حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے واپسی میں حضرت اسامہؓ کے انتظار کی خاطر دیر فرمائی۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک چپٹی ناک والے سیاہ رنگ کے نوجوان (اسامہؓ) آپہنچے (تو آپؐ چل پڑے)۔ یمن کے لوگوں نے (جو اس موقع پر موجود تھے کراہت کا اظہار کرتے ہوئے) کہا: اچھا! ہمیں اس شخص کی خاطر روکا گیا (یعنی اس حقیر چپٹی ناک اور کالے رنگ والے نوجوان کے سبب جو کسی قدروقیمت کا حامل نہیں ہے)۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ نے کہا کہ یمن والے اس تحقیر آمیز جملے کی پاداش میں کافر ہوگئے۔
ابن سعد کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ہارون سے ’کافر ہوگئے‘ کا مطلب پوچھاتو انھوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں جو لوگ مرتد ہوگئے تھے‘ ان میں یمن کے وہ لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے نبی اکرمؐ کے طرزِعمل اور حضرت اسامہؓ کی شان میں یہ توہین آمیز جملہ زبان سے نکالا۔ اسی کا وبال ان پر مرتد ہوجانے کی شکل میں پڑا۔ (ابن سعد، ج ۴‘ ص ۴۴)
آج کل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس‘ آپؐ کے فرامین‘ اسلامی اقدار و روایات‘ دین اسلام اور اس کے احکام‘ داڑھی‘ پردہ‘ پگڑی اور جہاد وغیرہ کی توہین ہو رہی ہے۔ اسلام پر عمل پیرا اور اسلامی نظام کے علم برداروں کی تحقیر و تذلیل کی جا رہی ہے۔ ان پر ’دہشت گرد‘، ’انتہا پسند‘ وغیرہ کی پھبتیاں کسی جارہی ہیں۔ توہین کے مرتکب ایسے لوگوں کو دنیا میں ذلت و رسوائی‘ بدامنی‘ قحط سالی‘ معاشی بدحالی‘ قتل و غارت گری‘ دہشت زدگی‘ اور طرح طرح کی آسمانی آفات و بلیات‘ طوفان بادوباراں‘ زلزلوں وغیرہ سے دوچار ہونے کے علاوہ دلوں کی سیاہی‘ کفر و شرک‘ گمراہی‘ الحاد و ارتداد جیسے وبالوں سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے‘ جو دنیاوی وبالوں سے بڑا وبال ہے۔ اس لیے کہ یہ آخرت جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے‘ کی بربادی کا ذریعہ ہے اور انھیں دوزخ کا ایندھن بناتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کی توہین‘ آپؐ کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے والے‘ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لیے آواز اُٹھانے والوں کی تحقیر کرنے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ جو نام نہاد مسلمان ان جرائم کا مرتکب ہوگا تو وہ نعمت ایمان سے محروم ہوسکتاہے۔ قرآن پاک بھی اس کی تائید کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز سے اُونچا نہ کرو اور ان سے اس طرح کی اُونچی آواز میں بات نہ کرو جس طرح تم ایک دوسرے سے اُونچی آواز میں بات کرتے ہو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں (اعمال میں ایمان بھی شامل ہے) اور تمھیں اس کا احساس تک نہ ہو (الحجرات ۴۹:۲)۔ ایمان والوں کے لیے اس میں تسلی بھی ہے کہ اگر وہ ناموس رسالتؐ اور اسلامی شعائر کی توہین کرنے والوں سے انتقام نہ لے سکے تو کوئی بات نہیں‘ وہ انتقام سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ خود انتقام لے لیں گے۔
حضرت طلق ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی ابودرداؓ کے پاس آیا اور کہا: آپ کا گھر جل گیا ہے۔ انھوں نے جواب میں فرمایا: میرا گھر نہیں جلا۔ پھر دوسراآدمی آیا اس نے بھی یہی بات کہی۔ جواب میں حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: میرا مکان نہیں جلا۔ پھر تیسرا آدمی آیا اور اسی طرح کی بات کہی تو حضرت ابودرداؓ نے جواب میں فرمایا: میرا گھر نہیں جلا۔ پھر چوتھا آدمی آیا اور اس نے کہا: اے ابودرداؓ! آگ بھڑک اُٹھی تھی اور آپ کے گھر کے قریب پہنچ گئی تھی کہ اس کے بعد بجھ گئی۔ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: مجھے پتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے گھر کو نہیں جلائے گا۔ اس شخص نے کہا: اے ابودرداؓ! ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ آپ کی دونوں باتیں ’میرا گھر نہیں جلا اور اللہ تعالیٰ نے میرے گھر کو نہیں جلانا‘ میں سے کون سی بات زیادہ عجیب ہے۔ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: کچھ دعائیہ کلمات ہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو آدمی صبح کو یہ کلمات پڑھے اسے شام تک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی۔ وہ کلمات یہ ہیں:
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ ، عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، مَاشَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشأْ لَمْ یَکُنْ ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ، اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ، وَاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًا ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ دَآبَّۃٍ اَنْتَ اَخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا ، اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ، اے اللہ! آپ میرے رب ہیں، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، میں نے تجھ پر بھروسا کیا‘ تو عرش کریم کا رب ہے۔ جو اللہ نے چاہا‘ ہوا‘ اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا۔ نہیں ہے کوئی گردش اور قوت مگر اللہ بلند عظیم ذات کے ساتھ۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہرچیز پرقادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کا علم کی بنیاد پر احاطہ کیا ہوا ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنے نفس اور ہر جان دار کے شرسے‘ تو اس کی پیشانی کو پکڑنے والا ہے‘ میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔ (بیہقی اسماء و صفات ، ص ۱۱۵)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ایسا یقین ہو جس طرح حضرت ابودرداؓ کو یقین تھا توحضرت ابودرداؓ کی طرح اس یقین کا پھل بھی ملتا ہے۔ دعا اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ مدد کرسکتے ہیں اور مدد کرتے بھی ہیں‘ تب اللہ تعالیٰ کو پکارنے والا کامیاب و کامران ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں اپنا اثر دکھاتی ہیں اور وعدے پورے ہوتے ہیں لیکن اس صورت میں کہ اس کے تمام وعدے اور ہدایات پیش نظر رکھی جائیں۔ حضرت ابودرداؓ بھی انھی ہستیوں میں سے تھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی تمام ہدایات اور وعدوں کو پیش نظر رکھا‘ ان کو پورا کیا‘ تب وہ یقین رکھتے تھے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگا۔
حضرت ابی اسمائؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّـرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ o (پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ الزلزال ۹۹: ۷-۸) اتری۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کھانے سے ہاتھ روک لیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا ہم جتنی برائیاں کریں ان سب کو دیکھیں گے اور آخرت میں ان کی سزا پائیں گے؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں جو تکلیف دہ حالات تمھیں پیش آئے ہیں‘ یہ ان برائیوں کی سزا ہے جن کا تم سے ارتکاب ہوجاتا ہے‘ اور نیکیاں نیک لوگوں کے لیے آخرت کا ذخیرہ بن جاتی ہیں (وہ سب آخرت میں مل جائیں گی)۔ (کنز العمال، ج ۱‘ ص ۲۷۵)
اللہ تعالیٰ نیک لوگوں پر کتنے مہربان ہیں کہ ان کی نیکیاں آخرت کے لیے جمع ہوجاتی ہیں اور چھوٹی موٹی برائیوں کا حساب اسی دنیا میں تکالیف اورمصائب کی شکل میں بے باق ہوجاتا ہے۔ لہٰذا نیک لوگوں کو نیک کاموں میں فعال اور برائیوں سے اجتناب میں بیدار رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کواپنا وظیفہ بنانا چاہیے۔
حضرت عبدالرحمن بن عائذؓ سے روایت ہے‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی طرف لشکر روانہ فرماتے تو اسے ہدایت فرماتے: لوگوں سے الفت و محبت کا رویہ اختیار کر کے ان کو اپنے ساتھ مانوس کرو‘ اور ان پر حملہ اس وقت تک نہ کروجب تک اپنی دعوت ان کے سامنے پیش نہ کرو۔ زمین پر مٹی کے گھروں اور خیموں میں رہنے والوں کو تم مسلمان بناکر میرے پاس لائو‘ یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ تم ان کے نوجوانوں کو قتل کردو اور ان کی عورتوں اوربچوں کو لونڈیاں اور غلام بناکر لے آئو۔(کنز العمال، ج ۳‘ ص ۱۵۲)
اصل کام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا مطیع فرمان بنانا‘ شیطان اور انسانوں کی غلامی سے آزاد کرنا ہے تاکہ انسان اپنے مالک کے شکرگزار بنیں‘ اس کا حق ادا کریں‘ جنت میں جائیں‘ دوزخ کی آگ سے بچیں اور دنیا میں سکون و اطمینان کی زندگی بسر کریں۔ یہ انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا تقاضا ہے۔ دعوت کا کام خوش اخلاقی اور الفت و محبت کے ذریعے ہوتا ہے جو ہر دور میں جاری رہ سکتا ہے۔ ہرجگہ اور ہرملک میں رہ کر کیا جا سکتا ہے۔قتال مخصوص حالات میں اور شرائط پورا ہونے پر کیا جاتا ہے۔ جب تک قتال کے حالات پیدا نہ ہوں اس وقت تک قتال معطل ہوتا ہے۔ آج جہاد بالقرآن ساری دنیا میں ہوسکتا ہے اورہو رہا ہے لیکن قتال صرف ان ممالک میں ان قوتوں کے خلاف ہے جنھوں نے اسلامی ممالک پر غاصبانہ قبضے کرلیے ہیں۔ اسے جہاد آزادی کہا جاتا ہے‘ جو حصول آزادی تک جاری رہے گا۔ جہاد بالقرآن پر توجہ دینے اور اس کو وسیع کرنے کے لیے پوری صلاحیتوں اور وسائل کو بروے کار لانا چاہیے۔ مسلمان ممالک میں سیکولرنظام کو ختم کرنا اور اسلامی نظام کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد بھی جہاد بالقرآن ہے۔ اس لیے ان ممالک میں انقلاب کے لیے تلوار اور بندوق اُٹھانا جائز نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے اپنا ’سودا‘ بیچنے کے لیے سرعام رکھا ہوا تھا۔ ایک آدمی نے اس کی قیمت لگائی اور اس کو خریدنا چاہا۔ یہودی نے اس قیمت پر خریداری پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے موسٰی ؑکو انسانوں پر فضیلت دی ہے میں اس قیمت پر نہیں دوں گا۔ ایک انصاری نے اس کی یہ قَسم سنی تو کھڑا ہوا اور اس یہودی کے چہرے پر زوردار طمانچہ رسید کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمارے درمیان موجود ہوتے ہوئے تم اس طرح کے الفاظ: ’’اس ذات کی قسم جس نے موسٰی ؑکو انسانوں پر فضیلت دی ہے‘‘ زبان سے ادا کرتے ہو؟
یہودی تھپڑ کھاکررسولؐ اللہ کی خدمت میں چلا گیا اور کہنے لگا: ابوالقاسمؐ! آپؐ کی حکومت نے میری جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور میرے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ ایسی حالت میں فلاں آدمی نے مجھے تھپڑ مارا۔ آپؐ نے مسلمان سے پوچھا: تم نے کیوں تھپڑ مارا ہے؟ اس نے وجہ بیان کردی۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے‘ غصے کے آثار آپؐ کے چہرے پر دیکھے گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبیوں کے درمیان فضیلتوں میں اس طرح کا مقابلہ نہ کرو (کہ دوسروں کے فضائل کی نفی کا کوئی پہلو نکلتا ہو)۔ جب صور پھونکا جائے گا‘ آسمانوں اور زمینوں والے تمام بے ہوش ہوجائیں گے (مگر وہ جن کو اللہ تعالیٰ بے ہوشی سے محفوظ رکھنا چاہیں وہ محفوظ رہیںگے)۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرشِ الٰہی کو پکڑے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ ان پر کوہ طُور پر بے ہوشی کے بدلے میں بے ہوشی طاری نہیں ہوئی یا ہوئی لیکن مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی یونس علیہ السلام پر (ایسی) فضیلت رکھتا ہے (کہ یونس علیہ السلام کے فضائل کی نفی ہوجائے)۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الانبیا)
مسلمان نے یہودی کی قسم والذی اصطفٰی موسٰی علی البشر کو اس قدر عام سمجھا کہ یہ جناب رسولؐ اللہ کی ذات اقدس کو بھی شامل ہے۔ اس لیے بعض روایات میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ مسلمان نے اس کے جواب میں کہا: والذی اصطفٰی محمداً علی العٰلمین ، جواب میں یہودی نے کہا: والذی اصطفٰی موسٰی علی العٰلمین ، اس ذات کی قسم جس نے موسٰی ؑکو جہانوں پر فضیلت دی ہے تو مسلمان نے کہا: اے خبیث! کیا محمدؐ پر بھی اور ساتھ ہی تھپڑ رسید کردیا۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الخصومات)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں معمولی کوتاہی پر سخت غصے ہوئے۔ اس سے نبی اکرمؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ نبی اکرمؐ یا کسی بھی نبی کی تعظیم میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ جب نبی اکرمؐ کے پاس مقدمہ آیا تو آپؐ نے یہودی کے دعوے کے جواب میں مسلمان سے جوابِ دعویٰ لیا۔ آپؐ مسلمان پر دو وجہ سے غصے ہوئے۔ ایک اس وجہ سے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میں مقابلے کی صورت پیدا کردی۔ وہ بھی اس شکل میں کہ ایک طرف یہودی ہے اور دوسری طرف مسلمان۔ ایسے مقابلے کی صورت میں کسی بھی نبی کی توہین کا پہلو نکل سکتا ہے۔ دوسرا اس لیے کہ یہودی نے اگر والذی اصطفٰی موسٰی علی البشر کہہ دیا تھا تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے انسانوں تک محدود سمجھ کر برداشت کرنا چاہیے تھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانے کے تمام انسانوں سے افضل تھے جیساکہ قرآن پاک میں بنی اسرائیل کے بارے میں آیا ہے: وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo (البقرہ۲:۴۷)’’ میں نے تمھیں جہانوں پر فضیلت دی تھی‘‘۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو اس طرح بیان کرنا کہ دوسرے انبیا کے فضائل کی نفی ہو‘ درست نہیں ہے۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت انسانوں پر ثابت کرے تو اس پر طیش میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی حضرت یونس علیہ السلام کی فضیلت بیان کرے تو اس پر بھی ناراض ہونے کے بجاے خوش ہونا چاہیے بلکہ مسلمانوں کو تمام انبیا علیہم السلام کے فضائل کو بیان کرنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خصوصی فضیلت کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرما دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کی خصوصی فضیلت یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا۔ انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ کی تسبیح بیان کی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق اور تمام انبیا علیہم السلام سے افضل ہیں۔ نبی اکرمؐ نے خود فرمایا: انا سیدالبشر یوم القیامۃ (بخاری) میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ اس کے باوجود آنحضوؐر نے تواضع اختیار کی اور انبیا علیہم السلام کے ناموس کا پورا پورا خیال کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں انبیا علیہم السلام کی تعظیم و تکریم کا تحفظ کیا جس کی وجہ سے مسلمان کسی نبی کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ’خلق عظیم‘ کی حامل شخصیت کے کارٹون بنانا کس قدر درندگی کا مظاہرہ ہے۔
