عربوں میں گابھن اونٹنی بڑی دولت شمار ہوتی تھی، جس گھر میں یہ اونٹنی ہو اسے زیادہ مال دارسمجھا جاتا تھا، اگرچہ اونٹ بھی بڑی دولت تھی لیکن اونٹنی کے مقابلے میں وہ کم قیمت ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک اور اس کے سیکھنے کی اہمیت کو ایسی مثال سے واضح فرمایا کہ ذہن میں راسخ ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس چیز کو تم بڑی دولت سمجھتے ہو، قرآن پاک کی چند آیات اس سے زیادہ بڑی دولت ہیں۔ ہم روزانہ پانچ اوقات کی نماز میں سورۂ فاتحہ ہر رکعت میں بار بار پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ہم روزانہ کتنی بڑی کمائی کرتے ہیں۔ اتنی بڑی کمائی کسی بازار میں نہیں، بلکہ مسجد میں نماز پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر کاروبار میں سستی نہیں تو نماز میں سستی کیوں کی جائے؟قرآن پاک کی آیات ایمان کی تجدید کرتی ہیں، عمل صالح پر آمادہ کرتی ہیں، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارتی ہیں اور اطمینان قلب کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔(الرعد۱۴:۲۸) ’’سنو! اللہ کے ذکر سے دلوں میں اطمینان پیدا ہوتا ہے۔‘‘ قرآن پاک سب سے اونچے درجے کا ذکر ہے۔ اسے سمجھ کر پڑھا جائے تو نورٌ علیٰ نورہے۔ آج کے زمانے میں تو قرآن پاک کا سمجھنا بھی آسان ہو گیا ہے۔ تفسیر تفہیم القرآن کو پڑھ کر یا سن کر ہر خاص و عام سمجھ سکتا ہے۔ نیزاونٹ یا اونٹنیاں اور دنیا کی دولت تو فانی ہے لیکن قرآن پاک کی دولت باقی ہے۔ یہ قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا، راستے کو روشن کرے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں جوپریشانیاں ہیں ان کا ازالہ قرآن پاک کی طرف رجوع میں ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر قرآن پاک سے وابستہ ہو جائیںتو وہ تمام مصائب، ظلم و زیادتیاں جن سے ہم دو چار ہیں ختم ہو جائیں۔
بات کو قرآن تک کیوں محدود کیا جائے۔ اللہ کے رسول نے دنیا اور آخرت کے لیے دو ایسی علامتیں بیان کیں کہ ہمارے سامنے جیسے دونوں متشکل ہو کر آ گئیں۔ آپ اونٹنی کے بجاے نئے ماڈل کی گاڑیاں سمجھ لیں، اور آیت کے بجاے اخروی نفع کے لیے کیا جانے والا کوئی کام۔ دنیا اور آخرت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ دنیا کو ترجیح دینا مولانا مودودی کے الفاظ میں ’’عظیم الشان حماقت‘‘ ہے مگر انسان کو، ہم کو کیا ہو گیا ہے کہ ہماری ساری بھاگ دوڑ اور ریجھنا دنیا کے لیے ہے اور آخرت کے لیے سارے عذر اور معذرتیں اور بے نیازی! اللہ ہم پر رحم کرے۔
خواتین کو تحصیل علم کا کتنا شوق تھا اس کا انداز اس حدیث سے ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی تعلیم کا بھی اہتمام فرمایا۔ انھیں علیحدہ وقت بھی دیا، اورازواج مطہرات کے ذریعے ان کی تعلیم کا انتظام فرمایا۔ خواتین الگ سے بھی آپؐ سے سوال کے لیے حاضر ہوتیں اور کبھی اجتماعی شکل میں آجاتیں۔ اس طرح صحابہ کرامؓ کی طرح صحابیاتؓ نے بھی علمی میدان میں بڑا مقام پیدا کیا۔ خواتین نے قرآن پاک بھی حفظ کیا اور احادیث نبویہ بھی یاد کیں اور علمی میدان میں اس قدر آگے بڑھیں کہ ان سے خواتین کی طرح بعض اوقات مرد بھی علمی فیض حاصل کرتے اور ان کے فتاویٰ پر عمل کرتے۔
مومن کی یہ عجیب شان ہے کہ اس دنیا میں اسے جو تکلیف بھی پہنچے، اگر وہ اسے من جانب اللہ سمجھے اور صبر سے کام لے تو وہ اس کی آخرت کے لیے سرمایہ بن جاتی ہے۔ اولاد کا رخصت ہوجانا کتنا بڑا صدمہ ہے، اور کسی ماں کے لیے اپنے بچے سے جدائی! صدمے کا کوئی اندازہ کیا جا سکتا ہے!! ایک نہیں، دو، دو نہیں، تین بچّے۔ آپ اندازہ تو کریں اس ماں کی رنج و غم کی کیفیت کا۔ مگر وہ صبر کرے، جزع و فزع نہ کرے، اللہ کی مرضی پر راضی رہے۔ کتنا بڑا مقام ہے! بندی کی یہی بندگی دوزخ سے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پھر دیکھیے، شاید کسی نے دو بچے بھیجے تھے، وہ اپنے لیے بھی خوش خبری چاہتی ہے۔ آپؐ توقف کرتے ہیں، دوبارہ پوچھتی ہے۔پھر آپ اسے بھی آگ سے رکاوٹ کی خوش خبری دیتے ہیں۔ یقینا کوئی ایک کے لیے بھی پوچھتا تو محروم نہ رکھا جاتا۔
یہ تین چیزیں جنت میں داخلے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ تکبر تو اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی میں شریک ہونے کی صفت ہے، اور خیانت پوری ملت کے مال کا بوجھ اپنے اوپر اٹھانا ہے، اور دَیْن (اور قرض) کسی خاص شخص کے مال کو تلف کرنا ہے۔ آخرت میں ملت اور کوئی فرد اپنا حق چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ اس لیے اولاً: خیانت سے اجتناب کرے اور اگر مرتکب ہو جائے تو بیت المال میں اسے واپس لوٹا دے۔ اسی طرح دَین (اور قرض) کے بوجھ سے بھی بچنے کی کوشش کرے اور یہ بوجھ لینا پڑ جائے تو اس سے جلد از جلد جان چھڑانے کی تدبیر کرے۔
جو چیز بار بار فی سبیل اللہ شہید ہونے کے باوجود ادایگی کے بغیر معاف نہ ہو،شہادت بھی اس کا کفارہ نہ بن سکے، اس سے زیادہ سخت و عید دوسری کون سی ہو سکتی ہے! دَین کا کفارہ دَین کی ادایگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آج کل قرضوں اور دیون کی ادایگی کے سلسلے میں بہت زیادہ تساہل سے کام لیا جاتا ہے۔ جو انتہائی خطر ناک رویہ ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو اس برائی سے پاک و صاف کرنے کی طرف توجہ کریں اور اسے معمولی جرم سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔
جب آپ اپنا قرض ادا کریں، تو اچھی طرح سے کریں، اس میںشامل ہے کہ قرض خواہ کا شکریہ اداکریں۔ اور ہم مسلمان محض شکر یہ ادا نہیں کرتے، شکریے کے آداب میں دعا دینا شامل ہے۔ رسول اللہ نے عبداللہ بن ابی ربیعہ کے ۴۰ہزار ادا کیے تو اہل وعیال اور مال میں برکت کی دعا دی۔ اس کا ایک ضمنی پہلو یہ ہے کہ اولاد ہو اور اس کی تعلیم و تربیت کے لیے رقم بھی ہو۔
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی ہونے کے سبب یہ فضائل عطا فرمائے ہیں۔ ہمیں ان فضائل کے حصول کے لیے خوب کوشش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی اُمتی ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ رمضان کی ان برکتوں سے اپنے آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہیے۔
ہر بھلائی صدقہ ہے، یعنی صدقہ کے لیے مال دینا شرط نہیں ہے۔ مال کے علاوہ بھی صدقہ ہوتا ہے جو بھلائی بھی کسی کے ساتھ کی جائے وہ ثواب کے اعتبار سے صدقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آدمی کے اندر ۳۶۰ جوڑ ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہرجوڑ کی طرف سے روزانہ ایک صدقہ کرے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس کی طاقت کس کو ہے کہ ۳۶۰ صدقہ روزانہ کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں تھوک پڑا ہوا ہو، اس کو ہٹا دو، یہ بھی صدقہ ہے۔ راستے میں کوئی تکلیف دینے والی چیز پڑی ہو، اس کو ہٹا دو، یہ بھی صدقہ ہے، اور کچھ نہ ہوسکے تو چاشت کی دورکعت اس کے قائم مقائم ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ نماز میں ہرجوڑ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں حرکت کرنا پڑتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ روزانہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو آدمی کے ہرہرجوڑ کے بدلے میں ایک صدقہ ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان انصاف کردو، یہ بھی صدقہ ہے۔ کسی شخص کی سواری پر سوار ہونے میں مدددینا بھی صدقہ ہے، اور اس کا سامان اُٹھا کر دینا بھی صدقہ ہے۔ کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ پڑھنا بھی صدقہ ہے۔ ہر وہ قدم جو نماز کے لیے چلے وہ بھی صدقہ ہے۔ ہرنماز صدقہ ہے، روزہ صدقہ ہے، حج صدقہ ہے۔ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے،الحمدللہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے جو کوئی راستے میں مل جائے اس کو سلام کرنا بھی صدقہ ہے، نیکی کاحکم کرنا صدقہ ہے۔ برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔
دوسری چیز جو اس حدیث میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی کارخیر پر کسی کو ترغیب دے گا، اس کو بھی ایسا ہی ثواب ہے جیسے کہ کرنے والے کو۔ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ترغیب دینے والے کو بھی وہی ثواب ملتا ہے جو کرنے والے کو۔ اس طرح زیادہ ثواب حاصل کرنے کے امکانات کا وسیع میدان سامنے ہے۔ آپ کے کسی عمل سے، آپ کا نمونہ اور مثال دیکھ کر، آپ کے کہنے سے، آپ کی تقریر یا گفتگو سن کر، یا آپ کا مضمون پڑھ کر جو شخص دنیا میں جہاں کہیں بھی نیک عمل کرے گا اُس کا اجر اللہ تعالیٰ آپ کو دے گا۔ اسی طرح مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی طرف خاص طور پر ترغیب دی گئی ہے۔یہ ہے اللہ تعالیٰ کے دینے کا بے حساب نظام، کاش! ہم لینے والے بن جائیں۔ رمضان میں خصوصی اہتمام کریں، خصوصی اجر کی خاطر۔
جب آدمی نادار ہو اور حاجت مند ہو اور اس کے اہل و عیال بھی حاجت مند ہوں تو ایسی صورت میں محنت و مشقت اور مزدوری کے ذریعے کمائی کر کے صدقہ کرنا تمام صدقوں سے اس لیے افضل ہے کہ اس میں مال دار آدمی کے مقابلے میں زیادہ مشقت اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ صحابہ کرامؓ جو نادار ہوتے تھے وہ مزدوری کر کے اور بوجھ اُٹھا کر کمائی کرتے اور فی سبیل اللہ صدقہ کر کے اپنی آخرت سنوارتے، دنیا میں اپنے کھانے کو مؤخر کردیتے اور آخرت کے کھانے کی فکر کرتے تھے۔ آج بھی صحابہ کرامؓ کی یاد تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس جذبے اور شوق میں اپنے اہل و عیال کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ان کی ضروریات پورا کرنا کنبے کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو کسی بھی صورت میں نظرانداز کرنا صحیح نہیں ہے۔
کوئی شخص مومن ہو اور بخیل اور بداخلاق بھی ہو، یہ مومن کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ایسے شخص کو اپنے ایمان کی فکر کرنا چاہیے۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔ جیسے ہرخوبی دوسری خوبی کو کھینچتی ہے، ایسے ہی ہرعیب دوسرے عیب کو کھینچتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شح،بخل ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا، جیسے آگ اور پانی جمع نہیں ہوسکتے اسی طرح بخل اور ایمان بھی جمع نہیں ہوسکتے۔ کنزالعمال میں ایک روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہرولی میں دو خصلتیں جمع ہوتی ہیں: ایک سخاوت اور دوسری خوش خلقی۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہو تو اس کی مخلوق پر خرچ کرنے کو بے اختیار دل چاہے گا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں نہ تو چال باز، دھوکے باز داخل ہوگا اور نہ بخیل، نہ صدقہ کر کے احسان جتانے والا۔(ترمذی، مشکوٰۃ)
ایک اور حدیث میں ہے، حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں: یمن رخصت ہوتے وقت میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری سوال یہ کیا کہ سب اعمال میں محبوب ترین عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس حال میں تیری موت آئے کہ اللہ کے ذکر میں تیری زبان تر ہو۔ (ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان)
حضرت عبداللہ بن بسرؓکی روایت میں سائل کا مقصد اہم ترین چیز کو معلوم کرنا ہے تاکہ اسے اپنا معمول بنا لے۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبلؓ نے بھی اہم ترین عمل معلوم کرنا چاہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے جواب میں ذکراللہ کی تلقین کی۔ ذکراللہ ایسی چیز ہے جو تمام عقائد و احکام کی اساس ہے۔ یہ اساس جب آدمی کا معمول بن جائے تو ہرحکم آسان ہوجاتا ہے اور اس پر عمل شروع ہوجاتا ہے اور آدمی قربِ الٰہی کی منازل طے کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی یاد نصیب فرمائے، آمین!
