالدہ ضیا کو بہت کچھ سننا پڑ رہا ہے۔ عوامی لیگ کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ کسی طرح چارجماعتی اتحاد میں غلط فہمی کو پروان چڑھایا جائے۔اگر عوامی لیگ اپنے ان مقاصدمیں ناکام رہی اور چار جماعتی اتحاد یک جہتی کے ساتھ خدمت انجام دینے میں کامیاب رہا‘ تو بنگلہ دیش ہی کے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے سیاسی مستقبل پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ لیکن دوسری جانب خود بی این پی اپنی بھرپور وسیع اکثریت  کے زعم میں اپنے اتحادیوں کی آرا کو نظرانداز کرنا چاہے تو بلاشبہ وہ ایسا کر سکتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے ‘ جس کو اُبھار کر عوامی لیگ اور سیکولر حلقے کامیابی کے امکانات کی دنیا دیکھتے ہیں۔ بہرحال اس وقت تک تو اس اتحاد کو بچانے کے لیے خالدہ ضیا کا ذہن بالکل واضح ہے۔ وہ عوامی لیگ جیسی نظریاتی اور گہرے اثرات رکھنے والی قوت کا توڑ کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ‘ پرعزم اور پرجوش کارکنوں کی معاونت کی اہمیت کو اشد ضروری سمجھتی ہیں کیونکہ بی این پی بہرحال ایسی ٹیم نہیں رکھتی‘ تاہم مستقبل کے پردے میں امکانات اور خدشات دونوں پائے جاتے ہیں۔

۳۰ برسوں پر پھیلے اس طویل عرصے نے پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا‘ آئین تبدیل ہو گیا‘ اور معاشرے کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہو گئی۔ اسی طرح مسائل کی نوعیت اور تقدیم و تاخیر کا مسئلہ بھی ہے۔  جس میں بی این پی کو ایک یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ وہ عوامی لیگ کے منفی حربوں کا کیسے مقابلہ کرے اور کس طرح اچھی کارکردگی پیش کرکے اپنے رفقا کو کرپشن سے بچائے؟ دوسری طرف جماعت اسلامی کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ سیکولر لابی کے بالمقابل کیسے آئینی دستاویزات میں اسلامی شقوں کا اضافہ کرا سکے گی؟ اس کے علاوہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ان امور پر پورا زور لگانے کے بجائے کابینہ کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بناکر اپنے دائرہ اثر کو بڑھایا جائے۔ اگر اس حکومت میں جماعت اسلامی یہ نقش قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تودوسرے مقامات پر اسلامی تحریکوں کے لیے بھی اس تجربے سے استفادے کا راستہ کھل سکتا ہے۔

ذات اور برادری کی بنیاد پر رشتہ

سوال:  میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے اور ارائیں برادری سے ہے۔ شادی بیاہ کے حوالے سے ہمارے ہاں صرف اپنی برادری میں ہی شادی کرنے کا رواج ہے۔ کسی دوسری برادری میں اچھے رشتے ہونے کے باوجود بھی شادی نہیں کی جاتی۔ میرے والدین کا بھی اصرار ہے کہ شادی صرف اپنی برادری میں ہی کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گائوں میں آج تک کسی غیر برادری میں رشتہ نہیں ہوا۔ کسی نے اپنی بیٹی کسی غیر ارائیں کو نہیں دی۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو تمام برادری اس کا بائیکاٹ کر دے گی۔ پھر آج تک اپنے آبا و اجداد سے ہم اسی طرح دیکھتے آئے ہیں۔ اس بات کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟

جواب:  اسلام کے انقلابی کارناموں میں سے ایک کارنامہ عرب جاہلیت کے قبائلی‘ لسانی اور نسلی تعصبات کو چکنا چور کر کے انسانوں کو اللہ کی بندگی کے ذریعے اسلام کے رشتہ اخوت و یگانگت میں منسلک کر دینا تھا۔ اسی بنا پر قرآن کریم نے سورہ الحجرات میں یہ حقیقت واضح فرما دی کہ گو انسانوں کو تعارف کی خاطر مختلف قبائل اور اقوام میں پیدا کیا گیا ہے‘ لیکن اللہ کی نگاہ میں عزت و تکریم کی بنیاد صرف تقویٰ یا نیک عمل ہے (۴۹:۱۳)۔ اس حقیقت کو نبی کریمؐ نے اپنے آخری خطبے میں دو ٹوک الفاظ میں رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو پائوں تلے روندتے ہوئے تمام اہل ایمان کو یاد دلایا کہ وہ سب حضرت آدم ؑ کی اولاد ہیں۔ ہجرت ِ مدینہ کے فوراً بعد ہی آپؐ نے یہ اہتمام بھی فرمایا کہ جو لوگ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے‘ ان کے اور انصار کے درمیان رشتۂ اخوت کو باقاعدہ اعلان کے ذریعے قائم فرما دیا۔ ساتھ ہی ذات برادری کی برتری یا کم تری کے تصور کو مٹانے کے لیے خود اپنے خاندان کی رشتے کی بہن کو حضرت زیدؓ بن حارثہ کے نکاح میں دے دیا جس کی طرف قرآن کریم میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے۔

اس اقدام کا صرف ایک مقصد تھا کہ رشتۂ ازدواج کی بنیاد تقویٰ ‘ علم‘ نیکی اور بھلائی ہو‘ اور رنگ‘ خون‘ برادری اور قبائلی تعصب کو بنیاد سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اگر ہمارے ہاں ابھی تک ہندوانہ تصورات پائے جاتے ہیں اور ارائیں یا کسی بھی ذات کے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ شادیاں صرف ان کی ذات برادری میں ہی ہوں تو یہ اسلام کی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں برادری اور ذات کی بندگی سے نجات دے اور صرف اپنی بندگی کی توفیق دے۔ اپنی ذات سے باہر شادی کرنا نہ گناہ ہے نہ بدعت‘اور نہ شریعت کی مخالفت بلکہ دین و شریعت کی روح سے مطابقت رکھتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

