مولانا عبد المالک


’’حضرت انسؓ، حضرت ابوذرؓ سے بیان فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھرکی چھت کھولی گئی،میں مکہ مکرمہ میں تھا‘جبریل چھت سے اترے،پھر میرے سینے کو کھولا،پھر زم زم کے پانی سے اسے دھویا،پھر سونے کا ایک تھا ل لایاگیاجو حکمت وایمان سے بھرا ہواتھا‘اسے میرے سینے میں ڈالاگیا، پھر سینے کو بندکر کے جوڑ دیا گیا۔ (حدیث معراج‘ بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے پانچ نام ہیں: میں محمد ہوں،میںاحمد ہوں، میں ’الماحی‘مٹانے والا ہوں،اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹا دیں گے۔ میں’الحاشر‘ ہوں،کہ لوگ میدانِ حشر میں میرے پیچھے ہوں گے۔میںالعاقب ہوں (ترمذی میں اس کی تشریح آپؐ نے یوں فرمائی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا)۔ (بخاری باب المناقب)

آپؐ کی عظمتِ شان جس طرح پہلی حدیث سے ظاہر ہورہی ہے کہ آپؐ  کے سینۂ اطہرکو ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا، اسی طرح آپؐ  کے اسماے مبارکہ،آپؐ کی اس شان کی وسعت اور کمال کو واضح کر رہے ہیں۔’محمد‘اسے کہا جاتا ہے جس کی کثرت سے تعریف کی جائے اور تعریف کا سلسلہ جاری وساری رہے اور یہ تعریف ہمہ گیر بھی ہو۔نبیؐ کی تعریفیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کر دی ہیں جو تاابدپڑھاجاتا رہے گااور اس وقت بھی دنیا کے کونے کونے میں پڑھا جا رہا ہے۔ سورئہ ضحی،سورئہ کوثر،سورئہ الم نشرح،سورئہ احزاب،سورئہ فتح،سورئہ نصر اور قرآن پاک میں جگہ جگہ  اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی شان بیان فرمائی ہے۔

آپؐ کا ایک اسم مبارک’الماحی‘یعنی مٹانے والا ہے کہ آپ کے ذریعے کفر مٹ جائے گا۔ساری روے زمین کے انسان کفر کو ترک کردیںگے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ یہ کام تلوار کے ذریعے نہ ہوگا، پہلے بھی لوگ قرآن پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے    دائرۂ اسلام میںداخل ہوئے ہیں، اور آیندہ بھی قرآن پاک کے ذریعے حق کی راہ پائیں گے۔

یہ شان اور عظمت والی ہستی مخالفوں کا ہدف ہے۔ کتنے ہی کارٹون اور فلم بنالیں وہ مسلمانوں کے دل سے اس ہستی کی عظمت کا نقش نہیں مٹا سکتے، بلکہ اگر تعصب کی عینک ہٹا دیں تو خود اس کے نام لیوا بن جائیں گے۔ برطانوی وزیرداخلہ کا اعتراف کہ ۵۰ ہزار افراد ہر سال برطانیہ میں مسلمان ہو رہے ہیں (روزنامہ ایکسپریس، ۲۲ مئی ۲۰۰۸ئ) اس کا ثبوت ہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا‘ دیکھا کہ آپؐ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! میں آپؐ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھ رہا ہوں‘ کیا آپؐ کسی تکلیف میں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا:بھوک کے سبب کمزوری ہے۔ یہ سن کر میں رو پڑا۔ آپؐ  نے فرمایا: ابوہریرہ! مت رو!قیامت کے روز حساب کی سختی بھوکے کو نہیں پہنچے گی‘ جب کہ دنیا میں اس پر ثواب کی طلب کی ہو۔ (کنز العمال)

کیسا رقت آمیز منظر ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا پُرکشش اطمینان و سکون ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ ۷ہجری میں مسلمان ہوئے‘ جب کہ خیبر فتح ہوگیا تھا اور خیبر کے نصف حصے کی پیداوار بیت المال میں آتی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آمدن کی کمی نہیں تھی‘ لیکن آپؐ اس آمدنی کو فقرا و مساکین اور مدینہ طیبہ تشریف لانے والے مسلمانوں پر پہلے خرچ کرتے تھے‘ اپنے اوپر بعد میں۔ اسی بنا پر   مال کی فراوانی کے باوجود بعض اوقات آپؐ بھوک کی وجہ سے نڈھال ہوجاتے تھے۔ آج مسلمانوں کے نظم و نسق کے ذمہ دار اربابِ حکومت مناسب منصوبہ بندی کریں، اور اہلِ دولت اگر رسولؐ اللہ کے اس اسوۂ حسنہ کے مطابق دولت کا استعمال کریں‘ ضرورت مندوں کو مقدم اور اپنے کو مؤخر رکھیں تو مسلمان معاشروں کے ہر شہری کو روٹی‘کپڑا‘ مکان‘ علاج اور تعلیم کی سہولتیں میسرآسکتی ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کو بھوک ‘پیاس اور غربت و افلاس کی سختی کا بہت بڑا صلہ آخرت میں ملے گا‘ حساب کتاب آسان ہوگا غلطیوں اور کوتاہیوں پر بازپرس نہ ہوگی، بلکہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ بھوک اور سختی سہنے کااتنا بڑا انعام ذہن میں ہو تو پھر غربت و افلاس، بے صبری اور ذہنی پریشانی کے بجاے اطمینان و سکون کا سامان ہوگی۔

’معیارِ زندگی‘ کا ان دنوں بہت ذکر ہوتا ہے، لیکن اس کا اسلامی تصور کیا ہے؟ یہ واضح ہونا چاہیے، اور پھر عمل بھی اس سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، اور حکومت کی پالیسیاں بھی اس کے مطابق بننا چاہییں۔

o

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں: ’’میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوار) تھا۔ آپؐ نے مجھے فرمایا: اے غلام (بچے)میں تجھے چند مفید باتیں سکھلاتا ہوں(تم انھیں اچھی طرح سیکھ لو)۔ اللہ کے احکام کی حفاظت کرو ،اللہ تعالیٰ تمھاری حفاظت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرو، تم اسے اپنے سامنے پاؤ گے(کوئی تمھارا نقصان نہ کرسکے گا)۔جب کچھ مانگو تو اللہ سے مانگو،جب مدد مانگو تواللہ سے مدد مانگو۔ اس بات کو جان لو کہ   تمام انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ تمھیں نفع دینے کے لیے جمع ہو جائیں، تو وہ تمھیں اسی قدر نفع دے سکیں گے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے( یعنی یہ نفع ان کا دیا ہوا نہیں ،اللہ کا دیا ہوا ہے)۔ اس بات کو جان لو کہ اگر انسانوں کا کوئی گروہ یا تمام انسان تمھیں نقصان پہچانے پر مجتمع ہوجائیں تو یہ تمھیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر اسی قدر جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے(یعنی یہ نقصان انھوں نے نہیں پہنچایا،بلکہ اللہ کی طرف سے پہنچاہے۔ فرما ن کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں سے نفع کی امید اور نقصان کے ڈر سے اللہ تعالیٰ کے دین اور احکامات کو نظرانداز   نہ کرو)۔قلمیں اٹھالی گئیں اور صحیفے خشک ہو گئے۔(ترمذی)

مسند احمد میں یہ اضافہ بھی ہے،آسودہ حالی میں اللہ سے تعلق پیدا کرو، مشکل حالت میں وہ تجھ سے تعلق رکھے گا۔جان لو اس بات کو،جو آفت تجھ سے ٹل گئی وہ تجھے پہنچنے والی نہ تھی،جو تجھے پہنچ گئی وہ تجھ سے ٹلنے والی نہ تھی ۔ جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ ہے اور بے چینی کے ساتھ اس کا چھٹ جانا (خاتمہ)ہے۔تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔(اربعین نووی)

حضرت عبد اللہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرماتھے،کہ میری والدہ نے مجھے یہ کہہ کر بلایا: ادھر آئو میں تمھیں چیز دیتی ہوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تم نے اسے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا،انھوں نے عرض کیا: کھجورکا دانہ۔نبیؐ نے فرمایا: سنو! اگر تم اسے کوئی چیزنہ دیتیں توتیرے کھاتے میں جھوٹ لکھا جاتا۔(ابوداؤد،احمد)

بچوں کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے اوربچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے۔اس عمر میں بچہ جو کچھ سیکھتا ہے، جس سے سیکھتا ہے،وہ ماں باپ ہیں۔ماں باپ سے اسے اسلامی عقیدہ،اسلامی اخلاق، اسلامی آداب، اسلامی احکام کا ایسا درس ملنا چاہیے جو اسے دین کے رنگ میں رنگ دے۔نبیؐ نے بچوں کی تربیت کے لیے بہترین نمونہ پیش کیا۔بچوں کو درس دیا کہ جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ اللہ کی کبریائی،اس کے احکام اور اس کے دین کی حفاظت ہے۔ساری دنیا مخالفت کرے تب بھی اس کے دین پر ڈٹ جاؤ۔ ساری دنیا مل کر تمھارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گی۔آسودہ حالی میں اللہ کو نہ بھول جاؤ،عافیت اور آسودگی تمھیں غفلت میں مبتلا نہ کردے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بچے تھے۔آپؓ نے اپنی بے پناہ مصروفیات میں انھیں نظرانداز نہیں کیا،بلکہ انھیں ایسی ہدایات دیں جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہیں۔حضرت عبداللہ بن عامرؓ کی والدہ کے ذریعے ماں باپ کو تعلیم دی کہ ’اولاد‘ کو جھوٹا لالچ نہ دو، اس سے   ان کی سیرت جھوٹ پر استوار ہوگی۔بچوں کی تربیت کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے یہ بطور نمونہ چند جھلکیاں ہیں۔

آج گھروں کو اسلامی اخلاق وآداب اور تہذیب و ثقافت میںرنگنے ،اہل خانہ اوربچوں ،بچیوں کو دینی تربیت دینے سے عموماً غفلت برتی جاتی ہے۔ توجہ صرف اس پر ہے کہ انھیں دنیا کمانے کے قابل بنادیا جائے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ گھر میں دین کی تعلیم وتربیت دی جائے۔ عقیدہ، اخلاق، آداب اور احکام پر مشتمل ایک ’نصاب‘ ہر گھر میں رائج ہو۔ نئی نسل میں کردار اور کیریر کے ساتھ اُمتِ مسلمہ کے منصب کے حوالے سے بھی فرائض کا شعور بیدار کیا جائے۔ جن گھرانوں میں اس کی کوشش کی جاتی ہے، معاشرے کا مجموعی ماحول بلکہ مخالفانہ رو ان کے کام کو بہت مشکل بنا دیتی ہے، اس لیے مجموعی ماحول کو درست کرنے کی منظم کوشش بھی ہر مسلمان مرد وعورت کی بنیادی    ذمہ داری ہے۔

حضرت علی بن ربیعۃ سے روایت ہے، فرماتے ہیں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موجود تھا، وہ اپنی سواری پر سوار ہونے کے لیے تشریف لائے، جب رکاب میں پائوں رکھا تو   بسم اللہ پڑھی، جب پشت پر بیٹھ گئے تو الحمدللہ کہا، پھر یہ دعا پڑھی: سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ o وَاِِنَّـآ اِِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنo (الزخرف۴۳: ۱۳-۱۴) پھر تین مرتبہ الحمدللہ کہا، پھر تین مرتبہ اللہ اکبر کہا، پھر یہ دعا پڑھی: سبحانک اللھم، انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت،’’اے اللہ! تو تمام عیبوں سے پاک ہے، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، پس میری مغفرت فرما دے، گناہوں کو تیرے سوا کوئی بھی معاف نہیں کرسکتا‘‘۔ پھر حضرت علیؓہنس پڑے۔عرض کیا گیا: امیرالمومنین، آپ کس چیز پر ہنس پڑے؟ انھوں نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا جس طرح میں نے کیا۔ پھر آپؐ ہنس پڑے تھے، تو میں نے عرض کیا تھا: یارسولؐ اللہ! آپ کس چیز پر ہنس پڑے تو آپؐ نے فرمایا: آپ کے  رب اپنے بندے پر تعجب فرماتے ہیں جب وہ کہتا ہے ’’میرے گناہوں کو بخش دیجیے‘‘۔ بندہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے سوا کوئی نہیں بخشتا۔(بندے کی توبہ اور اللہ تعالیٰ کی بخشش پر خوش ہوکر میں ہنسا)۔ (ابوداؤد، ترمذی)

تعجب معمولی چیز پر نہیں بلکہ بہت بڑی اور عجیب وغریب چیز پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی چیز پر تعجب کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ چیز بڑی عظمت رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پیاری ہے۔    اللہ تعالیٰ اس پر بہت راضی اور خوش ہیں۔ بندے کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے، وہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی اطاعت فرض ہے،اس کی خلاف ورزی گناہ ہے، اس پر وہ سزا کا مستحق ہے، اسے اپنے گناہوں کا احساس ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگے، اس عقیدے کے ساتھ کہ وہی گناہوں کو بخش سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں اس لیے کہ گناہ کرنا اس کی حق تلفی ہے اور اپنی حق تلفی کو وہی معاف کرسکتا ہے۔ یہ سوچ اور یہ نظریہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدرومنزلت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے بندے سے راضی ہوتے ہیں اور گناہوں کو معاف کردیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ آپ کی امت اور اس کے افراد اپنے رب کی معرفت رکھتے ہیں، اس سے دعائیں کرتے ہیں، آپ خوش ہوئے کہ آپ اپنی اُمت کے ہر ہر فرد کے لیے رحیم و شفیق ہیں اور آپ کے لیے خوشی کی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر استغفار اور توبہ کرنے والے کے گناہ کو معاف کردیتے اور اس کی توبہ قبول کرلیتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت پر کس قدر مہربان ہیں، آپ اپنی اُمت سے کیا چاہتے ہیں؟ یہی کہ اُمت اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کرے، اس کے حکموں کو بجا لائے اور کوئی گناہ ہوجائے تو اس کا ازالہ گناہ پر ندامت، گناہ سے استغفار اور آیندہ گناہ سے باز آجانے کا عزم کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اسی میں ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص جو جنگل و بیابان میںایک درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لیے سو گیا، اُٹھا تو دیکھا کہ اُونٹنی سازوسامان کے ساتھ غائب ہے، دُور دُور تک اس کا نام و نشان نہیں، مایوس ہوکر لیٹ جاتا ہے اور موت کے لیے تیار ہوجاتا ہے، دوبارہ اٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اُونٹنی سازوسامان کے ساتھ موجود ہے، یہ شخص اس قدر خوش ہے کہ خوشی میں اللہ کو پکارتا ہے لیکن الفاظ جو منہ سے نکلتے ہیں، ان میں بہک جاتا ہے، اس آدمی کو جس قدر خوشی ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔

آج ہماری آزادی اور خودمختاری ختم ہوگئی، جسمانی اور روحانی طور پر ہمیں قتل کیا جا رہا ہے۔ معیشت تنگ ہوگئی ہے، لوگ بھوک و افلاس سے تنگ آکر بے چینی اور پریشانی کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور اسلامی اقدار و شعائر کی تحقیر کی جارہی ہے۔ یہ سب ہماری سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آج اللہ تعالی کی رضا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اسی بات میں ہے کہ ہم اپنی ان پالیسیوں پر نادم ہوجائیں، ان پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں اور آیندہ کے لیے انھیں ترک کر دینے کا مستقل طور پر عزم کریں۔ ہے کوئی جو آج اللہ تعالیٰ کو راضی اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کردے، توبہ کرے اور حکمرانوں کو توبہ پر متوجہ اور مجبور کردے۔ یہی وہ راستہ ہے جس میں ہمارے تمام مصائب و مشکلات کا حل ہے۔

۲- صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کی پوری طرح اور ہوبہو نقل کرتے تھے، آپؐ کی عبادات، معاشرت، معیشت، سیاسیت، حکومت، عدالت اور ہر نشست و برخاست اور ہر ادا کو یاد کرتے اور   اسی طرح سے اسے اپنانے کی کوشش کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کا عملی نمونہ تھے اور صحابہ کرامؓ اور آپ کی سیرت و اسوۂ حسنہ کا عکس تھے، آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعواے محبت تو ہے لیکن زندگی کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں آپؐ کی اتباع نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرہ یاد نہیں آتا، اس کے بجاے ہم مغرب کی نقالی کر رہے ہیں جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: تم اپنے سے پہلوں کے طریقوں پر اس طرح برابر ہوکر چلو گے جس طرح ایک جونہ دوسرے جونے کے ساتھ برابر ہوتا، یہاں تک کہ اگر ان میں سے ایک گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا تو تم بھی اس میں داخل ہوگے۔ آپؐ سے پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ یہود و نصاری کے سوا اور کون ہوسکتا ہے؟ آج ہماری پارٹیاں، ہماری اسمبلیاں اور ہمارے گھر اور شہر سب مغربی زندگی کا عکس بن چکے ہیں۔ کاش ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور کو اپنے لیے ماڈل اور آئیڈیل بنا لیں۔ صحابہ کرامؓ حضرت علی ؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ادائوں کو اپنی ادائیں بنا لیں۔

o

حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک آدمی کا گزر ہوا۔ صحابہؓ رسولؐ نے اس کی ڈیل ڈول، قوت اور چستی اور مستعدی کو دیکھ کر کہا: یارسولؐ اللہ! کاش یہ جہاد فی سبیل اللہ میں استعمال ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لیے نکلے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہے۔ اگر اپنے بوڑھے، ماں باپ کی خدمت کے لیے دوڑ دھوپ کرے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہے، اگر اپنے نفس کی خاطر دوڑدھوپ کرے کہ اسے سوال اور گناہ سے بچائے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہے اور اگر دکھاوے اور دوسروں پر بڑائی جتانے کے لیے جہاد میں نکلا تو یہ شیطان کی راہ میں نکلنا ہے۔ (طبرانی)

انسان دنیا میں ایک مقررہ وقت کے لیے آیا ہے۔ اس نے دنیا میں رہنا ہے اور زندگی گزارنا ہے،   اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا ہے اور اس کے دین کی سربلندی لیے جہاد بھی کرنا ہے۔ رزق حلال کے لیے دوڑدھوپ کرنا، اپنی ضروریات،اپنے اہل و عیال، والدین اور قرابت داروں کے نان و نفقہ اور رہایش اور بنیادی ضروریات کے لیے شرعی حدود، حلال و حرام، جائز و ناجائز کا خیال رکھتے ہوئے جدوجہد کرنا اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ ہے جس طرح دین کی سربلندی اور ادیانِ باطلہ کو مغلوب کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت،قلم و قرطاس اور تیروتلوار سے کام لینا جہاد فی سبیل اللہ ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر اور فرض ہے جس طرح جہاد فی سبیل اللہ فرض ہے، اور فرض کو    ادا کرنا جہاد ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ہی عبادت اور جہاد نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں    ذمہ داریاں ادا کرنا عبادت اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ جب آدمی کھیت، دکان اور کرسیِ صدارت، وزارت، عدالت پر بیٹھ کر اس تصور سے کام کرے گا کہ میں عبادت کر رہا ہوں تو وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، کسی کا حق نہیں مارے گا، کسی کے حق کی ادایگی میں سُستی نہیں کرے گا، رشوت نہیں لے گا، غبن اور خیانت نہیں کرے گا۔ اللہ کے احکام اور قوانین کو مدنظر رکھے گا، پارلیمنٹ کا ممبر قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی جسارت نہیں کرے گا۔ قرآن و سنت کو سپریم لا جانے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاشرہ قائم فرمایا، خلافت راشدہ میں جو معاشرہ ہمیں نظر آتا ہے وہ اسی تصور اور نظریے کا نتیجہ ہے۔ ایثار کا معاشرہ، خود بھوکا رہ جانا مہمان بھوکا نہ رہے، خود پیاسا رہ جانا لیکن ساتھی اور پڑوسی پیاسا نہ رہے ایسے معاشرے میں لوٹ کھسوٹ نہیں ہوتی۔ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ قصرِصدارت اور قصرِوزارت اور وزرا اور افسران کروڑوں اور لاکھوں میں کھیلیں، اسراف و تبذیر کا نمونہ ہوں اور دوسری طرف لوگ بھوکے اور ننگے فقروفاقہ اور بھوک اور ننگ کی زندگی بسر کریں۔ کاش عبادت کا یہ تصور ہماری زندگی کی گاڑی کا انجن ہوجائے۔ اسی کے نتیجے میں برائیاں مٹیں گی اور بھلائیاں فروغ پائیں گی۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ایک آدمی کا گزر درخت کی ایک شاخ کے پاس سے ہوا جو راستے کے بیچ میں پہنچی ہوئی تھی، اس نے دل میں کہا: میں اس شاخ کو مسلمانوں کے راستے سے دُور کروں گا تاکہ انھیں تکلیف نہ دے، اس کے عوض اسے جنت میںداخل دے دیا گیا۔ (مسلم، کتاب البروالصلۃ)