عملِ صالح کی توفیق زندگی کے کسی مرحلے پر بھی مل سکتی ہے، موت سے پہلے بھی۔ دعوت کا کام کرتے ہوئے کسی سے بھی، کبھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔ ہدایت کا دروازہ موت سے پہلے کسی بھی وقت کھل سکتا ہے۔ توفیق الٰہی کے لیے دعا بھی کرنا چاہیے، اپنے لیے بھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سمیت سخت جاڑے اور بھوک کی حالت میں غزوئہ احزاب کے موقعے پر جہاد میں حصہ لیا۔ اس وقت آپؐ نے اس بے چارگی کی حالت میں دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی، تیز آندھی چلا دی جس نے کفارِ قریش کے خیمے اُلٹ دیے اور وہ شکست سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ آج بھی کفار کے مقابلے میں سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرنے والوں کا بڑا ہتھیار دعا ہے۔ دعا کرنے والے کو مایوسی نہیں ہوتی بشرطیکہ دعا کے ساتھ عمل بھی ہو۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ (الفاطر۳۵:۱۰)۔ ’’اسی کی طرف پاکیزہ کلمے چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو اٹھاتا ہے‘‘۔
قیامت کے روز وضو کے آثار سے اعضاے وضو میں چمک دمک ہوگی اور اعضاے وضو کی چمک دمک کو دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کو اپنے حوض پر بلائیں گے لیکن وہ لوگ جو دین میں تبدیلی کے مرتکب ہوں گے وہ حوضِ کوثر کے ٹھنڈے اور میٹھے جاموں سے محروم ہوں گے۔ نماز اور وضو کی برکت اپنی جگہ برحق ہے لیکن دین میں تبدیلیوں کا جرم ان برکتوں کے اثرات میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجائے گا۔ دین میں تبدیلیوں کے اس جرم کی راہ کو روکنا ضروری ہے، چاہے انفرادی سطح پر ہو یا حکومتی سطح پر۔ حکومتی سطح پر دین کی شکل کو بگاڑنے کی جو مذموم کوشش ہو رہی ہے اسے روکنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔
یہ حدیث اُمت مسلمہ کے لیے اُمید کی ایک کرن ہے۔ کفار ساری دنیا سے آج اُمت مسلمہ پر حملہ آور ہیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ عالمِ اسلام پر مستقل طور پر ان کا تسلط نہ ہوسکے گا، البتہ وقتی طور پر وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں گے لیکن آخری فتح اسلام اور اہلِ اسلام کو حاصل ہوگی۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ کفار کے مقابلے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ فکری اور عسکری دونوں محاذوں پر صف بندی کی جائے۔ ان شاء اللہ کفار اپنے عبرت ناک انجام سے دوچار ہوں گے۔
جو عمل مسلسل ہو وہ خصوصی اثر رکھتا ہے۔ وہ تسلسل کی وجہ سے زیادہ بھی ہوجاتا ہے اور مداومت کی وجہ سے اس میں پختگی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی دنیاوی برکات و منافع بھی زیادہ ہوتے ہیں اور اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تہجد کی طرح باقی امور خیر کا بھی یہی حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہتر عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے (یعنی مستقل کیا جائے) اگرچہ وہ تھوڑا ہو‘‘۔
نماز اور تمام عبادات کے سلسلے میں اس اصول کی پابندی کی جائے تو اس کے نتیجے میں آدمی زیادہ عبادت گزار ہوجاتا ہے۔
حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص فرائض ادا کرے اورمنکرات اور کبائر سے بچے، اس کے لیے جنت ہے۔ چند کبائر کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ نمونہ فرمایا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد حجۃ الوداع کے موقعے پر تھا۔ اس حکم کی اہمیت کی خاطر اسے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا گیا۔ آج اس حکم کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ حجۃ الوداع کی اس وصیت کو اپنا نصب العین بنا کر اس کی تعمیل کرنا چاہیے اور اس کی خاطر اجتماعی کوشش کرنا چاہیے۔
مسلمان کے خلاف اسلحہ لے کر نکلنا ایمان اور اسلام کے منافی ہے۔ جو مسلمان ہوگا وہ مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے گا۔ اس کا خون گرانے کے درپے نہ ہوگا۔
یہ فضیلت قتال فی سبیل اللہ اور دعوت الی اللہ دونوں کو شامل ہے۔ اقامت دین کی جو جدوجہد کی جائے وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگی۔ اس لیے کہ اس کے عوض میں جنت ملے گی جو دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا۔ آپؐ نے نور کے دائرے میں زندگی بسر کی اور آپؐ نور ہی نور بن گئے۔ اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی ’نور‘ میں چھوڑ گئے، جو سارے عالم میں پھیلا اور پھیلتا ہی جارہا ہے۔ایک وقت آئے گا کہ تاریکی ساری دنیا سے چھٹ جائے گی، نور کا دور دورہ ہوگا اور اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں بلند ہوجائے گا۔ورفعنا لک ذکرک!
اللہ کا ذکر کرنے والوں کا اتنا اُونچا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ان کے فضائل کو بیان فرماتے ہیں، اور ان کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ ان کے ساتھ ان کے ہم نشین کی بھی بخشش ہوجاتی ہے۔ پس جو اللہ کے ہاں اپنا ذکر کرانا چاہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اس کی اطاعت و بندگی میں لگ جائیں۔ اس مقصد اور مشن میں لگ جائیں جس کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، جس طرح رسولؐ اللہ نے ذکر کیا اس طرح سے ذکر کریں۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کیا، اسے غالب کیا، اسے ریاست کا دین بنایا۔ یہ ذکر کامل ذکر ہے، جو اس کامل ذکر کو اپنی راہ بنائیں۔ اللہ کے ہاں ان کا ذکر شروع ہوجائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ذکر اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
آدمی کو چاہیے کہ کسی بھی ایسے کام سے پرہیز کرے جو اس کی نماز کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ ان تین برائیوں کو بطور مثال کے ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سی برائیوں کا بھی ذکر آیا ہے کہ ان کے مرتکب کی نماز قبول نہیں ہوتی، مثلاً شراب، جوابازی وغیرہ۔ اس لیے تمام برائیوں سے بچنا چاہیے تاکہ نماز کی قبولیت کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نہ رہے، کیونکہ نماز تمام بے حیائیوں اور منکرات سے روکتی ہے (القرآن)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی نماز اسے بے حیائی اور برائی سے نہ روکے، اس کی نماز کوئی نماز نہیں ہے۔
کیسی جامع دعا ہے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کے ساتھ کیسا پیار ہے، اور آپؐ نے اُمت کے لیے کس قدر آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔ یہ حدیث اس کا بہترین نمونہ ہے۔
جو لوگ نیکی اور بدی اور نیک و بد میں تمیز کا مادہ رکھتے ہیں وہ نیک لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلق قائم کرتے اور ان کے ساتھ ہمدردی و غم گساری کرتے ہیں۔ ان کی مدد کرتے اور ان سے مدد لیتے ہیں۔ ان کو دوسروں سے آگے کرتے ہیں، بدکاروں کو پیچھے کرتے ہیں۔ اس طرح پورے معاشرے کو اسلامی بنانے کی راہ پر چلتے ہیں۔ جن اہلِ ایمان سے لوگ محبت، اعزاز و اکرام کا سلوک کریں انھیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور انھیں اللہ تعالیٰ کی بندگی پر اپنی کمرہمت باندھ کر رکھنی چاہیے کہ یہی اصل شکرگزاری ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے کہ وہ بندے کو محض کام کے ارادے پر اس کام سے سرفراز فرما دیتے ہیں چاہے وہ عملاً اس کام کو سرانجام دے سکا ہو یا نہ دے سکا ہو۔ شہادت کے سچے طلب گار کو شہیدوں کی صفوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونا کسی مومن کے لیے کتنا مشکل ہے۔ کیا وہ کام جو محض ارادے سے حاصل ہوجائے مشکل شمار ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے بلند درجات کو کس قدر آسان بنا دیا ہے۔ بس خلوص، ہمت اور جذبے کی ضرورت ہے۔ بے شمار خوش نصیب اپنے گھر اور ماحول میں چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے شہادت کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپؐ نے ایک آدمی کے متعلق جو اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اس آدمی نے جنگ میں زور و شور سے حصہ لیا اور بھرپور اور زبردست حملے کیے، اسے گہرے زخم لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ جس آدمی کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے ، اس نے تو آج سخت لڑائی لڑی اور وہ مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم کی طرف چلا گیا۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ آپؐ کے ارشاد کے متعلق شک و شبہے میں مبتلاہوجاتے کہ اطلاع آئی کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے لیکن اسے سخت گہرے زخم آئے ہیں۔ جب رات آئی اور وہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے خودکشی کرلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپؐ نے اللہ اکبر کا کلمہ بلند کیا اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پھر بلال کو حکم دیا کہ وہ اعلان کریں کہ جنت میں نہیں داخل ہوگا مگر مسلمان آدمی، اللہ تعالیٰ بعض اوقات اس دین کی تائید و تقویت بدکار انسان کے ذریعے بھی فرماتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۳۰۶۲، ۴۲۰۱، ۶۶۰۶)
جس شخص کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں، کتابوں اور آخرت پر ایمان ہو وہ کبھی بھی خودکشی نہیں کرسکتا۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو تھوڑا اور معمولی سمجھتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو بہت سخت سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی تکلیف کو برداشت کرلیتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو برداشت کرنے سے ڈرتا اور اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو طرح طرح کی تکالیف سے گزرنا پڑا لیکن انھوں نے کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ آج غیرمسلم معاشروں میں خودکشیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں مگر افسوس کہ مسلمان معاشرے بھی ان سے متاثر ہوکر خودکشیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
ان خودکشیوں کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ اوّلاً حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ روزگار اور بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم کی سہولت ہر شہری کو فراہم کرے۔ ثانیاً بڑے پیمانے پر عقیدے اور فکر کی اصلاح کرے۔ ایمان اور اسلام کو دلوں میں زندہ کرنا، اس کا شعور پیدا کرنا اور فکرِآخرت کی آبیاری اس کا حل ہے۔ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی علَم بردار تحریکوں کو ایک طرف دین کا شعور عام کرنے اور فکرِ آخرت پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ تو دوسری طرف غربت و افلاس سے دوچار افراد کو احساسِ تنہائی سے نکال کر معاشی سہارا بھی فراہم کرنا چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا خودکشی کی خبروں کو سنسنی خیز انداز میں نہ پھیلائیں بلکہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں اور لوگوں کو اُمید اور حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کریں۔ اصلاحِ معاشرہ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے۔
o
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسرا اور معراج کی رات، میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ بڑے گھر جتنے بڑے ہیں اور ان کے سامنے پڑے ہیں۔ وہ اُٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو گر جاتے ہیں۔ اُٹھتے ہیں تو پیٹ انھیں پھر گرا دیتے ہیں۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: یہ سودخور ہیں۔ قیامت کے روز یہ ان لوگوں کی طرح کھڑے ہوں گے جن کو شیطان مَس کر کے خبطی بنادیتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، لابی القاسم اصبہانی، حدیث ۱۳۷۳)
سود خوروں کی اخروی سزا مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔ (البقرہ۲:۲۷۶)
سودی نظام کی وجہ سے معیشت تباہ ہوجاتی ہے لیکن سود خور سودی نظام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اس کی تباہ کاریوں کے نشانات ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ کبھی زلزلہ آجاتا ہے، کبھی قحط سالی اور کبھی سیلاب اور کبھی معاشی بحران کا سامنا ہوتا ہے۔ ان آفات کے ذریعے اتنا بڑا نقصان ہوجاتا ہے کہ اربوں کھربوں خرچ کرنے سے بھی تلافی نہیں ہوسکتی۔ سودخور پھر بھی سودی قرضوں کا لین دین جاری رکھتے ہیں اور معاشرے کو معاشی لحاظ سے کھڑا ہونے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ سودی نظام کی وجہ سے ملکی آزادی اور خودمختاری بھی دائو پر لگ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا وبال امن و امان کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ مفلسی کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ ایک دوسرے کو بلکہ خود اپنے آپ کو، اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد تک کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سود کی لعنت سے فوری طور پر نجات حاصل کی جائے، نیز متبادل بلاسود معیشت کو فروغ دیا جائے۔ یہ نہ صرف ہمارے معاشی مسائل کا حل ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اسلام کے معاشی نظام کی برکات سے بھی ہم پوری طرح مستفید ہوسکیں گے۔ ضرورت آگے بڑھ کر اقدام کرنے کی ہے۔
o
حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بجلی کی گرج اور کڑک کی آواز سنتے تو دعا کرتے: اے اللہ! ہمیں اپنے غضب اور اپنے عذاب سے ہلاک نہ فرمانا، عذاب نازل کرنے سے پہلے ہمیں معاف فرما دینا۔ (ترمذی، حدیث ۳۴۵۰)
اللہ تعالیٰ کا خوف کرنا اور خوف کے آثار سے متاثر ہونا ایمانی زندگی کی علامت ہے۔ آج ایسے کتنے ہی آثار ہمارے سامنے آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کی پکڑ سے ڈراتے ہیں لیکن ہم پر ان کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ یہ سنگ دلی کی علامت ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ یہ سنگدلی بسااوقات مُردہ دلی کی حد میں داخل ہوجاتی ہے۔ انسان ایمان سے محروم بھی ہوجاتا ہے اور اسے اس کا پتا تک نہیں چلتا۔ یہ حدیث ہمیں بیدار رہنے کی تلقین کرتی ہے۔
o
علقمہ بن وائل اپنے والد وائل سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر تھا جب قاتل کو مقتول کا ولی (وارث) رسی میں پکڑے لا رہا تھا۔ رسول ؐاللہ نے پوچھا: کیا تم معاف کرتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ پھر فرمایا: کیا دیت لیتے ہو؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: پھر تم اسے قتل کر دو گے۔ اس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: چلو لے جائو۔ پھر آپؐ نے فرمایا: سنو! اگر تم اسے معاف کر دو تو یہ اپنے اور اپنے مقتول ساتھی کے گناہ کا مستحق ہوگا۔ تب اس نے معاف کر دیا۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی کو کھینچتے ہوئے جا رہا تھا۔ (نسائی، حدیث ۵۴۱۷)
اسلام نے ایک ایسے معاشرے اور ماحول کو جنم دیا جس میں لوگ ایک دوسرے سے رحمت و محبت اور عفو و درگزر کے ساتھ خوش حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جب ایک قاتل کو معافی مل جاتی ہے تو وہ مقتول کے ورثا کے زیراحسان ہوکر شکرگزار اور خدمت گزار بن جاتا ہے، اور اس سے معاف کرنے والوں کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتی ہیں۔ قصاص اور دیت کے فوائد سے بڑھ کر فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔
o
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۲۳۱۹)
ہم اپنے ارد گرد معاشرے کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی تعلیم کو نظرنداز کرنے کی وجہ سے زندگی فساد اور بدامنی کا شکار ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کا طومار اسی وجہ سے ہے۔ اجتماعی اور انفرادی زندگی کے کسی بھی گوشے کو دیکھیں، پریشانیوں اور تکالیف کا سب سے بڑا سبب اسی ہدایت کی خلاف ورزی کرنا ہے، جب کہ اس پر جہنم کی وعید ہے اور آپؐ نے ایسے شخص کو اُمت سے خارج قرار دیا ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ سب مسلمانوں کا حال اس کے مطابق ہو تو زندگی کا کیا نقشہ ہوگا۔ کوئی کسی دوسرے کے حق پر دست اندازی نہ کرے تو کتنا چین و سکون ہوگا۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب لوگوں کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور اسے خوب صورت بناتا ہے اور جب چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور اسے خوب صورت بناتا ہے (یعنی کھلے چھپے دونوں حال میں اچھی نماز پڑھتا ہے) تو یہ میرا حقیقی بندہ ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۴۲۰۰)
نمازی کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایسی نماز پڑھے کہ کھلی اور چھپی حالت میں فرق نہ رہے اور دونوں حالتوں میں اس کی نماز بہترین ہو۔ ایسی بہترین کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنا حقیقی بندہ قرار دے دیں۔ بندگی کا یہی مقام تو مطلوب ہے!