خاوند کا ناروا سلوک

س :  میں ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں اور دینی علوم کی تعلیم بھی حاصل کر چکی ہوں۔ میری تین بیٹیاں اورایک بیٹا ہے۔ سب شادی شدہ ہیں البتہ سب سے چھوٹی بیٹی کے بارے میں   ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے‘ جب کہ ہم نے تحریکی بنیادوں پر شادی کی۔

میری بیٹی نے مدینۃ الحکمت سے بی ایڈ اور کراچی یونی ورسٹی سے ایم ایس سی اکنامکس کی پوری تعلیم باپردہ حاصل کی لیکن شادی کے بعد بیٹی کو جو ہمارے گھر سے چند گلیوں کے فاصلے پر رہتی ہے‘ تنہا آنے کی اجازت نہیں۔ اگر اپنے ساتھ کہیں لے جانا چاہوں تو اس کی اجازت نہیں اس لیے کہ خاوند سے پوچھا نہیں۔ وہ میرے ساتھ بازار جا کر اپنی مرضی سے کچھ خرید نہیں سکتی۔

اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے کہ میرے داماد نے میری بیٹی سے بات کیوں کی‘ جب کہ وہ اس کی ماموں زاد بہن ہے۔ اگر ۱۶ سال چھوٹی بہن کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا جائے تو اس پر بھی اعتراض ہے؟ کیا قریبی رشتے داروں کا کوئی حق نہیں؟

حق مہر کے بارے میں کہا گیا کہ چونکہ پہلی بہوئوں کا حق مہر ۵ ہزار روپے مقرر ہوا تھا‘ اس کا بھی یہی ہوگا۔ کیا یہ اسلامی رویہ ہے؟ اسلام نے عورت کی عزت نفس کا خیال کیا ہے اور بنیادی حقوق مقرر کیے ہیں۔ کیا اس ہندووانہ رسموں کے مارے ہوئے معاشرے میں کوئی ماں اپنی بیٹی کو حقوق کے حصول کے لیے عدالت جانے کا مشورہ دے سکتی ہے؟ اگر اتنی پرانی روایات کو سینے سے لگائے رکھنا تھا تو اُسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنے پر کیوں اصرار تھا؟ رہنمائی فرمایئے۔

ج :  آپ کی چھوٹی بیٹی کو اپنے سسرال میں جو صورت حال پیش آ رہی ہے وہ ہمارے معاشرے میں دین کی تعلیمات کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی ایک واضح مثال ہے۔ فہم دین کا سب سے زیادہ مستند ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب قرآن کریم اور اس کے بھیجے ہوئے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں قرآن کریم اور سنت رسولؐ کو براہ راست مطالعہ کرنے کا رواج بہت کم ہے‘ اس لیے بہت سی ایسی باتیں جن کی بنیاد قرآن و سنت پر نہیں ہے‘ رواج پا گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شادی کے بعد لڑکی کے والدین یا بہن بھائی سے اس کا رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس طرزعمل کو ’’قطع رحمی‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو ’’صلہ رحمی‘‘ کی ضد ہے۔

ہم اپنے معاملات کے حوالے سے اکثر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلام بنیادی طور پر اخلاق‘ معروف‘ بِر‘ رضاے الٰہی اور خوفِ الٰہی کا نام ہے اور قانون محض اخلاقی اصولوں کی پیروی کرتا ہے۔ چنانچہ اخلاق کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ اپنے والدین اور بھائی بہن کی طرح عزت و احترام و محبت سے پیش آئے۔ صلبی و نسبی رشتوں کے احترام میں کوئی فرق اسلام تسلیم نہیں کرتا۔ دین نے جو حدود شرم و حیا اور حجاب کی مقرر کر دی ہیں ان میں غلو کرنا دین کی روح کے منافی ہے۔ جہاں تک مہر کا تعلق ہے یہ ایک لڑکی کا حق ہے اور نکاح سے قبل دو خاندانوں کے باہمی اتفاق سے طے پانا چاہیے۔ اسلام نے مہر کی رقم پر کوئی پابندی نہیں رکھی ہے۔ یہ کم سے کم بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی۔ لیکن دونوں شکلوں میں اس کا مقصد وہ تحفہ ہے جو دلہن کو خلوص نیت کے ساتھ استقبال کرتے وقت عملاً دیا جائے اور محض لوگوں کو دکھانے کے لیے بطور ایک اعلان نہ ہو۔ نکاح سے قبل دونوں خاندان جس رقم پر بھی چاہیں اتفاق کر لیں‘ اس پر بعد میں غور کرنا مناسب نہیں۔

سالی اور دیور دونوں کے حوالے سے احادیث سے جو ہدایت ہمیں ملتی ہے اس میں جسمانی تعلق  (body contact)کو ممنوع قرار دیا گیا ہے‘ جب کہ ہمارے ہاں بہت سے خاندانوں میں اسے ایک طرح کی بے تکلفی سمجھا جاتا ہے جو شرعاً درست نہیں ہے۔ اگر دو تین گلی کے فاصلے پر لڑکی کی والدہ کا گھر ہو اور اس علاقے میں کسی فساد کا خطرہ نہ ہو تو ایک فرد کو اپنی بیوی کے ماں کے ہاں جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ سفر میں تنہا جانے میں جو خدشات ہو سکتے ہیں وہ پرُامن حالات میں ایک محلے کے اندر جانے میں بنیاد نہیں بن سکتے۔ لیکن ان تمام معاملات میں مسئلے کا حل قانونی حقوق کے مطالبات سے نہیں ہو سکتا۔ قرآن و حدیث سے تعلق اور تعلیم و تبادلۂ خیالات کے ذریعے ہی اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ (ا-ا)

