بسم اللہ الرحمن الرحیم
دستور کسی ملک کی سب سے اہم اور مقدس قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ تمام اختیارات کا سرچشمہ اور ریاستی اداروں کے حدود کار، حکمرانی کے اصول و آداب اور خود قانون سازی اور پالیسی کے خطوط کار اور ان کی صورت گری کے دروبست کو متعین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے قانون اساسی (fundamental law) کہا جاتا ہے اور اس میں ترمیم کو مشکل بنایا جاتا ہے بلکہ اب تویہ اصول بھی قبولِ عام حاصل کرچکا ہے کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور ریاست کے کردار میں محض ترمیم دستور سے تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔اگر اس کی نوبت آئے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام سے استصواب کیا جائے تاکہ دستور کی تشکیل نو کے لیے وہ نئی دستورساز اسمبلی کی تشکیل کریں۔ وہ پارلیمنٹ جو ایک دستور کے تحت وجود میں آئی ہو اور خواہ اس دستور کے تحت وہ دستور میں ترمیم کا حق رکھتی ہو تب بھی وہ دستور کے مقاصد اور بنیادی ڈھانچے کے اندر رہ کر تو ترمیم کرسکتی ہے مگر خود ان بنیادوں کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ گویا ترمیم کا اختیار دو تہائی اکثریت کو بھی غیرمشروط اور لامتناہی (absolute and unlimited) نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور کے تحت اعلیٰ ترین عدالت اس قانون کو جو دستور سے متصادم ہو، خواہ اسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہو، غیردستوری (ultra vires of the constitution) قرار دے سکتی ہے اور دستور سے تصادم کی بنیاد پر ایسا قانون غیرمؤثر قرار دیا جاسکتا ہے۔
دستور کی اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان مجوزہ دستوری ترامیم کے جائزے کی ضرورت ہے جسے دستوری پیکج (constitutional package) کا نام دیا گیا ہے اور جو بظاہر عدلیہ کی آزادی اور بحالی اور دستور کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحال کیے جانے کے لیے کی جارہی ہیں مگر فی الحقیقت دستور پر ایک نئے حملے کی شکل رکھتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان کو ان کی موجودہ شکل میں منظور کرلیا جاتا ہے تو اداروں اور اشخاص کے درمیان قائم کیا جانے والا تقسیم اختیارات اور توازنِ قوت کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دستور اور اعلیٰ عدالتی نظام میں مخصوص افراد کو نوازنے اور کچھ کو پابند کرنے کے لیے فرد کی ضرورت کے تحت (person-specific) ترمیمات تجویز کی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں یہ پورا عمل بُری طرح سیاست زدہ اور شخصی (personalize) ہوجاتا ہے۔ خطرہ ہے کہ اس سے وہ پنڈورا کا صندوق (pandora's box) کھلے گا جس سے نکلنے والے عفریت کو پھر قابو میں لانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد دستوری پیکج دستور اور قانون پر گہری نظر رکھنے والوں نے نہیں بنایا بلکہ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں نے اپنی پسند اور ناپسند کو دستور پر مسلط کرنے کے لیے دستور کی ۸۰ دفعات میں تراش خراش کی جسارت کی ہے۔ اس کا جہاں علمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وہیں اس سیاسی کھیل کے پردے کو بھی چاک کرنا ضروری ہے جو مخلوط حکومت کی سب سے بڑی پارٹی پیپلزپارٹی کی قیادت نے ملک و قوم کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔
ان دستوری سفارشات کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کرلیا جائے کہ ۲۰۰۷ء کے عدالتی بحران اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ کا اصل تقاضا کیا ہے اور اس سلسلے میں نئی حکومت کی اولین ذمہ داری کیا تھی۔ کیا یہ دستوری سفارشات اس ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں یا ان کے ذریعے کوئی نیا ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
سب سے پہلا مسئلہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی بحالی تھا جسے نئی حکومت کو برسرِاقتدار آتے ہی انجام دے دینا چاہیے تھا، مگر اس نے ایک متناقض موقف اختیار کرکے اصل تاریخی لمحے کو ضائع کردیا اور قوم کو ایک نئے سیاسی بحران میں مبتلا کردیا جس کے اثرات ملکی سیاست، انتظامِ حکومت، قانون کی حکمرانی اور معاشی مسائل کے مزید اُلجھ جانے کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف تو وزیراعظم صاحب نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی وزارتِ عظمیٰ کے حلف تک کے لینے سے پہلے ہی معزول ججوں کی رہائی کا حکم دے دیا اور ان کو رہا کر بھی دیا گیا لیکن دوسری طرف بار بار کے اس اعلان کے باوجود کہ جنرل پرویز مشرف کا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کا اقدام غیرقانونی اور خلافِ دستور تھا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ان ججوں کو آج تک بحال نہیں کیا جو جائز جج ہیں اور ایک ناجائز (illegitimate) پی سی او کے تحت حلف لینے والے جج صاحبان آج بھی بلااختیار عدالت کا کاروبار چلا رہے ہیں اور اب کوشش کی جارہی ہے کہ حق دار اور بلاحق کام کرنے والوں کو ان ناروا دستوری ترامیم کے ذریعے برابری کے مقام پر لے آیا جائے۔ یہ ملک کے نظامِ عدل کو تہ و بالا کرنے کا مجرب نسخہ ہے اور جس کے دماغ کی بھی اختراع ہے اسے ملک و قوم کا مخلص قرار دینا مشکل ہے۔
ا- ایک انتظامی حکم کے ذریعے ان ججوں کو جن کو ایک غیرقانونی حکم نامے کے ذریعے جبری طور پر معزول کیا گیا تھا ان کو اپنے اصل مقام پر بحال کیا جاتا اور جو غیرقانونی طور پر عہدوں پر فائز کرلیے گئے تھے انھیں کسی معقول طریقے سے فارغ ، یا ان کے ماقبل کے مقام پر بھیج دیا جاتا یا زیادہ سے زیادہ کچھ کو ایڈہاک ججوں کے طور پر کچھ عرصے کے لیے رکھ لیا جاتا اور بالآخر انھیں فارغ کر دیا جاتا تاکہ ایک بھونڈے کام کو بھی سلیقے ہی سے انجام دیا جائے۔
ب- پارلیمنٹ ایک قرارداد کے ذریعے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو غیرقانونی، خلافِ دستور، ناقابلِ قبول قرار دیتی اور وزیرعظم کو ہدایت دیتی کہ وہ خوش اسلوبی سے اس کے غلط اقدامات اور اثرات سے ملک کو پاک اور محفوظ کرنے کے لیے جملہ اقدام کریں۔
ج- ۳ نومبر کے اقدام کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جاتی، البتہ جو قوانین، فیصلے اور اقدام ہوچکے ہیں ان کے صرف ناگزیر پہلوئوں کو بہ اکراہ تحفظ دیتے ہوئے آیندہ کے لیے غیرمؤثر کیا جاتا اور متبادل جائز قانونی یا انتظامی احکام کے ذریعے جن چیزوں کو باقی رکھنا ضروری ہے انھیں باقی رکھا جائے۔
اس پورے کام کے لیے کسی دستوری ترمیم کی ضرورت نہ تھی۔ ملک کے چوٹی کے قانون دانوں اور دستور کے ماہروں کی یہی راے تھی اور ہم بھی اس راے کو صائب سمجھتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے امریکا اور برطانیہ کی سفارت کاری کے ذریعے جو معاملات پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص جناب آصف علی زرداری اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان طے ہوئے تھے اور جن کے نتیجے میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے قومی مفاہمت کے نام پر لوٹ کھسوٹ اور سیاسی اور مالی بدعنوانیوں حتیٰ کہ فوجداری جرائم تک سے درگزر کر کے ان کے مرتکبین کو معافی اور فارغ خطی کا پروانہ دے دیا گیا تھا اور اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں ہزاروں افراد تھے جن میں سب سے اہم پیپلزپارٹی کی قیادت کے نمایاں افراد اور ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکن تھے۔ ان کا پلڑا بھاری رہا ہے اور ان ہی کی مرضی آگے بڑھائی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر یہ احساس بھی صحیح ہی معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت نے اصل مسئلے یعنی عدلیہ کی بحالی اور پرویز مشرف سے نجات کو تو پس پشت ڈال دیا ہے اور دستوری پیکج کے نام پر این آر او (قومی مصالحتی آرڈی ننس) کے تحفظ اور عدلیہ کو ایک ایسے شکنجے میں کسنے کا کھیل شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں عدلیہ کبھی بھی سیاسی قیادت کی گرفت سے باہر نہ نکل سکے اور جنرل پرویز مشرف کی صدارت اور این آر او کی ضمانت کو چیلنج نہ کیا جاسکے۔
جو کام سیدھے سیدھے انتظامی حکم اور زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے ہوسکتا تھا اسے تعویق میں ڈال کر غیرمتعلقہ معاملات میں الجھا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پوری قوم فکری انتشار، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو امید کی جو کرن رونما ہوئی تھی اور عوام نے نئی زندگی اور سیاست دانوں کے نئے کردار کا جو خواب دیکھا تھا وہ زرداری صاحب کی مصلحتوں کی بنا پر چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے۔ مشرف صاحب کی مقبولیت تو خاک میں مل چکی ہے لیکن اب زرداری صاحب کی مقبولیت کا گراف بھی تیزی سے نیچے جا رہا ہے جس کا اندازہ ہر سیاسی کارکن کو ہورہا ہے اور جس کی کچھ جھلک راے عامہ کے اس تازہ ترین جائزے میں دیکھی جاسکتی ہے جو ایک امریکی ادارے Terror Free Tomorrow نے ۲۵مئی سے یکم جون تک لیا ہے اور جس کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد مشرف کی اقتدار سے علیحدگی چاہتا ہے۔ اس وقت مقبول ترین قیادت وہ ہے جو ججوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس مطالبے کو ۹۵فی صد آبادی کی تائید حاصل ہے۔ یہی وہ پہلوہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے سرپرست نواز شریف سب سے زیادہ مقبول ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کی حکومتی کارکردگی پر لوگ مطمئن نہیں اور اس کی مقبولیت کم ہوکر ۲۶ فی صد رہ گئی ہے، جب کہ اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی مقبولیت صرف ۱۳ فی صد پر آگئی ہے۔ (نواے وقت، ۲۲ جون ۲۰۰۸ئ)
ججوں کی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی، صحافت کی آزادی اور مشرف سے نجات کے سلسلے میں جو رویہ زرداری صاحب کے زیراثر پیپلزپارٹی نے اختیار کیا ہے اس نے عوام میں مایوسی پیدا کی ہے اور وہ اسے ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے عوامی مینڈیٹ سے کھلا کھلا انحراف تصور کرتے ہیں اور دستوری ترامیم کے پشتارے کا جو ڈراما رچایا جا رہا ہے اسے مسئلے کو الجھانے اور قوم کے اہداف کو غتربود کرنے کا کھیل سمجھ رہے ہیں۔ ہم ان باتوں کا اظہار بڑے دکھ سے کر رہے ہیں کہ ہماری پوری خواہش تھی کہ آمریت سے نجات اور جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا سفر مخلوط حکومت کے ہاتھوں انجام پاتا لیکن نظرآرہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے کچھ قائدین اور اس کے ووٹروں کی شدید خواہش کے باوجود آصف علی زرداری اور ان کے زیراثر جماعتی قیادت روایتی ہیئت حاکمہ (establishment) ہی کے مقاصد پورے کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پرویزمشرف پر نمایشی دبائو تو کبھی کبھی ڈال دیا جاتا ہے مگر نہ ان سے نجات پانے کے لیے ضروری اقدام کیے جا رہے ہیں اور نہ عدلیہ کی بحالی کی کوئی مؤثر کوشش کی گئی ہے جس سے ملک کا نظامِ عدل بحال ہوسکے اور عوام کے لیے حصولِ انصاف کے دروازے کھل سکیں۔ بلکہ دستوری ترامیم کا جو پیکج پیش کیا گیا ہے اس نے تو رہی سہی امید بھی خاک میں ملادی ہے اور اگر خدانخواستہ دستور میں یہ ترامیم ہوجاتی ہیں تو پھر جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کا قصر چکنا چور ہوجائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ پیپلزپارٹی کی قیادت اس میں کامیاب نہیں ہوگی اس لیے کہ عوام ان کی بھرپور اور مؤثر مخالفت کریں گے اور وکلا اور اہم سیاسی کارکنوں نے اس عزم کا اظہار بھی کردیا ہے۔ البتہ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان ترامیم اور ان کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھا جائے اور چند مفید چیزیں جو ان میں شامل ہیں ان سے دھوکا نہ کھاتے ہوئے جو اصل کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کا پردہ چاک کیا جائے اور ملک کو اس آفت سے محفوظ رکھا جائے۔
ان کا پہلا اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان میں کھلے اور صاف الفاظ میں ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدام کو رد نہیں کیا گیا اور اس کے مرتکبین کو موجب سزا قرار نہیں دیا گیا، بلکہ کمال ہوشیاری سے اس اقدام کو اور اس کے تحت عدلیہ کو تباہ کرنے والوں اور ان کے شرکاے کار کو تحفظ دیا گیا ہے، عدلیہ میں ۳ نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کے لیے مستقل گنجایش پیدا کی گئی ہے، ان کے ان تمام اقدامات کو جو ۳نومبر کے بعد کیے گئے ہیںتحفظ دیا گیا ہے اور صاف لفظوں میں کہے بغیر اس سب کو سندجواز دی گئی ہے جو ایک قومی جرم ہے۔ ۱۸فروری کے انتخاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کا تو مینڈیٹ ہی یہ ہے کہ وہ ۳نومبر کے غیرقانونی اقدامات کا قلع قمع کرے اور ہمیشہ کے لیے ملک و قوم کو ایسی طالع آزمائی اور اس کی معاونت کرنے والوں سے محفوظ کرے لیکن ان ترامیم کے ذریعے وہی ظلم کیا جا رہا ہے جو ۱۹۵۸ئ، ۱۹۶۹ئ، ۱۹۷۷ئ، ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۷ء کے غیرقانونی اقدامات کو تحفظ دے کر ماضی میں کیا گیا ہے۔ جو کچھ جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق، جسٹس ارشاد اور جسٹس ڈوگر نے کیا، جناب زرداری صاحب اور فاروق نائیک صاحب وہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس حمودالرحمن نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے غاصبوں سے ڈیل کرنے کا جو مبنی برحق و انصاف راستہ دکھایا تھا اسے یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے اور ہوشیاری کے ساتھ آرٹیکل AAA۲۷۰ اور CC ۲۷۰ کے ذریعے اس پورے سیاہ دور کو تحفظ عطا فرمایا گیا ہے البتہ کمالِ عنایت سے دفعہ ۶ میں ترمیم کر کے کل کلاں ایسا کرنے والوں کو سزا کی وعید سنائی جا رہی ہے۔ حالانکہ اگر آج کے مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو پھر گویا کبھی بھی مجرموں کو سزا نہیںمل سکے گی۔ یہ ترامیم دستور کی ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی کی نوید سے یکسر خالی ہیں اور دستور کو مزید مسخ کرنے اور جو سلوک اس کے ساتھ ماضی کی ترامیم جن میں خصوصیت سے پہلی، تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم قابلِ ذکر ہیں جن کے ذریعے عدلیہ کو پابند یا متاثر کرنے اور دستور کے پارلیمانی کردار کو مسخ کرنے کی خدمت انجام دی گئی اور فوجی آمریتوں کی کارگزاریوں کو تحفظ دیا گیا۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی قیادت کی مجوزہ ترامیم اسی قبیل کی ہیں بلکہ ان کی بدترین صورت ہیں۔
ان ترامیم کا دوسرا پہلو این آر او کا تحفظ ہے جس کے لیے ایک بار نہیں دو بار آرڈی ننس کی چار ماہ کی عمر کو غیرمؤثر قرار دیتے ہوئے اس این آر او کو، جس نے بدعنوانی اور کرپشن پر سفیدی پھیردی ہے اور اس کے مرتکبین کو ہمیشہ کے لیے مکمل طور پر بری کردیا ہے، مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔ ہم نے بار بار اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ جہاں یہ غلط اور بدترین ظلم ہے کہ کسی معصوم انسان کو محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر بدعنوانی اور کرپشن کا ملزم بنایا جائے، وہیں یہ بھی اتنا ہی غلط اور ایسا ہی ظلم ہے کہ سیاسی مصالح اور اپنی صف بندیوں کو محفوظ کرنے کی خاطر ان لوگوں کو جو بدعنوانیوں کے مرتکب ہوئے ہوں اور جنھوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو اور ملک کی دولت کو لوٹا ہو، ان کو مکمل معافی اور چھٹی دی جائے۔
این آر او ایک شرمناک قانون ہے اور اس کے تحت پاک دامنی کا دعویٰ کرنے والے کبھی پاک دامن تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔ اس مسئلے کا واحد حل وہ ہے جسے خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت میں تسلیم کیا ہے مگر ان ترامیم میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ اس میثاق میں دونوں نے قوم سے عہد کیا ہے کہ جہاں سیاسی بنیادوں پر انتقامی کارروائی سے اجتناب کیا جائے گا وہیں احتساب کے لیے ایک اعلیٰ عدالتی نظام قائم کیا جائے جو بے لاگ انداز میں سیاسی قیادت اور دوسرے ان تمام افراد کا جو ذمہ داریوں کے مناصب پر فائز رہے ہوں، احتساب کرے۔
این آر او کے ’پاک بازوں‘ کے دامن کو تو اس وقت تک صاف اور بے داغ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک وہ کسی معتبر عدالتی ادارے میں اپنی پاک دامنی ثابت نہ کرلیں، لیکن جس محنت اور غیرمعمولی اہتمام سے ان ترامیم میں این آر او کو تحفظ دیا گیا ہے وہ شکوک و شبہات کو بڑھانے والا ہے، ختم کرنے والا نہیں۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ این آر او کو تحفظ ہرگز نہیں دینا چاہیے، اعلیٰ عدالت کو تمام حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور آیندہ کے لیے اس کا مستقل انتظام ہونا چاہیے کہ کوئی بھی اختیارات کا ناجائز استعمال اور قومی وسائل کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کرنے کی جرأت نہ کرسکے اور جو کرے وہ قانون اور احتساب کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ یہ عمل سیاسی دراندازیوں اور انتقامات اور شک و شبہے سے پاک اور بالکل شفاف ہو۔ یہ سب کے لیے ہو اور جو بھی اجتماعی زندگی میں سرگرم ہے اسے اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ دستوری ترامیم کے ذریعے این آر او کو دوام بخشنا ایک قومی جرم ہے اور اس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
ان ترامیم کا تیسرا بڑا ہی تباہ کن پہلو عدلیہ کے پورے نظام کو سیاسی مصلحتوں کے تابع کرنا ہے۔ اس کے پانچ بڑے بڑے پہلو ایسے ہیں جن کا پردہ چاک کرنا ضروری ہے تاکہ ان کا کھل کر مقابلہ کیا جاسکے۔
ا- عدلیہ کی آزادی کا انحصار جن چیزوں پر ہے ان میں عدلیہ میں نئے ججوں کی تقرری بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس عمل کو خالص میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے جس میں قانونی مہارت کے ساتھ دیانت و امانت اور اصول اور حق پرستی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ عمل سیاسی اثراندازیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ بلاشبہہ یہ کام مشکل ہے اور دنیا کے تجربات اس ضمن میں بڑی ملی جلی تصویر پیش کرتے ہیں۔ خود ہمارے یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ہرگز قابلِ فخر نہیں۔ ایک نہیں متعدد ججوں کی خود نوشتیں طبع ہوچکی ہیں اور وہ ایسی داستانوں سے بھری ہوئی ہیں جن پر سر شرم سے جھک جاتا ہے، لیکن جو تجویز اب جناب فاروق نائیک نے جناب زرداری صاحب کی ہدایت پر پیش کی ہے، اس کے بعد تو سیاست کا عمل دخل آسمان پر پہنچ جائے گا اور خواہی نہ خواہی یہ ادارہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ مرکزی اور صوبائی وزراے قانون کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ ایک مشترک پارلیمنٹری کمیٹی آخری فیصلہ کرے گی۔ پاکستان کے حالات میں پارلیمانی کمیٹی کے سپرد اس کام کو کرنا اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر عدلیہ پر یہ ضرب ملک کو بڑی مہنگی پڑے گی۔یہ مسئلہ بڑی سنجیدہ سوچ بچار کا تقاضا کرتا ہے۔ خود امریکا میں بھی اس نظام پر شدید تنقید کی جارہی ہے اور بش کے تو ۲۰۰۰ء کے انتخاب ہی کو سیاسی عدلیہ کا فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔
ب- دوسرا مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی حفاظت کا ہے۔ اگر جج کو میعاد کی ضمانت نہ ہو تو یہ پورے نظامِ عدل کو متزلزل کردیتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ کی جو نئی شکل تجویز کی جارہی ہے وہ خطرناک، بھونڈی اور ناقابلِ عمل ہے۔ چیف جسٹس اور اعلیٰ ججوں کی قسمت، سابق ججوں اور سیاسی عناصر کے ہاتھوں میں دی جارہی ہے اور اس جلادی تجویز کے ساتھ کہ کسی بھی جج بشمول چیف جسٹس اگر کوئی بھی شخص اس کے خلاف استغاثہ دائر کردے تو صدر فی الفور اسے جبری رخصت پر بھیج سکتا ہے۔ جبری رخصت کے سلسلے میں ۲۰جولائی کے سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بڑا واضح فیصلہ دیا ہے مگر اسے بالکل نظرانداز کر کے ترمیم میں وہ موقف اختیار کیا گیا ہے جو جنرل پرویز مشرف کا تھا۔
مجوزہ کمیشن کے سابق ججوں کے لیے صلاحیت، دیانت، تجربہ، شہرت کی کوئی شرط نہیں۔ اگر کوئی شرط ہے تو یہ کہ وہ ’غیرسیاسی‘ ہوں مگر غیرسیاسی کی کوئی تعریف متعین نہیں کی گئی۔ کون سا جج سیاسی ہے اور کون سا غیرسیاسی___ اور حاضر سروس چیف جسٹس اور تمام اعلیٰ ججوں کی قسمت کا فیصلہ پانچ سابق ججوں اور تین دوسرے سیاسی عمل سے نامزد افراد کو سونپا گیا ہے۔ یہ بھی بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اپنی عدلیہ کو ایسے خام تجربات کے لیے تختۂ مشق ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔
ج- ایک بنیادی خرابی اس پوری تجویز میں پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں سے عزت سے نجات حاصل کرنے کے بجاے انھیں عدالت کا حصہ بنانا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف عدالت کا وقار اور اس پر عوام کا اعتماد مجروح ہوگا بلکہ عدلیہ بھی مستقل کش مکش اور باہم تنائو کا شکار رہے گی اور اس طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس اپنا دستوری کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہیں گے۔ ۱۹۹۰ء میں بھی عدلیہ کے بٹ جانے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کا تلخ معاملہ پیش آچکاہے اور اب تو باضابطہ انداز میں عدالت پر اس کو مسلط کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو انصاف کے نظام کو قتل کرنے کے مترادف ہوگا۔
د- ایک اور ظلم جو ان تجاویز میں کیا گیا ہے اور بڑے معصوم انداز میں کیا گیا ہے وہ سپریم کورٹ کو اس اختیار ہی سے محروم کردینا ہے جس کے تحت وہ عوام کے ساتھ کیے جانے والے مظالم اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر عوام کی داد رسی کے جواب میں یا ازخود نوٹس لے کر ان کو انصاف مہیا کرنے کے لیے کرسکتے تھے۔ دفعہ (۳) ۱۸۴ میں ایک معصوم سی ترمیم کے ذریعے ظلم اس ملک کے عوام کے ساتھ کیاجا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قابلِ نفاذ حکم (mandatory) سے نکال کر محض اعلان (declaratory) بنانے کی جسارت کی جارہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ عدالت بس وعظ و نصیحت اور مشورہ اور تجویز کرسکے گی اور اس کا حکم ان معاملات میں آپ سے آپ لاگو نہیں ہوسکے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اعلیٰ انتظامیہ کو جو سبق سکھایا تھا، غالباً یہ اس کا جواب ہے! اور وہ بھی کسی پولیس یا آرمی افسر یا بیوروکریٹ کی طرف سے نہیں عوام کے نمایندے جناب زرداری صاحب اور جناب فاروق نائیک کی طرف سے!
ر- پانچواں مسئلہ ججوں کی میعاد (tenure) کی مدت یعنی ریٹائرمنٹ کی عمر کا ہے اور چیف جسٹس صاحبان کے بحیثیت چیف جسٹس مدت کے تعین کا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۵ سال اور ہائی کورٹس کے ججوں کی ۶۲سال ہے۔ اب اسے بڑھا کر ۶۸ اور ۶۵کرنے کی تجویز ہے۔ اس تجویز پر خالص میرٹ کی بنیاد پر غور ہوسکتا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے لیے لازمی ریٹائرمنٹ کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ موت، استعفا یا معذوری ہی کی شکل میں وہ اپنے منصب سے فارغ ہوتے ہیں اور اس طرح انھیں میعاد کی مکمل ضمانت حاصل ہوتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دیگر نفع بخش کام کی فکر سے بھی آزاد رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ مسئلہ خاص افراد کے لیے جگہ بنانے یا چیف کے درجے تک ترقی ممکن بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہی کھیل ایل ایف او میں بھی کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ یہ اس کا replay ہے اور پہلے سے بھی زیادہ بھونڈے انداز میں! اسی طرح عدلیہ کی بحالی کی صورت میں ایک خاص جج کی بحالی کو ناممکن بنانا بھی فرد کے لیے مخصوص (person-specific) ترمیم کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کو باہر رکھنے کے لیے یہ تجویز لائی جارہی ہے۔ چیف جسٹس کی میعاد کی تحدید تین سال ہو یا پانچ سال، یا اس سے کم زیادہ بھی اسی قبیل کی شے ہے۔ ایک خاص شخص سے نجات اورکسی خاص شخص کو اس عہدے پر لانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جو دستور کے ساتھ بددیانتی بلکہ بدفعلی کے مترادف ہے۔ جوقیادت عدلیہ کے ساتھ یہ کھیل کھیل رہی ہے اور ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی کے بلندبانگ دعوے کرتی ہے اس کی عقل کا ماتم کیا جائے یا دیانت کا نوحہ!
