مسلم سجاد


بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ گزر گیا۔ ۲۵ اگست ۲۰۰۵ء کو دوسرا مرحلہ بھی گزر جائے گا۔ جیتنے والے جیت گئے اور ہارنے والے ہار گئے۔ سرکاری ٹی وی اور بعض دیگر ذرائع ابلاغ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ انتخابات کا عمل بالکل ٹھیک گزرا ہے۔ ہارنے والے گڑبڑ‘ دھاندلی‘   بے قاعدگی اور ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھرنے کے کتنے ہی شواہد پیش کر دیں‘ روزِ روشن کی طرح سب کچھ عیاں ہو‘ جیتنے والوں نے یہی کہنا ہے کہ ہارنے والے ہمیشہ یہی رونا روتے ہیں۔ کراچی میں کس طرح مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے‘ نوشہرہ میں کس طرح نتیجہ پلٹ دیا گیا‘ تھرپارکر میں انتخابات سے پہلے ہی کیا کچھ نہ ہوا‘ یہ تو موٹی موٹی شہ سرخیاں ہیں جب کہ ہزاروں پولنگ اسٹیشنوں پر کھلے عام ہونے والی بدعنوانیاں سامنے ہی نہیں آئیں۔ کسی ادارے کو فرصت ہو یا وہ اس کی ضرورت سمجھے تو ہزار دو ہزار صفحات کا قرطاس ابیض چشم دید شواہد کی بنا پر تیار کر دے۔

لیکن ہم یہاں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ جیتنے والے یقینا خود کو جیتا ہوا ہی کہیں گے‘ لیکن ایک شے انسان کا ضمیر بھی ہے۔ اسے کتنا ہی سلایاجائے‘ زندگی کی رمق پھر بھی اس میں رہ جاتی ہے۔ اخبار میں جیتنے کی خبر لگ جائے‘ لیکن ناجائز جیتنے والا اپنے ضمیر کے سامنے ضرور شرمندہ ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اتنے سو یا ہزار بوگس ووٹ ڈالے ہیں‘ یا عملے کو   ہم خیال بنانے کے لیے کتنی رقم خرچ کی ہے۔ یہ جیت بھی کوئی جیت ہے؟

جیت کی خوشی تو جب ہو جب کھیل قواعد کے مطابق ہو۔ ریفری غیر جانب دار ہو (یہاں تو ریفری کپتان بن کر ٹیم کو کھیلا رہا تھا‘یا دوسری طرح دیکھیں کہ جو بیچارہ ریفری بنایا گیا تھا اس کی مجال نہ تھی کہ کپتان کے اشارہ ابرو کے خلاف کوئی فیصلہ دے سکے)۔ اس طرح کے کھیل میں جیتنا اور جیت کر خوشیاں منانا‘ خود اپنا مذاق اڑانے کے سوا اور اپنے کو دھوکا دینے کے سوا کیا ہے۔ دل‘ کتنے ہی گناہ گار آدمی کا کیوں نہ ہو‘ خود اپنے سامنے تو سچی گواہی دیتا ہے۔

سب بیٹھ کر ملک کے مسائل کا رونا روتے ہیں۔ مسائل کی فہرست بنائیں‘آخری تجزیے میں سبب اخلاقی ہوتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں‘ اللہ کو مانتے ہیں‘ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ برا بھلا جو کر رہے ہیں اس کی جواب دہی یقینا ہونا ہے۔ لیکن ان امور کو ہم نے بھلا دیا ہے۔ ان احساسات کو بے شعوری کی نیند سلا دیا ہے۔ ساری فکر اس بات کی ہے کہ چند روزہ زندگی میں جتنے ہاتھ مارے جا سیکیں مار لیں‘ عاقبت کی فکر خدا جانے۔

اگر انتخابات اخلاقی طور پر صحیح انداز سے لڑے جائیں‘ سب امیدوار ووٹروں کو آزادانہ قائل کریں‘ اور پھر وہ کسی دبائو اور لالچ کے بغیر اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کریں اور ریاستی نظام اس کی ضمانت دے‘ تب جمہوریت کا آغاز ہوگا۔

بحیثیت قوم نے ہم نے ۵۸ سال کی زندگی گزاری ہے لیکن سچ یہ ہے کہ جمہوریت کی شاہراہ پر پہلا قدم بھی نہیں رکھا ہے۔ اس لیے کہ حقیقی معنوں میں کوئی انتخابات نہیں ہوئے۔ کچھ حلقوں میں صحیح انتخاب ہوجاتا ہے‘ شاید اس وجہ سے نظام چلتا ہے۔ جب دھاندلی بہت زیادہ ہو تو نظام تل پٹ ہوجاتا ہے‘ اس کا مشاہدہ بھی ہم کرچکے ہیں۔

ان انتخابات کو ۲۰۰۷ء کے موعودہ انتخابات کا عکس کہنا چاہیے۔ اگر وہ انتخابات بھی     اسی طرح ہونا ہیں تو ملک کے بہی خواہوں کو ابھی سے تشویش محسوس کرنا چاہیے۔ اگر انتخابات کروانے والے اپنے پسندیدہ نہیں‘ بلکہ عوام کے پسندیدہ افراد کا انتخاب چاہتے ہیں تو کم از کم یہ تو ہو کہ بنگلہ دیش کی طرح نگران حکومت کے زیرانتظام کروائے جائیں۔ اس سے بھی نیت درست ہونے کا پتا چل جائے گا۔

موجودہ انتخابات میں جو جائز نمایندے ہر طرح کی مشکلات کے باوجود حقیقی ووٹوں کی بنیاد پر جیتے ہیں‘ وہی اس انتخابات کا حاصل ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر اخلاقی احیا کے مسئلے کو لیں‘ جو سرِفہرست ہے۔ اس حوالے سے کچھ کام ہوا تو ہم آیندہ برسوں میں نئی نسل کے لیے ایک بہتر پاکستان کی توقع رکھ سکتے ہیں۔

اچھے وقتوں کی بات ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہوکر دودھ پلاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اگر تیرے حلق سے کبھی لقمۂ حرام اترا تو تجھے دودھ نہیں بخشوں گی۔ مائیں اس کا اہتمام بھی کرتی تھیں کہ خود ان کے حلق سے بھی لقمہ حرام نہ اترا ہو۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ محاورہ متروک ہونے کے ساتھ ساتھ‘ حرام کے حرام ہونے کا تصور بھی بالعموم ہمارے معاشرے سے متروک ہوگیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ نیا کلچر بس یہ ہے کہ کسی بھی طرح مال آنا چاہیے اور کھانا پینا چاہیے۔ ع

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

اس حوالے سے حقیقی صورت حال اتنی دگرگوں ہے کہ غالباً بیان اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹروں سے زیادہ مقدس پیشہ کس کا ہو سکتا ہے۔ مریض اس پر اندھا اعتماد کرتا ہے کہ وہ اس کا خیرخواہ ہے لیکن اب یہ بات عام ہے‘ ہر کوئی جانتا ہے اخباروں میں چھپ رہی ہے کہ دواساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو نوازنے میں ہرحد پار کر گئی ہیں اور ڈاکٹر حضرات بھی سب حدوں سے آگے چلے گئے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی حقائق معلوم کرنے کا کمیشن بنے تو ۱۱/۹ کی تفصیلات سے بھی زیادہ ضخیم رپورٹ تیار ہوجائے۔ مفت سیمپل سے شروع ہونے والی بات اب لیزگاڑیوں کی قسطوں‘ فائیوسٹار ہوٹلوں میں مع فیملی ویک اینڈ‘ بیرون ممالک کے دوروں (بلکہ عمرے کے ٹکٹ) تک پہنچ گئی ہے۔ اس سب کے عوض ڈاکٹر متعلقہ کمپنیوں کی تیار کردہ مہنگی سے مہنگی دوائیں تجویز کرتا ہے۔ دواساز کمپنی سے وابستہ لوگ معروف ڈاکٹروں کا نام لے کربتاتے ہیں کہ ہم نے ان کا اتنا اتنا ہزار ماہانہ باندھ رکھا ہے (اور ہمیں تو کوئی ایک کمپنی والا ہی بتاتا ہے‘ دیگر کمپنیوں کا حساب تو ڈاکٹر خود ہی جانتا ہے)۔

ملتان کے ایک ڈسٹری بیوٹر نے مجھے بتایا: ڈی جی خان تک میرا علاقہ ہے اور کوئی ڈاکٹر بھی پاک نہیں ہے‘ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

اندازہ تو کریں کہ اس سے زیادہ کمینگی اور سفلہ پن (میرے پاس مزید سخت الفاظ نہیں) کیا ہوسکتا ہے کہ مجبور اور غریب بیماروں سے اس طرح رقمیں نکلوائی جائیں۔ یہ مصدقہ کہانیاں الگ کہ سرجن صاحب پیٹ کھول کر باہر آگئے کہ اندر تو فلاں چیز نکل آئی ہے‘ اتنے ہزار اور دیں ورنہ میں اس کے بغیر ہی سی دیتا ہوں‘ ثم: اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔

دوسری طرف نظر ڈالیں۔ وفاقی حکومت کا ادارہ ہے نیشنل ہائی وے اتھارٹی۔ بائی پاس تعمیر کے لیے زمینیں حاصل کرکے معاوضہ ادا کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں میرے ذاتی علم کے مطابق ایک ادایگی میں ادارے نے ایک کروڑ رقم ادا کرنے سے پہلے اپنا حصہ ۳۰ لاکھ نقد وصول کیا۔ کسی نیب کسی انٹی کرپشن‘ کسی گڈ گورننس کی تقریر نے ان کا بال بیکا نہیں کیا۔اس کو ضرب دیں‘ جہاں جہاں حکومت زمینیں لے کر ادایگی کرتی ہے اور اندازہ کریں کہ اس محکمے کے عمال کتنا مال حرام لے جاکر اپنی آل اولاد کو کھلاتے ہیں۔ کسی صحافی بھائی کو فرصت ملے یا اسائنمنٹ ملے تو وہ معلوم کرسکتا ہے کہ حادثات کی صورت میں مرنے والوں اور زخمیوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے‘ اس کا کتنا فی صد متعلقہ وارث کو ملتا ہے اور کتنا اوپر اور درمیان میں تقسیم ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ فوری اعلانات کا راز جذبۂ ہمدردی نہیں‘ بلکہ یہ ہے۔

زمانہ جدید ہے ‘اس لیے شاطرانہ مہارت سے ناجائز اور حرام کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے ہیں۔ پی ٹی سی ایل خود اور دوسروں کے لیے بھی یہ خدمت انجام دیتا ہے کہ انعامات کا لالچ دلا کر معصوم بچوں اور خواتین سے بلکہ پڑھے لکھے سمجھ دار مردوں سے بھی (کہ لالچ میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں) دھوکا دے کر فون کرائے جاتے ہیں۔ کھلا دھوکا یہ کہ اشتہار میں کسی کونے میں نہایت باریک الفاظ میں لکھا جاتا ہے ۱۴ روپے فی منٹ جو وہ جانتے ہیں کہ لوگ نہیں پڑھیں گے اور انعام کے لالچ میں خوب فون کیے جائیں گے‘ اس لیے کہ سوال بھی ماشاء اللہ یہ ہوتا ہے کہ مزارقائد کراچی میں ہے یا لاہور میں۔ ہر کوئی فون کرتا ہے کہ انعام ملے گا۔پھر لاکھوں میں سے چند ہزار (شاید) بانٹ دیے جاتے ہیں اور سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کیا یہ سرکاری سرپرستی میں جوا اور قمار بلکہ فراڈ نہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اس طرح کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں‘ اسٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی تو بڑے اسکینڈل ہیں۔ ملک میں کون سا کام اس ناجائز اور حرام کے بغیر ہو رہا ہے۔ کون سا دفتر کون سا محکمہ اس سے پاک ہے۔ ہفت روزہ ایشیا(۶ تا ۱۵ جون ۲۰۰۵ئ)میں جیل کے ایک قیدی کا رونگٹے کھڑے کر دینے والا خط شائع ہوا ہے کہ کس بے دردی سے قیدیوں سے جیل کا عملہ رشوت وصول کرتا ہے۔

بات اس سے شروع ہوئی تھی کہ حرام کو حرام سمجھنے کا کلچر تبدیل ہوگیا ہے اور حلال حرام کی تمیز اٹھ گئی ہے۔ اس وقت صرف مالی پہلو زیربحث ہے‘ ورنہ حلال حرام زندگی کے ہر دائرے میں ہے۔ ہر جگہ ہی تمیز اٹھتی جارہی ہے۔ آپ خود ہی اندازہ کریں کہ معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ ان کے اور ان کی اولاد کے منہ میں حرام کا لقمہ نہ جائے۔ یقینا ابھی ایسے لوگ موجود ہیں اور ان کی وجہ سے یہ معاشرہ عذابِ الٰہی کی ایسی گرفت میں نہیں آیا ہے کہ مٹا دیا جائے لیکن عام صورت حال کا اندازہ آپ ان چند مثالوں سے کرسکتے ہیں جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

حرام اور رشوت کا کیا اثر ہوتا ہے۔قرآن میں بنی اسرائیل کے حوالے سے اس کے لیے سحت کا لفظ آیا ہے جس کے معنی جڑ کٹ جانے کے ہیں۔ جس معاشرے میں رشوت ایسے عام ہو جس کا تجربہ اور مشاہدہ ہم کو براہِ راست بھی ہوتا ہے اور واقعات علم میں آتے ہیں اور اخبارات کے ذریعے عام بھی ہوتے ہیں‘ یوں کہیں کہ شیرمادر کی طرح پی جاتی ہے‘ وہ معاشرہ کھوکھلا ہوتا رہتا ہے اور بالآخر اس کی جڑ کٹ جاتی ہے۔

حرام عام ہو جانا ہی اس کی وجہ ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔کیا ہمارے معاشرے میں دعائیں کرنے میں کچھ کمی ہے۔ لوگ مکہ مدینہ جاکر روتے ہیں‘ گڑگڑاٹے ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا۔ دعا منہ پر مار دی جاتی ہے۔ حدیث کے مطابق بندہ کہتا ہے: اے رب! اے رب! لیکن اس کی نہیں سنی جاتی کیونکہ اس کا کھانا حرام ہے‘ اس کا پینا حرام ہے‘ اس کا لباس حرام ہے۔ جس غذا سے اس کے رگ ریشے پٹھے بنتے ہیں‘ حرام ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک موقع پر رسولؐ اللہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں مستجاب الدعوات ہوجائوں تو آپؐ نے ان سے فرمایا: حلال کھانے کا اہتمام کرو‘ تمھاری دعائیں قبول ہوں گی۔

یہ حلال حرام کا مسئلہ کوئی ذاتی یا انفرادی نہیں‘ قومی مسئلہ ہے۔ اگر کسی جادو کی چھڑی سے اس معاشرے کا ہر فرد صرف حلال پر اکتفا کرے اور حرام سے پرہیز کرے تو آپ چشم تصور سے دیکھ سکتے ہیں کہ گڈگورننس بھی آجائے گی‘ ٹیکس نصف ہوجائیں گے اور ترقیاتی کام دگنے بلکہ چوگنے ہوجائیں گے۔ مہنگائی ختم ہوجائے گی۔ معاشرے میں سکون ہوگا۔ جن ناجائز دوڑوں میں اچھے بھلے سب لوگ لگے ہوئے ہیں‘ وہ ختم ہوجائیں گی۔ دنیا کی زندگی بھی پرسکون گزرے گی اور آخرت میں بھی مغفرت اور نجات کی توقع کی جا سکے گی۔ لیکن کس طرح؟ یقینا ترغیب اور دعوت بھی ہو‘ لیکن اگر حیثیت و مقام کا لحاظ کیے بغیر چند مصدقہ مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے تو یہ کلچر تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کلچر وہ کیوں تبدیل کریں‘ جو اسے رائج کیے ہوئے ہیں۔