طلاق مکرہ کا مسئلہ

محترم جناب ڈاکٹر انیس احمد نے جوجواب دیا ہے (ستمبر ۲۰۰۱ء) اس کا سوال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ سوال میں کہا گیا ہے کہ ’’لڑکے نے لڑکی کے گھر والوں اور اپنے وارثوںکی موجودگی میں یہ کہہ کر کہ چونکہ لڑکی بھی رہنے پر راضی نہیں اور اس کے والدین بھی رضامند نہیں‘ تین طلاقیں زبانی اور تحریری دے دیں۔ اس واقعے کے ساتویں روز اس نے اپنے دوستوں کے ہمراہ لڑکی کوکالج سے اغوا کر لیا‘‘۔ سوال کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں گھرانوں کے افراد کی موجودگی میں لڑکے نے تین طلاقیں بغیر ’’اکراہ و اجبار‘‘ کے دی تھیں لیکن اس سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ: ’’اگر لڑکے نے دبائو اور خوف کی بنا پر لڑکی کو طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح برقرار رہا۔ اس صورت میں دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں‘‘۔

طلاق مکرہ کا مسئلہ اختلافی ہے۔ ائمہ ثلاثہ اور جمہور فقہا محدثین کی رائے یہ ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی اور اس کا نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن امام ابوحنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے اور نکاح برقرار نہیں رہتا۔ دونوں آرا کے دلائل فقہ اور شروح احادیث کی کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں جن کے ذکر کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ البتہ مجھے اس مسئلے میں ائمہ ثلاثہ اور جمہور فقہا کی رائے قوی اور صائب نظر آتی ہے۔ لیکن زیرغور سوال تو طلاق مکرہ سے متعلق نہیں ہے۔ اگرچہ مطلق دبائو‘ دھمکی اور ڈرانے کو شرعاً اکراہ نہیں کہا جا سکتا مگر یہاں پر تو دبانے‘ ڈرانے اور دھمکی دینے کا ذکر بھی نہیں ہوا۔ صرف مفروضے کے طور پر بغیر اکراہ کے دی گئی طلاق کو طلاق مکرہ قرار دینا تو سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اس بارے میں جب کسی نے سوال کیا تو اکتوبر کے شمارے میں جواب یہ دیا گیا ہے کہ: ’’فقہی معاملات میں نصوص و اصول کی روشنی میں ایک سے زائد آرا کا امکان ہمیشہ رہتا ہے‘‘۔

نصوص و اصول کی تعبیر یا انطباق میں اجتہاد و فقاہت کی صلاحیت رکھنے والوں کے درمیان آرا کا اختلاف تو ہو سکتا ہے اور فقیہ و راسخ العلم شخص کو حق حاصل ہے کہ ان آرا میں سے کسی رائے کو اختیار کر لے‘ لیکن بغیر اکراہ کے دی گئی طلاق کے واقع ہونے میں آرا کا اختلاف نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے۔

(۲) تین طلاقیں جب ایک مجلس میں دی گئی ہوں تو ائمہ اربعہ اور جمہور کی تحقیق کے مطابق تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں البتہ بعض فقہا کے نزدیک مجلس واحدہ میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے اور عدت کے دوران رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اگر محترم ڈاکٹر صاحب ائمہ اربعہ اور جمہور کی تحقیق کو نظرانداز کر کے بعض اہل علم کی شاذ رائے کو پسند کرتے ہیں تو ضرور کریں لیکن انھوں نے تو مطلقاً عدم وقوع کا ذکر کیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ دبائو اور خوف کی وجہ سے دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی حالانکہ سوال میں دبائو کا ذکر نہیں کیا گیا۔  (مولانا گوہر رحمان)

افغانستان: جارحیت ‘ جہاد‘ بحران‘ مختار حسن‘ مرتبین: جمیل احمد رانا‘ سلیم منصورخالد۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف سیون‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۶۴۱۔مجلدقیمت: ۲۸۰ روپے۔

مختار حسن (۱۹۴۰ء-۱۹۹۵ء) معروف صحافی اور امور افغانستان کے ماہر ترین افراد میں سے تھے۔ ایک طویل عرصے تک مسئلہ افغانستان سے وابستہ رہے بلکہ جہاد افغانستان کے ہراول دستے میں بھی شامل رہے۔ انھیں بجا طور پر ’’پاکستان کا نمایاں ترین مجاہد افغانستان‘‘ (حمیدگل) کہا گیا۔  وہ اردو اور انگریزی کے علاوہ پشتو اور فارسی زبانیں بھی بہ خوبی جانتے تھے۔ انھوں نے بارہا خود افغانستان جا کر بڑے خطرات مول لے کر مختلف محاذوں کی چشم دید رودادیں مرتب کیں‘ بلکہ بعض مواقع پر جنگ کے متحرک مناظر کو فلم بند کرکے بیرونی دنیا تک پہنچایا۔ اسی ضمن میں انھیں روس کی کٹھ پتلی حکومت کے دور میں کابل میں قیدوبند کی صعوبت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ بایں ہمہ انھوں نے ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ افغانستان ‘خصوصاً جہاد افغانستان اور مابعد کی صورت حال کے مختلف پہلوئوں پر تجزیاتی مضامین اور رپورٹیں لکھیں۔ ان کے تجزیوں اور تبصروں میں تاریخ کا مطالعہ‘ ایک صحافی کے ذاتی مشاہدات اور ایک سیاسی مبصر کی بصیرت شامل ہے۔ بلاشبہ یہ اعزاز کم از کم پاکستان کے کسی اور صحافی کو حاصل نہیں۔