صدر کے اختیارات کم کرنے اور وزیراعظم کو اختیارات کا محور اور مرکز بنانے کے لیے بھی اس میں متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ہم خود صدر کے صواب دیدی اختیارات کے خلاف ہیں اور پارلیمانی نظام میں وزیراعظم اور وزرا، جو عوام کے بلاواسطہ منتخب کردہ ہیں، وہی اصل انتظامی اختیار کے مستحق ہیں لیکن اس سلسلے میں بھی چند باتوں کا لحاظ ضروری ہے اور علم سیاست کے جدید مباحث میں ان پر کھلے انداز میں گفتگو ہورہی ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کے ڈکٹیٹر بننے کا خطرہ موجود ہے اور اس کے لیے علم سیاست میں آج کل ایک دل چسپ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے یعنی Prime Ministerial System۔ پارلیمانی نظام کو پارلیمانی نظام ہی رہنا چاہیے، اسے وزیراعظمی نظام نہیں بن جانا چاہیے۔ تقسیم اختیارات کے معنی یہ ہیں کہ وزیراعظم اپنے سے مساوی افراد میں پہلا ہو، خود ہی سب کچھ نہ بن جائے۔
اس کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ایک کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری، دوسرے ہر وزیر کے اپنے اختیارات جو وہ وزیراعظم کی مداخلت کے بغیر انجام دے سکے، تیسرے وزیراعظم کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی جس کے لیے خصوصی وقفہ سوالات کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ کچھ ممالک میں وزیراعظم کو وزرا کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے مگر ہروزیر اور اس کے شعبے کی پارلیمنٹ میں توثیق ضروری ہے اور جسے پارلیمنٹ اعتماد نہ دے وہ وزیر نہیں بن سکتا۔ نیز وزیراعظم پر بے اعتمادی کا ووٹ بھی اسی نوع کی ایک تدبیر ہے۔ اب جو دستوری ترامیم پیپلزپارٹی کی قیادت لائی ہے اس میں وزیراعظم کو نہ صرف یہ کہ کلّی اختیارات دے دیے گئے ہیں بلکہ ایک ایسی ترمیم بھی تجویز کی ہے جو ۱۹۷۳ء میں دستور سازی کے وقت رکھی گئی تھی اور جسے اس اسمبلی نے، جس نے دستور کو منظور کیا، رد کردیا تھا اور بڑی سخت تنقید کے بعد رد کیا تھا۔ تجویز یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک اس وقت تک نہیں لائی جاسکتی جب تک اس تحریک میں متبادل قائد ایوان کا نام نہ شامل ہو۔ گویا ایک وزیراعظم پر بے اعتمادی اور دوسرے شخص پر اعتماد کا اظہار ایک ہی قرارداد کے ساتھ ہو۔ یہ سرتاسر غیرمعقول تجویز ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی تحریک آہی نہ سکے۔ جب ۱۹۷۳ء کے دستور میں یہ تجویز رکھی گئی تھی تو محمود علی قصوری صاحب نے اس پر بڑی سخت تنقید کی تھی اور صرف اپوزیشن ارکان نے ہی نہیں سرکاری اتحاد کے لوگوں نے بھی اسے رد کردیا تھا۔ معلوم نہیں فاروق نائیک صاحب اس مسترد تجویز کو قبر میں سے نکال کر پھر سے کیوں لے آئے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کے تحفظ کے لیے تو یہ ہو نہیں سکتی۔ کیا زرداری صاحب اپنے آیندہ تحفظ کا ابھی سے یہ سامان کرنا چاہتے ہیں؟
ویسے تو صدر کے اختیارات کو کم کرنے کا کام انجام دیا گیا ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ وہ صواب دیدی اختیارات ہیں جن کی وجہ سے صدر پارلیمنٹ اور انتظامیہ پر حاوی ہوگیا تھا یعنی ۵۸ (۲-بی) اور اہم تقرریوں کے بارے میں اس کے کُلی اختیارات۔ ان امور پر صدر کو وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس کا پابند کرنا ضروری ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ اس سلسلے میں تین چیزیں ایسی ہیں جو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں:
ا- آرٹیکل ۴۵ کا تعلق معافی (amnesty ) کے معروف مسئلے سے ہے جس کے تحت صدر عدالتوں سے دی جانے والی سزائوں میں تخفیف یا معافی کا حق رکھتا ہے۔ بلاشبہہ اسلامی قانون کے تحت حدود کے معاملے میں اسے یہ اختیار نہیں لیکن باقی امور میں مروجہ قانونی روایات کی روشنی میں اس کی گنجایش ہے۔ اس دفعہ میں ایک نئی ترمیم کے ذریعے صدر کو سندجواز عطا کرنے (validation) کا ایسا لامحدود (open ended) اختیار دیا جا رہا ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور جسے اگر غلط استعمال کیا جائے تو انتظامیہ اس کے سہارے پر قانون اور ضابطے کے پورے عمل کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ ایک تو معاملات کے دائرے کو عدالتی فیصلوںکے دائرے سے نکال کر عالم گیر وسعت دینا اور پھر ہر معاملے کو سندجواز عطا کرنے کا اختیار اس کو دیا جا رہا ہے جو انصاف، اصولِ حکمرانی اور جمہوری احتساب ہر عتبار سے غلط ہے۔ اس وقت جو دفعہ ہے وہ یہ ہے:
دفعہ ۴۵: صدر کو کسی عدالت ٹریبونل یا دیگر ہیئت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کے لیے روکنے اور اس میں تخفیف کرنے، اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہوگا۔
تجویز ہے کہ amnesty کے بعد اضافہ کردیا جائے۔
"or indemnify any act whatsoever".
دیکھیے اس ایک جملے سے معاملے کی نوعیت ہی بدل گئی۔ اب عدالتی عمل کے تحت دی جانے والی سزا میں جو تخفیف یا معافی کی گنجایش تھی وہ بدل کر ہر قسم کی بدعنوانی، لاقانونیت، ضابطے کی خلاف ورزی، اختیار کے غلط استعمال، استحصال گویا کسی بھی اقدام کو indemnify (قانونی ذمہ داری سے بَری) کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ حق انتظامیہ اپنے لیے لے رہی ہے۔ یہ دستور کی دفعہ ۲۷۰ کا ایک بدل ہے کہ جب اور جس عمل کو سندجواز دینا (validate) ہو، صدر کو اس کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔ یہ انصاف، قانون، ضابطہ اور اخلاق ہر ایک کا خون ہے اور قانون کی خلاف ورزی کے لیے دروازے کھول دینے کے مترادف ہے۔
ب- افواج کے سربراہان (service chiefs) کے تقرر کا اختیار بھی صدر کو حاصل ہے۔ یہ بھی صواب دیدی اختیار تھا مگر اسے ۱۷ویں ترمیم میں وزیراعظم سے مشورے سے مشروط کیا گیا تھا۔ نہ معلوم کیوں اب وزیراعظم کے مشورے کے حصے کو حذف کیا جا رہا ہے۔ غالباً اس بنیاد پر کہ صدر وزیراعظم کے مشورے (advice) پر یہ کام کرے گا لیکن بات صراحت کے ساتھ واضح نہیں ہورہی۔ موجودہ سربراہوں کو تین نام اپنی ترجیح کے مطابق دینے کی شرط عائد کی جارہی ہے، جب کہ عملاً یہ پہلے سے ہو رہا ہے البتہ اس وقت صدر کو یہ اختیار ہے کہ وہ تجویز کردہ ناموں کے باہر سے بھی تقرر کرسکتا ہے اور کئی تقرریاں چھے اور سات افراد کو پھلانگ کرکے بھی کی گئی ہیں۔ نئی تجویز میں ریٹائر ہونے والے سربراہ کو فیصلہ کن پوزیشن دے دی گئی ہے جو محل نظر ہے۔ ایک تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ تقرری صدر کرے گا یا صدر وزیراعظم کے مشورے پر کرے گا جیساکہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو تھا۔ البتہ اس نازک معاملے کے صحیح صحیح انجام پانے کے لیے کچھ دوسری احتیاطیں بھی ضروری ہیں جن پر اس وقت غور کرنا چاہیے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ بالعموم یہ تقرری سینیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے جس کے نتیجے میں سروس میں بھی اطمینان ہوگا کہ ہرشخص کو اس کے حق اور صلاحیت کے مطابق موقع ملے گا اور تقرری کی دوڑ میں جو سیاسی یا رقابتی اثرات کارفرما ہوجاتے ہیں ان سے بچا جاسکے گا۔ البتہ اس کی گنجایش رکھی جاسکتی ہے کہ کسی غیرمعمولی صورت میں کسی اعلیٰ کمیشن کے مشورے سے اس قاعدے میں نرمی ہوسکتی ہے لیکن وجوہ ریکارڈ پر لاکر، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں۔ لیکن ایک دوسری بات کا اہتمام بھی ضروری ہے جسے ہماری نگاہ میں دستوری ترمیم کا حصہ ہونا چاہیے کہ یہ عہدے اپنی میعاد کے ساتھ متعین ہوں گے۔ ان میں توسیع کا امکان بالکل ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں بڑا بگاڑ اسی راستے سے آیا ہے کہ جو بھی چیف آف اسٹاف بنا ہے اس نے مدت عہدہ میں توسیع کی کوشش کی ہے۔ جنرل ایوب سے اس کا آغاز ہوا اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اسے استعمالِ بد کی حد تک پہنچا دیا۔
بھارت میں گذشتہ ۶۱سالوں میں کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے کہ کسی بھی سروس کے چیف کو اس کی مدت پوری ہونے کے بعد توسیع دی گئی ہو۔ امریکا، برطانیہ اور مغربی ممالک میں بھی یہی روش ہے۔ اگر توسیع کے دروازے کو بند کردیا جائے اور خالص میرٹ پر سینیارٹی کی بنیاد پر افواج کے سربراہان کی تقرریاں ہوں تو فوج کی پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ ہوگا اور سیاست پر شب خون مارنے کی راہیں بھی مسدود ہوں گی۔
ان ترامیم میں اسلام پر بھی ایک کاری ضرب لگائی گئی ہے اور بڑے معصوم انداز میں۔ وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ کار کو پہلے ہی روزاول سے محدود کیا ہوا ہے اور آرٹیکل بی-۲۰۳ کے پیراگراف (سی) کے تحت بہت سے قوانین کو اس کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے، خاص طور دستور، عائلی قانون، عدالتی ضابطے وغیرہ لیکن ملک کے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو صرف دس سال کے لیے اس کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا جو ۱۹۹۵ء میں ختم ہوگیا ہے۔ اسی کی روشنی میں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ نے سود کے مسئلے پر اس مدت کے ختم ہوجانے کے بعد اپنے فیصلے دیے ہیں۔ اب اس ترمیم کے ذریعے دس سال کی مدت والے جملے کو حذف کیا جا رہا ہے لیکن اس چابک دستی کے ساتھ کہ ملک کا پورا مالیاتی اور محصولاتی نظام ایک بار وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوجائے۔ اگر دلیل یہ ہے کہ دس سال کی مدت ہوچکی اور یہ حصہ اب غیر ضروری ہے تو پھر دس سال سے شروع ہونے والے جملے کو اختتام تک حذف کرنا چاہیے تھا تاکہ موجودہ قانونی پوزیشن مستقل ہوجائے۔ لیکن دراصل جس طرح یہ ترمیم تجویز کی جارہی ہے وہ سودی نظام کے تحفظ کی شرمناک اور اللہ سے بغاوت کی ایک بے باک کوشش ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے یہ تمام امور نکل جائیں گے جو دس سال کے استثنا کے بعد اب اس کے اختیار میں ہیں۔
یہ قرآن وسنت کے کھلے احکام کے خلاف قانون سازی کی ایک افسوس ناک کوشش ہے جسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک طرف سینیٹ متفقہ طور پر تجویز کر رہا ہے کہ پورے ملک میں اسلامی فنانس اور بنکاری کو فروغ دیا جائے اور دوسری طرف ملک کے پورے مالیاتی اور محصولاتی نظام کو دوبارہ اور ہمیشہ کے لیے وفاقی شریعت کورٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تفو برتو چرخ گرداں تفو!
ان ترامیم میں ایک عجوبہ وہ ترمیم ہے جو بظاہر دستور توڑنے والوں کے لیے سزا اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں اور دستور میں دیے ہوئے حلف کے برعکس حلف لینے والے ججوں کو بغاوت کا مرتکب قرار دینے اور مستوجب سزا بنانے کے لیے کی جارہی ہے مگر فی الحقیقت جو زبان اور انداز اختیار کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں سزا ایسے جج کو نہیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو دی جائے گی اور اسی ترمیم (آرٹیکل ۲۷۶) میں "a person" کے لفظ کو اتنے ڈھیلے (loose) انداز میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی زد میں پارلیمنٹ کے ارکان تک آسکتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس سزا کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں ہوتا جنھوں نے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء یا ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو دستور کی تخریب (subvert )کی، اور وہ جج بھی اس سے مستثنیٰ ہیں جو دستور کی اس تخریب کو سندجواز دینے والے ہیں بلکہ اس کا اطلاق صرف مستقبل پر ہوگا۔ یہ عجیب جرم ہے کہ اس کے آج کے ارتکاب کرنے والے محفوظ ہیں مگر یہ صرف آنے والوں کے لیے انتباہ ہے، چاہے آج کے مجرم دندناتے ہی کیوں نہ پھر رہے ہوں۔
عدالت کے سلسلے میں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ججوں کی جگہ any court including a high court and the supreme court (کوئی بھی عدالت بشمول کوئی عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ عدالت کے بنچ کے ان ججوں کو بھی سزا ہوگی جنھوں نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کیا ہو اور مارشل لا یا دستور کی تخریب کی تائید نہ کی ہو؟ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سزا کی کیا شکل ہوگی؟ کیا یہ عدالتیں قانون کی نظر میں ایک فرد ہیں یا ان عدالتوں کو تباہ کردیا جائے گا___ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
اسی طرح فوج کے ذمہ داروں کی طرف سے حلف کی خلاف ورزی کی بات بڑی مبہم ہے۔ حلف میں تو صرف سیاست میں حصہ نہ لینا ہے___ کیا ایک فوجی کا کسی سیاسی شخصیت سے ملنا، کسی سیاسی جلسے میں شرکت خواہ وہ انتخابی جلسہ ہی کیوں نہ ہو، حلف کی خلاف ورزی ہوگا؟ دستور توڑنا، اقتدار پر قبضہ اور چیز ہے اور ایک فوجی کا کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا دوسری چیز۔ جرم اور سزا میں مطابقت بھی انصاف کا اساسی اصول ہے۔ غداری (high treason) کا تعین واضح طور پر ہونا چاہیے۔ اتنی مبہم بات کہ حلف کی پاسداری نہ کرے، یا دستور میں دیے گئے حلف کے الفاظ سے ہٹ کر حلف لے، وہ غداری کا مرتکب ہوگا، محل نظر ہے۔ ان معاملات کو زیادہ سوچ سمجھ کر اور قانون کی باریکیوں اور اس کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر طے ہونا چاہیے۔ جس طرح یہ ترامیم تیار کی گئی ہیں، اس سے بے حد جلدبازی کا اظہار ہو رہا ہے۔
ان ترامیم میں ایسی چیزیں بھی ہیں جن پر ہمدردی سے غور ہوسکتا ہے مثلاً صدر کی طرف سے نظرثانی کے لیے قانون یا ایڈوائس بھیجنے کی مدت میں کمی، سینیٹ میں بجٹ پر غور کی مدت میں اضافہ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ادارے کو بحال اور متحرک کرنا، دستور کے بہت سے فالتو (redundant) حصوں کو حذف کردینا، مصالحتی (reconciliation) کمیٹی کے طریق کار کو ختم کردینا، صدر کی جگہ وفاقی حکومت کو اختیار دینا وغیرہ۔
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حکمت اور مصلحت کے باب میں ایک سے زیادہ آرا ہیں مثلاً اقلیتوں کا مطالبہ تھا کہ جداگانہ انتخاب کا طریقہ ختم کیا جائے اور اس کے لیے ملک اور ملک سے باہر سیکولر اور لبرل لابی نے مہم چلائی جس کی بنیاد حکمت و مصلحت اور نمایندگی کے حقوق سے کہیں زیادہ نظریاتی تھی۔ لیکن جب انھیں مخلوط انتخاب مل گیا تو پھر اب جداگانہ نمایندگی کا مطالبہ چہ معنی دارد؟___ اگر مخلوط انتخاب چاہتے ہیں تو اس کے آداب اور اصولوں کا بھی احترام کیجیے اور عام سیاسی پارٹیوں کے ذریعے سب کے ووٹ سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں تشریف لایئے۔ ہم نے تو جداگانہ انتخاب کے طریق کار کے ذریعے اقلیتوںکی نمایندگی اور موجودگی کو یقینی بنایا تھا، اسے آپ نے نظریاتی بنیادوں پر رد کردیا۔ اب مخلوط انتخاب کے ساتھ مخصوص نمایندگی کا مطالبہ انمل بے جوڑ ہے۔ اب مخلوط قومیت کا وہ نظریہ کیا ہوا؟ انگریزی محاورے میں You want to eat your cake and have it too.۔ یہ سراسر تضاد اور زیادتی بھی! نیز یہ دیانت کے اصولوں سے بھی ہم آہنگ نہیں۔
الیکشن کمیشن، قومی مالیتی کمیشن، قومی معاشی کونسل، مشترک مفادات کی کونسل وغیرہ کے سلسلے میں ترامیم میں کئی چیزیں اچھی اور مناسب ہیں اور کچھ میں مزید اصلاح کی گنجایش ہے۔ خصوصیت سے قومی اقتصادی کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن میں سینیٹ سے نمایندگی کے مسئلے پر غور ہونا چاہیے جو وفاق کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ مشترک فہرست میں سے صرف چند کو خارج کرنا اور باقی پر مرکز کی قانون سازی کے حق کو باقی رکھنا بھی صحیح نہیں۔ مشترک فہرست کو مکمل طور پر ختم ہوجانا چاہیے اور یہ صوبائی خودمختاری کا کم سے کم تقاضا ہے۔ اس کا وعدہ ۱۹۷۳ء میں کیا گیا تھا کہ دس سال میں یہ کام ہوجائے گا۔ آج ۳۵ سال کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی قیادت اس کے لیے تیار نہیں حالانکہ بلوچستان کمیٹی میں دستوری ترامیم کی بحث کے موقعے پر پیپلزپارٹی نے مشترک فہرست کو ختم کرنے کے حق میں اظہار کیا تھا، اور غالباً میثاقِ جمہوریت میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا تھا، آخر یہ رجعت قہقہری کیوں؟
یہ اور دوسرے متعدد امور ایسے ہیں جن پر کھلی بحث ہونی چاہیے اور افہام و تفہیم اور عوامی خواہشات کی روشنی میں دستوری اصطلاحات کا کام ہونا چاہیے۔ کچھ اور دستوری امور ایسے ہیں جن کو ان ترامیم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے مثلاً آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی، ذیلی (subordinate) قانون سازی کے نام پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کے ایک بڑے دائرے سے باہر کردینا اور اسے مکمل طور پر انتظامیہ کے ہاتھوں میں دے دینا حتیٰ کہ یہ قانون سازی اور ضوابط کاری پارلیمنٹ کے علم تک میں نہیں آتی ہے۔ اسی طرح بیرونی معاہدات اور مالیاتی معاہدوں کوپارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔ ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے باب میں پارلیمنٹ کے عمل دخل کو بڑھانے اور ان میں سے کچھ کو قابلِ داد رسی (justiciable) بنانے کا مسئلہ بھی اہم ہے اور اس پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ اسلامی قانون سازی اور ملکی قوانین کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے دستور نے سات سال کی مہلت رکھی تھی، آج اس مدت کو ختم ہوئے ۲۸سال ہورہے ہیں۔ اسی طرح قومی زبان اُردو کے نفاذ کے لیے ۱۵ سال کی مدت رکھی گئی تھی، اس مدت کو ختم ہوئے ۲۰ سال ہو گئے ہیں۔ کیا ان سب امور پر غور اور دستور کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے نئی تدابیر اختیار کرنے کا وقت نہیں آیا۔ کیا دستور میں دی ہوئی مدت میں متعین کام نہ کرنا اور مسلسل ٹال مٹول کرنا دستور کی خلاف ورزی اور تخریب (subversion) نہیں ہے اور ایسی صورت میں دفعہ ۶ کا اطلاق کس پر ہوگا؟ قومی اسمبلی کی مدت (پانچ سال یا چار سال) اور اس مدت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد یا اس مدت کے پوری ہونے سے قبل انتخابات کا معاملہ جیساکہ ۱۷ویں ترمیم کے ذریعے تبدیلی سے پہلے تھا۔ ہمارے خیال میں اسے اصل شکل میں بحال کرنا بہتر ہوگا۔ یہ اور بہت سے دوسرے امور ہیں جن پر بھی اس موقع پر غور ہوسکتا ہے تاکہ دستوری ترامیم زیادہ سے زیادہ جامع ہوں اور باربار یہ کام انجام نہ دینا پڑے۔
دستوری ترامیم کا ہمارا یہ جائزہ اس معنی میں ہرلحاظ سے مکمل نہیں کہ اس میں تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہو۔ ہم نے صرف چند بنیادی اور مرکزی اہمیت کے امور کو موضوع بحث بنایا ہے، جب کہ اس سلسلے میں اصل دستاویز کے شق وار مطالعہ اور اتفاق راے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اہم ہے مگر وقت طلب بھی ہے اور اس کا حق ادا کیا جانا چاہیے۔ دستور میں روز روز ترمیم نہیں ہوتی اور آج جن ترامیم کی ضرورت ہے مناسب معلوم ہوتا ہے قومی بحث و مباحثہ اور پارلیمنٹ میں کھلے تبادلۂ خیال کے ذریعے انھیں کرلینا چاہیے۔ اس میں نہ غیرضروری تاخیر کی جائے، نہ غیرمناسب عجلت سے یہ کام انجام دیا جائے۔ اس لیے ہم ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کرتے ہیں کہ عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو کسی تاخیر کے بغیر حل کیا جائے تاکہ عدالتی نظام اور اس پر اعتماد بحال ہو۔ اس وقت جواعلیٰ عدالتیں ہیں، ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے، کہ ان پر نہ قوم کو ان پر اعتماد ہے اور نہ وکلا برادری کو۔ یہ سلسلہ جلداز جلد ختم ہونا چاہیے۔ بجٹ منظور ہوگیا ہے۔ اب اولیت اس مسئلے کو دی جائے اور بجٹ کے بعد پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر اس مسئلے کو حل کردیا جائے۔ رہا معاملہ دستوری ترامیم کا، تو اس پر گفتگو ساتھ ساتھ چلنی چاہیے۔ عملی تجربات کی روشنی میں ان تمام اہم امور کا احاطہ کیا جائے جن کی اصلاح وقت کا تقاضا ہے۔ یہی زندہ قوموں کا شعار ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات صحیح کرنی چاہییں۔ اسی کے نتیجے میں قوم کے اندر تعاون کی بہتر فضا قائم ہوسکتی ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت: ۷ روپے)
سماجی زندگی میں تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تعلیم فرد کے تصورِ زندگی کو مثبت بنیادوں پر تعمیر اورانسانیت کو بلندیوں سے ہم کنار کرتی ہے، اور پھر تعلیم ہی کے ہاتھوں ایک اچھا بھلا انسان، خاصا مختلف بلکہ انسانیت کُش رویوں کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اس مفروضے کی بنیادیں بڑی گہری اور وسیع ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیں کہ اسی معاشرے میں، انھی گلیوں اور دیہات میں بیک وقت پروان چڑھنے والے وہ بچے جنھیں عام مدارس اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ بچے جنھیں اعلیٰ طبقاتی اور عیسائی مشنری تعلیمی اداروں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے مواقع میسر آتے ہیں، فی الحقیقت دو مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس چیز کا اصل سبب تعلیم و تربیت، ماحول اور اس سے بڑھ کر تصورِ زندگی ہے۔
آج کے پاکستان میں، بجاے اس کے کہ زبوں حالی کے شکار قومی نظامِ تعلیم کو درست بنیادوں پر تعمیر کیا جاتا اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کا ازالہ کیا جاتا، اہلِ اقتدار نے اس قومی نظامِ تعلیم کو تباہی کے بھنور میں دھکیل کر، برطانیہ کی سرزمین سے دوسرے درجے کا نظامِ تعلیم ایک برتر نظام کے طور پر متعارف کرانے کا راستہ منتخب کیا۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجے کے لیے جی سی ایس ای (GCSE) نظام ہے، جب کہ ہم جیسے کالے انگریزوں کے لیے وہاں کی ایک یونی ورسٹی نے جی سی ای (GCE) نظام دیا ہے، جسے برطانیہ میں تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ اس نظامِ تعلیم کے دریچے ’او‘ لیول اور ’اے‘ لیول ہیں، جو ہمارے ہاں حکمرانی، شائستگی، علم اور معیارِ معاشرت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔
گذشتہ دو برسوں کے دوران میں قومی نظام تعلیم میں بالخصوص اسلامیات کے نصاب کو فوجی حکمرانوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور بار بار یہ فرمایا کہ: ’’اسلامیات کے نصاب میں تاریخ اور اختلاف کی چیزیں نہیں ہونی چاہییں، بلکہ اس کی جگہ معاملاتِ زندگی سے متعلق دینی ہدایات پڑھائی جانی چاہییں‘‘۔
اس پروپیگنڈے کے زور پر قومی نصابِ تعلیم کی کافی ’تطہیر‘ کی گئی اور بہت سے بنیادی دینی اور تاریخی حقائق کو قلم زد کرکے نصاب سے خارج کردیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ایس ڈی پی آئی (Sustainable Development Policy Institute) کی رپورٹ کو ’فتویٰ دانش‘ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ انھی مغرب پرست حکمرانوں نے خود مغرب کے پروردہ نظام جی سی ای یا ’او‘ لیول میں اسلامیات کی جس کتاب کو متعارف کرایا ہے، وہ حددرجہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو پروان چڑھانے کا سامان مہیا کرتی ہے۔
اس کتاب کا نام ہے Islamiat for Students۔ فرخندہ نورمحمد اس کی مؤلفہ ہیں اور اسے فیروز سنز، لمیٹڈلاہور نے ۲۰۰۸ء میں پانچویں اڈیشن کی شکل میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ’او‘لیول کے پاکستانی بچوں اور بچیوں کو اسلامیات کا فہم عطا کرنے کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔ اس میں فنی اعتبار سے جو کوتاہیاں موجود ہیں، سردست وہ زیربحث نہیں ہیں۔
اس مختصر تحریر کا مقصد اس پہلو کی جانب توجہ دلانا ہے کہ یہ کتاب درحقیقت، خود مسلمانوں کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ بن جائے گی۔خلافت، امامت، دورِ صحابہ اور تدوین حدیث کے اختلافات کو جس غیر دانش مندانہ، غیرحکیمانہ اور حددرجہ غیرمحتاط انداز سے بیان کیا گیا ہے، وہ ۱۳برس کے بچوں کے لیے کلاس روم کی فضا کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ، خود پڑھانے والے اساتذہ کے لیے آزمایش اور ہر دو مکاتب فکر کے بچوں کے مابین محبت و یگانگت اور دینی بھائی چارے کی فضا کو بھی ضعف پہنچانے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس تدریسی مواد کی فراہمی کسی مکتب ِفکر کی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے، لیکن فضا کی خرابی میں چاروناچار مذہبی افراد کو وہ بوجھ اٹھانا پڑے گا، جس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔
دراصل ایک مخصوص طبقہ اس نوعیت کی کاری گری کے ذریعے ان راہوں کو کشادہ کرتا ہے، جن پر براہِ راست چل کر حملہ آور ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کتاب کے مندرجات میں یہی اہتمام بہ کمال کیا گیا ہے کہ اسلامیات کے مضمون سے جان چھڑانے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے متنازع بنادیا جائے، اور پھر کہا جائے کہ: ’’جب بھی اسلام پر بات ہوگی تو لوگوں کے درمیان دُوریاں بڑھیں گی،اس لیے اس مضمون ہی کو ختم کردیا جائے‘‘۔ یہ ماڈل مغرب نے بالعموم اور امریکا نے بالخصوص مسلم دنیا میں بڑی کامیابی سے آزمایا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں مختلف مکاتب فکر ایک مضبوط تشخص کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، وہاں پر حکمت اور دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم تعلیمی اداروں میں اشتعال پھیلانے اور بچوں کے دلوں کو مذہبی سطح پر زخمی کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ ایمانیات، تاریخ اور معاملاتِ زندگی کے ایسے متناسب نصاب کو کلاس روم میں پیش کیا جائے کہ استاد، طالب علم اور والدین میں سے کسی کے لیے بھی نصابی متن باعثِ آزار نہ بنے۔