یہی مومن کی شان ہے، وہ ریاکاری سے پاک ہوتا ہے۔ اس کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے۔ نماز ہی نہیں، وہ زندگی کی ہر سرگرمی کو، کھلے یا چھپے، رضاے الٰہی کے لیے بہترین انداز سے انجام دیتا ہے۔
علامہ عنایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ ۱۹ستمبر ۲۰۱۰ء کو ۷۵برس کی عمر میں اس دارفانی سے رحلت فرما گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ ان کی وفات سے ملت اسلامیہ پاکستان اور جماعت اسلامی ایک مایہ ناز خطیب، مخلص اور بے لوث داعی الی اللہ سے محروم ہوگئی۔ علامہ صاحب علم و فضل، ذہانت و فطانت، فصاحت و بلاغت اور تحریر و تقریر کے میدان میں صفِ اوّل کی شخصیات میں شامل تھے۔
علامہ عنایت اللہ منڈی بہائوالدین کے ایک گائوں ہیڈ فقیریاں میں ۱۹۳۵ء میں پیدا ہوئے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ قرآن پاک ناظرہ مکمل کیا اور کچھ حصہ حفظ بھی کیا۔ مڈل اور میٹرک تک سکول کی تعلیم حاصل کی، پھر مدرسہ عربیہ چوکیرہ میں مولانا سید احمد شاہ کے مدرسے میں داخل ہوگئے جو مفکرِاسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے متاثر اور ان کے نظریۂ اقامت دین سے متفق تھے اور جید عالم دین، مبلغ، داعی اور مربی تھے۔
علامہ صاحب نے یہاں رہ کر علوم عربیہ و اسلامیہ کے ماہر اساتذہ اور مذاہب اسلامیہ اور ادیانِ باطلہ پر عبور رکھنے والے محققین سے استفادہ کیا۔ مذاہب اسلامیہ کا تعارف اور ادیانِ باطلہ کی تردید اس مدرسے کا امتیاز تھا۔ اسی لیے علامہ صاحب کو اس میدان میں سبقت حاصل تھی۔ موقوف علیہ (مشکوٰۃ جو حدیث کی ۱۰ کتب سے ماخوذ احادیث کا جامع مجموعہ ہے اور تفسیر جلالین اور ہدایۃ اوّلین و اخیرین اور شرح عقائد و تفسیر بیضاوی اور اصولِ تفسیر پر مشتمل نصاب ہے) سے فراغت حاصل کی۔ اس دوران میں ان کی زبان و بیان کی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آگئیں اور وہ اسٹیج کی زینت بن گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ علامہ کا لقب ان کے استاذ و مربی سید احمد شاہ چوکیروی نے طالب علمی کے دوران ہی میں انھیں دے دیا تھا اور یہ ان کے نام کا اسی زمانے سے مستقل حصہ بن گیا تھا اور پھر خطابت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ صحاح ستہ میں سندالاجازۃ خطابت کے دوران میں حاصل کی۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ سے دورہ تفسیر بھی اسی دوران میں شعبان و رمضان کے مہینے میں کیا اور تفسیری اسلوب اور مباحث اور مشکلات القرآن میں خصوصی قابلیت اور صلاحیت پیدا کی۔ فاضل فارسی و فاضل عربی کے امتحانات پاس کیے۔ میانوال رانجھا کے مشہور و معروف عالم دین استاذ العلما مولانا غلام رسول فاضل دیوبند اور مولانا سلطان محمود کٹھیالہ شیخان سے استفادہ کیا۔
آپ کے والد ایک متوسط درجے کے زمین دار تھے۔ فارسی زبان کا دینی نصاب پڑھا تھا اور اسے پڑھاتے تھے۔ علامہ صاحبؒ نے بھی یہ نصاب انھی سے پڑھا۔ والدہ کا نام فاطمہ بی بی تھا۔ علامہ صاحب پانچ سال کے تھے کہ فاطمہ بی بی کا انتقال ہوگیا۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ بھائی کا نام محمد شفیع، ایک بہن کا نام غلام عائشہ اور دوسری کا نام مریم بی بی تھا۔ مریم بی بی تقریباً ۹۰برس کی ہیں، جب کہ باقی بہن بھائی فوت ہوگئے ہیں۔ علامہ صاحبؒ کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ چھے بیٹے شادی شدہ اور دو بیٹے زیرتعلیم ہیں۔
فراغت کے بعد شاہی مسجد منڈی بہائوالدین میں خطابت کے منصب پر فائز ہوگئے لیکن بعد میں محکمہ اوقاف کے زیراہتمام مرکز کو چھوڑ کر مدنی مسجد میں منتقل ہوگئے اور ساری زندگی مدنی مسجد کے منبر سے منڈی بہائوالدین اور گردونواح کے مسلمانوں کو جواہر خطابت سے فیض یاب کرتے رہے۔ ان کو سننے والوں کا ایک مستقل حلقہ وجود میں آگیا جو ان سے گہری محبت اور عقیدت رکھتا تھا۔ منڈی بہائوالدین کی مدنی مسجد کو علامہ صاحبؒ کی بدولت پورے ملک میں شہرت حاصل ہوگئی۔ علامہ صاحب یہیں سے دعوتی اورتبلیغی دوروں پر روانہ ہوتے اور یہیں واپس آجاتے۔
مولانا گلزار احمد مظاہریؒ نے حضرت استاذ العلما مولانا محمد چراغ ؒ، مولانا مفتی سید سیاح الدین کاکاخیلؒ کی سرپرستی اور تعاون سے ۱۹۶۳ء میں جمعیت اتحاد العلما کی بنیاد ڈالی تو اس تنظیم میں جن علماے کرام کو شمولیت اور کام کی سعادت نصیب ہوئی ان میں علامہ عنایت اللہ صاحب سرفہرست تھے۔ جمعیت اتحاد العلما پاکستان کو جلد ہی علما کی تنظیموں میں نمایاں مقام حاصل ہوگیا۔ اس سے صفِ اوّل کی علمی شخصیات مولانا عبدالعزیزؒ کوئٹہ، مولانا معین الدین خٹک، مولانا گوہر رحمان، مولانا عنایت الرحمن، علامہ عبدالرشید ارشد، مولانا عبدالرحیم چترالی، مولانا نثار احمد اور بعض مشائخ منسلک ہوگئے، اور یہ تنظیم جماعت اسلامی کے لیے تقویت کا ذریعہ ثابت ہوئی۔
مولانا گلزار احمد مظاہریؒ مشرقی پاکستان [بنگلہ دیش]اور مغربی پاکستان کے دعوتی اور تبلیغی دورے پر جاتے۔ استاذ العلما حضرت مولانا محمد چراغ صاحب اور مفتی سید سیاح الدین ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔ بڑے مدارس کا دورہ اور ان کے اساتذہ سے ملاقاتیں اور بعض مدارس میں علما کے اجتماعات سے خطابات ہوتے۔ مشرقی پاکستان کے تقریباً تمام بڑے مدارس میں علما کے اجتماعات منعقد ہوئے اور ان سے خطابات کیے۔ مغربی پاکستان میں علما و مشائخ کنونشنز منعقد کیے گئے۔ بڑی بڑی دو روزہ، سہ روزہ کانفرنسیں منعقد کیں جن میں مولانا مظاہری کے ساتھ علامہ عنایت اللہ اور علامہ عبدالرشید ارشد کے خصوصی خطابات ہوتے تھے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات اور ۱۹۷۷ء کے انتخابات اور تحریک میں مولانا مظاہریؒ کے ساتھ مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل، علامہ عنایت اللہ، علامہ عبدالرشید ارشد اور علامہ غلام رسول راشدی نے بھرپور شرکت کی۔
جمعیت اتحاد العلما اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے علامہ عنایتؒ اللہ نے بامقصد خطابت کی۔ علما اور عوام کو ایک عقیدے اور نصب العین کے گرد جمع اور منظم کرنے میں حصہ لیا۔ اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کی۔ لہلہاتے کھیتوں کی طرح سرسبز و شاداب تنظیم کو کھڑا کرنے، اس کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ عنایتؒ اللہ اس قافلۂ انقلاب کے بہت بڑے حدی خواں تھے۔ ان کے نغموں نے اس قافلے کو جوش و جذبے اور عشق و محبت کے ساتھ رواں دواں رکھا۔ ان کے دور میں جماعت اسلامی نے جو مختلف مہمات اور عشرے ترتیب دیے، ان کو کامیاب بنانے کے لیے اور علما کو ان میں شریک کرنے کے لیے ملک بھر کے دورے کیے۔ علما کی شمولیت کی بدولت یہ مہمات مؤثر اور بارآور ثابت ہوئیں۔
علامہ صاحب اپنی ذہانت و فطانت اور قرآن و حدیث کے مضامین اور نصوص و آیات کے استحضار کی بنا پر ہرموضوع پر خطاب کے لیے تیار ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے سامعین کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ علامہ صاحب خود تحریر فرماتے ہیں: نوجوانوں کے ایک اجتماع میں تقریر کے لیے جو موضوع تجویز ہوا وہ تھا: ’سائنس اور اسلام‘۔ ایک خیال آیا کہ منتظمین سے کہہ دیا جائے کہ میں اس موضوع کا حق ادا کرنا تو دُور کی بات ہے، اس پر زیادہ دیر بول بھی نہ سکوں گا اور تیاری وغیرہ کا تکلف سفر میں کہاں ممکن ہوگا، لیکن دوسری سوچ نے اسے بھی تکلف ہی گردانا کہ نوجوانوں اور وہ بھی برطانیہ میں مقیم مسلم نوجوانوں سے کچھ نہ کہنے کے بجاے کچھ کہنا ہی مناسب ہے۔ زیادہ معلومات فراہم نہ ہوسکیں تو خطابت سے محظوظ ہوں گے۔ اسی خطابت ہی کا کرشمہ ہے کہ اس مسافر نے ہرقسم کے موضوعات پر خطابت کے جوہر دکھائے ہیں‘‘ (راقم کے نام ارسال کردہ مضمون سے اقتباس)۔ اس موضوع پر خطاب کے نکات میں انھوں نے قرآنِ پاک میں مذکور آیات انفس و آفاق کا تفصیل سے ذکر کیا اور ان کے تذکرے کا مقصد قرآن پاک کے حوالے سے ذکر کیا کہ َتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (الحشر ۵۹:۲۱) ’’یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنھیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ ان میں غوروفکر کریں‘‘۔ ان نشانیوں میں جو قومیں غور کرتی ہیں فلاح پاتی ہیں۔ غور سے مراد تحقیق و تجربہ ہے جسے آپ ریسرچ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا یہ خطاب علمی و تحقیقی نکات سے مزین ہے۔
علامہ صاحب حسنِ اخلاق، عزم و ہمت، جرأت و شجاعت اور صبرواستقامت کا پیکر تھے۔ ساری زندگی دین کی اشاعت و ترویج اور اس کی اقامت کے لیے جدوجہد اور تحریک کو منظم اور قوت بخشنے میں کھپا دی۔ اندرون و بیرون ملک سفروں میں رہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مسافر کہتے تھے۔ وَاعْبُدْ رَبُّکَ حَتّٰی یَاتَیکَ الْیَقِیْنَ کا پیکر بن کر سامنے آئے۔ عمر کے آخری چند برسوں میں بیماریوں کا شکار رہے لیکن ان کے صبر، خندہ پیشانی اور گفتگو میں کبھی بھی اس بات کا اظہار نہ ہوتا کہ وہ بیماری سے دوچار ہیں۔ دوستوں سے ملنا، ان کے احوال معلوم کرنا، ان کے لیے دعائیں اور حوصلہ افزائی کرنا اور کسی نے کچھ اعانت کردی ہو تو اس کا شکریہ ادا کرنا، ان کی عادت اور مزاج تھا جو آخر وقت تک قائم رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ اور جنت الفردوس میں انبیا، صدیقین اور شہدا و صالحین کی معیت نصیب فرمائے،آمین!