زیرنظر کتاب افغانستان پر ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے مرتبین نے بڑی کاوش و محنت اور محبت کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ کریملن‘ کابل اور افغان کے نام سے چھپ چکا ہے (تبصرہ:  ترجمان‘ جون ۲۰۰۰ء)۔ زیرنظر مضامین ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۵ء تک کے عرصے میں لکھے گئے۔ ۱۹۷۲ء کے دو مضامین بھی شامل ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مختارحسن مکمل کمٹ منٹ اور اپنی پوری شخصیت کے ساتھ افغانستان کے مسئلے اور جہاد میں شریک اور دخیل(involve) ہو چکے تھے اور یہ موضوع ان کے اندر رچا بسا تھا۔ افغانستان کی تاریخ پر گہری نظر کے ساتھ وہ افغانوں کے مزاج‘ ماحول اور قبائلی روایات سے بھی بخوبی واقف تھے۔

اپنے تبصروں اور تجزیوں میں وہ افغانوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ہمدردانہ نقد و جرح کرتے ہوئے مجاہدین کی کمزوریوں اور پاکستان کی فاش غلطیوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ صورت احوال کی وجوہ‘ ممکنہ نتائج اور مختلف امکانات کا ذکر کر کے وہ بعض خدشات اور خطرات کی طرف بھی اشارے کرتے ہیں۔ وہ بار بار افغانستان گئے۔ انھوں نے مجاہدین کی مختلف جماعتوں اور ان کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے انٹرویو لیے۔ بہت سے محاذوں پر جا کرجنگ کی ہولناکیوں اور افغانستان کی بربادی کا بذات خود مشاہدہ کیا‘ اس لیے ان کی باتوں میں وزن ہے۔

ان تحریروں سے جہاد افغانستان کی پوری تاریخ اور اس کے مختلف مراحل کی تفصیل سامنے آتی ہے۔ یہ تفصیل دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ چشم کشا اور عبرت انگیز ہے۔ آج ہم جب افغان بحران کے ایک نازک ترین مرحلے سے دوچار ہیں تو اس تفصیل سے ‘چاہیں تو ‘ ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

ان مضامین کو پڑھتے ہوئے ایک دو باتوں کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اول یہ کہ روسی فوجوں کی واپسی کے ساتھ ہی افغانستان کے بارے میںامریکیوں نے ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا آغاز کر دیا تھا۔ جہادی گروپوں کا باہمی انتشار و افتراق بھی بجا‘ لیکن امریکہ نے بھرپور کوشش کی کہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت قائم اور مستحکم نہ ہو جو افغانستان کے اسلامی تشخص کو پروان چڑھا سکے۔ اس لیے دخل اندازی کے ذریعے‘ ایسی سازشوں میں وہ برابر لگا رہا کہ اس کی من پسند حکومت بننے کی خواہش پوری ہو سکے--- اپنی فطرت کے لحاظ سے امریکہ کو ایسا ہی کرنا تھا مگر تعجب انگیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے بعض کارپرداز‘ پالیسی ساز اور وزارت خارجہ کے بزرجمہرامریکی عزائم کی تکمیل کے لیے اس کے آلہ کار بنتے رہے۔ مختارحسن نے جگہ جگہ یہ نشان دہی کی ہے کہ پاکستان کی سول اور خاکی بیوروکریسی اپنے طورپر ‘ بعض اوقات صدر مملکت یا وزیراعظم یا چیف آف آرمی سٹاف کے مشورے کے بغیر ہی اقدام کرتی رہی۔ بارہا ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ حرکت میں آئے اور سارے معاملے کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ آج کے افغانستان میں فساد اور انتشار بنیادی طور پر امریکی ڈپلومیسی کی عیاری اور پاکستانی سفارت کی ناپختہ کاری کا نتیجہ ہے۔

مختارحسن بار بار بتاتے ہیں کہ مختلف مواقع پر حکومت پاکستان کی پالیسیوں کی ایسی کایا کلپ ہوئی کہ انھوں نے ۱۸۰ درجے کا یو ٹرن لیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ’’پاکستان کے قومی مفادات اور افغان عوام کی جدوجہد آزادی امریکی انتظامیہ کی خواہش کی بھینٹ‘‘ چڑھتی رہی۔ کتاب کے مقدمے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمیدگل نے ’’دست شرانگیز ‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے: ’’جس کی مدد کے لیے اس دوران ہمارے حکمرانوں نے بڑا افسوس ناک رول ادا کیا ہے‘‘۔ حمیدگل کا کہنا ہے کہ ہم کئی مواقع پر امریکی دبائو کی وجہ سے آزادانہ حیثیت میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکے اور آج تو یہ بات کسی ثبوت کی محتاج بھی نہیں رہی کہ ہم اس ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ اور ’’دست شرانگیز‘‘ کے چنگل میں پوری طرح پھنس چکے ہیں۔

مختارحسن نے ۱۹۹۲ء میں جو کچھ لکھا تھا ‘ ایک عشرے کے تجربات کے بعد آج حکومت پاکستان اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ ’’افغانستان میں پاکستان کی دوست حکومت سے زیادہ کوئی معاملہ اہم نہیں‘‘۔ (ص ۱۷۳)