کوئی بتلائے تو سہی کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ظلم و زیادتی کبھی کی تھی‘ جس کی بناپر آنحضوؐر کی ذاتِ اقدس کو خبثِ باطنی کا نشانہ بنایا گیا ہے (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔ ناموس رسالتؐ کا تحفظ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے‘ اسی لیے مسلمان اس کے تحفظ میں ہمیشہ سربکف رہتے ہیں۔
o
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے سال‘ مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپؐ سرمبارک پر خود پہنے ہوئے تھے۔ جب آپؐ نے خود اتارا تو ایک آدمی آپؐ کے پاس آیا اور رپورٹ دی کہ ابن خطل کعبے کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الحج باب دخول الحرم بغیراحرام)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین کے لقب سے نوازا‘ فتح مکہ کے موقع پر تمام مخالفین کو معاف فرما دیا تھا۔ ابوسفیان جنھوں نے ۲۱سال تک جنگ کی قیادت کی ان کو اعزاز و اکرام کے ساتھ اسلام میں داخل فرمایا اور اعلان فرمایا: من دخل دارابی سفیان فھو امن(جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے بھی امان ہے)۔ اس دن کو آپؐ نے یوم الملحمۃ (کشت و خون کے دن) کے بجاے یوم المرحمۃ (رحم و کرم کا دن) قرار دیا۔ یہ بھی فرمایا کہ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کردے‘ اسے بھی امان ہے اور جو مسجدحرام میں داخل ہوجائے اسے بھی امان ہے۔ صحابہ کرامؓ کو خصوصی ہدایات دیں کہ کسی بھی راہ چلتے مرد‘ عورت‘ جوان‘ بوڑھوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنانا۔ حضرت خالدبن ولیدؓ نے جوش و جذبے میں آکر چند جذباتی مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کو قتل کردیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاندانوں کو دیت ادا فرمائی‘ لیکن کچھ بدبخت وہ بھی تھے کہ رحمت کے اس سمندر سے بھی انھیں کوئی حصہ نہ ملا۔ ان میں ابن خطل بھی شامل تھا‘ کیوں؟ اس لیے کہ وہ انسانیت سے عاری تھا‘ وہ درندہ صفت تھا‘ اس کی درندگی اور زبان درازی سے وہ ہستی بھی محفوظ نہ رہ سکی جو تمام انسانی عیوب سے پاک اور تمام محاسن کا مرقع تھی۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نے کیا خوب فرمایا:
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرا من کل عیب
کأنک قد خلقت کماتشاء
میری آنکھ نے کبھی بھی آپؐ سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا‘ اور آپؐ سے زیادہ خوب صورت کسی عورت نے بیٹا نہیں جنا‘ آپؐ ہر انسانی عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔ گویا آپؐ اسی طرح پیدا کیے گئے جیسے آپؐ چاہتے تھے۔
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؓ وبایزیدؓ اینجا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضۂ اطہر آسمان کے نیچے عرش سے بھی زیادہ نازک ادب گاہ ہے‘ یہاں جنید اور بایزید عشق و مستی میں ڈوب کر حاضر ہوتے ہیں۔
ابن خطل مسلمان ہوا‘ پھر مرتد ہوگیا اور اپنے اشعار میں رسولؐ اللہ کی ہجو کرتا تھا (فتح الباری)۔ جو اس ہستی کی شان میں زبان درازی کرتا ہے تو وہ درندگی کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ اس کی زبان سے آپؐ محفوظ نہیں تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں‘ وہ انسانوں کا دشمن اور تمام انسانوں کی توہین و تذلیل اور قتل سے بڑھ کر ’فتنہ‘ برپا کرنے کا مجرم ہے۔ ایسے دہشت گرد اور بدبخت کا علاج یہی ہے کہ زمین کو اس کے بوجھ سے آزاد کر دیا جائے اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ اسی لیے نبی رحمتؐ نے فرمایا کہ اسے کعبے کے پردے بھی نہیں بچاسکتے‘ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے‘ چنانچہ حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت سعید بن حریثؓ نے اس کا ناپاک سر اس کے ناپاک تن سے جدا کردیا۔ اگر ایسے مجرم کو بھی قتل کی سزا نہ دی جائے تو پھر کسی بھی مجرم کو قتل کرنا نامعقول ہوجاتا ہے کہ بڑے مجرم کو چھوڑ دیا جائے اور چھوٹوں کو قتل کیا جائے‘ یہ کون سا عدل و انصاف ہے؟
۱- کیا قرآن میں بیان کیے گئے کسی حکم یا قانون کو جو مکمل اور محکم ہو‘ آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہو اور مزید تفصیل طلب نہ ہو‘ حدیث کے ذریعے تبدیل (revise) یا منسوخ (abrogate) کیا جاسکتاہے‘ جب کہ قرآن نے خود اس کو تبدیل یا منسوخ نہ کیا ہو؟
۲- اگلے سوال کے لیے چند آیات کا ذکر ضروری ہے جو کہ یوں ہے: قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے من گھڑت احکام و قوانین کو چیلنج کیا ہے جیسے کہ سورئہ آل عمران میں یہودیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کھانا جس کو تم اپنی شریعت کے مطابق حرام سمجھتے ہو‘ اس کے ثبوت میں تم تورات کی کوئی عبارت پیش کرو(۳:۹۳)۔ اسی طرح سورۂ صٰفّٰت میں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ تم کہتے ہو کہ اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کے بجاے بیٹیاں پسند کرلی ہیں۔ تمھارے پاس اپنی ان باتوں کے لیے کوئی صاف سند ہے‘ تولائو اپنی وہ کتاب اگر تم سچے ہو (۳۷:۱۵۳-۱۵۷)۔ ان آیات کے اسلوب سے ایک قانون یا اصول اخذ کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام احکامِ خداوندی کا ذکر اس کی کتاب میں ہونا لازم ہے اور اس اصول اور قانون کی بنیاد پر ہی اہلِ کتاب سے‘ اپنی خودساختہ شریعت کے ثبوت کے لیے کتاب کی عبارت لانے کے لیے کہا گیا ہے۔ چنانچہ اس اصول کی روشنی میں اگلا سوال یوں ہے کہ کیا شریعت کے ہر قانون اور حکم کا قرآن میں ذکر ہونا لازم ہے؟ اگر لازم ہے تو وہ احکام و قوانین جو آج اسلامی شریعت کا حصہ ہیں کیا انھیں قرآن میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ماوراے شریعت قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
۳- سورۂ فرقان میں فرمایا گیا ہے کہ اے رسولؐ !ہم نے تم کو بشارت دینے اور ڈراوا دینے کے سوا کسی اور کام کے لیے نہیں بھیجا (۲۵:۵۶ )۔ اگر اس آیت کا یہی ترجمہ ہے تو پھر اگر کسی حدیث میں بشارت اور انذار کا پہلو نہ نکلتا ہو تو کیااس حدیث کو اس آیت کی روشنی میں‘ رسولؐ کی طرف منسوب کرنا غلط ہوگا‘ یا بالفاظِ دیگر وہ حدیث موضوع قرار پائے گی یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
۴- قرآن میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکفیر اور تکذیب کرنے پر سخت وعید آئی ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی آیات کو محض مصحف میں پڑھ لینا مگر ان کو نہ ماننے اور عمل نہ کرنے کا نام ہی تکفیر و تکذیب ہے۔ اگر یہی بات ہے تو وہ آیات جن کو ہم نہیں مانتے اور منسوخ سمجھتے ہیں‘ کیا ہم ان کی تکفیر و تکذیب نہیں کر رہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کون سی تکفیر و تکذیب ہے جس پر سخت وعید کی گئی ہے؟
اس ضمن میں بنیادی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی طرف سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر نازل ہوا ہے‘ اسی طرح سے حدیث مبارکہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی دوسری شکل ہے۔ قرآن و حدیث میں فرق یہ ہے کہ قرآن پاک شریعتِ الٰہیہ کا متن ہے اور حدیث مبارکہ اس متن کی تفصیل‘ تشریح اور تکمیل ہے۔ اللہ تعالیٰ فاعل مختار ہیں‘ وہ جو حکم جس وقت اور جس انداز سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دینا چاہیں دیتے ہیں‘ کوئی اس سے بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔
قرآن پاک کے کسی بھی حکم کو حدیث کے ذریعے تبدیل یا منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن پاک کے حکم کی تبدیلی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ خود قرآن پاک کے ذریعے اسے تبدیل کیا جائے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ قرآن پاک کے کسی حکم کو تبدیل یا منسوخ کرنے کے لیے اپنے نبی اور رسول کو قرآن پاک کی شکل میں وحی کریں‘ وہ حدیث کی شکل میں بھی اپنے نبیؐ کو وحی کرسکتے ہیں اور اس کے ذریعے بھی حکمِ قرآنی کو تبدیل کرسکتے ہیں اور اس پر اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ اس بات کا بھی اختیار رکھتے ہیں کہ اپنے کسی حکم کو پہلے حدیث کے ذریعے جاری فرمائیں‘ اس کے بعد اسی حکم کو قرآن پاک میں نازل فرما دیں۔ مثال کے طور پر قرآن پاک کی درج ذیل آیت:
کُتِبَ عَــلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَـدَکُمُ الْـمَوْتُ اِنْ تَــرَکَ خَــیْرَنِ ا ج الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرہ ۲:۱۸۰)
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو‘ تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔
اور سورۂ نساء کی آیت یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ (۴:۱۱)‘ میں ورثا کے لیے حصصِ وراثت مقرر کردیے گئے ہیں۔
اس آیت کی رو سے ماں باپ اور دوسرے ورثا کے لیے وراثت کے حصص اور صورتیں بیان کر دی گئی ہیں۔ تب آیتِ وصیت پر کیسے عمل ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ماں باپ اور دوسرے ورثا جو وراثت کے حق دار ہیں‘ اُن کے لیے وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے اور اس حکم کو حدیث مبارک اَلَا لَاوَصِیَّۃَ لِـوَارِثٍ (مشکوٰۃ‘ کتاب الوصایا،سنو! وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے) سے منسوخ کردیا گیا ہے۔ اب وصیت کا حکم صرف ماں باپ اور ان قرابت داروں کے لیے باقی ہے جو غیرمسلم ہونے کے سبب وراثت کے حق دار نہ ہوں‘ ان کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے۔ اور فوت ہونے والا اپنے غیروارث قرابت داروں کے لیے ۳/۱ کی حد تک وصیت کرسکتا ہے۔ باقی ۳/۲ حصہ ورثا میں بقدر حصصِ وراثت تقسیم ہوگا۔ ورثا کے حق میں وصیت کا یہ قطعی اور واضح حکمِ قرآنی‘ حدیثِ مذکور سے منسوخ یا تبدیل ہوگیا۔
اسی طرح شروع میں زنا کی مرتکب شادی شدہ خاتون کے لیے گھر میں عمرقید کا حکم تھا‘ یہ حکم آج بھی قرآن پاک میں موجود ہے‘ لیکن منسوخ ہے۔ بعد میں شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے رجم کی سزا حدیث کے ذریعے نازل ہوئی اور غیرشادی شدہ مرد اور عورت کے لیے ۱۰۰ کوڑوں کی سزا قرآن پاک میں نازل ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تمھاری وہ عورتیں جو بے حیائی کی مرتکب ہوجائیں‘ ان پر چار مردوں کی گواہی کا مطالبہ کرو‘ اگر چار مرد گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں قید کردو یہاں تک کہ موت انھیں اٹھا لے یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا کردے۔ اور وہ مرد اور عورت جو (غیر شادی شدہ ہوں) اور اس جرم کا ارتکاب کریں ان کو جسمانی ایذا دو‘ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی حالت کی اصلاح کرلیں تو انھیں چھوڑ دو‘ کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء ۴:۱۵-۱۶)
غیرشادی شدہ جوڑے کے لیے آیت بالا میں مذکور جسمانی ایذا کے حکم کی ۱۰۰کوڑوں کی شکل میں تعیین سورئہ نور میں کردی گئی اور شادی شدہ خاتون کے لیے عمرقید کی سزا‘ حدیث کے ذریعے منسوخ ہوگئی۔ اس کی جگہ رجم کی سزا نازل ہوگئی۔ نسخ کی طرف قرآن پاک کے الفاظ: اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًاo (النساء ۴:۱۵۔یا اللہ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا کر دے) میں اشارہ ہے۔ عبادہ بن صامت کی روایت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے‘ آپؐ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے‘ اور فرما رہے تھے: مجھ سے لے لو‘ مجھ سے لے لو‘ مجھ سے لے لو‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے سبیل پیدا فرما دی۔
غیرشادی شدہ مرد اور عورت زنا میں ملوث ہوں تو ۱۰۰ کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی (ان کی سزا) ہے اور شادی شدہ مرد اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو ۱۰۰ کوڑے اور پتھروں سے سنگسار کرنا (ان کی سزا) ہے۔ (مسلم‘ ج ۲‘ باب حدالزنا‘ ص ۶۵)
بعد میں رجم کے ساتھ کوڑوں کی سزا ختم کر دی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جوڑوں کو رجم کی سزا دی‘ انھیں کوڑے نہیں لگائے۔ اسی طرح غیرشادی شدی خاتون کو صرف کوڑوں کی سزا دی گئی اور غیرشادی شدہ مرد کے لیے کوڑوں کے ساتھ جلاوطنی کی سزا مقرر ہوگئی۔ قرآن پاک کے جن مذکورہ احکام کو حدیث کے ذریعے منسوخ کیا گیا وہ بالکل واضح ہیں اور ان کا مفہوم آسان ہے‘ لیکن حدیثِ رسولؐ کے ذریعے انھیں تبدیل یا منسوخ کیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ان احکام پر اِس طرح عمل ہو رہا ہے جس طرح مذکورہ احادیث سے ثابت ہے۔
۲- اللہ تعالیٰ کا حکم وہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی‘ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہو‘ چاہے وہ قرآن پاک میں ہو یا حدیث میں ہو۔ اگر کوئی شخص کسی حکم کے شریعت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے قرآن و حدیث سے ثابت کرے۔ یہ سمجھنا کہ جو حکم قرآن میں ہے وہ شریعت ہے اور جو قرآن میں نہیں ہے وہ شریعت نہیں‘ قطعاً غلط ہے۔ ان آیات سے یہ اصول ثابت نہیں ہوتا جو آپ نے سمجھا ہے بلکہ ان آیات سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص کسی حکم کو تورات کا حکم قرار دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ تورات سے اس حکم کو ثابت کرے‘ اور اگر کسی حکم کو اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیتا ہے تو اس پر بھی لازم ہے کہ کسی آسمانی کتاب سے یا عقلی اور نقلی دلیل سے‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی نسبت کو ثابت کر دے۔ اگر ایسا نہ کرسکے تو وہ حکمِ الٰہی شمار نہ ہوگا۔