آج دنیا میں اُمت مسلمہ کو طرح طرح سے ایذائیں دی جارہی ہیں۔ ان کا دین، جان و مال اور عزت و آبرو بے دریغ طور پر پامال کیے جارہے ہیں۔ ان کے ممالک پر قبضے کر کے ان کا قتلِ عام کیا جارہا ہے۔ یہ اس ایذا سے کہیں زیادہ ہے جو راستے کے بیچ میں ایک شاخ مسلمانوں کواذیت دے رہی تھی۔ جو لوگ مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے تدبیریں اور منصوبہ بندیاں کریں گے، اس کے لیے جدوجہد کریں گے،وہ اس شخص سے بدرجہا زیادہ ثواب کے مستحق ہیں جس نے راستے کے بیچ میں سے درخت کی شاخ کاٹ کر راستہ صاف کر دیا تھا۔ جس طرح ایذا سے بچانے والے جنت کے مستحق ہیں، اسی طرح ایذا دینے والے دوزخ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًاo (احزاب۳۳:۵۸) ’’وہ لوگ جو مومن مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے ایذا دیتے ہیں تو  انھوں نے بہتان باندھا اور ایسا گناہ کیا جو واضح ہے‘‘۔ جھوٹا الزام لگاکر ذہنی اور جسمانی ایذا دے کر  جسم کو ناکرہ بنا دینا یا قتل کر دینا یا روحانی اذیت دینا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، اسلامی اقدار و شعائر قرآن، سنت رسولؐ، مساجد، اہلِ ایمان کی توہین و تحقیر کرنا، دنیا میں وبال اور آخرت میں دوزخ کی آگ کا موجب ہیں۔

o

حضرت عائشہ سے روایت ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کر رہے ہیں: ’’اے اللہ! میں ایک بشر ہوں، اس لیے مجھے کسی مومن کو تکلیف دینے یا برا بھلا کہنے کی بنا پر سزا نہ دینا۔ (الادب المفرد للبخاری)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحابیؓ کو گلہ شکوہ نہ تھا، نہ آپؐ سے تکلیف پہنچی۔ وہ تو آپؐ کے عاشق صادق تھے، آپؐ کی ہر بات اور ہرادا پر فریفتہ تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کے فرمان اور گواہی کے مطابق ’عظیم اخلاق‘ کے مالک تھے۔ آپؐ اپنے صحابہ کے لیے نرم اور رحیم و شفیق تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’(اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگرکہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کردو، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹)

یقینا آگیا تمھارے پاس ایک رسول تم میں سے، اس پر گراںگزرتی ہے تمھاری تکلیف، وہ تمھارے نفع کے حریص ہیں اور مومنین کے لیے شفیق اور رحیم ہیں۔ (التوبہ۹:۱۴۸)

یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے صحابہ کرامؓ سے محبت و شفقت کی نشانی ہے اور ان کے حقوق کا اتنا خیال ہے کہ معصوم ہونے کے باوجود آپؐ نے یہ دعا کی، اس میں ہمارے لیے سبق ہے کہ اہلِ ایمان کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے پوری طرح پرہیز کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے نمونہ بنائیں خصوصاً بیوی، بچوں، عزیز و اقارب اور ملے جلنے والے دوستوں کے آرام و راحت کا پوری طرح خیال رکھیں، ان کے لیے رحیم و شفیق بنیں اور کوئی کمزوری سرزد ہوجائے تو معاف کردیں اور معاف کرانے کا موقع نہ مل سکے تو ان کے لیے جن کو تکلیف دی ہو، دعائیں کریں، تاکہ دعائیں اس تکلیف کا عوض   بن جائیں۔ دنیاوی قصاص اور معانی آخرت کی سزا کے مقابلے میں آسان ہے۔

o

حضرت عصمۃؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب عمل سُبْحَۃُ الْحَدِیْثِ ہے، اور سب سے ناپسندیدہ عمل ہے ’تحریف‘۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! سُبْحَۃُ الْحَدِیْثِ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: لوگ باتیں کر رہے ہوں اور آدمی تسبیح کررہا ہو۔ ہم نے عرض کیا: تحریف کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: لوگ اچھی حالت میں ہوں، پھر پڑوسی اور دوست کوئی چیز مانگے تو جواب میں کہیں ہم بری حالت میں ہیں۔ (الترغیب والترھیب)

سُبْحَۃُ الْحَدِیْثِ کا معنی ہے: باتوں کے وقت تسبیح اور تحریف کا معنی ہے ’تبدیل کرنا‘۔ بازاروں اور غفلت کی جگہوں میں لوگ گپ شپ لگاتے ہیں ایسے میں ایک آدمی اللہ کو یاد رکھے، دل اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرے تو یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔ جب آدمی فارغ ہو، کوئی مصروفیت نہ ہو تو زبان کو اللہ کے ذکر میں استعمال کرسکتا ہے، اُونچی آواز سے نہیں بلکہ رازداری سے ذکر کرے، لوگ آپس میں غیرضروری یا ضروری باتیں کرتے ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’لو‘ لگائے، اس سے باتیں کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان تھی کہ آپ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے، اہلِ ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرنا چاہیے، یہ تو ذکرِ قلبی اور ذکرِ لسانی ہے، لیکن یہ اس وقت معتبر ہوگا کہ انسان عملاً اللہ تعالیٰ کا مطیع فرمان ہو، نافرمانی کرتے ہوئے، ذکر کرنا تو اللہ کا ذکر نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ ’استہزا‘ ہے۔    دکان دارسودا فروخت کرتے وقت دھوکا نہ دے، غلط بیانی سے کام لے، جج فیصلہ دیتے وقت قرآن وسنت کے خلاف فیصلہ دے، حکمران اللہ تعالیٰ کے حکموں کو پامال کرے اور ہاتھ میں تسبیح بھی رکھے اور اس پر سبحان اللہ اور الحمدللہ کا ورد کردے تو یہ ورد اس کے منہ پر دے مارا جائے گا۔ آج کل اس طرح کا ذکر عام ہے۔ لوگوں نے اسے ایک مشغلہ تو بنایا ہے لیکن اس کے تقاضوں کو نظرانداز کیے ہوتے ہیں۔ یہ صورت غفلت سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کون سا شخص آپؐ کی شفاعت کی زیادہ سعادت حاصل کرے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ابوہریرہ! میرا گمان تھا کہ یہ بات مجھ سے کوئی آدمی تجھ سے پہلے نہیں پوچھے گا، اس لیے کہ مجھے پتا ہے کہ تجھے میری احادیث کو حاصل کرنے کا حرص ہے، تمام لوگوں سے زیادہ سعادت مند میری شفاعت کا وہ شص ہے جس نے دل کے اخلاص سے لا الٰہ الا اللہ کہا ہو۔ طبرانی میں زید بن اسلح سے مرفوع روایت ہے کہ آپؐ سے پوچھا کیا: لا الٰہ الا اللہ اخلاص سے کہنے کا کیا معنی ہے تو آپؐ نے فرمایا: لا الٰہ الا اللہ اسے حرام کاموں سے روک دے۔ (الترغیب والترہیب)

مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ دکھاوے کے اس ذکر کے بارے میں فرماتے ہیں:

برزنا تسبیح و در دل گاؤ و خر

ایں حیئیس تسبیح کے دار و اثر

زبان پر تسبیح اور دل میں گائے اور گدھے کی فکر ہو، اس طرح کی تسبیح کب اثر رکھتی ہے۔

ترجمان القرآن کے ایک قاری نے میری تحریر ’ووٹ کی شرعی حیثیت‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) کے حوالے سے درج ذیل وضاحت طلب نکات اُٹھائے ہیں:

۱-  سقیفہ بنی ساعدہ میں کچھ اصحاب الراے نے بحث و مباحثے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کرلی اور اگلے دن مسجد نبویؐ میںمہاجرین و انصار نے متفقہ طور پر بیعت کرکے اس کی توثیق کردی۔ اس پر یہ دعویٰ کرنا کہ ’’یہ بیعت بلاشبہہ آج کی اصطلاح میں انتخابی راے اور ووٹ کی حیثیت رکھتی تھی‘‘ درست نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا باشندگانِ ملک میں ایک ایک فرد کو ووٹ دینے اور کثرتِ راے سے باصلاحیت، خداترس اور دینی فہم و بصیرت رکھنے والوں کے انتخاب کا حق حاصل ہے، اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟ کچھ اصحاب الراے اور اعلیٰ درجے کی صلاحیت رکھنے والوں کا حضرت ابوبکرؓ کے دستِ مبارک سے بیعت کرلینا اور مقامی انصار و مہاجرین کی طرف سے اس کی توثیق اور شے ہے اور مملکت کے تمام باشندوں کو راے دہی کا حق دے کر ان کے ذریعے معاشرے کے بہترین افراد کا انتخاب کرانا بالکل دوسری شے۔

۲- یہ کہنا کہ ’’پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں بلکہ اسلامی جمہوریت ہے‘‘ آئین میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اپنی جگہ عملاً یحییٰ خان اور پرویز مشرف جیسے حکمران ہی مسنداقتدار پر چلے آرہے ہیں۔

۳- قراردادمقاصد [مارچ ۱۹۴۹ئ] کی منظوری یقینا ایک عظیم کارنامہ ہے لیکن یہ غیرمؤثر ہے۔

۴- اسی جمہوریت کے تحت بعض اوقات ہمیں کمیونزم اور سیکولرزم کے علَم برداروں کو  ووٹ دینے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اس کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے؟


بعض امور کا اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ فرما دیا ہے۔ ان میں کسی دوسری راے کا اعتبار نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ امور اجتہادی نہیں ہوتے، ان کا فیصلہ عوام و خواص نہیں کرسکتے۔ ہمارا کام اللہ کے اس فیصلے کو سمجھنا اور پھر عمل درآمد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو حق دیا ہے تو ہم اسے ساقط نہیں کرسکتے۔ میری تحریر ’ووٹ کی شرعی حیثیت‘ کو پڑھنے کے بعد بعض وضاحت طلب امور اس لیے سامنے آئے کہ دین کے بعض بنیادی امور کو پیشِنظر نہیں رکھا گیا۔

اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ نبی اور رسولؐ، اللہ کا نامزد کردہ حکمران ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط (النسائ۴:۶۴) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔

اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کو زندگی کے تمام شعبوں: عقائد، عبادات، معاشرت، معیشت، تمدن، سیاست میں مطاع بناکر بھیجا گیا ہے۔ قرآن وسنت میں زندگی کے تمام شعبوں کے لیے احکام دیے گئے ہیں۔ ان شعبوں میںسے کسی ایک شعبے اور حکم کا انکار کفر ہے۔ جب کسی بات کا انکار کفر ہے تو اس کا معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کامل مطاع ہیں اور آپؐ کے دیے ہوئے نظام کے ہر کلیے اور ہر جزئیے کو قبول کرنا لازم ہے۔ دین کے کسی بھی  ثابت شدہ حکم کو ایمان و اطاعت سے مستثنیٰ کردیا جائے تو اس سے استثنا کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔ پس ہر وہ اطاعت جو آپؐ کی اطاعت سے ٹکرائے، اور ہر وہ حکم جو آپؐ  کے حکم سے ٹکرائے اسے   رد کردینا ایمان کا تقاضا ہے۔ نبی انسانوں کا انتخاب نہیں، اس کے لیے ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ     وہ اللہ تعالیٰ کا منتخب اور نامزد کردہ ہوتا ہے۔یہ بات دین میں قطعیت سے ثابت ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ کی طرف سے نامزد اور منتخب حکمران اُمتِ مسلمہ ہے۔ گو دنیا میں کفار و مشرکین، یہود و ہنود نے اپنی حکومتیںقائم کی ہوئی ہیں، لیکن  قرآن و سنت اور شریعت کی رو سے حکمرانی ان کا حق نہیں، بلکہ اُمت مسلمہ کا حق ہے۔ اُمت مسلمہ کی حکمرانی اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے۔ اس لیے اُمت کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے بھی مختلف قوموں اور اُمتوں سے ووٹ اور راے لینے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ بھی قرآن وسنت سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے اور اس پر اُمت کا اجماع ہے۔ یہ بھی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کے اس حق حکمرانی میں، اس کے تمام افراد شامل ہیں۔ اس حق سے کسی کو محروم کرنا دراصل حق دار کو اس کے حق سے محروم کر کے اس پر ظلم و زیادتی کرنا ہے۔ نبی کریمؐ نے اس کی پیشن گوئی بھی فرمائی کہ پہلا دور نبوت کا ہے، دوسرا دور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا، تیسرا دور ملوکیت کا، پھر چیرپھاڑ کرنے والی بادشاہت کا، پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور ہوگا۔ خلافت اور ملوکیت میں فرق یہ ہے کہ خلافت میں انتخاب ہوتا ہے، جب کہ ملوکیت میں باپ کے بعد بیٹا حکمران ہوتا ہے۔ (دیکھیے خلافت و ملوکیت، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیعؒ، تفسیر آیت وامرھم شوریٰ بینھم)

اُمت مسلمہ کے گناہ گار، نیک اور نیکی میں سبقت کرنے والے تمام طبقات اور تمام افراد  حق حکمرانی رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی قرآن و سنت میں قطعیت سے ثابت ہے۔ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ج فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ج وَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ جوَ مِنْھُمْ سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ بِـاِذْنِ اللّٰہِط(فاطر۳۵:۳۲) پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنایا اپنے ان بندوں کو جن کو ہم نے چن لیا۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں، یعنی گناہ گار ہیں (اس کتاب اور دین کے منکر نہیں لیکن اس پر پوری طرح عمل نہ کر کے اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں)، دوسرے  وہ ہیں جو اس پر عمل کرنے میں میانہ رو ہیں، تیسرے وہ ہیں جو اس کتاب پر عمل کرنے میں اللہ کے اذن سے آگے آگے ہیں۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُـؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط(اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

یہ تمام آیات اُمت مسلمہ کے حق حکمرانی کو ثابت کررہی ہیں۔ جب اُمت مسلمہ اور اس کے ہر فرد کے لیے حق حکمرانی ثابت ہے تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُمت پر فرض ہے کہ اپنی حکومت تشکیل دے۔ ہمارے فقہا نے قرآن و سنت سے یہی سمجھا ہے درمختار میں ہے: ونصبہ من اھم الواجبات ولذ اقدم علی دفن صاحب المعجزات ’’اُمت کی طرف سے خلیفہ اور امام کا تقرر اہم فریضوں میں سے ایک اہم فرض ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین پر اسے مقدم رکھا گیا‘‘۔

اُمت مسلمہ اپنی حکومت کی تشکیل کے لیے کیا طریقۂ کار اختیار کرے گی؟ اس کا عقل اور شریعت دونوں یہ جواب دیتے ہیں کہ اس کے تمام افراد باہمی مشورے سے اپنی حکومت تشکیل دیں گے۔ ہر فرد اپنا حقِحکمرانی شریعت کی رو سے حکمرانی کی اہلیت رکھنے والے شخص کو سپرد کرے گا۔   یہ طریقۂ کار ووٹ کہلاتا ہے۔ ووٹ کی ایک حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹر جسے ووٹ دیتا ہے اسے اپنا وکیل اور نمایندہ بناتا ہے۔ ووٹ کی ایک حیثیت شہادت کی ہے۔ ووٹر گواہی دیتا ہے کہ جس کو میں نے ووٹ دیا ہے، وہ شرعاً نمایندگی اور حکمرانی کا حق رکھتا ہے، اور ووٹ کی تیسری حیثیت سفارش کی ہے کہ جسے ووٹ دیا جائے اسے حکمران بنایا جائے۔ مفتی محمد شفیعؒ نے فرمایا ہے کہ   ’’نبیؐ کے بعد خلیفہ کا تقرر انتخاب ملت سے ہوگا‘‘ اور ووٹ کی مذکورہ تین حیثیتوں پر انھوں نے فتویٰ دیا۔ (معارف القرآن، آیت خلافت ، البقرہ ۲:۳۰)

اسی اصول کو پیش نظر رکھ کر نمایندوں کی تعداد مقرر کر دی جاتی ہے اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ اتنے نمایندے منتخب کردیں۔ (یہ امر اجتہادی ہے اسی میں کمی بیشی ہوسکتی ہے) پھر نمایندے میدان میں آجاتے ہیں۔ ان میں سے مطلوبہ تعداد کو عوام منتخب کرتے ہیں۔ اسمبلیاں وجود میں آجاتی ہیں، اسمبلیاں وفاقی اور صوبائی اور ضلعی حکومتیں منتخب کرتی ہیں۔ عقل بھی اسی طریقۂ کار کا تقاضا کرتی ہے اور شریعت کا بھی یہی حکم ہے۔ سورۂ شوریٰ میں ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشوریٰ ۴۲:۳۸)، اور ان کی حکومت ان کے باہمی مشورے سے بنتی ہے۔ اس دور میں باہمی مشورے کی ایک شکل ووٹ ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں مہاجرین و انصار کی قیادت مسلمہ قیادت تھی۔ عوام ان کے فیصلے کو قبول کرتے تھے، اس پر راضی ہوتے تھے اور ان فیصلوں کی توثیق کرتے تھے۔ بیعت عامہ کے ذریعے اعتماد کا ووٹ دیتے تھے لیکن اب عوام براہِ راست ووٹ کے حق کے بغیر راضی نہیں ہوتے۔ آپ کے نزدیک اگر یہ طریق کار صحیح نہیں ہے تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری بیان کردہ تین مسلّمہ باتوں میں سے کسی ایک مسلّمہ بات سے انکار کردیں، لیکن یہ تینوں باتیں قرآن و سنت اور اجماع اُمت سے ثابت ہیں۔ ان کا آپ انکار نہیں کرسکتے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت مسلمہ کے تمام افراد کے بجاے کسی طبقے کو حکومت کی تشکیل کے لیے نامزد کردیا گیا تھاتو اس کی نشان دہی کی جائے کہ وہ کون سا ہے؟

جب یہ تمام اصول قرآن و سنت سے ثابت ہیں، فقہاے اسلام نے ان پر فتویٰ دے دیاہے تو آپ کا یہ سوال خود بخود ختم ہوجاتا ہے کہ کیا باشندگانِ ملک میں ایک ایک فرد کو ووٹ دینے اور کثرت راے سے باصلاحیت، خداترس اور دینی فہم و بصیرت رکھنے والوں کو منتخب کرنے کا حق حاصل ہے اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟ جہاں تک سقیفہ بنی ساعدہ کی اس بیعت کا تعلق ہے جس میں مقامی انصار و مہاجرین نے توثیق کر دی اور ملک بھر کے اہلِ ایمان اس پر راضی ہوگئے تو یہ ایک طرح سے ووٹ ہی ہے کیونکہ ووٹ کا معنی اپنی رضامندی دینا ہے۔ اس فیصلے کی توثیق کر کے تمام مہاجرین اور انصار نے اپنی رضامندی دے دی تو یہ اس وقت ووٹنگ کی ایک شکل تھی۔ اس لیے قریب اور دُور دراز سے آنے والوں نے بیعت کر کے اپنی رضامندی ظاہر کردی۔ حضرت علی ؓ نے جب تک بیعت نہ کی اور اپنی رضامندی ظاہر نہ کی تو اس وقت تک یہی سمجھا گیا کہ وہ راضی نہیں، لیکن حضرت علیؓ نے ناراضی کی وجہ یہ بیان کی کہ انھیں شوریٰ میں شریکِ نہیں کیا گیا تو انھیں یہ کہہ کر مطمئن کیا گیا کہ ہنگامی حالت کی وجہ سے انھیں شریک مشورہ نہیں کیا جاسکا۔ جب وہ مطمئن ہوگئے تو انھوں نے بھی بیعت کرلی۔ اس بیعت کو تمام مسلمانوں کی طرف سے رضامندی ملنا، تاریخی حقیقت ہے اور نبی کریمؐ کی پیشن گوئی بھی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں چاہت کے باوجود حضرت ابوبکرؓ کو اس لیے نامزد نہیں کرتا کہ اللہ کی تقدیر بھی ابوبکرؓ کے حق میں ہے اور اہلِ ایمان بھی ابوبکرؓ ہی کو منتخب کریں گے۔ یَابَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُوْن اِلَّا اَبَابَکْرٍ ’’اللہ اور ایمان والے ابوبکر کے سوا کسی کی خلافت کا انکار کردیں گے‘‘۔ یہاں والمؤمنون کی صراحت ہے جس کا مصداق جملہ اہلِ ایمان تھے۔ آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انتخاب کی کوئی مخصوص شکل مطلوب نہیں۔ اصل مطلوب اہلِ ایمان کا مشورہ اور تمام اہلِ ایمان کی رضامندی ہے اور وہ کسی بھی طریقے سے حاصل ہوسکتی ہو، اور حاصل کی جانی چاہیے۔