حضرت زید بن سلّام سے روایت ہے کہ ان سے ابوسلّام نے کہا کہ حضرت حارث اشعریؓ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا کہ ان پر وہ خود بھی عمل کریں اور بنی اسرائیل سے بھی ان پر عمل کرنے کا کہہ دیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سے کہنے میں کچھ تاخیر ہونے لگی تو حضرت عیسٰی علیہ السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا تھا کہ آپ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا فرما دیں، لہٰذا یا تو آپ خود ان سے کہہ دیجیے یا میں ان سے کہہ دوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ (حکم مجھے ہوا ہے اس لیے اس حکم کی تعمیل میں تاخیر کرنے کے سبب) کہیں زمین میں نہ دھنسا دیا جائوں یا کسی اور عذاب میں گرفتار نہ ہوجائوں۔ اس کے بعد انھوں نے فوراً بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا۔ جب وہ اچھی طرح بھر گیا، حتیٰ کہ لوگ گیلریوں تک میں بیٹھ گئے تو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پر عمل کروں اور تم کو بھی ان پر عمل کرنے کی تاکید کروں۔
ایک شخص نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ آپؐ نے فرمایا: اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ پس تم ایسے نعرے لگائو جن کی اللہ نے اجازت دی ہے۔ اس نے پہلے سے تمھارا نام مسلم اور مومن رکھا ہے (لہٰذا اسلام اور ایمان سے ہم آہنگ نعرے لگائو)۔ (ترمذی، ابواب الامثال، حدیث ۲۸۵۹)
ان ۱۰ باتوں میں تزکیۂ نفس، تعلق باللہ، اصلاحِ معاشرہ ، اصلاحِ حکومت، اقامت دین، حکومت الٰہیہ کے قیام، ظلم و زیادتی کے خاتمے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے کے جامع پروگرام اور لائحہ عمل کی طرف راہنمائی ہے۔ پہلی پانچ باتیں تو اہلِ ایمان کے لیے انفرادی پروگرام پر مشتمل ہیں اور دوسری پانچ باتیں اجتماعی پروگرام کی بنیاد ہیں۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپؐ نے مالِ غنیمت میں خیانت کا تذکرہ فرمایا اور اسے بہت بڑا جرم قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا: قیامت کے روز میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پائوں کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور منمنا رہی ہو، اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو جو ہنہنا رہا ہو اور وہ مجھ سے فریاد کرے اور پکارے: ’’اے اللہ کے رسول! میری فریاد رسی فرمایئے‘‘۔ میں کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تجھے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں حکم پہنچا دیا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر اُونٹ سوار ہو اور بڑبڑا رہا ہو اوروہ مجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسولؐ! میری فریاد رسی فرمایئے تو میں کہوں گا کہ میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے چھڑانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر سونا چاندی سوار ہو اور وہ مجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسولؐ! میری مدد فرمایئے تو میں کہوں گا: میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کے لیے تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر کپڑے ہوں، جو لہرا رہے ہوں اور وہ مجھے مددکے لیے پکارے اور کہے: اے اللہ کے رسولؐ! میری فریاد رسی فرمایئے تو میں کہوں گا: میں تیری کسی بھی قسم کی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (بخاری، باب الضلول، حدیث ۳۰۷۳)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کی نگرانی پر ایک شخص مقرر تھا جس کا نام کَرکَرہ تھا۔ وہ فوت ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔ صحابہ کرامؓ اس کی طرف گئے تاکہ اس کے دوزخی ہونے کا سبب معلوم کریں، تو پتا چلا کہ مالِ غنیمت سے ایک چادر اس نے چرائی تھی۔ (بخاری، حدیث ۳۰۷۴)
مالِ غنیمت یا سرکاری اور قومی اموال میں کسی بھی سطح پر خیانت اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک معمولی چادر بھی آدمی کو دوزخ میں داخل کردینے کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر جو بھی چیز خیانت کا شکار ہوگی وہ آدمی کی گردن پر سوار ہوگی۔ خیانت کے بارے میں جو سزا ذکر کی گئی ہے زکوٰۃ نہ دینے کی بھی یہی سزا آتی ہے (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، حدیث ۱۴۰۲-۱۴۰۳)۔ نیز سونے چاندی کے بارے میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ زکوٰۃ نہ دینے والے کے لیے سانپ بن کر، اس کی گردن کا طوق بن جائے گا اور اس کی باچھوں کو دونوں طرف سے ڈسے گا اور کہے گا: ’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں‘‘۔
آج کل خیانت عام ہے۔ حکمران بھی ہرسطح پر کرپشن میں مبتلا ہیں۔ بڑے پیمانے پر سرکاری خزانوں کو ہضم کرلینے کے جواز پر باہمی مفاہمتیں ہوتی ہیں۔ کرپشن کے خلاف مقدمات چلانے کی مخالفت کی جاتی ہے اور مقتدر حلقے سرکاری اموال کی لُوٹ مار میں مددگار بن جاتے ہیں ۔ لوٹے ہوئے مال کی واپسی میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک زمانہ آئے گا لوگ پروا نہ کریں گے کہ جو مال ان کے پاس آیا ہے یہ حلال کا ہے یا حرام کا‘‘۔ (بخاری، حدیث ۲۰۵۹،۲۰۸۳)
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسرا اور معراج کی رات میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ بڑے گھر جتنے بڑے ہیں اور ان کے سامنے پڑے ہیں۔ وہ اُٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو گر جاتے ہیں۔ اُٹھتے ہیں تو پیٹ انھیں پھر گرا دیتے ہیں۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: یہ سودخور ہیں۔ قیامت کے روز یہ ان لوگوں کی طرح کھڑے ہوں گے جن کو شیطان مس کر کے خبطی بنادیتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، لابی القاسم اصبہانی، حدیث ۱۳۷۳)
سود خوروں کی اخروی سزا مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔ (البقرہ۲:۲۷۶)
سودی نظام کی وجہ سے معیشت تباہ ہوجاتی ہے لیکن سود خوروں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ وہ سودی نظام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اس کے نشانات ظاہر کرتے رہتے ہیں، کبھی زلزلہ آجاتا ہے، کبھی قحط سالی اور کبھی سیلاب ان آفات کے ذریعہ اتنا بڑا نقصان ہوجاتا ہے کہ اربوں کھربوں خرچ کرنے سے بھی تلافی نہیں ہوسکتی۔ سودخور پھر بھی سودی قرضوں کا لین دین جاری رکھتے ہیں اور معاشرے کو معاشی لحاظ سے کھڑا ہونے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ سودی نظام کی وجہ سے ملکی آزادی اور خودمختاری بھی دائو پر لگ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا وبال امن و امان کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو بلکہ خود اپنے آپ کو اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد تک کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپؐ نے ایک آدمی کے متعلق جو اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اس آدمی نے جنگ میں زور و شور سے حصہ لیا اور بھرپور اور زبردست حملے کیے، اسے گہرے زخم لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا گیا کہ جس آدمی کے متعلق آپؐ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہے ، اس نے تو آج سخت لڑائی لڑی اور وہ مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم کی طرف چلا گیا۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ آپؐ کے ارشاد کے متعلق شک و شبہہ میں مبتلاہوجاتے کہ اطلاع آئی کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے لیکن اسے سخت گہرے زخم آئے ہیں۔ جب رات آئی تو وہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے خودکشی کرلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپ نے اللہ اکبر کا کلمہ بلند کیا اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پھر بلال کو حکم دیا کہ وہ اعلان کریں کہ جنت میں نہیں داخل ہوگا مگر مسلمان آدمی، اللہ تعالیٰ بعض اوقات اس دین کی تائید و تقویت بدکار انسان کے ذریعے بھی فرماتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۳۰۶۲، کتاب الجہاد، ۴۲۰۱، ۶۶۰۶، طبع دارالسلام)
جس شخص کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں، کتابوں اور آخرت پر ایمان ہو وہ کبھی بھی خودکشی نہیں کرسکتا۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو تھوڑا اور معمولی سمجھتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو بہت سخت سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی تکلیف کو برداشت کرلیتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو برداشت کرنے سے ڈرتا اور اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ صحابہ کرام کو طرح طرح کی تکالیف سے گزرنا پڑا لیکن انھوں نے کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ آج کافر معاشروں میں خودکشیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں افسوس کہ مسلمان معاشرے بھی ان سے متاثر ہوکر خودکشیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان خودکشیوں کو روکنے کا طریقہ مال و دولت کی فراوانی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر عقیدے اور فکر کی اصلاح ہے۔ ایمان اور اسلام کو دلوں میں زندہ کرنے، اس کا شعور پیدا کرنے اور فکرِ آخرت کی آبیاری ہے۔ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی علَم بردار تحریکوں کو اپنے کام کی رفتار کو تیز اور وسیع کرنے اور بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اس کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا خودکشیوں کے جرائم کو پھیلانے میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں خودکشیوں کی وارداتیں مزید بڑھ رہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو بھی اس گناہ کی اشاعت سے روکا جائے۔
حضرت طلحہ ؓبن عبید اللہ بن کریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: شیطان کسی بھی دن اتنا ذلیل وخوار ،اتنا دھتکارا ہوا،اورپھٹکارا ہوا،اتنا جلابھنا نہیں دیکھاگیا، جتنا کہ عرفہ کے دن ذلیل و خوار، رُوسیاہ اور جلابھنا دیکھاجاتاہے اوریہ صرف اس لیے کہ وہ اس دن اللہ کی رحمت کو موسلادھار برستے ہوئے دیکھتا ہے(اور یہ اس کے لیے ناقابل برداشت ہے)۔ (مؤطا امام مالکؒ)
جب کوئی اپنے مشن میں ناکام ہوجاتا ہے ،تو اسے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔لوگ اللہ کی بندگی پر جمع ہوں تو یہ شیطان کی ناکامی ہے۔ اللہ کی بندگی کا سب سے بڑا اجتماع میدان عرفات میں ہوتاہے، جس میں دنیا بھرسے اہل ایمان بیت اللہ شریف کی دہلیزپر جمع ہوتے ہیں۔گڑگڑاکر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے اور اپنی مغفرت کاسامان جمع کرتے ہیں۔اپنی زندگیوں کو پاکیزہ بناتے ہیں۔ مستقبل میں اللہ کی بندگی کے لیے پوری طرح تیار ہوتے ہیں۔اہل ایمان کامیاب اور شیطان ذلیل وخوار ہوجاتا ہے۔ خوش قسمت ہیںوہ لوگ جو حج کی برکتوں سے اپنے آپ کو مالامال کرتے ہیں۔
حج کے بعدبرائیوں سے بچنا اور نیک کام کرنا،قبولیت حج کی علامت ہے۔حج کے بعد بھی شیطان کو ذلیل وخوار کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔اگر تمام حاجی یہ سلسلہ جاری رکھیں اور انفرادی واجتماعی سطح پر شیطان کو ناکام کرنے کی جدوجہد میں شریک رہیں، تو اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے دین کا نمونہ بن جائیں۔
o