اگر ایک موقع پر یہود سے تورات لانے کا مطالبہ ہے تو خود آپ کی پیش کردہ دوسری آیات میں مشرکین سے کسی بھی دوسری کتاب یاکسی بھی قسم کی دلیل کا مطالبہ ہے اور سورۂ احقاف میں کتاب سے یا اہلِ علم سے کوئی نقلی دلیل لانے کا مطالبہ ہے (الاحقاف ۴۶:۴)۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ صرف ’کتاب‘ دلیل نہیں ہے‘ بلکہ کتاب کے علاوہ مزید دلائل بھی ہیں۔ سنت رسولؐاللہ تو ’کتاب اللہ‘ کی بھی مصداق ہے۔ قرآن پاک میں صراحتاً حکم موجود ہے: وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْاج (الحشر۵۹:۷۔ جو کچھ تمھیں رسولؐ دے اسے لے لو اور جس چیزسے تم کو روک دے اس سے رک جائو۔)
اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں قرآن دیں تو لے لو اور حدیث دیں تو قبول نہ کرو‘ بلکہ حکم عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حکم دیں اس کو لینا فرض ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اے نبی! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ (اٰل عمران۳: ۳۱)
یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو قرآن کے سلسلے میں میری اتباع کرو‘ بلکہ مطلقاً اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر صرف قرآن پاک شریعت ہوتا تو پھر اطیعوا القرآن یا اطیعوا اللّٰہ کافی ہوتا۔ اطیعوا الرسول کے حکم کی الگ سے کوئی حاجت نہ ہوتی۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ جو حکم قرآن پاک میں نہیں ہے‘ وہ شریعت نہیں ہے تو پھر پانچ نمازیں اور ان کا طریقہ‘ ان کی رکعتوں کی تعداد‘اوقات کی تحدید میں سے کوئی چیز بھی شریعت نہ ہوگی۔ اس لیے کہ قرآن پاک میں ان میں سے کسی کی تفصیل نہیں ہے بلکہ حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ چیزیں ثابت ہیں۔ قرآن پاک میں زکوٰۃ کا حکم ہے لیکن اس کے نصاب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس طرح حج کے احکام: کہ کب میدانِ عرفات میں پہنچنا ہے‘ وہاں کس وقت تک رہنا ہے‘ ایک آدمی کس وقت حج کو پائے گا اور کس وقت سمجھا جائے گا کہ اس کا حج اس سال فوت ہوگیا ہے۔ یہ ساری تفصیلات احادیث میں مذکور ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک میں صرف چار چیزوں: مُردار‘ خون‘ خنزیر کے گوشت اور نذر لغیراللہ کو حرام قرار دیا گیا ہے‘ تو کیا سانپ‘ بچھو‘ کیڑے مکوڑے‘ درندے اور کتے سب حلال ہوں گے؟ اور کیا ان کی حرمت ماوراے شریعت قرار پائے گی؟ جواب ظاہر ہے کہ نہیں۔ یہ تمام چیزیںحرام ہیں اور شریعت میں ان کا ذکر کردیا گیا ہے۔
اُمت مسلمہ شروع سے نماز‘ روزے‘ حج‘ زکوٰۃ اور حلال و حرام اور زندگی کے دیگر معاملات میں ایک واضح اور مفصل نقشے کے مطابق زندگی گزار رہی ہے۔ یہ تفصیلی نقشہ حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور قطعاً اللہ کی شریعت ہے۔
۳- قرآن پاک کی آیت:اے نبی! تم کو تو ہم نے بس ایک بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے (الفرقان ۲۵:۵۶) کا مفہوم آپ نے یہ سمجھا ہے کہ رسول صرف بشارتیں اور ڈراوے دینے کے لیے آیا ہے۔ آپ کے نزدیک ہر حدیث میں اِنذار اور بشارت کا پہلو ہونا چاہیے ورنہ حدیث موضوع قرار پائے گی۔ آپ نے جو مفہوم سمجھا ہے اس سے تو ساری حدیثیں ہی نہیں بلکہ سارا قرآن بھی نعوذ باللہ موضوع بن جائے گا۔ آپ کے فہم کے مطابق تو ہرآیت قرآنی اور ہر حدیث انذار سے شروع اور بشارت پر ختم ہو ‘تو وہ قرآن کہلانے اور صحیح اور سچی حدیث ہونے کی مصداق ہوگی۔ یہ رویہ اور سوچ قرآن و سنت سے عدمِ واقفیت کی علامت ہے جو کہ درست نہیں۔
آیت کا مطلب یہ نہیں جو آپ نے سمجھا‘ بلکہ یہ ہے کہ آپ کا کام لوگوں کو بزور منوانا نہیں ہے بلکہ ان کو سمجھانا ہے‘ ان کو احکام کی تعمیل کی صورت میں جنت کی بشارت اور نافرمانی کی صورت میں دوزخ سے ڈرانا ہے۔ یہ معنی نہیں کہ دین کی دعوت‘ اس پر عمل‘ اس کی تنفیذ‘ اور حکمرانی قائم کرنے کے لیے جہاد آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن پاک نے صرف انھی دو صفات کا ذکر نہیں کیا بلکہ شاہد‘ بشیر‘ نذیر‘ داعی الی اللہ اور سراج منیر بھی آپ کے اوصاف ہیں (الاحزاب ۳۳: ۴۵-۴۶)۔ اسی طرح آپ مطاع بھی ہیں کہ ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے مطاع قرار دیا ہے۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النساء ۴:۶۴۔ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے‘ اسی لیے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بناپر اس کی اطاعت کی جائے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النسائ۴:۸۰۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا گیا: نہیں‘ اے محمدؐ!تمھارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی معاملات میں حاکم نہ بنائیں۔ پھر اپنے دلوں میں آپ کے فیصلے پر کسی بھی قسم کی تنگی نہ محسوس کریں ‘ بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔ (النساء ۴:۶۵)
لَـقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُـوْلِ اللّٰہِ اُسْـوَۃٌ حَـسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱۔ درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا۔
’اسوہ‘ اس کو کہا جاتا ہے جس کی پیروی کی جائے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ایسی ہے جس کی پیروی کی جائے‘ نہ یہ کہ احکام قرآنی کی حد تک۔ آپ کا یہ کہنا کہ اس وقت جو احکام شریعت قرار پاگئے ہیں وہ قرآن کے مخالف ہیں۔ آپ نے وضاحت نہیں کی کہ قرآن پاک کے مخالف وہ احکام کون سے ہیں‘ پھر آپ نے اس کی مثال بھی نہیں دی۔ اس وقت قرآن و سنت کا نظام ملک میں نافذ نہیں ہے۔ لیکن شریعت صرف قرآن کا نام نہیں بلکہ سنت رسولؐ بھی شریعت کا حصہ ہے‘ اس بات کو تو پاکستان کے آئین میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ غیرمسلم بھی قرآن و سنت دونوں کو اسلام کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔
۴- آپ نے ان آیات کی کوئی مثال نہیں دی جن کو بقول آپ کے عام مسلمان نہیں مانتے اور منسوخ سمجھتے ہیں۔ البتہ میں نے بہت سی آیات بطور مثال پیش کر دی ہیں جن کی تکذیب اس وقت لازم آتی ہے‘ جب آپ کی طرح کی سوچ اختیار کی جائے۔ جو لوگ قرآن پاک کو مانتے ہیں لیکن حدیث رسولؐ کو نہیں مانتے وہ درحقیقت قرآن پاک کے بھی منکر ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کے بھی۔ وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں۔ قرآن پاک کے اتباع کے دعوے دار ہیں درآں حالیکہ قرآن پاک میں نبی کی اطاعت کا حکم ہے اور وہ نبی کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں اور اس کے باوجود قرآن پاک کی اطاعت کے دعوے دار ہیں۔ درحقیقت ایسے لوگ قرآن پاک کے حکم اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کا انکار کرکے‘ قرآن پاک اور نبی دونوں کی اطاعت کے دائرے سے نکل جاتے ہیں۔
آپ کے تمام سوالات کا حاصل یہ ہے کہ حدیث کا انکار کیا جائے‘ صرف قرآن پاک کو شریعت قرار دیا جائے۔ آپ کی یہ سوچ قطعاً قرآن پاک کے خلاف ہے۔ اس لیے آپ اپنے ان عقائد اور خیالات پر نظرثانی کریں۔ اس سلسلے میں‘ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ باقاعدہ طریقے سے علم دین حاصل کریں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ قرآن پاک کیا کہتا ہے‘ حدیث رسولؐ کی ہدایات اور احکام کیا ہیں۔ دین کس شکل میں اترا اور کس شکل میں نافذ ہوا۔ جو علوم‘ اسلام کی بدولت ایجاد ہوئے ان کو سیکھیں۔ قرآن فہمی کے جو اصول اہلِ علم نے مرتب کیے ہیں ان سے باخبر ہوجائیں۔ حدیث رسولؐ کی شرعی حیثیت پر جو لٹریچر لکھا گیا ہے اس کا مطالعہ کریں‘ خصوصاً مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت کا بار بار مطالعہ کریں۔ ان سب علوم و فنون اور اصول استنباط پر عبور حاصل کرنے کے بعد‘ اگر کوئی کمی محسوس ہو تو پھر کسی صاحبِ علم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
حضرت حسن بن علیؓ سے روایت ہے ‘ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا‘ کہا کہ میں بزدل اور کمزور ہوں۔ آپؐ نے فرمایا :آئو ایسے جہاد کی طرف جس میں اسلحہ نہیں ہے‘ وہ حج ہے۔ (طبرانی)
حج اللہ کی محبت میں اس کے گھر کی طرف لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے رواں دواں ہونا ہے‘ اور جہاد اللہ کی محبت میں اپنی جان نچھاور کرنا ہے۔ دونوں کی اساس محبت ہے‘ دونوں میں سفر ہے‘ دونوں میں مال کا خرچ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ حج میں دشمن کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہے اور جہاد میں ہتھیار کا استعمال ہے۔ جہاد صرف جرأت مند اور بہادر آدمی کر سکتا ہے اور حج بہادر اور بزدل دونوں کر سکتے ہیں۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ابراہیم علیہ السلام مناسک حج کے لیے منیٰ آئے تو شیطان جمرۃ العقبہ کے قریب ان کے سامنے آگیا تو حضرت ابراہیم ؑنے اسے سات کنکر مارے‘ یہاں تک کہ وہ زمین میںدھنس گیا۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس سامنے آکر کھڑا ہو ا تو اسے سات کنکر مارے یہاں تک کہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر تیسرے جمرہ کے پاس سامنے آگیا تو پھر سے سات کنکر مارے یہاں تک کہ زمین میں دھنس گیا۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ تم شیطان کو رجم کرتے رہو اور ملت ابراہیم کی پیروی کرتے رہو۔ (ابن خزیمہ‘ حاکم)
حج جو ملت ابراہیمی کے ایمان افروز مناظر کی یاد تازہ کرتا ہے ’تین جمروں‘ کو کنکر مارنا بھی ایک ایسے ہی دل کش منظر کی یاد تازہ کرتا ہے۔ شیطان کو کنکر مارنا ‘ اسے زمین میں دھنسا دینا کس قدر خوشی اور مسرت کی بات ہے۔ آج اس منظر کو ہمیشہ کی طرح یاد کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔ شیطان اور اس کی ذریت کو کنکروں سے زمین میں دھنسانے کا وقت ہے۔ اگر ہر مسلمان اپنے حصے کے کنکر مارے تو شیطان اور اس کی ذریت خائب و خاسر ہوجائے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آدمی گھر میںنماز پڑھے تو ایک نماز کا ثواب ہے‘ قبیلے کی مسجد میں ۲۵ نمازوں کا ثواب اور جامع مسجد میں ۵۰۰ نمازوں کا ثواب‘ مسجد اقصیٰ میں ۵۰ہزار نمازوں کا ثواب اور میری مسجد میں۵۰ہزار نمازوں کا ثواب اور مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب ہے۔ (ابن ماجہ)
حجاج کرام کے لیے کمائی کا نادر موقع ہے۔ اس میں سستی اور غفلت سے کلیتاً پرہیز کرنا چاہیے۔ ان مبارک ایام میں گپ شپ اور بازاروں میں گھومنے پھرنے کے بجاے نمازوں پر توجہ دی جائے۔ ایک کے بدلے میں ایک لاکھ۔ دنیا کا کوئی بازار ایسا ہے جہاں ایک کے بدلے میں ایک لاکھ ملتا ہے؟ بالفرض ایسا ہو تو کون آدمی ایسا ہو گا جو اس سے غافل ہو کر بیٹھا رہے؟ نہیں‘ سب لائنوں میں کھڑے ہوں گے اور رش کی وجہ سے کسی کو جگہ نہ ملے۔ تب حرمین شریفین پہنچ کر آدمی کا ذوق و شوقِ عبادت بھی اجر کے تناسب سے بڑھ جانا چاہیے۔
حضرت سبیعۃ اسلمیؓ سے روایت ہے ‘ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو مدینہ میںمرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو کوشش کرے کہ اسے مدینہ میں موت آئے‘ اس لیے کہ جسے مدینہ میں موت آئی‘ میں قیامت کے روز اس کے لیے شفیع یا گواہ ہوں گا۔ (طبرانی فی الکبیر)
حرمین شریفین‘ مکہ اور مدینہ اور بیت المقدس زمین کے وہ مقدس مقامات ہیں جن پر موت انسان کو بڑا فائدہ پہنچاتی ہے۔ انسان اگر کسی اور جگہ فوت ہو جائے تو اسے بڑی محرومی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ برکت اس شخص کو ملے گی جس نے ایسا جرم نہ کیا ہو جس کی وجہ سے وہ اس برکت کے استحقاق کو ختم کردے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا‘ میں تیرے سینے کو دولت سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور کر دوں گا۔ اور اگر ایسا نہ کرے گا تو تیرے سینے کو پریشانیوں سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور نہ کروں گا۔ (ابن ماجہ‘ ترمذی)
اللہ رب العالمین کیسی مہربان ذات ہے ‘ جو اس کی ڈیوٹی پر ہوتا ہے اس کے کام وہ خود کرتے ہیں۔ نماز کے وقت دکان بند کردے تو فی الواقع بند نہیں ہوتی وہ آمدن دیتی رہتی ہے۔ حج کے سفر پر جانے کی وجہ سے اپنے کام سے غیر حاضر ہو تو فی الواقع حاضر شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح دعوت و تبلیغ‘ تعلیم و تربیت اور جہاد کے لیے کام کو چھوڑ دے تو نقصان نہیں فائدہ ہوتا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے بلاوے پر حاضری نہ دے تو دکان اور کاروبار جاری رہنے کے باوجود فائدہ / نفع نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کے پیارومحبت کا جواب کس طرح دینا چاہیے‘ بندگی اور غیرت کا تقاضا کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ ’دوڑو اللہ کی طرف‘۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کے لیے چل پڑا‘ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم کے بدلے میں ۷۰نیکیاںلکھتے ہیں اور۷۰خطائیں مٹا دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے‘ جب تک وہ اس کام سے واپس نہ لوٹ آئے۔ پھر اگر مسلمان کی حاجت اس کے ہاتھوں پوری ہوگی تو وہ اپنے گناہوں سے اسی طرح پاک و صاف ہوکر نکلے گا جس طرح اس دن تھا‘ جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا اور اگر اس دوران میں ہلاک ہوجائے تو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا۔(ابن ماجہ)
مسلمانوں اور انسانوں کی خدمت اللہ کی عبادت اور رضا کا راستہ ہے۔ خدمت خلق کا کام کرنے والوں کو اس شعور کے ساتھ اس کام کو کرنا چاہیے کہ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کی طرح یہ بھی عبادت ہے۔ اللہ اس سے راضی اور اس کام پر عنایتیں فرماتے ہیں۔ جو لوگ حضرات و خواتین زلزلہ زدگان کی خدمت کے لیے اپنے دن رات‘ مال اور صلاحیت دے رہے ہیں‘ انھیں یہ اجر کے پورے یقین و شعور کے ساتھ کرنا چاہیے۔
