حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف تھا۔ جب میں نے کام کر لیا اور سمجھا کہ اب فارغ ہوگیا ہوں تو یہ سوچ کر کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیلولہ فرمائیں گے‘ میں آپؐ کے پاس سے باہر نکل آیا۔ بچے کھیل رہے تھے‘ میں ان کا تماشا دیکھنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ بچوں کو سلام کیا‘ پھر مجھے بلایا اور کسی کام سے بھیجا۔ وہ راز دارانہ کام تھا۔ میں نے وہ کام کیا اور آپؐ کے پاس آگیا۔ اپنی والدہ صاحبہ کے پاس دیر سے پہنچا۔ والدہ نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے بتلایا کہ رسولؐ اللہ نے کام سے بھیجا تھا۔ والدہ نے پوچھا کس کام سے؟ میں نے عرض کیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز ہے۔ میں رسولؐ اللہ کے راز کی حفاظت کروں گا۔ حضرت انسؓ نے اپنے شاگرد حضرت ثابت سے کہا کہ میں نے وہ راز ابھی تک کسی کو نہیں بتلایا۔ اگر میں کسی کو بتلاسکتا تو تجھے بھی بتلا دیتا۔ (بخاری ‘ادب المفرد)
کسی کے راز کی حفاظت خوش گوار معاشرتی زندگی کا اہم اصول ہے۔ بڑے تو بڑے‘ ایک بچے کو بھی اس کی اہمیت کا اتنا احساس ہے کہ ساری عمر اس نے راز کو راز ہی رکھا‘ حتیٰ کہ والدہ اور دوست کو بھی نہ بتایا۔
حضرت عثمان بن ابی العاصؓ سے روایت ہے‘ جب ثقیف کا وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا تو میں بھی اس میں شامل تھا۔ نبی کریمؐ کے دروازے پر پہنچ کر ہم نے اپنے ’’حلّے‘‘ (لباس) زیب تن کیے۔ پھر سواریوں کی نگرانی زیربحث آئی کہ کون یہ کام کرے گا۔ سارے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے بے تاب تھے۔ پیچھے رہنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کہتے ہیں کہ میں ان سب میں چھوٹا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اونٹنیوں کی نگرانی اس شرط پر کرتا ہوں کہ جب آپ لوگ واپس آئیں گے تو میری اونٹنی کوپکڑیں گے تاکہ میں بھی آپؐ سے ملاقات کا شرف حاصل کر لوں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے۔ تمام لوگ چلے گئے۔ واپس آئے تو کہنے لگے: چلو۔ میں نے کہا: کدھر؟ کہنے لگے: اپنے گھروں کی طرف واپس۔ میں نے کہا کہ میں اپنے گھر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے تک آپہنچا ہوں۔ اب ملاقات کے بغیر واپس ہوجائوں؟ تم لوگوں نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ یاد نہیں ہے؟ کہنے لگے تو پھر جلدی ملاقات کر کے آجائو‘ ملاقات سے زیادہ کسی سوال و جواب کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ساری باتیں پوچھ لی ہیں۔ اس لیے آپ کو کسی مسئلے اور بات چیت کی حاجت نہیںہے۔
میں حاضر خدمت ہوا۔ عرض کیا : یارسولؐاللہ! میرے لیے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے دین کی گہری سمجھ عطا فرمائے اور دین کے علم سے نوازے۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے کیا کہا؟ اپنی بات کو دہرائو۔ چنانچہ میں نے اپنی بات دہرائی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: تم نے مجھ سے وہ چیز مانگی ہے جو تمھارے ساتھیوں میں سے کسی نے نہیں مانگی۔ جائو تم ان کے امیر ہو اور اپنی قوم کے ان تمام لوگوں کے امیر ہو جو تمھارے پاس آئیں۔ (مجمع الزوائد ‘ج۹‘ ص ۳۷۱)
اس حدیث سے قوموں کی قیادت کا بنیادی اصول بڑی خوب صورتی سے واضح ہوگیا ہے۔ جب مسلمان علم کے میدان میں پیچھے ہوگئے تو دنیا کی قیادت بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ آج بھی سربلندی کا راز یہی ہے کہ ملت کے قائدین اور نوجوان علم میں برتری کی منصوبہ بندی کریں اور وسائل اور صلاحیتیں اس پر لگائیں۔
دیکھیے کہ سب سے کم عمر کو ہی یہ سمجھ تھی کہ اس نے آپؐ سے دین کا فہم اور علم کی فرمایش کی اورکم عمری کے باوجود اس بنا پر آپؐ نے اسے اپنی قوم کا امیر بنا دیا۔
حضرت عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا کہ تیاری کرو‘ اپنے کپڑے اور ہتھیار لے لو اور میرے پاس پہنچو۔ میں تیاری کر کے آیا تو آپؐ نے فرمایا: میں ایک لشکر کا امیربناکر تمھیں بھیجنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمھیں سلامت رکھے‘ غنیمت عطا کرے۔ میری پسندیدہ خواہش ہے کہ تمھیں مال ملے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مال کی خاطر مسلمان نہیں ہوا بلکہ صرف اسلام کی طرف رغبت اور رسولؐ اللہ کی معیت کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر مسلمان ہوا ہوں۔ اس پر آپؐنے فرمایا: بہترین مال بہترین مدد ہے‘ صالح آدمی کے لیے۔ (طبرانی‘ مجمع الزوائد‘ ج ۹‘ ص ۳۵۳)
جذبۂ خیر اور خلوصِ نیت کی اپنی اہمیت ہے لیکن وسائل کے بغیر کام نہیں ہوتے۔ مال کی وجہ سے آدمی خود بھی حرکت کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کام لیتا ہے۔ ایمان والوں اور نیک لوگوں کے پاس مال ہو تو وہ ایمان و اسلام اور خیرکے کاموں کو فروغ دیتے ہیں اور برائیوں کو مٹانے کے لیے کامیاب جدوجہد کرتے ہیں۔ معاشی حالت اچھی ہو تو غلبۂ دین کی جدوجہد تیز ترکی جاسکتی ہے‘ اور مساجد ومدارس‘ ہسپتال اور رفاہی ادارے قائم کیے جا سکتے ہیں‘ اور اس کے ساتھ دوسری سہولتیں بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے رزق حلال کی طلب‘ اسلام کے لیے مخلصانہ جذبات اور اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص نیت کے منافی نہیں ہے۔ دین دار لوگوں کو اپنی معاشی حالت کو بہتربنانے سے بے فکر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات سمجھنا چاہیے کہ معاشی حالت کا مضبوط ہونا‘ دین داری کے منافی نہیں ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات اپنے پہلو کے نیچے کھجور کا ایک دانہ پایا تو اسے تناول فرما لیا۔ پھر آپؐ کو ساری رات بے چینی کی وجہ سے نیند نہ آئی۔ ایک زوجہ مطہرہ نے عرض کیا: آپؐ ساری رات بیدار رہے‘ اس کا کیا باعث بنا؟ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنے پہلو کے نیچے سے ایک کھجور پائی تو اسے کھالیا۔ اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہمارے ہاں صدقے کی کھجوریں بھی تھیں۔ مجھے ڈر لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ کھجور صدقے کی نہ ہو۔ (احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارا ایمان ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماں باپ‘ اولاد اور جان سے زیادہ عزیز رکھنا ایمان کا تقاضا ہے اور آپؐ کی محبت کا تمام محبتوں پر غالب ہونا جزو ایمان ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم آپؐ کے اسوۂ حسنہ کے فیض سے اپنے آپ کو محروم رکھے ہوئے ہیں۔ آج اگر نبیؐ کے اس اسوۂ حسنہ کو پیشِ نظر رکھا جائے تو حرام سے بچنے کے لیے ہماری نیندیں حرام ہو جائیں۔ صدقہ کی ایک کھجور کے شک نے آپؐ کی نیند ختم کی لیکن یہاں دن رات اربوں کھربوں کی حرام خوری نہ صرف قائم ہے بلکہ اسے معاشی ترقی کے لیے ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ تب نبیؐ سے ہم کس قدر دُور اور شیطان سے کس قدر قریب ہیں۔ اس کا اندازہ خود ہی کرلیجیے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا‘ جس نے شراب پی تھی۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا اور حاضرین سے کہا : اسے مارو۔ ہم مارنے لگے۔ کسی نے ہاتھ سے‘ کسی نے جوتے اور کسی نے کپڑے کے کوڑے سے مارا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: اسے ڈانٹ ڈپٹ کرو۔ مسلمان اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے۔ کسی نے کہا: تو نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا خیال نہ کیا؟ کسی نے کہا: تجھے اللہ سے ڈر نہ آیا۔ جب ایک آدمی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا۔ فرمایا: اسے بددعائیں دے کر اس کے خلاف شیطان کی اعانت نہ کرو۔ اس کے بجاے دعائیں دو۔ یوں کہو: اے اللہ! اس کی بخشش فرما‘ اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰۃ)
مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے۔ جرم سے روکنے کے لیے سزا دینا ضروری ہے لیکن سزا دینے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ‘ انتظامیہ اور عام لوگ اس کے ساتھ ہمدردی‘ حسن اخلاق اور عزت کا سلوک کریں۔ ایسی صورت میں مجرم اپنی اصلاح کرے گا‘ وہ حیا سے کام لے گا اور معاشرے کا باعزت فرد بننے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جائے‘ اسے گالیاں دی جائیں‘ کوسا جائے اور حوالات میں ذلت آمیز طریقے سے رکھا جائے تو اس کے اندر مجرمانہ ذہنیت پرورش پائے گی۔ شیطان اس کے اندر انتظامیہ کے خلاف دشمنی کے جذبات کو پرورش دے گا جس کے نتیجے میں وہ تائب ہونے کے بجاے جرم کو اپنا پیشہ بنا لے گا۔ آج کل کی انتظامیہ اور عدلیہ یہی کچھ کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ جو آدمی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے عادی مجرم بن جاتا ہے۔ انتظامیہ شیطان کی معاونت کر رہی ہے اور لوگوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے عوام اور انتظامیہ کے مابین عداوت پیدا کر دی ہے۔
حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف ایک وفد بھیجنے کا ارادہ کیا۔ وفد کا امیرانھی میں سے ان کو نامزد فرمایا جو ان میں سب سے چھوٹے تھے۔ وفد کئی دن تک رکا رہا‘ روانہ نہ ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان میں سے ایک آدمی سے ملاقات ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا: اے فلاں! آپ کو کیا ہوا‘ آپ گئے نہیں؟ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے امیر کے پائوں میں تکلیف ہوگئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور بسم اللّٰہ وباللّٰہ اعوذ باللّٰہ وقدرتہ من شر ما فیھا (اللہ کے نام سے‘ اللہ کی مدد سے میں اللہ اور اس کی قدرت کی پناہ میں دیتا ہوں‘ اس تکلیف سے جو اس پائوں میں ہے) پڑھ کر سات مرتبہ پھونکا۔ اس کے ساتھ ہی آدمی ٹھیک ہو گیا۔ ایک بوڑھے شخص نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ اسے ہم پر امیر بنا رہے ہیں حالانکہ یہ سب سے چھوٹے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: یہ قرآن پاک کے عالم ہیں۔ بوڑھے شخص نے کہا: مجھے ڈر نہ ہوتا کہ میں راتوں کو سویا رہ جائوں اور نوافل میں قرآن پاک کی تلاوت نہ کرسکوں تو میں بھی قرآن پاک حفظ کرلیتا۔ اس پر نبیؐ نے فرمایا: قرآن کی مثال اس مشکیزے کی ہے جس میں کستوری بھر کر رکھ دی ہو (وہ کھلا ہو تواس میں کستوری مہکتی ہے)۔ اسی طرح قرآن پاک کا معاملہ ہے جب آپ اسے پڑھیں اور وہ آپ کے سینے میں محفوظ ہو۔ (طبرانی‘ مجمع الزوائد‘ ج ۷‘ ص ۱۶۶)