اس نوعیت کی ایک بڑی کامیاب کاوش مدیر ترجمان القرآن پروفیسر خورشید احمد نے چھٹے عشرے میں کی تھی۔ انھوں نے کراچی یونی ورسٹی کے بی اے، بی ایس سی اور بی کام کے طلبہ و طالبات کے لیے اسلامی نظریۂ حیات کے نام سے ایسی درسی و علمی کتاب مرتب کرکے متلاشیانِ حق کے سامنے پیش کی تھی، جسے تمام مکاتب ِفکر کے جید علما کے رشحاتِ قلم سے سجایا گیا تھا۔ تمام مکاتب ِفکر اسے اپنا موقف سمجھتے تھے اور تمام مکاتبِ فکر کے طالب علموں کے لیے اس میں اسلامی نظامِ زندگی کے سرچشموں کے بارے میں رہنمائی موجود تھی۔ کراچی یونی ورسٹی کی اس پیش کش کو آج بھی ایک زندہ درسی کتاب کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔
آج کی ضرورت یہ ہے کہ ’او‘ لیول اور ’اے‘ لیول کے لیے بھی اسی انداز کی معیاری کتب تیار کی جائیں اور حکومت زیرنظر کتاب کا فی الفور جائزے کا اہتمام کرے، اور اسے تبدیل کرے۔
ہر طرح کی ترقی، آسایش اور راحت کے سامان فراہم کرلینے کے باوجود آج کا انسان اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے۔ ہم اپنے ملک میں غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ اگر معاشی ترقی کرلیں تو ہمارے سب دلدّر دُور ہوجائیں گے۔ ہماری اجتماعی اور انفرادی سعی و جہدبیش تر اسی کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن ہم کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرجائیں، کتنے ہی وسائل کیوں نہ فراہم کرلیں، کیا ہم، مثلاً برطانیہ سے آگے نکل جائیں گے؟ برطانیہ کا معاشرہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ ہے۔ ہماری نظر میں ترقی کی معراج پر پہنچا ہوا ہے۔ گذشتہ ۵۰ برسوں میں وہاں کے باشندوں کو سائنسی ایجادات، ٹکنالوجی کے تنوعات اور وسائل کی فراوانی نے کیا کچھ نہ دے دیا۔ لیکن آج وہاں کی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی جس میں سب پارٹیوں کے نمایندے شامل ہیں، اپنی رپورٹ میں بتاتی ہے کہ ’’ہمارے اسکولوں میں خوشی و مسرت پر کورس کروائے جا رہے ہیں اور برطانوی معاشرے کی خوبیوںپر گفتگو ہورہی ہے، لیکن برطانیہ میں رہنے والوں کا حال زیادہ قابلِ رحم (miserable) ہوتا جا رہا ہے‘‘۔
برطانیہ کے اخبار ٹائمز نے اس رپورٹ پر اپنی نامہ نگار رتھ گلڈہل (Ruth Gledhill) کی اسٹوری (۱۲ مئی ۲۰۰۸ئ)شائع کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’برطانیہ میں خوشیوں سے محرومی کی اصل وجہ دولت کی کمی نہیں ہے بلکہ خدا اور مذہب پر اعتقاد سے محرومی ہے۔ اس منصوبے کے پیچھے ہماری اصل فکر یہ تھی کہ اس ملک کے باشندے بددلی، عدمِ اطمینان اور بیگانگی کے شدید احساسات کا شکار ہیں، اطمینان اور خوشی کی کیفیت بہت زیریں سطح پر آگئی ہے۔ لوگ زندگی سے ’کچھ اور‘ کے متمنی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سوچ محدود ہے۔ مسائل پر پیسہ پھینک دینے سے کام نہیں چلتا، اپنا روایتی خول اُتار کر ان پر گفتگو کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ عمل اور تدبیر نہ کی جائے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے پالیسی ساز ان باتوں کو محسوس کرتے ہیں مگر انھیں نہیں معلوم کہ اس کے بارے میں کیا کیا جائے۔
رپورٹ میں ایک بڑی پتے کی بات کہی گئی ہے جو ہمارے لیے بھی قابلِ غور ہے۔ قدرتی بات ہے کہ رپورٹ عیسائی پس منظر میں لکھی گئی ہے مگریہ کہا گیا ہے کہ اس کا اطلاق دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر بھی ہوتا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ: ’’مذہبی گروہوں کی قیادت کے لیے یہ ایک عظیم موقع ہے مگر اسی صورت، جب کہ وہ ایک دوسرے کی برائیاں بیان کرنے، اور ہرچیز کی مخالفت کرنا ترک کردیں اور مثبت رویہ اپنائیں۔ یہ پیغام جس طرح راے سازوں کے لیے ہے، اسی طرح مذہب کے علَم برداروں کے لیے بھی ہے‘‘۔
رپورٹ کے مصنفین مقدمے میں لکھتے ہیں:’’ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ حالیہ برسوں کی تمام ترقیوں کے باوجود انسانی فلاح کا احساس، جسے آپ مسرت بھی کہہ سکتے ہیں، عام کیوں نہیں ہے؟‘‘ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس بے اطمینانی کی وجہ مادی نہیں ہے بلکہ کچھ خاص کلیدی اقدار کا ترک کرنا ہے۔ ’’اس لیے ہماری سفارشات میںنئے قوانین یا نئے ٹیکسوں کی تجویز نہیں دی گئی بلکہ یہ ایک پیغام ہے کہ معاشرے کے ہر دائرے میں جو بھی فیصلے کیے جا رہے ہیں ان کا جائزہ زندگی تبدیل کرنے والے اہم اصولوں کی روشنی میں لیا جائے‘‘۔ انھوں نے ہر فیصلے کے لیے پانچ ٹیسٹ تجویز کیے ہیں کہ آیا یہ اقدام اہلِ خاندان سے مثبت تعلقات کو فروغ دے گا اور کیا یہ اقدام اجتماعی اور عالمی طور پر ایک ذمہ دارانہ اقدام ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ جن اقدار کی جڑیں یہودی اور عیسائی اقدار میں ہیں، جو کبھی مغربی فلسفۂ قانون کی بنیاد تھے، ان پر زور دیا جائے گا تو سب کی بھلائی میں اضافہ ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’مسرت کے راستوں کو بتانے والی کتابوں سے آج کتابوں کی دکانیں بھری پڑی ہیں لیکن ہر طرح کی مادی اور اجتماعی ترقی کے باوجود ہمارا معاشرہ بالکل غیرمطمئن ہے۔ ہمارے لوگوں نے معاشی ترقی کی خاطر ایک دوسرے کا احترام، رشتوں کا تقدس اور ماحول کی نگہداشت، سب کچھ قربان کردیا ہے۔ لیکن خوش حالی کے باوجود ہم ۵۰سال پہلے سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ہمیں مسرت کو پونڈ/اسٹرلنگ میں نہیں تولنا چاہیے اور نہ کامیابی کو یونی ورسٹی کی ڈگریوں سے‘‘۔
یہ رپورٹ ہمارے لیے بھی چشم کشا ہے۔ اگر ہمیں معاشرے کی بھلائی کی واقعی فکر ہے تو ہماری پارلیمنٹ بھی کوئی ایسی کمیٹی بنا سکتی ہے جو ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرے کہ پاکستانی معاشرے میں لوگ کس طرح پُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بنیادی فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمارا مسئلہ معاشی ہے یا اخلاقی۔ آج ہم کسی بھی پریشانی کا جائزہ لیں تو اس کی بنیاد میں اخلاقی مسئلہ نظرآئے گا۔ ہماری پریشانیوں کی بظاہر بڑی وجہ معاشی نظر آتی ہے، گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو ہماری معاشی ناکامی کی اصل وجہ بھی اخلاقی نظر آئے گی۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ایک ایسے دین کو مانتے ہیں جو دنیوی اور اُخروی فلاح، دونوں کے لیے مکمل ہدایات دیتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے فرض کرلیں کہ سب اچھے مسلمان بن جائیں، یعنی خدا سے ڈرنے والے ہوں، اُخروی زندگی کو اولیت دیتے ہوں تو ہمارے کتنے بہت سے بہ شمول معاشی مسائل حل ہوجائیں گے۔ آپ سوچیں کہ صرف ٹیکس ہی ایمان داری سے دیے جائیں اور ایمان داری سے وصول کیے جائیں اور ترقیاتی منصوبے خداخوفی کے ساتھ عمل میں لائے جائیں تو وصولی موجودہ سے دو گنا اور ترقیاتی کام چار گنا زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ۶۰ سالوں میں اگر ایسا ہوتا تو آج ہم نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں سے زیادہ خوش حال ہوتے، اور ہماری زندگیاں سکون و اطمینان اور اُس مسرت سے مالا مال ہوتیں جسے آج برطانیہ کا معاشرہ تلاش کر رہا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ کی کمیٹی اقدار اور پیمانے تلاش کر رہی ہے۔ہم تو سب کچھ جانتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس یقین سے محروم ہوگئے ہیں کہ حقیقی فلاح دین پر مکمل عمل کرنے میں ہے۔ قیادت کو اس پر یکسو ہونا چاہیے۔ حکومتی پالیسی ہونا چاہیے کہ ہرفیصلے کو اللہ و رسولؐ کے احکام کی میزان پر تولا جائے، نیز آخرت کی جواب دہی کو کتابوں اور وعظوں تک نہ رکھا جائے بلکہ معاشرے کی زندہ حقیقت بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کیے جائیں۔ دستور میں سب لکھا ہے لیکن دستور کا دم بھرنے والے دستور پر عمل تو کریں۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہم بحیثیت قوم خَسِرَ الدّنیا والآخِرۃ کے مصداق بن جائیں گے۔ آخرت کا نقصان بھی اٹھائیں گے اور برطانیہ جیسی ’خوش حالی‘ کی طرف بھی دوڑتے ہی رہیں گے۔
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَـآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (الحشر: ۵۹:۱۰) اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ‘ اَے ہمارے رب! تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
[اس آیت سے قبل فَے کی تقسیم کا مسئلہ زیربحث ہے۔ فَے وہ مال ہے جو دشمن سے بغیر لڑائی کے مسلمانوں کو حاصل ہو۔] اس آیت میں اگرچہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں‘ بعد میںآنے والے مسلمانوں اور ان کی آیندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے‘ اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعاے مغفرت کرتے رہیں‘ نہ یہ کہ وہ اُن پر لعنت بھیجیں اور تبرّا کریں۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے‘ وہ دراصل ایمان کا رشتہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیرخواہ ہوگا جو ایمان کے رشتے سے اس کے بھائی ہیں۔ ان کے لیے بدخواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں اسی وقت جگہ پا سکتی ہے، جب کہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جائے اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو۔ اس معاملے میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمھارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے‘ اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضورؐ نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیرمعمولی چیز اُنھیں نظر نہ آئی۔ ناچار انھوں نے خود ہی ان سے پوچھ لیا کہ بھائی‘ آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضوؐر سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سُنی ہے؟ انھوں نے کہا: میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ البتہ ایک بات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو‘ اور وہ یہ ہے کہ: ’’میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو‘ اس سے حسد کرتا ہوں‘‘۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جائے‘ یا اس کی غلط بات کو غلط نہ کہا جائے۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اُسے بیان کر دینا اور چیز ہے ‘ اور بغض و نفرت‘ مذمت و بدگوئی اور سبّ و شتم بالکل ہی ایک دوسری چیز۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جائے تب بھی ایک بڑی بُرائی ہے‘ لیکن مرے ہوئے اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی بُرائی ہے‘ کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہوگا جو مرنے والوں کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید بُرائی یہ ہے کہ کوئی شخص اُن لوگوں کے حق میں بدگوئی کرے جنھوں نے انتہائی سخت آزمایشوں کے دَور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور اپنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسّر ہوئی ہے۔ اُن کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے اُن میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسرے فریق کا موقف اس کی راے میں صحیح نہ ہو، تو وہ یہ راے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کرسکتا ہے۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بدگوئی کی تراوش ہونے لگے‘ ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سرزد نہیں ہوسکتی۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس فعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے‘ اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں، وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھے۔ لیکن یہ الزام اُس گناہ سے بھی بدتر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی یہی آیات‘ جن کے سلسلۂ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہلِ ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعاے مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے‘ اُن کے اس اِلزام کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ اِن آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے: اوّل مہاجرین‘ دوسرے انصار‘ تیسرے اُن کے بعد آنے والے مسلمان۔ اور اِن بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اِسی سورئہ حشر کی آیات ۱۱ تا ۱۷ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے۔ اِس سے یہ بات بالکل ہی کُھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنھوں نے غزوئہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی‘ اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوئہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ شامل تھے۔ اِس کے بعد کیا ایک مسلمان ‘ جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو‘ یہ جسارت کر سکتا ہے کہ اُن لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟
امام مالکؒ اور امام احمد ؒنے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ راے ظاہر کی ہے کہ فَے میں اُن لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابۂ کرام کو بُرا کہتے ہیں (احکام القرآن لابن العربی‘ غایۃ المنتھٰی)۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس راے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوئے ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے‘ مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جائے ورنہ نہیں۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی حمایت کے لیے کمربستہ رہتے ہیں‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جائے وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حق دار نہیں ہے۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دے دیا جائے اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے‘ خواہ وہ خود تنگ دست ہوں‘‘۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کا کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ اُن کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہش مند ہو۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ ’’اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعاے مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بغض نہ ہو‘‘، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہلِ ایمان کا رویّہ دوسرے اہلِ ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوئے مومنین کے معاملے میں کیا ہونا چاہیے۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۴۰۳- ۴۰۵)
[سورئہ اعراف میں ہے]: ’’وہ اہلِ جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے‘‘ (۷:۴۳)، یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دُور کردی جائیں گی۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہوجائیں گے۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سے جنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہوگی کہ فلاں جو میرا مخالف تھا اور فلاں جو مجھ سے لڑا تھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمانؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔
اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انھیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انھیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۳۰-۳۱)
آپ نے سنا کہ ایک شخص گناہوں میں مبتلا ہے یا خود اپنی آنکھوں سے اس کو گناہ میں مبتلا دیکھا تو بے تعلق ہوکر گزر گئے کہ جیساکرے گا ویسا بھرے گا۔ دل میں نفرت اور بے زاری کی ہلکی سی خلش رہ گئی مگر جلد ہی آپ نے ذہن جھٹک دیا اور اپنے کاموں میں لگ گئے۔ بے شک وہ گناہ گار شخص اپنے کیے کی سزا پائے گا اور آپ جن اچھے کاموں میں اللہ کی رضا کے لیے لگے ہوئے ہیں ان کا بھرپور صلہ پائیں گے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس شخص کو آپ نے گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیکھا ہے اور جن کی طرف سے بے زاری اور حقارت کا جذبہ دل میں محسوس کر رہے ہیں، کیا اس کے ساتھ آپ کا یہ رویہ صحیح ہے کہ دل میں ہلکی سی خلش لے کر اس سے بے تعلق ہوجائیں اور بغیر کسی حق کے یہ فیصلہ کرلیں کہ جو بوئے گا، وہ کاٹے گا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس معاملے میں آپ کی یہ روش اللہ کو پسند نہ ہو۔
دین سر تا سر خیرخواہی کا نام ہے۔ اس گناہ گار کے ساتھ آپ نے کیا خیرخواہی کی؟ کیا اتنا کافی ہے کہ آپ اس سے بے تعلق رہیں؟ اپنا دامن بچائے رکھیں اور خود کو اس گناہ سے محفوظ رکھ کر یہ اطمینان کرلیں کہ کل خدا کے حضور آپ کہہ دیں گے کہ پروردگار میں نے اس گناہ گار سے تعلق نہیں رکھا اور خود کو اس کے شر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی، یا اس سے آگے بھی اس گناہ گار کا آپ پر کچھ حق ہے؟ وہ غافل ہے اور آپ باشعور ہیں۔ وہ آخرت سے بے پروا ہے اور آپ کو آخرت کی فکر ہے۔ وہ دین سے ناواقف ہے اور آپ دینی علم رکھتے ہیں۔ اس کو صالح ماحول نہیں مل سکا ہے اور آپ صالح ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا آپ پر اس کا یہ حق نہیں ہے کہ آپ اس کو آخرت کی سخت پکڑ سے بچائیں اور گناہ کے بدترین اثرات اور ہولناک انجام سے ڈرائیں۔ کیا آپ کے نزدیک اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ آپ کی نصیحت قبول کرلے اور توبہ کر کے خدا کی طرف لوٹ آئے۔
وہ شخص جس گناہ میں مبتلا ہے، اس سے اپنا دامن بچا کر آپ نے سمجھ لیا ہے کہ آپ اس سے محفوظ ہوگئے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ اور آپ جیسا شعور رکھنے والے سارے لوگ یہی اندازِ فکر وعمل اپنا لیں گے تو گناہ بڑھتے چلے جائیں گے اور پورامعاشرہ اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔ آپ بھی اس سے متاثر ہوں گے اور آپ کی نسلیں بھی،گناہ کی قباحت و شناعت دھیرے دھیرے کم ہونے لگے گی۔ گناہوں سے مصالحت اور برداشت کرلینے کی کیفیت بڑھتی چلی جائے گی اور نبی صادق و امینؐ کے الفاظ میں آپ گناہ بطور خود نہ کرنے کے باوجود گناہ کرنے والوں ہی میں شامل قرار دیے جائیں گے۔ بات کسی اور کی ہو تو آپ سنی اَن سنی بھی کردیتے لیکن یہ بات تو اُن کی ہے جن کی صداقت پر آپ کا ایمان ہے اور جن کے واسطے سے ہی آپ آخرت میں نجات کا یقین رکھتے ہیں۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے: ’’جس مقام پر لوگ گناہوں میں مبتلا ہوں اور کچھ ایسے لوگ وہاں موجودہوں جو اس گناہ کو برداشت نہ کر رہے ہوں تو وہ گویا وہاں موجود ہی نہیں ہیں، اور جو لوگ ان گناہوں پر مطمئن ہوں اور ان کو برداشت کررہے ہوں، وہ اگر موقع پر موجود نہ بھی ہوں تو بھی وہ گویا ان لوگوں میں موجود ہیں‘‘۔
حدیث کے اس صاف شفاف آئینے میں اپنے عمل و کردار کا چہرہ دیکھیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے کہ آپ جو رویہ اختیار کر رہے ہیں، وہ کس حد تک صحیح ہے اور حقیقت میں صحیح رویہ آپ کے لیے کیا ہے؟ صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ آپ گناہگاروں کے گناہ پر کُڑھیں اور اس کی کُڑھن سے بے چین ہوکر ان بھٹکے ہوئے بندوں کو انجامِ بد سے ڈرائیں۔ گناہ کے اثراتِ بد سے بچائیں اور اپنے معاشرے کو گناہوں سے پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
گناہ آپ کی بستی میں ہو رہا ہو، یا محلے میں یا آپ کا کوئی پڑوسی اس میں مبتلا ہو، بہرحال آپ کی یہ اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ آپ اسے روکیں اور گناہگار کے خیرخواہ بن کر اس کو گناہ سے بچانے کی فکر کریں اور ہرگز خود کو اس سے بے تعلق رکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کل خدا کے حضور پکڑے نہ جائیں گے۔ آپ کا پڑوسی کل خدا کے حضور میدانِ حشر میں آپ پر خیانت کا الزام لگائے گا اور آپ کے اس رویے پر رب سے فریاد کرے گا۔ امام حنبلؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
قیامت کے روز ایک شخص اپنے پڑوسی کا دامن پکڑ کر یہ فریاد کرے گا: اے میرے رب! اس نے میرے ساتھ خیانت کی ہے۔ وہ جواب دے گا: پروردگار! میں تیری عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس کے اہل و عیال اور مال میں کوئی خیانت نہیں کی ہے۔ فریادی کہے گا: پروردگار! یہ بات تو یہ سچ کہتا ہے لیکن اس نے خیانت یہ کی کہ اس نے مجھے گناہ کرتے دیکھا لیکن کبھی مجھے گناہ سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔(مسند احمد)
اللہ نے آپ کو دین کا شعور اور حلال و حرام کی تمیز دے کر اس ذمہ داری کے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ آپ رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کریں۔ لوگوں کو معصیت اور منکرات سے روکیں اور بھلائیوں کی ترغیب دیں، دل سوزی کے ساتھ شیریں گفتاری کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ اور اس کوشش میں اپنے اثرات بھی استعمال کریں۔ اگر آپ نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہ کی تو گویا آپ نے خیانت کی اور آپ کا پڑوسی کل حشرکے میدان میں آپ سے اسی خیانت کا الزام لگائے گا چاہے وہ آپ کے محلے کا پڑوسی ہو یا آپ کی بستی کا۔
ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے کہ جب عام لوگ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور شعور رکھنے والے صرف اپنی ذات اور اپنے گھر کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور مبتلاے گناہ لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، بلکہ اس سوچ سے خود کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ جیسا کریں گے ویسا بھریں گے اور ان کے گناہوں کو برداشت کرنے لگتے ہیں،تو یہ گناہ اور رب کی نافرمانیاں بڑھنے لگتی ہیں اور دھیرے دھیرے پورے سماج اور بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور اب تو ذرائعِ ابلاغ کی مدد سے پورے پورے ملک اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پھر اللہ کی جانب سے عذاب کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ ان لوگوں کو موت آئے یہ سب لوگ اللہ کے عذاب میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو گناہوں سے دور رہتے ہیں۔ حضوؐر کا ارشاد ہے:
جن لوگوں کے درمیان بھی کوئی شخص گناہ کے کام کررہا ہو اور وہ لوگ اس کو روک سکتے ہوں پھر بھی نہ روکیں، تو اس سے پہلے کہ یہ لوگ مریں سب کے سب خدا کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔(ابوداؤد)
دراصل اللہ نے مومن کا وصف ہی یہ بتایا ہے کہ وہ منکرات کو گوارا نہیں کرتا، بلکہ اس کو روکنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ رب سے وفاداری کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ زمین پر رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کرے اور رب کی فرماں برداری اور بھلائی کے پرچار پر لوگوں کو ہر ممکن ذریعے سے آمادہ کرے۔ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی۔ صحابہ کرامؓ کا دورِ سعادت اس کی بہترین اور قابلِ تقلید مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جو قرآن پاک میں قطعی طور پر خیراُمت کے لقب سے یاد کیے گئے ہیں، اسی بنیاد پر ان کو اس لقب سے نوازا گیا کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے تھے اور اللہ پر کامل ایمان رکھتے تھے۔
انفرادی طور پر بھی صحابہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ہرہر موقع پر نیکی اور اصلاح کے حریص رہتے تھے اور اس معاملے میں اپنا فرض اور دوسروں کا حق ادا کرنے کے لیے ہمہ دم مستعد رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو بارآور بھی کیا اور انھوں نے اپنی مخلصانہ کوششوں کے نیک نتائج سے اپنی آنکھیں بھی ٹھنڈی کیں۔
حضرت عمرؓ کے پاس شام کا رہنے والا ایک شخص اکثر آیا کرتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ بہت دن گزر گئے اور وہ نہیں آیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی یاد آئی، لوگوں سے اس کے بارے میں معلومات کیں تومعلوم ہوا کہ وہ کچھ بُرے کاموں میں پڑ گیا ہے، پینا پلانا شروع کردیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے کاتب کو بلایا اور اس کو ایک خط لکھوایا:
یہ خط ہے عمر بن الخطاب کی طرف سے… فلاں ابن فلاں ابن فلاں شامی کے نام۔
تمھارے اس اللہ کی حمدو تعریف کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور زبردست احسان کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے۔
یہ خط لکھوا کر امیرالمومنین نے اس شامی شخص کی طرف روانہ فرمایا اور اپنے پاس کے ساتھیوں سے کہا کہ تم سب لوگ اس شخص کے لیے رب سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پھیر دے اور اس کی توبہ کو قبول فرمائے۔ ادھر اس شامی خطاکار کو جب امیرالمومنین کا خط ملا تو اس نے اس کو بار بار پڑھا، اور یہ کہنا شروع کیا کہ میرے رب نے مجھے اپنی پکڑ اور اپنے عذاب سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر مجھ سے گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ خط اس نے کئی بار پڑھا، رویا اور اللہ سے توبہ کی اور ایسی سچی توبہ کی کہ اللہ نے اس کی زندگی بدل دی۔