حضرت ابی طلحہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ چمک رہا ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں نے آج کی طرح آپؐ کو کبھی ہشاش بشاش اور اس قدر کشادہ چہرے اور اتنی چمک دار پیشانی والا نہیں پایا۔ آپؐ نے فرمایا: میں کیوں راضی نہ ہوجائوں اور میرے چہرے پر خوشی کے آثار کیوں ظاہر نہ ہوں‘ جب کہ جبریل ؑابھی مجھ سے جدا ہوئے اور یہ کہہ کر گئے ہیں: اے محمد! آپؐ کی اُمت میں سے جو کوئی آپؐ پر درود پڑھے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے لیے ۱۰ نیکیاں لکھیں گے اور ۱۰ گناہ مٹائیں گے‘ اور اس کی بدولت اسے ۱۰ درجے اُونچا کریں گے اور فرشتہ اس کے لیے وہی دعا کرے گا جو دعا اس نے درود کی صورت میں آپؐ کے لیے کی ہے۔ میں نے کہا: جبریل ؑ! وہ کون سا فرشتہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے جب سے آپؐ کو پیدا کیا ہے‘ اس وقت سے لے کر آج تک اور اس وقت تک جب آپؐ کو قیامت کے روز اٹھایا جائے گا‘ آپؐ کی اُمت کا جو آدمی آپؐ پر درود بھیجتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس کو دعا دینے کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے۔ وہ فرشتہ کہتا ہے: وانت صلی اللّٰہ علیک وسلم، ’اور تجھ پر اللہ تعالیٰ نے اس طرح درود بھیجا‘۔ (طبرانی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے میں بہت سے مسلمان سستی اور غفلت برتتے ہیں اور بہت بڑی فضیلت سے محروم رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام کی اس فضیلت پر کس قدر خوش ہوئے ہیں۔ اتنا کہ اتنا کبھی بھی خوش نہیں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپؐ کو راضی اور خوش کرنے کا بہت بڑا ذریعہ درود شریف ہے جس کی برکت درود پڑھنے والے کو بھی بے حساب ملتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتوں کی بارش سے اس کو بھی پورا حصہ ملتا ہے۔ تب سستی اور غفلت کا کیا جواز ہے؟ خصوصاً ایسی صورت میں‘ جب کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے دار بھی ہیں۔ اس عمل کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! جو مدینہ والوں پر ظلم کرے اور انھیں ڈرائے اسے تو ڈرا دے اور اس پر اللہ‘ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہو۔ اس سے کوئی فرض اور نفل قبول نہیں کیا جائے گا۔ (طبرانی فی الاوسط الکبیر)
جس گناہ پر لعنت کی وعید آئے وہ گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔ حجاج کرام کو بطور خاص اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ مدینہ والوں کیساتھ کوئی زیادتی نہ کر بیٹھیں‘ ان کے اطمینان میں خلل نہ ڈالیں‘ ان کی عزت کریں‘ ان سے معاملات میںنرمی برتیں‘ ان کی عزت کا خیال رکھیں۔ لین دین اور دیگر معاملات میں بسا اوقات تلخی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے تو اس سے بچیں‘ نبی ؐ کی بستی والوں کو اس کا پورا پروٹوکول دیں۔ مدینہ شریف کی طرح مکہ والوں کا بھی احترام رکھیں۔ اگر کوئی سختی سے پیش آئے تو اس کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی اختیار کرکے معاملہ کو رفع دفع کر یں۔ البتہ مکہ مدینہ میں رہنے والا کوئی شخص اگر کتاب و سنت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو وہ اس جرم کی حد تک اپنے لیے احترام کے حق کو خود ہی ختم کر دے گا‘ لہذا اسے اس منکر سے روکا جائے گا‘ اس لیے کہ کسی بھی شخص کا حق احترام اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں ہے اور اس کا احترام اللہ تعالیٰ کے احترام کے تابع ہے۔ دونوں احتراموں میںجب ٹکرائو آئے گا تو اللہ تعالیٰ کا احترام مقدم ہو گا ۔ اور کتاب و سنت کی بالادستی کا خیال رکھا جائے گا۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم پر بارانِ رحمت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل گئے۔ جسم سے کچھ کپڑے اُتارے یہاں تک کہ جسم اطہر پر بارش برسی۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ آنحضوؐر نے ایسا کیوں کیا؟ آپؐ نے فرمایا: اس لیے کہ یہ رب کے پاس سے بالکل تازہ اتری ہے۔ (مسلم، ابوداؤد، بیہقی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر طرزِعمل معرفتِ الٰہی کا درس ہے۔ بارش خود بخود نہیں آگئی‘ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نتیجہ ہے‘ جس طرح کوئی کاریگر نئی چیز تیار کرتا ہے‘ اس کو کاریگر کے ہاتھوں نے مس کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح کی سوچ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے بارے میں دی ہے کہ یہ متبرک ہے‘ رب تعالیٰ کے حکم اور ارادے نے اسے مس کیا ہے‘ اس لیے اس کو جسم پر لینے سے جسم کو فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت ملے گی خصوصاً‘ جب کہ اس تصور کے ساتھ اسے جسم پر لیا جائے کہ اس کی رب تعالیٰ سے ملاقات تازہ بہ تازہ ہے۔
سبحان اللہ! تازہ بارش ہو یا فصل‘ سبزیاں ہوں یا پھل‘ کائنات کی سرسبزی اور شادابی میں سے ہر ایک کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کتنا قوی اور مضبوط ہوگا‘ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی معرفت کے لیے قرآن پاک مختلف سورتوں میں بار بار اللہ تعالیٰ کی کارسازیوں اور کاریگری کا ذکر کرتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو کائنات اور قرآن پاک کے نورمعرفت سے اپنے دل و دماغ کو منور کرتے ہیں۔
o
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ بنی حارثہ قبیلے کے ایک شخص حرملہ بن زید (جو نفاق کی بیماری میں مبتلا تھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ دوزانوہوکر بیٹھ گئے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ایمان یہاں پر ہے اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا یہاں پر نفاق ہے۔ یہ اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر تھوڑا۔ رسول ؐاللہ نے ان کی بات سنی لیکن خاموش رہے۔ حرملہ نے اپنی بات پھر دہرائی۔ اس پر رسولؐ اللہ نے حرملہ کی زبان کو کنارے سے پکڑا اور یوں دعا فرمائی: ’’اے اللہ! حرملہ کو سچی زبان اور شکرگزار دل عطا فرما اور میری محبت اور مجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت سے سرفراز اور ان کا انجام بخیر فرما ‘‘۔
حرملہ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کچھ منافق میرے دوست ہیں اور میں ان کا سربراہ تھا‘ میں ان کے نام آپؐ کو نہ بتلا دوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا (ابھی اس کی ضرورت نہیں) جو ہمارے پاس اس طرح آئے گا جس طرح آپ آئے ہیں تو ہم اس کے لیے اسی طرح استغفار کریں گے جس طرح آپ کے لیے کیا ہے‘ اور جو اپنے نفاق پر ڈٹا رہے گا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (کنزالعمال)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی‘ رسول اور نامزد حکمران تھے۔ آپؐ نے اپنی سیرت طیبہ اور اخلاق حسنہ سے ایسا ماحول اور معاشرہ تشکیل دیا جس کو محبت و الفت اور سکون و اطمینان کی چادر اور چھت نصیب ہوئی۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین ’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپؐ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘کے عجیب و غریب اور دل کش مناظر دنیا نے دیکھے۔ انھی مناظر میں سے ایک حسین منظر حرملہ کا لپک کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونا ہے اور آپؐ کا اسے محبت اور اپنائیت سے نوازنا‘ ان کی زبان کو اپنے دستِ مبارک میں پکڑ کر ایسی دعا دینا کہ جس سے ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی‘ نفاق کے بجاے اخلاص کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
ایک منظر تو یہ ہے اور آج ایک دوسرا منظر بھی ہمارے سامنے ہے وہ منظر مخالفین کا تعاقب کرنا‘ تلاش و جستجو کرکے انھیں انتقام کا نشانہ بنانا اور کچل کر رکھ دینا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ رحمت کا منظر یہ ہے کہ حرملہ مخالفین کے نام پیش کرنے کی پیش کش کرتے ہیں لیکن آنحضوؐر انکار فرما دیتے ہیں۔ اس کے بجاے منافقین اور مخالفین کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ آئیں گے تو انھیں دعائیں ملیں گی‘ ان کے ساتھ بھی ہمدردی و غم گساری کا رویہ اپنایا جائے گا‘ اور اگر نہیں آئیں گے تو بھی ان کی چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال نہیں ہوگا۔ ان کا تعاقب نہیں ہوگا بلکہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔
یہ ہے وہ معاشرہ جو رحمت للعالمین ؐ کی ذات اقدس کی برکت سے وجود میں آیا‘ جس میں الفت و محبت‘ عدل وا حسان‘ سکون و اطمینان اور ایک دوسرے کو دھتکارنے اور مٹانے کے بجاے قریب کرنے اور سینے سے لگانا ہے۔ کاش! یہ دل کش سوسائٹی پھر سے وجود میں آجائے۔ کوئی تصو کرسکتا ہے کہ اس طرح کی سوسائٹی کسی کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے؟ کیا دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور بے صبری کا اس کے قریب سے بھی گزر ہو سکتا ہے؟
o
جبیر! کیا تمھیں یہ بات پسند ہے جب سفر پر نکلو تو اپنے تمام ساتھیوں سے زیادہ خوش شکل ہو اور سب سے زیادہ زادراہ تمھارے پاس ہو؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! ہاں‘ میں یہ چاہتا ہوں۔
آپؐ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو پھر سفر پر نکلتے وقت پانچ سورتیں قل یا ایھا الکافرون ، اذاجاء نصراللّٰہ ، قل ھو اللّٰہ احد ،قل اعوذ برب الفلق ، قل اعوذ برب الناس پڑھ لیا کرو۔ ہر سورت کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرو اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پر ان کی قرأت کو ختم کرو۔ حضرت جبیرؓ کہتے ہیں میں دولت مند تھا۔ میرے پاس مال زیادہ تھا لیکن اس سے پہلے جب سفر پر نکلتا تو میری شکل بہت خستہ حال اور زادراہ بہت تھوڑاہوتا تھا۔ اس کے بعد جب میں نکلتا تو سفر سے واپسی تک زیادہ خوش شکل اور سب سے زیادہ زاد راہ والا ہوتا تھا۔ (مجمع الزوائد‘ ۱۰/۱۳۴)
سفر میں آدمی کی ایک ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کا لباس‘ وضع قطع‘ شکل و شباہت اچھی ہو اور دوسری ضرورت یہ ہوتی ہے کہ زاد راہ زیادہ ہو۔ ان دونوں ضرورتوں کے لیے ظاہری سازوسامان کا انتظام کرنا ضروری ہے لیکن اصل سامان اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد ہے کہ وہی حالات کو سازگار کرنے والی اور برکت دینے والی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ وہ پانچ سورتیں ہیں جن کی رہنمائی رسولؐ اللہ نے فرمائی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بذاتِ خود حجت ہے۔ مزیدبرآں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تجربے سے جو چیز ثابت ہوجائے اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں رہتا۔
حضرت جبیرؓنے اپنا تجربہ بیان فرما دیا ہے۔ آج ہم بھی رسولؐ اللہ کے ارشاد کے روشنی میں ان کے تجربے کو پیش نظر رکھ کر اپنے سفر کی ان دو ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔
o
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے شخص کے ہاں تشریف لے گئے جو بیماری کے دبائو کے سبب چوزے کی طرح لاغر ہوگیا تھا۔ رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا: آپ نے کوئی دعا کی تھی؟ اس نے عرض کیا: میں دعا کرتا تھا: ’’اے اللہ!آپ نے مجھے جو سزا آخرت میں دینی ہے وہ دنیا میں دے دیجیے‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ دعا کیوں نہ کی: رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب الـنَّارِ (البقرہ:۲۰۱) ’’اے اللہ! مجھے دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘۔ اس نے یہ دعا شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی۔(کنز العمال‘ ج ۱‘ص ۲۹۰)
اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم ذات ہے۔ اس سے ایسی دعا کی حاجت نہیں جس میں سودا اور لین دین ہو کہ آخرت کی سزا دنیا میں ہوجائے۔ ایسا معاملہ انسانوں کا انسانوں سے ہوتا ہے کہ وہ معاف نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والی ہستی ہے۔ اس لیے اس سے معافی مانگنی چاہیے اور یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ آخرت میں بھی بھلائی عطا فرمائے اور دنیا میں بھی۔
بعض اوقات انسان ایسی دعا کر بیٹھتا ہے کہ اس کے سبب تکلیف سے دوچار ہوجاتا ہے۔ مذکورہ حدیث میں جس شخص کا تذکرہ ہے وہ اپنی دعا کے سبب تکلیف میں مبتلا ہوکر انتہائی کمزور ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسری دعا سکھلائی جس کی بدولت اس دعا کے اثرات زائل ہوگئے اور اس شخص کی صحت بحال ہوگئی۔ کیسا خوش قسمت شخص تھا جسے رسول ؐ اللہ کا دست شفقت اور آپؐ کا بتلایا ہوا نسخۂ شفا نصیب ہوگیا۔ آج بھی جسمانی اور روحانی بیماریوں اور تکالیف سے نجات کے لیے یہ دعا اکسیر ہے۔
جس نے اپنے غصے کو دفع کیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو دفع کر دیں گے‘ اور جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کردیں گے‘ اور جس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی‘ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیں گے۔ (طبرانی‘ ابویعلٰی)
اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ہر ایک کو‘ تین نہایت اہم باتوں کی طرف دل کش انداز سے متوجہ کیا ہے:
الف: غصے میں ہوش و حواس مختل ہوجاتے ہیں‘ انسان کو اپنی زبان اور حرکات و سکنات پر قابو نہیں رہتا۔ اول فول بکنے لگتا ہے۔ ماتحتوں پر ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ شوہر ہے تو بیوی زد میں آجاتی ہے۔ باپ ہے تو اولاد اس کا تختۂ مشق بنتی ہے۔ غصے کو پی جانا اصل بہادری ہے۔ غصے کو رفع کرنے کی ترکیب بتائی گئی ہے کہ پانی پی لے‘ کھڑاہے تو بیٹھ جائے‘ بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ ایسا کرنے سے تعلقات کے دائرے میں جو نقصانات ہوسکتے تھے اس سے تو انسان بچتا ہی ہے‘ اصل کشش اللہ کے رسولؐ کا یہ وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو دفع کردیں گے۔ غصہ پی جانے والے کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔
ب: زبان کی بے احتیاطی جو گُل کھلا سکتی ہے اس کا اندازہ سب کو ہے۔ جبڑوں کے درمیان والی چیز کی حفاظت پر‘ ایک دوسری حدیث میں جنت کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی‘ اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کریں گے۔ اپنے اعمال نامے سے آدمی خود ہی سب سے زیادہ واقف ہے۔ اگر ہر انسان کا کیا دھرا سب کے سامنے آجائے تو وہ منہ چھپاتا پھرے گا۔ اس لیے انسان‘ ستار العیوب سے درخواستیں کرتا ہے کہ اس کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے۔ یہاں اس کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی زبان کی حفاظت کرے‘ یعنی اُسے غیبت‘ بدگوئی اور فحش گوئی سے بچائے‘ گالم گلوچ‘ جھوٹ‘ بہتان اور افترا سے بچائے۔ اور اگر صاحبِ قلم ہے تو اپنے قلم کو ان منکرات سے بچائے۔
ج: تیسری بات کیا پیاری بات ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی‘ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیں گے‘ یعنی نقد اور کھرا سودا۔ لیکن معافی طلب کرنے کے لیے واقعی معافی مانگنا چاہیے۔ زبان پر معافی ہو اور اعضا و جوارح اور قلب و ذہن ٹھیک اسی وقت گناہوں میں مصروف ہوں تو پھر تو یہ معافی کی طلب نہ ہوئی۔ نیک نیتی سے معافی کی طلب بالآخر ترکِ معاصی کی طرف لے جائے گی۔ ان شاء اللہ!