ہمارے خیال میں اردو تو کیا انگریزی میں بھی افغانستان پر ایسی معلومات افزا کتاب نہیں لکھی گئی۔ مختارحسن نے جو کچھ لکھا وہ نہ صرف امور افغانستان پر ان کی مہارت کا ثبوت ہے بلکہ یہ تحریریں افغانستان ‘ پاکستان اور پورے عالم اسلام کے ملی جذبات اور دھڑکنوں کی ترجمان ہیں۔ اس کتاب کا مطالعے کیے بغیر مسئلہ افغانستان کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنا آسان نہیں ہوگا۔ آخر میں چار اہم معاہدوں (معاہدہ جینیوا‘ معاہدہ پشاور‘ معاہدہ جلال آباد اور معاہدہ اسلام آباد) کا متن شامل ہے۔ کتاب اچھے معیار پر طبع کی گئی ہے۔ نقشوں اور مفصل اشاریے نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


دارالاسلام ‘ ایک تحقیقی مطالعہ‘ ریحانہ قریشی۔ ناشر: اعلیٰ پبلی کیشنز‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۱۲۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

مولانا مودودی نے حیدر آباد دکن سے ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعے جس دعوت کا آغاز کیا ‘ علامہ اقبال کے مشورے اور چودھری نیاز علی خاں مرحوم کے تعاون سے اس سلسلے میں پہلا ادارہ دارالاسلام (نزد پٹھان کوٹ) کے نام سے قائم ہوا۔ (دو تین سال کے بعد اسی تسلسل میں اگست ۱۹۴۱ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا)۔

ریحانہ قریشی صاحبہ نے ادارہ دارالاسلام کی تاریخ کا ایک ’’تحقیقی مطالعہ‘‘ (سرورق) پیش کیا ہے۔ یہ مطالعہ ادارے کے بارے میں مطبوعہ اور منتشر لوازمے اور چند ایک مختصر مصاحبوں (انٹرویوز) کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔

مصنفہ نے اپنے تئیں خاص کاوش کی ہے جو اپنی جگہ لائق تحسین ہے‘ لیکن بعض باتیں کھٹکتی ہیں‘ مثلاًایک جگہ بتایا گیا ہے کہ ۱۹۳۶ء کے آخری مہینوں میں چودھری نیاز علی خاں صاحب علامہ اقبال کے پاس جاوید منزل میں تشریف لائے (ص ۲۰)۔ آگے چل کر کہا گیا ہے کہ غالباً اگست ۱۹۳۵ء میں چودھری صاحب  علامہ اقبال سے پہلی بار ملے--- اسی طرح ایک جگہ مولانا مودودی کے دارالاسلام پہنچنے کی تاریخ ۱۶ مارچ بتائی گئی ہے (ص۴ ۲)۔ لیکن دوسری جگہ ۱۸ مارچ ۔ص ۲۴پر کہا گیا ہے کہ مولانا: ’’۱۶ مارچ ۱۹۳۸ء کو بطور سربراہ دارالاسلام پہنچ گئے‘‘۔ ۱۶ مارچ کو تو ادارہ قائم ہی نہیں ہوا تھا (یہ اکتوبر ۱۹۳۸ء میں قائم ہوا‘ص ۳۶)۔ ادارے کے قیام سے پہلے ہی کوئی شخص اس کا سربراہ کیسے ہو سکتا ہے؟--- اس بات میں بھی مبالغہ ہے کہ ۱۹۳۸ء میں دارالاسلام کی کل آبادی چار پانچ افراد سے زیادہ نہ تھی (ص ۵۵)۔ اگلے ہی صفحات میں جن اصحاب اور ان کے اہل خانہ کا تذکرہ کیا گیا ہے ‘ ان کی تعداد کم از کم ۵۰‘ ۶۰ بنتی ہے۔ صفحات ۵۶ تا ۶۰ کی تفصیل ۱۹۳۸ء کے ذیل میں دی گئی ہے‘ مگر ہمیں اس کی صحت پر شبہ ہے۔ یہ حالات ۱۹۴۲ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیانی زمانے کے ہیں۔

ہمارے خیال میں ابھی اس موضوع پر کہیں زیادہ دقت نظر اور کاوش کے ساتھ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ (ر - ہ )


آخری صلیبی جنگیں ‘ حصہ اوّل و دوم۔ عبدالرشید ارشد‘ النور ٹرسٹ ‘ جوہر آباد۔ صفحات: ۱۸۴‘ ۳۷۰۔ قیمت:۱۰۰‘ ۱۲۵روپے۔

عبدالرشید ارشد صاحب ملت اسلامیہ کو دشمنوں کے منصوبوں ‘ تدبیروں ‘ چالوں اور کارگزاریوں سے آگاہ کرنے کے لیے جس جہاد میں مصروف ہیں‘ یہ دونوں کتابیں اس کا ثبوت ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی دشمن ایک ہے: یہود‘ وہی اپنے حقائق (protocols)کے مطابق دنیا کو انگلیوں پر نچا رہے ہیں اور ہمارے سب دشمنوں (ہنود و نصاریٰ و کمیونسٹ) کی ڈور ہلا رہے ہیں۔ مصنف کی محنت اور نظررسا کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ انھوں نے اس ’آخری‘ صلیبی جنگ کے تمام ہی محاذوں کا جائزہ لیا ہے اور دشمن جو کچھ کر رہا ہے اسے شواہد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہو‘ خاندانی منصوبہ بندی ہو‘ میڈیا خصوصاً ٹی وی میں اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنا ہو‘ تعلیم سے لاپروائی یا اسے سیکولر بنانا ہو‘ عیسائیت کی کھلے عام تبلیغ ہو‘ اسلامی احکامات کا استہزا ہو‘ این جی اوز کا کردار ہو‘ غرض اُمت مسلمہ ‘خصوصاً پاکستان کے موجودہ منظر نامے پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی خوب مستند تصویر کشی کی گئی ہے اور دردمندوں کو جھنجھوڑا ہے۔ بعض این جی اوز کے رسالوں میں خواتین کے حوالے سے اسلامی احکامات کا جس طرح مضحکہ اڑایا جاتا ہے وہ تبصرہ نگار کے لیے ناقابل یقین ہوتیں اگر ان کی نقول نہ دی گئی ہوتیں۔ سراسر مسلمانوں کی غیرت کو للکارنے والا انداز ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ للکارنے والے مسلمان ہیں۔ اس طرح کی کتابوں کی حقیقی افادیت یہ ہے کہ ان کی اشاعت عام ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کوئی نیٹ ورک نہیں کہ اس نوعیت کی کتابیں تعلیمی اداروں کی اور پبلک لائبریریوں میں خرید لی جائیں۔