خلافت راشدہ میں اہلِ ایمان کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے مختلف شکلیںاختیار کی گئیں۔ اُس وقت جو طریقۂ کار اختیار کیاگیا ہے اسے اس وقت اُمت نے قبول کرلیا تھا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ مہاجرین و انصار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلامی حکومت قائم کرنے اور چلانے میں تابع کی حیثیت سے شریک تھے۔ نبی کریمؐ اور قرآن نے یہ قیادت تیار کی تھی۔ یہ قیادت جو فیصلہ کرتی تھی اسے مسلمان اپنا مینڈیٹ دے دیتے تھے۔ آج جو ووٹ کی شکل رائج ہے اس کا بھی گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو وہ بھی سقیفہ بنی ساعدہ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ سقیفہ بنی ساعدہ نے حضرت ابوبکرؓ کو منتخب کیا تھا، پھر مسلمانوں نے بیعت کر کے اس کی توثیق کردی۔ آج کل پارٹیاں کسی کو نامزد کرتی ہیں تو عوام پارٹی کے نمایندے کو ووٹ دے کر اس پارٹی کے فیصلے کی توثیق کرتے ہیں۔ یورپ میں تو ملوکیت تھی، ان میں جمہوریت کا تصور اسلام سے آیا۔ ووٹ کا طریقہ یورپ نے ملوکیت کو ختم کر کے شروع کیا۔

رہی یہ بات کہ آج تک ایک فرد اور ایک ووٹ کے ذریعے ایسے لوگ آگے نہیں آئے جو اسلامی حکومت چلانے کے اہل ہوں، قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان کی رو سے نیک اور صالح لوگوں کو منتخب کرنے کا جو راستہ دکھلایا گیا، اسے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تو اس میں راستے کا قصور نہیں بلکہ عوام کی تربیت کرنے، عوام کو دعوت دینے اور انھیں برے بھلے کی تمیز سکھانے والوں کا ہے۔ اس کا علاج یہ نہیں کہ اس راستے کے خلاف، جو ایک محفوظ اور درست راستہ ہے، شور مچایا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو وسیع پیمانے پر تعلیم دی جائے اور باشعور بنایا جائے۔ عوام کا باشعور ہونا کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیادی ضرورت اور ناگزیر تقاضا ہے۔ نظامِ تعلیم، ذرائع ابلاغ، غرض راے عامہ کی ہمواری کے جتنے بھی ممکنہ ذرائع ہوں ، ان کو اس کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ یقینا باشعور عوام ہی ایک بہتر فیصلہ کرپائیں گے۔ عوام کو ان کا فرض بھی یاد دلایا جائے، اور  ان کو بتایا جائے کہ اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا کرو گے تو دنیا میں اس کا پھل اسلامی حکومت کی شکل میں اور آخرت میں جنت کی شکل میں ملے گا۔ اگر صحیح لوگوں کو منتخب نہ کرو گے تو دنیا اور آخرت دونوں میںرسوائی ہوگی۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان کے طور پر لوگوں کو آزادی اور اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی حکومت قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ خود بخود اسلامی حکومت اس لیے قائم نہیں کرتے کہ لوگوں کو اجروثواب اور جزا و سزا ملے۔ اگر لوگ اسلامی حکومت نہیں چاہتے اور قائم نہیں کرتے تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماریں، یا مسلح جہاد کے ذریعے تبدیلی لائیں، یا کسی فوجی جرنیل کے ہاتھ پر بیعت کریں، یا جبراًشریعت کا نفاذ کریں۔ یہ اسلام کی منشا کے خلاف ہے۔

شریعت کو نظرانداز کرکے جن لوگوں نے ووٹ دیا، انھوں نے صحیح فیصلہ نہیں کیا۔ ان کا فیصلہ معتبر ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ شریعت کو نظرانداز کر کے ووٹ دیں گے،    وہ گناہ گار ہوں گے، ان کا فیصلہ شریعت کی رو سے معتبر نہیں ہے۔ قرارداد مقاصد نے ان کو ووٹ کا غیرمشروط حق نہیں دیا، بلکہ اسے قرآن و سنت کی حدود کا پابند بنایا ہے۔ ہم پبلک کے فیصلے کو عملاً ردکرنے کی طاقت نہیں رکھتے، اس لیے ہم حکومت تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اسے اسلامی، شرعی اور جائز حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اس طرح کی حکومت ہے جس طرح دنیا میں دوسری حکومتیںقائم ہیں، جو ایک زمینی حقیقت کی حیثیت سے مسلّم ہیں لیکن وہ شریعت کی رو سے ناجائز ہیں۔

ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پاکستان میں برسرِاقتدار رہنے والی حکومتیں شرعاً معیاری حکومتیں تھیں۔ اگر آئین پاکستان کی دفعات ۶۲/۶۳ پر عمل کیا جائے تو موجودہ پارٹیاں اور ان کے سربراہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود منتخب نہ ہوسکیں گے ،اور ان کا انتخاب کالعدم قرار پائے گا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جمہوریت کی وجہ سے بسااوقات ہمیں اسلام مخالف نظریات کی حامل جماعتوں کا ساتھ بھی دینا پڑتا ہے تو یہ ایک عملی مسئلہ ہے اور ترجیحات کی بنیاد پر اس کا تعین کیا جاتا ہے۔ اسلام میں بھی حالات کے پیش نظر بڑی برائی کے مقابلے میں کم تر برائی کو ترجیح دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھایا تھا کہ اگر کسی چوراہے میں بڑا سا پتھر آجائے اور رکاوٹ پیدا ہوجائے تو پہلی ضرورت اس رکاوٹ کو   دُور کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی ٹریفک چل سکتی ہے۔ اگر آمریت کے خاتمے کے لیے جمہوری قوتوں کا ساتھ دینا پڑے تو یہ ایسی ہی مجبوری ہے۔ آزادیِ اظہار ہوگی تو دعوت عام ہوسکے گی اور عوام میں حقیقی شعور بیدار کیا جاسکے گا۔ لہٰذا اس قسم کا اشتراک مشروط ہوتا ہے اور یہ بہ امر مجبوری ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ اصولی ہدف حاصل کرنے کے لیے یہ ایک عملی پہلو ہے۔ اس حوالے سے نبی کریمؐ کے اسوہ میں بھی ہمارے لیے عملی نمونہ موجود ہے۔

خیال رہے کہ جو لوگ انتخاب کے قائل نہیں، انتخاب کے مقابلے میں نظامِ خلافت کی بات کرتے ہیں، وہ یہ نہیں بتلا سکتے کہ نظامِ خلافت کیسے قائم ہوگا، اور اسے کون قائم کرے گا؟    نظامِ خلافت قائم کرنا مسلمانوں کے کسی خاص گروہ پر فرض ہے توو ہ کون سا ہے، اور اگر سب مسلمانوں پر فرض ہے تو وہ اپنے فرض کو کیسے ادا کریں گے؟

اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام شورائی نوعیت کا ہے۔ حکومت سازی عوام کی راے اور تائید سے ہوگی۔ جبر یا آمریت کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ البتہ اسلام نے حکومت سازی کی کسی مخصوص شکل پر اصرار نہیں کیا۔ ماضی میں اگر خلافت کا نظام رائج تھا تو آج انسانی دانش نے بہت سے تجربات سے گزرنے کے بعد عوامی تائید کے ساتھ حکومت سازی کے لیے جمہوریت کا نظام اخذ کیا ہے جو اسلام کی روح کے قریب ہے۔ جمہوریت کو قرآن وسنت کے تابع قرار دینے سے اس کی لادینیت کا سدباب بھی کردیا گیا ہے۔ تبدیلیِ حکومت کے لیے یہ ایک عملی راستہ ہے۔ اگر عوام میں حقیقی معنوں میں شعور بیدار کردیا جائے جوخود اسلام کا تقاضا بھی ہے تو جمہوری نظام کے ذریعے ایک اسلامی اور فلاحی حکومت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

ایک بات جس کا خاص طور پر خیال رکھا جانا چاہیے، وہ یہ ہے کہ جس مسئلے پر علما اور اہلِ علم کی طرف سے قرآن و سنت کی روشنی میں واضح موقف سامنے آجائے تو اس کو شرح صدر سے قبول کرلینا چاہیے ، اور اگر کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہوں اور واضح طور پر حرام بھی نہ ہو تو ایک راے پر اصرار کرنا اور دوسری راے کو قطعی غلط قرار دینا شرعاً جائز نہیں۔ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ ہی صائب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انتہاپسندی سے محفوظ رکھے۔ آمین!

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سائل  بن کر آیا۔ آپؐ نے پوچھا کیا تمھارے گھر میں کوئی چیز بھی نہیں ،اس نے عرض کیا ،کیوں نہیں؟میرے گھر میں ایک موٹا کمبل ہے جس کے ایک حصے کو ہم بچھونا بناتے ہیںاور ایک حصے کو اوڑھتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا!جاؤ،ان دونوں چیزوں کو میرے پاس لے آو،وہ چلا گیا اور دونوں چیزوں کو لے کر حاضر ہوگیا۔ آپؐ نے دونوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور حاضرین سے پوچھا،ہے کوئی جو اِن دونوں چیزوں کو خریدے؟اس کے جواب میں ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں انھیں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔اس پر آپؐ نے پوچھا کہ کوئی ہے جو اس سے زیادہ پر خریدے ؟آپؐ نے تین مرتبہ سوال کیا۔ اس پر ایک صحابیؓ نے عرض کیا یارسولؐ اللہ ! میںانھیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔آپؐ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم اس سے لے کرسائل کو دے دیے اور فرمایا جاؤ، ایک درہم سے گھرکے لیے کھانے پینے کا سامان خریدو اور دوسرے درہم سے کلہاڑا خرید کر لے آؤ۔ وہ کلہاڑا لے کر آگیا،آپؐ نے اس میں لکڑی کا دستہ پیوست کیا اور فرمایا: جاؤ،اس سے لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور فروخت کرو۔اس کے بعد ۱۵دن تک میں تجھے نہ دیکھوں۔وہ آدمی چلا گیا اور لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرنا شروع کردیں،اس کاروبار سے اسے ۱۰ درہم مل گئے۔کچھ رقم سے کپڑے خریدے اور کچھ سے کھانے پینے کا سامان۔ پھر رسولؐ اللہ کی خد مت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے فرمایا یہ محنت اور کاروبار تیرے لیے اس ذلت سے بہتر ہے جو قیامت کے روز تمھارے چہرے پر زخم کی صورت میں نمایاں ہوگی۔

سوال صرف تین ا ٓدمیوں کے لیے درست ہے ایسے تنگ دست کے لیے کہ تنگ دستی نے اسے زمین سے لگادیاہو،ایسے مقروض کے لیے جس پر قرض کا ہولناک بوجھ ہو ،ایسے شخص کے لیے جس کے ذمے دیّت کی اتنی رقم واجب ہو جس نے اسے دکھ میں مبتلا کر دیا ہو۔(ابوداؤد،ترمذی، ابن ماجہ، نسائی)

حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ سے روایت ہے کہ ہم نو،آٹھ یاسات افراد کی تعداد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپؐنے فرمایا: تم رسولؐ ا للہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر لیتے۔ ہماری بیعت کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم توپہلے سے بیعت کر چکے ہیں۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا: کیا تم رسول ؐاللہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر لیتے ؟ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم بیعت کر چکے ہیں۔پھر فرمایا: کیا تم رسولؐ اللہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرلیتے، کہتے ہیں پھر ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا دیے اور عرض کیا: یارسول ؐاللہ!ہم نے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے،اب کس چیز پر بیعت کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ان باتوں پر کہ اللہ کی عبادت کرو گے ،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے ،پانچ نمازیں پڑھو گے،اطاعت کرو گے اورپھر ایک بات آہستہ سے فرمائی: لوگوں سے کوئی سوال نہ کرو گے۔

میں نے ان آدمیوں میں سے بعض کو دیکھا کہ اگر ان کے ہاتھ سے کوڑا گر جاتا تھا تو کسی سے اٹھا کر دینے کے لیے بھی سوال نہیں کرتے تھے،خود گھوڑے سے اتر کر اٹھاتے تھے(مسلم)

انسان عزت کی زندگی اسی صورت میں گزار سکتا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو،اپنے حصے کا کام خود کرے، اپنی گزر اوقات کے لیے دوسروں سے مانگنے کے بجاے خود محنت کرے۔اس وقت مسلمان معاشروں میں گداگری اور دوسروں کے سہارے جینے کا کلچر رواج پا گیا ہے۔ شہروں، دیہاتوں، بازاروں، مساجدکے دروازوں پر مانگنے والوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔صحت مند اور جسمانی صلاحیتوں سے بھرپور لوگوں نے بھی گداگری کو پیشہ بنایا ہوا ہے۔حکومتیں اپنے بجٹ اور منصوبے غیر ملکی امدادکو بنیادبنا کر تیار کرتی ہیں۔اس کے عوض مدد دینے والے ملکوں کے منصوبوں اور ایجنڈے کو عملی جامہ پہناتی ہیں۔ان کی ناجائز خواہشات کو پورا کرتی ہیں۔اپنے بھائیوں کا خون بہاتی ہیںاورملکی آزادی اور خود مختاری کو  داؤ پرلگا دیتی ہیں۔

آج اس امداد کی بدولت مسلمان ممالک ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں ۔استعماری طا قتوں کی طرف سے مداخلت کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔نبی کریمؐ کے ان ارشادات کی روشنی میںمسلمان اپنا انفرادی اور اجتماعی نظام تشکیل دے دیں ۔دوسروں کے سامنے دستِسوال دراز کرناچھوڑدیں،امداد کے نام سے دیے جانے والے غیر ملکی سودی قرضوں کا انکار کر دیں،ان کی غلامی ترک کردیں توکھوئی ہوئی عزت دوبارہ بحال ہو سکتی ہے۔

o

حضرت انسؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ کھجور کا یہ دانہ صدقے والی کھجوروں میں سے ہے،تو میں اسے کھا لیتا۔(متفق علیہ)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گھر تشریف لائے، آپؐ نے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا ہے، آپؐ نے اسے اٹھایا،صاف کیاپھر کھالیا، اور فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمھاری پڑوسی بن جائیں، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ (حسن سلوک سے پیش نہ آؤ گے تو بھاگ جائیں گی)اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں،ان کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں۔(ابن ماجہ)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے شیطا ن تمھارے پاس ہر کام کے وقت آجاتاہے۔ یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھا لے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگ گئی ہو اسے دور کردے، پھراسے کھا لے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ جب فارغ ہوجائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے،پتا نہیں کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔(مسلم)

آپؐ نے پیالے ،پلیٹ کو صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : تم نہیںجانتے کہ برکت کس حصے میں ہے۔ (مسلم)

آج صبح،دوپہر،شام کے معمول کے ناشتوںاورکھانوں،دعوتوں اور ضیافتوں میں رزق کی جو ناقدری، اسراف اور ضیاع ہوتا ہے،اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔نبیؐ کے سامنے کھانا آتا،آپؐ کاجی چاہتا تو کھالیتے،چاہت نہ ہوتی تو واپس کردیتے،لیکن کھانے کی کبھی برائی بیان نہ کی۔آج اگرہم اپنے گھروں، ہوٹلوں،دعوتوںاور تقریبات میں کھانے کو ضائع کرنا چھوڑ دیں،ضرورت کے مطابق کھانا پکائیں اور ضرورت کے مطابق پلیٹ میں ڈال کر کھائیں تو ہرگھراور کھانے کی ہرتقریب میں رزق کی اتنی بچت ہوجائے کہ ایک ایک گھر سے دو،دو اور تین تین آدمیوں کو کھانا دیا جاسکے،کھانا ضائع ہونے کے بجاے کسی بھوکے کے کام آجائے گا۔گھروں میں بھی احتیاط نہیں ہوتی،پلیٹوں میں کھانا بچ جاتا ہے،جسے کوئی دوسرا آدمی کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے گٹر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ روٹیاں بھی ضرورت سے زائد ہوتی ہیں ،انھیں بھی ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے،اور تقریبات میں  تو بعض اوقات سوآدمیوں کے لیے اتنا کھانا پکایا جاتا ہے جو دو سو،تین سو کے لیے کافی ہو،نتیجتاً بہت سارا کھانا بچ جاتا ہے اورضائع کر دیا جاتا ہے۔ نبیؐ نے اس نامعقول عمل پر نکیر فرمائی،زمین پر کھجور کے ایک دانے،روٹی کے ایک معمولی ٹکڑے،پلیٹ میں بچے ہوئے تھوڑے سے سالن کو چھوڑ کر ضائع کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا،اسے نعمت کی ناقدری اور ناشکری قرار دیتے ہوئے، اس سے محرومی کاسبب قرار دیا۔

آج حکمران طبقہ دولت کا جو ضیاع کرتا ہے، ان کے محلات میںکھانے کی جس طرح اسراف و تبذیر ہوتی ہے،وہ عذابِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ایک طرف لوگوں کا حال یہ ہے کہ انھیں اتنی روٹی نہیں ملتی کہ اپنا پیٹ بھر سکیں، آٹے کے حصول کے لیے سٹوروں پر لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں، ملک میں آٹے ،بجلی،گیس کا بحران ہے اور دوسری طرف ایک ایک آدمی کے کھانے پر ہزاروںروپے خرچ ہورہے ہیں۔ سرکاری افسران،حکومتی عہدے دار، بیوروکریٹ، فوجی جرنیل، سرمایہ دار ،مل مالکان کے پیٹوں کوبھرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی اس دولت کے ضیاع کو روکنا چاہیے،تعلیم وتربیت اورقانون سازی کے ذریعے اس عمومی وباکے آگے بند باندھنا چاہیے۔جو لوگ اسلامی تعلیمات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ناآشنا ہیں،ان کو تواس کا ہوش نہیں ہے،لیکن اسلام کو سینے سے لگانے والوں کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔اپنے گھروںمیں نبی کریمؐ کی سیرت کی روشنی میں ،اپنی معیشت میں رزقِ حلال کی قدر اور اسے ضیاع سے بچانے کا ضروری اہتمام کرنا چاہیے،کہ یہ شکر گزاری کا تقاضا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پھر معاشرے اور اونچی سوسائٹی کی عیاشی،پیٹ پرستی اور شہوت پرستی کے فتنے سے امت مسلمہ کو نجات دلانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائے۔ اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

o

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ کو بددعا نہ دو،اپنی اولاد کو بددعانہ دو،اپنے خادموں کوبددعا نہ دو،اپنے مال مویشی کو بددعا نہ دو،کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ وہ بددعا ایسی گھڑی میںہو جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں تو وہ بددعا قبول ہو جائے(مسلم ،ابوداؤد )

لوگ پریشانی اور غصے میں بے قابو ہوجاتے ہیں۔ اپنے آپ کو، اولاد، اہل خانہ اور نوکر چاکر وںکو برابھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔بعض اوقات بددعائیں بھی دے دیتے ہیں۔تو مرجائے،تیرا خانہ خراب ہو، اے اللہ! آج سے مجھے اس کی شکل نہ دکھا،ان کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں وغیرہ وغیرہ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں تنبیہ فرمائی کہ غصے اور پریشانی کی حالت میں اپنی زبان کو قابو میں رکھو،گالی گلوچ اوربددعاؤں سے پرہیز کرو،اس لیے کہ بددعا لگ بھی سکتی ہے اور اگربددعا لگ گئی تو پھررونادھونا کام نہ آئے گا۔بعض لوگ غصے میں بے قابو ہوکر بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں،جس سے ہنستا بستا گھر اجڑ جاتا ہے۔ اس قسم کے جذباتی لوگوں کے لیے اس حدیث میں بہت   بڑا درس ہے ۔صبر، بعد کی پریشانیوں سے بچنے کا بہترین سامان ہے۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ‘میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہورہے ہیں۔ پھر کوئی پوچھ رہا ہے کہ میں نے طواف سے پہلے صفا و مروہ کے درمیان سعی کرلی ہے (طواف پہلے اور سعی بعد میں ہوتی ہے) یا فلاں کام پہلے کرلیا ہے تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ آپؐ نے سب کے جواب میں فرمایا کہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں‘ اس میں بھی کوئی حرج نہیں‘ حرج تو بس اس میں ہے کہ انسان اپنے بھائی پر ظلم کرے‘ اس کی آبرو پر حملہ کرے۔ یہ ہے وہ شخص جو حرج میں پڑ گیا اور ہلاک ہوگیا۔(بخاری)