o
تین طرح کی آنکھیں دوزخ کی آگ کو نہیں دیکھیں گی: ایک وہ جس نے جہاد فی سبیل اللہ کے موقع پر رات کو پہرہ دیا‘ دوسری وہ جو اللہ تعالیٰ کی خشیت میں رو پڑی‘ تیسری وہ جو اللہ کے محارم (جن کا دیکھنا اللہ نے حرام کیا ہے) کو دیکھنے سے رُک گئی۔ (طبرانی)
ہماری زندگی کی سب سے زیادہ دلی آرزو یہی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دوزخ کی آگ سے بچائے۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ کی مختصر دعا اس خواہش کا اظہار ہے جو ضرور بار بار کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی صالح اعمال بھی ہونے چاہییں تاکہ یہ آرزو پوری ہو۔ اس حدیث مبارکہ میں اللہ کے رسولؐ نے نگاہ کے حوالے سے تین باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر نگاہوں کے استعمال میں ان کا خیال رکھا گیا ہو تو دوزخ میں داخلے کی نوبت نہ آئے گی۔
اوّل :جہاد کے دوران راتوں کو پہرہ دیا جائے۔ جہاد کی تعریف کو وسیع سمجھا جائے جیسا کہ وہ ہے‘ تو اللہ کی راہ میں راتوں کو کام کرنے والے بھی اس تعریف میں آئیں گے۔
دوم: جس کی آنکھوں نے اللہ کی خشیت میں آنسو بہائے۔ نماز میں قرآن سنتے ہوئے‘ یا خود پڑھتے ہوئے‘ یا تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے‘ کتنے ہی مواقع پر اللہ کی خشیت انسان پر طاری ہوتی ہے۔ اس موقع پر آنسو نہ آئیں تو کوشش کرکے کچھ آنسو بہا لینا چاہیے۔
سوم: کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کن چیزوں کو دیکھنا اللہ نے حرام کیا ہے۔ اس کے مواقع ہمیشہ ہی رہے ہوں گے لیکن آج کل کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں۔ چلتے پھرتے‘ کام کرتے‘ دفتروں میں ‘ اداروں میں‘ اِدھر اُدھر نظر اٹھائیں‘ جرائدو رسائل پڑھیں‘ ٹی وی دیکھیں‘ مواقع ہی مواقع--- نظروں کو محارم سے بچانے اور دوزخ سے بچنے کے۔
o
خوش خبری ہے اس کے لیے جس نے اپنے علم پر عمل کیا‘ اپنے زائد از ضرورت مال کو خرچ کیا‘ اور بلاضرورت باتوں سے پرہیز کیا۔ (طبرانی)
اس حدیث میں بھی تین باتوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ یہ تین کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے خوش خبری دی ہے۔ پہلا یہ ہے کہ اپنے علم پر عمل کریں۔ سچ یہ ہے کہ آج مسئلہ علم کی کمی کا نہیں‘ عمل کی کمی کا ہے۔ علمی دھماکے کے اس دور میں دینی معلومات بھی سب کے حصے میںزیادہ ہی آرہی ہیں۔ اس حوالے سے آزمایش بھی بڑھ گئی ہے۔ برائی اور اچھائی کا‘ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے‘ کس سے منع کیا گیا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ لیکن خوش خبری اس کے لیے ہے جو اپنے علم پر عمل کرے۔ دوسرا عمل جس پر خوش خبری دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے زائد از ضرورت مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ ضرورت کا تعین بڑا نازک مسئلہ ہے۔ ہر شخص اپنے معیار کے لحاظ سے اپنی ضروریات کا دائرہ متعین کرتا ہے‘ لیکن ہر شخص خود ہی جانتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ کتنا مال اس کے پاس ہے۔ عظمت تو اس میں ہے کہ ضرورت سے زائد سب مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا جائے۔ محض زکوٰۃ ادا کرنے کو کافی نہ سمجھا جائے۔ آج کل اُمت مسلمہ جس نازک دَور سے گزر رہی ہے اور اللہ کے دین پر جو وقت آپڑا ہے‘ اُس کا تقاضا ہر مسلمان سے‘ خصوصاً ان افراد سے جو اِن باتوں کا شعور رکھتے ہیں یہ ہے کہ ایک اوسط معیار پر اپنی زندگی گزاریں‘ رہن سہن خوراک پوشاک میں واقعی سادگی اختیار کریں۔ پھر جو کچھ بچ جائے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں‘ تب ہی وہ اس خوش خبری کے مستحق ہوں گے۔
خوش خبری پانے والا تیسرا شخص وہ ہے جو خواہ مخواہ کی لغو باتوں میں وقت ضائع نہ کرے۔ آج کل اسی طرح کے سوال بہت بڑھ گئے ہیں۔ محض وقت گزاری اور خوش وقتی کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ تفریح منع نہیں‘ لیکن ہرلمحے کا جواب دینا ہے‘ تب ہی خوش خبری ہے۔
o
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک حدیث بار بار بیان کرتے ہوئے سنا۔ اگر ایک بار یا دو بار بیان کرتے ہوئے سنا ہوتا تو میں اسے نہ بیان کرتا۔ لیکن میں نے ایک دو بار نہیں‘ بلکہ سات سے بھی زیادہ مرتبہ سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
بنی اسرائیل میں کِفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے پرہیز نہیںکرتا تھا۔ [ایک دفعہ] ایک خاتون اس کے پاس مدد کے لیے آئی‘ تو اس نے اسے ۶۰ دینار اس شرط پر دیے کہ وہ اس سے بدکاری کرے گا‘ توجب اس نے اس کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کیا تو وہ خاتون کانپ اٹھی اور روپڑی۔ کِفل نے پوچھا: تجھے کس چیز نے رُلا دیا۔ اس خاتون نے جواب میں کہا کہ یہ وہ برائی ہے جس کا ارتکاب میں نے کبھی نہیں کیا۔ اب مجھے میری محتاجی نے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے تو میں اللہ کی خشیت سے کانپ اٹھی ہوں۔ (خاتون کی اس نیکی اور پاک دامنی نے اسے متاثر کیا) اس نے کہا: تو اللہ کے خوف سے کانپتی اور روتی ہے تو میں اس سے خشیت اور آہ و بکا کا زیادہ سزاوار ہوں۔ اچھا جو دینار تجھے دیے ہیں وہ تیرے ہوئے۔ اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کبھی بھی اس کی نافرمانی نہ کروں گا۔ اس نے یہ عزم کیا اور پھر اسی رات وہ فوت ہوگیا۔ صبح کے وقت اس کے دروازے پر لکھا تھا: ’’اللہ تعالیٰ نے کِفل کی مغفرت کر دی ہے‘‘۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا۔ (ترمذی)
اس حدیث کا ایک سبق تو یہ ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار انسان بھی‘ زندگی کے کسی مرحلے پر اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے۔ ہر انسان کی فطرت میں جو نیکی ہے وہ کسی واقعے کو دیکھ کر عود کر آتی ہے۔ اس لیے کسی کی اصلاح سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا سبق یہ ملتا ہے کتنی ہی مجبوری کا عالم کیوں نہ ہو‘ اللہ سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ کے خوف کا اظہار جسم کی کیفیت سے یا زبان سے ہو‘ وہ دوسرے دیکھنے والے پر غیرمعمولی اثر رکھتا ہے۔ یہ بات کہ راوی حضرت ابن عمرؓ نے یہ حدیث رسولؐ اللہ سے سات بار سنی اور یقینا اس سے زیادہ بار بیان کیا گیا ہوگا‘ ایک طرف اس حدیث سے ملنے والے سبق کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور دوسری طرف دعوت و تربیت کے لیے ‘ایک ہی بات بار بار کہنے کی حکمت اور ضرورت کو سامنے لاتی ہے۔
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس وقت تک اپنے رب کی طرف سے ہدایت کے روشن راستے پر رہوگے جب تک تم پر دو چیزوں: جہالت اور دنیوی عیش و عشرت کی محبت کا نشہ غالب نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ تم بھلائی کا حکم کرو اور برائی سے روکو اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرو۔ لیکن جب تم پر دنیا کی محبت غالب ہوجائے تو تم بھلائی کا حکم نہیں کرو گے اور برائی سے نہیں روکو گے‘ اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد بھی نہیں کرو گے۔ ایسے دور میں کتاب و سنت پر قائم رہنے والے ان مہاجرین اور انصار کی مانند ہوں گے جو سابقین الاولین میں شامل تھے۔ (مجمع الزوائد‘ بحوالہ مسند بزار)
دین سے جہالت اور عیش و عشرت کی محبت ایک نشہ ہے جو آدمی کو ایمان کے تقاضوں سے اسی طرح غافل کردیتا ہے جس طرح نشے میں مدہوش انسان اپنے نفع و نقصان سے غافل ہوتا ہے۔ آج کے دور میں مسلمانوں کا ایک بڑا اور مؤثر طبقہ جہالت اور عیش و عشرت کے نشے میں مست ہے۔ وہ ہر چیز سے غافل اور ہر برائی میں مبتلا ہے۔ اللہ کا دین ان کے ہاتھوں معطل ہے۔ وہ بھلائی کو بھلائی اور برائی کو برائی سمجھنے کے بجاے بھلائی کو برائی اور برائی کو بھلائی سمجھتے ہیں۔ بھلائی ان کے نزدیک انتہاپسندی ہے اور برائی روشن خیالی اور اعتدال پسندی۔ اسلامی شعائر: پردے‘ داڑھی کی تبلیغ سے انھیں کراہت ہے اور بسنت میلہ‘ میراتھن ریس‘ جشنِ بہاراں‘ جس سے بیسیوں انسانوں کی جانیں بھی ضائع ہوجاتی ہیں‘ اس سے انھیں لطف اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا‘ جہاد فی سبیل اللہ کو جاری رکھنے کا وہ تصور بھی نہیں کرتے اور برائیوں کے فروغ کے لیے دن رات منصوبہ بندیاں کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ۱۵۰۰ سال قبل اس بھیانک دور کا تذکرہ فرما دیا۔ اس دور میں جہاں جہالت کے نشے میں مدہوش طبقہ لادینیت‘ برائی اور بے حیائی کی اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے‘ وہیں صحابہ کرامؓ، السابقون الاولون کے کردار کو زندہ کرنے والے خوش نصیب لوگ بھی ہیں جو پورے جوش و جذبے اور استقامت کے ساتھ لادینیت اور برائی کے خلاف برسرِپیکار ہیں اور کتاب وسنت کے پاکیزہ نظام کو قائم کرنے کے لیے تمام صلاحیتیں اور وسائل کھپا رہے ہیں۔
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان ایک بھیڑیا ہے۔ جس طرح بکریوں کا ایک بھیڑیا ہوتا ہے‘ وہ دُور اور الگ تھلگ چرنے والی بکری کو پکڑلیتا ہے۔ اس لیے تم گھاٹیوں میں الگ تھلگ گھومنے کے بجاے عام مسلمانوں کی جماعت اور مسجد کے ساتھ وابستہ رہو۔ (مسند احمد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر جن لوگوں نے عمل کیا وہ شیطان کے شر سے پہلے بھی محفوظ رہے اور آج کے دور میں بھی محفوظ ہیں۔ آج شیطان اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہے لیکن وہ جماعت اور عام مسلمانوں کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے ایمان و استقامت کے ساتھ صراطِ مستقیم پر گامزن ہیں۔
صحابہ کرامؓ کی جماعت کو مشعل راہ بناکر جو جماعت تشکیل دی جائے‘ اس میں شمولیت اور فرقوں اور گروہوں میں بٹنے کے بجاے مسلم بن کر مسلمانوں کے ساتھ رہنا ایک حفاظتی حصار ہے۔ اسی طرح مسجد بھی ایک قلعہ ہے‘ جس میں مومن شیطان کا اس طرح مقابلہ کرتا ہے جس طرح ایک آدمی قلعہ بند ہوکر دشمن کا مقابلہ کرتا ہے۔
اسلامی جماعت میں شامل ہو کر اجتماعی زندگی گزارنا‘ فرقہ واریت سے بچتے ہوئے اسلام اور مسلم کے تشخص کو اختیار کرنا اور مسجد سے تعلق کی زندگی اختیار کرنا آج بھی ان لوگوں کا امتیاز ہے جو راہِ راست پر ہیں اور شیطان اور اس کی فوج کا پوری جرأت اور ہمت سے مقابلہ کرتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کی دو رکعتیں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے‘ اس سے بہتر ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ فجر کی دو رکعتیں مجھے ساری دنیا سے محبوب ہیں۔
فجر کی دو سنتوں کی قدروقیمت کا احساس ہو تو انسان ان کو کسی بھی صورت نہ چھوڑے۔ رات کے آخری حصے کی میٹھی نیند اور کوئی دوسری چیز اس کی بروقت ادایگی میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ دوسری سنتوں کو بھی دنیوی فوائد پر برتری حاصل ہے اور فرائض کا فوت ہو جانا تو ایسا ہے جیسے کسی کا اہل و عیال اور سارا مال تباہ ہوجائے‘ اور جان بوجھ کر چھوڑ دے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس کی ساری نیکیاں ضائع ہوگئیں‘ اس نے اپنی آخرت کا سامان جلا کر رکھ دیا جو دنیاوی نقصان سے بھی بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نیکی جس شکل میں بھی ہو اور جتنی مقدار میں ہو وہ آخرت کی کمائی ہے اور باقی رہنے والی ہے۔ تھوڑی ہو تب بھی‘ زیادہ ہو تب بھی۔ اور دنیاوی سازوسامان کتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو‘ وہ فانی ہے اور زیادہ ہونے کے باوجود قلیل۔ اس لیے نیکی کی راہ میں دنیا کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے بلکہ نیکی کے بارے میں فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اسے ہر حال میں عملی جامہ پہنایا جائے گا‘ چاہے اس کے لیے دنیا کی بڑی سے بڑی متاع کو قربان کرنا پڑے۔ فجر کی سنتوں کا خصوصی اجر اسی لیے ہے کہ اس میں انسان کے نفس کو زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے پاس تشریف لائے اور ان سے گفتگو فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا:اے انصار کی جماعت! انھوں نے عرض کیا: لبیک یارسولؐ اللہ!۔ آپؐ نے فرمایا: تم لوگ جاہلیت میں جب اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے تھے ‘ تب تم بے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے تھے‘ اپنے مالوں کو بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے تھے اور مسافروں کی خدمت کرتے تھے۔ تم یہ کارِخیر کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اسلام اور نبیؐ کے ذریعے احسان فرمایا۔ اب تم اپنے مالوں کو بچاکر رکھتے ہو؟ خرچ نہیں کرتے؟ (باغ اور فصل میں سے) ابنِ آدم کھاتا ہے تو اس میں اجر ہے‘ درندے اور پرندے کھاتے ہیں تو اس میں بھی اجر ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو واپس آئے تو ہر ایک نے اپنے باغ میں ۳۰ دروازے بنا دیے تاکہ لوگ آسانی سے داخل ہوسکیں اور بھوکے اور مسافر اس سے کھاسکیں۔ (مستدرک حاکم)
کفار بھوکوں اور پیاسوں کو کھلائیں پلائیں اور مسلمان دولت ذخیرہ کرتے رہیں‘ ایمان کے منافی ہے۔ مسلمان کو خلقِ خدا کی خیر خواہی‘ ہمدردی اور غم گساری میں آگے ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ مسلمان حکومت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ دولت ذخیرہ کرے درآں حالیکہ ملک کے باشندے بھوکے اور ننگے ہوں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کافر ممالک اپنے باشندوں کو خوراک‘ پوشاک‘ رہایش اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کریں اور مسلمان ممالک میں اس کا انتظام نہ ہو۔ بہانہ یہ کریں کہ خزانے میں اس کی گنجایش نہیں ہے۔ یہ شرم کی بات ہے۔ اصل بات وسائل اور مال و دولت کی کمی کی نہیں ہے بلکہ غیرمنصفانہ تقسیم کی ہے۔ اس خزانے سے ایک طرف کسی ایک شخص کی محض حفاظت اور آمدورفت پر یومیہ لاکھوں خرچ ہورہے ہیں اور دوسری طرف ایک شخص اپنے اور بال بچوں کے لیے خشک روٹی بھی نہیں پاتا۔ مسلمان ممالک اس میدان میں کافروں سے پیچھے ہوں‘ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عار دلائی ہے۔ جس کو اللہ نے زیادہ نوازا ہے‘ اسے کھلے دل سے بندگانِ خدا کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کرنا چاہیے۔
ابن عمرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ جب قرآن پاک کی یہ آیت: جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں‘ اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے‘ جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے‘ افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی(البقرہ ۲:۲۶۱)‘ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: ’’اے اللہ! میری اُمت کو مزید عطا فرما‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اُتاری: اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ o (صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔ الزمر ۳۹:۱۰)۔ (ابن حبان)