ضرورت ہے کہ قوم کے بہی خواہ ایسی کوئی تحریک چلائیں کہ پھر سے حرام کو حرام سمجھنے کا کلچر عام ہو۔ اس حوالے سے حس اتنی تیز ہوجائے کہ بچے والدین سے خود کہیں کہ پیارے ابو‘ خدا کے لیے ہمیں حرام مت کھلائو۔ بیویاں شوہروں کو بتا دیں کہ حلال کی روکھی سوکھی حرام کے پراٹھوں سے بہتر ہے۔ حرام کھانے والے‘ معاشرے میں معزز نہیں‘ ذلیل ہوں۔ حرام کھانے کے راستے بند کیے جائیں‘ حرام کھانے والوں کی گرفت ہو‘ تعزیر ہو‘ کڑی سزائیں انھیں ملیں۔ اگر مجرم کو یقین ہو کہ وہ بچ نہ سکے گا‘ تو ارتکابِ جرم کا حوصلہ کرنے والے بہت کم رہ جائیں گے۔ (اس وقت تو اسے اپنے بھائی بندوں کی طرف سے تحفظ کا یقین حاصل ہوتا ہے۔)

ہمارے دستور کے مطابق یہ حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ وہ ایسے اسباب پیدا کرے کہ ملک کے شہری حرام سے محفوظ رہیں لیکن اگر ارباب حکومت اس سے پہلوتہی کریں (بلکہ حرام عام کرنے میں لگ جائیں) تو معاشرے کے تمام عناصر اخبارات‘ میڈیا‘ استاد‘ طلبہ‘ امام‘ خطیب‘ ممبران اسمبلی ہر کوئی اس تحریک کے حوالے سے ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھے (پہلے خود اپنے کو پاک کرے‘ پھر انگلی اٹھائے) تو حلال کی برکات بچشم سر نظر آئیں گی۔

ایک حدیث کے مطابق ایک پیلو کی لکڑی کے برابر بھی کسی کا کوئی حق غصب کیا ہو تو روز قیامت ادا کیے بغیر چھٹکارا نہیںہوگا۔

تلخیص و تبصرہ :

بڑی سیدھی سی بات ہے کہ اگر دنیا میں امن وسکون قائم کرناہے اور اسے ظلم و فساد سے پاک کرنا ہے تو عدل و انصاف کا دامن پکڑ لیا جائے۔ جس کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہے ‘اتنا ہی زیادہ عدل کا علم بردار ہو‘ دنیا میں اتنا ہی زیادہ عدل قائم ہوگا۔ حق دار کو حق ملے گا اور کمزور سے اس کا حق چھیننے والا کوئی نہ ہوگا۔ مسلمانوں کو عدل کی تعلیم دی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔ یہ بھی ہدایت ہے کہ عدل کرنے سے اپنے آپ کو یا اپنے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہو تب بھی عدل کرو۔ جب مسلمان صحراے عرب سے نکلے اور ساری دنیا پر چھاتے چلے گئے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس اسلحہ و طاقت زیادہ تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ جہاں وہ پہنچتے تھے لوگ جانتے تھے کہ عدل قائم کرنے والے آگئے ہیں۔ چنانچہ عوام اپنے ظالم حکمرانوں سے نجات پانے کے لیے عدل کے ان علم برداروں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے تھے۔

آج امریکا دنیا کی واحد سوپر پاور ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ۲۱ویں صدی اس کی صدی ہو۔ اس کے پاس بے اندازہ عسکری و مادی قوت ہے جس کا وہ بے محابا اظہار کر رہا ہے۔ دوسرے ممالک کے امور میں عدمِ مداخلت اور کسی ملک کی سرحدات پار نہ کرنے کے اصولوں کی اس نے دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ پیش بندی کے طور پر حملے جیسے لغو کلیے کو پالیسی بنایا گیا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں اس  سطح ارض پر امریکا نے ظلم کی جو داستانیں رقم کی ہیں تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے  قاصر ہے۔

اس ظلم و زیادتی کا ہدف مسلمان ہیں۔ نائن الیون کے حملوں کا الزام ایک مسلمان گروہ پر رکھ کر‘ گویا اس نے پوری مسلم دنیا کے وسائل پر عملاً قبضہ کرنے کا کھلا لائسنس حاصل کرلیا ہے‘افغانستان اور عراق کی طرح بلاواسطہ یا پاکستان کی طرح بالواسطہ۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ایک بے بنیاد فلسفہ تراشا گیا ہے اور کیونکہ ایک بڑی طاقت اس کے پیچھے ہے‘ اس لیے  لَے میں لَے ملانے والوں کی کمی نہیں ہے اور ہمارے حکمران اور مخصوص قسم کے دانش ور بھی     فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے یا بنائے جانے پر فخر سے سینہ پھلاتے ہیں اور چند ڈالروں کے عوض اپنی غیرت و حمیت خوشی خوشی فروخت کرتے ہیں۔

توپ و تفنگ سے دل نہیں جیتے جاسکتے‘ خواہ علاقوں پر قبضے کر لیے جائیں___ اس روشن حقیقت پر تاریخ شاہد ہے۔ واحد بڑی طاقت کے لیے آج سب سے زیادہ پریشانی کا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں اس سے نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے پالیسی سازوں‘ دانش وروں‘ تھنک ٹینکوں اور میڈیا کے بڑوں کو دیوار پر لکھی یہ کھلی حقیقت نظر نہیں آرہی کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے عدل کا دامن چھوڑ دیا ہے اور ظلم و ناانصافی کا وطیرا اپنا لیا ہے۔ اب وہ لاکھوں کروڑوں ڈالر اس پر خرچ کرنے کو تیار ہیں بلکہ کر رہے ہیں کہ اپنے ظلم کے بداثرات ظلم کا شکار لوگوں کے ذہنوں سے مٹائیں اور یہ مظلوم‘ امریکا کو اپنا خیرخواہ اور دوست بھی سمجھیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن چونکہ امریکا بڑی طاقت ہے‘ سکہ رائج الوقت ہے‘ اس کے پاس ڈالر بھی ہیں‘ اسلحہ بھی‘ اس لیے وہ اپنی ناکام کوششیں ترک کرنے پر بھی آمادہ نہیں بلکہ نت نئے طریقے اپناکر مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنے دستیاب ذرائع و وسائل سب اسی کام پر لگا رہا ہے۔

ہمارے لیے یہ بڑی آسانی ہے کہ امریکا اپنے جائزے‘ منصوبے‘ کامیابیاں‘ ناکامیاں خود ہی شائع کرتا رہتا ہے۔ اگر امریکا اس سب کو خفیہ رکھ کر کرتا تو ہمارے لیے پوری اسکیم معلوم کرنا مشکل ہوجاتا۔ اس لیے کہ پھر اس میں محنت اور وسائل صرف ہوتے۔ اب بھی جتنا وہ اپنے بارے میں کھلے عام بتا رہا ہے وہ تک جاننے کا ہمارا کوئی نظام نہیں ہے۔ کوئی بات اتفاقاً کسی کی نظر پڑے اور وہ دوسروں کو اس سے آگاہ کر دے‘ یہی نظام ہمارا ہمیشہ سے ہے اور نائن الیون سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔

امریکا کے رسالے US Newsکی ایک ٹیم نے چار ماہ انٹرویو کر کے اور درجنوں اندرونی رپورٹوں اور یادداشتوں کا مطالعہ کر کے ایک جائزہ مرتب کیا ہے کہ امریکا دل جیتنے یا دنیا کے حالات کو اپنے لیے سازگار بنانے کے لیے کیا کیا کر رہا ہے۔ ہم اس سے کچھ جھلکیاں پیش کررہے ہیں۔ یہ کوئی رازکی باتیں نہیں ہیں۔ ہم پاکستان میں ان پر عمل ہوتا ہوا خوددیکھ رہے ہیں۔ ہم خبر نہ رکھیں‘ ساری مسلم دنیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ معلوم نہیں اس میں امریکا کی کیا حکمت ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے‘ ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے‘ شرم و لحاظ کے بغیر کر رہا ہے‘ بتاکر اور جتاکر کر رہا ہے (غالباً اسے ہمارے خوابِ غفلت پر بھرپور اعتماد ہے‘ اس لیے کہ اسے ان کاموں کے لیے نفری بھی ماشاء اللہ کلمہ گو ہی فراہم کر رہے ہیں)۔ یو ایس نیوز کے مطابق:٭

جولائی ۲۰۰۳ء میں دہشت گردی کے خلاف نظریات کی جنگ کے کارفرما عناصر واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں جمع ہوئے۔ اس میں وائٹ ہائوس‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون کے نمایندوں کے ساتھ ماہرین نفسیات بھی جمع تھے۔ مسئلہ زیرغور یہ تھا کہ صدام حسین پر فتح امریکا دشمن لہر پر قابو نہیںپاسکی ہے (یعنی توقع یہ تھی!)۔ حکومت کے ماہرین اطلاعات کو یہ اعصاب شکن سوال درپیش تھا کہ مسلم دنیا میں امریکا کا امیج کیسے بہتر کیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سب سے نازک اور اہم محاذ دل ودماغ جیتنا ہے‘ لیکن اس کے لیے کوئی قومی حکمت عملی نہ تھی‘ کوئی ایک اس کا انچارج نہ تھا اور وسائل کی سخت قلت درپیش تھی۔

روس سے سرد جنگ کے زمانے میں پروپیگنڈے کا جو پورا نظام بنایا گیا تھا وہ کمیونزم کے زوال کے بعد لپیٹ دیا گیا تھا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکا نے اسی طرح کی سیاسی جنگ شروع کی جس کی مثال سرد جنگ کے زمانۂ عروج میں ملتی ہے۔ آج واشنگٹن لاکھوں کروڑوں ڈالر اس مہم پر صرف کر رہا ہے کہ نہ صرف مسلم معاشرے بلکہ خود اسلام پر اثرانداز ہو۔ امریکی افسران مذہبی جنگ میں اپنے کو شامل کرنے سے کتنا ہی بچائیں‘ لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ جب ایک ارب سے زائد پیروکار رکھنے والے سیاست زدہ مذہب کے مستقبل کے لیے اعتدال پسند اور انتہاپسند طاقت آزمائی کر رہے ہوں تو وہ میدان سے باہر بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لیے ایک غیرمعمولی اور روز افزوںکوشش اسلام میں اصلاح (اسلامک ریفارمیشن) کی کی جارہی ہے۔

وائٹ ہائوس نے ایک نئی خفیہ حکمت عملی Muslim World Outreach (مسلم دنیا تک رسائی) منظور کی ہے جس میں پہلی دفعہ یہ کہا گیا ہے کہ اسلام کے داخلی دائرے میں جو کچھ واقع ہو رہا ہے‘ اس کا تعلق امریکا کی قومی سلامتی سے ہے۔ اس لیے اس پر اثرانداز ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ مسلم دنیا میں امریکا کا نام لینا ’radio active‘ یعنی نقصان دہ ہے۔ اس لیے حکمت عملی میں تجویز کیا گیا ہے کہ اعتدال پسند مسلم اقوام مؤسسات (فائونڈیشن) اور اصلاحی تنظیموں کے ذریعے جمہوریت‘ خواتین کے حقوق اور رواداری جیسی اقدار کو پروان چڑھایا جائے۔ کم از کم     دو درجن ممالک میں واشنگٹن نے اسلامی ریڈیو ٹی وی شو‘ اسلامی اسکولوں کے نصابات‘ مسلمان تھنک ٹینک اور دوسرے پروگراموں کی جو اعتدال پسند اسلام کو فروغ دیتے ہیں‘ نہایت خاموشی سے مالی مدد فراہم کی ہے۔ وفاقی خزانے سے مساجد کی بحالی‘ قدیم قرآنی نسخوں کے تحفظ‘ یہاں تک کہ اسلامی اسکولوں کی تعمیر جیسے کام کیے جا رہے ہیں۔ سی آئی اے اپنی ان خفیہ کارروائیوں کا   احیا کر رہی ہے جن کی مدد سے کبھی اس نے سرد جنگ جیتی تھی‘ لیکن اب اس کا ہدف اسلامی میڈیا‘مذہبی رہنما اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ سی آئی اے کو اپنے کام کے لیے خطیر رقوم فراہم کی جارہی ہیں۔ اس کی ایک کارگزاری امریکا دشمن رہنمائوںکو برا بنانے کے لیے خفیہ مہمیں چلانا ہے۔

قومی سلامتی کونسل کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ اسلامی پروپیگنڈے اور سیاسی سرگرمیوں کے مقابلے کی تدابیر بتانے والے تقریباً ۱۰۰ تحقیقی مقالے تیار کیے گئے لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ حکومت اس کام کے لیے ایک نیا عہدہ ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنانے والی ہے۔ لبنان میں  شام دشمن مظاہرے اور مشرق وسطیٰ میں کامیاب الیکشن کا سلسلہ دل و دماغ کی جنگ کے لیے امیدافزا علامات ہیں لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسائل کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ صورت حال بہتر نہیں بدتر ہو رہی ہے۔

امریکا دشمنی کے احساسات مسلم دنیا میں معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ یہ افواہیں کہ امریکی فوجی مرنے والے عراقیوں کے جسم سے اعضا نکال لیتے ہیں‘ یا یہ کہ امریکا نے مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے لیے سونامی طوفان برپا کیا‘ عرب میڈیا میں آتی ہیں۔ جہادی تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے جہادی ویڈیو اور سی ڈی عرب دارالحکومتوں کی گلیوں میں خوب فروخت ہوتی ہیں۔ علاقے کے مؤثر رہنما یہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکا عرب دنیا یا پھر خود اسلام کے ساتھ برسرِجنگ ہیں۔

نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکا نے محسوس کیا کہ اپنی تمام تر قدامت پسندی کے باوجود طالبان پروپیگنڈے کی جنگ میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ بیشتر مسلم دنیا نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ ان حملوں کے پیچھے عربوں کا ہاتھ ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن‘ لندن اور اسلام آباد میں کوالیشن انفارمیشن سنٹر کھولے گئے لیکن الجزیرہ کی خبروں کا جواب دینے کے بعد اس کا وقت نہیں بچتا تھا کہ اسلامی دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑنے کی کسی حکمت عملی پر عمل کیا جائے۔ وائٹ ہائوس نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ کام دراصل سی آئی اے کا ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے ایک خفیہ ہدایت میں صدربش نے سی آئی اے کو دنیا بھر میں القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بلینک چیک دیا۔ فوج نے فضائی ٹی وی ریڈیو اسٹیشن قائم کیے‘ کروڑوں دو ورقے ملکوں پر برسائے گئے اور ذہنوں کو موڑنے کے لیے کامک بکس کے ساتھ بڑی بڑی پتنگیں بھی تقسیم کیں۔ دراصل ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انقلابی اسلام کی عالمی تحریک کا مقابلہ کیسے کریں؟

لاکھوں مسلمانوںکے لیے صدام کو اکھاڑ پھینکنے سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ امریکا کے بدترین دشمن اس کی جو استعماری تصویر پیش کرتے ہیں وہ درست ہے۔ امریکا تیل سے مالا مال ایک عرب ملک پر حملہ کرتا اور قبضہ کرتا ہے۔ فلسطینیوں کی قیمت پر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ جمہوریت کی باتیں کرتا ہے مگر مصر تا پاکستان آمروں پر انحصار کرتا ہے۔ ایک امریکی عرب رسالے میں یہ لکھا گیا کہ اگر امریکا پبلک ریلشنگ کے لیے پیغمبرمحمدؐ کو بھی لے آئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لوگ امریکا کے فلمی ستاروں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ امریکا ان کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے اس سے نفرت کرتے ہیں۔