دین داری کے لیے لوگ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃکو کافی سمجھتے ہیں۔ بیت اللہ شریف کے طواف‘ خانہ کعبہ میں داخلے‘ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھنے کے بعد سمجھتے ہیں کہ وہ جو ظلم کریں‘ اس سے ان کی فضیلت اور اچھا مسلمان ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قتل و غارت گری‘ بے گناہوں پر کوڑے برسانا‘ انھیں جیلوں میں بند کرنا‘ کفار کے حوالے کرنا سب کچھ ان کے لیے روا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے دین داروں اور حاجیوں کو متنبہ فرمایا کہ صرف حج کے مسائل معلوم کر کے مناسکِ حج صحیح طرح سے ادا کر کے ہلاکت سے نہیں بچ سکتے‘ جب تک ظلم اور مسلمانوں کی آبروریزی میں مبتلا رہو گے‘ کوئی حج اور کوئی عمرہ اور کوئی نماز و روزہ ہلاکت سے نہیں بچا سکیں گے۔

اس حدیث سے یہ بنیادی ہدایت ملتی ہے کہ جو لوگ دینی تعلیمات کی جزئیات میں غلو‘ باریک بینی اور اصرار کرتے ہیں‘ اور کسی کا حق غصب کرنے میں‘ لین دین کے معاملات میں‘ آبرو کے تحفظ میں لاپروائی کرتے ہیں (بلکہ اس کا دین سے تعلق نہیں سمجھتے) وہ کتنی غلطی پر ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کے لیے ’ہلاک ہوگیا‘ کہا۔ حج کے موقع پر حدیث کا یہ سبق یاد رکھنے کا ہے۔


ْٗحضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مسلمانوں پر تلوار نکالی‘ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (مسلم)

پس ایسے لوگوں سے تعلق رکھنا درست نہیں ہے۔ مسلم دشمنی‘ اسلام دشمنی کے مترادف ہے اور اسلام دشمنی‘ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے تعلق رکھنا‘ ان سے محبت کرنا‘ ان کو ووٹ دینا‘ ان کی پارٹی میں شامل ہونا جائز نہیںہے۔ یہ آج کے دور کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اُمت مسلمہ کو پوری دنیا میں اس سے واسطہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرما دی ہے۔


حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے کسی کو راضی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پر کسی دوسرے کا شکر نہ ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز نہیں دی تو اس پر کسی دوسرے کی مذمت نہ کرو‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا رزق تجھے کوئی دوسرا بہت زیادہ چاہت اور حرص کے باوجود نہیں دے سکتا اور اللہ تعالیٰ دینا چاہے تو کسی کی ناپسند اسے روک نہیں سکتی‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے عدل و انصاف اور فضل و کرم سے راحت اور خوشی اس بات میں رکھی ہے کہ لوگ اس کے فیصلوں سے راضی ہوں اور پریشانی اور غم اس بات میں رکھا ہے کہ لوگ اس کے فیصلوں سے ناراض ہوں۔ (طبرانی)

انفرادی اور اجتماعی فیصلوں میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضی کو بنیاد بنانا‘ انسانوں کی رضامندی اور ناراضی کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضی کے تابع بنانا ایسی رہنمائی ہے جس کی ہر دور کی طرح آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت اُمت مسلمہ کو جو بحران درپیش ہے‘ اس کا سبب اس اصول کو نظرانداز کرکے انسانوں کی رضامندی اور ناراضی کو پیش نظر رکھنا ہے۔

انسانوں کے ہاتھوں میں محدود اختیارات ہیں۔ اصل اختیار اور فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہیں‘ وہی منعم حقیقی ہے۔ اسی کے فیصلے سے رزق ملتا ہے اور اسی کے حکم سے رزق میں تنگی اور فراخی ہوتی ہے۔ اسی سے   لَو لگانا چاہیے‘ اسی کی حمد اور شکربجا لانا چاہیے‘ اسی کے حکم کے مطابق چلنا چاہیے۔ اس کی مرضی کو نظرانداز کرکے دوسروں کی مرضی پورا کرنا‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسی کو منعم اور مربی سمجھ لیا ہے حالانکہ منعم و مربی تو  اللہ تعالیٰ ہے۔ دوسروں کا اسی قدر شکر کرنا چاہیے جس قدر انعام میں ان کا دخل ہے۔ ان کی مرضی کے بجاے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پورا کیا جائے تاکہ اس بات کا اظہارہو کہ اللہ تعالیٰ کو منعم حقیقی سمجھا گیا ہے۔ آج کے دور میں اللہ تعالیٰ کی مرضی‘ اس کی پسند و ناپسند کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اس کے خوف و محبت کے بجاے انسانوں کے خوف و محبت کے زیراثر فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اس حدیث میں اسی اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کاش مسلمان اس کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنادیں۔


حضرت عائذ بن عمرو سے روایت ہے کہ وہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس گئے اور اس سے کہا: بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بُرے حکمران وہ ہوتے ہیں جو رعیت کو   پیس ڈالنے‘ تشدد کے ذریعے ہلاک کردینے والے ہوں۔دیکھنا! اپنے آپ کو ان میں شامل نہ کرنا۔(مسلم)

ظالم حکمرانوں کو سیدھی راہ دکھلانا‘ ان کے سامنے کلمۂ حق بیان کرنا‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھانا علماے حق کا شیوہ رہا ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تقاضا ہے۔ عائذ بن عمروؓ نے عبیداللہ    بن زیاد کو اپنی روش بدلنے کی تلقین کی۔ آج بھی اُمت مسلمہ کو تاریخ کے بدترین ظالموں سے واسطہ ہے‘ ان کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایسے ظالموں سے نجات کے لیے کوشش کرنا اُمت مسلمہ اور دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابومویہبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آدھی رات کے وقت اٹھایا اور فرمایا:ابومویہبہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں   جنت البقیع والوں کے لیے دعاے مغفرت کروں۔ تم بھی میرے ساتھ چلو (ابومویہبہ کہتے ہیں) میں آپ کے ساتھ چلا گیا۔ آپؐ جب جنت البقیع پہنچ گئے تو کھڑے ہوگئے اور قبرستان والوں کو السلام علیکم یااھل المقابر، ’’قبرستان والو! تم پر سلام ہو‘‘ کہہ کر سلام کیا اور فرمایا: تمھیں تمھاری وہ حالت جو تمھیں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں حاصل ہے‘ مبارک ہو۔ اگر تمھیں ان فتنوں کی ہولناکی کا علم ہوجائے جن سے اللہ تعالیٰ نے تمھیں نجات دے دی ہے تو تمھاری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہے۔ بڑے ہولناک فتنے رات کی تاریک راتوں کی دبیز تاریکیوں کی طرح تاریک اور مسلسل آئیں گے۔ ایک فتنہ ختم ہوگا تودوسرا آجائے گا‘ دوسرا پہلے سے زیادہ بُرا ہوگا۔ پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ابومویہبہ مجھے اختیار دیا گیا کہ ایک طرف دنیا کے خزانے‘ دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اور اس کے بعد جنت ہے اور دوسری طرف رب تعالیٰ سے ملاقات اور جنت ہے۔ (ان دونوں میں سے جسے چاہیں پسند کریں آپ کو دے دی جائیں گی)

ابومویہبہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان‘ آپ دنیا کے خزانوں کی چابیاں اور اس کے ساتھ دنیا میں ہمیشہ کی زندگی پھر جنت والی صورت کو پسند کرلیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: ابومویہبہ‘ اللہ کی قسم! نہیں‘ ایسا نہیں۔ میں نے اپنے رب سے ملاقات اور جنت کو پسند کرلیا ہے۔ پھر آپؐ نے جنت البقیع والوں کے لیے دعا کی اور واپس تشریف لے آئے۔ پھر اسی صبح کو وہ بیماری شروع ہوئی جس میںآپؐ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون (مسنداحمد)

اہلِ ایمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اندازہ ان واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔ وصال سے پہلے آپؐ نے شہداے اُحد کے لیے خصوصی اجتماعی دعا کا اہتمام فرمایا (صحیح بخاری)۔ اور جنت البقیع والوں کے لیے جنت البقیع میں جاکر دعاے مغفرت کی۔ تب ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں تمام اہلِ ایمان سے محبت اور ان کے لیے دعائیں اور ہمدردی و غم گساری کی کارروائیاں کرنی چاہییں۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔ آج کے دور میں اگر یہ دونوں کام سرانجام دے دیے جائیں تو اُمت مسلمہ کے تمام مصائب و مشکلات دُور ہوجائیں۔


حضرت مقدام بن معدی کرب سے روایت ہے‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جن تھیلوں کو انسان بھرتا ہے ان میں سے پیٹ سے زیادہ بُرا کوئی تھیلا نہیں ہے۔ آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں۔ اگر انسان کے بس میں نہ ہو تو پھر ایک حصہ کھانے‘ ایک حصہ پانی‘ اور ایک حصہ سانس لینے کے لیے چھوڑ دے۔ (ابن ماجہ)

اگر لوگ اس حدیث پر عمل کریں تو وہ طرح طرح کی بیماریوں سے نجات پا لیں‘ ڈاکٹروں کی دیکھ بھال سے بے نیاز ہوجائیں‘ اور دوائیوں کی دکانیں ویران ہوجائیں۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب وہ طریقہ ہے جس سے عوام اپنی راے اورمرضی سے اپنے حکمرانوں کو چُن سکتے ہیں اور ملک کی سیاسی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور تہذیبی تشکیل نو کے لیے جس پروگرام کو وہ پسند کرتے ہیں اس کی علَم بردار قیادت کو بروے کار لاسکتے ہیں۔ اس عمل کو ناکام کرنے کا ایک طریقہ تو وہ ہے جو حکمران طبقے اور خصوصیت سے نظامِ حکومت پر قابض سول اور عسکری اسٹیبلشمنٹ اختیار کر رہا ہے جس میں انتخابات کی انجینیری اور قواعد و ضوابط کی دھاندلی کے ذریعے پورے عمل کو سبوتاژ کرنے اور عوام کے حق حکمرانی کو غصب اور ہائی جیک کرنے کا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف دین کے نام پر کچھ عناصر ووٹ‘ انتخاب‘ اسمبلیوں کے وجود ہی کو نشانہ بنا رہے ہیں اور عوام الناس کے ذہنوں کو پراگندا کرنے اور ان کو سیاسی عمل سے باہر کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کھیل  مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں کھیلا گیا ہے جس کے نتیجے میں عام مسلمان کو الجھائو میں مبتلا کیا گیا ہے مگر اصل فائدہ برسرِاقتدار عناصر کو ہوا ہے جو دینی طبقوں اور اخلاقی حِس رکھنے والے عوام کی الیکشن سے بے تعلقی کے نتیجے میں اپنے اپنے کھیل کھیلنے اور اُمت پر اپنے ظالمانہ تسلط کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دین کے نام پر اس نوعیت کی سرگرمیوں کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کے عمل ہی پر لوگوں کا اعتماد اُٹھا ہے اور تبدیلی کے جائز راستوں سے مایوس ہوکر کچھ لوگ خصوصیت سے نوجوانوں نے اپنا رخ غیرآئینی اور تشدد پر مبنی طریقوں کی طرف کردیاہے جس سے مزید بگاڑ پیدا ہورہا ہے‘ اور ملکی اور عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے سامراجی کھیل کو کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔

دین کے نام پر اور شریعت کی اصلاحات کا استعمال کرکے سیاسی عمل کو خراب کرنے کا جو کھیل عالمِ عربی میں کھیلا گیا ہے‘ اب پاکستان میں بھی اس کا آغاز کردیا گیا ہے اور انقلابی نعروں اور گمراہ کن دعوئوں کے ساتھ یہ کام کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک گروہ بڑی چابک دستی سے لٹریچر پھیلا رہا ہے اور اپنے خطبوں میں بھی اس لائن کو آگے بڑھا رہا ہے کہ:0

  •  اسمبلیاں طاغوت کی حیثیت رکھتی ہیں جو معصیت کی جگہ ہیں۔ ان میں شرکت ممنوع ہے۔
  •  جمہوریت شرک کی ایک شکل ہے۔
  •  عدالتیں دین سے بغاوت کے اصول پر کام کر رہی ہیں۔
  •  ووٹ ناجائز ہے‘ اس لیے کہ اس کے ذریعے طاغوت کا انتخاب ہوتا ہے۔

ان گمراہ کن دعوئوں کی تائید میں قرآن پاک کی آیات اور احادیث کو کھینچ تان کر استعمال کیا جا رہا ہے اور انٹرنیٹ کی جدید سہولتوں کو اس کام کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس ایسے لٹریچر اور دوسرے لوازمے کو تبصرے کے لیے بھیجا گیا ہے‘ خصوصیت سے بڑے شہروں کے کئی افراد نے اس طرف متوجہ کیا۔ اس فتنے سے قوم کو محفوظ رکھنے اور قرآن و سنت اور خلافت راشدہ کے نمونے کی روشنی میں ووٹ‘ انتخاب‘ نظام امر کے قیام اور دورِ جدید میں قانون سازی اور پالیسی سازی    کے لیے مناسب طریقوں کی شرعی حیثیت کوسمجھنے کے لیے ہم نے شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کو دعوت دی کہ اس لٹریچر کے بارے میں جو احیاے خلافت کے نام پر گمراہ کن خیالات کا پرچار کر رہا ہے   صحیح رہنمائی فرمائیں۔ مولانا عبدالمالک نے جزوی بحثوں میں الجھے بغیر اصل مسئلے کے تمام اصولی پہلوئوں پر بڑا محکم کلام کیا ہے جسے ہم قارئین ترجمان القرآن اور پاکستان کے تمام پڑھے لکھے طالبانِ حق کی رہنمائی کے لیے شائع کر رہے ہیں۔ وماعلینا الاالبلاغ۔ (مدیر)

قرآن و سنت اور اجماع اُمت کی رو سے یہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ اللہ رب العالمین بلاشرکت غیرے کائنات کا تکوینی اور تشریعی حاکم مطلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا اللہ تعالیٰ کے نبی ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خلفا‘ یعنی نائب کی حیثیت سے مطاع اور حکمران تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (النساء ۴:۶۴) ’’ہم نے کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے پہلے خلیفہ‘ نبی اور رسول حضرت آدم علیہ السلام اور آخری نبی‘ رسول اور خلیفہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کی اُمت آپؐ کے نائب کی حیثیت سے اسی منصب پر فائز ہے۔ کوئی فرد یا افراد یاطبقہ خلافت کے لیے متعین نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے لیے انبیا اور ان کی اُمتوں کو نامزد کیا ہے۔ اُمتوں کے افراد منصب خلافت پر اُمت کے انتخاب سے فائز ہوں گے۔ یہ اہل السنت والجماعت کا متفق علیہ فیصلہ ہے اور اہل السنت والجماعت کا تشخص اور امتیاز بھی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: میرا ارادہ تھا کہ میں آپ کے والد اور بھائی کو بلائوں اور آپ کے والد کے بارے میں وصیت کروں لیکن میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ اور اہلِ ایمان ابوبکرؓ کے علاوہ کسی بھی شخصیت کی خلافت کا انکار کردیں گے‘ اس لیے میں نے وصیت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا‘‘۔ ویابی اللّٰہ والمومنون الا ابابکر، اللہ تعالیٰ کے انکار سے مراد تکوینی اور تقدیری انکار ہے اور اہلِ ایمان کے انکار سے مراد تشریعی اور راے کا انکار ہے‘ یعنی مسلمان ابوبکر صدیق ؓکے علاوہ کسی بھی شخصیت کے حق میں خلافت کی راے نہیں دیں گے‘ چنانچہ آپؐ  کے ارشاد کے عین مطابق سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کے لیے جو مجلسِ مشاورت منعقد ہوئی‘ اس نے بحث و مباحثے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دست مبارک پر بیعت کی جس کی توثیق اگلے دن مسجد نبویؐ میں تمام مہاجرین و انصار نے متفقہ طور پر بیعت کے ذریعے کردی۔

حضرت علیؓ کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ راجح یہی ہے کہ انھیں اس بات کا شکوہ تھا کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جو مشاورت ہوئی اس میں انھیں شریک نہیں کیا گیا لیکن حضرت ابوبکرصدیقؓ اور عمرفاروقؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ سقیفہ بنی ساعدہ میں اچانک اطلاع پر آگئے۔ یہ ان کا اپنا پروگرام نہیں تھا‘ بلکہ انصار کا پروگرام تھا جس کی اطلاع ایک بزرگ انصاری صحابیؓ سے انھیں ملی تھی جس پر وہ وہاں پر فوراً پہنچ گئے اور کسی غلط فیصلے میں رکاوٹ بن گئے۔ اس وقت انھیں یہ موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ حضرت علیؓ کو بھی ساتھ لے جاتے۔ جب یہ حقیقت حضرت علیؓ کے سامنے آگئی تو وہ بھی راضی ہوگئے اور انھوں نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی۔ یہ بیعت بلاشبہہ آج کی اصطلاح میں انتخابی راے اور ووٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔

حضرت ابوبکرؓ نے‘ سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع کے اگلے روز جب عمومی بیعت کے لیے مسجد نبویؐ میں جلسہ منعقد ہوا‘ اس میں تقریر کرتے ہوئے لوگوں کو اختیار دیا کہ چاہو تو میری بیعت کرو اور چاہو تو کسی دوسرے کو خلیفہ منتخب کرلو لیکن مسلمانوں نے اس اختیار کو حضرت ابوبکرؓ کو منتخب کرنے کی صورت میں استعمال کیا۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ مہاجرین و انصار اور اہلِ مدینہ کا انتخاب تھاجو آج کل کے انتخاب اور ووٹنگ سے مختلف شکل ہے۔ ہر شہری کا ووٹ نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ باہر کے لوگوں اور دُوردراز کے مسلمانوں کو راے دینے کا حق تھا‘ انھوں نے یہ حق استعمال کیا کہ جب انھیں علم ہوا تو انھوں نے اس کی تائید کی۔ وہ اپنا حق استعمال کرنے میں مہاجرین و انصار کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے کہ یہ وہ قیادت تھی جو قرآن پاک نے تیار کی تھی اور قرآن پاک میں ان کے فضائل و مناقب بیان کیے گئے تھے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم    بھی اپنے ساتھ ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ کو رکھتے اور ان کا تذکرہ فرماتے رہتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو نظام جاری تھا‘ اس میں بھی یہی شخصیات آگے آگے ہوتی تھیں اور اسی لیے آپؐ  کے بعد مسلمانوں نے انھی کو خلافت کے مناصب دیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ویابی اللّٰہ والمؤمنون میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سے تمام اہلِ ایمان راضی تھے اور اگرچہ انھیں اوّلاً منتخب تو مہاجرین و انصار نے کیا تھا لیکن بعد میں بیعت تمام اہلِ ایمان نے کی اور سب نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا۔

آج اگر کوئی ایسی قیادت پیدا ہوجائے جس کے فیصلے پر تمام لوگ اعتماد کریں تو آج بھی اس قیادت کا انتخاب معتبر ہوسکتا ہے‘ بلکہ آج بھی مہاجرین و انصار کی طرح ملک میں مختلف پارٹیاں ہوتی ہیں‘ وہ اپنے نمایندے انتخاب میں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ پھر جس پارٹی پر عوام کو اعتماد ہو‘ اس کے نمایندوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ صورت اپنی شکل میں اسی شکل کے ساتھ مشابہ ہے جو خلافت راشدہ کے دور میں رائج تھی کہ مہاجرین و انصار جس کو نمایندہ مقرر کرتے‘ تمام اہلِ اسلام اسی کے دستِ مبارک پر بیعت کرتے‘ یعنی اسے ووٹ دے کر منتخب کردیتے تھے۔

یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ ایک ہے بنیادی مسئلہ‘ یعنی قیادت کا معتمدعلیہ ہونا اور اعتماد اور رضامندی کے بغیر حق حکمرانی کا غیرمعتبر رہنا‘ اور دوسرا یہ معلوم کرنے کا طریقہ کہ کون معتمدعلیہ ہے اور اس کا چنائو براہ راست ہو یا بلواسطہ۔ پہلی چیز اصول کا درجہ رکھتی ہے اور دوسری ہر دور کے حالات اور ظروف کے مطابق مناسب طریق کار کو وضع کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے جس میں مقصد‘ روح اور جوہر تو ہر دور میں مشترک ہوگا مگر ظروف اور طریقے مختلف ہوسکتے ہیں۔