انفاق فی سبیل اللہ ایسی سرمایہ کاری ہے جس کے ۷۰۰ گنا نفع بلکہ زیادہ کا اللہ کا وعدہ ہے۔ مسئلہ وعدے پر یقین کا ہے۔ کمپنیوں کے حصص کی پیش کش آتی ہے یا جہاں بھی محض دو تین گنا منافعے کا یقین ہو‘ مطلوبہ رقم سے کئی گنا اربوں روپے اسی مسلم معاشرے سے جمع ہوجاتے ہیں‘ جہاں اللہ کے دین کی سربلندی کے کئی منصوبے محض وسائل کی کمی سے تشنہ تکمیل رہ جاتے ہیں۔ آیئے‘ ایمان کو تازہ کریں‘ دنیا کو دنیا کی جگہ اور آخرت کو آخرت کی جگہ رکھیں‘ پھر نصرتِ الٰہی کا وعدہ پورا ہونے کی امید کریں۔
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العالمین سے عرض کیا: اے میرے رب آپ اپنے مومن بندے کو قلیل دنیا عطا فرماتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے جواب میں ان کے لیے جنت کا دروازہ کھولا گیا۔ موسیٰ علیہ السلام اس دروازے سے جنت کو دیکھنے لگے۔ پھر فرمایا: اے موسیٰ! یہ وہ گھر اور نعمتیں ہیں‘ جو میں نے اس کے لیے تیار کی ہیں (اب بتلائیں کیا رائے ہے)۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب تیری عظمت اور جلال کی قسم! اگر ایک آدمی کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کٹے ہوں اور اسے اس دن سے جس دن اسے پیدا کیا گیا‘ ساری عمر چہرے کے بل گھسیٹا جائے لیکن اس کا انجام یہ گھر اور اس کی نعمتیں ہوں‘ تواس آدمی کا حال یہ ہے گویا اس نے کبھی بھی کوئی تکلیف اور فقروفاقہ نہیں دیکھا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! آپ اپنے ساتھ کفر کرنے والے بندے کو فراخی کے ساتھ دنیا عطا فرماتے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے؟)۔ تب موسیٰ علیہ السلام کو جواب دینے کے لیے دوزخ کا دروازہ کھولا گیا‘ پھر کہا گیا: اے موسیٰ! یہ وہ جگہ ہے جو میں نے اس کے لیے تیار کی ہے (اب بتلائیں کیا رائے ہے)۔ تب موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! آپ کی عزت و جلال کی قسم! اگر دنیا میں اس وقت سے جس وقت سے آپ نے اس کافر کو پیدا کیا ہے‘ وہ قیامت تک زندہ رہے (اور عیش کرتا رہے) لیکن اس کا انجام یہ ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ گویا اس نے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔ (مسند احمد)
آج ایمان والے طرح طرح کی تکالیف‘ مصائب‘ مظالم اور فقروفاقے کا شکار ہیں اور کفار عیش و عشرت میں مگن ہیں‘ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں‘ خون کی ندیاں بہا رہے ہیں اور اپنی سائنس و ٹکنالوجی اور فوجی اور مادی قوت پر نازاں ہیں۔ مسلمانوں کو ان کی بے بسی پر توہین و تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پھر ان دونوں گروہوں میں سے کون سا گروہ خوش قسمت اور کامیاب ہے؟ اس کا صحیح فیصلہ وہ منظر کرتا ہے جو جنت و دوزخ کی شکل میں سامنے ہے‘ جسے موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا گیا تووہ مطمئن ہوگئے۔ اہلِ ایمان کی تکالیف اور کفار کی عیش و عشرت کے بارے میں ان کو جو اشکال پیش آیا وہ رفع ہوگیا۔ پس جو لوگ جانیں تو قربان کر دیتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتے وہ کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں ہوں‘ وہ خسارے میں نہیں بلکہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یقینا مجرم ایمان والوں کے ساتھ ہنسی اور مذاق سے پیش آتے تھے اور جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارے کرتے تھے اور جب اپنے گھروں کی طرف واپس آتے تھے تو مزے لے لے کر باتیں کرتے تھے اور جب انھیں دیکھتے تھے تو کہتے تھے یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں‘ حالانکہ یہ ان پر محافظ بناکر نہیں بھیجے گئے تھے۔ پس آج کے دن وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں‘ کفار پر ہنس رہے ہوں گے‘ تختوں کے اوپر ٹیک لگائے بیٹھے‘ ان کی تذلیل کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔ مل گیا نا‘ کافروں کو ان حرکتوں کا ثواب جو وہ کیا کرتے تھے۔(مطففین ۲۹-۳۶)
تکلیف اور راحت کا ایک منظرنامہ آج اس دنیا میں ہے اور ایک کل قیامت کے روز ہوگا۔ آج کا منظرنامہ وقتی‘ عارضی اور فانی ہے اور کل کا منظرنامہ دائمی اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ کس منظرنامے والے خوش قسمت اور کس منظرنامے والے بدبخت ہیں۔ پھر کیا ایمان والوں کو آج کے اس منظرنامے پر مایوس اور دل شکستہ ہو کر بیٹھ جانا چاہیے یا اللہ کے بھروسے پر ایمان اور جہاد کے راستے پر استقامت کے ساتھ چلتے رہنا چاہیے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العالمین فرماتے ہیں مجھے میری عزت کی قسم میں اپنے بندے پر دو خوف اور دو امن جمع نہیں کروں گا۔ جب وہ دنیا میں مجھ سے ڈرے گا تو آخرت میں اسے امن دوں گا اور جب دنیا میں مجھ سے بے خوف ہوگا تو آخرت میں اسے خوف زدہ کروں گا۔ (ابن حبان)
جو دنیا میںبے خوف ہیں وہ ظلم و جور اور قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے مرتکب ہیں۔ لوگوں کے گھروں‘ ملکوں مالوں اور جایدادوں پر قبضے کر رہے ہیں۔ اسلامی اور انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کی پیروی سے بے نیاز ہیں۔ تب قیامت کے روز ان کے لیے یہ بدلہ ہے کہ یہ خوف زدہ ہوں‘ دوزخ میں بسیرا کریں۔ جو دنیا میں خوف زدہ ہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے خشوع و خضوع کرتے اور اس کی بندگی میں لگے رہتے ہیں‘ ان کے لیے اس کے سوا کیا جزا ہو سکتی ہے کہ وہ جنت کے دارالسلام اور دارالامن میں بے خوف و خطر نازونعم میں ہشاش و بشاش رہیں۔
o
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسے زمانے میں ہو کہ تم میں سے جس نے احکام کے دسویں حصے کو چھوڑا وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر ایسا زمانہ آئے گا کہ تم میں سے جس نے ان احکام کے‘ جو اسے دیے گئے ہیں‘ دسویں حصے پر عمل کیا وہ نجات پائے گا۔ (ترمذی)
آج کل کے دور میںاس حدیث کی روشنی میں ہمارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ اگر لوگ اسلامی نظریہ حیات کے حامل ہوں اور اسلامی احکام پر کچھ نہ کچھ عمل کرتے ہوں تو انھیں تحقیر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ زمانے کے حالات اور ماحول میں تبدیلی کی وجہ سے سختی اور نرمی قدرتی بات ہے۔ کسی وقت حالات سازگار ہوتے ہیں۔ عمل کے اسباب اور جذبات کو ابھارنے والے ذرائع زیادہ ہوتے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا۔ ایسے حالات میں سستی کا کوئی جو ازنہیں رہتا۔ اس لیے ایسے زمانہ میں کمال درجے کا عمل معتبر ہوتا ہے اور کوئی زمانہ ایسا آتا ہے‘ جس میں حالات سازگار اور موافق نہیں ہوتے تو ایسی صورت میں تھوڑا عمل بھی کافی شمار ہوتا ہے۔
مسلمان معاشرے میں کام کے لیے اسی اصول کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ لوگوں کو بعض اوقات سست رفتار اور غفلت میں مبتلا دیکھ کر مایوس ہو کر بیٹھ جانا اور انھیں ناقابلِ اصلاح سمجھ لینا اور یہ تصور کر لینا کہ کچھ نہیں ہوسکتا‘ قطعاً درست نہیں ہے۔ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا سا جذبہ اور جوش و خروش اس لیے نہیں ہوسکتا کہ اس دور کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مسعود اور براہ راست استفادہ نصیب نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو آپؐ کے اتباع کی توفیق ملتی ہے تو وہ اگر دور صحابہ کے مقابلے میں دسواں حصہ بھی ہوگی تو وہ بھی کافی شمار ہوگی۔ اس لیے آج کے دور میں اگر صحابہ کرامؓ کے دور کی جدوجہد کا دسواں حصہ بھی ہوگا تو وہ نجات اور دنیاوی و اخروی کامیابیوں کے لیے کافی و شافی ہوگا۔
o
حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے: باقی ماندہ دنیا آزمایش اور فتنہ ہے۔ تم میں سے ایک آدمی کے عمل کا حال برتن کے حال کی مانند ہے۔ جب اس کا اوپر کا حصہ صاف ستھرا ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلا حصہ بھی صاف ستھرا ہوتا ہے‘ اور جب اوپر کا حصہ خراب ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلا حصہ بھی خراب اور گندا ہوتا ہے۔ (الفتح الربانی)
آزمایش‘ فتنے اور مصائب دنیا کا لازمہ ہیں۔ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ آزمایشوں اور مصائب میں اسلام اور حق کی بات پر قائم رہنا کامیابی ہے اور باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلینا یا گھبراہٹ کا شکار ہوکر نوحہ کرنا‘ اور غم زدہ اور مایوسی کا شکار ہو کر ہوا کے رخ پر چلنا ناکامی ہے۔ کسی آدمی کی ظاہری زندگی اعمال و اخلاق اور سیرت و کردار اچھے ہوں‘ تو اس بات کی علامت ہے کہ اس کا دل بھی صاف ہے۔ وہ مومنانہ صفات سے متصف ہے۔ اور اگر ظاہری زندگی فسق و فجور‘ بداخلاقی اور بدکرداری کا مظہر ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا دل بھی آفت زدہ ہے اور اسے روحانی بیماریوں کا روگ لگ چکا ہے۔ بہت سے بدکار اور بے دین لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ظاہر اگرچہ ٹھیک نہیں لیکن وہ دل سے بہت زیادہ مخلص اور سچے مسلمان ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ ظاہراگر خراب ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ باطن بھی خراب ہے۔ اس لیے آدمی کو اپنے دل کو پاکیزہ بنانے اور نفس کی اصلاح کے لیے فکری اور عملی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ فتنوں اور مصائب میں وہی آدمی ثابت قدمی دکھا سکتا ہے‘ جو فکری‘ نظریاتی اور عقیدے کے لحاظ سے مضبوط ہو اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نور سے اس نے اپنے دل کو منور کر لیا ہو۔ جن کا عقیدہ اور فکر صحیح نہ ہو وہ سیدھے راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔ آج اُمت مسلمہ کو جو مسائل و مشکلات درپیش ہیں‘ وہ اسی قسم کے غیرفکری اور عقیدے کے لحاظ سے کمزورلوگوں کی نحوست ہے۔
غازی فی سبیل اللہ ‘حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دعوت دی‘ انھوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا‘ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انھیں عطا کر دیا۔ (ابن ماجہ)
سبحان اللہ! کیا شان ہے! سب سے بڑی ذات میزبان ہے۔ اس کے بلاوے پر اس کے بندے مہمان بن کر حاضر ہیں‘ جو مانگیں وہ ملے۔ وہ جو اس کے بلاوے پر نہ جائے وہ کتنا بدبخت ہے‘ جب کہ بلاوا انھی کو ہوتا ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے کہ انسان استطاعت رکھتے ہوئے بھی حج کا ارادہ نہ کرے۔
حج جلدی سے کر لیں۔ تم میں سے کوئی آدمی نہیں جانتا کہ اسے کیا رکاوٹ پیش آجائے۔ (ابوالقاسم اصفہانی)
جو کام بعد میں بھی کیا جا سکتا ہو‘ انسانی فطرت ہے کہ وہ اسے مؤخر کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ بسااوقات ترک فرض کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس لیے اگر استطاعت ہو تو پھر تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
جو حج کے لیے نکلا‘ اس کے بعد فوت ہو گیا اس کے لیے قیامت تک حج کا اجر لکھا جائے گا‘ جو عمرہ کرنے کے لیے نکلا پھر مر گیا تو اس کے لیے قیامت تک عمرہ کرنے کا اجر لکھا جائے گا‘ اور جو شخص غازی بن کر نکلا پھر مر گیا تو اس کے لیے قیامت تک غازی ہونے کا اجر لکھا جائے گا۔ (ابویعلٰی)
اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ اس کی بندگی کے دوران میں جو فوت ہو جائے وہ مرنے کے بعد بھی اس عبادت میں مشغول شمار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہزاروں لاکھوں سال بعد قیامت برپا ہو اس کے لیے یہ عبادت لکھی جائے گی اور اسے اجر ملتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اس سے کوئی کمی نہیں آتی۔ حج اور جہاد کے علاوہ اگرکوئی اور عبادت ہو جس میں آدمی مشغول ہو تو اس کا بھی اجر ملے گا۔ ایک آدمی جو اپنے بعد اپنا اجر جاری رکھنا چاہے‘ اس کے لیے آسان نسخہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بندگی کی نیت دل میں تازہ رکھے۔ اس سے وہ ہمہ وقت عبادت میں مصروف سمجھا جائے گا اور ثواب پاتا رہے گا۔ ہے کوئی جو اس بے پایاں اجرو ثواب کی طرف لپکے اور اپنی جھولیاں بھرے؟ کاش! ہم سب کو اس کی توفیق ملے۔
حج میں خرچ کرنے کا اجر جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنے کی طرح سات سو گنا ہے۔ (احمد‘ طبرانی)
ان دونوں عبادتوں میں آدمی گھر بار چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اس پر خصوصی نظر کرم فرماتے ہیں اور ہر عبادت کی طرح ’’انفاق‘‘ کا ثواب بھی سات سو گنا ہوجاتا ہے۔
حاجی حج کے لیے پاکیزہ خرچے کے ساتھ نکلتا اور اپنا پائوں رکاب میں رکھتا ہے اور لبیک اللھم لبیک کی صدا لگاتا ہے تو آسمان سے ندا کرنے والا ندا دیتاہے لبیک و سعدیک! تیرا خرچہ حلال‘ تیری اونٹنی حلال‘ تیرا حج مقبول اور گناہ سے پاک ہے ‘اور جب ناپاک خرچہ کے ساتھ نکلتا ہے تو آسمان سے ندا دینے والا ندا دیتا ہے: کوئی حاضری نہیں‘ کوئی رحمت نہیں تجھ پر‘ تیرا توشہ حرام‘ تیری سواری حرام‘ تیرا نفقہ حرام اور تیرا حج مقبول نہیں۔ ( طبرانی فی الاوسط)
بہت سے لوگوں کو حج کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح سے وہ حج یا عمرہ پر چلے جائیں۔ یہ اہتمام نہیںکرتے کہ خالص حلال مال سے یہ سعادت حاصل کریں۔ چنانچہ ایسے لوگ بسا اوقات حرام مال سے حج کرکے اپنے لیے ثواب کی بجائے عذاب کا سامان کرتے ہیں۔
حضرت عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ مدینہ میں مہنگائی زیادہ ہو گئی‘ لوگ سخت تکلیف میںمبتلا ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاصبر کرو‘ خوش خبری قبول کرو‘ میں نے تمھارے مختلف پیمانوں کے لیے برکت کی دعا کی ہے‘ اکٹھے مل کر کھائو‘ الگ الگ نہ کھائو‘ ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہے‘ دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہے‘ چار کا پانچ اور چھے کے لیے کافی ہے‘ اکٹھے کھانے میں برکت ہے۔ جس نے مدینہ کی گرمی اور سختی پر صبر کیا‘ میں قیامت کے روز اس کی سفارش کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا‘ اور جو اس سے منہ موڑ کر چلا گیا اللہ اس کی جگہ بہتر آدمی کو لے آئے گا۔ جو مدینہ کے ساتھ برے ارادے رکھے گا‘ اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ (مسند بزاز)