وائٹ ہائوس میں شکایات جمع ہوگئیں کہ دل و دماغ جیتنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور مناسب وسائل نہیں دیے جارہے۔ یہ کام قومی سلامتی کونسل پر آپڑا کہ وہ اس کے لیے تدابیر کرے۔ کونسل نے کچھ تدابیر اختیار کیں لیکن ان پر مناسب طرح عمل نہ ہوسکا۔ پالیسی ساز ہدف تک پر متفق نہ تھے: عالمی سطح پر دہشت گردی یا اسلامی انتہاپسندی یا اس کے اسباب‘ یعنی سعودی رقوم‘ امریکی پالیسیوں کے بارے میں غلط فہمی یا کچھ اور۔ بہرحال کانگریس اور پریس کی طرف سے تنقید نے یہ ضرور کیا کہ ان کاموں کے لیے فنڈ ملنے لگے۔ انتظامیہ نے غیرملکی نشریات کے دائرے میں کچھ بڑے کام کیے: ۲۰۰۲ء میں ریڈیو ساوا جو ایک پاپ میوزک اسٹیشن تھا اور ۲۰۰۴ء میں الحرہ سیٹلائٹ ٹی وی نیوز نیٹ ورک۔

گذشتہ موسم گرما میں Muslim World Outreach نے نئی شکل اختیار کرلی جس میں دہشت گردی (کے خلاف جنگ) کے لیے رقوم کی فراہمی اور نظریات کی جنگ جیتنا شامل تھا۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ امریکا نے اعتدال پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں بہت زیادہ کوتاہی کی ہے۔ اس دستاویز میں ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بات کہی گئی ہے کہ امریکا اور اس کے حلیفوں کا       قومی سلامتی کا مفاد صرف اس سے متعلق نہیں ہے کہ مسلم دنیا میں کیا ہو رہا ہے بلکہ اس سے بھی ہے کہ خود اسلام کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ مگر ایک پریشانی یہ ہے کہ امریکی اپنے بنیادی عقیدے کے مطابق مذہبی آزادی میں رکاوٹ نہیں ڈالتے۔ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا ہمیں اس بحث میں حصہ لینے کا اختیار بھی ہے؟ جواب یہ ہے کہ خاموشی سے کرو۔ آپ رقم فراہم کرتے ہیں اور اعتدال پسند مسلمانوں کے لیے منظم ہونے‘ شائع کرنے‘ نشر کرنے اور ترجمہ کرنے کے لیے مدد دیتے ہیں۔

اس حکمت عملی پر غور کے دوران سعودی عرب کا کردار زیربحث آتا ہے۔ اندازہ ہے کہ سعودیوں نے اپنے بنیاد پرست فرقے وہابیت کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے لیے ۱۹۷۵ء سے اب تک ۷۵ ارب ڈالر صرف کیے ہیں۔ سعودی مالی مدد سے چلنے والے خیراتی ادارے ۲۰ ملکوں میں جہادی تحریکوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے پائے گئے۔ ایک افسر نے پیشنگوئی کی کہ تبدیلی   سعودی عرب میں نہیں‘ سعودی عرب کے چاروں طرف سے آئے گی۔

حکمت عملی کے جس دوسرے پہلو پر عمل کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ان اہم انقلابی مسلمان لیڈروں سے معاملات درست کیے جائیں جو تشدد کے مخالف ہیں۔ اس فہرست میں سب سے پہلے اخوان المسلمون ہے۔ سی آئی اے کے ایک افسر نے کہا کہ اخوان مسئلے کا نہیں‘ مسئلے کے حل کا حصہ ہیں۔ امریکا کے خفیہ سفارت کار اخوان ہی سے نہیں پاکستان میں دیوبندی لیڈروں سے بھی ملتے ہیں جنھوں نے طالبان کو تعلیم دی اور القاعدہ کے پیروکاروں کی فوج متحرک کی۔

سی آئی اے کے اہل کار امریکا دشمن خطیبوں اور بھرتی کرنے والے جنگجووں کو بے اثر کرنے کے لیے خوب ڈالر بہا رہے ہیں۔ اگر آپ سڑک کے ایک طرف مُلاعمرپائیں تو دوسری طرف اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ملابریڈلے کو کھڑا کر دیں۔ زیادہ سنگین معاملات میں بھرتی کرنے والوں کو پکڑا جاتا ہے اور تفتیش سے گزارا جاتا ہے۔ سی آئی اے نے بوگس جہادی ویب سائٹ بھی شروع کی ہے اور عرب میڈیا کو اپنا ہدف بنایا ہے لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ تدبیر اُلٹی پڑ جائے اور انٹرنیٹ پر کوئی جوابی کارٹون یا لطیفہ امریکی میڈیا تک پہنچے۔

دل و دماغ جیتنے کی اس جنگ میں سی آئی اے تنہا نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد پبلک ڈپلومیسی کا بجٹ ۴۰ فی صد اضافے کے بعد ۳ئ۱ ارب ڈالرہوگیا ہے‘ اور مزید آرہا ہے۔ نظریات کی موجودہ جنگ میں سی آئی اے کو اصل مدد اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے نہیں بلکہ یو ایس ایڈ سے مل رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد بیرونی امداد کے اس ادارے کا خرچ تین گنا بڑھ کر ۲۱ ارب ڈالر ہوگیاہے اور اس کا نصف مسلم دنیا پر خرچ ہو رہا ہے۔ زیادہ امداد اسلامی گروپوں کو جا رہی ہے۔ ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی ٹیکس دہندہ کی فراہم کردہ یہ امداد کم از کم ۲۴ملکوں میں طرح طرح کے اسلامی گروپوں پر خرچ ہو رہی ہے: ۹ممالک میں مسلم مقدس مقامات کی بحالی (بشمول ترکمانستان‘ پاکستان اور مصر میں تاریخی مساجد)‘ کرغیزستان میں ایک خانقاہ کی تعمیر‘ ازبکستان میں اسلامی مخطوطات (بشمول ۱۱ویں صدی کے ۲۰ قرآن) کا تحفظ [اس بے ضرر اسلام کے لیے تو ہمارے روشن خیال حکمران بھی بسروچشم تیارہیں]۔ بنگلہ دیش میں یو ایس ایڈ ائمہ مساجد کو ترقی کے مسائل پر تربیت دے رہی ہے۔ مڈغاسکر میں ایک بین المساجد سپورٹس ٹورنامنٹ اسپانسر کیا گیا۔ اس کے علاوہ نصف درجن ممالک میں کتابوں کے تراجم سے لے کر ریڈیو‘ ٹی وی ڈراموں تک میں امداد دی جارہی ہے۔

یہ امداد بہت واضح طور پر سب سے بڑے ۲۴ کروڑ آبادی والے مسلمان ملک انڈونیشیا میں دی جارہی ہے۔ اعتدال پسند اسلام کا گڑھ ہونے کے باوجود اس نے جماعت اسلامیہ کو وجود دیا جس نے ۲۰۰۲ء کے بالی کے بم دھماکے میں ۲۰۲ افراد ہلاک کیے۔ یو ایس ایڈ پس پردہ رہ کر ۳۰مسلم انجمنوں کو مدد پہنچاتی ہے۔ بعض پروگرام: میڈیا کی تیاری‘ اسلامی مبلغوں کی ورکشاپ‘ دیہاتی اکیڈمیوں اور اسلامی یونی ورسٹیوں کے نصابات کی اصلاح‘ اسلام اور رواداری پر      ایک ٹاک شو ۴۰ شہروں سے ریلے‘ اور ۱۰۰ اخباروں میں ہفتہ وار کالم۔ اس کے علاوہ ایسے اسلامی تھنک ٹینک بھی امداد پارہے ہیں جو جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے مطابق اسلام کو سامنے لاتے ہیں۔

یہ عطیات خفیہ نہیں ہیں لیکن انھیں سلیقے سے دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ امریکا سے تعلق کا انکشاف ان پروگراموں کا اختتام اور اس میں کام کرنے والوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ [مسئلہ تو دل ودماغ جینے کا ہے اور یہاں یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ امریکا کا نام بھی آجائے تو خیر نہیں‘ تو پھر دل و دماغ کیسے جیتے جارہے ہیں! امریکا ہی سمجھے تو سمجھے]۔

اگر یو ایس ایڈ‘ یعنی امریکا کسی کام کا کریڈٹ لینا چاہے تب بھی امریکا دشمن جذبات  اسے مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک موقع پر قاہرہ میں سرکاری اہل کار خوشی خوشی بتا رہے تھے کہ ان کے اوپیرا ہائوس کی تعمیر میں جاپانیوں نے مدد دی ہے۔ لیکن وہ اس بات کو نہیں بتانا چاہتے تھے کہ مصر دوارب ڈالر سالانہ امریکی امداد لینے والا ملک ہے۔ قاہرہ کے پانی بجلی نظام میں امریکا نے مدد دی ہے۔ ایک قدیم مسجد (۶۴۲ ہجری) کو بچانے میں مدد دی ہے لیکن وہ یوایس ایڈ کے علامتی لال‘ نیلے اور سفید رنگ کو نمایاں کرنے سے محترز تھے۔

ایک بہت بڑا مسئلہ روایتی اسلامی اسکولوں‘ یعنی مدرسوں کا ہے۔ نائن الیون کمیشن نے  ان کو پُرتشدد انتہا پسندی کے incubator (انڈوں سے بچے نکالنے کی جگہ!)قرار دیا ہے۔   ورلڈ بنک کے مطالعے کے مطابق پاکستان میں ان مدرسوںکے ۵ لاکھ طلبہ ہیں۔امریکی کہتے ہیں: we are in the madrasa business۔

گذشتہ برس یوگنڈا میں سفارت خانے نے اعلان کیا کہ ہم تین اسلامی اسکول تعمیر کرنے میں مد ددے رہے ہیں۔ فوجی معلوم کرتے ہیں کہ جنگجو کہاں مدرسہ کھولنے والے ہیں‘ پھر وہ وہاں اس سے پہلے پبلک اسکول اور دوسرے انفراسٹرکچر کے لیے مدد دیتے ہیں۔ امریکی حکام خاموشی سے مدرسے کے اساتذہ کی سائنس‘ سوکس اور صحت کی تدریس کی تربیت میں مدد رہے ہیں۔ سب سے بڑا پروگرام پاکستان میں روبہ عمل ہے جہاں حساسیت اتنی زیادہ ہے کہ امریکی امداد کا الزام اس بات کے لیے کافی ہے کہ والدین بچوں کو مدرسوں سے اٹھا لیں۔ ایجنسی پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم اور نجی فائونڈیشنوں کے ذریعے ایک ماڈل پروگرام پر عمل کر رہی ہے جس کے تحت ایک ہزار اسکول قائم ہوں گے۔

امریکا کے اعلیٰ افسران سمجھتے ہیں کہ انقلابی اسلام کی سیاست زدہ شکل امریکا کی سب سے بڑی نظریاتی دشمن ہے۔ امریکا اور اس کے حلیف خاموش کھڑے نہیں رہ سکتے۔ اس کام پر زیادہ توجہ کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں‘ مثلاً انڈونیشیا میں امریکی افواج کی طرف سے سونامی امداد کے بعد ایک سروے میں معلوم ہوا کہ امریکا کو ناپسند کرنے والوں کی شرح ۸۳ فی صد سے گر کر     ۵۴ فی صد رہ گئی ہے۔ اسامہ بن لادن کی حمایت نصف رہ گئی ہے۔ یہ تصور کرنا حماقت ہوگا کہ آگے راستہ آسان ہے۔ اطلاعاتی جنگ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت جو اخراجات کیے جارہے ہیں وہ ناکافی ہیں۔

پٹیسریاہریشا‘ اسسٹنٹ سیکرٹری نے کہا کہ وہ یونانی بادشاہ sisyphusکی طرح ہے جس کو یہ سزا دی گئی تھی کہ وہ شہتیر کو پہاڑی پر لے جائے اور وہ پھر واپس آجاتا تھا۔ وہ کہتی ہے: ’’آپ کبھی فتح کا اعلان نہیں کریں گے کہ تاریخ کا اختتام ہوا‘ اب گھر چلے جائیں۔ شہتیر کو اُوپر اُوپر لیتے جائیں‘‘۔


دل و دماغ جیتنے کی اس پوری کارروائی پرہنسی آتی ہے۔ اس طرح بھی عقل ماری جاتی ہے‘ العیاذ باللہ! اگر امریکا جمہوری اقدار اور رواداری کے اپنے دعوئوں میں سچا ہوجائے‘ دوغلی پالیسی ترک کر دے‘ مسلم ممالک میں جمہوریت کو پنپنے دے‘ روڑے نہ اٹکائے‘ حسب مرضی نتائج کے لیے ڈالر نہ پھونکے‘ نتائج کو ملیامیٹ کرنے کے لیے فوج کی ننگی طاقت کو تھپکی نہ دے تو ۵۰ فی صد نفرت تو کم ہوجائے گی۔

اسلام اور مسلمانوں کو رواداری کا مخالف قرار دیا جاتا ہے‘ لیکن ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آپ ہماری گردن پر پائوں رکھ دیں‘ سینے میں گولیاں اتار دیں‘ مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹیں‘ (وہ کچھ کریں جس کی علامت آج ابوغریب اور گوانتاناموبے ہیں) اور ہم پھر بھی آپ کو خوش آمدید کہیں‘ سر آنکھوں پر بٹھائیں‘ یہ کیسی رواداری کی توقع ہے‘ (یہ تو غیرت کی موت ہے جس کا مظاہرہ ہمارے حکمران آپ کے سامنے کرتے رہتے ہیں)۔ کوئی غیرت مند مسلمان اسے خاموشی سے کیسے برداشت کرے (دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ خود امریکی قوم سے کوئی یہ سلوک کرے تو آپ پر کیا گزرے گی۔ ایک نائن الیون نے ہی آپ کے ہوش و حواس گم کر دیے ہیں‘  ہم کتنے نائن الیون روز سہتے ہیں)۔ اس رواداری کی توقع نہ کریں‘ لیکن حقیقی رواداری میں آپ اپنے کو مسلمانوں سے بڑھ کر نہ پائیں گے۔ اپنی افواج مسلم ممالک سے واپس بلالیں‘ ماضی کی ظلم پر برسرعام معافی مانگیں (ہم معاف کرنے میں بڑے فراخ دل ہیں لیکن کیا آپ کا اتنا بڑا دل ہے)۔ رہ گیا عورتوں کا مسئلہ‘ اس میں آپ رواداری برت لیں‘ ہم اپنے مذہب کے مطابق جو کچھ کرتے ہیں‘ اس میں رکاوٹ نہ ڈالیں‘ ہمارے اسکارف سے نہ بھڑکیں‘ اپنی غیررواداری کی روش ترک کردیں۔ یہ دل و دماغ جیتنے کا آسان نسخہ ہے جس میں خرچ نہیں‘ بچت ہی بچت ہے‘ اور انسانیت کے لیے سکون و فلاح بھی ہے۔ آپ نے تو دل جیتنے جیسے اچھے کام کی کوشش میں دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔

کیا امریکا میں کوئی تھنک ٹینک ‘ کوئی میڈیا کے بڑے‘ کوئی دانش ور‘ کوئی رجل رشید نہیں جو ان کو بتائے کہ دل جیتنے کے لیے دل بدلنا ضروری ہے۔ موجودہ دل و دماغ سے وہ دل و دماغ نہیں جیت سکتے‘ اور نہ امریکا دشمنی کی لہر کم کر سکتے ہیں‘ یہ بڑھتی ہی جائے گی۔