حضرت جندب بن عبداللہ بَجَلی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صحابہ کرامؓ کا ایک گروہ مشرکین کے خلاف جنگ کرنے کے لیے بھیجا۔اس گروہ اور مشرکین میں سخت جنگ ہوئی۔ مشرکین میں ایک شخص بہت پھرتیلا اور جنگ جو تھا،جس مسلمان پر حملہ آور ہونا چاہتا، نشانہ بنا لیتا اور قتل کردیتا۔مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے ارادہ کیا کہ اس پر ،اس کی بے خبری میں حملہ کر کے اسے ٹھکانے لگا دے (ہم آپس میں کہاکرتے تھے کہ وہ اسامہ بن زیدؓ تھے)۔ جب اسامہؓ نے اس پر حملہ کیا،اسے اپنی تلوار کی زدمیں لے لیا تو اس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، لیکن اسامہ ؓنے اس کی پروا نہ کی اور اسے قتل کردیا(فتح ہوگئی)۔
فتح کی بشارت دینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا اور بشارت دی۔آپ ؐنے حالات معلوم کیے، مبشر نے ساری صورت حال بیان کردی اور کلمہ پڑھنے والے کے قتل کی خبر بھی پہنچادی۔اس پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہؓ کو بلایا اور پوچھا: تم نے اسے کیوں قتل کردیا؟جواب میں حضرت اسامہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!اس شخص نے مسلمانوں کو بڑی زک پہنچائی، خون ریزی کی انتہا کردی اور فلاں فلاں مسلمانوں کو قتل کردیا (کئی آدمیوں کے نام لیے اور عرض کیا) میں نے اس پر حملہ کیا اور وہ میری تلوار کی زد میں آگیاتو اس نے تلوارکے ڈر سے کلمہ پڑھ لیا۔رسولؐ اللہ نے تعجب اورناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اچھا تم نے اسے قتل کردیا؟ اسامہ نے عرض کیا،ہاں یارسولؐ اللہ! آپ نے فرمایا:جب قیامت کے روز لاالٰہ الااللہ کے کلمے کو لے کر وہ تمھارے خلاف آئے گا(اللہ تعالیٰ سے استغاثہ کرے گا)تو تم کیا جواب دوگے؟
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے،آپؐ نے فرمایا: تم نے اسے لاالٰہ الااللہ پڑھنے کے بعد قتل کردیا؟ (اسامہؓ کہتے ہیں)میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! وہ محض جان بچانے کی خاطر کلمہ پڑھ رہاتھا، ا س پر آپؐ نے فرمایا: تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کیا؟آپ باربار اس کلمہ کو دہراتے رہے۔یہاں تک کہ میںنے آرزو کی،کاش میں اس دن سے پہلے اسلام نہ لایاہوتا۔
مسلم شریف کی روایت میں ہے تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمھیں پتا چلتا کہ اس نے کلمہ دل سے پڑھا تھا یا نہیں۔(بخاری و مسلم)
حضرت اسامہؓ نے عین میدانِ جنگ میںاس جرم کا ارتکاب کیاتو اس پرنبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار صدمے کا اظہار کیا اوراسامہؓ کو آخرت کی پکڑ سے ڈرایا لیکن آج مسلمانوں کی ریاست کی فوج اہلِ ایمان کو بے دریغ قتل کر رہی ہے اور کافروں سے قتل کروانے میں شریک و ساجھی ہے۔ یہ آپریشن اور قتل و غارت اور بم باری کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ کیا یہ اس دن کو بھول گئے ہیں جب یہ سب مقتول اللہ کی عدالت میں فریادی ہوں گے؟
o
حضرت عامر بن واثلہ ؓ سے روایت ہے کہ چند مسلمان ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ایک شخص نے پاس سے گزرتے ہوئے سلام کیا، ان لوگوں نے اسے سلام کا جواب دیا۔جب ان کے پاس سے گزر گیا تو ان میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میںاس آدمی سے اللہ کی خاطر بُغض رکھتاہوں۔ اہلِ مجلس نے کہا: واللہ تم نے بری بات کی ہے، ہم اسے بتلا دیتے ہیں۔ایک آدمی سے انھوں نے کہا: اٹھو!اور اسے بتلادو۔وہ اٹھ کرگیااور جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور وہ بات اُسے بتلا دی، جو اس کے بارے میں بات کرنے والے نے کی تھی۔بات سن کروہ آدمی واپس چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مسلمانوں کی مجلس کے پاس سے گزرا، ان میں فلاں آدمی بھی تھا ۔میں نے اہلِ مجلس پر سلام پیش کیا،انھوں نے سلام کا جواب دیا۔جب میں ان کے پاس سے گزر گیا تو ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آپکڑا اورمجھے اطلاع دی کہ فلاں آدمی نے کہا ہے کہ اللہ کی قسم میں اس سے اللہ کے لیے بُغض رکھتا ہوں۔آپ اس سے پوچھیے، کس وجہ سے یہ مجھ سے بُغض رکھتاہے؟رسولؐ اللہ نے اسے بلایا اور جو شکایت اس نے کی تھی، اس کے بارے میںاس سے پوچھا۔ اس شخص نے اپنی بات کا اعتراف کیا اور کہا: یارسولؐ اللہ! میں نے یہ بات کی ہے۔رسولؐ اللہ نے پوچھا: کس بنا پر تم اس سے بُغض رکھتے ہو؟ اس نے کہا: میں اس کا پڑوسی ہوں اور مجھے اس کے حالات کا پتہ ہے۔اللہ کی قسم! میں نے اسے فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔یہ فرض نماز تو سارے نیک وبد پڑھتے ہیں۔ اس شخص نے جواباً کہا آپ اس سے پوچھیے کہ کیا اس نے کبھی مجھے دیکھا ہے کہ میں نے نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کیاہو؟ یا رکوع وسجود ٹھیک نہ کیا ہو؟رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا،نہیں ایسا تو کبھی نہیں کیا۔ پھر کہا اللہ کی قسم میںنے اسے صرف رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے جو نیک وبد سارے رکھتے ہیں۔اس نے کہا: یارسولؐ اللہ!اس سے پوچھیے کہ اس نے کبھی دن میںمجھے افطار کرتے ہوئے پایاہے؟اس کے حق میں کمی کرتے ہوئے دیکھا ہے؟رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: نہیں ۔پھر اس نے کہا: میں نے اسے نہیں دیکھا کہ اس نے زکوٰۃ کے علاوہ جو نیک و بد سارے دیتے ہیں، کبھی سائل کو کچھ دیا ہو۔ اس نے کہا یارسول اللہ! اس سے پوچھیے ’’کیا میں نے کبھی زکوٰۃ کا زیادہ یا تھوڑا حصہ چھپایاہے؟یا کبھی میں نے زکوٰۃ طلب کرنے والے سے ٹال مٹول سے کام لیاہے‘‘۔ رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: زکوٰۃ میںتو کچھ کمی نہیں کی۔تو رسولؐ اللہ نے فرمایا:کھڑے ہوجاؤ،میں نہیں سمجھتا کہ تمھارا رویہ صحیح ہے۔ شاید یہ تجھ سے بہترہے(الفتح الربانی)
تقویٰ کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکرکسی مسلمان خصوصاً فرائض وواجبات کے پابند شخص کوگھٹیا سمجھنا ،اس سے بُغض رکھنا ناپسندیدہ بات ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت نرمی سے اس پر متنبہ فرمایا۔ آج کل کسی کے متعلق بات کی جائے تو لڑپڑتا ہے۔لیکن اسلام نے ایسے اخلاق کی تعلیم دی ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے بارے میں اگر سخت بات کرتاہے تو دوسرے مسلمان بھائی اس کی غائبانہ مدد کرتے ہیں۔بات کرنے والے کو اس کی زیادتی پرتنبیہہ کرتے ہیں،پھر جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اسے اس کا پتہ دیتے ہیں۔ وہ غصہ سے لال پیلا ہونے کے بجاے اور خود کوئی انتقام لینے کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں استغاثہ دائر کرتا ہے۔آپ باقاعدہ مقدمہ کی سماعت فرماتے ہیں اور دونوں کی باتیں سننے کے بعد مدّعاعلیہ کے خلاف فیصلہ دے دیتے ہیں لیکن اس طرح کہ مدّعاعلیہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و توبیخ کے بجاے اتنا فرمادیتے ہیں کہ میں تمھاری بات کی تائید نہیں کرسکتا۔ شاید وہ تجھ سے بہتر ہو۔یہ نرمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ کا مظہر ہے۔یہ واقعہ صبروتحمل،صاف گوئی اور وقاروسکون کا بہترین نمونہ ہے۔مدعی،مدّعا علیہ اورموقع کے گواہ سب نے اپنااپنا کرداربہترین انداز میں اداکیا۔
o
حضر ت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے ایسی چیز فروخت کی جس میں عیب تھا اورخریدار کے سامنے اسے ظاہر نہ کیا۔وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں گھِر جاتا ہے۔فرشتے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ)
مولانا فتح محمد رحمۃاللہ علیہ کی وفات سے تعلیمی،تربیتی،تنظیمی،دعوتی،تبلیغی اور جماعتی حلقے ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئے، اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔مولانا فتح محمدؒ جماعت اسلامی پاکستان کے نمایاں،ممتاز اور اہم قائد تھے۔ملک کی سیاسی، دینی ،سماجی تنظیمات میں معروف تھے اور قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔علماومشائخ،دینی مدارس، اتحاد تنظیمات مدارسِ دینیہ کے شیوخ، مہتممین و منتظمین ان سے عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔تمام مکاتب ِفکر کے علما ان کی سیرت و کردار ،اخلاق، تواضع،للہیت اور حق گوئی سے متاثر تھے۔ان تمام شخصیات سے ان کے گہرے مراسم تھے۔مولانا ؒ تعلق نبھانے اور اسے قائم رکھنے میں انتہائی مستعد رہتے تھے۔جس سے ایک بار تعلق قائم ہوجاتا، اسے پھر کبھی ٹوٹنے نہ دیتے۔ ان کی زندگی میں بھی یاد رکھتے اور فوت ہوجانے کے بعد بھی ان کے پس ماندگان سے تعلق قائم رکھتے۔
مولانا فتح محمدؒ اگست۱۹۲۳ء میں ضلع چکوال کے ایک گاؤںدولہہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں میڑک پاس کیا۔ اس کے بعد دینی و عصری تعلیم حاصل کرنے میں مسلسل مصروف رہے۔ ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۴ء میں دارالعلوم تعلیم القرآن راجا بازار میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒسے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی ۔صرف ونحو کی ابتدائی کتب سے لے کرآخری درجوں کی کتب کافیہ، شرح مُلّا جامی اور فقہ کی ابتدائی کتب سے لے کر شرح وقایہ وہدایہ تک مکمل کیں اور دورۂ تفسیر القرآن سے دو مرتبہ فیض یاب ہوئے۔اپنی قابلیت اورذوق وشوق کی وجہ سے مولانا غلام اللہ خانؒ کے انتہائی قریبی اور قابلِ اعتماد شاگردوں میں شمار ہونے لگے اور ان کی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو منظم کرنے والی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ اس دوران میں ان کے رفقاء کا ایک حلقہ قائم ہوگیا جو ان کے گرد یوں جمع ہوجاتے جیسے شمعِ محفل کے گرد پروانے۔
مولانا فتح محمدؒ کی طرح مولانا صدر الدین الرفاعی،جو قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے ایک بڑے ستون تھے اور مفکرِ اسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے معتقد اور مدّاح تھے،وہ بھی اس دور میں شیخ القرآن کے دست وبازو تھے۔شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ اپنے شاگردوں میں دینی جوش وجذبہ بھر دیتے تھے۔مولانا فتح محمدؒ کوبھی انھوں نے متاثرکیا۔ اسی دوران انھوں نے سید مودودیؒ کا لٹریچر سلامتی کا راستہ،اسلام اور جاہلیّت، خطبات ، دینیات اور دہلی سے شائع ہونے والے رسالے مولویکا مطالعہ کیا جس میں مولانا مودودیؒ کے مضامین شائع ہوتے تھے تو ان کے دینی جوش و جذبے کو صحیح سمت مل گئی۔مولانامودودیؒ اس وقت تک دارالسلام پٹھان کوٹ میں منتقل ہوچکے تھے۔ان سے خط وکتابت شروع کی۔جماعت کا دستور اور مزید لٹریچر منگوا کر مطالعہ کیا۔۱۹۴۳ء کے اواخر یا ۱۹۴۴ء کے آغاز میںاطلاع ملی کہ مولانا مودودیؒ کوثر اخبار کے دفتر میں جماعت اسلامی کے ایک اجتماع میںشرکت کے لیے لاہور تشریف لارہے ہیں، چنانچہ مولانا فتح محمدؒاپنے دوست عبدالحمیدصاحب کے ساتھ، جن کے ذریعے انھیں مولانا کا لٹریچر ملا تھا، اس اجتماع میں شامل ہونے کے لیے لاہور پہنچ گئے۔
مولانا مودودیؒ اور میاں طفیل محمد صاحب سے اس موقع پر ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔ یکم نومبر۱۹۴۴ء کو جماعت کے رکن بن گئے۔اس سے پہلے راولپنڈی میں صرف ایک رکن سید راغب الحق تھے۔اس لیے وہاں جماعت کی تشکیل نہیں ہوئی تھی۔ مولانا فتح محمدؒ رکن بن گئے تو جماعت اسلامی کا باقاعدہ نظم قائم ہوگیا اور آہستہ آہستہ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ کے حلقے میں شامل ان کے رفقا بھی ان کے گرد جمع ہوگئے۔اب مولانا فتح محمدؒ ایک قائد کی حیثیت سے جماعت اور دیگر دینی جماعتوں کے لیے مرکز و محور بن گئے۔ مولانا غلام اللہ خان ؒکے حلقے کا انھیں اعتماد حاصل تھا اور راولپنڈی ڈویژن، جس میںہزارہ بھی شامل تھا، اور ایک عرصے تک آزاد کشمیر بھی مولاناکی زیر نگرانی رہا،جماعت اسلامی کاایک فعال، مضبوط اور پُرکشش مرکز بن گیا۔ جماعت کو ایک طویل عرصے تک مولانا فتح محمد ؒکے روابط کی بدولت علماکی مخالفت سے تحفظ حاصل رہا۔ جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ جماعت اسلامی کی حامی اور مولانامودویؒ کی مدّاح رہی۔اس کے نتیجے میں راولپنڈی، آزاد کشمیر اور ملک کے دوسرے حصوں سے ان کے حلقۂ اثر کے بہت سے علما جماعت اور جمعیت اتحاد العلما میں شامل ہوگئے۔