حضرت عمرؓ کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ انتہائی خوش ہوئے اور لوگوں سے کہا کہ جب تم اپنے کسی مسلمان بھائی کو دیکھو کہ وہ بھٹک گیا ہے تو اس کو چھوڑ نہ دو، بلکہ اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔
نیک اعمال میں توبہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے اور آپ کے ذریعے کسی کو اگر توبہ کی توفیق ہوجائے تو یہ آپ کی سب سے بڑی سعادت اور اللہ کی نظر میں سب سے بڑی نیکی ہے۔
بجٹ ایک ملک کے مالیاتی میزانیے سے کہیں زیادہ پہلوؤں کا حامل ہوتا ہے۔ بلاشبہہ اولین حیثیت سے یہ حکومت کی سالانہ آمدنی اور اخراجات کا آئینہ ہی ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ یہ حکومت کی معاشی اور مالیاتی پالیسی، اہداف اور ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ملک کے بجٹ کا جائزہ لیتے وقت مالی حساب کاری کے ساتھ معاشی پالیسی، اس کی سمت اور اس صلاحیت کا تعین بھی ضروری ہے کہ کہاں تک اس میں حالات کے صحیح ادراک اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدام کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ہمیں احساس ہے کہ مخلوط حکومت نے معاشی اعتبار سے بڑے نامساعد حالات میں زمامِ کار سنبھالی ہے اور اسے بجٹ سازی کے لیے مہلت بھی خاصی کم ملی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم نے آٹھ سال سے زیادہ جو کچھ ملک کی معیشت کے ساتھ کیا اس کے نتائج تو ۲۰۰۶ء ہی سے رونما ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن ۰۸-۲۰۰۷ء میں ان کے دعووں کی قلعی بالکل کھل گئی اور جن مفروضوں پر معاشی ترقی کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا وہ ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوگئے۔ ہم نے اور دوسرے ماہرین معیشت نے بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ قوم کے سامنے صحیح اعداد وشمار پیش نہیں کیے جارہے، غربت میں کمی کے دعوے حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ سالانہ ترقی کے ۷ اور ۸ فی صد کے دعوے اور اس رفتار کو جاری رکھنے کی باتیں درست نہیں اس لیے کہ ملک میں زراعت اور صنعت کے شعبے روبہ ترقی نہیں اور محض خدمات کے شعبے اور نودولتیوں کے صَرف (consumption) کے سہارے ترقی کبھی دیرپا نہیں ہوتی۔ بنیادی طور پر معاشی حالات بگاڑ کی طرف جارہے تھے اور حکومت کے ذمہ دار اور اس کے نشریاتی ادارے قوم کو گمراہ کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف تھے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سالِ رواں میں ۷ فی صد سے زیادہ شرح ترقی کے ہدف کے مقابلے میں ترقی کی شرح صرف ۸ئ۵ فی صد رہی ہے۔ اس کا ۷۵ فی صد خدمات کے شعبے کا مرہونِ منت ہے۔ زراعت میں ۵ئ۴ فی صد کے ہدف کے مقابلے میں اضافہ صرف ۵ئ۱ فی صد تھا اور وہ بھی لائیوسٹاک کی وجہ سے جس کا حصہ زراعت میں ۵۲ فی صد ہے۔ اہم فصلوں کی پیداوار میں ۳ فی صد کمی واقع ہوئی اور ملک میں خوردونوش کی اشیا کی قلت اور مہنگائی دونوں نہ صرف رونما ہوئے بلکہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا دوبھر ہوگیا اور کم آمدنی والے خاندان فقروفاقہ کا شکار ہونے لگے اور نوبت خودکشیوں اور اولاد فروشی تک جاپہنچی۔
اس کے باوجود حکومت کی شاہ خرچیوں میں اضافہ ہوتا رہا، بجٹ کا خسارہ ۵۰۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہوگیا، درآمدات بڑھتی گئیں اور برآمدات میں متناسب اضافہ نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں تجارت کا خسارہ ۱۸ ارب ڈالر اور ادایگیوں کا خسارہ ۱۱ ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور ملکی اور بیرونی قرضوں کا بار اور بھی بڑھ گیا۔ دعوے تھے کشکول توڑنے کے مگر ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں ۰۸-۲۰۰۷ء میں بیرونی قرضے ۳۴ ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴۵ ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور اندرون ملک حاصل کیے جانے والے قرضوں میں ان آٹھ سالوں میں دو ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ افراطِ زر کا حال یہ ہے کہ جولائی ۲۰۰۷ء میں اس کی شرح ۴ئ۶ فی صد تھی جو اپریل ۲۰۰۸ء میں بڑھ کر ۲ئ۱۷ فی صد ہوگئی ہے اور اگر خوراک کی اشیا کا انڈکس لیا جائے تو اضافہ ۵ئ۸ سے بڑھ کر ۵ئ۲۵ فی صد ہوگیا ہے۔ حکومت اسٹیٹ بنک سے آنکھیں بند کر کے بگ ٹٹ قرضے لیتی رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں کرنسی کی گردش کی رفتار میں ۱۹ فی صد سالانہ سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے___ اشیا کی قلت، عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ، قرضوں کی بھرمار، زیر گردش کرنسی میں محیرالعقول بڑھوتری ___ اگر افراطِ زر کا طوفان اُمنڈ نہ آئے تو کیا ہو؟
ہمیں احساس ہے کہ موجودہ حکومت کو یہ مسائل اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ ورثے میں ملے ہیں مگر ایسا نہیں کہ یہ عالمی رجحانات اور خود ملک میں ۲۰۰۷ء میں رونما ہونے والے حالات اور ۲۰۰۸ء پر ان کے اثرات پردئہ غیب میں تھے۔ سیاسی جماعتوں کو ان کا ادراک ہونا چاہیے تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بنیادی تیاری (home work) کی قائل نہیں۔ برسرِاقتدار جماعتوں میں سے کسی کے پاس بھی سیاسی نعروں کے سوا کوئی ٹھوس منصوبۂ عمل نہیں۔ ۰۹-۲۰۰۸ء کا بجٹ چند نمایشی چیزوں کے سوا اسی طرز پر بنایا گیا ہے جس پر اس سے پہلے کے بجٹ بنتے رہے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ بنانے والا ذہن وہی ذہن ہے اور محض بے نظیرکارڈ کے ذریعے بجٹ کو عوامی بنانے کی کوشش مسائل کا حل نہیں۔
سب سے پہلی ضرورت ملک میں معاشی پالیسی سازی کو بیرونی اداروں اور عالمی نظام کی زنجیروں میں گرفتار ذہن سے نجات دلانا ہے۔ موجودہ بجٹ کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اس کے پیچھے مستقبل کا کوئی وژن نہیں۔ سارا اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہے کہ جمع تفریق کا تھوڑا سا کھیل کھیل کر اپنے کو دھوکا دینے اور دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کبھی اسے ترقی کا حامی (pro-growth ) کہا جارہا ہے اور کبھی غریبوں کا حامی (pro-poor) ___ حالانکہ نہ اس کے پیچھے ترقی کی کوئی قابلِ فہم حکمت عملی ہے اور نہ غربت کے خاتمے کا کوئی سوچا سمجھا دیرپا منصوبۂ عمل۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ معیشت میں حکومت کے کردار کے بارے میں ایک واضح پالیسی کے بغیر کوئی بڑی معاشی پیش رفت ممکن نہیں۔ جنرل ایوب کے زمانے میں سرمایہ دارانہ نظام کو ترقی کی بنیاد بنایا گیا اور غربت میں اضافے، معاشی ناہمواریوں میں ناقابلِ برداشت بڑھوتری اور علاقائی عدم توازن کے عفریت نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا اور مشرقی اور مغربی پاکستان میں ایک ایسی آویزش نے جنم لیا جو دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر ملک کو دولخت کرنے پر منتج ہوئی۔ پیپلزپارٹی نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۷ء تک قومی ملکیت اور حکومت کی مداخلت کی حکمت عملی اختیار کی مگر عملاً معیشت کو سیاست دانوں کی سیاست کاری، وقتی مصالح اور بیوروکریسی کی چیرہ دستیوں کی گرفت میں دے دیا۔ بدقسمتی سے آج پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)، دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں پالیسیوں کے تسلسل کی باتیں کررہے ہیں حالانکہ وقت کا تقاضا بنیادی تبدیلی کا ہے، اور یہی اس بجٹ کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اس کے نتیجے میں حالات میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوسکے گی اور عوام کی مشکلات اور مایوسیوں میں اضافے کے خطرات ہی اُفق پر منڈلا رہے ہیں۔
جب تک آزاد پاکستانی اور مسلمان ذہن سے حالات کا جائزہ لینے کا اہتمام نہیں ہوتا اور پالیسی کا نیا فریم ورک قومی مقاصد و اہداف، ملک کی خودانحصاری ، دیرپا ترقی (sustainable develpment) اور عوام کی فلاح اور خوش حالی کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں ہوتی، نیز محض مالیاتی نہیں بلکہ پیداواری عمل جس میں زراعت اور صنعت کا مرکزی کردار ہو، ترقی کا محور نہیں بنایا جاتا، معیشت کا قبلہ درست نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بجٹ اور سالانہ منصوبہ بندی کا پورا نقشۂ کار صحیح قومی ترجیحات کا آئینہ دار ہو اور صرف بجٹ ہی نہیں سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام اور نجی شعبے کے لیے دائرۂ کار، محرکات اور مواقع کا ہمہ گیر نظام وضع کیا جائے، ورنہ ہم ماضی کی طرح ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ اس بجٹ میں ان معاملات کا کوئی ادراک نظر نہیں آتا۔
تیسری بڑی بنیادی بات یہ ہے کہ بالکل واضح طور پر معیشت میں ریاست کے کردار کو صحیح طور پر متعین کیا جائے۔ نہ سوشلسٹ نعروں کے تحت قومی ملکیت اور معیشت کو سرکاری اداروں اور سیاسی عناصر اور بیوروکریسی کے تابع کرنا صحیح طریقہ ہے اور نہ ہرچیز کو مارکیٹ پر چھوڑ دینا، نج کاری کے نام پر ملک کے کمزور طبقوں کو امیروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا اور عالم گیریت اور آزاد روی (liberalization) کی ستم کاریوں کا نشانہ بن جانے اور ملکی منڈیوں کو عالمی ساہوکاروں اور لٹیروں کے لیے کھول دینے کا۔ یہ قومی مقاصد کے حصول، عوام کی خوش حالی اور دیرپا ترقی کے حصول کا راستہ نہیں۔ ستم ہے کہ جو افراد ابھی کل تک بائیں بازو کے گل ہاے سرسبد مانے جاتے تھے وہ اب مارکیٹ اکانومی، نج کاری اور لبرلائی زیشن کے راگ الاپ رہے ہیں۔بلاشبہہ ایسا سرکاری شعبہ جو سیاسی مصالح کے تابع ہو اور جسے بیوروکریٹس چلائیں،نامطلوب ہے لیکن صحیح خطوط پر ریاست اور حکومت کا ایک مثبت اور مؤثر کردار معاشی ترقی اور انصاف اور عوامی خوش حالی پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ بجٹ اور حکومت کی پالیسیوں میں اس مسئلے کے ادراک کا فقدان ہے۔ آج بھی ساری پالیسی سازی انھی بنیادوں پر ہورہی ہے جن کی تباہ کاریوں کا نظارہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے قوم کر رہی ہے۔
گذشتہ آٹھ سالہ معاشی حکمت عملی کی ایک اور بنیادی خامی یہ تھی کہ اس میں معیشت کا جو سب سے اہم حصہ ہے، یعنی اشیا کا پیداواری شعبہ (commodity producing sector) جس میں زراعت، چھوٹی صنعت اور بڑی صنعت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ان کا کردار معیشت میں برابر کم ہوا۔ ان کے لیے دیرپا اور مستحکم ترقی کی نہ کوئی پالیسی تھی اور نہ ان اداروں کو اہمیت دی گئی جو معیشت کے ان دائروں کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔ اس مرکزی اہمیت کے شعبے کو تو نظرانداز کیا گیا اور ساری توجہ خدمات کے شعبے کی ترقی پر رہی، خصوصیت سے بنکاری، ٹیلی کمیونی کیشنز، انشورنس وغیرہ۔ بیرونی سرمایہ کاری بھی نج کاری اور تیل و گیس کی صنعت میں رہی یا پھر ان روزمرہ اشیاے صرف کی پیداوار کی طرف، جیسے دودھ اور برگر جو ملک کی پیداواری استعداد میں اضافے کا باعث نہیں ہوتے۔ اس نوعیت کی ترقی پوری معیشت کو متاثر نہیں کرتی بلکہ ترقی کے چند جزیرے وجود میں آجاتے ہیں جن کا رشتہ (linkage) پوری معیشت سے کمزور ہوتا ہے۔ اس نوعیت کی ترقی کا ماحصل یہ ہے کہ ہر ہاتھ میں سیل فون تو آجاتا ہے مگر ٹیلی فون بنانے کی ٹکنالوجی سے ملک محروم رہتا ہے اور اس کا انحصار باہر والوں پر بڑھتا رہتا ہے۔ نیز جلد ہی سرمایہ کا بہائو بھی باہر کی طرف ہوجاتا ہے کہ ایک طرف درآمدات بڑھتی ہیں اور دوسری طرف نفع ملک سے باہر جانے لگتا ہے۔
بنکاری کی صنعت نے بڑی ترقی کی ہے مگر آہستہ آہستہ ملک کا پورا بنکاری نظام ایک قومی بنک کو چھوڑ کر باہر کے بنکوں کی گرفت میں آرہا ہے۔ یہی حال مواصلات کا ہے۔ بنکوں کے کھاتے داروں کو جو سود ملتا ہے وہ شرح افراطِ زر سے کہیں کم ہے اور اس طرح وہ منفی return یعنی نقصان کا شکار ہیں لیکن Banking spread (سود کی وصولی اور ’منافع‘ کی ادایگی کی شرح میں فرق) بہت زیادہ ہونے کے باعث بنکوں کا منافع آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ بنکوں کا منافع ۲۰۰۳ء میں ۷ئ۴۳ ارب روپے تھا جو ۲۰۰۶ء میں بڑھ کر ۶ئ۱۲۳ ارب روپے ہوگیا ۔ بنکوں کے نفع پر ٹیکس اس زمانے میں ۶۰ فی صد سے کم ہوکر ۳۵ فی صد رہ گیا۔ سالِ رواں میں خدمات کے شعبے سے نفع کی مد میں ملک سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ منتقل کیے گئے۔ اگر اس اُلٹی گنگا کے بہائو میں سرمایہ کے فرار (flight of capital) کو شامل کرلیا جائے جو سیاسی وجوہ کے علاوہ اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازوں کے کھیل کا نتیجہ ہے، تو یہ رقم ۳ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ جب تک معاشی پالیسی کا مرکز اور محور تبدیل نہیں ہوتا اس وقت تک نمایشی تبدیلیاں تو ہوتی رہیں گی لیکن حقیقی معاشی ترقی اور خوش حالی خواب و خیال ہی رہیں گے۔
وقت کی اصل ضرورت ترجیحات کی تبدیلی ہے۔ نئے بجٹ میں زراعت کے لیے کچھ سہولتیں ضرور دی گئی ہیں مگر وہ نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ایک واضح وژن اور مربوط (integrated) منصوبۂ عمل سے عاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی اثرانگیزی محدود رہے گی۔ زراعت کی زبوں حالی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قومی دولت میں اس کا حصہ ۲۲ فی صد ہے، آبادی کے ۶۰ فی صد کو رزق اور روزگار اس سے فراہم کیا جا رہا ہے لیکن حالیہ بجٹ اور پی ایس ڈی پی میں اس کا حصہ جی ڈی پی کا صرف ۲ فی صد اور پی ایس ڈی پی کا صرف ۴فی صد ہے۔ سبسڈی ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے مگر اس کے نتیجے میں پیداواری لاگت بڑھے گی اور ملک میں افراطِ زر میں مزیداضافہ ہوگا۔ ایک فی صد کے حساب سے سیلزٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ بھی ملک میں قیمتوں میں مزید اضافے کا باعث ہوگا۔ ان سب کے ساتھ اگر پانی، بیج، کھاد، ادویہ، قرض اور بجلی کی فراہمی کا حال دیکھا جائے جو ہراعتبار سے غیرتسلی بخش ہے تو زراعت میں نمایاں اضافہ مشکل نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ زراعت کے شعبے میں بڑی ناکامی ترسیل کے نظام (delivery system) میں ہے اور سب سے محروم طبقہ چھوٹا کاشتکار ہے جس کا حصہ پیداوار میں ۵۰ فی صد ہے لیکن وسائل کا ۵ فی صد بھی اسے مشکل سے میسر آتا ہے۔
دوسرے شعبے جو بری طرح بے توجہی کا شکاررہے ہیں، ان میں سرفہرست بجلی، گیس اور توانائی کا شعبہ ہے۔ اس کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر، ریل کی ترقی اور ٹرانسپورٹ کا مؤثر ملک گیر اور بڑے شہروں کا اندرونی نظام وہ چیزیں ہیں جو مسلسل نظرانداز کی جاتی رہی ہیں۔ اب نوبت شہروں میں آٹھ آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تک آگئی ہے۔ بڑے ڈیم سیاست کی نذر ہیں اور توانائی کے متبادل ذرائع بشمول چھوٹے ڈیم، کوئلے سے تیار کی جانے والی بجلی، آبی، شمسی اور بائیوگیس سے فراہم کی جانے والی توانائی سب غفلت کا شکار ہیں۔ منصوبہ بندی کا شعبہ سب سے ناکام شعبوں میں سے ہے۔ ورلڈبنک کی ایک حالیہ رپورٹ کھلے الفاظ میں کہتی ہے کہ منصوبہ بندی کا پورا نظام نااہلیت (incompetence) کا شکار ہے۔ مالیاتی اعتبار سے کوئی منصوبہ ایسا نہیں جو اپنے بجٹ میں پورا ہوا ہو۔ اور جہاں تک پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے طے شدہ وقت کا سوال ہے تو ورلڈ بنک کے جائزے کی روشنی میں مختلف منصوبوں کی تکمیل میں تین سال سے ۲۰ سال تک کی تعویق واقع ہوئی ہے۔
تجارتی خسارہ، ادایگیوں کا خسارہ، بجٹ کا خسارہ تینوں اس حد تک پہنچ چکے ہیں جو معیشت کی صحت کے لیے خطرناک اور ملک کو دیوالیہ کرنے کی راہ پر دھکیلنے والے ہیں۔ قومی بچت کی سطح ترقی پذیر ممالک کے معیار پر بھی خطرناک حد تک کم ہے، یعنی ۱۳ فی صد، جب کہ دیرپا ترقی کے لیے ۲۵فی صد کی سطح بھی کمی کی خبر لاتی ہے۔ بھارت، چین اور بہت سے دوسرے ممالک ۳۰ سے ۴۰فی صد بچت کا ہدف حاصل کر رہے ہیں۔
پھر وہ شعبے جو معاشی ترقی اور انسانی خوش حالی کے لیے مرکزی اہمیت رکھتے ہیں، یعنی تعلیم، صحت اور گھر کی سہولت بری طرح وسائل کے قحط کا شکار ہیں۔ مرکزی بجٹ میں تعلیم کے لیے ۲۶ارب روپے اور صحت کے لیے ۵ئ۶ ارب روپے رکھے گئے ہیں جو تمام صوبوں کے اندر مختص رقوم کو جمع کر کے بھی جی ڈی پی کا بمشکل ۵ئ۲ (تعلیم و صحت) بنتے ہیں، جب کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ شرح ۴ سے ۸ فی صد تک ہے۔ یہ تو صرف مالیات مختص کرنے کا حال ہے۔ اگر دیکھا جائے کہ میدان میں اصل حاصل کیا ہے، تو حالت اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔ ایک حالیہ سروے کی رو سے ملک میں ۱۲ہزار ۵ سو اسکول ایسے ہیں جن کا عملاً کوئی وجود نہیں، یعنی نہ تو بلڈنگ ہے اور نہ اساتذہ!
اس بجٹ کا ایک نیا پہلو بے نظیر کارڈ کا اجرا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے ان ۷۰لاکھ گھرانوں کو جو انتہائی غربت کی حالت میں ہیں، ایک ہزار روپے ماہانہ کی نقد مدد کی جائے گی۔ اس کے لیے ۳۵ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اصولاً غریبوں کو روٹی اور صحت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے نقد مدد ایک اچھی اسکیم ہے لیکن زکوٰۃ اور بیت المال کے تجربات کی روشنی میں اس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ اول تو رقم بہت کم ہے، یعنی کل ۳۵ ارب اور فی خاندان ایک ہزار روپے۔ ان سے ۷۰ کیا ۷ لاکھ خاندانوں کی مدد بھی محال ہے۔ پھر ہزار روپے میں ایک بے روزگار گھرانہ اپنی کون کون سی ضرورت پوری کرے گا؟ سب سے اہم سوال ضرورت مندوں کا صحیح تعین، ان تک مدد کی ترسیل کا شفاف نظام، اور اس پورے عمل کی نگرانی کا ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کا فقدان ہے۔ نادرا (NADRA)کے پاس جو معلومات ہیں وہ ان ضرورتوں کو سامنے رکھ کر حاصل نہیں کی گئی ہیں اور آبادی کا غریب ترین طبقہ نادرا کی خدمات سے محروم رہا ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ گہرے غوروخوض اور مناسب منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔
پوری اسکیم کو ایک مربوط انداز میں ایک قومی سطح کی سوشل سیکورٹی اسکیم کا حصہ ہونا چاہیے۔ صرف وہ افراد جو روزگار اور محنت کے لائق نہ ہوں ان کو نقد مدد دی جانا چاہیے ،یعنی بچے (۱۰ سال تک)، بیوائیں جن کا کوئی سہارا نہ ہو، بوڑھے اور معذور افراد۔ باقی تمام افراد کے لیے روزگار کی فراہمی یا ایسے کاروبار کا انتظام جس کے ذریعے وہ خودکفیل ہوسکیں، اصل حل ہے۔ نیز تعلیم اور صحت کے لیے ایسی اجتماعی انشورنس کے نظام کا نفاذ جس میں ہرشخص خود بھی ایک حصہ دے اور اس کے علاوہ جس کاروبار یا ادارے میں وہ کام کرتا ہو وہ اور حکومت اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔ اس میں بھی شبہہ ہے کہ ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ اور بجٹ میں خسارے کا جو اندازہ اس بجٹ میں دیا گیا ہے وہ ان حدود میں پورا ہوسکے گا جو متعین کی گئی ہیں یا نہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم، اور ترقیاتی پروگرام کے بنانے اور ان کی تعمیل کرنے کی صلاحیت اور انتظامِ کار کا ہے۔ بجٹ اس سلسلے میں بھی خاموش ہے۔ جس ناانصافی اور غفلت کے نتیجے میں مرکز اور صوبوں میں بُعد اور بے اعتمادی رونما ہورہے ہیں ان سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ این ایف سی اوارڈ ۱۹۹۷ء کی بنیاد پر جاری ہے۔ ہائیڈل منافع اور گیس اور دوسری معدنیات کی رائلٹی کا مسئلہ معلق ہے۔ صوبے وسائل سے محروم ہیں اور مرکز ایک گلے سڑے نظام کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ یہ صورت حال فوری تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔
اس بجٹ اور ان معاشی پالیسیوں پر کاربند رہ کر ملک نہ دیرپا ترقی کرسکتا ہے، نہ ترقی کے ثمرات سے عوام فیض یاب ہوسکتے ہیں، نہ خودانحصاری کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے اور نہ مرکز اور صوبوں میں حقیقی تعاون اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ وہی معاشی ترقی دیرپا اور خوش حالی کا ذریعہ بن سکتی ہے جو ملک و قوم کی اپنی اقدار اور اپنے عزائم کی روشنی میں بنے اور جس کا رخ بیرونی ساہوکاروں کو اپنے جسم سے گوشت کے ٹکڑے (pound of flesh) دینے کے بجاے اپنے وسائل سے اپنی قوم کو حق و انصاف کے مطابق عزت کی زندگی فراہم کرنا اور دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا ہو۔ جب تک نقطۂ نظر تبدیل نہ ہو اور ترقی کا رخ درست نہ ہو، بہتر زندگی کی اُمید عبث ہے۔
حالاتِ حاضرہ پر تحریر ۱۵ سال میں پرانی ہوجانا چاہیے، لیکن محترم خرم مراد کی یہ تحریر پڑھیں تو بالکل آج کی تحریر معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض کی تشخیص کی ہے اور نسخۂ شفا تجویز کیا ہے۔ لیکن شفا کے لیے شرط نسخے کے استعمال کی ہے۔ (ادارہ)
موجودہ پاکستان اور ہماری ذمہ داریوں کے حوالے سے اگر مختصراً جائزہ لیا جائے تو اس کے دو پہلو ہیں۔پہلے ایک نظر موجودہ پاکستان پر ڈالنا ضروری ہے، اور پھر اس کے حوالے سے ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ پاکستان اُس پاکستان سے بالکل مختلف ہے جو ۱۹۴۷ء میں معرض وجود میں آیا تھا، جغرافیائی طور پر بھی اور معنوی و روحانی طور پر بھی۔ یہ وہ پاکستان بھی نہیں ہے جس کا خواب دیکھ کر برعظیم کے مسلمانوں نے خاک وخون کے دریا سے گزر کر پاکستان کو وجود بخشا تھا۔ جغرافیائی طور پر اپنے وجود کے لحاظ سے جو پاکستان ۱۹۴۷ء میں تھا، وہ دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ اب اس کا آدھا حصہ ہے جو اس وقت پاکستان کے نام سے موجود ہے۔ اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ، بلکہ اکثریتی حصہ پاکستان سے الگ ہوچکاہے۔ جس دھڑکے دو حصے ہو جائیں وہ خود اپنی جگہ پر اس بات کی علامت ہے کہ وہ شدید انتشار اور مسائل سے دو چار ہے۔
معنوی اعتبار سے جب پاکستان وجود میں آیا تھا تو عزائم اور امیدوں کے خزانے لوگوں کے دلوں میںموج زن تھے۔ مگر منزل کی طرف پیش رفت کے لیے جو ہمتیں اور حوصلے اور جوجذبے اور آرزوئیں اُس وقت عوام کے دلوں میں موج زن تھیں، آج وہ ناپیدہیں۔ ان کی جگہ ایک مایوسی، قنوطیت، بے ہمتی اور بے حوصلگی کی کیفیت ہے۔
جب پاکستان وجود میں آیا تواس وقت عزائم بلند تھے، امنگیں توانا تھیںاور بازوئوں اور دلوں میں جذبہ اور قوت تھی۔ آج جدھر بھی چلے جائیں___ میں نے اس ملک کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا حوالہ دیا ہے___ لوگ سنجیدگی سے پوچھتے ہیں اوران کو پوچھنے کا حق ہے___ اس لیے کہ ماضی ان کی نگاہوں کے سامنے ہے___ کیا پاکستان سلامت رہے گا؟ اندر اور باہر کے لوگ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اس پاکستان کا سلامت رہنا ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے۔
وہ پاکستان جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا کہ یہ ملت اسلامیہ کی امنگوں کا ترجمان اور مظہر ہوگا، یہاں زندگی اس تہذیب و ثقافت، اس عقیدے اور ایمان اور اس نظام کے مطابق تشکیل پائے گی جو بحیثیت مسلمان ہمارا نظام ہے، مگر وہ منزل بظاہر آج قریب نہیں، بلکہ دور نظر آتی ہے۔
اگر ہم معنوی طور پر دیکھیں تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ ملک ہمارے لیے ایک کشتی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں ہم سب کشتی کے مسافر کی طرح سوار ہیں۔ اس کو جو حادثہ پیش آئے گا اس میں ہم برابر کے شریک ہوں گے۔ یہ کشتی ایک ایسے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے کہ اس کا تختہ تختہ ہل رہا ہے۔ جو لوگ اخلاقی اور دینی حوالے سے اپنے آپ کو بلند اور اس کشتی کے پاکیزہ حصے سے متعلق سمجھتے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ نچلے حصے کے لوگ، اور نچلے حصے سے مراد طبقاتی یا مادی یا علمی نچلا پن نہیں ہے بلکہ اخلاقی اور ایمانی لحاظ سے جو لوگ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس کشتی میں چھید کر رہے ہیں۔پانی اندر آرہا ہے، کشتی پانی سے بھر رہی ہے اور جوکشتی پانی سے بھر جائے، اس کی سلامتی مخدوش ہو جاتی ہے، بلکہ وہ تباہ و برباد ہو سکتی ہے اور سمندر کی نذر ہوسکتی ہے۔
یہی کیفیت ہمارے ملک کی ہے۔ یہ نچلا طبقہ جس میں ان مناصب پر بھی لوگ فائز ہیں جو پاکستان کے اعلیٰ ترین مناصب ہیں، اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو لائن مین ہوں یا میٹر ریڈر، سٹرک پر کھڑا ہوا کانسٹیبل ہو یا پٹواری جو زمین کی حدبندی کرتا ہے___ہر شخص اور ان کی بہت بڑی تعداد کشتی میں چھید کرنے میں مصروف ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ قانون نام کی چیز کتابوں میں پائی جاتی ہے لیکن قانون کی پابندی سے ہر ایک اپنے آپ کو بالاتر سمجھتا ہے۔ صدر ریاست بھی قانون توڑتے ہیں، کمانڈر انچیف بھی قانون توڑتے ہیں، وزیراعظم بھی قانون توڑتے ہیں، سول سرونٹ بھی قانون توڑتے ہیں، اور خود قانون کے محافظ، قانون کے نگراں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی قانون توڑتے ہیں۔ قانون شکنی اس ملک کا ایک عام رواج ہے اور قانون کی پابندی ایک استثنا ہے جو بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