کسی معاشرے کے مہذب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی کا صرف ذکر نہ کیا جاتا ہو بلکہ واقعی قائم ہو۔ قانون کی حکمرانی کا تصور تو ایک اعلیٰ تصور ہے جس کا ہم اپنے ملک میں صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں ملک کا دستور بلاتکلف توڑ دیا جاتا ہو یا معطل کر دیا جاتا ہو‘ محض پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کے بل بوتے پر دستور کی روح کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہوں‘ عدلیہ دستور کی خلاف ورزی کا نوٹس نہ لینے کی ایسی شہرت رکھتی ہو کہ اس کے پاس انصاف کے لیے جانا لاحاصل سمجھا جاتا ہو‘ وہاں قانون کی حکمرانی کی بات کچھ عجیب لگتی ہے۔ لیکن جیسا کچھ بھی ملک کا قانون ہے جس کے نفاذ کے لیے حکومت قائم کی جاتی ہے‘ کم سے کم اس کا نفاذ ایک عام معیار کے مطابق ہی کیا جائے تو معاشرے میں توازن قائم ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حکومتوں کے پاس قانون نافذ کرنے کے لیے جو مؤثر ادارہ ہے وہ محکمہ پولیس ہے۔ قانون کے نفاذ کا انحصار سراسر پولیس کی کارکردگی پر ہے کہ اس کے سامنے عدلیہ بھی بے بس ہوجاتی ہے۔

اخبارات کی روزانہ خبریں‘ کالم نگاروں کے کالم اور موقع بہ موقع اداریے‘ اس حوالے سے جو افسوس ناک صورت حال ہے‘ اس کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محکمہ پولیس کو کچھ ایسے امراض گھن کی طرح لگ گئے ہیں کہ کسی طرح ان سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اس صورت میں قانون کا نفاذ محض ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

ایک عام شہری کو اگر کسی وجہ سے پولیس سے واسطہ پڑ جائے تو اس پر جو گزرتی ہے وہ کوئی راز نہیں۔ ایک پولیس اہل کار نے ایک بے گناہ شخص کو بالکل ایک بے بنیاد ناجائز مقدمے میں پھنسادیا۔ حال ہی میں وہ ۱۸ سال بعد اپنی عمر کا بہترین حصہ جیل میں گزار کر رہا ہوا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہے۔ ذاتی بنیادوں پر ناجائز مقدمے بنانا بھی پولیس کا ایک مشغلہ ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت ہم پولیس کی عام کارکردگی یا انصاف کے شعبے سے وابستہ محکموں کو موضوع بحث نہیں بنا رہے‘ حکومت اپنے مخالفوں کو سیاسی بنیادوں پر کچلنے کے لیے جس طرح قانون کے احترام کے نام پر پولیس کے ذریعے قانون کو پامال کرتی ہے‘ اسے سامنے لانا مقصود ہے۔

متحدہ مجلس عمل نے ۲ اپریل ۲۰۰۵ء کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا۔ حکومت نے اپنی پوری مشینری کو ہڑتال کو ناکام بنانے کی ناکام کوشش میں استعمال کیا۔ سرکاری میڈیا پر ہڑتال کے خلاف مسلسل خبروں اور بیانات سے ایک فضا بنا دی گئی۔ لیکن اس جمہوریت ‘آزادی‘ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے ’’مثالی‘‘ دور میں اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ مجلس عمل کے کسی نمایندے کو بھی یہ موقع دیا جاتا کہ وہ ۵‘ ۱۰ منٹ کے لیے میڈیا پر آکر بتائے کہ وہ ہڑتال کیوں کروانا چاہتے ہیں؟ پھر جو چاہتا ہڑتال کرتا‘ جو چاہتا نہ کرتا اور حکومت کو معلوم ہو جاتا کہ عوام کی نظروں میں اس کی پالیسیوں اور پروپیگنڈے کی کیا وقعت اور حیثیت ہے۔

ہڑتال کے دن پولیس نے جو کچھ کیا‘ اس کی تفصیلات اخبارات اور رسائل میں آچکی ہیں۔ اگر کہیں کچھ لوگوں نے ٹریفک روکنے یا دکان بند کرانے کی کوشش کی ہو تو یقینا پولیس کو انھیں گرفتار کرکے معمول کا مقدمہ قائم کرنے کا حق تھا (کسی قسم کے تشدد کا ہرگز نہیں)۔ کسی مہذب ملک میں ایسا ہی ہوتا۔ لیکن پولیس نے اس دن جو کچھ کیاوہ اتنا شرم ناک ہے کہ اگر ہم کسی زندہ معاشرے میںہوتے تو دو چار اعلیٰ پولیس افسر ضرور اس پر استعفا دے دیتے۔

ادارہ نور حق کراچی میں پٹرول اور اسلحہ پکڑنے کا جو مقدمہ بنایا گیا‘ اس کی سرکاری ٹی وی پر خوب خوب تشہیر کی گئی۔ اسے پولیس نے خود بعد میں جھوٹا مقدمہ تسلیم کیا۔ اے آر وائی کے پروگرام میں پروفیسر غفور احمد کے اس حلفیہ بیان پر کہ یہ اشیا وہاں نہیں تھیں‘ سیکرٹری داخلہ یہ حلفیہ بیان نہیں دے سکے کہ یہ اشیا وہاں تھیں۔ ایسی صورت میں سرکاری ٹی وی پر جو بے بنیاد خبر جاری کی گئی اور عزت و شہرت کو جو نقصان پہنچایا گیا‘ اس کے ازالے کے لیے کوئی اقدام ہونا چاہیے تھا۔ لیکن     ہم ایسے گئے گزرے دور میں ہیں کہ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ اس پر کوئی مقدمہ کر کے شہرت کو نقصان پہنچانے کی تلافی کرائی جاسکتی ہے۔

پولیس کا جو کردار لاہور میں سید مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ‘ تعمیر سیرت کالج اور منصورہ ڈگری کالج کے ہوسٹلوں میں طلبہ کے ساتھ رہا‘ اس کی تفصیلات اتنی لرزہ خیز ہیں کہ اس پر حیرت ہے کہ انھیں اتنی خاموشی سے برداشت کیا گیا ہے۔ نہ اخبارات میں مکمل اور صحیح رپورٹنگ ہوئی ہے‘ نہ مناسب ردعمل سامنے آیا ہے۔

پھر آصف علی زرداری کی لاہور آمد پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کیا ہے‘ اور پی او ایف کالج کی طالبات پر راولپنڈی میں جو تشدد کیا گیا ہے وہ بھی ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔

دیکھا جائے تو اس سب کے نتیجے میں پولیس کی جو بدنامی ہونا چاہیے تھی اور اس کے منہ پر جو کالک ملی جانی چاہیے تھی اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پہلے ہی اتنی سیاہی ہے کہ مزید کالک سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ہماری پولیس کا روز مرہ ہے‘ استثنا نہیں۔

کہیں تو یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ پولیس کو کس قانون نے اجازت دی کہ وہ دروازے توڑ کر بے خبر طلبہ کے کمروں میں جا دھمکے‘ ان پر لاٹھیوںسے تشدد کرے‘ ان کا سامان اور رقم چوری کرے‘ اور موبائل اور گھڑیاں سمیٹ لے؟ دراصل پولیس کے افراد کو یہ تحفظ اور اطمینان حاصل ہے کہ چوروں اور ڈاکوئوں والی سرگرمیوں پر کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرے گا۔ خود اپنا ضمیر تو مردہ ہی ہے‘ اعلیٰ افسران بھی نہیں پوچھیں گے۔ اور حکومت؟ جس کا کام ہی قانون کا نفاذ اور احترام ہے‘ پولیس والے انھی کو تو خوش کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر اس پر گڈ گورننس کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو اس پر ہنساہی جاسکتا ہے۔ عوام کو بے وقوف بنانے کی آخر کوئی حد بھی ہونا چاہیے!

حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک خصوصی قانون بنایا ہے جس میں فوری کڑی سزائیں دی جاتی ہیں۔ معمول کی قانونی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ جھوٹے سچے ثبوت چل جاتے ہیں۔یہ قانون جس مقصد کے لیے بھی بنایا گیا ہو‘ اس لیے تو ہرگز نہیں تھا کہ پندرہ سولہ سال کے  فرسٹ ایئرکے طلبہ کو سوتے میں بستروں سے اٹھا کر اس کی دفعات ان بے گناہوں پر لاگو کر دی جائیں۔

تین دن پہلے ہی سے وزیر داخلہ خود بہ نفس نفیس اس کی دھمکیاں دے رہے تھے جس پر عمل بھی کیا گیا۔ قانون کا احترام ختم کرنے کے لیے قانون کے غلط استعمال سے زیادہ کوئی موثر ترکیب نہیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہم کسی مہذب معاشرے میں نہیں‘ کسی جنگل میں رہتے ہیں‘ جہاں رہنے والوں کے ساتھ ہر ظلم اور زیادتی روا ہے‘ نہ کوئی فریاد ہے نہ شنوائی۔ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے‘ یہاں وہ بھی نہیں۔

حکمرانوں سے کچھ کہنا تو لاحاصل لگتا ہے‘ لیکن معاشرے کے اہلِ بصیرت کو دیکھنا چاہیے کہ آرزئووں اور تمنائوں اور بے بہا قربانیوں سے بننے والا ہمارا یہ ملک ۵۷ سال کی آزادی کے بعد کہاں پہنچا ہے۔ کوئی براے نام بھی جمہوری حکومت ہوتی تو اپنی اور اپنی پولیس کی اصلاح کے لیے اور حقیقت کو جاننے کے لیے عدالتی تحقیقات کا انتظام کرتی۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتنی معمول کی کارروائی ہے کہ کسی ذمہ دار کے ضمیر میں کوئی خلش پیدا نہیں کرتی۔ پولیس کا اپنا بھی نظم و ضبط کا ایک نظام کار ہے۔ اس کے اپنے اعلیٰ افسران ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں اور غالباً اچھا اور برا جانتے ہیں۔ وہ بھی اس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی پولیس کو حدود میں رکھیں۔ مذاکروں اور تقاریر میں اپیل کی جاتی ہے کہ عوام پولیس سے تعاون کریں‘ ان پر اعتماد کریں‘ لیکن جب لوگ آنکھوں سے یہ کچھ دیکھیں‘ تو کیا اعتماد کریں اور کیا تعاون کریں!

کچھ فرض شناس وکلا کو یہ ضرور کرنا چاہیے کہ وہ ذمہ دار پولیس افسران اور عملے پر باقاعدہ مقدمے کریں۔ اس کی روایت پڑ جائے توشاید پولیس کو کچھ لگام دی جا سکے۔ ساتھ ہی انسانی حقوق کی انجمنوں کو مکمل تفصیلات مع ایک ایک طالب علم سے انٹرویو اور تصاویر فراہم کی جائیں۔

اعلیٰ افسران کو اور حکومت کے ذمہ داران کو اور پولیس کے ان اہل کاروں کو بھی جنھوں نے بے قصور نوجوان طلبہ کے بازو اور ٹانگیں اپنی سرکاری لاٹھیوں سے نہایت بے رحمی سے توڑیں اور ان کے موبائل‘ گھڑیاں‘ سامان اور نقدی پر قبضہ کر کے لے گئے (کاش! ان سے قصاص دلوانے والا کوئی مسلمان حکمران یا عدالت ہو)۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ کسی کو بھی یہاں ہمیشہ نہیں رہنا۔ اپنے اچھے اور برے اعمال کے ساتھ اپنے خالق کے حضور حاضر ہونا ہے‘ پھر جزا و سزا ملے گی۔ اور یہ نہ بہت دُور کی بات ہے‘ اور نہ بہت دیر کی بات ہے۔

استعماری طاقتیں فوجی قبضے کے بغیر بھی اپنے طویل المیعاد مقاصد کس کس طرح حاصل کر رہی ہیں‘ اس کا ایک اندازہ ہمیں اپنے ملک میں بھی ہے جہاں ابتدائی عمر کے تدریسی نصابات سے قرآن کی ان تعلیمات کو حذف کیا جا رہا ہے جو ان کو پسند نہیں ہیں۔ لیکن بات کہاں تک پہنچ سکتی ہے‘ اس کا اندازہ مصر کی اس خبر سے کیا جاسکتا ہے جو المجتمع کے حوالے سے دعوت‘دہلی میں اس کے ایک قاری کی جانب سے شائع ہوئی ہے۔

دشمن نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ جب تک مسلمان کا تعلق قرآن سے قائم ہے‘ اسے دین کے بنیادی تقاضوں سے بے تعلق نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے ہر مسلمان کو اس بات کی اہمیت کو ازسرنو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ابتدائی عمر ہی سے قرآن سے زندہ تعلق اور پھر عمر کے ہرحصے میں اس کو برقرار رکھنا اس کی دنیا و آخرت کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ان استعماری طاقتوں کو جو آلۂ کار ملے ہیں وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے‘ ہر ہدایت پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہیں‘ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ کسی دبائو کے بغیر کر رہے ہیں۔ المجتمع کی خبر کچھ اس طرح ہے:

مصری وزارت اوقاف نے اس بار ماہ رمضان المبارک میں روزانہ نماز تراویح میں قرآن کریم پڑھنے اور سننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے مطابق کسی مسجد میں تراویح میں قرآن ختم کرنے کے لیے انتظامیہ کی منظوری ضروری قرار دی گئی۔ حکومت نے ملک کی ۵۰ہزار ۸ سو ۷۰ مساجد میں سے صرف ۵۱مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کریم کی اجازت دی تھی۔ گویا ہر ۱۶۸۲ مساجد میں صرف ایک مسجد میں قرآن کریم ختم کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

قاہرہ کی وزارت اوقاف کے ترجمان شیخ فواد عبدالعظیم نے ان پابندیوں کی خبر دی اور بتایا کہ شہری مساجد (جن کی تعداد تقریباً ۱۵ ہزار ہے) کے لیے لازم کیا گیا تھا کہ وہ تراویح میں ختم قرآن کریم کے لیے حکومت سے اجازت حاصل کریں۔ قاہرہ کے گورنر ڈاکٹر عبدالعظیم وزیر نے کہا کہ قاہرہ میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت صرف تین مساجد میں دی گئی: (۱) مسجد نور (۲) مسجد ازہر (۳) مسجد عمرو بن العاص۔

مصری وزیر اوقاف نے ان نئی پابندیوں کو یہ کہتے ہوئے جائز و درست ٹھیرایا کہ وزارت ملک کی تمام مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت نہیں دے سکتی‘ ہاں مساجد کے قریب آباد باشندوں کی ختم قرآن کی درخواست پر وہ اس کی منظوری دے سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ۵۱ مساجد میں مکمل ختم قرآن کی اجازت کافی ہے۔ کیونکہ بہت سے نمازی بوڑھے اور بیمار ہوتے ہیں‘ پورا قرآن کریم سننا ان کے لیے زحمت اور تکلیف کا باعث ہوگا۔ (المجتمع سے ترجمہ‘ محمد جسیم الدین قاسمی‘ بحوالہ دعوت‘ دہلی‘ ۴ دسمبر ۲۰۰۴ئ)

 

دوسری جنگ عظیم کے بعد قوموں کے درمیان تنازعات طے کرنے کے لیے جنگ کے بجاے مذاکرات کے رجحان کو تقویت ملی۔ اقوامِ متحدہ کا کام ہی یہ ٹھیرا کہ کہیں جنگ ہوجائے تو وہ جنگ بندی کے مذاکرات کا ڈول ڈال دے یا ڈلوا دے۔ جب بھارت کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ لے گیا تو جنگ بندی ہوئی اور اس کے بعد مذاکرات کے وعدے ہوتے رہے۔