ہجرت سے پہلے مدینہ کی آب و ہوا صحت افزا نہ تھی۔ سخت قسم کے بخار کی وبا لوگوں کو کمزور کر دیتی تھی۔ ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرکزِ اسلام کی آبادی کے لیے جو دعائیں کیں‘ ان کے نتیجے میں یہ بیماریوں اور وبائوں سے محفوظ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شہر میں رہایش کو فضیلت اور برکت عطا فرمائی ہے۔ اہل ایمان کے سینوں میں مدینہ کی محبت اور تڑپ ہے۔ جو رہایش پذیرہیں وہ رہایش کی برکت پاتے ہیں اور دوسرے ’’تمنا‘‘ کی برکت پاتے ہیں۔ سچی تمنا ہو تو مدینہ میں رہایش کی برکت دور رہتے ہوئے بھی مل جائے گی۔ نبیؐ نے فرمایا‘ انما الاعمال بالنیات ، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
دو آدمی مل کر کھائیں تو ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہو گا۔ معاشی حالت کو بہتر بنانے اور تمام لوگوں تک ضروریات زندگی اور رزق کے دائرے کو وسیع کرنے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کھانے میں دوسرے کو شریک کرے۔ لیکن بات صرف مل بیٹھ کر کھانے تک کی نہیں‘ جو کچھ جسے ملا ہے‘ خواہ اس نے اپنے قوت بازو سے ہی حاصل کیا ہو‘ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صرف اس کا نہیں‘ اس میں دوسروں کے حقوق ہیں۔ اپنی ضروریات بھی انسان اوسط معیار سے پوری کرے‘اسراف و تبذیر‘ نمود ونمایش اور کبر سے بچے۔ مسلمانوں کا کلچر ہمدردی اور غم گساری کا اور ایک دوسرے کے کام آنے کا کلچر ہے۔ جتنا ہم اس سے دُور رہتے ہیں‘ دنیا میں بھی تکالیف اٹھاتے ہیں‘ آخرت میں بھی اجر سے محروم رہتے ہیں۔ سب اپنا اپنا جائزہ لیں اور اجتماعی طور پر بھی اس کلچر کو اپنانے کی تدابیر کی جائیں۔
زمزم کا پانی جس مراد کو پانے کی نیت سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے۔ اگر آپ اسے بیماری سے شفا کے لیے پیئیں تو اللہ بیماری سے آپ کو شفا دے دیں گے‘ اور اگر آپ بھوک سے سیر ہونے کے لیے پئیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو سیر کر دے گا‘ اور اگر پیاس بجھانے کے لیے پئیں تو اللہ تعالیٰ پیاس کو بجھا دیں گے۔ یہ جبرائیل علیہ السلام کے پائوں کے دبائو سے بنا اور وہ پانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو پلایا۔ (دارقطنی‘ حاکم)
’’زم زم‘‘ ایک زندہ معجزہ ہے جسے حاجی مشاہدہ بھی کرتے ہیں او ر اس سے فیض بھی حاصل کرتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ انسان جو اس پانی سے اپنے کام و دہن اور جسم کو سیراب کرے‘ جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سیراب کیا۔ یہ سوچ کر زمزم پیا جائے تو پھر کیوں نہ وہ تمام مرادیں حاصل ہوں جن کے حصول کے لیے زمزم پیا گیا ہو۔
حضرت عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (فتح کے بعد) خیبر میں پڑائو کیا (خیبر کا آدھا حصہ جنگ اور آدھا حصہ سمجھوتے کے ساتھ فتح ہوا تھا)۔ خیبر کے سردار بڑے منہ زور اور سخت مذہبی قسم کے آدمی تھے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے محمدؐ! کیا آپؐ کے لیے جائز ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کریں‘ ہمارے پھلوں کو کھائیں‘ ہماری عورتوں کو ماریں؟ یہ سوال پیش بندی کے طور پر کیا گیا تھا (واقعہ صرف گدھوں کو ذبح کر کے ان کے گوشت کے پکانے کا پیش آیا تھا‘ باقی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ صرف اس کے کچھ آثار نظر آئے تھے۔ گدھوں کے گوشت کی حرمت اس کے بعد آگئی۔ چنانچہ پکا ہوا گوشت ضائع کر دیا گیا)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس صورت حال کا سن کر ناراض ہوئے۔ آپؐ نے فوری طور پر مسلمانوں کو جمع کرنے کے لیے حضرت ابن عوفؓ کو بلایا اور فرمایا: اپنے گھوڑے پر سوار ہوجائو اور اعلان کرو: جنت میں داخلہ حلال نہیں مگر مومن کے لیے‘ اور اعلان کرو کہ لوگ نماز کے لیے جمع ہوجائیں۔ چنانچہ لوگ نماز کے لیے جمع ہوگئے۔
آپؐ نے نماز پڑھائی۔ پھر کھڑے ہوکر خطاب فرمایا: کیا تم میں سے ایک شخص اپنے تخت پر بیٹھے یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے نہیں حرام کیا مگر اس چیز کو جسے قرآن میں حرام کیا گیا ہے (گدھے کے گوشت کی حرمت کا ذکر قرآن پاک میں نہیں ہے)۔ سنو! میں نے وعظ بھی کیے ہیں اور احکام بھی دیے ہیں اور بہت سی چیزوں سے روکا ہے۔ وہ بھی قرآنی احکام کے مانند یا اس سے بھی زیادہ تاکید کی حامل ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے حلال نہیں کیا کہ اہلِ کتاب کے گھروں میں بلااجازت داخل ہوجائو‘ ان کی عورتوں کو مارو‘ اور ان کے پھلوں کو کھانے کی اجازت نہیں دی‘ جب کہ وہ اس سمجھوتے کا پاس بھی کریں جو انھوں نے تمھارے ساتھ کیا ہے۔ (ابوداؤد)
ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہییں تاکہ اس کو واقع ہونے سے روکا جا سکے۔ مستعد‘فعال اور عدل کے لیے فکرمند قیادت ایسا ہی کرتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنگامی بنیادوں پر صحابہ کرامؓ کو جمع کر کے لرزہ طاری کر دینے والا خطاب فرمایا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آیا۔ آج کی مہذب دنیا میں لاکھوں انسانوں کو بموںاور میزائلوں کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ بعد میں جب واضح ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ بلاجواز اور غلط اطلاعات کی بنیاد پر تھا تو اس پر صرف اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’ہمیں اس پر افسوس ہے!‘‘ کیا یہ انصاف ہے؟
دوسری بات یہ سامنے آئی کہ یہ سمجھنا کہ جو قرآن نے حرام کیا ہے‘ بس صرف وہی حرام ہے‘ غلط ہے۔ رسول اکرمؐ کی شارع کی حیثیت ہے اور آپؐ نے بھی احکامات دیے ہیں۔
کیا تم اس بات سے عاجز ہو کہ ابوضمضم کی طرح ہوجائو؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ابوضمضم کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے گزری ہوئی اُمتوں میں سے ایک شخص تھا۔ جب صبح ہوتی تھی تو کہتا: ’’اے اللہ! میں نے اپنی عزت کی پامالی اس آدمی کو معاف کر دی ہے جو مجھے گالی دے‘‘۔(ابوداؤد)
جب کسی کو گالی دی جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور جواب در جواب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اگر پہلے ہی قدم پر معاف کر دیا جائے تو بناے فساد ہی نہ پڑے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی ایک شخص کے طریقے کو بطور نمونہ پیش فرمایا۔ ہم میں سے ہر شخص‘ دل کو اتنا بڑا کر لے کہ صبح ہوتے ہی اس دن کی زیادتیاں پیشگی معاف کر دے تو زندگی امن و سکون کا گہوارہ ہو جائے۔ بدلہ لینے کے جذبے پر قابو پانا اصل بات ہے۔
حضرت جابر بن سلیمؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ایک شخصیت تشریف فرما ہیں‘ لوگ ان کے پاس آتے ہیں‘ ان کی بات سنتے ہیں‘ مانتے ہیں اور عملی جامہ پہنانے کے جذبے سے واپس چلے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ معلوم کرکے میں بھی حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا: علیک السلام یارسول اللّٰہ۔ آپؐ نے فرمایا: یوں نہ کہو یہ تو مُردوں کو سلام ہے۔ اس کی بجاے السلام علیک کہو۔ میں نے پوچھا: آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: میں اس اللہ کا رسول ہوں کہ جب تجھ پر کوئی مصیبت آتی ہے تو تم اس کو پکارتے ہو اور وہ تمھاری مصیبت کو دُور کرتا ہے‘ جب تم پر قحط پڑے تو تم اسے پکارتے ہو تو وہ زمین کو سرسبزی اور شادابی عطا فرماتا ہے‘ اور اگر تم جنگل و بیاباں میں ہو اور تمھاری اونٹنی گم ہوجائے تو تم اسے پکارتے ہو اور وہ تمھیں اونٹنی لوٹا دیتا ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے نصیحت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: کسی کو گالی نہ دو۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد کسی آزاد‘ کسی غلام‘ کسی اونٹ اور کسی بکری کو گالی نہ دی۔
یہ عام رواج سا ہے کہ کسی بزرگ سے ملاقات کرتے ہیں تو رخصت ہوتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ: مجھے کوئی نصیحت کریں۔ اس موقع پر سننے والا متوجہ ہوتا ہے اور اس کا امکان ہوتا ہے کہ جو نصیحت کی جائے گی‘ اس پر عمل کیا جائے گا۔ اس لیے ضرور کوئی مفید بات کہنا چاہیے۔ شخص کے حالات سے واقف ہوں تو اس کی مناسبت سے کوئی کام کی بات یا کوئی عمومی نصیحت کر دی جائے۔ کوئی ایسی نظری بات نہ کہی جائے جو قابلِ عمل نہ ہو۔ مثال کے طور پر آپ کسی دکان دار کو کہہ سکتے ہیں کہ قسمیں نہ کھایا کرو۔ جس طرح رسولؐ اللہ نے محض یہ بات کہی کہ کسی کو گالی نہ دینا۔ یقینا اس بات کا کوئی پس منظر ہوگا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: میری والدہ دین شرک پر قائم تھیں‘ میں انھیں اسلام کی طرف دعوت دیتا رہتا تھا۔ ایک دن میں نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی باتیں کہیں جن سے مجھے کراہت ہوئی‘ مجھے دکھ ہوا۔ میں روتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا: یارسول اللہ! میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا رہتا تھا‘ وہ انکار کرتی رہتی تھیں۔ آج میں نے انھیں دعوت دی تو انھوں نے مجھ سے آپؐ کے بارے ایسی باتیں کہیں جن سے مجھے کراہت آئی۔ آپؐ اللہ سے دعا کیجیے کہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سن کر میں خوش ہوگیا۔ گھر کی طرف واپس ہوا‘ قریب پہنچا تو دروازے کو بند پایا‘ لیکن والدہ نے میرے جوتوں کی آہٹ سن لی۔ انھوں نے مجھے آواز دی‘ ابوہریرہ‘ ٹھیرجائو! میں نے پانی گرنے کی آواز سنی‘ سمجھ گیا کہ والدہ غسل کر رہی ہیں۔ والدہ نے غسل کرلیا‘ کپڑے پہنے اور پھر اس قدر جلدی سے دروازے کی طرف بڑھیں کہ سر پر چادر نہ لے سکیں‘ دروازہ کھولتے ہی کہا: ابوہریرہ! اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ۔یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش خبری سنانے کے لیے فوراً آپؐ کی طرف واپس ہوا اور مارے خوشی کے میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ حاضر ہوا تو عرض کیا: یارسول اللہ! خوش خبری قبول کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کرلی ہے۔ ابوہریرہ کی ماں کو اس نے ہدایت دے دی ہے۔ آپؐ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کلماتِ خیر سے نوازا۔ میں نے عرض کیا یارسول ؐاللہ! دعا کیجیے کہ اللہ مجھے اور میری والدہ کو اپنے مومن بندوں کا اور انھیں ہمارا محبوب بنا دے۔ رسولؐ اللہ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ! اپنے پیارے بندے ابوہریرہ اور اس کی ماں کو اپنے مومن بندوں کا اور مومنین کو ان کا محبوب بنا دے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد جو مومن بھی میرے متعلق سنتا ہے یا مجھے دیکھتا ہے‘ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔(مسلم)
یہ روایت از دل خیزد بر دل‘ یعنی دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘ کی بہترین مثال ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی طرح دل میں ایسی آگ سلگ رہی ہو کہ بے قرار اور مضطرب کر دے‘ غم زدہ کر دے اور آنکھوں کو اشکبار اور دل کو تڑپا دے تو وہ رنگ لاتی ہے۔ بندے کے بس میں جو کچھ ہو‘ وہ کر گزرے تو پھر وہ ذات جس کے بس میں سب کچھ ہے‘ اپنے بندوں کی کوتاہیوں کو بھلاکر ان کو راضی کر دیتا ہے۔
ایمان کے لیے تڑپ کے بعد دوسری تڑپ اگر ہے تو وہ ایمان والوں کی محبت اور ان کی محبوبیت۔ ایمان کی توفیق ہوتو وہ ایمان والوں کی محبت کے لیے تڑپا دے گی اس کے حصول کے لیے آہ و زاری ہوگی اور دعائیں ہوں گی اور دوسروں سے کروائی بھی جائیں گی۔ مومنین کے ساتھ کھڑا ہونے پر خوشی ہوگی اور کفار کے ساتھ مل جانا ‘ناگوار ہوگا۔
حضرت ابوبکرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے اس حال میں کہ وہ غصے میں ہو۔ اس روایت کے بعض راویوں نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ (ابن ماجہ)
غصے میں ایک فرد‘ ایک جج‘ ایک حاکم‘ ایک پارٹی جو فیصلہ کرے گی وہ عدل و انصاف اور اعتدال و توازن سے خالی ہوگا۔ غصے میں طلاق دے کرشوہر پچھتاتا ہے۔ غصے کے نتیجے میں آدمی کسی کو زد و کوب کرتا ہے تو بعض اوقات وہ قتل کا مرتکب ہوجاتاہے۔ پارٹیاں ایک دوسرے کے بارے میں غصے اور جذبات میںآکر جو فیصلہ کرتی ہیں‘ اس کے نتیجے میں حالات میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ غصے اور جذبات میں آکر جس طرح فیصلہ کرنا درست نہیں ہے‘ اسی طرح کسی کی محبت میں گرفتار ہوکر اور کسی سے خوش ہوکر فیصلہ کرنے میں بھی بے اعتدالی ہوجاتی ہے۔ اسی واسطے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کو نصیحت فرمائی کہ ’’رضا اور غضب دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرو‘‘۔
فیصلہ کرنے کے لیے قاضی کی کرسی پر بیٹھنا ضروری نہیں۔ روزمرہ زندگی میں مختلف مواقع فیصلہ کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ایسے ہر موقع پر ہمیں رسولؐ اللہ کی یہ ہدایت یاد رہنی چاہیے۔
o
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال مجھے عطیہ عنایت فرمایا۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ میری بجاے مجھ سے زیادہ محتاج کو دے دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: عمرؓ، جب تمھیں لالچ اور سوال کے بغیر ملے تو لے لیا کرو‘ اور نہ ملے تو اپنے نفس کو اس کے پیچھے نہ لگایا کرو۔ (بخاری‘ کتاب الزکوٰۃ)
مال کے بارے میں راہ اعتدال مطلوب ہے۔ نہ اتنا استغنا کہ سوال اور لالچ کے بغیر ملے جب بھی نہ لیا جائے اور نہ اتنی طلب کہ اس کے پیچھے ہی لگا رہا جائے۔ مال کی ایسی طلب کہ جائز و ناجائز کی تمیز اٹھ جائے‘ فساد اور معاشرے کو سکون سے محروم کرنے کا اصل سبب ہے۔ضروریات کے لیے جائز ذرائع سے مال حاصل کرنے کی کوشش عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ ضروریات کو حد میں رکھنے سے ناجائز ذرائع کی طرف قدم نہیں اٹھتے۔ اسراف و تبذیر سے بچنا قومی کلچر ہونا چاہیے۔ سعی و جہد طریق زندگی ہو‘ سوال کرنے اور لالچ کرنے سے پرہیز لازم ہے۔ زندگی حصولِ مال و دولت سے اہم تر مقاصد کے لیے ہے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ تم میں سے جب کوئی آدمی کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے‘ اس کے بعد بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے۔ پھر جب جانے کے لیے اٹھے تو سلام کرے۔ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ ضروری نہیں ہے۔ اور جس نے جانے کے لیے اٹھتے وقت سلام کیا وہ اس کارخیر میں شریک شمار ہوگا جس میں لوگ اس کے جانے کے بعد مصروف رہے۔ (ابوداؤد‘ ترمذی‘ رزین)