قیام پاکستان کے متصل بعد مولانا مودودیؒ نے چار نکاتی تحریک نفاذِ شریعت اور دستورِ اسلامی کا آغاز کیا۔مولانا نے ریاست کے اسلامی ہونے کی شرط بھی کلمہ پڑھنے کو قرار دیتے ہوئے فرمایا : جس طرح فرد اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کلمہ نہ پڑھے، اسی طرح ریاست بھی اس وقت تک اسلامی نہیں کہلائے گی جب تک وہ کلمہ نہ پڑھ لے۔ انھوں نے اس کے لیے ایک چار نکاتی تحریک شروع کی۔ مولانا مودودیؒ نے اس کے لیے ملک بھر کے دورے کیے۔ اجتماعات اور جلسوں سے خطاب کیا۔راولپنڈی اور ہزارہ اور آزادکشمیرکی سطح پر اس تحریک کو مولانا فتح محمد ؒنے منظم کیا۔ انھیںعلما کی حمایت بھی حاصل تھی۔پورے ملک کی طرح راولپنڈی ڈویژن میں بھی تحریک عروج پر پہنچی اور حکومت نے قراردادِ مقاصد کی شکل میں چارنکاتی تحریک کو منظور کرلیا۔
قراردادِ مقاصد توپاس ہوگئی لیکن اسلام اور جمہوریت کے خلاف سازشیں جاری رہیں۔ قراردادِ مقاصد کے مطابق ملک میں اسلامی دستور کے نفاذ میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ دستور اسلامی کے لیے از سر نوتحریک برپا کی گئی۔قادیانیوں کے خلاف بھی تحریک ختم نبوت کو منظم کرنا پڑا، اس کے لیے علمانے مسلسل جدوجہد کرنا شروع کی۔ مولانا فتح محمد کی ذمہ داری کے اس دور میں ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختم نبوت اپنے عروج پر پہنچی۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ،میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں انھوں نے راولپنڈی اور پنجاب کی سطح پر جماعت کی تنظیم اور جماعت کی برپا کردہ تحریکات کے ضمن میں عظیم اور مثالی جدوجہد کی۔تحریکِ جمہوریت، تحریکِ ختم نبوت اور تحریکِ نظام مصطفی اور تحریکِ جہاد، سیلاب زدگان اور متاثرین زلزلہ کی خدمت کی۔ ہرمیدان میں مستعدی اور جان فشانی سے حصہ لیا۔ آج جماعت اسلامی کی قیادت قوت اور اثرات کے جس مقام پر پہنچ چکی ہے اس میں مولانا فتح محمد ؒکا بڑا حصہ ہے۔ جب پنجاب کی امارت کی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو انھوں نے اپنے آپ کو فارغ نہ سمجھا۔ ہر تحریک ،ہر پروگرام میں ذوق وشوق سے شریک ہوئے ۔محترم قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں اسلام آباد میں دو مرتبہ دھرنے دیے گئے۔ان دھرنوں میں مشکلات، رکاوٹوں اور پیرانہ سالی کے باوجود ہمت، حوصلے اور جرأت سے شرکت کی۔
ان ہمہ گیر اور وسیع تحریکی وتنظیمی سرگرمیوں کے باوجودمولانا فتح محمد ؒ نے ایک دن کے لیے بھی تعلیم و تعلّم، مطالعے اور اپنے روز مرہ کی عبادات ،تلاوت، اذکارکے پروگراموں کو معطل نہیں کیا۔ وہ پڑھتے اور پڑھاتے بھی رہے۔شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒکے علاوہ مولانا مسعود عالم ندویؒ اورمولانا امین احسن اصلاحی ؒ سے عربی زبان اور تفسیر ِقرآن کے سلسلے میں استفادہ بھی کیا۔ان کا قائم کردہ تعلیمات عالیہ کالج ،جس میں فارسی فاضل اوراردوفاضل کی معیاری تعلیم دی جاتی تھی راولپنڈی کا معروف ومشہور ادارہ تھا۔۱۹۴۳ء میں ایف اے،۱۹۵۳ء میں ایف اے کے اضافی مضامین اُردو، فارسی، معاشیات کا امتحان پاس کیا۔اپریل۱۹۶۰ء میں بی اے کیا اور ۱۹۶۳ء میں بی اے کے اضافی مضامین اردو،فارسی،عربی کا امتحان پاس کیا۔۱۹۶۶ء میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۷۶ء میں ایم اے عربی کیا۔
جب منصورہ میں مرکز علومِ اسلامیہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو مرکز کے منصوبے میں علومِ عربیہ و اسلامیہ کادارالعلوم بھی شامل تھا۔اس کے لیے ابتدائی طورپر جامع مسجد منصورہ کے ساتھ ایک عمارت بھی تعمیر کی گئی تھی۔ مولانا فتح محمدؒاس وقت جماعت اسلامی پنجاب کے امیر تھے، انھیں اس کا مہتمم مقرر کیاگیا۔اس کا افتتاح ۱۴۰۰ھ کو دورۂ تفسیر کے آغاز سے کیاگیا۔مولانا فتح محمدؒ اپنی وفات (۱۰؍اگست ۲۰۰۸ئ)تک اس کے مہتمم اور مدرّس رہے۔
پانچ سال سے وہ رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان کے نائب صدر تھے۔اس ذمہ داری کے سبب ان کے مدارس، دینی مدارس کی تنظیمات اور ان کے ذمہ داران سے روابط اور تعلقات تھے۔ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ میں وقتاً فوقتاً نمایندگی بھی کرتے تھے۔ اتحاد تنظیم کے صدور، ناظمین اور مدارس کے شیوخ نے ان کی وفات پر گہرے رنج وغم کااظہار کیا اور مغفرت کی دعائیں کیں۔
جب منصورہ میں شعبان/رمضان ۱۴۰۰ھ میں دورۂ تفسیر کا آغاز ہوا اورمولانا گوہررحمن ؒ کو دورۂ تفسیر کے لیے بلایا گیا تو اس وقت مولانا فتح محمد ؒنے اہتمام کے ساتھ پڑھنا بھی شروع کر دیا۔ وہ دورۂ تفسیرکے پہلے طالب علم بھی تھے۔ اس طرح ہر سال دورہ تفسیر میں شرکت کرتے۔ محرم الحرام۱۴۰۱ء سے مرکز علومِ اسلامیہ میں باقاعدہ اعلیٰ درجوں کی تعلیم کا آغاز کیا گیا تو مولانا فتح محمد ؒ نے دفتری اوقات کے بعدپڑھنا شروع کر دیا۔وہ مسلسل پڑھتے رہے یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ انھوں نے دارالعلوم میں پڑھانا بھی شروع کردیا۔ترجمۂ قرآن پاک، ریاض الصالحین، مشکوٰۃ اور شرح وقایہ کئی سال تک پڑھاتے رہے، بالآخر ادارے نے ان پر ان کی مرضی کے بغیر بوجھ کم کردیااور مشکوٰۃ کا درس دوسرے اساتذہ کے سپرد کردیا۔اسی دوران جامعۃ المحصنات میں ایک استاد کی ضرورت محسوس کی گئی تومولانا نے اس کے لیے بھی اپنے آپ کو پیش کردیا ۔یہ ان کی ہمت ،حوصلہ،عزم ،جذبہ اور ذوق وشوق تھا کہ بیماری کے دوران بھی بوجھ اٹھانے کے لیے تیارتھے۔
وہ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ مزید سرگرمیاں بھی جاری رکھتے۔جہاں کہیں فہم قرآن کی کلاس ہوتی،کوئی اجتماع ،ریلی،علماکنونشن،دینی پروگرام ،تحریک، دھرنا ہوتا تو اس میں پیش پیش ہوتے۔ ان کے علمی ذوق و شوق کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ ۲۰۰۵ء میں انھوں نے تعمیر ِسیرت کالج سے کمپیوٹر کورس کیا اور ’’مہد سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو‘‘کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ قریب ودُور جہاں جانا پڑتا وہاں پہنچ جاتے۔ یہ تو ان کا تحصیلِ علم کا ذوق تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکز علومِ اسلامیہ کے لیے مالی اعانت جمع کرتے، اس کے لیے لوگوں سے رابطے کرتے، اندرون و بیرون ملک دورے کرتے اور بھرپور کوشش کرتے۔ انھوں نے برطانیہ،سعودی عرب،ابو ظہبی دبئی، شارجہ، ایران اور افغانستان کے مطالعاتی اور دعوتی دورے بھی کیے۔اکتوبر۲۰۰۷ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔اس دورے میں مختلف شہروں میں دعوتی تربیتی اجتماع سے خطاب کیا اور عمرہ بھی کیا۔
مجھے ۳۰ سال سے زیادہ ان سے رفاقت کا شرف حاصل رہا۔اس طویل عرصے میں ،میں نے مولانا فتح محمدؒ کو ہمیشہ مطمئن پایا،حتیٰ کہ مرض الوفات میں بھی کسی قسم کی بے قراری، شکوہ شکایت زبان پر نہ تھی۔ ان کے اطمینان کو دیکھ کر امید ہوتی تھی کہ جلدہی صحت یاب ہوجائیں گے۔وہ شدید بیماری میں بھی مطمئن تھے۔۲،۳؍اگست کو یہاں منصورہ میں مختلف ممالک سے کچھ مہمان تشریف لائے تو انھوں نے ۳ اگست کو مجھے ایک خط بھیجا کہ میں ان مہمانوں کو دارالعلوم کی نئی عمارت کا دورہ کرواؤں اور دارالعلوم کے مختلف پروگراموں سے متعارف کرواؤں۔ وہ شدید بیمار تھے، مگر دارالعلوم کی فکر ان کے دامن گیر تھی۔ ۱۰؍اگست ۲۰۰۸ء کی شام کو ان کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ ظہر سے پہلے ان پر غشی طاری تھی۔ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا ،نماز کا وقت آیا تو ہم نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپس آئے تو روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ان کی موت کا منظر دیکھ کر یہ آیت یاد آگئی:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْـمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَـۃً مَّرْضِیَّـۃً o (الفجر ۸۹:۲۷-۲۸) اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف لوٹ جا،اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور اللہ تجھ سے راضی۔
میں نے مولانا کوکبھی بھی پریشان حال نہ پایا۔وہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے کام سرانجام دیتے رہے ۔ کبھی کسی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے بھی نہ پایا۔انھوں نے نظمِ جماعت کے ساتھ اختلاف کی صورت میں اختلاف کیا لیکن آداب کو ملحوظ رکھااورنظمِ جماعت کی اطاعت کی۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر یہ حدیث یاد آتی ہے:’’جسے آخرت کی فکر ہو، اللہ اس کے دل میں غنا پیدا کر دیتا ہے اور اس کے کاموں کومنظم کردیتاہے، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر پہنچتی ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
وہ اخلاقِ حسنہ کا بہترین نمونہ تھے، سراپا اخلاق تھے۔ اپنے دوستوں،جماعتی رفقا، علما و مشائخ کے حقوق کا خیال رکھتے،بیماروں کی عیادت کرتے،فوت ہونے والوں کے جنازے میں پہنچتے، وقتاً فوقتاً مہمان نوازی اور افطاری کے لیے گھر پر بلاتے۔راولپنڈی اور لاہور میں ان کا گھر دفتر کی طرح مہمان خانے کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ لوگوں کے کاموںکے لیے وقت نکالتے، افسروں کو فون کرتے، ضرورت ہوتی تو ان کے ساتھ چل کر جاتے۔ وہ ہر کارِخیر میں پیش پیش رہتے۔
اللہ تعالیٰ انھیں غریقِرحمت کرے۔ وہ یاد آتے رہیںگے۔اللہ تعالیٰ جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ رفقااور اولاد کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازے، آمین!
حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے، اس کے بعد شوال کے ۶ روزے رکھے، وہ سارا زمانہ روزہ رکھنے والے کی مثل ہوگیا۔ (مسلم)
رمضان کے روزے ۱۰ ماہ کے برابر اور شوال کے روزے دو ماہ کے برابر ہوگئے، اس طرح ۱۲ مہینے بن گئے۔ نیکی ایک ہو تو دس لکھی جاتی ہیں اور یہ تو کم سے کم ثواب ہے۔ زیادہ کی تو کوئی حد نہیں، ۷۰۰گنا اور اس سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ جتنا کسی کا جذبہ اور اخلاص ہوگا اسی قدر اجروثواب زیادہ ہوگا۔
’دنیا‘ میں کسی ملک، علاقے اور حاکم کے ہاں اگر اس حساب سے اُجرت ملتی ہو کہ ایک مہینہ چھے دن کام کیا جائے اور اُجرت بارہ مہینے کی ملے، تو ہر شخص ایسی ملازمت کے لیے بے قرار ہوگا، سفارشیں ڈھونڈ رہا ہوگا۔شاید ہی ملک کا کوئی باشندہ پیچھے رہ جائے۔ لیکن یہ آخرت کا گھر ایسا گھر ہے، جو نظروں سے اوجھل ہے، اس لیے یہاں کروڑوں، لاکھوں، ہزاروں کی جگہ چند سو ہی اپنا نام لکھوانے آتے ہیں اور اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں جنت کی محبت اور دوزخ کے خوف کے جذبات مرجھا گئے ہیں۔ ان کو تازگی اور زندگی دینے کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے جامِ شیریں سے ایمان کو مضبوط کرنا ہوگا۔ دورِصحابہؓ اس نوع کے مناظر پیش کرتا ہے۔ وہاں انھیں سات دن، تین دن، ایک دن روزہ اور ایک دن افطار پر مشکل سے آمادہ کیا گیا۔ اس محبت کا ایک مظہر نفل روزے کا شوق ہونا ہے۔ ۶ دنوں کے روزے پر، خواہ مسلسل رکھے جائیں یا غیرمسلسل، صائم الدہر ہونے کی بشارت ہے، اورکیا چاہیے!