ایک طویل تاریخ کو مختصر کرتے ہوئے‘ کشمیر کا مسئلہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آج اسی جگہ قائم ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں سے ہماری حکومت کی طرف سے بڑے پُراعتماد اعلانات ہونے لگے کہ مسئلہ حل ہونے ہی والا ہے اور آیندہ سال مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کا سال ہے۔ آگرہ مذاکرات میں تو جیسے مسئلہ حل ہونے ہی والا تھا کہ رکاوٹ پیش آگئی۔ پھر۱۱/۹ پیش آگیا اور حکومتِ پاکستان نے یوٹرن لیا‘ افغانستان پر حملے کے لیے امریکا کو کندھے ہی نہیں اپنا سب کچھ پیش کر دیا۔ اس وقت یہ توقع دلائی گئی کہ جیسے اس ’کارخیر‘ کے نتیجے میں امریکا بھارت پر کچھ دبائو ڈال کر کشمیر کا کچھ ایسا تصفیہ کروا دے گا جس سے کچھ اشک شوئی ہوجائے اور حکومت اسے عوام سے قبول کروا سکے۔ اس مقصد کے لیے ہماری طرف سے صبح وشام کسی بھی جگہ کسی بھی وقت مذاکرات کی بھیک مسلسل اورتواتر سے مانگی گئی۔ اس نے قومی عزت و وقار کو جو بٹہ لگایا سو لگایا لیکن ہم مذاکرات کی رٹ لگانے سے باز نہ آئے تاآنکہ واجپائی صاحب سارک کانفرنس میں ہمارے بے حد اصرار پر تشریف لائے اور ایسا معلوم ہوا جیسے کہ ہم نے کوئی معرکہ مار لیا ہے‘ اور اب جب مذاکرات شروع ہوں گے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے موقف میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کومرکزی اور بنیادی مسئلہ قرار دیتا ہے کہ باقی تمام مسائل اس کے بعد طے ہونا شروع ہوں گے‘ جب کہ بھارت کا موقف ہے کہ اعتماد کی بحالی ہو‘ تو پھر کشمیر کے مسئلے کو دیکھا جائے گا اور اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کی ایک فہرست اعتماد سازی کے اقدامات کے نام سے پیش کر دی جاتی ہے۔

یہ اس پس منظر میں تھا کہ کشمیر میں جہادی سرگرمیاں جاری تھیں لیکن ۱۱/۹ کے بعد جب ہم نے ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ میں امریکا کا ’’اتحادی‘‘ بننے کا اعلان کیا تو بھارت نے امریکا کی پشت پناہی سے جہاد کشمیر کو دہشت گردی قرار دلوانے کی کوشش کی۔ ہم زبان سے کچھ بھی کہیں‘ ہماری حکومت نے کشمیر کے جہاد کو بھی دہشت گردی تسلیم کر لیا ہے۔ تربیتی کیمپ بند کرنے کے وعدے ہی نہیں کیے‘ بلکہ عملاً بند کروا بھی دیے اور امریکا جانے سے پہلے ۱۸ ستمبر کو واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں ہمارے باوردی صدر نے ایک بار پھر اس ’کارنامے‘ کا اعادہ کیا ہے۔ دراندازی روکنے کی ذمہ داری بھی ہم ہی نے لی اور بڑی حد تک اسے پورا بھی کیا۔ دوسری طرف اعتماد کی بحالی کے لیے ثقافتی طائفوں کا آنا جانا‘ کرکٹ میچ کے موقع پر خصوصی آمدورفت کی سہولتیں‘ باہمی تجارت کے لیے راستے کھولنا‘ تعلیمی و دیگر روابط استوار کرنا شامل ہیں۔ اس ضمن میں پاک بھارت دوستی کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیاں کی گئیں خاص طور پر نظریۂ پاکستان کے تصور کو مسخ کرنے اور ایسے تمام مضامین کو نصاب سے نکالنے کی قصداً کوشش کی گئی جس سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور دوستی پر زد پڑتی ہو۔ گویا اساس پاکستان کو ہی دائو پر لگا دیا۔ اس سب پر پیش قدمی بہت خلوص سے جاری ہے۔

خاص طور پر دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے یک طرفہ طور پر اپنی طرف سے جنگ بندی کر دی‘ گویا تسلیم کرلیا کہ ہم ہی گولہ باری کرتے تھے اور بھارت کو پورا تحفظ فراہم کر دیا۔ دوسرے یہ کہ ہماری آشیرباد سے بھارت نے کنٹرول لائن کے پار باڑ لگا دی ہے جس کو صرف دراندازی بند کرنے کی تدبیر نہیں بلکہ صحیح طور پر مستقبل کی بین الاقوامی سرحد بنانے کا عندیہ سمجھا جا رہا ہے۔

بھارت سے حال ہی میں ۴ تا ۶ ستمبر دہلی میں وزراے خارجہ کی سطح پر جو مذاکرات ہوئے ہیں‘ اس میں بھی بھارت کی طرف سے یہ بات بالکل واضح کر دی گئی ہے کہ وہ کشمیر پر کسی قسم کی بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے حالانکہ بات چیت بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ بھٹو سورن سنگھ مذاکرات اس کی مثال ہے۔ ہماری طرف سے ٹائم فریم مانگا جاتا ہے ادھر سے صاف انکار ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جب تک دراندازی کا بالکل خاتمہ نہیں ہوجاتا کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ اِدھر امریکا بھی ہم ہی سے کہتا ہے کہ دراندازی کو روکو۔ اسلام آباد آکر ان کے نمایندے بھی ہم پر ہی دبائو ڈالتے ہیں‘ جیسے اصل قصوروار ہم ہی ہیں۔

بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارت ظلم و جبر سے حکومت کر رہا ہے‘ روزانہ  آٹھ دس کشمیریوں کو شہید کر رہا ہے‘ جیلیں اور عقوبت خانے نوجوانوں سے بھرے ہوئے ہیں‘ خواتین کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں‘ لیکن ہم کسی موہوم کامیابی کی آس میںبھارت کا مکروہ چہرہ بھی دنیا کو دکھانے سے احتراز کرتے ہیں۔

اپنے حکمرانوں کی بے بصیرت اور طفلانہ حرکتوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید ملت پاکستان کے اجتماعی گناہوں کی پاداش میں یہ مسلط کیے گئے ہیں۔ خدشہ ہے کہیں حکمران اس ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑدینے کا سبب نہ بن جائیں۔ کشمیریوں نے جہاد کے ذریعے جو کچھ حاصل کیا تھا‘ وہ ہم مذاکرات کی میز پر گنوانے کے لیے بے چین ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارت کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری ہر طرح کی شرائط کو ماننے پر آمادگی کے باوجود ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ شاید ہمارے حکمران باعزت قوم کی طرح سوچنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوگئے ہیں۔

دہشت گردی کی جنگ کے نام پر ہم نے جس طرح اپنا ایمان اور اپنی عزت نیلام کی ہے‘ اس کے بعد ہم سے اہلِ کشمیر کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم اپنے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ باعزت طریقہ اپنائیں۔ بھارت جو کچھ کشمیر میں کر رہا ہے اس کی تصویر ساری دنیا کو دکھائیں‘ اس کی ناراضی کی پروا نہ کریں۔ دہشت گردی اور جہاد میں تمیز کریں اور جہاد کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کریں۔ جب تک بھارت کشمیر پر کشمیریوں کو ان کا حق دینے پر آمادگی کا اظہار نہیں کرتا‘ اس وقت تک اس سے ہمارا دوستانہ طرزعمل کمزوری کی علامت ہے۔

امریکا ساری دنیا کو مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا سبق پڑھاتا ہے مگرخود پیش بندی کے طور پر حملے کو بھی جائز اور روا سمجھتا ہے۔ یہی سبق اب روس اور آسٹریلیا نے بھی پڑھ لیا ہے‘ اور کوئی وجہ نہیں کہ بھارت جسے بعید نہیں کہ شاید ہم بھی سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کے حامی ہوجائیں‘ یہ سبق نہ پڑھ لے اور جن تربیتی کیمپوںکی تصاویر امریکا ہمیں دکھاتا ہے ان کو ختم کرنے کے لیے خود چڑھ دوڑے۔ اس وقت شاید ہماری فوج دشمن کے خلاف صف آرا ہوجائے‘ فی الحال تو اسے دوستوں کے خلاف صف آرا ہونے سے فرصت نہیں۔

قوم کے دردمندوں کو میزان لگانا چاہیے کہ ۱۱/۹ کے بعد جو یوٹرن لیا گیا اس کے نتیجے میں بحیثیت قوم ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا‘ اسی میزان کا ایک باب کشمیر ہے۔ دیکھا جائے کہ ہم اس باب میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ بھارت نے کتنی پیش قدمی کرلی ہے اور ہماری پسپائی کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ہم نے کچھ بھی حاصل کیے بغیر بہت کچھ کھو دیا ہے۔ بھارت نے کوئی لچک نہیں دکھائی ہے بلکہ اس کے مؤقف میں سختی آگئی ہے۔ ادھر ہم ہیں جو نہ صرف لچک پر لچک دکھا رہے ہیں‘ بلکہ مزید کے اشارے اور وعدے بھی کر رہے ہیں۔ سرپیٹ لینے کو دل چاہتا ہے جب پی ٹی وی کے تجزیہ نگار اسے شعور کی پختگی قرار دیتے ہیں۔ اب بیک ڈور ڈپلومیسی کا آسرا لیا جا رہا ہے کہ شاید ۲۴ستمبر کو مشرف من موہن ملاقات میں کوئی بریک تھرو ہوجائے۔   کاش کہ ہمارے حکمران سمجھیں کہ باغیرت قوموں کے معاملات اس طرح نہیں چلائے جاتے!

ہمارے ملک کے بعض دانش ور کبھی کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس سے وہ کچھ دن کے لیے خبروں کا موضوع بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے جو عدلیہ سے وابستہ رہے اور ملک کی ایک نمایاں شخصیت ہیں‘ فرمایا ہے کہ سیکولرازم اسلام کا حصہ ہے‘ شریعت کے مطابق غصب اقتدار جائز ہے اور آخری بات یہ کہ قرآن میں شراب کی حُرمت کا ذکر نہیں آیا۔ (نواے وقت لاہور‘ ۸ جولائی ۲۰۰۴ئ)

ان میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں کہ نوٹس لیاجائے لیکن چونکہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی ایک پہچان ان کے والد گرامی علامہ محمد اقبال ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو مغرب کے لادینی اور سیکولر نظریات سے بچنے کی تلقین کی‘ اور مغرب کے استعمار کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا سبق دیا‘ اس لیے اس طرح کی باتوں سے ہم مسلمانوں کے دل کو کچھ زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔

جب کوئی تہذیب غالب ہوجاتی ہے تو مغلوب تہذیب کے مرعوب ذہنیت کے لوگوں کو اپنی تہذیب میں بڑے عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ اور اگر وہ لکھے پڑھے بھی ہوں تو اپنی شرمندگی کا علاج یہ کرتے ہیں کہ تحقیق کر کے یہ دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ ہماری تہذیب میں تو وہ کچھ ہے ہی نہیں جس پر اعتراض اور تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ غالب تہذیب کے نمایاں خصائص کو اپنی تہذیب میں تلاش کرلیتے ہیں حتیٰ کہ رہن سہن میں خود اس کا نمونہ بن جاتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔

جب سے انگریزبرعظیم میں آئے‘ یہ صورت حال جاری ہے اور ہر دور میں اس کے مظاہر تلاش کیے جاسکتے ہیں لیکن آج کل عالمی منظر پر یہ موضوع اس لیے بہت نمایاں ہوگیا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امریکا اپنی فوجی اور سیاسی برتری کے بل پر مسلمانوں کی تہذیب اور معاشرت کو‘ بلکہ ان کے عقائد کو بھی اپنے سانچوں میں ڈھالنا چاہتا ہے تاکہ کہیں سے کوئی مزاحمت پیش آنے کا دُور دُور تک‘ نہ صرف پوری ۲۱ ویں صدی بلکہ ۲۲ ویں صدی تک میں بھی امکان نہ رہے۔

بدقسمتی سے اس مہم جوئی میں امریکا کو مسلمانوں کی صفوں ہی سے معاون مل رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹرجاوید اقبال کے متذکرہ بالا ارشادات ہیں۔

جاوید اقبال اپنی ذات میں تنہا نہیں۔اس وقت پوری دنیا میں اور پاکستان میں بھی اسلام کے حوالے سے جو کش مکش برپا ہے‘اس میں ایک گروہ اسلام کو مغرب کے لیے قابلِ قبول بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ دوسری طرف ۲۰ویں صدی میں بہت سی شخصیات اور اسلامی تحریکوں نے اسلام کو اس کی حقیقی شکل میں واضح کر کے پیش کیا ہے۔ ہر ملک میں اس کے     علم بردار موجود ہیں جو اسلام کو اس کے حقیقی مفہوم میں اجتماعی زندگی کا نظام بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا اصل مقابلہ ان لوگوں سے ہے جو مذہب کو ذاتی زندگی تک محدود کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے ان کو سیکولرازم اور اسلا م میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ لیکن ان حضرات کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس دور میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی قیادت میں پاکستان کا قیام اس تصور پر سب سے بڑی چوٹ تھی۔ اگر پاکستان کی قیادت منافقت سے کام نہ لیتی اور   تحریکِ پاکستان میں جو پروگرام پیش کرکے عوام سے حمایت اور قربانیاں لی گئی تھیں اس کے مطابق ملک کا نظام قائم کیا جاتا‘ حقیقی جمہوریت ہوتی‘ عدل و انصاف ہوتا‘ معاشی و سیاسی حقوق محفوظ ہوتے‘ تو یہ بحثیں اپنی موت آپ مر جاتیں لیکن ہماری دوغلی سیاست نے ان بحثوں میں جان ڈال رکھی ہے اور کبھی کبھی کوئی اٹھ کر ایسے نعرے لگا دیتا ہے‘ جیسے ڈاکٹر جاوید اقبال وقفے وقفے کے بعد لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن انھیں اور ان کے ہمنوائوں کو جان لینا چاہیے کہ اسلام کا کوئی مسخ شدہ یا ادھورا یا مغرب زدہ تصور یہاں پنپ نہیں سکتا۔ پاکستان کی ۵۶ سالہ تاریخ اس پر شاہد ہے۔

علاج کی صورت حال

ہمارے ملک میں صحت عامہ کی جو صورت حال ہے ‘ وہ محتاج بیان نہیں۔ آبادی کے بڑھے حصے کو علاج نام کی چیز میسر نہیں‘ لیکن جسے میسر ہے اور جو اس کے لیے اپنی رقم خرچ کرتا ہے‘ اسے کیا ملتا ہے‘ اس حوالے سے مریضوں اور تیمارداروں کے پاس اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔

علاج کروانے والوں کے ۸۰ فی صد نجی شعبے سے رجوع کرتے ہیں۔ یہاں انھیں بہت زیادہ فیس دینا پڑتی ہے‘ ان کے لیے ضرورت سے زیادہ دوائیں تجویز کی جاتی ہیں‘ ضرورت سے زیادہ انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ یہ انجکشن بیماریاں ختم کرنے کے بجاے انھیں منتقل کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ علاج مزید مہنگا ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں عام ڈاکٹروں کے ۸۵ فی صد نسخوں میں تین یا زائد دوائیں اور ۱۷ فی صد میں چھے سے زائد دوائیں ایک نسخے میں لکھ دی جاتی ہیں۔ اوسط تعداد فی نسخہ چار ہے۔