سلام مجلس کا ادب ہے‘ جب کہ اس سے مجلس کے کام میں خلل نہ پیدا ہو۔ کوئی اجتماعی پروگرام ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں بلند آواز سے سلام کر کے اس میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پروگرام کے اختتام کا انتظار کیا جائے۔ مجلس میں آتے وقت یا جاتے وقت سلام کا مقصد اہلِ مجلس کو سلامتی کی دعا دینا اور ان کے کام میں دعائوں کی صورت میں شرکت کرنا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کا تعاون ہے۔ اس سے اہلِ مجلس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کی صورت میں کامیابی بھی ہوتی ہے۔ سلام کرنے والا حوصلہ افزائی اور کامیابی میں تعاون پر اجر کا مستحق ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ کسی مجلس میں آکر بیٹھ جاتے ہیں‘ سلام نہیں کرتے اور بعض ایسی صورت میں بھی سلام کرتے ہیں جب کہ مجلس میں اجتماعی پروگرام جاری ہو۔ دونوں صورتیں نامناسب ہیں۔
جاتے وقت سلام کرنے کا یہ مزید فائدہ ہے کہ کسی کارِخیر کے اجر سے حصہ ملتا ہے۔
ابی امیہ مخزومی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا‘ جس نے چوری کا اعتراف کیا تھا لیکن اس کے پاس سے چوری کا سامان برآمد نہ ہوا۔رسولؐ اللہ نے اس سے فرمایا: میں نہیں سمجھتا کہ تم نے چوری کی ہو۔ اس نے کہا: نہیں‘ میںنے چوری کی ہے۔ آپؐ نے دو یا تین مرتبہ اپنی بات دہرائی۔ اس نے ہر بار چوری کا اعتراف کیا۔ اس پر آپؐ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اسے آپؐ کے پاس لایا گیا۔ آپؐ نے اس سے فرمایا: اللہ سے استغفار اور توبہ کرو۔ پھر آپؐ نے اس کے لیے دعا مانگی۔ ’’اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما(تین مرتبہ)‘‘۔ (ابوداؤد‘ نسائی‘ ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ شریف)
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت ہے۔ عدالت ملزم کے لیے رحیم و شفیق ہے۔ ملزم عدالت سے محبت کرتا ہے اور فیصلے سے راضی نظر آتا ہے۔ گناہ سے توبہ و استغفار کی تلقین ہوتی ہے‘ ملزم توبہ و استغفار کرتا ہے۔ عدالت اس کی توبہ کی قبولیت کے لیے دعائیںکرتی ہے۔ ملزم کو ہتھکڑیاں نہیں پہنائی گئیں۔ وہ اپنے جرم کا خود ہی بار بار اعتراف کر رہا ہے۔ ایک ہی پیشی میں فیصلہ سنا کر نافذ کردیا جاتا ہے۔ مجرم کو سزا دے دی گئی لیکن اس کی توہین و تذلیل نہیں کی گئی بلکہ عزت اور دعائیں دی گئیں۔
ایک طرف اس منظر کو دیکھیے‘ دوسری طرف آج کی نام نہاد مہذب دنیا کے کربناک نظامِ جبروتشدد اور عرصہ دراز تک عدالتوں کی پیشیوں اور جیلوں کی اذیتیوں کے مناظر کو سامنے رکھیے۔ پھر فیصلہ کیجیے کہ کون سا نظام مہذب ہے اور اس میں رحمت و شفقت اور عدل و انصاف ہے۔ اور کون سا نظام عدالت کے نام پر ظلم و جور اور وحشت اور درندگی ہے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا‘ جس نے شراب پی تھی۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ حاضرین سے کہا: اسے مارو۔ ہم مارنے لگے۔ کسی نے ہاتھ‘ کسی نے جوتے اور کسی نے کپڑے کے کوڑے سے مارا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: اسے ڈانٹ ڈپٹ کرو۔ مسلمان اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے۔ کسی نے کہا: تو نے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کا خیال نہ کیا؟ کسی نے کہا: تجھے اللہ سے ڈر نہ آیا۔ ایک آدمی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا۔ فرمایا: اسے بددعائیں دے کر اس کے خلاف شیطان کی اعانت نہ کرو۔ اس کے بجاے دعائیں دو۔ یوں کہو: اے اللہ‘ اس کی بخشش فرما ‘ اے اللہ اس پر رحم فرما۔ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰۃ شریف)
مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے‘ جرم سے روکنے کے لیے سزا دینا ضروری ہے لیکن سزا دینے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ‘ انتظامیہ اور عام لوگ اس کے ساتھ ہمدردی‘ حسنِ اخلاق اور عزت کا سلوک کریں۔ ایسی صورت میں مجرم اپنی اصلاح کرے گا‘ وہ حیا سے کام لے گا اور معاشرے کا باعزت فرد بننے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جائے‘ اسے گالیاں دی جائیں‘ کوسا جائے اور حوالات میں ذلت آمیز طریقے سے رکھا جائے تو اس کے اندر مجرمانہ ذہنیت پرورش پائے گی۔ شیطان اس کے اندر انتظامیہ اور معاشرے کے خلاف دشمنی کے جذبات کو پرورش دے گا جس کے نتیجے میں وہ تائب ہونے کے بجاے جرم کو اپنا پیشہ بنا لے گا۔ آج کل کی انتظامیہ اور عدلیہ یہی کچھ کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ جو آدمی پولیس کے ہتھے چڑھتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے عادی مجرم بن جاتا ہے۔ انتظامیہ شیطان کی معاونت کر رہی ہے اور لوگوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے پبلک اور انتظامیہ کے مابین عداوت پیدا کر دی ہے۔
o
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بِسْمِ اللّٰہ کہہ کر رکاب میں پائوں رکھا‘ پھرسوار ہونے کے بعد فرمایا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا… پھر تین مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور تین دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا‘ پھر فرمایا: سُبْحٰنَکَ ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ‘ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ۔ اس کے بعد آپؐ ہنس دیے۔
میں نے پوچھا: یارسول ؐاللہ! آپؐ ہنسے کس بات پر؟ فرمایا: بندہ جب رَبِّ اغْفِرْلِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بہت پسند آتی ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔ (احمد‘ ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی )
جب بھی رَبِّ اغْفِرْلِیْ کہا جائے تو یہ (قلب و ذہن کو حاضر کرکے) کہا جائے کہ اللہ کے علاوہ مغفرت کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔
حضرت عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ لوگوں نے آپؐ سے میرے متعلق عرض کیا‘ یہ عدی بن حاتم ہیں۔ میں کسی معاہدے اور امان کے بغیر حاضر ہوا تھا۔ جب مجھے آپؐ کے قریب کیا گیا تو آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑلیا۔ اس سے پہلے آپؐ فرما چکے تھے کہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس (عدی) کے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں دے دے گا۔ پھر آپؐ مجھے لے کر چل پڑے۔ راستے میںآپؐ کو ایک عورت اور ایک بچہ ملے۔ انھوں نے عرض کیا: ہمیں آپؐ سے کام ہے۔ ان کی بات سن کر آپؐ ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کا کام پورا کر دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے گھرلے آئے۔ لونڈی نے مسند بچھا دی‘ آپؐ اس پر بیٹھ گئے اور میں آپؐ کے سامنے بیٹھ گیا۔
آپؐ نے اللہ کی حمدوثنا کی۔ اس کے بعد فرمایا:عدی! تمھیں کون سی چیز لا الٰہ الا اللہ کہنے سے روکتی ہے؟ کیا تمھارے علم میں اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ عدی ؓکہتے ہیں: میں نے عرض کیا‘ نہیں۔ پھر آپؐ نے تھوڑی دیر مزید گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم اللہ اکبر کہنے سے بھاگتے ہو؟ اللہ سے کوئی اور بڑی ذات تمھارے علم میں ہے؟ میں نے عرض کیا‘ نہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: یہود مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ ہیں اور نصاریٰ گمراہ۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے عرض کیا: میں تو تمام ادیانِ باطلہ سے منہ موڑ کر مسلم ہوگیا ہوں۔ تو میں نے دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ پھر مجھے ایک انصاری کے ہاں ٹھیرانے کا حکم دیا۔ میں وہاں ٹھیرگیا اور صبح شام حضوؐر کی خدمت میںحاضر ہوتا رہا۔
ایک دفعہ پچھلے پہر میں آپؐ کے پاس حاضر تھا کہ دھاری دار اونی چادریں باندھے کچھ لوگ آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ نے انھیں صدقہ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: جس کے پاس ایک صاع ہے تو وہ ایک صاع لائے‘ نصف صاع ہے تو وہ نصف لائے‘ ایک مٹھی یا مٹھی کاکچھ حصہ ہے تو وہ وہی لے آئے اور اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے‘ اگرچہ ایک کھجور یا کھجور کے ایک چھلکے سے سہی۔ تم میں سے ایک آدمی اللہ سے ملے گا اس حال میں کہ اللہ اس سے وہ بات فرمائیں جو میں تمھیں ابھی بتلا دیتا ہوں۔ اللہ فرمائے گا: کیا میں نے تجھے مال اور اولاد نہ دی تھی؟ جواب میں وہ شخص کہے گا: کیوں نہیں‘ اے رب! پھر اللہ فرمائیں گے: کیا ہے وہ جو تم نے اپنے لیے آگے بھیجا؟ وہ اپنے آگے پیچھے‘ دائیں بائیں دیکھے گا توکسی چیز کو نہ پائے گا جس کے ذریعے سے اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے۔(اس کے بعد آپؐ نے فرمایا:) تم میں سے ہر ایک اپنے چہرے کو آگ کی حرارت سے بچائے اگرچہ کھجور کے ایک چھلکے ہی سے۔ وہ بھی نہ ملے تو عمدہ بول سے۔ مجھے تمھارے بارے میں فقروفاقے کا ڈر نہیں ہے۔ اللہ تمھاری مدد کرنے والا ہے۔ وہ تمھیں مال دار کر دے گا یہاں تک کہ ایک ’’پردہ نشین‘‘ عورت اپنی اونٹنی پر یثرب ]مدینہ[ سے حِیرہ ]یمن[تک یا اس سے بھی زیادہ طویل سفر کرے گی اور اسے چوروں اور ڈاکوئوں کا کوئی ڈر نہ ہوگا۔ (عدیؓ کہتے ہیں کہ) میں اپنے دل میں کہتا تھا‘ طے قبیلے کے ڈاکو کہاں چلے جائیں گے؟ (لیکن نبیؐ کا فرمایا پورا ہوگیا‘ ڈاکو ختم ہوگئے) (ترمذی‘ کتاب التفسیر‘ تفسیر سورۂ فاتحہ)
رحمت للعالمینؐ کی رحمت و شفقت کے دل کش‘ ایمان افروز‘ رقت آمیز چار مناظر آپ کے سامنے ہیں۔
پہلا منظر: حضرت عدی بن حاتمؓ نصرانی ہیں‘ اسی حالت میں آپؐ کے پاس حاضر ہوتے ہیں‘ پھر کیسی شفقت اور کیسا پیار اور انس پاتے ہیں۔ آپؐ محبت سے ان کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے جاتے ہیں‘ گھر تک ہاتھ میں ہاتھ ہے۔ کیسے پیارے انداز سے اسلام کی دعوت پیش کرتے ہیں‘ کس طرح قیام و طعام کا انتظام کرتے ہیں‘ سبحان اللہ! محبت ہی محبت اور رحمت ہی رحمت ہے۔ ہے کوئی جو اس کی مثال پیش کرے!
دوسرا منظر: خاتون اور اس کا بچہ اپنے کام کے لیے حاضر ہوتے ہیں تو آپؐ ان کی حاجت پوری کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
تیسرا منظر: فقروفاقے سے دوچار اور بدن پر پورے لباس سے محروم مجاہدین آتے ہیں تو دل میں ان کے لیے تڑپ لے کر لوگوں کو صدقے کی ترغیبات دے رہے ہیں۔
چوتھا منظر: اسلام کی بدولت امن و امان کے منظر کی خوش خبری آپؐ نے دی۔ آپؐ فرماتے ہیں: ڈاکے ختم ہوجائیں گے‘ دنیا کو امن و امان ملے گا اور وہ سکھ کا سانس لے گی۔ آپؐ کی پیش گوئی کی صداقت دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
آج دنیا کی سب سے بڑی ضرورت اگر ظلم و جور‘ فتنہ و فساد اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے تو پھر انسان کی سب سے بڑی ضرورت اسلام ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ محبت کرتے ہیں‘ اور تین ایسے ہیں جن سے ناراض ہوتے ہیں۔ جن سے محبت کرتے ہیں‘ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو لوگوں کے پاس آتا ہے اور ان سے رشتے داری کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ اللہ کے نام پر سوال کرتا ہے۔ لوگ اسے کچھ نہیں دیتے‘ وہ واپس ہوجاتا ہے۔ پھر ایک آدمی اس کے پیچھے چلا جاتا ہے اور چپکے سے اس کی وہ حاجت اس طرح پوری کر دیتا ہے کہ اس کا علم اللہ اور اس شخص کے سوا کسی کو نہیں ہوتا جس کا سوال اس نے پورا کیا۔ دوسرا وہ شخص ہے کہ لوگ رات کے وقت سفر کرتے رہے۔ جب رات کا آخری پہر آیا جس میں نیند مسافر کو ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتی ہے‘ لوگ سوگئے لیکن وہ کھڑا ہوگیا اور میری آیات کی تلاوت اور طرح طرح سے میری حمدوثنا کر کے مجھے راضی کرنے میں لگ گیا۔ تیسرا وہ شخص ہے جو ایک جہادی دستے میں شامل ہے۔ لوگ شکست کھاکر بھاگ گئے لیکن وہ آگے بڑھا‘ حملے کرتا رہا یہاں تک کہ فتح حاصل کی یا جامِ شہادت نوش کرلیا۔ اور تین شخص اللہ کو ناپسند ہیں: بوڑھا زانی‘ فقیرتکبر کرنے والا‘ دولت مند جو ظلم کرنے والا ہو۔ (ترمذی)
آج بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کی راہ سب کے لیے کھلی ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے والے‘ اللہ کو راضی کرنے کے لیے راتوں کو اٹھ کر تلاوتیں اور دعائیں اور اس کی ثنا اور اس سے آہ و زاری کرنے والے‘ اور جہاد سے رخ موڑ لینے کے بجاے استقامت کا مظاہرہ کرنے والے‘ اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حیض کی حالت میں یہود اپنی بیویوں سے میل جول ختم کردیتے۔ کھانا پینا‘ رہایش‘ ہر چیز الگ کرلیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی یہ آیت نازل فرمائی: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِط قُلْ ھُوَ اَذًی (البقرہ۲:۲۲۲) ’’آپؐ سے پوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے؟ آپؐ کہہ دیجیے: حیض ایک تکلیف دہ حالت ہے۔ اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جائو‘ جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں‘‘۔ یہود نے جب یہ آیات سنیں تو کہنے لگے کہ یہ شخص ہر معاملے میں ہماری مخالفت کرتا ہے۔ یہود کی یہ بات عباد بن بشرؓ اور اسید بن حضیرؓنے سنی تو حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کو ان کی اس بات کی اطلاع دی۔ ساتھ ہی یہود کی اس بات کا مزید سخت جواب دینے کی خاطر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم یہود کی مزید مخالفت کرتے ہوئے بیویوں سے ہم بستری نہ کریں؟ یہ بات سن کر حضوؐر کے چہرئہ انور کا رنگ بدل گیا جس سے ہم سمجھے کہ رسولؐ اللہ ان پر غصہ ہوگئے۔ (آپؐ کے غصے کا سبب یہ تھا کہ یہود یا کسی بھی گروہ کی مخالفت میں آدمی اس قدر آگے نہ بڑھ جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی بھی پرواہ نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن پاک کی ایک آیت میں ہے: لَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط (المائدہ ۵:۸) ’’تمھیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل سے کام نہ لو۔ اس کے بعد وہ دونوں صحابیؓ اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے سامنے سے ایک آدمی نبیؐ کے لیے ہدیے کے طور پر دودھ لے کر آرہا تھا۔ آپؐ نے انھیں واپس بلایا تاکہ وہ دودھ پی لیں۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ آپؐ ان سے ناراض نہیں ہوگئے۔ (ترمذی)
مخالفین کی مخالفت میں حد سے نہ گزرنا چاہیے کہ آدمی کو اپنے اصول اور طریقے بھی یاد نہ رہیں۔ اور ضد میں دینی احکامات کی مخالفت بھی کر گزرے‘ یہ بات اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناراض کرنے والی ہے۔ جوش میں بھی ہوش کا دامن نہ چھوٹے۔
اس واقعے سے ناراضی کے اظہار کے بعد شفقت اور حسنِ سلوک کا سبق بھی ملتا ہے۔