سیاسی طور پر یہ ملک اس قدر غیر مستحکم ہے کہ نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی کسی حکومت کے بارے میں یہ اعتبار نہیں ہوتاکہ وہ قائم رہے گی، اور اپنے مقام پر اپنے فرائض انجام دے سکے گی۔ پچھلے چند انتخابات ہمارے سامنے ہیں اور وہ حکومتیں جو بظاہر بڑی مستحکم رہی ہیں جو قوت اور اسلحے کے بل پر قائم ہوئیں، وہ جب رخصت ہوئیں تو ملک کو مزید غیرمستحکم کرکے رخصت ہوئیں۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں: گویا کہ مین ہول یا گٹر پر ڈھکن رکھا ہوا تھا اور پانچ پانچ، دس دس سال کے اندر جو گندگی اور سٹراند جمع ہوتی رہی، وہ لوگ دیکھ نہیں سکے تھے لیکن جیسے ہی حکمران رخصت ہوئے، وہ منظر عام پر آگئی۔
پہلی ۱۰سالہ جبری حکومت رخصت ہوئی تو تحفے میں ملک کی تقسیم اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا تحفہ دے کر گئی۔ ملک دو لخت ہو گیا اور پاکستان کی باگ ڈورپیپلز پارٹی کے ہاتھ میں آگئی۔
دوسری حکومت رخصت ہوئی تو مسلسل چھے سال تک زلزلے کا عالم ملک کے سیاسی نظام پر طاری رہا۔ معاشی گرانی اور بے روزگاری نے کمر توڑ کر رکھ دی اور عالمی امداد کی آڑ میں پاکستان کو بھکاری بنا کر رکھ دیا گیا۔
پہلے ہی دن سے گداگری کو پاکستان کا شیوہ بنا دیا گیا۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ پاکستان بننے کے دو ماہ بعد پاکستان کے پہلے گورنرجنرل کا سفیر، واشنگٹن خیرات کی درخواست لے کر پہنچا اور اس زمانے میں دوہزار ارب ڈالر کی امداد دی گئی۔ یہ اتنی بڑی رقم تھی کہ اس کے ملنے کا خواب بھی آدمی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کے بدلے میں یہ یقین دلایا گیا کہ اس علاقے میں امریکا کے مفادات کے ہم محافظ ہیں ، اور اس کے جو سامراجی بین الاقوامی عزائم ہیں، ان کی تکمیل کا ذریعہ بنیں گے۔ اس امداد کے لیے جن اشیا کی فہرست دی گئی تھی، اس کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس لیے کہ اسی میں سپاہیوں کی تنخواہیں بھی امداد کے طور پر امریکا سے طلب کی گئی تھیں۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ پاکستان جس بے سروسامانی اور کس مپرسی کے عالم میں وجود میں آیا تھا، ان حالات میںشاید باہر سے امداد لینا ضروری ہوتا لیکن امداد لینے والوں اور خیرات لینے والوں نے امداد کے نام پر اس ملک کی آزادی کو آزاد ہوتے ہی بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں گروی اور رہن رکھ دیا۔ سیاسی طور پر ان کا سفیر یہاں کا وائسراے کہلانے لگا، اورمعاشی طور پر امداد کے سنہرے جال میں ہمارا بال بال بندھ گیا۔ یہاں تک کہ آج جو کچھ بھی ہم بجٹ میں بھاری ٹیکس لگا کروصول کرتے ہیں اس کا بڑا حصہ قرضوں کی ادایگی میں ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بجٹ کا یہ بڑا حصہ ابتدا ہی سے ترقیاتی کاموں پر لگاتے تو وہ رقم اس سے کہیں زیادہ ہوتی جو ہم نے امداد کے طور پر حاصل کی۔ پھر قرض کا یہ تناسب بڑھتاچلا جائے گا اور ایک وقت آئے گا کہ شاید پوری آمدنی دے کر بھی ہماری جان نہیں چھوٹے گی۔
دوسری طر ف اس الزام کے باوجود کہ ہم بجٹ کا۳۷ فی صد اسلحے اور فوج پر خرچ کرتے ہیں، یہ حقیقت تاریخ کے صفحات کے اندر موجود ہے کہ ہر سال اپنا پیٹ کاٹ کے تعلیم کو قربان کرکے، صحت کو قربان کرکے اور پائی پائی جوڑ کے ہم فوج کی صورت میں جو قوت پالتے رہے ہیں، وہ ہمارے ملک کو دو ٹکڑے ہونے سے نہیں بچا سکی۔ شروع سے لے کر آج تک کے کمانڈر انچیف واشنگٹن ’حج‘ پر جاتے ہیں اور وہاں کے ’باب ملتزم‘ سے چمٹ کر امداد کی درخواستیں کر کے، امداد لے کر واپس لوٹتے ہیں۔
ہماری نیوکلیئر پالیسی ہو یا کشمیر پالیسی یا افغان پالیسی، سب پر امریکا کی نظر ہے۔ ہمارے سر پر تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ ابھی ہم نے تمھیں دہشت گرد قرار نہیں دیا لیکن اس تمام تر صورت حال پر ہم گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہر دو ہفتے یا ایک ماہ بعد یہ خبر آتی ہے کہ اب ملک کو دہشت گرد قرار دیا جانے والا ہے۔ اس پر ہم اور ہمارے حکمران کانپ اٹھتے ہیں، اور پھر اطمینان دلایا جاتا ہے کہ نہیں ابھی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ مسلسل خوف میں رکھنا ٹارچر اور تعذیب کا ایک بڑا معروف طریقہ ہے۔ اپنی مرضی کے کام کرانے کے لیے ہلاک کرنے سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا مسلسل خوف اور ڈر کے اندر مبتلا رکھنے سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد آدمی زیادہ فائدہ دیتا ہے،اور وہ سب کام کرتا ہے جو کہ کرانے والا چاہتا ہے۔
ہمارے ملک کے اندر خوںریزی اور قتل و غارت کا جو بازار گرم ہے، یہ نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس امت کوجو نصیحتیں فرمائی تھی کہ تمھارے مال، تمھارے خون اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے کے اوپر اس طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی ، اس شہر کی اور اس مہینے کی حرمت ہے، اور دیکھو، میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ پنجابی ہو یا بنگالی ،عرب ہو یا ترک، یمن ہو یا مصر، شام ہو یا عراق… کبھی حجاج بن یوسف جیسے حکمرانوں کے ہاتھوں اور کبھی آپس میں نسلی اور لسانی تفرقوں کے ہاتھوں، جب کہ یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر، کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، مگر زبان ، نسل اور رنگ کی خاطر کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے کا خون بہانے میں مصروف ہیں۔ اس میں ریاستی ادارے، فوج اور پولیس،ڈکٹیٹر اور حکمران اور عام آدمی، سب ہی شامل ہیں۔ فرقہ واریت کی خاطر خون بہانا بالکل ایک عام رواج بن گیا ہے۔
الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَo وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَo (المطففین ۸۳:۲-۳) جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انھیں گھاٹا دیتے ہیں۔
ان سب امراض سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس لیے بھی کہ انھی امراض نے پہلی قوموں اور امتوں کو ہلاک کر دیا تھا۔اسی وجہ سے انھوں نے اللہ نے جو حرمتیں قائم کر دی ہیں، یعنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت ، ان کو حلال کر دیا۔
یہ مرض تو رگ رگ اور ریشے ریشے میں پھیل چکا ہے۔ مغربی تہذیب دنیا کی محبت اور زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی فکر کا نام ہے۔ اسی لیے مغرب دجّال کی یہی جنت لے کر آیا کہ اگر انکار کرو گے تو پستی ، پسماندگی اور افلاس کی جہنم میں جلو گے اور ایمان لائو گے، تو ہماری ترقی کے نظارے دیکھو گے۔ یہ موٹروے، یہ کارخانے، یہ ٹیلی ویژن اور بے شمار سائنسی ایجادات اسی ترقی کا نتیجہ ہیں۔ گویا معاشی ترقی ہی سب کچھ ہے۔ اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ اول جماعت سے انگریزی پڑھو گے تو ترقی نصیب ہوگی، کارخانے بنائو گے تو معاشی بہبود نصیب ہوگی۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ۴۰سال کی معاشی ترقی کے بعد بھی لوگ ویسے ہی غریب، پسماندہ اور جاہل ہیں۔ انگریزی پڑھ کے نہ ہم نے وہ سائنس دان پیدا کیے اورنہ وہ علما، نہ وہ فلاسفر پیدا کیے اور نہ وہ مفکر ین جو مغرب پیدا کر رہا ہے۔ گویا تعلیم میں بھی افلاس سے دوچارہیں اور معاشی طور پر بھی افلاس اور بدحالی میں مبتلاہیں۔
مغرب نے معاشی ترقی کو دیوی بنا کر اس کی پرستش کی ہے۔ یہ وہ سونے کا بچھڑا تھا جومغرب کے سامری نے گھڑ کے ہمارے سامنے رکھ دیا اور مسلمان ملت ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس کی پرستش میں مصروف ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید یہ امت بنی ہی اس لیے تھی کہ کارخانے بنائے، اور مال و دولت جمع کرے۔
جب مال بنانے کی حرص وہوس اور دینے میں بخل اور کنجوسی اور اغراض رگ رگ میں پھیل جائے تو پھر یہ باہمی افتراق و انتشار اور پستی و بدحالی کا سبب بنتے ہیں۔ جب معاشی ترقی ہی حاصل ٹھیری تو پھر ذاتی اغراض اور مفاد ہی مقدم ہوتے ہیں۔ پھر شاید میرے محلے، میری نسل اور میری قوم کی بات بہت دور جا کرآخر میںکہیں آتی ہے۔ آج جو خوں ریزی پائی جاتی ہے اس کی جڑ بھی اسی میں موجود ہے۔
مختصراً میں نے آپ کے سامنے موجودہ پاکستان کا نقشہ کھینچا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ؎
تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم
گویا پورا جسم زخموں سے چور ہے، آدمی مرہم کہاںکہاں رکھے، کس کس طرف آدمی انگلی اٹھائے کہ یہ اور یہ جرائم ہیں۔
بظاہر جو پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ طبقہ ہے، جس سے ہم اور آپ بھی متعلق ہیں،وہ چند ایک شعبوں میں کامیابی سے ہم کنار ہونے کے بعدسمجھتا ہے کہ ہماری ذمہ داری ادا ہوگئی۔لیکن یہ رویہ انبیاؑ کی روش نہیں تھی۔ ان کی قومیں جس جاہلیت کے اندر مبتلا تھیں، وہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔ بسااوقات ایک بھی صاحب ِخیر مشکل سے نظر آتا تھا۔ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ o (ھود ۱۱: ۷۸) کی صدا وہ بلند کرتے تھے لیکن ایک بھی آدمی نہیںملتا تھا جو صحیح بات کہنے والا ہو۔ حتیٰ کہ ایک ہزار سال کی دعوت اور جدوجہد کے بعد بھی وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌo (ھود ۱۱: ۴۰) کا منظر ہوا کرتا تھا۔ اس سب کے باوجود وہ مایوس نہ ہوئے بلکہ اپنی قوم کے درد اور سوز میں تڑپتے تھے، مضطرب رہتے تھے کہ کسی طرح قوم صحیح راستے پر آجائے۔ بُرا بھلا کہہ کر مرثیہ پڑھ کر بیٹھ نہیںجایا کرتے تھے،بلکہ ان کی روش تو یہ تھی:
فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَo (اعراف ۷:۹۳) اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے۔
یہاں تک کہ جب عذاب کی آخری گھڑی بھی آجاتی تو کہتے تھے کہ ہم نے تو نصیحت کی کوشش کی اور روتے ہوئے رخصت ہوا کرتے تھے کہ قوم کا یہ انجام ہوا۔ لہٰذا قوم کو برا بھلا کہنے یا مرثیہ پڑھنے سے ہماری اور آپ کی ذمہ داری ادا نہیں ہوتی۔ ماضی کے جائزے اور مسائل کے تذکرے کا بنیادی مقصد اس بات کا احساس دلانا ہوتاہے کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ نبی کریمؐکے ارشاد کے مطابق: کلکم راعٍ و کلکم مسُٔول عن رعَیْـتِہٖ، تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
اس لیے وہ لوگ جن کے پاس دین کافہم اور دین کا علم ہے اور جنھوں نے دین کے لیے حلف اٹھایا اور عہد کر رکھا ہے، ان سے بڑھ کر کون راعی ہوگا، اور ان سے بڑھ کر کس کو اپنی رعیت کا سوز اور درد و غم ہونا چاہیے۔ ان کو تو گھلنا چاہیے یہاں تک کہ گلا گھٹنے لگے جیسا کہ نبی کریمؐ کی حزن کی کیفیت تھی۔
فَلَا یَحْزُنْکَ قُوْلُھُمْ اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَo (یٰسٓ ۳۶:۷۶) اچھا ،جو باتیںیہ بنا رہے ہیں وہ تمھیں رنجیدہ نہ کریں، ان کی چُھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں۔
یہ اس کیفیت کی عکاسی ہے جو حضوؐرکے اوپر طاری تھی۔آپؐ جانتے تھے کہ جب میری قوم نے میرا انکار کر دیا اور مجھے نکال باہر کیا تو پھر اس کا مقدر ہلاکت اور تباہی ہو گا۔ ہم تو اس مقام پر بھی نہیں ہیں۔ یہ تو انبیا کی خصوصیت ہے کہ جب ان کی قوم رد کر دے تو قوم ہلاکت و تباہی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
ہم تو یہ بھی نہیںکہہ سکتے ہیں کہ ہم نے پہنچانے کا حق اور ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ لیکن یہ ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے۔ اللہ نے جن کو دین کا علم اور دین کا فہم دیا ہے، سب سے پہلے ان سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس کی فکر ہونی چاہیے اس لیے کہ لوگ اس بنیاد پر ہماری گردن پکڑ سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے وہ جن کے پاس علم ہو اور جواس کو دوسروں تک نہ پہنچائیں اور اس کا حق ادا نہ کریں جیسا کہ اس نے سب سے عہد لیا ہے کہ اسے لوگوں تک پہنچائیں اور اس کو بیان کریں، ان کے بارے میں بڑی وضاحت سے فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَامِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْم بَعْدِ مَا بَیَّـنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ لا اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَo اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ ج وَاَنَاالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُo اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَo خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ج لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۹-۱۶۲) جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانوکہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں، ان کو معاف کر دوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔ جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کو سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انھیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’امتِ وسط‘‘بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔
اور اس کی تعبیر بھی سامنے رکھ دی ہے۔ اب سب سے بڑھ کر یہ ہمارے پاس امانت ہے، اورہمارا اور آپ کا فرض ہے کہ یہ قوم جو تباہی کے کنارے لگ چکی ہے، وہ کشتی جس کا تختہ تختہ اس طوفان نے ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کی سلامتی کے لیے ہم اٹھ کھڑے ہوں اور اپنا حق اور فرض اداکریں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اگر ہم ایک ایک زخم کے اوپر مرہم رکھتے جائیں گے، اورایک ایک پھوڑے کا علاج کریں گے تودوسرا نکل آئے گا، اور گذشتہ ۴۵سال سے ہم یہی منظر دیکھ رہے ہیں۔ حالات کو بہتر کرنے کے لیے اور قوم کی قسمت سنوارنے کے لیے مدعی آتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ کوشش کرتے ہیں مگر جب جاتے ہیں تو قوم کی قسمت مزید بگڑی ہوئی ہوتی ہے، حالات مزید خراب ہو چکے ہوتے ہیں۔
فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ (البقرہ ۲:۱۰) ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے۔
فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُوْرِo (الحج ۲۲:۴۶) حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میںہیں۔
وہ سب قوتیں اور عناصر جو اس ملک کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں، جو اس دھرتی کے سینے میں چھید کرنے میںلگے ہوئے ہیں، جو ملکی وسائل اور خزانے کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں، جو ملک کی سلامتی کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں، ان کی آنکھیں خوب دیکھ رہی ہیں، ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں، ان کو خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیںلیکن ان کے دل اندھے ہو گئے ہیں۔
یہ دلوں کا اندھا پن زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی ہوس اور نہ دینا، روکے رکھنا، جمع کرنا، گن گن کے رکھنا اور حق نہ ادا کرنے کا نتیجہ ہے۔ سیاست میں کسی دوسرے کو جگہ نہ دینا ،ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا، روا داری کا مظاہرہ نہ کرنا،اس کی بنیادی وجہ دل کی تنگی ، بخل اور کنجوسی ہے۔ جب دل کھلتا ہے تو مال و دولت بھی آدمی دونوں ہاتھوں سے دیتا ہے۔ پھرغصے، نفرت اور انتقام کے طوفان بھی دل کے اندر سما جاتے ہیں اور تھم جاتے ہیں۔ اہلِ ایمان کی حقیقت تو یہ بتائی گئی ہے:
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط ( اٰل عمرٰن ۳:۱۳۴) جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔
یہ دونوں صفات ساتھ ساتھ اور پہلو بہ پہلو ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ آدمی سخی ہو اور دل کا تنگ بھی ہو، معاف کرے اور انتقام بھی لے۔ لیکن یہاں تو دونوں طرح کی کنجوسی اور بخل چھایا ہواہے۔ اس کی چربی دل کی آنکھوں پر چڑھ گئی ہے۔ اس نے دلوں کو اندھا کر دیا ہے۔
ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم دلوں کو جگائیں، دلوں کو بیدار کریں، دلوں کی بستی کو آباد کریں۔ ان میں خدا کی محبت پیدا کریں اور دنیا سے بے نیازی پیدا کریں۔ اس کے بغیر اس قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ ہم چاہیں کہ اوپر سے کوئی لیپ پوت کرکے یہ قوم صحیح راہ پہ آ جائے، تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ دلوں کے اوپر جوتالے پڑے ہوئے ہیں، ہم اگر ان کو ایمان اور خدا کی محبت کی کنجی سے نہیں کھولیں گے تو قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر اس قوم میں بے پناہ قوت کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ یہ کام ہے جو ہمارے آپ کے کرنے کا ہے۔
ہزار وعظ کیے جائیں کہ یہ غلط ہے اور وہ صحیح، یہ کرواور وہ نہ کرو،مگر جن کے دل پتھر کی طرح سخت ہو چکے ہوں، ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا پتھروں سے بھی چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور پانی رسنے لگتا ہے، اورخدا کی خشیت اور خوف سے بھی پتھر گر پڑتے ہیں، اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیںمگر جو دل پتھر سے زیادہ سخت ہوں ان پر کلام نرم و نازک بے اثر ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ قرآن کہتا ہے:ـ
فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً (المائدہ ۵:۱۳) پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے۔
قرآن نے اس کی وجہ صاف بیان کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وعظ بھی ہوتے ہیں، درس بھی ہوتے ہیں، قرآن بھی پڑھے جاتے ہیں، دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا، پتھروں سے پانی نہیں بہتا، اس لیے کہ دل تو پتھر کی طرح سخت ہیں۔
یہی ایک نسخہ ہے جس سے پوری قوم کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ جب کسی قوم اور افراد کے سامنے کوئی مقصد ہو اور کسی چیز سے محبت ہو تو اس کے بعد ہی اصلاح ممکن ہوتی ہے اور کسی کو عمل پر ابھارا جا سکتا ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ ایسا محض وعظ و نصیحت اور علم و شعورسے ہو جائے تو ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے کہ علم تو شیطان کے پاس بھی بہت تھا۔ علم تو مستشرقینِ اسلام کا بھی بہت ہے۔ علم کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ ،لیکن علم کے ساتھ دل کی بیداری بھی ضروری ہے۔ علم کی امانت ہمارے پاس ہے مگر علم خود فی نفسہٖ کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ بڑے بڑے علما گزر گئے مگر جن کے دل سخت تھے ان کا کچھ نہیں کر سکے، اپنی قوم کو کچھ نہیں دے سکے۔یہی وہ بات ہے جس کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے ؎
زندگانی را بقا از مدعاست
کاروانش را درا از مدعاست
کارواں کے لیے منزل و مقصد کا استحضار، بانگِ درا کی حیثیت رکھتا ہے جو قافلے کے متحرک رہنے کی علامت ہے۔گویا قوموں کی زندگی اگر باقی رہتی ہے تو مقصد سے وابستگی، مقصدسے محبت اور لگن سے باقی رہتی ہے۔
جب ہم قوم کو اُس مقصد کے لیے بیدار کر دیں، اُس راہ پر لگا دیں اور اُس مقصد سے وہ چمٹ جائے، جو مقصد اللہ کے عہد کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتا ہے، تو اس کی زندگی کو بقا مل سکتی ہے۔ یہ عہد اور مقصد ایک لنگر اور پتوار ہے جس سے طوفان میں ڈوبتی کشتی بچ سکتی ہے، اس کا تختہ تختہ ہلنا بند ہوجائے گا، اور پھر اس کے بعد یہ اپنی منزل کی طرف بڑھے گی۔
ہم اگر اور کچھ نہ کرسکیں توکم از کم یہ آرزو اپنے دلوں کے اندر زندہ رکھیں اور دوسروں کے دلوں کے اندر بیدارکردیں اور اس کی جستجو اور سعی میں لگے رہیں ؎
زندگی در جستجو پوشیدہ است
اصلِ او در آرزو پوشیدہ است
جستجو ہی زندگی کا راز ہے، زندگی تو اسی میں ہے کہ آدمی جستجو میں لگ جائے، یہ کام کرجائے، اس مقصد کے لیے تگ و دو کرے، اور اسی کی آرزو دل میں سلگتی رہے ؎
آرزو را در دِلِ خود زندہ دار
تانگردد مشتِ خاکِ تو مزار
لہٰذا اس آرزو کا چراغ کم از کم دل میں جلائے رکھو، اس آرزو کو دل میں سلگنے دو۔ اگر یہ بھی ختم ہو گئی تو پھر یہ مٹھی بھر مٹی کے پتلے چلتی پھرتی قبریں بن جائیں گے۔
حضرت مسیحؑ بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے کہ تمھاری مثال تو ان قبروں کی طرح ہے جن کے باہر تو سفیدی کر دی گئی ہے، اور اندر گندگی اور مردہ ہڈیاں اورخون اور پیپ جمع ہے۔ آج امیر طبقوں سے لے کر نچلے طبقوں تک وضع قطع، کلام، سب کچھ دیکھ لیں، ان کی کیفیت ایسی ہی ہے۔
موجودہ حالات میں بگاڑ کو روکنے اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے دراصل یہی ایک راہ ہے اور یہی ہماری ذمہ داری ہے۔ میں نے آپ کے سامنے کوئی لمبی چوڑی فہرست نہیں پیش کی بلکہ اصلاحِ عمل کے لیے لوگوں میں خدا کی محبت جگانا اور دنیا سے بے نیازی پیدا کرنی ہے۔یہی کرنے کا کام ہے اور اسی میں آج کے پاکستان کی بقا اور نجات ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجدعباسی)
(تقسیمِ عام کے لیے کتابچہ دستیاب ہے، ۴۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور)
جدیدیت دراصل ان نظریاتی ، تہذیبی ، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعہ کا نام ہے جو ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی کے یورپ میں روایت پسندی (Traditionalism) اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں۔
یہ وہ دور تھا ، جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا ۔تنگ نظر پادریوں نے قدیم یونانی فلسفہ اور عیسائی معتقدات کے امتزاج سے کچھ خود ساختہ نظریات قائم کررکھے تھے اور ان نظریات کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو وہ مذہب کے لیے خطرہ سمجھتے تھے ۔شاہی حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انھوں نے ایک ایسا استبدادی نظام قائم کر رکھا تھا جس میں کسی بھی آزاد علمی تحریک کے لیے کوئی گنجایش نہیں تھی۔
دوسری طرف اسپین کی اسلامی تہذیب کے ساتھ طویل تعامل کی وجہ سے عیسائی دنیا میں بھی حریت فکر کی ہوائیں آنے لگی تھیں۔ قرطبہ اور غرناطہ میں حاصل شدہ تجرباتی سائنس کے درس رنگ لارہے تھے ۔ اور یورپ کے سائنس دان آزاد تجربات کرنے لگے تھے۔ حریتِ انسانی اور مساوات کے اسلامی تصور کے اثرات نے جنوبی اٹلی اور صقلیہ میں انسان دوستی (Humanism) کی جدید تحریکیں پیدا کی تھیں۔۱؎
ان سب عوامل نے مل کر کلیسا کے استبداد کے خلاف شدید رد عمل پیدا کیا اور جدیدیت کی تحریک شروع ہوئی۔ چونکہ اس تحریک سے قبل یورپ میں شدید نوعیت کی دقیانوسیت اور روایت پرستی کا دور دورہ تھا، اس لیے اس تحریک نے پورے عہدِ وسطیٰ کو تاریک دور قرار دیا۔ مذہبی عصبیتوں ، روایت پسندی اور تنگ نظری کے خاتمے کو اپنا اصل ہدف بنایا۔ شدید رد عمل نے اس تحریک کو دوسری انتہا پر پہنچادیا اور روایت پرستی اور عصبیت کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے یہ تحریک مذہب اور مذہبی معتقدات ہی کے خلاف ہوگئی ۔
جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں فرانسس بیکن ۲؎، رینے ڈیکارٹ۳؎، تھا مس ہوبس ۴؎، وغیرہ مفکرین کے افکار میں پائی جاتی ہیں، جن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربے اور مشاہدے کے ذریعے قابلِ دریافت (knowable) ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے ہی رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا کہیں وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابلِ اعتبار ہیں جو عقل، تجربے اور مشاہدے کی مذکورہ کسوٹیوں پر کھرے ثابت ہوں۔ ان فلسفیوں نے مابعد الطبیعیاتی مزعومات (metaphysical contentions) اور مذہبی دعوئوں کو اس وجہ سے قابل رد قرار دیا کہ وہ ان کسوٹیوں پر پورے نہیں اترتے ۔ ڈیکارٹ نے "I think therefore I am" (میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں) کا مشہور اعلان کیا جو جدید مغربی فلسفے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کا شعوری عمل (Conscious Act of Ego) سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔
پاسکل ، مانٹسکیو، ڈیڈاراٹ ، وسلی، ہیوم، والٹیر جیسے مفکرین نے بھی عقل کی لامحدود بالادستی اور واحد سرچشمۂ علم ہونے کے اس تصور کو عام کیا ۔ یہ افکار عقل پرستی (Rationalism) کہلاتے ہیں اور جدیدیت کی بنیاد ہیں۔ چنانچہ جدیدیت کی تعریف ہی یوں کی گئی: جدیدیت وہ روشن خیالی اور انسان دوستی ہے جو کسی بھی ہستی کی بالادستی اور روایت کو مسترد کرتی ہے اور صرف عقل اور سائنسی علوم کو ہی تسلیم کرتی ہے۔ یہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ سچائی اور معنی کا واحد منبع خودمختار فرد کی عقل ہے___ کارتیسی اصول: فکر کردم پس ہستم ۵؎،
اس تحریک نے مذہبی محاذ پر الحاد اور تشکیک کو جنم دیا۔ والٹیر ۶؎ جیسے الحاد کے علَم برداروں نے مذہب کا کلیتاً انکار کردیا،جب کہ ہیگل جیسے متشکک مذہب کو تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن اسے عقل کے تابع بتاتے ہیں اور مذہبی حقائق کو بھی دیگر عقلی مفروضات کی طرح قابل تغیر قرار دیتے ہیں۔