بات بالکل واضح ہے کہ خلافت انتخابی منصب ہے‘ نبی اور رسول تو اللہ تعالیٰ کے نامزد اور منتخب کردہ ہوتے ہیں لیکن نبی کے بعد خلافت کا فیصلہ اہلِ ایمان نے انتخاب کے ذریعے کرنا ہے۔ آپؐ کے بعد آپؐ کی اُمت آپؐ  کی نائب ہے اور وہ اپنے اندر سے ایسے شخص کو جو خلافت کے منصب کا اہل ہو‘ حکومت کے لیے منتخب کرے گی کیونکہ کسی فرد کو حکومت کے لیے نامزد نہیں کیا گیا‘ البتہ اُمت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روے زمین پر حکمرانی کے لیے نامزد ہے۔ مفتی اعظم پاکستان محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’زمین کا انتظام اور اس میں خدا کا قانون نافذ کرنے کے لیے اس کی طرف سے نائب کا مقرر ہونا‘ جو ان آیات سے معلوم ہوا‘ اس سے دستور مملکت کا اہم باب نکل آیا کہ اقتدار اعلیٰ تمام کائنات اور پوری زمین پر صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جیساکہ قرآن مجید میں بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں: ان الحکم الا للّٰہ (حکمرانی نہیں ہے مگر اللہ کے لیے)اور لہ ملک السموت والارض (اور اسی کے لیے ہے اقتدار آسمانوں اور زمین کا) اور الالہ الخلق والامر (سنو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم دینا)۔ زمین کے انتظام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نائب آتے ہیں‘ وہ باذن خداوندی زمین پر سیاست و حکومت اور بندگانِ خدا کی تعلیم و تربیت کاکام کرتے اور احکام الٰہیہ نافذ کرتے ہیں۔ اس خلیفہ کا تقرر بلاواسطہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے‘ اس میں کسی کے کسب و عمل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ خلیفہ بلاواسطہ حق تعالیٰ سے اس کے احکام معلوم کرتے اور پھر ان کو دنیا میں نافذ کرتے ہیں۔ یہ سلسلۂ خلافت و نیابت الٰہیہ کاآدم علیہ السلام سے شروع ہوکر خاتم الانبیاؐء تک اسی انداز میں چلتا رہا۔ یہاں تک کہ خاتم الانبیاؐء اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے آخری خلیفہ ہوکر بہت سی اہم خصوصیات کے ساتھ تشریف لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے عالم اور اس کی دونوںاقوام جنات و انسان کی طرف بھیجا گیا۔ آپؐ  کا اختیار و اقتدار پوری دنیا کی دونوں قوموں پر حاوی ہے۔

خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ خلافت و نیابت تاقیامت ہے۔ اس لیے قیامت تک آپؐ  ہی زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں۔ آپؐ  کی وفات کے بعد نظامِ عالم کے لیے جو نائب ہوگا‘     وہ خلیفۃ الرسول اور آپؐ  کا نائب ہوگا۔ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون (کتاب الانبیاء) ’’بنی اسرائیل کی سیاست و حکومت ان کے انبیا کرتے تھے۔ ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی آجاتا تھا اور خبردار رہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں‘ ہاں میرے خلیفے ہوں گے اور بہت ہوں گے‘‘۔

خلیفۃ الرسول کا انتخاب

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ کی اُمت کے مجموعے کو معصوم قرار دیا گیا ہے کہ آپؐ کی پوری اُمت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی (کذانی الموافقات للشاطبی)۔ اور جب اُمت کا مجموعہ معصوم قرار دیا گیا تو خلیفۃ الرسول کا انتخاب بھی اس کے سپرد کر دیا اور خاتم الانبیا علیہ السلام کے بعد نیابت زمین اور نظمِ حکومت کے لیے انتخاب کا طریقہ شروع ہوگیا۔ یہ اُمت جسے خلافت کے لیے منتخب کردے‘ وہ خلیفۃ الرسول کی حیثیت سے نظامِ عالم کا ذمہ دار ہوگا۔

اسمبلیاں

اسمبلیاں اس طرزِعمل کا نمونہ ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ عام جمہوری ملکوں کی اسمبلیاں اور ان کے ممبران بالکل آزاد اور خودمختار ہیں‘ محض اپنی راے سے جو چاہیں‘ اچھا یا بُرا قانون بنا سکتے ہیں‘ لیکن اسلامی اسمبلی اور اس کے ممبران اور منتخب کردہ امیر سب اس اصول و قانون کے پابند ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کو ملا ہے۔ اس اسمبلی یا مجلسِ شوریٰ کی ممبری کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں۔ جس شخص کو یہ منتخب کریں‘ ان کے لیے بھی کچھ حدود و قیود ہیں‘ پھر ان کی قانون سازی بھی قرآن و سنت کے بیان کردہ اصول کے دائرے میں ہوسکتی ہے‘ اس کے خلاف قانون بنانے کا ان کو اختیار نہیں۔ (معارف القرآن‘ ج اوّل‘ ص ۱۸۲-۱۸۶)

اس تفصیل سے ثابت ہوگیا کہ انتخاب ایک شرعی حق اور فریضہ ہے جو اس امت پر عائد ہوتا ہے۔ مفتیان دین متین نے اسے اہم الواجبات میں سے قرار دیا ہے۔ علامہ علائوالدین الحصکفی الحنفی (م: ۱۰۸۸ھ) فرماتے ہیں: ونصبہٗ من اھم الواجبات فلذا قدموہ علی دفن صاحب المعجزات (درمختار بر حاشیہ شامی‘ ص ۵۱۱‘ ج۱‘ بحث امامت)۔ امام مقرر کرنا فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے ‘اس لیے صحابہ کرامؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کی تجہیز و تکفین پر اسے مقدم رکھا۔

امام ابوالحسن ماوردی الشافعی (م: ۴۵۰ھ) اور قاضی ابویعلٰی الحنفی (م: ۴۵۸ھ) فرماتے ہیں: وعقد الامامۃ لمن یقوم بھا فی الامۃ واجب بالاجماع (الاحکام السلطانیہ‘ للماوردی‘ ص ۵‘ طبع مصر‘ ۱۹۷۳ء۔ والاحکام السلطانیہ‘ لابی یعلٰی‘ ص ۱۹‘ طبع قاہرہ‘ ۱۹۶۶ء)

علامہ عبدالقاہر البغدادی (م: ۴۹۲ھ) فرماتے ہیں: قال جمہور اصحابنا من المتکلمین والفقھاء مع الشیعۃ والخوارج واکثر المعتزلۃ بوجوب الامامۃ وانھا فرض و واجب۔ (اصول الدین‘ طبع جامعہ اشرفیہ‘ لاہور‘ ص ۳۷۱) ہمارے اساتذہ میں سے جمہور علما‘علم العقائد اور فقہا نے اسی طرح شیعہ‘ خوارج اور کثیرمعتزلہ نے بھی کہا ہے کہ اسلامی حکومت قائم کرنا واجب اور فرض ہے۔ اس موضوع پر آیاتِ قرآنیہ اور احادیث اور دیگر فقہا کے فتاویٰ اختصار کی خاطر چھوڑ دیے ہیں۔

انتخاب میں حصہ لینے کے مخالفین

جو لوگ پاکستان میں انتخاب کے مخالف ہیں‘ ان پر اس حکمِ شرعی کی مخالفت لازم آتی ہے۔ وہ مختلف شبہات کا شکار ہوکر اس حکم شرعی کی پورے زوروشور سے مخالفت کر رہے ہیں‘ انھیں احساس نہیں کہ وہ ایک ایسے اسلامی حکم کا انکار کر رہے ہیں جو فرض ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دور میں غیرمنصوص احکام میں صحابہ کرامؓ سے مشاورتیں کیں۔ غزوئہ بدر‘ اُحد‘ احزاب‘ شوراے حدیبیہ اور باجماعت نماز کے بلاوے کے لیے مشاورتیں کیں۔ (بخاری‘ مسلم‘ ترمذی)

موجودہ اسمبلیاں مشاورتی مجالس ہیں اور شریعت کے منشا کے مطابق ہیں۔ قرارداد مقاصد‘ آئین پاکستان کی رو سے‘ اسلامی اسمبلیاں ہیں لیکن جن لوگوں کے پاس حکومت کی باگ ڈور ہے‘ وہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں غیراسلامی طریقوں پر چلاتے ہیں۔ قرآن وسنت کے منصوص احکام کے خلاف بل پیش کرتے ہیں۔ قرآن وسنت کے منصوص احکام کو بالادست قانون کا درجہ نہیں دیتے‘ قرارداد مقاصد نے ان پر جو پابندی عائد کی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی حدود میں  رہ کر قانون سازی کریں گے‘ اسے نظرانداز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو لگام دینے کے لیے شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن نے ۱۹۸۵ء میں ایک شریعت ایکٹ تیار کیا تھا جس کی تائید ملک بھر کے تمام مفتیانِ کرام نے کی۔ اس کی حمایت میں متفقہ فتویٰ جاری کیا۔ جماعت اسلامی نے اس شریعت بل پر دینی جماعتوں کو جمع کر کے‘ ایک متحدہ شریعت محاذ بنایا۔ اس بل کو سینیٹ میں مولانا سمیع الحق اور قاضی عبداللطیف نے اورقومی اسمبلی میں شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن نے پیش کیا لیکن جنرل ضیاء الحق‘ بے نظیر اور نواز شریف حکومت نے اسے منظور نہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سینیٹ میں ایک شریعت بل پاس ہوا جو اس مقصد کو پورا نہیں کر رہا تھا‘ اور نوازشریف نے‘ جو ’شریعت بل‘ کو پاس کرنے کا انتخابی وعدے کرکے آئے تھے‘ اُس بل کو سبوتاژ کردیا اور ایک ایسا بل پاس کیا جسے جماعت اسلامی کی شوریٰ نے شریعت سے فرار کا بل قرار دیا۔

قرارداد مقاصد سے پھلے اور بعد کی اسمبلیوں کا فرق

قرارداد مقاصد کی منظوری دینی سیاست کا اہم موڑ ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے مفکراسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس وقت کی اسمبلیوں اور عدالتوں میں مقدمات لے کر جانے کی پالیسی کی مخالفت کی تھی۔ عدالتوں کو طاغوتی عدالتیں قرار دیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس صورت حال سے نکلنے کے لیے مولانا نے چار نکاتی مطالبہ نظامِ اسلامی کی تحریک شروع کی جس کے مرکزی مطالبات کو قرارداد مقاصد کی شکل میں ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور کرلیا گیا۔ یہ قرارداد قیامِ پاکستان کے مقاصد کو واضح کرتی ہے۔ اس قرارداد کو منظور کروانے میں مولانا شبیراحمد عثمانیؒ نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا‘ اور اس کے منظور ہونے کے بعد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پاکستان کے اسلامی ریاست بن جانے کا اعلان کیا‘ اور اسمبلیوں میں عدمِ شرکت اور عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی سابقہ پالیسی کو تبدیل کردیا‘ اور اُمت کو دعوت دی کہ صالح قیادت کو منتخب کر کے قانون کی زبان میں اسلامی ریاست بن جانے والے ملک کو عملاً ایک حقیقی اسلامی ملک بنانے کی جدوجہد کریں کہ قرارداد مقاصد کے بعد اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی راہیں کھل گئی ہیں۔ مولانا نے فرمایا: جس طرح ایک فرد  کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہوجاتا ہے‘ اسی طرح ریاست بھی کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہوجاتی ہے۔ قرارداد مقاصد پارلیمنٹ نے پاس کر کے کلمہ پڑھ لیا ہے اور پارلیمنٹ مسلمان ہوگئی ہے۔ اس لیے اب پاکستان اسلامی ریاست بن گیا ہے۔

قرارداد مقاصد اور آئین کی دیگر اسلامی دفعات

۱- قرارداد مقاصد: چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکت غیرے   حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا‘ وہ ایک مقدس امانت ہے۔ چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیار و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی جس میں جمہوریت‘ آزادی‘ مساوات‘ رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے‘ پوری طرح عمل کیا جائے گا۔ جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہاے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘ ترتیب دے سکیں۔ جس میں قرارواقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔ (ملاحظہ ہو: آئین پاکستان‘ تمہید نمبر۱‘ ضمیمہ دفعہ ۲‘ الف‘ ص ۱۸۳۔ ترمیم شدہ ۲۵مارچ ۱۹۸۷ء)

اس قرارداد مقاصد میں جمہور کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کا پابند کیا گیا ہے۔ اس آئین کی رو سے پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں‘ بلکہ اسلامی جمہوریت ہے۔ مزید یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ جمہوریت کی وہ تشریح معتبر ہوگی جو اسلام نے کی۔ ’’جس طرح اسلام نے اس کی تشریح کی ہے‘‘، ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا‘ ترتیب دے سکیں‘‘، اس میں بھی اسلامی تعلیمات کی تشریح کے ضمن میں قرآن و سنت کی قید لگا دی گئی ہے۔ ان وضاحتوں کے بعد کوئی شخص پاکستان اسمبلی کو طاغوت کہے اور اسے مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں فرق دکھائی نہ دے تو یہ اندھاپن ہوسکتا ہے۔ پھر ملک بھر کے تمام مفتیان کرام‘ علماے عظام اور مفکراسلام مولانا سیدابوالاعلی مودودیؒ نے قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دیا اور اسمبلیوں میں حصہ لینے کو جائز قرار دیا۔ اب علما اور مفتیانِ کرام کی بات معتبر ہوگی‘ یا چند نامعلوم لوگوں کی جن کے پاس دین کا واجبی علم بھی نہیں۔

دیگر دفعات

دفعہ ۱- (ا) مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہوگی جس کا نام اسلامی جمہوریہ ہوگا۔

دفعہ ۲ - اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہوگا۔

حصہ نہم

اسلامی احکام - ۲۲۷ (۱) تمام موجودہ قوانین کو قرآن وسنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔

۲۲۷- (۴) اسلامی کونسل اپنے تقرر سے سات سال کے اندر اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گی اور سالانہ عبوری رپورٹ پیش کیا کرے گی۔ یہ رپورٹ‘ خواہ عبوری ہو یا حتمی‘ وصولی سے چھے ماہ کے اندر دونوں ایوانوں اور ہر صوبائی اسمبلی کے سامنے براے بحث پیش کی جائے گی۔ مجلسِ شوریٰ  (پارلیمنٹ) اور اسمبلی رپورٹ پر غوروخوض کرنے کے بعد حتمی رپورٹ کے بعد دو سال کی مدت کے اندر اس کی نسبت قوانین وضع کرے گی۔

باب ۲-مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کے ارکان کے بابت احکام۔

مجلس شوریٰ کی رکنیت کے لیے اھلیت

دفعہ ۶۲- کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چُنے جانے کا اہل نہیں ہوگا اگر:

د- وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔

ہ - وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند‘   نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔

ر-  وہ سمجھ دار‘ پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور امین نہ ہو۔

ز- کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے‘ یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔

ج- اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو‘ یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔ (ص ۳۶-۳۷)

عھدوں کے حلف - صدر کا حلف

میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور وحدت و توحید‘ قادر مطلق  اللہ تبارک و تعالیٰ‘ کتب الٰہیہ جس میں قرآن ختم الکتب ہے‘ نبوت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت خاتم النبیین جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا‘ روزِ قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ مقتضیات و تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں.........

...... میں اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا جو قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔

کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ و دفاع کروں گا۔ (اللہ تعالیٰ میری مدد و رہنمائی فرمائے) آمین۔

یہی حلف وزیراعظم کا بھی ہے۔

وفاقی وزرا کا بھی یہی حلف ہے۔ اس میں بھی اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے اور دستور کو برقرار رکھنے کا حلف ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن‘ گورنر‘ وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرا کے حلفوں میں بھی مذکورہ دونوں شقیں شامل ہیں۔

غرض یہ کہ ہرعہدے دار پر اسلامی نظریہ اور دستور پاکستان کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔

اب تک کا کام

ایسی صورت میں جو کام ہمارے اکابر کرچکے ہیں‘ وہ ا نتہائی قابلِ قدر اور خراجِ تحسین کا مستحق ہے۔ قرارداد مقاصد سے لے کر مذکورہ تمام اسلامی دفعات جو ہمارا قیمتی اثاثہ ہے‘ دینی قوتوں ہی کی مرہونِ منت ہے۔ یہ کامیابی آسانی سے نہیں ملی۔ اس کے لیے طویل جدوجہد کی گئی ہے۔ قیامِ پاکستان کے متصل‘ مفکرِاسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے چار نکاتی مطالبہ نظامِ اسلامی کا آغاز کیا‘ اور پھر علما اور عوام کے تعاون سے قرارداد مقاصد کی شکل میں اس مہم کو سر کرلیا۔ خصوصاً ۱۹۷۳ء کا دستور جو ایک ایسے شخص کے دور میں منظور ہوا جو روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور سوشلزم ہماری معیشت‘ کے نام پر طوفان بن کر اُبھرا تھا۔ اس دور میں دینی جماعتیں پارلیمنٹ میں محدود نشستوں کے باوجود ایک ایسے شخص سے اسلامی دفعات خصوصاً قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئیں جو بالکل ایک دوسرے ہی طرزِ حکمرانی اور آدابِ زندگی کا خوگر تھا۔

مزید کام

اس اسمبلی کو خالص اسلامی اسمبلی کے طرز پر چلانے کا کام ابھی باقی ہے۔ ان شاء اللہ اسے بھی حاصل کرلیا جائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو ممبر منتخب کیا جائے جو اسمبلی کو اسلامی اسمبلی کے طور پر چلانا چاہتے ہوں۔ ایسے ارکان جو دفعہ ۶۲-۶۳ کے معیار پر پورا اُترتے ہوں منتخب ہوجائیں تواسمبلی کے قانون سازی کے دائرہ کار اور طریق کار میں بھی تبدیلی ہوجائے گی۔

اسمبلی میں عقیدے کی نھیں عملی خرابی

اس وقت اسمبلی میں جو خرابی ہے‘ وہ عقیدے کی نہیں عمل کی ہے۔ اسمبلی اگر قرارداد مقاصد اور اسلامی دفعات کے مطابق عمل کرے تو یہ اسمبلی‘ اسلامی اسمبلی ہوسکتی ہے کیونکہ آئین پاکستان حصہ نہم میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا‘ اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو اسلامی احکام کے منافی ہو۔ (دیکھیے: آئین کا حصہ نہم‘ اسلامی احکام)

حکومتیں مجرم ھیں

اگر حکومت اور پارلیمانی اکثریت کی حامل پارٹی آئین پر عمل کرتی تو اب تک اسلامی نظریاتی کونسل نے جو عبوری اور حتمی رپورٹیں پیش کی ہیں‘ ان کو اسمبلی میں زیربحث لاتی جس کا باربار مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر اس کی رپورٹ پیش کردی ہے۔ جائزے کے مطابق تمام قوانین کو اسلامی بنا دیا گیا ہے۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں کو قانونی شکل دی جاتی تومعاشرہ معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی لحاظ سے تبدیل ہوجاتا اور مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آجاتا۔

مجوزہ اقدامات

ہمارے اکابر نے قیامِ پاکستان کے بعد مطالبہ نظام اسلامی کی تحریک چلا کر ریاست اور اسمبلی کو اسلامی بنایا۔ اسلامی دفعات کے ذریعے سوشلسٹ اور سیکولر طبقے کو شکست دی۔ طویل جدوجہد اور دعوت و تعلیم کے ذریعے اس مشن میں کامیابی حاصل کی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہو جو اسمبلی کو اسلامی اسمبلی کے طرز پر چلائیں۔ اس عمل کو مزید مؤثر بنانے کے لیے چند اقدامات ضروری معلوم ہوتے ہیں جن کی نشان دہی مفید ہوگی۔

۱- ایک آئینی ترمیم کے ذریعے قرآن وسنت کو سپریم لا بنا دیں جس میں یہ بات شامل ہو کہ ایسی آئینی شق‘ قانون‘ صدارتی‘ وزارتی اور عدالتی آرڈر ازخود کالعدم ہوجائے گا جو قرآن وسنت کے منافی ہو‘ اور قرآن و سنت کے منافی ہونے کی بنیاد پر کسی بھی آئینی شق اور قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا۔

۲- قانون سازی کا دائرہ غیرمنصوص اور اجتہادی اور اختلافی مسائل تک محدود کردیا جائے۔