اچھا ہو کہ محترم مصنف اب تیسرا حصہ یہ لکھیں کہ اس جنگ میں اُمت مسلمہ کی طرف سے کیا کچھ کیا جا رہا ہے یا کیا کچھ مطلوب ہے۔ (مسلم سجاد)


قائداعظم اور اسلام ‘ محمد حنیف شاہد۔ ناشر: بک مین‘ الشجربلڈنگ‘ نیلاگنبد‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۱۴۰روپے۔

سالِ قائداعظم (۱۹۷۶ء) کے موقع پر شائع ہونے والی اس کتاب کو دوبارہ چھاپا گیا ہے۔ مصنف نے اسلام سے قائداعظم کی وابستگی اور تعلّق کو ۱۶ ابواب میں مختلف عنوانات (خانگی زندگی‘ عشق رسول ؐ، مذہبی مسلک‘ اسلامی تہذیب کے داعی‘ مسلم مفاد کے علم بردار‘ اتحاد اسلامی کے نقیب‘ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ‘ غازی علم الدین شہید کا مقدمہ‘ مسجد شہید گنج‘ قائداعظم علما کی نظر میں‘ قائداعظم اور عالم اسلام وغیرہ) کے تحت واضح کیا ہے۔ بہ کثرت تائیدی اور وضاحتی بیانات‘ بیش تر قائداعظم کی اپنی تحریروں یا تقریروں یا اُن کے قریبی حلقہ احباب کے بیانات سے لیے گئے ہیں۔ مجموعی تاثر یہ بنتا ہے کہ قائداعظم ایک مخلص‘ سچّے اور کھرے مسلمان تھے۔ اُمت مسلمہ کے خیرخواہ اور اسلامی نشات ثانیہ کے متمنی۔ نمازسنّی العقیدہ مسلمانوں کی طرح ادا کرتے تھے‘ مگر خود کوسنّی یا شیعہ کے بجائے مسلمان کہلانا پسند کرتے تھے۔ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے‘ علما کا احترام کرتے تھے۔ مظہر سلیم مجوکہ نے کتاب کو ذوق و شوق اور اہتمام سے شائع کیا ہے۔ (ر-ہ)