یعنی قرآن پاک کا حافظ تلاوت نہ کرے تو اس کی مثال اس کستوری کی ہے جو مشکیزے میں بند ہو۔
قرآن پاک اُمت کا نظام ہے۔ اس کے ہر سطح کے نظم کو قرآن کے مطابق چلنا ہے۔ اس لیے کسی بھی سطح کے عہدے اور منصب کے لیے موزوں ترین وہ شخص ہو سکتا ہے جو قرآن پاک کا عالم ہو تاکہ اس نظم کو قرآن پاک کے مطابق چلائے۔ جب قاری قرآن پاک پڑھتا ہے تو وہ اپنی خوشبو دیتا ہے جس طرح مشکیزے میں خوشبو ہو اور مشکیزہ کھلا ہو تو وہ گردونواح کو معطر کردیتی ہے۔ قرآن کاعلم رسولؐ اللہ اور آپؐ کی اُمت کا تشخص ہے۔ اُمت کو اُمت مسلمہ کی حیثیت سے قائم رکھنا مقصود ہو تو پھر نظام قرآنی قائم کرنا ہوگا اور منتظم بھی ایسے لوگوں کو بنانا ہوگا جن کا قرآنی نظام پر ایمان ہو‘ وہ اس کا علم رکھتے ہوں اور اسے عملی جامہ پہنانا چاہتے ہوں۔
اشکال کا دلیل سے ازالہ کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اشکال پیدا ہونا ممکن ہے۔ لیکن نبی کی بات کا انکار یا اس پر اعتراض جائز نہیں ہے۔ بوڑھے صحابی نے اعتراض نہیں کیا بلکہ اشکال پیش کیا‘ جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دلیل سے جواب دے دیا۔ امرا کے لیے اس میں نمونہ ہے۔ انھیں اپنے ماتحتوں کے اشکال بلکہ اعتراض کا جواب دے کر انھیں مطمئن کرنا چاہیے کیونکہ امیر پر اعتراض ہوسکتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضوؐر اور آپؐ کے صحابہ مدینہ طیبہ ہجرت کر کے آئے تو صحابہ کرامؓ بخار کے تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہو کر اس قدر کمزور ہو گئے کہ نماز بھی بیٹھ کر ہی پڑھنے لگے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبیؐ سے اس بیماری کو پھیر دیا۔ آپؐ تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ کرامؓ بیٹھ کر نمازیں پڑھ رہے ہیں۔آپؐ نے فرمایا: تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ہے۔ تب مسلمان ثواب اور فضیلت حاصل کرنے کی خاطر ضعف اور بیماری کے باوجود کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی مشقت اٹھانے لگے۔ (احمد‘ طبرانی‘ البدایۃ والنہایہ)
کمزور اور بیمار شخص کو بھی جب اونچے گریڈ کی ملازمت‘ بڑا مقام یا کوئی بڑا منصب ملتا ہے تو وہ بیماری کے باوجود ڈیوٹی ادا کرتا ہے اور اس کی مشقت اور تکلیف کو سہتا ہے۔ نصف تنخواہ کون کٹواتا ہے! پوری تنخواہ کی خاطر تو بیمار بھی صحت مند اور بوڑھا بھی جوان ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ پورے اجر کے لیے کمزوری اور بیماری کے باوجود کھڑے ہو کر نمازپڑھتے تھے۔ پورے اجر کے اس شوق کی وجہ سے انھوں نے بھوکے پیٹ اور کمزور جسم کے ساتھ راتوں کو قیام اور دن کو جہاد کیا اور اللہ کے دین کو غالب کر دکھلایا۔
حضرت عمرو بن تغلبؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے بعض لوگوں کو عطیات دیے اور بعض کو چھوڑ دیا‘ جن کو چھوڑ دیا ان کے بارے میں محسوس کیا گیا کہ وہ ناراض ہوئے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کچھ لوگوں کو ان کی بے صبری اور واویلے کو دیکھ کر دیتا ہوں اور کچھ لوگوں کو اُس بھلائی اور استغنا کے حوالے کردیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رکھ دی ہے۔ ان میں عمرو بن تغلب بھی ہیں۔
حضرت عمرو بن تغلب کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کے ان کلمات کے مقابلے میں مجھے سرخ اُونٹ بھی پسند نہیں۔ (بخاری)
بیت المال کا ایک حصہ وہ ہوتا ہے جو کسی خاص طبقے اور گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہوتا۔ اسلامی حکومت کے سربراہ کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے جن افراد کو دینا چاہے دے دے‘ جن علاقوں کو مقدم رکھنا چاہے مقدم رکھے۔ ایسی صورت میں جو لوگ بے صبری اور اضطراب کا شکار ہوں‘ ان کو مطمئن کرنا چاہیے اور دولت کی گردش سے ان کو فیض یاب کرنا چاہیے۔ صابروشاکر اور اللہ پر بھروسا کرنے والے وہ لوگ جن کے دل میں استغنا اور بے نیازی کی دولت ہے اگر ان کے صبروشکر کی وجہ سے اس بنا پر نظرانداز کردیے جائیں‘ کہ سب کے لیے گنجایش نہیں تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دنیا کی بڑی سے بڑی دولت اور بڑے سے بڑا عطیہ دل کے استغنا کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ وہ لوگ بہت عظیم ہیں جن کے دل غنی ہوں۔ اس لیے حضرت عمرو بن تغلبؓ اور دوسرے صحابہ جنھیں آپ ؐنے ایک موقع پر عطیات سے محروم رکھا‘ آپؐ کی اس وضاحت کے بعد نہ صرف راضی بلکہ مطمئن ہوگئے کہ دوسروں کو مال کی دولت ملی اور ان کو دل کا استغنا نصیب ہوا۔ آج دولت کی کمی نہیں بلکہ دلوں کے غنا کی کمی ہے اسی لیے معاشرے میں معاشی بے اطمینانی اور اضطراب ہے۔
جو کوئی مومن کو منافق کی بدزبانی سے بچائے گا‘ اللہ ایک فرشتہ اس کے لیے مقرر کر دے گا جو اس کے گوشت کو دوزخ کی آگ سے بچائے گا ‘اور جو مومن پر اس کی عزت کو داغ دار کرنے کی خاطر کوئی الزام لگائے ‘ قیامت کے روز جہنم کے پُلوں میں سے ایک پُل پر اسے روک دیا جائے گا۔ وہ اس پر محبوس رکھا جائے گا جب تک کہ وہ اس الزام کے گناہ کی سزا نہ پا لے۔ (ابوداؤد‘ کتاب الادب)
اگر ایمان والے اپنے بھائیوں پر جھوٹے الزامات‘ طعن و تشنیع اور ظلم و زیادتی ہوتے دیکھ کر خاموش تماشائی نہ بن جائیں بلکہ ان کا دفاع کریں‘ الزامات لگانے والوں کو روک دیں تو کسی کو ان کی عزت کو پامال کرنے کی جرأت نہ ہو۔ آج بھی منافقین اپنی زبانِ طعن‘ ایمان والوں پر دراز کرتے رہتے ہیں بلکہ طعنہ زنی کرنے والے منافقین عالمی سطح پر ایک جتھہ اور قوت بن کر میڈیا کے ذریعے دن رات انھیں نشانہ بناتے ہیں۔ انھیں دہشت گرد‘ انتہا پسند اور جنونی قرار دے کر گردن زدنی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے دفاع میں نکلیں‘ بڑی ریلیاں اور جلوس نکالیں‘ کالم اور فیچر لکھیں‘ ذرائع ابلاغ کے ذریعے طعن زنی کرنے والے منافقین کا تعاقب کریں اور ان کی زبانیں بند کردیں۔ ان کی کوششوں کو بے اثر کر دیں۔ ایسا کریں گے تو منافقین کو ناکام کریں گے اور روزِ آخرت حدیث کے مطابق جزا پائیں گے‘ ورنہ ان کا شمار بھی منافقین کے ساتھ ہونے کا اندیشہ ہے کہ اہل ایمان کے دفاع میں جو کچھ کر سکتے تھے وہ کیوں نہیں کیا۔
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قیامت کے روز تین چیزوں سے پاک ہو کر آیا سیدھا جنت میں داخل ہوگا: تکبر‘ سرکاری مال میں خیانت اور کسی شخص کے دین (قرض) سے۔ (ترمذی)
نبی کریمؐ نے جنت میں داخل ہونے کا راستہ بتا دیا ہے۔ ہے کوئی جو آگے بڑھ کر تکبر‘ خیانت اور قرض کی نادہندگی سے‘ اپنے آپ کو پاک کرے اورجنت میں داخل ہو جائے!
حضرت ربیعہ بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دن بھر خدمت کرتا یہاں تک کہ عشاء کی نماز ہوجاتی۔ آپؐ اپنے گھر میں چلے جاتے تو میں آپؐ کے دروازے پر بیٹھ جاتا کہ شاید حضوؐر کو کسی خدمت کی ضرورت پیش آجائے۔ میں رسولؐ اللہ کی تسبیحات سبحان اللّٰہ وبحمدہ کی آواز سنتا رہتا۔ تھک جاتا تو واپس آجاتا‘ یا نیند آجاتی تو سو جاتا۔ میری خدمت اور اپنے اوپر میرے حق کے پیش نظر‘ ایک دن آپؐ نے فرمایا: کعب! مجھ سے جو مانگنا چاہو مانگو‘ میں دوں گا۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے سوچنے کی مہلت دیجیے کہ میں سوچ لوں کہ کیا مانگوں‘ پھر آپؐ سے عرض کر دوں گا۔
کہتے ہیں اس کے بعد میں نے سوچ بچار کی۔ میں نے سوچا کہ دنیا تو ختم ہونے والی چیز ہے۔ دنیا میں مجھے اتنا رزق مل جائے گا جس سے میرا گزارا ہو۔ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی آخرت کے لیے سوال کرنا چاہیے۔ آپؐ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت اُونچا مقام ہے۔ میں یہ سوچنے کے بعد حاضر ہوا۔ آپؐ نے پوچھا: ربیعہ! فیصلہ کرلیا؟ میں نے عرض کیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ! میں آپؐ سے سوال کرتا ہوں کہ میری شفاعت کریں کہ دوزخ کی آگ سے آزاد ہوجائوں۔ آپؐ نے پوچھا: ربیعہ ! آپ کو اس سوال کا مشورہ کس نے دیا؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کسی نے نہیں۔ جب آپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ سوال کرو‘ میں دوں گا‘تومیں نے آپؐ کے مقام پر جو اللہ کے ہاں ہے نظر ڈالی اور اپنے بارے میں سوچا‘ تو میں نے سمجھا کہ دنیا زائل ہونے والی چیز ہے۔ دنیا میں بقدر گزارا مجھے رزق مل رہا ہے‘ مل جائے گا۔ میں رسولؐ اللہ سے اپنی آخرت کے لیے سوال کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے طویل خاموشی اختیار کی۔ پھر فرمایا: میں شفاعت کروں گا۔ آپ کثرت سے سجدے کر کے اس سلسلے میں میری اعانت کریں۔ (مسنداحمد‘البدایہ والنہایہ‘ ج ۵‘ ص ۳۳۵‘ طبرانی فی الکبیر)
۱- کوئی بہت بڑی ہستی جو سب کچھ دے سکتی ہو آپ سے کہے: مانگو‘ کیا مانگتے ہو‘ دیا جائے گا--- تو آپ کا کیا جواب ہوگا‘ آپ خود ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن حضرت ربیعہؓ کا جواب‘ جو فوری ردعمل نہ تھا‘ سوچا سمجھا جواب تھا‘ آپ نے دیکھ لیا۔ دنیا کے بارے میں خوب سوچا‘ تولا‘ پھر آخرت میں آتشِ جہنم سے آزادی کو ترجیح دی۔
۲- طویل خاموشی کے دوران حضرت ربیعہؓ کے دل پر کیا کیا نہ گزر گیا ہوگا۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ شفاعت ہوگئی تو کتنے ہی گناہ کیوں نہ کیے ہوں‘ بیڑا پار لگ گیا--- لیکن رسولؐ اللہ خود فرماتے ہیں کہ ربیعہؓ! طویل سجدوں سے میری اعانت کرو۔
اہل اللہ کی‘ والدین کی‘ اساتذہ کی خدمت کو اپنا طریقہ بنایئے کہ ان کی دعائوں سے آخرت سنورنے کا امکان ہے۔
مگر یہ کافی نہیں۔ اپنے اعمال ‘ اللہ سے تعلق‘ نوافل‘سجدے ضروری ہیں۔
حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں پر تمھارے رب کی طرف سے حق کے دلائل اس وقت تک آشکارا ہوتے رہیں گے‘ جب تک دو نشوں کی بیماری تم پر حاوی نہ ہوجائے۔ ایک جہالت کا نشہ‘ اور دوسرا زندگی سے محبت کا نشہ۔ تم معروف کا حکم کرو گے‘ منکر سے روکو گے‘ اللہ کی راہ میں جہاد کرو گے لیکن جب تم پر دنیا کی محبت غالب ہو جائے گی تو معروف کا حکم کرو گے‘ نہ منکر سے روکو گے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہ کرو گے۔ ایسے وقت میں کتاب و سنت کی بات کرنے والے اُن مہاجرین اور انصار کی مانند ہوں گے جو السابقون الاولون کا مصداق بن گئے۔ (مسند بزاز‘ مجمع الزوائد ۷/۲۷۱)
اپنے آس پاس بلکہ اپنے اندر بھی دیکھیں تو یہ دونوں نشے نظر آئیں گے۔ جو لوگ اس میں مدہوش ہیں‘ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر تو کجا‘ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھ رہے ہیں۔ اقدار بدل گئی ہیں۔ برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا۔ خوش قسمت ہیں وہ جو ان حالات میں کتاب و سنت کی بات کرتے ہیں۔ اس سے بڑا رتبہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ السابقون الاولون مہاجرین و انصار کی مانند قرار پائیں۔ وفی ذٰلک فلیتنافس المتنافسون (یہی وہ چیز ہے جس کے لیے لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی حرص کریں)۔
حضرت عبداللہ بن حارثؓ سے روایت ہے: فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ‘ عبیداللہ اور کثیربن عباسؓ کو ایک صف میں کھڑا کرتے پھر (ان کی دوڑ لگواتے) فرماتے‘ جو میرے پاس پہلے پہنچے گا‘ اسے یہ اور یہ انعام ملے گا۔ وہ دوڑ کر آپؐ کی طرف پہنچتے۔ آپؐ کی پیٹھ اور سینے پر چڑھتے۔ آپؐ ان کے بوسے لیتے اور انھیں سینے سے لگاتے۔(مسنداحمد‘ مجمع الزوائد)
ہمارے گھروں میںیہ مناظر عام ہونا چاہییں۔ اس طرح جو معاشرت تشکیل پاتی ہے‘ وہی اسلامی معاشرت ہے۔ بچوں سے پیار اور محبت ان کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ ان پر بے جا سختی کرنا اور انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہنا‘ ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور کرنے کا سبب ہے۔ محبت اور پیارکو تربیت کا ذریعہ بنایئے۔ یہی نبیؐ کا طریقہ ہے۔ آپؐ اپنے اہل و عیال کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے۔ ڈانٹنے ڈپٹنے والے نہ تھے۔
بچوں پر تشدد‘ ان سے جبری مشقت لینے‘ یا ان کو تعلیم و تربیت سے محروم رکھنے کا تصور اسلام میں نہیں ہے۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ ارویٰ بنت اوس نے حضرت سعیدؓ بن زید پر دعویٰ کیا کہ انھوں نے ان کی زمین کا کچھ حصہ غصب کرلیا ہے۔ ان کو مروان بن حکم کی عدالت میں فیصلہ کے لیے بلایا گیا۔ حضرت سعیدؓ بن زید نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس کے بعد میں کیسے اس کی زمین کا کچھ حصہ دبا سکتا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ میں نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو زمین کی ایک بالشت ظلم سے لے گا‘ اسے اللہ تعالیٰ سات زمینوں تک کا طوق ڈالے گا۔ اس کے بعد سعیدؓ بن زید نے دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اس کی قبر اس کی زمین میں بنا دے۔
حضرت عروہؓ کہتے ہیں کہ اسے اس وقت تک موت نہ آئی جب تک وہ نابینا نہ ہوگئی۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اندھی تھی‘ دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر چلتی تھی‘ اور کہتی پھرتی تھی کہ مجھے حضرت سعیدؓ بن زید کی بددعا لگ گئی۔ وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ اس کا گزر ایک گڑھے پر ہوا‘ اس میں گر کر مر گئی۔ وہ گڑھا اس کی قبر بن گیا۔ (بخاری و مسلم)
ہر رسالے میں‘ ہر اخبار میں بلکہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی قرآن کی آیات اور رسولؐ کی احادیث ہم تک پہنچائی جاتی ہیں‘ مسلسل‘ اور کتنے ہی درس و وعظ ہم سنتے ہیں: احکامات‘ تعلیمات‘ ترغیبات‘ منہیات--- لیکن حضرت سعیدؓ کی سادہ دو ٹوک بات: رسولؐ اللہ کی کوئی بات علم میں ہو تو اس کے خلاف کرنے کا کیا سوال ہے؟ یہ منزل مطلوب ہے۔ مسلمان کی یہی کیفیت ہونا چاہیے۔ حضرت سعیدؓ نے اپنے اوپر الزام کو اس قدر سنجیدگی سے لیا کہ بددعا بھی دے دی۔ اور اللہ تعالیٰ نے قبول کر کے ظالموں کو ہمیشہ کے لیے تنبیہ کر دی۔
ظلم کے ان سب دائروں کو چھوڑیں جہاں ظلم خوب پھل پھول رہا ہے‘ صرف جایداد اور زمین کے معاملات میں ہی کیا کچھ‘ ہر کوئی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے‘ جب کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے---
حضرت عروہؓ بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کا ایک ریوڑ جو براے فروخت لایا گیا تھا‘ دیکھا۔ مجھے ایک دینار دیا کہ ایک بکری خرید لائو۔ میں گیا اور ایک دینار میں ایک کے بجاے دو بکریاں خرید لیں۔ لے کر آ رہا تھا کہ راستے میں ایک شخض ملا جس نے بکری خریدنی چاہی۔ میں نے ایک بکری ایک دینار میں ان کو فروخت کر ڈالی۔ اس طرح ایک دینار اور ایک بکری لے کر آپؐ کے پاس حاضر گیا۔ بکری اور دینار پیش کرتے ہوئے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ ہے آپؐ کا دینار اسے وصول فرما لیجیے‘ اور یہ ہے آپؐ کی بکری۔ آپؐ نے (خوش ہو کر پوچھا) یہ کس طرح سے ہوگیا۔ میں نے واقعہ بیان کیا۔ سن کر آپؐ نے مجھے دعا دی‘ فرمایا: اے اللہ! اس کے سودے میں برکت عطا فرما۔ اس کے بعد میرا یہ حال ہوگیا کہ میں تھوڑی دیر کوفہ کے بازار میں کام کرتا ہوں اور گھر جانے سے پہلے ۴۰ ہزار کا نفع کما لیتا ہوں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں اگر عروہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے تو اس سے بھی نفع کما لیتے۔ (الفتح الربانی ۱۵‘۱۶)
روز مرہ دنیوی ‘ خصوصاً کاروباری معاملات میں دعا اور اس کی برکتوں کی کارفرمائی آج کل کے مادی ذہن عام طور پر قبول نہیں کرتے۔ نیک اور صالح افراد سے دعا کروانے کی روایت اگر محض رسم نہ ہو‘ اخلاص نیت اور توجہ الی اللہ کے ساتھ ہو تو یقین رکھنا چاہیے کہ نتیجہ خیز ہوگی۔ حضرت عروہؓ تو خوش قسمت تھے کہ انھیں اللہ کے رسولؐ کی دعا ملی۔ دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں‘ وہ آج بھی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے بلکہ پکار پکار کر بلاتا ہے کہ مجھ سے مانگو۔
احادیث میںایسے بہت سے اچھے کاموں کا ذکر ملتا ہے جن کے ساتھ اللہ کے رسولؐ کے متعین وعدے ہیں۔
حضرت جبیربن مطعمؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! کون سی جگہ تمام جگہوں سے بری ہے؟ آپؐ نے فرمایا: میں نہیں جانتا۔ جبریل علیہ السلام تشریف لائے تو آپؐ نے ان سے پوچھا: جبریل! کون سی جگہ تمام جگہوں سے زیادہ بری ہے؟ جبریل نے عرض کیا: میں نہیں جانتا اور اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک اللہ تعالیٰ سے پوچھ نہ لوں۔ جبریل واپس گئے اور پھر لوٹ کر آئے۔ کہا کہ میں نے اللہ عزوجل سے پوچھا کہ کون سی جگہ تمام جگہوں سے زیادہ بری ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: دنیا کے بازار۔ (الفتح الربانی‘ ۱۵‘۱۶)
بازاروں کو سب سے بری جگہ کیوں کہا گیا ہے؟ اور وہ بھی اس اہتمام سے کہ حضرت جبریل نے اللہ تعالیٰ سے پوچھ کے آکر بتایا۔ بازاروں میں دنیا اپنے تمام فتنوں کے ساتھ مجسم ہوتی ہے اور آنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی اور لبھاتی ہے۔ (بڑے بازاروں‘ ڈیپارٹمنٹل اسٹوروں‘ میلوں اور مینا بازاروں کا تصور کریں)۔ ضروریات کے لیے بازار جانا ضروری ہے لیکن دکانیں آپ کی خواہشات کو جگا کر اسراف و تبذیر پر آمادہ کرتی ہیں۔ خریداروں کو مائل کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں‘ بیان کی ضرورت نہیں۔ سادگی کی ساری مہم بازار آکر ختم ہو جاتی ہے۔ بازار بندہ مومن کے لیے ایک فتنہ اور آزمایش ہیں جن سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے گزرنا چاہیے۔
حضرت عطاء بن فروخ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے ایک آدمی سے زمین خریدی۔ اس کے بعد اس شخص نے آپ سے ملنے میں دیر کر دی۔ آپ اس سے ملے اور پوچھا کہ کیا مانع پیش آیا کہ رقم لینے نہیں آئے۔ اس نے جواب میں کہا کہ آپ نے اس سودے میں مجھے نقصان پہنچایا ہے۔ میں جس آدمی سے بھی ملا ہوں وہ مجھے اس پر ملامت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ چیز رقم کی وصولی میں مانع بن گئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو اس میں کون سی مشکل ہے۔ آپ چاہیں تو سودا ختم کر دیں۔ آپ اپنی زمین واپس لے لیں اور چاہیں تو رقم وصول کر لیں۔ پھر فرمایا کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا ایسے شخص کو جو نرم ہو‘ خریدار ہو تو نرم‘ بائع ہو تو نرم‘ ادایگی کرنے والا ہو تو نرم‘ وصول کرنے والا ہو تو نرم۔ (الفتح الربانی)