۳- اسلام کے ہر مخلص گروہ اور فرد کا فریضہ ہے کہ وہ مذکورہ دو مقاصد کے حصول کو اپنا نصب العین بنائے اور اس کے لیے عوام کی ذہن سازی میں مصروف ہوجائے۔ گلی گلی‘ محلے محلے‘  قریہ قریہ‘ شہر شہر تبلیغی وفود اور بینرز اور اسٹکرز اور ہینڈبلز اور زبانی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ وہ نیک لوگوں اور دینی جماعتوں کو بھاری اکثریت سے منتخب کریں تاکہ اسمبلیوں کو مکمل اسلامی بنانے کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔

 

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ آپؐ کی سخاوت کا سب سے زیادہ ظہور رمضان المبارک کے مہینے میں ہوتا تھا‘ جب کہ جبرئیل امین ؑآپؐ  سے ملتے تھے‘ اور جبرئیل امین ؑ آپؐ  سے ہر رات ملتے تھے اور آپؐ  کے ساتھ قرآن پاک کا دور کیا کرتے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی کے کاموں میں چومکھی‘ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔(بخاری)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ ووسلم نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: جانتے ہو سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپؐ  نے فرمایا: سب سے زیادہ سخی اللہ تعالیٰ ہیں۔ اس کے بعد میں تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی ہوں اور میرے بعد تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی وہ شخص ہے جس نے دین کا علم حاصل کیا پھر اسے پھیلایا۔ قیامت کے روز وہ امیر بن کر یا ایک اُمت بن کر آئے گا۔(مشکوٰۃ)

اللہ تعالیٰ کی سخاوت کائنات کی نعمتوں کی شکل میں ہمارے مشاہدے میں ہے۔ موافق‘ مخالف سب کو نوازتے ہیں‘ لیکن اس کی سب سے بڑی سخاوت قرآن پاک اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے کہ اس کے ذریعے دنیا و آخرت بن جاتی ہے اور جنت ملتی ہے جو دائمی عزت اور      وسیع و عریض حکمرانی ہے۔ نزول قرآن پاک اور منصب نبوت سے سرفرازی جناب رسول اکرمؐ کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہوئی۔ اسی مہینے میں لیلۃ القدر کی شکل میں سخاوت ہے کہ ایک رات ہزاروں راتوں (۸۴ سال سے) کی عبادت سے بھی افضل ہے۔ اسی مہینے میں روزہ داروں کے لیے شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ (بخاری) اس کا پہلا حصہ رحمت‘ دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے آزادی کا عشرہ ہے۔ جس نے کوئی بھی نفلی کام کیاگویا اس نے ایک فرض کو ادا کیا‘ جس نے ایک فرض ادا کیا اس نے گویا ۷۰ فرض ادا کیے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق زیادہ کیا جاتا ہے۔ جس نے روزے دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہوگی اور اسے روزہ دارکے روزے کا ثواب بھی ملے گا۔ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ جس نے اپنے غلام/ملازم کے کام میں کچھ تخفیف کردی‘ اللہ تعالیٰ اس کی بخشش کردیں گے اور دوزخ کی آگ سے آزاد کردیں گے۔ (مشکوٰۃبحوالہ بیہقیفی شعب الایمان‘ رمضان کی آمد پر آپؐ کا خطبہ روایت سلمان فارسیؓ)


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے روزہ رکھا‘ اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے ایمان اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رات کو قیام کیا (تراویح پڑھی) اس کے بھی پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔(بخاری)


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپؐ  کی اُمت کی مغفرت کردی جاتی ہے رمضان المبارک کی آخری رات میں (رمضان المبارک کا حق اداکرنے والوں‘ روزے داروں اور گناہوں سے بچنے والوں کی)۔ عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! کیا یہ لیلۃ القدر کے بارے میں ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ کارکن جب کام پورا کردیتا ہے تو اسے اس کی اُجرت دے دی جاتی ہے۔ (مسنداحمد)

یہ اللہ تعالیٰ کی وہ سخاوتیں ہیں جواس مہینے میں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سخاوت قرآن پاک ہے جو آپؐ کے سینۂ اطہر پر اسی مہینے میں نازل ہوا اور آپؐ کے ذریعے اُمت کو اسی مہینے میں ملنا شروع ہوا‘ اور اسی وجہ سے قرآن پاک کے عالم اور معلم کو آپؐ نے اپنے بعد سب سے زیادہ سخی قرار دیا۔ اس لیے کہ خلقِ خدا کو سب سے زیادہ ضرورت قرآن پاک‘ اس کی تعلیمات اور اس کے نظام کی ہے۔ جو لوگ قرآن پاک کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں‘ سب سے زیادہ سخاوت کا کام کررہے ہیں۔

رمضان المبارک کا پہلا حق یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کی جائے‘ اس کا ذوق و شوق اور جذبے سے استقبال کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا استقبال‘ اس کی فضیلت کو بیان فرمایا کرتے تھے تاکہ اُمت اس کے حقوق کو ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم پر سایہ فگن ہورہا ہے ایک عظیم مہینہ‘ ایک مبارک مہینہ‘ ایک ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزاروں راتوں سے بہتر ہے‘‘۔ (عن سلمان فارسی‘ مشکٰوۃ بحوالہ بیہقی)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے بعدرمضان المبارک میں خود بھی      روزہ رکھنے‘ تلاوت قرآن‘ قرآن پاک کے دور اور خیر کے تمام کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے۔ صدقہ خیرات‘ مسلمانوں کی ہمدردی‘ عزیزوں سے صلہ رحمی‘ روزہ داروں کے روزے افطار کرانا‘ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے حصول اوربلندیِ درجات کی طلب کے لیے مشغول ہوجانا آپؐ کا معمول تھا۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مہینے میں جومعمول تھے‘ ان کو محدثین نے بیان کیا ہے اور اُمت مسلمہ کے لیے آپؐ کے ان معمولات میں بہت بڑی رہنمائی ہے۔ تمام حقوق اور معمولات کی اساس قرآن پاک کی قدردانی اور تعظیم ہے۔ اس کے تمام اوامر کو عملی جامہ پہنانا اور تمام نواہی سے بچنا اور قرآن پاک کی بنیاد پر اجتماعی نظام قائم کرنا ہے۔ قرآن پاک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ سلم کا سب سے بڑااحسان ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اسی احسان کو یاد دلاتا ہے‘ لیکن آج ہم اسی احسان کو بھولے ہوئے ہیں۔ قرآن پاک کا نظام معطل ہے اور اس وجہ سے ہم آج طرح طرح کے مصائب‘ آفات و بلیات اور خوں ریزوں سے دوچار ہیں اور تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ان سے نکلنے کا راستہ‘ قرآن پاک کی طرف رجوع کرناہے۔


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تذکرہ فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو آپؐ ساری رات بیدار رہتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدار کرتے اور اپنی کمرباندھ لیتے۔ پہلے دو عشروں میں بیدار رہ کر نماز پڑھتے اور سوتے بھی تھے اور آخری عشرے میں ساری رات بیدار رہتے اور کمرہمت باندھ لیتے تھے۔(مسلم‘ ترمذی‘ نسائی‘ ابن ماجہ‘ بیہقی)

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہے‘ آپؐ اس قدر اہتمام فرماتے ہیں تو امتیوں کے لیے سُستی کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ اگر نیند کا غلبہ ہوجائے تو پھر سو جانا چاہیے۔ ساری رات بیدار رہنے کے عوض دن کو آرام کرنا چاہیے۔ ساری رات‘ اور سارا دن بیدار رہنا ممکن نہیں ہے۔


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس دنیاسے اُٹھا لیا اور آپؐ  کی ازواج مطہراتؓ نے آپؐ کے بعد اعتکاف کیا۔(متفق علیہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری معمول یہ تھا‘ اس سے پہلے آپ نے پہلے دو عشروں میں بھی اعتکاف فرمایا تھا اور اس کا مقصدلیلۃ القدر کو پانا اور اس میں عبادت کرنا تھا۔ ایک رات میں ہزاروں رات سے زیادہ راتوں کی عبادت کتنی بڑی کمائی ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایک درہم کے بدلے میں ہزار درہم سے زیادہ کا اعلان کردے تو لوگوں کی قطاریں نہیں لگیں گی ‘ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑنے کے لیے ایسا کیوں نہیں ہوتا!


حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (روزہ دار کے لیے) روزہ اور (قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کے لیے) قرآن پاک سفارش کرے گا۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے کھانے پینے اور شہوتوں سے دن میں روکا (اور یہ رک گیا)‘ اس لیے میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ اور قرآن پاک اس کے حق میں سفارش کرے گا کہ اے میرے رب! میں نے اسے راتوں کو سونے سے روک دیا‘ پس اس کے بارے میں میری سفارش کو قبول فرما‘ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی (اور روزہ دار اور قرآن پاک پڑھنے والے کو جنت میں داخل کردیا جائے گا)۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

رمضان کی بڑی اور بنیادی عبادتیں دو ہیں: روزہ اور قرآن پاک کی تلاوت۔ باقی نیکیاں ان دونوں کے تابع ہیں اور برائیوں سے بچنا ان دونوں کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

حج وداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے مخاطب ہوکر پوچھا: کچھ معلوم ہے‘ آج کون سا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ خدا اور اس کے رسولؐ کو زیادہ علم ہے۔ آپؐ دیر تک چپ رہے‘ لوگ سمجھے کہ شاید آپؐ اس دن کا کوئی نام رکھیں گے۔ دیر تک سکوت کے بعد فرمایا: کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں بے شک ہے۔ پھر ارشاد ہوا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ لوگوں نے پھر اسی طریقے سے جواب دیا۔ آپؐ نے پھر دیر تک سکوت کیا‘ اور فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں‘ بے شک ہے۔ پھر پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے بدستور جواب دیا۔ آپؐ نے اسی طرح دیر تک سکوت کے بعد فرمایا: کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: بے شک ہے۔ جب سامعین کے دل میں یہ خیال پوری طرح جاگزیں ہوچکا کہ آج کا دن بھی‘ مہینہ بھی‘ اور خود شہر بھی حرام ہے‘ یعنی اس دن‘ اس مقام میں جنگ اور خوں ریزی جائز نہیں‘ تب فرمایا: تو تمھارا خون‘ تمھارا مال‘ تمھاری آبرو تاقیامت اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن‘ یہ مہینہ اور یہ شہر۔

جس نبیؐ نے اپنے ماننے والوں کی جان و مال آبرو کی حُرمت کی تعلیم دی تھی‘ اس نبیؐ کے ماننے والوں کے معاشرے کا آج کیا حال ہوگیا ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے لیکن روز اخبار اُٹھائیں تو انسانیت کتنی دفعہ قتل ہوتی نظر آتی ہے۔ دشمنی میں قتل کیا جاتا ہے‘ بھنگڑا ڈالا جاتا ہے‘ پھر بھی انتقام کی آگ سرد نہیں ہوتی تو فائرنگ کی جاتی ہے۔ رشتوں کا تقدس ختم ہوگیا ہے۔ باپ بیٹے کواور بیٹے باپ کو قتل کر رہے ہیں۔ سوچا نہیں جا سکتا ہے لیکن ہم نے اپنے اخباروں میں ماں کے قتل کی خبر بھی پڑھی‘ بدفعلی اور زنا بالجبر کے بعد قتل کردیا جاتا ہے اور لاش گٹر میں‘ کھیتوں میں اور سڑکوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ یہ ہمیں کیا ہوگیا ہے؟کیا ہمارے ہوش و خرد رخصت ہوچکے ہیں۔ انسانی جان کی حُرمت کے حوالے سے کچھ دوسری احادیث ملاحظہ فرمایئے:

۱- حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساری دنیاکی تباہی سے بڑھ کر تباہی ہے۔(نسائی، کتاب المحاربہ)۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں:’’ساری دنیا کا خاتمہ اللہ کے نزدیک مسلمان کے قتل کے مقابلے میں زیادہ ہلکا ہے ‘‘۔ (نسائی،کتاب المحاربہ)

۲- حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خوں ریزیوں کے مقدمات کا فیصلہ ہوگا۔ (بخاری)

۳- حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز ایک آدمی اپنے قاتل کو اس کے ہاتھ سے پکڑ کراللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گا ،عرض کرے گا: میرے رب!اس سے پوچھیے اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟وہ جواب میں کہے گا: میں نے اسے فلاں آدمی کی بڑائی قائم کرنے کے لیے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: بڑائی تو صرف میرے لیے ہے۔ پھر وہ قتل کے گناہ میںگرفتار ہوجائے گا ۔(نسائی،کتاب المحاربہ)

۴- حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: مومن دین کے وسیع دامن میں پناہ گزین ہو تا ہے جب تک حرام خون نہ بہادے۔ (بخاری، کتاب الدیات )


حضرت سعید بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے مال کی حفاظت میں جان دی وہ شہید ہے۔جس نے اپنی جان بچانے کی خاطر   لڑائی لڑی اور قتل ہو گیا وہ شہید ہے۔جس نے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لیے لڑائی لڑی  وہ شہید ہے۔(نسائی)

آج کل جان و مال کی حفاظت کے اس طریقے کی تعلیم دی جاتی ہے کہ قاتلوں‘ ڈاکوؤں‘ چوروں کا مقابلہ مت کرو‘ اپنی جان بچائو۔ خواتین تک کو کہا جاتا ہے کہ ہر بات مانو تاکہ جان تو بچے۔ قاتل اور ڈاکو چونکہ اس بات کو جانتے ہیں‘ لہٰذا اس کا پورافائدہ اٹھاتے ہیں۔ احادیث کی تعلیم تو یہ ہے کہ مقابلہ کرو‘ جان کی پروا نہ کرو۔ اگر جان چلی گئی تو یہ شہادت اس زندگی سے جسے بچا رہے تھے بہتر اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ اگر مزاحمت کا کلچر عام ہوتو ڈاکوؤں اور قاتلوں کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ چند جانیں مزاحمت کرتے ہوئے جاسکتی ہیں لیکن اس طرح بہت سے بے گناہوں کی جانیں بچیں گی۔


حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال تقسیم فرمارہے تھے کہ اس دوران میں ایک آدمی آگے بڑھا اورآپؐ پراوندھاگرپڑا۔ آپؐ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی ،آپؐ نے اسے ہٹانے کے لیے شاخ کی چوک ماری جس سے اس کا چہر ہ زخمی ہوگیا ۔نبی کریمؐ نے اسے فرمایا: آؤ قصاص لے لو۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ میں نے معاف کردیا۔ (ابوداؤد، کتاب الدیات )

جان کی حفاظت کا عملی طریقہ یہ بھی ہے کہ قصاص پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا جائے۔ قاتل سے لازماً قصاص لیا جائے‘ اس سے قتل کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ قاتلوں کا بچ جانا اور آزاد پھرنا قتل کی حوصلہ افزائی کا موجب ہوتا ہے۔ قصاص تو جان کے علاوہ بھی ہے۔ ہرطرح کے ظلم پر قصاص ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معمولی چوٹ پر بھی اپنے آپؐ کو قصاص کے لیے پیش کرتے ہیں تو کسی دوسرے کو کیا مفر ہے۔پولیس کے جو لوگ شہریوں کو ٹارچر کرتے ہیں اگر قصاص میں ان کو بھی اسی طرح ٹارچر کیا جائے تو پھر دیکھتے ہیں کہ کون ٹارچر کرتا ہے۔ اس طرح گھروں میں زیردستوں پر رونگٹے کھڑے کرنے والے مظالم بلاتکلف کیے جاتے ہیں۔ دوچار کا قصاص لے لیا جائے تو پتا چلے۔


حضرت سھل بن ابی حثمہ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن سھل اور محیصہ خیبر کی طرف گئے ۔ محیصہ واپس آئے اوراطلاع دی کہ عبداللہ ابن سھل قتل ہوگئے اورانھیںقتل کرکے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا (محیصہ نے تجہیز وتکفین کی نماز جنازہ پڑھا اوردفن کیا )۔ پھر یہو د کے پاس آئے اور کہا کہ تم نے اسے قتل کیا ہے۔ انھوں نے اللہ کی قسم اٹھاکر انکار کردیا کہ ہم نے نہیں قتل کیا۔ محیصہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ساری صورت حال ان کے سامنے رکھ دی۔ پھر محیصہ اور اس کے بڑے بھائی حویصہ اورعبد الرحمن بن سھل ( مقتول عبداللہ بن سھل کے بھائی) رسول ؐاللہ کی خدمت میں استغاثہ دائر کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ محیصہ نے جو خیبر میں عبداللہ بن سھل کے ساتھ تھے ، بات کرنا چاہی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ چنانچہ پہلے حویصہ اور پھر محیصہ نے بات کی۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: یہو د پر لازم ہے کہ تمھارے مقتول کی دیت دیں یا پھرلڑائی کے لیے تیار ہوجائیں ۔ رسولؐ اللہ نے ان کی طرف اس مضمون کا خط تحریرکرکے بھیج دیا۔ انھوں نے جواب میں لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے نہیں قتل کیا۔ تب رسولؐ اللہ نے حویصہ ، محیصہ اور عبدالرحمن بن سھل سے فرمایا: کیا تم قسمیں کھاتے ہوتاکہ تمھیں یہود سے تمھارے مقتول کے خون کا عوض ملے۔ انھوں نے جواب میں کہا: نہیں‘ ہم ایسے واقعے  کی جس کا مشاہدہ ہم نے نہیں کیا‘کیسے قسمیں کھاسکتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر یہود قسمیں اٹھائیں گے(کہ ہم نے نہیں قتل کیا اورہمیں قاتل معلوم نہیں)۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہود جھوٹی قوم ہے۔ ان کی قسموں کا اعتبار نہیں۔ تب رسولؐ اللہ نے عبداللہ ابن سھل کی دیت ۱۰۰ اُونٹ بیت المال سے دی۔ (ابوداؤد ، بخاری)

ایک طرف ہم مسلمانوں کایہ طرزِعمل اور کردار ہے۔ تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیںملتی ہیں۔ لیکن مغرب کی بے خدا تہذیب آج کسی قسم کی جواب دہی سے بے نیاز جس انداز سے‘ جس نوعیت اور جس بڑے پیمانے پر قتل و غارت کر رہی ہے وہ انسانیت کے لیے ہمیشہ شرمندگی کا باعث رہے گا۔ افغانستان میں اور پھر عراق میں جو کچھ ہوا‘ اس نے ویت نام کو بھلا دیا۔ اشتراکیوں نے جو مظالم اپنے شہریوں پر کیے وہ اب حقیر نظر آتے ہیں۔ وہ وقت آنا چاہیے کہ ظالموں کو اس دنیا میں بھی کچھ سزا ملے‘ آخرت میں تو ان کا حساب ہوگا ہی۔ المیہ یہ ہے کہ صلیبی جنگ کرنے والوں کی فرنٹ لائن میں مسلم ممالک کے حکمران ہیں جو دنیا میں اتنے مست ہیں کہ اپنی قبر اور آخرت کو بھول چکے ہیں۔

 

حضرت ابوموسٰی ؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! قیامت کے روز ہر معروف (نیکی) اور ہر منکر (برائی) ایک مخلوق کی شکل میں انسانوں کے سامنے کھڑی ہوں گی۔ معروفات اپنے اُوپر عمل پیرا ہونے والوں کو   خوش خبریاں دیں گی اور جنت کے وعدے یاد دلائیں گی‘ اور منکرات اپنے اُوپر عمل پیرا ہونے والوں کو دھکے دیں گی لیکن وہ ان سے چمٹیں گے (ان سے عشق کا مظاہرہ کریں گے)۔ برائی اپنے ساتھ لے کر انھیں دوزخ میں پھینک دے گی اور عشق کا مزا چکھائے گی۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۷‘     ص ۳۶۲ بحوالہ مسنداحمد‘ بزاز)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی اور بدی دونوں کا انجام کھول کر بیان فرما دیا ہے‘ اتمامِ حجت کر دیا ہے۔  کل قیامت کے روز کوئی یہ عذر نہیں کر سکے گا کہ مجھے تو برائی کے اس ہولناک انجام کا پتا نہ تھا‘ ورنہ میں برائی سے عشق نہ کرتا۔ آج موقع ہے‘ توبہ کا دروازہ کھلا ہے‘ باز آنے والے باز آسکتے ہیں۔ کل پکڑ ہوگی‘ کسی بھی قسم کی چیخ و پکار کام نہ دے گی۔ ہے کوئی جو اس بات پر کان دھرے!