تعارف کتب

  •  مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے خطوط بنام فضل ربی ندوی‘ مرتب: فضل ربی ندوی۔ ناشر: مجلس نشریات اسلام‘ ۱-کے-۳‘ ناظم آباد مینشن‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۴۵ روپے۔]مولانا علی میاں کے خطوط (محررہ ۱۹۷۳ء تا ۱۹۹۶ء)۔ مکتوب الیہ پاکستان میں ان کی کتابوں کے ناشر ہیں۔ تمام تر خطوط‘ اشاعت کتب کے مسائل سے متعلق ہیں۔ ان میںکوئی علمی یا فکری مسئلہ زیربحث نہیں آیا‘ تاہم یہ خطوط مولانا علی میاں کے سوانح نگاروں اور ان پر تحقیق کاروں کے لیے معاون ہوں گے۔ طباعتی معیار‘ مولانا کی تصانیف سے بھی بہتر۔[
  •  جہاد ختم نبوت کے جاں نثار‘ مرتبہ: محمد طاہر رزاق۔ ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ حضوری باغ‘ ملتان۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۹۰ روپے۔]تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں مضامین‘ تبصروںاور خبروں کا دل چسپ ‘ اہم اور اپنے موضوع پر نہایت مفید مجموعہ۔ ردّقادیانیت کے ضمن میںمولانا انور شاہ کاشمیری‘ مولانا ثناء اللہ امرتسری‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ مولانا عبداللطیف جہلمی‘ مولانا محمد علی جالندھری‘ خواجہ اللہ بخش تونسوی‘ مولانا محمد حیات‘ قاضی احسان احمد شجاع آبادی‘ اور بہت سے دوسرے اکابر کی خدمات اور کاوشوں کا تذکرہ۔[
  • سرمایۂ عزیز ‘ قاری عبدالعزیز اظہر۔ ناشر: بساط ادب‘ اے۱۳‘ انارکلی کمپلیکس‘ فیز ڈی‘ سیکٹر۱۱‘ ای‘ نارتھ کراچی‘ کراچی- ۷۵۸۵۰۔]طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم اظہر صاحب کا مجموعۂ کلام‘ حمد‘ نعت‘ آیات قرآنی کے آزاد ترجمے‘ غزلیں‘ نظمیں‘ قطعات و رباعیات‘ مرثیے اور چند طنزیہ اور مزاحیہ نظمیں۔ روایت کی پاس داری‘ تعمیری فکر ‘ مثبت جذبات۔[
  •  المصباح‘ حقوق طلبہ مدارس نمبر‘ مدیر: محمد احسن بھٹی۔ پتا: ۱‘ اے‘ ذیلدار پارک‘ اچھرہ‘ لاہور۔ صفحات: ۸۴۔ قیمت: ۱۵روپے۔]دینی مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے‘ اسناد کی مساوی حیثیت ‘ رجسٹریشن پر پابندی اور مدارس میں بے جا مداخلت وغیرہ مطالبات کو مضامین اور مصاحبوں کے ذریعے نمایاں کیا گیا ہے۔ ہر مکتب فکر کے جیّد علما کی تحریریں ۔اپنے موضوع پر محنت سے مرتب شدہ ایک مفید دستاویز۔[
  •  Blochistan in Profile ‘ مصنف: ایم‘ انور رومان۔ ناشر: یونائٹیڈ پرنٹرز‘ زونکی رم روڈ‘ کوئٹہ۔ صفحات: ۱۵۳۔قیمت: ۲۰۰ روپے۔ ]مصنف اس سے پہلے بھی بلوچستان پر متعدد کتابیں شائع کر چکے ہیں۔ زیرنظر کتاب ایک طرح سے بلوچستان کی تاریخ ہے جس میں وہاں کی بعض نامور شخصیات کا تفصیلی تذکرہ بھی شامل ہے۔[
  • روح الحدیث‘ مرتب:  سید قاسم محمود۔ ناشر: بک مین‘الشجربلڈنگ‘ نیلا گنبد‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ ]مختلف عنوانات کے تحت زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق صحاح ستّہ سے احادیث نبویؐ کا ایک انتخاب (اردو ترجمہ) ۔ ابتدا میں درودشریف کے متعلق ۴۰حدیثیں اور علم الحدیث کے تعارف پر مولانا عبدالغفار حسن عمرپوری کا مضمون ۔[
  •  آنحضورؐ کی تعلیمی جدوجہد‘ پروفیسر رب نواز۔ ناشر: ادارہ تعلیمی تحقیق‘ ۳ بہاول شیر روڈ‘ مزنگ‘ لاہور۔ صفحات: ۸۷۔ قیمت: ۴۵ روپے۔]آنحضورؐ کی تعلیمی جدوجہد کے مختلف پہلو: حصول علم کی فرضیت ‘ اس کے لیے ترغیب ‘ خواتین کے لیے تعلیم کی تاکید‘ تحریر و کتابت کے لیے آپؐ کی مساعی جمیلہ‘ توسیع تعلیم کے لیے وفود کی تشکیل--- قرآن و حدیث اور تاریخ کی مدد سے تحقیقی انداز میں موضوع کا احاطہ۔[
  •  سیرتِ صحابیاتؓ ، مولانا سعید انصاری۔ ناشر: ادارہ مطبوعات خواتین‘ کیمرہ مارکیٹ‘ ۴۲ چیمبرلین روڈ‘ لاہور۔ صفحات:۱۸۹۔ قیمت: ۵۰ روپے۔]چھے سات عشرے قبل کی دارالمصنفین اعظم گڑھ کی ایک علمی کتاب کی اشاعت مکرر‘ صحابیات کے دینی‘ علمی‘ سیاسی اور عملی کارناموں کی تفصیل۔ نمونے کی مثالی شخصیات‘ تربیت و تزکیے کے لیے مفید ہے۔[
  •  اورنگ زیب کی داستان معاشقہ‘ ڈاکٹر اکبر رحمانی۔ ناشر: ایجوکیشنل اکادمی‘ اسلام پورہ‘ جل گائوں-۴۲۵۰۰۱۔ مہاراشٹر (بھارت)۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔]اورنگ زیب عالم گیر کو بدنام کرنے کے لیے بہت سے بے بنیاد افسانے تراشے گئے۔ انھی میں‘ ہیرابائی زین آبادی سے عالم شہزادگی میں اس کا معاشقہ ہے۔ خصوصاً مہاراشٹر میں‘ عالم گیر کے کردار کو مسخ کرنے کے لیے ناول تک لکھے گئے۔ اکبر رحمانی نے‘ نہایت کاوش و تحقیق سے اصل حقائق دریافت کیے ہیں۔ پتا چلتا ہے کہ ایام شہزادگی میں بھی اورنگ زیب ایک متقی اور پرہیزگار شخص تھا اور اس کا کردار بے داغ ہے۔[

محمد اسلم سلیمی ‘  لاہور

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے اپنے مقالے: ’’معاصر اسلامی فکر: چند توجہ طلب مسائل‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں جو چھے موضوعات اٹھائے ہیں‘ اُن میں سے کچھ موضوعات پر ان شاء اللہ ادارہ معارف اسلامی لاہور میں تحقیقی کام کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ میں اس سلسلے میں اپنے احباب سے مشورہ کر رہا ہوں۔

توراکینہ قاضی ‘  گجرات

اشارات (اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں پروفیسر صاحب نے موضوع کے ہر پہلو پر قلم اٹھایا ہے لیکن انھوں نے اس طرف توجہ نہیں کی کہ امریکہ میں دہشت گردی اور ایسے وسیع پیمانے پر تباہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انتباہ ہو سکتا ہے کہ روس کے بعد اس سوپرپاور کی تباہی بھی قریب ہے۔ اب ممکن ہے کہ افغانستان جہاں روس کا قبرستان بنا‘ وہاں امریکہ کا قبرستان بھی بن جائے۔ امریکہ کا نامۂ اعمال جیسا سیاہ ہے‘ سب کو معلوم ہے۔ اب اس ظالم کا بھی یومِ حساب قریب ہے۔ ’’اسلام اور عصرحاضر کے معاشی چیلنج‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) چشم کشا تحریر ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد کی، ’’مسلم ممالک‘ جمہوری روایت اور اسلام‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء) بھی بے حد عمدہ لگی۔