سیاسی محاذ پر اس تحریک نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا ۔آزادیٔ فکر، آزادیٔ اظہار، اور حقوق انسانی کے تصورات عام کیے ۔ تھامس ہابس نے حتمی اقتدار اعلیٰ (Absolute Sovereignty) کے تصور کو سیاسی فلسفے کی بنیاد قرار دیا ۔ جان لاک نے اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کو اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ قرار دیا۔ والٹیر نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا ۔ مانٹسکیو ۷؎ اور روسو ۸؎ نے ایسی ریاست کے تصورات پیش کیے جس میں انسانوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا احترام کیاجاتا ہے ا ور حکمرانوں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔
جدیدیت کی تحریک نے قوم پرستی اور قومی ریاستوں کا تصور بھی عام کیا ۔ انھی افکار کے بطن سے جدید دور میں جمہوریت نے جنم لیا ۔ اور یورپ اور شمالی امریکا کے اکثر ملکوں میں خود مختار جمہوری قومی ریاستیں قائم ہوئیں۔
معاشی محاذ پر اس تحریک نے اول تو سرمایہ دارانہ معیشت اور نئے صنعتی معاشرے کو جنم دیا جس کی بنیاد ایڈم اسمتھ کی معاشی فکر تھی جو صنعت کاری، آزادانہ معیشت اور کھلے بازار کی پالیسیوں سے عبارت تھی۔ ۹؎ نئے صنعتی معاشرے میںجب مزدوروں کا استحصال شروع ہوا تو جدیدیت ہی کے بطن سے مارکسی فلسفہ پیدا ہوا،جو ایک ایسے غیر طبقاتی سماج کا تصور پیش کرتا تھا، جس میں محنت کش کو بالادستی حاصل ہو۔ ۱۰؎
اخلاقی محاذ پر اس تحریک نے افادتیت (Utilitarianism) کا تصور عام کیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اخلاقی قدروں کا تعلق افادیت سے ہے۔ جو رویے سماج کے لیے فائدہ مند ہیں، وہ جائز اور جو سماج کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ ناجائز روییّ ہیں۔ اور یہ کہ افادیت اخلاق کی واحد کسوٹی ہے۔ افادیت کے تصورنے قدیم جنسی اخلاقیات اور خاندان کے روایتی ادارے کی افادیت کو چیلنج کیا، جس کے نتیجے میں جدید اباحیت (permissiveness) کا آغاز ہوا ۔
جدیدیت ہی کے بطن سے نئے صنعتی معاشرے میں نسائیت (Feminism) کی تحریک پیدا ہوئی جو مرد وزن کی مساوات کی علم بردار تھی اور عورتوں کو ہر حیثیت سے مردوں کے مساوی مقام دلانا اس کا نصب العین تھا ۔
انقلابِ فرانس، برطانیہ میں جمہوریت کی تحریک ، امریکا کی آزادی کی تحریک اور اکثر یورپی ممالک کی تحریکیں جدید یت کے ان افکار ہی سے متاثر تھیں ۔ ۲۰ویں صدی کے آتے آتے یورپ اور شمالی امریکا کے اکثر ممالک ان افکار کے پرجوش مبلغ اور داعی بن گئے ۔جدیدیت کو روشن خیالی (Enlightenment) اور نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے نام بھی دئیے گئے اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے روشن خیالی کا منصوبہ ایک عالمی منصوبہ بن گیا۔
چنانچہ ۲۰ویں صدی کے نصف آخر میں مغربی ممالک کا واحد نصب العین تیسری دنیا میں روایت پسندی سے مقابلہ کرنا اور جدیدیت کو فروغ دیناقرار پایا۔ آزادی، جمہوریت، مساواتِ مردوزن، سائنسی طرز فکر، سیکولرزم وغیرہ جیسی قدروں کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کوششیںکی گئیں ۔ معاشی فکر کے معاملے میں مغرب سرمایہ دار انہ اور کمیونسٹ دھڑوں میں ضرور منقسم رہا، لیکن سیاسی ، سماجی اور نظریاتی سطح پر جدیدیت کے افکار بالاتفاق جدید مغرب کے رہنما افکار بنے رہے، جن کی دنیا بھر میں اشاعت اور نفاذ کے لیے ترسیل واشاعت کے علاوہ ترغیب وتنفیذ کے تمام جائز وناجائز طریقے اختیار کیے گئے ۔ تیسری دنیا میں ایسے پٹھو حکمرانوں کوبٹھایا گیا جو عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ترقی کے جدید ماڈل ان پر تھوپنے پر مامور رہے۔ اسلامی دنیا میں خصوصاً اسلامی تہذیبی روایات کی بیخ کنی کو جدیدیت کا اہم ہدف سمجھا گیا۔ ترکی ، تیونس اورسابق سوویت یونین میں شامل وسط ایشیا کے علاقوں میں مذہبی روایات سے مقابلے کے لیے ایک سخت ظالمانہ اور استبداد ی نظام قائم کیا گیا ۔
جدیدیت کے علم برداروں نے اپنے مخصوص افکار پر جس شد و مد کے ساتھ اصرا ر کیا اور ان کی تنفیذ کے لیے جس طرح طاقت اور حکومت کا بے دریغ استعمال ہوا اس نے فکری استبداد کی وہی صورت حال پیدا کردی ، جو عہد وسطیٰ کے یورپ میں مذہبی روایت پسندی نے پیدا کی تھی اور جس کے رد عمل میں جدیدیت کی تحریک برپا ہوئی تھی۔ اس استبداد کا لازمی نتیجہ شدید ردّ عمل کی شکل میں رونما ہوا۔ اور یہی رد عمل ما بعد جدیدیت (Post Modernism)کہلاتا ہے۔
مابعد جدیدیت ان افکار کے مجموعے کا نام ہے جو جدیدیت کے بعد اور اکثر اس کے ردعمل میں ظہور پذیر ہوئے۔ اس کے علَم بردار نہ تو کسی منظم نظامِ فکر کے قائل ہیں اور نہ منظم تحریکوں کے۔ اس لیے یہ فکر اشتراکیت یا جدیدیت کی طرح کوئی مبسوط یا منظم فکر نہیں ہے ۔ اور نہ اس کی پشت پر کوئی منظم تحریک ہی موجود ہے ۔ بلکہ مابعد جدیدیت کے علَم بردار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کسی نظریے کا نام نہیں ہے، بلکہ اُس عہد کا نام ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں اور اُن کیفیتوں کا نام ہے جو اس عہد کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ ۱۱ ؎ظاہر ہے کہ یہ محض دعویٰ ہے اور چونکہ وہ اپنے خیالات کی تائید میں کتابیں لکھ رہے ہیں ،فلسفیانہ مباحث چھیڑ رہے ہیں اور بحثیں کر رہے ہیں اس لیے دنیا ان کے خیالات کو ایک آئیڈیا لوجی ماننے پر مجبور ہے ۔
اکثر امور میں مابعد جدیدیت کے مفکروں میں اتفاق راے بھی نہیں ہے اور علمی حلقوں میں یہ اصطلاح مختلف معنوں میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس لیے اس کی تعریف بیان کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ تاہم بعض خیالات مابعد جدیدیت مفکرین میں مشترک بھی ہیں اور یہی مشترک فکر ان کا امتیاز ہے۔ لیوٹارڈ، جس کا اس فکر کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے، اس نے اس کی تعریف یوں کی ہے:
I define Postmodernism as incredulity towards meganarratives. ۱۲؎
(میرے نزدیک مابعد جدیدیت کا مطلب عظیم بیانات پر عدم یقین ہے ۔)
مابعد جدیدیت کے حامی کہتے ہیں کہ جدیدیت نے عقل کی بالاتری، آزادی، جمہوریت، ترقی، کھلی منڈی اور اشتراکیت جیسے خیالات عالم گیر سچائیوں کی حیثیت سے پیش کیے۔ یہ ایک کھلا فریب تھا۔ زمانہ کے امتداد نے ان ساری خود ساختہ حقیقتوںکا جھوٹ واضح کر دیا ہے، اس لیے اب اس عہد میں اس طرح کے عظیم بیانات (Meganarratives) نہیں چلیں گے۔ یہ اس عہد کا خاصہ ہے ۔اس میں جدیدیت کے تمام دعوئوں کی عمارت ڈھادی گئی ہے ۔ اور اس عہد کی یہ خصوصیت ہی مابعد جدیدیت ہے۔۱۳؎
مابعد جدیدیت کے تصور کے مطابق دنیا میں کسی آفاقی سچائی کا وجود نہیں ہے۔ بلکہ آفاقی سچائی کا تصور ان کے نزدیک محض ایک خیالی تصور (Utopia) ہے۔ جدیدیت کے علَم برداروں کا خیال ہے کہ جمہوریت ، آزادی ومساوات ، سرمایہ دارانہ نظام معیشت (یا اشتراکیوں کے نزدیک اشتراکیت) اور ٹکنالوجیکل ترقی وغیرہ پر مبنی جو ماڈل یورپ میں اختیار کیا گیا ، اس کی حیثیت ایک عالمی سچائی کی ہے اور ساری دنیا کو اپنی روایات چھوڑ کر ان عالمی سچائیوں کو قبول کرنا چاہیے ۔ چنانچہ ۲۰ویں صدی میں ساری دنیا کو جدید بنانے کا کام شروع ہوا۔ روایتی معاشروں سے کہا گیا کہ وہ صنعتیں قائم کریں، شہر بسائیں ، آزادی کی قدروں کو نافذ کریں، جمہوری طرز حکومت اپنائیں ، جدیدٹکنالوجی کو اختیار کریں اور اس طرح جدید بنیں کہ فلاح وترقی کا یہی واحد راستہ ہے ۔ مابعد جدیدی دوسری انتہا پر جاکر عالمی یا آفاقی سچائی کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک چاہے سچائی ہو یا کوئی اخلاقی قدر، حسن وخوبصورتی کا احساس ہو یا کوئی ذوق، یہ سب اضافی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تعلق انفرادی پسند و ناپسند اور حالات سے ہے۔ یعنی ایک ہی بات کسی مخصوص مقام پر یا مخصوص صورتوں میں سچ اور دوسری صورتوں میں جھوٹ ہوسکتی ہے۔ دنیا میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو ہمیشہ اور ہر مقام پر سچ ہو۔ تصورِ جہاں (World view)سچائی کی پیداوار نہیں ہوتا بلکہ طاقت کی لڑائی میں محض ایک ہتھیار ہوتا ہے۔ لوگوں نے دنیا پر حکومت کرنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اپنے من پسند خیالات کو عالم گیر سچائیوں کے طور پر ان پر مسلّط کیا ہے۔ اس طرح وہ سرمایہ داری، جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ جیسے نظریات کے سخت ناقد ہیں، جو اپنے خیالات کو عالم گیر سچائی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ مذہبی عقائد اور تصورات کے بھی منکر ہیں کیونکہ مذاہب کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ان کے معتقدات کی حیثیت اٹل حقائق کی ہے ۔۱۴؎
اس نظریے کی تائید میں ان کی دلیل یہ ہے کہ صدیوں کی علمی جستجو کے باوجود انسانی ذہن کسی ایک سچائی پر متفق نہیں ہوسکا۔ آج بھی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اطراف کئی ایک اور بسااوقات باہم متضاد سچائیاں (یعنی سچ کے دعوے) پائی جاتی ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم سچائی سے متعلق اپنے نقطئہ نظر ہی کو بدل لیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ سچائی نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سچائی محض ہمارے مشاہدے کا نتیجہ ہوتی ہے اور مشاہدہ ہمارے ذہن کی تخلیق ۔ سچائی کی تلاش نہیں، بلکہ سچائی کی تشکیل ہوتی ہے ۔ حالات کے مطابق ہماراذہن سچائی کی تخلیق کرتا ہے ۔ اور چونکہ بیک وقت ایسی کئی تخلیقات ممکن ہیں اس لیے یہ ماننا چاہیے کہ کوئی بھی تخلیق حتمی نہیں ہے۔
مابعد جدیدیت کے ماننے والے سائنس کو بھی حتمی سچائی کی حیثیت سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیونارڈ لکھتا ہے: سائنس کی زبان اور اخلاقیات، اور سیاسیات کی زبان میں گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق ہی مغرب کے تہذیبی تناظر کی تشکیل کرتا ہے۔۱۵؎
یعنی سائنس بھی مغرب کی سیاست اور اخلاقی فلسفوں سے آزاد نہیںہے۔
مابعد جدیدیت کے مطابق جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ، اس کی حیثیت سچائی کی نہیںہے۔ اس کے علم برداروں کا خیال ہے کہ ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم وہی دیکھتے ہیں جو مخصوص وقت اور مخصوص مقام پر مخصو ص احوال خود کو دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کو حقیقی اور ٹھوس اشیا اور مناظر کی بجائے ایسے عکسوں (Images) اور مظاہر (representations) سے عبارت سمجھتے ہیں جو غیر حقیقی(unreal) اور غیرمحسوس (untangible)ہیں۔یعنی پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک یہ دنیا محض ایک ویڈیو گیم ہے جس میں ہم اپنی پسند کی سچائیاں دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں ۔ ضیاء الدین سردار نے اس کی تشریح یوں کی ہے:
اس کا مطلب ہے کہ یہ دنیا ایک ایسا تھیٹر ہے جس میں ہر چیز مصنوعی طور پر تشکیل کردہ ہے۔سیاست عوامی استعمال کے لیے کھیلا جانے والا ایک ڈراما ہے۔ ٹیلی ویژن پر دستاویزی فلمیں تفریحات کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ صحافت حقیقت اور افسانے کے بیچ فرق کو دھند لا دیتی ہے۔ زندہ افراد، سوپ اوپیرا کے کردار بن جاتے ہیں اور افسانوی کردار زندہ انسانوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ہر چیز اچانک واقع ہوتی ہے اور ہرشخص عالمی تھیٹر میں واقع ہونے والی ہر چیز کا برموقع نظارہ کرتا ہے۔۱۷؎
جیسا کہ عرض کیا گیا، مابعد جدیدیت کے نزدیک جمہوریت ،ترقی ،آزادی، مذہب ، خدا ، اشتراکیت اور اس طرح کے دعوئوں کی وہی حیثیت ہے جو دیو مالائی داستانوں اور عقیدوں کی ہے۔ اس لیے انھوں نے ان تمام دعوئوں کو عظیم بیانوں (meganarratives) کا نام دیا ہے ۔ جدیدیت کے مفکرین کا خیال ہے کہ انھوں نے بہت سی’سچائیاں‘تشکیل دی ہیں اور چاہے مذاہب ہوں یا جدید نظریات ، ان کی بنیاد کچھ خود ساختہ عالمی سچائیوں پر ہے، اس لیے جدیدیت کے دور کی تہذیب ، علم وغیرہ انھی مفروضہ سچائیوں پر استوار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان تشکیل شدہ سچائیوں کی رد تشکیل(deconstruction) کی جائے ،یعنی انھیں ڈھایا جائے۔ چنانچہ ادب، فنون لطیفہ، آرٹ، سماجی اصول وضابطے ہر جگہ ان کے نزدیک کچھ خود ساختہ سچائیاں اور عظیم بیانیے ہیں جن کی ردِّ تشکیل ضروری ہے تاکہ مابعد جدیدی ادب فنون لطیفہ وغیرہ میں ایسے ’غلط مفروضوں ‘ کا عمل دخل نہ ہو۔ جیساکہ مابعد جدیدیت کا ایک تجزیہ نگار لکھتا ہے:
ما بعد جدید مفکرین کا خیال ہے کہ ہماری طرح کے ایک آفاقی اور غیر مرکزی سماج میں خود بخودما بعد جدیدکی طرح کے رد عمل جنم لیتے ہیں۔ یعنی عظیم بیانات کے فکری استبداد کا استرداد، ساخت اور طرز کی وحدت کے روایتی سانچوں کی شکست و ریخت اور منطق کی مرکزیت اور اس طرح کے دیگر مصنوعی طور پر مسلّط کردہ نظاموں کو اٹھا کر پھینک دینے کا عمل۔۱۸؎
شاید بحث پیچیدہ اور فلسفیانہ ہوگئی ۔ لیکن چونکہ اس فکر کی بنیادیں فلسفیانہ ہیں اس لیے اس مختصر فلسفیانہ بحث کے بغیر اس نظریے پر کماحقہ روشنی نہیں ڈالی جاسکتی تھی۔
مابعد جدیدیت ایک دقیق فلسفیانہ بحث ہے ۔ لیکن اس کے پیش رو، جدیدیت کے افکا ر بھی ایسے ہی دقیق فلسفے تھے ۔ عام لوگ ان گہرے فلسفوں کا مطالعہ نہیں کرتے لیکن عملی زندگی میں ان کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ جدیدیت کے عروج کے زمانے میں بھی سب لوگ والٹیر اور روسو کی دقیق کتابیں نہیں پڑھتے تھے، لیکن آزادی ، مساوات، جمہوریت ، اپنے حقوق کا احساس، مساوات مردوزن ، روایات کے خلاف بغاوت اور عقل پر اصرار جیسی چیزیں عام آدمی کے رویوں کا بھی حصہ تھیں۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے عہد میں بھی عام لوگ چاہے مابعد جدیدیت کی اصطلاحات اور بحثوں سے واقف نہ ہوں ، لیکن محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے اپنی عملی زندگی اور رویوں میں اس کے اثرات قبول کر رہے ہیں۔مسلمان اور بعض اوقات اسلام کے فروغ کے لیے کام کرنے والے بھی اس کے اثرات سے خود کو نہیں بچا پارہے ہیں۔
مابعد جدیدیت کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار ، نظریات اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دل چسپی نہایت کم ہوگئی ہے۔ عہد جدید کا انسان مخصوص افکار ونظریات سے وفاداری رکھتا تھا اور ان کی تبلیغ واشاعت کے لیے پرجوش و سرگرم رہتا تھا۔ مابعد جدید دور کے انسان کے نہ کوئی آدرش ہیں نہ اصول ۔ اس کے سامنے کسی بھی موضوع پر نظری بحث شروع کیجیے دامن جھاڑ کر اُٹھ جائے گا۔ اس لیے بعض مفکرین نے اس عہد کو’ عدم نظریہ کا عہد‘ Age of No Ideology قرار دیا ہے۔ ۱۹؎ اصول اور افکار کے مبسوط نظام (doctrine) کے بالمقابل مابعد جدید انسان کے پاس صرف جذبات واحساسات ہیں یا عملی مسائل (pragmatic issues)۔ مابعد جدیدیت کا کہنا ہے کہ زندگی کی تمام بحثیں ’مسئلہ‘ اور ’حل‘(problem and solution)تک محدود کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے اصولوں اور نظریوں کے بجاے ایک ایک مسئلے کو الگ الگ لیا جانا چاہیے اور اس کے حل پر بات ہونی چاہیے۔ چنانچہ مابعد جدیدی انسان کی بحث وگفت گو کا سارا زور یا تو روز مرہ کے عملی مسائل پر ہے یا روابط و تعلقات کی جذباتیت پر ۔ مختلف فیہ اورمتنازعہ فیہ مسائل میں وہ باہم متضاد خیالات میں سے ہر خیال کو بیک وقت درست سمجھتا ہے، ان کی تنقیح اور درست فیصلے سے اسے کوئی دل چسپی نہیں ۔
مذہبی معاملات میں وحدت ادیان کا نظریہ بہت قدیم ہے۔ مابعد جدیدیت نے اس طرزِ فکر کو تقویت دی ہے۔ اب دنیا بھر میں لوگ بیک وقت سارے مذاہب کو سچ ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اور بین المذاہب مکالمات ومباحث سے لوگوں کی دل چسپی روبہ زوال ہے ۔ جبکہ دوسری طرف الحاد ومذہب بیزاری کی شدت بھی ختم ہورہی ہے۔ چونکہ الحاد بھی ایک’دین ‘یا ایک ’دعویٰ‘ ہے، اس لیے مابعد جدید انسان اسے بھی ایک مسلک کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے اس عہد کو لادینیت کے خاتمے کا عہد (Age of Desecularisation) بھی کہا جاتا ہے۔۲۰؎ ایک شخص خدا پر یقین نہ رکھتے ہوئے بھی روحانی سکون کی تلاش میں کسی مذہبی پیشوا سے رجوع کرسکتا ہے ۔ا ور آج اسے کسی ہندو بابا کے ہاں سکون ملتا ہے تو کل کوئی عیسائی راہب اسے مطمئن کرسکتا ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت ہے۔
قدروں کی اضافیت کے نظریے نے سماجی اداروں اور انضباطی عوامل (Regulating Factors)کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ خاندانی نظام اور شادی بیاہ کے بندھنوں کا انکار ہے نہ اقرار۔ عفت، ازدواجی وفاداری اور شادی کے بندھن مابعد جدیدیوں کے ہاں ’عظیم بیانات‘ ہیں۔ اسی طرح جنسوں کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ رول کو بھی وہ آفاقی نہیں مانتے ۔ نہ صرف مرد عورت کے درمیان تقسیم کارکے روایتی فارمولوںکے وہ منکر ہیں، بلکہ جنسی زندگی میں بھی مرد اورعورت کے جوڑے کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ شادی مرد اور عورت کے درمیان بھی ہوسکتی ہے ، اور مرد مرد اور عورت عورت کے درمیان بھی، کوئی چاہے تو اپنے آپ سے بھی کر سکتا ہے۔ مرد اور عورت شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا پسند کریں تو اس پر بھی کوئی اعترض نہیں ہے۔ ایک ساتھ بھی نہیں رہنا ہے تو صرف تکمیل خواہش کا معاہدہ ہوسکتا ہے۔یہ سب ذاتی پسند اور ذوق کی بات ہے ۔ فیشن ، لباس، طرز زندگی ہر معاملے میںکوئی بھی ضابطہ بندی گوارا نہیں ہے ۔ مرد بال بڑھاسکتا ہے ، چوٹی رکھ سکتا ہے، اسکرٹ پہن سکتا ہے، زنانہ نام رکھ سکتا ہے، کسی بھی رنگ اور ڈیزائن کا لباس پہن سکتا ہے ۔ سوسائٹی کو کسی بھی رویے کو ناپسند کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی مادر زاد برہنہ رہنا چاہے تو سوسائٹی اس پر بھی معترض نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ بعض مابعد جدیدی، لباس کو آفاقی ضرورت قرار دینے پر معترض ہیں۔ آدمی اگر موسم اور اپنے ذوق کی مناسبت سے کوئی لباس پسند کرنا چاہے تو کرے اور اگرعریاں رہنا چاہے تو انسانی جسم سے بڑھ کر خوبصورت لباس اور کیا ہوسکتا ہے؟ وہ عریانیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس طرز زندگی کے فروغ کے لیے ویب سائٹس ، ہیلپ لائینیں، ڈسکشن فورمز اورنہ جانے کیا کیا ہیں۔
سیاسی محاذ پر مابعد جدیدی، قوموں کے وجود اور قوم پرستی کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک قوم، قومی مفاد، قومی تفاخر، قومی کردار، قومی فرائض ، یہ سب ’عظیم بیانات‘ ہیں۔ ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ ضرورت اور مفاد کے مطابق افراد کسی بھی قسم کے دوسرے افراد سے تعامل کرتے ہیں اور اس طرح گروہوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ تشکیل ضروری نہیں کہ قوم اور نسل کی بنیادوں پر ہو۔ قوموں کے اقتدارِ اعلیٰ کا تصور بھی ان کے نزدیک ’عظیم بیان‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدیدی سماج میں ایک طرف گلوبلائزیشن کے عمل کے نتیجے میں ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو عالمی معاشی قوتوں کے تابع کر دیا گیا اور دوسری طرف مقامی معاشروں کے مفادات کو بھی ریاست کے اقتدار اعلیٰ پر فوقیت اور بالا تری دے دی گئی ۔اگر کوئی علاقہ، قبیلہ یا گروہ ریاست کے اقتدار سے خوش نہیں تو ریاست کو اس پر زبردستی کا کوئی حق نہیں۔۲۱؎
اس طرح پالیسی کی سطح پر ’ترقی‘ ٹکنالوجی وغیرہ جیسے تصورات کو چیلنج کیا گیا۔مابعدجدیدی ترقی کے ’یکساں فارمولے‘ کے مخالف ہیں۔یہ بات کہ جدیدشہروں کی شان وشوکت اور ٹکنالوجی پر مبنی تعیشات پس ماندہ علاقوں کی منزل اور ان کی کاوشوں کا ہدف ہونا چاہیے ، اب مسلمہ نہیں رہی۔ مابعد جدید تحریکوں نے دیہی زندگی اور روایتی معاشروں کی افادیت بھی اجاگر کی۔ اگر آدی باسی اپنے قبائلی طرزِ زندگی سے مطمئن اور خوش ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ انھیں جدید شہری ترقی کے لیے مجبور کیاجائے۔ ان کے نزدیک جنگل کی آزاد فضا ہی سچائی ہے۔ دیہی لوگوں کو ان کی زمین سے ہٹاکر وہاں نئی صنعتیں قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، خواہ اس کے بدلے میں ان کو زیادہ آرام دہ زندگی ہی کیوںنہ میسر آئے۔ مابعد جدید پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ ہر فرد کو اس کی مرضی اور پسندکی زندگی گزارنے کی آزادی دی جانی چاہیے اور تعلیم، سائنس، ٹکنالوجی، ترقی اورنہ تعیشات، کوئی بھی چیز اس پر مسلط نہیں کی جانی چاہیے۔
آرٹ اور فنون لطیفہ میں وہ ہر طرح کے نظم اور پابندی کے خلاف ہیں۔ جدیدیت نے ان محاذوں پر جو اصول تشکیل دیے تھے ، مابعد جدیدی ان کی رد تشکیل کرنا چاہتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں: ’’ہر طرح کی نظریاتی ادّعائیت سے گریز اورتخلیقی آزادی پر اصرار مابعد جدیدیت ہے‘‘۔۲۲؎ مابعد جدیدی کہتے ہیں کہ ادب اور فنون لطیفہ حقیقت کی ترجمانی کے لیے نہیں بلکہ حقیقت کی تخلیق کے لیے ہیں۔ اس لیے وہ آرٹ کو ہر طرح کے ادبی، سیاسی اور مذہبی دعوئوں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں ۔
اس طرح مابعد جدیدیت کی تحریک نے سوسائٹی میںہر جگہ مقتدرہ افسرشاہی اور ضابطوں اور اصولوں کی سخت گیری کو چیلنج کیا۔ نظامِ مراتب (hierarchy) کے مقابلے میں انار کی ، بندشوں کے مقابلہ میںآزادی ، اختیارات کی مرکزیت (centralisation) کے مقابلہ میں غیر مرکزیت (decentralisation) اور ضابطے اور اصول کے مقابلے میں انفرادی پسند اور آزادی کا احترام وغیرہ اس تحریک کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ اس صورت حال نے منظم ہمہ گیر تحریکوں کے مقابلے میں ایشوز پر مبنی وقتی اور موضوعاتی تحریکیں ، سخت گیر بیوروکریٹک انتظام کے مقابلے میں ڈھیلی ڈھالی قیادت وغیرہ کی کیفیتیں پیدا کیں۔عملی زندگی کے مختلف معاملات میں مابعد جدیدی ہر طرح کی روایت، اصول اور ضوابط کی عالم گیری کے خلاف ہیں اور ذاتی پسند وناپسند کو اہمیت دیتے ہیں ۔ طرزہاے زندگی سے متعلق معاملات میں ذاتی پسند افراد کی ہوتی ہے ۔ اس کو منضبط کرنے کا معاشرے کو کوئی حق نہیں ہے اور اجتماعی معاملات میںپسند و ناپسند قبیلوں، آبادیوں، تنظیموں یا کسی بھی اجتماعی گروہ کی ہوسکتی ہے ۔ اس پر کنٹرول کرنے کا کسی عالمی یا قومی ادارے کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔(جاری)
۱؎ Nasr Seyyed Hossein (1993) A Young Muslim's Guide to the Modern World Cambridge :Cambridge University Press p.156
۲؎ بیکن کے افکار کے مطالعہ کے لیے دیکھیے اس کی کتاب:
Bacon Francis (1863) Novum Organum Tr. James Spedding, Robert Leslie Ellis, and Douglas Denon Heath, Boston : laggard and Thompson [As available in online library http://www.constitution.org/bacon/textnote.htm]
۳؎ ڈیکارٹ کے خیالات کے لیے دیکھیے:
Descartes Rene (1983) Principles of Philosophy Trans. V. R. Miller and R. P. Miller. Dordrecht: D. Reidel
۴؎ تھامس ہوبس کے افکار کی تفصیل کے لیے دیکھیے اس کی کتاب :
Hobbes Thomas (2007) Leviathan online available at eBooks@Adelaide, http://etext.library. adelaide. edu.au/h/hobbes/thomas/h681/. updated Mon Mar 12 20:24:47 2007
۵؎ Electronic Library http://elab.eserver.org/hfI0242.html
۶؎ والٹییر کے خیالات کے لیے ملاحظہ فرمائیے:
Voltaire Francois (1961) Philosophical Letters Translated by Ernest N. Dilworth, New York: Macmillan
۷؎ مانٹیسکیو کے نظریات کے لیے ملاحظہ کیجیے:
Montesquieu Baron de (1914), Secondat, Charles de, The Spirit of Laws Tr. by Thomas Nugent, London : G. Bell & Sons [As available at http://www.constitution.org/cm/sol.htm]
۸؎ روسو کے تصورات کے لیے دیکھیے:
Rosseau Jean-Jacques (2004) Emile Tr. By Barbara Foxley online available at http://www.gutenberg.org/etext/5427
۹؎ آدم اسمتھ کی معاشی فکر کے مطالعہ کے لیے دیکھیے اس کی کتاب:
Smith Adam (2007) An Inquiry into the Nature and Causes of the Wealth of Nations online available at http://metalibri.incubadora.fapesp.br/ portal/authors/ AnInquiryIntoTheNatureAndCausesOf TheWealthOfNations#books
۱۰؎ مارکسی فکر کے لیے کمیونسٹ مینی فیسٹو سب سے مستند سر چشمہ مانا جاتا ہے۔
Marx Karl and Engels Frederick(2006) The Communist Manifesto available at:
http://www.anu.edu. au/polsci/marx/classics/manifesto.html
۱۱؎ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے:
Bauman, Zygmunt (2000) Liquid Modernity. Cambridge: Polity Press.
۱۲؎ Lyotard, J.-F.(1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p.xxiv
۱۳؎ Anderson, Walter Truett (1995) The Truth About Truth: De-confusing and Re-constructing the Postmodern World. New York: Penguin p 239-44.
۱۴؎ حوالہ سابق ، ص۱۱۱
۱۵؎ Lyonard, J.-F (1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p. 8
۱۶؎ حوالہ سابق p. xxiii
۱۷؎ Sardar, Ziauddin (1998) Postmodernism and the Other, the New Imperialism of Western Culture, London: Pluto Press p. 23
۱۸؎ Charles Upton (2001) The System of Antichrist Truth & Falsehood in Postmodernism & the New Age Sophia: Perennis p.45
۱۹؎ Stephens Mitchel (2007) We are all Postmodern ـNow, at journalism.nyu.edu/faculty/files/ stephens- postmodern.pdf
۲۰؎ لادینیت کے خاتمہ کی بحث کے لیے دیکھیے ایک دل چسپ کتاب:
Peter L. Berger (1999) The Desecularization of the World, Resurgent Religion and World Politics; Michigan: William B. Eerdmans Publishing Co.