ہم نے اپنی زندگیوں میں کتنی تلخیاں محض نرم خوئی اور نرم روی کی اس سنہری ہدایت کو ترک کرنے سے گھول رکھی ہیں۔ میاں بیوی کے معاملات ہوں‘ والدین اور اولاد کے معاملات ہوں یا کاروباری معاملات‘ اگر ہم اپنے کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچ لیں تو ہمارے رویوں میں انقلابی تبدیلی آجائے۔ وہ سلوک کریں جو ہم اپنے ساتھ کیے جانا پسند کریں۔ کیا ہم چاہیں گے کہ ہمیں کوئی گالی دے‘ ہمارے اوپر آستینیں چڑھا لے؟ پھر ہم ایسا کیوں کریں۔ غیر ضروری مقدمات نے‘ جو محض کسی ردعمل میں دائر کیے جاتے ہیں‘ کتنوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ نرمی سے بات کی جائے تو آدمی اپنا حق چھوڑنے پر بھی تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن بہرحال‘ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ نرمی کی تعلیم و تلقین بھی ہو‘ اور معاشرے کے رہنما اور بزرگ اس کا نمونہ بھی پیش کریں۔ طالب علم استادوں سے اور اولاد والدین سے نرمی کا سبق لیں۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی سے ایک یا چند اُونٹ ’’ذخیرہ‘‘ نام کی کھجوروں کے عوض خریدے۔ یہ عجوہ کھجوروں کی ایک قسم ہے۔ سودا ہوگیا اور رسولؐ اللہ اسے اپنے گھرلے کر آئے اورکھجوریں تلاش کیں کہ قیمت ادا کی جائے لیکن نہ مل سکیں۔ رسولؐ اللہ باہر تشریف لائے اور فرمایا: اے اللہ کے بندے! ہم نے آپ سے اُونٹ کھجوروں کے عوض خریدے تھے لیکن کھجوریں دستیاب نہ ہو سکیں۔ دیہاتی نے یہ سن کر کہا: ہائے عہدشکنی! حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:لوگوں نے اسے ڈانٹ ڈپٹ شروع کی اور کہا کہ اللہ تجھے ہلاک کرے۔ کیا رسولؐ اللہ نے عہدشکنی کی؟ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو‘ حق دار کو بات کرنے کا حق ہے۔ رسولؐ اللہ نے دیہاتی سے اپنی بات کو کئی بار دہرایا۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ وہ اپنی نادانی کی وجہ سے آپؐ کی بات کو نہیں سمجھتا اور وہ یہی سمجھ رہا ہے کہ آپؐ اسے اس کا حق نہیں دے رہے تو آپؐ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: خویلہ بنت حکیم بن امیہ کے پاس ذخیرہ نام کی عجوہ کھجوریں ہیں تو ہمیں ادھار دے دیں۔ آدمی گیا پھر لوٹا اور عرض کیا کہ خویلہ کہتی ہیں کہ میرے پاس کھجوریں ہیں‘ میں دے دیتی ہوں۔ آپؐ وصولی کے لیے کسی کو بھیج دیجیے۔ رسولؐ اللہ نے اس آدمی کو کہا‘ جائو اس شخص کو اس کا حق پورے کا پورا دے دو۔ چنانچہ اس نے اس کا پورا حق دیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ اللہ صحابہ کرام کے حلقے میں تشریف فرما تھے کہ دیہاتی کا ادھر گزر ہوا۔ اس نے آپؐ کو دعا دیتے ہوئے کہا کہ اللہ آپؐ کو جزاے خیر دے۔ آپ ؐنے میرا حق پورے کا پورا بلکہ بہت عمدہ شکل میں دے دیا۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو ان کا پورے کا پورا حق عمدہ شکل میں دینے والے اللہ کے ہاں قیامت کے روز بہترین بندوں میں شامل ہوں گے۔ (الفتح الربانی)
آج آپ کا حق کسی حساب اقتدا کے پاس پھنس جائے تو آپ سو دفعہ سوچیںگے کہ طلب بھی کریں یا نہ کرنے میں ہی خیریت ہے۔ قربان جایئے اس معاشرے پر جو اللہ کے رسولؐ اور ان کے ساتھیوں نے قائم کیا تھا۔ اس معاشرے میں سب سے بڑی ہستی‘ حق مانگنے والے کے درشت رویے پر ٹوکنے والوں کو خود روکتی ہے اور اس کا حق اس کی مرضی کے مطابق ادا کرنے کی تدبیر کرتی ہے (آج کل ایک عام آدمی بھی کتنی آسانی سے حق کی ادایگی کو ٹال دیتا ہے اور ساری پریشانی حق مانگنے والے کے حصے میں آتی ہے)۔ اس اسوہ کو زندگی کے لیے راہنما بنایا جائے تو حقیقی اسلامی معاشرہ وجود میں آئے۔ حق دار کو اس کا حق ادا کرنا اور عمدہ طریقے سے ادا کرنا‘پُرسکون معاشرتی زندگی کی بنیاد ہے۔ آپ حق ادا کریں‘ آپ کے حق بھی ادا کیے جائیں گے۔ کوئی مظلوم اور شاکی نہ رہے گا۔
حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص باغات کے پھلوں کی خریداری کیا کرتا تھا۔ پھل آفت سے دوچار ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں اُس شخص کو مالکوں کی رقوم کا تاوان دینا پڑگیا۔ مالکوں نے ادایگی کا مطالبہ کیا۔ نبیؐ نے مسلمانوں سے اس کے لیے صدقے کی اپیل کی۔ لوگوں نے صدقہ کیا لیکن تاوان کی ادایگی نہ ہوسکی۔ رسولؐ اللہ نے حق داروں سے فرمایا: یہ رقم وصول کرلو‘ تمھارے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ (الفتح الربانی)
آج بھی اس طریقے کو اپنایا جاسکتا ہے۔ ایک یا چند افراد جو جائز کاروبار کی وجہ سے زیربار ہوجائیں‘ ان کے لیے زرتعاون جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کو اپنا کر افراد اور ملک کو سودی قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ معاشرے میں اس روایت کو قائم کرنا چاہیے کہ مقروض ادایگی نہ کر سکتا ہو تو اس سے اسی قدر وصول کیا جائے جس قدر وہ دے سکتا ہے‘ باقی معاف کر دیا جائے۔ آپ کے اس فیصلے کے مطابق اگر ایسی اخلاقی روایت ڈال دی جائے تو انفرادی اور اجتماعی مشکلات بڑی حد تک ختم ہو جائیں۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور آپؐ پر ٹوٹ پڑا۔ آپؐ نے کھجور کی ایک شاخ سے اسے کچوکا لگایا جس سے اس کا چہرہ زخمی ہوگیا۔ رسولؐ اللہ نے اسے بلایا اور فرمایا: ادھرآئو اور اپنا قصاص لے لو۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ میں نے معاف کر دیا۔ (الفتح الربانی‘ ۱۵‘ ۱۶)
جواسوۂ رسول کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ‘ اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھیں‘ ایسی صورت میں ہمارا ردعمل کیا ہوگا؟ شاید ہم اس شخص کو اس کا قصور بتائیں گے ‘ اپنی زیادتی تسلیم ہی نہ کریں گے۔ ہمارے ہاں تو غربا میں تقسیم کے موقع پر ہجوم ہو جائے تو لاٹھی چارج بھی کیا جاتا ہے۔
قصاص‘ اسلامی معاشرے کی بڑی حسین روایت ہے۔ قرآن کے مطابق اس میں ہمارے لیے زندگی ہے۔ یہ روایت زندہ اور نافذ ہو تو ظالم کا ہاتھ بڑھنے سے پہلے رک جائے۔ معاشرے سے ظلم و زیادتی کی بیخ کنی ہو جائے اور ہر شخص‘ مرد و عورت اپنے کو محفوظ و مامون سمجھے۔ تھانے میں ظلم کرنے والوں سے برسرِعام قصاص لیا جائے‘ تو کس کی مجال ہے کہ ظلم کرے۔ جب اللہ کا رسولؐ قصاص سے بلند نہیں‘ تو ان سے زیادہ معزز کون ہے جو اپنے کو قصاص سے بری سمجھے۔
تین کام ایسے ہیں کہ ہم ان پر عمل سے بے بس نہ ہو جائیں: امربالمعروف ‘ نہی عن المنکر اور اسلام کے طور طریقوں کی تعلیم۔ (مجمع الزوائد‘ ج ۵‘ ص ۲۱۶)
اس وقت دنیا مسلمانوں کی بے بسی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ کوئی ہے جو مسلمانوں اور انسانوں کی خوں ریزی کرنے والوں کو معروف کا حکم کرے اور منکر سے روک سکے۔ اُمت مسلمہ کے حکمران تو ظلم کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔ اس بے بسی کے عالم میں الحمدللہ ایسے نفوس اور تنظیمیں موجود ہیں جو نبیؐ کے ارشاد کی تعمیل کر رہی ہیں کہ یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو دنیا کو عدل کی راہ پر قائم رکھ سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں نبیؐ کے اس ارشاد کی اہمیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ کرنے کا کام یہی ہے۔ اس کی طرف سارے مسلمانوں کو پکارا جائے اور اسی کے لیے شب و روز انھیں تیار کیا جائے۔
o
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی کنانہ کی مہم پر بھیجا۔ رجب کا مہینہ تھا۔ ہم سوافراد تھے‘ بنی کنانہ کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان کے پڑوس میں جہینہ کے لوگ تھے۔ انھوں نے ہمیں پناہ دی۔ پھر ہمارا آپس میں اختلاف ہو گیا۔ کچھ نے کہا کہ قریش کے تجارتی قافلے پر حملہ کیا جائے‘ میں بھی ان میں شامل تھا۔ کچھ نے کہا کہ ہم نبیؐ کے پاس واپس جاتے ہیں اور آپؐ کو صورت حال کی خبر دے کر آپؐ سے ہدایت لیتے ہیں۔ کچھ لوگ کہنے لگے کہ ہم یہیں پر انتظار کرتے ہیں۔ اس طرح ہم تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک گروہ نبیؐ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے آپؐ سے صورت حال کا ذکر کیا۔ آپؐ نے ان سے تفرقے کی تفصیل سنی تو غصے سے آپؐ کا چہرئہ مبارک سرخ ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا تم میرے پاس سے گئے تھے تو مجتمع تھے اور اب واپس آئے ہو تو گروہوں میں بٹ گئے ہو (ہر ایک نے اپنی الگ راہ اپنا لی ہے)۔ تم سے پہلے لوگوں کو گروہ بندی نے ہلاک کیا۔ میں تم پر ایک ایسے شخص کو امیر بناتا ہوں جو تم سے بہتر تو نہیں ہے لیکن بھوک اور پیاس برداشت کرنے میں تم سے آگے ہے۔ پھر ہمارا امیر عبداللہ بن جحش اسدیؓ کو مقرر کیا۔ یہ وہ شخص تھے جنھیں دورِ اسلام میں پہلا امیر بنایا گیا۔ (کنزالعمال‘ احمد ابن ابی شیبہ)
تفرقوں کے نقصانات اور اتحاد کی برکتیں ساری دنیا نے دیکھ لیں۔ آج بھی اتحاد کی برکت سامنے آگئی ہے۔ تفرقے کی خبر سن کر نبی کریمؐ کا غصے میں آجانا تفرقہ کی ہولناکی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ نبیؐ کا ایک ارشاد ہے: الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب (مسنداحمد‘ ج ۴‘ ص ۲۷۸‘ کنزالعمال‘ ج ۷‘ ص ۵۵۸)‘ اجتماعیت رحمت ہے اور تفرقہ عذاب۔
o
حضرت انس بن مالک انصاریؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ: ہم غار میں تھے۔ میں نے مشرکین کے قدموں کو دیکھا۔ وہ ہمارے سروں پر آپہنچے تھے۔ تب میں نے رسولؐ اللہ سے عرض کیا: یارسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی اپنے پائوں پر نظر ڈالے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ابوبکر! آپ کو ان دو کے بارے میں کیا خطرہ ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔ (بخاری‘ مسلم‘ ترمذی)
اللہ تعالیٰ جو چاہیں وہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ ساری دنیا اپنا سارا زوراورتمام وسائل لگا دے تب بھی اللہ کے فیصلے اور اس کے نفاذ کو نہیں روک سکتی۔ کفر اور ظلم نے بارہا ایمان والوں کا گھیرائو کیا۔ ایمان والے اسباب سے تہی دست تھے لیکن (دوسری طرف) اللہ کی ذات ان کی حامی و ناصر تھی۔ اس نے اپنی طاقت سے کفروظلم کے گھیرے کو توڑ دیا اور وہ ایمان والوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ پس اسی کی طرف رجوع‘ اسی پر توکل کامیابی کی راہ ہے۔
o
بیٹے کے جرم میں اس کے والد کو نہیں قتل کیا جائے گا۔ (ابن ماجہ)
جرم کی سزا مجرم کو دی جائے‘ یہی عدل کا تقاضا ہے۔ اسلام سے پہلے دنیا عدل سے محروم تھی۔ جرم کی سزا مجرم کے خاندان اور اس کے حلیفوں تک کو ملتی تھی۔ ایک آدمی کے بدلے ہزاروں انسان قتل ہوجاتے تھے۔ آج دنیا نورِ اسلام سے محروم ہے تو پھر وہی اندھیر نگری ہے۔ ایک یا چند انسانوں کی مخالفت کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے کہ نبیؐ اور خلفاے راشدین نے اسلام کے عادلانہ اصول کو اپنایا۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ کو ایک مجوسی نے شہید کیا اور اس نے خودکشی کرلی۔ لیکن خود حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا کہ مدینہ کے مجوسیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ مدینہ میں کسی مجوسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی۔
o