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ پودے لگا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے پاس سے گزر ہوا۔ آپؐ نے پوچھا: ابوہریرہؓ! کیا کر رہے ہو؟ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اپنے لیے پودے لگا رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں اس سے بہتر پودے نہ بتلائوں؟ میں نے عرض کیا: یارسولؐاللہ! ضرور بتلا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ ولا اِلٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، ہر ایک کے بدلے میں تمھارے لیے ایک درخت جنت میں لگے گا۔ (ابن ماجہ)
اس کا استحضار ہو کہ جب ہم ذکرِ الٰہی سے اپنی زبان تر کرتے ہیں، تو سچی خبر دینے والے رسولؐ کے فرمان کے مطابق جنت میں درخت لگا رہے ہوتے ہیں (جن کے پھل آکر کھائیں گے، ان شاء اللہ) تو مسنون اوراد کو یاد کرنے اور دن رات کے متعین اوقات میں ان کے ورد کرنے کے ہمارے شوق کا کیا عالم ہوگا۔ یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہوگا اور ہم دوسروں کو بھی تلقین کر رہے ہوںگے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت مانگو۔ اگلے دن وہ پھر آیا اور پوچھا: یارسولؐ اللہ! کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت مانگو۔ (جواب پاکر چلا گیا) اگلے دن پھر آیا اور پھر پوچھا: کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو۔ جب تجھے دنیا و آخرت میں عفو اور عافیت مل گئی تو، تو فلاح پاگیا۔ (ابن ماجہ)
گناہوں کی معافی اور آفات و مصائب سے حفاظت ایسی نعمتیں ہیں جو تمام نعمتوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ دنیا و آخرت میں گناہوں کی معافی دنیا میں ایمان اور علم و عمل کی شاہراہ پر بلاروک ٹوک رواں دواں ہونے کی ضامن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو امن بھی میسر ہو۔ بیماری،معاشی تنگی، طاغوتی قوتوں کے ظلم و جبر، قتل و غارت گری، چوروں، ڈاکووں، دہشت گردوں اور تخریب کاروں سے تحفظ حاصل ہو۔ جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو۔ اہل و عیال، عزیز و اقارب، مسلمان بھائی اور بستی کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہوں، دن کو کام کرتے ہوں اور رات کو بستر ِاستراحت پر بے فکر ہوکر سوتے ہوں۔ اِس صورت میں اللہ کی بندگی اور تقویٰ کی زندگی کے سامان میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔ تب ہی فلاح بھی کامل ہوگی۔
عفو اور عافیت ہر دور میں انسان کا مطلوب رہے ہیں۔ انھی سے انسانوں کو نوازنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے اور کتابیں نازل کیں۔ انبیاے علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے دین کی بدولت انسانوں کو بندگی اور امن نصیب ہوا ہے۔ آج دنیا جس بدامنی سے دوچار ہے، اس کی وجہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ ان حالات میں اللہ کے سامنے عفو وعافیت کے لیے دست ِسوال دراز کرنے کی ضرورت ہے۔ گناہوں سے معافی مانگنے اور اجتماعی زندگی میں اللہ کے دین کو نافذ کرنے سے عافیت اور امن میسر آسکتے ہیں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں سفر پر جانا چاہتا ہوں۔ مجھے ایسی دعا دیجیے جو میرا زادِ راہ بنے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تجھے تقویٰ کا زادِ راہ عنایت فرمائے۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مزید دعا کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تیرے گناہ معاف فرمائے۔ اس نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، مزید دعا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: تو جہاں کہیں جائے، اللہ تعالیٰ تجھے آسانی سے بھلائی عطا فرمائے۔ (ترمذی)
آج مسلمان اور ان کے معاشروں کو اسی زادِ راہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے لیکن اسی کی سب سے زیادہ کمی ہے۔ آج ہمارے جملہ مصائب اور محرومیوں کا علاج تقویٰ اور گناہوں سے معافی اور بھلائی کے کام ہیں۔ یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جس نے اُمت مسلمہ کو دنیا کی امامت و قیادت کے مقام پر فائز کیا تھا اور یہی نسخہ آج پھر اسے قوموں کا امام بنا سکتا ہے۔ ہے کوئی جو اس نسخے کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شفقت اور پیار سے اپنے صحابی کو زادِ راہ کے تحفے کے طور پر دیا، اختیار کرے۔ کاش اُمت مسلمہ بیدار ہوکر اپنے محبوب کی محبت میں تقویٰ کی راہ پر گامزن ہوجائے۔
o
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، تین آدمیوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ خوشی سے ہنستے ہیں: ایک اس آدمی پر جو نماز کی صف میں کھڑا ہے، دوسرا وہ آدمی جو آدھی رات کو نماز پڑھے اور تیسرا وہ آدمی جو لشکر کے میدان سے پیچھے ہٹنے کے بعد بھی میدانِ معرکہ میں لڑ رہا ہو۔ (ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جو بندگی میں زیادہ اُونچا ہو۔ یہ تینوں آدمی بندگی میں بلندمقام پر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو دیکھ کر انتہائی خوش ہوتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ انسان جو باجماعت نماز میں شرکت کرے اور کوشش کرے کہ پہلی صف میں ہو، رات کو تہجد کے لیے نیند اور آرام قربان کرکے اللہ تعالیٰ کے مقربین میں شامل ہوجائے اور جہاد و اقامت دین کے کام میں اپنے مورچے پر ڈٹ جائے۔ دوسرے لوگ بھاگ بھی جائیں تو وہ کھڑا رہے۔ آج کا ایک جہاد اقامتِ دین اور احیاے دین کا جہاد ہے جو دعوت کے ذریعے ہو رہا ہے۔ دوسرا جہادِ آزادی ایسے ممالک میں جاری ہے جن پر طاغوتی طاقتوں نے غاصبانہ قبضے کر رکھے ہیں۔ ان دونوں میدانوں میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، ان میں وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جو استقامت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہ اللہ کا محبوبِ نظر ہے۔
o
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت حضرت علی ؓ،حضرت فاطمہؓ اور دوسروں کو بلایا تو میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں بھی آپؐ کے اہلِ بیت میں شامل ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں! اس وقت تک جب تک کسی حکمران کے دروازے پر نہ جائو یا کسی امیر کے پاس سوال لے کر نہ جائو۔ (الترغیب والترہیب بحوالہ طبرانی اوسط)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ حکمرانوں کی خوشامد نہ کی جائے، دین فروشی سے احتراز کیا جائے، ان کے سامنے دست سوال دراز نہ کیا جائے۔ آج اگر اہلِ دین نبیؐ سے تعلق کے اس تقاضے کو پورا کریں تو انقلاب آسکتا ہے۔ تمام علما و مشائخ، تمام مدارس اپنے ذاتی مفادات اور مصالح سے بالاتر ہوجائیں تو پوری اُمت مسلمہ ان کے ساتھ کھڑی ہوگی اور کفار کے آلۂ کاروں کا اقتدار زمیں بوس ہوجائے گا۔ اہلِ دین اُمت مسلمہ کی کشتی کو بھنور سے نکال لیں گے اور اپنی خودمختاری کا تحفظ کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے پاس اس کا کھلا ہوا نامۂ اعمال لایا جائے گا، (وہ اس کو پڑھے گا)، پھر کہے گا: اے میرے رب! میں نے دنیا میں فلاں فلاں نیک کام کیے تھے۔ وہ تو اس میں نہیں ہیں؟
اللہ تعالیٰ جواب دے گا: لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے وہ نیکیاں تمھارے نامۂ اعمال سے مٹا دی گئی ہیں۔ (ترغیب و ترہیب)
ارکانِ اسلام میں نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ اور عشر کی ادایگی ہے۔ قرآن پاک میں بھی صلوٰۃ و زکوٰۃ کا ذکر اکثر ساتھ ساتھ ملتا ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے مالی نظام کی بنیاد اور معاشی مسائل کا حل ہے، نیز انفرادی تزکیے کا بھی ذریعہ ہے۔ اسلامی حکومت قائم ہو اور وہ سب سے زکوٰۃ اور عشر مکمل وصول کرے (جیساکہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے کیا تھا) تو معاشرے کے بہت سے مسائل جو آج عذابِ جاں اور سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں، حل ہوجائیں۔
دورِ زوال میں بھی مسلمانوں نے زکوٰۃ ادایگی کو بطور ایک فرض کے برقرار رکھا ہے۔ جسے بھی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کا احساس ہے وہ فکرمندی سے اپنی زکوٰۃ کا حساب کرتا اور ادا کرتا ہے۔ عموماً یہ ۷۰ گنا زیادہ اجر کی وجہ سے رمضان میں ادا کی جاتی ہے (حکومت بھی یکم رمضان کو سیونگ اکائونٹ سے زکوٰۃ منہا کرتی ہے)۔ اس سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے، دعوتی منصوبے مکمل ہوتے ہیں، مدارس کا پورا نظام چلتا ہے۔
زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو بہت احتیاط سے زکوٰۃ کا حساب لگا کر ادا کرنا چاہیے۔ کسی رقم پر زکوٰۃ فرض ہو اور نہ دی جائے تو وبال ہوگا۔ خود ضروری علم نہ رکھتے ہوں تو جاننے والوں سے پوچھ کر ادا کرنا چاہیے۔ کچھ ضروری امور درج ہیں:
۱- وہ مال جو ایک سال گزرنے کے بعد اخراجات سے بچا ہوا ہو اور ساڑھے سات تولے یا ساڑھے باون تولے چاندی یا ان کی مالیت کے برابر ہو۔
۲- ساڑھے سات تولے سونا ۴۸ئ۸۷۱ گرام اور ساڑھے باون تولے چاندی ۳۶ئ۶۱۲ گرام کے برابر ہے۔
۳- اگر صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولے نصاب ہوگا۔ اگر سونے کے ساتھ چاندی ہو یا کسی دوسری قسم کا مال بھی ہو، تو نصاب ساڑھے باون تولے چاندی یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق اس کی قیمت کے برابر ہوگا۔
زکوٰۃ کے اثاثے
بنکوں کے سیونگ اکائونٹ میں جو رقم محفوظ ہوتی ہے، حکومت اس کی زکوٰۃ کی کٹوتی کرتی ہے۔ لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کھاتہ داروں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ خود دینا چاہیں تو رمضان سے ایک ماہ پہلے کی درخواست دے کر استثنا حاصل کرسکتے ہیں۔
بعض لوگ صرف زکوٰۃ دینے پر اکتفا کرتے ہیں حالانکہ اُمت مسلمہ کی تمام ضروریات زکوٰۃ سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے کہ زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں متعین کردیے گئے ہیں۔ اسے صرف انھی آٹھ مصارف میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ باقی ضروریات پورا کرنے کے لیے نفل صدقات اور انفاق کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان ضروریات کو پورا کرنا بھی غنی اور مال دار لوگوں پر فرض ہے۔ اگر سب مسلمان اپنی زکوٰۃ پوری کی پوری ادا کریں اور غربا و مساکین اور اُمت مسلمہ کی دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نفل صدقات حسبِ ضرورت دیں، تو مسلمان ممالک معاشی لحاظ سے اتنے مضبوط ہوجائیں کہ انھیں کسی ملک سے سودی یا غیرسودی قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ قرآن پاک میں جہاں زکوٰۃ کا ذکر ہے اسی جگہ نفل صدقات کا بھی ذکر ہے:
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ (البقرہ ۲:۱۷۷) اور دیتے ہیں اللہ کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں اور گردنوں کو آزاد کرنے میں اور قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوٰۃ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے‘‘ (ترمذی)۔ پھر آپؐ نے اسی مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی۔
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَo(التوبۃ۹:۳۴-۳۵) جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری دے دیجیے۔ جس دن اسے دوزخ کی آگ میں تپا کر ان پر رکھا جائے گا پھر ان کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور ان کی پیٹھوں کو ان کے ساتھ داغا جائے گا، ان سے کہا جائے گا، کہ مزہ چکھو اس خزانے کا جسے تم جمع کرتے تھے۔
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰) وہ لوگ جو اس مال کو جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں، نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے، بلکہ وہ مال، جس کو دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں، ان کے حق میں بُرا ہے۔ قیامت کے دن اسے ان کی گردنوں کا طوق بنا دیا جائے گا۔
آج کل بڑے پیمانے پر شعوری اور غیرشعوری طور پر ایسا ہو رہا ہے۔ بعض لوگ مسلمان ہونے کے باوجود، زکوٰۃ کا فرض ادا نہیں کرتے اور جوادا کرتے ہیں وہ اپنے مال کے ایک حصے کی زکوٰۃ دے دیتے ہیں اور دوسرے حصے کی زکوٰۃ کو عموماً لاعلمی کی وجہ سے نظرانداز کردیتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں پر جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور دوسروں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر ہڑپ کرنے سے بچنا چاہتے ہیں، لازم ہے کہ وہ پوری احتیاط سے کام لیں اور سال کے جس حصہ میں وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، وہ اس موقع پر اپنے ایسے سارے مال کی زکوٰۃ دیں جس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ سکیں۔
۱- سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ زکوٰۃ خلوصِ نیت سے ادا کیجیے۔ محض خدا کی رضا اور آخرت کے اجروثواب کو پیش نظر رکھیے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصود آپ کے سامنے نہ رہے۔ خدا ایسے ہی لوگوں کے مال و دولت میں خیروبرکت فرماتا ہے جو محض خدا کو خوش کرنے کے لیے پوری رغبت اور فراخ دلی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
۲- زکوٰۃ میں وہ مال دیجیے جو آپ کی نظر میں بہتر ہو۔ غور کیجیے آپ جب دوسروں سے کچھ لیتے ہیں تو کبھی خراب اور گھٹیا چیز نہیں لیتے اور پوری احتیاط اور باریک بینی سے اچھے سے اچھا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ واقعی زکوٰۃ کی اہمیت کو محسوس کرکے زکوٰۃ دیتے ہیں اور دین و دنیا میں خدا کی رحمتوںکے طالب ہیں تو خدا کی راہ میں ایسا مال دیجیے جو آپ کی نظر میں سب سے بہتر ہو، اور جو خدا کے غریب بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ بخش ہو۔
۳- آپ جس کو زکوٰۃ دیں اس میں احساسِ کمتری نہ پیدا ہونے دیں، اسے نیچا نہ رکھیں، اس کی دل آزاری نہ کریں اور کوئی ایسا سلوک نہ کریں جس سے اس کی خودداری کو ٹھیس لگے۔
۴- زکوٰۃ دے کر آپ اترائیں نہیں، اپنی بڑائی نہ جتائیں بلکہ خدا کا تہِ دل سے شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق دی اور آپ کو یہ موقع بخشا کہ آپ کے ہاتھوں سے خدا کی راہ میں کچھ خرچ ہو اور آپ کو اپنا فریضہ ادا کرنے کا موقع ملا۔