سرکاری شعبہ بھی بہتر حالت میں نہیں ہے۔ ایک جائزے کے مطابق‘ ڈاکٹر سے مشورہ ہونے سے اس کے کمرے سے باہر آنے تک ایک مریض کو اوسطاً دو منٹ دیے جاتے ہیں۔  ۵۰ فی صد مریض اپنے نسخے سے غیرمطمئن ہوتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک جائزے کے مطابق فی کس فی سال ۵.۸ انجکشن کے ساتھ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ انجکشن لگانے والے تین ممالک میں ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے ملک میں ایک ارب انجکشن لگائے جاتے ہیں اور ان میں سے ۸۵ فی صد غیرمحفوظ طریقوں سے لگائے جاتے ہیں۔ (ڈرگ بلٹن‘ مارچ اپریل ۲۰۰۴ئ)

دوا ساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے روابط کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا سنا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ صارف کے مفاد دیکھنے والی کوئی انجمن تحقیقی مطالعے کا اہتمام کرے اور اندر کی کہانیاں سامنے لائے۔ گاڑیوں کی چابیاں‘ عمرہ کے ٹکٹ‘ تفریحی دورے اور ماہانہ مشاہرے غالباً کسی افسانوی دنیا کی باتیں نہیں۔ دوائوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

عام آدمی کی نظروں میں آج بھی ڈاکٹر نہایت مقدس اور دیانت دار ہستی ہے۔ جو کبھی بھی خواہ مخواہ دوا نہیں لکھے گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کمپنیوں کے ذمہ داروں کے مطابق جن اضلاع میں تعلیم کم ہے‘ وہیں سے بہت اچھی سیل رپورٹ آتی ہے۔

کیا ہماری اسمبلی یا سیینٹ کی متعلقہ کمیٹی کوئی ایسا کمیشن نہیں بناسکتی یا خود اپنے آپ کو ایسا کمیشن قرار نہیں دے سکتی جس کے سامنے اس مسئلے کے متعلقہ فریق آکر سب سچ بیان کر دیں اور ایک ضخیم رپورٹ تیار ہو‘ جو اس عظیم پیشے کی‘ دواسازی کے صنعت کاروں کی اور مریضوں کی صحیح صورت حال کی عکاسی کرتی ہو اور پھر کوئی ’علاج‘ بھی تجویز کرے۔

تحقیقی کاوشیں کسی قوم کی زندگی کی علامت ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اپنے ملک میں نصف صدی گزارنے کے بعد بھی اس حوالے سے کوئی قابلِ فخر روایت قائم نہیں کر سکے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں انفرادی اور اجتماعی طور پرنت نئے حالات اور مہمات مسائل سے سابقہ پڑ رہا ہے۔ لیکن ہم سنجیدہ تحقیقی رویے اختیار کرنے کے بجاے‘ موقع بہ موقع کسی ایک رجحان کے مطابق صحیح یا غلط حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ایک بدقسمتی تو یہ ہے کہ سائنس کی غیرمعمولی اہمیت نے تحقیق کا مطلب سائنسی موضوعات پر تحقیق کرنے اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے تک محدود کر دیا ہے۔ ملکی سطح پر سارا بجٹ اور توجہ اسی دائرے پر مرکوز ہے۔ بیرونِ ملک جو طالب علم وظائف پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں‘ ان کا بہ ظاہر ۹۰ فی صد حصہ سائنس کے طلبہ کے لیے ہوتا ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ بیرونی ممالک سے ملنے والے وظائف انھی موضوعات کے لیے ہوتے ہیں(وہ ہم سے ریسرچ کروا کے خود فائدے اُٹھاتے ہیں)‘ اور ملک میں بھی اسی دائرے پر اسے کسی منفعت کا سبب  سمجھ کر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ سوشل سائنسز کا اہم تر میدان بے توجہی اور بے نیازی کا شکار    رہ جاتا ہے (یہ بجاے خود تحقیق کا ایک موضوع ہے)۔

اسلام‘ مسلمان اور مغرب سے اس کا تعامل‘ ایک زندہ اور گرم موضوع ہے۔ مسلمان ممالک کی گذشتہ ۵۰‘ ۶۰ سال کی تاریخ کا تحقیقی تجزیاتی مطالعہ مستقبل کے لیے روشن راہیں کھول سکتا ہے۔ قومی سطح پر تعلیم‘ معیشت‘ معاشرت‘ خارجہ تعلقات اور نفسیاتی رجحانات کے کتنے ہی پہلو تحقیق کے منتظرہیں۔ پاکستان میں (اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی) احیاے اسلام کی جو جدوجہد ہو رہی ہے‘ اس کے معروضی مطالعے بھی وقت کا تقاضا ہیں۔

ہم اپنی بات کو صرف جامعات تک محدود کر رہے ہیں۔ہم اس تاثر کو صرف جامعات تک محدود کر رہے ہیں جن کا ایک زندہ قوم میں تحقیق میں نمایاں اور قائدانہ کردار ہونا چاہیے۔  نجی تحقیقی ادارے اس وقت پیش نظر نہیں۔ جن کا المیہ عموماًیہ ہے کہ تحقیق کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیتے ہیں اور محض ایک پبلشنگ ہائوس بن کر رہ جاتے ہیں۔

تحقیق کا ذکر اذکار تو بہت ہوتا ہے اور جب سے حکومت نے تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لیے پی ایچ ڈی پر الائونس شروع کیا ہے تو پی ایچ ڈی کرنے کے‘ یعنی تحقیق کرنے کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے جو یقینا ایک اچھی علامت ہے۔ لیکن بجٹ کا سارا بہائو سائنس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی طرف ہے۔ جن میدانوں کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے‘ اور جن کی اہمیت و ضرورت ہر دانش مند کے نزدیک فائق تر ہے‘ وہ اس بہائو سے محروم سوکھے ہی پڑے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے بیان کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن بیرونِ ملک سائنسی موضوعات پر ۴۰‘ ۵۰ لاکھ روپے فی پی ایچ ڈی خرچ کرنے کو تیار ہے‘ جب کہ ملکی جامعات میں اہم سوشل اہمیت کے موضوعات پر پی ایچ ڈی کے لیے دو ڈھائی لاکھ روپے دینے کو بھی تیار نہیں۔ (روزنامہ جسارت‘ ۱۶ جولائی ۲۰۰۳ئ)

اگر ہم ان موضوعات کے حوالے سے مغربی جامعات کے تحقیقی منظر پر نظرڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہار آئی ہوئی ہے۔ دنیا کا موضوع ہم ہی ہیں۔ ایرانی انقلاب کے بعد سے اسلام پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور انھوں نے زندہ لوگوں کی طرح‘ ہماری ہر چیز کے‘ ملک ملک کے مختلف واقعات اور رجحانات کے مطالعوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ اتنے کہ ہم خود اپنے بارے میں شائع ہونے والے مطالعے حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے (یا ضرورت نہیں سمجھتے‘ مطالعہ تو ذرا دُور کی بات ہے)۔ اسلامک فائونڈیشن کا مجلہ مسلم ورلڈ بک ریویو ہر سہ ماہی پر اتنی کتابوں اور مقالوں کی نوید لاتا ہے کہ اپنے سے مقابلہ کیا جائے تو ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ہماری جامعات جن کے اتنے متعلقہ شعبے قائم ہیں‘ نامی گرامی افراد مامور ہیں‘ آخر کیا کر رہی ہیں؟ صلاحیت و جذبے سے بھرپور سیکڑوں طلبہ ان کے پاس آتے ہیں۔ وہ چند ہی میں کوئی چراغ جلا کر کوئی روشنی فراہم کرنے سے کیوں قاصر ہیں؟ ۲۰‘ ۲۲ جامعات کے کتنے تحقیقی رسالے نکلتے ہیں اور ان میں کس معیار کے مقالات شائع ہو رہے ہیں‘اس کے جائزے ہیسے تصویر سامنے آجائے گی۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ ہماری کئی جامعات کسی مقالے پر ڈگری تو دے دیتی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اسے شائع نہ کیا جائے۔ یہ اس لیے نہیں ہوتا کہ موضوع حساس اور نازک ہے بلکہ جامعہ اس کی اشاعت سے شرمسار نہیں ہونا چاہتی۔

اسلام کو جدید معاشرے میں جو چیلنج درپیش ہیں‘ کیا ان پر کسی جامعہ میں ریسرچ ہو رہی ہے؟ بھارت کے ۲۰ کروڑ مسلمان ہمارے بالکل پڑوس میں ہیں‘ کیا ان کے مسائل ہماری کسی جامعہ کی توجہ کے مستحق بنے؟ مشرق وسطیٰ میں کیا کچھ نہیں ہوگیا‘ کسی جامعہ سے اس کے بارے میں کوئی کتاب شائع ہوئی؟ امریکہ پاکستان کے ساتھ جو تعاون کر رہا ہے‘ (یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے) ‘ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘ کسی جامعہ نے اس کو موضوع بنایا؟ کتنے طلبہ کو جامعات نے اسکالرشپ دے کر افریقہ کے مغربی ممالک یا سوڈان یا وسطی افریقہ کے مسلم ممالک میں تحقیق کے لیے بھیجا؟

یہ ایک بہت بڑے منظر سے متعلق محض چند سوالات ہیں۔ یقینا اس کے جواب میں کسی جامعہ کی کوئی کاوش پیش کی جاسکتی ہوگی‘ لیکن ہماری مراد تحقیق کی ایک مسلسل ‘زندہ اور توانا روایت سے ہے۔ جامعہ کے ذمہ داروں کو اپنے نوجوانوں کی صلاحیتیں اور اپنے بجٹ کو--- وہ اتنی بھی بے وسیلہ نہیں--- ملّت کی دل چسپی کے ان مسائل کی طرف بھی موڑنا چاہیے۔ کوئی نیچرل اور سوشل سائنسز پر تحقیق کے لیے صرف کیے جانے والے بجٹ کا تقابلی مطالعہ ہی کرے۔ اور پھر سوشل سائنسز میں جو کچھ تحقیق ہوئی ہے‘ اس کا تجزیہ کرے کہ کتنے موضوعات کسی شخصیت کے حالاتِ زندگی ‘ قدیم تاریخ یا مخطوطات سے متعلق رہے ہیں اور کتنے آج کے زندہ مسائل سے‘ جن پر تحقیق‘ محنت اور وسائل اور ذہن مانگتی ہے۔

جامعات کے مقتدر اداروںکو صورتِ حال کی اصلاح کی طرف توجہ کرنا چاہیے۔

عراق میں امریکی اور اتحادی افواج (بلکہ اقوامِ متحدہ کے مرکزی دفتر تک پربھی) حملوں کے ساتھ ساتھ‘ افغانستان سے بھی مختلف علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں اور بعض علاقوں پر قبضے کی اطلاعات مسلسل آرہی ہیں۔ عراق کے حوالے سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے بھیجے جانے والے دستوں اور خصوصاً ان کے سربراہ کو اپنی حرام موت کا منظر پہلے سے ہی دیکھ لینا چاہیے لیکن افغانستان کے حوالے سے‘ خود گھرکے ایک بھیدی کے معروضانہ تجزیے سے اخذ کردہ مشاہدات پر ایک نظر شاید بند آنکھوں والوں کی آنکھیں بھی کھول دے۔ ان مشاہدات کی سند کے لیے برطانوی جریدے اکانومسٹ کا نام کافی ہے۔ شمارہ ۱۶ اگست ۲۰۰۳ء کے اس تجزیے کا آغاز عراق سے ہوتا ہے۔ ’’افغانستان‘ عراق پر حملے کی ریہرسل نہیں تھا… یہ غریب ہے‘ اس کے پاس تیل نہیں‘‘ (اس لیے اس تحریر کا آغاز بھی عراق سے کیا گیا ہے!)۔

افغانستان کو تباہ کرنے اور فتح کرنے کے بعد اصل کام تعمیرنو کا تھا۔ لیکن تعمیرنو تو دُور کی بات ہے‘ اصل مسئلہ تو امن و امان برقرار رکھنا اور کرزئی حکومت کے لیے اپنا حکم نافذ کرنا ہوگیا ہے (طالبان کے دور میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ لیکن دنیا کو کیڑے ہی کیڑے نظر آتے تھے۔اب کس حال کو پہنچا دیا گیا ہے؟)۔

امریکہ کی قیادت میں ۱۲ ہزار اتحادی افواج کے ساتھ نیٹو کے زیراہتمام ترکی‘ جرمنی‘ برطانیہ اور ہالینڈ کی ۵ ہزار امن فوج (ISAF) اپنے فرائض ادا کر رہی ہے لیکن قیمت بھی ادا کررہی ہے۔ جون میں چار جرمن فوجی ایک حملے میں ہلاک ہوگئے‘ اسپین کا امن دستہ گھر واپس لے جانے والا جہاز گرگیا اور ۷۵ ہلاک ہوگئے (قیمت غالباً اس سے بہت زیادہ ادا کی جا رہی ہے)۔ لیکن جہاں امن کی اصل ضرورت ہے‘ یعنی کابل سے باہر‘ وہاں جانے میں امن دستوں نے ابھی کوئی دل چسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ تعمیرنو کی چند صوبائی ٹیمیں (PRTS) بنائی گئی ہیں لیکن مزارشریف میں ۷۲ افراد کی ایک ٹیم کے سپرد اسکاٹ لینڈ کے برابر علاقہ ہے۔ اس سے ان کی ممکنہ کارکردگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

امریکی افواج جنوبی افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے بڑی محنت کر رہی ہیں۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمرکا کوئی پتا نہیں‘ لیکن جنوب کا علاقہ کم نہیں‘ زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ بڑی بڑی کارروائیوں کے نتیجے میں چند افراد ہاتھ آتے ہیں جنھیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ عام دیہاتی بھی ہو سکتے ہیں (یہ ا کانومسٹ کے الفاظ ہیں)۔ انھیں تفتیش کے لیے بگرام کے ہوائی اڈے لے جایا جاتا ہے۔ وہاں کئی افراد مرچکے ہیں۔ اس سب پر امریکہ ۱۰ ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ افغانستان بچے گا یا نہیں‘ یا کولمبیا کی طرح کا ملک ہو جائے گا؟

پُرامید لوگ کہتے ہیں: افغانستان گذشتہ ۲۴ سال میں اتنا مستحکم کبھی نہ تھا۔ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ ختم کیے جا چکے ہیں۔ قومی حکومت کی بنیاد پڑ چکی ہے‘ دستور مرتب کیا جا رہا ہے‘ آیندہ سال خواتین کے ووٹ کے ساتھ انتخابات متوقع ہیں۔ معاشی ترقی ۲۸ فی صد رہی۔ ۲۰لاکھ مہاجرین جرمن واپس آئے ہیں۔

ناامید لوگ --- جو اپنے کو حقیقت پسند تصور کرتے ہیں --- کہتے ہیں: ایک تہائی ملک خطرناک علاقہ ہے جہاں امدادی کارکنان تک نہیں جاتے۔ کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں طالبان لیڈر کھلے عام اسلحہ تقسیم کرتے ہیں۔ پاکستان خود اپنے پڑوسی کو غیرمستحکم کر رہا ہے۔ کئی دفعہ فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ تعمیرنو کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے‘ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں ہے۔ بڑی سڑکوں کی تعمیر کا کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ کابل قندھار شاہراہ جس کے لیے صدربش نے ذاتی طور پر‘ اختتامِ سال کا ہدف دیا ہے‘ انجینیرسرگوشی کرتے ہیں کہ پپڑی جما کر بنائی جا رہی ہے جو دو تین سردیاں بھی برداشت نہ کر سکے گی۔