حضرت ابوہریرہؓ ’’ابین‘‘ جو ان کی برادری کا گائوں تھا‘ تشریف لے گئے۔ ان کے ہاں تنور کے پہلے تائو کی پکی ہوئی روٹیاں لائی گئیں (اس میں تائو اعتدال پر ہوتا ہے اور اس کی روٹی نرم ہوتی ہے)‘ تو حضرت ابوہریرہؓ رو پڑے اور کہا کہ رسولؐ اللہ نے یہ روٹی دیکھی بھی نہ تھی۔ (ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا احساس آدمی کو خوشی کے آنسو رُلاتا ہے۔ یہ احساس بیدار ہو تو انسان اپنے ماضی کو بھی یاد رکھتا ہے۔ عسرت کی گھڑیاں بھی سامنے آجاتی ہیں۔ آسانیوں کے زمانے کی قدروقیمت یاد آجاتی ہے۔ صحابۂ کرامؓ کی یہی شان تھی‘ وہ اپنی عسرت کی گھڑیوں کو یاد رکھتے تھے اور اس سے زیادہ نبیؐ کی تکالیف کو یاد کرتے تھے۔ وہ آپؐ کی تکالیف کو یاد کر کے رو پڑتے تھے۔ نعمتوں کی فراوانی ان میں تکبر کے بجائے تواضع پیدا کرتی تھی۔ رونا اسی کی علامت ہے۔
o
اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں بھٹک جائوں یا پھسل جائوں یا ظلم کروں یا ظلم کا نشانہ بنوں یا لڑائی جھگڑا کروں یا مجھ سے لڑائی جھگڑا کیا جائے۔ (ابن ماجہ)
انسان کو کس قسم کی فکرمندی لاحق ہونی چاہیے اس دعا سے اس کی رہنمائی ملتی ہے۔ گمراہی‘ ظلم‘ لڑائی جھگڑے ہی تو وہ برائیاں ہیں جن کی تباہی سے پوری دنیا دوچار ہے۔ انسان کو جہاں یہ فکر کرنی چاہیے کہ اسے امن ملے‘ اس کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا نہ کرے اور کوئی اسے ظلم کا نشانہ نہ بنائے‘ وہیں اسے یہ بھی احساس کرنا چاہیے کہ وہ کسی کے امن و امان کو تباہ نہ کرے‘ کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرے اور کسی کو ظلم کا نشانہ نہ بنائے۔ اپنی فکر تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن مومن دوسروں کی فکر بھی کرتا ہے۔ اپنے ساتھ معاشرے کو بھی امن و سکون دینا اس کی سیرت اور اس کا دین ہے۔
o
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک سائل آیا۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس سے پوچھا کہ تم کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی گواہی دیتے ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں! پھر پوچھا: رمضان کا روزہ رکھتے ہو؟ (شاید رمضان کا سوال اس لیے کیا کہ مہینہ رمضان کا ہو)۔ اس نے جواب ہاںمیں دیا۔ اس کے بعد کہا کہ تم نے سوال کیا ہے اور سائل کا حق ہوتا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔ ہم پر تمھارا حق ہے کہ ہم صلۂ رحمی کریں۔ اس کے بعد اسے کپڑا دیا اور پھر کہا: میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جو مسلمان کسی مسلمان کو کپڑے پہناتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے جب تک اس کے جسم پر کپڑے کا کوئی ٹکڑا موجود ہو‘‘ ۔ (ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا جواثر حضرت ابن عباسؓ نے لیا‘ اگر وہی اثر ہر صاحب ثروت اور اہل خیر پر ہو تو معاشرے میں شاید ہی کوئی شخص بھوکا اور ننگا رہ جائے ۔ایسی صورت حال میں فقرا اور مساکین‘ مال داروں کے ساتھ حسد اور بغض کے بجائے ان سے محبت کریں گے۔ ان کے مال اور عزت کے لیے خطرہ بننے کی بجائے ان کی حفاظت کرنے لگیں گے۔ ایک ہم آہنگ معاشرہ تشکیل پائے گا۔
ووٹ دینا بھی گواہی ہے۔ اہل لوگوں کو ووٹ دینا سچی گواہی دینا ہے‘ نااہلوں کو ووٹ دیناجھوٹی گواہی ہے۔ ووٹ نہ دینا بھی جھوٹی گواہی کے حکم میں ہے۔ ایک ووٹر اپنی گواہی اور ووٹوں میں اضافہ بھی کرسکتا ہے۔ وہ جتنے لوگوںکو ووٹ کے صحیح استعمال کے لیے لائے گا اس کے کھاتے میں اتنے ہی لوگوں کے ووٹ کی نیکی لکھ دی جائے گی۔ ۱۰‘ ۲۰‘ ۱۰۰‘ ۱۰۰۰ جتنے لوگ اس کی آواز پر ووٹ دیں گے ان کے اجر میں وہ شریک ہوگا‘ بغیر اس کے کہ کسی ووٹر کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ ہے کوئی جواس ثواب کے لیے آگے بڑھے‘ جدوجہد کرے‘ اور اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرے۔ وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ o (المطففین ۸۳: ۲۶) ’’جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہیں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں‘‘۔
غور فرمایئے کہ آپؐ نے اہل بیت میں شامل کرنے کو کن باتوں سے مشروط کیا ہے۔ ہم کو اللہ کے رسولؐ سے محبت کے کتنے دعوے ہیں اور کون اہل بیت میں شامل ہونا اور اللہ کے رسولؐ کی دعا کا حق دار ہونا نہ چاہے گا لیکن اہل اقتدار کے دروازوں کے آگے کھڑے رہنے اور اہل مال کے پاس سائل بن کر جانے سے بچنے والے کتنے ہیں۔
جسے فرشتے دعائیں دیں‘ اس کی خوش قسمتی کا کیا کہنا اور جس کے لیے فرشتے بددعائیں کریں اس کی بدبختی کا کیا ٹھکانا! خرچ کرنے والا صرف خرچ نہیں کرتا بلکہ کمائی کرتا ہے اور نعم البدل پاتا ہے‘ اور بخل کرنے والا اپنی بچت نہیں کرتا بلکہ اپنے مال کو تباہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج (سبا ۳۴:۳۹) ’’جوکچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے‘‘۔
اللہ کی بندگی میں آگے ہونے‘ پہلی صف میں کھڑا ہونے کی بڑی فضیلت ہے‘ لیکن دوسروں کو تکلیف پہنچا کر نہیں۔ اگر کہیں تیزرفتاری سے آگے بڑھنا دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہو‘ تو آدمی کو چاہیے کہ رفتار کم کر دے‘ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے رک جائے‘ اللہ کے ہاں اس کا شمار اگلی صف میں ہو جائے گا‘اسے پہلی صف کا ثواب ملے گا۔ عبادت اور عبادت گزار دوسروں کی ایذا کا نہیں بلکہ ان کی راحت کا سبب بنتے ہیں۔
رب العالمین کے ہاں حاضری اور اس سے ملاقات کتنی آسان ہے۔ ملاقات کا خواہش مند جس وقت چاہے ملاقات کر سکتا ہے۔ بندے اور رب کے درمیان کوئی واسطہ بھی نہیں کہ اس کے ذریعے ملاقات کی جائے۔ بندے اور رب کے درمیان کوئی بھی حائل نہیں ہے۔ یہ بندے کی اپنی چاہت کی بات ہے‘ اس کے اپنے ذوق و شوق اور جذبے پر منحصر ہے کہ وہ کس وقت کتنی دیر اور کیسی ملاقات چاہتا ہے۔ جیسی ملاقات چاہے گا ویسی ملاقات ہوجائے گی۔ توجہ ہٹائے گا تو رب بھی توجہ ہٹا لے گا۔
نماز رب تعالیٰ کی ملاقات اور اس سے مناجات ہے۔ نماز میں اللہ تعالیٰ بندے کے سامنے ہوتا ہے اور بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ بادشاہوں سے ملاقات کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں‘ پھر بھی وہ چند لوگ ہی ہوتے ہیں جنھیں شرف باریابی ملتا ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین کی ملاقات کتنی آسان ہے۔ پانچ وقت اس کی طرف سے اس کے لیے بلاوا آتا ہے اور اس کے علاوہ بھی کسی بھی لمحے ملاقات کی جا سکتی ہے۔
آیئے‘ رب سے ملاقات کے جذبے اور شوق کو بیدار کریں اور نماز میں ایسا رویہ اختیارنہ کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے رخ پھیر لے۔ بلااستثنا ہر ایک کی ملاقات کے لیے راستہ کھلا ہے۔
گھروں کی حفاظت اور کھانے میں برکت کی فکر کسے نہیں؟ کتنا آسان نسخہ ہے۔ اللہ کی یاد ‘گھر کی حفاظت اور برکت ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (البقرہ ۲:۱۵۲) ’’تم مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد کروں گا‘‘۔ اللہ جب بندے کو یاد کرتاہے تو پھر وہ شیطان کو اس کے قریب نہیں آنے دیتا۔ اسے اللہ کی طرف سے حفاظتی حصار میسر آجاتا ہے۔ شیطان‘ شیطانی کام‘ برائیاں اس گھرسے دُور‘ اس کا گھر ان سے دُور۔ اللہ کی یاد کا کتنا آسان نسخہ ہے کہ روز مرہ کی دعائوں کو اپنا معمول بنا لیا جائے۔
گناہ انسان کے جسم و جان اور دل ودماغ کے لیے جکڑبندی‘ گھٹن اور پریشانی ہے۔اگر کوئی شخص ذہنی دبائو‘ جسمانی کھچائو اور پریشانی میں ہے‘ بے اطمینانی کا شکار ہے تو اس بیماری کا ایک سبب برائیوں کی زرہ کی جکڑبندی ہے۔ وہ اپناجائزہ خود لے کرمعلوم کر سکتا ہے کہ اس کی بیماری کاسبب کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس کے اعمال کیسے ہیں۔ اگر وہ برائیوں میں مبتلا ہے تو‘ توبہ کرے‘ نیکیوں کی طرف رخ کرے‘ صحت مند ہوناشروع ہو جائے گا۔وہ نیکیاں کرتا جائے گا اور گناہوں کی جکڑبندی ختم ہوتی جائے گی۔ بلاشبہہ نیکیاں برائی کو دُورکرتی ہیں‘ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِط (ھود ۱۱:۱۱۴)‘اس حقیقت کو اس حدیث نے مثال کے ذریعے کھول کر بیان کر دیا ہے۔
دو رکعت نماز پڑھنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔ میاں بیوی دونوں رات کو اُٹھ کر دو رکعت پڑھنے کو معمول بنالیںتو اس کی برکت سے ان کا شمار ذاکرین میں ہو جائے گا۔ انھیں ذکر کی عادت پڑ جائے گی۔ تھوڑی نیکی‘ زیادہ نیکی کا سبب بنتی ہے۔ دو رکعتوں کو حقیرنہ سمجھیں۔ آدمی اسے اپنا معمول بنا لے تو وہ تھوڑی نہیں رہتی بلکہ زیادہ ہوجاتی ہے۔ پھر وہ نیکی آدمی کی گھٹی میں پڑ جاتی ہے‘ انسان ترقی کی منازل طے کرتا رہتا ہے‘ یہاںتک کہ بلندترین منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ ذاکرین اور ذاکرات میں شامل ہونا بندگی کی معراج ہے۔
دو رکعت نماز‘ ایک یا دو رکوع تلاوت و مطالعہ‘ ایک دو احادیث‘ دو تین مسائل میں تھوڑا وقت صرف کر کے مہینے میں کتنی عبادات اور کتنا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ محلے کے ایک دو آدمیوں سے ملاقاتیں‘ ان کواللہ کی بندگی کی طرف متوجہ کرنا معمولی کام ہے لیکن سال کے ۳۶۵ دن کام ہو تو مضبوط جماعت بن سکتی ہے۔ دو تین سال میں پورا محلہ اور ساری آبادی دین کے رنگ میں رنگی جا سکتی ہے۔ اسی واسطے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیرالعمل مادیم علیہ وان قل ’’بہترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو‘‘۔