۵- جس کو زکوٰۃ دیں اس پر کوئی احسان نہ جتائیں۔ آپ کے پاس اپنا ہے کیا جو احسان جتائیں! آپ تو خود خدا کے محتاج ہیں، آپ کیا، سارے ہی انسان اس کے محتاج ہیں، غنی اور بے نیاز تو صرف خدا ہے (وَاللّٰہ الْغَنی وَانتُمْ الْفُقَرَآئُ ج ’’اللہ ہی غنی ہے اور تم سب محتاج ہو‘‘۔ محمد ۴۷:۳۸)۔ آپ کو خدا نے جو کچھ دیا تھا اسی لیے تو، کہ آپ اپنے کام میں لائیں اور خدا کے دوسرے بندوں کا حق ادا کریں۔ کیا حق دار کا حق دے کر کوئی احسان جتاتا ہے؟ رسولِؐ خدا نے فرمایا، خدا اس شخص کو ہم کلامی کے شرف اور نظرعنایت سے محروم رکھے گا جو کسی کو عطیہ دے کر احسان جتاتا ہو۔
زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے آسمانی کتاب کی اس آیت پر غور کیجیے اور بار بار غور کیجیے:
اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لَہٗ فِیْھَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ اَصَابَہُ الْکِبَرُ وَ لَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآئُ فَاَصَابَھَآ اِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۶۶) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرابھرا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں، انگوروں اور ہرقسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اسی وقت تیزگرم بگولے کی زد میں آکر جھلس جائے جب کہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کمسن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غوروفکر کرو۔
حضرت عبداللہ بن شفیقؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے( نفلی) روزوں کے معمول کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ: آپؐ روزہ رکھنا شروع کرتے تو یوں لگتا کہ اب افطار نہیں کریں گے اور روزہ ترک کردیتے تو یوں لگتا کہ اب روزہ ترک کرنے کی حالت میں رہیں گے۔ فرماتی ہیں کہ مدینہ شریف تشریف لانے کے بعد آپؐ نے کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھے سواے رمضان کے۔(شمائل ترمذی)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپؐ نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے کے سارے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ کسی مہینے میں آپؐ نے شعبان سے زیادہ روزے رکھے ہوں (بخاری)۔ آپؐ نے فرمایا: اتنا عمل کرو جتنا کہ تمھارے اندر طاقت ہے۔ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں اکتائیں گے لیکن تم عمل سے اُکتا جاؤگے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ نے اپنا قرب حاصل کرنے کے لیے نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کی عبادات فرض کی ہیں اور ان فرائض کی تکمیل کے لیے نفلی عبادات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے حدیثِ قدسی مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور ولایت حاصل کرنے کا ذریعہ فرائض کے بعد نوافل ہیں۔ ان کے ذریعے آدمی اللہ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے تو پھر ہدایت اس کے لیے مقدر ہوجاتی ہے اور اس کی دعائیں سنی جاتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ (بخاری ، مسلم)
روزے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان اپنی خواہشات پر قابو پا لیتا ہے۔ پھر بھوک‘ پیاس اور جنسی جذبات اسے راہ راست سے بھٹکا نہیں سکتے۔ شیطان کے حملوں سے روزہ دار محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو ڈھال فرمایا ہے۔ رمضان المبارک میں شیطان کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور روزے دار کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ روزہ دار اپنے آپ کو تمام عبادات اور احکام کی تعمیل کے لیے تیار اور تمام منکرات سے بچنے کے قابل بنالیتا ہے۔ کھانے پینے اور جنسی جذبات کو سحری سے افطار تک روکے رہنے کے سبب اسے ان خواہشات پر قابو پانے کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ وہ تقویٰ کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ روزہ خواہشات کو ترک کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں ہوسکتا کہ کس شخص نے روزہ رکھا ہے اور اپنی خواہشات کو ترک کیا ہے۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے۔ اس وجہ سے روزے کا اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہر نیکی کا ثواب ۱۰ گنا سے لے کر ۷۰۰ گنا تک ملتا ہے مگر روزہ میرے لیے ہے میں خود اس کی جزا دوں گا۔ (بخاری، مسلم)
o
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ کو جو روزانہ روزہ رکھتے تھے بالآخر ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کی اجازت دی اور فرمایا: ’’یہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور اس سے افضل کوئی روزہ نہیں‘‘ (بخاری )۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا‘ اس نے روزہ نہیں رکھا‘‘ (بخاری)، یعنی وہ روزہ نہیں رکھ سکے گا۔
رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں سے اللہ تعالیٰ کے قرب کا جو مقام روزے دار کو ملتا ہے‘ اس میں ترقی اور کمال کے لیے نفلی روزوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ انبیاعلیہم السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزوں کا خصوصیت سے اہتمام کرتے تھے ۔ حضرت داؤدـ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے تھے۔
روزے کے اس اجر کی وجہ سے نبیؐ بھی نفلی روزے رکھتے تھے اور صحابہ کرامؓ میں بھی اس کا جذبہ اور شوق تھا۔ نبیؐ نے صحابہ کرامؓ کے لیے نفلی روزوں کا وہ نمونہ پیش کیا ہے‘ جس پر وہ عمل کرسکیں اور نفلی روزوں کے سلسلے میں خصوصی ہدایات بھی دیں۔ اس لیے آپؐ نے کسی مہینے اور مہینے کے دنوں کو روزہ رکھنے کے لیے خاص نہیں کیا۔ کبھی شروع‘ کبھی درمیان اور کبھی آخری دنوں میں روزہ رکھتے تاکہ اُمت کے لیے آسانی ہو اور امت کے افراد اپنے اپنے حالات کے مطابق نفلی روزوں کا اہتمام کریں۔ البتہ جس طرح فرض نمازوں سے پہلے فرضوں کی تیاری کے لیے سنتیں رکھی گئی ہیں اور فرضوں کے بعد ان کی تکمیل کے لیے سنتیں پڑھی جاتی ہیں‘ اس طرح رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر آپؐ نے شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھے اور رمضان المبارک کے اختتام کے بعد آپؐ نے چھے روزے رکھنے کی فضیلت بیان فرمائی۔
o
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی والدہ اُم سلیم کے ہاں تشریف لائے۔ وہ آپؐ کی مہمان نوازی کے لیے کھجوریں اور مکھن لے کر آئیں۔ آپؐ نے فرمایا: مکھن مشکیزہ میں اور کھجوریں تھیلے میں واپس ڈال دو، میں روزے سے ہوں۔ پھر گھر کے ایک کونے میں تشریف لے گئے اور نفل پڑھے۔ پھر اُم سلیم اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعا کی۔ اُم سلیم نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! میرا پیارا بیٹا آپؐ کی خدمت کے لیے مختص ہے‘ اس کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ تب آپؐ نے حضرت انس ؓ کے لیے دعا فرمائی اور دنیا اور آخرت کی کوئی بھلائی نہ چھوڑی۔ آپؐ کی دعا تھی: اللھم ارزقہ مالاً و ولداً و بارک لہ ’’ اے اللہ اسے مال اور اولاد اور برکت عطا فرما‘‘۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیںکہ تمام انصار سے میرا مال اور اولاد زیادہ ہے۔
انسان نفلی روزے کی حالت میں کسی کے ہاں مہمان بن جائے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ بلاضرورت نفلی روزہ نہ توڑے۔
جب کسی کے گھر جائے تو گھروالوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں دعائیں دے۔ ہمارے ہاں یہ روایت کمزور پڑگئی ہے۔ گھر میں جاتے وقت السلام علیکم کہنا بھی دعا ہے اور گھر سے رخصت ہونے سے پہلے گھروالوں کے لیے دعاے خیر کرنا چاہیے۔ نبیؐ کی سنت پر عمل کرنا چاہیے۔
o
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کا روزہ خصوصیت کے ساتھ رکھتے تھے۔ (شمائل ترمذی)۔ سوموار اور جمعرات کو بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزے سے ہوں‘‘۔ (شمائل ترمذی)
اللہ تعالیٰ کو ہر عمل کرنے والے کے عمل کا علم ہے لیکن نیک لوگوں کے اعزاز کی خاطر ان کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور ان دنوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ: رسولؐ اللہ ایک مہینے میں ہفتہ‘ اتوار اور سوموار کے روزے رکھتے اور دوسرے مہینے میں منگل‘ بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے (شمائل ترمذی)۔ ہفتے کے چھے دن کا روزہ آپؐ کے عمل سے ثابت ہوگیا۔ اس سے اُمت کے لیے آسانی پیدا ہوگئی۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا کہ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کرتے۔ (ترمذی‘ نسائی)
جمعہ کے دن بھی نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے لیکن ایسی صورت میں جس میں جمعہ کو روزے کے ساتھ خاص نہ سمجھا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو افطار بھی کیا ہے اور روزہ بھی رکھا ہے اور جمعہ کو روزے کے لیے مختص کرنے سے روکا بھی ہے تاکہ لوگ اس نفلی روزے کواس دن کی فضیلت کے سبب واجب کا درجہ نہ دے دیں۔ اسی طرح آپؐ نے باقی ۶ دنوں میں بھی روزہ رکھا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ کسی بھی دن کا روزہ رکھا جا سکتا ہے، مقصد حاصل ہوجائے گا۔ آج کل نفلی عبادات تو درکنار فرائض میں بھی لوگ کوتاہی کرتے ہیں۔ جو لوگ فرائض کو ادا کرتے ہیں‘ ان کو چاہیے کہ فرائض سے ایک قدم آگے بڑھیں اور نوافل بھی ادا کریں تاکہ نبیؐ اور صحابہ کرام ؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ولایت کی منزل پر فائز ہو سکیں۔ آج کے پُرفتن دور میں ایمان ‘جان ومال اور عزت وآبروکے تحفظ کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کا یہی راستہ ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کا حکم دیا تھا۔ جب رمضان کا روزہ فرض کردیا گیا تو اس کے بعد جو عاشورے کا روزہ رکھنا چاہتا‘ رکھتا اور جو چھوڑنا چاہتا‘ چھوڑ دیتا۔ (بخاری) عاشورے کا روزہ بھی نفل ہے۔ نبی کریمؐ نے عاشورے کے روزے کی فضیلت میں فرمایا: مجھے اُمید ہے کہ یہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ترمذی)
عاشورہ سے مراد ۱۰ محرم الحرام ہے۔ البتہ اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا بھی بہتر ہے کہ یہود کی مخالفت ہوجائے۔ (ترمذی ،عن ابن عباسؓ)
حضرت عبداللہ بن عباسـ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسولؐ اللہ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم دیا تو بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یہ وہ دن ہے جس کی یہود ونصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اگلے سال ان شاء اللہ ہم ’ نویں‘ محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔ پھر اگلا سال نہ آیا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔ ( مسلم )
آج کل یہود ونصاری عاشورہ کاروزہ نہیں رکھتے۔ اس لیے آج کے زمانے میں عاشورہ کاروزہ کافی ہے، اب نویں تاریخ کے روزے کی علت باقی نہیں رہی ۔(معارف الحدیث، مولانا منظوراحمد نعمانی)
حضرت ابی قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ عرفہ کا روزہ ایک سال پچھلے اور ایک سال آیندہ کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔‘‘ (ترمذی)
عاشورہ کا دن فضیلت کا دن ہے، اس لیے اس دن روزے کا ثواب بھی زیادہ ہے۔ اس طرح عرفہ کے دن میں حاجی میدان عرفات میں جمع ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا ان پر نزول ہوتا ہے۔ اس دن جو شخص اخلاص اور شعور کے ساتھ روزہ رکھے گا اس کے لیے یہ روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ ابن بطال فرماتے ہیں کہ یہ فضائل ان لوگوں کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے ہوں۔ فسق وفجور میں ڈوبے ہوئے‘ فرائض کے تارک اور منکرات کے مرتکب کے لیے یہ فضائل نہیں ہیں۔ ( فتح الباری، ج ۱۳)
حضرت موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذرؓ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ابوذر! جب تم مہینے کے تین دنوں کے روزے رکھنا چاہو توتیرھویں‘ چودھویں اور پندرھویں کا روزہ رکھو۔ (ترمذی)
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھے تو اس نے دھر سارے زمانے کا روزہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق اپنی کتاب میں اُتاری: مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا (الانعام ۶:۱۶۰) ’’جو ایک نیکی کرے گا‘ تو اسے ۱۰ گنا ثواب ملے گا‘‘۔گویا ایک دن ۱۰ دن کے برابر ہے۔
اس طرح تین روزے ‘ پورے مہینہ کے روزوں کے برابر ہوگئے اور جب ایک شخص رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ ہر ماہ میں تین روزے رکھے گا تو اس کے روزے ۱۲ مہینے کے روزوں کے برابر ہو جائیں گے اور اس طرح وہ صائم الدھر بن جائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو ایام بیض کے روزوں کی تلقین فرمائی لیکن خود ان دنوں کی پابندی نہیں کی تاکہ اُمت پر ان دنوں کی پابندی ضروری نہ سمجھی جائے‘ صرف فضیلت کا درجہ دیا جائے۔
o
حضرت حفصہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: چار چیزیں ایسی ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ چھوڑتے تھے: ۱- عاشورہ کا روزہ ۲-یکم ذوالحجہ سے نویں ذوالحجہ تک کے دنوں کے روزے ۳-ہرمہینے کے تین روزے ۴- فجر کی دو سنتیں۔ (سنن نسائی)
یہ نفلی عبادات ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اہتمام فرماتے تھے۔ اُمت کے افراد کو بھی اہتمام کرنا چاہیے لیکن نفل اور سنت سمجھ کر۔ان عبادات میں سے کسی کو واجب کا درجہ نہ دیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے (ابن ماجہ)۔ یہ زکوٰۃ فرض اور نفلی دونوں طرح کے روزوں کے ذریعے نکالی جاتی ہے ‘ فرض روزوں کے ذریعے زکوٰۃ فرض ہے اورنفلی روزوں کے ذریعے زکوٰۃ مستحب ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں، یعنی عیدالاضحی اور عیدالفطر کے روزوں سے روکا ہے۔ (مسلم)
حضرت نُبَیْشہؓ ہذلی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایام تشریق (۱۱‘۱۲‘۱۳ ذوالحجہ) کھانے پینے اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔ (مسلم)
عیدالفطر اور عیدالاضحی اور ایام تشریق کل پانچ دن کے روزے ممنوع ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی مہمان نوازی اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد کی ایک صورت یہ ہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے خطبوں اور نماز کے لیے آتے جاتے تکبیریں پڑھی جاتی ہیں، اور عیدالاضحی اور ایام تشریق میں یوم عرفہ سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ تک نماز کے بعد تکبیر بلندآوازسے پڑھی جاتی ہے۔