حضرت علی بن ربیعہؒ سے روایت ہے‘ مجھے حضرت علیؓ نے اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا‘ پھر حرۃ کی جانب چل پڑے۔ پھر آسمان کی طرف سر اٹھایا اور یہ دعا کی: اَللّٰھُمَّ اَغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اَحَدٌ غَیْرُکَ ،’’اے اللہ میرے تمام گناہ اور لغزشیں بخش دیجیے‘ گناہوں کو تیرے سوا کوئی بھی نہیں بخش سکتا‘‘۔ پھر میری طرف مڑ کر دیکھا اور ہنس پڑے۔ میں نے عرض کیا: امیرالمومنین آپ کا اپنے رب سے استغفار کرنا پھر میری طرف مڑ کر دیکھنا اور ہنسنا سمجھ میں نہیں آیا؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت علیؓ نے جواب میں فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے سوار کیا۔ پھر مجھے حرۃ کی جانب لے کر چل پڑے۔ پھر آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا اور دعا کی اَللّٰھُمَّ اَغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اَحَدٌ غَیْرُکَ ، پھر میری طرف مڑ کر دیکھا اور ہنس پڑے۔ میں نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! آپؐ  کا استغفار کرنا اور میری طرف مڑ کر دیکھنا اور ہنس پڑنا سمجھ میں نہیں آیا‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: میں ہنس پڑا اس لیے کہ میرے رب خوش ہوکر اس بات پر ہنس پڑے کہ میرا بندہ عقیدہ رکھتاہے کہ گناہوں کو اس کے سوا کوئی نہیں بخش سکتا۔ (کنزالعمال ‘ ج۱‘ ص ۲۱۱)

اللہ تعالیٰ ایسے حکمران ہیں جو بندے کی ذرا ذرا سی بات‘ ذرا ذرا سے عمل سے باخبر ہیں۔ ہر وقت دیکھتے‘ سنتے اور جواب دیتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس کے جواب کا علم نہیں ہوتا لیکن انبیا علیہم السلام کو بعض اوقات علم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سے بارہا باخبر کردیتے تھے۔    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر اللہ رب العالمین کا خوش ہوجانا‘ ہنس پڑنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع کر دینا‘ اس کی ایک مثال ہے۔ یہ یقین نہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں کہ آج بھی کوئی بندہ یقین کے ساتھ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اسی طرح اظہار مسرت نہ کرتے ہوں گے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرامؓ کی محبت کا یہ ایک نمونہ ہے جو حضرت علیؓ نے پیش کیا۔    آپؐ  کے عمل کی پوری کی پوری نقل کی‘ سواری پر سوار ہو کر اپنے پیچھے علی بن ربیعہ کو بٹھایا‘ حرۃ کی طرف گئے‘ حرۃ پہنچ کر دعا کی اور دعا میں اسی عمل کو دہرایا جسے آپؐ  نے دہرایا تھا۔ نبی کریمؐکے  نقش قدم پر چلنا قدم بقدم وہی کچھ کرنا جو آپؐ  نے کیا‘ یہی آپؐ  سے حقیقی محبت ہے۔


حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دن اور رات میں ضروریات اور حاجات پیش آتی رہتی تھیں۔ اس لیے ہم میں سے کم از کم چار پانچ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے۔ کبھی بھی آپؐ کو تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔ کہتے ہیں‘ میں آپؐ کے پاس آیا‘ اس حال میں‘ کہ آپؐ گھر سے باہر نکل گئے۔ میں آپؐ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آپؐ انصار کے سرداروں میں سے ایک سردار کے باغ میں داخل ہوئے‘ نماز پڑھی‘ سجدہ کیا جو بہت طویل ہوگیا۔ میں ڈر گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ آپؐ کی روح مبارک قبض کرلی گئی ہو‘ اس ڈر سے میں رو پڑا۔ کہتے ہیں پھر آپؐ نے سر اٹھایا اور مجھے بلایا اورفرمایا: تمھیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے سجدہ طویل فرما دیا تو مجھے ڈر ہوگیا کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح مبارک قبض کرلی ہو‘ اور اس کے بعد میں کبھی بھی آپؐ  کادیدار نہ کرسکوں‘ اس لیے میں رو پڑا۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنی اُمت پر اس انعام کے سبب سجدئہ شکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس نے آپؐ  پر ایک دفعہ درود پڑھا میںاس پر درود بھیجوں گا‘ اور جس نے آپؐ  پر سلام بھیجا میں اس پر سلام بھیجوں گا۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۱۰‘ ص ۱۶۱‘ بحوالہ سند ابویعلٰی ابن ابی الدنیا‘ایضاً الترغیب‘ ج ۳ ص ۱۵۵)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت سے کس قدر محبت ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے۔ اُمتی کو انعام ملا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے سبب اللہ تعالیٰ اس پرصلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں‘ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ایسے شفیق و کریم نبی کے ساتھ محبت‘ اطاعت اور عشق کس قدر ہونا چاہیے؟ ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے کہ آپؐ کی محبت‘ آپؐ  کی اطاعت‘ آپؐ  کے دین و نظام سے لگائو ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو‘ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ اور اولاد اور اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوں‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے والا فرائض کا پابند‘ منکرات سے اجتناب کرنے اور دین کو غالب کرنے والا ہوگا‘ لیکن وہ شخص جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت نہ ہو‘ وہ نبی کریمؐ کو بھولا ہوا ہو‘ آپؐ   پر درود و سلام نہ پیش کرتا ہو تووہ اللہ تعالیٰ‘ اللہ تعالیٰ کے دین اور اللہ والوں کو بھی بھولا ہوا ہوگا اور اسی لیے خائب و خاسر ہوگا۔


حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے‘ میں اور میرے والد گھر کے دروازے پر بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار ہوکر تشریف لائے۔ میرے والد نے آپؐ سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے گھر تشریف نہیں لاتے؟ تشریف لائیں‘ کھانا تناول فرمائیں اور برکت کی دعا کریں۔ آپؐ نے درخواست مان لی۔گھر تشریف لائے‘ کھانا کھایا اور برکت کی یہ دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ ارْحَمْھُمْ وَاغْفِرْلَھُمْ وَبَارِکْ لَھُمْ فِیْ رِزْقِھِمْ ، ’’اے اللہ! ان پر رحم فرما‘ ان کی مغفرت فرما اور ان کے لیے ان کے رزق میں برکت عطا فرما‘‘۔ اس کے بعد ہم نے ہمیشہ رزق میں فراخی دیکھی۔ (کنزالعمال‘ ج ۵‘ ص ۲۲‘ بحوالہ ابن عساکر)

رشتے داروں کو ہی نہیں‘ جن سے دین کا رشتہ ہو‘ ان کو اپنے گھر پر دعوت دے کر بلانا اور کھانے میں شریک کرنا اور ان سے دعائیں لینا ایک ایسی نیکی ہے جس کا رواج جتنا زیادہ ہو‘فائدے اتنے ہی زیادہ ہیں۔ حدیث بتاتی ہے کہ دعا کے لیے بلاتکلف درخواست کرنا چاہیے‘ اور مہمان کو اسے قبول کرتے ہوئے برکت کی دعا کرنا چاہیے۔ رزق کی تنگی و کشادگی سو فی صد اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ ہمارے نہیں (جیسا ہم سمجھتے ہیں)۔ اگر مدعو کوئی ذی عزت‘ بزرگ اور متقی ہو تو یقینا دعا زیادہ قبول ہوگی‘ برکت بھی زیادہ ہوگی۔


حضرت ابوقتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کے تمام لوگوں کو معافی مل جائے گی مگر مجاہرین (اعلان کرنے والے) کو معافی نہیں ملے گی۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ مجاہرین کون لوگ ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ آدمی جو رات کو گناہ کرتا ہو‘ اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے۔ صبح کے وقت وہ اٹھے اور خود ہی اپنا پردہ فاش کردے‘ کہے اے فلاں آدمی! میں نے گذشتہ رات یہ برا کام کیا ہے۔ (مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی فی الاوسط)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی سچائی کا مشاہدہ سر کی آنکھوں سے کیا جاسکتا ہے۔ آج بہت سے ایسے لوگ جو بڑے بڑے مناصب پر فائز ہیں‘ اپنے گناہوں پر سے خود پردہ اٹھاتے ہیں اور کتابیں لکھتے ہیں۔ اس میں اپنے ماں باپ‘ دادا نانی کی بے حیائیوںکا تذکرہ‘ عالمی سطح پر دنیا بھر کے اصحاب شان و شوکت اور عوام و خواص کے سامنے کرتے ہیں۔ ان کتابوں پر رائلٹی لیتے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی کہ ایک ایسا دور آئے گا جب قوم کا لیڈر رذیل ترین اور قبیلے کا قائد فاسق ہوگا(مشکوٰۃ )۔ آج وہی دَور ہے۔

جو مسلمان بے حیائی کی اشاعت پر خاموش تماشائی ہوں‘ وہ بھی بے حیائی کی اشاعت میں مددگار شمار ہوں گے۔ جب بے حیائی کی اشاعت کرنے والوں پر عذاب آئے گا تو اس کی لپیٹ میں خاموش تماشائی بھی آجائیں گے۔ خاموشی کی گنجایش نہیں ہے۔ اس لیے ہر ہر گھر‘ بستی بستی تک پہنچ کر موجودہ نازک صورت حال سے اہلِ وطن کو آگاہ کیا جائے اوربے حیائی کو حکومتی سطح پر فروغ دینے کے سلسلے کو روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازے۔ آمین!

حضرت عبداللہ بن خبیبؓ سے روایت ہے کہ ہم بارش کی رات اور سخت تاریکی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب میں نکلے کہ آپؐ کے پیچھے نماز پڑھیں۔ ہم نے آپؐ کو پالیا۔ آپؐ نے فرمایا: قُلْ (کہو)، میں خاموش رہا ‘کچھ نہ کہا۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا: قُلْ۔ میں نے پھر بھی کچھ نہ کہا۔ آپؐ نے پھرفرمایا: قُلْ۔ تب میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں کیا کہوں؟ آپؐ نے فرمایا: قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور معوذتین پڑھو‘ شام کے وقت اور صبح کے وقت تین مرتبہ‘ یہ تمھیں ہرچیز کی جگہ کافی ہوجائیں گی۔ (ترمذی)

تعلیم و تربیت کا کیسا انداز ہے! پوری طرح متوجہ کرکے‘ شفقت و محبت کے ساتھ بات کو دل و دماغ میں اتار دینا کہ زندگی بھر بات نہ بھولے‘ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ تعلیم ہے۔ آدمی ان تین سورتوں کے ذریعے اللہ رب العالمین کی پناہ میں آجاتاہے‘ جو کائنات کا حکمران ہے۔ تب اس کا کون سا کام ہے جو نہ ہوگا۔ جو اللہ کا ہوجائے‘ اللہ تعالیٰ اس کے ہوجاتے ہیں۔ اہلِ ایمان کا بڑا سہارا یہی ہے: وعلٰی اللّٰہ فلیتوکل المومنون، ’’اللہ ہی پر ایمان والے توکّل کریں‘‘۔(المائدہ ۵:۱۱)

سائب بن مہجاں شای تابعی ہیں‘ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ شام میں داخل ہوئے تو شام کے لوگوں کو خطاب کیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد وعظ نصیحت کی‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا‘ اس کے بعد فرمایا کہ جس طرح میں نے آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر خطاب کیا ہے‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطاب میں اللہ تعالیٰ سے تقویٰ‘ صلہ رحمی‘ باہمی تعلقات کی اصلاح کا حکم دیا اور فرمایا: جماعت سے وابستہ رہو‘ سنو اور اطاعت کرو‘ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کی حفاظت اور نصرت فرماتے ہیں۔ شیطان اکیلے شخص پر حملہ آور ہوتا ہے‘ دو سے دُور رہتا ہے۔ کوئی مرد (غیرمحرم) عورت کے ساتھ تنہائی نہیں کرتا مگر شیطان ان دونوں کے ساتھ تیسرا ہوتا ہے (یعنی گناہ میں مبتلا کرتا ہے)۔ جسے اپنی برائی کا دکھ اور نیکی پر خوشی ہو تو مسلمان اور مومن ہونے کی نشانی ہے۔ اور منافق کی نشانی یہ ہے کہ اسے برائی پر ذہنی تکلیف نہ ہو اور نیکی پر ذہنی خوشی اور مسرت نہ ہو۔ وہ اگر بھلائی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس پر ثواب کی اُمید نہیں رکھتا اور اگر برائی کرتا ہے تو اس پر اسے سزا کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ دنیا کی طلب میں اچھے طریق کا اختیار کرو۔   اللہ تعالیٰ نے تمھاری روزی کا ذمہ لیا ہے۔ ہر ایک کو اس کے اس عمل کا جس پر وہ کاربند تھا‘ پورا پھل ملے گا۔ اپنے اعمال پر اللہ سے مدد مانگو‘ اس لیے کہ وہ جس عمل کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔ اس کے پاس ام الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

طویل تقاریر کے بجاے اختصار سے اہم اور بنیادی امور کے بیان کا کتنا اچھا نمونہ ہے۔ یہ مثال بھی ملتی ہے کہ عمال حکومت اپنی طرف سے ضروری باتیں بیان کرکے‘ اہم تر باتیں اللہ کے رسولؐ کی طرف سے بھی بیان کریں کہ سننے والوں کے لیے اس کی اپنی تاثیر ہے۔ غیرمحرم عورت کے ساتھ تنہائی میں جو اندیشے ہیں اس کا بیان اتنے اہم سرکاری خطاب میں ہو رہا ہے۔ اس سے ایک طرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر جو ’روشن خیالی‘ کے دور میں معمولی بات ہے‘ کتنا اہم ہے۔ دوسرے یہ بھی کہ سربراہ ملک‘ عوام کے اخلاق کے لیے فکرمند ہوتا ہے (نہ کہ اخلاق بگاڑنے پر کمربستہ)۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوا۔ ہم عربوں کے قبیلوں میں سے ایک قبیلے کے پاس پہنچے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بستی سے الگ تھلگ ایک گھر پر نظرڈالی‘ اور اس کی طرف چلنا شروع کردیا۔ جب ہم اس کے پاس پہنچے تو پتاچلا کہ یہاں تو صرف ایک خاتون ہے۔ اس نے کہا: اللہ کے بندے! میں ایک عورت ہوں اور میرے ساتھ کوئی بڑا آدمی نہیں ہے۔ اگر آپ لوگ مہمان بننا چاہتے ہیں تو بستی کے بڑے کے پاس چلے جائیں۔ شام کا وقت تھا۔ آپؐ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اتنے میں اس کا ایک بیٹا بکریوں کو ہنکاتا ہوا پہنچ گیا۔تب اس خاتون نے اپنے بیٹے سے کہا: بیٹے! اس بکری کو لواور اس کے ساتھ یہ چھری بھی پکڑلو اور دونوں مہمانوں کو جاکر دے دو اور ان سے کہو کہ میری ماں آپ سے کہتی ہے کہ اس بکری کو ذبح کرلیں‘ خود بھی کھائیں اور ہمیں بھی کھلائیں۔

جب بیٹا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آگیا اور اپنی ماں کا پیغام پہنچایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھری لے جائو‘ ہمارے پاس پیالہ لے کر آئو۔ اس نے عرض کیا: ماں چراگاہ میں چلی گئی ہے اور بکری کے تھنوں میں دودھ نہیں ہے۔ اس لیے پیالے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا (تم اس بات کو چھوڑو) بس پیالہ لے آئو۔ وہ پیالہ لے آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا‘ پھر دودھ دوہا یہاں تک کہ پیالہ بھر گیا۔ وہ پیالہ آپؐ نے بچے کو دیا اور فرمایا: اپنی ماں کو دے آئو‘ چنانچہ وہ ماں کے پاس لے گیا۔ اس نے اتنا دودھ پیا کہ سیر ہوگئی۔ بچہ پیالہ لے کر واپس آیا‘ آپؐ نے دوبارہ پیالہ بھر کر اسے دیا اور فرمایا: دوسرا پیالہ بھی لے آئو۔ وہ دوسرا پیالہ لایا‘ آپؐ نے اس میں بھی دودھ دوہا‘ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کو دودھ پلایا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا۔ وہ رات ہم نے وہیں گزاری‘ پھر ہم دوبارہ منزل کی طرف چل پڑے۔

اس خاتون نے آپؐ کی یہ برکت دیکھی تو آپؐ کا نام مبارک رکھ دیا‘ اور وہ آپؐ کو مبارک کے نام سے پکارتی تھی۔ اس کے بعد اس کی بکریاں بھی بہت زیادہ ہوگئیں‘ چنانچہ بکریوں کا ایک ریوڑ لے کر وہ مدینہ طیبہ آگئی۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کا اس طرف سے گزر ہوا تو اس کے بیٹے نے    انھیں دیکھ کر پہچان لیا اور اپنی ماں کو آواز دی: اماں جان! یہ وہ آدمی ہے جو مبارک ذات کے ساتھ تھا۔ وہ حضرت ابوبکرصدیقؓ  کے پاس آئی اور پوچھا: اللہ کے بندے! تمھارے ساتھ جو آدمی تھے وہ کون تھے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: تمھیں پتا نہیں وہ کون تھے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔    اس پر حضرت ابوبکرصدیقؓ  نے فرمایا: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ کہنے لگی کہ مجھے ان کے پاس لے جائو۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اسے آپؐ کے پاس لے گئے۔ آپؐ نے اسے کھانا کھلایا‘ عطیات دیے‘ پنیر اور دیہاتیوں کے سازوسامان اور کپڑوں کے جوڑے پیش کیے۔ وہ مسلمان ہوگئی۔ (کنزالعمال‘ ج۸)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اس کی تاثیر کا کیا حسین منظر ہے۔ آپؐ کی برکت کا مشاہدہ کرنے والی خاتون خود بخود مسلمان ہوجاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اعزاز کا بدلہ بہترین اعزازواکرام کے ساتھ اُتارتے ہیں۔ ہدیہ دینا‘ خصوصاً دُور سے ملنے آنے والوں کو‘ اسلامی اخلاق کا تقاضا اور    سنت رسولؐ کی پیروی ہے۔ اس کے اپنے فوائدو برکات ہیں۔اس واقعے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ جب بندے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو ان کے معاش کا مسئلہ اللہ تعالیٰ خود حل فرما دیتے ہیں۔ بکری کے خشک تھنوں میں بھی دودھ اتر آتا ہے۔ غیب سے رزق کا سامان میسر ہوجاتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب ایک آدمی اپنے گھر سے بسم اللّٰہ توکلت علی اللّٰہ لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ (میں اللہ کے نام سے نکلا‘ میں نے اس پر توکل کیا‘ کوئی حرکت اور کوئی قوت نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ) پڑھ کر نکلتا ہے تو ایسے شخص کو آواز دی جاتی ہے (فرشتہ آواز دیتا ہے): ’’تجھے ہدایت دی گئی‘ تیرے تمام کاموں کے لیے اس قدر مدد کی گئی جتنی کافی ہوجائے اور تجھے ہرشر سے بچا لیا گیا۔ شیطان تمام کے تمام اس سے دُور ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرا شیطان دُور ہوجانے والے شیطان اور اپنے آپ سے کہتا ہے: ’’تم کیسے اس شخص کو نقصان پہنچا سکتے ہو جسے ہدایت دے دی گئی‘ جس کے لیے بقدر کفایت مدد کی گئی‘ اور اسے ہرشر سے بچالیا گیا‘‘۔ (سنن ابی داؤد‘ سنن ترمذی)

جب ایک شخص صرف زبان سے نہیں بلکہ پورے شعور اور اخلاص نیت سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر‘  اللہ پر بھروسا کرکے نکلے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آجاتا ہے اور اس کی مدد کا مستحق ہوجاتا ہے۔ وہ جسمانی اور روحانی دونوں لحاظ سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ شیطان اس کو گمراہ کرنے سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

آج کے حالات میں ہر جگہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نصرت کی ضرورت ہے۔ انسانوں اور جنات کی شکل میں شیطان مسلمان کے خون کے پیاسے ہیں۔ ان کو مٹانے اور کفروشرک اور فسق و فجور میں مبتلا کرنے میں پوری قوت اور تمام وسائل کے ساتھ‘ زوروشور سے مصروف اور اس میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں سے انھیں ایجنٹ میسر ہیں۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اسی پر توکل کی ڈھال ہر مسلمان کے لیے موجود ہے۔ اہلِ ایمان اس دعا کو ڈھال بناکر اپنے گھروں سے نکلیں تواللہ تعالیٰ کی نصرت اور حفاظت سے کامیاب و کامران اور مامون ہوکر اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔

حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعدبن معاذؓ کے ہاں روزہ افطار فرمایا۔ اس کے بعد آپؐ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:  اَفْطَرَ عِنْدَ کُمُ الصَّائِمُوْنَ وَاَکَلَ طَعَامَکُمُ الْاَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمْ الْمَلٰٓئِکَۃُ ، تمھارے ہاں روزے دار افطار کریں‘ تمھارا کھانا نیک لوگ تناول کریں اور تمھارے لیے فرشتے دعاے رحمت کریں۔ (ابن ماجہ، کتاب الصیام)