۲۱؎ Anderson Walter Truett (1991) Postmodern Politics in 'In Context'#30 (Reclaiming Politics) Fall/Winter 1991, Langley p.32
۲۲؎ گوپی چند نارنگ، (۲۰۰۴ئ) ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، نئی دہلی: قومی کونسل براے فروغ اردو زبان ، ص ۵۳۰
یوسف الخباز کا مضمون ’استعمار کی ذہنی غلامی، اثرات اور نجات‘ (فروری ۲۰۰۸ئ) ایک نقطۂ نظر کے طور پر شائع کیا گیا۔ یہ ایک چشم کشا مضمون ہے جس کے مطالعے کے بعد استعمار کی حقیقت اور اثرات و مضمرات سے بھرپور آگاہی ہوئی اور دل و دماغ میں حیرت انگیز شعوری اور فکری بیداری محسوس ہوئی۔ اس سلسلے میں اپنا محاسبہ کیا اور دوسروں کے خیالات جاننے کی بھی کوشش کی تو استعمار کے کئی پہلو سامنے آئے اور استعمار کے اثرات سے چھٹکارا پانے کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔
سب سے پہلی ضرورت یہ محسوس ہوئی کہ استعمار کی حقیقت سے آگاہی عام کی جائے اور یہ ان لوگوں کا فرض ہے جو اس خطرے کی حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں۔ جو لوگ حقیقت شناس، باشعور اور فکری گہرائی رکھنے والے ہوں وہ مزید ایسے افراد کار تیار کریں جو استعمار کی اصلیت اور اس سے نجات کے لیے ٹھوس لائحہ عمل طے کریں۔ اس حوالے سے لٹریچر، ورکشاپوں اور لیکچروں سے مدد لیں۔ میڈیا میں موجود صالح عناصر سے بھی مدد لی جائے۔ یہ ارباب عقل و دانش کا اولین فرض ہے کہ وہ ملت کو اس تباہی و بربادی سے آگاہ کریں۔ ذہنی غلامی کے اس مرض کی تشخیص کریں اور ایسی پالیسی مرتب کریں جو اس کا شافی علاج کرسکے۔
اگر ہم اپنے طرزِ زندگی کا جائزہ لیں تو بے شمار ایسی اشیا ملیں گی جو واقعی ہماری ضرورت نہیں لیکن ماحول اور معاشرے کے زیراثر ہم ان کو ضرورت سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ معاشرے کا عام رنگ ڈھنگ ہم پر غالب نہیں ہے مگر ہم ایک حد تک اس کو اپناتے ہیں یا اس کو ردکرنے کا حوصلہ افزا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے۔ آپ ایک تجربہ کریں اور یقینا ایک حیران کن نتیجہ آپ کا منتظر ہوگا جیساکہ ان دو ماہ کے دوران میرے ساتھ ہوا۔ آپ اپنی نجی اور سماجی زندگی میں ہرسطح پر استعمار سے مفاہمت کے بجاے اس کو رد کردیں اور اس کے متبادل تمام اسلامی اصول اپنائیں۔ وہاں پر بھی جہاں آپ یہ سمجھتے ہوں کہ ایک جدید معاشرے میں رہتے ہوئے ہمیں کسی حد تک مفاہمت کرنی پڑے گی۔ ہر اُس مقام پر جہاں ہماری ذاتی راے یا معاشرے کا چلن اللہ کے قوانین سے ٹکراتا ہو اللہ کے قانون کو ترجیح دیں۔ میں حیران ہوں کہ اس کے نتیجے میں جو سکون ملتا ہے اور قلب کی کیفیات میں تبدیلی آتی ہے اور اللہ رب العزت سے جو قربت محسوس ہوتی ہے اس کی حلاوت سے اتنا عرصہ کیوں محروم رہی؟ مسائل کا ایسا حل اس میں ہے کہ خود ہمارا ہی دامن تنگ پڑنے لگتا ہے۔
ہم اپنے گھر میں موجود سامان کی فہرست بنائیں اور اس فہرست کا موازنہ دورِ صحابہ کرامؓ سے کریں (ہمارے سر شرم سے جھک جائیں گے)۔ پھر اس فہرست میں سے محبوب اشیا اور غیرضروری اشیا نکال باہر کریں۔ ان اشیا کو تلاش کریں جن کو ہماری ناقص عقل ناگزیر خیال کرتی ہے اور ان کے بغیر چند دن گزاریں (ان شاء اللہ ایسا سکون ملے گا کہ نتیجے میں ہمیشہ کے لیے غیرضروری اشیا سے نجات مل جائے گی)۔
ـ
مجھے ایک طالب علم، کارکن اور استاد کی حیثیت سے کچھ عرصہ امریکا میں گزارنے کا موقع ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں دوسرے لوگوں کی نسبت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں عالی جاہ ‘محمد‘ کے پیروکار بھی شامل ہیں جو پہلے کی نسبت اب اسلام کے زیادہ قریب ہیں۔ تقریباً ہرمسجد میں یا اسلامک سنٹر میں نمازِ جمعہ کے بعد امریکی اسلام قبول کرتے ہیں۔
مسلمانوں میں احساسِ ذمہ داری کا اندازہ اس سے بھی ہوتاہے کہ پہلے صرف ایم ایس اے (M.S.A) تھی اور اب متعدد تنظیمیں ہیں جن میں: Islamic Society of North America (ISNA)، The Muslim Community of America (MCA)، Association of Muslim Social Scientists(AMSS)، Association of Muslim Scientists and Engineers (AMSE)، Islamic Medical Association (IMA)، Muslim Women Committee (MWC) شامل ہیں۔ ان سب کا اپنا اپنا دائرۂ کار ہے۔ سب فعال اور ایک دوسرے کی مددگار ہیں اور آپس میں بھی رابطے ہیں۔
امریکا میں تعلیم مشکل ہے، مسلسل محنت کرنا پڑتی ہے۔ تقریباً ۲۴ گھنٹے لائبریریاں اور تجربہ گاہیں (Labs) کھلی رہتی ہیں۔ تعلیم مہنگی ہے، اس لیے طلبہ و طالبات کو ملازمت بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود مسلمان طلبہ و طالبات دینی فرائض کے لیے خاصا وقت نکالتے ہیں۔ نمازوں کے لیے مخصوص جگہیں نہایت مصروف ہوتی ہیں۔ مسلمان طلبہ دیگر مصروفیات کے باوجود نمازوں کے انتظامات کے لیے وقت کی قربانی دیتے ہیں۔ ہر ہفتے کے روز ایک تقریب ہوتی ہے جس میں خواتین بھی شریک ہوتی ہیں۔ اہم دینی موضوعات پر تقاریر ہوتی ہیں جن پر آزاد فضا میں بحث اور سوالات ہوتے ہیں۔ نمازِ جمعہ اور دیگر اجتماعات میں اہم موضوعات پر طلبہ بڑی تیاری کے بعد تقاریر کرتے ہیں۔ کبھی کبھار دیگر مقامات سے علما اور اسکالر بھی بلائے جاتے ہیں۔ بڑا ایمان افروز ماحول ہوتا ہے۔ اسلام کے بہترین عالمی دین ہونے کا احساس ہوتاہے۔ ہر رنگ، نسل اورملک کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ مختلف مکاتب ِفکر کے مسلمانوں کی جب اختلافی موضوعات پر بحث ہوتی ہے تو ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنے اور تنقید برداشت کرنے کا قابلِ رشک مظاہرہ ہوتا ہے۔ تقاریر اور بحث کے دوران معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان طلبہ اور طالبات کو اسلام کا خاصا علم ہے۔ عموماً قرآن و حدیث کے حوالے دیے جاتے ہیں۔
عیسائیوں کو اسلام سمجھانے کے لیے علیحدہ پروگرامات بھی ہوتے ہیں جن میں دیگر غیرمسلم بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ ایسے پروگراموں سے احساس ہوتا ہے کہ اگر مغرب میں دعوتِ دین کے لیے اسی معاشرے کامسلمان ہو تو بہت اثر ہوتا ہے۔ اس کا احساس مسلمانوں کو بھی ہے۔ کئی نومسلم امریکی، مسلمان ممالک میں اسلامی تعلیم اور دعوت کا طریقہ سیکھتے ہیں اور واپس امریکا آکر دعوت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
ایم ایس اے دیگر مسلمان و عیسائی تنظیموں سے مل کر کانفرنسیں منعقد کرتی ہے۔ رمضان میں اچھے پروگرام ہوتے ہیں جن میں اجتماعی افطار، مطالعۂ قرآن اور اہم موضوعات پر تقاریر ہوتی ہیں جن میں امریکی دل چسپی لیتے ہیں۔ فلاڈلفیا کے شہر میں ۱۴،۱۵ مساجد ہیں جن میں مسلمانوں کے لیے قرآن کی تعلیم کا بندوبست ہے۔ رمضان میں ہرمسجد میں اور جہاں مسجد نہیں ہے وہاں چرچوں اور دیگر موزوں مقامات پر تراویح میں ختمِ قرآن کا بندوبست ہوتا ہے۔ اگر مقامی حفاظ نہ ہوں تو مسلم ممالک سے لائے جاتے ہیں۔ مالی مشکلات کی وجہ سے عموماً مساجد کی حالت اچھی نہیں ہے۔ مسلم ممالک اور مال دار مسلمانوں کی توجہ کی ضرورت ہے۔ وہاں اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقی جمہوریت تبلیغ اسلام کے لیے ضروری ہے۔ ایک امریکی مسلمان مبلغ کے مطابق اگر امریکا میں تبلیغ اسلام کے لیے اچھے مسلمان مبلغ ہوتے اور دنیا میں ایک ملک ایسا ہوتا جس میں حقیقی اسلامی نظام قائم ہوتا تو اسلام بڑی تیزی سے پھیلتا۔
امریکا میں متعدد ممالک کے لوگ آباد ہیں۔ وہاں پر مبلغِ اسلام کو مقامی لوگوں کے مذاہب، معاشرے اور کلچر کا بھی علم ہونا چاہیے۔ ایک عرب پروفیسر نے اس کی تشریح یوں کی کہ اسلام ایک بیج ہے جو مختلف اقسام کی مٹی اور آب و ہوا میں کاشت کریں تو پھل کی خوشبو، رنگ اور ذائقہ مختلف ہوگا، البتہ بنیاد ایک ہوگی۔ انتہاپسند مبلغ بھی کچھ مسائل پیدا کرتے ہیں، مثلاً بے پردہ خواتین کو مساجد سے نکال دینا، بائیں ہاتھ سے کھانے والے پر برس پڑنا۔ دوسری طرف مغربی معاشرے سے متاثر مسلمان بہت لبرل بھی بن جاتے ہیں اور فرائض کی پروا بھی نہیں کرتے۔ بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ اجتماعی مربوط پروگرام بنایا جائے جس میں امریکا میں موجود اہلِ علم و عمل مسلمان شامل ہوں، اور مال دار مسلمان مالی مدد کریں۔
ایک اچھا عمل اسلامی لٹریچر کی ممکنہ حد تک فراہمی بھی ہے۔ دعوتی پروگراموں اور نمازِ جمعہ کے بعد اسٹال لگائے جاتے ہیں جن پر مقامی زبان میں اسلامی لٹریچر مفت یا مناسب قیمت پر مہیا ہوتا ہے۔ یہ ضروری ہے کیونکہ اسلام علم کا دین ہے۔ ہماری دینی جہالت مختلف مسائل اور اختلافات کی بنیاد ہے۔ مسلمان تنظیمیں عمدہ حکمت عملی سے امریکیوں کی توجہ مسئلۂ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق کی طرف بھی مبذول کروا سکتی ہیں۔
۱- شیطان اللہ کا مقرب تھا اور اللہ کی مخلوق بھی۔ شیطان کو اللہ کے آگے انکار کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟
۲- اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چھے دنوں میں کیوں بنایا، اس کی کیا حکمت ہے؟ وہ ایک دن میں بھی تو بنا سکتا تھا، جب کہ وہ کُن فیکون سے کام کرسکتا ہے۔
۳- جنتیوں کو جنت میں رکھنے اور جہنمیوں کو جہنم میں رکھنے کا اللہ کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا وہ غفور و رحیم اور ستارالعیوب نہیں ہے؟
۴- اے اللہ! درود و سلام ہو محمدؐ اور اس کی آل پر جس طرح تو نے درود و سلام بھیجا ہے ابراہیم ؑ اور اس کی آل پر۔ وہ کون سے انعامات ہیں جو اللہ نے ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر بھیجے جو ہم بھی ہر نماز کے وقت اللہ سے طلب کرتے ہیں؟
جواب: ۱- شیطان کو اللہ تعالیٰ کے آگے انکار کرنے کی جرأت اس لیے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دیا ہوا تھا کہ چاہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو قبول کرے اور چاہے تو انکار کردے۔ اس نے اختیار کا غلط استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ کے مدمقابل کھڑا ہوگیا، تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں اپنی عقل کا استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو غلط جانا، آدم کو سجدہ کرنا، اس کی تعظیم کرنا، اس کی خلافت کو تسلیم کرنا، اس کے نزدیک صحیح نہ تھا۔ اس کے نزدیک اللہ کا فرمان غلط تھا۔ اسے اس بات کا علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے، مالک ہے، وہ اختیار کو سلب بھی کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے اللہ کے حقِ حاکمیت کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ط قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (اعراف۷:۱۲) ’’جب میں نے تجھے سجدے کا حکم دیا تو پھر کس چیز نے تجھے سجدے سے منع کردیا۔ اس نے جواب میں کہا: میں آدم سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے‘‘۔ شیطان اس جسارت اور بے باکی کے سبب راندۂ درگاہ ہوگیا اور شیطان کی طرح جنوں اور انسانوں میں سے اس کے نقشِ قدم پر چلنے والے بھی اس کی طرح مردود اور ملعون ہوگئے۔
آپ نے جو سوال اٹھایا ہے اس کا تعلق صرف شیطان سے نہیں ہے، بلکہ جنوں اور انسانوں میں سے ہر اس گروہ سے ہے جس نے اللہ کی مخلوق ہونے اور اللہ کی نعمتوں سے مالامال ہونے کے بعد کفر کیا۔ کفر اور شرک اور اللہ کی ہدایات اور اس کے احکام اور اس کی حاکمیت کے انکار کا کسی کے پاس کیا جواز ہے؟ جو بھی ایسا کرے گا، وہ بلاجواز کرے گا اور دنیا جو ’دارالابتلا‘ آزمایش و امتحان گاہ ہے، اس سے چلے جانے کے بعد کافر کے لیے دوزخ کا عذاب تیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (البقرہ ۲:۲۸) ’’تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کس بنیاد پر کفر کرتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے تو اسی نے تم کو زندہ کیا، پھر تمھیں موت دے گا، پھر تمھیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے‘‘۔
شیطان کو ان ساری باتوں کا علم تھا، اس لیے اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت طلب کی تو اسے مہلت دے دی گئی۔ سورۂ اعراف میں ہے: قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ o قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ o قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ o ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِھِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَo قَالَ اخْرُجْ مِنْھَا مَذْئُ وْمًا مَّدْحُوْرًا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَo (۱۵ تا ۱۸) ’’شیطان نے کہا: مجھے مہلت دے دیجیے اس دن تک جب لوگوں کو دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھے مہلت دیے جانے والوں میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اس سبب سے کہ تو نے مجھے گمراہ کردیا ہے، میں انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے تیرے سیدھے راستے پر رکاوٹ بن کر بیٹھ جائوں گا، پھر ان کے سامنے سے، ان کے دائیں سے، ان کے بائیں سے ان کو روکوں گا۔ پھر ان میں سے اکثر کو تو شکرگزار نہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نکل جا تو اس جنت سے ملعون و مذموم ہوکر، ان میں سے جس نے تیری پیروی کی، میں جہنم کو تم سب سے بھر دوں گا‘‘۔
شیطان کفر، تکبر، غرور و جہالت کا ایک ماڈل ہے۔ اس ماڈل کو تمام کفار و مشرکین اور حاکمیت ِالٰہی کے منکرین نے اپنے سامنے رکھا ہوا ہے۔ یہ آیات کفر و شرک کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ شیطان اور اس کی ذُریت سب نے اللہ کی ہدایت اور فیصلوں کے مقابلے میں اپنی عقل اور نفسانیت کی پیروی کی اور اسی لیے سب کا انجام بھی وہی ہے جو شیطان کا انجام ہے۔ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ یہ تمھارا ایسا دشمن ہے کہ اس نے اپنی دشمنی کو چھپایا نہیں،بلکہ کھول کر بیان بھی کردیا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرہ ۲: ۲۰۸) ’’اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ شیطان کے مقابلے میں دوسرا ماڈل اللہ تعالیٰ کے پہلے نبی اور خلیفہ حضرت آدم ؑ اور دوسرے انبیاے کرام ؑ کا ہے۔ یہ تمام ماڈل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ میں جمع ہیں۔
پس ایک طرف ابلیس کا ماڈل ہے اور دوسری طرف نبی اکرمؐ اور آپؐ کی جماعت اُمت مسلمہ کا ماڈل ہے جسے قرآن پاک میں شروع سے لے کر آخر تک بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱)’’تمھارے لیے رسولؐ اللہ میں بہترین نمونہ ہے‘‘ جس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ اہلِ ایمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکرگزار اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے سر جھکانے والے اور بلاکم و کاست ماننے والے ہیں،جب کہ کفار اور ان کے پیروکار منافقین اللہ تعالیٰ کی حکمرانی پر مطمئن نہیں ہیں۔ وہ اللہ کے احکام میں کمی بیشی کرنا چاہتے ہیں، ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے احکام میں نقص ہے، اس لیے ان کے نزدیک یہ احکام بلاچون و چرا قابلِ قبول نہیں ہیں۔ یہ کش مکش جو ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے شروع کی، آج بھی جاری ہے۔ کفار و مشرکین و منافقین ابلیس کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اہلِ ایمان حضرت آدم ؑاور حضراتِ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے کردار کی پیروی کر رہے ہیں۔ یہ کش مکش تاقیامت جاری رہے گی۔ ان شاء اللہ اس دنیا میں بھی اہلِ ایمان کو ابلیس اور اس کی ذُریت پر غلبہ حاصل ہوگا اور آخرت میں بھی اہلِ ایمان جنت میں داخل ہوکر سرخ رُو اور کامیاب و کامران ہوں گے، اور ابلیس اور اس کے پیروکار دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔
۲- اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اپنے علم، قدرت اور حکم سے بنایا ہے۔ اپنے کام کی حکمتیں وہی بہتر جانتا ہے۔ نظر یہ آتا ہے کہ کائنات کے مزاج میں اس نے تدریج رکھی ہے۔ یہاں ہر کام تدریجاً ہوتا ہے، دفعتاً نہیں۔ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح چھے دن رات میں پیدا کیا، اس طرح اسے ایک دن میں بھی پیدا کرسکتا تھا، لیکن اُس نے اپنی مرضی سے ایسا نہیں کیا۔ ایک انسان ماں کے پیٹ میں چھے دن رات نہیں، بلکہ نو مہینے گزارتا ہے۔ اس طرح فصل، پھل اور دیگر زمینی پیداوار بھی پانچ یا چھے مہینے میں تیار ہوتی ہے۔ بچہ دو سال دودھ پیتا ہے، اس کے بعد آہستہ آہستہ نشوونما پاتا ہے اور ۱۵ سال کی عمر میں بلوغت کو پہنچتا ہے۔ تعلیم بھی ایک دن اور ایک سال میں نہیں بلکہ عمر کے طویل عرصے میں حاصل کرتا ہے۔ اس طرح کائنات کے باقی تمام معاملات کو آپ دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کوئی کام بھی آناً فاناً نہیں ہوتا، اس میں وقت لگتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پاک ۲۳ برس میں نازل اور نافذ ہوا اور اتنے ہی عرصے میں سرزمینِ عرب اسلام کے لیے مسخر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہ کام اس سے کم عرصے میں بھی کرا سکتے تھے، اور پیچھے جائیں تو حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت کا کام کیا۔ تب جاکر اللہ تعالیٰ نے زمین کو کفر اور کفار سے پاک کیا۔ حضرت نوحؑ اور آپ ؑ کے پیروکاروں کے لیے زمین کفار سے خالی فرما دی۔ حضرت نوحؑ روے زمین پر حکمران بن گئے۔ ان کے پیروکار ان کی اُمت کی حیثیت سے سرخ رُو ہوگئے۔
۳- جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں رکھنے کا اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ سارے فائدے انسانوں کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے میرے بندو! اگر تمھارے اگلے تمھارے پچھلے، تمھارے انسان، تمھارے جِن سب کے دل سب سے زیادہ متقی اور پاکیزہ بندے کے دل کی طرح ہوجائیں تو اس سے میرے اقتدار میں ذرہ برابر اضافہ نہ ہوگا۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے اگلے تمھارے پچھلے، تمھارے انسان، تمھارے جِنّ، سب کے دل اس آدمی کی طرح ہوجائیں جو سب سے زیادہ بدکردار اور فاجر آدمی ہے، تو اس سے میرے اقتدار میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘‘۔(حدیث قدسی، بخاری، مسلم)
دنیا میں جِن اور انسان آزمایش کے طور پر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جسم و جان اور زمین کے خزانوں اور آسمان کی نعمتوں سے نوازا ہے ۔ انسان اور جِن میں سے کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی خواہشِ نفس کی حکمرانی قائم کرے یا دوسرے انسانوں کی خواہشِ نفس اور عقلی بے راہ روی کی حکمرانی قائم کر کے شیطان کے پیچھے چلے اور اللہ کے مقابلے میں شیطان کی حکومت قائم کرے۔ اگر ایسا کرتا ہے تو ظلم کا مرتکب ہوتا ہے اور ظالم کو پھر سزا ملنی چاہیے، جو اس کے ظلم کے برابر ہو۔ شیطان کی پیروی اس کی حکمرانی قائم کرنا، سب سے بڑا ظلم ہے اور ظلم کے برابر وہ سزا ہے جو دائمی ہو، اور وہ سزا دوزخ کا عذاب ہے۔ اور اللہ کی حکمرانی قائم کرنا سب سے بڑا عدل ہے اور اس کی جزا بھی سب سے بڑی جزا ہونی چاہیے جوکہ جنت ہے۔
۴- حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر اللہ کی یہ رحمتیں ہوئیں کہ ہدایت کا ذریعہ انھیں اور ان کی اولاد کو بنادیا۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے ہیں، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی دعائوں کا مظہر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اور حضرت عیسٰی ؑ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ کی فضیلت اظہرمن الشمس ہے، یہ مقام اور مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر درود و سلام کا نتیجہ ہے۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاقیامت ہدایت آپؐ کے دامن سے وابستہ ہے۔ اب اللہ کی طرف سب راستے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار سے ہوکر جاتے ہیں۔ آپؐ کی حیثیت اور شان فرق کرنے والے کی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں، جو آپؐ کے دامن سے وابستہ ہوگیا وہ جنتی ہے، اور جو آپؐ کے دامن سے برگشتہ ہوا وہ دوزخی ہے۔ اب روے زمین پر ہدایت اور اللہ تعالیٰ کے دین کا غلبہ آپؐ سے وابستہ ہے۔ روے زمین پر جتنی عبادات اللہ تعالیٰ کی آپؐ کے ذریعے سے ہوئیں اتنی کسی اور کے ذریعے سے نہ ہوسکیں۔ آپؐ اور آپؐ کی اُمت کے ذریعے پوری زمین سے کفر مٹ جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں ہوں مٹانے والا، میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا‘‘۔ روے زمین سے کفر مٹ جائے گا اور ساری دنیا دارالاسلام بن جائے گی۔ دنیا میں آپ کی امامت، نبوت و رسالت کا سورج طلوع ہوگا اور آپ پر نازل کردہ نظامِ کتاب و سنت نافذ ہوگا۔
یہ اسی طرح کی رحمت اور صلوٰۃ و سلام کا مظہر ہے جس کا ظہور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق میں ہوا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ ابراہیم ؑ کی امامت چونکہ مسلّم اور مشہور ہے، اس لیے آپؐ کی امامت کے ساتھ تشبیہہ دی گئی۔ ان کی امامت بھی اپنی اولاد کے واسطے سے اپنے دور میں تمام روے زمین کے لیے ہے اور آپؐ کی امامت بھی تمام روے زمین کے لیے ہے۔ آپؐ تمام انبیاے علیہم السلام سے افضل اور سیداولادِ آدم ؑہیں اور آپؐ نے تمام انبیاؑ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو مقام آپؐ کو دیا، کسی اور کو نہیں دیا۔ آپؐ کو شفاعت کبریٰ اور مقامِ محمود پر فائز کیا گیا۔ آپؐ قیامت میں تمام انبیاؑ کی قیادت فرمائیں گے۔ سب سے پہلے جنت میں آپؐ داخل ہوںگے۔ یہ تمام فضائل و مناقب آپؐ پر صلوٰۃ و سلام کا مصداق ہیں، اور صلوٰۃ و سلام کا فائدہ پڑھنے والے کو ہوتا ہے۔ آپؐ کو تو یہ فضائل اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیے ہیں، فرمایا: وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی (الضحٰی۹۳:۵) ’’اور عنقریب تمھارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجائو گے‘‘۔ درود شریف پڑھ کر حضرت ابراہیم ؑ اور جنابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فضائل و مناقب کو اہلِ ایمان اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہتے ہیں تاکہ آپؐ کی محبت اور اطاعت میں اضافہ ہوجائے۔ اس لیے کہ ہدایت پانے کے لیے منارۂ نورِ ہدایت سامنے ہو تو پھر انسان راستے سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی،اپنے محبوبوں اور اپنے محبوب دین اور اپنے محبوب نبیؐ کی محبت و اطاعت عطا فرمائے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)
س: آج کل مختلف ایام منانے کا رجحان سامنے آیا ہے، مثلاً مدرز ڈے، ٹیچرز ڈے، سینیرسٹیزن ڈے، ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔ یہ رجحان بنیادی طور پر مغرب ہی سے آیا ہے۔ دن منانے کی اس نئی روایت کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ کیا سرے سے اسے غیرمسلموں کا کام سمجھیں، یا موقع کے لحاظ سے فیصلہ کریں، نہ منائیں یا اپنا رنگ دیں؟
ج: مخصوص دن، وقت یا مواقع پر تقریبات اور مجالس و محافل کے انعقاد کا تعلق نہ کسی خاص مذہب سے ہے نہ کسی خطے سے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جہاں کہیں بھی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں بعض مخصوص دن مذہبی یا غیرمذہبی رسموں کے لیے اجتماعی اور انفرادی طور پر منائے جاتے ہیں۔ پھولوں کا تبادلہ، مٹھائی تقسیم کرنا یا اپنی خوشی کے اظہار کے لیے چراغاں کرنا اور بعض تہذیبوں میں ناچ گانے اور مشروبات کا استعمال بھی مخصوص دنوں اور اوقات کے ساتھ وابستہ ہے۔
قرآن کریم نے تمام دنوں کو اللہ کے لیے یکساں قرار دیا، قدیم تہذیبوں کے اوہام و اساطیر پر مبنی تقدس کا رد کیا اور سال میں صرف دو دن ایسے قرار دیے جب باوقار انداز میں اللہ کے بندے اپنے رب کا شکر ادا کریں اور خالق کائنات کے نام کو بلند کرنے کے لیے اس کے حضور سجدہ ریز ہوکر اور بآواز بلند، اس کی عظمت و کبریائی اور اپنے عجز و عبدیت کو ظاہر کریں۔ چنانچہ رمضان المبارک کی ایک ماہ کی عبادت کی تکمیل پر اور حج مبرور کی ادایگی پر عالمی طور پر اپنی خوشی، خوش قسمتی اور بندگیِ رب کے اظہار کے لیے دو دن مقررکردیے گئے۔ ان دو دنوں کے دوران میں اپنے اہلِ خانہ، اعزہ و اقربا و احباب حتیٰ کہ اجنبی افراد کے ساتھ بھی اخوت و محبت و احترام کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ان کی خاطر تواضع اور مہمان داری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
قرآن و سنت پر نظر ڈالی جائے تو جمعہ کا دن بھی وہ مقام نہیں رکھتا جو یہودیوںنے سبت کو یا عیسائیوں نے یومِ احد یا اتوار کو دے کر آرام یا صرف عبادت کا دن قرار دے کر اختیار کرلیا۔ بلاشبہہ احادیث میں جمعہ کے دن کی فضیلت ہے لیکن نہ اس دن کام کی ممانعت ہے، نہ یہ آرام کرنے کا دن ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، یاد، تسبیح، تعظیم اور اس کے حضور نماز کی شکل میں شکر ادا کرنے کے بعد کاروبارِ حیات میں، اللہ کے ذکر کوتازہ رکھتے ہوئے، مصروف ہوجانے والا دن ہے۔