آج موقع ہے‘ انسان اپنے آپ کو جس گروہ میں شامل کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ کل جب اس کا جنازہ دوسروں کے کندھوں پر ہوگا اس وقت کی چیخ و پکار کام نہ دے گی۔ کل کی خوشی کا سامان آج کی نیکی اور نیک لوگوں کی صف میں شمولیت ہے۔ اس کے لیے مال و دولت‘ عہدہ و منصب‘ عیش و عشرت کی نہیں‘ اللہ کی فرماں برداری اور اس کی مرضیات کی تکمیل کی ضرورت ہے۔ آج جو اللہ کی مرضی پر چلے گا ‘ کل اللہ تعالیٰ اسے راضی کر دے گا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط (البینہ ۹۸:۸) ’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمل بھی کیااُمت کے لیے اس میں زبردست کشش ہے۔ اُمتی وہ کام کر کے رہتے ہیں۔ آپؐ کعبہ میں داخل ہوئے تو سب مسلمان کعبہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے جو ان کے لیے تکلیف کا موجب بن جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کو مشقت سے بچانے کی کتنی فکر تھی کہ ایک فعل کر لیا‘ پھر خیال آیا کہ اس سے اُمت مشقت میں پڑ جائے گی‘ لوگ ایک دوسرے پر ہجوم کریں گے۔ اتنی بات سے آپؐ غمگین ہو گئے۔ ابھی ہجوم ہوا نہیں تھا ‘کوئی کچلا نہیں گیا تھا محض اس کا خطرہ اور اس کا احساس آپؐ کو دامن گیر ہوگیا۔ وہ اُمت جس کے لیے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فکرمندی‘ بے چینی اور بے قراری کا یہ حال ہے‘ وہ آج کس حال میں ہے اور اس کی خود اُمت کو کیا فکر ہے؟ اس کا جواب ہر کلمہ گو کو دینا ہے۔ کیا اس اُمت کے حصے بخرے کیے جا سکتے ہیں؟ اُمت کے کسی ایک حصے کے متعلق یہ امتیاز ہو سکتا ہے کہ پہلے اس کی فکر کرو پھر دوسروں کی‘ یا اپنے آپ کو دوسروںپر مقدم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی فکر کرو‘ افغانستان اور فلسطین کو چھوڑ دو۔ کیا ایسا ہو سکتاہے؟ آج مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ کسی کو اس کا دکھ درد اور غم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی سی بات پر اتنے غم زدہ ہو گئے‘ نبی کے اُمتی کس مقام پر کھڑے ہیں۔ ایمانی جذبات‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت‘ اُمت سے لگائو‘ بھائیوں کے لیے ایثار و قربانی‘ سب چیزیں کہاں چلی گئیں؟ ہم کب بیدار اور کب زندہ ہوں گے؟ کب مسلمانوں کی تکلیف بسترِ استراحت کو چھوڑ کر ان کے دکھ درد میں شرکت کرنے پر آمادہ کرے گی؟
دنیا کو آباد کرنا اس کے لیے شجرکاری ‘ کاشت کاری ‘ خرید و فروخت ‘ صنعت و حرفت‘ زمین کے خزانے نکالنا اور ان سے استفادہ کرنا‘سائنس و ٹکنالوجی کے ذریعے ترقی کے سازوسامان تیار کرنا‘ سہولتیں اورآسایشیں فراہم کرنا سب اپنی جگہ بجا لیکن یہ سب کام اسی وقت ٹھیک ہیں‘ جب کہ اصل جگہ کے لیے بھی جہاں ہمیشہ رہنا ہے‘ فکر کی جائے۔ آخرت کے لیے شجرکاری‘ تجارت‘ صنعت و حرفت‘ راحت کا سازوسامان پیدا کرنا‘ تو اصل کام ہے۔ کوئی ترک دنیا کا درس دیتا ہے اور کوئی دارآخرت سے غفلت میں مبتلا کرتا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے‘ بنانے ‘ راحت کا سامان کرنے اوریوں انسان کی ہر حال میں بھلائی کے لیے فکرمند ہیں۔ ادنیٰ کے لیے اعلیٰ‘ دنیا کی خاطر آخرت کو نظرانداز کرنے کو گوارا نہیں فرماتے۔ بہتر پودے‘ بہتر کاروبار‘ بہتر صنعت و حرفت اور بہتر سہولتیں آخرت کی ہیں۔ آج کتنے ہیں جو بہتر سے غافل اور ادنیٰ میں اندھادھند مگن ہیں۔ ذکر وتسبیح تو آخرت کے سامان ہیں۔ دنیا کے کام شریعت کو ملحوظ رکھ کر ‘ اطاعت رب کی نیت سے ہوں‘ تو یہ بھی آخرت کا سامان ہے۔ ۲۴گھنٹے جاگتے سوتے اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے بشرطیکہ کوئی عبادت کرنا چاہے اور آخرت کے لیے فکرمند ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین اور ایمان والوںکے لیے رئوف و رحیم ہیں۔ ایمان والوں کے ساتھ ہمدردی‘ محبت اور تعلق کا تقاضا کیا ہے‘ انھیں دوزخ میں گرنے سے بچانا۔ اس کے لیے دوڑ دھوپ کرنا اور اپنا آرام ترک کرنا پڑتا ہے۔ لوگ تو آگ میں چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ کوئی ہانک پکار پر کان نہیں دھرتا۔ شیطان کو راضی کرنے کے لیے دوزخ کی آگ اور کفار کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ بے قصورلوگوں کو تہ تیغ کرنے‘ گرفتار کرنے‘ بوڑھوں‘ بچوں‘عورتوں اور نوجوانوں کو ظلم و جور کا نشانہ بنانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبی کا اسوہ اور تعلیم زبانی نہیں بلکہ عملاً لوگوں کو دوزخ میں گرنے‘ ظلم و جور اور قتل و غارت گری سے روکنے کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تو یہ ہے‘ تب کتنے ہیں جو اپنے گھروں سے باہر نکل کر ظالموں کو دوزخ کی آگ میں گرنے سے عملاً روک رہے ہوں۔ کون ہے لوگوں کو کمروں سے پکڑنے والا‘ ان کو ہاتھ سے روکنے والا‘ اپنے آرام و راحت کو قربان کرنے والا‘ اپنے آپ کو آزمایش اور تکلیف کے لیے پیش کرنے والا بنے۔ نبیؐ کے راستے پر چلے بغیر‘ معرکہ خیروشر میں کودے بغیر‘ لوگوں کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچائے بغیر کیسے اتباع کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔ آیئے‘ آخرت کی کمائی کا بازار کھلا ہے۔ جس نے کمائی کرنی ہو‘ نبیؐ کے اسوہ حسنہ کو اختیار کر لے اور نیکیاں کماتا چلا جائے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ظالموں کو اس دنیا میں عبرت ناک سزا ملتی ہے۔ ساری دنیا اپنی آنکھوں سے ان کے انجام کو دیکھتی ہے۔ بنی اسرائیل کی نسل کُشی کرنے والے فرعون کے دریاے نیل میں غرق ہونے سے لے کر آج تک ہر ظالم کی ہلاکت کے مناظر زمانے کے صفحات پر ثبت ہیں۔ لیکن ہر نئے دور کے ظالم ان سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اپنے پیش روئوں کی تقلید کرتے ہوئے ظلم میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ اپنے انجام بد سے دوچار ہوجاتے ہیں‘ اور ارشاد رسولؐ کی صداقت سامنے آجاتی ہے۔
اس وقت تو چند ایسے لوگ تھے جو حکمرانوں کے سامنے ان کی تائید اور باہر نکل کر تردید کرتے تھے‘ یہ نفاق ہے۔ آج یہ نفاق اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جب حکمران برسراقتدار ہوتا ہے تو وہ محبوب اور قائد ہوتا ہے اور جب اقتدار سے رخصت ہو جاتا ہے تو مبغوض اور لعنتی شمار ہوتا ہے۔ انسانوں کے بڑے بڑے ریوڑ حکمران کے دوراقتدار میں ساری دنیا کے سامنے اس کے مداح‘ اور اقتدار سے اُترنے کے بعد ساری دنیا کے سامنے‘ اس دنیا کے سامنے جس کے سامنے مدح کرتے تھے‘ مذمت کرتے ہیں اور گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ ریوڑوں کے ریوڑ بڑی بڑی پارٹیاں اور لیڈر‘ راہنما اور راہبر اس بیماری کا شکار ہیں‘ نعوذ باللہ۔
نکاح کے بندھن میں آنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ شوہر کیسا ہے‘ شکل و صورت کے لحاظ سے قابل قبول ہے کہ نہیں۔ اسی طرح سے بیوی کے بارے میں بھی پہلے سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ نکاح کے بعد قانون میں اس کی گنجایش نہیں لیکن اگر کسی وجہ سے پہلے اس کا اہتمام نہ ہو سکا ہو تو پھر کیا ہو؟ کیا میاں بیوی کو اسی طرح قانون کی لاٹھی سے ہانکا جائے گا اور وہ ایک دوسرے کو نہ چاہتے ہوئے بھی نکاح کے بندھن میں بندھے رہیں گے؟ اگر ایسا کیا جائے تو گھرانے میں سکون و چین کیسے ہوگا؟ کیا میاں بیوی اسی طرح ایک دوسرے سے روٹھے‘ پیٹھ پھیرے‘ گھٹے گھٹے زندگی بسر کریں گے؟ کیا ایک دوسرے کے انسانی اور اسلامی حقوق کو پامال کرتے ہوئے ازدواجی زندگی بسر کریں گے؟ اس کا جواب اس حدیث میں ہے۔ ایسی صورت میں اخلاق اور مصالح کو پیش نظر رکھا جائے گا اور قانون کے بجائے مثالی اسلامی معاشرے کے آداب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے گی۔بیوی شوہر کو ناپسند کرتی ہو تو شوہر کو سمجھایا جائے گا کہ اپنے گھر کو بے چینی اور بے اطمینانی کا گھر بنانے کی بجائے سکون اور راحت کا گھر بنائے۔ ایسی بیوی کو طلاق دے دو اور شادی پر جو ضروری اخراجات آئے ہیں‘ جو مہر دیا ہے وہ واپس لے لو اور اس سے دوسرا گھر بسائو۔
جبر و اکراہ کے ساتھ گھروں کو بسانے کی بجائے رضامندی سے معاملات طے کیے جائیں۔ شادی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ شوہر بیوی پر شفقت کرے گا‘ خوش اخلاقی سے پیش آئے گا اور بیوی اس کی اطاعت اور شکرگزاری کرسکے گی۔ دونوں مل کر اپنے گھر کو مثالی اسلامی گھرانہ بنا سکیں گے۔ بعد میں اگر اختلاف پیدا ہو جائے تو اس کا حل بھی یہی ہے۔ مصالحت نہ ہو سکتی ہو تو زبردستی کی بجائے احسن طریقے سے جدائی کا راستہ اختیارکیا جائے۔ آج کتنے گھرانے ہیں جو اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ باہمی عداوت کو بڑھانے کے بجائے اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر باہمی مشاورت سے مسائل کو حل کیا جائے۔ عدالتوںکے چکر سے بھی بچا جائے جو اسلامی احکام سے ناواقفیت کی بنا پر جاہلانہ فیصلے صادر کرتی ہیں۔
کسی کو نیکی کے دو بول سکھاکر‘ کوئی کتابچہ پڑھا کر‘ مسجد‘ کنوئیں یا نہر کی تعمیر میں حسب استطاعت حصہ ڈال کر‘ کسی دعوتی و تبلیغی کام میں اعانت کر کے‘ قرآن‘ احادیث اور دینی لٹریچر کی اشاعت میں تعاون کر کے آسانی سے اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اپنے وسائل کے مطابق ’کم یا زیادہ‘ ہر شخص یہ اجر لے سکتا ہے
ڈیوٹی کے دوران کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کے ورثا کو ایک عرصے تک فوت ہونے والے کا مشاہرہ اور دوسری مراعات دی جاتی ہیں۔ مزید اعانت بھی کی جاتی ہے لیکن یہ سب کچھ محدود وقت کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مومن اللہ کی عبادت کے دوران فوت ہوجائے تو قیامت تک وہ آن ڈیوٹی شمار ہوتا ہے۔ حاجی‘ معتمر (عمرہ کرنے والا)‘ نمازی اور غازی قیامت کے دن تک اپنی عبادت کا اجر پاتے رہیں گے۔ قیامت تک اجر پانے کا بہت آسان نسخہ یہ ہے کہ ہر وقت اللہ کی عبادت کی نیت میں رہے کہ میں اللہ کا حکم مانوں گا‘ اس کے مقابلے میں کسی کے احکام نہیں مانوں گا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ تب اس کا اٹھنا بیٹھنا‘ سونا جاگنا‘ چلنا پھرنا‘ سب عبادت شمار ہوگا۔ اس دوران میں اس کی وفات ہوگئی تو ان لوگوں میں شامل ہوگا جو عبادت کے دوران میں فوت ہو جاتے ہیں۔ یہی معنی ہیں اس آیت کے: وَلاَتَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ’’تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔
دُنیا کی فنا‘ آخرت کی بقا‘ دوزخ کا خوف‘ جنت کا شوق اور دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس ہو تو پھر انسان ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔ تکالیف میں مایوسی کا شکار نہیں ہوتا اور آسودہ حالی میں تکبر و غرور میں مبتلا نہیں ہوتا۔ خلافت میں امرا کی شان کیا ہوتی ہے۔ اس کی جھلک حضرت عتبہؓ بن غزوان کے اس خطبے سے سامنے آتی ہے کہ وہ متواضع اور ذاکر و شاکر ہوتے ہیں۔خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے بعد بادشاہت کا دور ہوتا ہے اور آخرت کے بجائے دُنیا پر نظریں جمنا شروع ہو جاتی ہیں۔