ڈاکٹر محمد ا مین  ‘  لاہور

’’ترقی کا مفہوم‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں یہ کہنا ناکافی ہے کہ مسلم ترقی دوسری تہذیبوں سے صرف بعض اخلاقی اصولوں کی پابندی کی بنا پر مختلف ہے۔ اسلام دنیا اور آخرت دونوں بلکہ ترجیحاً آخرت کی ترقی کا خواہاں ہے‘ جب کہ مغربی تہذیب صرف دنیوی ترقی کو موضوع بناتی ہے۔ اس اصولی فرق سے ترقی کے مفہوم‘اقدامات‘ اقدار‘ اہداف اور نتائج میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔

خلیل احمد ‘  اسلام آباد

گذشتہ ماہ امریکہ میں ہونے والے واقعات کے بعد اخبارات‘ ٹی وی‘ ملکی اور غیر ملکی تبصرے پڑھے اور سنے۔ ایک پریشانی تھی جو کہ بڑھتی جاتی تھی۔ عالم کفر کا یوں اُمڈتے آنا اور ایک دیوقامت (monolith) کا طاقت کے نشے میں بڑھتے جانا باعث تشویش تھا۔ اس کا جواب کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے‘ سوجھتا نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ خرم مراد کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ان کے مضمون ’’دورِ فِتن میں راہ عمل‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۱ء) نے یہ اُلجھن دُور کر دی۔

محمد رفیق نازش  ‘  تحصیل فیروزوالہ

سرورق کی ڈیزائننگ میں تو خیر آپ لوگوں کا اپنا اک انداز اور معیار ہے‘ یعنی سادگی بھی‘ کشش بھی اور نظروں کو خیرہ کرنے والا بھی۔ لیکن اگر کریڈٹ پیج کو کچھ اچھے طریقے سے ڈیزائن کروا لیا جائے تو شاید پرچے کا حسن دوبالا ہو جائے۔ خرم مراد کا مضمون ’’دورِ فِتن میں راہ عمل‘‘ بھی بہت اچھا ہے۔اللہ آپ کو اور محنت کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

سید وصی مظہر ندوی ‘  کینیڈا

’’کچھ صلہ رحمی کے بارے میں‘‘ (ستمبر ۲۰۰۱ء)‘ ڈاکٹر انیس احمد مفتی یا قاضی کے بجائے پیچیدگی کے شکار خاندان کے کوئی بزرگ نظر آتے ہیں جن کی زیادہ دل چسپی اپنے خاندان کو پیچیدگی سے نکالنے سے ہوتی ہے‘ دوسرے پہلوئوں کی طرف ان کی نظر کم ہی جاتی ہے۔

 

سورہ عقود ]المائدہ[میں اللہ تعالیٰ نے پہلے کھانے کی چیزوں میں سے جو چیزیں جائز ہیں ان کو بیان کیا‘ پھر جن عورتوں سے نکاح جائز ہے ان کو بیان کیا‘ پھر وضو کا ذکر فرمایا۔ اب ان کی مناسبت پر غور کرو گے تو دو چیزیں تمھارے سامنے آئیں گی۔ ایک شئی اور ایک شرطِ شئی۔ شرائط میں سے وہ چیزیں بیان کیں جن سے یہ چیزیں پاک ہوتی ہیں۔ اب دیکھو‘ ذبح چوپایوں کو پاک کرتا ہے‘ مہر اور احصان سے عورتیں پاک ہوتی ہیں‘ اور وضو نماز کی پاکی ہے۔ پھر تمام حقیقت کو آخر میں یہ فرما کر کھول دیا:  ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج ولٰکن یرید لیطھرکم ولیتم نعمتہٗ علیکم اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے بلکہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے۔ یہ شرائط کا بیان تھا۔ اب اشیا پر غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ یہاں تین چیزیں بیان کی گئیں: طیباتِ طعام‘ طیباتِ نسا‘ طیبات نماز۔

اگر اس سے زیادہ تعمق کی نگاہ سے دیکھو گے تو معلوم ہوگا کہ یہ دنیا عالم کون و فساد ہے‘ پس یہاں تین عوالم: عالم شخص‘ عالم نوع اور عالم روح کے نقص کی تلافی تین چیزوں: طعام‘ نکاح اور نماز سے فرمائی۔ پھر طعام اور نکاح میں ایک اور مناسبت بھی ہے کہ دونوں میں سے جو چیزیں حرمت کا محل ہیں ان کی تخصیص کر دی گئی چنانچہ دیکھو دونوں آیتییں بالکل ایک ہی نہج پر وارد ہوئیں۔ حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم الآیہ حرمت علیکم المیتۃ والدم الآیہ۔ اسی طرح نماز اور نکاح میں مناسبت کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ نکاح بدکاری کی آلودگیوں سے حفاظت کرتا ہے اور نماز فحشا اور منکر سے روکتی ہے۔ ان الصلوۃ تنھٰی عن الفحشاء والمنکر۔ یہ مناسبت دونوں میں پاکیزگی کے پہلو سے تھی۔ بقرہ میں تخفیف کے پہلو سے ان کی مناسبت دیکھو۔ فرمایا:  حافظوا علی الصلوات … فان خفتم فرجا لا او رکبانا۔ یہی صورت حال نکاح میں ہے۔ نکاح کی حفاظت حتی الامکان واجب ہے‘ مگر طلاق کے وقت اس میں کسی قدر تخفیف کی گئی۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں ہر تالیف اپنے اندر ایک نیا جلوئہ حسن و جمال رکھتی ہے۔ (مقدمہ ’’تفسیرنظام القرآن‘‘ ، مولانا امین احسن اصلاحی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۹‘ عدد ۱‘۲‘ ۳‘ رجب‘ شعبان‘ رمضان ۱۳۶۰ھ/ستمبر‘ اکتوبر‘ نومبر ۱۹۴۱ء‘ ص ۴۱-۴۲)