امریکہ کا آدمی ("boy") کرزئی تنہا اور بے اثر ہے۔ اصل طاقت صوبوں کے وارلارڈز کے پاس ہے۔ دستور میں الٹ پھیر ہو جائے گا۔ انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔ عورتیں بے اثر رہیں گی۔ معیشت میں ضرور بہتری ہوئی ہے لیکن صفر سے آغاز ہو تو ذرا سی بھی نظرآتی ہے۔اس وقت یہ ۱۹۷۸ء سے نصف ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی انسانی المیہ نہیں ہے‘ حقیقت کو نظرانداز کرنا ہے۔ اکثریت کو طبی سہولت میسر نہیں۔ زچہ و بچہ کی ہلاکت کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ یہاں ہے۔ ہیضہ اور وبائی امراض بڑھ رہے ہیں۔ جس ساڑھے ۴ ارب ڈالر امداد کا وعدہ تھا‘ اس میں سے صرف ایک ارب ڈالر ملی ہے۔ اس کا بھی بیش تر حصہ تنخواہوں اور غیرملکیوں کی چمکتی دمکتی کاروں میں چلا جاتا ہے۔

ان نکات پر نہ ختم ہونے والی بحث جاری رکھی جا سکتی ہے اور کابل میں بیش تر لوگ یہی کرتے ہیں۔ لیکن دستور اور معیشت کیسے بھی ہوں‘ دو عناصر ایسے ہیں جو سب کچھ تباہ کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے پانی کا مسئلہ ہے۔ ۸۰ فی صد افغان کاشت کاری پر زندگی گزارتے ہیں لیکن افغانستان میں پانی اور قابلِ کاشت زمین نہیں ہے۔ ۷۰ کے عشرے میں صرف ۵ فی صد زمین کو پانی نصیب تھا۔ جنگ نے اسے نصف کر دیا۔ پھر سات سال کا خشک سالی کا دور آیا۔ پانی کی سطح بے حد نیچی ہوچکی ہے۔ مویشی مرگئے ہیں۔ فصل ہے ہی نہیں۔ پہاڑوں میں پانی کے ذخائر بنانا اورآب پاشی کا نظام تعمیر کرنا بہت مہنگے منصوبے ہیں۔

دوسرا مسئلہ منشیات کا ہے۔ دنیا کی تین چوتھائی اور یورپ کی ساری افیون افغانستان سے آتی ہے۔ پشتون گلہ بان اب اس تجارت میں مصروف ہوگئے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ منشیات‘ خشک سالی اور عدمِ استحکام ایک دوسرے کو پروش کرتے ہیں۔ افیون پیدا کرنے والے پانچ میں سے تین بڑے صوبے--- ہلمند‘ ارزگان‘ قندھار‘ زیادہ غیرمستحکم اور خشک سالی کا شکار ہیں۔

صرف ایک صوبے غور کی مثال لیں۔ یہ کابل سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر۔ غور کے ۳ ہزار ملائوں میں سے بیش تر اَن پڑھ ہیں۔ یہاں صرف پانچ ڈاکٹر ہیں۔ ساڑھے ۷لاکھ آبادی ‘ بیش تر نئے واپس آنے والے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مویشی مرچکے ہیں یا بیچے جا چکے ہیں۔ ہر شخص مقروض ہے۔ لوگوں نے اپنی بیٹیاں تک فروخت کی ہیں۔ کچھ نے افیون کاشت کی ہے لیکن برف باری نے فصل تباہ کر دی۔ اب اگلی فصل کا انتظار ہے اور قرض بڑھ رہا ہے۔

پورے صوبے میں صرف ۵۰ عورتیں لکھ پڑھ سکتی ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں اب بھی مشکلات ہیں۔ قرض کی ادایگی‘ منافع یا قتل کے جھگڑوں کے تصفیے میں لڑکیوں کا مالِ منقولہ کی طرح لین دین کیا جاتا ہے۔

اس وقت افغانستان کی ایک تہائی معیشت افیون پر منحصرہے۔ گذشتہ سال ایک ارب ۲۰کروڑ ڈالر اس سے ملے۔ جب یہ ایڈنبرا اور پراگ میں گلوکوز اور اینٹ کے برادے سے مل کر رگوں میں داخل کی جاتی ہے‘ اس کی قیمت ۲۵ ارب ڈالر ہوچکی ہوتی ہے۔ افیون کی کاشت کو اب باقاعدہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے (کون یاد دلائے کہ ملاعمر نے طالبان کے دور میں اسے ختم کر دیا تھا)۔ جمہوریت بھی انھی نودولتیے کمانڈروں کا ہتھیار ہے جن کے پاس افیون کی رقم ہے۔ وہ ابھی سے اگلے سال کے انتخابات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ایک فرد کا کہنا ہے کہ ہم اس نقد رقم کا مقابلہ کس طرح کریں جو ان لوگوں کے پاس ہے۔

اکانومسٹ آخر میں لکھتا ہے کہ ’’جنھوں نے افغانستان کی تباہی میں حصہ لیا‘ ان کی کچھ ذمہ داری ہے کہ اسے واپس ٹھیک کر دیں‘‘۔

کاش! ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔

کسی دن کا‘کسی شہر کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں‘ معمولی معمولی باتوں پر قتل کے متعدد واقعات نظر پڑتے ہیں۔ اگر سب خبریں ایک جگہ جمع کر دی جائیں تو نہایت ہولناک تصویر سامنے آتی ہے۔ پاکستانی کمیشن براے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)کے رسالے  جہد حق میں واقعات اور ان کے نمایندوں کی جو رپورٹیں ہر ماہ درج ہوتی ہیں‘ ان سے معاشرے کی ایسی تصویر سامنے آتی ہے کہ انسان شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ وہ ایسے معاشرے کا شہری ہے۔    مئی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ۲۵ مارچ سے ۲۵ اپریل تک ۱۳۴ افراد کی خودکشی (یہ بھی قتل ہی کی ایک قسم ہے)‘ ۷۸ افراد کے اقدام خودکشی اور ۱۸ افراد کے کاروکاری پر قتل کی اطلاعات ہیں۔ یہ صرف ایک ماہ کے یقینا نامکمل اعداد و شمار ہیں۔ حال ہی میں امریکی رسالے ٹائم نے کراچی پر اپنے فیچر میں کسی پیشہ ور قاتل ایم آر کے اپنے بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ صاحب ہاتھوں سے گردن توڑ کر قتل کے ماہر ہیں اور فی قتل ۵۰ ہزار سے ایک لاکھ لیتے ہیں اور بڑی شخصیات کا ریٹ ۱۰ لاکھ تک چلا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اب میں یہ کام دوسرے لڑکوں کو sub contract کرتا ہوں اور ان سب کو مہینے دومہینے میں ایک "job" تو فراہم کرنا ہی ہوتا ہے (ٹائم‘ ۱۶ جون ۲۰۰۳ئ‘ ص ۲۹)۔ کراچی میں گذشتہ سال ۵۵۵ قتل ہوئے۔

یہ ہمارا معاشرہ ہے‘ مسلمانوں کا معاشرہ۔ اور صدی بھی اکیسویں ہے۔ ذرائع تفتیش کی ٹکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ کسی قاتل کا چھپنا محال ہے۔ لیکن قاتلوں کو چھپنے کی کیا ضرورت ہے‘ وہ آزادانہ پھرتے ہیں۔ ٹائم کی اس رپورٹ کے مطابق ایک قاتل صاحب کے اپنے بیان کے مطابق تھانے میں ان سے وی وی آئی پی سلوک ہوتا ہے۔

حکومت تو نام ہی جان‘ مال‘ آبرو کے تحفظ کا ہے (ہم فی الحال آبرو اور مال کی صورت حال پر بات نہیں کر رہے)۔ مسلمان کی جان تو اس طرح مقدس و محترم ہے جس طرح ذی الحجہ کا مہینہ‘ مکہ مکرمہ کاشہر‘ اور خانہ کعبہ کی عمارت۔ پھر یہ اتنی غیرمقدس‘ غیر محترم اور اتنی ارزاں کیوں ہوگئی ہے کہ دکاندار اور گاہک کے جھگڑے میں‘ دو دوستوں کی چپقلش میں‘ میاں بیوی کی لڑائی میں معمولی اشتعال پر‘ گواہیوں سے روکنے کے لیے‘اور نسل در نسل محض جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے بے تکلف لی جا رہی ہے۔

ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہماری ایمانی حس کمزور ہوگئی ہے۔ جسے آخرت پر یقین ہو وہ کسی بے گناہ کی جان کیسے لے سکتا ہے۔ جس کے کان میں اذان دی گئی ہو‘ جسے کلمہ پڑھایا گیا ہو‘ قرآن پڑھنا سکھایا گیا ہو‘ نماز کی تعلیم دی گئی ہو‘ خدا اور رسولؐ کے احکامات بتائے گئے ہوں‘ وہ مسلمانوں کا نام رکھتا ہو‘ وہ کس طرح دوسرے کی جان لینے کا اقدام کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ بنیادی تعلیم صرف اسکولوں میں ہی نہیں‘ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہر خواندہ و ناخواندہ تک اس طرح پہنچائی جائے کہ ہر شہری‘ خصوصاً وہ طبقات اور لوگ جو مجرم و قاتل بننے کے زیادہ امکانات رکھتے ہیں‘ اس کا اثر لیں اور ان کی سوچ ایک خوف خدا رکھنے والے مسلمان کی سوچ بن جائے۔

اس کے باوجود بھی‘ شیطان کسی کو جرم کی راہ پر لگا سکتا ہے۔ معاشرے میں اجتماعی نظم اور حکومت جیسے ادارے اسی لیے قائم کیے جاتے ہیں کہ مجرم کو سزا ایک نظامِ قانون و عدل کے تحت دی جائے۔ ہمارے معاشرے میں یہ نظام ٹوٹ چکا ہے۔ حکومتی منصب رکھنے والے اور بااثر افراد قاتلوں کے سرپرست‘ پشتیبان اور ساتھی ہیں۔ عدالتی نظام بے اثر ہے۔ فریاد کی شنوائی نہیں۔عام تاثر ہے‘ غلط یا صحیح‘ کہ پولیس مجرموں کی پرورش کرتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تھانے ختم کر دیں‘ جرائم ختم ہو جائیں گے۔ جس علاقے میں نیا تھانہ قائم ہوتا ہے جرم کی فراوانی کا باعث بنتا ہے۔

حکومت کا فرض ہے کہ وہ صورتِ حال کی اصلاح کرے۔ جو حکومت اپنے شہریوں کو جان و مال اور آبرو کا تحفظ نہ دے سکے‘ اس کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے مانٹیرنگ سیل قائم کر کے ‘ اشتہارات عام کے ذریعے دعوت دی ہے کہ پولیس اور قبضہ گروپوں کے خلاف شکایات لائی جائیں۔ یہ درست اقدام ہے۔لیکن یہ جب ہی موثر ہوگا کہ غلط کار کے خلاف کارروائی کی جائے‘ اور اس کارروائی کو خوب مشتہرکیا جائے کہ دوسروں کو کان ہوں۔ اس حوالے سے ہماری تجویز ہے کہ یہی مانٹیرنگ سیل ‘ یا اس طرح کا کوئی خصوصی شعبہ اخباری خبروںمیں سے قتل‘ عصمت دری اور ڈاکوں کی بعض واضح اور نمایاں خبروں کا انتخاب کرکے‘ موقع پر جاکر تحقیقات کرے۔ جرم ثابت ہو… اکثر سچائی چھپی نہیں رہتی--- تو موقع پر سزا ہو۔ جو غلط ہو تو اخبار کو تنبیہ کی جائے‘ جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ اس طرح اخبارات میں جھوٹی اور بلیک میلنگ کے لیے شائع کی جانے والی خبروں کا سدباب ہوگا اور معاشرے کی حقیقی تصویر ہی سامنے آئے گی۔

اخبارات جرائم کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن سزا کی خبریں خال خال بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ اسلامی تصور میں تو سزا کا مظاہرہ عام ہے ہی اسی لیے کہ عبرت ہو اور مجرم ذہن کی حوصلہ شکنی ہو۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام مجرموں کی نہ صرف پرورش کرتا ہے بلکہ انھیں معزز بناتاہے۔

معاشرے کے وہ افراد جو دوسروں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں‘ اور معاشرے کے قائد  کہے جاسکتے ہیں--- علما‘ ائمہ مساجد‘ برادریوں اورانجمنوں کے ذمہ دار‘ سیاسی جماعتوں کے عہدے دار --- ان سب کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے کہ عوام میں جان کے تقدس کے احساس کو عام کریں اور ایک ایسی مضبوط راے عامہ تیار کریں جو شہریوں کا تحفظ کرے اور حکومت کو بھی راہِ راست پر رکھے۔کسی سے ناراضی ہو‘ کسی سے حق لینا ہو‘ کسی نے ظلم کیا ہو‘ اس کے جواب میں جان لینا کسی طرح روا نہیں‘ یہ خود ایک نیا ظلم ہے۔ جان صرف وہی لی جا سکتی ہے جس کا اللہ نے حق دیا ہو: الا بالحق (یعنی قتل کے بدلے قصاص میں‘ زنا کے جرم میں‘ اور مرتد ہونے پر) اور وہ بھی قانون اور انصاف کے نظام کے تحت‘ محض اپنے من پسند طریقے سے نہیں۔ اس سلسلے میں شہریوں کی ایسی کمیٹیوں کا قیام بھی مفید ہوسکتا ہے جو نظام انصاف کی مددگار و معاون ہوں اور سرکار کی گرفت سے آزاد بھی ہوں۔

جب تک مجرم کو تحفظ حاصل ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ سزا سے بچ سکتا ہے‘ جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ حکومت‘ راے عامہ کے قائدین اور عوام کو مل کر ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہیے جس میں مجرم کو یقین ہو کہ کسی کو قتل کرکے‘ وہ بھاگ نہیں سکتا۔ اگر کسی کے اندر کا خوف خدا اسے قتل سے باز نہیں رکھ سکتا تو معاشرے کی گرفت کا یقین اسے باز رکھے گا‘ یا پھر وہ سزا پائے گا جو دوسروں کے لیے عبرت کا سامان ہوگی۔

عراق پر متوقع امریکی حملے کے خلاف مغربی دنیا میں لاکھوں افراد کے مظاہرے ہوئے تو ایک عام تاثر یہ بھی تھا کہ مسلمان‘ جن کو دراصل تباہی کا سامنا ہے اپنے ممالک میں خاموش ہیں۔ رابرٹ فسک جیسے نامہ نگار نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ تباہی سامنے دیکھ کر عرب چوہوں کی طرح ہوگئے ہیں۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ لندن‘ ۱۸فروری ۲۰۰۳ئ)۔ کریسنٹ انٹرنیشنل میں قاہرہ کے ایک نامہ نگار نے لکھا کہ رابرٹ فسک کو‘ جو عربوں کا ہمدرد شمار ہوتا ہے‘ حالات کا بہتر علم ہونا چاہیے تھا۔ایسا نہیں ہے کہ مظاہرے نہیں ہوئے‘ لیکن اگر وہ اس پیمانے پر نہیں ہوئے جس پر مغربی ممالک میں ہوئے تو اس کی وجوہات صاف اور ظاہر ہیں۔

۱۵ فروری ۲۰۰۳ء کو قاہرہ میں دو مظاہرے ہوئے ۔ بڑا مظاہرہ جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی سیدہ زینب چوک میں دوپہر کے وقت ہوا۔ عراقی اور فلسطینی جھنڈوں کے ساتھ امریکہ مخالف پلے کارڈ بھی تھے اور نعرے بھی لگائے گئے جن میں کوئی کوئی حسنی مبارک کے خلاف بالواسطہ بھی ہوتا تھا۔ مظاہرے کو کئی ہزار نفری پر مشتمل پولیس کے مسلح دستوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ چوک کے قریب کی سڑکوں پر فوجی دستے درجنوں گاڑیوں میں موجود تھے۔ ان سب کے درمیان مظاہرہ مشکل ہی سے دیکھا جا سکتا تھا۔ گزرنے والے بجائے شریک ہونے کے یہ حالات دیکھ کر دُور ہی دُور سے گزرنے میں خیریت سمجھتے تھے۔ دوسرا نسبتاً چھوٹا مظاہرہ امریکی سفارت خانے کے سامنے معطل لیبرپارٹی نے کیا جسے معتدل اسلامی آواز کہا جاتا ہے۔ اس میں پہلے سے بھی زیادہ پولیس اور فوج موجود تھی جس نے علاقے کو کئی گھنٹوں تک محاصرے میں لیے رکھا۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ویلچ نے کچھ دیر کے لیے باہرآکر مظاہرہ دیکھا۔