گناہ انسان خود بھی کرتا ہے اور اس کے آس پاس دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ان گناہوں کو کس نظر سے دیکھا جائے؟ اس حدیث کی یہ بڑی اہم تعلیم ہے کہ دوسروں کو اس طرح نہ دیکھو کہ گویا تم ان کے رب ہو۔ اکثر نیکوکار دوسروں کی اصلاح کے شوق میں اس غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں---
موت واقع ہونے سے پہلے رونے کی اجازت ہے‘ موت کے بعد اونچی آواز سے رونا نوحہ ہے جو ممنوع ہے۔ نبی کریمؐ کی شفقت دیکھیے کہ جہاں رونے کی گنجایش ہے وہاں روکنے سے منع کرتے ہیں۔ بیٹی کے غم کو کہ باپ جہاد میں شریک ہو کر شہید نہ ہو سکے‘ ہلکا کر رہے ہیں‘ کہ نیت کے مطابق وہ شہید ہے۔ پھر دوسری مختلف نوعیت کی اموات کے بارے میں شہادت کی اطلاع دے کر کس کس کو اطمینان و سکون فراہم کر دیا۔سبحان اللہ! ایسی رؤف و رحیم نبی کی اُمت کو رحیم ہونا چاہیے۔ شریعت نے جہاں گنجایش رکھی ہو وہاں سختی کے بجائے گنجایش دینا چاہیے اور جہاں سختی کی ہے وہاں سختی کرنا چاہیے لیکن اتنی‘ جتنی شریعت کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو۔
آزمایش محبت کی ہے۔ جو محبت میں آگے ہوں گے ان کی آزمایش بھی زیادہ ہے اور جو محبت میں پیچھے ہیں ان کی آزمایش بھی آسان ہے۔ آزمایش درجات کی بلندی کے لیے ہے‘ سزا نہیں ہے۔ آج بھی اُمت مسلمہ ایک بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ نظر آ رہا ہے کہ جن کے مرتبے زیادہ ہیں ان کی آزمایش بھی زیادہ ہے۔
ایک دور وہ تھا جب آزمایشوں اور ڈراووں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تھے۔ لیکن یہ آزمایشیں اور ڈراوے آپؐ کو راہ حق سے پیچھے نہ ہٹا سکے۔ آزمایشیں تنزلی نہیں بلکہ ترقی کا سامان ہیں۔ اسلام کی تاریخ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس بات کی گواہ ہے۔
دعائوں کی قبولیت کا وسیلہ اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک‘اسم اعظم ہے۔ اللہ کے نبیؐ اس اسم کو اس کے اوصاف کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ کو سناتے ہیں کہ انھیں اس کا شوق پیدا ہو‘ پھر کچھ دن کے بعد بتلا رہے ہیں کہ مجھے اس کا علم دے دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا شوق سوا ہو جاتا ہے۔ طلب اور تڑپ کے عجیب مناظر سامنے آتے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب یہی ملتا ہے کہ اس کا علم آپ کے لیے مناسب نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ کوئی ایسی چیز نہ مانگ لیں‘ جو صرف دنیا میں کام آئے۔ اللہ کے اسم اعظم سے سوال ہو اور محض دنیا کے کسی کام کے لیے‘ یہ مناسب نہیں۔ تب حضرت عائشہؓ کی تڑپ اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ وہ وضو کرتی ہیں‘ نماز پڑھتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماے حسنیٰ کے وسیلے سے دعا کرتی ہیں۔ آپؐ کے سامنے یہ سارا منظر ہے۔ آپؐ حضرت عائشہ ؓ کو شاباش دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: عائشہ! گوہر مراد کو تو تم نے پا لیا۔ اسم اعظم ان ہی اسماے حسنیٰ میں موجود ہے جن کے ذریعے تم نے دعا کر لی ہے۔ اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تمھیں اس کا متعین طور پر علم نہیں ہے۔
شفقت ‘ تعلیم و تربیت ‘ ذوق و شوق اور تعظیم و محبت کے کیسے کیسے مناظر سامنے آتے ہیں۔ یہ محسوس تو کیے جا سکتے ہیں لیکن بیان نہیں۔
کتنے بھائی ہیں جو ظلماً قتل ہو گئے اور کتنے ہیں جو قتل ہو رہے ہیں۔ کتنے ہیں جو زخموں سے چور ہیں اور بے سہارا ہیں۔ جیلوں میں سختیاں اٹھا رہے ہیں۔ لاکھوں بے گھر‘ ننگے اور بھوکے ہیں۔ ان کی حمایت‘ مدد اور تعاون میں ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لے سکتا ہے۔ بھائواچھے ہیں‘ مٹی سونے کے بھائو بک رہی ہے‘ کمائی ہی کمائی ہے۔ تب کوئی ہے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرح ساری کمائی پیش کر دے‘ حضرت عمر فاروقؓ کی طرح نصف لے کر آجائے‘ حضرت عثمان غنیؓ کی طرح ۹۰۰ اونٹ پورے سازوسامان کے ساتھ پیش کر دے۔ بہت مل رہا ہے کوئی خریدار آئے تو سہی۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ جو یہ سعادت حاصل کر رہے ہیں!
محبت ہو تو ملاقاتیں ہوتی ہیں‘ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جاتے ہیں‘ مصافحے اور معانقے ہوتے ہیں‘ زیارتیں ہوتی ہیں‘ تحفے پیش کیے جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کرامؓ سے اور صحابہ کرام کو آپؐ سے جو محبت تھی‘ اس کی نظیر روے زمین پر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت عروہؓ بن مسعود ثقفی کہتے ہیں: میں بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں لیکن میں نے کسی کو اپنے بادشاہ سے اس طرح محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح کی محبت صحابہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہیں۔ نبی کریم ؐ اپنے محبوب صحابی سے اظہار محبت کے بعد جو تحفہ پیش کر رہے ہیں وہ ذکر‘ شکر اور حسن عبادت میں اللہ تعالیٰ سے اعانت کی دعا ہے کہ اس کی اعانت سے ہی انسان اس کی بندگی کی راہ میں آگے بڑھتا ہے۔ اظہار محبت کے لیے اس طرح کے تحفے دینا بھی سیکھنا چاہیے کہ یہ سنت نبویؐ ہے۔
کتنے خوش نصیب ہیں وہ جو مخلوق اور خالق کے درمیان محبت کے رشتوں کو استوار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ کے بندوں کو شیطان کے پنجوں اور شکنجوں سے نکال کر اللہ کی بندگی کی شاہراہ پر گامزن کرتے ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ دعوت دین کے کام کی عظمت و رفعت کا کیا عالم ہے!
نماز روزے کی ادایگی اور کبائر سے اجتناب کی برابر اہمیت ہے۔ ایسی نمازیں جن کے ساتھ کبائر کا ارتکاب جاری ہے‘ بھلا کس کام آئیں گی۔ کبائر سے اجتناب سے انفرادی زندگی میں ہی سکون نہیں آئے گا‘ معاشرہ بھی فساد سے پاک ہوگا۔ معاشرہ ان کبائرسے پاک ہو جائے ‘نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج قائم کر دیے جائیںتو دنیا عدل و انصاف اور امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔ آج قتل ناحق کا بازار گرم ہے ‘سود خوروں کا راج ہے اور کمزوروں کی حق تلفی کا دور دورہ ہے۔ یہ سب ختم ہو جائے تو یہی دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔ کتنا مختصر اور جامع نسخہ ہے!
رمضان کا مہینہ‘ تلاوت قرآن کا مہینہ‘ قیام اللیل کا مہینہ اور رحمت و مغفرت اور آگ سے آزادی کا مہینہ ہونے کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا مہینہ بھی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایک اعلیٰ درجے کی نیکی ہے جس کی طرف قرآن و حدیث میں مختلف انداز سے توجہ دلائی گئی ہے۔ سیرت پاکؐ، واقعات صحابہ ‘ اسلامی تاریخ اور خود ہمارے آج کے دور میں بھی اس حوالے سے درخشندہ اور قابل تقلید مثالیں ملتی ہیں۔ بھلا جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ اللہ کے وعدوں کو سچا جانتا ہو‘و ہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کیوں بچائے گا۔ قرآن کے مطابق‘ انفاق کی مثال ایسے بیج کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں ۱۰۰ دانے ہوں (البقرہ ۲:۲۶۱)۔ یوں ۷۰۰ گنا اجر کا محاورہ بن گیا۔ جو ۲۰‘ ۲۵ فی صد کی امید پر لاکھوں حاضر کر دیتے ہیں ‘ وہ اگر ۷۰۰ گنا کے یقینی وعدے پر ہزاروں پیش کرنے میں تکلف کریں‘ تو یہ ضرور کچھ غور کرنے کی بات ہے۔ اور پھر رمضان میں تو مزید ۱۰ گنا کا حساب لگایا جائے تو بات ۷ ہزار گنا تک پہنچتی ہے۔ لیکن مسئلہ تو اللہ کے وعدوں پر ایمان اور یقین کا ہے۔
روایات کے مطابق رمضان کا مبارک مہینہ آتا تھا تو اللہ کے رسولؐ کی سخاوت دوچندہو جاتی تھی‘ ایک تیز ہوا کی مانند‘ جس سے ہرکس و ناکس فیض یاب ہوتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جن کو اللہ نے دیا ہے ‘ وہ اس مہینے کو دینے کا مہینہ بنا دیں‘ اللہ کی راہ میں انفاق کرنے کا مہینہ! اللہ کی ہستی ایک کریم اور فیاض ہستی ہے اور اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ وہ ’’قرض‘‘ واپس کرنے کے لیے آخرت کا انتظار نہیں کرے گا۔ وہ اپنی راہ میں اخلاص سے دینے والوں کو اتنا نوازے گا ‘ اتنی برکت دے گا کہ وہ نہال ہو جائیں اور آنے والے ۱۱ ماہ سنبھال بھی نہ سکیں اور آخرت کا اجر بھی باقی رہے گا۔ اس حوالے سے کچھ احادیث پیش کی جا رہی ہیں:
روز مرہ زندگی گزارتے ہوئے‘ معمول کی ضروریات پر اپنا مال خرچ کرتے ہوئے موت کے بعد کی تیاری کرنا ہی اصل بات ہے۔ جب موت سامنے نظر آجائے ‘ تو پھر وہ بات نہیں رہتی۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے دسیوں عنوان سامنے آتے ہیں۔ ان سے آدمی ایسے ہی نہ گزر جائے بلکہ ان مواقع کو اپنی آخرت کی تیاری کے لیے استعمال کرے۔
اپنی ضرورت پر سائل کی ضرورت کو ترجیح دینا یقینا صدقے کا اعلیٰ درجہ ہے (اور جب رسولؐ اللہ کے گھر میں یہ نہ کیا گیا تو نتیجہ بھی سامنے آگیا)۔ لیکن اپنی ضروریات بلکہ ایک حد تک آسایش پوری کرنے کے بعد جو بچتا ہے اُسے تو کھلے دل سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی روش ہر کسی مسلمان کی ہونا چاہیے۔ یہ کیا ہے کہ ہم نہ صرف اپنی تاحیات ضروریات کا مکمل انتظام کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی دنیا کی سب فکروں سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ اہل ضرورت فہرست میں آ ہی نہیں پاتے یا بہت دُور کہیں براے نام۔ جب آخرت حق ہے‘ اجر یقینی ہے‘ دنیا میں برکت کے وعدے ہیں‘ (اور اللہ کے وعدے ہیں!) تو پھر پس و پیش کیسا؟ اگر معاشرے میں‘ ضرورت سے زیادہ جو کچھ پاس ہے‘ اسے جمع کرنے کے بجائے دینے کا چلن ہو جائے تو معیشت کے کتنے ہی مسائل حل ہو جائیں اور اسلام کا مطلوب معاشرہ نظر آجائے۔
اجر عطا کرنے کے کیا کیا انداز ہیں۔ بڑھانے کا وعدہ ہے اور اس کی کوئی حد نہیں۔ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جائے ‘ بندہ اور کیا چاہتا ہے! عزت میںاضافہ ہو‘ رفعت عطا ہو‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور کیا چاہیے! اکثر اس لیے رقم نہیں نکالی جاتی کہ کمی ہو جائے گی۔ سچ بتانے والے رسولؐ نے بتایا کہ صدقے نے کبھی مال میں کمی نہیں کی۔ ہمیں اعتبار کیوں نہیں آتا۔
یہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے دو مزیدفوائد ہیں۔
کیوں نہ مسلمانوں کے دولت مند ‘ ایسے خرچ کرنے والے بنیں اور تباہ و برباد ہونے سے بچ جائیں۔
لیجیے‘ ۷۰۰ گنا کی تصدیق--- اور رمضان بھی ہو تو--- آپ خود حساب لگا لیں۔
یعنی‘ کوئی جایداد ‘ مکان‘ کمرہ یا کسی کل وقتی کارکن کا ماہانہ مشاہرہ یا (اچھی حالت کی موٹر گاڑی۔ اور یہ نہ بھی ہو توتھوڑی سی کھجوریں ہی زر و جواہر کے ڈھیر پر بھاری ہو جاتی ہیں کہ اصل وزن اخلاص اور حسن نیت کا ہے۔
اللہ نے جو مال دیا ہے اُسے خرچ کرنے کے بارے میں جو ہدایات و تعلیمات ہیں وہ سب ہی جانتے ہیں۔ مسئلہ دل سے مال کی محبت نکالنے کا ہے جو اصل مرض اور سبب فساد ہے۔ انفاق اسی مرض کا علاج ہے۔
اموال میں سائل و محروم کا حق ہے۔ کسی کو دیتے ہیں تو احسان نہیں کرتے‘ اس کا حق پہنچاتے ہیں۔ احسان جتانا تو اجر ضائع کرنے کا مجرب نسخہ ہے جس کے سایے سے بھی بچنا چاہیے۔
کہاں خرچ کیا جائے؟ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنا بھی صدقہ ہے۔ اعزہ و اقارب میں جو مفلوک الحال ہوں‘ حاجت مند ہوں‘ خاموشی سے اُن کی مدد کرنا چاہیے۔ محلے میں جو ضرورت مند ہوں‘ خصوصاً بیوہ یا یتیم اُن کا پہلا حق ہے۔ شادیوں کی جائز ضروریات ‘ علاج‘ تعلیم سب حقیقی مسائل ہیں۔ معاشرے میں اللہ کا دین غالب نہ ہو تو اُس کو غالب کرنے کی کوششوں میں وقت و صلاحیت کے ساتھ اپنے مال کا بھی انفاق کرنے کی اہمیت محتاج بیان نہیں۔ اور جب جہاد کی نفیرعام ہو جائے تو اپنی ذات اور اہل خانہ کی ضروریات تک روک کر جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔
آنے والا مہینہ رمضان کا ہے جس میں نیکی کا اجر بہت زیادہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ موقع ہی موقع ہے۔ فائدہ اٹھانا آپ پر ہے۔ اس سال زکوٰۃ کے علاوہ اپنی ایک ماہ کی کل آمدنی (اگر آپ کے پاس اس کے بقدر بچت ہے) اس ماہ مبارک کے دوران اللہ کی راہ میں خرچ کریںتاکہ نہ صرف آنے والے ۱۱ ماہ میں بلکہ آپ کی پوری زندگی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی برکتوں سے خوب خوب نوازے۔
یہ مدینہ طیبہ کا حال ہے جہاں آپؐ حکمران بھی ہیں‘ مال و دولت کی آمد بھی ہے‘ اموال غنیمت‘ زکوٰۃ و صدقات اور ہدیے اور تحفے بھی آرہے ہیں لیکن انھیں اپنی ذات اور گھر پر نہیں بلکہ فقرا اور مساکین اور جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کر دیا جاتا ہے۔ اپنے اخراجات کے لیے قرض لے کر گزارا ہو رہا ہے۔ آنے والا مال دوسروں کو دیا جاتا ہے اور اپنے لیے توکل اور قرض پر گزارا ہے۔ آپؐ کا نمونہ بے نظیر اور بے مثال ہے‘ سب سے حسین اور سب سے اعلیٰ نمونہ!
حق داروں کو پورا اطمینان ہے کہ حکومت سے اپنے حق کا اسی طرح مطالبہ کرسکتے ہیں جس طرح ایک عام آدمی سے۔ مشرک قرض خواہ کو بھی اطمینان ہے کہ مجھے اپنے حق کی وصولی کے لیے سخت رویہ اختیار کرنے پر کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مسلمان اپنی جگہ یہ تصور رکھتے تھے کہ حق دار اگر سخت رویہ اختیار کرتا ہے تواس کا جواب سختی سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے دینا ہے۔ اس بنا پر حضرت بلالؓ قرض کی ادایگی کے انتظام تک مدینہ سے باہر منتقل ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ حق کی بالادستی کی ایسی مثال کوئی پیش کر سکتا ہے!
مال جمع کرنے اور سمیٹ سمیٹ کر رکھنے کی چیز نہیں بلکہ مستحقین تک پہنچانے کی چیز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک مال تقسیم نہیں کر دیا گھر میں داخل نہیں ہوئے۔ اگر سیرت رسولؐ کا یہ پہلو عام مسلمانوں کی زندگی میں آجائے تو معاشرے کے لیے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔
مسلمانوں اور یہود میں دینی‘ مذہبی اور سیاسی اختلاف تھا اور ہے۔ یہود سے متعدد جنگیں بھی ہو چکی تھیں۔ ان کے علاقے میں ایک مسلمان قتل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے قتل کے واقعات کئی اور بھی پیش آئے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا مقتولوں کے ورثا یا دوسرے مسلمانوں نے کسی نے بھی یہودی پر بلوے نہیں کیے۔ کسی یہودی کو قتل نہیں کیا‘ کسی کی دکان اور مال کو نقصان نہیں پہنچایا حتیٰ کہ دیت کا مطالبہ بھی نہیں کیا حالانکہ یہ بات یقینی تھی کہ یہود کا علاقہ ہے‘ وہاں یہود کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں ہے‘ غالب گمان یہی ہے کہ یہود قاتل ہیں۔ لیکن چونکہ کوئی گواہ نہیں‘ یہود اقراری بھی نہیں‘ اس لیے بلاثبوت کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مقتول کے ورثا اور دیگر مسلمانوں نے جذبات سے مغلوب ہو کر کسی پر دھاوا نہیں بولا۔اسلام اور اُمت مسلمہ کا یہ امتیاز ہے۔ اہل کفر پہلے بھی مذہبی دیوانگی کا شکار ہوئے اور آج بھی وہ مذہبی جنون میں مبتلا ہیں۔ کہیں کوئی ہندو‘ عیسائی قتل ہو جائے اور شبہ پیدا ہو جائے کہ کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوا ہے تو پھر مسلمانوں کی خیر نہیں رہتی‘ مسلمان آبادی پر دھاوا بول دیا جاتا ہے۔ بچوں‘ عورتوں‘ ضیعفوں اور بیماروں کو‘ مسجدوں اور مدارس کو قتل و غارت گری‘ وحشت اور درندگی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی کبھی یہ بیماری آجاتی ہے لیکن یہ مذہبی دیوانگی ان میں دراصل دوسری قوموں سے آئی ہے۔ وہ بھی کبھی مسلکی اور لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کی جانوں اور مالوں کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اسلام کیا ہے؟ وہ کیا سبق دیتا ہے؟ اس کا نمونہ مذکورہ واقعہ پیش کرتا ہے۔ یہود سے شدید دشمنی کے باوجود بلاثبوت ان پر کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳: ۱ ۲) ’’تمھارے لیے اللہ کے رسول کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ کائنات کی سب سے بڑی ہستی‘ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ اور علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں:
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
لیکن کوئی پروٹوکول نہیں‘ سب کے ساتھ‘ سب کے درمیان‘ کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں۔ ہر وقت‘ ہر ایک آسانی سے مل سکتا ہے۔ جان نثاروں‘ جان و مال‘ ماں باپ اور اولاد سے زیادہ محبت کرنے والوں کے درمیان ہیں۔ اتنا ادب کرنے والوں کے درمیان‘ جو چہرئہ انور کی طرف نظریں جما کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ضرورت اور انتہائی مجبوری کے بغیر کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ ایسے میں ایک دیہاتی جو آداب سے عاری ہے‘ آتا ہے۔ اسے صرف اپنے پیٹ کی فکر ہے اور اسی بات پر نظر ہے کہ آپؐ بیت المال کے منتظم اور نگران ہیں۔ وہ بے ادبی اور گستاخی سے بلکہ تکلیف پہنچا کر مانگتا ہے۔ روے زمین والوں نے ایسا منظر کسی اور کا نہیں دیکھا ہوگا۔ تب کیا ہوا؟ کیا بے ادب‘ گستاخ‘تکلیف دینے والے کی تکہ بوٹی کی گئی؟ اسے جیل میں ڈالا گیا؟ اسے ماراپیٹا گیا؟اسے دھتکارا گیا؟ نہیں! پیار سے بات کی گئی‘ درشت بات سنی گئی‘ پھر جاں نثاروں‘ فداکاروں کے جذبات کی متلاطم موجیں اپنی جگہ رہ گئیں۔ دیہاتی جَو اور کھجور سے لدے دونوں اونٹوں کو شاداں و فرحاں ہنکاتا ہوا‘ گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ تواضع‘ حلم‘ عفو و درگزر‘ جود و سخا اور رحمتہ للعالمینی کے کتنے نمونے ہیں جن کا نظارہ پوری کائنات نے کیا۔
اس سے بہتر اور بڑا نمونہ انسانیت کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے!
انسان کا مقصد وجود ہی ’’اچھا عمل‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمھارا امتحان لے کہ تم میں سے کون ہے جو اچھا عمل کرتا ہے‘‘۔ (الملک ۶۷:۲ )۔اچھا عمل وہ ہے جو اخلاص کے ساتھ ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔ ہر شخص خود ہی اپنا بہترین منصف ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے نماز کے حوالے سے ایک بیرومیٹر ہاتھ میں تھما دیا ہے۔ انسان اپنی چھپی اور کھلی نمازوں کی کیفیت اور ظواہر کا جائزہ لے لے۔ جان لے گا کہ وہ اپنے اللہ کا کتنا سچا بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ریا سے محفوظ رکھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ علم کے اٹھائے جانے سے مراد ’عمل‘ کا اٹھایا جانا ہے۔ اس کی وضاحت حضرت عبادہؓ بن صامت نے اس بات سے کی کہ سب سے پہلے ’خشوع ‘ اٹھایا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ وہ علم جو محض کتابوں میں ہو‘ محض ذہن میں ہو‘ تقاریر اور تحریر کی شکل میں ہو‘ حقیقی علم نہیں ہے۔ حقیقی علم وہ ہے جو دل میں اترے اور عملی زندگی میں نظر آئے۔ اس وقت کتابی اور ذہنی علم کی کمی نہیں ہے۔ آج قرآن و سنت اپنی پوری تابانی سے موجود ہیں۔ فقہ اسلامی کے دفاتر بھی اَن گنت ہیں لیکن ان کا علم‘ عملی زندگی اور معاشرے سے اٹھا لیا گیا ہے۔ کتنا باقی ہے‘ اس کا اندازہ معاشرے کی دینی حالت کے تجزیے سے کیا جا سکتا ہے۔ علم کے اٹھائے جانے کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔ دوسرا مرحلہ ذہنوں اور سینوں سے اٹھائے جانے کا ہے‘ تاآنکہ قیامت کے قریب علم وسیع پیمانے پر اٹھا لیا جائے گا۔ کتابوں کے صفحات اور انسانوں کے سینے ‘سب سے علم اٹھ جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے مال دار اور فقیر دونوں کے لیے رزق کی تقسیم میں اس طرح آزمایش رکھی ہے کہ فقیر کا حصہ بھی مال دار کو دے دیا ہے۔ معاشرے میں جتنے بھی فقرا ہوں ان کی ضروریات پوری کرنا مال داروں کے ذمے ہے۔ فقرا کی ضروریات زکوٰۃ سے پوری نہ ہوں تو اللہ نے فقرا کو دینے کے لیے مزید مال بھی دولت مندوں کو دیا ہے۔
اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین بیت المال سے صرف اس قدر خرچ کرتے تھے جس قدر ادنیٰ درجے کے فقیر مسلمان کا خرچ ہوتا تھا۔ آج اگر اسی اصول کو اپنا لیا جائے تو حکمرانوں‘ اونچے گریڈ کے افسران اور سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور عام لوگوں کے درمیان جو بہت بڑا مادی تفاوت ہے‘ وہ ختم ہو جائے اور معاشی ناہمواریاں اور غریبوں کا ننگ و بھوک اور بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں۔