اگر دنوں کا کوئی تقدس ہوتا تو انبیاے کرام کے یومِ ولادت کو یہ مقام ضرور دیا جاتا اور سال کے ۱۲ مہینوں اور ۳۶۵ دنوں میں سے ناممکن طور پر ایک لاکھ ۲۴ ہزار سے زیادہ دن مقدس دنوں کے طور پر منائے جاتے۔ بالفرض تمام انبیاے کرام ؑکے ایامِ ولادت منانے مشکل ہوتے تو کم از کم انبیاے بنی اسرائیل جن کا ذکر سابقہ صحیفوں میں اور خود قرآن کریم میں پایا جاتا ہے ان کے حوالے سے ضرور کچھ دن مخصوص کردیے جاتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا حتیٰ کہ ولادت باسعادت کو بھی صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین نے نہ چھٹی کا دن قرار دیا، نہ اسے مقدس دن سمجھا۔ اس لیے کہ وہ قرآن کریم کے اس اصول سے آگاہ تھے کہ سب دن اللہ کے لیے ہیں کیونکہ وہی خالق اور مالکِ حقیقی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں دن منانے کے اہتمام کی روایت نہیں ہے۔ البتہ اگر موقع کے لحاظ سے والدین یا استاد کو کوئی تحفہ دے دیا جائے تو اس کی کوئی ایسی ممانعت بھی نہیں۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹیچرز ڈے ہو یا سینیرسٹیزن ڈے، مدرز ڈے ہو یا فادرز ڈے، مغربی تہذیب میں ان کی معاشرتی اہمیت کے پیش نظر سال میں ایک مرتبہ انھیں پھولوں کا تحفہ دے کر یا ایک کارڈ بھیج کر اظہارِ تشکر اور ان کی اہمیت کا اظہار کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ اس سے تو بہتر ہے کہ پورے سال میں ایک مرتبہ بھی ان میں سے کسی کو یاد نہ رکھا جائے لیکن اگر واقعی ان کے احسانات کے پیش نظر ایسا کرنا مقصود ہے تو یہ سراسر تکلف ہے۔ والدین ہوں یا استاد، ان کا شکر تو اپنے اچھے اخلاق اور طرزِعمل سے ہی ادا ہوسکتا ہے، جسے قرآن کریم عملِ صالح کہتاہے۔ والدین اپنی محبت کے سایے میں ایسے وقت، جب اولاد قرآن کی زبان میں کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں ہوتی، اپنی توجہ اور تمام وسائل کو اس کی نشوونما اور تربیت پر لگا دیتے ہیں تو سال میں ایک دن تو کیا سال کے ہر دن، ان کا شکر و احترام کرنے کے بعد بھی کیا ان کا حق اور ان کا شکریہ ادا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے والدین سے احسان کے رویے کی تلقین کی ہے اور ان کے ساتھ بے رُخی یا گستاخی پر سرزنش کی ہے۔
رہا ویلنٹائن ڈے یا اس قسم کے دیگر بے معنی دن تو حقیقت یہ ہے کہ ایسے دنوں کا تعلق جاہلیت اور جاہلی تہذیب سے تو ہوسکتا ہے، اسلامی تہذیب و ثقافت میں ان کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ ایسے دنوں کا منانا دیگر اقوام کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا اور ان کی جاہلیت پر مبنی روایات کو اپنانا ہے۔ بسنت بھی اسی قسم کا تہوار ہے جس کا کوئی تعلق مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے نہیں۔ یہ خالصتاً غیرمسلم طریقہ ہے اور اس کا اختیار کرنا گمراہی کا باعث ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ عرصۂ دراز سے دفاعِ توہینِ رسالتؐ کا فریضہ عدالت کے ایوانوں میں سرانجام دے رہے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں اُن کی درخواست پر عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ ’قانون توہینِ رسالتؐ، کو عملی طور پر نافذ کیا جائے۔ مصنف کی آٹھ کتابیں اسی موضوع پر شائع ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت انگریزی میں اب ہوئی ہے، تاہم اسی موضوع پر ۱۹۹۴ء میں اُردو میں کتاب: ناموسِ رسولؐ بھی شائع ہوچکی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب ۱۳ ابواب اور سات ضمیموں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے ابتدائی ابواب میں عہدنامۂ قدیم کے علاوہ جدید مغربی مفکرین، مثلاً کارلائل، مائیکل ہارٹ، کیون آرمسٹرانگ، شہزادہ چارلس،لین پول کی جنابِ رسالت مآبؐ اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے بارے میں آرا درج کی گئی ہیں۔ مصنف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مغرب اسلام سے خوف زدہ بھی ہے اور ناواقف بھی۔ اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ ۱۰۹۵ء سے اسلام کے خلاف مسیحیت نے جو جنگ جاری کی تھی، اُس میں کوئی وقفہ نہیں آیا۔ ۲۰ویں اور ۲۱ویں صدی میں حملے کے انداز تبدیل ہوئے ہیں ورنہ قرآن، رسالت مآب کی ذات اور اسلامی تعلیم جہاد کو ہر دور میں ہدفِ تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔
مصنف نے صحابہ کرامؓ کے دور سے لے کر صلاح الدین ایوبی اور دورِ اندلس کے علما کے حوالے سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قانونِ توہینِ رسالتؐ کے مرتکب افراد کو ہر دور میں سزا کا مستحق گردانا گیا۔ وہ سلمان رُشدی کے معاملے پر بھی تفصیلی بحث کرتے ہیں اور مغرب نے جس قسم کا تعصب روا رکھا اُس کو زیربحث لائے ہیں۔ یاد رہے پاکستان میں قانونِ توہینِ رسالتؐ کی سزا میں اب تک کسی کو عدالتی سزا نہیں ملی ہے۔ امریکا، برطانیہ کے اہم قانونی تعلیمی اداروں اور مغرب کے انصاف پسند حلقوں نے قانون توہینِ رسالتؐ کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا ہے اُس کا تذکرہ اس کتاب میں تفصیل سے شامل ہے۔
عالمِ عرب کے علما کی راے درج کرنے کے بعد وہ بھارت کے عالمِ دین وحید الدین خان کی راے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی فرد کو ’مصالح‘ کے پیش نظر شانِ رسالتؐ کے مسئلے پر کمزوری دکھانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف دساتیر میں آزادیِ راے کی حیثیت، نیز پاکستان کے نمایاں علما کے خیالات کو بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ عامر عبدالرحمن چیمہ شہید، نیز ڈنمارک میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بارے میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے یہ احساس اُبھرتا ہے گویا کہ اس کے مخاطب مسلمان ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مغربی ممالک اور مغرب کا پروردہ ذہن جن دلائل کو قبول کرتا ہے انھیں اہمیت دی جائے۔ قانونِ توہین رسالتؐ، جہاد، دہشت گردی جیسے موضوعات پر بحث مباحثہ ختم ہونے والا نہیں ہے، اس بارے میں جس قدر جامع تحریریں، منظرعام پر آسکیں، مفید ہیں۔ (محمد ایوب منیر)
پوری دنیا میں عموماً اور دنیاے اسلام میں خصوصاً غیراسلامی تجارتی اصولوں سے بے زاری اور اسلامی تجارتی طریقوں کی آگاہی اور اس میں تیز پیش رفت اسلامی بنکاری میں انقلاب برپا کرچکی ہے۔ اسلامی مالی اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور روایتی بنکوں میں اسلامی بنکاری کی خصوصی سہولتوں کا قیام عام لوگوں کی اسلامی بنکاری کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس دوران ایک بنکار کو اسلامی بنکاری سے مناسب آگاہی نہ صرف بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے میں مدد دے سکتی ہے بلکہ اسلامی بنکاری کی تیزترین ترقی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں اسلامی معاشی نظام اور اس کے مختلف اداروں کے تعارف کے ساتھ ساتھ ۱۹۸۰ء میں شروع ہونے والی اسلامی بنکاری اور آج ہونے والی اسلامی بنکاری کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اسلامی بنکاری کی اصل بنیاد اور سود کی اصل متبادل اساس، یعنی مشارکہ اور مضاربہ کے تصور، شرائط اور عملی طور پر استفادہ کے حوالے سے تفصیلات، ڈائیگرام کے ذریعے پیش کی گئی ہیں۔ یہ کتاب کی انفرادیت ہے۔
مشارکہ اور مضاربہ کے علاوہ دیگر ذرائع میں اجارہ، مرابحہ، توارق سلم، استصناع وغیرہ کی تفصیلات اور عملی شکلوں پر بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے اور صارفین کے لیے وسائل کی فراہمی کے ذرائع کا جائزہ لیتے ہوئے گھرفنانس، کار فنانس، بدلہ کا کاروبار، کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ، چارج کارڈ اور ATM کے تصورات کا شرعی تقاضوں کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔
مزید برآں کاروباری معاملات میں ملازمین و آجرین کے حقوق و فرائض، عام کاروباری معاملات، طویل المدت اور قلیل المدت بچتوں اور ان کے استعمال، ٹیکس کاری اور اس کے مسائل، انشورنس، بنک گارنٹی، مارکیٹنگ، تکافل، فنانشل رپورٹنگ اور زکوٰۃ کے مختلف مسائل کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور ان کی شرعی حیثیت کا تعین کیا گیا ہے۔
اس کتاب کی خاص بات ان موضوعات پر سہل اور تفصیلی بحث ہے جو نہ صرف اسلامک بنکاری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ آنے والے دور میں جدید اسلامی بنکاری کی بنیاد ہوسکتے ہیں اور جن کا جاننا ایک اچھے بنکار کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کتاب کی ایک اور خاص بات اس کے عنوانات کا ترتیب وار سلسلہ ہے جو قاری کو آسان سے پیچیدہ اسلامی تصورات کی طرف کسی رکاوٹ کے بغیر بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ کتاب جدید اسلامی بنکاری کے تقاضوں پر نہ صرف پورا اُترتی ہے بلکہ علومِ اسلامی بنکاری میں مفید اضافہ ہے۔ مصنف اسلامی بنکاری کے میدان میں اس عظیم کاوش پر خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ (محمد محمود شاہ خان)
لغت کا ایک لفظ ہے ’یلغار‘۔ اس لفظ کے ساتھ فوری طور پر یہ تصویر ذہن میں بنتی ہے کہ ایک گروہ یا لشکر اپنی قوت کے بل بوتے پر دوسرے کو پچھاڑنے، بے بس کرنے یا اپنی مرضی کا تابع بنانے کے لیے اُمڈا چلا آرہا ہے۔ گذشتہ سو ڈیڑھ سو برس سے دین اسلام کے کچھ ’ہمدردوں‘ نے تو واقعی اس لفظ کے پردے میں خود اسلام کی ’تشکیل نو‘ کے لیے یلغار کر رکھی ہے۔ وہ جو دین کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور وہ جو اس لفظ کے دائرۂ اثر کی نزاکتوں اور عملی سطح پر اس کی وسعتوں تک سے بے خبر ہیں وہ بھی اس لفظ کو اس زعم میں گھما پھرا کر اسلامی فکریات کے ایوان پر دے مارتے ہیں کہ گویا اہلِ دین تو دین اور دنیا سے بے خبر بیٹھے ہیں اور عقل و دانش کی دولت بس اس یلغاری گروہ کی ملکیت ہے۔ یہ ایک عجیب منظر ہے۔ مولانا زاہدالراشدی اس کتاب میں مذکورہ صورت حال پر نظر دوڑانے کے ساتھ علماے کرام کو دین، ایمان اور عقل کی بنیاد پر وسعت نظر، منصبی ذمہ داری اور قوتِ عمل کی دعوت دیتے ہیں: ’’ایک طرف سرے سے اجتہاد کی ضرورت سے انکار کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف اجتہاد کے نام پر اُمت کے چودہ سو سالہ علمی مسلمات اور اجتماعی اصولوں کا دائرہ توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، جب کہ حق ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہے‘‘۔ (ص ۲۸۷)
زیرنظر کتاب اجتہاد کے حوالے سے اس بحث کے پس منظر، عملی جہتوں، اس کے مقدمات، نظائر، امکانات اور مضمرات کو اس طرح پیش کرتی ہے کہ قاری بڑی حد تک معاملے کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھ لیتا ہے۔ چونکہ یہ کتاب مولانا راشدی کے ان بیش تر اخباری کالموں پر مشتمل ہے، جو انھوں نے اکتوبر ۱۹۹۰ء سے تاحال سپردِ قلم کیے (مگر اخباری کالم ہونے کے باوجود ان میں گہرائی اور تازگی ہے)، چنانچہ اس عرصے کے دوران میں زیربحث موضوع کے بارے میں اُٹھنے والے مناقشوں کا ایک ریکارڈ بھی سامنے آجاتا ہے۔ مصنف نے استدلال کے لیے عام فہم نظائر اورمثالوں کو خوبی سے چن چن کر فکروخیال کا دیوان سجایا ہے۔ چند در چند ناہمواریوں کے باوجود اہلِ دین ان کی اس کاوش کو یقینا خوش آمدید کہیں گے۔
مصنف کو علمی حلقے ایک معتدل شخصیت کے طور پر جانتے ہیں، تاہم زیرتبصرہ کتاب میں یہ نثرپارہ ان کی مذکورہ حیثیت کو متاثر کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مولانا [عبیداللہ] سندھیؒ اور ابوالکلام آزادؒ کے علمی تفردات پر ان کے شاگردوں اور معتقدین نے دفاع اور ہر حال میں انھیں صحیح ثابت کرنے کی وہ روش اختیار نہیں کی، جو خود مولانا مودودی اور ان کے رفقا نے ان کی تحریروں پر علما کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات پر اپنا لی تھی۔ چنانچہ اس روش کے نتیجے میں وہ جمہور علما [؟] کے مدمقابل ایک فریق کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے‘‘ (ص ۳۱۷)۔ اس ٹکڑے میں الزام تراشی اور مبالغہ آمیزی کا وہ لحن کارفرما ہے جو گذشتہ صدی کے پانچویں اور چھٹے عشرے میں منظر پر چھایا ہوا تھا [موصوف نے یہ عجب دعویٰ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی نے اس غوغا آرائی کا جواب نہ ہونے کے برابر دیا، اور ان کے رفقا نے گنتی کی چند چیزوں کے سوا کوئی جواب نہیں دیا، جب کہ دوسری جانب سے تنقید کا ایک طوفان اٹھایا جاتا رہا]۔ سبحان اللہ، ان ’جمہور علما‘ میں سے واقعی کتنے حضرات نے خدا ترسی اور علمی مناسبت سے تنقید کی اور کتنے حضرات نے عصبیت کی چوکھٹ پر سچائی، اخلاق، علم اور شائستگی کا خون کیا؟ مذکورہ بالا فردِ جرم کا جائزہ اور ’جمہورعلما‘ کے اسلوبِ نگارش کا گل دستہ اس مختصر تبصرے میں پیش کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ’کرم فرمائوں‘ کو خوش رکھے۔ (سلیم منصور خالد)
۲۳ سال بعد، یہ اس کتاب کی طبع نو ہے۔ یہ محترم خرم مراد کے اپنی اہلیہ کے نام خطوط کے آئینے میں ایوب خاں کے اس دور کی تصویر ہے جب حکومت اپنی دانست میں جماعت اسلامی کا نام و نشان مٹانے کے درپے تھی اور اس پر پابندی لگا کر تمام رہنمائوںکو پابندِسلاسل کردیا تھا۔ خرم مراد اس وقت جماعت اسلامی ڈھاکا کے امیر تھے۔ ڈھاکا جیل کے شب و روز سے زیادہ، یہ خطوط آزمایش کے اس مرحلے میں ، ایک مومن کے جو جذبات و کیفیات ہونا چاہییں اس کے آئینہ دار ہیں۔ اپنے رب سے تعلق، قرآن سے تعلق، تحریک کے اس مرحلے پر ایمان افروز تبصرے، کامیابی کا یقین، ساتھ ہی اپنی رفیقۂ حیات کو صبروحوصلے کی تلقین، قاری ایمان و یقین کی ایک کیفیت سے گزرتا ہے۔
یہ تحریک کے ہر کارکن کے لیے ذاتی تربیت و تزکیہ کی کتاب ہے۔ خرم مراد سے جو واقف ہیں، ان کے لیے اس میں مزید لطف ہے۔ ان کی اہلیہ محترمہ لمعت النور نے ان خطوط کو خود مرتب کیا ہے، اور ’اسلامی جمعیت طلبہ کی نوخیز زندگیوں‘ کو ہدیہ کیا ہے۔ (محمد اسماعیل)
وقت ہی زندگی ہے۔ انسان کے لیے مہلت عمل ہے۔ اسی وقت کے صحیح یا غلط استعمال پر آخرت کی ابدی تکلیف یا راحت کا انحصار ہے۔ انتظامیات اور کیریر کے حوالے سے آج یہ مغربی دنیا کا مقبول موضوع ہے جس پر بہت مفید چیزیں لکھی جارہی ہیں۔ محمد بشیر جمعہ نے، جنھیں اُردو میں ان موضوعات پر لکھنے کا پہل کار (pioneer) قرار دیا جاسکتا ہے، زیرتبصرہ کتاب میں سلف و حال کے ۲۰رجال کی ۲۶ تحریریں چھے عنوانات کے تحت جمع کردی ہیں۔ ان کے مطالعے سے وقت کے بارے میں صحیح دینی تصور اُبھر کر سامنے آتا ہے اور انسان کو ذاتی زندگی کے لیے قیمتی عملی رہنمائی، نہ صرف دنیاوی کیریر کے لیے بلکہ اخروی کیریر کے لیے بھی ملتی ہے۔ حافظ ابن رجب، امام غزالی، حسن البنا، شیخ عبدالرحمن السدیس، مولانا اشرف علی تھانوی، حفظ الرحمن سیوہاری، مولانا عبدالمالک، ڈاکٹر حسن صہیب مراد، خالد رحمن، ڈاکٹر منصور علی اور خود بشیرجمعہ لکھنے والوں میں شامل ہیں۔ ان سب کو جو زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں (تاکہ آخرت میں کامیاب ہوں) خصوصاً اداروں میں کام کرنے والوں اور نوجوان طلبہ و طالبات کو اس کا خصوصی مطالعہ کرنا چاہیے۔ دعوتِ دین کے کارکن بھی اس کی روشنی میں اپنے کو منظم کریں تو اپنی سرگرمیوں کو کئی گنا زیادہ مؤثر کرسکتے ہیں۔ (مسلم سجاد)
زیرنظر کتاب ایک زائر حرم کی طلب صادق اور وارداتِ قلبی کا نام ہے۔ مختصر مگر دل کی تاریں ہلانے اور آنکھیں نمناک کر دینے والایہ سفرنامہ خوب صورت الفاظ ، اردو، پنجابی اور انگریزی اشعار، برجستہ جملوں اور سیدھے سادے انداز کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ تصنع ہے نہ بناوٹ، ذاتی واردات اور تاریخی روایات و حکایات کا مجموعہ ہے۔ یہ سفرنامہ طبعی بذلہ سنجی، شوخی اور جدت کی تلاش و جستجو کا مرقع ہے۔ عزیزوں، دوستوں سے ملنے کا تذکرہ جابجا نظر آتا ہے مگر قاری کی دل چسپی قائم رہتی ہے۔ اس کتاب کو سفرحج پر جانے والوں کے لیے ہلکے پھلکے انداز میں لکھی جانے والی ایک راہنما کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ سعود عثمانی کے پیش لفظ نے کتاب کے حسن میں مزید اضافہ کیا ہے۔ (عمران ظہورغازی)
زیرنظر کتاب میں پروفیسر عبدالحمید ڈار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کو جمع کیا ہے جن میں آپؐ نے ناپسندیدہ امور کی نشان دہی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی، وعید اور عتاب، سرزنش و ممانعت اور اظہار براء ت کا اعلان فرمایا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ان احادیث کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ہماری روزمرہ روش پر تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کا وہ پہلو بھی نمایاں ہوکر سامنے آجاتا ہے جس میں آپؐ نے عقائد، عبادات اور معاملات میں ایک مومن کی شخصیت کے ناپسندیدہ عناصر کی نشان دہی فرمائی ہے۔ چند موضوعات: نمازباجماعت بلاعذر ترک کرنا، زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے وعید، جاہلیت کی پکار پر اظہار ناراضی، اموردین میں تشدد، احکاماتِ شریعت کو کھیل بنانا، پڑوسی کو دین کی تعلیم دینے میں کوتاہی پر سرزنش، عیب چینی پر گرفت، مصنوعی افزایش حُسن پر لعنت، زرپرستی کی مذمت، لین دین میں بددیانتی پر زجر، غاصب کے لیے شدید وعید، مسلمان پر ہتھیار اٹھانے کی مذمت، حکمرانوں کے جھوٹ کو سچ کہنے اور ظلم میں مدد پر وعید وغیرہ۔ گویا ایک آئینہ فراہم کردیا گیا ہے کہ اپنا احتساب کیا جائے اور خدا کے غضب سے بچا جائے۔(امجدعباسی)
احادیث مبارکہ کا یہ دل نشیں مجموعہ دوسری دفعہ کئی موضوعات اور ۲۵۰ صفحات کے اضافوں کے ساتھ شائع ہواہے۔ عبادات، معاملات، فضائل و رذائل اخلاق اور نظامِ حکومت سے متعلق احادیث کی تشریح شیخ عمرفاروق صاحب نے خود بھی کی ہے لیکن بیش تر یہ اہتمام ہے کہ کسی مستند اور مقبول کتاب سے متعلقہ حصہ اخذ کر کے پیش کردیں۔ اس طرح مطالعہ کرنے والوں اور درس و تدریس کرنے والوں کے لیے ایک حسین گلدستہ تیار ہوگیا ہے (مزید تعارف کے لیے دیکھیے: تبصرہ پہلا اڈیشن ستمبر ۲۰۰۴ئ)۔ شائقین بلامعاوضہ حاصل کرسکتے ہیں لیکن کڑی شرط یہی ہے کہ آکر لی جائے، ترسیل کا انتظام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ عمر فاروق کو جزاے خیر دے کہ ایسی ہی دوسری کتابوں کے ذریعے خیر کے چشمے جاری کر رکھے ہیں۔ (م - س)
’دہشت گردی کے خلاف ___کس کی جنگ؟‘ (جون ۲۰۰۸ئ) میں آپ نے امریکی حکومت کے ناپاک عزائم کو بہت تفصیل سے واضح فرمایا ہے۔ موجودہ حکومت کو قوم نے ووٹ اس لیے دیا تھا کہ ہمیں امریکی حملوں سے نجات ملے گی لیکن افسوس کہ امریکا نے ایک بار پھر مہمند ایجنسی پر حملہ کیا اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ بے گناہ اور نہتے لوگوں پر بھی بم باری کی جس میں کئی لوگ شہید اور زخمی ہوگئے۔ یہ سلسلہ پتا نہیں کب تک رہے گا۔ ایک ایٹمی طاقت کے عوام کتنے غیرمحفوظ اور بے آسرا ہیں۔ موجودہ حکمران بھی صدر مشرف اور اُن کے رفقا کے طریقے پر عمل پیرا ہیں۔ ملک میں بدامنی اور مہنگائی ہے، لوگ نانِ جویں کے لیے ترس رہے ہیں اور حکمران ہیں کہ خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائے۔ ضرورت ہے کہ پوری قوم اجتماعی توبہ کرے، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کی نافرمانی اور سرکشی کی روش ترک کر کے مکمل بندگی و اطاعت اختیار کرے۔
جون کا ترجمان القرآن ظاہری حُسن کے ساتھ باطنی حُسن و مقصدیت بھی لیے ہوئے ہے۔ ’اشارات‘ اور ’شذرات‘ کے ساتھ ساتھ’قرآن کی دعوت کا مخاطب، قلب‘ اچھی تذکیر ہے۔ انسانی خدمت کے وسیع تصور میں نبی اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کے ساتھ اسلامی اداروں کے خدمت کے مستحکم نیٹ ورک کا تعارف و جائزہ بھی آنا چاہیے، خاص کر حماس، حزب اللہ اور ترکی کا تذکرہ۔ مختصر لباسی پر ڈاکٹر لیونڈ کیتالیف کا مضمون مختصر ہونے کے باوجود اس شمارے کی جان ہے۔ یہ مغرب کے گھر کی گواہی ہے۔ سلیم منصور خالد کی اچھی کاوش ہے۔
ارض فلسطین، لبنان، شام، اسرائیل اور عرب دنیا کی تازہ ترین صورت حال اور مستقبل کے امکانات پر محترم عبدالغفار عزیز نے چشم کشا تجزیہ پیش کیا (جون ۲۰۰۸ئ)۔ میں ان کے لیے دعاگو ہوں کہ وہ اُمت کو بصائر و عبر سے آگاہ کرتے رہیں۔
’مختصر لباسی کی تباہ کاری‘ (جون ۲۰۰۸ئ) اگرچہ ایک مغربی محقق کا مضمون ہے، غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود مغرب اپنی عریانی سے باز نہیں آتا۔دوسری طرف مسلم معاشرے، جن کی اسی روسی محقق نے تعریف کی ہے، جانتے بوجھتے اسی عریانی کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ عریانی دراصل جھوٹی آزادی کا عنوان ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں عورت کو اس کا حقیقی مقام دیا جائے جو قرآن وسنت نے اسے دیا ہے۔ وہ رسوم و رواج کے بندھنوں سے آزاد ہو۔ تب اس کے لیے مغرب کی دی ہوئی آزادی (یعنی عریانی) میں کوئی کشش نہ رہے گی، بلکہ مغرب بھی اس طرف آئے گا۔
’مختصر لباسی کی تباہ کاری‘ (جون ۲۰۰۸ئ) روسی محقق و دانش ور کا دل چسپ اور چشم کشا مضمون ہے۔ مغرب کی ملحدانہ اور زوال پذیر معاشرت کے قابلِ عبرت پہلو پر ایک گھر کا بھیدی مہرتصدیق ثبت کررہا ہے۔ مسلمان معاشروں کے روشن خیال اور جدیدیت کے علَم بردار طبقے جو ’مُلاازم اور طالبان کے اسلام‘ کی آڑ میں اسلامی معاشرت، لباس اور طرزِ زندگی پر آئے روز طنز کرتے یا اس سے وحشت محسوس کرتے ہیں، انھیں اس طرح کی تحقیقات اور اعترافات سے سبق اور عبرت حاصل کرنا چاہیے۔
’حکمت مودودی‘ کے تحت ’طاغوت‘ (مئی ۲۰۰۸ئ) میں مولانا مودودیؒ نے آنکھیں کھول کر رکھ دیں، اور ضمیر پر کاری ضرب لگی کہ کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتاجب تک کہ طاغوت کا منکر نہ ہو۔ اللہ کرے کہ پاکستان میں بھی سرکشی و طغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون نافذ ہوجائے۔ ڈاکٹر فوزیہ ناہید مرحومہ کی زندگی قابلِ رشک ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو اللہ نے زندگی کے ہر میدان اورشعبۂ زندگی میں خاص صلاحیتوں و جدوجہد سے ہمکنار کیا۔ تحریر پڑھ کر لگا کہ سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ محترمہ قانتہ ذکی بھی داد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے مرحومہ کا دل نشیں پیرایے میں نقشہ کھینچا۔اگر وہ امریکا میں اسلامی تحریک پر مزید لکھیں تو بہت اچھا ہو۔
مغربی میڈیا کے بارے میں اب بھی یہ تاثر ہے کہ وہ معروضی نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کس حد تک سفید جھوٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ عراق پر امریکی حملے سے پہلے اکتوبر ۱۹۹۰ء میں ایک کویتی لڑکی نیّرہ نے امریکی کانگریسی کمیٹی کے سامنے روتے ہوئے یہ بیان دیا کہ عراقی فوجیوں نے کویتی ہسپتالوں میں معتدلہ (incubators) میں پڑے ہوئے بچوں کو نکال کر باہر پھینک دیا تاکہ وہ مرجائیں۔ یہ چشم دید بیان ایک تعلقات عامہ کی فرم Hill and Knowlton نے خوب اُچھالا اور بڑے بش نے اس کی مدد سے صدام کی ہٹلر سے بھی بدتر تصویر کھینچی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عراقی قبضے کے دوران نیّرہ کویت گئی ہی نہیں اور نہ کمیٹی کے سامنے یہ حقیقت آئی کہ وہ امریکا میں کویت کے سفیر کی بیٹی ہے۔ جنگ کے بعد کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے اس جھوٹ کا پول کھولا جب اس نے برٹش کولمبیا کے ایک پروفیسر کا یہ بیان نقل کیا کہ وہ دورانِ جنگ کویت کے ہسپتالوں میں گیا ہے۔ وہاں کبھی کسی نے incubators کے اس واقعے کے بارے میں سنا ہی نہیں (کریسنٹ انٹرنیشنل، جون ۲۰۰۸ئ)۔ اگر کوئی محنت کرے تو اس طرح کے بے شمار مصدقہ جھوٹوں اور غلط بیانیوں پر پوری کتاب تیار ہوسکتی ہے جن کے سہارے امریکی پالیسی چلتی ہے۔
یہ اطلاع دیتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے کہ الحمدللہ نیپالی ترجمۂ قرآن کے رسم اجرا کا پروگرام نہایت کامیاب رہا۔ یہ ترجمہ تحریک اسلامی نیپال، اسلامی سنگھ نیپال کی پانچ سالہ محنتوں کا ثمرہ ہے۔ مولانا علائوالدین فلاحی، فارغ التحصیل جامع الفلاح اور سابق طالب علم بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کو ترجمے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مختلف علماے کرام کی نظرثانی کے ساتھ ساتھ تین ماہر لسانیات سے بھی اس کی زبان کی تصحیح کروائی گئی ہے۔ یہ عربی متن کی نیپالی زبان میں ترجمانی ہے۔ اس کی تیاری میں قرآن مجید کے مشہور اُردو تراجم: تفہیم القرآن، تدبر القرآن، احسن البیان، معارف القرآن اور انگریزی زبانوں میں موجود تراجم کے ساتھ ساتھ متداول عربی تفاسیر سے بھی مدد لی گئی ہے۔رسمِ اجرا کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں سیاسی و سماجی کارکنان، مختلف مسالک کے نمایندے، ہندو، بودھ، عیسائی اور جین مذاہب کے اعلیٰ عہدے داروں سمیت بڑی تعداد میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے شرکت کی۔
ایک حرام و حلال تو وہ ہے جو نصِ صریح میں حلال یا حرام قرار دیا گیا ہو، اور وہ اصولی چیز ہے جس میں رد و بدل کرنا موجب کفر ہوجاتا ہے۔ دوسرا حلال و حرام وہ ہے جو نصوص کی دلالتوں یا اشارات یا اقتضاء ات سے استنباط کیا جائے، یہ فروعی چیز ہے اور اس میں ہمیشہ سے علما و فقہاے اُمت حتیٰ کہ صحابہؓ اور تابعینؒ کے درمیان بھی اختلافات رہے ہیں۔ ایک ہی چیز کو کسی نے حلال قرار دیا ہے اور کسی نے حرام، اور کبھی ایسا نہیں ہواکہ اس نوع کی استنباطی تحلیل و تحریم پر مباحثہ و محاجّہ سے آگے بڑھ کر کسی نے دوسرے کو یہ الزام دیا ہو کہ تمھارا دین بدل گیا ہے یا تم خدا کے حرام کیے ہوئے کو حلال کررہے ہو۔ افسوس یہ ہے کہ ہندستان میں بلکہ عام مسلمانوں میں ایک مدت سے شرعی مسائل کی آزادانہ تحقیق کا سلسلہ بند ہے اور ہر گروہ کسی ایک مذہب ِفقہی کی پابندی میں اس قدر جامد ہوگیا ہے کہ اپنے ہی مذہب ِخاص کو اصل شریعت سمجھنے لگا ہے۔ اس لیے جب لوگوں کے سامنے ان کے مانوس مسلک سے ہٹ کر کوئی تحقیق آتی ہے تو وہ اس پر اس طرح ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ گویا دین میں کوئی تحریف کی گئی ہے، حالانکہ سلف میں، جب کہ آزادانہ تحقیق کا دروازہ کھلا ہوا تھا، علما کے درمیان حلال و حرام اور فرض و غیرفرض تک کے اختلافات ہوجاتے تھے، اور ان کو نہ صرف برداشت کیا جاتا تھا بلکہ ہر گروہ اپنے نزدیک جو حکمِ شرعی سمجھتا تھا، اس کی خود پابندی کرنے کے ساتھ دوسروں کو بھی یہ حق دیتا تھا کہ اُن کے نزدیک جو حکم شرعی ہو، اُس کی وہ پابندی کریں۔(’رسائل و مسائل‘ ، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۲۸، عدد۳، ربیع الاول ۱۳۶۵ھ، فروری ۱۹۴۶ئ، ص ۵۲-۵۳)
________________