کم شرکت کی وجہ صرف یہی نہیں تھی کہ موقع پر اتنی پولیس اور فوج تھی۔ مغربی ممالک کی حکومتیں مخالفانہ مظاہروں کا دبائو برداشت کر سکتی ہیں لیکن مصر جیسے ملک میں ۱۹۸۱ء میں انورالسادات کے قتل کے بعد سے ہنگامی قانون نافذ ہے اور سڑکوں پر کسی بھی طرح کے مظاہروں پر پابندی ہے۔ ہنگامی قانون کے تحت کسی کو بھی کوئی وجہ بتائے بغیرگرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھی اسلامی تحریکوں سے وابستہ ۳۰ ہزار افراد جیلوں میں بند ہیں۔ بہت سے کئی برس گزار چکے ہیں۔

گذشتہ دو ماہ میں عراق سے یک جہتی ‘ اور جنگ کے خلاف سرگرمیوں کی بنا پر ۱۵ افراد جن میں کئی صحافی ہیں گرفتار کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار نمایاں افراد جن کی گرفتاری مسئلہ بن سکتی تھی‘ رہا کر دیے گئے ہیں۔ ۱۷ فروری کو پریس سنڈیکیٹ کی فریڈم کمیٹی نے گرفتارشدگان کی حمایت میں ایک پریس کانفرنس کی۔ اس میں اخبار العالم الیوم کے صحافی ابراہیم السحر نے بھی خطاب کیا جو چند گھنٹے قبل ہی رہا کیے گئے تھے۔

ابراہیم السحرنے پریس کانفرنس میں اپنے اوپر گزری ہوئی پوری تفصیل بتائی۔ صبح سویرے گھرسے گرفتاری‘ گھر کی مکمل تلاشی‘ سیکورٹی ہیڈکوارٹر جانا اور پھر جیل مازارات لے جایا جانا---- بغیر کسی قانونی امداد کے موقع یا اہل و عیال سے ملاقات کے--- انھوں نے خاص طور پر ان غیرانسانی حالات کا ذکر کیا جن سے جیل میں اسلام پسند گزر رہے ہیں۔ ہفت روزہ الاہرام (۲۰-۲۶ فروری ۲۰۰۳ئ) کے مطابق انھوں نے کہا:’’میرے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ توکچھ بھی نہیں ۔ مجھے مارا پیٹا گیا‘ گالیاں دی گئیں‘ تذلیل کی گئی۔ یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا جو اسلام پسندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں گرفتار ہونے والوں کو سلام کرتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ عراق کے خلاف جنگ اور امریکی سامراج کے خلاف کھڑے ہوگئے‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ۳۰ ہزار اسلام پسندوں کو سلام کرتا ہوں۔ جنھوں نے مجھے گرفتار کیا‘ میرے ساتھ اچھائی کی   اس لیے کہ اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ اسلام پسند قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ  ہولناک تفصیلات پہلے معلوم نہ تھیں‘‘۔

عالمی مظاہروں کی خبریں آنے کے بعد سے قاہرہ اور دوسرے شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ قاہرہ میں الازہر یونی ورسٹی‘ اسمعیلیہ میںسویز کنال یونی ورسٹی اور بنی سعد (بالائی مصر) میں قاہرہ یونی ورسٹی کی شاخ میں ہزاروں طلبہ نے ۱۸ فروری کو مظاہرہ کیا لیکن انھیں سڑکوں پر نہیں آنے دیا گیا۔ قاہرہ یونی ورسٹی کے کیمپس میں ۲۲ فروری کو ایک بڑا مظاہرہ ہوا۔

اس طرح کے جبرواستبداد کے حالات میں‘ اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عرب ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیوں نہیں ہو رہے۔ مغرب کی حکومتیں مستحکم ہیں‘ جب کہ عرب حکمران اپنے کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ مغرب اس پر خوش ہے کہ یہ حکومتیں مظاہروں پر پابندیاں رکھیں‘ اس خوف سے کہ کہیں یہ حکومت مخالف مظاہروں میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ (ماخوذ: کریسنٹ انٹرنیشنل‘ کینیڈا‘ ۱-۱۵ مارچ ۲۰۰۳ئ)

جماعت اسلامی پاکستان ملک و ملت کی خیرخواہ تمام قوتوں کو ساتھ لے کر ۲۰ سے ۳۰مارچ ۲۰۰۳ء تک اتحاد اُمت کا عشرہ منا رہی ہے۔ یہ دراصل اس امر کی کوشش ہے کہ خیبر سے کراچی اور گوادر تک بسنے والے پاکستانیوں میں یہ شعور بیدار کیا جائے اور اس احساس کو طاقت ور بنایا جائے کہ ہر مسلمان اُمت محمدؐ کا ایک رکن ہے۔ اُمت کی طاقت اس سے ہے اور اس کی طاقت اُمت سے ہے۔

اتحاد اُمت کی دو سطحیں ہیں اور دونوں ہی اہم ہیں۔ پہلی‘ پاکستان کی سطح پر اور دوسری‘ عالمی سطح پر۔

پاکستان کی سطح پر اگر اُمت کا تصور ایک زندہ تصور ہو‘ اتحاد کا رشتہ اُمت ہو‘ معاشرے کی تنظیم اور سرگرمیاں اُمت کی بنیاد پر ہوں تو یہ ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے۔ صوبائیت اور علاقائیت کے لیے تریاق ہے۔ فرقہ پرستی جو مسائل پیدا کرتی ہے ان کا حل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُمت کا تصور ایک ایسا حیات بخش اور قوت افزا تصور ہے جس کی برکتوں کا احاطہ اسے عملاًاپنانے سے ہی ہوگا۔ یہ صرف ایک نعرہ نہیں جسے کسی وقتی سیاسی ضرورت کے لیے اختیار کیا جائے‘ بلکہ    یہ اُمت مسلمہ کی بنیاد ہے۔ جس کو اقبال نے اس اُمت کی خصوصیت اور شناخت قرار دیا تھا اور اسے اس الہامی انداز میں بیان کیا تھا کہ ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ؐہاشمی‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ   اس تصور کے اصل ثمرات اسی وقت حاصل کیے جا سکتے ہیں جب اس تصور کو خلوص اور ایقان سے اختیار کیا جائے اور اسے ایک طویل المیعاد پالیسی بنایا جائے۔ جب اتحادِ اُمت کی بنیاد تصورِ اُمت ہوگا تو لامحالہ جو اخلاقی معائب ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں ان کا علاج ہوگا اور ملک میں اسلام کی تہذیبی اقدار کو فروغ حاصل ہوگا۔ اُمت کا تصور فرزندان اور دختران اُمت میں بجا طور پر احساس فخر پیدا کرے گا جو مفرب سے مرعوبیت اور اس کی نقالی کا توڑ ہوگا۔

عالمی سطح پر اتحاد اُمت کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ ۶۰‘ ۷۰ کے عشروں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ متعین تجاویز پیش کرتے رہے کہ اتحاد اُمت کے لیے ٹھوس منصوبوں پر کام کیا جائے۔ اگر ان پر عمل کیا جاتا تو شاید اُمت مسلمہ آج عالمی استعمار کی سازشوں کے لیے نرم چارہ نہ بنتی۔ اب‘ جب کہ دشمن دروازے پر دستک دے رہا ہے بلکہ سر پر آیا ہوا ہے اگر اس وقت بھی بیداری کی ایک عام لہر اُمت کی بنیاد پر نظر آجائے تو یقینا دشمن کے لیے اپنے عزائم کی تکمیل ممکن نہ ہو۔

ذکر ہوتا رہتا ہے کہ وسائل کے لحاظ سے اُمت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے مالا مال کیا ہے۔  محل وقوع ایسا ہے کہ دنیا پر حکمرانی کرسکتے ہیں۔ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک اُمت سے وابستگی کا احساس کمزور ہے۔ ہماری حکومت کو افغانستان کی تباہی کے لیے کندھے فراہم کرنے میں کوئی تکلف نہ ہوا (اور جانتے بوجھتے اس غلط فہمی کو پھیلایا کہ ہم نے اپنے آپ کو بچالیا ہے)۔ آج جب عراق پر حملے کے لیے امریکہ اپنے دانت تیز کر رہا ہے تو مغربی دنیا تو مجسم احتجاج بن کر کھڑی ہوئی ہے‘دنیا کے ۶۰ ممالک میں ۴۰۰ شہروں میں ۲کروڑ عوام نے ایک ہی دن عراق پر امریکہ کی جارحانہ جنگ کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا ہے لیکن اُمت مسلمہ میں بیداری کی رمق تلاش کرنا پڑتی ہے۔حج کا ۲۰ لاکھ مسلمانوں کا اجتماع ہو اور وہاں سے دشمن کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے! عیدالفطر اور عیدالضحیٰ کے بڑے بڑے اجتماع جکارتہ سے نائیجیریا تک ہر شہر اور ہر قصبے میں سڑکوں پر آکر ۱۰ منٹ کا مظاہرہ کر دیتے تو امریکہ کو حملہ کرنے سے پہلے  دس دفعہ سوچنا پڑتا اور اس کے جارحانہ عزائم پر اوس پڑ جاتی۔

حقیقت یہ ہے اُمت کا تصور آج مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ رشتہ مضبوط اور توانا ہو‘ ایک عضو کی تکلیف واقعتا سارے جسم کی تکلیف ہو‘ تو مسلمان ایک نئے دَور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں‘ مسلم اور غیرمسلم ممالک میں جو کوئی بھی احیاے اسلام کے لیے کام کر رہا ہے اس کا فرض ہے کہ اپنے منصوبوں‘ سرگرمیوں اور پروگراموں میں اتحاد اُمت کو اولیت اور ترجیح دے۔ اس حوالے سے جماعت کے عشرۂ اتحاد اُمت میں ملک کے ہر مرد و زن کو شرکت کرنی چاہیے۔

بسنت کی سرکاری سرپرستی

اس سال ملک میں بسنت کی سرگرمیاں جس طرح منعقد کی گئی ہیں وہ سوچنے والوں کے ذہن کے لیے بہت سے سوالات چھوڑ گئی ہیں۔ کیا واقعی ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کے لیے لہوولعب میں اتنی کشش ہے کہ بالکل سر پر منڈلاتے ہوئے خطرات بھی ان سے باز نہ رکھ سکیں؟ کیا حکومت نے تعمیروترقی کے سارے پروگرام مکمل کر لیے ہیں کہ صدر اور گورنر اور صوبہ پنجاب اور لاہور شہر کی ساری انتظامیہ اس ’’مقدس‘‘ سرگرمی میں دل و جان سے مصروف ہو گئیں۔

بسنت منانے کے آغاز کے حوالے سے جو تاریخی روایت مستند طور پر پیش کی گئی ہے اس کے بعد تو یہ بات عقل سے ماورا ہے کہ ہم یہ تقریب اس ذوق و شوق سے منانے پر کیوں مصر ہیں۔ محض تفریح کے لیے کوئی اور سبب کیوں نہیں ڈھونڈھ لیتے؟ یقینا تفریح انسانی زندگی کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی طلب رزق کی جدوجہد‘ اخلاقی اور اجتماعی مقاصد کے لیے محنت اور قربانی۔ یہی وجہ ہے کہ دن اور رات کو کام اور آرام کے لیے الٰہی نشانیاں قرار دیا گیا۔ لیکن اس میں اہم چیز توازن و اعتدال اور ان مقاصد اور حدود کا احترام ہے جو اسلام اور اُمت مسلمہ کا شعار ہے۔ اگر تفریح کے نام پر طاؤس و رباب کے طوفان میں قوم کو بہا لے جانا اور غیروں کی ثقافت اور کلچر کو ہم پر مسلط کرنا ہو تو پھر اسے اجتماعی خودکشی کی طرف ایک اقدام کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح اور جس نازک وقت میں اس سال بسنت کے نام پر یہ شرم ناک کھیل کھیلا گیا ہے وہ ان خدشات کو مزید تقویت دینے کا باعث ہے۔

اس سے پہلے بھی اور اس سال بھی اہل درد نے یہ بات بہت شدت سے محسوس کی کہ ان تقریبات میں بڑھتی ہوئی سرکاری سرپرستی کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ان کی دیکھا دیکھی دوسرے کاروباریوں نے بھی دل کھول کر حصہ لیا اور کسی کام میں وسائل کی کمی نہ آڑے آئی۔ ایسا معلوم ہوا ہے کہ کوئی سوچا سمجھا پروگرام ہے کہ اس اُمت کو میلوں ٹھیلوں اور تفریحات میں غرق کر دیا جائے تاکہ یہ اپنے اصل مشن اور پروگرام سے غافل ہو جائے اور اخلاقی لحاظ سے اتنی پست ہو جائے کہ کسی حوصلے والے کام کا تصور ہی نہ کرے۔ اس طرح کی تقریبات معاشرے کے مجموعی کلچر پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل ان سے اثر لے کر اپنی زندگی کے لیے رویے تشکیل دیتی ہے۔ معاشرے کو دُوراندیش اور بالغ نظر قیادت میسر ہو تو    یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ اپنے شہریوں کو اس طرح کی سرگرمیوں میں مشغول کرے۔

ہم پاکستانی دنیا کی کوئی عام قوم نہیں ہیں‘ نہ کوئی ایسا گروہ ہیںجس کی اپنی تہذیب اور اقدار نہ ہوں۔ ہم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اعمال کی جواب دہی کے تصور سے آشنا ہیں۔ دنیا کو ایک آزمایش جانتے ہیں۔ پاکستان کا قیام کچھ خاص مقاصد کے لیے ہوا تھا۔ اس لیے نہیں ہوا تھا کہ ہم وہ کچھ کریں جو ہندو ہم سے کروانا چاہے۔ ہم نے اللہ سے عہد کیا اور اللہ نے ہمیں یہ مملکت دی۔ اسی لیے اسے مملکت خداداد پاکستان کہا جاتا ہے۔

ڈر لگتا ہے کہ اگر ہمارے لچھن یہی رہے جس کا مظاہرہ لاہور کی سڑکوں‘ چھتوں‘ پارکوں‘ کلبوں اور ہوٹلوں میں ۷‘۸‘۹ فروری ۲۰۰۳ء کو حج اور عیدِقربان سے صرف چند دن پہلے اور عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے خلاف عالمی احتجاج کے دن سے صرف ایک ہفتہ پہلے کیاگیا ہے‘ وہ ملت اسلامیہ پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہی نہیں‘ العیاذباللہ‘ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ (اللہ ہمیں اپنے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے)

یہ وقت یہ عزم کرنے کا ہے کہ آیندہ سال ایسی فضا تیار کی جائے گی کہ بسنت کی تقریب ہمارے ملک میں نہ منائی جائے۔ حکومت اور ملکی اور غیرملکی سرپرستوں کو یہ نظرآجائے کہ وہ اس میں حصہ لے کر لوگوں کو خوش نہیں ناراض کریں گے۔ دستورپاکستان کے تحت ہماری حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ شہریوں کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کو ممکن اور آسان بنائے۔ حکومت کو اپنا یہ فرض ادا کرنا چاہیے اور اس میں معاشرے کی خیر کی طاقتوں سے تعاون لینا چاہیے۔