کوئی روزہ افطار کروائے تو اس کو دعا ضرور دی جائے کہ اس میں اتباع رسولؐ کا ثواب بھی ہے۔ دعا کے یہ تین نکات بھی پیش نظر رہیں۔

o

حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی عیادت کرنے نکلے۔ جب اس کے پاس پہنچے تو اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھا اور پوچھا کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ انھوں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ کہا گیا: یارسولؐ اللہ! تکلیف کی وجہ سے ان کو آپ ؐ کو جواب دینے کی سکت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: آپ لوگ مجھے اور اسے تنہا چھوڑ دیں‘ تب لوگ اور ایک روایت میں ہے کہ خواتین اس کے پاس سے اُٹھ کر باہر چلی گئیں اور رسولؐ اللہ کو اس کے پاس چھوڑ دیا۔

رسولؐ اللہ نے ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ہوا تھا‘ آپؐ نے اپنا دستِ مبارک ان کی پیشانی سے ہٹا دیا‘ تب مریض نے اشارہ کیا کہ آپؐ اپنا دستِ مبارک اسی جگہ رکھ دیجیے جہاں رکھا ہوا تھا۔ چنانچہ آپؐ نے اپنا ہاتھ مبارک ان کی پیشانی پر رکھ دیا۔ پھر آپؐ نے پوچھا: اے فلاں! کیا محسوس  کر رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: میں اپنے آپ کو خیریت میں پا رہا ہوں۔ میرے پاس دو اشخاص آئے‘ ایک سیاہ اور دوسرے سفید۔ رسولؐ اللہ نے پوچھا: دونوں میں سے کون تمھارے زیادہ قریب ہے؟ انھوں نے جواب دیا: سیاہ۔ آپؐ نے فرمایا: خیر تھوڑا ہے اور شر زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ بیمار نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے اپنی دعا سے نفع پہنچا دیجیے‘ تب آپؐ نے دعا فرمائی: اے اللہ! برائیاں جو زیادہ ہیں انھیں معاف فرما دیجیے اور نیکیاں جو تھوڑی ہیں انھیں بڑھا دیجیے۔ دعا کے بعد آپؐ نے مریض سے پوچھا: اب کیا محسوس کر رہے ہو؟ توانھوں نے جواب دیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! اچھی حالت ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ خیر بڑھ رہا ہے اورشر کمزور ہورہا ہے۔ سیاہ شخص مجھ سے دُور ہٹ گیا ہے۔

آپؐ نے پوچھا: تمھاراکون سا عمل تمھاری نظر میں زیادہ مؤثر ہے؟ انھوں نے عرض کیا: میں پانی پلاتا تھا (مجھے امید ہے کہ وہ عمل زیادہ موثر ہے)۔پھررسولؐ اللہ نے فرمایا: سلمان میری بات سنو! کیا تم میری حالت میں کوئی انوکھی بات پاتے ہو؟ سلمان نے عرض کیا: ہاں یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان‘ میں نے آپؐ کو بہت سے مواقع پر دیکھا ہے لیکن آپؐ کو جس حالت میں اب دیکھ رہا ہوں ایسی حالت میں کبھی نہیں دیکھا (خوف و خشیت ِالٰہی کی حالت کے عجیب و غریب آثار ہیں)۔ آپؐ نے فرمایا: اس لیے کہ مجھے اس تکلیف کا علم ہے جو مرنے والا گزار رہا ہے۔ اس کی ہر رگ موت کے درد کو محسوس کر رہی ہے۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۲ ‘ص ۳۲۲)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے صحابہؓ کرام میں سے ایک ایک کا کتنا فکر تھا اوراس کے لیے آپؐ کس قدر وقت نکالتے اور ان کی حاجات اور ضروریات اورمسائل میں شریک ہوتے تھے‘ اس کا اندازہ اس ایک واقعے اور اس طرح کے بے شمار دوسرے واقعات سے ہوجاتاہے۔ اس میں اہلِ ایمان کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ دینی بہن بھائیوں اور عزیز واقارب سے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی محبت کریں اور ان کی دنیاوی اور اخروی بھلائی کے لیے اپنے اندر طلب اور تڑپ پیدا کریں۔ اپنے بھائیوں کے دکھ سکھ‘ بیماری اور جانکنی کے عالم میں ان کے پاس جائیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں۔

ہرمسلمان کو موت کی سختی کی فکر کرنا چاہیے اور سختی سے بچائو کا سامان بھی کرنا چاہیے۔ برائیوں اور ظلم سے باز آنا چاہیے ورنہ موت کے وقت اللہ کی پکڑ سے جو دوزخ کے فرشتے کی شکل میں ہوتی ہے‘ بچانے والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ نبی کریمؐ پر اس وقت جو کیفیت طاری ہوئی اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کی ذات پر بھی اگر موت کی سختیوں کے مشاہدے کا اثر ہوتا ہے درآں حالیکہ آپؐ جنتیوں کے سردار ہیں تو پھر عام مسلمانوں پر کتنا اثر ہونا چاہیے (فاعتبروا یااولی الابصار)۔ کیا آج ہمیں موت اور اس کی سختیوں کی فکر ہے‘ اور کیا کسی بھائی کی موت کے مشاہدے کا ہم پر اثر ہوتا ہے؟

o

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہوتا ہے‘ ان نعمتوں کو وہ ان کے پاس اُس وقت تک برقرار رکھتا ہے‘ جب تک وہ مسلمانوں کی حاجتیں پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اُکتا نہیں جاتے۔ جب وہ اُکتا جائیں تو اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کو دوسروں کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ (طبرانی)

اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ہے تو یہ دراصل آزمایش ہوتی ہے۔ جو لوگ خوش دلی سے ان نعمتوں سے مسلمانوں کی ضرورتیں پورا کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں‘ ان کو نعمتیں ملتی رہتی ہیں۔ انسان کو سمجھنا چاہیے کہ اسے جو کچھ مل رہا ہے‘ اس لیے مل رہا ہے کہ دوسروں کا حق انھیں پہنچائے۔ وہ یہ نہیں کرتا تو اسے ان نعمتوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر ہو تو معاشرے کے مسائل آسانی سے حل ہوجاتے ہیں۔ کوئی مصیبت کے وقت تنہا نہیں ہوتا۔

o

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے    اللہ رب العالمین سے عرض کیا: اے میرے رب! مجھے اس شخص کے بارے میں بتلا دیجیے جو آپ کی مخلوق میں آپ کے ہاں زیادہ قدرومنزلت والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ شخص جو میری مرضی کو پورا کرنے میں اس طرح اُڑے جس طرح باز اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُڑتا ہے‘ اور جو میرے نیک بندوں سے اس طرح عشق و محبت کرتا ہے جس طرح بچہ ماں باپ کے ساتھ محبت سے چمٹ جاتا ہے‘ اور وہ شخص جو میری حرمتوں کی پامالی کے وقت غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے جس طرح چیتا   اپنی ذات کی خاطر غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے۔ جب وہ غضب ناک ہوجاتا ہے تو اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ تھوڑے ہیں یا زیادہ۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۷‘ ص ۲۶۵)

باز‘ بچہ اور چیتے کی تین مثالوں سے اللہ کی مرضی پوری کرنے کا جذبہ و شوق‘ نیک بندوں سے عشق و محبت اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی پر غصے کی کیفیت کو کیا خوب بیان کیا گیا ہے۔ پھر ان سب پر یہ کہ جب وہ غضب ناک ہوجاتا ہے تو اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ تھوڑے ہیں یا زیادہ۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کی بلند ترین شکل یہی ہے۔ اس کی مرضی‘ یعنی اس کے دین سے محبت کرنے والوں سے عشق اور لگائو ہو۔ اللہ کے دین کی سربلندی اور غلبے کی تڑپ ہو۔ اسلامی شعائر اور اقدار کی پامالی کو برداشت نہ کیا جائے۔

مومن غصے سے بے قابو نہیں ہوجاتا۔ وہ اپنا غصہ شریعت کے طے کردہ ضابطے اور طریقے کے مطابق نکالتا ہے۔ اس غصے کے ذریعے عدل و انصاف قائم ہوتا ہے‘ حق دار کو اس کا حق دلایا جاتا ہے‘ محرمات کی حرمت بحال کی جاتی ہے۔ آج کا دور اسی عشق و محبت اور غیرت و حمیت کے اظہار کا دور ہے۔ آج مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کون اللہ تعالیٰ کی مرضی کے لیے اُڑ رہا ہے اور کون اللہ کی خاطر غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے۔ کون ہے جو اس معیار کی روشنی میں اپنا جائزہ لے کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی قدرومنزلت بڑھانے کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائے!

o

حضرت ضمرہ بن ثعلبہؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ میں نے یمنی کپڑوں کا جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر آپؐ نے فرمایا: ضمرہ! تمھارا کیا خیال ہے، تیرے یہ کپڑے تجھے جنت میں داخل کرادیں گے؟‘‘ یہ سنتے ہی ضمرہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ میرے لیے اس کوتاہی پر جو مجھ سے سرزد ہوگئی ہے، استغفار کریں تو مجھے    اس وقت تک چین نہ آئے گا جب تک ان کو اُتار نہ دوں۔ اس پر آپؐ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے اللہ! ضمرہؓ بن ثعلبہ کے گناہ معاف فرمادیجیے۔ یہ سن کر ضمرہؓ تیز رفتاری سے چلے گئے اور   ان کپڑوں کو اتار دیا (یہ کپڑے ریشم کے بنے ہوئے تھے‘ اس لیے آپؐ نے انھیں اُتارنے کا حکم ترہیبی انداز میں دیا)۔(الفتح الربانی، باب ماجاء فی فضائل ضمرہؓ)

اس واقعے میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ریشم کے استعمال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کے باوجود بھی ایک صحابیؓ یہ پہنے ہوئے آپؐ کے پاس تشریف لائے۔ دوسری بات یہ کہ آپؐ نے اس پر پیار بھرے اندازسے توجہ دلائی‘ اور تیسری بات یہ کہ صحابیؓ نے فوراً ہی جاکر اسے اُتاردیا۔ اگر ہم کو اس طرح کی کسی خلاف ورزی پر توجہ دلائی جائے‘ یا ہمارے علم میں ایسے کسی عمل کے بارے میں کوئی حدیث آجائے تو ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے!

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ سنو! اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر‘ سنتیں جاری اور حدود متعین اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام اور دین کو قانون بنا دیا۔ اس کو آسان اور   خوش گوار اور کشادہ بنادیا‘ اسے تنگ نہیں بنایا۔ سنو! جس آدمی میں امانت کاپاس نہیں‘ اس میں ایمان نہیں۔ جس میں وفاے عہد کی صفت نہیں‘ اس کا کوئی دین نہیں۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ذمے کو توڑا اس شخص کو نقصان پہنچایا جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اٹھایا تھا‘ اللہ تعالیٰ اسے پکڑے گا‘ اور  جو میرے ذمے کو توڑے گا میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کروں گا اور جس کے خلاف میں مقدمہ  دائر کروں گا میں اس مقدمے کو جیت لوںگا۔ وہ میری شفاعت سے محروم ہوگا اور میرے پاس  حوضِ کوثر پر نہیں آسکے گا۔ سنو! اللہ تعالیٰ نے تین آدمیوں (۱) ایمان کے بعد مرتد ہونے والے (توہینِ رسالتؐ کے مرتکب بھی اس میں شامل ہیں)‘ (۲) اسلام اور شادی شدہ ہونے کی حالت میں زنا کرنے والا‘ (۳) معصوم انسان کے قصداً و عمداً قاتل کے سوا‘ کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ سنو! میں نے بات پوری طرح پہنچا دی ہے۔ (مجمع الزوائد‘ جلد اوّل‘ ص ۱۷۲)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں رہتی دنیا تک اُمتِ مسلمہ کے لیے جامع رہنمائی دی ہے۔ ہر زمانے کے مسائل کا حل دے دیا ہے۔ دین اسلام کے مختلف اجزا کے بارے میں پیدا ہونے والے اختلافات کا فیصلہ فرما دیا۔ فرائض میں کمی بیشی کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ جاری کردہ سنتوں کوجاری رکھا جائے گا‘ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھا جائے گا۔ دین محض چند مذہبی رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ نظامِ قانون بھی ہے۔ اس کے مطابق گھریلو‘ شہری‘ معاشرتی‘  معاشی‘ عدالتی اور حکومتی زندگی گزارنا ہوگی۔ امانت اور ذمہ داریوں‘ وفاے عہد‘ ذمیوں کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور اس کی اہمیت کو کماحقہ اُجاگر فرما دیا‘ اور ذمیوں کے ساتھ بدسلوکی سے     یہ کہہ کر ڈراوا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو پکڑیں گے اور سزا دیں گے‘ اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو توڑا گیا تو آپؐ خود مقدمہ لڑیں گے۔

آج ہمارے معاشرے میں قتل کی وارداتیں عام ہیں‘ جب کہ مسلمان کے لیے مسلمان کا خون ماسواے مذکورہ تین حالتوں کے حرام ہے۔ دینی تعلیمات کا احترام ہو تو گیا گزرا مسلمان بھی قتل سے بچے گا۔

حضرت عبید اللہ بن عمیر لیثیؓ اپنے والد عمیرلیثیؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے اولیا نمازی ہیں اور وہ لوگ ہیں جو ان پانچ نمازوں کو‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے فرض کردیا ہے‘ قائم کرتے ہیں۔ رمضان کے روزے رکھتے اور اسے ثواب سمجھتے ہیں۔ زکوٰۃخوش دلی سے ثواب سمجھ کر دیتے ہیں اور کبائر سے جن سے  اللہ تعالیٰ نے روکا ہے‘ اجتناب کرتے ہیں۔ صحابہؓ میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کبائر کتنے ہیں؟آپؐ نے فرمایا: نو ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ (پھر فرمایا) مومن کا ناحق قتل‘ میدانِ جنگ سے بھاگ جانا ‘بے گناہ پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا‘ جادو کرنا‘ یتیم کا مال کھانا‘ سود کھانا‘ مسلمان والدین کی نافرمانی کرنا‘ مسلمانوں کے قبلہ بیت اللہ شریف‘ جو تمھاری زندگی اور موت دونوں حالتوں میں قبلہ ہے‘ کی حرمت کو پامال کرنا۔ اور جو آدمی اس حالت میں مرگیا کہ ان کبائر کا ارتکاب نہ کیا ہو اور نماز قائم کی ہو اور زکوٰۃ دی‘ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے جنت کے وسط میں سرفراز ہوگا۔ اس کے دروازوں کے کواڑ سونے کے ہوں گے۔ (مجمع الزوائد‘ جلد اوّل‘ ص ۴۸)

اللہ تعالیٰ کی ولایت اور جنت میں نبی کریمؐ کی رفاقت کا بہترین اور آسان نسخہ‘ فرائض کی ادایگی      اور محرمات سے اجتناب ہے۔ نماز‘ زکوٰۃ اور روزہ پورے دین کا عنوان ہیں۔ اس میں امر بالمعروف‘   نہی عن المنکر اور جہادو قتال فی سبیل اللہ شامل ہیں۔ ’ولایتِ الٰہی‘ مخصوص لباس‘ اور مخصوص رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ دل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جانا اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ دینے کا نام ہے۔ ولایتِ الٰہی کے چند نمایاں اعمال وہ ہیں جن کا اس حدیث شریف میں ذکر ہے۔ ان اعمال سے عاری آدمی اگر ولایت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ شیطان کا پجاری اور دھوکے باز ہے۔ آج کے دور میں افراد اور معاشرے کو اس حدیث کی روشنی میں جانچ پرکھ کر کے فیصلہ دیا جاسکتا ہے کہ کون سا شخص اور کون سا معاشرہ ولایتِ الٰہی کا معاشرہ ہے۔ وہ معاشرہ جس میں مسلمانوں کی خون ریزی کی جارہی ہو‘ جس میں مسلمانوں کی خون ریزی کرنے والے لوگ محبوب اور اُونچے ہوں‘ وہ معاشرہ ولایتِ الٰہی کے بجاے اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا شکار ہوگا۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: مومن کا تحفہ موت ہے۔ (مجمع الزوائد‘ بحوالہ طبرانی‘ص ۳۲۰ )

مومن اس دنیا میں تکلیفوں‘ آزمایشوں اور قرآن وسنت کے مقرر کردہ دائرے میں مقید ہوتا ہے۔ حیوانات اور کفار کی طرح آزادانہ چرتا چگتا اور عیاشیوں کی لذتوں کا اسیر نہیں ہوتا۔ موت اس کے لیے قیدخانے سے آزادی اور جنت کی وسعتوں‘ خوشیوں‘ راحتوں اور حقیقی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا ذریعہ ہے۔ اس لیے مومن کے لیے اس سے بڑا تحفہ کوئی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے مومن موت کو سینے سے لگاتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہے۔ موت سے ڈرتا نہیں بلکہ اس کا استقبال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کو وفات کے بعد جلد غسل دے کر کفن پہنایا جاتا ہے اور جلدی نمازِ جنازہ پڑھ کر اسے لحد میں اُتارا جاتا ہے۔ صحیح بخاریمیں ہے: ’’جب مومن کی میت کو جنازے کے بعد قبر کی طرف لے جایا جاتا ہے تو میت پکار پکار کر کہتی ہے: قَدِّمُوْنِیْ قَدِّمُوْنِیْ ،مجھے آگے لے جائو‘ مجھے آگے لے جائو۔ اور کافر پکار پکار کر کہتا ہے: ہاہا! مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ تب موت مومن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی اُمت پر رحمت فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے نبی کی جان‘ اُمت کی موجودگی میں قبض کرلیتے ہیں اور نبی کو اُمت کے لیے پیش رو اور منتظم کے طور پر آگے بھیجتے ہیں۔ اور جب کسی اُمت کو‘ جس نے نبی کی تکذیب اوراس کے حکم کی نافرمانی کی ہو‘ ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اسے نبی کی زندگی میں عذاب دیتے ہیں کہ نبی ان کی ہلاکت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرلے۔ (مسلم، کتاب الایمان)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمینؐ ہیں۔ آپؐ قیامت تک کے انسانوں کے لیے نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو اُمت سے پہلے اس دنیا سے اٹھا لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُمت ہلاکت سے محفوظ ہوگئی ہے۔  دنیا کے انسان جو آپؐ پر ایمان لاتے ہیں وہ بھی آپؐ کی اُمت ہیں اور جو ایمان نہیں لاتے وہ بھی آپؐ کی اُمت ہیں۔ ایمان والے اُمت اجابت کہلاتے ہیں اور جو ایمان نہیں لاتے وہ اُمت دعوت کہلاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت سب پر رحمت ہوگئی ہے۔ ساری دنیا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی قدر کرنی چاہیے۔ آج پانچوں براعظموں میں کفارو مشرکین‘ یہود و ہنود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور آپؐ کی نافرمانی کرنے والے‘ دنیا میں تباہ کن عذاب سے اس طرح تباہ نہیں ہوئے جس طرح قومِ نوح، قومِ عاد، قوم ثمود، قومِ لوط اور قومِ فرعون تباہ ہوگئے بلکہ آپؐ کی بدولت محفوظ ہیں۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شان اور آپؐ کی بدولت      رب العالمین کے اس احسان سے دنیا کو روشناس کرکے انھیں شکرگزاری پر آمادہ کریں۔ وہ شکرگزاری    یہ ہے کہ لوگ آپؐ اور آپؐ کے دیے ہوئے اسلام کے نظامِ حیات پرایمان لے آئیں۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو اِس حال میں صبح کرے کہ دنیا اس کا مقصدِ حیات ہو‘ اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں‘ اور  جو شخص بلاجبرواکراہ خوشی سے ذلت کو قبول کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (طبرانی)

جس کا اللہ سے تعلق ہو‘ اس کی نظر اللہ کی رضا اور جنت پر ہوتی ہے۔ دنیا اس کا مقصدِ حیات نہیں‘ رضاے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔ جو مسلمان ہوتا ہے وہ معزز ہوتا ہے‘ کبھی خوشی سے ذلت قبول نہیں کرتا۔ جبرواکراہ کی بات دوسری ہے۔ جس کا مقصدِحیات دنیا ہو وہ پھر خوشی سے ذلت بھی قبول کرلیتا ہے‘ نہ اس کا اللہ سے تعلق ہوتا ہے‘ اور نہ وہ مسلمانوں میں سے ہوتا ہے۔